اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹرعبد الشکور احسن اقبال اکادمی پاکستان انتساب مرحوم والدین میاں وبیگم مظفر الدین کے نام پیش لفظ حضرت علامہ نے اپنے بیاض (Stray Reflictions) میں ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ : ’’ فطرت قطعی فیصلہ نہیں کر سکی کہ افلاطون کو شاعر بنائے یا فلسفی۔معلومہوتا ہے کہ وہ گوئٹے کے بارے میں بھی وہ اسی قسم کے تذبذب میں مبتلا رہی ہوگی۔‘‘ یہی بات خود ترجمان حقیقت،شاعر مشرق پر صادق آتی ہے۔ وہ ایک عظیم مفکر بھی ہیں اور ایک عظیم شاعر بھی۔یوں انہیں اپنی شاعرانہ حیثیت سے چنداں دل چسپی نہیں،اورا س بات پر گلہ بھی ہے کہ لوگوں نے انہیں غزل خواں سمجھا۔حالانکہ وہ آنے والے قافلہ بہار کے طائر پیش رس تھے۔انہوں نے ملت کو نوید بہار دی۔اس کی مردہ رگوں میں زندگی کی حرارت پیدا کی۔ رومی کی طرح اسرار حیات فاش کیے۔ اور فتنہ عصر رواں کا وہی توڑ کیا جو رومی نے دور کہن میں کیا تھا۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس دانائے راز نے اپنے جاندار اور حیات بخش فلسفے سے اپنی افسردہ اور شکست خوردہ ملت کو ایک نئی زندگی کا پیغام دیا۔ اس کی اقدار زندگی کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس کو ایک نصب العین سے آشنا کیا۔ اور اس منظم نصب العین کے حصول کے لئے ایک منظم ضابطہ حیات پیش کیا۔مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ انہوں نے اپنے پیغام کو حرف وصوت اور تخیل ونغمہ کے جس دلآ ویز قالب میں ڈھالا ہے۔ وہ کم شاعروں کو نصیب ہوا ہے۔ وہ دنیا کے ان عظیم شعراء میں سے ہیں،جن کا کلام فلسفہ وشاعری کی ہم آہنگی کا شاہکار ہے۔ جن کے کلام میں فکر فلک پیما کے ساتھ ساتھ جذبے کی حرارت بھی ہے۔ اور شعور حسن کی دولت بیکراں بھی۔ فکر وفن کا یہ سحر آفرین اظہار فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں ہوا ہے۔البتہ علامہ کی فارسی شاعری کواس لحاظ سے زیادہ اہمیت حاصل ہے،کہ انہوں نے اپنے نظام فکر کواس شیریں زبان میں زیادہ مرتب ،مبسوط اور جامع اندازمیں پیش کیا ہے۔ اور فن کے اعتبار سے بھی جو تنوع ان کے فارسی کلام میں نظر آتا ہے۔اردو اس سے ایک حد تک محروم ہے۔ان کے فلسفے کا محور ومرکز خودی ہے۔ جس کے اثبات واستحکام کے بارے میں انہوں نے پہلی بار ’’اسرار خودی‘‘ کی صورت میں فارسی زبان میں ایک لائحہ عمل پیش کیا، اوراس میں ارشاد فرمایا کہ اگر چہ اردو کی مٹھاس میں کوئی شبہ نہیں، مگر فارسی میں جو رسیلا پن ہے ۔اردو اس سے محروم ہے۔ یوں بھی شاعر مشرق کے کلام کا بیشتر حصہ فارسی میں ہے۔ لہذا اس کا الگ مفصل تنقیدی جائزہ ایک اہم فکری اور فنی تقاضے کی تکمیل ہے۔علامہ کا فارسی کلام نہ صرف ان کے فلسفئہ حیات کی مکمل تفسیر ہے۔ بلکہ ان کے جمالیاتی ذوق کی بھی پوری طرح آئینہ داری کرتا ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ بین الاقوامی سطح پر علامہ کا تعارف ان کی فارسی شاعری ہی کے ذریعے ہوا ہے۔ زیر نظر کتاب میں سب سے پہلے علامہ کے فارسی آثار کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے۔ ہر مجموعے کے موضوعات ومضا مین سے بحث کی گئی ہے۔ان مجموعوں کے جمالیاتی اور فنی پہلوؤں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ اور ہر مجموعے کی انفرادی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آثار اقبال کے فردا فردا جائزے کے بعد فکر اقبال کے بنیادی موضوعات سے شاعر کے فارسی کلام کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ ان موضوعات میں خودی،عشق،فقر، عظمت انسانی،تصوف اور جبر وقدر ایسے مسائل شامل ہیں۔ علامہ کا ارشاد ہے کہ’’ میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا مطالعہ ضروری ہے۔‘‘ کتاب کی تصنیف میں اس بنیادی حقیقت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسی طرح فکر اقبال کے مطالعہ میں شاعر کے اپنے دور کے سیاسی اور اجتماعی پس منظر کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ خود علامہ کا عقیدہ تھا کہ کسی قوم کے روحانی اور فلسفیانہ تصورات بیشتر اس کے سیاسی ماحول کے ترجمان ہوتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ علامہ کے دور کے عالمی حقائق،بالخصوص اسلامی ممالک کے حالات نے ان کے افکار کو بہت متاثر کیا ہے۔ فکر اقبال سے بحث کے بعد علامہ کے حقیقت پسندانہ اور زندگی بخش نظریہ فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے بعد علامہ کے فکر وفن کا موازنہ فارسی کے بعض عظیم شاعروں سے کیا گیا ہے۔علامہ نے فارسی کے جن شعراء سے اثر قبول کیا ہے۔ان کے اور علامہ کے کلام کے مشترک فکری رجحاناتاور فنی خصوصیات سے بحث کی گئی ہے۔مثلا علامہ کے فلسفہ زندگی پر فکر رومی کے گہرے اثرات ہیں۔ چنانچہ ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔علامہ ادبی نصب العین کے اختلاف کے باوجود خواجہ حافظ شیرازی کے ساحرانہ فن کے زبردست معترف ہیں۔اور انہوں نے اپنی غزل میں اس شاعر جاویداں کا اثر شدت سے قبول کیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے وہ مخصوص اسلوب شعر جو سبک ہندی کہلاتا ہے۔ نظر انداز کرکے عام طور سے غزل حافظ ہی کے رنگ میں کہی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے مثنوی میں مولانائے روم اور رباعی میں بابا طاہر عریاں ہمدانی کا تتبع کیا ہے۔ ا س سلسلے میں فارسی شاعری کے مختلف اسالیب واصناف کی منفرد خصوصیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ فارسی شاعری کی روایات،اسالیب،متنوع فی خصوصیات اور جمالیاتی کیفیات پر علامہ کی نہایت گہری نظر تھی۔ وہ نہ صرف فارسی کے بڑے بڑے شعراء کے کلام کے دلدادہ تھے،بلکہ ان کے خطوں سے پتا چلتا ہے کہ انہیں بعض کم اہم شاعروں کے بارے میں بھی حیرت انگیز معلومات حاصل تھیں۔علامہ کے کلام اور مکتو بات سے فارسی زبان،اس کے مزاج،اس کے کلام اور محاورات اور ان کی معنوی،لسانی، اور نفسیاتی خصوصیات پر ان کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بنیادی طور پر کلاسیکی زبان میں اظہار فکر کرتے کرتے بعض جگہ وہ جدید فارسی کے الفاظ واصلاحات نہایت چابک دستی سے استعمال کر جاتے ہیں۔ان کے ایرانی نقاد ان کی زبان دانی کے معترف ہیں۔ اگر علامہ ایسے الفاظ واصلاحات استعمال کر جاتے ہیں ،جو جدید ایرانی پڑھنے والے کے لئے غیر مانوس ہیں،تو ان کے مداح ایرانی دانش ور لسا نیاتی نقطہ نظر سے علامہ کی زبان کے اس رجحان کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ بلکہ ایک ممتاز ایرانی دانش ور ڈاکٹر لطف علی صورت گر نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہم اقبال کے ممنون ہیں جنہوں نے ہمیں قدیم فارسی الفاظ سے دوبارہ متعارف کرایا ہے۔ علامہ نے فارسی شاعری میں ہیئت اور تکنیک کے بعض نئے تجربے کیے ہیں۔ جو فارسی شاعری کی ہزار سالہ تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کرتے ہیں۔ یہاں ایک غلط فہمی کی طرف اشارہ ضروری ہے۔اور وہ یہ کہ علامہ ان تجربوں میں جدید ایرانی شاعر سے ہر گز متاثر نہیں ہیں،بلکہ ان کے یہ تجربات،ان کے تخلیقی ،فنی،جمالیاتی، شعور کی روشن دلیل ہیں۔فارسی شاعری مین جو صحیح معنوں میں تخلیقی تجربے ہوئے ہیں،ان کا زمانہ علامہ کی ان تخلیقات سے بعد کا ہے۔علامہ کے فن کے عملی اظہار اوراس کے تخلیقی پہلوؤں پر تبصرے کے بعد خود ایران میں علامہ کے مفکرانہ اور شاعرانہ مرتبے کی روز افزون قدر شناسی کی تاریخ وتفصیل بیان کی گئی ہے۔ کتاب میں دور حاضر سے قطع نظر جن مشرقی شعراء وادباء اہل فکر ونظر اور ارباب سیاست کا ذکر آیا ہے۔ ان کے سن وفات ہجری اور عیسوی سال میں قلم بند کردیا گیا ہے۔مغربی ارباب حکمت ودانش کا سال وفات صرف عیسوی سن میں تحریر کیا گیا ہے۔ میں اپنے محترم دوست اور شاگرد جناب خواجہ عبد الحمید یزدانی استاد فارسی گورنمنٹ کالج لاہور کا بے حد ممنون ہوں،جنہوں نے میرے انتہائی شکستہ خط میں لکھے ہوئے مسودے کو دوبارہ تحریر فر ما کر مجھے ایک بڑے مخمصے سے نجات دلائی،اور مجھے بعض قیمتی مشوروں سے بھی نوازا۔ میں جناب ڈاکٹر معزز الدین ڈائرکٹر اقبال اکادمی کا بھی تہہ دل سے سپاس گزار ہوں کہ جنہوں نے کتاب کی تصنیف کے سلسلے میں مجھے ہر قسم کی سہولت فراہم کی۔ اور آخر میں صاحب مطبع عالیہ جناب سید اظہار الحسن رضوی کا شکریہ ادا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں،جنہوں نے انتہائی مستعدی کے ساتھ ایک قلیل مدت میں اس کتاب کی طباعت کا فریضہ سرانجام دیا۔ شکور احسن آغاز علامہ اقبال فارسی میں باقاعدہ شعر کا آغاز کرنے سے پہلے اردو شاعری میں نام پیدا کر چکے تھے۔اردو میں ان کی بعض مشہور نظمیں معرض وجود میں آچکی تھیں۔اور انہیں بر صغیر کے طول وعرض میں شہرت ومقبولیت حاصل ہو چکی تھی۔ علامہ نے اپنا فلسفہ حیات پیش کرنے کے لئے فارسی کو کیوں منتخب کیا،اس کے متعلق خود ان کا ارشاد ہے : گرچہ ہندی در غدوبت شکراست طرز گفتار دری شیرین تر است فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامئہ من شاخ نخل طور گشت پارسی ازرفعت اندیشہ ام در خورد با فطرت اندیشہ ام گویا شاعر کے فکر کی ماہیت اور رفعت نے اس زبان شیریں کو اپنے اظہار کے لئے زیادہ موزوں اور ہم آہنگ پایا۔ سر شیخ عبد القادر نے بانگ درا کے دیباچے میں اس نئے میلان طبع کے کئی امکانات گنوائے ہیں۔علامہ نے پی ،ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے جو رسالہ لکھا ،وہ ایران کے فلسفہء مابعد الطبیعات کی نشو ونما کے بارے میں تھا۔ شیخ صاحب کا خیال ہے کہ اس رسالہ کی ترتیب میں علامہ نے ’’ جو کتب بینی کی اس کو بھی ضرور اس تغیر مذاق میں دخل ہوگا۔اس کے علاوہ علامہ کے افکار میں جوں جوں گہرائی آئی،اور طبیعت دقیق افکار کے اظہار کی طرف مائل ہوئی۔ایک طرف گیسوئے اردو منت پذیر شانہ نظر آیا،اور دوسری طرف انہیں فارسی میں اظہار وابلاغ کے بیشتر اور بہتر امکانات کی ایک دنیا آباد دکھا ئی دی۔ آگے چل کر شیخ صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جو ان کے خیال مطابق اقبال کی فارسی شاعری کا نقطہ آغاز بنا، ہوا یوں کہ انگلستان کے دوران قیام میں دوستوں کی ایک محفل میں علامہ سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی۔ علامہ نے اعتراف کیا کہ انہوں نے ایک ادھ شعر کے سوا کبھی فارسی میں لکھنے کی کوشش نہیں کی، مگر اس فرمائش نے ان کے اندر ایک ایسی تحریک پیدا کی کہ بقول شیخ صاحب مرحوم دعوت سے واپس آکر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی میں شعر کہتے رہے۔اور صبح جب شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی تو فارسی کی دو تازہ غزلیں تیار تھیں۔ان غزلوں سے علامہ کو فارسی زبان میں اپنی قوت گویائی کا احساس ہوا۔ اس کے بعد جب وہ انگلستان سے وطن لوٹے تو طبیعت کا رجحان فارسی کی طرف ہو چکا تھا۔ پروفیسر حمید احمد خان مرحوم نے اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ کہ وقت کے ساتھ ساتھ فارسی کس طرح علامہ کے دل و دماغ میں رچ بس گئی تھی۔ پروفیسر مرحوم لکھتے ہیں: ’’ ایک مرتبہ میں نے ہمت کرکے ڈاکٹر صاحب پر یہ جرح کر ڈالی کہ آپ نے اردو میں لکھنا بالکل ترک کر دیا ہے۔ فارسی میں لکھنا بجا مگر اردو کا بھی تو کچھ حق تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ’’پیام مشرق‘‘ کے بعد ’’زبور عجم‘‘ اور زبور عجم کے بعد ’’جاوید نامہ‘‘ شائع ہوئی۔ڈاکٹر صاحب میری اس جسارت پر تھوڑی دیر خاموش رہے،اور بالاخر انہوں نے انگریزی میں فرمایا کہ (It comes to me in persian ’’) (مجھ پر شعر وارد ہی فارسی میں ہوتا ہے۔) بہر حال فارسی شاعری کے آغاز کا جو سبب خود شاعر نے بیان کیا ہے۔ وہ ہمارے سامنے تصویر کا ایک نیا رخ پیش کرتا ہے۔ گول میز کانفرنس کے دوران میں جب حضرت علامہ لندن میں قیام پذیر تھے تو اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے آپ کے اعزاز میں ۶ نومبر ۱۹۳۱ء کو ایک پرتکلف دعوت کا انتظام کیا، جس میں گول میز کانفرنس کے تقریبا تمام مندوبین شریک ہوئے،ان کے علاوہ متعدد اہل علم ودانش نے بھی اس میں شرکت کی، اس کے علاوہ کیمرج یونیورسٹی کے شعبہ عربی وفارسی کے ممتاز استاد اور ’’اسرار خودی‘‘ کے مترجم ڈاکٹر نکلسن نے بھی اس میں علامہ کی شاعری کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس دعوت میں علامہ نے اپنی تقریر کے دوران میں فارسی زبان میں شعر گوئی کے متعلق جو کلمات ارشاد فرمائے،مولانا غلام حسن مہر نے ان کا حسب ذیل ترجمہ پیش کیا ہے: ’’ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج میں یہ راز بتا دوں کہ میں نے کیوں فارسی زبان میں شعر کہنے شروع کیے۔ بعض اصحاب خیال کرتے رہے ہیں کہ میں نے فارسی زبان اس لئے اختیار کی کہ میرے خیالات زیادہ وسیع حلقے میں پہنچ جائیں۔حالانکہ میرا مقصد اس کے بالکل بر عکس تھا، میں نے اپنی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ ابتدا صرف ہندوستان کے لئے لکھی تھی، اور ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے بہت کم تھے۔ میری غرض تھی کہ جو خیالات میں باہر پہنچانا چاہتا ہوں،وہ کم از کم حلقے تک پہنچیں۔اس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ یہ مثنوی ہندوستان کی سرحدوں سے با ہر جائے گی،یا سمندر چیر کر یورپ پہنچ جائے گی۔ بلا شبہ یہ صحیح ہے کہ اس کے بعد فارسی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔اور میں اس زبان میں شعرکہتا رہا‘‘۔ فارسی زبان اس برصغیر کے لیے کوئی نئی زبان نہ تھی۔اسلامی عہد حکومت میں یہ صدیوں یہاں کی سرکاری اور ثقافتی زبان رہی، اور یہاں کے ارباب شعر وہنر اور اہل علم وفضل اسی زبان میں اپنے اپنے افکار کا اظہار کرتے رہے۔ اس کے ابتدائی نقوش سندھ پر عرب حکومت کے دوران میں نظر آنے لگے تھے۔ محمد بن قاسم کی فوج میں ایرانی سپاہی موجود تھے۔ تیسری صدی ہجری (نویں صدی عیسوی میں) جب خلافت بغداد کی طرف سے سندھ کا نظم ونسق مشہور ایرانی حکمران یعقوب بن لیث (۲۶۵/۸۷۹۔۲۵۳۔۸۶۷) کے سپرد کیا گیا تو سندھ میں فارسی کو ابھرنے کا موقع ملا۔ چوتھی /دسویں صدی کے بعض مورخوں،سیاحوں اور جغرافیا دانوں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں فارسی زبان سندھ میں رائج ہو چکی تھی۔ بقول ابن حوقل،جس کا انتقال ۳۶۷۔۹۷۷ کے بعد ہوا۔ مکران میں فارسی بولی جاتی تھی۔ یہ علاقہ اس زمانے میں سندھ کا جزو تھا۔المقدسی (۳۸۰۔۹۹۰) کے قول کے مطابق فارسی ملتان میں سمجھی جاتی تھی۔ اصطخری (۳۴۶ ۔۹۵۷) نے بھی فارسی کو مکران کی زبانوں میں شمار کیا ہے۔ اس ضمن میں یہ تاریخی اور ادبی حقیقت خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں فارسی شاعری کا آغاز چوتھی/دسویں صدی فارسی کی اولین شاعرہ رابعہ بنت کعب نے بلوچستان کے شہر خضدار میں کیا، جو تاریخ میں قزدار اور قصدار کے نام سے مشہور ہے۔ غزنوی دور میں اس سر زمین میں فارسی ادب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اور انیسویں صدی کے وسط تک جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا ۔ فارسی کو اس بر صغیر میں نہ صرف سرکاری ،بلکہ تہذیبی ،ادبی اور ثقافتی حیثیت حاصل رہی۔اور یہاں فارسی زبان وادب نے مستقل اور منفرد طور پر نشوونما پائی جو اپنی وسعت و اہمیت میں ایران کے فارسی ادب سے کم نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فارسی برصغیر کے مسلمانوں کی ثقافتی زبان قرار پائی، اور اسے ہمیشہ یہاں کی معاشرتی زندگی میں بے مثال اہمیت حاصل رہی۔ انہی ثقافتی اور تہذیبی روایات کا نتیجہ تھا کہ علامہ اقبال نے بھی بچپن میں عربی کے ساتھ ساتھ اپنے فاضل استاد مولانا سید میر حسن سے فارسی زبان پڑھی۔ اسد ملتانی نے ایک خط میں علامہ سے اپنی ملاقات کے سلسلے میں بچپن ہی میں فارسی زبان سے علامہ کی دلبستگی کا ذکر یوں کیا ہے: ’’ سامنے ان کے ایک ہم عمر بزرگ تشریف رکھتے تھے جو سیالکوٹ کے رہنے والے اور غالباً ان کے ہم جماعت یا بچپن کے دوست تھے۔ ان کے ساتھ وہ اپنی طالب علمی کے زمانے کے واقعات کی یاد تازہ کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اس انداز کے دلچسپ واقعات کے بعد فرمانے لگے کہ لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اقبال کو فارسی کیوں کر آ گئی جب کہ اس نے سکول یا کالج میں یہ زبان نہیں پڑھی۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے فارسی زبان کی تحصیل کے لئے سکول ہی کے زمانے میں کس قدر محنت اٹھائی اور کتنے اساتذہ سے استفادہ کیا۔‘‘ مندرجہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ شمس العلماء سید میر حسن کے علاوہ، جن سے علامہ کے فارسی زبان پڑھنے کی گواہی شیخ عبدالقادر مرحوم نے دی ہے 10؎، علامہ نے بعض دوسرے اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا۔ شیخ عبدالقادر نے بانگ درا کے دیباچے میں علامہ کی فارسی شاعری کے آغاز کا جو دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے، اس میں علامہ نے اس سے قبل محض ایک آدھ فارسی شعر کہنے کا اقرار کیا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ اور اس سلسلے میں علامہ نے کچھ تکلف اور کسر نفسی سے کام لیا ہے۔ ان کے بعض ایسے فارسی اشعار موجود ہیں جو انہوں نے 1905ء میں عازم انگلستان ہونے سے پہلے کہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز سے قبل علامہ نے اردو کی دو نظمیں ایسی کہی ہیں جن میں سے ہر ایک میں فارسی کا ایک شعر موجود ہے۔ ’’ فریاد امت‘‘ کے ایک بند کے بعد مندرجہ ذیل شعر آتا ہے: خندہ صبح تمنائے براہیم استی چہرہ پرداز بہ حیرت کدہ میم استی اس کے بعد ’’ نالہ یتیم‘‘ میں جو1899ء میں کہی گئی پھر ایک بند کے بعد حسب ذیل شعر آیا ہے: دوستی از کس نمی بینیم یاران را چہ شد دوستی کو آخر آمد دوستداران را چہ شد12؎ 1902ء میں علامہ نے ’’ شکریہ انگشتری‘‘ کے نام سے ایک نظم کہی ہے جس کے بیشتر اشعار فارسی میں ہیں۔ یہ نظم ایک خط کا جزو ہے جو علامہ نے منشی سراج الدین میر منشی ریذیڈنسی کشمیر کو لکھا ہے۔ خط میں پوری تاریخ کی بجائے صرف1902ء مرقوم ہے۔ اس کے پہلے سات شعر اردو میں ہیں اور باقی سولہ فارسی میں۔ ان میں سے کچھ اشعار حسب ذیل ہیں: یارم از کشمر فرستاد است چار انگشتری چار در صورت، بمعنی صد ہزار انگشتری داغ داغ از موج مینا کاریش جوش بہار میدھ تاون غنچہ گل بوئے یار انگشتری یار را ساغر بکف انگشتری در دست یار حلقہ اش خمیازہ دست خمار انگشتری ما اسر حلقہ اش او خود اسر دست دوست اللہ اللہ دام و صیاد و شکار انگشتری نو بہار دلفریب انگشتری در دست یار بوسہ بردستش زند لیل و نہار انگشتری13 ایک دوسری نظم جو فارسی میں کہی گئی جنوری 1905ء کے ’’ مخزن‘‘ میں مدیر مخزن شیخ عبدالقادر کے تعارفی جملات کے ساتھ، بعنوان ’’ سپاس جناب امیر‘‘ شائع ہوئی جس میں موصوف نے لکھا کہ ’’ یہی نظم بہ اظہار عقیدت شیخ صاحب (علامہ اقبال) صبح کے وقت پڑھا کرتے ہیں۔‘‘ اس نظم کے چونتیس شعر ہیں۔ پہلا بند نمونے کے طور پر درج ذیل ہے: اے محو ثنائے تو زبانہا اے یوسف کاروان جانہا اے باب مدینہ محبت اے نوح سفینہ محبت اے ماحی نقش باطل من اے فاتح خیبر دل من اے سر خط وجوب و امکان تفسیر تو سورہ ہائے قرآن مے مذہب عشق را نمازے اے سینہ تو امین رازے اے سر نبوت محمدؐ اے وصف تو مدحت محمدؐ 14 یہ اشعار نہ صرف اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ علامہ نے انگلستان جانے سے پہلے فارسی میں شعر کہے ہیں بلکہ فارسی اسلوب شعر پر ان کی قدرت کا ثبوت بھی ہیں۔ شیخ عبدالقادر نے انگلستان کے قیام کے دوران میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، اس میں علامہ نے شاید اس وجہ سے فارسی اشعار کے سنانے سے اجتناب کیا ہو کہ مندرجہ بالا نظموں میں سے ایک خالص مذہبی نوعیت کی ہے اور دوسری کا تعلق محض ایک تحفہ موصول ہونے پر اظہار تشکر ہے۔ غالباً دعوت میں احباب جس نوعیت کے اشعار کا تقاضا کر رہے تھے، علامہ کے اس دور کے فارسی اشعار اس سے مبرا تھے۔ اس لیے انہوں نے ایک آدھ شعر کہنے کا عذر پیش کرتے ہوئے گلو خلاصی کرا لی۔بہرحال اس واقعہ کے فوراً بعد علامہ نے اسی رات فارسی میں دو غزلیں کہہ ڈالی تھیں۔ افسوس ہے ان غزلوں کی نشاندہی نہیں کی گئی اگر ایسا ہو سکتا تو علامہ کی اولین دو فارسی غزلوں کا صحیح تعین ممکن ہو جاتا۔ انگلستان کے دوران قیام ہی میں علامہ نے 24اپریل1907ء کو ٹرنٹی کالج کیمبرج سے ایک غزل عطیہ بیگم کو لندن میں بھیجی تھی۔ مرحومہ نے علامہ پر جو کتاب لکھی ہے اس میں خود علامہ کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی اس غزل کا عکس موجود ہے 10؎ غزل مندرجہ ذیل ہے: اے گل ز خار آرزو آزاد چون رسیدہ ای توہم ز خاک این چمن مانند ما دمیدہ ای اے شبنم از قضائے گل آخر ستم چہ دیدہ ای دامن ز سبزہ چیدہ ای تا بفلک رمیدہ ای بامن مگو کہ مثل گل بمراہ شاخ بستہ باش مانند موج او مرا آوارہ آفریدہ ای از لوح خویش باز پرس قصہ جرمہائے ما آخر جواب ذا سزا از لب ما شنیدہ ای ہنگامہ دیر یک طرف شورش کعبہ یک طرف از آفرینش جہان درد سرے خریدہ ای پشتم ما گدائے تو یا تو گدائے ماستی بہر نیاز سجدۂ در پس ما دویدہ ای افتی اگر بدست ما حلقہ بگرد تو کشیم ہنگامہ گرم کردہ ای خود از میان رمیدہ ای اقبال غربت توام نشتر بہ دل ہمی زند تو در ہجوم عالمے یک آشنا ندیدہ ای قرین قیاس یہی ہے کہ یہ غزل علامہ کی پہلی دو غزلوں میں سے ایک ہے۔ بقول شیخ عبدالقادر 1908ء میں یورپ سے واپسی کے بعد علامہ کا میلان فارسی کی طرف ہو گیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے اس دوران میں بعض شاہکار اردو نظمیں بھی کہیں لیکن اب ’’ اسرار و رموز‘‘ کی تخلیق ان کی توجہ کا مرکز بن چکی تھی۔ فارسی کی طرف روز افزوں میلان کا ذکر مولانا گرامی کے نام ایک خط میں نہایت واضح اور مثبت طور پر موجود ہے۔ یہ خط18جنوری 1915ء کو لکھ گیا ہے اور اس میں علامہ رقم طراز ہیں: ’’ اردو اشعار لکھنے سے دل برداشتہ ہو جاتا ہوں۔ فارسی کی طرف زیادہ میلان ہوتا جاتا ہے۔ اور وجہ یہ ہے کہ دل کا بخار اردو میں نکال نہیں سکتا۔ 16؎‘‘ اس خط میں مولانا کو اسرار خودی کی تکمیل کی اطلاع بھی دی ہے اور اس کے ساتھ ایک فارسی غزل بھی انہیں بھیجی ہے جس کا مطلع حسب ذیل ہے: بیمار بادہ کہ گردون بہ کام ما گردید مثال غنچہ نوابا ز شاخسار دمید یہ غزل کسی قدر رد و بدل کے ساتھ پیام مشرق میں موجود ہے۔ اس خط سے چند دن پہلے 28دسمبر1914ء کو مہاراجہ سرکشن پرشاد کو ایک خط ارسال کیا ہے، اور اس کے ہمراہ ایک فارسی غزل بھی بھیجی ہے جس کے متعلق لکھا ہے ’’ ان تعطیلوں میں چند فارسی اشعار منظم ہو گئے تھے۔ 17؎ غزل کا مطلع ہے:‘‘ خوش آنکہ رخت خرد را ز شعلہ مے سوخت مثال لالہ متاعے ز آتشے اندوخت یہی غزل 28جنوری 1915ء کو ایک خط کے ہمراہ مولانا گرامی کو بھی ارسال کی ہے، مگر اس میں ایک بڑی حد تک اشعار کی ترتیب بدل گئی ہے۔ مقطع میں حافظ کے حضور یوں سلام شوق پیش کیا ہے: صبا بہ مولد حافظ سلام ما برسان کہ چشم نکتہ وران خاک ان دیار افروخت پیام مشرق میں یہ غزل موجود ہے لیکن حافظ کی بجائے توجہ کا مرکز گوئٹے (1832ئ) بن گیا ہے جس کے دیوان کے جواب میں شاعر مشرق نے یہ کتاب تصنیف کی تھی: صبا بہ گلشن ویمر سلام ما برسان کہ چشم نکتہ وران خاک آن دیار افروخت انگلستان جانے اور فارسی میں باقاعدہ شعر کہنے سے پہلے علامہ نے جو نظمیں کہیں ان میں دو رحجانات بہت واضح ہیں۔ ایک فطرت کے ساتھ شدید روحانی لگاؤ اور روسرے وطن سے بے پناہ محبت۔ ان میں سے بعض نظموں میں شاعر نے فطرت سے مخاطب ہو کر کرب واضطراب کا اظہار کیا ہے۔ اس دور میں اس کی روح افسردہ ہے اور اسے کسی ہمدم و ہم نفس کی تلاش ہے۔ یہ ہم نفسی اور ہم دلی اسے فطرت میں ملی ہے اور وہ اپنی ذات اور مظاہر فطرت کے درمیان ایک گونہ ہم آہنگی اور گہرا ربط محسوس کرتا ہے۔ کہیں شاعر کو یہ ربط و ہم آہنگی چاند کی ذات میں نظر آتی ہے تو کہیں وہ پھول سے مخاطب ہو کر اپنی خاش اور محرومی کا شکوہ کرتا ہے کہیں ماحول سے بیزاری اور دنیا کے ہنگاموں اور شورشوں سے دور فطرت کے حسن اور پر سکون مناظر میں سبزہ و گل کے درمیان زندگی بسر کرنے کی تمنا اسے ’’ ایک آرزو‘‘ لکھنے پر اکساتی ہے۔ ان نظموں پر یورپ کی رومانی شاعری کی گہری چھاپ ہے۔ ورڈز ورتھ کی طرح شاعر کو فطرت میں ایک زبردست مقصد کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اسے بصیرت کا سرچشمہ سمجھتا ہے اور اس کے پرسکون آغوش میں حقیقت ازل کے وجود کو محسوس کرنے کا بیتابانہ متمنی ہے۔ پھر فطرت کے مقابلے میں اسے انسان کی فضیلت اور برتری کا احساس ہوتاہے کہ اس کا دل احساس درد اور شہ ور زندگی سے آشنا ہے۔ اس کے مقابلے میں فطرت کے باشکوہ مناظر ذوق جستجو اور درد استفہام سے محروم ہیں۔ وہ فطرت کے حسن سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے حقائق زندگی کی پردہ کشائی کا کام بھی لیتا ہے۔ یہاں وہ جذبے سے فکر، تعریف سے تجزیہ اور بیان سے معنی کی طرف قدم اٹھاتا ہے، اور فطرت کا یہ منظر اسے کسی نئی فکر کی دعوت دیتا ہے۔ دوسرا رحجان وطن سے محبت ہے۔ علامہ نے اس دور میں جو نظمیں کہیں وہ اگرچہ تعداد میں محدود ہیں مگر ان میں گہرے خلوص کا جذبہ کار فرما ہے۔ یورپ کے دوران قیام میں انہوں نے کم نظمیں لکھیں۔ بقول شیخ عبدالقادر ایک مرحلہ پر علامہ نے شاعری کو بیکار مشغلہ سمجھتے ہوئے اس فن کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہنے کا عزم مصمم بھی کر لیا تھا اور فقط شیخ صاحب اور پروفیسر آرنلڈ کے شدید اصرار پر کہ ان کا یہ اقدام ملک و ملت کے حق میں مفید نہ ہو گا انہوں نے یہ ارادہ ترک کیا۔ 18؎ اسی زمانے میں انہوں نے ایک غزل کے مقطع میں شیخ صاحب مرحوم سے شعر و شاعری سے اپنی بیزاری کا یوں اظہار کیا ہے: مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں، انہیں مذاق سخن نہیں ہے یہی وہ زمانہ تھا جب نئے ماحول نے علامہ کے قلب و ذہن میں ایک محشر برپا کر دیا تھا، اور وہ اپنی تخلیقی استعداد کو بروئے کار لانے کے لیے بے چین تھے۔ مدیر مخزن ہی سے مخاطب ہو کر انہوں نے ایک نظم ’’ عبدالقادر کے نام‘‘ لکھی جس کا آغاز یوں ہوتا ہے: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اس نظم میں سنگ امروز کو آئینہ فردا کرنے، قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا میں بدلنے، یثرت میں ناقہ لیلیٰ کے بیدار ہونے پر قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کرنے، خود جلنے اور دیدۂ اغیار کو بینا کرنے کی تمنا بے تاب ہے۔ یہی تمنا لے کر علامہ اقبال یورپ سے وطن لوٹے۔ یورپ میں علامہ کو تہذیب نو کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یورپ کی ہوس ملک گیری، ملوکانہ حکمت عملی پر گامزن مغربی طاقتوں میں سر توڑ رقیبانہ کشمکش، اس سفاک اور غیر انسانی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکن غیر اخلاقی اور انسانیت سوز حربہ اور مادیت کی پرستش نے تہذیب مغرب کو ایک ہلاکت خیز دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ دوسری طرف اقوام مشرق کی درماندگی اور یورپ کے بیدردانہ استحصال نے ان کو غلامی اور بیچارگی کے تاریک فضا میں بے دست و پا کر رکھا ہے اور اس ستمگری اور لوٹ کھسوٹ کا خاص تختہ مشق عالم اسلام ہے۔ ان مساعد حالات میں علامہ نے اپنی خدا داد ذہنی اور فکری قوتوں اور اپنی بے نظیر شاعرانہ استعداد سے اس خوفناک سیل بلا کا مقابلہ کرنے اور اپنی درماندہ ملت میں امید و خود اعتمادی کا احساس پیدا کرنے کا عزم کر لیا۔ لندن ہی میں مارچ 1907ء میں انہوں نے ایک یادگار غزل میں اس عزم مصمم کا اظہار کیا کہ وہ انتہائی صبر آزما اور جان گسل حالات میں بھی اپنی آتش نوائی سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے میں کوتاہی نہیں کریں گے: میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا تمام خطرات کے باوجود علامہ نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، بلکہ انہوں نے یورپ سے للکار کے کہا کہ وہ اپنی مسخ شدہ قدروں کا شکار خود ہونے والا ہے اور پیش گوئی کی کہ اس کی تہذیب اپنے ہاتھوں خود کشی کرنے والی ہے۔ گول میز کانفرنس کے زمانے میں 18نومبر1931ء کو علامہ کے اعزاز میں کیمبرج میں ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں انہوں نے اپنی تقریر کے دوران میں مندرجہ بالا پیش گوئی اور اس غزل کی دوسری پیشگوئیوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ میں نے آج سے پچیس برس پیشتر اس تہذیب کی یہ خرابیاں دیکھی تھیں تو اس کے نظام کے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں۔ میری زبان پر وہ پیش گوئیاں جاری ہو گئیں، اگرچہ میں خود بھی ان کا مطلب نہ سمجھتا تھا۔ یہ 1907ء کی بات ہے۔ اس سے چھ سات سال بعد یعنی 1914ء میں میری یہ پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہو گئیں۔ 1914ء کی جنگ یورپ دراصل اہل یورپ کی اس غلطی کا نتیجہ تھی جس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں۔‘‘ 19؎ علامہ نے اقوام کی تاریخ کے عروج و زوال اور ملت اسلامی کے سیاسی اور اجتماعی انحطاط کے اسباب کا بغور تجزیہ کیا تھا اور وہ شدت سے محسوس کرنے لگے تھے کہ مشرق بالخصوص عالم اسلام کی سیاسی، ذہنی اور فکری غلامی کا سب سے بڑا سبب خود شناسی کا فقدان ہے۔ وہ اس بے پناہ فطری استعداد و صلاحیت کے شعور سے محروم ہے جس سے آراستہ ہو کر انسان جہاد زندگی کے لیے سر بکف ہوتا ہے اور اپنی شخصیت اور زندگی کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کرتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ صدیوں کے ذہنی اور فکری جمود اور غلط اقدار نے اس احساس خودی کو بری طرح دبا رکھا ہے اور اس کی نشاۃ ثانیہ کے لیے اس شعور ذات اور احساس نفس کا بیدار کرنا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے برسوں کے غور و فکر کے بعد ’’ اسرار خودی‘‘ کے نام سے اپنی مشہور مثنوی لکھی۔ اور اسی سے ان کی فارسی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ ٭٭٭ اسرار خودی مثنوی اسرار خودی میں علامہ نے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کیا ہے جس کا محور و مرکز خودی ہے۔ اس فلسفے نے برسوں کے غور و فکر کے ساتھ ساتھ پرورش پائی اور اس کا محرک کوئی فوری جذبہ نہیں تھا۔ یہ مثنوی 1915ء میں شائع ہوئی مگر علامہ کے ایک خط سے واضح ہوتا ہے کہ یورپ کے دوران قیام میں اس فلسفے کے نقوش ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔ 18اکتوبر1915ء کو لسان العصر اکبر الہ آبادی (1921/1340) کو تحریر فرماتے ہیں: ’’ مذہب بغیر قوت کے محض فلسفہ ہے۔ یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میں مثنوی لکھنے کے لئے یہی خیال محرک ہوا۔ میں گذشتہ دس سال سے اسی پیچ و تاب میں ہوں۔1؎‘‘ گول میز کانفرنس کے انعقاد کے زمانے میں اقبال لٹریری ایسوسی ایشن نے آپ کے اعزاز میں لندن میں جس عصرانے کا انتظام کیا تھا اس میں آپ نے اپنی تقریر کے دوران میں ’’ اسرار خودی‘‘ کی تخلیق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا تھا: ’’ 1910....ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے خیالات ظاہر کر دینے چاہئیں۔ لیکن اندیشہ تھا کہ اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ بہرحال میں نے 1910ء میں اپنے خیالات کو مد نظر رکھ کر اپنی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ لکھنی شروع کی2؎‘‘ یہ کیا خیالات تھے اور یہ کس طرح مثنوی اسرار خودی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے بیاض اقبال سے ان کی نوعیت کی پوری طرح صراحت ہو جاتی ہے۔ یہ بیاض 1910ء کے درمیانی چند ماہ کی تحریروں کا مجموعہ ہے جس میں علامہ نے مختلف مسائل و موضوعات پر اپنے افکار و عقائد کا اظہار کیا ہے۔ ان تحریروں میں کئی جگہ فلسفہ خودی کی ابتدائی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ یہ فلسفہ اس دور کے اسلامی ممالک کے سیاسی اور اجتماعی زوال اور برصغیر کے مسلمانوں کی حالت زار کے پس منظر میں علامہ کے دماغ میں تشکیل پا رہا تھا۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کے سیاسی انحطاط اور ذہنی جمود کا خاتمہ کرنے کے لیے خودی کا شعور و اثبات، اس کا استحکام، اس کی بقا کے لئے جدوجہد اور قوت کا حصول ضروری تھا البتہ ابھی علامہ نے خودی کا لفظ استعمال کرنا شروع نہیں کیا تھا اور اس کی جگہ وہ شخصیت کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ بیاض میں ایک جگہ شخصیت کی بقا پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان توانائی یا قوت یا قوتوں کا مجموعہ ہے اور ان قوتوں کی ایک مخصوص تربیت کا نام شخصیت ہے۔ اس مخصوص تربیت کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں ایسی خصوصیات کی طرف مائل ہونا چاہئے۔ جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔ آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’ شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے لہٰذا اسی کو خیر مطلق قرار دینا چاہئے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو اسی معیار پر پرکھنا چاہئے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبائے اور بالآخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو۔ اگر ہم وہ طرز ز ندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔۔۔۔ پس شخصیت کی بقا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ 3؎‘‘ اس عبارت میں اگر شخصیت کی جگہ خودی کا لفظ رکھ دیا جائے تو یہ فلسفہ خودی کا اولین اظہار ہے۔ بیاض میں بار بار قوت کا ذکر آتا ہے۔ مثلاً ’’ قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔‘‘ 4؎ یا ’’ قوت باطل کو چھو لیتی ہے تو باطل حق میں بدل جاتا ہے ‘‘ وغیرہ وغیرہ یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ فلسفہ خودی کا اولین محرک حصول قوت کی ترغیب ہے اور اس دور کے مسلمانوں کے مایوس کن ماحول میں علامہ کو قوت کے بغیر مذہب بھی محض فلسفہ نظر آ رہا تھا۔ فلسفہ خودی علامہ کے ذہن میں یورپ کے دوران قیام ہی میں پرورش پانے لگا تھا۔ خود علامہ نے سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں صراحت کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا ہے۔ 10نومبر 1919ء کو فرماتے ہیں: ’’ جو خیالات میں نے مثنویوں میں ظاہر کیے میں ان کو برابر 1907ء سے ظاہر کر رہا ہوں۔ اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریر میں نظم و نثر انگریزی و اردو موجود ہیں۔‘‘ البتہ بقول خود اس میں وہ حقیقی اسلام کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے۔ 24اکتوبر1915ء کو ایک خط میں منشی سراج الدین کو لکھتے ہیں:ـ ’’ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہوئی۔ صوفی لوگوں نے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا ہے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے۔‘‘ 7؎ اسی خط میں یہ بھی مذکور ہے کہ مثنوی ’’ گذشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی۔‘‘ ان خیالات کے اظہار کے لیے علامہ نے فارسی زبان اور فارسی زبان کی شاعری کی اصناف میں سے مثنوی کو منتخب کیا۔ مثنوی فارسی شاعری کی قدیم اور ممتاز اصناف سخن میں سے ایک ہے۔ اس کے اشعار میں قافیے کا تسلسل ضروری نہیں اور ہر شعر کا قافیہ پہلے شعر سے مختلف ہوتاہے۔ اس میں نہ موضوع کی قید ہے اور نہ حجم کی۔ مثنوی چند شعر کی بھی ہو سکتی ہے اور ہزاروں اشعار پر بھی پھیل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر تاتاری دور کے مورخ حمد اللہ مستوفی (1349/750) کی رزمیہ مثنوی ظفر نامہ پچھتر ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اہم مثنویوں میں شاہنامہ فردوسی کے ساٹھ ہزار اور مثنوی مولوی کے 25700اشعار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شعرا نے کسی خاص موضوع یا فکر کو مربوط و مبسوط شکل میں پیش کرنے کے لئے ہمیشہ مثنوی کو ترجیح دی ہے۔ رزم ہو یا بزم، عشق ہو یا فلسفہ، اخلاق ہو یا عرفان، داستان ہو یا واقعہ، حقیقت ہو یا افسانہ، مثنوی شاعر کے افکار و جذبات اور تخیل و تفکر کے اظہار کے لئے بہت موزوں واقع ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر فردوسی (تقریباً 1020/411) کے شاہنامہ کا موضوع حماسہ سرائی ہے۔ رومی (1273/672) کی مثنوی تصوف و عرفان کے نازک اور دقیق تصورات کی آئینہ دار ہے۔ سنائی (1150/545) کی اکثر مثنویوں میں اخلاق اور تصوف کا امتزاج ہے۔ عطار (1230/627) کی مثنویات تصوف میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ نظامی (تقریباً 1208/604) امیر خسرو (1325/725) اور جامی (1492/898) نے اپنی مثنویات میں رزم و بزم، داستان و افسانہ اور اخلاق و حکمت کے موضوعات کو الگ الگ نظم کیا ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ اقبال کو اپنے فلسفے کو مسلسل اور مربوط شکل دینے کے لیے مثنوی سے بہت صنف سخن نظر نہیں آئی۔ وہ رومی سے شدید طور پر متاثر تھے۔ اس لیے انہوں نے مثنوی کے لیے وہی بحر چنی جس میں پیر رومی نے اپنی عظیم مثنوی ترتیب دی تھی۔ خود رومی نے یہ بحر شیخ فرید الدین عطار کی مثنوی منطق الطیر سے متاثر ہو کر منتخب کی تھی۔ اس بحر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں فکر کو سوز و ساز کے ساتھ سمونے کی صلاحیت ہے۔ چنانچہ خودی و عشق کے موضوعات کے لیے اس سے بہتر انتخاب ممکن نہ تھا۔ اسرار خودی میں خودی کی حقیقت و ماہیت اور قوت و صلاحیت کا بیان ہے اور اس کی پرورش و استحکام کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ روایتی مثنوی کی طرح اقبال نے اپنے افکار کی توضیح کے لیے تمثیل کا سہارا بھی لیا ہے جس سے مراد داستان و واقعہ کے ذریعے مفہوم کو پوری طرح واضح کرنا ہے۔ اس کے علاوہ فلسفے کے ٹھوس مسائل کو شاعرانہ لطافت کے ساتھ سمونے کے لیے تخیل کی رنگینی سے بھی کام لیا گیا ہے۔ کتاب کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں فلسفے اور تخیل کے امتزاج کی طرف مندرجہ ذیل اشارہ ملتا ہے: ’’ فلسفیانہ دلائل کی پیچیدگیوں سے آزاد کر کے تخیل کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس حقیقت کو سمجھنے اور غور کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے۔‘‘ ’’ خودی‘‘ کا لفظ فارسی میں خود پرستی اور نخوت و غرور وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ علامہ نے اس لفظ کے مفہوم میں ایک انقلابی تبدیلی کی ہے اور اس کو نہایت وسیع معنی پہنائے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے ذات انسانی کی بے پناہ قوت و استعداد اور ذات مطلق اور کائنات سے اس کے رشتے پر روشنی ڈالی ہے۔ چونکہ خودی کو علامہ کے نظام فکر میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور یہ ان کے پورے فلسفے کا مرکز و محور ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں انہوں نے اس اہم اصطلاح کو جو نیا مفہوم عطا کیا ہے وہ من و عن یہاں پیش کر دیا جائے: ’’ یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات مستنیر ہوتے ہیں، یہ پر اسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محصور کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے، یہ خودی یہ انا یا عین جو عمل کی رو سے ظاہر اور اپنی حقیقت کی رو سے مضمر ہے، جو تمام مشاہدات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت مشاہدے کی گرم نگاہ کی تاب نہیں لا سکتی، کیا چیز ہے؟ کیا یہ ایک لازوال حقیقت ہے یا زندگی نے محض عارضی طور پر فوری عملی اغراض کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو اس فریب تخیل یا دروغ مصلحت آمیز کی صورت میں نمایاں کیا ہے۔ اخلاقی اعتبار سے افراد و اقوام کا طرز عمل اس نہایت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہو گی جس کے حکما اور علما نے کسی نہ کسی صورت میں اس سوال کا جواب پیدا کرنے کے لئے دماغ سوزی نہ کی ہو۔ مگر اس سوال کا جواب افراد و اقوام کی دماغی قابلیت پر اس قدر انحصار نہیں رکھتا جس قدر کہ ان کی افتاد طبیعت پر مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اسی نتیجے کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انا محض ایک فریب تخیل ہے او اس پھندے کو گلے سے اتار دینے کا نام نجات ہے۔ مغربی اقوام کا عملی مذاق ان کو ایسے نتائج کی طرف لے گیا جس کے لیے ان کی فطرت متقاضی تھی۔‘‘ دیباچے کے آخر میں علامہ نے خودی کے اس تازہ مفہوم کو واضح کیا ہے جو خود انہوں نے اس لفظ کو دیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذت حیات انا کی انفرادی حیثیت اور اس کے اثبات، استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے۔ یہ نکتہ مسئلہ حیات بعد الممات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بطور ایک تمہید کے کام دے گا۔ ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساس نفس اور تعین ذات ہے۔‘‘ کتاب کا آغاز بہت معنی خیز انداز میں رومی کے مندرجہ ذیل اشعار سے ہوتا ہے جن میں مولانا نے نہایت اثر آفرین اور جان پرور انداز میں مرد کامل کا تصور پیش کیا ہے: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دام ودد ملولم و انسانم آرزوست زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم نسنانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست رومی کے یہ اشعار اسرار خودی کے تیور بتا رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے عظمت انسانی کا جو تصور قائم کیا ہے اس کی روح ان میں کھنچ آئی ہے۔ رومی ایک مثالی انسان کی جستجو میں ہیں جو روحانی اور جسمانی قوت کا پیکر اور ان کے امتزاج کا مظہر ہے۔ یہ انسان گرد و پیش میں نہیں ملتا تو نہ سہی مگر شاعر کے ذوق جستجو نے اس مثالی پیکر کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے بیقرار کر رکھا ہے۔ ان اشعار سے کتاب کا آغاز خود علامہ کے فلسفہ حیات کی نشاندہی بہت وضاحت سے کر رہا ہے۔ وہ زندگی میں جس قوت اور عظمت کے طالب ہیں اس کا احساس رومی کے ان اشعار میں پوری شدت سے موجزن ہے۔ مرشد رومی کے اشعار کے بعد کتاب کی تمہید ہے۔ اس میں شاعر نے اپنے آپ کو ایک ایسے خورشید سے تشبیہہ دی ہے جو افق عالم پر ابھی ابھی طلوع ہوا ے۔ اس خورشید کی روشنی سے بحر و بر نا آشنا ہیں اور وہ خود اپنی نمود کے خیال سے لرزہ بر اندام ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسے نغمے سے یاد کرتا ہے جو مضراب سے بے پروا اور آنے والے شاعر کی نوا ہے۔ وہ خود کو ایک محسر بداماں عاشق قرار دیتا ہے اور اس لحاظ سے ان لوگوں سے مختلف ہے جو کاروان در کارواں اس صحر اسے ہنگامہ بپا کیے بغیر خاموشی سے گزرتے رہے۔ پھر اپنے آپ کو بحر طوفان خیز سے تشبیہہ دی ہے اور ایک ایسی جان پر سوز کے نام سے یاد کیا ہے جس کے اندر بجلیاں تڑپ رہی ہیں۔ قوت اور تب و تاب کے اس اظہار کے بعد شاعر نے اپنے آپ کو محرم راز حیات کہا ہے جس کی سوز نوا سے ذروں میں زندگی کی دھڑکن سنائی دینے لگی ہے چنانچہ وہ پڑھنے والے کو نئے اسرار حیات کی آگہی کی دعوت یوں دیتا ہے: چشمہ حیوان برانم کردہ اند محرم راز حیاتم کردہ اند ذرہ از سوز نوایم زندہ گشت پر کشود و کرمک تابندہ گشت ہیچ کس، رازے کہ من گویم، نہ گفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت حر عیش جاودان خوابی بیا ہم زمین ہم آسمان خواہی بیا اس دعوت کے بعد وہ اپنے نصب العین کا اظہار کھل کر کرتا ہے۔ ساقی سے مخاطب ہو کر وہ ایسی شراب چاہتا ہے جس سے مخمور ہو کر وہ آوارگان راہ کو منزل پر پہنچا سکے اور ان کا دل ایک نئی آرزو سے سرشار کر سکے۔ یہاں وہ رومی کو پیر روم کے نام سے یاد کر کے اس سے کسب فیض کی تمنا کا اظہار کرتا ہے اور اس کی تعریف میں نہایت خوبصورت شعر کہتا ہے۔ اس عالم کیف میں پیر رومی نمودار ہوتے ہیں اور شاعر کو اپنے مقصد کی تکمیل پر ابھارتے ہیں۔ ان اشعار میں شاعر نے رومی کی زبان سے بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنی شخصیت اور ہدف کا اظہار کیا ہے: آتش استی بزم عالم برفروز دیگران را ہم زسوز خود بسوز نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را از ہائے و ہو آباد کن آشنائے لذت گفتار شو اے دراے کاروان بیدار شو رومی کا یہ تشویق آمیز پیغام شاعر کے دل میں ایک نیا ولولہ اور ہیجان پیدا کرتاہے اور وہ راز خودی سے پردہ اٹھانے اور اس کے اعجاز کو منکشف کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہیں شاعر اپنے فکر و فن کو ملت پر نثار کرنے کا مصمم عہد بھی کرتا ہے۔ خودی کا تعارف شاعر نے اس عنوان سے کرایا ہے کہ نظام عالم کا منبع و سرچشمہ خودی ہے اور تعینات وجود کا تسلسل حیات خودی ہی پر منحصر ہے۔ اس کے بعد وہ خودی کی ماہیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسے تمام مظاہر کائنات میں خودی کی شان جلوہ گر نظر آتی ہے۔ گویا یہ جہان رنگ و بو اور یہ کائنات خدا کی خودی مطلق نے تخلیق کیے ہیں۔ اپنا اظہار خودی کی فطرت ہے اور وہ تخلیق کے لیے بیتاب ہے۔ وہ اپنے اثبات کے لئے نئے نئے پیکر بناتی ہے اور ان غیر خود پیکروں سے ٹکرا کر اپنی قوت کا اہتمام کرتی ہے۔ غیر خودی سے آویزش کو شاعر نے لذت پیکار کا نام دیا ہے جس سے خودی کی قوت جلا پاتی ہے۔ قوت خودی کا جوہر ہے۔ نظام حیات کا دار و مدار خودی کی قوت پر ہے۔ اس لئے زندگی کی عظمت قوت ہی کی رہین منت ہے: پیکر ہستی ز آثار خودیست ہرچہ می بینی ز اسرار خودیست خویشتن را چون خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد در جہان تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خرد بنداشت است سازد از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را میکشد از قوت بازوئے خویش ناسود آگاہ از نیروئے خویش زمان و مکان خودی کی ہمہ گیر قوت کے آئینہ دار ہیں۔ وہ خود شکن بنی تو اجزا وجود میں آئے۔ آشفتگی کی طرف مائل ہوئی تو صحرا بنا ڈالے۔ آشفتگی سے جمعیت کی طرف آئی تو اس نے ہیبت ناک پہاڑوں کی صورت اختیار کر لی۔ غرض کہ زمان و مکان خودی کے اظہار قوت کی جولا نگاہ بن گئے ہیں۔ اگر قوت خودی قطرے کو گوہر بنا دیتی ہے تو اس کے برعکس ضعف خودی مئے ارغوانی کو پیکر سے محروم کر دیتی ہے اور وہ بقا کے لیے ساغر کا سہارا ڈھونڈنے لگتی ہے۔ پہاڑ اپنی خودی سے غافل ہو تو وہ منتشر ہو کر صحرا بن جاتا ہے۔ لیکن موج اپنے تحفظ کے باعث دوش بحر پر سوار ہو کر حکومت کرتی ہے۔ یہاں شاعر نے اشیا کی حقیقت اور خودی سے ان کے ربط کی بہت دلچسپ اور خیال انگیز مثالیں دی ہیں۔ مثلاً روشنی نے اپنی قوت کو اس طرح مجتمع کیا کہ وہ آنکھ بن گئی، اور جلوؤں کی تلاش نے آنکھ کو بصیرت عطا کی۔ سبزے نے نمو کی قوت پیدا کی تو اس نے سینہ گلشن کو چاک کر ڈالا۔ اس کے مقابلے میں شمع نے اپنے آپ کو جلانے کا شعار اپنایا تو اپنی خودی سے محروم ہوئی اور آنسوؤں کی طرح خود اپنی آنکھ سے ٹپک کر بہہ گئی۔ زمین نے احساس خودی سے اپنے وجود کو محکم و استوار بنایا ہے اور اس کی قوت خودی نے چاند کو اس کے گرد طواف کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سورج زمین سے کہیں قوی ہے تو اس نے زمین کو اپنے طلسم میں اسیر کر رکھا ہے۔ شاعر نے اس تجزیہ سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ: چون ھیات عالم از زور خودیست پس بقدر استواری زندگیست گویا زندگی کی قدر و قیمت کا انحصار قوت کی نسبت سے ہے۔ علامہ نے قوت کو خودی کی لازمی صفت قرار دیتے ہوئے فلسفہ قوت اور مذہب میں ایک خاص ارتباط پیدا کیا ہے۔ اس سلسلے میں علامہ نے حضرت اکبر الہ آبادی کے نام جو خط لکھا ہے اس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ خودی اور قوت کے باہمی رشتے کا ذکر کرنے کے بعد علامہ نے تخلیق مقاصد کو خودی کی زندگی کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں: زندگانی را بقا از مدعا ست کاروانش را درا از مدعا ست زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو جان جہان رنگ و بوست فطرت ہر شے امین آرزو ست از تمنا رقص دل در سینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا آرزو کی شدت تخلیق کا باعث بنتی ہے۔ آرزو نہ ہو تو یہ مشت خاک زندگی کی حرارت سے محروم ہو جاتی ہے دل کی دھڑکنیں سوز آرزو ہی سے قائم ہیں۔ اسی سے خودی میں ہنگامہ آرائی کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے اندر لذت دیدار کی پیہم خلش تھی تو اس نے آنکھ کی شکل اختیار کر کے تسکین پائی۔ کبک میں شوخی رفتار کی آرزو انگڑائیاں لے رہی تھی وہ اس کے پاؤں کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔ بلبل کا سینہ نغموں کے اظہار کے لیے بیتاب تھا تو اس بیتابی اور اضطراب نے منقار کی شکل پائی۔ غرض کہ زندگی کی اٹھان اور بانکپن کا راز لذت آرزو میں پوشیدہ ہے اور آرزو ہی جہان رنگ و بو کی روح ہے۔ قوموں کی زندگی، ان کے آئین و رسوم ان کے علم و حکمت یہ سب اس آرزو کا نام ہیں جس نے اپنی قوت اظہار کی مدد سے دل کی دنیا سے نکل کر ایک مجسم شکل اختیار کر لی ہے۔ ہمارا مادی پیکر، ہمارا فکر و تخیل، ہمارا شعور و فہم یہ سب وہ آلات ہیں جو زندگی نے عالم پیکار میں اپنے دفاع کے لیے ترتیب دئیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ نے علم و فن کو ’’ پیش خیزان حیات‘‘ اور ’’ راز دانان زندگی‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے اور اپنے مخاطب کو ذوق آرزو سے سرشار ہونے کی تلقین کی ہے۔ زندگی کا راز مقصد و آرزو ہی کی تخلیق میں پنہاں ہے: اے ز راز زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز مقصدے مثل سحر تابندہ ماسوا را آتش سوزندہ مقصدے از آسمان بالا ترے دلربائے، دلستانے، دلبرے ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم اسرار خودی کا اگلا موضوع عشق و محبت سے خودی میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ یہاں خودی کو نقطہ نور کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو خاک انسانی میں شرار زندگی پیدا کرنا ہے۔ محبت سے یہ نقطہ نور پائندگی اور تابندگی حاصل کر لیتا ہے اور محبت ہی سے اس کی پنہاں صلاحیتوں کو اجاگر ہونے اور ابھرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں شاعر نے عشق کی عظمت، جرات اور قوت کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور قاری کو مسلک عشق اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہاں شاعر مسلمان کو عشق نبیؐ کی تلقین کرتا ہے اور جذبات میں ڈوب کر نبی اکرم ؐ کی ذات والا صفات اور آپ ؐ کے پیغام و مسلک کی عظمت بیان کرتا ہے: طور موجے از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش کمتر از آنے ز اوقاتش ابد کا سب افزایش از ذاتش ابد در شبستان حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید یہ وہ ذات اقدسؐ ہے جس میں شاعر جلال و جمال کی کامل ہم آہنگی پاتا ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس کی تیغ آبدار نے نسل سلاطین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، عالم کہنہ میں ایک نئے آئین کا آغاز کیا۔ دین و دنیا کے تقاضوں میں ہم آہنگی پیدا کی، چھوٹے اور بڑے کا فرق مٹا دیا۔ وطنیت کے بت کو پاش پاش کر دیا اور نسب کے امتیاز کو جلا کے راکھ کر دیا: ما کہ از قید وطن بیگانہ ایم چون نگہ نور دو چشمیم و یکیم از حجاز و چین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خندایم ما مست چشم ساقی بطحاستیم در جہان مثل من و میناستیم حضور رسالت مآب صلعم کی عظمت کا ذکر کرنے کے بعد شاعر مسلمان کو آپ ؐ کے اسوۂ حسنہ کی تقلید کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ محبوب کی تقلید کو وہ عشق کی بنیادی صفات میں سے ایک صفت قرار دیتا ہے۔ اس عشق کا تقاضا ہے کہ عاشق محبوب کی تقلید میں اپنے آپ کو اتنا محکم و استوار کر لے کہ کائنات کی مخفی اور ظاہر قوتوں کی تسخیر اس کا شیوہ قرار پائے۔ وہ اپنے حرائے دل میں بیٹھ کر حق کی طرف ہجرت کرے اور پھر خدائی قوتوں سے مسلح ہو کر ہوا و ہوس کے بتوں کو پاش پاش کر دے۔ شاعر کا دعویٰ ہے کہ اگر مسلمان عشق سے یوں سرشار ہو جائے تو وہ صحیح معنوں میں زمین پر خدا کا نائب بن سکتا ہے۔ اگر تخلیق مقاصد اور مسلک عشق خودی کے استحکام اور بقا کے ضامن ہیں تو ان کے برعکس سوال خودی کو کمزور و ناتواں کرتا ہے۔ مقصد اور عشق کا گہرا شعور و احساس اگر خودی کے حق میں مثبت کردار ادا کرتا ہے تو سوال ایک منفی صفت کے طور پر خودی کے لیے ضعف و آشتفگی کا باعث بنتا ہے۔ سوال انسان کی رفعت فکر چھین لیتا ہے اور اس کی فطرت بلند کو پستی میں بدل دیتا ہے۔ سوال سے خودی کا تار و پود بکھر جاتا ہے اور یہ نکل طور پر بے تجلی ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہاں شاعر نے چاند کی مثال دی ہے کہ وہ روشنی کے لیے سورج سے بھیک مانگتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سورج کے احسان نے اس کے دل کو داغدار کر دیا ہے۔ شاعر مخاطب کو خودی کا تحفظ کرنے اور اخلاقی آشفتگی سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کی نظر میں خوش نصیب ہے وہ شخص جو چلچلاتی دھوپ میں خضر سے چلو بھر پانی مانگنے کا روادار نہیں۔ اس کی یہ خود داری اس کی تہیدستی کے باوجود اس کی خودی کو بلند تر اور بیدار تر کرتی ہے۔ غیرت مردانہ کا تقاضا ہے کہ مرد خود دار سمندر میں رہ کر بھی حباب کی طرح اپنے پیمانے کو نگو نسار رکھے۔ شاعر کا اگلا موضوع یہ ہے کہ خودی کی نفی کا فلسفہ مغلوب قوموں کی ایجاد ہے۔ وہ یہ مسلک اختیار کر کے چپکے چپکے اقوام غالب کے اخلاق کو کمزور بناتی ہیں۔ کمزور اپنی ذات کے تحفظ کے لیے حیلہ جوئی سے کام لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلامی میں قوت تدبیر بہت تیز ہو جاتی ہے۔ نفی خودی کا فلسفہ اپنانے سے دل تقاضائے عمل کی تکمیل کے قابل نہیں رہتا۔ عزم و استقلال رخصت ہو جاتے ہیں اور اقتدار و اعتبار کا خاتمہ ہو جاتا ہے قوت سے محرومی خوف جان اور پستی ہمت کا باعث بنتی ہے اور پھر روبہ زوال قومیں جسمانی اور روحانی تنزل کو تہذیب کے نام سے یاد کرنے لگتی ہیں۔ نفی خودی کے سلسلے میں علامہ کا نظریہ ہے کہ مسلم اقوام کے مسلک تصوف اور ادبیات پر افلاطون (347ق۔ م) کا گہرا اثر ہے، جسے وہ نفسی خودی کا حامل و علم بردار قرار دیتے ہیں۔ علامہ کو شکوہ ہے کہ افلاطون آج بھی ہمارے تخیلات پر حاوی ہے، حالانکہ اس کے افکار قوت عمل اور طاقت سے محرومی کا سبق دیتے ہیں۔ افلاطون کی نظر میں تو زندگی کا راز موت میں پوشیدہ ہے، اور عالم اسباب محض ایک افسانہ ہے۔ ذوق عمل سے محروم ہونے کی وجہ سے اس نے نیستی کو ہستی اور ہستی کو نیستی قرار دیا۔ بقول علامہ اس کے فلسفہ نے محض خواب و سراب کا تانا بانا بن کر زندہ حقیقتوں کو نظر انداز کر دیا۔ اس کے دور رس اثرات نے متاثرہ قوموں پر گہرا تخریبی اثر ڈالا اور انہیں ذوق کردار سے محروم کر دیا: گفت سر زندگی در مردن است شمع را صد جلوہ از افسردن است بر تخیل ہائے ما فرمانروا ست جام او خواب آور و گیتی رباست فکر افلاطون زبان را سود گفت حکمت او بود را نا بود گفت افلاطون پر نہایت سخت تنقید کرنے کے بعد شاعر نے اسی لہجے میں خواجہ حافظ شیرازی کو اپنی نکتہ چینی کا ہدف بنایا ہے۔ حافظ کے کلام میں ایک طلسماتی دلکشی اور سحر آفرین حسن ہے۔ لیکن اس میں زیادہ توجہ حدیث مطرب و مے کی طرف ہے۔ اس کے ہاں عافیت جوئی، تلخ حقائق سے گریز اور عزلت نشینی کی طرف نہایت قوی رحجان ہے۔ بعض جگہ وہ نہایت واضح اور قطعی انداز میں انسانی کوششوں کی بے حاصل کا ذکر کرتا ہے۔ زندگی کے بارے میں حافظ کا مخصوص طرز عمل مندرجہ ذیل چند اشعار سے واضح ہو جائے گا: دمے باغم بسر بردن جہان یکسر نمی ارزد بہ مے بفروش دلق ما کزین بہتر نمی ارزد شکوہ تاج سلطانی کہ بیم جان درو درج است کلاہ دلکش است اما بدرد سر نمی ارزد برو گنج قناعت جو و کنج عافیت پنشین کہ یکدم تنگ دل بودن جہان یکسر نمی ارزد زندگی کے سفاک حقائق سے گریز اور دور پر آشواب میں صراحی مے ناب پر اکتفا کی روش ایک ایسے مسلک زندگی کی آئینہ دار ہے جو فلسفہ خودی کے پیغامبر کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے حافظ کے کلام کو قوم کے لیے مضر قرار دیا۔ مگر حافظ کو لسان الغیب کی حیثیت حاصل تھی، صوفی منش لوگوں نے حافظ سے متعلق اشعار پر نہایت تلخ رد عمل کا اظہار کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علامہ نے کتاب کی دوسری طباعت میں ان اشعار کو حذف کر دیا، اور نئے عنوان کے تحت شاعر کو نئی روح، نئے ولولوں اور نئی امنگوں کی پرورش کی دعوت دی، اور اس کے سامنے نئے مقاصد اور نصب العین رکھے۔ انہوں نے زندگی کو مضمون تسخیر اور آرزو کو افسون تسخیر سے تعبیر کیا۔ ان کی نظر میں زندگی آرزوؤں کا جال بچھا کے اپنی تکمیل چاہتی ہے۔ سینے میں جو تمنائیں مچلتی ہیں۔ وہ زندگی میں زیر و بم پیدا کرنے ہی کا بہانہ ہیں۔ ہر وہ شے جو حسن و زیبائی کا مرقع ہے ہماری آرزوؤں کا محرک ہے۔ حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست وہ شاعر کے سینے کو تجلی زار حسن کے خوب صورت الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ شاعر کی نگاہ خوب کو خوب تر میں بدل دیتی ہے۔ وہ حسن کی تخلیق کرتا ہے۔ اس کی فکر ماہ و انجم کی ہمنشین ہے۔ اس کی بانگ درا سے کاروان آمادۂ سفر ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کے لیے ہدایت کا پیغامبر ہے۔ شاعر کا یہ مقام بلند واضح کرنے کے بعد وہ ایسے شاعر کو قابل رحم سمجھتے ہیں جو ذوق حیات سے عاری ہے اور جس کی غلط قدریں زشت کو خوب بنا دیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ شاعر کو زندگی کا روح پرور پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے کلام کو عیار زندگی پر پرکھے اور اپنے افکار کو قوم کے عمل کی اساس بنائے۔ آخر میں ادیبات اسلامی میں دوبارہ اسلامی روح پھونکنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اب تک شاعر نے بعض مثبت اور منفی قوتوں کا ذکر کیا ہے جو خودی کو مضبوط یا کمزور بناتی ہیں۔ تخلیق مقاصد اور عشق سے خودی کو اثبات و استحکام حاصل ہوتا ہے، اور سوال، فلسفہ افلاطون اور انحطاط پذیر ادبیات خودی کے لیے موت کا پیغام ہیں۔ ان قوتوں کا جائزہ لینے کے بعد شاعری نے خودی کی تربیت اور نشوونما کے لیے ایک دستور العمل پیش کیا ہے جو تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔ پہلا مرحلہ اطاعت، دوسر اضبط نفس اور تیسرا نیابت الٰہی سے عبارت ہے۔ خودی کی تنظیم و تربیت اطاعت سے شروع ہوتی ہے۔ شاعر نے اونٹ کو اطاعت کا مظہر قرار دیا ہے جو بڑی خاموشی اور استقامت کے ساتھ صحراؤں میں محو سفر رہتا ہے۔ مشقت سے اس کے ماتھے پر بل نہیں آتا اور وہ اپنی کیفیت رفتار سے مطمئن ہنسی خوشی مزل کی طرف قدم اٹھائے چلا جاتا ہے۔ شاعر انسان کے اندر فرائض کا بوجھ اٹھانے کے لیے وہی جذبہ اور کیفیت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور بتاتا ہے کہ احکام کی تعمیل تربیت کی پہلی منزل ہے۔ اس فرمان پذیری سے شخصیت نکھرتی اور سنورتی ہے۔ اور یہی مجبوری و اطاعت بعد میں اختیار و قدرت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ مہ و پروین پر کمندیں ڈالنے والا صاحب عزم و ہمت خود اپنے آپ کو آئین کا پابند بنا لیتا ہے کہ آئین کی پابندی ہی سے رسم و فا قائم ہے، ورنہ حد سے زیادہ آزادی تو خود موج کے لیے سامان شیون بن جاتی ہے۔ یہاں شاعر مظاہر فطرت سے اپنے نظریہ کا شاعرناہ جواز پیش کرتا ہے: باد را زندان گل خوشبو کند قید بو را نافہ آھو کند میزند اختر سوئے منزل قدم پیش آئینے سر تسلیم خم لالہ پیہم سوختن قانون او بر جہد اندر رگ او خون او قطرہ ھا دریاست از آئین وصل ذرہ ھا صحراست از آئین وصل اگر ہوائیں، ستارے، سبزہ و گل اور پانی کے قطرے سبھی آئین کے پابند ہو کر نکھرتے سنورتے اور منزل مقصود تک پہنچتے ہیں تو انسان آئین زندگی کا پابند ہو کر کیوں اپنی خودی کی تقویت کا باعث نہ ہو۔ یہاں وہ مسلمان کو اسی پرانی نقرئی زنجیر کو پاؤں کی زینت بنانے کی تلقین کرتا ہے جس نے اس کی ذات میں نظم و ضبط اور قوت و شکوہ پیدا کیا تھا: باز اے آزاد دستور قدیم زینت پاکن ہمان زنجیر سیم شکوہ سنج سختی آئین مشو از حدود مصطفیؐ بیرون مرو دوسرا مرحلہ ضبط نفس ہے۔ اگر اطاعت دوسروں کے آگے سر تسلیم خم کرنا سکھاتی ہے تو ضبط نفس سے انسان خود اپنے نفس پر حکمرانی کے آداب سیکھتا ہے۔ شاعر انسان کے نفس کو اونٹ کی طرح خود پرست اور خود سر قرار دیتا ہے۔ اس کو رام کرنا شیوۂ مردانگی ہے۔ جو اپنی ذات پر فرمانروائی کا اہل نہیں وہ دوسروں کا تابع فرمان بن کے رہ جاتا ہے۔ ضبط نفس انسان کے اندر جرأت اور آزادی پیدا کرتا ہے اور ہر قسم کے نفسیاتی اور مادی خوف کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ عصائے ’’ لا الہ‘‘ خوف کے طلسم کدہ کو پاش پاش کر دیتا ہے۔ شعائر اسلام کی پابندی ضبط نفس کا باعث بنتی ہے۔ ان سے خودی مستحکم ہوتی ہے اور اس میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ قوت و قدرت حاصل کرنے کے لیے ان شعائر کی پابندی ضروری ہے۔ تیسرا مرحلہ عظمت انسانی کا آئینہ دار ہے۔ پہلے دو مراحل کو کامیابی سے طے کر لینے کے بعد انسان جب اس مرحلے پر پہنچتا ہے تو وہ صحیح معنوں میں نائب حق ہو جاتا ہے۔ قوت اس کے آگے سر جھکاتی اور محفل زیست اس سے جلا پاتی ہے۔ اس کی خودی اپنی نمود کی خاطر نئی دنیائیں بساتی ہے۔ اس کی کشت خیال میں ہماری دنیا ایسے سینکڑوں جہان آباد ہوتے ہیں وہ ہر خام شے کی سرشت کو پختہ کر دیتا ہے۔ وہ بشر بھی ہے اور نذیر بھی۔ اس کی ہیبت سے نیل ایسے دریا خشک ہو جاتے ہیں اس کے سایے کے طفیل ذرے آفتاب بن جاتے ہیں اور زندگی کی قدر و قیمت دوبالا ہو جاتی ہے۔ زور بیان اور قوت اظہار نے اس مضمون میں بے پناہ شکوہ پیدا کر دیا ہے۔ اس کا مثالی انسان اس کے سامنے یوں جلوہ گر ہے: نائب حق در جہان بودن خوش است ہر عناصر حکمران بودن خوش است خیمہ چون در وسعت عالم زند این بساط کہنہ را برہم زند صد جہان مثل جہان جزو و کل روید از کشت خیال او چو گل پختہ سازد فطرت ہر خام را از حرم بیرون کند اصنام را چون عنان گیرد بدست آن شہسوار تیز تر گردد سمند روزگار خشک سازد ہیبت او نیل را می برد از مصر اسرائیل را زندگی را می کند تفسیر نو میدہد این خواب را تعبیر نو شاعر کی آنکھیں ایسے انسان کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں، اور وہ اس سے نا امید نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ہماری مشت خاک ہی سے اس شہسوار کا ظہور ہونے والا ہے۔ یہ غنچہ گلستان کی صورت جلوہ افروز ہونے کو ہے۔ اور آنے والی صبح نے ابھی سے ہماری آنکھوں کے سامنے روشنی کے جال بننے شروع کر دیے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اس آنے والے مرد کامل کی راہ میں آنکھیں بچھا رہا ہے کہ وہی شورش اقوام کو فرو کرے گا۔ اخوت کے تصور کو شرمندۂ تکمیل کرے گا اور اس پر آشوب دنیا کو صلح و محبت کا نغمہ سنائے گا: اے سوار اشہب دوران بیا اے فروغ دیدۂ امکان بیا رونق ہنگامہ ایجاد شو در سواد دیدہ ھا آباد شو شورش اقوام را خاموش کن نغمہ خود را بہشت گوش کن خیز و قانون اخوت ساز دہ جام صبہائے محبت باز دہ باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویان را بدہ پیغام صلح ریخت از جور خزان برگ شجر چون بہاران بر ریاض ما گذر! اسرار خودی کا اگلان عنوان ’’ در شرح اسماے علی مرتضیٰؓ ‘‘ ہے۔ یہاں شاعر نے حضرت علیؓ سے اپنی بے پایاں محبت و عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اس کے بعد لفظ بوتراب اور کرار کی تفسیر کی ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بوتراب کا نام اس لئے دیا تھا کہ آپ نے اس خاک کو جس کا نام بدن ہے مکمل طور پر مسخر کر لیا تھاـ: مرتضیؓ کز تبغ او حق روشن است بوتراب از فتح اقلیم تن است مرد کشور گیر از کراری است گو ہرش را آبرو خود داری است ہر کہ در آفاق گردد بوترابؓ باز گرداند ز مغرب آفتاب آخری شعر میرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر کی یاد دلاتا ہے: ز حیدریمؓ من و تو، ز ما عجب نبود گر آفتاب سوئے خاوران بگردانیم علامہ کے نزدیک جو شخص اپنے جسم پر غالب آ جائے، شکوہ خیر اس کے قدموں پر نثار ہو جاتا ہے اور ابدی عظمت اس کا مقصد بن جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کی توصیف کے بعد علامہ نے آپ کی ذات کو مرد کامل کا مظہر بنا کر ایسی خصوصیات کو اپنا نصب العین بنانے کی دعوت دی ہے۔ شاعر قوت حاصل کرنے کی دعوت دیتا اور گلبدنی کی بجائے سنگ بننے کی تلقین کرتا ہے۔ عمل پر اکستا ہے کہ عمل ہی میں مضمون حیات پوشیدہ ہے اور تخلیق قانون حیات ہے۔ نئی دنیا کی تخلیق مرد کامل کا شعار ہے، وہ شعلہ میں لپٹ کر خلیل بنتا ہے۔ ناساز گاری زمانہ سے مصالحت کر لینا آئین جوانمردی کے خلاف ہے۔ پختہ کار اور خود دار مرد وہ ہے جس کے ساتھ زمانہ خود سازگار ہونے کی کوشش کرے۔ اگر مزاج جہاں اس کے ساتھ سازگار نہ ہو تو وہ اپنی بے پناہ قوت سے روزگار نو کی تخلیق کرتا ہے۔ ایسا صاحب عزم انسان خطرات سے ٹکراتا ہے۔ اس کی شخصیت کے پوشیدہ امکانات کا اظہار مشکلات سے نبرد آزما ہونے میں ہوتا ہے ۔ مشکلات میں اس کی شخصیت نکھرتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح شعلوں سے گلچینی کرنا عظمت حقیقی کی دلیل ہے: از گل خود آدمے تعمیر کن آدمے را عالمے تعمیر کن در عمل پوشیدہ مضمون حیات لذت تخلیق قانون حیات خیز و خلاق جہان تازہ شو شعلہ در برکن خلیلؑ آوازہ شو مردے خود دارے کہ باشد پختہ کار با مزاج او بسازد روزگار عشق با دشوار و رزیدن خوش است چون خلیلؑ از شعلہ گلچیدن خوش است زندگی قوت کا نام ہے، اور ذوق تسخیر اس کی فطرت میں ہے۔ قناعت ناتوانی کا دوسرا نام ہے۔ یہ ناتوانی زندگی کے حسن و خوبی کی دشمن ہے۔ یہ کبھی رحم اور نرمی کا روپ دھار لیتی ہے کبھی جبر و انکسار میں پناہ لیتی ہے، کبھی تن آسانی کا جامہ اوڑھ لیتی ہے۔ مقصد صاحب قوت کے دل پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوت اور صداقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اور یہی زندگی کی حقیقت اصلی ہے۔ زندگی ایک مزرع ہے، اور قوت و توانائی اس کا حاصل۔ انسان خدا کی امانت ہے اور خود آگہی اسے دو عالم میں اپنی برتری کا احساس دلاتی ہے۔ روایتی صوفیانہ مسلک کے برعکس جو چشم و لب و گوش بند کرنے کی تعلیم دیتا ہے، شاعر چشم و گوش و لب کشائی کی تلقین کرتا ہے تاکہ راہ حقیقت آشکار ہو: زندگانی قوت پیداستے اصل او از ذوق استیلاستے ہر کہ در قعر مذلت ماندہ است ناتوانی را قناعت خواندہ است با توانائی صداقت توام است گر خود آگاہی ہمین جام جم است چشم و گوش و لب کشا اے ہوشمند گرنہ بینی راہ حق بر من بخند فلسفہ خودی اور فلسفہ انسان کامل کے اظہار کے بعد کتاب میں چند حکایتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ فارسی مثنوی کی قدیم روایت ہے کہ فکر و نظر کی وضاحت کے لیے شاعر تمثیلی انداز اختیار کرتا ہے۔ اس سے عام پڑھنے والے کے لیے شاعر کے دقیق افکار کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس روایت کا آغاز حکیم سنائی نے چھٹی بارہویں صدی میں کیا۔ نظامی، عطار، رومی، امیر خسرو اور جامی وغیرہ نے اس روش کو اپنایا۔ علامہ نے بھی اسی دیرینہ روایت کی پیروی میں حکایتیں بیان کی ہیں جن سے ان کے ادق فلسفیانہ خیالات کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ پہلی حکایات ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ایک نوجوان وسط ایشیا کے شہر مرو سے چلتا ہے اور حضرت سید علی ہجویری معروف بہ گنج بخش (1073/465) کی خدمت میں شکایت لے کر لاہور حاضر ہوتا ہے کہ میرے دشمنوں نے میری زندگی اجیرن کر رکھی ہے، اور میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ دشمنوں کے درمیان زندگی بسر کرنے کے لیے آپ سے راہنمائی حاصل کروں۔ آپ کا مشورہ یہ تھا کہ انسان ایک زبردست قوت ہے، اگر وہ اپنے آپ کو کمزور و ناتواں سمجھ لے تو شیشے کی طرح پاش پاش ہو جاتا ہے۔ البتہ دشمنوں کی دشمنی اگر اس کی قوت خوابیدہ کو بیدار کر دے تو یہ دشمنی بھی دوستی کا کردار ادا کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود آگاہ انسان زبردست دشمن کو خدا کی رحمت سمجھتا ہے۔ اگر ہمت قوی ہو تو سنگ راہ پانی کی طرح پگھل جاتا ہے۔ سیلاب رکاوٹوں کو کب خاطر میں لاتا ہے۔ سنگ راہ تو تیغ عزم کے لیے فسان کا کام کرتا ہے۔ اگر انسان اپنی خودی کی قوت سے آپ اپنے آپ کو مضبوط کر لے تو وہ ایک دنیا کو درہم برہم کر سکتا ہے: فارغ از اندیشہ اغیار شو قوت خوابیدہ ای بیدار شو سنگ چون بر خود گمان شیشہ کرد شیشہ گردید و شکستن پیشہ کرد راست می گویم عدو ہم یار تست ہستی او رونق بازار تست ہر کہ دانای مقامات خودیست فضل حق داند اگر دشمن فوبست خویش را چون از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جبان برہم کنی بڑے بڑے مثنوی نگاروں نے اکثر پرندوں اور جانوروں کی کہانیاں بھی بیان کی ہیں اور ان سے دلچسپ اہم نتیجے اخذ کیے ہیں جو لازوال اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ شیخ فرید الدین عطار کی منطق الطیر تو ساری کی ساری پرندوں کی داستان ہے جس میں تمثیلی رنگ میں شاعر نے اسرار زندگی اور خداوند کائنات اور انسان کے باہمی تعلق کی عارفانہ تعبیر کی ہے۔ یہاں علامہ نے بھی فارسی شاعری کی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک ننھے پرندے کی داستان سے حفظ خودی کے فلسفے کی مزید توضیح کی ہے۔ پرندہ پیاس سے نڈھال اور پانی کی تلاش میں ہے۔ دفعتہ اسے باغ میں الماس کا ایک ٹکڑا دکھائی دیتا ہے جو سورج کی روشنی میں یوں چمک رہا ہے کہ اس پر پانی کا گمان ہوتا ہے۔ چنانچہ پرندہ اندھا دھند اپنی چونچ اس میں ڈبونے کی کوشش کرتا ہے۔ الماس اس کی آشفتگی پر ہنستا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تو مجھے آزار پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے کہ تو زندگی کی خود نمائی سے بیگانہ ہے۔ میری آب و تاب پرندوں کی منقار توڑ دیتی ہے اور انسان کے گوہر زندگی تک کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ پریشان اور ناکام پرندے کی نظر اب شاخ گل پر اٹکے ہوئے شبنم کے ایک قطرے پر پڑتی ہے۔ ا س قطرہ میں بھی آب و تاب ہے مگر یہ سورج کی روشنی کے رحم و کرم پر ہے۔ سورج کے خول سے شبنم پر کپکپی طاری ہے۔ قطرہ کیا ہے ایک ایسا ٹوٹا ہوا ستارہ ہے جس نے پھولوں اور کلیوں کے نہ جانے کتنے فریب کھائے ہیں اور زندگی کی حقیقت سے نا آشنا رہا ہے۔ بیقرار پرندہ شاخ گل کی طرف لپکتا ہے اور شبنم کا قطرہ اس کے منہ میں ٹپک جاتا ہے۔ اس کے بعد شاعر کا پیغام ہے: اے کہ می خواہی ز دشمن جان بری از تو پرسم قطرہ ای یا گوبری چون ز سوز تشنگی طائر گداخت از حیات دیگرے سرمایہ ساخت قطرہ سخت اندام و گوہر خو نبود ریزۂ الماس بود و او نبود غافل از حفظ خودی یکدم مشو ریزۂ الماس شو شبنم مشو تیسری حکایت ہیرے اور کوئلے کی ہے۔ کوئلے نے کان میں ہیرے سے کہا کہ ہم دونوں ساتھی ہیں اور ہماری فطرت بھی ایک ہے لیکن یہ کیا راز ہے کہ میں تو عالم بیکسی میں کان میں مرا پڑا ہوں اور تو شاہوں کے تاج کی زینت بنتا ہے۔ میری شکل و صورت نے مجھے مٹی سے بھی زیادہ حقیر بنا دیا ہے لیکن تیرے حسن و جمال سے آئینے کا دل بھی چاک چاک ہو جاتا ہے۔ میری ہستی ہی کیا ہے، دھوئیں کی ایک موج جس سے کبھی کوئی چنگاری پھوٹ پڑتی ہے مگر تو صورت و سیرت میں ایک تابناک ستارہ ہے جس کے ہر پہلو سے حسن کے شعلے لپکتے ہیں اس پر الماس اسے سمجھاتا ہے کہ پختگی ہو تو تاریک مٹی بھی نگینہ بن جاتی ہے۔ اس نے ریاضت کی تو پتھر کی طرح سخت ہو گئی۔ میرا جسم پختگی سے نور کا پیکر بن گیا ہے اور میرا سینہ جلوؤں سے معمور ہوا ہے لیکن تو اپنے وجود کو خام رکھنے سے خوار ہوا۔ تیرے جسم کی یہی نرمی تجھے لے ڈوبی۔ اگر خوف و غم سے آزاد رہنا چاہتا ہے تو پتھر کی طرح پختہ ہو تاکہ تو بھی الماس بنے۔ جو سخت کوش ہوتا ہے وہ ایک دنیا کو منور کرت اہے۔ یاد رکھ کہ حرم میں جو سنگ اسود پڑا ہے۔ اس کی اصل بھی مشت خاک ہی ہے لیکن اس کا رتبہ طور سے بھی بلند تر ہے۔ زندگی کی آبرو کا راز سختی اور پختگی ہی میں مضمر ہے: گفت الماس اے رفیق نکتہ بین تیرہ خاک از پختگی گرد نگین پیکرم از پختگی ذوالنور شد سینہ ام از جلوہ ھا معمور شد خوار گشتی از وجود خام خویش سوختی از نرمی اندام خویش فارغ از خوف و غم و وسواس باش پختہ مثل سنگ شو الماس باش مشود از وے دو عالم مسنیر ہر کہ باشد سخت کوش و سخت گیر در صلابت آبروے زندگیست ناتوانی ناکسی ناپختگیست اس کے بعد حکایت شیخ و برہمن اور مکالمہ گنگا و ہمالہ کے نام سے ایک ہی عنوان کے تحت دو حکایتیں ہیں اور دونوں کے ذریعے شاعر اس حقیقت کو آشکار کرنا چاہتا ہے کہ کسی قوم کی زندگی کا تسلسل مخصوص ملی روایات کی پابندی سے ممکن ہوتا ہے۔ پہلی حکایت میں ایک برہمن فرزانہ کا ذکر ہے جس نے مدتوں علم و دانش کے بل بوتے پر حقائق زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ بالآخر وہ ایک شیخ کامل کے پاس اپنی فریاد لے کے پہنچا۔ شیخ نے اسے سمجھایا کہ تیرا فکر بلند تو آسمان کی رفعتوں کو چھوتا ہے لیکن تو خودخاک سے نا آشنا ہے۔ ستاروں کا راز سمجھنے کی بجائے بہتر ہے کہ تو زمین کے تقاضوں کی تکمیل کرے۔ پھر شیخ نے برہمن کو نصیحت کی کہ میں تجھے بتوں کو ترک کرنے کی ترغیب نہیں دیتا مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تو صحیح معنوں میں آداب کافری کے اہل ثابت ہو اور پھر کہا: اے امانت دار تہذیب کہن پشت پا بر مسلک آیا مزن گر ز جمعیت حیات ملات است کفر ہم سرمایہ جمعیت است شاعر مسلک آبا کے تحفظ کو ملی زندگی کے تسلسل کے لیے ضروری قرار دیتا ہے اور خودی کے نگہبانی کو فکر فلک پیما کے مقابلے میں کہیں اہم سمجھتا ہے: مرد چون شمع خودی اندر وجود از خیال آسمان پیما چہ سود دوسری حکایت میں دریائے گنگا اور کوہ ہمالیہ کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ ہے اور اس میں بھی شاعر مندرجہ بالا فکر کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ دریا پہاڑ کو طعنہ دیتا ہے کہ تو صبح ازل سے یخ بدوش کھڑا ہے۔ ٹھیک ہے قدرت نے تجھے آسمان کا ہمراز بنایا لیکن اس نے تجھے لذت خرام سے محروم رکھا۔ زندگی خرام پیہم کا نام ہے، تیرا یہ وقار اور یہ بلندیاں کس کام کی اگر یہ تجھے زندگی کی لذت سے آشنا نہ کر سکیں۔ پہاڑ دریا کا یہ طعنہ سن کر جوش میں آ جاتا ہے اور کہتا ہے تیرا یہ خرام ناز موت کا پیغام ہے تو اپنی خودی سے آگاہ نہیں اور اپنی حماقت پر اترا رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہو گا کہ تو نے اپنی ہستی کو سمندر کی نذر کر دیا۔ زندگی اپنے مقام پر ڈٹ کر اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا نام ہے۔ میں نے اپنے مقام پر جم کر وہ بالیدگی حاصل کی کہ آسمان کی رفعت کو چھو لیا۔ تیری ہستی تو سمندر سے مل کر فنا ہو گئی، مگر میری بلندیاں ستاروں کی سجدہ گاہیں بنیں۔ میں سعی پیہم کے سوز سے اس طرح جلا کہ میں نے لعل و الماس و گہر اپنے دامن میں بھر لیے۔ اس کے بعد پہاڑ دریا کو نصیحت کرتا ہے کہ تیری بساط ایک قطرے ہی کی سہی تیرا دل طوفانوں کے لیے مچلنا چاہیے اور تجھے سمندروں سے لڑنے کے لیے بیقرار رہنا چاہیے: زندگی بر جائے خود بالیدن است از خیابان خودی گل چیدن است ہستیم بالید و تا گردون رسید زیر دامانم ثریا آرمید ہستی تو بے نشان در قلزم است ذروۂ من سجدہ گاہ انجم است تا ز سوز سعی پیہم سوختم لعل و الماس و گہر اندوختم قطرہ ای؟ خود را بپائے خود مریز در تلاطم کوش و با قلزم ستیز ان دو حکایتوں کے ذریعے شاعر ایسے فکر فلک پیما اور ایسے ذوق خرام کے خطرناک اثرات سے خبردار کرتا ہے جو اپنی ظاہری عظمت و حرکت کے باوجود خودی کا تحفظ نہیں کر سکتے، اور فرد اور قوم کو اپنی مخصوص اور توانا روایات سے کاٹ کے رکھ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہی ان کی بقا کا سامان ہیں۔ ان حکایتوں کے بعد، جن میں ہر داستان خودی کے تحفظ اور قوت کی مبلغ اور آئینہ دار ہے، شاعر نے ایک بالکل نئے مسئلہ کو موضوع بحث بنایا ہے اور وہ یہ کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد اعلائے کلمتہ الحق اور جہاد ہے، لیکن اگر جنگ کا محرک محض ہوس ملک گیری و کشور کشائی ہو تو ایسی جنگ مسلمان پر حرام ہے۔ شاعر نے یہ نقطہ نظر پھرایک واقعہ کے ذریعہ پیش کیا ہے، اور اس کا تعلق حضرت میانمیر سے، جو لاہور میں محو خواب ہیں، اور شاہ ہندوستان سے ہے۔ بادشاہ آپ کا مرید تھا اور دکن میں اپنی مہمات کی کامیابی کے لیے آپ سے دعا کا طالب تھا۔ آپ نے بادشاہ کی اس مہم جوئی کو ہوس زر سے تعبیر کرتے ہوئے کہا: ہر کہ خنجر بہر غیر اللہ کشید تیغ او در سینہ او آرمید فلسفہ جہاد کو بیان کرنے کے بعد شاعر نے فلسفہ خودی اور ہندی مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کا ذکر میر نجات نقشبند المعروف بہ بابائے صحرائی کی زبان سے کیا ہے۔ علامہ نے اپنی شاعری کے مختلف ادوار میں فرضی ناموں کے ذریعے اپنے پیغام کے مختلف پہلوؤں پر لب کشائی کی ہے۔ یہاں بابائے صحرائی کی حیثیت ایسی ہی فرضی ہے جیسے ضرب کلیم میں محراب گل افغان یا ارمغان حجاز میں ملا ضیغم زادہ کشمیری کی۔ علامہ نام کی تخلیق میں پیغام کی نوعیت اور مخاطب کی حیثیت کو پیش نظر رکھتے ہیں، اور مقصد پیغام میں حقیقت کا رنگ بھرنا اور اسے زیادہ ڈرامائی بنانا ہے۔ زیر بحث پیغام میں خودی کے شعور سے اپنی بقا کا سامان پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔ راز زندگی کو خودی کے احساس سے سرشار ہونے اور اپنی خاک میں شرر پیدا کرنے کے نام سے یاد کیا ہے۔ سوز و ساز اور جذب و سرور کو زندگی کی بنیادی قدر کہا ہے۔ اور مولانائے روم کی ملاقات اور اس کے بعد رومی کے والہانہ عشق سے اپنے نقطہ نظر کو واضح کیا ہے۔ دانش حاضر کو سوز عشق سے بیگانہ پا کر اسے حجاب اکبر کے نام سے یاد کیا ہے۔ اور اس کے بعد اپنی ملت کی خودی اور جذبہ عشق سے بیگانگی پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے: سوز عشق از دانش حاضر مجو کیف حق از جام این کافر مجو مدتے محو تگ و دو بودہ ام راز دان دانش نو بودہ ام دانش حاضر کو گلستان سے تشبیہہ دے کر اسے لالہ زار عبرت اور سراب نکہت کی دلآویز اور اچھوتی ترکیبوں سے یاد کرنے کے بعد علامہ کا ارشاد ہے: دانش حاضر حجاب اکبر است بت پرست و بت فروش و بتگر است یا یزندان مظاہر بستہ از حدود حس برون نا جستہ آتشے دارد مثال لالہ سرد شعلہ دارد مثال ژالہ سرد اپنی ملت کی خودی سے نا آشنائی، مرکز گریزی، ترک شعار ملت اور بے سر و سامانی پر یوں خونفشانی کرتے ہیں: بزم مسلم از چراغ غیر سوخت مسجد او از شرار دیر سوخت از سواد کعبہ چون آہو رمید ناوک صیاد پہلویش درید شد پریشان برگ گل چون بوئے خویش اے ز خود رم کردہ باز آسوئے خویش ماکہ دربان حصار ملتیم کافر از ترک شعار ملتیم ساقی دیرینہ را ساغر شکست بزم رندان مجازی بر شکست شیخ در عشق بتان اسلام بافت رشتہ تسبیح از زنار ساخت اسرار کا اگلا عنوان ہے ’’ الوقت سیف‘‘ (وقت تلوار ہے) یہ امام شافعی کا معنی خیز مقولہ ہے۔ اس عنوان کے تحت علامہ نے وقت کی نوعیت اور زندگی اور وقت کے باہمی ربط کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کی نظر میں وقت کوئی ایسا خط نہیں جسے پیمانہ شب و روز سے ناپا جا سکے۔ انہوں نے وقت کے اس تصور کو زنار سے تشبیہہ دے کر مسلمان کو اس سے چوکنا رہنے کی تلقین کی ہے۔ وقت کا جوہر گردش خورشید کا پابند نہیں۔ وقت ایک جاوداں حقیقت ہے مگر خورشید جاوداں نہیں۔ ان کی نظر میں یہ جاوداں حقیقت ہمارے ضمیر کی پیداوار ہے۔ جو وقت سے آگاہ ہو جاتا ہے، اس کی ہستی میں سحر کی تابانی پیدا ہو جاتی ہے۔ زندگی زمانہ ہے اور زمانہ زندگی ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ زمانے کو برا نہ کہو: وقت ماکو اول و آخر ندید از خیابان ضمیر ما دمید زندہ از عرفان اصلش زندہ تر ہستی او از سحر تابندہ تر زندگی از دہر و دہر از زندگی است لا تبسو الدھر فرمان نبیؐ است وقت اور فرد کے باہمی تعلق سے بحث کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں کہ وقت کے بارے میں غلام اور آزاد کے رویے میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ کہ غلام روز و شب کے طلسم کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے مگر آزاد کی نظر میں لیل و نہار کا یہ طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ غلام ایام سے اپنا کفن بناتا ہے اور اپنے آپ کو روز و شب کے اس کفن میں لپیٹ لیتا ہے مگر مرد حر مٹی کے اس طلسم سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور خود زمانے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ غلام پر لذت پرواز حرام ہے لیکن آزاد طائر ایام کو اسیر کر لیتا ہے۔ اس کا کام ہر لحظہ نو آفرینی اور تازہ کاری ہے۔ غلام دن رات کے الٹ پھیر میں الجھ کر تقدیر کی گردش کا رونا روتا ہے مگر آزاد کی ہمت خود قضا کی ہمکار ہوتی ہے۔ وہ حادثات کو جنم دیتا ہے اور ماضی اور مستقبل اس کی ہستی میں محو ہو جاتے ہیں: عبد را ایام زنجیر است و بس برلب او حرف تقدیر است و بس ہمت حر باقضا گردد مشیر حادثات از دست او صورت پذیر رفتہ و آئندہ در موجود او دیر ھا آسودہ اندر زود او اس بحث کے بعد شاعر اس وقت کو یاد کرتا ہے جب وقت کی شمشیر مسلمان کے ہاتھ میں تھی اور اس کے دست و بازو کا کام دیتی تھی۔ وہ اس وقت کی تخلیقی و تعمیری عظمت کی یاد میں کھو جاتا ہے، اور مسلمان کے تخلیقی جوہر کو عصر نو کا خالق قرار دیتا ہے۔ وہ اس عظمت کے حوالے سے اس کو اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ بروئے کار لانے کی تلقین کرتا ہے۔ اس کی نظر میں مسلمان ایک پیغمبرانہ مشن کا حامل ہے اور اس کی ذات، ذات حق کا آئینہ ہے۔ اسرار کا خاتمہ دعا پر ہوتا ہے۔ اس میں شاعر نے نہایت دلآویز اور پر سوز انداز میں ذات خداوندی سے ملت کی سربلندی کے لیے التفات دیرینہ کی آرزو کی ہے۔ اس کے لیے اتحاد، آئین محبت اور قوت ایمانی کی بھیک مانگی ہے۔ اس کے بعد محفل میں اپنی تنہائی کا شکوہ کیا ہے اور کسی ہمدم و ہمنفس کی تمنا میں گہرے اضطراب کا اظہار کیا ہے ۔ اسے اپنے دور کی بے مائگی پر گلہ ہے کہ یہ قلب و نظر کی دولت سے محروم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے کوئی غمگسار نہیں ملتا۔ اس تمنا کے اظہار میں شاعر نے مظاہر فطرت کے حوالے سے نہایت خوبصورت اشعار میں ہر کسی کو ہمدم و ہمراز میسر آنے کا ذکر کیا ہے اور اس کے پس منظر میں اپنی محرومی کا نہایت شدید تاثر دے کر کسی ایسے یار ہمدم کی آرزو کا دیوانہ وار اظہار کیا ہے جو شاعر کے افکار کی قدر و قیمت کو سمجھ سکے، اور شاعر اپنی بیتاب تمناؤں کا عکس اس کی ذات میں دیکھ سکے: من مثال لالہ صحرا ستم درمیان محفلے تنہا ستم خواہم از تو لطف یاد ہمدمے از رموز فطرت من محرمے تابجان او سپارم ہوئے خویش باز بینم دو دل او روئے خویش یہ کتاب کسی ہمدم اور دیدہ ور کی آرزو کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ شاعر مضطرب ہے کہ اس نے جو حیات افروز پیغام قوم کے حضور پیش کیا ہے، اسے سمجھنے والے پیدا ہوں تاکہ ایک نئے معاشرے کی تخلیق ممکن ہو اور اس افسردہ انجمن میں پھر سے بہار آئے۔ یہ آرزو اس بات کی دلیل ہے کہ شاعر کو خود اپنے پیغام کی حقانیت اور عظمت پر اعتماد کامل ہے، اور اسے اپنی ذات میں ایک رہبرانہ شان کا احساس ہوتا ہے۔ اسرار خودی کی طباعت نے علامہ کو بطور ایک مفکر شاعر مغرب سے روشناس کرایا۔ انگلستان اور امریکا کے اخبارات میں اس پر متعدد تبصرے شائع ہوئے۔ علامہ 21جنوری 1921ء کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ انگلستان اور امریکا کے اخباروں میں عجیب و غریب ریویو اس پر شائع ہو رہے ہیں۔ اس وقت تک تین ریویو میری نظر سے گزرے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ پچاس ریویو شائع ہو چکے ہیں۔‘‘ کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور استاد اور اسلامی تصوف کے متخصص ڈاکٹر نکلسن (1945ئ) نے ایک عالمانہ مقدمہ کے ساتھ 1920ء میں اسرار خودی کا انگریزی میں ترجمہ شائع کیا اور صحیح معنوں میں علامہ کو مغرب سے روشناس کرایا۔ ٭٭٭ رموز بیخودی اسرار خودی کی طباعت 1915ء میں ہوئی۔ اس کے تین سال بعد 1918ء میں رموز بیخودی چھپی۔ 27دسمبر کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کتابیں چھپنے سے پہلے سنسر ہوتی تھیں۔ فرماتے ہیں: ’’ مثنوی کل سنس کے محکمے سے واپس آ گئی ہے۔‘‘ 1؎ یہ مثنوی نومبر1917ء میں مکمل ہو چکی تھی۔ کیوں کہ 27نومبر1917ء کے ایک میں مرقوم فرماتے ہیںــ: ’’ مثنوی ختم ہو گئی ہے۔۔۔۔۔ چند روز کے بعد پریس میں دے دی جائے گی۔‘‘ 2؎ خودی کے نئے تصور نے پڑھنے والوں کے اندر ایک ہیجان برپا کر دیا تھا۔ فارسی زبان و ادب میں اد کا نیا مفہوم مستعمل نہ تھا۔ جب علامہ نے فرد کی بے پناہ اہمیت اور اس کے جوہر ذات کی لا محدود استعداد پر اظہار فکر کیا تو اس سے انسانی انا یا خودی کی حقیقت تو ایک نئے خیال انگیز اور انقلابی رنگ میں سامنے آئی، لیکن اس میں فرد اور ملت کے باہمی ربط اور حقوق و وظائف پر روشنی نہ پڑتی تھی اور انسان کی انفرادی عظمت اور خودی کی قوت تخلیق و تسخیر پر جو زور دیا گیا تھا، اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی کہ انفرادی خودی پر یہ اصرار اجتماعی زندگی کے تار و پود بکھیر دے گا۔ رموز بیخودی میں یہ غلط فہمی قطعی طور پر دور کر دی گئی ہے۔ اس میں علامہ نے فرد اور ملت کے باہمی ربط کی جس منطقی انداز میں صراحت کی اس سے فلسفہ خودی و بے خودی کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی حقیقت آشکار ہو گئی۔ جس طرح علامہ نے خودی کے لفظ کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا ہے، بعینہ بیخودی کو بھی بالکل نئے معنی پہنائے ہیں۔ اگر خودی سے علامہ کی مراد اثبات و تعین ذات ہے تو بیخودی سے مراد فرد کا جماعت میں انضمام ہے۔ فرد جماعت کی محبت میں اپنے اختیار سے خود دست بردار ہو جاتا ہے۔ بقول علامہ: در جماعت خود شکن گردد خودی کتاب کا آغاز رومی کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے: جہد کن در بیخودی خود را بیاب زود تر واللہ اعلم بالصواب یہاں علامہ نے خودی اور بیخودی کے باہمی ربط کو اپنے فلسفہ کے ساتھ تطبیق دیا ہے۔ اس کے بعد ’’ پیش کش بحضور ملت اسلامیہ‘‘ کے عنوان کے تحت اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ جہاں ان کے ہمنواؤں نے بت ترسا کے گیسو و رخسار کے گرد تخیل کے ہالے بنے ہیں اور ساقی مہ رو کے در پر جبیں فرسائی کی ہے، وہ ملت کی تیغ ابرو کے شہید ہیں اور اس کے در پر سوز و گداز کا ہدیہ لائے ہیں۔ نیلگوں آسمان ان پر افکار کے بادل برساتا ہے۔ وہ جو ببار نغمہ خواں کی شکل میں ان سے ملت کے گلشن کی آبیاری کر رہے ہیں۔ وہ پھول کی طرح ملت کے سامنے عشق سے سرشار سینے کو چاک کر رہے ہیں، اور اس نیت سے اس آئینے کو اس کے سامنے عیاں کر رہے ہیں کہ وہ اس میں اپنا چہرہ دیکھ سکے۔ شاید کہ اسے اس میں اپنا اصلی رنگ روپ نظر آ جائے۔ تمہید کے تحت علامہ نے فرد و ملت کے باہمی ربط کو موضوع بحث بنایا ہے اور دونوں پر ایک دوسرے کی اہمیت واضح کی ہے۔ فرد کے لیے ربط جماعت رحمت ہے اور اس کے جوہر خودی کی تکمیل ملت ہی کے حوالے سے ہوتی ہے۔ فرد و جماعت ایک دوسرے کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں اگر فرد کا وقار اور ذوق نمو ملت کا رہین منت ہے تو ملت بھی اپنے نظم باہمی کے لیے افراد کی محتاج ہے۔فرد کا جماعت میں گم ہونا قطرے کا سمندر ہو جانا ہے۔ اس کا کہما ملت کا قول ہو جاتا ہے اور وہ حقیقی معنوں میں خود ملت بن جاتا ہے۔ اگر فرد تنہا ہے تو وہ اپنے مقاصد کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتا اور اس کی انفرادی قوت کے آشفتہ ہو جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ لیکن جماعت کے تقاضے اسے ربط و ضبط باہمی سے آشنا کرتے ہیں۔ اس کے اندر نرمی اور ہمدلی کی خو پیدا کرتے ہیں اور اسے رسم آئین کا پابند کر کے حقیقی آزادی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ اگلے عنوان کے تحت بتایا ہے کہ ملت افراد کے اختلاط و آمیزش سے پیدا ہوتی ہے اور ان کی تربیت کی تکمیل نبوت کے ذریعے انجام پاتی ہے۔ اگرچہ فرد کی فطرت مائل بہ یکتائی ہے مگر اس کا تحفظ انجمن آرائی ہی سے ممکن ہے۔ افراد تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور رزمگاہ حیات میں ایک دوسرے کے رفیق و ہمدم ہیں۔ ان کی مثال ستاروں کی ہے کہ ان کی انجمن کا راز جذب باہمی میں پوشیدہ ہے۔ ملت کے فکر و عمل میں پختگی و ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے خدا اس میں کوئی صاحب دل پیدا کرتا ہے جس کی بات کے ہر حرف میں جہان معنی آباد ہوتا ہے۔ جس کے نغمے خاک راہ کو نئی زندگی بخشتے ہیں اور جس کی ذات سے ذرۂ بے مایہ میں تابندگی پیدا ہوتی ہے۔ وہ فرد کو خداوندان باطل کی غلامی سے آزادی بخشتا ہے اور ایک مقصد کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اسے نکتہ توحید کی اہمیت سے آگاہ کرتا ہے اور اس کے اندر نیا مندی کی راہ و رسم کی طرح ڈالتا ہے۔ اگلا عنوان ’’ ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ‘‘ ہے یہاں علامہ نے توحید اور رسالت پر مشتمل وہ عوامل گنوائے ہیں جو مسلمان قوموں کے درمیان ایک بنیادی وحدت کا شعور پیدا کرتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلے توحید کا بیان ہے۔ علامہ کی نظر میں دین، حکمت اور آئین کا سرچشمہ توحید ہے۔ قوت و سطوت اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ عقیدۂ توحید بیم و شک کی کیفیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ زندگی عمل کی راہوں پر گامزن ہوتی ہے اور ضمیر کائنات آنکھوں کے سامنے عیاں نظر آتا ہے۔ جب انسان میں احساس بندگی پختہ تر ہو جائے تو کاسہ گدائی میں جام جم کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ ملت اسلامی جسم ہے تو لا الہ اس کے لیے جان کا حکم رکھتا ہے۔ یہی عقیدہ ملت اسلامی کے اسرار کا سرمایہ اور اس کے افکار کا شیرازہ ہے۔ یہ عقیدہ اسود و احمر کی تمیز اٹھا دیتا ہے اور ایک ایسی ملت کی تعمیر کرتا ہے جس کے قلب و ذہن اور فکر و جذبہ میں کامل یک رنگی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ ساز فکر ہے جس میں سوز حق سے ارتعاش کی لہریں اٹھتی ہیں۔ اس کے بعد علامہ نے وطنیت اور نسب پرستی کی مذمت کی ہے، اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دوسری قوموں کے ہاں ملت کی اساس احساس وطنیت یا نسل پرستی کے جذبے پر ہے لیکن ملت اسلامی کی بنیاد خدا پرستی پر ہے جسے دل اور جذبے کے رشتوں نے استوار کیا ہے۔ اس رشتہ محبت نے ملت اسلامی کے مدعا و مقصد اور طرز فکر و نظر میں ایک اساسی وحدت و ہمدلی پیدا کر دی ہے۔ پھر علامہ اس ملت کو یک نما، یک بین اور یک اندیش کے نام سے یاد کرتے ہیں جسے عقیدہ توحید نے یک زبان، یک دل اور یکجان بنا دیا ہے۔ علامہ عقیدہ توحید کو انسانی نفسیات کی اصلاح و صحت مندی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان کی نظر میں غم اور خوف آم الخبائث ہیں، ان سے زندگی کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔ جب دل آرزو سے محروم ہو جائے تو زندگی کی رونق ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس آرزوؤں کا پیہم سلسلہ امید کو جنم دیتا ہے جس سے زندگی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ یاس زندگی کی جولانیوں کا خاتمہ کرتی ہے۔ غم رگ جاں کے لیے نشتر بنتا ہے۔ مگر عقیدہ توحید لاتقنطو اور لا تحزن کا سبق دیتا ہے۔ رضا مسلمان کو ستارے کی درخشانی عطا کرتی ہے اور راہ زندگی میں اس کے لبوں پر تبسم کے پھول کھلاتی ہے۔ اسی طرح قوت ایمان مومن کو خوف سے نجات دیتی ہے اور اس کی زندگی میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ جب کلیم سوئے فرعون بن جاتا ہے تو اس کا قلب و جگر لاتخف کے احساس سے سرشار ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس خوف عزم و ہمت پر ڈاکے ڈالتا ہے۔ افکار و کردار کی صلاحیتیں سلب کر لیتا ہے۔ ہر شر کی جڑ خوف کے احساس میں پیوست ہے اس سے تملق و چاپلوسی، تزویر و ریا، مکر و فریب اور دروغ و کینہ فروغ پاتے ہیں۔ ان تمام امراض خبیثہ کا علاج توحید کا عقیدہ ہے۔ خوف ہی میں شرک کی جڑیں بھی پیوست ہیں اور جو دین اسلام کی روح سے واقف ہے وہ اس حقیقت سے خوب آشنا ہے: ہر کہ رمز مصطفیؐ فہمیدہ است شرک را در خوف مضمر دیدہ است اس کے بعد علامہ نے اسرار خودی کی طرح اپنے افکار کو تیر و شمشیر کے مکالمے میں اورنگ زیب عالمگیر کے ایک تاریخی واقعہ سے مزید واضح کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک دفعہ شہنشاہ اورنگ زیب (1068/1658-1118/1707) نے نماز دوران ایک شیر کو خنجر سے ہلاک کر دیا تھا، اور اس کے بعد وہ پہلے سے استغراق کے ساتھ نماز میں محو رہا تھا۔ رسالت کی اہمیت سے بحث کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں کہ قوم حرف بے صوت کی مانند ہے جسے رسالت ایک موزوں مصرع کی شکل عطا کرتی ہے۔ فرد کی بقا ذات خداوندی سے اور ملت کی زندگی رسالت سے وابستہ ہے۔ رسالت نے ہمیں دین و آئین دیا۔ قوت قلب و جگر بخشی اور کتاب عطا کی۔ ہمیں شیر و شکر کیا اور ہم نوا، ہم نفس اور ہم مدعا بنایا۔ ہم مقصد افراد کی کثرت وحدت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے، اور جب وحدت فکر و آرزو پختہ ہوتی ہے تو وہ ملت کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ وحدت اسلامی کا سرچشمہ دین فطرت ہے اور یہ دین ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے قوم کی قوت اور وحدت کا سرچشمہ وہ ذات اقدس ہے اور یہ قوم ابد تک زندہ و پائندہ ہے۔ مسلمان غیر اللہ سے رشتہ توڑ کر ’’ لاقوم بعدی‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے: از رسالت ہم نوا گشتیم ما ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما کثرت ہم مدعا وحدت شود پختہ چون وحدت شود ملت شود زندہ ہر کثرت زبند وحدت است وحدت مسلم ز دین فطرت است دین فطرت از نبیؐ آموختیم در رہ حق مشعلے افروختیم رسالت کا مقصد دنیا میں حریت و مساوات و اخوت کا قیام تھا علامہ نے یہاں تاریخ اسلامی سے ایسے واقعات نقل کیے ہیں جن سے اسلامی معاشرے میں ان عظیم اقدار کی بنیادی حیثیت اور ان کی عملی تفسیر کا ثبوت ملتا ہے۔ اخوت کے سلسلے میں ایک ایسا واقعہ پیش کیا ہے جو ایران پر مسلمانوں کے حملے کے دوران میں پیش آیا۔ ایک مسلمان نے ایرانی شاہنشاہ یزد گرد سوم کا ایک سپہ سالار گرفتار کر لیا۔ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ ایرانی فوج کا ایک بہت بڑا سردار ہے۔ سپہ سالار نے اس سے جان بخشی کی التجا کی۔ سپاہی نے تلوار نیام میں ڈال لی اور اس کی جان بخش دی۔ بعد میں جب اسلامی لشکر کو معلوم ہوا کہ یہ شخص ایرانی فوج کا سپہ سالار جابان ہے تو امیر لشکر حضرت ابو عبیدہؓ سے اس کے قتل کی درخواست کی گئی، مگر انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم میں سے ہر شخص ملت کا امین ہے۔ اس کی صلح ملت کی صلح اور اس کا انتقام ملت کا انتقام ہے۔ جب ملت فرد کی زندگی کی بنیاد بنتی ہے تو فرد کا قول ملت کا قول ہو جاتا ہے۔ جابان ہمارا دشمن ضرور تھا، لیکن ایک مسلم نے اسے امان بخشی ہے، اس لئے اب اس کا خون تیغ مسلم پر حرام ہے: گفت اے یاران مسلمانیم ما تار چنگیم و یک آھنگیم ما ہر یکے از ما امین ملت است صلح و کنیش صلح و کین ملت است ملت ار گردد اساس جان فرد عہد ملت میشود پیمان فرد نعرۂ حیدرؓ نوائے بوذرؓ است گرچہ از حلق بلالؓ و قنبرؓ است مساوات کے تحت خاندان عثمانی کے سلطان مراد کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ سلطان نے ایک مشہور معمار کو ایک مسجد کی تعمیر کی دعوت دی۔ مگر مسجد بنی تو سلطان کو پسند نہ آئی، اور آپے سے باہر ہو کر اس نے معمار کا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ معمار قاضی کے پاس پہنچا اور از روئے قرآن بادشاہ کے ظلم کے خلاف داد رسی چاہی۔ قاضی نے فوراً بادشاہ کو طلب کیا۔ سلطان قرآن مجید کی ہیبت سے لرز اٹھا، اور ایک عام ملزم کی طرح عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہو گیا۔ قاضی نے شہنشاہ سے کہا کہ قرآن ’’ قصاص‘‘ کا حکم دیتا ہے اور یہی زندگی کا اٹل قانون ہے۔ مسلمان سب برابر ہیں او ربادشاہ کا خون معمار کے خون سے رنگین تر نہیں ہے: گفت قاضی فی القصاص آمد حیوۃ زندگی گیرد بابن قانون ثبات عبد مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگین تر از معمار نیست سلطان نے جب یہ آیت سنی تو سر خم تسلیم کرتے ہوئے چپکے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ اس کے اس رویے کو دیکھ کر مدعی نے بے اختیار ہو کر قرآن مجید کی وہ آیت پڑھی جس میں اللہ تعالیٰ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے، اور ساتھ ہی یہ کہہ اٹھا کہ میں نے تجھے بہر خدا و مصطفیٰؐ معاف کیا۔ اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں: یافت مورے بر سلیمانے ظفر سطوت آئیں پیغمبرؐ نگر پیش قرآن بندہ و مولا یکیست بوریا و مسند و دیبا یکیست حریت کی حقیقت واقعہ کربلا کی روشنی میں واضح کی گئی ہے۔ یہ واقعہ عقل سفاک پر عشق کی کامرانی کی زندہ دلیل ہے۔ عشق کو آرام جاں آزادی میں ملتا ہے۔ اسی آزادی کی خاطر عشق نے میدان کربلا میں عقل ہوس پرور سے ٹکر لی، اور حریت کے مظہر جاوداں حضرت امام حسینؓ نے اپنے خون سے عشق غیور کو سرخ رو کیا۔ حق و صداقت شبیری ہی سے زندہ ہے اور اسی سے ظلم و استبداد کی جڑ کٹتی ہے: موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید این دو قوت از حیات آمد پدید چون خلافت رشتہ از قرآن گیسخت حریت را زہر اندر کام ریخت خاست آن سر جلوۂ خیر الاممؓ چون سحاب قبلہ باران در قدم بر زمین کربلا بارید و رفت لالہ در ویرانہ ھا کارید و رفت اس درخشاں تاریخی کارنامے کے بعد علامہ نے اس حقیقت کی وضاحت کی ہے کہ چونکہ ملت محمدیہؐ کی بنیاد توحید و رسالت کے عقیدے پر ہے اس لیے یہ ملت حدود مکان سے بے نیاز ہے: قلب ما از ہند و روم و شام نیست مرز بوم او بجز اسلام نیست رموز کا اگلا موضوع یہ ہے کہ مسلمان مرز و بوم میں نہیں سما سکتا، اور جغرافیائی اور وطنی حدود اس کے شعور ملی کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا واقعہ مسلمان کے لیے عقیدۂ قومیت کو سلجھانے کے لیے مشعل راہ ہے۔ حکمت نبویؐ نے ایک وسیع بین الاقوامی برادری، جسے علامہ نے ’’ ملت گیتی نورد‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے، کی بنیاد کلمہ پر اٹھائی ہے اور تمام روئے زمین کو مسجد قرار دیا ہے۔ ہجرت کا راز اسی اہم نکتے میں پنہاں ہے۔ یہ مسلمان کی زندگی کا آئین ہے۔ مسلمان قید جہات سے آزاد ہے اور بوئے گل کی طرح جو پھول کو چھوڑ کر سارے چمن کو مہکا دیتی ہے، وہ ایک مقام سے وابستہ نہیں بلکہ پورا عالم شش جہت اس کی جولانگاہ ہے۔ اسلام کے بین الاقوامی تصور کو پیش کرنے کے بعد علامہ کا ارشاد ہے کہ ملت اسلامی کی بنیاد وطن نہیں ہے۔ وطن اخوت کے رشتے کو توڑ دیتا ہے اور نوع انسانی کو قبیلوں میں بانٹ دیتا ہے۔ وطن کی بنیاد پر قومیں ابھرتی ہیں لیکن انسانیت ختم ہو جاتی ہے: آدمیت گم شد و اقوام ماند علامہ کی رائے میں جب یورپ میں سیاست نے مذہب کی جگہ لی تو وطنیت کا موجودہ تصور پیدا ہوا ار میکیاولی نے بادشاہوں کے لیے ایک کتاب لکھ کر رزم و پیکار کا میدان گرم کیا۔ جس طرح ملت اسلامی حدود و ثغور مکانی سے بے نیاز ہے، اسی طرح وہ قید زمان سے بھی آزاد ہے۔ امت کا تسلسل برقرار ہے اور رہے گا۔ فرد اور قوم میں فرق ہے۔ فرد اپنی راہ لیتا ہے مگر ملت قائم ودائم ہے۔ فرد کی تخلیق مٹی سے ہوتی ہے، لیکن قوم کسی صاحب دل کے ہاتھوں پروان چڑھتی ہے۔ فرد کی زندگی کا دار و مدار جان و تن کے رشتے پر ہے مگر قوم روایات کے بل بوتے پر زندہ و تابندہ ہے۔ ہاں اگر قوم مقصد حیات کو ترک کر دے تو یہ اس کے لیے موت کا پیغام ہے۔ یہاں علامہ ملت اسلامی کو ایک عام قوم سے ممیز کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امت مسلمہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ قوم اجل کے خوف سے بے پرواہ ہے۔ یہ وہ چراغ ہے جسے پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا۔ اس پر بڑی آفتیں گزریں اور بڑی مصیبتیں ٹوٹیں۔ اسے فتنہ تاتار نے پامال کیا لیکن اسی آتش تاتار نے اس کے لیے گلزار کا سامان پیدا کر دیا، اس لیے کہ اس قوم کی فطرت ابراہیمی ؑ ہے اور یہ آتش نمرود کو گلستان بنا سکتی ہے۔ انقلاب روزگار کے شعلے جب اس قوم کے گلشن پر لپکتے ہیں تو بہار کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ آج نہ رومی باقی ہیں نہ یونانی، نہ جلال فراعنہ باقی رہا اور نہ شوکت ساسانی، مگر کوہ و دشت میں آج بھی اذان کی صدا گونجتی ہے۔ ملت اسلامی کا وجود باقی ہے اور رہے گا۔ عشق زندگی کا قانون ہے اور سالمات عالم میں اسی سے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ عشق ہمارے سوز دل کی بدولت آج بھی زندہ ہے اور لا الہ کے شرر سے آج بھی تابناک ہے۔ رموز کا اگلا موضوع یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک آئین ہوتا ہے یہ آئین نہ رہے تو اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ آئین قانون زندگی ہے۔ پتا آئین کا پابند ہو کر پھول بن جاتا ہے۔ آواز ضبط و نظم سے نعمے میں ڈھل جاتی ہے۔ مسلمان کا آئین قرآن ہے جس کی حکمت ابدی ہے اور جو نوع انسانی کے لیے آخری پیغام ہے۔ اس کتاب نے رہزنوں کو رہنما بنایا ہے۔ اس کی ایک کرن نے دشت پیماؤں کے دماغ میں علوم کی شمعیں روشن کی ہیں۔ اس بے غلاموں کو آقا بنایا ہے۔ جہا نباتی کے نئے نغمے بکھیرے ہیں اور اس کے ادنیٰ غلام مسند جم پر متمکن ہوئے ہیں۔ علامہ مسلمان کو جھنجھوڑتے ہیں کہ اس کا ایمان گرفتار رسوم ہے، اور اس انداز کافرانہ کا علاج ہے تو فقط قرآن میں: اے گرفتار رسوم ایمان تو شیوہ ہائے کافری زندان تو گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن رموز کا اگلا موضوع حیات ملی کے مرکز محسوس کی اہمیت پر ہے۔ یہ مرکز محسوس بیت الحرم ہے۔ کوئی قوم ہو اس کی اجتماعی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک مرکز پر سمٹ آئے۔ مرکز ہی سے قوم میں ربط و نظام پیدا ہوتا ہے، اور اسی سے زندگی کو دوام میسر آتاہے۔ ملت اسلامی کا راز اور اس کا سوز و ساز بیت الحرم سے وابستہ ہے۔ یہ ملت اس کے طواف میں ہم نفسی کی دولت سے سرشار ہوتی ہے۔ اسی آستان سے رشتہ و پیوند اس کی زندگی اور دوام کا ضامن ہے۔ یہاں علامہ نے قوم موسیٰ کی مثال دی ہے کہ جب وہ مرکز سے کٹ گئی تو اس کا ملی شیرازہ پراگندہ ہو گیا۔ وہ زمانے میں رسوا ہوئی اور زندگی خون بن بن کے اس کی آنکھوں سے ٹپکی۔ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیرہن کو جامہ احرام بنائے اور سجدوں میں گم ہو جائے کہ اس کے آبا کا یہی نیاز ’’ ناز عالم آشوب‘‘ بن کر افق زمانہ پر طلوع ہوا تھا۔ اس کے بعد علامہ ملی زندگی کا نصب العین مضبوطی سے تھام لینے کو جمعیت حقیقی کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں جس طرح فرد کی زندگی میں مدعا و مقصد کی تخلیق و تسلسل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح ملی زندگی بھی اس کے بغیر تشنہ تکمیل ہے۔ مقصد عمل میں اسی طرح پنہاں ہے جس طرح جسم میں جان۔ مقصد ہی سے عمل کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ ملت اسلامی کا مقصد حفظ و نشر لا الہ ہے اور اسی کی تکمیل میں اسے سرگرم عمل رہنا چاہئے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ نکتہ سنجان عالم کو صلائے عام دے اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ان تک پہنچائے۔ فکر انسان بت گر اور بت پرست ہے۔ اب اس نے ایک تازہ تر پروردگار تراشا ہے جس کا نام رنگ، ملک یا نسب ہے۔ اس بات نا ارجمند کے سامنے آدمیت کو بھیڑ کی طرح ذبح کیا گیا ہے۔ شاعر مسلمان کو دعوت عمل دیتا ہے کہ بڑھ کر اس حق نما باطل پر لا الہ کی تیغ کا وار کرے۔ وہ تکمیل حیات کا مظہر ہے اس کا فرض ہے تاریکی حیات میں روشنی کا پیغامبر ثابت ہو اس کے بعد علامہ نے تسخیر عالم کا مضمون تو لیا ہے جو ان کی نظر میں حیات ملی کی توسیع کا ذریعہ ہے۔ مشکلات سے نبرد آزمائی جس طرح فرد کی زندگی میں جلا پیدا کرتی ہے، اسی طرح قوم کی زندگی میں نکھار کا باعث بنتی ہے۔ شاعر کی نظر میں ماسوا صرف تسخیر کے لیے ہے۔ یہ ملی عزائم کی جولانگاہ ہے اور اس میں الجھنیں جتنی زیادہ ہوں گی اتنا ہی ان کے سلجھانے میں کیف ہو گا۔ اگرملت اپنے آپ کو مثال غنچہ پاتی ہے تو اسے اپنی صلاحیتوں سے چمن آباد کرنا ہے۔ اگر وہ شبنم ہے تو اسے خورشید کو مسخر کرنا ہے۔ جو عالم محسوسات پر مسلط ہو جاتا ہے، ذرے سے دنیائیں آباد کرتا ہے۔ عالم اسباب کو حقیر سمجھنا حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے۔ اس کی غرض و غایت مسلمان کی خودی کی توسیع اور اس کی استعداد ممکنہ کا امتحان ہے آدم کو نائب حق بنایا گیا ہے، اور عناصر حیات پر اس کی حکمرانی ایک مسلم حقیقت ہے۔ وہ ستارے جنہیں اقوام کہن نے دیوتا بنا رکھا تھا انسان کے غلام حلقہ بگوش ہیں: ثابت و سیارۂ گردون وطن آن خداوندان اقوام کہن این ہمہ اے خواجہ آغوش تو اند پیش خیز و حلقہ در گوش تو اند علامہ ذوق جستجو کو علم و ہنر سے محکم کرنے اور انفس و آفاق پر چھا جانے کی تلقین کرتے ہیں۔ حقائق اشیاء کو سمجھنے کی کوشش پر زور دیتے ہیں، کہ جو حکمت اشیاء سے بہرہ ور رہے وہی توانا ہے۔ انفرادی خودی کی مانند ملی خودی کا اپنا وجود ہے۔ اس احساس خودی کی تولید و تکمیل ملی روایات کے تحفظ سے ہوتی ہے۔ ملی روایات کی یاد قوم میں خود شناسی کا جوہر پیدا کرتی ہے۔ اس یاد سے غافل ہونا قوم کے لیے ہلاکت آفریں ہے۔ ملی بقا اور تکمیل خودی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے حال کو ماضی کے ساتھ مربوط رکھیں، اور ایسا قدیم روایات کے تحفظ ہی سے ممکن ہے۔ تاریخ کا مقصد بھی یہی ہے۔ تاریخ داستان یا افسانے کا نام نہیں۔ یہ قوم میں اپنی ذات کا شعور پیدا کرتی ہے اور اس کی استعداد کو اجاگر کرتی ہے۔ تاریخ کی شمع ملتوں کے لیے ایک درخشاں رہنما ستارہ ہے جس سے آج کی رات ہی روشن نہیں گزرے ہوئے کل کی رات کی جبین بھی تابندہ ہے۔ تاریخ کے تحفظ سے دوش و امروز ہی آپس میں پیوست نہیں بلکہ ا مروز سے فردا کا چراغ بھی جلتا ہے۔ اگر ملت حیات جاوداں چاہتی ہے تو وہ ماضی کا رشتہ حال اور مستقبل سے نہیں توڑ سکتی۔ زندگی مسلسل ادراک و فہم کی ایک موج ہے۔ ماضی سے حال پیدا ہوتا ہے اور حال سے مستقبل جنم لیتا ہے۔ اس کے بعد علامہ نے شعائر اسلامی کی تقلید کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تقلید اجتہاد سے افضل تر ہو جاتی ہے۔ علامہ کی نظر میں جب زندگی میں اضمحلال پیدا ہو جائے تو تقلید قوم میں استحکام پیدا کرتی ہے۔ روایات کی پابندی ربط و ضبط ملی کا باعث بنتی ہے۔ خزاں کے دور میں درخت سے امید بہار کا سہارا ٹوٹنا نہیں چاہئے۔ روایت ملی کا تحفظ عظمت رفتہ کا باعث بن سکتا ہے۔ یہاں علامہ نے احوال اسرائیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسے کن مصائب میں سے گزرنا پڑا۔ صدیوں کے طولانی عرصے میں اس پر کیا کیا بیتی۔ پنجہ فلک نے کس طرح انگور کی مانند اس قوم کا رس نچوڑ لیا۔ لیکن اس جان ناتواں کی سختی ملاحظہ ہو کہ اس نے آج بھی راہ رفتگاں کو نہیں چھوڑا، اور آج بھی اس کے سینے میں دم موجود ہے ان اشعار میں یہود کے لیے اسرائیل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: پیکرت دارد اگر جان بصیر عبرت از احوال اسرائیل گیر آج یہ قوم جسے علامہ نے مثال کے طور پر پیش کیا تھا واقعی مملکت اسرائیل کی تشکیل سے اپنی سخت جانی اور عزم و ثبات کا ثبوت فراہم کر چکی ہے۔ جب علامہ نے یہ شعر کہے تھے یہود کو بین الاقوامی سیاست میں کوئی حیثیت حاصل نہ تھی۔ مسئلہ فلسطین ابھی معرض وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ لیکن اس دانائے راز نے اس قوم کی پافشاری اور قوت مقاومت کی اہمیت کو پوری طرح محسوس کر لیا تھا، اور اس کے اسباب کا صحیح تجزیہ کر کے اسے امت مسلمہ کے لیے مثال کے طور پر پیش بھی کر دیا تھا۔ ملت اسلامی کے اس دور میں جب کہ اس کے سینے میں شمع زندگی بجھ چکی ہے، علامہ نے اجتہاد کو انتہائی خطرناک کہا ہے۔ اور ’’ عالمان کم نظر‘‘ کے اجتہاد پر بھروسہ کرنے کی بجائے آباؤ اجداد کی حکمت پر تکیہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ اور امت مسلمہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے قرآن کا دامن چھوڑ دیا تو وہ غبار کے مانند بکھر کے رہ جائے گی۔ اگر وہ ایک مضبوط نظام کی بنیاد پر دوام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے آئین الٰہی کی پابندی کے بغیر چارہ نہیں۔ آئین اسلامی قوت کا سرچشمہ ہے۔ یہاں علامہ نے آئین الٰہی سے ایک مثال دے کر بتایا ہے کہ اسلام کس طرح خطرات میں زندگی بسر کرنے کو صحیح زندگی قرار دیتا ہے۔ اور وہ یہ کہ اگر دشمن صلح کی توقع پر اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے اور اپنے دفاعی انتظامات سے دست بردار ہو جائے تو مسلمان کے لیے اس پر اس وقت تک حملہ حرام ہے جب تک وہ اپنے اندر پھر کس بل پیدا نہ کر لے۔ بقول علامہ شرع اسلامی مسلمان کی قوت بازو کو آزماتی ہے اور اس کے سامنے خطرات کے پہاڑ کھڑے کرتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد تقاضا کرتی ہے کہ وہ اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دے۔ جب شارع آئین نے مسلمان کے لیے طاقت کا نسخہ لکھ دیا تو اس کا مقصد ہے کہ مسلمان اپنے عمل سے اپنے اعصاب کو فولاد میں ڈھال لے۔ یہ آئین زمین کو آسمان میں بدلنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں علامہ اس حقیقت پر رنجیدہ ہیں کہ مسلمان شعار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کر کے رمز بقا سے نا آشنا اور بیگانہ ہو چکا ہے۔ وہ جس کا عزم پہاڑ کو تنکا سمجھتا تھا توکل کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ وہ جس کے قدم سینکڑوں ہنگامہ آرائیوں کی تخلیق کرتے رہے، قناعت کے کونے میں دبک کر رہ گیا۔ وہ جس کے در پر سکندر و دارا سر جھکاتے تھے، کشکول گدائی پر ناز کرنے لگا۔ اب اگر اس کے دل میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے کا سودا پیدا ہوا ہے تو اس کے لئے آئین الٰہی کی پابندی ناگزیر ہے۔ اس کے بعد علامہ قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندر حسن سیرت پیدا کرنے کے لئے آداب پیغمبر صلعم کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سراپا شفقت و رحمت تھی۔ صاحب خلق عظیم کے اتباع میں اسے شفقت و رحمت کا نمونہ بننا چاہیے۔ اسے یہ نہ بھولنا چاہیے کہ مسلمان کی طینت پاک ایک ایسا گوہر ہے جس کی آب و تاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رہین منت ہے۔ ان تمام حقائق کے بعد شاعر نے انسانی معاشرے میں صنف لطیف کی زبردست اہمیت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ عورت وہ مضراب ہے جس سے مرد کی شخصیت نغمہ زن ہوتی ہے۔ وہ مرد کا لباس اور زیور ہے۔ پیغمبر اکرم صلعم نے نماز اور خوشبو کے ساتھ عورت کی اہمیت کا ذکر فرمایا ہے۔ علامہ کی نظر میں جو مسلمان عورت کو خدمت گذار تصور کرتا ہے وہ قرآن کی تعلیم سے بے بہرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امومت رحمت ہے، کیوں کہ اسے نبوت سے نسبت ہے۔ امومت سے ہماری شخصیت کی تعمیر پختہ تر ہوتی ہے۔ اس کی جبین کے نقوش میں ہماری تقدیر لکھی ہے۔ امومت سے رفتار زندگی میں حرارت ہے، اور اسی سے زندگی کا راز عیاں ہوتا ہے۔ وہ آئندہ نسل کی محافظ و رہبر ہے۔ اس کے بعد علامہ نے حضرت فاطمۃ الذہراؓ کے اسوۂ حسنہ اور آپ کے عظیم مرتبے کا ذکر کیا ہے، کہ آپ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی نور چشم تھیں، حضرت علی مرتضیٰؓ کی ہمعصر اور حضرت حسینؓ کی والدہ تھیں۔ علامہ نے آپ کی ذات کو مثالی بتاتے ہوئے مسلمان عورت کو تلقین کی ہے کہ وہ بھی آپ کی طرح کسی حسین ایسے سالار کاروان عشق کی پرورش کرے۔ رموز کے آخر میں علامہ نے سورۂ اخلاص کی تفسیر حضرت ابو بکر صدیقؓ کی زبان سے بیان کی ہے او ربتایا ہے کہ ان کی مثنوی کے افکار کا خلاصہ مجمل شکل میں اس تفسیر میں ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک رات انہوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو خواب میں دیکھا اور ان سے ملت کے دکھ درد کے چارے کے لئے التجا کی آپ نے فرمایا کہ ملت کی آب و تاب کا راز سورۂ اخلاص میں مضمر ہے۔ اس کے بعد آپ نے شاعر کو اس سورۂ کی آیات کا الگ الگ مطلب سمجھایا۔ علامہ نے یہی مطالب یہاں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ خدائے واحد بے نیاز (الصمد) ہے۔ بندۂ حق بھی بندۂ اسباب نہیں اور وہ بھی غیر سے بے نیاز ہے۔ بے نیازی میں بڑے ناز ہیں او رہر ناز میں ایک نیا انداز ہے۔ یہاں علامہ نے مرد مومن کی بے نیازی کی ایک مثال دی ہے۔ ہارون الرشید نے امام مالکؒ کو کہلا بھیجا کہ ایک دنیا آپ سے درس حدیث کا فیض حاصل کرتی ہے۔ میری آرزو ہے کہ میں بھی آپ سے اسرار حدیث سمجھوں۔ آیا ممکن نہیں کہ آپ بغداد تشریف لے آئیں۔ جناب امام نے جواب دیا کہ میں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم ہوں اور میرا قلب و ذہن آپ ہی کے عشق سے سرشار ہے۔ آپ کے دام محبت میں اسیر ہونے کے باعث میں کسی قیمت پر آپ کے حریم پاک کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میری نظر میں یثرب کی رات عراق کے دن سے روشن تر ہے۔ تو تعلیم کی خاطر مجھے اپنے در پر بلا کر ایک بندۂ آزاد کو غلام بنانا چاہتا ہے۔ میں ملت کا خادم ہوں اور ملت کا خادم کبھی تیرا چاکر نہیں ہو سکتا۔ اگر تو علم دین سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے تو یہاں آ اور میرے حلقہ درس میں بیٹھ۔ اس کے بعد علامہ ارشاد فرماتے ہیں: بے نیازی ناز ہا دارد بسے ناز او انداز ہا دارد بسے بے نیاز ہونے سے بندۂ مومن حق کے رنگ میں رنگ جاتا ہے بے نیازی کا تقاضا ہے کہ انسان کا فہم دوسرے کے افکار کا غلام نہ ہو۔ اس کی باتیں اور ا سکی تمنائیں دوسروں سے مستعار نہ لی گئی ہوں۔ مرد مومن کی حیثیت ستارے کی نہیں، آفتاب کی ہے جو خود اپنی روشنی سے تاباں ہے۔ فرد وہ ہے جو اپنی خودی کو پہچانتا ہے اور قوم وہ ہے جو اپنی خودی سے سرشار ہے اور دوسروں سے جھوٹی مصالحت پر آمادہ نہیں۔ جس طرح خدائے بے نیاز کی شان ’’ لم یلد و لم یولد‘‘ ہے اسی طرح ملت اسلامی رنگ و خون سے بالاتر اور حسب و نسب کے تقاضوں سے بے نیاز ہے۔ سلمان پارسیؓ کی طرح اس کی شان یہی ہے کہ وہ ’’ زادۂ اسلام‘‘ ہے۔ مسلمان روم و عرب سے وابستہ نہیں۔ اس نے محبوب حجازی صلعم کو دل دیا ہے اور یہی جذبہ عشق اسے دوسرے مسلمان سے وابستہ کرتا ہے۔ یہ رشتہ عشق نسب سے ماوراء اور عرب و عجم سے بالاتر ہے۔ جو مسلمان وطن اور نسب کا پرستار ہے وہ ’’ لم یلد و لم یولد‘‘ کی معنویت سے نا آشنائے مطلق ہے۔ علامہ مسلمان کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ ’’ لم یکن‘‘ سے اپنا رشتہ استوار رکھے تاکہ جیسے خدائے قدوس لا شریک ہے وہ بھی اقوام جہاں میں بے نظیر ہو۔ بندۂ مومن باطل کے مقابلے میں شمشیر آبدار اور حضور حق میں سپر ہے۔ اس کے اوامر و نواہی خیر و شر کی کسوٹی ہیں۔ زندگی اسے تکمیل کا سبق لیتی ہے۔ اس کا ’’ عفو و عدل و بذل و احسان‘‘ عظیم ہے۔ وہ قہاری میں بھی کرم گستر ہے، وہ شمع بزم بھی ہے اور رونق کار زار بھی۔ اگر بزم میں اس کے نغمے دلنواز ہیں تو رزمگاہ میں اس کا سوز آہن گداذ ہے۔ آخر میں علامہ نے مسلمان کو تنبیہہ کی ہے کہ وہ قرآن کو چھوڑ کر خوار و زار ہوا ہے۔ آج وہ شبنم کی طرح عاجز اور سرنگوں ہے حالانکہ اس کی منزل ماہ و انجم سے پرے ہے۔ رموز بیخودی رحمتہ اللعالمین صلعم کے حضور میں عرض حال کے ساتھ ختم ہوتی ہے جو عشق بیتاب کی زندہ داستان ہی نہیں شاعر کے مقصد و آرزو کی آئینہ دار بھی ہے۔ ہر شعر سوز و ساز اور عشق و نیاز کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس میں شاعر نے رحمتہ اللعالمین صلعم کے حضور اپنے اشعار کے غیر قرآن سے پاک ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ دعویٰ صحیح نہ ہو تو اس کے پردۂ ناموس فکر کو چاک کر دیا جائے اور روز محشر حضور صلعم اسے اپنے پائے مبارک کے بوسہ سے محروم رکھیں۔ لیکن اگر اس نے اسرار قرآن کی تفسیر کی ہے تو اس کی تمنا ہے کہ خدائے عزو جل اس کے عشق کو عمل کے ساتھ ہمکنار کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفور شوق و محبت کا اظہار اس دیرینہ تمنا کے ساتھ کیا ہے کہ اس کی زندگی کا خاتمہ حجاز مقدس میں ہو تا کہ اس کا دل بیتاب آسودگی سے ہمکنار ہو اور فلک اس کی قسمت پر رشک کرے۔ یہ عرض حال ان الہام انگیز اشعار سے شروع ہوتی ہے: اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات عبیر خواب زندگی اے زمین از بار گاھت ارجمند آسمان از بوسہ باست بلند شش جہت روشن ز تاب روئے تو ترک و تاجیک و عرب ہندوئے تو از تو بالا پایہ این کائنات فقر تو سرمایہ این کائنات پس عرض حال میں شاعر وارفتہ ملت کی تعمیر میں اپنے کردار اور اپنی تمناؤں کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے: داستانے گفتم از یاران نجد نکہتے آوردہ از بستان نجد محفل از شمع نوا افروختم قوم را رمز حیات آموختم گر دلم آئینہ بے جوھر است ور بحر فم جز بہ قرآن مضمر است اے فروغت صبح اعصار و دھور چشم تو بیندہ ما فی الصدور پردہ ناموس فکرم چاک کن این خیابان را ز خارم پاک کن روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پا کن مرا گر در اسرار قرآن سفتہ ام با مسلمانان اگر حق گفتہ ام عرض کن پیش خدائے عز و جل عشق من گردد ہم آغوش عمل در عمل پابندہ تر گردان مرا آب نیسانم گہر گردان مرا اس کتاب پر علامہ کو بہت ناز تھا۔ 27جون1917ء کو ایک خط میں اس موضوع پر رقم طراز ہیں: ’’ جہاں تک مجھے معلوم ہے ملت اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔‘‘ 4؎ کتاب کی طباعت سے پہلے 4نومبر1917ء کو ایک خط میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ اور یہ کہنے میں کوئی مبالغہ یا خود ستائی نہیں کہ اس رنگ کی کوئی نظم یا نثر اسلامی لٹریچر میں آج تک نہیں لکھی گئی۔‘‘ رموز بیخودی میں علامہ نے جو فلسفہ پیش کیا اس کی اساس ملت اسلامی کے روحانی و فکری عقائد اور تمدن و اخلاق پر تھی۔ البتہ اسے ایک نہایت اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ اس پر مغربی رد عمل کے بارے میں انہوں نے ایک خط مورخہ 12مارچ1923ء میں مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کیا: ’’ رموز بیخودی کے ترجمے کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں مگر امید نہیں کہ اس کا ترجمہ یورپ میں ہو کہ اس کے مضمون سے یورپ والوں کو چنداں دلچسپی نہیں ہے۔ مسلمان ہی اس کا مفہوم سمجھ جائیں تو غنیمت ہے۔‘‘ ٭٭٭ پیام مشرق پیام مشرق علامہ کی تیسری فارسی تصنیف ہے جو پہلی مرتبہ 1923ء میں شائع ہوئی۔ اس کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ پیام مشرق کی تصنیف کا محرک جرمن حکیم حیات گوئٹے کا مغربی دیوان ہے‘‘ 1؎ گوئٹے (1832ئ) مشرقی تخیلات کی طرف بہت مائل تھا۔ اس کی مضطرب روح مغرب کی ہنگامہ آرائیوں سے بیزار مشرق کی پر سکون فضا میں عافیت کی متمنی تھی۔ حافظ شیرازی کے سحر آفریں کلام نے اسے شدت سے متاثر کیا۔ دونوں کی سرشارروح اور جذبات و میلانات میں ایک عجیب و غریب ہم آہنگی کا احساس ہوتا ہے۔ بقول اقبال ’’ جس طرح حافظ کے بظاہر سادہ الفاظ میں ایک جہان معنی آباد ہے، اسی طرح گوئٹے کے بیساختہ پن میں بھی حقائق و اسرار جلوہ افروز ہیں‘‘ 2 حافظ کے نغموں نے گوئٹے کی روح میں جو زبردست ہیجان برپا کیا تھا، وہ بالآخر مغربی دیوان کی دلکش صورت میں رونما ہوا۔ پیام مشرق، مغربی دیوان سے سو سال بعد لکھی گئی ہے۔ علامہ سو سال پیشتر کے جرمنی اور اپنے دور کے مشرق میں کچھ مماثلت پاتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر کے تجزیہ سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’ اقوام عالم کا باطنی اضطراب ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے‘‘ 3؎مشرقی بالخصوص اسلامی مشرق صدیوں کے جمود کے بعد بیدار ہوا ہے۔ اس نازک اور اہم موڑ پر علامہ نے پیام مشرق میں ایسے مذہبی، اخلاقی او رملی حقائق پیش کئے ہیں جن کا مقصد افراد و ملل کی باطنی تربیت ہے۔ وہ اقوام مشرق کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ جب تک معنوی اور فکری طور پر زندگی میں انقلاب برپا نہ ہو۔ خارجی انقلاب کی کوئی حیثیت نہیں اس انقلاب کو شرمندۂ حقیقت بنانے کی ذمہ داری خود اقوام و افراد کے کندھوں پر ہے۔ یہاں علامہ نے قرآن حکیم کی آیہ شریفہ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیر ھا بانفسھم کی روشنی میں اس حقیقت کو فطرت کا اٹل قانون قرار دیا ہے اور اپنی تصانیف میں اسی صداقت کو پیش نظر رکھا ہے۔ کتاب افغانستان کے معاصر حکمران امیر امان اللہ خان کے نام معنون کی گئی ہے۔ پیش کش کے تحت جو شعر کہے گئے ہیں وہ روائتی انتساب سے مختلف اور منفرد ہیں۔ اس میں شاعر نے نہایت بے تکلفی سے اپنے جوہر ذاتی کا ذکر کیا ہے۔ اپنا مقابلہ گوئٹے سے کرتے ہوئے علامہ نے اپنے آپ اور گوئٹے کو ’’ دانائے ضمیر کائنات‘‘ پیغام حیات اندر ممات اور ’’ خنجر صبح دم و آئینہ فام‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ البتہ جہاں گوئٹے سمندر کی گہرائیوں میں تڑپنے کے بعد گریبان صنف سے باہر آ گیا وہ اپنے آپ کو سمندر کے آغوش میں کھویا ہوا پاتے ہیں: او چمن زادے چمن پروردۂ من دمیدم از زمین مردۂ او چو بلبل در چمن فردوس گوش من بصحرا چون جرس گرم خروش ہر دو دانائے ضمیر کائنات ہر دو پیغام حیات اندر ممات ہر دو خنجر صبح خند، آئینہ فام او برہنہ من ھنوز اندر نیام او ز شوخی در تہ قلزم تپید تا گریبان صدف را بر درید من بہ آغوش صدف قایم ہنوز در ضمیر بحر نایابم ہنوز انہیں اپنی بے قدری اور ناشناسی کا گلہ ہے۔ لوگ انہیں شاعر سمجھتے ہیں۔ ان سے حدیث دلبری سننا چاہتے ہیں، لیکن نہیں جانتے کہ یہ حکیم فرزانہ انہیں شکوہ خسروی بخش رہا ہے۔ وہ شاعر کی بے تاب روح سے نا آشنا ہیں۔ اس کی فطرت کو نہیں جانتے جو عشق کی مستی سے سرشار اور رموز ملک و دین کی محرم ہے۔ اس کی ذات متاع ہنر سے آراستہ ہے مگر دیار ہند میں اس کی حیثیت اس پرندے کی سی ہیجو خود اپنے چمن میں بیگانہ لگتا ہو۔ اس تعارف کے بعد وہ مشرق کی مظلومیت اور بے بسی کی خونچکاں حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ سر زمین مشرق و مغرب خون ترک سے لالہ زار ہے، خاک ایران سوز و ساز زندگی سے محروم ہے۔ مصر گرداب نیل میں محصور ہے۔ مسلم ہندی خود فروش اور دین فراموش ہے، لیکن اس غم میں وہ کھو نہیں جاتے اور سپر نہیں ڈالتے بلکہ اپنے مخاطب کو رموز زندگی سے آشنا کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں: زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کشیر ہو کجا این خیر را بینی بگیر اس کے بعد وہ علم و دولت کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ مسلمان کو علم اشیاء اور لذت احساس سے محروم پاتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ فرمانروائے افغانستان کو قبائے خسروی میں درویشی کی زندگی بسر کرنے اور ہجوم امور مملکت میں خود شناسی کا سبق دیتے ہیں، کہ جن مسلمانوں نے عظمت و سطوت کے جھنڈ گاڑے تھے انہوں نے فقیری کو اپنا شعار بنایا تھا۔ آخر میں وہ عشق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبہ بیدار کرتے ہیں کہ ملت کی زندگی اسی ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے دم سے ہے۔ اور اسی کے عشق سے کائنات میں رونق ہے۔ یہاں وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے اپنی بے تاب، والہانہ محبت کا ذکر کرتے ہیں اور پھر اپنے مخاطب کو اسی عشق میں سرشار ہونے کی دعوت دیتے ہوئے ’’پیشکش‘‘ کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ پیام مشرق چار حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں ’’ لالہ طور‘‘ کے نام سے رباعیات ہیں۔ دوسرا ’’ افکار‘‘ کے تحت نظموں پر مشتمل ہے۔ تیسرا حصہ ’’ مے باقی‘‘ کے عنوان سے غزلیات سے عبارت ہے اور چوتھے میں ’’ نقش فرنگ‘‘ کے نوان کے تحت جو نظمیں کہی گئی ہیں ان کا موضوع مغربی افکار و سیاست ہے۔ لالہ طور ’’ لالہ طور‘‘ کی رباعیات کا اسلوب مشہور ایرانی رباعی نگار بابا طاہر عریان سے متاثر ہے اور علامہ نے اپنی تمام رباعیات روایت سے ہٹ کر اسی وزن میں کہی ہیں جو پانچویں /گیارھویں صدی کے اس عظیم مجذوب شاعر نے اختیار کیا تھا۔ وزن کے اس غیر معمولی انتخاب کی وجہ سے بعض نقادوں نے ان رباعیات کو قطعات کہا تھا چنانچہ علامہ نے اپنے ایک خط مورخہ 5 جون 1933ء میں یہ غلط فہمی رفع کرنے کی کوشش کی ہیـ: ’’ .......ان کو رباعیات کہنا غلط نہیں۔ بابا طاہر عریان کی رباعیات جو اس بحر میں ہیں رباعیات ہی کہلاتی ہیں۔ ان میں قطعات بھی داخل ہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ یہ رباعیات رباعی کے مقررہ اوزان میں نہیں ہیں۔ مگر اس کا کچھ مضائقہ نہیں‘‘ 4 بابا طاہر کی رباعیات میں سوز و ساز اور درد و خاش کی ایک غیر معمولی کیفیت ہے۔ عشق ان رباعیات کا واحد موضوع ہے۔ شاعر نے اپنے لطیف پاکیزہ عشق میں، جس کی آگ نے اس کے خرمن حیات کو جلا کے راکھ کر دیا ہے، قلندری اور بے نیازی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ بابا طاہر کے لطیف جذبات عشق، قلندرانہ انداز اور وفور شوق و مستی نے علامہ کو بہت متاثر کیا ہے۔ ’’ لالہ طور‘‘ میں ایک سو تریسٹھ رباعیاں ہیں اور ان میں ترتیب وار مختلف مسائل کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ ان کا تعلق اقبال کے بنیادی افکار سے ہے۔ ہر موضوع پر متعدد رباعیات ہیں، اور ہر موضوع کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں پر لطیف اور دلآویز رنگ میں الگ الگ رباعیات ہیں۔ خودی کے مضمون کو شاعر اسرار خودی اور رموز بیخودی میں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ پیش کر چکا تھا۔ یہاں اس نے سب سے زیادہ اہمیت عشق کو دی ہے، جسے علامہ کے نظام فکر و عمل میں خودی کے ساتھ ساتھ بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ شروع کی رباعیات میں زندگی کی اسی قوت محرکہ کو شعر کے لطیف و رنگین تانے بانے میں پیش کیا گیا ہے۔ لالہ طور کی سب سے پہلی رباعی میں جس سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے، کلاسیکی شاعری کے مخصوص انداز میں حضور خداوندی میں ہدیہ نیاز ہے۔ البتہ یہاں یہ نیاز جذبہ عشق سے لبریز ہے۔ پوری بزم وجود شہید ناز ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ حسن ازل کے حضور میں نیاز مجسم بنا ہوا ہے۔ شہید ناز او بزم وجود است نیاز اندر نہاد ہست و بود است نمی بینی کہ از مہر فلک تاب بسیمائے سحر داغ سجود است یہ رباعی الفاظ کے حسن انتخاب، تخیل کی تابانی اور تشبیہہ کی لطافت و رعنائی کے باعث کتاب کا حسین آغاز ہے، اور فکر و فن کی لطیف ہم آہنگی کی خبر دیتی ہے۔ عشق کے موضوع پر شاعر نے جو اثر آفریں اور فکر انگیز رباعیاں کہی ہیں ان میں عشق کی قوت تخلیق، جوش اور ہمہ گیری کا ذکر ہے۔ شاعر کی نظر میں سوز دروں اور تب و تاب زندگی کی معراج ہے۔ ہمارا سوز و ساز ناتمام ہی سہی مگر اسی سے انسان جاوداں ہو جاتاہے۔ عشق کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد شاعر نے عظمت انسانی کو موضوع سخن بنایا ہے۔ وہ انسان کو ’’ ضمیر کن فکاں‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے اور پہنائے عالم میں اسی کو سب سے بڑی حقیقت سمجھتا ہے۔ ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشان غیر از تو کس نیست قدم بے باک تو نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست تخلیق آدم خود اس کی عظمت کی دلیل ہے: بچشم تو بہائے من بلند است کہ آوردی ببازار وجودم اس کی زندگی ذوق تخلیق کی آئینہ دار ہے: جہان ہا روید از مشت گل من اضطراب اس کی روح کا خاصہ ہے۔ وہ ہر لحظہ ایک تازہ ولولے سے سرشار ہے۔ اور تعمیر نو کے لیے شکست و ریخت سے زندگی میں ہنگامہ آرائی چاہتا ہے: تراشیدم، پرستیدم، شکستم اس کے لیے ایک جہان کا کھو جانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا، کہ اس کے ضمیر میں سینکڑوں جہان آباد ہیں۔ وہ جہان بناتا ہی نہیں اسے سنوارتا بھی ہے۔ اس کا تخلیقی ذوق اس میں حسن و زیبائی کا یوں اضافہ کرتا ہے جیسے وہ خلاق فطرت کے ساتھ برابر کا شریک ہو: جہان او آفرید این خوبتر ساخت مگر با ایزد انباز است آدم انسانی عظمت اسے یوں اپنے خالق کے قریب لے آتی ہے کہ اس کی تلاش میں وہ اپنے آپ کو اور اپنی جستجو میں اس عظیم حقیقت کو پا لیتا ہے: تلاش او کنی جز خود نہ بینی تلاش خود کنی جز او نیابی بہ تصور فارسی کے صوفی شعرا اور بالخصوص نظریہ وحدت وجود کے پرستاروں کے ہاں شدت سے موجود ہے۔ ہمیں سنائی، عطار، رومی اور دوسرے شاعروں کے ہاں یہ مضمون ملتا ہے۔ اکثر صوفی شاعر نظریہ وحدت وجود کے قائل تھے جس کا مطلب مختصر طور پر یہ ہے کہ کائنات ذات باری تعالیٰ کا عکس ہے حسن مطلق نے اسے اپنے ظہور کا وسیلہ بنایا ہے اور اس کا ذرہ ذرہ اسی ذات جمیل کے پرتو سے روشن و تاباں ہے۔ کائنات کی بذات خود کوئی حقیقت نہیں، بلکہ اسے ان صوفیا نے سراب یا واہمے سے تعبیر کیا ہے۔ انسان ذات مطلق میں کھو جانے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ جس طرح قطرۂ دریا میں گم ہو کر آسودگی حاصل کرتا ہے، انسان بھی انا الحق کی منزل کی طرف لوٹ جانے کے لیے بیتاب ہے۔ صوفی انسان کو خدا کے جمال کا پرتو سمجھتا ہے اور اسی لیے اسے انسان کی عظمت کا شدید احساس ہوتا ہے۔ علامہ نے فلسفہ وحدت وجود سے سخت اختلاف کیا ہے۔ وہ انسان کو جسے زمین پر خدا کا نائب بنا کر بھیجا گیا ہے خودی کے اثبات کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں انسان اپنی خودی کے استحکام و ثبات کے لیے صفات الٰہیہ کو زیادہ سے زیادہ اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کی ذات کا جزو نہیں بنتا اور یہی کیفیت اسے عظمت بخشتی ہے۔ ایک دوسری رباعی میں علامہ نے خودی کے نور سے خدا کو دیکھنے کا پیغام یوں دیا ہے: ز من گو صوفیان با صفا را خدا جویان معنی آشنا را غلام ہمت آن خود پرستم کہ با نور خودی بیند خدا را عظمت آدم کی بنیادی حقیقت کے اظہار و ابلاغ کے ساتھ ساتھ شاعر انسان کو تخلیق پیہم کی مسلسل مہم پر گامزن رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ زندگی کو ایک پل قرار نہیں اور انسان کی تخلیقی اور تعمیری قوتیں ہر لحظہ تصویر زندگی میں نئے رنگ بھرتی رہتی ہیں۔ اگر وہ ان قوتوں سے نا آشنا ہے اور اس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے مختلف نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی کی حرارت سے محروم ہے: دما دم نقش ہائے تازہ ریزد بیک صورت قرار زندگی نیست اگر امروز تو تصویر دوش است بخاک تو شرار زندگی نیست زندگی کا ہر لمحہ ابد کا راز داں ہے اور ہر ذرہ منزل دوست کی طرف رواں دواں ہے۔ اس حقیقت سے بیگانگی زندگی کے تقاضوں سے بے وفائی ہے۔ ہر گزرتا ہوا لمحہ تخلیق و تعمیر چاہتا ہے۔ اور آنے والے کل سے بے نیاز ہو کر اپنے آج کو سنوارنا اور ہر گزرتے ہوئے لمحے میں کاوش کے رنگ بھرنا زندگی کے تقاضوں کی صحیح تکمیل ہے: مگر کار جہان نا استوار است ہر آن ما ابد را پردہ دار است بگیر امروز را محکم کہ فردا ہنوز اندر ضمیر کائنات است انسان کی عظمت، اور زندگی کے ساتھ اس کے پیہم ربط کا احساس دلانے کے بعد شاعر نے اپنے ایک اور مرغوب مضمون خطر جوئی کو موضوع سخن بنایا ہے۔ اس سے پہلے اسرار خودی میں بھی علامہ نے خطرات کو انسانی قوتوں کے تعمیری استعمال کا زرین موقع قرار دیا ہے۔ خطرات کا مقابلہ ان کی نظر میں خودی کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ انہیں مشکلات اور خطرات اتنے پسند ہیں کہ وہ پر پیچ راستے کو منزل مقصود پر ترجیح دیتے ہیںـ: مرا صاحبدلے این نکتہ آموخت ز منزل جادۂ پیچیدہ خوشتر اور ایسے سمندر میں کشتی کھینے کو تیار نہیں جس کی موجیں نہنگ سے نا آشنا ہیں: ولیکن من نرانم کشتی، خویش بدریائے کہ موجش بے نہنگ است رباعیات کا ایک اور موضوع اخوت اسلامی کا تصور ہے۔ وہ ملت اسلامی کو اپنے ملی تشخص کا احساس دلاتے اور اس کی نگہداری کی تلقین کرتے ہیں۔ مسلمان رنگ و نسب سے بالاتر ایک حقیقت ہے۔ اس ملت کی آبیاری ایک چمن میں ہوئی ہے اور اسے ایک ہی نوبہار نے پروان چڑھایا ہے: نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردۂ یک نوبہاریم ٭٭٭ تو اے کودک منش خود را ادب کن مسلمان زادہ ای ترک نسب کن برنگ احمر و خون و رگ و پوست عرب ناز د اگر ترک عرب کن کچھ رباعیات میں شاعر نے اپنی حکیمانہ اور مصلحانہ حیثیت پر ناز کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ رگ مسلم میں زندگی کا خون اسی کے اشعار نے دوڑایا ہے۔ اس قوم کی حالت دشت میں ایک پراگندہ اور منتشر ہجوم کی تھی، مگر اس کی صدائے درا نے اس بھیڑ کو ایک منظم کارواں کی شکل بخش دی ہے۔ اسے اپنی انفرادیت اور فکری اپج پر ناز ہے۔ وہ افلاطون اور فارابی کا احسان نہیں اٹھاتا۔ اسے دنیا کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے، حقائق کو خود پرکھنے کا دعویٰ ہے۔ اسے اپنی بصیرت پر ناز ہے۔ وہ لالہ خود رو کے مزاج اور شاخ پر کھلے ہوئے گلاب کی مہک سے آشنا ہے۔ وہ راز زندگی کا محرم، آنے والی بہار کا نقیب اور سینہ مشرق میں نئی حرارت اور آرزو کا خلاق ہے: میان آب و گل خلوت گزیدم ز افلاطون و فارابی بریدم نکردم از کسے دریوزۂ چشم جہان را جز بچشم خود ندیدم ٭٭٭ ز شاخ آرزو بر خوردہ ام من بہ راز زندگی بے پردہ ام من بترس از باغبان اے ناوک انداز کہ پیغام بہار آوردہ ام من ٭٭٭ ز جان بے قرار آتش کشادم دلے در سینہ مشرق نہادم گل او شعلہ زار از نالہ من چو برق اندر نہاد او فتادم افکار پیام مشرق کے دوسرے حصے کا عنوان ’’ افکار‘‘ ہے۔ یہ کتاب کا سب سے ضخیم حصہ ہے اور اکاون نظموں پر مشتمل ہے۔ بعض نظموں میں جو فصل بہار، کرمک شب تاب، حدی۔۔۔۔۔ نغمہ ساربان حجاز اور شبنم سے عبارت ہیں، شاعر نے ہیئت میں نئے تجربے کئے ہیں۔ ’’ افکار ‘‘ کے تحت علامہ نے اپنے فلسفہ و فکر کے مختلف پہلوؤں کا اظہار کیا ہے۔ موضوعات میں عظمت آدم، تسخیر فطرت، فلسفہ زمان، عشق و خرد، سوز و ساز، زندگی و عمل، جوش کردار، تخلیق و ارتقا، آزادی و غلامی، اسلام، جمہوریت، کشمیر اور تہذیب وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں شاعر نے فطرت کے حوالے سے اپنے فلسفہ زندگی کی ترجمانی کی ہے۔ ان نظموں کے عنوانات ہی سے علامہ کے اس شعری رحجان کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً ان میں گل نسختین، بوئے گل، فصل بہار، افکار انجم، نسیم صبح، لالہ، کرمک شب تاب، قطرۂ آب، شبنم اور جوئے آب میں علامہ کے مخصوص طرز تخیل پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ مذکورہ بالا عنوانات میں اکثر ایسے مظاہر فطرت کا ذکر ہے جو حسن و جمال سے ایک خاص نسبت رکھتے ہیں۔ ان میں لطافت، شگفتگی اور رنگ و بو کا دلآویز امتزاج ہے۔ ان مظاہر کی خصوصیات کو شاعر نے اپنے فلسفہ زندگی پر اس طرح منطبق کیا ہے کہ تجریدی افکار نے حسن و زیبائی میں ڈھل کر محسوسات کی سحر آفرین شکل اختیار کر لی ہے۔ تجریدیا ور غیر محسوس حقائق کو موزوں الفاظ اور حسن آفرین تشبیہہ و استعارہ میں اس طرح سے پیش کرنا کہ وہ اپنے پورے عشق کے باوجود شعر کے نازک اور لطیف پیکر میں ڈھل جائیں اور فکر کے ساتھ ساتھ ایک غنائی اور نغماتی کیفیت پیدا کر لیں، ایک عظیم فنکار ہی کی ندرت طبع اور قوت تخیل کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ ’’ افکار‘‘ میں ’’ تسخیر فطرت‘‘ کے نام سے علامہ نے اپنی نظم میں انسان کی عظمت کا ذکر بڑے شکوہ اور طمطراق کے ساتھ کیا ہے۔ انہوں نے صاحب نظر، خودگر، خود شکن، خود نگر اور پردہ در ایسے الفاظ سے انسان کی قوت اور مضمرات بیان کیے ہیں۔ ادھر ’’ افکار ابلیس‘‘ کے نام سے اسی نظم میں انہوں نے ابلیس کی سرکشی، بے باکی اور قوت عصیاں کا ذکر بڑے زور دار الفاظ میں کیا ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں وقت نے سیل بے پناہ کی قوت کا بیان ایک دلکش، مترنم اور نغمہ ریز نظم میں کیا ہے۔ ’’ افکار‘‘ کے تحت دو نظمیں گوئٹے سے منسوب ہیں۔ ایک ’’ حور و شاع‘‘ اوردوسری ’’ جوئے آب‘‘ پہلی گوئٹے کی ایک ایسی نظم کے جواب میں ہے، جس میں شاعر کی فطرت کی بے تابی، اضطراب اور عینیت پرستی کا ذکر نہایت خوب صورت اور پاکیزہ اشعار میں کیا گیا ہے۔ اور دوسری گوئٹے کی نظم ’’ نغمہ محمدؐ‘‘ کا بقول علامہ ’’ ایک نہایت آزاد ترجمہ ہے‘‘ جوئے آب یہاں زندگی کے اسلامی تخیل کی نمائندگی کرتی ہے۔ اور مقصد گوئٹے کا نقطہ نظر پیش کرنا ہے۔ اس نظم میں جوئے آب ہی کی روانی، تندی اور نغمہ آفرین کیفیت ہے اور علامہ نے گوئٹے کی فکر کو صوتیاتی تاثر، آہنگ اور جوش و خروش کے جس سحر آگین تانے بانے میں پیش کیا ہے۔ اس نے اس نظم کو لازوال حسن و شکوہ بخش دیا ہے۔ ان نظموں میں شاعر نے ذوق نمود، شوق تخلیق، لذت آرزو، خلش جستجو، ذوق طلب، قوت، عمل، حرکت، رجائیت، عشق کی ہمہ گیری اور عشق و دانش کا باہمی ربط، سوز ناتمام، ولولہ تعمیر، بلند نظری، خطر پسندی، جرأت و بیباکی، عظمت ایمانی اور تہذیب مغرب کی تاریک ضمیری ایسے موضوعات پر اظہار فکر کیا ہے، اور اپنے شاداب اور توانا تخیل سے ان حقائق کو جان بخش دی ہے۔ مے باقی حصہ غزلیات کا عنوان ’’ مے باقی‘‘ ہے۔ یہ اصطلاح علامہ نے حافظ سے لی ہے، اور اس کے مشہور شعر کی یاد دلاتی ہے: بدہ ساقی مے باقی کہ در جنت نخواھی یافت کنار آب رکنا باد و گلگشت مصلیٰ را یہ اصطلاح اس لحاظ سے نہایت معنی خیز ہے کہ اگرچہ علامہ نے اسرار خودی میں حافظ کے فلسفہ زندگی پر کڑی تنقید کی تھی، لیکن انہوں نے اپنی پہلی مطبوعہ غزلیات کو حافظ کی ایک مقبول ترکیب سے یاد کیا، مگر حافظ سے یہ نسبت یہیں ختم نہیں ہو جاتی ان غزلیات میں حسن و زیبائی کی جو فضا چھائی ہوئی ہے وہ حافظ کے سحر آخریں انداز کی یاد دلاتی ہے۔ ان غزلیات کا اسلوب اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ اقبال کی نظر میں حافظ ایک عظیم فنکار تھا اور ا سکی غنائی تخلیقات ساحرانہ حسن و تاثیر کا مرقع تھیں۔یہ ایک طرح سے حافظ کے جمالیاتی شعور کو اقبال کا خراج تحسین ہے۔ علامہ کی ان غزلیات میں وہی شگفتگی اور رعنائی، وہی آہنگ نشاط اور انداز بے نیازی ہے جو حافظ کے کلام پر سر بہ سر چھایا ہوا ہے۔ ’’ مے باقی‘‘ کی متعدد غزلیں حافظ شیرازی کی غزلیات کی زمین میں کہی گئی ہیں۔ حافظ کے علاوہ ان غزلیات میں رومی کا گہرا اثر جھلکتا ہے۔ یہ اثر اس عظیم صوفی او رمفکر شاعر کے طرز فکر کا بھی ہے اور طرز اسلوب کا بھی، چنانچہ بعض غزلیں رومی کے تتبع میں کہی گئی ہیں۔ اسی طرح علامہ نے بعض دوسرے شعرا کی غزلیات کے جواب میں بھی غزلیں کہی ہیں۔ غزل اس لحاظ سے باقی تمام اصناف سخن سے مختلف ہے کہ اس میں منطقی تسلسل او رمعنوی ربط کی وہ کیفیت نہیں ہوتی جو مثال کے طور پر مثنوی میں نظر آتی ہے۔ غزل کا ہر شعر ایک مکمل وحدت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ صنف سخن شاعر کے فکر و احساس کے داخلی اظہار کا نام ہے۔ اس میں شاعر کی فکر جذبے کی آنچ سے ڈھل کر نکلتی ہے اور فکر و احساس کا یہ امتزاج دلآویز اور اثر آفرین کیفیت پیدا کر لیتا ہے جو دوسری اصناف سخن میں عام طور سے ممکن نہیں۔ اچھے شاعر کی غزل میں خاص طور سے جب وہ زندگی کے بارے میں ایک مثبت نقطہ نظر رکھتا ہو اور اس کے اظہار کے لیے اس نے اپنی تمام فکری، فنی اور جمالیاتی قوتیں داؤں پر لگا دی ہوں، عام غزل کی طرح جذبات و احساسات کی محض پراگندہ تصویریں نہیں ہوتیں، بلکہ فکر کے قوی عنصر کی وجہ سے ایک نقطہ نظر یا زاویہ نگاہ بھی جاری و ساری ہوتا ہے جس کا نقش ایک مکمل وحدت کی شکل میں قاری کے ذہن پر مرتسم ہو جاتا ہے۔ البتہ اس نقطہ نظر کو جذبات سے ہم آہنگ ہونے کے باعث اظہار کا ایک لطیف وسیلہ میسر آ جاتا ہے۔ پیام مشرق کی غزلیات اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہیں کہ ایک عظیم فنکار کے ہاتھوں خواہ وہ فن شعر سے لاتعلقی کا کتنا ہی اظہار کیوں نہ کرے عمیق اور بلند افکار نہایت کامیابی کے ساتھ غنائیت کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں، اور سنگین حقائق غزل کی لطیف زبان تخیل اور شاداب لہجے میں اپنی پوری معنویت اور اثر انگیزی کے ساتھ پڑھنے والے کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ ’’ مے باقی‘‘ میں شاعر نے اپنے فلسفہ حیات کے مختلف پہلوؤں کو حسن و جمال کے جس سانچے میں ڈھالا ہے، اس کی مثالیں فارسی شاعری میں بہت کم ملتی ہیں۔ اسلوب بیان میں اس نے برصغیر کے مخصوص طرز شعر کو جیسے ایران میں سبک ہندی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نظر انداز کر دیا ہے، اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، زیادہ تر حافظ کے انداز بیان کو پیش نظر رکھا ہے۔ اگرچہ علامہ کے اشعار پر ان کے نظام فکر، جدید علوم اور عصر حاضر کے تقاضوں کی گہری چھاپ ہے، لیکن انہوں نے اپنے بیان کو غزل کی مخصوص کلاسیکی روش کا پابند کیا ہے۔ فارسی شاعری میں رمز و ایما کی روایت بہت قدیم اور صوفی شعرا کی دی ہوئی ہے۔ اس کا آغاز شیخ ابو سعید ابی الخیر (1049/440) اور بابا طاہر عیاں کی رباعیات سے ہوا۔ شیخ فرید الدین عطار نے غزل کی حسن آفریں اور لذت پرور اصطلاحات کو کثرت سے علامت کے طور پر استعمال کیا، اور رمز و ایما میں عارفانہ حقائق بیان کئے۔ اس ایمائیت نے فارسی غزل میں ابہام تو پیدا کیا مگر اس کی وجہ سے شعر کی معنویت میں بہت وسعیت پیدا ہو گئی۔ رمز و کنایہ کی زبان کے بارے میں پیر رومؒ کا مشہور شعر ہے: خوشتر آن باشد کہ سر دلبران گفتہ آید در حدیث دیگران اقبال کی غزل میں رمزیت و ایمائیت کی وہی کیفیت ہے جو فارسی غزل کی شان ہے، البتہ موضوعانہ کی وسعت و تنوع نے یہاں رمز و ایما کے میدان میں مزید وسعت پیدا کی ہے، اور شاعر نے ’’ تنگنائے غزل‘‘ میں ہر طرح کے نئے فلسفیانہ افکار کے نہایت کامیاب اظہار سے اسے ایک نئی معنویت سے آشنا کیا ہے۔ یہ انداز اگر شاعر کے فن کی پختہ کاری کی دلیل ہے تو صنف غزل کی لچک، وسعت اور بے انداز صلاحیتوں کا آئینہ دار بھی ہے۔ اقبال نے اس صنف سخن کے شعری اور غنائی تقاضوں کو نہ صرف ملحوظ خاطر رکھا ہے بلکہ اس میں ہر طرح کے دقیق و عمیق خیالات کو سمونے کے ساتھ ساتھ اس کے ظاہری حسن میں اضافہ بھی کیا ہے۔ صوفی شعرا نے حقیقت کائنات پر اپنے عارفانہ افکار کا اظہار غزل کے دلنشین پیرائے میں کیا ہے، اور اس کے حسن و جمال کو نہ صرف مجروح نہیں ہونے دیا بلکہ اس میں مستقل اضافے کیے ہیں۔ مگر اقبال نے غزل میں فلسفہ و فکر کی جو نئی راہیں اختیار کی ہیں اور مختلف معروض حقائق کے اظہار کے باوجود اس کے حسن اور بانکپن میں جو نکھار پیدا کیا ہے، اس سے شعر پر بالعموم اور غزل پر بالخصوص ان کی بے پناہ قدرت کا ثبوت لتا ہے اور قدم قدم پر ان کے ذوق جمالیات اور احساس حسن کا مظاہرہ ہوتا ہے ان غزلیات میں فلسفہ اقبال کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے، جن میں خودی، عشق و خرد، سوز و ساز، تپش و بیتابی، طلب و جستجو، حرکت و عمل، دعوت مبارزت، خطر پسندی اور ملت اسلامی کی انحطاط پذیر زندگی ایسے موضوعات شامل ہیں۔ شاعر نے کسی موضوع میں غزل کے آہنگ اور مزاج سے سر مو انحراف نہیں کیا، بلکہ یہ سنگین حقائق غزل کی روائتی لطافتوں کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ ہوئے ہیں کہ بعض جگہ موسیقی کے بول بن گئے ہیں۔ یہاں ان موضوعات کا الگ الگ لیکن نہایت مختصر ذکر بے محل نہ ہو گا۔ علامہ نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا ذکر ’’ لالہ طور‘‘ میں بھی کیا ہے، لیکن یہاں انہوں نے اس موضوع میں موسیقی اور نغمے کے سروں سے زیادہ رس گھولا ہے۔ انسانی فکر کی تخلیقی استعداد اور اس کی وسعت اور گہرائی کا یہ عالم ہے کہ وہ اس کی مدد سے نئی دنیائیں آباد کرتاہے اور اپنے حسن تخیل و اندیشہ سے اس میں نئے رنگ بھرتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوت کا ٹھکانا نہیں اور اس کے مزاج کا تنوع اور جدت پسندی اسے نئی حقیقتوں کے انکشاف کی راہ دکھاتی ہے۔ اس حقیقت کے اظہار میں علامہ نے شوخی فکر و جرأت گفتار کا وہ مخصوص انداز اختیار کیا ہے جو اپنے خالق سے خطاب کے سلسلے میں ان کے ہاں اکثر نظر آتا ہے۔ مثلاً صد جہان میروید از کشت خیال ما چوگل یک جہان و آن ہم از خون تمنا ساختی طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم این چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی یہ اشعار انسان کے لامتناہی عزائم و تخلیقی مقاصد کا پتا دیتے ہیں۔ شاعر کی نظر میں فطرت میں رنگ و بو اس پیکر خاکی کے دم سے ہے، اور لالہ و گل کی رنگین جلوہ سامانیاں اور فطرت آشفتہ کی شیرازہ بندی اسی کی نگاہ کرشمہ ساز کا نتیجہ ہیں۔ ایک اور غزل میں، جس میں ذات انسانی کی قوت و لطافت کے امتزاج کا ذکر ہے، موضوع کی رعایت سے بلند آہنگ اور باشکوہ انداز اختیار کیا گیا ہے: خاکیم و تند سیر مثال ستارہ ایم در نیلگون یمے بتلاش کنارہ ایم با نور یان بگو کہ ز عقل بلند دست ما خاکیان بدوش ثریا سوارہ ایم در عشق غنچہ ایم کہ لرزد ز باد صبح درکار زندگی صفت سنگ خارہ ایم مگر وہ قوت و لطافت عشق کی اس آخری منزل کے لیے تڑپ رہے ہیں جس میں حقیقت بے نقاب ہو کر جلوہ افروز ہوتی ہے: چشم آفریدہ ایم چو نرگس درین چمن روبند برکشا کہ سراپا نظارہ ایم انسان ہی ان کی نظر میں اسرار ازل کا محرم ہے، مگر افسوس وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں۔ اسی حقیقت کے جاننے کا نام خودی ہے۔ وہ اس کی خودی کو وجد آفرین اشعار میں بیدار کرتے اور اسے دعوت عمل دیتے ہیں: اسرار ازل جوئی؟ برخود نظرے واکن یکتائی و بسیاری، پنہائی و پیدائی برخیز کہ فروردیں افروخت چراغ گل برخیز و دمی پنشین با لالہ صحرائی ٭٭٭ بیا اقبال جامے از خمستان خودی در کشن تو از میخانہ مغرب ز خود بیگانہ می آئی اگر ذات مطلق کی عظمت و جمال کا سلسلہ لامتناہی ہے تو انسان کے دل بیتاب میں بھی بیشمار اور نت نئے جہان فکر و عمل آباد ہیں: عشق است و ہزار افسون، حسن است و ہزار آئین نے من بہ شمار آیم، نے تو بہ شمار آئی عشق کا یہ جذبہ انسان کے اندر پیہم تپش و اضطراب کو جنم دیتا ہے۔ اس سے انسان کی زندگی لازوال اور غیر فانی بنتی ہے اور وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں بیتاب و سرگرداں رہتا ہے۔ شاعر کا یہ احساس یوں نغمے میں ڈھل جاتا ہے: تپش است زندگانی، تپش است جاودانی ہمہ ذرہ ہائے خاکم دل بیقرار بادا نہ بہ جادۂ قرارش، نہ بہ منزلے مقامش دل من مسافر من کہ خداش یار بادا نشود نصیب جانت کہ دمے قرار گیرد تب و تاب زندگانی بتو آشکار بادا شاعر نے عشق کی عظمت کا ذکر ایک عجیب والہانہ انداز میں کیا ہے ان اشعار میں جو کیف و مستی اور جوش و خروش نظر آتا ہے وہ ہمیں رومی اور حافظ کے اشعار کی یاد دلاتا ہے۔ وہ خود شاسی اور ادعائے ذات کے لیے احساس عشق کو ضروری سمجھتے ہیں: در بود و نبود من اندیشہ گما نہا داشت از عشق ہویدا شد این نکتہ کہ ہستم من سرمایہ درد تو غارت نتوان کردن اشکے کہ ز دل خیزد در دیدہ شکستم من یہ وہ متاع گر انبہا ہے کہ وہ اسے تخت جم کے عوض بھی دینے کوتیار نہیں ہیں۔ گرچہ متاع عشق را عقل بہای کم نہد من ندہم بہ تخت جم آہ جگر گداز را دل عشق کا مخزن اور مظہر ہے۔ دل کی قوت اور عظمت ملاحظہ ہو: سوز سخن ز نالہ مستانہ دل است این شمع را فروغ ز پروانہ دل است مشت گلیم و ذوق فغانے نداشیتم غوغائے ما ز گردش پیمانہ دل است ابن تیرہ خاکدان کہ جہان نام کردہ ای فرسودہ پیکرے ز صنم خانہ دل است لاہوتیان اسیر کمند نگاہ او صوفی ہلاک شیوۂ ترکانہ دل است غافل ترے ز مرد مسلمان ندیدہ ام دل درمیان سینہ و بیگانہ دل است عشق انسان کے اندر جرأت کردار پیدا کرتا ہے۔ یہ جرأت، مقاومت و مبارزت کی دعوت دیتی ہے اور انسان کے اندر خطر پسندی کا جذبہ پیدا کرتی ہے، جو انسانی خودی کے استحکام اور تقویت کا باعث بنتا ہے۔ شاعر کے نزدیک زندگی کا راز ہی خطرات سے کھیلنے اور طوفانوں سے لڑنے میں پنہاں ہے۔ یہاں تک کہ ایسے سفر کعبہ پر بھی آمادہ نہیں جو خطرات سے خالی ہو: بکیش زندہ دلان زندگی جفا ططلبی است سفر بکعبہ نکردم کہ راہ بے خطر است ٭٭٭ ز قید و صید نہنگان حکایتے آور مگو کہ زورق ما روشناس دریا نیست اس کی نظر میں عافیت کی تمنا زندگی کے سفاک حقائق سے نا آشنائی کی دلیل ہے: درین رباط کہن چشم عافیت داری ترا بکشمکش زندگی نگاہے نیست شاعر کی نظر میں زندگی ہمیشہ سے حق و باطل کی آویزش کی آماجگاہ رہی ہے اور شر ہمیشہ خیر سے ٹکراتا رہا ہے: شبے بہ میکدہ خوش گفت پیر زندہ دلے ’’بھر زمانہ خلیلؑ است و آتش نمرود‘‘ اقبال کا نصب العین مسلک شبیر ہے۔ گوشہ نشینی کی بجائے وہ کار زار زندگی میں شمشیر و سنان اور نعرۂ تکبیر کو رفیق راہ سمجھتے اور عواقب سے بے پرواہ ہیں: تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست با من میا کہ مسلک شبیرمؓ آرزوست از بہر آشیانہ خس اندوزیم نگر باز این نگر کہ شعلہ در گیرم آرزوست گفتند لب بہ بند و ز اسرار ما مگو گفتم کہ خیر، نعرۂ تکبیرم آرزوست شاعر کا عقیدہ ہے کہ خودی مضبوط و مستحکم ہو تو خطرات کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور زندگی کے طوفانی سمندر سے انسان گوہر تابندہ بن کر نکلتا ہے: گر بخود محکم شود سیل بلا انگیز چیست مثل گوہر در دل دریا نشستن میتوان زندگی کو کسی پل قرار نہیں۔ اس میں جمود کو راہ نہیں یہ نئی منزلوں کی تلاش میں ہمیشہ سرگرم سفر رہتی ہے اس خیال کو شاعر نے کس موثر اور دلنشین انداز میں پیش کیا ہے: کجاست منزل این خاکدان تیرہ نہاد کہ ہرچہ پست چو ریگ روان بہ پرواز است ایک دوسری غزل میں حرکت اور پروز کے اسی تصور کو پھول کی مہک اور نسیم سحر سے ہم آہنگ کر کے شاعر نے زندگی کے سنگین عمل کو تغزل کے لطیف ساز میں ڈھالا ہے: پا ز خلوت کدۂ غنچہ برون زن چو شمیم با نسیم سحر آمیز و وزیدن آموز اس غزل میں زندگی کے امکانات کو روشن کرنے اور ناسازگار ماحول میں بھی شخصیت کے اظہار کے مواقع ڈھونڈنے اور شکست پر غالب آنے کی بات گل و سبزہ اور شبنم و لالہ کے رنگین پیکروں کے ذریعے کی گئی ہے۔ ’’ مے باقی‘‘ کی بعض غزلیات میں ملت کا درد موجزن ہے۔ غزل کے تقاضوں کی مکمل پابندی اور اس کے حسن و نزاکت کی پوری رعایت کے باوصف شاعر نے ملت اسلامیہ کے مسائل پر ایسے لطف انداز میں بات کی ہے کہ ملت کے عروج و زوال کے اسباب اور ان کا تجزیہ بھی غنائی وحدت کا جزو بن گیا ہے۔ مندرجہ ذیل شعر میں اسلام کے ہمہ گیر پیغام کے لیے غزل کی زبان ملاحظہ ہو: تو رہ شناس نہ ای وز مقام بے خبری چہ نغمہ ایست کہ در بربط سلیمی نیست اور اس کے بعد پھر کار زار حیات میں ذوق کردار اور جنون کی ایک نئی شان جو صحرا نوردی کا مذاق اڑا رہی ہے: بیا کہ غلغلہ در شہر دلبران فگنیم جنون زندہ دلان برزہ گرد صحرا نیست شاعر کو مسلمان کے فکر و نظر میں گمراہی نظر آتی ہے۔ وہ عہد حاضر کے مسلمان کو پسر خلیل ہونے کے باوجود آزر کا پیرو سمجھتا ہے اور اسے بیگانہ دل ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔ اس کی مسخ شدہ اقدار نے شاعر کے دل کو غم کدہ بنا رکھا ہے اور اس کے نزدیک مسلمان کی موجودہ پستی کا علاج تب و تاب جاودانہ اور کلیم اللہی کے سوا اور کچھ نہیں: نشود نصیب جانت کہ دمے قرار گیرد تب و تاب زندگانی بتو آشکار بادا ملت کے زوال اور قلب و نظر کی دولت بیدار سے محروم ہونے کے باوجود شاعر مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ رجائیت اقبال کے شعر و فلسفہ کا لازمی جزو ہے اور ملی زندگی کے تاریک ترین لمحات میں بھی شاعر نے کبھی دامن امید ہاتھ سے نہیں دیا۔ بلکہ اس نے خون صد ہزار انجم میں بھی ہمیشہ سحر کی تابانی کا نظارہ کیا ہے۔ ان غزلیات میں ملت کے انحطاط پر دکھ کے ساتھ ساتھ وہ سکھ کی گھڑیوں کا بھی منتظر ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی شکست مسلمانان برصغیر کے لیے ایک عظیم سانحہ تھی، کیونکہ خلافت عثمانی اسلامی اتحاد کا مظہر اور ترک مغرب کے خلاف اسلامی مقاومت کی درخشاں علامت تھا۔ اس شکست نے نہ صرف مسلمانوں کو بے چین کیا بلکہ برصغیر کی سیاست میں انہیں انگریزوں کے خلاف ایک ایسا محاذ بنانے پر مجبور کیا جس نے اس سر زمین میں تحریک آزادی کو زبردست تقویت دی۔ اسی زمانے میں شاعر مشرق نے ترکوں کے ان مصائب کو بھی ان کی آزادی اور ترقی کا ضامن قرار دیا اوراس کا سبب یہ بتایا کہ ظہور مصطفویٰ کے لیے بولہبی ایک بہانہ ہوا کرتی ہے: نہال ترک ز برق فرنگ بار آورد ظہور مصطفویٰ را بہانہ بولہبی ست تشنہ لبی اور محرومی شاخ ملت کے لیے نم کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس سے شگوفے پھوٹتے ہیں، ورنہ آب حیات کی تلاش تو در حقیقت طلب کی کمی کا اعتراف ہے: بشاخ زندگی ما نمے ز تشنہ لبی است تلاش چشمہ حیوان دلیل کم طلبی است شاعر ملت کی بہار کا منتظر ہے۔ اس پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے لیے اپنا سوز اور تپش لٹانے کے لیے بیقرار ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سوز و اضطراب مرغ بہار کے نالوں میں بیباکی اور جرأت کا باعث بنے گا۔ ملت خوابیدہ کو بیدار کرنے میں شاعر نے فکر و احساس کی جو شمعیں روشن کیں اور دلوں میں جس طرح تپش و اضطراب کی جوت جگائی وہ اس کا ذکر بھی کرتا ہے اور ملت کی نشاۃ ثانیہ میں وہ اپنے کردار کی عظمت سے بھی آگاہ ہے: تا شوی بیباک تر در نالہ اے مرغ بہار آتشے گیر از حریم سینہ ام چندے دگر نقش فرنگ پیام مشرق کا چوتھا جزو ’’ نقش فرنگ‘‘ ایک طویل ترکیب بند سے شروع ہوتا ہے۔ جس کا عنوان ’’ پیام‘‘ ہے۔ یہ پیام اقبال کی طرف سے مغرب کے نام ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ پیام ہے جو بیسویں صدی کے اس عظیم مفکر شاعر نے گوئٹے کے جواب میں مغرب کے نام بھیجا ہے۔ پیام کیا ہے مغرب کے نام ایک دعوت مبارزت ہے جس میں شاعر نے مغربی نظام فکر و عمل اور تمدن و سیاست کو للکارا ہی نہیں بلکہ اس کے تار و پود کو بھی بکھیر کے رکھ دیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نہ مغرب کے افکار سے مرعوب ہے نہ اس کی حاکمیت سے نظم میں ایک للکار اور بیباکی ہے۔ ایک برتری کا احساس اور اعتما دکا آہنگ ہے۔ اس کی گونج شاعر کے متفکرانہ شکوہ و جلال کی آئینہ دار ہے۔ اس نے مغرب کے نظام حیات کا بے مثال جرأت اور بصیرت کے ساتھ تجزیہ ہی نہیں کیا، انتہائی قوت و توانائی کے ساتھ اپنے رد عمل کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس شعلہ بدامان نظم میں فکر و نظر کے شراروں اور انداز بیان کی تابانیوں نے اسے اقبال کی شاہکار تخلیقات میں ایک ممتاز مقام بخشا ہے۔ نظم کا آہنگ و صوت، اس کی بے پناہ روانی اور الفاظ کا شکوہ شاعر کے افکار کے ساتھ پوری مطابقت رکھتا ہے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ شعلہ بیانی شاعر کو جذبات کی رو میں بہا کر نہیں لے گئی ہے، بلکہ اس کا ہر شعر عمیق فکر کا آئینہ دار ہے، اور اس کا ایک ایک لفظ مغرب کے لیے تازیانہ عبرت کا کام دے رہا ہے۔ اگر اس میں چیلنج کی جھنکار پوری قوت کے ساتھ سنائی دیتی ہے تو وہ بھی فکر کی سطح پر ہے۔ شاعر نظم کا آغاز عقل فسوں پیشہ کی تنگ دامانی اور عشق کی عظمت سے کرتا ہے۔ مگر وہ اسرار جو رنگ کے پردے میں مچل مچل کے بے نقاب ہو رہے ہیں عقل کے مشاہدے سے دور ہیں۔ مغرب نے دانش و حکمت کا خزانہ تو سمیٹ لیا لیکن دل کا گنج گرانمایہ کھو بیٹھا۔ عقل کے بجھے بجھے ناز دل میں حرارت و تپش پیدا نہ کر سکے۔ اس کے غمزۂ پنہاں کی خلش لذت کو جنم نہ دے سکی۔ اس بے رحم عقل نے دنیا کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ اس کی کیمیا سازی نے ریگ رواں کو سونے میں بدل دیا مگر وہ دلا فسردہ پر اکسیر محبت نہ چھڑک سکی۔ مغرب اس کے افسوں کا شکار ہوا لیکن اس نے تہذیب فرنگ کی خاک اڑا ڈالی، اور یہی خاک پسر مریم کی آنکھوں میں جھونک دی۔ مغرب سے مخاطب ہو کے حکیم الامت کا ارشاد ہے: عجب این نیست کہ اعجاز مسیحاؑ داری عجب اینست کہ بیمار تو بیمار تو است اس کے بعد شاعر نے عقل خودبیں اور عقل جہاں بیں کا مقابلہ کیا ہے۔ اگر ایک بلبل کا پر ہے تو دوسری بازوئے شاہین۔ اگر ایک نسیم کی مانند چمن کو رہگذار بناتی ہے تو دوسری گل و نسرین کے ضمیر میں جھانکتی ہے۔ رہے وہ عقل کہ دونوں عالم کی وسعتیں اس کے قدموں میں پڑی ہیں۔ شاعر کو شکوہ ہے کہ عشق ہوس پیشہ ہو گیا اور اس نے ضبط کے تمام بند توڑ ڈالے۔ اس نے رہزنی کو جہانبانی کہا اور اس کے ظلم و بیداد نے غلاموں کو کچل ڈالا۔ اس بھیانک فضا میں کہ جہاں عقل خودبین اور عشق ہوس پیشہ کی کارفرمائی ہے، شاعر اہل مغرب کو ایک نئے نظام زندگی میں شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ اسے بتاتا ہے کہ ملوکیت کے دن بیت گئے۔ بادشاہوں کے تاج لٹ گئے، نہ نئے اسکندری باقی ہے او رنہ نغمہ دارائی۔ کوہکن تیشہ بدست آیا ہے اور اقتدار کا طلبگار ہے۔ عشرت سرمایہ رخصت ہوا چاہتی ہے۔ مزدور کی بے بسی رنگ لائی ہے۔ یوسف زنداں سے نکل کر عزیزی کے منصب پر جا پہنچا ہے۔ افسانہ و افسون زلیخائی کا دور ختم ہوا۔ آج زندگی ایک جہان تازہ کی تعمیر چاہتی ہے۔ اس کے بعد شاعر کی چشم حقیقت بیں آنے والے دور کو دیکھتی ہے اس خاک کہن کا ہر ذرہ ستارہ بنا چاہتا ہے۔ وہ دانہ جو ابھی زمین کے آغوش میں پڑا سوتا ہے، تناور اور گر انڈیل درخت بننے والا ہے۔ پہاڑ اپنی ہیبت کے باوجود پرکاہ نظر آنے لگے ہیں، اور پرکاہ میں کوہسار کی عظمت جھلک رہی ہے۔ شاعر ایک ایسا انقلاب دیکھ رہا ہے جو آسمانوں کے ضمیر میں نہیں سما سکتا: انقلابے کہ نگنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ہیچ ندانم کہ چسان می بینم آخری بند میں زندگی کے ارتقائی عمل، مسلسل حرکت و انقلاب اور ایسے تابناک مستقبل کا ذکر ہے جس میں ہر زشت اور فرسودہ شے کا وجود مٹنے والا ہے، اور وہ حقائق جن کے لئے آنکھیں ترستی ہیں بے نقاب ہونے والے ہیں۔ اس بند میں افکار یوں نغمہ و شعر میں ڈھلے ہیں: زندگی جوئے روان است و روان خواہد بود این مے کہنہ جوان است و جوان خواہد بود آنچہ بود است و نباید، زمیان خواہد رفت آنچہ بالیست و نبود است ہمان خواہد بود اور پھر شاعر اپنے گریہ خونین کے رنگ لانے کو یوں دیکھتا ہے: آن زمینے کہ برو گریہ خونین زدہ ام اشک من در جگرش لعل گراں خواہد بود شاعر نے مغرب کے انجام کے بارے میں نصف صدی پہلے جب یہ لب کشائی کی اس وقت ابھی سلطنت برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلے ہوئے وہ وسیع و عریض خطے جنہیں آج تیسری دنیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، پابجولاں تھے۔ استعمار اپنی پوری قوت کے ساتھ مشرق کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا، اور اس کی آزادی ایک خواب بن کے رہ گئی تھی۔ لیکن شاعر کی نگاہ تیز اقوام عالم کے عروج و زوال کے اسباب و علل پر تھی۔ اس کی حقیقت آشنا نظر مغربی استعمار کے انحطاط اور سرمایہ داری کے اضمحلال کے ساتھ ساتھ نئی توانا اور تازہ خوں قوتوں کا مشاہدہ کر رہی تھی، اور وہ قوتیں بھی اس کی نگاہ دوربیں کے سامنے آشکار تھیں جو ابھی کائنات میں خوابیدہ تھیں۔ ’’ نقش فرنگ‘‘ کے حصے میں اس نظم کے علاوہ اکثر نظمیں فرنگ یا فرنگ سے متعلق افراد و احوال کے بارے میں ہیں۔ ’’ میخانہ فرنگ‘‘ میں شاعر نے غزل کی رنگین زبان میں فرنگ کی ظاہری نمود اور باطنی خلا پر ایک نظم کہی ہے، جس میں وہ اس کی چشم مست کو تو پروردگار بادہ قرار دیتا ہے مگر یوں اسے ایسے جلوۂ بے کلیم اور شعلہ بے خلیل کے نام سے یاد کرتا ہے جس کی بے لگام عقل نے دنیائے عشق و محبت پر تباہی کی بجلیاں گرائی ہیں۔ ’’ خرابات فرنگ‘‘ میں مغربی تہذیب کی بنیاد مسخ اقدار اور تزویر و ریاپر دکھائی ہے جس میں نیک و بد کا پیمانہ اندھی قوت ہے اور بس۔ ’’ آزادی بحر‘‘ چودہ اشعار کے ایک قطعہ پر مشتمل ہے اس میں تمثیلی انداز میں استعمار پسند طاقتوں کی قذاقی پر شدید تبصرہ ہے۔ نقش فرنگ کا ایک مرغوب موضوع مزدور، سوشلسٹ اور سرمایہ دار ہے اور کئی نظمیں اسی موضوع سے عبارت ہیں۔ علامہ نے جس زمانے میں پیام مشرق لکھی روس میں انقلاب آ چکا تھا اور تاریخ میں پہلی بار مزدور اور کسان نے بادشاہوں کے جاہ و جلال کو خاک میں ملا کر ایک غیر طبقاتی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ اس زمانے میں اس انقلاب سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں، البتہ وہ اس انقلاب میں اس مساوات کی جھلک دیکھتے ہیں جسے اسلام نے چودہ سو سال پہلے انسانی معاشرے سے روشناس کرایا تھا۔ ’’ نوائے مزدور‘‘ میں مزدور کے ولولوں اور امنگوں میں جو جوش و خروش نظر آتا ہے اس میں شاعر کا ہمدردانہ طرز فکر جھلک رہا ہے۔ ’’ قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور‘‘ میں مزاحیہ اور شگفتہ انداز میں سرمایہ دار کی مجرمانہ اور مکارانہ سرشت کی گت بنائی گئی ہے۔ اس کے اشعار یوں ہیں: غوغائے کارخانہ آہنگری ز من گلبانگ ارغنون کلیسا ازان تو نخلے کہ شہ خراج برومی نہد ز من باغ و بہشت و سدرہ و طوبا ازان تو تلخا بہ کہ درد سر آرد ازان من صہبائے پاک آدم و حوا ازان تو مرغابی و تذرو و کبوتر ازان من ظل ہما و شہپر عنقا ازان تو این خاک و آنچہ در شکم او ازان من وز خاک تا بہ عرش معلا ازان تو ایک نظم میں حکیم فرانسوی آگسٹس کومیٹ (1857ئ) اور مزدور کے درمیانی گفتگو ہوتی ہے۔ یہاں مزدور کے ادعائے برتری میں خود شاعر کے ہمدردانہ افکار و جذبات شامل ہیں۔ ’’ صحبت رفتگان‘‘ میں ٹالسٹائی (1875ئ) کارل مارکس (1883ئ) ہیگل (1831ئ) ایران کے قدیم اشتراکی رہنما مزدک (528ء یا 529ئ) اور خسرو پرویز (628-590م) کے داستانی رقیب فرہاد کوہکن کی گفتگو ہے۔ ٹالسٹائی سرمایہ داری کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ کارل مارکس اس نظام کے خلاف بر سر پیکار ہے اور اسے قتل انسانیت قرار دیتا ہے۔ ہیگل سرمایہ دار اور مزدور کی کشمکش کو اپنے فلسفہ اضداد کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ مزدک انقلاب تازہ کو اپنی جدوجہد کا ثمر سمجھتا ہے اور خوشی سے دیوانہ ہو رہا ہے کہ قصر سلطان و امیر میں مرگ نو رقص کر رہی ہے۔ البتہ کوہکن ابھی اپنی کامیابی پر مطمئن نہیں ہے اور اسے اس بات کا غم کھائے جا رہا ہے کہ دور فلک ابھی تک آرزوئے پرویز کے تابع ہے۔ ’’ موسیولینن و قیصر ولیم‘‘ کے مکالمے میں جہاں لینن انقلاب کی کامرانی اور ایک نئے نظام زندگی کے قیام پر فتح و نصرت کے احساس سے سرشار ہے، قیصر ولیم ہوش اقتدار کو انسان کی جبلی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ جس زمانے میں علامہ نے ’’ پیام مشرق‘‘ شائع کی جمعیت اقوام (League of Nations) نئی نئی عالم وجود میں آئی تھی، اور پہلی جنگ عظیم سے نڈھال دنیا اس مجلس کی طرف بڑی امید کی نظروں سے تک رہی تھی لیکن علامہ نے اس پر استعمار پسند طاقتوں کے کامل اقتدار اور دبدبہ کے پیش نظر روز اول ہی سے اسے کفن چوروں کی جماعت قرار دے دیا تھا۔ اور آنے والے واقعات نے اس انجمن کی بے بسی، کمزور و ناتواں کے معاملے میں اس کی بے اعتنائی اور بڑی طاقتوں کے ہاتھوں میں اس کا بے اثر کردار ثابت کر دیا۔ مظلوم اور غلام دنیا پر انگلستان اور فرانس کا اقتدار نہ صرف برقرار رہا بلکہ اس میں مزید تقویت پیدا ہوئی۔ یہ انجمن اپنے بے اثر اور بے اختیار کردار کے باعث نہ مقامی جنگوں، مثلاً حبشہ پر مسولینی کے حملے کو روک سکی، اور نہ دوسری جنگ عظیم کے راستے میں حائل ہو سکی۔ علامہ نے اس کے قیام کے موقع پر مندرجہ ذیل پیش گوئی کی تھی جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی: برفتد تا روش رزم درین بزم کھن درد مندان جہان طرح نو انداختہ اند من ازین بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند ’’ درد مندان جہاں‘‘ کی ترکیب میں طنز و تضحیک اور اس انجمن پر قابض مقتدار اقوام سے نفرت کا جو پہلو جھلک رہا ہے اس نے اشعار کے لطف کو دوبالا کر دیا ہے۔ نقش فرنگ کے ایک حصہ میں بعض اہم مغربی مفکرین کے فلسفہ پر شاعر مشرق کا تبصرہ ہے۔ ہر مفکر کے فلسفہ زندگی کو نہایت بلیغ انداز میں چند اشعار بلکہ بعض جگہ ایک ایک شعر میں سمو دیا گیا ہے۔ یہ اشعار نہ صرف ان مفکرین کے افکار سے علامہ کی گہری واقفیت اور مطالعہ کا پتا دیتے ہیں بلکہ علامہ نے دلنشین اور دلآویز انداز میں ان کے فلسفہ حیات کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ علامہ، نیٹشے (1900ئ) کے بے حد مداح ہیں اور اس پر انہوں نے کئی جگہ اظہار خیال کیا ہے۔ ایک جگہ اس کا ذکر ایک بلیغ قطعہ میں یوں کیاہے: از سستی عناصر انسان دلش تپید فکر حکیم پیکر محکم تر آفرید افگند در فرنگ صد آشوب تازۂ دیوانہ بکار گہ شیشہ گر رسید بقول اقبال نیٹشے کے قلم میں بجلی کی کڑک ہے اور اس کے ہاتھ خون کلیسا سے سرخ ہیں۔ وہ خدا کا منکر ہے مگر بعض اخلاقی تصورات میں اسلام سے بہت قریب ہے، اس لیے اس کا دل مومن لیکن دماغ کافر ہے: آنکہ بر طرح حرم بت خانہ ساخت قلب او مومن دماغش کافر است علامہ اقبال، گوئٹے کی عظمت کے بہت قائل تھے۔ یہاں تک کہ ’’ پیام مشرق‘‘ اسی حکیم شاعر کے دیوان کے جواب میں لکھی گئی۔ کتاب کے اس حصے میں ’’ جلال و گوئٹے‘‘ کے زیر عنوان رومی کی زبان سے گوئٹے کی یوں تعریف کی ہے: گفت رومی اے سخن را جان نگار تو ملک صید استی و یزدان شکار فکر تو در کنج دل خلوت گزید این جہان کہنہ را باز آفرید سوز و ساز جان بہ پیکر دیدہ ای در صدف تعمیر گوہر دیدہ ای آئین سٹائن (1955ئ) کے نظریہ اضافیت سے متاثر ہو کر علامہ نے اس کی تعریف میں ایک زور دار نظم کہی ہے اور بتایا ہے کہ اس کے ضمیر منور نے روشنی کے اسرار کو فاش کر دیا ہے، وہ اسے ایک ایسے زردشت (583ق م ) سے تشبیہہ دیتے ہیں جس نے نسل موسیٰ ؑ و ہارونؑ سے ظہور کیا ہے۔ اسی طرح وہ فرانس کے جدید مفکر برگسان (1941ئ) کے فلسفے کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں کیونکہ برگسان ایک ایسی عقل کا دلدادہ ہے جو ادب خوردۂ دل ہو: نقشے کہ بستہ ای ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رسان کہ ادب خوردۂ دل است انگریز فلسفی لاک (1704ئ) جرمن مفکر کانٹ (1804ئ) اور برگساں کے فلسفے کا مقابلہ ایک ایک شعر میں گل لالہ کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ لاک اسے تہی جام سمجھتا ہے جس کی رونق بادۂ خورشید کے دم سے ہے۔ کانٹ کے مطابق لالہ شبستان ازل سے کوکب جام لے کے آیا ہے مگر اس کی اپنی فطرت ذوق مے سے سرشار ہے۔ برگساں کی نظر میں لالہ ازل سے مے آئینہ فام لایا ہے اور نہ جام۔ اس کی دلکشی کا راز اس کے داغ جگر میں ہے جو سوز دوام کا باعث بنا ہے۔ لالہ، ساغر اور مے کے آئینہ میں ایک ایک بلیغ شعر میں تین بڑے مفکرین کے نظریہ حیات کی عکاسی اقبال ایسے فلسفی شاعر کے فکر و فن کے امتزاج ہی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ بعض دوسرے مغربی شعراء کا ذکر بھی ’’ نقش فرنگ‘‘ میں موجود ہے۔ جن میں ہنگری کا جوانا مرگ سخن سرا پتوفی اور انگریز شاعر براؤننگ (1889ئ) اور بائرن (1824ئ) شامل ہیں۔ پتوفی کو وطن کے دفاع میں جان دینے پر گلہائے عقیدت پیش کئے گئے ہیں: نفسے درین گلستان ز عروس گل سرو دی بدلے غمے فزودی زدلے غمے ربودی تو بخون خویش بستی کف لالہ را نگارے توبہ آہ صبح گاھے دل غنچہ را گشودی علامہ نے براؤننگ، بائرن، غالب (1869ئ) اور رومی کے انداز فکر کو ایک ایک شعر میں بادہ و ساغر کے حوالے سے واضح کیا ہے۔ یہ اشعار میرزا غالب کے ایک شعر کو سامنے رکھ کے کہے گئے ہیں اور ان میں ہر شاعر کا نظریہ حیات پیش کیا گیا ہے۔ براؤننگ: بے پشت بود بادۂ سر جوش زندگی آب از خضر بگیرم و در ساغر افگنم بائرن: از منت خضر نتوان کرد سینہ داغ آب از جگر بگیرم و در ساغر افگنم غالب: تا بادہ تلخ تر سود و سینہ ریش تر بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم رومی: آمیزشے کجا گہر پاک او کجا از تاک بادہ گیرم و در ساغر افگنم براؤننگ آب ساغر کے لیے خضر کار ہین منت ہے تو بائرن کو اپنے خون جگر پر ناز ہے۔ غالب دل کی درد مندیوں کی انتہا دیکھنا چاہتا ہے تو رومی شراب کے لیے کسی واسطے کی بجائے سیدھا تاک تک پہنچتا ہے جو اس کا سرچشمہ ہے۔ رومی سے اقبال نے دو دوسری نظموں ’’ جلال و گوئٹے‘‘ اور’’ جلال و ہیگل‘‘ میں عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اول الذکر نظم میں رومی کی زبان سے گوئٹے کو بھی شاندار خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ اگر گوئٹے رومی کو دانائے اسرار قدیم کے نام سے یاد کرتا ہے تو رومی گوئٹے کی حقیقت شناسی اور حقیقت بینی کی تعریف کرتا ہے۔ علامہ نے دیباچے اور پیشکش ہی میں گوئٹے کے فکر و فن کی عظمت کو خراج عقیدت پیش نہیں کیا بلکہ ’’ مے باقی‘‘ کی ایک غزل کے مقطع میں اس شہر کا نام لے کر جہاں وہ ہمیشہ کے لیے محو خواب ہے، وہ اپنے جذبات محبت و ارادت کا اظہار یوں کرتے ہیں: صبا یہ گلشن ویمر سلام ما بسان کہ چشم نکتہ وران خاک آن دیار افروخت ’’ نقش فرنگ‘‘ کے ساتھ کتاب ختم ہو جاتی ہے لیکن ’’ خردہ‘‘ کے نام سے علامہ نے چند صفحات کا مزید اضافہ کیا ہے۔ ان اشعار میں بھی علامہ کے مخصوص فلسفہ زندگی، ذوق جستجو اور شوق تخلیق و تازہ کاری کی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔ کتاب کا اختتام تقلید کے خلاف مندرجہ ذیل اشعار پر ہوتا ہے: چہ خوش بودے اگر مرد نکوپے ز بند پاستان آزاد رفتے اگر تقلید بودے شیوۂ خوب پیمبرؐ ہم رہ اجداد رفتے ’’ پیام مشرق‘‘ کے تراجم کے بارے میں علامہ نے مختلف اوقات میں اپنے بعض نیاز مندوں کو معلومات فراہم کی ہیں۔ کتاب کے چھپنے سے پیشتر ہی اس کا ذکر ’’ دیوان‘‘ کے نام سے 4اگست 1920ء کو ایک خط میں یوں کیا ہے: ’’ مجھے یقین ہے دیوان کا ترجمہ بھی ضرور ہو گا، کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہلو پر اس میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیالات و افکار میں کسی قدر حرارت ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ 6؎ ڈاکٹر نکلسن کے تاثرات سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط مورخہ 5جولائی 1922ء میں یوں دیتے ہیں: پروفیسر نکلسن کا خط بھی آیا ہے۔ انہوں نے اسے بہت پسند کیا ہے، اور غالباً اس کا ترجمہ بھی کریں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب جدید اوریجنل خیالات سے مملو ہے اور گوئٹے کے دیوان مغربی کا قابل تحسین جواب ہے۔ 7؎ اس کے ایک دن بعد ایک صاحب کو اسی موضوع پر یوں تحریر فرماتے ہیں: انہوں (ڈاکٹر نکلسن) نے بعض نظمیں پیام مشرق کی بھی ترجمہ کی تھیں جو جرمنی کے رسالہ Islamicaمیں شائع ہوئی تھیں۔ 8؎ 20جولائی 1923ء کو ایک خط میں بعض مستشرقین کے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ برلن سے ایک پروفیسر نے لکھا ہے کہ ’’ حیرت انگیز‘‘ کتاب ہے۔ پروفیسر نکلسن نے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک قابل تحسین جواب گوئٹے کے دیوان مغربی کا ہے، اور جدید اور اوریجنل خیالات و افکار سے لبریز ہے۔‘‘ 9؎ 193ء کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ پیام مشرق کا ترجمہ جرمن زبان میں ہو رہا ہے۔ ارلانگن یونیورسٹی کے پروفیسر ہل کر رہے ہیں۔‘‘ 10؎ ایک ایرانی صاحب ذوق ڈاکٹر افشار نے جو اس زمانے میں بمبئی میں تھے ’’ پیام مشرق‘‘ سے متاثر ہو کر اس کی تعریف میں چند شعر لکھے تھے اور انہیں علامہ کی خدمت میں ارسال کیا تھا۔ یہ اشعار جو علامہ نے سید نذیر نیازی کے نام اپنے ایک خط مورخہ 15فروری 1936ء میں درج کیے ہیں، حسب ذیل ہیں: اندیشہ داشتم چہ ز ہندوستان برم سوغاتے از سفر بہ بر دوستان برم ایران کہ بوستان گل و بلبل است من در حیرتم چہ تحفہ سوئے دوستان برم اقبال روئے کرد فراز آمدم ز در گلہائے نو ظہور کہ زی گلستان برم نغمہ سرا شوند ہمہ بلبلان فارس زین نغز چامہ ہاکہ ز ہندوستان برم11؎ ٭٭٭ زبور عجم ’’ زبور عجم‘‘ شاعر مشرق کے فارسی کلام کا چوتھا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب 1927ء میں شائع ہوئی۔ اس سے پہلے ’’ پیام مشرق‘‘ گوئٹے کے دیوان مغربی کے جواب میں لکھی گئی تھی اور اس کا ایک اہم جزو مغرب سے متعلق تھا۔ اس کے برعکس ’’ زبور عجم‘‘ کے بارے میں مصنف کا ارشاد ہے کہ میری یہ کتاب اہل مشرق کے لیے ہے 1؎ ’’ زبور عجم‘‘ غزلیات کا مجموعہ ہے۔ البتہ اس کے آخری حصے میں ’’ گلشن راز جدید‘‘ اور’’ بندگی نامہ‘‘ کے نام سے دو مختصر مثنویاں بھی شامل ہیں۔ ’’ زبور عجم‘‘ کی غزلیات میں سوز و ساز اور لذت غم کی کیفیت نے اس شاہکار کو خود اس کے خالق کی نظر میں کتنا عظیم بنا دیا ہے اس کا اندازہ خود شاعر کے ایک اردو شعر سے ہوتا ہے: اگر ہو ذوق تو فرصت میں پڑھ زبور عجم فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں حقیقت یہ ہے کہ ’’ زبور عجم‘‘ فغان نیم شبی کی ایک مسلسل داستان ہے جس میں شاعر نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کی گوناگوں کیفیتوں اور تقاضوں کو غزل کے رنگ میں اور جذبات کی زبان میں سمویا ہے۔ اس کتاب میں سوز و ساز کی ایک منفرد اور بے مثال کیفیت ہے۔ موسیقی کی جو فراوانی اور متنوع دلکشی اس مجموعہ میں ہے شاعر کی کسی دوسری کتاب میں نہیں۔ اس کے جذب و مستی اور وفور شوق کی متلاطم کیفیت وجد آفرین نغموں میں چھلک رہی ہے۔ اس میں شاعر کے نالہ نیم شب کا نیاز بھی ہے اور دل کی پوشیدہ بیتابیاں بھی۔ اس کی امنگیں اور آرزوئیں بھی ہیں اور اس کی جستجویں بھی۔ اس کے جذبات و افکار نغمہ و آہنگ کے طوفان میں ڈھل کے نکلے ہیں۔ یہاں عشق گرہ کشا کے فیض کا ترانہ بھی ہے اور عقل فسوں پیشہ کا شکوہ بھی۔ یہاں ملی اور اجتماعی مسائل کا ذکر بھی ہے اور تجزیہ بھی مگر تفکر و تامل کا اظہار جذبات کی زبان میں اس طرح ہوا ہے کہ سنگین حقائق پر بھی تغزل کا گمان گزرتا ہے۔ غزلیات دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک میں خطاب حسن مطلق سے ہے اور دوسرے میں خود انسان سے۔ دونوں میں غزل کی روائتی کلاسیکی زبان اور لہجہ ہے۔ البتہ شاعر نے اپنے تخیل کے جمال و شکوہ، احساس نغمہ و آہنگ اور جمالیاتی شعور سے اس میں حسن و تاثیر کی ایک منفرد دنیا آباد کی ہے، اور اس کو نہایت پختہ فنکارانہ مہارت سے افکار و معانی کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کیا ہے کہ مضامین کی متانت و سنگینی کے باوجود غزل کی لطافت برقرار رہی ہے، اور اس سے حسن و رعنائی کے سوتے پھوٹ پڑے ہیں۔ پہلے حصے میں شاعر نے ذات خداوندی کے حضور ہدیہ عشق پیش کیا ہے۔ اس میں سوز و ساز کی فراوانی ہے، اور لذت آرزو، شوق جستجو اور خلش و اضطراب کا ہجوم سوز مشتاقی کے ساتھ ساتھ ہجوم آرزو کی بیباکی نے شعر میں مستی، شوخی اور شگفتگی کی بے مثال کیفیت پیدا کر دی ہے۔ شاعر نے انسان اور ذات خداوندی کے باہمی رشتے کا اظہار انتہائی اشتیاق و محبت سے کیا ہے اور اس میں صوفیانہ شاعری کا مخصوص عاشقانہ لہجہ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ جہاں صوفی شاعروں کے ہاں عرفانی کیفیات اور عاشقانہ واردات کا محرک عام طور سے وحدت وجود کا نظریہ ہوتا ہے اور قطرہ دریا میں مل کر اپنی ہستی کے مٹانے ہی کو اپنی کشمکش کی غایت اولیٰ سمجھتا ہے، یہاں وفور محبت اور جذب و شوق کے ساتھ ساتھ انسانی انفرادیت کا احساس برقرار ہے اور خودی کی بقا پیش نظر ہے۔ پھر یہ کہ جہاں اپنے مبداء اصلی کے ساتھ صوفی شاعر کا رشتہ خالص ذاتی قسم کا ہے وہاں اقبال کے ہاں یہ رشتہ اجتماعی نوعیت بھی اختیار کر لیتاہے، اور حضور خداوندی میں وہ نہ صرف اپنے انفرادی وفور شوق باشکوہ و شکایت کا اظہار کرتا ہے بلکہ کبھی اس کا عمل ملت یا پوری انسانیت کے احساسات کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔ جہاں شاعر جمال مطلق کے مشاہدے کے لیے بیتاب ہے وہاں انداز کبھی جوش و مستی اور کبھی عجز و نیاز مندی اور خلش اور بے کلی کا ہے۔ حسن مطلق کو بے حجاب دیکھنے کی آرزو بہت سی غزلوں میں مچل رہی ہے۔ شاعر حقیقت منتظر کو لباس مجاز میں دیکھنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار اسی جوش و بیتابی کے آئینہ دار ہیں: دل و دیدۂ کہ دارم ہمہ لذت نظارہ چہ گنہ اگر تراشم صنمے ز سنگ خارہ تو بجلوہ در نقابی کہ نگاہ برنتابی مہ من اگر ننالم تو بگو دگر چہ چارہ آرزوئے دید کی بیتابی اور شدت کا اظہار مندرجہ ذیل شعر میں ملاحظہ ہو: پردہ از چہرہ برافگن کہ چو خورشید سحر بہر دیدار تو لبریز نگہ آمدہ ایم یہاں جذبے کی شدت اور ہجوم اشتیاق کو ایک خوبصورت تشبیہہ اور ایک اچھوتی اور بلیغ ترکیب کے ساتھ سمویا گیا ہے۔ یہی آرزو مندرجہ ذیل شعر میں ایک نئے روپ میں انگڑائیاں لے رہی ہے، جہاں فطرت کی بھرپور رعنائیاں بھی اس کے اشتیاق دید کو کم نہیں کر پائی ہیں: چند بروئے خود کشی پردۂ صبح و شام را چہرہ کشا تمام کن جلوۂ ناتمام را ایک دوسری غزل میں بے حجابی کی اسی تمنا کا اظہار پھر محبت و وارفتگی کے عالم میں یوں ہوتا ہے: شب من سحر نمودی کہ بہ طلعت آفتابی تو بطلعت آفتابی سزد این کہ بے حجابی کہیں ذوق جستجو شاعر کو محبوب اور خود اپنے مقام کے پہچاننے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہاں شوق وصال کے اظہار میں جوش و خروش کی بجائے ایک کسک، بے کلی اور نیاز مندی کا جذبہ غالب آ گیا ہے: در سینہ من دمے بیاساے از محنت و کلفت خدائی ما را ز مقام ما خبر کن مائیم کجا و تو کجائی شاعر کے ہاں عشق و محبت کی یہ کیفیت کہ جس میں کبھی جوش و مستی وارفتگی کا عالم طاری کر دیتی ہے اور کبھی احساس کا اظہار اور اعتراف بھی کرتا ہے: غم عشق و لذت او اثر دو گونہ دارد گہے سوز و درد مندی گہے مستی و خرابی شاعر کو جمال مطلق کے ساتھ والہانہ عشق اور اس جمال جہاں آرا کو بے حجاب دیکھنے کی آرزو اسے شعور ذات اور احساس انفرادیت سے غافل نہیں کرتی۔ عین عالم مستی میں بھی وہ اپنی ذات اور خودی سے غافل نہیں۔ وہ ایک ایسا سیلاب ہے جو جوئے تنک مایہ میں نہیں سما سکتا۔ وہ ایک ایسا دریائے ناپیدا کنار بننے کا آرزو مند ہے جس میں اضطراب موج کے ساتھ ساتھ سکون گوہر بھی ہو اور جوش کردار کی طوفان خیزیوں کے ساتھ ساتھ شعور و فہم کی سکون آمیز گہرائیاں بھی ہوں۔ وہ اپنی خاک میں تابانیوں کا متمنی ہے اور اپنی ذات کے ہر ذرے میں شعلہ و شرر کی حرارت چاہتا ہے اور پھر وہ ملت کے تقاضوں کو بھی نہیں بھولتا اور اس کی رہنمائی کے لیے اپنے عمل میں تاثیر کا سائل ہے: سلیم، مرا بجوئے تنک مایہ مپیچ جو لانگہے بوا دی و کوہ و کمر بدہ سازی اگر حریف یم بیکران مرا با اضطراب موج سکون گہر بدہ شاہین من بہ صید پلنگان گذاشتی ہمت بلند و چنگل ازین تیز تر بدہ رفتم کہ طائران حرم را کنم شکار تیرے کہ نافگندہ فتد کارگر بدہ خاکم بہ نور نغمہ داؤد برفروز ہر ذرۂ مرا پروبال شرر بدہ شاعر کے داخلی احساسات محبت کے ساتھ ساتھ ملت کے معروضی حقائق اور اس کی رہبری کی تمنا کا جذبہ ابھرنے لگتا ہے، اور اگر ایک طرف وہ حسن ازل کی تجلیوں کے مشاہدے کے لیے بیتاب ہے تو دوسری طرف ملت کی رہنمائی کی تمنا کے لیے بھی تڑپ رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ قدرت نے اس کو سوز عشق اور بصیرت و نظر کی دولت سے مالا مال کیا ہے اور وہ اپنی ملت میں زندگی کی حرارت پیدا کر سکتا ہے۔ متعدد غزلوں میں اسی تمنا کا پرسوز اور پر اشتیاق اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً اے کہ زمن فزودہ ای گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صدائے من خاک ہزار سالہ را غنچہ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کشاے تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را شاعر سمجھتا ہے کہ اس کے پاس مے شبانہ کے کچھ جام اب تک باقی ہیں۔ وہ ان کو گردش میں لا کر محفل میں پھر شورش ہای و ہو پیدا کر سکتا ہے: تو اگر کرم نمائی بمعاشران بہ بخشم دوسہ جام دلفروزے کہ زمے شبانہ دارم وہ اپنی شعلہ نوائی سے ایک عالم کو روشنی اور حرارت کی دولت بخش سکتا ہے: بضمیرم آنچنان کن کہ ز شعلہ نوائے دل خاکیان فروزم دل نوریان گدازم وہ ساقی سے ایسی شراب کا طالب ہے جس میں شعلے کی حرارت اور تابانی ہو تاکہ وہ اس کے سرور سے قیامت خیز ولولے پیدا کر سکے: ساقیا بر جگرم شعلہ نمناک انداز دگر آشوب قیامت بکف خاک انداز وہ اپنی نیم جان اور ناتواں ملت کے لیے قوت اور برتری کا آرزو مند ہے: بجلال تو کہ در دل دگر آرزو ندارم بجز این دعا کہ بخشی بہ کبوتران عقابی وہ اپنے تازہ اور پر سوز نغموں سے ایک نئی زندگی کی نوید دینا چاہتا ہے: تا بہ فراغ خاطرے نغمہ تازہ زنم باز بہ مرغزار دہ طائر مرغزار را شاعر کو اس بات پر ناز ہے کہ اس نے زندگی کا نغمہ چھیڑ کر لالے کی آگ کو تیز کیا ہے۔ اب وہ اس آتش افروزی کے ساتھ ساتھ اس کی تشنگی کو دور کرنے کا ملتجی ہے: من بہ سرود زندگی آتش او فزودہ ام تو نم شبنمے بدہ لالہ تشنہ کام را یہ وہ غزلیات ہیں جن میں رہبری کی تمنا کا جذبہ ابل رہا ہے اور شاعر اپنے ادراک و احساس اور فکر و نظر کی دولت ملت میں لٹانا چاہتا ہے۔ بہت سی غزلیں ایسی ہیں جن میں اپنی ذات سے قطع نظر انسانیت کی فلاح اور آبرومندی کی آرزو تڑپ رہی ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر مشرق و مغرب دونوں سے مایوس ہے۔ وہ ایک صحت مند نظام کا طالب ہے اور ہر ظالمانہ نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا متمنی ہے: مغرب ز تو بیگانہ مشرق ہمہ افسانہ دقتست کہ در عالم نقش دگر انگیزی آنکس کہ بسر دارد سودائے جہانگیری تسکین جنونش کن بانشتر چنگیزی مشرق و مغرب دونوں اداس اور ویران ہیں۔ وہ ذوق جستجو سے محروم اور عشق کی حرارت سے بے نصیب ہیں۔ ایسے میں وہ ساقی ازل سے بزم شبانہ و نگاہ محرمانہ کی تمنا کرتا ہے تاکہ محفل پھر رنگ پر آئے اور زندگی کا ہنگامہ پھر سے گرم ہو۔ شاعر نے یہاں میخانے کی روائتی اصطلاحات سے ایمائیت کا کام لیا ہے: مشرق خراب و مغرب ازان بیشتر خراب عالم تمام مردہ و بے ذوق جستجو ست ساقی بیار بادہ و بزم شبانہ ساز مارا خراب یک نگہ محرمانہ ساز ان غزلیات کا ایک موضوع فقر ہے۔ فقر سے شاعر کی مراد کامل استغنا اور بے نیازی سے ہے۔ یہ محبت اور انسانیت کی علامت بھی ہے۔ اس نے مرد کامل کا جو تصور پیش کیا ہے، اس میں فقر بنیادی صفات میں سے ہے۔ ان غزلیات میں فقر میں عظمت اور شکوہ کا مضمون پیدا کیا گیا ہے اور محبت اس کی بنیادی صفت قرار دی گئی ہے: آن فقر کہ بے تیغے صد کشور دل گیرد از شوکت دارا بہ از فر فریدون بہ ایک غزل نما نئی تجرباتی نظم میں واضح طور پر فقر کو رہبانیت اور عجز و انکسار سے ممیز کر کے اسے شکوہ و جلال کا آئینہ دار قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اسے خسرو پرویز کا ہمسر بنا کے ملوکیت کی علامت بنانا مقصود نہیں بلکہ فقر اور پرویزی سے مراد دنیوی اور روحانی حشمت و شکوہ کا امتزاج ہے: فقر بخشی! باشکوہ خسرو پرویز بخش یا عطا فرما خرد با فطرت روح الامین یا چنان کن یا چنین حصہ اول کی غزلیات کے عرفانی اور حکیمانہ افکار اور عاشقانہ جذبات کا اظہار غزل کے مخصوص رنگ میں ہوا ہے، اور حکیمانہ افکار زبان و بیان کی لطافت یا تخیل کی رعنائی بر اثر انداز نہیں ہوئے بلکہ شاعر نے متغزلانہ انداز اختیار کر کے ان کو جذبات کا آہنگ بخش دیا ہے۔ بعض اشعار تو خالص تغزل میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مثلاً: یاد ایامیکہ خوردم بادہ ہا با چنگ ونے جام مے در دست من، مینائے مے در دست وے در کنار آئی خزان ما زند رنگ بہار ور نیائی فرودین افسردہ تر گردد ز دے بے تو جان من چو آن سازے کہ تارش در گسست در حضور از سینہ من نغمہ خیزد پے بہ پے آنچہ من در بزم شوق آوردہ ام دانی کہ چیست یک چمن گل، یک نیستان نالہ، یک خمخانہ مے بادہ و مینا اور چنگ ونے کے ذکر اور بزم شوق کے لیے چمن گل، نیستان نالہ اور خمخانہ مے کی حسن و رعنائی میں گندھی ہوئی ترکیبیں استعمال کرنے کے بعد شاعر پھر عشق و محبت، حکومت، قوت اور علم و دانش کے مضامین کو اسی فضا میں یوں بساتا ہے: زندگہ کن باز آن محبت را کہ از نیروئے او بوریائے رہ نیشنے در فتد با تخت کے دوستانی خرم کہ بر منزل رسیدہ آوارۂ من پریشان جادہ ہائے علم و دانش کردہ طے غزلیات کا پہلا حصہ چھیاسٹھ غزلوں پر مشتمل ہے۔ حصہ دوم عظمت انسانی کے نام ہے۔ اس کا آغاز اس زور دار شعر سے ہوتا ہے: شاخ نہال سدرہ ای خاروخس چمن مشو منکر او اگر شدی منکر خویشتن مشو اس کے بعد اگلی چند غزلوں اور قطعوں میں انسان کی فضیلت اور کائنات میں اس کی برتری پر دلکش شعر کہے گئے ہیں۔ یہ وہ مشت غبار ہے جس کے حضور میں ستارے سجدہ ریز ہیں اور جسے چاند مسحور نگاہوں سے تک رہا ہے۔ یہ وہ پیکر آب و گل ہے جس کی شوخی فکر و عمل نے سینہ ہستی کے راز سے پردہ اٹھا دیا ہے: برخیز کہ آدم را ہنگام نمود آمد این مشت غبارے را انجم بہ سجود آمد آن راز کہ پوشیدہ در سینہ ہستی بود از شوخی آب و گل در گفت و شنود آمد ٭٭٭ مہ و ستارہ کہ در راہ شوق ہم سفر اند کرشمہ سنج و ادا فہم و صاحب نظر اند چہ جلوہ ہاست کہ دید ند در کف خاکے قفا بہ جانب افلاک سوئے ما نگرند آگے چل کر ایک غزل میں انسانی فضیلت و عظمت کے نقش میں یہ کہہ کر رنگ بھرے ہیں کہ نہ صرف فرشتے اس مشت خاک کو حیرت سے تک رہے ہیں بلکہ خالق کائنات بھی اس کے جلوؤں کا منتظر ہے: فرشتہ گرچہ برون از طلسم افلاک است نگاہ او بہ تماشائے این کف خاک است کشائے چہرہ کہ آنکش کہ لن ترانی گفت ہنوز منتظر جلوۂ کف خاک است عظمت آدم کا مضمون صرف حصہ دوم تک ہی محدود نہیں بلکہ حصہ اول میں بھی اس پر دلآویز شعر ملتے ہیں۔ اس کی آخری غزل ذات خداوندی کے حضور میں انسان کی لا محدود عظمت کا گیت ہے: اے خدائے مہر و ماہ خاک پریشانے نگر ذرۂ در خود فروپیچد بیابانے نگر حسن بے پایان درون سینہ خلوت گرفت آفتاب خویش را زیر گریبانے نگر ہر دل آدم زدی عشق بلا انگیز را آتش خود را بآغوش نیستانے نگر شوید از دامان ہستی داغہائے کہنہ را سخت کوشی ہائے این آلودہ دامانے نگر خاک ما خیزد کہ سازد آسمانے دیگر ذرۂ نا چیز و تعمیر بیابانے نگر عشق و خرد اقبال کی شاعری کے بنیادی مضامین میں سے ہیں۔ دونوں حصوں میں عشق و خرد پر تبصرہ ہے اور ہر بار اس میں ایک نیا رنگ اور نیا انداز ہے۔ ایک غزل میں فکر و عقیدہ کی غلامی، روایت پرستی، علم و دانش کی بے بضاعتی اور فکری انتشار کے ساتھ ساتھ عشق و عقل کی اہمیت پر اظہار نظر کیا ہے۔ یہ ٹھوس اور سنگین مضامین موسیقی اور غنائیت سے ہم آہنگ ہو کر دل میں اتر جاتے ہیں: میکدۂ تہی سبو حلقہ خود فرامشان مدرسہ بلند بانگ بزم فسردہ آتشان فکر گرہ کشا غلام، دین برواتیے تمام زانکہ درون سینہ ہا دل ہدفے است بے نشان اور پھر عشق و عقل کے بارے میں یوں ارشاد ہوتا ہے: ہر دو بمنزلے روان ہر دو امیر کاروان عقل بحیلہ میرد، عشق برد کشان کشان عشق ز پا در آورد خیمہ شش جہات را دست دراز می کند تابہ طناب کہکشاں دوسرے مضامین میں ذوق خودی، پیکار و مبارزت اور زندگی کی لازوال اور جاوداں اہمیت شامل ہے۔ ایک موضوع مغرب کے سیاسی اور فکری نظام پر نہایت کڑی تنقید ہے۔ اس کا آغاز ’’پیام مشرق‘‘ میں ہوا تھا، یہاں آ کر اس میں مزید شدت اور وسعت پیدا ہو گئی ہے اور غزلیات کے دونوں حصوں میں ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں زندگی کے خالص مادی نقطہ نگاہ کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ شاعر نے ذات خداوندی کے حضور شکایت کی ہے کہ مغربی علوم نے اس کے افکار میں تیرگی پیدا کر دی ہے اور وہ ایسی نگاہ کا محتاج ہے جو صحیح راستہ دیکھ سکے: زمینائے کہ خوردم در فرنگ اندیشہ تاریک است سفر ورزیدۂ خود را نگاہ راہ بینے دہ پھر وہ خیالات کی اس تیرگی کو اپنے آپ تک ہی محدود نہیں سمجھتا بلکہ اس کا عقیدہ ہے کہ مغرب نے علم و عرفان کے سب چشموں کو گدلا کر دیا ہے۔ اور اس کا ہر مکتب خیال افکار میں مزید ژولیدگی اور کجی کا باعث بن رہا ہے۔ مکدر کرد مغرب چشمہ ہائے علم و عرفان را جہان را تیرہ تر سازد چہ مشائی چہ اشراقی مغربی علوم میں بظاہر بڑی چکا چوند ہے۔ مگر یہ وہ آفتاب ہے جو کسی نئی سحر کا پیامبر نہیں اور اس سے ظلمتیں کافور نہیں ہوتیں: قدح خرد فروزے کہ فرنگ داد مارا ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر ندارد شاعر کو مغربی علم و دانش کی نارسائی ہی سے شکایت نہیں ہے وہ اس کی مادیت پرستی ہی سے شکوہ سنج نہیں بلکہ اسے مغرب کی بے رحم ملوکیت سے بھی کسی قسم کی کوئی خوش فہمی نہیں وہ استعمار پسند طاقتوں کے دلفریب وعدوں اور احترام انسانیت کے بلند بانگ دعوؤں سے بھی قطعاً مرعوب نہیں۔ اس کی نظر میں محکوم اقوام کی حیثیت اس کمزور پرندے کی سی ہے جسے شہباز نے اپنے پنجے میں دبوچ رکھا ہو۔ لیکن اگر وہ اس سے رحم کی امید رکھے تو اسے جان لینا چاہیے کہ شہباز کے دل میں ایسے پرندے کے لیے کبھی ہمدردی یا رحم کے جذبات پیدا نہیں ہوا کرتے: ترا نادان امید غمگساری ہا ز افرنگ است دل شاہین نسوزد بہر آن مرغے کہ در چنگ است مغرب کے ستمگرانہ شہنشاہی طرز عمل کے خلاف شاعر کے باغیانہ احساسات کا سب سے بے باک اور قوی اظہار زبور عجم کی اس نظم میں ہوتا ہے جس کے ہر بند کے بعد ’’ از خواب گراں، خواب گران، خواب گران خیز‘‘ کے مصرع اور اس کے بعد اس کے ایک ٹکڑے ’’ از خواب گران خیز‘‘ کی تکرار ہوتی ہے۔ یہ نظم ہیئت کے اعتبار سے بھی ایک نیا اور دلآویز تجربہ ہے۔ اس کے علاوہ ’’ زبور عجم‘‘ کی بعض دوسری نظموں میں بھی جو غزلیات سے مخلوط ہیں، شاعر نے نہایت دلچسپ اور موثر تجربے کیے ہیں۔ مثلاً ایک نظم کے ہر شعر کے بعد ’’ یا چنان کن یا چنین‘‘ کی تکرار ہوتی ہے، جو موضوع کی نوعیت کے لحاظ سے بہت پر اثر دعوت اقدام ہے۔ اسی طرح ایک اور ہیجان انگیز نظم میں ہر شعر کے بعد لفظ انقلاب کی تکرار ہوتی ہے۔ یہ نظم بادشاہ، سرمایہ دار، شیخ شہر، فتنہ ہائے علم و فن اور عصر حاضر کے بعض زہر آگیں رحجانات کے خلاف ایک زبردست احتجاج ہے۔ پوری نظم ایک آہتین عزہ اور ایک بے باک ولولے سے سرشار ہے۔ یہ حقیقت خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ ان سب نظموں میں شاعر کے جذبات میں انقلاب یا بغاوت کا احساس موجزن ہے۔ یا پھر شاعر کسی شدید ذہنی ہیجان سے دوچار ہے۔ حصہ دوم میں غزلیات اور مذکورہ بالا نظموں کی تعداد ملا کر پچھتر ہوتی ہے۔ غزلیات کے بعد ’’ گلشن راز جدید‘‘ کا آغاز ہوتا ہے یہ مثنوی شیخ سعد الدین محمود شبستری (1320/720) کی گلشن راز کا جواب ہے۔ شبستر، تبریز کے قریب ایک قصبہ ہے اور شیخ یہیں کے رہنے والے تھے۔ ان کا شمار اپنے دور کے اہل اللہ اور علماء میں ہوتا تھا، اور لوگ رشد و ہدایت کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے۔ ایک دفعہ امیر الحسینی نے جو خواجہ بہاؤ الدین ذکریاؒ ملتانی کے مرید تھے۔ پندرہ سوال ان کی خدمت میں لکھ ک ربھیجے اور ان کے واضح جواب لکھنے کی درخواست کی۔ یہ سوالات تصوف کے بنیادی مسائل سے تعلق رکھتے تھے۔ سوال شعر کی شکل میں تھے۔ شیخ نے ان کے جوابات تقریباً ایک ہزار اشعار میں مثنوی کی شکل میں 1311/710میں مکمل کیے اور اس کو ’’ گلشن راز‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ کتاب صوفیانہ نظریات کی نہایت جامع اور صحیح تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ ’’ گلشن راز‘‘ نے مستشرقین کو بھی متاثر کیا ہے۔ ڈاکٹر تولک نے 1821ء میں جرمن زبان میں اس کا نامکمل ترجمہ کیا۔ 1838ء میں ہیمر پرگستال نے جرمن اشعار میں اس کا مکمل ترجمہ شائع کیا۔ 1880ء میں ای وائن فیلڈ نے اسے مفید حواشی اور ترجمے کے ساتھ لندن سے شائع کیا۔ ایران میں اس کتاب کو ہمیشہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔ کتاب کی مسلمہ اہمیت کے پیش نظر علامہ نے اسی کی بحر اور اسلوب میں امیر الحسینی کے بیشتر سوالات کا جواب لکھا اور اسے ’’ گلشن راز جدید‘‘ کے نام سے یاد کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے سوا علامہ کی تمام مثنویات مثنوی مولوی کی بحر میں ہیں۔ امیر الحسینی کے سوالات کی تعداد پندرہ تھی اور محمود شبستری نے ہر سوال کا جواب تفصیل سے لکھا تھا۔ علامہ نے پندرہ میں سے گیارہ سوالوں کا جواب لکھا ہے، اور ان میں سے بھی بعض جگہ دو سوالوں کو ایک سوال کی شکل دے دی ہے۔ اس طرح ’’ گلشن راز جدید‘‘ میں سوالات کی تعداد نو رہ گئی ہے۔ مگر یہی اہم ترین سوالات ہیں، باقی سوالات کا تعلق زیادہ تر تصوف کی رمزیت اور علامات سے ہے۔ مثلاً یہ کہ چشم و لب کن حقائق کی علامت ہیں، رخسار و گیسو و خال سے کیا مراد ہے۔ شراب حسن اور میخوار کے کیا معنی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ گلشن راز جدید کی تمہید سے پہلے حکیم الامت نے دو اشعار میں اپنی تعمیری اور تخلیقی شخصیت اور عالم مشرق کی بیداری میں اپنے کردار کی اہمیت کا ذکر یوں کیا ہے: بہ سواد دیدۂ تو نظر آفریدہ ام من بہ ضمیر تو جہانے دگر آفریدہ امن من ہمہ خاوران بہ خوالے کہ نہان زچشم الجم بہ سرود زندگانی سحر آفریدہ ام من اس کے بعد تمہید شروع ہوتی ہے اس میں علامہ نے شیخ محمود سے انتہائی عقیدت مندی کا اظہار کیا ہے: بطرز دیگر از مقصود گفتم جواب نامہ محمود گفتم ز عہد شیخ تا این روزگارے نزد مردے بجان ما شرارے اس کے فوراً بعد انہوں نے وضاحت کی ہے کہ اس دانائے تبریز کے زمانے سے کچھ ہی پہلے تاتاری فتنے نے ایران پر قیامت ڈھائی تھی۔ میری نگاہوں نے ایک دوسرا انقلاب دیکھا ہے، اور میں ایک نئی سحر کو طلوع ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ جو حقائق میں پیش کر رہا ہوں وہ کسی شاعر کا خواب نہیں ہے۔ یہاں علامہ نے اپنے آپ کو شعرا کے زمرے ہی سے خارج نہیں کیا بلکہ ان لوگوں سے بھی بیزاری کا اظہار کیا ہے جو ان پر شاعری کی ’’ تہمت‘‘ رکھتے ہیں۔ وہ شاعری کی بجائے فقر کو اپنے سرمایہ حیات قرار دیتے اور اس پر ناز کرتے ہیں کہ فقر نے انہیں ساز و برگ کلیمی بخش رکھا ہے ان کی نگاہ مرگ و زیست سے اوپر اٹھ کر حیات جاوداں کا نظارہ کر رہی ہے۔ مگر انہیں گلہ ہے کہ مشرق اپنے سوز کہن سے محروم ہو چکا ہے، اور ذوق زندگی سے نا آشنا ہے۔ وہ اپنے چراغ سے اسے روشن کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ذوق خودی سے سرشار ہیں اور مشرق بھر میں اس کی لذت لٹانا چاہتے ہیں: مرا ذوق خودی چون انگبین است چہ گویم واردات من ہمین است تحستین کیف او را آزمودم دگر بر خاوران قسمت نمودم اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پہلا سوال تحست از فکر خویشنم در تحیر چہ چیز است آنکہ گویندش تفکر؟ کدامن فکر ما را شرط راہ است چرا گہ طاعت و گاہے گنہ است؟ اس کے جواب میں علامہ نے انسانی خودی کی عظمت کو درخشاں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ وہ اسے نور و نار کا پیکر کہتے ہیں جو زمان و مکان کی اسیر ہونے کے باوجود دونوں سے آزاد ہے۔ اس کے احوال بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ نور ہے اور کبھی ظلمت۔ ایک طرف ابلیس و آدم دونوں کی نمود اس سے ہے تو دوسری طرف اس کی تجلی یزداں فریب ہے۔ اس کی ایک آنکھ خلوت پر ہے اور دوسری جلوت پر۔ البتہ اس کے لیے شرط ہے کہ وہ دونوں آنکھوں سے بیک وقت راستے کی نزاکتوں کا مشاہدہ کرے، کیونکہ اگر اس نے ایک آنکھ بند کر لی تو وہ اپنے مقصد کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو گی۔ پھر خودی کے لامحدود امکانات کا ذکر ہے۔ جس کا پہلا ہدف خود اپنی تسخیر اور دوسرا مرحلہ تسخیر آفاق ہے۔ دوسرا سوال چہ بحر است این کہ علمش ساحل آمد؟ ز قعر او چہ گوہر حاصل آمد؟ زندگی بحر رواں ہے اور اس کا کنارہ شعور و آگہی ہے۔ اس بحر مواج کی طوفان خیزیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ اس نے اپنی قوت آگہی سے ہر شے کو اسیر کر رکھا ہے۔ اسی شعور سے اس کا رشتہ زمانے سے قائم ہے، لیکن یہ زمانہ اس کے مقامات میں سے محض ایک مقام ہے۔ خودی وہ گوہر ہے جس نے زمین و آسمان اور مہر و ماہ کو اپنی نظر کا اسیر کر رکھا ہے۔ ان سب کے وجود کی بہار انسانی خودی کی رہین منت ہے۔ ہر ذرہ خودی کو شاہد اور اپنے آپ کو مشہود سمجھتا ہے، اورخودی کے فیض نظر سے اپنے وجود کا تعین کرنا چاہتا ہے۔ ہماری تجلی کے بغیر یہ جلوۂ نور و صدا بے حقیقت ہے۔ خودی صیاد ہے اور مہر و ماہ اس کا شکار ہیں۔ آخر میں علامہ نے خودی کے زور سے زمانہ کو مسخر کرنے کا پیغام دیا ہے۔ تیسرا سوال وصال ممکن و واجب بہم چیست؟ حدیث قرب و بعد و بیش و کم چیست؟ یہ جہاں جس کا تعین ابعاد سے ہوتا ہے اور جسے اقلیدس اور ریاضی کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ اس کے زمان و مکاں اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں مطلق کی جستجو سخی بے حاصل ہے، کیونکہ مطلق صرف نور السموات ہے۔ حقیقت لازوال و لا مکاں ہے مگر یہ دنیا بے کراں نہیں۔ البتہ ہماری خرد نے حقیقت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اور اس نے لامکاں کو مکانی شکل دے رکھی ہے۔ ضمیر انسانی میں بعد زمانی کا وجود نہیں، اور ’’ کم‘‘ کے معانی پر غور و فکر اس حقیقت کا شاہد ہے کہ ماہ و سال کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس عالم اعتباری میں اپنے ضمیر میں ڈوب کر اپنے آپ کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ جان و تن ایک دوسرے سے الگ کوئی حقیقت نہیں۔ جان وہ عروس معنی ہے جس نے شکل و صورت کے رنگ میں اپنی حنا بندی کر رکھی ہے لیکن فرنگ نے جان و تن میں فرق پیدا کیا اور پھر ملک و دین کو بھی دو الگ اکائیوں میں بانٹ دیا۔ کلیسا خود کو سلطنت و حکومت سے لاتعلق سمجھتا ہے اور حاکم کی حکمت عملی مکر و فن کی بنیاد پر ہے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ حقیقت کو بطور مطلق سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی، اور ایک کو سینکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔ یہ دہر کہن محض ذات پاک کی سرگذشت ہے۔ آخر میں نصیحت کی گئی ہے کہ رازی (125/313) طوسی (1274/672) ارسطو (322ق، م) اور بیکن (1292ئ) کے نظریات کے مطالعہ میں کوئی عیب نہیں لیکن ان کی فکر حرف آخر نہیں ہے۔ ان کی فرزانگی سے ماوراء ایک اور حکمت بھی ہے جس سے مہ و پروین کو شکار کیا جا سکتا ہے۔ اسی حکمت کی طلب شب و روز کے طلسم اور زمان و مکاں کے افسانوں سے رہائی دلوا سکتی ہے۔ چوتھا سوال قدیم و محدث از ہم چون جدا شد کہ این عالم شد آن دیگر خدا شد اگر معروف و عارف ذات پاک است چہ سودا در سر این مشت خاک است؟ خودی کی زندگی ہی ایجاد غیر میں ہے۔ وہ غیر خود سے ٹکرا کر اپنے ثبات و استحکام کا اہتمام کرتی ہے۔ اس لیے عارف و معروف کا فرق باعث برکت ہے۔ قدیم و محدث کا تصور طلسم روزگار نے اور شمار دوش و فردا نے پیدا کیا ہے۔ ہماری فطرت اس سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی متقاضی ہے۔ تپش اور نارسائی ہماری فطرت ہے۔ نہ ہمیں اس کے فراق میں چین ہے اور نہ اسے ہمارے وصال کے بغیر قرار ہے۔ نہ وہ ہم سے الگ ہے اور نہ ہم اس سے الگ ہیں۔ مگر یہی جدائی خاک کو نظر بخشتی ہے اور کاہ کو سرمایہ کوہ عطا کرتی ہے۔ فراق کی منزل وصال ہے۔ یہی درد فراق ہمیں زندگی اور پائندگی بخشتا ہے۔ ’’ من و او‘‘ کی حقیقت ہماری ابدیت کی شاہد ہے۔ اسی سے زندگی میں تعمیر و حرارت ہے۔ اسی سے خلوت و جلوت کی رونق ہے۔ خلوت و جلوت نور ذات سے منور ہے۔ محبت خود نگر ہے مگر بے انجمن نہیں۔ جنون محبت ہی سے ہمارا اندرون تابناک ہے۔ یہ جنون فراق میں ہماری نشوونما کا باعث ہے۔ محبت انجام سے بے خبر اور بے پروا ہے۔ یہ وہ صبح ہے جس کی کوئی شام نہیں۔ ہماری راہ طلب میں ہزاروں دنیائیں آتی ہیں لیکن ہماری جولانگاہ کا کوئی کنارہ نہیں۔ ہماری زندگی جہانوں کی تسخیر ہے۔ ہمارا انجام بحر میں گم ہونا نہیں۔ خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عین خود بودن کمال است پانچواں سوال: کہ من باشم مرا از من خبر کن چہ معنی دارد ’’اندر خود سفر کن‘‘ جواب میں خودی کی تخلیقی قوت و عظمت کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر بتایا گیا ہے کہ زندگی سوز دروں سے بیتاب ہے۔ یہ آگ کی مانند ہے اور اس سے خودی کی چنگاریاں اڑتی ہیں۔ یہ سوز دروں پیکار و ستیز کی محرک ہے، اور نظام جہاں اسی پیکار کا نتیجہ ہے۔ ’’ اندر خود سفر کن‘‘ کی شرح یوں کی ہے: ترا گفتم کہ ربط جان و تن چیست سفر در خود کن و بنگر کہ ’’من‘‘ چیست سفر در خویش؟ زادن بے اب و مام ثریا را گرفتن از لب بام ابد بردن بیک دم اضطرابے تماشا بے شعاع آفتابے ستر دن نقش ہر امید و پیمے زدن چا کے بدریا چون کلیمے شکستن این طلسم بحر و بر را ز انگشتے شگافیدن قمر را ’’ من‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے شکوہ سے فلک لرزہ بر اندام ہے اور زمان و مکان اس کے زیر نگیں ہیں۔ چراغ خودی ہر سینے کے اندر فروزاں ہے۔ یہ ایک مقدس امانت ہے اور اسی کے عرفان و آگہی سے زندگی کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ چھٹا سوال: چہ جزو است آنکہ او از کل فزون است؟ طریق جستن آن جزو چون است؟ اس کا جواب بھی خودی ہے۔ خودی ہمارے اندازے سے کہیں بڑھ کر ہے اور جسے ہم کل سمجھتے ہیں وہ اس سے بھی فزو نتر ہے: خودی ز اندازہ ہائے ما فزون است خودی زان کل کہ تو بینی فزون است اس کی فطرت میں مجبوری اور مختاری کا امتزاج ہے۔ یہاں ایک حدیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نقل کی ہے۔ چنین فرمودۂ سلطانؐ بدر است کہ ایمان درمیان جبر و قدر است مگر اس کے فوراً بعد فرماتے ہیں: تو ہر مخلوق را مجبور گوئی اسیر بند نزد و دور گوئی ولے جان از دم جان آفرین است بچندین جلوہ ہا خلوت نشین است ز چہر او حدیثے درمیان نیست کہ جان بے فطرت آزاد جان نیست شیخون بر جہان کیف و کم زد ز مجبوری بہ مختاری قدم زد جب یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو خودی زمین و آسمان پر حکومت کرتی ہے اور پھر نوری بھی اس کی رہگذار کے منتظر رہتے ہیں۔ جہاں تک اس کے طریق جستجو کا تعلق ہے، وہ فغان صبح گاہی میں پنہاں ہے، کیوں کہ خرد کی دولت حواس ہیں تو عشق کی متاع آہ و فغاں ہے۔ خرد کی نظر جزو پر رہتی ہے۔ اور فغاں کی کل پر۔ خرد فانی ہے لیکن فغاں جاودانی ہے۔ فغان عشق کا ایک لمحہ روزگار کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ جب فغان خودی کو پختہ کرتی ہے تو موت اس کو چھو نہیں سکتی۔ ساتواں سوال: مسافر چون بود رہرو کدام است؟ کرا گویم کہ او مرد تمام است؟ مسافر انسان ہے، اور اس کے سفر کی منزل خود اس کے دل کے اندر ہے۔ اس سفر کی کوئی انتہا نہیں، اور منزل تک نہ پہنچنے ہی میں زندگی کا راز ہے۔ اسی سے حیات جاوداں حاصل ہوتی ہے۔ اس سفر میں انسان اپنی نمود کے لیے بیتاب رہتا ہے۔ اس بیتابی کے عالم میں اسے گماں سے بچ کر یقین کی طرف جانا ہے۔ نہ تب و تاب محبت کو فنا ہے اور نہ یقین و دید کی کوئی انتہا ہے۔ زندگی کا کمال دیدار ذات ہے۔ اور بندشش جہت سے آزاد ہو کر انسان مرد تمام بن جاتا ہے۔ مگر دیدار و حضور میں بھی خودی کے تحفظ کی نصیحت کی گئی ہے: بخود محکم گذر اندر حضورش مشو ناپید اندر بحر نورش چنان در جلوہ گاہ یار می سوز عیان خود را نہان او را بر افروز کسے کو دید عالم را امام است من و تو نا تمامیم، او تمامست ایسا شخص ہی ملک و دین کے رموز کا ماہر ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد فرنگ کی مادیت پرستی اور روح کشی پر زبردست تنقید کی گئی ہے۔ آٹھواں سوال: کد امین نکتہ را نظق است انا الحق چہ گوئی ہرزہ بود آن رمز مطلق یہاں نہایت منطقی انداز میں خودی کی ناقابل تردید اور اٹل حقیقت بیان کی گئی ہے۔ شاعر کی نظر میں ہر حقیقت سے انکار ہو سکتا ہے۔ خودی کا انکار بھی ہو سکتا ہے۔ من کو وہم و گمان کے نام سے بھی یاد کیا جا سکتا ہے۔ مگر وہم و گمان کرنے والے کو آپ کیا کہیں گے۔ یہ دار اے گمان خود من اور خودی کا ثبوت ہے۔ اس کے بعد اسے پختہ کرنے کی تاکید ہے۔ خودی ایک لا زوال اور جاوداں حقیقت ہے: وجود کوہسار و دشت و در ہیچ جہان فانی، خودی باقی، دگر ہیچ دگر از شنکر و منصور کم گوے خدا را ہم براہ خویشتن جوے بخود گم بہر تحقیق خودی شو انا الحق گوے و صدیق خودی شو نواں سوال: کہ شد بر سر وحدت واقف آخر؟ شناسائے چہ آمد عارف آخر؟ جواب اس دنیا کی ناپائیداری کے ذکر سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں چاند اور سورج ڈوب جاتے ہیں۔ شام اپنے کندھے پر سورج کی لاش اٹھائے پھرتی ہے۔ چاندنی ستاروں کا کفن بنتی ہے۔ باد خزاں پھولوں کو مسل دیتی ہے۔ لالہ کی پتیوں پر جگمگاتی ہوئی شبنم کے موتی لمحے بھر کی آب و تاب کے بعد مٹ جاتے ہیں اور نغمہ تار رباب سے نکلنے سے پہلے خاموش ہو جاتا ہے۔ فنا کے اس شدید احساس سے متاثر ہو کر شاعر نے مثنوی کہتے کہتے عراقی (1289/688) کی ایک مشہور غزل کی زمین میں ایک غزل کہہ ڈالی ہے۔ عراق کی غزل کا مطلع ہے: نخستین بادہ کاندر جام کردند ز چشم مست ساقی واہ کردند اس دنیا میں ہر شے غروب ہو جاتی ہے مگر ہمارا غم بے حاصل نہیں۔ نگہ دارند اینجا آرزو را سرور ذوق و شوق جستجو را خودی را لا زوالے میتوان کرد فراقے را وصالے میتوان کرد عشق و خودی کی اہمیت و عظمت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کائنات میں انسان کے عظیم کردار کا بیان ہے۔ سوالیہ انداز میں جو اثبات پیدا کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے، پوچھا ہے کہ برق جلوہ کس پر گری تھی۔ الست کی صدا کس خلوت ناز اور بلی کا نغمہ کس پردۂ ساز سے بلند ہوا تھا۔ مشت خاک میں عشق کی چنگاری کیسے بھڑکی تھی۔ اور ہماری ایک آواز نے کس طرح ہزاروں پردے جلا دیے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ہیں تو جام ساقی بھی گردش میں ہے اور بزم مے کا ہنگامہ بھی باقی ہے۔ عظمت آدم اور اہمیت خودی کے اس پیغام کے ساتھ یہ مثنوی اختتام کو پہنچی ہے۔ دوسری ’’ مثنوی بندگی نامہ‘‘ ہے۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر برطانیہ کا محکوم تھا اور بقول شاعر زندگی ایک جوئے کم آب کی مانند گھٹ کے رہ گئی تھی۔ علامہ کو آزادی کی حسرت تھی جس میں زندگی ایک بحر پیکراں بن کر وسعت پذیر ہوتی ہے۔ ان کی پوری شاعری میں آزادی کی بیتاب تمنا کا اظہار ہوتا ہے اور ملوکیت اور فرنگ کی ذہنی اور سیاسی حاکمیت کے خلاف نفرت اور بغاوت کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ’’ بندگی نامہ‘‘ میں غلامی کی اذیت ناک اور روح کش فضا کا نقشہ نہایت درد مندانہ انداز میں کھینچا ہے۔ اس کے بعد شاعر نے غلاموں کے فنون لطیفہ سے بھی بحث کی ہے اور مردان آزاد کے فن تعمیر سے بھی۔ غلام اقوام کی موسیقی پر موت کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ اس میں نہ سوز کی دولت ہے اور نہ امید کی جھلک، نہ ذوق فردا ہے اور نہ لذت امروز، ہاں بیزاری کا پیغام ضرور ملتا ہے، اور ایک مریضانہ غم کا شدید احساس اس پر یقینا طاری ہے۔ اس کے بعد شاعر اپنی غلام قوم کے فنکاروں کو فن کا ایک صحت مند توانا اور جاندار تصور پیش کرتا ہے۔ غلام قوم کی مصوری کی حالت بھی اس سے بہتر نہیں۔ تصویریں بنائے گا تو ایسی کہ کوئی راہب ہوس کے دام میں اسیر ہے۔ کوئی حسینہ قفس میں اسیر پرندے کے پاس کھڑی ہے۔ کوئی بادشاہ کسی خرقہ پوش فقیر سے مل رہا ہے۔ کوئی پہاڑی مزدور لکڑیوں کا گھٹا اٹھائے ہوئے ہے۔ کوئی نازنین مندر کی طرف محو خرام ہے۔ کوئی جوگی ویرانے میں دھونی رمائے بیٹھا ہے۔ کوئی بوڑھا بڑھاپے کے صدمے سے چور ہے اور اس کے ہاتھ میں بجھا ہوا چراغ ہے۔ کوئی مطرب ہے جو کسی اجنبی نغمے سے مست ہے۔ بلبل چہچہاتی ہے اور اس کے ساز کے تار ٹوٹ جاتے ہیں۔ یا کوئی نوجوان ہے جو عشق کے تیر سے گھائل ہے۔ ان فنکاروں کے قلم سے صرف موت کے مضامین ابھرتے ہیں اور ہر طرف فنا کا افسانہ ہے۔ شاعر اس طرز احساس و اسلوب کا سبب بے یقینی اور خودی سے محرومی کو ٹھہراتا ہے۔ فنکار کے لیے فطرت سے حسن کی در یوزہ گری کے کیا معنی ہیں؟ یہ وہ دولت ہے جو اس کے تجلی زار قلب میں ہونی چاہیے۔ آخر میں شاعر اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ غلامی میں جسم روح کی توانائی سے محروم ہو جاتا ہے اور تن بے جان سے کسی خیر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ غلامی میں ذوق ایجاد و نمود رخصت ہو جاتا ہے غلام فنکار تقلید میں پناہ لیتا ہے اور پامال اور فرسودہ راہیں اس کے دل کو لبھاتی ہیں۔ ایسا فن آرزو کی موت ہے۔ غلاموں کے فنون سے بحث کے بعد شاعر نے غلاموں کے مذہب کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ اس کی نظر میں یہاں خدا کا نام لینے والوں کا قبلہ بھی فرمانرواؤں کی اطاعت گزاری ہے۔ یہ اشعار فرمانرواؤں کے آداب خدائی اور غلاموں کے راہ و رسم بندگی پر بھرپور اور کاری طنز ہیں۔ کتاب کا خاتمہ مردان آزاد کے فن تعمیر پر ہوتا ہے۔ یہاں شاعر نے ہندوستان کی اسلامی سلطنت کے فن تعمیر کی عظمت و شکوہ اور حسن و زیبائی کو خراج تحسین ادا کیا ہے۔ یہاں پتھر سے پتھر کیا جڑے ہیں وقت کو لمحات میں اسیر کر دیا گیا ہے۔ ان کے دیکھنے سے بنانے والوں کی ہمت مردانہ اور طبع بلند کا اندازہ ہوتا ہے۔ تاج محل پر کچھ دلآویز شعر ہیں جو اس طرح شروع ہوتے ہیں: یک نطر آن گوہر نابے نگر تاج را در زیر مہتابے نگر مرد مرش ز آب روان گردندہ تر یک دم آنجا از ابد پائندہ تر عشق مردان سر خود راہ گفتہ است سنگ را با نوک مژگان سفتہ است آخر میں عشق کو ہدیہ عقیدت پیش کیا گیا ہے کہ اس سے جذبات میں رفعت اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس نظم کو ان اشعار پر ختم کیا گیا ہے: دلبری بے قاہری جادو گری است دلبری با قاہری پیغمبری است ہر دو را در کاربا آمیخت عشق عالمے در عالمے انگیخت عشق ٭٭٭ جاوید نامہ علامہ کی مشہور مثنوی جاوید نامہ 1932ء میں شائع ہوئی البتہ اس کا خاکہ 1927ء سے موصوف کے ذہن میں موجود تھا۔ کیوں کہ دوران گفتگو وہ ایک دفعہ اس کی طرف اشارہ بھی کر چکے تھے۔1؎ شاعر مشرق کے ذہن میں جاوید نامہ کا جو نقشہ ترتیب پا رہا تھا۔ اس میں سیر افلاک کے ذریعے انہیں اپنا فلسفہ حیات، اپنے دور کے بعض اہم سیاسی اور اجتماعی مسائل و تحریکات اور ملل اسلامی کے حقائق و مسائل پر اپنا نقطہ نظر ایک ڈرامائی رنگ میں پیش کرنا تھا، اس لیے وہ ایسے ادب کی جستجو میں تھے جس میں اس سے پہلے اس موضوع پر تمثیلی و تخیلی انداز اختیار کیا گیا ہو۔ اس نوعیت کی قدیم ترین کتاب جس میں سیر افلاک کے ذریعے زندگی کے کسی خاص نقطہ نظر یا روحانی و اخلاقی اقدار کا اظہار و ابلاغ پیش نظر رہا ہو، تیسری صدی عیسوی میں ایران میں یزبان پہلوی لکھی گئی۔ اس کا عنوان ’’ اردو یراف نامہ‘‘ ہے اور اس کا مصنف ساسانی سلطنت کے بانی ارد شیر (241/226ئ) اور اس کے جانشین شاپور اول (271/241ئ) کے دور کا مشہور موید اور مذہبی رہنما ارتائی و یراف ہے۔ بعض محققین کی رائے میں اس کا صحیح نام ارتاگ ویراژ تھا۔ فارسی میں اس کے تخلیقی شاہکار کو ’’ ارتائی ویراف نامک‘‘ کی بجائے ’’ ارد ویراف نامہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ اس نے روحانی کیفیات میں ڈوب کر بہشت اور دوزخ کی سیر کی ہے۔ اس کتاب میں اس سفر کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان سے مذہب زردشت کے معقتدات بالخصوص حیات بعد الموت کے بارے میں اس مذہب کے نظریات پر روشنی پڑتی ہے۔ ساتویں/تیرہویں صدی میں بہرام پڑدو نے فارسی میں اس کا منظوم ترجمہ کیا2؎ اس دلچسپ کتاب کا ترجمہ انگریزی، فرانسیسی اور جدید فارسی نثر میں بھی ہو چکا ہے۔ اسلامی ادب میں اس نوعیت کی پہلی اہم کتاب ابو العلاء معری (1057/449) کا ’’رسالۃ الغفران‘‘ ہے۔فارسی میں حکیم سنائی نے اپنی مثنوی ’’ سیر العباد الی المیعاد‘‘ میں عالم افلاک کی سیر کا ذکر کیا ہے اور اسے صاحبان دل کی جولانگاہ قرار دیا ہے۔ اسلامی کلاسیکی ادب میں اس سلسلے کی سب سے معروف اور اہم کتاب شیخ محی الدین ابن العربی (1240/638) کی ’’الفتوحات المکیہ‘‘ ہے جو 1232/629ء میں مکمل ہوئی۔ مغربی ادب میں اس قسم کی تخلیق دانتے (1321ئ) کی ’’ طربیہ الٰہی‘‘ (Divine Comedy) ہے، جسے بالعموم اپنی نوعیت کی پہلی اور آخری کتاب سمجھا جاتا رہا ہے۔ دانتے کی ’’ طربیہ الٰہی‘‘ اور شیخ اکبر کی ’’ فتوحات مکیہ‘‘ تو یقینا علامہ کے پیش نظر تھیں لیکن ان کے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ ان کے علاوہ انہیں حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری کے ایک ایسے رسالے کی تلاش تھی جس میں آسمانوں اور سیاروں کی سیر کا ذکر کیا گیا تھا۔ ایک خط میں جس میں تاریخ درج نہیں مگر جس سے پہلا خط 30مئی 1930ء اور اگلا خط19جون 1930ء کو لکھا گیا ہے، تحریر فرماتے ہیںـ: ’’ حضرت خواجہ نظام الدین صحب سے یہ ہی معلوم کیجئے کہ آیا ان کے بزرگوں کے کتب خانے میں حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری کا وہ رسالہ موجود ہے۔ جس میں انہوں نے آسمانوں اور سیاروں کی سیر کا ذکر کیا ہے۔ مجھے اس کی مدت سے تلاش ہے۔‘‘ 2؎ اس سے اگلے خط مورخہ19جون1930ء میں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ ’’ سر السمائ‘‘ کے نام سے کسی ایسی ہی کتاب کا ذکر کر چکے ہیں، فرماتے ہیں: ’’ سر السماء کا ذکر میں نے آج تک نہیں سنا۔ اس کتاب کی تلاش بھی جاری رکھیے میں نہایت ممنون ہوں گا۔‘‘ 4؎ اگلے کئی مکتوبات سے پتا چلتا ہے کہ علامہ نے ان کتابوں کی تلاش جاری رکھی مگر ان کے حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ 25جولائی 1930ء کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ میرا مقصود سر السماء سے علمی تحقیقات نہیں۔۔۔۔۔ میرا مقصود اس تحقیق سے ہے جس کی بنا مکاشفات قلبی پر ہو۔‘‘ 5؎ اسی خط میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ جاوید نامہ مرتب ہو چکا ہے، اگرچہ ابھی اس کی طباعت کی نوبت نہیں آئی۔ کتاب میں گوناگوں علمی، فکری، دینی، اجتماعی اور سیاسی حقائق کے پیش نظر علامہ کو بجا طور پر اپنی کتاب کی عدیم النظیر حیثیت کا احساس تھا۔ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ جہاں تک میرا علم ہے کسی زبان میں اس قسم کی کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔‘‘ 6؎ آگے چل کر 4اگست1930ء ، 9اگست1930ء اور اس سے آگے ایک غیر مورخہ خط میں ’’ سر السمائ‘‘ کی تلاش کا ذکر جاری ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کتاب نہیں ملی۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ چھپنے پر اہل علم و دانش کی طرف سے تعریف و تحسین کے خط آنا شروع ہوئے۔ ایک خط مورخہ 6مئی 1932ء میں خاص طور سے کچھ مستشرقین کا ذکر فرمایا ہے: ’’ نکلسن اور سر ڈینی سن راس نے بہت اچھے خطوط جاوید نامہ کے متعلق لکھے ہیں۔ پروفیسر ہیل اس کا جرمن ترجمہ کریں گے۔‘‘ 10؎ علامہ کو اس کتاب پر بڑا ناز تھا۔ فرماتے ہیں: آنچہ گفتم از جہانے دیگر است این کتاب از آسمانے دیگر است حقیقت یہ ہے کہ اس میں حقیقت و تخیل کو جس انداز میں ہم آہنگ کیا گیا ہے، اور اس میں افکار کے عمق، تخیل کی توانائی و فسوں کاری اور قوت بیانیہ کے سحر و اعجاز کے ساتھ ساتھ جرأت اظہار کا جو انداز ملتا ہے، اس نے علامہ کے اس شاہکار کو یکتائے روزگار ادبی اور فکری تخلیق بنا دیا ہے۔ علامہ کی آرزو تھی کہ اس کتاب کا بہ طریق احسن ترجمہ کیا جائے، اور اگر ہو سکے تو اس کے مطالب کو مصور بھی کیا جائے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ کوشش مترجم اور مصور کی شہرت کا باعث ہو گی۔ 31مارچ 1933ء کو ایک خط میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’ سب سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے۔ یہ نظم ایک قسم کی (Divine Comedy) ہے ۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے۔ اگر وہ ترجمہ کامیاب ہو جائے، اور اگر اس ترجمہ کو کوئی عمدہ مصور Illustrateبھی کر دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہو گا۔ اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں۔‘‘ 11؎ ایک نوجوان مصور کو جو شکوہ اور جواب شکوہ کو تصویری رنگ میں پیش کرنا چاہتے تھے، 25جون 1935ء کو تحریر فرمایا ہے: ’’ میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف جاوید نامہ ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے پوری مہارت فن کے علاوہ الہام الٰہی اور صرف کثیر کی ضرورت ہے۔‘‘ 12؎ انہی صاحب کو انتقال سے صرف تین دن پہلے یعنی 18اپریل 1938کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ میرا اور مبصر زمانہ علامہ عبداللہ یوسف علی صاحب کا یہ خیال ہے کہ اگر آپ نے کافی مشق و مہارت کے بعد اس فن میں کمال حاصل کر کے شکوہ اور جواب شکوہ کو دنیائے اسلام کے سامنے پیش کر دیا تو آپ فن مصوری میں ایک اضافہ کر کے اپنے فن کا ایک نیا اسکول قائم کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ آپ محض فن مصوری میں اضافہ نہیں کر رہے بلکہ دنیائے اسلام میں بہ حیثیت مصور اقبال ایک زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں جو کہ شاید قدرت آپ ہی سے لینا چاہتی ہے۔ پوری مہارت فن کے بعد اگر آپ نے جاوید نامہ پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔‘‘ 13؎ کتاب کا آغاز مناجات سے ہوتا ہے، جس میں شاعر کائنات میں اپنی تنہائی کا ذکر کرتا ہے۔ اس بحر و دشت اور مہر و ماہ میں کوئی ہمنوا نہیں ملتا۔ خود ستارے ایک دوسرے سے نا آشنا اور تنہا ہیں۔ اس فضائے نیلگوں میں سکوت کا عالم ہے۔ شاعر اس کی لامتناہی وسعتوں کو دیکھتا ہے۔ اپنی تنہائی کو محسوس کرتا ہے۔ اس گہرے سکوت اور بیکراں وسعت میں اسے فرزند آدم کا کوئی ہمنفس نہیں ملتا اور نہ اس پر اس کی شخصیت کا راز کھلتا ہے۔ چنانچہ وہ عالم بیچارگی میں کہہ اٹھتا ہے: این جہان صید است و صیادیم ما؟ یا اسیر رفتہ از یادیم ما؟ لیکن زمان و مکان کی ان وسعتوں میں اسے جلد فرزند آدم کی عظمت کا احساس ہو جاتا ہے۔ اسے قدرت نے عالم شش جہت کی تسخیر کا فریضہ سونپا ہے۔ وہ ’’ علم الاسمائ‘‘ کا راز دان ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جو کائنات کے رازوں کی محرم ہے، اور جسے خالق کائنات کا مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ شاعر کے دل میں حسن ازل کو بے حجاب دیکھنے کی ہوک اٹھتی ہے۔ خرد کے اس سفاک دور میں اسے اپنی جان بیتاب اور دل درد مند پر ناز ہے۔ یہ مضطرب روح ذوق طلب و آرزو سے بہرہ مند ہے۔ یہ وہ دولت ہے جس سے عصر حاضر محروم ہے۔ شاعر اس نایاب، دردمند اور مضطرب روح کا واسطہ دیتے ہوئے حسن ازل سے ضیا پاشیوں کی التجا کرتا ہے: تو مہی اندر شبستانم گذر یک زمان بے نوری جانم نگر اسے پردۂ اسرار کے اٹھ جانے کی تمنا ہے۔ وہ راز حیات کو بے نقاب دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ عقل کے ساتھ ساتھ جنون کا متمنی ہے۔ اس کی نظر میں علم کی صلاحیتیں محدود ہیں۔ جب تک علم لذت عشق سے بہرہ ور نہ ہو وہ محض تماشا خانہ افکار اور افسانہ و افسوں ہے۔ منزل مقصود کے لیے جس تجلی کی ضرورت ہے علم اس سے محروم ہے۔ ہم ’’ نظر‘‘ چاہتے ہیں علم محض ’’ خبر‘‘ مہیا کر سکتا ہے۔ چنانچہ شاعر علم کے ساتھ ساتھ لذت حضور کے لیے تڑپ رہا ہے، اور طلسم زمان و مکان کو توڑ کر فروغ جاوداں کی تجلیوں سے سرشار ہونے کے لیے بیقرار ہے تاکہ وہ لافانی اور آفاق گیر ہو جائے۔ ذوق و شوق کی اس کیفیت کو بیان کرنے کے بعد شاعر اپنی اس تخلیق کو شاعری سے ماوراء قرار دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بحر پر آشوب کے نام سے یاد کرتا ہے، اور ایسے افراد کا متمنی ہے جو اس بحر کی تہ میں اتر سکتے ہوں۔ کیونکہ اب تک ایک دنیا نے اس کا نظارہ محض ساحل سے کیا ہے، اور اس بحر عشق کے کنارے موج کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ وہ پیران کہن سے مایوس ہے، اور اس کی تمنا ہے کہ نوجوان اس کے افکار کو سمجھ سکیں او ریہ گہرا سمندر ان کے لیے پایاب ہو سکے۔ مناجات کے بعد تمہید ہے۔ جس میں تخلیق کائنات کے پہلے دن آسمان کی زبان سے زمین کی عظمت کا اعتراف کرایا گیا ہے۔ اس عظمت کا راز انسان ہے جو اگر خرد کی طاقت سے کائنات کو مسخر کرتا ہے تو عشق کی قوت سے لامکان پر شبخون مارتا ہے۔ کائنات کی رونق اسی کے دم سے ہے۔ وہ سمند روزگار پر سوار ہے اور آسمان اس کی گرد راہ ہے، یہ وہ ہستی ہے جو صفات میں ذات کو دیکھنے کی بصیرت رکھتی ہے۔ تمہید کو پیر روم کے اس شعر پر ختم کیا گیا ہے: ہر کہ عاشق شد جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را تمہید کے خاتمہ کے بعد نغمہ ملائک ہے، جس میں فرشتے انسان کی عظمت و برتری کا راگ یوں چھیڑتے ہیں: فروغ مشت خاک از نوریان افزون شود روزے زمین از کوکب تقدیر او گردون شود روزے کائنات میں انسان کی عظیم حیثیت اور برتری کا احساس دلوانے کے بعد شاعر پیر رومی سے اپنی ملاقات کا حال بیان کرتا ہے جو فضائے نیلگوں کی بیکراں وسعتوں میں شاعر کے مرشد و رہنما بننے والے ہیں۔ شاعر کو کوئی محرم راز نہیں ملتا۔ وہ احساس محرومی سے چور سمندر کے کنارے تنہا کھڑا ہے۔ آفتاب غروب ہو رہا ہے اور ا س نے شام کو سحر کی رنگینی بخش دی ہے۔ شفق نے سمندر کی نیلگوں لہروں پر قرمزی اور شہابی رنگ بکھیر دیے ہیں۔ شاعر خلش آرزو و جستجو سے مضطرب ہے، اور ایسے میں بے اختیار ہو کر رومی کی ایک دل انگیز غزل گنگنانے لگتا ہے جو یوں شروع ہوتی ہے: یکتائے لب کہ قند فراونم آرزوست بنمائے رخ کہ باغ و گلستائم آرزوست شاعر کے غزل گاتے گاتے آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور موج مضطر تھک کر سطح آب پر سو جاتی ہے۔ اس سرمئی اندھیرے میں پہاڑ کے اس پار سے روح رومی پردوں کو چاک کرتی ہوئی نمودار ہوتی ہے۔ اس کا پیکر نور سرمدی سے روشن ہے اور اس میں آفتاب کی درخشانی ہے۔ اس کے لبوں پر اسرار ہستی حرف و صورت میں ڈھل رہے ہیں جو سوز دروں اور دانش و حکمت کے عظیم امتزاج کے آئینہ دار ہیں۔ شاعر دفعتہ اس نورانی پیکر سے موجود و ناموجود او رخوب و بد کی حقیقت پوچھتا ہے۔ روح رومی ہر ایک کا نہایت بلیغ اور دلنشین جواب دیتی اور شعور و آگہی کا فلسفہ بیان کرتی ہے۔ وہ شاعری کو بتاتی ہے کہ شعور کے مقامات و مدارج کیا ہیں۔ کس طرح انسان اپنی خودی کو پہچانتا ہے۔ کس طرح وہ اپنے نور دوسروں کے ناور اور بالآخر نور حق سے آشنا ہوتا ہے۔ اور کس طرح ذات حق کو بے پردہ دیکھے بغیر وہ اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں علامہ نے معراج کا فلسفہ بھی بیان کیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفات حق جاننے پر مطمئن نہ تھے۔ وہ ذات باری تعالیٰ کو بے پردہ دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ معراج دراصل محبوب کو روبرو دیکھنے کی تڑپ کا اظہار تھا۔ اس کے بعد پیر رومی شاعر کو جہان چار سو سے بلند ہو جانے کا مسلک بتاتے ہیں۔ زندگی کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ جلوت و خلوت میں زندگی کے مختلف احوال پر تبصرہ کرتے ہیں۔ کس طرح عقل اسے جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق اسے خلوت کی راہ دکھاتا ہے۔ عقل سنگ راہ سے ٹکراتی ہے ابر و سحاب کو آنکھیں دکھاتی ہے اور طلسم آب و گل کو توڑنا چاہتی ہے وہ ذوق نگاہ سے آشنا بھی ہے مگر افسوس اس میں عشق کی جرأت و بیباکی نہیں: چشمش از ذوق نگاہ بیگانہ نیست لیکن او را جرأت رندانہ نیست مرشد رومی عقل و عشق کا تفصیل سے موازنہ کر کے عشق کی بے پناہ قدرت اور جہاد زندگی میں اس کی ناگزیر رہنمائی کا سکہ منواتے ہیں۔ ان کی نظر میں عشق سلطان ہے اور دونوں عالم اس کے زیر نگیں ہیں۔ جب وہ خودی کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے تو وہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے: جملہ عالم مرکب او راکب شود عاشق اشہب زمان و مکان پر سوار ہے۔ اس کی نگاہ تیز دل وجود کو چیر دیتی ہے، اور راز ہائے پنہاں اس کی نظر کے سامنے فاش ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد پیر رومی شاعر کو جان و من کے فرق سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جان جذب و سرور و سود و درد کا نام ہے۔ وہ ذوق تسخیر سے سرشار ہے۔ اس کے مقابلے میں تن رنگ و بو اور عالم چار سو کا خوگر ہو جانے کا نام ہے۔ چنانچہ وہ شاعر کو جذب و شوق سے اپنے شعور کے اندر انقلاب برپا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ اسے بتاتے ہیں کہ جذب و شوق انسان کو احساس مکاں سے بے نیاز کر دیتا ہے، اور یہ مشت خاک پرواز میں مانع نہیں ہو سکتی۔ روح رومی کے الفاظ شاعر کو تڑپا دیتے ہیں۔ ناگہاں آسمان مشرق سے مغرب تک سحاب زور میں ڈوب جاتا ہے۔ اس سے ایک فرشتہ نمودار ہوتا ہے۔ جس کے چہرے کے دو رخ ہیں۔ ایک پر شہاب ثاقب کی تابانی ہے تو دوسرے پر شب تاریک کی ظلمت۔ اس کی رفتار میں خیال کی تیزی ہے، اور زمین سے کہکشاں تک اس کے لیے ایک لمحہ کی پرواز ہے۔ وہ شاعر کو بتاتا ہے کہ میں روح زمان و مکان ہوں اور میرا نام زروان ہے۔ میں ظاہر بھی ہوں اور پنہاں بھی ۔ دنیا پر میرا سکہ چلتا ہے۔ ہر تدبیر میری تقدیر سے وابستہ ہے۔ موت و زندگی، حشر و نشر اور بہشت و دوزخ میری ہی ذات سے عبارت ہیں ہاں وہ شخص جس کا قلب ’’ لی مع اللہ‘‘ 4؎کے احساس سے سرشار ہو وہ میرا طلسم توڑ دیتا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے کہ میں درمیان سے ہٹ جاؤں تو ’’ لی مع اللہ‘‘ کا ورد کر۔ شاعر کا کہنا ہے نہ جانے اس کی نگاہ میں کیا چیز تھی کہ اس نے یہ دنیا میری نگاہوں سے اوجھل کر دی۔ میرا وجود کائنات رنگ و بو سے مٹ گیا اور ایک نئے عالم ہائے و ہو میں میری زندگی کا آغاز ہوا۔ اپنی دنیا سے محروم ہونے پر میری روح تڑپنے لگی۔ مگر اب میری خاک سے ایک نئی دنیا طلوع ہو چکی تھی۔ میرا جسم بیتاب تھا۔ میری روح میں ایک نی حرکت تھی، اور آنکھوں میں ایک نئی بینائی آ گئی تھی۔ میری نظروں کے سامنے سے تمام پردے اٹھ گئے اور مجھے ستاروں کا نغمہ سنائی دیا۔ شاعر نے ’’ زمزمہ انجم‘‘ کے نام سے ستاروں کا جو نغمہ دہرایا ہے وہ اس کے خوبصورت ترین اشعار میں سے ہے۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے: عقل تو حاصل حیات، عشق تو سر کائنات پیکر خاک! خوش بیا ابن سوئے عالم جہات اس نغمے میں ستارے شاعر کے استقبال میں اپنی تجلیاں بکھیر رہے ہیں، زہرہ و ماہ و مشتری ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کائنات ستاروں کے اس راگ سے گونج اٹھی ہے۔ ستارے شاعر کو خوش آمدید کہنے اور اس پر اپنی رعنائیاں نچھاور کرنے کے بعد اس کو اس کے مقصد سے روشناس کراتے ہیں۔ یہاں شاعر اپنی عظمت کے احساس سے سرشار ہے۔ عالم مشرق کی بیداری کا مقصد جسے شاعر نے سینے سے لگا رکھا ہے یہاں سحر آگیں نغمے میں ڈھل کر سامنے آتا ہے: شوق غزل سرائے را رخصت ہائے و ہوبدہ باز بہ رند و محتسب بادہ سبو سبو بدہ شام و عراق و بند و یارس خوبہ نبات کہ دہ اند خو بہ نبات کردہ را تلخی آرزو بدہ تا بہ یم بلند موج معرکہ بنا کند لذت سیل تند رو با دل آبجو بدہ پھر ستارے شاعر کو آتش فقر کی تندی و تیری کا احساس دلاتے ہیں جس کے سامنے میری اور قیصری خس کی طرح جل کے راکھ ہو جاتی ہے۔ دبدبہ قلندری اور طنطنہ سکندری کا مقابلہ کرنے کے بعد ستارے شاعر سے خواہش کرتے ہیں: ضرب قلندی بیزار سد سکندری شکن رسم کلیم تازہ کن رونق ساحری شکن کتاب کا ابتدائیہ یہاں آ کر ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد شاعر فضائے نیلگوں کی سیر کا آغاز کرتا ہے۔ ’’ طربیہ الٰہی‘‘ میں ورجل (19ق ۔ م) اور بیاتریچے (1290ئ) دانتے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہاں پیر رومی شاعر مشرق کے رہنما ہیں۔ فلک قمر شاعر ستاروں کا ہم سفر ہے۔ وہ جستجو کو لازمہ حیات سمجھتا ہے، اور بہشت رنگ و بو میں سکون پر موت کو ترجیح دیتا ہے۔ بیابان طلب میں دیوانگی زندگی کا حسن ہے۔ یہی طلب اسے فلک قمر کی طرف لے جاتی ہے۔ پیر رومی اسے بتاتے ہیں کہ یہ ہماری پہلی منزل۔۔۔۔۔ یہاں ہولناک پہاڑوں پر گہرے سکوت کی حکمرانی ہے۔ ان میں سے دو پہاڑوں کو شاعر نے خافظین اور یلدرم کے نام دیے ہیں، جن کے دہانوں پر دھواں اٹھ رہا ہے، اور اندر آگ بھڑک رہی ہے۔ یہ سر زمین سبزے سے نا آشنا ہے۔ یہاں کی فضا میں کسی پرندے نے آج تک پر نہیں مارا۔ اس بے رنگ و صوت فضا میں نہ زندگی کا نشان ہے نہ موت کے آثار۔ یہاں نہ کبھی زندگی کی دھڑکن سنائی دی نہ حادثات نے جنم لیا۔ یہ وہ سر زمین ہے جس کی صبح و شام نوید انقلاب سے نا آشنا ہے۔ دفعتہ شاعر رومی کی رہنمائی میں ایک غار تک پہنچتا ہے۔ یہاں اس کی ملاقات ایک عارف ہندی سے ہوتی ہے جس کا نام جہاں دوست ہے یہ مرد عارف آب و گل سے بالاتر ہے۔ اس کا وقت گردش ایام اور دور فلک سے آزاد ہے۔ عارف ہندی رومی سے پوچھتا ہے تیرا ساتھی کون ہے؟ مجھے اس کی آنکھوں میں آرزوئے زندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ رومی شاعر کا تعارف یوں کراتے ہیں: مردے اندر جستجو آورد ثابتے با فطرت سیارۂ پختہ تر کارش ز خامی ہائے او من شہید ناتمامی ہائے او اس کے بعد جہاں دوست اور رومی میں عالم، آدم اور حق کے موضوعات پر فلسفیانہ گفتگو ہوتی ہے رومی بتاتا ہے کہ آدمی شمشیر کی مانند ہے۔ حق شمشیر زن ہے اور عالم اس شمشیر کے لیے فسان کا کام دیتا ہے۔ مگر افسوس مشرق نے حق کو دیکھا عالم کو نظر انداز کر دیا۔ مغرب عالم میں ڈوب کر رہ گیا اور حق سے کنارہ کش ہوا۔ زندگی کا راز حق کے مشاہدے اور اپنی ذات کے بے پردہ دیکھنے میں مضمر ہے۔ جہاں دوست اس کے جواب میں کہتا ہے کہ ہم ساکنان فلک کا کام دیکھنا ہے۔ میں مشرق کے آنے والے کل سے نا امید نہیں ہوں۔ کل ہی ایک فرشتے نے جو فراز ’’ قشمرود‘‘ پر آسمان سے اترا تھا، مجھے بتایا ہے: گفت ہنگام طلوع خاور است آفتاب تازہ او را در بر است لعل ہا از سنگ رہ آید برون یوسفان او ز چہ آید برون رستخیزے در کنارش دیدہ ام لرزہ اندر کوہسارش دیدہ ام اے خوش آن قومے کہ جان و تپید از گل خود خویش را باز آفرید ان اشعار میں مشرق کے مستقبل کے بارے میں حضرت علامہ کے پر امید افکار اور آرزوئیں جھلکی ہیں جو آج بڑی حد تک حقیقت بن چکی ہیں۔ اس کے بعد جہاں دوست اور شاعر میں عقل، قلب، تن، آدم، عالم، علم و ہنر اور دین پر گفتگو ہوتی ہے۔ ان اشعار میں علامہ نے ان حقائق پر نہایت مختصر، پر معنی اور بلغ انداز میں اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ اس مکالمے کے بعد علامہ نے عارف ہندی کے نو اقوال درج کیے ہیں۔ جو حق، زندگی، موت، وقت، جہاد نفس اور بیداری قلب وغیرہ پر تبصرہ ہیں۔ مثال کے طور پر جہاد نفس کے بارے میں عارف ہندی کہتا ہے: مرد مومن زندہ و با خود بجنگ برخود افتد ہمچو بر آہو پلنگ بیداری قلب کے بارے میں یہ مرد عارف یوں گویا ہے: کافرے بیدار دل پیش صنم بہ ز دیندارے کہ خفت اندر حرم عارف ہندی سے ملاقات کے بعد اس طلسم آمیز شب میں شاعر سروش کودیکھتا ہے: سنبلستان در زلفش تا کمر تاب گیر از طلعتش کوہ و کمر پیر رومی بتاتے ہیں کہ سیم تابناک کا یہ پیکر ذوق نمود سے بیتاب ہو کر شبستان وجود میں آیا ہے اور ہم دونوں کی طرح غربت نصیب ہے۔ پیر رومی کی بات ختم ہوتے ہی اس پیکر رنگ و بو کی زبان سے یہ نغمہ بلند ہوتا ہے: ترسم کہ تو میرانی زورق بہ سراب اندر زادی بہ حجاب اندر میری بہ حجاب اندر چون سرمہ رازی را از دیدہ فروشستم تقدیر امم دیدم پنہان بکتاب اندر بر کشت و خیابان پیچ، بر کوہ و بیابان پیچ برقے کہ بخود پیچد میرد بہ سحاب اندر سروش مغرب سے نا امید ہے: با مغربیان بودم پرجستم و کم دیدم مردے کہ مقاماتش ناید بہ حساب اندر اس نغمے کے بعد مرشد رومی شاعری اور پیغمبری کی ماہیت پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ شعر گرمی ا للہ ہو سے آتشیں نوا میں ڈھل جاتا ہے۔ ایسا شعر افلاک کو درہم برہم کر دیتا ہے اور فقیروں کو پادشاہی بخشتا ہے۔ ورنہ کتنے ہی شاعر ہیں جو رہزن قلب اور ابلیس نظر ہیں۔ پیغمبری اقوام و اداور کی خالق ہے۔ اسی سے کائنات میں ہائے و ہو ہے۔ اسی سے فکر کو لذت پرواز نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ شاعر کی رہنمائی وادی ’’ یرغمید‘‘ کی طرف کرتے ہیں جہاں چار تاسین نبوت موجود ہیں۔ اس مقام کے شکوہ کا یہ عالم ہے کہ سات سیارے اس کا طواف کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے طاسین گوتم کا ذکر ہوتاہے جہاں مہاتما بدھ کی زبان سے نہایت دلآویز اشعار میں ہستی و نیستی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے: بگذر از غیب کہ این و ہم و گمان چیزے نیست در جہان بودن و رستن ز جہان چیزے ہست آن بہشتے کہ خدائے بتو بخشد ہمہ ہیچ تا جزائے عمل تست جنان چیزے ہست راحت جان طلبی؟ راحت جان چیزے نیست در غم ہم نفسان اشک روان چیزے ہست چشم مخمور و نگاہ غلط انداز و سرود ہمہ خوب است ولے خوشتر ازان چیزے ہست حسن رخسار دمے ہست و دمے دیگر نیست حسن کردار و خیالات خوشان چیزے ہست مہاتما بدھ کے یہ اشعار ایک عشوہ فروش رقاصہ کو توبہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں او روہ عالم جذب و سرور میں ایک غزل گاتی ہے جس میںحسن ازل کی تمنائے دید، تلخی انتظار اور ذوق حضور کا ذکر موسیقی سے لبریز اشعار میں ہوتا ہے غزل کا مطلع حسب ذیل ہے: فرصت کشمکش مدہ این دل بیقرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را طاسین زرتشت کے تحت اہریمن اور زرتشت کا مکالمہ ہے۔ اہریمن زرتشت کو عزلت و خلوت نشینی اور مناجات سرائی کی ترغیب دیتا اور پیغمبری کے اولو العزم کردار سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ میثاق یزداں پر تکیہ کرنے کو ابلہی کے نام سے یاد کرتا ہے۔ جواب میں زرتشت اپنے آپ کو سیل نور اور ساحل کو ظلمت سے تشبیہہ دیتا ہے۔ اس سیل بے پناہ نے ساحل کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ اہریمن کیت رغیب کے جواب میں وہ قوت خودی کے اظہار کو زندگی قرار دیتا ہے۔ یہ قوت مصیبت و ابتلا سے پختہ تر ہوتی ہے۔ عشق کی آبرو خون میں تڑپنے سے ہے۔ مرد حق بین اپنے آپ کو حق کے حوالے سے دیکھتا ہے اور لا الہ کہہ کے خون میں تڑپتا ہے۔ وہ جلوۂ حق کو تنہا دیکھنے کی بجائے انجمن میں دیکھنے کا متمنی ہے۔ اس کے بعد زرتشت خلوت و جلوت کے فلسفے پر اظہار خیال کرتا ہے اور راہ حق میں کارواں کو ساتھ لے کر چلنے کو تکمیل مقصد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ پیغمبر درد سر نہیں یہ عشق کی کامل تصویر ہے اور آدم گری اس کا نصب العین ہے۔ اگلا عنوان ’’ طاسین مسیح۔۔۔۔ رویائے حکیم طالسطائی‘‘ ہے۔ اس کے تحت کوہسار ’’ ہفت مرگ‘‘ میں مشہور روسی مفکر، مصلح اور ادیب تالستائی کا خواب دکھایا گیا ہے، جس کے ذریعے مسیحیت سے یورپ کی بے اعتنائی اور ا سکے بے روح مادی ضابطہ حیات اور ظالمانہ شہنشاہی نظام کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ کوہسار ’’ ہفت مرگ‘‘ چٹیل اور سنگلاخ پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ یہاں کی فضا تیرہ و تار ہے اسے کبھی روشنی نصیب نہیں ہوئی۔ پہاڑوں کے درمیان پیچ و خم کھاتی ہوئی سیماب کی ایک ندی رواں دواں ہے جس میں ایک نوجوان کمر تک ڈوب رہا ہے۔ وہ پیاس سے بے قرار ہے لیکن یہاں سیماب کے سوا پینے کو کچھ نہیں۔ ساحل دریا پر ایک نازک اندام اور عشوہ گر حسینہ کھڑی ہے۔ شاعر کے پوچھنے پر وہ بتاتی ہے کہ میرا نام افرنگین ہے اور میرا کام ساحری ہے۔ یہ دوشیزہ روح مغرب کی علامت ہے۔ ناگہاں سیماب کی یہ جوئے سیمین منجمد ہو جاتی ہے اور نوجوان کی ہڈیاں چور چور ہونے لگتی ہے۔ درد و کرب کے عالم میں وہ اپنی تقدیر اور اپنی فریاد بے تاثیر کا ماتم کرتا ہے۔ اس نوجوان سے شاعر کی مراد اس ظالم درندہ صفت رومن سے ہے جس نے حضرت عیسی ؑ کو صلیب پر چڑھایا تھا۔ افرنگین ا س پر برس پڑتی ہے کہ تو نے روح القدس کی قدر و قیمت نہ پہچانی۔ تو نے تن کو خریدا لیکن روح کی بازی ہار گیا۔ افسوس تیری جان لذت ایمان سے محروم رہی۔ اس پر نوجوان پلٹ کر افرنگین کے کرتوت یہ کہہ کر گنواتا ہے کہ تیری بیدار نہ سے ایک جہان ماتم کدہ ہے۔ عقل و دین و عشق تیری کافرانہ روش سے خوار و زار ہیں۔ تیری محبت آزاد نہاں اور تیرا کینہ مرگ ناگہاں ہے۔ تو نے ایک عالم کو ویران کیا اور حکمت و دانش سے چنگیزی کا کام لیا۔ ہر صاحب بصیرت جانتا ہے کہ تیرا جرم میرے جرم سے کہیں سنگین تر ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے مردوں کو زندہ کیا تھا تو نے زندوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ ہم نے مسیح کے جسم کو آزار پہنچایا تو نے اس کی روح پر ستم کیا ہے۔ تیری موت دنیا کے لیے پیغام حیات بنے گی۔ اب ذرا دل تھام کر اپنے خوفناک انجام کی منتظر رہ! سب سے آخر میں طاسین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔ یہاں اسلام کے ہمہ گیر نظریہ اخوت و مساوات کو ’’ نوحہ روح ابو جہل در حرم کعبہ‘‘ کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ ابوجہل کی روح نوحہ کناں ہے کہ اس مذہب نے ملک و نسب کی زنجیریں کاٹ دی ہیں۔ حد ہے کہ اس پیغام کا لانے والا اہل قریش میں سے ہونے کے باوجود عرب کی برتری سے منکر ہے۔ اس کی نگاہ میں امیر اور غریب برابر ہیں۔ وہ غلام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اس نے احمر و اسود کو شیر و شکر کر دیا اور قیصر و کسریٰ کے خاتمے کا کی خبر دی۔ ابوجہل، ہبل اور لات و منات کے سامنے اس انقلابی پیغام کے خلاف احتجاج کر رہا ہے اور نالہ و شیون کے ساتھ ساتھ انتقام کی دہائی دے رہا ہے۔ یہاں فلک قمر کی سیر ختم ہو جاتی ہے۔ فلک عطارد اگلی منزل فلک عطارد ہے۔ شاعر کو یہاں کے صحرا اور کوہستانوں میں شورش دریا کا منظر بہت پسند آتا ہے، مگر یہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں۔ اچانک شاعر اذان کی آواز سنتا ہے۔ پیر رومی بتاتے ہیں کہ یہ مقام اولیاء ہے، اور یہاں اہل عرفان و حقیقت کا گذر ہوتا ہے۔ یہ سن کر دونوں آگے بڑھتے ہیں۔ شاعر دیکھتا ہے کہ دو شخص نماز میں مشغول ہیں، جن میں ایک سید جمال الدین افغانی اور دوسرے سعید حلیم پاشا ہیں۔ نماز کے بعد پیر رومی دونوں سے شاعر کا تعارف کراتے ہیں۔ اس کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اس میں ملت اسلامی میں دین و وطن کی آویزش، ترک و ایرانی و عرب پر فرنگ کا سحر، اور اس سحر کے زیر اثر عالم اسلام میں نئی تحریکات، اشتراکیت، ملوکیت اور عشق و خرد ایسے مسائل زیر بحث آتے ہیں۔ یہاں شاعر ان موضوعات پر نہ صرف اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے، بلکہ سید جمال الدین کی تحریروں اور سعید حلیم پاشا جو اس صدی کے شروع میں سلطنت عثمانی کے وزیراعظم تھے۔ کی سیاسی روش کی روشنی میں ان دونوں کے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ دونوں ملت اسلامی کی وحدت کے پرستار تھے، اور وطن کے جغرافیائی تصور کی بجائے اسلامی برادری کے وسیع تر ملی تصور کو زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ سعید حلیم پاشا کی زبانس ے کمال اتا ترک کی سیاسی اور اجتماعی روش کا سختی سے محاسبہ کیا گیا ہے، اور یورپ کی ذہنی غلامی اور تقلید کو تخلیقی تقاضوں اور مسلک زندگی کی شان کے خلاف قرار دیا گیاہے۔یہاں شاعر نے افغانی کی زبان سے محکمات عالم قرآنی کی تشریح کی ہے اور انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی خلافت آدم، حکومت الٰہی، ارض ملک خداست اور حکمت خیر کثیر است۔ شاعر نے خلافت آدم کے تحت انسان کی عظمت کا مرغوب موضوع چھیڑا ہے۔ زندگی کی حقیقت پر اظہار نظر کیا ہے۔ ذوق تخلیق کو فروغ زندگی کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ اسی ذوق تخلیق کے باعث غار حرام کی خلوتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نئی ملت کی تشکیل کا پیغام دیا گیا۔ یہاں عشق و خرد دونوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور دونوں کے منفرد کردار کا خلوت اور جلوت کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ حکومت الٰہی کے تحت ملوکانہ نظام اور فرنگ کے جمہوری مسلک پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ اور اس جمہوریت کو تماشے اور شاطری کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ تیسرے عنوان کے تحت مادی اور روحانی عناصر میں امتزاج اور تسخیر ارض کے ساتھ ساتھ روحانی زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ یہ مسلک سلطانی و فقر میں ہم آہنگی کا باعث بنتا ہے۔ حکمت خیر کثیر است کے تحت شاعر نے علم کی زبردست اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ علم وے واردات و محکمات کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔ اس کی گذر آسمانوں پر ہے اور یہ حرف و صوت کو شہپر عطا کرتا ہے۔ لیکن علم کے دورخ ہیں۔ اگر یہ حق کے ساتھ وابستہ ہو تو اسے پیغمبری کا مقام حاصل ہے۔ اگر حق سے غافل ہو تو علم خضر کافری ہے۔ افرنگ کی لذت شبخون و یلغار سب اسی بیگانہ حق علم کی بدولت ہے۔ سعید حلیم پاشا کی زبان سے شاعر نے ملا پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے قرآن فروش، کم نگاہ، کور ذوق اور ہر زہ گرد کہا ہے اور کافر سے اس کا موازنہ یوں کیا ہے: دین کافر فکر و تدبیر و جہاد دین ملا فی سبیل اللہ فساد اس کے مقابلے میں مرد حق کے نام سے سعید حلیم پاشا کی زبان سے مرد کامل کے اوصاف گنوائے ہیں، جو جہاں چار سو کا شاہکار ہے اور جسے ہر لحظہ ایک نئی شان اور نئی آن میسر ہے۔ اس کے بعد ملت روسیہ کے نام افغانی کا پیغام ہے، جس میں قرآن مجید کا بطور سرمایہ رشد و ہدایت ذکر ہے انہیں شکایت ہے کہ مسلمان نے ملوکیت کو ختم کر کے خود اسے اپنا لیا، حالانکہ ملوکیت ایک ایسی لعنت ہے جو عقل و ہوش کی راہیں بدلد یتی ہے۔ اس کے بعد سید جمال الدین افغانی روس کو یورپ کی بجائے مشرق سے اپنا مستقبل وابستہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ مغرب کو آئین دین کہنہ و پامال ہو چکے ہیں۔ وہ اسے لا سے الا کی طرف آنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے بعد اسلام کے انقلابی پیغام اور تصور اخوت و مساوات پر روشنی ڈالتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ قرآن سرمایہ داری کے لیے پیغام موت ہے۔ اس کے نظریات جب روح میں اترتے ہیں تو روح بدل جاتی ہے، اور اس کے بدلنے سے دنیا بدل جاتی ہے۔ فلک زہرہ فلک عطار کا سفر ختم ہو جاتا ہے اور مرشد رومی شاعر کو فلک زہرہ پر لے جاتے ہیں۔ رومی اور شاعر ایک تاریک سمندر کو عبور کر کے دوسرے کنارے ایک ایسی سر زمین میں پہنچتے ہیں جہاں پہاڑوں اور مرغزاروں پر بہاروں کا سماں چھایا ہوا ہے۔ یہ قدیم خداؤں کا مسکن ہے۔ یہاں طرح طرح کے دیوتا اپنی منڈلی لگائے بیٹھے ہیں، اور بعل سب سے مخاطب ہو کے اس دور بے خلیل پر مسرت اور کامرانی کا اظہار کر رہا ہے۔ وطنیت اور نسب پرستی نے جو تعصبات پھیلائے ہیں وہ ان پر اترا رہا ہے اور خوش ہے کہ سینکڑوں بولہب چراغ مصطفویؐ کو بجھانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ سب دیوتاؤں کو دعوت عمل دیتا ہے۔ فلک زہرہ ہی میں پہاڑوں کے اس پار شاعر سمندر میں فرعون اور کچنر کو ڈوبا ہوا پاتا ہے۔ مرشد رومی بتاتے ہیں کہ یہ مغرور و سرکش لوگوں کا مقام ہے۔ ان دو میں سے ایک چوب کلیم کا زخم خوردہ ہے تو دوسرا تیغ درویش کا کشتہ ہے۔ درویش سے مراد مشہور مجاہد مہدی سوڈانی ہیں جنہوں نے سوڈان میں برطانوی استعمار کو شکست دی تھی۔ اور ان کی وفات کے کئی سال بعد لارڈ کچنر نے ان کی ہڈیاں قبر سے نکلوا کے ان کی بے حرمتی کی تھی۔ کچنر کا بحری جہاز پہلی جنگ عظیم میں ایک جرمن آبدوز کشتی کا نشانہ بنا تھا۔ یہاں مہدی سوڈانی کی روح کچنر سے یوں ہمکلام ہوتی ہے: گفت اے کشنر! اگر داری نظر انتقام خاک درویشے نگر آسمان خاک ترا گورے نداد مرقدے جز دریم شورے نداد اس کے بعد مہدی کی زبان سے علامہ نے دنیائے عرب کو بیدار ہونے کا حیات بخش پیغام دیا ہے۔ ان کو ان کی عظمت دیرینہ کی یاد دلائی ہے اور ان کی غیرت کو للکارا ہے یہ پیغام اپنے سوز و ساز، حسن تخیل اور لطف بیان کے اعتبار سے جاوید نامہ کے شاہکاروں میں سے ہے۔ وفور شوق اور آرزوئے انقلاب کے ساتھ ساتھ صحرا کی دلکش منظر کشی نے اس نظم کو نہ صرف فکر و معنی بلکہ جمال و رعنائی کے اعتبار سے بھی عجیب کیف بخش دیا ہے۔ اس کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں: گفت اے روح عرب بیدار شو چون نیاگان خالق اعصار شو زندہ کن در سینہ آن سوزے کہ رفت در جہان باز آور آن روزے کہ رفت زندگانی تا کجا بے ذوق سیر تاکجا تقدیر تو در دست غیر از بلا ترسی، حدیث مصطفیؐ است مرد را روز بلا روز صفاست فلک مریخ اگلی منزل فلک مریخ کی ہے۔ یہ دنیا ہمارے کرۂ ارض کی طرح عالم رنگ و بو ہے اور اس میں شہر و دیار و کاخ و کو موجود ہیں۔ یہاں کے مناظر کی سیر کے بعد شاعر کی ملاقات ایک مفکر سے ہوتی ہے جو گفتگو کے دوران میں مسئلہ تقدیر پر روشنی ڈالتا ہے، اور زندگی کے اس نازک اور اہم مسئلے کو کمال صراحت کے ساتھ حل کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ مذہب، فطرت، زندگی اور حاکمیت ارض اور اس کے ضمن میں معاشی انصاف پر اظہار فکر کرتا ہے۔ اس کے بعد ہزاروں کاخ و کو سے گزرتے ہوئے شاعر اور پیر رومی اس فلسفی کے ہمراہ ایک شہر کے کھلے میدان میں پہنچتے ہیں۔ یہاں شاعر ایک دوشیزہ کو دیکھتا ہے جس نے پیغمبری کا دعویٰ کر رکھا ہے اور لوگ اس کے گرد جمع ہیں۔ اس دوشیزہ کی تقریر کی آڑ میں شاعر نے مغربی عورت کے کردار پر چوٹ کی ہے۔ پیر رومی اس تقریر کے حوالے سے دبن و عشق پر گفتگو کرتے ہیں اور یہ منزل ختم ہو جاتی ہے۔ فلک مشتری اب شاعر پیر روم کی معیت میں فلک مشتری پر پہنچتا ہے۔ یہ وہ سر زمین ہے جس کے گرد کئی چاند چکر کاٹ رہے ہیں۔ آدھی رات کا سماں ہے۔ ان نوری پیکروں نے رات میں ضیائے آفتاب کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ستارے یہاں سے بہت نزدیک ہیں۔ منظر میں ایک ایسا شکوہ ہے جو شاعر کو اپنے حال سے بے خبر کر دیتا ہے۔ دفعتہ وہ اپنے سامنے تین پاکباز روحیں دیکھتا ہے جن کی آتش دروں نے ایک دنیا کو جلا ڈالا ہے۔ ان کے جسم پر لالہ گوں لباس ہے او ران کے چہرے سوز دروں سے تمتما رہے ہیں۔ ان پر ہمیشہ سے تب و تاب کی کیفیت طاری ہے اور وہ خود اپنے جذب دروں سے وارفتہ و مدہوش ہیں۔ پیر رومی کہتے ہیں کہ اگر تو نے شوق بے پروا کو نہیں دیکھا تو ان کا نظارہ کر، اور ان کی آتش نوائی سے زندگی حاصل کر۔ یہ تین روحیں منصور حلاج (922/309) میرزا غالب اور حسین و جمیل ایرانی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ (1852/1268) ہیں، جنہوں نے بہشت میں جانے کی بجائے گردش جاوداں کو ترجیح دی ہے۔ یہاں قرۃ العین طاہرہ اور میرزا غالب شاعر سے خود اپنے کلام کے ذریعے مخاطب ہوتے ہیں۔ میرزا غالب وہ غزل پڑھتے ہیں جس کا مطلع قوت و جبروت اور مقطع یقین محکم کے آئینہد ار ہیں۔ مطلع ہے: بیاکہ قاعدۂ آسمان بگردانیم قضا بگردش رطل گران بگردانیم اور مقطع یوں ہے: ز حیدریمؓ من و تو زما عجب نبود گر آفتاب سوئے خاوران بگردانیم طاہرہ سوز و گداز اور جذب و مستی میں ڈوبی ہوئی ایک غزل پڑھتی ہے جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں: گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ روبرو شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ موبہ مو از پے دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام خانہ بہ خانہ در بدر کوچہ بکوچہ کو بکو در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا صفحہ بہ صفحہ لابہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو عاشقان درد مند کا یہ سوز و ساز شاعر کی روح میں شور و مستی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے اور اس کے بحر افکار میں طوفان اٹھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد مکالمات کا آغاز ہوتا ہے۔ منصور حلاج خیر و شر، علم و عشق، خودی، جبر و قدر، خدا و رسول، مشاہدہ و دیدار، فنا و بقا اور ابلیس و انسان کے دقیق موضوعات پر گہرے فکر و نظر کا اظہار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر علم و عشق کے بارے میں حلاج کا عقیدہ ہے کہ علم کی بنیاد امید و بیم پر ہے اور عشق دونوں سے ماوراء ہے، علم جلال کائنات سے خوف زدہ ہے تو عشق جمال کائنات میں گم ہے۔ علم کی نظر گذشتہ اور حال پر ہے، اور عشق کی نظر آئندہ پر ہے۔ علم آئین جبر کا پابند ہے، عشق عالم وجود کا بیباک تماشائی ہے۔ زندگی کے بارے میں حلاج کا کہنا ہے کہ اس کی روح خلش و اضطراب ہے، آتش زیرپا جینا اصل جینا ہے۔ ایسی زندگی ہی خودی کی تقدیر ہے اسی تقدیر سے خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔ شاعر منصور حلاج سے پوچھتا ہے کہ تجھے کس گناہ کی پاداش میں سولی پر چڑھایا گیا۔ حلاج جواب دیتا ہے کہ میرے گرد و پیش میں مومنوں نے کافرانہ انداز اختیار کر لیے تھے اور لا الہ کہتے ہوئے بھی اپنے آپ سے منکر تھے۔ وہ حق کو باطل سمجھتے تھے۔ میں نے اپنے نفس میں زندگی کی آگ روشن کی اور مردوں کو اسرار حیات بتائے۔ زندگی کی اساس خودی پر ہے۔ اس میں دلبری اور قاہری کا امتزاج ہے۔ اس کے نور میں نار بھی پوشیدہ ہے۔ جو اپنی آگ سے بہرہ ور نہ ہوا وہ ہمیشہ کے لیے اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا۔ میں نے خودی کی نار و نور کا پتا دیا، اور یہی میرا گناہ ٹھہرا۔ ہاں خبردار تم بھی وہی کر رہے ہو جو میں نے کیا تھا۔ طاہرہ کے ہونٹوں پر بھی جانسپاری اور فدا کاری کا ذکر ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ صاحب جنوں کا گناہ نئی دنیاؤں کی تخلیق کرتا ہے۔ شوق بیحد پردوں کو چاک کر دیتا ہے اور لذت تازہ کاری سے کہنگی کا خاتمہ کرتا ہے۔ میرزا غالب سوز جگر، اس کی آفاق گیر تاثیر، ہنگامہ عالم اور تقدیر و ہدایت کی بات کرتے ہیں۔ شوق دید، ذوق پرواز اور تب و تاب کے موضوع پر گفتگو کے بعد یہ ملاقات ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد دفعتہ فضا تاریک ہو جاتی ہے اور رات کے اندھیرے میں ایک شعلہ سا لپکتا ہے۔ یہ ابلیس کی آمد آمد ہے جسے یہاں پیر رومی نے خواجہ اہل فراق کا نام دیا ہے، اور اس کی ذات کو سراپا سوز کہا ہے۔ ابلیس شاعر سے اپنا تعارف کراتا ہے، حضور حق میں اپنے انکار کی توجیہ بیان کرتاہے۔ اور بتاتا ہے کہ میں نے آدم کی شخصیت کی تکمیل اور اس کے ذوق اختیار کے امتحان کے لیے یہ قربانی دی اور برا کردار اختیار کیا۔ میری کشت زار سے تو شعلے لپکا کیے مگر انسان مجبوری سے مختاری تک پہنچ گیا۔ شاعر ابلیس سے سوال کرتا ہے کہ کیا اس عہد فراق کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ابلیس اس مکان کا رد کر دیتا ہے، اور درد فراق کی سرمستی پر ناز و مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ وہ سوز فراق کو زندگی کا نغمہ قرار دیتا ہے اور وصل کے تصور سے گریزاں ہے۔ اس کے بعد ابلیس خداوند کے حضور ایک نالہ بلند کرتا ہے۔ اسے انسان سے شکایت ہے کہ وہ اپنی خودی کی عظمت سے آنکھیں بند کر کے فوراً اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ اس کی خاک ذوق مقاومت اور شرار کبریائی سے بیگانہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں انسان کی فرماں پذیری سے تنگ پڑ چکا ہوں۔ اس نے تو میری ہمت بلند کو پست کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کی فطرت کمزور اور اس کا عزم ناتواں ہے۔ میں صاحب نظر انسان کی تلاش میں ہوں۔ ایک پختہ تر حریف سے مقابلہ چاہتا ہوں۔ ایسے انسان کا آرزو مند ہوں جس کی نگاہ مجھے لرزہ بر اندام کر دے۔ اے خدا مجھے ایسے بندۂ حق پرست کی جستجو ہے۔ میں شکست کی لذت چکھنا چاہتا ہوں۔ یہ سفر اس نالے کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ ابلیس کا یہ خطاب انسان کی کمزوریوں رپ زبردست چوٹ ہے اور شاعر اس کو اپنی اندرونی صلاحیتوں اور مضمر امکانات کو بیدار کرنے کی غیرت دلا رہا ہے۔ فلک زحل اب شاعر پیر روم کی رہنمائی میں فلک زحل پر پہنچتا ہے۔ یہ مقام پچھلے تمام مقامات سے ہر لحاظ سے مختلف ہے۔ رومی اسے مطرود و مردود سپہر کے نام سے یاد کرتا ہے۔ یہاں تاریکی نے چھاؤنی ڈال رکھی ہے۔ ایک لاکھ فرشتے مسلسل اس پر بجلی کے کوڑے برسا رہے ہیں، اور یوں قہر الٰہی کے اظہار میں پیہم مصروف ہیں۔ یہاں ان ارواح رذیلہ کا بسیرا ہے جنہوں نے ملک و ملت سے غداری کی اور جنہیں دوزخ نے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مرشد رومی بتاتے ہیں کہ یہیں بنگال کا میر جعفر اور دکن کا صادق اپنے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہاں شاعر رومی کی زبان سے یوں گویا ہے: جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ آدم ننگ دین ننگ وطن اس کے بعد ان دونوں غداروں کو ایک نہایت مہیب اور وحشت ناک فضا میں دکھایا گیا ہے۔ شاعر کی آنکھوں کے سامنے ایک خونیں سمندر پھیلا ہوا ہے، جس میں طوفان پر طوفان اٹھ رہا ہے۔ ہوا میں سانپ پھن پھیلائے ہوئے ہیں۔ اس سمندر کی ہلاکت خیز موجوں کی گونج اور گرج کے خوف سے نہنگ کناروں پر تڑپنے لگے ہیں۔ یہاں ساحل پر بھی امان نصیب نہیں، کیونکہ ہر لحظہ پہاڑوں کے تودے اس خوفناک سمندر میں گر رہے ہیں۔ طوفانوں کی یلغار اور گرجتی اور بپھرتی ہوئی موجوں کے درمیان ایک کشتی ہچکولے کھا رہی ہے جس میں دو آدمی بیٹھے ہیں۔ دونوں کے چہروں پر موت کی پیلاہٹ ہے۔ اتنے میں آسمان پھٹ جاتا ہے اور ایک حور نمودار ہوتی ہے۔ اس کے ماتھے پر نور جاوداں اور اس کی آنکھوں میں سرور جاوید ہے۔ اس کا جسم گلاب کی پتیوں سے بنا ہے، اور اس کا حریری لباس تار سحاب سے بھی نازک تر ہے۔ اس بے پناہ حسن و جمال کے باوجود اس کے گلے میں طوق پڑے ہیں اور وہ آہ و بکا کر رہی ہے۔ پیر رومی بتاتے ہیں یہ روح ہند ہے، اور اپنی قید و بند پر نالہ و شیون کر رہی ہے، وہ تڑپ رہی ہے کہ آزادی کی سحر کب طلوع ہو گی۔ پھر وہ بیتاب ہو کر رکہتی ہے کہ جعفر تو مر گیا لیکن اس کی روح اب بھی زندہ ہے۔ اس کے بعد اس نازک بدن حور کی زبان سے علامہ اپنے دور کے غداروں پر طعن و تشنیع کے تیر برساتے ہوئے کلام کو یوں ختم کرتے ہیں: ملتے را ہر کجا غارت گریست اصل او از صادقے یا جعفریست الامان از روح جعفر الامان الامان از جعفران این زمان کشتی پر سوار ان دو ارواح خبیثہ میں سے ایک یوں فریاد زن ہوتی ہے کہ ہمیں نہ عدم نے قبول کیا ہے اور نہ وجود نے ہم دوزخ کے دروازے پر گئے مگر اس نے ہم پر چنگاری تک نہ برسائی اور کہا تو یہ کہ دوزخ اس خس و خاشاک سے پاک رہنا چاہتا ہے۔ ہم آسمان کے اس طرف مرگ ناگہاں کے پاس پہنچے تو اس نے بھی یہ کہہ دیا کہ غدار کی جان کو موت کی آسودگی حاصل نہیں ہو سکتی، لیکن اس شخص کی آہ و بکا اور منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جب وہ پکارتا ہے کہ کیا غدار کا کوئی خدا نہیں تو ایک صدائے ہولناک بلند ہوتی ہے جس سے سمندر کا سینہ چاک چاک ہو جاتا ہے۔ پہاڑ ہوا میں اڑنے لگتے ہیں اور آپس میں ٹکراتے ہیں۔ بجلیاں اس خونیں سمندر میں پناہ ڈھونڈنے لگتی ہیں۔ موجوں کے شور اور گرج میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پہاڑ اور وادی و دشت طوفان خیز سمندر کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ستاروں کے قافلے نے بے رخی سے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ فلک زحل کے سفر کے ساتھ افلاک کا یہ سفر ختم ہو جاتا ہے۔ اب شاعر افلا ک کے اس طرف بڑھتا ہے۔ اس جہان کی سرحد پر اسے ایک شخص نظر پڑتا ہے جو درد ناک لہجے میں ایک شعر بار بار پڑھ رہا ہے: نہ جبریلے نہ فردو سے نہ حورے نہ خداوندے کف خاکے کہ می سوزد ز جان آرزومندے اس کی آنکھیں عقاب سے زیادہ تیز ہیں اور اس کے چہرے پر اس کی سوز جگر کی آب و تاب ہے۔ شاعر رومی سے پوچھتا ہے، یہ دیوانہ کون ہے؟ پیر رومی ٹوکتے ہیں کہ یہ دیوانہ نہیں، جرمنی کا حکیم فرزانہ نیتشے ہے۔ اس کا مقام ان دونوں جہانوں کے درمیان ہے، اور یہ اب تک اپنا پرانا نغمہ الاپ رہا ہے۔ اس حلاج بے دار و رسن نے پرانی حقیقتیں ایک نئے انداز میں بیان کی ہیں۔ اس کے الفاظ بے باک اور اس کے افکار عظیم ہیں۔ یہ جس چیز کی تلاش میں ہے وہ مقام کبریا ہے، مگر یہ مقام عقل و حکمت سے ماوراء ہے۔ کاش یہ احمد سرہندی (حضرت مجدد الف ثانیؒ ) (1624/1034) کے زمانے میں پیدا ہوا ہوتا تاکہ اسے جس سرمدی سرور کی جستجو ہے اسے مل جاتا۔ اس کی عقل خود اپنے ساتھ ہم کلام ہے۔ اسے اپنے حال میں مگن رہنے دو، اور آگے بڑھتے چلو۔ اس کے بعد شاعر رومی کی معیت میں باغ بہشت میں پہنچتا ہے اور اس کی رعنائیوں میں کھو جاتا ہے۔ یہ نور و حضور کی ایک لازوال دنیا ہے جس کے جمال و کمال میں ہر لحظہ تغیر واقع ہو رہا ہے۔ شاعر یہاں کی کیف آفرین فضا سے مسحور ہے کہ مرشد رومی اسے جھنجھوڑتے ہیں کہ تم رنگ رنگ کے جو قصر دیکھ رہے ہو ان کی بنیاد خشت و سنگ پر نہیں بلکہ یہ اعمال پر ہے۔ اچھے کام اپنی تجلی سے بہشت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ جسے تو نے کوثر اور حور و غلماں کا نام دیا ہے وہ اس عالم جذب و سرور کی ضیا پاشیاں ہیں۔ یہاں بہشت میں شاعر شرف النساء کا محل دیکھتا ہے۔ یہ خاتون پنجاب کے حاکم عبدالصمد کے بیٹی تھی۔ اس کی زندگی سراپا ذوق و شوق تھی۔ وہ ایک لمحہ بھی تلاوت قرآن سے فارغ نہیں رہتی تھی۔ اس کی کمر میں شمشیر لٹکی رہتی تھی۔ اس نے وصیت کی تھی کہ مجھے تیغ و قرآن کے ساتھ دفن کیا جائے، کیونکہ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی محافظ اور زندگی کی محور ہیں۔ اس محل کو دیکھنے کے بعد شاعر کی ملاقات مشہور صوفی بزرگ سید علی ہمدانی (1385/786) اور کشمیر کے معروف شاعر طاہر غنی کشمیری (1661/1072) سے ہوتی ہے۔ سید علی ہمدانی جو کشمیر میں شاہ ہمدان کے نام سے مشہور ہیں۔ سرینگر میں مدفون ہیں۔ شاعر ان سے گردش زمانہ کا شکوہ کرتا ہے اور اہل کشمیر کی حالت زار کا دکھڑا روتا ہے۔ یہاں شاعر نے کشمیر کے حسین اور دلفریب مناظر کی لاجواب تصویر کھینچی ہے۔ اس پس منظر میں کشمیر کی بد نصیبی اور محرومی کا ذکر بہت حسرت و رنج کے لہجے میں کیا ہے جو اس شعر پر ختم ہوتا ہے: دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند قومے فروختند و چہ ارزان فروختند حقیقت یہ ہے کہ یہ اشعار کشمیر کی قسمت پر ایک پر سوز اور دل گداز نوحہ ہیں۔ پھر شاہ ہمدان سے تن اور جان کے ربط اور ان کی نوعیت پر گفتگو ہوتی ہے۔ خودی کی تعریف شاہ ہمدان کی ز بان سے ایک نہایت خوبصورت تشبیہہ میں کی گئی ہے: جلوہ مستی؟ خویش را دریافتن در شبان چون کو کبے بر تافتن شاہ ہمدان اور غنی سے سوال و جواب کے بعد پیر رومی کی وساطت سے شاعر کی ملاقات قدیم ہندوستانی شاعر برتری بری سے ہوتی ہے۔ پیر رومی اس کی فطرت کو ابر بہار سے تشبیہہ دیتے ہیں، اور اسے کارگاہ حیات کا محرم سمجھتے ہیں۔ شاعر سے گفتگو کے دوران میں برتری بری شعر و زندگی پر اپنے افکار کا یوں اظہار کرتا ہے: جان مارا لذت اندر جستجوست شعر را سوز از مقام آرزوست اس گفتگو کے دوران میں شاعر نے اس قدیم ہندی صاحب دل کی زبان سے ایک غزل کہلوائی ہے جو دراصل اسی کے اشعار کا ترجمہ ہے۔ اس میں برتری ہری نے عبادت اور زندگی کے بارے میں یوں کہا ہے: سجدہ بے ذوق عمل خشک و بجائے نرسد زندگانی ہمہ کردار چہ زیبا و چہ زشت برتری ہری سے ملاقات کے بعد شاعر سلاطین مشرق کے محلات کی سیر کرتا ہے۔ یہ تین سلاطین نادر شاہ افشار (1747/1160-1736/1148) احمد شاہ ابدالی (1773/1187 - 1747/1160) اور سلطان ٹیپو شہید (1799/1213 -1782/1197)ہیں سلطان شہید کی شخصیت پر رومی کا تبصرہ حسب ذیل ہے: آن شہیدان محبت را امام آبروئے ہند و چین و روم و شام نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاک قبرش از من و تو زندہ تر عشق رازے بود بر صحرا نہاد تو ندانی جان چہ مشتاقانہ داد از نگاہ خواجہؐ بدر و حنین فقر سلطان وارث جذب حسینؓ نادر شاہ شاعر سے ایران کا حان پوچھتا ہے اور شاعر ایران کے جدید تصورات وطنیت اور تقلید فرنگ پر اظہار افسوس کرتا ہے۔ شاعر احمد شاہ ابدالی کی زبان سے بھی مغرب کی اندھا دھند تقلید پر کڑی سرزنش کرتا ہے۔ ابدالی اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز چنگ و رباب، نیم عریاں لباس یا بے حجابانہ رقص میں نہیں بلکہ اس کی قوت کی بنیاد علم و فن پر ہے۔ اہمیت لباس کی نہیں نگاہ کی ہے۔ قوت اور ترقی کا سرچشمہ فکر چالاک اور طبع دراک ہے۔ ابدالی ترکیہ کی فرنگ مآبی پر بھی افسوس و غم کا اظہار کرتا ہے۔ شاعر دودمان پہلوی کے بانی رضا شاہ (1941/1921) اور افغانستان کے حکمران نادر شاہ (1933/1929) کے عزم کو سراہتا اور تقدیر مشرق کے بنانے میں ان کے کردار کو اہم قرار دیتا ہے۔ آخر میں سلطان شہید شاعر سے ہم کلام ہوتا ہے۔ شاعر سلطان کو یقین دلاتا ہے کہ اس کی ملت سحر و افسونگ فرنگ سے محفوظ ہے۔ سلطان شہید خودی کی عظمت اور اہمیت پر زور دیتا ہے۔ شاعر کی گرمی اشعار کو ہدیہ عقیدت پیش کرتا ہے، اور اس کے ذریعے دریائے کاویری کو ایک پیغام دیتا ہے۔ اس روح پرور پیغام میں سلطان شہید نے انقلاب کو زندگی کا سرمایہ اور تغیر اور سفر کو زندگی کا اٹل قانون بتایا ہے۔ مردوں کی شان آسمان کی وسعتوں میں مہر جہاں تاب کی طرح چمکتا ہے۔ زندگی شاہین کی طرح جینے اور شاہین کی طرح مرنے کا نام ہے۔ اس کے بعد شاعر نے سلطان شہید کا مشہور قول دہرایا ہے: زندگی را چیست رسم و دین و کیش یک دم شیری بہ از صد سال میش سلطان شہید موت کے فلسفہ پر اپنے مجاہدانہ تصورات کا اظہار کرتے ہوئے شہادت کو انتہائے راہ شوق کا نام دیتا ہے: آن دگر مرگ! انتہائے راہ شوق آخرین تکبیر در جنگاہ شوق! گرچہ ہر مرگ است بر مومن شکر مرگ پور مرتضیٰؓ چیزے دگر اور آخر میں جہاد کے فلسفہ پر یوں اظہار خیال کرتا ہے: جنگ مومن چیست؟ ہجرت سوئے دوست ترک عالم اختیار کوئے دوست آنکہؐ حرف شوق با اقوام گفت جنگ را رہبانی اسلام گفت کس نداند جز شہید این نکتہ را کو بخون خود خرید این نکتہ را سلطان شہید کی باتیں شاعر کے صبر و سکون کو لوٹ لیتی ہیں اور اس پر ایک وجد آفریں کیفیت طاری ہو جاتی ہے، لیکن پیر رومی اس کے کان میں چلنے کو کہتے ہیں۔ شاعر اس حدیث شوق کی یاد دل میں لیے باغ بہشت سے رخصت ہوتا ہے کہ حوروں کا ہجوم اس کا راستہ روک لیتا ہے۔ وہ اس صاحب سوز سرود سے کچھ سننے کے لیے بیتاب ہیں۔ شاعر ذوق سفر سے سرشار اگلی منزل کے لیے بیقرار ہے، مگر حوروں کے زبردست اصرار پر اسے ایک غزل سنانا پڑتی ہے۔ اس کے بعد شاعر حور و قصور سے آگے بڑھتا ہے، اور بحر نور میں کھو جاتا ہے۔ اس کی نظریں سرچشمہ جمال پر لگی ہیں۔ زندگی ایک نغمہ بن کے اس کے سامنے ڈھل رہی ہے۔ عشق اس کی جان بے قرار کو لذت دیدار کے ساتھ ساتھ جرأت گفتار بھی عطا کر رہا ہے، اور وہ زندگی کی ناہمواریوں کے خلاف یوں آواز اٹھاتا ہے۔ طاقتور عیش و طرب میں گم ہیں اور مغلوب رنج و غم میں ایک ایک لمحہ گن گن کر گزار رہے ہیں۔ ملوکیت نے تیری دنیا کو روند ڈالا ہے۔ سورج کی روشنی میں بھی الم کے سائے ہیں۔ دانش افرنگ کا کام غارت گری ہے لا الہ کہنے والے کی فکر لامرکزیت کی وجہ سے پراگندہ ہے۔ سود خوار حکمران، ملا اور پیر چار موت کے سائے ہیں جو اس پر پیہم منڈلا رہے ہیں۔ خدایا یہ جہان تیرے شایان شان نہیں۔ یہ خاک دان تیرے دامن کا داغ بن کے رہ گیا ہے۔ سرچشمہ جمال کی طرف سے ندا آتی ہے کہ زندگی فانی بھی ہے اور جادواں بھی۔ زندگی کا راز مشتاقی اور خلاقی میں ہے۔ اگر زندہ ہے تو ہماری طرح آفاق پر چھا جا۔ ہر ناسازگار شے کو پارہ پارہ کر دے، اور جہان نو کی تعمیر کر۔ جو قوت تخلیق سے محروم ہے وہ ہماری نظر میں کافر و زندیق ہے۔ شمشیر بران بن اور اپنی دنیا کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لے۔ شاعر کے مزید سوالات کے جواب میں ندائے جمال توحید اور تجلی پر زور دیتی ہے۔ روح ملت کی حقیقت بتاتی ہے۔ فرد اور ملت کے ربط کی وضاحت کرتی ہے اور وحدت افکار و کردار کی تخلیق کو صاحب نگیں ہونے کے لیے لازم قرار دیتی ہے۔ شاعر جمال مطلق سے ابدیت کی آرزو کرتا ہے، تو جواب ملتا ہے کہ زندگی جادواں چاہتا ہے تو اپنی خودی کو ظاہر کر اور عالم چار سو کو اپنے اندر جذب کر لے۔ پھر تجھے اپنی اور خود میری حقیقت کا صحیح ادراک ہو جائے گا۔ شاعر اب جمال مطلق سے تقدیر کے چہرے سے پردہ اٹھانے اور اس پر مشرق و مغرب کے اسرار وا کرنے کی التجا کرتا ہے۔ لیکن اب ندائے جمال کی بجائے شاعر پر تجلی جلال گرتی ہے، اور اچانک وہ اپنے آپ کو دوبارہ اپنی دنیا میں پاتا ہے۔ زمین و آسمان شفق آسا نور میں کھو گئے ہیں۔ برق تجلی نے کلیم اللہ کی طرح شاعر کو جلوہ حسن سے مدہوش کر دیا ہے، اور حسن نے تمام پردے اٹھا دئیے ہیں، مگر شاعر سے تاب گفتار چھین لی ہے۔ ضمیر کائنات سے ایک پر سوز نغمہ سنائی دے رہا ہے اور اس نغمے کے ساتھ ساتھ شاعر کا یہ کائناتی سفر ختم ہو جاتا ہے۔ نغمہ کے اشعار یہ ہیں: بگذر از خاور و افسوئی افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ابن ہمہ دیرینہ و نو آں نگینے کہ تو با اہرمنان باختہ ای ہم بجبریل امینے نتوان کرد گرو زندگی انجمن آرا و نگہدار خود است اے کہ در قافلہ ای بے ہمہ شو باہمہ رو تو فروزندہ تر از مہر منیر آمدہ ای آنچنان زی کہ بہ ہر ذرہ رسائی پر تو چون پر کاہ کہ در رہگذر باد افتاد رفت اسکندر و دارا و قباد و خسرو از تنک جامی تو میکدہ رسوا گردید شیشہ گیر و حکیمانہ بیاشام و برو کتاب کے آخر میں ’’ خطاب بہ جاوید۔ سخنے بہ نژاد نو‘‘ کے نام سے شاعر مشرق نے چند صفحات میں اپنے فرزند عزیز جاوید (ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال) سے خطاب کیا ہے اور اسے زندگی کے حقائق سمجھائے ہیں۔ بہ خطاب صرف جاوید ہی کے نام نہیں بلکہ پوری نئی نسل کے نام ہے۔ اس میں سب سے پہلے ذوق نگاہ اور لا الہ کو قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کی تلقین کی ہے۔ بتایا ہے کہ مادیت کا سیل بے پناہ دین، سیاست، علم و فن اور عقل و دل کو بہا کے لے گیا ہے۔ ایشیا جو روشنی کا منبع تھا، دوسروں کی طرف تک رہا ہے اور خود اپنے آپ سے حجاب میں ہے۔ اس کی زندگی حرکت، حرارت اور ذوق عمل سے محروم ہے۔ اس کی عقل،دین، دانش، ناموس و ننگ سب مغرب کے غلام ہیں۔ آج کے نوجوان کی روح تاریک ہے۔ وہ کم نگاہ، بے یقین اور نا امید ہے۔ مکتب اپنے مقصد سے غافل ہے۔ جذب اندرون تک اس کی رسائی نہیں۔ اس نے روح کو نور فطرت سے پوری طرح محروم کر دیا ہے اور ا س نے شاہین میں خوئے بط پیدا کر دی ہے۔ علم سوز حیات سے خالی اور دل لذت واردات سے محروم ہے۔ حفظ جاں کے لیے ذکر و فکر اور حفظ تن کے لیے ضبط نفس کی ضورت ہے۔ حفظ جان و تن کے بغیر حاکمیت ممکن نہیں۔ خودی کا احساس و شعور زندگی کی بنیادی شرط ہے۔ خودی کا منکر علامہ کے نزدیک منکر حق سے بڑا کافر ہے۔ صدق مقال، اکل حلال اور جفا کشی زندگی میں حسن اور پاکیزگی کا جوہر ہے: اس سے مراد انسان کا احترام ہے۔ درد دل دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ علامہ نے مال و دولت کی افراط سے بیزاری کا اظہار کیا ہے کہ یہ نیاز کا خاتمہ کرتی ہے اور اس کی جگہ نخوت کو جنم دیتی ہے۔ شاعر مشرق کو اپنے دور کے مسلمانوں سے ذوق و شوق اور یقین و ایمان سے محرومی کی شکایت ہے۔ عالم و صوفی کی روح دین سے عاری ہے مغرب زدہ مسلمان دین کے رموز سے ناواقف ہے اور خواص کے ہاں خیر و خوبی کا فقدان ہے۔ البتہ عوام میں صدق و صفا کی دولت موجود ہے۔ مرد حق جو مشرق و مغرب کو ہلا کے رکھ دیتا ہے ناپید ہے۔ پیر رومی کو رفیق راہ بنانے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ دل سوز و گداز کی دولت سے معمور ہو اور زندگی کی صحیح اقدار واضح ہوں۔ رومی کے سوز و ساز اور ذوق و شوق کو اپنانے کی خواہش و نصیحت کے ساتھ ساتھ جاوید نامہ ختم ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ پس چہ باید کرد مع مسافر اس مثنوی کے دو حصے ہیں یعنی ’’ مسافر‘‘ اور’’ پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق‘‘ شاہ افغانستان نادر شاہ مذہبی اور تعلیمی امور میں برصغیر کے ممتاز فضلا اور ماہرین تعلیم کا مشورہ چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے علامہ، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کو کابل آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ 21 اکتوبر1933ء سے 2نومبر1933ء تک علامہ کا قیام افغانستان میں رہا۔ ’’ مسافر‘‘ افغانستان کے دوران قیام کی یادگار ہے۔ ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کی شان تصنیف یہ ہے کہ جس زمانے میں علامہ اپنے علاج کے لیے بھوپال تشریف لے گئے تھے ایک رات سر سید احمد خاں سے خواب میں ملاقات ہوئی۔ سید نے ان سے کہا کہ اپنی علالت کا ذکر حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں نہیں کرتے۔ جب آنکھ کھلی تو یہ شعر ورد زبان تھا: با پرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز پھر چند اشعار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے۔ اس کے بعد علامہ برصغیر اور خارجی ممالک کے سیاسی اور اجتماعی حالات پر اپنے تاثرات کا اظہار اشعار کی صورت میں کرتے رہے اور بالآخر ان اشعار نے ایک مستقل مثنوی کی شکل اختیار کر لی۔ جس کا نام ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ قرار پایا۔1؎ ’’ مسافر‘‘ پہلے آرٹ پیپر پر الگ شائع ہوئی۔ پھر دونوں مثنویات 1936ء میں ’’ مثنوی پس چہ باید کرد مع مسافر‘‘ کے نام سے چھپیں۔ یہ مثنویات حجم کے اعتبار سے سابق مثنویوں کے مقابلے میں بہت مختصر ہیں لیکن علامہ کے آخری عمر کے پختہ افکار اور گہری بصیرت سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بقول صاحب ’’ روزگار فقیر‘‘ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے ایک دفعہ علامہ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی ساری شاعری جسم ہے اور مثنوی ’’ پس چہ باید کرد‘‘ اس کا دل موصوف کا بیان ہے کہ میری بات پر علامہ اس انداز سے مسکرائے جیسے کسی نے دل کی بات کہہ دی ہو۔2؎ مسافر ابتدا میں علامہ نے شاہ افغانستان کی دعوت کا ذکر کیا ہے۔ جس میں انہوں نے علامہ سے ملاقات کے اشتیاق کا یوں اظہار کیا تھا: سوختیم از گرمی آواز تو اے خوشا قومے کہ داند راز تو اے باغوش سحاب ما چو برق روشن و تابندہ از نور تو شرق یک زمان در کہسار ما درخش عشق را باز آن تب و تالے بہ بخش اس کے بعد سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اہل سرحد سے خطاب ہے جس میں شاعر دین اسلام کے رموز اور اسرار زندگی بیان کرتاہے۔ دل کی مستی اور دین کی حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے۔ انہیں صیاد مہر و ماہ ہونے کی دعوت دیتا ہے اور مقام ذوق و شوق اور لذت آرزو سے آشنا کرتا ہے جو تعمیر شخصیت اور استحکام خودی کا وسیلہ ہیں۔ دوسرے باب میں کابل پہنچنے اور بادشاہ سے ملاقات کرنے کا ذکر ہے۔ سفر کے بیان میں بعض جگہ علامہ کے قلم نے نقاشی کے حسین نمونے پیش کیے ہیں۔ بادشاہ سے ملاقات کے دوران میں علامہ اسے قرآن عظیم بطور تحفہ دیتے ہوئے ام الکتاب کا ذکر یوں کرتے ہیں: گفتم این سرمایہ اہل حق است در ضمیر او حیات مطلق است اندرو بر ابتدا و انتہا ست حیدرؓ از نیروئے او خیبر کشاست اور اس ملاقات میں بادشاہ کی اقتدا میں نماز عصر ادا کرتے ہیں۔ بابر (1530/937-1526/932) کے مزار کو دیکھنے پر شاعر کے تاثرات ایک غزل کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔ لیکن اس عظیم فاتح کے مرقد پر شاعر کے ذہن میں جدید اسلامی سیاست اور اس کے ساتھ ساتھ مغربی استعمار کی چیرہ دستیوں کے نقوش ابھرتے ہیں۔ شاعر کو اس احساس سے ایک گونہ مسرت ہوتی ہے کہ یہ سر زمین طلسم فرنگ سے آزاد ہے۔ غزل کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں: بیا کہ ساز فرنگ از نوا بر افتاد است درون بردۂ او نغمہ نیست فریاد است زمانہ کہنہ بتان را ہزار بار آراست من از حرم نگذشتم کہ پختہ بنیاد است خوشا نصیب کہ خاک تو آرمید اینجا کہ آین زمین ز طلسم فرنگ آزاد است غزنی پہنچنے پر شاعر کی چشم تخیل سلطان محمود (1030/421-998/388) کا زمانہ دیکھتی ہے، جب یہ شہر حریم علم و فن تھا۔ اسی خاک میں عظیم صوفی شاعر حکیم سنائی محو خواب ہے۔ شاعر اس صاحبدل کے مزار پر حاضری دیتا اور ذوق حضور سے لذت یاب ہوتا ہے۔ یہاں وہ حکیم غزنوی اور اپنے درمیان ایک گونہ مماثلت کا احساس کرتا ہے: او نقاب از چہرۂ ایمان کشود فکر من تقدیر مومن وا نمود پھر اس برگزیدہ ہستی کے ساتھ دور حاضر کے مسائل، فرنگ کے ہاتھوں حرم میں فتنوں کے ظہور اور جلوۂ فرنگ سے چشم مسلمان کی خیرگی کا حسرت آمیز ذکر آتا ہے اور شاعر اس دانائے اسرار سے رہنمائی کا طلبگار ہوتا ہے۔ حکیم سنائی کے جواب کا آغاز اس فقر کی عظمت سے ہوتا ہے جو نور خودی سے اللہ کو دیکھتا ہے۔ وہ عشق کی متاع گرانبہا کی اہمیت واضح کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو عشق و مستی کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ دین و دل کے باہمی ربط پر اظہار خیال کرتے ہیں اور آخر میں ایک نئے آدم کی تخلیق اور ایک نئی بہار کی نوید دیتے ہیں۔ اگلی منزل سلطان محمود کا مزار ہے یہ وہ جہانکشا تھا جس کی شمشیر آبدار میں بجلیوں کی تڑپ تھی اور جس کی افواج قاہرہ سے دشت و در لرزتے تھے۔ یہاں شاعر جہان چشم و گوش سے دور ایک تابناک سحر میں پہنچ جاتا ہے جس میں شہر غزنی بہشت رنگ و بو بن کر اس کی آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے۔ یہاں کاخ و کو میں نہریں نغمہ خواں ہیں۔ محمود کی بزم سجی ہے۔ نکتہ سنج طوس حکیم فردوسی بزم آرا ہے۔ پھر وہ محمود کے لاؤ لشکر کا نظارہ کرتا ہے۔ وہ عہد گذشتہ کے یہ مناظر دیکھنے میں محو ہے کہ دفعتہ ایک شوریدہ سر سوز و سرود کے عالم میں ایک نغمہ الاپتا ہے۔ وہ اپنے خدا سے محو گفتگو ہے اور زندگی، موت اور گردش زماں پر افکار کے گوہر بکھیر رہا ہے۔ وہ اہل دل کی تمناؤں کی شکست پر نالہ کناں ہے اور خدا سے شکوہ کرتا ہے کہ اس کی نظر کرم صرف لالہ رویان فرنگ پر ہے۔ مرد حق جسے اس نے اپنا نائب بنایا تھا فقرہ و فرزند و زن کے بندھن میں الجھ کے رہ گیا ہے۔ وہ روزمگاہ زندگی میں ناکام ہے اور اس نے ہوس و آڑ کے طرح طرح کے بت تراش رکھے ہیں۔ پھر وہ اس کے لیے خدا سے جذب درون کی بھیک مانگتا ہے۔ اس کے دم سے ایسی طلوع سحر کا متمنی ہے جو عالم مشرق کو جگمگا دے، اور اس کے لیے ایسے شکوہ کا آرزو مند ہے جو کوہ و دشت کو لرزہ بر اندام کر دے۔ غزنی کے بعد شاعر قندھار پہنچتا ہے۔ یہاں کے کوہستانی مناظر اسے متاثر کرتے ہیں وہ ان کے شکوہ کی اثر آفرین تصویر کھینچتا ہے اور خرقہ مبارک کی زیارت کے بعد مندرجہ ذیل وجد آور غزل کہتا ہے جس میں جوش و مستی کی فراوانی ہے: از دیر مغان آیم بے گردش صہبا مست در منزل لا بودم از بادۂ الا مست دانم کہ نگاہ او ظرف ہمہ کس بیند کرد است مرا ساقی از عشوہ و ایما مست وقت اس کہ بکشایم میخانہ رومی باز پیران حرم دیدم در صحن کلسیا مست ایں کار حکیمے نیست دامان کلیمے گیر صد بندۂ ساحل مست، یک بندۂ دربا مست دل را بچمن بردم از باد چمن افسرد میرد بہ خیابانہا این لالہ صحرا مست از حرف دلاویزش اسرار حرم پیدا دی کافر کے دیدم در وادی بطحا مست سینا است کہ فاران است؟ یا رب چہ مقام است این؟ ہر ذرہ خاک من چشمے است تماشا مست غزل کے بعد مثنوی کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ شاعر عظمت رسولؐ کا ذکر اور عشق رسولؐ میں اپنے دل بیتاب کی کیفیتیں بیان کرتا ہے۔ اور وہ دل کی اس مستی اور وارفتگی کو حاصل حیات قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد شاعر احمد شاہ ابدالی یا احمد شاہ بابا کے مزار پر حاضری دیتا ہے۔ یہاں پہنچ کر اس کا ذہن فوراً گرمی ہنگامہ اور استحکام خودی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور وہ ملت کے لیے پہلی سی شان و شوکت کی بیتاب تمنا کا اظہار کرتا ہے۔ مثنوی کے آخری حصے میں سابق شاہ افغانستان ظاہر شاہ سے خطاب ہے، جس میں حکیم الامت نے بادشاہ کو زندگی کی حقیقت، مرد مومن کی صفات، قرآن کی عظمت، عشق کی ہمہ گیری، علم و حکمت کی اہمیت، تہذیب مغرب کی بعض بنیادی اقدار حیات سے محرومی اور خود اپنی ذات سے متعارف کیا ہے۔ یہاں مرد مومن کو صاحب امروز و فردا کے نام سے یاد کیا گیا ہے: ہر کہ خود را صاحب امروز کرد گرد او گردد سپہر گرد گرد مرد حق سرمایہ روز و شب است زانکہ او تقدیر خود را کوکب است شاعر مومن کے لیے کراری کی صفت لازم قرار دیتا ہے اور آل عثمان اور مسلم ہندی کے زوال کا سبب اسی صفت سے محرومی ٹھہراتا ہے وہ قرآن کی عظمت اور قرآنی حقائق کی وسعت، گہرائی اور صداقت کے بارے میں یوں لب کشا ہے: صد جہان باقیست در قرآن ہنوز اندر آیاتش کمے خود را بسوز بر خور از قرآن اگر خواہی ثبات در ضمیرش دیدہ ام آب حیات اس کی نظر میں ذوق و شوق اور علم و حکمت مومن کی میراث ہیں وہ قرآن کو مسلمان کے لیے جمال اور حکمت کو جلال سے تعبیر کرتا ہے، اور اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ دانش و حکمت فرنگ زاد نہیں بلکہ یہ لذت ایجاد کا کرشمہ ہے اور مسلمان کی وساطت سے مغرب تک پہنچی ہے۔ حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصل او جز لذت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلمان زادہ است این گہر از دست ما افتادہ است چون عرب اندر اروپا پرکشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آن صحرا نشینان کاشتند حاصلش افرنگیان برداشتند آخر میں علامہ اپنے دل کی تب و تاب، آہ صبح گاہی، جذبہ عشق اور حرف پر سوز کا ذکر کرتے ہیں اور ا س کے ساتھ مثنوی ختم ہو جاتی ہے: خاوران از شعلہ من روشن است اے خنک مردے کہ در عصر من است از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد ازین ناید چو من مرد فقیر ’’ مسافر‘‘ میں یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ علامہ نے یہاں اپنے سفر کی جزئیات یا مشاہدات و تاثرات کا ذکر نسبتاً کم کیا ہے۔ اس کے بجائے وہ ہر مقام پر اپنے افکار کے اظہار و ابلاغ کی کوشش کرتے ہیں اور ہر واقعہ کو اپنے فلسفہ زندگی کی ترجمانی کا وسیلہ بناتے ہیں۔ محمود غزنوی کا مزار ہو یا احمد شاہ درانی کا، حکیم سنائی کا مرقد ہو یا فرمانروائے سلطنت سے خطاب، مقصد ان اقدار و حقائق زندگی کا ابلاغ ہے جو فرد یا ملت کی خودی کے اثبات و استحکام اور ملت کی تشکیل نو اور عظمت رفتہ کے حصول کے لیے ضروری ہیں، اور جن کے سمجھنے سے ان کا مخاطب یا قاری اپنی ذات کی حقیقت اور امکانات سے پوری طرح واقف ہو سکتا ہے۔ بس چہ باید کرد اے اقوام شرق جوں جوں زمانہ گزرتا گیا علامہ کے کلام میں دینی اور قرآنی حقائق کے اظہار کا رحجان بڑھتا گیا۔ مذکورہ دونوں مثنویوں بالخصوص ’’ پس چہ باید کرد‘‘ میں ملی جہت کا تعین بہت روشن ہے۔ مثنوی کی ابتدا میں ’’ بخوانندہ کتاب‘‘ کے نام سے جو اشعار کہے گئے ہیں ان کا آغاز یوں ہوتا ہے: سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است تمہید میں پیر رومی کا ذکر ہے جن کے زندگی بخش پیغام نے پھر شاعر کے جذبات میں ہیجان پیدا کیا ہے۔ اس دور میں کہ مشرق خواب گراں سے بیدار ہو گیا ہے۔ پیر رومی کا شاعر سے تقاضا ہے کہ وہ فرنگ کا رمز شناس ہونے کے باعث خلیل کے مانند بتخانہ کہن کا طلسم پاش پاش کر دے۔ ان کی نظر میں مشرق کی نجات کے لیے جذب دروں کی ضرورت ہے جسے کم نظر جنون کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جذب دروں کے بغیر کسی قوم نے آج تک کوئی معرکہ انجام نہیں دیا۔ عصر حاضر رمز جاں سے بھی آگاہ نہیں ہے اور وہ مادیت کے چنگل میں گرفتار ہے۔ اس پر دین و سیاست کے حقائق اور خودی کے اسرار و منکشف کرنا ایک مقدس فریضہ ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ شاعر کی ہمت یوں بڑھاتے ہیں: قلزمی؟ با دشت و در پیہم سیتز شبنمی؟ خود را بہ گلبرگے بریز پیر رومی کے ان الفاظ سے شاعر میں ایک نیا ولولہ ابھرتا ہے وہ ’’ خطاب بہ مہر عالمتاب‘‘ کے تحت کہ آفتاب مشرق کی علامت ہے، عالم شرق کے افکار کی تاریک رات کو روز روشن میں بدلنے اور مشرق کے آزادی خواہوں میں ایک نئی روح پھونکنے کا عزم کرتا ہے۔ اس کی نظر میں مشرق کی سوچ کو فرنگ کے اثرات سے پاک کرنا آزادی کی شرط اولین ہے۔ آزادی فکر کے بغیر حریت نقش بے آب ہے کہ فکر کی غلامی سے قوموں کی اقدار پامال ہو جاتی ہیں: پس نخستین بایدش تطہیر فکر بعد ازان آسان شود تعمیر فکر اگلا عنوان ’’ حکمت کلیمی ‘‘ ہے جس میں نبوت کی اہمیت کا بیان ہے۔ نبوت انقلاب آفرین پیغام ہے جو سلطانی و شاہی کو ٹھکرا دیتا ہے۔ یہ زمانے کو ایک نئی زندگی کے ولولے سے سرشار کرتا ہے، اور اس پر الوہیت کے راز منکشف کرتا ہے۔ نبوت انقلاب آفریں ہی نہیں ملت آفریں بھی ہے۔ نبی وہ ہستی ہے جو تخت و تاج سے بے نیاز ہے۔ اس کی آہ صبحگاہی میں ایک نئی زندگی اور اس کی صبح نمود سے کائنات میں ایک نئی تازگی آتی ہے۔ حکمت کلیمی عاجزوں اور بینواؤں کو زندگی کا پیغام سناتی ہے اور انہیں پر پرائے معبود کا نام و نشان مٹانے کی تعلیم دیتی ہے۔ نبوت کی حکمت کا ذکر کرنے کے بعد شاعر بندۂ مومن کو اپنا مقام پہچاننے اور اپنی مراد کے مطابق ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ’’ حکمت کلیمی‘‘ کے بعد شاعر نے ’’ حکمت فرعونی‘‘ کے نام سے اس ضابطہ حیات پر اظہار نظر کیا ہے۔ جو محکوم قوموں کی اقدار کو مسخ کر کے ان میں تخریبی میلانات پیدا کرتاہے۔ یہ ’’ حکمت ارباب دین‘‘ کے مقابلے میں ’’ حکمت ارباب کین‘‘ ہے۔ اس کی بنیاد مکر و فن پر ہے اور اس کا ہدف تخریب جاں اور تعمیر تن ہے یہ حکمت مقام شوق سے محروم ہوتی ہے۔ اس کے تحت غلام کی سوچ اپنے آقا کے حسب منشا ڈھل جاتی ہے۔ ملت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور اس کی اخلاقی اقدار بری طرح پامال ہوتی ہیں: ملتے خاکستر او بے شرر صبح او از شام و تاریک تر ہر زمان اندر تلاش ساز و برگ کار او فکر معاش و ترس مرگ از حد امروز خود بیروں نہ جست روز گارش نقش یک فردا نہ بست دین او عہد وفا بستن بہ غیر یعنی از خشت حرم تعمیر دیر حکمت فرعونی ملوکیت کا وہ سفاکانہ نظام ہے جس نے عالم مشرق کو سیاسی، ذہنی اور فکری غلامی میں گرفتار کر کے اقوام مشرق کی روح کو دو نیم کر دیا تھا اور جس کا دلخراش منظر خود علامہ نے اپنی زندگی میں دیکھا۔ ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے تحت شاعر نے کلمہ طیبہ کی تفسیر کی ہے وہ ’’ لا‘‘ اور’’ الا‘‘ دونوں کو احتساب کائنات کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔ دنیا میں آغاز کار حرف’’ لا‘‘ سے ہے۔ یہ مرد خدا کی اولین منزل ہے۔ غیر اللہ کے سامنے ’’ لا‘‘ کہنا زندگی کی دلیل اور کائنات میں ہنگامہ خیزی کی دلیل ہے۔ ’’ لا‘‘ کی انقلاب آفریں کڑک نے لات و منات کو چکنا چور کر دیا اور قیصر و کسریٰ کی عظمت و شوکت کو خاک میں ملا دیا۔ جدید دور سے روس کی مثال دی ہے کہ جب یورپ میں سرمایہ داری اور مزدور کی ٹکر ہوئی تو روس کے ضمیر سے بھی ’’ لا‘‘ کا نعرہ بلند ہو ااور اس نے نظام کہنہ کو تہس نہس کر ڈالا۔ شاعر نے نعرہ ’’ لا‘‘ سے ہر نمرود کو نیست و نابود کرنے کی تلقین کی ہے: ہر کہ اندر دست او شمشیر ’’لا‘‘ ست جملہ موجدات را فرمانروا ست مگر زندگی کا مقام ’’ لا‘‘ میں قرار نہیں ہے اور کائنات’’ الا‘‘ کی طرف محو سفر ہے۔ اگلا عنوان ’’ فقر‘‘ ہے۔ جسے شاعر نے خود شناسی، ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کے نام سے یاد کیا ہے۔ اس کا برگ و ساز قرآن عظیم ہے۔ یہ نان شعیر سے خیبر کو روند ڈالتا ہے۔ اس کے شکوہ بوریا سے سلاطین لرزتے ہیں۔ فقر کی دلنوازی کا نام حکمت دین اور اس کی بے نیازی کا نام قوت دین ہے۔ فقر عریان سے مہر و ماہ کانپ اٹھتے ہیں: فقر عریان گرمی بدر و حنین فقر عریان بانگ تکبیر حسینؓ فقر کی محرومی نے مسلمان کو جلال سے محروم کر دیا ہے۔ شاعر اس قوم پر اظہار تاسف کرتا ہے جس نے میر و سلطان تو پیدا کیے مگر درویش پیدا نہ کیا۔ اس کے بعد برصغیر کے مسلمان کی زبوں حالی کی تصویر کھینچی ہے: از سہ قرن این امت خوار و زبون زندہ بے سوز و سرور اندرون پست فکر و دون نہاد و کور ذوق مکتب و ملائے او محروم شوق اس کے رہنما فرنگ کے مرید ہیں جن کی نظر میں غلامی دین کے لیے باعث رحمت اور زندگی خودی سے محرومی کا نام ہے۔ مگر مسلمانان ہند کا دلخراش تحلیل و تجزیہ کرنے کے بعد بھی شاعر اپنی ملت سے مایوس نہیں ہے اور اس نے قوم کو جو پیغام دیا ہے اس میں تصور و حصول پاکستان کی طرف واضح اور معنی خیز اشارے ملتے ہیں: احتساب خویش کن از خود مرو یک دو دم از غیر خود بیگانہ شو تاکجا این خوف و سواس و ہراس اندرین کشور مقام خود شناس این چمن دارد بسے شاخ بلند بنگون شاخ آشیان خود مبند نغمہ داری در گلو اے بے خبر جنس خود بشناس و با زاغان مپر یہ مملکت آفرین پیغام دینے کے بعد آخر میں خود اپنی فقیرانہ شان کے بارے میں وہی شعر دہرایا ہے جو ظاہر شاہ سے مخاطب ہو کے کہا تھا: از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد ازین ناید چو من مرد فقیر! فقر کے بعد کا موضوع ’’ مرد حر‘‘ ہے، جو فقر کے نظریے کی عملی تفسیر ہے۔ پچھلے باب کی طرح ’’مرد حر‘‘کے تحت بھی تقریباً ہر شعر ایک مستقل فکر کا باب اور بلاغت کا شاہکار ہے۔ مرد حر کی نظر کے سامنے اسرار زندگی بے نقاب ہیں اور اس کی جبین پر تقدیر امم لکھی ہے۔ اپنا اور اس کا مقابلہ یوں کیا ہے: ما کلیسا دوست، ما مسجد فروش! او ز دست مصطفیؐ پیمانہ نوش نے مغان را بندہ نے ساغر بدست ما تہی پیمانہ او مست الست ما ہمہ عبد فرنک او عبدہ، او نگنجد در جہان رنگ و بو فقر اور مرد حر کی تفسیر سے شاعر نے ان بلند اقدار کی نشاندہی کی ہے جن سے زندگی میں حسن، توازن، پاکیزگی اور قوت و عظمت کی تخلیق ہوتی ہے۔ اگلا موضوع’’ در اسرار شریعت‘‘ ہے۔ آغاز میں دولت کی نوعیت سے بحث کرتے ہوئے سرمایہ داری اور سرمایہ دا رکی سفاکانہ روش او رگھناؤنے کردار کی مذمت کی گئی ہے: در حضورش بندہ می نالد چو نے برلب او نالہ ہائے پے بہ پے یورپ حلال و حرام کی تمیز سے قاصر ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کو کھا رہی ہے۔ غریب کی روٹی چھیننا اور انسان کو پھاڑ کھانا تہذیب مغرب کی ادا ہے۔ جب تک موجودہ نظام تہ و بالا نہ ہو گا دانش و تہذیب و دین کی کوئی حقیقت نہ ہو گی۔ شرح کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ بتاتے ہیں کہ شرع زندگی کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے اور اس سے ظلمت کائنات کا فور ہو جاتی ہے۔ یہ زندگی کو ظلم و آزار سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہ حلال اور حرام میں تمیز سکھاتی ہے۔ عدل و تسلیم و رضا کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ انہی صفات سے مرد مومن کی نظر میں دنیوی جاہ و حشمت کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی اور شاہی اس کے مقامات رضا میں پوشیدہ ملتی ہے۔ شریعت نبیؐ کو سمجھ کر انسان بلندی کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچتا ہے۔ اس کی تعلیم کو سمجھنے کے بعد دنیا میں کوئی کسی کا محتاج نہیں رہتا مگر مکتب و ملا اس نکتے کو نہیں سمجھ پائے اور مومنوں نے اس کی قدر و قیمت نہیں پہچانی۔ اس دو رمیں ہر شخص دانائے قرآن و حدیث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر شریعت کے معاملے میں کم سواد و کم نظر واقع ہوا ہے۔ طریقت کے بارے میں علامہ کا خیال ہے کہ یہ زندگی کی گہرائیوں میں شریعت کا مشاہدہ ہے۔ یہ مشاہدہ خود شناسی اور حق شناسی کے لیے ضروری ہے۔ اگلا عنوان ’’ اشکے چند بر افتراق ہندیان‘‘ ہے۔ اس میں شاعر نے اہل ہند کی غلامی، عقل و فراست سے محرومی اور محبت کے فقدان پر اظہار غم کیا ہے۔ اس کے دل میں ہوک اٹھتی ہے کہ مشرق و مغرب سب آزاد ہیں مگر ہم غلامی کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ دوسرے کی مرضی پر جینے کو مرگ جاوداں سمجھتا ہے۔ ایسی موت جو روح کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے اور جس پر نہ کوئی غم کھاتا ہے نہ آنسو بہاتا ہے۔۔۔۔ فطرت اس قوم کو جس کا دل لذت آرزو سے معمور نہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔ اس کے بعد شاعر نے اپنی ملت کو ہر لحظہ آب و گل کی فکر کے بجائے حضور حق سے دل زندہ طلب کرنے کی نصیحت کی ہے۔ کیونکہ دل زندہ کی منزل فلک کی بلندیوں پر ہے۔ وہ ہر لمحہ زمانے سے نبرد آزما ہے اور اس کی ضرب کاری سے سنگ راہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ ایسا زندہ و پائدہ دل جو خود نگر بھی ہو اور خدا مست بھی، درویشی کے بغیر ہاتھ نہیں آتا۔ اس کے بعد جوانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ ایسے دل زندہ کا دامن تھام لیں تاکہ وہ غلامی کی تاریکیوں سے نکل کر آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔ اس کے بعد کا عنوان ’’ سیاست حاضرہ‘‘ ہے، جمہوریت کے پردے میں مغربی استعمار نے جو گل کھلائے ہیں ان کی داستان بڑی طویل اور ستم آمیز ہے۔ شاعر نے یہاں مغربی جمہوریت کی فسوں کاریوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ کاروان ملت کی بدحالی پر مضطرب ہے، جسے کوئی صاحب بصیرت رہنما میسر نہیں۔ یہاں تن پرستی، جاہ مستی اور کم نگہی کا المناک منظر ہے، اور دل لا الہ کے سوز سے خالی ہے اس راہ میں اپنے اوپر تکیہ کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ شاعر ایسی قوم پر خون کے آنسو روتا ہے جس نے اپنی حقیقت کو پہچاننے سے انکار کر دیا ہے اور اپنی خودی کے بجائے غیر اللہ پر بھروسہ کیا ہے یہ ملت لا الہ سے آگاہی کے باوجود مسلمان پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ وہ سرور اور سوز مشتاقی جس سے بے یقینوں کو یقین ملتا تھا ا س کے ہاں باقی نہیں رہا۔ اسے مسلمان سے گلہ ہے کہ وہ اس دیر کہن میں کب تک اہریمن کا غلام رہے گا۔ پھر غلامی کی لعنت اور اس کی تیرہ بختی کا ذکر کیا ہے۔ غلام کا درود پڑھنا درود کی توہین ہے۔ غلام کا قیام و حضور بے سرور ہے۔ جلوۂ حق خواہ لمحاتی نوعیت ہی کا کیوں نہ ہو صرف آزاد لوگوں کے نصیب میں ہے۔ غلام میں لذت ایمان ہے نہ دین و عرفان کی صحیح تڑپ۔ اگر بدن سوز حیات سے محروم ہے تو سجدہ ایک رسم کہن کے سوا او رکچھ نہیں، اور لذت طلب اور کامیاب جدوجہد آہ نیم شبی کے بغیر ممکن نہیں۔ ’’ حرفے چند با امت عربیہ‘‘ میں پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امی لقب کی شان میں پر سوز شعر کہے ہیں۔ پھر ملت عرب کو اس کا انقلاب آفریں اور تاریخ ساز عہد یاد کرایا ہے، اس کی موجودہ پریشان حالی اور افسردگی پر اظہار غم کیا ہے، اور اس کو کئی ملتوں میں بٹ جانے پر تنبیہہ کی ہے: امتے بودی امم گردیدہ ای بزم خود را خود زہم پاشیدہ ای برکہ از بند خودی واردست، مرد ہر کہ بابیگانگان پیوست، مرد شاعر اسے افسون فرنگ سے خبردار رہنے کی تلقین کرتا ہے، جس کی حکمت سے ہر قوم زخم خوردہ ہے۔ فرنگ ہی نے وحدت عرب کو پارہ پارہ کیا ہے۔ اس کاملی شیرازہ بکھیر کر اس کو زار و زبوں کر دیا ہے۔ اس کے بعد ملت عرب پر دین کی اہمیت واضح کی ہے۔ اسے اپنے اندر دوبارہ روح عمرؓ پیدا کرنے کی غیرت دلاتی ہے اور اس کی گذشتہ تاریخی اور تہذیبی عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے: عصر حاضر زادۂ ایام تست مستی او از مے گلفام تست شارح اسرار او تو بودہ ای اولین معمار او تو بودہ ای اگلے باب کا عنوان ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ ہے جس اس مثنوی کا نام بھی ہے جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے اس میں شاعر نے ملل مشرق کو آئندہ کے لیے ایک لائحہ عمل دیا ہے۔ اس کا آغاز ہی فرنگ سے کیا گیا ہے، جس کا جور و ستم خرمن آدمیت و ہستی پر بجلیاں گراتا رہا ہے۔ مگر شاعر کی نظر مشرق کے آنے والے روشن دور پر ہے۔ مشرق کے ضمیر میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ رات کی تاریکی چھٹ گئی ہے اور آفتاب جہانتاب اپنی روشنی بکھیر رہا ہے۔ یورپ خود اپنی شمشیر کا کشتہ ہے۔ مگر گھائل ہونے سے پہلے اس نے انسانیت کو کیا کیا روگ لگائے ہیں۔ علم و دانش کو کس طرح رسوا کیا ہے۔ یہ حکمت و دانش نوع انسان کی ہلاکت کے لیے کس طرح تیغ بدوش رہی ہے۔ جو کچھ ہوا وہ عبرت کی داستان ہے۔ مجلس اقوام کفن چوروں کی جماعت ہے۔ جینوا کی اس انجمن میں مکر و فن کے سوا رکھا ہی کیا ہے۔ مشرق روحانیت کا علمبردار ہے۔ اسے مغرب کی لادین تہذیب کے طلسم کو پاش پاش کرنا ہے اور اس کے جسم میں اپنی روح پھونکنا ہے۔ مسلمان کو شعور رنگ و نسل سے بالاتر ہونا چاہیے۔ آبروئے مشرق اس کے ساتھ میں ہے۔ اس کا فرض ہے کہ مشرق کی قدیم اقوام کی شیرازہ بندی کرے اور اپنے اندر قدرت پیدا کرے۔ اس کے بعد شاعر نے ایشیا کو سوز و ساز اور درد و داغ کا سرچشمہ بتایا ہے۔ یہ وہ سر زمین ہے جس نے دنیا کو شیوۂ آدم گری سکھایا، ایشیا نے عشق کو دلبری سکھائی۔ ایشیا گہوارۂ دین و انسانیت اور مہد تمدن ہے۔ ہم ایشیا والوں نے ہر حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ ہم آفتاب کے اور آفتاب ہمارا ہے۔ مگر ایشیا والے فرنگ کے زخم خوردہ ہیں: زخم از ونشتر از و سوزن از و ما و جوئے خون و امید رفو فرنگ کے تاجرانہ استعمار نے کیا کیا ستم نہیں ڈھائے ہیں۔ اس نے ایشیا کا کیا کیا اور کس کس طرح استحصال نہیں کیا ہے۔ مشرق کا فرض ہے کہ وہ اس تاجرانہ لوٹ کھسوٹ کا سد باب کرے۔ اپنے وسائل پر تکیہ کرے اور اپنے آپ کو مغرب سے بے نیاز کرے: آنچہ از خاک تو رست اے مرد حر آن فروش و آن بپوش و آن بخور آن نکو بینان کہ خود را دیدہ اند خود گلیم خویش را بافیدہ اند واے آن دریا کہ موجش کم تپید گوہر خود را ز غواصان خرید آخری عنوان ’’ در حضور رسالتمآبؐ ‘‘ ہے۔ جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے۔ اس کے آخر میں اپنی بیماری او رناتوانی کا ذکر ہے۔ یہ اشعار سوز و گداز کی مجسم تصویر ہیں۔ ہر ہر شعر اور ہر ہر لفظ میں عشق و محبت کی ایک تازہ حکایت وارفتگی اور شیفتگی کی ایک نئی داستان ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ارادت و نیاز مندی اور عشق و محبت کا جو جذبہ علامہ کے پورے کلام میں جھلک رہا ہے، یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حسب معمول یہاں بھی اپنی ذاتی پریشانی کا ذکر کرنے سے پہلے ملت کی زبوں حالی کا ذکر ہے۔ اس کی سیاست اور معاشرے کے زوال و انحطاط پر رنج و غم کا اظہار ہے۔ مسلمان کی مغرب سے مرعوب ذہنیت اور مفلوج شخصیت پر خون کے آنسو بہائے ہیں۔ اور مغرب کی چیرہ دستیوں اور مسلمان کی سادہ لوحی اور بیچارگی کی حکایت بیان کی ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی ناتوانی اور بیماری کا ذکر کیا ہے اور بصیریؐ کی طرح بیماری سے نجات چاہی ہے 4؎ اس آرزو کا جواز یہ بتایا ہے کہ میں ظلمت اور تاریکی کی طاقتوں سے بر سر پیکار ہوں۔ یہاں اپنے نالے کی بے کراں وسعتوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جنہیں بیماری نے دبا دیا ہے۔ آخر میں اپنے مشن کا شدید احساس پھر عود کر آیا ہے، اپنی تنہائی کا جان گسل احساس ہے، مگر آنکھ دشت و در پر لگی ہے کہ شاید پھر کوئی تازہ قافلہ اس رہگذر پر آ نکلے رجائیت کا احساس یہاں بھی باقی ہے۔ مثنوری مندرجہ ذیل اشعار پر ختم ہوتی ہے: در بیابان مثل چوب نیم سوز کاروان بگذشت و من سوزم ہنوز اندرین دشت و دزے پہناورے بو کہ آید کاروانے دیگرے جان ز مہجوری بنالد در بدن نالہ من وائے من! اے وائے من! ٭٭٭ ارمغان حجاز ’’ ارمغان حجاز‘‘ شاعر مشرق کا آخری مجموعہ کلام ہے جو پہلی دفعہ 1938ء میں چھپا۔ یہ مجموعہ دو لحاظ سے باقی تمام آثار سے مختلف ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ کتاب علامہ کی رحلت کے بعد شائع ہوئی۔ اور دوسرے یہ کہ ارمغان حجاز فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے اشعار پر مشتمل ہے۔ مگر بیشتر کلام فارسی میں ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں علامہ حج پر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے، اور عالم تخیل میں اس سفر کے تاثرات فارسی اشعار میں قلمبند فرما رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کا نام ’’ ارمغان حجاز‘‘ قرار پایا۔ کتاب کے پہلے چھیاسی صفحات اسی تخیلی سفر سے عبارت ہیں۔ ان میں عشق و محبت کی فراوانی اور وفور شوق کی ایک عجیب و غریب کیفیت ہے۔ اشعار مختلف عنوانات کے تحت ہیں۔ مثلاً پہلا عنوان ’’ حضور حق‘‘ ہے۔ دوسرا ’’ حضور رسالتؐ‘‘ جو عزت بخاری کے شوق و نیاز سے سرشار مندرجہ ذیل شعر سے شروع ہوتا ہے: ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا یہ دونوں حصے سفر حجاز سے متعلق ہیں۔ تیسرا عنوان ’’ حضور ملت، چوتھا‘‘ حضور عالم انسانی اور پانچواں اور آخری ’’ یہ یاران طریقت‘‘ ہے۔ ’’ حضور حق ‘‘ کے تحت ناز و نیاز کی مختلف کیفیتوں کو شعر کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ شاعر اپنے مضطرب اور درد مند دل کی حکایتیں بیان کرتا ہے۔ اس کی عظمت اور وسعت پر نازاں ہے۔ قلب انسان میں درد و داغ اور تب و تاب کی جو کیفیت ہے وہ اسے لامکاں پر فوقیت دیتا ہے۔ تقدیر آدم کا ذکر ہے کہ جس کے خون سے اس ویرانہ ہستی میں رنگ و آب ہے۔ فرنگ کی آقائی کا گلہ ہے جس نے مسلمان سے حرارت قلب چھین لی ہے۔ ملت اسلامی سے گلہ ہے جس کے رہنما بے یقین اور کم سواد ہیں، اور جو ابراہیم ؑ کی اولاد ہوتے ہوئے بھی نمرود کے نمک خوار ہیں۔ یہ فاقہ مست ملت اب دنیا کے لیے بار دوش ہو کر رہ گئی ہے۔ شاعر کو اب ایک ایسی نئی ملت کی آرزو ہے جو لذت طلب اور جوش کردار سے کائنات میں ہنگامہ برپا کر دے۔ اور جس کا جذب دروں اور ذکر لا الہ دل شب سے ایک نئی سحر کی تخلیق کرے۔ شاعر اب اپنے آپ کو چراغ سحر پاتا ہے، اور نہیں جانتا کہ اس چراغ کے بجھنے کے بعد کوئی دانائے راز آئے گا یا نہیں۔ لیکن اس کی دعا ہے کہ اگر یوں ہو تو ایسے محرم راز کو فرزانگی کے ساتھ نوائے دل گداز کی دولت بھی عطا ہو کہ قوموں کے ضمیر کو کوئی کلیم یا حکیم نے نواز ہی پاک کر سکتا ہے۔ آخری رباعی میں محبت آمیز شوخی کے ساتھ راہ یثرب اختیار کرنے کا ذکر یوں کیاہے: تو باش اینجا و با خاصان بیا میز کہ من دارم ہوائے منزل دوست ان رباعیات میں جہاں سوز و ساز کے ساتھ نیاز مندی کا اظہار ہوتا ہے وہاں شاعر نے حضور خداوندی میں بہت شوخیاں بھی کی ہیں۔ اور راہ و رسم عاشقانہ اور ناز و نیاز کے نازک رشتوں کے بل پر اپنے گلے شکوے میں غیر معمولی آزادی برتی ہے۔ ’’ حضور رسالت ؐ‘‘ میں لہجہ دقعتہ بدل گیا ہے۔ درد محبت میں بے پایاں اضافہ ہو گیا ہے، اور شوخی اور بے تکلفی کی جگہ وفور احترام و نیاز مندی نے لے لی ہے۔ پہلی رباعی ایک گونہ احساس درد مندی سے شروع ہوتی ہے، جس میں عالم پیری میں یثرت کے عزم سفر کو اس پرندے سے تشبیہہ دی ہے جو شام کی بڑھتی ہوئی تاریکی میں فکر آشیانہ کے لیے پر افشاں ہو۔ وفور عشق سے معمور و سرشار یہ مسافر راہ طلب کو طویل تر بنانا چاہتا ہے تاکہ سوز جدائی میں اور شدت ہو۔ غم راہ میں اور نشاط آمیز لذت ملے اور فغاں میں ایک نئی جنوں پرور کیفیت پیدا ہو۔ منزل محبوب قریب تر آنے پر اشعار میں کیف و مستی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ نشاط و سرور میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور عاشق اپنی کامرانی پر نازاں ہے۔ شاعر اب یثرب کی مقدس سر زمین میں داخل ہو چکا ہے۔ وقت کی نبضیں تھم گئی ہیں۔ یہ وہ خاک ہے جس میں افکار و معانی کے پھول کھلتے ہیں۔ یہاں کلیم و حکیم ادب و احترام سے دوش بدوش کھڑے ہیں۔ اب شاعر حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لب کشائی کرتا ہے۔ یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ وفور عشق سے سرشار ہونے کے باوجود شاعر اپنے ذاتی جذبات کا اظہار کرنے کے بجائے پہلے اپنی ملت کی بدنصیبی کا ذکر کرتا ہے اور سرور کائنات صلعم سے اس کے لیے نگاہ التفات کا ملتجی ہے۔ مسلمانوں کی بے چارگی کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ ہندی مسلمان بے امام اور اس کی زندگی بے نظام ہے۔ اس کی شب غلامی کی سحر نظر نہیں آتی۔ اس کا دل اسیر رنگ و بو اور ذوق و شوق سے خالی ہے۔ اس کی خودی کا وجود باقی نہیں۔ وہ طوفان زندگی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ عروس زندگی اس کی خلوت میں بیگانہ لگتی ہے۔ اس کی آنکھیں نور و سرور سے محروم اور اس کی جان بے حضور ہے۔ وہ مذہب سے بیگانہ ہے، اور اس کا فقر خانقاہی ہے۔ حرم کا یہ نگہبان اب دیر کا غلام ہے۔ شیخ حرم کی متاع داستان و افسانہ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی بات ظن و تخمین اور اس کا اسلام زنار دار ہے۔ شاعر کی التجا ہے کہ اس کے سوز سے ملت میں آگ کی طرح دہکتا ہوا ضمیر پیدا ہو جائے۔ ملت کی ناگفتہ بہ حالت بیان کرنے کے بعد خود شاعر نے تعمیر ملت کے لیے جو خدمت کی ہے وہ اس کا ذکر کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اسے وہ نالہ گرم عطا ہو جو غم دین کے سوا ہر غم کو جلا کر راکھ کر دے۔ ان دعاؤں اور التجاؤں میں شاعر کا احساس رہنمائی ملت کے لیے مزید تعمیری اور اصلاحی خدمات کا متمنی ہے۔ وہ ملا سے نا امید ہے اور سمجھتا ہے کہ جو پیغام شوق اسے دینا چاہیے تھا وہ شاعر کے حصے میں آیا ہے۔ اس کی زندگی ملت کے حضور میں تڑپنے میں گزری، البتہ اس نے ایک نوائے دل گداز ضرور پیدا کی: حضور ملت بیضا تپیدم نوائے دل گدازے آفریدم ادب گوید سخن را مختصر گوے تپیدم، آفریدم، آرمیدم اس کی آرزو ہے تو یہی کہ اس کی اپنی فطرت رندانہ اور آہ بیتابانہ کے صدقے وہ خاک جس میں شاعر اپنی آرزوؤں کے بیج بو رہا ہے ابر بہار سے سیر ہو۔ شاعر کو اس حقیقت پر ناز ہے کہ ملت کو آنے والی بہار کا پیغام اس نے دیا ہے، اور اس کے دل میں زندگی کی حرارت اس نے پیدا کی ہے: کہ گفت او را کہ آید بوئے یارے؟ کہ داد او را امید نو بہارے؟ چو آن سوز کہن رفت از دم او کہ زد بر نیستان او شرارے؟ اس کو اس بات پر ناز ہے کہ اس نے علم حاضر کے طلسم کو توڑا ہے اور ابراہیم ؑ کی مانند بے نیازی سے اس دور کی آگ میں بیٹھا ہے۔ مگر شاعر اس پر مطمئن نہیں اور وہ دنیا کو اپنی متاع گراں بہا سے فیضیاب کرنے کے لیے مزید کرم گستری کی التجا کرتا ہے اور اپنے طوفان میں مزید شدت و طلاطم کا متمنی ہے۔ اس کا دل سوز جنون اور جوش طوفان کا پیکر ہے۔ اس کی خاک میں شرر اور سینے میں آگ ہے۔ اسے اپنی تنہائی کا شدید احساس ہے اس لیے کہ وہ جس متاع گرانمایہ کو لیے بیٹھا ہے کوئی اس کا خریدار نہیں۔ ’’ حضور ملت ؐ‘‘ کے تحت ملت کو ’’ بحق دل بند و راہ مصطفیؐ رو‘‘ اور’’ راہ مصطفیؐ گیر‘‘ کی تائید کی ہے، اور خودی کی پرورش اور اپنی تقدیر کی تشکیل کی تلقین کی ہے، کیونکہ خدا نے سروری اسی قوم کو دی ہے جس نے اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیر لکھی ہے۔ اس کے علاوہ ملت کو حکمت قرآن پر غور و خوض کرنے اور سوز و ساز کے جذبے سے زندگی کو سرشار کرنے کی تاکید کی ہے۔ اس کے بعد خودی کو ایک علیحدہ عنوان کے تحت موضوع شعر بنایا ہے۔ ایک دوسرے عنوان کے تحت صوفی و ملا کی کم نظری کا شکوہ کیا ہے: ز من بر صوفی و ملا سلامے کہ پیغام خدا گفتند مارا ولے تاویل شان در حیرت انداخت خدا و جبرئیل و مصطفیؐ را پیر رومی کی عظمت کے اعتراف میں چند رباعیاں کہی گئی ہیں۔ ’’ پیغام فاروق‘‘ کے تحت خود شناسی، درد جستجو، خود داری، جہانگیری اور جہانداری کے موضوعات پر اظہار فکر کیا گیا ہے۔ ’’شعرائے عرب‘‘ کے عنوان کے تحت عرب شاعروں کو ایک اعلیٰ مقصد کے لیے اپنا فن وقف کرنے کی دعوت دی ہے۔ انہیں صورت نگاری کی بجائے مسلمان میں سوز و ساز، تب و تاب اور ذوق انقلاب پیدا کرنے اور ’’ رگ فردا‘‘ کو ہاتھ میں لینے کی نصیحیت کی ہے۔ ملوکیت کو لعنت قرار دیا ہے، اور عصر حاضر میں اس کی ہمہ گیری کے پیش نظر مندرجہ ذیل عقیدے کا اظہار کیا ہے: ہنوز اندر جہان آدم غلام است نظامش خام و کارش ناتمام است غلام فقر آن گیتی پناہم کہ در دینش ملوکیت حرام است ترک عثمانی کے طلسم فرنگ میں اسیر ہونے پر اظہار تاسف کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ اس مملکت میں ایسے لوگ تھے اور اب بھی ہیں جنہوں نے اس کا سحر توڑ ڈالا ہے۔ ’’ دختران ملت‘‘ کے عنوان کے تحت عفت و حیا، اقوام کی تشکیل و استحکام میں صنف لطف کی بنیادی حیثیت اور اس کے صحیح کردار کے بغیر نظام حیات کی بے ثباتی، نئی نسل کے لیے اس کے تربیتی فرایض و مناصب اور مستقبل کی تشکیل میں اس کے فیصلہ کن کردار ایسے موضوعات کا ذکر ہے۔ شاعر نے ’’ عصر حاضر‘‘ کی نگاہ کو کفر آفریں اور اس کا کمال صنعت شیوۂ آزری کی تخلیق بتایا ہے، اور بادشاہی کو شیطنیت کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس دور بے نور و بے سوز کے دامن کے ساتھ شعلے کی مانند الجھا ہوا ہے۔ ’’ تعلیم‘‘ کے عنوان کے تحت شاعر نے تب و تاب جلودانہ کو صحیح تعلیم قرار دیا ہے۔ یہاں تب و تاب سے مراد ذوق تخلیق، شوق تحقیق اور عالمانہ تجسس ہے۔ نگاہ پاکباز علم چارہ ساز سے بہتر ہے۔ اور اس سے بھی بہتر وہ دل ہے جو دونوں جہانوں سے بے نیاز ہو۔ مکتب جان بیدار پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ بینائے غلط بیں سے مرد کور چشم اور دانشمند بے دین سے نادان نکو کیش بہتر ہے۔ دانش کا اصل مقصد دل کو زندہ کرنا ہے۔ جدید تعلیم نے روزی کا سامان تو پیدا کر دیا مگر اس نے مرغ چمن سے نوا اور خون لالہ سے سوز کہن چھین لیا۔ شاعر ایسے علم سے خبردار کرتا ہے جو شیروں کو میشی سکھاتا ہے اور قوم کی روح کو کچل دیتا ہے۔ ’’ تلاش رزق‘‘ کے تحت یہ باریک نکتہ پیدا کیا ہے کہ ہمیں اس تلاش کا محتاج اس لیے بنایا گیا ہے کہ ہم اپنے پر کھول سکیں۔ دوسرے لفظوں میں جبلت بقا کے پیچھے بھی جو جذبہ کار فرما ہے اس کا اصل مقصد فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔ ’’ نہنگ بابچہ خویش‘‘ کے تحت خطرات سے لڑنا اور طوفانوں سے کھیلنا سکھایا ہے۔ چوتھا عنوان ’’ حضور عالم انسانی‘‘ ہے جس کے نیچے خود اپنا ایک شعر جاوید نامہ سے درج کیا ہے جو اس موضوع کے بارے میں شاعر کی روش فکر کی آئینہ داری کرتا ہے۔ شعر حسب ذیل ہے: آدمیت احترام آدمی با خبر شو از مقام آدمی اس حصے میں تشکیل سیرت پر زور ہے۔ شاعر فرد اور ملت کو ہنگامہ خیزی اور عمل کی دعوت دیتا ہے۔ اس کی نظر میں خرش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے دامن امرو زکو ہزاروں ہنگاموں سے بھر لیا ہے۔ وہ جان بیدار، سخت کوشی، خود آگاہی اور خود شناسی کا پیغام دیتا ہے۔ خودی کے اثبات و استحکام کی تاکید کرتا ہے۔ یقین و ایمان کو حیات جاوداں سمجھتا ہے اور مقام جستجو و آرزو کی عظمتیں بیان کرتا ہے۔ ’’ دل‘‘ کے تحت اس کی قوت و مستی اور وسعت و عظمت کا بیان ہے۔ دل کے بغیر انسان نہ زور خودی آزما سکتا ہے، نہ اپنی صلاحیتوں کی وسعت پرکھ سکتا ہے اور نہ خرد کی زنجیروں سے رہائی حاصل کر سکتا ہے۔ شاعر نے دل کو کشت یزداں کا حاصل اور عروس زندگی کا محمل قرار دیا ہے۔ ’’ موت‘‘ کے تحت اس فکر کا اظہار کیا ہے کہ اگر انسان ناموس حیات کا محرم ہو تو موت کی ذلت اسے شرمسار نہیں کر سکتی۔ حقیقت میں انسان میر شش جہت ہے اور ا سکے ہاتھ میں زمام کائنات ہے۔ ’’ بگو ابلیس را‘‘ کے تحت شاعر ابلیس کو بتایا ہے کہ اصل آگ روح انسانی کے سوز میں ہے اور آتش ابلیس محض اس کا پرتو ہے۔ پھر جدائی کی شان بتائے ہوئے کہ یہ شوق کے لیے بصیرت اور جستجو کے چراغ جلاتی ہے ابلیس سے پوچھا ہے نہ جانے تو کس حال میں ہے! ’’ ابلیس خاکی ونوری‘‘ کے تحت شاعر عصر حاضر میں شیطانوں کو فوج در فوج اور قطار اندر قطار دیکھتا ہے۔ مگر یہ گھٹیا اور پست شیطان ہیں کہ گراں قیمت گناہ کے لائق بھی نہیں۔ یہاں ظریفانہ رنگ اختیار کرتے ہوئے ان پست شیطانوں کے مقابلے میں اسی شیطان کو افضل قرار دیا ہے کہ وہ ’’ یزدان دیدہ و کامل عیار‘‘ تو ہے۔ آخری عنوان ’’ بہ یاران طریقت‘‘ ہے۔ اکثر رباعیات میں شاعر نے اپنی رہبرانہ شان، قلندرانہ استغنا، تعمیری استعداد، بلند نظری اور اپنے دل درد مند کے سوز و سرور کا ذکر نہایت جوش و خروش اور اعتماد کے ساتھ کیا ہے۔ اور اپنی انفرادیت کی طرف اشارے کیے ہیں۔ مگر اس غمناک احساس کا اظہار بھی کیا ہے کہ کوئی اس کے افکار بلند کو پوری طرح نہیں سمجھ پایا۔ چو رخت خویش بر بستم ازین خاک ہمہ گفتند با ما آشنا بود و لیکن کس ندانست این مسافر چہ گفت و با کہ گفت و از کجا بود اس کے علاوہ مسلمان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ فرنگ کے آگے سجدے بچھا کے حرم کو رسوا نہ کرے۔ فرنگ وہ خداوند ہے کہ اس کے طواف میں سینکڑوں ابلیس تو ہیں مگر ایک روح القدس نہیں۔ فقیر میں وہ قوت ہے کہ ناداری کے باوجود دو عالم کو مسخر کر سکتا ہے۔ اگر مسلمان رمز دین سے واقف ہے تو وہ خدا کے سوا کسی کے سامنے جبیں سائی نہیں کر سکتا ۔ اگر آسمان اس کی مرضی کے مطابق گردش نہیں کرتا تو وہ زمین کو اپنی خواہش کے مطابق گردش میں لا سکتا ہے۔ عشق و مستی اور شوق و اشتیاق کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کے ہاں خر دبیگانہ دل اور سینہ بے سوز ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے اسلاف کی شاخ تاک سے مے آشامی نہیں کی، ورنہ مسلمان کے قیام میں جلال کبریائی اور اس کے سجود میں جمال بندگی جھلکتا ہے۔ اسے اس حقیقت کا شعور نہیں کہ وہ اس عصر بے سوز میں اپنی عبادت کے سوز و ساز سے قیامتیں برپا کر سکتا ہے۔ ایک رباعی میں شوخی کلام سے پھر ذات خداوندی پر چوٹ ہے کہ اس نے اپنی دنیا تاجروں کے حوالے کر دی۔ لامکاں مکاں کی قدر کیا جانے! اختتام اس پیغام پر کیا ہے کہ وہ کشت خراب جس کی آبیاری خون شبیرؓ سے نہیں ہوئی کسی حاصل کے قابل نہیں۔ ٭٭٭ خودی اسرار خودی سے بحث کے دوران میں خودی کی ماہیت و اہمیت ، اس کی پرورش و تربیت اور اس کے مراحل و مدارج کا ذکر ہو چکا ہے۔ مگر اس فلسفہ کو علامہ نے بعد کے کلام میں مزید صراحت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اسرار خودی میں اس کے جو پہلو مبہم اور نا مکمل رہ گئے تھے ان پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ علامہ کی شاعری کے بنیادی خیال سے مزید بحث کی ضرورت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہو چکا ہے کہ علامہ کی نظر میں حقیقت وجود انائے مطلق ہے۔ جس نے اپنے انایا خودی کے اثبات و استحکام کے لیے غیر یا ماسوا کو پیدا کیا تاکہ وہ اس غیر خود سے ٹکرا کر اپنی قوت کا امتحان کرے۔ تمام کائنات اس کے امتحان کی جولانگاہ ہے۔ وجود مطلق کی خودی کی طرح انسان کی اپنی خودی ہے جسے علامہ نے جوہر نور کے نام سے بھی یاد کیا ہے: جوہر نوریست اندر خاک تو یک شعاعش جلوۂ ادراک تو یہ بھی اپنا اثبات و استحکام چاہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے اسے پیہم عمل کا جویا رہنا پڑتا ہے، جس کے لیے وہ نئے نئے مقاصد کی تخلیق اور تکمیل کرتی ہے۔ خودی انسان کے قلب و ذہن میں وجدانی طور پر اپنا احساس کراتی رہتی ہے۔ علامہ نے اسے ’’ خویش دار و خویش باز و خویش ساز‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے: خویش دار و خویش باز و خویش ساز نازہا می پرورد اندر نیاز اس کی پیہم تحریک و ترغیب سے انسان کو خود اپنے اوپر خود پرستی کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ وہ اسے دبانے کی طرف کتنا ہی مائل کیوں نہ ہو۔ اس سے بے نیاز ہونے کے کتنے ہی جتن کیوں نہ کرے۔ لیکن اس کی خاک میں پنہاں یہ جوہر نور اپنی ہستی کا احساس دلا کر رہتا ہے: من از بود و نبود خود خموشم اگر گویم کہ بستم خود پرستم و لیکن ایں نوائے سادۂ کیست کسے در سینہ میگوید کہ ہستم یہ احساس خودی کے وجود و اثبات کا نقش گہرا کرتا رہتا ہے۔ اور فلسفہ چاہے ہمیں ہر شے کے بارے میں وہم و گمان میں مبتلا کر دے، لیکن وہ اس کے وجود سے منکر نہیں ہو سکتا۔ تشکک پسند طبیعتیں جہان رنگ و بو کی حقیقت پر شک و شبہ کا اظہار کر سکتی ہیں او رکرتی رہی ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے جو اس کو واہمہ یا طلسم قرار دیتی ہے، کیسے منکر ہو سکتی ہیں؟ ’’ گلشن راز جدید‘‘ میں علامہ نے اس اٹل حقیقت کا اظہار ’’ انا الحق‘‘ کے فلسفے کے تحت یوں کیا ہے: توان گفتں جہان رنگ و بو نیست رمین و آسمان و کاخ و کو نیست توان گفتن ہمہ نیرنگ ہوش است فریب پردہ ہائے چشم و گوش است اگر گوئی کہ ’’من‘‘ وہم و گمان است نمودش چون نمود این و آن است بگو بامن کہ دارائے گمان کیست یکے در خود نگر آن بے نشان کیست خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است یکے اندیش و دریاب این چہ راز است جیسا کہ علامہ نے اسرار خودی کے دیباچے میں فرمایا ہے۔ ’’ لذت حیات، انا کی انفرادی حیثیت اور اس کے ثبات، استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے‘‘ اس حقیقت کے تحت خودی کے لیے واجب قرار پایا کہ وہ اپنا تحفظ کرے۔ عدم تحفظ کا مطلب لذت حیات کا خاتمہ ہے۔ چنانچہ خودی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے وجود اور انفرادیت کی مستقل حفاظت کرتی ہے۔ علامہ کی نظر میں خوش نصیب ہے وہ ناچیز ندی جو سمندر کے آغوش میں کھو کر اپنے وجود و انفرادیت سے محروم ہونے کی بجائے خاک میں مل جانے کو ترجیح دیتی ہے۔ اے خوش آن جوئے تنک مایہ کہ از ذوق خودی در دل خاک فرو رفت و بدریا نہ رسید! خودی کی اسی بنیادی ضرورت کو شاعر نے ایک خوبصورت نظم میں تمثیلی رنگ میں پیش کیا ہے۔ شبنم کے قطرے کو سمندر میں گر کر موتی بننے کی دعوت ملتی ہے مگر وہ بحر بیکراں میں اپنی انفرادیت اور خودی سے محروم ہونے کے بجائے گل لالہ کی پتیوں پر اپنی ہستی کا ثبوت فراہم کرنا چاہتا ہے: گفتند فرود آے ز اوج مہ و پرویز بر خود زن و با بحر پر آشوب بیامیز با موج در آویز نقش دگر انگیز تابندہ گہر خیز من عیش ہم آغوشی دریا نہ خریدم آن بادہ کہ از خویش ربایع پخشیدم از خود نہ رمیدم ز آفاق بریدم بر لالہ چکیدم اقبال کی نظر میں خودی کی انفرادیت کا تحفظ اتنا اہم ہے کہ انسانی خودی، خودی مطلق یعنی ذات خداوندی میں بھی ضم نہیں ہوتی، بلکہ اپنے مستقل وجود کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ تمام صوفیہ کی طرح ذات باری تعالیٰ کو سمندر اور انسان کو قطرے سے تشبیہہ ضرور دیتے ہیں مثلاً: خودی را از وجود حق وجودے خودی را از نمود حق نمودے نمیدانم کہ این تابندہ گوہر کجا بودے اگر دریا نبودے مگر وحدت الوجود کے فلسفے پر اعتقاد رکھنے والوں کے برعکس وہ انسان کو ایک ناچیز قطرے کی بجائے تابناک گوہر قرار دیتے ہیں جو آغوش دریا میں گم ضرور ہے لیکن اپنی انفرادیت کو ہاتھ سے نہیں کھوتا: وصال ما وصال اندر فراق است گشود این گرہ غیر از نظر نیست گہر گم گشتہ آغوش دریا ست ولیکن آب بحر آب کہر نیست وصال و حفظ انفرادیت کی اس ملی جلی کیفیت کا اظہار یوں کیا ہے: ہم باخود و ہم با او ہجران کہ وصال است این اے عقل چہ میگوئی؟ اے عشق چہ فرمائی؟ انسانی خودی کی انفرادیت اور خود پرستی کا یہ علم ہے کہ ذات خداوندی کی حقیقت سمجھنے کے لیے پہلے خود اپنی حقیقت کا جاننا ضروری ہے۔ کیوں کہ خدا کے جلوے کا مشاہدہ انفرادی خودی ہی کے ذریعے ممکن ہے: غلام ہمت آن خود پرستم کہ بانور خودی بیند خدا را یہ شعر حضرت علیؓ کے اس قول کی یاد دلاتا ہے کہ ’’ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ‘‘ یعنی جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: بآدمے نہ رسیدی، خدا چہ میجوئی ز خود گریختہ ای آشنا چہ میجوئی دگر بشاخ گل آویز و آب و نم در کش پریدہ رنگ! زباد صبا چہ میجوئی اگر انسان کو اپنے معبور کو مجسم دیکھنے کی آرزو بے چین کرتی ہے تو اس کی خود پرستی کا یہ عالم ہے کہ وہ اسے بھی اپنے ہی پیکر میں ڈھال لیتا ہے۔ اس کے لیے بت گری کرتا ہے تو یہ بت بھی انسانی روپ میں ڈھل جاتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کا تماشا بھی اپنے حوالے سے کرتا ہے۔ اس لیے کہ اپنی خودی سے الگ ہونے کا تصور بھی ممکن نہیں: ترا شیدم صنم بر صورت خویش بشکل خود خدا را نقش بستم مرا از خود برون رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم علامہ کو خودی کے اثبات پر اتنا شدید اصرار ہے کہ ان کی نظر میں خدا کا منکر ہو جانا ممکن ہے لیکن اپنی خودی کا منکر ہونا ممکن نہیں: شاخ نہال سدرہ ای خار و خس چمن مشو منکر او اگر شدی منکر خویشتن مشو اس اظہار فکر کا مقصد انسانی خودی کی بے پناہ اہمیت اور اس کے بے پایاں امکانات و مضمرات کو اجاگر کرنا اور انسان کو اپنی خودی کے وجود کی غیرت دلاتا ہے۔ انہوں نے اپنے فلسفے کے اس بنیادی عنصر کی اہمیت کا احساس بعض ایسی لافانی شخصیتوں کی زبان سے دلوایا ہے جن کی زندگی خودی کی زندہ تصویر تھی۔ یہ روش ’’ جاوید نامہ‘‘ میں خاص طور سے پیش نظر رہی ہے، کیوں کہ یہاں شاعر نے بہت جگہ اپنا فلسفہ حیات مکالموں کی صورت میں پیش کیا ہے۔ مثلاً زردشت کی زبان سے کہلواتے ہیں: خویشتن را وا نمودن زندگیست ضرب خود را آزمودن زندگیست مہاتما بدھ کی زبان سے زندگی کی دلفریب رعنائیوں اور بعض بظاہر پائندہ حقیقتوں کی بے ثباتی کے پس منظر میں نفس انسانی کی عظمت و ابدیت کا ذکر یوں کرتے ہیں: مے دیرینہ و معشوق جوان چیزے نیست پیش صاحب نظران حور جنان چیزے نیست ہرچہ از محکم و پائندہ شناسی، گذرد کوہ و صحرا و بر و بحر و کران چیزے نیست از خود اندیش و ازین بادیہ ترسان مگذر کہ تو ہستی و وجود دو جہان چیزے نیست منصور حلاج کے ساتھ انا الحق کے فلسفے پر بحث کی ہے تو یہاں بھی اس کی وضاحت خودی کی پر اسرار کیفیت اور ہمہ گیر قوت ہی کی روشنی میں ہوئی ہے۔ حلاج نے خودی کو زندگی کی اساس قرار دیا ہے۔ یہ وہ قوت ہے جس میں دلبری و قاہری کا امتزاج ہے۔ یہ وہ نور ہے جس میں نار حیات بھڑک رہی ہے۔ جو اس آتشیں حقیقت سے بہرہ ور نہیں ہوا وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہے: از خودی طرح جہانے ریختند دلبری با قاہری آمیختند ہر کجا پیدا و نا پیدا خودی بر نمی تابد نگاہ ما خودی نارھا پوشیدہ اندر نور اوست جلوہ ہائے کائنات از طور اوست ہر کہ از نارش نصیب خود نبرد در جہان از خویشتن بیگانہ مرد شاہ ہمدان شاعر سے جسم و جان کے رشتے پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ بھی زندگی کا سرچشمہ خودی اور خود شناسی ہی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں احساس خودی وہ ستارہ ہے جس نے زندگی کی تاریک راتوں کو منور کر رکھا ہے: جلوہ مستی؟ خویش را دریا فتن در شبان چو کوکبے برتافتن خویش را نایافتن نابودن است یافتن، خود را بخود بخشودن است ہر کہ خود را دید و غیر از خود ندید رخت از زندان خود بیرون کشید برصغیر پاک و ہند اور ایران کے قدیم مذہبی راہنماؤں اور مشہور صوفیوں کے بعد علامہ نے خودی کی اہمیت کا درس ایک ایسی شخصیت کی زبان سے دیا ہے جس کی زندگی مسلسل جہاد اور ذوق عمل کی زندہ تفسیر تھی۔ سلطان ٹیپو شہید سے شاعر کی گفتگو ہوتی ہے تو اس کے دوران میں سلطان شہید کی زبان سے خودی کے ذوق عصیاں اور لذت سرکشی کی فتح مندیوں کی داستان یوں بیان کی گئی ہے: چون بروید آدم از مشت گلے بادلے با آزوے در دلے لذت عصیان چشیدن کار اوست غیر خود چیزے ندیدن کار اوست زانکہ بے عصیان خودی ناید بدست تا خودی ناید بدست آید شکست خودی محض اپنے وجود کا تحفظ نہیں کرتی بلکہ اس کے اظہار اور نشوونما کے لیے بھی بیقرار رہتی ہے۔ ذوق حیات کا تقاضا ہے کہ خودی تخلیق و ارتقا کی لذت سے آشنا ہو۔ ہر کلی شاخ سے پھوٹنے کے لیے بیتاب ہے تاکہ وہ چمن زار زندگی میں اپنی ہستی کا ثبوت فراہم کر سکے: چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است دل ہر ذرہ در جوش نمود است شگافد شاخ را چون غنچہ گل تبسم ریز از ذوق وجود است علامہ نے زندگی کو خلاقی اور مشتاقی کے نام سے یاد کیا ہے۔ لذت تخلیق خودی کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے اور تخلیق کے عمل سے انسان کے اندر خدائی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ ذوق تخلیق اور شوق طلب سے انسان کے اندر وہ قوت ابھرتی ہے جس سے وہ آفاق پر غالب آ سکتا ہے۔ اور یہی اس کی تقدیر بھی ہے۔ اگر وہ کائنات میں اپنے اس عظیم نصب العین سے غافل ہے تو وہ اپنی فطرت سے بغاوت کا مرتکب ہوتا ہے۔ جاوید نامہ میں ندائے جمال کی گونج یوں سنائی دیتی ہے: زندہ ایْ مشتاق شو، خلاق شو ہمچو ما گیرندۂ آفاق شو در شکن آن را کہ ناید سازگار از ضمیر خود دگر عالم بیار ہر کہ او را قوت تخلیق تیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست ناسازگاری زمانہ کا قوت اور اعتماد سے مقابلہ اور ذوق تعمیر سے سرشار ہو کر کہنہ کی تخریب اور اپنی امنگوں کے مطابق نئی دنیا کی تخلیق انسان کے دست قدرت میں ہے: گفتند جہان ما آیا بتومی سازد؟ گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن تخلیق کے لیے آرزو کا وجود ضروری ہے اور تخلیق آرزو بقا کی ضامن ہے چونکہ آرزو کی تخلیق اور اس کے حصول ہی سے زندگی میں حرارت اور تسلسل کا سلسلہ قائم ہے اس لیے آرزو زندگی کی بنیاد ہے۔ شاعر نے دنیا کو نغمہ زار آرزو کے نام سے یاد کیا ہے: جہان یک نغمہ زار آرزوئے ہم و زیرش ز تار آرزوئے بہ چشم ہر چہ ہست و بود باشد دمے از روزگار آرزوئے آرزو کا یہ تصور اور زندگی میں اس کی بنیادی اہمیت و ضرورت ایسے مسلک کی نفی کرتی ہے جس کا مقصد ترک دنیا اور نفس کشی ہے۔ یہ مسلک زندگی سے فرار چاہتا ہے، اور اس کے امتحان کی تاب نہیں لا سکتا۔ اس کے پیرو دنیا کو نفسانی خواہشات کی آماجگاہ سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں ان کی تکمیل انسان کو اخلاقی پستی کی طرف لے جاتی ہے اور دنیا میں فساد کا باعث بنتی ہے۔ مگر جب علامہ آرزو کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی نظر میں حقیر اور فتنہ انگیز آرزوئیں نہیں ہوتیں بلکہ ایسی آرزوئیں جن سے خودی کو اپنی نشوونما کے لیے ایک ہموار اور وسیع میدان میسر آتا ہے اور زندگی کو بقا نصیب ہوتی ہے۔ ان کی نظر میں آرزو کی نوعیت اتنی اہم ہے کہ وہ اسی کی کسوٹی پر انسان کی شخصیت کو پرکھنے کی تعلیم دیتے ہیں: زندگی بر آرزو دارد اساس خویش را از آرزوئے خود شناس یہی وہ پاکیزہ اور بلند آرزوئیں ہیں جن سے زندگی سراپا نغمہ زار ہے اور انہی کا فقدان زندگی سے اس کی حرارت اور جولانی چھین لیتا ہے: زندہ را نفی تمنا مردہ کرد شعلہ را نقصان سوز افسردہ کرد فرد ہو یا قوم اگر اس کی زندگی آرزو کی خلش سے محروم ہے تو فطرت اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے: امتے کز آرزو نیشے نخورد نقش او را فطرت از گیتی سترد موت اس زندگی سے خوش آئند ہے جو لذت جستجو سے محروم ہو: گر نجات ما فراغ از جستجو ست گور خوشتر از مقام رنگ و بوست یہی نیش و نوش آرزو وہ لذت ہے جس کی بدولت انسان جبریل سے بھی منفرد ہے۔ آرزو کی تکمیل ہو یا نہ ہو مگر انسان کی تقدیر یہی ہے کہ وہ شہید سوز و ساز آرزو رہے: بر آید آرزو یا بر نیاید شہید سوز و ساز آرزویم آرزوؤں کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک آرزو کی تکمیل دوسری آرزو کو جنم دیتی ہے۔ تمناؤں کی یہ خلش اور آرزوؤں کا یہ ہجوم زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔ آرزوؤں کی تکمیل میں وہ مزہ نہیں جو خود آرزو اور طلب میں ہے۔ اضطراب و خلش کی یہ کیفیت کہ جس میں محمل سامنے نظر آتا ہو لیکن اس تک رسائی ممکن نہ ہو شاعر کی نظر میں قابل رشک لذت و کیف کی حامل ہے: تپیدن و نرسیدن چہ عالمے دارد خوشا کسے کہ بد نبال محمل است ہنوز طلب کا ذوق کشاں کشاںمنزل کی طرف لیے چلتا ہے لیکن یہ کبھی ختم نہ ہونے والی راہ ہے۔ نہ جانے رگ تاک میں کتنی بادۂ ناخوردہ پنہاں ہے اور اس کی کشید کا عمل کب تک جاری رہے گا: گمان مبر کہ بپایان رسید کار مغان ہزار بادۂ ناخوردہ در رگ تاک است حقیقت یہ ہے کہ وصل میں مرگ آرزو کا خطرہ ہے اور ہجر میں طلب کی لذت ہے ۔ ہجر آتش شوق کو بھڑکاتا ہے اور ذوق جستجو میں اضافہ کرتا ہے: جدائی شوق را روشن بصر کرد جدائی شوق را جویندہ تر کرد آتش جدائی کا ٹھنڈا ہونا موت کا پیغام ہے: دہد آتش جدائی شرر مرا نمودے بہمان نفس بمیرم کہ فرنشانم او را جب تک آرزو کی تخلیق کا سلسلہ جاری رہتا ہے انسانی زندگی کی نشوونما برقرار رہتی ہے۔ یہی لگن زندگی کے اعمال کو آگے بڑھاتی ہے۔ بعض نقادوں نے علامہ کے تخلیق آرزو کے تصور اور برگساں کے نظریہ جوش حیات و ارتقائے تخلیقی کے ڈانڈے ملانے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھتے کہ برگسان نے نفس انسانی کے تخلیقی شعور و استعداد کی تعبیر حیاتیاتی ارتقا سے کی ہے، لیکن علامہ کی نظر میں نفس انسانی کا اصلی محرک روحانی جذبہ ہے اور اس کو سمجھے بغیر حیاتیاتی مظاہر کی صحیح تعبیر ممکن نہیں۔ برگسان نے تخلیقی ارتقا کے فلسفے میں روحانی عنصر کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ مگر ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ علامہ کے نزدیک آرزوؤں کی تخلیقی استعداد روحانی ہے۔ زندگی پیہم سفر اور مسلسل تغیر کا نام ہے جو ثبات کے نام سے نا آشنا ہے: درین چمن دل مرغان زمان زمان دگر است بشاخ گل دگر و بآشیان دگر است بہ ہر زمانہ اگر چشم تو نکو نگرد طریق میکدہ و شیوۂ مغان دگر است یہ دنیا ابھی نقش ناتمام ہے اور گردش صبح و شام کی اسیر ہے۔ اسے ارتقا کی منزلوں میں سے گزرنا ہے اور اس پیکر ناتمام کو تکمیل کے مرحلے پر پہنچنا ہے۔ انسان اپنے عمل سے زندگی کے امکانات میں مسلسل وسعت پیدا کرتا ہے اور اس کی صلاحیتوں میں نئے رنگ بھرتا ہے۔ شاعر کی نظر میں صاحب عمل انسان کا آج کل سے مختلف ہے۔ اگر ایسا نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دل زندگی کی حرارت اور جولانی سے محروم ہے: دما دم نقشہائے تازہ ریزد بیک صورت قرار زندگی نیست اگر امروز تو تصویر دوش است بخاک تو شرار زندگی نیست تخلیق و ارتقا زندگی کی فطرت ہے اور جمود و سکون اس کے لیے حرف بے معنی ہے۔ یہ آویزش و پیکار کی خوگر ہے اور اسی سے اس کو قوت اور نشوونما حاصل ہوتی ہے: خوگر پیکار پیہم دیدمش ہم خودی ہم زندگی نامیدمش بقا اور پیکار کے باہمی ربط پر اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ ایک خط میں ڈاکٹر نکلسن کو لکھتے ہیں: ’’ میرے نزدیک بقا انسان کی بلند ترین آرزو اور ایسی متاع گرانما یہ ہے جس کے حصول پر انسان اپنی تمام قوتیں مرکوز کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمل کی تمام صور و اشکال مختلفہ کو جن میں تصادم و پیکار بھی شامل ہے ضروری سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک ان سے انسان کو زیادہ استحکام و استقلال حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر میں نے سکون و جمود اور اس نوع کے تصوف کو جس کا دائرہ محض قیاس آرائیوں تک محدود ہو مردود قرار دیا ہے۔‘‘ 1؎ یہاں علامہ نے اس حقیقت کی طرف خاص طور سے اشارہ کیا ہے کہ ان کے اس عقیدے کے برعکس نیتشے بقائے شخصی کا منکر ہے 2؎ اس پیکار و مبارزت کا پیغام اقبال کے کلام میں جاری و ساری ہے اور یہ مبارزت جمود و سکون کی ضد ہے۔ کردار و عمل کی راہ میں منطقی استدلال کی موشگافیاں ایک سنگ گراں بن کر حائل ہوتی ہیں مگر صاحب عزم و ہمت کا راستہ نہیں روک سکتیں: بہ ضرب تیشہ بشکن بیستون را کہ فرصت اندک و گردوں دو رنگ است حکیمان را در این اندیشہ بگذار شرر از تیشہ خیزد یا ز سنگ است سخت کوشی زندگی کی ایک بنیادی صفت ہے۔ کمزوری و ناتوانی خواہ کتنے ہی حسین رنگ میں جلوہ آرا کیوں نہ ہو وہ زندگی کے تقاضوں کی تکمیل نہیں کر سکتی۔ غنی کاشمیری کی زبان سے کہتے ہیں: بگذر ز شاخ گل کہ طلسمیست رنگ و بو علامہ کا عقیدہ ہے کہ غلامی میں خودی کمزور پڑ جاتی ہے۔ غلام سخت کوشی سے محروم ہو جاتا ہے اور ہر ایسے نظام فکر سے جی چراتا ہے جو اس کی روح کی بالیدگی اور شخصیت کی قوت و سربلندی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک خط میں فرماتے ہیں: ’’ جب انسان میں خوئے غلامی راسخ ہو جاتی ہے تو ہر ایسی تعلیم سے بے زاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد قوت نفس اور روح انسانی کا ترفع ہو۔‘‘ 2؎ انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ ان کے بربط میں سکون و عافیت کا نغمہ نہیں اس لیے کہ وہ تو زندگی میں ایک نئی رمق پیدا کرنا چاہتے ہیں اور نظام کہنہ کی جگہ نئی تعمیر کے آرزو مند ہیں: نغمہ عافیت از بربط من می طلبی؟ از کجا بر کشم آن نغمہ کہ در تارم نیست کشمکش زندگی میں عافیت کے لیے کوئی گنجائش نہیں: درین رباط کہن چشم عافیت داری ترا بہ کشمکش زندگی نگاہے نیست اس لیے شاعر کی نظر میں ہنگامہ آفرینیوں کا کوئی شمار نہیں۔ زندگی ہنگامہ آفریں اور ہنگامہ طلب ہے۔ مبارک ہیں وہ ارباب عزم و ہمت جو وقت کے دامن کو نئے ہنگاموں اور تازہ کارناموں سے پھولوں کی طرح بھرتے رہتے ہیں کہ یہی تقاضائے حیات ہے: خنک مردان کہ در دامان امروز ہزاران تازہ تر ہنگامہ چیدند زندگی مسلسل کشمکش کا نام ہے۔ یہ رزم گاہ خیر و شر ہے۔ آج کی رونق گزرے ہوئے کل کی جانفشانیوں کا نتیجہ ہے: زندگی پیہم مصاف نیش و نوش رنگ و نم امروز را از خون دوش آرزوؤں کی تکمیل اور مقاصد کی برآری جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ راہ کٹھن ہو تو عزائم میں زیادہ قوت پیدا ہوتی ہے اور خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ مخالفت اور دعوت مبارزت سے قوت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ نے قوی دشمن کو فضل حق قرار دیا ہے، اور اس سلسلہ میں حضرت سید ہجویریؒ سے ایک واقعہ بھی منسوب کیا ہے جس کا ذکر اسرار خودی کے زیر عنوان آ چکا ہے۔ شاعر سنگ راہ کو تیغ عزم کی فساں سے یاد کرتا ہے۔ اگر ہمت مضبوط ہو تو سنگ راہ آب ہو جاتا ہے۔ سیلاب کبھی راستے کے نشیب و فراز کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس قسم کے خیالات کا اظہار رومی نے بھی کیا ہے۔ ان کے نزدیک مخالفت اور عناد ایسا شر ہے جس کا وجود خیر کے لیے ضروری ہے۔ وہ انسان کو شر کی قوتوں کے خلاف مسلسل پیکار پر اصرار کرتے ہیں ان کی نظر میں انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ شر پر غالب آ جائے۔ شر انسان کی شخصیت کی نشوونما کا زریں موقع بہم پہنچاتا ہے۔ انسان کی شخصیت جتنی عظیم ہو گی اتنا ہی اس کو شر کا زیادہ مقابلہ کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مصائب و ابتلا کا سامنا سب سے زیادہ انبیاء کے حصے میں آیا ہے: زین سبب بر انبیا رنج و شکست از ہمہ خلق جہان افزون تر است اقبال نے زردشت کی زبان سے بھی یہی فلسفہ بیان کیا ہے۔ نور و ظلمت کی آویزش دین زردشت کا مرکزی فلسفہ ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ یزدان اہریمن پر یا دوسرے لفظوں میں نور ظلمت پر غالب آ جائے گا۔ اس ازلی آویزش کے سلسلے میں زردشت کا ارشاد ہے: از بلاہا پختہ تر گردد خودی تا خدا را پردہ در گردد خودی مرد حق بین جز بحق خود را ندید لا الہ میگفت و در خون می تپید عشق را در خون تپیدن آبروست ارہ و چوب و رسن عیدین اوست در رہ حق ہر چہ پیش آید نکوست مرحبا نا مہر باینہائے دوست! جب بلا سے خودی پختہ تر ہوتی ہے اور شر پر غالب آنے سے انسان اپنی فطرت کے تقاضوں کی تکمیل اور اپنی شخصیت کی نشوونما کرتا ہے تو پھر زندگی کی معراج بلاؤں سے ٹکرانے اور جفاؤں کو للکارنے میں مضمر ہے۔ علامہ نے اسی شعار زندگی کو اپنایا ہے۔ وہ رسم شبیری کو اپنا مسلک قرار دیتے ہیں: تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست بامن میا کہ مسلک شبیرمؓ آرزوست انہیں اب بھی ذات خداوندی سے کسی حسینؓ کی آرزو ہے جو اپنے خون سے نخل حق و صداقت کی آبیاری کر سکے: ریگ عراق منتظر، کشت حجاز تشنہ کام خون حسینؓ باز دہ کوفہ و شام خویش را خطرات انسان کی قوت اور حوصلے کا امتحان ہیں اور زندگی خطرات ہی کے سائے میں پنپتی اور سنورتی ہے۔ پیام مشرق کی ایک نظم کا عنوان ہی ’’ اگر خواہی حیات اندر خطر زی‘‘ ہے اور اس میں ایک مکالمے کی صورت میں یہ پیغام دیا گیا ہے: خطر تاب و توان را امتحانست عیار ممکنات جسم و جان است ان کی نظر میں زندگی موجوں سے ٹکرانے اور گردابوں میں الجھنے کا نام ہے۔ ساحل پر زندگی کی رفتار سست اور مدہم ہے۔ ابدی زندگی پیکار اور دعوت مبارزت سے حاصل ہوتی ہے اور طوفانوں سے نبرد آزمائی حیات جاوداں کی راہ دکھاتی ہے:ـ میارا بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاودان اندر ستیز است نبرد آزمائی کے لیے حافظ کی طرح انہوں نے بھی موج و گرداب کی ہلاکت خیزیوں کی تصویر کشی کی ہے۔ حافظ کا مشہور شعر ہے: شب تاریک و بیم موج و گردابے چنین بائل کجا دانند حال ما سبکباران ساحلہا حافظ کی نظر میں زندگی کے بارگراں سے سبکدوش ہونے والے ساحل نشین تاریک رات میں بپھرے ہوئے سمندر کے طوفانوں کو کیا جانیں۔ اقبال کے ہاں ساحل نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ زندگی ایک بحر پیکران ہے جس میں بقا کا سامان صرف طوفان کی ہلاکت آفرینیوں کا دلیرانہ مقابلہ کرنے میں پنہاں ہے: چو موج خیز و بہ یم جاودانہ می آویز کرانہ می طلبی بیخبر کرانہ کجاست ایک جگہ نہنگ کی زبان سے ساحل سے گریز و نفرت، موج و طوفان سے آویزش اور سمندر کی پھیلتی ہوئی وسعتوں کو مسکن و ما من بنانے کا سبق یوں دی اہے: نہنگے بچہ خود را چہ خوش گفت بدین ما حرام آمد کرانہ بہ موج آویز و از ساحل بہ پرہیز ہمہ دریاست ما را آشیانہ جوش کردار، مبارزہ طلبی اور خطر پسندی کے تصور حیات میں ترک دنیا کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ علامہ نے ایسے رحجانات کی سخت مذمت کی ہے جو ترک دنیا اور عزلت نشینی کا سبب بنتے ہیں: اے کہ از ترک جہان گوئی مگو ترک این دیر کہن تسخیر او راکبش بودن از و وارستن است از مقام آب و گل برجستن است ان کی نظر میں ان رحجانات کا اسلامی نظریہ زندگی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ فلسفہ کاملاً غیر اسلامی ہے، مگر اس نے اقوام مسلم میں رخنہ اندازی کر کے ان کے تعمیری قوا اور تخلیقی صلاحیتوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔ وہ اس مسلک کو شعار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیگانگی قرار دیتے ہیں، اور نہایت حسرت کے ساتھ مسلمان پر ان رحجانات کے غالب آنے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: آنکہ عزمش کوہ را کاہے شمرد باتوکل دست و پائے خود سپرد آنکہ گامش نقش صد ہنگامہ بست پائے اندر گوشہ عزلت شکست کوشش او با قناعت ساز کرد تابہ کشکول گدائی ناز کرد ’’ اسرار خودی‘‘ میں جہاں وہ زندگی کو قوت کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ذوق ابتلا کو اس کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں وہاں وہ قناعت کے مسخ شدہ تصور کا سبب کمزوری و ناتوانی کو ٹھہراتے ہیں: زندگانی قوت پیداستے اصل او از ذوق استیلاستے عفو بیجا سردی خون حیات سکتہ در بیست موزون حیات ہر کہ در قعر مذلت ماندہ است ناتوانی را قناعت خواندہ است زندگی کا کٹھن اور خطرناک سفر نہ صرف یہ کہ انہیں مایوس نہیں ہونے دیتا بلکہ وہ اسے خودی کی تربیت و استحکام کا ایک زرین موقع تصور کرتے ہیں۔ زندگی ان کے لیے ذوق و شوق کی نئی راہیں پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر اور لافانی حقیقت ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے کا دل لذت حیات سے آشنا ہے۔ بلندی و پستی عالم پر کیف حیات چھایا ہوا ہے او رزندگی کے سوز و ساز نے ایک تخلیقی اور ارتقائی ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ زندگی کی دھڑکنیں جس طرح قلب انسانی میں دکھائی دیتی ہیں اسی طرح گل و لالہ میں کار فرما ہیں۔ کوئی مظہر کائنات ایسا نہیں جو زندگی کے سرور سے نا آشنا ہو۔ اس طبعی حقیقت کو شاعر نے اس طرح موسیقی اور نغمے میں ڈھالا ہے: بنگاہ آشنائے چو درون لالہ دیدم ہمہ ذوق و شوق دیدم ہمہ آہ و نالہ دیدم بہ بلند و پست عالم تپش حیات پیدا چہ دمن چہ تل چہ صحرا رم ابن غزالہ دیدم شاعر مشرق نے اپنے پیغام کے لیے جس طرح گل و لالہ میں جھانک کر دیکھ اہے ویسے ہی موج دریا سے بھی زندگی کا پیغام سنا ہے۔ اگر انہیں دل لالہ میں ذوق و اضطراب کی کیفیت نظر آئی ہے تو یہی پیچ و تاب انہیں موج کی بیقرار روانی میں بھی دکھائی دیا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ حقائق زندگی کو ہمیشہ فطرت کے حسین مظاہر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ مثلاً موج کا کہنا ہے: گہے بر خویش می پیچم چو مارے گہے رقصم بہ ذوق انتظارے زندگی کے بارے میں علامہ کا نقطہ نظر انتہائی رجائیت آمیز ہے ان کے کلام میں لذت حیات اور ذوق و شوق کی وہی کیفیت ہے جو ان کی نگاہ فطرت کے ہر مظہر میں دیکھتی ہے۔ اگر ابر بہار اندھیری رات میں رو رو کر اس زندگی کو گریہ مجسم کہنے لگتا ہے تو بجلی کی لمحاتی چمک اسے روشنی اور مسکراہٹ کے نام سے تعبیر کرتی ہے۔ ایک جگہ قنوطیت اور رجائیت کا فلسفہ شوپنہار (1860ئ) اور نیتشے کی زبان سے ادا ہوا ہے۔ شوپنہار قنوطیت، یاس، بے بسی اور عجز و درماندگی کا ترجمان ہے تو نیتشے کے ہاں زندگی ایک طوفان خیز قوت و قدرت کے ساتھ مچل رہی ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے شوپنہار کے حرمان آمیز فلسفے کو نہایت اثر آفرین اشعار میں پیش کرنے کے بعد نیتشے کے رجائی نقطہ نظر کو اس قوت اور زور کے ساتھ پیش کیا ہے کہ شوپنہار کا غم انگیز فلسفہ اپنی اثر آفرین درد مندی کے باوجود اس توانا فکر کے نیچے دب کے رہ گیا ہے۔ شوپنہار کے ذہنی کرب کی کیفیت یہ ہے: گفت اندرین سرا کہ بنایش فتادہ کج صبحے کجا کہ چرخ در و شامہا نہ چید نالید تا بحوصلہ آن نوا طراز خون گشت نغمہ و ز دو چشمش فروچکید نیتشے کا جواب یہ ہے: گفتش کہ سود خویش ز حبیب زیان برآر گل از شگاف سینہ زر ناب آفرید درمان ز درد ساز اگر خستہ تن شوی خوگر بہ خار شوکہ سراپا چمن شوی اگر شاعر نے رجائیت کا جان پرور پیغام مغرب کے بت شکن فلسفی نیتشے کی زبان سے دو اشعار میں یوں پیش کیا ہے کہ ان میں ایک جہان معنی سما گیا ہے تو دوسری طرف یہی پیغام مشرق کے عظیم صوفی شاعر اور مفکر پیر رومی کی زبان سے ایک معنی خیز شعر میں یوں دیا ہے: جان ز امید است چون جوئے روان ترک امید است مرگ جاودان اگر زندگی امید کے احساس سے سرشار ایک ایسی ندی ہے جو پہاڑوں میں راستے کاٹتی، پتھروں سے ٹکراتی، خود سپردگی کے عالم میں انجانی منزل کی طرف رواں دواں ہے تو امید سے محروم زندگی پر موت کے تاریک سائے مسلط ہو جاتے ہیں۔ شاعر دعا دیتا ہے اس پختہ کار کو جس نے امید کو چراغ راہ زندگی کے نام سے یاد کیا ہے: فزون قبیلہ آن پختہ کار باد کہ گفت چراغ راہ حیات است جلوۂ امید کہیں اس نے دوسرے ممتاز حکما اور فلاسفہ کی زبان سے زندگی کو امید سے لبریز حقیقت کا نام دیا ہے اور امید کے فقدان کو موت کے نام سے یاد کیا ہے، تو کہیں خود اپنے عزم و ثبات اور امید و رجائیت کے سامنے رات کی ظلمت کو ناچیز کہہ کر ٹھکرا دیا ہے۔ اور جس طرح برق سبک سیر کے حوالے سے زندگی کو گریہ پیہم کی بجائے خندۂ یکدم کے روپ میں دیکھا ہے، اسی طرح شب تاریک سے سہم جانے کے بجائے نہایت اعتماد کے ساتھ طلوع سحر کی حقیقت کو پیش نظر رکھا ہے: من ہیچ نمی ترسم از حادثہ شبھا شبھا کہ سحر گردد از گردش کوکبھا یہ شر ہمیں فارسی کے ایک دوسرے عظیم رجائی شاعر حافظ شیرازی کے مندرجہ ذیل شعر کی یاد دلاتا ہے: اے دل صبور باش و مخور غم کہ عاقبت این صبح روز گردد و این شب سحر شود شاعر مشرق نے مندرجہ بالا رمزیہ شعر میں اس تابناک حقیقت کی بشارت بھی دی ہے کہ ظلمت و تاریکی کی رات کوئی منتقل حقیقت نہیں ہے۔ خندۂ سحر بالآخر اس تاریکی کا خاتمہ کرنے والا ہے۔ یہ شعر نا امید قوموں کے لیے مسیحائی کا پیغام ہے۔ انہوں نے ملت کے دور گراں خرابی کے خاتمے اور آفتاب امید کے طلوع کا پیغام بار بار دیا ہے۔ ایک اور شعر میں انتہائی کرب انگیز اور مایوس کن حالات میں بھی کامرانی کا اٹل یقین دلانے کے لیے ایک زبردست اور اچھوتی مثال دی ہے جو شاعر کے تخیل کی توانائی اور زور بیان کا نہایت دلآویز اور اثر آفرین نمونہ ہے: غم مخور نادان کہ گردون در بیابان کم آب چشمہ با دارد کہ شبخونے بہ سیلابے زند بے آب و گیاہ بیابان میں ایسے چشموں کا ابلنا جو سیل بے پناہ پر چھاپے مارتے ہوئے شاعر کی قوت تخیل کی زبردست دلیل ہے اور شاعر کی رجائی شاعری میں حرف آخر کا حکم رکھتی ہے۔ یہ شعر اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ شاعر انتہائی روح فرسا حالات کے سامنے بھی سپر ڈالنے کو تیار نہیں اور اس کا توانا رجائیت آمیز فلسفہ زندگی کے لیے چراغ راہ کا حکم رکھتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ علامہ کی نظر میں ان کے اپنے فلسفہ خودی کا سرچشمہ خالص اسلامی افکار و عقائد ہیں۔ ایک خط میں ڈاکٹر نکلسن کو لکھتے ہے: ’’ میرا دعویٰ ہے کہ ’’ اسرار‘‘ کا فلسفہ مسلمان صوفیا اور حکما کے افکار و مشاہدات سے ماخوذ ہے اور تو اور وقت کے متعلق ہرگساں کا عقیدہ بھی ہمارے صوفیوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔‘‘ 4؎ ٭٭٭ بیخودی لفظ بیخودی کے بارے میں علامہ اپنے ایک خط مورخہ 20جولائی 1918ء حضرت اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں: ’’ ........مگر ایک اور بیخودی ہے جس کی دو قسمیں ہیں:‘‘ 1ایک وہ جو Lyrical Poetryکے پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس قسم سے ہے جو افیون وشراب کا نتیجہ ہے۔ 2دوسری وہ بے خودی ہے جو بعض صوفیہ اسلامیہ اور تمام ہندو جوگیوں کے نزدیک ذات انسانی کو ذات باری میں فنا کر دینے سے پیدا ہوتی ہے اور یہ فنا ذات باری میں ہے نہ احکام باری تعالیٰ میں۔ پہلی قسم کی بے خودی تو ایک حد تک مفید بھی ہو سکتی ہے مگر دوسری قسم تمام مذہب و اخلاق کے خلاف جڑ کاٹنے والی ہے۔ میں ان دو قسموں کی بے خودی پر معترض ہوں اور بس۔ حقیقی اسلامی بے خودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات، رحجانات و تخیلات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہو جاتا ہے۔ اس طرح پر کہ اس پابندی کے نتائج سے انسان بالکل لاپروا ہو جائے اور محض رضا و تسلیم کو اپنا شعار بنائے۔ یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا ہے۔ البتہ عجمی تصوف فنا کے کچھ اور معنی جانتا ہے جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ 1؎ ان الفاظ سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ نے بیخودی کے روایتی مفہوم کو ترک کر کے اسے نئے معنی پہنائے ہیں ’’ رموز بیخودی‘‘ کے عنوان کے تحت بیخودی کے اس نئے مفہوم کو واضح کیا جا چکا ہے۔ ان نئے معنوں میں خودی جب خلوت سے باہر قدم رکھتی ہے تو ’’ من‘‘ او اور تو میں بدل جاتا ہے یعنی وہ اپنی رضا سے اپنے اختیارات محدود کر لیتی ہے، اور محبت کی دولت سے سرشار ہو کر خود شکن بن جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں فرد جماعت کے مفاد کی خاطر اپنے حقوق کو محدود کر لیتا ہے اور جماعت میں قوت اور نظم پیدا کرنے کی خاطر اپنے اختیارات اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس طرح انفرادی خودی کے ناز آپس میں ہم آہنگ ہو کر نیاز کو جنم دیتے ہیں: چون ز خلوت خویش را بیرون دہد پائے در ہنگامہ جلوت نہد نقش گیر اندر دلش ’’او‘‘ میشود ’’من‘‘ زہم می ریزد و ’’تو‘‘ میشود جبر قطع اختیارش می کند از محبت مایہ دارش می کند ناز تا ناز است کم خیزد نیاز نازھا سازد بہم خیزد نیاز در جماعت خود شکن گردد خودی تا ز گلبرگے چمن گردد خودی خودی اور بیخودی کے اس فرق کو علامہ نے زبور عجم کی ایک غزل میں جسے انہوں نے اس کی دلآویز معنویت کے پیش نظر جاوید نامہ کے آخر میں پھر دہرایا ہے، مندرجہ ذیل بلیغ شعر میں واضح کیا ہے: زندگی انجمن آرا و نگہدار خود است اے کہ در قافلہ ای بے ہمہ شو با ہمہ رو یہ شعر فرد اور جماعت کے ربط کو نہایت موثر انداز میں واضح کرتا ہے۔ جہاں تک فرد کی خودی اور انفرادیت جماعت یا معاشرے سے متصادم نہیں ہوتی اس کا فرض ہے کہ وہ اس کی نشوونما اور نگہبانی کرے اور اس کی قوت سے تعمیری اور تخلیقی مقاصد کی تکمیل کرے اور ذوق آرزو سے سرشار خودی کی دنیا الگ بسائے کہ: ہر کجا از ذوق و شوق خود گیری نعرۂ ’’من دیگرم تو دیگری‘‘ مگر اپنی خودی میں ڈوب جانے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فرد جماعت یا معاشرے کے حقوق و مطالبات سے غفلت اختیار کر لے۔ قافلہ جماعت کا ایک ہم سفر ہونے کی رو سے اس پر واجب آتا ہے کہ اس کی خودی قافلے کے اجتماعی مفاد کے تابع ہو۔ چنانچہ علامہ نے فرد کے لیے جو مثالی روش متعین کی ہے وہ یہی ہے کہ فرد قافلے کا ایک ایسا راہی ہے جو سب سے یکتا اور منفرد بھی ہے اور قافلے میں دوسروں کا ساتھی اور مونس و غمخوار بھی۔ اسی روش سے ایک طرف انفرادی ناز کا تحفظ ہوتا ہے اور دوسری طرف زندگی میں انجمن آرائی کا لطف پیدا ہوتا ہے۔ خلوت و جلوت یا یکتائی و انجمن آرائی کا یہ حسین امتزاج خودی اور بیخودی کی ہم آہنگی کا آئینہ دار ہے۔ فرد اور جماعت کا ربط، اور جماعت میں فرد کی حیثیت کو علامہ نے مختصر مگر نہایت واضح اور دلنشین الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: فطرتش وارفتہ یکتائی است جفظ او از انجمن آرائی است بیخودی اجتماعی خودی کو جنم دیتی ہے۔ اجتماعی خودی ہی سے کوئی قوم قوت اور زندگی حاصل کرتی ہے۔ علامہ اجتماعی خودی کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں انا الحق کا نعرہ فرد کو زیب نہیں دیتا، مگر قوم کے لئے ناجائز نہیں۔ فرماتے ہیں: انا الحق جز مقام کبریا نیست سزائے اور چلیپا ہست یا نیست اگر فردے بگوید سرزنش بہ اگر قومے بگوید ناروا نیست جماعت گزر ہوئے کل کی روشنی سے اپنے آج کو منور کرتی ہے اور اپنی تاریخی اور ملی روایات کو اپنی بقا کا سرچشمہ سمجھتی ہے۔ فرد ارتباط جان و تن سے زندہ رہتا ہے اور قوم اپنے آپ کو اپنی تہذیبی روایات کے تسلسل سے زندہ رکھتی ہے۔ فرد کی زندگی مختصر ہے، مگر قوم کے لیے ایک سو سال بھی ایک لمحہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہاں اگر قوم مقصد حیات کو ترک کر دے تو اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ملت کی تعریف علامہ نے یوں کی ہے: ملت از یک رنگی دلہا ستے روشن از یک جلوۂ سینا ستے قوم را اندیشہ با باید یکے در ضمیرش مدعا باید یکے جذبہ باید در سرشت او یکے ہم عیار خوب و زشت او یکے ان اشعار میں ملت کی نہایت مکمل اور جامع تعریف کی گئی ہے اور اس میں فرد اور ملت کے باہمی ناقابل شکست ربط کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ شاعر کی نظر میں ملت یا قوم کی بنیاد وجدان، افکار، مقاصد، جذبات اور اقدار کے اشتراک اور ہم آہنگی پر ہے۔ یہ اجتماعی ہم آہنگی انفرادی خودی کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ایک مستقل اور وسیع تر وحدت کے لیے جنم لیتی اور پرورش پاتی ہے۔ اسی اشتراک و ہم آہنگی کو شاعر نے میخانے کی ایمائی اور متغزلانہ زبان میں یوں بیان کیا ہے: شوق را مستی ز ہم پیمانگیست ایک جگہ علامہ نے ملت کو ایک ایسی نگاہ سے یاد کیا ہے جو ہزاروں آنکھوں سے تشکیل پاتی ہے ملت کی اس یک نگہی سے مراد وحدت افکار و کردار ہے۔ او ریہی نگہی اس کو حقیقت سے روشناس کراتی ہے: چیست ملت اے کہ گوئی لا الہ با ہزاران چشم بودن یک نگہ اہل حق را حجت و دعویٰ یکیست خیمہ ہائے ما جدا دلہا یکیست ذرہ ہا از یک نگاہی آفتاب یک نگہ شو تا شود حق بے حجاب ٭٭٭ عشق عشق کی لافانی قوت و اہمیت فارسی شاعر کا مرغوب مضمون ہے۔ بلکہ صوفیانہ شاعری کا بنیادی موضوع ہی عشق ہے، جہاں اس عقل کے مقابلے میں جوش اور وجدان کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ رومی نے عشق کے مضمون میں وسعت بھی پیدا کی اور شدت بھی۔ وہ عشق کو زندگی کی قوت محرکہ سمجھتے ہیں جس کے ذریعے زندگی ذوق تخلیق اور لذت ارتقا سے بہرہ ور ہوتی ہے۔ عشق ہی کی جوش انگیز رہنمائی میں انسان زندگی کے ارفع نصب العین یعنی مبداء اصلی تک رسائی میں کامیاب ہوتا ہے۔ عشق کا یہ فلسفہ صوفیانہ شاعری سے پہلے فارسی ادب میں کہیں نظر نہیں آتا۔ حیرت کی بات ہے کہ لفظ عشق قرآن مجید یا حدیث میں کہیں استعمال نہیں ہوا او رنہ قدیم عربی شاعری میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسلامی تصوف پر جو بیرونی اثرات آئے ہیں ان میں یونان کا فلسفہ اشراقیت بھی شامل ہے۔ اسلامی ادب میں سب سے پہلے عشق کا لفظ اسی مسلک کے پیرووں کے ذریعے داخل ہوا ہے اور اس پر سب سے جامع مضمون رسائل اخوان الصفا میں ملتا ہے۔ شیخ الاشراق شہاب الدین سہروردی المقتول (1119/587) نے ’’ حکمتہ الاشرق‘‘ میں لکھا ہے: ’’ ہر بلند نور کو نیچے کے نور پر غلبہ حاصل ہے اور نیچے کا نور بلند نور سے محبت رکھتا ہے اور اسی قہر و مہر سے نظام عالم کا وجود وابستہ ہے اور جب بہت سے انوار جمع ہو جاتے ہیں تو بلند نور نیچے کے نور پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے اور نیچے کے نور کو بلند نور کا شوق اور عشق ہو جاتا ہے۔ اس لیے نور الانوار (یعنی خدا) کو اپنے ماسوا تمام موجودات پر غلبہ حاصل ہے اور وہ اپنی ذات کے سوا کسی اور کا عشق نہیں کرتا کیونکہ وہ ہر چیز سے زیادہ خوبصورت اور مکمل ہے اور اس کو خود اپنا کمال نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ عاشق بھی اور معشوق بھی ہے اور چونکہ خدا سے زیادہ کوئی چیز حسین اور مکمل نہیں اس لیے کسی چیز کو بھی دوسری چیز کے عشق میں وہ لطف نہیں حاصل ہوتا جو عشق الٰہی میں ہوتا ہے۔ غرض نظام عالم کا وجود مہر و قہر سے قائم ہے اور انوار مجردہ کی جس قدر کثرت ہوتی ہے اور جس قدر ان میںعلت و معلول کا سلسلہ بڑھتا جاتا ہے، اسی قدر نظام عالم مکمل ہوتا ہے اور کل عالم مل کر ایک عالم ہو جاتے ہیں۔‘‘ 1؎ صوفی شعرا نے حقیقت اصلی سے اتحاد یا وصل کو مقصد حیات سمجھا ہے۔ اور صوفیانہ شاعری اسی ذوق سے سرشار ہے۔ رومی کا فلسفہ عشق اشراقیت سے بہت ملتا جلتا ہے۔ انہوں نے ارتقا کا نہایت واضح اور جامع تصور بھی پیدا کر لیا ہے۔ یہاں رومی کے بعض اشعار جن میں علت و معلول کا باہمی ربط اور درجات حیات میں ارتقا کے جذبے کی شدت کی پوری کیفیت موجود ہے، پیش کیے جاتے ہیں: جملہ اجزائے جہان زان حکم پیش جفت جفت و عاشقان جفت خویش ہست ہر جزوے بعالم جفت خواہ راست ہمچو کہر با و برگ کاہ آسمان گوید زمین را مرحبا با تو ام چون آہن و آہن ربا میل ہر جزوے بہ جزوے می نہد ز اتحاد ہر دو تولیدے جہد بر یکے خواہان دگر را ہمچو خویش از پے تکمیل فعل کار خویش دور گردون را ز موج عشق دان گر نبودے عشق بفسردے جہان کے جمادی محو گشے در نبات کے خدائے روح گشتے نامیات ہر یکے ہر جا فسردے ہمچو یخ کے بدے پران وجویان چون ملخ گویا عشق کا سلسلہ انسان تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی روح جمادات، نباتات اور حیوانات میں بھی جاری و ساری ہے اور یہی جذبہ عشق مشکلات کو خاطر میں نہ لاتا ہوا منزل مقصود کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ایک دوسرے شعر میں مولانا پتے سے مخاطب ہو کر اس کی تخلیقی انگیخت کا یوں ذکر کرتے ہیں: اے برگ قوت یافتی، تا شاخ را ہشگافتی چون رستی از زندان بگو؟ تامن در این جس آن کنم تخلیق کا عمل، ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف بڑھنے کی لپک، زندگی میں حرکت کا میلان اور پیہم اضطراب و بیتابی اسی قوت کی رہین منت ہے۔ عشق صرف تخلیق اور ارتقا ہی کا محرک نہیں بلکہ اجزائے ایک اور مقطع میں کلام رومی کی سرور انگیز کیفیت کو یوں خراج عقید ت پیش کیا گیا ہے: بیاکہ من ز خم پیر روم آوردم مے سخن کہ جوان تر ز بادۂ عنبی است ایک اور جگہ مولانا کی ایک مشہور غزل کے ایک مصرع کی جزوی تضمین یوں کی گئی ہے: شعلہ در گیر زد برخس و خاشاک من مرشد رومی کہ گفت ’’منزل ما کبریاست‘‘ پیام مشرق ہی میں’’ جلال و ہیگل‘‘ کے زیر عنوان ہیگل کے افکار کی ظاہری گہرائی کا ذکر کرتے ہوئے پیر رومی کے حوالے سے اس کے سارے فلسفے کا تار و پود بکھیر کے رکھ دیا ہے اور عشق کے مقابلے میں عقل و استدلال کی کم مایگی اور بے بضاعتی کا ذکر خود رومی ہی کے ایک شعر کی تضمین سے کیا ہے۔ یہاں یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ ایک زمانے میں اقبال نے ہیگل کے فلسفہ اضداد کو یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا تھا کہ ’’ ہیگل کا نظام فلسفہ نظر میں ایک رزمیہ ہے‘‘ 4؎ پھر یہ بھی فرمایا کہ ’’ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، مرزا غالب، عبدالقادر بیدل اور ورڈز ورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا۔ ہیگل او گوئٹے نے اشیا کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔۔۔‘‘ مگر اقبال کا فکری ارتقا آہستہ آہستہ ہیگل کے فلسفے سے بے نیاز ہوتا گیا اور پھر انہوں نے اس کے صدف کو گہر سے خالی بھی کہا اور اس کے طلسم کو خیالی بھی پایا 6؎ پیام مشرق میں انہوں نے ہیگل اور رومی اک مقابلہ کر کے رومی کی تابناک فکر کے مقابلے میں ہیگل کے فلسفے کو سراب سے تعبیر کیا ہے۔ اس نظم میں اقبال کے عشق از فریاد ما ہنگامہ با تعمیر کرد ورنہ این بزم خموشان ہیچ غوغائے نداشت گویا یہ کائنات عشق کی خلاقی اور ہنگامہ آفرینی کے بغیر ایک بزم خموشاں تھی عشق ہی نے عالم رنگ و بو میں ہما ہمی، جوش و مستی اور شوق و اشتیاق کو جنم دیا ہے۔ اسی کی بدولت زندگی انجانے جہانوں کی طرف محو سفر ہے۔ یہ جذبہ لازماں اور لامکاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر نے اسے رومی کی زبان سے سلطان کے نام سے یاد کیا ہے اور پوری کائنات کو اس کے زیر نگیں قرار دیا ہے: عشق سلطان است و برہان مبین ہر دو عالم عشق را زیر نگین لا زمان و دوش و فرد اے ازو لا مکان و زیر و بالاے ازو وہی مظاہر پستی میں ہم آہنگی کا باعث ہے۔ اسی کی قوت جاذبہ سے نظام دنیا قائم ہے۔ ذروں میں آفتاب سے قریب تر ہونے کی کوشش اسی جذب باہمی کا کرشمہ ہے۔ ستاروں کی گردش میں ربط و ضبط کا عالم اسی کا رہین منت ہے اور اسی کے ذریعے انسان کائنات اور اپنے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ عشق آئین حیات عالم است امتزاج سالمات عالم است عشق کائنات میں تخلیق، نمو، ارتقا، حرکت اور نظم و ترتیب ہی کا سرچشمہ نہیں بلکہ یہ انسان کو جو اس عالم رنگ و بو کی سب سے بڑی حقیقت ہے فطرت کی تسخیر پر بھی مائل کرتا ہے۔ عشق انسان کے اندر ایک ایسی بے پایاں قوت اور عزم پیدا کر دیتا ہے کہ وہ اس سے سرشاد ہو کر تسخیر و تکمیل کے راستے پر گامزن رہتا ہے یہ گنبد افلاک، یہ کوہ و صحرا یہ بحر و بر سب اس کے دست اختیار میں ہیں۔ اگر اس کے شرر میں خورشید جہانتاب کی ضو ہے یا اس کے سینے میں جہان تازہ کی تخلیق کی خاش ہے تو یہ اس کے خون جگر کی وجہ سے ہے۔ سوز و تپش عشق کا جوہر ہے۔ اسی سے انفرادی اور اجتماعی خودی کی تشکیل اور زندگی کے گونا گوں تخلیقی اور ارتقائی تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ جب تک دل ایک لگن سے سرشار نہ ہو مقاصد تشنہ تکمیل رہتے ہیں۔ لگن کی انتہائی صورت کو علامہ نے جنون کے نام سے یاد کیا ہے۔ لگن یا جنون مدعا کے حصول میں مہمیز کا کام کرتا ہے اور اسی سے لافانی کارنامے انجام پاتے ہیں: ہیچ قومے زیر چرخ لا جورد بے جنون ذوفنون کارے نکرد اس مضمون کی لازوال اہمیت کے پیش نظر علامہ نے اسے بار بار ایک نئے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ مثلاً ایک شعر میں ایسی قوم پر رشک کیا ہے جس کی روح سوز و تپش سے مضطرب ہے اس لیے کہ یہی سوز و اضطراب اس کے لیے ایک نئی زندگی کو جنم دے رہا ہے: اے خوشا قومے کہ جان او تپید از گل خود خویش را باز آفرید ذہن انسانی جن نئی دنیاؤں کا خواب دیکھتا ہے ان کا بسانا لذت آہ ہی سے ممکن ہے اس کے بغیر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا: آدم کہ ضمیر او نقش دو جہان ریزد با لذت آہے ہست بے لذت آہے نیست سوز عشق کی یہی وہ عظمت ہے جس کے پیش نظر علامہ اسے مثالی زندگی کا مرکز و محور قرار دیتے ہیں۔ رومی نے زندگی کے بارے میں کہا تھا: حاصل عمرم سہ سخن بیش نیست خام بدم، پختہ شدم، سوختم علامہ نے زندگی کی اسی کیفیت کو مزید شدت کے ساتھ ایک مصرع میں یوں پیش کیا ہے: سوزم، گریم، تیم، گدازم چونکہ سوز زندگی کے وسیع اور گوناگوں تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے اور نا ممکن کو ممکن بنا دیتا ہے اس لیے علامہ سوز و مستی کی ایک ایسی کیفیت کے متمنی ہیں جو کبھی ختم نہ ہو اور جس میں کیف دوام ہو: دوام ما ز سوز نا تمام است چو ماہی جز تپش برما حرام است مجو حاصل کہ در آغوش ساحل تپید یکدم و مرگ دوام است ٭٭٭ سوز و گداز حالتیست بادہ زمن طلب کنی پیش تو گریبان کنم مستی این مقام را سوز دوام ہی سے زندگی میں حرارت ہے۔ اگر خلش اور جستجو آزاد ہے تو عاشق کو اس آزاد ہی میں لذت اور سرور ملتا ہے اور اس درد کا بے درمان ہونا ہی ہر دکھ کی دوا ہے۔ شادم کہ عاشقان را سوز دواء دادی درمان نیا فریدی آزار جستجو را یہ سوز وہ مریضانہ غم نہیں جو انسان کے لیے روگ بنتا ہے اور اس کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس یہ وہ کیفیت غم ہے جو دوسرے تمام غموں کا صفایا کر دیتی ہے اور روح کو ایک ابدی سرور سے سرشار کرتی ہے: یک غم است آن غم کہ آدم را خورد آن غم دیگر کہ ہر غم را خورد پیر رومی نے اسی خیال کو یوں بیان کیا ہے: شاد باش اے عشق خوش سودائے ما وے طبیب جملہ علت ہائے ما اسی فکر کا آئینہ دار مرزا غالب کا یہ مشہور شعر بھی ہے: عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا علامہ سوز عشق کو مذہب کی روح سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں صوفی شعرا کے ہمنوا ہیں۔ صوفیانہ اور عارفانہ شاعری میں عشق کو ظواہر شریعت کے مقابلے میں ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور اس مبالغہ آمیز روش کا مقصد اس روحانیت کو آشکار کرنا ہے جس کی بنیاد محبت کے عالمگیر جذبے پر ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: خوشا کسے کہ حرم را درون سینہ شناخت دمے تپید و گذشت از مقام گفت و شنود ایک غزل کے مطلع میں جو سادہ طرز ادا کا دلنشین نمونہ ہے پارسائی کو محبت پر یوں نثار کیا ہے: خوشتر ز ہزار پارسائی گامے بہ طریق آشنائی یہ بات قابل ذکر ہے کہ جاوید نامہ میں علامہ نے تین افراد یعنی منصور حلاج، میرزا غالب اور قرۃ العین طاہرہ کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ انہوں نے گردش جاوداں کو بہشت بریں پر ترجیح دی ہے۔ یہ اس لیے کہ ان کی زندگی سوز دروں سے عبارت ہے۔ شاعر نے ان کے چہروں پر سوز دروں کی رخشندگی پائی ہے۔ ان کے پر سوز ترانوں نے ایک عالم میں شور و مستی کی کیفیت پیدا کی ہے۔ مرشد رومی کی زبان سے کہلواتے ہیں: غالب و حلاج و خاتون عجم شورھا افگندہ در جان حرم این نواھا روح را بخشد ثبات گرمی او از درون کائنات سوز دروں کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ اگر دل میں سوز پنہاں نہیں تو وہ پیکر خاکی تو ہے مگر روح نہیں کہ روح کی بالیدگی کا راز تب و تاب جاودانہ میں مضمر ہے: کسے کو درد پنہائے ندارد تنے دارد ولے جانے ندارد اگر جانے ہوس داری طلب کن تب و تابے کہ پایانے ندارد صوفیہ عشق کے والہانہ جذبے سے معمور ہو کر محویت و استغراق اور سوز و مستی کی کیفیت دوام سے لذت حاصل کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ یہ وجد و سرور ان کے اندر درون بینی کی ایک ایسی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جو ان کو کائنات کے خارجی عناصر سے بے تعلق کر دیتی ہے۔ وہ ان عناصر پر حکومت کرنے کی بجائے دل کی پر اسرار کائنات میں ڈوب جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پید نے اس کیفیت کو صحیح مسلک سمجھتے ہوئے مندرجہ ذیل شعر میں اسے شد و مد سے اپنانے کی تلقین کی ہے: ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو وسمن در آ تو ز غنچہ کم نہ دمیدہ ای در دل کشا بہ چمن در آ اس کیفیت میں سکون، طمانیت اور وجد و مستی کی دولت ضرور ملتی ہے لیکن اقبال کی نظر میں خارجی دنیا کا تصرف اور عناصر فطرت کی تسخیر بھی عشق کا خاصہ ہے۔ خلوت و جلوت کے امتزاج ہی سے عشق کی پوری قوت و توانائی کا اظہار ممکن ہے۔ خلوت میں روح کی ترتبیت ہوتی ہے لیکن اس باطنی تربیت کا نتیجہ جلوت میں ظاہر نہ ہو تو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا نہیں ہو سکتا ۔ جلوت کے بغیر یہ خلوت رہبانیت کی طرف لے جاتی ہے اور اس عشق سے محروم کر دیتی ہے جو فعال بھی ہے اور خلاق بھی۔ علامہ کی نظر میں عشق کی بہترین مثال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے جو خلوت اور جلوت کے صحیح امتزاج کی آئینہ دار ہے۔ جلوت و خلوت کا یہی امتزاج اجتماعی زندگی میں عشق کی بنیادی حیثیت کو واضح کرتا ہے اور اسے آئین حیات کا درجہ قرار دیتا ہے۔ علم و فن کی تخلیق کا باعث بھی عشق بیتاب ہی کا جذبہ ہے۔ ادراک حقیقت کے لیے دل کے اندر جو خلش پیدا ہوتی ہے با تجسس و تحقیق کے لیے جو ذوق و شوق ابھرتا ہے، وہ عشق ہی کا کرشمہ ہے، عشق ہی وہ حقیقت ہے جو نہ صرف دین کی پختگی کا باعث ہے بلکہ تہذیب و تمدن کی خالق بھی ہے۔ یہ نور حیات بھی ہے اور نار حیات بھی: زندگی را شرع و آئین است عشق اصل تہذیب است دین، دین است عشق ظاہر او سوز ناک و آتشین باطن او نور رب العالمین از تب و تاب درونش علم و فن از جنون ذوفنونش علم و فن دین نگردد پختہ بے آداب عشق دین بگیر از صحبت ارباب عشق اگر کسی فرد کا عشق روحانی لذت تک محدود ہو کے رہ جائے اور اس عالم خاکی میں کسی نئے اجتماعی نظام کا باعث نہ ہو تو اس عشق سے ارتقا کے تقاضے تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں، اور وہ نیا آدم جو شاعر کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے وجود میں نہیں آ سکتا۔ اقبال ایسے عشق کا متمنی ہے جو زندگی کی نئی قدریں متعین کرے اور عالم انسانی میں انقلاب برپا کر دے: بیا اے کشت ما اے حاصل ما بیا اے عشق اے رمز دل ما کہن گشتند این خاکی نہادان دگر آدم بنا کن از گل ما یہ خیال کہ عشق کے بغیر مذہب کی تکمیل نہیں ہو سکتی اور سوز و ساز اس کی روح رواں ہے، ایک رباعی میں نہایت صراحت سے پیش کیا گیا ہے: ز رازی حکمت قرآن بیاموز چراغے از چراغ او بر افروز ولے این نکتہ را از من فراگیر کہ نتوان زیستن بے مستی و سوز عشق انسان کے اندر جو قوت اور جوش پیدا کرتا ہے، اس سے نہ صرف تیشہ کوہ بیستون کی سنگلاخ چٹانوں سے نہر کاٹ کر باعث حیرت بن سکتا ہے، بلکہ یہ اپنی بے پناہ اور بے پایاں قوت سے خود پہاڑوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے: تیشہ اگر بہ سنگ زد این چہ مقام گفتگوست عشق بہ دوش میکشد این ہمہ کوہسار را خلش محبت وہ قوت ہے جس سے سینکڑوں کوہ پیشتوں پارہ پارہ کئے جا سکتے ہیں۔ بگو از من بہ پرویزان ابن عصر نہ فرہادم کہ گیرم تیشہ در دست ز خارے کو خلد در سینہ من دل صد پیستون را می توان خست انسان عشق کے جذب و مستی سے سرشار ہو کر عظمت کے انتہائی مدارج طے کر لیتا ہے۔ لیکن یہ قوت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان محبوب کی صفات کو حتی الامکان اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرے۔ اس کیفیت کو علامہ نے تقلید کے لفظ سے یاد کیا ہے، اور اسے آداب عشق میں سے گنوایا ہے۔ صفات محبوب کے اس اکتساب سے خودی کا جوہر نکھرتا ہے اور انسان کے اندر وہ قوت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے ’’ یزدان شکار‘‘ بنا دیتی ہے: نقطہ نورے کہ نام او خودی ست زیر خاک ما شرار زندگی ست از محبت میشود پائندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر کیمیا پیدا کن از مشت گلے بوسہ زن بر آستان کاملے کیفیت ہا خیزد از صہبائے عشق ہست ہم تقلید از اسمائے عشق عاشقی محکم شو از تقلید یار تا کمند تو شود یزدان شکار ان صفات سے متصف ہو کر عاشق زمان و مکان پر اپنی گرفت مضبوط کر لیتا ہے اور بقول رومی: آنچہ اندر وہم ناید آن شوم علامہ نے عشق کی اس بے پایاں قوت کے اظہار میں بڑی شوخی اور بیباکی سے کام لیا ہے: در دشت جنون من جبریل زبون صیدے یزدان بکمند آور اے ہمت مردانہ یہی وجہ ہے کہ عشق شاعر کے لیے ہر دکھ کی دوا ہے اور ہر درد کا مداوا ہے۔ وہ اس جذبے کی اضطراب انگیزیوں کو سمجھتا ہے۔ اس سے دل جن بیتابیوں کی آماجگاہ بنتا ہے وہ ان سے خوب واقف ہے مگر یہی اضطراب و تپش اور یہی بیتابی و بیقراری شاعر کے لیے آسودگی کا باعث بنتی ہے اور اس کے رگ و پے میں کیف و انبساط کی لہر دوڑا دیتی ہے: این حرف نشاط آور میگویم و سیر قصم از عشق دل آساید با این ہمہ بیتابی گویا عشق سوز بھی ہے اور ساز بھی: گرچہ صد گونہ بصد سوز مرا سوختہ اند اے خوشا لذت آن سوز کہ ہم سازے ہست عشق کا بحر ناپیدا کنار اپنی طوفان خیزیوں کے باوجود ساحل مراد بھی ہے کہ اسی سے زندگی اپنے نصب العینی تقاضے پورے کرتی ہے: ہم عشق کشتی من، یم عشق ساحل من نہ غم سفینہ دارم نہ غم کرانہ دارم عشق کا یہ نشاط انگیز جذبہ جاوداں ہے اور انسان کو بھی جاوداں بنا دیتا ہے۔ اقبال نے بار بار عشق کو ایک لازوال حقیقت کے نام سے یاد کیا ہے۔ مثلاً می نداند عشق سال و ماہ را دیر و زود و نزد و دور و راہ را ٭٭٭ عشق بر ناقہ ایام کشد محمل خویش عاشقی؟ راحلہ از شام و سحر باید کرد یہ نظریہ کہ عشق روح انسانی کو لازوال بنا دیتا ہے جدید فلسفے کے لیے بھی خیال انگیز ثابت ہوا ہے۔ برگساں اور بعض دوسرے مفکرین شدت احساس یا روحانی جوش کو جیسے وہ ایک کشمکش کا نام دیتے ہیں، روح انسانی کے لیے سرمایہ بقا سمجھتے ہیں۔ شاعر مشرق نے عشق کی شان رہبری اور ابدی حقیقت کو نغمہ و موسیقی کے وجد آور رنگ میں یوں پیش کیا ہے: من بندہ آزادم عشق است امام من عشق است امام من، عقل است غلام من ہنگامہ این محفل از گردش جام من این کوکب شام من، آن ماہ تمام من جان در عدم آسودہ بے ذوق تمنا بود مستانہ نواہا زد در حلقہ دام من اے عالم رنگ و بو این صحبت ما تا چند مرگ است دوام تو، عشق است دوام من عشق اور علم کا باہمی رشتہ صوفیہ کا ایک مرغوب موضوع ہے اور علامہ کے فلسفہ عشق میں بھی اسے زبردست اہمیت حاصل ہے۔’’ پیام مشرق‘‘ میں ’’ محاورہ علم و عشق‘‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے جو علامہ کے نظریہ عشق و خرد کی نہایت واضح اور روشن تفسیر ہے۔ اس کے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ علامہ کی نظر میں دونوں کی الگ الگ کیا اہمیت ہے، اور عشق کو خرد پر کیا برتری حاصل ہے۔ نظم جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے مکالمے کی شکل میں ہے۔ علم عشق سے مخاطب ہو کر اپنی اہمیت یوں جانتا ہے کہ میں کائنات کا راز داں ہوں۔ زمانہ میری کمند کا اسیر ہے۔ میں راز ہائے پنہاں کو سر بازار فاش کرتا ہوں۔ رہے وہ حقائق جن کا تعلق چرخ نیلی فام کے اس پار سے ہے تو مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ علم کے ان بلند بانگ دعوی کو سن کر عشق یوں گویا ہوتا ہے کہ تیری افسو نگری سے سمندر شعلہ زار ہے اور ہوا زہر ناک اور آتش فشاں ہے۔ جب میرا تیرا ساتھ تھا تو نور تھا۔ جب سے تو مجھ سے کٹا ہے تیرا نور نار بن کر رہ گیا ہے۔ عالم لاہوت تیری زاد گاہ تھی لیکن افسوس تو شیطان کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ علم کو یہ طعنہ دینے کے بعد عشق اسے دعوت دیتا ہے کہ آ اور اس عالم خاک و باد کو گلستان میں بدل دے۔ اس جہان پیر کو جوان بنا دے۔ آ مجھ سے درد دل کا ایک ذرہ لے اور آسماں کے نیچے بہشت جاوداں کی تخلیق کر۔ روز آفرینش سے ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ایک ہی نغمے کا زیرو بم ہیں۔ اس مکالمے میں جن حقائق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں کہ علم نے اپنی قوت سے تسخیر فطرت کی ہے، زندگی کے مادی حقائق پر اس کی گہری نظر ہے۔ وہ زمان و مکان پر کمند ڈالتا ہے مگر زمان و مکان سے ماوراء اسے کوئی واسطہ نہیں اور ما بعد الطبیعی حقائق سے اسے کوئی غرض نہیں۔ عشق سے قطع تعلق کر کے اس نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے، مگر اصل اس کی بھی لاہوتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ علم و عشق دونوں ایک ہی چشمے کی دو دھاریں ہیں۔ مگر علم روحانی اور اخلاقی اقدار سے کٹ کر تخریبی قوتوں کا آلہ کار بن گیا ہے اور فضا اس کی گستاخ دستیوں سے نالاں ہے۔ اس خاکداں کی فلاح کا راز علم و عشق کے تعاون اور ہم آہنگی میں ہے۔ علم درد مندی کا پہلو اپنے اندر سمولے تو وہ اس دنیا کو بہشت جاوداں میں بدل سکتا ہے۔ اس مکالمہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اقبال کی نظر میں علم اور عشق دونوں زندگی کی بنیادی قدریں ہیں اور زندگی کے ارتقا کے لیے دونوں کا تعاون لازمی ہے۔ انہوں نے اپنے انگریزی خطبات میں اس عقیدے کو واضح کیا ہے کہ عقل اور وجدان یا عشق ایک دوسرے کی ضد نہیں۔ ان کی اساس ایک ہے اور عقل منتہائے کمال پر پہنچ کر وجدان میں بدل جاتی ہے 2؎ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ علامہ استدلال عقلیت کے سخت مخالف ہیں۔ اس مخالفت کا تجزیہ کرنے سے پہلے اسلامی فکر و تصوف کی تاریخ میں عقل و عشق کی حیثیت کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔ یونانی فلسفہ کے زیر اثر مسلمان مفکرین نے شروع ہی سے عقل کو غیر معمولی اہمیت دینی شروع کر دی تھی۔ زکریا رازی (925/313) فارابی (950/339) او رابن سینا (1037/468) نے ارسطو کو ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ قرار دیا تھا۔ فارابی یونانی فلسفے سے اس شدت سے متاثر تھا کہ اس نے اسے عقل و خرد کا حرف آخر تسلیم کر لیا تھا اور ارسطو اور افلاطون (347ق م ) اس کے نزدیک فلسفہ کے امام تھے۔ قرون وسطیٰ میں یورپ میں ابن سینا کو ارسطو کے مفسر کا نام دیا گیا تھا۔ عقل و خرد کی اس حکمرانی اور فلسفے کے اس مکمل غلبے کے خلاف سب سے پہلے امام غزالی (1111/505) نے آواز اٹھائی۔ انہوں نے تہافت الفلاسفہ میں مسلمان حکما بالخصوص بو علی سینا کے افکار پر سختی سے حملہ کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلسفے کے خلاف نفرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ امام غزالی خود عظیم فلسفیوں میں سے تھے، لیکن فلسفے کے خلاف ان کا رد عمل مشہور فرانسیسی مفکر ارنسٹ ریناں (1892ئ) کا یہ قول یاد دلاتا ہے کہ اگر کبھی فلسفی فلسفے سے مایوس ہو کر عرفان و تصوف کا دامن تھام لے تو وہ فلسفیوں کا سخت ترین دشمن ہو جاتا ہے۔ غزالی نے حقائق اشیا کے مکمل ادراک کے سلسلے میں عقل کی اجارہ داری کو ٹھکرا دیا اور ایک لحاظ سے پانچویں/گیارہویں صدی میں عالم اسلام میں وہی کام کیا جو جدید مغربی فلسفہ کے امام جرمن مفکر کانٹ نے اٹھارہویں صدی عیسوی میں یورپ میں انجام دیا۔ غزالی نے کشف یا وجدان کو ادراک حقیقت کا واحد اور یقینی ذریعہ قرار دیا اور اپنے جاندار اور قوی نقطہ نظر سے دنیائے اسلام کو بے حد متاثر کیا۔ فارسی شاعری میں تصوف کے داخل ہونے سے عقل و عشق کا موازنہ ا ور عقل و خرد کے مقابلے میں عشق کی نا قابل تردید اور مکمل برتری شاعری کا ایک مرغوب موضوع قرار پایا۔ صوفی شعرا کی نظر میں ادراک حقیقت، استدلال سے نہیں بلکہ روحانی تاثر یا عشق سے ممکن ہوتا ہے اور زندگی کی رونق اور حرارت کا سرچشمہ عشق ہے۔ ان کی نظر میں عقل ایک انفعالی حقیقت ہے لیکن اگر اسے پست جذبات کے تابع کر دیا جائے تو وہ خرمن حیات کو لوٹ لیتی ہے۔ حکیم سنائی نے اپنے ایک مشہور قصیدے میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر علم کو حرص و ہوس کے تابع کر دیا جائے تو اس کی حیثیت اس چور کی ہو جاتی ہے جو چراغ ہاتھ میں لے کر بہترین مال و متاع لوٹ رہا ہو: چو علم آموختی از حرص آنگاہ ترس کا ندر شب چو دزدے با چراغ آید گذیدہ تر برد کالا انہوں نے ’’ حدیقۃ الحقیقت ‘‘ میں عقل و منطق کسے خلاف یوں لب کشائی کی ہے: چند از این عقل ترہات انگیز چند از این چرخ و طبع رنگ آمیز عقل را خود کسے نہد تمکین در مقامے کہ جبرئیل امین کم ز گنجشک آید از ہیبت جبرئیلے بدان ہمہ صولت ٭٭٭ علما جملہ ہرزہ می لافند دین نہ بر پائے ہر شے بافند عطار نے ’’ اسرار نامہ ‘‘ میں فلسفہ و خرد کا یوں مذاق اڑایا ہے: میا مرزاد یزدانش یعقبیٰ کہ گوید فلسف است اینگونہ معنی ز جائے دیگر است این گونہ اسرار ندارد فلسفی با این سخن کار اگر راہ محمدؐ را چو خاکی دو عالم خاک تو گردد ز پاکی وگرنہ فلسفی کور می باش ز عقل و زیر کی مہجود میباش چو عقل فلسفی در علت افتاد ز دین مصطفیؐ بیدولت افتاد ورائے عقل ما را بارگاہ است و لیکن فلسفی یک چشم راہ است رومی کے ہاں عقل و خرد کے منفی پہلو پر بار بار اظہار خیال ہوا ہے۔ اگر علم کو محض مادیت کے فروغ کے لیے وقف کر دیا جائے تو یہ سانپ بن کر ڈستا ہے لیکن اگر اسی علم کو قلب و نظر کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ ایک مونس و غمخوار دوست بن جاتا ہے: علم را برتن زنی مارے بود علم را بردل زنی یارے بود رومی سر حیات کے ادراک میں استدلال کو عاجز پاتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر استدلال ہی سے دین کے رموز کو سمجھنا ممکن ہوتا تو مشہور متکلم اور فلسفی فخر الدین رازی (1209/606) کو راز دار دین ہونا چاہیے تھا مگر ایسا ممکن نہیں کہ استدلال کی بنیاد ریت پر ہے: اندرین بحث ار خرد رہ بین بدے فخر رازی راز دار دین ہدے مثنوی کے دفتر اول میں جہاں فراق پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میں ستون حنانہ کے نالہ و شیون کا ذکر آیا ہے، شاعر استدلال کو یوں پائے استحقارہ سے ٹھکرا دیتا ہے: صد ہزاران ز اہل تقلید و نشان افگند شان نیم وہمے در گمان کہ بظن تقلید و استدلال شان قائم است و جملہ پر و بال شان شبہ می انگیزد آن شیطان دون در فتند این جملہ کور ان سرنگون پائے استدلالیان چوبین بود پائے چوبین سخت بے تمکین بود ستون حنانہ کے واقعے ہی کے سلسلے میں مثنوی کے دوسرے دفتر میں یہ مرد عارف فلسفی کا ذکر یوں حقارت سے کرتا ہے: فلسفی را زہرہ نے تا دم زند دم زند قہر حقش برہم زند فلسفی کو منکر حنانہ است از حواس اولیا بیگانہ است ایک جگہ مولانا نے حکیم (فلسفی) کو حقارت آمیز انداز میں ’’ حکیمک ‘‘ کے لفظ سے یاد کیا ہے: چون حکیمک اعتقادے کردہ است کاسمان بیضہ، زمین چون زردہ است پھر رومی سمجھتے ہیں کہ عقل ایک حد تک تو رہنمائی کے لائق ہے مگر زندگی کے دقیق ترین مسائل کے حل اور عمیق ترین حقائق کے انکشاف کے لیے ایک بہتر و برتر وسیلہ موجود ہے جسے عشق یا نظر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وجود مطلق اور موجودات کے مختلف مراتب و مظاہر، ان کا باہمی ربط اور اس ربط کا ادراک عقل و خرد کے بس کا روگ نہیں۔ زندگی کے یہ اساسی حقائق نظر یا بصیرت روحانی ہی سے منکشف ہوتے ہیں۔ اگر یہ نظر موجود ہو تو اسرار حقیقت فوراً بے نقاب ہو جاتے ہیں: تن ز جان و جان ز تن مستور نیست لیک کس را دید جان دستور نیست عقل و عشق کے اس بنیادی تفاوت پر مشہور صوفی بزرگ اور فارسی کے ممتاز رباعی نگار سلطان ابو سعید ابی الخیر (1049/440) کی سوانح حیات ’’ اسرار التوحید‘‘ میں ان سے منسوب ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ ایک دفعہ ان کے دور کا عظیم فلسفی بو علی سینا ان سے ملنے آیا۔ ملاقات کے بعد جب ابن سینا رخصت ہوا تو اس سے پوچھتا گیا کہ آپ نے شیخ کو کیسا پایا۔ بو علی نے جواب دیا ’’میں جو کچھ جانتا ہوں ابو سعید اسے دیکھتا ہوں‘‘ بعد میں جب شیخ کے مریدوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے بو علی کو کیسا پایا تو آپ نے جواب میں کہا’’ میں جو کچھ دیکھتا ہوں وہ جانتا ہے۔‘‘ عقل اور عشق کے باریک فرق پر اس سے بلیغ تر تبصرہ ممکن نہیں اسی خیال کو علامہ نے بانگ درا کی ایک نظم ’’ عقل و دل‘‘ میں دہرایا ہے۔ جب عقل دل سے مخاطب ہو کر اپنی عظمت کے دلائل پیش کرتی ہے تو دل جواب میں کہتا ہے: راز ہستی کو تو سمجھتے ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ان صوفی شعرا سے پہلے غزالی نے ’’ تہافت الفلاسفہ‘‘ کے ذریعے فلسفے کے خلاف جو آواز اٹھائی تھی، اس کا اثر اتنا گہرا ہوا تھا کہ بعض ایسے شعرا نے بھی جو پوری طرح تصوف کے رنگ میں رنگے ہوئے نہیں تھے، فلسفہ اور فلسفیوں پر نہایت سخت وار کیے۔ مثلاً خاقانی (1199/595) نے اس سلسلے میں مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا: فلسفہ در سخن میآمیزید وانگہے نام آن جدل منہید وحل گمرہی ست برسر راہ اے سران پائے در وحل منہید حرم کعبہ کز ھبل شد پاک باز ہم در حرم ھبل منہید قفل اسطورۂ ارسطو را بر در احسن الملل منہید نقش فرسودۂ فلاطن را بر طراز بہین حلل منہید جوں جوں فارسی شاعری میں تصوف کی روایت جڑ پکڑتی گئی عشق کی عظمت اور حکمت و فلسفہ کی ارزانی کا موضوع زیادہ مقبول ہوتا گیا۔ اقبال پر رومی کے فلسفہ عشق کا گہرا اثر ہے۔ وہ بھی عشق و خرد کے تفاوت کو مرشد رومی کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کا نظریہ ہے کہ عشق میں ڈوبی ہوئی نظر دل وجود کو چیر کے حقائق کو عریاں کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس خرد زدہ نظر توہمات میں الجھ کے رہ جاتی ہے۔ انہوں نے عشق کے اس عارفانہ نظریے کو دور حاضر کے اجتماعی اور فکری پس منظر میں مزید معنویت اور وسعت عطا کی اور عقل کی بیباک اور سفاک ہنگامہ آرائیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اسے بے زمام قرار دیا۔ اقبال کی نظر میں عقل کی بے راہروی جدید تہذیب کا ایک بڑا المیہ ہے۔ پچھلے تین سو سال میں عقل استدلالی یا عقل طبعی کو فروغ کا زبردست موقع ملا ہے۔ مگر خارجی فطرت کی تسخیر نے انسان کو اپنے باطن کے احوال سے غافل کر دیا ہے اور وہ خدا اور مابعد الطبیعی حقائق کا منکر ہو گیا ہے۔ اس کے فکر گستاخ نے فطرت کی طاقتوں کو تو عریاں کر دیا ہے، مگر یہی فکر گستاخ اور عمل بیباک اس کی تباہی کا باعث بننے والے ہیں۔ وہ ستاروں کی گذر گاہوں کا کھوج لگانے نکلا ہے، لیکن اپنے افکار کی بھول بھلیوں میں کھو کے رہ گیا ہے۔ اس نے سورج کی شعاعوں کو تو گرفتار کر لیا مگر وہ زندگی کی اندھیری رات میں اجالا نہ کر سکا۔ انہیں دانش حاضر سوز عشق سے یکسر بیگانہ نظر آتی ہے اور اس احساس کو انہوں نے نہایت شدت اور توانائی کے ساتھ بیان کیا ہے: سوز عشق از دانش حاضر محوے کیف حق از جاء این کافر مجوے مدتے محو تگ و دو بودہ ام رازدان دانش نو بودہ ام باغبان امتحانم کردہ اند محرم ابن گلستانم کردہ اند گلستانے لالہ زار عبرتے چون گل کاغذ سراب نگہتے تا ز بند این گلستان رستہ ام آشیان بر شاخ طوبیٰ بستہ ام دانش حاضر حجاب اکبر است بت پرست و بت فروش و بتگر است علامہ کا مزاج بنیادی طور پر عارفانہ ہے۔ اپنے صاحبزادے سے مخاطب ہو کر ایک نظم میں کہا ہے: جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ وہ مادیات اور طبیعیات سے محصور عقل کو شک اور استحقار کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسے بہیمانہ جذبات کا پابند پاتے ہیں اور اسے عیار اور بہانہ جو کے نام سے یادکرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ عشق و وجدان کو مذہب اور روحانیت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ عقل کی استعداد کے باوجود وہ اسے ایک انفعالی کیفیت قرار دیتے ہیں جس کی خوبی اور خرابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے کن مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں عشق ایک فعال، تخلیقی اور ارتقائی قوت ہے جس سے زندگی کے چمن میں بہار آتی ہے۔ خرد زمان و مکان میں محصور ہے۔ عشق ایک لازمان و لامکان حقیقت ہے۔ خرد چراغ راہ ہے تو عشق منزل مقصود ہے۔ عشق اور عقل کے موازنہ پر علامہ نے بیسیوں شعر کہے ہیں اور ہر شعر میں عشق کے مقابلے میں عقل کی نارسائی اور کمتری کا ذکر کیا ہے۔ اس موازنے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ علامہ کے تصور عقل و عشق کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ عقل عقیدے کی پختگی کے راستے میں حائل ہوتی ہے اس لیے کہ اس کے نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ علامہ نے ہر لحظہ نظریات کے بدلنے کی کیفیت کو کفر اور عشق کے ثبات کو ایمان کے نام سے یاد کیا ہے: زمان زمان شکند آنچہ می تراشد عقل بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناریست دل میں بھی افکار کی لہریں اٹھتی ہیں۔ اس میں بھی گوناگوں کیفیات پیدا ہوتی ہیں اور اسے کسی پل قرار نہیں پڑتا، مگر اس کے باوجود اس کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آتی۔ عقل حقائق کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے اور ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک لپکتی ہے۔ اس کے خیالات میں بلا کی بلندی ہوتی ہے۔ وہ جی بھر کر فلک پیمائی کرتی ہے۔ مگر یہ اضطراب اسے کسی قطعی نتیجے پر نہیں پہنچاتا: عقل ورق ورق بگشت عشق بہ نکتہ رسید طائر زیر کے برد دانہ زیر دام را عقل کے نظریات میں اختلاف و تصادم، شک اور تذبذب کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ان نظریات کی کثرت اور تغیر و تفاوت انسان کے لیے تشکک کے علاوہ کشمکش اور بے بسی کا باعث بھی بنتا ہے: از حقائق تا حقائق رفتہ عقل سیر او بے جادہ و رفتار و نقل صد خیال و ہر یک از دیگر جداست این بگردون آشنا آن نا رساست عقل حقائق کا تجزیہ کرتی ہے۔ وہ مسائل کا ادراک بھی کر سکتی ہے اور ظواہر سے بحث بھی، مگر وہ اسباب و علل کی بھول بھلیوں میں اس طرح کھو جاتی ہے کہ حقیقت اس کی نظر سے اوجھل رہتی ہے، اور ظن و تخمین اور امید و بیم اس کی تقدیر بن جاتے ہیں۔ ادھر عشق ہے کہ اپنی یک رنگی، عزم اور یقین محکم کے باعث عمل کی راہ پر گامزن رہتا ہے: عقل در پیچاک اسباب و علل عشق چوگان باز میدان عمل عقل را سرمایہ از بیم و شک است عشق از عزم و یقین لاینفک است عقل دلائل سے ظن و تخمین کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے مگر یہ دلائل رہبری کی بجائے حیلہ گری کا باعث بنتے ہیں: نشان راہ ز عقل ہزار حیاہ مپرس بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد اس ظن و تخمین سے تخلیقی استعداد اور قوت عمل کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ عشق یقین کی دولت سے مالا مال ہے اور یقین انسان کے اندر عزم و عمل کی ایسی قوت بیدار کرتا ہے کہ اس کے درخشاں کارنامے اسے حیات ابدی بخش دیتے ہیں: حیات جاودان اندر یقین است رہ تخمین و ظن گیری، بمیری شاعر دل کو یقین سے بسانے کی آرزو درگاہ خداوندی میں یوں کرتا ہے: این دل کہ مرا دادی لبریز یقین بادا این جام جہان بینم روشن تر ازین بادا تلخے کہ فرد ریزد گردون بہ سفال من در کام کہن رندے آنہم شکرین بادا یہ دعا انفرادی سطح پر تھی تو ملی سطح پر یقین و ایمان کی تمنا کا اظہار یوں ہوتا ہے: عزم ما را بہ یقین پختہ ترک ساز کہ ما اندرین معرکہ بے خیل و سپاہ آمدہ ایم عقل استدلالی کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ سوز و ساز سے محروم ہے۔ سوز و ساز کی کیفیت زندگی میں حرارت اور جولانی پیدا کرتی ہے اور اس کو ہر تقاضا پورا کرنے کی استعداد بخشتی ہے۔ سوز و ساز نہ ہو تو زندگی ذوق و شوق اور لذت پرواز سے محروم رہتی ہے اور اس کی کاوش و جستجو راز زندگی سمجھنے میں بے کار ثابت ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو علامہ نے ایک نہایت دلچسپ اور خیال افروز مکالمے میں پیش کیا ہے: شنیدم شبے در کتب خانہ من بہ پروانہ میگفت کرم کتابی یہ اوراق سینا نشیمن گرفتم بسے دیدم از نسخہ فاریابی نفہمیدہ ام حکمت زندگی را ہمان تیرہ روزم ز بے آفتابی نکو گفت پروانہ نیم سوزے کہ این نکتہ را در کتابے نیابی تپش میکند زندہ تر زندکی را تپش میدہد بال و پر زندگی را اقبال نے زندگی میں تپش کی بنیادی اہمیت اور اس کے مقابلے میں عقل استدلالی کی بے حسی، بے حاصلی اور نام نہاد گرہ کشائی پر نہایت دلاویز شعر کہے ہیں۔ مثلاً: نرسد فسون گری خرد بہ تپیدن دل زندۂ ز کنشت فلسفیان در آبحریم سوز و گداز من ٭٭٭ آہ درونہ تاب کو، اشک جگر گداز کو شیشہ بہ سنگ می زنم عقل گرہ کشائے را ٭٭٭ شعلہ در آغوش دارد عشق بے پروائے من بر نخیزد یک شرار از حکمت نازائے من زندگی میں اصل قیمت اس شرر ہی کی ہے جس کا ذکر اوپر آیا ہے۔ یہ شرر حرارت، لذت حیات اور سوز دروں کی علامت ہے یہ نہ ہوتا تو زندگی ایک بے کیف اور بے رنگ حقیقت ہو کے رہ جاتی اور روکھی پھیکی عقل پرستی اس میخانہ زندگی کو شورش ہائے و ہو سے محروم کر دیتی: تہی از ہاے و ہو میخانہ بودے گل ما از شرر بیگانہ بودے نبودے عشق و این ہنگامہ عشق اگر دل چون خرد فرزانہ بودے بہرحال خرد کی ماہیت کا صحیح ادراک ہو تو زندگی میں عشق و جنون کے ساتھ ساتھ اس کی منفرد اہمیت کو تسلیم کرنا مشکل نہیں۔ عقل و دل و نگاہ کے فرائض کے بارے میں علامہ کا ایک شعر ہے: از خلش کرشمہ کار نمی شود تمام عقل و دل و نگاہ را جلوہ جدا جدا طلب عقل بھی طلسم خانہ زندگی کو توڑنا چاہتی ہے۔ وہ بھی ذوق دید سے عاری نہیں۔ وہ بھی ایک طرح کا عشق ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ وہ جرأت رندانہ سے محروم ہے: عقل ہم عشق است و از ذوق نگہ بیگانہ نیست لیکن این بیچارہ را آن جرأت رندانہ نیست کار زار حیات میں انسان کو جن مہلک خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان پر قابو پانے کے لیے جس جرأت، استقامت اور سرفروشی کی ضرورت ہوتی ہے عقل ان سے محروم ہے۔ اس کے مقابلے میں عشق کی سرفروشی کا یہ عالم ہے کہ وہ بے خطر آتش نمرود میں کود پڑتا ہے۔ وہ عقل کی روباہی سے پاک ہوتا ہے، اور مصلحت کے تقاضوں کو شجاعت نہیں سمجھتا۔ وہ ادراک رازی کو زور حیدرؓ پر قربان کر دیتا ہے: بزرو بازوئے حیدرؓ بذژہ ادراک رازی را یہی وجہ ہے کہ علامہ عقل فلک پیما کو عشق کا اسیر بنانا چاہتے ہیں اور عشق کی درد مندی اور سوز و ساز کے مقابلے میں فلسفہ و حکمت کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے: بر عقل فلک پیما تر کانہ شبیخون بہ یک ذرہ درد دل از علم فلاطون بہ عزم و ہمت کی کمی کے باعث عقل کا دائرۂ کار کہیں محدود ہے۔ جو کام عقل برسوں سے کرتی ہے عشق اسے آن واحد میں انجام دے سکتا ہے۔ عشق کی قوت تسخیر و عمل کے سامنے خرد کی حیثیت پرکاہ کی ہے، عشق کائنات پر حکومت کرتا ہے اور محیر العقول کارنامے انجام دیتا ہے: می نداند عشق سال و ماہ را دیر و زود و نزد و دور و راہ را عقل در کوہے شگافے می کند یا بگرد او طوافے می کند کوہ پیش عشق چون کاہے بود دل سربع السیر چون ماہے بود عشق بانان جوبن خیبر کشاد عشق در اندام مہ چاکے نہاد کلہ نمرود بے ضربے شکست لشکر فرعون بے حربے شکست عشق سلطان است و برہان مبین ہر دو عالم عشق را زیر نگین علم کی بزدلی اور بے بسی اور اس کی کوتاہ نظری اور مجبوری اس اس کے مقابلے میں عشق کی بے نیازی، جرأت، بصیرت، آزادی اور جذب و مستی کا حال علامہ نے منصور حلاج کی زبان سے یوں بیان کیا ہے: علم بر بیم و رجا دارد اساس عاشقان را نے امید و نے ہراس علم ترسان از جلال کائنات عشق غرق اندر جمال کائنات علم را بر رفتہ و حاضر نظر عشق گوید آنچہ میاید نگر! علم پیمان بستہ با آئین جبر چارۂ او چیست غیر از جبر و صبر عشق آزاد و غیور و نا صبور در تماشائے وجود آمد جسور بہرحال جب عقل یقین، سوز اور جرأت کی دولت سے مالا مال ہو جاتی ہے اور جب وہ قوت کے ساتھ ساتھ شورش پنہاں میں بھی شریک ہوتی ہے تو وہ اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے، اور محض مادی حقائق سے واقف ہونے کی بجائے زندگی کی اندرونی کیفیتوں کو بھی سمجھنے لگتی ہے۔ سوز کی لذت اسے بالآخر دل بنا دیتی ہے: چہ می پرسی میان سینہ دل چیست خرد چون سوز پیدا کرد دل شد دل از ذوق تپش دل بود لیکن چو یک دم از تپش افتاد گل شد یہی عقل اب عشق سے جہان افروزی کے حقائق کا درس لیتی ہے: عقلے کہ جہان سوزد از جلوۂ بیباکش از عشق بیا موزد آئین جہان تابی عقل و عشق کا امتزاج ہو جائے تو ایک نئی مثالی دنیا جنم لے سکتی ہے۔ مسلمان کی اسی مثالی زندگی کو علامہ نے نہایت اندیشہ اور کمال جنون کے امتزاج سے یاد کیا ہے۔ اس امتزاج کے امکان کے بارے میں سعید حلیم پاشا کی زبان سے فرماتے ہیں کہ مغرب کی رہنما عقل ہے اور مشرق کا سرچشمہ زندگی عشق ہے۔ عقل اگر عشق سے ہم آہنگ ہو جائے تو وہ اپنے اندر حقائق کا صحیح فہم و شعور پیدا کر سکتی ہے اور خود عشق فرزانگی کی مدد سے اپنی بنیادوں کو محکم تر بنا سکتا ہے۔ اگر زندگی کی یہ بنیادی قدریں اور قوتیں ایک دوسری سے تعاون کریں تو زندگی نئے شکوہ و جمال سے جلوہ آرا ہو سکتی ہے: غریبان را زیر کی ساز حیات شرقیان را عشق راز کائنات زیر کی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیر کی محکم اساس عشق چون با زیر کی ہمبر شود نقشبند عالم دیگر شود اگر عقل عشق سے ہم آہنگ ہو اور دل کے تقاضوں کا احترام کرے تو وہ نور خداوندی ہے، اور اگر بے لگام اور بے قابو ہو جائے تو شیطنت کا روپ دھار لیتی ہے: عقل اندر حکم دل یزدانی است چون ز دل آزاد شد شیطانی است طبعی یا استدلالی عقل کو جسے علامہ بارہا حیلہ گری، کم نگہی اور نارسائی کا طعنہ دیتے ہیں، امام غزالی نے عقل جزوی کا نام دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ حقائق اشیاء کا صحیح ادراک کرنے والی عقل کو عقل نبوی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ علامہ نے بھی عقل کو دانش برہانی اور دانش نورانی میں تقسیم کیا ہے گروہی اور اجتماعی سطح پر وہ دانش برہانی کو حکمت فرعونی یا حکمت ارباب کین اور دانش نورانی کو حکمت کلیمی یا حکمت ارباب دین کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ حکمت فرعونی محکوم قوموں کی اخلاقی اور روحانی قدروں کو مسخ کر دیتی ہے۔ ان میں تعمیر کی جائے تخریب کے واضح میلانات پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کی زندگی تاریکی اور گمراہی کی نذر ہو جاتی ہے: ملتے خاکستر او بے شرر صبح او از شام او تاریک تر قوت فرمانروا معبود او در زیان دین و ایمان سود او دین او عہد وفا بستن بہ غیر یعنی اس خشت حرم تعمیر دیر اس کے مقابلے میں حکمت کلیمی یا حکمت ارباب دین صحیح ضابطہ حیات اور حق و صدات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ دراصل مادیت کے اس دور میں عقل پرستی اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ علامہ نے اس کے خلاف نہایت شدید اور تلخ رد عمل کا اظہار کیا۔ا نہوں نے عقل استدلالی کے خلاف اس شد و مد سے آواز اٹھائی کہ علامہ کے کلام کا سطحی مطالعہ کرنے والوں کو گمان گزرا کہ علامہ ہر قسم کی عقل کو حقیر اور بے لرزش سمجھتے ہیں۔ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ علامہ نے محض اس محدود عقل کے خلاف جہاد کیا ہے جو اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار کی بجائے پست جذبات اور مادی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے شاعری کے علاوہ علامہ نے اپنے خطبات میں بھی اس حقیقت کی وضاحت کی ہے کہ عقل اپنی ارفع ترین شکل میں وجدان میں بدل جاتی ہے۔ انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ طبعی یا استدلالی عقل ہی کو عقل کی صحیح اور مکمل صورت نہیں سمجھ لینا چاہئے۔ انہیں اضطراب اس بات پر ہے کہ استدلالی عقلیت مسلمان کی روحانی اقدار کو سلب نہ کر لے۔ انہیں حرم میں بغاوت کا خطرہ ہے، اور ا س بغاوت کو کچلنے کے لیے انہوں نے لشکر عشق کو ابھارا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا کو عقل و جنون دونوں کی حقیقت و ماہیت کا صحیح شعور ہو تو قبائے جنون تو عقل پر خوب چست ہوتی ہے۔ ’’ پس چہ باید کرد‘‘ میں جو علامہ کی زندگی کے اواخر میں لکھی گئی، اور ان کے پختہ ترین افکار کی ترجمان ہے علامہ فرماتے ہیں: سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است زمانہ ہیچ نداند حقیقت او را جنون قباست کہ موزون بہ قامت خرد است ٭٭٭ تصوف تصوف کا لفظ قرآن و حدیث میں نہیں ملتا اور نہ اس زمانے کے ادب میں اس کا پتا چلتا ہے۔ جناب رسالمتآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن برگزیدہ ہستیوں کو رسول اکرم صلعم کا فیضان صحبت نصیب ہوا وہ ’’ صحابہ‘‘ کے نام سے معروف ہوئے، اور وہ لوگ جو صرف صحابہ کرامؓ کے فیض صحبت سے مستفید ہوئے تابعین کہلائے اور ان سے رہنمائی کا شرف حاصل کرنے والی نسل تابع تابعین کہلائی۔ خلافت راشدہ کے بعد مذہب سے خاص شغف رکھنے والے عبادت گزاروں کے لیے زہاد اور عباد کی اصطلاحیںرائج ہوئیں۔ اوائل اسلام میں مسلمان کے لیے مثالی زندگی تقویٰ، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن سے عبارت تھی۔ تصوف یا صوفی کا لفظ دوسری صدی ہجری کے وسط تک رائج نہیں ہوا تھا۔ سید علی ہجویریؒ معروف بہ داتا گنج بخش فرماتے ہیں’’ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کے زمانے میں یہ نام موجود نہ تھا، لیکن اس کی حقیقت ہر شخص میں جلوہ گر تھی۔‘‘ 1؎ لفظ صوفی کے مادے کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں۔ اکثریت کی رائے میں لفظ ’’ صوف‘‘ (اون یا پشم) سے مشق ہے۔ بہت سی احادیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونی لباس استعمال کیا۔ صوف کا لباس سادگی اور درویشی کی علامت تھا، اور یہ لفظ ان زاہد اور متقی لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا تھا جنہوں نے سادگی کو دنیوی عیش و عشرت پر ترجیح دی تھی۔ خواجہ حافظ شیرازی نے اہل دل کے لیے پشمینہ پوش کا لفظ استعمال کیا ہے: برق عشق ار خرمن پشمینہ پوشے سوخت سوخت جور شاہ کامران گر بر گدائے رفت رفت یہ شعر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حافظ کے نزدیک صوف مسلک تصوف ہی کی علامت ہے۔ تصوف کا مادہ صفا بھی بتایا گیا ہے جس کے معنی پاکیزگی کے ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق تصوف کو اہل صفہ سے نسبت ہے اہل الصفہ وہ درویش صفت زاہد تھے جو عہد رسالتؐ میں مسجد نبوی کے شمالی صفہ یا چبوترے پر زندگی بسر کرتے تھے۔ ان توجیہات کے علاوہ تصوف کو صوفانہ (ایک قسم کی سبزی) صف اول، بنو صوفہ (ایک بدوی قبیلہ) اور یونانی لفظ ’’ سوفوس‘‘ سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ بقول مولانا جامی لفظ صوفی سب سے پہلے ابو ہاشم عثمان بن شریک (تقریباً 748/130) کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ وہ اسے لکھتے ہی ابو ہاشم الصوفی 2؎ ہیں ۔ اس کے بعد جابر بن حیان (تقریباً 776/160) کو اس لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ دونوں کا تعلق کوفہ سے تھا۔ علامہ نے جب ’’ ایران میں ما بعد الطبیعیات کے ارتقا‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا رسالہ لکھنا چاہا تو انہیں تصوف کے موضوع پر خاص طور سے تحقیق کرنی پڑی۔ چنانچہ اس کا ایک باب اسی موضوع پر ہے۔ اس میں علامہ نے تصوف کے مآخذ کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ انہیں اس سلسلے میں مستشرقین مثلاً فان کریمر، ڈوزی، مرکس، براؤن اور نکلسن وغیرہ کے نظریات سے اتفاق نہیں ہے۔ فان کریمر اور ڈوزی نے تصوف کا مآخذ ہندو مذہب کے فلسفہ و یدانت کو قرار دیا ہے۔ مرکس اور نکلسن کی رائے میں اس کا سرچشمہ نو فلاطونبت ہے۔ براؤن نے ایک زمانے میں تصوف کو ایک غیر جذباتی سامی مذہب کے خلاف آریائی رد عمل کا نام دیا تھا۔ 3؎علامہ کی رائے میں ان فضلا اور محققین نے اپنے نظریات کی تشکیل میں اس بنیادی اصول کو نظر انداز کر دیا ہے کہ کسی قوم کے ذہنی ارتقا کا مکمل ادراک صرف ان کے فکری، سیاسی اور اجتماعی حالات کے پس منظر ہی میں ممکن ہے اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میری رائے میں یہ نظریات ایک ایسے تسبیبی تصور کے تحت تشکیل پائے ہیں جو بنیادی طور پر غلط ہے۔ 4؎ اس بحث کے بعد علامہ نے تصوف کے مآخذ کے بارے میں اپنے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے دوسری /آٹھویں صدی کے اواخر اور تیسری /نویں صدی کے نصف اول کی اسلامی تاریخ کا تجزیہ اس دور کے سیاسی، اجتماعی اور فکری پس منظر میں کیا ہے کیونکہ یہی وہ زمانہ تھا جب صحیح معنوں میں تصوف کا آغاز ہو رہا تھا۔ یہ دور سیاسی اعتبار سے انتشار اور بے اطمینانی کا دور تھا۔ دوسری /آٹھویں صدی کے نصف آخر میں ایک سیاسی انقلاب کے ذریعے نہ صرف بنی امیہ (749/132-661/41) کی حکومت کا خاتمہ ہوا بلکہ اس زمانے میں زنادقہ کا کشت و خون ہوا اور ایرانی ملاحدہ کی بغاوتوں کا سلسلہ بھی عمل میں آیا۔ تیسری/نویں صدی کے آغاز میں ہارون الرشید (809/193-786 /170) کے بیٹوں امین (813/198-809/193) اور مامون (833/218-813/198) کے درمیان سیاسی اقتدار کے لیے خوفناک جنگ ہوئی۔ اس کے بعد بابک خرم دین (838/223-816/201) کی پے در پے بغاوتوں نے اسلامی ادب کے زرین دور کے امن و استحکام کو ہلا کر رکھ دیا۔ مامون کے عہد حکومت کی ابتدا میں ایک اہم فکری اور اجتماعی تحریک نے قوت پکڑی جسے شعوبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ تحریک نئے ایرانی حکمران طاہری (873/359-821/205)، صفاری (1003/293-867/253) اور سامانی (1005/395-819/204) خاندانوں کے قیام کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی چنانچہ انہی اور اسی نوعیت کے دوسرے حالات کے مجموعی تاثر ہی کا نتیجہ تھا کہ زہد و اتقا پسند طبیعتوں نے مستقل انتشار اور بد امنی کے اس ماحول سے گریز کر کے ایک پر سکون اور عافیت جو فکری نظام حیات میں پناہ لی جس نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے دامن میں نئی وسعتیں سمیٹ لیں۔ ان ابتدائی مسلمان زاہدوں کی زندگی اور فکر کا سامنی مزاج آہستہ آہستہ ایک وسعت پذیر وحدت الوجودی نظام میں بدل گیا جس پر کم و بیش آریائی چھاپ تھی۔ یہ نیا مسلک زندگی ایران کی سیاسی آزادی کی نشوونما کے ساتھ ساتھ متوازی خطوط پر پروان چڑھا۔ تصوف کے فروغ کا دوسرا سبب مسلمان مفکرین کے منطقی نظام کے تشکک پسندانہ رحجانات تھے۔ ان کا اظہار ایران کے نابینا متشکک شاعر بشار بن برد (783/167) کے کلام میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنی شاعری کو آتش پرستانہ جذبات کے ساتھ سمویا اور تمام غیر ایرانی اسالیب فکر کا مذاق اڑایا۔ اس منطقی نظام کے متشککانہ مضمرات نے حقیقت جو طبایع کو کسی ایسے سرچشمہ علم و عرفان کی شدید ضرورت کا احساس دلوایا جس کی حدود تفکر سے ماوراء ہوں۔ اس خلش کا اظہار القشیری (1074/465) کے مشہور رسالے میں ہوا۔ یہاں علامہ نے اس مخصوص ذہنی کیفیت کی مثال جرمن فلسفی کانٹ کی ’’ تنقید عقل محض‘‘ (Critique of pure reason) سے دی ہے جس کے منفی نتائج نے فرید رخ بائیزخ جیکوبی ( 1819ئ) اور شلائر ماخر (1834ئ) کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ عقیدے کی بنیاد نصب العینی تصور کی حقیقت کے احساس پر کھڑی کریں۔ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی ایسے فرقوں کا زہد خشک بھی تصوف کے فروغ کا باعث بنا۔ اگر علما و فقہا شعائر و ظواہر دین میں محصور ہو کے رہ جائیں اور توجہ محض اوامر و نواہی تک محدود ہو جائے تو مذہب ایک بے روح قالب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ فقہ کی یہ کڑی حقیقت پسندی اور اس پر اصرار مذہب کو اس لطیف جذبے سے محروم کر دیتا ہے۔ جسے صوفیہ نے عشق کے نام سے یاد کیا ہے۔ علامہ کی نظر میں تصوف کے فروغ کا ایک اور سبب مذہبی مباحثوں کا رواج تھا۔ خلیفہ المامون نے ان بحثوں کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ اشعری فرقے اور عقلیت پسندوں کے درمیان جو تلخ مناظرے اور تنازعے ہوئے، ان سے ایک طرف تو مذہب مختلف قسم کے مکاتیب فکر تک محدود ہو کر رہ گیا اور دوسری طرف ایک ایسی روح بیدار ہوئی جو بیکار اور لا حاصل قسم کے تفرقوں سے نجانہ چاہتی تھی۔ عباسی دور (1258/656-749/132) کے اوائل میں عقلیت پسندی کا جو رحجان پیدا ہوا اس نے آہستہ آہستہ مذہبی جوش و خروش کم کر دیا۔ اسی طرح اس زمانے میں اونچے طبقے میں خوشحالی اور ثروت مندی کا دور دورہ ہوا اور اس نے عیش و عشرت کی ایک ایسی فضا کو جنم دیا جس نے مذہب سے بے التفاتی کا رحجان پیدا کر دیا۔ تصوف کے فروغ کا ایک سبب اسلامی معاشرے میں مسیحیت اور رہبانیت کا وجود تھا۔ مسلمان صوفیہ کو رہبانی مسلک میں بہت دلکشی نظر آئی۔ وہ راہبوں کے مذہبی اعتقادات کی بجائے ان کے طرز زندگی سے متاثر ہوئے۔ بقول علامہ اگرچہ ان راہبوں کی دنیا سے مکمل لا تعلقی اپنے اندر بہت جاذبیت رکھتی تھی مگر یہ مسلک روح اسلامی کی مکمل نفی کرتا تھا۔ اس دور کے ماحول کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد علامہ فرماتے ہیں کہ تصوف اور اس کے افکار کی نشوونما کا مآخذ ہمیں مندرجہ بالا عوامل کے مجموعی تاثر میں ڈھونڈنا چاہیے۔ اگر ہم اس مخصوص ماحول کو سامنے رکھیں اور ہمہ اوست کے فلسفے سے ایرانی ذہن کی قریب قریب جبلی مناسبت کو نظر انداز نہ کر دیں تو تصوف کے آغاز و ارتقا کا پورا کرشمہ ہمارے سامنے بے نقاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم ان اہم حالات کا جائزہ لیں جو نو فلاطونیت سے پہلے موجود تھے تو ہم دیکھیں گے کہ ایسے حالات نے ایسے ہی نتائج کو جنم دیا ہے۔ اس کے بعد علامہ نے تصوف پر بدھ مذہب کے فلسفہ نروان (فنا) اور ہندو مت کے فلسفہ ویدانت کا ذکر کیا ہے۔ تصوف نے سامی مذہب کے کڑے ضابطہ حیات اور ویدانت کے نظام فکر کو عشق کے ارفع تصور کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ اسی طرح تصوف نے ایک طرف بدھ مذہب کے فلسفہ نروان کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے اور اس کی روشنی میں ایک نیا الہیاتی نظام تشکیل دینا چاہتا ہے، مگر دوسری طرف اس نے اپنا رشتہ اسلام سے بھی نہیں توڑا اور تصور کائنات کا جواز قرآن مجید میں ڈھونڈا ہے۔ اپنی زاد گاہ کی طرح تصوف کے ڈائڈے ایک طرف سامی اور دوسری طرف آریائی اقوام سے ملتے ہیں۔ اس نے دونوں کے اثرات قبول کیے ہیں اور دونوں پر اپنی انفرادیت کی مہر ثبت کی ہے جو بہر حال سامی سے زیادہ آریائی ہے۔ صوفیہ اپنے مسلک کا جواز قرآن مجید سے ڈھونڈتے ہیں اور اپنے باطنی علم کا سرچشمہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کی ذات بابرکات کو قرار دیتے ہیں۔ خود علامہ نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں قرآن حکیم کی ایسی آیات کا حوالہ دیا ہے جن سے اہل تصوف و عرفان اپنے نظریات کا جواز پیش کرتے ہیں۔ مثلاً: کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا ویز کیکم و یعلمکم الکتب والحکمۃ ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون۔ جس طرح ہم نے تم میں ایک رسول بھیجے ہیں جو تم کو ہماری آیات پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمہیں پاک بناتے اور کتاب (قرآن) اور حکمت سکھاتے ہیں اور ایسی باتیں بتاتے ہیں جو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔ صوفیہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہاں جس حکمت کا ذکر کیا گیا ہے وہ خود جزو قرآن نہیں ہے۔ اس حکمت کی تعلیم خود رسول اللہ ؐ کے مکرر ارشاد کے مطابق پہلے کئی انبیا دے چکے تھے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر حکمت جزو قرآن ہے تو پھر اس آیہ کریمہ میں حکمت کا لفظ زائد ہے۔ ونحن اقرب الیہ من حبل الورید6؎ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں اللہ نور السموت والارض7؎ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ علامہ کو صوفیہ کے اس دعویٰ سے کہ باطنی علم کا سرچشمہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے اتفاق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے تحقیقی رسالے کی تصنیف کے سلسلے میں اس کی تصدیق کی بہت کوشش کی ہے۔ ایک خط مورخہ 8اکتوبر1905ء میں خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں کہ وہ قاری شاہ سلیمان سے پوچھ کر ان کے سوالات کا جواب ’’ معقولی اور منقولی اور تاریخی طور پر‘‘ تفصیل سے دیں۔ سوالات یہ تھے کہ آیا وحدت الوجود ’’ یعنی تصوف کا اصلی مسئلہ‘‘ قرآنی آیات سے ثابت ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ کون کون سی آیات کا حوالہ دے سکتے ہیں اور ان کی کیا تفسیر کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اسلام سے تصوف کا کیا رشتہ ہے اور کیا حضرت علیؓ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی۔ 8؎ وہ اس سلسلے میں طویل وقفوں سے 1916ء تک شاہ صاحب کے ساتھ خط و کتابت کرتے رہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جواب علامہ کو مطمئن نہیں کر سکے۔ اس مسئلے پر انہوں نے اپنے رسالے میں یوں اظہار خیال کیا ہے: ’’ ہمارے پاس کوئی ایسی تاریخی شہادت نہیں جو ثابت کر سکے کہ جناب رسالمتاب ؐ نے واقعی حضرت علیؓ یا حضرت ابوبکرؓ کو باطنی علوم کی تعلیم دی تھی۔‘‘ 9؎ مندرجہ بالا خط میں علامہ نے وحدت وجود کا ذکر کیا ہے۔ فلسفہ وحدت وجود اکثر صوفیہ اور صوفی شعرا کا مرغوب موضوع ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ کائنات میں حقیقت ایک ہے۔ موجودات اسی حقیقت کا پرتو ہیں، اور ان کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ کائنات میں ہزار ہا آئینوں میں محض ایک ہی حقیقت کا عکس نظر آتا ہے۔ ہر شے حسن جاوداں کا ایک دھندلا سا عکس ہے۔ یہ دنیائے رنگ و بو اور عالم آب و گل محض ایک واہمہ ہے۔ نیستی میں ہستی کا عکس نظر آتا ہے، اور اس میں ذات مطلق کی صفات اسی طرح جھلک رہی ہیں جس طرح عکس میں اصل شے کی جھلک نظر آتی ہے۔ عکس پوری طرح آفتاب عالم تاب کا محتاج ہے مگر مہر درخشاں اس سے بے نیاز ہے۔ قطرہ سمندر میں فنا ہونے اور ذرہ آفتاب سے ملنے کے لیے بیتاب ہے۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے اس نظریے کو باقاعدہ ایک مبسوط فلسفے کی شکل دی اور پھر ایرانی صوفیہ نے تصوف میں اس عنصر کو زیادہ نمایاںکیا۔ فارسی کی صوفیانہ شاعری نظریہ وحدت الوجود سے شدت سے متاثر ہوئی ہے۔ شعرا نے اسے گونا گوں انداز میں بیان کیا ہے۔ عطار کی ایک مستزاد بطور نمونہ ملاحظہ ہو: نقد قدم از مخزن اسرار آمد خود گنج عیان شد خود بود کہ خود برسر بازار برآمد برخود نگران شد در موسم نیسان ز سما شد سوئے دریا در کسوت قطرہ در بحر بشکل در شاہوار برآمد در گوش بتان شد در عین بتان خواست کہ خود را بپرستمد خود را بپرستید خود گشت بت و خود بپرستار برآمد خود عین بتان شد علامہ نے جس ماحول میں پرورش پائی اس پر بھی وحدت الوجود کا گہرا اثر تھا۔ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں ابن عربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحات مکیہ‘‘ کا باقاعدہ مطالعہ ہوتا تھا 10؎۔ انگلستان کے قیام کے دوران میں بھی ان کا میلان اسی نظریے کی طرف تھا۔ ان کے استاد پروفیسر میکٹیگرٹ نے ’’اسرار خودی‘‘ کے دوران میں انہیں ایک خط میں لکھا تھا: ’’یوں لگتا ہے کہ آپ کے افکار میں ایک بڑی حد تک تبدیلی آ گئی ہے۔ جس زمانے میں فلسفہ ہمارا موضوع بحث رہا کرتا تھا۔ آپ یقینا وحدت الوجود اور تصوف کی طرف زیاد ہ مائل تھے‘‘ 11؎ ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی ’’اسرار خودی ‘‘ کی تصنیف سے پہلے مکمل طور پر واضح ہو چکی تھی۔ مولانا عبدالمجید سالک علامہ سے اپنی ایک ابتدائی ملاقات کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں: ’’انہوںنے بڑی شد و مد سے فرمایا کہ میں نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ اور شیخ شہاب الدین سہروردی کی ’’حکمتہ الاشراق ‘‘ کوئی دس دس دفعہ بالاستعیاب اور نہایت غور و خوص سے پڑھی ہیں۔ ان بزرگوں کے علم و ذوق میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن ان کتابوں کے اکثر مندرجات کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ کم از کم میں انہیں عقائد و تعلیمات اسلامی سے مطابقت نہیں دے سکتا۔ ‘‘ 12؎ جب علامہ نے ’’اسرار خودی‘‘ میں فلسفہ خودی کو ایک مربوط اور منظم شکل میں پیش کیا تو انہوںنے تصوف کے بعض رائج الوقت تصورات کے خلاف نہایت سختی کے ساتھ اختلاف کیا اور حافظ شیرازی کے کلام کو جسے عارفوں کے حلقے میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی مورد ٹھہرایا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے علامہ کے اس طرز عمل کے خلاف احتجاج بلند کیا اور بالاخر انہیںکتاب کے دوسرے ایڈیشن سے ان اشعار کو حذف کرنا پڑا۔ اس زمانے میں علامہ نے جو خطوط اکبر الہ آبادی کو لکھے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ انہوںنے بھی علامہ کے بہت بڑے مداح ہونے کے باوجود ان اشعار کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا۔ علامہ کو اس کا دلی رنج تھا اور انہوںنے حضرت اکبر الہ آبادی ک نام اپنے خطوط میں اپنا نقطہ نظر بڑی صراحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ 11جون 1918ء کو ایک خط میں فرماتے ہیں: ’’اسرار خودی‘‘ میں جو کچھ لکھا گیا وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا۔ اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔ حافظ ولی اور عارف تصور کیے گئے ہیں‘ اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل ہی نظر انداز کر دی ہے اورمیرے ریمارک تصوف اور ولایت پر حملہ کرنے کے مرادف سمجھے گئے… عجمی تصوف سے لٹریچر میںدلفریبی اور حسن پیدا ہوتا ہے مگر ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے اور اس کا نتیجہ لٹریچر پر ہوتا ہے‘‘۔ 13؎ اس خط میں علامہ نے تصوف کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ یعنی عجمی تصوف۔ اور اسلامی تصوف۔ اور ان دونو ں کو ایک دوسرے کے متضاد قرار دیا ہے۔ اگر وہ عجمی تصوف کے خلاف ہیں کہ وہ طبائع میں پستی پیدا کرتا ہے تو اسلامی تصوف کے علمبردار۔ بہتر ہو گا کہ پہلے علامہ کے افکار اس تصوف کے بارے میں پیش کیے جائیں جسے وہ غیر اسلامی قرار دیتے ہیں اور جس کے لیے انہوںنے عجمی کی اصطلاح وضع کی ہے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ لفظ عجم یہاں ایرانیات کی بجائے ایک خاص نظام اقدار ارو طرز فکر کا آئینہ دار ہے جو صحیح اسلامی اقدار اور فکر سے مختلف ہیں۔ تصوف کے بارے میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے حافظ محمد اسلم جیراجپوری کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاںجب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات سے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے 14؎ ‘‘ ایک دوسرے خط میں یوں فرماتے ہیں: ’’تصوف کے ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے تعلق رکھتا ہے نہایت قابل قدر ہے‘ کیونکہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر سو ز و گداز کی حالت طاری ہوتی ہے۔ فلسفے کا حصہ محض پیکار ہے اور بعض صورتوں میں میرے خیال میں تعلیم قرآنی کے مخالف ۔ اسی فلسفے نے متاخرین صوفیہ کی توجہ صور و اشکال غیبی کے مشاہدہ (کی) طرف کر دی ‘ اور ان کا نصب العین محض غیبی اشکال کا مشاہدہ بن گیا ہے‘حالانکہ اسلامی نقطہ خیال سے تزکیہ نفس کا مقصد محض ازدیاد یقین و استقامت ہے‘‘۔ ایک خط میں خودی اور تصوف کی نہایت پر معنی اور بلیغ تعریف کرتے ہوئے مسئلہ فنا و بقا پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: ’’غلام قوم مادیات کو روحانیات پر مقدم سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور جب انسانی میں خوئے غلامی راسخ ہو جاتی ہے تو وہ ہر ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد قوت نفس اور روح انسانی کا ترفع ہو… بہرحال حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے۔ بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے ۔ لیکن ہندی اور ایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکار ہ محض ہیں۔ میرے عقیدے کی رو سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں 16؎‘‘ تصوف پر بدھ مت کے اثرات کا ذکر ایک اور خط میں بھی ملتا ہے۔ جو سید سلیمان ندوی کے نام ہے۔ اس میں علامہ نے غلوفی الزھد اور مسئلہ وجود کو زیادہ تر بدھ (سیمنیت ) مذہب کے اثرات کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد رہبانیت کی طرف تصوف کے میلان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسلمانوں سے پہلے وسط ایشیا کی قوموں میں رہبانیت عام تھی۔ اسی خط میں علامہ نے تصوف کو ایک ایسے پودے سے تشبیہہ دی ہے جس کا وجود ہی سرزمین اسلام میں اجنبی ہے 17؎۔ ویدانت‘ بدھ مت‘ اور افکار عجم کے علامہ علامہ نے تصوف پر جن دوسرے غیر اسلامی تصورات کا گہرا اثر بتایا ہے ۔ ان میں افلاطونیت جدید کے فلسفے کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ ایک خط میں مورخہ 19جنوری 1916ء میں اس کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: ’’… یہی افلاطونیت جدید ہے جس کا اشارہ میں نے اپنے مضمون میں کیا ہے ۔ فلسفہ افلاطون کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے جس کو ایک پبرو (Plotinus)نے مذہب کی صور ت میں پیش کیا … مسلمانوں میں یہ مذہب حران کے عیسائیوں کے تراجم کے ذریعہ سے پھیلا اور رفتہ رفتہ مذہب اسلام کا ایک جزو بن گیا۔ میرے نزدیک یہ تعلیم قطعاً غیر اسلامی ہے ۔ اور قرآن کریم کے فلسفے سے اسے کوئی تعلق نہیں۔ تصوف کی عمارت اسی یونانی بیہودگی پر تعمیر کی گئی‘‘۔ 18؎ علامہ کی نظر میں اسلام سے پہلے ایران میں وجودی فلسفے کی طرف میلان موجود تھا۔ مگر اسلام نے اسے وقتی طور پر دبا دیا تھا۔ تاہم موقع پاتے ہی یہ طبعی میلان ابھر آیا اور مسلمانوں میں ایک ایسے ادب کا آغاز ہوا جس کی بنیاد وحدت الوجود کے فلسفے پر تھی۔ بقول علامہ ’’ان شعرا نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے ‘‘ 19؎ اس سلسلے میں علامہ نے شیخ ابو سعید ابی الخیر کی ایک رباعی کا حوالہ دیا ہے جس میں نہایت ’’دلفریب اور خوبصورت طریق ‘‘ سے جہاد کے فلسفے کی تردید کی گئی ہے۔ رباعی مندرجہ ذیل ہے: غازی بے شہادت اندر تگ و پوست غافل کہ شہید عشق فاضل تر ازوست در روز قیامت این باو کے مانذ این کشتہ دشمن است و آن کشتہ دوست علامہ نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ تمام صوفیانہ شاعری میں مسلمانوں کے سیاسی انحطاط کے دور کی پیداوار ہے۔ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ جس قوت میں طاق و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی‘ تو پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جاتاہے ۔ ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے۔ اور تر ک دنیا موجب تسکین ‘‘۔ 20؎ حقیقت یہ ہے کہ ایران میں صوفیانہ شاعری کے عروج کا دور ساتویں؍ تیرہویں اور آٹھویں ؍ چودھویں صدی ہے جب ایران میں مسلمانوں کی سیاسی قوت پامال ہو چکی تھی اورنفسیاتی اور اجتماعی اعتبار سے بھی قوم کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اسی زمانے میں عراقی اوحدی کرمانی (635-1238) اوحدی مراغہ ای (738-1338) محمود شبستری خواجوی کرمانی (753-1352)اور متعدد دوسرے شاعر پیدا ہوئے۔ خود خواجہ حافظ شیرازی (791/1389) تاتاری عہد کے اواخر میں پیدا ہوئیے اور انہوںنے ایک ایسے پر آشوب دور میں زندگی بسر کی جب ایرانی سیاسی اور معاشرتی انحطاط کا بری طرح شکار تھا‘ اور باہمی جنگ و جدال اورتیمور (771/1370-807/1405)کے خونریز حملوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی تھی۔ ان میں سے اکثر شعرا پر شیخ محی الدین ابن العربی کے فلسفہ وحدت الوجود کا گہرا اثر ہے۔ علامہ کو شکوہ تھا کہ مسلمانان ہند کے دل و دماغ پر عجمی تصوف غالب ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک خط میں انتہائی رنج اور ناامیدی کا اظہار کرتے ہیں اور یہاں کے مسلمانوں کی مخصوص ذہنی کیفیات و تاثرات کے پیش نظر انہیں اسلامی حقائق سے بے بہرہ سمجھتے ہیں 21؎ ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے اس تصوف کے خلاف‘ جسے وہ روح اسلامی کے منافی سمجھتے تھے‘ پوری قوت سے قلم اٹھایا ہے۔ اوپر ایک خط کا اقتباس دیا جا چکا ہے ۔ جس میں علامہ نے شریعت کو قلب کی گہرائیوںمیں محسوس کر لینے کو طریقت کے نام سے یاد کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں بھی اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: پس طریقیت چیست اے والا صفات شرع را دیدن بہ اعماق حیات فاش میخواہی اگر اسرار دین جز بہ اعماق ضمیر خود مبین گر نہ بینی دین تو مجبوری است این چنین دین از خدا مہجوری است تصوف و طریقت کے سلسلے میں یہ حقیقت جاننا بہت ضروری ہے کہ علامہ نے اپنے کلام میں طریقت یا تصوف کی اس تعریف کو فقر کے نام سے یاد کیا ہے‘ اور اس مسلک کے علم بردار کو فقیر کہا ہے۔ مگریہ وہ فقر ہے جو اقوام کو دلگیری اور افسردگی کے بجائے جہانگیری کے آداب سکھاتا ہے ۔ جس میں ضعف و ناتوانی کے بجائے قوت اور عجز و نیاز کے بجائے بے نیازی کی شان ہے ۔ اس کے بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ فقر اپنے خرقہ کو بھی بار دوش سمجھتا ہے: خرقہ خود بار است بردوش فقیر چون صبا جز یوئے گل سامان مگیر فقر خود شناسی کا پیغامبر ہے اور فرد و ملت کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ علامہ نے اپنے فلسفہ زندگی کا محور و مرکز خودی و عشق کو قرار دیا ہے۔ فقر ان دونوں خصوصیات کا حامل ہے: فقر کار خویش را سنجیدن است بر دو حرف لا الہ پیچیدن است فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا است ما امینیم این متاع مصطفیؐ است ٭٭٭ فقر سوز و ساز و داغ و آرزو ست فقر را در خود تپیدن آبرو ست مرد فقیر کی زندگی خود شناسی اور ذوق و شوق سے عبارت ہے ۔ اس سوز و ساز اور ذوق و شوق کا محور ذات رسالتمآبؐ ہے ۔ فقیر لا الہ کی حقیقت سے واقف ہے اس لیے جہاں چار‘ سو میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لاالہ فقر کی بنیاد ہے۔ اور لا الہ ہی نے اسے قوت و آزادی بخشی ہے۔ وہ نان جویں پر تکیہ کرنے کے باوجود خیبر دلکشا ہے۔ سلطان و امیر اس کی بے نیازی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ اس کے فکر و عمل کا سرچشمہ قرآن عظیم ہے اور اس کے شکوہ بوریا سے تاج و تخت لرزتے ہیں۔ وہ سلاطین کے سامنے لا ملوک کا نعرہ لگاتا ہے۔ کمزوروں کو جبر و قہر سے رہائی دلواتا ہے۔ اور شکستہ پروں کو ذوق پرواز بخشتا ہے: چون بکمال میرسد فقر دلیل خسروی است مسند کیقباد را در تہہ بوریا طلب اسی غزل میں فقر کے ساتھ ساتھ عشق کی قوت تسخیر کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے: عشق بہ سر کشیدن است این ہمہ کائنات را جام جہان نما محو دست جہان کشا طلب فقر اقوام کی تقدیر بن کر ابھرتا ہے۔ علامہ کا عقیدہ ہے کہ جس قوم میں ایک بھی درویش موجود ہو وہ کبھی مٹ نہیں سکتی۔ اس کے بعد اپنی امت کی آبرو کا سبب ایسے ہی بے نیاز مرد فقیر کو ٹھہراتے ہیں۔ فقر ہی سے دین کے حقائق منکشف ہوتے ہیں اور فقر ہی کے استغنا و بے نیازی سے قوت و سطوت ملتی ہے: حکمت دین دلنوازی ہای فقر قوت دین بے نیازی ہائے فقر علامہ کو وہ فقر ہر گز قبو ل نہیں جو قوت سے محرومی سکھاتا ہو۔ وہ ترک دنیا کو شکست و ذلت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ترک دنیا سے مراد اس پر تسلط حاصل کرنا ہے نہ کہ اس کے سامنے ہتھیار ڈال دینا: اے کہ از ترک جہان گوئی ‘ مگو ترک این دیر کہن تسخیر او راکبش بودن از و وارستن است از مقام آب و گل برجستن است صید مومن این جہان آب و گل باز را گوئی کہ صید خود بہل اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حیف ہے اس شاہین پر جو آداب شاہینی سے بے بہرہ رہا: وائے آن شاہین کہ شاہینی نکرد علامہ ترک دنیا کو کافر کا شعار سمجھتے ہیں جسے غار و کوہ میں سکون ملتا ہے۔ مومن کے لیے زندگی مرگ باشکوہ میں پنہاں ہے وہ دنیا کو اپنی قوت آزمائی کی آماجگاہ سمجھتا ہے۔ اس سے بھاگنا اس کا شیوہ نہیں ۔ ان کے نزدیک فقر رقص و موسیقی کا نام نہیں بلکہ عالم ہست و بود کے احتساب کا نام ہے۔ جب فقر بے نقاب ہو جاتا ہے تو اس سے ماہ و مہر لرزنے لگتے ہیں۔ فقر عریاں ہی سے مسلمان کا شکوہ و جلال تھا اور اس کے ذوق عریان سے محروم ہونے لی سے جلال وشکوہ کا خاتمہ ہوا: فقر قرآن احتساب ہیست و بود نے رباب و مستی و رقص و سرود فقر مومن چیست تسخیر حیات بندہ از تاثیر او مولا صفات فقر چو عریان شود زیر سپہر از نہیب او بلرزد ماہ و مہر فقر عریان گرمی بدر و حنین فقر عریان بانگ تکبیر حسینؓ فقر را تا ذوق عریانی نماند آن جلال اندر مسلمانی نماند علامہ نے ایک خط میں اسلام کو فقر غیور ک نام سے یاد کیا ہے فرماتے ہیں: اسلام کی حقیقت فقر غیور ہے اور بس فقر کی شان یہ ہے کہ وہ زر و سیم سے محروم ہونے کے باوجود اپنی غیرت سے دنیا کو تہ و بالا کر سکتا ہے: اگر فقر تہیدستان غیور است حیاتے را تہ و بالا توان کرد ایسے گدایان بے نیاز کا استغنا بادشاہوں کو لرزہ براندام کر دیتا ہے : ہمہ نازبی نیازی‘ ہمہ ساز بے نوائی دل شاہ لرزہ گیرد ز گدائے بے نیازے وہ شخص جو فقر کو عملی جامہ پہناتا ہے علامہ کی نظر میں ’’عریاں فقیر‘‘ یا مرد حر ہے۔ وہ اسے مرد حق یا مرد مومن کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں اور یہی وہ شخص ہے جسے فوق بشر کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ مرد حر اور فقر کے بارے میں علامہ نے ’’پس چہ باید کرد‘‘ میں جو اشعار لکھے ہیں وہ بلاغت اور فکر کے امتزاج کا شاہکار ہیں۔ ہر شعر اپنی جگہ پر ایک مستقل فکر کا باب ہے اور علامہ کے افکار کی بلندی‘ گہرائی اور حسن بیان کی ہم آہنگی کا دلکش اور اثر آفرین نمونہ ہے۔ مرد حر کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا جذبہ ایمانی اور اس کی بے مثال جرات و شجاعت ہے۔ ’’لاتخف‘‘ (خوف نہ کر) کے ایزدی پیغام نے اسے میدان عمل کا شہسوار بنا دیا ہے۔ لاکھ حکیم سر بہ حبیب ہوں تو وہ ایک کلیم سر بکف کے مقام کو نہیں پہنچتے۔ لا الہ کے تصور نے ا س کے ضمیر کی شمعیں روشن کر دی ہیں اور وہ کسی سلطان اور امیر کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ راہ طلب میں یوں زمین پر قدم رکھتا ہے کہ اس کے سوز سے راہون کی نبضیں دھڑکنے لگتی ہیں۔ سنگ راہ اس کے سامنے شیشے کی طرح پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ حریر میں ملبوس ارباب اقتدار اس فقر عریاں کے خوف سے پیلے پڑ جاتے ہیں۔ موت اس کی روح کو پایندہ تر بنا دیتی ہے ۔ دین کی حقیقت ہمار ے لیے محض ایک روایت ہے‘ مگر اس کی نگاہ تیز اس حقیقت کو بے نقاب دیکھتی ہے: سر دین ما را خبر او را نظر او درون خانہ ما بیرون در ما کلیسا دوست ما مسجد فروش او ز دست مصطفیؐ پیمانہ نوش اپنے مثالی مرد حر کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اپنے ہم عصر مسلمان کی متزلزل ناقابل رشک شخصیت پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں اور اس کی کلیسا دوستی اور زیر دستی کا مقابلہ مرد حر کے استغنا اور خودداری سے کرتے ہیں۔ ہم فرنگ کے غلام ہیں اور وہ خدا کا بندہ ہے ۔ اس کی شخصیت جہاں رنگ و بو میں سما نہیں سکتی۔ اس کا سینہ ’’تکبیر امم‘‘ سے آباد ہے اور اس کی لوح جبیں پر قوموں کی تقدیر لکھی ہے۔ ہماری صبح و شام فکر معاش میں گزرتی ہے اور ہمارا انجام موت کی تلخٰ ہے‘ مگر اس جہان بے ثبات میں مرد حر کو ثبات حاصل ہے۔ اس کی موت بھی زندگی کی ایک منزل ہے اس کی صحبت سے بے جان مٹی میں بھی قلب کی دھڑکنیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہم ظن و تخمین کے شکار ہیں مگر وہ سراپا کردار ہے۔ ہماری گدائی فاقہ مستی اور کوچہ گردی سے عبارت ہے مگر اس کا فقر لا الہ کی تلوار سے مزین ہے۔ ہماری حیثیت ا س تنکے کی ہے جو بگولے کے طوفان میں ناپید ہو جاتا ہے مگر مرد حر کی ضرب سے پہاڑوں سے نہریں رواں ہو جاتی ہیں۔ علامہ اپنے مخاطب کو اس مرد حر کی شخصیت کا محرم ہونے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اس کی صبحت سے زند ہ ہو جائے۔ مردان حر کی صحبت انسان ساز ہے۔ وہ ایک بحر بیکراں ہے۔ اس کا قلب جوش و مستی سے ابلتا ہے۔ اور کوہ گراں اس کے راستے میں ریت کا تودہ بن کر بکھر جاتا ہے۔ وہ صلح کے عالم میں رونق انجمن اور زینت محفل ہے اور اس نسیم بہار کی مانند ہے جو چمن میں زندگی اور شگفتگی کا پیغام لاتی ہے۔ مگر انتقام کے دن یہ محرم تقدیر کفن بدوش اور جان بکف میدان میں آتا ہے۔ شخصیت کی تکمیل اور راز زندگی کے ادراک کے لیے ایسے ’’خداوندان دل‘‘ کی صحبت ضروری ہے۔ کہیں کہیں مرد حر کی بجائے مرد حق کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے‘ مگریہ مختلف الفاظ ایک ہی تصور کے مظہر ہیں۔ مرد حق کی تعریف یہ کی ہے کہ اس کی زندگی کی تمام قدروں کا سرچشمہ ذات حق ہے۔ اس کا مذہب ‘ اس کے اصول‘ اس کے آداب زندگی اور اس کے خوب و بد کے تمام معیار حق کے حوالے سے متعین ہوتے ہیں: رسم و راہ و دین و حق و آئنش زشت و خوب و تلخ و نوشینش ز حق مرد حق اپنے آپ کو بھی حق کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ اس کی زندگی اور موت سب لاالہ کی تفسیر ہیں۔ اس کے لیے خون میں لوٹنا آبروئے حیات ہے چوب دار اس کے لیے مسرتوں کا پیغام لے کر آتی ہیں۔ بلائیں اور مصیبتیں اس کی خودی کو استوار کرتی ہیں‘ اور اسی خودی کی تکمیل سے وہ ذات حق کا مشاہدہ کرتا ہے: از بلاہا پختہ تر گردد خودی تا خدا را پردہ در گردد خودی مرد حق بین جز بحق خود را ندید لاالہ میگفت و در خون می تپید عشق را در خون تپیدن آبرو ست ارہ و چوب و رسن عیدین او ست مرد حق موت کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتا ہے اور یہی اس کی پہچان بھی ہے: نشان مرد حق دیگر چہ گویم چو مرگ آید تبسم برلب اوست مرد حق خود اپنے نفس کے خلاف رزم آرا ہے اور اپنی گھات میں بیٹھ کر اپنے نفس امارہ کے خلاف مصروف جہاد ہے۔ مرد مومن زندہ و باخود بہ جنگ برخود افتد ہمچو بر آہو پلنگ مرد مومن خود اپنے آپ ہی سے ہر لمحہ نبرد آزما نہیں ہے۔ بلکہ وہ غیر صحت مند ماحول کے خلاف بھی جنگ کرتا ہے۔ سلطان ٹیپو شہید کی زبان سے علامہ نے جہاد کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اس موت کی عظمت کا ذکر کیا ہے جو مرد مومن کو عالم خاک سے بلند کر دیتی ہے۔ اگرچہ مومن کے لیے موت کسی صورت بھی تلخ نہیں‘ مگر کتنی عظیم ہے وہ موت جو میدان کربلا میں حضرت امام حسینؓ کے حصے میں آئی ہے: گرچہ ہر مرگ است بر مومن شکر مرگ پور مصطفیؐ چیزے دگر مرد مومن خودی کے مسلسل ارتقا سے ذات مطلق کو دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ معراج کے فلسفے کی تشریح کرتے ہوئے علامہ فرماتے ہیں کہ معراج سے مراد محبوب کی آرزو اور محبوب کے حضور اپنی خودی کا امتحان ہے۔ محض صفات خداوندی کا علم مرد مومن کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ذات حق کے مشاہدے سے کم پر راضی نہ تھے۔ چنانچہ معراج کے ذریعے آپ نے محبوب کے جلووں کو بے نقاب دیکھا: بر مقام خود رسیدن زندگیست ذات را بے پردہ دیدن زدنگیست مرد مومن در نسازد باصفات مصطفیؐ راضی نشد الا بذات چیست معراج آرزوئے شاہدے امتحانے روبروے شاہدے علامہ مر د مومن کی قوت و صلاحیت کے پیش نظر مسلمان کو عالم رنگ و بو کو اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کا سبق دیتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ وہ رضائے حق میں فنا ہو کر قضائے حق بن سکتا ہے: دیگر ابن نہ آسمان تعمیر کن ہر مراد خود جہان تعمیر کن چون فنا اندر رضائے حق شود بندہ مومن قضائے حق شود مرد مومن یا انسان کامل کے لیے ان کے ہاں قلندر کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ قلندری جاہ و حشم سے بے نیازی مگر تسخیر آب و گل کا نام ہے۔ یہ لوگ شاہوں سے خراج لے کر بھی رسم فقیری نہیں چھوڑتے: قلندران کہ بہ تسخیر آب و گل گوشند ز شاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند قلندری اور سکندری میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ قلندری زندگی کی اعلیٰ اور پاکیزہ اقدار کی مظہر ہے‘ مگر سکندری استعمار اورتاخت و تاراج کا نام ہے۔ سکندری بھی تسخیر چاہتی ہے۔ مگر اس تسخیر کے پیچھے ہوا و ہوس کا جذبہ اور اندھی قوت کا بیدریغ استعمال ہے۔ اس کے مقابلے میں قلندری محبت اور صلح و آشتی کا پیغامبر ہے۔ وہ محبت سے دلوں کا سودا کرتی ہے ۔ اور قلب و ذہن میں انقلاب برپا کر کے تسخیر عالم کے مقصد کی تکمیل چاہتی ہے۔ دبدبہ قلندری‘ طنطنہ سکندری آن ہمہ جذبہ کلیم‘ این ہمہ سحر سامری آن بہ نگاہ میکشد‘ این بہ سپاہ میکشد آن ہمہ صلح و آشتی این ہمہ جنگ داوری ہر دو جہان کشاستند‘ ہر دو دوام خواستد این بہ دلیل قاہری آن بہ دلیل دلبری ضرب قلندری بیار‘ سد سکندری شکن رسم کلیم تازہ کن‘ رونق ساحری شکن علامہ اپنے آپ کو مسلک قلندری و درویشی سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ مسلک کسی مخصوص ظاہری طرز لباس یا روایتی قلندرانہ حلیے کا نام نہیں اور نہ یہ امور دنیا سے علیحدگی کی علامت ہے ۔ قلندرانہ استغنا اور بلند نظری ک نصب العین کے ساتھ ساتھ زندگی کے بھرپور تقاضوں سے نپٹنا رسم قلندری کی شان ہے۔ اس مرد درویش کا ارشاد ہے : اقبال قبا پوشد در کار جہان کوشد دریاب کہ درویشی بادلق و کلا ہے نیست ٭٭٭ بیا بمجلس اقبال و یک دو ساغر کش اگرچہ سر نتراشد قلندری داند علامہ نے اپنے نصب العینی انسان کو عام طورپر سے مرد مومن قلندر اور فقیر کے نام سے یاد کیاہے۔ بعض نقادوں کی یہ رائے ہے کہ علامہ اقبال نے عظمت انسانی اور ایک نصب العینی انسان کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں وہ نیتشے سے بہت متاثر ہیں‘ صحیح نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ نیتشے کے بعض افکار کے زبردست مداح تھے۔ انہوںنے اپنے اشعار میں اسے مجذوب کے نام سے یاد کیا ہے۔ اور اس کے دماغ کو کافر مگر اس کے قلب کو مومن کہا ہے۔ نیشے عجز و انکسار کا سخت دشمن تھا اور اثبات ذات اور قوت کا زبردست داعی تھا۔ وہ نفی خودی کو زوال پذیر اور مغلو ب اقوام کی اختراع سمجھتا تھا۔ اس کا خیا ل تھا کہ کمزور قومیں قوی اور غالب اقوام کے سامنے ایسے تصورات زندگی کی بلیغ کرنے لگتی ہیں جن سے ان کی کمزوری ایک خوبی بن کر ابھرتی ہے۔ وہ ضعف و عجز کو ایک روحانی قدر بنا دیتی ہیں۔ اور ہمت و عمل کو دنیا پرستی کا طعنہ دینے لگتی ہیں۔ نیتشے نے اپنے ان افکار کی روشنی میں مسیحی اخلاقیات اور رہبانیت پر بھرپور وار کیا ۔ اس میں اور علامہ اقبال میں افکار کی مماثلت یوں دکھائی دیتی ہے کہ علامہ نے بھی افلاطونی نظریات اور عجمی تصورات کو اسلامی افکار و ادبیات پر تباہ کن اثرات ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی ادبیات میں بعض تخریبی عناصر بھی انہی اثرات کا نتیجہ ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے مسلمانوں میں عافیت کوشی قناعت پرستی اور خود فراموشی کے رجحانات پیدا ہوئے۔ نیتشے نے فوق البشر کا ایک ایسا تصور پیش کیا جو قتوت اور برتری کی علامت تھا۔ اس کا نظریہ تھا کہ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم نے نسل انسانی کو انحطاط پسند اور ضعف پرست بنا دیاہے۔ حالانکہ قوت زندگی کی بنیادی قدر ہے ۔ اس کا عقیدہ تھا کہ زندگی ایک فوق البشر کے انتظار میں ہے جو اس کی نئی قدریں متعین کرے گا۔ یہ فوق البشر قوت کا مظہر‘ سخت کوش‘ مبارزہ طلب اور خطر دوست ہو گا اور زندگی گریز رجحانات کو کچل دے گا۔ علامہ نے اپنے عظیم انسان یا مرد مومن کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں بھی قوت ایک بنیادی قدر ہے مگر یہاں نیتشے اور اقبال کے فوق البشر کا تشابہ خت ہو جاتا ہے۔ نیتشے اندھی قوت کا پرستار ہے۔ علامہ قوت کو اخلاقی اور روحانی اقدار کے تابع قرار دتیے ہیں۔ ان کا فوق البشر جلال و جمال کا امتزاج ہے۔ نیتشے قوت پر اس لیے اصرار کرتا ہے کہ ایک اعلیٰ اور ارفع تر نوع حیوان وجو د میں آئے ۔ اقبال رومی کی طرح قوت کے طلب گار ہیں کہ انسانی خودی مستحکم سے مستحکم تر ہوتے ہوئے اس منزل پر پہنچ جائے کہ اس میں صفات الہیہ کی جھلک نظر آنے لگے۔ نیتشے صرف قاہری کی تعلیم دیتا ہے۔ مگر علامہ قاہری کے ساتھ دلبری کو ہم آہنگ کرتے ہیں۔ انہیں نیتشے کے فلسفہ کے صرف وہی پہلو پسند ہیں جو اسلامی تعلیم سے مطابقت رکھتے ہیں۔ پھر فوق البشر کا تصور نیتشے ہی کی ایجاد نہیں بلکہ اسلامی فکر اس تخیل سے ناآشنا نہیں تھا۔ رومی نے جو صدیوں پہلے اپنے پرسوز اور وجد آفرین اشعار میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ ایک عظیم انسان کا تصور پیش کیا تھا۔ شیخ محی الدین ابن العربی کی تصانیف ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’التدبیرات الالہیہ‘‘ کا مرکزی موضوع ہی انسان کامل ہے ۔ عبدالکریم جیلی (811/1408-820/1417)کے درمیان نے بھی اپنی کتاب ’’الانسان الکامل‘‘ میں یہ فلسفہ ایک متصوفانہ اور مابعد الطبیعی رنگ میں پیش کیا ۔ علامہ نے جیلی کے افکار کو ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا‘‘ میں بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ اقبال کے فوق البشر کے نظریے میں قرآن حکیم کے آدم کا تصور موجود تھا جسے نائب حق قرار دیا گیا تھا۔ مغربی نقادوں نے اقبال پر نیتشے کے اثرات ثابت کرنے میں غلط فہمی سے کام لیا ہے اس کا جواب خود علامہ کے اس خط میں ملاحظہ ہو جو انہوںنے ڈاکٹر نکلسن کو لکھا تھا۔ فرماتے ہیں: ’’بعض انگریز تنقید نگاروںنے اس سطحی تشابہ اور تماثل سے جو میرے اور نیتشے کے خیالات میں پایا جاتا ہے دھوکا کھایا ہے اور غلط راہ پر پڑ گئے ہیں… وہ (ایک انگریز نقاد کی طرف اشارہ ہے) انسان کامل کے متعلق میرے تخیل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خلط مبحث کر کے میرے انسان کامل اور جرمن مفکر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کر لیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسان کامل کے متصوفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے جب نہ نیتشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا نہ اس کی کتابیں میری نظروں سے گزری تھیں ‘‘۔ 23؎ ٭٭٭ عظمت آدم کائنات میں انسان کی برتری اور شرف کے بارے میں علامہ نے جس گوناگوں اور متنوع انداز میں اظہار خیال کیا ہے اس کی مثال فارسی شاعری میں نہیںملتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفی شعرا بالخصوص رومی نے عظمت انسانی کے تصور کو نہایت قوت اور جذبے کے ساتھ پیش کیا ہے‘ مگر علامہ نے اس موضوع میں جو وسعت پیدا کی ہے وہ اپنے نظام فکر کے بنیادی اجزا میں اسے جو درجہ دیا ہے وہ بے مثال ہے۔ جب علامہ انسان کی فضیلت اور اس کی بے پناہ تخلیقی اور تعمیری استعداد کا تصور پیش کرتے ہیں تو ان کے سامنے انسان کی محض جسمانی یا روحانی استعداد نہیں ہوتی بلکہ ان تمام معنوی‘ عقلی اور جسمانی صلاحیتوں کا مکمل امتزاج ہوتا ہے جو کائنات میں انسان کی برتری کو مسلم کرتا ہے۔ قرآن مجید نے انسان کو خلیفہ ارض اور نائب حق قرار دیا ہے ۔ علامہ کے نزدیک عظمت انسانی کے تصور کا سرچشمہ یہی قرآنی حقیقت ہے۔ وہ ذات خداوندی سے مخاطب ہو کر اس فضٰلت و شرف کا ذکر یوں کرتے ہیں: آیہ تسخیر اندر شان کیست این سپہر نیلگون میزان کیست راز دان ’’علم الاسمائ‘‘ کہ بود مست آن ساقی و آن صہبا کہ بود اے ترا تیرے کہ مارا سینہ سفت حرف ’’اذعونی‘‘ کہ گفت و باکہ گفت جاوید نامہ میں روح زمان و مکان ’’زروان‘‘ کی زبان سے انسان کی بے پایاں قوت کا لوہا یوں منوایا ہے: ’’لی مع اللہ ‘‘ ہر کرا در دل نشست آن جوانمردے طلسم من شکست یہی وہ انسانیت کا ارفع اور عظیم تصور ہے جس کی روشنی میں علامہ نے انسان کو ’’سوار اشہب دوران‘‘ اور ’’فروغ دیدہ امکان‘‘ کی خوبصورت تراکیب سے یاد کیا ہے اور اس سے زندگی میں ایک صالح‘ صحت مند اور پاکیزہ نظام ترتیب دینے کی آرزو کی ہے۔ نائب حق ہو کر عناصر اربعہ پر حکومت کرنا ذوق تسخیر کی تسکین ہی کا باعث نہیں بلکہ کائنات میں انسان کی تقدیر متعین کرتا ہے خود اس کی تخلیق اس کی عظمت کی آئینہ دار ہے۔ وہ مسجود ملائک‘ خود شکن‘ خود نگر ہے۔ میلاد آدم کائنات کا ایک عظیم واقعہ تھا۔ اسے کائنات کے تمام مظاہر کی تسخیر کی بشارت دی گئی تھی۔ ’’سخر لکم ما فی السموت وما فی الارض جمعیا‘‘ اور ایسی ہی کوئی دوسری قرآنی آیات کائنات پر ا س کے تسلط کی شاہد ہیں۔ کائنات کو مسخر کرنے کے لیے انسان کو جو قو ا دیے گئے ہیں ان میں دانش و فرزانگی اور عشق و روحانیت شامل ہیں۔ وہ دانش جو قوائے انسانی کو مضحمل کرنے کی بجائے انہیں تعمیری تقاضوں کی تکمیل پر مائل کرتی ہے قابل احترام ہے۔ اس دانش کو ذات خداوندی نے ’’خیر کثیر ‘‘ کے نا م سے یاد کیا ہے ۔ ایک حدیث شریف میں علم کو مسلمان کی کھوئی ہوئی میراث کہا گیا ہے۔ یہ دانش و حکمت انسان کے نصب العینی تقاضوں کے حصول میں اس کی مدد کرتی ہے ۔ وہ روحانی طاقت جس سے انسان فطرت کو مسخر کرتا ہے ۔ عشق سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس سے انسان کائنات پر چھا جاتا ہے۔ انسان کامل کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے اور وہ کارکشائی کار آفرینی اور کارسازی کی خدائی صفات اپنے اندر جذب کر لیتا ہے: از محبت شون خودی محکم شود قوتش فرماندہ عالم شود پنجہ او پنجہ حق میشود ماہ از انگشت او شق میشود علامہ اپنے افکار میں جسم وجان دونوں کی قوت کا ذکر کرتے ہیں۔ عام صوفیہ نے نفس کشی کے حصول کے لیے بہت مبالغے سے کام لیا ہے ۔ ان کے عقیدے کے مطابق ریاضت اور مجاہدے سے جسم کو ضعیف و ناتواں کرنے سے روح کو تقویت ملتی ہے۔ مگر علامہ یا ان کے مرشد معنوی مولانائے روم روحانی قوت کے ساتھ ساتھ جسمانی طاقت کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ رومی نے انسان کامل کا جو مثالی تصور پیش کیا ہے وہ یوں ہے: زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزو ست علامہ روح اور جسم کے اتحاد کے لیے قوت کو ضروری سمجھتے ہیں: تنے پیدا کن از مشت غبارے تنے محکم تراز سنگین حصارے درون او دل درد آشنائے چو جوئے در کنار کوہسارے علامہ نے اگرچہ انسانی عظمت‘ تازہ کاری اور تخلیقی استعداد پر بہت زور دیا ہے لیکن ان کے ہاں ایسے اشعار موجود ہیں جن میں وہ خدائے برتر کے حضور میں اپنے عجز و انکسار و بے بسی کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایک پوری غزل میں عجز و نیاز مندی کا احساس یوں موجزن ہے: مرغ من خوش لہجہ و شاہین شکاری از تست زندگی را روش نوری و ناری از تست ہمہ افکار من از تست چہ در دل چہ بہ لب گہر از بحر برآری و نہ برآری از تست من ہمان مشت غبارم کہ بجائے نہ رسد لالہ از تست و نم ابر بہاری از تست نقش پرداز توئی ما قلم افشانیم حاضر آرائی و آیندہ نگاری از تست ایک جگہ انسان کی پریشان حالی‘ بے بسی اور اس کی جگہ گداز مجبوری کا ذکر حضور خداوندی میں طنزاً یوں کیا ہے: بہ جہان دردمندان تو بگو چہ کار داری تب و تاب ما شناسی دل بیقرار داری چہ خبر تراز اشکے کہ فرو چکلد ز چشمے تو بہ برگ گل ز شبنم در شاہوار داری چہ بگویمت ز جانے کی نفس نفس شمارد غم روزگار داری دم مستعار داری مگر انسان کی اس بے بسی کے اظہار کے باوجود وہ اسے کائنات کا باقی تمام مظاہر کے مقابلے میں بہت خود مختار اور افضل سمجھتے ہیں اور اس کی قوت تسخیر‘ قوت ترتیب اورتنظیم اور تازہ کاری کا ولوہ انگیز ذکر کر کے وہ جبر و اختیار کے بین بین ایک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ مادی اور طبعی عالم میں ایک انتشار پراگندگی یا ابتدائی سادگی ہے جسے انسان کی تخلیقی استعداد‘ تنظیمی قابلیت اور ذوق جمال نے منظم و مرتب کیا ہے اور اس میں حسن پیداکیا ہے۔ اس احسا س کو وہ اپنے مخصوص انداز میں ذات خداوندی کے ساتھ ایک محبت آمیز مجادلے کی صورت میں یوں پیش کرتے ہیں: تو شب آفریدی‘ چراغ آفریدم سفال آفریدی‘ ایاغ آفریدم بیاباں و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم انسان کی تخلیقی استعداد کا سلسلہ یہیں نہیں رکتا۔ پورا عالم شش جہت انسانی اعمال و افعال کی جولانگاہ ہے۔ زمان و مکاں اس کے مشاہدات و افکار کا کرشمہ ہیں۔ وہ ساز تقدیر ہے اور اس ساز سے تخلیق و تازہ کاری کے سینکڑوں نغمے پھوٹتے ہیں: این جہان چیست صنم خانہ پندار من است جلوہ او گرو دیدہ بیدار من است ہستی و نیستی از دیدن و نادیدن من چہ زمان و مکان شوخی افکار من است ساز تقدیرم و صد نغمہ پنہان دارم ہر کجا زخمہ اندیشہ رسد تار من است اے من از فیض تو پایندہ نشان تو کجا ست این دو گیتی اثر ماست جہان تو کجاست اس خاک زندہ کے روشن پہلو پر علامہ نے اتنی کثرت سے اور شدت احساس کے ساتھ روح پرور اور ولولہ انگیز اشعار کہے ہیں کہ ان کے کلام کا مجموعی تاثر انسان کی تخلیقی اور تعمیری اوراس کی قدرت و شکوہ ہی کا آئینہ دار ہے۔ ایک پوری غزل میں انسان کی بظاہر ناچیز ہستی کے ولولہ انگیز عشق اور وسیع اور بیباک تعمیری عزائم کی تصویر یوں کھینچی ہے: اے خدائے مہر و ماہ خاک پریشانے نگر ذرہ در خود فرو پیچد بیابانے نگر حسن بے پایان درون سینہ خلوت گرفت آفتاب خویش را زیر گریبانے نگر پر دل آدم زدی عشق بلا انگیز را آتش خود را بہ آغوش نیستانے نگر شوید از دامان ہستی داغہائے کہنہ را سخت کوشی ہاے این آلودہ دامانے نگر خاک ماخیزد کہ سازد آسمانے دیگرے ذرہ ناچیز و تعمیر بیابانے نگر وہ راز جو سینہ ہستی میں محفوظ تھا اس پیکر خاکی میں جلوہ آرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند اور سورج اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ اس کی ذات کے امکانات کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ وہ بھی تک خود اس سے پوری طرح آشنا نہیں: مقدر است کہ مسجود مہر و ماہ باشی ولے ہنوز ندانی چہا توانی کرد آدم کی نگاہ مہ و پروین سے بلند تر ہے۔ کہکشاں اس کی گرد راہ ہے اور مہر و ماہ اس کے پرستار ہیں: زہرہ گرفتار من‘ ماہ پرستار من عقل کلاں کار من بہر جہان دار و گیر من بہ زمین در شدم‘ من بہ فلک برشدم بستہ جادولے من ذرہ مہر منیر اس کی مضطرب روح کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتی کیونکہ سکون اور جمود سے د ل مردہ ہو جاتاہے ۔ زندگی حڑکت دوام ہے اور انسان کی قسمت تب و تاب جاودانہ ہے: نگاہ بے ادب زد رخنہ ہا در رخ مینائی دگر عالم بنا کن گر حجابے درمیان خواہی انسان ماہ انجم اور فلک و کہکشاں سے ہی بلندتر نہیں وہ فرشتوں سے بھی عظیم تر ہے۔ فرشتے محض عبودیت کے مظہر ہیں‘ مگر انسان کا دل ولولہ عشق سے سرشار ہے: مقام بندگی دیگر مقام عاشقی دیگر زنوری سجدہ میخواہی زخاکی بیش ازین خواہی اسے خوب سے خوب تر کی تلاش سرگرداں اور بے چین رکھتی ہے۔ یہ ستارے اور یہ ماہ و خورشید لذت شوق اور داغ آرزو سے محروم ہیں اور اس کی مچلتی ہوئی تمنائوں اور ذوق تازہ کاری کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ وہ نئے جہانوں کا آرزو مند ہے۔ حسن کی جلوہ آرائیاں اس کو سکون نہیں بخش سکتیں۔ یہاں تک کہ اس کی جرات اور بیباکی اسے حضرت یزداں کے سامنے بھی تازہ کاری اور اپج کے اظہار پر اکساتی ہے: ہر نگارے کہ مرا بیش نظر میاید خویش نگاریست ولے خوشتر ازان میبایست این مہ و مہر کہن راہ بجاے نبرند انجم تازہ بہ تعمیر جہان میبایست گفت یزدان کہ چنین است و دگر ہیچ مگو گفت آدم کہ چنین است و چنان میبایست مو ت انسان کے ابدی سفر میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ انسان وہ جاوداں حقیقت ہے جو خود موت کی گھات میں ہے: از مرگ تر سی اے زندہ جاوید مرگ است صیدے تو در کمینی علامہ کا عقیدہ ہے کہ موت کے ساتھ زندگی کا تسلسل ختم نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر ایسا ہے تو کسی صٓحبدل یا صاحب عمل کی موت خود خالق کے لیے ایک طنز ہے: چنان بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام خدا ز کردہ خود شرمسار میگردد ٭٭٭ جبر وقدر جبر و قدر کا مسئلہ اقبال کی شاعری میں ایک اہم جزو ہے۔ اسے ہمیشہ فلسفے میں بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ آیا انسان کو اپنے اعمال پر پورا اختیار ہے اور اس پر ان کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا تمام اعمال کسی برتر قوت کی طرف پہلے سے معین کر دیے گئے ہیں۔ اور خود انسان کو ان پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ آیا وہ مختار ہے یا مجبور ہے۔ وہ صاحب قدرت ہے یا اسیر جبر۔ یہ اہم مسئلہ ہمیشہ فکر پسند طبائع کے لیے توجہ کا مرکز بنا رہا ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس بحث کا آغاز متکلمین نے کیا تھا۔ وہ دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک جبر کا قائل تھا اور دوسرا قدر کا۔ اشاعرہ اور معتزلہ کے مابین جو اختلافات رونما ہو ئے ان میں بھی ایک یہی جبر و قدر کا مسئلہ تھا۔ اشاعرہ جبری تھے اور معتزلہ قدری۔ آہستہ آہستہ مسئلے کا رخ قدر کی بجائے جبر کی طرف پھرتا چلا گیا۔ وحدت الوجود کے نظریے نے جبریت کے رجحا ن کو بہت تقویت دی۔ ان فکری اور بعض تاریخی عوامل نے اسلامی ضابطہ حیات میں قسمت اور تقدیر کو ایسے معنی پہنائے کہ مسلمان ذوق عمل سے عاری ہونے لگا اور اس نے توکل اور تسلیم و رضا کی ایسی توجیہیں شروع کر دیں کہ جن سے بے عملی کی تحریک ہوئی تھی۔ ساتویں؍ تیرھویں صدی میں تاتاری حملے نے اسلامی دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا اور اسلامی تہذیب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس خوفناک تباہی نے مسلمانوں کے حوصلے بری طرح پست کر دیے اور بے بسی کا احساس طبیعتوں پر غالب آنے لگا۔ اس زمانے میں رومی نے اپنے توانا اور امید بخش افکار سے بے بسی اور بے حسی کے شدید رجحان کو روکنے کی کوشش کی۔ ان کا فلسفہ پوری زندگی پر محیط ہے۔ اور انہوںنے جبر و قدر کے مسئلے کی وضاحت کی پوری کوشش کی ہے۔ انہوں نے تقدیر کو آئین حیات کے نام سے منسوب کیا ہے اور قدرت کے ابدی اور اٹل قوانین کی روشنی میں انسانی استعداد اور قوت عمل کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ انسان کو اختیار کی قوت بخشی گی ہے۔ اس اختیار کی بدولت وہ اپنی شخصیت کی تکمیل میں مصروف رہتا ہے۔ قرآن مجید اوامر و نواہی کا مجموعہ ہے اور جزا و سزا کی خبر دیتاہے۔ اگر انسان اختیار سے بے بہرہ ہوتا تو ان اوامر و نواہی کے کیا معنی تھے۔ حکم پتھر کو تو نہیں دیا جا سکتا نہ پتھر یا اینٹ سے کوئی گلہ ہو سکتا ہے۔ اوامر و نواہی کا اطلاق جس ذی شعور ہستی پر ہوتا ہے وہ صرف انسان ہے اس لیے کہ اس کو شعور کے ساتھ ساتھ قوت ارادہ و اختیار سے نوازا گیا ہے: اینکہ فردا آن کنم یا این کنم این دلیل اخیتار است اے صنم و آن پشیمانی کہ خوردی از بدی ز اختیار خویش کردی مہتریی جملہ قرآن امر و نہی است و وعید امر کردن سنگ مرمر را کہ دید؟ ہیچ دانا‘ ہیچ عاقل این کند؟ با کلوخ و سنگ خشم و کین کند؟ غیر حق را گر نباشد اختیار خشم چون می آیدت پر جرم دار؟ ہمچ خشمے آیدت بر چوب سقف؟ ہیچ اندر کین او باشی تو وقف؟ رومی نے ایک اور باریک نکتہ پتھر اور کتے کی مثال سے پیدا کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ متکلمین اور فلاسفہ جبر و قدر کے بارے میں کتے سے بھی زیادہ جاہل واقع ہوئے ہیں۔ اگر کوئی شخص کتے کو پتھر مارے تو وہ پتھر پر برہم نہیں ہوتا حالانکہ اس کو چوٹ پتھر سے لگتی ہے۔ وہ انتقام کے لیے پتھر مارنے والے پر جھپٹتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پتھر بے جان اور قوت اختیار سے محروم ہے۔ قصور اس شخص کا ہے جس نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا ہے۔ فارسی کی صوفیانہ شاعری پر وحدت الوجود کا فلسفہ چھایا ہوا ہے۔ اور جبر و قدر کے مسئلے پر روایتی میلان جبریت ہی کی طرف ہے اس عقیدے سے بے عملی کے میلانات کو بڑی تقویت ملتی ہے۔ خواجہ حافظ شیرازی نے جبریت کے فلسفے کو اپنایا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے ہاں کبھی دعوت عمل کی صدا بھی سنائی دینے لگتی ہے۔ اور افلاک میں غلغلہ اندازی کا پیغام بھی ملتا ہے۔ مگر بہ حیثیت مجموعی ان کے اشعار میں قناعت اور تسلیم و رضا کا وہی غلط تصور ملتا ہے جو قوموں کے تعمیری قوا کو شق کر دیتا ہے ۔ ان کی نظر میں اعمال کا فیصلہ صانع تقدیر نے بہت پہلے کر دیا ہے۔ روز ازل سے ہر شخص کا مقدر معین ہو چکا ہے ۔ اور اس میں کسی لچک یا تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا ہر طرح کی کوشش و کاوش بیکار ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: در کوئے نیک نامی ما را گزر ندادند گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را حافظ بخود نہ پوشید این خرقہ مئے آلود اے شیخ پاک دامن معذور دار ما را ٭٭٭ مرا راز ازل کارے بجز رندی نفرمودند ہر آن قسمت کہ آنجا رفت از آن افزون نخواہد شد حافظ کے زمانے سے تقریباً ایک سو سال پہلے ’’گلشن راز‘‘ کے مصنف شیخ محمود شبستری نے تو مذہب جبر کے سوا ہر مذہب کو کفر کے زمرے میں داخل کر دیا تھا۔ انہوںنے نہایت شد و مد کے ساتھ ا س کی حمایت کی حالانکہ یہ فلسفہ انسان کو ایک بے بس اور مجبور محض ہستی بنا کر رکھ دیتا ہے۔ وہ اختیار کی با ت ہی کو جہالت قرار دیتے ہیں اور انسان کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھتے ہیں۔ اختیار کے بارے میں ان کا نظریہ حسب ذیل ہے: تو میگوئی مرا ہم اختیار است تن من مرکب و جانم سوار است کدامین اختیار اے مرد جاہل کسے را کو بود بالذات باطل چو بود تست یکسر ہمچو نابود نگوئی اختیارت از کجا بود مرا افعال را نیست مجازیست نسب خود درحقیقت لہو و بازیست جبریت کا یہ احساس صدیوں تک کارفرما رہا اور اس احسا س نے ملت اسلامی کی تخلیقی اور تعمیری قوتوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ علامہ نے اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس طرف خاص توجہ دی اور جس طرح انہوںنے روایتی تصوف کے بنیادی عقیدہ وحدت وجود کے خلاف پوری قوت سے آواز اٹھائی اسی طرح انہوںنے مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اسے اپنے فلسفے کا ایک اہم موضوع بنایا۔ انہوںنے اس کا مطالعہ قرآنی حقائق کی روشنی میں کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قرآن مجید انسان کو بڑی حد تک اپنے اعمال و افعال کا اختیار عطا کرتا ہے۔ یہ اعمال و افعال اس کے لیے جزا و سزا کی راہیں تعین کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جزا و سز ا کا مستحق اسی وقت ہو سکتا ہے ۔ جب اسے اپنے اعمال پر اختیار ہو اور اس میں ذمہ داری کی صلاحیت ہو۔ قرآن حکیم میں بہت سی آیات اس مضمون کی ملتی ہیں جن میں انسان کو اپنے اعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں: ثم توفی کل نفس ما کسبت و ھم لا یظلمون اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور کسی کو کچھ نقصان نہ ہو گا۔ ان احستتم احسنتم لا نفسکم و ان اساتم فلہا اگر تم نیکو کاری کرو گے تو اپنی جانوں کے لیے کرو گے اور اگر اعمال بد کرو گے تو (ان کا ) وبال بھی تمہاری ہی جانوں پر ہو گا: وان لیس للانسان الا ما سعی اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ ولبنلونکم حتی نعلم المجھدین منکم والصبرین اور ہم تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ ان لوگوں کو جان لیں جو مجاہد اور ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ یہ تمام آیات شریفہ اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ اور اگر وہ ذمہ دار نہیں تو پھر اس کی آزمائش کے کیا معنی؟ علامہ نے خطبات میں تقدیر کی وضاحت یوں کی ہے: ’’جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ’’خلق کل شئی و قدرہ تقدیرا‘‘ (اللہ تعالیٰ نے سب اشیا کو پیدا کیا اور ہر ایک شے کی تقدیر مقرر کی) تقدیر سے مرا د کوئی ایسی بے رحم قوت نہیں جو خارج سے کسی شے پر جبر عمل کر رہی ہو۔ یہ شے کی خود باطنی رسائی ہے اور اس کی وہ صورت پذیر امکانات ہیں جو اس کی فطرت کی گہرائیوں میں مضمر ہیں۔ اور کسی خارجی جبر کا احساس کیے بغیر اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے اعمال کی تخلیق خداوند تعالیٰ کی طرف سے ہو رہی ہو لیکن یہ تخلیق ہماری فطرت کے عین مطابق ہے اور ہم پر ٹھونسی نہیں جا رہی ہے لہٰذا ہم صحیح معنوں میں آزاد ہیں۔ علامہ کے خیال میں اللہ تعالیٰ کے پاس لاکھوں تقدیریں ہیں اگر ایک تقدیر سے ناکامی ہوتی ہے تو حضور حق سے دوسری تقدیر مانگی جا سکتی ہے۔ مسلمان یہ نکتہ نہیں سمجھ سکا کہ اس کے بدلنے کے ساتھ تقدیر بھی بدل جاتی ہے۔ اگر وہ اپن آپ کو خاک سمجھنے لگے تو ہوا کا ایک تیز جھونکا اسے اڑاکے لے جائے گا۔ لیکن اگر وہ پتھر کی سی سختی حاصل کر لے تو ا س سے شیشہ توڑنے کا کام لیا جائے گا۔ وہ اپنے آپ کو شبنم کی طرح نحیف و ناتواں بنا لے تو عاجز و درماندہ رہے گا۔ مگر بحر بیکراں بن جائے تو جاویداں ہو جائے گا: گر زیک تقدیر خون گردد جگر خواہ از حق حکم تقدیر دگر تو اگر تقدیر نو خواہی رواست زانکہ تقدیرات حق لا انتہاست ارضیان نقد خودی در باختند نکتہ تقدیر را نشناختند رمز باریکش بحرفے مضمر است تو اگر دیگر شوی او دیگر است خاک شو نذر ہوا سازد ترا سنگ شو بر شیشہ اندازد ترا شبمنی؟ افتندگی تقدیر تست قلزمی؟ پایندگی تقدیر تست علامہ نے تقدیرات خداوندی کے لامتناہی سلسلے کی وضاحت گوناگوں مثالوںسے کی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں تقدیر کی جھلک نظرآتی ہے۔ قلب و نظر‘ جمال و جلال واردات و کیفیات‘ گفتار و کردار یہ سب فطرت کا فیض ہیں اور فطرت خود خالق فطرت کی قدرت کا کرشمہ ہے: می شناسی طبع دارک از کجاست حورے اندر بنگہ خاک از کجاست قوت فکر حکیمان از کجاست طاقت ذکر کلیمان از کجاست این دل و این واردات او زکیست این فنون و معجزات او زکیست گرمی گفتار داری؟ از تونیست شعلہ کردار داری؟ از تونیست این ہمہ فیض از بہار فطرت است فطرت از پروردگار فطرت است مشکوۃ میں ایک حدیث ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلعم سے پوچھا گیا کہ ہم جو کام کرتے ہیں اور جو دوائیں استعمال کرتے ہیں کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو بدل سکتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی سے ہوتا ہے۔ غرضیکہ تقدیرات الٰہی کا سلسلہ لامتناہی اورامکانات کی دنیا لامحدود ہے ۔ اگر انسان ہر واقعہ اور حقیقت کو تقدیر کا حرف آخر سمجھ کر عمل سے غافل ہو جائے تو بقول علامہ یہ خود فریبی یا خدا فریبی ہے۔ وہ اس روش کو روح اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں۔ علامہ کے عقیدے کے مطابق اگر تقدیر کے اس تصور کو جزو دین سمجھ لیا جائے تو ایسا دین افیون کی طرح خواب آور ہو گا اور محض افسانہ و فسوں ہو کے رہ جائے گا: تابخود ناساختن ایمان تست عالم افکار تو زندان تست رنج بے گنج است‘ تقدیر این چنیں گنج بے رنج است‘ تقدیر این چنین اصل دین در است اگر اے بے خبر میشود محتاج از و محتاج تر وائے آن دینے کہ خواب آرد ترا باز در خواب گران دارد ترا سحر و افسون است یا دین است این؟ حب افیون است یا دین است این؟ علامہ سمجھتے ہیں کہ تخلیق کا عمل پیہم جاری ہے۔ انہوںنے آیہ کریمہ کل یوم ہو فی شان (ہر آن وہ نئی شان میں ہے) کی تعبیر بھی اسی انداز میں کی ہے گویا کن فیکون کا عمل جاری ہے اور کائنات کی برابر تکمیل ہو رہی ہے۔ وہ مرد مومن کے عز م کو تقدیر حق کا خلا ق سمجھتے ہیں: اے کہ گوئی بودنی این بود ‘ شد کارہا پابند آئین بود ‘ شد معنی تقریر کم فہمیدہ ای نے خودی را نے خدا را دیدہ ای مرد مومن باخدا دارد نیاز با تو ما سازیم تو با ما بساز عزم او خلاق تقدیر حق است روز ہیجا تیر او تیر حق است تخلیق خدائی صفت ہے اور انسان کا کما ل صفات الیہ کا زیادہ سے زیادہ اکتساب ہے۔ مرد کامل اپنی تخلیقی قوت سے خود اپنی دنیا کی تقدیر بنا تا ہے۔ علامہ کی نظر میں جو قوت تخلیق سے محروم ہے وہ کافر و زندیق سے کم نہیں: ہر کہ او را قوت تخلیق نیست پیش ماجز کافر و زندیق نیست از جمال ما نصیب خود نہ برد از تخیل زندگانی بر نہ خورد مرد حق! برندہ چون شمشیر باش خود جہان خویش را تقدیر باش اقبال کو مسلمان سے گلہ ہے کہ وہ تقدیر کا شکوہ کرنے کی بجائے نقش حق اختیار کرکے خود تقدیر الٰہی کیوں نہیں بن جاتا۔ تقدیر کے اسی تصور کے پیش نظر انہوں نے کہا ہے کہ کافر تقدیر پر بھروسہ کرتا ہے مگر مومن خود تقدیر الٰہی ہے۔ مون کے جوش کردار سے تقدیر کے راز کھل جاتے ہیں اور اسی جوش کردار سے میدان کارزار میں مومن کی آواز خدا کی آواز بن جاتی ہے۔ اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں رکھنا زندہ اور بیدار دل افراد و امم کا شیوہ ہے ۔ سروری اور برتری انہی کے حصے میں آتی ہے جو اپنی تقدیر خود بناتے ہیں: خدا آن ملتے را سروری داد کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت مسلمان کو بیدارکرنے ا سکے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے اور اسے اپنی شخصیت کے لامتناہی امکانات سمجھانے کے لیے اتنی شدیدضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ مسلمان بے خودی او ر تقدیر کے روایتی تصور سے مرعوب ہو کر اپنی تعمیری اور تخلیقی قوتوں کی اہمیت سے غافل ہو چکا تھا۔ اس لیے علامہ نے ضروری سمجھا کہ وہ اس زندانی تقدیر پر اس کی تقدیر شکن قوت پوری طرح واضح کریں۔ انہوںنے بار بار اس اہم موضوع کو گونا گوں مثالوں سے واضح کرنے کی حتی الامکان کوشش کی اور اس بات کی تاکید کی کہ : خودی را گیر و محکم گیر و خوش زی مدہ در دست کس تقدیر خود را وہ خودی کی لامحدود قوت کے مبلغ ہیں مگر خدا اور انسان کے رشتے کے بار ے میں ان کا عقیدہ ہے کہ قادر مطلق نے انسان کو اس خیال سے ایک گونہ اختیار بخشا ہے کہ وہ جبر سے نہیں بلکہ آزاد سے اپنی مرضی کو خدا کی رضا سے ہم آہنگ کر دے۔ اسرار خودی میں انہوںنے خودی کی پرورش کا پہلا مرحلہ اطاعت کو قرار دیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ جبر ہی سے اختیار کی راہیں نکلتی ہیں۔ : در اطاعت کوش اے غفلت شعار میشود از جبر پیدا اختیار قرآن مجید کی متعدد آیات کا حوالہ دیا جا چکا ہے جن میں ارشاد ہوا ہے کہ اعمال کی زمہ دار ی انسان پر ہ۔ یہ اس کی آزادی اور اختیار کی دلیل ہے مگر بعض آیات میں حقیقت جبر پر بھی روشنی پڑتی ہے مثلاً: واللہ خلقکم وما یعملون 7 تم کو اور جو تم کرتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ انا کل شئی خلقنہ بقدر وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر ۸ ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے اور ہمارا حکم ہے تو آنکھ جھپکنے کی طرح ایک بات ہوتی ہے۔ وکل شئی فعلوہ فی الزبر وکل صغیر و کبیر مستطر ۹ اور جو کچھ انہوں نے کیا (ان کے) اعمال ناموں میں (مندرج) ہے (یعنی) ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ دیا گیا ہے۔ علامہ نے جبر و قدر کے امتزاج کو ایک حدیث نبویؐ سے واضح کیا ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے: الایمان بین الجبر و الاختیار چنین فرمودہ سلطانؐ بدر است کہ ایمان درمیان جبر و قدر است جبر و اختیار کی ہم آہنگی اور اس کا بہترین اظہار ’’جاوید نامہ‘ میں منصور حلاج کی زبان سے ہوا ہے جہاں وہ کہتا ہے کہ جبر صاحب ہمت کا مذہب ہے اور ا س کا یہ جبر قوت کا مرہون منت ہے۔ ناسمجھ انسان کے لیے جو جبر و قدر کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہے جبر موت کا پیغام بن کر آتاہے۔ لیکن کسی خالدؓ کا جبر دنیا کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ تسلیم و رضا مردوں کا شیوہ ہے۔ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ انسان اطاعت کی منزلوں سے گزرتا ہوا اختیار کی ایسی بلندی پر پہنچ جائے کہ خدا ہر تقدیر سے پہلے خود ا س کی رضا کا طالب ہو: ہر کہ از تقدیر سازد ساز و برگ لرزد از نیروے او ابلیس و مرگ جبر دین مرد صاحب ہمت است جبر مردان از کمال قوت است پختہ مردے پختہ تر گردد ز جبر جبر مرد خام را آغوش قبر جبر خالدؓ عالمے برہم زند جبر ما بیغ و ابن ما برکند کار مردان است تسلیم و رضا بر ضعیفان راست ناید این قبا اگر مسلمان نے جبر کے بار ے میں غلو سے کام لیااور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گیا تو دوسری طرف مغرب کی مسیحی اقوام نے آزادی و اختیار کے تصور کو انتہا تک پہنچا دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں اعتدال کے راستے سے ہٹ گئے اور یہ عدم اعتدال دونوں ک لیے مہلک ثابت ہوا۔ علامہ نے ایک رباعی میں روم میں کسی بوڑھے راہب سے ملاقات کا ذکر کیا ہے جس نے اس کے ساتھ گفتگو کے دوران میں ایک نہایت معنی خیز بات کہی تھی‘ اور وہ یہ کہ تم لوگوں کو تقدیر نے اورہمیں تقدیر نے مارا: بہ روما گفت با من راہب پیر کہ دارم نکتہ از من فرا گیر کند ہر قوم پیدا مرگ خود را ترا تقدیر و ما را کشت تدبیر ٭٭٭ تصور فن ہر بڑے شاعر کا فن کے بارے میں ایک مخصوص نظریہ ہوتا ہے جس کا اس کی شخصیت پر اور تصور حیات سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ شاعر کے فن کا اس کی شخصیت سے گہرا رابطہ ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ فن درحقیقت کسی مخصوص ماحول میں فنکار کی اپنی شخصیت اور تجربات ہی سے اظہار کا نام ہے۔ اور فن کا شاعر کے تصور کائنات اور تصور حیات سے گہرا تعلق ہے۔ اس لیے کہ ہر بڑا شاعر اپنے فن کو اس تصور کے تابع قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال زندگی‘ تخلیق‘ ارتقا‘ جوش اور عشق کے شاعر ہیں ۔ زندگی ان کی نظر میں ایک تخلیقی عمل ہے جو شوق نمو اور جوش ارتقا سے سرشار ہے۔ جو فن زندگی کے تخلیقی اور تعمیری تقاضوں کا ساتھ دیتا ہے۔ وہ مبارک اور صحت مند ہے۔ جو ذو ق تخلیق اور لذت ارتقا کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے وہ مضر اور خطرناک ہے۔ جو فن شخصیت کے اثبات کا اور استحکام کا باعث ہے وہ مستحسن ہے ۔ جو خودی کو کمزور اور ناتواں بناتا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ 1916ء میں علامہ اقبال نے لکھنو کے نیو ایرا (New Era)میں فن کے بارے میں مندرجہ ذیل افکار کا اظہار کیا تھا: ’’تمام انسانی فعالیت کی غایت اولیٰ زندگی ہے… شاندار ‘ توانا اور بھرپور زندگی‘ انسانی ہنر بلا استثناء اس مقصد وحید کے تابع ہونا چاہیے اور ہر شے کی قدر و قیمت کا تعین اس کی حیات بخش استعداد کے مطابق ہونا چاہیے۔ بلند ترین فن وہ ہے جو ہماری سوئی ہوئی قوت ارادی کو جگا دے اور ہمیں زندگی کے ہر امتحان کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی توانائی بخشے۔ ہر وہ فن جو خواب آور ہے اور گر د و پیش کے ان حقائق سے غافل کردیتا ہے۔ جن پر مکمل غلبہ پا لینے ہی پر زندگی کا دارومدار ہے انحطاط اورموت کا پیغامبر ہے۔ فن میں افیون نوشی کی گنجائش نہ ہونا چاہیے۔ ’’فن برائے فن‘‘ کا عقیدہ انحطاط پرستی کی ایک چالاک اختراع ہے اور اس کا مقصد نہایت ہوشیاری سے ہمیں زندگی اور طاقت سے محروم کرنا ہے‘‘۔ 1؎ ’’فن برائے فن‘‘ کی جس اصطلا ح کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے وہ انیسویں صدی کے انحطاط پسند مغربی ادیبوں کا نعرہ تھا۔ اس نعرے سے ان کی مراد یہ تھی کہ فن کی ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جو ایک مکمل مہنتی اور مطلق قدر ہے دوسری اقدار مثلاً خیر اور صداقت اس کی تابع ہیں اور یا پھر اس سے قطعی طور پر غیر مربوط ہیں۔ اس تحریک کی ابتدائی جھلکیاں ہمیں جرمنی کے بعض رومانی شاعروں مثلاً فان ولیہلم شلیگل (1845)اور ہائزخ ہاینے (1856) کے ہاں نظر آتی ہیں۔ اس کی قیادت فرانس میں بادلیئر (1867)گاتیے (1872) اور فلوبیئر (1880)روس میں پشکن (1837)انگلستان میں والٹر پیٹر (1894)اور آسکر وائلڈ (1900) اور امریکا میں ایڈگر ایلن پو (1949)نے کی۔ فرانسیسی ادیب گویتے نے اس نظریے کی وضاحت یہ کہہ کر کی ہے ک ہم لوگ فن کی آزادی پر ایمان رکھتے ہیںَ ہماری نظر میں فن وسیلہ نہیں مقصد ہے ۔ جو شخص حسن کے سوا کسی اور شے کا پجاری ہے وہ فنکار نہیں۔ یہی نہیں اس نے فن میں افادیت کے تصور کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ جو شے افادیت پیدا کر لیتی ہے وہ حسن کے دائرے میں سے خارج ہو جاتی ہے‘‘ آسکروائلڈ نے تخلیق کی اولین شرط ہی یہ قرار دی ہے کہ فنکار فن اور اخلاق کو مکمل اور واضح طور پر دو الگ حقیقتیں سمجھنے کا اعتراف کرے۔ 2؎ ایک اور جگہ آسکر وائلڈ ہی نے یہ بھی کہاہے کہ شعر میں اخلاق کا تذکرہ محض ادبی وضعداری ہے۔ ظاہر ہے کہ مفکر خودی اور شاعر حیات کے لیے اس قسم کے نظریے خرافات سے زیادہ حیثیت نہیںرکھتے تھے۔ چنانچہ انہوںنے نہ صرف مندرجہ بالا سطور میں فن برائے فن کو زندگی کے حقائق سے انحراف کی ایک عیارانہ کوشش ے نام دے یاد کیا ہے بلکہ اپنے اشعار میں بھی انحطاط پسند شعرا کے خطرناک تخریبی رجحانات کی شدت سے مذمت کی۔ ان کی نظر میں یہ شاعر ذو ق حیات سے محڑوم ہیں ان کی تخلیقات سراب رنگ و بو ہیں۔ یہ زندگی کی قدروں کو مسخ کر دیتے ہیں اور اس کی تازگی قوت اور جوش نمو چھین لیتے ہیں ۔ ان کے سحر آگیں نغمے موت کا راگ چھیڑتے ہیں اور سمندر کی داستانی پریوں کی طرح ناخدائوں کو منجدھار میں لے ڈوبتے ہیں: واے قوے کز اجل دار د برات شاعرش وابوسد از ذوق حیات خوش نماید زشت را آئینہ از در جگر صد نشتر از نوشینہ اش بوسہ او تازگی از گل برد ذوق پرواز از دل بلبل برد سست اعصاب تو از افیون او زندگانی قیمت مضمون او ماہی و از سینہ تا سر آدم است چون بنات آشیان اندر یم است از نوا بر ناخدا افسون زند کشتیش در قعر دریا افگند مرقع چغتائی کے دیباچے میں علامہ نے فن کے بارے میں تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’کسی قوم کی روحانی صحت کا دارومدار اس کے شاعروں اور فنکاروں کی الہامی صلاحیت پر ہے… یہ ایک عطیہ ہے… اس عطیے سے بہرہ ور ہونے والے کی شخصیت اور خو د اس عطیے کی حیات بخش تاثیر عالم انسانیت کے لیے اہمیت رکھتے ہیںَ اگر کسی انحطاط پسند ادیب کا فن اپنے شعر یا تصویر کے ذریعے لوگوں کے دل موہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ قوم کے لیے اٹلا یا چنگیز خان کی افواج قابرہ سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امراء القیس کے بارے میں جو قبل از اسلام کا سب سے بڑا عرب شاعر مانا جاتاتھا۔ فرمایا تھا: اشعر الشعراء و قائدھم الی النار یعنی وہ شاعروں کا سردار ہے لیکن جہنم کی راہ میں ان کا قائدبھی ہے… جو فنکار زندگی کا مقابلہ کرتا ہے وہ نوع بشر کے لیے باعث برکت ہے۔ وہ تخلیق میں خداوند تعالیٰ کا ہمعصر ہے اور اس کی روح میں زمانے اور ابدیت کا عکس جھلکتا ہے‘‘۔ 3؎ ایسے شعرا کے وصف میں علامہ نے اسرار خودی میں نہایت دلآویز اور بلیغ اشعار کہے ہیں ان میں وہ معاشرے میں شاعر کی بے مثال اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ وہ ہستی ہے جس کے سینے میں حسن کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اس کے قلب میں سینکڑوں جہاں آباد ہیں ۔ اس کے دماغ میں انجانے نغمے گونجتے ہیں اور بن کھلے پھول کھلتے ہیں۔ وہ خضر کی طرح تازگیوں میں ہمارا رہنما ہے۔ اس کی نگاہوں سے کائنات میں زندگی کی نئی لہر دوڑ جاتی ہے: سینہ شاعر تجلی راز حسن خیزد از سینائے او انوار حسن از نگاہش خوب گردد خوب تر فطرت از افسون او محبوب تر سوز او اندر دل پروانہ ہا عشق را رنگین ازو افسانہ ہا بحر و بر پوشیدہ در آب و گلش صد جہان تازہ مضمر در دلش در دماغش نا دمیدہ نالہ ہا ناشنیدہ نغمہ ہا‘ ہم نالہ ہا فکر او با ماہ و انجم ہمنشین ز شت را نا آشنا‘ خوب آفرین خضر و در ظلمات او آب حیات زندہ تر از آب چشمش کائنات ان اشعار سے واضح ہو گا کہ اقبال کی نظر میں فن کا زندگی اور انسانیت کے ساتھ ناقابل شکست رشتہ ہے۔ فن کا مقصد زندگی کی روحانی اور اخلاقی قدروں کا فروغ اور ایک بہت انسان اور بہتر اور صحت مند معاشرے کی تخلیق و تشکیل ہے جو زندگی کے لامحدود امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں ۔ فن کو پرکھنے کا ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے زندگی! اے میان کیسہ ات نقد سخن پر عیار زندگی خود را بزن زندگی بذات خود قوت و تسخیر کا دوسرا نام ہے ۔ اس تسخیر میں فنکار کا سب سے موثر حربہ آرزو ہے۔ فنکار کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ آرزوئوں کی تکمیل میں مضطرب اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگردا ں رہے۔ ’’پیام مشرق‘‘ کی نظم’’حور و شاعر‘‘ میں یہی تصور کارفرما ہے جہاں شاعر حور سے اپنی فطرت ناصبور کا ذکر یوں کرتا ہے: چہ کنم کہ فطرت من بہ مقام درنسازد دل ناصبور دارم چو صبا بہ لالہ زارے چو نظر قرار گیرد بہ نگار خوبروے تپد آنزمان دل من پے خوبتر نگارے طلبم نہایت آن کہ نہایتے ندارد بہ نگاہ ناشکیبے بہ دل امیدوارے نگاہ ناشکیب اور دل امیدوار فنکار کو انجانے جہانوں کی جستجو میں بیتاب رکھتی ہے۔ اور آرزو اور جستجو کی یہ کیفیت شاعر کے دل کو سوز کی لذت سے آشنا کرتی ہے: جان ما را لذت اندر جستجو ست شعر را سوز از مقام آرزو ست سوز فن کی روح رواں ہے۔ سوز نہ ہو تو فن سودائے خام ہو کے رہ جاتا ہے۔ وہ فن جو سوز سے خالی ہو وہ پیرس کی اس مسجد سے مشابہ ہے جوسے سوز کی دولت کے بجائے سیاسی اور ملوکانہ مصلحتوں ںے تعمیر کیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں سوز نے مسجد قرطبہ کو جلال و جمال کی وہ سرور انگیز اور حیات بخش کیفیت بخشی ہے جس نے اسے فن کاابدی شاہکار بنا دیا ہے۔ اور یہ حقیقت خشت و سنگ ہی پر صادق نہیں آئی رنگ و چنگ اور حرف و صوت کا معجزہ بھی خون جگر ہی سے وجود میں آتا ہے ۔ خون جگر کا قطرہ پتھر کی س کو دل بنا دیتا ہے۔ اور اسی سے سرور و انبساط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ چوب میں میں نے اگر سرور مے آیا ہے تو ا س کا سبب ھی نے نواز کا دل ہے جس میں سوز ہے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔ خود شاعر مشرق کی اپنی نوا کی تاثیر کا راز بھی خون جگر میں ہے کہ رگ ساز میں اگر صاحب ساز کا لہو رواں نہ ہوتو جذب و تاثیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اقبال نے بو علی سینا کے ہاں سوز کا فقدان اور رومی کے ہاں اس کی فراوانی ہے جو حقائق سوزسے محڑوم ہے انہوںنے بے کیف فلسفہ و حکمت اور منطق و استدلال کی شکل پائی اور جو سوز دل کی لذت سے آشنا ہوئے انہوںنے شعر کا سرور آمیز رنگ اختیار کیا‘ اوریہی سوز شاہد مقصود سے ہمکنار ہونے کا سبب بنا: بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردہ محمل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر میگردد چو سوز از دل گرفت سوز و جنون کی اس شرط کو شاعر نے ہر جگہ بنیادی اہمیت دی ہے وہ ایسے نغمے کا آرزو مند ہے جسے شوق و محبت نے پروان چڑھایا ہو کہ اس کے بغیر نغمہ اپنی اصلی کیفیت سے محروم ہے جنون کے آغوش میں بالا ہوانغمہ اس آگ کی مانند ہے جسے فنکار نے اپنے خون دل میں حل کیاہے۔ جب تک اس میں آتش شوق نہیں اور جب تک یہ سوز حیات کی آنچ سے بیگانہ ہے یہ نغمہ تاثیر سے محروم رہے گا۔ اور اسے وہ پایندگی حاصل نہ ہو گی جو اعلیٰ فن کی امتیازی شان ہے: نغمہ میباید جنون پروردہ آتشے در خون دل حل کردہ نغمہ گر معنی ندارد مردہ است سوز او از آتش افسردہ است آن ہنر مندے کہ بر فطرت فزود راز خود را بر نگاہے ما کشود یہاں سوز کی بنیادی ضرورت کا ذکر کرنے کے بعد شاعر نے ایک دوسرا اہم مسئلہ چھیڑا ہے کہ اور وہ یہ ہے کہ فنکار فطرت سے کچھ مستعار نہیں لیتا بلکہ اس میں اضافہ کرتا ہے۔ فطرت کے بار ے میں اقبال کا رویہ ان کے فکری ارتقا کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے اپنے ابتدائی دور میں وہ مغرب کی رومانوی شاعری سے متاثر تھے۔ تو انہوںنے فطرت کے حسن و تنہائی میں اپنی خلش اور بے کلی کا سامان پایا۔ انہوںنے ورڈز ورتھ کی طرح فطرت ارو اپنے درمیان کامل ہم آہنگی محسوس کی‘ مگر بالآخر انہوںنے فطرت کو انسان کی خود آگہی اور سوز دل کے مقابلے میں ہیچ پایا۔ پھر انہوں نے فطرت کو انسانی خودی کے اثبات و ارتقا کے راستے میں حائل سمجھتے ہوئے اس کی تسخیر کو انسان کا مقدر جانا اور فطرت کے حسن کے بارے میں یہ نقطہ نظر پیش کیا کہ وہ بذات خود حسن و جمال سے عاری ہے‘ اور یہ حسن اسے انسان ہی کی آنکھیں بخشتی ہیں۔ اس مضمون کو شاعر نے یوں اد اکیا ہے: جہان رنگ و بو گلدستہ ما زما آزاد و ہم وابستہ ما دل ما را با و پوشیدہ راہیست کہ ہر موجود ممنون نگاہیست گر او را کس نہ بیند زار گردد اگر بیندیم و کہسار گردد جہان غیر از تجلی ہائے ما نیست ک بے ما جلوہ نور و صدا نیست فطرت کے بارے میں علامہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ’’جدید دنیا فطرت سے الہام چاہتی ہے مگر فطرت تو محض’’ہے‘‘ سے عبارت ہے اور اس کا مقصد اس حقیقت کے راستے میں روڑے اٹکانا ہے جو ’’ہونا چاہیے‘‘ کی داعی ہے فنکار کا فرض ہے کہ وہ اسی ’’چاہیے‘ ‘ کو اپنی ذات کی گہرائیوں میں ڈھونڈے ۔ یہ خیال کہ حسن ایک داخلی کیفیت ہے ۔ اور اسے فطرت میں ڈھونڈنا عبث ہے مندرجہ ذیل شعر میں پیش کیا گیا ہے: حسن را از خود برون جستن خطا ست آنچہ میبایست پیش ما کجا ست فطرت تو پتھر کے ٹکڑے ہی پیش کر سکتی ہے۔ ان کو تراش کر چمکتا اور دمکتا ہوا ہیرا بنانا فنکار ہی کے ہاتھوں سے ممکن ہے: تو قدر خویش ندانی بہا ز تو گیرد وگرنہ لعل درخشندہ پارہ سنگ است انسان کے اندر جو فنکار چھپا ہوا ہے وہ کائنات میں خداوند تعالیٰ کا ہمسر اور ہمکار ہے۔ کائنات تو شاید اب بھی ناتمام ہے کہ کن فیکون کی صدا مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ اس تخلیقی عمل میں انسان خدا کا شریک ہے۔ جس نے اسے تخلیقی استعداد سے نوازا ہے۔ خدا نے فطرت کی تخلیق کی ہے تو انسان مسلسل اس کی تزئین و آرائش میں مصروف ہے۔ ایک نظم میں جس کا اقتباس عظمت آدم کے تحت دیا جا چکا ہے انسان اپنی تخلیقی استعداد کا ذکر اپنے خالق سے نہایت فخر اور اعتماد کے ساتھ کرتاہے۔ اس کا پہلا شعر ہے: تو سنگ آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم فنکار کی یہ تخلیقی کاوشیں فطرت کو حسن بخشتی ہیں اور اس میں شان محبوبی پیدا کرتی ہیں: از نگاہش خوب گردد خوب تر فطرت از افسون او محبوب تر تخلیق کے مقابلے میں علامہ اقبال تقلید کو بنظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ وہ ڈرامے کو بھی اس لیے قابل مذمت قرار دیتے ہیں کہ ڈراما انسان کی شخصیت کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔ اس لحاظ سے فن کے بارے میں علامہ اور افلاطون کے درمیان ایک حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔ افلاطون فن کو اس لیے در خور اعتنا نہیں سمجھتا کہ فن محض تقلید کے لیے ہے۔ وہ ڈرامے کی مذمت اس لیے کرتا ہے کہ یہ جذبات کی نقالی کا نام ہے‘ اور اس کی یہ نقالی ہمارے احساسات میں تلاطم اور ہیجان پیدا کرتی ہے۔ ارسطو بھی فن کو تقلید ہی کا نام دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا ایک مخصوص نفسیاتی اور اجتماعی مقصد ہے۔ مگر اس میں اور اقبال میں قدر مشترک یہ ہے کہ ارسطو شاعری کو انسانی تخلیق اور خود تخلیق کو خدائی صفت قرار دیتا ہے۔ فطرت کے بارے میں علامہ کا رویہ تقلید دشمنی کا غماز ہے کیونکہ وہ کسی شے پر قانع نہیں ہیں بلکہ اس کو اپنے نصب العینی تصور کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شاہد مقصود کی تخلیق کی راہ میں موجود کے خلاف جو مقاومت کرنی پڑتی ہے وہ اسے صحت اور زندگی کی علامت اور باقی ہر شے کو انحطاط اور موت سمجھتے ہیں 4؎ اور اسی وجہ سے وہ فن کو قوت اور توانائی کا مظہر اور سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ اگر فنکار سحر کی نویدنہیں دے سکتا تو وہ اپنے افسردہ پژمردہ نغموں سے تو معاشرے کو محفوظ رکھے۔ اگر مرغ سحر خیز کی نوا سے گلستان افسردہ ہوتا ہے تو بہتر ہے کہ وہ خامو ش رہے۔ اگر چنگ و رباب سے پھوٹنے والے نغموں میں موت کا پیغام ہے تو ایسی موسیقی ان کی نگاہ میں حرام قرار پاتی ہے۔ برصغیر کے انحطاط پسند فنکاروں کے بارے میں علامہ کی رائے یہ ہے کہ ان لوگوں کا تخیل عشق و مستی کے لیے سامان مرگ ہے۔ ان کے تاریک خیالات میں قوموں کے مزار پنہاں ہیں۔ ان کے تصویر خانوں میں موت کی پرچھائیاں منڈلا رہی ہیں۔ یہ چشم انسان کو بلند مقامات سے چھپاتے ہیں اور اس کی روح کو سلا دیتے ہیں۔ ان کامسلک ہوس پرستانہ جذبات کی پرورش ہے۔ ان شاعروں‘ مصوروں اور ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ زبور عجم میں شاعر مشرق نے ’’دربیان فنون لطیفہ غلامان‘‘ کے عنوان سے غلاموں کے فنون شاعری و مصوری پر بحث کی ہے۔ فنون غلامی کے زیر و بم میں موت کا نغمہ پنہاں ہے۔ فن بندگی وہ سیلاب ہے جو زندگی کی بنیادوں کو بہا کر لے جاتا ہے اور خواری و زاری کا درس دیتا ہے۔ غلام فنکار آہیں بھرنے اور آنسو بہناے کا ماہر ہے۔ مگر وہ غم کی حقیقت کو بھی تو نہیں سمجھتا۔ کاش وہ جانتا کہ غم بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک وہ غم جو انسان کو کھاتا ہے‘ اور ایک وہ جوہر دوسرے کو کھا جاتا ہے ۔ یہی وہ قابل رشک لادوا غم ہے جوہر درد کا مداوا ہے۔ اسی سے ہماری روح ہر غم سے آزاد ہو جاتی ہے: یک غم است آن غم کہ آدم را خورد آن غم دیگر کہ ہر غم را خورد آن غم دیگر کہ مال ہمدم است جان ما از صحبت او بے غم است مصور کی بھی یہ کیفیت ہے کہ اس کا دل سوز یقین سے خالی اور لذت تخلیق سے نا آشنا ہے۔ بے یقینی موت کی پیغامبر ہے۔ بے یقین شخص قوت کی تخلیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ غلام مصور فطرت کی دریوزہ گری کر کے صفحہ قرطاس پر اپنے تخیل کی غمناک جولانیاں دکھاتا ہے۔ حالانکہ توانا فنکار خود فطرت کو حسن بخشتا ہے۔ حسن مصور کی ذات کے اندر ہے۔ جو فرنکار اپنے آپ کو فطرت کے سپرد کر دیتا ہے وہ اپنی خودی سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ وہ گمراہ اور اپنی فطرت سے نا آشنا ہے۔ اس کا فکر بے مایہ اور اس کا دل تپش زندگی سے محروم ہے۔ علامہ اسلامی دنیا کے فنون لطیطفہ سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں ملسمانوں کے فنون لطیفہ میں اسلامی روح فن تعمیر کے سوا اور کسی فن میں نہیں آتی۔ بعض عہد آفرین مفکروں نے ایسے فکاروں کے خلاف نفرت یا بدگمانی کا اظہار کیا ہے جن کا فن تعمیر کے بجائے تخریب کی اتھاہ گہرائیوں میں لے ڈوبتا ہے۔ ایسے فنکار توانائی کی بجائے ناتوانی اور بے بسی کا سبب بنتے ہیں اور انہوںنے قوموں کو غلط اور گمراہ کن تصورات دیے ہیں۔ افلاطون نے ہومر (تقریباً 1000ق م) کی مذمت اس لیے کی تھی کہ اس نے اپنی شاعری کی بنیاد فرضی اور گمراہ کن داستانوں پر رکھی تھی۔ اور یہ داستانیں نوجوانوں میں غلط قسم کے تصورات کی محرک ثابت ہوئی تھیں۔ وہ ایسے فن کا متمنی تھا جو لفظ و معنی پر دو اعتبار سے اخلق اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ بن سکے۔ وہ فن کے سحر سے بہتر شہری دیکھنے کی تمنا رکھتا تھا۔ مثلاً وہ موسیقی میں صرف ایسی دھنوں کو جائز قرار دیتا تھا جو سامعین میں شجاعانہ جذبات کی پرورش کر سکیں اور ان میں بہادری کے کارنامے انجام دینے کا ولولہ اور حوصلہ پیدا کریں۔ یا ان کو باوقار سنجیدہ اعتدال پسند اور متوازن انسان بنا سکیں۔ افلاطون ایسے فن کی شدت سے مذمت کرتا تھا جس سے بے راہروی پیدا ہونے کا امکان ہو۔ بلکہ اس نے ایسے فنکاروں کو مملکت سے خارج کر دینے کا مشورہ دیا ہے۔ تالستائی نے فرانس کے انحطاط پسند ادیبوں کو مشورہ دیا ہے کہ تالستائی نے فرانس کے انحطاط پسند ادیبو ں کو اس لیے کوسا کہ وہ بے مغز سبک سر اور عیاش حکمران طبقے کے جذبات و افکار کی ترجمانی کرتے تھے اور امرا کے حیوانی جذبات کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتے تھے اسے ان کے اسلوب نگارش میں تصنع‘ ابہام اور پیچیدگی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس کی نظر میں فن ارفع ترین اور عالی ترین جذبات کا سرچشمہ ہونا چاہیے‘ کیونکہ اس کا مقصد زندگی کی تنقید ہے۔ خود ہمارے دور میں برنارڈ شا (1950)نے فنکارانہ بداخلاقی کا مذاق اڑایا ہے۔ وہ پگمیلین کے بارے میں کہتا ہے کہ اس نے دانستہ طورپر اخلاق آموزی کو شدت سے اپنا شعار بنایا ہے۔ چنانچہ میں نہایت مزے سے اس کو ایسے لال بجھکڑوں کے سر پر دے مارتاہوں جو طوطے کی طرح رٹتے چلے جاتے ہیں کہ فن کو ہرگز اخلاق آموز نہ ہونا چاہیے۔ یورپ اور امریکا میں اس کی کامیابی اس دعوے کی دلیل ہے کہ فن کو اس کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہیے‘‘ 6؎۔ علامہ اقبال کی نظر میں بھی قابل رحم ہے وہ فن جو تعمیر خودی کے جوہر سے عاری ‘ ہے اور حیف ہے اس مصوری پر شاعری اور موسیقی پر جو زندگی کی توانائی‘ جلال اور شکوہ سے محروم ہے۔ ان کی نظر میں فن تخلیق‘ توانائی اور جمال و جلال کا مرقع ہے ۔ اس کا مقصد زندگی کو سنوارنا ہے اور ابدی زندگی کو اپنا نصب العین بنانا ہے۔ اگر اس میں سوز اور صداقت ہے تو یہ نغمہ جبریل اور بانگ اسرافیل ہے۔ شاعر وہ بلبل ہے کہ جس کے نغموں سے اکتوبر کے تن نازک میں شاہین کا جگر پیدا ہوتا ہے۔ اگر باد صبا کی موج سے خار و خش کی نشوو نما ہوتی ہے تو شاعر حیات آفرین کے نفس کی موج سے آرزوئوں اور امنگوں کے طوفان جنم لیتے ہیں کہ انہی کے پرورش سے محفل حیات کی رونق برقرار رہتی ہے ۔ فن کا مقصد آدم گری ہے۔ شاعر مشرق کو خود اپنی صورت گری پر ناز ہے۔ اور وہ اسے آدم آفرینی کے نام سے یاد کرتے ہیں: صورت گری را از من بیاموز شاید کہ خود را باز آفرینی شعرا اگر آدم گری کا شیوہ اختیار کر لے تو شاعری پیغمبری کے جانشین بن جاتا ہے: شعر را مقصود اگر آدم گریست شاعری ہم وارث پیغمبری است گمان غالب یہ ہے کہ اسی شعر نے مولانا گرامی (1927)سے علامہ کے بارے میں یہ شعر کہلوایا ہو گا: در دیدہ معنی نگران حضرت اقبال پیغمبرے کرد پیمبر نتوان گفت ٭٭٭ اقبال اور شعرائے فارسی رومی رومی کے ساتھ اقبال کووالہانہ عقیدت اور دلبستگی ہے۔ وہ رومی کے افکار سے شدت سے متاثر ہیں اور ان کے پیغام میں قوموں کی تعمیر کا سامان دیکھتے ہیں۔ آج کے روحانی افلاس کا مداوا بھی انہیں رومی ہی کی تعلیمات میں نظر آتا ہے۔ خطبات میں فرماتے ہیں: آج دنیا کو کسی رومی کی ضرورت ہے جو امید کی شمع جلائے اور زندگی کے لیے آتش شوق فروزا ں کرے! رومی کا ذکر اقبال کے ہاں انتہائی محبت ارادت مندی اور اشتیاق کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ رومی کے افکار کو اپنے فلسفے کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ اگر رومی بحر پر آشوب ہے تو وہ اپنے آپ کو ساحل کا خریدار بناتے ہیں۔ اگر رومی قافلہ سالار ہے تو وہ اپنے آپ کو اس قافلے کا ایک معمولی راہر و سمجھت ہیں۔ اقبا ل کی اکثر تصانیف پر رومی کی قد آور شخصیت چھائی ہوئی ہے اور شاعر کی روح مشرق کے اس عظیم صوفی مفکر کے ذکر سے سرشار دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کی فارسی شاعری کا آغاز باقاعدہ طور پر ’’اسرار خودی‘‘ سے ہوتا ہے اور اسکی تصنیف کا سبب وہ رومی کو بتاتے ہیں مگر شعر و فلسفے کے اس شاہکار سے پہلے بھی اقبال نے رومی کے افکار پر تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقاء کے زیر عنوان پی ایچ ڈی کے لی ے جو رسالہ لکھا تھا ا س میں دو جگہ رومی کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی سے آثار اقبال میں ذکر رومی کا آغاز ہوتا ہے دونوں حوالے اس باب میں ہیں جو علامہ نے تصوف پر مرقوم فرمایا ہے۔ پہلا حوالہ صوفی کی انسان دوستی کی تائید میں آتا ہے۔ تصوف کے اس پہلو کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے۔ فرد کے نام صوفی کا پیغام یہ ہے کہ سب سے محبت کرو اور خدمت خلق میں اپنی انفرادیت کو بھول جائو۔ اس کے فوراً بعد مصنف نے اس صوفیانہ مسلک کی سند رومی کے مندرجہ ذیل اشعار سے پیش کی ہے: دل بدست آور کہ حج اکبر است از ہزاران کعبہ یک دل بہتر است کعبہ بنگاہ خلیلؑ اکبر است دل گزرگاہ جلیل اکبر است دوسرا حوالہ اس موقع پر آیا ہے کہ جہاں علامہ نے آفرینش کائنات کے تصور سے بحث کی ہے۔ صوفیہ کی نظر میں اس تخلیق کا سبب حسن مطلق کے اندر اپنے جمال کے اظہار کی خواہش ہے۔ اس کا پہلی تخلیقی کارنامہ عشق ہے اور عشق ہی سے حسن مطلق کا ادراک ممکن ہے۔ اس اظہار فکر کے بعد علامہ نے رومی کے مندرجہ ذیل مشہور اشعار کا حوالہ دیا ہے: شاد باش اے عشق خوش سوداے ما اے طبیب جملہ علت ہاے ما اے دواے نخوت و ناموس ما اے تو افلاطون و جالینوس ما اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کی تحقیق کے دوران میں کلام رومی علامہ کے زیر مطالعہ تھا۔ 1915ء میں ’’اسرار خودی‘‘ چھپی اس کے آغاز میں رومی کی ایک مشہور غزل کے تین شعر نقل کیے گئے ہیں جن میں انسان کامل کو دیکھنے کی آرزو تڑپ رہی ہے۔ یہ اشعار ’’اسرار خودی‘‘ سے بحث کے ضمن میں نقل کیے جا چکے ہیں۔ اس کتاب کی تمہید میں شاعر نے رومی کا ذکر ہی بڑے اشتیاق و عقیدت سے نہیں کیا بلکہ اس حقیقت کا اظہار بھی کیا ہے کہ کتاب لکھنے کی تحریک بھی مرشد روم ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: روئے خود بنمود پیر حق سرشت کو بحرف پہلوی قرآن نوشت گفت اے دیوانہ ارباب عشق جرعہ گیر از شراب ناب عشق تا بکے چون غنچہ می باشی خموش نکہت خود را چو گل ارزان فروش آتش استی بزم عالم برفروز دیگران را ہم ز سوز خود بسوز پیر حق سرشت کے کہنے کا اثر یہ ہوا کہ شاعر نے اپنی مضطرب روح کے پرسوز ترانوں کو نشر کرنے کا عزم کیا اور راز خودی سے پردہ اٹھا کر زمانے کو اس کا اعجاز دکھایا: زین سخن آتش بہ پیراہن شدم مثل نے ہنگامہ آبستن شدم چون نوا از تار خود برخاستم جنتے از بہر گوش آراستم بر گرفتم پردہ از راہ خودی وا نمودم سر اعجاز خودی یہاں خودی اور اس کے فوراً بعد عشق کی قوت و عظمت کا ذکر اس حقیقت کی یہ دلیل ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی و عشق کو رومی کے الہام بخش پیغام اور تعلیمات سے براہ راست فیض پہنچا ہے ۔ خودی اور عشق کے باہمی ربط اور عشق کے ذریعے خودی کے استحکام کے موضوع پر فرماتے ہیں: شمع خود را ہمچو رومی برفروز روم را در آتش تبریز سوز شاعر نے اپنے نقطہ نظر میں مزید قوت یا تاثیر پیدا کرنے کے لیے کتاب میں کئی جگہ رومی کے اشعار کی تضمین کی ہے۔ مثالیں ملاحظہ ہوں: علم را برتن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود ٭٭٭ خوشتر آن باشد کہ سر دلبران گفتہ آید در حدیث دیگران ٭٭٭ در درونم سنگ و اندر سنگ نار آب را بر نار من نبود گزار ٭٭٭ بر کسے از ظن خود شد یار من وز درون من نجست اسرار من تمہید میں ایک جگہ مندرجہ ذیل مصرعے کی تضمین کی گئی ہے: ساقیا بر خیز و مے در جام کن علامہ نے اسرار خودی کے اسلوب میں خودی کا اثر قبول کیا ہے ۔ مندرجہ بالا تضمینات اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ انہوں نے اس کتاب میں مثنوی رومی کی تحر رمل مسدس محذوف استعمال کی ہے۔ آگے چل کرعلامہ نے ’’گلشن راز جدید‘‘ کے سوا اپنی تمام مثنویوں کے لیے یہی بحر منتخب کی ہے۔ ’’گلشن راز جدید‘‘ کے لیے یہ استثنا اس لیے پیش آیا کہ علامہ یہ مثنوی ’’گلشن راز‘‘ کے جواب میں لکھ رہے تھے اور ضروری تھا کہ وہ اپنا توانا فلسفہ اصلی مثنوی ہی کی بحر میں پیش کریں۔ ’’رموز بیخودی‘‘ کا آغاز بھی رومی کے ایک شعر سے ہوتا ہے جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ علامہ نے خودی کی طرح لفظ بیخودی کو بھی ایک نیا مفہوم بخشا ہے۔ یہاں بیخودی ہی پر رومی کا ایک شعر نقل کیا گیا ہے اور اسے اس لفظ کی نئی معنویت پر منطبق کیا ہے شعر مندرجہ ذیل ہے: جہد کن در بیخودی خود را بیاب زود تر واللہ اعلم بالصواب مثنوی میں کئی جگہ مولانا کے اشعار کی تضمین کی گئی ہے ’’حسن سیرت ملیہ از تادب بآداب محمدیہؐ است‘‘ کے زیر عنوان علامہ نے اپنے نقطہ نظر کی تائید رومی کے مندرجہ ذیل شعر سے یوں کی ہے: مرشد رومی چہ خوش فرمادہ است آنکہ یم در قطرہ اش آسودہ است ’’مگسل از ختم الرسلؐ ایام خوبش تکیہ کم کن بر فن و برگام خویش‘‘ ’’در معنی ربط فرد و ملت‘‘ کے عنوان کے تحت جو اشعار کہے گئے ہیں ان کا خاتمہ رومی کے مندرجہ بالا شعر پر ہوتا ہے: نکتہ با چون تیغ پولاد است تیز گر نمی فہمی ز پیش ماگریز ’’خلاصہ مطالعہ مثنوی‘‘ کے زیر عنوان مولانا کے مندرجہ ذیل شعر سے استشہاد کیا گیا ہے: نور حق را کس نہ جوید زاد و بود خلعت حق را چہ حاجت تار و پود مثنوی کے آخر میں ’’عرض حال مصنف بحضور رحمتہ اللعلمینؐ‘‘ کے تحت عنوان عشق رسولؐ کا اطہار کرتے ہوئے شاعر نے دیار محبوب سے اپنی بے پایان محبت کا ذکر رومی کے الفاظ میں یوں کیا ہے: مسکن یار است و شہر شاہ من پیش عاشق ابن بود حب الوطن ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ کا آغازہی رومی کے اشعار سے نہیں ہوتا بلکہ رمو ز بے خودی کے اختتام پر بھی رومی کے مندرجہ بالا شعر کی عاشقانہ نوا سنائی دیتی ہے۔ ’’پیام مشرق‘‘ کے آغازمیں بھی علامہ مرشد رومی کو نہیں بھولے اور پیشکش میں رومی کے خزینہ حکمت سے یوں کسب فیض کیاہے: مرشد رومی حکیم پاک زاد سر مرگ و زندگی بر ماکشاد ہر ہلاک امت پیشین کہ بود زانکہ بر جندل گمان بردند عود ’’حصہ افکار‘‘ میں ’’حکمت و شعر‘‘ کے زیر عنوان علامہ نے بو علی سینا اور رومی کو الگ الگ حکمت اور سوز کی علامات قرار دے کر گوہر مقصود کے حصول میں ابن سینا کی ناکامی اور رومی کی کامرانی کا ذکر کیا ہے ۔ اور رومی کی اس کامیابی کا راز اس سوز میں ٹھہرایا ہے جو ان کے قلب و جگر پر طاری ہے: بوعلی اندر غبار ناقہ گم دشت رومی پردہ محمل گرفت ابن فروتر رفت و تا گوہر رسید آن بگردابے چو خس منزل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر میگردد چو سوز از دل گرفت ’’عشق‘‘ کے زیر عنوان اس کی متنوع کیفیتوں کا ذکر کرتے ہوئے شاعرنے تب و تاب رومی اور حیرت فارابی کو ا س بسیط حقیقت کے مختلف مظاہر کے نام سے یاد کیا ہے: عشق است کہ در جانت بر کیفیت انگیزد از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی ’’مئے باقی‘‘ میں کئی جگہ غزلیات کے مقطعوں میں پیر روم کا ذکر آیا ہے ۔ ایک مقطع میں سوز و ساز رومی کی تمنا کا اظہار بیساختگی اور وارفتگی کے عالم میں یوں کیاہے: مطرب غزنے بیتے از مرشد روم آور نا غوطہ زند جانم در آتش تبریزے ایک اور مقطع میں کلام رومی کی سرو ر انگیز کیفیت کو یوں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے: بیاکہ من ز خم پیر روم آوردم مے سخن کہ جوان تر زبادہ عنبی است ایک اور جگہ مولانا کی ایک مشہور غزل کے ایک مصرع کی جزوی تضمین یوں کی گئی ہے: شعلہ در گیر زد برخس و خاشاک من مرشد رومی کہ گفت منزل ما کبریاست پیام مشرق ہی میں جلال و ہیگل کے زیر عنوان ہیگل کے افکار کی ظاہری گہرائی کا ذکر کرتے ہوئے پیر رومی کے حوالے سے اس کے سارے فلسفے کا تاروپور بکھیر کے رکھ دیا ہے اور عشق کے مقابلے میں عقل و استدلال کی کم مایگی اور بے بضاعتی کا ذکر خود رومی ہی کے ایک شعر کی تضمین سے کیا ہے۔ یہاں یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ اس زمانے میں اقبال نے ہیگل کے فلسفہ اضداد کو یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا تھا کہ ہیگل کا نظام فلسفہ نثڑ میں ایک رزمیہ ہے 4؎ ۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میںنے ہیگل گوئٹے‘ مرزا غالب‘ عبدالقادر بیدل‘ اور ورڈز ورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہیگل اور گوئٹے نے اشیا کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی ہے… مگر اقبا ل کا فکری ارتقا آہستہ آہستہ ہیگل کے فلسفے سے بے نیاز ہوتا گیا اور پھر انہوں نے اس کے صدف کو گہر سے خالی بھیکہا اور اس کے طلسم کو خیالی بھی پایا پیام مشرق میں انہوںنے ہیگل اور رومی کامقابلہ کر کے رومی کی تابناک فکر کے مقابلے میں ہیگل کے فلسفے کو سراب سے تعبیر کیا ہے۔ اس نظم میں اقبال کے کلام میں پہلی دفعہ رومی کی عظمت کو چند مسلسل اشعار میں ہدیہ عقیدت پیش کیا گیا ہے ملاحظہ ہو: می کشودم شبے بہ ناخن فکر عقدہ ہائے حکیم المانی آنکہ اندیشہ اش برہنہ نمود ابدی را ز کسوت آنی پیش عرض خیال او گیتی خجل آمد ز تنگ دامانی چون بدریائے او فرو رفتم کشتی عقل گشت طوفانی خواب بر من دمید افسونے چشم ستم ز باقی و فانی نگہ شوق تیز تر گردید چہرہ بنمود پیر یزدانی آفتابے کہ از تجلی او افق روم و شام نورانی شعلہ اش در جہان تیرہ نہاد بہ بیابان چراغ رہبانی معنی از حرف او ہمی روید صفت لالہ ہائے نعمانی گفت بامن چہ خفتہ ای برخیز یہ سرابے سفینہ می رانی؟ بہ خرد راہ عشق میپوئی بہ چراغ آفتاب میجوئی آخری شعر خود مولانا ہی کا ہے اور اسی سے شعر نے راہنمائی حاصل کر رہا ہے۔ ایک دوسری نظم ’’جلال و گوئٹے‘‘ میں علامہ نے پیر رومی کی زبان سے جرمین کے اس عظیم شاعر کی گہری بصیرت کی تعریف کی ہے ۔ اس نظم میں ’’پیر عجم‘‘ کے حیات بخش کلام کو مندرجہ ذیل الفاظ سے یاد کیا گیا ہے: شاعرے کو ہمچو آن عالی جناب نیست پیغمبر ولے دارد کتاب گوئٹے کے مشہور ڈراما فوسٹ کے حوالے سے جس میں بقول اقبال گوئٹے نے ’’حکیم فوسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرائے میں انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن خیال میں نہیں آ سکتا 7؎۔ رومی کے ایک مشہور شعر کی تضمین کی گئی ہے۔ یہ بلیغ شعر عشق و عقل کے بارے میں رومی کے عارفانہ عقائد کا آئینہ دار ہے: داند آن کو نیکبخت و محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است عقیدت مندی کی یہ کیفیت ’’زبو رعجم‘‘ میں برقرار ہے۔ اس مجموعے کی بہت سی غزلوں میں رومی کے وجد و مستی کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور اس کی مثنویات گلشن راز جدید اور بندگی نامہ میں رومی کے سوز دروں اور افکار بلند کا ذکر ہے۔ گلشن راز جدید کے خاتمہ میں جہاں شاعر پڑھنے والے میں خودی اور سوز قلب کی ترت سے تسخیر کائنات کا جذبہ پیدا کر رہا ہے وہاں وہ اسے اپنے سوز دل سے بہرہ ور ہونے کی دعوت اس بنا پر دے رہا ہے کہ اس کا دل بھی قلب رومی کی طرح سو ز و تپش کی دولت سے مالا مال ہے: شرارے جستہ گیر از درونیر کہ من مانند رومی گرم خونم وگرنہ آتش از تہذیب نو گیر برون خود بیفروز اندرون میر ’’بندگی نامہ‘‘ میں ’’دربیان فنون لطیفہ غلامان… موسیقی‘‘ کے زیر عنوان جہاں شاعر نے غلاموں کے فن موسیقی کی مرگبار مایوسیوں اور سطحی اور مصنوعی آلام کے مقابلے میں متلاضم اور جنون پروردہ نغموں خی تخلیق کی تلقین کی ہے اور فکر و معنی کو فن کی روح قرار دیا ہے وہاں اس نے رومی کو اپنے افکار کا سرچشمہ بتاتے ہوئے پیر روم کے دو اشعار کی تضمین سے اپنے نقطہ نظرمیں مزید قوت پیدا کی ہے: راز معنی مرشد رومی کشود فکر من بر آستائش در سجود معنی آن باشد کہ بستاند ترا بے نیاز نقش گرداند ترا معنی ان نبود کہ کور و کرکند مرد را بر نقش عاش ترکند ’’جاوید نامہ تک پہنچتے پہنچتے رومی کے افکار سے عقیدت کے اظہار میں زیادہ جوش اور اشتیاق پیدا ہو جاتا ہے ۔ اس شاہکار تخلیق میں شاعر کو مسلسل رومی کا قرب حاصل ہے اور یہ اس لیے کہ یہاں شاعر نے افلاک کے سفر میں رومی کو اپنا رہنام ہی نہیں بنایا ہے بلکہ اسے حقائق زندگی کی پردہ کشائی کا فیض بھی اسی مرد عارف سے حاصل ہوا ہے۔ یہاں رومی کے ساتھ اقبال کی رفاقت ایک عظیم صاحب بصیرت اور حقیقت آشنا مرشد کے ساتھ ایک عقیدت کیش اور سعادت مند مرید کی ہے جو دم قدم پر زندگی کے اسرار و غوامض کو جاننے کے لیے اس پیر پاک زاد کی طرف دیکھتا ہے اور جس کی جو یائے اسرار روحض ہر لمحہ اس دانائے راز کے فیض سے خوشہ چینی کے لیے بیقرار رہتی ہے۔ شعر و فلسفہ کے اس لافانی شاہکار میں رومی کی شخصیت اپنے پورے جلا ل و جمال کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے اور اس کا رعب و داب اور تجمل و شکوہ شاعر مشرق کے قلب و ذہن پر مکمل طور پر چھا گیا ہے۔ کتاب کی تمہید میں رومی کے مندرجہ ذیل شعر کی تضمین کی گئی ہے: ہر کہ عاشق شد جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را سفرا فلاک کے شرو ع ہونے سے پہلے جب شاعر سمندر کے کنارے تنہا اپنے د ل سے محو گفتگو ہے ۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی شہابی کرنوںنینیلے سمندر پر لالہ فام رنگ بکھیر دیے ہیں اور شاعر کے دل میں آرزوں کے طوفان اٹھ رہے ہیں۔ وہ بے اختیار ہو کر رومی کی وہی غزل گنگنانے لگتا ہے ۔۔ جو اسے خاص طور پر پسند ہے اور جس کا مطلع ہے: بکشائے لب کہ قند فراوانم آرزو ست بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست اتنے میں ہولے ہولے شام کی تاریکی پھیلنے لگتی ہے۔ پھر دفعتہ رومی کی روح تمام پردوں کو چاک کرتی ہوئی پہاڑ کے اس پار سے اس شان سے نمودار ہوتی ہے: طلعتش رخشندہ مثل آفتاب شیب او فرخندہ چون عہد شباب پیکرے روشن ز نور سرمدی در سراپایش سرور سرمدی حرف او آئینہ آویختہ علم با سوز درون آمیختہ آتے ہی روح رومی شاعر کے ساتھ فلسفیانہ گفتگو کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔ اور موجود و ناموجود زیست و مرگ اور عشق و عقل کے نازک مسائل پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس دوران میں شاعر نے رومی کے مندرجہ ذیل فکر انگیز شعر کو اپنے کلام میں سمویا ہے: آن کسے کو بانگ موران بشنود ہم ز دوران سر دوران بشنود اس کے بعد شاعر نے نہایت موثر انداز میں رومی کے مندرجہ ذیل اشعار کی تضمین کی ہے: آدمی دید است و باقی پوست است دید آن باشد کہ دید دوست است جملہ تن را در گداز اندر بصر در نظر رو در نظر رو در نظر سفر کے دوران میں شاعر کو ہر وقت پیر رومی کی رہنمائی میسر رہتی ہے۔ اور جگہ جگہ مکالمات سوال و جواب اور واقعات کے بیان میں جونہی رومی کا ذکر آتاہے شاعر سراپا عقیدت و نیا ز اور احتارم و محبت بن جاتا ہے: رومی ان عشق و محبت را دلیل تشنہ کامان را کلامش سلسبیل ٭٭٭ پیر رومی ہر زمان اندر حضور طلعتش برنافت از ذوق و سرور ٭٭٭ پیر رومی آن سراپا جذب و درد ٭٭٭ اشک او رنگین تر از خون شہید ٭٭٭ آنکہ تیرش جز دل مردان نہ سفت ٭٭٭ پیر روم آن صاحب ذکر جمیل ضرب او را سطوت ضرب کلیم ٭٭٭ پیر روم آن مرشد اہل نظر ٭٭٭ پیر رومی ان امام راستان آشنائے ہر مقام راستان قصر شرف النساء کے باہر شاعر رومی سے یوں ہمکلام ہوتا ہے: اے تو دادی سالکان را جستجوے قدیم ہندی شاعری برتری ہری سے ملاقات سے پہلے رومی کا ذکر یوں آیا ہے: زیر لب خندید پیر پاک زاد ٭٭٭ رومی آن آئینہ حسن ادب باکمال دلبری بکشاد لب ٭٭٭ اقبال کو رومی کی ذات سے اتنا لگائو اور اس کے پرسوز اشعار سے اتنا انس ہے کہ جہاں وہ شاہ ہمدان سے کشمیر کے سحر آگین مناظر کا ذکر کر رہا ہے وہاں بھی رومی کے اشعار اس کے ورد زبان ہیں اور نشاط باغ کی پر کیف فضا اسے مثنوی کا پہلا شعر گنگنانے پر مجبور کردیتی ہے: بشواز نے چون حکایت میکند وزجدائی با شکایت میکند ’’خطاب بہ جاوید‘‘ میں شاعر نژاد نو سے اس صاحب بصیرت و نظر کی پراسرار عظمت اور اس کی رہبرانہ شان سے عدم آشنائی اورمحرومی کا ذکر یوں کرتا ہے: پیر رومی را رفیق راہ ساز یا خدا بخشد تراسوز و گداز زانکہ رومی مغز را داند زپوست پائے او محکم فتد در کوے دوست شرح او کردند و او را کس ندید معنی او چون غزال از ما رمید رقص تن از حرف او آموختند چشم او از رقص جان بردوختند ’’خطاب بہ جاوید‘‘ جاوید نامہ کا آخری حصہ ہے۔ گویا اس تصنیف کا آغاز و اختتام ہی رومی کی عظیم شخصیت کے ذکر سے ہوتا ہے۔ جاوید نامہ میں رومی کے بعض اور اشعار کی تضمین بھی کی گئی ہے جن میں چار اشعار میں تو ایک مختصر واقعہ کے رنگ میں زندگی کے نصب العین تصور کو اپنانے کی مشکلات کی طرف اشارہ ہے اور ایک اور شعر حسب ذیل ہے: اہل دین را باز دان از اہل کین ہم نشیں حق بجو با او نشین ’’مسافر‘‘ میں شاعر نے خرقہ مبارک کی زیارت کے بعد جذب و مستی کے عالم میں ایک نہایت پرسوز غزل کہی ہے اس میں رومی کے عشق آمیز اور عشق آموز افکار کے فروغ پر زور دیا ہے ۔ کہ پیران حرم کلیسا سے مرعوب و متاثر ہو کر اپنے نصب العین سے غافل ہو گئے ہیں اورجمود و تقلید کے جدید طلسم خانے پر رومی کے افکار ہی سے ضڑب کلیمی لگائی جا سکتی ہے رومی کی شراب شعر ہی سے سرور و مستی کی وہ کیفیت ممکن ہے جو پیران حرم کے دلوں کو ایک نئے ولولے سے سرشار کر دے: وقت است کہ بکشائم میخانہ رومی باز پیران حرم دیدم در صحن کلیسا مست ’’مسافر‘‘ ہی میں شاعر نے ’’خطاب بہ اقوام سرحد‘‘ کے زیر عنوان پیر رومی کے مندرجہ ذیل اشعار کو اپنے کلام میں سمویا ہے : رزق از حق جو‘ محو از زید و عمر مستی از حق جو‘ مجو از بنگ و خمر گل مخر گل را مخور گل را مجو زانکہ گل خوار است دائم زرد رو دل بجو تا جاودان باشی جوان از تجلی چہرہ ات چون ارغوان بندہ باش و بر زمین رو چون سمند چون جنازہ نے کہ بر گردن برند ’’پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق‘‘ کی تمہید پھر رومی کے ذکر سے ہوتی ہے۔ شاعر کو مشرق میں زندگی کے آثار کی نوید اسی دانائے راز سے ملتی ہے اور وہی شاعر مشرق کو آئندہ کے ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی دعوت دیتا ہے تمہید کا آغاز یوں ہوتا ہے: پیر رومی مرشد روشن ضمیر کارواان عشق و مستی را اسیر منزلش برتر ز ماہ و آفتاب خیمہ را از کہکشان سازد طناب نور قرآن درمیان سینہ اش جام جم شرمندہ از آئینہ اش از نے آن نے نواز پاک زاد باز شورے در نہاد من فتاد گفت جانہا محرم اسرار شد خاور از خواب گران بیدار شد جلوہ ہائے تازہ او را دادہ اند بند ہائے کہنہ را بکشادہ اند جز تو اے دانائے اسرار فرنگ کس نکو نہ نشست در نار فرنگ دین و سیاست کی اہمیت سے بحث کرتے ہوئے شاعر نے مرشد رومی کی زبان سے اس کا مندرجہ ذیل شعر کہلوایا ہے: غم خور و نان غم افزایان مخور زانکہ عاقل غم خورد کردک شکر یہ وہ غم ہے جس کے بار ے میں علامہ نے ’’زبور عجم‘‘ میں کہا ہے کہ غم کی دو قسموں میں سے ایک غم وہ ہے جو ہر غم کو کھا جاتا ہے اور جس میں تخلیق و تعمیر کی شان جلوہ گر ہوتی ہے ۔ اس مثنوی میں ’’در اسرار شریعت‘‘ کے تحت موضوع کا آغاز رومی اور اس کے ایک شعر سے ہوتا ہے : نکتہ ہا از پیر روم آموختم خویش را در حرف او واسوختم مال را گر بہر دین باشی حمول ’’نعم مال صالح‘‘ گوید رسولؐ اقبال کے آخری مصرعہ مجموعہ کلام ’’ارمغان حجاز‘‘ میں رومی کے زیر عنوان دس رباعیات درج ہیں۔ یہ رباعیاں عارف رومی کے نام شاعر مشرق کا آخری ہدیہ احترام و محبت ہے۔ ان میں اس صاحب عرفان کی تب و تاب سوز و ساز جمال و جلال عشق و مستی عظمت و بلندی رفعت فکر سوز قلب اور فقر غیور کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ چند رباعیات حسب ذیل ہیں: بکام خود دگر آن کہنہ مے ریز کہ با جامش نیرزد ملک پرویز ز اشعار جلال الدین رومی بہ دیوار حریم دل بباویز ٭٭٭ سراپا درد و سوز آشنائی وصال او زبان دان جدائی جمال عشق گیرد از نے او نصیبے از جلال کبریائی ٭٭٭ گرہ از کار این ناکارہ واکرد غبار رہگزار را کیمیا گرد نے آن نے نوازے پاکبازے مرا با عشق و مستی آشنا کرد ٭٭٭ بروئے من در دل باز کردند زخاک من جہابے ساز کردند ز فیض او گرفتم اعتبارے کہ بامن ماہ و انجم ساز کردند علامہ نے اردو شاعری میں بھی رومی کو فراموش نہیں کیا۔ بال جبریل میں انہوںنے مکالمے کی شکل میں مولانا کے جو اشعار دیے ہیں وہ گونا گوں حقائق کی مکمل تفسیر ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ان اشعار کو یہاں یکجا کر دیا جائے۔ یہ اشعار مرید ہندی کے سوالات کے جواب ہیں اور بالترتیب حسب ذیل ہیں: علم را بر تن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود ٭٭٭ بر سماع راست ہر کس چیر نیست طممہ ہر مرغکے انجیر نیست ٭٭٭ دست ہر نااہل بیمارت کند سوئے مادر آ کہ تیمارت کند ٭٭٭ نقش حق را ہم بامر حق شکن برزجاج دوست سنگ دوست زن ٭٭٭ ظاہر نقرہ گر اسپید است و نو دست و جامہ ہم سیہ گردد ازو ٭٭٭ مرغ پر نا رستہ چون پران شود طعمہ ہر گربہ دران شود ٭٭٭ قلب پہلو میزند با زر بشب انتظار روز می دارد ذہب ٭٭٭ ظاہرش را پشہ آڑد بچرخ باطنش آمد محیط ہفت چرخ ٭٭٭ آدمی دید است و باقی پوست است دید آن باشد کہ دید دوست است ٭٭٭ ہر ہلاک امت پیشین کہ بود زانکہ بر جندل گمان بردند عود ٭٭٭ تادل صاحب دلے نامد بدرد ہیچ قومے را خدا رسوا نکرد ٭٭٭ زیر کی بفروش و حیرانی را بخر زیر کی ظن است و حیرانی نظر ٭٭٭ بندہ یک مرد روشن دل شوی بہ کہ بر فرق سر شاہان روی ٭٭٭ بال بازان را سوئے سلطان برد بال زاغان را بگورستان برد ٭٭٭ مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ ٭٭٭ بندہ باش و بر زمین رو چون سمند چون جنازہ نے کہ برگردن برند ٭٭٭ پس قیامت شو قیامت را بہ بین دیدن ہر چیز را شرط است این ٭٭٭ آن کہ ارزد صید را عشق است و بس لیکن او کے گنجد اندر دام کس ٭٭٭ دانہ باشی مرغکانت برچنند غنچہ باشی کو دکانت برکنند دانہ پنہان کن سراپا دام شو غنچہ پنہان کن گیاہ بام شو ٭٭٭ تو ہمی گوئی مرا دل نیز ہست دل فراز عرش باشد نے بہ پست تو دل خود را دلے پنداشتی جستجوئے اہل دل بگذاشتی ٭٭٭ آن کہ بر افلاک رفتارش بود بر زمین رفتن چہ دشوارش بود ٭٭٭ علم و حکمت زاید از نان حلال عیش و رقت آید از نان حلال ٭٭٭ خلوت از اغیار باید نے زیار پوستین بہر دے آمد نے بہار ٭٭٭ کار مردان روشنی و گرمی است کار دونان حیلہ و بے شرمی است بال جبریل ہی میں ’یورپ سے ایک خط‘‘ کے جواب میں مولانا کو ایک ’’بحر پر آشوب و پراسرار‘‘ اور قافلہ شوق کا سالار کہا گیا ہے اور ان کے مندرجہ ذیل عارفانہ اشعار نقل کیے گئے ہیں: کہ بناید خورد و جو ہمچون خران آہوانہ در ختن چر ارغوان ہر کہ کاہ و جو خورد قربان شود ہر کہ نور حق خورد قرآن شود ’’ضر ب کلیم‘‘ میں ایک مختصر نظم میں پھر ہدیہ عقیدت پیش ہوا ہے اور رومی کے اشعار کو خودی کی پرورش کا سرمایہ قرار دیا گیا ہے: گستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک ارد و کے پہلے مجموعے بانگ درا کی مشہور نظم ’’خضر راہ‘‘ میں رومی کے ایک شعر کو بہ اضافہ الفاظ تضمین کیا گیا ہے: گفت رومی ہر بنائے کہنہ کابادان کنند می ندانی اول آن بنیاد را ویران کنند؟ اسی نظم میں علامہ نے رومی کے ایک مضمون کو اپنے الفاظ میں پیش کیا ہے۔ مولانا فرقہ وارانہ تعصب کو حقائق پوشی کا مہلک سبب بتاتے ہیں: سر حق کے پر تو گردد منجلی اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؓ علامہ نے اسی مضمون کو یوں دہرایا ہے: اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش رومی کے بارے میں اپنی بیاض میں جو 1910ء کے درمیانی چند ماہ کی منتشر تحریروں کا مجموعہ ہے فرماتے ہیں: ’’زندگی کی عمیق ترین حقیقتوں کو سادہ حکایتوں اور تمثیلوں کی صورت میں واضح کر نے کے لیے غیر معمولی فطانت درکار ہے ۔ شیکسپئیر مولانا رومی اور حضرت عیسیٰ اس نادر الوجود فطانت کی صرف تین مثالیں ہیں‘‘8؎۔ خطبات میں علامہ نے چھ مختلف مقامات پر رومی کا ذکر کیا ہے۔ اور ہر جگہ ان کی عظمت کا احساس جاگزین ہے۔ 9؎ علامہ نے اپنے بعض خطوط میں بھی رومی کی عظمت کا ذکر اپنے مخصوص عقیدت مندانہ لہجے میں کیا ہے اور نیاز مندی کا یہ احساس اور طرز عمل ابتدا ہی سے چلا آتا ہے۔ مثلاً 25جولائی 1918ء کو حضرت اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں جرمن فلسفہ ہیگل اور شوپنہار سے بحث کرتے ہوئے عارف رومی کا ذکر مندرجہ ذیل انداز میں کیا ہے:؛؛ ’’کل مثنوی میں مولانا روم دیکھ رہا ہے کہ یہ شعر نظر پڑا: ہر خیالے را خیالے میچرد فکر ہم بر فکر دیگر میچرد سبحان اللہ! ایک خاص باب میں انہوںنے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ باری تعالیٰ کے سوا ہر ہستی آکل و ماکول ہے اور اس ضمن میں شوپن ہار (فلسفر جرمنی) کے فلسفے کو اس خوبی سے نظم کر گئے ہیں کہ خود شوپن ہار کی روح پھڑ ک گئی ہو گی‘‘۔ 10؎ 19مارچ 1935ء کو علامہ نے حکیم محمد حسین عرشی کے نام ایک خط میں انکشاف کیا ہے کہ انہوںنے قرآن مجید اور مثنوی مولوی کے سوا تمام مطالعہ ترک کر دیا ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’رومی کو پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیے۔ شوق خود مرشد ہے۔ میںایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہو ں۔ اگر کبھی پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ 11؎ ‘‘ رومی کے ساتھ اقبال کی بے پایاں عقیدت مندی کی وجہ یہ تھی کہ مولانا کے فلسفے میں علامہ کو نہ صرف اسلامی عقائد و افکار کی روح نظر آئی ۔ بلکہ اس میں سوز عشق‘ یقین و ایمان‘ جرات و قوت اور حریت فکر کی ایک ایسی شمع فروزاں بھی دکھائی دی جو انہیںکہیں اور نظر نہ آئی تھی۔ رومی کے فلسفے میں انسانی شخصیت اور خودی کا مثبت احساس‘ انسانی عظمت کا ایک نصب العینی تصور ‘ عقل کے مقابلے میں عشق و وجدان کی بے پایاں اہمیت‘ لذت تخلیق‘ شوق نمو‘ زندگی کا ارتقائی عمل اور حرکی تصور‘ جبر و قدر اور خیر و شر ایسے مسائل میں متوازن اور جرات مندانہ نقطہ نظر اور ناقابل شکست احساس رجائیت نے شاعر مشرق کو شدت سے متاثر کیا ہے۔ انہیں رومی کے کلام میں سوز دروں کی ایک ایسی کیفیت نظر آئی جس کی مثال دنیائے شعر میں مفقود تھی۔ اس سوز و غم میں ایک تعمیری اضطراب اور تخلیقی ولولہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ رومی نے جس زمانے میں فکر و نظر کی شمع روشن کی وہ تاتاری حملے کا پر آشوب دور تھا۔ اسلامی تہذیب کی ہولناک تباہی کے بعد دنیائے اسلام میں یا س و قنوطیت عمل کی قوت کو سلب کر رہی تھی۔ تاریکی اور شکست کے اس دور میں رومی نے اپنے پرسوز اور فکر انگیز اشعار سے قوم کی مردہ رگوں میں زندگی کی حرارت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ رومی کا یہ فکری اور نظری جہاد شاعر مشرق کے لیے مایہ الہام ثابت ہوا۔ خود اقبال کے زمانے میں اسلامی دنیا سیاسی شکست و انقراض اور اجتماعی انحطاط سے دوچار تھی۔ علامہ نے بھی رجائیت کو مشعل راہ بنایا اور رومی کی طرح مخالف قوتوں کے خلاف جرات اور مادی سطح پر قومی احیا کے لیے ایک توانا فلسفہ حیات پیش کیا۔ وہ رومی اور اپنے درمیان نصب العین کی ہم آہنگی اور جرات اقدام کا ذکر یوں کرتے ہیں: چو رومی در حرم دادم ازان من ازو آموختم اسرار جان من بدرو فتنہ عصر کہن او بدور فتنہ عصر روان من ان اشعار میں علامہ نے ایک طرف مرشد روم کے پیغام کو اپنے لیے سرمایہ عمل قرار دیا ہے تو دوسری طرف ان کے اور اپنے درمیان ایک عظیم مقصد کی یکسائی اور روحانی اور معنوی قوتوں کے اشتارک کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ رومی نے جب ہوش سنبھالا دنیائے اسلام کا ایک اہم خطہ یعنی وسط ایشیا اور ایران تاتاریوں کی تاخت و تاراج سے اس طرح پامال ہو چکا تھا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر تھی۔ جب 616/1218میں چنگیز خان نے قراقرم کے سنگلاخ پہاڑوں سے نکل کر خوارزم شاہی سلطنت قریبا (470/1077-628/1231)کی تباہی کا آغاز کیا مولانا کی عمر بارہ سال تھی۔ 654/1256میںسیل تاتار کی دوسری لہر اٹھی ۔ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے اسی سال شمالی ایران میں الموت کے مقام پر اسماعیلی طاقت کا خاتمہ کیا اور 556/1258میں بغداد پر قیامت توڑی۔ یہ شہر عباسی خلافت کا مرکز تھا اور سیاسی انحطاط کے باوجود اب تک اتحاد اسلامی کی ایک دھندنلی سی علامت کے طور پر زندہ تھا۔ اس خلافت کے خاتمے پر پورے وسط ایشیا‘ ایران‘ عراق اور شام پر تاتاریوں کی حکومت قائم ہو گئی۔ تاتاریوں کی بربریت نے ا ن ممالک کے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے تھے۔ لاکھوں افراد کے ہولناک کشت و خون اور سیاسی آزادی کے خاتمے نے ان کے قلب و ذہن کو مفلوج کردیے تھے زندگی بے معنی نظر آنے لگی تھی۔ دنیا کی بے ثباتی کے شدید احساس نے تخلیقی قوتوں اور تعمیری ولولوں کو دبا ددیا تھا۔ اہل فکر اب ظریہ وحدت الوجود کی طرف مائل ہونے لگے تھے جو اسی زمانے میں شیخ محی الدین ابن العربی کی تعلیمات کے ذریعے ایک مکمل فلسفے کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ سیل تاتار کی دونوں موجیں رومی کے سر سے گزریں۔ انہوںنے اپنی آنکھوں سے عظی اسلامی تہذیب کو مٹتے دیکھا‘ لیکن شر اور تاریکی کی قوتیں رومی کے ولولہ انگیز افکار کو مغلوب نہ کر سکیں۔ اور شکست و یاس کے اس عالم میں انہوںنے امید‘ روشنی اور رجائیت کا پیغام دیا۔ سیاسی اور اجتماعی زوال اور ذہنی جمود و بے حسی کی اس فضا میں رومی کے کلام سے بیباکی‘ شجاعت اور رجائیت کی گونج یوں سنائی دی: نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم چو غلام آفتابم ہمہ ز آفتاب گویم سات سو سال بعد علامہ نے بھی اپنے دور میں ملت اسلامی کو سیاسی اور اجتماعی انحطاط سے دوچار کیا مغربی استعمار نے بھی اسلامی ملکوں کو اپنی سیاسی اور اقتصادی گرفت میں جکڑ رکھا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر اسلامی خلافت عثمانی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اقبال نے ترکمان سخت کوش کو خاک و خون میں لوٹتے دیکھا ۔ عرب ممالک پر استعمار کے مہیب سایے بڑھنے لگے تھے۔ ایران برطانوی استعمار کی سازش کا نشانہ بن چکا تھا۔ خود برصغیر میں علامہ نے ایک طرف مسلمان کو روایت و خرافات کا غلام پایا اور دوسری طرف اس کی نگاہوں کو دانش فرنگ کے جلوے سے خیرہ ہوتے دیکھا۔ لیکن رومی کی طرح زوال و ظلمت کی یہ فضا اقبال نے تعمیری عزائم کو متزلزل نہ کر سکی اور مشرق کے انحطاط کی اس تاریک رات میں انہوںنے زندگی کا راگ چھیڑ کر ایک نئی سحر پیدا کرنے کی کوشش کی: ہمہ خاوران بہ خوابے کہ نہان ز چشم انجم بامید زندگانی سحر آفریدہ ام من اور پھر انہوںنے سحر کے نور سے آسمان کے آئینہ پوش اور ظلمت شب کے سیماب پا ہونے کی بشار ت دی۔ رومی اور اقبال دونوں نے تاریکی اور شر کی بڑھتی ہوئی قوتوں کے خلاف مسلسل جہاد کیا۔ دونوں کو اپنے مقاصد کی اہمیت و عظمت پر ایمان تھا اور یا س انگیز حالات میں بھی ان کے پائے ثبات کو لغزش نہیں آئی۔ رومی نے اپنے خاندان کو بلخ سے قونیہ ہجرت کرنے کے واقعہ کو بھی مشیت کی طرف سے اپنے مقصد کی تکمیل کا ایک لازمی جزو قرار دیا: از خراسانم کشیدی تا بر یونانیاں تا بیامیزم بدیشان تا کنم خوش مذہبی فتنہ تاتار اپنی پوری ہیبت اور وحشت و بربریت کے باوجود رومی کو مرعوب نہ کر سکا۔ اور انہوںنے اس خرابی میں بھی تعمیر کی ایک صورت مضمر دیکھی: تتا اگرچہ جہان را خراب کردہ بجنگ خراب گنج تو دارد چرا شوی دلتنگ یہ احساس رجائیت اپنے دور کی فتنہ انگیزیوں کے باوجود اقبال کے ہاں یوں ابھرا: من ہیچ نمیترسم از حادثہ شبہا شبہا کہ سحر گردد از گردش کوکبہا یہ طرز احساس فکر و نظر کی اس ہم آہنگی کی ایک جھلک تھی جس نے اقبال کو رومی کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ علامہ نے اپنے فلسفہ زندگی یا فلسفہ خودی کے اظہار کی ابتدا ہی میں رومی کو اپنا پیر و مرشد قرار دے دیا تھا۔ اسرار خودی کے آغاز میں وہ پیر رومی کے بارے میں یوں لب کشا ہوئے: باز بر خوانم ز فیض دیر روم دفتر سر بستہ اسرار علوم جان او از شعلہ ہا سرمایہ دار من فروغ یک نفس مثل شرار پیر رومی خاک را اکسیر کرد از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد من کہ مستی ہا ز صہبایش کنم زندگانی از نفسہایش کنم علامہ نے تعمیر فرد و ملت کے لیے خودی کا جو فلسفہ پیش کیا اس کے بنیادی تصورات رومی کے ہاں موجود ہیں۔ دونوں کا پورا فلسفیانہ نظام اس محور کے گرد گھومتا ہے ۔ کہ زندگی عمل کوشش اور کشمکش سے عبارت ہے۔ اس سے انسان کی شخصیت کا ارتقاء ہوتا ہے اور وہ قوت اور عظمت کے بلند ترین مقامات تک جا پہنچتی ہے۔ رومی کے ہاں پیہم عمل کی اہمیت جنون کی حد تک پہنچی ہوئی ہے یہاں تک کہ وہ کوشش بیہودہ کو بھی خراب اور جمود پر ترجیح دیتے ہیں: دوست دارد دوست این آشفتگی کوشش ایہودہ بہ از خفتگی وہ شر کی قوتوں سے مسلسل جنگ کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ خارجی اور داخلی شر کے خلاف مسلسل جہاد ہی میں انسان کو اپنی شخصیت کی نشوونما کا زریں موقع ملتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شر کے وجود پر گلہ نہیںکرتے۔ رومی کا عقیدہ ہے کہ شر نہ ہوتا تو نہ انسان کو اپنی شخصیت کو سنوارنے کا موقع ملتا اور نہ وہ اشر ف المخلوقات بن سکتا۔ وہ شر پر جتنا غالب آنے گا اس کی شخصیت میں اتنی ہی زیادہ عظمت پیدا ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دشمن کو بھی استحکام اور ارتقائے ذات کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں انسان جتنا عظیم ہو گا شر سے اس کی مقاومت اتنی ہی شدید ہو گی: درحقیقت ہر عدو ناروے تست کیمیائے نافع و دلجوئے تست زین سبب ہر انبیا رنج و شکست از بمہ خلق جہاں افزوں تراست دشمن نہ ہو تو پیکار ممکن نہیں اور کامیابی و کامرانی کے امکانات ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ خواہشات نفسانی نہ ہوں تو احکام الٰہی کی بجا آوری کیسے ممکن ہے ؟ چون عدو نبود جہاد آمد محال شہوت ار نبود نباشد امتشال مبارزہ طلبی اور سخت کوشی زندگی کا جزو لاینفک ہے یہاں تک کہ جو پارسائی انسان کو عمل سے غافل کر دے وہ بھی غیر مستحسن ہے ۔ رومی کی نظر میں رہبانیت ایک غیر اسلامی شعار ہے اس کے برعکس وہ اپنے افسردہ اور شکست خوردہ معاشرے کو جنگ و شکوہ کا پیغام دیتے ہیں: مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ جب ایک دفعہ مولانا کے بیٹے سلطان ولد نے باپ سے خلوت نشینی اور چلہ کشی کی اجازت چاہی تو انہوںنے سختی سے جواب دیا: ’’محمد یانرا خلوت و چہلہ نیست و در دین ما بدعت است ۔ اما در شریعت موسیٰ و عیسیٰ بودہ است و این ہمہ مجاہدات مابرای آسایش فرزندان و یاران است۔ ہیچ خلوتے محتاج نیست ۔ 12 اس روش گوشہ گیری کے برعکس وہ ناسازگار حالات کے خلاف برسر پیکار رہنے کو زندگی سمجھتے ہیں: نہ آن بے بہرہ دل دارم کہ از دلدار بگریزم نہ آن خنجر بکف دارم کزین پیکار بگریزم وہ ہر اس آندھی اور طوفان کے خلاف نبرد آزما ہونا چاہتے ہیں جو صحت مند عزائم و مقاصد کی تکمیل کے راستے میں حائل ہیں۔ اس زور آزمائی میں انہیں اپنی قوت و توانائی پر پورا بھروسہ ہے۔ اور ان کے لہجے میں احساس کامرانی پوری شدت سے موجزن ہے: باز آمدم چون عید نو تا قفل زندان بشکنم وین چرخ مردم خوار را چنگال و دندان بشکنم از شاہ بے آغاز من‘ پران شدم چون باز من نا جفد طوطی خوار را در دیر ویران بشکنم جمود و سکون سے یہی نفرت اور حرکت عمل اور قوت سے یہی لگن اقبال کا ایک بنیادی موضوع ہے۔ ان کا پورا کلام جوش کردار اور ذوق عمل سے سرشار ہے۔ ان کی نظر میں خودی اپنے اثبات و استحکام کے لیے غیر خودی سے ٹکراتی ہے۔ اور اس کی کامرانی کا راز پیہم کشمکش میں پنہاں ہے۔ اس کے راستے میں موانع کا ہجوم ہے لیکن رکاوٹوں پر قابو پانے ہی سے خودی کا اثبات ممکن ہوتا ہے۔ خودی جتنی مستحکم ہو گی کارزار حیات میں ا س کا درجہ اتناہی بلند ہو گا۔ جو چیز خودی کو مستحکم بناتی ہے وہ خیر ہے اور جو اسے ضعیف و ناتوان بناتی ہے وہی شر ہے۔ اس عقیدے کو علامہ نے اسرار خودی میں حضرت علی ہجویریؒ کی زبان سے یوں ادا کیا ہے: راست میگوئم عدو ہم یار تست ہستی او رونق بازار تست ہر کہ دانائے مقامات خود یست فضل حق داند اگر دشمن قویست کشت انسان را ردو باشد سحاب ممکناتش را برانگیزد ز خواب یہ دونوں عظیم مفکر خودی کے استحکام کے ساتھ ساتھ انفرادی خودی کی بقا کے قائل ہیں۔ علامہ نے جب ملت اسلامی کے صدیوں ک یذہنی جمود او ر سیاسی انحطاط کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وحدت الوجود کے فلسفے نے مسلمانوں قوموں کے رگ و پے می جمود اور بے حسی پیدا کر دی ہے۔ کیونکہ جب کائنات کو بے حقیقت اور موہوم سمجھ لیا جائے اور زندگی کی بے ثباتی کا احساس عمل سے کنارہ کشی کی ترغیب دین یلگے تو تخلیقی اور تعمیری قوتیں شل ہوجاتی ہیں اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس اٹھ جاتا ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر علامہ نے ادعائے ذات اور تقویم خودی کے مضامین پر خاص طور سے زور دیا ہے۔ پیر رومی نے اثبات و بقائے خودی کے عقیدے کو نہایت اثر آفرین انداز میں آگ اور لوہے کی مثال دے کر واضح کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ لوہا آگ میں پڑنے کے بعد اس کی تمام صفات اخذ کر لیتا ہے۔ اور بظاہر اس کا وجود بھی مٹ جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی منفرد شخصیت کو ہاتن سے نہیں جانے دیتا: رنگ آہن محو رنگ آتش است ز آتشے می لافد و آہن وش است چو بہ سرخی گشت ہمچو زر کان پس انالنار است لافش بیگمان شد ز رنگ و طبع آتش محتشم گوید او من آتشم من آتشم آتش من گر ترا شک است و ظن آزمون کن دست را بر من بزن یہ بلیغ تمثیل اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ صفات الیہ کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی انسان کا نصب العین ہے مگر جس طرح آگ میں بڑنے کے باوجود لوہا اپنی فطرت سے دست بردار نہیں ہوتا صفات الٰہی کو اخذ کرنے کے باوجو د انسا ن کی خودی باقی رہتی ہے اور اس کے اور خدا کے وجود میں ایک تفاوت برقرار رہتاہے۔ تقدیر کے مسئلے پر بھی ورمی اور اقبال کے نظریات میں کامل ہم آہنگی ملتی ہے۔ رومی کا عقیدہ ہے کہ فطرت کے قوانین اٹل اور لازوال ہیں اور ان میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ ان قوانین پر عمل یا فقدان عمل انسان کے اختیار میں ہے اور ان کی روشنی میں اعمال کو ترتیب دینا ہی تقدیر انسانی ہے ’’بال جبریل‘‘ میں مرید ہندی نے پیر رومی سے جبر و قدر کی حقیقت جاننا چاہی تو پیر رومی جواب میں فرماتے ہیں: بال بازان را سوئے سلطان برد بال زاغان را بگورستان برد اس کا مطلب ہے کہ فطرت نے پر باز کو بھی دیے ہیں اور کوے کو بھی باز کے پروں نے اسے مقرب درگاہ سلطانی بنا دیا ہے لیکن کوینے انہیں پروں کو مردارکھانے کا وسیلہ بنایا ہے باز ان پروں کی مدد سے فضائے نیلگوں کی بلندیو ںمیں اڑا اورپرندوں میں ممتاز ہوا۔ کوے نے دوں بستی سے کا م لیا اور گورستان کی راہ لی۔ رومی کا عقیدہ یہ ہے کہ اعمال افراد پہلے سے معین اور مقرر نہیں۔ وہ اختیار کے بار ے میں یوںلب کشا ہوتے ہیں: اختیار آمد عبادت را نمک ورنہ میگردد بناگاہ این فلک گردش او را نہ اجروئے عقاب کاختیار آمد ہنر وقت حساب جبر و قدر کی بحث میں عارف رومی نے اس حقیقت کا اظہار بھی کیا ہے کہ مرد کامل کا جبر قوت کا باعث ہوتا ہے۔ یی جبر اس کا ساز و برگ بن جاتا ہے اور اسی کے سہارے وہ اپنی شخصیت یا خودی کی پرورش اور تحفظ کرتاہے۔ البتہ ذوق عمل سے محروم لوگوں کے لیے یہی جبر مجبوری اور قید و بند کا نام ہو جاتا ہے: جبر باشد پر بو و بال کاملان جبر ہم زندان و بند کاہلان ہمچو آب نیل دان این جبر را آب مومن را و خون مر گبر را علامہ انسان کو اپنے اعمال میں بڑی حد تک مختار سمجھتے ہیں۔ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کی روشنی میں ایمان کو جبر و اختیار کے بین بین قرار دیا ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ تقدیرات ربانی کی کوئی انتہا نہیں۔ ایک تقدیر سے ناکامی کی صورت میں انسان حضور کے حق سے دوسری تقدیر کا تقاضا کر سکتا ہے ۔ کوئی واقعہ یا حقیقت تقدیر کا حرف آخر نہیں۔ جبرکے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ جبر بھی ارباب ہمت کا مذہب اور مردان حق کا شیوہ ہے جو پختہ انسان کو پختہ تر بنا دیتا ہے ۔ یہ تسلیم و رضا کی وہ کیفیت ہے جو بالاخر اختیار کی طرف لے جاتی ہے۔ خالدؓ ایسے مرد خدا کا جبر دنیا کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ رومی اور اقبال دونوں کے فلسفے میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ دونوں عشق کو ایک وسیع تر مفہوم میں استعمال کرتے ہیں وہ اسے کائنات کی روح رواں سمجھتے ہیں۔ اسی سے اسرار حیات آشکار ہوتے ہیں۔ یہی زندگی کی قوت محرکہ ہے اور اسی کے مضرب سے تار حیات میں نغمہ ہے۔ رومی نے عشق کی تعریف میں نہایت والہانہ رنگ اور وجد آفرین آہنگ میں بیسیوں شعر کہے ہیں یہاں چند مثالیںپیش کی جاتی ہیں: آتش عشق است کاندر نے فتاد جوشش عشق است کاندر مے فتاد ٭٭٭ ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد اوز حرص و جملہ عیبے پاک شد ٭٭٭ شاد باش اے عشق خوش سودائے ما وی طبیب جملہ علت ہائے ما ٭٭٭ اے دوائے نخوت و ناموس ما اے تو افلاطون و جالینوس ما ٭٭٭ جسم خاک از عشق بر افلاک شد کوہ در رقص آمد و چالاک شد ٭٭٭ از نگاہ عشق خارا شق شود عشق حق آخر سراپا حق شود ٭٭٭ عشق شبخونے زند بر لامکان گور را نادیدہ رفتن از جہان ٭٭٭ عشق در جان چون بچشم اندر نظر ہم درون خانہ ہم بیرون در ٭٭٭ عشق ہم خاکستر است ہم اخگر است کار او از دین و دانش برتر است ٭٭٭ عشق سلطان است و برہان مبین ہر دو عالم عشق را زیر نگین رومی نے روح انسانی کو ایک نے سے تشبیہ دی ہے جو نیزار سے کٹ چکی ہے۔ ور وہاں لوٹنے کے لیے بیتاب ہے: بشنو از نے چون حکایت میکند و ز جدائیہا شکایت میکند یہ مہجور روح دور وصل کی طرف لوٹنے کے لیے مضطرب ہے: ہر کسے کو دور انداز اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش گویا رومی کے نزدیک عشق وہ قوت محرکہ ہے جو انسان کو کشاں کشاں منزل مقصود کی طر ف لے جا رہی ہے۔ یہ حرکت کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جس کا خاصہ پیہم جذب و مستی ہے۔ یہ حرکت ارتقائی جذبہ بن جاتی ہے جو کائنات میں جوش حیات اور ذوق نمو کا سبب بنتا ہے اقبال کی نظر میں بھی فطرت کی بزم خموشاں می عشق ہی کی ہنگامہ آرائیوں سے زندگی کے آثار پیدا ہوئے ہیں: عشق از فریاعد ما ہنگامہ با تعمیر کرد ورنہ این بزم خموشان ہیچ غوغائے نداشت علم کے بارے میں رومی کا عقیدہ ہے کہ وہی علم قابل اعتنا ہے جو دل کے تاروں کو مرتعش کرتا ہے اور باطنی اسرار و حقائق کے ادراک کا باعث بنتا ہے۔ اس علم کو اگر ہوا و ہوس کی تسکین کا ذریعہ بنالیا جائے تو یہ سانپ کی طرح ڈستا ہے اور تعمیر و اصلاح کی بجائے تخریب و فنا کی طرف لے جاتاہے: علمہائے اہل دل حمال شان علمہائے اہل تن اہمال شان علم را برتن زنی مارے بود علم را بردل زنی یارے بود گفت ایزد یحمل اسفارہ‘ بار باشد علم کان نبود زہو رومی کی نظر میں عشق بلاجو نتائج و عواقب سے بے پرواہ ہے مگر عقل مصلحت کیش ہے: لا ابالی عشق باشد نے خرد عقل آن جوید کز آن سودے برد عقل و خرد کے بارے میں اقبال کا نظریہ بعینہ یہی ہے ۔ وہ بھی ایسے علم کو جس کی جڑیں خالص مادیت میں پیوست ہیں تخیل بے رطب کے نام سے یاد کریت ہیں۔ اگر عشق تمام مصطفی ہے تو وہ عرفان سے محڑوم عقل کو بولہت قرار دیتے ہیں۔ ان کے فلسفہ حیات میں عقل کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ عقل مادی دنیا کے معاملات سلجھاتی ہے اور زندگی کے فر میں چراغ دکا کام تو دیتی ہے مگر بذات خود منزل نہیں ہے۔ زندگی کی اندرونی کیفیت کا ادراک عشق یا وجدان کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہے وہ حقائق کا تجزیہ و تشریح کر سکتی ہے لیکن وہ زندگی کی گوگاگوں کیفیتوں کو پوری طرح سمجھنے سے عاجز ہے۔ ظن و تخمین میں الجھ کر وہ قوت تخلیق جوش کردار اور جرات رندانہ سے محروم ہو جاتی ہے۔ رومی اور اقبال دونوں موت کو زندگی جاوداں کی ایک منزل سمجتھے ہیں اور اس سے مظلقاً خائف نہیں ہیں۔ رومی کی نظر میں زندگی کے ارتقا کی راہوں پر گامزن ہے اور مسلسل حرکت پذیر ہے۔ اس کی ابتدائی شکل جماد کی تھی مگر ذوق ارتقائے اسے اس حال پر مطمئن نہیں رہنے دیا اور یہ نباتیات کی صورت میں تبدیل ہوئی۔ اس سے اوپر اٹھتی تو حیوانات کی شکل اختیار کی۔ حیوانات سے بلند ہونے کی تمنا اسے انسانیت کی منزل پر لے آئی۔ اسے اب بھی سکون نہیں ہے اور یہ بلند سے بلند تر مراتب کی طرف بڑھ رہی ہے اس مسلسل ارتقا کی بنیاد پر عارف رومی نے یوں استدلال کیا ہے ک جب زندگی کی ہر نئی منزل پہلی منزل سے بہتر اور بلند تر تھی اور ہر موت ایک بہتر زندگی کے روپ میں جلوہ گر ہوئی تو انسان موت کے خیال سے کیوں ڈرتا ہے۔ مثنوی میں فرماتے ہیں: از جمادی مردم و نامی شدم وز نما مردم بہ حیوان سرزدم مردم از حیوانی و آدم شدم پس چہ ترسم کے زمردن کم شوم حملہ دیگر بمیرم از بشر تا بیارم از ملائک بال و پر بار دیگر از ملک قربان شوم آنچہ اندر وہم ناید آن شوم وز ملک ہم بایدم جستن ز جو کل شی بالک الا وجہہ زندگی کی اسی متحرک اور ارتقا پذیر کیفیت کا ذکر مندرجہ ذیل اشعار میں بھی ہوتا ہے اور یہاں بھی وہی امید افزا پیغام ہے کہ زندگی بلند تر منازل کی طرف مصروف سفر ہے: اول جماد بودی آخر نبات گشتی آنگہ شدی تو حیوان این بر تو چون تہانست گشتی از آن پس انسان باعلم و عقل و ایمان بنگرچہ کل شد آن تن کو جزو خاکدان است ز انسان چو سیر کر دی بیشک فرشتہ گشتی پے این زمان از آن پس جائت بر آسمانست باز از فرشتگی ہم بگذر برو در آن یم تا قطرہ بحرے گردد کہ صد عمانست دونوں کی نظر میں زندگی ذوق سفر کا نام ہے اور دونوں کے نزدیک زندگی کے اس ابدی سفر میں موت ایک نہایت مختصر وقفہ ہے عارف رومی موت کا استقبال یوں کرتے ہیں: مرگ اگر مرد است آید پیش من تا کشتم خوش در کنارش تنگ تنگ من از و جائے برم بے رنگ و بو اوز من دلقے ستاند رنگ رنگ اور پھر موت کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں: بے حجابت باید آن اے ذولباب مرگ را بگزین و بر در آن حجاب نے چنان مرگے کہ در گورے روی مرگ تبدیلے کہ در نورے روی اقبال کے ہاں بھی موت سے کامل بے التفاتی اور زندگی کے ارتقائی تسلسل پر محکم ایمان ہے۔ وہ موت کو صید اور انسان کو صیاد سمجھتے ہیں۔ ہاں تخمین و ظن کا مارا ہوا انسان اس راز سے نا آشنا ہے اور موت کے تصور سے سہم جاتا ہے: از مرگ ترسی اے زندہ جاوید مرگ است صیدے تو در کمینی جانے کی بخشند دیگر نہ گیرند آدم بمیرد از بے یقینی ٭٭٭ مرگ مومن در نسازد با لحد ز آنکہ این مرگ است مرگ دام و دد مرد مومن خواہد از یزدان پاک آن دگر مرگے کہ برگیرد ز خاک ٭٭٭ نشان مرد مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لب او ست علامہ نے انسان کامل کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی جھلک رومی کے اشعار میں موجود ہے۔ رومی کا انسان عام انسانوں سے مختلف ہے۔ انہیں ایسے انسان کی جستجو ہے جو روحانی‘ اخلاقی اور جسمانی قوت کا پیکر ہو۔ یہ نصب العینی تصور انہوںنے ایک نہایت دلآویز غزل میں پیش کیا ہے۔ یہ اشعار اسرار خودی اور جاوید نامہ میں دہرائے گئے ہیں اور انہیں نقل کیا جا چکا ہے۔ پیر رومی اپنے مثالی انسان میں صفات الہیہ کا عکس دیکھنا چاہتے ہیں اس کی عظمت انہی صفات کے اکتساب پر منحصر ہے یہ صفات خاکی اور نوری کا فرق مٹا دیتی ہے۔ بلکہ ایسا انسان مسجود ملائک ہو جاتا ہے: پس بصورت عالم اصغر توئی ہم بمعنی عالم اکبر توئی آن منی و ہستیت باشد حلال کہ در آن بینی صفات ذوالجلال اے خنک آنرا کہ ذات خود شناخت در ریاض سرمدی قصرے بساخت آدمی چو نور گیرد از خدا ہست مسجود ملائک اجتبا اقبال کا مرد مومن بعینہ انہی صفات کی تصویر ہے: قرب حق از ہر عمل مقصود دار تا ز تو گردد جلالش آشکار بندہ حق بے نیاز از ہر مقام نے غلام او را نہ اوکس را غلام رسم و راہ و دین و آئینش ز حق زشت و خوب و تلخ و نوشینش ز حق رومی کے ساتھ مرد کامل کے بارے میں ایک شعر منسوب کیا جاتا ہے۔ جو ان کے دیوان میں نہیں ہے بہرحال یہ رومی کے مثالی انسا ن کے بارے میں ان کے مخصوص نقطہ نگاہ کی توضیح ضرور کرتا ہے: بزیر کنگرہ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزدان گیر علامہ نے اسی نصب العینی تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل شعر کہا ہے: در دشت جنون من جبریل زبون صیدے یزدان بہ کمند آور اے ہمت مردانہ رومی اور اقبا دونوں انسانیت کی منزل مقصود بارگاہ خداوندی کو قرار دیتے ہیں۔ رومی کا ایک مشہور شعر ہے: ماز فلک برتریم‘ و ز ملک افزونتریم زین دو چرا نگذریم‘ منزل ما کبریا ست اقبال نے اسی زمیں مین ایک غزل کہی ہے اور رومی کے اس نصب العین کو اپنے لیے چراغ راہ قرار دیا ہے: شعلہ در گیر زد برخس و خاشاک من مرشد رومی کہ گفت منزل ما کبیریا ست رومی کا مرد مومن حدود و ثغور سے بے نیاز اورمشرق و مغرب سے بالاتر ہے: گفتم ز کجائی تو؟ تسخر زد و گفت اے جان نیمیم ز ترکستان‘ نیمیم ز فرغانہ نیمیم ز آب و گل نیمیم ز جان و دل نیمیم لب دریا‘ نیمے ہمہ دردانہ اقبال کے ہاں بھی مرد مومن‘ قوم اورنسل کی حدود سے ماوراء ہے اور وہ اپنے اس عقیدے کو پوری طرح سے رومی کے تصور سے ہم آہنگ کرتے ہیں: نیست از روم و عرب پیوند ما نیست پابند نسب پیوند ما نور حق را کس نجوید زاد و بود خلعت حق را چہ حاجت تار و پود رومی کے مرد کامل کا گزر اگلاک پر ہے اور ایسی عظیم ہستی کے لیے دنیا گرد راہ ہے: آنکہ برافلاک رفتارش بود برزمین رفتن چہ دشوارش بود عالم موجودات اس کی زد میں ہے اور ا س کے ہاتھوں میں اس کی تسخیر ایک یقینی اور قطعی حقیقت ہے: بلکہ والی گشت موجودات را بے گمان و بے نفاق و بے ریا وہ عناصر کو خاطر میں نہیں لاتا اور اپنا مقام ان سے ماوراء اور بالا پاتا ہے: از آب و آتش نیستم وز باد سر کش نیستم خاک منقش نیستم من بر ہمہ خندیدہ ام تسخیر کائنات اقبال کے بھی بنیادی موضوعات میں سے ہے۔ آدم خاکی کے عروج کی کوئی انتہا نہیں ۔ وہ راکب تقدیر ہے اور پوری کائنات اس کے تصرف میں ہے ۔ اقبال کا انسان کامل نائب حق ہے اور اس منصب پر جا پہنچنا اس کا نصب العین ہے: نائب حق در جہان بودن خوش است بر عناصر حکمران بودن خوش است سمند روزگار کی عنان ایسی شہسوار کے ہاتھوں میں زیب دیتی ہے۔ ایسا عظیم انسان زندگی کے نئے سرے سے تفسیر کرتا ہے۔ اور خواب زیست کو نئی تعبیر بخشتا ہے۔ رومی اور اقبال کے ہاں ایک اور قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ دونوں نے ملت کو ایک ضابطہ حیات پیش کیا اور ان کے دل امید و یقین کی دولت سے لبریز تھے لیکن دونوں کے ہاں ایک خلش موجود ہے کہ کوئی ان کے افکار کا پورا ادراک نہیں کر سکا اورنہ انہیں کوئی محرم راز مل سکا ہے۔ رومی کے ہاں اس خلش کا اظہار یوں ہوتا ہے: ہر کسے از ظن خود شد یار من وز درون من نہ جست اسرار من یہی احساس اقبال کی مندرجہ ذیل رباعی میں پوری شدت سے موجود ہے: چو رخت خویش برہتم ازین خاک ہمہ گفتنہ با ما آشنا بود ولیکن کس ندانست این مسافر چہ گفت و با کہ گفت و از کجا بود رومی کے جاندار فلسفہ حیات نے مایوسی کی شب تاریک میں یقین و ایمان اور امید و رجائیت کی شمع جلائی اور اس صاحب عرفان کو خود اپنے کردار کی اہمیت کا پورا احسا س تھا: ما دل اندر راہ جان انداختیم غلغلہ اندر جہان انداختیم اقبال نے اپنے جاندار اور ولولہ انگیز فلسفہ زندگی سے تاریخ کے ایک خوفناک موڑ پر ملت کو ایک واضح نصب العین دیا اور سیاسی اور ذہنی غلامی کی زنجیریں کاٹنے کی راہ دکھائی۔ رومی کی مانند انہیں بھی اپنے فیصلہ کن کردار کا پورا احسا س تھا: پس از من شعر من خوانند و دریا بند و میگویند جہانے را دگرگون کرد یک مرد خود آگاہے اقبال پر رومی کا اثر فکر و معنی تک محدود نہیں بلکہ لفظ و صورت پر بھی محیط ہے۔ رومی کے ایسے اشعار و مصاریع کا ذکر آ چکا ہے جن کی تضمین جگہ جگہ کلام اقبال میں نظر آتی ہے۔ اقبال نے رومی کے طرز بیان اور اسلوب اظہار کا اثر شدت سے قبول کیا ہے اور مثنوی مولانا کے الفاظ و اصطلاحات اور بندشیںاور تمثیلیں کلام اقبال بالخصوص اسرار و رموز میں بڑی بے تکلفی سے داخل ہو گئی ہیں۔ اقبال نے رومی کے کلام کو اس طرح اپنے مزاج میں سمو لیا ہے کہ رومی کہ طرز اظہار بعض اوقات اقبال کے اظہار و بیان کا جزو بن جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل مثالوں سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے: مثنوی کی ایک مشہور حکایت میں رومی نے دیار محبوب کی دلکشی کا ذکر یوں کیا ہے: پس کدا مین شہر زانہا خوشتر است گفت آن شہرے کہ در وے دلبر است اقبال نے خاک مدینہ کو یو ں اپنی آنکھ کا سرمہ بنایا ہے: خاک یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است رومی نے ایک جگہ فکر کے آکل و ماکول ہونے کا ذکر کیا ہے اور جس پر اقبال کے تحسین آمیز تاثرات کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔ تقابل کے لیے رومی کا شعر دوبارہ نقل کیا جاتا ہے: ہر خیالے را خیالے میخورد فکر ہم بر فکر دیگر میچرد اقبال نے مندرجہ ذیل شعر میں اسی تصور کا اطلاق فکر کی بجائے حضرت انسان پر کیا ہے: زیر گردون آدم آدم را خورد ملتے بر ملت دیگر چرد رومی نے شر کے افادی پہلو کا ذکر یوں کیا ہے: درحقیقت ہر عدو داروئے تست کیمیائے نافع و دلجوئے تست اقبال نے اسی خیال کو یوں دہرایا ہے: راست میگویم عدو ہم یار تست ہستی او رونق بازار تست قصاص کے موضوع پر رومی کا شعرہے: گر نفرمودی مقامے پر جنات یا نگقتی فی القصاص آمد حیات اسی موضوع پر اقبال کا شعر ملاحظہ ہو: گفت قاضی فی القصاص آمد حیات زندگی گیرد باین قانون ثبات رومی نے کل یوم ہو فی شان کی روشنی میں مرد مومن کے پیہم فعال مسلک کا ذکر کیا ہے: کل یوم ہو فی شان بخوان مرد را بے کار و بے فعلے مدان علامہ بھی اس آیہ کریمہ کی حقیقت اسی رنگ میں واضح کرتے ہیں: راز ہا بامرد مومن باز گو شرح رمز کل یوم باز گو رومی نے ایک شعر میں حضرت ابراہیمؑ کا قول ’’لا احب الافلین‘‘ دہرایا جس کا مطلب ہے کہ میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیںکرتا۔ یہ بات حضرت ابراہیمؑ نے ستاروں چاند اور سورج کے غروب ہونے کا مشاہدہ کرنے کے بع کہی تھی‘ اور پھر اپنے اور ان کے خالق کی طرف رجوع فرمایا تھا۔ مولانا فرماتے ہیں: اندرین وادی مرو بے دین دلیل لا احب الافلین گو چون خلیلؑ علامہ ایک شعر میں اسی تلمیح کو یوں لاتے ہیں: جہان یکسر مقام آفلین است درین غربت سر عرفان ہمین است رومی نے ایک جگہ احتیاج کے تخریبی مضمرات کا ذکر یوں کیا ہے: آنچہ شیران را کند روبہ مزاج احتیاج اے احتیاج اے احتیاج اقبا ل نے اپنے ایک شعر میں اس مضمون و بیان کو یوں دہرایا ہے: اے فراہم کردہ از شیران خراج گشتہ ای روبہ مزاج از احتیاج یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ رومی کے اس مصرع اور اسلوب سے متاثر ہو کر علامہ نے ایک نظم میں مندرجہ ذیل مصرع کو مرکزی اہمیت دی ہے: انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! اقبال پر رومی کی شعری روایت کا اتنا گہرا اثر ہے اور وہ شعوری طور پر اس سے اتنے مرعوب ہیں کہ وہ فنی اعتراضات کے جواب میں بھی رومی ہی سے جواب ڈھونڈتے ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے ’’اسرار خودی‘‘ کے بعض قوافی پر اعتراض کیا اور انہوںنے جواب میں ایک بات یہ بھی لکھی کہ رومی کی مثنوی کے قریب قریب ہر صفحے پر ا س کی مثالیں ملتی ہیں فرماتے ہیں: ’’قوافی کے متعلق جو کچھ آ پ نے تحریر فرمایا بالکل بجا ہے مگر چونکہ شاعری ا س مثنوی سے مقصود نہ تھی اس واسطے میں نے بعض باتوں میں عملا تساہل برتا اس کے علاوہ مولانا رومی کی مثنوی میں قریباً ہر صفحے پر اس قس کے قوافی کی مثالیں ملتی ہیں‘‘۔ 13 اگرچہ غزل کے میدان میں اقبال کے اسلوب پر حافظ کے نقوش زیادہ گہرے ہیں مگر ان کی بہت سی غزلیں رومی کے تتبع میں بھی کہی گئی ہیں۔ ایسی غزلوں کے مطالع ملاحظہ ہوں: رومی: ہر نفس آواز عشق میرسد از چپ و راست ما بفلک میردیم عزم تماشا کرا است اقبال: گریہ ما بے اثر نالہ ما نارساست حاصل این سوز و ساز یک دل خونین نواست رومی: اگر دل از غم دنیا جدا توانی کرد نشاط و عیش بہ باغ بقا توانی کرد اقبال: درون لالہ گزر چون صبا توانی کرد بیک نفس گرہ غنچہ وا توانی کرد رومی: پردہ بردار اے حیات و جان جان افزائے من غمگسار و ہمنشین و مونس شبہائے من اقبال: شعلہ در آغوش دارد عشق بے پروائے من بر نخیزد یک شرار از حکمت نازائے من رومی: اے یار مقام دل پیش او دمے کم زن زخمے کہ زنی برما مردانہ و محکم زن اقبال: بانشہ درویشی در ساز و دمادم زن چون پختہ شدی خود را برسلطنت جم زن رومی: من بیخود و تو بیخود مارا کہ بردخانہ من چند ترا گفتم کم خور دو سہ پیمانہ اقبال: فرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ این جلوت جانانہ ‘ آن خلوت جانانہ رومی: اے شادی آن روزے کز راہ رو باز آئی در روز کہ جان تابی چون ماہ ز بالائی اقبال: این گنبد مینائی‘ ابن پستی و بالائی در شد بدل عاشق با این ہمہ پہنائی ایک اور غزل رومی کے تبع میں کہی گئیہے یہ وہی غزل ہے جس میں انسان کامل کا تصور نہایت دلاویز اندازمیں پیش کیا گیا ہے مگر یہاں تافیہ بدل گیا ہے: رومی: بکشاے لب کہ قند فراوانم آرزو ست بنماے رخ کہ باغ و گلستانم آرزو ست اقبال: تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزو ست با من میا کہ مسلک شبیرمؓ آرزو ست اقبال کی بعض غزلیں رومی کی غزلیات زمین میں تو نہیں ہیں مگر ان میں رومی کی وجد آفریں روح موجود ہے ۔ ان کی سوز و مستی اور جوش و خروش رومی کی غزل کے مخصوص آہنگ اور جذبے کی یاد دلاتاہے۔ مثالیں ملاحظہ ہوں: صورت نہ پرستم من‘ بتخانہ شکستم من آن سیل سبک سیرم بر بندگستم من در بود و نبود من اندیشہ گمانہا داشت از عشق ہویدا شداین نکتہ کہ ہستم من ٭٭٭ من اگرچہ تیرہ خاکم دلکے است برگ و سازم بنظارہ جمالے چو ستارہ دیدہ بازم بضمیرم آن چنان کن کہ ز شعلہ نواے دل خاکیان فروزم دل نوریان گدازم ٭٭٭ ہر عقل فلک پیما ترکانہ شبیخون بہ یک ذرہ درد دل از علم فلاطون بہ دی مبغچہ بامن اسرار محبت گفت اشکے کہ فرو خوردی از بادہ گلگون بہ ٭٭٭ از چشم ساقی مست شرابم بے مے خرابم‘ بے مے خرابم شوقم فزون تر از بے حجابی بینم نہ بینم در پیچ و تابم ٭٭٭ بدہ آن دل کہ مستی ہائے او از بادہ خویش است بگیر آن دل کہ از خود رفتہ و بیگانہ اندیش است بدہ آن دل آن دل کہ گیتی را فرا گیرد بگیر این دل بگیر این دل کہ در بند کم و بیش است ٭٭٭ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب عشق بسر کشیدن است این ہمہ کائنات را جام جہاں نما مجو‘ دست جہان کشا طلب ٭٭٭ انجم بگریبان ریخت این دیدہ تر مارا بیرون ز سپہر انداخت ابن ذوق نظر مارا ہر چند زمین سائیم بر تر ز ثریائیم دانی کہ نمی زیبد عمرے چو شرر مارا شام و سحر عالم از گردش ما خیزد دانی کہ نمی سازد ابن شام و سحر ما را ٭٭٭ مندرجہ ذیل رباعی میں رومی کے شیوہ رقص کی بیتاب تمنا کا اظہار ہوتا ہے: بیا باہم در آویزم و رقصیم ز گیتی دل بر انگیزیم و رقصیم یکے اندر حریم کوچہ دوست ز چشمان اشک خون ریزیم و رقصیم یہ تمام بحث اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ اقبال اور رومی کے افکار و معانی ہی میں مماثلت اور ہم آہنگی نہیں بلکہ اقبا ل نے رومی کے طرز احساس اور طرز اظہار کر بھی اپنے کلام میں سمونے کی کوشش کی ہے ۔ رومی کے رنگ و آہنگ نے اقبال کے فنی شعور اور جمالیاتی احسا س کو بھی متاثر کیا ہے۔ وہ بسا اوقات فن کے میدان میں بھی رومی کی تقلید کرتے ہیں۔ کہیں ان کی غزل کے جواب میںغزل کہتے ہیں۔ کہیں رومی کے دیوان اور مثنوی کے شعر‘ مصرعے اور ٹکڑے اس بے ساختگی اور بے تکلفی سے اپنے کلام میں سموتے ہیں کہ وہ رومی کے بجائے خود اقبال کا کلام محسوس ہونے لگتے ہیں اور کہیں شدت جذبات اور وجد و مستی کی کیفیت میں دونوں ایک دوسرے کے شریک اور رفیق ہیں۔ رومی اور اقبال کے ضمن میں ایک اہم حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ جہاں رومی کی شخصیت نے اقبال کی فکری اور روحانی تربیت میں درخشاں کردار ادا کیا ہے وہاں جدید دور میں خود ہی رومی کے افکار کی تفسیر اور ان کی صحیح اہمیت کا تعارف اقبال کے ذریعے ہوا ہے۔ یہ نہیں کہ فکر و شعر اور عرفان و تصوف کی دنیا میں رومی کی عظمت سے غافل تھی۔ رومی کی مثنوی کو نویں ؍ پندرھویں صدی میں جامی نے ’’ہس قرآن در زبان پہلوی‘‘ کہہ کر اس کی معنوی اور روحانی عظمت کو تسلیم کیاتھا۔ اس عظیم مثنوی کو ہمیشہ عرفان و تصرف کا بحر بیکراں سمجھا گیا اور اس کی جامع شرحیں لکھی گئیںَ مگرجدید مغربی فلسفے کے پیش نظر میں رومی کی فکر کے مختلف پہلوئوں اور گوشوںپر اقبال نے جس طرح روشنی ڈالی ہے اس نے رومی کے کلام میں نئے ابعاد کا اضافہ کیا ہے۔ یوں تو علامہ کو گھر میں بھی صوفیانہ ماحول ملا تھا اور اس کی وجہ سے انہیں رومی سے لگائو ضرور تھا مگر ان کی وسعت علم نے ان کے دل پر رومی کے افکار کی صحیح اہمیت کا نقش ثبت کیا۔ انہوںنے مغربی فلسفے کا عمیق مطالعہ کیا تھا اور اسلامی فکر کو بھی پوری طرح کھنگالا گیا۔ انہیں جدید مغربی مفکرین اور علما کے بعض نظریات میں رومی کے افکار اور تصورات کا عکس نظر آیا۔ ڈارون (1882) کے حیاتیاتی نظریے کانٹ کے فلسفہ وجدان نیتشے کے نظریہ فو ق البشر اور شوپن ہار اور برگسان کے بعض نظریات میں پیر رومی کے گوناگوں افکار کی جھلک نے اقبال کے ذہن پر رومی کی مفکرانہ عظمت کا گہرا نقش ثبت کیا ہے اور انہوںنے مرشد روم کے افکار کو نہ صرف ان کی روحانی اور اخلاقی بلندی کی روشنی میں بنگاہ تحسین و عقیدت دیکھا بلکہ فکر رومی کے ابتکار وسعت توانائی اور عمق کا تجزیہ جدید فلسفے کے حوالے سے بھی کیا‘ اور اہل فکر کو رومی کے افکار پر نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کیا۔ اس سوچ نے رومی کی فلسفیانہ عظمت کا نقش اجاگر کیا اور یہ حیرت انگیز حقیقت منکشف کی کہ جدید یورپ کے ممتاز فلسفیوں نے جن افکار کو یورپ میں پہلی دفعہ پیش کر کے وہاں کی فکری دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے ان میں سے بہت سے نظریات و تصورات رومی کے وجد آفریں اشعار میں منتشر صورت میں موجود ہیں۔ اگر رومی نے اقبال کو حکیم الامت بنایا تو اقبال نے رومی کے افکار کی بے مثال اہمیت کو پہلی دفعہ دنیا سے روشناس کرایا ۔ وہ رومی کو حلقہ صوفیہ سے باہر لائے اور ان کے افکار کو نہ صرف پیران حرم کی بے راہ روی کامداوا بتایا بلکہ اس پر آشوب دور کے بعض لاینحل مسائل کا علاج بھی اس عظیم مفکر کے فلسفے میں پنہاں دیکھا۔ ٭٭٭ حافظ اقبال کا فلسفہ خودی بنیادی طور پر قوت اور تسخیر کا فلسفہ ہے اور یہ فلسفہ ملت اسلامی کے سیاسی فکری اور اجتماعی انحطاط کے پس منظر میں اس لیے پیش کیا گیا تھا کہ یہ ملت جو ایک عرصے سے زبوں حالی اور درماندگی کی زندگی بسر کر رہی ہے شعور خودی کے ذریعے اپنے تحفظ اور بقا کا سامان پیدا کر سکے۔ چنانچہ انہوںنے جس موضوع کو لیا خواہ اس کا تعلق تعین ذات سے تھا خواہ اجتماعی خود آگہی سے خواہ فن سے اس کا مقصد انفرادی اور ملی خودی کا اثات ‘ استحکام اور تکمیل تھا۔ وہ اپنی قوم میں بے حسی‘ جمود‘ اور زندگی گریز رجحانات کی بجائے شعور ذات لذت کردار اور ذوق عمل پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ ہر ایسے فلسفے فن اور نظریہ زندگی کے مخالف تھے جن کے عمل کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ اور تعمیر او تشکیک اور ترقی و توسیع کے امکانات دھندلا جاتے ہیں۔ جب علامہ نے انفرادی خودی کے اثبات و استحکام کے لیے ایک پورا نظام پیش کیا تو انہوںنے ہر ایسے فلسفے اور فکر کی مذمت کی جس سے خودی ضعیف ہو جاتی ہے۔ یونانی فلسفے نے صدیوں سے اسلامی ذہن کو شدت سے متاثر کر رکھا تھا اور اس سلسلے میں افلاطون کا فلسفہ ایک ایسا گو سفندی فلسفہ تھا جو خودی کی جڑیں کھوکھلی کرتا تھا۔ اس لیے انہوںنے اس کے افکار پر شدت سے حملہ کیا افلاطونی فلسفے کی تنقید کے ساتھ ساتھ اقبال نے ایسے فن کو بھی مہلک قرار دیا ہے جو اپنے حسن و زیبائی کے باوجود معاشرے یا قوم میں صحت مندرجحانات کو سلب کر لیتا ہے۔ ’’اسرار خودی میں علامہ نے حافظ کے کلام پر نہایت کڑی تنقید کی۔ پیشتر اس کے کہ حافظ کے بارے میں اقبال کی رائے سے بحث ہو تو بہتر ہو گا کہ فارسی غزل کے بعض میلانات کا تجزیہ کیا جائے۔ جن ملکوں میں فارسی زبان و ادب کا چرچا رہا ہے ان میں سے فارسی شاعری بالخصوص غزل نے مسلمانوں کے مزاج اور ثقافت کو متاثر کیا ہے۔ فارسی غزل کا ارتقا ہمیں بتاتا ہے کہ جب غزل قصیدے سے الگ ہو کر ایک جدا اور مستقل صنف سخن قرار پائی تو صوفی شعرا مثلاً عطار‘ رومی‘ عراقی‘ اور اوحدی کرمانی وغیرہ نے بہت جلد اس کو اپنے عرفانی ذوق و احساسات اور صوفیانہ فکر و نظر کے اظہار کا وسیلہ بنا لیا۔ مگر ان سب نے بلا استثنا غزل کی زبان بدلنے کے بجائے اس کے الفاظ کے معنی بدل دیے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوںنے اس کے کلمات و اصطلاحات کو اسی طرح علامات کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا جس طرح پانچویں ؍ گیارھویں صدی میں ابوسعید ابی الخیر اور بابا طاہر عریاں نے اپنی رباعیات میں یہ انداز اپنایا تھا۔ رومی نے تو رمزیت اور علامت پسندی کے بارے میں واضح طور پر کہہ دیا: خوشتر آن باشد کہ سر دلبران گفتہ آید در حدیث دیگران چنانچہ غزل میں زلف و رخسار‘ بادہ و ساغر‘ ساقی و پیمانہ‘ مے و میخانہ اور اس قسم کے تما م الفاظ کو جن کا تعلق خالص مجا ز سے تھا نئے معنی پہنا دیے گئے۔ محمود شبستری نے ’’گلشن راز‘‘ میں اس نوع کی اصطلاحات سے باقاعدہ بحث کی ہے۔ فارسی غزل نے احساسات کی صداقت اور فن کے حسن سے پڑھنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے اور ہر شخص نے اپنے ذوق کے مطابق اس میں نئے نئے معنی تلاش کیے۔ اس میں حسی لذت کا سامان موجود رہا اور اہل عرفان نے اسے عارفانہ اور صوفیانہ افکار و نظریات کا مظہر جانا۔ رومی کے ہاں قند فراواں کے لیے لبہائے شیریں اور باغ و گلستان کے لیے رخ محبوب کی آرزو مچلتی رہی: بکشاے لب کہ قند فراوانم آرزوست بنماے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست عراقی نے ساقی کی چسم مست کا ذکر بڑے اشتیاق سے کیا: نخستین بادہ کاندر جام کردند ز چشم مست ساقی وام کردند اور اس طرح صوفیانہ احساس اور جمالیاتی شعور میں کامل ہم آہنگی کا دور دورہ رہا۔ پڑھنے والوں نے ان الفاظ و تراکیب کی حسی نوعیت کے باوجود ان شاعروں کی غزل کی عارفانہ حیثیت سے کبھی انکار نہیںکیا اور اس زبان کو ہمیشہ علامتی رنگ میں دیکھا۔ اس ابہام نے غزل میں بہت جاذبیت‘ وسعت اور تنوع پیدا کر دیا اور اس کو ایک آفاقی لب و لہجہ بخشا۔ خواجہ حافظ شیرازی کے ہاں یہ ابہام اپنے کمال کو پہنچا ہو ا ہے۔ ان کی غزل میں فکر و فن کا ایسا حسین امتزاج ہے جو اس سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ اسی وجہ سے حافظ کی غزل کو خود ان کی زندگی میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہو گئی تھی اور ان کی شہرت ایران سے باہر دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ایک شعر میں کہتے ہیں: حافظ حدیث سحر فریب خوشت رسید از حد مصر و شام بہ اطراف روم و رے انہیں احساس تھا کہ حسینان کشمیر و سمرقند ان کی غزل پر فریفتہ ہیں اور عالم شوق میں اس کی لے پر رقص کرتے ہیں: ز شعر حافظ شیراز می خوانند و می رقصند سیہ چشمان کشمیری و ترکان سمرقندی ان کے دیوان میں فکر اور جذبے کی گوناگوں تصویریں ملتی ہیں۔ خود انہیںدعویٰ ہے کہ میں نے اپنے کلا م میں لطیف حکیمانہ حقائق اور عظیم قرآنی افکار کو اس طرح یکجا کیا ہے کہ کسی اور کے لیے ایسا ممکن نہ تھا: ز حافظان جہان کس چور چندہ جمع نکرد لطایف حکما یا نکات قرآنی مگر حقیقت یہ ہے کہ حافظ کے اشعار میں تصوف و عرفان کے علاوہ ہوا و ہوس کی منتشر تصویریں بھی ملتی ہیں۔ ان کے کلام میں تلخ حقائق سے گریز اور زندگی کے آلام کو مے ناب میں ڈبو دینے والے رجحانات موجود ہیں۔ ان کی شاعری کی یہ خصوصیت انہیںخیام (517/1123)کے بہت قریب لا کھڑا کرتی ہے۔ البتہ دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ جہاں خیام اپنی رباعی میں زندگی کے تمام صحت بخش امکانات سے قطعی طور پر مایوس اور ناامید ہے اور یاس و غم نے اسے قنوطیت اور کلیبیت کی تاریکیوں کی طرف دھکیل دیا ہے اور اس کا رد عمل کھوکھلے قہقہوں اور زہر خند کے سوا اور کچھ نہیں ‘ وہاں حافظ کی روح جوش و مستی سے سرشار ہے۔ زندگی کی رنگینیوں کی لمحاتی نوعیت اورامیدوں کے ریت محل کے تلخ شعور کے باوجود حافظ کے احساس پر کیف ونشاط کی ایک سرمدی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ یہاں قنوطیت کی بجائے رجائیت کا دور دورہ ہے۔ اور مریضانہ احسا س غم کی جگہ شگفتگی و مستی کا عالم ہے۔ حافظ کے فنی شعور نے جذبات کو لے اور نغمے کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کیا ہے اور رعنائی تخیل نے خوبصورت اور خوش صدا الفاظ پر یوں طلسماتی رنگ بکھریے ہیں کہ انہوںنے ان کے اشعار میں لافانی حسن پیدا کر دیا ہے۔ چنانچہ حافظ کے زمانے سے آج تک اہل ذوق نے دیوان حافظ کو سینے سے لگائے رکھا ہے۔ علامہ کے سامنے ایک طرف تو حافظ کی فکر کے بعض منفی پہلوتھے اور دوسری طرف اس شاعر جاویداں کے طلسماتی تاثیر تھی۔ انہیں یہ صورت حال انتہائی خطرناک دکھائی دیتی تھی ۔ اور اس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ پڑھنے والے کو حافظ کی ساحرانہ ترغیبات سے متنبہ کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک عام پڑھنے والے میں رمز و کنایہ کے سمجھنے کا وہ شعور ہو جو اسے تسکین ہوس کی بجائے معنویت کی راہیں سمجھا سکے یا اپنے آپ کو فرار اور گریز کی اس کیفیت سے محفوظ رکھ سکے جو حافظ کے اہں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ چنانچہ جب اقبال نے ’’اسرار خودی‘‘ میں اپنا فلسفہ حیات پیش کیا تو انہوںنے افلاطون کے ساتھ ساتھ خواجہ حافظ شیرازی کی زندگی گریز شاعری کے خلاف بھی قلم اٹھایا۔ ان اشعار میں انہوںنے حافظ کو فقیہ ملت میخوارگان اور امام امت بیچارگان کے القاب سے یاد کیا ہے ۔ ان کے اشعار کو زہر کا نام دیا ہے اور ان کے نغمہ چنگ کو دلیل انحطاط کہا ہے۔ جب یہ اشعار چھپے تو برصغیر کے طول و عرض میں حافظ کے شیدائیوں اور ارادت مندوں میں غم و غسہ کی لہر دوڑ گئی یہاں تک کہ اکبر الہ آبادی نے بھی اقبال کے اس رویے پر سخت برہم ہوئے۔ علامہ نے ان کے نام جو خط لکھے ہیں ان میں ایک سے زیادہ دفعہ ان سے درخواست کی ہے کہ وہ اسرار خودی کو پوری طرح پڑھنے کے بعد کوئی رائے قائم کریں۔ اقباسات ملاحظہ ہوں: ’’اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیا وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا۔ اس وقت ی غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔ خواجہ حافظ کی ولادت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا نہ ان کی شخصیت سے ۔ نہ ان اشعار میں ’’مے‘‘ سے مرا د وہ ’’مے‘‘ ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں۔ بلکہ اسے وہ حالت سکر (Narcotic)مراد ہے جو حافظ سے بہ حیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ حافظ ولی اورعارف اللہ تصور کیے گئے ہیں اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل ہی نظر انداز کر دی ہے اور میرے ریمارک تصوف اورولایت پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھے گئے۔ ‘‘ 1 ’’میری بدنصیبی ہے کہ آپ نے ’’اسرار خودی‘‘ کو اب تک نہیں پڑھا۔ میں نے کسی گزشتہ خط میں عرض بھی کیا تھا کہ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محترز رہنے کے لیے میری خاطر اسے ایک دفعہ پڑھ لیجیے‘‘۔2 یہ وضاحت صرف حضرت اکبر الہ آباد ی تک ہی محدود نہیں 17مئی 1919ء کو مولانا محمد اسلم جیراج پوری کے نا م ایک خط میں حافظ کیھ فلسفہ و فن کے بارے میں یوں اظہار خیال ہوا ہے: ’’خواجہ صاحب پر جو اشعار میں نے لکھے ہیں ان کام قصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدا ت سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس باریک امتیاز کو نہ سمجھ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں یا مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں‘‘۔ 3 ان اقتباسات سے علامہ کا نقطہ نگاہ پوری طرح روشن ہو جاتا ہے۔ اور وہ ی کہ صرف انہیں حافظ کے ذاتی افکار و عقائد سے غرض نہیں بحث صرف اس نظریے سے ہے کہ آیا ادب کا تعلق معاشرے کی اصلاح سے ہے یا نہیں۔ کلام حافظ بلحاظ فن نہایت حسین اور دلکش ہے مگر سوال یہاں محض فن برائے فن کا نہیں بلکہ اس کی افادیت کا ہے۔ یوں علامہ کو حافظ کے روحانی اور وجددانی میلانات جاننے کی بڑی تمنا تھی اور اس سلسلے میں وہ مسلسل جستجو کرتے رہے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مولانا جامی نے نفحات الانس میں خواجہ حافظ کو لسان الغیب اور ترجمان اسرار کے نام سے یاد کیا ہے 4۔ بدقسمتی سے خواجہ کے حالات زندگی کی تفصیل نہیںملتی تاہم علامہ حقیقت کی جستجو میں رہے۔ 19جولائی 1916ء میں مولوی سراج الدین پال کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’خواجہ حافظ کے متعلق ایک معاصرانہ شہادت ملفوظات شاہ جہانگیر اشرف میں پائی جاتی ہے۔ یہ کتاب کمیاب ہے مگر معلوم نہیں کہ یہ ملفوظات کس نے جمع کیے اور شاہ جہانگیر اشرف کی وفات کے کس قدر عرصے بعد؟ شاہ جہانگیر اشرف حافظ کے ہمعصر تھے اور جامع ملفوظات لکھتا ہے کہ شاہ جہانگیر اشرف حافظ کو ولی کامل تصور کرتے تھے اور وہ حافظ سے ہم صحبت رہے ہیں۔ اس کے متعلق میں بھی جستجو کر رہا ہوں‘‘۔ اس خط میں حافظ کے صوفی ہونے کے بارے میں تذبذب کا اظہار کیا ہے۔ مولانا جامی کی رائے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’مولانا جامی کی نفحات الانس بھی ملاحظہ کیجیے اور غور سے دیکھیے کہ مولانا نے کس قدر احتیاط سے حافظ کے متعلق لکھا ہے ‘‘۔ 6 آگے چل کر صوفی شعرا اور خود حافظ کے بارے میں مندرجہ ذیل رائے کا اظہار فرمایا ہے: ’’تصوف کا سب سے پہلا شاعر عراقی ہے… اور سب سے آخری شاعر حافظ ہے (اگر اسے صوفی سمجھا جائے) ‘‘ 7 یہ ایک دلچسپ اور تعجب انگیز حقیقت ہے کہ علامہ نے اسلوب غزل میں سب سے زیادہ اثر حافظ سے لیا ہے ان کی غزلیات بالعموم اور ’’پیام مشرق‘ ‘ کی غزلیات بالخصوص اپنے انداز میں دوسرے شعرا کے مقابلے میں حافظ کے رنگ سے زیادہ قریب ہیں اور تو اور ’’پیام مشرق‘‘ کی غزلیات کو’مے باقی‘‘ کاعنوان دیا گیا ہے جو خود حافظ ہی کی ترکیب ہے اور اس کے مندرجہ ذیل شعر میں استعمال ہوئی ہے: بدہ ساقی مے باقی کہ در جنت نخواہی یافت کنار آب رکناباد و گلگشت مصلا را اقبال کی غزل کی زبان ‘ لب و لہجے‘ آہنگ اور صورتگری پر حافظ کا گہرا اثر ہے۔ انہوںنے متعدد غزلیں حافظ کی غزلوں ک جواب میں کہی ہیں۔ بعض غزلوں میں حافظ کی ترکیبات کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خواجہ حافظ کے ساتھ شدیدا صولی اختلاف کے باوجود علامہ وجدانی اور جمالیاتی اعتبار سے ان کے ساتھ ایک قرب محسوس کرتے تھے۔ دونوں کے فنی اور جمالیاتی شعور میں غیر معمولی مماثلت نظر آتی ہے۔ شروع ہی میں حافظ انہٰں سے اس قرب کا گہرا احساس تھا اور یورپ کے دوران قیام میں انہوںںے عطیہ فیضی سے خواجہ حافظ کے ساتھ بے پناہ لگائو کا اظہار بھی کیا تھا۔ موصوفہ لکھتی ہیں: ’’باتوں باتوں میں حافظ کا ذکر چھڑ گیا۔ چونکہ مجھے اس عظیم شاعر سے دلچسپی تھی۔ میں نے اس کے کئی برمحل شعر سنائے ۔ مجھے پتا چلا کہ اقبال بھی حافظ کے زبردست مداح ہیں انہوںنے کہا کہ جب میری طبیعت کا میلان حافظ کی طرف ہوتا ہے تو اس کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے اور میری شخصیت اس کی شخصیت میں گم ہوجاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہوں‘‘۔ آگے چل کر لکھتی ہیں: ’’مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ فارسی کے دوسرے شعرا کے مقابلے میں اقبال حافظ سے زیادہ عقیدت رکھتے ہیں کیونکہ وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے جس میں وہ حافظ کے افکار اور نصب العینی تصورات کا ذکر اور دوسرے مفکرین سے اس کا موازنہ نہ کرتے ہوں‘‘ 9 انگلستان سے واپسی کے دو سال بعد یعنی 1910ء میں علامہ نے حافظ کے بارے میں جو تاثرات قلم بند کیے ہیں وہ ایک عظیم شاعر کی طرف سے دوسرے عظیم شاعر کی حسین و جمیل صناعی‘ غیر شعوری روحانی سرخوشی او ر شیریں نغمہ طرازی کے نام درخشاں خراج تحسین ہے ۔ فرماتے ہیں: In words like cut-jewels Hafiz put the sweet, unconcious sprituality of the nightingale ترشے ہوئے ہیروں ایسے آبدار لفظوں میں حافظ نے بلبل کی شیریں غیر شعوری روحانیت کا رس گھول دیا ہے۔ خواجہ حافظ کی زندگی میں ان کا حسین شہر شیراز جس سے انہیں والہانہ لگائو تھا کئی بار لٹا اور کشت و خون کا شکار ہوا۔ والی اصفہان مبارز الدین محمد (713/1314-659/1358)نے ابو اسحق انجو (1357/758)فرمانرواے شیراز پر حملہ کیا اور فتح کے بعد فارس پر مظفری خاندان کا علم بلند کیا۔ حافظ نے اپنے سرپرست ابواسحق کے قتل اور اس کی حکومت کے خاتمے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوںنے شاہ شجاع (765/1364-786/1384) اور منصور (789/137-795/1393)کے عہد حکومت کے خونریز واقعات کا مشاہدہ کیا اور پھر ان کی زندگی ہی میں 789/1387میں امیر تیمور (771/1370-807/1405)نے شیراز کو تخت و تاراج کیا۔ وحشت و بربریت کے ان ہنگاموں نے حافظ کو اس قسم کے شعر کہنے پر مجبور کر دیا: درین زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل است صراحی مے ناب و سفینہ غزل است خون انسان کی اس ارزانی ہی نے شاید حافظ کو دنیا کے شور و شغف سے دور کنج عافیت میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور ا نکے کلام میں زندگی سے گویز اور ہجوم غم سے فرارکے رجحانات نے پرورش پائی۔ 1919ء میں جب برطانوی حکومت نے پنجاب میں مارشل لاء نافذ کیا اور شہریوں پر بے پناہ ظلم توڑے تو علامہ نے اس پرآشوب زمانے میں حافظ کے ایک امید افزا شعر کو عافیت جوئی اور تسکین قلب کا ذریعہ بنایا۔ ایک خط میں حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم مہاراجہ سر کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: ’’آج اٹھ دن سے مارشل لاء یعنی قانون عسکری یہاں جاری ہے۔ پنجاب کے بعض دیگر اضلاع میں بھی گورنمنٹ یہی قانون جاری کرنے پر مجور ہو گئی ہے۔ جن لوگوںنے قصور اور امرتسر میں قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا ان کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر مقدمات چلائے گئے ہیں۔ کل سے ان کا ٹرائل بھی شرو ع ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرے مگر خواجہ حافظ کا شعر تسکین کا باعث ہے۔ ہان مشو نومید چون واقف نہ ای از سر غیب باشد اندر پردہ بازیہائے پنہان غم مخور 11 ’’اسرار خودی‘‘ کی تصنیف کے زمانے میں بھی خواجہ حافظ شیرازی سے شاعر مشرق کی ارادت مندی میں فرق نہیں آیا بلکہ ان کی بعض اولین غزلیات جن کا تعلق اسی دور سے ہے شیراز کے اسی شاعر جاویدان سے متاثر ہو کر کہی گئی ہیں۔ 18جنوری1915ء کو مولانا گرامی کو ایک خط لکھا ہے جس میں فاسی سے اپنی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا ذکر کیا ہے اس خط کے ہمراہ ایک غزل بھی ارسال ہوئی ہے جس کا مطلع مندرجہ ذیل ہے: بیار بادہ کہ گردون بکام ما گردید مثال غنچہ نواہا ز شاخسار دمید یہ غزل جو کچھ رد و بدل کے ساتھ پیام مشرق میں موجود ہے حافظ کی ایک غزل کے تتبع میں ہے جس کا مطلع حسب ذیل ہے: بیا کہ رایت منصور پادشاہ رسید نوید فتح و بشارت بہ مہر و ماہ رسید اس خط کے دس دن بعد علامہ نے مولانا گرامی کو پھر ایک خط لکھا ہے اور اس میں ایک نئی غزل کا اضافہ کیا ہے جس کے آخر میں خواجہ حافظ کے حضور یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے: عجب مدار ز سرمستیم کہ پیر مغان قبائے رندی حافظ بہ قامت من دوخت صبا بہ مولد حافظ سلام ما برسان کہ چشم نکتہ وران خاک آن دیار افروخت یہ غزل بھی پیام مشرق میں شامل ہوئی ہے لیکن پہلا شعر حذف کر دیا گیا ہے اور دوسرے شعر میں مولد حافظ کی جگہ گلشن ویمر نے لے لی ہے 12۔ ویمر وہ شہر ہے جہاں جرمنی کا مایہ ناز شاعر گوئٹے دفن ہے۔ بظاہر اس ردوبدل کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسرار خودی کی طباعت کے بعد قارئین کی نظر میں اقبال اور حافظ کے درمیان مغائرت کا پردہ حائل ہو گیا تھا۔ پہلا شعر چھپتا یا دوسرا شعر اپنی اصی شکل میں شائع ہوتا تو ان میں اور ’’اسرار خودی‘‘ کے اشعار میں ایک زبردست تضاد نظر آتا۔ دوسرے شعر میں گوئٹے کے مدفن کا ذکر اس رعایت سے بھی برمحل تھا کہ خود ’’پیام مشرق ‘‘ گوئٹے ہی کے دیوان کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ علامہ نے یہ غزل مولانا گرامی کو بھیجنے سے پہلے مہاراجہ کشن پرشاد کو ارسال کی تھی اور تحریر فرمایا تھا کہ ’’تعطیلوں میں چند فارسی اشعار نظم ہو گئے تھے 13۔ یہ بعینہ وہی زمانہ ہے جب اسرار خودی لکھی جا رہی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فن غزل سرائی میں علامہ ابتدا ہی سے حافظ سے متاثر تھے مے باقی کے تحت جو غزلیں لکھی گئی ہیں وہا ںجگہ جگہ حافظ کی زبان بیان و اظہار اور ان کے طلسماتی فن کے گہرے نقوش ملتے ہیں۔ پہلی ہی غزل کے تتبع اور اسلوب میں ہے مطلع ہے: بہار تا بہ گلستان کشید بزم سرود نوائے بلبل شوریدہ چشم غنچہ کشود حافظ کی غزل کا مطلع حسب ذیل ہے: کنون کہ در چمن آمد گل از عدم بوجود بنفشہ در قدم او نہاد سر بسجود دوسری غزل میں اگرچہ قافیہ تبدیل ہو گیا ہے مگر یہ بھی حافظ ہی کی ایک غزل کے تتبع میں ہے دونوں کے مطلعے حسب ذیل ہیں: حافظ : شاہ شمشاد قدان خسرو شیرین دہنان کہ بمژگان شکند قلب ہمہ صف شکنان اقبال: حلقہ بستند سر تربت من نوحہ گران دلبران زہرہ و شان گلبدنان سیم بران اس غزل میں دونوں شعرا کی پیکر تراشی میں حیرت انگیز مشابہت ہے۔ الفاظ و تراکیب میں بھی اقبال نے حافظ کی خوشہ چینی کی ہے حافظ کے ہاں زہرہ جبیں ۃے تو اقبال کے ہاں زہرہ و ش اور حافظ کے ہاں نازک بدن ہے تو اقبال کے ہاں گلبدن۔ اسی طرح لالہ اور چمن کی صورت بندی یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔ یہی نہیں خونین کفن کی ترکیب بھی مشترک ہے ملاحظہ ہو: حافظ: باصبا در چمن لالہ سحر میگفتم کہ شہیدان کہ اند این ہمہ خونین کفنان اقبال: در چمن قافلہ لالہ و گل رخت کشود از کجا آمدہ اند این ہمہ خونین کفنان حافظ اور اقبال کی غزلوں کی جمالیاتی اور فنی ہم آہنگی یہیں تک محدود نہیں۔ حافظ کی صورت گری ان کے مخصوص الفاظ و تراکیب میں موسیقی‘ صوتی تطابق اور قلندرانہ لب و لہجہ کے علاوہ اقبال کی بعض غزلوں کی فضا وہی سرور و نشاط اور خود سپردگی کا عالم ہے کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں: دیوان حافظ کی پہلی غزل میں زندگی کے طوفان خیز کیفیت اور انسان کی بے بسی کے اظہار کے لے حافظ کے خلاق تخیل نے مندرجہ ذیل ہیجان انگیز منظر پیش کیا ہے: شب تاریک و بیم موج و گردابے چنین ہایل کجا دانند حال ما سبکباران ساحل ہا اقبال نے مندرجہ ذیل شعر میں کاروان حیات کے کٹھن سفر کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں مرکزی خیال کے اختلاف کے باوجود زندگی کے سفاک حقائق کے لیے شب تاریک کا معنی خیز اشارہ موجود ہے : شب تاریک و راہ پیچ پیچ و بے یقین راہی دلیل کاروان را مشکل اندر مشکل افتاد است مندرجہ ذیل شعر میں حافظ نے دنیوی جاہ و حشمت سے بے نیازی اور رندانہ عظمت کا اظہار کیا ہے: کہ برد بہ نزد شاہان ز من گدا پیامے کہ بہ کوے مے فروشان دو ہزار جم بہ جامے اقبال نے ایک بالکل نئے مضمون کاآغاز اسی بحر میں سلام و پیام سے کیا ہے: از ما بگو سلامے آن ترک تند خورا کاتش زد از نگاہے یک شہر آرزو را حافظ نے ’’ملازمان سلطان‘‘ کے حوالے سے گدائے بے نوا کی طرف نگاہ التفات کی تمنا کا اظہار کیا ہے۔ تو اقبال نے ’’ملازمان سلطان‘‘ کے حوالے سے یہی اس بحر میں جہانگیری اور تسخیر کا مہر آمیز گر بتایا ہے: حافظ: بملازمان سلطان کہ رساند این دعا را کہ بشکر پادشاہی ز نظر مران گدا را اقبال: بملازمان سلطان خبرے دہم ز رازے کہ جہان توان گرفتن بنوائے دلگدازے جس طرح حافظ کا سلام و پیام اقبا کے لیے شوق انگیز ثابت ہوا ہے اسی طرح حافظ کی دعوت گل و مے میں ’’بیا‘‘ کی صدائے بازگشت اقبال کے ہاں ایک نئے انداز کی دعوت مے و ساغر میں سنائی دیتی ہے: حافظ: بیا تا گل بر افشانیم و مے در ساغر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرحے نو در اندازیم اقبال: بیا کہ تازہ نوا میتراود از رگ ساز مے کہ شیشہ گدازد بساغر اندازیم حافظ کا مشہور شعر ہے: اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل ما را بخال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را اقبال نے حافظ کی فیاضانہ پیش کش کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا اظہار یوں کیا ہے: بدست ما نہ سمرقند و نے بخارا ایست دعا بگو ز فقیران بہ ترک شیرازی اب حافظ اور اقبال کی طرح ہم غزلیات کے مطلعے ملاحظہ ہوں: حافظ: اے فروغ ماہ حسن از روئے رخشان شما آب روئے خوبی از چاہ زنخدان شما اقبال: چون چراغ لالہ سوزم در خیابان شما اے جوانان عجم جان من و جان شما حافظ: اگرچہ بادہ فرح بخش و باد گل بیز است ببانگ چنگ مخور مے کہ محتسب تیز است اقبال: نگار من کہ بسے سادہ و کم آمیز است ستیزہ کیش و ستم کوش و فتنہ انگیز است حافظ: اگرچہ عرض ہنر پیش یار بے ادبیست زبان خموش و لیکن دہان پر از عربیست اقبال: بشاخ زندگی ما نمی ز تشنہ لبیست تلاش چشمہ حیوان دلیل کم طلبیست حافظ: بنال بلبل اگر با منت سر یاریست کہ ما دو عاشق زاریم و کار ما زاریست اقبال: ہوس ہنوز تماشا گر جہانداریست دگر چہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاریست حافظ: بیا کہ قصر امل سخت ست بنیاد است بیار بادہ کہ بنیاد عمر برباد است اقبال: بیا کہ ساز فرنگ از نوا بر افتاد است درون پردہ او نغمہ نیست فریاد است حافظ: جز آستان توام در جہان پناہے نیست سر مرا بجز این در حوالہ گاہے نیست اقبال: اگرچہ زیب سرش افسر و کلاہے نیست گدائے کوئے تو کمتر ز پادشاہے نیست حافظ: زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست در حق ما ہرچہ گوید جاے ہیچ اکراہ نیست اقبال: از نوا برمن قیامت رفت و کس آگاہ نیست پیش محفل جز بم و زیر و مقام و راہ نیست حافظ: زلف آشفتہ و خوے کردہ و خندان لب و مست پیرہن چاک و غزلخوان و صراحی در دست اقبال: عشق گردید ہوس پیشہ و ہر بند گسست آدم از فتنہ او صورت ماہی در شست مندرجہ بالا شعر’’پیام مشرق‘‘ کی نظم’’پیام‘‘ کے ایک بند کا پہلا شعر ہے۔ حافظ: شنیدہ ام سخنے خوش کہ پیر کنعان گفت فراق یار نہ آن میکند کہ بتوان گفت اقبال: دگر ز سادہ دلبہائے یار نتوان گفت نشستہ بر سر بالین من ز درمان گفت حافظ: تا ز میخانہ و مے نام و نشان خواہد بود سر ما خاک رہ پیر مغان خواہد بود اقبال: زندگی جوئے روان است و روان خواہد بود این مے کہنہ جوان است و جوان خواہد بود مندرجہ بالا شعر ’’پیام‘‘ کے آخری بند کا پہلا شعر ہے۔ حافظ: جہان بر ابروئے عید از ہلال و سمہ کشید ہلال عید در ابروئے یار باید دید اقبال: بیار بادہ کہ گردون بکام ما گردید مثال غنچہ نوابا ز شاخسار دمید حافظ: در ازل پر تو حسنت ز تجلی دم زد عشق پیدا شد و آتش بہمہ عالم زد اقبال: عقل چون پائے درین راہ خم اندر خم زد شعلہ در آب دوانید و جہان برہم زد حافظ: شاہد آن نیست کہ موے و میانے دارد بندہ طلعت آن باش کہ آنے دارد اقبال: عاشق آن نیست کہ لب پر ز فغانے دارد عاشق آنست کہ برکف دو جہانے دارد حافظ: شراب بیغش و ساقی خوش دو دام رہند کہ زیر کان جہان از کمند شان نرہند اقبال: غلام زندہ دلانم کہ عاشق سرہ اند نہ خانقاہ نشینان کہ دل بکس ند ہند حافظ: نہ ہر کہ چہرہ برافروخت دلبری داند نہ ہر کہ آئینہ سازد سکندری داند اقبال: جہان عشق نہ میری نہ سروری داند ہمین بس است کہ آئین چاکری داند حافظ: خیز و در کاسہ ام ز آب طربناک انداز پیشتر زانکہ شود کاسہ سر خاک انداز اقبال: ساقیا پر جگرم شعلہ نمناک انداز دگر آشوب قیامت بکف خاک انداز حافظ: مقام امن و مے بیغش و رفیق شفیق گرت مدام میسر شود زہے توفیق اقبال: ز رسم و راہ شریعت نکردہ ام تحقیق جز این کہ منکر عشق است کافر و زندیق حافظ: خیز تا از در میخانہ کشادے طلبیم بر در دوست نشینیم و مرادے طلبیم اقبال: چارہ انیست کہ از عشق کشادے طلبیم پیش او سجدہ گزاریم و مرادے طلبیم حافظ: ز دست کوتہ خود زیر بارم کہ از بالا بلندان شرمسارم اقبال: ہوائے خانہ و منزل ندارم سر راہم غریب ہر دیارم حافظ: سرم خوشست و بہ بانگ بلند میگویم کہ من نسیم حیات از پیالہ میجویم اقبال: باین بہانہ درین بزم محرمے جویم غزل سرایم و پیغام آشنا گویم حافظ: ما بدین در پے حشمت و جاہ آمدہ ایم از بد حادثہ این جا بہ پناہ آمدہ ایم اقبال: ما کہ افتندہ تر از پر تو مہ آمدہ ایم کس چہ داند کہ چسان این ہمہ رہ آمدہ ایم حافظ: سحر ہاتف میخانہ بدولت خواہی گفت باز آئی کہ دیرینہ این درگاہی اقبال: نظر تو ہمہ تقصیر و خرد کوتاہی نرسی جز بہ تقاضائے کلیم الٰہی اب کچھ مثالیں ایسی غزلوں کی دی جاتی ہیں جو ہم قافیہ تونہیں مگر ہم ردیف ہیں: حافظ: روشن از پر تو رویت نظرے نیست کہ نیست منت خاک درت بر بصرے نیست کہ نیست اقبال: سرخوش از بادہ تو خم شکنے نیست کہ نیست مست لعلین تو شیرین سخنے نیست کہ نیست حافظ: بسر جام جم آنگہ نظر توانی کرد کہ خاک میکدہ کحل بصر توانی کرد اقبال: درون لالہ گزر چون صبا توانی کرد بیک نفس گرہ غنچہ وا توانی کرد حافظ: در خرابات مغان نور خدا مبینیم این عجب بین کہ چہ نورے ز کجا میبینم اقبال: من درین خاک کہن گوہر جان مبیبینم چشم ہر ذرہ چو انجم نگران میبینم (یہ شعر بھی ’’پیام‘‘ میں سے ہے)۔ اقبال نے حافظ کے بہت سے اشعار کی تضمین بھی کی ہے جو حافظ سے دبستگی کا مزید ثبوت ہے ۔ یہ سلسلہ بانگ درا سے شروع ہوتا ہے۔ جس کا پہلا ایڈیشن 1924ء میں چھپا تھا۔ اس میں آغاز سے لے کر 1924ء تک کا اردو کلام شامل ہے۔ اسرار خودی میں حافظ کے بعض نظریات سے اختلاف کا اظہار کرنے کے باوجود علامہ نے حافظ کے ساتھ ایک گہرا جذباتی رشتہ قائم رکھا ہے۔ انہوںنے ’’نصیحت‘‘ کے زیر عنوان حافظ کے مندرجہ ذیل شعر سے عمل کا پیغام دیا ہے: عاقبت منزل ما وادی خاموشان است حالیا غلغلہ در گنبد افلاک انداز اسی شعر کی تضمین انہوںنے برسوں بعد ایک دوسری نظم میں کی ہے ۔ جو ’’نپولین کے مزار پر‘‘ کے عنوان سے ’’بال جبریل‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ ’’طلوع اسلام ‘‘ جو امیدو رجا کا مسلسل پیغام ہے اور جس میں شاعر اسلام کی عظمت کو دوبارہ طلوع ہوتے دیکھ رہا ہے حافظ کے مندرجہ ذیل سرور انگیز شعر پر ختم ہوتی ہے: بیا تاگل بر افشانیم و مے در ساخر اندازیم فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم بانگ درا کی ایک نظم ’’قرب سلطان‘‘ میں اقبال نے یکے بعد دیگرے حافظ کے کئی مصرعوں کی تضمین کی ہے۔ پوری نظم پر حافظ کا رنگ چھایا ہوا ہے اور شاعر شیراز کی گرانمایہ نصیحتیں پے بہ پے فردوس گوش بن رہی ہیں: مزا تو یہ ہے کہ یوں زیر آسماں رہیے ہزار گو نہ سخن در دہان و لب خاموش یہی اصول ہے سرمایہ سکون حیات گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش پیام مرشد شیراز بھی مگر سن لے کہ ہے یہ سر نہاں خانہ ضمیر سروش محل نور تجلی است رائے انور شاہ چو قرب او طلبی در صفائے نیت کوش ایک ہی نظم میں حافظ کی ایک ہی غزل کے مختلف مصرعوں کے استعمال سے شاعر نے ایک اچھوتا اور دلچسپ تجربہ کیا ہے تضمین کے سلسلے میں حافظ کے کچھ اور شعر اور مصرعے مندرجہ ذیل ہیں: گرت ہواست کہ با خضر ہمنشیں باشی نہان ز چشم سکندر چو آب حیوان باش ٭٭٭ شہپر زاغ و زغن در بند قید و صید نیست این سعادت قسمت شہباز و شاہین کردہ اند ٭٭٭ ہزار مرتبہ کاہل نکو تر از دلی است کہ آن عجوزہ عروس ہزار داماد است علامہ نے حافظ کے ایک مشہور شعر میں کچھ تصرف سے کام لیا ہے حافظ کا شعر حسب ذیل ہے: دوش از مسجد سوئے میخانہ آمد پیر ما چیست یاران طریقت بعد ازین تدبیر ما اقبال نے اس شعر کو مندرجہ ذیل شکل دی ہے: چیست یاران بعد ازین تدبیر ما رخ سوے میخانہ دارد پیر ما حافظ کا ایک مشہور شعر ہے: گرچہ بدنامیست نزد عاقلان ما نمی خواہیم ننگ و نام را علامہ نے ’’اسرار خودی‘‘ میں دعا کے تحت اس شعر کے دوسرے مصرع کو کسی قدر تغیر کے ساتھ یوں استعمال کیا ہے: باز از ما خواہ ننگ و نام را پختہ تر کن عاشقان خام را ٭٭٭ سنائی و عطار حکیم سنائی فارسی کے پہلے صوفی مثنوی نگار ہیں۔ وہ پہلے شاعر ہیں جنہوںنے تصوف و عرفان کو زہد و حکمت کے ساتھ سمویا ہے اور تصوف کے موضوع کو ایک مبسوط شکل میں پیش کیا۔ آنے والے صوفی شعرا ان کی عارفانہ عظمت کے قائل اور ان کے افکار و معانی کے خوشہ چیں ہیں۔ تصوف کے سب سے بڑے شاعر مولانائے روم نے سنائی کی حکیمانہ و عارفانہ عظمت کو یوں خراجعقیدت پیش کیا ہے: ترک جوشی کردہ ام من نیم خام از حکیم غزنوی بشنو تمام در الٰہی نامہ گوید شرح این آن حکیم غیب و فخر العارفین رومی کا ایک اور مشہور شعر بھی ہے جس میں انہوںنے سنائی اور عطار کو اپنا پیش رو اور استاد معنوی قرار دیا ہے: عطار روح بود و سنائی دو چشم او ما از پے سنائی و عطار آمدیم فارسی کے مشہو ر قصیدہ نگار خاقانی (595/1199)پر سنائی کے عارفانہ رنگ کا بہت اثر ہے اور اس نے اپنے آپ کو سنائی کا جانشین کہنے پر فخر محسوس کیا ہے: چون فلک دور سنائی در نوشت آسمان چون من سخن گستر بزاد نظامی نے ’’مخزن الاسرار‘‘ میں نسائی کی ’’حدیقہ الحقیقت‘‘ سے بہت اثر قبول کیا ہے اور خود نظامی کی اس مثنوی کی تقلید میں فارسی میں بیسیوں مثنویاں لکھی گئی ہیں۔ اس طرح سنائی کا معنوی ورثہ دور دور تک پہنچا ہے اورع ا سنے صدیوں تک فارسی شاعر کے فکری رجحانات کو متاثر کیا ہے۔ علامہ کے ہاں متعدد جگہ سنائی کی فکر‘ ان کے اشعارکے مخصوص انداز اور حسن تخٰل کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اور ’’مسافر‘‘ میں تو انہوںنے حکیم سنائی سے گہری عقیدت و ارادت کے ساتھ ساتھ اس فخر العارفین کے ساتھ اپنی اقدار مشترک کا ذکر کیاہے۔ حکیم سنائی انسان کی برتری اور عظمت کے اتنے قائل ہیں کہ وہ آسمان سورج چاند اور ستاروں کو انسان کا غلام سمجھتے ہیں اور بلند ہمت اور صاحب نظر انسان کو چاند اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی دعوت دیتے ہیںَ انسان روحانی ارتقا کے مراحل طے کرتا ہوا بالاخر ایک ایسی منزل تک پہنچ جاتا ہے جہاں میںمہ و ماہ ا س کے زیر نگیں ہو جاتے ہیں اور وہ حسن مطلق کی جلوہ آرائی سے لطف اندوز ہوتا ہے ایک جگہ فرماتے ہیں: زین سپس دست ما و دامن دوست بعد ازین گوش ما و حلقہ یار در جہان شاہدے و ما فارغ در قدح جرعہ و ماہشیار چرخ و اجرام چاکران تو اند تو از ایشان طمع مدار مدار حلقہ در گوش چرخ و انجم کن تا دہندت بہ بندگی اقرار انسان کی عظمت اور مہر و ماہ پر اس کی برتری اور ذات کبریائی تک رسائی کا نصب العین اقبال کی فکر کا بنیادی مضمون ہے۔ ’’رموز بیخودی‘‘ میں جہاں وہ نظام عالم کی تسخیر کو حیات ملی کی توسیع کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے انداز فکر و بیان پر سنائی کا رنگ چھا جاتا ہے او ر بعض اشعار سنائی کے الفاظ کی صدائے بازگشت معلوم ہونے لگتے ہیں مثلاً: ثابت و سیارہ گردون وطن آن خداوندان اقوام کہن این ہمہ اے خواجہ آغوش تو اند پیش خیز و حلقہ در گوش تو اند سنائی کے ہاںیہ مضمون بار بار آتا ہے اور وہ انسان کواپنی شخصیت کے مکمل اظہار کے لیے مہر و ماہ تک پہنچنے کا نصب العین پیش کرتے رہتے ہیں مثلاً: اے قوم ازین سرائے حوادث گذر کنید خیز ید و سوئے عالم علوی سفر کنید یکسر بپائے ہمت از این دامگاہ دیو چون مرغ بر پرید و مقر بر قمر کنید علامہ کے کلام میں تسخیر فطرت کے ضمن میں مہر و ماہ اور چرخ و انجم ہر انسان کے تصرف کا ذکر بار بار آتا ہے بلکہ وہ انہیں انسان کی جولانگاہ عمل کا ایک ادنیٰ مظہر قرار دیتے ہیں: زجوئے کہکشان بگذر ز نیل آسمان بگذر ز منزل دل بمیرد گرچہ باشد منزل ما ہے ٭٭٭ بیرون قدم نہ از دور آفاق تو پیش ازینی‘ تو پیش ازینی سنائی نے انسان کے بارے میں جو نصب العینی تصور قائم کیا ہے اس پر پورا اترنا کوئی آسان کام نہیں۔ برسوں سورج کی گرمی کھانے کے بعد کوئی پتھر لعل کا روپ اختیار کرتا ہے۔ اور کسی مرد کامل کے ظہور کے لیے تو صدیوں کا عرصہ درکارہوتا ہے: سالہا باید کہ تا یک سنگ اصلی ز آفتاب لعل گردد در بدخشان یا عقیق اندریمن قرنہا باید کہ تا یک مرد حق پیدا شود بو سعید اندر خراسان یا اویس اندر قرن علامہ نے سنائی ہی کے اس انداز فکر کو آگے بڑھایا ہے اوریوں کہا ہے: عمر ہا در کعبہ و بت خانہ مینالد حیات تا ز بزم عشق یک دانائے راز آید برون ایک جگہ سنائی نے محبوب سے حسن آرائی اور جلوہ نمائی کی تمنا کا اظہار یوں کیا ہے: ہاز تابے دہ در آن زلفین عالم سوز را باز آبے بر زن آن روے جہان افروز را اقبال نے اپنی ان مچلتی ہوئی تمنائوں کے اظہار کے لیے سنائی ہی کے حسن تخیل اور صور ت گری کو پیش نظر رکھا ہے: فرصت کشمکش مدہ این دل بیقرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را اور پھر اسی مضمون کو اردو میں یوںپیش کیا ہے: گیسوئے تابدار کو ور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر‘ قلب و نظر شکار کر سنائی اور اقبال میں افلاک کی سیر کا تخیل بھی مشترک ہے۔ جو ان کے عزائم کی رفعت اور انسان کی عظمت پر ان کے ایمان کی دلیل ہے: سفر افغانستان کے دوران میں علامہ غزنین بھی تشریف لے گئے اور حکیم سنائی کے مزار پر بھی حاضر ہوئے۔ وہاں جا کر ان پر جو کیفیت طاری ہوئی اس کا احساس ’’مسافر‘‘ کے ان اشعار سے ہوتا ہے جو علامہ نے اس موقع پر کہے تھے۔ ان اشعار میں انہوںنے نہ صر ف سنائی کو ہدیہ عقیدت پیش کیا ہے بلکہ سنائی اور اپنی ذات میں ایک گہری مماثلت کا اظہار بھی کیا ہے۔ فرماتے ہیں: آن ’’حکیم غیب‘‘ آن صاحب مقام ’’ترک جوش‘‘ رومی از ذکر کرش تمام من ز ’’پیدا‘‘ او ز ’’پنہان‘‘ در سرور ہر دو را سرمایہ از ذوق حضور او نقاب از چہرہ ایمان کشود فکر من تقدیر مومن وا نمود ہر دو را از حکمت قرآن سبق او ز حق گوید من از مردان حق اس کے بعد شاعر نے حکیم سنائی سے دور حاضر کی ستمگری کا ذکر کرنے کے بعد ملت کی سربلندی کے لیے کسی پیغام کی خواہش کی ہے اور پھر اس امر عارف کی زبان سے ملت کو عشق و محبت سوز و ساز اور امید و رجائیت کے ولولہ انگیز پیغام کے ساتھ ساتھ انسان کامل کا تصور پیش کیا ہے اور اس صاحب نظر کے معنی خیز پیغام کو ان خوبصورت اشعار کے ساتھ ختم بھی کیا ہے: بر درون شاخ گل دارم نظر غنچہ ہا را دیدہ ام اندر سفر لالہ را در وادی و کوہ و دمن از دمیدن باز نتوان داشتن بشنود مردے کہ صاحب جستجوست نغمہ را کو ہنوز اندر گلوست حکیم سنائی ہی کے مزار کی زیارت کے بعد اقبال نے سنائی کی ایک مشہور قصیدے کے جواب میں اردو میںایک معرکہ آرا نظم لکھی ہے قصیدے کا مطلع ہے: مکن در جسم و جان منزل کہ این دون است و آن والا قدم از ہر دو بیرون نہ اینجا باش و نہ آنجا اقبال کی نظم کاآغاز مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے: سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہ صحرا اور اس کا خاتمہ ’’حکیم غیب‘‘ کی خدمت میں ہدیہ عقیدت کے ساتھ یوں کیا ہے: سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالا نظم کے دوران میں حکیم کے ایک مصرع کی تضمین بھی ہوئی ہے: ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے گرفتہ چینیاں اہرام و مکی خفتہ در بطحا سنائی کے ساتھ عقیدت کا یہ رشتہ آخر تک استوار رہتا ہے ۔ ایک رباعی میں فارسی کے بعض عظیم شعرا کی انفرادی خصوصیات کو اپنی ذات میں جمع کرنے کی آرزو کی ہے اور یہاں بھی وہ سنائی کو صدق اور اخلاص کا پیکر قرار دیتے ہوئے اپنے اندر یہی خوبیاں سمونے کے متمنی ہیں: عطا کن شور رومی‘ سوز خسرو عطا کن صدق و اخلاص سنائی ایک اور رباعی میں اپنی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے اس کا سبب سنائی کے اس سوز کو ٹھہرایا ہے جس نے رومی کے اندر بھی عشق کی جوت جگائی تھی: مے روشن ز تاک من فرو ریخت خوشا مردے کہ در دامانم آویخت نصیب از آتشے دارم کہ اول سنائی از دل رومی برانگیخت اقبال کے کلام میں ایک آدھ جگہ عطار کا اثر بھی جھلک رہا ہے انہوںنے کشمیر پر ایک نظم لکھی ہے جو حسن تخیل‘ موسیقی اور منظر نگاری کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔ یہ نظم ہمیں عطار کے ایک غزل نما قطعے کی یاد دلاتی ہے۔ دونوں کے اقتباسات ملاحظہ ہوں : عطار: باد شمال میوزد‘ جلوہ نسترن نگر وقت سحر ز عشق گل بلبل نعرہ زن نگر سبزہ تازہ روے را نو خط جوبیاربین لالہ سرخ روے را سوختہ دل چومن نگر خیز و بیا بوقت گل بادہ بدہ کہ عمر شد چند غم جہان خوری ‘ شادی انجمن نگر اقبال: رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہان جہان ببین لالہ چمن چمن نگر لالہ ز خاک بر دمید موج بابجو تپید خاک شرر شرر ببین آب شکن شکن نگر زخمہ بہ تار ساز زن بادہ بہ ساتگین بریز قافلہ بہار را انجمن انجمن نگر ’’گلشن راز جدید‘‘ میں عطار کی تعریف میں علامہ نے محمود شبستری کا یہ شعر دہرایا ہے: مرا زین شاعری خود عطار ناید ہ در صد قرن یک عطار ناید ٭٭٭ امیر خسرو عالم سوز و مستی میں علامہ امیر خسرو کو رومی کا ہمسر پاتے ہیں اورجہاں اپنے لیے سوز درون کی تمنا کی ہے وہاں امیر خسرو کو رومی کی سطح پر کھا ہے: عطا کن شور رومی‘ سوز خسرو امیر خسروفارسی کے بہترین غزل سرائوں میں سے ہیں۔ ان کے ہاں فارسی غزل کی ابتدائی سادگی ‘صداقت اور بیساختگی ہے ۔ اس کے علاوہ انہوںنے اپنے لطیف جذبات کو غنایت اور موسیقی کے ساتھ ساتھ سمو کر ان میں بڑی دلکشی پیدا کی ہے۔ ان کی غزل کی یہی وہ صفات ہیںجنھوں نے اقبال کواپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ چنانچہ انہوںنے کئی غزلیں امیر خسرو کی غزلوں کے تتبع میں کہی ہیں۔ یہاں دونوں عظیم شاعروں کی بعض ایسی غزلوں کے مطلعے پیش کیے جاتے ہیں: امیر خسرو: ناز کنی کہ دیدہ ام آن رخے ہمچو لالہ را سوزم و بر نیاورم پیش وے آہ و نالہ را اقبال: اے کہ زمن فزودہ ای گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صدائے من خاک ہزار سالہ را امیر خسرو: مہ من خراب گشتم ز رخت بیک نظارہ نظرے ز تو عفا اللہ چہ مے است مست کارہ اقبال: دل و دیدہ کہ دارم ہمہ لذت نظارہ چہ گنہ اگر تراشم صنمے ز سنگ خارہ امیر خسرو: مرا بسوئے تو پیوند دوستی خام است بافتاب ز ذرہ چہ جائے پیغام است اقبال: زمانہ قاصد طیار آن دلا رام است چہ قاصدے کہ وجودش تمام پیغام است امیر خسرو: سرم فدات چو تیغ تو گرد سر گردد دلم نماند کہ تیر ترا سپر گردد اقبال: جہان ما ہمہ خاک است و پے سپر گردد ندانم این کہ نفسہائے رفتہ بر گردد امیر خسرو: خطاب طلعت تو نامہ زمین کردند فرشتگان ہمہ بر رویت آفرین کردند اقبال: دم مرا صفت باد فرو دین کردند گیاہ را ز سرشکم چو یاسمین کردند امیر خسرو: مبارک ماہ‘ ماہ روزہ داران بدان مستی فزائے ہوشیاران اقبال: زمستان را سرآمد روز گاران نواہا زندہ شد در شاخساران امیر خسرو: نیست کشادہ چشم من جز بہ خیال روئے تو بستہ کس نشد دلم جز بہ شکنج موئے تو اقبال: سوز و گداز زندگی لذت جستجوئے تو راہ چو مار می گزد گر نروم بسوئے تو امیر خسرو: مہ من خراب گشتم ز رخت بیک نظارہ نظرے ز تو عفا اللہ چہ مے است مستکارہ اقبال: دل و دیدہ کہ دارم ہمہ لذت نظارہ چہ گنہ اگر تراشم صنمے ز سنگ خارہ امیر خسرو: ہمہ شب فرو نیابد بدلم کرشمہ سازے ز شب است این کہ دارم غم و نالہ درازے اقبال: بملا زمان سلطان خبرے دہم ز رازے کہ جہان تواں گرفتن بنواے دلگدازے امیر خسرو سے اقبال کی دلچسپی اور عقیدت کا اظہار بعض رباعیات میں امیر خسرو کے اشعار کی تضمین سے بھی ہوتا ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ایسے دو نمونے ملتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ علامہ کو امیر خسرو کے افکار سے خاص طور پر لگائو تھا۔ یہ رباعیات مندرجہ ذیل ہیں: بہ روے عقل و دل بکشاے ہر در بگیر از پیر ہر میخانہ ساغر درآن کوش از نیاز سینہ پرور کہ دامن پاک داری‘ آستین تر ٭٭٭ ’’بساکس اندہ فردا کشیدند کہ دے مردند و فردا را ندیدند‘‘ خنک مردان کہ در دامان امروز ہزاران تازہ تر ہنگامہ چیدند ان رباعیات میں علامہ نے امیر خسرو کے اشعار کی مددسے معانی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے ! ایک آدھ جگہ اقبال نے امیر خسرو کے مصرعے یا مصرعے کے کسی ٹکڑے کے استعمال سے اپنے شعر میں بلا کا حسن و معنویت پیدا کی ہے ۔ امیر خسرو کا ایک مشہور شعر ہے: ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف بہ امید آن کہ روزے بہ شکار خواہی آمد اقبال نے دوسرے مصرع کے استعمال سے اپنے شعر کا موضوع بالکل بدل دیا ہے مگرا س میں اصل شعر کے مقابلے میں زیادہ معنویت اور تمکنت پیدا ہو گئی ہے اور شعر کے بے ساختہ حسن میں کوئی فرق نہیں آیا: ’’بہ امید این کہ روزے بشکار خواہی آمد‘‘ ز کمند شہریاران رم آہوا نہ دارم امیر خسرو کا ایک اور مشہور اور دلکش شعر ہے: من تو شدم تو من شدی‘ من تن شدم تو جان شدی تا کس نگوید پس از ین من دیگرم تو دیگری اقبال نے نہایت چابکدستی اور کمال خوبی سے ’’من دیگرم تو دیگری‘‘ کو امیر خسرو کے برعکس اپنے شعر میں اس طرح خودی اور انفرادیت کے اثبات کے معنی پہنائے ہیں کہ پڑھنے والا اس دلچسپ تصرف پر عش عش کر اٹھتا ہے: ہر کجا از ذوق و شوق خود گری نعرہ ’’من دیگرم تو دیگری‘‘ ٭٭٭ عرفی اقبال کی شاعری میں عرفی (1591/999) کا ذکر سب سے پہلے ’’ بانگ درا‘‘ میں آتا ہے جہاں ’’ عرفی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں اس کے تخیل کے مقابلے میں سینا و فارابی کے فلسفے کو ’’حیرت خانہ‘‘ کے نامہ سے یاد کیا گیا ہے اور اس کے ایک شعر کی تضمین کی گئی ہے۔ اس شعر میں عرفی نے خوبصورت مثالوں اور دلکش لفظوں میں فن کے بارے میں نہایت صحت مند نظریہ پیش کیا ہے اور وہ یہ کہ اگر سننے والے میں ذوق نغمہ کی کمی ہو تو ترک نغمہ کی بجائے مغنی کو اپنی نوا میں اور زیادہ سوز پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ تخلیق ذوق اور تاثیر کا سبب بن سکے۔ اسی طرح اگر محمل کی گرانباری ناقہ کارواں کی رفتار میں حائل ہو تو ساربان کو اپنے نغمے میں اور زیادہ تندی اور تیزی پیدا کرنی چاہیے تاکہ قافلہ اس گرانباری کے باعث صحرا میں کھو کے نہ رہ جائے بلکہ منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہے۔ یہ شعر اپنے اندر ایک منفرد رنگ و آہنگ رکھتا ہے اور شاعر کے شعور فن میں جدید دور کے مسلمہ نظرہ ’’ فن برائے زندگی‘‘ کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ اگر اس شعر کو ساتھ والے اشعار کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ نظریہ مزید صراحت کے ساتھ دلنشیں ہو جاتا ہے۔ اس صحت مند نقطہ نظر اور پوری نظم کے تعمیری لہجے اور تخلیقی فکر کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے عرفی کے بارے میں کہا: محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانہ سینا و فارابی اور اس کے مندرجہ ذیل شعر کی تضمین کی: نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خوان چو محمل را گران بینی ’’ طلوع اسلام‘‘ کے پہلے بند میں اس شعر کے پہلے مصرع کی پھر تضمین ہوئی ہے: اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل ’’نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی‘‘ اقبال نے عرفی کے اس الہام بخش شعر کا تذکرہ یہیں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ آگے چل کر اپنے اور اس کے درمیان فن کے رہبرانہ مسلک کی ہم آہنگی کا ذکر بڑے فخر کے ساتھ کیا ہے۔ فرماتے ہیں: عجم از نغمہ از آتش بجان است صدائے من دراے کاروان است حدی را تیز تر خوانم چو عرفی کہ راہ خوائندہ و محمل گر ان است خودی اقبال کے فلسفے کا مرکز و محور ہے۔ عربی کے ہاں خود شناسی، ذوق عمل اور عظمت آدم کے مضامین ملتے ہیں جو اقبال کے فلسفے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ فکر و نظر کی یہ ہم آہنگی عرفی کو اقبال کا مقبول نظر بنا دیتی ہے عرفی کے کلام میں خود داری کا احساس مبالغے کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ یہ آگے بڑھ کر خود پسندی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ خود داری، عزت نفس اور علوئے ہمت کے مضامین اس کے ہاں بار بار آتے ہیں اور ہر بار ان میں ایک نئی شدت اور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک ہنگامہ مجلس خود اپنے نالوں سے عبارت ہے۔ فساں کے لیے دوسروں کا احسان اٹھانے سے بہتر ہے کہ انسان خود اپنے سینے پر خنجر کی دھار تیز کرے: مجلس بنوحہ گرم کن از کس فغان مخواہ خنجر بہ سینہ تیز کن از کس فسان مخواہ عرفی کو عظمت انسانی کا شدید احساس ہے وہ انسان کی لامحدود استعداد، اس کی شخصیت کے امکانات اور کائنات میں اس کی فضیلت و برتری کا ذکر نہایت جوش و خروش سے کرتا ہے: از کتابے کہ منش خاتمہ ام لوح محفوظ نخستین ورق است ٭٭٭ سر روحانیان داری ولے خود راندیدستی بخواب خود در آتا قبلہ روحانیان بینی ٭٭٭ من قیامت راز عشقم دیدہ کو تا بنگرد صد بہشت و دوزخ از ہر گوشہ صحرائے من اقبال کی نظر میں عرفی کی اتنی قدر و منزلت ہے کہ ’’ رموز بیخودی‘‘ کی ابتدا رومی کے ساتھ عرفی کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتی ہے: منکر نتوان گشت اگر دم زنم از عشق این نشہ بن من نیست اگر بادگرے ہست علامہ نے عرفی کی ایک غزل کے جواب میں غزل کہی ہے۔ دونوں کے مزاج، آہنگ اور انداز بیان میں ایک بین مشابہت نظر آتی ہے۔ دونوں غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: عرفی: خیز و بجلوہ آب دہ سرو چمن طراز را آب و ہوا زیاد کن باغچہ نیاز را صورت حال چون شود بر تو عیان کہ میرد ناز تو جنبش از قلم چہرہ کشاے راز را اے کہ کشودہ چشم جان در طلب حقیقتے طرف نقاب برفگن پردگی مجاز را اقبال: خیز و نقاب برکشا پردگیان ساز را نغمہ تازہ یاد دہ مرغ نوا طراز را جادہ ز خون رہروان تختہ لالہ در بہار ناز کہ راہ میزند قافلہ نیاز را؟ دیدۂ خوابناک او گر بہ چمن کشودہ ای رخصت یک نظر بدہ نرگس نیم باز را ایک غزل میں اقبال نے عرفی کے ایک مصرع کی تضمین کی ہے۔ یہ مصرع بھی عرفی کے اسی توانا اور زور دار قصیدے میں سے لیا گیا ہے جس کے ایک شعر میں نوا کی تلخی اور ذوق نغمہ کی کمی کا ذکر ہے۔ شعر حسب ذیل ہے: ’’تو در زیر درختان ہمچو طفل آشیان بینی‘‘ بہ پرواز آکہ صید مہر و ما ہے میتوان کردن ایک شعر میں عرفی نے محبوب کے ساتھ حکایت دراز کا ذکر یوں کیا ہے: لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم چنانکہ حرف عصا گفت موسیؑ اندر طور اقبال نے حکایت دراز کی تمنا کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: بہ حرفے میتوان گفتن تمناے جہانے را من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را احتساب نفس پر عرفی کا ایک معرکے کا شعر ہے جس میں اپنی گھات میں بیٹھ کر خود اپنے نفس کو شکار کرنے کی ترغیب یوں دی گئی ہے: خواہی کہ عیب ہاے تو روشن شود ترا یکدم منافقانہ نشین در کمین خویش اقبال نے مرد مومن کے جہاد بالنفس کا نقشہ عرفی کے رنگ میں یوں کھینچا ہے: مرد مومن زندہ و با خود بہ جنگ بر خود افتد ہمچو بر آہو پلنگ عرفی کی خود داری کا یہ عالم ہے کہ وہ استحقاق کے بغیر بہشت میں داخل ہونا بھی بعید از انصاف سمجھتا ہے: گرفتم آنکہ بہشتم دہند بے طاعت قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف است اقبال نے اسی خود داری اور غیرت مندی کا مظاہرہ مندرجہ ذیل شعر میں عرفی ہی کے رنگ میں کیا ہے: آن بہشتے کہ خدائے بتو بحشد ہمہ ہیچ تاجزاے عمل تست جنان چیزے نیست عرفی کی تعلی میں شاعر مشرق کو ایک خاص لطف محسوس ہوتا ہے۔ ’’ روزگار فقیر‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں: ’’ سید امجد علی نے ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کو شگفتہ خاطر دیکھ کر سوال کیا کہ آپ کو کون سا شعر سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘ فریاد عرفی کا شعر: سایہ من ہمچو من در ملک ہستی امتت سایہ تو در عدم پیغمبر ہمتائے من ساتھ ہی پسندیدگی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس شعر میں خوبصورت تعلی موجود ہے۔1؎ علامہ نے ’’ تشکیل جدید‘‘ کے دوسرے خطبے میں مذہبی تجربے سے بحث کرتے ہوئے انسان کے شعوری افعال کے محرکات کا ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہمارے شعوری افعال کے محرک ہمارے اغراج و مقاصد ہیں جو کسی فعل کے سرزد ہوتے وقت ہمارے ذہن پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ عرفی نے انسانی ادراک کے اس پہلو کا اظہار نہایت خوبصورت طریقے سے کیا ہے۔ اس کے بعد علامہ نے عرفی کا مندرجہ ذیل شعر نقل کیا ہے: ز نقص تشنہ لبی دان بہ عقل خویش مناز دلت فریب گر از جلوۂ سراب نخورد اس کے بعد علامہ اس شعر کی وضاحت یوں فرماتے ہیں کہ اگر انسان پانی کے لیے ترس رہا ہو تو سراب پر ندی کا دھوکا ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس فریب سے محفوظ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے پانی کی شدید خواہش نہیں ہے۔ وہ شے کو اس کے حقیقی رنگ میں دیکھتا ہے کیونکہ وہ اسے اس کے غیر حقیقی رنگ میں دیکھنے کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کے بعد علامہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اغراض و مقاصد خواہ بہ حیثیت شعوری میلانات موجود ہوں خواہ ان کی حیثیت غیر شعوری میلانات کی ہو حقیقت یہ ہے کہ ہمارے شعوری تجربے کا تار و پود انہی سے تشکیل پاتا ہے۔ 2؎ ٭٭٭ نظیری نظیری نیشا پوری (1613/1021) کے بعض جاندار اور زندگی بخش اشعار نے اقبال کو بہت متاثر کیا ہے۔ مثلاً ’’ اسرار خودی‘‘ میں تمہید کا آغاز نظیری کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے: نیست در خشک و تر بیشہ ما کوتاہی چوب ہر نخل کہ منبر نشود دار کنیم ’’ پیام مشرق‘‘ میں نہ صرف نظیری کے ایک مصرع کی تضمین کی گئی ہے بلکہ اسے ایسا شاندار خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے کہ کلام اقبال میں اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔ مصرع اور اس کی تضمین حب ذیل ہے: یہ ملک جم ندہم مصرع نظیری را ’’کسے کہ کشتہ نشد از قبلہ ما نیست‘‘ نظیری کے دونوں مندرجہ بالا اشعار میں جاں سپاری اور مبارزہ طلبی کا شدید احساس ٹپکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر مشرق نہ صرف ان کے تیور، لہجے اور جذبے سے بے حد متاثر ہوئے بلکہ انہوں نے نظیری کی بہت سی غزلیات کے جواب میں غزلیں کہیں۔ اقبال کو ہر وہ خیال پسند ہے جس سے زندگی کی لہر اٹھتی ہے، تخلیق کا ذوق پیدا ہوتا ہے اور خود داری، خود شناسی اور بے نیازی کا احساس پرورش پاتا ہے۔ نظیری کے کلام میں ایسے میلانات موجود ہیں جو روایتی شاعری سے ذرا ہٹے ہوئے ہیں اور جن میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ دور اکبری (1605/1014-1556 /963) کے شاعروں مثلاً فیضی (1595/1004) عرفی اور نظیری کے کلام میں بعض خصوصیات مشترک ہیں۔ ان کے اندر ذوق حیات انگڑائیاں لے رہا ہے۔ ان کے ہاں اعتماد اور کامرانی کا نشہ ہے جس میں اس دور کی اجتماعی زندگی کی پر اعتماد روش کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ پامال اور فرسودہ روایات سے ہٹ کر نئی راہیں تراشنے کے شوقین ہیں۔ تازہ پردازی کے اسی شوق نے ان کے کلام میں ایک نئی جولانی پیدا کی ہے۔ اس میں نا امیدی اور یاس کی بجائے مسرت اور اعتماد کی لہر دوڑ رہی ہے۔ا یک جوش و خروش کی کیفیت ہے اور مبارزہ طلبی کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ ان شعرا کی ذہنی اپج اور شوق تازہ کاری نے اس دور کی شاعری کے اسلوب میں بعض بنیادی تبدیلیاں کیں۔ اس تخلیقی رحجان کو اس زمانے میں تازہ گوئی کے نام سے یاد کیا گیا۔ بعد میں یہ اسلوب سبک ہندی کہلایا۔ اس اسلوب نے توبہ حیثیت مجموعی اقبال کو متاثر نہیں کیا مگر انہیں عرفی اور نظیری کی مثبت، پر اعتماد اور جاندار فکری روش ضرور پسند ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان دونوں شاعروں کو براہ راست یا بذریعہ تضمین خراج تحسین ادا کیا ہے۔ نظیری اپنے آپ کو حافظ کا پیرو کہتا ہے مگر وہ حافظ کے شیوۂ تسلیم و رضا اور کیش عافیت جوئی کے برعکس ستیزہ کاری کی دعوت دیتا ہے۔ اسے نرسی اور نزاکت کی بجائے سخت کوشی اور جفا طلبی پسند ہے۔ روش پیکار و ستیزہ کاری اقبال کا بھی خاص مضمون اور ان کے فلسفہ کا ایک اہم جزو ہے۔ نظیری قوت کو لطافت و نزاکت پر ترجیح دیتا ہے۔ اسے چمن کے زمزموں کے مقابلے میں دامن کہسار کے قہقہے زیادہ پسند ہیں: دلم از زمزمہ طرف چمن نکشاید گوش بر قہقہہ دامن کہسار کنم اقبال کو بھی چمن کی بجائے دشت و بیابان کی بے پایاں وسعت میں زندگی کی صلاحیتوں کے اظہار کا بہتر موقع نظر آتا ہے۔ ان کی نظر میں فطرت کے مقاصد کی نگہبانی مرد کوہ و صحرا ہی کر سکتا ہے۔ انہیں بلبل کی بجائے شہباز زیادہ پسند ہے، اس لیے کہ: بلبل چمنستانی شہباز بیابانی انہیں غزنوی دور کے لاہور کے مشہور شاعر مسعود سعد سلمان (1121/515) کا مندرجہ ذیل مصرع بہت پسند ہے اور ضرب کلیم میں اس کی بہ تبدیلی لفظ تضمین بھی کی ہے: بلبل فقط آوازے و طاؤس فقط رنگ انہوں نے آواز و رنگ کے ان مظاہر کی تقلید سے اجتناب کی تلقین بھی کی ہے۔ نظیری کے ہاں بھی لطافت و نزاکت سے بیزاری کا احساس موجود ہے بلکہ اس کی نظر میں تو اہل نزاکت ذوق حقیقت کا مظہر بن ہی نہیں سکتے: نشان ذوق حقیقت بہ نازکان ندہند چہ شد کہ فاختہ خوش گوے و سرو موزون است مندرجہ ذیل شعرمیں وہ برملا صحن و چمن سے اپنا ناتا توڑ کر کوہ و دشت سے رشتہ استوار کر رہا ہے: در چمن معذور داریدم اگر گردم ملول بغمہ سنج کوہ و دشتم از گلستان نیستم سخت کوشی اور قوت کا یہ مثبت رحجان اور نرمی و لطافت سے بیگانگی اور بیزاری نظیری کو ذہنی اور نصب العینی اعتبار سے اقبال سے بہت قریب کر دیتی ہے۔ اگرچہ نظیری کا لہجہ عرفی کی طرح پر خروش اور شعلہ بار نہیں، مگر وہ آشوب و غوغا، مبارزت و پیکار اور جانسپاری و فدا کاری پر شیدا ہے۔ اس کا یہی وہ جذبہ ہے جس نے اقبال کو اس کا گرویدہ بنا دیا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو اقبال کی نظر میں ملک جم سے زیادہ بیش قیمت ہے اس جذبے کا اظہار یوں ہوتا ہے: گریزداز صف ما ہر کہ مرد غوغا نیست ’’کسے کہ کشتہ نشد از قبیلہ ما نیست‘‘ آشوب و غوغا سے شغف کا اظہار ایک او رمصرع میں یوں ہوتا ہے: کہ باخود ہر نفس آشوب و غوغائے دگر دارم اسی ذہنی کیفیت کے پیش نظر شاعر نے نور کی بجائے برق و آتش سے زیادہ لگاؤ کا اظہار کیا ہے: ما برق جاے نور بہ کاشانہ بردہ ایم آتش بہ پاسبانی پروانہ بردہ ایم اقبال کی فکر میں تخلیق کے عنصر کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ نظیری کے ہاں بھی تازہ کاری کے قوی رحجانات موجود ہیں۔ اگر اقبال کی جدت پسندی انہیں اپنے جہاں سے غیر مطمئن رکھتی ہے اور وہ اس کا اظہار یوں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں: طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم این چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی تو نظیری کو خلش تخلیق یہ کہنے پر مجبور کرتی ہے: این جہان زشت است طرح تازۂ بر صفحہ کش وین بنا سست است قصر قائمے بنیاد کن نظیری کے مزاج میں عمل اور کردار کی وہ شجاعانہ صورت نظر آتی ہے جس کی طلب اقبال کو بیقرار رکھتی ہے۔ انہوں نے جس نظم میں مصطفی کمال پاشا سے مخاطب ہو کر عمل کی نئی راہیں اختیار کرنے کی آرزو کی ہے اس میں نظیری کے مندرجہ ذیل شعر کی تضمین کی ہے: ہر کرا راہ دہد اسپ برآن تاز کہ ما بارھا مات درین عرصہ بہ تدبیر شدیم نظیری کی شاعری کی یہی وہ خصوصیات ہیں جو اقبال کے مزاج اور فکر سے ہم آہنگ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نظیری کی غزل کی معاملہ بندی سے عدم دلچسپی کے باوجود انہوں نے اس کی بعض غزلیات کے جواب میں غزلیں کہی ہیں۔ مثالیں حسب ذیل ہیں: نظیری: گر بہ سخن در آورم عشق سخن سراے را بر برودوش سر دہی گریہ ہاے ہاے را اقبال: باز بہ سرمہ تاب دہ چشم کرشمہ زاے را ذوق جنون دو چند کن شوق غزل سر اے را نظیری: گریزد از صف ما ہر کہ مرد غوغا نیست کسے کہ کشتہ نشد از قبیلہ ما نیست اقبال: ز خاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست تجلی دگرے در خور تقاضا نیست نظیری: ہر کہ نوشید مے شوق تو پایانش نیست وانکہ محو تو شد اندیشہ حرمانش نیست اقبال: حکمت و فلسفہ کاریست کہ پایانش نیست سیلی عشق و محبت بہ دبستانش نیست نظیری: چو عریان شد چمن مرغ از ضرورت خانہ میسازد چو قحط گل بود بلبل بآب و دانہ میسازد اقبال: ہواے فر و دین در گلستان میخانہ میسازد سبو از غنچہ میریزد ز گل پیمانہ میسازد نظیری: درد دل را میکنم با صبر پیوندے دگر بر طبیب خود تغافل میزنم چندے دگر اقبال: میتراشد فکر ما ہر دم خداوندے دگر رست از یک بند تا افتاد در بندے دگر نظیری: غمم بہ عیش در آویخت عشق رنگ آمیز کنون نہ ہست غمم کند و نہ نشاطم تیز اقبال: دلیل منزل شوقم بدامنم آویز شرر ز آتش نابم بخاک خویش آمیز نظیری: کجا بودی کہ امشب سوختی آرزدہ جانے را بقدر روز محشر طول دادی ہر زمانے را اقبال: بحرفے میتوان گفتن تمنائے جہانے را من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را نظیری: بغیر از رنگ و بوے نیست این عشق مجازی را عطا کن لذت طعم حقیقت عشق بازی را اقبال: نیابی در جہان یارے کہ داند دلنوازی را بخود گم شو نگہدار آبروے عشق بازی را نظیری: غیر من در پس این پردہ سخن سازے ہست راز دل دل نتوان داشت کہ غمازے ہست اقبال: گرچہ شاہین خرد بر سر پروازے ہست اندرین بادیہ پنہان قدر اندازے ہست نظیری: بہ ہوش سیر چمن کن کہ شہادان مستند قرابہ بر سر ابر بہار بشکستند اقبال: بیا کہ خاوریان نقش تازۂ بستند دگر مرو بطواف بتے کہ بشکستند نظیری: گوید سحر کہ شب گذر افگندہ بہ باغ گلہا نشان دہند ز تو بلبلان سراغ اقبال: اے لالہ اے چراغ کہستان و باغ و راغ در من نگر کہ میدہم از زندگی سراغ نظیری: چہ خوش است از دو یکدل سر حرف باز کردن سخن گذشتہ گفتن گلہ دراز کردن اقبال: چہ خوش است زندگی را ہمہ سوز و ساز کردن دل کوہ و دشت و صحرا بہ دمے گداز کردن نظم ’’ تسخیر فطرت‘‘ کا آغاز مندرجہ بالا شعر سے ہوتا ہے۔ بعض غزلوں میں قافیہ بدل گیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: نظیری: بدست طبع عنان دادہ اے دریغ از تو بچنگ صد ہوس افتادہ اے دریغ از تو اقبال: بتان تازہ تراشیدہ اے دریغ از تو درون خویش نہ کاویدہ اے دریغ از تو نظیری کے مندرجہ ذیل دلآویز شعر کی صدائے باز گشت علامہ کے ہاں ایک سے زیادہ جگہ سنائی دیتی ہے: بہر نرخے کہ میگیرند کالاے وفا خوب است پس از مدت گزار افتاد بر ما کاروانے را علامہ نے ’’ طلوع اسلام ‘‘ میں دوسرے مصرع کی تضمین کی ہے: بیا پیدا خریدار است جان ناتوانے را ’’پس از مدت گزار افتاد برما کاروانے را‘‘ ’’ زبور عجم‘‘ کی ایک غزل میں پہلے مصرع میں یوں تصرف کیا گیا ہے: بہر نرخے کہ این کالا بگیری سود مند افتد بزور بازوے حیدرؓ بدہ ادراک رازی را ٭٭٭ غالب علامہ اقبال مرزا غالب (1869/1285) کی شاعرانہ عظمت کے ہمیشہ قائل رہے ہیں۔ بانگ درا کی ابتدائی نظموں میں ایک کا عنوان ’’ مرزا غالب‘‘ ہے۔ اس میں شاعر مشرق نے اردو اور فارسی کے اس عظیم شاعر کے حسن تخیل اور لطف گویائی کو نا قابل تقلید قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ گوئٹے سے کیا ہے۔بیاض میں غالب کو بے مثال خراج تحسین ادا کیا ہے: ’’ میری رائے میں مرزا غالب کا فارسی کلام شائد مسلمانان ہند کی جانب سے وہ واحد پیشکش ہے جس سے ملت کے عام ادبی سرمائے میں کوئی مستقل اضافہ ہوا ہے۔ غالب یقیناً ان شعرا میں سے ہیں جن کا ذہن اور تخیل انہیں مذہب اور قومیت کے تنگ حدود سے بالاتر مقام عطا کرتا ہے۔ غالب شناسی کا فن ادا ہونا ابھی باقی ہے۔‘‘ 1؎ بیاض ہی میں ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں۔‘‘ 2؎ ’’ پیام مشرق‘‘ میں مرزا غالب کو رومی، بائرن اور برؤننگ کی صف میں ایک منفرد مقام دیا ہے۔ یہ عقیدت مندی آخری دور کے کلام میں بھی موجود ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ میں غالب کو ان مضطرب روحوں کے ساتھ دکھایا ہے جو مقام کی پابند نہیں ہو سکتیں اور جن کے سوز دوام نے انہیں گردش جاودان کا خوگر بنا دیا ہے۔ غالب اور اقبال میں بعض اقدار و حقائق مشترک ہیں۔ دونوں نے اردو اور فارسی میں سخن سرائی کی اور ان زبانوں کے شعری ادب میں ہمیشہ کے لیے اپنی عظمت کا نقش چھوڑ گئے۔ دونوں انتہا درجے کے جدت پسند تھے۔ مرزا غالب کہنگی کے دشمن ہیں اور تازہ کاری کے لیے بیتاب: رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم اقبال نے اس دنیا کو محض حیرت خانہ امروز و فردا سمجھتے ہوئے کسی نئے جہان کی آرزو کی: طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم این چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی دونوں کے لہجے میں بہت شکوہ، اعتماد، اثبات اور قوت ہے۔ دونوں جستجو، تخلیق اور تحقیق کے شیدا ہیں اور دونوں حقائق کا تجزیہ کرتے وقت روایت سے قطعاً مرعوب نہیں ہوتے۔ مرزا فرماتے ہیں: بامن میاویز اے پدر فرزند آزر را نگر ہر کس کہ شد صاحب نظر دین بزرگان خوش نگرد علامہ کا ارشاد ہے: چہ خوش بودے اگر مرد نکوپے ز بند پاستان آزاد رفتے اگر تقلید بودے شیوۂ خوب پیمبرؐ ہم رہ اجداد رفتے غالب اور اقبال دونوں عظمت انسانی کے پرستار ہیں۔ یہ اقبال کی فکر کے بنیادی موضوعات میں سے ہے۔ ان کے نزدیک ذاتی انسانی کے لامحدود امکانات کا یہ عالم ہے کہ جبریل بھی اس کے دشت جنوں میں صید زبوں ہے۔ غالب کے کلام میں بھی انسان کی عظمت کا احساس جگہ جگہ ملتا ہے۔ وہ بھی اسے کائنات کا شاہکار سمجھتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں: پیش ازین باد بہار این ہمہ سرمست نبود شبنم ماست کہ تر کردہ دماغ دم صبح غالب نے فطرت انسانی کے گوناگوں جذبات و احساسات کی عکاسی کی ہے اور ان کے کلام میں امید و بیم اور مسرت و غم وغیرہ سبھی کیفیات کی آئینہ داری ہوتی ہے۔ کبھی ان کا دل گردش مدام سے گھبرا بھی جاتا ہے اور کبھی وہ اپنے آپ کو اپنی شکست کی آواز بھی سمجھنے لگتے ہیں، مگر ان کے اندر بلند نظری اور علوے ہمت کی صفات بھی ملتی ہیں اور انہیں آزار و بیداد کا مقابلہ کرنے کا ادعا ضرور ہے: تو اے ستارہ ندانی کہ رنجم از آزار تو اے سپہر نسنجی کہ ترسم از بیداد ترا غمیست بسرمایہ گرانی کوہ مرا دمیست بہ نیروے تیشہ فرہاد من و بلائے تو نطح ادیم و تاب سہیل من و جفاے تو شاگرد و سیلی استاد من و ستم، دل رنجور و التفات طبیب من و خطر، رگ مجنون و نشتر فصاد یہ جوش بیان اور توانا لب و لہجہ اور جارحانہ انداز مبارزت ذہنی طور پر غالب کو اقبال سے بہت قریب لے آتا ہے۔ اقبال کے ہاں تو حیات جاودان کا راز ہی شنیزہ کاری میں ہے: بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاودان اندر ستیز است وہ ہر مخالفت و عداوت کو شخصیت کے نکھارنے کا ایک زریں موقع تصور کرتے ہیں۔ غالب کا مندرجہ بالا انداز مبارزت و پیکار اور جگہ بھی ملتا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں وہ اپنے آپ کو خوئے دہر کا راز دان سمجھتے ہوئے اپنی مشہورانہ روش پر استقامت سے ڈٹے ہوئے ہیں: زخمہ ہر تار رگ جان میزنم کس چہ داند تا چہ دستان میزنم راز دان خوئے دہرم کردہ اند خندہ بر دانا و نادان میزنم می ستیزم با قضا از دیر باز خویش را بر تیع عریان میزنم لعب با شمشیر و خنجر میکنم بوسہ بر ساطور و پیکان میزنم مندرجہ ذیل شعر میں عزم و ہمت اور جدوجہد کا احساس پوری توانائی اور شدت کے ساتھ موجود ہے: بوادیے کہ درآن خضر را عصا خفتست بہ سینہ می سپہرم راہ گرچہ پا خفتست اسی طرح پیش قدمی، عزم و توانائی اور بلند ہمتی کا اظہار اس مشہور غزل میں بھی ہوتا ہے جس کا مطلع مندرجہ ذیل ہے: بیا کہ قاعدۂ آسمان بگردانیم قضا بہ گردش رطل گران بگردانیم ذرے میں خورشید سے ملنے کی تڑپ کا اظہار کرتے ہوئے غالب نے کوشش پیہم ہی کو منزل جانان تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے: گفتمش ذرہ بہ خورشید رسد؟ گفت محال گفتمش کوشش من در طلبش؟ گفت رواست غالب کے کلام کا یہ عنصر رنج و الم اور مایوسی و نو میدی کی بجائے تگ و تاز، عزم و ہمت اور امید و رجا کا مظہر ہے اور غالب اور اقبال کے درمیان بعض اہم مشترک قدروں کا باعث بنتا ہے۔ غالب کے ہاں جوش زندگی ’’ وفور شوق، شدت آرزو اور تب و تاب کی کیفیت اقبال کو متاثر کرتی ہے۔ مرزا غالب عقل و دانش کے گرویدہ ہونے کے باوجود ایک طرح کے انداز جنوں کے بھی دلدادہ ہیں اور کسی وقت تو وہ یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ گرہ کار دانش سے نہیں کھلتی بلکہ اس کے لیے جنون درکار ہے:‘‘ دل از تاب بلا بگداز و خون کن ز دانش کار نکشاید جنون کن جس طرح اقبال کی نظر میں ایک دلآویز شعر کی تخلیق کے لیے سینکڑوں نالے، سینکڑوں بلاخیز صبحیں اور سینکڑوں آہیں لازم ہیں اسی طرح غالب حسن فروغ شمع سخن کے لیے دل گداختہ کا وجود ضروری سمجھتے ہیں۔ اقبال کا کہنا ہے: صد نالہ شبکگیرے، صد صبح بلا خیزے صد آہ شرر ریزے، بک شعر دلآویزے مرزا غالب کہتے ہیں: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی اس سوز و گداز نے غالب کے روئیں روئیں میں آگ لگا رکھی ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو اقبال کی نظر میں نہ صرف فن بلکہ شخصیت کی تعمیر کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ غالب کے دل گداختہ نے تب و تاب کے جو شعلے بلند کیے ہیں ان کا اظہار یوں ہوتا ہے: بینی ام از گداز دل در جگر آتشے چو سیل غالب اگر دم سخن رہ بہ ضمیر من بری فلک مشتری پر بھی جب اقبال کی ملاقات غالب، منصور حلاج اور قرۃ العین طاہرہ سے ہوتی ہے تو باقی دونوں کے ساتھ ساتھ مرزا غالب کی شعلہ نوائی اور شور و مستی کا ذکر یوں آیا ہے:ـ غالب و حلاج و خاتون عجم شورہا افگندہ در جان حرم این نواہا روح را بخشد ثبات گرمی او از درون کائنات غالب کے شعور و آگہی، ژرف نگاہی، نفسیاتی بصیرت اور بیباکی و صداقت نے بلا شبہ اقبال کو بہت متاثر کیا، مگر وہ غالب کے افکار و معانی کے مداح ہونے کے باوجود مرزا کے اسلوب شعر سے متاثر نہیں ہوئے۔ غالب نے سبک بندی کو اپنایا اور عرفی، نظیری، ظہوری، بیدل اور شیخ علی حزیں کا اثر قبول کیا۔ اقبال سبک ہندی سے قطعاً مرعوب نہیں ہیں۔ بہرحال انہوں نے اس اسلوب کے بعض دوسرے ممتاز نمائندوں کے علاوہ غالب کی غزلیات کے جواب میں بھی غزلیں کہی ہیں۔ مثالیں حسب ذیل ہیں: غالب: اخترے خوشتر ازینم یہ جہان میبایست خرد پیر مرا بخت جوان میبایست اقبال: باز این عالم دیرینہ جوان میبایست برگ کاہش صفت کوہ گران میبایست غالب: نقاب دار کہ آئین رہزنی دارد جمال یوسفی و فربہمنی دارد اقبال: فریب کشمکش عقل دیدنی دارد کہ میر قافلہ و ذوق رہزنی دارد غالب: بسکہ لبریز است ز اندوہ تو سر تاپاے من نالہ میروید چوخار ماہی از اعضائے من اقبال: شعلہ در آغوش دارد عشق بے پرواے من بر نخیز دیک شرار از حکمت ناز اے من غالب: سوخت جگر تاکجا رنج چکیدن دہیم رنگ شو اے خون گرم تا بہ پریدن دہیم اقبال: مثل شرر ذرہ را تن بہ تپیدن دہم تن بہ تپیدن دہم بال پریدن دہم یوں محسوس ہوتا ہے غالب نے فارسی زبان کے مزاج کی روشنی میں ’’ دہیم‘‘ کہہ کر انکسار سے کام لیا مگر اقبال نے اپنے مخصوص منفرد انداز میں واحد متکلم کے صیغے کو عمومیت پر ترجیح دی۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کی تمہید میں علامہ نے مرزا غالب کے ایک مصرع کو بہ تغییر الفاظ استعمال کیا ہے۔ مرزا کا مصرع ہے: زخمہ بر تار رگ جان میزنم علامہ نے اس کو مندرجہ ذیل شکل دی ہے: محفل رامشگری برہم زدم ’’ز خمہ برتار رگ عالم زدم‘‘ ٭٭٭ بابا طاہر عریان ’’ پیام مشرق‘‘ کی رباعیات کے سلسلے میں یہ ذکر آ چکا ہے کہ اقبال نے پانچویں/گیارہویں صدی کے مجذوب صوفی شاعر بابا طاہر عریان ہمدانی کا بہت گہرا اثر قبول کیا ہے۔ بابا طاہر کی رباعی میں بلا کا سوز ہے۔ ہر شعر سے سوز و درد مندی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ وفور شوق اور شدت احساس کا اظہار ان رباعیات میں جس طرح سے ہوا ہے رومی کے سوا فارسی شاعری میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان رباعیوں میں بے نیازی، قلندی اور شور و مستی کی ایک عجیب کیفیت ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے اقبال کو بابا طاہر کی رباعیات کا گرویدہ بنا دیا ہے۔ بابا طاہر کی رباعیات رباعی کے معیار وزن پر پوری نہیں اترتیں۔ ان کی رباعیات کی زبان بھی فصیح فارسی نہیں بلکہ لری بولی ہے جو ہمدان کے گرد و نواح میں بولی جاتی ہے اور جس پر پہلوی کے گہرے اثرات ہیں۔ بابا طاہر فارسی کے واحد شاعر ہیں جن کی مقاملی بولی میں کہی ہوئی رباعیات کو معیاری کلاسیکی ادب میں جگہ دی گئی ہے، ورنہ صدیوں کے طولانی عرصے میں بہت سے ایسے شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے مقامی بولیوں میں شعر کہے مگر جنہیں فارسی ادب میں جگہ نہ مل سکی۔ آج ان میں سے صرف چند شاعروں کے نام باقی ہیں جو تاریخ کتب کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ تاریخ طبرستان میں مرزبان بن رستم، علی پیروزہ اور مستہ مرد کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ماز ندرانی اور گیلکی زبانوں میں شعر کہے۔ تاریخ بیہق، راحت الصدور اور تاریخ گزیدہ میں بندار رازی، محمد بن سعید اور امیر پزواری کی مقامی شاعری کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ مگر ان میں سے کسی شاعر کو کلاسیکی ادب میں جگہ نہیں مل سکی۔ ان کے برعکس بابا طاہر کی رباعیات کو ہمیشہ فارسی ادب کا گراں بہا خزینہ سمجھا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس مجذوب شاعر کی رباعی کے وزن اور انداز کو فصیح اور شیرین فارسی میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ البتہ دونوں کی رباعیات میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ جہاں بابا طاہر کا کلام سراپا جذبہ ہے، اقبال کے کلام میں جذبے کے ساتھ فکر عمیق کی ہم آہنگی بھی ہے۔ بابا طاہر کے ہاں خود سپردگی، جذب و مستی اور سوز و آشفتگی کی ایک مستقل کیفیت ہے۔ شاعر کی زندگی سراپا عشق ہے اور وہ اس کے اندر پوری طرح جذب ہو کے رہ گیا ہے۔ اگرچہ عشق اقبال کے فلسفہ حیات میں کودی کی طرح مرکزی حیثیت رکھتا ہے، مگر اقبال نے اس کی قوت و عظمت اور وسعت کا ذکر عاشق کے علاوہ ایک مفکر کے نقطہ نظر سے کیا ہے۔ دل کے موضوع پر بابا طاہر عریان کی دو رباعیاں اور ان کی تقلید میں اقبال کی رباعی ملاحظہ ہو: بابا طاہر: مگر شیر و پلنگی اے دل اے دل بمو دایم بجنگی اے دل اے دل اگر دستم رسی خونت بریجم بوینم تاچہ رنگی اے دل اے دل ٭٭٭ بشم واشم کہ تا یاری کرہ دل یہ بختم گریہ و زاری کرہ دل بگردی و نجوئی یارے چون مو کہ از جان و دلت یاری کرہ دل اقبال: بہ کویش رہ سپاری اے دل اے دل مرا تنہا گزاری اے دل اے دل دما دم آرزوہا آفرینی مگر کارے نداری اے دل اے دل ٭٭٭ سعدی سعدی (1292/691) فارسی ادب اور ایرانی تہذیب و ثقافت کی عظمت کے جاوداں مظہر ہیں اگر ایک طرف انہیں فارسی غزل کا پیغمبر کہا گیا ہے تو دوسری طرف ان کی ’’ گلستان‘‘ فارسی نثر اور اخلاقی ادب کا شاہکار ہے۔ علامہ نے جہاں مختلف افکار و اسالیب کے نمائندہ شاعروں سے اپنے فکر و فن کا رشتہ استوار کیا ہے وہاں وہ سعدی کو فراموش نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے سعدی کے مخصوص حکایاتی انداز میں دو ایک نظمیں کہی ہیں اور سعدی کی طرح فرضی مکالموں سے بیش قیمت نتائج اخذ کیے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان نظموں میں سعدی کے اشعار کی تضمین بھی کی ہے۔ یہ دونوں نظمیں ’’ پیام مشرق‘‘ میں ہیں۔ ایک کا عنوان ’’ قطرہ آب‘‘ اور دوسری کا ’’ طیارہ‘‘ ہے۔ اول الذکر میں انہوں نے پانی کے ایک قطرے اور سمندر کے درمیان مکالمے کے ذریعے خود شناسی کا درس دیا ہے اور بتایا ہے کہ بظاہر ناچیز قطرہ سمندر کے سینے میں اتر کر در شہوار بن جاتا ہے اور ماہ و انجم اس کی چمک دمک کے سامنے ماند پڑنے لگتے ہیں۔ نظم کے دوران میں ’’بوستان‘‘ کے مندرجہ ذیل اشعار کی تضمین کی گئی ہے: یکے قطرہ باران ز ابرے چکید خجل شد چو پہناے دریا بدید کہ جائیکہ دریا ست من کیستم گر او ہست حقا کہ من نیستم دوسری نظم ’’ طیارہ‘‘ ایک طیارے اور ایک ننھے پرندے کے درمیان دلچسپ گفتگو پر مشتمل ہے۔ یہ نظم سائنس کی بے مثال ترقی کے باوجود اجتماعی اور انفرادی زندگی کے سلجھانے میں تہذیب نو کی ناکامی پر نہایت شگفتہ طنز ہے۔ اس کا اختتام پرندے کی زبان سے سعدی کے ایک مشہور شعر پر ہوتا ہے: تو کار زمیں را نکو ساختی کہ با آسمان نیز پرداختی علامہ نے ایک غزل بھی سعدی کے تتبع میں کہی ہے۔ دونوں غزلوں کے مطلعے حسب ذیل ہیں: سعدی: دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است اقبال: بیا کہ ساقی گلچرہ دست بر چنگ است چمن ز باد بہاران جواب ارژنگ است علامہ نے سعدی کا مندرجہ بالا شعر اس مرثیے میں بھی استعمال کیا ہے جو انہوں نے 1937ء میں سر راس مسعود کی وفات پر لکھا تھا۔ ’’ رموز بیخودی‘‘ کے آغاز میں ’’ پیشکش بہ حضور ملت اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے اقبال نے جو شعر قلمبند کیے ہیں ان میں سعدی سے منسوب ایک مشہور شعر کے دونوں مصرعوں کی تضمین الگ الگ اشعار میں ایسے برجستہ اور بیساختہ انداز میں کی ہے کہ وہ کلام اقبال کا جزو بن کے رہ گئے ہیں۔ شعر حسب ذیل ہے: اے تماشا گاہ عالم روے تو تو کجا بہر تماشا می روی مندرجہ بالا پیشکش میں اس شعر کے مصرعے الگ الگ یوں سموئے گئے ہیں: اے نظر بر حسن ترسا زادۂ اے ز راہ کعبہ دور افتادۂ اے فلک مشت غبار او کوے تو ’’اے تماشا گاہ عالم روے تو‘‘ ہمچو موج آتش تہ پامیروی ’’تو کجا بہر تماشا می روی‘‘ مندرجہ ذیل رباعی میں اپنی قوم کی بد نصیبی کا ذکر کرتے ہوئے سعدی کے ایک مصرع کی تضمین یوں کرتے ہیں: بہ آن قوم از تو می خواہم کشادے فقیہش بے یقینے کم سوادے بسے نادیدنی را دیدہ ام من ’’مرا اے کاشکے مادر نہ زادے‘‘ سعدی کے ایک مشہور جملے سے علامہ نے ایک نیا، زور دار مضمون پیدا کیا ہے۔ سعدی کا جملہ مندرجہ ذیل ہے: دو پادشاہ در اقلیمے نہ گنجند اقبال نے اس جملے کی مدد سے مرد فقیر کے بارے میں حسب ذیل فکر کا اظہار کیا ہے: چہ عجب اگر دو سلطان بہ ولایتے نگنجند عجب اینکہ می نہ گنجد بدو عالمے فقیرے ٭٭٭ عراقی اقبال نے ایران کے جن شہرۂ آفاق شاعروں کے کلام سے گلچینی کی ہے ان میں ساتویں /تیرہویں صدی کا ممتاز صوفی شاعر عراقی بھی شامل ہے۔ ’’ زبور عجم‘‘ پر تبصرے کے دوران میں اس بات کی طرف اشارہ ہو چکا ہے کہ علامہ نے عراقی کی ایک مشہور غزل کے جواب میں غزل کہی ہے۔ دونوں غزلوں کے کچھ اشعار حسب ذیل ہیں: عراقی: نخستین بادہ کاندر جام کردند ز چشم مست ساقی وام کردند بعالم ہر کجا درد و غمے بود بہم کردند و عشقش نام کردند چو خود کردند راز خویشتن فاش عراقی را چرا بدنام کردند اقبال: فنا را بادۂ ہر جام کردند چہ بیدردانہ او را عام کردند تماشا گاہ مرگ ناگہان را جہان ماہ و انجم نام کردند قرار از ما چہ میجوئی کہ ما را اسیر گردش ایام کردند خودی در سینہ چاکے نگہدار ازین کوکب چراغ شام کردند عراقی کی اسی غزل کے دل انگیز مطلع کی تضمین ایک رباعی میں یوں کی گئی ہے: گناہ عشق و مستی عام کردند دلیل پختگان را خام کردند بہ آہنگ حجازی می سرایم ’’نخستین بادہ کاندر جام کردند‘‘ ٭٭٭ جامی جس طرح اقبال نے ’’ شور و سوز‘‘ کے معاملے میں رومی اور خسرو کو یکجا کیا ہے اسی طرح انہوں نے فلسفہ و منطق کے مقابلے میں جامی کو رومی کے ساتھ ساتھ عشق و وجدان کا مظہر بنایا ہے اور ان بزرگوں کے افکار کو اپنے لیے مشعل راہ قرار دیا ہے۔ ایک رباعی میں اس ارادت مندی کا اظہار یوں ہوتا ہے: مرا از منطق آید بوئے خامی دلیل او دلیل نا تمامی برویم بستہ در با راکشاید دو بیت از پیر رومی یا زجامی جامی نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت پر سوز شعر کہے ہیں۔ یہ مضمون جامی اور اقبال دونوں میں مشترک ہے اور جامی کی اس خصوصیت کی بنا پر اقبال نے اپنے آپ کو کشتہ انداز جامی کہا ہے۔ فرماتے ہیں: کشتہ انداز ملا جامیم نظم و نثر او علاج خامیم شعر لبریز معانی گفتہ است در ثنائے خواجہؐ گوہر سفتہ است ’’نسخہ کونین را دیباچہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست‘‘ ایک جگہ قلب جامی کے سوز و ساز کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: گہی شعر عراقی را بخوانم گہی جامی زند آتش بجانم اقبال کی دو ایک غزلیں جامی کی زمین میں بھی کہی گئی ہیں۔ ان غزلوں کے مطلعے حسب ذیل ہیں: جامی: ریزم ز مژہ کوکب بے ماہ رخش شبہا تاریک شبے دارم با این ہمہ کوکب ہا اقبال: من ہیچ نمیترسم از حادثہ شبہا شبہا کہ سحر گردد از گردش کوکب ہا جامی: من و فکر توچہ بینم بہ جمال دگران ہم خیال تو مرا بہ کہ وصال دگران اقبال: مثل آئینہ مشو محو جمال دگران از دل و دیدہ فروشوی خیال دگران جامی اور اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار میں جلوہ رخ محبوب کی تمنا کے لیے خورشید کی تشبیہہ مشترک ہے: جامی: ماہ من چہرہ بر افروز کہ خورشید فلک از تماشاے رخت بر لب بام است اینجا اقبال: پردہ از چہرہ بر افگن کہ چو خورشید سحر بہر دیدار تو لبریز نگہ آمدہ ایم جامی نے اپنے شعر میں حسن تعلیل سے کام لیا ہے تو اقبال نے لبریز نگہ کی اچھوتی اور حسین ترکیب سے شعر میں دلکشی پیدا کی ہے۔ ٭٭٭ فغانی اقبال نے بعض غزلیں بابا فغانی شیرازی (1519/925) کے جواب میں بھی کہی ہیں۔ فغانی سبک ہندی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے کلام میں سوز اور درد مندی کا عنصر بہت نمایاں ہے اور یہی وہ صفت ہے جس نے اقبال کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہم طرح غزلوں کے نمونے ملاحظہ ہوں: فغانی: ہر دم ار بزم طرب آن دلنواز آید برون چون مرا بیند رود از ناز و باز آید برون اقبال: خضر وقت از خلوت دشت حجاز آید برون کاروان زین وادی دور و دراز آید برون فغانی: نہ خوئے ناز کت از غیر دیگر گون شود روزے نہ این رشک از دل پر خون من بیرون شود روزے اقبال: فروغ خاکیان از نوریان افزون شود روزے زمیں از کوکب تقدیر ما گردوں شود روزے ٭٭٭ وحشی اقبال کے کلام میں وحشی بافقی (1583/991) کی دو غزلوں کے جواب میں بھی غزلیں ملتی ہیں۔ ان غزلیات کے مطلعے حسب ذیل ہیں: وحشی: بیز و بناز جلوہ دہ قامت دلنواز را چون قد خود بلند کن پایہ قدر ناز را اقبال: خیز و نقاب بر کشا پردگیان ساز را نغمہ تازہ یاد دہ مرغ نوا طراز را وحشی: دگر آن شب است امشب کہ ز پے سحر ندارد من و باز آن دعا ہا کہ یکے اثر ندارد اقبال: بہ فغان نہ لب کشودم کہ فغان اثر ندارد غم دل نگفتہ بہتر ہمہ کس جگر ندارد ’’ پیام مشرق‘‘کی ایک نظم ’’ قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور‘‘کا خیال وحشی بافقی کی ایک نظم ’’ماندہ بابا یا بردار و قسمت نا برابر‘‘سے ماخوذ ہے۔ وحشی کی نظم میں ایک بھائی کی حریصانہ ذہنیت کا خاکہ مزاحیہ انداز میں کھینچا گیا ہے اور اقبال نے سرمایہ دار کی مخصوص ذہنیت کا نقشہ وحشی کے انداز میں ظریفانہ رنگ میں کھینچا ہے۔ دونوں نظموں کا آغاز مندرجہ ذیل اشعار سے ہوتا ہے: وحشی: زیبا تر آنچہ ماندہ ز بابا ازان تو بد اے برادر از من و اعلی ازان تو اقبال: غوغائے کارخانہ آہنگری ز من گلبانگ ارغنوان کلیسا ازان تو ٭٭٭ تضمینات اقبال کی فارسی اور اردو شاعری میں فارسی اشعار کی تضمین کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ ایک بہت بڑے شاعر اور مفکر ہونے کے باوجود علامہ کو دوسرے شعرا سے خوشہ چینی سے عار نہیں۔ انہیں جہاں کسی شعر میں کوئی گرانقدر خیال ملتا ہے اس کو فوراً اپنے کلام سے ہم آہنگ کر لیتے ہیں۔ یہ روش ان کے کلام میں ’’ اسرار خودی‘‘اور’’ بانگ درا‘‘کے زمانے سے لے کر’’ ارمغان حجاز‘‘تک برقرار رہی ہے اور شاعر کی وسعت طبع اور مفکرانہ اور فنکارانہ عظمت کی دلیل ہے۔ وہ تضمین سے دوسرے شعرا کے فکر انگیز اشعار میں مزید معنویت پیدا کر دیتے ہیں اور اشعار کی صحت کے بارے میں اتنے محتاط ہیں کہ ایک آدھ جگہ جہاں کسی شعر کے خالق کے بارے میں انہیں اطمینان نہیں ہوا فوراً اس حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ مثلاً’’ بال جبریل‘‘میں ایک نظم’’ تاتاری کا خواب‘‘میں مندرجہ ذیل شعر کی تضمین کی ہے: بگردا گرد خود چندانکہ بینم بلا انگشتری و من نیگنم اور حاشیے میں یہ عبارت مندرج ہے: ’’ یہ شعر معلوم نہیں کس کا ہے۔ نصیر الدین طوسی نے غالباً شرح اشارات میں اسے نقل کیا ہے۔‘‘ اسی طرح مندرجہ ذیل مصرع کی تضمین کرتے ہوئے حاشیے میں لکھا ہے ’’ یہ مصرع غالباً لطف اللہ آذر کا ہے۔‘‘: شگوفہ چون فرو ریزد برے ہست اقبال کی اردو شاعری میں فارسی اشعار کی طرف تضمین کا زیادہ میلان ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فارسی سے نا آشنا طبقے کو فارسی شاعری کے گرانمایہ افکار کی طرف بیشتر توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ ان کے فارسی اور اردو کلام میں جن شعرا کے اشعار کی تضمین کی گئی ہے ان کا سلسلہ فردوسی سے لے کر قآنی (1853/1270) تک پھیلا ہوا ہے۔ ان میں فردوسی کے علاوہ رومی، سعدی، امیر خسرو اور حافظ ایسے چوٹی کے شعرا بھی ہیں اور ایسے شاعر بھی جو نسبتاً کم معروف ہیں۔ ان میں ملا عرشی (1581/989) اور انیسی شاملو (1604/1013) وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اقبال کے ہاں معروف و غیر معروف کی تمیز نہیں۔ جو شعر ان کے افکار و جذبات کو شدت سے متاثر کرتا ہے وہ اس کی تضمین کر دیتے ہیں۔ ان شعرا میں کسی ملک کی قید بھی نہیں اور ان میں ایرانی اور غیر ایرانی دونوں قسم کے شاعر شامل ہیں۔ اب ان اشعار کی تفصیل ملاحظہ ہو: فردوسی کے شعر کی تضمین سے پہلے اس کو خراج تحسین بھی ادا کیا ہے: یہ کہتا ہے فردوسی دیدہ ور عجم جس کے سرمے سے روشن بصر ’’ز بہر درم تند و بدخو مباش تو باید کہ باشی درم گو مباش‘‘ منوچہری (1041/432) فارسی کا پہلا شاعر ہے جس نے عربی شاعری کا اثر شدت سے قبول کیا ہے۔ اس کے تخیل، پیکر، تراشی، تشبیہوں استعاروں اور زبان و بیان پر عرب شاعری کی روایات کا گہرا اثر ہے اور صحرائے عرب کی فضا پوری طرح اس کے کلام میں رچ بس گئی ہے۔ اسی رعایت سے اقبال نے ’’ ارمغان حجاز‘‘میں جہاں یثرب کا تخیلی سفر شروع کیا ہے وہاں منوچہری کے ایک معروف قصیدے کے مطلع کو اپنی رباعی کا پہلا شعر قرار دیا ہے۔ یہ رباعی مندرجہ ذیل ہے: ’’الا یا خیمگی خیمہ فرو ہل کہ پیش آہنگ بیرون شد ز منزل‘‘ خرد از راندان محمل فرو ماند زمام خویش دادم در کف دل انوری (1187/583) کا مندرجہ ذیل مصرع ایک اردو نظم میں تضمین ہوا ہے: اینکہ می بینم بہ بیداری است یا رب یا بخواب انوری ہی کے قطعے کا ترجمہ علامہ نے اردو میں کیا ہے۔ انوری کو قصیدے کے علاوہ قطع پر یدطولی حاصل تھا اور اس نے اپنے قطعات میں اجتماعی اور اخلاقی قدروں کی عکاسی نہایت سادہ اور دلنشیں انداز میں کی ہے۔ بعض جگہ ان میں طنز و ظرافت کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس قطعے میں زبردست اجتماعی شعور اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف نفرت کا جذبہ جھلکتا ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس نے اقبال کو اس کے ترجمہ پر اکسایا ہے۔ اس قطعے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: آن شنید ستی کہ روزے زیر کہ بہ ابلہے گفت کاین والی شہر ما گدائے بے حیاست گفت چوں باشد گدا آن کز کلابش تکمہ اے صد چو ما را روز ہا بل سالہا برگ و نواست گفتش اے مسکین غلط اینک از ینجا کردہ ای آنہمہ برگ و نوا دانی کہ آنجا از کجا ست در و مروارید طوقش اشک طفلان منست لعل و یا قوت ستامش خون ایتام شماست اس قطعے کے سات اشعار ہیں علامہ نے ان کا مطلب پانچ شعروں میں بیان کیا ہے اور لفظی ترجمہ کی بجائے اس کی روح کو اپنے کلام میں منتقل کیا ہے۔ ’’ پیام مشرق‘‘کی ایک نظم’’ نوائے مزدور‘‘میں بھی انوری کی زبان و اسلوب کی جھلک نظر آتی ہے۔ بالخصوص مندرجہ بالا آخری شعر اور’’ نوائے مزدور‘‘کے مندرجہ ذیل شعر میں استحصال کے خلاف احتجاج میں احساس اور رد عمل کی یکسانی ملاحظہ ہو: ز خوے فشانی من لعل خاتم والی ز اشک کودک من گوہر ستام امیر خاقانی (1199/595) کے مندرجہ ذیل اشعار کی تضمین کی گئی ہے: دل در سخن محمدیؐ بند اے پور علیؓ ز بو علی چند چون دیدۂ راہ بین نداری قاید قرشی بہ از بخاری ’’ ضرب کلیم‘‘میں علامہ نے ایک پوری نظم خاقانی پر لکھی ہے جس میں اسے’’ ارباب نظر کا قرۃ العین‘‘اور’’ محرم عالم مکافات‘‘کے القابات سے یاد کیا ہے۔ نظم کا اختتام اس کے مندرجہ ذیل شعر پر ہوتا ہے: خود بوے چنین جہان توان برد کابلیس بماند و بو البشر مرد حکیم نظامی گنجوی نے اپنے بیٹے کو کچھ نصیحتیں کی ہیں۔ علامہ نے ’’ ضرب کلیم‘‘میں ’’ جاوید سے ‘‘ کے عنوان سے دو نظمیں کہی ہیں اور دونوں میں نظامی کے اشعار کی تضمین کی ہے: غافل منشین نہ وقت بازیست وقت ہنر است و کارسازیست ٭٭٭ جاے کہ بزرگ بایدت بود فرزندی من نداردت سود ٭٭٭ اب دوسرے شعرا کے اشعار ملاحظہ ہو: بو علی قلندر (1924/724): اے شناساے مقام بو علی جرعہ آرم ز جام بو علی ’’پشت پازن تخت کیکاؤس را سر بدہ از کف مدہ ناموس را‘‘ ملا عرشی: تخم دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو کانچہ کشتیم ز خجلت نتوان کرد درو فیضی (1595/1004): تو اے پروانہ! این گرمی ز شمع محفلے داری چومن در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری اینسی شاملو: وفا آموختی از ما بکار دیگران کردی ربودی گوہرے از ما نثار دیگراں کردی طالب آملی (1626/1036) مندرجہ ذیل شعر کا دوسرا مصرع: ز غارت چمنت بر بہار منت ہلست کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند ابو طالب کلیم (1651/1061): سرکشی بابر کہ کردم رام او باید شدن شعلہ سان از ہر کجا برخاستی آنجا نشین غنی کاشمیری: جمع کردم مشت خاشا کے کہ سوزم خویش را گل گمان دارد کہ بندم آشیان در گلستان ٭٭٭ غنی روز سیاہ پیر کنعان را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را صائب (1669/1080): یہاں بہتر کہ لیلی در بیابان جلوہ گر باشد ندارد گنگناے شہر تاب حسن صحرائی بیدل(1720/1133)ـ: دل اگر میداشت وسعت بے نشان بود این چمن رنگ مے بیرون نشست از بسکہ مینا تنگ بود قآنی: پیش خورشید برمکش دیوار خواہی ار صحن خانہ نورانی ’’ ارمغان حجاز‘‘کی نظم’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘میں قآنی کے مندرجہ ذیل مصرع کی تضمین کی گئی ہے: گاہ بالد چون صنوبر گاء نالد چون رباب اقبال نے مندرجہ بالا شعر اکے علاوہ رومی، حافظ، سعدی، امیر خسرو، عراقی، جامی، عرفی، نظیری اور غالب کے جن اشعار کی تضمین کی ہے۔ ان کا ذکر ان شعرا سے بحث کے دوران میں آ چکا ہے۔ دوسرے شعرا کی تضمین سے قطع نظر بعض اوقات اقبال نے اپنے اردو کلام میں اپنے ہی فارسی اشعار کی تضمین کی ہے یا اردو اشعار کو فارسی کے ساتھ سمویا ہے۔ یہ رنگ ان کے کلام میں شروع سے موجود ہے اور آخر تک برقرار رہا ہے۔ ’’ طلوع اسلام ‘‘ علامہ کی بہترین اردو نظموں میں سے ہے۔ اس کا اختتام فارسی کے ایک بند پر ہوا ہے جو زور بیان اور حسن ادا کی نہایت دلکش مثال ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ تخلیقی تجربے کے دوران میں بعض اوقات فارسی کے اشعار اضطراری طور پر اس طرح امڈ آتے ہیں کہ شاعر فارسی کا دامن تھامنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر اس دو آتشے میں بڑا لطف اور دلاویزی ہے۔ تسلسل فکر و جذبہ میں کوئی وقفہ پڑنے کے بجائے وحدت کا احساس پختہ تر ہو جاتا ہے اور دونوں زبانوں کی ہم آہنگی سے ایک منفرد اسلوب وجود میں آ جاتا ہے جس کی متنوع کیفیت میں بڑی رعنائی ہے۔ ابتدائی اور آخری ادوار کی شاعری کے دو نمونے حسب ذیل ہیں۔ پہا’’ بانگ درا‘‘کی نظم ’’ طلوع اسلام‘‘کے آخری بند کے کچھ اشعار مشتمل ہے اور دوسرا ’’ارمغان حجاز‘‘کی ایک نظم کے دو آخری اشعار سے عبارت ہے: طلوع اسلام:ـ بیا ساقی نوائے مرغ زار از شاخسار آمد بہار آمد نگار آمد نگار آمد بہار آمد کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا صدائے آبشاران از فراز کوہسار آمد سرت گردم تو ہم قانون پیشین ساز دہ ساقی کہ خیل نغمہ پردازان قطار اندر قطار آمد بہ مشتاقان حدیث خواجہؐ بدر و حنین آور تصرف ہاے پنہانش بہ چشمم آشکار آمد سر خاک شہیدے برگہاے لالہ میپاشم کہ خونش بانہال ملت ما سازگار آمد ٭٭٭ نہیں زندگی سلسلہ روز و شب کا نہیں زندگی مستی و نیم خوابی حیات است در آتش خود تپیدن خوش آن دم کہ این نکتہ را بازیابی اگر ز آتش دل شرارے بگیری تو ان کرد زیر فلک آفتابی بعض جگہ اقبال کے ہاں فارسی شعرا کے کلام میں تھورا بہت تصرف بھی نظر آتا ہے۔ ان کے مضامین سے نئے مضمون پیدا کئے گئے ہیں یا شاعر نے ان کے اشعار کا کوئی ٹکڑا اپنے کلام میں داخل کیا ہے۔ ’’ پس چہ باید کرد‘‘میں اقبال نے عطار کی حمد کے ایک شعر میں لفظی تبدیلی کر کے اسے نعت کا شعر بنا دیا ہے: حمد بے حد مر رسول پاکؐ را آنکہ ایمان داد مشت خاک را فرخی (1038/429) نے محمود غزنوی (1030/421-998/388) کا جو مرثیہ لکھا ہے اس کا آغاز اس مصرع سے ہوتا ہے: شہر غزنین نہ ہمانست کہ من دیدم پار علامہ نے افغانستان کے قیام کے دوران میں جب غزنی کا سفر کیا اور چشم تخیل سے اس کے ماضی کا بھی مشاہدہ کیا تو فرخی کے اس مصرع کی رعایت سے اپنے تاثرات کا آغاز مندرجہ ذیل شعر سے کیا: خیزد از دل نالہ ہا بے اختیار آہ آن شہرے کہ اینجا بود پار شیخ علی حزیں (1794/1208) کا ایک شعر ہے: اے وائے بر اسیرے کز یاد رفتہ باشد در دام ماندہ باشد صیاد رفتہ باشد علامہ نے ’’ جاوید نامہ‘‘کے آغاز میں اسی شعر کے مضمون سے متاثر ہو کر کہا ہے: ابن جہاں صید است و صیادیم ما؟ یا اسیر رفتہ از یادیم ما خانخانان (1627/1036) کا ایک شعر ہے: بہ کیش صدق و صفا حرف عہد بیکارست نگاہ اہل محبت تمام سوگند است اقبال نے دوسرے مصرع کے مضمون میں یوں وسعت پیدا کی ہے: یک نگہ، یک خندۂ دز دیدہ، یک تابندہ اشک بہر پیمان محبت نیست سوگندے دگر صائب نے کابل کی مدح میں کہا ہے: خوشا وقتے کہ چشمم از سوادش سرمہ چین گردد اقبال نے کابل کا ذکر کرتے ہوئے صائب کے اس مصرع کا حوالہ یوں دیا ہے: چشم صائب ’’از سوادش سرمہ چین‘‘ صائب نے سوختگان عشق کی صحرا نوردی کا ذکر ایک نہایت زور دار اور پر اثر شعر میں یوں کیا ہے: کہ گذشت است ازین بادیہ دیگر کامروز نبض رہ می تپد و سینہ صحرا گرم است یہی تخیل علامہ کے ہاں مرد حر کے پر سوز عاشقانہ کردار میں منعکس ہوتا ہے: پائے خود را آنچنان محکم نہد نبض رہ از سوز او بر می جہد ملک قمی (1616/1015) کا ایک مشہور اور نہایت دلآویز شعر ہے: رفتم کہ خار از پاکشم محمل نہان شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد علامہ نے ’’ نغمہ ساز قم‘‘کی طرف اشارہ کر کے اس کے شعر کو اپنے الفاظ میں ڈھالا ہے: خوش نوائے نغمہ ساز قم زد است زخمہ معنی بر ابریشم زد است تاکشد خار از کف پارہ سپر می شود پوشیدہ محمل از نظر نظامی کے ساتھ ایک قطعہ منسوب ہے جس کے بارے میں حکیم نظامی کے جدید دور کے ایرانی متخصص وحید دستگردی کا خیال ہے کہ یہ قطعہ نظامی گنجوی کی بجائے صفوی دور کے ایک شاعر کا ہے جو نظامی تخلص کرتا تھا۔ اس قطعہ کے رنگ میں اقبال نے ’’ خرابات فرنگ‘‘کے عنوان سے پیام مشرق میں ایک نظم کہی ہے۔ دونوں نظموں کے کچھ اشعار حسب ذیل ہیں: نظامی: دوز رفتم بہ خرابات و مرا راہ نبود میزدم نالہ و فریاد کس از من نشنود یا نہ بد ہیچ کس از بادہ فروشان بیدار یا کہ من ہیچ بدم، ہیچ کسم در نکشود پاسے از شب بگذشت بیشترک یا کمتر رندے از غرفہ برون کرد سر و رخ بنمود اقبال: دوش رفتم بہ تماشائے خرابات فرنگ شوخ گفتاری رندے دلم از دست ربود گفت این نیست کلیسا کہ بیابی در وے صحبت دخترک زہرہ وش و ناے و سرود این خرابات فرنگ است و ز تاثیر مے اش آنچہ مذموم شمارند، نماید محمود اقبال نے جاوید نامہ میں ناصر خسرو علوی، قرۃ العین اور مرزا غالب کے کچھ اشعار بھی شامل کیے ہیں۔ یہاں ایک عام غلط فہمی کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ ایران میں ناصر خسرو علوی نام کے تین افراد گزرے ہیں جن میں سے ایک نے چوتھی /دسویں صدی کے اوائل میں طبرستان میں زندگی بسر کی اور ناصر کبیر کے نام سے مشہور ہوا۔ اور باقی دو شاعر تھے جو آپس میں بھائی ہوتے تھے۔ ایک کا نام سید محمد ناصر علوی اور دوسرے کا سید حسن ناصر علوی تھا۔ ان دونوں کا ذکر لباب الالباب میں موجود ہے 2؎ یہ تینوں افراد ایران کے مشہور فلسفی شاعر، اسماعیلی مبلغ اور سیاح حکیم ناصر خسرو (1088/481) سے مختلف ہیں۔ علامہ نے ’’ جاوید نامہ‘‘میں جس ناصر خسرو علوی کا ذکر کیا ہے وہ موخر الذکر یعنی حکیم ناصر خسرو ہی ہے اور جن اشعار کو علامہ نے اس کی غزل کے اشعار قرار دیا ہے وہ دراصل اس کے پند و موعظت پر مبنی ایک قصیدے کے اشعار نمبر14, 23, 28, 31 اور 32ہیں۔ اور یہ قصیدہ تہران میں طبع شدہ ’’ دیوان اشعار حکیم ناصر خسرو‘‘مرتبہ نصر اللہ تقوی میں موجود ہے۔ قرۃ العین طاہرہ کی جو غزل نقل کی گئی ہے وہ شور و مستی اور موسیقی کا نہایت خوبصورت امتزاج ہے۔ اس کے چند شعر ملاحظہ ہوں: گر بہ تو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رو برو شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ مو بمو در پے دیدن رخت ہمچو صبا فتادہ ام خانہ بہ خانہ در بدر کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو میرزا غالب سے علامہ نے ان کے ایک اردو شعر کا مطلب پوچھا ہے اور تغییر لفظی کے ساتھ اسے فارسی کے شعر میں بدل دیا ہے۔ شعر حسب ذیل ہے: قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشان جگر سوختہ چیست؟ ٭٭٭ اظہار فن علامہ نے نزول شعر کے تجربے کو نہایت دلآویز انداز میں غزل کے ایک شعر میں بیان کیا ہے۔ کس طرح دل پر لطیف اور رسیلے نغموں کی پھوار پڑتی ہے۔ کس طرح شاعر کا دل سوز و گداز سے تڑپتا ہے اور کس طرح یہ تڑپ پر اثر موسیقی میں ڈھل کر شعر کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ اس پر اسرار اور پر کیف تخلیقی عمل کو شاعر نے ایک خوبصورت اور لطیفہ تشبیہہ میں بیان کیا ہے: جز نالہ نمیدانم، گویند غزل خوانم این چیست کہ چون شبنم بر سینہ من ریزی البتہ یہ شبنمین پھوار دل درد مند کے بغیر میسر نہیں۔ نہ جانے شاعر کی کتنی راتیں اور کتنی صبحیں اس تخلیقی کرب میں گزرتی ہیں۔ اس کے دل مضطرب سے کتنے نالے اور کتنی شرر بار آہیں پھوٹتی ہیں اور جب جا کر کسی خوبصورت شعر کی تخلیق ہوتی ہے: صد نالہ شبگیرے، صد صبح بلا خیزے صد آہ شرر بارے، یک شعر دلاویزے اقبال پر شعر کے نزول کی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ جب شبنم کی یہ پھوار پڑتی تھی تو سینکڑوں اشعار تک بھی ہو جاتے تھے۔ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: ’’ ان کا مشغلہ سخن ہمیشہ جاری رہتا تھا، وہ اگر چاہتے بھی تو اسے بند نہیں کر سکتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے خود مجھ سے ارشاد فرمایا کہ آمد شعر کی مثال تحریک جنسی کی ہے کہ ہم اسے چاہیں بھی تو نہیں روک سکتے۔‘‘1؎ علامہ کے ہاں کسی جذباتی کیفیت کے تحت شعر کی تخلیق میں جس برجستگی اور بے ساختگی کا اظہار ہوتا تھا اس کے بارے میں ’’ روزگار فقیر‘‘کے مصنف نے دو واقعات بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ میرے ایک سوال کے جواب میں شاعر مشرق نے خود فرمایا تھا کہ اشعار کے لیے مجھے موزوں الفاظ کی جستجو کرنا نہیں پڑتی بلکہ پورے کے پورے اشعار واردات قلبی اور فکر کے سانچے میں ڈھل کر خود بخود سامنے آ جاتے ہیں۔‘‘2؎ دوسرا واقعہ فارمن کرسچن کالج لاہور کے ایک سابق پرنسپل ڈاکٹر لوکس اور علامہ کے درمیان ایک ملاقات سے تعلق رکھتا ہے جو حضرت علامہ نے خود مصنف سے بیان کیا تھا۔ کالج میں کوئی تقریب تھی جس میں علامہ بھی مدعو تھے۔ چائے کے بعد ڈاکٹر لوکس نے علامہ سے سوال کیا کہ آیا پیغمبرؐ اسلام پر قرآن مجید کا مفہوم نازل ہوا تھا اور انہوں نے اسے اپنی زبان عربی میں منتقل کر دیا تھا یا یہ عبارت ہی اسی طرح اتری تھی۔ اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں میں نے کہا یہ عبارت اسی طرح اتری تھی۔ ڈاکٹر لوکس نے حیران ہو کر کہا کہ ’’ اقبال تم جیسا پڑھا لکھا آدمی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ عبارت ہی اسی طرح اتری تھی۔‘‘اس پر علامہ نے فرمایا: ’’ ڈاکٹر لوکس! یقین! میرا تجربہ ہے۔ مجھ پر شعر پورا اترتا ہے تو پیغمبر پر عبارت پوری کیوں نہیں اتری ہو گی۔‘‘3؎ شعر کے اس وجدانی تجربے میں فکر و فن دونوں کو اہمیت حاصل ہے۔ بنیادی طور پر فن مقصد کے تابع رہتا ہے مگر دونوں کے درمیان ہم آہنگی اچھے شعر کی تخلیق کا لازمی جزو ہے۔ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ شعر کا تخلیقی یا ایقاظی اثر محض اس کے مطالب و معانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں شعر کی زبان اور زبان کے الفاظ کی صورت اور طرز ادا کو بھی بڑا دخل ہے۔‘‘4؎ مگر یہ دخل سبھی کچھ نہیں اور بہر صورت احساس و معانی کے مقابلے میں ماند پڑ جاتا ہے۔ ایک اور خط میں اسی موضوع پر یوں روشنی ڈالی ہے: ’’ نقاد کی نظر سے نظم کے حقیقی اسقام البتہ پوشیدہ رہے۔ شعر محاورہ اور بندش کی درستی اور چستی ہی کا نام نہیں۔ میرا ادبی نصب العین نقاد کے نصب العین سے مختلف ہے۔ میرے کلام میں شعریت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ ان کی نظر میں افکار کے مقابلے میں اسلوب بیان کی اہمیت کم ہے اور اسلوب کو شاعر کے حقیقی نظریات کا نام دینا صحیح نہیں۔ ایک خط میں اس موضوع پر یوں لکھتے ہیں: ’’ تیمور کی طرف اشارہ محض اسلوب بیان ہے۔ اسلوب بیان کو شاعر کا حقیقی View تصور کرنا کسی طرح درست نہیں ایسے اسالیب کی مثالیں دنیا کے ہر لٹریچر میں موجود ہیں۔‘‘6؎ اسلوب بیان کی اہمیت کم ہی سہی پھر بھی علامہ نے فکر اور لفظ کو زبردست مہارت کے ساتھ سمونے کی کوشش کی ہے۔ ان کے ہاں فکر، احساس اور فن میں جو دلاویز ہم آہنگی نظر آتی ہے وہ ہمیں حافظ کی یاد دلاتی ہے۔ رومی میں جذبے کی فراوانی اور اشتیاق کا وہ ہجوم ہے کہ اس کی مثال فارسی شاعری میں نہیں ملتی۔ مگر رومی خود ہی اعتراف کرتے ہیں کہ: من ندانم فاعلاتن فاعلاتن فاعلات وہ فن کے تقاضوں کی طرف وہ توجہ نہیں دیتے جو احساس و فن میں ایک موثر امتزاج پیدا کر کے شعر کے درجے کو بلند سے بلند تر کر دینا ہے۔ خواجہ حافظ شیرازی کے کلام کے سحر آگیں حسن کا راز ان کی خود سپردگی اور نشاط روح میں بھی ہے، ان کے جذبے کی وجد آفریں مستی میں بھی اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے جمالیاتی شعور میں بھی۔ حافظ اور اقبال میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں کے کلام میں جہاں جذبے کا خلوص اور صداقت ہے وہاں دونوں نے فن کے باریک نکات کی طرف بھی توجہ دی ہے یہاں تک کہ حافظ نے تو فارسی شاعری کی روائتی صنایع و بدایع کو بھی بکمال خوبی و تنوع برتاہے۔ اقبال کی نظر میں شعر کا جاودانی حسن آہ شرر بار اور نالہ شبگیر کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ فن کی اہمیت اس درد مندی میں پنہاں پاتے ہیں جو فنکار کے دل میں کروٹیں لے رہی ہے۔ اگر دل سوز سے محروم ہے تو شعر میں تاثیر کا کوئی امکان نہین اور فنی مہارت اس میں کبھی ابدی جاذبیت پیدا نہیں کر سکتی۔ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ شعر کا سرچشمہ دماغ نہیں بلکہ روح شاعر ہے: ’’شعر کا منج و ماخذ شاعر کا دماغ نہیں اس کی روح ہے۔ا گرچہ تخیل کی بے پایاں وسعتوں سے شاعر کو محفوظ رکھنے کے لیے دماغ کی اشدضرورت ہوتی ہے‘ ‘7؎ اقبال کے اسلوب شعر کا تجزیہ کرنے سے پہلے فارسی شاعری کے اسالیب سے کچھ بحث ضروری معلوم ہوتی ہے۔ عہد حاضر کے ایرانی محقق اور نقاد فارسی شاعری میں تین بنیادی اسالیب کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں اور یہ سبک (اسلوب) خراسانی، سبک عراقی اور سبک ہندی سے عبارت ہیں۔ علاقوں کے نام اسالیب شعر کے سرچشموں کا پتہ دیتے ہیں۔ اسلامی عہد میں فارسی شاعری کا آغاز تیسری صدی/نویں صدی کے وسط میں ہوا۔ جدید تحقیق کی روشنی میں محمد بن وصیف سکنری فارسی کا پہلا شاعر ہے اور اس نے صفاری حکمران یعقوب بن لیث (879/265-867/253) کے 867/253 میں قندھار فتح کرنے پر اس کی تعریف میں جو قصیدہ کہا وہ اسلامی دور میں فارسی کی پہلی شعری تخلیق سمجھی جاتی ہے۔ محمد بن وصیف کی نظم شعری یا فنی اعتبار سے قابل ذکر نہیں، البتہ اولیت کے پیش نظر بہت اہم ہے۔ چوتھی /دسویں صدی میں جن شعرا نے فارسی ادب کی تاریخ میں نام پیدا کیا وہ رابعہ قزداری کے سوا جو پاکستانی بلوچستان کے شہر خضدار کی رہنے والی تھی، سب کے سب اس وسیع و عریض علاقے سے تعلق رکھتے تھے جو اس زمانے میں خراسان کہلاتا تھا اور موجودہ خراسان کے مقابلے میں کہیں بڑا تھا۔ اس میں بخارا، سمرقند، بلخ، مرو، ہرات سبھی شامل تھے۔ قدیم خراسان کے ابتدائی شاعروں میں رود کی سمرقندی (941/329) شہید بلخی (تقریباً 937/325) ابو شکور بؒکی، ابو الموید بلخی، دقیدی بلخی (975/365اور 980/370کے درمیان) عمارہ مروزی کسائی مروزی، اور مسعود مروزی وغیرہ شامل ہیں۔ ان شعرا نے جس اسلوب میں شعر کہے وہ خراسان کی رعایت سے سبک خراسانی کہلاتا ہے۔ چھٹی صدی کے وسط تک فارسی شاعری میں صرف یہی اسلوب رائج تھا اور یہ صرف خراسان یا ایران تک ہی محدود نہ رہا تھا۔ بلکہ جہاں جہاں فارسی زبان کی روایت پہنچی اور فارسی میں شعر کہے گئے ان میں یہی اسلوب کار فرما رہا۔ مثلاً پانچویں/گیارہویں صدی کے لاہور کے تمام شاعروں نے جن میں مسعود سعد سلمان (1161/515) اور ابو الفرج رونی (1117/510) سر فہرست ہیں سبک خرسانی میں شعر کہے: سبک خراسانی میں فارسی شاعری کی ابتدائی سادگی اور بے ساختگی تھی۔ابھی عربی زبان نے فارسی پر گہرا اثر نہیں ڈالا تھا۔ الفاظ نہ صرف سادہ بلکہ مختصر اور عام طور سے مفرد استعمال ہوتے تھے۔ تراکیب کم تھیں اور ان کی طرف زیادہ توجہ بھی نہیں تھی۔ شاعر کے جذباتی اور فنی تجربے میں نہ صرف سادگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خلوص کی فراوانی تھی۔ شاعر اپنے آپ کو فطرت سے قریب پاتا تھا وہ اپنی تخیلی پیکر تراشی کے لیے بھی صرف اپنے گرد و پیش کو دیکھتا تھا۔ اس کی تشبیہیں اور استعارے اپنے اندر ایک سادہ اور حقیقت آمیز حسن رکھتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاعروں کو اپنے تخلیقی شعور اور فنی استعداد کے اظہار کے لیے نئے تجربوں کی ضرورت پڑی۔ سامانی (999/389-892/278) غزنوی (1186/872-962/351) اور سلجوتی (1157/552-1037/429) ادوار میں سبک خراسانی کا دور دورہ رہا۔ چھٹی/بارہویں صدی میں اصفہان کے بعض شاعروں مثلاً جمال الدین اصفہانی (1192/877) اور کمال الدین اسمعیل (1238/635) نے اپنے کلام میں نکتہ سنجی اور مضمون آفرینی کی طرف توجہ دی۔ کمال الدین اسمعیل کے ہاں یہ رحجان اتنا قوی ثابت ہوا کہ اسے خلاق معانی کا لقب ملا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فارسی نثر عربی اسلوب نگارش کے زیر اثر تکلف اور تصنع کی طرف زیادہ مائل ہو رہی تھی اور ادیبوں کا رحجان آرائش و پیرائش کی طرف تھا۔ شعر میں بھی تزئین و نفاست کے شوق نے زبان و بیان کے میدان میں نئے تجربوں کی طرح ڈالی۔ شعرا ترکیب سازی کی طرف زیادہ مائل ہوئے، اور اچھوتی ترکیبات کے ذریعہ شعر کی زبان میں زیادہ معنویت و زیبائی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ خوبصورت اور گوناگوں ترکیبات کا سب سے زیادہ میلان خاقانی شروانی کے ہاں نظر آتا ہے جو سبک خراسانی سے الگ ہو کر اپنے عظیم معاصر اور ہم وطن آزربایجانی شاعر نظامی کے ساتھ اسلوب شعر میں نئے نئے تجربے کر رہا تھا۔ چونکہ نئے اسلوب کا آغاز اصفہان میں ہوا تھا اور اصفہان عراق حجم میں واقع تھا اس لیے اس اسلوب کا نام سبک عراقی قرار پایا۔ یہ اسلوب جس کی ابتدائی جھلکیاں جمال الدین اصفہانی وغیرہ کے ہاں نظر آتی ہیں حافظ کی غزل میں اپنے شباب کو پہنچا۔ سبک عراقی کے شاعروں نے اپنے کلام میں ابہام پیدا کر کے حقیقت و مجاز کے ڈانڈے ملا دیے اور اس دلچسپ اور پر اسرار ابہام نے فارسی شاعری بالخصوص غزل میں افکار و معانی کی نئی دنیا آباد کر دی۔ مختلف الفاظ کو علامتوں کے طور پر استعمال کیا گیا اور سر دلبری بہ حدیث دیگراں بیان ہونے لگا۔ نویں/پندرہویں صدی میں یعنی سبک عراقی کے آغاز کے تین سو سال بعد فارسی شاعری میں ایک نئے اسلوب کا آغاز ہوا جس کی ابتدا تو فغانی شیرازی نے کی مگر یہ صحیح معنوں میں مغلیہ دور میں برصغیر میں پروان چڑھا اور اسی نسبت سے سبک ہندی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی بنیاد شوق تازہ پردازی پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ابتدا میں ’’ تازہ گوئی‘‘کا نام دیا گیا۔ اس مکتب شعر کے نمائندوں نے انداز بیان، تخیل و تجسیم اور ترکیب و استعارہ میں تخلیقی شعور اور ذوق جمال کا مظاہرہ کیا۔ عشق و محبت کی داستان میں نئے رنگ بھرے اور گوناگوں افکار و معانی سے شاعری کے میدان کو وسعت بخشی۔ اس اسلوب کی مقبولیت جن شعرا کی مرہون منت ہے ان میں سے اکثر و بیشتر ایرانی تھے جو شاہان مغلیہ اور جنوبی ہندوستان کے علم دوست حکمرانوں کی سرپرستی کے شوق میں ایران سے برصغیر چلے آئے تھے۔ ان میں عرفی، نظیری، ظہوری (1615/1024) طالب آ ملی، ابو طالب کلیم اور صائب خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ نئے اسلوب کا ایران میں بھی ویسے ہی چرچا ہوا جیسے برصغیر میں ہو رہا تھا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمتر درجے کے شعرا کے ہاتھوں یہ شوق تازہ پردازی جنون کی حد تک پہنچ گیا۔ مضامین تازہ کے انبار لگانے کی آرزو نے ان مضامین کے وقار کو مجروح کرنا شروع کیا۔ تخیل اور مبالغے کی حدود میں بے حد وسعت پیدا ہو گئی۔ یہی وہ تخیل ہے جس کے بارے میں علامہ نے فرمایا ہے کہ اس کی ’’ بے پایاں وسعتوں سے شاعر کو محفوظ رکھنے کے لیے دماغ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔‘‘شعر کی بے ساختگی، سادگی اور صداقت کی جگہ تصنع نے لے لی۔ مبہم تشبیہوں اور بعید از قیاس استعاروں اور کنایوں کا رواج ہوا۔ ان کے ساتھ ساتھ نکتہ سنجی، مضمون آفرینی اور نازک خیالی کے شوق نے شاعر کو مشکل پسندی کی راہوں پر ڈال دیا۔ زبان بھی جدت پسندی کے رحجان سے متاثر ہوئی اور نئے الفاظ کی تلاش میں شاعروں نے بہت سے عامیانہ اور مبتذل لفظوں کو بھی جزو زبان بنا لیا۔ ان رحجانات کے خلاف تیرہویں /انیسویں صدی میں ایران میں شدید رد عمل کا آغاز ہوا اور ایرانی بالخصوص اصفہان کے شاعروں نے ایک منظم تحریک کے ذریعے سبک ہندی کو ترک کر کے اپنے قدیم اسالیب شعر کی طرف لوٹنا شروع کر دیا۔ قدیم رنگ پیدا کرنے کی یہ کوشش اتنی کامیاب ثابت ہوئی کہ اس دور کے سب سے ممتاز ایرانی شاعر قآنی کے ہاں ہمیں غزنوی دور کی فضا قرخی اور عنصری (1040/431) کے انداز بیان اور شاعرانہ روایت کی مکمل عکاسی نظر آتی ہے۔ یہ بات خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ اسی زمانے میں مغربی تہذیب کے نفوذ سے ایران میں نئے تہذیبی، ثقافتی اور علمی اداروں کا آغاز ہوا۔ فارسی نثر مغربی ادب سے ناول اور ڈرامہ نگاری کی ابتدا بھی ہوئی۔ مگر دنیائے شعر میں کسی تخلیقی تحریک کا آغاز نہیں ہوا اور اس دور کے شاعروں نے کلاسیکی روایت کے احترام میں سبک خراسانی اور سبک عراقی ہی کو پیش نظر رکھا۔ دوسری طرف برصغیر میں سبک ہندی کی مقبولیت برقرار رہی اور غالب نے اسی اسلوب کا پابند رہنے کے باوجود اپنے تخلیقی شعور اور مفکرانہ مزاج سے فارسی شاعری کو ایک نئی عظمت سے آشنا کیا۔ کلام اقبال کے مطالعے سے یہ حیرت انگیز حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ علامہ کو سبک ہندی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان پر اس سبک کی مشکل پسندی، تصنع آمیز تخیلی پیکر تراشی اور مبہم اورلا حاصل مضمون آفرینی کے رحجانات کا سایہ تک نہیں پڑا۔ اس کے برعکس ان کے ہاں افکار کے عمق کے باوجود اظہار بیان میں ایک دلآویز سادگی اور سلاست کے ساتھ ساتھ شعور حسن کی طلسماتی کیفیت نظر آتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا پورا اسلوب ، اس کی روح اور اس کا مزاج سبک ہندی سے دور ہے۔ وہ فنی اور جمالیاتی اعتبار سے ہندی روایت کے مقابلے میں شیراز سے زیادہ نزدیک ہیں: دل از حریم حجاز و نواز ز شیراز است اقبال نے کلاسیکی دور کے شعراء بالخصوص رومی، حافظ اور بابا طاہر عریان کے طرز بیان کو پیش نظر رکھا۔ ان کی بہت سی غزلیات پر حافظ کی غزلوں کا دھوکا ہوتا ہے اور لفظ، ترکیب، لہجے اور پیکر تراشی پر حافظ کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ ان کی اکثر غزلیات میں جذب و مستی کی کیفیت رومی کے وجد آفریں اشعار کی یاد دلاتی ہے۔ ان کی متعدد رباعیات میں ہمدان کے مجذوب شاعر بابا طاہر عریان کے انداز بیان کی عکاسی ہوتی ہے۔ مگر اقبال کے خلاف ذہن نے کسی اثر کو مستقل طور پر قبول نہیں کیا۔ چنانچہ ان کے فن شعر کو کسی ایک اسلوب کے ساتھ منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں یہ حقیقت بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرقی بالخصوص فارسی ادب کے ساتھ ساتھ علامہ نے مغربی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’ پیام مشرق‘‘جرمنی کے عظیم شاعر گوئٹے کے ’’ دیوان مغربی‘‘کے جواب میں لکھی۔ وہ گوئٹے سے اس حد تک مرعوب تھے کہ انہوں نے اپنے بیاض میں یہاں تک کہہ دیاـ: ’’ جب کسی عظیم ذہن سے ہمارا رابطہ قائم ہوتا ہے تو ہماری روح اپنا انکشاف کر لیتی ہے گوئٹے کے تخیل کی بے کرانی سے آشنا ہونے کے بعد مجھ پر اپنے تخیل کی تنگ دامانی منکشف ہو گئی۔‘‘8؎ اس کسر نفسی کا اظہار علامہ نے 1910ء میں کیا تھا۔ کلام اقبال کے غیر معمولی حسن اور تخیل کی بیکرانی کا دوربعد سے شروع ہوتا ہے اور اقبال کا فن بالآخر ان کو دنیا کے عظیم ترین شعرا کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ بہرحال اس اقتباس سے گوئٹے کے اثرات کی عکاسی ہوتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ علامہ کے فنکارانہ ذوق کی نشوونما میں مشرق و مغرب کی بہترین اور دلآویز ترین شعری روایات ہم آہنگ ہو گئی تھیں۔ کلاسیکی فارسی ادب کی روایات کی پابندی اور احترام کے ساتھ ساتھ انہوں نے فارسی شاعری میں ہیئت اور اسلوب کے نئے نئے تجربے کیے جن پر مغربی ادب کا پرتو نظر آتا ہے۔ ممتاز ایرانی دانشور ڈاکٹر حسین خطیبی کی یہ رائے بہت صحیح ہے کہ اگر اقبال کے اسلوب کو سبک اقبال کے نام سے یاد کیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا9؎ یہ رائے شاعر مشرق کے تخلیقی مزاج کی عظمت کی گواہی دیتی ہے۔ اقبال کی فنکارانہ تخلیقات کا آغاز’’ پیام مشرق‘‘سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ’’ اسرار خودی‘‘اور’’ رموز بیخودی‘‘کا اسلوب اور انداز بیان ایران کے صوفی شعرا سے متاثر ہے اگرچہ اس میں بھی اقبال کی انفرادیت، رعنائی تخیل اور جوش بیان کے دلپذیر نمونے نظر آتے ہیں۔ پروفیسر نکلسن کو ’’ اسرار خودی‘‘کے اشعار پر بسا اوقات شیلے (1822ئ) کی غنائیت کا گمان گزرتا ہے 10؎ بہرحال ’’ اسرار و رموز‘‘کا عام انداز خالص کلاسیکی ہے اور یہ دونوں مثنویاں رومی کی مثنوی کی بحر میں لکھی گئی ہیں۔ ’’ پیام مشرق‘‘گوئٹے کے ’’ دیوان مغربی‘‘کے جواب میں لکھا گیا تھا۔ اس کا ایک جزو ’’ لالہ طور‘‘نظموں پر مشتمل ہے جن کو ہیئت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک روایتی ہے اور دوسرا شاعر کے تخلیقی فنکارانہ میلانات کا حامل ہے۔ نئے سانچوں میں ڈھلی ہوئی نظمیں اقبال کے بعض مرغوب اور دلپسند مضامین کی نمائندہ ہیں۔ چونکہ یہ منظومات فارسی شاعری میں ایک نئی روایت کا آغاز کرتی ہیں اس لیے ان کا ذکر قدرے تفصیل کے ساتھ ضروری ہے۔ اس تازہ نوعیت کی پہلی نظم ’’ فصل بہار‘‘ہے۔ اس کے چھ بند ہیں اور ہر بند میں سات مصرعے ہیں۔ ہر بند کا پہلا اور آخری مصرع ایک ہے مگر اگلے بند کے پہلے اور آخری مصرعے سے مختلف ہے اور اس کی ردیف اور قافیہ بھی الگ ہے چنانچہ پوری نظم میں کہیں ایک مصرع کی تکرار نہیں ہے۔ ہر بند کے پہلے اور آخری مصرعے کے درمیان پانچ مصرعے آتے ہیں مگر وہ ان دونوں مصرعوں سے چھوٹے ہیں۔ مصرعوں کا یہ اتار چڑھاؤ اور ان کی شگفتہ اور خوش آہنگ بحر جذبات میں زیر و بم، جولانی اور ہیجان کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ ان کی تندی و تیزی فصل بہار کی سرور آمیز فضا سے ہم آہنگ ہے۔ نظم کی ہیئت اور اسلوب کی وضاحت کے لیے دو بند یہاں پیش کیے جاتے ہیں: (1) خیز کہ در کوہ و دشت، خیمہ زد ابر بہار مست ترنم ہزار طوطی و دراج سار برطرف جو یبار کشت گل و لالہ زار چشم تماشا بیار خیز کہ در کوہ و دشت، خیمہ زد ابر بہا (2) خیز کہ در باغ و راغ، قافلہ گل رسید باد بہاران وزید مرغ نوا آفرید لالہ گریبان درید حسن گل تازہ چید عشق غم نو خرید خیز کہ در باغ و راغ، قافلہ گل رسید ’’ سرود انجم‘‘ کی ہیئت ’’ فصل بہار‘‘سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے آٹھ بند ہیں اور ہر بند کے پانچ مصرعے ہیں۔ بنیادی طور پر دونوں کا سانچہ ایک ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہر بند کے پہلے چار مصرعے ہم وزن ہیں اور پانچویں مصرعے کی بحر ان کے مقابلے میں طویل ہو گئی ہے۔ پانچویں مصرعے کا پہلا ٹکڑا چاروں مصرعوں کے ساتھ ہم قافیہ و ہم ردیف ہے۔ مگر دوسرا ٹکڑا بر پانچویں مصرعے کے دوسرے ٹکڑے کی تکرار ہے۔ چنانچہ یہاں بیک وقت تنوع اور تکرار کی کیفیت نے نظم میں ایک دلکش آہنگ پیدا کر دیا ہے۔ چونکہ یہ نظم تاروں کا گیت ہے اس میں مصرعوں کی روانی اور تندی اور ہر بند کا زیر و بم حرکت کا تصور پیدا کرتا ہے۔ اور ستارے زمانے کے جس اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کی داستان بیان کر رہے ہیں اس کی بھرپور تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ موسیقی اور خوشنوائی کی کیفیت دونوں نظموں میں مشترک ہے اور دونوں میں بظاہر ہلکے پھلکے مصرعوں کے ذریعے عمیق افکار اور اٹل حقائق زندگی کا اظہار ہوتاہے۔ نظم کے پہلے دو بند حسب ذیل ہیں: ہستی ما نظام ما مستی ما خرام ما گردش بے مقام ما زندگی دوام ما دور فلک بکام مکا، مینگریم و میرویم جلوہ گہ شہود را بتکدۂ نمود را رزم نبود و بود را کشمکش وجود را عالم دیر و زود را، مینگریم و میرویم ’’ کرمک شب تاب‘‘میں مصرعوں کے تار چڑھاؤ کی کیفیت پہلے دونوں تجربوں سے مشابہہ ہے مگر بہ حیثیت مجموعی اس نظم کی ہیئت ان دونوں سے مختلف ہے اور مستزاد کی یاد دلاتی ہے۔ اس میں ہر دو مصرعوں کے بعد ایک چھوٹا مصرع آتا ہے۔ نظم یوں شروع ہوتی ہے: یک ذرۂ بے مایہ متاع نفس اندوخت شوق ابن قدرش سوخت کہ پروانگی آموخت پہنائے شب افروخت وا ماندہ شعاعے کہ گرہ خورد و شرر شد از سوز حیات است کہ کارش ہمہ زر شد دار اے نظر شد شاعر نے اس مختصر مصرع کے مکرر استعمال سے شعر میں تنوع پیدا کیا ہے اور پہلے تجربات کی طرح یہاں بھی زیر و بم کی کیفیت سے اشعار کو زیادہ خوش آہنگ اور دلفریب بنایا ہے جو پڑھنے والے کے ذوق نغمہ اور احساس حسن کی تسکین کرتا ہے یہ نظم اپنی مصورانہ رعنائی اور تشبیہات کی دلکشی کے باعث اثر آفرینی کا نہایت اعلیٰ نمونہ ہے۔ نظم کے آخر میں فکر انگیز استفہامیہ اور کرمک شب تاب کے ساتھ ذات انسانی کے معنی خیز اور پر سوز تقابل نے ایک پر خلش ذہنی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ’’ حدی (نغمہ ساربان حجاز)‘‘میں آٹھ بند ہیں اور ہر بند چھ مصرعوں پر مشتمل ہے۔ آخری مصرع پہلے پانچ مصرعوں سے طویل تر ہے اور ہر بند کے بعد اس کی تکرار ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ پیرایہ اظہار ترجیع بند کی یاد دلاتا ہے جس کے ہر بند میں اشعار کی ایک معین تعداد ہوتی ہے اور ہر بند کے ایک ہی شعر لوٹ کر آتا ہے۔ جن نظموں کا ذکر پہلے آ چکا ہے ان میں ’’ فصل بہار‘‘اپنی ہیئت کے لحاظ سے ’’ نغمہ ساربان‘‘سے قریب تر ہے۔ اس نظم کے پہلے دو بند ملاحظہ ہوںـ: ناقہ سیار من آہوے تاتار من درہم و دینار من اندک و بسیار من دولت بیدار من تیز ترک گام زن، منزل ما دور نیست دلکش و زیباستی شاہد رعنا ستی روکش حوراستی غیر لیلا ستی دختر صحرا ستی تیز ترک گام زن، منزل ما دور نیست اس میں وہی تندی و تیزی، وہی ہیجان اور حرکت کا وہی احساس ملتا ہے۔ وہاں شاعر بہار کی آمد آمد پر پڑھنے والے کے ذوق تعمیر کو ابھار رہا ہے۔ یہاں اسے ناقہ سیار کے رنگ میں دشت و صحرا کی وسعتوں کو عبور کر کے منزل مقصود کو پا لینے کا پیغام دے رہا ہے۔ جو پیغام وہاں چمن کی لطافت و نزاکت کے پس منظر میں دیا گیا ہے،وہی یہاں ریک و بیاباں کے حوالے سے فردوس گوش بنا ہے۔ حرکت اور عمل کا احساس دونوں میں جاری و ساری ہے اور یہ دونوں میں نغمہ و موسیقی کے پردوں میں اس طرح مچل رہا ہے کہ قاری اسے اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتاہے۔ زندگی کے سنگین حقائق کو یوں نغمہ و موسیقی میں ڈھالنا کہ حقیقت بذات خود شعر بن جائے اور ایک عظیم فنکار ہی کی تخلیق میں ممکن ہو سکتا ہے۔ ’’ شبنم‘‘کا انداز پہلی سب تخلیقات سے الگ ہے۔ اس میں نو بند ہیں۔ ہر بند کا آغاز ایک مکمل شعر سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد تین مصرعے آتے ہیں۔ تینوں پہلے شعر کے ساتھ ہم ردیف ہیں۔ مگر اس کے مصرعوں سے چھوٹے ہیں۔ چنانچہ ایک دلچسپ تنوع یہاں بھی قائم رہتا ہے۔ پہلا بند ملاحظہ ہو: گفتند فرود آے ز اوج مہ و پرویز بر خود زن و با بحر پر آشوب بیامیز با موج در آویز نقش دگر انگیز تابندہ گہر خیز یہ زیر و بم پوری نظم میں ساتھ ساتھ چلت اہے اور الفاظ کا یہ اتار چڑھاؤ جذبات میں ایک متوازی اتار چڑھاؤ کا سبب بنتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں عمیق افکار کو سمویا گیا ہے اور یہ صحیح معنوں میں ایجاز و بلاغت کا شاہکار ہیں مثلاً: گفتم کہ چمن رزم حیات ہمہ جائی است بزمے است کہ شیرازۂ او ذوق جدائی است دم؟ گرم نوائی است جان؟ چہرہ کشائی است این راز خدائی است ہیئت کا یہ تجرباتی ذوق ’’ زبور عجم‘‘میں بھی کار فرما ہے جہاں غزلوں کے درمیان شاعر کی تخلیقی خلش اور فنکارانہ اپج کے خوبصورت نمونے نظر آتے ہیں۔ ان کی زبان و بیان کی لطافت اور تخیل کی فسونگری میں غزل کا رنگ ہے مگر ان کی ہیئت اور موضوع کی نوعیت نے انہیں غزل سے ممتاز کر دیا ہے۔ اس قسم کی پہلی کوشش وہ نظم ہے جس میں تقریباً ہر مصرع لفظ یا سے شروع ہوتا ہے، اور ہر شعر کے بعد مندرجہ ذیل ٹکڑے کی تکرار ہوتی ہیـ: یا چنان کن یا چنین اس نظم میں زندگی میں ایک بنیادی انقلاب کی آرزو تڑپ رہی ہے۔ شاعر زمان و زمین کے موجودہ نظام سے دل برداشتہ ہے اور اے نئے آدم، نئے مسلمان اور نئے جہان کی تلاش ہے۔ اس مضطربانہ تلاش میں ہر شعر کے بعد ’’ یا‘‘اور’’ چنان کن یا چنین‘‘کی تکرار ایک پر زور احتجاج کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اسی نسبت سے نظم کو موثر تر بنا دیتی ہے۔ پہلے دو شعر ملاحظہ ہوں: یا مسلمان را مدہ فرمان کہ جان برکف بیتہہ یا درین فرسودہ پیکر تازہ جانے آفرین یا چنان کن یا چنین یا برہمن را بفرما نو خداوندے تراش یا خود اندر سینہ زناریان خلوت گزیمن یا چنان کن یا چنین زبور عجم کی دلکش ترین نظموں میں سے ایک ’’ از خواب گران خیز‘‘ہے۔ اس میں مشرقی قوموں کو بیداری اک پیغام دے کر مغرب کی ملوکانہ دستبرد کے خلاف ابھارا گیا ہے۔ نظم کے ہر شعر میں ایک ولولہ خیز آہنگ ہے جس میں انقلاب کی بجلیاں کوند رہی ہیں۔ شعلہ بیانی اور جذبات کی تلاطم خیز شدت کے ساتھ ساتھ حسن تخیل نے شعر میں جادو بھر دیا ہے۔ شاعر نے اپنے تخیلی پیکروں میں نرگس و چمن سے لے کر دشت و جبل اور کوہ و صحرا کے مناظر سمو دیے ہیں اور خوبصورت تشبیہوں اور منظر کشی نے حسن بیان میں ایک سحر آفرین کیفیت پیدا کر دی ہے۔ شاعر جس انقلابی جذبے کو اکسا رہا ہے اس کے لیے اس نے نظم کو موزوں ترین ہیئت اور آہنگ سے آراستہ کیا ہے۔ ہر دو اشعار کے پہلے تین مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں اور چوتھا مصرع نظم کے پہلے شعر کے ساتھ ہم قافیہ اور ہم ردیف ہے۔ ہر چار مصرعوں کے بعد ایک ولولہ انگیز مصرعے کی تکرار ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد اس کے نصف ٹکڑے کی تکرار اس کی تاثیر میں مزید شدت پیدا کرتی ہے۔ اس مصرع میں ایک انقلاب آفرین گرج اور طنطنہ ہے اشعار اور مصاریع کی اس ترتیب نے نظم میں بلا کی موسیقی، بلند آہنگی اور جوش پیدا کر دیا ہے۔ پہلے دو بند ملاحظہ ہوں: اے غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگران خیز کاشانہ ما رفت بہ تاراج غمان خیز از نالہ مرغ چمن،ا ز بانگ اذان خیز اذ گرمی ہنگامہ آتش نفسان خیز از خواب گران، خواب گران، خواب گران خیز از خواب گران خیز خورشید کہ پیرایہ بسیماے سحر بست آویزہ بگوش سحر از خون جگر بست از دشت و جبل قافلہ ہا رخت سفر بست اے چشم جہان بین بہ تماشاے جہان خیز از خواب گران، خواب گران، خواب کران خیز از خواب گران خیز لفظ و صورت کی اس ہیجان انگیز موسیقی نے متلاطم جذبات کو جنم دیا ہے اور مغربی ملوکیت کے خلاف جنگ آزمائی کا طوفان خیز ولولہ پیدا کر دیا ہے۔ ایک نظم میں ہر شعر کے بعد صرف لفظ انقلاب نے مصرع کا کام دیا ہے اور اس کے بعد اگلے مصرعے میں بھی صرف تین الفاظ ہیں۔ جن میں سے دو انقلاب پر مشتمل ہیں۔ لفظ انقلاب کی اس فنکارانہ تکرار، بحر کی بلند آہنگی اور جذبے کی تندی اور شعلہ فشانی نے اس نظم میں بھی زبردست انقلابی گونج پیدا کر دی ہے۔ اس انقلاب آفرین لہجے کا نشانہ سرمایہ دار، شیخ شہر، میر و سلطان، فتنہ علم و فن اور مسخ شدہ اخلاقی اور روحانی اقدار ہیں۔ نظم یوں شروع ہوتی ہے: خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب از جفائے دہ خدایان کشت دہقانان خراب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! نظم کے آخر میں جدید دور کی فتنہ سامانیوں کے خلاف یوں تند و تیز لہجہ اختیار کیا گیا ہے: من درون شیشہ ہائے عصر حاضر دیدہ ام آنچنان زہرے کہ از وے مار ہا در پیچ و تاب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب! ایران کی جدید شاعری میں ہیئت میں نئے نئے تجربے ہوئے ہیں۔ مگر ان کا زمانہ عام طور سے ’’ پیام مشرق‘‘اور’’ زبور عجم‘‘کی طباعت سے بعد کا ہے۔ معاصر فارسی شاعری میں ایک خاص صنف سخن کا بہت رواج ہوا ہے جسے دوبیتی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دوبیتی کا لفظ بہت قدیم ہے اور اسے کلاسیکی دور کے آغاز میں رباعی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ دولت شاہ سمرقندی (1495/900) اپنے مشہور ’’ تذکرۃ الشعرائ‘‘میں لکھتا ہے کہ رباعی کو کچھ عرصہ دوبیتی کے نام سے یاد کیا گیا۔ مگر اہل علم کو یہ لفظ پسند نہ آیا اور انہوں نے اس کے چار مصرعوں کی رعایت سے اسے رباعی کا نام دیا۔آج کل جس صنف کو دوبیتی کہا جاتا ہے اس میں شروع شروع میں دو دو اشعار کے بند ہوتے تھے، اور ہر بند کا قافیہ ا ور ردیف جدا ہوتے تھے۔ ان کی تعداد کی کوئی قید نہیں تھی۔ مگر اب اشعار کی تعداد کی بھی کوئی قید نہیں رہی۔ ہر بند میں یہ تعداد نظم کے تقاضوں کی پابند ہوتی ہے البتہ اس صنف کو یاد دوبیتی ہی کے نام سے کیا جاتا ہے ’’ پیام مشرق‘‘میں اس قسم کی دوبیتی موجود ہے حالانکہ ابھی جدید شاعری میں اس کا رواج نہیں ہوا تھا۔ ’’ افکار انجم‘‘کے نام سے ’’ پیام مشرق‘‘کی ایک نظم اسی انداز میں کہی گئی ہے۔ اس نظم میں چار بند ہیں اور ہر ایک کا قافیہ اور ردیف دوسرے سے الگ ہے۔ وضاحت کے طور پر پہلے دو بند یہاں درج کیے جاتے ہیں۔ (1) شنیدم کوکبے با کوکبے گفت کہ در بحریم و پیدا ساحلے نیست سفر اندر سرشت ما نہادند ولے این کاروان را منزلے نیست (2) اگر انجم ہمانیستے کہ بود است ازین دیرینہ ما بیہا، چہ سود است گرفتار کند روز گاریم خوشا آن کس کہ محروم وجود است اقبال نے نئے فنی تجربوں کے ساتھ قدیم اصناف سخن کے استعمال میں غیر معمولی جمالیاتی شعور کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فلسفہ زندگی کو مسلسل، منظم اور مربوط طور پر صراحت سے بیان کرنے کے لیے مثنوی کو منتخب کیا کہ وہ اپنے غیر معین حجم اور فنی لچک کے اعتبار سے اس اظہار خیال کے لیے سب سے موزوں صنف سخن تھی۔ فلسفے، تصوف اور اخلاق کے جامع مضامین کے لیے شعرا نے ہمیشہ مثنوی ہی کو ترجیح دی بلکہ اسے لازم جانا۔ رومی نے حقائق زندگی کی صوفیانہ تفسیر مثنوی میں کی۔ عطار نے فلسفہ وحدت الوجود کے اظہار و بیان کے لیے منطق الطیر اور متعدد دوسرے مجموعے مثنوی کی شکل میں ترتیب دئیے۔ سنائی نے زہد و حکمت کو تصوف و عرفان کے ساتھ حدیفہ الحقیقت اور اپنی دوسری تصانیف میں مثنوی ہی کی شکل میں ہم آہنگ کیا۔ یہی کیفیت نظامی کی مخزن الاسرار، امیر خسرو کی مطلع الانوار اور جامی کی سجتہ الابرار اور تحفت الاحرار میں نظر آتی ہے۔ سعدی نے عملی اخلاق کی تعلیم کے لیے بوستاں مثنوی ہی کی شکل میں ترتیب دی۔ غرض کہ رزم و بزم کے موضوعات کے علاوہ فکری، اخلاقی، فلسفیانہ اور عارفانہ مضامین کے مبسوط بیان کے لیے شعرا کو مثنوی کا سہارا ڈھونڈنا پڑا۔ علامہ نے بھی خودی اور بیخودی کے مضامین کو تفصیل اور ترتیب کے ساتھ اسرار و رموز کی شکل میں مثنوی ہی میں پیش کیا۔ اس کے بعد انہوں نے سیر افلاک کا حال بھی ’’ جاوید ‘‘نامہ کے عنوان سے مثنوی میں قلمبند کیا اور سیر افلاک کے ضمن میں زندگی کے ہر رخ سے فلسفہ خودی کی روشنی میں بحث کی۔ دور حاضر کے بہت سے عمرانی، سیاسی، اجتماعی اور فکری موضوعات کو انہوں نے اسی مثنوی میں سمویا،ا ور پھر ان ٹھوس مضامین میں دلچسپی برقرار رکھنے کی خاطر انہوں نے اس مثنوی کو غزل، مکالمے کے ڈرامائی انداز، اور سحر آفرین منظر کشی کے ذریعے مزید دلفریب بنایا۔ ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘اور’’ مسافر‘‘بھی انہوں نے مثنوی کے رنگ میں لکھیں، اور اپنے پختہ اور عمیق خیالات اور عالم مشرق کی بیداری پر اپنے تاثرات اور رہبرانہ افکار کے لیے اسی کو وسیلہ بنایا۔ا نہوں نے اس بات کا خاص التزام کیا کہ وہ ہر مثنوی میں رومی کا انداز اور مثنوی معنوی کی بحر اختیار کریں، اور اس میں وہ بہت کامیاب بھی رہے صرف ’’ زبور عجم‘‘کی مثنوی ’’ گلشن راز‘‘میں انہوں نے اس روایت کو ترک کیا اور وہ اس لیے کہ وہ اس میں گلشن راز کے منظوم سوالات کی بحر کے پیش نظر اس قدیم مثنوی کی بحر اور انداز بیان اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں بھی انہوں نے سخنوری کے تمام تقاضے پورے کیے۔ علامہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے خشک فلسفیانہ موضوعات کو اپنے تخیل کی شادابی اور توانائی سے شعریت سے ہم آہنگ کیا، اور پھر اپنے جذبے کے خلوص اور صداقت سے ان میں اثر آفریں کیفیت پیدا کی۔ غزل میں بھی اقبال نے ایک منفرد روایت کا آغاز کیا، اور وہ یہ نہ کلاسیکی غزل کی تمام فنی اور بہت سی فکری اور جذباتی روایات کی پابندی کرنے کے باوجود انہوں نے غزل کو ایک نئے احساس اور فکر سے سمویا۔ فارسی غزل میں اجتماعی فلسفے کے موضوع کو جس رنگ میں شاعر مشرق نے پیش کیا ہے اس کی اس سے پہلے کوئی روایت نہیں تھی، اور نہ رومی کے سوا خدا اور بندے کے نازک رشتے پر اس شوخ، مشتاقانہ اور پر ہیجان انداز میں قلم اٹھایا گیا تھا۔ انسانی عظمت کے موضوع کو بھی فارسی غزل میں اس تسلسل اور استقامت اور اس حسن و رعنائی کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا تھا۔ا قبال کی غزل کا کمال یہ ہے کہ اس کا موضوع روائتی مضامین غزل سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ’’ زبور عجم‘‘کی غزلوں میں وفور شوق نے عشق کی سرور آمیز فضا قائم کر دی ہے، اور خدا اور بندے کے درمیان یہ عاشقانہ راہ و رسم تصوف کی پرانی ریت بھی ہے، لیکن ان عاشقانہ آداب میں شاعر مشرق نے جس شوخ اور حیات بخش انداز میں انسان کی عظمت،ا س کی شخصیت کے لامحدود امکانات اور زندگی کی حرارت پر تبصرہ کیا ہے اور سب سے بڑھ کر مضمون عشق میں جو جامعیت، وسعت اور عمق پیدا کیا ہے۔ یہ فارسی غزل کی روایت سے بڑی حد تک مختلف ہیں اور یہ اقبال کا مخصوص اور منفرد انداز ہے۔ شاعر نے غزل کے فنی تقاضوں کو پوری طرح پیش نظر رکھا ہے۔ زبان کی لطافت، تخیل کی رنگینی اور نزاکت، موسیقی کا بھرپور احساس، جذبہ کی صداقت، یہ سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اشعار پر تغزل کا رنگ غالب ہے، مگر روایتی معاملات عشق کا بیان نہیں۔ ہجر و وصال کی وہ داستان نہیں جو شاعر کا مرغوب مضمون ہوتا ہے۔ ان جنسی جذبات کا تنقیہ نہیں جنہیں فرائڈ (1939ئ) آرٹ کا بنیادی محرک سمجھتا ہے۔ یہاں عمیق افکار نہایت دلنشین انداز میں جذبات کی زبان میں ڈھل رہے ہیں اور افکار بھی ایسے جن کا تعلق اجتماعی زندگی کے مسائل سے ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار سے شاعر کی غزل کا مقصد عیاں ہو جاتا ہے۔ یہاں غزل کا رچاؤ اور رسیلا پن تو ہے مگر انفرادی احساس کی جگہ اجتماعی اور ملی جذبے نے لے لی ہے: غزل سراے و نواہاے رفتہ باز آور باین فسردہ دلان حرف دلنواز آور بہ نیستان عجم باد صبحدم نیز است شرارۂ کہ فرو میچکد ز ساز آور ہاں غزل کی زبان اور اس کے مخصوص آہنگ اور فضا نے کبھی کبھی شاعر کو خالص غزل کے شعر کہنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ مگر جب شاعر پر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ اس میدان میں بھی حسن و لطافت کے لافانی نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں: باز بہ سرمہ تاب دہ چشم کرشمہ زا اے را ذوق جدون دو چند کن شوق غزل سراے را ٭٭٭ ہر کس نگہے دارد، ہر کس سخنے دارد در بزم تو می خیزد افسانہ ز افسانہ ٭٭٭ عشق است و ہزار افسون، حسن است و ہزار آئین نے من بہ شمار آیم، نے تو بہ شمار آئی ٭٭٭ اے کہ نزدیک تر از جانی و پنہان ز نگہ ہجر تو خوشترم آید ز وصال دگران ٭٭٭ گرچہ لعل تو خموش است ولے چشم ترا با دل خون شدۂ ما سخنے نیست کہ نیست تا حدیث تو کم بزم سخن می سازم ورنہ در خلوت من انجمنے نیست کہ نیست ٭٭٭ دام ز گیسوان بدوش زحمت گلستان بری صیدا چرا نمی کنی طائر بام خویش را ٭٭٭ از چشم ساقی مست شرابم بے مے خرابم ء بے مے خرابم شوقم فرون تر از بے حجابی بینم نہ بینم در پیچ و تا یم ٭٭٭ فرصت کشمکش مدہ این دل بیقرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تابدار را ٭٭٭ بحر فے میتوان گفتن تمناے جہانے را من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را ٭٭٭ اگر سخن ہمہ شوریدہ گفتہ ام چہ عجب کہ ہر کہ گفت ز گیسوے او پریشان گفت ٭٭٭ من بندۂ بے قیدم شاید کہ گریزم باز ابن طرۂ پیچان را در گردنم آویزی ٭٭٭ بسکہ غیرت میپرم از دیدۂ بیناے خویش از نگہ بافم بہ رخسار تو رو بندے دگر بک نگہ، یک خدۂ در دیدہ، یک تابندہ اشک بہر پیمان محبت نیست سوگندے دگر ٭٭٭ کو آہ نگاہ ناز کہ اول دلم ربود عمرت دراز باد ہمان تیرم آرزو ست ٭٭٭ تو جلوہ در نقابی کہ نگاہ بر نتابی مہ من! اگر نفالم تو بگو دگر چہ بچازہ چہ شود اگر خرامی بسراے کاروانے کہ متاع ناروایش دلکی است پارہ پارہ ٭٭٭ بہ امید آن کہ روزے بہ شکار خواہی آمدہ ز کمند شہر یاران رم آہوانہ دارم اقبال کی رباعی نگاری کا ذکر’’ پیام مشرق‘‘اور’’ ارمغان حجاز‘‘کے سلسلے میں آ چکا ہے۔ انہوں نے ’’ پیام مشرق‘‘میں’’ لالہ طور‘‘کے زیر عنوان رباعیات کہی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ ارمغان حجاز‘‘میں ان کا فارسی کلام صرف رباعیات پر مشتمل ہے۔ یہ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے رباعی کا وزن بابا طاہر عریان سے لیا ہے اور اس وزن کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ہے۔ اس پر اعتراض بھی ہوا اور بعض معترضین نے ان رباعیات کو قطعات سے تعبیر کیا، مگر علامہ نے بابا طاہر کی رباعیات ہی کی سند پیش کر کے انہیں رباعی قرار دیا۔ ان رباعیات کے مضامین و افکار کا ذکر بھی ہو چکا ہے۔ رباعی ہمیشہ بلاغت اور ایجاز کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس میں کسی خیال یا جذبے ک نہایت اختصار کے ساتھ ترجمانی ہوتی ہے اور یہ اسی صورت میں کامیاب سمجھی جا سکتی ہے کہ دو شعروں میں شاعر کے احساس اور فکر کا اظہار نہایت موثر طریقے سے ہو جائے۔ دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں اعلیٰ پائے کے رباعی نگاروں کی تعداد بہت کم ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اگرچہ رباعیاں یوں تو ہر شاعر کے دیوان میں جاتی ہیں، مگر ایسی رباعیات جو کسی جذبے کی شدت یا فکر کے عمق یا بلندی کو اپنے اندر پوری طرح سمیٹ لیں اور اپنی تاثیر و حسن سے ادب عالیہ میں ایک مستقل حیثیت حاصل کر لیں کم ہوتی ہیں۔ رباعی پانچویں/گیارہویں صدی میں اپنے شباب پر پہنچی اور اس دور میں حکیم عمر خیام، بابا طاہر عریاں، شیخ ابو سعید ابی الخیر اور شیخ عبداللہ انصاری (1088/481) نے اس صنف سخن میں اپنے اپنے مخصوص انداز میں نہایت موثر اور کامیاب طریقے سے اظہار خیال کیا۔ خیام کی رباعی میں فلسفہ جبر، حیات انسانی کی ناپائیداری، دنیا کی بے ثباتی، حقیقت کائنات کے سمجھنے میں اس جویائے راز کی کامل بے بسی اور بعض مروجہ اخلاقی اقدار کے استہزا کے مضامین شامل ہیں۔ بابا طاہر عریاں کے ہاں عشق و مستی اور بے نیازی قلندری کے احساس کی فراوانی ہے۔ شیخ ابو سعید ابی الخیر نے وحدت الوجود کے مسئلہ کو پہلی دفعہ فارسی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور شیخ عبداللہ انصاری کا موضوع سخن زہد و عرفان ہے۔ چھٹی /بارہویں صدی میں شیخ فرید الدین عطار اور اس دور کی مشہور شاعرہ مہستی نے رباعی میں نام پیدا کیا۔ اگرچہ عطار کا میدان بنیادی طور پر مثنوی ہے، مگر انہوں نے ’’ مختار نامہ‘‘کے نام سے رباعیات کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیا جس میں پانچ ہزار رباعیات ہیں، اور ان میں بعض پر خیام کا رنگ اس حد تک غالب ہے کہ ان پر اسی فلسفی شاعر کی تخلیقات کا دھوکا ہوتا ہے۔ رومی نے اپنی عظیم مثنوی اور ضخیم دیوان کے علاوہ تقریباً آٹھ ہزار رباعیاں کہی ہیں، اور تعداد کے لحاظ سے وہ فارسی کے سب سے بڑے رباعی نگار ہیں۔ سعدی اور حافظ نے بھی اس طرف کسی حد تک توجہ دی ہے۔ اگرچہ شاعروں نے مختلف اصناف سخن کے ساتھ ساتھ رباعی کا شغل بھی جاری رکھا مگر یہ محض ایک روایت کی پابندی تھی۔ البتہ صفوی دور کے ایک شاعر سحابی استر آبادی (1601/1010) نے رباعی کو اپنے کلام میں بنیادی اہمیت دی اور اس کی چھ ہزار رباعیات موجود ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فارسی رباعی کا عروج پانچویں/ گیارہویں اور چھٹی /بارہویں صدی ہی میں ہوا۔ اقبال نے اکثر شعراء کے مقابلے میں رباعی کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے رباعی فکر کے بلیغ اظہار کا نہایت موثر ذریعہ ہے۔ اقبال کو یہ صنف سخن اس لیے نہایت موزوں دکھائی دی کہ وہ مفکر بھی تھے اور فنکار بھی۔ انہوں نے اپنے گہرے افکار کو بلیغ انداز میں پیش کرنے کے لیے رباعی کو وسیلہ بنایا اور اپنی غیر معمولی شاعرانہ استعداد سے رباعی میں فکر و فن کا نہایت دلآویز نمونہ پیش کیا۔ ان کی رباعی میں ان کے بنیادی فلسفہ زندگی کے علاوہ مختلف ملی، اجتماعی، سیاسی اور تعلیمی مسائل زیر بحث آئے ہیں اور شاعر نے ہر جگہ اپنے نقطہ نظر کو نہایت موجز اور بلیغ طریقے سے پیش کیا ہے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ فارسی رباعی کی پوری تاریخ میں کسی شاعر نے اس صنف سخن میں موضوع کا وہ تنوع پیش نہیں کیا جو ہمیں علامہ کے ہاں نظر آتا ہے۔ اگر ’’ پیام مشرق‘‘کی رباعیات میں عشق و خودی، زندگی کی حقیقت اور کائنات میں انسان کا مقام ایسے موضوع ملتے ہیں تو’’ ارمغان حجاز‘‘میں حجاز کے تخیلی سفر اور جذبات محبت و عقیدت کے علاوہ مختلف مسائل پر شاعر کے آخری عمر کے پختہ افکار کی عکاسی ہوتی ہے۔ قطعہ بھی ایک قدیم صنف سخن ہے۔ کلاسیکی دور میں اس میں سب سے زیادہ نام ابن تمین (1368/769) نے پیدا کیا۔ اس نے قطعہ میں زندگی کی اخلاقی قدروں کو نہایت سادہ، سلیس اور پر خلوص انداز میں پیش کیا۔ا قبال کے ہاں ’’ پیام مشرق‘‘میں بہت سے قطعات موجود ہیں۔ انہوں نے اس صنف سخن میں بھی ایک انفرادیت پیدا کی ہے، اور وہ یہ کہ انہوں نے مختلف موضوعات پر کم سے کم اشعار میں اپنے افکار کا اظہار کر کے ایجاز و بلاغت کے شاہکار تخلیق کیے ہیں۔ یہ قطعات عام طور سے صرف دو دویا تین تین اشعار سے عبارت ہیں اور ان میں ایک جہان معنی آباد ہے جو فکر و فن کے حسین امتزاج و اظہار کی بہترین دلیل ہے۔ یہاں صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے: ’’ الملک اللہ‘‘میں شاعر نے سپین پر طارق بن زیاد کے حملے، بحری بیڑے کو نذر آتش کر دینے کے احکام، ان پر اعتراض اور اس اعتراض کے مسکت جواب کو صرف تین اشعار میں جس انداز میں پیش کیا گیا ہے اسے بلیغ شاعری کا شاہکار سمجھنا چاہیے۔ اشعار مندرجہ ذیل ہیں: طارق چو بر کنارۂ اندلس سفینہ سوخت گفتند کار تو بہ نگاہ خرد خطاست دوریم از سواد وطن باز چون رسیم؟ ترک سیب و روے شریعت کجا رواست؟ خندید و دست خوش بہ شمشیر بر دو گفت ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدا سے ماست اس قطعہ کے بارے میں اقبال کے ایک ایرانی مداح اور سوانح نگار سید غلام رضا سعیدی لکھتے ہیں کہ علامہ نے 1932ء میں بیت المقدس میں پہلے موتمر اسلامی میں شرکت کی تھی۔ ایران کے ایک سابق وزیراعظم سید ضیاء الدین طباطبائی نے جو موتمر کے معتمد عمومی تھے ایک دن فرمایا کہ چونکہ مرحوم اقبال عربی زبان میں گفتگو پر قدرت نہیں رکھتے تھے انہوں نے اپنی تقریر انگریزی میں کی۔ میں اس تقریر کا ساتھ ساتھ عربی میں ترجمہ کر رہا تھا۔ جب میں نے ان اشعار کا ترجمہ سنایا جن میں طارق بن زیاد کے تاریخی خطبے کا خلاصہ پیش کیا گیا تھا تو کانفرنس میں وجد و نشاط کی ایک ایسی کیفیت طاری ہو گئی جو بیان سے باہر ہے۔ تمام حاضرین نے علامہ کی قدرت طبع اور قوت بلاغت کی تعریف کی اور اعتراف کیا کہ اب تک عرب ادباء و شعراء میں سے کوئی شخص اس اہم تاریخی خطاب کی روح کو اس ایجاز کے ساتھ پیش نہیں کر پایا ہے۔ 12؎ ’’ زندگی‘‘کے عنوان سے تین اشعار کا ایک قطعہ ہے جس میں زندگی کے روشن اور تاریک پہلوؤں پر درخشاں اور تابناک صورتگری اور دلکش اشاریت کے ذریعے تبصرہ کیا گیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے سنگین افکار غزل کی لطیف زبان اور نازک تخیل میں ڈھل گئے ہیں، اور چند الفاظ کی تصویر کشی اور تمثیل کے ذریعے زندگی کے روشن پہلو کا نقش ہمیشہ کے لیے دل پر بٹھا دیا گیا ہے: شبے زار نالید ابر بہار کہ این زندگی گریہ پیہم است درخشید برقے سبک سیر و گفت خطا کردہ ای، خندۂ یکدم است ندانم بہ گلشن کہ برد این خبر سخنہا میان گل و شبنم است ’’ حکمت و شعر‘‘میں شاعر نے تین اشعار میں عشق و خرد کا مقابلہ کیا ہے۔ انداز یہاں بھی تمثیلی ہے۔ مشہور فلسفی بو علی سینا خرد اور پیر روم عشق کی علامت ہیں۔ شاعر نے اپنے غیر قابل تقلید بلیغ اور اثر آفرین انداز میں نہ صرف فلسفہ کی بے حاصلی اور عشق کی کامرانی کا نقش دل پر بٹھایا ہے بلکہ نہایت مختصر اور پر اثر انداز میں حکمت اور شعر کا فرق بھی واضح کیا ہے۔ یہاں بھی مندرجہ بالا قطعے کی مانند ایک مختصر بحر سے کام لیا گیا ہے۔ بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردۂ محمل گرفت این فرو تر رفت و تا گوہر رسید آن بگردابے چو خس منزل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر میگردد چو سوز از دل گرفت اب چند ایسے قطعات کی مثالیں بے محل نہ ہوں گی جو صرف دو دو اشعار پر مشتمل ہیں، مگر خیال افروزی اور معنویت میں بے مثال ہیں۔ ’’ زندگی و عمل‘‘صرف دو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں انداز تمثیلی اور علامتی ہے شاعر نے مکالمے کے ذریعے اس میں مزید تاثیر پیدا کر دی ہے۔ ساحل جمود اور بے عملی کی علامت ہے، اور موج حرکت کی آئینہ دار اور زندگی کی مثبت حقیقت کا اظہار ہے۔ ساحل کی افسردگی اور مایوسی کا توڑ موج کی بیتاب روانی میں پنہاں ہے۔ ان اشعار میں عمل اور زندگی کو ایک ہی حقیقت کی دو تصویریں بتایا گیا ہے: ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شدہ آہ کہ من چیستم موجے ز خود رفتہ تیز خر امید و گفت ہستم اگر جروم گر نہ روم نیستم ’’ عشق‘‘کے عنوان سے دو اشعار کے ایک قطعے میں عشق کی آفاقی حقیقت کو انتہائی لطف رومانی انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور ایک سنگین تجریدی حقیقت کی تعبیر گل و شبنم اور بلبل و صبا کی لطیف زبان میں ہوئی ہے۔ عشق وہ راز ہے جو شبنم آسمان سے اڑا لائی ہے۔ اس نے چپکے سے اسے پھول کے کان میں کہہ دیا ہے۔ پھول نے اسے بلبل تک پہنچایا ہے، اور بلبل کے ترنم ریز نغموں نے اسے دوش صبا پر منتشر کر دیا ہے۔ اب یہ راز آفاق میں پھیل کے راز نہیں رہا اور زمین و آسمان اس کی لذت سے سرشار ہیں: آن حرف دلفروز کہ راز است و راز نیست من فاش گوئمت کہ شنید؟ از کجا شنید؟ دزدید ز آسمان و بہ گل گفت شبنمش بلبل ز گل شنید و ز بلبل صبا شنید اقبال نے کلاسیکی اصناف سخن میں سے بعض نسبتاً کم اہم اصاف بھی استعمال کی ہیں۔ یہ انداز انتخاب ہمیں تیرھویں/انیسویں اور موجودہ صدی کے آغاز کی فارسی شاعری کی یاد دلاتا ہے جب شعرا نے غزل، قصیدہ اور مثنوی وغیرہ کے علاوہ ایسی اصناف سخن کو بھی اپنے افکار و جذبات کے اظہار کا وسیلہ بنا لیا تھا جو زیادہ لائق توجہ نہیں سمجھی جاتی تھیں مگر جن کا احیاء مروجہ شاعری میں ایک طرح کی تازگی کا باعث ہوا تھا۔ ان میں مستزاد اور مسمط خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ علامہ کی نظر تمام اصناف سخن پر تھی انہوں نے تخلیقی تجربوں کے ساتھ ساتھ بعض نسبتاً کم اہم اصناف میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے حسن و تاثیر کی دنیا آباد کی۔’’ پیام مشرق‘‘کی نظمیں ’’ نوائے وقت‘‘اور ’’تنہائی‘‘مخمس کی شکل میں کہی گئی ہیں۔’’ نوائے وقت‘‘پر خروش موسیقی کا شاہکار ہے اور خود وقت کے گزرنے میں جس تیزی کا احساس ہوتا ہے اسے شاعر نے تیز و تند اور ہیجان انگیز موسیقی میں منعکس کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: خورشید بہ دامانم، انجم بہ گر یبانم در من نگری ہیچم، در خودنگری جانم در شہر و بیابانم، در کاخ و شبستانم من دردم و درمانم، من عیش فراوانم من تیغ جہان سوزم، من چشمہ حیوانم ’’ پیام مشرق‘‘میں شاعر نے ’’ تنہائی‘‘کے عنوان سے جو مخمس لکھی ہے وہ ان کی شاہکار نظموں میں شمار ہونی چاہیے۔ شاعر محرم راز کی جستجو میں فطرت کے باشکوہ مظاہر کے پاس جاتا ہے، مگر سمندر کی موج بیتاب ہو، پہاڑ کی ہیبت ناک خاموشی ہو، یا چاند کی سر زمین، کسی میں اس کو دل بیتاب کا سوز نہیں ملتا۔ یہ وہ دولت ہے جس نے انسان کو کائنات میں عظمت بخشی ہے۔ انسان کی برتری کے موضوع کو یہاں نہایت دل انگیز رومانی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مخمس میں ہر پند میں پانچ مصرعے ہوتے۔ یہاں ہر پانچویں مصرعے کے آخر میں ’’ و ہیچ نگفت‘‘کی تکرار نے ایک خاص لطف پیدا کیا ہے۔ اقبال نے مثلت میں بھی طبع آزمائی کی ہے جس میں ہر بند تین مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ’’زبور عجم‘‘کی ایک مثلث کا پہلا بند ملاحظہ ہو: مانند صبا خیز و وزیدن دگر آموز دامان گل و لالہ کشیدن دگر آموز اندر دلک غنچہ خزیدن دگر آموز مکالمہ اور مناظرہ فارسی شاعری کی ایک قدیم روایت ہے۔ اس کا آغاز سلجوقی دور کے شاعر اسدی طوسی (1073/465) نے کیا۔ مناظرہ کا مقصد موضوع کو ایک تازہ انداز میں پیش کرنا ہی نہ تھا بلکہ اس سے ڈرامائی تاثر کے ذریعے پڑھنے والے کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنا بھی منظور تھی۔ اقبال کے ہاں یہ انداز شروع سے موجود ہے۔’’ اسرار خودی‘‘میں بعض نظمیں جن کی طرف اس کتاب سے بحث کے دوران میں اشارہ ہو چکا ہے، اسی رنگ میں ہیں۔ مکالمات کے ذریعے شاعر کو اپنا نقطہ نظر صراحت کے ساتھ پیش کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ مکالماتی رنگ ’’ پیام مشرق‘‘میں زیادہ ہے۔ یہ مکالمے عام طور سے مختصر ہیں۔ پہلی مکالماتی نظم ’’ محاورہ علم و عشق‘‘ہے۔ اس میں پہلے علم اپنی جہاں بینی اور راز دانی دہر کا دعویٰ کرتا ہے۔ عشق علم سے اس کے افسوں کی تباہ کاریوں کی شکایت کرتا ہے جس کی وجہ سے ہوا آگ اور زہر برسا رہی ہے اور سمندروں میں شعلے اٹھ رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ علم کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے اور اسے اس راز سے آشنا کرتا ہے کہ وہ دونوں روز ازل سے ایک دوسرے کے ساتھی اور ایک ہی نغمے کے زیر و بم ہیں۔ یہ نظم اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں شاعر نے عشق و خرد کی تقابلی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے دونوں کو ایک ہی تصویر کے دو رخ کہا ہے۔ علم کے بارے میں علامہ کا نظریہ جاننے کے لیے اس نظم کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ عشق علم سے یوںمخاطب ہوتا ہے: ز افسون تو دریا شعلہ زار است ہوا آتش گداز و زہر دار است چو با من یار بودی، نور بادی بریدی از من و نور تو نار است بخلوت خانہ لاہوت زادی و لیکن در نخ شیطان فتادی بیا این خاکدان را گلستان ساز جہان پیر را دیگر جوان ساز بیا یک ذرہ از درد دلم گیر تہ گردون بہشت جاودان ساز ز روز آفرینش ہمدم استیم ہمان یک نغمہ را زیر و بم استیم دوسرا مکالمہ ’’ محاورہ مابین خدا و انسان‘‘ہے۔ یہ اقبال کی مشہور نظم ہے جس میں انسان کی عظمت اور اس کے شوق تسخیر اور ذوق تخلیق کو مکالماتی رنگ میں نہایت فکر انگیز اور دلنشین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ عظمت انسانی کے سلسلے میں اس کا تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے۔ ایک اور مکالمہ ’’ اگر خواہی حیات اندر خطرزی‘‘کے عنوان سے ہے۔ اس میں ایک ہرن احساس شکست سے چور ہے اور فتنہ صیاد سے امان چاہتا ہے جس نے اس کے صبح و شام کا چین حرام کر رکھا ہے۔ ایک دوسرا ہرن رجائیت کا مظہر ہے وہ زندگی کی شان خطرات میں جینے ہی کو سمجھتا ہے اور خطر ہی کو قوت مقاومت کا امتحان سمجھتا ہے۔ دو غزالوں کا یہ مکالمہ علامہ کے فلسفہ زندگی کی آئینہ داری کرتا ہے۔ مکالماتی اور داستانی عنصر نے اس میں حرارت کے ساتھ ساتھ تاثیر میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ’’ حور و شاعر‘‘کے عنوان سے جو مکالمہ پیش کیا گیا ہے وہ اقبال کی خوبصورت ترین نظموں میں سے ہے۔ گوئٹے کے ہاں اسی عنوان سے ایک نظم موجود ہے۔ اقبال نے یہ نظم گوئٹے ہی کی تخلیق کے جواب میں کہی ہے۔ اس نظم میں اقبال نے شاعر کی سیماب گوں ذہنی اور جذبات کیفیت کا اظہار نہایت خوبصورت اور دلآویز تشبیہوں کے ذریعے کیا ہے، اور خوب سے خوبتر کی تلاش کو شاعر کا خواب کہا ہے۔ مکالمے اور بھی ہیں اور ہ رایک میں شاعر نے کم و بیش ایک ڈرامائی عنصر کے ذریعے اپنے افکار کو زیادہ موثر اور دلنشین انداز میں پیش کیا ہے۔ ان میں سے ایک ’’ صحبت رفتگان‘‘کے نام سے بعض ممتاز مغربی مفکرین کے فلسفے کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ اس نظم کے آخری حصے اور ایک دوسری نظم بعنوان ’’ محاورہ مابین حکیم فرانسوی آگسٹس کومٹ و مرد مزدور‘‘میں اقبال نے مزدور کی حمایت میں زور دار شعر کہے ہیں جن کا لہجہ انقلابی اور پر جوش ہے۔ مثلاً ’’ صحبت رفتگان‘‘میں ایران کا قدیم اشتراکی فلسفی مزدک (چھٹی صدی عیسوی) کوہکن سے جسے اقبال نے ہمیشہ محنت کش کا مظہر قرار دیا ہے۔ یوں ہمکلام ہے: دور پرویزی گذشت اے کشتہ پرویز خیز نعمت گم گشتہ خود را ز خسرو بازگیر کوہکن نے اپنے جواب میں ملوکیت اور سرمایہ داری پر کاری ضرب لگائی ہے: برون او ہمہ بزم و درون او ہمہ رزم زبان او ز مسیح و دنش ز چنگیز است اگرچہ نیشہ من کوہ را ز پا آورد ہنوز گردش گردون بکام پرویز است اقبال نے پرویز ہی کو ملوکیت اور فرہاد یا کوہکن کو مزدور کی علامت قرار نہیں دیا بلکہ انہیں علامتیت اور رمزیت سے ایک گونہ دلچسپی ہے۔ رمزیت فارسی شاعری کی پرانی روایت ہے۔ رومی کے مندرجہ ذیل شعر کی طرف اشارہ ہو چکا ہے: خوشتر آن باشد کہ سر دلبران گفتہ آید در حدیث دیگران اقبال کے ہاں رمزیت اور اشاریت کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسی کو کمال گویائی سمجھتے ہیں: برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائیست حدیث خلوتیان جزبہ رمز و ایمانیست ایک اور جگہ رمز و کنایہ میں بات کرنے کا ذکر یوں کیا ہے: وقت برہنہ گفتن است من بہ کنا یہ گفتہ ام خود تو بگو کجا برم ہمنفسان خام را پھر کہا ہے: پردہ بر گیرم و در پردہ سخن میگویم تیغ خونریزم و خود را بہ نیامے دارم رمزیت فارسی غزل کی جان ہے۔ اس نے اس دلآویز صنف سخن کو ابہام کے ساتھ ساتھ وسعت اور آفاقیت بخشی ہے۔ اقبال کی غزل میں تو رمزیت کی روایت ہے ہی، ان کی بعض نظموں میں بھی یہی کیفیت ہے۔ ’’ حدی‘‘کی طرف اشارہ ہو چکا ہے۔ یہ نظم بظاہر ساربان کا گیت ہے جو کاروان کی رفتار تیز تر کرنے کے لیے گایا گیا ہے، مگر کارواں سے یہاں مراد ملت اسلامی ہے جسے حجاز کے دشت و بیابان کے پس منظر میں زندگی کا پیغام دیا گیا ہے۔ یہ پیغام حرارت اور لگن پیدا کرنے کی ولولہ انگیز مثال ہے۔ ’’ گل نخستیں‘‘ایک اور رمزیہ نظم ہے جس میں پھول لذت تخلیق، ذوق جستجو اور تازہ آئینی کی علامت ہے۔ اقبال کی علامتوں میں شاہین کو خاص طور سے اہمیت حاصل ہے۔ شاہین قوت کا مظہر ہے اور بلند پرواز اور بے نیاز ہے۔ ایک خط میں شاہین کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں۔ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں (1) خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا (2) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا (3) بلند پرواز ہے (4) خلوت پسند ہے (5) تیز نگاہ ہے۔‘‘12؎ شاہین کی انہی صفات کے پیش نظر اقبال نے ہمیشہ اسے اپنے تخیل میں بڑی نمایاں جگہ دی ہے اور اسے خودی کا مظہر بتایا ہے۔ بعض اشعار میں یہ علامتی رنگ ملاحظہ ہو: جرعہ شاہینی بمرغان سرا صحبت مگیر خیز و بال و پر کشا پرواز تو کوتاہ نیست ٭٭٭ تو اے شاہین نشیمن در چمن کردی ازان ترسم ہواے او ببال تو دہد پرواز کوتاہے ٭٭٭ شاہین من بہ صید پلنگان گذاشتی ہمت بلند و چنگل ازین تیز تر بدہ ٭٭٭ اگر یک قطرہ خون داری اگر مشت پرے داری بیا من با تو آموزم طریق شاہبازی را اقبال کی رمزیت اور صورتگری میں گل لالہ کو خاص طور سے بہت نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ لالہ کا سرخ رنگ شاعر کے لیے تپش اور سوز کا مظہر ہے۔ وہ آتش بجاں ہے اور کبھی تو شاعر کو یہ گمان بھی گزرنے لگتا ہے کہ لالہ اسی کے مشت غبار سے پیدا ہوا ہے اور شائد شاعر کا دل ہے جس نے گل لالہ کا پیکر اختیار کر لیا ہے۔ گل لالہ سے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ ’’ پیام مشرق‘‘کی رباعیات کا عنوان بھی ’’ لالہ طور‘‘ہے۔ اس کتاب میں لالہ پر ایک پوری نظم ہے جو یوں شروع ہوتی ہے: آن شعلہ ام کہ صبح ازل در کنار عشق پیش از نمود بلبل و پروانہ می تپید افزون ترم ز مبہر و بہر ذرہ تن زنم گردون شرار خویش ز تاب من آفرید ’’ زبور عجم‘‘کی ایک غزل لالہ کے نام ہے جس میں شاعر سو و تپش کی اس لازوال اور حسین مظہر کو زندگی کی رات میں اپنے سینے کے داغ کو اور فروزاں کرنے اور اس شعلہ بیباک کو باد صبا کے مقابلے میں سینہ تاننے کا پیغام دیتا ہے: داغے بسینہ سوز کہ اندر شب وجود خود راشناختن نتوان جز باین چراغ اے موج شعلہ سینہ بہ باد صبا کشاے شبنم مجو کہ میدہد از سوختن فراغ یہی نصیحت شاعر لالہ کو ہر طوفان کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے کے لیے کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اسے اپنے داغ محبت کے تحفظ کا پیغام بھی دیتا ہے: بہر بادے کہ آید سینہ بکشا نگہ دار آن کہن داغے کہ داری لالہ سے شاعر کے لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے مرقد پر بھی گل لالہ کے کھلنے کی آرزو کرتا ہے۔ ’’ بال جبریل‘‘میں ایک پوری نظم’’ لالہ صحرائی‘‘کے عنوان سے ہے جس میں شاعر نے اپنے اور گل لالہ کے درمیان مناسبت پیدا کرتے ہوئے اس کے شاخ سے پھوٹنے کو جذبہ پیدائی پر محمول کیا ہے۔ لالہ کلام اقبال کے تار و پود میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ شاعر نہایت غیر متوقع مقامات پر بھی لالہ کا استعارہ استعمال کرتا ہے اور یہ خوبصورت تخیلی پیکر ٹھوس علمی مسائل میں بھی شاعر کا دامن تخیل نہیں چھوڑتا۔ ایک جگہ جدید تعلیم موضوع سخن ہے۔ اس کے بارے میں شاعر گل و لالہ کی زبان میں گویا ہے: نوا از سینہ مرغ چمن برد ز خون لالہ آن سوز کہن برد باین مکتب باین دانش چہ نازی کہ نان در کف نداد و جان ز تن برد علامہ ملت اسلامی کو سوز دروں اور جذبہ عشق سے سرشار ہونے کی دعا دیتے ہیں تو یہاں بھی گل لالہ کا آتشیں پیکر سوز و ساز کا مظہر بن کر ان کے سامنے آتا ہے اور وہ اس ملت کی فطرت کو لالہ زار میں بدل دینے کی آرزو کرتے ہیں: عشق را داغے مثال لالہ بس در گریبانش گل یک نالہ بس من ہمین یک گل بدستارت زنم محشرے بر خواب سرشارت زنم تا ز خاکت لالہ زار آید پدید از دمت باد بہار آید پدید لالہ کی تفسیر کرتے ہوئے اسے ایک ایسے شعلے سے تعبیر کرتے ہیں جو لالہ کی طرح سرخ فام ہے اور جس کا داغ مسلمان کے لیے متاع حیات ہے: شعلہ اش چون لالہ در رگہاے ما نیست غیر از داغ او کالاے ما شاعر نے خود مسلمان کو لالہ کوہ کے نام سے یاد کیا ہے۔ گل لالہ سنگلاخ چٹانوں کی آزاد فضا میں کھلتا ہے۔ یہی شان مسلمان کی ہے۔ اس کی تہذیب اور روایت کا پس منظر صحرائی ہے۔ لالہ کو دشت و صحرا سے نسبت ہے اور پھر وہ سوز و ساز کا پیکر بھی ہے۔ انہی صفات کے پیش نظر وہ مرد مومن کی علامت بن گیا ہے۔ فرماتے ہیں: مسلم چشم از جہان بربستہ چیست فطرت این دل بہ حق پیوستہ چیست لالہ کو بر سر کوہے دمید گوشہ دامان گلچنیے ندید آتش او شعلہ گیرد بہ بر از نفسہاے نخستین سحر ’’ پیام مشرق‘‘میں بعض مغربی مفکرین کے فلسفے کو ایک ایک شعر میں نہایت بلیغ انداز میں لالہ ہی کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ اور اس طرح شاعر نے فلسفیانہ افکار کے ابلاغ کے لیے متغزلانہ طرز بیان اور تابناک پیکر تراشی سے کام لیا ہے جو اظہار فکر کا نہایت لطیف اور اچھوتا انداز ہے۔ اشعار حسب ذیل ہیں: لاک ساغرش را سحر از بادۂ خورشید افروخت ورنہ در محفل گل لالہ تہی جام آمد کانٹ فطرتش ذوق مے آئینہ فامے آورد از شبستان ازل کوکب جامے آورد برگساں نہ مے از ازل آورد و نہ جامے آورد لالہ از داغ جگر سوز دوامے آورد ان اشعار میں لالہ کے علاوہ ساغر، سحر، جام، مے آئینہ فام شبستان ازل او رکوکب کے الفاظ نے حکیمانہ افکار کو درخشاں پیکروں میں ڈھال دیا ہے، اور فلسفے کو شعریت و لطافت کے ساتھ اس طرح سمویا ہے کہ اس کے مفاہیم و معانی پوری آب و تاب اور بے مثال تاثیر و صراحت کے ساتھ جلوہ گر ہو گئے ہیں۔ اقبال کی علامتوں میں پروانے کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ لالہ کی طرح اسے بھی سوز کا مظہر سمجھتے ہیں: رمز سوز آموز از پروانہ اے در شرر تعمیر کن کاشانہ اے ٭٭٭ سوز او اندر دل پروانہ ہا عشق را رنگین از و افسانہ ہا جگنو کی بھی یہی کیفیت ہے۔ صرف’’ پیام مشرق‘‘ میں کرمک شب تاب دو نظموں کا موضوع ہے۔ وہ جلنے کے لیے دوسروں کا احسان نہیں اٹھاتا اس لیے شاعر کی نظر میں پروانے سے برتر ہے۔ نور اور سوز کا یہ پیکر اندھیری رات میں آپ اپنا چراغ بنتا ہے۔ وہ خود شناس ہے اور اپنی خود داری اور سوز دروں پر نازاں ہے: توان بے منت بیگانگان سوخت نہ پنداری کہ من پروانہ کیشم اگر شب تیرہ تر از چشم آہو ست خود افروزم چراغ راہ خویشم شب تیر کی چشم آہو سے تشبیہہ اور خود افروز کی ترکیب شاعر کے حسن تخیل کی شاہد ہیں۔ دوسری نظم میں روشنی کے اس چمکتے ہوئے بیقرار پیکر کو سوز حیات، نور و حضور اور تب و تاب کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔ اقبال کی ایک محبوب علامت اور اصطلاح نے ہے۔ رومی کے کلام میں نے روح انسانی کی علامت اور سوز و گداز کی مظہر ہے۔ پیر رومی سے دلبستگی نے اقبال کے کلام میں بھی نے کو بہت اہمیت بخش دی ہے اور وہ اسے سوز دروں کی علامت کے علاوہ تشبیہہ اور استعارے کے طور پر بھی بہت استعمال کرتے ہیں۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں: از نیستان ہمچونے پیغام دہ قیس را از قوم حے پیغام دہ ٭٭٭ شور عشقش در نے خاموش من می تپد صد نغمہ در آغوش من ٭٭٭ از غمان مانند نے کاہیدہ اے وز فلک صد شکوہ برلب چیدہ اے ٭٭٭ از غلامی فطرت او دون شدہ نغمہ ہا اندر نے او خون شدہ ٭٭٭ آنچنان کاہید از باد عجم ہمچو نے گردید از باد عجم ٭٭٭ در حضورش بندہ مینالد چو نے برلب او نالہ ہاے پے بہ پے اقبال کی دوسری علامتوں میں عرب، عجم، سلیمی اور لیلیٰ شامل ہیں۔عرب اسلامی اقدار کا حامل ہے اور عجم عرب کے مقابلے میں مخالف اقدار کا نمائندہ ہے۔ لیلیٰ اور سلیمی کی مناسبات بھی اسلامی اقدار حیات سے ہیں: تو رہ شناس نہ ای وز مقام بے خبری چہ نغمہ ایست کہ در بربط سلیمی نیست ٭٭٭ ہوس منزل لیلیٰ نہ تو داری و نہ من جگر گرمی صحرا نہ تو داری و نہ من دل و دین در گرو زہرہ و شان عجمی آتش شوق سلیمی نہ تو داری و نہ من سومنات کفر اور محمود ایمان کی علامت ہیں: کافری را پختہ تر سازد شکست سومنات گرمی بتخانہ بے ہنگامہ محمود نے پرویز ملوکیت اور اقتدار اور کوہگن مزدور کی علامت ہے: دور پرویزی گذشت اے کشتہ پرویز خیز نعمت گم گشتہ خرد را از خسرو باز گیر ٭٭٭ کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت ستارہ، نسیم، جوے آب، موج سب حرکت کے مظہر ہیں اور زندگی کے پیہم سفر کے لیے نہایت بلیغ اور خوبصورت اشارے ہیں۔ ’’ افکار انجم‘‘میں ایک ستارہ دوسرے سے کہتا ہے: سفر اندر سرشت ما نہادند ولے این کاروان را منزلے نیست ’’ سرود انجم‘‘میں سب ستارے مل کر بار بار اپنے مسلسل سفر کا تاثر یوں دیتے ہیں: می نگریم و می رویم نسیم بھی اپنے سفر کا حال یوں بیان کرتی ہے: ز روے بحر و سر کوہسار می آیم ٭٭٭ موج نسیم ہمیشہ رہسپار ہے: این گل و لالہ تو گوئی کہ مقیم اند ہمہ راہ پیما صفت موج نسیم اند ہمہ جوئے آب کا مستقل ترانہ بھی یہی ہے: ہستم اگر میروم، گر نروم نیستم غرض شاعر نے قدرت کے ان حسین کرشموں کو اپنے پیغام عمل اور فلسفہ حرکت کے اظہار کا دلآویز وسیلہ بنایا ہے۔ زندگی کے حرکی تصور کا نقش ثبت کرنے کی خاطر ’’ پرواز‘‘اور’’ سیر‘‘ایسے الفاظ بار بار استعمال کئے گئے ہیں۔ لذت پرواز کی ترکیب اور پرواز کا لفظ اقبال کی شاعرانہ صورت گری میں کس طرح بار بار آتے ہیں اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں: مرا ز لذت پرواز آشنا کردند تو در قضائے چمن آشیانہ می خواہی ٭٭٭ بہ آشیان نہ نشینم ز لذت پرواز گہے بہ شاخ گلم، گاہ برلب جویم ٭٭٭ زندگی جز لذت پرواز نیست آشیان با فطرت او ساز نیست ٭٭٭ کم سخن غنچہ کہ در پردۂ دل رازے داشت در ہجوم گل و ریحان غم دمسازے داشت محرمے خواست ز مرغ چمن و باد بہار تکیہ بر صحبت آن کرد کہ پروازے داشت ٭٭٭ زندگی مرغ نشیمن ساز نیست طائر رنگ است و جز پرواز نیست سیر و سفر کے اشاروں سے زندگی کے ارتقائی سفر کی توضیح یوں کی گئی ہے: لذت سیر است مقصود سفر گر نگہ بر آشیاں داری مپر ٭٭٭ ماہ گردد تا شود صاحب مقام سیر آدم را مقام آمد حرام شاعر نے انسان کو رم پیہم کی دلکش ترکیب سے یاد کیا ہے: گر نظر داری یکے بر خود نگر جز رم پیہم نہ ای اے بیخبر کائنات کا ذرہ ذرہ مشتاق سفر اور مائل بہ ارتقا ہے۔ یہ تاثر مظاہر فطرت کے بعض دوسرے عناصر سے بھی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً ریگ رواں سے یہی تاثر پیدا کیا گیا ہے: زمین را راز دان آسمان گیر مکان را شرح رمز لا مکاں گیر پرد ہر ذرہ سوے منرل دوست نشان راہ از ریگ روان گیر شاعر نے سمندر، تلاطم، طوفان اور موج و گرداب وغیرہ سے بھی حرکت کے تصور کو اجاگر کیا ہے اور ان کے ذریعے زندگی کے طوفان خیز حقائق اور مستقل آویزش کا شدید تاثر پیدا کیا ہے۔ کچھ مثالیں حسب ذیل ہیں: چو موج مست خودی باش و سر بہ طوفان کش ٭٭٭ در تلاطم کوش و با قلزم ستیز ٭٭٭ گہر در سینہ دریا خزف بر ساحل افتاد است تخیل کی رعنائی اور قوت کا جو انداز اعلامات میں جھلکتا ہے، وہی حسن آفرین روش اقبال کی تشبیہہ اور استعارے میں جلوہ آرا ہے۔ ہر تشبیہہ اور استعارہ شاعر کے تخیل کی ندرت، شادابی، رنگینی اور تازگی کا آئینہ دار ہے۔ وہ تشبیہہ اور استعارے سے حسن آفرینی اور خیال افروزی کا کام لیتے ہیں۔ ان سے شعر کی معنویت میں زیادہ تاثیر اور شدت پیدا ہوتی ہے، اور مفہوم زیادہ صراحت اور دلآویزی کے ساتھ ذہن پر نقش ہو جاتا ہے۔ چند تشبیہیں اور استعارے ملاحظہ ہوں۔ ایک شعر میں اس حقیقت کا اظہا رمقصود ہے کہ جب تک ذہن کسی فکر سے متاثر نہ ہو عمل کی نوبت نہیں آتی۔ بڑے سے بڑے انقلاب کے لیے سب سے پہلے ذہنی بیداری اور فکری انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے گویا فکر ہمیشہ عمل کا پیشرو ہوتا ہے۔ اس پیشروی کی اچھوتی مثال بجلی کے اس کوندے سے دی ہے جو اس کی کڑک سے پہلے آنگینوں کو خیرہ کرتا ہے: فکر روشن بین عمل را رہبر است چون درخش برق پیش از تندر است ایک شعر میں مسلمان کو مسکراتی ہوئی صبح کی شبنم سے تعبیر کیا ہے۔ صبح خندان میں شبنم کی دلاویز تابانی آنکھوں کے سامنے ایک خوبصورت منظر پیش کر دیتی ہے: از حجاز و چین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خندانیم ما جو نسبت شبنم کو صبح خندان سے ہے وہی مسلمان کو مرکز ملت سے ہے۔ قطرۂ شبنم کو بیک وقت اشک چشم بلبل اور کوکب رم خو کہا ہے۔ کوکب رم خو نہ صرف تشبیہہ و استعارہ کے حسن کی دلیل ہے بلکہ ایک نادر ترکیب بھی ہے: قطرۂ شبنم سر شاخ گلے تافت مثل اشک چشم بلبلے تاب او محو سپاس آفتاب لرزہ بر تن از ہراس آفتاب کوکبے رم خوے گردون زادۂ یکدم از ذوق نمود استادۂ ایک شعر میں اپنے دل کی ویران دنیا میں تصور جاناں کو ایک ایسے جلوے سے تشبیہہ دی ہے جو چاندنی کی طرح کسی بیابان میں منتشر ہو۔ دل کو بیاباں اور پھر اسی میں یاد محبوب کو مہتاب پریشاں سے تشبیہہ شاعر کے تخیل کے حسن، توانائی اور اچھوتے پن کی دلیل ہے۔ اگر کاوی دروء را خیال خوش را یابی پریشان جلوۂ چون ماہتاب اندر بیابانے قدرت نے شاعر کو جو رہبرانہ شان بخشی ہے وہ اسے اپنے ماحول میں اس بے تاب بجلی سے تشبیہہ دیتا ہے جو سیاہ بادلوں میں چمک رہی ہو: بآن آب و تابے کہ فطرت بہ بخشد در خشم چو برقے بابر سیا ہے کاروان شوق یثرب کی طرف رواں ہے۔ آواز جرس سے ہر جلوہ مست کے دل بیتاب میں ارتعاش و مستی کی وہ کیفیت پیدا ہو رہی ہے جو نسیم کے چلنے سے نیستان میں ہر نے پر طاری ہوتی ہے: مپرس از کاروان جلوہ مستان ز اسباب جہان بر کندہ دستان بجان شان ز آواز جرس شور چو از موج نسیمے در نیستان شاعر نے عالم پیری میں یثرت کا سفر اختیار کیا ہے۔ زندگی کے اس آخری موڑ پر یہ عزم سفر اس پرندے کی یاد دلاتا ہے جو دن ڈھلے آشیانے کی فکر میں پر افشان ہو: پاین پیری رہ یثرت گرفتم نوا خوان از سرور عاشقانہ چو آن مرغے کہ در صحرا سر شام کشاید پر بفکر آشیانہ بیابان کی تنہائی اور وقت کھونے کے بعد شام کی بڑھتی ہوئی تاریکی میں آشیانے کی فکر، یہ ایک ایسا منظر ہے جو احساس زیاں کے ساتھ ساتھ شاعر کے وفور اشتیاق اور فرط عقیدت کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ ’’ کرمک شب تاب‘‘میں جگنو کے لیے جو تشبیہات دی گئی ہیں وہ رعنائی خیال اور تابانی تخیل کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ جگنو کی روشنی شاعر کی نظم میں اس کے سوز کی علامت ہے۔ چنانچہ سوز، بیتابی اور روشنی کے اس پیکر کے لیے تشبیہیں بھی ایسی استعمال ہوئی ہیں جو ذہن پر ان خصوصیات کا گہرا نقش ثبت کر رہی ہیں: وا ماندہ شعاعے کہ گرہ خورد و شرر شد از سوز حیات است کہ کارش ہمہ زر شد دار اے نظر شد پروانہ بے تاب کہ ہر سو تگ و پو کرد بر شمع چنان سوخت کہ خود را ہمہ او کرد ترک من و تو کرد یا اخترکے ماہ مبینے بکمینے نزدیک تر آمد بہ تماشاے زمینے از چرخ برینے یا ماہ تنک ضو کہ بیک جلوہ تمام است ماہے کہ برو منت خورشید حرام است آزاد مقام است ناقہ کاروان کے لیے لکہ ابر رواں، کشتی بے بادباں اور خضر راہ دان کی تشبیہات صحرا میں اس کی رفاقت، رہنمائی اور رفتار و حرکت کے تصور کو پوری طرح اجاگر کرتی ہیں: لکہ ابر روان کشتی بے بادبان مثل خضر راہ دان بر تو سبک ہرگران تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست شاعر نے پرندوں کے پروں اور ان کے رنگوں کے امتزاج سے اچھوتی تشبیہیں پیش کی ہیں۔ بہار کے موسم میں زمین کی رنگا رنگ کیفیت کو یوں بیان کیا ہے: زمین از بہاران چو بال تذروے نیلگوں آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے حلقوں کی صورت میں منتشر ہیں۔ ان آوارہ بادلوں کو تیتر کے پروں سے تشبیہہ دی ہے۔ حلقہ حلقہ چو پر تیہو غمام ’’ اسرار خودی‘‘میں ’’ مکالمہ گنگا و ہمالہ‘‘کے زہر عنوان ایک مکالمہ درج ہے جس میں دریائے گنگا کی لذت رفتار سے سرشار موجیں کوہ ہمالیہ کو سکون اور خرام پیہم سے نا آشنائی کا طعنہ دیتی ہیں۔ دریا اس سر بفلک پہاڑ سے یوں ہمکلام ہوتا ہے: اے ز صبح آفرینش یخ بدوش پیکرت از رودہا زنار پوش یہاں مچلتی ہوئی سیمگوں ندیوں کو زناروں سے تشبیہہ دی ہے اور برف پوش پہاڑوں کو ایک جامد اور ساکت پیکر تصور کیا ہے جو زناروں سے لدا پھندا ہے۔ یہ پوری تصویر قدیم ہندوستانی تہذیب و مذہب سے ایک گونہ مناسبت رکھتی ہے۔ ایک شعر میں سورج کو آنکھ اور اس کی کرن کو نگاہ سے تشبیہہ دی ہے اور پھر لبریز نگاہ کی اچھوتی اور کیف انگیز ترکیب سے شعر میں بلا کی متغزلانہ کیفیت پیدا کی ہے: پردہ از چہرہ بر افگن کہ چو خورشید سحر بہر دیدار تو لبریز نگاہ آمدہ ایم اقبال قوت کا شاعر ہے اور قوت سے مراد صرف مادی قوت ہی نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی قوت بھی ہے۔ ایک دلکش رباعی میں جسمانی طاقت اور عشق و اخلاق کی لطیف قوت کا امتزاج پیدا کرنے کی دعوت دی ہے نہ جسم و روح کی اس ہم آہنگی ہی سے انسان کی شخصیت عظمت کی معراج کو چھوتی ہے: تنے پیدا کن از مشت غبارے تنے محکم تر از سنگین حصارے درون او دل درد آشناے چو جوے در کنار کوہسارے مشت غبار سے ایک ایسے جسم کی تمنا جو سنگین قلعے سے بھی زیادہ مضبوط ہو اور پھر اس کے اندر ایک درد منددل کی آرزو کا تصور ایسا ہی ہے جیسے دیو پیکر کوہساروں کے درمیان جوئے آب ترنم ریز ہو۔ جسم و روح کی قوت کے اس امتزاج کی تمنا رومی کا مشہور شعر یاد دلاتی ہے: زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست اقبال کے نزدیک زندگی مسلسل حرکت ہے۔ یہ ذوق پرواز کا دوسرا نام ہے۔ کائنات اس کی دھڑکنوں سے آباد ہے۔ زندگی کے اس حرکی تصور کو تل و دمن اور صحرا و بیابان میں ہرن کی چوکڑی سے تشبیہہ دی ہے۔ شعر میں وہی برق آسا تیزی اور تندی ہے جو شاعر زندگی سے منسوب کرتا ہے۔ موسیقی کے تند و تیز آہنگ نے شعر کے حسن کو اور زیادہ سنوار دیا ہے: بہ بلند و پست عالم تپش حیات پیدا چہ دمن چہ تل چہ صحرا رم این غزالہ دیدم عام طور سے معقول کی تشبیہہ محسوس سے دی جاتی ہے۔ خیالات و جذبات کی تجسیم کی جاتی ہے تاکہ وہ پوری صراحت و تاثیر اور آب و تاب کے ساتھ واضح ہو جائیں۔ مگر بعض اوقات شاعر محسوسات کے لیے تشبیہات معقولات سے بھی لاتا ہے۔ اقبال کے ہاں بھی تشبیہہ کا یہ انداز ملتا ہے اور شاعر کے تخیل کی توانائی کی زندہ دلیل ہے۔ مثلاً’’ جاوید نامہ‘‘میں وہ اپنے پیر و مرشد کی معیت میں فلک زہرہ میں ایک ایسے سمندر میں سے گزر رہے ہیں جس کا رنگ انتہائی سیاہ ہے۔ اس پر اسرار اور تاریک ماحول کے لیے تشبیہہ ملاحظہ ہو: رومی و من اندر آن دربائے قیر چون خیال اندر شبستان ضمیر شبستان ضمیر بذات خود ایک انتہائی اچھوتی اور اثر آفرین ترکیب ہے۔ ایک جگہ عشق و عقیدے سے محروم ہو جانے کو پھول کی بو سے تشبیہہ دی ہے جو اپنی اصل سے دور اور بیگانہ ہو جاتی ہے۔بو کا گل سے فرار ایک دلآویز انداز بیان ہے: من و تو از دل و دین نا امیدیم چو بوے گل ز اصل خود رمیدیم پھول کے لیے شاعر نے رمیدہ بو کی خوبصورت ترکیب بھی استعمال کی ہے: اے بلبل از جفایش صد بار با تو گفتم تو در کنار گیری باز این رمیدہ بو را زندگی کی لذت رم یا ذوق پرواز کو بھی شاعر نے بو سے تشبیہہ دی ہے۔ پھول کی مہک کو پھول میں قرار نہیں بلکہ وہ دوش ہوا پر سوار ہو کر چاروں طرف پھیل جاتی ہے بعینہ یہی کیفیت زندگی کی جولانی اور رم پیہم کی ہے: گرچہ مثل بو سراپایش رم است اگرچہ اقبال اصولاً عظمت آدم اور رجائیت کے شاعر ہیں مگر ان کی نظر انسانی زندگی کے المیوں پر بھی رہتی ہے۔ اس زندگی میں غم روزگار کے ساتھ ساتھ انسان پر دم مستعار کی چھاپ بھی ہے۔ محرومی و نارسائی اس کے لیے رنج و الم کا باعث بھی بنتی ہے۔ اس کی آنکھوں سے کبھی آنسوؤں کی جھڑی بھی لگتی ہے۔ یہ رنج و غم اور یہ احساس ناکامی و نامرادی اس کے ولولوں ہی کو پامال نہیں کرتا، اس کی جان ناتواں ہی کے لیے روگ نہیں بنتا، اس کے پھول سے جسم کو بھی مسل کے رکھ دیتا ہے۔ یوں تو زندگی کے اس رخ کی تصویریں اقبال کے ہاں نہ ہونے کے برابر ہیں، مگر جب حرمان کا یہ احساس تڑپاتا ہے تو شاعر ایک مجبور و محروم انسان کی طرح اپنے خالق سے یوں استعاروں میں بات کرتا ہے: چہ خبر ترا ز اشکے کہ فرو چکد ز چشمے تو بہ برگ گل ز شبنم در شاہوار داری؟ چہرے کو پھول کی پتی، آنکھ کو شبنم اور آنسوؤں کو در شاہوار کے نام سے یاد کر کے شاعر نے احساس غم کی ایسی تصویر کھینچ دی ہے جس کی تاثیر لافانی ہے۔ ایک نظم میں غلام اور مظلوم مشرق کے لیے یکے بعد دیگرے معانی سے لبریز کئی دلکش تشبیہیں استعمال کی ہیں جو محسوسات اور معقولات دونوں سے متعلق ہیں اور ان میں سے ہر ایک مشرق کی بے بسی اور مظلومیت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے: خاور ہمہ مانند غبار سر راہے است یک نالہ خاموش و اثر باختہ آہے است ہر ذرۂ این خاک گرہ خوردہ نگاہے است غبار سر راہ، نالہ خاموش، اثر باختہ آہ اور گرہ خوردہ نگاہ سر زمین مشرق کے اس دور کی ارزانی، بے بسی اور محرومی کی زندہ تصویریں ہیں۔ ان تشبیہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر فطرت سے کتنا قریب ہے۔ کہیں پرندوں کے رنگا رنگ پروں سے زمین اور بادلوں کا منظر بیان ہو رہا ہے۔ کہیں بجلی کی چمک اور کڑک کے حوالے سے فکر و عمل کی ترتیب کا ذکر ہے۔ کہیں بلبل کے آنسوؤں سے شبنم کے قطرے کی پاکیزگی اور لطافت کی آئینہ داری کی ہے۔ کہیں مذہب کو صبح خنداں اور مسلمان کو شبنم سے تعبیر کیا ہے کہیں تصور جاناں چاندنی کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ کہیں آواز جرس نیزاروں میں نسیم کے چلنے سے نے کے ارتعاش کی یاد دلاتی ہے۔ کہیں زندگی کی ڈھلتی ہوئی شام میں عاشقانہ آرزوؤں کی تکمیل کو شام کے سرکتے ہوئے اندھیروں میں پرندے کے فکر آشیاں سے تشبیہہ دی ہے۔ کہیں قدرت کی حسین تخلیق جگنو کو ایسی شعاع سے یاد کیا ہے جو گرہ کھا کے شرر بن گئی ہے، یا جسے زندگی کے سوز نے سنہرا روپ بخش دیا ہے، یا وہ پریشان اور مضطرب پروانہ ہے جس نے شمع کی آگ میں جل کر من تو شدم تو من شدی کا نقشہ پیش کر دیا ہے، یا ننھا ستارہ، یا روشن جگمگاتا ہوا چاند جو چرخ بریں سے زمین کی سیر کو نکل آیا ہے۔ کہیں اونٹ کے لیے ابر رواں اور کشتی بے بادباں کی تشبیہیں ہیں۔ کہیں یخ بدوش کوہستانوں کے دامن میں سیمگوں ندیاں اس طرح پھیل گئی ہیں جیسے کسی رشی کا جسم زناروں سے ڈھک گیا ہو۔ کہیں نگاہوں اور خورشید سحر کی شعاعوں میں ایک گونہ مناسبت پیدا کی ہے۔ کہیں توانا جسم اور نازک اور درد آشنا دل کے درمیان پہاڑ اور ندی کا ناتا ڈھونڈا ہے۔ کہیں زندگی کے ذوق رم کو ایک ایسی غزالہ بتایا ہے جس کی جولانگاہ دشت و صحرا ہیں اور جو پہاڑوں اور وادیوں میں چوکڑیاں بھرتی بھرتی ہے۔ کہیں نازک پھولوں کی مہک کا پھولوں سے جدا ہونے کا ذکر ہے۔ کہیں شاعر ناشاد و روم انسان کے برگ و گل ایسے رخسار پر آنکھوں کی شبنم سے در شہوار برستے دیکھتا ہے۔ کہیں مظلوم و محکوم مشرق کی بے بسی اور محرومی کا ذکر غبار سر را اور نالہ خاموش کہہ کے گیا ہے۔ یہ جگمگاتی، درخشاں، رنگین اور لطیف تشبیہیں اپنے اندر ایک عجیب دلکشی اور رعنائی رکھتی ہیں۔ان سے شاعر کے تخیل کی وسعت اور بو قلمونی کا اندازہ ہوتا ہے اس کے شعور جمال کی روشن دلیل بھی ملتی ہے اور اس کے مصورانہ ذوق کا ظہار بھی ہوتا ہے۔ اقبال کے ہاں شعر کے تانے بانے میں تشبیہہ کبھی تمثیل کا رنگ بھی اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال کو تمثیل بہت پسند ہے۔ انہوں نے فارسی کے مشہور مثنوی نگاروں کے مانند اپنی مثنویوں میں افکار و معانی کی صراحت کے لیے تمثیل سے کام لیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے دقیق مضامین اور بلند افکار کی وضاحت کا انداز ’’ اسرار خودی‘‘اور’’ رموز بیخودی‘‘میں خاص طور سے نمایاں ہے، اور یہ انداز اختیار کرنے میں وہ یقینا مرشد رومی سے متاثر ہوئے ہیں۔ سبک ہندی کے شعراء نے جن میں صائب تبریزی اور غنی کشمیری خاص طور سے قابل ذکر ہیں، غزل کے اشعار میں بھی تمثیلی رنگ پیدا کر لیا تھا اور انہوں نے اس میں دانش و بینش کا بہت اچھا ثبوت مہیا کیا تھا۔ ایک آدھ جگہ علامہ نے اس میں بھی یہی انداز اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شعر ملاحظہ ہو: محبت چون تمام افتد رقابت از میان خیزد بہ طوف شعلہ پروانہ با پروانہ میسازد اقبال کے ہاں حسن تمثیل کے نمونوں کا اظہار تشبیہہ و استعارے کی دلکشی ہی میں نہیں ہوتا بلکہ ان کے ان اشعار تخیل میں اس طرح رچے ہوئے ہیں کہ ان کی تراکیب و الفاظ بھی دلنشیں تصویروں اور پیکروں میں ڈھل گئے ہیں۔ تخیل اور حقیقت کی یہ رنگ آمیزی اقبال کے پورے کلام میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ شاداب تخیل حقائق میں مزید تابانی پیدا کرتا ہے اور ان کا ہر گوشہ ایک نئے رنگ میں آشکار ہوتا ہے۔ تخیل کی یہ سحر آفرینی جذبات و افکار کے اظہار میں بھی اسی طرح نمایاں ہے جس طرح مناظر کی تصویر کشی میں۔ اگر شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ میرے فکر و فن میں حسن و لطافت بھی ہے، سوز و گداز بھی، اور کیف و مستی بھی، تو اس کا تخیل ہر کیفیت کے اظہار کے لیے ایک ایسی دنیائے رنگ و بو آباد کر لیتا ہے جو اس کی دلکشی میں مزید وسعت پیدا کر دیتی ہے: آنچہ من در بزم شوق آوردہ ام دانی کہ چیست یک چمن گل، یک نیستان نالہ، یک خمخانہ مے فطرت کے مناظر کی مصوری میں شاعر اپنے احساس غم و تنہائی کو ساتھ ساتھ سموتا ہے۔ رومانیت پسند شاعر کی طرح وہ اپنی کسک اور بے کلی کا علاج فطرت کے خاموش و شاداب حسن میں ڈھونڈتا ہے، مگر اسے کہیں تشکین نہیں ملتی۔ ہاں اس غم میں ایک لذت بھی ہے اور ایک ذوق بھی، سادہ اور مختصر مصرعوں میں کس طرح فطرت کی رعنائیاں ڈھلتی چلی جاتی ہیں اور فصل بہار کی روایتی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ شاعر اپنی فنی اپچ سے اس میں کیسی تازگی پیدا کرتا ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل غزل سے ہو گا:ـ زمستان را سرآمد روزگاران نواہا زندہ شد در شاخساران گلان را رنگ و نم بخشد ہواہا کہ می آید ز طرف جو یباران چراخ لالہ اندر دشت و صحرا شود روشن تر از باد بہاران دلم افسردہ تر در صحبت گل گریزد این غزال از مرغزاران دمے آسودہ با درد و غم خویش دمے نالان چو جوے کوہساران ز بیم این کہ ذوقش کم نگردد نگویم حال دل با راز داران! سفر افغانستان کے واقعات اور تاثرات کو نظم کرتے ہوئے شاعر نے بعض شعر یا مصرعے ایسے کہے ہیں کہ جن میں اس کے شعور حسن کی لطافت اور گہرائی کے نہایت خوبصورت اور دلآویز نمونے ملتے ہیں۔ مثلاً کابل کی شام و سحر کے بارے میں مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ ہو: در ظلام شب سمن زارش نگر بر بساط سبزہ می غلطد سحر پچھلے پہر کے گھپ اندھیرے میں پھولوں کے تختوں اور سبزہ زاروں پر سحر کا پھسلنا، لڑھکنا اور مچلنا منظر میں کتنا حسن اور ہیجان پیدا کر رہا ہے۔ بعض جگہ کسی ایک لفظ میں صیغہ جمع کے استعمال سے شاعر اپنی سحر کارانہ مصوری میں بدرجہا اضافہ کر دیتا ہے۔ کوہستان میں شفق کا منظر بظاہر کتنے سادہ مگر فنی اعتبار سے کتنے پختہ اور گہرے مشاہدے اور حسن ادا کے ساتھ پیش کیا ہے: ناید اندر حرف و صورت اسرار او آفتابان خفتہ در کہسار او صیغہ جمع ہی کے استعمال اور ’’ ہا‘‘کی صورت میں قندھار کے چٹیل اور سنگلاخ پہاڑوں کے منظر میں ہیبت اور شکوہ پیدا کیا ہے: رنگ با بو ہا ہوا ہا آب ہا آب ہا تابندہ چون سیماب ہا لالہ با در خلوت کہسار ہا نار ہا یخ بستہ اندر نار ہا شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال کے کلام میں نقاشی اور منظر نگاری کے جو نمونے ’’ جاوید نامہ‘‘میں نظر آتے ہیں وہ بہ حیثیت مجموعی کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتے۔ خود علامہ کے مکتوبات میں ’’ جاوید نامہ‘‘کی اس خصوصیت کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ پہلے اس واقعہ کا ذکر آ چکا ہے کہ جب ایک نوجوان مصور نے شاعر مشرق کے کلام کو رنگ و خط میں ڈھالنا چاہا تو انہوں نے اسے ’’ جاوید نامہ‘‘کے مناظر کی مصوری کا مشورہ دیا تھا۔ کتاب کے آغاز سے لے کر اختتام تک حسین مناظر کی ایک دنیا آبادہے جس کا تعلق حقیقت سے بھی ہے اور محض عالم خیال سے بھی۔ خیال کی یہ دنیا کسی و قت ایک رنگین افسانے میں ڈھل جاتی ہے۔ اس کتاب میں ہر قدم پر شاعر کے تخیل کی ثروت، توانائی اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ مناظر کتاب میں مسلسل دلچسپی برقرار رکھنے کا ایک موثر ذریعہ بھی ہیں۔ چونکہ اس میں مذہب، فلسفے، تصوف، سیاست، تاریخ اور دوسرے موضوعات پر نہایت ٹھوس اور دقیق بحث ہے اس لیے شاعر نے منظر نگاری، لفظی صورتگری، موسیقی میں ڈھلی ہوئی غزلیات، واقعات و جذبات کے ڈرامائی اتار چڑھاؤ اور مکالمات وغیرہ کے ذریعے قاری کے لیے مستقل دلچسپی کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ چنانچہ وہ عمیق افکار کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین کا سامان بھی پاتا چلا جاتا ہے اور اس کے ذہن افق میں پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اس کے اشہب تخیل کو بھی مہمیز لگتی چلی جاتی ہے، اور وہ اپنے آپ کو افلاک میں ایسے بے پناہ، ہیجان انگیز ڈرامائی مناظر میں گھرا ہوا پاتا ہے کہ لمحاتی طور پر وہ اس دنیا سے دور تخیل کی خواب آلود فضا میں دم لینے لگتا ہے۔ کتاب کی ابتدا ہی میں منظر کشی کے نمونے نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش کا سماں یوں پیش کیا گیا ہے: نے یہ کوہے آبجوے در ستیز نے بہ صحراے سحابے ریز ریز نے سرود طائران در شاخسار نے رم آہو میان مرغزار بے تجلی ہائے جان بحر و برش دور پیچان طیلسان پیکرش سبزہ باد فرودین نادیدۂ اندر اعماق زمین خوابیدۂ شاعر مہدی سوڈانی کی زبان سے روح عرب اور خاک بطحا سے خطاب کرتا ہے۔ یہ خطاب وحدت اور اخوت کا پیغام ہے۔ جسے شاعر نے نہایت سوز و درد مندی کے ساتھ اقوام عرب تک پہنچایا ہے۔ اس کے آخری بند میں خاک یثرب کی مرکزیت کی طرف اشارہ منظور ہے۔ یہ خطاب منظر کشی، مصوری اور رمزیت میں ڈھل جاتا ہے۔ صحرا کی کھلی فضا میں آہو کا بے پروا خرام، اوراق تخیل، چشمہ سار، ریگ بیابان، آسمان پر رنگین بادلوں کا ہجوم، یہ سارا منظر بظاہر ابتدائی پیام سے کٹا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر دفعتہ اس بند کے پہلے شعر کی تکرار سے جذبات ایک نئی شدت کے ساتھ ابھرتے ہیں، اور شاعر کا اثر آفرین قلم وہ لازوال تاثیر چھوڑ جاتا ہے جو خطابت سے شاید ممکن نہ تھی۔ بند ملاحظہ ہو: ساربان یاران بہ یثرت ما بہ نجد آن حدی کو ناقہ را آرد بوجد ابر بارید از زمین ہا سبزہ رست میشود شاید کہ پاے ناقہ سست جانم از درد جدائی در نغیر آن رہے کو سبزہ کم دارد بگیر ناقہ مست سبزہ و من مست دوست او بدست تست و من در دست دوست آب را کردند بر صحرا سبیل بر جبل ہا شستہ اوراق نخیل آن دو آہو دو قفاے یک دگر از فراز تل فرود آید نگر یک دم آب از چشمہ صحرا خورد باز سوے راہ پیما بنگرد ریگ دشت از نم مثال بر نیان جادہ بر اشتر نمی آید گران حلقہ حلقہ چون پر تیہو غمام ترسم از باران کہ دوریم از مقام ساربان یاران بہ یثرب ما بہ نجد آن حدی کو ناقہ را آرد بہ وجد فلک زحل پر غلام ہندوستان کی روح کے آشکار ہونے کا منظر حسن و لطافت میں بسا ہوا ہے۔ یہاں شاعر نے اس روح کو ایک ایسی حور سے تشبیہہ دی ہے جس کا رواں رواں پھول کی پتیوں کے تار و پود سے بنا ہے مگر جو مسلسل قید و بند کی مصیبت سہہ رہی ہے: آسمان شق گشت و حورے پاک زاد پردہ را از چہرۂ خود بر کشاد در جبینش نار و نور لایزال در دو چشم او سرور لا یزال حلہ در بر سبک تر از سحاب تار و پودش از رگ برگ گلاب با چنین خوبی نصیبش طوق و بند بر لب او نالہ ہاے درد مند ایک مکالمے میں شاعر شاہ ہمدان سے مناظر کشمیر کے خواب آسا حسن کا ذکر یوں کرتا ہے: کوہ ہائے خنگ سار او نگر آتشین دست چنار او نگر در بہاران لعل میریزد ز سنگ خیزد از خاکش یکے طوفان رنگ لکہ ہاے ابر در کوہ و دمن پنبہ پران از کمان پنبہ زن کوہ و دریا و غروب آفتاب من خدا را دیدم آنجا بے حجاب کشمیر کی گلپوش وادیوں، وہاں کی شفق کے پشہابی اور ارغوانی رنگوں اور سیمگوں ندیوں میں شاعر نے حسن ازل کی بے حجابی کا نقشہ کتنے سادہ اور دلآویز انداز میں کھینچا ہے، اور پھر اس کے کوہ و دمن میں بادل کے آوارہ ٹکڑوں کے لیے دھنکی ہوئی روئی کی کیسی مصورانہ تشبیہہ دی ہے۔ زندگی کے مشکل، انقلاب آمیز فلسفے کو سلطان ٹیپو شہید کی زبان سے جادہ، کاروان، دشت، چمن اور گل وغیرہ کی اصطلاحوں کے سہارے جن دلکش نقوش میں پیش کیا گیا ہے وہ اپنے اندر بلا کی تاثیر رکھتے ہیں: زندگانی انقلاب ہر دمیست زانکہ او اندر سراغ عالمیست جادہ ہا چو رہروان اندر سفر ہر کجا پنہان سفر، پیدا حضر کاروان و ناقہ و دشت و نخیل ہر چہ بینی نالد از درد رحیل در چمن گل میہمان یک نفس رنگ و آبش امتحان یک نفس موسم گل؟ ماتم و ہم نالے و نوش غنچہ در آغوش و نعش گل بدوش لالہ را گفتم یکے دیگر بسوز گفت راز ما نمی دانی ہنوز از خس و خاشاک تعمیر وجود غیر حسرت چیست پاداش نمود؟ شاعر فلک قمر پر پہنچتا ہے تو اسے مندرجہ ذیل منظر دیکھنے کو ملتا ہے: آن سکوت آن کوہسار ہولناک اندرون پر سوز و بیرون چاک چاک از دروش سبزہ سر بر نزد طائرے اندر فضایش پر نزد ابر ہا بے نم ہوا ہاتند و تیز با زمین مردہ اندر ستیز عالمے فرسودہ بے رنگ و صوت نے نشان زندگی در وے نہ موت نے بنافش ریشہ نخل حیات نے بہ صلب روزگارش حادثات گرچہ ہست از دودمان آفتاب صپح و شام و نزاید انقلاب فلک زحل کے خونیں سمندر میں شاعر نے غداران وطن میں میر جعفر اور صادق کی بے بسی اور ذلت کا جو بھیانک منظر پیش کیا ہے وہ اس کے پرواز تخیل کی ایک نمایاں مثال ہے: من چہ دیدم؟ قلزمے دیدم ز خون قلزمے طوفان برون، طوفان درون در ہوا ماران چو در قلزم نہنگ کفچہ شب گون بال و پر سیماب رنگ موجہا درندہ مانند پلنگ از نہیبش مردہ بر ساحل نہنگ بحر ساحل را امان یکدم نداد ہر زمان کہ پارۂ در خون فتاد موج خون با موج خون اندر ستیز درمیانش زورقے در افت و خیز اندر آن زورق دو مرد زرد روے زرد رو، عریان بدن، آشفتہ موے اقبال کی شاعری کی ایک ممتاز صفت اس کا نغمہ و آہنگ ہے۔ یہ آہنگ شاعر کے افکار و احساسات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ عشق و مستی کا آہنگ اور ہے، تفکر کی کیفیت اور نشاط و الم کی کیفیتوں کے اظہار کا آہنگ ایک دوسرے سے متضاد ہے۔ فارسی کا شاعر نغمہ و آہنگ کے بارے میں ہمیشہ بہت حساس رہا ہے۔ غزل گول اور مثنوی نگار نے ہمیشہ اس کے انتخاب میں نفسیاتی اور فنی حقائق کو پیش نظر رکھا ہے۔ رزمیہ شاعری مثلاً شاہنامہ فردوسی یا سکندر نامہ نظامی کے آہنگ میں جو جوش و خروش ہے وہ ’’ لیلیٰ و مجنون‘‘یا ’’ خسرو و شیرین‘‘ایسی عشقیہ مثنویوں کے لیے موزوں نہیں جہاں نغمہ و لے عشق و محبت کے جذبات سے ہم آہنگ ہیں۔ اسی طرح تصوف و عرفان کے لیے صوفی شعراء نے وجد انگیز آہنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ غزل میں انسانی جذبات کی کیفیت بدلتی رہتی ہے۔ کہیں ولولے اور امیدیں اور کہیں شکست اور ناکامی، کہیں رنگ نشاط اور کہیں احساس غم۔ اچھے فنکاروں نے امید و بیم اور لذت و الم کی ان کیفیتوں کے اظہار کے لیے نہایت مناسب اوزان و بحور کا استعمال کیا ہے۔ اقبال کے ہاں غزل اور نظم دونوں میں موسیقی، نغمہ اور خوش آہنگی کے نادر اور دلآویز نمونے نظر آتے ہیں۔ نغمہ شاعر کے فکر و جذبہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور شعر میں سحر آفرین تاثیر کا باعث بنا ہے۔ ’’ زبور عجم‘‘اور’’ پیام مشرق‘‘کی بہت سی غزلوں کا نہ صرف ہر شعر موسیقی میں ڈوبا ہوا ہے بلکہ ایک سرور آمیز احساس خود اعتمادی و کامرانی سے بھی سرشار ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں: ایک ز من فزودہ ای گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صداے من خاک ہزار سالہ را با دل من چہا کنی تو کہ بہ بادۂ حیات مستی شوق میدہی آب و گل پیالہ را غنچہ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کشاے تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را غزل میں افکار کو جذبات اور تخیل کی زبان میں ڈھال دیا گیا ہے۔ حقائق گل و لالہ کی زبان میں ادا ہو رہے ہیں اور ان کے اظہار کے لیے ایک مترنم بحر منتخب کی گئی ہے تخیل کی لطافت و رعنائی اور موسیقی کی پر کیف لے نے شعر کی اثر آفرینی میں اضافہ کر دیا ہے۔ بہ صدائے درد مندے بہ نواے دلپذیرے خم زندگی کشادم بہ جہان تشنہ میرے تو بروے بے نواے در آن جہان کشادی کہ ہنوز آرزویش نہ دمیدہ در ضمیرے شاعر نے مطلع کی ابتدا ہی میں اپنے نصب العین کی عظمت اور اپنے فن کی کامرانی کا راز بتا دیا ہے۔ یہ کامرانی درد مندانہ لہجے اور دلپذیر نوا میں پنہاں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکر و جذبے کے خلوص اور فن کے سحر کارانہ وسائل کے امتزاج ہی سے شاعر نے زندگی کا راگ چھیڑا ہے اور زندگی بھی وہ جو ابھی انسان کے حیطہ خیال سے باہر ہے۔ بر سر کفر و دین فشان رحمت عام خویش را بند نقاب برکشا ماہ تمام خویش را زمزمہ کہن سر اے، گردش بادہ تیز کن باز بہ بزم ما نگر، آتش جام خویش را دام ز گیسوان بدوش زحمت گلستان بری صید چرا نمی کنی طائر بام خویش را اشعار میں تغزل کا رنگ ہے، مگر بند نقاب، ماہ تمام، دام ز گسیوان بدوش، گلستان یہ سب استعارے اور علامتیں اجتماعی زندگی کو ایک نئے ولولے سے سرشار کرنے اور اس کو اپنے تاریخی ورثے سے دوبارہ بہرہ ور کرنے کی التجائیں ہیں۔ اگلے شعر میں اس عظیم ورثے کے حصول اور سربلندی کے لیے کسی عظیم قربانی کی بیباک تمنا کا اظہا رہے: ریگ عراق منتظر، کشت حجاز تشنہ کام خون حسینؓ باز دہ کوفہ و شام خویش را مطلع میں پورے عالم انسانیت کے لیے رحمت عمیم کی التجا کی گئی ہے۔ آخری شعر میں اپنے آپ کو نہایت درد مندی کے ساتھ اس رنگیں نوا مگر قفس میں قید پرندے سے تشبیہہ دی ہے جو بہار کے آنے سے پہلے اجڑے ہوئے چمن کو نئی زندگی کا مژدہ سناتا ہے: قافلہ بہار را طائر پیش رس نگر آنکہ نجلوت قفس گفت پیام خویش را موسیقی کا سلسلہ لامتناہی ہے۔ ہر غزل کی موسیقی شاعر کے جذب و مستی کی آئینہ دار ہے۔ کچھ مزید مثالیں ملاحظہ ہوں: فصل باہر این چنین، بانگ ہزار این چنین چہرہ کشا، غزل سرا، بادہ بیار این چنین اشک چکیدہ ام یبین ہم بہ نگاہ خود نگر ریز بہ نیستان من برق و شرار این چنین دل بہ کسے نہ باختہ با دو جہان نہ ساختہ من بحضور تو رسم روز شمار این چنین ٭٭٭ تو باین گمان کہ شائد سر آستانہ دارم بطواف خانہ کارے بخداے خانہ دارم یم عشق کشتی من، یم عشق ساحل من نہ غم سفینہ دارم، نہ سر کرانہ دارم موسیقی میں رچے ہوئے اشعار میں شاعر نے اپنے ارادوں کی رفعت، ہمت کی بلندی، عشق کی عظمت اور خطر جویانہ ولولوں کا ذکر کیا ہے، اور آگے چل کے حضرت امیر خسرو کے ایک مصرع کے ساتھ ایسی گرہ لگائی ہے کہ اس خوبصورت مصرع کے حسن میں بے اندازہ اضافہ ہو گیا ہے، امیر خسرو کا شعر ہے: ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف بہ امید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد شاعر مشرق نے دوسرے مصرع کے ساتھ ایک ولولہ انگیز اور الہام بخش مصرع لگا کر شعر کے معانی میں بے پناہ وسعت پیدا کر دی ہے۔ امیر خسرو کے ہاں سر فروش عشاق کو جان سپاری کے لیے محبوب کی ستمگرانہ آمد کا انتظار ہے مگر یہاں شاعر صرف اس انتظار میں کہ محبوب ادائے دلبری و ستمگری کے ساتھ جلوہ افروز ہو گا دنیوی شکوہ و تمکنت کے سحر اور خوف سے قطعاً بے نیاز ہو چکا ہے اور اب محبوب کے شوق صیادی کے سامنے دنیا کا شکوہ و جلال بے اثر اور بے معنی ہو کر رہ گیا ہے: با مید آن کہ روزے بہ شکار خواہی آمد ز کمند شہر یاران رم آہوانہ دارم رم آہوانہ کی مصورانہ ترکیب نے شاعر کی بے نیازی کی نہایت پر اثر عکاسی کی ہے۔ عشق، فقر اور خودی ایسے بنیادی موضوعات کی عظمت کا نقش ایک بولتی اور گاتی ہوئی غزل میں جو رومی کے ذوق و مستی کی یاد دلاتی ہے یوں بٹھایا گیا ہے: بر عقل فلک پیما ترکانہ شبیخون بہ یک ذرۂ درد دل از علم فلاطون بہ دی مغبچہ با من اسرار محبت گفت اشکے کہ فرو خوردی از بادۂ گلگوں بہ آن فقر کہ بے تیغے صد کشور دل گیرد از شوکت دارا بہ، از فر فریدون بہ در جوے روان ما بے منت طوفانے یک موج اگر خیزد آن موج زجیحون بہ معنویت اور موسیقی کا یہ امتزاج غیر معمولی دلکشی کا حامل ہے۔ روایتی ترکیبات و تلمیحات کے باوجود فکر کی عظمت اور جذبے کی قوت و مستی اور موسیقی کی گونج نے غزل میں بلا کی تازگی اور تاثیر پیدا کر دی ہے۔ سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی ایک اور غزل کی موسیقی پڑھنے والے کو اپنے ساتھ بہا کے لے جاتی ہے اور تمنائے دید، نگاہ کی نارسائی اور عشق کی بیتابی لذت جستجو کی ایک عجیب و غریب کیفیت پیدا کر دیتی ہے: سوز و گداز زندگی لذت جستجوے تو راہ چو مار می گزد گر نروم بسوے تو ہم بہوائے جلوۂ پارہ کنم حجاب را ہم بنگاہ نارسا پردہ کنم بروے تو من بتلاش تو روم یا بتلاش خود روم عقل و دل و نظر ہمہ گم شدگان کوے تو ٭٭٭ جذب و مستی کا یہی انداز مندرجہ ذیل غزل میں عشق کی رفعت اور انسان کی عظمت کا نقش پیش کرتا ہے: فرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ ابن جلوت جانانہ، آن خلوت جانانہ شادم کہ مزار من در کوئے حرم بستند را ہے ز مژہ کاوم از کعبہ و بتخانہ ہر کس نگہے دارد، ہر کس سخنے دارد در بزم تو می خیزد افسانہ ز افسانہ این کیست کہ بر دلہا آوردہ شبیخونے صد شہر تمنا را یغما زدہ ترکانہ در دشت جنون من جبریل زبون صیدے یزدان بہ کمند آور اے ہمت مردانہ نعت کے مندرجہ ذیل اشعار بھی غزل کے مخصوص رنگ میں ہیں۔ شاعر جب بھی حضور رسالتمآب ؐ کے بارے میں شعر کہتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس کی روح پر وجد اور جذب کی ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور شعر وفور عشق ہی کی کیفیت سے معمور نہیں ہوتا بلکہ اس کی زبان اور طرز ادا میں بھی ایک غیر معمولی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیت سوز و گداز اور اہتزاز روح موسیقی میں ڈوبے ہوئے مندرجہ ذیل اشعار میں بھی نظر آتی ہے: تب تاب بتکدۂ عجم نرسد بسوز و گداز من کہ بیک نگاہ محمدؐ عربی گرفت حجاز من چہ کنم کہ عقل بہانہ جو گر ہے بروے گرہ زند نظرے! کہ گردش چشم تو شکند طلسم مجاز من نرسد فسون گری خرد بہ تپیدن دل زندۂ ز کنشت فلسفیان درآ بحریم سوز و گداز من ’’ پیام مشرق‘‘کی بعض ایسی نظموں کا ذکر آچکا ہے جو فارسی شاعری میں ہیئت ہی کے لحاظ سے نئے تجربے نہیں بلکہ فن کی بعض دوسری خصوصیات سے بھی مالا مال ہیں۔ مثلاً ’’ سرود انجم‘‘بہار، کرمک شب تاب وغیرہ میں شاعر کے تخیل کی رنگینی اور جولانی اور لفظ و ترکیب اور تشبیہہ و استعارہ کے ساتھ ساتھ ان کی موسیقی اور آہنگ بھی خاص طور سے قابل ذکر ہیں جو موضوع کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہیں۔ ’’ سرود انجم‘‘حرکت اور جستجو، ’’ بہار‘‘تخلیق اور’’ کرمک شب تاب‘‘سوز و گداز کی مظہر ہے۔ پہلی دو میں ان کے موضوعات کی رعایت سے تند و تیز موسیقی ہے جو کسی مچلتی ہوئی پہاڑی ندی کی روانی اور تندی کی یاد دلاتی ہے۔ ’’ کرمک شب تاب‘‘میں آہنگ بدل گیا ہے کہ موضوع کا یہی تقاضا ہے۔ اقبال کے ہاں صوت و آہنگ کے جو نئے تجربے ہوئے ہیں ان میں ایک قابل ذکر نظم نغمہ بعل ہے بعل خدایان کہن کا نمائندہ ہے اور قدیم خداؤں کی مجلس میں جدید دور کی عقلیت اور مادیت پرستی پر خوشی سے بغلیں بجا رہا ہے۔ یہ نظم ترجیع بند کی شکل میں ہے اس کے چار بند ہیں۔ ہر بند اس مصرع پر ختم ہوتا ہے: اے خدایان کہن وقت است وقت! ترجیع بند ایک قدیم صنف سخن ہے۔ اس لحاظ سے اس میں کوئی جدت نہیں۔ مگر جدت آہنگ کی اس تندی اور روانی میں ہے جس کا اہتمام شاعر نے بعل کے پر ہیجان احساسات کی ترجمانی کے لیے کیا ہے۔ بعل دور حاضر کے مادی رحجانات کی فتح اور روحانیت کی شکست پر خوشی سے دیوانہ ہو رہا ہے اور خدایان قدیم کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ دیوانہ وار مسرت کی اس کیفیت کو شاعر نے جس تند و تیز آہنگ میں ڈھالا ہے اس میں بعل کی پر ہیجان روح کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں: در نگر آن حلقہ وحدت شکست آل ابراہیم بے ذوق الست صحبتش پاشیدہ جامش ریز ریز آنکہ بود از بادۂ جبریل مست اے خدایان کہن وقت است وقت! موسیقی کا عنصر اقبال کی شاعری اور بالخصوص غزل کا ایک اہم جزو ہے اور بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ فارسی شاعری کی تاریخ میں موسیقی کی یہ سحر آفریں اور وجد انگیز کیفیت بہت کم شاعروں کے ہاں نظر آتی ہے۔ یہ موسیقی اس جذبہ عشق و مستی کی دی ہوئی ہے جو شاعر کی روح میں موجزن ہے۔ پھر شاعر کے لطیف جمالیاتی ذوق اور شعور نغمہ نے اس میں اور زیادہ تاثیر پیدا کر دی ہے۔ اقبال کے فن کا ایک پہلو ترکیب سازی ہے۔ بعض شعرا مثلاً خاقانی، عرفی اور غالب نے ترکیب سازی میں نام پیدا کیا جو ان کی قوت تخیل، جمالیاتی شعور اور تخلیقی استعداد کی روشن دلیل ہے۔ ان تراکیب سے شعرا نے اپنے کلام میں معنویت اور حسن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کے گہرے جمالیاتی شعور اور خلاق ذہن نے نہایت خوبصورت اور دلکش ترکیبات وضح کیں۔ مگر ترکیب سازی اقبال کے ہاں محض ایک فنی تقاضا نہیں بلکہ ایک فکری ضرورت بھی ہے۔ ترکیب سازی اور اسلوب بیان کے سلسلے میں سید سلیمان ندوی کو ایک خط مورخہ 18مارچ1926ء میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ بعض خیالات زمانہ حال کے فلسفیانہ نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں ان کے ادا کرنے کے لیے قدیم فارسی اسلوب بیان سے مدد نہیں ملتی۔ بعض تاثرات کے اظہار کے لیے الفاظ ہاتھ نہیں آتے اس واسطے مجبوراً ترکیب اختراع کرنی پڑتی ہے جو ضرور ہے کہ اہل زبان کو ناگوار ہو کہ دل و دماغ اس سے مانوس نہیں ہیں‘‘14؎ ان پر معنی ، خوش آہنگ اور حسین آفریں تراکیب کی ایک نمائندہ فہرست جو شاعر کے فارسی مجموعوں سے مرتب کی گئی ہے مندرجہ ذیل ہے۔ ان میں سے اکثر و بیشتر شاعر کے خلاق ذہن کی تخلیق ہیں: اسرار خودی: حرائے دل، خود افزا، خود حساب، جوے برق، سراب رنگ و بو، جلوہ دزد، بقا انجام، لالہ زار عبرت، سراب نکہت، جہان جستجو، لذت پرواز رموز بیخودی: شاہراہ زندگی، انجمن آرائی، ساز فکر، ممکنات اندیش، خود گستر، شہر انجم، نو آئین، کہن پندار، پرواز رنگ، خرد فروزی، جان نگار، لالہ زار ممکنات، چراغ افروز عشق، گمان آباد حکمت۔ پیام مشرق: لذت بال آزمائی، ذوق وجود، شعلہ نوش، شہید جستجو، طلسم رنگ و بو، تنگنائے شاخ، جلوہ گہ رنگ و بو، خنجر صبح خند، ذوق مہجوری، نوا طراز، غزالان خیال، مژگان گسل، رہرو دل، خلوت آباد، خود افروز، محشر جان، لذت کردار، گریبان مرغزار، گہوارۂ سحاب، ذوق طلب، رمیدہ بو، برق نغمہ، شہر آرزو، شہر تمنا۔ زبور عجم: عروس گل، بزم فسردہ آتشان، شعلہ نمناک، بحر نغمہ، حاضر آرائی، آئندہ نگاری، داغ نارسائی، چمن گل، نیستان نالہ، خمخانہ مے، پیچاک روزگار، لبریز نگاہ، ضمیر وجود، نگہ آلود، ضمیر کائنات، نالہ خاموش، اثر باختہ آہے، گرہ خوردہ نگاہے، شبستان وجود، فانوس حباب، ذوق پیدائی، درد آلود، ذوق نوا، رگ خواب، موج شعلہ، ضمیر روزگار، ذوق نمود، تار حیات، ذوق فردا، لذت امروز۔ جاوید نامہ ذوق و شوق خود گری، حیرت خانہ ایام، سنجاب آب، دولت بیدار، فانوس خیال، شبستان وجود، خالق اعصار، ذوق سیر، آئینہ تاب، فردوس رنگ، بحر نور، طوفان رنگ۔ مسافر: ارباب ذوق، کاروان شوق، شوق بے پروا پس چہ باید کرد ظلمت آباد ضمیر، حریم کائنات، پرستاران شب ارمغان حجاز دانائے راز، میخانہ شوق، موج نگاہ، آغوش ضمیر، رگ فردا اقبال کے کلام میں زبان موضوع کے تابع ہے۔ اور شاعر اپنے تخیل کی قوت سے ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو نہایت دلکش انداز میں موضوع کی تصویر کھینچ دیتے ہیں۔ ان الفاظ کا تعین موضوع کی نوعیت سے ہوتا ہے۔ اگر یہ سنگین اور متعین ہے تو الفاظ بھی متانت اور صلابت کے آئینہ دار ہیں۔ اگر اس میں لطافت ہے تو الفاظ بھی لطافت اور نزاکت میں ڈھل جاتے ہیں۔ قوت کا ذکر ہے تو اس کا اظہار دشت و بیابان اور صحرائے نا پیدا کنار، بحر طوفان خیز اور برق و سحاب سے ہوتا ہے۔ عزم و ہمت اور سخت کوشی کا بیان ہے تو سنگ خارا اس کی ترجمانی کرتا ہے۔ کوہ و صحرا، باغ و راغ، کشت و جو، موج و دریا، مرغ و چمن، گل و بلبل، لالہ و شبنم وغیرہ شاعر کے تخلیقی پیکروں میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہر پیکر کسی نفسیاتی اور فنی مناسبت کا آئینہ دار ہے۔ ہر لفظ ایک معنوی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی تاریخی، منطقی اور نفسیاتی مناسبت کے ساتھ بر محل موقع پر یوں استعمال ہوتا ہے کہ اس سے بہتر لفظ کا استعمال ممکن نہیں۔ بعض اوقات خود افعال بھی استعارہ بن جاتے ہیں، اور مصوری کے خوبصورت نمونے پیش کرتے ہیں۔ ملت اسلامی کے عروج کے دور کو دشت و صحرا اور برق و سحاب کے پیکروں میں یوں ڈھالا گیا ہے: برق ما کو در سحابت آرمید بر جبل رخشید و در صحرا تپید شاعر کی چشم تخیل غنچہ کو کھلتا دیکھ کر اسے پریشانی اور دل گرفتگی سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو اسے زندگی کی حسین و جمیل تصویر ان لفظوں میں دکھاتی ہے: مشو اے غنچہ نورستہ دلگیر از این بستان سرا دیگر چہ خواہی لب جو، بزم گل، مرغ چمن سیر صبا، شبنم، نواے صبح گاہی اگر ملت اسلامی کا عروج دکھانے کے لیے برق و سحاب اور دشت و صحرا کی منظر نگاری ضروری تھی تو غنچے کو عرصہ حیات کے تقاضوں سے آشنا کرنے کے لیے لب جو، بزم گل، مرغ چمن سیر، صبا، شبنم اور نواے صبح کاہی کے لطیف الفاظ اور شاداب تصور سے آراستہ امید و رجا کی فضا پیش کی جا رہی ہے۔ الفاظ کا نہایت محتاط، فنکارانہ اور ماہرانہ نفسیاتی استعمال نہ صرف موضوع کی نوعیت سے مطابقت رکھتا ہے بلکہ اس سے ہم آہنگ صوفی کیفیات پیدا کرنے اوران میں موثر اور دلکش تخلیقی پیکروں کو سمونے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ علامہ کی نظر میں زبان اور شعر کے وجدانی اور ذوقی رشتے کو بہت اہمیت حاصل ہے کسی صاحب نے علامہ کے ایک مصرع پر اعتراض کیا تو ان کے ایک عقیدت مند نے ان کی توجہ اس اعتراض کی طرف دلاتے ہوئے ان سے رہنمائی چاہی۔ اس کے جواب میں علامہ لکھتے ہیں: ’’ سوال کا جواب ذوق سلیم سے پوچھیے۔ نہ مجھ سے، نہ منطق سے اور نہ کسی ماہر زبان سے۔۔۔۔۔‘‘ 15؎ زبان کی معنوی اور نفسیاتی نزاکتوں پر علامہ کی بڑی گہری نظر تھی ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لسانیات کے جدید ترین حقائق سے پوری طرح آگاہ تھے، مگر وہ اپنے معاصرین کو ان سے نا واقف سمجھتے ہوئے کسی قسم کی بحث میں الجھنے سے گریز کرتے تھے۔ ایک خط میں فرماتے ہیں: ’’ زبان کے متعلق میرا نقطہ نگاہ اور ہے مگر اس ملک میں جہاں لوگ علم اللسان جدید سے واقف نہیں وہ نقطہ نگاہ بدعت سمجھا جائے گا۔ اس واسطے اس کا بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ 16؎ سردار عبدالرب نشتر مرحوم کے نام ایک خط مورخہ 19اگست1923ء میں جدید لسانیات کی روشنی میں زبان کے حرکی اصول کو یہاں واضح فرماتے ہیں: ’’ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔‘‘17؎ مگر لسانیات اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں کے گہرے مطالعہ اور دقیق نظر کے باوجود علامہ کے مزاج میں ایک عجیب انکسار اور نیاز مندی تھی۔ سید سلیمان ندوی کے نام ان کے بعض مکتوبات سے ان کی زباندانی، وسیع مطالعہ اور تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سید صاحب نے ان کے اشعار پر جو دوستانہ اعتراضات کیے ہیں انہوں نے 23 اکتوبر1918ء کے لکھے ہوئے ایک خط میں مختلف فارسی شعراء کے کلام سے اسناد پیش کر کے ان کا نہایت فاضلانہ جواب لکھا ہے۔ سید صاحب نے ’’ اسرار خودی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے صحت الفاظ و محاورات کے بارے میں اظہار نظر کیا ہے۔ اس پر علامہ فرماتے ہیں: ’’ جو کچھ آپ نے لکھا ہے ضرور صحیح ہو گا۔۔۔۔۔ اگر آپ نے غلط الفاظ و محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے مجھے ان سے آگاہ کیجئے تاکہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے۔‘‘ 19؎ اسی طرح جب سید صاحب نے ’’ رموز بیخودی‘‘ کے مختلف الفاظ و ترکیبات و قوافی وغیرہ پر تنقید کی تو علامہ نے نہایت دھیمے اور شائستہ انداز میں اساتذہ کے حوالوں سے ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ یہی فراحدلی اور وسیع النظری ان خطوط میں بھی قدم قدم پر ملتی ہے جو علامہ نے مولانا گرامی کو لکھے ہیں۔ یہاں زبان کی بجائے شاعری بہ حیثیت مجموعی پیش نظر ہے۔ علامہ انہیں نہایت بے تکلفی سے اپنے کلام پر اعتراضات کی دعوت دیتے ہیں اور نہایت سنجیدگی سے مولانا کی منصفانہ اور بے لاگ رائے کے منتظر ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ مہربانی کر کے غزل کے تمام اشعار پر اعتراض لکھیے تاکہ میں پورے طور پر مستفید ہو سکوں۔ آپ نے صرف ایک شعر کی تعریف کر دی اور باقی اشعار چھوڑ گئے۔ میں چاہتا ہوں ان پر اعتراض کیجئے۔ آپ کے کسی شعر میں اگر کوئی بات مجھے کھٹکے تو میں بلا تکلف عرض کر دیا کرتا ہوں۔ آپ کیوں ایسا نہیں کرتے؟ مجھے تو تعریف سے اس قدر خوشی نہیں ہوتی جس قدر اعتراض سے، کیوں کہ اعتراض کی تنقید سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ 20؎ ’’ آ کر میری مثنوی سنیے اور اس میں مشورہ دیجئے مثنوی ختم ہو گئی ہے۔ آپ تشریف لائیں تو آپ کو دکھا کر اس کی اشاعت کا اہتمام کروں۔‘‘ 21؎ اقبال کے نظریہ فن سے بحث کے دوران میں یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ شاعر مشرق کی نظر میں فن ایک عظیم مقصد کا تابع ہوتا ہے، اور یہ عظیم مقصد زندگی کو شکوہ بخشتا اور اس کے نت نئے تعمیری تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ شعر کو اسی مقصد کے ساتھ سمویا ہے۔ مقصد ان کی نظر میں اتنا اہم ہو گیا ہے کہ بظاہر فن شاعری ان کے لیے قابل التفات نہیں رہا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو شاعر کہنے سے گریز کیا ہے اوراپنے کلام اور مکتوبات میں اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ شاعر نہیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب وہ شاعری سے بے توجہی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کا مقصد فن شاعری کے تقاضوں اور ’’ تخیل کی بے پایاں وسعتوں‘‘ سے بے اعتنائی کا اعلان ہے۔ یہ کیفیت ان کی پوری شاعری میں نظر آتی ہے۔ خطوط سے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں: 27دسمبر1913ء کو خواجہ حسن نظامی کو تحریر فرماتے ہیں: ’’ آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کو شاعر تصور نہیں کرتا اور نہ کبھی بہ حیثیت فن کے میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔‘‘ 22؎ 10اکتوبر1919ء کو سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ شاعری میں لٹریچر بہ حیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔۔۔۔ کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔ اس لیے کہ آرٹ غایت درجے کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لئے ممکن نہیں جرمنی کے دو بڑے شاعر بیرسٹر تھے یعنی گوئٹے اور اوہلنڈ گوئٹے تھوڑے دن پریکٹس کے بعد ویمر کی ریاست کا تعلیمی مشیر بن گیا اور اس طرح فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کا اسے پورا موقع مل گیا۔ اوہلنڈ تمام عمر مقدمات پر بحث کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت تھوڑی نظمیں لکھ سکا اور وہ کمال پورے طور پر نشوونما نہ پا سکا جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔‘‘ 23؎ 17اپریل1922ء کو مولانا عبدالماجد دریا بادی سے یوں مخاطب ہیں: ’’ میرے کلام کی مقبولیت محض فضل ایزدی ہے ورنہ اپنے آپ میں کوئی ہنر نہیں دیکھتا اور اعمال صالحہ کی شرط بھی مفقود ہے۔‘‘ 24؎ 20اگست 1935ء کو پھر سید سلیمان ندوی کو فن شاعری سے اپنی بے التفاتی کا یقین دلاتے ہیں: ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ہے ورنہ:‘‘ نہ بینی خیر از آن مرد فرو دست کہ بر من تہمت شعر و سخن بست25؎ مندرجہ بالا مکتوبات کے علاوہ کئی ایسے خطوط موجود ہیں جن میں علامہ نے فن شاعری سے عدم دلچسپی کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح شاعرانہ حیثیت سے انکار اور مقصدیت سے لگن کا اظہار متعدد اشعار میں ہوا ہے۔ مثلاً:ـ نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را ٭٭٭ او حدیث دلبری خواہد ز من رنگ و آب شاعری خواہد ز من کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید ٭٭٭ نہ شعر است اینکہ بروے دل نہادم گرہ از رشتہ معنی کشادم بامیدے کہ اکسیرے زند عشق مس این مفلسان را تاب دادم ٭٭٭ بآن رازے کہ گفتم پے نبردند ز شاخ نخل من خرما نخوردند من اے میر اممؐ داد از تو خواہم مرا یاران غزل خوانے شمردند حقیقت یہ ہے کہ فن شاعری سے بے التفاتی اور لا تعلقی کے مکرر اظہار کے باوجود اقبال نے شعر کو ایک لافانی حسن دیا ہے۔ جب وہ اپنے عمیق افکار کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں تو ان کا اخلاق ذہن اور شعور فن رنگ و آہنگ کے حسین و جمیل نغمے بکھیرتا ہے، اور پڑھنے والے کے لیے یہ فیصلہ بہت کٹھن ہو جاتا ہے کہ علامہ بطور ایک مفکر بلند تر ہیں یا بطور ایک شاعر وہ ایک عظیم شاعر بھی ہیں اور دانائے راز بھی۔ ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ قوموں کا ضمیر کوئی کلیم یا حکیم نے نواز ہی بدلتا ہے: ضمیر امتان را پاک سازد کلیمے یا حکیمے نے نوازے حقیقت یہ ہے کہ وہ خود ایک حکیم نے نواز تھے اور ان کا مقصد ضمیر ملت کا پاکیزگی بخشنا تھا۔ ٭٭٭ ایران اور اقبال شناسی علامہ نے اپنی زندگی میں ایران سے صحیح معنوں میں متعارف نہیں ہو سکے۔ برطانوی استعمار نے برصغیر کے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے باہمی ثقافتی اور تہذیبی رشتوں کو قریب قریب ختم کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علامہ کی زندگی میں معدودے چند ایرانی دانشوروں کے سوا کوئی ان کے شعر و فلسفے سے واقف نہیں ہو سکا البتہ جن ادباء و فضلاء کی رسائی ان کے کلام تک ہوئی ان کے مقالے اور تقریریں اس حقیقت کی شاہد ہیں کہ وہ شعر اقبال کے اعجاز سے ضرور مسحور ہوئے اور انہوں نے خط و کتابت کے ذریعے علامہ سے عقیدت مندی کا اظہار بھی کیا۔ سب سے پہلے جس ایرانی دانشور نے اقبال کو ایران سے روشناس کرایا وہ سید محمد علی داعی الاسلام تھے۔ یہ صاحب جامعہ عثمانیہ دکن میں شعبہ ایرانیات کے استاد تھے۔ انہوں نے ایک زمانے میں علامہ کی فارسی شاعری پر جامعہ عثمانیہ میں کچھ لیکچر دئیے تھے اور اس ضمن میں ’’ اقبال و شعر فارسی‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ بھی چھپوایا تھا۔ ایرانی ارباب ذوق کو اس عظیم شاعر سے متعارف کرانے کے لیے انہوں نے یہ مقالہ تہران بھیجا۔ اس میں انہوں نے علامہ کے فکر و فن کی روشنی میں انہیں ایک غیر معمولی شاعر اور مفکر ثابت کیا تھا، اور علامہ کے دور کی اسلامی سیاست اور اجتماعی زندگی کے پس منظر میں ان کے فلسفہ خودی، پیغام عمل اور تصور اتحاد اسلامی کی اہمیت پر روشنی ڈالی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایران میں وطنیت کے جدید تصور کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ایرانی دانشور سید محیط طباطبائی جنہوں نے علامہ کو ایران میں روشناس کرانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے لکھتے ہیں کہ مرحوم داعی الاسلام کا مطبوعہ مقالہ مجھے 1930ء میں ملا اور اس لحاظ سے مرحوم کو ایران میں’’ اقبال شناسی‘‘ کی تحریک کا بانی اور پیشرو سمجھنا چاہیے۔ سید محیط طباطبائی کو 1926ء میں آبادان میں اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے بعض ہندوستانی مسلمان ملازمین کے ہاں پہلی دفعہ ’’ اسرار خودی‘‘ ، رموز بیخودی اور پیام مشرق کے نسخے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ ان سے بہت متاثر ہوئے اور پھر بعض مقامی تاجروں کی وساطت سے انہوں نے یہ نسخے اپنے لیے حاصل کیے۔ اقبال کے کلام نے اس مشہور ادیب اور محقق کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ انہوں نے علامہ کو ایران کی ادبی محافل سے روشناس کرانے کی پوری کوشش کی کئی سال تک ان کی علامہ سے خط و کتابت بھی رہی۔ ان کی انتہائی خواہش تھی کہ علامہ کو ایران آنے کی دعوت دی جائے۔ اپنے ایک مقالہ 1؎ میں لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں سابق شاہ کے حواری ہندوستان سے ایک موہوم سرمایہ کی آرزو میں دوڑ دھوپ کر رہے تھے اور ابھی انہوں نے ہندوستان کے پارسیوں سے یہ جواب نہیں سنا تھا کہ ان کا دل اور روح ایرانی سہی مگر ان کا سرمایہ ہندوستانی ہے اور ہندوستان ہی میں رہے گا، انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کو ایران آنے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کے ساتھ ساتھ پارسی سرمایہ داروں اور بالآخر ان کے سرمایہ کو ایران میں کھینچنے میں کامیاب ہو جائیں۔ لیکن ملک کے صاحبدل حلقے دربار کی غفلت اور بے خبری پر پیچ و تاب ہی کھاتے رہے اور اس بات پر کڑھتے رہے کہ ان بے خبر لوگوں کو کیوں معلوم نہیں کہ ہندوستان میں ایک ایسا شخص موجود ہے جو اس دعوت کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ محیط طباطبائی کے علاوہ ایران کے ایک اور چوٹی کے دانشور جنہوں نے نہ صرف علامہ کی زندگی میں ان کے کلام کا ذوق و شوق سے مطالعہ کیا بلکہ ان کے ساتھ خط و کتابت بھی کی مرحوم پروفیسر سعید نفیسی تھے۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ میں جو1950ء میں تہران سے شائع ہوا شاعر مشرق کے دو خطوط موجود ہیں جو انہوں نے پروفیسر سعید نفیسی کو لکھے تھے۔ پروفیسر مرحوم لکھتے ہیں کہ 1932ء میں میرے ایک دوست ہندوستان سے ’’ زبور عجم‘‘ کا ایک نسخہ میرے لیے تحفے کے طور پر لائے۔ اسے پڑھ کر میرے دل میں عجیب و غریب احساسات پیدا ہوئے۔ میں نے علامہ اقبال کو شوق و محبت سے بھرپور ایک خط لکھا اور اسے پنجاب یونیورسٹی کے استاد ادبیات فارسی ڈاکٹر محمد اقبال کے ذریعے ارسال کیا۔ پروفیسر مرحول سے برسوں سے میری خط و کتابت تھی اور میں سمجھتا تھا کہ علامہ اقبال کو خط بھیجنے کا ان سے زیادہ تسلی بخش ذریعہ اور کوئی نہیں۔ دو مہینے کے بعد مجھے مرحوم علامہ اقبال کا جواب موصول ہوا۔ علامہ نے خط اور اس کے ہمراہ ’’ پیام مشرق‘‘ کا ایک نسخہ ایک صاحب کے ہاتھ جو زیارت کے لیے ایران آئے تھے ارسال فرمایا تھا۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے پھر علامہ کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی بے پایاں اور والہانہ محبت کا اظہار کیا۔د و مہینے بعد مجھے پھر ایک شخص کے ذریعے جو ایران آیا تھا علامہ کا دوسرا گرامی نامہ ملا۔ اس کے بعد پروفیسر سعید نفیسی نے علامہ کے دونوں خطوط شائع کیے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاس علامہ کی فارسی نثر کا اور کوئی نمونہ نہیں بہتر ہو گا کہ ان خطوط کی تاریخی اور ادبی اہمیت کے پیش نظر انہیں قارئین تک پہنچا دیا جائے۔ 26اگوست 1932 مخدوم دانشمند خط دست آقائے بوسیلہ سرکار پروفیسر محمد اقبال صاحب راہی کردہ بودید حاصل شدہ سالہای دراز است کہ میل و آرزوے ایران شما را در صمیم می پرورم ویگانہ محصول ذرہ نمائے وجود را سخن پارسی میدانم اینکہ سخن پارسیم مطلوب و مقبول ہمچوں آقائے دانشمند بنامے کہ میزان ذوق ادب ایران است باشد مایہ فخر و دلداری این نیاز مند است۔ غبن دارم کہ جز از زبور عجم مرا بخدمت شما راہ نبودہ است و پیام مشرق را بہمین ہفتہ بخدمت فرستادہ میکنم والسلام مع الف احترام نیاز کیش محمد اقبال3؎ 4نومبر1932 مخدوم مکرم دانشمند خط دست دیگر بفخر و شرف این نیاز مند رقم زدہ شدہ بود بہمین ہفت ہشت روز شرف وصول داد۔ از ینکہ پیام مشرق ہمچنان زبور عجم پسندیدہ خدمت مخدوم دانشورے آقائے بودہ است و سخن پارسی آنرا ہم پسند داشتہ اید این نیاز مند را سر بلند میگر داند و ہم چندان کہ دانشوران ایران میل و ہوس دیدار این نیاز مند دارند این نیاز مند آرزوے ایشان و خاک ایران میکشد، ناتوانی و افسردگی خاطر تواند کہ خار راہ گردد۔ چندے دیگر پس سفر بافغانستان در پیش است و آرزوے آن دارد کہ بارے چشم بر ایران باز کند۔ آرزوے دیگر دیدار آن مشتفق مخدوم است کہ از اللہ سبحانہ و تعالیٰ خواہد۔ والسلام مع الاحترام نیاز کیش محمد اقبال4؎ خطوط سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دانشوران ایران کی انتہائی خواہش تھی کہ علامہ ایران تشریف لائیں اور خود علامہ بھی ایران جانا چاہتے تھے مگر بقول سید محیط طباطبائی کچھ بے خبروں نے ایرانی اہل دل کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ علامہ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد طباطبائی نے مجلہ ارمغان میں علامہ کے حالات زندگی، ان کے آثار اور ان کے فلسفہ و شاعری پر ایک مبسوط مقالہ لکھا، جس نے ایرانی شاعروں اور ادیبوں میں علامہ کے فکر و فن کو مزید جاننے اور ان کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کی خلش پیدا کی۔ اپریل 1945ء میں محیط طباطبائی نے اپنے مجلہ ’’ محیط‘‘ کا اقبال نمبر شائع کیا۔ اس میں خود انہوں نے علامہ کی شاعری اور ان کے پیغام کی اہمیت پر کئی مقالے لکھے۔ اقبال شناسی کے سلسلے میں یہ ایک مبارک کوشش تھی۔ اس میں مصنف نے شاعر مشرق سے عقیدت مندی اور ان کی زندگی میں ان سے ملنے کی آرزو کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا تھا: تیرہ سال گزرے میرا خیال تھا کہ مجھے افغانستان کے پایہ تخت میں ہندوستان کے مشہور شاعر اور فلسفی ڈاکٹر اقبال سے ملاقات نصیب ہو گی۔ مگر خدا کو منظور نہ تھا! اس کے ایک سال بعد میری تمنا تھی کہ فردوسی کے ہزار سالہ جشن میں میں ہندوستان کے فارسی زبان کے عظیم ترین معاصر شاعر کو مشرق و مغرب کے ادباء و فضلاء کی انجمن میں صدر نشین دیکھوں۔ خدا کو یہ بھی منظور نہ تھا! آٹھ سال ہوئے ہندوستان میں اقبال کی چھاسٹھویں سالگرہ کا شاندار جشن منایا گیا۔ میری اور کچھ دوستوں کی خواہش تھی کہ ہم ہندوستانی بھائیوں کے ساتھ اس مبارک تقریب میں شریک ہوں اور شعر و ادب میں اقبال کے مقام کی رعایت سے تہران میں ایک انجمن قائم کریں۔ لیکن دست اجل نے مہلت نہ دی اور جشن کے انعقاد کی خبر کے دو ماہ بعد اقبال کی رحلت کا المناک واقعہ پیش آیا۔ اسی مضمون میں طباطبائی نے ایک ایرانی وفد کے سفر ہندوستان کا ذکر کیا ہے۔ یہ وفدا یران کے وزیر تعلیم پروفیسر علی اصغر حکمت اور دانشگاہ تہران کے دو اساتذہ پروفیسر رشید یاسمی اور پروفیسر پور داؤد پر مشتمل تھا۔ اس نے 1943ء میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ پور داؤد صاحب نہ صرف زبان اوستا کے استاد تھے بلکہ انہیں زردشتی روایات و عقائد سے بے پناہ عشق تھا اور اسی نسبت سے انہیں اسلامی ثقافت سے چڑ تھی۔ چند برس پہلے وہ بمبئی اور رابندر ناتھ ٹیگور کی شانتی نکتین یونیورسٹی میں بھی قیام کر چکے تھے۔ دوران سفر میں کوئی نامہ نگار علامہ کی شاعری کے بارے میں ان کے تاثرات پوچھ بیٹھا۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اقبال محض ایک مقامی شاعر تھا اور ایران میں اسے کوئی نہیں جانتا۔ یہ جواب اخبارات میں چھپا اور برصغیر کے مسلمانوں کو اس انوکھے تبصرے پر بہت دکھ ہوا اس زمانے میں اخبارات میں بہت سے خط بھی چھپے جن میں پور داؤد کی رائے پر سختی سے لے دے کی گئی تھی۔ ایرانی وفد کو جلد پور داؤد کے غیر دانشمندانہ جواب کا احساس ہو گیا اور بقول طباطبائی انہیں اس حرکت پر افسوس بھی ہوا۔ لاہور آنے پر وفد نے خاص طور سے اقبال کے مزار پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔ اس واقعے کی طرف ایک سطر میں اشارہ کرنے کے بعد طباطبائی لکھتے ہیں: ’’ میں نے چاہا کہ قلم کی مدد سے اس زخم پر جو (وفد کے ایک رکن کے) نامناسب الفاظ نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے دل پر لگایا تھا مرہم رکھوں لیکن ملک کی مصلحتوں اور سیاسی تقاضوں نے اجازت نہ دی کہ میں اس کی تلافی کر سکوں۔‘‘ اس کے بعد مصنف نے ایک نئی انجمن کا ذکر کیا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران میں برطانوی ہند اور ایران کے درمیان ثقافتی تعلقات مضبوط کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اس کا نام ’’ انجمن روابط ادبی ایران و ہند‘‘ تھا۔ اس انجمن نے تہران میں علامہ اقبال کی ساتویں برسی منائی تھی، اور ’’ محیط‘‘ کا خاص نمبر بھی اسی موقع پر شائع کیا گیا تھا۔ برسی کا ذکر کرتے ہوئے مصنف رقم طراز ہے: ’’ خدا کا شکر ہے کہ اس نے یہ موقع عطا کیا کہ میں اپنے ہم مذہب اور ہمزبان فلسفی شاعر کا حق شناسائی ادا کر سکوں۔‘‘ انجمن کا یہ جلسہ تہران کے ’’ موزۂ ایران باستان‘‘ کے ہال میں ہوا۔ اس ادبی نشست میں ملک الشعراء بہار نے وہ مشہور نظم پڑھی تھی جس میں دور حاضر کو دور اقبال کے نام سے یاد کیا گیا تھا: عصر حاضر خاصہ اقبال گشت واحدے کز صد ہزاران برگذشت اور اسی نظم میں علامہ کے مندرجہ ذیل دو اشعار کی تضمین کی گئی تھی: زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بہ علم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا این خیر را بینی بگیر اس نظم سے اندازہ ہوتا ہے کہ تیرہ برس پہلے اقبال کے بارے میں جو بیخبری کا عالم تھا اس میں داعی الاسلام، سعید نفیسی اور سب سے بڑھ کر محیط طباطبائی کی کوششوں سے ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہو چکی تھی اور وہی ملک الشعراء بہار جنہوں نے فردوسی کے ہزار سالہ جشن کے موقع پر اقبال کے کلام سے مکمل ناواقفیت کا اظہار کیا تھا اب اپنے دور کو اقبال کا دور کہنے لگے تھے، اور اس عظیم شاعر کے اشعار کی تضمین کو اپنے لیے باعث افتخار بھی سمجھنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں ایران کے ممتاز ادیب، شاعر، زبان شناس اور محقق ڈاکٹر پرویز ناتل خانلری نے جو بعد میں تہران یونیورسٹی کے استاد مقرر ہوئے اپنے مشہور مجلہ سخن میں ’’ پیام مشرق‘‘ پر ایک مختصر مقالہ لکھا۔ اس میں انہوں نے اس مجموعہ کے سحر آفرین شاعرانہ حسن کی بے حد تعریف کی۔ یہ درست ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے ایرانی شعراء و ادباء اقبال کے کلام کی اہمیت سے واقف ہو گئے تھے۔ مگر یہ واقفیت ابھی محدود پیمانے پر تھی۔ ابھی شعر اقبال کا گہرا مطالعہ بہت کم دانشوروں نے کیا تھا اور عام لوگ اقبال کے نام سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد علامہ کے شعر و فلسفہ کا تعارف سفارت پاکستان نے اپنے ذمے لیا۔ اس سلسلے میں سفارت کے پریس اتاشے ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید عرفانی نے بے مثال خدمات انجام دیں۔ 1950ء سے سفارت پاکستان نے 21اپریل کو یوم اقبال منانا شروع کیا اور ڈاکٹر عرفانی کی مخلصانہ کوششوں سے مشہور ایرانی ادبائ، فضلائ، استادان دانشگاہ اور ارباب اختیار و سیاست ’’ روز اقبال‘‘ کے جلسوں میں سرگرمی سے حصہ لینے لگے۔ چند برس کے اندر اندر ان سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا اور یہ جلسے تہران تک محدود نہ رہے۔ شاعروں نے اقبال پر نظمیں کہیں، ان کے اشعار کی تضمین کی اور ان کی عظمت کے گیت گائے۔ محققین نے علامہ پر مقالے لکھے اور ان کے ساتھ ساتھ اقبال پر کتابوں کی تصنیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ علامہ پر سب سے پہلی کتاب ’’ اقبال لاہوری‘‘ کے عنوان سے مجتبیٰ مینوی نے لکھی۔ موصوف کا شمار تہران یونیورسٹی کے ممتاز اساتذہ اور ملک کے نامور ادباء میں ہوتا تھا۔ وہ برسوں انگلستان میں رہے تھے اور وہیں ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعے ان کی رسائی اقبال کے کلام تک ہوئی تھی۔ اس کتاب میں مصنف نے علامہ کے حالات زندگی اور ان کے آثار کے علاوہ ان کے فکر و فن سے بحث کی تھی۔ کتاب اگرچہ نسبتاً مختصر تھی، مگر اس سے اقبال کا مناسب تعارف ہوتا تھا۔ 1951ء میں تہران کے مجلہ دانش نے اقبال نامہ کے نام سے ایک کتاب شائع کی۔ اس میں وہ مقالے اور نظمیں شامل تھیں جو 1950ء اور 1951ء میں یوم اقبال کی تقریبات میں پڑھی گئی تھیں۔ مصنفین میں ایران کے بعض چوٹی کے دانشوروں اور شاعروں کے نام شامل تھے جنہوں نے علامہ سے گہری عقیدت کا اظہار کیا تھا۔ شاعروں میں ملک الشعراء بہار کے علاوہ ایران کے جدید دور کے بہترین غزل گو رہی معیری اور بعض دوسرے ممتاز شعراء مثلاً صادق سرمد، لطف علی صورتگر، امیری فیروز کوہی، اور گلچین معانی نے اقبال کے حضور ہدیہ عقیدت پیش کیا تھا۔ محققین اور ادباء و فضلاء میں حسن تقی زادہ، علی اکبر دہخدا، سعید نفیسی، محمد حجازی اور محمد معین نے علامہ کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر تبصرہ کیا تھا۔ بہار نے اقبال کے افکار سے بحث کرتے ہوئے اپنی اس نظم کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے دور حاضر کو عصر اقبال کہا تھا اور ساتھ ہی اپنی پرانی رائے یوں دہرائی: ’’ میں اقبال کو مسلمان غازیوں، عالموں اور ادیبوں کی نو سو سال کی کوششوں اور کاوشوں کا جوہر اور شاہکار سمجھتا ہوں۔‘‘ 5؎ نامور محقق اور دانشور سید حسن تقی زادہ نے جو اس وقت ایرانی سینٹ کے صدر تھے۔ اتحاد اسلامی کے بارے میں علامہ کے خیالات سے اتفاق کیا اور مغربی فلسفے، تصوف اور رومی کے بلند افکار کے حوالے سے فلسفہ خودی پر تبصرہ کیا۔ رہی معیری نے علامہ کے مندرجہ ذیل مصرع کی تضمین کی: ز آتش صبہاے من بگداز مینائے مرا6؎ گلچین معانی نے بھی ایک غزل میں اقبال کے حسب ذیل مصرع کی تضمین کی: عقل تا بال کشود است گرفتار تر است بعد میں اسی شاعر نے علامہ کے مندرجہ ذیل مصرع کی بھی کامیاب تضمین کی: از بلا ہا پختہ تر گردد خودی 8؎ صادق سرمد نے جو ایران کے شاعر ملی کہلاتے تھے اور جنہوں نے بعد میں علامہ پر کئی نظمیں کہہ کر باقی ایرانی شعراء کی نسبت اقبال سے زیادہ لگاؤ کا ثبوت دیا اس وقت علامہ پر ایک طویل نظم کہی۔ اس کے دو شعر حسب ذیل ہیں: اقبال بزرگ است کہ بر گردن اسلام از خدمت بے منت و بے وام بزرگ است اقبال بزرگ است ولیکن نہ بیک روز کایام بزرگان ہمہ ایام بزرگ است مشہور شاعر اور نقاد ڈاکٹر لطف علی صورتگر نے جو اس زمانے میں تہران یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی کے صدر تھے اور بعد میں پہلوی یونیورسٹی شیراز کے چانسلر مقرر ہوئے تھے، اپنے مقالے میں اقبال اور حافظ کے کلام میں حیرت انگیز مماثلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یوں لگتا ہے جیسے مندرجہ ذیل غزل حافظ شیرازی کے لوح مزار کے پاس بیٹھ کر کہی گئی ہے کہ اس سے قلندری اور عرفان کی مہک آتی ہے اور ساتھ ہی پاکستان کے اس عظیم شاعر کے بلند پایہ افکار کی آئینہ داری بھی ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے علامہ کی ایک غزل پڑھی جس کا مطلع مندرجہ ذیل ہے: بملازمان سلطان خبرے دہم ز رازے کہ جہان توان گرفتن بہ نواے دلگدازے 10؎ ایران کے نامور محقق، فاضل اور شاعر علامہ علی اکبر دہخدا نے اقبال پر ایک نظم میں کہا کہ ان پر جتنا ناز پاکستان کو ہے اتنا ہی ایران کو بھی ہے کیوں کہ: در ہائے ثمین خود در درج دری ریزد از پہنہ این میدان جولانگہ خود سازد11؎ اقبال کا کلام ادب روز افزوں مقبولیت حاصل کر رہا تھا۔ ایرانی مجلات اور ہفتہ وار اخبارات میں ان کے منتخب اشعار چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ بعض شاعر اور نقاد اپنے مقالات میں علامہ کے اشعار کے حوالے دینے لگے تھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر عرفانی نے ’’ رومی عصر‘‘ کے نام سے اقبال پر فارسی میں ایک کتاب لکھی جو 1953ء میں تہران سے شائع ہوئی۔ اس میں علامہ کے حالات زندگی اور تصانیف، فلسفہ اور پیغام، فکر اقبال پر مرشد روم کے عمیق اثرات اور متعدد ایرانی دانشوروں کے مقالات و اقتباسات شامل تھے۔ اس کا مقدمہ پروفیسر سعید نفیسی نے لکھا تھا اور انہوں نے مصنف کی اس ادبی کاوش کو بہت سراہا تھا۔ خود پروفیسر موصوف 1956ء میں حکومت پاکستان کی دعوت پر یہاں تشریف لائے تو انہوں نے علامہ کے مزار پر حاضر ہو کر مندرجہ ذیل شعر کہے: بخاک پاک تو آمد غبارے از ایران کشاے چشم و سر از خاک یکزمان بردار ز خاک سعدی و فردوسی آمدم برخیز پیام حافظ آوردہ ام بشو بیدار بدست من گلے از بوستان مولاناست بپائے خیز کہ تا برسرت کنیم نثار ہزار بار مرا آرزوے دیدن بود چہ میشود کہ بہ بینم جمال تو یکبار بجان و دل تو نفیسی ببوس خاک درش کہ بود امید فراوان و آرزو بسیار12؎ ملک الشعراء بہار بھی زندگی کے آخری ایام میں مزار اقبال کی زیارت کے بہت متمنی تھے اور 1950ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں پاکستان آنے کی دعوت بھی دی گئی تھی، مگر خرابی صحت کی بنا پر وہ اپنی آرزو پوری نہ کر سکے۔ البتہ انہوں نے اقبال کی روح پر فتوح کو دعاؤں کا نذرانہ ضرور بھیجا: درود باد بہ روح مطہر اقبال کہ بود حکمتش آموزگار پاکستان13؎ علامہ پر کتابوں کا سلسلہ وقفوں کے ساتھ جاری رہا ہے۔ 1959ء میں سید غلام رضا سعیدی کی کتاب ’’ اقبال شناسی۔۔۔۔ ہنر و اندیشہ محمد اقبال‘‘ شائع ہوئی۔ مصنف ایران کے مشہور ادیب ہیں اور اتحاد اسلامی کے بہت بڑے داعی ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب عقیدت و محبت میں ڈوب کر لکھی ہے۔ مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’ اگر اینگلو سیکسن قوموں کو شیکسپیئر، فرانس کو وکٹر ہیوگو اور جرمن نسل کو گوئٹے پر ناز ہے تو اقبال کی ذات ملل اسلامی کے لیے بالعموم اور ایران اور پاکستان کے اسلامی معاشرے کے لیے بالخصوص باعث افتخار ہے‘‘14؎ کتاب میں علامہ کو ایک عظیم شاعر، عظیم انسان اور عظیم مسلمان کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ہر لفظ سے ارادت و محبت کی بو آتی ہے۔ اس کتاب کے ایک سے زیادہ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ 1964ء میں احمد سروش نے ’’ کلیات اقبال‘‘ کے نام سے علامہ کے فارسی آثار کو یکجا کر کے انہیں ایک مبسوط مقدمے اور حواشی کے ساتھ طبع کروایا۔ سعیدی کی طرح سروش بھی اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے اور ان کا یہ کلیات پاکستان میں علامہ کے کلیات فارسی سے پہلے چھپا تھا۔ اس کی اشاعت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اب ایران میں کلام اقبال تک رسائی مشکل نہر ہی۔ ورنہ اس سے پہلے اقبال کے شیدائی ان کے آثار کے لیے ترستے رہتے تھے۔ 1970ء میں ڈاکٹر احمد احمدی بیر جندی نے ’’ دانائے راز‘‘ کے نام سے شاعر مشرق پر ایک کتاب تصنیف کی۔ اس کا مقدمہ استاد فلسفہ ڈاکٹر غلام حسین صدیقی نے لکھا ہے۔ کتاب میں علامہ کے افکار و عقائد کے ساتھ ساتھ ان کے فن شاعری اور اسلوب سے بحث کی گئی ہے۔ 1970ء ہی میں تہران کے مذہبی ادارے ’’ حسینیہ ارشاد‘‘ نے علامہ کی یاد میں ایک بہت بڑی کانفرنس منعقد کی۔ اس میں متعدد مقالات پڑھے گئے جنہیں ’’ علامہ اقبال، کنگرۂ بزرگداشت شاعر متفکر‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنے مقالے میں فکر دینی کے احیا کے سلسلے میں علامہ کے اہم کردار پر روشنی ڈالی اور انہیں ’’ غزالی ثانی‘‘ کے نام سے یاد کیا۔ انہوں نے اپنے مقالے میں بتایا کہ علامہ نے زندگی کے مختلف اجتماعی، اقتصادی، عمرانی اور سیاسی حقائق کی تعبیر دینی اقدار کے حوالے سے کی ہے۔ ان کا رویہ معذرت آمیز نہیں تھا، اور انہوں نے مسلمان مفکرین میں جرأت اظہار پیدا کی ہے۔ سید ابو الفضل زنجانی نے علامہ کے پیغام اخوت کا خیر مقدم کیا، اور علامہ کے کلام میں وطنیت کے جدید تصور پر جو کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے اس کی حمایت کی۔ ’’ اقبال شناسی‘‘ کے مصنف سید غلام رضا سعیدی نے اقبال کے پیغام کو ’’ رجوع الی القرآن‘‘ کی تحریک کے نام سے یاد کیا۔ مشہور ایرانی ادیب، شاعر اور مجلہ یغما کے ایڈیٹر حبیب یغمائی نے علامہ کے فکر و نظر سے گہری دلبستگی کا اظہار کیا، اور ایران میں اقبال کے کلام کو مزید مقبول بنانے کے لیے چند تجاویز پیش کیں مثلاً یہ کہ علامہ کی تصانیف انتہائی دلکش اور نفیس انداز میں چھپوائی جائیں۔ ریڈیو سے ہر ہفتے کوئی دانشور علامہ اقبال پر تقریر کرے، اور کسی ایرانی یونیورسٹی کی ایک فیکلٹی علامہ کے نام سے منسوب کی جائے۔ انہوں نے اس موقع پر علامہ پر ایک نظم بھی پڑھی جس کے دو شعر ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: فکر بکرش بہ کنہہ بحر عظیم شعر نغزش بہ لطف آب زلال پارسی گوے حکیم پاکستان پاک جان، پاک شیوہ، پاک خصال ادارہ حسینیہ ارشاد، جس نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا علامہ کے فکر و فلسفہ کا بے حد معتقد ہے۔ 1968ء میں اس نے علامہ کے ترانہ ملی: چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا کا منظوم اور منثور فارسی اور عربی ترجمہ چند مقدموں کے ساتھ نہایت اہتمام سے چھپوایا اور اسے اہل ذوق میں تقسیم کیا۔ ادارے سے ملحقہ مسجد کی چھت پر بھی علامہ کے اشعار کندہ کرائے گئے ہیں۔ 1973ء میں تہران یونیورسٹی کے ایک سابق چانسلر ’’ ڈاکٹر فضل اللہ رضا‘‘ نے ’’ محمد اقبال‘‘ کے زیر عنوان پچاس صفحے کا ایک مبسوط مقالہ لکھا جس میں موصوف نے بت شکن، جویائے راز، خلاق اور آزادی و بے نیازی کے مظہر کے زیر عنوان اقبال کے افکار کا نہایت فاضلانہ تجزیہ کیا۔ انہوں نے علامہ کے فلسفے کا نہایت گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے اور ا س مقالے میں اس کے مختلف پہلوؤں کے علاوہ اقبال کی جدت پردازی، نو آفرینی اور تازہ کاری پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ اقبال کو شاعر اسلام کے علاوہ شاعر انسانیت قرار دیتے ہیں، اور ان کے فکر فلک پیما میں ایک نئی زندگی کا پیغام پاتے ہیں۔ 1975ء میں فخر الدین حجازی نے ’’ سرود اقبال‘‘ کے عنوان سے تہران سے ایک نفیس کتاب شائع کی۔ اس میں اقبال کی شاعری کے مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور ان کے منتخب کلام کو اعلیٰ درجے کی کتابت و آرائش کے ساتھ طبع کیا گیا ہے۔ علامہ کی مقبولیت اب ایران کے کسی ایک علاقے یا لوگوں کے کسی ایک طبقہ تک محدود نہیں رہی۔ ان کے حالات زندگی اور فلسفہ و شعر پر باقاعدہ کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ ایرانی دانشور، ادیب اور شاعر یوم اقبال پر ان کو مسلسل ہدیہ عقیدت پیش کرتے رہتے ہیں۔ بقول محیط طباطبائی اقبالیات کو اب ایران میں عوامی سطح پر ایک قومی مسئلے کی سی اہمیت و مقبولیت حاصل ہو گئی ہے۔ اگر مذہبی ادارے ان کے کلام پر فدا ہیں تو بعض ترقی پسند ادیب بھی ان کے افکار سے اپنے نقطہ نظر کا جواز ڈھونڈ لیتے ہیں، ایران کی مشہور ترقی پسند شاعرہ سیمین بہبانی نے اپنے مجموعہ ’’ جای پا‘‘ کے دیباچے میں علامہ کا مندرجہ ذیل مصرع نقل کیا ہے: خیمہ ہا از ہم جدا دلہا یکیسیت15؎ اب تک علامہ پر جن افراد نے قلم اٹھایا ہے ان میں ایران کے دانشوروں کی ایک کثیر تعداد شامل ہے۔ ہر لکھنے والے نے اقبال کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بعض ادیبوں اور دانشوروں نے علامہ کی زبان کو موضوع بحث بنایا ہے۔ پروفیسر مینوی نے شاعر مشرق کی زبان کو لسانیات کے اس اصول کی روشنی میں پرکھا ہے کہ ایک ہی زبان مختلف علاقوں اور زمانوں اور مختلف حالات میں نشوونما پانے سے اپنے محاورے اور معانی میں جداگانہ اور منفرد رنگ پیدا کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاکستان و ہند میں فارسی زبان نے ایک آزاد ماحول میں پرورش پا کر اپنے اندر بعض ایسے خصائص پیدا کر لئے جو اسے ایران کی فارسی سے نمایاں کرتے ہیں۔ انہوں نے خود ایران کے مختلف علاقوں کے لسانیاتی اختلافات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ غزنوی اور سلجوقی ادوار میں قم اور ہرات میں فارسی کی جو کتاب لکھی جاتی تھی یا اصفہان اور طوس میں جو شعر کہے جاتے تھے۔ وہ الفاظ و معانی کے اعتبار سے کسی حد تک ایک دوسرے سے مختلف ہوتے تھے۔ 16؎ اگر اقبال کے کلام کے بعض الفاظ محاورات اہل ایران کو کچھ اجنبی معلوم ہوتے ہیں تو لسانیات کے نقطہ نظر سے ان پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صورتگر نے نہ صرف علامہ کی زبان کو صحیح تسلیم کیا ہے، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ علامہ نے صدیوں پرانے کلاسیکی الفاظ کو جو برصغیر میں اب تک رائج ہیں، اپنے کلام میں استعمال کر کے انہیں دوبارہ اپنے اصلی وطن ایران سے روشناس کرایا ہے۔ اس لحاظ سے ان الفاظ کی حیثیت ان ’’ پیران جہانگرد‘‘ کی ہے جو صدیوں کی جہاں پیمائی کے بعد اپنے وطن لوٹ آئے ہوں۔ 17؎ ڈاکٹر حسین خطیبی نے جو تہران یونیورسٹی میں سبک (اسلوب) شناسی کے استاد ہیں اور مختلف اسالیب شعر و نثر کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اقبال کی زبان کو انتہائی فصیح اور ہر نقص سے پاک قرار دیا ہے اور حیرت کا اظہار کیا ہے کہ یہ عظیم شاعر جسے کبھی اہل ایران کے ساتھ میل ملاقات کا موقع نہیں ملا کس طرح دقیق ترین عرفانی، علمی، اخلاقی اور فلسفیانہ افکار کو ’’ فصیح ترین الفاظ‘‘ اور’’ کامل ترین ترکیبات‘‘ کے سانچے میں ڈھال لینے پر قادر ہے۔ 18؎ سبک شناسی کے متخصص اور استاد ہونے کی حیثیت سے انہوں نے علامہ کے اسلوب پر جو اظہار خیال کیا ہے وہ شاعر مشرق کی تخلیقی استعداد اور مبتکر اور منفرد انداز شاعری کے حضور بہت بڑا خراج عقیدت ہے۔ فارسی کے اسالیب شعر کا پہلے بھی تذکرہ ہو چکا ہے اور یہاں اس حقیقت کو دہرانا ضروری ہے کہ ایرانی نقاد اور محقق بنیادی طور پر فارسی شاعری میں صرف تین اسالیب کے قائل ہیں اور ہر بڑے شاعر کو بھی انہی تین اسلوبوں میں سے کسی ایک کے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔مگر اقبال کے اسلوب کے بارے میں پروفیسر خطیبی کا کہنا ہیـ: ’’ اگر ہم علامہ محمد اقبال لاہوری کے شاعرانہ اسلوب کو چند الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ اس شاعر کا ایک اپنا مخصوص اسلوب تھا جسے ’’ سبک اقبال‘‘ کے نام سے یاد کیا جائے تو مناسب ہو گا۔‘‘ 19؎ ڈاکٹر خطیبی نے ایک دوسرے مقالے میں علامہ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے: ’’ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے اپنے ملک میں فارسی شاعری کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو دوبارہ روشنی بخشی اور اس کے فروغ جاوداں اور نور آسمانی سے نہ صرف پاکستان کو منور کیا بلکہ اپنی شاعری کی تابناک کرنوں سے فارسی زبان کے گہوارے ایران کو بھی تابندگی عطا کی۔‘‘ 20؎ تخلیقی توانائی و صلاحیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ شاعر کے اسلوب کو صرف اسی کے نام سے یاد کیا جائے۔ جہاں تک علامہ کی مفکرانہ حیثیت کا تعلق ہے ڈاکٹر علی شریعتی کی رائے کا ذکر کیا جا چکا ہے وہ حکیم الامت کو غزالی ثانی کے نام سے یادکرتے ہیں۔ ممتاز ایرانی فلسفی ڈاکٹر سید حسین نصر جو ایک دفعہ خاص طور سے یوم اقبال کی تقریبات کے سلسلے میں تہران سے لاہور آئے تھے فرماتے ہیں کہ فکر اسلامی کے احیاء کے لیے جو کام اقبال نے انجام دیا ہے وہ دور جدید کے کسی مسلمان مفکر یا مصلح سے ممکن نہیں ہواـ: ’’ اقبال پاکستان کے رہنے والے تھے لیکن وہ تمام اسلامی ملکوں اور تمام اسلامی مفکروں کا سرمایہ ہیں۔۔۔ ہمارا فرض ہے کہ اقبال نے ہمیں جو راہ دکھائی ہے ہم اس پر گامزن ہیں۔‘‘ 21؎ آخر میں اقبال کی مفکرانہ عظمت کے بارے میں پروفیسر سعید نفیسی کی رائے ملاحظہ ہوـ: ’’ عظیم شاعر وہ ہے جو تقاضائے زمانہ کو بدل دے۔ گردش فلک کو اپنی آرزو کا اسیر بنا لے۔ حوادث عالم میں انقلاب پیدا کر دے۔ دنیا کی تاریخ میں ایک نیا ہنگامہ بپا کرے۔ میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ پچھلے چند ہزار سال کی تاریخ انسانی میں ایسا کردار معدودے چند افراد نے انجام دیا ہے۔ قدیم یونان میں یہ کام افلاطون اور عالم اسلام میں ابن سینا اور مولانا جلال الدین کے ہاتھوں طے پایا۔ اب یہ کام محمد اقبال نے انجام دیا ہے۔‘‘ 22؎ ٭٭٭ حواشی آغاز 1 طبع چہار دہم، ص’’ م‘‘ 2 The Development of Metaphysics in persia 3 اقبال کی شخصیت اور شاعری، لاہور، 974م ص45 4محمد رفیق افضل، گفتار اقبال، لاہور1969، ص251-250 5صورۃ الارض، بیروت، ص325 6احسن التقاسیم و معرفتہ الاقالیم، لیڈن، 1906ئ، ص480 7 المسالک والمالک، قاہرہ، 1958ئ، ص172-170 8 The Home town of rabi a b ka, b by A Shakour ahsan in Iqbal Quarterly. jan, 1971, pp. 83-91 9شیخ عطا اللہ، اقبال نامہ، حصہ اول، لاہور1951ئ، ص343-342 10بانگ درا، دیباچہ ص’’ و‘‘ 11سید عبدالواحد معینی، باقیات اقبال، لاہور1952ئ، ص28 12ایضاً ص45 13 اقبال نامہ، حصہ اول، ص19-17 14باقیات اقبال، ص102 15 Begum, Atiya, Iqbal, Bombay, 1947, p.13 16محمد عبداللہ قریشی، مکاتیب اقبال بنام گرامی، کراچی 1969ئ، ص99 17شیخ عطا اللہ، اقبال نامہ، حصہ دوم، لاہور1951ئ، ص210 18بانگ درا، دیباچہ، ص ’’ ل۔ م‘‘ 19گفتار اقبال، ص254 اسرار خودی 1اقبال نامہ، حصہ دوم، ص45 2گفتار اقبال، ص250 3ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، شذرات فکر اقبال (ترجمہ: Stray Reflections ed. Dr. Justice Javed Iqbal) لاہور، 1973ئ، ص77 4ایضاً ، ص132 5ایضاً، ص133 6اقبال نامہ، حصہ اول، ص110 7ایضاً، ص24 8مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، مطبوعہ بزم اقبال، لاہور 1954ئ، ص36 رموز بیخودی 1مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص11 2ایضاً 3میکیاولی (1532ئ) فلارنس (اٹلی) کا رہنے والا تھا۔ اس کی متذکرہ کتاب کا انگریزی عنوان The Prince ہے۔ 4مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص10 5ایضاً، ص9 6ایضاً ، ص44 پیام مشرق 1ص’’ ا‘‘ 2ص ’’ ہ‘‘ 3ص ’’ ک‘‘ 4اقبال نامہ، حصہ اول، ص303 5ص151 6اقبال نامہ، حصہ دوم، ص159 7ایضاً، حصہ اول، ص120 8ایضاً ، ص277 9مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص46 10اقبال نامہ، حصہ دوم، ص300 11سید نذیر نیازی، مکتوبات اقبال، کراچی، 1957ئ، ص323 زبور عجم 1مکتوبات اقبال، ص32 جاوید نامہ 1مکتوبات اقبال، ص31 2محمد تقی، بہار، فردوسی نامہ (مجلہ مہر) تہران، ص500-497 3اقبال نامہ، حصہ دوم، ص373 4ایضاً ،ص375 5ایضاً ، ص376 6ایضاً ، ص377 7ایضاً، ص378 8ایضاً، ص380 9ایضاً ، ص388,382 10مکتوبات اقبال، ص81 11اقبال نامہ، حصہ اول، ص300 12ایضاً، ص305-304 13ایضاً، ص306-305 14تلمیح بہ حدیث ’’ لی مع اللہ وقت‘‘ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق 1(ا) اقبال نامہ، ص414(ب) عبدالسلام ندوی، اقبال کامل، اعظم گڑھ، طبع دوم، 1964ء ص106 2فقیر سید وحید الدین، روزگار فقیر، کراچی، نقش ثانی 1963ء ص185-184 3 ، 4 بصیری ’’ قصیدہ بردہ‘‘ کا مصنف یہ نظم حضور رسالتمابؐ کی نعت میں ہے۔ روایت ہے کہ بصیری کا یہ قصیدہ بارگاہ نبویؐ میں مقبول ہوا اور مصنف کو فالج سے نجات ملی۔ پس چہ باید گرد، ص69 خودی اقبال نامہ، حصہ اول، ص465 1ایضاً 2ایضاً، ص202 3ایضاً، ص474-473 بیخودی 1اقبال نامہ، حصہ دوم، ص60-59 عشق 1ر۔ ک اقبال کامل، ص284-283 2۔ The Reconstruction of Religious Thought in Islam Lahore. Reprinter, 1971. p.3 3 بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنون ضرب کلیم، ص45 تصوف 1سید علی ہجویری، کشف المحجوب، بتصحیح والتین ژو کوفسکی، لینن گراڈ، 1926ئ، ص49 2نور الدین عبدالرحمن جامی، نفحات الانس، کلکتہ ایڈیشن 1858ئ، ص34 3 The Development of Metaphysics in Persia. Lahore. Third Reprint 1964, p.77 4 ایضاً، ص76 5سورہ 2: آیہ 151 6سورہ 50: آیہ 16 7سورہ 20: آیہ 35 8 اقبال نامہ، حصہ دوم، ص354 9 Development of Metaphysics p. 84 10بشیر احمد ڈار، انوار اقبال، کراچی 1967ء ، ص178 11 Vahic S. Abdul, Iqbal: His art and thought. London, 1959, p.14. 12عبدالمجید سالک، ذکر اقبال، لاہور1955ص46 13اقبال نامہ: حصہ دوم:ص55-54 14ایضاً، ص45 15مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص2 16اقبال نامہ، حصہ دوم، ص46-45 17اقبال نامہ، حصہ اول، ص79-78 18مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص1 19اقبال نامہ، حصہ اول، ص36 20 ایضاً، ص45-44 21مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص53 22 مکتوبات اقبال، ص203 23اقبال نامہ، حصہ اول، ص458-457 جبر و قدر 1سورہ 2ـ: آیہ 281 2سورہ 17: آیہ 7 3سورہ 53: آیہ 39 4 سورہ 47: آیہ 31 5 Reconstruction of Religious Thought p.30 6 سورہ 55: آیہ 29 7 سورہ 37: آیہ 96 8سورہ 54: آیہ 49-50 9سورہ 54: آیہ 53-52 تصور فن 1 The New Era, Lucknow, 1916, p.251 2 The Critic as artist, The Writings of Oscar Wilde, Vol. V. New York, 1931, p.210 3 عبدالرحمن چغتائی، مرقع چغتائی (دیوان غالب مصور) لاہور، 1928ئ، دیباچہ 4ایضاً 5ذکر اقبال، ص252 6 Intreduction رومی 1 Reconstruction of Religious Thought p. 121 2 Development of Metaphysics pp. 82-83 3ایضاً، ص89-88 5ایضاً، ص105 6ضرب کلیم، ص11 7پیام مشرق، ص247 8شذرات فکر اقبال، ص106 9 ص15, 71, 91, 110, 121-122, 187-186 10 اقبال نامہ، حصہ دوم، ص65-64 11ایضاً، حصہ اول، ص28-27 12بدیع الزمان فروزانفر، زندگانی مولانا جلال الدین محمد، تہران، 1332ھ۔ شمسی، ص146 13اقبال نامہ، حصہ اول، ص86-85 حافظ 1 اقبال نامہ، حصہ دوم، ص54 2ایضاً ، ص58 3ایضاً، حصہ اول، ص52 4نفحات الانس، ص715 5اقبال نامہ، حصہ اول، ص43 6ایضاً 7 ایضاً، ص44 8 Iqbal, p. 15. 9ایضاً، ص17 10 Stray Reflections, p. 119. 11اقبال نامہ، حصہ دوم، ص196 12پیام مشرق، ص184 13اقبال نامہ، حصہ دوم، ص210 عرفی 1روزگار فقیر، ص147 2 Reconstruction of Religious Thought. pp. 52-53. غالب 1شذرات فکر اقبال، ص102 2 ایضاً، ص105 تضمینات 1 ناصر خسرو، دیوان اشعار حکیم ناصر خسرو، بتصحیح حاجی نصر اللہ تقوی، تہران 1339 ہش، ص، ط۔ 2نور الدین عوفی، لباب الالباب، بسعی و اہتمام ادوارد برؤن، لیڈن، جلد دوم، 1903ئ، ص267 اظہار فن 1سید نذیر نیازی، اقبال کا مطالعہ، ص139 2روزگار فقیر، ص78 3ایضاً، ص40-39 4اقبال نامہ، حصہ دوم، ص371 5ایضاً، ص23 6ایضاً، ص315 7 ایضاً، ص105 8 شذرات فکر اقبال، ص(1) 9 خواجہ عبدالحمید عرفانی، اقبال ایرانیوں کی نظر میں، کراچی، 1957ئ، ص134 10 Nicholson Reynold A, The Secrets of the Self, London, 1920- p.x 11 دولت شاہ سمرقندی، تذکرۃ الشعرائ، بسعی و اہتمام دوارد برؤن، لیڈن 1900ئ، ص41-40 12سید غلام رضا سعیدی، اقبال شناسی۔ ہنر و اندیشہ محمد اقبال، تہران، 1338ھ۔ ش، ص 20 13اقبال نامہ، حصہ اول، ص205-204 14ایضاً، ص145 15اقبال نامہ، حصہ دوم، ص22 16ایضاً، ص259 17ایضاً، حصہ اول، ص56 18 ایضاً، ص 91-89 19ایضاً، ص82 20مکاتیب اقبال بنام گرامی، ص194 21ایضاً، ص98 22اقبال نامہ، حصہ دوم، ص367 23ایضاً، حصہ اول، ص108 24ایضاً، ص235 25ایضاً، ص196-195 ایران اور اقبال شناسی 1مجلہ محیط۔ ارد یبہشت 1324ھ، شمسی 2مطبوعہ مکتبہ، دانش، تہران، ص74 3ایضاً 4ایضاً 5ایضاً، ص9 6ایضاً، ص19 7 ایضاً، ص45 8خواجہ عبدالحمید عرفانی، رومی عصر، تہران 1332، ہھ۔ ش، ص177 9اقبال نامہ، تہران، ص25 10ایضاً، ص27 11 ایضاً، ص16 12اقبال ایرانیوں کی نظر میں، ص377 13 Ahsan, A. Shakoor, Maliku Sh-Shuara Bahar in Iqbal Qearlerly, Lahore, July, 1961, p.53. 14اقبال شناسی، ص ’’ یا‘‘ 15سیمین بہبانی، جای پا، تہران، 1335، ھ ۔ ش، ص6 16اقبال ایرانیوں کی نظر میں، ص161 17اقبال نامہ، تہران، ص27 18اقبال ایرانیوں کی نظر میں، ص132 19ایضاً، ص134 20ایضاً، ص144 21طاہرہ صدیقی، ’’ مراسم تجلیل از علامہ اقبال در دانشگاہ تہران‘‘ مجلہ ہلال، اگست 1970ئ، ص25 22 اقبال ایرانیوں کی نظر میں، ص111-110 ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End