سرگذشت اقبال ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اقبال اکادمی پاکستان حرف تعارف علامہ اقبال کے جشن صدی کے سلسلے میں مرکزی اقبال کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ منجملہ اور کتابوں کے، حیات اقبال پر چند ایک تالیفات مرتب کرائی جائیں۔ جن اہل قلم حضرات کو اس کام پر مامور کیا گیا ان میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید بھی شامل ہیں۔ سال اقبال کا خاصہ حصہ گزر چکا تھا جب یہ ذمہ داری انہیں سونپی گئی لیکن انہوں نے بطیب خاطر اسے قبول کیا اور بڑی مستعدی سے کام کا آغاز کر دیا۔ اس کام کی نگرانی راقم کے سپرد ہوئی۔ طے پایا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی نگارشات بالا قساط مجھے بھجواتے جائیں گے اور جب کبھی بالمشافہ گفتگو کی ضرورت محسوس ہوئی، وہ میرے ہاں تشریف لائیں گے۔ راقم نے انہیں چند ایک تحریری مشورے پیش کیے جو پسند خاطر ہوئے اور کسی زبانی گفت و شنید کی نوبت نہ آئی۔ یہ تالیف جس کا عنوان ڈاکٹر صاحب نے ’’ سرگذشت اقبال‘‘ تجویز کیا ہے، اڑتیس ابواب پر مشتمل ہے۔ جہاں تک راقم اندازہ لگا سکا، تالیف کے متن میں حیات اقبال کے ضروری کوائف اجاگر ہو گئے ہیں۔ علامہ اقبال جیسی نابغہ روزگار اور پہلو دار شخصیت کا جائزہ لینے کے لئے ان کی تخلیقات نظم و نثر کو بہ حیثیت مجموعی زیر نظر رکھنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر خورشید اس نکتہ سے کماحقہ آگاہ معلوم ہوتے ہیں ۔ انہوں نے علامہ کی تصنیفات کے علاوہ ان سے متعلق اس سوانحی ادب کے بیشتر حصہ سے استفادہ کیا ہے جو اب تک منظر عام پر آ چکا ہے۔ اس قسم کی تالیف میں افکار اقبال کی نسبت ضمناً اشارے ہی کیے جا سکتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اس بارے میں مناسب اختصار سے کام کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ علامہ کی شخصیت کی متعدد جہتیں ان کی نظم و نثر اور ان کے ملفوظات میں ابھرتی نظر آتی ہیں اور عصر جدید کے تناظر میں ان کے مرتبہ و مقام کا تعین ان کے افکار ہی کی روشنی میں کیا جا سکتاہے۔ لیکن افکار اقبال پر سیر حاصل تبصرہ ایک مستقل کتاب کا متقاضی ہے۔ اس تالیف کا حلقہ ایسی وسیع بحث کا متحمل نہ ہو سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنا کام ایک قلیل مدت میں بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے اور اس لحاظ سے ان کا کارنامہ، امید ہے کہ لائق تحسین سمجھا جائے گا۔ ایس اے رحمان 17اگست1977ء ٭٭٭ پیش لفظ جب مجھے حکم ملا کہ اقبال کے سوانح قلم بند کرو تو میں خوش بھی ہوا اور پریشان بھی۔ خوش اس لیے کہ حضرت علامہ کا سوانح نگار بننا میرے لیے باعث فخر و مباہات ہے۔ اور پریشان اس لیے کہ اتنا بڑا کام مختصر عرصے میں کیسے کر سکوں گا۔ بہرحال میں نے اللہ کا نام لے کر یہ کام شروع کر دیا۔ یونیورسٹی ملکی حالات کی وجہ سے بند تھی۔ اس لیے مکمل خانہ نشینی ممکن تھی اور میں دنیاوی کاموں سے آزاد ہو کر اپنی جملہ مساعی اس نیک کام پر مرتکز کرنے کے قابل تھا۔ شب و روز کی محنت کے بعد بڑے عجز و نیاز اور انکسار کے ساتھ ’’ سرگذشت اقبال‘‘ اہل نظر کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور ملتجی ہوں کہ مجھے خامیوں سے مطلع فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں ان کا ازالہ کر سکوں۔ یہ کتاب صرف میری کوششوں کا نتیجہ نہیں۔ اس میں ان نامی گرامی ماہرین اقبالیات اور دوسری محققین کی مدد بھی شامل حال ہے، جنہوں نے حضرت علامہ کی بے شمار تحریروں، تقریروں، بیانات اور مکاتیب کو بڑی تلاش اور کرید کے بعد مجموعوں کی صورت میں یک جا کر دیا۔ میں نے ان سے پورا استفادہ کیا او ران پر مستزاد اقبال کے ہم عصر اخباری ماخذ کی چھان بین خود بھی کی، اور کوشش کی کہ حضرت علامہ کی زندگی کا کوئی پہلو نظر سے اوجھل نہ رہے۔ بہرحال میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ یہ کتاب اقبال کے سوانح پر حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور سچ پوچھئے تو علم کی دنیا میں کوئی کاوش بھی حرف آخر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ کیونکہ تحقیق کا عمل جاری رہے تو نت نئے افق سامنے آتے رہتے ہیں۔ مجھے اپنی علمی بے مائیگی کی وجہ سے اس عظیم کام میں ہاتھ ڈالنے میں حجاب تھا۔ یہ حجاب ٹوٹا تو اس بلند پایہ اور دلاویز علمی شخصیت کی بدولت، جسے دنیا ڈاکٹر ایس اے رحمان کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اور جس کی حضرت علامہ سے عقیدت، لگاؤ اور وابستگی کے بین ثبوت اہل علم کے سامنے موجود ہیں۔ میرے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ موصوف نے پورا مسودہ نہایت غور سے پڑھا، بعض مقامات پر تصحیح فرمائی اور اپنے بیش قیمت مشوروں سے نوازتے رہے۔ میں اس شفقت اور سرپرستی کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ عبدالسلام خورشید 10 سالک روڈ مسلم ٹاؤن لب نہر لاہور 30جولائی 1977ء ٭٭٭ پہلا باب خاندان ’’ میں نے دیکھا، ایک بڑے میدان میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ اوپر فضا میں ایک نہایت خوبصورت رنگا رنگ کے پروں والا پرندہ اڑ رہا ہے۔ اس کی دل کشی اور دل فریبی کا یہ عالم ہے کہ لوگ دیوانہ وار اپنے بازو اٹھا کر اس پرندے کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آخر وہ سراپا جمال پرندہ ایک دم فضا سے اترا اور میری گود میں آن گرا۔‘‘ یہ تھا وہ خواب جو حضرت علامہ کے والد شیخ نور محمد نے ان کی ولادت سے پہلے دیکھا اور اس کی تعبیر خود ہی بیان کی کہ میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو گا جو خدمت اسلام میں ناموری حاصل کرے گا۔ 1؎ حضرت علامہ نے اپنے پاک نفس والد کے روحانی مزاج کے بارے میں احباب سے ایک واقعہ یوں بیان کیا کہ جب میری عمر کوئی گیارہ سال تھی، آدھی رات کو سوتے میں ایک شور سا سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنی والدہ کو زینے سے اترتے دیکھا۔ میں اٹھا اور اپنی والدہ کے پیچھے چلتے چلتے سامنے دروازے کے پاس پہنچا جو آدھ کھلا تھا اور اس میں سے روشنی اندر آ رہی تھی۔ والدہ اس دروازے سے باہر جھانک رہی تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ والد کھلے صحن میں بیٹھے ہیں اور ایک نور کا حلقہ ان کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے والد کے پاس جانا چاہا لیکن والدہ نے مجھے روکا اور مجھے سمجھا بجھا کر پھر سلا دیا۔ صبح ہوئی تو میں سب سے پہلے والد کے پاس پہنچا تاکہ ان سے رات کا ماجرا دریافت کروں۔ والدہ پہلے ہی وہاں موجود تھیں اور والد انہیں اپنا ایک رؤیا سنا رہے تھے، جو رات انہوں نے بہ حالت بیداری دیکھا تھا ۔ والد نے بتایا کہ کابل سے ایک قافلہ آیا ہے جو مجبوراً ہمارے شہر سے کوئی پچیس میل کے فاصلے پر مقیم ہوا ہے۔ اس قافلے میں ایک شخص بے حد بیما رہے اور اس کی نازک حالت ہی کی وجہ سے قافلہ ٹھہر گیا ہے۔ لہٰذا مجھے ان لوگوں کی مدد کے لیے فوراً پہنچنا چاہیے۔ والد نے کچھ ضروری چیزیں فراہم کر کے تانگہ منگایا، مجھے بھی ساتھ بٹھا لیا اور چل دیے۔ چند گھنٹوں میں تانگہ اس مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں کارواں کا ڈیرا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ وہ قافلہ ایک دولت مند اور ذی اثر خاندان پر مشتمل ہے جس کے افراد اپنے ایک فرد کا علاج کرانے کے لیے پنجاب آئے ہیں۔ والد نے تانگے سے اترتے ہی دریافت کیا کہ اس قافلے کا سالار کون ہے؟ جب وہ صاحب آئے تو والد نے کہا، مجھے فوراً مریض کے پاس لے چلو۔ سالار بے حد متعجب ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو ہمارے مریض کی بیماری سے مطلع ہے اور فوراً اس کے پا س بھی پہنچنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ مرعوبیت کے عالم میں والدکو اپنے ساتھ ساتھ لے گیا۔ جب والد مریض کے بستر کے پاس پہنچے تو کیا دیکھا کہ مریض کی حالت بے حد خراب ہے اور اس کے بعض اعضاء اس مرض کی وجہ سے ہولناک طور پر متاثر ہو چکے ہیں۔ والد نے ایک چیز نکالی جو بہ ظاہر راکھ نظر آتی تھی۔ وہ راکھ مریض کے گلے سڑے اعضاء پر مل دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مریض کو شفا حاصل ہو گی۔ اس وقت نہ مجھے یقین آیا، نہ مریض کے لواحقین ہی نے اس پیش گوئی کو اہمیت دی۔ لیکن چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ مریض کو نمایاں افاقہ ہو گیا او رلواحقین کو یقین ہونے لگا کہ مریض صحت یاب ہو جائے گا۔ ان لوگوں نے والد کی خدمت میں ایک اچھی خاصی رقم فیس کے طور پر پیش کی جس کو والد نے قبول نہ کیا اور ہم لوگ واپس سیالکوٹ پہنچ گئے۔ چند روز بعد وہ قافلہ سیالکوٹ میں وارد ہو گیا اور معلوم ہوا کہ وہ مایوس العلاج مریض شفا یاب ہو چکا ہے۔ 2؎ روحانیت اس خاندان کی گھٹی میں تھی اور آباء و اجداد سے چلی آتی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس کا تذکرہ کریں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس خاندان کے آغاز پر روشنی ڈالیں۔ حضرت علامہ لکھتے ہیں: مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادہ اے رمز آشنائے روم و تبریز است تتم گلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است میر و مرزا بہ سیاست دل و دیں باختہ اند جز برہمن پسرے محرم اسرار کجا ست یہ کشمیر خاندان اصلاً برہمن تھا۔ اس خاندان نے اٹھارویں صدی کے آغاز میں اسلام قبول کیا۔ا س کی گوت سپرو تھی جس کی وجہ سے تسمیہ اقبال نے اپنے والد مرحوم کے حوالے سے یوں بیان کی: ’’ جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمہ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا کسی اور وجہ کے باعث توجہ نہ کرتے تھے۔ اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیا زحاصل کر کے حکومت اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا، وہ سپرو کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں، وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کر دے۔ ’’ س‘‘ تقدم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے اور ’’پر‘‘ کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر ’’ پڑھنا‘‘ کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو از راہ تعریض و تحقیر دیا تھا جنہوں نے قدیم رسوم و تعصبات قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان اور علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیا۔‘‘ 3؎ اقبال کے جد اعلیٰ حضرت بابا لولی حج تھے۔ اس سلسلے میں اقبال نے 5 اکتوبر1925ء کو اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے نام ایک مکتوب کے دوران میں لکھا:’’ آپ اور والد مکرم یہ سن کر خوش ہوں گے کہ مدت کی جستجو کے بعد آج اپنے بزرگوں کا سراغ مل گیا ہے۔ حضرت بابا لولی حج کشمیر کے مشہور مشائخ میں سے تھے۔ ان کا ذکر خواجہ اعظم کی تاریخ کشمیر میں اتفاقاً مل گیا ہے۔ والد مکرم نے جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا تھا، وہ بہ حیثیت مجموعی درست ہے۔ ان کا اصلی گاؤں لوچر نہیں تھا، بلکہ موضع چکو پرگنہ آدؤں تھا۔ بارہ سال کشمیر سے باہر رہے، اور ممالک کی سیر میں مصروف رہے۔ بیوی کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہ تھے، اس واسطے ترک دنیا کر کے کشمیر سے نکل گئے۔ واپس آنے پر اشارہ غیبی پا کر حضرت بابا نصیر الدین کے مرید ہوئے جو حضرت نور الدین ولی کے مرید تھے۔ بقیہ عمر انہوں نے بابا نصیر الدین کی صحبت میں گزاری اور اپنے مرشد کے جوار میں مدفون ہیں۔ ‘‘ 4؎ حضرت بابا نے لولی حج کا لقب پایا جس کا مطلب ہے، عاشق حج۔ لقب ملنے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کئی مرتبہ پیدل جا کر حج کیا۔ ان کا مدفن موضع چرار شریف میں ہے جو سری نگر کے جنوب مغرب میں بیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اقبال نے یہ تو بتایا ہے کہ حضرت بابا ان کے جد اعلیٰ تھے لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان سے کس پشت میں اقبال کا رشتہ منسلک ہوتا ہے۔ سلسلہ نسب کی درمیانی کڑیاں گم ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت بابا کی اولاد میں سے سب سے پہلے کون سیالکوٹ میں آ کر آباد ہوا، اور کب؟ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت علامہ کا بیان ملاحظہ ہو۔ ’’ ہمارے والد کے دادا یا پڑدادا پیر تھے۔ ان کا نام تھا، شیخ اکبر انہیں پیری اس طرح ملی کہ سن کھترا میں سادات کا ایک خاندان تھا جسے لوگ سید نہیں مانتے تھے اور اس لیے ان پر ہمیشہ طعن و تشنیع ہوا کرتی تھی۔ اس خاندان کے سربراہ کو ایک روز جو غصہ آیا تو ایک سبز کپڑا اوڑھ کر آگ میں بیٹھ گئے، جس کے متعلق روایت بھی تھی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی یادگار ہے۔ اس کی برکت سے آگ نے ان پر کوئی اثر نہ کیا۔ مخالفوں نے یہ دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ وہ فی الواقع سید ہیں۔ ان کا انتقال ہوا تو شیخ اکبر نے ان کے مریدوں کو سنبھالا اور خاندان کی خدمت کرنے لگے۔‘‘ 5؎ سن کھترا سیالکوٹ کا ایک گاؤں ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے شیخ اکبر ہی نے ترک وطن کیا اور سیالکوٹ میں مقیم ہوئے۔ دوسری تاریل فقیر سید وحید الدین کی ہے جو ملفوظات و نوادر کی بنا پر علامہ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد سے منسوب کی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ قرائن یہ ہیں کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ ہجرت ہوئی ہو گی اور ہجرت کرنے والے بزرگ یا تو علامہ کے دادا کے باپ شیخ جمال دین تھے، یا ان کے چار بیٹے، جن کے نام شیخ عبدالرحمن، شیخ محمد رمضان، شیخ محمد رفیق اور شیخ محمد عبداللہ تھے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ شیخ جمال دین نے اپنے چاروں بیٹوں کو ساتھ لے کر ترک وطن کیا ہو۔ بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں یہ چاروں بھائی سیالکوٹ میں سکونت پذیر تھے۔‘‘ 6؎ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ اکبر علامہ کے والد شیخ نور محمد کے دادا نہیں، پڑدادا تھے۔ اور چونکہ ترک وطن اٹھارویں صدی کے اواخر یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں ہوا، اس لیے بعض سوانح نگاروں کا یہ اندازہ نا درست ہے کہ اس خاندان کے افراد نے1757ء کے ہنگاموں کے بعد ترک وطن کیا۔ شیخ جمال کے فرزند شیخ محمد رفیق علامہ کے دادا تھے۔ عام کشمیری روج کے مطابق شیخ رفیقا کہلاتے تھے۔ کشمیری دھسوں کی تجارت کرتے تھے، اور علامہ کے بیان کے مطابق سکھوں کی فوج میں ملازم تھے اور وہ سکھوں کی طرف داری میں گجرات میں انگریزوں سے لڑے تھے۔ 8؎ یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ان کا پیشہ تجارت تھا یا سپہ گری۔ بہرحال عین مممکن ہے کہ پہلے سپہ گری کرتے ہوں اور اس کے بعد تجارت کا پیشہ اختیار کر لیا ہو۔ شیخ محمد رفیق کے دو صاحبزادے تھے۔ ایک شیخ نور محمد جو علامہ کے والد تھے 9؎ دوسرے شیخ غلام محمد جو محکمہ انہار میں ملازم تھے۔ 10؎ شیخ نور محمد نہایت وجیہہ و شکیل بزرگ تھے، رنگ سرخ، ڈاڑھی سفید، لباس سادہ۔ چھڑی ہاتھ میں لے کر نکلتے تھے۔ نظر ہر وقت سامنے رکھتے تھے،ا دھر ادھر نہیں دیکھتے تھے۔ علما و صلحا کی صحبت میں رہے۔ غور و فکر کی عادت پائی تھی، تصوف میں خصوصی ورک رکھتے تھے اور علم کا یہ عالم تھا کہ لوگ تصوف کی کتابوں میں بعض مطالب کے فہم سے عاجز ہوتے تو تشریح کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔ چونکہ رسمی تعلیم نہیں پائی تھی اور اس کے باوجود عالم تھے، اس لیے اہل علم انہیں ان پڑھ فلسفی کا خطاب دیتے تھے۔ 11؎ جب بھی اقبال کا کوئی نیا مجموعہ کلام شائع ہوتا تو اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے اور جذب و معرفت کے مضامین، خاص طور سے مثنوی اسرار خودی پڑھ کر بے چین ہو جاتے، یہاں تک کہ زار و قطار رونے لگتے۔ آخری عمر میں ان کی یہ کیفیت اور بھی زیادہ شدید ہو گئی تھی۔ 12؎ شیخ نور محمد کی روحانیت کی ایک مثال پہلے پیش کی جا چکی ہے۔ ان سے وابستہ ایک اور واقعہ علامہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے: ’’ میرے والد ایک روز گھر آ رہے تھے۔ ہاتھ میں رومال تھا، رومال میں تھوڑی سی مٹھائی۔ اثنائے راہ میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کتاب بھوک کے مارے دم توڑ رہا ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا۔ مٹھائی سمیت رومال اس کے آگے ڈال دیا۔ کتے نے مٹھائی کھانا شروع کر دی۔ مٹھائی کھا چکا تو ایسا معلوم تھا جیسے اسے پانی کی طلب ہے۔ والد ماجد نے اسے کسی نہ کسی طرح پانی بھی پلا دیا۔ رات کو سوئے تو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مکان ہے جس میں مٹھائی کے طبق کے طبق رکھے ہیں۔ صبح آنکھ کھلی تو اس احساس کے ساتھ کہ یہ اس نیک عمل کا ثمرہ تھا جو کل ان سے سرزد ہوا۔ چنانچہ اس روز سے انہیں یقین ہو گیا کہ ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔‘‘ 13؎ جس خاندان کی خدمت شیخ اکبر نے کی تھی۔ ’’ انہی دنوں اس خاندان کا ایک فرد والد ماجد کے پاس آیا اور کہنے لگا، آپ دھسوں کی تجارت کیوں نہیں کرتے۔ والد ماجد نے دو چار سو دھسے تیار کیے تو قدرت خدا کی ایسی ہوئی کہ سب کے سب اچھے داموں بک گئے، حالانکہ فی دھسہ آٹھ آنے سے زیادہ لاگت نہیں آتی تھی۔ دو چار سو دھسے فروخت ہو گئے تو کافی روپیہ جمع ہو گیا۔ بس یہی ابتدا تھی، ہمارے دن پھرنے کی۔‘‘ 14؎ شیخ نور محمد کی رفیقہ حیات محترمہ امام بی بی اگرچہ رسمی طور پر خواندہ نہیں تھیں، لیکن دینی اوامر و نواہی سے خوب باخبر تھیں۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب سیالکوٹ میں مقیم ایک نامور شخصیت ڈپٹی وزیر علی بلگرامی نے شیخ نور محمد کو اپنے ہاں کپڑے سینے پر ملازم رکھا تو محترمہ امام بی بی نے اس بنا پر اپنے شوہر کی تنخواہ کو ذاتی مصرف میں لانے سے انکار کر دیا کہ ان کے نزدیک ڈپٹی وزیر علی کی آمدن کا غالب حصہ شرعاً جائز نہیں تھا۔ اس پر کچھ عرصہ بعد شیخ نور محمد نے نوکری چھوڑ دی اور برقعوں کی ٹوپیاں سینے لگے۔ یہ ٹوپیاں خوبصورت بھی تھیں اور مضبوط بھی، اس لیے بہت جلد مقبول ہو گئیں اور کاروبار اتنا بڑھا کہ انہوں نے بہت سے درزی ملازم رکھ لیے۔ 15؎ محترمہ امام بی بی کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بڑی زیرک، معاملہ فہم اور مدبر خاتون تھیں۔ برادری کے جھگڑوں کو خوش اسلوبی سے نپٹاتی تھیں۔ غریب گھرانوں کی لڑکیوں کو پالتی تھیں، انہیں مناسب تربیت دے کر بیاہ کر دیتی تھیں۔ کئی غریب عورتوں کی خفیہ امداد کرتی تھیں اور محلے کی بعض عورتیں ان پر اتنا بھروسہ کرتی تھیں کہ اپنے زیورات اور نقدی ان کے پاس امانت رکھ جاتی تھیں۔16؎ کسی نابغہ روزگار ہستی کے ابھرنے میں بہت سے عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اکتساب علم و فن میں ریاض کو بہت دخل ہوتا ہے، لیکن خاندانی روایات، ماحول اور تربیت بھی بہت اثر ڈالتے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کے جد اعلیٰ ایک بہت بڑے بزرگ تھے، جنہوں نے صدق و صفا میں بڑا نام پیدا کیا۔ اقبال کے والد صوفی منش اور دین دار بزرگ تھے۔ ان کی والدہ محترمہ دیانت و امانت، غریب پروری اوامر و نواہی سے آگہی اور خدمت خلق کا مجسمہ تھیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو ماحول انہیں ملا، وہ کیا تھا؟ اس کے لیے ہمیں ان کے مولد سیالکوٹ کی تاریخ پر ایک مختصر سی نظر ڈالنی ہو گی۔ سیالکوٹ پنجاب کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ پورن بھگت کی صوفیانہ داستان کا مرکز ہے۔ دور مغلیہ میں اعلیٰ درجے کے کاغذ، ریشم اور تلے کی کشیدہ کاری اور شامیانہ سازی کے لیے مشہور تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اہل علم و دانش کا مامن اور مرجع تھا۔ اکبر کے عہد میں مولانا کمال نے علم پروری کی مثال قائم کی۔ شاہ جہاں کے زمانے میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی نے مدرستہ العلوم سے فیض حاصل کرنے کے لیے دور دراز مقامات سے تشنگان علم آتے اور اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ ان کے فرزند مولوی عبداللہ نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ 17؎ علم پروری اس علاقے میں اس درجہ رچی بسی ہوئی تھی کہ الحاق پنجاب کے فوراً بعد سیالکوٹ کے نو سو پچاس دیہات پر جو تعلیمی محصول عائد کیا گیا، اس کی ادائیگی پیشگی ہو گئی، اور تمام مجوزہ مدارس فوراً کھل گئے۔ 1857ء کے انقلاب سے پہلے لاہور کے مقابلے میں پنجاب میں کوئی صحافتی مرکز تھا تو سیالکوٹ 18؎ جہاں سے چند اخبار اور رسالے جاری ہوئے۔ ظاہر ہے، پڑھنے والے موجود تھے تو اخبار اور رسالے نکلے۔ عمومی تعلیم کے پہلو بہ پہلو دینی تعلیم کے مراکز بھی قائم تھے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے بیان کے مطابق سیالکوٹ کے مراکز درس و تدریس چار تھے۔ مولوی غلام مرتضیٰ کا مکتب، مولانا ابو عبداللہ غلام حسین کی درسگاہ، مولوی مزمل کا مدرسہ اور مولانا سید میر حسن کا مدرستہ العلوم، اول الذکر تین درسگاہوں میں صرف عربیات اور دینیات کی تدریس ہوتی تھی اور موخر الذکر میں عربی اور فارسی ادب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ 19؎ علامہ کے والد ماجد شیخ نور محمد کی زیادہ رسم و راہ مولانا غلام حسین کے ساتھ تھی اور وہ انہی کے ہاں معارف دین کی سماعت کے لیے جایا کرتے تھے۔ اسی علم پرور ماحول میں شیخ نور محمد جیسی علم کی پیاسی شخصیت کے ہاں دو لڑکے ہوئے۔ ایک شیخ عط امحمد، جو 1859ء میں پیدا ہوئے اور 1940ء میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ دوسرے حضرت علامہ، جو 3 ذی قعد 1294 ہجری مطابق 9نومبر1877 ء 20؎ کو عالم وجود میں آئے اور وہ خواب پورا ہوا کہ ’’ سراپا جمال پرندہ ایک دم فضا سے اترا اور میری گود میں آن گرا۔‘‘ حوالے 1۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص10 2۔ ’’ ذکر اقبال ‘‘ صفحات12, 14 3۔ ’’ تاریخ اقوام کشمیر‘‘ صفحات43, 44 4۔ ’’ خطوط اقبال‘‘ صفحات176-77 5۔ ’’ اقبال کے حضور میں‘‘ صفحات169-70 6۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد دوم) ص115 7۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص8 8۔ ’’ اقبال کے حضور میں‘‘ ص94 9۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص8 10۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد دوم)ص116 11۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص8 12۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد اول) ص195 13۔ ’’ اقبال کے حضور میں‘‘ ص169 14۔ ایضاً ص170 15۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات8, 9 16۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ (جدل دوم) صفحات133-35 17۔ ’’ خلاصہ التواریخ‘‘ بحوالہ The Punjab Under The Mughals صفحات297-300 18۔ گارساں دتاسی بوساطت ’’ صحافت پاک و ہند میں‘‘ صفحات23-121 20۔’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد اول)صفحات229-37 ٭٭٭ دوسرا باب تعلیم و تربیت کا پہلا مرحلہ سیالکوٹ کا سب سے پرانا بازار، بازار رچوڑی گراں کے نام سے مشہور تھا۔ اب اسے اقبال سٹریٹ کہتے ہیں۔ اقبال منزل یہیں واقع ہے،ا س میں پندرہ کمرے اور سات دکانیں شامل ہیں۔ گلی کی جانب اس کے پچھلے حصے میں اقبال پیدا ہوئے۔’’ اس زمانے میں یہ منزلہ، کچھ کچا اور کچھ پکا، پرانے فیشن کا مکان تھا جس میں گلی کی طرف ایک ڈیوڑھی، دو کوٹھڑیاں، ان کے ساتھ ایک دالان اور اس کے آگے چھوٹا سا صحن تھا۔‘‘ اسی چھوٹے سے مکان میں اقبال نے بچپن گزارا اور شباب کی منزل میں قدم رکھا۔1؎ پانچ چھ برس کے ہوئے تو انہیں مکتب میں داخل کرایا گیا۔ یہ مکتب محلہ شوالہ کی مسجد کے خطیب اور امام مولوی غلام حسین نے جاری کر رکھا تھا۔ ایک دن سیالکوٹ کے نامی گرامی عالم دین مولوی میر حسن شاہ مولوی غلام حسین سے ملنے آئے جو اس وقت بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ مولوی میر حسن کی نظر اقبال پر پڑی تو پوچھا، کس کا بچہ ہے، اس کا کیا نام ہے؟ جواب ملا، شیخ نور محمد کا لڑکا محمد اقبال ہے۔ ایک دو دن بعد مولوی میر حسن کی ملاقات شیخ نور محمد سے ہوئی۔ انہوں نے شیخ صاحب سے کہا، آپ اپنے لڑکے کو شوالہ کے مکتب میں پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں۔ اب اسے میرے پاس بھیجیں، میں اسے پڑھاؤں گا۔ شیخ نور محمد مولوی صاحب کا بڑا احترام کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے یہ مشورہ قبول کر لیا۔ اقبال کو شوالہ کے مکتب سے اٹھایا اور مولوی میر حسن کے مکتب میں داخل کرا دیا۔ 2؎ یہ مولانا میر حسن مجمع البحرین استاد تھے جنہوں نے حقیقت میں اقبال کو اقبال بنایا۔ وہ عالم دین ہی نہیں تھے، بلکہ ادبیات، لسانیات، ریاضیات اور تفسیر قرآن کے بھی بہت بڑے ماہر تھے۔ سالک رقم طراز ہیں:ـ حضرت شاہ صاحب نے کچھ شیخ نور محمد کی دوستی کی وجہ سے اور کچھ اقبال کی طباعی اور ہونہاری کے باعث ان کی تعلیم و تدریس کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔ اس زمانے کا عام معمول یہ تھا کہ اس قسم کے مصلحین بچوں کو گلستان، بوستان، سکندر نامہ، یوسف زلیخا، جامی، صرف بہائی، صرف میر، ہدایتہ الخو، کافیہ، کنز الدقائق، قدروی وغیرہ پڑھایا کرتے تھے۔ شاہ صاحب کے ہاں بھی یہی قاعدہ تھا لیکن ان کے اسلوب تدریس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ محض رٹانے پر اکتفا نہ کرتے تھے، بلکہ ا پنے طلبہ میں فارسی اور عربی کا صحیح لسانی ذوق پیدا کرتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ فارسی کا ایک شعر پڑھاتے تو اس کے مترادف اشعار اردو اور پنجابی میں بھی پڑھ دیتے اور اس وقت تک سمجھاتے رہتے، جب تک اس کا مطلب پوری طرح طالب علم کے ذہن نشین نہ ہو جاتا۔ انہیں عربی، فارسی، اردو، پنجابی کے ہزاروں اشعار یاد تھے اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ موقع پر انہیں بر محل اشعار فوراً یاد آ جاتے۔ اس میں کسی تکلف و تردد کی ضرورت نہ پڑتی۔ کچھ مدت تک اقبال صرف شاہ صاحب سے پڑھتے رہے۔ آخر شاہ صاحب ہی نے ان کا سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں داخل کر دایا جس میں وہ خود مدرس مقرر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد معمول یہ ہو گیا کہ اقبال مدرسے میں تو عام کورس پڑھتے لیکن وہاں سے و اپس آکر انہی تدریسات میں مصروف ہو جاتے۔ جو شاہ صاحب نے شروع کرا رکھی تھیں۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک نہایت باقاعدگی سے جاری رہا جب وہ سکاچ مشن کالج سے ایف اے پاس کر کے مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے آئے۔ چونکہ شاہ صاحب نے سال ہا سال تک اقبال کو عربی، فارسی، علم و حکمت، ادبیات، تصوف وغیرہ کی تعلیم دے کر ان کو صحیح راستے پر لگادیاتھا اور ان میں علوم قدیمہ و اسلامیہ کے لیے بے پناہ تشنگی پیدا کر دی تھی، اس لیے اقبال جب کبھی موقع پاتے، سیالکوٹ آ کر شاہ صاحب سے اپنے شکوک رفع کراتے، مزید سبق لیتے اور غوامض علوم پر اپنے استاد کی ہدایت و رہنمائی سے غور و فکر کرتے۔ 3؎ اقبال و حصول علم کے لیے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ رات کو نیند میں اٹھ اٹھ کر پڑھتے رہتے۔ ایک دفعہ نصف شب کے وقت والدہ اقبال کی اچانک آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہیں کہ اقبال دیے کے قریب بیٹھے سکول کا کام کر رہے ہیں۔ خالد نظیر صوفی اقبال کی بڑی بھاوجہ بیگم شیخ عطا محمد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اقبال کی والدہ نے ’’ دو ایک آوازیں دیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انہوں نے اٹھ کر شانوں سے پکڑ کر ہلایا اور کہا، اقبال! اس وقت آدھی رات کو کیا پڑھ رہے ہو؟ اٹھو، سو جاؤ۔ صبح کام کر لینا۔ نانا جان (اقبال) کسمسائے اور جواب دیا، بے جی! سویا ہوا تو ہوں۔اب تو ان کی والدہ کو وہم ہو گیا۔ روز رات کو کئی کئی بار اٹھ کر دیکھتیں۔ اور اکثر انہیں اس حالت میں پاتیں اور اٹھا کر سلاتیں۔ صبح کو جب آپ سے اس کے متعلق استفسار کیا جاتا تو وہ لا علمی کا اظہار کرتے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ریاضی کے جو سوالات وہ نیند میں حل کرتے، وہ بالکل درست ہوتے۔ آہستہ آہستہ ماں کی توجہ سے ان کی یہ عادت چھوٹ گئی۔‘‘ 4؎ اقبال کے ایک ہم جماعت سے بیان منسوب کیا گیا ہے کہ ’’ جن دنوں سکاچ مشن سکول کی چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھے، ایک روز ان کی جماعت میں ایک مرد قلندر، اونچے لمبے اور سرخ و سپید، اپنے حال میں مست آن وارد ہوئے۔ بڑی شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھا، پیشانی کو بوسہ دیا اور بغیر کچھ کہے سنے واپس چلے گئے۔ استاد نے آپ سے ان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بالکل لا علمی کا اظہار کیا۔ بعد میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ اس مرد درویش نے کسی سے بھی ان کے متعلق دریافت نہیں کیا تھا اور خود ہی سیدھے ان کے پاس جا پہنچے تھے۔‘‘ 5؎ شعر کا ذوق بھی بچپن میں شروع ہو گیا۔ شیخ عطا محمد کی اہلیہ محترمہ کا بیان ہے کہ شعروں سے ان کی طبیعت کو مناسبت تھی۔ بار ہا ایسا ہوا کہ میں بعض دوسری عورتوں کے ساتھ رات کے وقت از اربند بنا کرتی تھی اور اقبال بازار سے منظوم قصے لا کر ہمیں لحن سے سنایا کرتے تھے۔ ان کی آواز بہت شیریں تھی۔ 6؎ اکثر اوقات قصہ سناتے سناتے اپنی طرف سے بھی کوئی مصرع اس میں جڑ دیتے اور ان کا مصرع ایسا پر اثر اور خوبصورت ہوتا کہ ہم سب انہیں بے ساختہ داد دیا کرتیں۔ اس وقت ان کی عمر بمشکل دس بارہ برس تھی۔ 7؎ 1891ء میں مڈل کا امتحان پاس کیا اور 1893ء میں انٹرنس کا۔ انٹرنس کا امتحان سیالکوٹ میں نہیں دیا، کیونکہ وہاں امتحان کا سنٹر نہیں تھا، اس لیے گجرات کے سنٹر میں امتحان دیا امتحان کے دوران میں گجرات کے ایک دولت مند بزرگ ڈاکٹر عطا محمد خان نے انہیں دیکھا تو پسند فرمایا اور اپنی بڑی بیٹی کے لیے رشتہ چاہا۔ گفتگو کے بعد رشتہ طے پا گیا۔ اقبال نہیں چاہتے تھے کہ کم سنی میں شادی کر لیں۔ لیکن بزرگوں کا حکم بھی نہیں ٹال سکتے تھے، اس لیے مان گئے۔ جب برات سیالکوٹ سے گجرات جانے کے لیے تیار ہوئی، سہرا بندھ گیا، اقبال گھوڑے پر سوار ہو گئے تو امتحان میں کامیابی کا تار آیا۔ اس اہلیہ سے دو بچے ہوئے۔ لڑکی کا نام معراج بیگم تھا۔ اور لڑکے کا آفتاب اقبال معراج بیگم اٹھارہ سال کی عمر میں فوت ہو گئیں۔ آفتاب اقبال نے اعلیٰ تعلیم پائی اور بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ ویسے یہ شادی کامیاب نہ رہی۔ فریقین ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے اور یہ کھچاؤ آخری دم تک رہا۔ 8؎ انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد اقبال سکاچ مشن کالج میں داخل ہوئے۔ اس کالج کی تاسیس 1888ء میں ہو چکی تھی۔ اقبال کی تعلیم کے زمانے میں یہ کالج گورنمنٹ سکول کی عمارت میں واقع تھا اور کالج کا تدریسی عملہ پانچ افراد پر مشتمل تھا، جن کے نام یہ ہیں: جان ڈبلیو ینگسن ڈی ڈی (پرنسپل) نرنجن داس بی اے ہرنام سنگھ بی اے، پنڈت تیرتھ رام اور مولوی میر حسن شاہ اس زمانے میں کالج میں یہ مضامین پڑھائے جاتے تھے: انگریزی، فلسفہ، ریاضی، سائنس، عربی، فارسی اور سنسکرت۔ 9؎ اقبال نے انگریزی کے علاوہ کون کون سے مضامین لیے۔ اس بارے میں کچھ علم نہیں۔ کالج کے زمانے میں اقبال کیسے طالب علم تھے؟ اس سلسلے میں کوئی دستاویزی ثبوت تو موجود نہیں، البتہ دو شواہد ان کی ذہانت اور قابلیت کے غماز ہیں۔ اول یہ کہ انٹرنس کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا تھا۔ وظیفہ بھی حاصل کیا اور تمغہ بھی ظاہر ہے یہی رنگ ایف اے میں رہا ہو گا ۔ دوم یہ کہ اقبال کی جو درسی کتابیں محفوظ ہیں۔ ان پر جا بہ جا تشریحی نوٹ ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے موجود ہیں، 11؎ جو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ شدید محنت کے عادی تھے۔ کالج کے زمانے میں بھی ایک طرف میر حسن شاہ سے مسلسل رابطے اور دوسری طرف اپنے صوفی منش والد ماجد کے زیر اثر اقبال کو دین سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ اس سلسلے میں ایک پر تاثیر واقعہ خود اقبال کی زبانی ملاحظہ ہو: ’’ میں نے کہا تھا، قرآن مجید دل کے راستے بھی شعور میں داخل ہوتا ہے۔ یہ حقیقت یوں سمجھ میں آئے گی کہ یہ کالج میں میری تعلیم کا ابتدائی زمانہ تھا۔ میرا معمول تھا، ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا اس دوران میں والد ماجد بھی مسجد سے تشریف لے آتے اور مجھے تلاوت کرتے دیکھ کر اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ میں کبھی ایک منزل ختم کر چکا ہوتا، کبھی کم۔ ایک روز کا ذکر ہے، والد ماجد حسب معمول مسجد سے واپس آئے۔ میں تلاوت میں مصروف تھا۔ مگر وہ جیسے کسی خیال سے میرے پاس بیٹھ گئے۔ میں تلاوت کرتے کرتے رک گیا اور منتظر تھا کہ مجھ سے کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ کہنے لگے۔ تم کیا پڑھا کرتے ہو؟ مجھے ان کے سوال پر نہایت تعجب ہوا، بلکہ ملال بھی۔ انہیں معلوم تھا، میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہوں۔ بہرحال میں نے مودبانہ عرض کیا، قرآن پاک۔ کہنے لگے، تم جو کچھ پڑھتے ہو، سمجھتے بھی ہو؟ میں نے کہا۔ کیوں نہیں؟ تھوڑی بہت عربی جانتا ہوں۔کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہوں۔ انہوں نے میرا جواب خاموشی سے سنا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں حیران تھا، آخر اس سوال سے ان کا مطلب کیا ہے؟ کچھ دن گزر گئے اور یہ بات جیسے آئی گئی ہو گئی۔ لیکن اس واقعہ کو چھٹا روز تھا کہ صبح سویرے میں حسب معمول قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ والد ماجد مسجد سے واپس آئے۔ اور میں نے تلاوت ختم کی تو انہوں نے مجھے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر بڑی نرمی سے کہنے لگے، بیٹا! قرآن مجید وہی شخص سمجھ سکتا ہے، جس پر اس کا نزول ہو۔ مجھے تعجب ہوا کہ حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قرآن پاک کیسے کسی پر نازل ہو سکتا ہے۔ وہ میرے دل کی بات سمجھ گئے، کہنے لگے۔ تمہیں کیسے یہ خیال گزرا کہ اب قرآن مجید کسی پر نازل نہیں ہو گا؟ کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کرو، جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ تمہاری رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔ میں ہمہ تن گوش والد ماجد کی بات سنتا رہا بلکہ اپنے آپ کو تیار کر رہا تھا کہ قرآن مجید کی تلاوت ویسے ہی کروں، جیسے ان کا ارشاد ہے کہ انہوں نے کہا، سنو! اللہ تعالیٰ کا ارادہ عالم انسانیت کو جس معراج مکمل تک پہنچانے کا تھا، اس کا آخری اور کامل و مکمل نمونہ ہمارے نبی اکرم محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات ستو وہ صفات میں ہمارے سامنے پیش کر دیا۔ لہٰذا ہم کہیں گے کہ آدم علیہ السلام سے حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک، کہ خاتم الانبیاء ہیں، جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے، ان میں سے ہر ایک کا گزر مدارج محمدیہ ہی میں سے ہو رہا تھا۔ وہ گویا ایک سلسلہ تھا۔ جس کا خاتمہ ذات محمدیہ کی تشکیل پر ہوا۔ والد ماجد نے پھر خود ہی اپنے ارشاد کی تشریح کی، انہوں نے کہا، شعور انسانی کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بالاخر جب وہ مرحلہ بھی آ گیا کہ زندگی اپنے مقصود کو پا لے۔ تو ذات محمدیہ بھی اپنی پوری شان سے جلوہ گر ہو گئی۔ حضور رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ باب نبوت بند ہوا۔ انسانیت اپنے معراج مکمل کو پہنچی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اسوہ حسنہ،کاملہ ہی ہر اعتبار سے ہمارے لیے محبت، مثال اور نمونہ ٹھہرا۔ اب جتنا بھی کوئی اس رنگ میں رنگتا چلا جائے گا، اتنا ہی قرآن مجید اس پر نازل ہوتا رہے گا۔ یہ مطلب تھا، میرے اس کہنے کا کہ قرآن مجید اسی کی سمجھ میں آ سکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو۔12؎‘‘ اس وقت اقبال کا سن سولہ سترہ برس کا ہو گا، لیکن یہ لاجواب نکتہ ان کے دل میں ترازو ہو گیا۔ اور کیا شاعری اور کیا نثر نگاری اور کیا خطبات۔۔۔۔ سبھی میں آخری دم تک جاری و ساری رہا۔ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن باقاعدہ شاعری کا آغاز کب ہوا؟ خان بہادر محمد مسیح پال کا بیان ہے کہ اقبال کالج کی کلاسوں میں پڑھتے تھے اور میں سکول میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ وہ سکول کے ایک جلسے میں شریک ہوئے اور اپنی نظم پڑھی۔ 13؎ لیکن سر عبدالقادر کا بیان ہے کہ ’’ ابھی سکول ہی میں پڑھتے تھے کہ کلام موزوں زبان سے نکلنے لگا۔ پنجاب میں اردو کا رواج اس قدر عام ہو گیا تھا کہ ہر شہر میں زبان دانی اور شعر و شاعری کا چرچا کم و بیش موجود تھا۔ سیالکوٹ میں بھی شیخ محمد اقبال کی طالب علمی کے دنوں میں ایک چھوٹا سا مشاعرہ ہوتا تھا۔ اس کے لیے اقبال نے کبھی کبھی غزل لکھنی شروع کر دی۔ شعرائے اردو میں ان دنوں نواب مرزا خان صاحب داغ دہلوی کا بہت شہرہ تھا اور نظام دکن کے استاد ہونے سے ان کی شہرت اور بھی بڑھ گئی تھی۔۔۔ سینکڑوں آدمی ان سے غائبانہ تلمذ رکھتے تھے۔ شیخ محمد اقبال نے بھی انہیں خط لکھا اور چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں۔ اس طرح اقبال کو اردو زبان دانی کے لیے بھی ایسے استاد سے نسبت پیدا ہوئی جو اپنے وقت میں زبان کی خوبی کے لحاظ سے فن غزل میں یکتا سمجھا جاتا تھا۔ گو اس ابتدائی غزل گوئی میں وہ باتیں تو موجود نہ تھیں جن سے بعد ازاں اقبال نے شہرت پائی مگر جناب داغ پہچان گئے۔ کہ پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کا یہ طالب علم کوئی معمولی غزل گو نہیں۔ انہوں نے جلد کہہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ اور یہ سلسلہ تلمذ کا بہت دیر قائم نہیں رہا، البتہ اس کی یاد دونوں طرف رہ گئی۔ داغ کا نام اردو شاعری میں ایسا پایہ رکھتا ہے کہ اقبال کے دل میں داغ سے اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر ہے اور اقبال نے داغ کی زندگی ہی میں قبول عام کا وہ درجہ حاصل کر لیا تھا کہ داغ مرحوم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے جس کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی۔ مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے۔ 14؎‘‘ دین سے بے پناہ محبت، علم و ادب سے گہری دلچسپی، درسی کتاب کے مطالعہ میں انہماک اور شعر و شاعری میں درک سے یہ تاثر لینا مناسب نہیں ہو گا کہ اقبال پر بچپن اور عنفوان شباب کے زمانوں میں ایک گھمبیر سنجیدگی طاری تھی اور وہ تفریحات سے نفور تھے، یا ان میں شوخی موجود نہیں تھی۔ اس زمانے میں پرندے پالنے اور ان سے کھیلنے کا مشغلہ عام تھا اور اقبال نے بھی اس میں دلچسپی لی، اور وہ بھی مولانا میر حسن شاہ کے صاحبزادے سید محمد تقی کی رفاقت میں۔ بلکہ یہ روایت بھی عام ہے کہ ایک دفعہ مولانا نے دیکھا کہ اقبال سبق پڑھ رہے ہیں اور ایک ہاتھ میں بٹیر تھام رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا: کم بخت، اس میں تجھے کیا مزا ملتا ہے؟ تو اقبال نے اسی وقت جواب دیا: حضرت! ذرا اسے پکڑ کر دیکھئے۔ 15؎ ایک مصنف نے اسے سرا سر زیادتی اور بے انصافی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے حد اطاعت گزار شاگرد ایسی ’’ گستاخانہ دیدہ دلیری‘‘ کا ارتکاب نہیں کر سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعہ کے راوی خود حضرت علامہ تھے۔ اور اتنی بات کا تو راقم الحروف بھی چشم دید گواہ ہے کہ حضرت علامہ نے میاں نظام الدین کے آموں کے باغ میں لاہور کے اہل علم سے خوش گپیوں کے دوران میں بٹیر بازی کے فن پر گفتگو فرمائی اور ہاتھ سے بٹیر کو ’’مٹھیانے‘‘ کا طریقہ بتایا۔ رہی استاد کے سامنے شاگرد کی جسات کا مسئلہ تو یہ جسارت نہیں، ایک طفلانہ شوخی تھی، جس کے اچھے اساتذہ قدر کرتے ہیں۔ اور پھر اگر شاگرد کی ’’ جسارت‘‘ اتنی ہی قابل اعتراض ہے تو اس واقعہ کو کیوں خوشی سے بیان کر دیا جاتا ہے کہ استاد نے سکول میں دیر سے آنے کا سبب دریافت کیا تو اقبال بولے کہ اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ذومعنی بات ہے، لیکن ہے تو ’’ جسارت‘‘ ! علامہ کا اصل تفریحی مشغلہ کبوتر بازی تھا۔ جس مصنف کو بٹیر بازی کے ’’ الزام‘‘ پر اعتراض تھا، وہی فرماتے ہیں کہ اقبال کو ’’ لڑکپن سے لے کر بڑے ہونے تک کبوتر پالنے کا شوق رہا‘‘ 16؎ ’’خاندان اقبال کے ایک فرد بزرگوں کی روایت سے بتاتے ہیں کہ جب شیخ نور محمد نے اقبال کا شوق دیکھا تو انہیں گھر پر ہی کبوتر رکھنے کی اجازت دے دی تاکہ وہ کبوتروں کے شوق میں غلط صحبت میں نہ پڑ جائیں۔ اقبال کوٹھے پر سے اپنے کبوتر اڑاتے اور گھنٹوں خاموش بیٹھے ان کی پرواز سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ کبوتروں کا شوق انہیں کافی عرصے تک رہا۔ لاہور میں انار کلی میں بھی ان کے پاس کبوتر تھے، جب میکلوڈ روڈ پر منتقل ہوئے تو کبوتروں کے لیے خاص ڈربے بنوائے، لیکن جب جاوید اقبال پیدا ہوئے تو انہوں نے یہ شوق ختم کر دیا اور تمام کبوتر گھر سے نکال دیے تاکہ جاوید اس شغل سے محفوظ رہیں۔ 17؎ سید نذیر نیازی نے اس شوق کا تذکرہ کرتے ہوئے جو دلچسپ واقعہ بیان کیا اور جو گہرا نکتہ پیدا کیا، وہ اس قابل ہے کہ پیش خدمت ہو جائے۔ ملاحظہ فرمائیے:‘‘ ’’ حضرت علامہ کو کبوتروں سے بڑی دلچسپی تھی، بلکہ ایک زمانے میں انہوں نے خوب کبوتر پال رکھے تھے۔ یہ شوق انہیں بچپن ہی سے تھا۔ جس میں راقم الحروف کے برادر غم زاد سید محمد تقی مرحوم بھی ان کے شریک تھے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ راقم الحروف جب قیام دہلی میں پہلی مرتبہ مولانا عبدالسلام نیازی مرحوم و مغفور کی خدمت میں حاضر ہوا اور بہ سلسلہ تعارف ان سے حضرت علامہ سے میرے تعلق کا ذکر کیا گیا تو کہنے لگے، میں ان کے علم و فضل کا قائل ہوں۔ لیکن یہ خودی کیا چیز ہے؟ میں خودی کو نہیں سمجھا۔ تم سمجھاؤ، خودی ہے کیا؟ میں نے عرض کیا، میں یہ جرات کیسے کر سکتا ہوں کہ آپ کے سامنے زبان کھولوں۔ یوں بھی جب بہ ایں علم و فضل آپ نہیں سمجھے کہ خودی کیا ہے تو مجھ جیسا کم علم انسان اسے کیا سمجھے گا؟ اس پر مولانا مسکرا کر کہنے لگے، اقبال نے جب اسرار خودی لکھی تو اس کا ایک نسخہ ہمیں بھیجا تو ہم نے اس کی بڑی تعریف کی اور ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں ان کے علم و فضل کو کوئی نہیں پہنچتا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو بصیرت دی ہے، کسی کو نہیں ملی۔ لیکن جب ہم نے انہیں لکھا کہ یہ جو آپ نے بار بار خودی کی طرف اشارہ کیا ہے تو ہم نہیں سمجھے خودی کیا ہے؟ ہمیں سمجھ ادیجئے۔ تو اس کے جواب میںانہوں نے فرمایا، ہمارے پاس کبوتروں کا ایک نہایت اعلیٰ جوڑا ہے۔ اجازت ہو تو آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ اتنا کہہ کر مولانا نے سامعین کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ہم ان کا مطلب سمجھ گئے۔ مولانا شدت سے وحدت الوجود کے قائل تھے۔ حضرت علامہ شاید انہیں یہ سمجھا رہے تھے کہ جس چیز کے بارے میں آپ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، وہی بار بار اور نئے سے نئے روپ میں آپ کے سامنے آتی رہتی ہے۔ یہی خودی ہے۔‘‘ 18؎ موسیقی سے دلچسپی کا آغاز بھی بچپن میں ہوا اور وہ بھی کلاسیکی موسیقی ہے۔ اس کا پتہ یوں ملتا ہے کہ سیالکوٹ کی اقبال منزل میں اقبال کی جو درسی کتب محفوظ ہیں، ان میں نویں جماعت کی کتاب Reading in Poetry میں دو مقامات پر اپنے ہاتھ سے راگ کے بول تحریر کیے ہیں۔ ایک جگہ یہ بول لکھے ہیں: ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ سا۔ رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی۔ سا خرج رکھب گندھار مدھم پنچم دھیوت نکھاد دوسری جگہ یہ بول درج ہیں: ۲ ۱ ۱ ۱ ۱ دھا خرج (خاص) ری گا دھا (خاص ا ا ا ا ا ا پا (خاص) گا ری سا ری گا 19؎ 1895ء میں اقبال نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر لیا۔ چونکہ سکاچ مشن کالج میں اس وقت تک بی اے کی تدریس کا اجرا نہیں ہوا تھا، اس لیے اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور بھیج دیا گیا اور یوں ان کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ ٭٭٭ حوالے 1۔’’ اقبال درون خانہ‘‘ صفحات111, 13 2۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد اول) صفحات11-210 3۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات75-274 4۔ ’’ اقبال درون خانہ‘‘ صفحات8, 9 5۔ ایضاً، صفحات10, 9 6 ۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص11 7۔’’ اقبال درون خانہ‘‘ ص10 8۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات14-15 ’’ اقبال درون خانہ‘‘ صفحات11, 12 9۔ ’’ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ‘‘ ص310 10۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد دوم)ص19 11۔ ’’ اقبال درون خانہ‘‘ صفحات1, 103 12۔ ’’ اقبال کے حضور میں‘‘ صفحات60, 61 13 ’’ ذکر اقبال‘‘ ص15 14۔ بانگ درا کا دیباچہ، جو1924ء میں لکھا گیا۔ 15۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص12 16۔’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد اول)ص242 17۔’’ اقبال درون خانہ‘‘ ص11 18۔’’ اقبال کے حضور میں‘‘ صفحات49-148 19۔’’ اقبال درون خانہ‘‘ 105 تیسرا باب لاہور میں: تعلیم کا دوسرا مرحلہ اقبال لاہور کی کھلی فضاؤں میں آئے تو ایک نئی دنیا سے آشنا ہوئے جو سیالکوٹ کی دنیا سے بہت مختلف تھی۔ یہ شہر مشرق و مغرب کا امتزاج پیش کرتا تھا۔ ایک طرف اندرون شہر کی گہما گہمی، جس کے سینے میں مشرقی روایات اور انداز زندگی سے پیار کا جذبہ موجزن تھا۔ دوسری طرف چھاؤنی سے لے کر گورنمنٹ ہاؤس تک کا علاقہ، جو ڈونلڈ ٹاؤن کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور جہاں سفید فام صاحبان عالی مقام آباد تھے۔ اس کے پہلو میں لارنس باغ اور چڑیا گھر جو سیر و تفریح کے مراکز تھے اور پھر مال روڈ۔۔۔۔۔ جس پر لارنس ہال اور منٹمگری ہال میں گوری نسل کے لوگ رقص و سرود اور ناؤ نوش کی محفلیں گرم کرتے تھے۔ اس شاہراہ کو ٹھنڈی سڑک کہتے تھے۔ یورپی تاجروں نے دکانیں لگا رکھی تھیں۔ گوری نسل کے لوگ یہیں خرید و فروخت کرتے تھے۔ نیلہ گنبد سے مشرقی زندگی کا آغاز ہوتا تھا۔ انار کلی بازار موجود تھا لیکن اس میں رونق بہت کم تھی۔ مال روڈ اور پرانے شہر کے درمیان تعلیمی دنیا آباد تھی۔ پنجاب یونیورسٹی وجود میں آ چکی تھی۔ سینیٹ ہال بن چکا تھا اور گورنمنٹ کالج کی موجودہ عمارت اس سال مکمل ہو چکی تھی جس سال اقبال نے سیالکوٹ میں جنم لیا۔ا ورینٹل کالج اور لاء سکول بھی اسی عمارت میں مرتکز تھے۔ نیلہ گنبد کے قریب ہی میڈیکل کالج اور فورمن کرسچین کالج واقع تھے اور عجائب گھر کے قریب میو سکول آف آرٹس موجود تھا۔ 1؎ جن دنوں اقبال گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے، اس کالج میں ان مضامین کی تدریس کا بندوبست موجود تھا: انگریزی زبان و ادب، عربی، فارسی اور سنسکرت، تاریخ و معاشیات ، ریاضی، فلسفہ اور طبی علوم تین کورس ہوتے تھے۔ اول: دو سالہ انٹرمیڈیٹ کورس، جس میں کم از کم چار اور زیادہ سے زیادہ پانچ مضامین کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دوم: بی اے کا دو سالہ کورس، جس میں تین یا چار مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ سوم: ایم اے کا یک سالہ کورس، جس میں ادب یا سائنس کی کسی ایک شاخ میں تخصص مطلوب تھا۔ 2؎ کالج میں یہ اساتذہ کام کرتے تھے:1پی جی ڈالنجر، پرنسپل2 جی بی اوشر فلسفہ، 3 لالہ جیا رام (تاریخ و فلسفہ)۔ اقبال نے بی اے میں فلسفہ لالہ جیا رام اور پروفیسر اوشر سے پڑھا۔ انگریزی کی تعلیم ڈالنجر سے حاصل کی ہو گی۔ السنہ شرقیہ کی تدریس اورینٹل کالج کے اساتذہ کے سپرد تھی۔ اس لیے اقبال نے عربی کی تعلیم مولوی محمد دین سے حاصل کی جو اس کالج میں عربی کے استاد تھے۔ مارچ1897ء میں اقبال نے بی اے کا امتحان دیا اور سیکنڈ ڈویژن حاصل کی۔ یونیورسٹی کے کل امیدواروں میں ان کی پوزیشن گیارہویں تھی لیکن یہ کہنا نا درست نہیں کہ اقبال نے بی اے کے امتحان میں امتیازی حیثیت حاصل کی کیونکہ انہیں دو تمغے ملے۔ اول: جمال الدین میڈل، جو عربی کے امتحان میں اول آنے پر ملا۔ دوم: خلیفہ محمد حسین ایچی سن میڈل، جو انگریزی اور عربی کے امیدواروں میں سب سے زیادہ نمبر لینے پر حاصل ہوا۔ 3؎ بی اے کے امتحان میں کامیابی کے بعد اقبال نے اسی سال ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، اس زمانے میں ایم اے کورس ایک سال کا ہوتا تھا۔ اس اعتبار سے اقبال کو 1898ء میں ایم اے کر لینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا، وہ یا تو ناکام رہے یا انہوں نے امتحان ہی نہ دیا۔ ڈاکٹر وحید قریشی بتاتے ہیں کہ امتحان میں نہ بیٹھنے کا بہ ظاہر کوئی قرینہ نہیں۔ 4؎ راقم الحروف کو اس سے اختلاف ہے چونکہ دستاویزات سے تو یہ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں ایم اے کے ساتھ ساتھ لاء میں داخلہ بھی مل جاتا تھا اور یہ دونوں امتحان ایک ہی سال دینے کی اجازت تھی۔ اقبال نے بھی 1897ء میں بیک وقت ایم اے فلسفہ اور لاء میں داخلہ لیا اور 1898ء میں لاء کا امتحان دیا۔ عین ممکن ہے کہ اقبال نے دو امتحانوں کو بوجھ تصور کر کے صرف ایک امتحان دیا ہو اور اس طرح ایم اے فلسفہ کے امتحان میں نہ بیٹھے ہوں۔ یہ اقبال کی خوش نصیبی تھی کہ فلسفے کے شہرہ آفاق پروفیسر ٹامس آرنلڈ نے علی گڑھ کالج سے قطع تعلق کر لیا اور گورنمنٹ کالج میں فلسفے کے پروفیسر ہو گئے۔ ان کا تقرر11 فروری 1898ء کو ہوا۔ اور اقبال ان سے درس لینے لگے۔ ’’ پروفیسر آرنلڈ چند ہی روز میں اقبال کی صلاحیتوں سے ایسے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اقبال سے دوستانہ پرتاؤ شروع کر دیا۔ وہ اپنے احباب سے اقبال کی تعریف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۔ 5؎‘‘ سالانہ امتحان میں زیادہ سے زیادہ ایک ماہ رہ گیا تھا۔ ایسے میں اقبال نے سوچا ہو گا کہ امتحان میں ناکام رہنے سے بہتر ہے کہ اس میں اس سال بیٹھا ہی نہ جائے۔ پروفیسر آرنلڈ کے زیر سایہ تربیت پانے کے بعد اقبال نے 1899ء میں ایم اے کا امتحان دیا۔ اس سال صرف ایک ہی امیدوار کامیاب ہوا، وہ اقبال تھے۔ اس لیے تھرڈ ڈویژن حاصل کرنے کے باوجود انہیں اول پوزیشن کا طلائی تمغہ حاصل ہوا اقبال سے پروفیسر آرنلڈ کے رشتے کے بارے میں سر شیخ عبدالقادر نے1924ء میں جو سطور قلم بند کیں، وہ اقبال کی شخصیت کی تعمیر کے بارے میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ انہیں علم فلسفہ کی تحصیل کا شوق تھا اور انہیں لاہور کے اساتذہ میں ایک نہایت شفیق استاد ملا جس نے فلسفے کے ساتھ ان کی مناسبت دیکھ کر انہیں خاص توجہ سے پڑھانا شروع کیا۔ پروفیسر آرنلڈ۔۔۔ غیر معمولی قابلیت کے شخص ہیں۔ قوت تحریر ان کی بہت اچھی ہے اور وہ علمی جستجو اور تلاش کے طریق جدید سے خوب واقف ہیں۔ انہوں نے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے مذاق اور اپنے طرز عمل سے حصہ دیں۔ پہلے انہوں نے علی گڑھ کالج کی پروفیسری کے زمانے میں اپنے دوست مولانا شبلی مرحوم کے مذاق علمی کے پختہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔اب انہیں یہاں اور جوہر قابل نظر آیا جس کے چمکانے کی آرزو ان کے دل میں پیدا ہوئی اور جو دوستی اور محبت استاد اور شاگرد میں پہلے دن سے پیدا ہوئی وہ آخرش شاگرد کو استاد کے پیچھے پیچھے انگلستان لے گئی اور وہاں یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا اور آج تک قائم ہے۔ آرنلڈ خوش ہے کہ میری محنت ٹھکانے لگی اور میرا شاگرد علمی دنیا میں میرے لیے باعث شہرت افزائی ہوا۔ اور اقبال معترف ہے کہ جس مذاق کی بنیاد سید میر حسن نے ڈالی تھی اور جسے درمیان میں داغ کے غائبانہ تعارف نے بڑھایا تھا، اس کے آخری مرحلے آرنلڈ کی شفیقانہ رہبری سے طے ہوئے۔ لاء کے امتحان میں اقبال کامیاب نہ ہو سکے، شاید اس لیے کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھا ہوا تھا، ایم اے میں بھی اور لاء میں بھی ایم اے کا امتحان مارچ 1899 ء میں ہوا اور لاء کا دسمبر1898ء میں ایم اے پر زیادہ توجہ رہی، اس لیے اس میں کامیاب ہو گئے۔ لاء پر توجہ میں کمی رہ گئی، اس لیے پانچ پرچوں میں تو کامیاب ہو گئے اور فقہ کے پرچے میں ناکام رہے۔ سید محسن ترمذی نے ہائیکورٹ کی پرانی دستاویزات کی چھان بین کے بعد انکشاف کیا کہ جون 1900ء میں اقبال نے پنجاب کی عدالت عالیہ کو اس مضمون کی درخواست بھیجی کہ مجھے لیکچروں میں دوبارہ حاضری دینے کے بغیر اجازت دی جائے کہ دسمبر1900ء کے لاء کے امتحان میں بیٹھ جاؤں لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ یہ انکار اقبال کی زندگی میں ایک نئے موڑ کا آغاز ثابت ہوا، کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کے انداء لاء کے مطالعہ کی تکمیل کا ارادہ ترک کر دیا اور فیصلہ کیا کہ سمندر پار جائیں۔ چنانچہ 1905ء سے 1908ء تک کا عرصہ بارا گزرا اور اس دوران میں نابغہ روزگار فضلا کی صحبت سے فیض حاصل کرتے رہے۔‘‘ 7؎ تکمیل تعلیم کے تذکرے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اقبال کے مشاغل زمانہ تعلیم میں کس نوعیت کے تھے اور وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے اقبال کو اقبال بننے میں مدد دی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس زمانے کے شہر لاہور کی ثقافت و تہذیب کا ایک ہلکا سا نقشہ پیش کر دیا جائے۔ اس زمانے کا لاہور روشنیوں سے جگ مگ جگ مگ کرتا شہر نہیں تھا کہ ابھی بجلی نہیں آئی تھی۔ گھروں اور دکانوں میں روشنی کا ذریعہ پیتل کے پرانے شمعدان یا مٹی کے چراغ تھے۔ مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹین اور گلوب نما لالٹین کا نیا نیا رواج چلا تھا۔ انہیں پہلے ریلوے سٹیشن میں نصب کیا گیا اور پھر کچھ مرفع الحال گھرانوں نے بھی اپنا لیا۔ لاہور کی کل آبادی ایک لاکھ چھہتر ہزار سے کچھ زیادہ تھی جس میں ایک لاکھ سوا دو ہزار مسلمان تھے، باسٹھ ہزار ہندو، سات ہزار تین سو سکھ، چار ہزار سات سو عیسائی اور باقی دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ۔ اندرون شہر میں تفریحات کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے بچے گولیاں کھیلتے تھے۔ نوجوان اکھاڑوں میں جاتے، ڈنڈ نکالتے اور کشتی لڑتے تھے۔ جابجا مرغ، بلبل، بٹیر اور بھیڑ لڑانے کے مقابلے ہوتے جنہیں دیکھنے کے لیے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے تھے۔ پتنگ بازی کا شوق بھی عام تھا۔ بیرون شہر کالجوں اور سکولوں میں کرکٹ محبوب کھیل تھا یا طلبہ انگریزی آلات کی مدد سے ورزش جسمانی کا شغل اختیار کرتے تھے۔ کوئی تھیٹر نہیں تھا، کوئی سینما نہیں تھا، کوئی نمائش نہیں ہوتی تھی اور کسی قسم کا ثقافتی شو کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کی انجمنیں الگ الگ تھیں۔ مسلمانوں کی انجمنوں میں انجمن اسلامیہ سر فہرست تھی جو1869ء میں قائم ہوئی اور جو مساجد کی نگرانی کرتی تھی۔ دوسرے درجے پر انجمن حمایت اسلام تھی جو1886ء میں قائم ہوئی اور جس کے اہتمام میں ایک اسلامیہ ہائی سکول چل رہا تھا۔ سید امیر علی کی قائم کردہ مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی ایک شاخ موجود تھی جس کے صدر فقیر سید جمال الدین اور سیکرٹری مولوی محرم علی چشتی تھے لیکن یہ شاخ سیاسی کم تھی اور تہذیبی زیادہ۔ ان انجمنوں کا کام کاج امرائے کرام چلاتے تھے۔ عوام کو ان میں کوئی خاص عمل دخل حاصل نہیں تھا، سوائے اس کے کہ چندہ دے دیا یا کبھی کوئی عام اجتماع ہوا تو اس میں شرکت کر لی۔ مباحثوں، مناظروں اور تقریری مقابلوں کے لیے نوجوانوں کی ایک انجمن ینگ مین محمڈن ایسوسی ایشن کے نام سے 1891ء سے قائم تھی۔ اس کے ارکان کی تعداد اٹھانوے تھی اور میاں شاہ دین بار ایٹ لاء اور سید خورشید انور سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ 8؎ اس انجمن کی تقریبات شاذ ہی ہوتی تھیں۔ کچھ اور انجمنیں بھی قائم تھیں جن کا مقصد تھا، محدود دوائر میں اصلاح معاشرہ کے لیے سعی۔ یہ انجمنیں مشاعرے بھی برپا کیا کرتی تھیں۔ اخبارات موجود تھے لیکن بہت کم لاہور کا واحد انگریزی روزنامہ ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ تھا لیکن یہ سفید فام حضرات کی دلچسپی کی چیز تھا، اس لیے اشاعت چودہ سو کے لگ بھگ تھی۔ انگریزی کا واحد ہفت روزہ ’’ ٹریبیون‘‘ تھا جو ہندوؤں کے جذبات کی عکاسی کرتا تھا۔ اردو روزنامے دو تھے: ’’اخبار عام‘‘ اور ’’ پیسہ اخبار‘‘ موخر الذکر مسلمانوں کی ترجمانی کرتا تھا۔ ان اخباروں کو اخبار کہنا شاید مناسب نہ ہو، اخبارچے کا لفظ شاید زیادہ ہو، اس لیے اشاعتیں زیادہ نہیں تھیں۔ البتہ ’’ پیسہ اخبار‘‘ کا ہفت روزہ ایڈیشن کثیر الاشاعت تھا۔9؎ ان حالات میں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے فرحت کے مشغلے تین ہی ہو سکتے تھے: سیر، احباب کے محفلوں میں گپ زنی یا کتابوں اور اخباروں کا مطالعہ۔ ادیبوں کے لیے مشاعروں میں شرکت بھی ایک دلچسپ مشغلہ ہو سکتی تھی۔ علامہ اقبال سیر یا گھومنے پھرنے کے قائل نہیں تھے اور بقول میر غلام بھیک نیرنگ’’ اقبال کی طبیعت میں اسی وقت سے ایک گونہ قطیت تھی اور وہ قطب از جانہ می جنبد، کا مصداق تھے۔ 10؎‘‘ اس لیے دو ہی مشغلے تھے، محفل احباب میں گپ زنی اور مطالعہ۔ جب لاہور آئے تو سب سے پہلے بھاٹی دروازے کے اندر شیخ گلاب دین مرحوم کے مکان میں سکونت اختیار کی۔ انہی دنوں مولوی غلام بھیک نیرنگ نے جب سنا کہ وہ سادہ وضع، گورا چٹا، کشیدہ قامت جوان رعنا شاعر بھی ہے تو مشترکہ دوست کی وساطت سے نمونہ کلام منگایا جس کے دو شعر یہ تھے: بر سر زینت جو شمع محفل جانانہ ہے شانہ اس کی زلف پیچاں کا پر پروانہ ہے پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے تجھے چال سے خالی کہاں یہ لغزش مستانہ ہے اقبال نے بھی نیرنگ کا کلام دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو موصوف نے اپنی ایک غزل بھیج دی جس کا ایک شعر یہ تھا: حرم کو جانا جناب زاہد یہ ساری ظاہر پرستیاں ہیں میں اس کی رندی کو مانتا ہوں جو کام لے دیر سے حرم کا اتنے میں اقبال کو گورنمنٹ کے اس دار الاقامہ میں ایک کمرہ مل گیا جو آ ج کل کواڈرینگل ہوسٹل کے نام سے مشہور ہے۔ نیرنگ اقبال سے جونیئر تھے اور اسی ہوسٹل میں مقیم تھے۔ نیرنگ اس زمانے کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’’ میں اور کالج کے بورڈنگ ہاؤس میں جو جوان کے دوست تھے، سب انہی کے کمرے میں ان کے پاس جا بیٹھتے تھے۔ وہ وہیں میر فرش بنے بیٹھے رہتے تھے۔ حقہ جبھی سے ان کا ہم دم وہم نفس تھا۔ برہنہ سر، بنیان دربر، ٹخنے تک کا تہ بند باندھے ہوئے اور اگر سردی کا موسم ہے تو کمبل اوڑھے ہوئے بیٹھے حقہ پیتے رہتے تھے اور ہر قسم کی گپ اڑاتے رہتے تھے۔ طبیعت میں ظرافت بہت تھی۔ پھبتی زبردست کہتے تھے۔ ادبی مباحثے بھی ہوتے تھے۔ شعر کہے بھی جاتے اور پڑھے بھی جاتے تھے۔‘‘ جب اقبال نے ایم اے کر لیا اور نیرنگ نے بی اے کر لیا تو دونوں نے ہوسٹل چھوڑ دیا اور یوں شب و روز کی محفلیں ختم ہو گئیں۔ اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے غلام بھیک نیرنگ بتاتے ہیں: ’’ اس ابتدائی زمانے میں کسی کو بھی اقبال میں ایک اچھے شاعر، مگر عام معیار کے شاعر کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ یا اگر آپ اجازت دیں تو یہ کہوں کہ دیکھنے والوں کی کوتاہ نظری نہ تھی بلکہ اس وقت وہ چیز موجود ہی نہ تھی جو بعد میں بن گئی۔ شمس العلما سید میر حسن مرحوم و مغفور کی تربیت سراسر ادبی تھی۔ پروفیسر آرنلڈ کا فیض تعلیم مطالعہ فلسفہ و تحقیق علمی کا رہنما ہوا۔ تصوف کی بنیاد گھر میں پڑ چکی تھی کہ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ اصل سرچشمہ، جہاں سے اقبال نے تلاش حق کی، کبھی نہ بجھنے والی پیاس کو بار بار تسکین دی، قرآن حکیم ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے۔ 11؎‘‘ 1890ء کا ذکر ہے حکیم احمد شجاع مرحوم کے والد حکیم شجاع الدین محمد نے بھاٹی دروازے کے اندر بازار حکیماں میں انجمن اتحاد کی بنیاد ڈالی جس کے زیر اہتمام مجالس مشاعرہ برپا ہونے لگیں۔ یہ مشاعرہ ہر ہفتے حکیم امین الدین بیرسٹر کے دولت کدے پر منعقد ہوتا تھا اور جو طرحی اور غیر طرحی کلام پڑھا جاتا تھا، ماہ نامہ’’ شور محشر‘‘ میں شائع ہو جاتا تھا۔ شعرا میں رقابت کا بازار بھی گرم تھا۔ مرزا ارشد گورگانی دبستان دہلی کے حامی تھے اور میر ناظر حسین ناظم دبستان لکھنو کی نمائندگی فرماتے تھے۔ دونوں کی ٹولیاں جب اس بزم مشاعرہ میں اپنا اپنا رنگ جمانے کے لیے مصروف غزل خونی ہوتی تھیں تو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے انیس اور دبیر کی رقابت کا نقطہ کھینچ جاتا تھا۔ لطف یہ ہے کہ اس زمانے میں بھی میر اور میرزا ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے اور اس زمانے میں بھی پنجاب کے شعرا میر اور میرزا کے زیر قیادت میدان سخن طرازی میں ایک دوسرے سے مصروف پیکار رہتے تھے۔ اقبال نے اپنی پہلی غزل اسی مشاعرے میں پڑھی12؎ اور جب یہ شعر سنایا: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے تو مرزا ارشد گورگانی اچھل پڑے اور کہنے لگے:ا قبال! اس عمر میں یہ شعر؟13؎ یہاں سے اقبال کی شاعرانہ شہرت کا آغاز ہوا اور وہ وقتاً فوقتاً اس مشاعرے میں اپنا کلام سناتے رہے ایک محفل میں داغ کی شاگردی پر یوں اظہار فخر کیا: نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخن داں کا اس دن منشی محمد الدین فوق سے اقبال کی ملاقات ہوئی۔ ’’ ذوق و مشرب سے یکگانگی کی بنا پر دونوں کی طبیعت مل گئی اور ان میں کچھ ایسی الفت و محبت ہو گئی جسے جیتے جی زمانے کی دست برد کوئی گزند پہنچا نہ سکی۔ 14؎‘‘ منشی محمد الدین فوق ہی نے اقبال کو 1896ء میں انجمن کشمیری مسلمانان ہند کی پہلی مجلس میں بلایا اور انہی کی تحریک پر اقبال نے پچیس اشعار کی ایک نظم پڑھی جس کا پہلا مصرع تھا:’’ کیا تھا گردش ایام نے مجھے محزوں‘‘ 1899ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجتماع میں اقبال نے اپنی نظم ’’ نالہ یتیم‘‘ ترنم کے ساتھ سنائی تو اس پر ہزاروں سامعین اشک بار ہوئے اور دور دور تک اس نظم کی دھوم مچ گئی۔ 15؎ 27مارچ1898ء کو سرسید احمد خان اللہ کو پیارے ہوئے۔ مولانا حالی لکھتے ہیں۔’’ اگرچہ سرسید کی وفات کی بے شمار تاریخیں لکھی گئی لیکن دو عربی مادے عجیب و غریب نکلے ہیں: ایک غفرلہ اور دوسری قرآن مجید کی یہ آیت: انی متوفیک و رافک والی مطہرک16؎‘‘ اس سلسلے میں سالک، سید ذکی شاہ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب سرسید فوت ہوئے تو اقبال چند دنوں کے لیے سیالکوٹ میں آئے ہوئے تھے۔ مولانا میر حسن نے سر راہے اقبال سے کہا، ذرا تاریخ کی فکر کرنا۔ اقبال نے ذکی شاہ کے ہاتھ یہ تاریخ وفات لکھ بھیجی انی متوفیک ورافعک والی مطہرک میر حسن نے سنی تو کہا خوب ہے۔ میں نے بھی ایک تاریخ نکالی ہے: غفرلہ ’’ حیات جاوید‘‘ میں دونوں تاریخیں تو آ گئیں لیکن نام کسی کا بھی درج نہیں تھا۔ میر حسن نے حالی کو شکایتی خط لکھا تو انہوں نے معذرت کر بھیجی اور کہا مجھے ناموں کا علم نہ ہو سکا۔ اب انشاء اللہ دوسرے ایڈیشن میں نام ضرور لکھ دوں گا۔ 17؎ بہرحال وہ یہ وعدہ ایفا نہ کر سکے۔ سر عبدالقادر انیسویں صدی میں اقبال کی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں: 1901ء سے غالباً دو تین سال پہلے میں نے انہیں پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرہ میں دیکھا۔ اس بزم میں ان کو چند ہم جماعت کھینچ کر لائے تھے اور انہوں نے کہہ سن کر ایک غزل بھی ان سے پڑھوائی۔ اس وقت تک لاہور میں لوگ اقبال سے واقف نہ تھے۔ چھوٹی سی غزل تھی، سادہ سے الفاظ، زمین بھی مشکل نہ تھی مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا، بہت پسند کی گئی۔ اس کے بعد دو تین مرتبہ بھی اسی مشاعرہ میں انہوں نے غزلیں پڑھیں اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ایک ہونہار شاعر میدان میں آیا ہے۔ مگر یہ شہرت پہلے پہلے لاہور کے کالجوں کے طلبہ اور بعض اور ایسے لوگوں تک محدود رہی جو تعلیمی مشاغل سے تعلق رکھتے تھے۔ اتنے میں ایک ادبی مجلس قائم ہوئی جس میں مشاہیر شریک ہونے لگے اور نظم و نثر کے مضامین کی اس میں مانگ ہوئی۔ شیخ محمد اقبال نے اس کے ایک جلسہ میں اپنی وہ نظم جس میں وہ کوہ ہمالیہ سے خطاب ہے، پڑھ کر سنائی۔ اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں، اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی۔ مذاق زمانہ اور ضرورت وقت کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی۔17؎ انیسویں صدی اپنی بساط لپیٹنے کے لیے پر تول رہی تھی۔ بیسویں صدی کی آمد آمد تھی۔ وہ جوان رعنا،جو اٹھارہ برس کی عمر میں لاہور آیا تھا، دنیاوی اعتبار سے کامیاب تھا کہ تعلیم کی تکمیل ہوئی۔ شعر و شاعری میں نکھار آنے لگا اور ادبی حلقوں میں جان پہچان ہو گئی۔ اب وہ پورے اعتماد کے ساتھ زندگی کے ایک نئے موڑ پر کھڑا تھا۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ Lahore: Its history, architectural remains and antiquities. (مختلف مقامات سے) 2۔ ایضاً ص303 3۔ ’’ کلاسیکی ادب میں تحقیقی مطالعہ‘‘ صفحات17-312 یہ معلومات یونیورسٹی کی دستاویزات پر مبنی ہیں۔ 4 ۔ ایضاً ص317 5۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص17 6۔ ’’ بانگ درا‘‘ کا دیباچہ ص’’ ح‘‘ 7۔ صفحات36, 40 Letters and Writings of Iqbal (بحوالہ مقالہ مطبوعہ ’’ پاکستان ٹائمز‘‘ 21اپریل 1955ئ) 8۔ Lahore: Its history, architectural remains and antiquities. صفحات254, 261, 67, 265, 280 9۔ ’’ صحافت پاکستان و ہند میں‘‘ صفحات22, 306 10۔’’ مطالعہ اقبال‘‘ ص22 11۔ ایضاً، صفحات24, 19 12۔’’ خون بہا‘‘ ص97-196 13۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص18 14۔’’ مطالعہ اقبال‘‘ ص85-86 15۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص18 16۔’’ حیات جاوید‘‘ ص343 17۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص19 18۔’’ بانگ درا‘‘ کا دیباچہ ص’’ ط‘‘ ٭٭٭ چوتھا باب تحقیق اور تدریس صدی1؎ پلٹنے کو تھی کہ پروفیسر آرنلڈ کی نگہ انتخاب نے اقبال کو ایک ایسے منصب پر فائز کیا جہاں شعر و شاعری کے پہلو بہ پہلو تحقیق، تصنیف و تالیف، ترجمے اور تدریس کے باب بھی کھل گئے۔ گویا مشاغل میں ایک بے پناہ تنوع پیدا ہو گیا اور اقبال کا کمال یہ تھا کہ پورے ریاض سے کام لے کر جملہ مشاغل سے بیک وقت عہدہ برآ ہوتے رہے۔ جس وقت انہوں نے ایم اے کیا، اس وقت حسن اتفاق سے اورینٹل کالج کی پرنسپل شپ پر پروفیسر آرنلڈ عارضی طور پر متمکن تھے۔ انہوں نے اقبال کو میکلوڈ عریبک ریڈر کے عہدے پر مقرر کر دیا۔ یہ ایک ریسرچ فیلو شپ تھی جس کا معاوضہ ایک سو روپے ماہانہ تھا۔ یہ ملازمت13 مئی 1899ء کو شروع ہوئی، 12 مئی 1903ء کو ختم ہوئی۔ اس دوران میں چھٹی لے کر انہوں نے چھ ماہ گورنمنٹ کالج میں پروفیسری کی اور چھ ماہ اسلامیہ کالج میں گویا میکلوڈ عریبک ریڈر کی حیثیت سے اورینٹل کالج میں تین سال کام کیا۔ فیلو شپ کے فرائض یہ تھے: اول، عربی کتب نصاب کی چھپائی کی نگرانی، دوم: عربی یا انگریزی کتابیں اردو میں ترجمہ کرنا۔ سوم: اورینٹل کالج میں تدریس اس فیلو شپ کے دوران میں اقبال کا سب سے پہلا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے چودھویں صدی عیسوی کے مشہور صوفی اور فلسفی عبدالکریم الجیلی کے نظریہ توحید مطلق پر انگریزی زبان میں ایک بھرپور مقالہ تیار کیا جو بمبئی کے مجلہ Indian Antiquary کے شمارہ ستمبر1900ء میں چھپا۔ عبدالکریم الجیلی نے علاوہ دوسری کتب کے ایک کتاب لکھی تھی۔۔۔۔’’ الانسان الکامل فی معرفت الاواخر والاوائل اقبال نے اس کتاب کے مطالب بھی بیان کیے اور ان کا محاکمہ بھی کیا۔‘‘ انہوں نے آخر میں لکھا: ’’ اس (الجیلی) کے نظریہ انسان کامل کی تلخیص کے دوران میں ہم نے دیکھا کہ اگرچہ اس نے جدید جرمن فلسفے، بالخصوص ہیگل کے فلسفے کے بہت سے بڑے بڑے نظریات کی پیش بینی کی ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک باقاعدہ مفکر نہیں ہے۔ وہ سچائی کی دیکھتا ہے لیکن ایک صحیح اور فلسفیانہ طریق کار کے ذریعے سے لیس نہ ہونے کی وجہ سے اپنے موقف کے حق میں مثبت شواہد پیش نہیں کر سکتا۔ تصوف کے اندر رہتے ہوئے اس نے کچھ ایسے اشارے کنائے کیے ہیں جنہیں آگے بڑھایا جا سکتا ہے اور ان سے ایک فلسفیانہ نظام وجود میں آ سکتا ہے۔ لیکن یہ افسوس کا مقام ہے کہ اس قسم کا مثالی تفکر بعد میں آنے والے مسلمان مفکرین نے اختیار نہیں کیا۔2؎‘‘ عبدالکریم الجیلی کی کتاب میں انسان کامل کا جو تصور پیش ہوا۔ اقبال نے اس پر مزید تفکر کیا۔ اس کتاب میں’’ شعور خویشتن‘‘ شعور دیگرے اور شعور ذات حق کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے تفکر کا آغاز اسی مقالے سے ہوا۔ اقبال نے یہ مقالہ کیوں لکھا: اس کا جواب مقالے کے ابتدائی حصے میں ملتا ہے، ملاحظہ فرمائیے: ’’ جہاں یورپی فضلا نے قدیم ہندو فلسفے پر تحقیق میں ان تھک جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے، وہاں انہوں نے اسلامی فلسفے کو محض ارسطو اور افلاطون کے نظریات کی غیر ترقی پسندانہ تکرار قرار دیا ہے۔ اگرچہ حالیہ سالوں میں عربی ادب کے اس حصے پر کچھ توجہ دی گئی ہے لیکن جتنا کام کیا گیا ہے، وہ اس کام کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا جو کیا جا سکتا ہے۔ عربی فلسفے کی جانب نسبتاً غافلانہ طرز عمل غالباً اس وقت سے ظاہر ہے جب سنسکرت ادب دریافت ہوا۔ ہم فلسفیانہ فراست میں ہندوؤں کی برتری تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مسلمان مفکرین کی ذہنی آزادی کو نظر انداز کر دیں۔3؎‘‘ پس آگے چل کر اقبال نے جو فلسفیانہ تفکر کیا، اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو خلا پیدا ہو چکا تھا اسے پر کیا جائے۔ میکلوڈ عریبک ریڈر کی حیثیت سے اقبال نے ایک تو Stubb کی کتاب Early Plantagenets کی تلخیص و ترجمہ کا کام کیا۔ یہ تاریخ کی کتاب تھی اور اس میں ہنری دوم سے رچرڈ سوم تک برطانوی بادشاہوں کے ادوار کا احاطہ کیا گیا تھا۔ دوسرے Walker کی کتاب Political Economy (معاشیات کے اصول) کا تلخیص و ترجمہ کیا۔ تیسرے ’’علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی۔ علامہ نے اس کے دیباچے میں بتایا کہ اس کتاب کے لکھنے کی تحریک پروفیسر آرنلڈ کی طرف سے ہوئی اور شبلی نعمانی نے اس کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابل قدر اصلاح دی۔ اقبال نے یہ بھی لکھا کہ ’’ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کئے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے مگر صرف اس صورت میں، جہاں مجھے اپنی رائے کی صحت پر پورا اعتماد تھا۔4؎‘‘ تحقیق و ترجمہ کے پہلو بہ پہلو میکلوڈ عریبک ریڈر کی حیثیت سے تدریس بھی ان کے سپرد تھی۔ ہر روز تین لیکچر دیتے تھے۔ انٹرمیڈیٹ کے سال اول اور سال دوم کے طلبہ کو ہر روز ایک ایک لیکچر فلسفے پر دیتے تھے اور بی او ایل کی کلاسوں کو ہفتے میں چار لیکچر تاریخ انگلستان پر دیتے تھے اور دو معاشیات پر۔ اس ملازمت کے دوران میں کچھ وقفے بھی آئے۔ یکم جنوری 1910ء سے 3 اکتوبر1901ء تک اقبال بلا تنخواہ چھٹی پر تھے۔ اس وقفے میں انہوں نے ایک تو ایکسٹرا سسٹنٹ کمشنری کے لیے مقابلے کا امتحان دیا، اس میں کامیاب ہوئے لیکن جب طبی معائنہ ہوا تو غیر موزوں قرار دیے گئے حالانکہ بہ ظاہر ان کی صحت نہایت اچھی تھی، سرخ و سفید تھے اور اکھاڑے میں ڈنٹر پیلا اور مگدر ہلایا کرتے تھے۔ اس بے انصافی کے خلاف ’’ پیسہ اخبار‘‘ اور’’ کشمیری گزٹ‘‘ نے احتجاجی نوٹ لکھے۔ 5؎ بہرحال: اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا کہ ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بن جاتے تو زندگی کا رخ بالکل مختلف ہو جاتا۔ اسی وقفے کے دوران میں انہیں اسلامیہ کالج میں چند مہینے کے لیے پروفیسری کا موقع ملا، جس کا تذکرہ ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین نے یوں کیا:’’ شیخ عبدالقادر ان دنوں اخبار آبزرور (دی پنجاب آبزرور) کے ایڈیٹر اور اسلامیہ کالج میں ادبیات انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انہیں چند روز کی رخصت لینی پڑی تو ان کی جگہ اقبال مرحوم یہ فرائض انجام دیتے رہے۔ میں ان دنوں ایف اے کا طالب علم تھا۔ نصاب میں After God Seekers 6؎ یعنی متلاشیان حق کے نام سے ایک کتاب شامل تھی جس میں زمانہ قبل از مسیح کے تین حکما کی سرگزشتیں درج تھیں۔ عیسائی مصنف نے ان متلاشیان حق کے بعض اقوال کا موازنہ انجیل کی آیات سے کیا۔ لیکن علامہ مرحوم نے کلام پاک کی ان آیات سے ان اقوال کی تشریح کی جو ان کے ساتھ مطابقت رکھتی تھیں۔ موازنے کے دوران آپ یہ بھی ثابت کرتے جاتے تھے کہ قرآن کی آیات ان اقوال سے بدرجہا افضل اور بہر نوع اکمل ہیں۔ اسلامیہ کالج کی چند روزہ پروفیسری نے ہی آپ کے تبحر علمی کا سکہ بٹھا دیا۔ 7؎‘‘ تقریباً ایک سال بعد اقبال گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے ایڈیشنل پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہ اسامی چھ مہینے کے لیے تھی، اس لیے فراغت کے بعد اصل ملازمت پر لوٹ آئے۔ 3جون 1903ء کو انہیں اسی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر کر دیا گیا۔ یہ مستقل ملازمت تھی اور انہیں فلسفے کی تدریس کا کام سونپا گیا۔ 1905ء میں اسی ملازمت سے چھٹی لے کر اقبال یورپ گئے۔ جوانی کے دوران ہی میں اقبال نے یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ نہایت متنوع موضوعات میں دسترس رکھتے ہیں۔ تصنیف و تالیف کی تو معاشیات، فلسفے اور تاریخ پر۔ تدریس کی تو تاریخ، معاشیات، فلسفے اور انگریزی ادب میں، طرہ یہ کہ شعر و شاعری کا مشغلہ بھی جاری رہا اور اس میں بڑا نام پایا۔ یہی نہیں، اس دور میں اردو رسائل میں جو مضامین لکھے وہ بھی متنوع موضوعات میں دسترس کا ایک اہم ثبوت ہیں۔ اس زمانے میں علم و ادب کی دنیا میں ماہ نامہ ’’ مخزن‘‘ کا طوطی بولتا تھا جو شیخ عبدالقادر نے جنوری 1901ء میں جاری کیا۔ ’’ مخزن‘‘ محض ایک رسالہ نہیں تھا، ایک ادبی تحریک کا بھی داعی تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ پڑھا لکھا طبقہ اردو ادب کو تازہ بہ تازہ اور نوع بہ نوع خیالات اور اصناف سے مالا مال کرے۔ شیخ عبدالقادر اور اقبال کے درمیان دوستانہ مراسم استوار ہو چکے تھے۔ چنانچہ اقبال نے بھی ’’ مخزن‘‘ میں مضمون نگاری فرمائی اور نئے خیالات کی تخلیق اور نمو میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ جب بعض لوگوں نے اقبال کی شاعری میں یہ کہہ کر کیڑے ڈالے کہ ان کی زبان میں محاوروں کی غلطیاں ہیں تو اقبال نے ایک مفصل مقالہ لکھا جس میں اعتراضات کا جواب دیا لیکن زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ انہوں نے زبان کے مسئلے پر چند کھری کھری باتیں کہہ ڈالیں۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’ جو زبان ابھی زبان بن رہی ہو اور جس کے محاورات و الفاظ جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتاً اختراع کیے جا رہے ہوں، اس کے محاورات وغیرہ کی صحت و عدم صحت کا معیار قائم کرنا میری رائے میں محالات سے ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ اردو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک محدود تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا، اس واسطے اس بولی نے ہندوستان کے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کرنا شروع کر دیا اور کیا تعجب ہے کہ کبھی تمام ملک ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رواج ہو، وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت، ان کی تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثر کیے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ ایک مسلم اصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے تعجب ہے کہ میز، کمرہ، کچہری، نیلام وغیرہ اور فارسی اور انگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے کو بلا تکلف استعمال کرو لیکن اگر کوئی شخص اپنی اردو تحریر میں کسی پنجابی محاورے کا لفظی ترجمہ یا کوئی پر معنی پنجابی لفظ استعمال کر دے تو اس کو کفر و شرک کا مرتکب سمجھو۔ اور باتوں میں اختلاف ہو تو ہو لیکن یہ مذہب منصور ہے کہ اردو کی چھوٹی بہن یعنی پنجابی کا کوئی لفظ اردو میں گھسنے نہ پائے۔ یہ قید ایک ایسی قید 8؎ ہے جو علم زبان کے اصولوں کے صریح مخالف ہے۔‘‘ پورے دو سال بعد اقبال نے ’’ مخزن‘‘ ہی میں قومی زندگی کے موضع پر ایک مقالے میں لکھا: ’’ جس طرح اس وقت ہمیں تائید اصول مذہب کے لیے ایک جدید علم کلام کی ضرورت ہے، اسی طرح قانون اسلامی کی جدید تفسیر کے لیے ایک بہت بڑے فقیہ کی ضرورت ہے جس کے قوائے عقلیہ و متخیلہ کا پیمانہ اس قدر وسیع ہو کہ وہ مسلمات کی بنا پر قانون اسلامی کو نہ صرف ایک جدید پیرائے میں مرتب و منظم کر سکے، بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکن صورتوں پر حاوی ہو۔ 9؎‘‘ گویا تشکیل فقہ جدید اور اجتہاد کے بارے میں اقبال نے بعد میں جو کچھ لکھا، اس کی بنیاد 1904ء ہی میں ڈال دی۔ اس دور میں شاعری میں ایک نیا نکھار اور آمد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ شیخ عبدالقادر بتاتے ہیں کہ اقبال دن رات علمی صحبتوں اور مشاغل میں بسر کرتے تھے۔ طبیعت زوروں پر تھی۔ شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے، ایک ایک نشست میں بے شمار شعر ہو جاتے۔ ان کے دوست اور بعض طالب علم، جو پاس ہوتے، پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے اور وہ اپنی دھن میں کہتے جاتے۔ میں نے اس زمانے میں انہیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ ابلتا معلوم ہوتا تھا۔ ایک خاص کیفیت رقت کی عموماً ان پر طاری رہتی تھی۔ اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے۔ خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ ابتدا میں اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے۔ ایک جلسہ عام میں ترنم کی فرمائش قبول کی تو ایسا سماں بندھا کہ سکوت کا عالم چھا گیا اور لوگ جھومنے لگے، اور یہاں سے ترنم کا سلسلہ چل نکلا۔ حافظہ ایسا پایا تھا کہ جتنے شعر زبان سے نکلیں، اگر وہ ایک مسلسل نظم کے ہوں تو سب کے سب دوسرے وقت اور دوسرے دن اسی ترتیب سے حافظے میں محفوظ ہوتے جس ترتیب سے وہ کہے گئے تھے۔ شیخ عبدالقادر بتاتے ہیں کہ مجھے بہت سے شعرا کی ہم نشینی کا موقع ملا اور بعض کو میں نے شعر کہتے بھی دیکھا اور سنا، مگر یہ رنگ کسی اور میں نہیں دیکھا۔10؎ لوگ جس ذوق و شوق اور انہماک سے کلام سنتے، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے عزیز دوست نواب ذوالفقار علی خان نے لکھا کہ جب اقبال بڑے بڑے اجتماعات میں اپنا کلام سناتے تو لوگ تحسین و ستائش کے ڈونگرے برساتے اور ناقابل بیان جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے تھے۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ صاحب ذوق حاضرین نے اتنا کلام سنا کہ اقبال پر نقاہت کا عالم طاری ہو گیا۔ جہاں اقبال جاتے، وہاں کسی اور کا چراغ نہ جلتا۔ یہ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ ایک نوجوان شاعر اچانک اتنی ہر دلعزیزی حاصل کرے کہ عوام کا محبوب بن جائے۔ 11؎ انجمن حمایت اسلام مسلمانوں کا قومی ادارہ تھا۔ اس کا سالانہ جلسہ ایک قومی میلے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس میں شرکت کے لیے دور دور سے علمائ، فضلا اور شعرا آتے تھے۔ اقبال اتنے ہر دلعزیز تھے کہ انہیں تقریباً ہر سالانہ اجلاس میں بلایا گیا اور ان سے کلام سنا گیا۔ ایک دفعہ الطاف حسین حالی نظم سنانے لگے لیکن مجمع بہت زیادہ تھا اور ان کی آواز سب تک نہیں پہنچتی تھی۔ اس پر تقاضا ہوا کہ یہی نظم اقبال سے پڑھوائی جائے۔ چنانچہ اقبال کو سٹیج پر بلایا گیا۔ انہوں نے نظم پڑھنے سے پہلے یہ فی البدیہہ رباعی پڑھی: مشہور زمانے میں ہے نام حالی معمور مے حق سے ہے جام حالی میں کشور شعر کا نبی ہوں گویا جاری ہے مرے لب پہ کلام حالی اس کے بعد حالی کی نظم نہایت پر تاثیر لے میں سنائی۔ 12؎ سرسید احمد خاں اور سید جمال الدین افغانی کی طرح اقبال کو بھی اپنے عہد کے مولویوں سے حسن ظن نہیں تھا، یعنی ایسے مولویوں سے جو ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں ایک قطعہ پڑھا جس کے ابتدائی اشعار یہ تھے: بھاٹی دروازے کی جانب ایک دن جاتا تھا میں شام کو گھر بیٹھے رہنا قابل الزام ہے خضر صورت مولوی صاحب کھڑے تھے ایک وہاں ہم مسلمانوں میں ایسی مولویت عام ہے وعظ کرتے تھے نہ مسلم کوئی انگریزی پڑھے کفر ہے آغاز اس بولی کا کفر انجام ہے 13؎ اسی سال ایک مقالے میں انہوں نے لکھا کہ ’’ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی تمام نوع انسان کو جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے۔۔۔۔ مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں اتفاق سے دو جمع ہو جائیں تو۔۔۔۔ بالعموم بحث چھڑ جاتی ہے۔ ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ پرانا علم و فضل، جو علمائے اسلام کا خاصا تھا، نام کو بھی نہیں۔ ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص سے اس میں روز بروز اضافہ رہتے ہیں۔ 14؎‘‘ اس زمانے کی شاعری میں دو باتیں نمایاں ہیں۔ اول:’’ مظاہر فطرت، ہنگامہ کائنات اور حسن و جمال کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے اقبال سراپا استفہام و استفسار ہے۔ اس کے دل میں ایک تڑپ ہے کہ کسی نہ کسی طرح حقائق اشیا میں ڈوب کر ان کا سراغ لگا لے۔‘‘ دوم: اقبال متحدہ قومیت کی طرف مائل تھے۔ وطنیت کے اس تصور کے حامی تھے جس سے بعد میں واضح انحراف کیا۔ ہیئت کے اعتبار سے اقبال کی شاعری اس بنا پر منفرد تھی کہ اس نے اظہار کے لیے جدید اسلوب اختیار کیا اور اس میں انگریزی شاعری سے بھی اثر اقبال کیا۔ زبان کے سلسلے میں دو رحجان نمایاں تھے۔ بعض نظموں میں فارسی تراکیب کی فراوانی اور بعض میں سادہ اور آسان زبان کا استعمال۔ 1904ء میں پروفیسر آرنلڈ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو کر عازم انگلستان ہوئے۔ روانگی کے وقت اقبال نے ’’ نالہ فراق‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں استاد کی عظمت کا ذکر تھا، علم کی تشنگی کا اظہار تھا اور انگلستان جانے کا عزم بھی شامل تھا۔ اگلے سال اللہ تعالیٰ نے اس آرزو کی تکمیل کے اسباب پیدا کر دیے۔ کچھ پیسہ پس انداز کر رکھا تھا، کچھ بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے فراہم کر دیا۔ یکم ستمبر1905ء کو دہلی پہنچے۔ خواجہ حسن نظامی اور میر غلام بھیک نیرنگ کی رفاقت میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار پر حاضری دی۔ سارا دن وہاں بسر کیا۔ ’’ التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے ایک نظم پڑھی جس میں گزارش کی: چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو فلک نشیں صفت مہر ہوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نروباں مجھ کو مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو شام کے وقت مزار سے رخصت ہونے کو تھے۔ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہو جائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں۔ ’’خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے۔ جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے جس پر دہلی کی خاک ہمیشہ ناز کرے گی‘‘ حسن اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام موجود تھا۔ اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر: دل سے نگاہ جگر تک اتر گئی کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہو گئیں۔ بالخصوص اس نے جب یہ شعر پڑھا: وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھتے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی تو مجھ سے ضبط نہ ہو سکا، آنکھیں پرنم ہو گئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدہ سے رخصت ہوا۔ ’’ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے میں فاتحہ پڑھی۔ دار شکوہ کے مزار پر گئے اور 3 ستمبر کی صبح کو احباب کو الوداع کہہ کے بمبئی کو روانہ ہو گئے۔ 15؎‘‘ 7ستمبر کو ان کا جہاز منزل کی طرف رواں دواں ہوا۔ بھانت بھانت کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ جب عدن قریب آیا تو اقبال کے دل پر جو واردات گزری، وہ انہی کی زبانی ملاحظہ ہو: ’’ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے اس کی داستان کیا عرض کروں۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں: اللہ رے خاک پاک مدینہ کی آبرو خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا اے عرب کی مقدس سر زمین! تجھ کو مبارک ہو۔ تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور مسلمانوں کو تمازت آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیری ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میرے زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں تیرے صحراؤں میں لٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کہ تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پروانہ کرتا ہوا اس پاک سر زمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں بلالؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔ 16؎‘‘ اقبال کسی مجبوری کے سبب سے عدن میں اتر نہ سکے لیکن جب مسلمان تاجروں کی کثیر تعداد نے تختہ جہاز پر بازار لگا دیا تو اقبال کو سلیمان اعظم یاد آ گیا’’ جس کی وسعت تجارت نے اقوام یورپ کو ڈرا کر ان کو ہندوستان کی ایک نئی راہ دریافت کرنے کی تحریک کی تھی۔‘‘ دکان داروں کو جب معلوم ہوا کہ اقبال مسلمان ہیں تو ان کے گرد حلقہ باندھ کر ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہنے لگے اور دعائیں دینے لگے۔ اقبال نہر سوئیز سے گزرتے ہوئے اس وقت بہت متاثر ہوئے جب قریب سے گزرتے ہوئے جہاز میں سپاہی ترکی ٹوپیاں پہنے نہایت خوش الحانی سے عربی غزل گا رہے تھے۔ پورٹ سعید پہنچے تو اتر کر اس شہر کی سیر کی اور اس بات پر افسوس ہوا کہ انگریزوں کا حصہ صاف ہے اور مسلمانوں کا میلا۔ جہاز کو لوٹے تو ایک اور نظارہ دیکھنے میں آیا جو انہی کی زبانی ملاحظہ ہو: ’’ تختہ جہاز پر تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا۔ ان عورتوں میں ایک لڑکی، جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی، نہایت حسین تھی۔ مجھے دیانت داری سے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس کے حسن نے تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر سخت اثر کیا لیکن جب اس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تماما ثر زائل ہو گیا کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن، جس پر استغنا کا غازہ نہ ہو، بدصورتی سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔‘‘ جہاز بحیرہ روم میں داخل ہوا تو سمندر کے نظارے نے شعر پر مائل کیا اور آپ نے وہ غزل لکھی جس کا مطلع ہے: مثال پر تو مے طوف جام کرتے ہیں یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں اٹلی کا ساحل نظر آیا تو یہ شعر ہو گیا: ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو جہاز پر سے تمہیں ہم سلام کرتے ہیں فرانس کی مشہور بندرگاہ میں آٹھ دس گھنٹے کا وقفہ مل گیا، اس لیے خوب سیر کی۔ اقبا ل لکھتے ہیں: ’’ مارسیلز کا نوٹر ڈام گرجا نہایت اونچی جگہ پر تعمیر ہوا ہے اور اس کی عمارت دیکھ کر دل پر یہ بات منقوش ہو جاتی ہے کہ دنیا میں مذہبی تاثیر ہی حقیقت میں تمام علوم و فنون کی محرک ہوئی ہے۔‘‘ مارسیلز سے ڈوور اور ڈوور سے لندن پہنچے۔ شیخ عبدالقادر پذیرائی کے لیے موجود تھے۔ دور سے دیکھا اور دوڑ کر بغلگیر ہو گئے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ اس مقالے میں میکلوڈ عریبک ریڈر شپ اور پروفیسر شب کے بارے میں جو معلومات پیش کی گئی ہیں، وہ ڈاکٹر وحید قریشی کے مقالے ’’ علامہ اقبال کی تعلیمی زندگی کی بعض تفصیلات‘‘ اور’’ علامہ اقبال اور اسلامیہ کالج‘‘ مندرجہ ’’ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ‘‘ (لاہور1965ئ) اور ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے مقالہ ’’ اقبال، اورینٹل کالج میں‘‘ مندرجہ’’ مطالعہ اقبال‘‘ مرتبہ گوہر نوشاہی (لاہور1971ئ) سے لی گئی ہیں۔ دونوں حضرات نے اصل دستاویزات کے مطالعے کے بعد یہ بیش قیمت مقالے لکھے۔ 2۔ Thoughstandreflections of Iqbal صفحات26, 27 3۔ ایضاً، ص3 4۔ آثار اقبال، صفحات301, 302 5۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص23(بحوالہ کشمیری گزٹ ماہ اکتوبر1901ئ) 6۔ Rev. F. W. Farrar D.D. F.R.S Seekers after God, (London) 1902 7۔ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ۔ ص338 8۔’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات20, 21 (مطبوعہ ’’ مخزن‘‘ اکتوبر1902ئ) 9۔ ایضاً۔ ص55 (مطبوعہ ’’ مخزن‘‘ اکتوبر1904ئ) 10۔ ’’ بانگ درا‘‘ کا دیباچہ صفحات ی۔ ک۔ ل 11۔ A Voice From the East ص9 12۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات24, 25 (خواجہ فیروز الدین احمد کی زبانی) 13۔ ’’ ایضاً۔ ص25(روداد اد جلسہ انجمن حمایت اسلام 1904ئ)‘‘ 14۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات51, 52 15۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات43, 44’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات64, 63 ’’ مطالعہ اقبال‘‘ ص30 16۔’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات74, 75 (اخبار’’ وطن‘‘ لاہور6 اکتوبر1905ئ) 17۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات75, 83 ّ(’’ وطن‘‘ مورخہ22دسمبر1905ء میں مطبوعہ مقالے کی تلخیص) ٭٭٭ پانچواں باب دیار فرنگ میں لندن پہنچ کر اقبال کو اجنبیت کا احساس نہ ہوا کہ ان کے پرانے دوست شیخ عبدالقادر پذیرائی کے لیے موجود تھے۔ کچھ دن ان کے پاس رہے۔ بھولی بسری یادیں تازہ کیں۔ برعظیم سے آنے والے دوسرے طلبہ کے ساتھ محفلیں گرم ہوئیں اور اس کے بعد وہ کیمبرج کو روانہ ہوئے کہ شراب علم سے لذت اندوز ہونے کے لیے پہلی منزل وہی تھی۔ کیمبرج لندن کے شمال مشرق میں چھپن میل دور واقع ہے۔ لہو و لعب سے پاک اور پر سکون تعلیمی فضا کے لیے ان دنوں مشہور تھا۔ یونیورسٹی کے مختلف کالج اور اقامت گاہیں دریائے کیم کے آر پار پھیلی ہوئی ہیں۔ مغربی کنارے پر ٹرنٹی کالج واقع ہے جس میں اقبال نے بی اے میں داخلہ لیا کیونکہ کیمبرج اور آکسفورڈ میں اصل ڈگری بی اے ہی کی ہوتی تھی۔ ایم اے کا امتحان نہیں ہوتا تھا اور ایم اے کی ڈگری داخلہ برقرار رکھنے کی صورت میں چند سال بعد بغیر کسی امتحان کے دی جاتی تھی۔ ٹرنٹی کالج کی علمی روایات کا کوئی شمار نہیں تھا۔ یہ کالج 1350ء میں قائم ہوا۔ اس کے در و دیوار میں بڑی بڑی شخصیات نے علم و ادب کی دنیا میں نمو پائی۔ سولہویں صدی میں بیکن نے یہاں تعلیم پائی اور ایک فلسفی، سیاست دان اور انشائیہ نگار کی حیثیت سے چار دانگ عالم میں مشہور ہوا۔ سترہویں صدی میں نیوٹن نے یہاں تعلیم پائی اور سات سال کے اندر اندر کالج کا فیلو بن گیا اور سائنس کی دنیا میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ انیسویں صدی میں بائرن اور ٹینی سن جیسے طالب علم آئے بائرن کی شاعری کا آغاز ٹرنٹی کالج سے ہوا۔ ٹینی سن کے شعری ذوق نے بھی اسی درس گاہ پر ورش پائی۔ فٹنر جیرالڈ بھی انہی کا ہم عصر تھا جس نے عمر خیام کی رباعیات کو نہایت خوبصورتی سے انگریزی زبان میں منتقل کر کے ساری دنیا میں متعارف کرا دیا۔ اقبال پہلی ایشیائی شخصیت تھے جس نے علم کی غیر مختتم پیاس کی بدولت بڑا نام پیدا کیا اور اس درس گاہ کے لیے باعث فخر و مباہات بنے۔ اس زمانے میں کیمبرج یورپی فلسفے کے مطالعہ کا ایک بہت بڑا مرکز تھا۔ فلسفے کی تدریس پر ٹرنٹی کالج میں مشہور ہیگلی فلسفنی میک ٹاگرٹ فائز تھے۔ وہ خود بھی صوفی منش بزرگ تھے۔ اقبال نے نہ صرف ان کی نگرانی میں تعلیم پائی بلکہ تصوف کے مسائل پر ان کے ساتھ طویل مکالمے بھی کیے۔ اسی زمانے میں پروفیسر وائٹ ہیڈ اور پروفیسر وارڈ کی شخصیات بھی کیمبرج ہی میں تھیں۔ انہوں نے مغربی فلسفے کی تاریخ میں بڑا نام پایا تھا اور اقبال نے ان سے بھی فیض حاصل کیا۔ کیمبرج فارسی اور عربی کے مطالعہ کا بھی ایک عظیم مرکز تھا۔ اس زمانے میں دو فضلا بہت نامور تھے، ایک پروفیسر ای جی براؤن، دوسرے پروفیسر نکلسن دنیا بھر کے مستشرقین ان دونوں کی صلاحیتوں سے آشنا تھے۔ اقبال کے ان دونوں کے ساتھ دوستانہ روابط تھے جو آخری دم تک جاری ہے۔ 1؎ بی اے کنٹیب کے طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال نے قانونی تعلیم کے لیے لندن کے مڈل ٹمپل میں داخلہ لے لیا۔ اس کی روایتی شبینہ دعوتوں اور امتحانات میں شرکت کے لیے اقبال اکثر لندن جاتے رہتے تھے۔ جب جاتے، اپنے پرانے استاد، دوست اور رہنما پروفیسر ٹامس آرنلڈ کے ہاں قیام فرماتے جو اس وقت لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے۔ اقبال نے بی اے کنٹیب کر لیا تو لندن میں مستقل قیام کے سبیل پیدا ہوئی۔ پروفیسر آرنلڈ چھ مہینے کے لیے چھٹی پر گئے تو انہوں نے اپنے قائم مقام کی حیثیت سے اقبال کو مقرر کرا دیا۔ 2؎ چنانچہ اقبال چھ مہینے تک لندن یونیورسٹی میں عربی کی تدریس فرماتے رہے۔ کیا بات تھی ان کی متنوع صلاحیتوں کی؟ لاہور میں فلسفہ، تاریخ اور معاشیات کی تدریس فرمائی، لندن میں عربی کی، اور فارسی شاعری کی دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ 1905ء سے 1906ء تک اقبال کیمبرج میں رہے۔ اس زمانے میں حیدر آباد دکن کے سید علی بلگرامی جو ’’ تمدن عرب ‘‘ اور’’ تمدن ہند‘‘ کے تراجم کے لیے مشہور تھے، کیمبرج میں مرہٹی زبان کے استاد تھے۔ ان کا مکان برعظیم سے آنے والے تمام طلبہ کی معاشرتی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اقبال بھی ان میں پیش پیش تھے اور سید علی بلگرامی اور ان کی ذہین بیوی ان کی پذیرائی کرتے رہے۔ 3؎ اقبال نے 1906ء میں بی اے اے کینٹب کیا۔ 1908ء میں مڈل ٹمپل سے بیرسٹری کی سند حاصل کی اور درمیانی وقفے میں میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ’’ایران میں ما بعد الطبیعیات کی نشوو ارتقا‘‘ پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا اور اس میں وہ مقالہ بھی شامل تھا جو انہوں نے میکلوڈ عریبک ریڈر کی حیثیت سے عبدالکریم الجیلی کے نظریہ انسان کامل پر لکھا تھا۔ تین سال کے اندر اندر تینوں ڈگریوں کا حصول کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن اقبال نے اسے کر دکھایا اور اس طرح اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا ایک بین ثبوت فراہم کر دیا۔ لندن میں مسلم طلبہ کی اجتماعی سرگرمیوں میں بھی اقبال پیش پیش رہے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے عبداللہ انور بیگ لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں اسلام کے بارے میں برطانیہ میں بہت سی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی تھیں، کیونکہ برطانوی سیاست دان سمجھتے تھے کہ تحریک اتحاد عالم اسلامی (پین اسلامزم) یورپ کے لیے بالعموم اور مشرق وسطیٰ میں برطانوی مفادات کے لیے بالخصوص ایک عظیم خطرہ ہے۔ لندن میں ایک انجمن اسلام قائم تھی۔ حافظ محمود شیرانی اس کے سیکرٹری تھے۔ انجمن کا مقصد یہ تھا کہ جو ہندوستانی مسلمان انگلستان آئیں، ان کے لیے معاشرتی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بعض نوجوانوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انجمن کا نام پین اسلامک سوسائٹی رکھ دیا جائے۔ لیکن نوجوانوں کا ایک اور گروہ اس بنا پر مخالف تھا کہ اس سے انجمن سیاسی رنگ لے لے گی، حالانکہ سیاست اس کے مقاصد میں شامل نہیں ہے۔ عبداللہ سہروردی ’’ پین اسلامک‘‘ کے الفاظ پر زور دیتے تھے۔ لیکن پروفیسر آرنلڈ اور سید امیر علی اسے محض اسلامک سوسائٹی کے نام دینے کے حامی تھے۔ ابھی یہ بحث چل رہی تھی کہ سیکرٹری نے علامہ اقبال سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا: کیا آپ پین اسلامک کے الفاظ شامل کرنے کی تجویز میں میرا ساتھ دیں گے؟ اقبال نے اثبات میں جواب دیا۔ آخر کار سوسائٹی کے ارکان اس تجویز پر متفق ہو گئے۔ 4؎ مرزا جلال الدین بیرسٹر کا بیان اس سے قدرے مختلف ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم نے لندن میں انہی مقاصد کے پیش نظر پان اسلامک سوسائٹی کے نام سے ایک نیم سیاسی جماعت قائم کر رکھی تھی جس کے جنرل سیکرٹری عبداللہ سہروردی تھے اور سلطان احمد اور میں جائنٹ سیکرٹریز تھے۔ 5؎‘‘ بہرحال اتنی بات واضح ہے کہ اقبال اس انجمن کی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ اور اتحاد عالم اسلامی کا قائل ہونے کی وجہ سے عجب نہیں کہ اول الذکر بیان صحیح ہو اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقبال نے لندن میں اسلام پر جو چھ لیکچر دیے ان میں سے پہلا لیکچر اس سوسائٹی کے اہتمام میں کیکٹسن ہال میں ہوا۔ اقبال کے قیام یورپ کے دوران ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آ چکی تھی۔ مئی 1908 ء میں کیکسٹن ہال میں سید امیر علی کی صدارت میں لندن میں مقیم مسلمانوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برطانوی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سید امیر علی صدر چنے گئے اور علامہ اقبال کو مجلس عاملہ کا رکن منتخب کیا گیا، بلکہ قواعد و ضوابط کی ترتیب کے لیے جو کمیٹی مقرر ہوئی، اس میں بھی سید امیر علی اور سید حسن بلگرامی کے ساتھ علامہ اقبال شامل تھے۔ 6؎ برطانیہ اور یورپ میں اقبال کے مشاغل کیا تھے؟ اس کا جواب دینا مشکل نہیں کیونکہ جس شخص نے تین سال میں تین اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں، اس کے بارے میں یہ کہنا آسان ہے کہ اس نے کیمبرج اور برٹش میوزیم کے کتب خانوں کو کھنگال ڈالا اور بڑے بڑے اہل فکر و دانش کے ساتھ علمی مسائل پر تبادلہ خیالات کیا۔ لیکن اگر اقبال کو قریب سے دیکھنا ہو تو عطیہ بیگم کے اس کتابچے کا مطالعہ ضروری ہے جس میں حیات اقبال کے علمی اور لطیف پہلوؤں کی دلچسپ داستان درج ہے، اور اقبال کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ پس اب اس کتابچے سے چند اقتباسات دیے جاتے ہیں:7؎ ’’ اقبال ہائیڈل برگ میں اپنے اختیار کردہ تحقیقی کام کی تکمیل کے لیے مقیم تھا۔ ہائیڈل برگ میں ایسے تشنگان علم کے لیے ہر قسم کی سہولت میسر تھی یہاں دنیا کے معلومہ علوم کی ہر شاخ کا جوہر مقطر بنا کر علم کے دل دادگان کی دسترس میں لایا جاتا تھا، اس لیے ارباب حزم و عزم اس مقام کو زیارت گاہ کا درجہ دیتے تھے۔ا س قصبے میں ان کا کام طالبان علم کے خیال و عمل کی راہوں کو بدل دیتا تھا۔ اقبال نے جرمن زبان پر عبور حاصل کرنے میں بہ مشکل تین مہینے لیے تھے۔ صرف اسی بات نے پروفیسروں کی نگاہوں میں اسے عجوبہ روزگار بنا دیا تھا۔ اس امر نے اس کے صوفیانہ افکار سے مل کر اسے طلبہ کی عام سطح سے بلند و بالا متصور کرا دیا تھا۔‘‘ ’’ لندن میں مس بیک کے مکاں پر جہاں ہندوستانی طالب علم اور زائر اس غیر شاعرانہ اور بے رس ماحول سے جمع ہوتے تھے، میری اقبال سے ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر میں نے اقبال کو فارسی، عربی اور سنسکرت کا شناور پایا۔ حاضر جواب، دوسروں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کو ہمہ وقت تیار اور حاضرین پر کٹیلے فقرے کسنے میں تیز و طرار۔ اقبال کو حسب دل خواہ اپنے آپ کو خوشگوار اور عزیز خاطر بنانے کا ملکہ حاصل تھا۔ انجمن میں وہ انجمن آرا تھا۔ حاضر جوابی اور ثنا گستری میں کبھی پیچھے نہ رہا۔‘‘ عطیہ بیگم نے بتایا کہ اقبال حافظ کے بہت مداح تھے اور کہتے تھے کہ جب حافظ کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو اس کی روح میری روح میں حلول کر جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں۔ چند دن بعد ایک اور محفل میں علامہ نے موصوفہ کو بتایا کہ میں دوہری شخصیت کا مالک ہوں۔ باہر والا، عملی اور کاروباری۔ اندر والا، ایک خواب دیکھنے والا، فلسفی اور صوفی۔ 22 اپریل 1907ء کو علامہ شیخ عبدالقادر اور عطیہ بیگم کیمبرج گئے۔ دوپہر کے وقت کیمبرج میں سید علی بلگرامی کی قیام گاہ پر پہنچے۔ وہاں سارا دن تابناک اور عالمانہ گفتگو میں گزارا۔ عطیہ کہتی ہیں کہ جب اقبال تھکے تھکے سے اور اچاٹ سے لگتے تھے تو حقیقت میں اس انتظار میں ہوتے تھے کہ کسی کی بات پر بجلی کی سی سرعت کے ساتھ ایسی نکتہ طرازی کریں کہ وہ لاجواب ہو جائے۔ یکم جون1907ء کو پروفیسر آرنلڈ نے دریائے کیم کے کنارے ایک درخت کے سائے میں پکنک کی ایک محفل آراستہ کی جس میں بہت سے فضلا جمع تھے۔ پروفیسر آرنلڈ نے زندگی اور موت کے مسئلے پر ایک بحث چھیڑ دی، حاضرین نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن اقبال خاموش رہے۔ پروفیسر آرنلڈ نے ان سے پوچھا، آپ کی رائے کیا ہے؟ علامہ نے مسکرا کر جواب دیا کہ زندگی موت کا آغاز ہے اور موت زندگی کی شروعات۔ یہ نکتہ بہت گہرا تھا کہ اس میں حیات بعد الموت کے تصور کو اہمیت دی گئی۔ آٹھ دن بعد پروفیسر آرنلڈ کے ہاں ایک اور محفل جمی۔ پروفیسر موصوف نے بتایا کہ جرمنی میں ایک نایاب عربی مخطوطہ دریافت ہوا ہے جس کی قرات کی ضرورت ہے۔ پھر علامہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا’’ اقبال! اس کام کے لیے آپ بہت موزوں ہیں، اس لیے میں آپ ہی کو جرمنی بھیجوں گا۔‘‘ علامہ بولے، میں تو اپنے استاد کے مقابلے میں بالکل متبدی ہوں۔ لیکن پروفیسر آرنلڈ نے کہا، مجھے تو پورا یقین ہے کہ اس کام میں شاگرد استاد پر بازی لے جائے گا۔ اس پر علامہ نے کہا، جناب! اگر آپ کی رائے یہی ہے تو میں استاد کی رائے ے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔ 27جون کو ایک جرمن خاتون کے ہاں محفل طعام تھی۔ اس میں علامہ نے اپنی ڈاکٹریٹ کا مقالہ عطیہ بیگم کو سنایا۔ عطیہ اسے سن کر بہت متاثر ہوئیں کیونکہ ان کے نزدیک ’’ حرف حرف گواہی دے رہا تھا کہ اس پر کتنی تحقیق و تدقیق صرف ہوئی ہے4؎‘‘ ۔4جولائی کو علامہ نے عطیہ کو ایک اور مقالہ سنایا جس کا عنوان ’’ تاریخ عالم‘‘ تھا۔ یہ مقالہ جرمن امتحان کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس مقالے کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے ہوئے عطیہ نے لکھا ہے کہ اقبال’’ علم کے مخزن تھے ان کا حافظہ حیرت انگیز تھا۔‘‘ عمیق تر مطالعات میں دلچسپی بڑھی تو جولائی کے وسط میں تین دن تک ہر روز دو دو گھنٹے کی نشستیں ہوئیں۔ ان میں ایک جرمن پروفیسر بھی شامل تھا۔ موضوع بحث فلسفے کے مختلف رسائل رہے۔ یہ محفلیں علمی گھتیوں کو سلجھانے میں بہت مددگار ثابت ہوئیں۔ اقبال نے کہا ’’ دوسروں سے تبادلہ خیالات کرنے سے ایک نئی دنیا وا ہوتی ہے۔ میں جو کچھ بھی جانتا ہوں، میں نے اسی طریقے سے حاصل کیا ہے۔‘‘ اقبال نے عطیہ کو مشورہ دیا کہ اگر تم علم کے کسی شعبے میں وسعت نگاہ کی طالب ہو تو تمہاری منزل مقصود جرمنی ہی ہونی چاہیے۔ عطیہ بیگم ہی نے بتایا ہے کہ ہائیڈل برگ میں دو خوبصورت خاتون پروفیسروں۔۔۔۔ ویگے ناسٹ Wegenast اور سینے شل Seneshal سے اوق مضامین میں سبق لیتے تھے۔ ہر طالب علم کو پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ کشتی رانی، کلاسیکی موسیقی، گانے، باغبانی اور کوہ پیمائی بھی سیکھنی پڑتی تھی۔ اقبال کی دو کمزوریاں تھیں۔ ایک یہ کہ انہیں گانا نہیں آتا تھا۔ دوسری یہ کہ ان سے پابندی اوقات نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اساتذہ نے ان کمزوریوں کو قبول کر لیا۔ اس یونیورسٹی میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ کیا طلبہ اور کیا اساتذہ، سب کا معیار زندگی برابر تھا۔ پروفیسروں کو ایک رعایت تھی کہ انہیں طعام و قیام پر کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ لیکچروں کے بعد طلبہ کا ایک گروہ دونوں پروفیسروں کو لے کر کافی ہاؤس جا بیٹھتا اور وہاں فلسفے کے مختلف پہلوؤں پر مذاکرے اور مکالمے ہوتے۔ اقبال سننے میں اس درجہ محو ہوتے کہ رخصت کے وقت یوں لگتا جیسے ابھی ابھی خواب سے بیدار ہو رہے ہیں۔ ہر تفریح میں تدریس کا پہلو بھی ہوتا تھا۔ کافی ہاؤس سے فارغ ہو کر سب لوگ پہاڑی کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار قدم کی چڑھائی کرتے۔ سب سے کہا جاتاکہ چوٹی پر جو قلعہ واقع ہے، اس کی تاریخ بیان کرو، اقبال جو کہتے کہتے، وہ حرف بہ حرف درست ہوتا۔ 22اگست1907ء کو ایک پکنک کا اہتمام ہوا جو تعلیم و تفریح کاامتزاج تھی۔ مختلف مقامات سے طلبہ کو لیتے لیتے جب پروفیسر خواتین اقبال کی رہائش گاہ پر پہنچیں تو یہ دیکھ کر حواس باختہ ہو گئیں کہ اقبال پر استغراق کا عالم طاری ہے۔ وہ گرد و پیش سے بالکل بے خبر اپنے سامنے ایک کھلی کتاب کو خالی نظروں سے گھور رہے تھے۔ سب طالب علم حیران تھے کہ اقبال کو کیا ہو گیا ہے۔ عطیہ بیگم ان کے قریب پہنچیں، انہیں بلایا لیکن کوئی جواب نہ ملا۔ اس پر عطیہ نے پروفیسر کی مدد سے انہیں جھنجھوڑا، تب کہیں ہوش کے آثار نمودار ہوئے۔ اقبال بڑبڑائے کہ انہیں کیوں ڈسٹرب کیا گیا ہے۔ عطیہ نے کہا، یہ ہندوستان نہیں، ایک حقیقت پسند جرمن شہر ہے۔ بہرحال اس کے بعد اقبال تفریح میں شامل ہو گئے۔ سب چل رہے تھے کہ پروفیسر ویگے ناسٹ وہ ہندوستانی گیت الاپنے لگی جو رات عطیہ نے اسے سکھایا تھا: گجرا، بیچن والی نادان بہ تیرا نخرہ سب گیت میں شامل ہو گئے۔ ’’ چلتے چلتے ہار پرونے کے لیے جنگلی پھول بھی توڑتے جاتے تھے۔ اچانک قافلے نے ٹھہر کر مذاق و تفریح میں وہ بار اقبال کے گلے میں یہ کہتے ہوئے ڈال دیے کہ ہم تمہیں نامعلوم ملک کے بادشاہ کا تاج پہناتے ہیں۔‘‘ عطیہ نے بہت سی اور تعلیمی تفریحات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں سے ہم اب صرف ایک واقعہ بیان کریں گے۔ 28 اگست کو اقبال میونخ گئے جہاں پروفیسر ران کی بیٹی فراڈ لائن ران سے انہوں نے اولین اسباق لیے تھے اور جن کی نگرانی میں تھیس لکھا تھا۔ عطیہ لکھتی ہیں کہ ہم پروفیسر ران کے گھر گئے۔ ان کی بیٹی نے ’’ اقبال کا امتحان لینا شروع کر دیا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کن عمیق تر مطالعات میں مصروف ہے اور میونخ چھوڑنے کے بعد اس نے کتنا اکتساب کیا ہے۔ میں متحیر تھی کہ اس کا علم کتنا بے پایاں ہے۔ متعدد بار اس نے اقبال کے طرز فکر میں جو اظلاط در آئی تھیں، ان ی اصلاح کی اور اس کی اس گم کردہ راہی پر ملاغت سے اس کا محاسبہ بھی کیا۔ میں نے بہ مشکل اپنی حیرانی پر قابو پایا ہی تھا کہ اس دختر دلبر نے پیانو پر جا کر موسیقی کا ایک کلاسیکی قطعہ استادانہ تکنیک کے ساتھ بجایا اور اقبال سے پوچھا کہ یہ کس کی تالیف ہے؟ اقبال اس کے سامنے بالکل گم سم تھا۔ وہ سارا توقت ہمیں نظر افروز حیرانیاں دے رہی تھی۔ خود شاہکار تخلیق ہونے کے علاوہ وہ علم کے ہر شعبے میں کامل نظر آتی تھی۔ یہ سلسلہ پورے تین گھنٹے جاری رہا۔‘‘ علمی مصروفیات کے بے پناہ ہجوم میں شعر و شاعری کے لیے بہت کم وقت ملا۔ چنانچہ 1905ء سے 1908ء تک صرف چوبیس نظمیں اور سات غزلیں لکھ سکے اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر بتاتے ہیں کہ ’’ ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا۔ کہ ان کا ارادہ مصمم ہو گیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے، اسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں جسے ترک کرنا چاہیے، بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے۔ اس لیے ایسی مفید خدا داد طاقت کو بے کار کرنا درست نہ ہو گا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے، کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادہ ترک شعر کو بدل دیں، اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترک شعر اختیار کیا جائے۔ یہ سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی تھی کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں۔ وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ 8؎‘‘ اسی دور میں اقبال کی سوچ میں ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ انہوں نے فارسی زبان میں شعر کہنے شروع کر دیے۔ اس کا فوری سبب تو یہ ہوا کہ لندن کی ایک محفل میں ان سے پوچھا گیا کہ وہ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے بتایا ایک آدھ شعر تو فارسی میں کہا ہے لیکن فارسی شاعری کو اختیار کرنے کا خیال نہیں آیا۔ محفل سے لوٹے تو ایسی انگیخت ہوئی کہ راتوں رات دو فارسی غزلیں ہو گئیں جو دوسرے دن شیخ عبدالقادر کو سنائیں۔ بہرحال اصل سبب شیخ عبدالقادر نے یوں بیان کیا ہے کہ ’’ جوں جوں ان کا مطالعہ علم فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقیق خیالات کے اظہار کو جی چاہا تو انہوں نے دیکھا کہ فارسی کے مقابلے میں اردو کا سرمایہ بہت کم ہے اور فارسی میں کئی فقرے اور جملے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے ملتے ہیں جن کے متعلق اردو میں فقرے ڈھالنے آسان نہیں۔ اس لیے وہ فارسی کی طرف مائل ہو گئے۔ 9؎‘‘ بہرحال قیام یورپ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اقبال کے سیاسی فکر میں ایک نکھار کا آغاز ہوا۔ اس نے وطنیت کے یورپی تصور کا کھوکھلا پن پہچان لیا۔ یورپی تہذیب کی ترقی کے وہ پہلو بھانپ لیے جو اسے زوال کی طرف لے جا رہے تھے اور ان پر بین الاقوامیت کا رنگ غالب آیا۔ انہوں نے اسلامی دنیا کے مسائل کو سمجھا اور ان کا حل اسی چیز میں پایا کہ مسلمان قوموں اور ایشیائی قوموں میں یگانگت اور اتحاد پیدا ہو، اور وہ اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لیے سراپا عمل، سراپا جدوجہد بن جائیں۔ اقبال ایک چوکنے، حساس اور ذہین طالب علم تھے، دل و دماغ کے دریچے کھلے تھے اور انہوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ حالات کا مشاہدہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسائل کے تجزیے میں کامیاب رہے۔ ان سے صحیح نتائج اخذ کر سکے اور پھر انہی کو آنے والی شاعری کی بنیاد بنا لیا۔ اقبال 1905ء میں یورپ پہنچے۔ یہ سال یورپی سیاست میں بہت بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس زمانے میں چھ بڑی طاقتیں موجود تھیں، برطانیہ، فرانس، روس، جرمنی ، آسٹریا، ہنگری اور اٹلی۔ جب تک ان میں باہمی رقابتیں چلتی رہیں۔ عالمی جنگ کا کوئی خاص خطرہ نہیں تھا لیکن اس کے بعد ان میں وہ گروہ بندی ہوئی اور محاذ آرائی کا بازار گرم ہوا۔ ایک طرف برطانیہ، فرانس اور روس تھے۔ دوسری طرف جرمنی اور آسٹریا ہنگری سلطنت اور اٹلی دونوں کے بین بین تھا۔ اس محاذ آرائی کے بیچ 1870ء سے بوئے گئے جب ایک طرف پہلی بار متحدہ اٹلی وجود میں آیا اور دوسری طرف درجنوں جرمن ریاستوں نے پرشیا کے جھنڈے تلے اور بسمارک کی قیادت میں متحدہ جرمنی کا روپ لیا۔ انیسویں صدی کے آخری تیس سالوں میں سامراجیت اپنے عروج پر تھی کہ یورپی طاقتیں زیادہ سے زیادہ افر یشیائی خطوں پر غلبہ پاتی چلی گئیں۔ برطانیہ نے صرف افریقہ میں پچیس لاکھ مربع میل رقبے پر تسلط جما لیا۔ فرانس نے بھی وسیع خطوں پر قبضہ کیا اور دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔ جرمنی پیچھے رہ گیا اس نے افریقہ میں دس لاکھ مربع میل رقبہ حاصل کیا اور بحر الکاہل میں چند جزیرے اٹلی نے اریٹریا اور صومالی لینڈ کا ایک حصہ ہتھیا لیا۔ بیلیجیم جیسی چھوٹی سی یورپی مملکت نے کانگو حاصل کیا جو دس لاکھ مربع میل رقبے پر مشتمل تھا۔ جاپان علاقائی سامراج پر صابر و شاکر تھا، اس نے فارموسا اور کوریا پر قبضہ کر لیا اور چین میں نفوذکیا۔ر وسی سامراج اپنی سرحدات سے متصل خطوں میں پھیلا، اس نے دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبہ اپنے قبضے میں کیا اور ایران، مانچوریا اور منگولیا کے بیس لاکھ مربع میل رقبے کو اپنے حلقہ اثر میں شامل کیا۔ جرمنی اور اٹلی نئی نئی بڑی طاقتیں تھیں۔ انہیں اس بات پر بڑا اعتراض تھا کہ دوسری بڑی طاقتیں وسیع خطوں پر قبضہ جما کر عالمی طاقتیں بن گئی ہیں۔ جرمنی اور اٹلی کو بھی آرزو تھی کہ ان کا پرچم دنیا کے وسیع خطوں میں لہرائے۔ اس کے لیے ایک زبردست سمندری بیڑے کی ضرورت تھی۔ جب جرمنی نے بڑے بڑے جنگی جہاز بنانے شروع کیے تو برطانیہ کو جنگی بخار چڑھا کیونکہ وہ ملکہ بحر کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کی اس حیثیت کو للکارا جا رہا تھا۔ فرانس نے 1870ء میں جرمنی سے شکست کھائی تھی اور آلسیس لورین کے بیش قیمت علاقے کھو بیٹھا تھا۔ وہاں ایک تو انتقام کی آگ بھڑکی، دوسرے آلسیس لورین کی بازیابی کا جذبہ پیدا ہوا۔ اٹلی چاہتا تھا کہ آسٹریا ہنگری سلطنت سے ٹرینٹینو اور ٹریسٹ کے علاقے واپس لے۔ بلقانی ریاستوں میں مختلف قومیتیں اپنی آزادی کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ روس سلاوی قوموں کے اتحاد کی آڑ لے کر سربیا اور آسٹریا ہنگری سلطنت کے درمیان کشمکش کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا اور اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ اس خطے میں جنگ ہو تو وہ در دانیال پر ہاتھ صاف کرے۔ جنگ، جنگ، جنگ! یہ تھا وہ نعرہ جو ہر قوم بلند کر رہی تھی۔ ہر بڑے ملک میں ایسا عوام پسند ادب وجود میں آ چکا تھا جس کی بنیاد عسکریت کا فروغ تھی اور فضا میں جنگی جذبہ اس درجہ رچ بس چکا تھا کہ بڑے بڑے امن پسند سیاست دان بھی مجبور ہو گئے کہ جارحانہ پالیسیاں اختیار کریں۔ اسلحہ بندی بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی تھی اور صنعت کی ترقی نے اسے خاص طور پر فروغ دیا۔ سیاست دان کہتے تھے کہ ہتھیار بندی ہی امن کی بہترین ضامن ہے کیونکہ جب ہر قوم کیل کانٹے سے لیس ہو گی تو پھر سب محفوظ رہیں گے۔ کوئی بین الاقوامی تنظیم تو موجود نہیں تھی اس لیے وطنیت کے ایک انتہا پسندانہ تصور نے نمو پایا۔ اس کے پہلو بہ پہلو خفیہ ڈپلومیسی نے جنم لیا اور دوغلے پن کا بازار گرم ہوا۔ یہی نہیں مسلسل کشمکش اور جنگ آزمائی کے طرز عمل سے آئے دن بین الاقوامی سیاسی بحران ابھرتے تھے اور ہر لمحہ خطرہ تھا کہ یورپی قومیں ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جائیں گی اورجب یورپی قوموں میں کھلی دھڑے بندی منظر عام پر آ گئی۔ تو یہ خطرہ اور بھی حقیقی بن گیا۔ یہی وہ حالات تھے جنہوں نے اقبال کے خیالات کو متاثر کیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکان نہیں ہے کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا10؎ جن دنوں اقبال لاہور میں تعلیم پا رہے تھے، سید جمال الدین افغانی دنیائے اسلام میں سامراج دشمنی اور تحریک اتحاد عالم اسلامی کے بیج بو چکے تھے۔ خلافت عثمانیہ کو یورپی طاقتیں ’’ مرد بیمار‘‘ قرار دیتی تھیں اور اس سے علاقوں پر علاقے ہتھیائے چلی جا رہی تھیں لیکن 1908ء میں نوجوان ترکوں کے انقلاب نے خلافت عثمانیہ کے رگ و پے میں ایک نئی زندگی سرایت کر دی۔ اس سے پہلے ایرانی عوام تحریک مشروطیت کو کامیاب بنا چکے تھے اور وہاں ایک باقاعدہ آئین نافذ ہو چکا تھا۔ا قبال محسوس کرتے تھے کہ دنیائے اسلام ایک نئی کروٹ لینے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اسی احساس نے ان اشعار کا روپ لیا: کبھی جو آوارہ جنون تھے، وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی، مگر نیا خار زار ہو گا سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فغاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا11؎ لیکن جو انقلاب اقبال کے پیش نظر تھا، اس میں وطنیت کے یورپی تصور کا کوئی مقام نہیں تھا، اس کے مجوزہ انقلاب کی بنیاد اسلامی کا آفاقی تصور تھا، وطن کا سیاسی تصور نہیں تھا۔ انہوں نے کہا: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے 12؎ قیام یورپ کے دوران میں اقبال نے جتنی نظمیں اور غزلیں لکھیں، ان میں سے بیشتر اسی انقلاب کے لیے جدوجہد کی تلقین کرتی تھیں۔ غم جاناں نے غم روزگار کا روپ دھار لیا اور وہ بھی بھرپور انداز میں اور جب وہ یورپ سے لوٹ رہے تھے تو بحیرہ روم میں سسلی کے ساحل کو دیکھ کر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد تازہ ہو گئی اور ان کا دل بھر آیا کہ کسی زمانے میں یہ خطہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز تھا اور وہ پکار اٹھے: نالہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر داغ رویا خون کے آنسو جہان آباد پر آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کی ابن بدروں کے دل ناشاد نے فریاد کی غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا درد اپنا مجھ سے کہہ، میں بھی سراپا درد ہوں جس کی تو منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں میں ترا تحفہ سوئے ہندوستان لے جاؤں گا خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤں گا13؎ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ اقبال ریویو‘‘ اپریل 1976ء ص1 2۔ ایضاً، ص2 3۔ ایضاً، ص2 4۔ The Poet of the East صفحات17, 18 5۔ ’’ ملفوظات اقبال‘‘ ص102 6۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص57 7۔ اقبال پر عطیہ بیگم کے کتابچے سے جتنے اقتباسات دیے گئے ہیں، وہ عبدالعزیز خالد کے ترجمہ کیے ہوئے ہیں۔ 8۔ ’’ بانگ درا کا دیباچہ‘‘ صفحات ل، م 9۔ایضاً، صفحات م، ن 10۔’’ بانگ درا‘‘ ص15 11۔’’ ایضاً‘‘ صفحات150, 152 12۔ایضاً، ص144 13۔ایضاً، ص142 ٭٭٭ چھٹا باب 1908ء سے 1914ء تک: کشاکش روزگار تین سال کی مسلسل غیر حاضری کے بعد27 جولائی 1908ء کو حضرت علامہ لاہور پہنچے، تو ریلوے اسٹیشن پر ان کی پذیرائی کے لئے احباب، معززین شہر اور عوام موجود تھے۔ اس کے بعد باغ بیرون بھاٹی دروازہ پہنچے جہاں احباب نے ایک دعوت چائے کے لیے شامیانے نصب کر رکھے تھے۔ کچھ مقامی شاعروں نے خیر مقدم کے سلسلے میں اپنا کلام سنایا۔ عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔1؎ اس کے بعد اقبال سیالکوٹ روانہ ہوئے، وہاں بھی ریلوے سٹیشن استقبال کرنے والوں سے بھرا ہوا تھا۔ پھولوں کے ہار اتنی کثیر تعداد میں پہنائے گئے کہ علامہ کا چہرہ پھولوں میں چھپ گیا۔ شہریوں کی طرف سے ٹاؤن ہال میں استقبالیہ بھی دیا گیا۔ 2؎ چند دن بعد اقبال نے فیصلہ کیا کہ وکالت کا پیشہ اختیار کریں گے۔ گورنمنٹ کالج میں پروفیسری کا عہدہ موجود تھا کیونکہ وہ تین سال کے لیے چھٹی پر تھے لیکن انہوں نے اس سے استعفیٰ دے دیا3؎ اور یوں آزاد زندگی کے لیے زمین ہموار ہو گئی۔ اقبال کے بڑے بھائی لاہور پہنچے۔ ان کے دوست مرزا جلال الدین بیرسٹر سے ملے۔ ان کی وساطت سے اس سڑک پر ایک دفتر حاصل کیا جو اب اردو بازار کے نام سے مشہور ہے۔ قانونی کتابوں کی ایک چھوٹی سی لائبریری تیار ہو گئی۔ منشی طاہر الدین نے دفتر کا کام سنبھالا۔ علامہ نے دو تین مہینے ضلعی عدالتوں میں پریکٹس کی۔ پھر عدالت عالیہ میں پریکٹس کرنے کی ٹھانی اور انار کلی میں وہ مکان حاصل کیا جس میں سر محمد شفیع مدت تک رہ چکے تھے۔ وہیں دفتر بنایا، وہیں سکونت اختیار کی اور یہ سلسلہ 1922ء تک جاری ۔4؎ 30 اکتوبر1908ء کو ان کا نام عدالت عالیہ کے وکلاء کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ اس طرح اقبال اس بار روم میں داخل ہوئے جو میاں محمد شفیع، میاں شاہ دین، میاں فضل حسین، لالہ لاجپت رائے، لالہ شادی لال اور پنڈت شیو نارائن جیسے وکلاء کی بدولت مشہور تھا۔ اقبال اپنے مقدمات کی تیاری میں بہت محنت سے کام لیتے۔ اتنی محنت سے کہ شعر و شاعری کے شغل سے بھی کچھ دیر دور رہے۔ ابھی پریکٹس شروع نہیں کی تھی کہ جناب شاطر مدراسی کے نام ایک مکتوب بھی لکھا: آپ میرے مجموعہ کلام کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔ میں کیا اور میرا کلام کیا؟ نہ مجھے ان اوراق پریشاں کے جمع کرنے کی فرصت ہے، نہ حقیقت میں ان کی ضرورت ہے۔ محض دوستوں کے دل بہلانے کے لیے کبھی کبھی کچھ لکھتا ہوں اور وہ بھی مجبوراً۔ گذشتہ تین سال سے بہت کم اتفاق شعر گوئی کا ہوتا ہے اور اب تو میں پیشہ ہی اس قسم کا اختیار کرنے کو ہوں جس کو شاعری سے کوئی نسبت نہیں ۔5؎ تلوک چند محروم کو لکھا:’’ افسوس ہے کہ میں بوجہ مصروفیت فی الحال شعر گوئی سے محروم ہوں۔6؎‘‘ 1914ء تک یہی کیفیت تھی۔ سرکشن پرشاد شاد کے نام لکھتے ہیں:’’ آج کل شعر و شاعری کا شغل بھی کم ہے۔’’ بھائی گدھا‘‘ یعنی پیٹ دم بھر کے لیے مہلت نہیں دیتا۔’’ لاؤ چارا الاؤ چارا‘‘ خدا اسے غارت کرے۔7؎‘‘ ایک اور مکتوب میں لکھا: ’’قانونی مشاغل میں اشعار کے لیے کہاں سے وقت نکلے۔ دل اور دماغ دونوں کام کرنا چاہتے ہیں۔ مگر پیٹ کا حکم ہے کہ ہماری رضا کے بغیر ایک خیال یا ایک تاثر اپنے اندر نہ داخل ہونے دو۔ عجب کشمکش کی حالت ہے مگر شکایت نہیں کہ ہمارے مذہب میں شکایت ہی کفر ہے۔ 7؎‘‘ ابھی وکالت کا پیشہ شروع ہوئے چند مہینے گزرے تھے کہ اقبال کو وکالت کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں فلسفے کی پروفیسری سنبھالنی پڑی۔ بات یہ ہوئی کہ فلسفہ کے پروفیسر جیمز انتقال کر گئے اور سوائے اقبال کے کوئی اور شخص موجود نہیں تھا جو اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکتا۔ علامہ اقبال نے عارضی طور پر یہ عہدہ قبول کر لیا، کیونکہ حکومت نے عدالت عالیہ سے اس کی اجازت لے لی تھی۔ یہ سلسلہ 1911ء تک جاری رہا۔ اقبال صبح چھ بجے سے نو بجے تک لیکچر دیتے اور اس کے بعد وکالت کے فرائض انجام دیتے۔ کچھ عرصہ بعد یہ پیش کش ہوئی کہ وکالت چھوڑ دیں اور شعبہ فلسفہ کی صدارت قبول کر لیں۔ علامہ نے دوستوں سے مشورہ کیا اور بقول مرزا جلال الدین ’’ ہم سب نے یہی رائے دی کہ سرکاری ملازمت میں اول تو قوت عمل کے سلب ہونے کا احتمال ہے۔ دوسرے محکمہ تعلیم میں وسعت کے امکانات بہت محدود ہیں۔ چنانچہ اگر سرکاری ملازمت ہی پر نگاہ ہو، تو وکالت ہی کیوں نہ رکھی جائے، جس میں ترقی کے جملہ مدارج میں جج کا عہدہ بھی ہے۔ اس پر انہوں نے کالج سے تعلقات منقطع کر لیے اور وکالت پر اکتفا کیا۔10؎‘‘ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ پریکٹس تسلی بخش نہیں تھی۔ اس لیے اقبال ملازمت کو خارج از بحث نہیں قرار دیتے تھے۔ چنانچہ جب سر علی امام نے مہاراجہ الور سے ان کی ملاقات کا بندوبست کرایا، تاکہ مہاراجہ کے پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدے کے لیے بات ہو جائے تو اقبال راضی ہو گئے اور ملاقات کے لیے الور گئے۔ وہاں پہنچ کر کچھ تو مہاراجہ الور کے بارے میں بعض ناگفتہ بہ باتیں سن کر طبیعت مکدر ہوئی، دوسرے مہاراجہ سے معلوم ہوا کہ تنخواہ صرف چھ سو روپے ہو گی۔ اس لیے واپس آ گئے۔ 11؎ سرکشن پرشاد شاد کے نام لکھا:’’ الور کی ملازمت نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تنخواہ قلیل تھی۔ سات آٹھ سو روپے ماہوار تو لاہور میں بھی مل جاتے ہیں۔ اگرچہ میری ذاتی ضروریات کے لیے تو اس قدر رقم کافی، بلکہ اس سے زیادہ ہے تاہم چونکہ میرے ذمہ اوروں کی ضروریات کا پورا کرنا بھی ہے، اس واسطے ادھر ادھر دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ گھر بھر کا خرچ میرے ذمے ہے، بڑے بھائی جان، جنہوں نے اپنی ملازمت کا اندوختہ میری تعلیم پر خرچ کر دیا، اب پنشن پا گئے۔ ان کے اور ان کی اولاد کے اخراجات بھی میرے ذمے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ خود تین بیویاں رکھتا ہوں اور دو اولادیں۔ 12؎‘‘ احتیاج کے اس عالم کے باوجود اقبال کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی تھی کہ کوئی وظیفہ قبول کر لیا جائے۔ شاد نے ایک ایسے وظیفے کی پیش کش کی تھی جو انہیں فکر معاش سے آزاد کر دے۔ لیکن اس خط میں انہوں نے نہایت ملاغت کے ساتھ یہ پیش کش مسترد کر دی۔ انہوں نے لکھا:’’ آپ کی فیاضی، کہ زمان و مکان کی قیود سے آشنا نہیں ہے، مجھ کو ہر شے سے مستغنی کر سکتی ہے ۔ مگر یہ بات مروت اور دیانت سے دور ہے کہ اقبال آپ سے ایک بیش قرار تنخواہ پائے اور اس کے عوض میں کوئی ایسی خدمت نہ کرے، جس کی اہمیت بقدر اس مشاہرے کے ہو۔‘‘ 13؎ اس دور میں اقبال پر یاسیت کا عالم بھی طاری رہا اور انہوں نے اس کیفیت کا اظہار کیا تو صرف دو افراد کے نام خطوط میں ایک، لسان العصر اکبر الہ آبادی دوسرے عطیہ بیگم اکبر الہ آبادی کے نام خطوط کے دوران میں لکھا:’’ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے۔‘‘ طعنہ زن ہے ضبط اور لذت بڑی افشا میں ہے ہے کوئی مشکل سے مشکل راز داں کے واسطے لارڈ بیکن کہتے ہیں: جتنا بڑا شہر ہو، اتنی ہی بڑی تنہائی ہوتی ہے۔ سو یہی حال میرا لاہور میں ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ماہ میں بعض معاملات کی وجہ سے سخت پریشانی رہی اور مجھے بعض کام اپنی فطرت اور طبیعت کے خلاف کرنے پڑے اور انہی میں طبع سلیم میرے لیے شکنجے کا کام دے گئی۔ کیا خوب کہہ گیا ہے عرفی: رستم ز مدعی بقبول غلط ولے در تابم از شکنجہ طبع سلیم خویش (6اکتوبر1911ئ) اور9نومبر1911ء کو لکھتے ہیں:’’ لاہور کی بستی میں کوئی ہمدم دیرینہ نہیں۔ نام و نمود پر مرنے والے بہت ہیں۔ قومی جلسوں سے بھی پہلو تہی کرتا ہوں۔14؎‘‘ اس حساس تنہائی میں مختلف عناصر کار فرما تھے۔ جن میں ایک ازدواجی زندگی کی بے سکونی سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے ایک بحران کی صورت اختیار کر رکھی تھی۔ جو 1909ء سے 1913ء تک جاری رہا اور جس کے دوران میں یاسیت اس حد تک غالب رہی کہ عطیہ بیگم کے نام خطوط میں اس نے ایک درد ناک روپ لے لیا۔ا قبال کی پہلی شادی سولہ برس کی عمر میں ہوئی لیکن طبائع کا ملاپ نہ ہو سکا اور یہ شادی اس لحاظ سے ناکام رہی کہ دونوں ایک دوسرے سے دور رہے اور جب اقبال یورپ سے واپس آئے تو انہوں نے ازدواجی زندگی کا خلا پر کرنے کے لیے چاہا کہ دوسری شادی کریں۔ خاندان میں اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا اور بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے بھی یہی اصرار کیا کہ اقبال پہلی بیوی کو باقاعدہ طور پر بسا لیں اور دوسری شادی نہ کریں۔ یہ بات ایک ایسے شخص کے لیے قدرتی طور پر بہت ناگوار تھی، جو جدید ترین علوم کی تحصیل کے بعد اور ایک اونچی تہذیبی اور علمی سطح پر پہنچنے کے باوجود اس بات پر قادر نہیں تھا کہ ازدواجی زندگی کے سلسلے میں اپنی مرضی پر چل سکے۔ اس لیے قدرتی طور پر مایوسی کا عالم طاری ہوا اور جب اقبال نے اپنے اعزہ کو بہ صد مشکل منا لیا تو اس کے بعد اتفاقات زمانہ کے طفیل حالات نے ایک ناپسندیدہ شکل اختیار کر لی۔ 1910ء کا ذکر ہے کہ اعزہ اور احباب نے لاہور کے ایک شریف کشمیری گھرانے کی ایک لڑکی سے رشتہ کرایا۔ نکاح پڑھا گیا لیکن رخصتی نہ ہوئی۔ ادھر اس کشمیری گھرانے سے عداوت رکھنے والے ایک صاحب نبی بخش وکیل نے علامہ کے نام گمنام خطوط بھجوائے، جن میں اس نیک دل لڑکی کے خلاف نامناسب باتیں درج تھیں۔ اقبال کو پس پردہ سازش کا علم نہیں تھا اس لیے رخصتی کا معاملہ ملتوی ہو گیا۔ اس پر قدرتی طور پر ذہنی پریشانی سے سابقہ پڑا۔ اتنے میں علامہ کے ایک دوست لدھیانے کے ایک دولت مند خاندان کی لڑکی کا رشتہ لائے۔ رشتہ طے ہو گیا، تو علامہ برات لے کر لدھیانہ گئے۔ بڑے تزک و احتشام سے استقبال ہوا۔ شادی بخیر و خوبی ہو گئی اور اقبال نے دونوں بیویوں کو گھر میں رکھا، یعنی نئی بیوی کے ساتھ ساتھ پہلی بیوی کو بھی، جس کے ساتھ سولہ برس کی عمر میں شادی ہوئی تھی۔ اب ایک نیا بحران پیدا ہوا۔ مختلف وسائل سے اس سازش کا پردہ چاک ہوا جو لاہور کے کشمیری گھرانے کی لڑکی کے خلاف ہوئی تھی۔ معلوم ہوا کہ لڑکی کا دامن ہر اعتبار سے پاک ہے۔ لڑکی نے علامہ کو ایک خط خود بھی لکھا، جس میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ علامہ نے ایک بہتان پر یقین کر لیا اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ ’’ میرا نکاح آپ سے ہو چکا ہے، اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ اس حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی اور روز قیامت آپ کی دامن گیر ہوں گی۔15؎‘‘ اب اقبال مجبور تھے اور اخلاقاً بھی پابند تھے کہ اس خاتون سے شادی کریں۔ چنانچہ علما سے مشورہ لے کر دوبارہ نکاح کر لیا۔ اس شادی کے غالباً دو ماہ بعد اقبال نے سرکشن پرشاد شاد کے نام مکتوب میں اس کا یوں تذکرہ کیا۔ 16؎’’ تیسری بیوی آپ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصہ بعد کی۔ ضرورت نہ تھی، مگر یہ عشق و محبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ اقبال نے گوارا نہ کیا کہ جس عورت نے حیرت ناک ثابت قدمی کے ساتھ تین سال تک اس کے لیے طرح طرح کے مصائب اٹھائے ہوں، اسے اپنی بیوی نہ بنائے۔ کاش! دوسری بیوی کرنے سے پیشتر یہ حال معلوم ہوتا۔‘‘ (26اکتوبر1903ئ) جاوید اقبال اور منیرہ اسی خاتون کی اولاد ہیں۔ اسی تناظر میں اگر عطیہ بیگم کے نام اقبال کے ان خطوط کا مطالعہ کیا جائے، جو 1909ء سے 1911ء تک کے عرصے میں لکھے گئے، تو ان میں منعکس انتہائی یاسیت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ عطیہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، عالی خاندان اور روشن خیال خاتون تھیں۔ یورپ میں اس کے ساتھ اقبال کی علمی دوستی کا آغاز ہوا۔ ایسے میں قدامت پسندی کے ہاتھوں اقبال نے جو دکھ جھیلے، قدرتی طور پر ان کے اظہار میں عطیہ کو اعتماد میں لیا اور عطیہ نے بھی تالیف قلب میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ یاسیت کے عالم میں اقبال کے قلم سے جو قدرے تیز و ترش فقرے نکلے، ان میں حیرت کا کوئی مقام نہیں، کیونکہ اقبال اپنے علم و فضل کے باوجود بہرحال ایک بتیس سالہ نوجوان تھے اور اس عمر میں جذباتیت ایک قدرتی چیز ہے، بالخصوص ایسے حالات میں جو اقبال کو پے در پے پیش آئے۔ بہرحال یاسیت کے اس عارضی دور میں بھی علامہ کی مجلسی زندگی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جاری رہی اور احباب کے ساتھ محفل آرائی کی روایت قائم رہی۔ سالک رقم طراز ہیں: علامہ نے ایک گگ (چھوٹی بگھی) لے لی تھی۔ اسی میں کچہری جایا کرتے تھے۔ گھوڑے کی دیکھ بھال کے لیے ایک پوربیا سائیس ملازم تھا۔ اس زمانے میں مرزا جلال الدین صاحب کے علاوہ علامہ کے تعلقات نواب ذوالفقار علی خان، سر جگندر سنگھ، سردار امراؤ سنگھ سے بہت گہرے ہو گئے تھے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ علامہ اکثر کچہری سے فارغ ہو کر اپنی گگ واپس بھیج دیتے اور میری کار میں بیٹھ کر میرے دفتر آ جاتے۔ شام وہیں گزارتے اور رات کے گیارہ بارہ بجے گھر واپس جاتے ۔ بعض اوقات رات بھر میرے پاس ہی رہتے اور صبح نماز، تلاوت قرآن اور ناشتے کے بعد گھر جاتے۔ مولانا عبداللہ ٹوٹکی کا ایک رشتہ دار ظہور میرا بیرا تھا جسے ستار بجانے میں کمال صاحل تھا۔ علامہ اس سے اکثر ستار سنتے، بلکہ کچھ مدت اس سے ستار بجانا سیکھتے بھی رہے۔ جب نواب ذوالفقار علی خان کے ساتھ تعلقات بڑھے تو ایک خاصی مدت تک میں اور علامہ روزانہ شام کی چائے نواب صاحب ہی کے ہاں پیتے، بلکہ جس دن کچہری میں تعطیل ہوتی، ہم دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھاتے۔ 17؎ مرزا جلال الدین بتاتے ہیں کہ اقبال موسیقی میں دلچسپی لیتے تھے، اس لیے مرزا صاحب کے ہاں موسیقی کی جو محفلیں آراستہ ہوتی تھیں، ان میں شرکت کرتے تھے۔ بعض اوقات گانا سنتے سنتے ان کا قلب جذبات سے متاثر ہونے لگتا اور وہ دھیمی آواز میں گنگنانا شروع کر دیتے جس کے ساتھ ساتھ اپنے داہنے زانو کو ہاتھ سے تھپکتے جاتے۔ ایسے میں محفل موسیقی برخاست ہو جاتی اورسب ہمہ تن گوش ہو کر اقبال کی آواز کی طرف متوجہ ہو جاتے، جو آہستہ آہستہ بلند ہوتی جاتی۔ سازندے نہایت مدھم سروں میں ایک قسم کی تال سی دیتے تھے جس کے ساتھ وہ اپنی مخصوص لے میں اشعار پڑھنا شروع کر دیتے۔ ان کی آواز سازوں کی ہم آہنگی کی وجہ سے کچھ ایسی دل نواز ہو جاتی کہ ایک سماں سا بندھ جاتا۔ ’’ یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‘‘ والی نظم کی بنیاد بھی ایک ایسی ہی مجلس میں رکھی گئی تھی۔ 18؎ اس سے پہلے کہ ہم عصر حاضر کی سیاست پر اقبال کے رد عمل کا تجزیہ کریں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ غیر سیاسی دوائر میں ان کی بعض اجتماعی سرگرمیوں کا جائزہ لے لیں۔ انجمن کشمیری مسلمانان پنجاب سے اقبال ایک مدت سے وابستہ تھے۔ دسمبر 1908ء میں اسی حوالے سے علامہ کا رابطہ خواجہ سلیم اللہ نواب آف ڈھاکہ سے ہوا۔ وہ اس طرح کہ نواب آف ڈھاکہ بھی اصلاً کشمیری تھے کیونکہ ان کاخاندان کشمیر سے ترک وطن کر کے ڈھاکہ میں آباد ہوا تھا۔ دسمبر1908ء میں امرتسر کے شہر میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی صدارت کے لیے نواب آف ڈھاکہ تشریف لائے تو کشمیری مسلمانان پنجاب کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی تاکہ کشمیریوں کو زراعت پیشہ قرار دینے اور فوج میں ان کی نمائندگی کو موثر بنانے کی خاطر جو عرض داشت حکومت ہند کو بھیجی گئی تھی، اس پر ہمدردانہ غور کے لیے نواب صاحب کی مدد لی جائے۔ وفد نے ان کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پیش کیا، جو حضرت علامہ نے پڑھا۔ نواب موصوف نے انجمن کا سرپرست بننا منظور کیا اور جوابی تقریر میں کہا۔’’ ڈھاکا امرتسر سے سینکڑوں منزل پر واقع ہے، مگر میں یقین کرتا ہوں اور یقین کرنے کی کافی وجوہ میرے پاس موجود ہیں کہ میں اپنے وطن میں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ امرتسر کی آبادی پنجاب میں بلحاظ کشمیری آبادی کے بہت زیادہ ہے اور اپنے خواص اور پیداوار اور صنائع کے اعتبار سے ثانی سری نگر ہے۔ اور شاید آپ حضرات واقف ہوں گے کہ میں کشمیری الاصل ہوں۔ اس حیثیت سے اپنے موجودہ وطن سے جس قدر آگے بڑھوں گا، اصلی وطن کشمیر مجھ سے قریب ہوتا جائے گا۔19؎‘‘ 1909ء میں علامہ انجمن کشمیری مسلمانان لاہور کے جنرل سیکرٹری چنے گئے۔ اس سال انہوں نے کشمیری مسلمانوں کے نام ایک مراسلہ روانہ کیا، جس میں بتایا کہ حکومت پنجاب سے درخواست کی گئی ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو سیالکوٹ اور گوردا سپور کے علاوہ دوسرے اضلاع میں بھی زراعت پیشہ قرار دیا جائے۔ دوسری طرف نواب آف ڈھاکا نے وعدہ کیا ہے کہ فوج میں زیادہ موثر نمائندگی کے لیے وہ کمانڈر انچیف سے مذاکرات کریں گے۔ لیکن یہ مذاکرات صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ کشمیری مسلمان فوج میں موجودہ حیثیت کے بارے میں اعداد و شمار فراہم کریں۔ 20؎ 7مارچ کو اقبال نے اور مراسلہ بھیجا جس میں انکشاف کیا کہ نواب آف ڈھاکہ نے وائسرائے کی کونسل میں کشمیری مسلمانوں کے مسائل پیش کیے۔ کمانڈر انچیف نے بتایا کہ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کشمیری مسلمانوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کشمیریوں کی کوئی کمپنی یا سکواڈرن موجود نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا کہ مختلف کمشنروں کو ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ وہ مختلف اضلاع میں کشمیری زمینداروں کی ایک فہرست مرتب کریں تاکہ اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہو سکے۔ علامہ اقبال نے کشمیری برادری کو مشورہ دیا کہ وہ اس کام میں سرکاری اعمال کی مدد کریں تاکہ صحیح اعداد و شمار جمع ہو سکیں۔ 21؎ انجمن حمایت اسلام سے اقبال کی وابستگی ایک روایت بن چکی تھی۔ وہ قریب قریب ہر سال کے سالانہ جلسے میں اپنا کلام سناتے تھے۔ لیکن 1910ء میں انہوں نے اس سے دیدہ و دانستہ احتراز کیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انجمن میں دھڑے بندی ایک سنگین صورت اختیار کر چکی تھی۔ یہاں تک کہ اخبار’’ وطن‘‘ کے مدیر مولوی انشاء اللہ خان نے مقدمات بھی دائر کر رکھے تھے۔ اس سے علامہ کا دل کھٹا ہو چکا تھا۔ بہرحال جب مختلف دھڑوں میں صلح کرانے کی سعی ہوئی تو اقبال نے پورا تعاون کیا۔ 22 اپریل 1910ء کو نواب فتح علی خان قزلباش کے مسکن پر میاں محمد شفیع، میاں فضل حسین، علامہ اقبال، مولوی احمد دین، شیخ گلاب دین ’’ پیسہ اخبار‘‘ کے مدیر مولوی محبوب عالم، میاں امیر الدین کے والد میاں نظام الدین اور دوسرے حضرات کا ایک اجتماع ہوا جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ نواب فتح علی خان قزلباش کی صدارت میں ایک ثالثی بورڈ قائم کیا جائے جس میں فریقین کی طرف سے تین تین نمائندے لیے جائیں۔ اس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ ثالثی بورڈ نے جو فیصلہ دیا، وہ سب کو قبول ہوا اور مولوی انشاء اللہ نے مقدمات واپس لے لیے۔ اس طرح انجمن ایک سنگین بحران سے نجات پا گئی۔ اگلے سال انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’ شکوہ‘‘ سنائی اور خوب داد پائی۔ چند مہینے بعد باغ بیرون موچی دروازہ میں ایک بہت بڑے جلسے میں’’ جواب شکوہ‘‘ سنائی، لیکن ترنم سے نہیں، تحت اللفظ، لوگ ترنم کے عادی تھے، انہوں نے اس کا تقاضا بھی کیا لیکن اقبال نے سختی سے انکار کیا اور کہا کہ یہ نظم تحت اللفظ ہی پڑھنی مناسب ہے۔ 1912ء میں انجمن اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجتماعات بیک وقت ہوئے۔ ہزار ہا کا مجمع تھا۔ اقبال نے ’’ شمع و شاعر‘‘ کے عنوان سے نظم سنائی تو اس سے لوگ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے انجمن کو ہزاروں روپے چندے کے طور پر دیے۔ اسی اجلاس میں مولانا ظفر علی خان نے اپنی تقریر میں یہ تجویز پیش کی کہ علامہ کو تبلیغ اسلام کے لیے جاپان بھیجا جائے اور مصارف کا بندوبست یوں ہو کہ علامہ کی نظم کی دس ہزار کاپیاں چھاپ کر آٹھ آٹھ آنے میں بیچ دی جائیں، جس سے پانچ ہزار روپے جمع ہو جائیں گے۔ لاہور کے ’’ پیسہ اخبار‘‘ نے لکھا کہ یہ تجویز محض جوش میں آ کر پیش کر دی گئی ہے۔ خود علامہ کا یہ خیال ہے کہ جب مولوی برکت اللہ بھوپالی تین سال جاپان میں رہ کر اخبار بھی نکالتے رہے اور دو تین سے زیادہ جاپانیوں کو مسلمان نہ بنا سکے تو میں دو مہینے میں کیا کر لوں گا۔ ’’ پیسہ اخبار‘‘ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ علامہ اس ملک میں رہ کر اپنی قوم کی بہترین خدمت کر سکتے ہیں۔ 22؎ اس زمانے میں دو بڑے واقعات نے برعظیم کی مسلم سیاست کو بہت متاثر کیا۔ اول : تقسیم بنگال کی تنسیخ۔ دوم: سانحہ کانپور، انگریزی حکومت نے نظم و نسق میں سہولت کی خاطر 1905ء میں بنگال کو دو صوبوں میں منقسم کر دیا۔ ایک مغربی بنال، دوسرا مشرقی بنگال و آسام۔ دوسرے صوبے میں مسلمان غالب اکثریت میں تھے اور بے حد پس ماندہ بھی۔ مسلمانوں کو اس پر قدرتی طور پر خوشی ہوئی کیونکہ الگ صوبہ بننے سے یہ امکان پیدا ہوا کہ ان کی حالت بہتر ہو جائے گی۔ ہندوؤں کو اس فیصلے پر سخت غصہ آیا، کیونکہ کلکتے کے مارواڑیوں کے ہاتھوں مشرقی بنگال کے مسلمانوں کے استحصال کے دروازے بند ہو گئے۔ بنگالی عصبیت بھی اس مخالفت میں کار فرما تھی اور کہا گیا کہ سونار بنگلہ کو توڑ دیا گیا ہے۔ چنانچہ انڈین نیشنل کانگرس اور ہندوؤں نے اس فیصلے کے خلاف نہ صرف جلسے، جلوس اور مظاہرے کرائے بلکہ برطانوی مصنوعات کے مقاطعہ کی تحریک بھی چلائی۔ یہی نہیں، ہندوؤں کی خفیہ جماعتیں وجود میں آ گئیں جنہوں نے سارے مشرقی بنگال میں دہشت انگیزی کا بازار گرم کر دیا۔ یہ ایک خالص ہندو تحریک تھی اور اسے مقبول کرنے کی خاطر دیوی دیوتاؤں کے واسطے بھی بڑے شر انگیزانہ انداز میں دیے گئے۔ مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ اس اعتبار سے مبارک ثابت ہوا کہ انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کی روایت ترک کر دی۔ اگلے سال ہندوستان بھر کے ممتاز مسلمان رہنماؤں کا ایک وفد وائسرائے سے ملا اور اس سے یہ یقین دہانی حاصل کی کہ نمائندہ اداروں کی تشکیل کے لیے جو آئینی اصلاحات نافذ کی جائیں گی، ان میں جداگانہ انتخاب کا اصول رائج کیا جائے گا۔ اس کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھ دی گئی۔ 1909ء کو مارلے منٹو اصلاحات کے ذریعے جداگانہ انتخاب جزوی طور پر رائج کر دیا گیا۔ مسلمان تقسیم بنگال کے خلاف ہندو ایجی ٹیشن سے جب مشوش ہوئے، انگریزی حکومت نے یقین دلایا کہ یہ فیصلہ اٹل ہے لیکن جب ہندوؤں کا دباؤ بہت بڑھ گیا تو 1911ء میں حکومت نے تقسیم بنگال کی تنسیخ کا اعلان کر دیا اور مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے ایک تو اس فیصلے کا اعلان کیا کہ ڈھاکہ میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی، دوسرے دار الحکومت کو کلکتے سے دہلی منتقل کر دیا تاکہ مسلمان خوش ہوں کہ ان کے تہذیبی اور ثقافتی مرکز کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ بہرحال مسلمانوں کا رد عمل بہت شدید تھا اور انہوں نے بڑے تلخ انداز میں اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس میں ایک استشن ی بھی تھی اور وہ تھی سر آغا خان کی رائے۔ انہوں نے اشک شوئی کی حامل تجاویز کو تنسیخ کا نعم البدل قرار دیا اور مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اسے قبول کر لیں۔ اقبال عملی سیاست میں شرکت سے گریزاں تھے لیکن ان کی رائے سر آغا خان کی رائے سے ملتی جلتی تھی۔ چنانچہ 14دسمبر1911ء کو عطیہ بیگم کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ بنگال کی تقسیم۔ مسلم بنگال کی ہندو بنگال سے علیحدگی۔ بنگالی ہندو کے خیال میں ایک کاری زخم تھا جو حکومت نے بنگالی قومیت کے قلب پر لگایا۔ مگر حکومت نے کمال ہوشیاری سے دہلی کو دار الحکومت بنا کر اپنے کیے پر خط تنسیخ کھینچ دیا ہے۔‘‘ ’’ بنگالی اسے اپنی فتح سمجھتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس سے اس کی اہمیت صفر ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘ اس نکتے پر دو شعر ملاحظہ ہوں: مندمل زخم دل بنگال آخر ہو گیا وہ جو تھی پہلے تمیز کافر و مومن، گئی تاج شاہی آج کلکتے سے دہلی آ گیا مل گئی بابو کو جوتی اور پگڑی چھن گئی 23؎ تقسیم کی تنسیخ کا اعلان شہنشاہ انگلستان نے برعظیم میں آ کر خود کیا تھا۔ وہ جب واپس چلے گئے تو پنجاب کے بعض مسلمان رہنماؤں نے تجویز پیش کی کہ ملک معظم سے وفادارانہ جذبات کے اظہار کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ جلسے کیے جائیں۔ چونکہ مسلمانوں کے دل دکھے ہوئے تھے اور ان کے ایک طبقے کا خیال یہ تھا کہ مشترکہ جلسوں کے انعقاد سے یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے کہ مسلمان تقسیم بنگال کی تنسیخ کے فیصلے پر صاد کرتے ہیں، اس لیے آخر کار یہ طے پایا کہ مسلمانوں کے جلسے الگ ہوں اور ہندوؤں کے الگ۔ چنانچہ یکم فروری 1912ء کو مسلمانوں کا ایک جلسہ عام باغ بیرون موچی دروازہ میں ہوا۔ صدارت کے لیے علامہ کا نام تجویز ہوا لیکن انہوں نے ملک مبارز خان ٹوانہ کا نام تجویز کر دیا۔ مولوی غلام محی الدین قصوری نے تجدید وفا کی قرار داد پیش کی۔ علامہ نے رسمی طور پر اس کے حق میں دو چار فقرے کہہ کر ارشاد فرمایا: ’’ مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہئیں۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ کو دیکھو، وہ کیا کہتی ہے؟ عرب کے خطے کو یورپین معماروں نے ردی اور بے کار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہو سکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں۔ مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوان تمدن کی محراب کی کلید بن گیا اور خدا کی قسم، روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی۔ یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بل پر کھڑی ہوئی۔ 24؎‘‘ اس طرح گویا اقبال نے مسلمانوں سے کہہ دیا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی شنوائی ہو، تو اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ 1912ء کے آغاز میں کانگرس کے روشن خیال رہنما گوکھلے نے امپیریل قانون ساز کونسل میں لازمی تعلیم کا بل پیش کیا۔ اس بارے میں انگریزوں کا طرز عمل سنکی تھا، کیونکہ وہ اسے ناقابل عمل سمجھتے تھے۔ اس کے حق میں لاہور میں ایک جلسہ ہوا جس کی صدارت علامہ نے فرمائی اور صدارتی خطبے میں اس کی مکمل تائید کی۔ انہوں نے کہا’’ لفظ جبر سے کسی کو کھٹکنا نہیں چاہیے۔ جس طرح چیچک کا ٹیکہ لازمی اور جبری قرار دیا گیا ہے اور یہ لزوم و جبر اس شخص کے حق میں کسی طرح مضر نہیں ہو سکتا، جس کے ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح جبریہ تعلیم بھی قابل اعتراض متصور نہیں ہو سکتی۔ جبریہ تعلیم بھی گویا روحانی چیچک کا ٹیکہ ہے۔ اسلام میں جبر کی تعلیم موجود ہے۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنے بچوں کو زبردستی نماز پڑھائیں۔25؎‘‘ سانحہ کانپور کا پس منظر یہ ہے کہ 1913ء میں انگریزی حاکموں نے کانپور میں ایک سڑک سیدھی کرنے کی خاطر ایک مسجد کا ایک حصہ شہید کر دیا ۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات اتنے مجروح ہوئے کہ سارے برعظیم میں صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ مسجد کے سامنے مسلمانوں نے ایک مظاہرہ کیا تو ان پر بڑی بے دردی کے ساتھ گولی چلا دی گئی۔ بہت سے مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں بچے بھی شامل تھے یہی نہیں، اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس تحریک میں محمد علی جوہر پیش پیش رہے۔ اقبال تحریک میں تو شامل نہیں تھے لیکن جب گرفتار شدگان کے لیے قانونی امداد کی اپیل ہوئی تو حضرت علامہ مرزا جلال الدین بیرسٹر کے ساتھ کانپور پہنچے اور رضا کارانہ طور پر قانونی امداد دی۔ 9نومبر1914ء کو حضرت علامہ کی والدہ چھ سات مہینے کی علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ آپ نے ایک طویل مرثیہ لکھا جو اردو مرثیہ نگاری کی تاریخ میں اس اعتبار سے یادگار رہے گا کہ یہ مرثیہ نگاری کی عام روش سے ہٹ کرلکھا گیا اور اس میں حیات بعد الموت کا تصور پیش کیا گیا۔ اقبال کو جو صدمہ ہوا، اس کی شدت سرکشن پرشاد شاد کے نام اس مکتوب سے ہوتی ہے:’’ آہ انسان اپنی کمزوری کو چھپانے میں کس قدر طاق ہے بے بسی کا نام صبر رکھتا ہے اور پھر اس صبر کو اپنی ہمت و استقلال کی طرف منسوب کرتا ہے۔ مگر اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کر دیا ہے۔ میرے لیے دنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دنیا میں بڑھنے کی کواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے۔ دنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جا پہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں، کسی طرح میں اس تک پہنچ جاؤں۔‘‘ کیا خوب کہا ہے کسی استاد نے: ہلاک شیشہ در خوں نشتہ خویشم کہ آخریں نفس عذر خواہی سنگ است26؎ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ کشمیری میگزین‘‘ اگست1908ء صفحات33, 35 2۔’’ روزگار فقیر‘‘ (جلد دوم) ص151 3۔ ’’ کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ‘‘ ص329 4۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات63, 64 5۔’’ خطوط اقبال‘‘ صفحات72, 73 6۔ایضاً، ص105 7۔’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر، حصہ اول، ص114 8۔ایضاً، ص136 9۔صفحات 37, 48 Letters and Wrirings of Iqbal 10۔’’ ملفوظات اقبال‘‘ ص98 11۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات83, 84 12۔’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر، جلد اول:ص109 13۔ایضاً، ص110 14۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم، صفحات35اور38 15۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات67, 70 16۔’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر، جلد اول، ص109 17۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص66 18۔’’ ملفوظات اقبال‘‘ صفحات107, 8 19۔’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر، جلد اول، صفحات133, 34 20۔’’ خطوط اقبال‘‘ صفحات106, 109 21۔’’ انوار اقبال‘‘ صفحات56, 59 22۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات 79, 80, 82, 83 23۔’’ اقبال‘‘ (عطیہ بیگم) مرتبہ عبدالعزیز خالد، صفحات78, 79 24۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات1, 3(’’ زمیندار‘‘ 4, 6 فروری 1912ئ) 25۔ایضاً، صفحات3, 4(’’ زمیندار‘‘ 20فروری1912ئ) 26۔’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر، جلد اول، صفحات131, 32 ٭٭٭ ساتواں باب 1908ء سے 1914ء تک اقبال اور دو قومی نظریہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان رہنماؤں میں سب سے پہلے سرسید احمد خان نے اس حقیقت کا برملا اعلان کیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں کیونکہ ان کی تاریخ، روایات اور تہذیب ایک دوسرے سے مختلف ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو ایسے جمہوری ادارے منظور نہیں ہیں جن کی بنیاد ووٹوں پر ہو کیونکہ تعداد میں بے پناہ غلبے کی وجہ سے ہندو قوم مستقل طور پر مسلمان قوم کو غلام بنا لے گی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جو مسلم قیادت ابھری، اسے بھی دو قومی حقیقت کا احساس تھا۔ چنانچہ اس نے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا اور اسے اصولی اعتبار سے منوا لیا۔ نیز اس نے آل انڈیا مسلم لیگ بنا لی۔ لیکن اس کی سوچ ایک تنگ دائرے میں مقید رہی۔ صرف اس دور ہی میں نہیں جس سے یہ باب تعلق رکھتا ہے بلکہ اس کے بعد بھی اس قیادت کا منتہائے نظریہ تھا کہ مسلمانوں کا قومی تشخص ہندوستانی قومیت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے برقرار رہے اور ایک ایسی دو قومی مملکت وجود میں آ جائے جس میں ہندو اور مسلمان برابر حیثیت کے مالک تو نہیں ہو سکتے البتہ مسلمانوں کو ایسے تحفظات حاصل ہو جائیں جن کی مدد سے وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھ سکیں۔ گویا یہ وطنیت کے مغربی تصور اور جمہوریت کے مغربی نظریے کے ساتھ مصالحت کی ایک کوشش تھی جو آخر کار ناکام رہی۔ حضرت علامہ کی سوچ سکہ بند مسلم قیادت کی سوچ سے بنیادی طور پر مختلف تھی۔ وہ میدان سیاست کے کھلاڑی نہ تھے بلکہ عملی سیاست سے مدتوں گریزاں رہے لیکن ایک مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے ان کی سوچ سے اہل فکر و دانش متاثر ہوئے اور رفتہ رفتہ یہ اثر پذیری گہری ہوتی چلی گئی۔ قیام یورپ کے دوران میں انہوں نے وطنیت کے مغربی تصور کا کھوکھلا پن اپنی آنکھوں سے دیکھا اور چونکہ وہ مسلمان تھے اور صاحب فکر مسلمان تھے، اس لیے انہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں برعظیم کے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل پر بھی گہرے غور و تفص سے کام لیا اور جب واپس آئے تو یکے بعد دیگرے چند مقالات لکھے جن میں دو قومی حقیقت کو ایک باقاعدہ نظریاتی رنگ دیا اور اس طرح مسلمانوں کی فکری رہنمائی کا فریضہ ادا کیا۔ یورپ سے واپسی کے ایک سال بعد انہوں نے ’’ اسلام، ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا جو ’’ ہندوستان ریویو‘‘ کے جولائی، دسمبر1909ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ انہوں نے اس میں مسلمانان ہند کے حالات اور مسائل کا بھرپور تجزیہ کیا اور ان کے لیے ایک راہ عمل تجویز کی۔ علامہ کے فکر کو سمجھنے کے لیے اس مقالے سے چند طویل اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا: ’’ اسلام کا اخلاقی نصب العین ہے، ایک مضبوط جسم میں ایک مضبوط قوت ارادی، لیکن مجھے ایک لمحے کے لیے یہ دیکھنے کی اجازت دیجئے کہ آیا ہندوستانی مسلمان اس پیمانے پر پورے اترتے ہیں۔ کیا ہندوستانی مسلمان ایک مضبوط جسم میں ایک مضبوط قوت ارادی کا مالک ہے؟ کیا اس میں زندہ رہنے کا عزم موجود ہے؟ کیا اس میں اتنی قوت کردار موجود ہے کہ وہ ان قوتوں کی مخالفت کر سکے جو اس کے معاشری نظام یا ہیئت اجتماعی کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہیں ؟ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ زندہ رہنے کی عظیم جدوجہد میں تعداد ہی وہ بڑا عنصر نہیں جو ایک ہیئت اجتماعی کو برقرار رکھتا ہے۔ نہ صرف ایک مخالف قدرتی ماحول کے خلاف مساعی ہیں بلکہ ایک بہتر، مسرور اور بھرپور زندگی کی خاطر حریفوں سے مقابلے میں کردار ہی آخری اور قطعی لازمہ ہے۔ بہرحال ہندوستانی مسلمان کی قوت حیات افسوس ناک حد تک کمزور ہو چکی ہے۔ کچھ دینی روح کے زوال کی وجہ سے، اور کچھ سیاسی نوعیت کے ان اسباب کی بنا پر جو اس کے اختیار سے باہر ہیں، ہندوستانی مسلمان نے کچھ ایسی عادتیں اختیار کر لی ہیں کہ اپنے قد و قامت کو خود گھٹاتا ہے۔ محتاجی محسوس کرتا ہے اور ایک ایسا تساہل اپنے اوپر طاری کرتا ہے جسے ایک کمزور قوم قناعت یا آسودہ خاطری کا باوقار نام دیتی ہے اور اس طرح اپنی کمزوری پر پردہ ڈالتی ہے۔ چونکہ ہندوستانی مسلمان تجارتی اخلاق سے بے خبر ہے اس لیے وہ معاشی کاروبار میں ناکام رہتا ہے۔ قومی مفاد کے حقیقی تصور کے فقدان اور اس ملک کی دوسری قوموں میں اپنی قوم کی موجودہ حالت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ نجی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے ایک ایسے راستے پر گامزن ہے جو اسے تباہی کی طرف لے جائے گا۔ ہم اکثر مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ ایک حقیقی قومی نوعیت کے مفاد کی پیش رفت سے محض اس لیے گریز کرتا ہے کہ اس سے کسی ایسے با اثر ہندو کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے جس کے وسیلے سے وہ کسی ذاتی امتیاز کے حصول کی امید کرتا ہے۔‘‘ جہاں تک معاشی پہلو کا تعلق ہے، اقبال نے لکھاـ: ’’ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا نصب العین زیادہ تر ملازمت ہے اور ملازمت بالخصوص ہندوستان جیسے ملک میں محتاجی کے احساس کو جنم دیتی ہے اور یہ احساس انسانی انفرادیت کی قوت کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ہم میں سے جو لوگ غریب ہیں، ظاہر ہے ان کے پاس سرمایہ موجود ہی نہیں۔ درمیانہ طبقے کے لوگ باہمی بد اعتمادی کی وجہ سے مشترکہ سرمائے سے معاشی کاروبار کے اہل نہیں ہیں اور امرا تجارت کو اپنے وقار کے منافی پیشہ خیال کرتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشی محتاج ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔‘‘ یہی بات اقبال پانچ سال پہلے ’’ قومی زندگی‘‘ پر مقالے میں کہہ چکے تھے کہ: ’’ یہ بد قسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے۔ صنعت کھو بیٹھی ہے۔ تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔ 3؎‘‘ تعلیمی نظام کے بارے میں اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ نہ ہندوؤں کے لیے مفید ہے، نہ مسلمانوں کے لیے اور اس پر جو روپیہ صرف ہو رہا ہے، وہ محض ضائع ہو رہا ہے ۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، اقبال نے لکھا: ’’ موجودہ نظام تعلیم ہماری قوم کے لیے قطعی طور پر ناموزوں ہے۔ یہ ہماری فطرت کے منافی ہے۔ یہ کردار کی ایک غیر مسلم قسم پیدا کرتا ہے۔ یہ ہماری قومی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ ہمیں اپنے ماضی سے بالکل الگ تھلگ کرتا ہے اور اس غلط مفروضے پر مبنی ہے کہ تعلیم کا نصب العین قوت ارادی کی جگہ محض انسانی ذہن کی تربیت ہے۔ اگر ہمیں خود اپنا بننا ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے سکول بنائیں، اپنے کالج قائم کریں اور اپنی یونیورسٹیاں کھولیں جو ہماری معاشرتی اور تاریخی روایات کو زندہ رکھیں، ہمیں اچھے اور پر امن شہری بنائیں اور ہم میں وہ آزاد، لیکن پابند قانون روح پیدا کریں جس سے سیاسی راست بازی کی اعلیٰ ترین قسمیں ابھریں ۔ مجھے پورا احساس ہے کہ ہمارے راستے میں کون کون سی مشکلات حائل ہیں لیکن میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم اپنی مشکلات پر قابو نہ پا سکے تو دنیا بہت جلد ہم سے چھٹکارا پا لے گی۔‘‘ اسلام کے سیاسی دستور کا تذکرہ کرتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ اس کے دور بنیادی اصول ہیں۔ اول یہ کہ قانون الٰہی ہر چیز سے بالا ہے۔ اسلام کے معاشری ڈھانچے میں ہیئت حاکمہ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ قانون الٰہی کی تاویل کرے۔ اسلام میں شخصی ہیئت حاکمہ کی کوئی جگہ نہیں۔ دوم: معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کے مساوی ہیں۔ اسلام میں طبقہ امرا کا کوئی وجود نہیں۔ اس میں نہ کوئی مراعات یافتہ طبقہ ہے، نہ ملا گری ہے، نہ ذات پات کا نظام۔ اقبال نے بتایا: ’’ تمام مسلمانوں کی برابری کا اصول ہی تھا جس نے ابتدا میں انہیں دنیا کی عظیم ترین سیاسی طاقت بنا دیا۔ اسلام معاشری اونچ نیچ کو ختم کرنے اور ایک ہموار معاشرے کی تخلیق کے ایک قوت ثابت ہوا۔ اس نے فرد کو اس کی قوت کا احساس دلایا۔ اس نے ان لوگوں کو اونچا کیا جو معاشرے کی نچلی سطح سے تعلق رکھتے تھے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا راز بھی یہی تھا کہ مدتوں سے پسے ہوئے اور روندے ہوئے عناصر کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہوا۔‘‘ اس کے بعد اقبال نے ملت اسلامیہ کی ایک اور بیماری کا تذکرہ کیا۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ کیا ہم ہندوستانی مسلمان اپنی معاشری معیشت کے اصول پر پورے اترتے ہیں؟ کیا اس سر زمین میں اسلام کی ہیئت اجتماعی کی وحدت محفوظ ہے۔ مذہبی مہم جو مختلف قسم کے فرقوں اور برادریوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ ہمیشہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہتے ہیں اور ہندوؤں کی طرح مسلمانوں میں بھی ذاتیں اور گوتیں وجود میں آ رہی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ذات پات کا دوہرا نظام قائم ہے کیونکہ فرقہ بندی کی صورت میں ذات پات کا مذہبی نظام بھی موجود ہے اور وہ معاشرتی نظام بھی موجود ہے جو ہم نے ہندوؤں سے ورثے میں حاصل کیا۔ یہ ان خاموش طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس سے مفتوح قومیں فاتح قوموں سے انتقام لیتی ہے۔‘‘ ’’ اسلام ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے۔ اس میں امتیازات کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں نہ وہابی ہیں، نہ شیعہ، نہ سنی، جب سچائی خود خطرے میں ہو تو سچائی کی تاویلات پر نہ لڑو۔ رات کی تاریکی میں چلتے چلتے ٹھوکر کھانے کی شکایت محض حماقت ہے۔ آؤ ہم سب مل کر آگے بڑھیں۔ طبقاتی امتیازات اور فرقہ بندی کے بت ہمیشہ کے لیے توڑ ڈالیں۔‘‘ اگر ہم اس مقالے کے مندرجات کا مطالعہ بیسویں صدی کے پہلے عشرے کی مسلم سیاست کے تناظر میں کرتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ میدان سیاست میں دخیل نہ ہونے کے باوجود اقبال ہی تھے جنہوں نے ایک جاندار تحرک اور خیال افروز قیادت فراہم کی اور برعظیم کے مسلمانوں کے مسائل کا ایک مثبت تجزیہ کر کے اور مثبت نتائج اخذ کر کے ان پر ظاہر کر دیا کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں، وہ انہیں ترقی کی طرف نہیں لے جائے گا۔ جہاں تک مسلم قومیت کے بارے میں اقبال کے تصور کا تعلق ہے، اس کا اولین عکاس ان کا وہ مقالہ ہے جو ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔ 3؎ یہ مقالہ اصلاً انگریزی میں لکھا گیا تھا اور 1901ء کے موسم سرما میں علی گڑھ کے ایم اے او کالج کے سٹریچی ہال میں پڑھا گیا، بعد میں مولانا ظفر علی خاں نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ ایک روایت کے مطابق اصل مقالے کا عنوان The Muslim Community تھا۔ لیکن جناب ڈاکٹر ایس اے رحمان کا بیان ہے کہ اصل انگریزی عنوان A Crusory Review of the Islamic Religion تھا اور غالباً اسی رعایت سے مولانا ظفر علی خاں نے ترجمہ کیا تو اس کا عنوان ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ دیا۔ مسلم قومیت کے تصور پر اقبال نے تین پہلوؤں سے نظر ڈالی۔ اول: جماعت مسلمین کی ہیئت ترکیبی۔ دوم: اسلام تمدن کی یک رنگی۔ سوم: اس سیرت کا نمونہ، جو مسلمانوں کی قومی ہستی کے تسلسل کے لیے لازمی ہے۔ اقبال نے لکھا: ’’ مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن، نہ اشتراک اغراض اقتصادی، بلکہ ہم لوگ اس برادری میں، جو جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی، اس لیے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے اور جو تاریخی روایات ہم سب کو ترکہ میں پہنچی ہیں، وہ بھی ہم سب کے لیے یکساں ہیں۔ اسلام تمام مادی قیود سے بیزاری ظاہر کرتا ہے اور ایں کی قومیت کا دارومدار ایک خاص تہذیبی تصور پر ہے جس کی تجسیمی شکل وہ جماعت اشخاص ہے جس میں بڑھتے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’ مذاہب کا مقصد یہ نہیں کہ انسان بیٹھا ہوا زندگی کی حقیقت پر غور کیا کرے۔ بلکہ اس کی اصل غایت یہ ہے کہ زندگی کی سطح کو بہ تدریج بلند کرنے کے لیے ایک مربوط اور متناسب عمرانی نظام قائم کیا جائے۔ مذہب سیرت انسانی کا ایک نیا اسلوب یا نمونہ پیدا کر کے اس شخص کے اثر کے لحاظ سے، جو اس سیرت کا مظہر ہے، اس نمونے کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے اور اس طور پر چونکہ وہ ایک نئی دنیا کو نیست سے ہست کرتا ہے۔ لہٰذا اس پر مابعد الطبیعیات کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘ ’’ اسلام کی حقیقت ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیت کے ساتھ چھپا ہوا ہے اور ہماری قومی زندگی کا تصور اس وقت تک ہمارے ذہن میں نہیں آ سکتا جب تک کہ ہم اصول اسلام سے پوری طرح باخبر نہ ہوں۔ بہ الفاظ دیگر اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسبت انگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے، وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔ جہاں اسلامی اصول یا ہماری مقدس روایات کی اصلاح میں خدا کی رسی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی اور ہماری جماعت کا شیرازہ بکھرا۔‘‘ دوسرے نکتے کا تذکرہ کرتے ہوئے اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا کہ دینی عقیدے اور ثقافتی یک رنگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ محض اسلام پر ایمان لانا کافی نہیں۔ اس یک رنگ ثقافت سے استفادہ بھی ضروری ہے جو ہمارے آباؤ اجداد کی متفقہ عقلی تحریک کا ماحصل ہے۔ اسلامی ثقافت کے مختلف عناصر کا تجزیہ کر کے انہوں نے کہا: ’’ صبغتہ اللہ کے اس خم میں غوطہ لگانے کا مدعا یہ ہے کہ مسلمان دو رنگی چھوڑ کر یک رنگی ہو جائیں۔ ان کا ذہنی منظر ایک ہو۔ وہ مظاہر آفرینش پر ایک خاص پہلو سے نظر ڈالیں۔ اشیاء کی ماہیت اور قدر و قیمت کو اس انداز خاص سے جانچیں جو جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کا مابہ الامتیا زہے اور جو مسلمانوں کو ایک غایت مختصر و مقصد معینہ کے پرائے سے آراستہ کر کے انہیں کل مومن اخوۃ کی کتاب کے اوراق بنا دیتا ہے۔‘‘ تیسرا نکتہ سیرت سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال نے قوموں کے اخلاق تجربے کی تاریخ میں دور شجاعت، دور مروت اور دور ضبط نفس کا تذکرہ کیا اور لکھا: ’’ اگر ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہماری قومی ہستی کا سلسلہ ٹوٹنے میں نہ آئے توہمیں ایک ایسا اسلوب سیرت تیار کرنا چاہیے جو اپنی خصوصیات مختصہ سے کسی صورت میں بھی علیحدگی نہ اختیار کرے اور خذ ما صفا و دع ما کدر کے زریں اصول کو پیش نظر رکھ کر دوسرے اسالیب کی خوبیوں کو اخذ کرتے ہوئے ان تمام عناصر کی آمیزش سے اپنے وجود کو کمال احتیاط کے ساتھ پاک کر دے جو اس کی روایات مسلمہ و قوانین منضبہ کے منافی ہوں۔‘‘ مروجہ تعلیم نے اقبال کے نزدیک تعلیم یافتہ مسلمانوں کو نیم مسلمان، بلکہ اس سے بھی کچھ کم بنا کر رکھ دیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ مجھے رہ رہ کر یہ رنج دہ تجربہ ہوا ہے کہ مسلمان طالب علم اپنی قوم کے عمرانی، اخلاقی اور سیاسی تصورات سے نابلد ہے۔ روحانی طور پر بہ منزلہ ایک بے جان لاش کے ہے اور اگر موجودہ صورت حالات اور بیس سال قائم رہی تو وہ اسلامی روح، جو قدیم اسلامی تہذیب کے چند علم برداروں کے فرسودہ قالب میں ابھی تک زندہ ہے، ہماری جماعت کے جسم سے بالکل ہی نکل جائے گی۔‘‘ علامہ نے یہ بھی کہا کہ علما اور واعظین کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے۔ واعظ کو تاریخ، معاشیات اور عمرانیات کے حقائق سے باخبر ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے ادب اور تخیل میں پوری دسترس رکھنی چاہیے۔ علامہ کی رائے یہ تھی کہ نہ موجود دینی مدرسے اور نہ علی گڑھ کالج قوم کی بڑی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔ وہ ایک ایسی اسلامی یونیورسٹی کا قیام چاہتے تھے ’’ جس کی مسند نشین اسلامی تہذیب ہو اور جس میں قدیم و جدید کی آمیزش عجیب دلکش انداز سے ہوئی ہو۔ اس قسم کی تصویر مثالی کھینچنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ تخیل، زمانے کے رحجانات کا لطیف احساس اور مسلمانوں کو تاریخ اور مذہب کے مفہوم کی صحیح تعبیر لازمی ہے۔‘‘ اقبال نے مسلمانوں کی معاشی حالت کو’’ نہایت ہی افسوس ناک اور قابل رحم‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے پوچھا’’ کیا ہم نے کبھی اس بات کو محسوس کیا ہے کہ ہماری انجمنوں اور مجلسوں کا فرض یہ نہیں ہے کہ خاص خاص اشخاص کے کلاہ اعزاز و افتخار میں بیٹھے ہوئے طرے لگایا کریں۔ بلکہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی سطح کو اونچا کریں؟‘‘ اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کا حصہ دلانا قابل ستائش ہے لیکن ا س کا فائدہ محدود ہے۔ سرکاری ملازمت چند افراد کو ضرور خوشحال بنا دیتی ہے لیکن قوم کے تمام افراد اسی صورت میں آسودہ اور خوشحال ہو سکتے ہیں کہ ان کو معاشی آزادی نصیب ہو جائے۔ا س کے لیے صنعتی تعلیم کی ضرورت ہے ’’ جو میری رائے میں اعلیٰ تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ صنعتی تعلیم سے عامہ خلائق کی اقتصادی حالت سدھرتی ہے اور یہی طبقہ قوم کے لیے بہ منزلہ ریڑھ کی ہڈی کے ہے۔ بہ خلاف اس کے اعلیٰ تعلیم صرف ان چند افراد کو نفع پہنچاتی ہے جن کی دماغی قابلیت درجہ اوسط سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔‘‘ اقبال نے صنعتی اور تجارتی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس اخلاقی تربیت پر بھی زور دیا جو اعتماد باہمی، دیانت داری، پابندی اوقات اور تعاون سے عبارت ہے اور جس کے بغیر کامیابی نا ممکن ہے۔ ان دو مقالات کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں برعظیم کی مسلم سیاست نرم و نازک حقوق طلبی، برطانیہ سے وفاداری اور عرض داشتوں سے عبارت تھی اور اگر سیاسی فکر موجود تھا تو بڑے تنگ دائرے میں مقید تھا۔ اقبال نے بڑے شرح و بسط کے ساتھ مسلم قومیت کے تصور کو اجاگر کیا۔ برعظیم کے مسلمانوں کے جملہ مسائل کا تجزیہ اور ان کا مثالی حل پیش کیا اور اس طرح اہل علم طبقے کے خیالات کو متنور کرنے کی سعی فرمائی اور وہ راستہ تجویز کیا جس پر چل کر مسلمان حقیقی ترقی کر سکیں۔ اس وقت زمین عملاً بنجر تھی لیکن اقبال نے بیج ڈال دیے، اس امید میں کہ کبھی تو پھوٹیں گے، کبھی تو ایک ہری بھری فصل اگے گی! اس زمانے میں دنیائے اسلام کے بعض خطوں میں ایک سیاسی انقلاب کے آثار نظر آ رہے تھے۔ ایران کے عوام طویل جدوجہد کے بعد بادشاہ سے مشروطہ (آئین) حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اور ترکیہ میں انجمن اتحاد و ترقی کے نوجوان قائدین سالہا سال کی جدوجہد کے بعد سلطان عبدالحمید کی آمرانہ خلافت کا تختہ الٹ کر ایک پارلیمانی دستور کی طرح ڈال چکے تھے۔ ایسے میں اقبال نے ضروری سمجھا کہ اسلام کے اصول ریاست کے خدوخال نمایاں کئے جائیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ’’ اسلام میں سیاسی فکر‘‘ کے موضوع پر انگریزی زبان میں مقالہ لکھا جو ’’ ہندوستان ریویو‘‘ نے دو اقساط میں چھاپا۔4؎ یہ بھی اس قابل ہے کہ اس کے نمایاں نقوش پیش کر دیے جائیں اقبال کے نزدیک دو نکتے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اول: مسلم کامن ویلتھ اس اصول پر مبنی ہے کہ قانون کی نظر میں تمام مسلمان ہر لحاظ سے برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوم: اسلامی قانون کی رو سے مذہب اور ریاست میں کوئی امتیاز موجود نہیں۔ پہلے نکتے کی تشریح کرتے ہوئے اقبال نے لکھا: ’’ اسلامی قانون نہ نسل کے بظاہر قدرتی اختلافات کو تسلیم کرتا ہے، نہ قومیت کے تاریخی اختلافات کو۔ اسلام کا سیاسی نصب العین ایک ایسی قوم کی تخلیق ہے جو تمام نسلوں اور قومیتوں کے ادغام کا نتیجہ ہو۔ اسلام کے نزدیک قومیت سیاسی نشو و ارتقا کی بلند ترین حد نہیں ہے کیونکہ اسلامی قانون کے عمومی اصول فطرت انسانی پر قائم ہیں، نہ کہ کسی خاص قوم کی خصوصیات پر۔ ایسی قوم کی اندرونی پیوستگی کا انحصار نہ نسلی اور جغرافیائی اتحاد پر ہے، نہ زبان یا معاشری روایت کی یکسانیت پر۔ اس کا انحصار دینی اور سیاسی نصب العین پر ہے یا اس نفسیاتی حقیقت پر کہ اس کے افراد میں ایک فکری یگانگت موجود ہے۔ چنانچہ اس قوم کی رکنیت ولادت، شادی، سکونت یا حقوق شہرت کی بنا پر معین نہیں ہو گی۔ اس کا تعین صرف یگانگت فکر کے اعلان سے ہو گا اور جب کوئی فرد اس یگانگت سے منحرف ہو گا تو اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ ایسی قوم کا مثالی علاقہ ساری دنیا ہی ہو سکتی ہے۔‘‘ دوسرے نکتے کے بارے میں اقبال نے لکھا کہ ہمارے نزدیک ریاست دینی اور دنیاوی ہیئت حاکمہ کے امتزاج کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسی وحدت ہے جس میں ایسا کوئی امتیاز موجود نہیں۔ ضروری نہیں کہ خلیفہ اسلام کا ملائے اعظم High-Priest بھی ہو اور وہ زمین پر خدا کا نمائندہ بھی نہیں ہے۔ اقبال نے لکھا: ’’ ہر مسلمان آزاد ہے کہ جو چاہے، کرے، بشرطیکہ وہ قانون شکنی نہیں کرتا۔ اس قانون کے عمومی اصول وحی کا نتیجہ ہیں۔ جہاں تک نسبتاً دنیاوی معاملات کا تعلق ہے۔ تفاصیل کی تاویل پیشہ ور وکلاء پر چھوڑ دی گئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ اسلامی قانون کا پورا ڈھانچہ حقیقی عمل درآمد کے روپ میں ایک ایسا قانون ہے جو قاضیوں نے بنایا۔ پس اسلامی آئین میں قانون سازی کا فرض وکلاء انجام دیتے ہیں۔ بہرحال اگر کوئی بالکل نیا معاملہ اٹھے جس کا حل اسلامی قانون میں موجود نہ ہو تو ساری مسلمان قوم کی مرضی قانون کا ایک مزید ماخذ بن جاتی ہے۔ لیکن مجھے معلوم نہیں کہ اس مقصد کے لیے کبھی ساری مسلم قوم کی کوئی عمومی مجلس مشاورت منعقد ہوئی ہو۔‘‘ گویا اقبال نے اس مرحلے پر اجتہاد کی طرف ایک اشارہ کر دیا جس کی مفصل تشریح سالہا سال بعد خطبات مدراس میں کی۔ اس کے بعد اقبال نے خلیفہ کے انتخاب، اس کے اپنے اور اس کے نائبین کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ شیعہ نقطہ نگاہ بھی بیان کیا اور خوارج کے مختلف گروہوں کے نقطہ ہائے نگاہ کا بھی تذکرہ کیا۔ اقبال نے یہ رائے ظاہر کی کہ قرآن مجید میں خلافت کا جو بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے، وہ انتخاب کا اصول ہے لیکن اس کی جزئیات کا تعین دوسرے معاملات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اقبال نے لکھا: ’’ بہرحال بدقسمتی سے تصور انتخاب کو خاص جمہوری خطوط پر آگے نہیں بڑھایا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان فاتحین ایشیا کی سیاسی بہتری کے لیے کچھ کرنے میں ناکام رہے۔ انتخاب کی صورت یقینا بغداد اور سپین میں قائم رکھی گئی لیکن عام لوگوں کی قوت بیدار کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ جمہوری ادارے نہ ابھر سکے۔ میرے نزدیک اسلامی ممالک میں سیاسی عمل کے اس فقدان کے دو بڑے سبب تھے۔ اول: جن دو بڑی نسلوں نے اسلام قبول کیا، ان میں ایک ایرانی تھے، دوسرے منگول اور انتخاب کا تصور ان دونوں کے مزاج کے منافی تھا۔ دوم: ابتدائی مسلمانوں کی زندگی فتوحات کی زندگی تھی۔ ان کی ساری قوت سیاسی توسیع پر مرتکز تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیاسی اقتدار چند ہاتھوں میں چلا جاتا ہے اور اس طرح ریاست غیر شعوری طور پر آمریت کی کنیز بن جاتی ہے۔‘‘ آخر میں اقبال نے اس زمانے کی دنیائے اسلام کے سیاسی رحجانات پر جس رائے کا اظہار کیا، وہی اس مقالے کے شان نزول معلوم ہوتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ آج کے زمانے میں مغربی سیاسی تصورات کے طفیل مسلمان ملکوں نے سیاسی زندگی کے آثار کا مظاہرہ کیا ہے۔ مصر نے ترقی کی ہے۔ ایران نے شاہ سے آئین حاصل کیا ہے اور انجمن اتحاد و ترقی ترکیہ میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد، منصوبہ بندی اور سازش کرتی رہی ہے لیکن ان سیاسی مصلحین کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اسلام کے آئینی اصولوں کا گہرا مطالعہ کریں اور ایک نئی ثقافت کے پیغام بر بن کر اپنی قوم کی قدرتی طور پر بدظن قدامت پسندی کے لیے صدمے کا باعث نہ ہوں۔ وہ اپنی قوم کو یقینا اسی صورت میں متاثر کر سکیں گے کہ وہ اس بات کا مظاہرہ کریں کہ ان کا بظاہر مستعار سیاسی آزادی کا نصب العین اصل میں اسلام کا نصب العین ہے او رآزاد اسلامی ضمیر کا صحیح مطالبہ ہے۔‘‘ ٭٭٭ حوالے 1۔ Thoughts Reflections of Iqbal۔ صفحات29-55مشہور اقبالیات جناب سید عبدالواحد معینی نے ’’ مقالات اقبال‘‘ کے پیش لفظ میں بیان فرمایا ہے کہ مولانا ظفر علی خان نے اسی مقالے کا ترجمہ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے کیا۔ یہ بیان صحیح نہیں مولانا نے جس مقالے کا ترجمہ کیا، اس کا اصل انگریزی متن محفوظ نہیں ہے، البتہ اس کے چند انگریزی اقتباسات محفوظ ہیں۔ حوالے کے لیے دیکھئے: Census of India Report 1911 (punjab): Part 1: Lahore 1912 خود سید عبدالواحد صاحب نے اسی ذریعے سے اقتباسات لے کر اپنی کتاب Thoughts and Reflections of Iqbal کے آخر میں درج کیے ہیں۔ 2 ۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ ص51 3۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات115, 142 4۔ Thoughts and Reflections of Iqbal صفحات56, 75 ٭٭٭ آٹھواں باب 1908ء سے 1914ء تک مسلم قومیت شعر کے روپ میں اقبال دنیائے اسلام کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور مستقبل شناس تھے۔ 1911ء میں اپنی نظم ’’ غزہ شوال‘‘ میں لکھا: ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ 1؎ ایران میں ماتم کی تیاری کیوں؟ اس لیے کہ پہلے انگریزوں نے تحریک مشروطیت کی پشت پناہی کی، پھر 1907ء میں روس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے ایران کو دونوں نے حلقہ اثر کے اعتبار سے آپس میں بانٹ لیا۔ نومبر1911ء میں سینٹ پیٹرز برگ کے مقام پر روس اور جرمنی کے درمیان ایک سمجھوتا ہوا جس کی رو سے جرمنی نے ایران کو روسی حلقہ اثر تسلیم کر لیا۔ اور 1914ء میں برطانیہ اور روس کی فوجوں نے ایران پر قبضہ جما کر اس کی آزادی کو سلب کر لیا۔ دوسرے شعر کا س منظر یہ ہے کہ جب انجمن اتحاد و ترقی کے لائے ہوئے انقلاب کی بدولت سلطان عبدالحمید دوم مسند خلافت سے محروم ہوا تو اس صورت حالات سے دشمنوں نے فائدہ اٹھایا۔ اس سے پہلے بوسنیا اور ہرزی گووینا پر آسٹریا کا فوجی قبضہ تو تھا لیکن رسمی طور پر یہ علاقے اس کا جزو نہیں بنے تھے۔ اب آسٹریا نے اعلان کیا کہ یہ دونوں علاقے مستقل طور پر اس کے ہیں۔ اس طرف بلغاریہ نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور اس کے بعد جنگ طرابلس اور جنگ ہائے بلقان نے خلافت عثمانیہ کو پے در پے صدمات کا نشانہ بنایا۔خلافت کی قبا کو چاک کرنے سے ایک مراد یہ بھی تھی کہ انجمن اتحاد و ترقی نے اسلام کی جگہ ملت عثمانیہ کی بنیاد’’ عثمانیت‘‘ کو قرار دیا۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کہ عثمان دولت عثمانیہ کا بانی تھا اور ا سکے جواز میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ جب تمام شہری عثمانی قرار دیے جائیں گے تو اقلیتوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جب عثمانیت کا سلسلہ نہ چلا تو تحریک اتحاد تورانی کا نعرہ بلند کیا تھا جو ایک خالص نسلی نعرہ تھا۔ اٹلی نے دوسری یورپی طاقتوں سے عدم مداخلت اور غیر جانب داری کی یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد28ستمبر1911ء کو ترکیہ کو چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دے کر طرابلس اور سیرے نائیکہ پر قبضہ جما لیا جو بعد میں لیبیا کے نام سے مشہور ہوئے۔ ترکیہ کے پاس ایک مضبوط جنگی بیڑہ نہیں تھا، اس لیے وہ طرابلس کا دفاع نہ کر سکا۔ لیکن اس نے مقامی آبادی کو منظم کر کے اطالوی فوج کے خلاف برسر پیکار کر دیا اور کچھ علاقے واپس بھی لے لیے۔ 9 نومبر1911ء کو حضرت اکبر الہ آبادی کے ایک مکتوب کے جواب میں اقبال نے لکھا: ’’ ترکوں کی فتح کا مژدہ جاں فزا پہنچا مگر اس کا کیا علاج کہ دل کو پھر بھی اطمینان نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں، روح کیا چاہتی ہے اور آنکھوں کو کس نظارے کی ہوس ہے۔ میں ایک زبردست تمنا کا احساس اپنے دل میں کرتا ہوں گو اس تمنا کا موضوع مجھے اچھی طرح سے معلوم نہیں ایسی حالت میں مجھے مسرت بھی ہو تو اس میں اضطراب کا عنصر غالب رہتا ہے۔ 2؎‘‘ اقبال کی تشویش بے جا نہیں تھی کیونکہ یورپ کی بساط سیاست پر شطرنج کے مختلف مہرے آگے بڑھ رہے تھے اور سب یورپ کے ’’ مرد بیمار‘‘ کو مات دینے کے درپے تھے۔ جنگ طرابلس کے دنوں میں برعظیم کے مسلمانوں میں ترکیہ کے حق میں عظیم جوش و خروش موجود تھا۔ اقبال نے بھی عوام کے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کیا اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ 1912ء میں جب طرابلس کے عوام نے آگ اور خون کے ایک ہولناک غسل سے گزر کر اطالوی فوجوں کو صرف ساحلی مقامات تک محدود کر دیا تو اقبال نے اپنی نظم ’’ حضور رسالت ماب ؐ‘‘ میں لکھا: حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی ہیں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو ایک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں3؎ اور جب ایک تیرہ سالہ بچی فاطمہ بنت عبداللہ میدان جہاد میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہو گئی تو شاعر مشرق پکار اٹھے: یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم میں ہے رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے ذرہ ذرہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے ہے کوئی ہنگامہ تیری تربت خاموش میں پل رہی ہے ایک قوم تازہ اس آغوش میں4؎ ابھی یہ جنگ جاری تھی کہ چار بلقانی ریاستوں یونان، سربیا، مانٹی نیگرو اور بلغاریہ نے اکتوبر 1912ء میں ترکیہ کو الٹی میٹم دیا کہ وہ اصلاحات کا نفاذ کرے اور بلقانی ریاستوں میں ترکیہ کی فوجی لام بندی واپس لے۔ اور جب ترکیہ نے ایسا نہ کیا تو جنگ چھڑ گئی یہ جنگ ترکوں کے لیے نہایت برباد کن ثابت ہوئی جس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ترک فوج سیاسی اختلافات کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ اس دور میں برعظیم کے مسلمانوں میں بھی اپنے ترک بھائیوں کے لیے بے چینی نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔ مولانا ظفر علی خان کا ’’ زمیندار‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد کا ہفت روزہ ’’ الہلال‘‘ محمد علی کا انگریزی ہفت روزہ ’’ کامریڈ‘‘ اور روزنامہ’’ ہمدرد‘‘ اور دوسرے بے شمار مسلمان اخبارات اس بے چینی کے عکاس تھے۔ مسلمان رہنماؤں نے ترکوں کے لیے چندہ جمع کر کے بھیجا اور ڈاکٹر انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد بھی ترکیہ گیا۔ شاعر مشرق بھی قدرتی طور پر اس صورت حال سے متاثر تھے اور وہ اپنے خیال افروز کلام سے مسلمانوں کے دلوں کو گرماتے اور تڑپاتے رہے۔ جب ترک فوج اور نہ میں محصور ہو گئی تو محاصرے کے دوران میں جنگ کے اخلاقی پہلو سے تعلق رکھنے والے ایک واقعہ کو اقبال نے یوں اشعار کے قالب میں ڈھالا: یورپ میں جس گھڑی حق و باطل کی چھڑ گئی حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہو گیا گرد صلیب گرد قمر حلقہ زن ہوئی شکری حصار درنہ میں محصور ہو گیا مسلم سپاہیوں کے ذخیرے ہوئے تمام روئے امید آنکھ سے مستور ہو گیا آخر امیر عسکر ترکی کے حکم سے ’’آئین جنگ‘‘ شہر کا دستور ہو گیا ہر شے ہوئی ذخیرہ لشکر میں منتقل شاہیں گدائے دانہ عصفور ہو گیا لیکن فقیہہ شہر نے جس دم سنی یہ بات گرما کے مثل صاعقہ طور ہو گیا ’’ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام‘‘ فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہو گیا چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج مسلم خدا کے حکم سے مجبور ہو گیا5؎ اور جب بلغاریہ کی فوج قسطنطنیہ (استنبول) کی آخری دفاعی لائن پر پہنچ گئی تو اقبال نے قسطنطنیہ سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی کا یوں اظہار کیا: خطہ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار مہدی امت کی سطوت کا نشان پائدار صورت خاک حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے نگہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا تربت ایوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا اے مسلماں ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر6؎ قسطنطنیہ بچ گیا لیکن ادرنہ چھن گیا۔ اور ادرنہ ہی نہیں بہت سے یورپی علاقوں سے ترکیہ محروم ہو گیا کیونکہ شکست کی وجہ سے اسے 30مئی 1913ء کو معاہدہ لندن پر دستخط ثبت کرنے پڑے۔ بہرحال حالات نے ایک بہتر کروٹ لی۔ علاقوں کی تقسیم پر ایک مہینے بعد ہی بلقانی ریاستوں میں پھوٹ نے ایک اور جنگ کا روپ لیا۔ ترکیہ نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ادرنہ پر پھر قبضہ کر لیا اور بلغاریہ نے قسطنطنیہ میں ایک معاہدے پر دستخط ثبت کر کے اس قبضے کی تصدیق کر دی۔ بہرحال ابھی ترکیہ کی بدنصیبی کے دن ختم نہیں ہوئے تھے کیونکہ اسے 1914ء کی پہلی عالمی جنگ میں کودنا پڑا۔ برعظیم کے مسلمان رہنما عافیت کوشی کی روش پر چل رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انگریز ان سے انصاف کرے گا اور وہ اس کے سایہ عاطفت میں چین کی بنسری بجائیں گے۔ لیکن تقسیم بنگال کی تنسیخ اور سانحہ کانپور نے ان کے ذہن کو صدموں سے آشنا کیا اور ان پر یہ حقیقت منکشف کی کہ انگریز پر انحصار بے سود ہے اور اگر مستقبل سنوارنا ہے تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ بین الاقوامی حالات سے بھی وہ نہایت مشوش تھے اور محسوس کرتے تھے کہ مسلمان برعظیم کے اندر اور باہر دونوں جگہ پٹ رہے ہیں۔ اس کا حل کیا ہو؟ اس سلسلے میں مسلمان رہنماؤں کی غالب اکثریت میں یہ رائے نشوونما پانے لگی کہ انگریز سے لڑنے اور اپنا مقام حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ کوئی سیاسی مفاہمت ہو جائے تاکہ ’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی نہ چل سکے۔ دوسرے لفظوں میں متحدہ قومیت کے حق میں رحجان ابھرا۔ اقبال عملی سیاست میں تو حصہ نہیں لیتے تھے لیکن سیاسی سطح پر تموج کا مشاہدہ تو کرتے تھے۔ وہ اسلام کے تصور بین الاقوامیت یا دوسرے لفظوں میں مسلم قومیت کے قائل تھے اور ان کی رائے یہ تھی کہ بین الاقوامی سطح پرمسلمان پسپائی پر مجبور ہو گئے تو محض اس لیے کہ مسلم قومیت پر ان کا ایمان متزلزل ہو گیا اور وہ نجات کے لیے وطنیت کے مغربی تصور کے دامن میں پناہ لینے لگے۔ یا انہوں نے ’’ عثمانیت‘‘ یا اتحاد تورانی کے نسلی تصورات کو اپنا لیا اور انہیں یہ بھی پسند نہیں تھا کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی انفرادیت اور ملی تشخص کو کھو کر متحدہ قومیت کے تصور کو اختیار کر لیں۔ اس لیے اس دور میں انہوں نے اپنی شاعری میں دو ہی چیزوں پر زور دیا۔ اول: وطنیت کے مغربی تصور کی مخالفت۔ دوم: مسلم قومیت کے تصور کی پیش رفت۔ مغربی تصور وطنیت کی مخالفت پہلے بھی کر چکے تھے لیکن اب اس مخالفت میں زیادہ گھن گرج پیدا ہو گئی۔ انہوں نے کہاـ: اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویٰ ہے نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفویٰ خاک میں اس بت کو ملا دے اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے جس قومیت اسلام کی تشریح اقبال نے اپنی نثری تحریروں میں بڑی شرح و وسط سے کی اس کا شعری روپ ’’ ترانہ ملی‘‘ ہے جو اس دور میں لکھا گیا اور جسے ہر مسلمان نے حرز جاں بنا لیا۔ یہی نہیں اس دور میں اقبال نے جتنی نظمیں لکھیں ان سب کا موضوع یہی ہے۔ ’’ شکوہ‘‘ اور’’ جواب شکوہ‘‘ اور’’ شمع و شاعر‘‘ اور دوسری بے شمار نظموں میں انہوں نے مسلمانوں کی توجہ عظمت رفتہ کی طرف دلائی۔ انہیں اپنی قدروں اور معتقدات سے پیار سکھایا۔ انہیں مسلسل عمل کی تلقین فرمائی۔ سالک ان نظموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ یہ نظمیں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ شاعر کے دل و دماغ میں اپنے مقدس نصب العین کو مقبول عام بنانے کا جوش بدرجہ اتم پیدا ہو چکا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ نظمیں ہیں جن سے علامہ اقبال اسلامی ہند کی آنکھ کا تارا بن گئے اور تمام مسلمان بلا امتیاز مسلک و عقیدہ ان کے فدائی ہو گئے۔ اس زمانے میں مائیکرو فون نہ تھا لیکن اس کے باوجود پندرہ پندرہ بیس بیس ہزار کے مجمعوں میں علامہ اقبال اپنی نظمیں اپنے آہنگ بلند و شیریں میں سناتے تھے۔ جو سن سکتے تھے وہ بے خود ہو جاتے تھے اور جو نہیں سن سکتے تھے وہ بھی مسحور ہو کر بے حس و حرکت اپنے محبوب شاعر کے چہرے کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے تھے۔ 8؎‘‘ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ بانگ درا‘‘ صفحات200, 201 2۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم صفحات37, 38 3۔’’ بانگ درا‘‘ صفحات218, 219 4۔’’ ایضاً‘‘ صفحات239, 40 5۔ا یضاً، ص242 6۔ایضاً، صفحات156, 57 7۔ایضاً، صفحات173, 74 8۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص94 ٭٭٭ نواں باب عزلت نشینی اور ’’ اسرار خودی‘‘ 1914ء کے اواخر میں پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی اس نے مسلمانوں کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ۔ برطانوی راج کی وجہ سے وہ مجبور تھے کہ جنگی مساعی میں تعاون کریں۔ لیکن دینی نقطہ نگاہ اس کے راستے میں حائل تھا کہ خلافت عثمانیہ جرمنی کی ساتھی تھی اور انگریزوں کی دشمن۔ اس لیے جنگی مساعی میں تعاون کا مطلب یہ تھا کہ خلافت عثمانیہ کو ضعف پہنچانے میں مدد دی جا رہی ہے۔ مولانا محمد علی نے جنگ میں ترکیہ کے کردار کا جواز پیش کیا تو ان کا ہفت روزہ ’’ کامریڈ‘‘ اور’’ الہلال‘‘ اور کیا’’ زمیندار‘‘ اور کئی دوسرے اسلامی اخبار سبھی کو بند ہونا پڑا۔ حکومت برطانیہ نے مولانا محمود الحسن شیخ الہند، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عزیز گل کو گرفتار کر کے جزیدہ مالٹا میں نظر بند کر دیا۔ برعظیم کے اندر محمد علی اور شوکت علی اور ان کے بعد ابو الکلام آزاد، ظفر علی خان اور حسرت موہانی پابند اور مقید کیے گئے۔ جو مسلمان رہنما آزاد رہے، ان میں بیشتر مسلم لیگ میں شامل تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو بیک وقت مسلم لیگ اور کانگرس کے رکن تھے۔ انہوں نے سوچا کہ انگریز سے تو کسی فلاح کی امید نہیں اس لیے بہتری یہی ہے کہ کانگرس کے ساتھ مل کر ایک متحدہ محاذ بنایا جائے۔ تاکہ جنگ کے بعد آئینی اصلاحات کے اجرا کے سلسلے میں انگریز یہ عذر نہ کر سکیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلاف ہے۔ ان رہنماؤں میں محمد علی جناح (قائداعظم) سر فہرست تھے اور انہی کی سعی سے پہلے بمبئی میں اور 1916ء میں لکھنو میں لیگ اور کانگرس کے سالانہ اجلاس بیک وقت ہوئے۔ اور ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پہلی اور آخری مرتبہ اس مسئلے پر اتفاق رائے ہو گیا کہ مستقبل کے ہندوستان کا آئینہ ڈھانچہ کیسا ہو اور اس میں مسلمانوں کو کیسا مقام حاصل ہو۔ جس دستاویز پر طرفین کے رہنماؤں کے دستخط ثبت ہوئے اسے میثاق لکھنو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس میں اطمینان بخش پہلو یہ تھے کہ کانگرس نے ان کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول مان لیا۔ یہ طے پا گیا کہ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نشستیں حاصل ہوں گی اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ اگر کسی مسودہ قانون یا تجویز کو مجلس قانون ساز میں کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان کی مخالفت پیش آئے تو وہ منظور نہیں ہو سکے گا۔ خواہ مجموعی طور پر اسے ایوان کی اکثریت کی تائید حاصل ہو۔ یہ بھی طے پا گیا کہ جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں انہیں پاسنگ (ویٹیج) یعنی آبادی کے تناسب سے زیادہ نیابت دی جائے گی۔ لیکن اس اصول کو جب غیر مسلم اقلیتوں پر لاگو کیا گیا تو پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت برابری یا اقلیت میں بدل گئی۔ اس طرح ہندوستان میں کوئی ایسا صوبہ باقی نہ رہا جسے مسلم اکثریتی صوبہ کہا جا سکتا۔ میثاق لکھنو کو مقبول بنانے کے لیے مسز اینی بیسنٹ کی صدارت میں ہوم رول لیگ کے نام سے ایک عوامی جماعت قائم کی گئی اور مختلف صوبوں میں ماتحت مجالس بنائی گئیں اور جا بہ جا جلسے ہونے لگے جن میں مثاق لکھنو پر صاد کیا گیا۔ تاکہ جونہی جنگ ختم ہو حاکموں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو کہ میثاق لکھنو کو عمل میں لا کر حکومت خود اختیاری کے اصول کو رواج دے دیں۔ ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں حالات نسبتاً سازگار تھے۔ لیکن پنجاب میں رسوائے زمانہ مائیکل اوڈوائر کا راج تھا۔ اور پنجاب کو انگریزوں نے ’’ ہندوستان کے بازوئے شمشیر زن‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ کیونکہ فوجی بھرتی زیادہ تر اسی صوبے سے ہوتی تھی۔ مائیکل اوڈوائر ایک تو طبعاً فرعون صفت تھا۔ دوسرے وہ چاہتا تھا کہ بھرتی کے اعتبار سے اس ’’ زرخیز علاقے‘‘ میں آزادی اور خود مختاری کے خیالات پیدا نہ ہوں۔ اس لیے اس نے حکومت خود اختیاری کی تحریک کے راستے میں بہت سی دیواریں حائل کر رکھی تھیں۔ اور مختلف قسم کے مرئی اور غیر مرئی دباؤ سے سخت گھٹن کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ بھرتی کے بارے میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جنگ کے پہلے دو سالوں میں پورے برعظیم میں جتنے رنگروٹ بھرتی کیے گئے ان میں نصف کے لگ بھگ پنجابی تھے اور آخری دو سالوں میں نصف سے کچھ کم۔ رسمی طور پر تو جبری بھرتی نافذ نہیں تھی لیکن پنجاب میں عملاً جبری بھرتی کی صورت تھی اور ا سکے نتیجے میں عوام اور عمال حکومت کے درمیان تصادم بھی ہوتے رہے اور انہوں نے گھٹن کو گھنسیر بنا رکھا تھا۔ ان حالات میں حضرت علامہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی سیاسی کردار ادا کرتے۔ کیونکہ ایک تو طبعاً عملی سیاست سے گریزاں رہتے تھے دوسرے گھٹن بھی کسی سیاسی کردار کے راستے میں حائل تھی۔ سالک نے میثاق لکھنو کے سلسلے میں اقبال کی رائے یوں بیان کی ہے کہ ’’ علامہ اقبال اس میثاق کے مخالف تھے کیونکہ اس کے ماتحت مسلم اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کو موثر اقتدار نہ ملتا تھا اور مسلم اقلیت والے صوبوں میں پاسنگ کی وجہ سے ان کو کوئی خاص فائدہ نہ پہنچتا تھا۔ اس کے علاوہ علامہ کا خیال یہ تھا کہ ایسا میثاق اسی صورت میں مفید ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں قومیت متحدہ کی داغ بیل ڈالنا منظور ہو۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں قومیت متحدہ کی تعمیر نا ممکن ہے نہ اس کے لیے کوشش کرنا مفید ہے۔ 1؎‘‘ اس زمانے میں پنجاب کے مسلمان سیاسی رہنماؤں کی رائے یہی تھی۔ لیکن سالک نے یہ نہیں بتایا کہ علامہ نے اس رائے کا اظہار کب اور کہاں کیا۔ کیونکہ وہ تو سیاست سے کاملاً کنارہ کش تھے۔ بہرحال یہ ممکن ہے کہ اقبال نجی محفلوں میں اس رائے کا اظہار کرتے ہوں اور چونکہ سالک کو ان سے شرف نیاز مندی حاصل تھا اس لیے ان کے ساتھ بھی اس کا تذکرہ ہوا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سالک نے خطبہ الہ آباد میں میثاق لکھنو پر اقبال کی نکتہ چینی کی بنا پر ایسا لکھا ہو۔ گھٹن کا آغاز تو جنگ کے ابتدائی دنوں ہی میں ہو گیا تھا۔ چنانچہ جب مولانا شوکت علی نے علامہ کو علی گڑھ کالج کے اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں مدعو کیا تو انہوں نے جواب دیا:’’ بھائی شوکت! اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفان بے تمیزی کے زمانے میں گھر کی چار دیواری کو کشتی نوح سمجھتا ہے۔ دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے مگر اس وجہ سے کہ روٹی کھانے کی مجبوری ہے تم مجھے علی گڑھ بلاتے ہو میں ایک عرصہ سے خدا گڑھ میں رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کئی عمروں میں ختم نہیں ہو سکتی۔ سیاست بلکہ عام اجتماعی سرگرمیوں سے علامہ کے گریز پر ان کے دوست مرزا جلال الدین کی یہ تحریر ہماری رہنمائی کرتی ہے: ’’ ان کی طبیعت کو فطری طور پر سیاست سے مناسبت نہیں تھی۔ نہ انہوں نے زندگی بھر کبھی قائد بننے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسیات ہندی اپنی نوعیت کے لحاظ سے مایوس کن ہے۔ غیر ملکی حکومت کے ارباب قضا و قدر سے جو سات سمندر پار بیٹھ کر اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں، کسی قسم کے سیاسی ہنگامے سے متاثر ہونے کی کم امید ہے اور جب تک ہندوستان کی حکومت کا سرچشمہ انگریز ہے، مسلمان اپنے مفاد کے لیے اس سے کچھ نہیں پا سکتا اور اس کی تمام جدوجہد اپنے مفید جوہر کو رائیگاں کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ وہ ایسی سیاسی قیادت کو سوائے شور و شغب کے اور کچھ نہ سمجھتے۔ بلکہ وہ اس سلسلے میں اس قدر مایوس تھے کہ انجمن حمایت اسلام جیسے ادارے اور اسلامیہ کالج جیسے دار العلوم کی مجلس انتظامیہ کے صدر ہونے کے باوجود ان کی کارروائیوں سے بڑی بے رخی برتتے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومت سے امداد لینے کی وجہ سے دونوں کا دائرہ عمل محدود ہو چکا ہے اور ان اداروں کی ترقی کے لیے کسی نئے لائحہ عمل کا تجویز کرنا نا ممکن ہے۔ اقبال کا تفکر و تدبر محض اس اسلامی سیاست تک محدود تھا جس کا ذکر کلام پاک میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ اس سیاست کو انہوں نے اپنا موضوع سخن بنایا اور اسی نکتہ پر ان کے خیالات ابتدا سے آخر تک مرکوز رہے۔ اور یہ نکتہ وحدت ملی تھا اس کے سوا وہ کسی اور سیاست کو درخوراعتنا تصور نہ کرتے تھے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ ان کو سیاست ہندی سے کس قدر لگاؤ ہو سکتا تھا۔ 3؎‘‘ وقتی سیاست میں اجتناب مفید رہا۔ کیونکہ اقبال کی جملہ مساعی لمبے عرصے کی سوچ اور مسلمانان عالم میں ایک نئے شعور کی تخلیق پر مرتکز ہیں اور اسی سوچ کے بطن سے ’’ اسرار خودی‘‘ نے جنم لیا اور وہ فلسفہ خودی ابھرا جس کے شعور پر قوموں بلکہ پوری نوع انسانی کی ترقی کا دار و مدار ہے۔ ’’ من‘‘ کی تخلیق ہر انسان میں ہوتی ہے لیکن جن میں یہ احساس تیز ہوتا ہے ان میں خودی کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ اور ان کی زندگی سراپا جدوجہد ہو جاتی ہے۔ پہلا مرحلہ ’’ شعور خوشیتن‘‘ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے۔ دوسرا مرحلہ ’’ شعور دیگرے‘‘ ہے کہ وہ دوسرے لوگوں میں اپنی حیثیت معین کرے۔ تیسرا مرحلہ ’’ شعور ذات حق‘‘ کا ہے۔ تاکہ اس خدا کے وجود کا احساس ہو۔ اس احساس کے تین اجزا ہیں۔ نور، حیا اور عشق۔ ایک منور قلب ظواہر کو نہیں بلکہ حقیقت کو براہ راست دیکھ کر اس پر یقین کر لیتا ہے۔ حیا غلطی کا احساس دلاتی ہے، جس سے اصلاح ممکن ہو جاتی ہے اور عشق عمل کا دوسرا نام ہے اس میں ایمان بھی شامل ہے اور جہاد بھی خودی کے تین مدارج ہیں اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ جب انسان کسی نظام کی مکمل اطاعت قبول کر لیتا ہے، اس کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتا ہے تو پھر وہ مکمل ہے۔ نیابت الٰہی کا حق دار ہے۔ اسی کتاب میں اقبال نے تصوف کے اس تصور کی مخالفت فرمائی جو رہبانیت کا درس دیتا ہے اور اس ادب کو غلط قرار دیا جو انسانوں کو حقیقت سے دور کرتا ہے اور اس طرح عمل کی قوتوں کو سلب کر دیتا ہے۔ 1913ء سے اقبال اسرار خودی کی تحریر میں مصروف تھے۔ دو سال بعد یہ کتاب مکمل ہوئی تو شفاء الملک حکم فقیر محمد چشتی کی مدد چاہی کہ علامہ کو کتابت و طباعت کے خلجان سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ حکیم صاحب نے مشہور کاتب منشی فضل الٰہی مرغوب رقم سے کتابت کرائی 4؎ اور 1915ء کے وسط میں چھپوا لی۔ جونہی کتاب منظر عام پر آئی، بہت سوں نے اسے پسند کیا۔ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ کسی نے تصوف کی مخالفت کا الزام لگایا۔ کسی نے حافظ شیرازی کی مخالفت پر نکتہ چینی کی۔ اقبال نے ان کے جواب میں مضامین لکھے اور جب دوسرے ایڈیشن کی طباعت کا وقت آیا تو دیباچہ بھی حذف کر دیا اور حافظ کے خلاف اشعار بھی۔ اقبال کو مثنوی اسرار خودی لکھنے کی انگیخت کیسے ہوئی اور انہوں نے مخالفین کو کیسے جواب دیے۔ اس سلسلے میں ان کے چند مکاتیب سے کچھ اقتباسات دینے ضروری ہیں۔ سرکشن پرشاد شاد کے نام لکھتے ہیں: ’’ یہ مثنوی جس کا نام ’’ اسرار خودی‘‘ ہے ایک مقصد سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی و بے خودی کی طرف ہے۔ مگر قسم ہے اس خدائے واحد کی، جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو ہے میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا۔ جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا میری روح کو چین نہیں آئے گا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا بھی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کا اصل مقصد ہی یہی ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہو گی۔ کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانے کی پیداوار ہیں۔ اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزا و اسباب کو اپنے شکار (خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنا دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے تباہ و برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا ہے مگر: اور من صدائے شاعر فردا ستم نا امید ستم ز یاران قدیم طور من سوزد کہ می آید کلیم نہ خواجہ حسن نظامی رہے گا، نہ اقبال ۔ یہ بیج، جو مردہ زمین میں اقبال نے بویا ہے اگے گا۔ ضرور اگے گا اور علی الرغم مخالفت بار آور ہو گا مجھ سے اس کی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ الحمد للہ۔ 5؎‘‘ اکبر الہ آبادی کو ایک مکتوب میں بتایا کہ اسرار خودی میں حافظ پر جو کچھ لکھا گیا وہ محض اس ادبی نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے چلا آتا ہے۔ نہ ولایت پر تنقید مقصود تھی نہ ان کی شخصیت پر۔ ’’ چونکہ حافظ ولی اور عارف تصور کئے گئے ہیں، اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل ہی نظر انداز کر دی ہے اور میرے ریمارک تصوف اور ولایت پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھے گئے۔‘‘ حضرت علامہ نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ عجمی تصوف سے ادب میں دلفریبی اور حسن تو پیدا ہے لیکن ایسا کہ طبائع کو پست کرتا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے اور اس قوت کا اثر ادب پر ہوتا ہے۔ اصل میں دنیائے اسلام میں مسلمانوں کا ادب قابل اصلاح ہے۔ قنوطی ادب کبھی زندہ نہیں رہ سکا۔ قوم کی زندگی کا تقاضا ہے کہ وہ خود بھی رجائی ہو اور اس کا ادب بھی رجائیت کا مظہر ہو۔ 6؎ یہی بات زیادہ تفصیل اور زیادہ عمق کے ساتھ مولوی سراج الدین پال کے نام مکتوب میں لکھی۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے۔ یہ ایک نہایت Subtle طریق تنسیخ کا ہے۔ اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کر سکتی ہیں جن کی فطرت گو سفندی ہو۔ شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعراء ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفے کی طرف مائل تھے۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلان طبیعت موجود تھا اور اگرچہ اسلام نے کچھ عرصہ تک اس کا نشوونما نہ ہونے دیا، تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا۔ یا بہ الفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت الوجود تھی۔ ان شعرا نے نہایت عجیب و غریب اور بہ ظاہر دل فریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے۔ اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے۔ اگر اسلام افلاس کو برا کہتا ہے تو حکم سنائی افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتا ہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصور کرتا ہے تو شعرائے عجم اس اشعار اسلام میں کوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ رباعی ز پے شہادت اندر تگ و پیوست غافل کہ شہید عشق فاضل تر ازوست دو روز قیامت ایں بہ او کے ماند ایں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے نہایت عمدہ ہے اور قابل تعریف۔ مگر انصاف سے دیکھئے تو جہاد اسلامیہ کی تردید میں اس سے زیادہ دل فریب اور خوبصورت طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر نے کمال یہ کیا ہے کہ جس کو اس نے زہر دیا ہے اس کو احساس بھی اس امر کا نہیں ہو سکتا کہ مجھے کسی نے زہر دیا ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے آب حیات پلایا گیا ہے۔آہ! مسلمان کئی صدیوں سے یہی سمجھ رہے ہیں۔ 7؎‘‘ اس دوران میں اقبال مکاتیب میں اپنے احباب کو بتاتے رہے کہ اسرار خودی کا دوسرا حصہ زیر ترتیب ہے اور اس کے مضامین کی طرف بھی اشارات کرتے رہے۔ اپریل 1918ء میں یہ دوسرا حصہ ’’ رموز بے خودی‘‘ کے نام سے منظر عام پر آ گیا۔ اس میں اسرار حیات ملیہ اسلامیہ بیان کئے گئے اور بتایا گیا کہ فرد کی خودی کس طرح ملت کی خودی میں گم ہو کر اجتماعی قوت کا باعث ہو جاتی ہے۔ پس یہ کہنا غلط ہے کہ اقبال پہلی عالمی جنگ کے دوران میں ’’ منقار زیر پر‘‘ رہے۔ حقیقت میں انہوں نے آنے والے دور کے لیے ملت کی ذہنی قیادت کا سامان بدرجہ وافر فراہم کیا اور جو پیغام ان کے کلام میں آخری دم تک سرایت رہا اس کے لیے محکم زمین تیار کر دی۔ لاریب، یہ ایک بڑا کارنامہ تھا۔ ادب کے بارے میں اقبال کے نظریہ ان کے اردو اور فارسی کلام سے بالکل ظاہر تھا۔ لیکن ادب برائے ادب اور ادب برائے مقصد کے مسئلے پر انہوں نے ایک مقالے میں خصوصی بحث کی۔ یہ مقالہ مولانا ظفر علی خان کے اخبار’’ ستارہ صبح‘‘ کے 8اگست 1917ء کے شمارے میں ’’رسول اللہ صلعم فن شعر کے مبصر کی حیثیت میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ حضور سرور کائنات نے زمانہ جاہلیت کے مشہور شاعر امراء القیس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ شاعروں کا سرتاج تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے۔ا قبال نے اس رائے کے جواز میں لکھا: ’’ امراء القیس کے دیوان پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شراب ارغوانی کے دور، عشق و حسن کی ہوش ربا داستانوں اور جاں گداز جذبوں، آندھیوں سے اڑی ہوئی پرانی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں، سنسان ریتلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے منظروں کی تصویریں نظر آتی ہیں اور یہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخلیق کائنات ہے۔ امراء القیس قوت ارادی کو جنبش میں لانے کی بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع و بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن، یہ کچھ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر بہت اچھا شعر کہے، لیکن وہی شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کی بجائے اسفل السا فلین کا تماشا دکھا دے۔‘‘ اس کے بعد بتایا گیا کہ جب حضور سرور کائنات نے ایک بت پرست عرب شاعر عنترہ کا یہ شعر سنا کہ میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں اکل حلال کے قابل ہو سکوں۔ تو انہوں نے شاعر سے ملنے کی آرزو کا اظہار کیا۔ اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے اقبال نے لکھا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عزت عنترہ کو بخشی، اس کی وجہ ظاہر ہے۔ عنترہ کا شعر ایک صحت بخش زندگی کی جیتی جاگتی، بولتی چالتی تصویر ہے۔ حلال کی کمائی میں انسان کو جو سختیاں اٹھانی پڑتی ہیں، جو کڑیاں جھیلنی پڑتی ہیں، ان کا نقش پردہ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچا ہے۔ حضور خواجہ دو جہاں صلعم (بابی انت و امی) نے جو اس قدر شعر کی تعریف فرمائی۔ اس سے صنعت کے ایک دوسرے بڑے اصول کی شرح ہوتی ہے کہ صنعت حیات انسانی کے تابع ہے۔ اس پر فوقیت نہیں رکھتی۔ 8؎‘‘ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ اقبال آزاد منش انسان ہونے کی وجہ سے ملازمت کے قائل نہیں تھے۔ لیکن ان کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں اور آمدنی محدور، اس لیے اگر کسی اچھی ملازمت کا امکان پیدا ہوتا تھا تو وہ اس میں حائل بھی نہیں ہوتے تھے۔ بالخصوص ججی کے عہدے کے لیے کہا اس میں اپنی آزادی بھی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ 1917ء کے اوائل کا ذکر ہے حیدر آباد دکن ہائی کورٹ کے جج سید ہاشم بلگرامی انتقال کر گئے۔ پنجاب کے ایک اخبار’’ میونسپل گزٹ‘‘ نے تجویز پیش کی کہ اس عہدے پر حضرت علامہ کو فائز کیا جائے۔ اخبار کے مدیر منشی دین محمد نے مہاراجہ کشن پرشاد شاد کو ایک نجی خط میں لکھا کہ وہ اس معاملے میں سعی کریں۔ شاہ نے جواب دیا کہ مجھے خود اقبال سے گہری عقیدت ہے۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا اور چند روز تک اس کا نتیجہ برآمد ہو گا۔ منشی دین محمد نے یہ خط حضرت علامہ وک دکھایا اور انہوں نے شاد کو شکریے کا خط لکھ دیا۔ اور اس کے بعد علامہ نے اپنے تعلیمی اوصاف اور تصانیف وغیرہ کے بارے میں ایک نوٹ بھی بھیج دیا۔ ان دنوں اقبال کے دوست اور مشہور فارسی شاعر مولانا گرامی حیدر آباد دکن میں تھے اور ان سے مراسلت میں اس تجویز کا اکثر ذکر آتا رہا۔ ایک خط میں علامہ نے لکھا کہ حیدر آباد کے مقامی لوگوں کو دوڑ دھوپ کے مواقع حاصل ہیں اور وہ مقامی اثرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک دور افتادہ آدمی اس اعتبار سے حصول مقصد کی کوئی بڑی امید نہیں کر سکتا۔ بہرحال جو خدا کو منظور ہو گا ہو رہے گا۔ اس کے بعد کافی دیر سکوت رہا۔ اقبال کے نام شاد کے مکتوبات میں بھی کوئی ذکر نہ ہوا۔ چند مہینے بعد قانون کی پروفیسری کی پیش کش ہوئی۔ اس کے ساتھ پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت بھی شامل تھی اور پوچھا گیا کہ آپ کتنی تنخواہ قبول کریں گے۔ سرکشن پرشاد شاد نے اس پیش کش کو قبول کرنے کا مشورہ دیا لیکن اقبال ججی کو ترجیح دیتے تھے۔ اب ہوا یہ کہ ججی کا معاملہ تو مشکوک تھا لیکن یہ افواہ ہر جگہ پھیل گئی کہ علامہ حیدر آباد دکن جا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور میں علامہ کی پریکٹس کو ضعف پہنچا۔ کیونکہ مقدمے لانے والے لوگ اس بنا پر گریز کرتے تھے کہ علامہ چلے گئے تو ان کے مقدمات بیچ میں رہ جائیں گے جب علامہ کو معلوم ہوا کہ مولانا گرامی بھی اس خبر کی تشہیر کر رہے ہیں تو ان کو منع کیا اور لکھاـ:’’ ایک دفعہ پہلے بھی اس قسم کی خبر مشہور ہوئی تھی اور اس کے بذریعہ اخبار مشہور کرنے والے مولوی ظفر علی خان تھے۔ مجھے اس خبر کو تشہیر سے بہت نقصان ہوا اور تعجب ہے کہ وہ میرے دوست تھے اور اپنے خیال میں انہوں نے میرے فائدہ کے لیے اس امر کی تشہیر کی تھی۔ مہربانی کر کے اس امر کا خیال رکھیے۔ اگر کوئی بات واقع میں ہو جائے تو اس کی تشہیر میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جب کچھ اصلیت نہ ہو تو اس کی تشہیر سے نہ مجھے کوئی فائدہ ہے نہ حیدر آباد کو۔ 9؎‘‘ جماعت احمدیہ قادیان کے ترجمان ’’ الفضل‘‘ میں 9اکتوبر1915ء کو سید انعام اللہ شاہ سیالکوٹی کی ایک تحریر چھپی، جس میں لاہور احمدیوں اور قادیانی احمدیوں کے درمیان اختلافات پر علامہ سے یہ رائے منسوب کی گئی کہ قادیانی جماعت حق پر ہے۔ علامہ نے ’’ پیغام صلح‘‘ کے نام ایک مکتوب میں اس کی تردید کرتے ہوئے لکھاـ:’’ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک غیر احمدی مسلمان جو رسول اللہ صلعم کے بعد کسی نبی کے آنے کا قائل نہ ہو وہ کس طرح یہ بات کہہ سکتا ہے کہ عقائد کے لحاظ سے قادیان والے سچے ہیں۔ 10؎‘‘ حضرت علامہ ابتدا سے خانہ نشین تھے۔ لاہور سے باہر نکلنا توانہیں ہرگز مرغوب نہیں تھا۔ کوئی بہت بڑی مجبوری ہوتی تو چلے جاتے۔ 1916ء میں اس روایت سے انحراف ہوا۔ ہائی کورٹ میں موسم گرما کی تعطیلات ہوئیں تو ان کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ لاہور کے شور و شغب سے نکل کر کوئی مقام تنہائی ڈھونڈیں۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ میں چاہتا تھا کہ کسی جگہ جہاں لوگ میرے جاننے والے نہ ہوں چلا جاؤں اور تھوڑے دنوں کے لیے آرام کروں۔ پہاڑ جانے کے لیے سامان موجود تھا مگر صرف اسی قدر، کہ تنہا جا سکوں۔ تنہا جا کر ایک پر فضا مقام میں آرام کرنا اور اہل و عیال کو گرمی میں چھوڑ جانا بعید از مروت معلوم ہوا۔ اس واسطے ایک گاؤں چلا گیا جہاں ویسی ہی گرمی تھی جیسی لاہور میں، مگر آدمیوں کی آمد و رفت نہ تھی۔ اسی تنہائی میں مثنوی اسرار خودی کے حصہ دوم کا کچھ حصہ لکھا گیا اور ایک نظم کے خیالات یا پلاٹ ذہن میں آئے۔ جس کا نام ہو گا، اقلیم خاموشاں۔ یہ نظم اردو میں ہو گی اور اس کا مقصد یہ دکھانا ہو گا کہ مردہ قومیں دنیا میں کیا کرتی ہیں۔ ان کے عام جذبات و خیالات و حالات کیا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بس یہ دو باتیں میری تنہائی کی کائنات ہیں۔ 11؎‘‘ تنہائی کا یہ عرصہ ایک مہینہ تھا۔ علامہ کی خواہش تھی کہ سید سلیمان ندوی لاہور آ جائیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ارکان سے گفتگو کی۔ معلوم ہوا کہ اورینٹل کالج میں صدر مدرس فارسی کی اسامی خالی ہے، جس کی تنخواہ ایک سو بیس روپے ماہوار ہے۔ اگر سید سلیمان ندوی چاہیں تو یہ اسامی انہیں پیش کی جا سکتی ہے۔ اس پر علامہ نے یکم نومبر 1916ء کو سید موصوف کے نام خط لکھ دیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ملازمت قبول نہیں ہے اور وہ دار المصنفین میں کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر علامہ نے سید سلیمان ندوی کے نام یہ خط لکھا:’’ مجھے یہ معلوم تھا کہ آپ ملازمت کوئی قبول نہ کریں گے لیکن سنڈیکیٹ کے بعض ممبروں کی تعمیل ارشاد میں آپ کو لکھنا ضرور تھا۔ کسی قدر خود غرضی کا شائبہ بھی میرے خط میں تھا۔ا ور وہ یہ کہ میں چاہتا ہوں کہ جس طرح پنجاب والوں کو صوبہ متحدہ کے علما و فصحا سے اس سے پیشتر فائدہ پہنچا ہے۔ اب بھی وہ سلسلہ آپ کے یہاں رہنے سے بدستور جاری رہے۔ مولانا شبلی مرحوم کی زندگی میں میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح مولانا مرحوم پنجاب میں مستقل طور پر اقامت گزیں ہو جائیں مگر مسلمان امرا میں مذاق علمی مفقود ہو چکا ہے۔ میری کوشش بار آور نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ دار المصنفین کے کام میں برکت دے اور آپ کا وجود مسلمانوں کے لیے مفید ثابت کرے۔12؎‘‘ علامہ سید سلیمان ندوی کو کتنا چاہتے تھے؟ اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے سید صاحب کے نام ایک خط میں لکھا کہ ’’ مولانا شبلی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد آپ استاذ الکل ہیں۔‘‘ اسی خط سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے ’’ رموزبے خودی‘‘ کو بہت پسند کیا اور اس سلسلے میں اقبال کو خط لکھا تھا۔ 13؎ 1918ء میں اقبال کو ایک مرتبہ پھر عارضی طور پر تدریس کا کام سنبھالنا پڑا۔ ہوا یہ کہ اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسرفلسفہ ڈاکٹر ہیگ چیچک کی بیماری سے اچانک انتقال کر گئے۔ انجمن حمایت اسلام نے اصرار کیا تو علامہ نے دو مہینے کے لیے ایم اے کی جماعت کو پڑھانا قبول کر لیا۔ لیکن اس شرط پر کہ علامہ کالج نہیں جائیں گے بلکہ طلبہ ان کے مکان پر آیا کریں گے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اقبال اکبر الہ آبادی کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ یہ لڑکے شام کو ہر روز میرے مکان پر آ جاتے ہیں۔ دن میں جو تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے اس میں ان کے لیکچر کے لیے کتب دیکھتا ہوں لیکچر کیا ہیں؟ انسان کی ذہنی مایوسیوں اور ناکامیوں کا افسانہ ہے۔ جسے عرف عام میں تاریخ فلسفہ کہتے ہیں۔ ابھی کل شام ہی ان کو آپ کا یہ شعر سنا رہا تھاـ: میں طاقت ذہن غیر محدود جانتا تھا خبر نہیں تھی کہ ہوش مجھ کو ملا تل کر نظر بھی مجھ کو ملی ہے نپ کے سبحان اللہ! کیا خوب کہا ہے۔ جزاک اللہ، بہرحال ان لیکچروں کے بہانے سے ان لوگوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی نکتہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ 14؎‘‘ اقبال اس حقیقت سے خوب آگاہ تھے کہ پہلی عالمی جنگ کن مقاصد کے لیے لڑی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں وہ بہت کم تقریبات میں شامل ہوئے۔ اور اپنی تمام تر فکری صلاحیتیں ’’ اسرار خودی‘‘ اور’’ رموز بے خودی‘‘ پر مرتکز رکھیں۔ لیکن حالات سے مجبور ہو کر انہیں جنگ کے سلسلے میں منعقدہ دو تقریبات میں شریک ہونا پڑا۔ دہلی کی وار کانفرنس میں اپنے دوست نواب ذوالفقار علی خان کے اصرار پر شریک ہوئے۔ ایک نظم بھی پڑھی لیکن اسے ’’ بانگ درا‘‘ میں شامل نہ کیا۔ 15دسمبر 1918ء کو لاہور میں سر مائیکل اوڈوائر کی صدارت میں جلسہ فتح ہوا تو اس میں بھی شامل ہونا پڑا۔ لیکن جنگ کے دوران میں ترکیہ پر جو بپتا پڑی تھی اس کے پیش نظر وہ فتح پر اظہار شادمانی نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے دو تین ایسی نظمیں سنائیں جن کا جنگ یا فتح سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ ان کا پیغام بھی مضمر تھا۔ ان میں ایک نظم ’’ شعاع آفتاب‘‘ تھی، جس کے آخری اشعار یہ ہیں: خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے برق آتش خو نہیں فطرت میں گوناری ہوں میں مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں سرمہ بن کر چشم انساں میں سما جاؤں گی میں رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا دکھلاؤں گی میں تیرے مستوں میں کوئی جو یائے ہشیاری بھی ہے؟ سونے والوں میں کسی کو ذوق بیداری بھی ہے؟ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص102 2۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول ص255 3۔’’ ملفوظات اقبال‘‘ صفحات103, 104 4۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص85 5۔’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر جلد اول، صفحات168, 169 6۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم۔ صفحات54, 56 7۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول صفحات35, 37 8۔’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات187, 190 9۔’’ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ صفحات112, 137مختلف خطوط اور تعلیقات سے تلخیص و ترتیب۔ 10۔’’ خطوط اقبال‘‘ صفحات125, 26 11۔’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم، صفحات172, 173 12۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول صفحات75, 76 13۔ ایضاً ص80 14۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم، صفحات73, 74 15۔’’ بانگ درا‘‘ ص267 ٭٭٭ دسواں باب 1919ء سے 1925ء تک سیاست سے دلچسپی پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی تو برعظیم کی سیاست پر جو سناٹا طاری تھا وہ قصہ ماضی بن گیا۔ مدتوں پرانے بند ٹوٹے اور سیاست کے بے پناہ سیلاب نے پورے برعظیم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ ایک طوفان خیز سیاست تھی جس میں دار درسن کی آزمائش تھی اور آزادی پسندوں کے خون سے خاک وطن لالہ رنگ ہو گئی۔ اس زمانے میں تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت کا بازار گرم ہوا اور ہزار ہا مسلمانوں نے خلافت کے تحفظ و بقا اور آزادی وطن کی خاطر قربانیوں کی ایک عدیم النظیر مثال پیش کر دی۔ پھر چشم فلک نے ان تحریکوں کا شیرازہ بکھرتے دیکھا۔ ترکیہ نے خلافت کو خیر باد کہہ دیا۔ انتہا پسند ہندو تحریکیں اٹھیں۔ شدھی اور سنگھٹن کے فتنے اٹھے اور وہ ہندو مسلم اتحاد ایک خواب بن کر رہ گیا جس کی بنیاد میثاق لکھنو نے رکھی اور جو تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں نقطہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔ جنگ ختم ہوتے ہی انگریزوں نے برعظیم کو مانٹیگو چمسفورڈ اصلاحات دیں۔ لیکن عوام کی توقعات اور آرزوؤں سے عدم مطابقت کی بنا پر ہر طرف یہی چرچا ہوا کہ یہ ایک فریب ہے جو عوام سے کیا جا رہا ہے اور ان مواعید کی خلاف ورزی ہے جو دوران جنگ میں حق خود ارادیت کی بنا پر کیے گئے تھے۔ عوام کی بے چینی اور اضطراب سے انگریزی راج کے لیے خطرہ پیدا ہوا، تو رولٹ ایکٹ کے نام سے ایک قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت انتظامیہ کو پکڑ دھکڑ اور تلاشیوں کے وسیع اختیارات حاصل ہو گئے۔ امپریل قانون ساز مجلس کے تمام منتخب شدہ ہندوستانی ممبروں نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیے۔ حکومت کو انتباہ کیا کہ اس کا نتیجہ بربادی کے سوا کچھ نہ ہو گا لیکن سامراجی نوکر شاہی نے کسی کی نہ مانی۔ اس پر قومی رہنماؤں نے اعلان کیا کہ 6اپریل 1919ء سے ایک ملک گیر لیکن پر امن احتجاجی ہڑتال شروع ہو گی۔ یہ ہڑتال بہت کامیاب رہی اور پنجاب میں نوکر شاہی کی بے تدبیری کے سبب حالات نے ایک خونیں روپ لے لیا۔ امرتسر میں دو سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے عوام نے ایک پر امن جلوس نکالا۔ اس پر گولی چلی، تو ہجوم بپھر گیا۔ اس نے سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی، بینکوں کو لوٹ لیا اور چند یورپی باشندوں کو ہلاک کر دیا۔ اس پر شہر کو فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ جلیانوالہ باغ میں ہزار ہا ہندو، مسلمان اور سکھ جمع ہو گئے۔ اس جلسے پر بغیر کسی نوٹس کے اور یہ جانتے ہوئے کہ چار دیواری کے اندر ہونے کی وجہ سے لوگ باہر نہیں جا سکتے، نہایت سنگدلی سے گولی چلائی گئی۔ جس سے چار سو سے زیادہ انسان موت کے گھاٹ اتر گئے اور ہزار ہا زخمی ہوئے۔ یہی نہیں شہر بھر میں پانی اور بجلی کی سپلائی بند کر دی گئی اور جس گلی میں ایک انگریز عورت ہلاک ہوئی تھی وہاں سے سب راہ گیروں کو رینگ کر گزرنے کا حکم ایک عرصے تک نافذ رہا۔ لاہور میں بھی ہڑتال مسلسل جاری رہی۔ ہر روز نوجوان ننگے سر جلوس نکلاتے تھے۔ 14 اپریل کو جب یہ خبر آئی کہ بعض رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو عوام بے قابو ہو گئے اور انہیں بے تحاشا گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سانحہ سے حضرت علامہ کس طرح متاثر ہوئے؟ یہ ’’ اقبال درون خانہ‘‘ کے مصنف کی زبانی سنئے: ’’ یہ 1919ء کا ذکر ہے۔ میری والدہ محترمہ اس وقت سات برس کی تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں۔ ان دنوں ہم انار کلی میں رہتے تھے ایک روز بازار سے بڑا عظیم الشان جلوس نکلا۔ بے شمار نوجوان بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھے اور رولٹ بل ہائے ہائے کے فلک شگاف نعرے لگاتے جا رہے تھے۔ ہم سب نے دریچوں سے اس کا نظارہ کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بازار میں پھر شور اٹھا۔ ہم سب کھڑکیوں کی طرف لپکے تو ایسا دل فگار منظر نظر آیا کہ روح کانپ کانپ گئی۔ چند فوجی گاڑیاں، جن میں خون سے لت پت لاشیں بڑی بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھیں، آہستہ آہستہ بازار میں سے گزر رہی تھیں۔ ہر طرف شور تھا کہ جلوس پر گولی چل گئی۔ بڑے بڑے خوبصورت نوجوان، جو ابھی چند لمحے پیشتر رولٹ بل ہائے ہائے کے نعرے لگاتے ہوئے گزرے تھے، خون میں نہلا دیے گئے تھے۔ جدھر سے ان شہیدوں کا جلوس گزرتا، لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے۔ یہ روح فرسا منظر دیکھ کر چچا جان (اقبال) کا چہرہ غصے اور ضبط سے تمتما رہا تھا اور ان کا دلی کرب چہرے سے صاف عیاں تھا۔ سردار چچی جان (والدہ جاوید) زار و قطار رو رہی تھیں۔ انہوں نے روتے روتے چچا جان سے کہا۔ ظالموں نے کتنی ماؤں کے لال موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں۔ چچا جان سر جھکائے خاموش بیٹھے تھے۔ آہستہ سے سر اٹھا کر دل گیر لہجے اور گلو گیر آواز میں فرمایا: میرے مولا کو یہی منظور ہے۔ سرتابی کی مجال نہیں۔ وہ ان شہداء کی قربانیاں ضرور قبول کرے گا، جنہوں نے عروس آزادی کی مانگ کے لیے اپنا گرم اور نوجوان خون پیش کیا ہے۔ اتنا کہا اور پھر سر جھکا لیا۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔‘‘ اس رات مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ اس کی سختی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ کوئی دو افراد اکٹھے نہیں چل سکتے تھے۔ ہر ہندوستانی اس بات کا پابند تھا کہ جہاں کسی گورے کو دیکھے اسے سلام کرے۔ تمام مقامی باشندوں سے موٹر کاریں، بالیکلیں، تانگے اور بجلی کے پنکھے لے کر گوروں کے حوالے کر دیے گئے۔ تمام سیاسی رہنماؤں، بالخصوص وکلاء کے مکانوں کے باہر مارشل لاء کے قواعد کے اشتہار چسپاں کیے گئے اور انہیں حکم ہوا کہ ان اشتہاروں کی حفاظت کرو۔ طلبہ کو خاص طور پر ذلیل کیا گیا۔ کالجوں میں ہر روز چار مرتبہ انہیں مشین گنوں کے پہرے میں سخت دھوپ میں کھڑا کیا جاتا اور ان کی حاضری لی جاتی۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ اس بات کے پابند تھے کہ ہر روز سخت گرمی میں بستر سر پر اٹھائے شاہی قلعے تک جائیں، ھاضری لگوائیں اور اس حالت میں پیدل کالج کو لوٹیں۔ نیلا گنبد چوک میں ٹکٹکی لگی ہوئی تھی جس پر لوگوں کو ننگا باندھ کر سزائے تازیانہ دی جاتی تھی۔ اور پکڑ دھکڑ تو بہرحال عام تھی۔ اس دور میں دوسرے لوگوںکی طرح علامہ اقبال بھی خانہ نشین تھے۔ دو مکتوبات سے ان کے تاثرات کا پتہ ملتا ہے۔ لیکن اتنی بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ اس پر آشوب دور میں خطوط بھی سنسر ہوتے تھے۔ مارشل لاء کے نفاذ کے پانچ دن بعد حضرت اکبر الہ آبادی کو لکھا: ’’ لاہور کے حالات آپ نے اخباروں میں دیکھ لیے ہوں گے۔ گاندھی صاحب کا خاموش مقابلہ یہاں تک رنگ لایا ہے کہ حکام لاہور اور پنجاب کے دیگر مقامات پر مارشل لاء (آئین عسکری) کے اجرا پر مجبور ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ عجب زمانہ آ رہا ہے۔ آپ سے ملنے کو بہت دل چاہتا ہے۔ مگر یہ زمانہ گھر سے باہر نکلنے کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کے لوگوں کی حالت پر رحم کرے۔ مومن کو چاہیے کہ خدا ہی کا ہو رہے3؎‘‘ اس کے دو دن بعد سر کشن پرشاد کو لکھتے ہیںـ: ’’ آج آٹھ دن سے مارشل لاء یعنی قانون عسکری یہاں جاری ہے۔ پنجاب کے بعض دیگر اضلاع میں بھی گورنمنٹ یہی قانون جاری کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ لوگوں نے قصور اور امرتسر میں قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ان کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر مقدمات چلائے گئے ہیں۔ کل سے ان کا ٹرائل بھی شروع ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرے۔ مگر خواجہ حافظ کا شعر تسکین کا باعث ہے۔ ہاں مشو نومید چوں واقف نہ از سر غیب باشد اندر پردہ، بازی ہائے پنہاں غم مخور4؎‘‘ کچھ عرصے کے بعد مارشل لاء اٹھ گیا۔ اتنے میں برعظیم کے مسلمانوں کی تمام تر توجہ ترکیہ اور خلافت کے مسئلے پر مرتکز ہو گئی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ دوران جنگ میں حکومت مسلمانوں کو یقین دلاتی رہی کہ ترکیہ کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔ 5 جنوری 1918ء کو برطانوی وزیراعظم لایڈ جارج نے سامراجی عزائم سے انکار کیا اور کہا کہ حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ ایشیائے کوچک اور تھریس کے زرخیز ترک علاقوں پر تسلط جمائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قسطنطنیہ بدستور ترکیہ کا دار الحکومت رہے گا۔ ان کے پورے بیان سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ عرب علاقے تو چھین لیے جائیں گے لیکن ترک علاقوں سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جب 3نومبر1918ء کو ترکیہ نے ستار کے سمجھوتے پر دستخط کر دیے، تو برطانیہ سارے وعدوں کو بھول کر دھاندلی اور ظلم پر اتر آیا۔ اس نے اپنی فوجیں موصل میں داخل کر دیں۔ قسطنطنیہ پر بظاہر اتحادیوں کا، لیکن حقیقت میں برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ 15 مئی 1919ء کو یونان نے برطانیہ سے شہ پا کر خالص ترک علاقے سمرنا میں داخل ہو کر نہ صرف ترک فوج کو غیر مسلح کیا بلکہ عام شہریوں پر ناقابل بیان مظالم توڑے۔ اور اس کے ساتھ ہی سارے یورپ میں ترکوں کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا شروع ہو گیا۔ ان حالات میں برعظیم کے مسلمانوں میں اتنی بے چینی پھیلی اور اتنا اضطراب پیدا ہوا کہ ان کی توجہ باقی سیاسی مسائل سے ہٹ کر ترکیہ اور خلافت ہی پر مرتکز ہو گئی۔ محمد علی اور شوکت علی کی رہنمائی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم ہو گئی۔ جس کا مقصد وحید یہ تھا کہ خلافت کے تحفظ و بقا کے لیے جدوجہد کی جائے اور ترکیہ سے بے انصافی نہ ہونے دی جائے۔ اس کے علاوہ جمعیت العلمائے ہند قائم ہو گئی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ علمائے کرام میدان سیاست میں اتر آئے۔ ان کے مقاصد خلافت کمیٹی کے مقاصد سے کاملاً ہم آہنگ تھے۔ 17 اکتوبر1919ء کو انہی مسائل پر احتجاج کے لیے برعظیم کے طول و عرض میں یوم خلافت منایا گیا۔ ادھر حکومت نے فیصلہ کیا۔ کہ 13 دسمبر سے جشن صلح کا ہفتہ منایا جائے۔ مسلمانوں نے اس کا مکمل مقاطعہ کیا اور ہندوؤں نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا۔ حضرت علامہ کا نقطہ نگاہ وہی تھا جو اسلامیان ہند نے اختیار کر رکھا تھا۔ جشن صلح کے مقاطعہ کے سلسلے میں لاہور میں جلسہ عام منعقد ہوا، اس میں حضرت علامہ بھی شریک تھے۔ انہوں نے ایک دوست کے نام خط میں لکھا کہ ’’ پولیٹیکل جلسوں میں کبھی شریک نہیں ہوا کرتا۔ اس جلسے میں اس واسطے شریک ہوا کہ ایک بہت بڑا مذہبی مسئلہ زیر بحث تھا5؎‘‘ دسمبر1919ء کے اواخر میں باغ بیرون موچی دروازہ (لاہور) میں ایک جلسہ عام ہوا جس کی صدارت میاں فضل حسین نے کی۔ اور علامہ اقبال نے نمایاں حصہ لیا آپ نے یہ قرار داد پیش کی: ’’ مسلمانان لاہور اس جلسے میں اس عظیم پریشانی اور بے چینی کا اظہار کرتے ہیں جو پیرس کی صلح کانفرنس میں اب تک سلطنت عثمانیہ اور خلیفتہ المسلمین کے متعلق قابل اطمینان فیصلہ نہ ہونے سے لاحق ہوئی ہے۔ اور حکومت کو وہ وعدے یاد دلاتے ہیں جو مسٹر لایڈ جارج وزیراعظم برطانیہ نے جنوری 1918ء میں تمام اسلامی دنیا سے سلطنت ترکی کی متعلق کیے تھے۔ اور پیرس کی صلح کانفرنس کو ان اصولوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو (امریکہ کے) پریذیڈنٹ ولسن نے اپنے اعلانوں میں قائم کیے تھے۔ اور جن کی بنا پر اس عظیم الشان جنگ کا خاتمہ کیا گیا۔ اور بہ اصرار تمام درخواست کرتے ہیں کہ جن اصولوں پر اتحادیوں نے اپنی عیسائی دشمن سلطنتوں سے قرار داد کی ہے، انہی اصولوں پر مسلمان سلطنتوں سے بھی صلح سر انجام پانی چاہیے اور سلطنت عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارتاً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ حضرت علامہ نے اس قرار داد کے حق میں جو تقریر فرمائی، اس کا متن ملاحظہ ہو: ’’ صاحبان! جس قوم نے دنیا میں آزادی اور حریت کی اشاعت کی تھی، آج اس کی آزادی چھینی جا رہی ہے۔ جب بنی نوع انسان کو پامال کیا جاتا تھا، اس وقت اس قوم نے مساوات کا پرچار کیا۔ مسلمانو! تم کو یاد ہے۔ جب عرب میں نبی آخر الزمانؐ پیدا ہوئے، اس وقت دنیا کیا کیا کیفیت تھی۔ قسطنطنیہ میں قیصر کی سختی یورپ کی قوموں کا گلا گھونٹ رہی تھی۔ اس وقت یہ امر واضح کیا گیا کہ خدا کی اطاعت کے سوا اور کسی کی اطاعت نہ کی جائے۔ تمہارا مذہبی عقیدہ ہے کہ انسان کو آزادی ملنی چاہیے۔ آج وہ قوم دوسری قوموں کے سامنے یہی کہہ رہی ہے کہ جن اصولوں کا اعلان کر کے میں نے بنی نوع انسان سے فیصلہ کیا تھا، انہی اصولوں کو میرے ساتھ بھی برتا جائے۔ ہو گا تو وہی، جو نبی آخر الزمانؐ فرما گئے ہیں۔ مگر اس بات کا ترک کرنا بھی مناسب نہیں۔ ہم کیوں کسی بندے کے سامنے شکایت کریں۔ ہمیں خدا کے سامنے شکایت کرنی چاہیے۔ خوشامد، منت اور مانگے سے کبھی کچھ نہیں ملا۔ خدا کے سوا کسی کی اطاعت ہمارے لیے واجب نہیں۔ یاد رکھو کہ جو قوم ایک بڑا مقصود لے کر پیدا ہوئی ہے وہ یونہی نہیں مٹ سکتی۔ بادشاہیاں مٹ رہی ہیں۔انسان نے اپنے فطری حقوقں کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ تمہاری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔‘‘ ’’ پریذیڈنٹ ولسن نے چودہ اصول قائم کیے۔ جن کے مطابق عالمگیر جنگ کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ ہر ایک قوم اپنے معاملے کو خود فیصل کر لیا کرے۔ ہماری سرکار نے بار ہا اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہم حق، انصاف اور صداقت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہماری جنگ اس لیے ہے کہ بین الاقوامی معاہدے قائم رکھے جائیں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمارے حقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کو پامال نہ کیا جائے۔ 7؎‘‘ اس مہینے امرتسر میں انڈین نیشنل کانگرس، آل انڈیا خلافت کمیٹی اور آل انڈیا مسلم لیگ نے قریب قریب بہ یک وقت اپنے سالانہ اجلاس منعقد کیے۔ ان دنوں امرتسر میں بے حد رونق تھی۔ گاندھی جی، مسز اینی بیسنٹ، موتی لال نہرو، بال گنگا دھر تلک اور دوسرے بڑے بڑے رہنما آئے۔ خلافت کمیٹی اور مسلم لیگ کے رہنماؤں میں حکیم اجمل خان کے علاوہ مولانا ظفر علی خان، محمد علی اور شوکت علی بھی شامل تھے۔ علی برادران تو جیل سے رہا ہو کر سیدھے امرتسر پہنچے تھے۔ علامہ اقبال، نواب ذوالفقار علی خان اور مرزا جلال الدین بیرسٹر کے ہمراہ بذریعہ کار لاہور سے امرتسر آئے۔ سالک لکھتے ہیں کہ ’’ وہاں پہنچ کر جب مسلم لیگ کے اجلاس میں داخل ہوئے اور علامہ اقبال علی برادران کے ساتھ بغلگیر ہوئے، تو جلسے میں جوش و خروش کا عجیب عالم تھا۔ اکثر لوگ اشک بار تھے۔ علامہ نے دونوں بھائیوں کی طرف اشارہ کر کے یہ اشعار آب دار فرمائے جو اسی دن موٹر کے سفر میں موزوں ہو گئے تھے: ہے اسیری اعتبار افزا جو فطرت ہو بلند قطرہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند مشک اذفر چیز کیا ہے اک لہو کی بوند ہے مشک بن جاتی ہے ہو کر نافہ آہو میں بند ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام و قفس سے بہرہ مند شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست کیں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند8؎‘‘ امرتسر کے ان قومی اجتماعات کا فائدہ یہ ہوا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اور کانگرس، خلافت کمیٹی اور مسلم لیگ کے درمیان زیادہ گہرا رشتہ استوار ہو گیا۔ فیصلہ ہوا کہ مانٹیگو چمسفورڈ اصلاحات کو مسترد کر دیا جائے اور کوئی شخص ان اصلاحات کے تحت کونسلوں کے انتخابات میں حصہ نہ لے۔ ترکیہ کے ساتھ بے انصافی کے خلاف احتجاج اور خلافت کے تحفظ و بقا کے حق میں خلافت کمیٹی نے جو موقف اختیار کیا، کانگرس نے اس پر صاد کر دیا۔ خلافت کمیٹی کے اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ایک وفد وائسرائے سے ملے اور ضرورت پڑے تو یورپ بھی جائے تاکہ برطانیہ کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ ترکوں سے انصاف کرے۔ اس وفد کے قائد محمد علی تھے اور ارکان میں سید حسین، حسن محمد حیات اور سید سلیمان ندوی شامل تھے۔ 1920ء کے آغاز میں وفد نے وائسرائے سے ملاقات کی۔ انہیں بتایا کہ خلافت اصلاً دینی ادارہ ہے۔ مسلمانوں کے لیے جزو ایمان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا خاتمہ نہ صرف ناقابل برداشت ہو گا بلکہ برباد کن بھی ہو گا۔ وفد نے وائسرائے کو حکومت برطانیہ کے وہ وعدے بھی یاد کرائے جو اس نے خلافت اور ترکیہ کے سلسلے میں مسلمانوں سے کیے تھے۔ وائسرائے نے بتایا کہ میں آپ کا نقطہ نگاہ بڑے زور کے ساتھ حکومت برطانیہ کو پہنچا چکا ہوں۔ اب میں یہی کر سکتا ہوں کہ اگر آپ برطانوی کابینہ پر اپنا نقطہ نگاہ بالمشافہ طور پر واضح کرنے کے لیے برطانیہ جانا چاہیں تو میں آپ کی اعانت کروں۔ چنانچہ وفد انگلستان گیا۔ لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ ہوا۔ اور سات مہینے کی تگ و دو کے بعد اکتوبر1920ء کے آغاز میں وفد کو بے نیل ملرا لوٹنا پڑا۔ بعض مصنفین وفد کی ناکامی سے اقبال کے ان اشعار کو منسوب کرتے ہیں: بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے مگر آج ہے وقت خویش آزمائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ جس کو ہم اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی مرا از شکستن چنیں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اشعار وفد کے تصور پر لاگو ہوتے ہیں۔ لیکن علامہ نے یہ اشعار 1920ء میں نہیں، ستمبر1919ء میں کہے اور سب سے پہلے سید سلیمان ندوی کو ’’ معارف‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے تھے۔ 9؎ اور غالباً یہ شائع نہیں ہوئے تھے۔ جہاں تک وفد کی کارکردگی کا تعلق ہے، اقبال کی رائے اس مکتوب سے ملتی ہے جو 10 اکتوبر1920ء کو سید سلیمان ندوی کے نام بھیجا گیا۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ مراجعت مع الخیر مبارک۔ آپ نے بڑا کام کیا ہے۔ جس کا صلہ قوم کی طرف سے شکر گزاری کی صورت میں مل رہا ہے۔ اور دربار نبوی سے نہ معلوم کس صورت میں عطا ہو گا۔ وزرائے انگلستان کا جواب وہی ہے جو ان حالات میں ہمیشہ دیا گیا۔ انومن بشرین مثلنا وقومھما لنا عبدون۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ ہندی وفد کا سفر یورپ بڑے اہم نتائج پیدا کرے گا۔10؎‘‘ بہرحال اقبال کا اندازہ درست نہیں تھا۔ کیونکہ 10 اگست1920ء کو اتحادیوں نے ترکیہ پر دباؤ ڈال کر معاہدہ سیورے پر دستخط ثبت کرا لیے تھے۔ جس کی شرائط نہایت شرمناک تھیں۔ اس معاہدے کی رو سے خلافت عثمانیہ سے تمام عرب علاقے، مشرقی تھریس، ڈرڈ یکینز کے جزائر اور بحیرہ ایجیٹن کے بہت سے جزائر چھن گئے۔ سمرنا کا شہر اور ضلع پانسال کے لیے یونان کے حوالے ہو گیا۔ ترکیہ نے آرمینیا کی آزادی تسلیم کر لی۔ کردستان کو بھی آزاد کرنے کا وعدہ کر لیا۔ آبنائے درہ دانیال پر بین الاقوامی کنٹرول مان لیا۔ مسلح افواج میں سخت کمی قبول کر لی۔ مالیات پر برطانیہ، فرانس اور اٹلی کا کنٹرول تسلیم کر لیا۔ غیر ملکی مراعات میں اضافہ کر دیا۔ یہی نہیں، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے درمیان ایک معاہدے کی رو سے ان طاقتوں نے ترکیہ کے باقی علاقوں کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں بانٹ لیا۔ 11؎ مصطفی کمال پاشا (کمال اتا ترک) نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک نیشنل اسمبلی قائم کی۔ فوجی قوت کو اناطولیہ میں از سر نو منظم کیا۔ یونانیوں کو نکال باہر کیا۔ اٹلی اور فرانس کو مجبور کر دیا کہ اپنی فوجیں نکال لیں۔ مشرقی تھریس اور ادرنہ کے علاقے واپس لے لیے۔ اب اتحادی مجبور ہو گئے کہ معاہدہ میورے کو منسوخ کر کے نیا معاہدہ کریں۔ 20نومبر1922ء سے جولائی 23 ء تک گفت و شنید جاری رہی۔ اور 23 جولائی 1923ء کو معاہدہ لوزان پر دستخط ہو گئے۔ جس سے ترکیہ کی آزادی مسلم ہو گئی۔ اور وہ ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت سے آزاد ہو گیا۔ 12؎ معاہد ہ سیورے اور معاہدہ لوزان کے درمیانی وقفے میں برعظیم میں تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کا بازار گرم رہا اس مشترکہ تحریک کے مقاصد یہ تھے کہ خلافت کا وقار بحال ہو، ترکیہ کی آزادی بحال ہو اور حکومت خود اختیاری قائم کی جائے۔ ترک موالات اس سیاسی حربے کا نام تھا جو تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تمام دوائر میں انگریزی حکومت سے ترک موالات یا عدم تعاون کا شیوہ اختیار کیا جائے۔ برطانوی مال کا مقاطعہ کیا گیا اور کھدر پہننے کا رواج عام کیا گیا۔ بہت سے سرکاری ملازمین نے نوکریوں پر لات مار دی۔ بہت سے وکلا نے پریکٹس چھوڑ دی۔ ہزار ہا طلبہ نے وہ تعلیمی ادارے چھوڑ دیے جنہیں سرکاری گرانٹ ملتی تھی۔ قانون شکنی کی مہم زور شور سے چلائی گئی۔ یہ سلسلہ چل رہا تھا کہ ایک مقام چوری چو راہ پر ہجوم نے مشتعل ہو کر ایک تھانے کو آگ لگا دی اور کچھ سپاہی جل مرے۔ اس پر گاندھی جی نے تحریک ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ تحریک کی بنیاد عدم تشدد پر قائم تھی لیکن تشدد کے واقعات سے یہ بنیاد ختم ہو گئی ہے۔ سالک رقم طراز ہیں کہ علامہ اقبال ان تمام ہنگاموں سے الگ تھلگ’’ پیام مشرق‘‘ کی ترتیب میں مصروف تھے۔ انہوں نے اس زمانے کی پر شور سیاسیات سے کسی دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔ بلاشبہ وہ اس امر سے بے حد مسرور و مطمئن تھے کہ فرنگی کے مقابلے میں ہندی مسلمان کی خودی بیدار ہو رہی ہے۔ اور وہ طلب حریت میں قدم آگے بڑھا رہا ہے۔ لیکن انہیں ایک تو’’ قومیت متحدہ ہند‘‘ کے نصب العین اور وطنیت کے سیاسی تصور سے کوئی امید خیر نہیں تھی۔ دوسرے وہ اس بات کے قائل بھی نہ تھے کہ ہندوستان میں کوئی ایسی قوم موجود ہے یا بن سکتی ہے، جس کو ہندوستانی قوم کہا جا سکے۔ چنانچہ صرف ایک ہی سال بعد اس تحریک کے خاتمے پر شدھی اور سنگھٹن اور تبلیغ و تنظیم کے ہنگاموں نے علامہ کے اس خیال پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ محض انگریز دشمنی کی بنا پر کسی قومیت کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس کے لیے دوسرے عناصر و شروط ضروری ہیں۔13؎ سالک کے ان تاثرات کے چار اجزا ہیں۔ سامراج دشمنی، مسلمانوں میں طلب حریت پر مسرت، وطنیت کے سیاسی تصور سے نا امیدی اور سنگھٹن اور شدھی پر شدید رد عمل، سامراج دشمنی ہی نے انہیں مجبور کیا کہ تحریک ترک موالات کے قائد، گاندھی جی پر، اختلافات کے باوجود یہ اشعار کہیں: گاندھی سے ایک روز یہ کہتے تھے مالوی کمزور کی کمند ہے دنیا میں نارسا نازک یہ سلطنت صفت برگ گل نہیں لے جائے گلستان سے اڑا کر جسے صبا گاڑھا ادھر ہے زیب بدن اور ادھر زرہ صر صر کی رہ گذار میں کیا عرض توتیا پس کر ملے گا گرد رہ روزگار میں دانہ جو آسیا سے ہوا قوت آزما بولا یہ بات سن کر کمال وقار سے وہ مرد پختہ کار و حق اندیش و با صفا ’’خارا حریف سعی ضعیفاں نمی شود صد کوچہ ایست در بن دنداں خلال را‘‘ 13(الف) علامہ تحریک ترک موالات کو کتنی اہمیت دیتے تھے؟ اس سلسلے میں1923ء کو یہ مکتوب ہماری رہنمائی کرتا ہے: ’’ ہندوستان میں بظاہر مہاتما گاندھی کی گرفتاری کے بعد امن و سکون ہے مگر قلوب کا ہیجان حیرت انگیز ہے۔ اتنے عرصے میں اتنا انقلاب تاریخ امم میں بے نظیر ہے۔ ہم لوگ، جو انقلاب سے خود متاثر ہونے والے ہیں، اس کی عظمت اور اہمیت کو اس قدر محسوس نہیں کرتے۔ آئندہ نسلیں ا سکی تاریخ پڑھ کر حیرت میں ڈوب جائیں گی۔ 14؎‘‘ علامہ نے درست فرمایا کیونکہ اگر برعظیم کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تحریک ترک موالات ایک اہم موڑ کی حیثیت سے نظر آئے گی۔ کیونکہ اس میں عوام نے بے نظیر قربانیاں دیں اور برطانوی سامراج کو ایک بار ہلا کر رکھ دیا۔ مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت اور بھی زیادہ تھی کہ عرصہ دراز کی عافیت کوش سیاست کے بعد اچانک بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے۔ بہرحال اس کے ساتھ ہی علامہ نے مسلمانوں سے کہا: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی 15؎ 19مارچ1923ء کو اقبال نے مکتوب میں لکھا: ’’ افسوس ہے کہ پنجاب میں ہندو مسلمانوں کی رقابت بلکہ عداوت بہت ترقی پر ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو آئندہ تیس سال میں دونوں قوموں کے لیے زندگی مشکل ہو جائے گی۔ 16؎‘‘ حالات نے اس پیش گوئی کو پورا کیا۔ اور وہ بھی تیس سال بعد نہیں، سترہ سال بعد ہی مسلمانوں نے پاکستان کو اپنا نصب العین بنا لیا۔ اور مزید سات سال بعد مسلمانوں کی علیحدہ مملکت وجود میں آ گئی۔ 1923ء ہی میں انہوں نے ایک او رمکتوب میں لکھا:’’ چونکہ اس وقت ملکی اور نسلی قومیت کی لہر یورپ سے ایشیا میں آ رہی ہے۔ اور میرے نزدیک انسان کے لیے یہ ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ اس واسطے بنی نوع انسان کے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس وقت اسلام کے اصلی حقائق اور اس کے حقیقی پیش نہاد پر زور دینا نہایت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اسلامی نقطہ خیال کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہوں۔ ابتدا میں بھی قومیت پر اعتقاد رکھتا تھا اور ہندوستان کی متحدہ قومیت کا خواب شاید سب سے پہلے میں نے دیکھا تھا۔ لیکن تجربے اور خیالات کی وسعت نے میرے خیال میں تبدیلی کر دی اور اب قومیت میرے نزدیک محض ایک عارضی نظام ہے۔ جس کو ہم ایک ناگزیر زشتی سمجھ کر گوارا کرتے ہیں۔ 17؎‘‘ اس زمانے میں برعظیم کے مسلمانوں پر دنیائے اسلام کی سیاست میں دلچسپی غالب تھی اور اس دلچسپی سے کچھ اختلافات بھی ابھرے کشمکش بھی ہوئی۔ لیکن اقبال نے اس کشمکش میں اول تو حصہ نہ لیا۔ اور اگر لیا تو صرف اس حد تک کہ لوگوں کو تعمیری نقطہ نگاہ کی طرف راغب کیا جائے۔ ان مسائل کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ مسئلہ خلافت سے تھا ۔ ترکیہ کی مجلس کبیر ملی نے نومبر1922ء میں خلیفہ وحید الدین کو برطرف کر دیا۔ کیونکہ انہی نے معاہدہ سیورے پر دستخط کیے تھے۔ ان کی جگہ عبدالمجید آفندی کو مسند خلافت پر بٹھایا گیا۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ انہیں حکومت کے کاروبار سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا اور ان کی حیثیت محض روحانی قائد کی ہو گی۔ جب خلیفتہ المسلمین عبدالمجید نے اپنے حدود سے تجاوز کیا تو نہ صرف انہیں بلکہ خاندان عثمانیہ کے جملہ افراد کو جلا وطن کر دیا اور تنسیخ خلافت کا بھی اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ 3 مارچ1924ء کو ہوا۔ برعظیم کے مسلمان اس پر بہت پریشان ہوئے۔ کیونکہ جس خلافت کے تحفظ اور بقا کے لیے وہ لڑتے رہے، اس کا وجود ہی نہ رہا۔ لیکن انہوں نے ان مصالح پر غور کرنا پسند نہ کیا جن کی بنا پر ترکیہ ایسے فیصلے پر مجبور ہو گیا حضرت علامہ نے اس فیصلے پر اظہار رائے سے احتراز کیا۔ اب مسلمان رہنما سوچنے لگے کہ سابق خلیفتہ المسلمین سے کیا کام لیا جائے۔ 1924ء کے اواخر میں یہ تجویز ابھری کہ حجاز کا نظام ان کے سپرد کر دیا جائے۔ لیکن حجاز پر ان دنوں عملاً وہابیوں کا قبضہ تھا۔ جن کے قائد والی نجد ابن سعود تھے۔ جب علامہ اقبال سے لاہور کے انگریزی روزنامہ ’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ کے نمائندے نے اس تجویز پر ان کا رد عمل دریافت کیا۔ تو انہوں نے اس بنا پر تجویز کی مخالفت فرمائی کہ عبدالمجید سنی ہیں اور حجاز پر وہابی غالب ہیں اور اگر عبدالمجید کو حجاز کا والی مقرر کر دیا گیا تو مسلمانوں کے دو فرقوں میں ایکا فسوسناک کشمکش شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا: ’’ مسلمانان عالم اگر سابق خلیفتہ المسلمین کی ذات سے کچھ کام لینا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اشاعت اسلام کا ایک عظیم الشان نظام قائم کریں۔ اور سابق خلیفتہ المسلمین کو اس نظام کا صدر بنا دیں۔ خلیفتہ المسلمین کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ کسی اسلامی ملک میں سکونت اختیار کریں اور تحریک اشاعت کی تنظیم فرمائیں۔ مبلغین کے لیے ایک وسیع بین الملی درس گاہ کا انتظام ہونا چاہیے۔ وہاں وہ ضروری تعلیم حاصل کریں پھر اسلام کی مشعل ہاتھ میں لے کر دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ جائیں۔ خاندان عثمان کے سلاطین نے مقاصد اسلام کی عدیم النظیر اور فقید المثال خدمات انجام دی ہیں۔ اگر اشاعت اسلام کی تحریک کو سابق خلیفتہ المسلمین عبدالمجید خان کی سرپرستی میں شروع کیا جائے تو اس سے دنیائے اسلام میں مذہبی اور معاشرتی اصلاح کی ایک ہنگامہ خیز حرکت و جنبش پیدا ہو جائے گی۔ 18؎‘‘ جب علامہ سے پوچھا گیا کہ آیا وہ حجاز کی صورت حالات سے مطمئن ہیں۔ تو انہوں نے اس کا جواب اثبات میں دیا۔ اور ابن سعود پر کامل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا: ’’ میری رائے میں سلطان نجد ایک روشن خیال آدمی ہیں۔ جو لوگ سلطان موصوف سے ملے ہیں یا انہوں نے نجد کو دیکھا ہے، وہ میری اس رائے کے موید ہیں۔ امریکہ کاایک مصنف اپنی کتاب الاسلام میں سلطان نجد کو ایشیا کا بہترین حاکم اور سر زمین نجد کو زوال آمادہ دنیائے اسلام کی صاف اور پاک ترین جگہ بتاتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ عرب میں ابن سعود کے ماتحت ایک زبردست قومی تحریک نشوونما پائے اور ا سکے آثار و علائم نظر آ رہے ہیں۔ اس احساس خودی کا ہمیں تہ دل سے خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس کی تہ میں تجرد و تفرید کے مادہ کی نشوونما کا بھی اندیشہ ہے۔ لیکن ہمیں کچھ مدت تک اس تجرد و تفرید کو بھی برداشت کرنا چاہیے۔ عرب فطرتاً جمہوریت پسند ہیں اور سر زمین عرب میں کوئی مطلق العنان حکومت زیادہ مدت تک قائم نہیں رہ سکتی۔ 19؎‘‘ اقبال کی یہ پیش گوئی بھی ان کی وفات کے کئی سال بعد جزوی طور پر پوری ہوئی کہ اسی خاندان کے ایک ممتاز فرد شاہ فیصل نے تحریک اتحاد عالم اسلامی کا پرچم بلند کیا۔ مستقل اسلامی سیکرٹریٹ کی بنیا دڈالی اور جدہ کو اس کا صدر مقام بنایا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب فلسطین برطانوی انتد اب میں آ گیا تو معاہدے کی رو سے برطانیہ اس بات کا پابند ہوا، کہ ایک ایسا شاہی کمشن مقرر کرے جو فلسطین کے مقامات مقدسہ کے بارے میں تمام مذاہب کے حقوق و دعاوی کا مطالعہ کرے اور ان کی حد بندی اور تعین کر دے۔ فلسطین کے مقامات مقدسہ سے تین مذاہب کی خصوصی وابستگی ہے۔ اول: مسلمان، دوم: عیسائی، سوم: یہودی اس لیے فیصلہ ہوا کہ تینوں مذاہب کے نمائندے کمشن میں شامل ہوں۔ حکومت ہند نے جنوری 1922ء میں حکومت برطانیہ کی طرف سے حضرت علامہ سے دریافت کیا کہ آیا وہ کمشن کی رکنیت قبول کر سکیں گے۔ آپ نے یہ پیش کش قبول نہ کی۔ 20؎ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہی کمشن کے ارکان کو صرف سفر کے اخراجات دیے جاتے تھے۔ معاوضے کا دستور نہیں تھا۔ علامہ کے لیے مشکل یہ تھی کہ وہ قوت لایموت کے لیے وکالت کی پریکٹس کرتے تھے اور یہ کام بہت وقت چاہتا تھا۔ کیونکہ دو تین سال کے دوران میں کمشن کے بہت سے اجلاس یروشلم میں ہونے تھے۔ اس مسلسل آمد و رفت سے وکالت میں طویل وقفے آتے اور ظاہر ہے علامہ کی آمدنی میں کمی واقع ہو جاتی۔ جس کی تلافی کے لیے کوئی سبیل نہ تھی۔ بہرحال علامہ کو اس بات کا افسوس رہا کہ اس رکنیت سے زیارات کا جو موقع مل سکتا تھا، اس سے محروم ہو گئے۔ بعد میں اس شاہی کمشن کا تقرر ہی نہ ہوا۔ اسی سال چند مہینے بعد لاہور میں ایک اہم واقعہ ہوا۔ شاہ عالمی دروازے کے باہر ہندوؤں نے ایک مندر بنایا۔ مسلمانوں نے بلدیہ سے مطالعہ کیا کہ وہ انہیں بھی ایک قطعہ اراضی دے۔ تاکہ اس پر ایک مسجد بنائی جا سکے۔ بلدیہ نے لیت و لعل سے کام لیا تو مسلمانوں نے اچانک خود ہی ایک قطعہ زمین پر قبضہ کر لیا۔ اور جوش و خروش کی یہ کیفیت تھی کہ سینکڑوں نوجوان نماز عشا کے بعد وہاں پہنچے، عمارتی سامان فراہم کیا، بنیادیں کھودیں اور تعمیر شروع کر دی۔ راتوں رات پوری مسجد بنا لی۔ نچلی منزل پر دو دکانیں بنیں اور بالائی منزل پر مسجد۔ نماز فجر تک یہ کام مکمل ہو گیا اس واقعہ سے حضرت علامہ بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے وہ نظم کہی جس کا پہلا شعر یہ ہے: مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا مدتوں مسجد کی یہی کیفیت رہی۔ آخر انجمن اسلامیہ پنجاب نے کئی سال بعد پلستر کرایا، مناسب آرائش کا بندوبست کیا اور مسجد کے جملہ لوازم پورے کر دیے۔ 21؎ ٭٭٭ حوالے 1۔ اس باب میں جو سیاسی پس منظر دیا گیا ہے، اس کی بیشتر معلومات ڈاکٹر عبدالحمید کی کتاب Muslim Separatism in India سے اخذ کی گئی ہیں۔ 2۔ ’’ اقبال درون خانہ‘‘ صفحات55, 56 3۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم صفحات76, 77 4۔ایضاً، ص196 5۔ایضاً ص199 6۔’’ انوار اقبال‘‘ ص43 7۔ایضاً ، صفحات43, 44 8۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص106 9۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول، صفحات105, 107 10۔ایضاً، صفحات112, 113 11۔ Middle Eastin World Affairs صفحات100, 106 12۔ایضاً ، صفحات 13۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات108, 109 ۔ 13الف، ’’ ذکر اقبال‘‘ ص122 (بحوالہ ’’زمیندار‘‘ 13 نومبر1921ئ) 14۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم، ص163 15۔’’ بانگ درا‘‘ ص279 16۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم ص204 17۔’’ خطوط اقبال‘‘ صفحات165, 166 18۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات10, 12 19۔ایضاً، صفحات10, 12 20۔’’ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ صفحات194, 197 21۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات112, 113 ٭٭٭ گیارہواں باب 1919ء سے 1925ء تک سر کا خطاب اور سوشلزم یکم جنوری 1923ء کو حضرت علامہ کو ’’ سر‘‘ کا خطاب ملا تو ان کے مداحین اور نیاز مند چونک اٹھے۔ کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت برطانیہ عام طور پر وفاداری کے صلے میں اعزازات اور خطابات دیا کرتی تھی۔ اور علامہ کے بارے میں ایک دنیا جانتی تھی کہ وہ ایک آزاد منش انسان ہیں۔ دوسرے، برعظیم کے طول و عرض میں ابھی ترک موالات کا سلسلہ چل رہا تھا۔ اور خطاب کو موالات کی ایک علامت قرار دیا جاتا تھا تیسرے اگرچہ علامہ اقبال ترک موالات کی تحریک میں شامل نہیں تھے لیکن ان کی ہمدردیاں تو رہنماؤں کے ساتھ تھیں۔ ان حالات میں لوگ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ علامہ اقبال خطاب یافتہ ہو سکتے ہیں۔ اس پر چہ میگوئیاں ہوئیں۔ احباب نے خط لکھے۔ اس زمانے کا اہم ترین اخبار’’ زمیندار‘‘ تھا۔ مولانا ظفر علی خان تو اسیر فرنگ تھے، ان کی جگہ مولانا عبدالمجید سالک ادارت فرماتے تھے۔ انہوں نے علامہ کی خطاب یافتگی پر کچھ طنزیہ اشعار لکھے اور دو مرتبہ اپنے مستقل مزاحیہ کالم ’’ افکار و حوادث‘‘ میں بھی اس کا تذکرہ کیا۔ مولانا غلام بھیک نیرنگ خطاب یافتگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔’’ میں اللہ کے قلندر کو خوب سمجھتا تھا مگر یہ بھی معلوم تھا کہ شیطان اپنے داؤ پیچ سب پر چلاتا ہے۔ اس لیے ضروری سمجھا کہ مبارکباد کے ساتھ ان کو یہ بھی یاد دلا دوں کہ اسلامی دنیا ان سے کیا توقعات رکھتی ہے۔1؎‘‘ ان کے مکتوب کے جواب میں اقبال نے لکھا:’’ میں آپ کو اس اعزاز کی خود اطلاع دیتا۔ مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فرو تر ہیں۔ سینکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ، جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے۔ سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی، جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھ کو ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ انشاء اللہ اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اس کا دل مومن ہے۔ 2؎‘‘ مولانا گرامی کے نام لکھا:’’ آپ نے سن لیا ہو گا کہ امسال اقبال خلاف توقع خطاب یافتہ ہو گیا۔ اس اعزاز کی اطلاع آپ کو خود دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں، وہاں اس قسم کے واقعات احساس انسانی سے بہت نیچے ہیں۔ نہ من بر مرکب ختلی سوارم نہ از وابستگان شہر یارم مرا اے ہم نفس دولت ہمیں بس چو کاوم سینہ را، لطلے بر آرم3؎‘‘ مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام مکتوب سے بھی اقبال کے اصل احساسات کا علم ہو سکتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:’’ آپ کے مختصر الفاظ نے اس موقع پر میرے جذبات کی نہایت صحیح ترجمانی کی ہے۔ حالات مختلف ہوتے تو میرا طریق عمل بھی ا س بارے میں مختلف ہوتا ۔لیکن یہ بات دنیا کو عنقریب معلوم ہو جائے گی کہ اقبال کلمہ حق کہنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ ہاں کھلی کھلی جنگ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ 4؎‘‘ بعد میں انکشاف ہوا کہ سر کا خطاب وفاداری کا صلہ نہیں تھا بلکہ اقبال کے علمی کارہائے نمایاں کے اعتراف کی ایک علامت تھا۔ جسے حضرت گرامی نے یوں پیش کیا: ہر نکتہ علامہ وفا آہنگ است ہر حرف کلید حکمت و فرہنگ است اقبال سر اقبال شد از جوہر علم حاسد عو عو کند علاجش سنگ است اس کا مفصل پس منظر سالک نے بھی بیان کیا ہے اور فقیر سید وحید الدین نے بھی ایک خاص حد تک مرزا جلال الدین نے بھی پیش کیا ہے۔ ہم ان تینوں ماخذ سے حاصل شدہ معلومات کی بنا پر خطاب کی کہانی پیش کرتے ہیں۔ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر شادی لال نے علامہ کو بلا کر کہا کہ حکومت نے مجھ سے خطابات کے لیے سفارشات طلب کی ہیں۔ اور میں آپ کے لیے ’’ خان صاحب‘‘ کا خطاب تجویز کر رہا ہوں۔ یہ ادنیٰ ترین خطاب تھا۔ علامہ نے اس میں اپنی توہین کا پہلو دیکھا اور بگڑ کر کہا کہ میں کسی خطاب کا خواہاں نہیں۔ اس لیے آپ سفارش کی زحمت نہ فرمائیے۔ سر شادی لال نے کہا اتنی جلد فیصلہ نہ کیجئے۔ ذرا کچھ دن سوچ لیجئے۔ علامہ نے کہا میں سوچ چکا ہوں مجھے خطاب کی کوئی ضرورت نہیں۔ دو تین دن بعد سر شادی لال نے پیغام بھیجا کہ مجھ سے مل لیجئے علامہ نے پیغام بر کی زبانی کہلا بھیجا کہ اگر خطاب کے بارے میں بات کرنی ہے تو وہ بے سود ہے۔ کیونکہ میں اپنے فیصلے سے آپ کو مطلع کر چکا ہوں۔ بہرحال اگر کوئی اور کام ہے تو حاضر ہو سکتا ہوں۔ اس زمانے میں سر ایڈورڈ میکلگن پنجاب کے گورنر تھے۔ ان سے علامہ کے عزیز دوست نواب ذوالفقار علی خان کے گہرے روابط تھے۔ ایک دن نواب صاحب نے گورنر سے کہا کہ مشہور بنگالی شاعر رابندر اناتھ ٹیگور کو سر کا خطاب مل چکا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اقبال اس قدر دانی سے محروم ہیں۔ حالانکہ وہ بہت بڑے شاعر بھی ہیں اور مسلمانوں کے محبوب رہنما بھی۔ اس پر گورنر نے کہا اچھا ہم انہیں’’ خان بہادر‘‘ کا خطاب دلائیں گے۔ نواب صاحب نے کہا کہ یہ خطاب تو ان کے شایان شان نہیں ہے گورنر بولے پھر شمس العلماء کا خطاب کیسا رہے گا؟ نواب صاحب نے کہا یہ بھی مناسب نہیں گویا اس طرح یہ کہہ دیا کہ خطاب ملے تو سر کا خطاب ملے۔ جو سب سے اونچا ہوتا تھا۔ انہی دنوں برطانیہ کا ایک مشہور اخبار نویس، جو ادیب بھی تھا، دنیائے اسلام کی سیاحت کے بعد افغانستان کی طرف سے ہندوستان میں داخل ہوا اور گورنر پنجاب کا مہمان ہوا۔ اس نے ایک تو ’’ اسرار خودی‘‘ کا وہ انگریزی ترجمہ پڑھ رکھا تھا جو پروفیسر نکلسن نے کیا تھا۔ دوسرے، اسلامی ملکوں کے علمی اور ادبی حلقوں سے اقبال کے علمی اور شاعرانہ کمالات کا چرچا سن آیا تھا۔ تیسرے اپنی ایک کتاب کے بارے میں علامہ کی رائے معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے گورنر کو مشورہ دیا کہ اقبال کو چائے پر مدعو کیا جائے تاکہ ان سے ملاقات ہو سکے۔ گورنر نے انہیں مدعو کر لیا۔ علامہ کے پاؤں کے انگوٹھے میں تکلیف تھی۔ یوں بھی وہ نقل و حرکت کے زیادہ قائل نہیں تھے، اس لیے ملاقات سے متامل تھے۔ بہرحال مرزا جلال الدین کا اصرار غالب آیا اور مرزا صاحب ہی انہیں گورنمنٹ ہاؤس میں اپنی کار پر پہنچا آئے۔ گورنر نے علامہ کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ اخبار نویس سے ان کا تعارف کرایا اور خود دوسرے کمرے میں چلے گئے علامہ اور اس اخبار نویس کے درمیان کافی دیر چائے کی پیالی پر علمی گفتگو ہوتی رہی۔ جب رخصت کا وقت قریب آیا، تو گورنر کا پیغام ملا کہ جانے سے پہلے مجھے ملتے جائیے۔ اقبال ان کے کمرے میں گئے، تو گورنر نے کہا: اقبال! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ حکومت نے آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرنے میں تساہل روا رکھا ہے۔ میں اس وقت خطابات کی سفارش کر رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ کے لیے ’’ سر‘‘ کے خطاب کے لیے سفارش کی جائے۔ لیکن علامہ نے انکار کیا اور کہا کہ میں خطابات و اعزازات کے بکھیڑے میں نہیں پڑنا چاہتا اور یوں بھی اسلام معاشی امتیازات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ علامہ نے دیکھا کہ ان کے انکار سے گورنر کے چہرے پر تکدر کے آثار نمایاں ہیں اور یہ قدرتی بات تھی۔ کیونکہ گورنر نے سوچا ہو گا کہ ملکی فضا کے پیش نظر علما خطاب پانے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس پر اقبال نے کہا کہ اگر اس انکار سے حکومت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو مجھے تامل نہیں۔ اس پر گورنر کے چہرے پر شگفتگی کے آثار نمایاں ہو گئے۔ اس کے بعد گورنر نے بتایا کہ ’’ شمس العلمائ‘‘ ے خطاب کے لیے اس سال پنجاب سے کسی شخصیت کا انتخاب کیا جائے گا۔ میں نے بعض مسلمان معززین سے اس سلسلے میں تجاویز طلب کی ہیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی نام ہو تو بتا دیں۔ اقبال نے کہا میں صرف اس شرط پر نام تجویز کروں گا کہ اس کے بعد کسی اور نام پر غور نہ کیا جائے۔ گورنر نے کچھ دیر تامل کیا پھر کہا اچھا نام بتائیے علامہ نے اپنے استاد مولوی سید میر حسن کا نام تجویز کیا۔ گورنر اس نام سے بے خبر تھے بولے انہوں نے کون کون سی کتابیں تصنیف کی ہیں؟ علامہ نے فرمایا انہوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن میں ان کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے موجود ہوں وہ میرے استاد محترم ہیں۔ علامہ نے گورنر کو یہ بھی بتا دیا کہ مولوی میر حسن درویش قسم کے بزرگ ہیں۔ سرکار دربار میں حاضری ان کے بس کا روگ نہیں۔ اس لیے اعلان خطاب کے بعد انہیں لاہور نہ بلائیے گا۔ چنانچہ یہی ہوا جب خطاب کا اعلان ہوا تو گورنر نے سند خطاب مولوی صاحب کے فرزند سید علی نقی شاہ کے سپرد کر دی جو گورنمنٹ ہاؤس میں ڈاکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ 6؎ حضرت علامہ وک سر کا خطاب مل گیا تو لاہور کے شہریوں کی طرف سے انہیں مقبرہ جہانگیر میں ایک شاندار عصرانہ دیا گیا۔ جس میں حکام بھی شریک ہوئے۔ اقبال نے اس موقع پر انگریزی زبان میں تقریر کی اور بتایا کہ وہ جرمن شاعر گوئٹے کے دیوان مغرب کے جواب میں ’’ پیام مشرق‘‘ لکھ رہے ہیں 7؎ مرزا جلال الدین راوی ہیں کہ اس تقریب میں گورنر بھی شامل تھے اور ان کی موجودگی میں علامہ نے وہ اشعار سنائے جو ’’ طلوع اسلام‘‘ کے ابتدا میں درج ہیں۔ اور ’’ انہوں نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کو اعلائے کلمتہ الحق سے نہیں روک سکتی۔ 8؎‘‘ جیسا کہ گزشتہ باب میں بتایا جا چکا ہے، سیاسی مسائل پر اظہار رائے میں اقبال کو جو حجاب در پیش تھے، وہ ٹوٹ گئے اور اگرچہ وہ عملی سیاسیات کے کار زار میں ایک ہمہ گیر انداز میں داخل نہ ہوئے لیکن آہستہ آہستہ یہ رحجان بھی ختم ہونے لگا۔ جس سال علامہ کو خطاب ملا، اسی سال پنجاب کی مجلس قانون ساز کے انتخابات ہونے تھے۔ عوام چاہتے تھے کہ ان کی نمائندگی حضرت علامہ کی بلند مرتب شخصیت کے سپرد ہو۔ چنانچہ انہوں نے وفود بھیجے، اخبارات میں اپیلیں شائع کیں اور اصرار کیا کہ علامہ لاہور کی نشست سے کونسل کی رکنیت کے لیے کھڑے ہوں۔ علامہ کے مزاج کو یہ تجویز راس نہیں آتی تھی۔ بہرحال پیہم اصرار کے پیش نظر انہوں نے نیم رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ اتنے میں معلوم ہوا کہ اسی حلقے سے ان کے دوست میاں عبدالعزیز بار ایٹ لاء کھڑے ہو ہے ہیں۔ یہ سنا تو انہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ کیونکہ ان کی مروت نے گوارا نہ کیا کہ دوست کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ 9؎ اس زمانے میں کچھ غیر ملکی شخصیات سے علامہ کی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں ایک علامہ ہروی تھے۔ ان کا پورا نام علامہ عبدالعلی ہروی الطہرانی تھا۔ بے حد ذہین اور طباع اور نہایت لسان آدمی تھے۔ بابیت اور کمیونزم کی طرف مائل تھے ان سے اقبال کی بہت سی ملاقاتیں ہوئیں لیکن علامہ کا اطمینان نہ ہوا۔ فروری 1924ء میں ترکیہ سے دو فوجی افسر، میجر حیدر عصمت بے اور لیفٹیننٹ الیاس آفندی افغانستان کے راستے برعظیم میں آئے۔ لاہور میں ان کا زبردست استقبال ہوا۔ ان کے اعزاز میں ایک پر جوش تقریب برپا کی گئی، جس میں حضرت علامہ، مولوی محبوب عالم، مرزا جلال الدین، حاجی میر شمس الدین، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر اور دوسرے ممتاز حضرات شامل تھے۔ سالک لکھتے ہیں:’’ یہ دونوں ترک مجاہد حضرت علامہ کے ادب و احترام میں بچھے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اپنے ترک بھائیوں سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ہم نے حضرت علامہ کی زیارت کی ہے۔ 10؎‘‘ 1923ء میں حضرت علامہ کو اسلام اور بالشویزم کے مسئلے پر ایک طویل بیان دینا پڑا۔ لیکن اس بیان کے تذکرے اور تجزیے سے پہلے پس منظر پیش کرنا ضروری ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں کارل مارکس نے اپنی مشہور کتاب داس کیپی ٹال (سرمایہ) لکھی۔ جس نے دنیا بھر کے دانشوروں اور ٹریڈ یونین کی سوچ پر اثر ڈالا۔ اس کتاب کا ماحصل یہ تھا کہ سرمایہ داری اور جاگیر داری ایک قسم کی ڈکیتی ہے اور اس کا مدار مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسنے پر ہے۔ جدید سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتا چلا جائے گا اور مزدور طبقہ اتنا بے بس ہو گا، جتنا عہد غلامی میں بھی نہیں تھا۔ جب مزدوروں کی مظلومیت نقطہ عروج پر پہنچ جائے گی تو وہ متحد ہو کر انقلاب برپا کریں گے۔ اور ایک ایسا نظام وجود میں لائیں گے جس میں ذرائع پیداوار عوام کے ہاتھ آ جائیں گے اور نوع انسانی کا مجموعی بھلائی کے کام آئیں گے۔ اسی کو اشتراکیت کہتے ہیں ابتدا میں اشتراکیت ایک معاشی نظریہ تھا لیکن کارل مارکس اور ان کے ساتھیوں نے اسے حیات و کائنات کا ایک ہمہ گیر نظریہ بنا دیا۔ یورپ کے جن جن ملکوں میں صنعتی انقلاب آیا، وہاں انیسویں صدی کے اواخر سے سوشل ڈیمو کریٹک پارٹیاں وجود میں آنے لگیں۔ جن کا نصب العین ایک اشتراکی معاشرے کا قیام تھا۔ اسی قسم کی ایک پارٹی روس میں بھی قائم ہوئی۔ 1903ء میں اس پارٹی کی دوسری کانگرس میں دو گروہ وجود میں آ گئے۔ ایک بالشویک گروہ، دوسرا منشویک گروہ۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کہ بالشویک اکثریت کو کہتے ہیں اور منشویک اقلیت کو اکثریتی گروہ، بالشویک گروہ کی قیادت لینن کے ہاتھ میں تھی۔ 1912ء میں اکثریتی گروہ نے ایک علیحدہ اور باقاعدہ پارٹی کا روپ لے لیا جس کا نام ’’ کل روس کمیونسٹ پارٹی (بالشویک) قرار پایا۔ نومبر1917ء میں روس جو ہمہ گیر انقلاب آیا اور اب سوشلزم اور بالشوزم مرادف اصلاحات بن گئیں۔ بلکہ بالشوزم کا لفظ زیادہ رائج رہا۔‘‘ 1917ء کے انقلاب کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی حامی قوتوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی کوششیں کیں۔ لیکن یہ ناکام رہیں۔ اس انقلاب نے دنیا بھر کے بہت سے دانشوروں اور مزدور رہنماؤں کے خیالات کو متاثر کیا۔ اس سے ایک تو سرمایہ و محنت کی آویزش کا مسئلہ نمایاں ہوا۔ دوسرے یہ آرزو پرورش پانے لگی کہ سوشلسٹ نظام دوسرے ملکوں میں بھی قائم کیا جائے اور دنیا بھر میں روس کی قدر و منزلت اس لیے بھی بڑھی کہ وہ سامراجی نظام کا دشمن تھا اس طرح روس سامراج دشمنی کی بھی ایک علامت بن گیا۔ علامہ اقبال بھی اس سے متاثر ہوئے۔ لیکن ایک محدود انداز میں۔ انہوں نے سوشلزم یا بالشویزم کا پورا فلسفہ تو قبول نہ کیا، کیونکہ وہ پختگی کے ساتھ اس عقیدے پر قائم تھے کہ اسلام ہی تمام معاشری اور معاشی ناہمواریوں کا صحیح حل پیش کرتا ہے۔ بہرحال جہاں تک سرمایہ و محنت کی آویزش اور سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی روش کا تعلق تھا، اقبال نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کی مشہور نظم ’’ خضر راہ‘‘ اسی دور میں لکھی گئی۔ جس میں ایک بند تو تمام و کمال سرمایہ و محنت کی آویزش، سرمایہ دار کی مذمت اور محنت کی حمایت کے لیے وقف تھا اور باقی بندوں میں بھی اس طرف اشارے موجود تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے ’’ پیام مشرق‘‘ شائع کی۔ جس میں تین نظمیں انہی مسائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایک نظم میں فرانس کے مفکر کونت اور مزدور کے درمیان مکالمہ پیش کیا گیا ہے۔ کونت نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانوں میں جو نا ہمواریاں ہیں اور جو تفاوت ہے۔ وہ مطابق فطرت ہے اور یہ تفاوت حسد اور کشمکش کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ مزدور کہتا ہے:’’حضرت کیوں حکمت کے پردے میں ہمیں دھوکا دے رہے ہو کہ یہ تفاوت فطری ہے۔ اس لیے اس کو برقرار رکھنا چاہیے۔ یہ ہمارے کار فرما اور سرمایہ اندوز، انسانیت کا کوئی صحت مند عضو نہیں۔ یہ تو چور ہیں۔ آپ کی عقل پر افسوس ہے کہ آپ نے چوروں کی حمایت کو حکمت کا لباس پہنایا ہے۔‘‘ ایک اور نظم میں لینن اور جرمن سامراج کے آخری نمائندے قیصر ولیم کے درمیان مکالمے میں لینن کہتا ہے کہ عرصہ دراز سے انسان بھاری چکی کے دور پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ ایک طرف انسانیت کا خون چوسنے والی اور اس کو غلام بنانے والی ملوکیت ہے اور دوسری طرف کلیسا اور حامیان مذہب کا استبداد خواجہ کی قبا محنت کشوں کے خون ہی میں رنگی ہوئی ہے۔ بھوکے غلاموں نے آخر تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کر کے اس قبا کو چاک کر کے سرمایہ داروں کو ننگا کر دیا ہے۔ عوام و جمہور کی بھڑکائی ہوئی آگ نے روائے پیر کلیسا اور قبائے سلطانی کو جلا کر راکھ کر دیا۔ 12؎ ایک اور نظم ’’ قسمت نامیہ سرمایہ دار و مزدور‘‘ میں بھی یہی مضمون باندھا گیا ہے۔ ایک نظم ’’نوائے مزدور‘‘ دنیا کے محنت کشوں کے لیے پیام انتقام ہے۔’’ کھدر پوش مزدور کہتا ہے کہ ہماری محنت کے سرمائے سے ناکردہ کار سرمایہ دار ریشمیں قبا پہنتے ہیں۔ ان کے لعل و گہر ہمارے کون کے قطرے اور ہمارے بچوں کے آنسو ہیں۔ کلیسا بھی ایک جونک ہے، جو ہمارا خون چوس کر موٹی ہو رہی ہے۔ سلطنتیں ہماری قوت بازو سے مضبوط ہوتی ہیں لیکن ان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں۔ یہ باغ و بہار ہمارے گریہ سحر اور خون جگر کی پیداوار ہے۔ آؤ ان تمام اداروں کے ساغروں میں ایک شیشہ گداز شراب انڈیل دیں۔ آؤ اس چمن حیات میں ہمارے خون جگر سے لالہ گل پیدا کرنے والوں سے انتقام لیں۔ بے درد شمعوں کی طواف میں اپنے آپ کو پروانہ و ار سوخت کرنا ختم کریں اور اپنی خودی سے آگاہ ہو کر خود داری اور آزادی کی زندگی بسر کریں۔ 13؎‘‘ اس زمانے میں پنجاب کے چند نوجوان اشتراکیت کے زبردست حامی تھے۔ انہوں نے اسی کی نشر و اشاعت کے لیے کچھ دیر’’ انقلاب‘‘ کے نام سے ایک ماہ نامہ بھی نکالا، جس کے مدیر شمس الدین حسن تھے۔ انہی نوجوانوں میں پروفیسر غلام حسین بھی شامل تھے۔ وہ ایڈورڈز کالج پشاور کے استاد تھے نومبر1922ء میں ملازمت چھوڑی اور لاہور آ گئے اور ’’ انقلاب‘‘ میں کام کرنا شروع کیا دو چار پمفلٹ بھی لکھے۔ 1923ء میں بالشویک سازش کے مقدمے میں گرفتار ہو گئے۔ آخر کار وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور مدتوں اسلامیہ کالج لاہور میں معاشیات کے استاد رہے۔ جن دنوں غلام حسین اسیر فرنگ تھے، ان کے رفیق کار شمس الدین حسن نے 23 جون1923ء کے ’’ زمیندار‘‘ میں ایک مقالے کے دوران میں لکھا کہ بالشوزم کی حمایت کوئی جرم نہیں۔ ان کے اپنے الفاظ یہ تھے: ’’ بالشویک نظام حکومت کارل مارکس کے فلسفہ سیاست کا لب لباب ہے اور کارل مارکس کے فلسفے کو عام فہم زبان میں سوشلزم اور کمیونزم کہا جاتا ہے ان حالات سے اگر کوئی تھوڑی سی عقل کا مالک بھی سر محمد اقبال کی خضر راہ اور پیام مشرق کو بغور دیکھے تو وہ فوراً اس نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلغ اعلیٰ بھی ہیں۔ پیام مشرق میں قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور اور نوائے وقت کے عنوان سے جو مختصر نظمیں لکھی ہیں، ان سے قطع نظر کر کے صفحہ156کی غزل کا مطلع ملاحظہ ہو: تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست با من میا کہ مسلک شبیرم آرزوست کیا ایسے اشعار کی موجودگی میں کسی کو شک ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال ایک تنہائی خیالات رکھنے والے اشتراکی نہیں ہیں 14؎‘‘ اسی دن علامہ اقبال نے یہ بات کسی سے سنی اور اخبار دیکھے بغیر فی الفور مدیر ’’ زمیندار‘‘ کے نام ایک طویل مراسلہ بھیجا۔ جو 24 جون کے شمارے میں چھپ گیا۔ علامہ نے پہلے پیراگراف میں بالشویک خیالات رکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے اخراج کے مترادف قرار دیا۔ اصل مسئلہ پر انہوں نے جو کچھ لکھا۔ اس کا مکمل متن پیش کیا جاتا ہے: ’’ میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے۔ لیکن دنیا کو اس کے مضمر اثرات سے نجات دلانے کا یہ طریق نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے، جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانون میراث، حرمت ربا اور زکوۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کی نا عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راوہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارتاً ذکر کیا ہے۔ شریعت حقہ اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے۔ اور اس مدعا کے حصول کے لیے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے۔ اسلام سرمائے کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا۔ بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے اور ہمارے لیے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عیقدہ ہے فاصبحتم بنعمتہ اخوانا میں قرآن نے اسی نعمت کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے اخوان نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ ہر پہلو سے ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصود سرمایہ داری کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنا ہے۔ یورپ اس نکتہ کو نظر انداز کر کے آج آلام و مصائب کا شکار ہے۔ میری دلی آرزو ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام قومیں اپنے اپنے ممالک میں ایسے قوانین وضع کریں، جن کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کی اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریں۔ مجھے ان کے اغراض و مقاصد کے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر مجھے امید ہے وہ کوئی ایسا طریق عمل یا نصب العین اختیار نہ کریں گے، جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو۔ 15؎‘‘ گویا اقبال بالشوزم کو ایک نظریہ حیات کے طور پر قبول نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ اسلامی نظریہ حیات سے متصادم ہے۔ لیکن وہ سرمایہ دارانہ نظام کے نئے روپ کو لعنت قرار دیتے تھے وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سرمایہ دارانہ نظام کو مناسب حدود میں رکھنے کے حامی تھے اور چاہتے تھے کہ مساوات پر مبنی ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشری اور معاشی نظام قائم کیا جائے وہ روسی نظام کے اس نصب العین کو تو پسند کرتے تھے کہ معاشری اور معاشی اونچ نیچ ختم ہو جائے۔ لیکن اس کے طریق کار سے اختلاف رکھتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے سرمایہ و محنت کی آویزش پو جو کچھ لکھا، اسے ان کے پیغام کے مجموعی تناظر میں دیکھنا مناسب ہے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ مطالعہ اقبال‘‘ ص32 2۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول، صفحات206, 207 3۔’’ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ ص187 4۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول ص233 5۔’’ رباعیات گرامی‘‘ ص300 6۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات128, 130 ’’ ملفوظات اقبال‘‘ صفحات123, 24 ’’ روزگار فقیر‘‘ جلد اول صفحات، 42, 44 7۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص117 8۔’’ ملفوظات اقبال‘‘ ص125 9۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص120 10۔ایضاً، صفحات115, 122 بحوالہ ’’ زمیندار‘‘ 7فروری 1924ء 11۔’’ فکر اقبال‘‘ صفحات248, 249 12۔ایضاً، ص250 13۔ ایضاً، ص254 14۔’’ خطوط اقبال‘‘ صفحات153, 154(بحوالہ ’’ زمیندار‘‘ 23جون1923ء ص3) 15۔ایضاً، صفحات155, 57(بحوالہ ’’ زمیندار‘‘ 24جون1923ئ) ٭٭٭ بارہواں باب 1919ء سے 1925ء تک ادبی مسائل، تصنیف و تالیف اور انجمن حمایت اسلام 1917ء میں حضرت علامہ نے ادب کے مقصدی پہلو کی طرف جو اشارات ’’ ستارۂ صبح‘‘ میں ایک مختصر مقالے کے دوران میں کیے تھے، اس دور میں ان کی وضاحت ہو گئی۔ اور یوں حضرت علامہ کا نظریہ ادب زیادہ تفصیل کے ساتھ منظر عام پر آ گیا۔ 1919ء کے آغاز کا ذکر ہے۔ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:’’ شاعری محض محاورات اور اظہار بیان کی صحت سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے۔ میرے معیار تنقید نگاروں کے ادبی معیاروں سے مختلف ہیں۔ میرے کلام میں شاعری محض ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے قطعاً یہ خواہش نہیں کہ دور حاضر کے شعرا میں میرا بھی شمار ہو۔ 1؎‘‘ اسی سال سید سلیمان ندوی کے نام لکھتے ہیں:’’ شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات اور انقلاب پیدا ہو اور بس۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب، کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔ اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں۔ 2؎‘‘ چند سال بعد 1923ء میں سردار عبدالرب نشتر کے نام ایک مکتوب میں لکھا۔ ’’زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے۔ بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔ 3؎‘‘ ان مکاتیب کے مطالعہ سے ہم یہ نتیجہ آسانی کے ساتھ اخذ کر سکتے ہیں کہ اقبال فن برائے فن کے قائل نہیں تھے۔ وہ فن برائے مقصد پر یقین رکھتے تھے۔ بلکہ فن برائے انقلاب کے نظریے پر عمل پیرا تھے۔ انہوں نے اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالی کہ ادب یا فن میں خیال کو زیادہ اہمیت حاصل ہے یا اسلوب کو۔ جہاں تک ان کی اپنی ذات اور اپنے فن کا تعلق تھا، انہیں یہ کہنے میں حجاب محسوس نہ ہوا کہ اس میں خیال کی اہمیت غالب ہے اور اسلوب ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خیال کے پہلو بہ پہلو ان کا اسلوب بھی نمو پاتا رہا اور خیال اور اسلوب، دونوں سے برعظیم کے بے شمار ادیب اور شاعر متاثر ہوئے۔ جہاں تک زبان کا تعلق ہے، انہوں نے شعر میں فارسی اور اردو کو ذریعہ اظہار بنایا اور نثر میں انگریزی اور اردو کو۔ اس تنوع کا باعث یہ تھا کہ بعض مطالب کو فارسی میں بہتر طریقے پر بیان کیا جا سکتا تھا اور بعض مطالب کو انگریزی میں۔ لیکن جن خیالات کو عوام تک پہنچانا مقصود تھا، ان کا اظہار اردو میں کیا۔ علامہ اقبال اور مولانا ابو الکلام آزاد ہم عصر تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوم میں بیداری کا شعور اور احساس پیدا کرنے میں اقبال نے پہل کی اور جیسا کہ ہم ایک گذشتہ باب میں لکھ چکے ہیں، مسلم قومیت کا تصور بھی واضح طور پر ابھرا تو اقبال کی نثری اور شعری تحریروں کی بدولت۔ مولانا آزاد لکھتے تو پہلے بھی تھے لیکن ان کا اصل کام ’’ الہلال‘‘ سے شروع ہوا۔ جس کا اجرا1912ء میں ہوا۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال نے آزاد کے خیالات کو پسند کیا۔ اس لیے کہ آزاد کے ابتدائی خیالات اقبال کے خیالات سے ہم آہنگ تھے۔ چنانچہ اقبال نے ’’ الہلال‘‘ کے لیے دس خریدار بھی فراہم کیے اور اپنے کلام سے بھی نوازا۔ جب ’’ الہلال‘‘ کی بندش کے بعد مولانا آزاد نے 12 نومبر1915ء کو ’’ البلاغ کے نام سے یک نیا ہفت روزہ جاری کیا تو اس کے پہلے شمارے کے صفحہ اول پر علامہ اقبال کی یہ نظام چھاپی گئی: محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانہ سینا و فارابی فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی میسر جس سے ہیں آنکھوں کو اب تک اشک عنابی مرے دل نے یہ اک دن اس کی تربت سے شکایت کی نہیں ہنگامہ عالم میں اب سامان بے تابی تغیر آ گیا ایسا مزاج اہل عالم میں کہ رخصت ہو گئی دنیا سے کیفیت وہ سیمابی فغان نیم شب شاعر کی بار گوش ہوتی ہے نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابی کسی کا شعلہ فریاد ہو ظلمت ربا کیوں کر گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی صدا تربت سے آئی، ’’شکوہ اہل جہاں کم کن نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی4؎‘‘ علامہ کو مولانا آزاد سے جا تعلق خاطر تھا، وہ اس خط سے بھی واضح ہوتا ہے جو انہوں نے آزاد کی رانچی کی نظر بندی سے رہائی پر 3 اپریل 1919ء کو سید سلیمان ندوی کے نام لکھا۔ فرماتے ہیں:’’ الحمد اللہ، کہ مولانا آزاد کو آزادی ملی۔ کیف باطن میں بالخصوص آج کل صحو ہی کی ضرورت ہے۔ نبی کریم ؐ نے صحابہ ؓ کی تربیت اسی حال میں کی تھی۔ سکر کی حالت عمل کی دشوار گذار منزل کو طے کر لینے کے بعد ہو تو مفید ہے۔ باقی حالات میں اس کا اثر روح پر ایسا ہی ہے جیسا جسم پر افیون کا۔ مولانا آزاد اب کہاں ہیں۔ پتہ لکھئے کہ ان کی خدمت میں عریضہ لکھوں۔ 5؎‘‘ سات مہینے بعد ان تعلقات میں رخنہ پڑ گیا۔ کیونکہ مولانا آزاد کا’’ تذکرہ‘‘ منظر عام پر آیا تو اس میں ’’ الہلال‘‘ پریس کے مینجر مولوی فضل الدین احمد نے اپنے دیباچے میں لکھا کہ ’’ اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال ہی کی آواز باز گشت ہیں۔ اقبال کے جو مذہبی خیالات اس سے پہلے سنے گئے، ان میں اور مثنویوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔‘‘ علامہ نے سالک سے ایک ملاقات کے دوران میں اس تحریک پر افسوس کا اظہار کیا۔ سالک لکھتے ہیں:’’ راقم نے عرض کیا کہ مولوی فضل الدین احمد نے حقیقتاً غلط لکھا۔ ان کو آپ کے مسلک و مذہب کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں۔ انہیں لکھنے پڑھنے سے کیا سروکار۔ وہ تو مطبع الہلال کے مہتمم تھے۔ اس کے بعد راقم نے چند ایسے فقرے کہے، جن سے مقصود یہ تھا کہ علامہ کے دل میں مولانا ابو الکلام کے متعلق کوئی کدورت باقی نہ رہے۔ خدا جانے یہ مقصود حاصل ہوا یا نہیں۔ بہرحال چونکہ راقم نظم و نثر اور جذبات اسلامی میں ان دونوں ہستیوں سے یکساں مستفید ہوا تھا، اس لیے اپنی طرف سے کوئی کمی نہ کی۔ 6؎‘‘ بہرحال اس غلط بیانی پر علامہ کا اضطراب قائم رہا۔ چنانچہ 10 نومبر1919ء کو انہوں نے سید سلیمان ندوی کے نام ایک مکتوب میں مولوی فضل الدین احمد کے دیباچے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:’’ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں، ان کو برابر1907ء سے ظاہر کر رہا ہوں۔ ان کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں نظم و نثر و انگریزی و اردو موجود ہیں جو غالباً مولوی صاحب کے پیش نظر نہ تھیں بہرحال اس کا کچھ افسوس نہیں کہ انہوں نے ایسا لکھا۔ مقصود اسلامی حقائق کی اشاعت ہے نہ نام آوری۔ البتہ اس بات سے مجھے رنج ہوا کہ ان کے خیال میں اقبال تحریک الہلال سے پہلے مسلمان نہ تھا تحریک الہلال نے اسے مسلمان کیا۔ ان کی عبارت سے ایسا خیال مترشح ہوتا ہے۔ ممکن ہے ان کا مقصود یہ نہ ہو۔ میرے دل میں مولانا ابو الکلام کی بڑی عزت ہے اور ان کی تحریک سے ہمدردی۔ مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اوروں کی دل آزاری کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال کے جو مذہبی خیالات اس سے پہلے سنے گئے، ان میں اور مثنویوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ معلوم نہیں انہوں نے کیا سنا تھا۔ اور سنی سنائی بات پر اعتبار کر کے ایسا جملہ لکھنا، جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں کسی طرح ان لوگوں کے شایان شان نہیں جو اصلاح کے علمبردار ہوں7؎‘‘ معلوم نہیں کہ سید سلیمان ندوی نے کیا جواب دیا اور علامہ کی شکایت مولانا ابو الکلام تک پہنچائی یا نہیں۔ لیکن دو سال بعد جناب عشرت رحمانی نے جب قومی بیداری کو اقبال کی مساعی سے منسوب کیا تو علامہ کی طبیعت میں قدرے انشراح پیدا ہوا۔ آپ نے جواب میں لکھا:’’ رہا یہ امر کہ موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہیے۔ اس کے متعلق کیا عرض کروں ۔ مقصود تو بیداری سے تھا۔ اگر بیداری ہندوستان میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں۔ لیکن آپ کے اس ریمارک سے مجھے بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابو الکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی، شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے، ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے۔ لیکن اگر کسی کو بھی اس کا احساس نہ ہو تو مجھے اس کا رنج نہیں۔ کیونکہ اس معاملے میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بے غرض ہوں۔ 8؎‘‘ ’’ بانگ درا‘‘ ستمبر1924ء میں چھپ کر تیار ہوئی۔ اس کی ترتیب کیسے ہوئی، کب ہوئی۔ اس کا ایک پس منظر ہے۔ علامہ کا اردو کلام بے حد مقبول تھا۔ اخباروں اور رسالوں میں چھپتا یا علامہ خود محفلوں میں سناتے تو لوگ اسے نقل کر کے محفوظ کر لیتے۔ یہ عادت بہت سوں کی تھی۔ والد مرحوم مولانا عبدالمجید سالک نے بھی عنفوان شباب میں علامہ کے کلام کی ایک بیاض تیار کر رکھی تھی جو میرے پاس موجود ہے۔ بعض لوگوں نے علامہ سے اجازت چاہی کہ ان کا کلام کتابی صورت میں چھاپ لیں لیکن وہ نہ مانے وجہ یہ تھی کہ ایک تو اخباروں اور رسالوں میں مطبوعہ کلام میں کتابت کی غلطیاں موجود تھیں۔ دوسرے بہت سے اشعار بلکہ بہت سی نظمیں ایسی تھیں جنہیں اقبال حذف کرنا چاہتے تھے۔ اور اتنی فرصت نہیں تھی کہ جم کر بیٹھیں اور اردو مجموعہ کلام مرتب کر لیں۔ بہرحال آرزو موجود تھی۔ 1916ء کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں۔’’ افسوس ہے کہ مجموعہ اشعار اب تک شائع نہ ہو سکا۔ امید ہے کہ جنگ کے بعد شائع ہو گا۔ 9؎‘‘ مولوی احمد دین نے ’’ اقبال کی شاعری‘‘ کے نام سے ایک کتاب چھاپی جس میں علامہ کی بہت سی نظمیں آ گئیں۔ علامہ نے اسے ناپسند کیا اور آخری مولوی احمد دین نے تمام نسخوں کو نذر آتش کر دیا۔ 10 ؎ علامہ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد نے بہت سا کلام جمع کر رکھا تھا۔ ایک دوست نے کہا علامہ سے اجازت لے لو مجموعہ میں چھپ دوں گا۔ چنانچہ شیخ اعجاز احمد نے علامہ کے نام خط لکھا لیکن علامہ نے 10جنوری 1921ء کے مکتوب میں لکھا کہ مجھے یہ تجویز منظور نہیں کیونکہ میں خود مجموعہ مرتب کر رہا ہوں۔ 11؎ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے محض ٹالا نہیں تھا بلکہ وہ واقعی مجموعے کی ترتیب فرما رہے تھے اور اس کی اشاعت کے لیے کسی ذریعے سے مالی امداد کی پیش کش بھی ہوئی تھی۔ چنانچہ دسمبر1920ء کے ایک مکتوب بھی لکھتے ہیں:’’ میں مجموعہ مرتب کر رہا ہوں۔ کچھ نظموں کی نظر ثانی باقی ہے۔ بعض دولت مند دوستوں نے اسے نہایت عمدہ کاغذ پر چھاپنے کا تہیہہ کیا ہے ان کی خوا ہش ہے روپیہ وہ خرچ کریں اور فائدہ تمام و کل میں اٹھاؤں۔ دل اس کے قبول کرنے میں بھی متامل ہے۔ 12؎‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کی مصروفیات اتنی تھیں کہ اس کام پر کبھی توجہ دیتے تھے اور کبھی غافل ہو جاتے تھے۔ لیکن جون1924ء میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے انہیں مجبور کر دیا کہ اس کام پر جم کر اور پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں ۔ ہوا یہ کہ حیدر آباد دکن کے ایک اہل علم شخص عبدالرزاق راشد نے ’’ کلیات اقبال‘‘ کے نام سے ایک ضخیم مجموعہ اقبال سے پوچھے بغیر چھاپ دیا۔ اس پر علامہ کا رد عمل کیاتھا؟ اس سلسلے میں خلیفہ عبدالحکیم کا یہ بیان ہماری رہنمائی کرتا ہے:’’ عرصے سے احباب مصر تھے کہ اپنا مجموعہ کلام چھپواؤ۔ لیکن وہ سن کر ٹال دیتے تھے۔ اس بارے میں یہاں تک ٹال مٹول ہوئی کہ حیدر آباد میں ایک صاحب نے اخباروں اور رسالوں سے ان کی تمام مجموعہ نظمیں جمر کر کے ان کی اجازت کے بغیر اور بغیر ان کو خبر کیے ایک مجموعہ چھپوا کر فروخت کرنا شروع کر دیا۔ جس سے وہ بہت برہم ہوئے۔ کوئی اچھا شاعر اپنے مختلف زمانوں کا کلام جوں کا توں شائع نہیں کرنا چاہتا۔ بعض نظموں کے متعلق وہ چاہتا ہے کہ دنیا انہیں فراموش کر دے۔ بعض اشعار میں رد و بدل کرتا ہے۔ کہیں کچھ مٹاتا ہے، کہیں کچھ اضافہ کرتا ہے۔ کچھ نہ پوچھئے کہ ان صاحب نے کیا غضب کیا اور اقبال کو ان پر کس قدر غصہ آیا۔ 13؎‘‘ خلیفہ عبدالحکیم، عبدالرزاق راشد کے ہم جماعت رہے تھے۔ انہوں نے گفتگو میں حصہ لیا۔ ادھر اقبال نے سر اکبر حیدری سے بھی دباؤ ڈلوا دیا۔ چنانچہ یہ مفاہمت طے پائی کہ عبدالرزاق راشد ایک ہزار روپیہ بطور رائلٹی اقبال کو ادا کریں۔ یہ رقم خلیفہ عبدالحکیم کی وساطت سے ادا ہوئی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ ’’ کلیات اقبال‘‘ حیدر آباد دکن سے باہر فروخت نہ کی جائے اور تیسری یہ کہ اس کا دوسرا ایڈیشن نہ چھاپا جائے 14؎ ادھر یہ نامہ و پیام جاری تھا، ادھر علامہ نے چند مہینے کے اندر اندر ’’ بانگ درا‘‘ مرتب کر کے چھاپ دی۔ چونکہ کتاب کی فروخت علامہ کے بس کا روک نہیں تھا، اس لیے انہوں نے پہلے ایڈیشن کے پورے تین ہزار نسخے شمس العلما مولوی سید ممتاز علی کے ادارے دار الاشاعت پنجاب کے سپرد کر دیے اور ادارے نے اپنی کمیشن وضع کر کے کتابوں کی قیمت علامہ کو ادا کر دی۔ 15؎ ’’ بانگ درا‘‘ بے حد مقبول ہوئی۔ دو سال بعد پانچ ہزار نسخوں کا ایک اور ایڈیشن چھاپا گیا۔ 1926ء تک اس کے اکیس ایڈیشن چھپ چکے تھے، جن کے نسخوں کی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔ 16؎ اتنا قبول عام علامہ کی کسی اور کتاب کو نصیب نہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فارسی مجموعوں سے صرف اہل علم ہی مستفید ہو سکتے تھے لیکن اردو کلام سے ہر شخص لطف اندوز ہوتا تھا۔ یوں بھی ’’ بانگ درا‘‘ ہماری قومی اور سیاسی تاریخ کے ایک پورے ربع میں عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان تھی اور اقبال عوام میں جانے پہچانے گئے اور ان کے محبوب بنے تو اصلاً اردو کلام ہی کی وجہ سے۔ پھر اس کتاب کی ایک اور بڑی خوبی یہ تھی کہ کلام کی ترتیب تاریخ وار ہوئی۔ اس طرح عوام اس قابل ہوئے کہ علامہ کے فکری ارتقا سے آگاہ ہو سکیں۔ بہرحال اس دور میں علامہ کی بیشتر فکری توجہ ’’ پیام مشرق‘‘ پر مرتکز رہی یہ کتاب یکم مئی 1923ء کو منظر عام پر آئی اس کا پور انام ہے پیام مشرق: در جواب دیوان شاعر المانوی گوئٹے۔ گوئٹے کے ’’ مغربی دیوان‘‘ کے بارے میں جرمنی کے شاعر ہائنا نے لکھا:’’ یہ ایک گلدستہ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے۔ اس دیوان سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہو کر مشرقی کے سینے میں حرارت کا متلاشی ہے۔‘‘ علامہ نے دیباچے میں گوئٹے کے سوانح نگار بیل سوشکی کی تحریر سے یہ اقتباس دیا: ’’ بلبل شیراز کی نغمہ پردازیوں میں گوئٹے کو اپنی ہی تصویر نظر آتی تھی۔ اس کو کبھی کبھی یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ شاید میری روح ہی حافظ کے پیکر میں رہ کر مشرق کی سر زمین میں زندگی بسر کر چکی ہے۔ وہی زمینی مسرت وہی آسمانی محبت، وہی سادگی، وہی عمق، وہی جوش و حرارت، وہی وسعت مشرب، وہی کشادہ دلی اور وہی قیود و رسوم سے آزادی! غرض کہ ہر بات میں ہم اسے حافظ کا مثیل پاتے ہیں۔ جس طرح حافظ لسان الغیب و ترجمان اسرار ہے، اسی طرح گوئٹے بھی ہے اور جس طرح حافظ کے بہ ظاہر سادہ الفاظ میں ایک جہان معنی آباد ہے، اس طرح گوئٹے کے بے ساختہ پن میں بھی حقائق و اسرار جلوہ افروز ہیں۔ دونوں نے امیر و غریب سے خراج تحسین وصول کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے وقت کے عظیم الشان فاتحوں کو اپنی شخصیت سے متاثر کیا۔ یعنی حافظ نے تیمور کو اور گوئٹے نے نپولین کو اور دونوں عام تباہی اور بربادی کے زمانے میں طبیعت کے اندرونی اطمینان و سکون کو محفوظ رکھ کر اپنی قدیم ترنم ریزی جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔‘‘ اس کے بعد علامہ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ گوئٹے کی مشرقیت محض عارضی ہے اور وہ بھی ایسی، جسے مغربی فطرت جذب کر سکتی ہے۔ عجمی تصوف سے اسے مطلق دلچسپی نہ تھی۔ وہ تغزل محض کا دلدادہ تھا اور کلام حافظ کی صوفی تعبیر سے اسے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ ’’ پیام مشرق‘‘ کے بارے میں اقبال نے لکھا: ’’ اس کا مدعا زیادہ تر ان اخلاقی، مذہبی اور ملی حقائق کو پیش لانا ہے، جن کا تعلق افراد و اقوام کی باطنی تربیت سے ہے۔ اس سے سو سال پیشتر کے جرمنی اور مشرق کی موجودہ حالت میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم محض اس لیے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں، ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے۔ یورپ نے اپنے علمی، اخلاقی اور اقتصادی نصب العین کے خوفناک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس کے نکتہ رس مگر قدامت پرست مدبرین اس حیرت انگیز انقلاب کا صحیح اندازہ نہیں کر سکے جو انسانی خمیر میں اس وقت واقع ہو رہا ہے۔ خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگ عظیم کی کوفت کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کی نشوونما کے لیے نامساعد ہے۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کی طبائع پر وہ فرسودہ، ست رگ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آ جائے جو جذبات قلب کو افکار دماغ سے متمیز نہیں کر سکتی۔‘‘ ’’ مشرقی اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے۔ مگر اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے خمیر میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون، جس کو قرآن نے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر واما بانفسہم کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے، زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے اور میں نے اپنی فارسی تصانیف میں اس صداقت کو مدنظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ 17؎‘‘ ’’ پیام مشرق‘‘ کا پہلا ایڈیشن ایک ہزار نسخوں پر مشتمل تھا۔ یہ ہاتھوں ہاتھ بک گیا اور اگلے سال ایک ہزار کا اور ایڈیشن چھپایا گیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل علم نے اس کا کتنا پرجوش خیر مقدم کیا۔ علامہ نے مالی یافت کی خاطر سکولوں کے لیے کچھ درسی کتابیں بھی لکھیں۔ ان میں اولین تاریخ ہند تھی جو 1913ء میں گورنمنٹ کالج کے استاد تاریخ لالہ رام پرشاد کے تعاون سے لکھی۔ 1924ء میں سلسلہ ادبیہ کے نام سے حکیم احمد شجاع کی رفاقت میں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لیے جدید اردو نصاب تیار کئے، 18؎ 1922 ء میں میٹریکولیشن کے طلبہ کے لئے فارسی نصاب کی ترتیب کا خیال آیا۔ مواد کی تلاش بھی کی۔ 19؎ لیکن یہ کتاب چند سال بعد تیار ہو سکی۔ حضرت اکبر الہ آبادی سے علامہ کو بے حد عقیدت تھی۔ عرصے تک ان سے خط و کتابت رہی۔ ستمبر1921ء میں اکبر الہ آبادی اللہ کو پیارے ہوئے تو اقبال نے ان کے فرزند کے نام ایک خط میں لکھا:’’ اسلامی ادیبوں میں تو شاید آج تک ایسی نکتہ رس ہستی پیدا نہیں ہوئی۔ اور مجھے یقین ہے کہ تمام ایشیا میں کسی قوم کے ادبیات کو اکبر نصیب نہیں ہوا۔ فطرت ایسی ہستیاں پیدا کرنے میں بڑی بخیل ہے۔ زمانہ سینکڑوں سال گردش کھاتا رہتا ہے، جب جا کے ایک اکبر اسے ہاتھ آتا ہے۔ کاش اس انسان کا معنوی فیض اس بدقسمت ملک اور اس کی بدقسمت قوم کے لیے کچھ عرصہ اور جاری رہتا۔ 20؎‘‘ بیٹے کے انتقال پر اپنے دوست محمد الدین فوق سے جس انداز میں تعزیت کی وہ درج کرنے کے قابل ہے۔ افسوس کے بعد لکھا:’’ مولوی عبداللہ غزنوی حدیث کا درس دے رہے تھے کہ ان کو اپنے بیٹے کے قتل کی خبر موصول ہوئی۔ ایک منٹ تامل کیا، پھر طلبہ کو مخاطب کر کے کہا مابہ رضائے اوراضی ہستیم۔ بیاید کہ کار خود بکنم یہ کہہ کر پھر درس میں مصروف ہو گئے۔ مخلص مسلمان اپنے مصائب کو بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ 21؎‘‘ جسٹس شادی لال یوں تو پنجاب کی عدالت عالیہ سے منسلک تھے اور ان سے غیر جانب داری کی توقع ہونی چاہیے تھی لیکن وہ ججی کے دوران میں بھی سیاست بازی فرماتے تھے ایک دفعہ انہوں نے چاہا کہ علامہ اور سر محمد شفیع کے درمیان پھوٹ ڈالی جائے۔ چنانچہ علامہ کے دوست مرزا جلال الدین سے نجی گفتگو کے دوران میں کہا کہ سر محمد شفیع اکثر اقبال کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کے کردار پر بھی حملہ کرتے ہیں۔ اگر اقبال میرے ساتھ مل کر کام کریں تو ان کا مستقبل سنور جائے گا۔ مرزا صاحب نے علامہ سے تذکرہ کیا تو انہوں نے اس جال میں پھنسنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ شادی لال کا ذاتی مطلب ہے وہ میاں فیملی کا حریف ہے اور بعض مسلمانوں کو ساتھ ملا کر اس خاندان کو نیچا دکھانا چاہتا ہے آخر مجھے کیا مصیبت پڑی ہے کہ اس بکھیڑے میں پڑوں۔ 1925ء میں شادی لال چیف جسٹس ہو گئے۔ ایک مسلمان جج کے تقرر کا مسئلہ پیش ہوا، مسلمان اخباروں اور انجمنوں نے مطالبہ کیا کہ جج کے عہدے پر حضرت علامہ کو فائز کیا جائے۔ لیکن شادی لال کو تو یہ علم تھا کہ علامہ ان کے آلہ کار نہیں بنتے، چنانچہ انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ہم اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں، قانون دان کی حیثیت سے نہیں۔ اس طرح علامہ جج مقرر نہ ہو سکے۔ 22؎ اکتوبر 1925ء میں مسجد وزیر خان کے خطیب مولانا ابو محمد سید دیدار علی شاہ نے حضرت علامہ پر کفر کا فتویٰ صادر کیا اور اعلان کیا کہ جب تک اقبال توبہ نہ کریں، تمام مسلمان ان سے ملنا جلنا ترک کر دیں ور نہ سخت گنہگار ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑی دھاندلی تھی۔ چنانچہ چاروں طرف شور مچ گیا۔ مولوی دیدار علی صاحب پر طعن و ملامت ہوئی۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے اس فتویٰ کو جاہلانہ فتویٰ قرار دیا۔ سالک لکھتے ہیں:’’ مولوی دیدار علی کی اس حرکت سے علمائے اسلام کے اجتماعی وقار کو سخت صدمہ پہنچا۔ کیونکہ مسلمانوں کے تمام طبقات عالم و عامی، قدیم تعلیم یافتہ اور جدید پڑھے ہوئے لوگ علامہ اقبال کو نہایت مخلص مسلمان، عاشق رسول، درد مند ملت اور حامی دین اسلام تسلیم کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہمارے علماء کے نزدیک اقبال جیسا مسلمان بھی کافر ہے تو پھر مسلمان کون ہے؟23؎‘‘ بات یہ ہوئی کہ اس زمانے میں برعظیم کے مسلمان مسئلہ حجاز میں الجھے ہوئے تھے۔ ایک گروہ سلطان ابن سعود کا حامی تھا دوسرا ’’ مخالف اور دونوں گروہ مختلف مذہبی فرقوں سے تعلق رکھتے تھے اور فرقہ بندی کی بنا پر ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے۔ علامہ اقبال کے بارے میں ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ انہوں نے ابن سعود کو اچھے الفاظ میں یاد کیا تھا۔ اور مسلمانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ حجاز کی سیاست میں دخل انداز نہ ہوں۔ علامہ کا نقطہ نگاہ خالص اسلامی اور غیر فرقہ وار تھا لیکن ابن سعود کے مخالف علما کو اس پر غصہ آیا۔ چونکہ دونوں فرقوں کے علما کے درمیان تکفیر کا بازار گرم تھا، اس لیے کسی شخص کو تفریح سوجھی۔ اس نے ایک مصنوعی نام ’’ پیرزادہ محمد صدیق سہارنپوری‘‘ سے مولوی دیدار علی کے نام ایک استفسار بھیجا، جس میں علامہ پر عجیب و غریب الزام تراشے۔ ملاحظہ فرمائیے استفقا کا متن۔‘‘ ’’ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اورحامیان شرح متین اس مسئلے میں کہ ایک شخص اشعار میں آفتاب کو خدائی صفات سے متصف کرے اور اس سے مرادیں طلب کریں، آخرت پر یقین نہ رکھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر سے استہزا کرے، علمائے کرام اور پیران عظام پر آوازے کسے اور انہیں برے خطابات سے یاد کرے، ہندوؤں کے ایک بزرگ کو جسے وہ خدا کا اوتار مانتے ہیں، ’’ امام‘‘ اور’’ چراغ ہدایت‘‘ کے الفاظ سے یاد کرے اور اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو کیا ایسا آدمی اسلام پر ہے یا کفر پر؟ اس کے ساتھ لین دین، نشست برخاست اور ہر طرح کا مقاطعہ کرنا جائز ہے یا ناجائز اور نہ کرنے والوں کے متعلق کی احکم ہے: بینوا و تو جروا۔ اشعار حسب ذیل ہیں: آفتاب اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے ہے محفل وجود کا ساماں طراز تو یزدان ساکنان نشیب و فراز تو ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو زائیدگان نور کا ہے تاج دار تو نے ابتدا کوئی نہ کوئی انتہا تری آزاد قید اول و آخر ضیا تری (ترجمہ گا تیری منتر) 2۔ کہاں کا آنا کہاں کا جانا فریب ہے امتیاز عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری کوئی ہمارا وطن نہیں ہے 3۔ خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں 4۔ غضب ہیں یہ مرشدان خود بیں خدا تری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں 5۔ رام کی تعریف میں فرماتے ہیں۔ اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند تلوار کا دہنی تھا شجاعت میں فرد تھا پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا24؎ مولوی دیدار علیٰ صاحب کو نہ شعری روایات سے آگہی تھی، نہ ان اشعار کے سیاق و سباق کا علم تھا اور نہ ان کا کوئی ایسا ادبی پس منظر تھا کہ اشعار کو سمجھ سکتے۔ اقبال کے خلاف ابن سعود کی حمایت پر پہلے ہی سیخ پا تھے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور یہ فتویٰ جڑ دیا: ’’ اسم پروردگار اور یزدان عرفاً مخصوص ذات جناب باری ہے۔ اور اوتار ہندو کے نزدیک خدا کے جنم لینے کو کہتے ہیں۔ اندریں صورت یزداں اور پروردگار آفتاب کو کہنا صریح کفر ہے۔ علی ہذا خدا کے جنم لینے کا عقیدہ بھی کفر اور توہین موسیٰ علیہ السلام بھی کفر اور توہین بزرگان دین فسق۔ لہٰذا جب تک ان کفریات سے قائل اشعار مذکور توبہ نہ کرے، اس سے ملنا جلنا تمام مسلمان ترک کر دیا۔ ورنہ سخت گنہگار ہوں گے۔ ابو محمد دیدار علی الخطیب مسجد وزیر خان الرحوم‘‘ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں اس فتویٰ کا حشر وہی ہوا جس کا یہ مستحق تھا اور حضرت علامہ کی مقبولیت میں قطعی طور پر کوئی فرق نہ آیا۔ انجمن حمایت اسلام سے اقبال کی وابستگی 1899ء سے چلی آتی تھی۔ اس دوران میں وہ انجمن کی جنرل کونسل کے رکن بھی رہے اور مختلف کمیٹیوں میں بھی شریک رہے۔ 1919ء کے اواخر میں انجمن میں دھڑے بندی بہت سنگین صورت اختیار کر گئی۔ اگلے سال 29مارچ 1920ء کو انجمن کی بد عنوانیوں پر غور کرنے کے لیے مسلمانوں کا ایک جلسہ عام ہوا جس میں تجویز پیش کی گئی کہ نواب ذوالفقار علی خان کو انجمن کا صدر بنایا جائے۔ جنرل سیکرٹری کے عہدے پر حضرت علامہ اور حاجی میر شمس الدین کو مقررکیا جائے اور اسلامیہ کالج کی انتظامیہ کمیٹی کی صدارت پر میاں فضل حسین کو فائز کیا جائے۔ دو دن بعد انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا، جس نے رائے عامہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور انہی حضرات کو عہدہ دار منتخب کر لیا۔ اپریل 20ء کے آغاز میں انجمن کا سالانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت سر ذوالفقار علی خان نے کی انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا:’’ میں خود تو نا چیز ہوں مگر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب جو آنریری سیکرٹری ہوئے ہیں ان کی نظیر ہندوستان بھر میں نہیں ملتی۔ ڈاکٹر صاحب میں جو طاقت اور علم ہے وہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اپنی لیاقت بنی نوع انسان کی خدمت اور بہبودی میں صرف کریں۔‘‘ یہ بھی اعلان ہوا کہ اسلامیہ کالج کے طلبہ جو چندہ جمع کر رہے ہیں اس میں پانسو روپے کی رقم کا اضافہ کریں گے جو علامہ اقبال کے سیکرٹری ہونے کی خوشی میں کیا جا رہا ہے۔ 26؎ چند مہینے بعد علامہ اقبال کو ایک بڑے مسئلے سے سابقہ پڑا وہ یہ کہ آیا تحریک ترک موالات کے پیش نظر اسلامیہ کالج پنجاب یونیورسٹی سے تعلق توڑ لے اور حکومت سے گرانٹ لینا بند کر دے یا نہیں۔ اسلامیہ کالج کے طلبہ کو تحریک خلافت سے جو دلچسپی تھی، اس کا ایک ثبوت یہ تھا کہ انہوں نے جنوری 1920ء میں ایک کمیٹی بنائی جس میں دوسرے کالجوں کے مسلمان طلبہ بھی شامل تھے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ مرکزی خلافت کمیٹی کے خلافت فنڈ کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ چنانچہ 15 جون تک ایک ہزار چار سو تینتالیس روپے جمع ہوئے۔ جن میں سے ایک ہزار تین سو باون روپے مرکزی فنڈکو بھیج دیے گئے۔ 27؎ اس مسئلے پر انجمن کی کونسل کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں کافی بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ یونیورسٹی سے الحاق برقرار رکھا جائے اور سرکاری امداد کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے اس فیصلے کی رو سے پرنسپل ہنری مارٹن نے کالج کھول دیا اور جن آٹھ طلبہ نے ترک موالات میں نمایاں حصہ لیا تھا، انہیں کالج چھوڑنے کا حکم دیا۔ انہوں نے انکار کیا تو کالج کمیٹی نے انہیں معطل کر دیا۔ اس پر کالج میں ہڑتال ہو گئی۔ اسی دن لاہور میں ایک جلسہ عام ہوا جس میں طلبہ سے بدسلوکی کے خلاف احتجاج کیا گیا اور پرنسپل کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ جلسے کی طرف سے ایک وفد علامہ اقبال سے ملا اور معطلی کی کارروائی کے بارے میں دریافت کیا۔ تو علامہ نے کہا میں پرنسپل کی کارروائی کو سخت ناواجب سمجھتا ہوں لیکن کالج کمیٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے قاصر ہوں۔ اس پر وفد میاں فضل حسین سے ملا۔ لیکن وہاں سے مایوس کن جواب پایا۔ کالج میں ہڑتال کی وجہ سے حالات اتنے ابتر ہو گئے کہ پرنسپل ہنری مارٹن کو معزول کرنا پڑا۔ انجمن کے ایک اور اجلاس میں اس مسئلے پر گرما گرم بحث ہوئی۔ علامہ نے کہا:’’ میں ہمیشہ ہر معاملے کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتا ہوں۔ اور جب تک کسی امر پر پورا پورا غور و خوض نہیں کر لیتا قطعی رائے قائم نہیں کرتا۔ میں مسلمانوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر وہ آج شریعت کے احکام پر نہ چلے تو ہندوستان میں ان کی حیثیت اسلامی نقطہ نظر سے بالکل تباہ ہو جائے گی۔‘‘ بہت سے ارکان نے الحاق کے حق میں رائے دی۔ علامہ اقبال، حاجی میر شمس الدین اور مولوی غلام محی الدین قصوری نے مشترکہ رائے کا اظہار کیا کہ ’’ ہم مذہب کو تمام چیزوں سے بالاتر سمجھتے ہیں اور علمائے کرام کو اپناحکم سمجھتے ہیں۔جمعیت علمائے ہند جو کچھ فیصلہ کرے گی، وہی ہماری رائے ہے۔ ہم اسلام پر سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ 28؎‘‘ اس مسئلے پر حضرت علامہ نے اپنے موقف کا کھل کر اور وضاحت کے ساتھ اعلان کیا تو اس طویل مکتوب میں جو 18نومبر1920ء کے زمیندار میں شائع ہوا۔ علامہ نے لکھا:’’ مسلمانوں کے لیے نہ مسٹر گاندھی کی زندگی اسوۂ حسنہ ہے نہ کسی انسان کا بنایا ہوا ہدایت نامہ ان کے لیے دلیل راہ ہو سکتا ہے۔ ان کو اپنے ہر فعل کے لیے خواہ انفرادی ہو خواہ اجتماعی، کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں نظام کار تلاش کرنا چاہیے۔ اور جو نظام کاران دو مواخذ سے ملے، اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور اس بات کا خیال تک بھی نہ کرنا چاہیے کہ ان کا نظام عمل مسٹر گاندھی کے پروگرام کے مطابق ہے یا اس سے مختلف ہے۔‘‘ علامہ کی تجویز یہ تھی اور انجمن نے بھی اسے قرار داد کی صورت میں منظور کیا کہ ’’ انجمن حمایت اسلام اپنے طور پر علمائے پنجاب و ہندوستان کی ایک کانفرنس کرے۔ جس میں حالات حاضرہ سے واقف کار لوگ بطور مشیر کام کریں۔‘‘ اس کانفرنس میں مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور ہو اور کثرت رائے سے فیصلہ کیاجائے لیکن مشیروں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ ہو۔ جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو اسلامیہ کالج کا الحاق یونیورسٹی سے برقرار رہے۔ 29؎ 31جولائی 1922ء کو علامہ نے انجمن کی آنریری جنرل سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ اسے بڑی رد و کد بعد منظور کیا گیا۔ اگلے سا 8جولائی کو انجمن نے پھر مجبور کیا تو آپ نے یہ عہدہ قبول کر لیا۔ لیکن دس ماہ بعد اپنی مصروفیات کی بنا پر مستعفیٰ ہو گئے۔ بہرحال انجمن کی سرگرمیوں سے وابستگی جاری رکھی۔ 30؎ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ خطوط اقبال‘‘ ص133 2۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول ص108 3۔ایضاً، ص56 4۔’’ کاروان صحافت‘‘ ص146(بحوالہ ’’ البلاغ‘‘ 12نومبر1915ئ) 5۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول100, 101 6۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات104, 105 7۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول 110, 111 8۔ایضاً، صفحات427, 428 9۔’’ انوار اقبال‘‘ ص144 10۔’’ مطالعہ اقبال‘‘ ص454 11۔’’ روزگار فقیر‘‘ جلد دوم صفحات217, 218 12۔’’ انوار اقبال‘‘ صفحات145, 146 13۔’’ اقبال ریویو‘‘ جنوری 1966ء ص132 14۔’’ مطالعہ اقبال‘‘ صفحات454, 456 15۔ ایضاً، ص462جناب سید عبدالواحد معینی کا بیان ہے کہ پہلے ایڈیشن کے دو ہزار نسخے چھپے تھے۔ لیکن ’’ بانگ درا‘‘ میں ایڈیشنوں کا جو گوشوارہ درج ہے اس کے مطابق یہ ایڈیشن تین ہزار نسخوں پر مشتمل تھا۔ 16۔’’ روزگار فقیر‘‘ جلد اول ص215 17۔’’ پیام مشرق‘‘ دیباچے سے تلخیص و اقتباس 18۔’’ انوار اقبال‘‘ صفحات21, 25 19۔’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم، صفحات160, 161 20۔’’ انوار اقبال‘‘ ص197 21۔ایضاً،صفحات71, 72 22۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات126, 127 23۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص130 24۔’’ زمیندار‘‘ 15اکتوبر1925ء 25۔ایضاً 26۔’’ اقبال اور انجمن حمایت اسلام‘‘ صفحات 55, 57 27۔’’ کریسنٹ‘‘ (اسلامیہ کالج میگزین) جلد14، نمبر50، جون1920ء صفحات 12, 13 28۔’’ اقبال اور انجمن حمایت اسلام‘‘ صفحات61, 62 اور95, 98 فاضل مصنف نے معلومات کے حق میں ’’ زمیندار‘‘ اور’’ پیسہ اخبار‘‘ کے مختلف شماروں اور انجمن کی روئدادوں سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ 29۔ایضاً، صفحات98, 103 30۔ ایضاً، ص65 ٭٭٭ تیرہواں باب انتخابی معرکہ حضرت علامہ ملکی سیاسیات میں دخیل تو ضرور تھے لیکن وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے اور وہ اس روش پر گامزن تھے کہ مسائل پر اظہار رائے تو کیا جائے لیکن حزبی کشمکش میں حصہ نہ لیا جائے۔ بہرحال1926ء میں وہ ایک ایسی جماعت نیشنل لبرل لیگ میں شامل ہو گئے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں جو کشیدگی پیدا ہو رہی تھی، اس کو دور کرنے کی سعی کی جائے۔ 1926ء کے آغاز کی بات ہے، پنجاب میں ہندو مسلم کشمکش سے فضا مکدر تھی۔ مسلم قومیت کے بارے میں ان کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ لیکن وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کا سر پھوڑتے رہیں۔ ان کی خواہش یہی تھی کہ دونوں قومیں اپنے فروعی اختلافات کو دور کریں اور بھائیوں کی طرح رہیں۔ وہ خود لکھتے ہیں:’’ میرے بعض احباب نے مجھ سے کہا کہ پنجاب کی مختلف اقوام کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک متحدہ کوشش ضروری ہے، جس میں ہر جماعت کے افراد شامل ہو گے۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے پیش نظر فی الحال کوئی سیاسی مقصد نہیں۔ تاہم اخلاقی اعتبار سے اس میں شرکت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کی اس کوشش میں شریک ہوا۔ اصلاً یہ جماعت سیاسی نہیں تھی بلکہ محض ایک محدود مقصد کی خاطر قائم کی گئی تھی۔ اور یہ مقصد ایسا تھا جس سے کوئی مخلص انسان اختلاف نہیں کر سکتا تھا بہرحال حالات نے ایسی کروٹ لی کہ حضرت علامہ کو اس سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔ وہ بتاتے ہیں:تھوڑی ہی مدت کے بعد معلوم ہوا کہ گوہر مقصود یہاں بھی مفقود ہے اور ملک میں ابھی حصول مقصد کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس بنا پر میں نے اس جماعت سے استعفیٰ دے دیا۔ 1؎‘‘ چند دن بعد نیشنل لبرل لیگ کے صدر جناب چنتا منی کا ایک تار پہنچا، جس میں بتایا گیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو خوشگوار بنانے کی خاطر بمبئی میں ایک کانفرنس کی جا رہی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو آپ کا نام داعیوں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے۔ علامہ نے انہیں اجازت دے دی لیکن اس سے قدرتی طور پر ان کی مراد یہ نہیں تھی کہ کسی سیاسی جماعت کی موافقت یا مخالفت کریں۔ اور نہ جناب چنتا منی کے برقے میں کوئی ایسی بات تھی، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ ان کی کانفرنس کا مقصد کسی سیاسی جماعت کی مخالفت ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کانفرنس سوراج پارٹی کی مخالفت کے لیے ہو رہی تھی۔ یاد رہے کہ سوراج پارٹی کا مقصد یہ تھا کہ کونسلوں سے عدم تعاون نہ کیا جائے بلکہ ان میں داخل ہو کر قومی حقوق کے لیے جدوجہد کی جائے۔ جب کانفرنس کا اصل مقصد واضح ہو گیا تو اقبال اس سے لاتعلق ہو گئے او رانہوں نے اپنے بیان میں کہا’’ میں اس امر کا اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اب تک تمام سیاسی جماعتوں سے علیحدہ رہا ہوں البتہ میری خواہش یہ رہی ہے اور ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتوں کے تعلقات بہتر ہو جائیں کہ موجودہ فضا ملک کے لیے بالہداہت باعث ننگ ہے اور مختلف اقوام کی اخلاقی و معاشرتی زندگی کے لیے نہایت مضرت رساں ہے۔ کسی سیاسی جماعت سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ہاں اہل ہند کے باہمی تعلقات کی درستی میں ہر مخلص شخص کے ساتھ ہوں۔ 2؎‘‘ اپریل 1926ء کے اواخر میں احباب نے اصرار کیا کہ علامہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے انتخابات میں لاہور کی مسلم نشست سے کھڑے ہوں۔ گذشتہ انتخابات کے موقع پر بھی اصرار ہوا تھا اور اخبارات نے بھی مطالبہ کیا تھا اور علامہ نے ہامی بھی بھرلی تھی۔ لیکن جب دیکھا کہ ان کے دوست میاں عبدالعزیز بھی اسی حلقے سے امیدوار ہیں، تو اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اب عوام اور اخبارات نے زیادہ شدت کے ساتھ اصرار کیا۔ بلکہ اخباروں نے یہ بھی لکھا کہ علامہ کی شخصیت اس قدر جلیل القدر ہے کہ انہیں بلا مقابلہ منتخب کرنا چاہیے۔ علامہ نے امیدواری کا ارادہ تو کر لیا لیکن پبلک طور ر اس کا اعلان کرنے سے محترز رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت اس حلقے کی نمائندگی میاں عبدالعزیز کر رہے تھے۔ اور علامہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا عندیہ معلوم کیے بغیر کھڑے ہو جائیں اور اس طرح دوست سے بھی تعلقات آلودہ ہوں اور مسلمانوں میں بھی کشمکش کے دروازے کھلیں۔ بہرحال جولائی کے اوائل میں رائے عامہ کی شدت کے پیش نظر میاں عبدالعزیز نے اعلان کیا کہ اس مرتبہ وہ کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ علامہ کے حق میں کام کریں گے اور اس کے بعد میاں صاحب کے حامیوں نے بھی علامہ کی حمایت میں اعلانات چھپوائے۔ اب علامہ کے راستے میں بظاہر کوئی رکاؤٹ موجود نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے 19جولائی 1926ء کو ایک بیان جاری کیا جس میں میاں عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی امیدواری کا باقاعدہ اعلان کر دوں۔ مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا۔ محض اس لیے کہ دوسرے لوگ یہ کام انجام دے رہے تھے اور میں نے اپنے لیے دوسرا دائرہ کار منتخب کر لیا تھا لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کر رہی ہیں کہ میں اپنی حلقہ عمل قدرے وسیع کروں۔ شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملت کے لیے زیادہ مفید ہو سکے جس کی خدمت پر میرے لیل و نہار گزرے ہیں۔ میرے خیالات و جذبات ہر مسلمان پر روز روشن کی طرح آشکارا ہیں۔ اور مجھے کامل امید ہے کہ وہ کونسل میں اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے میری ذات پر اعتماد کرنے میں ایک لحظہ کے لیے بھی متامل نہ ہوں گے۔ میں اپنے طول و طویل دعاوی کو شائستہ توجہ نہیں سمجھتا۔ عمل دلی جذبات کے ملفوظ اظہارات کا بہترین معیار ہے خدا کرے کہ میں اس معیار پر پورا اتر سکوں۔ 3؎ ووٹروں کی غالب اکثریت کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی کہ علامہ بلا مقابلہ چن لیے جائیں۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ سیاسی شعور تیز نہیں تھا۔ برادریوں کا چکر بہت چلتا تھا دوسرے، دھڑے بندی بھی تھی اور اقبال کے ذاتی مخالفین بھی موجود تھے۔ چنانچہ علامہ کے مقابلے میں دو امیدوار آ گئے۔ ایک ملک محمد حسین، دوسرے خان بہادر ملک محمد دین، ملک محمد حسین صدر بلدیہ تھے اور ملک محمد دین ارائیں برادری کے سر بر آوردہ رکن۔ ان میں سے ملک محمد حسین 2 اکتوبر کو علامہ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ اور علامہ نے ان کے شکریے کے لیے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا کہ ’’ ان کے اس جذبے کو بے انتہا قابل تعریف سمجھتا ہوں کہ وہ مسلمانوں میں برادریوں کے افتراق کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور اتحاد المسلمین کے مقصد عزیز کے لیے انتہائی ایثار سے کام لے سکتے ہیں۔ 4؎‘‘ علامہ نے انتخابی مہم کے دوران میں کم و بیش بیس جلسوں سے خطاب کیا۔ پہلا جلسہ 11 اکتوبر کو ہوا۔ اس سے خطاب فرماتے ہوئے علامہ نے کہا:’’ میں انگریزی، اردو، فارسی میں بہ رنگ نثر بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا تھا، لیکن یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ طبائع نثر کی نسبت شعر سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ لہٰذا میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلاف کے نقش قدم پر چلانے اور نا امیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب میں ان کی بہ طرز خاص عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں۔ اسلامیان ہند پر عجب دور گذر رہا ہے۔ 1929ء میں ایک شاہی مجلس تحقیقات اصلاحات، جسے رائل کمیشن کہتے ہیں یہ تحقیق کرے گی کہ آیا ہندوستان مزید رعایات و اصلاحات کا مستحق ہے یا نہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اس باب میں پوری توجہ سے کام لیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ ممبر کا سب سے بڑا وصف یہ ہونا چاہیے کہ ذاتی اور قومی منفعت کی ٹکر کے وقت اپنے شخصی مفاد کو مقاصد قوم پر قربان کر دے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی اپنے مفاد کو قوم کے مصالح کے مقابلے میں ترجیح نہیں دوں گا اور رب العزت سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق بخشے کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں۔ میں اغراض ملی کے مقابلے میں ذاتی خواہشوں پر مر مٹنے کو موت سے بدتر خیال کرتا ہوں۔ 5؎‘‘ انتخابی دور کی ابتدائی مہم میں بہت سے لوگ علامہ کے مخالف تھے۔ بقول سالک ’’ جو لوگ ملک محمد دین کے لیے کام کر رہے تھے، ان میں بھی اکثر ایسے تھے جن سے علامہ کی جلالت قدر اور عظمت علمی ہر گز پوشیدہ نہیں تھی۔ مثلاً ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور مولوی محرم علی چشتی، لیکن دھڑے بندی کا برا ہو جس کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہو رہی تھی۔ 6؎‘‘ بہرحال بعد میں ڈاکٹر کچلو اقبال سے آ ملے۔ 15 اکتوبر کی صبح کو ارائیں برادری کا ایک وفد جناب مہر صوبہ کی سرکردگی میں علامہ سے ملا اور درخواست کی کہ وہ ملک محمد دین کے حق میں دست بردار ہو جائیں۔ علامہ نے وفد کے سامنے اسلامیت کا اصول پیش کیا کہ مسلمانوں کا نائب وہی ہو سکتا ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہو جائے۔ وفد کے رکن حاجی شمس الدین نے اس اصول کو سب سے پہلے قبول کیا۔ اس دن علامہ کے حق میں ایک جلوس نکلا اور ایک جلسہ ہوا۔ حاجی شمس الدین بڑھاپے کے باوجود جلوس میں شامل رہے۔ شام کو جلسہ ہوا، ملک محمد حسین نے صدارت فرمائی۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے تقریر کی اور علامہ نے اپنی مختصر تقریر میں اس دن کے واقعہ کی تفاصیل پیش کرنے کے بعد کہا کہ ’’ اب ہم کو پھر ابراہیمی کام کرنا ہے اور ذات پات کے بت کو پاش پاش کرنا ہے۔ میں نوجوانوں کے سامنے عنقریب ایک سوشل پروگرام پیش کرنے والا ہوں۔ 7؎‘‘ پنجاب خلافت کمیٹی نے ایک انتخابی بورڈ بنا رکھا تھا، جو صوبائی مجلس قانون ساز کے انتخاب میں بعض شرائط کے تحت امیدواروں کی مدد کرتا تھا۔ یہ شرائط ایک قسم کا انتخاب منشور تھیں، جس کے یہ چار نکات تھے۔ 1۔ ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی اغراض اور حکومت کی خوشنودی پر ترجیح دینا۔ 2۔ مسلمانوں کے تمام حقوق کی حفاظت کے علاوہ ہندوستان کی آزادی کا نصب العین پیش نظر رکھنا اور خلافت کمیٹی جب تک اس نصب العین کو سامنے رکھ کر کام کر رہی ہے، اس کی مخالفت کونسل کے اندر یا باہر نہ کرنا۔ 3 ۔ عام اسلامی مفاد کی حفاظت کے علاوہ جب تک ہندوستان کے حالات بدل نہ جائیں، اس وقت تک مسلمانوں کے لیے فرقہ وار نیابت کی جدوجہد جاری رکھنا۔ 4۔ کونسل کے اندر اس جماعت کی ہم نوائی کرنا جو مندرجہ ذیل بالا اصول پر کاربند ہو۔ علامہ نے اس منشور پر اپنے دستخط ثبت فرمائے اور اس طرح پنجاب خلافت کمیٹی کی تائید و حمایت بھی انہیں حاصل ہو گئی۔ 8؎ اس انتخابی مہم میں علامہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کوئی ناروا بات نہ کی گئی لیکن حریف امیدوار اور اس کے حامیوں نے شائستگی کی حدود پھلانگ ڈالیں۔ اس صورت حالات کو سمجھنے میں علامہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی وہ دستاویز ہماری مدد کرتی ہے، جو مولانا غلام رسول مہر نے اقبال اکیڈیمی کے حوالے کی اور جس کا عکس ’’ انوار اقبال‘‘ میں درج ہے۔ 9؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اخبارات بالخصوص’’ سیاست‘‘ میں علامہ کو وہابی، نجدی، کذاب، جھوٹا اور دشمن اسلام قرار دیا گیا۔ مخالفین نے کل چودہ پوسٹر چھاپے جن میں علاوہ دوسرے الزامات لگانے کے علامہ کے اعمال و عقائد پر حملے کیے گئے۔ ان اشتہارات کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ علامہ کے حق میں بیس جلسے ہوئے لیکن کسی جلسے میں کسی کے خلاف کچھ نہ کہا گیا اور اگر کسی نے جوش میں آ کر کچھ کہہ دیا تو اسے روک دیا گیا۔ بلکہ بعض جلسوں میں ارائیں برادری کی تعریف بھی کی گئی۔ علامہ کے حق میں شیعہ رہنما سید علی حائری، خواجگان نارووال، مرزائے قادیان، احمدیان لاہور اور انجمن اسلامیہ میاں میر نے اعلانات چھاپے۔ زرگروں، بوچڑوں، خوجوں اور لوہاروں کی برادریوں نے متفقہ فیصلے کیے کہ وہ علامہ کے حق میں ووٹ ڈالیں گی۔ انتخابی مہم کے دوران میں لاہور کی فضا کی تصویر فقیر سید وحید الدین یوں کھینچتے ہیں:’’ ایک طرف کرایہ کے کارن تھے اور دوسری طرف جاں باز عقیدت من اور بے غرض مداحین۔ ہم ان دنوں بازار حکیماں والے مکان میں رہتے تھے۔ راقم الحروف کی نگاہوں میں ان جلوسوں کا سماں آج تک پھر رہا ہے جو ڈاکٹر صاحب کی تائید و موافقت میں شہر کی سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے تھے۔ وہ پر جوش تقریریں، وہ اخلاص سے لبریز نعرے، کسی کسی چلتے ہوئے فقرے اور چبھتے ہوئے جملہ میں ڈاکٹر صاحب کے حریف پر طنز بھی اس قسم کی شوخیاں اور خوش فعلیاں تو انتخابات کا خاصہ بھی ہیں۔ بعض من چلے کارکنوں نے کچھ اشعار بھی موزوں کر لیے تھے جو پر جوش انداز میں گائے جاتے تھے۔ یہ اشعار لاہور میں زبان زد خاص و عام تھے اور گھر گھر میں ان کی گونج سنائی دیتی تھی۔ فریق مخالفت کو ڈاکٹر صاحب کی مقبولیت کا اچھی طرح اندازہ تھا،ا س لیے اس نے الیکشن جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے جو تدبیریں بھی اختیار کی جا سکتی تھیں ان کو بروئے کار لایا گیا۔ کئی ہفتے شہر میں خوب ہنگامہ آرائی رہی۔ لاہور کے در و دیوار سے ووٹ ووٹ کی صدائیں آتی تھیں۔ 10؎‘‘ انتخابی مہم کی ہمہ ہمی اور ہنگامہ خیزی میں بھی علامہ کا انداز بیان نہ بدلا۔ الزام تراشی اور پوسٹر بازی کے باوجود انہوں نے کوئی ایسا لفظ زبان سے نہ نکالا جس پر انکلی اٹھائی جا سکتی۔ عین اس وقت جب انتخابی مہم اپنے عروج پر تھی اور پولنگ قریب تھا، حضرت علامہ نے اپنی تقریر میں عجز و انکسار کا دامن نہ چھوڑا۔ اور جو کچھ کہا درد مندانہ اور مخلصانہ انداز میں کہا۔ آپ نے فرمایا: ’’ مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا، راتیں غور و فکر میں گزار دیں تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کاربند ہو کر عرب حضور سرور کائنات ؐ کی صحبت میں تیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے۔ وہ حقیقت اتحاد و اتفاق میں ہے جو ہر شخص کے لبوں پر ہر وقت جاری رہتی ہے۔ کاش ہر مسلمان کے دل میں بیٹھ جائے۔ نسلی اور اعتقادی اختلاف میں تنگ نظری اور تعصب نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا۔ اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے۔ اس لیے کہ طبائع مختلف ہوتی ہیں۔ ہر شخص کی نظر مختلف ہے، اسلوب فکر مختلف ہوتا ہے لیکن اس اختلاف کو اس طریقے پر رکھنا چاہیے جس طرح کہ ہمارے آباؤ اجداد نے اسے رکھا۔ اس صورت میں اختلاف رحمت ہے جب لوگوں میں تنگ نظری آ جاتی ہے تو یہ زحمت بن جاتا ہے۔ مسلمانو! میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو متحد ہو جاؤ۔ اختلاف بھی کرو تو اپنے آبا کی طرح۔ تنگ نظری چھوڑ دو۔ میں کہتا ہوں تنگ نظری چھوڑنے سے سب اختلاف مٹ سکتے ہیں۔‘‘ ’’ مسلمانان ہند کے لیے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاسیات کے ساتھ گہری وابستگی پیدا کریں۔ جو لوگ خود اخبار نہ پڑھ سکتے ہوں، وہ دوسروں سے سنیں۔ اس وقت جو قوتیں دنیا میں کار فرما ہیں، ان میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں لیکن ’’ لیظہر علی الدین کلہ‘‘ کے دعویٰ پر میراایمان ہے‘‘ لا تہنو ولا تحزنو وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔ ’’ میں کہتا ہوں کہ مخالف کو نرمی سے سمجھاؤ۔’’ جادلہم بالتی ھی احسن‘‘ قلب کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ محبت سے رام ہو سکتا ہے، مخالفت اور عداوت سے رام نہیں ہو سکتا۔ 11؎‘‘ علامہ کے پاس دولت نہیں تھی جو انتخابی مہم میں لٹاتے۔ ان کے پاس کفر کے فتویٰ نہیں تھے۔ وہ کسی کے خلاف جھوٹے الزام نہیں لگا سکتے تھے۔ ان کے پاس برادری کا نعرہ نہیں تھا۔ صرف ایک ہی چیز تھی، خدمت کا بے پناہ جذبہ اسلام سے بے پناہ لگاؤ اور ایک پچیس سالہ تاب ناک ماضی، جس کے دوران میں انہوں نے اپنے خیال افروز کلام سے قوم کی مردہ رگوں میں خون تازہ کی لہر دوڑا دی۔ یہی وہ عناصر تھے، جنہوں نے انہیں انتخاب میں شان دار کامیابی دلائی۔ ووٹروں کی کل تعداد بارہ ہزار تھی۔ یہ بہ ظاہر کم معلوم ہوتی ہے۔ لیکن انگریز کے زمانے میں بالغوں کے حق رائے دہی کا اصول نہیں چلتا تھا۔ ووٹروں کے لیے تعلیمی یا مالیاتی اوصاف ضروری تھے۔ اس لیے آبادی کے ایک چھوٹے سے طبقے کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ ان میں سے اڑسٹھ فیصد لوگوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ علامہ کو پانچ ہزار چھ سو پچھتر ووٹ ملے اور ان کے حریف کو دو ہزار چار سو اٹھانوے گویا علامہ نے اپنے حریف سے تین ہزار ایک سو ستر ووٹ زیادہ لیے۔12؎ اس طرح لوگوں نے برادری کے امتیازات کو ختم کر کے اعلیٰ سیاسی شعور کا ثبوت فراہم کر دیا۔ انتخاب کا نتیجہ سنا تو لوگوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ رضا کاروں کا جلوس ’’ آ گئی فوج اقبالی‘‘ کا ترانہ گاتا، علامہ نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد دعوتوں اور تقریبات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نہ صرف لاہور میں، بلکہ دوسرے شہروں میں بھی۔ یہ انتخابی مہم بہت بڑی اہمیت کی حامی تھی۔ کیونکہ یہ علاقہ کی زندگی میں ایک نئے موڑ کی حیثیت رکھتی تھی۔ علامہ عملی سیاست سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور کسی جماعت کے ساتھ وابستہ نہ ہوئے۔ لیکن کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سیاست کے میدان زندگی اگرچہ ہمیشہ محدود رہی لیکن اس کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ سیاست کا ایک اہم لازمہ رابطہ عوام ہے۔ علامہ عادتاً زیادہ چلنے پھرنے کے قائل نہیں تھے۔ مشاعروں کو نا پسند کرتے تھے۔ جلسوں میں بھی اشد ضرورت سے ہی شرکت کرتے تھے اور بنیادی طور پر خانہ نشین تھے۔ لیکن انتخابی مہم میں یہ حجاب بھی ٹوٹ گیا۔ وہ کئی محلوں میں گئے، جلسوں سے خطاب کیا اور عوام سے براہ راست رابطہ پیدا کیا۔ اس نے بھی انہیں آنے والی سیاسی زندگی میں مدد دی۔ تیسری بات یہ تھی کہ انتخاب کے تجربے نے علامہ پر واضح کر دیا کہ سیاست نہ محض پیسے کا کھیل ہے نہ نعرہ زنی کا۔ کیونکہ انہوں نے خود دیکھ لیا کہ لوگوں نے شعوری طور پر سعی کی کہ الیکشن کے سلسلے میں علامہ کو زیادہ روپیہ صرف نہ کرنا پڑے۔ بہت سے کام لوگوں نے خود کیے۔ دوسرے حریف کی غیر شائستہ حرکتوں کے باوجود علامہ کی جیت اس بات کا ثبوت تھا کہ نتھری ستھری سیاست کی گنجائش موجود ہے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحہ13(بہ حوالہ ’’ زمیندار‘‘ 6اپریل 1926ئ) 2۔ایضاً، صفحات14, 13(بہ حوالہ ’’ زمیندار‘‘ 6اپریل1926ئ) 3۔ایضاً، ص15(بہ حوالہ ’’ زمیندار‘‘ 20جولائی 1926ئ) 4۔ایضاً، ص269(بہ حوالہ ’’ زمیندار‘‘ 5اکتوبر26ئ) 5۔ایضاً، صفحات16, 17 (بہ حوالہ ’’ زمیندار‘‘ 14اکتوبر1926ئ) 6۔ذکر اقبال، ص134 7۔گفتار اقبال، صفحات17, 18 (بہ حوالہ ’’ زمیندار‘‘ 23اکتوبر1926ئ) 8۔ایضاً، ص270 9۔’’ انوار اقبال‘‘ بالمقابل ص199 10۔’’ روزگار فقیر‘‘ جلد اول 103 11۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات18, 19 12۔’’ روزگار فقیر‘‘ جلد اول، صفحات103, 104 (بہ حوالہ ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘‘ 30 نومبر و 3 دسمبر1926ئ) ٭٭٭ چودہواں باب اقبال، مجلس قانون ساز میں حضرت علامہ دیہاتی اور غیر دیہاتی کے امتیازات کے خلاف تھے۔ چنانچہ انہوں نے انتخابات میں کامیابی کے چند دن بعد ہی پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ارکان کو مشورہ دیا کہ وہ امتیازات سے یکسر کنارہ کش ہو کر اور متحدہ طور پر اسلام اور وطن کی خدمت انجام دیں۔ 1؎ لیکن کونسل میں ان کے داخلے سے دو سال پہلے میاں فضل حسین کے ہاتھوں نیشنل یونینسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ اس زمانے میں اس کے پس پردہ یہ جذبہ کار فرما تھا کہ مشترکہ معاشی مفاد کی بنا پر دیہاتی مسلمان ارکان اور دیہاتی ہندو ارکان کے درمیان گہرا تال میل پیدا ہو۔ ڈاکٹر عاشق بٹالوی لکھتے ہیں:’’ اقتصادی مفاد کے مشترک ہو جانے سے ان دونوں گروہوں میں یگانگت اور ہم آہنگی کا پیدا ہو جانا لازمی تھا۔ اس قسم کی یگانگت اس لیے بھی ضروری تھی کہ مسلمان بجائے خود اکثریت میں نہیں تھے اور ایسی پارٹی بنانے سے معذور تھے جو تنہا حکومت چلانے پر قدرت رکھتی ہو۔ جداگانہ نیابت کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیاسی مسائل اور اقتصادی مفاد کے اشتراک پر کونسل میں مخلوط پارٹی بنانا قطعاً معیوب نہیں تھا۔ شہری اور دیہاتی مسلمانوں کے مفاد میں کوئی باہم تصادم نہیں تھا۔ شہری مسلمان غیر زراعت پیشہ ہونے کے باوجود قانون انتقال اراضی کے حامی تھے اور انہیں یہ کسی صورت میں گوارا نہیں تھا کہ دیہاتی مسلمان اس قانون کی حفاظت و صیانت سے محروم ہو جائیں یا ان کی زمینیں سود د ر سود کے چکر میں پڑ کر ہندو ساہوکاروں کے قبضے میں چلی جائیں۔ چودھری لال چند کی پارٹی (دیہاتی ہندوؤں کی پارٹی) بھی اسی اصول کی حامی تھی۔ لہٰذا صوبے کے وسیع مفاد اور زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے زیادہ سے زیادہ فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں فضل حسین کا یہ اقدام ہرگز قابل اعتراض نہیں تھا۔ مقصد بہرحال یہ تھا کہ شہری ہندوؤں کے اس دولت مند طبقے کے استیلا سے جو مختلف ذرائع آمدنی کے علاوہ سرکاری ملازمتوں پر بھی قابض ہو چکا تھا، صوبے کی غریب اور پسماندہ آبادی کو محفوظ رکھا جائے۔ فضل حسین اور لال چند کی اس مشترک پارٹی کا نام نیشنل یونینسٹ پارٹی رکھا گیا اور کونسل کے شہری مسلمان بطیب خاطر اس میں شامل ہو گئے۔ 2؎‘‘ چونکہ حضرت علامہ بھی زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ بھلائی چاہتے تھے، اس لیے کونسل کے اندر وہ اسی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عاشق بٹالوی لکھتے ہیں: اقبال 1927ء سے 1930ء تک پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن رہے۔ یہ تین سال انہوں نے یونینسٹ پارٹی کے اندر رہ کر اس جماعت کے طریق کار کو بغور دیکھا۔ شہری دیہاتی چپقلش لیجسلیٹو کونسل کے اندر اسی پارٹی نے پیدا کی تھی اور پھر اس چپقلش نے صوبے کی پوری آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اقبال سے یہ تمام باتیں پوشیدہ نہ رہ سکتی تھیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اقبال ایسے بلند پایہ مفکر، فلسفی اور شاعر کو صوبے کی لیجسلیٹو کونسل میں نہیں جانا چاہیے تھا۔ یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہے لیکن میری ناچیز رائے ہے کہ اگر اقبال کونسل کے اندر بیٹھ کر یونینسٹ پارٹی کی طرز عمل کو بہ چشم خود ملاحظہ نہ کرتے تو شاید ان کے ہاتھوں وہ کارنامہ سر انجام نہ پا سکتا جو قدرت نے ان کی زندگی کے آخری دو برسوں میں ان کے لیے مقدر کر رکھا تھا۔ 3؎ ’’بہرحال یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ اقبال ابتدا سے شہری اور دیہاتی مسلمان میں چپقلش کے مخالف تھے اور انہوں نے کونسل میں وقتاً فوقتاً مختلف مسائل پر جس اندازمیں اظہار خیال کیا، اس میں اس چپقلش کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ انہوں نے جو کچھ کیا اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق کیا اور جو بات کہی مسلمانوں اور دوسرے پسماندہ طبقات کی بھلائی کے لیے کہی۔ مرزا جلال الدین لکھتے ہیں کہ اقبال کونسل میں گئے تو اس کی کارروائیوں سے انہوں نے اسی بے رخی سے کام لیا جو ان کا معمول تھا ۔ اس پر ان کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور ان پر غیر عملی اور تساہل پسند ہونے کا الزام دیا جانے لگا۔ اول تو اقبال ان معنوں میں عملی انسان ہی نہ تھے کہ وہ زبان سے جن خیالات کا اظہار فرماتے، جھٹ ان پر عمل کر کے دکھا بھی دیتے۔ دوسرے کسی شاعر کے قول و عمل میں تطابق کچھ اتنا ضروری بھی نہیں۔ تیسرے ڈاکٹر صاحب محض اپنے آپ کو عملی ثابت کرنے کی نیت سے زیادہ باتیں بنانا بھی نہیں جانتے تھے۔ 4؎ ‘‘ ہمارے نزدیک کونسل کے کام سے بے رخی کا الزام سرا سر زیادتی پر مبنی ہے کیونکہ اگر 1927ء سے 1930ء تک کی کونسل کی روئداد کا احتیاط سے مطالعہ کیا جائے تو نتیجہ بالکل برعکس نظر آئے گا۔ ایک پارلیمانی مقرر کی حیثیت سے علامہ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ جس مسئلے پر اظہار رائے مقصود ہوتا، اس کے بارے میں پہلے اچھی طرح تحقیق بھی کرتے اور تیاری بھی۔ چونکہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی تھے، اس لیے ان میں مستقبل شناسی کا جوہر بھی موجود تھا۔ مثلاً انکم ٹیکس کے اصول پر مالیے کی تشخیص کو لیجئے۔ پاکستان میں اس کا رواج 1977ء سے ہوا۔ علامہ یہی تجویز نصف صدی پہلے پیش کر چکے تھے اور اس کے جواز میں محکم دلائل پیش کر چکے تھے۔ جب حکمران طبقے نے یہ دلیل پیش کی کہ زمین کی ملکیت مملکت کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس لیے مالیے کی تشخیص انکم ٹیکس کے اصول پر نہیں ہو سکتی۔ تو انہوں نے اس نظریے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ نہ قدیم ہند میں اور نہ دور مغلیہ میں بادشاہوں نے کبھی یہ دعویٰ کیا کہ وہ ساری اراضی کے مالک ہیں ’’ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مغل ایسے حقوق کے دعوے دار تھے لیکن پنجاب کے لوگ تو باہر کی نسل کی آمد سے بہت پہلے زمینوں کے مالک تھے۔ جس سے یہ ناقابل تردید سبق حاصل ہوتا ہے کہ تاج آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ اور صرف عوام غیر فانی ہوتے ہیں: سکندر رفت و شمشیر و علم رفت خراج شہر و گنج کان و یم رفت امم را از شہاں پائندہ تر داں نمی بینی کہ ایراں ماند و جم رفت5؎‘‘ 1927ء میں یہ مسئلہ پھر کونسل میں زیر بحث آیا تو علامہ نے اس نظریے کو ایک مرتبہ پھر للکارا۔ انہوں نے فرمایا کہ یورپی مصنفین میں سب سے پہلے فرانس کے مصنف پیرون نے 1777ء میں اس نظریے کو جھٹلایا۔ 1930ء میں برگز نے بہت وسیع پیمانے پر تحقیق کی اور اس نے اپنی کتاب میں منو سمرتی، اسلامی قوانین اور ہندوستان کے مختلف حصوں کے دستور اور رواج کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہ آیا جس میں مملکت نے اراضی کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہو۔ یہ نظریہ پیش ہوا تو لارڈ کرزن کے عہد میں لیکن کچھ عرصہ قبل ٹیکسیشن کمیٹی کی جو رپورٹ شائع ہوئی، اس میں یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ نظریہ بے بنیاد ہے۔ 6؎ بعض ارکان نے یہ تجویز پیش کی کہ اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ایک انکوائری کمیشن روس پر بھیجا جائے۔ اس کے جواب میں علامہ نے کہا: ’’ میرے فاضل دوست غالباً ان اسباب سے آگاہ نہیں، جن کے نتیجے میں روس میں انقلاب آیا۔ ضروری نہیں کہ یہ اسباب بیان کیے جائیں۔ جب سے روس میں انقلاب آیا ہے، وہاں جو کچھ ہوا اور جو نظام قائم ہوا ان کے بارے میں خاصا لٹریچر چھپ چکا ہے۔ برٹرینڈرسل جیسی شخصیت اور دوسرے حضرات نے کتابیں لکھی ہیں اور معاشی مسائل کی چھان میں خاصا وقت صرف کیاہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرے محترم دوست پنڈت نانک چند پہلے ہی چودھری افضل حق کی تجویز کا یہ موثر جواب دے چکے ہیں کہ اس مرحلے پر پنجاب کے زمیندار نجی املاک کے حق سے محروم ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس ملک (پنجاب) میں چھوٹے چھوٹے زمیندار موجود ہیں۔ وہ مالک تو ہیں، لیکن دو دو بیکھے یا دو دو کنال اراضی ہے۔ وہ عملاً مزارعین ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نجی ملکیت کے حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 7؎‘‘ علامہ نے کہا کہ جب میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ مالیے کی تشخیص پر انکم ٹیکس کا اصول لاگو کیا جائے تو میرے پیش نظر صرف یہ بات ہوتی ہے کہ انصاف سے کام لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زمیندار بڑا ہو یا چھوٹا، اسے مالیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کا ذریعہ آمدنی مختلف ہو اور وہ سال بھر میں دو ہزار روپے سے کم کماتا ہے تو آپ اس پر ٹیکس نہیں لگایت۔ یہ تفاوت صریح بے انصافی پر مبنی ہے۔ اس پر وزیر مال نے کہا کہ اس اصول پر عمل اس لیے ممکن نہیں کہ ہمیں مسلسل روپے کی ضرورت ہے۔ ترقیات کے لیے بھی روپیہ درکار ہے اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی پارس پتھر موجود نہیں۔ اس پر علامہ نے کھری کھری سنائیں۔ انہوں نے کہا’’ جب تک حکومت کی جیب میں دھرتی کے وہ تمام کاشت کار موجود ہیں جو شدید محنت سے مٹی کوسونا بناتے ہیں تو اسے پارس پتھر کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر یہ دلیل درست ہے، تو میں کہوں گا کہ مالیے کے نئے نظام سے جو خسارہ ہو اسے دوسرے طریقوں سے پورا کیا جائے۔ نظم و نسق کا خرچ گھٹایا جائے۔ ترقیات پر کم روپیہ صرف کیا جائے۔ کیونکہ یہ لفظ تو بڑا باوقار ہے لیکن اس سے ہمیں ابھی تک کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اسی طرح خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت ہند سے زر امداد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 8؎‘‘ جب یہ محسوس ہوا کہ ارباب حکومت کسی صورت میں یہ تجویز قبول نہیں کریں گے، تو حضرت علامہ نے متبادل تجویز پیش کر دی کہ کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے کم از کم اتنا کیا جائے کہ باراتی علاقوں میں پانچ بیگھے اراضی تک کے مالکوں کو مالیے سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔ لیکن نوکر شاہی کے نمائندوں نے یہ تجویز اس بنا پر مسترد کر دی کہ اس سے حکومت کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو گا۔ جب میزانیہ پنجاب میں پے در پے خسارہ ہونے لگا تو علامہ نے آمدنی کے چند وسیلے تجویز کیے۔ ایک یہ کہ انکم ٹیکس کو مرکزی حکومت کے محاصل میں شامل کر دیا جائے۔ دوسرے انگلستان کی طرح یہاں بھی موت پر ٹیکس لگایا جائے اور ان ورثاء سے وصول کیا جائے جنہیں بیس ہزار یا تیس ہزار کی املاک حاصل ہوئی ہو۔ کفایت شعاری کے سلسلے میں علامہ کی تجاویز کی زد براہ راست انگریزوں پر پڑتی تھی۔ کیونکہ انہوں نے ایک تو اعلیٰ افسروں کی تنخواہوں میں کمی کا مطالبہ کیا، جو زیادہ تر انگریز تھے۔ دوسرے، یہ مطالبہ کیا کہ مشینری ارزاں ترین منڈیوں سے خریدی جائے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہماری مشینری برطانیہ سے درآمد کی جاتی تھی جس کے دام زیادہ تھے۔ لیکن اس زمانے میں جاپان بھی صنعتی ملک بن چکا تھا اور اس کی مشینری اور مصنوعات کی قیمتیں کم تھیں۔ 9؎ 1930ء میں پنجاب کی معاشی حالت اور ابتر ہو گئی۔ اس کا ایک سبب تو وہ عالمی معاشی بحران تھا، جو اکتوبر29ء میں امریکا سے شروع ہو ااور جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور وہ بھی اس تیزی کے ساتھ کہ بڑے بڑے ماہرین معاشیات ہکا بکا رہ گئے۔ اور دوسرا سبب سامراجی نوکر شاہی کا استحصال تھا جو بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ اس سال پنجاب اتنا مقروض تھا جتنا پہلے کبھی نہ ہوا۔ بے روزگاری روز بروز بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ تجارت سرد پڑی ہوئی تھی علامہ نے اس صورت حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے تین متبادل راستوں کی نشاندہی کی۔ اول:ـ موجودہ نظام برقرار رکھتے ہوئے خسارے کے بجٹ، فرقہ وار فسادات، لاکھوں افراد کی بھوک، قرضے اور بے روز گاری کو برداشت کیا جائے۔ دوم: موجودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ سوم: موجودہ نظام کی صورت قائم رکھ کر یہ اختیار حاصل کیا جائے کہ اس کے اخراجات کم کیے جا سکیں۔ علامہ نے کہا کہ اگر ہم آرام دہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس نظام کو ختم کرنا ہو گا۔ بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے علامہ کے نزدیک صنعتوں کا اجرا ضروری تھا۔ بالخصوص پارچہ بافی اور جوتے بنانے کی صنعتوں کا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ان صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرے اور اگر بے روزگاری کو واقعی دور کرنا ہے تو ان صنعتوں کا کانپور اور احمد آباد کے خلاف تحفظات فراہم کئے جائیں۔ 10؎ تعلیم کے سلسلے میں علامہ نے پے در پے اس بات پر زور دیا کہ لازمی تعلیم کا اصول لاگو کیا جائے اور اس کے نفاذ میں پوری سنجیدگی سے کام لیا جائے۔ آپ نے دو مختلف مواقع پر اس بے انصافی کے خلاف احتجاج کیا جو تعلیم کے معاملے میں مسلمانوں سے کی جا رہی تھی۔ اس سلسلے میں اعداد و شمار بھی پیش کیے۔ مثلاً1922-23 ء میں پچپن سکولوں کو گرانٹ ملی، جن میں صرف سولہ سکول مسلمانوں کے تھے۔ اس کے بعد کے پانچ سالوں کے دوران میں جتنی گرانٹ ہائی سکولوں کو ملی اس کا بیس فیصد حصہ مسلمان سکولوں کو ملا۔ حالانکہ مسلمان پس ماندہ بھی تھے اور صوبے میں اکثریت کے بھی مالک تھے ایک اور تقریر میں بتایا کہ 1928-29ء میں اکیس سکولوں کو خصوصی گرانٹ دی گئی۔ ان میں تیرہ سکول ہندوؤں کے تھے، چھ سکھوں کے اور صرف دو مسلمانوں کے اور گرانٹ کی کل رقم میں سے مسلمان سکولوں کو صرف سات فیصد رقم ملی۔ 11؎ جولائی 27ء میں سردار اجل سنگھ نے کونسل میں یہ قرار داد پیش کی کہ آئندہ تمامس رکاری آسامیاں کھلے مقابلے سے پر کی جائیں اور جہاں ایسا مقابلہ نہ ہو سکے، وہاں بلا تمیز مذہب و ملت سب سے زیادہ تعلیمی اوصاف رکھنے والے امیدواروں کو مقرر کیا جائے۔ یہ قرار داد کیوں پیش کی گئی؟ اس لیے کہ غیر مسلم جانتے تھے کہ مسلمان تعلیمی معاملے میں پس ماندہ ہیں اور کھلے مقابلے کی صورت میں شاذ ہی کامیاب ہوں گے۔ علامہ اقبال نے اس قرار داد کی مخالفت میں آواز اٹھائی۔ وہ کھلے مقابلے کے خلاف نہیں تھے۔ لیکن پنجاب کے مسلمانوں کے مخصوص حالات کے پیش نظر تقرریوں کا ایک ایسا نظام چاہتے تھے جس میں کھلے مقابلے کے پہلو بہ پہلو انتخاب اور نامزدگی کی بھی گنجائش ہو۔ تاکہ پس ماندہ طبقات نظم و نسق سے بے دخل نہ ہو جائیں۔ قرار داد کے حق میں تقریر کرتے ہوئے کچھ غیر مسلم ارکان نے کہا کہ اس سے متحدہ قومیت کے نشوونما میں مدد ملے گی۔ علامہ نے کہا: ’’ میں نہیں جانتا کہ ایک قوم بننا پسندیدہ بھی ہے یا نہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال فرض کیجئے کہ ایک قوم بننا پسندیدہ ہے تو میں کہوں گا کہ اس سے پہلے اس ملک کے مختلف فرقوں میں باہمی اعتماد پیدا ہو۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ فرقے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ جب ہم آپس میں ملتے ہیں تو قومیت کی بات کرتے ہیں اور نوع انسان سے محبت کا ذکر کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے میرے ایک دوست نے دو ہندو شرفا کی گفتگو سنی۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا، اب ہماری پالیسی کیا ہونی چاہیے۔ دوسرے نے کہا زبان پر قوم پرستی کے الفاظ ہوں لیکن اصل میں اپنے فرقے کے حقوق پر نظر رکھی جائے۔12؎‘‘ لاہور کے ہندو مسلم فسادات پر تحریک التوا پیش ہوئی تو علامہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات میں خوشگواری پیدا کرنے کے لیے رسمی کارروائیاں تو بہت ہوتی ہیں لیکن کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوتا۔ انہوں نے انتباہ کیا:’’ ہم اصل میں خانہ جنگی کی حالت میں ہیں۔ اگر اسے ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات نہ کیے گئے تو سارے صوبے کی فضا زہر آلودہ ہو جائے گی۔ اگر فرقہ وار منافرت ہماری زندگی میں زیادہ دخیل ہو گئی، تو اس سے سارا ملک متاثر ہو گا اور دیہات میں رہنے والے بھی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں گے۔‘‘ علامہ نے اس تجویز کی تائید فرمائی کہ مختلف فرقوں کی ایک گول میز کانفرنس بلائی جائے، جس میں حکومت کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ اور یہ کانفرنس موجودہ کھچاؤ کو دور کرنے کے لیے تجاویز پیش کرے۔ 13؎ حضرت علامہ نے پنجاب کونسل میں بندش شراب کی تحریک بھی پیش کی اور تلوار کو قانون اسلحہ سے مستثنیٰ کرانے کی بھی۔ موخر الذکر تحریک کا پس منظر یہ ہے کہ سکھوں کو آرزوئے مذہب اور ازروئے قانون کرپان رکھنے کی اجازت تھی۔ اس طرح پوری سکھ قوم بچوں سمیت مسلح تھی۔ فرقہ وار فسادات ہوتے تو سکھوں کے مقابلے میں مسلمان نہتے ہوتے تھے۔ اس پر مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں تلوار رکھنے کی اجازت دی جائے۔ علامہ نے اسی مطالبے کی ترجمانی فرمائی۔ حضرت علامہ کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ تھا کہ مذہب دشمن لٹریچر پر قدغن لگ گئی اور وہ بھی ہندوستان گیر سطح پر۔ اس زمانے میں ہندو مسلم فسادات کا بڑا سبب یہ تھا کہ پنجاب میں بعض لوگ ایسا لٹریچر چھاپتے تھے جس میں ایک دوسرے کے مذہبی پیشواؤں پر سخت اور رکیک حملے کیے جاتے تھے۔ علامہ نے کونسل میں یہ تحریک پیش کی کہ حکومت ہند سے سفارش کی جائے کہ وہ ایسے حملوں کے انسداد کے لیے ایک قانون نافذ کرے۔ چنانچہ یہ قانون نافذ کر دیا گیا۔ 14؎ طب یونانی یا دوسرے لفظوں میں طب مشرق کی انگریزوں نے ایسی مسلسل حوصلہ شکنی کی کہ اس کے آثا ر و باقیات اب تک موجود ہیں اور پاکستان زندگی کے تیس سال گزارنے کے باوجود طب مشرق کو اس کا مقام عطا نہیں کر سکا۔ علامہ طب مشرق کو بہت پسند کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے 1928ء میں کونسل میں اس کے حق میں ایک زور دار تقریر کی جس میں ایک تو طب مغرب پر طب مشرق کی فوقیت ثابت کی۔ دوسرے یہ کہا کہ طب مشرق ایک ارزاں نظام ہے اور طب مغرب میں علاج پر جو لاگت آتی ہے وہ غریب عوام کی طاقت سے باہر ہے اور یہ اہم نکتہ بھی بیان فرمایا کہ عام لوگوں کے تاثر کے مطابق جب حکومت طب مغرب کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور طب مشرق کی حوصلہ شکنی تو اس کے پس پردہ تجارتی مفادات کار فرما ہیں۔ سیدھے سادھے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ انگریز کی حکومت برطانیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے برعظیم پر طب مغرب کا نظام ٹھونس رہی ہے۔ 15؎ قوم پر جب کوئی مصیبت آئی، علامہ سینہ سپر ہو گئے۔ 1927ء میں مشہور عالم دین مولانا محمد عرفان کو پولیس نے بری طرح مارا پیٹا تو علامہ نے اس کی تحقیقات کی اور پولیس سے احتجاج کیا۔ پولیس نے تسلی بخش جواب نہ دیا تو کونسل میں یہ معاملہ اٹھایا۔16؎ اسی سال لاہور میں رنگ محل کے علاقے میں ایک ہندو قتل ہو گیا تو حکام نے تعزیری چوکی بٹھا دی اور خرچ اہل محلہ پر ڈال دیا۔ علامہ نے ایک تو کونسل میں پوچھنے کے لیے ایک سوال بھیجا۔ دوسرے حکام سے بھی ملے۔ حکام نے تعزیری چوکی اٹھا لی اور علامہ نے سوال واپس لے لیا۔ 17؎ پارلیمانی مقرر کی حیثیت سے علامہ کا پایہ بلند تھا۔ ان کی تقریریں اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی ہوتی تھیں۔ بعض اوقات وسیع مطالعے کے بعد کسی مسئلے کا تاریخی پس منظر بھی بیان کرتے تھے۔ تقریروں میں کبھی کبھی اشعار بھی لاتے تھے اور مزاحیہ اشارے بھی کرتے تھے۔ جب مالیے کی تشخیص پر انکم ٹیکس کا اصول لاگو کرنے کی تجویز زیر بحث تھی تو میاں فضل حسین (ایگزیکٹو کونسلر برائے مال) نے ایک اہم نکتے کی تشریح کسی اور رکن پر چھوڑ دی۔ علامہ نے کہا یہ تو وہی ہوا کہ ’’چور نالوں پنڈ کاہلی‘‘ ایک رکن نے پوچھا’’ چور کون ہے؟‘‘ علامہ بولے خود ہی سمجھ لیجئے گا۔ اسی بحث کے دوران میں میاں فضل حسین نے کہا۔ علامہ کی تجویز پر عمل کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ لگان بل جیسا ننھا منھا موت کے گھاٹ اتر گیا اور ظاہر ہے بچوں کی ہلاکت کوئی اچھی بات نہیں۔ علامہ نے جواب دیا یہ ضبط تولید کا زمانہ ہے اور اگر بچے کے متعلق ہمیں یہ علم ہے کہ وہ بڑا ہو کر بدمعاش نکلے گا تو اس کی ہلاکت میں چنداں مضائقہ نہیں۔ ایک اور بحث کے دوران میں اقبال نے کہا۔’’ اس ملک کے پرانے حکما کہا کرتے تھے کہ یہ دنیا محض مایا یا فریب ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس ایوان سے باہر کی دنیا مایا ہے یا نہیں۔ لیکن اتنا یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ اس ایوان کے اندر ہوتا ہے وہ مایا کے سوا اور کچھ نہیں اور مجھے یہ بھی کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں بھی اس فریب کا ایک جزو ہوں۔‘‘ متحدہ قومیت پر بحث چل رہی تھی تو علامہ نے فرمایا:’’ متحدہ قومیت کی گفتگو بے سود ہے اور شاید عرصے تک بے سود ہی رہے۔ پچھلے پچاس سال سے یہ الفاظ لوگوں کی زبان پر ہیں۔ یہ چیز ایک مرغی کی طرح کڑکڑاتی تو بہت رہی ہے لیکن انڈا ایک نہیں دیا۔ 18؎‘‘ اب علامہ کی پارلیمانی زندگی کے بارے میں ایک سوال باقی رہتا ہے کہ وہ یونینسٹ پارٹی سے متاثر ہوئے یا نہیں۔ اور اگر ہوئے تو کس حد تک اور ان کے تعلقات پارٹی کے ارباب کے ساتھ کیسے رہے اس سے انکار نہیں کہ علامہ رسمی طور پر یونینسٹ پارٹی سے وابستہ رہے لیکن وہ اس کے نظم و ضبط کے تابع نہیں تھے اور نہ ہو سکتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ذہنی سطح کونسل کے دوسرے ارکان سے کہیں بلند تھی۔ ہر مسئلے پر ان کی اپنی سوچ تھی۔ وہ دیہاتی مسلمانوں کے حقوق کی ترجمانی کرتے رہے لیکن شہری اور دیہاتی کے درمیان امتیاز کے جو چکر چلتا رہا، اس سے الگ رہے۔ انہوں نے ہر معاملے میں پارٹی کے موقف کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ بسا اوقات اس کے بالکل برعکس آرا کا اظہار کرتے رہے۔ مثلاً مالیے کی تشخیص پر انکم ٹیکس کے اصول کا نفاذ، پانچ بیکھے تک زمین کا مالیے سے استثنا۔ یونینسٹ پارٹی کے قائد میاں فضل حسین دو عملی کے نظام میں ایگزیکٹو کونسل کے رکن برائے مال تھے، جو ایک طرح کا وزارتی عہدہ تھا۔ ان سے بار ہا علامہ کی جھڑپ ہوئی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ علامہ عملاً ایک آزاد رکن تھے اور انہیں اس آزادی کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس کی شہادت میاں فضل حسین کے فرزند میاں عظیم حسین اپنے باپ کے سوانح میں یوں فراہم کرتے ہیں: ’’ سر فضل حسین نے یہ تجویز کی کہ کونسل کے سپیکر چودھری شہاب الدین کی میعاد صدارت ختم ہونے کے بعد یونینسٹ پارٹی علامہ اقبال کو سپیکر منتخب کر لے۔ لیکن چونکہ علامہ نے پارٹی کی پالیسی پر تنقید کر کے اور اخباروں میں اس کے خلاف لکھ کر اس کی ہمدردی کھو دی تھی، اس لیے یونینسٹ پارٹی کی اکثریٹ نے ان کو کونسل کا سپیکر منتخب کرنے سے انکار کر دیا۔ 19؎‘‘ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ ص20(بحوالہ ’’ زمیندار‘‘ 28دسمبر26ئ) 2۔’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ صفحات166, 167 3۔ایضاً ، ص274 4۔’’ ملفوظات اقبال‘‘ صفحات106, 107 5۔ Speeches and Statements of Iqbal صفحات57, 58 6۔ایضاً، صفحات72, 73 7۔ایضاً، صفحات77, 78 8۔ ایضاً، صفحات74, 75 9۔ ایضاً، ص72 10۔ ایضاً، صفحات85, 86 11۔ ایضاً، صفحات80, 87 12۔ ایضاً، صفحات63, 69 13۔ ایضاً ، صفحات63, 64 14۔ ’’ اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ صفحات104, 105 15۔ Speeches and Statements of Iqbal صفحات70, 71 16۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات46, 48 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 23اگست27ئ) 17۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص146 18۔Speeches and Statements of Iqbal صفحات60, 67, 72, 77 19۔’’ ذکر اقبال‘‘ ص143 ٭٭٭ پندرہواں باب جداگانہ انتخاب کے لیے جدوجہد 1927ء برعظیم کی اسلامی سیاست میں ایک اہم سال تھا۔ تحریک ترک موالات کے بعد سنگھٹن اور شدھی کی تحریکوں نے فضا مسموم کر رکھی تھی۔ شمالی ہند میں ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے۔ 1916ء کا میثاق لکھنو مدتوں دفن ہو چکا تھا۔ کانگرس اپنا پرانا اثر و رسوخ کھو بیٹھی تھی۔ اس کا وقار گر چکا تھا۔ وہ ہندو نیشنلزم کا سہارا لینے لگی اور عملاً ہندو مہا سبھا کی ایک شاخ بن کر رہ گئی تھی۔ بہرحال ابھی کانگرس میں کچھ روشن خیال عناصر موجود تھے جو چاہتے تھے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی نئی سیاسی مفاہمت ہو جائے۔ مسلمان رہنما خصوصیت سے آرزو مند تھے کہ مکمل آزادی کے لیے ایک متحدہ محاذ بن جائے۔ کیونکہ ان میں ابھی شدید تعصب نہیں آیا تھا اور اگر آیا تھا تو اس نے بہت کم رہنماؤں کو متاثر کیا تھا۔ 1916ء کے میثاق لکھنو میں مسلمانوں کے لیے حسن و خوبی کا اگر کوئی پہلو موجود تھا تو یہی کہ کانگرس نے ان کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن تحریک ترک موالات کے بعد ہندو نیشنلزم نے اسی کو اپنے تمام حملوں کا نشانہ بنایا اور مسلمان رہنماؤں کا بھول پن ملاحظہ ہو کہ انہوں نے اپنی روایتی فراخ دلی کی حدود کو پھلانگ کر جداگانہ انتخاب کے مطالبے کو واپس لے لیا۔ اور یہاں سے مسلمان قیادت میں پھوٹ کے دروازے کھل گئے۔ اس کہانی کا آغاز یوں ہوا کہ کانگرس کے صدر جناب سری نواس آئینگر اور جناب محمد علی جناح (وہ ابھی قائد اعظم کے حیثیت سے معروف نہ تھے) کے درمیان مذاکرات ہوئے اور جناب جناح نے 20مارچ1927ء کو دہلی کے ویسٹرن ہوٹل میں تیس کے لگ بھگ مسلمان رہنماؤں کا ایک اجلاس بلایا۔ اس میں مہاراجہ محمود آباد، سر محمد شفیع، صاحبزادہ سر عبدالقیوم، مولانا محمد علی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، سر محمد یعقوب، مولوی شفیع داؤدی، نواب اسماعیل خان، سر عبدالرحیم، نواب ذوالفقار علی خان اور بعض دوسرے حضرات شامل تھے۔ اس اجلاس میں آئینگر کی پانچ تجاویز پر مفصل بحث ہوئی اور اس کے بعد کثرت رائے سے اس فارمولے پر اتفاق ہوا جو سیاسی تاریخ میں ’’ تجاویز دہلی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس فارمولے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ مسلمان جداگانہ انتخاب کا مطالبہ ترک کر کے مخلوط انتخاب کا اصول مان لیں گے بشرطیکہ کانگرس مندرجہ ذیل مطالبات پر صاد کرے: 1۔ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی قانونی اکثریت تسلیم کی جائے۔ 2۔ سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے الگ صوبے کی حیثیت دے دی جائے۔ 3۔ صوبہ سرحد میں دوسرے صوبوں کے برابر آئینی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ 4 ۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی دے دی جائے۔ 5۔ صوبائی مجالس قانون ساز میں ہر قوم کو اپنی آبادی کے تناسب سے نشستیں دی جائیں۔ گویا پاسنگ یا ویٹج کا اصول ختم کر دیا گیا۔ کیونکہ کسی صوبے کی اقلیت کو آبادی کے تناسب سے زیادہ نمائندگی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ 1؎ مسلمانوں کے موقف میں بنیادی لچک لائی گئی۔ ہندوؤں کا ایک اہم مطالبہ مان لیا گیا۔ لیکن ہندوؤں نے بنیاد ذہنیت سے کام لیتے ہوئے ایک بار پھر کم ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ ہندو اخبارات نے ’’ تجاویز دہلی‘‘ پر جو تبصرے کیے، ان کا ماحصل یہ تھا کہ مسلمان مخلوط انتخاب قبول کر کے اس کی قیمت سندھ کی علیحدگی اور صوبہ سرحد میں اصلاحات کے نفاذ کی صورت میں وصول کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کا مقصد یہ ہے کہ کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ لو۔ گویا مسلمانوں کی فراخ دلی کے جواب میں یہ چاہا گیا کہ وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کے ایک بہت بڑے عنصر میں بھی اضطراب پیدا ہوا کہ انہوں نے اپنے تشخص کی برقراری کے لیے بڑی مشکل سے جداگانہ انتخاب کا اصول منوایا تھا اور اب اس کی بھی قربانی دی جا رہی ہے۔ دہلی کے اجلاس میں سر محمد شفیع اور ان کے ساتھیوں نے ان کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مخلوط انتخاب کی صورت میں ہندو اکثریت چاہے تو اپنے ووٹوں کی مدد سے مسلمانوں کے ایسے نمائندے منتخب کرا سکے گی جو اس کے اشا پر ناچنے کو تیار ہوں گے۔ حضرت علامہ اس معاملے میں سر محمد شفیع کے ساتھی تھے اور اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں تھی۔ کیونکہ علامہ ایک عرصہ دراز سے مسلم قومیت کے تصور پر زور دیتے چلے آئے تھے۔ ان کی شاعری بھی اسی کی عکاس تھی۔ وہ متحدہ قومیت کے تصور کو ناممکن العمل سمجھتے تھے۔ جداگانہ انتخاب مسلمانوں کے قومی تشخص کی علامت تھا او رمخلوط انتخاب متحدہ قومیت کا۔ تجاویز دہلی سے مسلم قومیت کے لیے جو خطرہ پیدا ہوا، اس کی روک تھام کے لیے یکم مئی 1927ء کو لاہور میں پنجاب صوبہ مسلم لیگ کا ایک اجلاس ہوا۔ اس میں پہلے سر محمد شفیع نے دہلی کی تجاویز اور ان پر ہندو مہا سبھا کے رد عمل پر ایک تقریر کی۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے ایک قرار داد پیش کی جس میں یہ نکات پیش کئے گئے: 1۔ ملک کی موجودہ سیاسی حالت سے مجالس قانون ساز صرف اسی صورت میں حقیقی طور پر نمائندہ ادارے بن سکتی ہیں کہ جداگانہ انتخاب کا نظام برقرار رہے۔ 2۔ حلقہ ہائے انتخاب کی علیحدگی ہی سے باشندوں کے جائز حقوق و فوائد محفوظ رہ سکتے ہیں اور اسی صورت میں وہ فرقہ وار کشمکش دور ہو سکتی ہے جو وقتاً فوقتاً پیش آتی رہی ہے اور جو مخلوط حلقہ ہائے انتخاب سے پیدا ہو گی۔ 3۔ جب تک اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا کوئی موثر اور محکم بندوبست نہیں ہوتا، مسلمان جداگانہ انتخاب کو دستور ہند کے ایک اساسی جزو کی حیثیت سے قائم رکھنے پر لازماً مصر رہیں گے۔ علامہ نے اس مسئلے پر اپنی تقریر میں کہا’’ مجھے یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ میں سب سے پہلا ہندوستانی ہوں جس نے ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت و ضرورت کا احساس کیا اور میری ہمیشہ سے یہ آرزو رہی کہ اتحاد مستقل حیثیت اختیار کر لے۔ لیکن حالات حلقہ ہائے انتخاب کے اشتراک کے لیے موزوں نہیں ہیں اور ہمارے صدر (سر محمد شفیع) نے ہندو رہنماؤں کی تقریروں کے جو اقتباسات اپنے خطبہ صدارت میں دیے ہیں، ان سے ہندوؤں کی افسوسناک ذہنیت آشکارا ہوتی ہے۔ اس ذہنیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تو حلقہ ہائے انتخاب کا اشتراک کسی حالت میں بھی گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ میں حیران ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی ذہنیت اختیار کرنے کی ہندوؤں کو کیوں ضرورت پڑی۔ مسلمان تعداد میں کم ہیں، اقتصادی حیثیت سے پیچھے ہیں، تعلیم میں پس ماندہ ہیں، ویسے بڑے بھولے بھالے ہیں۔ حکومت نہیں آسانی سے چکنی چپڑی باتیں کر کے پھسلا لیتی ہے۔ ہندو انہیں پھسلا لیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہندوؤں نے یہ ذہنیت کیوں اختیار کی اور یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کی ذہنیت ہے اور اگر کوئی اور وجہ نہ ہوتی تو میں کہتا کہ تنہا اسی وجہ سے حلقہ ہائے انتخاب الگ رکھیں جائیں۔‘‘ اسی تقریر میں علامہ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ہندوؤں کی مساعی اور حکومت کی سرگرمیوں سے انہیں جو مصیبتیں درپیش ہیں، ان کا واحد حل یہی ہے کہ مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور مردانہ وار ہو کر مصیبت کا مقابلہ کریں۔انہوں نے سر محمد شفیع کو مشورہ دیا کہ وہ تمام بڑے بڑے شہروں کا دورہ کریں اور مسلمانوں کو خطرات سے آگاہ کریں۔ اور آپ نے اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کی پیش کش فرمائی۔ 2؎ 1926ء میں حکومت برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک شاہی کمیشن ہندوستان بھیجے گی جو مختلف سیاسی عناصر سے تبادلہ خیالات اور حالات کے مطالعہ و مشاہدہ کے بعد یہ سفارش کرے گا کہ آئینی اصلاحات کی اگلی قسط کے خدو خال کیا ہوں۔ علامہ اقبال نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں جو تقریریں کیں، ان میں کہا تھا کہ انتخاب لڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رائل کمیشن کے سامنے مسلمانوں کا زاویہ نگاہ حسن و خوبی کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔ جب کمیشن کا تقرر بہت قریب تھا، تو یکم نومبر1927ء کو برطانیہ کے ممتاز روزنامہ ’’ دی ٹائمز‘‘ نے لکھا کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ اس کمیشن میں ہندوستانی نمائندے شامل نہ ہوں۔ اس سے پہلے کانگرسی لیڈر بہ نفس نفیس لندن گئے تھے اور انہوں نے وزیراعظم برطانیہ پر زور دیا تھا کہ اس کمیشن میں گاندھی جی کو ضرور رکھا جائے۔ لیکن 8نومبر27ء کو جب حکومت برطانیہ نے سر جان سائمن کی صدارت میں ایک سات رکنی کمیشن کا اعلان کیا، تو برعظیم کے لوگ یہ دیکھ کو حیران رہ گئے کہ ساتوں برطانوی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ گویا برعظیم کے رہنماؤں کی کوئی نمائندگی نہ دی گئی۔ اس پر قدرتی طور پر احتجاج ہوا اور بعض سیاسی جماعتوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ کمیشن کا نہ صرف مقاطعہ کیا جائے بلکہ جب وہ ہندوستان میں آئے تو اس کے خلاف مظاہرے کیے جائیں۔ 3؎ سائمن کمیشن کے تقرر پر علامہ اقبال نے صوبہ مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ایک طویل بیان جاری کیا۔ جس کے نمایاں نقوش یہ تھے۔ اول: کمیشن میں کسی ہندوستانی کا ہونا غیر متوقع، مایوس کن اور تکلیف دہ ہے۔ یہ بات انگریزی نقطہ نگاہ سے بھی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ دوم:کمیشن میں کسی ہندوستانی کا نہ لیا جانا ہندوستان کے وقار پر حملہ ہے۔ لیکن یہ حملہ میرے نزدیک اس بات کا نتیجہ نہیں کہ برطانوی پارلیمنٹ کو ہندوستان کے فہم و ادراک یا دماغی قابلیت کے متعلق سوئے ظن ہے۔ بلکہ اس کی وجہ وہ بے اعتمادی اور بد ظنی ہے جو ہندوستان کی مختلف اقوام کو ایک دوسرے کے متعلق ہے۔ سوم: اگر کمیشن میں ہندوستانی ممبروں کو لیا جاتا تو مسلمانوں کے سرکردہ آدمیوں میں سے غالباً مسٹر جناح یا سر علی امام پر نظر پڑتی۔ یہ دونوں مخلوط انتخاب کے حامی ہیں اور یہ امر پنجابی نقطہ خیال سے موجب اطمینان نہ تھا۔ چہارم: کمیشن میں ہندوستانی ارکان کی عدم موجودگی کا مداوا کرنے کے لیے یہ تجویز کی گئی ہے کہ اس کے ساتھ مرکزی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل ایک امدادی مجلس قائم کر دی جائے۔ یہ ممبری سے محرومی کا کوئی اچھا بدل نہیں لیکن قائدے سے بھی خالی نہیں۔ بہرحال پنجابی نقطہ نگاہ سے یہ مجلس بھی موجب اطمینان نہیں۔ کیونکہ مرکزی اسمبلی کے جن مسلمان ارکان کے انتخاب کا امکان ہے، وہ مخلوط انتخاب کے حامی ہیں۔ پنجم: جہاں تک کمیشن کے مقاطعہ یا عدم مقاطعہ کا سوال ہے، اس پر میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتا۔ کیونکہ 13 نومبر کو صوبہ مسلم لیگ اس پر غور کرنے والی ہے۔ ششم: ہندوستان کی مختلف قوموں کے لیے اب بھی یہ راستہ کھلا ہے کہ ان کے نمائندے آپس میں مل بیٹھیں اور سیاسی اختلافات کو دور کرنے کے لیے کوئی سمجھوتا کر لیں۔ 4؎ 13نومبر1927ء کو سر محمد شفیع کے مکان پر انہی کی صدارت میں صوبہ لیگ کا اجلاس ہوا جس میں سر محمد شفیع کی تحریک پر ایک قرار داد منظور ہو گئی۔ جس میں کہا گیا کہ سائمن کمیشن کا مقاطعہ ملکی زاویہ نگاہ سے بالعموم اور اسلامی نقطہ نگاہ سے بالخصوص نقصان رساں ہو گا۔ علامہ نے ایک بیان میں دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ بھی اسی قسم کا فیصلہ کریں اور کہا:’’ سر جان سائمن صدر کمیشن نے نہایت صحیح کہا کہ کمیشن کا فرض محض یہ ہو گا کہ ہندوستان کی طرف سے جو مختلف تجاویز پیش ہوں، ان کی روئداد پیش کرے اور ان پر غور و حوض کرے۔ اس ملک کی قلیل التعداد جماعتوں کو رائل کمیشن کی آمد سے بڑھ کر اپنے اندیشے اپنی امیدیں اور اپنے مقاصد ظاہر کرنے کا اور کوئی موقع نہیں مل سکتا۔ میری رائے میں ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنی اپنی تہذیبوں کے مطابق نشو و ارتقا حاصل کریں۔ یہ مقصد حاصل ہونا چاہیے۔ خواہ مغرب کے دستوری اصل سے حاصل ہو یا کسی دوسرے ایسے ذریعے سے جو وقت کے مطابق ہو اور لوگوں کی ضروریات پوری کرے۔ 5؎‘‘ علامہ کا موقف بالکل واضح تھا۔ وہ برعظیم میں مسلمانوں کے قومی تشخص کا تیقن چاہتے تھے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ جداگانہ انتخاب باقی رہتا اور مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمان اپنی قسمت کے مالک خود بنتے اور اپنی تہذیب کو نشو و ارتقا بخشنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے۔ یہ کام دو طریقوں سے ہو سکتا تھا۔ا ول: ہندو قوم ان مطالبات کو مان لیتی اور دونوں قومیں اختیارات کو منتقل کرانے کے لیے متحدہ جدوجہد کا آغاز کر دیتیں۔ دوم: انگریز مسلمانوں کے مطالبے مان لیتے۔ چونکہ ہندو قوم مفاہمت کے راستے میں دیوار بنی رہی، اس لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ سائمن کمیشن کو اپنے نقطہ نگاہ سے آگاہ کرتے۔ مسلم لیگ کے جس گروہ نے تجاویز دہلی پر صاد کیا تھا، اس نے فیصلہ کیا کہ سائمن کمیشن کا مقاطعہ کیا جائے۔ کانگرس کا موقف بھی یہی تھا اور برعظیم کے طول و عرض میں بائیکاٹ، بائیکاٹ کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ اتنے میں برطانوی دار الامرا میں وزیر ہند لارڈ برکن ہیڈ نے ایک بحث میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات مستقل نوعیت کے حامل ہیں اور اگر ہندوستانی رہنماؤں کو سائمن کمیشن کی ترکیب پر اعتراض ہے، تو وہ کیوں نہیں آپس میں اتفاق رائے کر کے کوئی تجاویز پیش کر دیتے؟ اس پر 8 دسمبر کو نواب سر ذوالفقار علی خان، علامہ اقبال، صاحبزادہ سر عبدالقیوم، مرکزی اسمبلی کے دو ارکان میاں عبدالحئی اور سید راجن شاہ اور مولوی محمد علی امیر جماعت احمدیہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا کہ ہمارے سامنے دو ہی صورتیں ہیں ایک یہ کہ مشترکہ لائحہ عمل کے لیے فرقہ وارانہ اختلافات کا فیاضانہ اور منصفانہ تصفیہ کر لیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو سائمن کمیشن کے سامنے اپنا موقف واضح کیا جائے۔ ان رہنماؤں نے انتباہ کیا کہ مقاطعہ کی لا حاصل روش اختیار کرنے سے افسوس اور ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ کیونکہ کمیشن ہندوستان کی اقلیتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی پوری ضمانت لے کر آ رہا ہے۔ ان رہنماؤں نے اس تجویز کی بھی مخالفت کی کہ مسلم لیگ، ہندو مہا سبھا اور کانگرس کی ایک گول میز کانفرنس بلائی جائے تاکہ سیاسی تصفیہ کیا جا سکے اور اس سے پہلے سائمن کمیشن کا مقاطعہ نہ کیا جائے۔ مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ اگر مسلمان سائمن کمیشن کے سامنے بھی اپنا موقف پیش کرنے سے گریز کریں اور کانفرنس میں بھی شنوائی نہ ہو تو پھر کیا ہو گا؟ آگے چل کر اس بیان میں کہا گیاـ:’’ لالہ لاجپت رائے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کرتے ہیں، مگر تمام اختلافی مسائل کو خصوصاً فرقہ وارانہ نیابت کے معاملے کو اہل برطانیہ کی ثالثی پر چھوڑ دینے کے خواہاں ہیں۔ مسلمان ایسی چالوں سے ناواقف نہیں۔ ملک کی اکثریت کو چاہیے کہ فوراً ہمارے ساتھ دیانت دارانہ مفاہمت کر کے مسلمانوں کے دل میں اپنا اعتماد پیدا کریں۔ ہم نہایت جرات اور زور کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم کرایہ کے ٹٹو بننے کے لیے تیار نہیں۔ مسٹر جناح اور دیگر حضرات نے یہ فقرہ اڑا لیا ہے کہ ہماری خود داری ہمیں رائل کمیشن کی تائید کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم س کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ فرقہ وار جنگ اور خود داری یکجا قائم نہیں رکھی جا سکتیں۔ تدبر کا اقتضا یہ ہے کہ اس نازک موقع پر جذبات کو عقل اور دلیل پر حاوی نہ ہونے دیں۔ 6؎‘‘ جداگانہ انتخاب اور سائمن کمیشن سے تعاون کے مسائل پر مسلمان قیادت دو حصوں میں منقسم تھی۔ سر محمد شفیع اور علامہ اقبال جداگانہ انتخاب کے حامی تھے اور سائمن کمیشن سے تعاون کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف جناب محمد علی جناح اور ان کے ساتھی تجاویز دہلی کی بنا پر مخلوط انتخاب قبول کر چکے تھے اور سائمن کمیشن کا مقاطعہ چاہتے تھے۔ اس اختلاف نے دنوں میں ایک سنگین روپ اختیار کر لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آل انڈیا مسلم لیگ دو متوازی جماعتوں میں بٹ گئی۔ ایک کو لاہور لیگ یا شفیع لیگ کہا جاتا تھا۔ جس کے ہاں صدر سر میاں محمد شفیع اور سیکرٹری علامہ اقبال تھے۔ دوسری کو کلکتہ لیگ یا جناح لیگ کا نام ملا جس کے صدر محمد علی جناح تھے اور سیکرٹری ڈاکٹر سیف الدین کچلو۔ پرانے خلافتی رہنماؤں میں سے حسرت موہانی لاہور لیگ میں شامل تھے اور علی برادران کلکتہ لیگ میں۔ یہ بٹوارہ کیسے ہوا؟ اس سلسلے میں حضرت علامہ اور ملک فیروز خان نون کا وہ بیان ہماری رہنمائی کرتا ہے جو 14دسمبر27ء کو جاری ہوا۔ اس طویل بیان کا ماحصل یہ ہے کہ 20نومبر کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ آئندہ سالانہ اجلاس لاہور میں ہو گا اور سر محمد شفیع صدارت کریں گے۔ ڈاکٹر کچلو نے زبانی طور پر احتجاج بھی کیا اور سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ اس کے بعد ان کے جی میں کیا آئی کہ سیکرٹری کی حیثیت سے دہلی میں لیگ کونسل کا ایک اور اجلاس طلب کر لیا، جس میں فیصلہ کیا کہ لیگ کا سالانہ اجلاس کلکتے میں ہو گا اور سر محمد یعقوب صدارت کریں گے۔ بیان میں کہا گیا کہ کلکتے کے انتخاب کی ’’ اصل وجہ یہ ہے کہ کلکتہ میں مشترکہ حلقہ ہائے انتخاب کے متعلق 20 مارچ27ء کی منظور کردہ تجاویز دہلی کو مسلمان قوم کے سر منڈھنے کا موقع لاہور کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ مسلمانان پنجاب متفقہ طور پر جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب کے حامی ہیں۔ 7؎‘‘ فریقین کی طرف سے بیانات کی جنگ نقطہ عروج پر تھی۔ جناب محمد علی جناح کے ایک بیان کے جواب میں حضرت علامہ اور سر ذوالفقار علی خان نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ ’’ موجودہ نازک وقت کا اہم مقصد تمام خیر خواہان ملک کے لیے ایک ہے۔ جو بڑی بے چینی سے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ملک کی قسمت، زندگی اور موت سے وابستہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس ابتلا کے زمانے میں ایسے آدمی ہندوؤں میں نہیں آئے جو پردہ اٹھا کر اپنے ملک کے حقوق کا صحیح فیصلہ دیوتاؤں سے کرائیں۔ ہندوستانی کی بد قسمتی سے بمبئی اور کلکتے کے سرمایہ داروں کو انگلیوں پر نچانے کا موقع مل گیا۔‘‘ بیان میں کہا گیا کہ ہندو اکثریت اس وہم میں مبتلا ہے کہ وہ ہمارے تعاون کے بغیر سوراج کی منزل پر پہنچ سکتی ہے اور یہ اہم انکشاف بھی کیا گیا کہ ہندو رہنما برطانوی لیبر پارٹی کے ساتھ خفیہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ بیان کے آخر الفاظ یہ تھے : ’’ ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ دولت، رسوخ، سیاسی قوت اور تعداد کے لحاظ سے ہم ہندوؤں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اس لیے جب تک ہم ہندوؤں اور انگریزی حکومت دونوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ مستعدی اور سرگرمی سے نہ کریں، ہماری سیاسی موت مسلمہ امر ہے۔۔۔۔۔ ہم اس بات کو زمانہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔ جو ہمارے اس استقلال کا انصاف کرے گا جو ہم نے فرقہ وار مفاد کو مستحکم بنیاد پر رکھنے میں دکھلایا ہے۔ 8؎‘‘ 1927ء کے آخری دو دنوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک سیشن سر محمد شفیع کی صدارت میں لاہور میں ہو رہا تھا۔ دوسرا سر محمد یعقوب کی صدارت میں کلکتے میں۔ لاہور لیگ میں علامہ اقبال، نواب ذوالفقار علی خان، حسرت موہانی اور دوسرے رہنما شامل تھے۔ کلکتہ لیگ میں محمد علی جناح، علی برادران، ظفر علی خان، سیف الدین کچلو، ابو الکلام آزاد، مولوی فضل الحق، ملک برکت علی اور ڈاکٹر عالم شامل تھے۔ لاہور لیگ نے ایک تو تجاویز دہلی کی مخالفت اور سائمن کمیشن سے تعاون کی قرار دادیں منظور کیں۔ دوسرے، علامہ اقبال کی تحریک پر یہ قرار داد منظور ہوئی:’’ موجودہ انتظام میں بنگال و پنجاب کے مسلمانوں کو مجلس وضع قوانین میں اکثریت کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس اس کے خلاف پر زور احتجاج کرتا ہے اور اسے اصول جمہوریت کے منافی بتاتا ہے۔ لیگ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ 1921ء میں مسلمانوں کے خلاف جو بے انصافی کی گئی تھی، اسے دور کیا جائے۔ 9؎‘‘ دوسری طرف کلکتہ لیگ نے تجاویز دہلی اور سائمن کمیشن کے مقاطعہ پر صاد کر دیا اور اس طرح ان دو متوازی جماعتوں میں بعد المشرقین پیدا ہو گیا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کلکتہ لیگ زیادہ با اثر جماعت تھی کیونکہ اس میں امرا کا طبقہ بھی شامل تھا اور وہ پرانے خلافتی رہنما بھی جنہوں نے تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات میں حصہ لے کر، قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر اور قربانیاں دے کر مسلمان عوام کے دل میں گھر کر رکھا تھا۔ لاہور لیگ کا معاملہ مختلف تھا اس میں صرف ایک ممتاز خلافتی رہنما حسرت موہانی شامل تھے۔ باقی جتنے سر بر آوردہ ارکان تھے، وہ یا تو طبقہ امرا سے تعلق رکھتے تھے یا برطانیہ نوازی کے لیے مشہور تھے۔ علامہ اقبال اس کلے سے مستثنیٰ تھے اور مسلمانوں میں بے حد محبوب تھے۔ علامہ نے اپنی ہر دلعزیزی داؤ پر لگا دی تو محض ان اصولوں کی خاطر، جن کے لیے وہ مدتوں سے کوشاں تھے۔ یہ اصول کیا تھے؟ متحدہ قومیت کی مخالفت، مسلم قومیت کا نشو و ارتقائ، قومی تشخص کی خاطر جداگانہ انتخاب کی برقراری، مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور مسلم اکثریتی صوبوں میں ایسے حالات کی تخلیق جو ان علاقوں میں اسلامی تہذیب کے نشو و ارتقا میں مدد دیں اور یہی وہ عناصر ہیں جنہوں نے بعد میں علیحدہ مسلم مملکت کے تصور کو جنم دیا۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ Muslim Separatism in India ص193 2۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات26, 28(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 3مئی 1927ئ) 3۔ Muslim Separatism in India صفحات195, 96 4۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات49, 51 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 12 نومبر27ئ) 5۔ ایضاً، صفحات52, 53 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 18نومبر27ئ) 6۔ایضاً، صفحات53, 56 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 8دسمبر27ئ) 7۔ایضاً، صفحات57, 60 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 16دسمبر27ئ) 8۔ایضاً، صفحات61, 64 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 21دسمبر27ئ) 9۔ایضاً، صفحات65(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 3جنوری 28ئ) ٭٭٭ سولہواں باب نہرو رپورٹ اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس 1927ء کے اواخر میں برعظیم ابتری کا شکار تھا۔ بنگال میں مزدور تحریک منظم ہو رہی تھی، شمالی ہندا ور شمال مغربی ہند میں کسان مضطرب اور بے چین تھے۔ کانگرس کے اندر ایک سوشلسٹ گروپ وجود میں آ چکا تھا۔ پنجاب میں نوجوانوں نے ایک دہشت انگیز تنظیم بنا رکھی تھی، جن میں غالب تعداد ہندوؤں کی تھی۔ لیکن جس چیز نے امن و امان کے شیرازے کو بالکل منتشر کر دیا، وہ ہندو مسلم کشیدگی تھی جس نے خونیں فسادات کی وجہ سے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ان میں منظم گروہ بھی لڑتے تھے اور اکا دکا حملے بھی ہوتے تھے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ حکومتی مشینری اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت اس خانہ جنگی پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ جہاں تک کانگرسی سیاست کا تعلق تھا، اس کے بڑے بڑے رہنما یا تو عزلت نشین تھے یا ملک سے باہر تھے۔ ایسے میں کانگرس کے نسبتاً روشن خیال صدر سری نواس آئنگر کلکتہ لیگ کی مدد سے ایک یونٹی کانفرنس کر چکے تھے، جس میں تجاویز دہلی پر صاد کیا گیا تھا۔ دسمبر27ء میں کانگرس کا مدراس سیشن ہوا۔ گاندھی جی ایک عرصے کی غیر حاضری کے بعد شریک ہوئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو سوویٹ روس کے دورے سے واپس آئے۔ تو سوشلزم سے بہت متاثر تھے۔ اس سیشن میں ایک بار پھر تجاویز دہلی کو ایک مفاہمتی فارمولے کی حیثیت سے قبول کیا گیا۔ لیکن ساتھ ہی حالات نے ایک نئی کروٹ لی۔ وزیر ہند لارڈ برکن ہیڈ کے چیلنج کے جواب میں فیصلہ ہوا کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے، جہاں ایک ایسا آئین تیار کیا جائے جس پر تمام سیاسی عناصر کو اتفاق ہو۔ مختلف سیاسی جماعتوں کو دعوت نامے بھیجے گئے۔ انہیں قبول کرنے والی جماعتوں میں جناح لیگ بھی شامل تھی۔ کیونکہ اسے ابھی تک کانگرس کی نیک نیتی پر اعتماد تھا۔ لیکن جب 1927ء کے اوائل میں دہلی میں کانفرنس کا آغاز ہوا تو چند روز کے اندر اندر معلوم ہو گیا کہ یہ بیل آسانی سے منڈھے نہیں چڑھے گی۔ ایک مہینے تک مذاکرات ہوتے رہے، لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ ہندو مہا سبھا کانگرسی قیادت پر اس درجہ مسلط تھی کہ مسلمانوں کی شنوائی قریب قریب ناممکن تھی۔ حالت یہ ہوئی کہ ایک مرحلے پر جناح لیگ کے نمائندوں کو بھی واک آؤٹ کرنا پڑا حالانکہ اس کا نقطہ نگاہ کانگرس کے قدرے روشن خیال طبقے کے نقطہ نگاہ سے کافی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔ اس پر کانفرنس سے باہر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور جب معلوم ہوا کہ مفاہمت ممکن نہیں تو11 مارچ کو کانگرنس ملتوی ہو گئی۔ مئی کے مہینے میں یہی کانفرنس بمبئی میں ہوئی۔ وہاں پنڈت موتی لال نہرو اور ہندو مہا سبھا میں گٹھ جوڑ ہوا اور اس کے نتیجے میں تجاویز دہلی کی منظوری کو کالعدم کر دیا گیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے دس ارکان کی ایک کمیٹی ابھری۔ اس کے صدر موتی لال نہرو تھے، اس لیے یہ عام طور پر نہرو کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس میں مسلمانوں کے دو نمائندے شامل تھے۔ ایک سر علی امام، دوسرے شعیب قریشی، کمیٹی اس مقصد کے لیے بنائی گئی کہ وہ ہندوستان کے آئین کا ایک مسودہ تیار کرے۔ چنانچہ الہ آباد میں اس کے اجلاس تین مہینے تک ہوتے رہے۔ آئین کا ایک مسودہ تیار ہو گیا، جسے نہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے نمایاں نقوش یہ تھے۔ 1۔ ہندوستان کو درجہ نو آبادیات دیا جائے اور یہاں ایک پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا جائے۔ 2۔ صوبوں کی حد بندی لسانی اعتبار سے از سر نو کی جائے۔ 3۔ صوبوں کو اندرونی خود مختاری دی جائے لیکن باقی ماندہ یا مابقی اختیارات مرکز کے ہاتھ میں ہوں۔ 4 ۔ مرکز کو صوبوں کے معاملات میں مداخلت کے اتنے دور رس اختیارات دیے گئے، جن سے صوبوں کی اندرونی خود مختاری مضحکہ خیز بن گئی۔ 5 ۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کر دیا جائے لیکن معاشی پہلوؤں کی جانچ پڑتال کے بعد۔ 6۔ صوبہ سرحد کو دوسرے صوبوں کے برابر حیثیت دی جائے۔ 7۔ جن صوبوں میں مسلم اقلیتیں بہت چھوٹی ہیں یا صوبہ سرحد میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، ان میں مجالس قانون ساز کی رکنیت کے سلسلے میں مخلوط انتخاب کے ساتھ فرقہ وار کو ٹا مقرر کر دیا جائے۔ 8۔ پنجاب اور بنگال میں نشستوں کی تخصیص خارج از بحث قرار دی گئی ۔ ان صوبوں کو مخلوط انتخاب کے ساتھ کھلا میدان قرار دیا گیا۔ 9۔ میثاق لکھنو میں مندرج وہ گنجائش ختم کر دی گئی کہ اگر کسی اقدام کے خلاف کسی فرقے کے نمائندوں کی دو تہائی اکثریت ووٹ دے تو اسے کالعدم قرا ر دیا جائے۔ 1؎ اس کا مطلب یہ تھا کہ میثاق لکھنو میں مسلمانوں کے جو مطالبات مانے گئے تھے، ان میں بیشتر کو منسوخ کر دیا گیا۔ تجاویز دہلی میں سے مخلوط انتخاب کی تجویز اختیار کر لی گئی لیکن نشستوں کی تخصیص ختم کر دی گئی۔ اور جن شرائط پر مسلمانوں کے ایک گروہ نے مخلوط انتخاب کا اصول مانا تھا، ان میں سے بیشتر کو رد کر دیا گیا۔ گویا یہ بات ثابت ہو گئی کہ تجاویز دہلی کے روپ میں مسلم موقف میں جو لچک پیدا کی گئی تھی، وہ مسلمانوں کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوئی۔ اور وہ مسلمان حق پر تھے جنہوں نے تجاویز دہلی کو جداگانہ انتخاب سے انحراف کی بنا پر مسترد کر دیا تھا۔ 20اگست28ء کو حضرت علامہ نے آل انڈیا مسلم لیگ (لاہور) کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے نہرو رپورٹ کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔ یہ بیان متوازن تھا لیکن نا مکمل کیونکہ ابھی نہرو رپورٹ کے کچھ حصے ہی سامنے آئے تھے، مکمل متن نہیں چھپا تھا۔ حضرت علامہ نے جو نکات پیش کیے، ان کی تلخیص یہ ہے: اول: ایک نصب العین کی حیثیت سے درجہ نو آبادیات سے اتفاق ہے۔ لیکن اس سے لالہ لاجپت رائے اور بعض اسلامی جرائد کے ان منافقانہ دلائل کا بخوبی انکشاف ہو جاتا ہے، جو وہ اس کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی دنیائے اسلام کی آزادی کے مترادف ہے۔ دوم: یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ پنجاب اور بنگال کی مختلف اقوام اپنی اپنی قوم کے نمائندوں کے حق میں ووٹ دیں۔ اور اسی مفروضے کی بناء پر پنجاب کے مسلمانوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ کونسل میں ان کی اکثریت ہو گی۔ اگر ایسا ہی ہے، تو جداگانہ انتخاب کیوں رائج نہیں کیا جاتا۔ کم از کم نشستوں کی تخصیص کیوں نہیں کی جاتی؟ سوم: بالغوں کو حق رائے دہی دینے سے مسلمانوں کو نقصان ہو گا کیونکہ ان کی آبادی پنجاب میں چھپن فیصد ہے لیکن بالغوں کا تناسب چون فیصد ہے۔ اس سے دو فیصدخسارے سے ہندوؤں اور سکھوں کے بالغوں کے تناسب میں دو فی صد اضافہ ہو جاتا ہے۔ بالغ خواتین میں مسلمانوں کا تناسب پچپن فیصد ہے لیکن قدامت پسندی، کم تعلیم بلکہ ناخواندگی کی وجہ سے ان میں سے بہت کم پولنگ سٹیشنوں پر جا سکتی ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کا تناسب اور گھٹ جائے گا۔ چہارمـ: ایک لاکھ آبادی کے لیے ایک نمائندہ مقرر کرنے سے پنجاب میں حلقوں کی تقسیم از سر نو ہو گی۔ اس سے بھی مسلمانوں کی نیابت کو نقصان پہنچنے اور اکثریت سے اقلیت میں بدل جانے کا خطرہ ہے۔ 2؎ 28اگست28ء کو لکھنو میں آل پارٹیز کانفرنس کا ایک اور اجتماع ہوا۔ اس وقت جناب جناح انگلستان میں تھے۔ محمد علی علاج کے لیے یورپ گئے ہوئے تھے۔ لاہور لیگ کی تو شرکت کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا، خود کلکتہ لیگ کے نمائندے بھی شریک نہ ہوئے۔ البتہ خلافت کمیٹی نے ایک وفد بھیجا، جس میں مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالقادر قصوری اور مولانا شوکت علی بھی شامل تھے۔ مولانا شوکت علی نے نہرو رپورٹ کی تجاویز پر نکتہ چینی کی اور ان کی مخالفت کی۔ کچھ اور ممبروں نے بھی اختلاف کیا۔ لیکن کانفرنس کے صدر ڈاکٹر انصاری نے یقین دلایا کہ کچھ عرصہ بعد نہرو رپورٹ پر نظر ثانی بھی ہو سکے گی۔ اس پر مسلمان ارکان نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ لیکن مولانا شوکت علی اڑے رہے اور انہوں نے اس کے خلاف ایک بیان بھی دیا۔ اب حضرت علامہ نے زیادہ کھل کر نہرو رپورٹ پر تنقید کی۔ اور یہ اہم بات کہی کہ ’’ ہندوستان کا مسلمان اب اس جذبے کو از سر نو سمجھنے اور اس کی قدر و قیمت مقرر کرنے پر مجبور ہو جائے گا جسے ہندی قومیت کے جذبے سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جو نہی وہ اس امر پر غور کرے گا، وہ اپنے آپ کو مولانا شوکت علی کی طرح پائے گا۔ جن کی آنکھیں اب کھل چکی ہیں اور جو کمال رنج و احساس درد کے ساتھ اپنے دل کو آزادی کے اس جوش اور جذبے سے خالی پاتے ہیں، جس نے ان کی ہستی میں ایک قسم کی بجلی بھر رکھی تھی۔‘‘ علامہ نے ایک بار پھر جداگانہ انتخاب کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اس سے فرقہ وار آشتی کو فروغ حاصل ہو گا۔ انہوں نے کہا جس صوبے میں جداگانہ انتخاب کی صورت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہبی فرقہ بازی اور برادری کے احساسات سے فائدہ اٹھانے پر شرمسار نہیں ہوتے، وہاں اگر مخلوط انتخاب رائج کر دیا گیا تو بہت سے حلقوں میں ہندو اور مسلمان دونوں کھڑے ہوں گے اور مذہبی احساسات بھڑک اٹھیں گے۔ علامہ کا یہ بھی موقف تھا کہ مسلمان نشستوں کی تخصیص کے باوجود مخلوط انتخاب کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ 3؎ حضرت علامہ کے بیانات سے پنجاب کے مسلمان چوکنا ہو گئے اور سیاسی فضا بالکل بدل گئی۔ اس فضا کی ایک تصویر سالک نے یوں کھینچی ہے: ’’ پنجاب سے جو بزرگ لکھنو جا کر نہرو رپورٹ کو قبول کر آئے تھے ان میں مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا ظفر علی خان اور تمام دوسرے خلافتی پنجابی کارکن شامل تھے۔ لیکن ان حضرات کو پنجاب میں واپس آتے ہی معلوم ہوا کہ اس معاملے میں قوم ان کے ساتھ نہیں ہے۔ انقلاب نے بارہا ان کو چیلنج کیا کہ مسلمانوں کے کسی جلسہ عام میں آ کر نہرو رپورٹ کی حمایت کریں۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ ہمت کر کے دہلی دروازے کے باہر باغ میں مسلمانوں کے سامنے نہرو رپورٹ کی تائید کرنی چاہی۔ لیکن ہزار ہا مسلمانوں نے ایک نہ سنی بلکہ اسٹیج پر اینٹیں برسائیں، جن سے مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا ظفر علی خان اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری زخمی بھی ہو گئے اور مسلم لیگ کے نقطہ نگاہ کی پیہم تائید ہونے لگی۔ 4؎‘‘ حقیقت یہ تھی کہ نہرو رپورٹ سے پہلے پنجاب میں لاہور لیگ زیادہ موثر جماعت نہیں تھی لیکن اب حالات نے ایسا پانسہ پلٹا کہ لاہور لیگ کے مخالفین عوام کی نظروں سے گر گئے۔ اس زمانے میں پنجاب کا سیاسی میدان حضرت علامہ کے ہاتھ میں تھا۔ اب ملکی سیاست کا نقطہ ماسکہ نہرو رپورٹ تھی۔ دسمبر28ء میں دو بڑی کانفرنسیں ہوئیں۔ دہلی میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس، جس کی صدارت آغا خان نے فرمائی۔ کلکتے میں آل پارٹیز کانفرنس، جس میں کانگرس، کلکتہ لیگ اور خلافت کمیٹی نے حصہ لیا۔ ان دونوں کا الگ الگ پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ پنجاب کے مسلمانوں نے سوچا کہ نہرو رپورٹ کے خلاف جذبہ تو تیز ہے لیکن مسلمان چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں منقسم ہیں اور ان کی قوت بکھر کر کمزور ہو رہی ہے۔ چنانچہ سر محمد شفیع اور علامہ اقبال نے اجماع امت کی خاطر آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے انعقاد کا منصوبہ باندھا۔ اس منصوبے کے خدوخال یہ تھے کہ مرکزی اسمبلی اور کونسل آف سٹیٹ کے تمام غیر سرکاری مسلمان ارکان اور صوبائی مجالس قانون ساز کے تمام غیر سرکاری مسلمان ارکان جمع کیے جائیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ (لاہور)، آل انڈیا مسلم لیگ (کلکتہ) آل انڈیا خلافت کمیٹی اور جمعیت العلمائے ہند کے بیس بیس نمائندے بلائیں جائیں۔ بلکہ کانفرنس کو زیادہ سے زیادہ نمائندے بنانے کی خاطر بعض غیر سیاسی مسلمان انجمنوں کے بھی بیس بیس مندوب مدعو کر لیے جائیں اور تقریباً چھ سو نمائندہ مسلمان رہنماؤں کی اس کانفرنس کی صدارت کے لیے سر آغا خان کو بلایا جائے جن کا برطانیہ میں بہت اثر تھا۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے قومی مطالبات مرتب کر کے پیش کر دیے جائیں۔5؎ اب مسلمانوں کے دوسرے گروہ کے بارے میں سنئیے۔ محمد علی جناح انگلستان سے لوٹے تو حالات کی نئی کروٹ پر حیران و ششدر رہ گئے۔ انہوں نے نہرو رپورٹ اور لکھنو کانفرنس کے فیصلوں کو آخری اور قطعی ماننے سے انکار کر دیا۔ چند دن بعد مولانا محمد علی بھی یورپ سے لوٹ آئے۔ وہ اس بات پر ناراض تھے کہ تجاویز دہلی کو طاق پر رکھ دیا گیا۔ انہوں نے گاندھی جی اور موتی لال نہرو، دونوں پر عہد شکنی کا الزام لگایا۔ کانگرس نے کلکتے میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی تو پہلے جناح لیگ اور خلافت کمیٹی دونوں شمولیت سے متامل تھیں۔ بہرحال بعد میں راضی ہو گئیں ۔ اور جناب محمد علی جناح کی قیادت میں کلکتہ لیگ کے تئیس ارکان کا ایک وفد شامل ہوا اور مولانا محمد علی کی قیادت میں خلافت کمیٹی کا وفد آیا۔ 6؎یہ دونوں وفود تو نیک نیتی سے آئے، لیکن اس بات کا کیا علاج کہ غیر مسلم قیادت بالکل بد نیت ہو چکی تھی۔ جناب محمد علی جناح نے صرف تین ترمیمیں پیش کیں۔ اول: مرکزی اسمبلی میں جتنے منتخب ممبر شامل ہوں، ان میں سے ایک تہائی مسلمان ہوں۔ دوم: پنجاب اور بنگال میں اگر بالغوں کو حق رائے دہی عطا نہ ہو سکا تو مخلوط انتخاب رائج کر کے کم از کم دس سال کے لیے مسلمانوں کی نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے مخصوص کی جائیں۔ سوم: باقی ماندہ یا مابقی اختیارات مرکزی حکومت کی جگہ صوبوں کے سپرد کیے جائیں۔ یہ تینوں تجاویز نہایت بے ضرر تھیں، لیکن ہندو تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ انہوں نے تینوں کو مسترد کر دیا۔ مولانا محمد علی نے درجہ نو آبادیات کو نصب العین بنانے کی مخالفت فرمائی تو لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا مولانا نے تنگ آ کر کہا۔ اگر یہ غنڈہ گردی جاری رہی تو میں تقریر نہیں کر سکوں گا اس پر حاضرین میں سے کسی نے جواب دیا کہ سب سے بڑے غنڈے تو آپ خود ہیں۔ اب مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ انہیں محسوس ہوا کہ ہندو ان کی کوئی بات بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ محمد علی جناح تو مایوس ہو کر سیدھے بمبئی کو لوٹ گئے لیکن مولانا محمد علی اور بہت سے دوسرے مسلمان رہنما کلکتے سے سیدھے دہلی پہنچے اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شریک ہوئے اور انہوں نے بڑے دھڑلے سے جداگانہ انتخاب کی حمایت کی۔ یہ کانفرنس29دسمبر28ء سے یک جنوری 1929ء تک ہوئی۔ پروگرام کے مطابق سر آغا خان نے صدارت فرمائی۔ 7؎ سر آغا خان نے اپنے خطبہ صدارت سے پہلے کہا کہ مسلمان کمیونٹی کا فرقہ نہیں، نیشن یا قوم ہیں۔ اس لیے کوئی مقرر مسلمانوں کے لیے فرقے کا لفظ استعمال نہ کرے۔ 8؎ خطبہ صدارت کے بعد سر محمد شفیع نے ایک طویل قرار داد پیش کی جس میں ان امور پر زور دیا گیا۔ اول: مسلمان کسی شرط پر اور کسی صورت میں بھی جداگانہ انتخاب کر ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوم: سندھ کو بمبئی سے الگ کیا جائے۔ سوم: صوبہ سرحد اور بلوچستان میں دوسرے صوبوں کے برابر آئینی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ چہارم: ہندوستان کی حکومت فیڈرل طرز کی ہو۔ پنجم: باقی ماندہ یا مابقی اختیارات مرکز کی جگہ صوبوں کو دیے جائیں۔ ششم: مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نیابت دی جائے۔9؎ علامہ اقبال نے اس قرار داد کی حمایت میں جو تقریر کی اس کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’ میں اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سرسید احمد خان مرحوم نے مسلمانوں کے لیے جو راہ عمل قائم کی تھی، وہ صحیح تھی اور تلخ تجربوں کے بعد ہمیں اس راہ عمل کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے۔ حضرات! میں آج نہایت صاف صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں بحیثیت مسلمان ہونے کے زندہ رہتا ہے، تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور جلد از جلد ایک علیحدہ پولیٹیکل پروگرام بنانا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے بعض حصے ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بعض حصے ایسے ہیں جن میں وہ قلیل تعداد میں ہیں۔ ان حالات میں ہم کو علیحدہ طور پر ایک پولیٹیکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ آج ہر قوم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش کر رہی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سعی و کوشش نہ کریں۔ آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو رزولیشن پیش ہوا ہے، وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کے لیے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے اور وہ یہ کہ ہمارے آقائے نامدار حضورسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا اجماع کبھی گمراہی پر نہیں ہو گا۔ 10؎‘‘ اب ہر طرف آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا غلغہ تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کے قومی مطالبات پر اجماع امت ہو چکا تھا۔ ان مطالبات کے حق میں جا بہ جا جلسے ہوئے۔ کانفرنس کے کم و بیش تین مہینے بعد جناب محمد علی جناح نے محسوس کیا کہ جب نظریات میں بظاہر کوئی قدر نہیں کی، تو بہتر یہی ہے کہ دونوں مسلم لیگیں ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی لیگ کے سیکرٹری ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو لاہور بھیجا تاکہ وہ حضرت علامہ اور سر محمد شفیع سے رابطہ پیدا کریں۔ ڈاکٹر کچلو نے مدیران ’’ انقلاب‘‘ کی مدد سے علامہ سے ملاقات کی اور مفصل تبادلہ خیالات کے بعد فیصلہ ہوا کہ دونوں مسلم لیگ کونسلوں کے اجلاس دہلی میں ایک ہی تاریخ پر ہوں اور پھر ایک مشترک اجلاس کر کے دونوں کا ادغام عمل میں لایا جائے۔ 11؎ یہ مشترک اجلاس مارچ29ء کے اواخر میں ہوا۔ دونوں لیگوں کے رہنما شریک ہوئے لیکن نہرو رپورٹ کے چند حامی مسلمانوں نے ایسی ابتری پیدا کر دی کہ جناب محمد علی جناح کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ اور وہ اپنے وہ چودہ نکات بھی پیش نہ کر سکے جو بعد میں قومی مطالبات کی صورت اختیار کر گئے اور سیاسی تاریخ میں ’’ جناح کے چودہ نکات‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئے اس اجلاس کے افسوسناک انجام پر 7اپریل 29ء کو حضرت علامہ، ملک فیروز خان نون اور شیخ عبدالقادر نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں نہرو رپورٹ کے حامیوں کی تخریبی سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا۔ 12؎ بہرحال اس کے چند ماہ بعد ادغام عمل میں آ گیا۔ سر محمد شفیع نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور جناب محمد علی جناح صدر بن گئے۔ حضرت علامہ اپنے اصولوں کے اتنے پکے تھے کہ ایک مرحلے پر جب لاہور لیگ سے اصولی اختلاف پیدا ہوا تو جنرل سیکرٹری کے عہدے سے مستعفیٰ ہو گئے ۔ بات یہ ہوئی کہ سائمن کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے مئی 1928ء میں جو یادداشت مرتب کی گئی، اس میں ایک تجویز یہ تھی کہ صوبائی حکومتوں میں قانون، امن اور عدل کے شعبے گورنروں کو سونپ دیے جائیں علامہ اس کے خلاف تھے اور وہ چاہتے تھے کہ صوبائی خود مختاری ہر لحاظ سے مکمل ہو ابھی یہ یادداشت تکمیل کے مراحل طے کر رہی تھی کہ علامہ کو درد گردہ کی شکایت عود کر آئی اور وہ علاج کے لیے دہلی چلے گئے۔ ان کی غیر حاضری میں یاد داشت میں مطلوبہ تبدیلیاں نہ کی گئیں۔ جب وہ دہلی سے لوٹے اور اخباروں میں یادداشت کی تلخیص دیکھ کر بہت مایوس ہوئے اس پر انہوں نے 24جون28ء کو لیگ کی جنرل سیکرٹری شپ سے استعفیٰ دے دیا اور اپنے مکتوب میں لکھا:’’ یادداشت میں صوبائی خود مختاری کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ بلکہ اس میں تجویز کیا گیا ہے کہ صوبوں میں وحدانی حکومتیں قائم کی جائیں اور قانون، امن اور عدل کے محکمے براہ راست گورنروں کے چارج میں دے دیے جائیں۔ میرے لیے یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ یہ تجویز حقیقت میں دو عملی نظام حکومت کی ایک ملفوف شکل ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آئینی پیش رفت مطلوب نہیں۔ 13؎‘‘ اس پر سر محمد شفیع اور ان کے دوسرے ساتھی پریشان ہوئے۔ مسئلے پر دوبارہ غور کیا گیا اور صوبائی خود مختاری کے مطالبے کو یادداشت میں شامل کیا گیا۔ اس پر علامہ نے استعفیٰ واپس لے لیا اور جب 5نومبر28ء کو مسلم لیگ کا وفد سائمن کمیشن سے ملا تو اس میں علامہ بھی شامل تھے اور سر محمد شفیع کے پہلو بہ پہلو آپ نے بھی کمیشن کے سوالات کے جواب دیے۔ 14؎ علامہ کی سیاسی زندگی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، لیکن انہوں نے اس مختصر سی سیاسی زندگی میں بھی ثابت کر دکھایا کہ اصولوں پر سمجھوتا نا ممکن ہے۔ وہ دو باتوں پر خصوصی زور دیتے تھے۔ اول: جداگانہ انتخاب، دوم: صوبائی خود مختاری۔ پہلے مطالبے کا مقصد قومی تشخص کا تیقن تھا اور دوسرے مطالبے کے پس پردہ یہ جذبہ کار فرما تھا کہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں نظم و نسق ان کے ہاتھ میں آ جائے اور یہی دو عناصر پاکستان کی ابتدا کی حیثیت رکھتے تھے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ Muslim Separatism in India صفحات196, 98 2۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات66, 69 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 21 اگست1928ئ) 3۔ایضاً،صفحات70, 72 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 6ستمبر1928ئ) 4۔’’ سرگذشت‘‘ ص254 5۔’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ ص220 6۔Muslim Separatism in India ص200 7۔ایضاً و ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ صفحات224, 28, 200 8۔ ’’ سرگذشت‘‘ ص262 9۔’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ صفحات228, 229 10۔’’ گفتار اقبال‘‘ ص73(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ یکم جنوری 1929ء اور رپورٹ آل پارٹیز مسلم کانفرنس، دہلی 1929ء م19, 28 11۔’’ سرگذشت‘‘ صفحات264, 265 12۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات87, 91 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 10اپریل1929ئ) 13۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات240, 242 اور 14۔ Speeches and Statements of Iqbal صفحات159, 160 15۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص142 ٭٭٭ سترہواں باب دینی تفکر کا انداز جدید کار زار سیاست کی ہمہ ہمی کے دوران میں بھی حضرت علامہ سوچ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے رہے۔ ان کے مطالعہ کا موضوع تھا’’ اسلام میں دینی تفکر کا انداز جدید‘‘ مقصد یہ تھا کہ اسلام کی فلسفیانہ روایت اور علم کے مختلف دوائر میں تازہ تبدیلیوں کا خیال رکھتے ہوئے فکر اسلامی کی تعمیر نو ہو۔ وہ اس حقیقت سے خوب آگاہ تھے کہ اگرچہ اسلام ایک جان دار اور انقلابی تحریک ہے، لیکن صدیوں پرانے جمود نے اس پر گرد کی ایسی تہیں جما رکھی ہیں کہ اس کی اصل صورت نظروں سے اوجھل ہے۔ انہوں نے گہرے مطالعہ اور گہری سوچ سے گرد صاف کر کے نہ صرف اس کی اصل منزہ صورت نمایاں کر دی، بلکہ قدیم و جدید کے امتزاج سے اسے ایک ایسے انداز میں پیش کیا کہ یہ عصر حاضر کے چیلنج سے حسن و خوبی کے ساتھ عہدہ برآ ہو سکے۔ علامہ نے خطبات مدراس کے دیباچے میں یہ اہم اشارہ کیا کہ موجودہ زمانہ اس کوشش کے لیے بہت موزوں ہے۔ اس اشارے میں بہت سے عناصر کار فرما تھے۔ اول یہ کہ دور جدید میں مذہب پر جو ہمہ گیر یلغار ہو رہی تھی، اس کا مقابلہ نئے ہتھیاروں سے ہی ہو سکتا تھا۔ دوم: دنیائے اسلام میں سیاسی بیداری کے جو آثار نظر آ رہے تھے، ان کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ملت اسلامیہ نظریاتی اعتبار سے کیل کانٹے سے لیس ہو۔ سوم: برعظیم کے مسلمان جداگانہ انتخاب اور صوبائی خود مختاری کے ذریعے سے قومی تشخص کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے اسے استحکام بخشنے کے لیے اور ایک مثالی نظام کی تشکیل کی خاطر نظریاتی بنیادیں فراہم کی جائیں۔ اور ان خطبات میں خوبی کا ایک بڑا پہلو یہ تھا کہ علامہ نے اپنی سوچ کو قطعی اور آخری قرار دیتے تھے او رنہ یہ چاہتے تھے کہ عصر حاضر کی بدلتی ہوئی دنیا میں فکر اسلامی کی سوتے خشک رہیں۔ چنانچہ انہوں نے خطبات مدراس کے دیباچے میں لکھا: ’’ یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ فلسفیانہ سوچ میں کوئی قطعیت نہیں ہوتی ۔ جوں جوں علم ترقی کرے گا اور فکر کی نئی راہیں کھلیں گی، غالباً میری تاویلات سے بہتر تاویلات کے ابھرنے کا امکان ہو گا۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ بڑی احتیاط کے ساتھ انسانی فکر کے ارتقا پر نظر رکھیں اور ایک آزاد، تنقیدی طرز عمل قائم رکھیں۔ 1؎‘‘ خطبات مدراس یا دوسرے لفظوں میں ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ سات مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالات 1929ء کے آغاز میں مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر پڑھے گئے۔ اس کے بعد حیدر آباد دکن اور علی گڑھ کی علمی محفلوں میں بھی پیش کئے گئے۔ علامہ نے پہلے مقالے میں لکھا کہ پچھلے پانسو سال سے اسلام میں دینی تفکر عملی اعتبار سے جامد ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب یورپی فکر دنیائے اسلام سے روشنی حاصل کرتا تھا۔ لیکن آج یہ صورت ہے کہ دنیائے اسلام بڑی تیزی کے ساتھ روحانی اعتبار سے یورپ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس میں کوئی خرابی نہیں کیونکہ یورپی ثقافت اپنے ذہنی پہلو سے اسلامی ثقافت کے بعض اہم ترین ادوار کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہمارا اندیشہ صرف یہ ہے کہ یورپی ثقافت کی ظاہری چمک دمک اتنی خیرو کن ثابت نہ ہو کہ اس سے ہماری آگے بڑھنے کی رفتار کم ہو جائے اور ہم اس کی اندرونی حقیقت تک رسائی میں ناکام رہیں۔ ہمارے دور جمود میں یورپ عظیم مسائل پر سوچتا رہا۔ اس سوچ نے تسخیر فطرت کے دروازے کھول دیے۔انسان میں ایک نئی خود اعتمادی پیدا ہوئی۔ ماحول کی قوتوں پر برتری کا ایک نیا احساس ابھرا۔ پرانے تجربات پر نئے تجربات کی روشنی میں تفکر ہوا اور بہت سے نئے مسائل بھی اٹھے ایسے میں یہ اکوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کی نوجوان نسل ایک نئی سمت کی تلاش میں ہے۔ اب ہمیں ایک آزاد جذبے کے ساتھ دیکھنا ہے کہ یورپ نے کیا کچھ سوچا ہے اور وہ جن نتائج پر پہنچا ہے وہ کہاں تک اس معاملے میں مددگار ہو سکتے ہیں کہ دینیاتی فکر پر نظر ثانی کی جائے یا ضرورت ہو تو اسے ایک نیا رنگ دیا جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس مذہب دشمن اور خاص طور پر اسلام دشمن پروپیگنڈے کو نظر انداز کر دیں جو وسطی ایشیا میں ہو رہا ہے اور ہندوستان کی سرحد کو پھلانگ چکا ہے۔ پس وقت آ گیا ہے کہ اسلام کے بنیادی عناصر پر نظر ڈالی جائے۔ میں ان مقالات میں اسلام کے بعض بنیادی نظریات پر فلسفیانہ بحث کروں گا تاکہ نوع انسانی کے لیے ایک پیغام کی حیثیت سے اسلام کی مناسب تفہیم ہو سکے اور مزید بحث کے لیے زمین تیار کر لی جائے۔ 3؎ علامہ نے بتایا کہ فلسفہ آزادانہ عقلی تجسس و تحقیق کا نام ہے۔ اس کے مقابلے میں دین کی اساس ایمان پر ہے اور ایمان عقل کی رہنمائی سے مستغنی ہوتا ہے۔ اس کی مثال بعض پرندوں کی پراز ہے جو خرد اور استدلال کی رہنمائی کے بغیر اپنا راستہ بھی جانتے ہیں اور اپنی منزل پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایمان محض جذبے اور تاثر کا نام ہے۔ ایمان کے اندر ایک انداز کی عقل اور علم بھی مضمر ہے۔ لیکن دین محض استدلال کی پیداوار نہیں اور اپنے اوپر استدلال کی حکومت تسلیم نہیں کر سکتا۔ عقل اور وجدان کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ایک کا تعلق حقیقت کے زمانی پہلو سے ہے اور دوسرے کا لازمانی، سرمدی اور ابدی پہلو سے بلکہ وجدان ایک وسیع تر اور بلند تر عقل ہی کا نام ہے۔ اسلام کی عقلی تاسیس کوئی بعد کی پیداوار نہیں خود حضور سرور کائنات ؐ اشیا کی ماہیت کو جاننا چاہتے تھے اور قرآن حکیم میں استدلال بھی موجود ہے اور عقل کو استعمال کرنے اور مشاہدہ کائنات سے اس کے خالق کو پہچاننے کی تلقین ہے۔ اقبال کے نزدیک سائنس اور مذہب دونوں کے موضوع و معروض الگ الگ ہیں۔ مذہب کیمیا اور طبیعیات کا حریف بن کر عالم محسوسات کے لیے کوئی نظریہ پیش نہیں کرتا۔ دونوں کا مدار اور معروض تجربے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ایک کا معروض روحانی تجربہ ہے اور دوسرے کا معروض عالم محسوسات۔ مذہب روحانی تجربے کی حقیقت و ماہیت کو پہنچنے کی کوشش کا نام ہے۔ 2؎ دوسرے مقالے کا موضوع ہے ’’ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ اور اس کا مقصد یہ دریافت کرنا تھا کہ عقل مذہبی وجدان کی کہاں تک تائید کرتی ہے۔ علامہ نے اس مسئلے کی پوری چھان پھٹک کے بعد آخر میں لکھا: ’’ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مذہب کے عزائم فلسفہ سے بلند تر ہیں۔ فلسفہ عبارت ہے، حقائق کے عقلی ادراک سے۔ لہٰذا وہ کسی ایسے تصور سے آگے نہیں بڑھتا جو ہمارے محسوسات و مدرکات کی گوناگوں دنیا کو ایک نظام میں مدغم کر دے۔ وہ گویا دور ہی سے حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ برعکس اس کے، مذہب اس سے قرب و اتصال کا آرزو مند ہے۔ ایک نظریہ ہے دوسرا حقیقت، تقرب اور اتصال لیکن یہ تقرب اور یہ اتصال جب ہی ممکن ہے کہ فکر اپنے حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ جس میں اسے کامیابی ہو گی تو اس ذہنی روش کی بدولت جسے مذہب نے دعا سے تعبیر کیا ہے اور جو پیغمبر اسلام صلعم کے لب مبارک پر تادم آخر موجود تھی۔4؎‘‘ تیسرے مقالے میں علامہ نے ذات الٰہیہ کے تصور اور حقیقت دعا کے مسئلے پر روشنی ڈالی اور ایک وسیع تناظر میں اس کے مطالعہ کے بعد آخر میں لکھا: ’’ اسلام نے عبادت کے لیے ایک مخصوص سمت انتخاب کی تو محض اس لیے کہ جماعت کے اندر ایک ہی قسم کے جذبات موج زن ہوں، بعینہ جس طرح اس کی ظاہری شکل سے مساوات اجتماعی کی حس بیدار ہوتی ہے اور پرورش پاتی ہے۔ کیونکہ صلواۃ یا جماعت سے مقصود ہی یہ ہے کہ شرکائے جماعت میں اپنے مرتبہ و مقام یا نسلی حیثیت کا کوئی احساس باقی نہ رہے۔ نوع انسانی ایک ہے۔ اس لیے کہ وہ محیط برکل ذات جس نے ہر شے کو اپنے دامن میں لے رکھا ہے، جو ہر انا کی خالق اور اس کا سہارا ہے، ایک ہے۔ لہٰذا قرآن مجید نے نسل اور قوم اور شعوب و قبائل کی تقسیم کو تعارف کا ایک ذریعہ ٹھہرایا تو اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اسلام میں صلواۃ یا جماعت حصول معرفت ہی کا سرچشمہ نہیں، اس کی قدر و قیمت کچھ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر ہے۔ صلواۃ یا جماعت سے اس تمنا کا اظہار بھی مقصود ہے کہ علم ان سب امتیازات کو مٹاتے ہوئے، جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہیں۔ اپنی اس وحدت کی ترجمانی، جو گویا ہماری خلقت میں داخل ہے، اس طرح کریں کہ ہماری عملی زندگی میں اس کا اظہار سچ مچ ایک حقیقت کے طور پر ہونے لگے۔ 5؎‘‘ چوتھے خطبے میں ’’ انسانی انا اس کی آزادی اور بقائے دوام‘‘ کے تحت علامہ نے خودی، جبر و قدر اور حیات بعد الموت کے مسائل کی تشریح کی اور یہ بھی لکھا کہ ’’ ہمارا فرض ہے ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کیے بغیر اسلام میں بحیثیت ایک نظام فکر از سر نو غور کریں۔‘‘ علامہ کے نزدیک شاہ ولی اللہ نے سب سے پہلے ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی۔ ’’ لیکن اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا تو سید جمال الدین افغانی کو جو اسلام کی حیات ملی اور حیات ذہنی کی تاریخ میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور ان کی عادات و خصائل کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ ان کا مطمح نظر بہت بلند تھا اور اس لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ ان کی ذات گرامی ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک جیتا جاگتا رشتہ بن جاتی۔ ان کی انتھک کوششیں اگر صرف اسی امر پر مرکوز رہتیں کہ اسلام نے نوع انسان کو جس طرح کے عمل اور ایمان کی تلقین کی ہے، اس کی نوعیت کیا ہے۔ تو آج ہم مسلمان اپنے پاؤں پر کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوتے۔6؎‘‘ پانچویں خطبے کا عنوان ہے ’’ اسلامی ثقافت کی روح‘‘ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ دنیائے اسلام نے علم و حکمت کی جو خدمات سر انجام دی ہیں ان کا جائزہ لیا جائے۔ بلکہ یہ تھا کہ ان تصورات کی جانچ پرکھ کی جائے جو اسلامی تہذیب وثقافت میں کار فرما رہے۔ ان تصورات میں عقیدہ ختم نبوت کے اہم اور بنیادی تصور کو علامہ نے اولیت دی۔ علامہ کا ارشاد تھا کہ اسلام میں نبوت اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی، اس لیے اس کا خاتمہ ضروری ہو گیا۔ اسلامی نظام فکر میں اس بات کا گہرا ادراک مضمر تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعور ذات کی تکمیل ہو گی تو اس طرح کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ بہرحال تصور خاتمیت سے علامہ کی مراد یہ نہیں تھی کہ زندگی میں اب صرف عقل ہی کا عمل دخل ہے اور جذبات کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں۔ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ واردات باطنی کی کوئی بھی صورت ہو ہمیں اس پر بحیثیت ایک ماخذ علم کے آزادانہ تنقید کا حق پہنچتا ہے۔ انہوں نے لکھا: ’’ اگر ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدہ یہ بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعویٰ کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، لہٰذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خاتمیت کا تصور ایک طرح کی نفسیاتی قوت ہے، جس سے اس قسم کے دعوؤں کا قلع قمع ہو جاتا ہے اور جس سے یہ مقصود ہے کہ انسان کی باطنی واردات اور احوال کی دنیا میں بھی علم کے نئے نئے دروازے بھی کھل جائیں۔‘‘ اقبال نے بتایا کہ مشاہدات باطن علم انسانی کا صرف ایک ذریعہ ہیں۔ قرآن پاک کے نزدیک اس کے دو اور سرچشمے ہیں۔ ایک عالم فطرت، دوسرا عالم تاریخ۔ مظاہر فطرت حقیقت مطلقہ کی آیات ہیں اور اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان میں غور و فکر سے کام لے۔ یہ نہیں کہ بہروں اور اندھوں کی طرح ان سے اعراض کرے۔ کیونکہ جو کوئی اس زندگی میں اندھوں کی طرح ان آیات سے اپنی آنکھیں بند رکھتا ہے، وہ آگے چل کر بھی اندھا ہی رہے گا جہاں تک عالم تاریخ کے سرچشمے کا تعلق ہے اس کے سائنسی مطالعہ سے وسیع تر تجربہ کے حصول، عقل عملی کی مزید پختگی اور آخر کار زندگی و زمان کی ماہیت سے متعلق بعض بنیادی تصورات کے بہتر تحقق کا امکان ہے یہ بنیادی تصورات دو ہیں۔ اول: وحدت مبداء حیات’’ یہاں وحدت انسانی کا خیال نہ تو محض کوئی فلسفیانہ تصور تھا نہ شاعرانہ خواب بلکہ بحیثیت ایک عمرانی تحریک کے اسلام کا مقصد یہ تھا کہ اس تصور کو مسلمان کی روزانہ زندگی کا ایک زندہ عنصر بنا دیا جائے اور یوں ایک خاموش، غیر محسوس طریقے سے اس کو درجہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے۔ دوم: حقیقت زمان کا نہایت گہرا احساس اور زندگی کا یہ تصور کہ وہ عبارت ہے زمان میں ایک مسلسل اور مستقل حرکت سے۔7؎‘‘ چھٹے خطبے کا عنوان ہے۔ ’’ اسلام کی ترکیب میں حرکت کا اصول‘‘ اس میں اجتہاد کے مسئلے پر علامہ نے شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی۔ دنیائے اسلام میں اس وقت جو فکری تحریکیں نمو پا رہی تھیں، ان کا تجزیہ کیا اور انہیں اسلامی تعلیمات کی کسوٹی پر پرکھا۔ زمانہ حال کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھا اور ایسے نتائج پر پہنچے جو کم از کم اس زمانے میں عام روایتی روش سے ہٹ کر تھے۔ اس خطبے کے جملہ مطالب کا احاطہ کرنا تو نا ممکن ہے اور نہ ہمارے منصب میں شامل ہے۔ لیکن چند نمایاں نقوش بیان کیے جا سکتے ہیں۔ 1928ء میں ہمارے رہنما دنیائے اسلام کی سیاست پر بھی مشوش تھے اور برعظیم کی اسلامی سیاست پر بھی۔ اس تشویش نے انتشار فکر کو جنم دیا اور اقبال نے حالات کا تجزیہ کر کے انتشار دور کرنے کی سعی فرمائی۔ اس زمانے میں ترکیہ میں جمہوریت کا دور دورہ ہو چکا تھا۔ خلافت عثمانیہ کی بساط الٹ چکی تھی۔ لیکن برعظیم کے بہت سے رہنما روایتی انداز فکر کو اپنائے ہوئے تھے۔ وہ خلافت کا احیا چاہتے تھے کچھ لوگوں کی آرزو تھی کہ کمال اتاترک یہ کارنامہ سر انجام دیں۔ کچھ لوگ سعودی عرب کے حکمران سلطان ابن سعود سے امیدیں باندھ رہے تھے۔ ادھر برطانوی سامراج کی آرزو تھی کہ کوئی ایسی شخصیت مل جائے جو خلیفتہ المسلمین بھی ہو اور کٹھ پتلی بھی۔ اس آرزو کے پاس پردہ یہ محرک جذبہ کار فرما تھا کہ اتحاد عالم اسلامی کے لیے مسلمانوں کے سینوں میں جو تمنائیں مچل رہی ہیں، ان کے نکاس کی ایسی صورت پیدا کی جائے کہ ساری دنیائے اسلام برطانوی سامراج کی آلہ کار بن جائے۔ ایسے میں اقبال نے لکھا: ’’ سنی قانون کی رو سے ایک امام یا خلیفہ کا تقرر قطعی طور پر ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا خلافت کسی فرد واحد کو تفویض ہونی چاہیے؟ ترکیہ کا اجتہاد یہ ہے کہ اسلام کی روح کے مطابق خلافت افراد کی ایک جماعت یا ایک منتخب شدہ اسمبلی کو بھی تفویض ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، مصر اور ہندوستان کے فقہا نے اس نکتے پر اظہار خیال نہیں کیا۔ ذاتی طور پر میری رائے یہی ہے کہ ترکیہ کا نقطہ نگاہ بالکل معقول ہے بلکہ اس معاملے میں کسی استدلال کی حاجت نہیں۔ جمہوری طرز حکومت نہ صرف اسلام کی روح کے مطابق ہے، بلکہ دنیائے اسلام میں جو نئی قوتیں ابھریں ان کے پیش نظر جمہوریت ایک ضرورت بن چکی ہے۔‘‘ علامہ نے بتایا کہ ابن خلدون نے عالمی خلافت اسلامیہ کے تین مختلف تصورات کا تذکرہ کیا ہے۔ اول: عالمی امامت ایک شرعی ادارہ ہے، اس لیے اس کا قیام واجب ہے۔ دوم: یہ محض امر مصلحت ہے۔ سوم: ایسے کسی ادارے کی ضرورت نہیں۔ ترکیہ نے پہلے تصور کو چھوڑ کر دوسرے تصور کو اپنایا ہے۔ ترکوں کا استدلال ہے کہ سیاسی سوچ میں ہمیں ماضی کے سیاسی تجربے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جو یہ ہے کہ عالمی خلافت کا تجربہ عملاً ناکام رہا ہے۔ جب تک ایک اسلامی سلطنت قائم تھی، اس پر عمل ممکن تھا۔ لیکن جب سلطنت آزاد سیاسی اکائیوں میں بٹ گئی تو یہ تصور ممکن العمل نہیں رہا۔ بلکہ یہ تصور آزاد اسلامی ریاستوں کے اتحاد میں حائل بھی رہا ہے۔ ایران عقیدے کے اختلاف کی بنا پر خلافت سے الگ رہا۔ مراکش ہمیشہ اسے شبے کی نظروں سے دیکھتا رہا۔ اور عرب اپنے کھوئے ہوئے منصب کی بازیابی کی آرزو کرتے رہے او ریہ سب اختلاف کیوں؟ محض اقتدار کی ایک ایسی علامت کی خاطر، جو عملی اعتبار سے ایک عرصے سے ختم ہو چکی تھی۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہم تجربے سے کوئی سبق حاصل نہ کریں؟ علامہ نے اس انداز فکر سے اتفاق کیا۔ 9؎ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر عالمی خلافت اسلامیہ کا تصور ختم ہوتا ہے تو دنیائے اسلام کے اتحاد کی صورت کیا ہو گی؟ علامہ نے یہ تجویز پیش کی کہ اس وقت ہر مسلمان قومیت کو اپنی ذات کی گہرائی میں ڈوب جانا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی توجہ اپنے آپ پر مرتکز کر دینی چاہیے۔ حتیٰ کہ سب اتنی مضبوط و توانا ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک جیتا جاگتا خاندان وجود میں لا سکیں۔ اقبال نے لکھا: ’’ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر یہ حقیقت آہستہ آہستہ منکشف کر رہا ہے کہ اسلام نہ وطنیت ہے، نہ سامراج بلکہ وہ ایک جمعیت اقوام ہے جو مصنوعی سرحدات اور نسلی امتیازات کو محض حوالے کی آسانی کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ کہ اپنے ارکان کا معاشری دائرہ نظر محدود کرنے کے لیے۔‘‘ 10؎ گویا اقبال کے نزدیک اتحاد اسلامی رسمی خلافت کے ذریعے سے نہیں بلکہ آزاد جمہوریتوں کے ایک جیتے جاگتے خاندان یا جمعیت اقوام کے روپ میں ممکن ہے۔ اس کے بعد سامراجی طاقتوں نے کٹھ پتلی خلافت کے احیا کے لیے بہت سے کوششیں کیں۔ کبھی ابن سعود کو آگے بڑھایا، کبھی شاہ عبداللہ کو اور کبھی شاہ فاروق کو، لیکن جوں جوں مسلمان قومیں آزاد ہوتی چلی گئیں، رسمی خلافت کا تصور پسپا ہوتا چلا گیا اور آج دنیائے اسلام میں وہی رحجان نمو پا رہا ہے، جس کی نشان دہی علامہ نے کی تھی۔ اس خطبے میں علامہ نے جمہوری رحجانات کے پیش نظر ایک اور مسئلے کا بھی حل پیش کر دیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اجتہاد کا اختیار کس کو ہے۔ مختلف مذاہب فقہ کے نمائندہ افراد کو یا ایک مسلم قانون ساز اسمبلی کو؟ اقبال کی رائے یہ تھی کہ آج کے زمانے میں متصادم فرقوں کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر اجماع کی بہترین صورت مسلم قانون ساز اسمبلی ہی مہیا کر سکتی ہے۔ وہ قانون سازی میں مشورے کے لیے علما کی کمیٹی کے تصور کو خطرناک قرار دیتے تھے اور زیادہ سے زیادہ اسے ایک عارضی تجربہ کی حیثیت سے گوارا کرنے پر تیار ہو گئے۔ رہا یہ خدشہ کہ قانون ساز اسمبلی میں زیادہ تر ایس لوگ شامل ہوں گے جو اسلامی قانون کی باریکیوں سے نا آشنا ہوں گے، اس لیے قانون کی تاویل میں غلطیوں کا امکان ہو گا تو اقبال کے نزدیک اس کا علاج یہ تھا کہ نمائندہ علما بھی قانون ساز اسمبلی کے رکن ہوں اور مسلمان ملکوں میں قانون کی تعلیم کے موجودہ نظام میں اصلاح کی جائے۔ اس کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اسلامی قانون کے ساتھ ساتھ دوسرے جدید قانونی نظام بھی زیر مطالعہ آئیں۔ آج نصف صدی کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ دنیائے اسلام میں اسی بنیاد پر کام چلایا جا رہا ہے۔ 11؎ ساتویں خطبے کا عنوان تھا کیا مذہب ممکن ہے یا کیا مذہب کا امکان ہے؟ یہ خطبہ خطبات مدراس میں شامل نہ تھا بلکہ ارسٹو ٹیلین سوسائٹی لندن کی دعوت پر لکھا گیا تھا۔ علامہ نے اس موضوع پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ مذہب اور سائنس، دونوں کی منزل مقصود ایک ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے طریقہ ہائے کار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دونوں کا نصب العین یہ ہے کہ حقیقت کی تہ تک پہنچیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ مذہب سائنس سے کہیں بڑھ کر حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کا آرزو مند ہے۔ پھر دونوں کے نزدیک موجود حقیقی تک رسائی کا کوئی ذریعہ ہے تو یہی کہ ہم اپنے احساسات اور تجربات کی تطہیر کرتے رہیں۔ ایک ماہر سائنس کی طرح مذہبی نفسیات کا طالب علم بھی مختلف تجربات سے گزرتا ہے مگر محض ایک ناظر کی حیثیت سے نہیں بلکہ تجربہ کے ایک ناقد کے اندازہ سے وہ ایک مخصوص تکنیک کے قواعد کے مطابق جو اس نوعیت کی تفتیش کے لیے موزوں ہیں، تمام موضوعی عناصر کو تجربہ کے متن سے خارج کر دیتا ہے تاکہ وہ قطعی معروضیت کے مقام تک پہنچ جائے۔ جب وہ اس آخری مکاشفہ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو وہ اسے بغیر کسی تامل کے اپنے وجود کے اصل الاصول کی حیثیت سے پہچان لیتا ہے یہ تجربہ پر اسرار نہیں بلکہ ایک فطری تجربہ ہے اور انسانی ایغو کے لیے نہایت اہم حیاتیاتی مفہوم کا حامل ہے۔ البتہ ایک خطرہ اس میں ایغو کو لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آخری تجربہ سے ما قبل تجربات میں وہ اس قدر کھو جائے کہ اس کی فعالیت میں سستی آ جائے۔ مشرقی تصوف کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ ایک حقیقی خطرہ ہے۔ علامہ مدراس پہنچے تو ان کی بے حد پذیرائی ہوئی۔ ریلوے سٹیشن پر ان کا شاندار استقبال ہوا۔ خطبات کے لیے جن مجالس کا انعقاد ہوا ان میں حاضری بھرپور بھی تھی اور متنوع بھی۔ مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو ہندو اہل علم بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ پہلے دو جلسوں کی صدارت ڈاکٹر پی سبھرائن نے کی اور گورنر کی طرف سے ایک خصوصی خیر مقدمی پیغام پڑھا گیا۔ 13؎ بہت سی انجمنوں نے تقریبات برپا کیں اور ان میں علامہ کی خدمت میں سپاس نامے پیش کیے۔ انجمنوں کے نام یہ ہیں: انجمن ترقی اردو، ہندی پرچارنی سبھا، اردو ساسوئٹی، گورنمنٹ محمڈن کالج، انجمن خواتین اسلام، یتیم خانہ اسلامیہ اور انجمن ہلال احمر14؎ انجمن ہلال احمر کے سپاس نامے کے جواب میں تقریر تو مختصر کی لیکن اس میں دو اہم نکتے بیان کر دیے۔ اول: ہندوستان، ایران، افغانستان، شام، حجاز اور چین نے ایک دوسرے سے طویل فاصلوں کے باوجود اپنے مسئلے کا جو حل تجویز کیا ہے اس کے اصولوں میں ایک نمایاں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ خیالات کا یہ اتحاد ایشیا کے مستقبل کے لیے ایک نیک شگون ہے اور مجھے کامل یقین ہے کہ ایشیا کو پھر عروج حاصل ہو گا۔ دوم: ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مسائل پر دونوں پہلوؤں سے غور کر کے ایک مصالحانہ نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔ پرانی دنیا ختم ہو رہی ہے، نئی دنیا ظہور میں آنے والی ہے اور ہندوستان ہی وہ ملک ہے جو مادہ پرستوں کی مغربی دنیا کو نیا پیغام پہنچانے کے قابل ہو گا۔ 15؎ 7جنوری 1929ء کو انجمن خواتین اسلام نے اپنے سپاس نامے میں عورت کی مظلومیت اور حریت نسواں کی ضرورت کا تذکرہ کیا۔ اس کے جواب میں علامہ نے ایک مفصل تقریر میں چند اہم نکات پیش کیے، جن کی تلخیص پیش کرنا ضروری ہے۔ 16؎ اول: اسلام میں عورت اور مرد میں قطعی مساوات ہے۔ قرون اولیٰ میں عورتیں جہاد میں مردوں کے دوش بدوش شریک ہوئیں۔ خلیفہ کے انتخاب میں اپنی آواز رکھتی تھیں۔ خلفائے عباسیہ کے عہد میں ایک موقع پر خلیفہ کی بہن قاضی القضاۃ کے عہدے پر مامور تھیں اور خود فتویٰ صادر کرتی تھیں۔ دوم: عورت کے بحیثیت عورت اور مرد کے بحیثیت مرد بعض خاص خاص علیحدہ فرائض ہیں۔ ان فرائض میں اختلاف ہے مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ عورت ادنیٰ ہے اور مرد اعلیٰ۔ سوم: اسلام میں عورت بچوں کی وراثت کا حق رکھتی ہے۔ عورت چاہے تو نکاح کے وقت یہ شرط پیش کر سکتی ہے کہ اسے طلاق لینے کا حق دیا جائے اسلام میں تعداد ازدواج کا حکم نہیں دیا یا محض اجازت ہے۔ عورت چاہے تو نکاح کے وقت مرد سے مطالبے کا حق رکھتی ہے کہ وہ تعداد ازدواج کی اجازت کو اپنے حق میں ترک کر دے۔ فقہ اسلامی میں بیوی بچوں کو دودھ پلانے کی اجرت طلب کر سکتی ہے۔ 17؎ اور کھانا پکانے کی اجرت بذریعہ عدالت حاصل کر سکتی ہے۔ چہارم:’’ وہ حق جس کا عورت انصاف و عقل کے ساتھ کبھی مطالبہ کر سکتی ہے، وہ قرآن پاک نے دے دیا ہے۔ اگر آپ اس سے جاہل و غافل رہیں یا اس سے فائدہ نہ اٹھائیں یا اس کے حاصل کرنے پر اصرار نہ کریں، بوقت ضرورت قانونی چارہ جوئی نہ کریں تو یہ قرآن یا شریعت اسلام کا قصور نہیں۔‘‘ مدراس میں سہ روزہ قیام کے بعد حضرت علامہ بنگلور پہنچے۔ جہاں آپ کا پر جوش خیر مقدم کیا گیا۔ دو جلسے ہوئے۔ ایک کی صدارت ریاست میسور کے وزیراعظم نے کی دوسرے کی وزیر تعلیم نے۔ مہاراجہ صاحب میسور نے اور میسور یونیورسٹی نے بھی مدعو کر رکھا تھا۔ چنانچہ وہاں بھی پہنچے اور میسور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی صدارت میں ’’ علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ پر وہ مقالہ پڑھا جو اس سے پہلے مدراس میں پڑھ چکے تھے۔ یونیورسٹی کے غیر مسلم اساتذہ نے بھی ان کی پذیرائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور کہا کہ علامہ کو مسلمان اپنا کہیں لیکن وہ کسی مذہب یا جماعت کی ملکیت نہیں ہو سکتے۔ وہ ہم سب کے ہیں علامہ کو ٹیپو سلطان شہیدؒ سے عشق تھا اس لیے حیدر علی اور سلطان ٹیپو کے مزاروں پر پہنچے اور فاتحہ پڑھی۔ علامہ فرماتے ہیں: ’’ میسور میں جہاں کہیں بھی گیا، لوگوں کی زبانوں پر ایک ہی نام تھا۔ یعنی سلطان شہید کا نام۔ جہاں کہیں دو تین آدمیوں کے محفل گرم ہوتی، ایک ہی قصہ تھا۔ ایک ہی رنگین داستان تھی جسے ہر کوئی بیان کرتا اور سب لوگ ادب سے سر جھکائے سنتے اور وہ سلطان شہید کی معرکہ آرا زندگی کا ماجرا تھا۔ بازاروں میں دکان داروں کا موضوع سخن بھی یہی تھا۔ دو تین مجلسوں میں جہاں جانے کا مجھے اتفاق ہوا یہی باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے عملاً کئی مرتبہ گفتگو کا رخ دوسری باتوں کی طرف پھیرا لیکن ہر بار پھر سلطان ٹیپو کا تذکرہ آ جاتا۔ 18؎‘‘ اس کے بعد علامہ حیدر آباد دکن گئے۔ اس سے پہلے وہ دو مرتبہ دکن آ چکے تھے۔ ایک بار 1910ء میں جب سر اکبر حیدری کے مہمان رہے اور مہاراجہ کشن پرشار شاد سے گہرے رابطے کا آغاز ہوا۔ دوسری بار 1921ء یا 1922ء میں تیسری بار آئے تو جامعہ عثمانیہ کی دعوت پر اور اس مقصد سے کہ جو لیکچر مدراس میں دیے تھے، وہی حیدر آباد دکن میں بھی دیے جائیں۔ مہمان خانہ شاہی میں قیام ہوا۔ انہوں نے محل کی کتاب حضوری میں نام لکھا اور واپس ہو گئے۔ جب کتاب نظام کی خدمت میں پیش ہوئی تو انہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی چنانچہ ہر کارہ دوڑا۔ علامہ کو اطلاع دی اور وہ نظام سے ملے۔ ٹاؤن ہال میں دو جلسے ہوئے ایک کے صدر مہاراجہ کشن پرشاد شاد تھے دوسرے کے نواب سر امین جنگ بہادر شاد نے ایک محفل مشاعرہ بھی برپا کی۔ علامہ نے دوسروں کا کلام تو سن لیا لیکن خود کلام سنانے سے متامل تھے۔ بہرحال اصرار غالب آیا تو چار پانچ شعر سنا دیے۔ اس طرح جنوبی ہند کا وہ علمی دورہ اپنے اختتام کو پہنچا جو اس اعتبار سے اقبال کی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا کہ انہوں نے فکر و خیال کی ایسی ایمان افروز قندیلیں روشن کر دیں، جن کی ضیا باری کا سلسلہ آج بھی قائم ہے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ Reconstruction of Religious Thought In Islam ص(vi) 2۔ ایضاً، صفحات7, 8 3۔ ’’ فکر اقبال‘‘ 745, 776(تلخیص و اقتباس) 4۔’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ صفحات93, 94 5۔ایضاً، صفحات140, 141 6۔ایضاً، صفحات145, 146 7۔ ایضاً، صفحات190, 216 (تلخیص و اقتباس) 8۔ Reconstruction of Religious Thought in Islam ص157 9۔ ایضاً، ص158 10۔ ایضاً، ص159 11۔ ایضاً، صفحات175, 176 12۔ ایضاً، صفحات195, 196 13۔Letters and Writing of Iqbal صفحات49, 53 14۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص148 ’’ انوار اقبال‘‘ صفحات227, 240 ’’ گفتار اقبال‘‘ ص74 15۔’’ گفتار اقبال‘‘ ص74(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 17جنوری 1929ئ) 16۔ ایضاً، صفحات75, 84 17۔ اصل خبر میں یہ فقرہ درج تھا کہ ’’ عورتوں بچے جننے کی اجرت طلب کر سکتی ہے۔‘‘ علامہ نے مدیر’’ انقلاب‘‘ کے نام ایک مکتوب میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں نے دودھ پلانے کی اجرت کا ذکر کیا تھا۔ ’’ خطوط اقبال‘‘ ص191 18۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات148, 149(بحوالہ سیرت اقبال ، طاہر فاروقی اور ملفوظات اقبال عبدالرشید طارق) 19’’ مطالعہ اقبال‘‘ صفحات114, 115 ٭٭٭ اٹھارہواں باب ہندو مسلم کشیدگی، افغانستان اور فلسطین 1927ء سے 1930ء تک کا دور حیات اقبال کا مصروف تین دور تھا۔ مجلس قانون ساز کی رکنیت، جداگانہ انتخاب کے لیے جدوجہد، نہرو رپورٹ کے خلاف مہم، آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں شرکت اور خطبات مدراس کا تذکرہ ہو چکا ہے، لیکن اس سلسلے کی ابھی اور بہت سی کڑیاں باقی ہیں جو علامہ کی زندگی کے اہم اجزا کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم علیحدہ مسلم مملکت کے لیے اقبال کی مساعی پر توجہ دیں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان درمیانی کڑیوں کا احاطہ کر لیں۔ ہندو سیاست میں سوامی شردھانند کیا داخل ہوئے، ہندو مسلم کشیدگی بلکہ خونریزیوں کے نئے دروازے کھل گئے۔ وہ شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کے علمبردار تھے۔ جن کے پس پردہ یہ اصول کار فرما تھا کہ ہندوؤں کا نصب العین ہندو راج ہے۔ ہندو راج کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان میں ہندو قومیت کو فروغ دیا جائے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کو شدھ (پاکیزہ) کر لیا جائے۔ یعنی انہیں ہندو بنا لیا جائے۔ نیز ہندوؤں کا سنگھٹن اور تنظیم وقت کی اہم پکار ہے۔ سوامی شدھانند نے ہندو نوجوانوں کا ایک بہت بڑا گروہ کل ہند بنیاد پر منظم کر لیا۔ یہ نوجوان شہر شہر اور بستی بس پہنچے اور شدھی کا بازار گرم کیا۔ اس گروہ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسی اشتعال انگیز زبان استعمال کی اور ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے کہ ہندو مسلم نفرت اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ 1926ء کے اواخر میں ایک مسلمان نے اشتعال میں آ کر سوامی شدھانند کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہندو قوم نے اسے ’’ شہید ‘‘ کا نام دیا اور کیا ہندو اخبارات اور کیا ہندو رہنما، سب کے سب اپنی قوم مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے لگے۔ اس پروپیگنڈا مہم کا اصل مرکز پنجاب تھا۔ اس پر مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کرنے کی خاطر جنوری 27ء کے آخری عشرے میں یکے بعد دیگرے دو جلسے کیے۔ دونوں کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ انہوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا بلکہ اس مسموم فضا میں بھی مصالحت اور رواداری کی شمعیں روشن کیں۔ آپ نے فرمایا ’’میرے تصور میں صداقت ایک ایسا ترا شا ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں۔ اس کے ہر پہلو سے مختلف رنگ کی شعاعیں نکل رہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی پسند کے مطابق کسی رنگ کی شعاع کو اختیار کر لیتا ہے اور اپنے نقطہ نگاہ سے صداقت کو دیکھتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صداقت کو دیکھنے کا ایک مطلق نقطہ نگاہ بھی موجود ہے اور وہی نقطہ نگاہ اسلام ہے۔ اس لیے رواداری کا اصول یہی ہے کہ مثال بالا کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی کو یہ نہ کہا جائے کہ تم باطل پر ہو۔‘‘ اقبال یہ بھی محسوس کرتے تھے کہ ان ہنگاموں کے پیچھے ’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی بھی کار فرما ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا:’’ ہندوستان میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی اغراض کے لیے تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اگر تم آپس میں لڑو گے تو ملک میں بد امنی ہو گی۔ سب کو تکلیف اٹھانی پڑے گی۔‘‘ ہندو اخبارات اور ہندو رہنماؤں کی ایک تکنیک یہ تھی کہ برعظیم کے مسلمانوں کی پرانی تاریخ سے جھوٹی سچی مثالیں دے کر اپنی قوم کے جذبات کو بھڑکاتے تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے علامہ نے کہا:’’ ہندو پرانے قصے تازہ کر رہے ہیں، لیکن گڑے مردوں کو اکھاڑنے سے کیا فائدہ ہے: قفس میں اے ہم صفیر اگلی شکایتوں کی حکایتیں کیا خزاں کا دورہ ہے گلستان میں نہ تو رہے گا نہ ہم رہیں گے1؎ بہرحال فضا مسموم رہی اور 3 مئی 27ء کو لاہور میں ایک خونیں ہندو مسلم فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ پہل سکھوں نے کی، لیکن وہ خود تو پر اسرار اندا ز میں الگ ہو گئے اور اصل فساد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہوا۔ منظم مقابلے بھی ہوئے اور اکا دکا حملے بھی اور اس دوران دو سو کے قریب انسان موت کے گھاٹ اتر گئے۔ فساد کے پہلے دن ہی حضرت علامہ، میاں عبدالعزیز اور شیخ عبدالقادر اندرون شہر جا کر لوگوں کو صبر کی تلقین کرتے رہے اور یہ سلسلہ فساد کے اختتام تک جاری رہا۔ علامہ نے مولانا ظفر علی خان کو جلسہ عام کرنے سے روک دیا تاکہ حالات زیادہ خراب نہ ہوں۔ ماتمی جلوس میں خود بھی شرکت کی تاکہ ہجوم کو قابو میں رکھ سکیں۔ حکام سے کہا کہ وہ انصاف سے کام لیں۔ ہندو رہنماؤں سے ملے اور انہیں تلقین فرمائی کہ آپس میں بیٹھ کر تنازعات کا تصفیہ کیا جائے۔ مسلمان شہدا کے ورثا کی مدداور گرفتار شدگان کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے جو مرکزی مجلس اعانت قائم ہوئی، اس کے صدر علامہ ہی چنے گئے اور انہوں نے پہلے دو دنوں میں بارہ سو روپے جمع کر لیے۔2؎‘‘ 12مئی کو علامہ اقبال سمیت مسلمان، ہندو اور سکھ رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں دیسی زبانوں کے اخبارات پر الزام لگایا کہ وہ فرقہ وار کشیدگی کو بڑھا رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف قانون کی مشینری کو حرکت میں لائے۔ چند دن بعد اس مسئلے پر لاہور کے واحد مسلمان انگریزی روزنامہ ’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ کے نمائندے نے علامہ سے ملاقات کی۔ علامہ نے کہا کہ میں آزادی مطلق کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ ’’ ذاتی طور پر اخبارات کی آزادی کا بہت بڑی حد تک قائل ہوں۔ بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں آزادی کا حامی ہوں۔۔۔۔ لیکن میں آزادی اور لائسنس (مادر پدر آزادی) کو یکساں نہیں سمجھ سکتا ۔ حقیقی آزادی اخلاقی ضبط نفس کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا مقصود یہ نہیں کہ اخبارات کی آزادی سلب کر لی جائے بلکہ محض یہ ہے کہ ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کیا جائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:’’ میرا خیال ہے کہ ہر شخص اس معاملے میں میرے ساتھ اتفاق کرے گا کہ ملک کے بہترین مقاصد کے پیش نظر یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ایسی تحریروں کو، جو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرتی ہیں، روکا اور دبایا جائے۔ اگر کوئی اور صورت نہ ہو تو قانون ہی کے ذریعے سے اس مقصد کو حاصل کیا جائے۔‘‘ اسی انٹرویو کے دوران میں اس حقیقت پر تاسف کا اظہار کیا کہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف اپنی حفاظت کے لیے برطانوی تحفظ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا۔’’ اس حقیقت نے مجھے اپنے سیاسی خیالات اور سیاسی عقائد پر از سر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پنجاب کے مسلمانوں، خاص طور پر دیہاتی مسلمانوں میں جو ہماری قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں، جہالت عام ہے اور کسی قسم کی سیاسی یا اقتصادی بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ قوم کی قوتوں کو فرقہ بندی اور ذاتوں کی تقسیم نے علیحدہ منتشر کر رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سرا سر غیر منظم کے غیر منظم ہیں۔ اب میں اس امر کا قائل ہو گیا ہوں کہ اس صوبے کے مسلمانوں کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنی داخلی تنظیم اور اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔ 3؎‘‘ ابھی فساد کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ ایک مہینے کے اندر اندر ایک اور مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ 1923ء میں لاہور کے ایک بد باطن ہندو مصنف اور ناشر راج پال نے ’’رنگیلا رسول‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں حضور سرور کائنات ؐ کی مقدس ذات پر نہایت رکیک حملے کے گئے تھے۔ قدرتی طور پر مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ اٹھی اور اس نے ایک ایسے طوفان کی صورت اختیار کر لی کہ حکومت کو راج پال کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ چلانا پڑا۔ یہ مقدمہ دو تین سال تک چلتا رہا۔ آخر ماتحت عدالت نے راج پال کو دو سال قید سخت اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا دے دی۔ 4؎ راج پال نے ہائی کورٹ میں اپیل کر دی اور ہائی کورٹ کے جسٹس دلیپ سنگھ نے یہ کہہ کر راج پال کو بری کر دیا کہ اس مقدمے پر نہ دفعہ 153 الف کا اطلاق ہوتا ہے، نہ تعزیرات ہند کی کسی اور دفعہ کا۔ جونہی یہ فیصلہ شائع ہوا ، پورے برعظیم کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ اٹھی اور لاہور کے مسلمانوں کے ہیجان کا تو یہ عالم تھا کہ فسادات کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے حکام نے دفعہ 144 نافذ کر دی۔ پنجاب خلافت کمیٹی نے اس کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی اور مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور غازی عبدالرحمن اور ان کے کچھ ساتھی گرفتار بھی ہو گئے۔ مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ آیا حصول مقصد کا واحد طریقہ سول نافرمانی ہی ہے یا دوسری تدابیر بھی اختیار کی جا سکتی ہیں۔ علامہ اقبال اوربعض دوسرے اکابر کی رائے یہ تھی کہ سول نافرمانی سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایک وفد کی صورت میں گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور اس بات پر زور دیا کہ ایک ایسا قانون نافذ کیا جائے جس کی رو سے دل آزار تحریروں کی اشاعت کو جرم قرار دیا جائے۔ گورنرنے اس سلسلے میں مدد کا وعدہ کیا۔ بہرحال سول نافرمانی سے جو صورت پیدا ہوئی، اس پر غور کرنے کے لیے 8 جولائی 27ء کو مسلم رائے عامہ کے بعض رہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا جس کی صدارت شیخ عبدالقادر نے فرمائی۔ موصوف نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سول نافرمانی کی تحریک کو ملتوی کر دیں۔ کیونکہ اس سے خطرناک مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ علامہ نے اس مشورے کی تائید فرمائی۔ ان کارکنوں اور رہنماؤں کی تعریف فرمائی جو یہ سمجھتے ہوئے قید ہوئے کہ وہ ایک پاک مقصد کی خاطر ایثار کر رہے ہیں اور یہ بھی کہا کہ اس مصیبت میں ہمارے لیے فائدے کی یہ صورت نکلی ہے کہ ’’ جو مسلمان عملاً توحید پر جمع نہ ہوئے وہ نبوت پر متفق ہو گئے‘‘ اور اس طرح وہ اتحاد پیدا ہو گیا جس کی ضرورت عرصے سے محسوس ہو رہی تھی۔ 5؎ اس کے بعد10 جولائی کو بادشاہی مسجد میں جلسہ عام ہوا۔ مولانا عبداللہ قصوری صدر تھے اور شرکا میں علامہ اقبال، چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین، مولانا ظفر علی خان اور دوسرے رہنما شامل تھے۔ سب سے پہلے علامہ نے تقریر کی۔ دور ابتلا کے دو نتائج کو مبارک قرار دیا۔ اول: خانہ خدا میں مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ دوم: مسلمانوں کے وہ فرقے جو آپس میں دست و گریباں رہتے تھے، اس ابتلا کے دوران میں ایک ہو گئے۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ناموس رسولؐ کا تحفظ کیا جائے۔ اس کے لیے جدوجہد کی خاطر تمام قوتیں جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ دفعہ 144 کا نفاذ بے شک ناجائز ہے، لیکن اس کی خلاف ورزی میں اپنی قوتوں کا ضیاع مناسب نہیں اس لیے سول نافرمانی کا التوا ضروری ہے۔ علامہ نے گورنر سے ملاقات کا حال بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارے مطالبے کا ایک حصہ پورا کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے اسی قسم کا ایک اور مقدمہ ماتحت عدالت سے ہائی کورٹ میں منتقل کر دیا ہے۔ دو اڑھائی ماہ میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ اگر یہ ہمارے حق میں ہوا۔ تو پھر کسی مزید فیصلے کی ضرورت نہیں اس لیے اس کا انتظار کر لیا جائے۔ اس پر حاضرین کے ایک گروہ نے شور مچایا کہ جو کرا رہی ہے حکومت کرا رہی ہے۔ علامہ نے کہا آپ میرا مشورہ قبول نہیں کرتے تو اس پر عمل نہ کریں۔ اس پر آوازیں آئیں ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔ پہلے رہنماؤں کو چھڑاؤ۔ پہلے رضا کاروں کو چھڑاؤ۔ علامہ کے بعد چودھری افضل حق سٹیج پر آئے۔ سارے معاملے کی وضاحت کرنے کے بعد کہا۔ ’’ اقبال کی شخصیت نہ صرف ہندوستان میں مسلمہ ہے، بلکہ کرہ ارض کے تمام حصے ان کی اصابت رائے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم سر اقبال کا مشورہ قبول نہیں کرتے، تو اس کا مطلب خلافت کمیٹی کی عزت کو نہ صرف ہندوستان میں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے بلکہ ہندوستان سے باہر بھی۔‘‘ مولانا ظفر علی خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔’’ آپ نے ڈاکٹر اقبال کے حضور میں گستاخی کی ہے۔ یعنی ان کی تقریر کے دوران میں اعتراض کیا۔ اقبال پکا مسلمان اور سچا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ وہ روتا ہے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشق میں۔ وہ روتا ہے اسلام کی محبت میں۔ اس سے مجمعے کا رنگ بدل گیا اور آوازیں آئیں: ہم ڈاکٹر صاحب سے معذرت چاہتے ہیں یہ گستاخی سی آئی ڈی نے کی تھی، کسی مسلمان نے نہیں کی !6؎‘‘ ہم ایک گذشتہ باب میں بیان کر چکے ہیں کہ علامہ نے کونسل میں اس مضمون کی ایک قرار داد پیش کی تھی کہ حکومت ہند کوئی ایسا قانون نافذ کرے جس کی رو سے مذہبی دل آزاری پر مبنی لٹریچر کی اشاعت جرم قرار دی جائے۔ اور یہ کہ حکومت ہند نے ایسا قانون نافذ کر دیا تھا۔ اس دوران میں راج پال پر کیا گزری؟ واقعات کی کڑیوں کو مربوط رکھنے کی خاطر اس کا تذکرہ ضروری ہے۔ 27 ستمبر1927ء کو ایک مسلمان خدا بخش نے راج پال پر ناکام قاتلانہ حملہ کیا، جس کی پاداش میں اسے سات سال قید کی سزا ہوئی۔ دو ہفتے کے اندر اندر ایک اور نوجوان عبدالعزیز نے راج پال کو قتل کرنے کی کوشش کی یہ بھی ناکام رہی اور اسے چودہ سال قید کی سزا ہوئی۔ 6 اپریل 1929ء کو لاہور کے ایک اٹھارہ سالہ نوجوان علم الدین نے راج پال کے چھرا گھونپ دیا اور اس طرح شاتم رسول ؐ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ 7؎ علم الدین قدرتی طور پر مسلمانوں کا ہیرو بن گیا۔ اسے غازی کا لقب دیا گیا، اس کی بہادری اور جذبہ عشق رسولؐ کے گیت گائے گئے اور جب اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا، تو سارے برعظیم میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ مطالبہ کیا گیا کہ سزائے موت کا حکم عمر قید کی سزا میں بدل دیا جائے لیکن ایسا نہ ہوا۔ جب اس سر فروش نوجوان کو تختہ دار کی زینت بنایا گیا، تو علم الدین شہید کمیٹی بنائی گئی۔ اس میں علامہ اقبال، سر محمد شفیع، میاں فضل حسین، ملک لال دین قیصر اور دوسرے کارکن اور رہنما شامل تھے۔ اس کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے نعش کی حوالگی کا مطالبہ کیا، جو اس شرط پر قبول ہوا کہ یہ رہنما اس بات کی ضمانت دیں کہ امن قائم رہے گا۔ نعش مسلمانوں کے حوالے ہو گئی۔ ایک لاکھ مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھی اور اس کے بعد امن کے ساتھ منتشر ہو گئے۔ حضرت علامہ نے سوچا کہ علم الدین شہید کمیٹی کے پرچم تلے جو کارکن اور اخبار نویس اکٹھے ہوئے ہیں، ان کی قوتوں کو اس طرح بروئے کار لایا جائے کہ وہ ملکی سیاست میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ میں مددگار ہو سکیں۔ بالخصوص مسلمانان پنجاب کے حقوق کی حفاظت کے لیے۔ چنانچہ انہی کے مشورے سے مولانا عبدالمجید سالک کی صدارت میں کارکنوں کا ایک اجتماع ہوا۔ جہان چھپن فیصد کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کمیٹی کا نصب العین یہ تھا کہ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی چھپن فیصد ہے، اس لیے انہیں تمام جمہوری اداروں میں چھپن فیصد نیابت دلائی جائے۔ اس کمیٹی میں ملک لال دین قیصر، عبدالمجید قرشی، پروفیسر سید عبدالقادر، غلام مصطفی حیرت اور بہت سے دوسرے درد مند مسلمان شامل تھے۔ اس تحریک نے فوراً عوامی رنگ لے لیا۔ ہر طرف چھپن فیصد کا غلغلہ ہوا۔ رضا کاروں کے دستے منظم ہوئے۔ جلوس نکالے گئے۔ علامہ اس میں براہ راست شریک نہیں تھے لیکن پس پردہ رہنمائی کرتے رہے۔ اسی سال مرکزی اسمبلی میں شاردا بل پیش ہوا، جس کا مقصد یہ تھا کہ چودہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کی شادی ممنوع قرار دی جائے۔ اس کے خلاف علمائے کرام نے آواز بلند کی اور اسے مداخلت فی الدین قرار دیا۔ اس بارے میں علامہ کا نقطہ نگاہ نہایت متوازن تھا اور شریعت کے مطابق۔ وہ بچپن کی شادیوں کے خلاف تھے، لیکن کہتے تھے کہ اگر والدین اپنی مجبوریوں کے سبب بچوں کی شادیاں کمسنی میں کر دیں تو لڑکی کی رخصتی بلوغت پر پہنچنے کے بعد کریں۔ بہرحال وہ اصولاً مسلمانوں کی شریعت اور خانگی قوانین میں ایک اجنبی حکومت کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک اخباری انٹرویو میں کہا:’’ اس قانون کے بعد مذہب کوئی چیز نہیں رہے گا۔ جب اور جس طرح حکومت چاہے گی، مذہب کو قانون کے ذریعے سے توڑ مروڑ لے گی۔ اگر بالفرض محال اس قسم کا کوئی قانون بنانا ضروری اور لازمی تھا، تو شادی کے متعلق والدین کے وہ اختیارات، جو اسلام نے عوام کو دے رکھے ہیں ہرگز نہیں چھیننے چاہئیں تھے۔ بلکہ یہ قانون بنایا جاتا کہ شادی کے بعد جو والدین اپنی نابالغ بیٹی کو خاوند کے گھر بھیجیں گے، وہ مستوجب سزا ہوں گے۔ 8؎‘‘ یوں تو علامہ ساری دنیائے اسلام کے حالات و کوائف اور تعمیری رحجانات میں دلچسپی لیتے تھے، لیکن جغرافیائی قرب کی بنا پر افغانستان سے انہیں کچھ زیادہ ہی لگاؤ تھا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ افغانستان مدتوں برطانیہ اور روس کی طرف سے مداخلت کا شکار رہا اور اس پر سالہا سال تک برطانیہ کا تسلط رہا۔ اور اس کے بعد افغانستان نے اس جوئے کو اتار پھینکا اور آزادی کی نعمتوں سے لذت اندوز ہونے لگا اور جس تیسری افغان جنگ کے نتیجے میں افغانستان آزادی سے ہمکنار ہوا، وہ اسی دور میں لڑی گئی جب برعظیم کے مسلمان تحریک خلافت کی آزمائشوں سے گزر رہے تھے۔ افغانستان غازی امان اللہ خاں کے عہد میں آزاد ہوا، اس لیے اقبال کو غازی موصوف سے محبت بھی تھی اور عقیدت بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’ پیام مشرق‘‘ امان اللہ خان کے نام سے معنون کی اور ایک طویل نظم میں انہیں خراج عقیدت ادا کیا۔ ’’ پیام مشرق‘‘ کے دیباچے میں انہوں نے انتساب کی وجہ یوں بیان کی:’’ اس وقت دنیا میں او ربالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش، جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے۔ اس بنا پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرت فرماں روائے افغانستان کے نام نامی سے منسوب کیا ہے کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں اور افغانوں کی تربیت انہیں خاص طور پر مدنظر ہے۔ اس عظیم الشان کام میں خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو۔ 9؎‘‘ برطانیہ چاہتا تھا، کہ افغانستان آزادی کے بعد بھی اس کا مطیع رہے۔ لیکن امان اللہ خان ملت افاغنہ کو تعمیر اور ترقی کی راہ پر گامزن کرانے کے لیے آزاد خارجہ پالیسی کے قائل تھے۔ انہوں نے اشتراکی روس سے دوستی کا معاہدہ کیا، ترکیہ اور ایران سے بہتر مراسم پیدا کیے اور اس زمانے کی بڑی طاقتوں کو نظر انداز کر کے جرمنی سے تکنیکی معاہدات کیے۔ برطانیہ کو یہ طرز عمل پسند نہ آیا۔ بالخصوص اسے روس کے ساتھ گہرے تعلقات پر اعتراض تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں مغربی طاقتیں روس کو اچھوت سمجھتی تھیں۔ چونکہ امان اللہ خان دباؤ میں نہ آئے، اس لیے برطانیہ نے ان کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں او ربعض اصلاحات کے خلاف ملاؤں کو بھڑکا کر بغاوت کرا دی اور برطانوی مبصرین نے یہ چرچا کیا کہ بغاوت کی اصل وجہ اصلاحات کا نفاذ ہے۔ یہ بغاوت 14 نومبر1928ء کو شروع ہوئی اور 17جنوری 29ء کو حبیب اللہ عرف بچہ سقہ نامی ایک ڈاکو نے کابل پر قبضہ کر کے امان اللہ خان کو نکلنے پر مجبور کر دیا۔ بچہ سقہ نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور ملک میں انارکی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 26فروری29ء کو لاہور کے انگریزی روزنامے ’’ ٹریبیون‘‘ کے نامہ نگار خصوصی نے حضرت علامہ سے ان کا رد عمل دریافت کیا، تو انہوں نے کہا:’’ اہل ہند افغانستان کی آزادی اور اس کے اتحاد و استحکام کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ مغرب اور وسط ایشیا کا سیاسی انحطاط ہندوستان اور چین کی ترقی پر رجعت پسندانہ اثر کرے گا۔ اس لیے اب ان ممالک کے سیاست دانوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی نصب العین کی تنگ نظری وک ترک کر کے معاملات کو زیادہ وسیع نگاہ سے دیکھیں اور اپنی حکمت عملی کی تشکیل اس کے مطابق کریں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نہ صرف افغانستان کے مفاد بلکہ ایشیا کے وسیع تر اغراض و مقاصد کے لحاظ سے ضروری ہے، کہ شاہ امان اللہ خان کی حکومت برقرار رکھی جائے۔‘‘ جب ان سے اس انقلاب کے اسباب دریافت کئے گئے، تو انہوں نے کسی قطعی رائے کا اظہار سے اس بنا پر انکار کردیا کہ جو خبریں آ رہی ہیں وہ اعتماد کے قابل نہیں ہیں۔ بہرحال انہوں نے ایک وسیع تر تناظر میں اس رائے کا اظہار کیا:’’ اس امر کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ عال اسلامی میں قدامت پسندانہ جذبات اور لبرل خیالات میں جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اغلب ہے، کہ قدامت پرست اسلام بغیر جدوجہد کے سر تسلیم خم نہیں کرے گا۔ اس لیے ہر ایک ملک کے مسلم مصلحین کو چاہیے کہ نہ صرف اسلام کی حقیقی روایات کو غور کی نگاہ سے دیکھیں، بلکہ جدید تہذیب کی صحیح اندرونی تصویر کا بھی احتیاط سے مطالعہ کریں جو بے شمار حالتوں میں اسلامی تہذیب کی مزید ترقی کا درجہ رکھتی ہے۔ جو چیزیں غیر ضروری ہیں، ان کو ملتوی کر دینا چاہیے کیونکہ صرف چیزیں فی الحقیقت قابل لحاظ ہیں۔ یہ امر صحیح نہیں کہ مجلسی معاملات میں قدامت پسندانہ طاقتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے، کیونکہ انسانی زندگی اپنی اصلی روایات کا بوجھ کندھوں پر اٹھا کر منزل ارتقا طے کرتی ہے۔ 10؎‘‘ افغانستان میں حالات تیزی کے ساتھ بدلتے چلے گئے۔ غازی امان اللہ خاں وطن چھوڑ کر یورپ چلے گئے۔ ان کے بھائیوں سے حالات سنبھالے نہ گئے۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی محسوس کیا کہ بچہ سقہ کی حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی اور کوئی ایسی متبادل قیادت سامنے لانی چاہیے جس پر لوگ اعتماد کر سکیں۔ خود افغانستان کے اندر بھی بعض عناصر متبادل قیادت کے آرزو مند تھے۔ چنانچہ انہوں نے پیرس میں مقیم افغان سفیر جنرل نادر خان کو دعوت دی کہ وہ حالات سدھارنے کی سعی فرمائیں۔ ان کے نام سے یہ خوشگوار یاد بھی وابستہ تھی کہ انہوں نے افغانستان کی جنگ آزادی یا دوسرے لفظوں میں تیسری افغان جنگ میں ٹل کے مقام پر انگریزی فوج کے دانت کھٹے کیے اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ جنرل نادر خان اپنے تین بھائیوں کے ساتھ چلے برعظیم میں آئے اور اس کے بعد افغانستان میں داخل ہو گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے ان کی مدد کی۔ ایک تو ہتھیار فراہم کیے دوسرے یہ اجازت دی کہ آزاد قبائلی علاقے میں وزیری اور محسود قبائل کی مدد سے لشکر تیار کریں اس مدد کے پس پردہ برطانیہ کا یہ اندیشہ کار فرما تھا کہ کہیں سوویت یونین بعض عناصر کی مدد کر کے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم نہ کر لے۔ علامہ کی نظر سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں تھی، لیکن افغانستان کے وسیع تر مفاد میں ان کی آرزو تھی کہ جلد از جلد وہاں حالات نارمل ہو جائیں اور ایک پائیدار حکومت قائم ہو جائے۔ اس لیے انہوں نے افغانستان کی مدد جاری رکھی۔ جن دنوں نادر خان افغانستان میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے، انہوں نے علامہ کے نام یہ مکتوب لکھا:’’ آپ نے ا پنے ان عالی جذبات ہمدردانہ سے، جو آپ افغانستان کی موجودہ تباہ حالی کے متعلق رکھتے ہیں، مجھے اور افغانستان کے عام بہی خواہوں اور فدا کاروں کو ممنون و متشکر بنا دیا ہے۔ افغانستان تباہی کے نزدیک ہے، اس کی بے چارہ ملت کو بہت بڑے تہلکہ کا سامنا ہے۔ افغانستان اپنے ہندی بھائیوں کی ہر قسم کی امداد و اعانت کا محتاج ہے۔ آپ ایسے وقت میں جو خیر خواہانہ قلم اٹھا رہے ہیں، وہ ہمارے لیے ڈھارس کا موجب ہے۔ خصوصاً مالی امداد کا مسئلہ، جس کے متعلق میں اخبار’’ اصلاح‘‘ کے ذریعے سے اپنے ہندی بھائیوں کے لیے شائع کر چکا ہوں، بہت حوصلہ افزا ہے۔ امید ہے کہ جناب فاضل محترم جو روحاً افغانستان کی موجودہ مصیبت میں شریک ہیں، اس موقع پر اپنی مساعی سے کام لے کر افغانستان کی رنج زدہ قوم کو ہمیشہ کے لیے ممنون و مشکور فرمائیں گے۔ 11؎‘‘ اس اپیل کے جواب میں لاہور کے مسلم اکابر کا ایک اجتماع ہوا۔ علامہ نے صدارت فرمائی۔ فیصلہ ہوا کہ ’’ نادر ہلال احمر فنڈ‘‘ کھولا جائے۔ اس کا دفتر برکت علی اسلامیہ ہال میں کھول دیا گیا۔ اور حضرت علامہ نے عوام کے نام اپیل جاری کی کہ وہ خود بھی مالی امداد دیں اور کارکن بھی فراہم کریں۔ تاکہ ان کے ذریعے سے رائے عامہ کو حرکت میں لایا جا سکے اور زیادہ سے زیادہ فنڈ جمع کیا جا سکے۔ بہرحال انہی دنوں جنرل نادر خان کا لشکر کابل میں داخل ہو گیا اور 16 اکتوبر29ء کو انہوں نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد فنڈ جمع کرنے کی چنداں ضرورت باقی نہ رہی۔ ستمبر29ء میں ایک طرف افغانستان میں نادر خان کی جدوجہد اپنے آخری خونین مرحلے سے گزر رہی تھی، دوسری طرف فلسطین کے مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔ ان ہنگاموں کے دو پہلو تھے۔ بنیادی پہلو اور ہنگامی پہلو۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ حکومت برطانیہ 1917ء میں اعلان بالفور کے ذریعے سے عالمی صیہونی جماعت سے وعدہ کر چکی تھی کہ جنگ کے بعد فلسطین کو عربوں کے مفاد کو متاثر کیے بغیر، یہودیوں کا قومی وطن بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ ہر سال یہودیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین میں آباد ہونے لگی۔ عربوں نے قدرتی طور پر اس کے خلاف احتجاج کیا۔ کیونکہ اس اقدام سے ان کی آزادی سلب ہونے کا خطرہ تھا۔ یہ احتجاج مسلسل جاری تھا کہ ایک نیا ہنگامی مسئلہ اٹھا۔ وہ یہ کہ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے ایک حصے پر مالکانہ دعویٰ کیا اور وہ اس بنا پر کہ یہاں ہزار ہا سال پہلے ہیکل سلیمان کے نام سے ان کا معبد موجود تھا۔ اس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروقؓ یروشلم میں داخل ہوئے، تو ہیکل سلیمانی صدیوں پہلے نابود ہو چکی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اس کا مقام دریافت کیا اور اس جگہ کو اپنے ہاتھ سے صاف کر کے وہاں نماز ادا کی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے وہاں مسجد اقصیٰ تعمیر کر لی۔ ترکوں کے زمانے میں یہودیوں کی خواہش پر انہیں اجازت دی گئی کہ مخصوص اوقات میں مسجد کی دیوار براق کے ساتھ کھڑے ہو کر گریہ و بکا کر لیا کریں۔ اس رعایت سے یہ دیوار’’ دیوار گریہ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اب انگریزی تسلط کے زمانے میں یہودیوں کو آباد کاری کا حق حاصل ہوا، تو انہوں نے مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کی ملکیت کا دعویٰ کر دیا۔ اس پر فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ برعظیم کے مسلمان مشوش اور مضطرب ہوئے اور انہوں نے جا بہ جا جلسے کیے اور برطانوی سامراج کو اس صورت حالات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ لاہور میں جو احتجاجی جلسہ ہوا، اس میں تمام جماعتیں شامل تھیں۔ علامہ نے اس کی صدارت فرمائی اور صدارتی خطبے میں اس پورے مسئلے کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ یہودی بنیادی طور پر بنیا ہے۔ اسے تو سکونت کے لیے ایسی جگہ درکار تھی، جہاں وہ دوسروں کا استحصال کر سکے۔ اس لیے ان کا فلسطین میں آباد ہونا خود ان کے لیے مفید نہیں تھا۔ ’’ مگر چونکہ برطانوی مدبروں کا اصل مقصد کچھ اور تھا، اس لیے انہوں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلہ کار بنایا۔ صیہونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کئے گئے، ان میں سے ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہودی گریہ و بکا کے بجائے مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کے مالکانہ تصوف کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ انہوں نے آتش فساد مشتعل کر رکھی ہے۔ مسلمان، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں۔‘‘ علامہ نے صاف صاف لفظوں میں اعلان کر دیا کہ برطانیہ ان حالات کی تحقیقات کے لیے جو کمیشن فلسطین بھیج رہا ہے، اس پر مسلمانوں کو کوئی اعتماد نہیں۔13؎ اسی دور میں علامہ کی شعری اور علمی سرگرمیاں جاری رہیں 1927ء میں ان کی کتاب ’’ زبور عجم‘‘ چھپی۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں قطعات اور غزلیات ہیں۔ بقول سالک ’’ زبور عجم‘‘ میں اقبال کی فارسی غزل عین الکمال کو پہنچ گئی اور انہوں نے ثابت کر دیا کہ بلند سے بلند خیالات اور موثر سے موثر تلقینات کے لیے بھی غزل سے زیادہ زور دار صنف سخن موجود نہیں14؎ دوسرا حصہ ’’ گلشن راز جدید‘‘ ہے۔ اس میں علم اور عشق اور مقصود حیات کو ایک نئے اندازے میں پیش کیا گیا۔ علامہ کو یہ حصہ لکھنے کا خیال یوں آیا کہ محمود شبستری کی ایک کتاب ’’ گلشن راز‘‘ مدتوں سے موجود تھی۔ اس میں سوال و جواب کی صورت میں فلسفہ اور تصوف کے بعض مسائل منظوم تھے۔ لیکن جو نظریات پیش کئے گئے، اقبال کے نزدیک وہ روح اسلام کے منافی تھے۔ اقبال نے انہی سوالات کے جواب اپنے مطالعہ کی روشنی میں دیے۔ اسی اعتبار سے اسے ’’ گلشن راز جدید‘‘ کا نام دیا گیا۔’’ زبور عجم‘‘ کا تیسرا حصہ’’ بندی نامہ‘‘ ہے۔ اس میں پہلے غلامی او رمحکومی پر روشنی ڈالی گئی، پھر غلاموں اورمحکوموں کے فنون لطیفہ پر تبصرہ کیا گیا۔ 1927ء میں علامہ نے لاہور میں دو اہم لیکچر دیے۔ ایک سائنس اور مذہب پر، دوسرا اسلامی ثقافت کی روح پر۔ دونوں لیکچر انگریزی میں دیے کیونکہ بعض مباحث اسی زبان میں ہو سکتے تھے۔ بہرحال دونوں لیکچروں کے بعد انہوں نے اردو زبان میں ان کے خلاصے بیان کر دیے۔ سائنس اور مذہب پر لیکچر کے دوران میں کہا:’’ مذہب، فلسفہ، طبیعیات اور دیگر علوم و فنون سب کے سب مختلف راستے ہیں جو ایک ہی منزل مقصود پر جا کر ختم ہوتے ہیں۔ مذہب اور سائنس کے تصادم کا خیال اسلامی نہیں۔ کیونکہ سائنس یعنی علوم جدیدہ ا ور فنون حاضرہ کے باب کھولنے والے تو مسلمان ہی ہیں۔15؎‘‘ اسلامی ثقافت کی روح پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ نے کہاـ’’اسلام کا عندیہ یہ ہے کہ حقیقت کا مشاہدہ مردانہ وار کیا جائے۔ یہی اسلامی آئیڈیل ہے۔ اسلامی نقطہ خیال میں یہی معراج ہے کہ مشاہدہ ذات کے بعد بھی عبودیت قائم رہے۔ لیکن تمرد و سرکشی نہیں۔ بلکہ خدمت و عبدیت کے لیے مسلم کو کسی چیز میں فنا نہیں ہونا چاہیے گو یہ فنا فی اللہ کیوں نہ ہو۔ 16؎‘‘ 30مئی 1927ء کو مولانا گرامی انتقال کر گئے۔ علامہ کے لیے یہ صدمہ بہت جانکاہ تھا۔ کیونکہ ایک تو گرامی اپنے دور کے بہت بڑے فارسی شاعر تھے۔ دوسرے حضرت علامہ کے دوست ہی نہیں نیاز مند بھی تھے۔ دونوں کے درمیان مدتوں خط و کتابت رہی جو بنیادی طور پر علمی نوعیت کی حامل تھی۔ پھر اقبال اگر فکر شعر کے سلسلے میں یا زبان کے بارے میں کسی سے مشورہ لیتے تھے، تو وہ گرامی ہی کی ذات گرامی تھی! خود مولانا گرامی جو رائے علامہ کے متعلق رکھتے تھے اس کا بھر پور اظہار ان کے اس شعر میں ہوا ہے: در دیدہ معنی نگہاں، حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت! ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات20, 22(بحوالہ ’’ زمیندار‘‘ 2 فروری 1927ئ) 2۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات28, 34(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 12, 15مئی 1927ئ) 3۔ایضاً، صفحات34, 37 (بحوالہ’’ انقلاب‘‘ 26مئی1927ئ) 4۔روزگار فقیر، جلد اول، صفحات109, 110 5۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات39, 41 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 10جولائی 1927ئ) 6۔ایضاً، صفحات41, 46 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 12 جولائی 1927ئ) 7۔’’ روزگار فقیر‘‘ جلد اول صفحات110, 111 8۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات94, 97 9۔’’ پیام مشرق‘‘ دیباچہ صفحات م۔ ن 10۔’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات84, 86 (بحولہ’’ انقلاب‘‘ یکم مارچ1929ئ) 11۔ایضاً، ص98(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 2اکتوبر1929ئ) 12۔ایضاً، صفحات98, 100 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 11اکتوبر1929ئ) 13۔ایضاً، صفحات91, 94 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 10ستمبر1929ئ) 14۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات293, 294 15۔’’ گفتار اقبال‘‘ ص23 (بحوالہ ’’ زمیندار‘‘ 6مارچ1927ئ) 16۔ایضاً، ص25(بحوالہ ’’ زمیندار‘‘ 20اپریل1927ئ) ٭٭٭ انیسواں باب اپر انڈیا مسلم کانفرنس حضرت علامہ کے بارے میں دو تاثرات عام ہیں۔ اول: وہ ایک فلسفی، مفکر اور شاعر تو تھے، لیکن اصلاً میدان سیاست کے کھلاڑی نہیں تھے۔ دوم: انہوں نے علیحدہ مسلم مملکت کا خواب دیکھا تو اس وقت جب خطبہ الہ آباد ارشاد فرمایا۔ یہ دونوں تاثرات غیر صحیح ہیں اور نا درست معلومات پر مبنی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک گھنیر، مستقبل شناس سیاست دان تھے۔ ان کی سرگرمیاں صرف وہ نہیں، جو منظر عام پر آتی رہیں وہ پس پردہ بھی مصروف رہے۔ پبلک سرگرمیوں کا مقصد یہ تھا کہ ایک متحدہ ہندوستان ہی کو وجود میں آنا ہے تو یہ ایک دو قومی وفاقی مملکت ہو۔ جس کے مسلمان صوبے اندرونی طور پر خود مختار ہوں۔ اور پس پردہ سرگرمیوں کا منشا یہ تھا کہ ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے قیام کے لیے زمین ہموار کی جائے۔ اس سلسلے میں ایک مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ 1928ء کے اواخر میں، جب نہرو رپورٹ کا بڑا چرچا تھا اور مسلمان اس کے خلاف نبرد آزما تھے، ان دنوں’’ انقلاب‘‘ میں مولانا مرتضیٰ احمد خان کے چار مضامین یکے بعد دیگرے شائع ہوئے۔ جن میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا تصور پیش کیا گیا پہلے مقالے کا عنوان تھا’’ مسلمانان ہند کی اجتماعی سیاسی زندگی: فکر و عمل کے انتشار کا درد ناک مظاہرہ1؎‘‘ اس میں اس زمانے کی سیاسی صورت حالات میں مسلمانوں کے سیاسی کردار کے اس پہلو پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ان کی قوتیں منتشر ہیں۔ دوسرے مقالے کا عنوان تھا’’ مسلمانان ہند کا سیاسی نصب العین: برادران وطن کی روش کا موازنہ2؎‘‘ اس میں بتایا گیا کہ نہرو رپورٹ سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہندو قوم ایک مضبوط مرکزی حکومت کے ذریعے سے ہندو راج کا قیام چاہتی ہے اور اس مسئلے پر ہندوؤں کے تمام عناصر متحدہ ہیں اور وہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو کر اپنی قوتوں کا ضیاع نہیں کرتے۔ تیسرے مقالے کا عنوان تھا’’ مسلم ہندی کے لیے وطن کی ضرورت: ہندوستان کی سیاسی الجھنوں کا واحد حل۔ 3؎‘‘ اس میں مسائل کے گہرے تجزیے کے بعد لکھا گیا: ’’ ان حالات کے اندر یہ اشد ضروری ہے کہ مسلمانان ہند کے لیے بھی ایک ایسا وطن پیدا کیا جائے جسے وہ اپنا گھر سمجھیں اور جہاں رہ کر وہ اپنی تہذیب، اپنے افکار اور اپنے تمدن و معاشرت کو اپنی منشا اور خواہش کے مطابق ترقی دے سکیں۔ اس طرح کا وطن پیدا کرنا کوئی نئی نظیر نہیں بلکہ سیاسیات عالم کے دور حاضر میں اس قسم کی متعدد مثالیں مل سکتی ہیں۔ جنگ عظیم نے ہر قوم کے لیے ایک وطن پیدا کر دیا ہے۔‘‘ اس کے بعد مثال کے طور پر پولینڈ، چیکو سلوواکیہ اور عرب ممالک کے حق خود ارادیت کا تذکرہ کیا گیا۔ کہ’’ اتحاد جماہیر شورائیہ روس(سوویت یونین) نے بھی اپنی مملکت کی تقسیم اسی طرح کی ہے کہ ہر قوم کو جو جداگانہ تمدن و معاشرت رکھتی تھی یا نسل و تاریخ کے اعتبار سے دوسروں سے ممتاز تھی، ایک وطن دے دیا ہے۔ چنانچہ ازبکستان، ترکمانستان اور قفقاز کی مختلف ریاستوں آزربائیجان، ارمنستان اور گرجستھان کی تحدید و تقسیم اسی اصول کی مرہون احسان ہے۔‘‘ اور آگے چل کر لکھا کہ ’’ مسلمانان ہند کے لیے وطن پیدا کرنے کے واسطے کوئی بہت بڑی جستجو کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ او ربلوچستان کو یکجا تصور کر کے مسلمانان ہند کو ایک بنا بنایا وطن مل سکتا ہے۔ اس وطن کی تعمیر، اس کی آزاد، اس کی ترقی و اصلاح مسلمانوں کی سیاسی زندگی کی روح و رواں ہو سکتی ہے اور اس سے ان کے خیالات و افکار میں یکسانی و وحدانیت، ان کے قلوب میں اطمینان و سکون اور ان کی روحوں کے اندر جوش عمل اور جذبہ فداکاری پیدا کیا جا سکتا ہے۔‘‘ مقالے میں کہا گیا کہ اس طرح ہندو اور مسلمان دونوں اپنی اپنی جگہ جذبہ وطنیت سے سرشار ہو کر اجنبی اقتدار سے نجات پانے کی سعی کر سکیں گے۔ اس دور میں پنجاب کا سب سے بڑا ہندو روزنامہ ’’ پرتاپ‘‘ تھا اور اس کے مدیر مہاشے کرشن ہندوؤں میں قابل ترین اداریہ نگار شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ مسلمانوں نے جو بھی مطالبات اب تک پیش کیے ہیں، ان میں الگ وطن ہی کا تصور مضمر ہے اور ’’ مسلمان اس کافرستان میں اسلامستان بسانا چاہتے ہیں۔ 4؎‘‘ مولانا مرتضیٰ احمد خان نے حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر اپنے موقف کو دہرایا اور آخر میں لکھا کہ ’’ کیا ہی اچھا ہو کہ مسلمان ہندوؤں اور ہندو مسلمانوں سے بے فکر ہو کر اپنے اپنے وطن کو آزاد کرانے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے بجائے اپنی تمام قوتیں اجنبی اقتدار کے خاتمے کے لیے وقف کر دیں۔‘‘ اس آخر مقالے کا عنوان تھا’’ مسلم ہندی کے لیے وطن کی ضرورت: پرتاپ کی وساطت سے ہندو ذہنیت کی نقاب کشائی۔ 5؎‘‘ پاکستان بننے کے بعد میں نے والد مرحوم مولانا عبدالحمید سالک سے پوچھا کہ یہ مقالات مولانا مرتضیٰ احمد خان نے اپنے آپ لکھے یا کسی کے کہنے پر؟ انہوں نے بتایا کہ علامہ کے ہاں ہمارا روز کا آنا جانا تھا اور ملاقاتوں میں سیاسی مسائل ہی بیشتر زیر بحث آتے تھے۔ بالخصوص اس زمانے میں جب سائمن کمیشن کے مقاطعہ اور نہرو رپورٹ کے چکر چل رہے تھے اور علامہ اس وقت بھی علیحدہ مسلم مملکت کے قیام ہی کو ہندو مسلم مسئلے کا حل سمجھتے تھے لیکن مسلم لیگ سے وابستگی کی بنا پر وہ اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اس قسم کی تجویز پبلک طور پر خود پیش کرتے۔ اگر کرتے تو باقی مسلم قیادت سے ان کا رابطہ ٹوٹ جاتا۔ چونکہ ہم مدیران ’’ انقلاب‘‘ (مہرو سالک) علامہ اقبال کی رہنمائی میں مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے، اس لیے ہم بھی اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اس قسم کی انقلابی تجویز کو پیش کرتے۔ پس باہمی مشورے سے فیصلہ ہوا کہ ہندوؤں کا رد عمل معلوم کرنے کے لیے یہ تجویز مولانا مرتضیٰ احمد خان کی وساطت سے پیش کرائی جائے جو ’’ انقلاب‘‘ میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور پالیسی کے ذمہ دار نہیں تھے۔ علامہ نے مولانا موصوف کی مفصل رہنمائی (Breifing) کی اور نتیجے میں یہ مقالات چھاپے گئے۔ دسمبر28ء کے اواخر میں انڈین نیشنل کانگرس نے گاندھی جی کی تحریک پر حکومت برطانیہ کو الٹی میٹم دے دیا کہ اگر31 دسمبر29ء تک نہرو رپورٹ میں مندرجہ دستور مکمل طور پر نافذ العمل نہ کیا گیا تو کانگرس ایک عوامی سول نافرمانی کا آغاز کرے گی۔ اس الٹی میٹم کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔لیکن اس سال موسم گرما میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ارون برطانیہ گئے اور ارباب بست و کشا سے مشورے کے بعد لوٹے تو یہ بیان دیا کہ حکومت برطانیہ کا نصب العین یہی ہے کہ ہندوستان کو درجہ نو آبادیات دیا جائے۔ لیکن اس نصب العین تک پہنچنے کے لیے ارتقائی عمل کی ضرورت ہو گی۔ اس کے بعد لارڈ ارون نے اکتوبر29ء کے اواخر میں اعلان کیا کہ آئینی مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے لندن میں ایک گول میز کانفرنس بلائی جائے گی اور اس میں شرکت کے لیے تمام سیاسی عناصر کے نمائندے مدعو کیے جائیں گے۔ اس پر علامہ اقبال، سر محمد شفیع، مولوی غلام محی الدین قصوری، خلیفہ شجاع الدین، شیخ نیاز محمد، میاں عبدالعزیز، میاں شاہ نواز اور سید محسن شاہ نے ایک مشترکہ بیان 3نومبر کو جاری کیا۔ اس میں گول میز کانفرنس کے تصور کے خیر مقدم کیا گیا۔ برطانوی حکومت کے اس اصول کو مدبرانہ فعل قرار دیا گیا کہ ہندوستان کو آگے چل کر درجہ نو آبادیات دیا جائے گا۔ بہرحال ان اکابر نے اس رائے کا اظہار کیا کہ کانفرنس کی کامیابی کا دار و مدار دو شرطوں کی تکمیل پر ہے۔ اول: ہندو مسلم اختلافات کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہی طے کر لیے جائیں۔ دوم: کانفرنس میں تمام قوموں کے صرف حقیقی نمائندوں کو بلایا جائے۔ ان رہنماؤں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ ’’ اگر مختلف مفادات کے حقیقی نمائندوں کے انتخاب کا خیال نہ رکھا گیا اور زیادہ شور مچانے والے طبقے کو مطمئن رکھنے کے اضطراب کو دستور عمل بنا لیا گیا تو کانفرنس یقینا ناکام رہے گی۔ 6؎‘‘ جوں جوں انڈین نیشنل کانگرس کا لاہور سیشن قریب آ رہا تھا اور یہ حقیقت کھل رہی تھی کہ کانگرس ہندو مسلم سیاسی تصفیے سے بے نیاز ہو کر اور مسلمانوں کی رائے عامہ سے بالا رہ کر عوامی سول نافرمانی کے ذریعے سے اپنی من مانی کرنے پر تلی بیٹھی ہے، توں توں حضرت علامہ بے چین ہو رہے تھے کہ کوئی ایسی صورت نکلے کہ مسلمانوں میں مکمل اتحاد ہو جائے اور وہ متحدہ انداز میں اپنے مطالبات پورے کرا سکیں۔19دسمبر29ء کو نواب سر ذوالفقار علی خان کے زیر صدارت برکت علی اسلامیہ ہال میں سیاسی صورت حال پر غور کے لیے جو جلسہ ہوا، اس میں علامہ نے ان الفاظ میں اپنے احساسات کا اظہار کیا:’’ آپ اگر اپنی حالت پر رحم نہیں کرتے، تو خدا کے لیے آنے والے مسلمانوں کے تحفظ حقوق کے لیے کچھ کرو۔ تمام سٹیجوں کو جلا دو اور ایک متحدہ سٹیج بناؤ اور آئندہ ہونے والی گول میز کانفرنس میں جانے سے پیشتر ایک کانفرنس کر لو۔ ہندوؤں کو ایک موقع دو۔ محض اتمام حجت کے لیے، تاکہ ان سے مفاہمت اگر ممکن ہو تو ہو جائے، گو مجھے اس کا یقین نہیں انگلستان متحد ہو گا۔ ہندوستان کو بھی متحد ہونا چاہیے اور متحدہ ہندوستان کو انگلستان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ پہلے مسلمان آپس میں اتحاد کریں پھر ہندو اور مسلم کا اتحاد ہو گا۔ صوبجاتی حکومتیں آزا دہوں یعنی فیڈرل حکومت ہو تو پچیس فیصد مسلمان بھی اسمبلی میں جائیں تو کوئی اندیشہ نہیں۔7؎‘‘ دسمبر1929ء کے اواخر میں لاہور میں انڈین نیشنل کانگرس کا سالانہ اجلاس ہوا۔ چونکہ حکومت کو الٹی میٹم کی میعاد ختم ہو گئی تھی، اس لیے درجہ نو آبادیات کی جگہ کامل آزادی کا حصول کانگرس کا نصب العین قرار پایا۔ اس رعایت سے نہرو رپورٹ کی تدفین کا اعلان کر دیا گیا۔ فیصلہ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی جائے۔ اس کا آغاز مارچ30ء میں گاندھی جی کے ہاتھوں ہوا اور انہوں نے نمک کی تیاری کے سلسلے میں سرکاری اجارے کے قوانین کی خلاف ورزی کی۔ اس کے ساتھ ہی بدیشی کپڑے اور شراب کی دکانوں پر پکٹنگ شروع ہو گئی۔ اس تحریک میں بہت کم مسلمان شامل تھے۔ مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر محمد عالم اور دوسرے لیڈر پکڑے گئے۔ جیسا کہ ایسی تحریکوں میں اکثر ہوتا ہے۔ اس تحریک نے بھی متشددانہ روپ لے لیا۔ مشرقی بنگال میں انقلاب پسندوں نے دہشت انگیزی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صوبہ سرحد کے مسلمان کانگرس میں شامل نہیں تھے، لیکن وہاں انگریزوں کی اشتعال انگیزی کے طفیل خونیں ہنگامے ہوئے۔ ایک مرحلے پر تو پشاور پر کچھ دیر عوامی کنٹرول رہا۔ حکومت نے بے پناہ تشدد سے کام لیا۔ چوک یادگار شہیدوں کے خون سے لالہ رنگ ہو گیا۔ ہزار ہا مسلمان پکڑے گئے۔ خان عبدالغفار خان انہی میں شامل تھے۔ وہ اصلاً محض پٹھانوں کے حقوق کے لیے لڑتے تھے لیکن جب انہیں گجرات جیل میں کانگریسی رہنماؤں کے ساتھ رکھا گیا، تو انہوں نے کانگرس کا اثر قبول کر لیا اور سرحدی گاندھی کے نام سے پکارے جانے لگے۔ بہرحال صوبہ سرحد کے سوا باقی سارے برعظیم میں مسلمان من حیث القوم اس تحریک سے الگ رہے۔ جون1930ء میں سائمن کمیشن رپورٹ چھپ گئی۔ آٹھ سو صفحات کی اس بھاری بھر کم دستاویز میں سفارش کی گئی کہ صوبوں میں دو عملی ختم کی جائے۔ صوبائی خود مختاری کا اصول مان لیا جائے۔ برعظیم میں وفاقی نظام قائم کیا جائے۔ گورنروں کے اختیارات بڑھا دیے جائیں۔ ووٹروں کے اوصاف اتنے کم کر دیے جائیں کہ دس فیصد آبادی کو ووٹ کا حق حاصل ہو جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ صوبوں کی حدود کے ادل بدل کے لیے انکوائری کمیٹی بٹھائی جائے۔ا س رپورٹ کو نہ ہندوؤں نے پسند کیا نہ مسلمانوں نے۔ حضرت علامہ نے نواب سر ذوالفقار علی خان کی رفاقت میں ایک بیان جاری کیا۔ 8؎ جس میں رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ نکات پیش کئے: اول: فیڈرل اسمبلی کی ترتیب پسندیدہ ہے۔ صوبائی خود مختاری کو بھی تسلیم کرنا مناسب ہے لیکن یہ واضح اور نمایاں نہیں ہے۔ دوم: آٹھ صوبوں میں سے چھ صوبوں میں ہندو اکثریتی حکومتیں قائم ہو جائیں گی لیکن پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں سے جمہوری حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ کیونکہ پنجاب میں انہیں غیر مسلموں کے مساوی نیابت دی گئی ہے اور بنگال میں اقلیت بنا دیا گیا ہے۔ سوم: سندھ کی علیحدگی کے مسئلے سے عملی طور پر بے پرواہی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ متنازعہ فیہ مسئلہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنے دے گا، جب تک نئے دستور کے نفاذ سے قبل اس کا کوئی اطمینان بخش تصفیہ نہیں ہو جاتا۔ چہارم: شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان کے بارے میں ہمیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔ ان دو صوبوں کے ساتھ دوسرے صوبوں سے مختلف سلوک کرنا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں۔ پنجم: سائمن کمیشن نے یا تو میثاق لکھنو کو پیش نظر رکھا ہے یا ان چند مسلمانوں کا مشورہ قبول کیا ہے جنہیں رائے عامہ مسترد کر چکی ہے۔ آخر میں ان دو رہنماؤں نے کہا:’’ رپورٹ کی سفارشات کی تہ میں جو پالیسی کار فرما ہے، اس کا مطلب ہمارے نزدیک اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں کے اہم مطالبات کو ٹھکرا کر انتہا پسند ہندوؤں کو خوش کرنا مقصود ہے۔ اس وقت جو فوری مسئلہ مسلمانوں کے پیش نظر ہے، وہ یہ ہے کہ آیا ان حالات میں وہ اقلیت کی حیثیت سے گول میز کانفرنس میں شرکت کریں یا نہ کریں۔ ہماری رائے صاف طور پر یہ ہے کہ جب تک حالات ایسی صورت اختیار نہ کر لیں جو مسلمانوں کے مطالبات کے لیے مفید ہو، کانفرنس میں ہماری شرکت سے قوم کو بجائے فائدے کے نقصان ہیو گا۔ ہم مسلمانان ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فی الفور ایک جداگانہ طریق عمل پر گامزن ہونے کے لیے اپنی طاقتوں کو مرتکز کریں۔‘‘ بہرحال مسلمانوں کی قیادت اتنی باشعور نہیں تھی کہ کانفرنس میں شرکت سے پہلے سودے بازی کی سیاست چلائے یا کم از کم اپنی صفوں ہی میں اتحاد پیدا کر لے۔ رہی یہ بات کہ مسلمان گول میز کانفرنس کا مقاطعہ کریں تو ا سکی توقع ایک عافیت کوش قیادت سے کرنا شاید سرے ہی سے غلط تھا۔ انہی دنوں برطانوی انتخابات میں لیبر پارٹی پھر کامیاب ہو گئی اور اس کی حکومت نے سائمن کمیشن رپورٹ کو طاق پر رکھ دیا اور گول میز کانفرنس بلا لی۔ اس میں کانگرس تو شریک ہی نہ ہوئی کیونکہ وہ تو سول نافرمانی کی تحریک چلا رہی تھی اور اپنیا ٓپ کو بلا شرکت غیرے سب کی نمائندہ تصور کرتی تھی۔ اس کانفرنس میں کل نواسی (89) مندوب شریک ہوئے۔ ان میں سے اٹھاون مندوبین برطانوی ہند کے مختلف فرقوں اور مفادات کی نمائندگی کے لیے نامزد ہوئے تھے۔ باقی مہاراجگان ہند اور برطانیہ کی سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ ہندوستانی نمائندوں نے اپنی قیادت کے لیے سر آغا خان کو چن لیا۔ کانفرنس کے ابتدائی دور میں مسلمان مندوبین کا کردار کیا رہا؟ اس بارے میں ڈاکٹر عبدالحمید لکھتے ہیں: مسلمانوں کی پوزیشن خاص طور پر مشکل تھی۔ برطانیہ کی لیبر وزارت واضح طور پر علیحدگی کی سیاست کو ناپسند کرتی تھی۔ اس نے حکومت خود اختیاری خاصی حد تک دینے کی تجویز کی اور اس بات پر آمادہ تھی کہ جو مسائل مسلمانوں کے نزدیک زیادہ بنیادی تنازعات کی حیثیت رکھتے تھے، ان کے حل نہ ہونے کی صورت میں بھی اپنے فیصلے صادر کر دے۔ اس پوزیشن سے ہندو مندوبین مکمل طور پر مطمئن تھے اور انہوں نے ایک سخت رویہ اختیار کر لیا۔ بعض مسلمان مندوبین مایوس بھی تھے اور حوصلہ بھی ہار گئے۔ وہ مضطرب تھے کہ حکومت وقت کے ساتھ مطابقت جاری رکھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے مطالبات میں خاصی لچک پیدا کر لی اور ہندوؤں کے ساتھ مفاہمت کے راستے تلاش کرنے لگے۔ 9؎ مسلمان مندوبین کی کیفیت یہ تھی کہ سر محمد شفیع جو جداگانہ انتخاب کے حق میں زبردست مہم چلا چکے تھے، اب اسے چھوڑ کر دوسری تجاویز منوانے کی سعی کرنے لگے اور ہندوؤں کی کم نظری ملاحظہ ہو کہ وہ اس کے باوجود کچھ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ایسے میں حضرت علامہ نے سر آغا خان کے نام یہ برقیہ بھیجا: ’’ تازہ خبریں اضطراب انگیز آ رہی ہیں۔ مسلمانان پنجاب کی رائے عامہ دہلی مسلم کانفرنس (آل پارٹیز مسلم کانفرنس) کی منظور کردہ قرار دادوں پر قائم ہے اور ان میں رد و بدل کو ناقابل برداشت خیال کرتی ہے۔ اگر کوئی رد و بدل کیا گیا تو مسلم مندوبین پر اعتماد نہیں رہے گا۔ اسگر ہندو مسلم مطالبات کو نہیں مانتے تو مسلمان کانفرنس کو چھوڑ کر چلے آئیں۔10؎‘‘ قریب قریب اسی مضمون کا ایک برقیہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر نواب اسماعیل خان نے سر آغا خان کو بھیجا اور صاف صاف کہہ دیا کہ مسلمان کسی حالت میں بھی جداگانہ انتخاب کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چند دنوں کے اندر اندر مسلم سیاست میں ایک ڈرامائی تبدیلی واقع ہوئی، جس کے ہیرو حضرت علامہ تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ گول میز کانفرنس میں مسلمان مندوبین ہندوؤں کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں، تو انہوں نے مدیران ’’ انقلاب‘‘ مہر و سالک، مدیر ’’ سیاست‘‘ سید حبیب اور مدیر’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ مجد ملک کو بلا کر تبادلہ خیال کیا اور انہی کے مشورے پر ’’ انقلاب‘‘ نے ایک مقالہ افتتاحیہ میں یہ تجویز پیش کی کہ شمالی ہند کے مسلمان اپنے مخصوص مسائل پر غور کرنے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کریں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی ایک علاقائی کانفرنس کرانے کا منصوبہ باندھا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے کانفرنس صوبائی اور کل ہند سطح پر ہوا کرتی تھیں۔’’ انقلاب‘‘ کے افتتاحیے کے آخر میں کہا گیا کہ شمالی ہند کے مسلمانوں کی کانفرنس کی ضرورت بہت عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی لیکن تازہ حالات نے اسے نہایت ضروری بنا دیا۔ جب تک صوبوں پر مرکز کا کنٹرول ڈھیلا نہیں ہوتا، سندھ، صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات کا نفاذ نہیں ہوتا اور پنجاب میں جداگانہ انتخاب کے ذریعے سے مسلم اکثریت کا تیقن نہیں ہوتا، شمالی ہند کے مسلمانوں کا سیاسی وجود خطرے میں رہے گا۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ آج وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ اس خطے کے مسلمان سوچیں کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے کون سے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ا گر وہ اس نازک مرحلے پر خاموش رہے تو ہمیشہ کے لیے کف افسوس ملیں گے۔ 11؎ یہ اداریہ 20نومبر کے شمارے میں چھپا، جس پر رواج کے مطابق ایک دن بعد کی تاریخ 21 نومبر دی گئی تھی۔ اسی دن حضرت علامہ نے گول میز کانفرنس میں مسلم مندوبین کے طرز عمل کے خلاف’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ کو انٹرویو دیا اور اس کے دوران میں کہا:’’ یہ تجویز پیش ہو چکی ہے کہ شمال مغربی ہند اور پنجاب کے مسلمان لاہور میں ایک اجلاس منعقد کر کے بیان کردہ مفاہمت کے متعلق اپنی رائے کا پر زور طریق پر اظہار کریں۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کو بہ اعتبار آبادی اکثریت حاصل ہے، ان میں حصول اکثریت کے لیے اصرار ضروری ہے۔ مجوزہ کانفرنس میں پنجاب کے مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مندوبین (گول میز کانفرنس کے) متعلق ان کی روش کیا ہو گی۔ نیز یہ کہ ان کے کیے ہوئے سمجھوتے کو قبول کر لینا چاہیے یا مسترد کر دینا چاہیے۔ 12؎‘‘ 23نومبر1930ء کو حضرت علامہ نے لاہور کے مسلم اکابر کا ایک اجلاس برکت علی اسلامیہ ہال میں بلایا جس میں ان حضرات نے شرکت کی۔ علامہ اقبال، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر، مولوی محمد علی، خان سعادت علی خان، حکیم محمد شریف، مولوی غلام محی الدین قصوری، میاں حق نواز، حاجی میر شمس الدین، سید محسن شاہ، خلیفہ شجاع الدین، مولوی فضل الدین، سردار حبیب اللہ خان، ملک محمد دین، میاں فیروز الدین، سید حبیب، سید مراتب علی شاہ، فضل کریم، عبداللہ، محبوب الٰہی، میر عزیز الدین، خیر الدین اور مجید ملک۔ حضرت علامہ نے جلسے کی صدارت فرمائی اور افتتاحی تقریر میں بتایا کہ ’’ حالات حاضرہ کے اعتبار سے شمالی ہند کے مسلمانوں کی ایک خاص کانفرنس کا انعقاد ضروری ہے جس میں صوبہ سرحد، بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے نمائندے شریک ہوں اور ان صوبوں کے مسلمانوں کو اسلامی حقوق کے حصول کے لیے منظم بنانے اور ان میں جوش و خروش پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔‘‘ علامہ نے کانفرنس کا جو ڈھانچہ تجویز کیا اور جس سے سب نے اتفاق کیا، وہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے ڈھانچے سے ملتا جلتا تھا۔ کیونکہ فیصلہ ہوا کہ اس کانفرنس میں چاروں صوبوں کی مجالس قانون ساز، بلدیات اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کے مسلم ارکان، مختلف اسلامی تنظیموں کے نمائندے اور خطے کے دوسرے نمایاں مسلمان رہنماؤں کو مدعو کیا جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت صرف پنجاب میں مجلس قانون ساز موجود تھی۔ سندھی مسلمان بمبئی اسمبلی کے رکن ہوتے تھے، سرحد اور بلوچستان آئینہ اصلاحات سے محروم تھے، اس لیے مجالس قانون ساز کے مسلم ارکان سے مراد تھی پنجاب کونسل کے مسلم ارکان، بمبئی کونسل کے سندھی مسلمان ارکان اور مرکزی اسمبلی میں ان خطوں کے مسلمان ارکان۔ جو حضرات اس اجلاس میں شریک تھے، وہ سب کے سب مجلس استقبالیہ کے رکن بن گئے۔ علامہا قبال صدر منتخب ہوئے، مجید ملک سیکرٹری اور خان سعادت علی خان فنانشل سیکرٹری۔ 13؎ مجلس استقبالیہ کے دوسرے اجلاس سے پہلے بعض لوگوں نے یہ دو سوال اٹھائے: 1۔ کیا اس کانفرنس کے انعقاد کا مطلب یہ ہے کہ شمالی ہند کے مسلمانوں کو باقی ہندوستان کے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں؟ 2۔ اگر بنگال کے مسلمانوں کے مسائل شمال مغربی خطے کے مسلمانوں کے مسائل سے ملتے جلتے ہیں، تو ا س کانفرنس سے بنگال کے مسلمانوں کو کیوں الگ رکھا جائے؟ حضرت علامہ کی طر ف سے’’ انقلاب‘‘ نے پہلے سوال کا جواب دیا کہ ساری مخالفت مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کے خلاف مرتکز ہے۔ جہاں تک مسلم اقلیتی صوبوں کا تعلق ہے، وہاں کے مسلمانوں کو ویٹج یا پاسنگ (آبادی کے تناسب سے زیادہ نیابت) دینے پر نہ ہندوؤں نے کوئی خاص اعتراض کیا ہے، نہ حکومت ہند نے اور نہ سائمن کمیشن نے۔ ایسے میں مسلم اکثریتی۔ خطوں کے رہنماؤں کے درمیان اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے مشاورت ضروری ہو جاتی ہے۔ دوسرے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ بنگال کو محض اس لیے مدعو نہیں کیا گیا کہ فاصلے طویل ہیں۔ بہرحال اگر وہاں کے مسلمان ایسی ہی کانفرنس منعقد کریں، تو شمالی مغربی خطے کے مسلمان ان کی ہر ممکن مدد کریں گی۔ 4 دسمبر30ء کو مجلس استقبالیہ کا اجلاس حضرت علامہ کے دولت کدے پر ہوا۔ اس میں ایک تو کانفرنس کے نام اپر انڈیا مسلم کانفرنس طے پایا۔ دوسرے یہ فیصلہ ہوا کہ کانفرنس دسمبر میں نہیں جنوری 31ء کے آخری ہفتے میں ہو۔ تیسرے جناب مجید ملک کے ساتھ مولانا سید حبیب کو بھی سیکرٹری کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ کانفرنس کا دفتر کھولا گیا۔ ایک مختصر سا عملہ مقرر ہوا۔ دسمبر میں کانفرنس نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انہی دنوں یہ فیصلہ ہو گیا کہ دسمبر کے اواخر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جو سالانہ اجلاس الہ آباد میں ہو رہا تھا، اس کی صدارت حضرت علامہ کریں۔ 14؎ یہ کانفرنس حقیقت میں پاکستان کا پیش خیمہ تھی اور ا سکے مقاصد14دسمبر کو زیادہ واضح ہو گئے۔ جب 14دسمبر30ء سے ’’ انقلاب‘‘ کے صفحہ اول پر کانفرنس کی اپیل دو کالمی چوکھٹے میں اس عنوان سے آنے لگی:’’ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان اسلامی ملک ہیں۔ ان میں اسلام کا علم بند کرو۔‘‘ اس کے دو دن بعد علامہ اقبال اور بارہ اخبار نویسوں اور رہنماؤں کے مشترکہ دستخطوں سے کانفرنس کا ایک مفصل اعلان کیا گیا۔ اس کے پہلے حصے میں کانفرنس کے اجزائے ترکیبی کی وضاحت کی گئی، دوسرے حصے میں مقاصد بیان کئے گئے۔ اس سلسلے میں یہ اقتباس خصوصی اہمیت کا حامل ہے: ’’ اس کانفرنس کے طلب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان صوبجات کے مسلمانوں کو حالات حاضرہ اور آج کی سیاسی تحریکات سے آگاہ کیا جائے اور ہماری ہمسایہ اقوام اور ہندوستان کی حاکم قوم کی حکمت عملی سے واقف کر کے ان خطرات سے آگاہ کیا جائے، جن سے اس وقت ملت مرحومہ دو چار ہے، اور اس کے بعد مسلمانان ہند کی اس کثرت کو، جو ان صوبجات میں ہے۔ (جن کو خدائے حکیم و علیم و خیبر نے یقینا بلا مصلحت نہیں، بلکہ کسی ایسی مصلحت کے لیے، جو ارباب دانش و بینش پر روز بروز عیاں ہوتی چلی جا رہی ہے، یکجا رکھا ہے) ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے سر گرم عمل ہونے کا پیغام دیا جائے۔‘‘ تیسرے حصے میں’’ جناح کے چودہ نکات‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین سے توقع تھی کہ وہ ان پر قائم رہیں گے۔ چوتھے حصے میں اس بات پر اعتراض کیا گیا کہ دیسی ریاستوں کو بھی ہندوستان کے فیڈرل نظام میں شمولیت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس سے برطانوی ہند کی ساری اہمیت ختم ہو جائے گی۔ ’’ اگر ایسا ہوا، تو ہندوستان کے موجودہ صوبجات کی حیثیت وہ ہو گی جو پنجاب کے کسی ضلع کو اپنے صوبے کے اندر حاصل ہے۔‘‘ بیان میں یہ کہا گیا کہ ہم مسلمان فیڈرل نظام کو تسلیم کیے جانے پر خوش ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ ’’اس لفظی ٹٹی کی آڑ میں ہمیں شکار بنایا جا رہا ہے۔ 15؎‘‘ برعظیم میں حالات نے یہ کروٹ لی، تو گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین کو ہوش آیا اور اس دباؤ کے پیش نظر وہ ایک بار پھر پہلے موقف پر آ گئے ۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحمید رقم طراز ہیں:’’ اب کانفرنس پر ہندو مسلم اختلافات محیط ہو گئے اور ا سکی بیشتر کارروائی میں رکاؤٹیں پڑ گئیں۔ ہندو ایک ایسی مضبوط مرکزی حکومت چاہتے تھے، جو صوبائی حکومتوں پر غالب ہو۔ اس ے برعکس مسلمان مکمل طور پر خود مختار صوبوں کی ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن چاہتے تھے۔ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ جداگانہ انتخاب بھی برقرار رہے اور پاسنگ کا اصول بھی۔ ہندو دونوں کی تنسیخ چاہتے تھے۔ مسلمان چاہتے تھے کہ پنجاب اور بنگال میں ان کی قانونی اکثریت تسلیم کر لی جائے۔ ہندو اس کی مزاحمت کرتے تھے اور پنجاب کے بارے میں صورت حالات اور بھی پیچیدہ ہو گئی، کیونکہ سکھوں نے اپنے دعاوی کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا۔ 16؎ مسلمان مندوبین کے موقف میں جو سختی آئی، وہ حضرت علامہ کی اس نفسیاتی جنگ کا نتیجہ تھی جو انہوں نے پنجاب کے اکابر اور اسلامی صحافت کے تعاون سے لڑی، لیکن اس کا اثر عارضی ثابت ہوا اور دیسی ریاستوں کے مندوبین نے بیچ بچاؤ کے بہانے ایک بار پھر مسلمان مندوبین کو افسوسناک لچک پر مجبور کر دیا۔ ایسے میں خطبہ الہ آباد ایک ایسا دھماکا تھا جس نے پوری گول میز کانفرنس کو ششدر اور پریشان کر دیا۔‘‘ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ انقلاب‘‘ 7دسمبر1928ء 2۔ ایضاً،8دسمبر1928ء 3۔ ایضاً، 9دسمبر1928ء 4۔ ’’ پرتاپ‘‘ 14دسمبر1928ء 5۔’’ انقلاب‘‘ 19دسمبر1928ء 6۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات100, 106 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 3 نومبر1929ئ) 7۔ایضاً، صفحات105, 106 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 24دسمبر1929ئ) 8۔ ایضاً، صفحات106, 109(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 26جون1930ء 9۔Muslim Separatism in India ص204 10۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ ص109(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 18نومبر1930ئ) 11۔’’ انقلاب‘‘ 21نومبر1930ء 12۔ ’’ انقلاب‘‘ 23نومبر1930ء 13۔’’ انقلاب‘‘ 25نومبر1930ء 14۔’’ انقلاب‘‘ 9دسمبر1930ء 15۔’’ انقلاب‘‘ 19دسمبر1930ء 16۔Muslim Separatism in India ص204 ٭٭٭ بیسواں باب خطبہ الٰہ آباد ایک تجزیہ جہاں تک برعظیم کی سیاسی تقسیم کے تصور کا تعلق تھا، یہ کوئی تصور نہیں تھا۔ عبدالحلیم شرر نے اپنے ہفت روزہ ’’ مہذب‘‘ میں1890ء ہی میں اس طرف اشارہ کر دیا تھا۔ 1913ء میں محمد علی نے اپنے ہفت روزہ’’ دی کامریڈ‘‘ میں اپنے مزاح نگار رفیق کار ولایت علی بمبوق کی ایک تحریر چھاپی، جس میں تقسیم کے ساتھ ساتھ تبادلہ آبادی کا بھی تذکرہ تھا۔ 1917ء میں سٹاک ہوم کی بین الاقوامی سوشلسٹ کانفرنس میں علی گڑھ کے خیری برادران نے یہی تصور پیش کیا۔ 1920ء میں عبدالقادر بلگرامی نے بدایوں کے رسالہ ’’ ذوالقرنین‘‘ میں گاندھی جی کے نام ایک مکتوب مفتوح میں تقسیم کا علاقائی منصوبہ بھی پیش کر دیا۔ 1921ء میں آگرہ کے ایک وکیل نادر علی نے ایک کتابچے میں یہی تجویز پیش کی۔ 1923ء میں حکومت ہند کے شمال مغربی سرحد کمیٹی میں ڈیرہ اسماعیل خان کی انجمن اسلام کے صدر سردار گل خان نے علیحدہ مسلم مملکت کے قیام پر زور دیا۔ 1924ء میں مولانا حسرت موہانی نے اپنا منصوبہ تجویز کیا اور 1925ء میں لالہ لاجپت رائے نے آنے والے پاکستان کا پورا نقشہ تیار کر دیا۔ 1؎ لیکن ان سب کا موقف یہ تھا کہ روز مرہ اختلافات اور فسادات کے پیش نظر ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ان کے منطقے الگ الگ کر دیے جائیں۔ بہرحال اقبال برعظیم کی پہلی شخصیت تھے، جنہوں نے علیحدہ مسلم مملکت کے تخیل کو مثبت اور نظریاتی انداز میں پیش کیا او راس کے لیے منظم اور باقاعدہ طریقے پر زمین ہموار کی۔ جداگانہ انتخاب پر بے پناہ اصرار کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے قومی تشخص کی بحالی کا آغاز ہو جائے۔ پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریتوں کو قانونی اکثریتیں تسلیم کرانے کی سعی کا مقصد یہ تھا کہ ان کی مجالس قانون ساز میں مسلم اکثریتیں آگے چل کر وزارتیں بنا سکیں اور اسلامی تہذیب و روایت کو آگے بڑھا سکیں۔ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور صوبہ سرحد اور بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے مساوی قرار دینے کے مطالبے کے پس پردہ یہ مقصد کار فرما تھا کہ مسلمانوں کے چار صوبے یکجا ہو کر ایک بلاک کی صورت اختیار کر لیں اور صوبائی خود مختاری پر زور دینے کا مطلب یہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبے ایک ہندو اکثریتی مرکزی یا فیڈرل حکومت کے اثر سے زیادہ سے زیادہ آزاد ہوں۔ یہ مطالبات صرف علامہ کے مطالبات نہیں تھے اور یہ بھی درست ہے کہ ان پر آل پارٹیز مسلم کانفرنس میں صاد کیا گیا اور بعد میں یہی ’’ جناح کے چودہ نکات‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ لیکن ایک حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں دوسرے مسلمان رہنما یا جماعتیں ان مطالبات میں لچک کے لیے آمادہ ہوتی رہیں، اور خود ’’ جناح کے چودہ نکات‘‘ سے منسلکہ پروٹوکول میں درج ہے کہ اگر سارے مطالبات مان لیے جائیں تو نشستوں کی تخصیص کے ساتھ مخلوط انتخاب قبول کر لیا جائے گا، وہاں علامہ نے جداگانہ انتخاب، صوبائی خود مختاری اور دوسرے مطالبات پر کبھی مصالحت قبول نہ کی اور جب کسی عنصر نے لچک کا مظاہرہ کیا، علامہ نے کھلم کھلا اس کی مخالفت فرمائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ علامہ کے ذہن میں مستقبل کا جو نقشہ موجود تھا، یہ مطالبات اس کے لیے بنیادی نقوش فراہم کرتے تھے۔ مستقبل کے نقشے کے دواجزا تھے: ایک، فوری نوعیت کی سیاست، دوسرا، نظریات پہلو۔ خطبات مدراس میں انہوں نے اسلامی تفکر کا نیا انداز پیش کر کے اہل علم و دانش کے ذہنوں میں پھیلے ہوئے بہت سے جالے صاف کر دیے اور اس طرح مستقبل کے نقشے کی فکری اساس مہیا کر دی، جو اسلام کے بنیادی اصول اور عصر حاضر کے تقاضوں کا ایک مدلل امتزاج تھی۔ جہاں تک فوری نوعیت کی سیاست کا تعلق تھا، علامہ گول میز کانفرنس میں مسلم مندوبین کے موقف میں حد سے بڑھی ہوئی لچک پر مشوش ہوئے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ قومیت متحدہ کی صورت میں نکلتا اور اس طرح مسلم سیاست کی نفی ہو جاتی۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا اور محسوس کیا کہ مسلم اکثریتی اور مسلم اقلیتی صوبوں کے مفادات میں اس لحاظ سے بڑا فرق پڑ گیا ہے کہ مسلم اقلیتی صوبوں کے رہنما اپنے ہاں پاسنگ (آبادی کے تناسب سے زیادہ نیابت) کے بدلے میں ایسی صورت پیدا کر رہے ہیں کہ جن صوبوںمیں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں وہ اقلیت میں بدل جائیں۔ مفادات کے اس اختلاف نے انہیں اپر انڈیا مسلم کانفرنس کی تجویز پر مجبور کر دیا۔ جب انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد سیشن کی صدارت کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے ایک ایسا عالمانہ اور مدبرانہ خطبہ پڑھا، جس میںبرعظیم کے مسلمانوں کے قومی مطالبات، شمال مغربی ہند کے مسلم اکثریتی خطے کے مخصوص تقاضوں اور مستقبل کے نقشے کی فکری اساس کے ڈانڈے آپس میں مربوط تھے۔ خطبہ الٰہ آباد تحریک پاکستان کی ایک نہایت اہم تاریخی دستاویز ہے جو روسو کی کتاب ’’ معاہدہ عمرانی‘‘ کی طرح پڑھی کم جاتی ہے لیکن اس کا تذکرہ بہت ہوتا ہے اور بہت سے مصنفین اس کے چند اقتباسات دہراتے چلے جاتے ہیں، لیکن پورے متن کا گہری نظر سے مطالعہ نہ کرنے کی وجہ سے اس کی اصل روح تک نہیں پہنچتے او ربسا اوقات اقتباسات سے نا درست نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس اہم دستاویز کا تفصیل سے تجزیہ کریں تاکہ علامہ کا نقطہ نگاہ زیادہ واضح انداز میں سامنے آ سکے۔ حضرت علامہ نے فرمایا کہ ’’ اسلام اخلاقی نصب العین اور ایک خاص قسم کے نظام سیاست کا امتزاج ہے اور اس نے برعظیم کے مسلمانوں کی زندگی کو گہرے اندا زمیں متاثر کیا ہے اور انہیں ایسے بنیادی احساسات اور وفاداریاں مہیا کی ہیں، جن سے بکھرے ہوئے افراد اور گروہ ایک واضح اور معین قوم کی ہیئت اختیار کر لیتے ہیں، اور ایک منفرد اخلاقی شعور کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ کہنا حقیقت میں مبالغے سے خالی ہے کہ ہندوستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں اسلام نے بہترین انداز میں تعمیر قوم کی قوت کا کام دیا ہے۔ 2؎ انہوں نے اس یورپی تصور کو غلط قرار دیا کہ مذہب فرد کا ایک نجی معاملہ ہے اور اسے انسان کی دنیاوی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں۔ انہوں نے کہا:’’ اسلام انسان کی وحدت کو روح اور مادے کی ناقابل مصالحت ثنویت یا دوئی میں منقسم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست باہم مربوط ہیں۔‘‘ 3؎ آپ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر مسلمانوں نے یورپی تصور مذہب کو قبول کر لیا، تو وہ اپنی ساری اہمیت، اپنی ساری انفرادیت اور اپنا ملی تشخص کھو بیٹھیں گے۔ آپ نے کہا:’’ اسلام کا دینی نصب العین بنیادی طور پر اسلام کے معاشری نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں سے ایک کو مسترد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا بھی مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اگر قومی بنیادوں پر ایک نظام سیاست کی تشکیل کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی اصول جمعیت کی جگہ لے لے، تو یہ بات ایک مسلمان کے لیے بالکل ناقابل تصور ہے اور یہی وہ معاملہ ہے جو موجودہ وقت میں مسلمانان ہند سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔ 4؎‘‘ علامہ نے فرمایا:’’ ہندوستان ایک چھوا سا ایشیا ہے۔ اس کی آبادی کے ایک حصے کی ثقافت مشرق کی قوموں سے ملتی جلتی ہے اور ایک حصے کی ثقافت وسطی اور مغربی ایشیا کی قوموں سے مماثل ہے۔ اگر ہندوستان میں تعاون کا کوئی موثر اصول دریافت کر لیا جائے، تو اس سے اس قدیم سر زمین میں امن اور باہمی خیر سگالی کا دور دورہ ہوا گا اور اس سے ایشیا کا بھی پورا سیاسی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ 5؎‘‘ علامہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ داخلی ہم آہنگی کے اصول کی دریافت ناکام رہی ہے۔ انہوں نے اس کے امکانی اسباب کی طرف بھی اشارے کیے اور پھر کہا:’’ جہاں تک میں نے مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کیا ہے، مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر مستقل فرقہ وار تصفیے کی بنیاد کے طور پر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ ہندوستانی مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ہندوستانی اوطان Homelands میں اپنی ثقافت اور روایت کے خطوط پر بھرپور اور آزاد نشوونما پائے، تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے سب کچھ بازی پر لگانے کو تیار ہو گا۔ جب یہ اصول بیان کیا جاتا ہے کہ ہر گروہ کو اس کے اپنے خطوط پر آزادانہ نشوونما پانے کا حق حاصل ہے تو اس کا سرچشمہ کوئی ایسا احساس نہیں ہوتا جو تنگ دلانہ فرقہ پرستی پر مبنی ہو۔ فرقہ پرستی کے مختلف مطالب بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی فرقہ دوسرے فرقوں کے بارے میں معاندانہ احساسات رکھتا ہے، تو وہ پستی اور رذالت کا مرتکب ہے۔ میں دوسرے فرقوں کے رسوم و رواج، قوانین اور مذہبی اور معاشری اداروں کا انتہائی احترام کرتا ہوں۔ بلکہ قرآن حکیم کی تعلیمات کے مطابق یہ میرا فرض ہے کہ ضرورت پڑے تو ان کی عبادت گاہوں کا بھی دفاع کروں۔ اس کے باوجود میں اس فرقہ وار گروہ سے پیا رکرتا ہوں جو میری زندگی اور طرز عمل کا ماخذ ہے اور جس نے مجھے اپنا دین، اپنا ادب، اپنا فکر اور اپنی ثقافت دے کر مجھے وہ بنایا جو میں اس وقت ہوں۔ اس نے میرے موجودہ شعور میں اپنے پورے ماضی کی تخلیق نو کو ایک جیتا جاگتا اور حرکت پذیر عنصر بنا دیا ہے۔ 6؎‘‘ علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہندوستان انسانی گروہوں کا ایک بر اعظم ہے۔ یہ گروہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف مذاہب پر عقیدہ رکھتے ہیں، اور تو او رہندو بھی ایک مربوط گروہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس لیے جب تک یہاں فرقہ وار گروہوں کی حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، اس برعظیم پر یورپی جمہوریت کے اصول لاگو نہیں کیے جا سکتے۔ انہوں نے ’’ ہند کے اندر مسلم ہند‘‘ کے مطالبے کو جائز قرار دیا اور اس رائے کا اظہار کیا کہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس نے دہلی میں جو قومی مطالبات مرتب کیے تھے، ان کا مقصد یہی تھا کہ ہندوستانی فرقوں کی انفرادیت کچلنے کی جگہ انہیں اس طرح پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کی اجائے کہ وہ ایک دوسرے کے دوش بدوش آگے بڑھ سکیں۔ علامہ نے ان مطالبات کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’ ذاتی طور پر میں ان مطالبات پر مستزاد یہ کہوں گا کہ میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان کو مدغم کر کے ایک واحد ریاست کی صورت میں دیکھنا پسند کروں گا۔ خود اختیاری حکومت قلمرو برطانیہ کے اندر ہو یا قلمرو برطانیہ کے باہر، ایک مضبوط شمالی مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مجھے کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی آخری منزل نظر آتی ہے۔ یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی لیکن اسے اس بنا پر مسترد کر دیا گیا کہ یہ ایک اتنی بڑی ریاست ہو گی جس کا نظم و نسق چلانا مشکل ہو جائے گا۔ 7؎‘‘ اس ریاست کے قیام کا مقصد بتاتے ہوئے آگے چل کر علامہ نے کہا: ’’ اس سر زمین میں ایک ثقافتی قوت کی حیثیت سے اسلام کی بقا کا دار و مدار اسے ایک مخصوص علاقے پر مرتکز کرنے پر ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفادات کے پیش نظر ایک مربوط مسلم ریاست قائم کر دی جائے۔ اس سے ہندوستان میں طاقت کا اندرونی توازن امن اور سلامتی کا پیام بر ہو گا اور اسلام کو موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے قانون، اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لائے اور انہیں اپنی اصل روح اور زمانہ حال کی روح کے قریب لے آئے۔ نیز وہ اس ٹھبے سے نجات حاصل کرے جو عربی سامراج اسے دینے پر مجبور تھا۔ 8؎‘‘ یہاں ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ علامہ نے شمال مغربی ہند میں الگ مسلم ریاست کا تصور تو پیش کر دیا، لیکن بنگال کا ذکر کیوں نہ کیا۔ حالانکہ وہاں بھی مسلمان اکثریت میں تھے؟ یہ سوال وقتاً فوقتاً اٹھتا رہا ہے، لیکن محض بے خبری کی بنا پر۔ کیونکہ اول تو جب انہوں نے شمال مغربی ہند مسلم ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا تو اس کے ساتھ ہی یہ کہا کہ میرے نزدیک کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی منزل مقصود یہی ہو سکی ہے۔ ’’ کم از کم‘‘ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ بنگال بھی ان کے پیش نظر تھا اور اس کا واضح ذکر اس لیے نہ کیا کہ علامہ نے خطبہ الٰہ آباد میں جب ’’ ریاست‘‘ کا لفظ استعمال کیا، اس سے مراد صوبہ یا وفاقی واحدہ تھا۔ اور ’’ ریاست‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کی وجہ یہی تھی کہ فیڈرل نظام کے اجزائے ترکیبی کو عام طور پر ’’ سٹیٹ‘‘ یا’’ ریاست‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔ شمال مغربی ہند کی ریاست کا خصوصی تذکرہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ اس پورے خطے کو ایک ریاست کی صورت دینا مطلوب تھا۔ بنگال پہلے ہی مسلم اکثریتی ریاست تھی، اس لیے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ علامہ مسلم اکثریتی ریاستوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے مسئلے سے بھی آگاہ تھے۔ اس لیے انہوں نے شمال مغربی ہند کی ریاست کا ذکر کیا، تو یہ بھی کہہ دیا کہ اس سے انبالہ ڈویژن اور بعض دوسرے ہندو اکثریتی اضلاع الگ کر دیے جائیں تو مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بڑھ جائے گا او راس ریاست کی حدود کے اندر آباد غیر مسلم اقلیتوں کی بہتر طریقے سے حفاظت ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے دوبار صوبوں یا ریاستوں کی حدود کو از سر نو طے کرنے کی تجویز فرمائی اور عین ممکن ہے کہ اس کے پیچھے یہ خواہش کار فرما ہو کہ بنگال کے غیر مسلم اکثریتی اضلاع بھی الگ کر دیے جائیں۔ اس غلط العام تصور کی تردید بھی ضروری ہے کہ علامہ نے خطبہ الٰہ آباد میں ایک مکمل طور پر آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ کیونکہ ہندوستان کے دفاع کے بارے میں انہوں نے جو باتیں کہیں، وہ ایک مختلف سمت کو ظاہر کرتی ہیں۔اس سلسلے میں تین اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں: ’’ پس ہندوستان کے سیاسی جسم کے اندر نشوونما کا پورا موقع حاصل کر کے شمال مغربی ہند کے مسلمان، غیر ملکی یلغار کے خلاف، خواہ وہ یلغار نظریات کی ہو یا سنگینوں کی، ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔ 9؎‘‘ ’’ داخلی امن کو برقرار رکھنے کی خاطر صوبائی افواج کے علاوہ ہندوستان وفاقی کانگرس شمال مغربی سرحد پر ایک ایسی مضبوط ہندوستانی سرحدی فوج رکھ سکتی ہے، جو تمام صوبوں سے حال کردہ یونٹوں پر مشتمل ہو گی اور جس میں افسری کے فرائض تمام فرقوں سے لیے ہوئے چابک دست اور تجربہ کار فوجی ادا کریں گے۔ 10؎‘‘ ’’ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ایک وفاقی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو مسلمان وفاقی ریاستیں دفاع ہند کے مقاصد کے لیے بہ رضا و رغبت خود غیر جانب دار ہندوستانی بری اور بحری افواج کی تشکیل سے اتفاق کر لیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانب دار فوجی قوت مغل حکومت کے دنوں میں ایک حقیقت تھی۔ بلکہ اکبر کے زمانے میں ہندوستانی سرحد کی حفاظت ایسی فوجیں کرتی تھیں، جن میں ہندو جرنیل افسر ہوا کرتے تھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وفاقی ہند پر مبنی ایک غیر جانب دار فوج کا منصوبہ مسلمانوں میں حب وطن کے احساس کو تیز کر دے گا اور بالاخر کسی ایسے شبے کو ختم کر دے گا کہ بیرونی حملے کی صورت میں ہندوستانی مسلمان سرحد پار کے مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے۔ 11؎‘‘ برعظیم کے دفاع کے سلسلے میں علامہ نے جو تجویز پیش کی، اس کی شان نزول یہی تھی کہ ہندوؤں نے مسلسل یہ مہم جاری کر رکھی تھی کہ مسلمان شمال کی طرف سے بیرونی حملے کی صورت میں حملہ آور مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے اور سارے ہندوستان پر قبضہ کر لیں گے۔ چنانچہ جب مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی منصوبہ پیش ہوا، ہندوؤں نے اسی بنا پر اس کی نہایت شد و مد کے ساتھ مخالفت کی چونکہ حضرت علامہ کا ایسا کوئی یوٹوپیائی خیال نہیں تھا، اور وہ مسلم اکثریتی علاقوں کو صرف اس لیے یکجا کرنا چاہتے تھے کہ اپنی ثقافت کی حفاظت کریں اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اور جدید دنیا کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ایک اعلیٰ پائے کا منصفانہ اور عادلانہ نظام قائم کریں، اس لیے انہیں اس بات میں کوئی عذر نہیں تھا کہ دفاع کے معاملے میں ہندوؤں کے خدشات دور کرنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کر لی جائیں۔ ایسی تدابیر جن سے مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کی حفاظت کا بندوبست ہو جائے۔ علامہ نے اس خطبے میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مرتب کردہ قومی مطالبات کی بڑے مدلل انداز میں تائید فرمائی لیکن ان کے ارشادات ان مطالبات سے کچھ بڑھ کر تھے۔ کیونکہ: 1۔ قومی مطالبات میں سندھ کے علیحدگی اور سرحد و بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے مساوی حیثیت دینے پر زور دیا گیا اور علامہ نے شمال مغربی ہند کے چاروں مسلمان صوبوں کو یکجا کر کے ایک ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔ 2۔ پنجاب میں مسلمانوں کو قانونی اکثریت دینے کے مطالبے کی تائید کرتے ہوئے علامہ نے یہ تجویز پیش کی کہ اس سے انبالہ ڈویژن اور بعض ہندو اکثریتی اضلاع الگ کر دیے جائیں تاکہ اس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت اتنی ہو جائے کہ قانونی اکثریت کے مطالبے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ 3۔ قومی مطالبات میں جتنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا علامہ نے اس سے زیادہ خود مختاری چاہی اور ہر صوبے یا ریاست کے لیے الگ فوج رکھنے کا بھی مطالبہ کیا۔ 4۔ گول میز کانفرنس کے مسلمان مندوبین ایک ایسے فیڈرل نظام پر راضی ہو رہے تھے، جس میں برطانوی ہند کے صوبوں کے علاوہ دیسی ریاستیں بھی شامل ہوں۔ علامہ اس کے خلاف تھے۔ 5۔ علامہ برطانوی ہند کے لیے جس قسم کے فیڈرل نظام کا تصور کرتے تھے، وہ نام کو تو واقعی فیڈرل تھا لیکن اصل میں ایک قسم کی کنفیڈریشن کا مظہر تھا۔ کیونکہ انہوں نے ایک تو صوبوں کو الگ الگ فوج رکھنے کا حق دیا۔ دوسرے برعظیم کے دفاع کے لیے مشترکہ فوجوں کا تصور اپنایا۔ تیسرے یہ کہا کہ فیڈریشن کو صرف وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو خود مختار صوبے اسے دیں گے اور باقی ماندہ یا مابقی اختیارات صوبوں کے پاس رہیں گے۔ چوتھے، وہ فیڈرل نظام چلانے کے لیے ایک ایسی اسمبلی چاہتے تھے جس کے انتخابات براہ راست نہ ہوں۔ ان ارشادات سے اقبال کی مراد کیا تھی؟ یہی کہ اگر ایسا نظام چل سکے تو فبہا ورنہ مسلمان اس پوزیشن میں ہوں کہ اپنے مخصوص مفادات کو خطرے میں دیکھ کر اس فیڈریشن یا کنفیڈریشن سے الگ ہو جائیں۔ اور خطے میں انہوں نے اس طرف اشارے بھی کیے۔ مثلاً انہوں نے کہا:’’ میں فرقہ وار مفاہمت کے سلسلے میں نا امید نہیں ہوں۔ لیکن میں اپنا یہ احساس آپ سے چھپانا نہیں چاہتا کہ عین ممکن ہے، موجودہ بحران سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہماری قوم کو مستقبل قریب میں ایک آزاد راہ عمل اختیار کرنی پڑے۔ اور اس قسم کے بحران میں سیاسی عمل کا ایک آزاد راستہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ پوری قوم عزم کر لے کہ وہ اس راستے پر چلنے میں بے پناہ قوت ارادی سے کام لے گی۔ 12؎‘‘ علامہ نے آخر میں یہ بھی کہا ’’ ۔۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ ہندوستان میں حالات وہ نہیں جو بظاہر نظر آ رہے ہیں۔ بہرحال اس بات کا مطلب آپ پر اس وقت واضح ہو گا، جب آپ اسے جاننے کے لیے ایک حقیقی اجتماعی انا پیدا کر لیں گے۔ 13؎‘‘ اقبال اس پورے مسئلے کو بین الاقوامی تناظر میں بھی دیکھتے تھے۔ ان کے خطبے کا گہری نظر سے مطالعہ کیجئے، تو معلوم ہو گا کہ وہ ہندوستان کو مسلم اور ہندو خطوں میں تقسیم کر کے پر امن بقائے باہمی کی صورت پیدا کر کے دونوں میں تعاون کی راہیں بھی کھولنا چاہتے تھے۔ وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ مسلم انڈیا کے قدرتی ثقافتی روابط وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے مسلمان خطوں کے ساتھ ہوں گے اور ہندو انڈیا کے مشرقی ایشیا کے ساتھ اور اس برعظیم ہندوستان ایشیا کے دو حصوں کے درمیان ایک پل کا کام دے گا اور یوں ایشیا ک بھی بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ پس وہ صرف شمال مغربی ہند میں دلچسپی نہیں لیتے تھے، بلکہ ان کی دلچسپی پورے ہندوستان پر مرتکز تھی اور وہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا کردار تجویز کرتے تھے، جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں پورے برعظیم کے لیے مفید ہو اور اس کے ذریعے سے پورے ایشیا کے لیے بھی اس سلسلے میں خطبہ الہ آباد کا یہ اقتباس خصوصی اہمیت کا حامل ہیـ: ’’ ہندوستان کی تاریخ کا موجودہ بحران تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان قوم مکمل طور پر منظم ہو اور وہ مقصد اور ارادے کے اتحاد سے بہرہ ور ہو۔ اس سے قوم کے اپنے مفادات بھی وابستہ ہیں او رمجموعی طور پر ہندوستان کے مفادات بھی۔ ہندوستان کی سیاسی غلامی پورے ایشیا کے لیے لا انتہا مصیبت کا باعث رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اس غلامی نے مشرق کی روح کو کچل کر رکھ دیا اور اسے مکمل طور پر اپنے اظہار کی مسرت سے محروم کر دیا ہے۔ یہ وہی روح تھی جس نے کسی زمانے میں مشرق کو ایک عظیم اور شاندار ثقافت کا خالق بنایا۔ ہندوستان کی طرف سے ہم پر فرض عائد ہوتا ہے، کیونکہ ہمیں یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے۔ اور چونکہ ایک واحد ملک میں ساٹھ کروڑ مسلمانوں کی آبادی مسلم ایشیا کے سارے ملکوں کی مجموعی آبادی سے متجاوز ہونے کی وجہ سے اسلام کے لیے ایک بیش قیمت اثاثہ ہے، اس لیے جب ہم ہندوستانی مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صرف مسلم نقطہ نگاہ ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مسلم نقطہ نگاہ بھی سامنے رکھنا ہے۔ ہم ایشیا اور ہندوستان کے سلسلے میں ایک معینہ مقصد پر ایک منظم قوت ارادی مرتکز کرنے کے بغیر اپنا فرض پوری وفاداری سے سر انجام نہیں دے سکتے۔14؎‘‘ سچ پوچھیے تو اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں برعظیم کے مسئلے کا جو حل تجویز کیا، وہ اس زمانے کے حالات کی روشنی میں ایک خالص سائنسی حل تھا۔ کیونکہ اس میں ہندوؤں اور مسلمانوں، دونوں کے لیے یہ گنجائش موجود تھی کہ اپنے اپنے خطوں میں اپنے اپنے نظریات کی روشنی میں ایک باعزت زندگی گزاریں اور ان کے درمیان مسلسل رابطے کا ایک ایسا ذریعہ موجود ہو، جس سے ایک فریق دوسرے فریق کے معاملات میں مداخلت نہ کر سکے۔ بلکہ دونوں کے درمیان خیر سگالی کے مراسم قائم ہوں اور جہاں تک پورے ہندوستان کے دفاع کا تعلق تھا، دونوں ایک دوسرے کے لیے دست و بازو کا کام دیں اور یہ خطہ یہ برعظیم پورے بر اعظم ایشیا میں ایک اہم کردار ادا کر سکے اور یہ منصوبہ ایک ایسے مفکر اور فلسفی نے پیش کیا تھا جس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے خطبے کے آغاز میں یہ اعلان کیا کہ ’’ میں کسی پارٹی کا قائد نہیں ہوں اور میں کسی قائد کے پیچھے نہیں چلتا۔‘‘ یہ ہندوؤں کی بدنصیبی تھی کہ وہ اسے خطبے کی روح تک نہ پہنچ سکے اور حالات کو اتنا بگاڑتے چلے گئے کہ آخر کار ہندوؤں اور مسلمانوں کے راستے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہو گئے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ History of the Idea of Pakistan حوالوں اور اقتباسات کے لیے ساتواں باب دیکھئے۔ 2۔ Thoughts and Reflections of Iqbal ص162 3۔ ایضاً، ص163 4۔ ایضاً، ص167 5۔ ایضاً، ص168 6۔ ایضاً، ص169 7۔ ایضاً، صفحات170, 171 8۔ ایضاً، ص173 9۔ ایضاً، صفحات171, 72 10۔ ایضاً، ص181 11۔ ایضاً، ص183 12۔ ایضاً، ص193 13۔ ایضاً، ص194 14۔ ایضاً، صفحات192, 193 ٭٭٭ اکیسواں باب خطبہ الٰہ آباد کا فوری رد عمل اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خطبہ الٰہ آباد کا فوری رد عمل کیا ہوا؟ اس سے انگریزوں نے کیا تاثر لیا؟ ہندوؤں نے اسے کس رنگ میں دیکھا؟ اور مسلمانوں کی رائے عامہ پر اس کا کیا اثر ہوا؟ سب سے پہلے انگریزوں کا اثر بیان کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ بعض ہندوستانی اور مغربی مصنفین کو ابھی تک یہ وہم ہے کہ پاکستان برطانیہ کی شہ پر قائم ہوا۔ یا علامہ اقبال نے انگریزوں کو خوش کرنے کے لیے خطبہ الٰہ آباد میں شمال مغربی ہند کی ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔ اس نظریے کی تردید دو قسم کی شہادتوں سے ہو سکتی ہے۔ اول: دستاویزی شہادت۔ دوم: قرائتی شہادت۔ پہلے دستاویزی شواہد ملاحظہ ہوں۔ اقبال نے 29دسمبر30ء کو خطبہ ارشاد فرمایا۔ بمبئی کے اخبار’’ انڈین ڈیلی میل‘‘ کے نامہ نگار مقیم لندن جناب ایف ڈبلیو ولسن نے 31دسمبر کو جو برقیہ بھیجا، اس میں بیان کیا کہ ’’ ڈاکٹر اقبال کے خطبہ صدارت پر وزیراعظم برطانیہ جناب ریمزے میکڈانلڈ بے حد ناراض ہوئے ہیں۔ الٰہ آباد کے مشہور اخبار’’ لیڈر‘‘ کے نامہ نگار لندن نے لکھا: فیڈرل حکومت کے تصور اور اس کے حق میں ہندوستان رہنماؤں کے خیالات و نظریات پر سر محمد اقبال نے جو جملہ کیا ہے، اس کے خلاف نہ صرف برطانوی، بلکہ ہندوستانی حلقے بھی غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2؎‘‘ یہی نہیں برعظیم کے دو موثر اینگلو انڈین اخباروں نے اپنے اداریوں میں علامہ اقبال کی تجویز کو رجعت پسندانہ، ناقبال عمل اور نا مناسب قرار دیا۔ ان میں سے ایک ’’ پاؤنیر‘‘ تھا دوسرا ’’ ٹائمز آف انڈیا‘‘ یہ حقیقت ہر کوئی جانتا ہے کہ اینگلو انڈین اخبار ہمیشہ سامراج کے ناقوس خصوصی بنے رہے اور انہوں نے اپنا یہ کردار 1947ء تک جاری رکھا۔ اب ہم قرائتی شہادت کی طرف آتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہوتا کہ تصور پاکستان انگریز کے نہاں خانہ دماغ کی اپج تھا، تو وزیراعظم برطانیہ کیوں ناراض ہوئے؟ برطانوی حلقے غصے میں کیوں آئے؟ سامراج کے پاسبان اخباروں نے اس کی مذمت کیوں کی؟ خاموش کیوں نہ رہے؟ اور اگر برطانیہ مسلمانوں کے عشق میں اتنا ہی مبتلا تھا اور علامہ اس کی کٹھ پتلی بننے کو تیار تھے تو آخر کیا وجہ ہے کہ علامہ اقبال کو پہلی گول میز کانفرنس میں مدعو نہ کیا گیا؟ پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ برعظیم کے اندر جب غیر مسلموں نے خطبہ الہ آباد پر نکتہ چینی کی تو آیا کسی نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ اقبال نے سامراج کے اشارہ چشم و ابرو پر رقص کیا۔ اس کے لیے ہمیں غیر مسلموں کی آرا کا جائزہ لینا ہو گا۔ لاہور کے ہندو روزنامہ ’’ ٹریبیون‘‘ نے خطبہ الٰہ آباد پر شدید نکتہ چینی کی اور اپنے ترکش سے یہ تیر نکال کر اپنی طرف سے بڑا تیر مار لیا کہ چونکہ اقبال کو گول میز کانفرنس میں نہیں بلایا گیا، اس لیے انہوں نے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ پہلے کانفرنس کے مسلمان مندوبین کو تار بھیجا۔ جس میں چند شرائط کے تحت مخلوط انتخاب قبول کرنے کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے بعد خطبہ الٰہ آباد کے ذریعے سے ہندو مسلم سمجھوتے کے امکان کو تار پیڈو کر دیا اور یون نیشنلزم کی لٹیا ڈبو دی۔ 3؎ لاہور میں ہندوؤں کے سارے اردو روزناموں نے اقبال پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ سب سے کثیر الاشاعت اخبار ’’ پرتاپ‘‘ نے ایک مضمون چھاپا جس کا عنوان تھا ’’ شمالی ہند کا ایک خوفناک مسلمان۔ ڈاکٹر اقبال کی گستاخیوں پر چند مقالات۔۔۔۔‘‘ اس میں علامہ کے بارے میں ’’ جنونی، شر انگیز، احمقانہ، خوفناک، زہریلا، تنگ خیال، پست نظر، متعصب، قابل نفرت، کمینہ او رنالائق‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے جو ’’ انقلاب‘‘ کے حوالے سے ہم تک پہنچے۔ کیونکہ ہندو اخباروں کے فائل ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ ہندوؤں نے برعظیم کے طول و عرض سے حضرت علامہ کے خلاف جو مہم چلائی، اس کی ہمہ گیری کا اندازہ کرنے کے لیے ’’ انقلاب‘‘ کے ایک افتتاحیے سے اقتباس پیش خدمت ہے: ’’ حضرت علامہ اقبال کے خطبہ صدارت سے ہندو دنیا میں جو ہلچل برپا ہوئی، اس سے قارئین کرام اچھی طرح آگاہ ہیں۔ شاید یہی کوئی گویا ہندو زبان ہو، جس نے اس خطبے کے خلاف نہایت ناپاک سے ناپاک انداز میں زہر افشانی و زہر ریزی نہ کی ہو۔ اور شاید ہی چند الٹی سیدھی لکیریں لکھنے والا کوئی ہندو اہتھ ہو، جس نے اس خطبے کو اپنی مذموم اور قابل صد نفرین جولانی کا تختہ مشق نہ بنایا ہو۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ غالباً حضرت سلطان محمود غزنوی اور حضرت عالمگیر اعظم کے خلاف بھی ہندو قوم نے اس تواتر، اس تسلسل، اس جماؤ اور اس ہمہ گیری کے ساتھ فتنہ پردازیاں نہیں کیں، جن کا مرکز و مرجع حضرت علامہ اقبال کے خطبہ صدارت کو بنایا گیا۔ ہندوستان کے شمال، ہندوستان کے جنوب، ہندوستان کے مشرق اور ہندوستان کے مغرب میں جہاں کہیں کوئی ہندو بول یا لکھ سکتا تھا، اس نے خطبہ مذکورہ کی انتہائی مذمت میں اس درجہ مستعدی سے کام لیا کہ شاید حکومت انگلشیہ سے آزادی حاصل کرنے میں بھی آج تک ایسی مستعدی کا اظہار نہ ہوا۔ حتیٰ کہ جو ہندو ولایت میں بیٹھے تھے، وہ بھی اس طرح مضطرب ہو کر مخالف کے میدان میں اتر آئے کہ گویا علامہ اقبال کے خطبے نے ان کے ہاتھ سے وہ چیز چھین لی ہے، جسے وہ خالصتاً اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ 4؎‘‘ اس تمام مہم کے دوران میں ہر قسم کی گالیاں دی گئیں، بہتان تراشی کی گئی، لیکن بدترین دشمن نے بھی یہ نہ کہا کہ اقبال نے علیحدہ اسلامی ریاست کا تخیل انگریزوں کی شہ پر پیش کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہندو خود برطانوی سامراج کی گود میں بیٹھے تھے اور سامراج سے ان کا گٹھ جوڑ تھا نہ کہ مسلمانوں کا۔ ہندوؤں میں صرف ایک شخص تھا، جس نے خطبے کا تجزیہ ایک ذہین انداز میں کیا لیکن اس نے اپنے اصل نام کا انکشاف نہ کیا ۔ بلکہ ’’ ایک روشن خیال ہندو‘‘ کا قلمی نام اختیار کیا۔ اس نے ’’ ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں ایک مضمون کے دوران میں لکھا کہ اقبال کی دلیل خاصی وزنی ہے۔ کیونکہ مجوزہ فیڈرل ڈھانچے میں دیسی ریاستوں کی شمولیت سے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کی پوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ ان حالات میں اقبال کی یہ تجویز ہمدردانہ توجہ کی مستحق ہے کہ شمال مغرب میں ایک ایسی ریاست قائم کر دی جائے، جس میں مسلمانوں کو غالب اکثریت حاصل ہو۔ مقالہ نگار نے ہندوؤں کو سمجھایا کہ اگر سندھ، سرحد اور بلوچستان الگ الگ صوبے بنے تو ان میں ہندوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہ ان صوبوں میں نہایت معمولی اقلیت ہیں۔ لیکن اگر ان تین صوبوں کو پنجاب کے ساتھ ملا کر ایک شمال مغربی مسلم ریاست بن جائے، تو اس میں ہندو ایک مضبوط اقلیت ہوں گے اور اگر وہ سکھوں کے ساتھ تعاون کریں تو وہ ایک بڑی طاقت بن جائیں گے۔ اس لیے ہندوؤں کو اس تجویز پر خواہ مخواہ مشوش نہیں ہونا چاہیے۔ 5؎ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خود مسلمانوں میں خطبے کا رد عمل کیا تھا؟ جہاں تک مسلمانوں رہنماؤں کا تعلق تھا، وہ خاموش رہے۔ الٰہ آباد سیشن میں بھی اور اس کے بعد بھی اس خاموشی یا اغماض کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ گول میز کانفرنس میں شریک ہونے والے مندوبین کی عدم موجودگی میں خطبے پر تبصرہ مناسب نہ سمجھا گیا ہو۔ یا اپر انڈیا مسلم کانفرنس کی تجویز سے مسلم اقلیتی صوبوں میں اقبال کے خلاف جو تعصب پیدا ہوا تھا، وہی خاموشی کا باعث ہوا ہو۔ اگر مسلمان رہنماؤں میں کوئی رد عمل ہوا تو وہ مخالفانہ تھا۔ اس سلسلے میں سید نذیر نیازی کے روایت ہے کہ 1931ء کی ابتدا میں دہلی کی ایک محفل میں مختلف الخیال لوگ جمع تھے۔ ’’ ان میں وہ حضرات بھی تھے، جنہوں نے خلافت اور ترک موالات کی تحریکوں میں حصہ لیا تھا اور تبدیلی حالات کے باوجود اپنے مسلک پر قائم تھے اور وہ بھی جو کانگرس کے ہم خیال یا لیگ کے ساتھ تھے۔ دوران گفتگو میں کسی نے کہا۔ ارے صاحب! آپ نے وہ اقبال کا خطبہ صدارت بھی پڑھا۔ واللہ کیا خوب شاعری کی ہے۔ آخر شاعر ہی تو ہیں۔ کیسی غزل کہہ گئے ہیں۔ اس پر بڑے زور کا قہقہہ پڑا6؎‘‘ ایک طرف برطانیہ مخالفت کر رہا تھا، دوسری طرف ہندوؤں نے زبردست پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی تھی اور تیسری طرف مسلمان رہنما چپ چاپ حالات کا تماشا فرما رہے تھے۔ ایسے میں اقبال کی مدد کو پہنچے تو مسلمان اخبار، جن میں ’’ انقلاب‘‘ سر فہرست تھا۔ جس نے جنوری 31ء میں کم و بیش ایک درجن مقالات افتتاحیہ خطبے کے حق میں شائع کیے۔ اس اخبار نے ایک مقالے میں یہ موقف اختیار کیا کہ تقسیم کی تجویز اصلاً ہندو حلقوں سے ابھری تھی۔ سب سے پہلے لالہ لاجپت رائے نے کہا تھا کہ شمالی ہند کے ہندو وسطی اور جنوبی ہند کو منتقل ہو جائیں او ران علاقوں کے مسلمان شمالی ہند کو اپنا قومی وطن بنا لیں۔ ہندوؤں کے رہنما بھائی پرمانند نے بھی ایسی ہی تجویز پیش کی تھی اور خطبہ الہ آباد سے چند روز پہلے دیسی ریاستوں کے امور میں مہارت رکھنے والے پروفیسر جی آر ابھیانکر نے برعظیم کو تین حصوں میں بانٹنے کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک ریاستی ہندوستان، دوسرا مسلم ہندوستان، تیسرا ہندو ہندوستان ’’ انقلاب‘‘ نے پوچھا آخر اقبال کو ایسی تجویز پیش کرنے کا حق کیوں حاصل نہیں؟7 ؎ دو دن بعد ایک اور افتتاحیے میں ’’ انقلاب‘‘ نے لکھا کہ اگر ہندوؤں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ محض غالب اکثریت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو نظر انداز کر دیں اور ہندو راج کے لیے سعی کریں تو یقینا مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک ایسے خطے میں مسلم نیشنل سٹیٹ کو اپنا نصب العین بنائیں، جہاں کی آبادی میں انہیں اسی فیصد اکثریت حاصل ہے۔ ’’ انقلاب‘‘ نے بعض لوگوں کی اس تجویز کا تذکرہ کیا کہ ہندو مسلم مسئلہ لیگ آف نیشنز (جمعیت اقوام) سے حل کرا لیا جائے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر یہ لوگ جمعیت اقوام کے اصول حق خود ارادیت کے واقعی قائل ہیں، تو بے شک اس جماعت سے پوچھ لیں کہ اسی فیصد مسلم اکثریتی علاقے کو ایک مسلمان حکومت کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ 8؎ ایک اور افتتاحیے میں ’’ انقلاب‘‘ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر اقبال کی تجویز کے مطابق شمالی ہند کے مسلمانوں کا حق آزادی تسلیم کر لیا جائے، تو سارے ہندوستان میں مکمل امن کی ضمانت حاصل ہو جائے گی کیونکہ ہندو اور مسلمان دونوں اپنے اپنے منطقوں میں امن اور خوشحالی کی زندگی بسر کریں گے۔ لیکن ہندوؤں نے برطانیہ کی حکمران اتھارٹی کے ساتھ مل کر سازش کر لی اور اپنی مرضی کا سیاسی ڈھانچہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو مسلمان اسے ایک دن کے لیے بھی زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ اس کا نتیجہ ایک غیر مختتم خانہ جنگی کی صورت میں نکلے گا اور یقینا یہ چیز ہندوؤں کے لیے زیادہ خوشگوار نہیں ہو گی۔ 9؎ چند دن بعد اسی اخبار نے ایک طویل افتتاحیے کے آخر میں اقبال کو یوں خراج تحسین ادا کیا: ’’ حق کی آواز بلند ہو چکی ہے۔ باطل کے قلعے پر آخری ضرب پڑ چکی ہے۔ ہندو قوم کے معاندانہ منصوبوں کا حصار ٹوٹ چکا ہے۔ خدا اس مبارک ہستی کو سلامت رکھے، جس نے پریاگ میں سب سے پہلی مرتبہ راہ گم کردہ اور قومیت و جمہوریت کے فریب کارانہ دعاوی سے مسحور ملت کے لیے ہدایت کی حقیقی روشنی کا بندوبست کیا۔ خدا کو منظور ہوا تو یہ روشنی زندگی کی صحیح منزل مقصود تک اسلامیان ہند کی رفیق رہے گی۔ 10؎‘‘ ’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ اور’’ سیاست‘‘ کے فائل نایاب ہیں۔ لیکن شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں اخباروں نے علامہ کی پوری تائید کی ہو گی۔ کیونکہ ’’ مسلم آؤٹ لک‘‘ کے مدیر مجید ملک اور ’’سیاست‘‘ کے مدیر سید حبیب اس دور کی مجوزہ اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے داعیوں میں شامل تھے۔ لکھنو میں روزنامہ ’’ ہمدم‘‘ نے اقبال کے حق میں ایک افتتاحیہ چھاپا، جس کا ایک اقتباس یہ ہے: ’’ اس حقیقت کو سائمن کمیشن نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ ہندوستان ایک ایسا بر اعظم ہے جس میں انسانی گروہوں کی مختلف نسلیں آباد ہیں۔ جن کی معاشرت مختلف ہے، جن کی زبانیں مختلف ہیں، جن کی روایات مختلف ہیں۔ ایک خاص تمدنی قوت کے اعتبار سے اس ملک میں اسلام کی زندگی اسی پر منحصر ہے کہ اسے ایک خاص علاقے میں ایک مرکز پر جمع کر دیا جائے۔ لہٰذا اقبال کا یہ مطالبہ نہایت حق بجانب ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہند کے قیام کا موقع ملنا چاہیے اور اس کی بہترین تشکیل اس صورت سے ہو سکتی ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک واحد سلطنت قائم کر دی جائے۔ حق یہ ہے کہ ہندو مسلم تنازعات کا یہ بہترین حل ہے اور اس قابل ہے کہ ہندوستان کے تمام مسلمان متحد ہو کر اس کے لیے جدوجہد کریں اور اپنی قوت عمل کا مظاہرہ کر کے اس کو حاصل کر کے چھوڑیں۔11؎‘‘ آہستہ آہستہ مسلم رائے عامہ متاثر ہونے لگی۔ کلکتے سے تین مسلمان طلبہ راغب احسن، فضل رسول خان آفریدی اور ایس ایم سلیم نے ایک مشترکہ بیان میں خطبے کی تائید کرتے ہوئے یہ تجویز پیش کی کہ اس تحریک کے علمی اور ذہنی پہلوؤں پر کتابیں اور کتابچے چھاپنے کے لیے ایک ’’ مسلم نصب العین فنڈ‘‘ کھولا جائے۔ الٰہ آباد کے ایک وکیل جناب عبدالرب اور لاہور کے خان غلام مصطفی خان تائب نے خطبے کے حق میں مضامین لکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لاہور میں اپر انڈیا مسلم کانفرنس کا چرچا زیادہ ہونے لگا اور سندھی مسلمانوں کے نامور رہنما حاجی سیٹھ عبداللہ ہارون بھی خطبے اور اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے حق میں کام کرنے لگے۔ پنجاب کے مسلمان اخباروں میں کانفرنس کا ذکر مارچ اپریل 31ء تک ہوتا رہا۔ اس کے بعد خاموشی ہو گئی اور کانفرنس نہ ہو سکی۔ سید نذیر نیازی کے نام ایک مکتوب میں علامہ نے 19اپریل 31ء کو لکھا کہ ’’ اپر انڈیا کانفرنس کا جلسہ بھی انشاء اللہ ہو گا۔ 12؎‘‘ نذیر نیازی ہی کے بیان کے مطابق یہ کانفرنس1932ء میں بھی اقبال کے ذہن میں موجود تھی اور انہوں نے موصوف سے کہا انتظار کرو۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ 13؎ اور سید نذیر نیازی کے اس بیان کی صحت میں بھی شک و شبہ کی چنداں گنجائش نہیں کہ اقبال اس وقت کے شمال مغربی ہندوستان میں ایک خالص سیاسی جماعت مجلس ملی، حزب جمہور یا حزب عوام کے نام سے قائم کرنا چاہتے تھے۔ 14؎ کیونکہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کے مفادات کو باقی ہندوستان کے مسلمانوں کے مفادات سے مختلف ہونے کی بنیاد پر الگ کانفرنس کا منطقی نتیجہ یہی ہو سکتا تھا۔ لیکن نذیر نیازی کا یہ بیان بدیہی طور پر غلط ہے کہ علامہ نے خطبہ الٰہ آباد کے بعد اپر انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد اور اس خطبے کے لیے الگ سیاسی جماعت کے قیام کا فیصلہ کیا۔ 15؎ کیونکہ ہم ایک گزشتہ باب میں اخباری رپورٹوں کی بنیاد پر یہ بتا چکے ہیں کہ اپر انڈیا مسلم کانفرنس کی مجلس استقبالیہ خود حضرت علامہ کی صدارت میں نومبر30 ء ہی میں بنچ کی تھی اور وہ اس سلسلے میں تعاون کی اپیل بھی کر چکے تھے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ خطبہ الٰہ آباد پر ہندوستان گیر یورش ہوئی۔ علامہ کے حامیوں نے میدان میں اتر کر مخالفین کے دانت کھٹے کیے۔ لیکن خود علامہ اس بارے میں کافی عرصے تک خاموش رہے۔ شاید اس لیے کہ خطبہ الٰہ آباد میں انہوں نے اپنی ’’ ذاتی رائے‘‘ کا اظہار کیا تھا اور وہ اسے قومی مطالبات سے خلط ملط نہیں کرنا چاہتے تھے یا شاید اس لیے کہ دوسری گول میز کانفرنس کی آمد آمد تھی اور ایک بار پھر مسلمانوں کی صفوں میں’’ کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر مفاہمت کی بات چیت ہو رہی تھی بلکہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں بھی تبادلہ خیالات ہو رہا تھا اور علامہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی تجویز کی آڑ لے کر مخالفین ’’ جناح کے چودہ نکات‘‘ پر غور کرنے ہی سے انکار کر دیں اور اس خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ علامہ کی تجویز کے حق میں اسلامی صحافت نے تو بہت کچھ لکھا لیکن مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کے کسی رہنما نے تائید کی زحمت گوارا نہ کی۔ بہرحال علامہ کا سکوت اکتوبر31ء میں اس وقت ٹوٹا، جب وہ دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھے۔ بات یہ ہوئی کہ برطانیہ کے روزنامہ ’’ دی ٹائمز‘‘ میں ایک افتتاحیہ ’’ہندوستانی اقلیتیں‘‘ کے عنوان سے 29ستمبر کو شائع ہوا۔ اس کا اصل متن ہمارے سامنے نہیں لیکن 3 اکتوبر کو ایک پروفیسر ایڈورڈ تھامپسن کا جو مکتوب اس بارے میں چھپا،ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ افتتاحیہ نگا رنے ’’ اتحاد اسلامی یا پین اسلامزم کی سازش‘‘ پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ پروفیسر موصوف نے اس کے لیے علامہ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ان کے خطبے سے وہ اقتباس پیش کیا، جس میں انہوں نے شمال مغربی ہند میں مسلم ریاست کی تشکیل کے سلسلے میں اپنی ذاتی رائے پیش کی تھی۔ پروفیسر نے لکھا:’’ میں شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کے فرقہ وار صوبوں کے قیام کے خلاف کوئی دلیل نہیں دے رہا۔ لیکن سر محمد اقبال جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہندوستانی فیڈریشن کے اندر یا باہر (ان صوبوں کی) کنفیڈریشن بن جائے۔ اب نقشہ دیکھئے اور یہ اندازہ کیجئے کہ باقی ہندوستان کے لیے کس قسم کی قابل دفاع سرحد رہ جائے گی۔ 16؎‘‘ اس مکتوب کا مقصد یہ تھا کہ دوسری گول میز کانفرنس کے مذاکرات کے دوران میں مسلمانوں کا کیس کمزور کیا جائے۔ یہ اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پروفیسر ایڈور تھامپسن مدتوں ہندوستان میں رہے تھے، ہندوستانی رہنماؤں سے ان کے تعلقات تھے، رابندرا ناتھ ٹیگور کے مداحوں میں سے تھے اور ان دنوں آکسفورڈ میں انڈین سول سروس کے پروبیشنرز کو بنگالی زبان پڑھاتے تھے۔ اس کے جواب میں ’’ دی ٹائمز‘‘ کے 12اکتوبر کے شمارے میں علامہ کا ایک مکتوب چھپا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ میرے خطبے سے یہ اقتباس بلا لحاظ سیاق و سباق دے دیا گیا ہے کہ ’’ میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو مدغم کر کے ایک واحد ریاست کی صورت میں دیکھنا پسند کروں گا۔ خود اختیاری حکومت قلمرو برطانیہ کے اندر ہو یا باہر، ایک مضبوط شمال مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مجھے کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی آخری منزل نظر آتی ہے۔‘‘ علامہ نے مکتوب کے جواب میں لکھا: ’’ میں ڈاکٹر تھامپسن کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے قلمرو برطانیہ کے باہر ایک مسلم ریاست کا مطالبہ نہیں کیا۔ بلکہ محض ایک قیاس پیش کیا ہے کہ جو زبردست قوتیں اس وقت ہندوستانی برعظیم کی تقدیر بنا رہی ہیں، آنے والے مدھم مستقبل میں اس کا ممکنہ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ کوئی صحیح الدماغ ہندوستانی مسلمان برطانوی دولت مشترکہ سے باہر شمال مغربی ہند میں ایک یا ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں کے قیام کو عملی سیاست کے منصوبے کی حیثیت سے زیر غور نہیں لاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد اقبال نے کہا کہ میں نہرو رپورٹ اور سائمن رپورٹ کے تجویز کردہ خطوط پر ہندوستان میں صوبوں کی ایک ایسی از سر نو تقسیم چاہتا ہوں، جس سے ہر صوبے میں کسی ایک یا دوسری قوم کو موثر اکثریت حاصل ہو۔ اور اقبال نے لکھا: ’’ در حقیقت مسلمان صوبوں کے بارے میں میری تجویز محض اسی تصور کو آگے بڑھاتی ہے۔ ہندوستان کے شمال مغربی سرحد پر مطمئن اور اچھی طرح منظم مسلمان صوبوں کی ایک قطار ایشیائی کوہستانوں کی بھوکی نسلوں کے خلاف ہندوستان اور قلمرو برطانیہ کے لیے ایک فصیل کا کام دے گی۔ 17؎‘‘ اگر خطبہ الٰہ آباد کا وہ تجزیہ پیش نظر رکھا جائے جو گزشتہ باب میں پیش کیا جا چکا ہے، تو اقبال کی ان تاویلات میں کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا۔ حوالے 1۔ ’’ انڈین ڈیلی میل‘‘ یکم جنوری 31ء 2۔ ’’ لیڈر‘‘ الٰہ آباد ،4جنوری 31ء 3۔ ’’ ٹریبیون‘‘ یکم جنوری 31ء 4۔’’ انقلاب‘‘ 17جنوری 31ء 5۔اس مضمون کا ترجمہ ’’ انقلاب‘‘ میں چھپا تھا۔ 6۔’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص55 7۔’’ انقلاب‘‘ 7جنوری 31ء 8۔ایضاً، 9جنوری 31ء 9۔ایضاً، 11جنوری 31ء 10۔ ایضاً، 17جنوری 31ء 11۔ ’’ ہمدم‘‘ 5جنوری 31ء 12۔ ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص54 13۔ایضاً،ص64 14۔ ایضاً، ص55 15۔ ایضاً، ص63 16۔ Lettersand Writings of Iqbal ص117, 118 17۔ ایضاً، صفحات119, 120 ٭٭٭ بائیسواں باب بھوپال کانفرنس، تحریک کشمیر کا آغاز اور پین اسلامزم 19جنوری 31ء کو پہلی گول میز کانفرنس ختم ہو گئی۔ ادھر ہندوستان میں اہم واقعات رونما ہوئے۔ گاندھی جی نے سول نافرمانی کی جو تحریک چلا رکھی تھی، اس کے بارے میں وائسرائے لارڈ ارون اور گاندھی جی کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے۔ آخر ایک مفاہمت ہو گئی جسے گاندھی ارون معاہدے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے گاندھی جی نے چند معمولی مراعات کے بدلے تحریک بند کر دی۔ اگر مراعات کو دیکھا جائے تو اس میں کانگرس کو جیت نہ ہوئی، لیکن اس معاہدے کے نفسیاتی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لوگوں میں یہ عام تاثر پیدا ہوا کہ حکومت کو جھکنا پڑا ہے۔ اس سے حکومت کی ساکھ میں کمی ہوئی، گاندھی جی کی ساکھ میں اضافہ ہوا اور کانگرس کی نمائندہ حیثیت تسلیم کر لی گئی۔ یہ صورت حالات مسلمانوں کے لیے خطرناک تھی۔ کیونکہ دوسری گول میز کانفرنس کی آمد آمد تھی اور اس دفعہ اس میں کانگرس کو بھی شریک ہونا تھا اور مسلمانوں کو اندیشہ تھا کہ کانگرس اور برطانیہ کے درمیان گٹھ جوڑ سے ان کی جنگ حقوق متاثر ہو گی۔ اب پھر مسلمانوں میں یہ تحریک اٹھی کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور قومی مطالبات کا ایسا فارمولا تیار کریں، جس پر سب مسلمان جماعتوں کو اتفاق ہو۔ تاکہ گول میز کانفرنس میں ان کا متحدہ محاذ بن سکے اور وہ کانگرس اور برطانیہ کے مشترکہ دباؤ کا مقابلہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے جلسے ہوئے۔ 2مئی 1931ء کو لاہور میں ایک جلسہ عام ہوا، جس کی صدارت علامہ نے فرمائی۔ آپ نے صدارتی خطبے میں کہا کہ مسلمانوں کے دونوں بڑے گروہوں میں تیرہ مطالبات پر اتفاق رائے موجود ہے۔ صرف چودہویں مطالبے پر اختلاف ہے اور وہ بھی کم ہو رہا ہے۔ مسلم کانفرنس جداگانہ انتخاب مستقل طور پر چاہتی ہے۔ نیشنلسٹ مسلمان کہتے ہیں کہ اگر بالغوں کو ووٹ کا حق دے دیا جائے تو مخلوط انتخاب میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان میں مولانا ظفر علی خان کا فارمولا یہ ہے کہ دس سال کے لیے جداگانہ انتخاب قبول کر لیا جائے اور اس کے بعد اگر بالغوں کو ووٹ کا حق مل جائے تو مخلوط انتخاب رائج کر لیا جائے حسب معمول حضرت علامہ نے اس تقریر میں بھی مسلمانوں کو مذہبی فرقہ بندیوں سے بالا ہو کر متحد ہو جانے کی تلقین کی اور آخر میں کہا:’’ ابھی آپ کو ایک شدید جنگ میں قربانیاں دینی ہیں اور وہ سرمایہ داری کی لعنت کے خلاف جنگ ہے۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے لیے بھی تیار رہیں۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ کوئی دوسری قوم یا انگریزی اس کی دست گیری کرے گا تو وہ بدبخت ہے۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ، ورنہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ زندہ رہو۔ 1؎‘‘ چند دن بعد 10مئی کو نواب آف بھوپال نے جداگانہ انتخاب اور مخلوط انتخاب کے حامی مسلمان رہنماؤں کی ایک کانفرنس بلائی۔ جس میں حضرت علامہ، سر محمد شفیع، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، جناب تصدق احمد خان شروانی، شعیب قریشی اور دوسرے رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہاں کھل کر تبادلہ خیال ہوا۔ مختلف فارمولوں کی جانچ پرکھ ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ تمام ارکان ان فارمولوں کو اپنی اپنی جماعت کے سامنے پیش کریں اور ان کا عندیہ معلوم کر کے یکم جون کو پھر بھوپال میں جمع ہوں۔ حضرت علامہ نے دو بیان جاری کیے ایک سر محمد شفیع، مولانا شوکت علی اور تصدق احمد شروانی کی معیت میں 2؎ اور دوسرا نواب محمد اسماعیل خان کی رفات میں۔ 3؎ دونوں بیانات میں خیر سگالی کے جذبات کار فرما تھے اور آنے والی کانفرنس کے بارے میں ایک رجائی نقطہ نگاہ اختیار کیا گیا تھا او ریہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ کوئی نہ کوئی مفاہمت ہو جائے گی۔ لیکن اتنے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے ذریعے سے یہ خبر نشر ہوئی کہ ڈاکٹر انصاری اور شعیب قریشی شملہ پہنچے، گاندھی جی سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ نواب بھوپال کی بلائی ہوئی کانفرنس میں ایک عارضی معاہدہ ہو گیا۔ اور یہ فیصلہ ہوا کہ جداگانہ انتخاب دس سال تک رہے گا اور اس کے بعد ہر جگہ مخلوط انتخاب کا دور دورہ ہو گا۔ حضرت علامہ نے اس بات کو غلط قرار دیا اور کہا کہ جو غیر رسمی مذاکرات ہوئے، انہیں عارضی معاہدے کا نام دینا مناسب نہیں۔ ’’ اس جلسہ میں اس سے زیادہ کوئی کارروائی نہیں ہوئی کہ نام نہاد مسلم نیشنلسٹوں کو انتخابات کے متعلق آل انڈیا مسلم کانفرنس کے فیصلوں سے قریب تر لانے کے لیے بعض تجاویز پیش کی گئیں، تاکہ یہ لوگ پھر کامل مسلم قوم میں شامل ہونے کے قابل ہو سکیں۔‘‘ علامہ نے بتایا کہ تجاویز پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ صرف یہ فیصلہ ہوا کہ ان پر سیاسی جماعتوں کا رد عمل معلوم کیا جائے۔ علامہ اس بات پر سخت معترض ہوئے کہ کانفرنس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اندریں حالات انہوں نے بھوپال کانفرنس کے مجوزہ دوسرے اجلاس کو ضرر رساں قرار دیا۔ اس طرح بھوپال کانفرنس اپنے مقصد میں ناکام ہو گئی۔ انہی دنوں لاہور میں ایک ہنگامہ اٹھا، جسے مغل پورہ کالج ایجی ٹیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بات یہ ہوئی کہ مغل پورہ انجینئرنگ کالج کے انگریز پرنسپل کیپٹن وٹیکر سے مسلم طلبہ کا ایک وفد ملا اور اپنی بعض شکایات پیش کیں۔ کیپٹن وٹیکر نہایت فرعون مزاج آدمی تھا۔ا س نے تمام مسلمان قوم کے خلاف اہانت آمیز جملے کہے، جس پر مسلم طلبہ مشتعل ہو گئے اور علامہ اقبال اور دوسرے رہنماؤں سے ملے۔ یہاں سے ایک باقاعدہ ایجی ٹیشن کا آغاز ہو گیا۔ جلسے ہوئے، جلوس نکالے گئے اور کالج کے باہر مسلم طلبہ اور رضاکاروں نے پکٹنگ کی۔ اسی سلسلے میں3جون کو ایک جلسہ عام ہوا جس کی صدارت حضرت علامہ نے فرمائی اس میں پرنسپل کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اور حضرت علامہ نے اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانوں سے ایک بار پھر یہی کہا کہ اگر تم عزت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو متحدہ ہو جاؤ۔ انہوں نے بڑے درد اور رقت سے فرمایا:’’ تم آج تک اپنی مصیبت کے علاج کے لئے ہزاروں تدبیریں کر چکے ہو۔ اب ایک تدبیر محمد عربی صلعم کی بھی آزماؤ حضور صلعم فرماتے ہیں۔ اتحاد امتی حجتہ فاطعۃ ایک دفعہ اتحاد کر کے دیکھو اگرچہ اب تک کی تمام تدابیر ناکام ثابت ہو چکی ہیں لیکن حضرت محمد مصطفی صلعم کا بتلایا ہوا یہ نسخہ شفا کبھی ناکامیاب نہیں ہو گا۔ 5؎‘‘ حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا۔ لیکن مسلمانوں نے اسے اعتماد کے قابل نہ سمجھا اور ایجی ٹیشن جاری رکھی۔ اس پر حکومت کو جھکنا پڑا۔ چنانچہ کمیشن میں مسلمانوں کا ایک اور نمائندہ لیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ کمیشن کے سامنے یہ معاملات پیش ہوں گے۔ اول: آیا وٹیکر نے وہ الفاظ استعمال کیے، جن سے متاثر ہو کر انسٹھ مسلم طلبہ نے کالج چھوڑنے کی درخواست دی۔ دوم: کیا یہ صحیح ہے کہ وٹیکر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا تھا اور ان کے داخلے میں رکاوٹیں ڈالتا تھا؟ سوم: آیا داخلے کا اختیار پرنسپل کو رہے یا اس کے لیے کوئی الگ بورڈ مقرر کیا جائے؟ 3 جولائی 31ء کو مسلمانوں کا ایک اور جلسہ عام ہوا جس میں مولانا داؤد غزنوی اور علامہ اقبال کے مشورے سے ایجی ٹیشن بند کر دی گئی اور فیصلہ ہوا کہ کمیشن کے سامنے شہادتیں پیش کرنے کا کام تن دہی سے کیا جائے۔ 6؎ کچھ عرصہ بعد یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیااور وٹیکر نے مسلمانوں سے معذرت بھی کر دی۔ گاندھی، ارون سمجھوتے سے ہندوؤں میں قوت کا جو نیا احساس پیدا ہوا، وہ ایک تخریبی سمت میں چل نکلا اور ہندوؤں نے سوچا کہ اب مسلمانوں پر تسلط حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ پھر فسادات کا بازار گرم کیا۔ بنارس، آگرہ اور مرزا پور کے بعد کانپور میں بہت بڑے اور منظم انداز میں مسلمانوں کی تباہی کا سامان فراہم کیا گیا۔ جس پر علامہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں انکشاف کیا کہ بہت سے مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، ہزار ہا مکانات جلا دیے گئے، پیشہ وروں کے آلات ہتھوڑوں سے کوٹ کوٹ کر بیکار کر دیے گئے، قرآن حکیم کی بے حرمتی کی گئی اور تیس مسجدیں کلی یا جزوی طور پر مسمار کر دی گئیں۔ علامہ نے دوسرے رہنماؤں کی رفاقت میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ پنجاب، سرحد اور سندھ میں بہت بڑے پیمانے پر چندہ جمع کر کے کانپور ریلیف فنڈ میں داخل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس سلسلے میں مسلمان حرکت میں نہ آئے تو ہندوؤں کو یہ خیال گزرے گا کہ مسلمانوں کو شہر بہ شہر مار لینا آسان ہے۔ ’’ خدانخواستہ یہ خیال اگر دشمنوں کے دل میں پختہ ہو گیا تو وہ دن ہر مسلمان کے لیے مصیبت کا ہو گا اور سپین والا نظارہ ہندوستان میں نظر آنا کچھ بعید نہ ہو گا۔ 6؎‘‘ اسی دوران میں تحریک کشمیر کا نہ صرف آغاز ہو چکا تھا بلکہ اس کی نہایت سنگین صورت بن چکی تھی۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرہ شاہی نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ نظم و نسق میں مسلمانوں کا تناسب نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایسے قوانین نافذ تھے جن کی رو سے تبدیل مذہب اور ذبح بقر کی پاداش میں جائیداد بھی ضبط کر لی جاتی تھی اور دس سال قید کی سزا بھی دی جاتی تھی۔ جبر و تشدد عام تھا اور اس کا تختہ مشق مسلمان تھے۔ ٹیکسوں کا بوجھ ناقابل برداشت تھا۔ مسلمانوں میں افلاس عام تھا صناع مسلمان ایک تو اکثر مقروض ہوتے تھے، دوسرے ڈوگرہ شاہی ان کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھی۔ ایسے میں چند پڑھے لکھے کشمیری مسلمانوں نے لاہور کے روزنامہ ’’ انقلاب‘‘ کا سہارا لیا اور اس اخبار کے ذریعے سے مظالم کی طرف رائے عامہ کی توجہ دلانے لگے۔ برعظیم میں مسلمان اپنے سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، اس سے بھی کشمیری مسلمان متاثر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ کم از کم انسانوں کا سا سلوک تو کیا جائے۔ ’’ انقلاب‘‘ کے مندرجات نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں بے چینی کی جو لہر دوڑائی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جا بجا ڈوگرہ شاہی کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ جموں میں ایک ہندو سپاہی نے قرآن کریم کو زمین پر دے مارا، اس سے اشتعال پڑھا۔ اتنے میں مہاراجہ کشمیر نے ’’ انقلاب‘‘ کا داخلہ ریاست میں بند کر دیا۔ اس نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ سری نگر کی خانقاہ معلی میں ایک لاکھ مسلمانوں کا اجتماع ہوا جس میں صوبہ سرحد کے ایک شخص عبدالقدیر نے نہایت جوشیلی تقریر کی۔ جلسے کے فوراً بعد پولیس نے اسے گرفتار کر لیا اور ہری پربت جیل میں بند کر دیا۔ اس پر ہزار ہا مسلمانوں نے جیل پر حملہ کر دیا۔ پولیس نے نہایت سنگ دلی کے ساتھ گولیاں چلائی۔ بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔ انہوں نے سری نگر کے بازاروں میں ایک بہت بڑا جلوس نکالاا ور اس طرح یہ تحریک چل نکلی۔ ان دنوں ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی کوئی ہمہ گیر تنظیم موجود نہیں تھی۔ جموں میں بعض مسلمان نوجوانوں نے ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن قائم کر رکھی تھی۔ جس کے رہنما چودھری غلام عباس تھے۔ یہ جماعت نہایت امن پسندانہ سرگرمیوں میں مصروف تھی۔ دوسری طرف سری نگر میں شیخ محمد عبداللہ اور ان کے چند ساتھیوں نے مسلم ریڈنگ روم قائم کر رکھا تھا تاکہ مسلمانوں میں اخبار بینی کا ذوق بڑھے۔ ڈوگرہ شاہی نے چودھری غلام عباس، شیخ عبداللہ، میر واعظ محمد یوسف شاہ، خواجہ غلام احمد عشائی، مولوی محمد سعید اور بے شمار دوسرے کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ یہی نہیں، مارشل لاء بھی نافذ کر دیا جابجا ٹکٹکیاں لگ گئیں، جن پر باندھ کر کشمیری مسلمانوں کو تازیانے لگائے گئے۔ اس صورت حالات پر برعظیم کے مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا اور پنجاب کے مسلمان تو بے حد متاثر اور مضطرب تھے۔ اس پر حضرت علامہ نے دوسرے مسلمان رہنماؤں کی معیت میں مسلمانوں کے نام یہ اپیل جاری کی کہ وہ 14اگست31ء کو یوم کشمیر منائیں۔ آپ نے کہا:’’مسلمانوں! پے در پے حملے کر کے تمہارے دشمن کو اب یہ گمان ہو گیا ہے کہ مسلمان ایک مردہ قوم ہے۔ اس گمان کو غلط ثابت کرنے کے لیے آپ کا یہ فرض ہے کہ یوم کشمیر کو کامیاب بنائیں اور دشمن پر عملاً ثابت کر دیں کہ آپ ظلم و تعدی کو برداشت کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں 8؎‘‘ 14اگست31ء کو لاہور کے مسلمانوں نے ایک عظیم الشان جلوس نکالا اور اس کے بعد ایک جلسہ عام کیا، جس کی صدارت حضرت علامہ نے فرمائی۔ آپ نے اپنی صدارتی تقریر میں یہ نکات پیش کیے: اول: مسلمانان کشمیر کی تحریک نہ بغاوت ہے نہ اسے ہندو مسلم فساد کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دوم: یہ تحریک جائز مطالبات کے لیے شروع کی گئی ہے۔ ڈوگرہ شاہی سے مسلمانوں ہی کو نہیں، کشمیری پنڈتوں کو بھی شکایت ہے۔ وہ میرے پاس آئے تھے، میں نے انہیں مشورہ دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر متحدہ مطالبات پیش کریں۔ سوم: حکومت کشمیر نے جو تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا ہے، مسلمان اس کی ہیئت ترکیبی سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس لیے انہوں نے اس کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔ کمیشن اس بے کار مشغلے میں مصروف ہے کہ اس تحریک کو ایک سازش قرار دے۔ چہارم: ’’ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک کا اثر اہل کشمیر پر بھی ہونا لازمی تھا۔ چنانچہ وہ بھی اپنے پڑوسیوں کی حالت سے متاثر ہو کر بیدار ہو گئے۔ زمانہ خود لوگوں کو بیدار کر رہا ہے اور کشمیر میں عرصے سے جو مظالم برپا ہیں، ان کی موجودگی میں ضروری تھا کہ وہاں کی رعایا بھی اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرتی۔‘‘ اس جلسے میں جناب سید محسن شاہ نے اپنی تقریر کے دوران میں کہا کہ اخبار کیسری نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر اقبال کشمیر کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور میں جج بنے کا آرزو مند ہوں۔ اس پر علامہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔’’ میں ایسے حاکم کی وزارت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ 9؎‘‘ معاملات کی نزاکت کے پیش نظر رائے عامہ کے نمائندوں نے ایک جماعت قائم کی جس کا نام آل انڈیا کشمیر کمیٹی تھا۔ اس کے صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے اور حضرت علامہ ایک نہایت ممتاز رکن تھے۔ اس جماعت کے مقاصد یہ تھے کہ ایک تو کشمیری مسلمانوں کے حق میں رائے عامہ منظم کی جائے۔ دوسرے ریاست جموں و کشمیر کے اندر اصلاحات کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی جائے۔ تیسرے جو کشمیری مسلمان زیر حراست ہیں، انہیں قانونی امداد فراہم کی جائے اور جن خاندانوں کے لوگ شہید ہو چکے ہیں ان کے ورثاء کو مالی امداد مہیا کی جائے۔ ایک ہندو اخبار نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ علامہ کشمیر کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ اس کے دس پندرہ دن بعد لاہور کے انگریزی روزنامہ ’’ ٹریبیون‘‘ نے ایک شخص راگھون کا مضمون چھاپا۔ جس میں لکھا تھا کہ :’’ بعض شخصیتوں کی نیتوں کا حال اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ شورش کشمیر کے دوران ہی میں برطانوی ہند کے ایک ممتاز لیڈر نے کشمیر کی وزارت میں کوئی عہدہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی ہے۔‘‘ یہ اشارہ بھی علامہ کی طرف تھا۔ چنانچہ ’’ انقلاب‘‘ کے استفسار پر علامہ نے کہا:’’ میں نے یوم کشمیر کے جلسے میں صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں ایسی وزارت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ میں نے تو اس وزارت سے بڑی بڑی چیزوں کے لیے کبھی کسی سے درخواست نہیں کی۔ علاوہ بریں میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ممبر ہوں جو کشمیر کے نظام حکومت میں اصلاحات چاہتی ہے۔ میرے نزدیک اس کمیٹی کا ممبر ہونے کی حالت میں کوئی ایسی حرکت کرنا دیانت و امانت کے خلاف ہے۔10؎‘‘ ہندو نیشنلسٹ اس کوشش میں رہتے تھے کہ حضرت علامہ کے خلاف کچھ کہنے کا موقع ملتا رہے۔ وہ جانتے تھے کہ انگریز دو چیزوں سے ڈرتا ہے۔ ایک بالشویزم یا سوشلزم۔ دوسرا، پین اسلامزم۔ چنانچہ وہ اکثر انہی چیزوں کے آڑ لے کر انگریزوں پر یہ ظاہر کرتے تھے کہ اقبال ان کے حق میں خطرناک ہیں۔ 1931ء کے وسط کا ذکر ہے۔ سر فرانسس ینگ ہسبینڈ (Sir Francis Young Husband) کی ایک کتاب آئی (Life in the Stars) ’’ستاروں میں زندگی‘‘ علامہ نے اس کو سہارا بنا کر مصنف کے نام ایک طویل مکتوب لکھا جو 30 جولائی کے ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ ‘‘ میں چھپا۔ اس میں انہوں نے برعظیم کی سیاست کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر برطانیہ نے اگلی گول میز کانفرنس میں فرقہ وار اختلافات سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھایا تو یہ برطانیہ اور ہندوستان، دونوں کے لیے برباد کن ثابت ہو گا۔ اگر آپ نے سیاسی اقتدار ہندو کے حوالے کر دیا تو مسلمان مجبور ہو جائیں گے کہ وہی حربے سوراجی یا اینگلو سوراجی حکومت کے خلاف استعمال میں لائیں جو گاندھی نے حکومت برطانیہ کے خلاف برتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ نے بتانے کے لیے کہ مسلمان قوم کو اپنی جیب میں نہیں سمجھنا چاہیے یہ لکھا:’’ اس سے یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ پورا مسلم ایشیا روسی کمیونزم سے ہم آغوش ہونے پر مجبور ہو جائے اور اس سے مشرق میں برطانوی سیادت پر زد پڑے گی۔ میں نہیں سمجھتا کہ روسی طبعاً غیر مذہبی لوگ ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس میرے خیال میں ان میں مضبوط مذہبی رحجانات موجود ہیں اور روسی ذہن کی موجودہ منفی کیفیت غیر معینہ عرصے تک جاری نہیں رہے گی۔ کیونکہ کوئی معاشری نظام لا مذہبی بنیاد پر قائم نہیں رہ سکتا۔ جونہی اس ملک میں حالات پر سکون ہوئے اور لوگوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کا موقع ملا، وہ اس نظام کے لیے ایک مثبت بنیاد تلاش کر لیں گے۔ اگر بالشویزم میں خدا کا تصور شامل کر لیا جائے تو وہ اسلام کے قریب قریب مماثل ہو جاتا ہے۔ اس لیے مجھے اس بات پر حیرت نہ ہو گی اگر آگے چل کر اسلام روس پر چھا جائے یا روس اسلام پر چھا جائے۔ نتیجے کا انحصار میرے نزدیک کافی حد تک اس پوزیشن پر ہو گا جو مسلمانوں کو نئے آئین میں ملے گی۔ 11؎‘‘ اس بیان کو بنیاد بنا کر بمبئی کے نیشنلسٹ انگریزی روزنامہ ’’ بمبئی کرانیکل‘‘ کے نامہ نگار نے علامہ سے انٹرویو لیا۔ اس نے پہلے یہ سوال کیا: کیا آپ برطانوی سامراج کو خدا پرست سمجھتے ہیں؟ علامہ نے جواب دیا۔ جو ممالک استحصال میں مصروف ہیں وہ خدا پرستی کی نفی کرتے ہیں۔ اس کے بعد نامہ نگار نے دریافت کیا۔ کیا آپ کا خیال اب بھی یہی ہے کہ بالشوزم میں خدا کا تصور شامل کر لیا جائے تو وہ اسلام بن جاتا ہے؟ اس سوال میں اگرچہ اقبال کے اصل بیان میں تحریف بھی کی گئی، بہرحال اقبال نے جواب دیا: ’’ اسلام ایک اشتراکی انداز کا (Socialistic) دین ہے۔ قرآن مجید مطلق سوشلزم اور نجی املاک کے تصورات کے بین بین تعلیم دیتا ہے۔ ذاتی طور پر میرا خیال یہ ہے کہ جدید ضمیر سامراج اور بالشوزم میں بنیادی تبدیلیاں لائے گا۔ علاقائی سلطنتوں کے دن بیت چکے ہیں اور مطلق سوشلزم کے معنوں میں بالشوزم میں بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ معاشی نقطہ نگاہ میں بنیادی اختلاف کی وجہ سے روس اور برطانیہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں اور اس صورت میں ظاہر ہے کہ صحیح الخیال لوگوں کی ہمدردیاں انصاف کی طرف ہوں گی۔‘‘ اس کے بعد نامہ نگار نے لکھا:’’ چند اور سوالات سے یہ معلوم ہوا کہ اس موضوع پر شاعر ریڈیکل خیالات رکھتا ہے اور یہ خیالات نجی املاک کے اس تصور سے بالکل مختلف ہیں جن پر مسلمان عمل پیرا ہیں۔ وہ (اقبال) ایک نکتے پر بہت واضع اور واشگاف خیال رکھتا ہے اور وہ یہ کہ قرآنی تعلیم زمین کی نجی املاک کے خلاف ہے۔‘‘ نامہ نگار نے یہ بھی پوچھا کہ پین اسلامزم کے بارے میں آپ کا تصور کیا ہے۔ علامہ نے فرمایا کہ پین اسلامزم کی اصطلاح سب سے پہلے فرانسیسی اخبار نویس نے وضع کی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ اسے ایک ’’ خطرہ‘‘ بنا کر اسلامی ملکوں کے خلاف یورپی جارحیت کے لیے وجہ جواز قرار دیا جائے۔ اسی طرح جیسے ’’ زرد خطرہ‘‘ کی اصطلاح مشرقی ایشیا میں چین اور جاپان کی پیش رفت کے لیے وضع کی گئی تھی۔ اس کے بعد پین اسلامزم سے مراد ایک سازش تھی جس کا مرکز قسطنطنیہ قرار دیا گیا اور مقصد یہ بتایا گیا کہ یورپی قوموں کے خلاف اسلامی ملکوں کی ایک یونین بنائی جائے گی۔ اس سازش کا بھی کوئی وجود نہیں تھا اور پروفیسر براؤن جیسے نامی گرامی مستشرق نے ثابت کر دیا تھا کہ ان معنوں میں پین اسلامزم کا تصور نہ قسطنطنیہ میں موجود تھا نہ کہیں اور۔ بہرحال یہ تصور سید جمال الدین افغانی سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس نے یہ اصطلاح استعمال کی تھی یا نہیں ۔ لیکن یہ درست ہے کہ اس نے یورپی جارحیت کے خلاف افغانستان، ایران اور ترکیہ کے متحد ہونے کی تلقین کی تھی۔ لیکن یہ ایک خالص دفاعی تجویز تھی اور میرے نزدیک جمال الدین افغانی کا موقف بالکل صحیح تھا۔ علامہ نے کہا کہ اگر پین اسلامزم سے ایک ایسا عالمی معاشری تجربہ مراد لیا جائے جس میں نسل، رنگ اور ذات پات کے تصورات نابود ہوں، تو یہ حقیقت میں اسلام ہی کا دوسرا نام ہے۔ ان معنوں میں پین اسلامزم صرف اتحاد اسلامی ہی نہیں، اتحاد انسانی بھی ہے اور ہر مسلمان اس پر یقین رکھتا ہے۔ بلکہ اس میں پین کا لفظ بھی سرا سر فالتو ہے۔ اس زمانے میں بعض حلقوں میں یہ تجویز ابھر رہی تھی کہ عرب ملکوں کی ایک فیڈریشن قائم کر لی جائے۔ اس کے بارے میں علامہ سے رائے دریافت کی گئی۔ انہوں نے کہا تجویز اچھی ہے لیکن اس کے راستے میں بہت بڑی مشکلات حائل ہیں۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ سوائے سعودی عرب اور یمن کے کوئی آزاد عرب مملکت موجود ہی نہیں تھی۔ شام و لبنان پر فرانس کا قبضہ تھا، فلسطین پر انگریزوں کا، شرق اردن برطانیہ کے زیر حمایت ایک چھوٹی سی ریاست تھا۔ عراق اور مصر میں برطانوی فوجیں مقیم تھیں۔ ایسے میں اگر عرب فیڈریشن بن بھی جاتی تو وہ برطانیہ اور فرانس کی کٹھ پتلی ہوتی۔ یہ درست ہے کہ وحدت عربیہ کی تحریک ایک عرصے سے چل رہی تھی اور دنیائے عرب کے دانش ور بیسویں صدی کے ابتدا ہی میں اس کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ اور پہلی عالمی جنگ کے دوران میں شام و لبنان کے عرب سیاست دانوں نے ترکیہ کے خلاف بغاوت کی تو وہ ’’غداری‘‘ نہیں تھی بلکہ اس آرزو کی مظہر تھی کہ دنیائے عرب یکجا اور متحد ہو کر ایک اہم کردار ادا کرے۔ لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جزیرۃ العرب کا بٹوارہ کر لیا تو پھر عرب فیڈریشن کی جو تجویز ابھری، اس کا سرچشمہ انگریز تھے یا فرانسیسی یا دونوں۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا تسلط جزیرۃ العرب کے ایسے حصوں میں پر بھی ہو جائے۔ جو بڑی مشکل کے ساتھ اپنی آزادی اور خود مختاری کو سنبھالے ہوئے تھے۔ علامہ اقبال کی نگاہ دور بین تھی۔ وہ سامراجی عزائم سے باخبر تھے۔ اس لیے انہوں نے عرب فیڈریشن کی تجویز کے مستقبل پر کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔ ہاں اتنا ضرور کہا کہ عربی زبان کا مستقبل روشن ہے اور یہ عرب قوموں میں اسلام کے بعد سب سے بڑے رشتے کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1931ء میں علامہ شاعر کم تھے اور سیاستدان زیادہ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برعظیم کے مسلمانوں کو مقامی، علاقائی اور ملک گیر، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بحرانوں کے ایک طویل سلسلے سے نبرد آزما ہونا پڑا اور اقبال جیسا درد مند مسلمان رہنما ان سے الگ نہیں رہ سکتا تھا اور سال کے آخری مہینوں میں ایک او ربڑی مصروفیت سے سابقہ پڑا اور وہ تھی دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت! ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ گفتار اقبال‘‘ صفحات116, 118( بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 5مئی 31ئ) 2۔ ایضاً، صفحات118, 119(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 15مئی 31ئ) 3۔ ایضاً، صفحات119, 120 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 17مئی 31ئ) 4۔ ایضاً، صفحات120, 121 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 17مئی 31ئ) 5۔ ایضاً، صفحات122, 23 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 5جون 31ئ) 6۔ ایضاً، صفحات123, 25 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 5 جولائی 31ئ) 7۔ ایضاً، صفحات125, 129 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 14جولائی 31ئ) 8۔ ایضاً، ص129(بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 11اگست31ئ) 9۔ ایضاً، صفحات130, 123 (بحوالہ ’’ انقلاب‘‘ 16 اگست31ئ) 10۔ ایضاً، ص133(بحوالہ ٹریبیون26اگست31ء اور ’’ انقلاب‘‘ 30اگست 31ئ) 11 ۔ Speeches and Statements of Iqbal صفحات163, 64 12۔ Letters and Writings of Iqbal صفحات54, 62 ٭٭٭ تئیسواں باب گول میز کانفرنس، علمی اور تہذیبی سرگرمیاں 8ستمبر31ء کو حضرت علامہ نے لاہور سے لندن کا عزم کیا تاکہ دوسری گول میز کانفرنس میں اپنی قوم کی نیابت کا حق ادا کریں۔ اسی دن اخباروں میں جناب محمد علی جناح کا یہ بیان چھپا تھا کہ جمہوری حکومت کا یہ تقاضا نہیں کہ سات کروڑ مسلمانوں کو بے دست و پا کر کے ان پر ہندوؤں کے ایک طبقے کو مسلط کر دیا جائے۔ اگر برطانیہ نے کوئی ایسا دستور نافذ کیا تو مسلمان اس دستور کو تباہ کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر دیں گے۔ 1؎ روانگی سے چند منٹ پہلے علامہ سے کہا گیا کہ قوم کے نام پیغام دیں۔ انہوں نے فرمایا، مسٹر جناح کے پیغام کے بعد مسلمانان ہند کے لیے کسی مزید پیغام کی ضرورت نہیں۔ مختصراً میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی دستور اساسی ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا جو مسلمانوں کے لیے اجتماعی حیثیت سے موت کا پیغام ہو۔ 2؎ دوسرے دن صبح کے وقت علامہ دہلی پہنچے۔ احباب پذیرائی کے لیے موجود تھے، مختلف انجمنیں سپاس نامے پیش کرنا چاہتی تھیں وقت کم تھا، اس لیے انہوں نے سپاس نامے قبول کر لیے لیکن انہیں سننے سے معذوری ظاہر کی۔ البتہ ایک سپاس نامے کو مستثنیٰ کیا گیا جو شمس العلماء مولانا سید احمد امام جامع مسجد نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی صوبائی شاخ کی طرف سے پڑھ کر سنایا۔ علامہ نے جواب میں فرمایا کہ میں اپنے ساتھ سیاسی لٹریچر کا کوئی پلندہ نہیں لے جا رہا، بلکہ میرے پاس حق و صداقت کی ایک جامع کتاب (قرآن پاک) ہے جس کی روشنی میں مسلمانان ہند کے حقوق کی ترجمانی کروں گا۔ آپ نے کہا اگر پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ صوبائی خود مختاری نہ دی گئی اور مسلمانوں کے دوسرے مطالبات نہ مانے گئے تو جو دستور اساسی بھی ہندوستان کو دیا جائے گا، مسلمانان ہند اس کے پرخچے اڑا دیں گے۔ 3؎ دہلی سے بمبئی پہنچے تو افغانستان کے قونصل مقیم بمبئی سردار صلاح الدین سلجوقی نے اپنے ہاں دعوت پر بلایا۔ وہاں ایک پر لطف علمی صحبت رہی۔ شام کے وقت عطیہ بیگم کے ہاں سماع کی صحبت رہی اور 12 ستمبر کو ایک بجے بعد دوپہر’’ ملوجا‘‘ نامی جہاز پر سوار ہو کر عازم لندن ہو گئے۔ چار دن بعد جہاز نے عدن میں لنگر ڈالا تو ایک ہندی مسلمان وکیل شیخ عبداللہ علامہ کو شہر لے گئے۔ ماکولات اور مشروبات کا سلسلہ چلا۔ شہر کی ہلکی پھلکی سیر ہوئی اور شیخ موصوف نے رات کے گیارہ بجے علامہ کو جہاز میں پہنچا دیا۔ آدھ گھنٹہ بعد جہاز روانہ ہو گیا اور نہر سویز سے گزر کر 20 ستمبر کو پورٹ سعید پہنچا۔ وہاں جو بھی مسلمان نوجوان علامہ سے ملا، اس نے بتایا کہ مصر کے مسلمان عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانان ہند ہندوستان کی آزادی کی راہ میں روڑا اٹکا رہے ہیں۔ علامہ نے ان سب کو اصل صورت حالات سے آگاہ کیا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ’’ میری گفتگو سننے کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے۔ تقریر کے بعض حصے انہوں نے نوٹ بھی کر لیے تھے۔ 4؎‘‘ پورٹ سعید ہی میں علامہ نے ایک ملاقاتی حاجی حکیم صدیق محمد کو بتایا کہ مصریوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان شرارت پسند لوگ نفاق ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں یہ بتایا جاتاہے کہ مصری مسلمانوں نے قرآن، اللہ اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا ہے اور مصریوں کو یہ تاثر دیا جاتاہے کہ ہندی مسلمان آزادی کے راستے میں کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ علامہ نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں کو فکر لگی رہتی ہے کہ مسلمان افغانوں، بلوچوں اور سرحد کے مسلمانوں کی مدد سے ہندوستان پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ مصر آزاد ہو جائے تو مصری اپنا ملک ترکوں کو اس وجہ سے حوالے کر دیں کہ ترک مسلمان ہیں 5؎ جہاز کے سفر کی جو روداد علامہ نے خود قلم بند کی 6؎ ، اس کے چند اقتباس اس قابل ہیں کہ انہیں پیش کر دیا جائے۔ فرماتے ہیں:’’ ملوجا بحر روم کی موجوں کو چیرتا ہوا چل رہا ہے۔ سمندر بالکل خاموش ہے، طوفان کا نام و نشان تک نہیں۔ موسم بھی نہایت خوشگوار رہا البتہ بحر احمر میں گرمی تھی۔ یہ سمندر عصائے کلیم کا ضرب خوردہ ہے گرم مزاج کیوں نہ ہو ۔ چاروں طرف جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے سمندر ہی سمندر ہے۔ گویا قدرت الٰہی نے آسمان کے نیلگوں خیمے کو الٹ کر زمین پر بچھا دیا ہے۔‘‘ ’’ جہاز کی روز مرہ کی زندگی کی داستان نہایت مختصر ہے۔ میں اپنی قدیم عادت کے مطابق آفتاب نکلنے سے پہلے ہی تلاوت سے فارغ ہو جاتا ہوں۔ اس کے بعد دیگر حوائج سے فراغت پاتے پاتے ’’ بریک فاسٹ‘‘ کا وقت آ جاتا ہے۔ ’’ بریک فاسٹ‘‘ کے بعد عرشہ جہاز پر ہمسفروں سے گفتگو یا گول میز کانفرنس پر، جس کی خبریں لاسلکی کے ذریعے سے ہر روز جہاز پر پہنچ جاتی ہیں، بحث و مباحثہ یا گزشتہ سال کی رپورٹوں کا مطالعہ۔ ہاں کبھی کبھی شعر و شاعری بھی ہو جاتی ہے۔ سید علی امام کو عربی، فارسی اور ارد وکے بے شمار اشعار یاد ہیں اور پڑھتے بھی خوب ہیں۔ ’’ الولد سرلابیہ‘‘ ان کے والد ماجد مولانا نواب امداد امام ادبیات اردو میں ایک خاص پایہ رکھتے تھے۔‘‘ ’’ جہاز پر میں نے گوشت کھانا بالکل ترک کر دیا ہے۔ وطن میں بھی بہت کم کھاتا تھا مگر یہاں تو صرف سبزی، ترکاری، مچھلی اور انڈے پر گزران ہے۔ ایک تو گوشت کی طرف رغبت بہت کم ہے دوسرے ذبیحہ بھی مشتبہ ہے۔ البتہ غیر مشتبہ ذبیحہ بھی کبھی کبھی مل جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ سر علی امام کی بیگم صاحبہ کہ نیک نفسی اور شرافت کا مجسمہ ہیں، اپنے شوہر کے ہمراہ ہیں۔ ذبیحہ کے متعلق خاص طور پر محتاط ہیں۔ اپنا باورچی ساتھ لائی ہیں۔ ان کی عنایت سے غیر مشتبہ ذبیحہ اور مغلی کھانا قریباً قریباً روز ہماری میز تک پہنچ جاتاہے۔ اگرچہ اس میں میرا حصہ بالعموم سبزی اور چاول تک محدود رہتا ہے۔‘‘ ’’ آپ کہیں گے کہ میں سب کچھ لکھ گیا مگر ہمسفروں کے متعلق اب تک خاموش ہوں۔ ہمارے جہاز میں کچھ زیادہ مسافر نہیں۔ گول میز کانفرنس کے ہندو اور مسلمان نمائندے شاید سات آٹھ ہیں۔ راجہ نرندر ناتھ صاحب بھی اسی جہاز میں ہیں۔ چار مسلمان نمائندے ہیں اور چاروں ’’مغرب زدہ‘‘ مغرب زدہ مسلمان‘‘ کی اصطلاح جو شاید معارف نے وضع کی تھی، نہایت پر لطف ہے۔ لیکن مسلمانوں کے اس مغرب زدہ قافلے کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں دو حافظ قرآن ہیں۔ یعنی نواب صاحب چھتاری اور خان بہادر حافظ ہدایت حسین۔ مقدم الذکر ہر روز ورد کرتے ہیں اور سنا ہے کہ ہر سال تراویح بھی پڑھاتے ہیں۔ ’’ سید علی امام صاحب کی مغرب زدگی کی کیفیت یہ ہے کہ ایک روز صبح کے وقت عرشہ جہاز پر کھڑے تھے، میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ میل و فرلانگ کے حساب کر کے کہنے لگے دیکھو بھائی اقبال۔ اس وقت ہمارا جہاز ساحل مدینہ کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ یہ فقرہ ابھی پورے طور پر ان کے منہ سے نکلا بھی نہ تھا کہ آنسوؤں نے الفاظ پر سبقت کی۔ ان کی آنکھ نمناک ہو گئی اور بے اختیار ہو کر بولے: ’’بلغ سلامی روضتہ فیھا النبی المحہ حرم ‘‘ ان کے قلب کی اس کیفیت نے مجھے بے انتہا متاثر کیا۔ باقی رہا میں مغرب زدہ بھی ہوں اور مشرق زدہ بھی البتہ مشرقی ضرب میرے لیے زیادہ کاری ثابت ہوئی۔‘‘ مولانا غلام رسول مہر (مدیر انقلاب) حضرت علامہ کے ہمراہ تھے۔ بقول سالک یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا۔ اول علامہ کے لیے ایک مخلص رفیق سفر اور ہم خیال دوست کی ہمراہی موجب آسائش ہو گی۔ دوم: مہر صاحب اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے پرائیویٹ طور پر علامہ اقبال اور دوسرے ارکان کانفرنس کے لیے موجب تقویت رہیں گے۔ سوم: وہ روزنامہ ’’ انقلاب‘‘ کے لیے گول میز کانفرنس کی روداد قلم بند کر کے بھیجا کریں گے۔ 7؎ علامہ کا کردار علمی اور تہذیبی دوائر میں کیا رہا اور سیاسی دوائر میں کیا؟ اس پر مولانا غلام رسول مہر نے ان مکتوبات میں مفصل روشنی ڈالی جو لندن سے ’’ انقلاب‘‘ کے نام بھیجے گئے۔ سیاسی کام کے بارے میں معلومات کا ایک اور ذریعہ بھی ہے اور وہ ہے، حضرت علامہ کا وہ خطبہ صدارت، جو انہوں نے 21 مارچ32ء کو لاہور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم کانفرنس میں دیا۔ ہم اس باب میں علامہ کی علمی ا ور تہذیبی سرگرمیوں کا تذکرہ کریں گے اور اگلے باب میں سیاسی کردار کا۔ علامہ قدرے تاخیر سے لندن پہنچے۔ ان سے پہلے گاندھی جی کانگرس کے واحد نمائندے کی حیثیت سے پہنچ چکے تھے اور اپنے لباس، لنگوٹی اور چپل، اپنے چرخے اور اپنی بین الاقوامی شہرت کی وجہ سے لندن میں بہت سی نگاہوں کا مرکز بن چکے تھے۔ اس لیے ان کی خاصی پذیرائی ہوئی۔ مسلمان مندوبین کے قائد سر آغا خان تھے اور وہ لندن میں مستقبل قیام کی وجہ سے اور سیاسی قد کاٹھ کی بنا پر بھی خاصے مشہور تھے۔ لیکن مسلمان مندوبین میں علامہ ہی واحد شخصیت تھے جو علم و ادب او رفلسفے میں اپنے کمالات کی بنا پر بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے اور سیاسی دائرے میں خطبہ الٰہ آباد کی وجہ سے بہت نام پا چکے تھے۔ اس لیے اگر لندن میں کسی مسلمان مندوب کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا یا اس کے اعزاز میں تقریبات برپا کیں تو وہ حضرت علامہ کی ذات گرامی تھی۔ سب سے پہلی تقریب ایران کے سیاست دان سید ضیاء الدین طباطبائی کے ہاں منعقد ہوئی۔ موصوف ایران کی وزارت عظمیٰ پر فائز رہے تھے۔ انہی کے اصلاحی اقدامات کی بدولت رضا شاہ وزیرجنگ بنے۔ اس زمانے کے شاہ ایران سے طباطبائی کے اختلافات ہوئے تو موصوف وطن چھوڑ کو سوئٹزر لینڈ میں آباد ہو گئے۔ علامہ لندن پہنچے تو وہ بھی حسن اتفاق سے آٹھ روز کے لیے انگلستان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے علامہ ا قبال، مولانا شوکت علی، مولوی شفیع داؤدی اور مسٹر زاہد علی کو دوپہر کے کھانے پر بلایا۔ علامہ نے ’’ جاوید نامہ‘‘ کے بعض اشعار سنائے، تو طباطبائی بھڑک اٹھے۔ کہنے لگے ایسی چیزیں آج تک نہیں سنیں۔ مناسب یہ ہے کہ علامہ کے کلام کی نشر و اشاعت ایران میں بھی ہو۔ سفارت خانہ عراق کے سیکرٹری افغان بے نے لنچ پر بلایا۔ جہاں مثنوی مولانا روم اور فرقہ مولویہ کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ البانیہ کے سفیر نے اپنے ہاں مدعو کیا اور اسلامیات او رسیاسیات ہند پر گفتگو ہوئی۔ 8؎ مسٹر اور مسز پنکھرڈ کی طرف سے ایک دعوت میں علامہ نے ایک پر تاثیر تقریر فرمائی اور فلسطین کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انگریزوں کو بحیرہ مردار کے مالی ذخائر اور دوسرے وسائل کے استحصال کا ارادہ ترک کر کے عربوں سے انصاف کرنا چاہیے۔ جس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اعلان بالفور منسوخ کر دیا جائے۔ مشہور مستشرق سر ڈینی سن راس اسلامیات پر لیکچر دینے کے لیے امریکہ جا رہے تھے، وہ علامہ سے ملے۔ دو گھنٹے تک اسلامیات پر گفتگو رہی۔ بہائی تحریک بھی زیر بحث آئی۔ علامہ نے انہیں بتایا کہ اسلام (Dogmatic) مذہب نہیں ہے۔ اس کا نصب العین یہ ہے کہ ساری نوع انسانی ایک گھرانا او رایک خاندان بن جائے۔ اسلام نے جو فرائض، ارکان یا طریق عبادات مقرر کیے، ان سب کا مدعا یہ ہے کہ انسانی قلوب کو رنگ، نسل اور قوم کے امتیازات سے پاک کر دیا جائے۔ انہوں نے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے حقائق کی بھی وضاحت کی۔ سر ڈینی سن راس اتنے متاثر ہوئے کہ امریکہ جانے سے پہلے ایک اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ محترمہ فاطمہ العابد کی دی ہوئی ایک پر تکلف دعوت پر لارڈ ہنڈلے، سفیر عراق اور سفیر افغانستان نے بھی شرکت فرمائی۔ 9؎ مسجد لندن کے امام کی دعوت میں علامہ اقبال کے علاوہ بہت سے مسلم مندوبین اور نو مسلم انگریز شامل تھے۔ علامہ نے نو مسلموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے چالیس کروڑ مسلمان آپ کے بھائی ہیں۔ یہ درست ہے کہ انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانیں ترقی کے اوج پر پہنچی ہوئی ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عربی زبان کا مستقبل بھی درخشاں ہے۔ اس لیے آپ اس سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ 10؎ مولانا مہر لکھتے ہیں:’’ حضرت علامہ اقبال اہل علم کا مرجع بنے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی پروفیسر آتا ہے اور اسلامیات کے متعلق گفتگو کرتا ہے، کبھی کوئی لیکچر دینے والا تبادلہ خیالات کرتا ہے۔ا ترسوں عرب اور افریقہ کے بعض اسلامی ممالک کی مشہور سیاح خاتون روزیٹا فاربس نے مسز سروجنی نائیڈو کی وساطت سے حضرت علامہ کو بلایا تھا اور قرآن کریم کی تعلیمات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ پرسوں لاہور کے سابق ڈپٹی کمشنر کرنل فیرر آئے تھے، ہندوستان اور عالم اسلام کی اسلامی تحریکات کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ یہاں لندن یونیورسٹی میں مختلف اسلامی ممالک کی تحریکات پر مختلف اصحاب لیکچر دے رہے ہیں۔ کرنل فیرر ہندوستان کی اسلامی تحریکات کے متعلق لیکچر دیں گے۔ وہ بہت سے نوٹ حضرت علامہ سے لکھوا کر لے گئے۔ 11؎‘‘ 4نومبر31ء کو برطانیہ کی نہایت وقیع مجلس انڈیا سوسائٹی نے حضرت علامہ کو خاص طور پر مدعو کیا تاکہ وہ اپنے فلسفے اور شاعری پر ایک لیکچر دیں ۔ اس کی صدارت سر فرانسیس ینگ ہسبینڈ نے کی۔ علامہ نے فرمایا کہ میرا کوئی منظم و مرتب فلسفہ نہیں ہے۔ البتہ فلسفے کے ایک مسئلے یعنی حیات بعد الموت کے ساتھ مجھے خاصی دلچسپی رہی ہے۔ میں ایک انسان کے شان دار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدے میرے خیالات و افکار میں آپ کو عموماً جاری و ساری نظر آئے گا۔ علامہ نے اپنے مختلف شعری مجموعوں سے کلام کے نمونے پیش کیے اور ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اس وقت تک ’’ جاوید نامہ‘‘ تو مکمل ہو چکا تھا لیکن منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ علامہ نے اس کتاب کا خصوصی تعارف کرایا۔ جس سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:’’ یہ حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔ جیسے ڈانٹے کی تصنیف یورپ کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف ستاروں کی سیر کرتا ہوا مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر باتیں کرتا ہے۔ پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے۔ اس تصنیف میں دور حاضر کے تمام جماعتی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیر بحث آ گئے ہیں۔ اس میں صرف دو شخصیتیں یورپ کی آئی ہیں۔ اول: کچنر، دوم: نٹشے، باقی تمام شخصیتیں ایشیا کی ہیں۔ ڈانٹے نے اپنا رفیق سفر یا خضر طریق ورجل کو بنایا تھا۔ میرے رفیق سفر یا خضر طریق مولانائے روم ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ کچنر اس ضمن میں کیسے آ گیا؟ جاوید نامہ میں کچنر اور فرعون آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ فرعون کچنر کو طعنہ دیتا ہے کہ یورپ کے لوگ بڑے بے رحم اور بے درد ہیں۔ انہوں نے ہماری قبریں تک کھود ڈالی ہیں۔ کچنر جواب دیتا ہے کہ ہمارا مقصد سائنس کی خدمت اور علم الاثار کی خدمت ہے۔ قبریں اس لیے کھودی ہیں کہ معلوم ہو آج سے تین یا چار ہزار سال قبل دنیا کی حالت کیا تھی۔ فرعون اس تشریح کے جواب میں کہتا ہے: قبر مارا علم و حکمت بر کشور لیکن اندر تربت مہدی چہ بود؟ ایک مقام پر میں نے چار الواح لکھے ہیں۔ لوح بدھ، لوح مسیح، لوح زرتشت اور لوح محمد۔ لوح مسیح میں ٹالسٹائے کا ایک خواب ہے۔ لوح زرتشت میں اسلامی تصوف کے مشہو رمسئلہ فضیلت نبوت بر ولایت یا ولایت بر نبوت کے متعلق بحث ہے۔ لوح محمدؐ کا مضمون یہ ہے کہ کعبہ میں بت ٹوٹے پڑے ہیں، ابوجہل کی روح گریہ و زاری کر رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی ہے کہ انہوں نے ہمارے دین کو برباد کیا، ہماری خاندانی بلند پائیگی زائل کر ڈالی اور مساوات کی تعلیم دینی شروع کر دی جو مزدکیوں سے حاصل کی گئی ہے۔ 12؎‘‘ علامہ کی لندن میں آمد سے پہلے ہی اقبال لٹریری ایسوسی ایشن قائم ہو چکی تھی۔ اس کی بنیاد جناب نیاز محمد خان (جو بعد میں این ایم خان کے نام سے مشہور ہوئے اور مدتوں سول سروس میں رہے) نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں دوسرے مسلم طلبہ اور لندن کے مسلمان شہریوں کے تعاون سے رکھی تھی۔ جب علامہ لندن پہنچے تو یہ نوجوان اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ اس ایسوسی ایشن نے 6نومبرکو علامہ کے اعزاز میں لندن کے مشہور ہوٹل والڈ ورف میں ایک عصرانے کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے ہو سکتا ہے کہ اس میں سر آغا خان بھی آئے اور گاندھی جی بھی۔ 13؎ ان کے علاوہ تمام مسلمان مندوبین، سرتیج بہادر سپرو، مسز سروجنی نائیڈو، پروفیسر ڈاکٹر نکلسن، سر عبدالقادر، خالد شیلڈریک، علامہ عبداللہ یوسف علی، مس مارگرٹ فارقوہرسن اور بے شمار دوسرے لوگ شریک ہوئے۔ کیمبرج سے چودھری رحمت علی اور ان کے ساتھی آئے۔ ایک وفد آکسفورڈ سے آیا ملک خضر حیات خان ٹوانہ کے والد سر عمر حیات خان ٹوانہ میزبان خصوصی تھے اور سر عبدالقادر صدر مجلس۔ سب سے پہلے ڈاکٹر نکلسن نے اپنی تقریر میں اقبال کو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری کا مقصد مولانائے روم کی اصطلاح میں جہاد اکبر ہے۔ این ایم خان نے سپاس نامہ پڑھا۔ علامہ نے جوابی تقریر میں پہلی بار انکشاف کیا کہ ’’ اسرار خودی‘‘ کو فارسی میں لکھنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ میرے خیالات زیادہ وسیع حلقے میں پہنچ جائیں۔’’ میرا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا۔ میں نے اپنی مثنوی اسرار خودی ابتداً صرف ہندوستان کے لیے لکھی تھی اور ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے بہت کم تھے۔ میری غرض تھی کہ جو خیالات میں باہر پہنچانا چاہتا ہوں وہ کم از کم حلقے تک پہنچیں۔ اس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ یہ مثنوی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر جائے گی یا سمندر چیر کر یورپ پہنچ جائے گی۔ 14؎‘‘ کیمبرج سے بھی دعوت آئی ہوئی تھی اور وہ بھی بہت اصرار کے ساتھ۔ چنانچہ علامہ 18نومبر کو وہاں پہنچے۔ چودھری رحمت علی، خواجہ عبدالرحیم اور دوسرے حضرات نے پرتپاک خیر مقدم کیا۔ حضرت علامہ پہلے اپنے اساتذہ سے ملے۔ اس کے بعد یونیورسٹی آرمز ہوٹل میں، جہاں ان کے اعزاز میں عصرانہ دیا گیا تھا، کیمبرج کے اساتذہ ڈاکٹر سارلے، ڈاکٹر نکلسن اور پروفیسر لیوی نے مختصر تقریروں میں خراج تحسین ادا کیا۔ انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن کے مصری صدر نے علامہ کی خدمات کو سراہا۔ علامہ نے اپنی تقریر میں نوجوانوں سے اپیل فرمائی کہ وہ دہریت اور مادیت سے دور رہیں۔ انہوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ پہلی عالمی جنگ مذہب اور مملکت کی علیحدگی اور دہریانہ مادیت کے ظہور کا نتیجہ تھی اور بالشوزم بھی مذہب اور مملکت کی علیحدگی کا ایک طبعی نتیجہ ہے۔ آپ نے کہا’’ مذہب بے حد ضروری چیز ہے۔ مذہب عرفان و ایقان کا نام ہے۔ 15؎‘‘ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علامہ سے جس نے کوئی پیغام مانگا، جس نے زندگی کا کوئی رہنما اصول چاہا، جواب یہی ملا کہ الحاد اور مادہ پرستی سے بچو۔ خدا پر ایمان رکھو۔ مذہب کا دامن نہ چھوڑو۔ ایک کلب میں انگریز خواتین نے کہا، ہمیں کوئی خاص پیغام دیجئے۔ علامہ نے کہا:’’ انگلستان کی عورتوں کا فرض ہے کہ آئندہ نسل کو دہریت اور مادیت کے چنگل سے بچائیں۔‘‘ 21نومبر کو علامہ لندن سے روانہ ہوئے۔ ان کی پہلی منزل مقصود روم تھی۔ کیونکہ اب ایک علمی اور تہذیبی دورے کا آغاز تھا ۔ لیکن اس کی داستان سنانے سے پہلے ضروری ہے کہ انہوں نے گول میز کانفرنس میں جو سیاسی کردار ادا کیا، اس کا تذکرہ کیا جائے۔ اگلا باب اسی کے لیے وقف ہے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ انقلاب‘‘ 8ستمبر1931ء 2۔ ایضاً، 10ستمبر1931ء 3۔ ایضاً، 12 ستمبر1931ء 4۔ ایضاً، 15 اکتوبر1931ء (علامہ اقبال کا مفصل مکتوب، منشی طاہر الدین کے نام) 5۔ ایضاً، 8ا کتوبر1931ء 6۔ ایضاً، 15اکتوبر1931ء (علامہ اقبال کا مفصل مکتوب، منشی طاہر الدین کے نام) 7۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص156 8۔ ’’ انقلاب‘‘ 23اکتوبر1931ء 9۔ ایضاً، 28اکتوبر1931ء 10۔ ایضاً، 29اکتوبر1931ء 11 ۔ ایضاً، 5نومبر1931ء 12 ۔ ایضاً، 22نومبر1931ء 13 ۔ Thoughts and Reflections of Iqbal صفحات 225, 226 14۔ ’’ انقلاب‘‘ 21نومبر1931ء 15۔’’ انقلاب‘‘ 10دسمبر1931ء ٭٭٭ چوبیسواں باب گول میز کانفرنس، سیاسی کردار، اٹلی اور فلسطین کا دورہ حضرت علامہ نے کیمبرج میں صحیح کہا تھا کہ گول میز کانفرنس میں میری شرکت بلا واسطہ نہیں، بلکہ بالواسطہ ہے۔ یہاں ہندوستان کی مختلف قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ہو رہا تھا اور میں نے ضروری سمجھا کہ اس کام میں شریک ہو کر میں بھی اپنے رفقا کا ہاتھ بٹاؤں۔1؎ مسلمان مندوبین کے قائد اور ترجمان سر آغا خان تھے، اس لیے بولنا تو انہی کو تھا۔ البتہ جو مجالس مشاورت مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں منعقد ہوئیں، ان میں حضرت علامہ بھی بولے اور دوسرے مندوبین بھی۔ بلکہ انہوں نے نجی محفلوں میں معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے میں ایک دوسرے کا ہاتھ بھی بٹایا۔ اکتوبر کے اوائل میں علامہ نے وزیر ہند سے ملاقات کے دوران میں مسلمانوں کے مطالبات کو وضاحت سے پیش کیا۔ وزیر ہند اتنے متاثر ہوئے کہ دوبارہ ملاقات کی آرزو ظاہر کی۔ لیکن اس کے بعد کئی دنوں تک پارلیمانی انتخابات کا ہنگامہ رہا اور یہ ملاقات نہ ہو سکی۔ 2؎ مولانا مہر لکھتے ہیں:’’ بعض دوست لکھتے ہیں کہ حضرت علامہ نے کوئی تقریر نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ وہ تقریر کہاں کرتے؟ یہاں اقلیتوں کی کمیٹی کے اب تک صرف تین جلسے ہوئے۔ پہلا اجلاس معاً دو روز کے لیے ملتوی ہو گیا۔ اس لیے کہ گاندھی جی اور بعض دوسرے مندوبین باہم گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ دوسرا جلسہ آٹھ روز کے لیے ملتوی ہو گیا۔ اس میں بھی کسی نے اصل مسئلے پر کوئی تقریر نہ کی۔ تیسرے جلسے میں صرف ناکافی مفاہمت کا اعلان ہوا۔ 3؎‘‘ دوسری گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کے لیے عمل کا راستہ کیا تھا؟ یہی کہ پہلے اپنے جائز حقوق کے لیے غیر مسلم مندوبین کے ساتھ مفاہمت کی سعی۔ اس کے بعد یہ حیثیت مجموعی ملکی آئین کے بارے میں حکومت سے متحدہ مطالبہ اور اگر ان دونوں مقاصد میں ناکامی ہو تو برطانیہ سے مطالبہ، کہ وہ فرقہ وار مسائل پر اپنا موقف واضح کرے۔ اگر اس سے اپنے مطالبات منظور ہوتے ہوں تو عمومی آئینی مسائل پر مذاکرات، ورنہ انقطاع اور علیحدگی۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان مندوبین اس راستے پر کس حد تک چلے؟ اس کے لیے ہمیں علامہ اقبال کے اس خطبے کے متعلقہ حصے کا تجزیہ کرنا ہے جو انہوں نے 21 مارچ 32ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے دیا اور اس میں گول میز کانفرنس میں اپنے وفد کی کارگزاری کا حال پیش کیا۔ 4؎ اقلیتی کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے۔ ایک 28ستمبر کو دوسرا یکم اکتوبر کو۔ دونوں مرتبہ اس بنا پر اجلاس ملتوی کر دیے گئے کہ فرقہ وار مسئلہ کا آپس میں بیٹھ کر تصفیہ کر لیا جائے۔ مہاتما گاندھی نے پہلے یہ پوزیشن لی کہ جب تک مسلم وفد ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی شرکت میں حائل ہے، بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جب اس میں ناکام رہے تو انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر مسلمانوں کے مطالبات مان لوں گا اور کوشش کروں گا کہ انہیں کانگرس، ہندوؤں اور سکھوں سے بھی منوا لوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان ان تین باتوں سے اتفاق کریں۔ اولـ: بالغوں کے لیے حق رائے دہی۔ دوم: اچھوتوں کو کوئی خصوصی نیابت نہ دی جائے۔ سوم: مکمل آزادی کے لیے کانگرنس کا مطالبہ۔ بہرحال گاندھی جی نے یہ معاملہ کانگرس کے سامنے پیش کرنے سے انکار کر دیا اور ہندوؤں اور سکھوں سے مسلمانوں کے مطالبات نہ منوا سکے۔ 7 اکتوبر کو دو ہندو رہنماؤں نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمانوں کے مطالبات سات ثالثوں کے ایک بورڈ کے سامنے پیش کر دیے جائیں۔ ہندو اور سکھ مندوبین نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی ۔ دوسرے دن 8 اکتوبر کو کانفرنس کا جو اجلاس ہوا، اس میں گاندھی جی نے ایک بالکل نیا موقف اختیار کر لیا۔ وزیراعظم برطانیہ صدر مجلس تھے۔ انہوں نے گاندھی جی سے بولنے کو کہا تو موصوف نے اس رائے کا اظہار کیا کہ متفقہ حل کے لیے جن لوگوں کی ضرورت تھی وہ تو کانفرنس میں موجود ہی نہیں ہیں۔ ان کا اشارہ ڈاکٹر انصاری کی طرف تھا کہ وہی مخلوط انتخاب کے سب سے بڑے حامی تھے۔ اس کے بعد کہا:’’ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ فرقہ وار مسئلے کا حل سوراجی آئین کا تاج تو ہو سکتا ہے، لیکن بنیاد نہیں ہو سکتا۔ ہمارے اختلافات سخت ہو گئے ہیں اور یہ پیدا ہوئے تو غیر ملکی غلبے کے سبب سے۔ مجھے اس بات میں ذرا سا بھی شبہ نہیں کہ جب آزادی کا سورج طلوع ہو گا، تو اس کی حرارت سے فرقہ وار اختلافات کا تودۂ برف پگھل جائے گا۔‘‘ مطلب یہ کہ فرقہ وار معاملات طاق پر رکھو اور اختیارات ہمارے حوالے کرو۔ اس پر وزیراعظم سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا:’’ دیانت داری سے کام لو اور حقائق کا سامنا کرو۔ فرقہ وار مسئلہ ایک حقیقت ہے۔ مجھے بتائیے کہ ہندوستان میں اس مسئلے کا وجود ہے یا کہ نہیں؟ میں یہ بات آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آپ دیانت داری کے ساتھ خود اپنے لیے اپنے آپ کو جواب دیں۔ 5؎‘‘ علامہ بتاتے ہیں کہ جب گاندھی جی نے مندوبین کی نمائندہ حیثیت کو للکارا، تو سر محمد شفیع نے پر زور الفاظ میں تردید کی اور گاندھی جی کی تجویز مسترد کر دی۔ اجلاس ختم ہو گیا اور 12 نومبر تک کوئی اجلاس ممکن نہ رہا کیونکہ پارلیمانی انتخاب کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ اس دوران میں15 اکتوبر سے نجی گفتگو کا پھر آغاز ہو گیا۔ سرجافرے کاربٹ نے تجویز پیش کی کہ پنجاب سے انبالہ ڈویژن کو الگ کر کے اس صوبے میں مخلوط انتخاب رائج کر دیا جائے۔ علامہ اس تجویز کے حق میں تھے۔ کیونکہ اس طرح پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت اتنی نمایاں ہو جاتی کہ مخلوط انتخاب سے کوئی خطرہ باقی نہ رہتا۔ لیکن ہندوؤں اور سکھوں نے اسے بھی مسترد کر دیا کیونکہ انہیں مخلوط انتخاب کے باوجود مسلم اکثریت قبول نہیں تھی۔ اس کے بعد حالات نے ایک نیا رخ لیا۔ اقلیتوں نے آپس میں مشورے کیے اور سوائے سکھوں کے باقی تمام اقلیتوں نے ایک اقلیتی معاہدے پر دستخط کر کے اس کا مسودہ 13 نومبر کو وزیراعظم برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ 6؎ اب یہ مسئلہ تھا کہ اگر اقلیتی کمیٹی اپنے مقصد میں ناکام رہی تو فیڈرل ڈھانچے کی کمیٹی میں شرکت کیوں ہو؟ جب بنیاد ہی طے نہ ہو سکی تو عمارت کھڑی کرنے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ چنانچہ مسلم وفد نے فیصلہ کیا کہ فیڈرل ڈھانچے کی کمیٹی میں شرکت سے انکار کر دیا جائے۔ لیکن ابھی یہ فیصلہ ہوا ہی تھا کہ بعض انگریزوں نے دباؤ ڈال کر مسلم وفد کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ فیڈرل ڈھانچے کی کمیٹی کی کارروائی میں شرکت کر لیں۔ علامہ کو اس پر مایوسی ہوئی کیونکہ ان کے نزدیک اب کانفرنس میں شرکت لا حاصل تھی۔ چنانچہ انہوں نے مسلم وفد کے قائد سر آغا خان کے نام یہ خط لکھا: ’’ میں انتہائی کرب کے ساتھ آپ کے نام یہ خط لکھ رہا ہوں۔ میں ابتدا سے مسلم و فد کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ اس کے ارکان کی خفیہ رقابتوں، سازشوں بلکہ بعض ارکان کی بے وفائی سے مجھے بے حد قلق ہوا ہے۔ ایسے طرز عمل سے متنفر ہو کر میں نہایت افسوس کے ساتھ آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ آج سے میرا اس گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا، جسے مسلم و فد کے ظلی کابینہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ 7؎‘‘ یہ خط16نومبر کو بھیجا گیا۔ تین دن بعد علامہ کو ہندوستان سے مسلم کانفرنس کی قرار داد پہنچی جس میں کانفرنس کے مقاطعہ کا فیصلہ درج تھا۔ چنانچہ 20نومبر کو علامہ نے وزیر ہند کے نام خط لکھا کہ مسلمانوں کے اس فیصلے کے بعد میرا یہاں رہنا قطعاًسود مند معلوم نہیں ہوتا اس لیے میں 21نومبر کو جا رہا ہوں۔ 8؎ علامہ کے جانے کے بعد26نومبر کو مسلم مندوبین نے رسمی طور پر اس فیصلے کا اعلان کر دیا کہ وہ فیڈرل ڈھانچے کی کمیٹی سے تعاون کریں گے۔ لیکن علامہ کا موقف وہی تھا جس کا اظہار انہوں نے خطبہ الٰہ آباد ہی میں کر دیا تھا کہ آل انڈیا فیڈریشن کو تو بنتے بنتے دیر لگے گی، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہندو مسلم مفاہمت کے بعد پہلے صوبوں کو ذمہ دار حکومت سے آشنا کیا جائے تاکہ بنیادیں پڑ جائیں اور ا سکے بعد تجربے سے یہ حکومتیں آنے والے فیڈرل ڈھانچے کے بوجھ کو برداشت کر سکیں۔ 9؎ اس سیاسی ہمہ ہمی سے فراغت پا کر حضرت علامہ 21 نومبر کو عازم اطالیہ ہوئے۔ یہاں کی رائل اکیڈیمی نے انہیں مدعو کر رکھا تھا۔ پیرس کے ریلوے سٹیشن پر علامہ کے دوست سردار امراؤ سنگھ اور مشہور جلا وطن انقلابی رہنما اقبال شیدائی پذیرائی کے لیے موجود تھے۔ شام کے وقت ٹرین روم پہنچی تو ہندوستان میں اطالوی قونصل جنرل ڈاکٹر سکارپا اور رائل اکیڈیمی کی طرف سے پروفیسر اپر سٹاکو استقبال کے لیے موجود تھے۔ دوسرے دن صبح بعض ارباب علم سے ملاقات ہوئی۔ رائل اکیڈیمی کے نائب صدر پروفیسر نالیکی سے دو گھنٹے تک گفتگو رہی۔ موصوف سنسکرت کے بہت بڑے عالم تھے۔ ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہا۔ وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار افسر کے ساتھ یورپی اور ایشیائی سیاست پر تبادلہ خیالات ہوا۔ 24نومبر کو آثار قدیمہ کی سیاحت ہوئی۔ شام کو بعض دخمے دیکھے۔ محافظوں نے بتایا کہ یہ زمین دور اور پر پیچ راستے مسلسل آٹھ میل تک چلے گئے ہیں۔ حضرت علامہ کہنے لگے:’’ مذہب بھی کیا چیز ہے۔ کوئی دوسری قوت عقیدے اور ایمان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ جو کچھ ہوا سب مذہبی عقائد کے جوش میں ہوا۔ عقیدہ غلط بھی ہو لیکن جب مذہب کے رنگ میں دل پر قبضہ پا لیتا ہے تو انسان کے عمل میں عجیب و غریب حرارت پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ ’’ انسائیکلو پیڈیا اطالیانہ‘‘ کے مدیر پروفیسر جنٹیلی سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کی صدارت میں ایک علمی مجلس برپا ہوئی، جس میں فنون لطیفہ بھی زیر بحث آئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ موسیقی اور شاعری کو نصاب سے خارج کر دینا چاہیے۔ علامہ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ قوم کی تعمیر و ترتیب کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تجویز نہایت مفید معلوم ہوتی ہے۔ جنٹیلی نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیزیں لوگوں کو کھینچ لانے کا اچھا ذریعہ ہیں اور ا سکے بعد اچھی اور مفید باتیں ذہن نشین کرائی جا سکتی ہیں۔ علامہ نے فرمایا، اس اعتبار سے بھی یہ طریقہ غلط ہے، ہمارے ہاں اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ لوگ خوش گلو شاعروں کے اشتہار دے دے کر لوگوں کو جمع کیا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب اگر علمی مسائل پر مذاکرے کی دعوت دی جائے تو کوئی بھی نہیں آتا۔ اسی سلسلے میں علامہ نے اسلام کی مثال دی جس میں ان چیزوں کو دبایا گیا تھا۔ پھر فرمایا: ’’ شعر شعر میں اور موسیقی موسیقی میں فرق ہے۔ اگر کوئی ایسا شاعر پیدا ہو جائے جو دنیا کو حقیقی زندگی، عمل اور حرکت کو موثر پیغام دے سکے یا کوئی ایسا موسیقی دان پیدا ہو جائے جو حیات اقوام کے اصول کو ملحوظ رکھ کر نئی راگنیاں پیدا کر سکے، تو خیر لیکن جو کچھ اس وقت ہمارے سامنے ہے، اس سے قوت عمل میں ضعف و انحطاط پیدا ہونے کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ 10؎‘‘ روم کے بعد علامہ مولانا مہر کی رفاقت میں قاہرہ پہنچے۔ ان کے ذہن میں کچھ ایسا تصور تھا کہ اسلامی دنیا کے نوجوان باشعور نہیں ہیں اور ان کے دلوں پر غفلت کے گہرے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ اسلامی تمدن اور اسلامی تاریخ سے نا واقف ہیں۔ لیکن قاہرہ پہنچے تو یقین ہو گیا کہ غفلت کے پردے اٹھ چکے ہیں۔ انہوں نے خود بتایا کہ ’’ مصر میں قومیت کا جذبہ اور جوش عمل موجود ہے۔ وہاں ایک ا دارہ قائم تھا جو ملکی تمدن و روایات کا محافظ تھا۔ 11؎‘‘ یروشلم میں موتمر عالم اسلامی ہو رہی تھی۔ حضرت علامہ ہندی مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے مدعو تھے۔ چنانچہ وہاں پہنچے۔ چند ماہ بعد آپ نے ایک تقریب میں بتایا کہ فلسطین کی موتمر عالم اسلامی میں میں نے دیکھا کہ وہاں کے نوجوان مقررین کی ڈاڑھیاں منڈی ہوئی تھیں اور وہ کوٹ پتلون میں ملبوس نظر آ رہے تھے اور انہیں علم و فضل او رجوش عمل کے اعتبار سے علمائے کرام پر فوقیت حاصل تھی۔ 12؎ موتمر میں شرکت کے لیے بہت سے مسلمان ملکوں کے نمائندے آئے ہوئے تھے۔ وہ قدرتی طور پر سب سے ملے۔ لیکن فرمایا:’’ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانان اسلام میں اس قسم کے خلوص اور دیانت کی جھلک پائی جاتی تھی، جیسی میں نے اطالیہ کے فاشسٹ نوجوانوں کے علاوہ کسی میں نہیں دیکھی۔ 13؎‘‘ شام کے نوجوانوں سے متاثر ہونا قدرتی امر تھا۔ کیونکہ اس صدی میں بیداری کے اولین آثار اسی خطے میں پیدا ہوئے جو آج کل شام و لبنان کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہونے اور یورپ سے براہ راست متاثر ہونے کی وجہ سیع ربوںکی تحریک حریت کا آغاز بھی اس خطے سے ہوا۔ جہاں تک فاشسٹ نوجوانوں کے بارے میں اقبال کے حسن ظن کا تعلق ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہو گا، کہ علامہ کو فاشزم سے کوئی خصوصی دلچسپی تھی۔ اور اگر تھی تو محض اس حد تک، کہ فاشزم لا مذہب سوشلزم کے خلاف بر سر پیکار تھا اور اس کی تنظیم نے اطالیہ کی ترقی میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس زمانے میں علامہ نے فاشسٹ نوجوانوں کی تعریف فرمائی، اس زمانے تک فاشزم کا بھیانک اور انسان دشمن اور سامراجی کردار بھی نہیں ابھرا تھا۔ موتمر عالم اسلامی کے انعقاد کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ تحریک صیہونیت سے فلسطین کی آزادی سلب ہونے کا جو خطرہ پیدا ہوا تھا، اس کے سد باب کے لیے دنیائے اسلام کی رائے عامہ ہموار کی جائے۔ علامہ نے ڈٹ کر تحریک صیہونیت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا اور برطانوی ہائی کمشنر کے ساتھ ملاقات کر کے ان کے سامنے کچھ ایسی تجاویز رکھیں، جن کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینی فلاحین کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔ موتمر نے مختلف معاملات پر غور کرنے کے لیے جو سب کمیٹیاں بنائیں، ان میں سے بیشتر میں علامہ شامل تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وقت کی کمی کے سبب سے وہ سب کی کارروائی میں شریک نہ ہو سکے۔ ایک سب کمیٹی میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ یروشلم میں قدیم جامعہ ازہر کی طرز پر ایک یونیورسٹی قائم کی جائے۔ علامہ نے اس کی مخالفت فرمائی اور کہا کہ اگر یونیورسٹی کا قیام مقصود ہے تو بالکل جدید طرز پر قائم کی جائے۔ برطانوی خبر رساں ادارے نے یہ خبر نشر کر دی کہ علامہ یروشلم میں کسی قسم کی یونیورسٹی کا قیام نہیں چاہتے۔ اس پر علامہ نے ایک تردیدی بیان جاری کیا۔ جس میں کہا کہ ’’ میری یہ پر زور خواہش ہے کہ عربی زبان بولنے والے لوگ صرف ایک نہیں، بلکہ کئی یونیورسٹیاں قائم کر کے علوم جدیدہ کو زبان عربی میں منتقل کر لیں۔ 14؎‘‘ حضرت علامہ نے موتمر اسلامی میں اپنے الوداعی خطبے میں ارشاد فرمایا کہ اسلام کے سوا دنیا کی کوئی طاقت اس لحاد اور مادیت کا مقابلہ کامیابی سے نہیں کر سکتی۔ جو یورپ پھیلا رہا ہے۔ مجھے اسلام کے خارجی دشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں۔ میرے خیال میں اگر کوئی خطرہ ہے تو اندرونی دشمنوں سے ہے اور علامہ نے یہ کہہ کر مستقبل شناسی کا ایک بین ثبوت فراہم کر دیا کہ ’’ میرا ایمان ہے کہ اسلام کا مستقبل اہل عربی کی ذات سے وابستہ ہے اور ان کا مستقبل ان کے باہمی اتحاد پر موقوف ہے۔ ان کے لیے مقدر ہو چکا ہے کہ عظیم الشان طاقت بن جائیں۔15؎‘‘ یہ بات ایک ایسے وقت پر کہی، جب بظاہر عربوں کی حالت ہر گز قابل رشک نہیں تھی۔ شام و لبنان فرانس کے زیر تسلط تھے، مصر اور عراق برطانیہ کے ماتحت تھے اور فلسطینی عربوں کی رگ جان برطانیہ اور پنجہ یہود میں تھی۔ اور معاشی حالت کا یہ عالم تھا کہ تیل صرف عراق سے نکلتا تھا اور وہ بھی محدود مقدار میں سعودی عرب کی معیشت کا دار و مدار حاجیوں کی آمد پر تھا۔ 14دسمبر کو حضرت علامہ میں یروشلم سے روانہ ہوئے اور 30دسمبر کو لاہور پہنچ گئے۔ جہاں ریلوے سٹیشن پر ان کا شان دار استقبال ہوا۔ اتنا شاندار کہ ہجوم کی کثرت کے سبب سے جمعیت اسلام کے ارکان سپاس نامہ بھی رسمی انداز میں پیش نہ کر سکے۔ 16؎ یہ دورہ حضرت علامہ کی شخصیت کو ابھارنے میں بے حد مددگار ثابت ہوا کیونکہ: اول: گول میز کانفرنس میں باقی مسلم مندوبین نے برطانوی دباؤ میں آ کر اپنے موقف میں لچک پیدا کر لی لیکن علامہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور ناکامی پر گول میز کانفرنس سے لا تعلقی کا اعلان کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی بڑے سے بڑے دباؤ میں آ کر بھی اصولوں پر سمجھوتا کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ دوم: انہوں نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کی ترجمانی بڑے دھڑلے سے کی اور جب جماعت کا حکم ملا کہ گول میز کانفرنس کی فیڈرل سٹرکچر کمیٹی سے تعاون نہ کیا جائے تو وہ واحد مندوب تھے، جنہوں نے جماعتی نظم و ضبط کی پابندی کر کے ایک مثال قائم کر دی۔ گویا ایک نتھرے ستھرے سیاسی کردار کی بنیاد ڈالی۔ سوم: علامہ نے برطانیہ میں مقیم مسلمان طلبہ اور نوجوانوں کو اسلامی کی صحیح روح سے آشنا کیا اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ مسلمانوں کے ملی موقف کو اچھی طرح سمجھ لیں انہیں نوجوانوں میں چودھری رحمت علی اور ان کے رفقا شامل تھے جنہوں نے 1933ء میں تحریک پاکستان کا پرچم بلند کیا۔ چہارم: برطانیہ اور اطالیہ میں انہوں نے بے شمار علمی مجالس سے خطاب کیا۔ دوسروں کی آرا کو سمجھا اور سنا اور اہل دانش کو اپنی رائے سے آگاہ کیا اور ان اساتذہ، فلسفیوں اور دانشوروں کو اسلام کے مختلف پہلوؤں سے واقف کرایا جو مستشرقین کے زمرے میں شامل تھے۔ پنجم: انہوں نے یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کا براہ راست مشاہدہ کیا اور وہاں کے ساسین اور دانشوروں کو برعظیم کی مسلم سیاست کے بارے میں بھی صحیح معلومات فراہم کر کے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جو ہندی مسلمانوں کے بارے میں مخصوص مفادات کی طرف سے پھیلائی جا رہی تھیں۔ ششم: موتمر عالم اسلامی کے توسط سے دنیائے اسلام کے اہل فکر و دانش رہنماؤں کے ساتھ رابطہ پیدا کیا۔ انہی میں مفتی اعظم الحاج امین الحسینی کی ذات بابرکت بھی شامل تھی جن سے بعد میں بھی تعلقات کی تجدید کا سامان فراہم ہوتا رہا۔ ہفتم: علامہ نے عربوں کو ایک شان دار مستقبل کی نوید جاں فزا سنائی۔ اس طرح ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی سعی فرمائی۔ حوالے 1۔ ’’ انقلاب‘‘ 10دسمبر1931ء 2۔ ایضاً، 28اکتوبر1931ء 3 ۔ ایضاً، 5نومبر1931ء 4۔ Thoughts and Reflections of Iqbal ، صفحات198, 202 5۔ Muslim Separatism in India ص210 6۔ Thoughts and Reflections of Iqbal ، صفحات196, 198 7۔ Letters and Writings of Iqbal ، 8, 9 8۔ ’’ انقلاب‘‘ 11دسمبر1931ء 9۔ Thoughts and Reflections of Iqbal، ص200 10۔ ’’ انقلاب‘‘ 13دسمبر1931ء 11۔ ’’ انقلاب‘‘ 13جون1931ء 12۔ ایضاً، 13 جون1931ء 13۔ ایضاً، 3جنوری 1932ء 14۔ ایضاً، 3 جنوری 1932ء 15۔ ایضاً، 18دسمبر1931ء 16۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص159 ٭٭٭ پچیسواں باب نیا لائحہ عمل، سرحد اور کشمیر حضرت علامہ وطن کو لوٹے تو صوبہ سرحد برطانوی مظالم کے زخموں سے چور تھا اور سر زمین کشمیر کے مسلمان دار و رسن کی آزمائش سے گزر رہے تھے۔ گول میز کانفرنس کی ناکامی کی وجہ سے مسلمانوں کا سیاسی مستقبل مخدوش تھا۔ ان کی قیادت میں پھوٹ لا علاج معلوم ہوتی تھی۔ کانگرس سول نافرمانی کے احیا پر تلی بیٹھی تھی تاکہ مسلمانوں سے بالا بالا برطانوی سامراج سے مصالحت کے لیے زمین ہموار ہو سکے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کا راج تھا۔ جس کی ہندو دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ ان حالات میں آل انڈیا مسلم کانفرنس نے لاہور میں اپنا اجلاس بلایا۔ جس کی صدارت حضرت علامہ نے فرمائی۔ علامہ نے 21 مارچ1932ء کو جو خطبہ ارشاد فرمایا 1؎ وہ نہ صرف برعظیم کی مسلم سیاست میں ایک منفرد اہمیت کا حامل تھا بلکہ علامہ کی زندگی میں بھی ایک نئے موڑ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو ہر مسئلے پر نہایت جچے تلے انداز میں بحث ہوئی۔ دوسرے، جو کچھ کہا گیا بلا خوف لومتہ لائم کہا گیا۔ تیسرے، برعظیم کے مسئلے کا مطالعہ ایک وسیع تر تناظر میں کیا گیا۔ چوتھے، ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشی نظام کا بڑے واشگاف انداز میں تذکرہ کیا گیا۔ اس اعتبار سے خطبہ لاہور کو خطبہ الٰہ آباد پر فوقیت حاصل تھی اور سب سے بڑھ کر یہ، کہ حضرت علامہ نے اس خطبے میں نہایت واضح الفاظ میں مسلمانان ہند کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کر دیا، جس میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی بھی اور جو وقت کی اہم پکار سے پوری مطابقت رکھتا تھا۔ علامہ نے برعظیم کی سیاست کے نمایاں نقوش کی تصویر کشی کے بعد کہا:’’ یہ مظاہر اس آنے والے طوفان کے آثار ہیں جو پورے ہندوستان، بلکہ پورے ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ ایک ایسی مکمل طور پر سیاسی تہذیب کا اٹل نتیجہ ہے، جس نے انسان کو محض استحصال کے قابل چیز سمجھا اور یہ نہ سوچا کہ انسان ایک شخصیت ہے جسے خالص ثقافتی قوتوں سے نشوونما اور ترقی دینا ضروری ہے۔ مغرب نے جو استحصالی معیشت رائج کی ہے اور جسے مشرق پر ٹھونس رکھا ہے، ایشیا کی قومیں یقینا اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی۔ ایشیا میں جدید مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا تصور ہی نہیں کر سکتا جو ایک بے لگام انفرادیت پر مبنی ہے۔ جس دین کی آپ نمائندگی کرتے ہیں، وہ فرد کی قدر و قیمت کو تسلیم کرتا ہے اور اسے ایک ایسے نظم و ضبط کے تحت لاتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ خدا اور بندگان خدا کی خدمت میں صرف کر دے۔ اس کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ یہ اب بھی ایک ایسی نئی دنیا تخلیق کر سکتا ہے، جس میں انسان کی معاشری حیثیت کا تعین نہ ذات پات یا رنگ سے ہوتا ہے نہ اس دولت سے، جو وہ کماتا ہے۔ بلکہ اس طرز زندگی سے ہوتا ہے جو وہ انسان بسر کرتا ہے۔ ایک ایسی نئی دنیا، جس میں غریب امیر پر ٹیکس لگاتا ہے۔ جہاں انسانی معاشرہ مساوات شکم پر نہیں،بلکہ مساوات ارواح پر مبنی ہوتا ہے۔ جہاں ایک اچھوت کسی شاہزادی سے شادی کر سکتا ہے۔ جہاں نجی املاک ایک امانت کی حیثیت رکھتی ہے اور جہاں سرمائے کے ایسے ارتکاز کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ حقیقی دولت آفرین طبقے پر غالب آ جائے۔‘‘ علامہ نے فرمایا:’’ تمہارے دین کی یہ عظیم الشان بلند نظری کلامیوں اور فقیہوں کے فرسودہ اوہام میں جکڑی ہوئی ہے اور آزادی چاہتی ہے۔ روحانی اعتبار سے ہم حالات و جذبات کے ایک قید خانے میں محبوس ہیں، جو صدیوں کی مدت میں ہم نے اپنے گرد خود تعمیر کر لیا ہے اور ہم بوڑھوں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ان معاشی، سیاسی بلکہ مذہبی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ بنا سکے جو زمانہ حاضر میں آنے والے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ساری قوم کی موجودہ ذہنیت کو یکسر بدل دیا جائے تاکہ وہ پھر نئی آرزوؤں، نئی تمناؤں اور نئے نصب العین کی امنگ کو محسوس کرنے لگے۔ ہندی مسلمان اپنی اندرونی زندگی کی گہرائیوں کی تفتیش کو مدت سے ترک کر چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی زندگی میں رنگ و آہنگ اور رونق و درخشانی کا نشان تک نہیں رہا اور ہر وقت اس امر کا خطرہ ہے کہ کہیں وہ بعض طاقتوں سے، جن کے متعلق اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ انہیں کھلی جنگ میں شکست نہیں دے سکتا، بزدلانہ اور نامردانہ سمجھوتا نہ کر لے۔ ہمارا واضح نصب العین یہ ہے کہ آنے والے دستور میں اسلام کے لیے ایسا مقام اور ایسی حیثیت حاصل کریں کہ وہ اس ملک میں اپنی تقدیر کے منشا کو پورا کرنے کے مواقع پا سکے۔ اس نصب العین کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ قوم کی ترقی پسند طاقتوں کو بیدار کیا جائے اور اس کی خوابیدہ قوتوں کو منظم کیا جائے۔ شعلہ حیات دوسروں سے مستعار نہیں لیا جا سکتا۔ وہ صرف اپنی روح کے آتش کدے میں روشن کیا جا سکتا ہے۔‘‘ یہ تھا وہ آئیڈیل، جسے حاصل کرنے کے لیے اقبال نے قوم کے سامنے ایک پنج نکاتی لائحہ عمل پیش کیا۔ اس کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی ساری سیاسی جماعتوں کو توڑ کر صرف ایک سیاسی جماعت بنائی جائے۔ جس کی شاخیں تمام صوبوں اور اضلاع میں قائم کی جائیں۔ ہر دبستان خیال کے حامی اسی جماعت کی رکنیت اختیار کریں اور اس کے آئین میں ایسی گنجائش ہو کہ کسی بھی دبستان خیال کے حامیوں کے لیے ممکن ہو کہ وہ اس میں بر سر اقتدار آ جائیں اور اپنی صواب دید کے مطابق کوئی پالیسی اختیار کریں۔ برسبیل تذکرہ، علامہ کی یہ تجویز کانگرس نے اختیار کر لی اور ا سکے اندر الگ نظریات کی بنا پر گروپ بندی کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ یہ مرکزی جماعت کم از کم پچاس لاکھ روپے کا ایک قومی فنڈ جمع کرے۔ علامہ نے کہا، مجھے معلوم ہے کہ ہمارے حالات اچھے نہیں لیکن اگر مسلمانوں کو موجودہ صورت حالات کی نزاکت محسوس کرا دی جائے تو وہ اتنا سرمایہ ضرور اکٹھا کر دیں گے۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ مرکزی تنظیم کی رہنمائی میں یوتھ لیگیں بنائی جائیں اور کیل کانٹے سے لیس رضا کاروں کے دستے منظم کیے جائیں۔ ان کے فرائض ہوں۔ خدمت خلق، رسوم و رواج کی اصلاح، قوم کی تجارتی تنظیم اور شہروں، قصبوں اور دیہات میں معاشی پروپیگنڈہ، معاشی پروپیگنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت علامہ نے فرمایا کہ پنجاب کے مسلمان کسانوں کا بال قرضے میں بندھا ہے اور حالات ویسی ہی منزل پر پہنچ چکے ہیں، جہاں چین میں1925ء میں پہنچے تھے اور ملک بھر میں کسانوں کی انجمنیں وجود میں آ گئی تھیں۔ انہوں نے کہا، پنجاب کے کسانوں کا استحصال ساہوکاروں اور تجارتی گماشتوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ انہیں معاشی غلامی سے نجات دلانے کے لیے یوتھ لیگیں بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ آپ نے کہا:’’ میری رائے میں ہندوستان میں اسلام کے مستقبل کا بڑی حد تک دار و مدار پنجاب کے مسلمان کسانوں کی آزادی پر ہے۔ آتش شباب کو آتش ایمان سے ملا دو۔ تاکہ زندگی کی چمک دمک دو آتشہ ہو جائے اور مستقبل کی نسلوں کے لیے ایک دنیائے عمل تخلیق ہو جائے۔‘‘ چوتھا نکتہ یہ تھا کہ برعظیم کے تمام بڑے شہروں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ کلچرل انسٹی ٹیوٹ یا ثقافتی ادارے قائم کیے جائیں۔ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ ہو اور ان کا فرض صرف یہ تحقیق کرنا ہو کہ اسلام نوع انسانی کی مذہبی اور ثقافتی تاریخ میں کیا کچھ کر چکا ہے اور مستبقل میں کیا کچھ کرنے کے قابل ہے۔ یہ ادارے مسلمانوں کی قدیم و جدید درس گاہوں سے رابطہ قائم رکھیں تاکہ ہماری تعلیمی مساعی کے سارے خطوط ایک ہی مقصد پر مرتکز ہو جائیں۔ اس سلسلے میں علامہ نے حکومت ہند کی مقرر کردہ ہار ٹوگ کمیٹی کی اس سفارش پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کے لیے اور انہیں زیادہ تعداد میں ابتدائی تعلیم کی رغبت دلانے کے لیے سرکاری مدارس میں دینی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ پانچواں نکتہ یہ تھا کہ علما کی ایک اسمبلی کی مقرر کی جائے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کی تجویز کا پورا متن درج کر دیا جائے:’’ میری تجویز ہے کہ علما کی ایک اسمبلی بنائی جائے۔ جس میں ایسے وکلاء بھی ضرور شامل کیے جائیں جو جدید اصول قانون کی تعلیم حاصل کر چکے ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ اسلامی قانون کی حفاظت کی جائے، اسے توسیع دی جائے اور ضرورت پڑے تو جدید حالات کی روشنی میں، لیکن اس کی بنیادی اصولوں کی روح کے قریب رہتے ہوئے، اسلامی قانون کی باز تعبیر ہو سکے۔ اس اسمبلی کو آئینی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تاکہ مسلمانوں کے شخصی قانون کو متاثر کرنے والا کوئی مسودہ قانون اس اسمبلی کی منظوری کے بغیر قانون ساز اداروں میں پیش نہ ہو سکے۔ مسلمانان ہند کے لیے اس تجویز کی خالص عملی قدر و قیمت سے قطع نظر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جدید اسلامی اور غیر اسلامی دنیا کو بھی اسلام کے قانون ادب کے لامتناہی قدر و قیمت کو دریافت کرنا ہے اور اس عالم سرمایہ داری کے لیے بھی اس کی اہمیت سے آگاہ ہونا ہے، جس کے اخلاقی معیار ایک عرصے سے انسان کے معاشی طریق کار کی نگرانی سے دست بردار ہو چکے ہیں۔ میری تجویز کے مطابق اسمبلی بن گئی تو مجھے یقین ہے کہ اس سے کم از کم اس ملک میںاسلام کے عمومی اصولوں کا زیادہ گہرا ادراک پیدا ہو گا۔‘‘ یہ پنج نکاتی لائحہ عمل بھی اقبال کی پیش بینی اور مستقبل شناسی کا بڑا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ چند سال کے اندر اندر آل انڈیا مسلم لیگ برعظیم کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بن گئی۔ بہت سی دوسری جماعتیں اس میں مدغم ہو گئیں اور جو الگ رہیں وہ پٹ گئیں۔ تحریک پاکستان اس وقت کامیاب ہوئی، جب پنجاب کے کسان جاگیر داروں کی سیادت کو توڑ کر اس کا ہر اول دستہ بن گئے اور جب علیحدہ مملکت بن گئی تو مدتوں کی جدوجہد کے بعد ایک ایسا آئین نافذ ہوا جس میں اسلامی مشاورتی کونسل کا منصب یہ قرار پایا کہ موجودہ قوانین کو مطابق شریعت بنایا جائے اور کوئی ایسا نیا قانون نافذ نہ ہونے دیا جائے جو اسلامی قانون سے متصادم ہوتا ہو۔ خطبے کے ابتدائی حصے میں علامہ نے تین مسائل پر روشنی ڈالی۔ اول: دوسری گول میز کانفرنس میں مسلم وفد کی کارکردگی اور نا اہلی کی داستان۔ دوم: صوبہ سرحد کا مسئلہ۔ سوم: کشمیر کا مسئلہ اول الذکر موضوع پر اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا، ان کا تجزیہ گزشتہ باب میں ہو چکا ہے۔ سرحد کے بارے میں ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ 1931ء میں کس طرح برطانوی سامراج نے پٹھانوں کے جذبہ حریت کو بہ نوک سنگین کچل ڈالا۔ 1932ء میں برطانیہ نے مسئلہ کی اہمیت کو سمجھ لیا اور مسلمانوں کا یہ دیرینہ مطالبہ مان لیا کہ صوبہ سرحد میں آئینی اصلاحات نافذ کر دی جائیں۔ لیکن اقبال نے کہا کہ اس میں جو خوبی کا پہلو تھا، اسے ایک قسم کا مارشل لاء قائم کر کے ختم کر دیا گیا۔ ہزار ہا مسلمانوں کو نظر بند کیا گیا۔ ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ حکومت نے ایک ہاتھ سے مراعات دینے اوردوسرے ہاتھ سے ظلم کرنے کی جو پالیسی اختیار کی، وہ افاغنہ جیسی خود دار نسل کے لیے موزوں نہیں۔ علامہ نے فرمایا:’’ عبدالغفار خان یقینا نوجوان سرحدی افاغنہ میں بڑے اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ لیکن جس چیز نے ان کے اثر و رسوخ کو پورے صوبہ سرحد کے بے خبر دیہاتیوں تک پھیلا دیا، وہ ظلم کی پالیسی تھی۔ ‘‘ علامہ نے بتایا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی کل ہند پالیسی یہ تھی کہ ایسے رحجانات کی روک تھام کی جائے جن کے طفیل سرحد کے مسلمان ان لوگوں سے رشتہ جوڑ لیں جو کانگرس میں مسلمانوں کی غیر مشروط شرکت کے حامی ہیں۔ بہرحال جب علامہ نے یہ باتیں کہیں تو پانی سر سے گزر چکا تھا اور انگریزوں کی مستشددانہ پالیسی کے طفیل سرحد کے مسلمان عملاً کانگرس سے وابستہ ہو چکے تھے۔ کشمیر کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ نے کہا کہ جن لوگوں کی انا کا شعلہ مدتوں سے بجھ چکا تھا، وہ ایک بار پھر حیات آشنا ہوئے ہیں اور اگرچہ یہ عمل اپنے جلو میں المیے بھی لایا ہے لیکن یہ ان لوگوں کے لیے مسرت کا پیام لایا ہے جنہیں جدید ایشیائی قوموں کی داخلی جدوجہد کا ادراک ہے۔ علامہ نے بتایا کہ بات سیدھی سادی تھی کہ لوگ انسانی حقوق چاہتے تھے۔ لیکن ایک تو ڈوگرہ شاہی نے اسے ہندو مسلم مسئلہ بنایا، دوسرے ظلم کے پہاڑ توڑے اور اب صورت یہ ہے کہ ہر طرف لا قانونیت کا دور دورہ ہے۔ آپ نے یہ موقف اختیار کیا کہ اب تحقیقاتی کمیٹیوں سے معاملہ حل نہیں ہو گا سیاسی شعور اس منزل پر پہنچ گیا ہے کہ عوام نظم و نسق میں دخیل ہونے کے بغیر چین نہیں لیں گے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک منتخب شدہ اسمبلی وجود میں آئے اور اگر حکام نے اور برطانوی راج نے معاملے کی اصل نوعیت کو نہ سمجھا تو پھر یہ مسئلہ روز بروز زیادہ پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس خطبے سے مجموعی تاثر یہ ملتا ہے کہ علامہ میں بعض سرکار پرست مسلمان رہنماؤں کی طویل صحبت سے جو مصلحت اندیشی پیدا ہو چکی تھی اور جس کی وجہ سے وہ مسائل پر اظہار خیال میں کچھ حجابات، کچھ احتیاط کوشی اور کسی قدر عافیت کوشی کی روش پر گامزن تھے، گول میز کانفرنس کے تجربے نے وہ حجابات توڑ دیے اور وہ ہر مسئلے پر کھرے کھرے، جچے تلے انداز میں گفتگو کرنے لگے اور غیر ضروری مصالح سے اجتناب کرنے لگے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی تھی جس سے حضرت علامہ کی سیاسی شخصیت میں ایک نیا نکھار پیدا ہو گیا اور وہ عوام میں پہلے سے کہیں زیادہ محبوب و محترم ہو گئے۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نمایاں اور سر بر آوردہ رکن کی حیثیت سے حضرت علامہ نے بعض معزز اور تجربہ کار وکلاء کو سری نگر بھیجا تاکہ وہ مسلمان قیدیوں کو قانونی امداد فراہم کریں۔ اندرون خانہ علامہ نے اصلاح احوال کی سعی جاری رکھی۔ نواب صاحب بھوپال سے ان کے پرانے روابط تھے اور مہاراجہ کشمیر نواب بھوپال کے دوست تھے۔ اس لیے آپ نے نواب بھوپال سے کہا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کے مسئلے میں کچھ مدد دیں۔ چنانچہ آئینی مطالبات پر غور کرنے کے لیے مہاراجہ کشمیر نے گلینسی کمیشن قائم کیا۔ لیکن جب 21مارچ32ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس ہوا تو کانفرنس نے اس بنا پر اسے نا قابل قبول قرار دیا کہ کمیشن کے مسلمان ممبروں کو مسلمانوں کی مرضی لیے بغیر نامزد کیا گیا ہے۔ کانفرنس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ شیخ محمد عبداللہ اور قاضی گوہر رحمن کو جیل سے رہا کیا جائے تاکہ وہ مسلمانوں کے مطالبات کمیشن کے سامنے پیش کر سکیں۔ 2؎ ایک طرف مجلس احرار اسلام نے کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں سول نافرمانی جاری کر رکھی تھی اور اس کے ہزار ہا کارکن اور رضا کار جیلوں میں بند تھے۔ دوسری طرف آل انڈیا کشمیر کمیٹی آئینی طریقوں سے کشمیری مسلمانوں کے موقف کو مضبوط بنا رہی تھی اور امدادی کام بھی کر رہی تھی۔ کشمیر کے اندر بعض عناصر مجلس احرار اسلام کے حامی تھے، بعض آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے۔ احرار کی طرف سے یہ الزام دیا جا رہا تھا کہ کشمیر کمیٹی کے صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک احمدیت کو فروغ دے رہے ہیں اور جو لوگ امدادی کاموں کے لیے بھیجے جاتے ہیں وہ اپنے مخصوص مذہبی عقیدے کی نشر و اشاعت بھی کرتے ہیں۔ خود کشمیر کمیٹی کے اندر بھی ایسی شکایات ہو رہی تھیں اور علامہ کو بھی ان شکایات سے اتفاق تھا۔ شاکی حضرات نے سوچا کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو جو لامحدود اختیارات حاصل ہیں، ان میں کمی کی جائے۔ اس سلسلے میں سالک رقم طراز ہیں:’’ کشمیر کمیٹی اب تک کسی دستور کی تدوین کے بغیر ہی کام کر رہی تھی اور صدر یعنی مرزا صاحب کو غیر محدود اختیارات دئیے گئے تھے ۔ لیکن جب تحریک کشمیر نے طول کھینچا تو خیال پیدا ہوا کہ کشمیر کمیٹی کا ایک باقاعدہ دستور تیار کیا جائے۔ اس پر احمدیوں نے مخالفت کی کیونکہ وہ اس ترتیب دستور کو شبہے کی نظر سے دیکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس سے ہم کو اور ہمارے امام کو بے دخل کرنا مقصود ہے۔ اختلاف پیدا ہوا۔ مرزا بشیر الدین محمو داحمد نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور علامہ اقبال ان کی جگہ عارضی طور پر صدر منتخب ہوئے۔ 3؎‘‘ علامہ نے ریاست الور کے مسئلے میں بھی گہری دلچسپی لی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ ریاست الور کی چند مسجدوں پر غیر مسلموں نے ایک عرصے سے قبضہ کر رکھا تھا۔ 1910ء سے سکولوں میں اردو اور فارسی کی تعلیم بند تھی۔ مذہبی تعلیم پر پابندیاں عائد تھیں اور ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کا حصہ بہت کم تھا۔ مسلمانوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے انجمن خادم المسلمین قائم کی۔ حکومت نے پہلے پکڑ دھکڑ سے کام لیا، اس کے بعد انجمن کو خلاف قانون قرار دیا۔ اس پر مسلمانوں نے مظاہرے کیے ان پر گولی چلائی گئی اور دہشت کا ایسا سماں طاری کر دیا گیا کہ ہزار ہا لوگوں نے ترک وطن کیا۔ حضرت علامہ نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے مارچ سیشن میں مندوبین کی توجہ ان مظالم کی طرف دلائی۔ فیصلہ ہوا کہ مولوی شفیع داؤدی کی رہنمائی میں ایک وفد مہاراجہ الور سے ملے۔ لیکن مہاراجہ نے ملاقات ہی سے انکار کر دیا۔ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے جون میں ایک غیر جانب دار تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی مسترد ہو گیا۔ اس پر کانفرنس نے وائسرائے کے نام ایک یادداشت بھیجی۔ 4؎ بعد میں الور کے حالات اتنے بگڑے کہ مہاراجہ الور گدی سے تار دیے گئے۔ فروری 1932ء میں حضرت علامہ کی کتاب’’ جاوید نامہ‘‘ منظر عام پر آئی۔ اس کا تعارف ہم خود علامہ کی زبانی ایک گزشتہ باب میں کر چکے ہیں۔ 6مارچ کو لاہور کی ایک اہم علمی مجلس اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے پہلی مرتبہ یوم اقبال منایا۔ پہلے دن وائی ایم سی اے ہال میں دو نشستیں منعقد ہوئیں۔ ایک کی صدارت پنجاب ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس آغا حیدر نے کی اور دوسری نشست کی ڈاکٹر شانتی سروپ بھٹیناگر نے ، جو اردو زبان کے بڑے حامیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں صوفی غلام مصطفی تبسم، حکیم احمد شجاع،(ڈاکٹر) سید محمد عبداللہ، شیخ اکبر علی ارسطو، محمد دین تاثیر اور دوسرے حضرات نے تقریریں کیں۔ دوسرے دن علامہ کے اعزاز میں لاہور کے مشہور رستوراں ’’ لورینگر‘‘ میں ایک عصرانہ دیا گیا۔ جس میں مقامی معززین کثرت سے موجود تھے۔ اس دعوت میں علامہ نے اس تحریک کی تحسین فرمائی جو مسلمان نوجوانوں میں اسلامی ادبیات، اسلامی تاریخ اور اسلامی تمدن کی تحقیق کے لیے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی صورت میں ابھری تھی۔ 5؎ اسی سال لاہور کے مشہور ادبی رسالے ’’ نیرنگ خیال‘‘ نے بانگ درا کی تقطیع پر ایک ضخیم اقبال نمبر شائع کیا۔ اسی سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دعوت پر ترکیہ کے مشہور سیاست دان رؤف بے دہلی تشریف لائے۔ موصوف کسی زمانے میں ترکیہ میں وزارت عظمیٰ پر بھی فائز رہے تھے لیکن کمال اتاترک کے زمانے میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ میں چھ لیکچر دیے، جن دو لیکچروں کی صدارت حضرت علامہ نے فرمائی۔ پہلے لیکچر کے بعد انہوں نے اتحاد اسلامی پر خودبھی خطبہ دیا۔ لوگ دوسرے دن بھی متوقع تھے کہ رؤف بے کے ساتھ ساتھ علامہ کے ارشادات سے مستفید ہوں گے لیکن دوسرے دن علامہ نے صرف چند منٹ تقریر کی اور آخر میں یہ لطیفہ سنا کر حاضرین کو لوٹ پوٹ کر دیا: ’’ جنگ عظیم کے ایام میں ابلیس کے چند مرید اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ خالی بیٹھا ہوا سگار پی رہا ہے۔ اس سے بیکاری کا سبب دریافت کیا تو جواب دیا۔ آج کل مجھے پوری فرصت ہے۔ اس لیے کہ میں نے اپنا سارا کام برطانیہ کی وزارت کے سپرد کر رکھا ہے۔6؎‘‘ 1932ء کے وسط میں ایک ایسا علمی مسئلہ اٹھا، جس کے ڈانڈے سیاست سے بھی ملتے تھے۔ اس لیے اس سے عوام بھی متاثر ہوئے اور خواص بھی۔ بات یہ ہوئی کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کا مضمون بی اے پاس کور س میں بھی شامل تھا اور آنرز کورس اور ایم اے میں بھی جب پروفیسر جے ایف بروس یونیورسٹی میں تاریخ کی تدریس پر فائز ہوئے، انہوں نے ہندوؤں کے زیر اثر آ کر یہ تجویز پیش کی کہ بی اے پاس کورس میں سے اسلامی تاریخ کو حذف کر دیا جائے۔ چونکہ علمی اعتبار سے یہ کوئی مناسب تجویز نہیں تھی، اس لیے سینیٹ میں اس پر شدید اختلاف رائے ہوا اور تجویز منظور ہوئی تو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے۔ اس پر مسلمان عوام میں اشتعال پیدا ہوا۔ جلسے ہونے لگے لاہور میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے حضرت علامہ کی صدارت میں ایک جلسہ عام منعقد کیا۔ علامہ نے فرمایا کہ جو کچھ ہوا شرارت کے طور پر ہوا بی اے آنرز اور ایم اے کے نصاب میں اسلامی تاریخ کو اس لیے برقرار رکھا گیا ہے کہ ان میں امیدواروں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور بی اے پاس کورس سے اس لیے حذف کر دیاگیا ہے کہ اس میں امیدواروں کی کثرت ہوتی ہے۔ علامہ نے کہا کہ پروفیسر بروس کا استدلال یہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو ہندوستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے میرے نزدیک یہ دعویٰ غلط ہے کہ کسی قوم کی تاریخ کو اپنی تاریخ نہ سمجھا جائے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے۔ روح انسانی کا کوئی مخصوص ماحول نہیں ہوتا۔ بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہوتا ہے۔ اگر اسے کسی قوم کی ملکیت سمجھا جائے تو یہ تنگ نظری کا ثبوت ہے۔ علامہ نے یہ بھی بتایا کہ ایک اطالوی محقق نے پوری زندگی اور مادی وسائل اسلامی تاریخ کے مطالعے کے لیے وقف کر رکھے ہیں۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اسلامی تاریخ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے۔ تو اس نے کہا اسلامی تاریخ عورتوں کو مرد بنا دیتی ہے! علامہ کے کردار کا ایک پہلو یہ تھا کہ جب بھی کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی اور جب بھی قوم کسی وقتی مسئلے سے متاثر ہو کر بے چین اورمضطرب ہو جاتی، وہ یہ سوچتے کہ قوم کی صلاحیتوں کو تعمیر کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ چنانچہ اسی جلسے میں انہوں نے تین تجاویز پیش کردیں: اول: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے کہا کہ وہ عوام کی رہنمائی کے لیے آسان اردو یا پنجابی میں ایسے لیکچروں کا خاص بندوبست کرے، جن سے عوام اسلامی تاریخ کے نمایاں نقوش سے آگاہ ہو جائیں اور پھر اسی قسم کا اہتمام دوسرے شہروں میں کیا جائے۔ دوم: انجمن حمایت اسلام غرض مند ہاتھوں میں ایک کھلونا بننے کی جگہ تمام آزاد طبع لوگوں کے تعاون سے ایک ایسا ادارہ قائم کرے، جہاں تاریخ اسلام کی تعلیم کا بہترین بندوبست ہو۔ اسلامی ممالک کی مجموعی آبادی ہندوستان کی مسلمان آبادی کے قریباً مساوی ہو گی۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اس شعبے کی تدوین و تحقیق اور ترتیب و تنظیم پر توجہ دیں۔ سوم: ایک قرار داد کے ذریعے سے برعظیم کی تمام جدید و قدیم دینی درس گاہوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے نصاب میں ترمیم کر کے اسلامی تاریخ کو مسلمانوں کی تعلیم کا جزو لاینفک قرار دیں۔ 7؎ چند مہینے بعد انہی تجاویز نے وسعت اورجامعیت حاصل کر کے ایک نئی تحریک کی صورت اختیار کر لی۔ جس میں حضرت علامہ کے ساتھ دوسرے اہل علم و نظر حضرات بھی شامل تھے۔ ہماری مراد ادارہ معارف اسلامیہ کے قیام سے ہے۔ اس کا بنیادی مقصد ماضیات اسلام کا تحفظ تھا اور اس کے مجوزہ دستور العمل میں لکھا گیا کہ ’’ جس حد تک ہندوستانی مسلمانوں اور عام مسلمانوں کی قدیم تاریخ کا تعلق ہے، از بس ضروری ہے کہ اس مفید سلسلے کی طرف بہترین توجہات منعطف کی جائیں۔ کیونکہ مسلمانوں کو موجودہ دور جمود سے نکالنے اور ان میں ایک معنوی بیداری کی روح پھونکنے کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی تدبیر نہیں ہو سکتی۔‘‘ ادارہ معارف اسلامیہ کے مقاصد یہ تھے کہ اسلامی علوم کے محققین کے درمیان اشتراک عمل پیدا کیا جائے، ذہنی اور اجتماعی اتحاد وجود میں لایا جائے، علمی مشاغل میں جو رکاوٹیں اور مشکلات پیش آئیں انہین دور کیا جائے، محققین کے اجتماع منعقد کیے جائیں اور بیرونی مستشرقین کو بھی مدعو کیا جائے۔ ارتقائے تمدن اسلامی کے سلسلے میں اہل دانش کی مختلف خدمات کو منظر عام پر لایا جائے اور جب آمدنی کافی ہو تو ایک دار الکتب، ایک دار الاشاعت اور ایک ایوان نو اور علمیہ قائم کیاجائے۔ یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ادارے کی وسعت کار حسب ذیل دوائر پر مشتمل ہو گی: ادبیات و لسانیات، اخبار و آثار، جغرافیہ و سیاحت، ماہیات فلسفہ، عمرانیات، فنون لطیفہ، علوم حکمیہ، صنعت و حرفت اور قومیات۔ 8؎ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی حوصلہ افزائی، اسلامی تاریخ کے مطالعے کے لیے انجمن حمایت اسلام اور دینی درس گاہوں سے اپیل اور ادارہ معارف اسلامیہ کا قیام۔۔۔۔ یہ سب اس قومی لائحہ عمل کے شاخسانے تھے جو حضرت علامہ نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس لاہور میں اپنے خطبہ صدارت میں پیش کیا۔ جہاں تک اس لائحہ عمل کے سیاسی پہلوؤں کا تعلق تھا، ان کے سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی، اس کی داستان اگلے باب میں ملاحظہ فرمائیے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ Thoughts and Reglcetions of Iqbal ، صفحات195, 219 2۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص173 3۔ ایضاً، صفحات173, 174 4۔ ’’ اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ صفحات186, 187 5۔ ’’ انقلاب‘‘ 8, 9 مارچ32ء 6۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص176 7۔ ’’ انقلاب‘‘ 13جون1932ء 8۔ ’’ انقلاب ‘‘ 7اکتوبر1932ء ٭٭٭ چھبیسواں باب حقوق کی جنگ اور کمیونل ایوارڈ اس صدی کے چوتھے عشرے کے ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ موثر سیاسی جماعت مسلم لیگ نہیں تھی مسلم کانفرنس تھی۔ وہی، جس کا آغاز آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے نام سے ہوا اور جو بعد میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے نام سے ایک مستقل سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر گئی۔ مسلم لیگ کی کیفیت یہ تھی کہ 1930ء کے الٰہ آباد سیشن کے بعد اس کا شیرازہ منتشر ہونے لگا۔ جناب محمد علی حالات سے دل شکستہ ہو کر لندن میں جا بسے تھے۔ 1931ء کے آخر میں مسلم لیگ کا جو سیشن دہلی میں ہوا، وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کیونکہ صدارت کے لیے سر ظفر اللہ چنے گئے تھے اور ان کے احمدی عقیدے کی وجہ سے مسلمان مخالف تھے۔ عوامی غصے کا یہ عالم تھا کہ لیگ کا اجلاس ایک نجی مکان میں کرنا پڑا۔ اس کے بعد لیگ کم از کم تین متوازی جماعتوں میں بٹ گئی 1؎ اور تینوں بے اثر تھیں۔ 1932ء میں لیگ کا کوئی اجلاس نہ ہو سکا۔ مسلمانوں کی تیسری سیاسی جماعت آل انڈیا خلافت کمیٹی تھی۔ یہ نام کو تو قائم تھی لیکن اس کا وجود بھی عدم وجود کے برابر تھا۔ کیونکہ کچھ رہنما کانگرس میں شامل ہو گئے، کچھ مسلم کانفرنس میں اور پنجاب کے ایک گروہ نے مجلس احرار کی صورت اختیار کر لی۔ 1932ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر حضرت علامہ تھے اور یہی سال مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے سلسلے میں فیصلہ کن سال تھا۔ اس لیے اس زمانے میں علامہ ہی برعظیم کے مسلمانوں کے سب سے بڑے قائد تھے اور انہوں نے اس قیادت کو خوب نباہا اور مسلمان دشمن عناصر کے خلاف جنگ میں اپنی جملہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور اس سے ٹھوس نتائج برآمد ہوئے۔ علامہ کی اس جدوجہد کے خدوخال سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق پیش نظر رکھنے ضروری ہیں: اولـ: سکھوں کے سوا باقی تمام اقلیتوں نے فرقہ وار نیابت کے مسئلے پر گول میز کانفرنس کے دوران میں جو مفاہمت کی تھی، اس سے حکومت برطانیہ آگاہ تھی۔ دوم: دوسری گول میز کانفرنس کے آخر میں برطانوی وزیراعظم ریمزے میکڈانلڈیہ اعلان کر چکے تھے کہ مندوبین آپس میں معاہدہ نہیں کر سکے، اس لیے حکومت برطانیہ مجبور ہے کہ نہ صرف فرقہ وار نیابت کے مسائل پر اپنا فیصلہ دے بلکہ ایسی صورت بھی پیدا کرے کہ اکثریتی طاقت کی وساطت سے جمہوری اصول کا کوئی جابرانہ استعمال نہ ہو سکے۔ سوم: آل انڈیا مسلم کانفرنس اپنے لاہور سیشن میں قومی مطالبات کو دہرا چکی تھی اور یہ کہہ چکی تھی کہ حکومت برطانیہ اپنے فیصلے کا جلد از جلد اعلان کر دے اور اگر یہ اعلان جون32 ء کے اواخر تک نہ ہو، تو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ 3 جولائی کو ایک اجلاس میں ’’ راست اقدام‘‘ کا پروگرام طے کرے گی۔ چہارم: کانگریس نے حکومت برطانیہ سے اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرانے کی غرض سے سول نافرمانی کا بازار پھر سے گرم کر رکھا تھا۔ پنجم: برطانوی وزیراعظیم ریمزے میکڈانلڈ لیبر پارٹی کے قائد تھے اور اس پارٹی کی ہندو نوازی یا کانگرس نوازی ایک جانی پہچانی بات تھی۔ اسی رعایت سے بعض مسلمان موصوم کو رام جی مکندامل کہتے تھے۔ مسلمانوں کو تشویش تھی کہ جس فرقہ وار فیصلے کا اعلان موصوف کریں گے، شاید وہ ان کے مقاصد کی نفی کرے اور ہندوؤں کی پروپیگنڈا مشینری بھی ایسا ہی تاثر دے رہی تھی کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کی آرزوؤں کے مطابق نہیں ہو گا۔ حضرت علامہ کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے چومکھی جنگ لڑنا پڑی۔ کانگرس کے خلاف، جو سول نافرمانی کے ذریعے سے حکومت برطانیہ کو بلیک میل کر رہی تھی۔ حکومت برطانیہ کے خلاف، جس کے طرز عمل کے بارے میں مختلف النوع شکوک و شبہات پیدا ہو رہے تھے۔ سکھوں کے خلاف، جو ہندوؤں سے گہرا تال میل رکھ کر مسلمانان پنجاب کو قانونی اکثریت سے محروم کرنے پر تلے بیٹھے تھے اور ’’ قوم پرست مسلمان‘‘ نیک نیتی سے یا بد نیتی سے کانگریس کے آلہ کار بن کر مسلم کانفرنس کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کرے۔ سکھوں کی آبادی پنجاب میں تیرہ فیصد تھی۔ لیکن وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر پنجاب کونسل میں اکثریت بننے کا خواب لے رہے تھے۔ دوسری طرف یہ کوشش بھی ہو رہی تھی کہ بنگال میں بھی مسلمان قانونی اعتبار سے اکثریت میں نہ رہیں اس پر حضرت علامہ نے حاجی رحیم بخش، ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین، سید محسن شاہ اور مولوی غلام محی الدین قصوری کی رفاقت میں ایک بیان جاری کیا۔ جس میں کہا کہ ’’ ہم اس امر کا فیصلہ دنیا پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جس حالت میں ہندو اور سکھ مسلمانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ چھ صوبوں اور مرکز میں اپنے آپ کو عظیم ہندو اکثریت کے حوالے کر دیں۔ وہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کی شدید مخالفت کر کے ہندوستان بھر کی ہندو اکثریت کی نیک نیتی کا نقش کس حد تک بٹھا سکیں گے اور مسلمانوں کے قلوب میں ان کی طرف سے کس حد تک اعتماد پیدا ہو گا۔‘‘ اسی بیان میں پنجاب کے مخصوص مسئلے کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا: ’’ ان (سکھوں) کی دلچسپ تجویز یہ معلوم ہوتی ہے کہ تیرہ فیصد کی اقلیت اور ستاون فیصد کی اکثریت کے تفاوت کو بالائے طاق رکھ دیا جائے او رملک بھر کے فرقہ وار مسائل کی اہمیت سے بے نیاز ہو کر مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کو پنجاب کونسل میں یکساں نیابت دی جائے۔ یا بہ الفاظ دیگر ستاون فیصد کی اکثریت کو چالیس فیصد کی اقلیت میں تبدیل کر دیاجائے اور سکھوں اور ہندوؤں کی انتالیس فیصد مشترکہ اقلیت کو ستاون فیصدی کی اکثریت کے برابر کر دیا جائے۔ یہ وہ استدلال ہے جسے منطق اور عقل و خرد سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ علامہ اقبالا ور ان کے ساتھیوں نے ایک طرف برطانیہ کو انتباہ کیا کہ وہ اس فریب میں نہ آئے اور دوسری طرف مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے آپ کو منظم کریں۔ ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے نامہ نگار نے اس اعلان کے بعد علامہ سے ملاقات کی تو انہوں نے فرمایا:’’ اس مسئلے پر آل انڈیا نقطہ نگاہ سے غور کرنا چاہیے۔ آٹھ صوبوں میں سے دو میں مسلمانوں کی اکثریت کو یقینی بنا دینے سے مسلمانوں کو آل انڈیا اقلیت کی حیثیت میں اپنی مستقل شخصیت کے اظہار کا موقع ملے گا۔ 2؎‘‘ 1932ء کے وسط میں حضرت علامہ کی قائدانہ صلاحیت پر ایک کڑی آزمائش کا وقت آیا۔ کیونکہ جس جماعت کے وہ صدر تھے، اس کے اندر ایک بحران پیدا ہوا اور خود علامہ کی ذات گرامی نکتہ چینی کا ہدف بنی۔ بہرحال انہوں نے بہت جلد اس بحران پر قابو پا لیا۔ نہ صرف ان کی اپنی پوزیشن صاف ہو گئی، بلکہ جماعتی اتحاد بھی برقرار رہا۔ بات یہ ہوئی کہ جب جون کے اواخر تک وزیراعظم برطانیہ نے فرقہ وار فیصلے کا اعلان نہ کیا، تو کانفرنس کے سیکرٹری مولوی شفیع داؤدی نے مارچ سیشن کی قرار داد کے مطابق راست اقدام پر غور کرنے کے لیے الٰہ آباد میں 3 جولائی کو مجلس عاملہ کا اجلاس بلا لیا۔ علامہ نے اسے جولائی کے اواخر تک ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک فرقہ وار فیصلے میں تاخیر سے زیادہ اہم بات اس کی نوعیت تھی اور نوعیت ہی پر مستقبل کے پروگرام کا انحصار تھا۔ 3؎ اس پر مولوی شفیع داؤدی مستعفی ہو گئے اور 4 جولائی کو الٰہ آباد میں ایک جلسہ عام ہوا، جس میں مولانا حسرت موہانی نے بھی شرکت کی۔ اس جلسے میں التوا کے اعلان کو علامہ کی آمریت بتایا گیا اور جن ارکان کو ان سے اختلاف تھا، انہوں نے فیصلہ کیا کہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اندر رہ کر ایک انڈی پنڈنٹ پارٹی بنائی جائے۔ علامہ کا سیاسی تدبر ملاحظہ ہو کہ انہوں نے 6 جولائی کو جو وضاحتی بیان جاری کیا، اس میں انڈی پنڈنٹ پارٹی کے قیام کا خیر مقدم کیا اور بتایا کہ میں نے تو لاہور سیشن کے خطبہ صدارت ہی میں تصور پیش کیا تھا کہ مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت کے اندر مختلف زاویہ نگاہ رکھنے والوں کے لیے ایسی گنجائش پیدا ہونی چاہیے کہ وہ ایک گروپ بنا لیں۔ انہوں نے بتایا کہ التوا کا فیصلہ ارکان کے اصرار پر ہوا۔ بلکہ شملہ میں مجلس عاملہ نے مولوی شفیع داؤدی سے کہا تھاکہ اگرہ فرقہ وار فیصلہ منظر عام پر نہ آئے، تو راست اقدام والا اجلاس ملتوی کر دیا جائے۔ حضرت علامہ نے کہا: ’’ ان حالات میں مجھے آمر قرار دینا نا مناسب ہے۔ میرے نزدیک ارکان کی اکثریت التوا چاہتی تھی۔ میری اپنی رائے بھی یہی تھی اس مسئلے پر پورے غور و خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگرچہ قوم کا فرض ہے کہ فرقہ وار فیصلہ اس کے خلاف جائے تو وہ حکومت سے بر سر پیکار ہو لیکن میں صرف اس بنا پر قوم کو راست اقدام کا مشورہ نہیں دے سکتا کہ ایک خاص وقت کے اندر فرقہ وار فیصلے کا اعلان نہیں ہوا۔‘‘ الٰہ آباد کے جلسہ عام میں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اقبال نے ’’ شملہ کے شارہ چشم و ابرو‘‘ پر التوا کا فیصلہ کیا تھا۔ علامہ نے اس کے جواب میں کہا:’’ میں نے اپنی نجی اور اجتماعی زندگی میں کبھی کسی اور شخص کے ضمیر کی پیروی نہیں کی۔ میں اس شخص کو اسلام اور انسانیت کے لیے باعث شرم سمجھتا ہوں، جو ایک ایسے وقت پر کسی اور کے ضمیر کی پیروی کرے جب قوم کے اہم مفادات داؤ پر ہوں۔‘‘ آخر میں علامہ نے کہا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی قوتوں کا غیر ضروری معاملات پر ضیاع نہ کیا جائے بلکہ انہیں حقیقی ضرورت کے وقت کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ 4؎ اس بیان کے دو اڑھائی ہفتے بعد نئے گروہ کے ارکان حضرت علامہ سے لاہور میں ملے۔ کھل کر تبادلہ خیالات کیا اور آخر میں علامہ کے موقف کو قبول کر لیا۔ 5؎ اس طرح مسلم کانفرنس کا داخلی بحران ختم ہو گیا۔ سکھ رہنماؤں کی مہم جاری تھی۔ بیانات، عرض داشتوں اور قرار دادوں کا ایک طوفان کھڑا ہو رہا تھا ۔ اور ایسی باتیں بھی کہی جا رہی تھیں، جن سے سکھ۔ مسلم کشیدگی سنگین صورت اختیار کر سکتی تھی۔ علامہ نے اس منفی طرز عمل کی شدید مذمت کی اور ہندوؤں کو انتباہ کیا کہ وہ جس انداز سے سکھوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ اقلیتوں کے شکوک و شبہات اور اندیشے ہندوستان کے مستقبل کی تاریخ کو متاثر کریں گے۔ 6؎ اتنے میں پنجاب کے وزیر زراعت اور علامہ کے پرانے دوست سردار جوگندر سنگھ نے علامہ کو ایک فارمولا بھیج کر ان کی رائے دریافت کی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ لندن میں سکھوں کے سوا باقی اقلیتوں نے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی رو سے مسلمان مان گئے تھے کہ انہیں صوبہ پنجاب میں اکاون فیصد نیابت دے دی جائے۔ سردار جوگندر سنگھ نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمانوں کو اکاون فیصد نہیں، بلکہ صرف ایک رکن کی اکثریت قبول کر لینی چاہیے۔ لیکن اس کو بھی بڑی رعایت قرار دے کر سردار صاحب نے یہ شرط لائی کہ مسلمان اس کے بدلے میں سکھوں کے لیے مرکزی مجلس قانون ساز میں پانچ فیصد، سرحد میں چھ فیصد نیابت اور مرکزی کابینہ میں ایک نشست کی حمایت کریں۔ یہ معاملہ 10 اگست کو مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ میں پیش ہوا، لیکن یہ فارمولا مسترد کر دیا گیا۔ 7؎ اس سے پہلے مجلس عاملہ نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فرقہ وار فیصلے کا اعلان جلد کرے اور ساتھی ہی علامہ اقبال، مولانا مظہر الدین، مولانا سید حبیب، مولانا غلام رسول مہر، سید حسن ریاض اور جناب ذاکر علی پر مشتمل ایک کمیٹی کے سپرد یہ کام ہوا کہ اگر حکومت برطانیہ مسلمانوں کے کم از کم مطالبات تسلیم نہ کرے ، تو یہ کمیٹی مجلس عاملہ کے سامنے ایک قومی پروگرام پیش کرے۔ 8؎ 16اگست کو حکومت برطانیہ نے کمیونل ایوارڈ (فرقہ وار فیصلہ) کا اعلان کر دیا۔ اس کے مطابق جداگانہ انتخاب کو برقرار رکھا گیا۔ اقلیتوں کے لیے پاسنگ کا اصول لاگو رہا۔ مرکز میں مسلمانوں کو ایک تہائی نیابت دی گئی۔ صوبہ سرحد میں اصلاحات کا نفاذ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ اب یہ فیصلہ بھی ہو گیا کہ سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے صوبے کی حیثیت دی جائے۔ پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت کو قانونی طور پر تو تسلیم نہ کیا گیا، لیکن ایک ایسا بندوبست کر دیا گیا جس سے انہیں معمولی اکثریت حاصل ہو سکتی تھی۔ وہ اس طرح کہ صوبائی اسمبلی کی ایک سو پچھتر نشستوں میں سے چھیاسی نشستیں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو گئیں اور جو نشستیں مخصوص مفادات کے لیے مخلوط انتخاب کے ذریعے سے پر ہونی تھیں ان میں چار مسلمانوں کو مل سکتی تھیں۔ بہرحال بنگال کے مسلمانوں کو یہ رعایت بھی نہ ملی۔ انہیں چون فیصد آبادی کے باوجود اڑتالیس فیصد سے کچھ زیادہ نیابت دی گئی۔ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے کمیونل ایوارڈ پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ دو اصول پیش نظر رکھنے ضروری تھے۔ کہ کوئی اکثریت اقلیت میں تبدیل نہ ہو جائے اور اقلیتوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے انہیں پاسنگ دیا جائے۔ لیکن دونوں کے نفاذ میں مسلمانوں کو نقصان میں رکھا گیا۔ حضرت علامہ نے 24اگست کو ایک بیان جاری کیا، جس میں ایوارڈ پر یہ اعتراض کیے: اول: پنجاب میں سکھوں کو ان کے حق سے زیادہ پاسنگ دے کر۔ مسلم اکثریت کا انحصار اس بات پر ہے کہ مسلمان مخلوط انتخاب کے حلقوں سے کچھ نشستیں حاصل کریں۔ دوم: ہندوؤں کو صوبہ سرحد میں جتنا پاسنگ دیا گیا ہے، اتنا مسلمانوں کو کسی ہندو اکثریتی صوبے میں نہیں ملا۔ سوم: بنگال میں مسلمانوںکی نیابت اڑتالیس فیصد سے کچھ زیادہ رہ گئی ہے۔ اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یورپی آبادی کا پاسنگ بڑھا دیا گیا اور ہندوؤں کو خوش کرنا مقصود تھا۔ علامہ نے بنگال کے مسلمانوں کے مسئلے کا یہ حل تجویز کیا کہ وہاں مجلس قانون ساز کے دو ایوان ہوں ایوان زیریں میں مسلمانوں سے بے انصافی کا ازالہ یوں کیا جائے کہ ایوان بالا میں انہیں آبادی کے مطابق نیابت دی جائے اور یہ پابندی لگ ادی جائے کہ جو بھی وزارت بنے گی وہ دونوں ایوانوں کے سامنے جواب دہ ہو گی۔ چونکہ دونوں ایوانوں کے ارکان کو ملا کر مسلمانوں کو اکثریت حاصل رہے گی، اس لے وہ موجودہ فیصلہ قبول کر لیں گے۔ علامہ نے ایک اور نکتہ یہ پیش کیا کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کس فرقے کو کتنی نیابت حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ صوبائی مجالس قانون ساز کو اختیارات کتنے دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اصل اقتدار منتقل ہو جائے، تو مسلمان اپنے اکثریتی صوبوں میں اپنی گزشتہ تاریخ اور روایات کے پیش نظر ہر قسم کی تنگ نظری سے آزاد ہوں گے اور ان کا اولین فرض یہ ہو گا کہ ناخواندگی اور معاشی غلامی کے خلاف جنگ کریں۔ 9؎ اس مرحلے میں ایک دلچسپ صورت پیدا ہوئی۔ کمیونل ایوارڈ میں اچھوتوں کو جداگانہ انتخاب کا حق مل گیا تو گاندھی جی نے وزیراعظم برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ یہ حق واپس لے لیا جائے، ورنہ میں مرن برت رکھ لوں گا۔ علامہ اقبال نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہندو قومیت کے تحفظ کا مسئلہ در پیش ہوا ہے، تو گاندھی جی متحدہ قومیت کے اصول کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ آپ نے مرن برت کو خود کشی سے تعمیر کرتے ہوئے نامردی اک ثبوت قرار دیا اور کہا کہ اگر مسلمانوں میں اچھوتوں کا وجود ہوتا اور اگر مجھے گاندھی جی کا سا طرز عمل اختیار کرنا پڑتا ’’ تو میں حکومت برطانیہ کو دھمکی دینے کی بجائے اپنی قوم کو دھمکی دیتا اور بجائے اس کے، کہ اچھوتوں کو حاصل شدہ تحفظ سے محروم کرنے کی کوشش کرتا، میں اپنی قوم کو اس بات پر مجبور کرتاکہ وہ ایک خاص مدت کے اندر اچھوت اقوام کے ساتھ مذہبی اور معاشرتی اعتبار سے کامل مساوات کے ساتھ پیش آئے۔ 10؎‘‘ بہرحال گاندھی جی نے مرن برت رکھا اور یہ رعایت لینے میں کامیاب ہو گئے کہ اچھوتوں کے لیے زیادہ نشستیں مخصوص کر کے ان کے حلقہ ہائے انتخاب ہندوؤں کے ساتھ مخلوط کر دیے گئے۔ ’’ قوم پرست‘‘ یا نیشنلسٹ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کی قیادت ان کے ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے، تو انہوں نے اچھوتوں اور ہندوؤں کے درمیان مفاہمت کو نظیر بنا کر ایک بار پھر ہندو مسلم مفاہمت کا شوشہ چھوڑا۔ بلکہ اکتوبر کے آغاز میں بمبئی میں ہندو رہنماؤں کے ساتھ بات چیت بھی شروع کر دی۔ اس پر علامہ نے دوسرے بڑے بڑے مسلمان رہنماؤں کی رفاقت میں ایک بیان جاری کیا۔ جس میں کہا کہ ہماری قوم اس نازک وقت میں جداگانہ انتخاب کا تحفظ کسی صورت میں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ بمبئی کے مذاکرات اسی تحفظ سے دست برداری کے لیے ہو رہے ہیں۔مسلمانوں کے نزدیک جو مسائل بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، ان کا بمبئی کے مذاکرات میں کوئی ذکر نہیں آ رہا۔ بہرحال بات چیت اس صورت میں ممکن ہے کہ ہندو واضح تجاویز پیش کریں۔ 11؎ اب نیشنلسٹ مسلمانوں نے علامہ پر پے در پے دباؤ ڈالنا شروع کیا اور علامہ نے بڑے استقلال کے ساتھ مزاحمت فرمائی۔ مولانا شوکت علی اور شیخ عبدالمجید سندھی نے 15 اکتوبر کو لکھنو میں مسلمان رہنماؤں کی کانفرنس بلائی۔ علامہ کو بھی مدعو کیا۔ علامہ نے جواب دیا کہ سب سے پہلے ہندو اپنی قطعی تجاویز پیش کریں۔ پھر خلافت کمیٹی کے صدر کا تار آیا، تو انہیں بھی یہی جواب دیا۔ 12؎ ڈاکٹر انصاری اور جناب شروانی نے برقیہ بھیجا کہ ہندو۔ مسلم، سکھ مسئلے کو حل کرنے کے لیے کانفرنس ہونی چاہیے۔ علامہ نے جواب دیا، پہلے ہندوؤں سے قطعی تجاویز طلب کیجئے۔ 13؎ ایک اور قوم پرست رہنما سردار سلیمان قاسم مٹھا نے علامہ کو تار بھیجا کہ لکھنو کانفرنس سے علیحدگی نہایت مضر ثابت ہو گی۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ ’’ خدا کے لیے کانفرنس کو اس وقت تک منعقد نہ ہونے دیجئے، جب تک اکثریت کی طرف سے تجاویز پیش نہ کی جائیں۔ آپ پنجاب، بنگال اور سندھ کی رائے کو مدنظر رکھیں اور ا س اتحاد کو ضائع نہ کریں جو بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا۔ 14؎‘‘ بہرحال نیشنلسٹ مسلمان باز نہ آئے۔ انہوں نے 16اکتوبر کو لکھنو میں کانفرنس کر لی اور ایک قرار داد منظور کی۔ سالک لکھتے ہیں کہ ’’ اس قرار داد کا منشا یہ تھا کہ اگر ہندو ان تیرہ مطالبات کو قبول کر لیں جو مسلم کانفرنس نے پیش کیے تھے تو مسلمان مخلوط انتخاب کو قبول کر لیں گے۔ چونکہ یہ موقف بالکل وہی تھا جو ابتدا میں مسلم کانفرنس نے اختیار کیا تھا، اس لیے علامہ اقبال نے اس پر ایک بیان دیا کہ اس قرار داد سے ہمارے قوم پرست بھائی مسلم عوام سے زیادہ قریب آ گئے ہیں۔ اب انہوں نے اس امر پر رضا مندی کا اظہار کر دیا ہے کہ وہ انتخاب کے معاملے میں مسلم عوام کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کی قرار دادوں سے اسی فیصلے کا اظہار ہوتا ہے۔ جس حالت میں ہندوؤں نے تیرہ مطالبات منظور نہیں کئے، انتخابات کے متعلق مسلمانوں کو کیا مشورہ دیا جا سکتا ہے؟ لیکن قوم پرست اور مخلوطی (مخلوط انتخاب کو پسند کرنے والے) لیڈروں کی کوششیں بار آور نہ ہوئیں اور ہندوؤں نے ہندو مسلم مفاہمت کی طرف کوئی قدم نہ اٹھایا۔ 15؎‘‘ حضرت علامہ نے اس سال جو جو سیاسی قدم اٹھائے، ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ برعظیم میں بہتر سے بہتر آئینی اصلاحات نافذ ہوں اور عوام کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جائیں۔ تاکہ حکومت خود اختیاری واقعی موثر ہو اور اس کے ذریعے سے عوام اپنے مسائل کو حل کر سکیں ان کے نزدیک اس بنیادی مقصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ جو سیاسی اقتدار حاصل ہو، وہ ہندو اکثریت کو نہ ملے۔ بلکہ آبادی کے تمام عناصر کو ان کی تعداد اور اہمیت کے اعتبار سے حاصل ہو۔ ان عناصر میں مسلمان سرفہرست تھے۔ علامہ نے مسلمانوں کے قومی مطالبات کے حصول کے لیے پوری جدوجہد کی اور کمیونل ایوارڈ اس کا ثمر تھا۔ جو اگرچہ مسلمانوں کی خواہشات کے عین مطابق نہیں تھا لیکن اس سے بڑی حد تک مسلمانوں کے قومی تشخص کے محفوظ رہنے کا بندوبست موجود تھا۔ علامہ کو اس بات پر بھی اعتراض نہیں تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان براہ راست مفاہمت ہو جائے۔ لیکن ان کی شرط یہ تھی کہ ہندو اکثریت پہلے مسلمانوں کو بتائے کہ اس کی تجاویز کیا ہیں۔ ہندوؤں نے ایسا نہ کیا۔ بلکہ نیشنلسٹ مسلمانوں کی خواہشات کا بھی احترام نہ کیا۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ حضرت علامہ اور ان کے ساتھیوں ہی کا موقف درست تھا اور بعد کے حالات نے بھی ثابت کر دیا کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ایسا تصفیہ نہیں کرنا چاہتے، جو آبرو مندانہ بھی ہو اور منصفانہ بھی۔ علامہ نے حقوق کی جنگ جس پیمانے پر اور جس انداز سے لڑی، اس سے یہ حقیقت بھی واشگاف ہو گئی کہ انہیں آئینی امور کا بھی گہرا ادراک تھا اور وہ مختلف تجاویز کے پس پردہ محرکات اور ان کے ممکنہ نتائج کو بھانپ سکتے تھے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ مارشل لاء سے مارشل لاء تک‘‘ صفحات141, 144 2۔’’ انقلاب‘‘ 20اپریل1932ء 3۔ Speeches and Statements of Iqbal ص170 4۔ ایضاً، صفحات171, 173 5۔ ایضاً، ص174 6۔ ایضاً، صفحات175, 176 7۔ ایضاً، صفحات177, 181 8۔ ’’ اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ ص164 9۔ Speeches and Statements of Iqbal صفحات182, 185 10۔ ’’ انقلاب‘‘ 15ستمبر1932ء 11۔ ’’ انقلاب‘‘ 10اکتوبر1932ء 12۔ ایضاً، 10 اکتوبر1932ء 13۔ ایضاً،12اکتوبر1932ء 14۔ ایضاً، 13اکتوبر1932ء 15۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص171 ٭٭٭ ستائیسواں باب تیسری گول میز کانفرنس اور آخری دورہ یورپ انگریزی حضرت علامہ سے ناخوش تھے۔ شاید اس وجہ سے کہ دوسری گول میز کانفرنس میں ان کا رویہ سخت تھا اور انہوں نے وفاقی ڈھانچے کی کمیٹی میں شریک ہونے سے انکار کر دیا اور کانفرنس کے اختتام سے چند دن پہلے ہی مسلم وفد سے کنارہ کش ہو کر انگلستان سے روانہ ہو گئے۔ اور یہ سبب بھی ہو سکتا تھا کہ علامہ کی صدارت میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کا جو اجلاس لاہور میں ہوا، اس میں یہ قرار داد منظور ہوئی کہ اگر فرقہ وار فیصلہ مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہوا تو راست اقدام کیا جائے گا۔ انگریز مسلمانوں سے ایسی چیز کی توقع نہیں کرتے تھے۔ اسی ناخوشی کی وجہ سے وزیر ہند سر سیموئل ہو راس بات کے خلاف تھے کہ انہیں تیسری گول میز کانفرنس میں مدعو کیا جائے۔ یہ ارادہ کیسے بدلا، اس پر ڈاکٹر عاشق بٹالوی نے اپنے کتابچے ’’ اقبال اور تحریک پاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ وائسرائے نے مسلمان مندوبین کی جو فہرست منظوری کے لیے وزیر ہند کو بھیجی، اس میں علامہ کا نام شامل تھا۔ وزیر ہند نے یہ نام نا منظور کرنے کی وجہ یہ پیش کی کہ ’’ اقبال پچھلی کانفرنس میں بالکل خاموش اور چپ چاپ تماشائی کی حیثیت سے بیٹھا رہا ہے اور کسی بحث میں اس نے حصہ نہیں لیا۔ ایسے خاموش، بے زبان اور کم سخن شخص کو دوبارہ گول میز کانفرنس کے لیے بلانا بالکل بے کار ہے۔ ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے، جو آئین، دستور اور قانون وضع کرنے کی بحثوں میں حصہ لیں۔ اونچ نیچ خود بھی سمجھیں اور ہمیں بھی سمجھائیں اور جس کانسٹی ٹیوشن کا خاکہ ہم تیار کر رہے ہیں، اس میں اگر ہماری رہنمائی نہیں کر سکتے تو کم سے کم امداد تو ضرور کریں۔‘‘ اس پر وائسرائے نے وزیر ہند کو لکھا کہ ’’ آپ کو غالباً اس بات کا اندازہ نہیں کہ آج اقبال ہندوستان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا روحانی، معنوی اور سیاسی پیشوا ہے۔ بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کا نوجوان طبقہ تو اقبال کا پرستار ہے۔ جس جلسے میں بڑی بڑی مرصع اور پر جوش تقریریں ناکام رہ جائیں، وہاں اقبال کا ایک شعر کام کر جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اقبال سے جو عقیدت ہے، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے کسی قومی اجتماع کو اس وقت تک اپنی نمائندگی کا پروانہ عطا نہیں کرتے، جب تک اقبال اس اجتماع کو اپنی شرکت کا فخر نہ بخشے۔ لہٰذا اقبال گول میز کانفرنس میں زبان کھولے یا چپ رہے، تقریریں کریں یا ہونٹوں پر مہر سکوت لگا کر بیٹھا رہے، اس کی شرکت مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘ اس پر وزیر ہند کو اپنی رائے بدلنا پڑی اور علامہ کو تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ بھیج دیا گیا۔ 1؎ کانفرنس17نومبر32ء کو شروع ہونی تھی لیکن علامہ ایک ماہ قبل 17اکتوبر کو روانہ ہو گئے۔ روانگی کی خبر لاہور کے شہریوں سے پوشیدہ رکھی گئی تھی۔ اس لیے ریلوے سٹیشن پر الوداع کہنے کی خاطر صرف بیس پچیس ذاتی احباب اور اعزہ موجود تھے۔ ایک ماہ قبل روانگی کی وجہ یہ تھی کہ علامہ لندن پہنچنے سے پہلے وی آنا، بوڈاپسٹ، برلین اور بعض دوسرے علمی مراکز کا مختصر دورہ کرنا چاہتے تھے۔ 2؎ جانے سے پہلے علامہ نے ایک بیان میں کہا کہ فرقہ وار فیصلے سے بہت سی مشکلات دور ہو چکی ہیں۔ اب باقی اہم مسائل کا حل دریافت کیا جائے گا۔ میں مسلمانان ہند اور اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلم وفد اپنی طاقت اسلام اور ہندوستان کی خدمت میں صرف کر دے گا۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کی قرار دادوں پر جمے رہیں اور اس سلسلے میں آپ نے قرآن مجید کا یہ اصول عمل یاد دلایا کہ ’’ جب تو نے ایک طریق عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، تو فی الفور عمل شروع کر دے اور خدا پر بھروسہ رکھ۔ 3؎‘‘ حضرت علامہ نے روانگی سے پہلے لکھنو کے روزنامہ ’’ ہمدم‘‘ کے ڈائریکٹر کے نام ایک مفصل مکتوب میں بتایا کہ لکھنو کانفرنس کا انعقاد کیوں ناپسندیدہ تھا اور اس وقت انتخاب کے طریق کار پر از سر نو غور کس طرح نقصان رساں ہو سکتا ہے۔ مکتوب کا یہ اقتباس خصوصی اہمیت کا حامل ہے: ’’ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حکومت کے تصفیے سے اور کچھ ہو نہ ہو پنجاب کے اندر مسلمانوں کی اکثریت پانچ یا سات کی زیادتی کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ صوبہ سرحد کو آئندہ نظام میں مساوات کا درجہ ملتا ہے۔ سندھ کی علیحدگی کے امکانات بھی قریب تر آ گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی جداگانہ انتخاب بھی قائم رہا ہے۔ جو میری ناقص رائے میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کی اساس ہے۔ جداگانہ انتخاب کو غیر مشروط طور پر رکھ کر حکومت نے مسلمانوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنا مستقبل آپ معین کر لیں۔ چاہیں تو اکثریت میں جذب ہو جائیں اور چاہیں تو کم از کم بعض حصص ملک میں اپنی جداگانہ ہستی کو برقرار رکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔ 4؎‘‘ اس اقتباس کا آخری فقرہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ خطبہ الٰہ آباد میں جو تصور دیا تھا، اقبال اس پر قائم تھے۔ اس دفعہ حضرت علامہ کے ہمراہ سید امجد علی تھے۔ وہی، جو بعد میں یونینسٹ پارٹی کے سیکرٹری بنے اور پاکستان بننے کے بعد وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہے۔ سید امجد علی گول میز کانفرنس کے مسلم وفد کے آنریری سیکرٹری تھے۔ دونوں نے اٹلی کی بندرگاہ وینس تک سمندری سفر کیا۔ اس کے بعد بذریعہ ٹرین پیرس پہنچے، جہاں ریلوے سٹیشن پر سردار امراؤ سنگھ پذیرائی کے لیے موجود تھے۔ علامہ نے نپولین کے مقبرے کو دیکھا۔ لیکن سید امجد علی بتاتے ہیں کہ وہ باہر نکلے تو چہرے سے کسی خاص تاثر کا پتہ نہیں ملتا تھا۔ مشہور فلسفی برگساں سے ملاقات کی خواہش تھی۔ لیکن جب معلوم ہوا کہ وہ نواح پیرس کے کسی گاؤں میں مقیم ہیں، تو علامہ نے کہا انگلستان سے واپسی پر ملیں گے۔ جانے پہچانے فرانسیسی مستشرق میسی نیوں سے البتہ ملاقات ہو گئی اور وہ بھی طویل۔ فرانسیسی عالم نے علامہ سے اس بات میں اتفاق کا اظہار کیا کہ مغربی مورخین کو اسلام سے جو تعصب تھا، وہ کم ہو رہا ہے اور وہ نسبتاً غیر جانب دارانہ نقطہ نگاہ سے اسلامی تحریکوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ میسی نیوں نے یہ بھی کہا کہ یورپ پر مسلمانوں کے بڑے احسانات ہیں۔ انہوں نے تہذیبی اعتبار سے یورپ کو بیدار کیا اور تعلیم و معاشرت کے بہت سے شعبوں میں مغرب کی ترقی کے لئے نئے نئے مواقع عطا کیے۔ سید امجد علی بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میسی نیوں علامہ کی باتیں بڑی دلچسپی اور انہماک سے سنتا رہا۔ 5؎ حضرت علامہ اور سید امجد علی پیرس سے بذریعہ ٹرین لندن پہنچے، تو ریلوے سٹیشن پر مشہور نو مسلم انگریز خالد شیلڈریک علامہ کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ سید امجد علی بتاتے ہیں کہ خالد شیلڈریک نے اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کو مشہور برطانوی سیاست دان جان برائٹ کی تقریروں کا مجموعہ پیش کیا اور کہا کہ آپ کو گول میز کانفرنس کے اہم سیاسی مباحث میں حصہ لینا ہے، اس لیے میری درخواست ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، یہ کتاب ضرور پڑھ لیں۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اسی رات کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا اور رات کے دو بجے کتاب کو ختم کر کے دم لیا۔ 6؎ اس کتاب میں جان برائٹ کی وہ تقریر خصوصی اہمیت کی حامل تھی جو اس نے 24 جون 1858ء میں برطانوی دار العوام میں کی۔ اس کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ ہندوستان ایک نہایت وسیع خطہ ہے۔ اس میں بیس مختلف قومیں آباد ہیں جو بیس مختلف زبانیں بولتی ہیں۔ ان سب کو ایک مربوط اور پائیدار سلطنت کی صورت میں یکجا رکھنا بالکل نا ممکن ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اسے ایک سلطنت یا امپائر بنانے کی جگہ پانچ احاطوں (Presidencies) میں بانٹ دیا جائے۔ جن کے دار الحکومت، کلکتہ، مدراس، بمبئی، آگرہ اور لاہور ہوں۔ پانچوں کی حیثیت ایک دوسرے کے مساوی ہو۔ ہر احاطے کی الگ کونسل ہو، جو مالیات، محاصل، عدل و انصاف اور پولیس اور فوج کی ذمہ دار ہو۔ اب سے ایک سو سال بعد یہ باقاعدہ مملکتوں کی صورت اختیار کر لیں گے اور اگر کبی مستقبل میں برطانوی سیادت کو اٹھایا جائے، تو ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ایسی مملکتیں چھوڑی ہیں، جو اپنی آزادی کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ لیکن اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور اس خطے کو ایک واحد سلطنت کی صورت میں رکھنے کی کوشش کی، تو انارکی اور پھوٹ ناگزیر ہو گی۔ 7؎ علامہ نے تیسری گول میز کانفرنس کی کارروائی میں کوئی نمایاں حصہ نہ لیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں وفاقی ڈھانچے پر بحث ہوتی رہی، جس میں علامہ کو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ بلکہ ڈاکٹر امبید کرنے ان سے جو بیان منسوب کیا، اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرے سے کسی وفاق کے قائل نہیں تھے۔ ڈاکٹر امبید کر کہتے ہیں کہ علامہ اقبال نے وفاقی کے متعلق اپنا خیال ظاہر کر ہی دیا تھا کہ: ’’ ہندوستان میں سرے سے کوئی مرکزی حکومت (خواہ وہ وفاقی ہی ہو) قائم ہی نہ کی جائے۔ بلکہ ہر صوبے کو آزاد ڈومینین (Dominion) بنا دیا جائے، جس کا تعلق ہندوستان کی کسی مرکزی حکومت کے بجائے براہ راست لندن میں وزیر ہند سے ہو۔ 8؎‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ جان برائٹ کے خیالات سے بھی متاثر ہوئے۔ لیکن اگر 1932ء کا خطبہ لاہور دیکھا جائے، تو معلوم ہو گا کہ علامہ اس وقت بھی وفاق کے بارے میں مضطرب نہیں تھے۔ بلکہ وفاق کے قیام کو معرض التوا میں ڈالنا چاہتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے کہا کہ پہلے صوبائی خود مختاری کا تجربہ کر لیا جائے اور صوبوں کی ذمہ داری حکومتیں ٹھیک طرح چل نکلیں، تو پھر وفاق کے بارے میں سوچ لیا جائے۔ وہ اس طرح کی باتیں کیوں کرتے تھے؟ اس لیے، کہ ان کی ذاتی رائے تو وہی تھی جو 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں ظاہر کی گئی اور جس میں فیڈریشن کی جگہ ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ لیکن انہیں آل انڈیا مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ میں اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنا تھا۔ اس لیے مصلحتاً متفقہ قومی مطالبات سے گریز ممکن نہیں تھا۔ ذاتی رائے اور اجتماعی موقف کے درمیان یہ تضاد ایک مدت تک قائم رہا اور انہوں نے ذاتی رائے پر اجتماعی رائے کو اس لیے بھی ترجیح دی کہ مسلمان چاہیں تو فیڈریشن کا تجربہ کر لیں۔ ہمارے اس تجزیے کا ثبوت علامہ کی اس تقریر سے ملتا ہے، جو انہوں نے لندن میں نیشنل لیگ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک اہم تقریب میں15دسمبر1932ء کو کی۔ 9؎ اس اجتماع میں غیر ملکی سفارتی نمائندے، دار العوام اور دار الامراء کے ارکان اور مسلم وفد کے ارکان اور دوسرے معززین شامل تھے۔ اس تقریر میں علامہ نے کہا کہ ’’ میں نے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے مسئلے کا یہ ممکنہ حل تجویز کیا تھا کہ مغربی ہند میں ایک مسلم ریاست قائم کر دی جائے۔ میری تجویز مسلمانان ہند کے مطالبے میں شامل نہ کی گئی لیکن میری ذاتی رائے میں یہی تجویز واحد ممکن حل ہے۔ بہرحال میں انتظار کروں گا کہ تجربے سے میری تجویز کا جواز یا عدم جواز ابھرے۔‘‘ اب اس اقتباس کی روشنی میں قومی مطالبات کے سلسلے میں اقبال کے وہ نکات ملاحظہ فرمائیے جو اس تقریر میں پیش کئے گئے: اول: ہم سب سے زیادہ زور صوبائی خود مختاری پر دیتے ہیں اور مسلمانان ہند اس معاملے میں میرے ساتھ متفق ہیں کہ صوبائی خود مختاری ہمارے مطالبات کی روح کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوم: ہم جن صوبوں میں اکثریت میں ہیں، وہاں اس اکثریت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ سندھ کو الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں، صوبہ سرحد کو دوسرے صوبوں کے مساوی حیثیت دینا چاہتے ہیں، بلوچستان میں آئینی اصلاحات کا نفاذ چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ برطانوی بلوچستان اور قلات اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل ایک بلوچستان فیڈریشن بنا لی جائے۔ سوم: ہماری آبادی سات کروڑ سے زیادہ ہے۔ نصف سے کم آبادی تمام ملک میں بکھری ہوئی ہے۔ لیکن آبادی کا بڑا حصہ شمال مغربی ہند میں مرتکز ہے اور ہماری آرزو ہے کہ اپنی زندگی اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق بسر کریں اور اپنے ثقافتی خطوط پر ترقی کریں۔ چہارم: ہم پر فرقہ پرستی اور پین اسلامزم کا الزام لگایا جاتا ہے۔ حالانکہ ثقافت کی حفاظت حب وطن کے منافی نہیں ہے۔ آخر انسان کس چیز کے لیے جیتا ہے اور جان کی بازی لگاتا ہے۔ اپنے دین کے لیے، اپنی ثقافت کے لیے، اپنی روایت کے لیے۔ پنجم:ہمارے نزدیک ہندوستانی وفاق میں ایک تہائی نیابت کے بغیر ہمارے حقوق کی حفاظت کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے، اس لیے ہم اس پر اصرار کرتے ہیں۔ پس اگر علامہ کی ذاتی اور اجتماعی آرا میں کوئی تضاد تھا، تو وہ اسے اس طرح دور کرنے کی سعی کرتے رہے کہ قومی مطالبات کی پیش کش کے دوران میں بھی ان کی ذاتی رائے کی تکمیل کی جانب پیش رفت جاری رہے۔ وہ اس بارے میں بعض برطانوی سیاست دانوں سے نجی سطح پر تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ اس سلسلے میں لارڈ لوتھین سے بھی ملاقات ہوئی اور انہوں نے علامہ کو بتایا کہ ہندوستان کے مصائب کا حل وہی ہے، جو آپ بتاتے ہیں۔ لیکن اس تک پہنچنے میں پچیس سال لگیں گے۔ 10؎ بہرحال اقبال کی مستقبل شناسی کی جس لارڈ لوتھین سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ فیڈریشن کا تصور معلق رہتے رہتے آخر کار نابود ہو گیا اور پچیس سال کی جگہ پندرہ سال کے اندر اندر پاکستان بن گیا۔ اور یہ بھی اقبال کی دور بینی کا ایک بین ثبوت ہے کہ علامہ جس قسم کا صوبہ بلوچستان چاہتے تھے، آخر کار ویسا صوبہ ہی بنا، کہ ریاستیں اس میں مدغم ہو گئیں۔ برطانیہ کی نیشنل لیگ کی صدر مس فارقوہارسن علامہ کی عقیدت مند تھیں۔ اس لیے انہوں نے 24نومبر کو علامہ کے اعزاز میں ایک عصرانہ دیا۔ جس میں بڑی بڑی شخصیات شریک ہوئیں۔ لارڈ لیمنگٹن نے انہیں خراج عقیدت ادا کیا اور علامہ نے مختصر تقریر میں امید ظاہر کی کہ گول میز کانفرنس میں جو آخری تصفیہ ہو گا، اس میں مسلمانوں کے جائز دعاوی اور آرزوؤں کی تکمیل کا مکمل سامان فراہم ہو گا۔ 11؎ 1932ء کے اواخر میں گول میز کانفرنس سے فراغت پا کر علامہ یورپ کے علمی دورے پر نکلے۔ پہلے پیرس پہنچے۔ فرانس کے مشہور فلسفی برگساں سے خاصی طویل ملاقات کی۔ اس میں برگساں کے نظریہ واقعیت زمان پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ علامہ نے برگساں کو حضور سرور کائنات ؐ کی یہ حدیث سنائی کہ ’’ زمانے کو برا مت کہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں خود زمانہ ہوں۔‘‘ اس پر برگساں حیران رہ گیا اور بار بار علامہ سے دریافت کرتا رہا۔ ’’ کیا یہ صحیح قول ہے؟12؎‘‘ اس کے بعد علامہ سپین کے دار الحکومت میڈرڈ میں پہنچے۔ تاکہ ایک تو اندلس کی اسلامی تہذیب کے آثار کا مشاہدہ کریں۔ دوسرے، دبستان عرب سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی دانش وروں سے تبادلہ خیالات کریں۔ وہاں ایک مشہور دانشور آسین پلاسیوز سے خاص رابطہ رہا۔ جو اپنی کتاب ’’ اسلام اور ڈیوائن کامیڈی‘‘ کی وجہ سے یورپ کے علمی حلقوں میں ممتاز مقام کے مالک تھے۔ انہوں نے میڈرڈ یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ و ادب میں علامہ کو مدعو کیا اوراپنے افتتاحی خطبے میں کہا کہ علامہ ان گنے چنے دانشوروں کی ایک اور مثال ہیں، جنہوں نے اسلامی ہسپانیہ میں شاعری اور مابعد الطبیعیات میں بیک وقت دسترس حاصل کی تھی۔ انہوں نے اقبال اور گاندھی جی کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی خالص سیاست دان ہیں لیکن اقبال دانش ور قسم کی شخصیت ہیں۔ سیاست اور گول میز کانفرنس میں شرکت ان کے لیے محض ایک حادثہ ہیں۔ گاندھی جی یورپی طور طریقوں سے عدم مطابق رکھتے ہیں۔ لیکن اقبال یورپی لباس پہنتے ہیں اور صرف سر کا لباس ان کا ممتاز قومی نشان ہے۔ آسین پلاسیوز نے اقبال کی تصانیف بالخصوص اسرار خودی کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ اقبال کہتے ہیں، ہندوستان اور اندلس دنیائے اسلام کے دو انتہائی سروں پر واقع ہیں اور یہ دونوں ثقافت کے مورخ کے لیے یہ مشترکہ نقش فراہم کرتے ہیں کہ دونوں ثقافتی امتزاج کی تجربہ گاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علامہ کے لیکچر کا موضوع تھا۔ ’’ سپین اور اسلام کی عقلی دنیا۔‘‘ جس ہسپانوی اخبار نے اس تقریب کی روئداد چھاپی، اس کے نامہ نگار نے لکھا کہ ’’ اس سفر میں علامہ کے ہمراہ ان کی بیٹی ہے۔ جو پتلی دبلی اور یورپی باشندوں کی طرح سفید فام ہے۔12؎‘‘ حقیقت میں یہ لڑکی علامہ کی دختر نہیں، سیکرٹری تھی اور وہ بھی دلچسپ قسم کی۔ اسی کے بارے میں علامہ نے عطیہ بیگم کے نام ایک خط میں دلچسپ بات لکھی کہ ’’ سپین میں میری پرائیویٹ سیکرٹری ایک انگریز لڑکی تھی۔ اس نے اچانک میری جانب اپنا طرز عمل بدل ڈالا اور میری خدمت یوں کرنے لگی، جیسے وہ پرائیویٹ سیکرٹری نہیں، ایک مرید ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ طرز عمل بدلنے کا سبب کیا ہے؟ اس پر اس نے کہا، مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ آپ ایک آسمانی وجود ہیں! میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ اپنے آپ کو مثبت انداز میں پیش کروں۔ بہرحال میں منفی طور پر صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں احمق نہیں ہوں۔ 13؎‘‘ میڈرڈ میں قیام کے دوران میں علامہ سے ایک عرب محقق محمود خضیری کی ملاقات ہوئی۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے نام (جو 1937ء میں یورپ میں تھے) ایک خط میں لکھا’’ محمود خضیری سے میں سپین میں ملا تھا وہ اس وقت فقہ اسلام پر ریسرچ کر رہے تھے۔ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ وہ نصیر الدینی طوسی پر مقابلہ پڑھیں گے۔ ان سے کہیے کہ نصیر الدین طوسی کی تحریروں کا وہ حصہ، جس میں طوسی نے اقلیدس کے Parallel Postulate کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، بالخصوص مطالعہ کریں۔ بلکہ اس ضمن میں ان کے معاصرین کی تحریروں کا مطالعہ بھی کریں۔ اس تحقیق سے ان کو معلوم ہو گا، کہ مسلمان ریاضی دان قرون وسطیٰ میں ہی اس نتیجہ تک پہنچ چکے تھے کہ یہ ممکن ہے کہ مکان کے ابعاد (Dimensions) تین سے زیادہ ہوں۔ اور ہمارے اسلامی صوفیہ تو ایک مدت سے تعدد زمان و مکاں کے قائل ہیں۔ یہ خیال یورپ میں سب سے پہلے جرمن کے فلسفی کانٹ نے پیدا کیا تھا۔ لیکن مسلمان صوفیہ اس سے پانچ چھ سو سال پہلے اس نکتے سے آشنا تھے۔ 14؎‘‘ علامہ کی یہ رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فنون لطیفہ میں سے اگر کسی میں اسلامی روح دخیل ہوئی یا منعکس ہوئی، تو وہ فن تعمیر ہے۔ انہوں نے پروفیسر حمید احمد خان مرحوم سے گفتگو کے دوران میں کہا کہ اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اس خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قویٰ شل ہوتے گئے، تعمیرات کے اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عورتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا۔ قصر زہرا دیووں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے سجد قرطبہ مہذب دیووں کا اور الحمرا محض مہذب انسانوں کا اور پھر حضرت علامہ نے مسکرا کر کہا:’’ میں الحمرا کے ایوانوں میں جا بہ جا گھومتا پھرا۔ مگر جدھر نظر گزرتی تھی دیوار پر ہو الغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے۔ کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو۔ 15؎‘‘ شیخ محمد اکرام مرحوم کے نام ایک مکتوب میں لکھا: میں اپنی سیاحت اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی۔ جو کسی وقت شائع ہو گی۔ الحمرا کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہ ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا، جو پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ 16؎ آپ کا جی چاہا کہ تحیتہ المسجد کے نفل ادا کریں۔ عمارت کے نگران سے پوچھا، وہ بڑے پادری سے پوچھنے کے لیے گیا۔ لیکن بے چینی کا یہ عالم تھا کہ اس کے جاتے ہی علامہ نے نیت باندھ لی اور وہ لوٹا، تو آپ نماز سے فارغ ہو چکے تھے۔ 17؎ بہر حال سید امجد علی کا بیان ہے کہ علامہ نے ان کے نام خط میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ انہوں نے اذان بھی دی تھی۔ 18؎ حضرت علامہ نے میڈرڈ اور قرطبہ کے علاوہ غرناطہ، اشبیلیہ اور طلطیلہ کا دورہ بھی کیا۔ سپین کے وزیر تعلیم سے ملاقات کی۔ جن کے عہد میں غرناطہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کو توسیع حاصل ہوئی۔ علامہ نے ایک بیان میں بتایا کہ جنوبی ہسپانیہ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ اندلسی عربوں کی اولاد ہیں۔ اور انہیں ایسی عمارت اور آثار پر ناز ہے، جو اسلامی ثقافت کے مظہر ہیں۔ ابھی علامہ لندن ہی میں تھے کہ انہیں اٹلی کے آمر مطلق مسولینی کی طرف سے ملاقات کی دعوت موصول ہوئی۔ چنانچہ سپین کے دورے کے بعد آپ روم پہنچے۔ عبدالسلام ندوی بتاتے ہیں کہ مسولینی ’’ اسرار خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ جب علامہ ان سے ملے۔ تو مسولینی نے کہا، اٹلی کے نوجوانوں کے لیے کچھ نصیحت کریں۔ علامہ نے کہا، اٹلی ابھی ایک نوجوان قوم ہے اور اگر وہ صحیح راہ اختیار کرنا چاہتی ہے تو اسے مغرب کی زوال پذیر تہذیب سے منہ موڑ کر مشرقی کی روحانی اور زندگی بخش تہذیب کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ آپ نے کہا کہ اٹلی کی حالت قبل از اسلام کی طرح ہے۔ ایران کی تہذیب فرسودہ تھی اور اسے تازہ خون کی ضرورت تھی۔ عربوں نے ایران کو تازہ خون دیا اور وہ ایک پر شکوہ تہذیب کا علمبردار بن گیا۔ اسی طرح روما کے زوال کے بعد اٹلی کو گاتھ اور جرمن قوم نے تازہ خون فراہم کیا اور اسے قرون وسطیٰ میں نشاۃ ثانیہ نصیب ہوئی۔ اب ایران اور اٹلی، دونوں کو پھر تازہ خون کی ضرورت ہے۔ ایران اب بھی خوش قسمت ہے کہ اس کے شمال میں ترکمان موجود ہیں او رجنوب میں عرب کے جری قبائل۔ یہ قومیں اپنا خون دے کر ایران کو پھر زندہ اور قوی کر دیں گے۔ لیکن موجودہ اٹلی کے گرد اسی کی طرح کی مہذب قومیں آباد ہیں، جن میں صحرائی وحشت اور تازگی نام کو موجود نہیں۔ پھر اٹلی تازہ خون کہاں سے لائے گا۔ بیان کیا جاتاہے کہ مسولینی اس اچھوتے خیال سے متاثر ہوا۔ مسولینی کے ساتھ ملاقات کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ موجود نہیں، اس لیے حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کن موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ بہرحال اس کا کچھ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ مسولینی فاشٹ پارٹی کا بانی اور قائد تھا۔ بالشوزم یا کمیونزم کا شدید دشمن تھا۔ دنیائے اسلام میں دلچسپی لیتا تھا۔ لیبیا اور اطالوی صومالی لینڈ (جو اب صومالیہ میں شامل ہے) اٹلی کے زیر نگیں تھے۔ اس لیے قدرتی طور پر فاشزم، کمیونزم اور اسلام اور دنیائے اسلام کے حالات زیر بحث آئے ہوں گے اور اگر ہم علامہ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ان اشارات 19؎ کا تجزیہ کریں، جو انہوں نے روم میں لیکچر کے لیے تیار کیے تھے، تو ان سے بھی موضوعات گفتگو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیکچر کے اشارات پانچ حصوںمیں منقسم ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تلخیص پیش کر دی جائے: (الف) جدید تاریخ کا اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ اسلام مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے اور روس مشرق کی طرف۔ اگر ہمیں جدید تہذیب کے امکانی حشر اور اخلاقی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے دنیائے اسلام کے ساتھ اسلام کے تعلق کو سمجھنا ہے، تو اس کے لیے اسلام اور روس کے رحجانات کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ (ب) آج کی دنیا میں تین قوتیں کار فرما ہیں۔ اول: مغربی تہذیب، جس کی تشکیل میں مسیحیت سے روشنی، سائنسی طریق کار، کلیسا اور مملکت کی علیحدگی، ایک نئے اخلاقی لہجے اور علاقائی وطنیت کے نشو و ارتقا نے حصہ لیا۔ دوم: کمیونزم، جو کلیسا کی نفی اور زندگی کے فلسفے کے طور پر مادیت کی سیادت کا مظہر ہے۔ سوم: اسلام، جو ایک طرف ذاتی تنور اور دوسری طرف معاشری تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذاتی تنور کی بنیاد خود پر ہے اور معاشری تجربے کی حیثیت سے یہ نوع انسانی کے لیے ایک ایسا تصور ہے جو خون کے رشتوں اور زمینی رشتوں سے بالا ہے، جسے اجتماعی عبادات اور اداروں سے تقویت حاصل ہوتی ہے اور جس میں ایک قسم کا سوشلزم موجود ہے۔ (ج) یورپ کی طرف اسلام کی حرکت زوال کی نہیں، بلکہ ایک نئی بیداری اور اقتدار کی ایک نئی تلاش کی علامت ہے۔ وہابیت، بابیت اور سرسید احمد خان کی تحریکیں اس نئی بیداری کے سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ (د) برطانیہ کے بارے میں دنیائے اسلام کو کچھ شبہات ہیں۔ا گر برطانیہ کو دنیائے اسلام کا دل موہنا ہے، تو اسے اس پر اعتماد کرنا ہو گا۔ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شمال مغربی ہند میں اسلام کو منظم ہونے میں مدد دی جائے اور دوسرا یہ ہے کہ فلسطین، عرب دنیا اور کشمیر کے مسائل حل ہوں۔ (ہ) اسلام کی دوستی حاصل کر کے مغرب فائدے میں رہے گا۔ 20؎ یہ حقیقت ہے کہ علامہ مسولینی کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ اسی لیے انہوں نے مسولینی کے بارے میں اس قسم کے اشعار کہے: ندرت فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوق انقلاب ندرت فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملت کا شباب ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی ندرت فکر و عمل سے سنگ خارا لعل ناب رومتہ الکبریٰ دگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر ایں کہ می بینم بہ بیداری ست یا رب یا بہ خواب نعرہ ہائے شوق سے تیری فضا مومور ہے نغمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب اور فیض یہ کس کی نظر کا ہے کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب اس سے بعض لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ علامہ فاشزم کے فلسفے سے متاثر ہوئے ہیں، یا اس کے حامی ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ بلکہ یوںکہنا چاہیے کہ اس وقت تک فاشزم کے چہرے کا وہ نقاب نہیں اٹھا تھا، جس نے اس کی عریانیوں اور انسان دشمنیوں کو چھپا رکھا تھا اور نہ مسولینی نے اس وقت تک کوئی ایسی حرکت کی تھی، جس سے ظاہر ہوتا کہ وہ سامراجی عزائم لے کر اٹھا ہے۔ علامہ کی آمد سے دس سال پہلے جب مسولینی نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اٹلی ایک پسماندہ ملک تھا، اس میں زندگی بے ترتیب اور منتشر تھی، نظم نسق کا شیرازہ پارہ پارہ ہو چکا تھا اور معاشی حالت ابتر تھی۔ مسولینی نے زندگی میں نظم و ضبط پیدا کیا، نظم و نسق کی چولیں درست کیں، معاشی حالت کو بہتر بنایااور قوم کی پوری قوتیں تعمیر پر مرتکز کر دیں۔ ایسے میں اگر علامہ اس کی شخصیت یا کام سے متاثر ہو گئے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ بہرحال جب مسولینی کے چہرے سے نقاب اٹھا تو علامہ نے اس کی مذمت میں بھی نظمیں لکھیں۔ اس پر پروفیسر آل احمد سرور نے 1937ء کے آغاز میں ایک مکتوب کے دوران میں اقبال پر تناقض کا الزام لگایا۔ علامہ نے اس کا جواب یہ دیا: ’’ مسولینی کے متعلق جو کچھ میں لکھا ہے، اس میں آپ کو تناقض نظر آتا ہے۔ آپ درست فرماتے ہیں۔ لیکن اگر اس بندہ خدا میں Devil اور Saint دونوں کی خصوصیات جمع ہوں، تو اس کا میں کیا علاج کروں؟ مسولینی سے اگر کبھی آپ کی ملاقات ہو، تو آپ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس کی نگاہ میں ایک نا ممکن البیان تیزی ہے۔ جس کو شعاع آفتاب سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ کم از کم مجھ کو اسی قسم کا احساس ہوا۔ 21؎‘‘ حضرت علامہ فروری 33ء کے اواخر میں لاہور واپس آ گئے۔ انہوں نے دورہ یورپ سے جو مجموعی تاثر لیا، وہ 26 فروری کو ایک بیان کی صورت میں پیش کیا جس کے ایک اقتباس سے ہم اس باب کو ختم کرتے ہیں: ’’ یورپ کے مختلف ملکوں میں پھرنے اور جدید دنیا کے عمومی اخلاقی انتشار کے مشاہدے کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک دین اور عقیدے کے اعتبار سے اسلام کے لیے ایک عظیم موقع پیدا ہو چکا ہے۔ یورپ کے لاکھوں مرد اور عورتیں اسلام اور اس کے ثقافتی نصب العین کو جاننے کے لیے مضطرب ہیں۔ اس حقیقت کو مسلمانوں کی نوجوان نسل جتنی جلد محسوس کر لے، اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ یورپی مسلمانوں نے یہ حقیقت پہچان لی ہے۔ 23؎‘‘ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ اقبال اور تحریک پاکستان‘‘ صفحات1, 4 2۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص178 3۔ ’’ انقلاب‘‘ 19اکتوبر32ء 4۔ ’’ انقلاب‘‘ 26اکتوبر32ء 5۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ جلد اول، صفحات133, 136 6۔ ایضاً، صفحات142, 143 7۔ Evolution of Pakistan ص14 8۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص179(بحوالہ ’’ پاکستان‘‘ مولفہ ڈاکٹر امبید کر ص329) 9۔ Letters and Writings of Iqbal صفحات70, 76 10 ۔ Iqbal's Letters to Mr. Jinnah، ص21 11۔ Letters and Writings of Iqbal ، صفحات68, 70 12۔ ایضاً، صفحات77, 79 13۔ ایضاً، صفحات10, 11 14۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم، صفحات343, 344 15۔ ’’ ملفوظات اقبال‘‘ صفحات185, 186 16۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم صفحات321, 322 17۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص182 18۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ حصہ اول، صفحات138, 139 18۔ (الف) ’’ اقبال کامل‘‘ صفحات27, 28 19۔Speeches and Statements of Iqbal ، صفحات190, 191 20۔ Letters and Writings of Iqbal، صفحات80, 82 21۔ یہ اشارات کا ترجمہ اور بعض جگہ تلخیص ہے، چونکہ اشارات فقروں کی صورت میں نہیں تھے، اس لیے ترجمہ و تلخیص میں قدرے ابہام رہ گیا ہے۔ 22۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم، ص315 23۔ Speeches and Statements of Iqbal، ص190 ٭٭٭ اٹھائیسواں باب قرطاس ابیض، کشمیر کمیٹی اور ’’ پین اسلامزم‘‘ حضرت علامہ 25 فروری 33ء کو لاہور پہنچے تو ریلوے سٹیشن پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جمعیت الاسلام نے ایک سپاس نامہ پیش کیا۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ’’ خدا کے لیے آپ اپنے ان تمام اختلافات کو، خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی، بالکل مٹا دیں اور ایک ہو جائیں۔ اس وقت تمام اسلامی سلطنتوں نے بڑی حد تک ان نقائص کو دور کر دیا ہے۔ آپ کو بھی ان کی تقلید کی کوشش کرنی چاہیے۔ 1؎‘‘ دو دن بعد انہوں نے اس آئین کو ہندوستانیوں کے لیے بہترین راستہ قرار دیا، جو گول میز کانفرنس میں بنایا گیا تھا اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے آپ کو نئے آئین کے تحت انتخابات کے لیے منظم کریں اور اپنی جماعت میں تفرقہ پیدا نہ ہونے دیں۔ 2؎ بہرحال آنے والے آئین کے بارے میں علامہ نے جس حسن ظن کا اظہار کیا تھا، وہ وفاقی ڈھانچے کے سلسلے میں نا درست ثابت ہوا۔ مارچ کے مہینے میں حکومت برطانیہ نے ایک قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) شائع کیا، جس میں ہندوستان کے وفاقی دستور کا ایک خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ حضرت علامہ نے اس پر شدید نکتہ چینی فرمائی۔ جس کے نمایاں پہلو یہ تھے: 1۔ وفاقی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی تین سو پچھتر نشستوں میں سے صرف بیاسی مسلمانوں کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نیابت بائیس فیصد سے بھی کم ہو گی۔ اس کے برعکس دیسی ریاستوں کو ان کی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے پچیس فیصد نشستیں ملنی چاہئیں تھیں لیکن انہیں ایک تہائی نیابت دے دی گئی ہے۔ گویاآٹھ فیصد پاسنگ دے دیا گیا ہے۔ اس پاسنگ کے اصل حق دار مسلمان تھے۔ 2۔ عورتوں کو دو نشستیں دی گئی ہیں اور چونکہ حلقہ ہائے انتخاب مخلوط ہوں گے، اس لیے مسلمان عورتوں کے لیے منتخب ہونا نا ممکن ہو گا۔ 3۔ ایوان بالا کے ارکان واحد قابل انتقال ووٹ کے نظام کے تحت صوبائی مجالس قانون ساز کے ارکان چنیں گے۔ گویا یہاں بھی مخلوط انتخاب کو رواج دینے کا ارادہ ہے۔ ظاہر ہے، مسلمان اس ایوان میں مناسب نیابت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ 4۔ صوبوں میں وزرا کے اختیارات کم ہیں اور گورنروں کے بہت زیادہ۔ 5۔ بلوچستان کے بارے میں جو منصوبہ وضع کیا گیا ہے، اس سے نہ بلوچی مطمئن ہوں گے نہ مسلمانان ہند۔ 6۔ اس سکیم میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کے لیے بھی مناسب تحفظات فراہم نہیں کئے گئے۔ 3؎ اس دوران میں ریاست جموں و کشمیر میں حالات پھر بگڑ گئے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ گلینسی کمیشن کی سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ کشمیری مسلمان دو تین سیاسی جماعتوں میں بٹ گئے تھے اور ایک دوسرے کو زچ کرنے لگے تھے۔ تیسرے، حکومت نے مختلف جماعتوں کے لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔ مظاہرے ہوئے، تو ایک بار پھر’’ گولی لاٹھی کی سرکار‘‘ حرکت میں آ گئی۔ عورتوں اور بچوں کو بھی نہ چھوڑا گیا اور سزائے تازیانہ کی وحشیانہ رسم کا احیا کیا گیا۔ اس پر حضرت علامہ نے ایک سخت بیان جاری کیا۔ ریاستی حکومت کی جابرانہ پالیسی کا پردہ چاک کیا اور مسلمانوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ دھڑے بندی کو چھوڑ کر، تمام پارٹیاں توڑ کر، ایک پارٹی بنائیں اور اس کے پرچم تلے ایک موثر جدوجہد کا آغاز کریں۔ 4؎ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سیاست بھی ایک نیا رنگ لے چکی تھی۔ ہم کسی گزشتہ باب میں بتا چکے ہیں کہ اس جماعت کے پہلے صدر تحریک احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے۔ کسی دستور کی عدم موجودگی میں انہیں وسیع اختیارات حاصل تھے۔ احمدیوں کے مخالفوں کی معلومات کے مطابق موصوف اس جماعت کو اپنے عقیدے کی نشر و اشاعت کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ مخالفین نے سوچا کہ جماعت کا ایک دستور بنا لیا جائے، تاکہ ہر کام ایک طریقے کے مطابق ہو سکے۔ احمدیوں کی سوچ یہ تھی کہ دستور کی تشکیل کا مقصد ان کے امام کے لا محدود اختیارات کو محدود کرنا ہے۔ اس لیے مرزا بشیر الدین محمود احمد صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ لیکن ان کی جماعت کے افراد بد ستور کشمیر کمیٹی کے رکن رہے۔ حضرت علامہ کو قائم مقام صدر چنا گیا۔ حضرت علامہ نے دستور کا ایک مسودہ تیار کرایا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ اس جماعت کو زیادہ سے زیادہ عناصر کی نمائندہ بنایا جائے۔ لیکن جب اجلاس میں مسودہ پیش ہوا، تو احمدی ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ جب بحث آگے بڑھی، تو علامہ نے محسوس کیا کہ یہ حضرات کشمیر کمیٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے در پے ہیں۔ یہ صورت علامہ کو منظور نہیں تھی۔ چنانچہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ علامہ نے 20جون 33ء کے مفصل بیان میں کہا کہ احمدی حضرات کے نزدیک صرف اپنے امام سے وفاداری ہی واحد وفاداری ہے، جس کے وہ پابند ہیں۔ اور ایک احمدی وکیل نے تو اپنے پبلک بیان میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کسی کشمیر کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتے اور جو کچھ کرتے ہیں، صرف اپنے امام کے حکم پر۔ علامہ نے کہا کہ مجھے کسی شخص یا گروہ کے عقیدے سے واسطہ نہیں۔ نہ اس بات سے واسطہ ہے کہ وہ کسی کو اپنا پیر مانتا ہے۔ جہاں تک کشمیر کمیٹی کی عمومی پالیسی کا تعلق ہے، اس پر کوئی اختلاف نہیں اور اگر پالیسی کے اختلاف کی بنا پر کوئی پارٹی بنائی جائے، تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن یہاں پالیسی کی بنا پر نہیں، بلکہ اس سے لا تعلق امور کی بنا پر دھڑے بندی چل رہی ہے۔ اس لیے مجھے اس کمیٹی کی صدارت منظور نہیں۔ بہرحال اگر مسلمانان ہند چاہیں، تو اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد کے لیے ایک اور کشمیر کمیٹی بنا سکتے ہیں۔5؎ چنانچہ اس کے فوراً بعد مسلمانوں کے ایک نمائندہ اجتماع میں پرانی کشمیر کمیٹی کو کالعدم قرار دیا گیا اور ایک نئی آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کر دی گئی۔ جس کے صدر حضرت علامہ تھے اور سیکرٹری ملک برکت علی ایڈووکیٹ۔ ان دونوں کی طرف سے مسلمانوں کے نام ایک مشترکہ اپیل جاری ہوئی۔ جس میں کہا گیا کہ مظلومین کشمیر کی قانونی اور دوسری امداد کے لیے مسلمان چندہ دیں۔ علامہ نے اس بیان میں کشمیری مسلمانوں کے بارے میں جو نکتہ آفرینی کی، اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’ اہل خطہ (کشمیر) ملت اسلامیہ ہند کا جزو لاینفک ہیں اور ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کو تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں فی الحقیقت ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے، تو ان نکتوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہو گا۔ اول یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہندوستان کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ حصہ ہے جو مذہبی اور کلچرل حیثیت سے خالصتاً اسلامی ہے۔ اور ایسا اسلامی کہ اسلام نے وہاں خدانخواستہ جبر و اکراہ سے گھر پیدا نہیں کیا بلکہ یہ باور پودا حضرت شاہ ہمدان جیسے نیک و کامل بزرگان دین کے پاک ہاتھوں کا لگایا ہوا ہے۔ اور انہی کی مساعی تبلیغ دین کا نتیجہ ہے، جنہوں نے گھر بار اور وطن محض اس لیے ترک کیے کہ رسول اللہ ؐ کے لائے وئے پیغام سے ان دیار و ممالک کے بسنے والوں کو بہرہ ور کریں اور الحمدللہ، کہ وہ بدرجہ اتم کامیاب ہوئے۔ دوسری بات، جسے مسلمانان ہند کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے، یہ ہے کہ ان کی تمام قوم میں سب سے بڑھ کر، اگر صناعی و ہنر مندی اور تجارت کو بخوبی چلانے کے جوہر نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں، تو وہ اسی اہل خطہ کا گروہ ہے۔ افسوس ہے کہ اہل کشمیر کی زبوں حالی انہیں اپنی قوم کا مفید عنصر بننے کے راستے میں مانع ہے بلکہ اقوام عالم کی اس نوع کی ترقی ان کی خدمات سے محروم ہے۔ ورنہ اگر ان کی زندگی بھی زندہ قوموں کی زندگی ہو تو صناعی اور ہنر مندی کے طبعی جوہر ہندوستان کی اقتصادی حالت کو بدل دینے میں ممد ثابت ہوں بہرحال اہل خطہ قومیت اسلامیہ ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں اور اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے ، تو ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملت فراغت کی نیند سوئیں۔ 6؎‘‘ جولائی کے اواخر میں حکومت کشمیر نے ایک اعلامیے میں نظم و نسق کے سلسلے میں چند اصلاحات کا اعلان کیا۔ علامہ نے اس کا خیر مقدم کیا اور یہ توقع بھی ظاہر کی کہ گلینسی کمیشن کی دوسری سفارشات پر بھی عمل ہو گا۔ انہوں نے ریاست کے انگریز وزیراعظم کرنل کالون سے مطالبہ کیا کہ حکومت اور عوام کے درمیان خیر سگالی پیدا کرنے کی خاطر وہ فوجداری مقدمات واپس لے لیے جائیں، جو بارہ مولا اور میر پور میں کارکنوں کے خلاف چل رہے تھے۔ 7؎ احمدی حضرات نے فیصلہ کیا کہ ’’ تحریک کشمیر‘‘ کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم کی جائے اور علامہ کو اس کی صدارت پیش کی گئی۔ علامہ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مشورہ لینا ہو گا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ علامہ ذاتی طور پر صدارت قبول کرنے کے لیے راضی ہیں۔ اس پر علامہ نے ایک بیان میں کہا کہ جن وجوہ کی بنا پر میں نے نئی آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی تھی، وہ بدستور قائم ہیں اور قادیانیوں کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا اعلان نہیں ہوا کہ اگر وہ مسلمانوں کی کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں گے، تو ان کی وفاداریاں منقسم نہیں ہوں گی۔ علامہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ تحریک کشمیر‘‘ کے مقاصد آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مختلف ہیں اور محرکات بھی مختلف ہیں۔ ایسے میں میرے لیے اس کی صدارت قبول کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ 8؎ انہی دنوں کشمیر کے اندر جنگ قیادت نے ایک افسوس ناک صورت لے رکھی تھی اور کشمیر کارکن بہت سے دھڑوںمیں بٹے ہوئے تھے۔ شیخ عبداللہ نے چاہا کہ تمام کارکنوں کی ایک کانفرنس سری نگر میں بلائی جائے اور اختلافات دور کیے جائیں۔ انہوں نے علامہ کو مسلم کانفرنس کے اس اجتماع میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ علامہ نے اپنے دوسرے مشاغل کی بنا پر معذرت کر بھیجی اور شیخ عبداللہ کے نام اپنے مکتوب مورخہ 12 اکتوبر1933ء میں دعا فرمائی کہ بزرگان کشمیر بہت جلد اپنے معاملات سلجھا لیں۔ آپ نے لکھا: سنا ہے، مختلف جماعتیں بن گئی ہیں اور ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہو گا ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے، جو تمام سیاسی و تمدنی مشکلات کا علاج ہے۔ ہندی مسلمانوں کے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی اور اس کے افراد اور بالخصوص علما اوروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنے رہے، بلکہ اس وقت ہیں۔ 9؎ تقریباً تین مہینے بعد کشمیر کے سلسلے میں فرنچائز رپورٹ سامنے آئی۔ معلوم ہوا کہ جو اسمبلی قائم ہو گی، اس کی پچھتر نشستوں میں سے صرف تینتیس کے لیے انتخاب ہو گا۔ باقی نشستیں نامزدگیوں سے پر کی جائیں گی اور اسمبلی کی کل نشستوں میں سے صرف آدھی مسلمانوں کو ملیں گی۔ حالانکہ ان کی آبادی اسی فیصد تھی۔ اس پر فروری 34ء میں مسلم کانفرنس کا ایک اجلاس سیالکوٹ میں ہوا، جس میں یہ رپورٹ مسترد کر کے راست اقدام کا فیصلہ کیا گیا۔ اور چودھری غلام عباس کو تحریک کا پہلا ڈکٹیٹر مقرر کیا گیا۔ وہ جموں پہنچے، تو انہیں اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ڈوگرہ شاہی نے ایک بار پھر ظلم و جور کا بازار گرم کر دیا۔ 10؎ اس پر حضرت علامہ نے 22 فروری 34ء کو وائسرائے کے نام ایک تار میں لکھا:ـ’’ کشمیر سے نہایت خوفناک اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ بلا امتیاز بید زنی کی جا رہی ہے اور گولی چلائی جاتی ہے۔ صورت حالات کا اقتضا یہ ہے کہ ہز ایکسی لنسی فوری طور پر توجہ فرمائیں۔ ورنہ انتہائی افسوسناک نتائج کا اندیشہ ہے۔ 11؎‘‘ چند دن بعد علامہ نے جمعیت اقوام (لیگ آف نیشنز) اور برطانیہ کے ممتاز روزنامہ ’’ دی ٹائمز‘‘ کے نام اس مضمون کے برقے روانہ کیے کہ حکومت کشمیر سیاسی ایجی ٹیٹروں کو وحشیانہ سزائے بید زنی دے رہی ہے۔ میں اپیل کرتا ہوں کہ اس انسانیت سوز سزا کے خلاف آواز اٹھائیے۔ 12؎ حضرت علامہ کشمیر مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی تو کرتے رہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کارکنوں اور پیسے کی کمی کی وجہ سے زیادہ فعال نہ رہی اور آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہو گئی۔ اس دور میں حضرت علامہ کی جو تصویر ابھرتی ہے، وہ ایک بے چین اور مضطرب روح کی تصویر ہے اور یہ بے چینی اور اضطراب کیوں؟ محض اس لیے کہ برعظیم کے اندر اور باہر مسلمان اپنے دکھوں سے نجات پائیں اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ چینی ترکستان کے مسلمانوں نے 1933ء میں ایک سترہ سالہ نوجوان کی رہنمائی میں انقلاب کا پرچم بلند کیا، تو علامہ کی روح تڑپ اٹھی اور انہوں نے ایک اور اسلامی مملکت کے قیام کا خواب دیکھا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ یہ انقلاب کامیاب ہوا تو ہندوستان اور روس کے درمیان ایک ایسی خوشحالی اور مضبوط اسلامی مملکت وجود میں آ جائے گی، جو بالشوزم کی ملحدانہ مادیت کو ہندوستان سے اور دور رکھنے میں مدد دے گی۔ 13؎ فلسطین میں عربوں پر جور و استبداد کا نیا سلسلہ شروع ہوا تو وائسرائے کے نام تار بھیجا کہ وہ ہندی مسلمانوں کے یہ مطالبات حکومت برطانیہ تک پہنچا دیں کہ حالیہ واقعات کی فوراً تحقیقات کی جائے، یہودیوں کا داخلہ روکا جائے اور اعلان بالفور کو واپس لیا جائے۔ 14؎ اور نیشنل لیگ (لندن) کے نام برقے میں لکھا کہ یہودیوں کا مزید داخلہ بند کیا جائے، تاکہ مسلمانوں اور برطانیہ کے درمیان کشیدگی نہ بڑھے۔ 15؎ جب یہ معلوم ہوا کہ ایک ہندوستانی اسلامی کمپنی نے جدہ اور مکہ کے درمیان 16؎ریلوے لائن بنانے کا کام اپنے ذمے لے لیا ہے، تو اس پر مسرت کا اظہار کیا۔ پنجاب کے مشہور سیاست دان میاں سر فضل حسین نے جب ایک تقریر میں کہا کہ ’’ سیاسی پین اسلامزم‘‘ کا وجود نہ ماضی میں تھا، نہ اب کسی کے پیش نظر ہے۔ تو علامہ نے اسے صحیح قرار دیا اور کہا کہ ممکن ہے ترکیہ کے سلطان عبدالحمید خان نے اسے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا ہو۔ لیکن سید جمال الدین افغانی نے بھی جنہیں پین اسلامزم سے وابستہ کیا جاتا ہے، کبھی یہ خواب نہیں دیکھا تھا کہ مسلمانوں کا اتحاد ایک سیاسی مملکت کی صورت میں ہو۔ یہاں تک کہ عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں پین اسلامزم کے مترادف کوئی لفظ موجود ہی نہیں علامہ نے کہا کہ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام ایک معاشرے کی حیثیت سے صرف نسلوں اور قوموں کا ہی نہیں، بلکہ تمام مذاہب کا ایک ایسا امتزاج ہے، جو نسل و قومیت کی رکاوٹوں اور جغرافیائی سرحدات کو تسلیم نہیں کرتا۔ آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ ایشیا کی دوسری مسلمان قوموں کی طرح اپنے آپ میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پائیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ 17؎ چند دن بعد علامہ نے اسی مسئلے پر ایک اور مفصل بیان جاری کیا۔ جس میں بتایا کہ پین اسلامزم کی اصطلاح یورپی قوموں نے وضح کی اور وہ بھی ان چیرہ دستیوں کے جواز کے طور پر جو اسلامی ممالک کے خلاف روا رکھی جاتی ہیں۔ علامہ نے ہندوستانی اخباروں میں اس اصطلاح کی آڑ میں مسلمان دشمن پروپیگنڈے کی مذمت کرتے ہوئے کہا:’’ پین اسلامزم سے اسلام کی عالمگیر سلطنت بہت مختلف ہے۔ اسلام ایک عالمگیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے، جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہو گی اور جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں اور سرمایہ داریوں کی گنجائش نہیں ہو گی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید یہ محض خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔ 18؎‘‘ علامہ نے اس مسئلے پر پے در پے دو بیان اس لیے بھی جاری کیے کہ پین اسلامزم کا ہوا ہندو اخبار بھی دکھاتے تھے اور مسلمان اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے جو سعی کرتے انہیں یہ اخبار’’ پین اسلامزم‘‘ قرار دیتے تھے۔ 1933ء ہی میں حضرت علامہ نے افغانستان کا دورہ کیا۔ لیکن اس کی روئداد اگلے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ انقلاب‘‘ 27فروری 33ء 2۔ ایضاً، یکم مارچ33ء 3۔ Speeches and Statements of Iqbal صفحات190, 191 4۔ ایضاً، صفحات197, 198 5۔ ایضاً، صفحات199, 201 6۔ ’’ انقلاب‘‘ 30جون33ء 7۔ Speeches and Statements of Iqbal، ص204 8۔ ایضاً، صفحات202, 203 9۔ ’’ شیر کشمیر‘‘ صفحات141, 142 10۔ ’’ کشمکش‘‘ صفحات152, 154 11۔ ’’ انقلاب‘‘ 24فروری 34ء 12۔’’ انقلاب‘‘ 6مارچ34ء 13۔ Speeches and Statements of Iqbal ، صفحات194, 196 14۔ ’’ انقلاب‘‘ 9نومبر33ء 15۔ ’’ انقلاب‘‘ 26نومبر33ء 16۔ ’’ انقلاب‘‘ 12نومبر33ء 17۔ Speechis and Statements of Iqbal، صفحات207, 208 18۔ ’’ انقلاب‘‘ 28ستمبر33ء ٭٭٭ انتیسواں باب افغانستان کا دورہ برعظیم کے مسلمانوں کو ہمیشہ سے دنیائے اسلام سے پیار رہا ہے اور وہ اسلامی ملکوں کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہے۔ انہی ملکوں میں افغانستان شامل ہے، جس کے ساتھ جغرافیائی قرب کی وجہ سے بھی دینی اور ثقافتی اور علمی رشتے خاصے مضبوط رہے۔ جب 1919ء میں افغانستان برطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوا اور امان اللہ خان نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی، تو مسلمانان ہند کو ان سے خصوصی لگاؤ پیدا ہوا۔ تحریک ہجرت شروع ہوئی، تو ہزار ہا مہاجرین نے افغانستان ہی کی طرف رخ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ افغانستان کی بعض مجبوریوں کے پیش نظر انہیں لوٹا پڑا۔ حضرت علامہ کو بھی افغانستان سے پیار تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے ’’ پیام مشرق‘‘ مرتب کی، تو اسے غازی امان اللہ خان کے نام سے معنون کیا اور دیباچے میں اس کا جواز یہ پیش کیا کہ ’’ اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش، جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافی حدود سے بالاتر کر کے، ان میں ایک صحیح اور قوی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے۔ اسی بنا پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرات فرماں روائے افغانستان کے نام نامی سے منسوب کیا ہے کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں اور افغانوں کی تربیت انہیں خاص طور پر مدنظر ہے۔ 1؎‘‘ یہی نہیں، کتاب کے آغاز میں ایک طویل نظم میں امان اللہ خان سے بہت بڑی توقعات باندھیں اور کہا: اے ترا فطرت ضمیر پاک داد از غم دیں سینہ صد چاک داد تازہ کن آئین صدیقؓ و عمرؓ چوں صبا بر لالہ صحرا گذر ملت آوارہ کوہ و دمن در رگ او خون شیراں موجزن زیرک و روئیں تن و روشن جبیں چشم او چوں جرہ بازاں تیز بیں جاں تو بر محنت پیہم صبور کوش در تہذیب افغان غیور تا ز صدیقان ایں امت شوی بہر دیں سرمایہ قوت شوی2؎ ایک کتاب ’’ ماڈرن افغانستان‘‘ کے دیباچے میں حضرت علامہ نے ملت افاغنہ سے تین اہم خصوصیات منسوب کیں۔ گہرا دینی جذبہ، خاندان، نسل اور حیثیت کے امتیازات سے مکمل آزادی اور دین اور قومی منازل مقصود کے درمیان مستقل توازن۔ انہوں نے لکھا ’’ روح قدامت ہمیشہ سے افاغنہ کے لیے قوت کا ایک عظیم سرچشمہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس کے ذریعے سے ماضی کے ساتھ زندہ رابطہ قائم رہتا ہے۔ لیکن یہ رابطہ نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو پورا کرنے میں حائل نہیں ہوتا۔ ان کی قدامت پسندانہ دانش انہیں روایت سے پیار سکھاتی ہے لیکن روایات کا بوجھ داخلی روح کی پیش قدمی کے جذبے کو مردہ نہیں کرتی۔ افغانستان کو ہمیشہ ایشیا کی سیاست اور تاریخ میں ایک کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ 3؎‘‘ اسی تاریخ کو خیال نے احمد شاہ ابدالی کی زبان سے ’’ جاوید نامہ‘‘ میں یوں پیش کیا: آسیا یک پیکر آب و گل است ملت افغاں در آں پیکر دل است از فساد او فساد آسیا در کشاد او کشاد آسیا4؎ اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال نے لکھا:’’ افغانستان کی تاریخ کی تحریر اور تحسین ابھی باقی ہے۔ واقعات کا محض ریکارڈ تاریخ نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف تاریخ کے لیے مواد ہوتا ہے۔ واقعات الفاظ کی طرح ہوتے ہیں اور ان کے معانی دریافت کرنا حقیقی مورخین کا فرض ہے۔ افاغنہ کی تاریخ کے سلسلے میں یہ کام ابھی افغانستان اور ہندوستان، دونوں میں ہونا ہے۔ ایک ایسی ملت کو ایشیا کی زندگی میں ایک اہم عنصر مانے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ جس نے محمد غوری، علاؤ الدین خلجی، شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی، امیر عبدالرحمن خان، نادر شاہ غازی اور سب سے بڑھ کر سید جمال الدین افغانی جیسی شخصیت پیدا کی، جو بہت سے معاملات میں عظیم ترین مسلمان اور یقینی طور پر آج کے وقتوں کی عظیم ترین ایشیائی شخصیات میں شامل ہے۔‘‘ ہم ایک گذشتہ باب میں بتا چکے ہیں کہ جب 1929ء میں امان اللہ خان کی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور بچہ سقہ بر سر اقتدار آ گیا، تو اقبال کے جذبات کا کیا عالم تھا اور جب جرنیل نادر خان ملت افاغنہ کے نجات دہندہ کی حیثیت سے ابھرے، تو اقبال نے کس شد و مد کے ساتھ ان کی تائید و حمایت میں آواز بلند کی۔ اور نادر خان نے بھی ایک مکتوب میں ان سے مدد چاہی جس کے جواب میں اقبال نے چندے کی اپیل جاری کی اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرنے کے قابل ہے جرنیل نادر خان پیرس میں افغان سفیر تھے۔ جب وہ اپنے ملک کو بچہ سقہ کے تسلط سے بچانے کے لیے آئے، تو پہلے بمبئی پہنچے اور پشاور جاتے جاتے لاہور سے گزرے۔ حضرت علامہ انہیں ریلوے سٹیشن پر ملے اور کچھ گفتگو کے بعد ایک طرف لے گئے اور ان سے کہا کہ میں نے زندگی بھر میں دس ہزار روپے کی ایک پونجی جمع کر رکھی ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے چندے کے طور پر قبول فرما لیں ان کو اگرچہ ضرورت تھی لیکن انہوں نے علامہ کی پونجی لینے سے معذرت کر دی۔ جب علامہ نے اصرار کیا تو اس بات پر مفاہمت ہو گئی کہ علامہ یہ روپیہ اپنے پاس رکھیں اور نادر خان کو جب اشد ضرورت پڑے گی، وہ منگوا لیں گے۔ نادر خان کو اس روپے کی ضرورت نہ پڑی۔ بہرحال اس واقعہ 6؎ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ علامہ کے دل میں افغانستان کے لیے کتنی محبت تھی۔ جب نادر خان نے حالات پر قابو پا لیا، بادشاہت سنبھال لی اور معاملات پر سکون ہو گئے، تو نادر شاہ غازی نے علامہ کے نام مکتوب میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ چونکہ اس سے کچھ غلط فہمی بھی پیدا ہو سکتی تھی، اس لیے نادر شاہ غازی سے کہا گیا کہ ملاقات کے لیے کوئی تقریب، کوئی جواز پیدا کریں۔ اس زمانے میں افغانستان تعمیر کے راستے پر گامزن تھا، اس لیے کابل یونیورسٹی کا منصوبہ بھی زیر غور تھا۔ ایسے میں نادر شاہ غازی نے محسوس کیا کہ تعلیمی اصلاحات کے لیے علامہ سے مشورہ لیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر ہندوستان سے علامہ کے علاوہ سر راس مسعود اور مولانا سید سلیمان ندوی کو بھی دعوت نامے بھیجے گئے۔ چنانچہ تین ارکان کا ایک وفد ایک سیکرٹریوں سمیت 21 اکتوبر1933ء کو پشاور سے کابل روانہ ہوا۔ ایک رات جلال آباد میں گزاری۔ دوسرے دن کابل روانہ ہوئے اور شام کے وقت منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ ابھی کابل آٹھ میل دور تھا کہ حکومت افغانستان کے ایک وزیر احمد شاہ خان نے وفد کی پذیرائی کی اور انہیں شاہی مہمان کی حیثیت سے دار الامان میں رکھا گیا۔ 7؎ اس وقت تک علامہ کا رابطہ صرف نادر شاہ غازی اور ان کے بھائیوں ہی کے ساتھ نہیں تھا، افغانستان میں ان کی خاصی شہرت تھی۔ افغانستان کے قونصل مقیم ہند سردار صلاح الدین سلجوقی سے تو اقبال کا دوستانہ بہت عرصے سے تھا۔ وہاں کے مشہور ادیب جناب سرور خان گویا ان کے مداح خصوصی تھے۔ چنانچہ جب گویا کی ادارت میں انجمن ادبی کے اہتمام میں جون 1930ء میں ماہ نامہ ’’ کابل‘‘ جاری ہوا، تو اس میں علامہ کا کلام بھی چھپنے لگا اور ان کی شاعری پر مقالات بھی آنے لگے۔ 1931ء میں آقائے سرور خان گویا نے ایک مقالے میں علامہ کی فارسی تصانیف اور بانگ درا کا اجمالی تذکرہ کیا۔ 1932ء میں انجمن ادبی کے ڈائریکٹر شہزادہ احمد علی خان درانی نے ایک مقالے میں برعظیم ایران اور ترکیہ کے چار بڑے شعراء اقبال، ٹیگور، بہار مشہدی اور نامق کمال پر مفصل انداز میں لکھا۔ لیکن زیادہ تفصیل علامہ کے بارے میں دی۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ پر تبصرہ بھی چھاپا گیا۔ 8؎ گویا علامہ افغانستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں خاصے معروف تھے۔ جس خصوصی مشن پر علامہ، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کابل پہنچے تھے، اس بارے میں علامہ نے روانگی سے پہلے ہی ایک بیان جاری کر دیا تھا۔ اس میں آپ نے کہا کہ کابل میں نئی یونیورسٹی کے قیام اور پشاور کے اسلامیہ کالج کو یونیورسٹی کی صورت دینے سے افغان۔ ہند سرحد کے آر پار آباد افغان قبائل کی فلاح و بہبود کے راستے کھل جائیں گے۔ آپ نے فرمایا:’’ اعلیٰ حضرت فرماں روائے افغانستان نے ہمیں دعوت دی ہے کہ کابل کی مجوزہ یونیورسٹی کے سلسلے میں ان کے وزیر تعلیم کو مناسب مشورے دیں۔ ہم نے اپنا فرض جانا کہ یہ دعوت قبول کر لی جائے۔ کابل کی مختلف مطبوعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کی جدید نسل کی مخلصانہ آرزو ہے کہ وہ جدید علم سے اس طرح استفادہ کرے کہ وہ ان کے مذہب اور ثقافت سے ہم آہنگ ہو۔ ملت افاغنہ ایک عمدہ قوم ہے اور ہم ہندوستانیوں کا فرض ہے کہ اسے آگے بڑھنے میں زیادہ سے زیادہ مدد دیں۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ملکوں میں خاص طور پر تعلیم کو مکمل طور پر سیکولر بنانے کے اچھے نتائج نہیں ابھرے اور نہ کوئی نظام تعلیم حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے ہر ملک کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں اور انہی کی روشنی میں اس کے مسائل پر غور کرنا اور ان کا حل دریافت کرنا مناسب ہے۔ 9؎‘‘ علامہ اور نادر شاہ غازی کے درمیان دوبار ملاقات ہوئی۔ ایک بار سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی بھی ہمراہ تھے اور دوسری بار اکیلے میں۔ دوسری ملاقات میں حضرت علامہ نے قرآن حکیم کا ایک نسخہ پیش کیا اور کہا’’ میں آپ کی خدمت میں قرآن مجید پیش کرتا ہوں کہ میرے پاس یہی موجود ہے۔ میں تو ایک فقیر ہوں۔ 10؎‘‘ اس ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟ اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ لیکن اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ کیونکہ دنیائے اسلام اور افغانستان کے بارے میں اقبال کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے اور ان کا اظہار اقبال کے مجموعہ ہائے کلام میں جا بجا ملتا ہے۔ انجمن ادبی کابل نے تینوں مہمانوں کے اعزاز میں ایک خصوصی محفل برپا کی۔ جس میں پہلے ایک افغان شاعر عبداللہ خان نے خیر مقدم کے عنوان سے نظر پڑھی، جس میں اقبال کا خصوصی تذکرہ تھا اور کہا گیا تھا کہ ان سے ’’ طرز مولائے روم‘‘ زندہ ہو گئی ہے۔ پھر سپاس نامہ پیدا ہوا اور سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کے بعد علامہ نے ایک تقریر فرمائی۔ آپ نے پہلے ادب برائے مقصد کے نظریے پر زور دیتے ہوئے کہا:’’ میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ان میں سے ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے۔ اسی بنا پر آرٹ کو ایجاد و اختراع سمجھتا ہوں، نہ کہ محض آلہ تفریح۔ شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ بس میری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعرا اور انشا پرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔‘‘ اس کے بعد حضرت علامہ نے ایک اور نکتہ ان الفاظ میں پیش کیا:’’ مسولینی نے ایک اچھا نظریہ قائم کیا ہے کہ اٹلی کو چاہیے کہ اپنی نجات حاصل کرنے کے لیے ایک کروڑ پتی پیدا کرے، جو اس ملک کے گریبان کو اینگلو سیکسن اقوام کے قرضے سے نجات دلا سکے یا کسی نئے کولمبس کو پیدا کرے، جو ایک نئے بر اعظم کا پتہ لگائے۔ اگر آپ مجھ سے دریافت کریں، تو میں کہوں گا کہ افغانستان کو ایک ایسے مرد کی ضرورت ہے جو اس ملک کو قبائلی زندگی سے نکال کر وحدت ملی کی زندگی سے آشنا کر سکے اور مجھے خوشی ہے کہ افغانستان کو ایک ایسا مرد کامل مل گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت نادر شاہ کی شخصیت کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان کو ایشیا میں ایک نئی قوم بنا کر دنیا سے متعارف کرائیں۔ 11؎‘‘ تعلیمی نظام پر سلسلہ مشاورت ختم ہوا، تو حضرت علامہ نے بابر کے مقبرے پر حاضری دی۔ احمد شاہ ابدالی کی قبر پر فاتحہ خوانی کی۔ پھر غزنی گئے۔ سلطان محمود غزنوی، حکیم سنائی اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے والد محترم کے مزارات پر فاتحہ پڑھی۔ پھر قندھار پہنچ کر خرقہ شریف کی زیارت کی۔ واپسی پر چمن اور کوئٹہ کے راستے لاہور پہنچے۔ جہاں 6 نومبر33ء کو سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کی رفاقت میں ایک بیان جاری کیا۔ جس میں بتایا کہ افغانستان میں مکمل امن ہے۔ علماء کے طبقے اور نوجوان طبقے کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں اور تعلیم پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ وفد کے ارکان نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اگر نئی قیادت کو کام کا موقع دیا گیا، تو افغانستان کی خوشحالی کا تیقن ہو جائے گا۔ 12؎ اس کے چند دن بعد یہ المناک خبر آئی کہ کسی نے نادر شاہ غازی کو شہید کر دیا ہے۔ لیکن یہ محض ایک جنونی کی حرکت تھی۔ کیونکہ افغانستان مکمل طور پر پر امن رہا اور نادر شاہ کے فرزند ظاہر شاہ کو سب نے بادشاہ تسلیم کر لیا۔ علامہ اقبال کو نادر شاہ سے جو محبت اور شیفتگی تھی، اس کے پیش نظر ان کے صدمے کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ انہوں نے ظاہر شاہ کو تعزیتی پیغام بھیجا اور یہ بھی لکھا کہ ’’ ملت افاغنہ نے اتفاق آرا سے آپ کے حضور میں اطاعت کر کے جس دانش مندی اور جذبات تشکر کا ثبوت دیا ہے، اس کی تحسین میں ساری دنیا ہم زبان و ہم آہنگ رہے گی۔ 13؎‘‘ 1934ء کے اواخر میں حضرت علامہ کی ایک چھوٹی سی کتاب منظر عام پر آئی۔ جس کا نام تھا ’’ مسافر یعنی سیاحت چند روزہ افغانستان‘‘ اس میں سب سے پہلے نادر شاہ شہید کو خراج عقیدت پیش کیا گیا پھر اقوام سرحد کو پیغام عمل و اتحاد دیا گیا۔ ایک نظم میں نادر شاہ شہید سے ملاقات کی تاثرات بیان کیے گئے۔ ایک نظم کا عنوان ہے، برمزار شہنشاہ بابر خلد آشیانی۔ دوسری نظموں کے عنوان یہ ہیں: سفر بہ غزنی و زیارت مزار حکیم سنائی ؒ۔ برمزار سلطان محمود علیہ الرحمتہ، مناجات مرد شوریدہ در ویرانہ غزنی۔ قنددھار و زیارت خرقہ مبارک۔ غزل، بر مزار حضرت احمد شاہ بابا علیہ الرحمتہ، موسس ملت افغانیہ، خطاب بہ بادشاہ۔ اسلام اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ، ماہ نامہ ’’ کابل‘‘ میں اس کتاب پر مفصل تبصرہ کیا گیا اور اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ اقبال کی نظر صرف مسلمانان ہند پر نہیں، ساری دنیائے اسلام پر ہے۔ اور ’’ فارسی ادب کو ناز کرنا چاہیے کہ آج اسے رومی، سعدی، حافظ اور بیدل ایسے چار بڑے استادوں کے بعد اقبال ملا ہے۔ جس میں ان سب کی خصوصیات موجود ہیں۔ 14؎‘‘ علامہ کا انتقال ہوا، تو ماہ نامہ’’ کابل‘‘ کی ایک اشاعت ان کی شعر و شاعری اور پیغام کے لیے مخصوص کی گئی۔ بلکہ بعد میں برسیاں بھی منائی گئیں اور علامہ کی قبر کا تعویذ بھی حکومت افغانستان کی طرف سے فراہم کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اور برعظیم کے مسلمانوں کے درمیان عرصہ دراز تک رشتہ مودت استوار رہا اور تعلقات میں کوئی رختہ پڑا، تو قیام پاکستان کے بعد۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ پیام مشرق‘‘ دیباچہ، صفحات م، ن 2۔ ایضاً، ص5 3۔ Thoughts and Reflections of Iqbal صفحات231, 232 4 ۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ ص208 5۔ Thoughts and Reflections of Iqbal ص240 6۔ Glimpses of Iqbal، ص13 7۔ The Poet of the East، ص40 8۔ اقبال، افغانستان میں (مقالہ مندرجہ ’’ المعارف‘‘ مئی77ئ) صفحات26, 27 9۔ Speeches and Statements of Iqbal، ص209 10۔ The Poet of the East ، ص40 11۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات217, 220 12 ۔ Speeches and Statements of Iqbalصفحات210, 211 13۔ ’’ انقلاب‘‘ 15نومبر33ء 14 ۔ اقبال، افغانستان میں ’’ المعارف‘‘ مئی 77ء ،ص31 ٭٭٭ تیسواں باب علالت اور سیاست میں محدود دلچسپی 1933ء کے اواخر میں علامہ سیاسی مشاغل سے قدرے بیزار ہو چکے تھے۔ کیونکہ مسلمانوں میں نفاق ختم ہونے میں نہیں آتا تھا اور علامہ بھی تو کوئی ایسے سیاست دان نہیں تھے، جو عزلت نشینی کو ترک کر کے، شعر و شاعری اور علمی مشاغل کو چھوڑ چھاڑ کر سیاست ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ اتنا کر سکتے تھے کہ سیاسی مذاکرات میں حصہ لیتے، قوم کے ذہن میں اپنی تحریروں اور نظموں سے نکھار پیدا کرتے اور کبھی کبھی کسی اجتماع سے خطاب کر کے یاکوئی اخباری بیان دے کر سوچ کی نئی راہیں کھول دیتے۔ یہ سب کچھ انہوں نے کیا۔ لیکن سیاست کا تقاضا کچھ اور تھا، جسے وہ پورا نہیں کر سکتے تھے اور انتشار فکر تھا کہ بڑھتا چلا جاتا۔ ایسے میں وہ دل شکستہ سے ہو گئے اور سیاست سے بڑی حد تک کنارہ کش ہو گئے۔ 17 ستمبر33 ء کو سید سلیمان ندوی کے نام لکھا:’’ میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گزشتہ پانچ چار سال کے تجربے نے مجھے سخت افسردہ کر دیا ہے۔ آپ کا طرز عمل اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ 1؎‘‘ چند دن بعد مولانا عبدالماجد دریا بادی نے جب پوچھا کہ آپ فلاں قومی اجتماعات میں شریک ہو رہے ہیں یا نہیں۔ تو علامہ نے لکھا’’ گذشتہ پانچ چار سال کے تجربے نے مجھے بہت درد مند کر دیا ہے۔ اس لیے جلسوں میں میرے لیے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ میں کہیں نہیں جا رہا۔ نہ پٹنہ، نہ کانپور2؎‘‘ چند مہینے بعد وہ ایسے علیل ہوئے کہ مسلسل علاج کے باوجود کبھی مکمل طور پر صحت مند نہ ہوئے۔ 10جنوری ٍ1934ء کا ذکر ہے، عید الفطر کا دن تھا۔ حضرت علامہ، چودھری محمد حسین، جاوید اقبال اور اپنے پرانے اور وفا شعار ملازم علی بخش کے ساتھ کار میں سوار ہو کر بادشاہی مسجد کو گئے۔ لباس کا چنداں خیال نہیں کرتے تھے۔ گلوبند سے نفرت تھی۔ شلوار کوٹ پہن رکھا تھا۔ موزے نہایت باریک تھے۔ سردی بہت سخت تھی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اس پر مستزاد مسجد کے دروازے سے محراب تک ٹھنڈے یخ فرش پر چل کر پہنچے۔ نماز ادا کی اور واپسی پر ایک بار پھر ٹھنڈے فرش پر چلنا پڑا، جس سے پاؤں کو کچھ زیادہ ہی سردی لگی۔ گھر پہنچے تو والد مرحوم کی روایت کے مطابق سویاں دہی کے ساتھ کھائیں۔ اگلے روز نزلے کی شکایت ہو گئی۔ جو ظاہر ہے سردی اور دہی کھانے کی وجہ سے ہوا۔ یہ نزلہ پندرہ دن تک جاری رہا۔ حالانکہ ایلوپیتھک علاج بھی کیا اور یونانی علاج بھی۔ ایک رات دو ڈھائی بجے سے صبح تک شدید کھانسی جاری رہی۔ اس دفعہ ان کے لیے مسہل تجویز ہوا۔ نزلہ بھی ختم ہو گیا اور کھانسی بھی 3؎ لیکن گلا بیٹھ گیا۔ بہت علاج کیے، ڈاکٹری اور یونانی اور ریڈیائی لیکن یہ تکلیف رفع نہ ہوئی۔ کبھی کبھی عارضی طور پر تھوڑا سا افاقہ ہو جاتا تھا لیکن یہ عارضہ آخری دم تک رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریروں کا سلسلہ بند ہو گیا۔ لاہور میں ڈاکٹری علاج ہوا۔ اس کے ساتھ ہی دہلی سے حکیم نابینا جیسے مشاق اور مشہور طبیب دوائیں بھیجتے رہے۔ علامہ دو مرتبہ بھوپال گئے، جہاں برقی علاج کا اعلیٰ بندوبست موجود تھا۔ ٹوٹکے بھی استعمال کرتے رہے۔ پرہیز بھی کم کرتے تھے۔ ایک طریق علاج میں دوسری طریق علاج دخیل کر دیتے اور دوسرے میں تیسرا طریق علاج۔ خود ڈاکٹروں اور اطبا نے وقتاً فوقتاً جو تشخیص کی، اس میں بہت فرق تھا۔علامہ کبھی ایک تشخیص سے اتفاق کرتے، کبھی دوسری تشخیص سے۔ بیماری کے اس دور کی پوری تفصیل جناب سید نذیر نیازی نے اپنی تالیف’’ اقبال کا مطالعہ‘‘ کے آخری باب میں اور اپنی ایک اور تالیف’’ مکتوبات اقبال‘‘ میں قلم بند کر رکھی ہے۔ بالخصوص یونانی علاج کی تو پوری جزئیات بیان فرمائی ہیں۔ کیونکہ حکیم نابینا اور اقبال کے درمیان وہی رابطے کا ذریعہ بنے رہے اور وہی دہلی سے علامہ کو دوائیں بھیجتے رہے تھے۔ ترکیہ کی انجمن اتحاد و ترقی کے رہنما ڈاکٹر بہجت وہبی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دعوت پر کچھ لیکچر دینے کے لیے پیرس سے دہلی آئے، تو حضرت علامہ سے کہا گیا کہ ایک نشست کی صدارت فرمائیں۔ لیکن گلا بیٹھنے کی وجہ سے انہوں نے معذرت کر دی۔ علالت کے دوران میں بھی قوم کی بھلائی کی تدبیریں سوچتے تھے۔ چنانچہ سید نذیر نیازی کو لکھا کہ میں ایک ایسے ادارے کے قیام کا آرزو مند ہوں، جو مفید کتابوں کی اشاعت کرے۔ نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ ادارے کا مقصد یہ تھا کہ ’’ عصر حاضر کے جدید افکار اور رحجانات کے پیش نظر اسلام کی ترجمانی نئے نئے علمی تقاضوں کے علاوہ اس کی عمرانی، تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس طرح کی جائے کہ عالم اسلام میں ذہنا اور عملاً جو انتشار پھیل رہا ہے، اس کا ازالہ ہو جائے۔ لیکن اس انداز میں کہ قدیم و جدید کی غلط بحث کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ 4؎‘‘ 1934ء کے وسط میں حضرت علامہ، جاوید اقبال کو لے کر ایک دن کے لیے سرہند تشریف لے گئے۔ اس کا سبب علامہ کی زبانی ہی ملاحظہ فرمائیے: چند روز ہوئے، صبح نماز کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ خواب میں کسی نے مندرجہ ذیل پیغام دیا۔ ہم نے جوخواب تمہارے اور شکیب ارسلان5؎ کے متعلق دیکھا ہے، وہ سرہند بھیج دیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر بہت بڑا فضل کرنے والا ہے۔ پیغام دینے والا، معلوم نہیں ہو سکا، کون ہے۔ اس خواب کی بنا پر وہاں کی حاضری ضرور ہے۔ اس کے علاوہ جاوید جب پیدا ہوا تھا، تو میں نے عہد کیا تھا کہ جب وہ ذرا بڑا ہو گا تو اسے حضرت کے مزار لے جاؤں گا 6؎ کچھ عرصہ بعد علامہ نے ایک خط میں لکھا:’’ سرہند خوب جگہ ہے۔ مزار نے میرے دل پر بڑا اثر کیا ہے۔ بڑی پاکیزہ جگہ ہے۔ پانی اس کا سرد اور شیریں ہے۔ شہر کے کھنڈرات دیکھ کر مجھے مصر کا قدیم شہر فسطاط یاد آ گیا، جس کی بناد حضرت عمروؓ بن العاص نے رکھی تھی۔ اگر سرہند کی کھدائی ہو، تو معلوم نہیں اس زمانے کی تہذیب و تمدن کے کیا انکشافات ہوں۔ 7؎‘‘ انہی دنوں علامہ کی پریشانیوں میں ایک اور اضافہ ہوا اور وہ تھی والدہ جاوید کی علالت۔ بہت سے ڈاکٹری علاج آزمانے کے بعد حکیم نابینا کی طرف رجوع کیا۔ چنانچہ اب دونوں کی ادویات وہیں سے آنے لگیں۔ اپنا مکان بنانے کے لیے میو روڈ پر سات کنال اراضی کا ایک قطعہ خریدا اور کوٹھی بنانے کے لیے پیسے کی تگ و دو بھی شروع ہو گئی۔ علامہ چاہتے تھے کہ ان کی بعض کتابیں جامعہ ملیہ اسلامیہ چھاپ لے، تاکہ یافت کی صورت پیدا ہو۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آخر کار کتابوں کی اشاعت کا بندوبست لاہور میں ہوا۔ ادھر علی گڑھ میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا، جس سے علامہ کو بے حد صدمہ ہوا۔ وہاں کے کچھ نوجوانوں نے تجدد کے جوش میں آ کر سب حدود پھلانگ ڈالیں اور ایک خدا دشمن مجلس قائم کر لی۔ علامہ نے نذیر نیازی کے نام خط میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:’’ میں نے کسی سے سنا تھا۔ جس کا مجھے اس قدر رنج ہوا کہ تمام رات بے خواب گزری اور صبح کی نماز میں گریہ و زاری کی کوئی حد نہ رہی۔ 8؎‘‘ 1935ء کے آغاز میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دعوت پر خالدہ ادیب خانم توسیعی خطبات دینے دہلی آئیں۔ موصوفہ اعلیٰ پائے کی ادیب اور دانش ور تھیں۔ سیاست میں بھی عمل دخل رکھتی تھیں۔ ترکیہ کی جنگ آزادی میں کمال اتاترک کی ساتھی تھیں۔ لیکن اختلافات نے ایسی نوعیت اختیار کر لی تھی کہ وہ جلا وطن ہو کر پیرس میں مقیم ہو گئیں۔ علامہ سے کہا گیا کہ وہ ایک خطبے کی صدارت فرمائیں لیکن انہوں نے علالت کی بنا پر معذرت کر دی۔ بہرحال علاج کے لیے بھوپال جانا پڑا اور راستے میں والدہ جاوید کے بارے میں طبی مشورے کے لیے دہلی جانی کا فیصلہ ہوا تو انہوں نے اس شرط پر صدارت قبول کر لی کہ ان سے تقریر کی فرمائش نہیں کی جا ئے گی۔ کیونکہ گلے میں تکلیف کی وجہ سے وہ اس سے قاصر تھے۔ 30جنوری کو علامہ دہلی پہنچے افغان قونصل سردار اصلاح الدین سلجوقی کے ہاں قیام فرمایا۔ حکیم نابینا سے طبی مشورہ حاصل کیا اور اسی شام خالدہ ادیب خانم کے لیکچر کی صدارت فرمائی لیکن تقریر نہ کی۔ موصوفہ کے ساتھ کچھ باتیں کیں۔ لیکن اختلافی مسائل اس لیے نہ چھیڑے کہ علامہ کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتے تھے، جس سے مہمان کے دل میں کدورت پیدا ہو۔ بہرحال انہیں خالدہ ادیب خانم کے بعض خیالات سے شدید اختلاف تھا۔ 9؎ چنانچہ انہوں نے نذیر نیازی کے نام ایک خط میں لکھا:’’ خالدہ خانم کے متعلق آپ کی رائے درست ہے۔ مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادیت کے متعلق جو خیالات انہوں نے ظاہر کیے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر بہت محدود ہے۔ انہوں نے انہی خیالات کا اعادہ کیا، جن کو یورپ کے سطحی نظر رکھنے والے مفکرین دہرایا کرتے تھے۔ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ مشرق و مغرب کے کلچرل تصادم میں امی عرب کی نبوت اور قرآن نے کیا کام کیا ہے، مگر یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کی فتوحات نے اسلام کے کلچرل تاثرات کو دبائے رکھا۔ نیز خود مسلمان دو ڈھائی سو سال تک یونانی فلسفے کے شکار ہو گئے۔ 10؎‘‘ دہلی سے علامہ بھوپال گئے ۔ وہاں پانچ ہفتے تک برقی علاج ہوتا رہا۔ لاہور پہنچے تو والدہ جاوید پہلے سے زیادہ بیمار تھیں۔ علامہ نے چاہا کہ حکیم نابینا لاہور آ کر انہیں دیکھ لیں۔ کچھ دیر خط و کتابت ہوتی رہی۔ حکیم صاحب مان گئے۔ لیکن اس سے پہلے کہ انہیں بلایا جاتا، 23مئی 35ء کو شام کے چھ بجے والدہ جاوید اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔ اس کا ایک اور المناک پہلو یہ تھا کہ مرحومہ کو جاوید منزل میں صرف تین دن بسر کرنے کی مہلت ملی۔ والدہ جاوید کا انتقال ایک صدمہ جاں کاہ تھا کہ وہ ایک ایسے وقت پر فوت ہوئیں۔ جب علامہ کو ان کی رفاقت کی بے انتہا ضرورت تھی اور اب دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ بچوں کی پرورش کیسے ہو۔ جون کا مہینہ انہی پریشانیوں میں گزرا۔ جولائی کے وسط میں علاج کی تجدید کے لیے ایک بار پھر بھوپال گئے اور اگست کے اواخر میں واپسی ہوئی۔ اس دوران میں اطمینان قلب کی ایک صورت یہ نکلی کہ نواب صاحب بھوپال کی طرف سے پانسو روپیہ ماہانہ کا وظیفہ مقرر ہوا۔ اس سے علامہ کے حالات قدرے بہتر ہو گئے۔ کیونکہ علالت کی وجہ سے وکالت کا کام بند تھا اور یافت کی کوئی خاص صورت موجود نہیں تھی۔ اکتوبر کے اواخر میں پانی پت میں مولانا حالی کی سالگرہ کے سلسلے میں ایک عظیم الشان تقریب ہوئی۔ نواب صاحب بھوپال نے صدارت فرمائی۔ راس مسعود بھی موجود تھے۔ علامہ بھی مدعو تھے لیکن اس وقت تک آواز کا ضعف بڑھ چکا تھا۔ نذیر نیازی لکھتے ہیں:’’ یہ امر بڑا تکلیف دہ تھا کہ اس تقریب میں حضرت علامہ اگرچہ مسند پر تشریف فرما رہے، لیکن نہ اپنا مشہور قطعہ مزاج ناقہ را مانند عرفی نیک می دانم چو محمل را گراں بینم حدی را تیز تر خوانم خود پڑھ سکے، نہ ان تعریفی کلمات کے جواب میں بطور تشکر ہی کچھ فرمایا جو اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال اور دوسرے حضرات نے ان کی شان میں کہے۔ 11؎‘‘ علالت اور دوسری پریشانیوں کے باوجود حضرت علامہ ملی اور ملکی سیاست سے مکمل طور پر لا تعلق نہیں رہے اور وقتاًفوقتاً اہم مسائل پر اظہار رائے کرتے رہے۔ اس زمانے میں لوگوں کا سیاسی شعور پہلے سے زیادہ بیدار تھا۔ معاشی مسائل بھی گھمبیر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ ایسے میں سوشلزم کا چرچا بھی بڑھ رہا تھا۔ کانگرس کے اندر سوشلسٹ پارٹی قائم ہو چکی تھی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو بھی سوشلزم کے مداحین میں شمار ہوتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی بھی موجود تھی۔ بلکہ اس میں زیادہ قوت پیدا ہو رہی تھی۔ علامہ بھی ان حالات سے آگاہ تھے۔ اس سلسلے میں ان کا ایک بیان ملاحظہ فرمائیے: ’’ امیروں کے خلاف ملک میں عام جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ وہ محسوس کر رہے ہیں کہ نازک مرحلوں پر امیر طبقہ ہمیشہ ان سے غداری کرتا ہے۔ جو حکومتیں کبھی سرمایہ پرستی کی پوجا کرتی تھیں آج مزدوروں اور کسانوں کے رحم پر جی رہی ہیں۔ سب طرف بے چینی کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس وقت ایسی خطرناک صورت اختیار کر لیں کہ ایک زبردست آگ بن کر دنیا کے موجودہ نظام کو بھسم کر دیں۔ جب ساری دنیا میں مساوات کی لہر چل رہی ہے، تو ہندوستان کب تک اس کے اثر سے خالی رہ سکتا ہے؟ یہاں کے غریبوں میں اب بیداری پیدا ہو رہی ہے۔ اس وقت تک حکومت اور ہمارے لیڈر ان کی طرف سے بے پرواہ رہے ہیں۔ لیکن یہ حالت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی۔ سوسائٹی ایک خطرناک دور سے گزر رہی ہے اور سوشلسٹ خیالات محض روسی پروپیگنڈہ ہی کی وجہ سے نہیں پھیل رہے ہیں، بلکہ اور بہت سے اسباب ایسے پیدا ہو گئے ہیں جن سے ملک کی اقتصادی حالت میں تبدیلی کا ہونا لازمی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کو اگرچہ پٹںہ میں شکست ہوئی ہے لیکن اس کے سامنے مستقبل ہے۔ گو اس کا انحصار زیادہ تر کانگرس سے علیحدگی پر ہے۔ 12؎‘‘ علامہ کے اس بیان کے پس پردہ اس زمانے کی مسلم قیادت کی بعض طبقات کا یہ احساس بھی کار فرما تھا کہ سوشلزم ہندو سرمایہ داری کا توڑ ثابت ہو گا اور اگر ایک منصفانہ نظام قائم ہوا، تو اس میں مسلمانوں کا فائدہ ہو گا۔ یہ توقع بھی کی جا رہی تھی کہ سوشلسٹ پارٹی ہندو مہا سبھا اور کانگرس میں مہا سبھائیت کو ختم کرنے میں مدد دے گی۔ بہرحال مسلمانوں کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ ہندو سوشلسٹ ہو یا کچھ اور وہ اصلاً ہندو ہوتا ہے اور ان تمام تعصبات کا حامل، جن سے ہندو معاشرہ عبارت ہے۔ مسلمانوں کی پس ماندگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ تعلیم پانے اور مناسب تعلیمی اوصاف سے بہرہ ور ہونے کے باوجود انہیں سرکاری ملازمتوں تک بہت کم رسائی حاصل تھی۔ 1925ء میں حکومت ہند نے مسلمانوں کے مطالبے پر ملازمتوں میں فرقہ وار توازن قائم کرنے کے لیے کچھ تدابیر اختیار کی تھیں، جو غیر موثر ثابت ہوئیں اور عدم توازن برقرار رہا۔ 1934ء کے وسط میں حکومت ہند نے یہ فیصلہ کیا کہ براہ راست پر ہونے والی اسامیوں میں مسلمانوں کو پچیس فیصد نیابت دی جائے اور اگر بذریعہ مقابلہ پر ہونے والی اسامیوں میں مسلمانوں کا تناسب کم رہ جائے، تو اس کمی کو نامزدگیوں سے پورا کیا جائے۔ حضرت علامہ نے خان بہادر حاجی رحیم بخش کی رفاقت میں ایک بیان دیا، جس میں مطالبہ کیا کہ یہ تناسب پچیس فیصد نہیں، تینتیس فیصد ہونا چاہیے۔ کیونکہ مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے تینتیس فیصد نیابت طے ہوئی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ملازمتوں میں پرانی کمی کو دور کرنے کے لیے نئی اسامیوں میں مسلمانوں کا تناسب تینتیس فیصد سے بھی زیادہ ہونا چاہیے۔ 13؎ اس سے اگلے دن علامہ کا ایک اور بیان آیا۔ جس میں انہوں نے ایک تو یہ مطالبہ کیا کہ حکومت ہند کے فیصلے کو صوبوں پر بھی لاگو کیا جائے۔ دوسرے کسی ایسی موثر مشینری کے قیام پر زور دیا، جو ان فیصلوں پر عمل درآمد میں مدد دے۔ 14؎ کمیونل ایوارڈ کے بارے میں مسلمانوں کا موقف یہ تھا کہ اس فیصلے کو صرف اس صورت میں بدلا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ہمہ گیر سیاسی تصفیہ ہو جائے او ر جب تک ایسا نہ ہو، یہ ایک آخری اور قطعی ناقابل تبدیلی بندوبست ہے۔ جب کانگرس نے یہ فیصلہ کیا کہ کمیونل ایوارڈ کو نہ منظور کیا جائے، نہ مسترد کیا جائے اور اس پر نکتہ چینی بھی کی، تو علامہ نے جون 34ء میں کانگرس کو یاد دلایا کہ کمیونل ایوارڈ ایک ایسا فیصلہ ہے، جو برطانوی وزیراعظم نے خود کانگرسی رہنماؤں کی درخواست پر دیا۔ 15؎ یاد رہے کہ جب گول میز کانفرنس میں ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلے میں کوئی اتفاق رائے نہ ہو سکا، تو سب نے یہی کہا کہ وزیراعظم اپنا فیصلے دے دیں۔ اگلے سال جب برطانوی پارلیمنٹ میں گورنمنٹ آف انڈیا بل پیش ہوا، تو اس میں کمیونل ایوارڈ کی وہ دفعہ درج نہیں تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مجالس قانون ساز متعلقہ اقوام کی مرضی لیے بغیر کوئی ترمیم نہیں کریں گی۔ اس پر علامہ اور دوسرے مسلمان رہنماؤں نے پے در پے دو مفصل بیان جاری کیے۔ جن میں مطالبہ کیا گیا کہ کمیونل ایوارڈ کو دس سال کی مدت کے لیے بعینہ برقرار رکھا جائے۔ اس کے بعد جو تبدیل کی جائے، اس میں مسلمانوں کی قومی مرضی دریافت کی جائے اور قوموں کی باہمی رضا مندی معلوم کرنے کا ایک طریق کار طے کر لیا جائے۔ مثلاً دس سال بعد اگر کوئی صوبہ ترمیم کرنا چاہے، تو جداگانہ انتخاب اور مخلوط انتخاب کے سوال پر ریفرنڈم کرایا جائے۔ پھر جو نئی مجلس قانون ساز بنے، اس میں اسی مسئلے پر رائے شماری کرائی جائے اور ترمیم کے لیے ضروری وہ کہ اسے تین چوتھائی مسلمان ارکان قبول کر لیں۔ دونوں بیانات کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کمیونل ایوارڈ کا نعم البدل دس سال کے بعد ایک خالص، حقیقی اور مستند بین الاقوامی راضی نامہ ہی ہو سکتا ہے۔ 16؎ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی ہی کا طوطی بولتا تھا۔ اور جہاں اس کی پالیسی میں کچھ پہلو اچھے تھے، وہاں یہ خرابی بھی تھی کہ اس کی بدولت شہری اور دیہاتی کے امتیازات نے کشیدگی کی صورت اختیار کر رکھی تھی۔ علامہ نے کونسل کی ممبری کے دوران ہی میں اس خرابی کو بھانپ لیا تھا۔ 1934ء میں پنجاب کے گورنر سر ہربرٹ ایمرسن نے انجمن حمایت اسلام میں خیر مقدمی سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے مسلمانوں کے باہمی نفاق پر اظہار افسوس کیا اور پنجاب کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اپنی قوم میں کوئی بلند پایہ لیڈر پیدا کریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت علامہ نے ایک بیان میں کہا:’’ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ حکومت خود اپنے اعمال و افعال کا بھی محاسبہ کرے؟ میں پوچھتا ہوں کہ اس وقت پنجاب کے مسلمانوں میں شہری اور دیہاتی کی جو خوفناک تفریق قائم ہو چکی ہے اور جس تفریق نے اس صوبے کے مسلمانوں کو دو متحارب گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے، وہ کس کی قائم کی ہوئی ہے؟ سر ہربرٹ ایمرسن نے تو مسلمانوں میں حقیقی لیڈر شپ کے فقدان پر اظہار افسوس کیا ہے، میں اس کے برعکس اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں کہ حکومت نے جان بوجھ کر ایسا طرز عمل اور پالیسی اختیار کر رکھی ہے، جس نے اس صوبے میں اصلی اور پائیدار لیڈر شپ کے پیدا ہونے کی تمام امیدوں کا قلع قمع کر دیا ہے۔ 17؎‘‘ اپریل 35ء میں پنجاب کے مشہور سیاست دان میاں فضل حسین وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی رکنیت سے سبکدوش ہو کر لاہور آئے۔ ان کا مشن یہ تھا کہ پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کو از سر نو منظم کریں تاکہ نئے آئین کے تحت انتخابات کے معرکے میں حصہ لیا جائے۔ انہوں نے ایک بیان میں حکومت پر نکتہ چینی کی کہ وہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال رہی ہے اور کہا:’’ ذاتی رقابتوں کو زور شور سے ہوا دی جاتی ہے۔ فرقہ واریت اور جماعت سازی کے جذبے کو ابھارا جاتا ہے اور جب ان حربوں سے بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی، تو پھر قوم کے ادنیٰ اور غلیظ طبقے سے لیڈروں پر کیچڑا اچھلوائی جاتی ہے۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ حکومت کو اپنے حسب منسا کام کرنے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ ان حالات میں صوبائی وزیروں کی حیثیت سوائے اس کے اور کیا رہ جاتی ہے کہ وہ معمولی تحصیل داروں کی طرح گورنروں کے اشارے پر ناچنے پھریں۔‘‘ علامہ کو اصولی طور پر اس بیان سے اتفاق تھا۔ لیکن وہ اس صورت حالات کی ذمہ داری میاں فضل حسین ہی پر ڈالتے تھے۔ انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس سے خطاب فرماتے ہوئے کہا:’’ یہ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ پنجاب میں شہری دیہاتی کا جو جھگڑا چل رہا ہے، اسے سر فضل حسین کی امداد حاصل ہے۔‘‘ فضل حسین کوابتدا میں قیادت کا منصب اس لیے حاصل نہیں ہوا کہ وہ دیہاتی تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ صوبے کے مسلمانوں کے لیڈر تھے لیکن انہوں نے قیادت حاصل کرنے کے بعد جان بوجھ کر شہری دیہاتی جھگڑے کو تیز کرنا شروع کر دیا، تاکہ اس طرح ان کا منصب بحال رہے۔ اس جھگڑے سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے بعض ایسے ناکارہ اور تیسرے درجے کے آدمیوں کو اپنا رفیق منتخب کیا، جو حکومت کے قطعاً اہل نہیں تھے اور جن میں اتنی صلاحیت بھی نہ تھی کہ وہ اس اقتدار اور وقار کو برقرار رکھ سکیں جو وزارت کا لازمہ ہوتا ہے۔ 18؎یہیں سے حضرت علامہ اور یونینسٹ پارٹی کے ان اختلافات کا آغاز ہوتا ہے، جنہوں نے بعد میں زیادہ شدت اختیار کر لی۔ اس دور میں حضرت علامہ انجمن حمایت اسلام کی صدارت پر ایک بار پھر فائز ہو چکے تھے۔ 14؎ جولائی 34ء کو انہوں نے انجمن کی جنرل کونسل میں ایک تقریر سیکرٹری سے سنوائی۔ کیونکہ گلے میں تکلیف کی وجہ سے خود بولنا دو بھر تھا۔ اس تقریر میں انہوں نے بعض اہم تجاویز پیش کیں۔ مثلاً انجمن کی درس گاہوں میں زمانہ حال کے تقاضوںکے مطابق دینی اور اخلاقی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ لڑکیوں کے لیے ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا جائے، جو خود ہی نصاب تجویز کرے اور خود ہی سندات تقسیم کرے اور رفتہ رفتہ اسی کو عورتوں کی ایک آزاد یونیورسٹی کی صورت دے دی جائے۔ وقت گزرتا گیا، نومبر35ء میں علامہ نے محسوس کیا کہ صدارت کا بوجھ برداشت نہیں کر سکیں گے۔ اس کی ایک وجہ تو مسلسل علالت تھی اور دوسری انجمن کی دھڑے بندی، جس سے علامہ نفور تھے۔ اس لیے انہوں نے استعفیٰ داخل کر دیا۔ بہرحال انجمن نے اسے قبول نہ کیا اور چھ ارکان کا ایک وفد اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ علامہ استعفیٰ واپس لے لیں اور وعدہ کیا کہ تمام خرابیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ اس پر علامہ مجبور ہو گئے اور انہوں نے استعفیٰ واپس لے لیا۔ 19؎ علامہ کا وقار اتنا بلند تھا کہ ان کی بات سب مان لیتے تھے۔ 1934ء میں پنجاب کونسل کے انتخاب آئے، تو میاں عبدالعزیز اور سید امجد علی شاہ ایک ہی حلقے سے کھڑے ہوئے۔ دونوں نے سوچا کہ ہنگامہ آرائی اور محاذ آرائی سے گریز کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے علامہ اقبال اور ملک فیروز خان نون سے کہا کہ آپ فیصلہ کریں کہ ہم میں سے کون الیکشن لڑے اور کون اپنا نام واپس لے لے۔ ثالثوں نے میاں عبدالعزیز کے حق میں فیصلہ دیا اور سید امجد علی شاہ نے اسے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا ۔ 20؎ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ اول ص169 2۔ ایضاً، ص243 3۔ ’’ اقبال کا مطالعہ‘‘ صفحات97, 98 4۔ ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص128 5۔ امیر شکیب ارسلان شامی دروزیوں کے مشہور رہنما اور اتحاد اسلامی کے بڑے داعی تھے۔ 6۔ ’’ مکتوبات اقبال ‘‘ ص161 7۔ ایضاً، ص164 8 ۔ ایضاً، ص202 9۔ ایضاً، صفحات255, 256 10۔ ایضاً، صفحات250, 251 11۔ ایضاً، ص301 12۔ یہ اقتباس ’’ ا ق گم گشتہ‘‘ (صفحات44, 45) میں یکم جون 1934ء کے ہفت روزہ ’’منادی‘‘ کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ ’’ انقلاب‘‘ (26مئی 34ئ) میں بھی اسی بیان کا ایک مختصر حصہ چھپا۔ جو ’’ گفتار اقبال‘‘ (صفحات183, 184) میں شامل ہے۔ 13۔ ’’ انقلاب‘‘ 10جولائی34ء 14۔ ’’ انقلاب‘‘ 11جولائی34ء 15۔ Speeches and Statements of Iqbal ، ص217 16۔ ’’ انقلاب‘‘ 5جولائی ، 18جولائی35ء 17۔ ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ صفحات271, 273 18۔ ایضاً، صفحات269, 271 19۔ ’’ اقبال اور انجمن حمایت اسلام‘‘ صفحات126, 131 20۔’’ انقلاب‘‘ 29ستمبر34ء ٭٭٭ اکتیسواں باب دو علمی معرکے احمدیت اور وطنیت حضرت علامہ نے تحریک احمدیت کے سلسلے میں جو موقف اختیار کیا، اسے سمجھنے کے لیے پس منظر جاننا ضروری ہے۔ اور یہ پس منظر جزوری طور پر انہوں نے خود 1935ء میں پیش کیا۔ وہ لکھتے ہیں:’’ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اب سے ربع صدی پیشتر مجھے اس تحریک سے اچھے نتائج کی امید تھی۔ لیکن کسی مذہبی تحریک کی اصل روح ایک دن میں نمایاں نہیں ہو جاتی۔ یہ اپنے آپ کو الم نشرح کرنے کے لیے کئی عشرے لیتی ہے۔ا س تحریک کے دو گروہوں کے درمیان اندرونی اختلافات بھی اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ جو لوگ بانی تحریک کے ساتھ ذاتی رابطہ رکھتے تھے، وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تحریک آگے چل کر کیا صورت لے گی۔ درخت کو جڑ سے نہیں پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر میرے موجودہ رویے میں کوئی تناقض ہے، تو یہ بھی ایک جیتے جاگتے، سوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل لے۔ بقول ایمرسن صرف پتھر ہی اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔‘‘ تحریک احمدیت دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک قادیانی احمدی، دوسرے لاہور احمدی، اول الذکر بانی سلسلہ کو نبی مانتے ہیں اور مسیح موعود۔ موخر الذکر مجدد مانتے ہیں اور مسیح موعود قادیانی احمدی ان لوگوں کو مسلمان نہیں سمجھتے، جو ان کی صف میں شامل نہیں ہیں۔ لاہوری احمدی تکفیر کے قائل نہیں ہیں۔ قادیانی احمدی عام مسلمانوں کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کرتے اور نہ ان سے رشتے ناطے کرتے ہیں۔ اسی پالیسی کی وجہ سے ان کے عام مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ سے طویل فاصلے رہے ہیں۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا تعلق تھا، اس کے ابتدائی دور میں قادیانی احمدی بھی شامل تھے اور علامہ اس پر معترض نہ ہوئے۔ لیکن بیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنی، تو اس کے صدر مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے اور سیکرٹری عبدالرحیم درو۔ گویا قیادت احمدیوں کے ہاتھ میں تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ احمدی حضرات نے کشمیری کمیٹی کے پلیٹ فارم کو اپنے عقیدے کی پیش رفت کا ذریعہ بنایا۔ یہ صورت عامتہ المسلمین کے لیے قدرتی طور پر ناگوار تھی۔ علامہ نے یہ صورت حالات دیکھی، تو ایک نئی آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنا لی اور جب انہیں ایک نئی قادیانی تنظیم ’’ تحریک کشمیر‘‘ کی صدارت پیش کی گئی، تو انہوں نے اس بنا پر اسے قبول نہ کیا کہ قادیانی حضرات دوہری وفاداریاں رکھتے ہیں۔ اگر وہ مسلمانوں کی سیاسی تنظیم میں شامل ہوں تو ان کی اولین وفاداری صرف تنظیم سے ہونی چاہیے۔ دوسری طرف مجلس احرار اسلام نے احمدیوں کے خلاف ایک تحریک برپا کی جس کا مقصد یہ تھا کہ انہیں ایک الگ اقلیت قرار دیا جائے۔ کیونکہ وہ دائرہ اسلام میں شامل نہیں ہیں۔ ختم نبوت کے دینی عقیدے کے علاوہ احرار کی طرف سے مخالفت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف بر سر پیکار تھے اور احمدیوں کے بانی سلسلہ نے انہیں انگریز سے غیر متزلزل وفاداری کا درس دے رکھا تھا۔ یہ تھے وہ مختلف عناصر، جنہوںنے اقبال کو مجبور کیا کہ احمدیوں کے عقائد کا گہرا مطالعہ کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے وقتاً فوقتاً اس سلسلے میں بیانات بھی جاری کیے، مقالے بھی لکھے اور جن پنڈت جواہر لال نہرو خواہ مخواہ اس بحث میں احمدیوں کی طرف سے کود پڑے، تو علامہ نے ان کے مقالات کا بھی مدلل جواب دیا۔ ختم نبوت کے اصول کو تو علامہ ہمیشہ سے اسلام کا بنیادی اصول سمجھتے آئے تھے۔ اور انہوں نے خطبات مدراس میں بھی اس پر شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی تھی اور کہا تھا کہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب دین مکمل ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی رائے کو مسلمانوں پر ٹھونسنے کے لیے کسی الہامی ذریعے کا حوالہ دے۔ احمدیت پر بحث کا دروازہ علامہ نے نہیں پنجاب کے گورنر سر ہربرٹ ایمرسن نے کھولا تھا۔ کیونکہ انہوں نے احمدیت کے خلاف احرار کی ایجی ٹیشن کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کو رواداری کا درس دیا تھا۔ یہ ایک مداخلت بے جا تھی جس کے جواب میں علامہ نے تحریک احمدیت کے خلاف اپنا پہلا بیان جاری کیا۔ آپ نے کہا کہ اسلام نسلی تصور کی مکمل نفی کرتا ہے اور اس کی بنیاد صرف اور صرف مذہبی تصور پر ہے۔ اس لیے جب اس مذہبی تصور کو مسخ کیا جاتا ہے، تو مسلم معاشرہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ اس کا مقصد اس کی وحدت اور سالمیت کو ضعف پہنچانا ہے۔ جو گروہ اپنی بنیاد کے طور پر ایک نئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جو اس کا موقف قبول نہیں کرتا، اسے کافر قرار دیتا ہے، تو مسلمان قدرتی طور پر اسے اپنے اتحاد کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہیں اور یہ بات جائز بھی ہے کہ صرف ختم نبوت کے تصور ہی سے اسلامی معاشرے کی سالمیت کا تحفظ فراہم ہوتا ہے۔ اقبال اس تصور کو نوع انسانی کی ثقافتی تاریخ میں سب سے زیادہ بدیع تصور قرار دیتے تھے۔ کیونکہ اسلام سے پہلے نبوت کے تسلسل کی وجہ سے انسان کسی نہ کسی کے ظہور کا منتظر ہوتا تھا اور اس سے مذہبی مہم جوؤں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا تھا۔ قبل از اسلام مجوسیت نے اس دور میں دو تحریکوں کو جنم دیا۔ ایک بہائیت، دوسری قادیانیت، لیکن بہائیت اس اعتبار سے زیادہ دیانت پر مبنی ہے کہ وہ کھلم کھلا اسلام سے انحراف کا اعلان کرتی ہے اور قادیانیت اسلام کی ظواہر کو برقرار رکھ کر اس کی روح سے انحراف کرتی ہے۔ علامہ کے بیان کے مطابق’’ ظل‘‘ اور ’’ بروز‘‘ اور’’ حلول‘‘ کی اصطلاحات مسلم ایران میں اسلام سے باغی تحریکوں کی ایجاد ہیں اور ’’ مسیح موعود‘‘ کی اصطلاح بھی مسلم مذہبی شعور کی تخلیق نہیں۔ علامہ نے سر ہربرٹ ایمرسن کے درس رواداری کو مسلمانوں کے مخصوص ثقافتی نقطہ نگاہ سے بے خبری پر محمول قرار دیا او رکہا کہ برطانوی راج کو اس بات سے کوائی واسطہ نہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد برقرار رہتا ہے یا نہیں۔ اس کا مفاد صرف اس میں ہے کہ جو مذہبی مہم جو ابھرے، وہ برطانیہ کی وفاداری کا دم بھرے اور اس سلسلے میں اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر پیش کیا: گورنمنٹ کی خیر یارو مناؤ ’’انا الحق‘‘ کہو اور پھانسی نہ پاؤ علامہ نے کہا کہ یہ انصاف کی بات نہیں کہ اسلام کے باغی گروہ کو تو کھلی چھٹی دی جائے لیکن ہم کوئی دفاعی تدبیر اختیار کریں، تو ہمیں رواداری کا درس دیا جائے۔ اگر حکومت اس گروہ کو خصوصی خدمات کی بنا پر پسند کرتی ہے، تو وہ اسے معاوضہ دینے میں آزاد ہے۔ لیکن یہ زیادتی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی سالمیت کے دفاع کے لیے سعی سے رو کے جائیں۔ علامہ نے فرمایا کہ حاکموں کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ قادیانیوں کو ایک الگ کمیونٹی قرار دے دیں۔ 2؎ احمدی اخباروں نے قدرتی طور پر اعتراض کیے۔ علامہ نے جواب دیے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہوئی کہ پنڈت جواہر لال نہرو بھی اس مناظرے میں شامل ہوئے اور کلکتہ کے رسالہ ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں مسلمانوں اور احمدیت کے موضوع پر تین مضامین لکھ ڈالے۔ علامہ نے ان مقالات کا ایک نہایت جامع جواب لکھا۔ پوری بحث کو سمیٹنا تو ہمارے لیے نہ ممکن ہے، نہ یہ کتاب اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔ لیکن علامہ کے جوابی مضمون میں سے یہ اقتباس خصوصی اہمیت رکھتا ہے: ’’ یہ ظاہر ہے کہ ہندوستانی قوم پرست (نہرو) جس کے سیاسی آئیڈیلزم نے حقیقت کی حس کو عملاً نابود کر دیا ہے، مسلمانوں کی اس خواہش کو برداشت نہیں کرتا کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو حق خود ارادیت حاصل ہو۔ میرے نزدیک اس کی یہ سوچ غلط ہے کہ ہندوستانی نیشنلزم کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ مختلف ثقافتی وحدتوں کو مکمل طور پر کچل دیا جائے۔ 3؎‘‘ ختم نبوت اور تحریک احمدیت پر علامہ کے مضامین کا ذکر کرتے ہوئے سالک رقم طراز ہیں: ’’ان مضامین کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے انتہائی اشتعال اور ناراضی کی حالت میں بھی بانی احمدیت، امام جماعت احمدیہ اور احمدیوں کے خلاف کوئی دل آزاد لفظ نہیں لکھا۔ بلکہ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے نہایت متین و سنجیدہ عالمانہ انداز اختیار کیا اور حقیقت یہ ہے کہ ان تحریروں میں علامہ نے بعض ایسے نکات پیش کیے ہیں، جن کا جواب اب تک کسی سے نہیں ہو سکا۔4؎‘‘ دو سال بعد حضرت علامہ اور مولانا حسین احمد مدنی کے درمیان وطنیت کی اساس کے مسئلے پر ایک علمی معرکہ ہوا۔ مولانا حسین احمد مدنی نے ایک تقریر میں کہا کہ ’’ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ نسل یا مذہب سے نہیں بنتیں۔ دیکھو، انگلستان کے بسنے والے سب ایک قوم شمار کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان میں یہودی بھی ہیں، نصرانی بھی، پروٹسٹنٹ بھی اور کیتھولک بھی۔ یہی حال امریکہ، جاپان اور فرانس وغیرہ کا ہے۔ 5؎‘‘ چونکہ مولانا کانگرس کے حامی تھے، اس لیے علامہ نے اس بیان سے یہ تاثر لیا کہ ان کے نزدیک قوم یا قومیت کی اساس وطن پر ہوتی ہے اور انہوں نے یہ تین شعر کہیـ: عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ ز دیوبند حسین احمد ایں بو العجمی است سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقام محمد عربی است بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ است اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است6؎ اس پر مولانا حسین احمد مدنی نے لکھا کہ ’’ میں نے اپنی تقریر میں لفظ قومیت کا کہا ہے، ملت کا نہیں کہا ہے۔ دونوں لفظوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ملت کے معنی شریعت یا دین کے ہیں اور قوم کے معنی عورتوں اور مردوں کی جماعت کے ہیں۔ اگر میری تقریر کے سیاق و سباق کو بھی حدف کر دیا جائے اور عبارت میں تحریف کر کے حسب اعلان جریدہ احسان، قوم یا قومیت کی اساس وطن پر ہوتی ہے، بتائی جائے، تب بھی میں نے کب کہا کہ ملت یا دین کی اساس وطن پر ہے۔ 7؎؟‘‘ حضرت علامہ نے تسلیم کیا کہ ’’ سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است‘‘ میں انہوں نے ملت کا لفظ قوم کے معنوں میں استعمال کیاہے۔ ’’ اس میں کچھ شک ہیں کہ عربی میں یہ لفظ اور بالخصوص قرآن مجید میں شرع اور دین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لیکن حال کی عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں بہ کثرت سندات موجود ہیں کہ ملت قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔‘‘ علامہ نے اپنے موقف کے حق میں جو نکات پیش کیے، ان کی تلخیص ملاحظہ ہو۔ جو بیشتر علامہ ہی کے اپنے الفاظ پر مشتمل ہے: اول: جغرافیائی اصطلاح کے اعتبار سے یہ بات اسلام سے متصادم نہیں کہ اقوام اوطان سے بنتی ہے۔ اس لیے کہ قدی الایام سے اقوام اوطان کی طرف اور اوطان اقوام کی طرف منسوب ہوتے چلے آئے ہیں۔ مگر زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں وطن کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں۔ بلکہ وطن ایک اصول ہے، ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے۔ چونکہ اسلام بھی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے، اس لیے جب لفظ وطن کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے، تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے۔ دوم: مولانا کے استدلال سے یہی نتیجہ اخذ ہو سکتا ہے کہ مسلمان بہ حیثیت قوم اور ہو سکتے ہیں اور بہ حیثیت ملت اور۔ اور ازروئے قوم چونکہ وہ ہندوستانی ہیں، اس لیے انہیں باقی اقوام ہند کی قومیت یا ہندوستانیت میں جذب ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ مذہب اور سیاست جدا جد اچیزیں ہیں۔ اس ملک میں رہنا ہے، تو مذہب کو محض انفرادی اور پرائیویٹ سمجھو اور اس کو افراد تک ہی محدود رکھو۔ سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو کوئی دوسری علیحدہ قوم تصور نہ کرو اور اکثریت میں مدغم ہو جاؤ۔ سوم: قرآن کریم میں مسلمانوں کے لیے امت کے سوا اور کوئی لفظ نہیں آیا۔ قوم رجال کی جماعت ہے اور یہ جماعت بہ اعتبار قبیلہ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اخلاقی ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ملت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویا ملت یا امت جاذب ہے، اقوام کی۔ خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی۔ چہارم: حقیقت یہ ہے کہ مولانا حسین احمد یا ان کے دیگر ہم خیالوں کے افکار میں نظریہ وطنیت ایک معنی میں وہی حیثیت رکھتا ہے، جو قادیانی افکار میں انکار کو ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس کی انتہا نبوت محمدیہؐ کے کامل و اکمل ہونے سے انکار ہے، بعینہ اسی طرح وطنیت کا نظریہ بھی امت مسلمہ کی بنیادی سیاست کے کامل ہونے سے انکار کی راہ کھولتا ہے۔ بظاہر نظریہ وطنیت سیاسی نظریہ ہے اور قادیانی انکار خاتمیت الٰہیات کا ایک مسئلہ ہے۔ لیکن ان دونوں میں ایک گہرا معنوی تعلق ہے۔ پنجم: ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کلیتہً نہیں تو ایک بڑی حد تک دار السلام بن جائے۔ لیکن اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دار الکفر ہے، ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بد تر بن جائے،تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا، سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہے۔ 8؎ بہرحال اس علمی تبادلہ خیالات کا انجام خوشگوار ہوا۔ اس کا سہرا ایک صاحب ’’ طالوت‘‘ کے سر تھا۔ جو حضرت علامہ کے بھی عقیدت مند تھے اور مولانا حسین احمد مدنی کے بھی۔ انہوں نے دونوں کے ساتھ خط و کتابت کی اور آخر میں مسئلہ سلجھ گیا۔ علامہ نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’ آج کل قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘ کے فقرے سے مولانا کا مقصد ایک امر واقعہ کو بیان کرنا ہے، تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ فرنگی سیاست کا نظریہ ایشیا میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔ البتہ اگر ان کا یہ مقصد تھا کہ ہندی مسلمان بھی اس نظریے کو قبول کر لیں، تو پھر بحث کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ علامہ نے بھی یہ بھی لکھا کہ ’’ کسی سیاسی جماعت کا پروپیگنڈا کرنا نہ میرا اس سے پہلے مقصد تھا، نہ آج مقصود ہے۔ بلکہ وہ شخص جو دین کو سیاسی پروپیگنڈے کا پردا بناتا ہے، میرے نزدیک لعنتی ہے۔ 9؎‘‘ جناب طالوت نے اس خط کا متن مولانا مدنی کو بھیج دیا۔ مولانا نے جواب لکھا’’ میرے محترم سر صاحب (اقبال) کا ارشاد ہے کہ اگر بیان واقعہ مقصود تھا، تو اس میں کوئی کلام نہیں۔ اگر مشورہ مقصود ہے تو وہ خلاف دیانت ہے اس لیے میں خیال کرتا ہوںکہ پھر الفاظ پر غور کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ تقریر کے لاحق و سباق پر نظر ڈالی جائے۔ میں عرض کر رہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ یہ اس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اور ذہنیت کی خبر ہے۔ یہاں ید نہیں کہا جاتا ہے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہیے۔ خبر ہے، منشا نہیں ہے۔ کسی ناقل نے مشورہ کو ذکر بھی نہیں کیا، پھر اس مشورے کو نکال لینا کس قدر غلطی ہے۔‘‘ آگے چل کر مولانا نے بتایا کہ میں ان ذلتوں کو گنوا رہا تھا، جو انگریز کے ہاتھوں ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں کو درپیش رہی ہیں۔ میں نے اگر کوئی مشورہ دیا، تو صرف یہ کہ ہندوستان کو جلد از جلد آزاد کرایا جائے۔’’ باقی رہا ملت اسلامی کا بلا انصاب، بلا الوان، بلا اوطان، بلا صنائع وغیرہ متحد ہونا اور کرنا، تو یہ دوسرا امر ہے۔ اس کو بھی ہم جانتے ہیں یہ ہماری گھٹی میں پڑا ہے اس کی بنا پر ہم مالٹا میں قید رہے، ہم نے کراچی کا جیل کاٹا اور سینکڑوں مصائب اٹھائے اور بچپن سے اس کی تعلیم پائی۔ قرآن کی آیات، احادیث صحیحہ اور روایات آج نہ سطور میں، بلکہ صدور میں موجود ہیں۔ جن کو بارہا منابر پر، مجامع میں ہم پڑھتے اور اس کا وعظ سناتے ہیں۔ کوئی تو اس کا قوال ہی ہو گا۔ ہم قوال اور فعال دونوں ہیں۔ 10؎‘‘ اس سے علامہ کا اطمینان ہو گیا اور انہوں نے مدیر’’ احسان‘‘ کے نام ایک خط میں ’’ طالوت‘‘ کے نام مولانا کے خط کا اقتباس درج کر کے لکھا: ’’ خط کے مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانان ہند کو جدید نظریہ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کومولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔ میں مولانا کے ان عقیدت مندوں کے جوش عقیدت کی قدر کتا ہوں، جنہوں نے ایک دینی امر کے توضیح کے صلے میں پرائیویٹ خطوط اور پبلک تحریروں میں گالیاں دیں۔ خدا تعالیٰ انہیں مولانا کی صحبت سے زیادہ مستفید کرے۔ نیز ان کو یقین دلاتا ہوں کہ مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں۔‘‘ علامہ کا یہ بیان 28مارچ1938ء کے ’’ احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ اگر وہ ’’ ارمغان حجاز‘‘ کی ترتیب اپنی زندگی میں کرتے، تو شاید وہ تین اشعار درج نہ کرتے، جن میں مولانا حسین احمد مدنی پر چوٹ کی گئی تھی۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ علامہ کی وفات کے بعد مولانا حسین احمد مدنی نے اس مسئلے پر ایک مفصل مقالہ لکھا۔ جس میں اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ کے بعض خیالات سے اختلاف ظاہر کیا۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ Speeches and Statements of Iqbal، صفحات101, 102 2۔ ایضاً، صفحات91, 98 3 ۔ ایضاً، ص110 4۔ ذکر اقبال، ص211 5۔ ’’ متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ ص4 6۔ ’’ ارمغان حجاز‘‘ ص278 7۔ ’’ متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ ص6 8۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات221, 238 9۔ ’’ متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ صفحات17, 18 10۔ ایضاً، صفحات19, 21 11۔ ایضاً، صفحات23, 24 ٭٭٭ بتیسواں باب اعلان جنگ، دور حاضر کے خلاف ’’ بانگ درا‘‘ کی اشاعت کے پورے گیارہ سال بعد’’ بال جبریل‘‘ منظر عام پر آئی۔ اور اس کے ایک سال بعد ’’ ضرب کلیم‘‘ جسے علامہ نے ’’ دور حاضر کے خلاف اعلان جنگ‘‘ قرار دیا۔ حقیقت میں ان کی پوری شاعری اس بنیادی روح کی حامل ہے۔ اقبال قومی اور بین الاقوامی سطح پر عصر حاضر سے بیزار تھے اور ایک نئے نظام کی تلاش میں تھے۔ ایک ایسا نظام، جو معاشی، معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی استحصال سے پاک ہو۔ ان کے نزدیک ایسے نظام کی تخلیق صرف اسلام کے ذریعے سے ہو سکتی تھی۔ بشرطیکہ اس کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اور عصر حاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک جدید انداز تفکر کی بنیاد ڈالی جائے۔ یہی ان کی زندگی، شاعری اور سیاست کا منتہائے مقصود تھا۔ انہیں جس نظام میں کوئی ایسی بات نظر آئی، جو اسلام کے قریب تھی، اس کی تحسین و ستائش کی۔ اور جس چیز کو اسلام کے منافی پایا، اسے مسترد کر دیا۔ علامہ اشتراکیت کے صریحاً خلاف تھے۔ وہ حقیقت کے مادی تصور کی وجہ سے اشتراکیت سے بیزار تھے اور اسے مساوات شکم کا مذہب قرار دیتے تھے۔ سوال یہ تھا کہ نوع انسانی کی نجات کا ذریعہ کون سا ہے اور ایک مثالی نظام کے تقاضے کون کون سے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سیاست، معیشت اور ثقافت پر اقبال کی نظر بہت گہری تھی اور یہ دونوں کتابیں اس کی بہترین عکاس ہیں۔ بہرحال اقبال کے خیالات کے تجزیے کے ضروری ہے کہ جس زمانے میں یہ دونوں کتابیں منظر عام پر آئیں، اس کا پس منظر ہمارے سامنے آ جائے۔ اقبال کی شاعری نے اصل نمو پائی، تو دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں اور اس زمانے کی تاریخ تین ادوار میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ اول: پہلی عالمی جنگ کے بعد صلح کے تصفیے، دوم: لیگ آف نیشنز یا جمعیت اقوام کی صورت میں ایک نئے بین الاقوامی نظام کا قیام اور ترک جنگ کا عالمی معاہدہ پیرس۔ سوم: نئے بین الاقوامی نظام کا زوال اور قوموں کے درمیان کشمکش کے ایک نئے دور کا آغاز۔ ’’ بال جبریل‘‘ اور’’ ضرب کلیم‘‘ اس آخری دور کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن تصویر کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اور وہ ہے ایشیا میں بیداری کا ایک نیا دور، جو اس دور کے ساتھ ساتھ چلا اور وہ بھی اس کلام میں منعکس ہے۔ سوویت یونین مدتوں بین الاقوامی برادری سے کٹا رہا۔ کیونکہ اسے عملاً اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب 1929ء میں عالمی معاشی بحران نے امریکہ، مغربی یورپ، بلکہ یورپی طاقتوں کے زیر نگیں افریشیائی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دنیا نے دیکھا کہ سوویت یونین اس بحران سے قطعی طور پر متاثر نہیں ہوا، تو جن لوگوں نے مغربی طاقتوں کے پورے معاشی ڈھانچے کو ٹوٹتے دیکھا اور جو متبادل معاشی نظام کی تلاش میں تھے، ان کی نظروں میں سوویت یونین کے لیے اور اس کے نظام کے لیے احترام کے جذبات پیدا ہوئے۔ عالمی معاشی بحران کا ایک اور نتیجہ یہ تھا کہ یورپ میں جمہوریت کے سیاسی نظام کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور یہ رحجان عام ہوا کہ اگر بربادی سے بچنا ہے تو جمہوریت کی جگہ آمریت کو اپنانا ہو گا۔ سچ پوچھئے تو اس سے پہلے ہی اس رحجان کا آغاز ہو چکا تھا۔ اٹلی میں فاشسٹ آمریت داخلی سیاسی اور معاشی خلفشار کو دور کر کے ایسا تاثر پیدا کر چکی تھی۔ اس کی دیکھا دیکھی ان ملکوں میں بھی آمریت آنے لگی، جہاں جمہوری بنیادیں مضبوط نہیں تھیں۔ عالمی معاشی بحران نے اس رحجان کو تیز تر کر دیا اور جرمن میں نازیت بر سر اقتدار آئی تو انہی سالوں میں جب عالمی معاشی بحران نے جرمن معیشت کا تیا پانچہ کر رکھا تھا، آمریت کے رواج نے تنگ دلانہ وطنیت کو فروغ دیا اور ان یورپی قوموں کو سامراجیت کی طرف زیادہ مائل کیا، جن کی نو آبادیاں پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں چھن چکی تھیں یا جو یہ سمجھتی تھیں کہ انہیں زیادہ نو آبادیات کی ضرورت ہے۔ آمریت کی علمبردار یورپی قوموں نے وہ بند توڑ کر رکھ دیا۔ جو صلح کے معاہدات اور جمعیت اقوام نے باندھ رکھا تھا۔ چنانچہ جرمن نے یورپ کے اندر توسیع پسندانہ عزائم کا عمل شروع کیا اٹلی نے حبشہ کی آزادی سلب کر لی، مشرق بعید میں جاپان نے چین پر یلغار کر دی اور چونکہ جمعیت اقوام پر پرانی سامراجی طاقتوں کا غلبہ تھا، اس لیے وہ اس رحجان کو روک نہ سکی۔ بلکہ عضو معطل بن کر رہ گئی۔ ان حالات نے یورپ کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ایشیا میں بیداری کے آثار نمایاں تھے افغانستان، ایران اور ترکیہ آزادی اور استحکام کی منازل سے گزر کر معاہدہ سعد آباد کی صورت میں ایک دوسرے کے دست و بازو بن چکے تھے۔ برطانیہ، مصر اور عراق کی آزادی تسلیم کر چکا تھا۔ یمن اور سعودی عرب آزاد تھے۔ فلسطین کے عرب مجلس الاعلیٰ و الاسلامی کے پرچم تلے صیہونیت کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ شام و لبنان میں فرانسیسی انتداب کے خلاف جدوجہد جاری تھی۔ برعظیم پاک و ہند میں آزادی کی تحریک زور پکڑ چکی تھی۔ جاپان ایک عظیم صنعتی ملک بن چکا تھا۔ چین سن یاٹ سین کی قیادت میں جمہوریہ بن چکا تھا اور اس کا جانشین چیانگ کائی شیک ایک ایشیائی رہنما کی حیثیت سے نام پا چکا تھا۔ دوسری طرف چین کے اندر ماؤزے تنگ کے زیر قیادت کمیونسٹ پارٹی بھی بہت فعال تھی اور وسطیٰ ایشیا کی پرانی اسلامی مملکتیں سوویت یونین کے اندر شامل ہو کر ایک نئے نظام کو اپنا چکی تھیں۔ا گرچہ افریقہ ابھی تک ایک تاریک بر اعظم تھا لیکن شمالی افریقہ کے مسلمان ملکوں میں آزادی کی تحریکیں موجود تھیں اس زمانے میں سوشلزم صرف سوویت یونین میں رائج تھا او ریہ ایک عظیم تجربہ تھا۔ اس لیے اقبال نے تسلسل اور تواتر سے اس کا تذکرہ کیا۔ لینن خدا کے حضور میں ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ اور’’ فرمان خدا‘‘ 1؎ محض ایک ڈرامے کی مختلف کڑیاں نہیں تھیں بلکہ علامہ کے اپنے دل کی دھڑکنوں کی عکاس کرتی تھیں اور حالات کا ایک ایسا تجزیہ پیش کرتی تھیں جو اقبال نے خود کیا۔ لینن ازم اور مارکس ازم میں خدا کا کوئی وجود تسلیم نہیں کیا جاتا۔ لیکن ان مسائل میں خدا کو لانے کے مطلب یہ تھا کہ علامہ سوشلزم کے مادیت نواز عنصر کو نظر انداز کر کے اس کے معاشی پہلو کو پیش کرتے تھے۔ جو ان کے نزدیک اسلامی نظریات سے بہت حد تک ملتا جلتا تھا اور علامہ کا یہ شعر: زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی2؎ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک استحصال سے پاک اور منصفانہ اور عادلانہ نظام تو چاہتے تھے لیکن پرولتاری آمریت کے تصور کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ روس کی دہریت سے آشنا تھے: یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات3؎ ’’ اشتراکیت‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی، اس میں روس کی گرمی رفتار اور شوخی افکار کی تعریف کی اور ساتھ ہی لکھا: قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار4؎ اقبال جاگیرداری کے نظام کو غلط قرار دیتے تھے اور زمین کی نجی ملکیت کا تصور نہیں مانتے تھے۔ اس بنا پر کہ یہ اسلام کی روح کے منافی ہے۔ ’’ الارض للہ‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی، وہ اس کی شاہد ہے۔ جس کا آخری شعر ہے: وہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں! تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں!5؎ یہاں یہ صراحت شاید لازمی ہے کہ جاوید نامہ میں علامہ نے اپنے افکار کا اظہار جمال الدین افغانی کی زبان سے کیا ہے اور ان سے واضح ہوتا ہے کہ روسی تحریک کو علامہ ایک منفی حیثیت دیتے تھے۔ یعنی سرمایہ داری کی نفی کا چنانچہ ان کی نظر میں روس لا کے مقام پر ہے اور جب تک وہ الا کی طرف سفر نہ کرے گا اور ذات وحدت کا اقرار دل و جان سے نہ کرے حقیقی فلاح نہ پا سکے گا۔ علامہ کی نگاہیں دور بین تھیں۔ وہ مستقبل شناس تھے یورپی سیاست میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی اولاد سامراجیت جو کھیل کھیل رہے تھے، علامہ اس کے انجام سے باخبر تھے ان کی نظر آنے والی عالمی جنگ اور اس کے نتائج پر تھی: شفق نہیں مغربی افق پر، بہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے طلوع فردا کا منتظر رہ کر دوش و امروز ہے فسانہ وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو اسی کی بے تاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ 6؎ جمعیت اقوام سے اقبال کو کبھی حسن ظن پیدا نہ ہوا۔ بلکہ وہ ہمیشہ اسے سامراجی طاقتوں کی باندی سمجھتے رہے۔ انہوں نے یہ تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند لیکن جب بار بار اس کی نا اہلی کا مظاہرہ ہوا اور یہ نہ صرف کمزور قوموں کی مدد کے ناقابل ثابت ہوئی بلکہ سامراجی طاقتوں کے باہمی اختلافات کا بھی اکھاڑہ بن گئی، تو اقبال نے بھانپ لیا کہ اب اس کی موت قریب ہے: بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے 7؎ اور اب دنیائے اسلام کے استحصال کی طرف آئیے۔ فرانسیسی سامراج کا شیوہ یہ تھا کہ جہاں اپنا منحوس قدم رکھتا، وہاں حقائق سے عوام کی توجہ کو ہٹانے کے لیے شراب اور زنان بازاری کو ارزاں کر دیتا۔ چنانچہ یہی شام و لبنان میں کیا۔ اس شیوے کو اقبال نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا: فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا نبی عفت و غم خواری و کم آزاری صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے مے و قمار و ہجوم زنان بازاری 8؎ اور رندان فرانسیس کا مے خانہ سلامت پر ہے مے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا9؎ فلسطین کے مسئلے پر علامہ کا اضطراب ان کی نثری تحریروں، بیانات اور خطبات سے بھی واضح ہے اور شاعری سے بھی۔ انہوں نے انتد اب کے پورے تصور کی مخالفت کی اور صیہونیت کی مسلسل مذمت فرمائی اور کہا: ہے خاک فلسطین یہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا مقصد ہے ملوکیت اگلیس کا کچھ اور قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا10؎ اور ملوکیت اگلیس کا مقصد وہ اپنے بیانات میں بتاتے رہے ہیں کہ وہ دنیائے عرب کے سینے میں ایک مستقل ناسور بن کر اپنے سامراجی عزائم کی پیش رفت کا سامان مہیا کر رہی ہے۔ اس زمانے میں امریکا بظاہر اس مسئلے سے لا تعلق تھا لیکن اندر ہی اندر وہ صیہونیت کی پرورش کرتا رہا اور جب برطانیہ نے فلسطین سے انخلا کیا، تو امریکہ نے اسرائیل کو اپنا فرزند دل بند بنا لیا۔ تاکہ اس کے توسط سے دنیائے اسلام میں اپنے عالمی سامراج عزائم کو آگے بڑھائے۔ علامہ نے فلسطینی عرب سے خطاب فرماتے ہوئے کہا: زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے 11؎ پوری ایک تہائی صدی بعد علامہ کے اس خواب کی تعبیر آزادی فلسطین کی تنظیم اور تدائین کی سرفروشی کی صورت میں منظر عام پر آئی اور خودی کی پرورش اور لذت نمود کے نتائج سامنے رہے ہیں۔ حضرت علامہ نے مسولینی کی آدم کشی اور غارت گری کا تذکرہ کیا۔ حبشہ کی آزادی پر یلغار ہوئی، تو پکار اٹھے: تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش12؎ جہاں جہاں ایشیا میں بیداری کے آثار دیکھے، اس پر اظہار مسرت کیا: اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ13؎ اور زمانے کے انداز بدلے گئے نیا را گہے ساز بدلے گئے ہوا اس طرح فاش راز فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطان سے بیزار ہے گیا دور سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا گراں خوب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابنے لگے دل طور سینا و فاراں دونیم تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم14؎ یہ درست ہے کہ اقبال نے بعض سلاطین سے امیدیں باندھیں۔ مثلاً نادر شاہ غازی سے لیکن ان کا مدعا اس سے ماورا تھا۔ وہ مشرق میں ایک نئی قیادت کے آرزو مند تھے۔ ایک نئے بدن کی تلاش میں تھے، جس میں روح مشرق اپنی پوری توانائیوں اور تابانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہو: مری نوا سے گریبان لالہ چاک ہوا نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح مشرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی مری خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن زمانہ دار و رسن کی تلاش میں ہے ابھی15؎ وہ اس قیادت کو نقطہ ماسکہ بنا کر سامراج کے خلاف ایک وسیع تر محاذ بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جمعیت اقوام کی جگہ یا اس کے مقابلے پر یا ایک آزاد حیثیت سے جمعیت اقوام شرق کا تصور پیش کیا: پانی بھی مسخر ہے ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے تہراں ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے16؎ اس خواب کی تعبیر کا آغاز بھی اقبال کی وفات کے کم و بیش ایک تہائی صدی بعد اسلامی ملکوں کی تنظیم اور تیسری دنیا کے اتحاد کی صورت میں ہو رہا ہے۔ علامہ کی پوری شاعری عصر حاضر کے خلاف اعلان جنگ کی مظہر ہے اور ’’ بال جبریل‘‘ اور’’ضرب کلیم‘‘ اسی اعلان جنگ کے حامل ہیں۔ یہ جنگ سرمایہ داری کے خلاف ہے، سامراجیت کے خلاف ہے، محکومی اور غلامی کے خلاف ہے، بے انصافی، استحصال اور ظلم کے خلاف ہے، الحاد کے خلاف ہے، وطنیت کے تنگ دلانہ نظریے کے خلاف ہے، نئی تہذیب کی خرابیوں کے خلاف ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔ یہی کہ ایشیا اور افریقہ کی مظلوم و مقہور قوموں میں بیداری اور احساس خودی پیدا ہو اور وہ اس دنیا میں ایک ایسے عادلانہ اور منصفانہ نظام کی داعی ہوں، جس میں خلق خدا چین سے زندگی بسر کرے اور اقبال کے نزدیک یہ چیز صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اسلام کی حقیقی روح کو پہچانا جائے، اپنایا جائے اور اسے عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں عمل میں لایا جائے۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ بال جبریل ، صفحات144, 150 2۔ ایضاً، صفحات61, 62 3۔ ضرب کلیم، ص143 4۔ ایضاً، ص138 5۔ بال جبریل، ص161 6۔ ایضاً، ص176 7۔ ضرب کلیم، ص158 8۔ ایضاً، ص150 9۔ ایضاً، ص159 10۔ ایضاً، ص159 11 ۔ ایضاً، ص163 12 ۔ ایضاً، ص147 13۔ بال جبریل ص،80 14۔ ایضاً، ص164 15۔ ضرب کلیم، ص144 16۔ ایضاً، ص149 ٭٭٭ تینتیسواں باب علمی عزائم جو پورے نہ ہو سکے حضرت علامہ نے علم و ادب اور سیاست کے دوائر میں جو خدمات سر انجام دیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ لیکن ان کے شوق کی بلندی کا کوئی عالم نہیں تھا۔ بے شمار علمی عزائم باندھے لیکن انہیں پورا نہ کر سکے۔ پہلے اس میں قوت لایموت کے لیے جدوجہد حائل رہی، پھر سیاست نے فرصت کے لمحات چھین لیے۔ مسلسل علالت بھی سد راہ ثابت ہوئی۔ وکالت کا پیشہ ترک کرنے کے بعد بھی کچھ لکھنے کا ارادہ کیا لیکن نہ یک سوئی نصیب ہوئی، نہ ایسے حالات، کہ خاطر جمع ہو کر سکون کے ساتھ کام کر سکیں۔ علامہ کی آرزو تھی کہ اپنی کہانی خود اپنی زبان مرتب کریں۔ اکتوبر1919ء میں سید سلیمان ندوی کو لکھا:’’ میں اپنے دل و دماغ کی سرگذشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں اور یہ سرگذشت کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو خیالات اس وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق لوگوں کے دلوں میں ہیں، اس تحریر سے ان میں بہت انقلاب پیدا ہو گا۔1؎‘‘ اگلے مہینے عشرت رحمانی کو لکھا’’ میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں جو اوروں کے لیے سبق آموز ہو سکے۔ ہاں خیالات کا تدریجی انقلاب البتہ سبق آموز ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی فرصت ہو گئی تو لکھوں گا۔ فی الحال اس کا وجود محض عزائم کی فہرست میں ہے۔ 2؎‘‘ کم و بیش دو سال بعد بدایوں کے رسالہ ’’ نقیب‘‘ کے مدیر وحید احمد کے نام لکھا:’’ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگذشت قلم بند کروں گا۔ جس سے مجھے یقین ہے، بہت لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ 3؎‘‘ ’’ اسرار خودی‘‘ کے بعد’’ رموز بے خودی‘‘ تکمیل کے قریب پہنچی، تو خیال آیا کہ اسی سلسلے کی تیسری کڑی بھی لکھی جائے۔ مولانا گرامی کے نام ایک مکتوب میںاس کا یوں تذکرہ کیا: ’’ مثنوی کا دوسرا حصہ قریب الاختتام ہے۔ مگر اب تیسرا حصہ ذہن میں آ رہا ہے اور مضامین دریا کی طرح امڈے آ رہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔ اس حصے کا مضمون ہو گا، حیات مستقبلہ اسلامیہ یعنی قرآن شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے اور جماعت اسلامیہ، جس کی تاسیس دعوت ابراہیمی سے شروع ہوئی، کیا کیا واقعات و حوادث آئندہ صدیوں میں دیکھنے والی ہے اور بالاخر ان سب واقعات کا مقصود غایت کیا ہے میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن شریف میں موجود ہیں اور استدلال ایسا صاف و واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا اور بعض آیات اور سورتوں پر مہینوں، بلکہ برسوں غور کیا اور اتنے طویل عرصے کے بعد مندرجہ بالا نتیجے پر پہنچا ہوں۔ مگر مضمون بڑا نازک ہے اور ا سکا لکھنا آسان نہیں۔ بہرحال میں نے یہ قصد کر لیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا اور اس کی اشاعت میری زندگی کے بعد ہو جائے گی یا جب اس کا وقت آئے گا اشاعت ہو جائے گی۔ 4؎‘‘ یہ ارادہ قائم رہا۔ چنانچہ ’’ رموز بے خودی‘‘ کے دیباچے میں علامہ نے بتایا کہ مسلمانوں کے انحطاط کو دور کرنے اور ان کی زندگی کو مضبوط و مستحکم بنانے کے جس عملی اصول کو ’’ اسرار خودی‘‘ اور’’رموز بے خودی‘‘ میں مجمل انداز میں بیان کیا گیا ہے، مثنوی کے تیسرے حصے میں اسی کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کی اجائے گا۔ 5؎ 1916ء میں تصوف اسلامیہ پر ایک کتاب یا تحقیقی مقالہ لکھنے کا ارادہ تھا جب ’’ اسرار خودی‘‘ پر ایک علمی بحث چھڑ گئی اور خواجہ حسن نظامی اور دوسرے حضرات نے اس کے مطالب کے بعض پہلوؤں پر نکتہ چینی کی، تو علامہ نے نامور عالم دین شاہ سلیمان پھلواروی کے نام ایک مکتوب میں لکھا کہ تصوف میں جو غیر اسلامی تصورات دخیل ہیں، ان کی نشان دہی تصوف کی مخالفت نہیں، خیر خواہی کی علامت ہے۔ انہی عناصر کی بنا پر مغربی محققین نے سارے تصوف کو غیر اسلامی قرار دیا ہے اور حقیقت میں یہ حملہ اسلام پر ہے اس کے بعد علامہ نے لکھا:’’ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تصوف اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے۔ جس سے معاملہ صاف ہو جائے اور غیر اسلامی عناصر کی تقطیع ہو جائے۔ سلاسل تصوف کی تاریخی تنقید بھی ضروری ہے اور زمانہ حال کا علم النفس جو مسالہ تصوف پر حملہ کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے، اس کا پیش تر سے ہی علاج ہونا ضروری ہے۔ میں نے اس پر کچھ لکھنا شروع کیا ہے مگر میری بساط کچھ نہیں۔ یہ کام اصل میں کسی اور کے بس کا ہے۔ میں صرف اس قدر کام کر سکوں گا کہ جدید مذاق کے مطابق تنقید کی راہ دکھلا دوں۔ زیادہ تحقیق و تدقیق مجھ سے زیادہ واقف کار لوگوں کا کام ہے۔ 6؎‘‘ اس کے بعد خواجہ حسن نظامی کے ایک مضمون ’’ سر اسرار خودی‘‘ کے جواب میں علامہ نے ایک مضمون لکھا۔ جس میں بتایا:’’ میں تصوف اسلامیہ کی تاریخ پر ایک مفصل مضمون لکھ رہا ہوں جو عنقریب علامہ ابن جوزی کی کتاب ’’ تلیس ابلیس‘‘ کے اس حصے کے ساتھ شائع ہو گا جو انہوں نے وحدت الوجود کی رد میں لکھا ہے۔ اس مضمون سے ناظرین کو معلوم ہو جائے گا کہ وحدت الوجود کیا چیز ہے۔ اسلام میں یہ تحریک کس طرح پیدا ہوئی اور جن لوگوں کو صوفیا کا امام سمجھا جاتا ہے، انہوں نے اسلامی تاریخ اور تفسیر قرآن میں کس قدر بے پروائی سے کام لیا ہے۔ 7؎‘‘ سوال یہ ہے کہ علامہ کتاب لکھنا چاہتے تھے یا مقالہ اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک مکتوب سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کیونکہ علامہ لکھتے ہیں:’’ میں تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھ رہا ہوں۔ جو ممکن ہے، ایک کتاب بن جائے8؎‘‘ 1919ء میں یہ خیال آیا کہ رامائن کو اردو میں منتقل کر دیا جائے۔ سر کشن پرشاد شاد کے نام ایک مکتوب میں یہ ارادہ ظاہر کرنے کے بعد لکھا:’’ سرکار کو معلوم ہو گا، مسیح جہانگیری نے رامائن کے قصے کو فارسی میں نظم کیا ہے۔ افسوس ہے، وہ مثنوی کہیں سے دستیاب نہ ہوئی۔ اگر سرکار کے کتاب خانے میں ہو تو کیا چند روز کے لیے عاریتہ مل سکتی ہے؟ میرے خیال میں اس کا تتبع کرنا بہتر ہو گا۔ اس کے متعلق اور مشورے سے بھی سرکار دریغ نہ رکھیں۔ 9؎‘‘ مولانا غلام بھیک نیرنگ بتاتے ہیں کہ عنفوان شباب میں علامہ اکثر اس ارادے کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میں واقعات کربلا کو ایسے رنگ میں نظم کروں گا کہ ملٹن کی (Paradise Regained) کا جواب ہو جائے۔ مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہیں ہو سکی۔ 10؎ 1922ء میں علامہ نے گرامی کے نام ایک خط میں لکھا:’’ اردو نثر میں بھی ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ انشاء اللہ شائع ہونے پر آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔11؎‘‘ خدا جانے یہ کتاب کس موضوع پر تھی۔ لکھی بھی گئی تھی یا نہیں۔ ممکن ہے خاکہ تیار کیا ہو اور پھر وقت نہ ملنے کی وجہ سے ارادہ ترک کر دیا ہو۔ 1925ء میں حضرت علامہ نے صوفی غلام مصطفی تبسم کے نام ایک خط میں لکھا کہ میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا۔ لیکن لکھتے لکھتے خیال آیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا میں نے سمجھا تھا۔ دوسرے اس میں جو باتیں مختصر طور پر اشارۃً بیان کی گئی ہیں وہ تفصیلی بحث کی محتاج ہیں۔ اس لیے اسے شائع نہیں کرایا گیا۔ اس کے بعد علامہ نے لکھا:’’ اب میں انشاء اللہ اسے ایک کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گا جس کا عنوان ہو گا۔ Islam as i Understand It.اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ کتاب کا مضمون میری ذاتی رائے تصور کیا جائے۔ جو ممکن ہے، غلط ہو۔ 12؎‘‘ نومبر1929ء کا ذکر ہے، علامہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین نے بلایا اور ان کی خدمت میں ایک سپاس نامہ پیش کیا۔ اس کے جواب میں علامہ نے جو تقریر کی، اس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا:’’ میں گذشتہ بیس برس سے قرآن شریف کا بغور مطالعہ کرتا ہوں۔ ہر روز تلاوت کرتا ہوں مگر ابھی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے کچھ حصوں کو سمجھ گیا ہوں۔ اگر خدا نے توفیق دی اور فرصت ہوئی تو میں ایک دن کامل تاریخ اس بات کی قلم بند کروں گا کہ دنیائے جدیدہ اس مطمح حیات سے کسی طرح ترقی کرتی ہوئی بنی ہے، جو قرآن شریف نے ظاہر کیا ہے۔ 13؎‘‘ 1931ء کے اواخر میں حضرت علامہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔ تو بمبئی میں ’’ بمبئی کرانیکل‘‘ کے نامہ نگار نے ان سے ملاقات کی اس ملاقات کے آخری مرحلے میں علامہ نے اپنے دو منصوبوں کا تذکرہ کیا۔ آپ نے ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں میں نے جدید علوم کی روشنی میں اسلام کے مذہبی فلسفے کا تجزیہ کیا ہے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اسی انداز میں فقہ پر کام کروں۔ کیونکہ اس پہلو کو ہمارے علماء نے صدیوں سے نظر اندا زکر رکھا ہے۔ ان کا دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ تمام اسلامی ملکوں کا دورہ کر کے ’’جدید دنیائے اسلام‘‘ پر ایک کتاب لکھیں۔ لیکن انہوں نے خود ہی بتایا کہ دورے کے لیے پیسے کی ضرورت ہے اگر پیسہ فراہم ہو گیا تو دورہ کروں گا۔ 14؎ بہرحال ایسا نہ ہو سکا اور علامہ یہ کتاب بھی نہ لکھ سکے۔ 1933ء کے اواخر میں لارڈ لوتھین نے علامہ کو دعوت دی کہ وہ لندن آئیں اور روڈز ٹرسٹ کے زیر اہتمام چند لیکچر دیں۔ علامہ نے ان لیکچروں کے لیے ’’ فکر اسلامی میں مکان و زمان کا تصور‘‘ کا موضوع تجویز کیا۔ علامہ جانتے تھے کہ یہ موضوع بہت کٹھن ہے اور اس کے لیے خاصی تحقیق کرنی ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے لارڈ لوتھین کو لکھا کہ ان لیکچروں کی تیاری اور تحریر کا کام تین چار مہینے میں ممکن نہیں۔ اس لیے وقت میں توسیع کر دی جائے۔ چنانچہ یہ طے پا گیا کہ علامہ یہ لیکچر 1935ء میں دیں۔15؎ اس دوران میں علالت نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ اب لیکچر دینے کا سوال نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اس لیے یہ ارادہ ترک کرنا پڑا۔ا گر ایسا نہ ہوتا، تو ان لیکچروں سے ایک کتاب مرتب کی جا سکتی تھی۔ ’’ ایک دفعہ یہ ارادہ ہوا کہ جس طرح نٹشے نے Thus Spake Zarathustra (زرتشت نے یوں کہا) لکھ کر بعض حقائق کو نہایت دلآویز پیرائے میں ظاہر کیا ہے، اسی طرح علامہ بھی ایک کتاب لکھیں The Book of Unkonwn Prophet (ایک گمنام نبی کی کتاب) منشا یہ تھا کہ بعض مابعد الطبیعی اور طبعی حقائق و معارف بائبل کے طرز پر لکھے جائیں۔ علامہ اس کے لیے نثر کا ادبی اسلوب سوچ رہے تھے۔ 16؎‘‘ سالک رقم طراز ہیں: اواخر حیات میں قریب قریب ہر روز یہی ذکر رہتا تھا کہ میں ایک کتاب لکھ کر چھوڑ جاؤں گا۔ جس کا منشا یہ ہو گا کہ پڑھنے والوں کے دلوں میں مطالعہ قرآن کا صحیح ذوق پیدا ہو جائے اور جتنے نظریے یورپ کے مستشرقین نے قرآن اور ادیبات اسلامی کے متعلق قائم کر رکھے ہیں، وہ سب کے سب خاک میں مل جائیں۔ اس کتاب کا نام کبھی کبھی Aids to the Study of Quranبتایا کرتے تھے۔ 17؎ 1935ء میں علامہ اس سلسلے میں بہت مضطرب تھے۔ چاہتے تھے کہ ریاست بھوپال کی طرف سے ایک وظیفہ مقرر ہو جائے اور وہ روزی کے فکر سے آزاد ہو کر اس کتاب کی تحریر میں ہم تن مصروف ہو جائیں۔ 26اپریل 35ء کو اس سلسلے میں راس مسعود کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ کچھ عرصے پہلے میں بہت خوش تھا، کیونکہ میں نے سوچا آپ اس معاملے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس قابل ہو جاؤں گا کہ جدید تفکر کی روشنی میں قرآن حکیم پر وہ یادداشتیں قلم بند کروں، جن کے بارے میں مدت سے سوچ رہا ہوں۔ بہرحال میں محسوس کرتا ہوں کہ شاید میرا خواب پورا ہو جائے۔ اگر مجھے اس قابل بنا دیا جائے کہ زندگی کے باقی ماندہ سال اس کام کے لیے وقف کر دوں تو میرے نزدیک دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے میرا یہ بہترین تحفہ ہو گا۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے ہر چیز خدا کے ہاتھ میں ہے اگر وہ جدید اسلام کی اس خدمت کو پسند کرے گا تو اس کی تکمیل کے لیے مجھے ضروری وسائل بھی مہیا کر دے گا۔ 18؎ 23مئی 1935ء کو راس مسعود کے نام لکھا: میں نے جو درخواست کی ہے، وہ خصوصیت سے ایک ایسے مرتے ہوئے انسان کی درخواست ہے جو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے کوچ کرنے سے پہلے کچھ کر گزرنا چاہتا ہے۔ 19؎ دو مہینے بعد ریاست بھوپال کی طرف سے پانسو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر ہو گیا، جو اقبال جیسے درویش طبع انسان کے لیے بہت کافی تھا۔ چنانچہ انہوں نے قرآن حکیم کے بارے میں مجوزہ کتاب کی تحریر کی جانب کچھ پیش رفت فرمائی اور اسی سال احمدیت پر علمی معرکے کے سلسلے میں ’’ سٹیٹ مین‘‘ میں ایک مکتوب بنام مدیر کے دوران میں لکھا کہ میں نے ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ میں اسلام سے مجوسیت کی گرد اتارنے کی کوشش کی تھی اور مجھے امید ہے کہ اپنی اگلی کتاب Introduction to the Study of the Quran میں اس سلسلے میں مزید کام کر سکوں گا۔ 20؎ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ علامہ نے Introduction to the Study of Islam کی یادداشتوں کا جو خاکہ میاں محمد شفیع (م۔ش) کے حوالے کیاتھا، ممکن ہے صرف موضوع کے الفاظ کا فرق ہو اور اس سے ایک ہی کتاب مراد ہو۔ لیکن جو خاکہ میاں محمد شفیع کے حوالے کیا گیا، اس کا متن غور سے پڑھئے گا 21؎ تو معلوم ہو گا کہ یہ دو لیکچروں کا خاکہ تھا اور چونکہ جس زمانے کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں، اس میں گلا بیٹھنے کی وجہ سے علامہ لیکچر دینے کے قابل نہ تھے، اس لیے عین ممکن ہے کہ یہ خاکہ اس دور میں مرتب کیا گیا ہو جب اقبال صحت مند تھے ایک لیکچر کا موضوع ہے، اسلام کیا ہے؟ اس میں مختلف مذاہب کے ساتھ تقابل کے بعد اسلام کی برتری ثابت کی گئی ہے۔ کلیسا اور ریاست کا تعلق واضح کیا گیا ہے اور آخر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام عیسائیت کا نہ دشمن ہے، نہ حریف۔ بلکہ تہذیب کے عمل میں اس کا رفیق کار ہے۔ دوسرے لیکچر کا موضوع ہے: اسلام کا قانون، اس کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور دوسرے امور کے علاوہ شعوب و قبائل کے خاتمے، معاشی مساوات، مملکت اور مذہب، اسلام اور سرمایہ داری، اسلام اور عورت، نجات کا مفہوم اور ایمان کے موضوعات شامل ہیں۔ نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی تاریخ میں جو مختلف تحریکیں اٹھیں، ان کا بھی تجزیہ مقصود تھا۔ علامہ کی یہ آرزو بہت تھی کہ اسلامی فقہ پر کام کیا جائے ۔ سالک بتاتے ہیں کہ ’’ وہ جوانی ہی کے زمانے میں محسوس کر چکے تھے کہ اگر اسلام کو ایک ضابطہ حیات کی حیثیت سے آج کل کے زمانے میں کامیاب اور آبرو مند بنانا ہے تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ زمانہ حال کے جورس پروڈنس، یعنی اصول قانون کی روشنی میں شرع اسلامی کی اساسات دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں۔ اور دلیل و برہان سے اصول فقہ اسلامی کی برتری آج کل کے قانون پر ثابت کی جائے۔ مجوزہ کتاب کا نام تھا Reconstruction of Islamic Jurisprudenece 22؎ قیاس ہے کہ ’’ اسلام کا قانون‘‘ کے نام سے نکات اور یادداشتوں کا جو خاکہ علامہ نے میاں محمد شفیع کے حوالے کیا، وہ اسی مجوزہ کتاب سے تعلق رکھتا تھا۔‘‘ علامہ کے علمی عزائم کا کوئی حد و شمار نہیں تھا۔ بیشتر وقت شاعری لے لیتی تھی۔ جس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قوم میں بیداری پیدا ہوئی تو شاعری کے طفیل اور اس شاعری نے ہم عصر ادب کو بھی بے حد متاثر کیا۔ جہاں تک علمی کاموں کا تعلق ہے علامہ کا المیہ یہ تھا کہ وہ بہت سے مختلف النوع موضوعات پر تحقیق کرنا چاہتے تھے اور ظاہر ہے سب کا احاطہ نا ممکن تھا دوسرے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کی تحریر سے انہوں نے تحقیق اور تفکر کا ایک اعلیٰ معیار قائم کر دیا اور اسے برقرار رکھنے کی خاطر بے پناہ ریاض کی ضرورت تھی۔ لیکن ریاض کیسے ہوتا، کہ یہ وقت چاہتا ہے اور وقت اسی صورت میں مل سکتا تھا کہ وہ فکر روزگار سے آزاد ہوتے اور معاشرہ ایسا بندوبست کرنے سے عاجز تھا۔ پہلے وکالت کرتے تھے جو بہت وقت لیتی تھی اور یافت کے لیے امتحانی پرچے بھی دیکھنے پڑتے تھے، جوایک اکتا دینے والا کام ہے۔ علالت نے آ لیا، تو یافت کا صرف ایک ہی سامان باقی رہ گیا اور وہ تھا، کتابوں کی رائلٹی کا ذریعہ۔ لیکن یہ ناکافی، بلکہ بہت کم تھا بھوپال سے وظیفہ مقرر ہوا، تو روزی کمانے کے جھنجھٹ سے آزادی ملی۔ لیکن اتنے میں آنکھوں میں موتیا اتر آیا اور لکھنا پڑھنا موقوف ہوا۔ اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ کتاب تصنیف کرتے تو املا کرا کے اور علمی کام املا سے نہیں ہوتے۔ بہرحال اسلام پر کام بے حد ضروری تھا اور اس کے لیے ایک سبیل پیدا ہو گئی اور وہ تھی دار السلام کا قیام۔ 1937ء کے اواخر کا ذکر ہے کہ ایک دین دار اور صاحب ایثار بزرگ چودھری نیاز علی خان نے پٹھان کوٹ(ضلع گورداسپور) سے کوئی ایک دو میل دور قلعہ جمال پور میں دار السلام کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم کیا اور ایک بہت بڑا قطعہ اراضی اس کے لیے وقت کر دیا۔ تاکہ یہاں کتب خانہ دار المطالعہ اور مصنفین کے لیے مکانات اور دفاتر تعمیر کر دیے جائیں۔ یہ بھی فیصلہ کیا کہ جو علما اور فضلا ادارے سے منسلک ہوں گے، ان سب کے معاش کی کفالت موصوف کی زرعی جائیداد کی آمدنی سے کی جائے۔ چودھری نیاز علی علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مشورے اور تعاون کے طلب گار ہوئے۔ 23؎ علامہ نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا۔ چونکہ مشہور نو مسلم محمد اسد لیو پولڈ وائس وہیں موجود تھے، اس لیے سب سے پہلے انہی کا نام تجویز کیا۔ چودھری نیاز علی نے یہ تجویز قبول کر لی لیکن ساتھ ہی کہا کہ مجھے تو کارکنوں کی ایک پوری جماعت درکار ہے۔ علامہ نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی کا نام تجویز فرمایا، جو اس زمانے میں حیدر آباد دکن سے ’’ترجمان القرآن‘‘ نکالتے تھے۔ علامہ نے کہا’’ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہاد فی الاسلام مجھے بہت پسند آئی ہے۔‘‘ چنانچہ مولانا کو بلانے کا فیصلہ ہو گیا۔ نذیر نیازی کا بیان ہے کہ مولانا کو انہی نے علامہ کی طرف سے خط لکھا اور وہ 18یا19اپریل 38ء کو حیدر آباد دکن سے پٹھان کوٹ پہنچے۔ دو دن بعد علامہ اللہ کو پیارے ہو گئے اور مودودی صاحب ان سے ملاقات نہ کر سکے۔ 24؎ بہرحال زیادہ قابل اعتماد بات وہ معلوم ہوتی ہے جو مولانا مودودی نے مئی 63ء کے ماہ نامہ ’’ سیارہ‘‘ میں بیان فرمائی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصلاً علامہ نے انہیں مدعو کیا تھا۔ اور37ء کے وسط میں وہ خود بھی محسوس کرنے لگے تھے کہ شمالی ہند کام کے لیے زیادہ مناسب جگہ ہے۔ چنانچہ وہ اگست37ء کے اواخر میں لاہور آئے۔ علامہ سے تفصیلی گفتگو کی ۔ وہ لکھتے ہیں:ا نہوں (اقبال) نے مجھ سے فرمایا کہ چودھری نیاز علی صاحب نے جو جگہ وقف کی ہے، میں اسی کا انتخاب کروں۔ جناب عابد نظامی کے ایک خط کے جواب میں مولانا نے بتایا کہ علامہ سے ان کی مراسلت ایک سے زائد مرتبہ ہوئی۔ لیکن مشرقی پنجاب کے ہنگاموں سے اس کا ریکارڈ تلف ہو گیا۔ اس پر عابد نظامی نے ایک خط چودھری نیاز علی صاحب کے نام لکھا اور انہوں نے اپنے جواب مورخہ4 جولائی 69ء میں تفصیلاً بتایا کہ مولانا مودودی کو کس طرح اس کام پر آمادہ کیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں’’ چند روز میرے پاس ٹھہرے اس کے بعد میں مولانا صاحب کو لاہور لے آیا اور اپنے ایک قدیم مہربان بزرگ کے ہاں ٹھہر کر حضرت علامہ کے ساتھ مولانا صاحب کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرایا۔ ہم تین روز لاہور ٹھہرے اور تینوں روز مولانا صاحب کی طویل ملاقاتیں حضرت علامہ کے ساتھ ہوتی رہیں۔ لاہور سے واپسی پر حضرت مولانا صاحب نے مجھے فرمایا کہ اچھا میں آپ کے ادارے میں آ جاتا ہوں۔ میں نے کہا، الحمد للہ۔ 25؎‘‘ یہی وہ ادارہ تھا، جس کے بارے میں حضرت علامہ نے جامعہ ازہر کے سربراہ علامہ مصطفی المراغی کو بھی ایک خط میں لکھا تھا کہ ہم پنجاب کے اسلامی مرکز کے ایک گاؤں میں ایک ایسا دینی ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں، جس میں علوم دینیہ کے ایسے ماہرین اکٹھے کیے جائیں گے جو اپنی زندگیاں خدمت اسلام کے لیے وقف کرنے کو تیار ہوں۔ ان کے لیے اقامت گاہ بھی ہو گی، کتب خانہ بھی۔ علامہ نے المراغی سے ایک ایسا معلم مانگا’’ جو کامل اور صالح ہو اور قرآن حکیم سے بصارت تامہ رکھتا ہو اور نیز انقلاب دور حاضرہ سے بھی واقف ہو۔‘‘ تاکہ وہ مسلمانوں کو اسلام کی روح سے آشنا کرے اور تفکر اسلامی کی تجدید میں مدد دے۔ 26؎ حوالے 1۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول، ص109 2۔ ایضاً، جلد اول، ص426 3۔ ’’ انوار اقبال‘‘ ص176 4۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی، ص84 5۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ ص192 6۔ ’’ انوار اقبال‘‘ صفحات181, 182 7۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ صفحات171, 172 8۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم، صفحات51, 52 9۔ایضاً، ص197 10۔ ’’ مطالعہ اقبال‘‘ ص24 11۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی ص203 12۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول ص46, 47 13۔ ’’ انقلاب‘‘ 10دسمبر1929ء 14۔ Letters and Writings of Iqbal، صفحات61, 62 15۔ ایضاً، صفحات34, 35 16۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص212 17۔ ایضاً، ص212 18۔ Letters and Writings of Iqbal، ص17 19۔ ایضاً، ص19 20۔ Speeches and Statements of Iqbal، ص103 21۔ Letters and Writings of Iqbal، صفحات86, 95 22۔ ذکر اقبال صفحات211, 212 کتاب میں Construction لکھا ہے۔ چونکہ یہ صحیح معلوم نہیں ہوتا، اس لیے اسے اقتباس میں بدل کر Reconstructionکر دیا گیا ہے۔ 23۔ ایضاً، ص213 24۔ ’’ اوراق گم گشتہ‘‘ صفحات81, 83 25۔ ایضاً، صفحات83, 91 26۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول، صفحات251, 252 ٭٭٭ چونتیسواں باب تحریک مسجد شہید گنج زندگی کے کم و بیش آخری تین سالوں میں علالت اور بینائی میں کمی کے باوجود حضرت علامہ نے سیاست میں ایک ایسا کردار ادا کیا، جس کے نتائج دور رس اہمیت کے حامل تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ خود ان کا مشاہدہ نہ کر سکے۔ اس دور میں ان کی توجہ بیک وقت تین مسائل پر مرتکز رہی۔ مسجد شہید گنج کا مسئلہ، پنجاب میں لیگ۔ یونی نسٹ کشمکش اور برعظیم کے مسلمانوں کا سیاسی مستقبل۔ اگر علامہ کی تمام سرگرمیوں کی داستان زمانی ترتیب سے بیان کی جائے، تو واقعات ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جائیں گے اور قارئین کے لیے الجھاؤ کا مسئلہ پیدا ہو گا۔ اس لیے ہم ان تینوں مسائل کے سلسلے میں علامہ کا کردار الگ الگ ابواب کی صورت میں پیش کریں گے۔ 1935ء کے وسط میں مسجد شہید گنج کا مسئلہ اٹھا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ لاہور کے لنڈا بازار کے قریب شاہ جہان کے عہد میں ایک مسجد بنی، جس کا نام مسجد عبداللہ خاں تھا۔ جب سکھوں کا راج آیا، تو انہوں نے اس سے قریب ہی ایک گور دوارہ بنا لیا اور مسجد پر قبضہ کر لیا۔ مدتوں اس سارے رقبے پر سکھ متولی قابض رہے۔ لیکن مارچ1935ء میں حکومت نے یہ رقبہ گور دوارہ پر بندھک کمیٹی کے سپرد کر دیا، جو 1924ء کے گور دوارہ ایکٹ کی رو سے سکھوں کے تمام اوقات کی قانونی جانشین تھی۔ اس کمیٹی نے عمارت کی شکست و ریخت کا سلسلہ شروع کیا، تو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ مسجد کو بھی مسمار کیا جائے گا۔ سکھوں کا دعویٰ تھا کہ مسجد پر ان کا قانونی حق ہے۔ مسلمان کہتے تھے کہ مسجد کو منہدم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مسلمانوں کی طرف سے مظاہروں کا خطرہ پیدا ہوا، تو سکھوں نے جوابی مظاہروں کے لیے باہر سے جتھے منگوا لیے۔ جب کھنچاؤ بڑھا، تو پنجاب کا گورنر سر ہربرٹ ایمرسن 6 جولائی کو لاہور پہنچا۔ اس سے مسلمانوں کا ایک وفد ملا۔ جس نے مطالبہ کیا، کہ اگر مسجد پر سکھوں کا قانونی حق فائق ہے، تو حکومت کم سے اتنا تو کر سکتی ہے کہ انہیں مسجد کا معاوضہ دے کر اسے آثار قدیمہ کے محکمے کے حوالے کر دے۔ گورنر نے غور کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن سکھوں نے 8 جولائی کی رات کو مسجد گرانی شروع کر دی اور صبح تک ملبے کا ڈھیر کر دیا۔ اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سب کچھ فوج اور پولیس کے پہرے میں ہوا۔ گویا ایک لحاظ سے اس سنگ دلی اور دھاندلی کے پیچھے حکومت کا ہاتھ کام کر رہا تھا۔ اعتدال پسند مسلمان رہنماؤں نے عوام کا جوش ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ حکومت نے ایک طرف کرفیو لگایا اور اخبارات پر سنسر شپ عائد کیا۔ دوسرے مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے مسجد شاہ چراغ وا گذار کر دی۔ یاد رہے کہ یہ مسجد جو ہائی کورٹ کے متصل واقع ہے، اس وقت تک سرکاری دفاتر پر مشتمل تھی۔ بہرحال مسلمانوں کا جوش سرد نہ پڑا۔ 14جولائی کو باغ بیرون موچی دروازہ میں ان کا ایک زبردست جلسہ ہوا، جس سے ظفر علی خان اور دوسرے رہنماؤں نے خطاب کیا اور سول نافرمانی کے لیے تیاری کا اعلان بھی کر دیا۔ مولانا نے کہا کہ ہم نے مجلس احرار کے رہنماؤں کو دعوت دی کہ اس جلسے میں شامل ہوں لیکن انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ یہاں سے احرار کے خلاف نفرت کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہوا، جس کی صدائے باز گشت مدتوں تک سنائی دیتی رہی اور مجلس احرار اپنی وہ ہر دلعزیزی کھو بیٹھی، جو اس نے تحریک کشمیر اور تحریک ختم نبوت میں حاصل کی تھی۔ حکومت نے راتوں رات مولانا ظفر علی خان، ملک لال دین قیصر، میاں فیروز الدین احمد، ملک لال خان، سید حبیب اور دوسرے لیڈروں اور نمایاں کارکنوں کو نظر بند کر لیا۔ چونکہ مجلس احرار کنارہ کش تھی اور تحریک شہید گنج کے رہنما نظر بند تھے، اس لیے تحریک کچھ نوجوانوں کے قبضے میں آ گئی۔ انہوں نے مسجد شہید گنج کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا۔ پولیس اور فوج نے روکا وہ نہ رکے اس لیے فوج نے گولی چلائی اور بہت سے نوجواں شہید ہو گئے اس کے بعد وقتاً فوقتاً بعض نوجوان کارکنوں نے سول نافرمانی کا بازار گرم رکھا۔ جب ہنگاموں کا آغاز ہوا، تو علامہ بستر علالت پر تھے ان کا دل تو بہت دکھا ہوا تھا لیکن بے بس اور لاچار تھے اور 15 جولائی کو وہ برقی علاج کے لیے عازم بھوپال ہو گئے۔ وہاں قریب قریب چھ ہفتے علاج کا عمل جاری رہا۔ واپسی پر 29اگست کو دہلی پہنچے۔ وہاں کانگرسی رہنما ڈاکٹر سید محمد سے ملاقات ہوئی۔ جہاں دوسرے مسائل زیر بحث آئے، وہاں سید نذیر نیازی کے بیان کے مطابق انہوں نے سید محمود سے شہید گنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’ آپ مسلمانوں سے مایوس کیوں ہیں۔ آپ نہیں جانتے، حکومت اور حکومت کی طرف داروں نے انہیں کس طرح دبا رکھا ہے۔ ورنہ شاید اس ایک مسجد کے بدلے میں کیا کچھ ہو جاتا۔ مسلمانوں میں قربانی کا بڑا مادہ ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ ان کی صفیں منظم نہیں۔ نہ کوئی ایسا صاحب نظر اور اولو العزم انسان ہے جو ان کی رہنمائی کرے۔ 2؎‘‘ لاہور پہنچے تو تحریک کو منتشر پایا۔ اس لیے خاموش رہے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تحریک کے اصل رہنما اسیر فرنگ تھے۔ فروری 36ء کے آخری عشرے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو کچھ لوگوں نے لاہور بلایا تاکہ وہ کوئی مفاہمت کرا دیں۔ لیکن انہی دنوں بھوپال میں برقی علاج کا اگلا کورس ہونا تھا، اس لیے علامہ بھوپال چلے گئے اور ان کی غیر حاضری میں قائد اعظم کو بلایا گیا تاکہ وہ مفاہمت کی کوئی صورت نکالیں۔ انہوں نے لیڈروں سے بھی ملاقات کی اور گورنر سے بھی گورنر نے کہا کہ اگر سول نافرمانی بند کر دی جائے اور مسلمان مسجد کی بازیابی کے لیے آئینی طریق سے جدوجہد کریں تو وہ تمام قیدی رہا کرنے کو تیار ہیں۔ چنانچہ تحریک کے کارکن سول نافرمانی بند کرنے پر رضا مند ہو گئے اور رات بھر میں جیلوں سے تمام قیدی اور دور دراز مقامات سے نظر بند لیڈر رہا ہو کر لاہور پہنچنا شروع ہو گئے۔قائد اعظم نے سکھوں کو بھی سمجھایا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی معقول سمجھوتا کر لیں اور اس سلسلے میں ایک شہید گنج مصالحتی بورڈ نامزد کر دیا۔ جس کے ارکان یہ تھے: علامہ اقبال، مولوی عبدالقادر قصوری، میاں عبدالعزیز بار ایٹ لائ، راجہ نریندر ناتھ، پنڈت نانک چند بار ایٹ لائ، سردار بوٹا سنگھ ایڈووکیٹ، سردار اجل سنگھ، سردار سمپورن سنگھ اور میاں احمد یار خان دولتانہ (کنوینئر) 3؎ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ علامہ کو ان کی غیر حاضری میں نامزد کیا گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں نے ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔ بنائے دعویٰ یہ تھی کہ شریعت کی رو سے مسجد ہمیشہ رہتی ہے اور کوئی شخص اس پر قابض ہو کر مسلمانوں کو ادائے نماز سے نہیں روک سکتا۔ 25مئی 36ء کو یہ دعویٰ اس بنا پر خارج ہو گیا کہ عام جائیداد غیر منقولہ کی طرح مسجد بھی فریق ثانی کے قبضہ مخالفانہ میں جا کر اپنی اصل حیثیت کھو بیٹھی ہے۔ چونکہ مصالحتی بورڈ بھی اپنے مقصد میں ناکام رہا تھا، اس لیے حضرت علامہ کے مشورے سے ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ اس دوران میں آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ اہم سالانہ اجلاس 37ء میں لکھنو کے مقام پر ہوا، جہاں سے لیگ کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ اس سیشن میں مسجد شہید گنج پر ایک جامع قرار داد منظور ہوئی اور قائد اعظم نے وعدہ کیا کہ اگر اس مسئلے کا کوئی مناسب فیصلہ نہ ہوا، تو مسلم لیگ کا ایک خصوصی سیشن منعقد کیا جائے گا۔ 26جنوری 38ء کو پنجاب ہائی کورٹ نے مسلمانوں کی اپیل خارج کر دی۔ فل بنچ میں چیف جسٹس ینگ، مسٹر جسٹس بھڈے اور مسٹر جسٹس دین محمد شامل تھے۔ اول الذکر دو ججوں نے فیصلہ دیا کہ جہاں تک قبضہ مخالفانہ کا تعلق ہے، مسجد کو عام جائیداد غیر منقولہ سے الگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے مسجد شہید گنج میں مسلمانوں کا نماز ادا کرنے کا حق مدتوں پہلے ساقط ہو چکا ہے۔ مسٹر جسٹس دین محمد نے اس رائے سے اختلاف کیا اور اپنا فیصلہ الگ دیا۔ جس دن مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ان کی اپیل خارج ہو گئی ہے، ان کے غصے اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی؟ بادشاہی مسجد میں جلسے کا اعلان ہوا۔ شہر کے مختلف حصوں سے جلوس نکلے۔ اسلامیہ کالج کے طلبہ نے بھی جلوس نکالا۔ یہ سب جلوس بادشاہی مسجد میں ختم ہوئے اور کم از کم پچاس ہزار کا اجتماع ہو گیا۔ اس جلسے میں مولانا ظفر علی خان نے لوگوں کو صبر کی تلقین فرمائی۔ اس سے اگلے دن مولانا ظفر علی خان علامہ سے ملے۔ اس سلسلے میں علامہ نے سید نذیر نیازی کو بتایا’’ مولوی صاحب پوچھتے تھے، اب کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ قانون شکنی کی تحریک عام کر دی جائے بلکہ اس میں سارا ہندوستان شریک ہو۔ یوں مسجد تو شاید نہ ملے لیکن یہ تو ظاہر ہو جائے گا کہ مسلمان اپنے قوق کے لیے ایجی ٹیشن کرنا جانتے ہیں مسجد کی قربانی اگر مسلمانوں کے لیے زندگی کا وسیلہ بن جائے، تو کیا برا ہے؟ ایجی ٹیشن ہوئی، تو ہو سکتا ہے کہ اس سیلاب میں کچھ خس و خاشاک بھی بہ جائیں۔‘‘ علامہ کے نزدیک ہائی کورٹ کے فیصلے میں قانون سے بڑھ کر سیاسی مصالح کا لحاظ رکھا گیا۔ وہ جسٹس دین محمد کے فیصلے کو صحیح سمجھتے تھے۔ کیونکہ ’’ اسلامی فقہ کی رو سے جائیداد میں خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو وقف ہو یا غیر وقف، منقولہ اور غیر منقولہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نہ اس پر کوئی حق ملکیت قائم ہو سکتا ہے۔ نہ قانون تحدید املاک کا اطلاق ممکن ہے۔‘‘ علامہ نے یہ بھی کہا کہ ’’ حکومت بظاہر قانون کی آڑ لے رہی ہے۔ لیکن قانون کے پردے میں ایک بہت بڑا سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ حکومت چاہتی ہے، مسلمانوں کے مقابلے میں سکھوں کو مضبوط کرے۔ ہندوؤں کے لیے بھی کسی توڑ کی ضرورت ہے۔ حکومت جو کچھ کر رہی ہے، وہ قانون ہے، نہ سیاست، نہ کسی قوم کے مذہبی جذبات، نہ معاہدہ کا احترام۔ 4؎‘‘ ارباب حکومت چاہتے تھے کہ مسلمان پریوی کونسل میں اپیل کریں تاکہ اس دوران میں ان کے جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں۔ سر سکندر کی وزارت کا زمانہ تھا۔ موصوف نے بعض یونینسٹ رہنماؤں کو علامہ کے پاس بھیجا تاکہ ان سے ایک بیان دلائیں کہ ابھی پریوی کونسل میں اپیل کا مرحلہ باقی ہے علامہ نے ایسا بیان دینے سے انکار کر دیا اور جب اخباروں میں یہ خبر چھاپی گئی کہ علامہ کے ہاں رہنماؤں کے اجتماع میں اپیل کا فیصلہ ہوا ہے، تو انہیں اس پر بہت غصہ آیا اور انہوں نے ایک تردیدی بیان جاری کیا۔ 30جنوری 38ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس دہلی میں ہوا۔ جہاں دو فیصلے ہوئے ایک یہ کہ یکم فروری کو سارے ہندوستان میں یوم شہید گنج منایا جائے دوسرے اس مسئلے پر آئندہ پروگرام بنانے کے لیے لیگ کا اجلاس خصوصی بلایا جائے۔ بہرحال حضرت علامہ نے ایک ایسا اقدام کیا جس سے عارضی طور پر پنجاب کی وزارت ڈولنے کا سامان فراہم ہو گیا۔ انہوں نے ملک برکت علی سے کہہ کر پنجاب اسمبلی میں تحفظ مساجد کا بل پیش کرا دیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ مساجد کو رائج الوقت قانون سے مستثنیٰ کیا جائے اور اس کا اطلاق ماضی پر بھی ہو اگر یہ قانون منظور ہو جاتا، تو مسجد شہید گنج کے بارے میں ہائی کورٹ کا فیصلہ خود بخود کالعدم ہو جاتا ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی اس بات کے گواہ ہیں کہ اس قانون کا پورا خاکہ علامہ اقبال نے تجویز کیا لیکن عبارت ملک برکت علی کی تھی۔ 5؎ راقم الحروف ان دنوں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سیکرٹری تھا۔ ہم نے اس بل کے حق میں ایک جلسہ عام برکت علی اسلامیہ ہال میں منعقد کیا۔ اور مقامات پر بھی جلسے ہوئے سر سکندر اس قانون کے مخالف تھے۔ والد مرحوم (مولانا عبدالمجید سالک) کی زبانی مخالفت کی بنا یہ معلوم ہوئی کہ اگر ہندو اکثریتی صوبوںمیں ہندوؤں نے ان منادر کی بازیابی کے لیے ایسے قوانین منظور کرا لیے، جن کے مقامات پر بعد میں مساجد تعمیر ہوئیں تو اس سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہو گا۔ یہ دلیل اس وقت تو صحیح معلوم نہیں ہوتی تھی لیکن آج درست معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ پاکستان بننے کے تیس سال بعد بھی ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ گور دوارہ شہید گنج کا وہ حصہ مسجد کی صورت میں بدل لیں جہاں اصل مسجد واقع تھی۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں ایسی مساجد پر غیروں کا قبضہ ہو جائے جو مسلمانوں کے عہد حکومت میں مندروں کی جگہ تعمیر ہوئی تھیں۔ بہرحال ملک برکت علی کے بل کے حق میں یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ارکان نے ووٹ دینے کا وعدہ کیا۔ اس کا تذکرہ علامہ نے وفات سے ڈیڑھ ماہ پہلے اس خط میں کیا تھا جو انہوں نے جناب غلام رسول بیرسٹر کی وساطت سے قائد اعظم کے نام بھجوایا اس میں کہا گیا کہ شہید گنج کے مسئلے پر لیگ کا خصوصی اجلاس لاہور میں ہو پریوی کونسل میں اپیل کی تجویز سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا گیا، ملک برکت علی کی حمایت کی گئی اور قائد اعظم کو بتایا کہ سول نافرمانی کی تحریک روز بروز تقویت پکڑ رہی ہے آثار ایسے تھے کہ اس مسئلے پر یونینسٹ پارٹی میں پھوٹ پڑ جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا سر سکندر نے اپنے ساتھیوں کو اس قانون سے پیدا ہونے والے وسیع تر مفادات سے آگاہ کیا اور ان کی پوری تائید و حمایت حاصل کر لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مسودہ قانون پیش ہی نہ ہو سکا۔ تحریک مسجد شہید گنج حضرت علامہ نے براہ راست کوئی حصہ نہ لیا اور نہ ایسا کرنا ممکن تھا کیونکہ وہ تو بستر علالت پر دراز تھے۔ تقریر کرنے کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بیان بھی لکھتے نہیں تھے بلکہ لکھواتے تھے۔ وہ تو محض مشورہ دے سکتے تھے لیکن صورت حالات یہ تھی کہ احرار بدنام و رسوا ہو کر گوشہ نشین تھے۔ مولانا ظفر علی خان مصالحت پسندی کی طرف راغب تھے لے دے کے مسلم لیگ کا برکت علی گروپ تھا۔ جو علامہ کا مشورہ قبول کرتا تھا۔ لیکن عوام میں اس گروپ کی جڑیں مضبوط نہیں تھیں۔ ویسے بھی جب سے سر سکندر صوبہ لیگ کی قیادت پر قابض ہوئے تھے، اس گروپ کی اہمیت پہلے سے بھی کم ہو چکی تھی۔ بس ایک پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی جو جلسے کرنے پر قادر تھی۔ لیکن وہ جلسوں سے زیادہ کیا کر سکتی تھی؟ مسجد شہید گنج کی بازیابی علامہ کے نزدیک ایک اہم مسئلہ تھی۔ لیکن وہ تو پورے شمال مغربی ہند اور شمال مشرقی ہند کو مسجد بنانا چاہتے تھے۔ ان کی نظر بلندیوں پر تھی اور وہ اگر قانون شکنی کی تحریک کا اجرا چاہتے تھے تو اس لیے کہ مسلمانوںمیں ایک نیا احساس قوت پیدا ہو اور وہ آنے والی بڑی جنگ کے لیے تیار ہوں۔ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ مارشل لاء سے مارشل لاء تک‘‘ صفحات166, 170 2۔ ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص288 3۔ ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ صفحات571, 576 4۔ ’’ اقبال کے حضور‘‘ صفحات121, 122 5۔ ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ ص590 ٭٭٭ پینتیسواں باب مسلم لیگ، انتخابات، یوم اقبال اپریل 1936ء میں مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ نئے آئین کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں، تو ان میں اپنے ٹکٹ پر امیدوار کھڑے کرے ۔ لیکن برعظیم کے مسلم اکثریتی صوبوں میں ایسے مضبوط عناصر بھی موجود تھے جو مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے بارے میں تو لیگ سے متفق تھے لیکن انتخابات میں حصہ لینے کے لیے صوبائی پارٹیاں بنا رہے تھے۔ بنگال میں مولوی فضل الحق کی کرشک پروجا پارٹی سرگرم عمل تھی، سندھ میں سر عبداللہ ہارون نے یونائیٹڈ پارٹی بنائی۔ سرحد میں صاحبزادہ سر عبدالقیوم نے بھی اسی قسم کی جماعت بنا لی اور پنجاب میں سر فضل حسین نے یونی نسٹ پارٹی کو از سر نو منظم کیا۔ لیکن وہ جلد انتقال کر گئے اور ان کی جگہ سردار سکندر حیات خان نے پارٹی کی قیادت سنبھال لی۔ قائد اعظم چاہتے تھے کہ صوبائی پارٹیاں ختم کر دی جائیں اور ہر جگہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات لڑا جائے۔ چنانچہ وہ لاہور آئے اور میاں فضل حسین سے ملاقات کی۔ قائد اعظم نے اپنا موقف واضح کیا اور کہا کہ انتخاب کے بعد میاں فضل حسین، چودھری چھوٹو رام کے ساتھ اشتراک کر سکتے ہیں۔ لیکن اسمبلی کے باہر تمام مسلمان مسلم لیگ کے پرچم تلے انتخابی جنگ لڑیں۔ میاں فضل حسین نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلمانوں کی اکثریت صرف اکیاون فیصد ہے۔ ان میں سے دو چار نشستیں دوسری پارٹیاں لے جائیں گی۔ ہمیں وزارت کی تشکیل کے لیے کسی ایسے ہندو گروہ کے تعاون کی ضرورت ہے، جس سے ہمارے معاشی مفادات مشترک ہوں اور یہ گروہ چودھری چھوٹو رام کا ہے اس لیے ہم نے ایک غیر فرقہ وار پارٹی بنا رکھی ہے چونکہ دونوں کے نقطہ ہائے نگاہ میں بنیادی اختلاف تھا، اس لیے بات چیت ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد قائد اعظم نے علامہ اقبال کی طرف رخ کیا۔ ان دونوں میں چند سال پہلے جداگانہ انتخاب کے مسئلے پر شدید اختلاف رہا تھا۔ یہاں تک کہ علامہ جناح لیگ کی حریف شفیع لیگ کے سیکرٹری رہے اور ا سکے بعد قائد اعظم برطانیہ میں مقیم ہوئے اور علامہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کی صدارت کے فرائض ادا کرتے رہے۔ دونوں کے درمیان کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ لیکن ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی بتاتے ہیں کہ جب دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں علامہ لندن آئے اور اقبال ایسوسی ایشن نے ان کے اعزاز میں تقریب برپا کی، تو اس میں نہ صرف محمد علی جناح شامل تھے بلکہ انہوں نے علامہ کی مدح و ستائش میں ایک فصیح تقریر بھی کی تھی اور جب علامہ تیسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن پہنچے تو وہاں مختصر قیام کے دوران ملاقاتیں ہوتی رہیں۔1؎ بہرحال اس ربط و ضبط کی کوئی دستاویزی شہادت موجود نہیں ہے۔ ہوتی تو ڈاکٹر صاحب اس کا حوالہ دیتے۔ دونوں کی ملاقات میں کیا ہوا یہ علامہ کے ایک دیرینہ نیاز مند فضل کریم خان درانی کی زبانی سنئیے: مسٹر جناح اپنی روایتی جامہ زیبی اور خوش پوشاکی کا ایک دل آویز مرقع بنے ہوئے تشریف لائے۔ اعلیٰ درجے کی ولایتی دکان کا سلا ہوا بیش قیمت سوٹ پہن رکھا تھا اور چال جیسے کڑی کمان کا تیر۔ ادھر ڈاکٹر صاحب کی درویشی اور بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ جسم پر سوائے بنیان اور دھوتی کے اور کوئی چیز نہ تھی ۔ جب گفتگو شروع ہوئی، تو ڈاکٹر صاحب نے امداد کا پورا وعدہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ اودھ کے تعلقہ داروں یا بمبئی کے کروڑ پتی سیٹھوں کی قسم کے لوگ پنجاب میں تلاش کریں گے تو یہ جنس میرے پاس نہیں ہے۔ میں صرف عوام کی مدد کا وعدہ کر سکتا ہوں۔ یہ بات سن کر مسٹر جناح کرسی سے دو انچ اٹھے اور بڑے جوش سے کہنے لگے، مجھے صرف عوام کی مدد درکار ہے۔ 2؎ علامہ سے ملاقات کے بعد مجلس احرار اور مجلس اتحاد ملت کے رہنماؤں سے گفتگو ہوئی۔ مجلس احرار نے لیگ پارلیمانی بورڈ میں شرکت کے لیے دو شرطیں پیش کیں۔ اول: لیگ کا نصب العین درجہ نوآبادیات کی جگہ کامل آزادی ہونا چاہیے۔ دوم: قادیانیوں کو لیگ میں شامل نہ کیا جائے۔ قائد اعظم ان چیزوں کے بارے میں کوئی فوری یقین دہانی نہیں کرا سکتے تھے کیونکہ فیصلے کا اختیار تو مسلم لیگ کو تھا بہرحال یہ دونوں جماعتیں تعاون پر راضی ہو گئیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مجلس اتحاد ملت کے صدر مولانا ظفر علی خان تھے اور یہ جماعت تحریک مسجد شہید گنج میں احرار کے خلاف رد عمل کے طور پر اور ایک حریف جماعت کی حیثیت سے ابھری تھی۔ 8مئی 1936ء کو علامہ اقبال اور مسلم لیگ کے دوسرے لیڈروں نے ایک مشترکہ بیان میں قائد اعظم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اس بات کی تردید کی کہ پنجاب میں ان کا مشن ناکام رہا ہے۔ چار دن بعد لاہور میں لیگ کے رہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا۔ جس کی صدارت حضرت علامہ نے فرمائی۔ یہاں انہیں صوبہ مسلم لیگ کا صدر چن لیا گیا۔ 21مئی 36ء کو قائد اعظم نے لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے ارکان کے اسما کا اعلان کر دیا۔ جس میں پنجاب سے یہ حضرات نامزد کیے گئے تھے۔ علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان (اتحاد ملت)، مولانا محمد اسحاق مانسہروی (اتحاد ملت) سید زین العابدین شاہ گیلانی (اتحاد ملت) ، میاں عبدالعزیز بار ایٹ لائ، مولانا عبدالقادر قصوری، راجہ غضنفر علی خان، شیخ حسام الدین (احرار)، چودھری افضل حق(احرار)م چودھری عبدالعزیز بیگووال (احرار)، خواجہ غلام حسین ایڈووکیٹ (احرار) ان گروہوں کے مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ اس لیے اتحاد باقی رہنا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ چند دنوں کے اندر اندر مولانا ظفر علی خان اس بنا پر اپنے ساتھیوں سمیت الگ ہو گئے کہ مجلس اتحاد ملت آزادی کامل کی داعی ہے اور لیگ درجہ نو آبادیت کی ان کے بعد احرار بھی اسی قسم کا کوئی بہانہ بنا کر نکل گئے اور اس طرح لیگ بے دست و پا ہو کر رہ گئی۔ برکت علی گروپ تو یونینسٹ پارٹی سے کسی مفاہمت کو برداشت نہیں کرتا تھا لیکن حضرت علامہ پنجاب کے سیاسی مزاج سے آگاہ تھے۔ اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی مفاہمت ہو جائے تو اس میں مسلمانوں کا فائدہ ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے 25جون 36ء کو قائد اعظم کے نام ایک ’’ نجی اور خفیہ‘‘ خط میں لکھا:’’ احمد یار دولتانہ مجھے کل شام ملے۔ وہ کہتے ہیں کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ارکان یہ اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ ایک کل ہند اقلیت کی حیثیت سے مسلمان قوم کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام مخصوص معاملات میں وہ لیگ کے فیصلوں کے پابند ہوں گے اور اس معاملے میں صوبائی اسمبلی کے اندر کسی غیر مسلم گروپ کے ساتھ کبھی کوئی معاہدہ نہیں کریں گے لیکن شرط یہ ہے کہ صوبہ لیگ یہ اعلان کرے کہ جو لوگ لیگ ٹکٹ پر اسمبلی کے رکن چنے جائیں گے، وہ اس پارٹی یا گروپ سے تعاون کریں گے جس میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد شامل ہو گی۔ از راہ کرم مجھے بتائیے کہ اس سلسلے میں آپ کی رائے کیا ہے3؎‘‘ اسی خط میں علامہ نے قائد اعظم کو بتایا کہ سر سکندر حیات آپ سے بمبئی میں ملیں گے اگر آپ انہیں اپنے موقف کا قائل کر لیں، تو ممکن ہے وہ ہمارے ساتھ مل جائیں۔ حقیقت یہ تھی کہ میاں فضل حسین بستر مرگ پر تھے۔ سکندر حیات ان کی جگہ لینے والے تھے۔ لیکن وہ عبوری دور میں دونوں فریقوں کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے تھے۔ 9 جولائی کو میاں فضل حسین انتقال کر گئے اور ان کے بعد سر سکندر یونینسٹ پارٹی کے لیڈر بن گئے۔ اگست میں حضرت علامہ صوبہ مسلم لیگ کے پارلیمانی بورڈ کی صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ کیونکہ علالت کی وجہ سے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ہر اجلاس میں شرکت کرتے۔ بہرحال ان کی رکنیت برقرار تھی اور وہ بہرحال صوبہ مسلم لیگ کے صدر تو تھے۔ ان کا اب بھی یہی خیال تھا کہ یونینسٹ پارٹی کے ساتھ مفاہمت ہو جائے تو اس سے اچھا نتیجہ برآمد ہو گا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو لوگ صوبہ مسلم لیگ میں پیش پیش ہیں وہ خلوص نیت کے باوجود اتنا اثر نہیں رکھتے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ چنانچہ انہوں نے 23 اگست 36ء کو قائد اعظم کے نام ایک اور خط میں لکھا:’’ پنجاب لیگ پارلیمانی بورڈ اور یونینسٹ پارٹی کے درمیان مفاہمت کا کچھ چرچا ہو رہا ہے۔ میں آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ایسی مفاہمت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اور آپ اس کے لیے کون شرائط تجویز فرماتے ہیں۔ میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ آپ نے بنگال پروجا پارٹی اور لیگ پارلیمانی بورڈ کے درمیان ایک سمجھوتا کرایا ہے میں اس کی شرائط معلوم کرنا چاہتا ہوں چونکہ پروجا پارٹی بھی یونینسٹ پارٹی کی طرح غیر فرقہ وار جماعت ہے، اس لیے بنگال میں آپ کا سمجھوتا یہاں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔ 4؎‘‘ علامہ کی دوسری خواہش یہ تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا پارلیمانی بورڈ جو منشور شائع کرے، اس میں واضح طور پر بتائے کہ حکومت اور ہندوؤں کے درمیان مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے۔ وہ منشور کا متن بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے قائد اعظم کے نام 9 جون36ء کے مکتوب میں کیا تھا۔ بہرحال یہ معلوم نہیں کہ علامہ کو منشور کا متن اشاعت سے پہلے دکھایا گیا یا نہیں۔ یہ منشور بہت سی باتوں میں کانگرس کے منشور سے ملتا جلتا تھا۔ 1916ء کے میثاق لکھنو کو ایک سنگ میل اور مشعل راہ قرار دیا گیا ۔ لیکن یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اسے حرف آخر تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کمیونل ایوارڈ کو قبول کیا گیا۔ مجوزہ فیڈریشن کو برطانوی ہند کے لیے حد درجہ مہلک نقصان دہ اور رجعت پسندانہ قرار دیا گیا اور ناقابل عمل بھی۔ ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشی اور معاشری نظام کے قیام پر زور دیا گیا لیکن ذاتی املاک کی ضبطی کی مخالفت کی گئی۔ 5؎ صوبائی مسلم لیگ کا منشور بھی انہی خطوط پر تیار کیا گیا لیکن اس میں چند نئی باتیں بھی شامل تھیں۔ مثلاً قانون انتقال اراضی کی حمایت انکم ٹیکس کے اصول پر مالیے کی تشخیص، مسلمانوں میں شہری اور دیہاتی کے امتیازات کا خاتمہ، اسلامی تمدن کی حفاظت، اوقاف کی بہتر تنظیم کے لیے شرع اسلامی کے مطابق موثر قوانین کا نفاذ، مساجد اور دوسرے مقدس مقامات کی مرمت اور حفاظت کا محکم بندوبست۔ ظاہر ہے، اس منشور کی ترتیب میں علامہ کے مشورے شامل تھے۔ بہرحال انتخابات میں کامیابی کے لیے محض منشور کافی نہ تھا۔ بالخصوص اس زمانے میں جب سیاسی جماعتیں پہلی مرتبہ منشور جاری کر رہی تھیں کامیابی کے لیے ایک تو مضبوط تنظیم درکار تھی اور ایسے کارکن بھی جن کا رابطہ عوام کے ساتھ محکم ہو اور صبہ مسلم لیگ ان دونوں اہم عناصر سے محروم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو حرکت میں نہ لا سکی اگر احرار اتحاد ملت اور مسلم لیگ کا اتحاد باقی رہتا تو شاید یونینسٹ پارٹی کے مقابلے میں کسی قدر جدوجہد ہو سکتی۔ لیکن ان سب کی قوتیں تو منتشر تھیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ احرار اور اتحاد ملت والے تو پبلک جلسے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن مسلم لیگ کا یہ خانہ بھی خالی تھا۔ چنانچہ جب 11اکتوبر36ء کو مسلم لیگ نے اپنی انتخابی مہم کا پہلا جلسہ کیا اور اس سے قائداعظم نے بھی خطاب کیا تو مسلم لیگ کے اپنے پرجوش کارکن ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کے قول کے مطابق ’’ جلسہ نہایت مختصر اور بے رونق تھا۔ حاضرین کی تعداد مشکل سے ہزار ڈیڑھ ہزار کے قریب تھی۔ 6؎‘‘ اسی ایک بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عوام میں مسلم لیگ کے اثر و رسوخ کا کیا عالم تھا۔ جب امیدوار کھڑے ہونے کا وقت آیا، تو مسلم لیگ صرف سات مسلم حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر سکی۔ ان میں صرف دو کامیاب ہوئے۔ ایک ملک برکت علی، دوسرے راجہ غضنفر علی خان۔ طرہ یہ کہ راجہ صاحب کامیاب ہوتے ہی یونینسٹ پارٹی سے جا ملے اور ملک برکت علی اکیلے رہ گئے۔ احرار اور اتحاد ملت اور کانگرس نے دو دو مسلم نشستیں جیتیں۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے اور ڈاکٹر عاشق بٹالوی کے بیان کے مطابق انہیں حضرت علامہ کی تائید حاصل تھی۔ باقی ساری مسلم نشستوں سے یونینسٹ پارٹی کے امیدوار کامیاب ہو گئے۔ اس لیے نہیں کہ یونینسٹ پارٹی کوئی عوامی جماعت تھی بلکہ محض اس لیے کہ اس میں جاگیردار اور زمیندار جمع تھے اور ایک جزوی سبب یہ بھی تھا کہ دیہاتیوں کا تعلیم یافتہ طبقہ اس پارٹی کے مارضی کے بعض کاموں سے متاثر تھا۔ مسلم لیگ اگر کچھ مقبول ہونے لگی تو انتخابات کے بعد جناب خالف لطیف گابا اتحاد ملت کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن چنے گئے، تو انہوں نے مرکزی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس مرکزی حلقے سے مولانا ظفر علی خان امیدوار ہوئے تو کانگرس نے ان کے مقابلے پر ایک غیر سیاسی، مال دار ٹھیکیدار عبدالعزیز کو کھڑا کر دیا۔ اس سے کانگرس کے وقار میں کمی ہوئی۔ دوسری طرف کانگرس کے مسلم دشمن رویے کے پیش نظر کیا یونینسٹ اور کیا مسلم لیگ، سب نے تہیہ کر لیا کہ مولانا ظفر علی خان کو کامیاب کرایا جائے۔ حریف امیدوار پر زیادہ دباؤ پڑا تو اس نے خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے عزت و آبرو کے ساتھ دست بردار ہونے دیا جائے۔ چنانچہ حضرت علامہ نے ایک ثالثی بورڈ قائم کیا جس میں ملک برکت علی اور میاں عبدالعزیز بار ایٹ لاء کے علاوہ یونینسٹ پارٹی کی وزارت کی پارلیمانی سیکرٹری بیگم شاہ نواز بھی شامل تھیں۔ ان تینوں نے مولانا ظفر علی خان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ چنانچہ عبدالعزیز نے اپنا نام واپس لے لیا اور مولانا منتخب ہو گئے۔ انہی دنوں مولانا ظفر علی خان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے چونکہ وہ ایک خالص عوامی شخصیت تھے، اس لیے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی بدولت صوبہ مسلم لیگ کی بے دست و پائی کا دور ختم ہوا اور وہ بھی زندوں میں شمار ہونے لگی۔ جب کانگرس نے چھ ہندو اکثریتی صوبوں میں اپنی وزارتیں بنائیں، تو ان میں وہی اکا دکا مسلمان وزیر بنا لیا جو اتفاق سے کانگرس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوا اور مسلم لیگ پارٹیوں سے کولیشن کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ ان صوبوں میں وہی مسلمانوں کی صحیح نمائندہ تھیں۔ دوسرے، کانگرس نے اقتدار کے نشے میں آکر مسلمانوں سے زیادتیاں شروع کر دیں۔ تیسرے، بڑے دھڑلے سے اعلان کیا کہ ہندوستان میں دو ہی قوتیں ہیں۔ ایک حکومت، دوسری کانگرس تیسری کوئی قوت موجود نہیں۔ چوتھے، مسلم لیگ کو نظر انداز کر کے مسلم عوام سے براہ راست رابطے کی مہم شروع کی اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے روپے کا بے دریغ استعمال کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سارے برعظیم میں چوکنا ہونے لگے اور انہوں نے محسوس کیا کہ نجات کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ یہی وہ فضا تھی جس میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے جنم لیا اور حضرت علامہ کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی اور مسلم طلبہ کے جوش و خروش کی بدولت صوبائی سیاست کا ایک موثر عنصر بن گئی۔ جب اکتوبر37ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا، تو اس میں شرکت کے لیے وہ تمام عناصر آئے جو پہلے لیگ سے روٹھے ہوئے تھے۔ بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق، آسام کے وزیر اعلیٰ سر سعد اللہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار سکندر حیات اپنی اپنی پارٹیوں کے سارے ارکان سمیت مسلم لیگ سے آ ملے۔ یہیں سے محمد علی جناح قائد اعظم کے نام سے یاد کیے جانے لگے۔ کیونکہ اب وہ دھڑلے کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ مسلم لیگ مسلمانان ہند کی واحد سیاسی اور نمائندہ جماعت ہے۔ سردار سکندر حیات اور ان کے ساتھیوں کی لیگ میں شمولیت اس مفاہمت کا نتیجہ تھی جو ان کے اور قائد اعظم کے درمیان ہوئی اور جس کا یہ متن لکھنو سیشن میں سنایا گیا۔ 1۔ سر سکندر حیات خان واپس پنجاب جا کر اپنی پارٹی کا ایک خاص اجلاس منعقد کریں گے۔ جس میں پارٹی کے ان تمام ممبروں کو جو ابھی تک مسلم لیگ کے ممبر نہیں بنے ہدایت فرمائیں گے کہ وہ سب مسلم لیگ کے حلف نامے پر دستخط کر کے لیگ میں شامل ہو جائیں اندریں حالات وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی بورڈ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے۔ لیکن یہ معاہدہ یونینسٹ پارٹی کی موجودہ کولیشن پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ 2۔ اس معاہدے کے قبول کے بعد آئندہ مجلس قانون ساز کے عام اور ضمنی انتخابات میں وہ متعدد فریق جو موجودہ یونینسٹ پارٹی کے اجزائے ترکیبی ہیں، متحدہ طور پر ایک دوسرے کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ 3۔ یہ کہ مجلس قانون ساز کے وہ مسلم ارکان، جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں یا اب لیگ کی رکنیت قبول کرتے ہیں، اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی متصور ہوں گے۔ ایسی مسلم لیگ پارٹی کواجازت ہو گی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی پالیسی اور پروگرام کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسری پارٹی سے تعاون یا اتحاد کرے۔ اس قسم کا تعاون انتخابات کے ما قبل یا ما بعد ہر دو صورتوں میں کیا جا سکتا ہے۔ نیز پنجاب کی موجودہ متحدہ جماعت اپنا موجودہ نام یونینسٹ پارٹی برقرار رکھے گی۔ 4۔ مذکورہ بالا معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے پراونشل پارلیمنٹری بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میں لائی جائے گی۔ 7؎ اس مفاہمت کے متن سے علامہ نا آشنا تھے۔ اصولاً وہ مفاہمت کے قائل تھے۔ لیکن جب مفاہمت کی تاویل کے سلسلے میں فریقین میں بحث چھڑ گئی اور اس نے ناخوشگوار صورت اختیار کر لی، تو ان کے دل میں طرح طرح کے خدشات پیدا ہوئے۔ 30اکتوبر37ء کو قائد اعظم کے نام مکتوب میں انہوں نے اس افواہ کا تذکرہ کیا کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک گروہ لیگ کے فارم رکنیت پر دستخط نہیں کرے گا اور سر سکندر اور ان کے ساتھی لیگ کے آنے والے لاہور سیشن تک دستخطوں سے گریز کریں گے اور یہ کہ سر سکندر صوبہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو سرد کرنا چاہتے ہیں دو دن بعد یکم نومبر37ء کو انہوں نے قائد اعظم کے نام ایک اور نجی اور خفیہ خط لکھا۔ جس میں بتایا کہ کل شام سر سکندر اور ان کے کچھ ساتھی مجھ سے ملے۔ یونینسٹ لیگ اختلافات پر طویل بات چیت ہوئی۔ دونوں فریق اپنے اپنے رنگ میں اس مفاہمت کی تاویلات کر رہے ہیں جس سے غلط فہمیاں بڑھ گئی ہیں۔ اندریں حالات علامہ نے ایک تو مفاہمت کا مکمل متن طلب کیا۔ دوسرے یہ پوچھا کہ آیا آپ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ صوبائی لیگ پارلیمنٹری بورڈ میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو گی؟ 8؎ 10نومبر کو ایک اور خط لکھا جس میں درج تھا کہ سر سکندر اور ان کے دوستوں سے بہت سی ملاقاتوں کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سر سکندر لیگ کی تنظیم اور پارلیمانی بورڈ دونوں پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔ سر سکندر بتاتے ہیں کہ آپ نے یونینسٹوں کو بورڈ میں اکثریت دینے سے اتفاق کر لیا ہے۔ میں نے اس بیان کی صحت و عدم صحت کے بارے میں آپ سے دریافت کیا تھا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔ ذاتی طور پر مجھے اس بات میں چنداں نقصان نظر نہیں آتا کہ اگر وہ اکثریت چاہتے ہیں تو دے دی جائے۔ لیکن وہ تو مفاہمت کی حدود سے آگے بڑھ کر صوبہ لیگ کے عہدہ داروں کو بھی بدلنا چاہتے ہیں لیگ کی مالیات کو بھی کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ پر قبضہ کر کے اسے ختم کرنے کے آرزو مند ہیں۔ صوبے کی رائے عامہ کو دیکھتے ہوئے میں اس بات کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ لیگ کو سر سکندر اور ان کے دوستوں کے حوالے کر دوں۔ کیونکہ لیگ کا وقار مفاہمت کی وجہ سے پہلے ہی گر چکا ہے اور یونینسٹوں کے داؤ پیچ لیگ کو زیادہ ضرر بھی پہنچا سکتے ہیں۔ ان لوگوں نے ابھی تک رکنیت کے فارموں پر دستخط نہیں کے اور نہ میری معلومات کے مطابق ایسا کریں گے۔ بلکہ سر سکندر تو صوبے میں زمیندارہ لیگ بھی قائم کر کے اس کی شاخیں بنا رہے ہیں۔ 9؎ یہ خط قائد اعظم کے نام علامہ کا آخری خط تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ علامہ کے خدشات درست تھے۔ پارلیمانی بورڈ میں تین چوتھائی ارکان یونینسٹ پارٹی کے تھے اور ایک چوتھانی پرانی لیگ کے۔ صوبہ لیگ کو توڑ کر قائد اعظم نے ایک آرگنائزنگ کمیٹی بنائی۔ اس میں بھی نمائندگی کا وہی تناسب تھا۔ اس کے صدر سر سکندر حیات اور سیکرٹری میاں رمضان علی تھے۔ قائداعظم کی اپنی مجبوریاں تھیں۔ لیگ کو مسلمانان ہند کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت منوانے کے لیے ضروری تھا کہ سر سکندر حیات اور ان کے ساتھیوں کو مطمئن کر کے انہیں لیگ کے اندر رکھا جائے۔ وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ اسمبلی کے اکیاسی مسلمان ارکان کے رہنما سر سکندر ہیں اور صرف ایک رکن پرانی لیگ کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں وہ دونوں کو برابری کی سطح پر کیسے رکھ سکتے تھے؟ دوسری طرف حضرت علامہ بھی اپنے موقف میں حق بجانب تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ جن لوگوں نے انتہائی نا مساعد حالات میں لیگ کا پرچم بلند رکھا، انہیں یوں طاق پر رکھ دینا مناسب نہیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ سر سکندر کی صدارت میں جو آرگنائزنگ کمیٹی بنی، وہ مدتوں تساہل کا شکار رہی اور لیگ کی تنظیم وجود میں آئی تو ایک عرصہ بعد اور یہ تو سب کو معلوم ہے کہ سر سکندر حیات کی وفات کے بعد ملک خضر حیات ٹوانہ نے ’’ سکندر جناح پیکٹ‘‘ کی آڑ لے کر کیسا کھیل کھیلا اور اس کا حشر کیا ہوا؟ ہم ایک گذشتہ باب میں بتا چکے ہیں کہ پہلا یوم اقبال 1932ء میں منایا گیا تھا۔ لیکن اقبال کی زندگی میں یوم اقبال کی تقریبات پورے تزک و احتشام سے برپا ہوئیں تو 9 جنوری 1938ء کو انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ کے اہتمام میں پہلے یہ فیصلہ ہوا تھ اکہ 26دسمبر37ء کو یوم منایا جائے۔ اس پر سر سکندر حیات نے ا یک طویل بیان میں اس کا خیر مقدم کیا۔ علامہ کو ایشیا کا فرزند جلیل، نامور فلسفی اور عظیم المرتبت شاعر قرار دیتے ہوئے تمام مشرقی ممالک کو اس میں شریک ہونے کی دعوت دی اور کہا: عرصہ دراز کی گراں خوبی کے بعد اگر آج ہمیں مسلمانوں میں بیداری کے آثار نظر آتے ہیں تو یہ سب کچھ اقبال کی پر جوش آواز کا اثر ہے۔ ادھر ہندوستان کے باشندوں میں بھی جو تڑپ اور بلند نگہی پیدا ہو رہی ہے، وہ بھی اس نابغہ عظیم کی مساعی کی شرمندہ احسان ہے۔ لہٰذا ہر ہندوستا نی کا فرض ہے کہ وہ یوم اقبال کوا یک مقدس قومی فریضہ سمجھ کر اس میں سرگرمی سے حصہ لے۔ سر سکندر حیات نے یہ تجویز بھی پیش کی کہا جہاں جہاں یوم اقبال منایا جائے، وہاں کے باشندے شاعر اعظم کی خدمت میں ایک تھیلی نذر کریں۔ حضرت علامہ نے سر سکندر کے جذبات محبت کے لیے شکریہ ادا کیا لیکن تھیلی کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ’’ ہماری قوم کی ضروریات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے سامنے ایک شخص کی ضرورتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ہر چند کہ اس شخص کی شاعری نے ہزاروں لاکھوں انسانوں کی روح کو کیوں نہ جلا بخشی ہو۔ فرد اور اس کی احتیاج بہرحال ختم ہو جانے والی چیز ہے۔ لیکن قوم اور اس کی احتیاج ہمیشہ باقی رہے گی۔‘‘ اس کی جگہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ لاہور کے اسلامیہ کالج میں اسلامی علوم کی تحقیق کے لیے ایک خصوصی شعبہ قائم کیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک سو روپیہ پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ سر سکندر اپنے اثر سے کام لے کر اس فنڈ کو جمع کرنے میں مدد دیں گے۔ تجویز کے جواز میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اب وقت آ گیا ہے کہ اسلامی فکر اور اسلامی طرز حیات کا بغور مطالعہ کر کے عوام کو بتائیں کہ اسلام کا اصل مقصد کیا تھا اور اس مقصد اور پیغام کو کس طرح تہ در تہ پردوں میں چھپا دیا گیا ہے۔ نیز یہ کہ ہندوستان کے اندر موجودہ اسلام کی روح کو کیونکر مسخ کیا گیا ہے۔ ان پردوں کو اب اٹھانا چاہیے تاکہ نئی نسل کے نوجوان اسلام کی حقیقی شکل و صورت سے آگاہ ہو سکیں۔‘‘ 9جنوری کو یوم اقبال منایا گیا۔ 10 جنوری کو حیدر آباد دکن کے صدر اعظم سر اکبر حیدری نے ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا اور ساتھ لکھا کہ ’’ یہ رقم شاہی توشے خانے سے جس کا انتظام میرے ذمے ہے، بطور تواضع بھیجی جا رہی ہے۔‘‘ علامہ نے چیک لوٹا دیا اور سیدنذیر نیازی کو بتایا کہ ’’ جس کا انتظام میرے ذمے ہے‘‘ کے الفاظ نہایت تکلیف دہ ہیں۔ اس پر علامہ نے کچھ اشعار بھی لکھے جو ’’ ارمغان حجاز‘‘ میں شامل ہیں ملاحظہ فرمائیے: سر اکبر کے نام تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہ پرویز دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات11؎ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ محبت اور حقیقی احترام کی بنا پر کوئی تحفہ پیش ہوتا تھا تو وہ قبول کر لیتے تھے۔ مثلاً نواب بھوپال کو ان سے بڑی محبت اور عقیدت تھی۔ یہی کیفیت راس مسعود کی تھی۔ وہاں سے پانسو روپے ماہانہ کی پنشن ملی تو علامہ نے قبول کر لی۔ اسی طرح میاں شاہ نواز سے اقبال کے مراسم انتہائی دوستانہ تھے اور دونوں میں بڑی محبت تھے۔ چنانچہ 3 جنوری 38ء کو علامہ نے سید نذیر نیازی کو بتایا کہ ’’ پانچ مربعے جو میاں صاحب نے جاوید کے نامہ ہبہ کیے تھے، ان میں پانچ اور کا اضافہ کر دیا ہے۔‘‘ اور دیر تک میاں صاحب کے جذبہ محبت کی تعریف کرتے رہے۔ 12؎ 9جنوری کو جو یوم اقبال منایا گیا، وہ شان و شوکت کے اعتبار سے بے نظیر تھا۔ یہ تقریب برعظیم کے گوشے گوشے میں منائی گئی۔ دنیا بھر سے خود مختار حکومتوں کے نمائندوں، ریاستوں کے ولی عہدوں، سیاسی رہنماؤں، ادیبوں اور دانش وروں کے پیغامات بھیجے۔ شاید ہی ہندوستان کا کوئی اخبار ہو، جس نے علامہ کو خراج عقیدت ادا نہ کیا ہو۔ 13؎ لاہور کے مینارڈ ہال میں جو تقریب ہوئی، اس میں مقالات پڑھے گئے اور ہجوم اتنا تھا کہ ہال سے باہر بھی لوگ جمع تھے اور علامہ کا رد عمل کیا تھا؟ یہ ڈاکٹر سید عبداللطیف کے نام اس مکتوب سے واضح ہوتاہے، جس کے شروع میں لکھا:’’ وہ تقریب جسے یوم اقبال کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اس میں میرے لیے صرف یہ خیال باعث طمانیت قلب ہے کہ جس زمین میں میں نے اپنا بیج پھینکا تھا وہ زمین شور نہیں۔ 15؎‘‘ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ صفحات309, 310 2۔ ایضاً، ص307 3۔ Iqbal's Letters to Mr. Jinnah، صفحات9, 10 4۔ ایضاً، 10 5۔ منشور کا مکمل متن ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ میں ضمیمہ اول میں درج ہے۔ صفحات646, 659 6۔ ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ ص352 7۔ ایضاً، صفحات487, 488 8۔ Iqbal's Letters to Mr, Jinnah ، صفحات27, 29 9۔ ایضاً، صفحات29, 31 10۔ ’’ اقبال کے آخری دو سال‘‘ صفحات541, 544 11۔ ’’ ارمغان حجاز‘‘ صفحات277, 278(سید نذیر نیازی نے ’’ اقبال کے حضور‘‘ میں غلط لکھا ہے کہ یہ اشعار’’ بال جبریل‘‘ میں درج ہیں) 12۔ ’’ اقبال کے حضور‘‘ ص17 13۔ مقالات یوم اقبال۔ مقدمہ، ص، الف 14۔ ایضاً، مقدمہ، ص، الف ٭٭٭ چھتیسواں باب قائد اعظم کے نام خطوط حضرت علامہ نے جب سے سیاست میں دلچسپی لینی شروع کی، پاکستان ان کے ذہن میں موجود تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے کھل کر اس کا اظہار نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو وہ تدریجی انداز میں مسمانوں کو اس نصب العین کی طرف لانا چاہتے تھے۔ دوسرے، وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے سیاسی رہنما کل ہند بنیادوں پر سوچنے کے عادی ہیں۔ ایسے میں اگر اچانک بالکل مختلف راستہ تجویز کر کے اس پر زور دیا جاتا، تو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہو جاتا اور اصل مقصد فوت ہو جاتا۔ جب انہوں نے جداگانہ انتخاب کی جنگ لڑی، صوبائی خود مختاری پر تسلسل اور تواتر کے ساتھ زور دیا۔ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات کے نفاذ، سندھ کی علیحدگی، پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی قانونی اکثریت کے تیقن اور ایک وفاقی تصور حکومت پر اصرار کیا، تو اس کا مقصد یہی تھا کہ برعظیم کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں آباد مسلمان اپنے اپنے خطے میں یک جا ہو کر اپنے مستقبل کو اسلامی قدروں کے سانچے میں ڈھالنے کے قابل ہو جائیں۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اسلامی نظریہ حیات کو جدید تقاضوں کی روشنی میں اور عملی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پیش کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے خطبات مدراس میں اجتہاد کی ضرورت واضح کی۔ اجماع کو دور حاضر کے جمہوری طور طریقے کی روشنی میں آسان بنایا۔ یہ کہا کہ خلافت یا امامت ضروری نہیں۔ کہ کسی فرد کی ذات میں مرتکز ہو اور آج کی دنیا میں اسے جمہور کے منتخب شدہ اداروں میں بھی مرتکز کیا جا سکتا ہے گویا اس مملکت کی بنیادیں طے کر دیں جو ان کے ذہن میں موجود تھی۔ خطبہ الٰہ آباد میں حضرت علامہ نے دو متوازی نقطہ ہائے نگاہ پیش کیے۔ ایک نقطہ نگاہ یہ تھا کہ مسلمانوں نے جو قومی مطالبات پیش کیے اور جن کی تشکیل میں ان کا اپنا ہاتھ بھی تھا، ان کی منظوری کے لیے جدوجہد کی جائے۔ دوسرا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ شمال مغربی ہند کے مسلم اکثریتی خطوں کو یک جا کر کے ایک سٹیٹ بنا دیا جائے۔ اسی طرح باقی ہندوستان میں لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر صوبوں کی از سر نو تقسیم کر کے انہیں بھی ریاست کا درجہ دیا جائے۔ یہ تمام ریاستیں خود مختار ہوں۔ اتنی خود مختار، کہ ان کی الگ الگ فوجیں بھی ہوں۔ اس کے بعد شمال مغربی سرحد پر ان سب کی ملی جلی فوج رکھی جائے۔ گویا آزاد ریاستوں کی ایک کنفیڈریشن کا تصور پیش کیا۔ جس میں پر امن بقائے باہمی کے اصول پر ہندو اور مسلم نظریات حیات کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع حاصل ہو۔ دونوں نقطہ ہائے نگاہ میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ بلکہ دونوں کے ڈانڈے آپس میں یوں مل جاتے تھے کہ ’’ جناح کے چودہ نکات‘‘ یا مسلمانوں کے قومی مطالبات کی تکمیل کے بعد دوسرے نقطہ نگاہ پر عمل درآمد کے لیے زمین تیار ہو سکتی تھی۔ 1932ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے صدارتی خطبے میں انہوں نے جو پنچ نکاتی منصوبہ پیش کیا، اس کے نمایاں پہلو یہ تھے۔ مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت کا قیام، یوتھ لیگوں کے توسط سے مسلمانوں کی معاشی حالت میں بہتری، تنظیم کے لیے پچاس لاکھ روپے کا فنڈ، بڑے شہروں میں اسلامی ثقافتی اداروں کا قیام اور سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کا اجرا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمان وکلاء اور علماء کی ایک اسمبلی کا قیام، جسے قانونی اور آئینی حیثیت حاصل ہو اور جس کی منظوری لیے بغیر مسلمانوں کے شخصی قانون سے تعلق رکھنے والا کوئی بل پیش نہ ہو سکے۔ ان نکات کا مقصد بھی یہی تھا کہ مستقبل کے بارے میں ان کے ذہن میں جو خاکہ موجود تھا، اس پر عمل درآمد کے لیے ضروری وسائل مہیا ہو جائیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بعد ’’جناح کے چودہ نکات‘‘ کی تائید و حمایت کے پہلو بہ پہلو وہ وقتاً فوقتاً اپنے خطبات اور بیانات میں مسلمانوں کے حق خود ارادیت کا تذکرہ کرتے رہے۔ 1935ء میں آئین حکومت ہند میں جب صوبائی خود مختاری کے ساتھ ساتھ یہ گنجائش بھی پیدا کی گئی کہ آنے والے فیڈرل نظام میں برطانوی ہند اور ریاستی ہند، دونوں شامل ہوں تو انہوں نے محسوس کیا کہ اس میں مسلمانوں کی حیثیت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ دوسری طرف انہوں نے دیکھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو ایک تو مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ دوسرے مسلم لیگ کو نظر انداز کر کے ملحدانہ سوشلزم کی بنا پر مسلمان عوام سے براہ راست رابطہ پیدا کر کے انہیں متحدہ قومیت کی طرف لا رہے ہیں، تو ان کے سامنے دو راستے تھے۔ اول: کھل کر علیحدہ مملکت کا تصور پیش کریں۔ دوم: قائداعظم کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ علیحدہ مملکت کا مطالبہ کریں۔ پہلے راستے پر چلنے سے مسلمانوں میں پھوٹ کا امکان تھا۔ اس لیے انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور قائد اعظم کے نام’’ نجی اور خفیہ‘‘ خطوط میں اس بات پر زور دیا کہ وہ علیحدہ مملکت کے تصور کو اپنائیں۔ گویا وہ بیرون خانہ’’ جناح کے چودہ نکات‘‘ کے حامی تھے اور اندرون خانہ لیگ کو پاکستان کی طرف لانے کی جدوجہد کرنے لگے۔ 19مارچ37ء کو کانگرس نے دہلی میں ایک کل ہند قومی کنونشن بلائی، جس میں ہندوستان بھر کی صوبائی اسمبلیوں کے آٹھ سو کانگرسی رکن شامل ہوئے۔ ایسے میں پنڈت نہرو کا پھولے نہ سمانا حق بہ جانب تھا۔ کیونکہ یہ کنونشن سیاسی قوت کا ایک بڑا مظاہرہ تھی۔ لیکن ان میں خوشی کے ساتھ ساتھ غرور اور غرور کے پہلو بہ پہلو فرعونیت بھی آ گئی۔ انہوں نے اپنے خطبے میں یہ تاثر دیا، کہ اب کانگرس ہی سب کچھ ہے۔ باقی جماعتوں کی کوئی حقیقت نہیں اور مسئلہ محض معاشی ہے، اس لیے مسلمان لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے چکر میں پڑنا بے کار ہے اور کانگرس کو چاہیے کہ وہ مسلمان عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ پیدا کرے۔ اس خطبے کی خبر20مارچ کے اخباروں میں آئی۔ علامہ نے فوراً قائداعظم کے نام ایک خط میں تجویز پیش کی کہ وہ بھی دہلی ہی میں ایک کل ہند مسلم کنونشن بلائیں اور اس میں پارٹیوں کا لحاظ کیے بغیر صوبائی اسمبلیوں کے تمام مسلمان ارکان اور دوسرے نمایاں مسلمان رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دیں۔ گویا علامہ کا مقصد یہ تھا کہ قائداعظم ایک طرح کی آل پارٹیز کنونشن بلائیں۔ علامہ نے لکھا:’’ اس کنونشن میں آپ جتنا واشگاف اور پر زور انداز میں ممکن ہو، ملک میں ایک منفرد سیاسی اکائی کی حیثیت سے مسلمان کا سیاسی نصب العین پیش کریں۔ ہندوستان کے اندر اور باہر کی دنیا کو یہ بتانا نہایت ضروری ہے کہ معاشی مسئلہ ملک کا واحد مسئلہ نہیں۔ زیادہ تر ہندوستانی مسلمانوں کے نزدیک اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ اس سے کہیں زیادہ اہم ہے اور بہرحال معاشی مسئلے سے کم اہم نہیں۔ اگر آپ ایسی کنونشن کر سکیں، تو اس سے مجالس قانون ساز کے ان مسلمان ارکان کی بھی آزمائش ہو جائے گی۔ جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے مقاصد اور امنگوں کے منافی پارٹیاں بنا رکھی ہیں۔ ہندوؤں پر یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی مشورہ، کوئی پر فریب نعرہ مسلمانان ہند کو ان کے ثقافتی تشخص سے غافل نہیں کر سکتا۔‘‘ اس خط کے آغاز میں علامہ نے بتایا کہ ہم ملک کی ترقی پسند پارٹیوں سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، کہ ایشیا میں ایک اخلاقی اور سیاسی قوت کے اعتبار سے اسلام کے پورے مستقبل کا دار و مدار بہت بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ مسلمانان ہند مکمل طور پر منظم ہو جائیں۔ علامہ نے یہ بھی لکھا کہ میں چند روز کے اندر اندر دہلی آؤں گا۔ 1؎ افغان قونصل خانے میں قیام ہو گا۔ آپ بھی وہاں آ جائیے تاکہ اس مسئلے پر تبادلہ خیالات ہو جائے۔ بہرحال جب علامہ دہلی پہنچے تو معلوم ہوا قائد اعظم وہاں سے پہلے ہی روانہ ہو چکے ہیں۔ چنانچہ 22 اپریل کو علامہ نے ایک اور خط لکھا۔ اس میں پھر کنونشن کے انعقاد پر زور دیا۔ تاکہ مسلمانوں کا نقطہ نگاہ سے جلد از جلد سامنے آ سکے ۔ اس کے ساتھ علامہ نے بتایا کہ حالات ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں او رپنجاب کے مسلمان تیزی کے ساتھ کانگرس نواز ہو رہے ہیں۔ 2؎ 28مئی کو علامہ نے ایک اور ’’ خفیہ‘‘ خط لکھا۔ یہ خط نہایت مفصل بھی تھا اور غیر معمولی طور پر اہم بھی۔ کیونکہ اس میں پاکستان کی تجویز پیش کی گئی اور اس پر نظریاتی استدلال بھی کیا گیا۔ اور اسی میں لیگ کو ایک خالص عوامی جماعت بنانے پر زور دیا گیا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس خط کے مطالب اسی تفصیل سے پیش کر دیے جائیں۔ علامہ نے لکھا: ’’ لیگ کو قطعی فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ بدستور مسلمانان ہند کے بالائی طبقات کی نمائندگی کرتی رہے گی یا مسلم عوام کی نمائندہ بنے گی۔ جنہوں نے اب تک صحیح وجوہ کی بنا پر اس میں دلچسپی نہیں لی۔ ذاتی طور پر میری رائے یہ ہے کہ جو سیاسی جماعت عام مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی، وہ عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی۔‘‘ ’’ نئے آئین کے تحت اعلیٰ ملازمتیں بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اولاد کو مل جاتی ہیں اور چھوٹی ملازمتیں وزیروں کے دوستوں اور رشتہ داروں کو۔ دوسرے معاملات میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مسلمانوں کی بہتری کے لیے کیا کیا جائے۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز زیادہ پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسلمان یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ وہ پچھلے دو سو سال سے نیچے ہی نیچے آ رہا ہے۔ عام طور پر اس کا خیال یہ ہے کہ اس کے افلاس کے لیے ہندو ساہو کارہ نظام یا ہندو سرمایہ داری ذمہ دار ہے۔ یہ تصور ابھی تک مکمل طور پر اس کے سامنے نہیں آیا کہ اس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی حصہ دار ہے۔ لیکن یہ تصور یقینا سامنے آئے گا۔ جواہر لال نہرو کا ملحدانہ سوشلزم غالباً مسلمانوں کو اپنی طرف زیادہ متوجہ نہیں کر سکے گا۔ اس لیے سوال یہ ہے مسلمانوں کے افلاس کا مسئلہ حل کرنا کس طرح ممکن ہے؟ لیگ کے پورے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کس طرح سرگرم کار ہوتی ہے۔ اگر لیگ نے کوئی ایسے وعدے نہ کیے، تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے اغماض برتیں گے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کا یہ حل موجود ہے کہ اسلام کا قانون نافذ کیاجائے اور جدید تصورات کی روشنی میں اسے مزید نشوونما دی جائے۔ اسلامی قانون کے ایک طویل اور محتاط مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم قوت لایموت کا حق محفوظ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور نشوونما اس وقت تک نا ممکن ہے، جب تک ایک یا ایک سے زیادہ مسلمان مملکتیں وجود میں نہیں آ جاتیں۔ سال ہا سال سے یہی میرا دہانت دارانہ عقیدہ رہا ہے اور میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ یہی وہ واحد راستہ ہے، جس پر چل کر مسلمانوں کے لیے روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اور ایک پر امن ہندوستان بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں ایسی چیز ناممکن ہے، تو اس کا واحد متبادل خانہ جنگی ہے۔ جو حقیقت میں ہندو مسلم فسادات کی صورت میں کچھ عرصے سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں میں، مثلاً شمال مغربی ہند میں فلسطین کا عمل دہرایا جائے گا۔ اور یہ بات بھی ہے کہ ہندو مذہب کے سیاسی جسم میں جواہر لال اور سوشلزم دخیل ہوا تو خود ہندوؤں کے اندر بھی بہت خونریزی ہو گی۔ معاشری جمہوریت اور برہمن ازم کے درمیان مسئلہ برہمن ازم اور بدھ ازم کے درمیان مسئلے سے مختلف نہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا سوشلزم کا وہی حشر ہو گا جو ہندوستان میں بدھ ازم کا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات میرے ذہن میں واضح ہے کہ اگر ہندو ازم معاشری جمہوریت قبول کرتا ہے، تو وہ ہندو ازم کی حیثیت سے یقینا ختم ہو جائے گا۔ لیکن اگر اسلام کسی مناسب صورت میں اور اپنے قانونی اصول کے مطابق معاشری جمہوریت قبول کر لے، تو یہ ایک انقلاب نہیں ہو گا، بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹنے کے مترادف ہو گا۔ پس جدید مسائل کا حل ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے کہیں زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں، کہ اسلامی ہند میں ان مسائل کے حل کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی از سر نو تقسیم عمل میں لائی جائے اور قطعی اکثریت کی حامل ایک یا ایک سے زیادہ مملکتیں وجود میں لائی جائیں۔ کیا آپ کا یہ خیال نہیں کہ ایسا مطالبہ کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ غالباً آپ جواہر لال نہرو کے ملحدانہ سوشلزم کا یہی بہترین جواب دے سکتے ہیں۔ 3؎‘‘ علامہ نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو تقریر کریںاس میں مطالبے کا تذکرہ کریں یا اجلاس میں جو مشاورتی مجالس ہوں، ان میں اسے زیر بحث لائیں۔ اسی خط کے نیچے ایک نوٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ کا پہلے یہ خیال تھا کہ اس موضوع پر قائد اعظم کے نام اخبارات کی وساطت سے ایک مکتوب مفتوح لکھیں۔ لیکن پھر سوچا کہ اس مرحلے پر ایسا قدم اٹھانا مناسب نہیں۔ 21 جون 37ء کو حضرت علامہ نے ایک اور ’’ نجی اور خفیہ‘‘ مکتوب لکھا۔ یہ بھی طویل اور مفصل تھا۔ اس کے نمایاں نقوش یہ تھے: 1۔ ہم خانہ جنگی کے دور سے گذر رہے ہیں اور اگر پولیس اور فوج نہ ہو تو یہ خانہ جنگی ہمہ گیر صورت اختیار کر سکتی ہے۔ شمالی مغربی ہند میں ایک طوفان آ رہا ہے، جو سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ان واقعات کا اصل سبب نہ مذہبی ہے نہ معاشی، یہ ایک خالص سیاسی مسئلہ ہے۔ یعنی ہندوؤں اور سکھوں کی یہ آرزو کہ وہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کو ڈرائیں اور دھمکائیں۔ آئین کی نوعیت ایسی ہے کہ مسلمان اپنے اکثریتی صوبوں میں بھی غیر مسلموں کے محتاج ہیں۔ ایسے میں ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ اس آئین کو مسترد کر دیں۔ 2۔ کمیونل ایوارڈ صرف مسلمانوں کے الگ وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اگر یہ آئین ہمیں افلاس کا مسئلہ حل کرنے کے قابل نہیں بناتا، تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کانگرس ہمارا الگ وجود تسلیم نہیں کرتی۔ ہندو مہا سبھا ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکی ہے کہ ہندوستان میں ہندو مسلم متحدہ قومیت نا ممکن ہے۔ ان حالات میں ایک ہی راستہ رہ جاتاہے کہ نسلی، مذہبی اور لسانی مماثلتوں کی بنا پر ملک کی از سر نو تقسیم عمل میں لائی جائے۔ 3 ۔ بہت سے برطانوی سیاست دان بھی یہی محسوس کرتے ہیں اور ہندو مسلم فسادات نے یقینا ان کی آنکھیں او ربھی کھول دی ہوں گی۔ لارڈ لوتھین نے تو 1932ء ہی میں مجھ سے کہہ دیا تھا کہ ہندوستان کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے۔ 4۔ پنجاب کے بعض مسلمان تو پہلے ہی سے یہ تجویز کر رہے ہیں کہ شمال مغربی ہند مسلم کانفرنس بلائی جائے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ یہ مرحلہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ لیکن اس بات کی تو یقینا ضرورت ہے کہ آپ لیگ سیشن میں اپنے خطبہ صدارت کے دوران میں یہ اشارہ کر دیں کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو آخر کار کون سی راہ عمل اختیار کرنی ہو گی۔ 5۔ میرے نزدیک واحد ہندوستانی فیڈریشن کا حامل نیا آئین کاملاً ناقابل قبول ہے۔ اگر ایک پر امن ہندوستان مطلوب ہے اور مسلمانوں کو غیر مسلمانوں کے غلبے سے بچانا ہے، تو ا سکی ایک ہی صورت ہے کہ میری تجویز کے مطابق از سر نو بنائے ہوئے مسلم صوبوں پر مشتمل ایک الگ فیڈریشن بنائی جائے۔ آخر شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو کیوں نہ ایسی قومیں سمجھا جائے جنہیں ہندوستان کے اندر اور باہر کی دوسری قوموں کی طرح حق خود ارادیت حاصل ہو؟ 6۔ ذاتی طور پر میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو مسلم اقلیتی صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ یہی وہ بہترین راستہ ہے جو مسلم اکثریتی اور مسلم اقلیتی دونوں قسم کے صوبوں کے مفاد میں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ آپ لیگ کا آنے والا سالانہ اجلاس کسی مسلم اقلیتی صوبے میں نہیں، لاہور میں کریں۔ 4؎ ان دونوں مکاتیب کا تجزیہ کیجئے، تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اقبال کے ذہن میں ایک یا ایک سے زیادہ آزاد مملکتوں کا تصور شروع سے چلا آ رہا تھا۔ لیکن قومی مصالح کے پیش نظر انہوں نے یہ بات واشگاف انداز میں کہی تو قائد اعظم کے نام’’ نجی اور خفیہ‘‘ خطوط میں۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ خطبہ الٰہ آباد میں علامہ نے ثقافتی پہلو پر زیادہ زور دیا اور ان خطوط میں معاشی پہلو پر۔ اور وہ جس پاکستان کا تصور پسند کرتے تھے، اس میں اسلامی قدروں کی روشنی میں ایک عادلانہ معاشی اور معاشرتی نظام کو ناگزیر قرار دیتے تھے۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے اس انداز میں سوچتے رہے کہ مسلم اکثریتی صوبے اپنی تنظیم الگ بنیادوں پر کریں کیونکہ ان اک نصب العین مسلم اقلیتی صوبوں کے مقاصد سے مختلف تھا۔ 1930ء میں الٰہ آباد سیشن سے پہلے انہوں نے اپر انڈیا مسلم کانفرنس کا ڈول ڈالا اور 1937ء میں شمال مغربی ہند مسلم کانفرنس کا انعقاد چاہتے تھے۔ چونکہ وہ مستقبل شناس سیاست دان تھے، اس لیے شاید ان کا مدعا یہ ہو کہ آخر کار مسلم لیگ کے دو حصے ہو جائیں۔ ایک مسلم اکثریتی صوبوں کی لیگ، جو باقی ہندوستان میں ایک اقلیت کی حیثیت سے تحفظات حاصل کرنے کی سعی کرے۔ حضرت علامہ کی توقع تو یہ تھی کہ اکتوبر37ء میں لکھنو میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن میں قائد اعظم مسلمانوں کے لیے حق خود ارادیت کا مطالبہ کریں گے۔ لیکن یہ توقع پوری نہ ہوئی۔ کیونکہ قائد اعظم ابھی اس کے قائل نہ ہوئے تھے راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب اگست اور ستمبر37ء میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سلسلے میں ہم طالب علم کارکن ان سے ملتے رہے تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ فیڈریشن کا نصب العین کیا ہو؟ انہوں نے ایک ملاقات میں کہا کہ تم نوجوان ہو، سیاسی جماعتوں پر تکیہ نہ کرو اور اپنا نصب العین خود تجویز کرو۔ دوسری ملاقات میں جب ہم نے اصرار کیا کہ وہ نصب العین کے بارے میں مشورہ دیں۔ تو کہنے لگے کہ لیگ کے اکتوبر سیشن کا انتظار کیوں نہیں کر لیتے۔ یہ بات غالباً اس لیے کہی کہ وہ لیگ سیشن سے توقعات باندھے ہوئے تھے۔ جب راقم الحروف نے انہیں یاد دلایا کہ گذشتہ ملاقات میں انہوں نے سیاسی جماعتوں پر تکیہ نہ کرنے اور اپنے نصب العین کا فیصلہ خود کرنے کی تلقین فرمائی تھی اور اب لکھنو سیشن کا انتظار کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ تو ان کے چہرے پر ایک عجیب دلکش تاثر غالب آیا اور کہنے لگے، میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔ اس پر ہم نے کہا ہمارے لیے نصب العین آپ تجویز کریں۔ چنانچہ وہیں یہ بات طے پا گئی کہ مسلم طلبہ کا نصب العین یہ ہو گا شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر ایک ایسی مسلم نیشنل سٹیٹ کا قیام، جس میں پنجاب، سرحد، سندھ، بلوچستان اور کشمیر شامل ہوں۔ یہ نصب العین ہماری جماعت کے آئین کا جزو بن گیا۔ بلکہ ہم نے سرحد، سندھ اور کشمیر کی شاخوں کا الحاق بھی قبول کر لیا۔ اب سوال یہ باقی رہتا ہے کہ حضرت قائد اعظم نے علامہ کے مکاتیب سے کیا اثر قبول کیا؟ بد قسمتی سے علامہ کے نام قائد اعظم کے خطوط نہایت پر اسرار حالات میں ایسے گم ہوئے کہ ان کا سراغ پھر کبھی نہ ملا۔ بہر حال 1943ء میں جب علامہ کے خطوط بنام قائد اعظم کا مجموعہ چھپا، تو اس کا پیش لفظ قائد اعظم نے لکھا۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ قائد اعظم پر ان خطوط کا کیا اثر پڑا۔ اس پیش لفظ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’ میرے نزدیک یہ خطوط بہت بڑی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ بالخصوص وہ خطوط، جن میں انہوں نے اسلامی ہند کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات واضح اور واشگاف انداز میں پیش کیے ان کے خیالات بڑی حد تک میرے خیالات سے ملتے جلتے تھے۔ اور ان کے خیالات نے مجھے بھی ہندوستان کے آئینی مسائل کے مطالعہ اور محتاط غور و فکر کے بعد انہی نتائج پر پہنچایا اور یہی وہ خیالات تھے، جنہوں نے مسلمانان ہند کی متحدہ مرضی کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کی قرار داد لاہور کی صورت اختیار کی؟ جو 23 مارچ1940ء کو منظور ہوئی اور جسے عرف عام میں قرار داد پاکستان کہا جاتا ہے۔ 5؎‘‘ ٭٭٭ حوالے 1۔ Iqbal's Letters to Mr. Jinnah، صفحات11, 13 2۔ ایضاً، صفحات13, 14 3۔ ایضاً، صفحات14, 18 4۔ ایضاً، صفحات18, 23 5۔ ایضاً، صفحات4, 5 ٭٭٭ سینتیسواں باب عظمت موت کے دروازے پر حضرت علامہ 1934ء سے بیمار چلے آتے تھے۔ وفات سے ایک سال پہلے ایک آنکھ میں موتیا اتر آیا، اس لیے مطالعہ بند ہو گیا۔ کیونکہ ایک آنکھ پہلے ہی بے کار تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ موتیا پک جائے گا تو آپریشن کیا جائے گا۔ لیکن بیماری بڑھتی چلی گئی، اور آپریشن تک نوبت نہ پہنچی۔ بینائی اتنی کم ہو چکی تھی، کہ ملاقاتی کو یا تو آواز سے پہچانتے، یا اس صورت میں کہ وہ بالکل قریب آ جاتا۔ 1؎ اس کے باوجود ان کی علمی اور ادبی زندگی میں ہمہ ہمی باقی رہی۔ وہ شعر بھی کہتے علمی مسائل پر تبادلہ خیالات بھی کرتے۔ بلکہ مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ جو عالمی معرکہ ہوا، وہ بھی شدید علالت کے دوران میں ہوا اور انہوں نے اپنا مقالہ بھی املا کرایا اور اس سلسلے میں حضرت طالوت کے ساتھ خط و کتابت بھی جاری رکھی۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں:’’ مرض اگرچہ اندر ہی اندر بڑھ رہا تھا اور ان کی طبیعت کمزور ہو رہی تھی، لیکن ان کی گفتار و مکالمات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ اسی طرح باتیں کرتے، جس طرح تندرستی کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ علمی اور سیاسی مباحث کا انداز بھی وہی تھا۔ نکتہ سنجیاں اور نکتہ طرازیاں بھی بدستور جاری تھیں۔ ان کی وفات سے تھوڑی دیر پیشتر ان کے پاس بیٹھ کر یہ خیال بھی نہیں ہوتا تھا کہ دائمی مفارقت کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ 2؎‘‘ 1938ء کے آغاز تک علالت کی کیفیت وہی تھی، جو مدت سے چلی آ رہی تھی۔ کہ کبھی طبیعت خوش و خرم ہے، کبھی علیل۔ کوئی ایسی کیفیت طاری نہ ہوئی جس سے غیر معمولی تشویش ہوتی اور نہ بہ ظاہر کوئی نیا مرض پیدا ہوا چنانچہ نارمل بیماری کا علاج حکیم محمد حسن قرشی کرتے رہے۔ بہرحال یوم اقبال کے بعد علالت نے یک بیک ایک نیا پلٹا کھایا۔ ’’ علامہ کو ضیق النفس کے خفیف دورے شروع ہوئے۔ پچھلی رات بے خوابی ہونے لگی اور ایک دن نقرس کی بھی تکلیف رہی۔ ضیق النفس کے لیے حکیم قرشی صاحب نے ایک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کر رکھا تھا۔ جس کے استعمال سے سکون ہو جاتا تھا۔ حکیم صاحب کی تشخیص یہ تھی کہ علامہ کو دمہ قلبی ہے اور اس کی وجہ سے ضعف قلب ہے۔ چنانچہ ڈاکٹروں نے بھی تشخیص کی تائید کی۔ ان دنوں اکثر علامہ بستر پر بیٹھ کر تکیہ اپنے آگے رکھوا لیتے اور اس پر اپنا سر ٹیک دیتے۔ 25فروری کو دمے کا دورہ ہوا۔ جوشاندہ پیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ پھر ایلوپیتھک علاج شروع ہوا۔ جس میں دورے کو روکنے اور نیند لانے کی تدبیر کی جاتی تھی۔ چند دن ذرا آرام سے گزر گئے۔ 3مارچ کی شب کو ذکر ہے، علامہ پر ضعف قلب سے غشی طاری ہوئی اور وہ اسی حالت میں پلنگ سے گر گئے۔ دوسرے دن حکیم قرشی صاحب نے ان کو دیکھا، تو ان کے نیاز مندوں کو بتایا کہ علامہ کا قلب نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے بھی ماؤف ہو چکے ہیں مگر اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے، مناسب تدابیر اور احتیاط سے افاقہ ہو جائے گا۔ 3؎‘‘ ایلوپیتھی کے جن ڈاکٹروں نے علاج کیا، ان میں اس زمانے کے نامی گرامی ڈاکٹر شامل تھے۔ مثلاً ڈاکٹر محمد یوسف، ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر جمعیت سنگھ اور ڈاکٹر یار محمد ان میں ڈاکٹر محمد یوسف بتا چکے تھے کہ مرض لا علاج ہے اور اس قسم کے مریض ساتھ آٹھ مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہتے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ آخری دنوں کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور خوشگوار بنانے کے لیے دوائیں کم دی جائیں اور غذا بہتر دی جائے۔ علامہ کو اس رائے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ دوسرے، اس بات کا خیال رکھا گیا کہ علالت کی خبر اخباروں میں نہ آئے۔ تاکہ علامہ کو بھی کوئی غیر معمولی پریشانی نہ ہو اور مزاج پرسی کے لیے لوگوں کا ہجوم نہ ہو جائے۔ اور وہ آرام و سکون کے ساتھ بستر پر دراز رہیں۔ 4؎ ڈاکٹر تو یہ بھی کہتے تھے کہ علامہ زیادہ غور و فکر نہ کریں اور زیادہ باتیں بھی نہ کریں۔ لیکن جس شخصیت کی تمام عمر مختلف النوع مسائل پر غور و فکر میں گزری ہو، اس سے یہ توقع رکھنا بے سود تھا کہ وہ اپنے دل و دماغ کے دریچے بند رکھنے پر قادر ہو۔ رہی باتیں تو علامہ ایک عظیم متکلم تھے اور جہاں احباب بیٹھے ہوں، وہاں گفتگو کیے بغیر رہنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ اس لیے وہ آخری وقت تک کھلے دماغ کے ساتھ سوچتے رہے اور نیاز مندوں کو علمی گفتگو سے فیضیاب فرماتے رہے۔ نیاز مند علامہ سے مرض کی اصل کیفیت چھپاتے تھے۔ لیکن علامہ نے محسوس کر لیا تھا کہ موت قریب ہے۔ لیکن وہ بھی اپنا احساس نیاز مندوں اور تیمار داروں سے چھپاتے تھے۔ مبادا کہ وہ پریشان ہو جائیں۔ جب ڈاکٹر معائنہ کرتے اور اطمینان دلاتے تو علامہ کہتے، مجھے اطمینان دلانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ تیمار داروں سے پوچھئے کہ ان کا اطمینان ہوا ہے یا نہیں۔ اگر وہ مطمئن ہیں، تو میں بھی مطمئن ہوں۔ غلام رسول مہر رقم طراز ہیں کہ ’’ 7مارچ کی شام کو میں اور سالک صاحب حاضر خدمت ہوئے، تو بہ ظاہر طبیعت کسی قدر بہتر معلوم ہوتی تھی۔ وہ خود فرمانے لگے، اب تو میں کمرے کے اندر تھوڑا بہت چل پھر بھی لیتا ہوں۔ ہم نے عرض کیا، خدا کے فضل سے چند روز میں اتنی صحت ہو جائے گی کہ آپ کوٹھی کے صحن میں چہل قدمی فرما لیا کریں گے۔ مسکرا کر کہنے لگے، میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ اس کی پیشوائی کے لیے تیار ہوں۔ ساتھ ہی اپنا یہ شعر سنایا: نشان مرد مومن با تو گوئیم چو مرگ آید تبسم برلب اوست حضرت علامہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ خیال کئی صاحبوں کے سامنے دہرایا۔ انتقال سے چار روز پہلے ایک جرمن ملاقات کے لیے حاضر ہوا، اس سے بھی یہی کہا تھا۔ 5؎‘‘ علامہ کے مزاج میں رقت تو ہمیشہ سے تھی۔ لیکن جوں جوں دل کمزور ہوتا گیا، رقت بھی بڑھتی گئی۔ ایک دفعہ دیر تک روتے رہے۔ احباب پریشان ہوئے، لیکن کیا کر سکتے تھے جب یہ کیفیت باقی نہ رہی تو دریافت کیا کہ رقت کا سبب کیا تھا۔ حضرت علامہ نے کہا، بس یہ شعر یاد آ گیا تھا: تہنیت گوئید مستاں را کہ سنگ محتسب بر دل ما آمد و ایں آفت از مینا گذشت ان دنوں احباب کی سعی یہی رہی کہ کوئی ایسی بات علامہ کے سامنے نہ کہی جائے، جس سے رقت طاری ہونے کا اندیشہ ہو۔ علامہ کا علاج ڈاکٹر بھی کرتے تھے اور طبیب بھی۔ حکیم نابینا کا علاج بھی رہا۔ لیکن حکیم محمد حسن قرشی نے زیادہ تسلسل کے ساتھ علاج کیا اور وہ بھی بڑی محبت کے ساتھ۔ وہ جانتے تھے کہ علامہ کڑوی کسیلی دوائیں ناپسند کرتے ہیں اور ان سے مضطرب بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے حکیم قرشی نے ہمیشہ ایسی دوائیں تجویز کیں جو لذیذ بھی ہوں، مفرح بھی اور جن سے مرض میں بھی افاقہ ہو۔ انہوں نے علامہ کی خدمت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا۔ دن میں دو تین بار آتے تھے اور شام کے چھ بجے سے قریب قریب نصف شب تک کا وقت تو کئی دن علامہ کے ساتھ بسر کرتے رہے۔ اس سے ایک تو علامہ کا حوصلہ بڑھتا تھا۔ دوسرے جب کوئی غیر معمولی پیچیدگی پیدا ہوتی، تو ازالے کی فوری صورت نکل آتی تھی۔ بہرحال علامہ کی کیفیت امید افزا نہیں تھی۔ بلکہ ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا معاملہ تھا۔ 17مارچ کو مرض میں جو نئی پیچیدگی پیدا ہوئی، اس نے نیاز مندوں کو مجبور کیا کہ اب علامہ سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ ہوں۔ میاں محمد شفیع (م۔ ش) نے مستقبل طور پرجاوید منزل میں سکونت اختیار کر لی۔ چند گھنٹے کے لیے ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں فرائض منصبی کی ادائی کے لیے جاتے۔ باقی تمام وقت علامہ کی خبر گیری کرتے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر ادویات دیتے۔ چودھری علی حسین، راجہ حسن اختر اور حکیم قرشی سہ پہر کے بعد آتے۔ آدھی رات کے وقت جاتے اور علامہ کا جی بہلاتے۔ اپریل کے وسط میں حضرت علامہ کی بائیں جانب ورم ہو گیا، جس سے تشویش ہوئی۔ بلغم میں خون کی ہلکی سی آمیزش سے ڈاکٹروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دل کی طرف جانے والی رگ میں انشقاق کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک تبدیلی تھی۔ لیکن علامہ کو اس سے آگاہ نہ کیا گیا۔ 18اپریل کو ایک ملاقاتی نے علامہ سے کہا کہ ابھی تو آپ کو حجاز جانا ہے۔ بولے سہارنپور سے ایک صاحب نے لکھا کہ انہوں نے حرم کا طواف کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ مجھے حرم شریف میں پہنچنا نصیب ہو۔ لیکن اب تو بہ ظاہر ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دیکھیں خدا کو کیا منظور ہے۔ 19اپریل کی شام کو مہرو سالک مولانا غلام مرشد کی معیت میں حاضر ہوئے۔ مولانا مہر لکھتے ہیں:ـ’’چہرہ بدستور بشاش تھا اور اس پر ہلکی سی طبعی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ کسی حرکت سے تشویش ظاہر نہیں ہوتی تھی۔ چہرے کو دیکھ کر یا باتیں سن کر خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ موت کا وقت اتنا قریب آ گیا ہے اور وہ بیش بہا زندگی، دنوں کی نہیں، محض گھنٹوں کی باقی رہ گئی ہے۔ زندگی میں یہ ان کی آخری زیارت تھی۔ میں دوسرے روز اسی وجہ سے نہ گیا۔ کہ طبیعت بہ ظاہر اچھی معلوم ہوتی تھی۔ 6؎‘‘ چند دن پہلے حکیم قرشی طبی بورڈ میں شرکت کے لیے راولپنڈی گئے تھے۔ ان کے پیچھے ہی حالت زیادہ بگڑ گئی۔ انہیں واپسی کا تار دیا گیا۔ ان کے پیچھے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ علاج شروع کر چکا تھا، جس سے دو روز کچھ افاقہ ہوا۔ لیکن 19اپریل کی رات کو حالت زیادہ خراب ہو گئی۔ حکیم قرشی 20اپریل کو پہنچے۔ حکیم صاحب نے ایک مقالے میں بتایا کہ شام کو میں نے اور تین چار ڈاکٹروں نے دیکھا تو حالت اطمینان بخش نہیں تھی۔ بہرحال حواس اسی طرح صحیح و سالم تھے اور ظاہری حالت میں کوئی خاص تغیر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب نصف شب تک بیٹھے رہے۔ چودھری محمد حسین، سید نذیر نیازی، پروفیسر مظفر الدین اور محمد شفیع بھی موجود تھے۔ جب حکیم صاحب نے اجازت چاہی تو علامہ نے بیٹھنے کو کہا اور علی بخش سے کہا کہ چائے بناؤ۔ چنانچہ سب نے چائے پی علامہ نے ایک ڈاکٹری دوائی پینے کے بعد بہت بے چینی محسوس کی۔ فرمانے لگے، مجھے متلی وہ رہی ہے۔ میں قے کرنا چاہتا ہوں۔ حکیم قرشی رقم طراز ہیں: ’’ چونکہ خون آ رہا تھا اور خطرہ تھا کہ قے سے کوئی رگ نہ پھٹ جائے، میں نے گرم پانی اور نمک کے غرغرے کرنے اور دانہ الائچی چبانے کے لیے کہا۔ اس سے بے چینی کم ہوئی مگرفرمانے لگے کہ متلی ابھی باقی ہے۔ پھر میں نے اکسیر عنبری دی تو اس سے متلی رفع ہو گئی۔ اس کے بعد ایک دوسری ڈاکٹری دو پینی تھی مگر اس سے انکار کر دیا۔ اور فرمانے لگے، ڈاکٹری دوائیں خلاف انسانیت (Inhuman) ہیں۔ کیونکہ ان میں مریض کے ذوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ پھر فرمایا میڈیکل سائنس زندگی کی سائنس معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہے۔ 7؎‘‘ ایک ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ خواب آور دوائیں ضرور لے لیجئے۔ علامہ فرمانے لگے، مجھے اس سے نیند نہیں آتی۔ ڈاکٹر نے کہا، اس میں ایسے اجزا بھی شامل ہیں، جن سے شانے کے درد میں کمی ہو گی۔ علامہ نے فرمایا اگر اس مکسچر سے دافع درد اجزا کو الگ کر دیں تو پی لوں گا۔ رات کے ایک بجے موسم میں قدرے خنکی پیدا ہوئی تو ان کی چارپائی اندر لائی گئی اور وہ کچھ دیر بعد سو گئے۔ احباب چلے گئے اور گھر میں میاں محمد شفیع رہے اور ڈاکٹر قیوم اور علامہ کا پرانا ملازم علی بخش۔ 20 اپریل کی سہ پہر کو ابھی حالت زیادہ متغیر نہیں ہوئی تھی کہ علامہ کے ایک پرانے جرمن دوست بیرن فان فلٹ ہائم ملنے کو آئے۔ وہ ہائیڈل برگ میں ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک پارسی دوست تھا۔ ان دونوں کے ساتھ علامہ نے جی بھر کر باتیں کیں۔ بالخصوص طالب علمی کے زمانے کو یاد کیا۔ یہ کسی بیرونی شخص سے علامہ کی آخری ملاقات تھی۔ 8؎ احباب گئے، تو راجہ حسن اختر آ گئے۔ پچھلے پہر علامہ کی نیند کھلی تو بہت بے چین تھے۔ کہنے لگے، حکیم قرشی کو بلاؤ۔ راجہ صاحب نے کہا، کہ ابھی ایک بجے گئے ہیں۔ اس وقت شاید انہیں بلانا مناسب نہ ہو۔ اس پر علامہ نے فرمایا’’ کاش ان کو معلوم ہوتا کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے۔‘‘ اور پھر چند مہینے پہلے لکھی ہوئی یہ رباعی سنائی: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روز گار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید راجہ صاحب سمجھ گئے کہ وہ گھڑی آن پہنچی ہے، جس کا کھٹکا تھا۔ کہنے لگے میں ابھی حکیم صاحب کو بلاتا ہوں۔ پانچ بج کر پانچ منٹ پر جاوید منزل سے نکلے۔ ان کی روانگی کے فوراً بعد علامہ نے کہا پلنگ ساتھ کے کمرے میں لے چلو۔ جب اندر پلنگ لے گئے تو فرمایا، کندھا دبایا جائے۔ علی بخش نے شانہ دبایا۔ علامہ نے فرمایا دل پر تکلیف ہے اور اس کے ساتھ ہی پانچ بج کر چودہ منٹ پر جان ہار دی۔ وہ عظیم المرتبت شخصیت اس خدائے بزرگ و برتر کے حضور میں جا پہنچی، جس کے پیغام کو پھیلانے میں اس نے عمر کا ایک ایک لمحہ صرف کیا اور جس کے بندوں کے ذہن کو بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں مرتکز کر دی تھیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون یہ الم ناک خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی۔ اخباروں نے ضمیمے چھاپے، سرکاری دفاتر بند ہو گئے، اسلامی ادارے بند ہو گئے اور لوگ گروہ در گروہ ہجوم در ہجوم جاوید منزل کا رخ کرنے لگے۔ احباب اور نیاز مند، بلکہ اجنبی لوگ بھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ سب باری باری ان کے چہرے کو دیکھ کر گزرتے جاتے تھے۔ جس پر سکون بھی تھا اور ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ چو مرگ آید تبسم بر لب اوست اب یہ مسئلہ پید اہوا کہ تدفین کہاں ہو ۔ چودھری محمد حسین کی تجویز تھی کہ علامہ کو بادشاہی مسجد کے کسی حجرے میں دفن کیاجائے۔ چنانچہ چودھری صاحب، سید محسن شاہ، خلیفہ شجاع الدین، خان سعادت علی خان، میاں نظام الدین، میاں امیر الدین، مولانا غلام مرشد، مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک بادشاہی مسجد گئے اور دیکھ بھال کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرے میں تدفین مناسب نہیں۔ بلکہ سیڑھیوں کی بائیں جانب کی خالی قطعہ زمین کو مدفن بنا لیا جائے تو اچھا ہو گا۔ تاکہ بعد میں ایک چھوٹا سا مقبرہ بھی تعمیر ہو سکے۔ اس کے لیے حکومت ہند کے محکمہ آثار قدیمہ کی منظوری ضروری تھی۔ سر سکندر کلکتہ گئے ہوئے تھے، اس لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک وفد نے گورنر پنجاب سر ہنری کریک سے ملاقات کی اور انہوں نے دوپہر تک اجازت دلا دی۔ اور اب حضرت علامہ کے آخری سفر کی روداد سالک کی زبانی ملاحظہ ہو: ’’ شام کے پانچ بجے تک جاوید منزل پر ہزاروں مسلمانوں کا مجمع ہو گیا اور پنجاب بھر کے عمائد و اکابر بلا امتیاز مذہب و ملت جمع تھے۔ وزرائے حکومت، عدالت عالیہ کے جج، حکام اعلیٰ، وکلائ، شعرائ، ادبا، اخبار نویس، کالجوںکے پروفیسر، طلبہ، سجادہ نشین، علمائ، تجار، صناع اور عام فرزنداں اسلام جنازے کے ساتھ با چشم گریاں آہستہ آہستہ جا رہے تھے اور رونے والوں کی آوازوں سے ہر طرف ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ جنازے کے ساتھ لمبے لمبے بانس مضبوطی سے باندھ دیے گئے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان کندھا دے سکیں۔ گورنر پنجاب اور نواب بہاول پور کی طرف سے ان کے سیکرٹریوں نے پھول کی چادریں جنازے پر چڑھائیں۔ جنازے کے جلوس کے آگے پید اور سوار پولیس، احرار کے سرخ پوش رضا کار، نیلی پوش والنٹیر، خاکساروں کا جیش، کامریڈ مسلم جیش، الہلال پارٹی، غرض متعدد جیوش اپنی اپنی وردیوں میں جنازے کے ہمراہ تھے۔ جاوید منزل سے یہ عظیم الشان جلوس ریلوے سٹیشن اور ریلوے روڈ سے ہوتا ہوا اسلامیہ کالج کے وسیع سبزہ زار میں پہنچا۔ جہاں نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کم و بیش بیس ہزار مسلمان موجود تھے۔ لیکن جب جلوس برانڈ رتھ روڈ سے دہلی دروازے کی طرف چلا تو جنازے کے ساتھ کوئی پچاس ساٹھ ہزار مسلمان، ہندو اور سکھ ضرور ہوں گے۔ سات بجے کے بعد جلوس شاہی مسجد پہنچا۔ نماز جنازہ میں شریک ہونے والوں کی بے پناہ کثرت کے باعث وضو اور ترتیب صفوف میں ایک گھنٹہ صرف ہوا آٹھ بجے شب نماز جنازہ ادا کی گئی اور پونے دس بجے یہ عزیز و محبوب جسم سپرد خاک کر دیا گیا:‘‘ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے10؎ ٭٭٭ حوالے 1۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ (مرتبہ چراغ حسن حسرت)ص67 2۔ ایضاً، ص64 3۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ ص219 4۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ (حسرت) صفحات66, 65 5۔ ایضاً، صفحات29, 28 6۔ ’’ اوراق گم گشتہ‘‘ ص394 7۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ مرتبہ حسرت، حکیم قرشی صاحب کا مقالہ، صفحات54, 55 8۔ ’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات221, 222 9۔ ایضاً، صفحات332, 222 ’’ اقبال نامہ‘‘ صفحات57, 56 10۔’’ ذکر اقبال‘‘ صفحات225, 224 ٭٭٭ اڑتیسواں باب اقبال کے شب و روز حضرت علامہ عابد شب زندہ دار بھی تھے اور رونق محفل بھی۔ نصف شب کے وقت سوتے اور تین گھنٹے کے بعد بیدار ہوتے۔ تہجد کی نماز ادا کرتے۔ اس کے بعد تھوڑا سا آرام کرتے۔ اتنے میں نماز فجر کا وقت آ جاتا۔ نماز ادا کرنے کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت فرماتے۔ جب تک گلا خراب نہ ہوا، بہت صاف اور دلکش آواز میں تلاوت کرے۔ علالت کے بعد تلاوت تو جاری رہی لیکن زیر لب۔ قرآن حکیم کو حرز جاں بنا رکھا تھا۔ اسی کے مطالعہ میں ایک عمر بسر ہو گئی۔ اسی کے اسرار و رموز کی ترجمانی اپنے کلام میں فرمائی۔ اسی کو سیاست میں رہنما بنایا اور اسی کو فلسفے کی باریکیاں سمجھنے میں اور نوع انسانی کے مسائل سے آگاہی میں ہدایت کا سرچشمہ پایا۔ جب فکر شعر کرتے، قرآن حکیم پاس رکھتے۔ افسوس، زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ قرآن کریم کے مطالب پر اپنی موعودہ کتاب لکھ لیتے۔ اقبال کو حضور سرور کائناتؐ سے غیر معمولی اور والہانہ عشق تھا۔ حضورؐ کا ذکر آتا تو رقت طاری ہو جاتی اور کبھی زار و قطار رونے لگتے۔ اسی نے ان کی طبیعت میں گداز پیدا کیا اور یہی گداز ان کی شاعری اور فکر میں رواں دواں ہے۔ علامہ نے ایک قلندرانہ ا ور درویشانہ مزاج پایا تھا۔ ابتدائی زندگی میں یافت کے لیے بہت تگ و دو کی لیکن ضروریات کو محدود رکھا۔و کالت کے ابتدائی زمانے میں جب مہینے بھر کے لیے پانسو روپے کا کام مل جاتا، مطمئن ہو جاتے اور مزید یافت کے لیے جدوجہد نہ کرتے۔ جوں جوں مالی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا، مزید یافت کے جستجو ہوئی۔ کچھ رائلٹی کتابوں سے آنے لگی۔ کچھ روپیہ امتحانی پرچے دیکھنے سے مل جاتا۔ جن لوگوں کو امتحانی پرچے دیکھنے کا تجربہ ہے، وہ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ یہ ایک اکتا دینے والا کام ہے اور علامہ کو یہ کام آخری دم تک جاری رکھنا پڑا۔ جناب ڈاکٹر صفدر محمود نے انکم ٹیکس کے کاغذات کی چھان بین کر کے بتایا ہے کہ علامہ نے زندگی کے آخری بائیس سالوں میں دو لاکھ روپے سے کچھ کم رقم کمائی۔ اس میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ آمدنی وکالت سے ہوئی، تریسٹھ ہزار روپے کتابوں کی رائلٹی کے طور پر حاصل ہوئے اور تقریباً پینتیس ہزار روپے امتحانی پرچوں کو دیکھنے کے معاوضے کے طور پر ملے۔ اس سے موصوف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علامہ مرفع الحال رہے۔ لیکن اگر اس رقم کو بائیس سالوں پہ پھیلایا جائے تو معلوم ہو گا کہ علامہ کی اوسط ماہانہ آمدنی ساڑھے سات سو روپے ماہانہ رہی۔ اس عرصے کے دوران میں زندگی کا بیشتر حصہ میکلوڈ روڈ کی کوٹھی میں گزارا، جس کا ماہانہ کرایہ پونے دو سو روپے تھا۔ا سی آمدنی سے کوٹھی بنوائی اور اسی آمدنی سے بچوں کے لیے کچھ اثاثہ جمع کیا۔ اور ایس میں سے تقریباً دس ہزار روپے کی رقم انکم ٹیکس کی صورت میں ادا کی۔ اب خود ہی تصور کر لیجئے کہ روز مرہ زندگی گزارنے کے لیے کتنی رقم بچتی ہو گی؟ ڈاکٹر جاوید اقبال سے اس بات پر گفتگو ہوئی تو کہنے لگے، رہن سہن کا انداز ہی ظاہر کرتا تھا کہ علامہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور روپے کی کوئی ریل پیل نہیں تھی۔ سادگی کی کیفیت یہ تھی کہ مدتوں انارکلی بازار کے ایک بالا خانے میں قیام رہا۔ 1922ء میں میکلوڈ روڈ پر ایک بوسیدہ سی کوٹھی میں آ گئے۔ والد مرحوم سالک نے پوچھا، حضرت! کیا لاہور میں اس کرائے پر اس سے بہتر کوٹھی نہیں ملتی تھی۔ یہ تو بہت ہی پرانی ہے۔ علامہ ہنس کر فرمانے لگے، جی ہاں یہ تو صرف میری دعاؤں کے سہارے کھڑی ہے۔ ورنہ اس میں قائم رہنے کی کوئی بات باقی نہیں۔ تیرہ سال بعد 1935ء میں اپنی کوٹھی جاوید منزل میں منتقل ہوئے۔ مجھے عنفوان شباب میں وہیں اگست37ء میں ان کی خدمت میں چند مرتبہ حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ میر ااپنا مشاہدہ ہے کہ اس کی سجاوٹ میں کوئی خاص تکلف نہیں برتا گیا تھا۔ میں نے دو کمرے دیکھے ایک ڈرائنگ روم، جو نہایت سادہ تھا اور ایک اس سے ملحق کمرہ، جس میں سجاوٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔ کمرے کے وسط میں ایک چارپائی تھی۔ جس پر ایک صاف ستھرا بستر بچھا رہتا تھا۔ اسی پر علامہ گاؤ تکیے کے سہارے دراز ہوتے۔ آس پاس چند کرسیاں تھیں۔ بیشتر لوگوں میں یہیں ملاقات رہتی اور ڈرائنگ روم نسبتاً کم استعمال ہوتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں علامہ علیل رہتے تھے اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنا دو بھر معلوم ہوتا تھا۔ کسی زمانے میں علامہ نے عدالت آنے جانے کے لیے بگھی رکھی ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ کار بھی رکھی لیکن یہ استعمال میں کم آتی تھی۔ کیونکہ علامہ گھومنے پھرنے کے زیادہ قائل نہیں تھے۔ کہتے ہیں ڈرائیور نے اپنے آپ کو بے کار پا کر کوٹھی کے باہر خوانچہ لگا لیا۔ تاکہ وقت گزرے اور یافت بھی ہو۔ علامہ سیر کے کبھی قائل نہیں ہوئے۔ جوانی میں ورزش کرتے تھے۔ بعد میں وہ بھی ختم ہو گئی۔ لاہور سے باہر جانا ہوتا یا کوٹھی سے نکلنا ہوتا، علامہ انتہائی مجبوری کے عالم ہی میں نکلتے تھے۔ خانہ نشینی ان کی فطرت میں داخل ہو چکی تھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ملنے والے خود علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ سارا دن تانتا بندھا رہتا تھا۔ ان میں امیر بھی تھے، غریب بھی، سیاست دان بھی تھے اور دانش ور بھی ملکی بھی تھے اور غیر ملکی بھی سالک ’’ ذکر اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں’’ علامہ اقبال دور حاضر کے بہت بڑے متکلم تھے۔ جس کو انگریزی میں (Conversationalist) کہتے ہیں۔ صبح سے رات تک یہ مرد قلندر اپنے سادہ کپڑوں میں سیدھی سادی چارپائی پر آرام کرسی پر بیٹھا رہتا اور آنے والوںکا تانتا بندھا رہتا۔ صوبے کے سیاسی اکابر، وکلائ، علمائ، کالجوں کے پروفیسر، اخباروں کے ایڈیٹر، شعرائ، ادبا، طالب علم، ان پڑھ عقیدت مند، فقیر اور درویش غرض ہر قسم اور ہر طبقے کا انسان ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ معمولی معمولی جھگڑوں سے لے کر قانون، فلسفہ، سیاست، دین اور سائنس کے بلند ترین مسائل زیر بحث آتے۔ اقبال ان سب پر اپنی وسیع معلومات سے روشنی ڈالتے اور ہر شخص آپ کے علم و فضل سے مرعوب ہو کر جاتا۔ صوبے بھر کے تعلیم یافتہ حضرات اپنی ذہنی اور فکری الجھنیں علامہ کی خدمت میں پیش کرتے اور وہ انہیں سلجھا دیتے۔ ان کی مجلس میں بڑے اور چھوٹے کا امتیاز نہ تھا۔ معمولی سے معمولی آدمی بھی سیدھا ان کے گھر میں داخل ہو کر ان کے پاس بیٹھ جاتا اور جس وقت تک جی چاہتا، بیٹھا رہتا، علامہ صاف صاف کہنا تو درکنار، اپنی کسی حرکت سے بھی اکتاہٹ کا اظہار نہ ہونے دیتے تھے۔ علم و فکر کے اس دربار میں سر فضل حسین، سکندر حیات خان، جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح، لارڈ لوتھین، ڈاکٹر سکارپا اور بے شمار دوسرے اکابر علم و سیاست حاضر ہوتے اور مستفیض ہو کر جاتے۔ علامہ کو بعض سے سیاسی اختلافات تھے لیکن چونکہ خلوص و بے غرضی کا معاملہ تھا، اس لیے کسی سے ناگواری پیدا نہ ہوتی تھی۔‘‘ بہت سے لوگ مسلسل ان کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔ پہلے دور میں مرزا جلال الدین، سر عبدالقادر، سر شہاب الدین، نواب ذوالفقار علی خان، سر محمد شفیع، سر فضل حسین، سر جوگندر سنگھ، سردار امراؤ سنگھ اور راجہ نریندر ناتھ دوسرے دور میں مولانا ظفر علی خان، خلیفہ شجاع الدین، اکبر علی ارسطو اور مہرو سالک موخر الذکر دو مدیر 1933ء تک تو ہر دوسرے تیسرے دن شام علامہ کے ہاں بسر کرتے۔ جب انہوں نے مسلم ٹاؤن میں مکاں بنا لیے، تو فاصلے کی وجہ سے شام کی محفلیں ترک کر دیں۔ بہرحال دن کے وقت اکثر حاضر ہوتے تھے اور یہ سلسلہ آخری دم تک جاری رہا آخری ایام میں حکیم محمد حسن قرشی، راجہ حسن اختر، خواجہ عبدالرحیم زیادہ آتے رہے۔ میاں محمد شفیع (م۔ ش) عملاً علامہ کے سیکرٹری کے فرائض ادا کرتے تھے۔ سید نذیر نیازی علامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر مختلف النوع علمی مسائل پر ان کے تاثرات قلم بند کرتے تھے۔ لیکن جو شخص ابتدا سے آخر تک جلیں و ندیم رہا، وہ چودھری محمد حسین کی ذات گرامی تھی۔ ان سے علامہ کے نہایت گہرے تعلقات تھے۔ یہ حیرت کا مقام ہے کہ ملاقاتیوں اور دوستوں اور نیاز مندوں کی مسلسل اور طویل صحبتوں کے باوجود حضرت علامہ کو فکر شعر کا وقت بھی بدرجہ وافر حاصل تھا اور جدید ترین ادب کے مطالعہ کا موقع بھی مل جاتا تھا۔ علامہ احباب کو کلام سناتے تھے لیکن اپنی مرضی سے انہیں اس بات سے خاصا حجاب تھا کہ فرمائش پر کلام سناتے۔ بعض لوگ انہیں اپنے گھر مدعو کرتے، بہت سے مہمان بلاتے اور اس خیال میں ہوتے کہ ان سے کلام بھی سنا جا سکے گا۔ لیکن علامہ نے شاذ ہی کلام سنایا۔ عہد شباب میں مشاعروں میں شرکت کرتے تھے اور ترنم سے کلام سناتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ مشاعروں سے جی اچاٹ ہو گیا اور بے حد اصرار کے باوجود ایسی محفلوں میں شرکت سے گریز کرتے تھے۔ کسی زمانے میں موسیقی میں دلچسپی لیتے تھے۔ موسیقی کی چند ایک محفلوں سے بھی لذت اندوز ہوئے۔ لیکن ز ندگی کے آخری آٹھ دس سالوں میں یہ دلچسپی بھی مفقود ہو گئی۔ ہم بتا چکے ہیں کہ 1934ء کے آغاز میں ان کا گلا بیٹھ گیا اور یہ صورت آخری دم تک جاری رہی۔ لیکن گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔ 1937ء کے آخری پانچ مہینوں میں راقم الحروف کو ان کی خدمت میں پانچ مرتبہ حاضر ہونے کا اتفاق ہوا۔ چار ملاقاتوں میں ان کی گفتگو خوب رہی۔ پانچویں ملاقات دسمبر کے وسط میں ہوئی۔ اس دن وہ باہر چارپائی پر دراز تھے۔ طبیعت علیل تھی اس لیے وہ زیادہ گفتگو نہ کر سکے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سخت علالت کے زمانے میں بھی اور زندگی کے آخری چند دنوں میں بھی وہ اپنے نیاز مندوں سے گفتگو کرتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ملاقاتوں میں ایسے وقفے بھی آتے جب طبیعت نڈھال ہونے کے سبب سے وہ خاموش ہو جاتے اور سو بھی جاتے۔ لیکن جونہی نیند کھلتی، پھر تروتازہ اور شگفتہ ہو جاتے تھے۔ ممتاز حسن مرحوم کو علامہ کے ملازم علی بخش نے بتایا کہ پلاؤ، گھی میں پکی ہوئی ماش کی دال، قیمہ بھرا کریلا اور خشکہ چاول ان کے پسندیدہ کھانے تھے اور سری پائے اور گوشت کے ساتھ پکے ہوئے ٹینڈے انہیں نا پسند تھے۔ اور رات کو کھانا نہیں کھاتے تھے۔ سالک نے قدرے مختلف بیان دیا ہے وہ لکھتے ہیں:’’ زندگی کے آخری سالوں میں اقبال کی خوراک بہت برائے نام رہ گئی تھی لیکن اس سے قبل بھی کلچہ یا باقر خانی حلوے کے ساتھ کھا کر کشمیری چائے پی لیا کرتے تھے اور گرمی کے موسم میں چائے کی جگہ دہی کی لسی نوش فرماتے تھے۔ دوپہر کو سبزی گوشت اور ایک دو چپاتیاں۔ تیسرے پہر کچھ نہیں رات کو پھر دہی سالن اور چپاتیاں۔ پلاؤ او رکباب بہت پسند تھے۔ لیکن کبھی کبھی کھاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ (Pan-Islamic Dishes) ہیں۔ چین سے مراکش تک کہیں چلے جاؤ، بلاؤ اور کباب ہر جگہ ملیں گے۔ دہی بھی بہت پسند تھا۔ دلیا دودھ ڈال کر اکثر کھا لیتے تھے۔ کبھی کبھی تیسرے پہر ایک چھوٹا سا چوزہ مسلم پکوا لیتے اور ایک چپاتی کے ساتھ دو تین گوشت کے ٹکڑے کھا کر دسترخوان بڑھوا دیتے۔ کھانا کھانے کا عام انداز یہ تھا کہ علی بخش ایک سینی میں سالن کی ایک رکابی اور دو تین ہلکی سی چپاتیاں رکھ کر لے آیا۔ اقبال بستر پر سیدھے ہو بیٹھے۔ علی بخش نے بستر ہی پر ایک رومال بچھا کر سینی رکھ دی۔ علامہ نے پاس بیٹھے ہوئے دوستوں کو صلا دی اور کھانا شروع کیا۔ علی بخش پانی لیے بیٹھا رہا۔ ایک آدھ چپاتی کھا کر علامہ نے فرمایا، اٹھاؤ۔ علی بخش نے سینی اٹھا کر ایک طرف رکھ دی چلچلی آفتابہ آگے کر دیا اور علامہ کے ہاتھ دھلوا دیے۔‘‘ رات کے وقت علامہ نمکین کشمیری چائے پیتے تھے۔ دن کے وقت بھی کبھی دورہ چلتا۔ جو احباب موجود ہوتے، وہ بھی اکثر اس میں شامل ہو جاتے۔ آخری سالوں میں رات کا کھانا ترک کر دیا لیکن چائے جاری رہی۔ علامہ کے دولت کدے پر غالباً کوئی رسمی ڈائننگ روم موجود نہیں تھا۔ اگر احباب کے ساتھ مل کر کھانا ہوتا تو ڈرائنگ روم میں قالین پر چادر بچھ جاتی اور سب فرق پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ علامہ کو آم بے حد مرغوب تھے اکثر کھاتے تھے میاں امیر الدین کے والد میاں نظام الدین مرحوم ہر سال اپنے باغات میں آموں کی ایک محفل برپا کرتے۔ جس کی ’’ صدارت‘‘ علامہ فرماتے اور ان کے گرد اہل علم کا ایک جمگٹھا ہوتا۔ جب میں بہت چھوٹا تھا، تو والد مجھے بھی اس محفل میں لے گئے۔ باغ میں چارپائیاں بچھی تھیں۔ چو بچوں میں مختلف اقسام کے آم تھے۔ ایک قسم کو ہاضمے کے آم کہا جاتا تھا جو آخر میں کھائے جاتے۔ میں نے حضرت علامہ کو اس محفل میں بہت شاداں و فرحاں پایا اور دیکھا کہ وہ احباب کو پر لطف گفتگو اور لطائف و ظرائف سے نواز رہے ہیں۔ آموں سے پیار کا یہ عالم تھا کہ جب علالت کے دنوں حکیم نابینا نے آموں کی مناہی کر دی، تو علامہ نے اصرار کے ساتھ ہر روز ایک آم کھانے کی اجازت لے لی اور اس اجازت سے یہ ’’ناجائز‘‘ فائدہ اٹھایا کہ ہر روز کوئی سیر بھر کا وزنی ’’ بمبئی آم‘‘ کھاتے۔ کڑوی کسیلی دواؤں سے ان کی طبیعت بہت جاتی تھی۔ چنانچہ اصرار کرتے کہ دوائیں خوش ذائقہ ہوں۔ چنانچہ حکیم نابینا اور ان کے بعد حکیم محمد حسن قرشی ان کے ذوق کی آسوسدگی کا سامان فراہم کرتے رہے۔ سالک بتاتے ہیں کہ ’’ جب خمیرہ مروار یدی بہ ورق نقرہ پیچیدہ ایک چھوٹی سی پرچ میں پیش کیا جاتا تو بہت خوش ہوتے اور کہتے ہاں یہ ہے نا دوا جس کو دیکھتے ہی مرض آدھا رہ جائے۔ مریض تو پہلے ہی تلخ کام ہوتا ہے۔ اس کو مزید تلخ کام کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔‘‘ علامہ نے یورپ میں اور وکالت کی زندگی میں رواج کے مطابق انگریزی لباس پہنا۔ کبھی تین ’’ پیس‘‘ کا سوٹ، کبھی واسکٹ کی جگہ جرسی، کبھی نکٹائیا ور کبھی کالی بو۔ بہرحال غالباً ہیٹ کبھی نہیں پہنا۔ بلکہ اپنی ایشیائی انفرادیت برقرار رکھنے کی خاطر ترکی ٹوپی یا کلپاک کی ٹوپی پہنی۔ گویا لباس میں مشرق و مغرب کا امتزاج موجود تھا۔ ہائیڈل برگ کی ایک تصویر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سوٹ کے ساتھ کبھی کبھی سلیم شاہی بھی پہن لیتے تھے۔ اس زمانے میں بہت سے شرفا قمیض شلوار کے ساتھ چھوٹا کوٹ پہنتے تھے۔ علامہ بھی نجی تقریبات میں جاتے تو ’’ سر پر‘‘ ترکی یا کلپاک ٹوپی، سردیوں میں پشاوری پٹکا، قمیض، شلوار، چھوٹا کوٹ، پاؤں میں دیسی جوتا پہنتے تھوڑا بہت اچکن کا بھی شوق تھا۔ جوانی میں بھی اور زندگی کے دوسرے مراحل میں بھی۔ گول میز کانفرنس کے دوران میں دو ایک بار اچکن زیب تن فرمائی اور اس کے ساتھ پگڑی اور پگڑی کا شوق تو 1937ء تک رہا۔ لیکن کم کم گھر آتے تو گرمیوں کے موسم میں صرف بنیان اور تہمد پہنتے اور سردیوں میں قمیض بھی شامل ہو جاتی۔ اس کے اوپر پشمینے کا ایک دھسہ اوڑ لیتے۔ گھر میں عنفوان شباب سے تادم مرگ یہی لباس ہوتا تھا اور علامہ کو اس بات کی چنداں پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ کوئی بڑی شخصیت بنیان اور تہمد کو دیکھ کر دل میں کیا سوچے گی۔ چنانچہ قائد اعظم بھی ملنے کے لیے آئے تو علامہ نے یہی لباس پہن رکھا تھا۔ برقی پنکھا پسند نہیں تھا۔ سخت سے سخت گرمی میں بھی پسینے میں شرابور ہونے کے باوجود پنکھے کے سامنے نہیں بیٹھتے تھے۔ ’’ ایک چھوٹی سے پنکھیا پاس پڑی رہتی تھی کبھی کبھی اٹھا کر ذرا سا جھل لیتے اور بس‘‘ بہرحال ملاقاتیوں کے لیے ٹیبل فین منگوا لیتے۔ لیکن اس کا رخ اپنی طرف نہ ہونے دیتے۔ گھر میں نشست و برخاست کی کیفیت یہ تھی کہ جب تک علیل نہ ہوئے، عدالت سے آتے، کپڑے بدلتے کھانا کھاتے اور ایک آرام کرسی پر بیٹھ جاتے اور مطالعہ فرماتے جب شعر کہنا ہوتا تو بیاض، پنسل اور قرآن مجید طلب کر لیتے۔ دوپہر کا قیلولہ کبھی کبھار کرتے وہ بھی مختصر علالت نے زیادہ دامن پکڑا تو پھر بستر کے ہو رہے۔ وہیں ملاقاتیوں سے باتیں کرتے جب طبیعت ٹھیک ہوتی اور جی چاہتا تو ڈرائنگ روم میں بیٹھ جاتے۔ لیکن صوفہ کرسی پر ٹانگیں لٹکا کر نہیں، بلکہ چوکڑی نماز انداز میں بیٹھ جاتے۔ اس میں بے تکلفی کا پہلو بھی تھا اور آرام بھی تھا ویسے بستر پر دراز ہوتے یا آرام کرسی پر بیٹھتے۔ اکیلے ہوتے یااحباب کی صحبت میں حقہ ضرور پاس ہوتا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ علامہ کی پہلی بیوی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی جو جلد فوت ہو گئی اور ایک فرزند آفتاب اقبال پیدا ہوئے جنہوں نے بیرسٹری بھی کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ چونکہ پہلی بیوی سے نباہ نہ ہو سکا، اس لیے فریقین میں اختلاف کی خلیج وسیع ہوتی چلی گئی۔ علامہ چاہتے تھے کہ آفتاب اقبال ان کے پاس رہیں۔ لیکن ننھیال نے ایسا نہ ہونے دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باپ بیٹے میں بھی دوری ہوتی چلی گئی۔ جس نے انقطاع کی صورت لے لی۔ 1913ء میں جس خاتون سے علامہ نے شادی کی، ان کے بطن سے 1924ء میں جاوید اقبال پیدا ہوئے اور چند سال بعد منیرہ اقبال ان دونوں بچوں سے علامہ کو بے حد لگاؤ تھا۔ 1935ء میں جب والدہ جاوید اقبال کا انتقال ہوا اور علامہ خود بھی علیل تھے تو انہوں نے مناسب سمجھا کہ وصیت کا عمل پورا کر دیا جائے۔ جاوید منزل تو وہ پہلے ہی جاوید اقبال کے نام کر چکے تھے اور خود کرایہ دار کی حیثیت سے رہتے تھے۔ وصیت نامے میں حضرت علامہ نے لکھا کہ اگر میرے وفات کے وقت بچے نابالغ ہوں تو ان کی ولی یہ ہوں گے۔بچوں کے ماموں خواجہ عبدالغنی، برادر زادہ شیخ اعجاز احمد، چودھری محمد حسین اور منشی طاہر الدین جو کئی سال علامہ کے کلرک رہے تھے اور جن کی شرافت و دیانت پر انہیں اعتماد تھا۔ علامہ نے لکھا کہ ولی حضرات کثرت رائے سے فیصلہ کیا کریں گے اور اگر کسی مسئلے پر اتفاق نہ ہو سکے، تو انجمن حمایت اسلام کے صدر کی رائے آخری اور قطعی سمجھی جائے گی۔ بہرحال جونہی جاوید اقبال بالغ ہوں گے تو وہ خود اپنی بہن کے ولی ہوں گے۔ علامہ نے اپنے کتب خانے کی یہ چیزیں جاوید اقبال کو بطور یادگار دے دیں۔ اپنی تصانیف کے مطبوعہ نسخے اور ان کے مسودات مثنوی مولانا روم، فارسی انگریزی، مرتبہ ڈاکٹر نکلسن، دیوان مرزا عبدالقادر بیدل قلمی، مثنوی مراۃ معنوی (مولانا روم، مطبوعہ حیدر آباد) اپنے پڑھنے کا قرآن شریف اور دوسرے مسودات اور کاغذات۔ نیز یہ وصیت کی کہ باقی تمام کتب اسلامیہ کالج، لاہور کی لائبریری کے سپرد کر دی جائیں۔ پہننے کے کپڑوں کے بارے میں کہا، کہ انہیں غربا میں بانٹ دیا جائے۔ وصیت نامے کے ضمیمے میں یہ عبارت درج تھی: ’’ اگر نابالغاں کے فائدے کی خاطر یا جائیداد کے انتظام یا کسی اور جائیداد کی خرید وغیرہ کے لیے اولیا کو روپے کی ضرورت ہو ، تو وہ کثرت رائے سے بینک سے روپیہ نکالنے کے متعلق فیصلہ کریں۔ دیگر میرے مذہبی اور دینی عقائد سب کو معلوم ہیں۔ میں عقائد دینی میں سلف کا پیرو ہوں۔ نظری اعتبار سے فقہی معاملات میں غیر مقلد ہوں۔ عملی اعتبار سے حضرت امام ابو حنفیہؒ کا مقلد ہوں۔ بچوں کی شادی بیاہ کے معاملے میں میرے ورثا کا اور اولیا مقرر کردہ کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا پورا لحاظ کریں اور رشتے ناطے میں شرافت اور دین داری کو علم و دولت اور ظاہری وجاہت پر مقدم سمجھیں۔‘‘ وصیت نامہ 13 اکتوبر35ء کو لکھا اور چار دن بعد ایک اور تحریر تیار کی، جس میں خاص طور پر جاوید اقبال سے ان الفاظ میں خطاب کیا: ’’ جاوید کو میری عام وصیت یہی ہے کہ وہ دنیا میں شرافت اور خاموشی کے ساتھ اپنی عمر بسر کرے۔ اپنے رشتے داروں کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار تعلقات رکھے۔ میرے بڑے بھائی کی اولاد سب اس سے بڑی ہے، ان کا احترام کرے۔ اور اگر ان کی طرف سے کبھی سختی بھی ہو تو برداشت کرے۔ دیگر رشتہ داروں کو اگر اس سے مدد کی ضرورت ہو اور اس میں ان کی مدد کی توفیق ہو تو اس سے کبھی دریغ نہ کرے۔ جو لوگ میرے احباب ہیں ان کا ہمیشہ احترام ملحوظ رکھے اور ان سے اپنے معاملات میں مشورہ لیا کرے۔‘‘ ’’ باقی دینی معاملے میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے عقائد میں، بعض جزوی مسائل کے سوا، جو ارکان دین میں سے نہیں ہیں، سلف صالحین کا پیرو ہوں۔ اور یہی راہ بعد کامل تحقیق کے محفوظ معلوم ہوتی ہے۔ جاوید کو بھی میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اسی راہ پر گامزن رہے اور اس بد قسمت ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی غلامی نے جو دینی عقائد کے لیے فرقے مختص کر لیے ہیں، ان سے احتراز کرے۔‘‘ بعض فرقوں کی طرف لوگ محض اس واسطے مائل ہوتے ہیں کہ ان فرقوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے دنیوی فائدہ ہے۔ میرے خیال میں بڑا بدبخت ہے وہ انسان، جو صحیح دینی عقائد کو مادی منافع کی خاطر قربان کر دے۔ غرض یہ ہے، کہ طریقہ حضرات اہل سنت محفوظ ہے اور اسی پر گامزن رہنا چاہیے اور آئمہ اہل بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنی چاہیے۔ ٭٭٭ حوالے اس باب میں دیدہ و دانستہ حوالے رسمی انداز میں نہیں دیے گئے، کیونکہ ان کی فہرست زیادہ طویل ہونے کا اندیشہ تھا۔ بہرحال مجموعی طور پر معلومات کے ماخذ یہ تھے:’’ ذکر اقبال‘‘ (صفحات243, 227) روزگار فقیر، جلد دوم (صفحات59, 55 ) ’’ اوراق گم گشتہ‘‘ میں ممتاز حسن اور عبداللہ قریشی کی تحریریں (صفحات بالترتیب 468, 467, 310, 305) اور ذاتی مشاہدات۔ نیز ڈاکٹر جاوید اقبال سے ایک ملاقات۔ ٭٭٭ کتابیات (الف) علامہ اقبال کی تصانیف 1۔ علم الاقتصاد 1903ء 2۔ اسرار خودی 1915ء 3۔ رموز بے خودی 1918ء 4۔ پیام مشرق 1923ء 5۔ بانگ درا ستمبر1924ء 6۔ زبور عجم جون 1927ء 7۔ جاوید نامہ 1932ء 8۔ بال جبریل جنوری 1935ء 9۔ مسافر 1936ء 10۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق 1936ء 11۔ ضرب کلیم جولائی 1936ء 12۔ ارمغان حجاز نومبر1938ء 13۔ Reconstruction of Religious Thought in Islam: Second Edition: Lahore, 1951. 14۔ Iqbal's Letters to Jinnah: Lahore 1943. (ب) اخباری فائل 15۔ روزنامہ ’’ انقلاب‘‘ کے فائل 1927ء سے 1938ء تک (ج) انگریزی زبان کی کتب 16. Abdul Hamid: Muslim Separatism in India. Lahore 1971. 17. Abdulah Anwar Beg: The Poet of the East, Lahore, 1939. 18. Abdull Vahid, Syed: Thoughts and Reflectine of Iqbal, Lahore 1973, Second Edition. 19. Abdul Vahid, Ali: Glimpses of Iqbal. Karachi 1974. 20. Arastu, Akbar Ali: Iqbal, His Poetry and Message, lahore, 1948. 21. Akbar Muhammad: The Punjab Under the Mughals, Lahore 1948. 22. Dar Bashir Ahmad: Letters and Writings of Iqbal, Karachi 1967. 23. Hafeez Malik : Iqbal, Poet-Philosopher of Pakistan, New York 1971. 24. Latif, Syed Muhammad: Lahore, its History, architectual remains and antiquities, Lahore 1893. 25. Pirzada, Sharifuddin : Evolution of Pakistan, Karachi 1963. 26. Rahman, S.A : Iqbal and Socialism, Karachi 1974. 27. Tariq. A.R: Speeches and Statements of Iqbal, Lahore, 1973. 28. Zulifqar Ali Khan: A Voice form the East, Second Edition 1986. (د) اردو کتب 29۔ احمد شجاع، حکیم، خوں بہا، لاہور 1943ء 30۔ اعجاز الحق قدوسی۔ اقبال کے محبوب صوفیہ، لاہور 1977ء 31۔ الطاف حسین حالی، حیات جاوید، (لاہور ایڈیشن)1957ء 32۔ انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ، مقالات یوم اقبال لاہور 1938ء 33۔ بشیر احمد ڈار۔ انوار اقبال، کراچی 1967ء 34۔ حنیف شاہد، اقبال اور انجمن حمایت اسلام، لاہور1976ء 35 ۔ حسین احمد مدنی، متحدہ قومیت اور اسلام، لاہور 1975ء 36۔ خالد نظیر صوفی، اقبال، درون خانہ، لاہور1971ء 37۔ خلیفہ عبدالحکیم، فکر اقبال، لاہور سال اشاعت درج نہیں۔ 38۔ رحیم بخش شاہین، اوراق گم گشتہ، لاہور1975ء 39۔ رفیع الدین ہاشمی، خطوط اقبال، لاہور1976ء 40۔ رفیق افضل، گفتار اقبال، لاہور1969ء 41۔ نذیر نیازی، مکتوبات اقبال، کراچی 1957ء 42۔ نذیر نیازی، اقبال کے حضور (جلد اول) کراچی 1971ء 43۔ نذیر نیازی، اقبال کا مطالعہ، لاہور1941ء 44۔ نور احمد، سید مارشل لاء سے مارشل لاء تک۔ لاہور1965ء 45۔ وحید قریشی، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، لاہور1965ء 46۔ طاہر فاروقی، محمد، سیرت اقبال، لاہور1949ء 47۔ عابد علی عابد، شعر اقبال، لاہور1959ء 48۔ عاشق حسین بٹالوی، اقبال اور تحریک پاکستان، لاہور1967ء 49۔ عاشق حسین بٹالوی، اقبال کے آخری دو سال، کراچی 1961ء 50۔ عبدالسلام خورشید، صحافت، پاکستان و ہند میں، پہلا ایڈیشن، لاہور 1963ء 51۔ عبدالسلام ندوی، اقبال کامل، طبع دوم، اعظم گڑھ 1964ء 52۔ عبداللہ قریشی، محمد۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی، کراچی 1969ء 53۔ عبداللہ ملک، پنجاب کی سیاسی تحریکیں، لاہور 1971ء 54۔ عبدالمجید سالک، ذکر اقبال، لاہور 1955ء 55۔ عبدالمجید سالک، سرگذشت، دوسرا ایڈیشن، لاہور 1966ء 56۔ عبدالواحد معینی، سید، مقالات اقبال، لاہور 1963ء 57۔ عطاء اللہ شیخ، اقبال نامہ، حصہ اول، لاہور تاریخ درج نہیں 58۔ عطاء اللہ شیخ، اقبال نامہ، حصہ دوم، لاہور1951ء 59۔ غلام عباس چودھری، کشمکش، لاہور1950ء 60۔ فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر، جلد اول، چھٹا ایڈیشن، کراچی 1966ء 61۔ فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر، جلد دوم، دوسرا ایڈیشن، کراچی 1965ء 62۔ کلیم اختر، شیر کشمیر، لاہور1963ء 63۔ گوہر نوشاہی، اقبال کا مطالعہ، لاہور1971ء 64۔ غلام دستگیر، رشید۔ آثار اقبال، حیدر آباد دکن، 1944ء 65۔ محمد احمد خاں، اقبال کا سیاسی کارنامہ، کراچی 1952ء 66۔ محمود نظامی، ملفوظات اقبال، طبع ثانی، لاہور 1949ء 67۔ چراغ حسن حسرت، اقبال نامہ، لاہور1939ء (ہ) رسائل 68۔ صحیفہ، اقبال نمبر، حصہ اول، شمارہ 65، اکتوبر1973ء 69۔ صحیفہ، اقبال نمبر، حصہ دوم، شمارہ 66جنوری 1975ء 70۔ ’’ المعارف‘‘ جلد10،شمارہ 5مئی 1977ء 71۔ اقبال ریویو، اپریل 1976ء نوٹ:ـ کتابیات کی یہ فہرست مکمل نہیں۔ ان ماخذ کے علاوہ بہت سے اور ماخذ کی بھی چھان بین کی۔ لیکن ان کی چٹیں تیار کرنے میں کوتاہی ہوئی۔ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End