اقبال اور عالمی ادب ڈاکٹر عبد المغنی اقبال اکادمی پاکستان یہ کتاب اقبال صدی کی تقریبات شروع ہونے سے کچھ پہلے میرا ایک مضمون ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ کے عنوان سے نقوش لاہور میں شائع ہوا۔اس کے بعد جب اقبال صدی کی تقریبات ہونے لگیں اور حلقہ ادب بہار نے پٹنے میں ’’یوم اقبال‘‘ کے انعقاد کا پروگرام بنایا۔ تو صدر حلقہ کی حیثیت سے میں نے جناب کلیم الدین احمد صاحب سے استدعا کی کہ وہ اس تقریب کا افتتاح کریں۔ اور بہتر ہو گا کہ اس موقع پر’’اقبال اور عالمی ادب کے موضوع‘‘ پر تحریری اظہار خیال کریں۔ موصوف نے میری دعوت قبول کر لی۔مگر عین وقت پر صدر جمہوریہ ہند جناب فخر الدین علی احمد کی وفات کے سبب تقریب کا انعقاد چند روز کے لئے ملتوی ہو گیا۔اس کے بعد جب ’’یوم اقبال‘‘ منعقد ہوا تو جناب کلیم الدین احمد صاحب شریک محفل نہ ہو سکے۔ اس کے چند ماہ بعد ’’آہنگ‘‘ (گیا) میں جناب کلیم الدین احمد صاحب کا مضمون اقبال اور عالمی ادب کے عنوان سے شائع ہوا۔معلوم ہوا کہ یہ وہی مضمون ہے جو میری فرمائش پر جناب کلیم الدین احمد صاحب نے حلقہ ادب یوم اقبال کے لئے تحریر کیا تھا۔اس مضمون کو پڑھ کر مجھے خاص کر افسوس ہوا۔ کہ میں نے جناب کلیم الدین احمد صاحب سے ایک ایسے موضوع پر اظہار خیال کی فرمائش کی جس کے متعلق ان کا ذہن بالکل غلط تھا۔ اس سلسلے میں واقعہ یہ ہے کہ مجھے کچھ خوش فہمی تھی۔ ۱۹۶۹ء میں غالب صدی کے سلسلے میں پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی تقریبات کا افتتاح کرتے ہوئے جناب کلیم الدین احمد صاحب نے چٹکی لی تھی۔ کہ غالب صدی کے ہنگامے میں لوگوں کو اس موضوع پر بھی سوچنا چاہیئے۔ کہ عالمی ادب میں غالب کا کیا مقام ہے۔اس سے میں نے سمجھ لیا تھا کہ جناب کلیم الدین احمد صاحب کے خیال میں اردو شعراء کے درمیان صرف اقبال کا کار نامہ ایسا ہے کہ جو عالمی ادب کی سطح پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اقبال صدی کے موقع پر اظہار خیال کی دعوت دیتے ہوئے میں نے جناب کلیم الدین احمد صاحب کو غالب صدی کے سلسلے میں ان کا بیان یاد دلایا ۔اور اسی کے حوالے سے انہیں اقبال اور عالمی ادب کا موضوع دیا۔جس انداز سے موصوف نے میری دعوت قبول کی۔اس نے میری خوش فہمی میں اور اضافہ کر دیا۔ بہر حال، میں نے جناب کلیم الدین احمد صاحب کے مذکور مضمون کا جواب ’’آہنگ‘‘ ہی میں دیا۔ جس پر ایک عرصہ تک موصوف خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ان کی ایک کتاب ’’اقبال‘‘ ایک مطالعہ شائع ہو گئی۔اس کتاب کو پڑھ کر میں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ جس طرح جناب کلیم الدین احمد صاحب کا مضمون ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘ میرے مضمون‘‘ عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ کے جواب میں تھا۔ اسی طرح ان کی کتاب بھی در حقیقت میرے مضمون کا رد عمل ہے۔ جو میں نے موصوف کے مضمون کے جواب میں تحریر کیا تھا۔اور یہ کہ جو باتیں موصوف نے اقبال اور عالمی ادب کے بارے میں اختصار کے ساتھ لکھی تھیں ۔انہی کو انہوں نے اقبال۔ایک مطالعہ میں تفصیل کے ساتھ دہرا دیا ہے۔ یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ ادب،عالمی ادب اور اردو ادب کے متعلق جناب کلیم الدین احمد کے جو ناقص تصورات ‘‘ اردو شاعری پر ایک نظر سے‘‘بروئے اظہار آنا آنا شروع ہوئے تھے۔ انہی کی تکرار وتکمیل،پہلے سے بھی زیادہ غلو اور مبالغے کے ساتھ ’’اقبال‘‘ ایک مطالعہ میں کی گئی۔ جو در حقیقت عالمی ادب کی سطح پر پورے مشرقی ادب ،بالخصوص اردو ادب کی تحقیر خالصتا مغربی بالخصوص انگریزی ادب کے پیمانے سے ہے۔ مشرقی اور اردو ادب کی تحقیر مغربی اور انگریزی ادب کے پیمانے سے،واقعہ یہ ہے کہ عالمی ادب بلکہ ادب کی توہین ہے۔ اس لئے کہ یہ تحقیر ایک بالکل علاقائی تعصب پر مبنی ہے۔جس پر اہل مغرب پچھلی دو صدیوں سے کار بند ہیں۔اور ایک مشرقی نے مغربی تعصب کی وکالت کرکے بدترین قسم کی ذہنی غلامی اور اندھی تقلید کا ثبوت دیا ہے۔یہ عبرت انگیز واقعہ اشارہ کرتا ہے کہ ہندوستان میں میکالے کا سامراجی منصوبہ تعلیم بہت کامیاب ہوا ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی غلامی ختم ہونے کے ۳۳ سال بعد بھی تہذیبی غلامی کے آثار باقی ہیں۔ میں نے اپنے کئی مضامین میں اس تلخ حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔اور میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ خاص اس مضوع پر کوئی مستقل کتاب کسی عنوان سے لکھوں،اس سلسلے میں اقبال کی عظیم الشان آفاقی شاعری کا موضوع سال ہا سال سے میرے زیر مطالعہ رہا ہے۔ اور اقبال پر اپنے دوسرے کئی مضامین میں اس کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ ’’عالمی ادب میں اقبال کے مقام پر‘‘ میں نے خاص اسی پہلو سے اظہار خیال کیا ہے۔ لیکن یہ مضمون صرف ایک مضمون ہے۔ اور میں نے اس پر یہ وضاھتی نوٹ بھی اپنے تیسرے مجموعہ مضمون ’’تشکیل جدید‘‘ میں اسے شامل کرتے ہوئے دے دیا ہے۔ کہ اسے ایک مستقل کتاب کا خلاصہ یا تمہید سمجھا جائے۔ چنانچہ جب جناب کلیم الدین احمد کی کتاب ’’اقبال‘‘ ایک مطالعہ کے ناشرین خاص کر عزیزی معصوم کاظمی صاحب نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں جناب کلیم الدین احمد صاحب کی کتاب کا جواب اسی طرح لکھ دوں۔ جس طرح میں نے ان کے مضمون کا جواب تحریر کیا تھا۔ تو میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک مناسب موضوع اور موقع ہے،عالمی ادب کی سطح پر۔اردو ادب کو پیش کرنے اور اس سلسلے میں ان تمام غلط تصورات کے بطلان کا جو جناب کلیم الدین احمد صاحب اور ان سے متاثر بعض کم نظر لوگوں نے ہمارے ادب میں ایک مدت سے پھیلا رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے اس مطالعہ اقبال کو قدرے وسعت کے ساتھ پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ جو میں پچھلے پچیس سال سے کرتا رہا ہوں۔اور اس کے صرف چند اجزا میرے بعض ان مضامین میں ظاہر ہوئے ہیں،جو اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ جن میں بیشتر میرے تین مجموعوں۔۔نقطہ نظر،جادہ اعتدال، تشکیل جدید۔۔ میں شامل ہیں۔ اور چند ابھی کسی مجموعے میں نہیں آئے ہیں۔مطالعہ اقبال کے سلسلے میں مجھے بہت ہی شدت کے ساتھ محسوس ہوتا رہا ہے۔ کہ اقبالیات کے بڑھتے ہوئے حجم کے باوجود،کتنے ہی نہایت اہم موضوعات،ہنوذ محتاج توجہ ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فکر وخیال کے ساتھ ساتھ شاعری کی دنیا میں اقبال کے کلام نے کتنا عظیم انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ اس کی طرف شاید کسی کی نگاہیئں بھی نہیں جاتیں۔بر صغیر آزاد ہو چکا، مگر اقبال ابھی تک ایک ایسے خطہ ارض کے شاعر ہیں ،جو ذہنی طور پر محکوم ہے۔ سولھویں ،سترھویں صدی عیسوی میں شیکسپیئر محض ایک چھوٹے سے جزیرے کا شاعر تھا۔مگر انیسویں ،بیسویں صدی میں انگریز قوم جب عالمی طاقت بن گئی تو شکسپئیر بھی عالمی شاعر بن گیا۔قوموں کی یہ حدیں موجودہ بین الاقوامی کہلانے والے دور میں بھی قائم ہیں۔اور اقبال کی شاعری کی آفاقی طاقت انہی حدوں میں بند پڑی ہے۔اگر چہ مجھے یقین ہے کہ وہ وقت بہت قریب آگیا ہے۔جب پوری دنیا کو محسوس کرنے کا موقع ملے گا اور اقبال کی پیشین گوئی ان کے کلام کے بارے میں پوری ہو گی۔ پس از من شعر من خوانند ودریا بند ومی گویند جہانے را دگر گوں کرد یک مرد خود آگاہے بہر ھال عصر حاضر میں علمی سطح پر ادب کی تشکیل جدید کا موضوع اور اس سلسلے میں اقبال کی شاعری کا قصہ پچھلے چند سال سے میرے ادبی مطالعات کامرکز رہا ہے۔چنانچہ میں نے اپنے ذہن میں ایک کتاب کا خاکہ مرتب کرکے فکر وفن،جدت وقدامت،ادبی تشکیل جدید کے اسباب وعوامل اور شاعری کی تشکیل جدید کے عنوانات پر الگ الگ مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جو وقتا فوقتا نقوش (لاہور) اردو ادب (علی گڑھ)اور کتاب (لکھنو) میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے تیسرے مجموعہ مضامین ’’تشکیل جدید‘‘ میں اب تک شائع شدہ تمام مضامین کو میں نے شامل کر لیا اور انہی مضامین کی نسبت سے مجموعے کا نام تشکیل جدید رکھا۔ اگر چہ اس میں دوسرے موضوعات پر بھی متعدد مضامین ہیں۔جن میں بعض اقبال کے فکر وفن کے مختلف پہلوؤں پر ہیں اور ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام‘‘ اس مجموعے کا مقالہ اول ہے۔ موجودہ کتاب کی تصنیف کے وقت اور دوران ادب،شاعری اور کلام اقبال کے یہ سارے موضوعات میرے پیش نظر رہے۔ اس طرح یہ کتاب صرف’’ جناب کلیم الدین احمد ‘‘ اقبال۔ایک مطالعہ کا جواب نہیں ہے۔ بلکہ اقبال اور عالمی ادب کے موضوع پر ایک مستقل بحث ہے۔ اسی لئے میں نے اس کتاب کا نام بھی یہی رکھا ہے۔ چنانچہ ’’ جناب کلیم الدین احمد ‘‘کی کتاب کے مباحث کو میں نے محض گریز کے طور پر لیا ہے۔ اور ان پر تبصرہ کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ متعلقہ موضوعات کے تمام ضروری پہلو اور بنیادی نکات میری بحثوں میں آجائیں۔ یہ بحثیں بیک وقت ادب کے عالمی تصورات اور کلام اقبال کے مضمرات کا احا طہ کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں میری مشکل یہ تھی کہ ایک بہت ہی وسیع موضوع پر روشنی ڈالنی تھی، اور اس کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر پھیلائی ہوئی تاریکی کودور کرنا تھا۔میں نے چاہا تھا کہ یہ کام زیادہ سے زیادہ تین سے چار سوصفحات کے اندر ہو جائے،لیکن اپنی حد تک انتہائی اختصار سے کام لینے اور صرف بنیادی نکات پر اکتفا کرنے کے باوجود کتاب مکمل ہوتے ہوئے اپنے موجودہ حجم تک پہنچ گئی۔ اس کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ موضوع کا حق ادا نہ ہوا۔اور کئی گوشے تشنہ رہ گئے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کی وجہ اقبال کے فکر وفن کی وسعت اور تنوع ہے۔اس کتاب کی تصنیف کے سلسلے میں میرے اس خیال کی تو ثیق ہو گئی۔کہ اقبال کی شاعری کا حق ادا کرنے کے لئے کسی ایک موضوع پر کوئی ایک کتاب کافی نہیں ہے۔ اقبال نے فکر وفن کی ایک دنیا اور شاعری کا ایک نظام تخلیق کیا ہے۔جس کی مکمل تشریح اور قدر شناسی اس وقت ہو سکتی ہے۔جب اقبال کے فکر وفن اور نظام شاعری کے متعدد پہلوؤں پر متعدد مبسوط کتابیں مستقل طور سے تصنیف کی جائیں۔اور اس طرح اقبالیات کا ایک پورا کتب خانہ مرتب ہو جائے۔ اور یہ صرف اردو میں نہ ہو، کم ازکم انگریزی میں بھی ضرور ہے۔ اس کے علاوہ عربی اور فارسی اور دیگر مشرقی ومغربی زبانوں میں بھی مطالعات کیے جائیں۔ نہ چینی وعربی وہ نہ رومی وشامی سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی بر وقت میرے زیر فکر دو کتابیں ہیں۔ (۱) اقبال کا تصور خودی (۲) اقبال کا فن / اردو انگریزی موجودہ کتاب میں تفہیم اقبال کی حقیر کوشش کو آیندہ مطالعات کا پیش خیمہ سمجھا جا سکتا ہے۔ عبد الغنی ۱۶ مئی ۱۹۸۰ء وارثی کنج، عالم گنج۔ پٹنہ نمبر ۷ اقبال ایک مطالعہ حقیقت یہ ہے کہ اردو تقید کی ذہنیت میں بت پرستی کچھ اس طرح رچ بس گئی ہے۔ کہ اس نے دو بڑے بڑے دیوتا بنائے ہیں۔غالب اور اقبال۔اور جہاں اس قسم کی ذہنیت نے جڑ پکڑ لی ہو۔ وہاں بے لاگ تنقید کا گزر نہیں ہو سکتا ہے۔اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دونوں شاعروں کو اس قدر اچھالا گیا ہے ،اور اچھالا جا رہا ہے،ان کی شاعرانہ زندگی سے متعلق ایسے (wild Assertion) ہیں۔انہی پر آئندہ ساری بحث کی عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ غریب اردو تنقید میں بت پرستی کا اعلیٰ معیار تو وہی ہے۔ جو ’’ جناب کلیم الدین احمد ‘‘ نے عبد الرحمان بجنوری کے اس قول میں دریافت کیا ہے:۔ ’’ہندوستان کی صرف دو الہامی کتابیں ہیں،ایک وید مقدس اور دوسری دیوان غالب۔ کیا یہ قول واقعی بت پرستی کا غماز ہے؟۔ اول تو یہ ایسے ہی ایک شوخ انداز بیان ہے، جیسے خود ’’ جناب کلیم الدین احمد ‘‘ کا وہ قول جو اردو میں بت شکنی کا معیار ہے۔ یعنی یہ کہ غزل نیم وحشی صنف سخن ہے۔دوسرے یہ کہ بجنوری نے غالب کی تعریف میں بہت مبالغہ کیا ہے۔تو بس اتنا ہی کہا کہ دیوان غالب ہندوستان کی دوسری الہامی کتاب ہے۔جیسی یہ کہ دیوان حافظ ایک الہامی کتاب ہے۔بلکہ دیوان غالب سے بھی بہت آگے بڑھ کر دیوان حافظ کا مرتبہ تو ان کے عقیدت مندوں کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اس سے فال نکالتے ہیں۔لیکن حافظ کو بھی بت بنا کر کبھی نہیں پوجا گیا۔ہندوستان میں اقبال ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے جو حافظ کو’’ گوسفند ایران‘‘ کہتے تھے۔اور اس طرح فکری لحاظ سے حافظ کی شدید ترین مذمت کرتے تھے۔غالب کو تو بہر ھال وہ مرتبہ کبھی حاصل نہیں ہوا ،جو حافظ کو ملا تھا۔ دنیا نے کبھی بھی ان کے کلام کو مقدس نہیں سمجھا۔یہ ضرور ہے کہ غالب اردو کے مقبول ترین شاعر ہیں۔اور ان کی شاعرانہ عظمت کے قائل سب نقاد ہیں۔سوا ’’ جناب کلیم الدین احمد ‘‘ صاحب کی اکیلی ذات کے۔آخر اردو تنقید نے غالب کی تعریف وتوصیف کے لئے کتنا بڑا لٹریچر تخلیق کیا ہے۔ کہ اس کی بنا پر معاملہ پرستش کی حد تک پہنچ گیا۔کیا انگریزی تنقید نے شکیسپئیر کی مدح میں زمین وآسمان کے جو قلابے ملاتے ہیں۔اور اس کی حمد ونعت میں جو ایک کتب خانہ تعمیر کرکے رکھ دیا ہے۔اس کا دسواں حصہ بھی بے چارے غالب کو میسر آیا ہے۔ رہے اقبال تو ابھی ان کے فکر وفن کی تشریح وتوصیف میں اتنی اور ویسی تحسین آمیز کتابیں بھی نہیں لکھی گئیں۔جیسی اور جتنی ہلٹن پر انگریزی زبان میں پائی جاتی ہیں۔ بلاشبہ اقبال پر اردو ادب کو ناز ہے۔جیسے انگریزی ادب شیکسپئیر پر اطالوی ادب دانتے پر، اور جرمن ادب گیٹے پر فخر کرتا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ا قبال کی تعریف وتوصیف میں سوا ’’ جناب کلیم الدین احمد ‘‘ کے،اردو تنقید عام طور پر رطب اللسان ہے۔لیکن ابھی نہ تو اقبال کی فکری تشریح کا حق ادا ہوا ہے۔ اور نہ فن کی پوری قدر شناسی ہو سکی ہے۔ اردو اور فارسی میں اقبال کی تخلیقات کا جو حجم اور وزن ہے۔ابھی اس کے بہت تھوڑے حصے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اقبال نے پوری مشرقی شاعری کی روایات میں ۔۔۔جس میں عربی،فارسی اور سنسکرت سب شامل ہیں۔جو تجربات کیے اور ان کے جو اثرات جدیدمشرقی ادب پر پڑے،یا ان کی جو اہمیت دنیائے ادب کے لئے ہے۔ان سب کی تشریح میں اردو تنقید کی بے مائگی شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔ اقبال صدی کی تقریبات کے سلسلے میں بھی ایسی کوئی تنقیدی تصنیف سامنے نہیں آئی جو کم از کم اقبال کی شاعری کے بنیادی پہلوؤ ں اور اہم ترین نکتوں ہی کا احاطہ کر لیتی۔ اردو تنقید میں اپنے ادب کی جوہر شناسی کے معاملے میں پس ماندگی کا عالم تو یہ ہے کہ آج تک کسی ناقد کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ہندوستان کی حدود سے آگے بڑھ کر غالب اور اس سے بھی زیادہ اقبال کے فنی کار ناموں کا جائزہ عالمی ادب کی سطح پر لینے کے لئے کوئی کتاب لکھتا۔(راقم الحروف نے پچھلے دنوں ایک حقیر سی کوشش بھی صرف ایک مختصر مقالے کی شکل میں کی۔اور ’’عالمی ادب میں اقبال کا مقام کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو چند رسالوں میں شائع ہوا۔اور میرے تیسرے مجموعہ مضامین ’’تشکیل جدید ‘‘ میں شامل ہے۔اور اس کے برعکس اردو تنقید کی عام روش یہی رہی ہے کہ مغرب بالخصوص انگلستان کے ادبی تصورات کو حرف آخر تصور کرکے انہی کی روشنی میں اردو کے بڑے سے بڑے فن کار کا محاسبہ کیا جاتا ہے۔اور یہ جرات تو کی ہی نہیں جاتی کہ اس فن کار کی کم ازکم بہترین تخلیقات کا موازنہ مغربی اور انگریزی ادب کے مشاہیر کے کارناموں کے ساتھ کیا جائے۔ انتہا یہ ہے کہ اردو کے ادباء وشعرا کی جو زیادہ سے زیادہ تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔ وہ بس اردو ادب یا ہندوستانی یا بہت بڑھے تو مشرقی ادب کی حدود کے اندر،ہمارے بڑے بڑے اور جری سے جری ناقدین بھی اس طلسم ہیچ مقداری میں گرفتار ہیں۔اور ذہنی طور پر مفلوج ہونے کی حد تک مغربی ادب سے مرعوب ہیں۔جب فی الواقع غریب اردو تنقید نے حد ادب اس طرح ملحوظ رکھی ہے تو پھر جناب کلیم الدین احمد کیوں اس طرح سوچتے ہیں کہ غالب و اقبال کو اچھالا گیا یا اچھالا جا رہا ہے۔آخر ہمارے عظیم مغرب پرست نقاد کیا چاہتے ہیں کیا یہ چاہتے ہیں کہ سرے سے اردو تنقید میںغالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کی تعریف وتوصیف نہ ہو۔ یقینا موصوف کا منشاء یہی ہے۔اور زیر نظر کتاب خاص اسی مقصد کے لئے تحریر کی گئی ہے۔کہ کم نظر اردو تنقید میںجو معمولی سی قدر شناسی اقبال جیسے نابغہ فن کی ہوتی ہے،اس پر سیاہی پھیر دی جائے۔ بہر حال اقبال! پر حملہ کرنے کے لئے جناب کلیم الدین احمد ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے اردو تنقید کی بری طرح پٹائی کر دی جائے ۔تاکہ اردو کے نقاد جناب کلیم الدین احمد کے مقابلے میں(Demoralised) ہو جائیں۔ان کا حوصلہ پست ہو جائے اور وہ ہمارے مغرب پرست نکتہ چین کی جارحیت اور تشدد کا کوئی جواب نہ دے سکیں۔ چنانچہ موصوف خاص تنقید پر اظہار خیال اس شان سے کرتے ہیں کہ : ’’تنقید تعریف،تحسین یا تفریط نہیں،اس طرح یہ محض تنقیص بھی نہیں۔یہ پرکھ ہے۔یہ ایک قسم کی کسوٹی ہے۔ جس پر ہم کھرے اور کھوٹے کو جانچ سکیں۔اس لئے اگر ہم کسی کی خامیوں پر نظر ڈالیںاور اس کی خوبیوں سے چشم پوشی کر لیں تو یہ بد دیانتی ہوگی۔اسی طرح اگر ہم کسی کی خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں اور اس کی خامیوں سے قصدا چشم پوشی کریں تو یہ بھی بد دیانتی ہو گی۔لیکن دوسری قسم کی بد دیانتی اردو تنقید میں عام ہے۔ (صفحہ ۵) لیکن مشکل یہ ہے کہ خود جناب کلیم الدین احمد اپنے پیش کیے ہوئے اس متوازن اور معتدل تنقیدی نصب العین پر عمل کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اور ان کا سارا تنقیدی سرمایا ایک اعلیٰ بسیط اور محیط قسم کی ’’محض تنقیص‘‘ پر مشتمل ہے۔انہوں نے صرف کسی کی خامیوں پر نظر ڈالی ہے۔ اور اس کی خوبیوں سے چشم پوشی کی ہے۔ اردو ادب پر جو دو نظریں انہوں نے ڈالی ہیں،دونوں ہی ترچھی، ٹیڑھی اور بری ہیں۔اردو شاعری پر ایک نظر کا ماحصل ہے۔ کہ اردو نے کوئی عظیم اور کامل الفن شاعر پیدا نہیں کیا۔اردو تنقید پر ایک نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو میں اردو تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔یہ اقلیدس کا خیالی نقطہ ہے یا معشوق کی موہوم کمر، عملی اردو تنقید جسے اردو ادب پر تیسری نظر کہنا چاہیئے۔اسی طرح نگاہ غلط انداز ہے۔جس طرح پہلی دو نظریں،کیا اس صورت حال کے پیش نظر جناب کلیم الدین احمد پر اس بد دیانتی کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔جو موصوف پوری اردو تنقید پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔موصوف نے جس شدت ،غلو، مبالغہ، اور انتہا پسندی کے ساتھ اردو ادب کے مزعومہ خامیوں کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا ہے۔ ۔اس کو دیکھتے ہوئے ہم ہرگز ان پر اعتماد نہیں کر سکتے کہ وہ کھرے کھوٹے کی جانچ کرنے کی حقیقی اور واقعی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلکہ ان کے اب تک کے کار ناموں کی روشنی میں صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ذہن ایک ناقد کا نہیں،ایک عیب جو اور نکتہ چیں کا ہے۔اور ان کا مزاج ایک ادیب کا نہیں ،ایک محاسب کا ہے۔وہ فنی جمالیاتی ذوق سرے سے نہیں رکھتے،انہیں غزل کی لطافت کا کوئی احساس نہیں،وہ مشرقی موسیقی عروض اور شعریت کے ادا شناس نہیں،انہی خامیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے اپنی تنقیدوں سے وہ فضا پیدا نہیں کی،جس میں اعلیٰ تخلیقات پروان چڑھ سکیں۔ٹی،ایس ،ایسٹ نے ایک بڑے ناقد کی پہچان بجا طور پر یہی بتائی ہے کہ وہ اپنی تحریروں سے ایسی فضا دنیائے ادب میں پیدا کرنا چاہتا ہے کہ یہ فضا ان مثبت ،ایجابی اور تعمیری خیالات سے بروئے عمل آتی ہے۔جو ایک عظیم ناقد اپنے منصفانہ، معتدل اور متوازن تبصروں میں ظاہر کرتا ہے۔اور ان خیالات سے تخلیقی صلاحیت کو روشنی ملتی ہے۔ اور ان میں خوب سے خوب تر کی جستجوکا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔لیکن افسوس ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کے سارے تنقیدی خیالات،منفی، سلبی اور تخریبی ہیں۔اور ان کے تبصروں میں انصاف،اعتدال اور توازن کا سراغ نہیں ملتا۔چنانچہ ان کے خیالات تخلیقی صلاحیتوں کے سامنے گہرا اندھیرا پھیلا کر ان کے حوصلے کو پست کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت حال کے باوجو د کلیم الدین احمد کو اردو ادب کا ناصح مشفق اور مصلح اعظم بننے پر اصرار ہے ۔ چنانچہ انہوںنے طلسم ہیچ مقداری میں گرفتار‘ ڈری سہمی اور دبی ہوئی اردو تنقید کی ایک اور کمی کی دریافت جارحانہ قوم یا وطن پرستی Chauvinism کی شکل میں کرتے ہوئے اردو ادب پر اپنے مخصوص ہجویہ انداز میں اس طرح اظہار خیا ل کیا ہے: ’’اردو ادب دوسرے ادبوں کے مقابلے میں بہت کم عمر ہے اس لیے اگر یہ دوسرے ادبوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو ا س میں کوئی تعجب کی بات نہیں اورنہ کچھ احساس کمتری کی ضروری ہے ۔مغربی ادب کو جانے دیجیے یہ توظاہر ہے کہ اردو میں نہ تو شانامہ جیسا کوئی رزمیہ ہے اور نہ رومی اور عطار کی مثنویوں جیسی کوئی مثنویاںہیں اور نہ فارسی اور عربی کے ہم پایہ قصائد ہیں۔ اب رہیں غزلیں‘ تو ان پر جس قدر چاہیں ناز کر لیجیے۔ یہ تو ریایتی صنفوں کا حال ہے۔ اب رہیں نظمیں تو وہ انگریزی کے زیر اثر یا تقلید میں وجود میں آئیں اور ان کی عمر ابھی سو سال سے کم ہے۔مغرب میں شاعری کی ابتدا کو دو ڈھائی ہزار سال گزر گئے اس لیے یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ وہاں شاعری اور ادب نے اس قدر ترقی کی اور اس میں اس قدر بوقلمونی کی ہے‘‘۔ (صفحہ ۶) اس کے بعد موصوف یونانی ‘ لاطینی ‘ اطالوی ‘ انگریزی رزمیہ نگاروں کے نام گنوا کر پوچھتے ہیں: ’’ان کی مثال آپ کو اردو میں کیسے ملے گی اور کہاں ملے گی ؟ انیس و دبیر کے مرثیوںمیں؟‘‘ پھر یونانی ‘ انگریزی ‘ فرانسیسی اور جرمن ڈرامہ نگاروں کے چند نام لے کر سوال فرماتے ہیں: ’’…کے ڈراموں کی مثالیں آپ کو اردو میں کہاں سے ملیں گی؟ ‘‘ اس کے آگے ارشاد ہوتا ہے: ’’اردو میں شعری ڈرامہ ناپید ہے Dante اور Lucreciousجیسی نظمیں اردو میں کہاں ہیں؟‘‘ اردو میں تو کوئی Donneہے نہ PopeنہWords WorthنہHopkingنہ Yeatsنہ Eliotہے‘‘۔ (صفحہ ۷) اسی سے متصل دوسرا اور زیادہ عمومی اور جارحانہ اعلان یہ ہے: ’’غرض مغربی شاعری ایک بحر ذخار ہے جس کے مقابلے میں اردو شاعری ایک چھوٹا سا چشمہ ہے یوںمینڈک کے لیے چشمہ ہی بحر ذخار ہے یا کنواں ہی ساری دنیا ہے‘‘۔ (صفحہ ۷) مذکورہ بالا بیانات کے اندر جو مغالطے اور تضادات ہیں وہ جناب کلیم الدین احمد کے طرز تنقید کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں ذرا غور کیجیے کہ کس حکمت کے ساتھ انہوںنے پوری مغربی شاعری کی ڈھائی سالہ تاریخ کو تو مغرب کی سب سے نوعمر اور کم عمر انگریزی شاعری کے کھاتے میں درج کر دیا اور اس طرح اس کی عمر زبردستی بڑھا دی جبکہ مشرقی شاعری کی ہزاروں سال کی قدیم تاریخ سے اردو شاعری کو کاٹ کر بہت کم عمر قرار دیا اور فارسی و عربی شاعری سے اس کو ٹکرا بھی دیا۔ ایک طرف: ’’اردو ادب دوسرے ادبوں کے مقابلے میں بہت کم عمر ہے‘‘۔ اور دوسری طرف: ’’مغرب میں شاعری کی ابتدا کو دو ڈھائی ہزار سال گزر گئے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر مغرب کی شاعری کی ابتدا کو دو ڈھائی ہزار سال گزر گئے ہیں تو مشرق میں بھی تو شاعری کی ابتدا کو دو ڈھائی ہزار سال سے زیادہ گزر چکے ہیں چنانچہ اگر انگیزی شاعری کو لاطینی‘ یونانی‘ اطالوی فرانسیسی اور جرمن ادبیات کے ورثے ملے ہیں تو اردو شاعری کو بھی سنسکرت ‘ فارسی ‘ عربی ادبیات کے ورثے ملے ہیں۔ رہی انگریزی شاعری کی اپنی عمر تو چاسر ‘ اسپنسر‘ سے شیکسپئر ت یعنی سترھویں صدی عیسوی تک انگریزی زبان و ادب اور شاعری کا تشکیلی دور ہی چل رہا تھا اور شیکسپئر تک کی زبان آج اتنی نامانوس ہے کہ اس سے پور ا لطف لینے کے لیے تشریحی نوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اردو شاعری کا بھی یہی حال سترھویں صدی تک ہے جبکہ اٹھارویں صدی سے اردو شاعری کے پختہ نمونے صا ف اور سلیس زبان میں ملنے لگتے ہیں۔ اگر شیکسپئر اور اس کے معاصرین کو ہی انگریزی شاعری کا کلاسیکی معمار تصور کر لیا جائے تو زیادہ سے زیاد ہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی شاعری کے پختہ نمونے صاف اور سلیس زبان میں سترھویں صدی سے ملنے لگے ہیں۔ اس طر ح اردو اور انگریزی شاعری کی ارتقائی عر کا فرق تقریباً ایک ہی صدی کا ہو گا۔ فارسی اور عربی مثنویوں رزمیوں اور قصیدوں کے ساتھ اردو شاعری کا موازنہ کرنے کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی ؟ روی اور عطار کی مثنویوں کے ساتھ کیا اردو مثنویوں کا مقابلہ کرنے فنی اور صنفی طور پر بھی واقعی کیا جا سکتا؟ اگر عام اردو مثویوں کے مقابلے میں رومی و عطار کی تخلیقات کو فوقیت حاصل ہے تو وہ شاعری کے لحاظ سے اتنی نہیں جتنی اخلاقیات اور افکار کے لحاظ سے ہے وہ بھی اگر اس مقابلے سے اقبال کی تخلیق کو الگ کر دیا جائے ورنہ اگر مجموعی طور پر اقبال کی شاعری کا موازنہ رومی اور عطار کے ساتھ صرف مثنوی میں کیا جائے تو اردو میں ’’ساقی نامہ‘‘ اور فارسی میں ’’اسرار ورموز‘‘ کو فکر و فن کی کسی بھی جہت سے رومی و عطار سے کم درجے کی شاعری قرار دینے کی جسارت صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے یا تو شاعری کا ذوق بالکل نہیں ہے یا احساس کمتری کی ضرورت ہے قصیدہ نگاری میں یقینا اگرچہ اردو کا دامن بالکل خالی نہیں ۃے مگریہ واقعہ ہے کہ انقلاب کے زمانہ نے اس صنف میں ارتقاء کا وہ موقع اردوشاعری کو نہیں دیا جو فارسی اور عربی کو ملا۔ اس لیے کہ فارسی و عربی کے برخلاف اردو کو نہ تو شہنشاہوں کا دربار میسر آیا اور نہ ریگ زار عرب اور صحرائے نجد کا میدان عشق۔ مرثیہ اور رزمیہ کے معاملے کو اس سرسری اور سطحی طریقے سے ٹالا نہیں جا سکتا ۔ جو جناب کلیم الدین احمد نے اختیار کیا ہے۔ اگر موصوف اردو ادب کی کم عمری کے سبب دوسری زبانوں کے معمر ناقدوں کے مقابلے میں بہت زیاد ہ کم عمری کے احساس کمتری میںمبتلا نہ ہوں تو انہیں دنیائے ادب کے اس منفرد واقعے پر پوری سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اردو مرثیہ اور رزمیہ کی خصوصیات بھی رکھتاہے اور وہ بھی عربی و فارسی‘ یونانی و لاطینی فرانسیسی و جرمنی اور روسی و انگریزی تمام زبانوں کے مراثی سے اتنا زیادہ وسیع و بسیط ہے کہ اس کا ایک گوشہ رزمیہ بھی ہے۔اس لیے کہ اردو مرثیہ کا خاص موضوع حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمیٰ کا وہ بے نظیر اور مہتمم بالشان واقعہ ہے جو عالم انسانیت کو غم و الم سے زیادہ صلابت و شجاعت کا پیغام دیتا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی زبان وسعت و تنوع اور ترکیب و پیچیدگی میں اردو مرثیے کا جواب پیش کر سکتی ہے آخر جنا ب کلیم الدین احمد نے جس طرح قصیدہ و مثنوی اور رزمیہ اور ڈراما میں اردو شاعری کا تقابل عربی و فارسی یونانی و لاطینی‘ فرانسیسی و جرمنی اور انگریزی کے ساتھ کیا ہے اسی طرح مرثییہ میں کیوں نہیںکیا اور کیوں انہوںنے یہ عجیب حرکت کی ہے کہ دوسری زبانوں کے رزمیے کی صنف شااعری کے ذیل میں اردو مرثیے کا نام لیا؟ یہ کس قماس کا احسا س کمتری و بے چارگی اور احساس خوف و رعب ہے؟ جناب کلیم الدین کا یہ قول: ’’اردو میں شعری ڈرامہ ناپید ہے‘‘َ انتہائی بے خبری پر مبنی ہے ۔ کیا انہوںنے عبدالعزیز خالد کے مبسوط شعری ڈراموں کے بارے میں بھی سنا بھی نہیں ہے۔ اردو کی منظوم تمثیلیں ان مثنویوں میں بھی پائی جاتی ہیں جن کے فحش اشعار تک جناب کلیم الدین احمد کو زبانی یاد ہیں جیسا کہ انہوںںے اپنی خود نوشت ’’اپنی تلاش میں‘‘ کے صفحات میں اقرار کیا ہے۔ مثنوی تو شاعری کی ایک بحر کا نامہے اور اس بحر میں کوئی قصہ ڈرامائی انداز میں رقم کیا جائے تو اس کو شعری ڈراما بھی کہا جائے گا۔ اس لیے اردو میں شعری ڈرامہ کم از کم ناپید نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ ان اردو شعری ڈراموں کے اوصاف کیا ہیں تو یہ ایک الگ بات ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کا یہ خیال کہ: ’’اردو میں نہ تو کوئی ڈن ہے ‘ نہ پوپ‘ نہ بلیک‘ نہ ورڈسورتھ ‘ نہ ہوپکنس‘ نہ ییٹس‘ نہ ایلیٹ‘‘۔ تنقید کا عجیب وغریب نمونہ ہے ۔ ایسے بے معنی بیان کا سب سے آسان اور بالکل چست جواب تو یہ ہے کہ کہا جائے: ’’انگریزی میں نہ کوئی دردہے ‘ نہ اکبر‘ نہ مومن‘ نہ جوش نہ ن۔م۔ راشد ‘ نہ فراق ‘ نہ فیض‘‘۔ جبکہ ’’غالب اوراس س بھی بڑھ کر اقبال ہونا تو کسی انگریزی شاعر کے تصور سے بھی دورہے!‘‘ جناب کلیم الدین احمد کا اردواور مغربی شاعری کا جو ذوق ہے وہ تو ہمیں معلوم ہی ہے ۔مگر تعجب ہے مشرقی شاعری کے ان کے ذوق اور انگریزی شاعری کے اس کے شعور پر۔ اول تو وہ بلا امتیاز ایک ہی سانس میں ورڈسورتھ جیسے نذر اول کے شاعر پوپ ‘ بلیک‘ ییٹس‘‘ اورایلیٹ جیسے دوسرے شاعر اور ڈن اور ہوپکنس جیسے تیسرے درجے کے شاعر یا متشاعر سب کے نام لیتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے شاعروں اور متشاعروں کے ساتھ ورڈس ورتھ جیسے قدر اول کے شاعر کا نام ل کر وہ یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ کولرج ‘ بائرن‘ شیلی اور کیٹس جیسے رومانی شعراء ورڈس ورتھ س بہتر شاعر ہیں حالانکہ یہ بالکل خلاف واقعہ ہے۔ ورڈس ورتھ یقینا ان رومانی شعراء سے بہتر و برتر بدرجہا بہتر و برتر ہے۔ غالباً جناب کلیم الدین احمد کے پاس بے ترتیبی کے ساتھ انگریزی شعرا کی ایک سرسری فہرس نشر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دور اور معیار کے معمولی سے معمولی شاعر کے مقابلے میں بھی اردو کا کوئی بڑے سے بڑا شار نہیں آتا۔ بہرحال! شاعروں کا انتخاب کر کے جناب کلیم الدین احمد نے اپنی انگریزی دانی کے رسوائی کا جو اہتمام کیا ہے اس کے پیش نظر سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہی ہے انگریزی دانی کا وہ ہمالہ جس کی چوٹی س یوہ اردو ادب اور شاعری پر طنز اور استہزاء اور تعریض و تمسخر کے تیر و تفنگ چلاتے رہتے ہیں؟ ایسے ہی موقع پر یہ مشہور فقرہ یا د آتا ہے سخن فہمی عالم بالا معلوم شد! اب ملاحظہ کیجیے کہ انگریزی شاعروں کو ایک فہرس نشر کرنے اور دوسری مغربی زبانوں کا صرف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’غرض مغربی شاعری ایک بحر ذخار ہے جس کے مقابلے میں اردو شاعری ایک چھوٹا ساچشمہ ہے‘‘۔ موزنے اورتبصر ے کی اس نادر تکنیک کو علمی تنقید قرار نہیں دیا جا سکتا یہ تو بالکل کسی حکیم سڑک کی شعبدہ بازی یا کیس سیاست دان کا اسٹنٹ بازی ہ۔ یہ کون سا طریقہ مطالعہ و تجزیہ ہے کہ ایک طرف آ صوف ایک زبا شاعری کو رکھ کر اسے ایک چھوٹا سا چشمہ قرار دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف نصف درجن قدیم و جدید زبانوں کی شاعری کو رکھ کر اسے ایک بحر ذخار قرار دیتے ہیں ؟ اس قماش کے بیان کے مقابلے میں اگر مندرجہ ذیل بیان دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ ’’غرض مشرقی شاعری ایک بحر ذخار ہے جس کے مقابلے میں انگریزی شاعری ایک چھوٹا سا چشمہ ہے‘‘۔ کیا پوری انگریزی شاعری میں نہ کہ ڈراما کی حیثیت سے رومی فردوسی‘ حافظ اور عرفی کا کوئی جواب ہے (جبکہ یہ صرف چند فارسی شعراء کے نام ہیں)؟ جناب کلیم الدین احمد کی خدمت میں میری ایک گزارش ہے کہ وہ یہ کہ اگر وہ مشرقی و مغربی اورانگریزی و اردو شاعری کا تقابلی مطالعہ عملی طور پر سنجیدگی اور ذمہ دار سے کرنا چاہتے ہیں تو تجزیہ کر کے یہ بتائیں کہ ہئیت اور تکنیک کے غیر متعلق اورمیکانکی بحثوں کو بالائے طاق رکھ کر خالص شعریت کے اعتبار سے کس زبان کی شاعری کے پاس کتنی پونجی ہے؟ شاعری کی کوئی معین اور واحت ہیئت تو ہے نہیں صنف سخن کی مختلف ہئیتیں ہو سکتی ہیں ۔ یہ غزل کے منفرد اشعار بھی ہو سکتے ہیں اور شعری ڈرامے کا مربوط ہیولا بھی رباعی کے شار اشعار بھی ہو سکتے ہں اور مثنوی کے سینکڑوں اشعار بھی ۔ قصیدہ ومرثیہ بھی ہو سکتا ہے اور جدید مختصر نظم بھی جب صور ت حال یہ ہے تو یہ کیسی تنقید ہے جو شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے شعریت کے بجائے صرف تکنیک کو مدنظر رکھتی ہے اور غزل کو نیم وحشی اس کی شعریت کے لحاظ سے نہیں بلکہ غیر منظم ہیبت کی وجہ سے کہتی ہے اور شعری ڈرامے کو گویا سب نے مہذب صنف سخن محض اس کی نظم ہیئت کی وجہ سے کہنا چاہتی ہے؟ کیا جناب کلیم الدین احمد نے کبھی اس بنیادی نکتہ فن پر غور کرنے کی زحمت گوارافرمائی ہے کہ ڈراما عمومی طور پر ادب کی ایک صنف ہے اور شاعری کی کوئی خاص ہئیت نہیں ہے؟ کیا ڈرامہ نثرمیں نہیں لکھا جاتا؟ لکھا ہی جاتا ہے بہت لکھا گیا ہے اور سب سے بڑا لطیفہ تو یہ چیز ہے کہ جس چیز کو شعری ڈراما کہا جا رہا ہے وہ بھی نثر سے خالی نہیں۔ شیکسپئر کے شہرہ آفاق ڈراموں میںنظم و شاعری کے ساتھ ساتھ نثر کے حصے بھی ہیں۔ چنانچہ شیکسپئر کی شاعری کا سراغ لگانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ڈراموں سے شعری عناصر نکال کر انہیں اس کے غزل نما سانٹیوں اور بعض و چند دوسری نظموں کے ساتھ جوڑا جائے۔ سیدھی اور ساف بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو عالمی ادبیات کے تقابلی مطالعے کا شوق ہے انہیں س سے پہلے تو ایک آفاقی قسم کا ادبی ذوق پیدا کرنا پڑے گا۔ جس میں مشرقی شاعری سے اس کی اپنی صنفوں اور ہیئتوں میں لطف اندوز ہونے کی صلاحیت بھی کم ہو گی۔ اس کے بعد ایک کائناتی ادب شعور کا ثبوت دینے کے لیے واضح کرنا ہو گا کہ تقابلی مطالعے کی وہ جہتیں کیا ہیں جو زیر مطالعہ ادبیات کے درمیان قدر مشترک ہیں۔ ورنہ یہ تو بڑی طفلانہ اور مضحکہ خیز بات ہو گی کہ ایک صنف سخن وحشی ہے دوسری نیم وحشی تیسری مہذب اور چوتھی غیر مہذب لہٰذا ان صنفوں کا آپس میں کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر اس قسم کی بات کہی جائے گی تو پھر بھی یہ کہنا پڑے گا کہ پورا یونانی ادب اپنے تمام ڈراموں کے ساتھ سراسر وحشیانہ اور بہیمانہ ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایک غیر متمدن غیر مہذب اور ناشائستہ قوم کے نفسی انحرافات شخصی الجھنوں اور حیوانی جبلتوں کی عکاسی ہے اور وحشت و حیوانیت کے یہ سارے مظاہر شیکسپئر کے ڈراموں میں بھی بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں کہ شیکپئر نشاۃ الثانیہ کی مخؒوق ہے اور یورپ میں نشاۃ الثانیہ کا یہ مطلب ہے کہ یونانی لاطینی علوم و فنو ن کا احیاء حالانکہ یہ احیاء پندرھویں صدی عیسوی میں مسلم عربوں کے ذریعے اور سہارے اس وقت ہوا تھا جب یورپ خود اپنے مورخں کے بقول ’’تاریک عہد وسطی‘‘ میں سانس لے رہا تھا اور اس کا تصادم صلیبی جنگوں کے سلسلے میں د نیا کی سب سے متمدن و مہذب‘ شائستہ وترقی یافتہ اور علوم و فنون کی شیدا ایک قوسم اسلامی عر ب کے ساتھ ہوا تھا۔ مگر عربوں نے اپنے توحیدی نظریے کے تحت سائنس اور آرٹ کو تراکیب دے کر ایک ہمہ گیر نظام اقدار کا جزو بنا دیا تھا۔ جبکہ مسیحی یورپ نے علم و فن کو اپنی ذہنی ثنویت کے سبب ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور جہاں سائنس میں اس نے تلاش و تحقیق اور مشاہدہ و تجربہ سے کام لے کر عظیم الشان مادی ترقیات حاصل کیں وہیں آرٹس میں اس نے یہ عجیب و غریب رویہ اختیار کیا کہ کلیسائی روایا ت و اخلاقیات کے ساتھ یونانی صنمیات و خرافات کا پیوند لگا دیا ۔ چنانچہ مسیحی عقائد قدیم ترین اساطیر کے ساتھ غلط ملط ہو گئے ۔ اور دونوںکے اشتراک سے جو تہذیب و ثقافت بروئے کار آئی اسی نے تمام فنون لطیفہ کو جنم دیا جو یورپ اور مغرب کے دور جدید کا طرہ امتیاز ہے ۔ اس پس منظر میں انگریزی ڈرامے منظوم تمثیل اورتمثیلی نظم کا وہ ہیولا مرتب ہوا جس میں اہل مغرب اور خاص کر انگریزوں کو ناز ہے۔ لیکن فنی لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ یونانی موضوعات و احساسات بھی شیکسپئر کے ڈراموں سے ان شعبدوںاور معموں کو دور نہیں کر سکے جو وہد وسطیٰ کے کلیسائی Miracle and Mystery Playsمیں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ شیکسپئر کے ڈرامے بالخصوص شہرہ آفاق المیے فطرت نگاری اور حقیقی نگاری کے ساتھ ساتھ نہایت خام ناپختہ و ناشائستہ واقعات و حادثات اور جذبات و احساسات نیز موہوم تخیلات و تصورات سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ملغوبہ یونانی و کلیسائی افکار نے مل کر تیار کیا ہے ۔ اور شیکسپئر کی ساری شاعری کے ساز و برگ اسی ملغوبے کے اشارات و کنایات اور علامات و استعارات سے فراہم ہوئے ہیں۔ اس شاعری میں شعریت خالص شعریت کتنی ہے؟ اس کا تجسس کر کے اگر اس کا موازنہ حافظ عرفی غالب اور اقبال میں سے کسی ایک کی شاعری کے ساتھ کیا جائے تو سب سے بڑے انگریزی شاعرکے فن کا پول کھل جائے گا اور بھر م ٹوٹ جائے گا۔ ایسی حالت میں جناب کلیم الدین احمد کا یہ استہزائ: ’’اب رہیں غزلیں تو ان پر جس قدر جی چاہے ناز کر لیجیے‘‘۔ ایک خندہ بے جا کی طرح ذوق سلیم پر گراں گزرتاہے۔ اس جملے سے تو ایک بحیثیت صنف سخن غزل کی تحقیر و توہین ہوتی ہے۔ جو ہمارے مغرب پرست نقاد کا سب سے محبوب و مرغوب شغل ہے۔ دوسرے اردو دانوں کا جتایا گیا ہے کہ ان کے ادب ‘ خاص کر شاعری‘ میں غزل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پہلے ا س دوسری بات ہی کو لیجیے تو محسو س ہو گا: دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا اردو شاعری مٰں تمام وہ اصناف سخن معتدبہ حد تک پائی جاتی ہیں جو عربی فارسی کا طرہ امتیاز ہیں۔ غزل کے ساتھ ساتھ ہمیں حق ہے کہ مرثیہ پر بھی ناز کریں اور مثنوی پر بھی فخر کریں‘ ہجو کو حقیر نہ سمجھیں ’اکبر الہ آبادی کم از کم پوپ سے تو ایک درجہ بھی کمتر نہیں) رباعی کو نظر انداز نہ کریں مسدس کے ذکر پر سر اونچا کر لیں۔ یہ تو روایتی صنفوں کا حال ہے اب رہیں نظمیں تو انگریزی کے زیر اثر یا تقلید میں وجود میں آئیں تو کیا اور ان کی عمر ابھی سو سال سے کم ہے تو کیا؟ انگریزی نظمیں بھی لاطینی اطالوی جرمن اور فرانسیسی کے زیر اثر یا تقلید میں وجود میں آتی تھیں اور بہت کم عمر تھیں دیکھنا تو یہ چاہیے کہ اردو نظموں کامعیار کیاہے اور ایک صدی کے بھی کم عرصے میں ان کی کیا روایات بن چکی ہیں ؟ حالی اور آزاد سے جوش فیض حفیظ ‘ سیماب‘ اختر شیرانی‘ مجاز‘ صفی ‘ جذبی‘ احسان بن دانش‘ چکسبت‘ روش صدیقی‘ جمیل مظہری اور سکندرعلی وجد تک اردو نظم کا سرمایہ بہت وقیع ہے۔ اور انگریزی میںشیلی ‘ کیٹس‘ ٹینی سن‘ برائوننگ‘ سوئبرن ییٹس اور ایلیٹ کی تخلیقات کے ساتھ اس کا موازنہ اطمینان سے کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے پوری انگریزی شاعری میں ملٹن اور شیکسپئر کے سوا کوئی اور شاعر ایسا نہیں ہے جو چند منٹ بھی اقبال کے مقابلے پر ٹھہر سک۔ ان شاعروںمیں سے ہر ایک کی جملہ تخلیقات پر اقبال کا ایک اور وہ بھی پہلا مجموعہ بانگ درا بھاری ہے۔ رہے شیکسپئر اور ملٹن تو ان میں سے ہر ایک کی پوری شعری کائنات کو ایک پلے میں رکھ کر دوسرے پلے پر اگر اقبال کا صرف اردو یا صرف فارسی کا کلام رکھ دیا جائے تو یہ پلا جھکتا نظر آئے گا۔ اور اگر ابال کا فارسی و اردو دونوں کلام شیکسپئر اور ملٹن کی تخلیقات کے مجموعی سرمایے پر ڈال دیا جائے تو اس کے حجم اور وزن کے نیچے یہ پورا سرمایہ دب کر رہ جائے گا۔ رہیںغزلیں تو ان پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے۔ جبکہ ابھی بہت کم ناز کیاگیا ہے ابھی تو اردو تنقید کو معلوم ہی نہیں ہے کہ دنیائے ادب میں غزل کا مقام کیا ہے اور اس میں اردو غزلوں کا کتنا حصہ ہے؟ اردو تنقید بلا شبہ انگریزی کے زیر اثر یا تقلید میں وجود میں آئی ہے اور بہت ہی نوعمر بلکہ شاید نابالغ ہے۔ ورنہ جناب کلیم الدین احمد کی بھولی بھالی باتوں کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیا اردو تنقید کو خبر ہے کہ جس غزل کے نام سے ہمارے مغرب پرست نقاد چھینکتے ہیں اس پر ہی مشتمل مغرب کے دور جدید کے سب سے بڑ ے شاعر گیٹے کا مشہور و معروف مجموعہ کلام مغربی دیوان ہے جو اس نے فارسی غزلوں کے زیر اثر اور ان کی تقلید میں ترتیب دیا تھا۔ ؟ کیا اردو تنیقد کو علم ہے کہ گیٹے کی یہی معتزلانہ شاعری تھی جس نے انگریزی میں رومانیت Romanticism کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ پھر اسی رومانیت کے نتیجے میں فرانس کی اشاریت پیدا ہوئی‘ اور اسی اشاریت Symbolism کا عکس انگریزی شاعری کی پیکریت Imagism میں نمودار ہوا جس کے تحت ٹی ایس ایلیٹ کے فن کے ترتیب پائی ؟ ان سوالوں کے جوابات بدقسمتیسے نفی میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو غزلوں کی آفاقی قدروں اورا س کے کائناتی عناصر نیز جمالیاتی اثرات اور اخلاقی مضمرات کی تشریح ابھی تک اردو تنقید میں نہیں ہو سکی ہے۔ اس بات کا مطالعہ بھی نہیں ہوا ہے کہ اردو تہذیب کی شائستگی اردو ادب کی شستگی اور اردو زبان کی روانی میں غزل کے تجربات و روایات اور اکتسابات اور کمالات اکتناحصہ ہے۔ یہ بحث بھی نہیں ہوئی ہے کہ مغربی ذہن کی تمثیل پسندی کے مقابلے میں مشرقی ذہن کی تغزل پسندی کا امتیاز کیا ہے اور یہ کہ تغزل و تمثیل کے مابین فنی لطافت و جمالیت کی نسبت کیا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک بے ذوق شخص غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہتا ہے اور دوسرے اصحاب ذوق غزل کے نام پر گویا شرماتے پھرتے ہیں؟ یہ اردو تنقید کی بے چارگی ہے اوراس سے جناب کلیم الدین احمد نے پورا پورا فائدہ اٹھایاہے۔ اس میں شریک ہو کر اٹھایا ہے۔ یہ اردو تنقید کی آزاد ی وا ستقلال اور بلوغت وقار کا ثبو ت ہو گا کہ اگر اب مغرب سے مستعار لیے ہوئے تمام ادبی و تنقیدی تصورات و افکار کی پرستش سے انکار کر کے ایک آزاد ذہن ‘ وسیع نظر اور آفاقی و اصولی نصب العین اور مطمع نظر سے اول تو ان مغربی تصورات و افکار کے حقائق و اقدار کا جائزہ لیا جائے ۔ دوسرے اردو ادب کے کمالات کا تجزیہ کر کے ان کا موازنہ مشرق و مغرب کے ادبوں کی اعلیٰ تخلیقات کے ساتھ کیاجائے۔ اس طرح اردو تنقید صحیح معنوں میں اپنا ایک عالمی مقام بنانے میںکامیاب ہو گی۔ ایک تخلیقی نمونے کے طور پر اقبال کی عظیم عالمی و آٖاق شاعری خوش قسمتی سے پہلے ہی اردو تنقید کو میسرہے اور تقریباً نصف صدی سے اپنے فن کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ٭٭٭ 2 ’’پیش لفظ‘‘ میں جناب کلیم الدین احمد نے گزشتہ بیانات در حقیقت تمہید تھے اس بیان کی: ’’میں نے کہا کہ اقبال شاعر تھے اچھے شاعر تھے اور وہ زیادہ اچھے شاعر ہو سکتے تھے اگر وہ شاعر ہونے پر قناعت کرتے اور پیغمبر بننے پر مصر نہ ہوتے۔ اس پیغمبری نے ان کی شاعری پر ایک کاری ضرب لگائی۔ لیکن اس کاری ضرب کے بعد بھی ان کی شاعری باقی رہی ۔اور یہ ان کی شاعری کی جان داری کا ثبوت ہے‘‘۔ (صفحہ 7) اقبال اگر زندہ ہوتے اور جناب کلیم الدین احمد نے مذکورہ بالا سطریں شاعر کے پہلے مجموعہ کلام کے پیش لفظ کے طور پر لکھی ہوتیں تو ایک مبتدی کی حیثیت سے شاید انہوںنے اپنے بزرگ ناقدکے مربیانہ مشورے سے فائدہ اٹھایا ہوتا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کی یہ تنقیدی سرپرستی ان کی وفات کے چالیس سال بعد ہو رہی ہے‘ جبکہ وہ فارسی و اردو کلام کا ایک عظیم الشان ذخیرہ چھوڑ کر تاریخ کے صفحات میں جگہ پا چکے ہیں۔ بہرحال یہ بھی کوئی معمولی ات نہیں ہے کہ دانتے اور ملٹن کے ادا شناس اور مغربی معیار و انداز کے عظیم ناقد‘ جناب کلیم الدین احمد کم از کم اقبال کو ’’شاعر‘‘ اور وہ بھی ’’اچھے شاعر‘‘ تو تسلیم کر رہے ہیں اور یہ نوید بھی دے رہے ہیں کہ پیغمبری کی کاری ضرب کے بعدبھی ان کی شاعری باقی رہی۔ اور ی کہ یہ ان کی شاعری کی جان داری کا ثبوت ہے ۔ اقبال کے لیے جناب کلیم الدین احمد کی اس قدردانی پر اردو والے جتنا بھی فخر کریں اور جشن منائیںکم ہے۔ ہم تو جناب کلیم الدین احمد کے اس اعتراف کے بعد شاید مطمئن ہو جاتے کہ جب اردو ادب اور شاعری کا ذوق نہ رکھنے کے باوجود ایک شخص نہ صر ف اقبال کو اچھا شاعر مان رہا ہے بلکہ ان کے اندر اور زیادہ اچھے شاعرہونے کا امکان بتا رہا ہے تو ہمیں اسی پر قناعت کرنی چاہیے۔ اس لیے بھی قناعت بہرحال ایک اخلاقی خوبی ہے لیکن جو فقرہ ہمیں کھٹک رہا ہے او ر اس کا تنقیدی مفہوم ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے وہ یہ ہے : ’’اگر وہ شاعرہونے پر قناعت کرتے اورپیغمبر بننے پر مصر نہ ہوتے‘‘۔ یہ تو جناب کلیم الدین احمد کومعلوم ہی ہو گا کہ شاعری جزو یست از پیغمبری کا جملہ تو بالکل لغو نہیں ہے۔ شاعری میںبہرحال ’’پیغمبری‘‘ کا ایک جز ہوتا ہے ایک قسم کی الہامی کیفیت ہوت ہے ہم ورڈس ورتھ کے اس قول کو (جس کا حوالہ جناب کلیم الدین احمد نے زیر نظر پیش لفظ میں دیا ہے ) غلط نہیں سمجھتے: A poet is a man speaking to men (شاعر ایک آدمی ہے جو آدمیوں سے بات کرتا ہے) مگر کیاا س آدمی پر الہام کی سی کیفیت کبھی طاری نہیں ہوتی۔ کبھی کوئی غیر معمولی جذبہ اس کے دل میں پیدا نہیںہوتا۔ اس کی روح وجد میں نہیں آتی۔ اس کے دماغ میں بجلی نہیں کوندتی وہ ہر وقت انہی آدمیوں کی ذہنی سطح پر ہوتاہے جن س وہ بات کرتا ہے؟ اگر ان سوالوں کے جواب اثبات میں ہوں اور ورڈس ورتھ کا مطلب بھی یہی ہو تو شاعری کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا اور ورڈس ورتھ کو شاعر نہیںسمجھا جا سکتا۔ شاعر یقینا ایک انسان ہے اور وہ انسانوں ہی سے خطاب کرتا ہے لیکن انسان تو پیغمبر بھی ہوتا ہے اور اس کے مخاطب بھی انسان ہوتے ہیں۔ کوئی خدا سے نہیں ایک خدا کے سوا اور آدمی آدمی ہے نہ فرشتہ‘ نہ جن ‘ نہ حیوان‘ نہ نبات‘ نہ جماد‘ بلاشبہ مذکورہ جملے سے ورڈس ورتھ کا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا جو ہمارے ورڈس ورتھ کے قدردان ناقد اردو دانوں کو سمجھانا چاہتے ہیں اور ممکن ہے کہ خود بھی سمجھتے ہوں۔ بہرحال! ایک غیر معمولی انسان‘ ایک فن کار‘ ایک شاعر ہونے کے باوجود اور فکر و فن کی ساری عظمتوں کے حامل ہونے کے باوصف یہ بیان بالکل لغوہ کہ اقبال شاعر ہونے پر قانع نہیں تھے اور پیغمبر بننے پر مصر تھے۔ رہی یہ بات کہ لفظ پیغمبر سے ناقد موصوف کی مراد عام معنی میں پیغمبر نہیںہے بلکہ یہ محض شوخی گفتار ہے جو شخص فن کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہتا ہو یا جس کے فن میں کوئی پیغام ہے اس کو پیغمبر کہا جا سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جناب کلیم الدین صاحب کا منشاء یہی ہو‘ اورہم سمجھتے ہیں کہ یہی ہے۔ تب بھی ہمارے نزدیک محل نظر یہی نکتہ ہے کہ پیغام شاعری میں حامل اور مزاحم ہوتا ہے۔ کیا فن بغیر فکر کے ممکن ہے ؟ ایسی کون سی ہئیت ادب میں ہے جس کا کوئی موضوع نہ ہو؟ رہی یہ بحث کہ فن میں فکر کو معمولی فکر و خیال تک محدود ہونا چاہیے یا اس میں مربوط و منظم اعلیٰ فر کی گنجائش بھی ہے۔ تو ممکن ہے کہ ایک شخص اپن جگہ منظم فکر کا قائل نہ ہو‘ مگر اگر وہ ناقد فن ہے اور کسی فن کار پر تنقید کرنے سے پہلے اس کے فن کی نوعیت و حقیقت کوسمجھنا اور سمجھانا اپنا فرض منصبی تصور کرتا ہے‘ جو اسے کرنا چاہیے‘ تو ظاہر ہے کہ وہ کسی صاحب فن کار کے فن سے اس کی فکر کو الگ کر کے محض اور موہوم فن پر تبصرہ کرنا پسند نہیں کرے گا ۔ ورنہ اس پر یہ الزام چست ہو جائے گا کہ وہ فن کے بے لاگ معروضی مطالعے کی بجائے فن میں فقط اپنے مفروضے اور مزعومے Preconceived Nationsتلاش کر رہا ہے۔ اس کا ذہن مقفل ہے ‘ وہ جانبدار اور متعصب ہے۔ اس کے اندر حسن کو ہر رنگ میں دیکھنے کی صلاحیت ہے ۔ وہ حقائق اور واقعات کی تاب نہیں لا سکتا۔ وہ اس حس لطیف سے محڑوم ہے جو فن لطیف کے مطالعے کے لیے شرط اول ہے۔ اقبال پر اپنے ’’ایک مطالعے ‘‘ کی حدود کا تعین ’’پیش لفظ‘‘ میں جناب کلیم الدین احمد اس طرح کرتے ہیں: ’’میں نے اپنے چھ مقالوں میں کوشش کی ہے کہ اقبا ل کے شعری کائنات کا جائزہ لیا جائے ان کے فلسفہ کا نہیں ان کے پیغام کا نہیں‘ ان کے خیالات کا محض خیالات کی حیثیت سے نہیں۔ لیکن چونکہ یہ چیزیں ان کی شاعری میں ایسی گھل مل گئی ہیں اس لیے ان کا ذکر کبھی کبھی آ ہی گیاہے لیکن ضمنی طور پر ‘‘ ۔ (ص 7) اس اقرار سے واضح ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد جانتے ہیں کہ فلسفہ پیغام اور خیالات اقبال کی شاعری میں ایسے گھل مل گئے ہیں مگر وہ اقبال کے شعری کائنات کو فلسفہ‘ پیغام‘ اور خیالات سے جدا سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب یہ چیزیں ان کی شاعری میں ایسی گھل مل گئی ہیں تو وہ اقبال کی شعری کائنات سے کسی بھی درجے میں الگ کر کے کیسے دیکھی جا سکتی ہیں یا زیادہ موزوں لفظوں میں اقبال کی شعری کائنات کو ان چیزوں سے الگ کر کے کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ آخر ان کا ذکر کبھی کبھی کیوں آ گیا ہے ‘ گرچہ ’’ضمنی طور پر‘‘ ہی سہی؟ صاف بات ہے کہ کوئی اقبال کے فن پر توجہ کتنی ہی مرکوز کرے۔ ان کی فکر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لیے کہ فن ایک خاص فکر ہی کا ہیولا ہے اقبال کی شاعری ایک جسم کے ساتھ ایک روح بھی رکھتی ہے۔ اس کے الفاظ کے چھلکوں میں معانی کا مغز بھی ہے لیکن جناب کلیم الدین احمد کو اصرارہے کہ وہ محض شعری کائنات کا جائزہ لیں گے‘‘ فلسفہ کا نہیں… پیغام کا نہیں‘‘۔ اس تشریح سے معلو م ہو گیا کہ جناب کلیم الدین احمد جب اقبال کو پیغمبر بننے پر مصر کہتے ہیں تو ان کا اشارہ اقبال کے پیغام فلسفے اور خیالات کی طرف ہے اس طرح بات یہ ٹھہری کہ نقاد کے خیال میں شاعر زیادہ اچھا شاعر ہو سکتا ھتا اگر اس کے یہاں کوئی متعین پیغام کوئی خاص فلسفہ اور منظم خیالات نہیں ہوتے اور درحقیقت یہ پیغام فلسفہ اور خیالات میں جنہوںنے اقبال کی شاعری پر ایک کاری ضرب لگائی صریحاً مترشح ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کو اقبا ل کے پیغام فلسفہ اور خیالات کے خلاف ایک ذاتی کد الجھن اور چڑ ہے اور وہ اس حد تک بڑھی ہوئی ہے: ’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اقبال ہمیں راہ نجات دکھانے میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ اس کام کو اس قدر اہم سمجھتے ہیں کہ اکثر شاعری کو پس پشت ڈال دیتے ہیں‘‘۔ (ص 8) اس سے قطع نظر کہ اقبال کے متعلق جناب کلیم الدین احمد کا یہ فیصلہ ان کے چند ہی سطروں قبل اس بیان سے متصادم نظر آتا ہے : ’’پیغمبر ی نے ان کی شاعری پر کاری ضرب لگائی ہے لیکن اس کاری ضرب کے بعد بھی ان کی شاعری باقی رہی‘‘۔ (حالانکہ عام زندگی میں کاری ضرب کے بعدکوئی نہیں بچتا) قابل غور یہ ہے کہ راہ نجات دکھانے کے انہماک میں اقبال نے ’’اکثر شاعری کو پس پشت ڈال دیا ہے‘‘ اس سلسلے میں ’’اکثر‘‘ کی معنویت پر تو ہم آئندہ بحث کریں گے ابھی ہمیں سوچنا ے کہ کیا فکر نجات اور فن شاعری میں کوئی خدا واسطے کا بیر ہے؟ یہ بھی سوچنا ہے کہ کیا یہ نجات وہی پیغٓم والا معاملہ ہے؟ دوسرے سوال کا جواب تو بداہتہ اثبات میں ہے۔ یقینا جناب کلیم الدین احمد اقبال کے پیام کو پیام نجات قرار دے رہے ہیں۔ یعنی بات پیا م کے فلسفے سے نجات کے مذہبی تصور تک پہنچتی ہے۔ اور یہاں پہنچ کر وہ بلی ایک چھلانگ لگا کر باہر آ جات ہے جسے جنا ب کلیم الدین احمد اب تک اپنی تنقید کے خوشنما تھیلے میں بہت کس کر بند کیے وہئے تھے۔ میں نہیںجانتا اور نہ جاننا چاہتا ہوں کہ جناب کلیم الدین احمد کو نجات کی فکر ہے یا نہیں مگر یہ جناننا میرا حق ہے اورفرض بھی کہ اگر کوئی شخس کوئی فن کار کوئی شاعر‘ کوئی مفکر‘ اور فلسفی اپنی اوردوسروں کی نجات کی فکر کرتا ہے تو کسی ناقد‘ کسی غیر فن کار غیر شاعر غیر مفکر اور غیر فلسفی کو اس سے بخار کیوں چڑھتاہے ؟کوئی فنکار نجات کی فکر کرتا ہی ہے تو اس سے اس کے فن میں کیا عیب پیداہوتا ہے؟ کیا فکرنجات فن شاعری کاکوئی خلقی نقص ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ ان چبھتے ہوئے سوالوں کا سامنا کرنا آسان نہیں اور نہ شاید جناب کلیم الدین احمد نے اپنی تنقیدی ترنگ میں اپنے بیانات کے ان مضمرات پر اچھی طرح غورکیا ہو گا جنہیں میں نے تجزیہ کر کے واضھ کیا ہے اس لیے کہ مغربی ذہن کی بے قدی اور سطحیت نے زندگی اور انسانیت کی بنیادی اقدار اور اعلیٰ اخلاقیات کے متعلق ادیبوں اور ناقدوں کو عام طور پر بہت بے پروا بہت بے فکر اور گستاخ بنا دیا ہے۔ لیکن ایک علمی بحث میں اہل نظر تمام مضمرات پر غور کریں گے ہی اور انہیں لازماً غور کرنا بھی چاہیے۔ اقبال کی شاعری پر اپنا ایک مطالعہ پیش کرتے ہوئے جناب کلیم الدین احمد نے جو تمہید باندھی ہے اس میں انہوںنے فکر و فن ‘ شاعری اور پیغام ادب اور مذہب کی بحثیں بھی اٹھائی ہیں۔ گرچہ بہت ہی سرسری طور پر جیسے ان بحثوں پر پہلے ہی سے کوئی فیصلہ ہو چکا ہو۔ اور اب انہیں صاف کرنے کی ضرورت نہیں‘ حالانکہ وہ خود اس احسا س کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں کہ ان کے موضوع مطالعہ سے ان بحثوں کا بہت گہرا تعلق ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پیش لفظ کے عد کتاب کے سات ابواب میں ایک باب بھی ان بحثوں کے لیے وقف نہیں وجہ ظاہرہے ۔ ’’ان کا ذکر کبھی کبھی آہی گیا ہے لیکن ضمنی طور پر‘‘۔ یعنی ناقد تو ان کے ذکر کو سخت ناپسند اور اس سے یکسر گریز کرتے ہیں۔ مگر مجبوراً ذکر آ ہی گیا ہے لہٰذا بالکل ضمنی طور پر اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے۔ سوال یہ ہے جو شخص اقبال کی شاعری کے بنیاد ی مسائل کا سامنا کرنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ۃے۔ اسے اقبال کا ایک مطالعہ پیش کرنے ی ضرورت کیوں لاحق ہوئی؟ اس کے بار ے میں ہم کیسے اعتماد کریں کہ وہ ہمارے ایک عظیم ترین شاعر کے ساتھ انصاف کرنے کی عملی و تنقیدی صلاحیت رکھتاہے؟ ایک مغرب زدہ مقلد غلام اور مرعوب ذہن مجتہد آزاد اور جری شاعر مشرق کے کلام کے اوصاف و اقدار کو کس طرح سمجھ سکتا ہے؟ ایک مقفل اور محدود دماغ ایک کشادہ اور محیط ذہن کی کیفیات کی بازیافت کر کے ان کی قدرشناسی کیسے کر سکتا ہے؟ اس سوال کا ایک جواب ’’پیش لفظ‘‘ کی اس عبارت سے دریافت کیا جا سکتا ہے: ’’میں نے ان کی کمزور نظمرون یانظموںکے کمزور نثری اور غیر ضروری حصوں کو بھی مفصل نشان دہی کی ہے اور میرے خیال میں یہی تنقید کا فرض ہے اور اس کاجواز بھی‘‘۔ (ص8) اس بیان سے اس تکنیک کی نشاندہی ہو جاتی ہے جو جناب کلیم الدین احمد نے مطالعہ اقبال کے بنیادی تقاضوں سے پہلو بچا کر ایک مطالعہ کرنے کا پہلو نکالنے کے لیے اختیار کی ہے ظاہر ہے کہ اس مجہول تکنیک سے کیا ہوا مطالعہ تنقید نہیںہے۔ محض تنقیص ہے خوبیوں سے چشم پوشی یا ان سے بے خبری کی بدترین مثال ہے۔ بددیانتی صریح بددیانتی ہے۔ اس سے نہ تو تنقید کا فرض ادا ہوتا ہے اور نہ اس کا جواز مہیا ہوتا ہے۔ یہ اگر تنقید ہے تو ایک فرض شناس اور ناجائز تنقید ہے ۔ جناب کلیم الدین احمد نے انگریزی ادب میں ضرور پڑھا ہو گا کہ بہترین تنقید یا صحیح تنقید کا دوسرا نام Appreciation یعنی قدر شناسی ہے۔ جبکہ Depreciationیعنی ناقدری کوئی تنقید نہیں ہے ۔ محض مذمت ہے۔ یقینا مذمب کا بھی ادب میں ایک مقام ہے‘ اگر وہ فنی سلیقے کے ساتھ کی جائے لیکن اس مذمت کو اصطلاح میں ہجو Satireکہا جاتاہے تنقید Critisism نہیں اب یہ اردو ادب اور تنقید کا ایک خاص مسئلہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری زیادہ تر ہجو نگاری پر مشتمل ہے۔ کیا اسے تنقید اور قدر شناسی کہنا صحیح ہو گا؟ یہ موقع اس سوال کا جواب دینے کا نہیں۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد کو عالمی ادب کی اس معلوم و معروف حقیقت کو لازماً ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ فلسفہ پیغام اور خیاالت سے شخصی و نفسی طور پر جتنے بھی بیزار ہوں جس چیز کو ادب عالی Classicsکہا جاتا ہے وہ اکثر و بیشتر کسینہ کسی فلسفے پیغام اور خیالات پر ہی مبنی ہے بلکہ بیشتر شاہکار تخلیقات تو وہ ہیں جو مذہبیات سے جذبہ حاصل کر کے تصنیف کی گئی ہیں اور ان کا ماحصل کچھ اعلیٰ اخلاقیات ہیںیعنی ان میں اپنی اور دوسروں کی نجات کی فکر بہت نمایاں ہیں۔ دانتے کا طربیہ خداوندی Divine Comedy سراسر مسیحی دینیات اور اخلاقیات پر مشتمل ہے ۔ اور اس کا موضوع صریحاً نجات ہے۔ جنت اور دوزخ ثواب و عذاب جزا اور سزا کے تصور ہی پر اس شعری ڈرامے کا پلاٹ مرتب ہوت ہے۔ گیٹے کا ’’فائوسٹ ‘ ‘ روحانی طاتقت کے حصول اور استعمال کے موقع پر ایک ایسی ادبی کوشش ہے جس کا انجام بھی روحانی اذیت پر ہوتا ہے اورجو عالم انسانیت کو ایک خاص پیغام دیتا ہے اور یہ پیغام چند نہایت سنجیدہ خیالات ہی نہیں اخلاقیات پر مشتمل ہے۔ اس ڈرامے کامحرک و مقصود بھی نجات ہے ملٹن کی Paradise Lost(گم شدہ فردوس) کیاہے اس کا عنوان ہی اشارہ کرتاہے کہ اس میں الٰہیات دینیات‘ اخلاقیات اور نجات کے سارے سبق موجود ہیں۔ جب عالمی اور مغربی ادبیات کے عظیم ترین شاہکاروں کا حال یہ ہے تو پھر اقبال کا فلسفہ و پیغام اور فکر نجات جناب کلیم الدین احمد کے لیے اس حد تک سوہان روح کیوں ہے کہ وہ اس کو اقبال کی شاعری پر ایک کاری ضرب تصور کرتے ہیں اور یہ تک کہنے سے باز نہیں آتے کہ اقبال اکثر شاعری کو پس پشت ڈا ل دیتے ہیں ؟ اقبال نے جہاد کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھاہے: ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے مشرق میں جنگ شرہے تو مغرب میں بھی ہے شر حق سے یہ اگر غرض ہے تو زیبا سے کیا یہ بات اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر ؟ (ضرب کلیم) موجودہ سیاق و سباق میں جہاد کو تنقید سے بد ل کر کلیسا نواز شیخ کی جگہ پر ناقدمغرب نوا ز کر دیجیے اسی طرح جنگ کے بجائے نجات یا پیغام پڑھیے پہلے شعر میں اس طرح مناسب موقعہ پر تھوڑی سی تبدیلی کر کے دوسرے شعر پر غور کیجیے تو جناب کلیم الدین احمد کے تنقیدی محرکات کا ادراک آسانی سے ہو جائے گا۔ اور حقیقت حال کا انکشاف اقبال کے اس شعر سے پوری طرح ہو جاتا ہے۔ حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں آہ ! محکومی و تقلید و زوال تحقیق (اجتہاد ۔ ضرب کلیم) ان حقائق کے باوجود میں تو جناب کلیم الدین احمد کو اس قسم کا بزرگانہ و مشفقانہ مشورہ دینا پسند نہیںکروں گا جیسا انہوںنے اقبا ل کو دیا ہے یعنی موصوف کے الفاظ میں اک ذرا تصرف کر کے یہ کہوں: ’’جناب کلیم الدین احمد ناقد ہیں۔ اچھے ناقد ہیں اور وہ زیادہ اچھے ناقد ہو سکتے ہیں اگر وہ ناقد بننے پر قناعت کریں اور مفکر بننے پر مصر نہ ہوں‘‘۔ اول تو مشورہ قیمتی اور مفید ہونے کے باوجود بعد از وقت ہو گا۔ ا س لیے کہ اب جناب کلیم الدین احمد کا ذہنی سا نچہ پختہ ہو چکا ہے۔ اور پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی سے لے کر کیمبرج یونیورسٹی تک انگریز اساتذہ اور مغربی علاء کے تحت ان کی جو تعلیم و تربیت ہو چکی ہے۔ اس نے ہندوستانیوں کے لیے میکائولے کے تجویز کردہ انگریٰ اور مغربی نصاب تعلیم کی تمام میکیاولانہ توقعات پوری کر دی ہیں۔ چنانچہ ایک ناقد کی حیثیت سے جناب کلیم الدین احمد کو جو کچھ کرنا تھا وہ جتنا اور جیسا کچھ چاہتے تھے کر چکے اور اب صرف اپنے کو دہرا رہے ہیں۔ اقبال پر انہوںنے جو کچھ اردو شاعری پر ایک نظر میں لکھا تھا ٹھیک اسی کو اقبال اور عالمی ادب میں دہرایا اور بعینہ ایس کو اقبال ایک مطالعہ میں پھیلا دیا ہے اس عرصے میں ان پر تنقیدیں بھی ہوئیں۔ اور راقم الحروف نے خاص ان کی تنقید نگاری پر ایک مبسوط مقالہ لکھا( جو میرے پہلے مجموعے نقطہ نظر میں شامل ہے)۔ پھر عالمی ادب اور اقبال والے مضمون کا بھی تنقیدی تجزیہ کیا مگر جناب کلیم الدین احمد کیمبرچ سے سوچ بچار کی جو تعلیم لے کر اول روز اردو ادب میں آئے تھے آج تک اسی کو پیٹتے جا رہے ہیں۔ بوڑھے طوطے کو کون پڑھا سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جناب کلیم الدین احمد علم و تفکر کی وہمنفرد استعداد Individual Talents رکھتے ہیں نہیں جس سے یہ توقع کی جا سکتی ہو کہ وہ اٹھارویں صدی کے جامد بوسیدہ اور فرسودہ ادبی تصورات کی تقلید محض سے ہٹ کرکوئی ’’اجتہاد‘‘ کریں گے۔ اقبال کے ایک ’’مرد بزرگ‘‘ (ضرب کلیم) کی پہچان یہ بتائی تھی: پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق جناب کلیم الدین احمد نے مسلم طور پر تقلید کی تاریکی میں پرورش پائی ہے مگر ان کی طبیعت کا تقاضا تخلیق نہیں تقلید اور تقلید بر تقلید ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مثبت اور تعمیری قسم کی تخلیقی تنقید ان کے پورے سرمایہ تنقید میں اقلیدس کے خیالی نقطے کی طرح معدوم ہے۔ صرف معشوق کی کمر کی طرح موہوم نہیں اس لیے کہ چاہے کتنی ہی باریک ہو یہ کمر ضرور ہوتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا: ’’ادبی تنقید کی تکمیل ایک متعین اخلاقی او ر دینی موقف سے کی جانی چاہیے ۔‘‘ (سلیکٹڈ ایسیز ص 388) ’’ادب کے متعلق فیصلہ بعض اخلاقی معیاروں ہی سے کیا گیا ہے ۔ کیا جاتا ہے ۔ اور غالباً ہمیشہ کیا جائے گا‘‘۔ (ایضاً) ’’حق سے اگر غرض ہے‘‘ تو جناب کلیم الدین کے لیے ’’زیبا نہ ہو گا ک ہوہ پہلے مغربی ادب کے دور جدید ک ایک امام ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے مذکورہ بالا خیالات پر تنقید کر کے اس کے مقابلے میں اپنا موقف واضح کریں۔ اس کے بعد اقبال پر جو کچھ لکھ چکے ہیں اس کی توثیق یا تردید کریں تب ہمیں یہ اعتماد ہو گا کہ مشرقی ادبیات سے ان کی بے خبری اور بے ذوقی کا عالم جو بھی ہو کم ا ز کم مغربی ادب پر ہی ان کا مطالعہ گہر ا اور تازہ Up to Dateہے ورنہ بیچارہ اردو ادب اٹھارویںاور انیسویں صدی کے ان فرسودہ ازکار رفتہ خیالات کا بوجھ اپنے سر پر کیوں اٹھائے جنہیں خود بیسوی صدی کے مغربی ادب نے رد کر دیا ہے ہم تو ایلیٹ لیوس اور رچرڈز کے افکار کو بھی تنقید کی کسوٹی پر پرکھیں گے کجا یہ کہ جانسن اور آرنلڈ کے تخلیات کے ٹوٹے ہوئے طلسم میں گرفتار ہونا گوارا کریں؟ ٭٭٭ جناب کلیم الدین احمد کیا عالمی ادب کی اس مسلمہ حقیقت سے بالکل واقف نہیں ہیں کہ ادب کے بہترین شاہکار زندگی اور انسانیت کے کسی اعلیٰ نصب العین بالخصوص مذہبی نقطہ نظر کے تحت تخلیق کیے گئے ہیں؟ یورپ اور مغرب میں جو عظیم ترین تین شعراء پیدا ہوئے دانتے شیکسپئر اور گیٹے… ان میں سے ہر ایک مسیحٰ عقائد و اخلاق یا تہذیبی اقدار کا نہ صرف پروردہ ہے بلکہ ذہنی و جذباتی طور پر ان سے وابستہ ہے۔ اور اس کے افکار و خیالات اور تصورات و تخیلات کے تمام حوالوں کا مرکز بہرحال کلیسا ہے ۔ اقبال بھی عالمی سطح پر انہی عظیم شعراء کے دائرے میں ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ وہ عیسائیت کی بجائے اسلام کاپیغام پیش کرتے ہیں۔ اور ان کی شاعری کے تاروپور اسلامی اقدار و روایات سے تیار ہوئے ہیں۔ چنانچہ اقبال کے فن کو اسلامی فن سے الگ کر کے اسی طرح نہیںسمجھا جا سکتا جس طرح دانتے شیکسپئر اور گیٹے کو مسیحی حوالوں سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ یقینا اپنے فن کی عظمت اور خصوصیت کے لیے اقبال کو ہرگز کسی بڑے سے بڑے مغربی شاعر یا ناقد سے سند لینے کی ضرورت نہیں وہ خود کو اپنی جگہ ایک سند ہیں علم و فکر ہو یا فن و شعر مغرب کا کوئی فن کار اور شاعر‘ عالم اور مفکر ایسا نہیںجس کے آگے اقبال کو زانوے شاگردی تہہ کرنے کی ضرورت ہو ۔ وہ خود ہی ایک ایسے زبردست استاد ہیں جن سے مغرب کا بڑے سے بڑا فن کار اور دانش ور دو چار سبق لے سکتا ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اقبال نے عالمی سطح پر جدید تمدن و تہذیب کی تمام پیچیدگیوں اور ترقیوں کو نہ صر ف اپنے سامنے رکھا بلکہ ان کے اشارات رموز اور علائم کو اپنے فن میں تحریر کر کے شاعری کی اور یہ تحلیل و ترکیب انہوںنے اسلامی نظام حیات کی منظم فکر کے تحت کی۔ دوسری طرف شیکسپئر گیٹے اور دانتے کا زمانہ تیرھویں صدی سے انیسویں صدی تک ختم ہو جاتا ہے۔ تیرھویں صدی چودھویں صدی کا دانتے تو مغربی مورخوں ہی کے بقول تاریک عہد وسطیٰ کی مخلوق تھا شیکسپئر کو بھی سولہویں سترھویں صدی کا وہ دور ملا جب یورپ میں نشاۃ الثانیہ کے باوجود سائنس کی ترقی ہوئی تھی نہ صنعت کی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کا گیٹے بھی یورپ کے اس صنعتی انقلاب سے قبل کی پیداوارہے جس نے دنیا کے تمدن میں ایک انقلاب برپا کر کے جدید تہذیب کے ساز و برگ مہیا کیے۔ چنانچہ مغرب کے تینوں عظیم شعراء محض علاقائی اور براعظمی تہذیبوں کی آغوش میں پروان چڑھے اس لیے آفاقی شعور نام کی کوئی چیز ان کے فن میں نہیں اور نہ زندگی کی پیچیدگیوں سے ان کو کچھ زیادہ سابقہ پڑا۔ وہ تو ایک سیدھی سادی بھولی بھالی فضا میں سانس لے رہے تھے اور مسائل حیات کا معمولی سا بوجھ ان کے ذہن پر تھا۔ لیکن اقبا کا فن تاریخ کے سب سے پیچیدہ اور بالیدہ تمدن و تہذیب کے عین گرداب میں ابھرا۔ بلاشبہ یہ صورت حال فن بالخصوص شاعری کے لیے بے حد خطرناک تھی۔ یہاں تک کہ سائنس و ٹیکنالوجی ترقیات کے پیش نظر دنیا میں شاعری کا مستقبل ہی بعض دانش وروں کے نزدیک مشکوک ہونے لگا تھا اور بعد میں سائنس و آرٹ کے دو الگ کلچروں کی بحث بھی ہونے لگی تھی۔ اس چیز نے بالآخر انگریزی کے دو اہم ترین جدید شاعروں میں ایک ولیم بٹلر ئیٹس کو تو عصری مسائل سے گریز پر مجبور کر دیا جبکہ دوسرے ٹی ایس ایلیٹ کے فن کو برق حیات نے جلا کر خاکستر کر دیا ۔ اور اس کی شاعری ایک ’’خرابے‘‘ The Waste Landمیں کھوکھلے آدمیوں Hollow Menکا ایک نوحہ بن کر رہ گئی۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت یہ ہے کہ انہوںنے جدید تمدن و تہذیب کے پیدا کیے ہوئے انہی مسائل زندگی و سائل فن میں ڈھال دیا۔ انہوںنے برق حیات سے ہی اپنی شمع فن روشن کی۔ اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ ئیٹس اور الیٹ شیلی اور کیٹس جیسے بونوں کو تو چھوڑیے۔ شیکسپئر اور گیٹے اور دانتے جیسے دیو زادں سے بھی بڑی شخصیت اقبال کی تھی؟ اقبال کی زندگی ان سب مغربی شاعروں سے زیادہ بھرپور اور ان کا ذہن زیادہ معمور محیط اور مرکب تھا۔ رہی یہ بات کہ اقبال نے فکر اور تجربے کی اس ثروت کو فن اور شعر میںتبدیل کر دیا یا نہیں تو اقبا ل کی شاعری کا اصلی بنیادی اور اہم ترین جوہر یہی ہے کہ انہوںنے زندگی کے وسیع ترین اور پیچیدہ ترین مواد کو بہترین ہئیت فن میں پیش کیا۔ دقیق ترین موضوع کو حسین ترین اسلوب میں ظاہر کیا: ’’انہوںنے واقعات کو استعارات میں بدل دیاہے‘ اور حقائق کو علامت کی لطافت عطا کی ہے۔ تاریخ اقبال کی چابکدست فن کاری اور خلاق تخیل کے ہاتھوں تلمیح بن گئی۔ انہوںنے زندگی کے ٹھوس عناصر کو اپنے فن کے رنگ و آہنگ میں ڈبو کر اساطیر بنا دیا ہے۔ اقبال کے کلا م میں کائنات کی ہر ادا شاعرانہ تمثیل و ترنم کے ساتھ نقش پذیر ہوتی ہے‘‘۔ (ص 24 عالمی ادب میں اقبال کا مقام۔ تشکیل جدید۔ از راقم السطور) لیکن جناب کلیم الدین احمد انیسویں صدی کے اپنے استاد تنقید میتھیو آرنلڈ کے ان مشہور اقوال کو بھی اقبال کی تنقیص کے جوش میں بھو ل گئے ہیں کہ شاعری تنقید حیات ہے اور اعلیٰ سنجیدگی کی متقاضی ہے۔ یہ تنقید حیات اور اعلیٰ سنجیدگی ہی ایک فنکار کو دوسروںفن کاروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اور عظیم تر بناتی ہے۔ نری فن کاری بقول جگر مراد ٓباد ی کے کاری گری ہے بلاشبہ اعلیٰ سنجیدگی اور تنقید حیات بجائے خود کوئی چیز نہیں ہے‘ اگر ان کا اظہار متعلقہ ہئیت فن کی جمالیات کے اندر نہ ہو لیکن ہئیت فن کی جمالیات بہت معمولی سی چیزہے اگر وہ اعلیٰ سنجیدگی او ر تنقید حیات کی حامل نہ ہو۔ اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ اعلٰی فکر کس حد تک اعلیٰ فن بن گئی ۔ اس اعتبار سے اقبال کا کارنامہ کسی تشریح یا تنقید کا محتاج نہیں ہے۔ ایک ہزار سال میں ایک کلیم الدین امد اقبال کی شاعرانہ عظمت پر پتھر پھینکتے رہیں تو عظمت کے اس مینار میں ایک شگاف بھی نہیں پڑے گا۔ رہی یہ بات کہ عالمی ادب میں اقبال کے معین اور معروف و مسلم ہونا باقی ہے تو وہ تنقید کی بے چارگی کا ایک کھلا ثبوت ہے اس کے باوجود کہ جانب کلیم الدین احمد جیسے بزعم خود عالمی تصور ادب رکھنے والے ایک ناقد خدا کے فضل سے اردو زبان کو میسر ہیں۔ بشمول جناب کلیم الدین احمد تمام اردو ناقدوں کی ایک بڑی کوتاہی یہ ہے کہ وہ آج تک اپنے تخلیقی ادب کے سب سے بڑ ے نابغہ فن ک کمالات کی قدر شناسی کا حق ادا نہیںکر سکے کسی بھی تنقید کا جواز یہ ہے کہ وہ تخلیق کا تجزیہ و تشریح کر کے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرے گا۔ لیکن اردو ادب کا المیہ یہ ہے کہ اس نے نہ صرف غالب بلکہ اقبال پیدا کیا جو عالمی ادب یا مطلق ادب کے کسی بھی معیار سے اعلیٰ درجے اور قدر اول کے عظیم فنکار ہیں۔ مگر ایک ناقد بھی ایسا نہیں پیدا ہو سکا جو اقبال اور غالب کی تخلیقات کا تجزیہ کر کے ان کا تقابل دنیا کے دوسرے ادبوں کے اسی درجہ و قدر کے فن کاروں کے ساتھ کر سکے۔ (اس سلسلے میں راقم الحروف نے جو ایک بہت حقیر سی کوشش کی ہے وہ بھی درحقیقت ایک بڑے کام کی تمہید اور اس کے لیے ایک تحریک ہے)۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال و غالب کے عالمی مطالعے میں تہذیب او رادب کی وہ فضا بھی ٗال او رمزاحم ہوتی ہے۔ جو مغربی اور اردو کی حد تک انگریزی تنقید کی وطن پرستی علاقائیت اور براعظمیت Chauvinism, Regionalism, Continentalismسے معمور ہے۔ برطانوی سا مراج نے علمی و تعلیمی سازش کر کے اپنے زیر تسلط مشرق ایشیا اور ہندوستان کو شدید احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے ۔ ہماری نئی نسلوں کو ہماری گود سے چھین لیا ہے اوراپنی تعلیم گاہوں میں ان کی اس طرح تربیت کی کہ اول تو انہیں مشرقی علوم و فنون سے بیگانہ کر دیا ہے دوسرے مغربی علوم و فنون کا رعب ان کے دلوں میں بٹھا دیا۔ چنانچہ جدید تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی دماغی حالت ذہنی استعداد اور عملی حرکت کا ایسا نقشہ نظر آیا کہ بے اختیار یہ شعر یاد آتا ہے: غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را (غنی کشمیری) اب جن ذہین اردو دانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے تہذیبی سرمائے کی قدروقیمت کو سمجھیں گے اور دنیا کو سمجھائیں گے کہ وہی اس سرمایے سے صرف نا آشنا ثابت ہوئے بلکہ اس کی تحقیر کر کے بغلیں بجانے لگے۔ انہوںنے مغربی عصبیت کے مقابلے میں مشرقی عصبیت کا ثبوت بھی دیا ہوتا تو کم ازکم دو انتہائون کے تصادم سے ایک توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ مغرب میں مستشرقین تو رونما ہوئے جنہوںنے مغربی علوم و فنون کی تحقیق و تنقید خالص مشرقی معیاروں کی جبکہ مشرق میں یہ ہوا ک عصر حاضر میں مغرب و مشرق کے علوم و فنون کی ایک مخصوص قسم کی قدر شناسی کا میدان مستشرقین Orientalists ہی کے ہاتھوں میں رہا اور مشرق کے جو محقق و ناقد مستغربین Occidentalistsہو سکتے تھے وہ بھی مستشرق بن کر رہ گئے اس غلط فضا میں اقبال جیسے آفاقیت پسند Universalistکی آواز صدا بہ صحرا Cry in the Wilderness یا نقار خانے میں طوطی کی آواز ہو کر رہ گئی۔ ایک فن کار دانش ورشاعر اور انسان کی حیثیت سے اقبال اسلامی تصور حیات کی بنیاد پر وسیع ترین ثقافت Weidest Cultare کے حامل تھے اور زندگی اور فن دونوں میں آفاقی اقدار تہذیب اور جمالیات اور اخلاقیات Universal Values, Ethics, Aesthetics کے علمبردار تھے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے ایک شاعر کامطالعہ کرنے کے لیے نہ تو خالص مشرقی معیار کافی ہے اور نہ خالص مغربی معیار (دونوں کے علاقائی اور جغرافیائی معنوں میں) اسی طرح نہ تو قدیم تصور ادب کافی ہو گا اور نہ محض جدید تصور ادب خواہ وہ جس خطہ ارض اور دور زمانہ کا ہو۔ اقبال نے کہا تھا : زمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم (’’علم اور دین‘‘ ضرب کلیم) اقبال کے مطالعے کے لیے ضرورتہے کہ ایک کائناتی اور مرکب جامع اور اصولی نقطہ نظر کی۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اقبا ل کے ناقدین بالکل شخصی جزوی سادہ او ر علاقائی نقطہ نظر سے کام لے رہے ہیں۔ یہ کم نظری خاص کر جناب کلیم الدین احمد کے یہاں اپنی شدید ترین شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ اس کم نظری کاشاخسانہ ہے کہ وہ تحفظ ذہنی اور جانبداری Reservation Portiality جو جناب کلیم الدین احمد نے اصناف ادب کے سلسلے میں روا رکھی ہے۔ انہوںنے ادب میں ایک طرح کا نسلی امتیاز برتا ہے۔ وہ اپنی تمام تنقیدوں میں اپنی اس ذاتی پسند اور مفروضے Hypothesis کو اصول موضوعہ Postulate بنائے ہوئے ہیں کہ ادب کی بہترین صنف نثر و نظم دونوں میں ڈرامہ ہے۔ اس کے بعد شاعری میں ترجیح و تفوق ہر اس صنف کو حاصل ہے جو نظم کی کسی طویل و مفصل ہئیت پر مشتمل ہے۔ جیسے رزمیہ پھر جدید مختصر نظم نگاری میں بھی پتہ نہیں کس ادبی نمونے کو سامنے رکھ کر انہوںنے ایک موہوم قسم کی عضویاتی پیوستگی کا معیار قائم کیا ہے اس کے بعد فطرت نگاری کا بھی ایک مزعومہ تصور ان کے ذہن میں ہے۔ جب کہ یہ سارے Preconceived Nations (پہلے سے فرض کیے ہوئے تخیلات) ہیں جو اول تو مغربی تصورات ادب سے مستعار لیے گئے ہیں اور وہ بھی اہل مغرب سے بڑھ کر مغرب پرستی یعنی انگریزی محاور ے میں More royalist than the King (بادشاہ سے بھی بڑھ کر شاہ پرستی) کے قاعدے پر لیکن کوئی یہ پوچھے کہ ہم کیوں اور کیسے مان لیں کہ شاعری کا بہترین اظہار ڈراما رزمیہ اور مفصل و مرکب نظموں ہی کے وسیلے سے ہو سکتا ہے پھر کیوں نہیں ہم مثنوی مرثیہ قطعہ رباعی مسدس وغیرہ کو بھیمرکب یا مفصل نظمیں سمجھیں اور ان میں بعض ڈرامہ یا رشمیہ کا بدل تصور کریں؟ ایک صنف شاعری کی حیثیت سے غزل کو گردن زونی خیال کرنے کی وجہ؟ تھوڑی تحقیق سے یہ امر واقعہ ہو جائے گا کہ مختلف ادبوں میں مختلف صنفوں اور ہئیتوں کو فروغ بالکل عمرانی حالات کے تحت ہوا ہے۔ اور اس میں فنی تقاضوں کا دخل بنیادی طورپر بالکل نہیں ہے۔ یورپ میں سٹیج ڈرامے کی ساری روایات مذہبی بالخصوص مسیمی رسموںپر مبنی ہیں۔ رزمیہ خواہ مغربی زبانوں میں ہو یا مشرقی زبانوں میں یہ منظوم داستان ہے اپنی اپنی تاریخ یا روایات و اساطیر کے ہیروئوں پہلوانوں تیغ آزمائوں فاتحوں اور بہادروں کے کارنامہ ہائے شجاعت کی۔ فارس میں قصیدے کا رواج اور عروج بھی اسی طرح شاہان سلطنت اور امرائے دولت کے دربار سے وابستہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا انداز سے حادثاتی طور پر رونما ہونے والی ہئیتوں کو مستقل بالذات جمالیاتی اقدار یا شاعری کے لوازم برقرار نہیںدیا جا سکتا۔ فی الواقع نثر کے مقابلے میں اور اس سے مختلف صنف ادب شعر ہے نہ کہ بجائے خود اس کے ہئیتیں یہی وجہ ہے کہ ڈرامہ یا تو نثر میں بھی لکھا ہی جاتا ہے۔ قصیدہ بھی نثر میں پڑھا جاتا ہے اور رزمیہ بھی منشور ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈرامہ‘ قصیدہ‘ اور رزمیہ کی ہئیتیں اور اسالیب تو بجائے خود شاعری کے عناصر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان ہیتوں اور اسالیب میں نظ کے اوزان کے باوجود موعنی نثریت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا شاعری ک لیے قابل اعتبار کوئی خاص ہئیت نہیں ہے۔ نظم کی کسی بھی شکل میں شعریت کے اعلیٰ ترین اناصر پائے جا سکتے ہیں۔ قومی تاریخی تمدنی اور تہذیبی لحاظ سے دنیا کے مختلف ادبوں میں مختلف ہیئتوں کی خصوصی اہمیت ‘ امتیازی شان اور فوقیت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی قسم کی ہئیتوں کو دنیا کے تمام ادبوں کے لیے یکساں اہم قرار دے دیا جائے یا چند خاص ہئیتوں کو عالمی و آفاقی اسناد عطا کر کے انہیں شعریت کا مطلق معیار مان لیا جائے۔ اور دوسری تمام ہیئتوں کو نظر انداز کر دیا جائے یا ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر ان پر چھچھلتی ہوئی ٹیڑھی اور ترچھی نظر ڈالی جائے۔ اس سے قطع نظر کہ اردو شاعری میںرباعی‘ مثنوی‘ مرثیہ‘ قطعہ اور مسدس وغیرہ کی منظوم و مربوط ہئیتیں قابل لحاظ حد تک اور کافی بالیدہ و ترقی یافتہ شکل میں پائی جاتی ہیں۔ غزل کا سرمایہ اردو میں اتنا ہی وافر اور شاندار ہے جتنا فارسی میں جب کہ انگریزی Lyric بالکل Pyrrhicہے اور انگریزی Sonnetبھی نہایت بے وقعت ہے۔ اردو غزل ہمارے دور زوال اور عہد انتشار ہی کی پیداوار ہے کیو ں نہ ہو‘ بہرحال ایک فن لطیف ہے۔ اک ہئیت شعری ہے اور شاعری کے کافی اہم تجربے اس میں ہوئے ہیں‘ ہماری تہذیب اور زبان و ادب کے لیے اس کے کچھ زبردست کمالات اور کارنامے ہیں۔ غزل میں ہماری عظیم الشان ثقافت کے بچے کھچے آثار ہماری شائستگی کے مظاہر اور ہمارے بکھرتے ہوئے تہذیبی شیرازے کے لخت ہائے جگر ہیںَ اس کے اشعار میں ہماری شرربار آہیں اور دلدوز نالے ہیں۔ یہ کسی درماندہ رو کی صدائے دردناک سہی‘ مگر یہی آواز رحیل کارواں بھی ہو سکتی ہے۔ میر سے اقبال تک اردو غزل کا سفر ارتقاء یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ صنف سخن جہاں ہماری شاعری کے آسمان پر گھٹائوں کی طرح چھائی ہوئی ہے وہیں ان گھٹائوں میں بجلیاں بھی چمکتی ہیں۔ آخر سلطنت مغرب کے زوال کے و افتاد کی کہانی سناتے ہوئے ٹی ایس ایلیٹ نے دی ویسٹ لینڈ The Waste Landمیں یہی تو کیا ہے: "Frogments Shored Against Rvins" (ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کے ٹکروں کو چن کر ساحل پر اکٹھا کرنا) اگراس طرح ربودگی کا اظہار نظم کے مربوط اشعار میں ہو سکتا ہے تو غزل کے غیر مربوط اشعار میں کیوں نہیں جب کہ شعریت اور شاعری کے لحاظ سے اردو کے ایک اوسط درکے کے غزل گو کے اشعار بھی ایلیت کی نظم سے زیادہ شاعرانہ کیف رکھتے ہیں؟ تغزل تو سوزوگداز اور لطافت وبلاغت کے لیے مشہور ہی ہے یوں غالب و اقبال اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے اردو شعراء نے غزل سے جو کام لیا ہے اس کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزل ہماری تہذیب و تاریخ کے ہر دورمیں ہر تیور میں ہر آن اور ہر شان کی عکاسی کے لیے ایک نہایت سبک چابک دست اور کارگزار آلہ ہے۔ ہم اپنی اس تہذیب کے اس کارگر وسیلہ اظہار پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے ۔ اردو زبان کی سلاست چستی اور روانی اردو غزل کی دین ہے۔ ہم ایسے عظیم اثاثے اور سرمائے سے کیسے منہ موڑ سکتے ہیں؟ غزل ہماری تہذیب کا ایک نشان ہے۔ اگر وہ نیم وحشی ہوتی تو ہم بالکل وحشی ہوتے۔ گو اردو غزل کی اہم تخلیقات وحشیانہ ہیں تو کسی اردو تنقید کو ایک وحشت کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟ بہرحال جہاں تک اقبال کا تعلق ہے انہوںنے جیسی اور جتنی غزلیں تخلیق کی ہیں ویسی اور اتنی ہی نظمیں بھی ۔ اب رہی ان کی کمزور نظموں یا نظموںکے کمزور نثری اور غیر ضروری حصوں کی نشان دہی تو یہ ممکن ہے۔ مگر دنیا کے ہر شاعر کے کلام میں عین ممکن ہے چاہے وہ دانتے ہو یا شیکسپر یا گیٹے لہٰذا اس س کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ سوا اس کے کہ ہر انسان کے کلام میں نقائص ہوتے ہیں۔ اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح انسانوں کے کلام میں نقائص دریافت کرنا تنقید کا فرض ہے اور اس کا جواب بھی تو وہ اپنی جگہ وہ اس مزعوم فرض اور موہوم جواز کی ادائیگی اور فراہمی سے جتنا بھی خوش ہو لے اس کی حقیقت اس سے زیاد ہ کچھ نہیں کہ: دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے عیب چینی بعض نفوس کے لیے یقینا سرور کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن تنقید کا حقیقی فرض ادا کرنے او ر اصلی جوا ز مہیا کرنے کے لیے ضروری و لازمی ہے ۔ کہ نظم جدید میں اقبال کے تمام تجربات و کمالات کو سامنے رکھ کر ان کے پورے نظام شعری کے متعلق ایک مجموعی رائے قائم کی جائے۔ اسی طرح اس نظام شعری کا موازنہ دنیا کے دوسرے شاعروں کے نظام فن کے ساتھ کر کے کلی طور پر فن شاعری کی قدروں کا باہمی تناسب دریافت کیاجائے۔ اس صحیح تنقیدی موقف سے جب دیکھا جائے گا تو بہ آسانی معلوم ہو گا کہ جدید مرکب اور مفصل نظمیں جیسی اور جتنی اقبا ل نے تخلیق کی ہیں دنیا کے کسی دوسرے شاعر نے نہیں کی ہیں۔ اقبا ل کی بے شمار نظموں میں اصلیت جوش ‘ جدت‘ ارتقائے خیال اور ترتیب ہئیت کی وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا تجسس کڑے سے کڑے کسی ایسے معیار نقد سے کیا جائے جو انسانی کلام کے بہترین شعری نمونوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہو۔ کسی بھی نظم میں زیادہ سے زیادہ عضویاتی پیوستگی Organic Cohesion جو ہو گی تو وہ نہ تو حیاتیاتی Biologicalہو گی نہ میکانکی Mechanical بلکہ صرف تخلیقی Creative او ر تکنیکی Technical یہ فنی پیوستگی اور سالمیت Integration اقبال کی نظموں میںدنیا کے کسی بھی قدیم و جدید شاعر سے کم نہیں۔ ہیئت شاعری کے ڈھانچے Skeletonکی ٹیکنالوجی Technologyاور میکنزم Mechanism کے اندر اقبال نے فن شعر کے لیے درکار فصاحب و بلاغت اور صنائع و بدائع کا استعمال کیا ہے جس ندرت ‘ جودت‘ کثرت‘ شدت ک ساتھ کیا ہے اور استعارات ‘ تلمیحات‘ اور علامات کو جس تازگی شادابی اور فراوانی کے ساتھ وہ تصرف میں لاتے ہیں اس کی نظیر پیش کرنے سے مشرق اور مغرب کے تمام قدیم اور جد ید شعراء قاصر ہیں۔ اقبال کی نظمیں تو بہرحال حالی و آزاد کے پیش رو تجربوں کے باوجود اردو میں ایک جدید صنف ادب کو جس کی عمر ابھی سو سال سے کم ہے۔ نقطہ عروج پر پہنچاتی ہیں۔ اوریہ نقطہ عروج صرف اردو یا فارسی شاعری کا نہیں ہے۔ دنیائے شاعری کا ہے اس لیے کہ اقبال کی فنی روایات بالکل مشرقی شاعری تک محدود نہیںہیں۔ ان کے سامنے شاعری کی عالمی روایات واقدار تھیں‘ فن میں ان کے ہم نوا جرمنی انگلستان اور اطالیہ وغیرہ ہر ملک اور ہر دور میں موجود تھے۔ ان کانقطہ آغاز اور ابتدائی پس منظر بلکہ بنیادی ماحول جو بھی ہو مگر اپنے زمانے اپنی تعلیم‘ اپنے مطالعے ‘ مشاہدے اور تجربے کے لحاظ سے ان کا ہی یہ شعر شاعری کے معاملے میں ان کی آفاقیت کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو مشرق سے وابستہ ہونے کے باوجود انہوںنے ’’شعاع امید‘‘ کا تصوراسی عالمی پیمانے پر کیا تھا: مشرق سے ہو بیزار و مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر صدیوں سے منجھی ہوئی غزل کو بھی اقبال نے ایک نیا وسیع تر اور بلند تر افق دیا ۔ جناب کلیم الدین احمد ایک طرف تو غزل کو اس کی ربودگی کی وجہ سے نیم وحشی صنف سخن قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف غالب کو ایک بڑے غزل گو شاعر تسلیم کرنے کے باوجود فرماتے ہیں: ’’ان کی غزلوں میں وہ غزلیت نہیں جو غزل کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے‘‘۔ اور یہ صرف دوسرے نہیں سمجھتے ہیں جناب کلیم الدین احمد کا اپنا خاص ارشاد ہے: ’’جہاں تک خالص تغزل کا تعلق ہے میر کا پلہ بھاری ہے‘‘۔ (ص 4) ان بیانات کے اندرونی تضاد سے قطع نظر (جو غزلیت کے فقدان کے باوجود غالب کو بڑا غزل گو بتاتا ہے) دیکھنایہ ہے کہ غزل کے سب سے بڑے نقاد بمعنی نکتہ چیں بھی اس قسم کے روایتی تبصرے فرما رہے ہیں۔ جو ماقبل تنقید کے قدیم تذکروں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ تغزل آخر ہوتا کیا ہے ؟ لطیف جذبات و احساسات تو ہر شاعر میں ہوتے ہیں اور سوز و گداز بھی محض غزل گو کی میراث اور جاگیر نہیں۔ غزل ایک صنف سخن ایک ہئیت شاعری ایک اسلوب اظہار یہ جس میں مختلف مزاجوں اور ذہنوں کے شعراء متنوع کیفیات رنگارنگ لہجوں میں ظاہر کرتے ہیں۔ اگر غزل کا کوئی ایک معیاری انداز مان لیا جائے اور مثال کے طور پر میر کے مخصوص آہنگ کو ’’خالص تغزل ‘‘ کی سند عطا کر دی جائے تو پھر حافظ کو فارسی کا سب سے بڑا غزل گو نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ حافظ کا اسلوب سخن میرسے مختلف اور غالب سے مشابہ ہے۔ تعجب ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے تغزل کی بحث اٹھائی۔ کیا اس کا مقصد بھی غزل کو ایک اور چرکہ لگانا ہے؟ اگر خالص تغزل پر اکتفا کیا گیا اور میر کے انداز سخن کو اس کا اجارہ دار تسلیم کر لیا گیا تو سودا اور غالب سے لے کر حسرت اور شاد بلکہ فانی تک کے سرمایہ شاعری کو کم مایہ سمجھنا پڑے گا۔ کیا فرماتے ہیں ہمارے نقاد اس مسئلے پر کہ فانی کا ذہن تو میر کا ہے مگر ان کا اسلوب غالب سے بہت قریب ہے؟ شاید جناب کلیم الدین احمد نے تغزل اور غزلیت کا مقدمہ اقبال پر اپنے ایک مطالعہ کے لیے ہی کھڑا کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس قسم کی تنقید بے جا سے جناب کلیم الدین احمد کی حس تنقیص کی تسکین کا سامان ہو جائے‘ لیکن جس اقبال نے حافظ کے رنگ و آہنگ میں مشرقی تغزل کی سرحدیں ثریا تک وسیع کر دی ہیں اور شاعری کی منزل کو آسمانوں تک بلند کر دیا ہے اس کے فن کا چراغ پھونکوں سے بجھانا نہ جا سکے گا۔ اور اس پر منفی تنقید تار عنکبوت ہی ثابت ہو گی ۔ ٭٭٭ (3) دانتے اور اقبال شیکسپئر نے کہا ہے کہ شاعر کا تخیل "Gives to hiry nothings a local habitation and a name" (صفحہ 9) جناب کلیم الدین احمد نے دانتے اور اقبال کا شاعر کی حیثیت سے موازنہ شیکسپئر کے مذکورہ بالا بیان سے شروع کیا ہے گویا انہوںنے اس شاعرانہ بیان کو شاعری کا اصل نظریہ اور معیار بنا کر پیش کیا ہے ۔ اور اسی کے مطابق وہ دانتے اور اقبال کا تقابلی مطالعہ اور ان دونوں کے فن کی چانچ اور پرکھ کیں گے۔ شیکسپئر کے شعر کا ترجمہ یہ ہے : ’’(شاعر) ہوئی لا شے کو ایک مقام بودوماند اور ایک نام دیتا ہے‘‘۔ جیسے بقول کلیم الدین احمد: ’’دانتے کا تصور اس کی خیالی دنیا کی ایسی صاف واضح اور ٹھوس تصویر کھینچتا ہے کہ اس کا ایک ایک گوشہ منور ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ (صفحہ 9) شیکسپئیر کے شعر اور جناب کلیم الدین احمد کی تنقید دونوں ہی شاعری کا جو تصور پیش کیا گیا ہے کیا کوئی بھی انسان اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے اسے کی تعریف قرار دے سکتا ہے کجا یہ کہ اسے شاعری کا معیار بتائے ؟ شاعر نہ ہوا مصور ہو گیا۔ لا شے محض کو نام اور مقام کیسے دیا جاتا ہے اور کون دیتا ہے یا دے سکتا ہے؟ شیکسپئیر نے کہا اور کلیم الدین احمد نے مان لیا: امنا و صدقنا اور اسی ایمان کی بنیاد پر شاعری کے پورے عمل کا حساب کتاب کر دیا؟ یہ تو وہی شخص کر سکتا ہے جو نہ صرف یہ کہ مغرب کے خدایان عمل کے تمام فرمودات کو وحی مانتا ہو بلکہ اس وحی کے مختلف مواقع میں تمیز نہ کر سکنے کے سب جس آیت وحی کو جہاں چاہے رکھ دے۔ یہ جانے بغیر کہ کسی وحی کا مقام و مطلب کیا ہے۔ اس طرح نقد کو تو تنقید کی Airy Nothingہی کہا جا سکتا ہے ایک لا شے محض جس کا نہ کوئی Local Habitation (موقع و مقام) ہے اور نہ جسے کوئی Name(نام) دیا جا سکتا ہے ۔ بس یہ ایک نقاد کا تخیل Fancy اوروہم ہے ایک من کی موج اور ترنگ ہے جس میں غور و فکر‘ دماغی محنت اور ذہنی مشقت کی کوئی زحمت گوارا نہیں کی گئی ہے۔ شیکسپئیر کا مقصد اول تو شاعری کی تعریف کرنا نہیں تھا دوسرے جو کچھ اس انگریزی شاعر اور ڈرامہ نگار نے کہا اس کا اشارہ در حقیقت شعری ڈرامے کی طرف ہے جسے انگریزی تنقید میں اصطلاحاً Verce Darama یا منظوم تمثیل کہا جاتا ہے۔ تاکہ اسے منشور یا نثری ڈرامے Prose Darama سے ممیز کیا جاسکے۔ یہ منظوم ڈرامہ ظاہر ہے کہ صرف ڈرامے کی ایک ہئیت کانام ہے اور اس کی نوعیت کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ مثنوی کی طرح یہ بھی نظم کی ہئیت (Form)ہے اور ڈرامے کی ایک قسم ۔ اب ڈرامے کا معاملہ یہ ہے کہ خواہ نثر میں ہو یا نظم میں وہ واقعی تمثیل ہے۔ اور درحقیقت اسی صنف ادب میں فن کار کا تخیل وہ شیکسپئیر کی طرح شاعر ہو یا برنارڈ شاہ کی طرح نثار پیکر تراشی اور مجسمہ سازی یا مصوری کرتا ہے۔ ایک خیالی نقطے میں رنگ بھرکر اسے ایک محسوس شکل عطا کر دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ شکل دنیا اور سماج کی چلتی پھرتی صورتوں کی مانند صاف اور واضح اور ٹھوس نظر آتی ہے اس کے ہیولے کا ایک ایک گوشہ تصویر کی طرح منور ہوتا ہے جیسے فلم سکرین پر روشنی پڑنے سے بے جان سائے جسم متحرک بن کر زندہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک کھیل Play ہے جو ایک سٹیج Stage پر پیش کیا جاتا ہے ۔ تھیٹرTheatre یا فلم Film اور سینما Cinema کی اس کہانی Storyمیں کردار Character ہوتے ہیں ان کے مکالمے Dialogue کا ایک منظر Seene میںہوتے ہیں۔ اس پورے تمثیلی قصے کا ایک ماجرا Plot ہوتا ہے۔ جس میں تمام جزیات کی منصوبہ بندی Planning اور تنظیم Organisation کی جاتی ہے۔ اس تنظیم میں واقعات اور ان کے جزئیات و تفصیلات کا لحاظ کیا جاتا ہے اور افراد کے احساسات و تجربات سے بحث کی جاتی ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کی پہلی بنیادی اور سب سے بڑی تنقیدی خامی یہ ہے کہ وہ اصناف ادب کی حدود کا کوئی لحاظ نہیںکرتے اور نہ دنیا کے مختلف ادبوںمیں اصناف کے امتیاز سے وہ واقف ہیں۔ اسی لیے غلط مبحث کرتے ہیں ڈرامے کو شاعری سے ملا دیتے ہیں اور شاعری کو ڈرامے میں‘ ڈرامہ نگار سے شاعری کی توقع کرتے ہیں اور شاعری سے ڈرامہ نگاری کی۔ کچھ تو مغربی مفروضات ان کے ذہن میں پر کابوس بن کر سوار ہیں۔ اور کچھ ان مزعومات ہیں۔ انہی مزعومات و مفروضات کو انہوںنے تنقیدی مسلمات تصور کر لیا ہے اور بے سوچے سمجھے بے محابا‘ بے تماشا ان کا اطلاق ہر مغربی ادبی نمونے پر اور ہر تنقیدی مطالعے میںنہایت قطعیت اور جارحیت تحکم اور تمرد کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر بے اختیار انگریزی کا یہ معقولہ یاد آتا ہے : Ignorance is Bliss (ناواقفیت شادمانی ہے) اس عالم شادمانی میں انہوںنے دانتے اوراقبال کا ایک عجیب و غریب موازنہ کر ڈالا ہے۔ اس سرور میں وہ اتنے وارفتہ ہو گئے ہیں کہ انہوںنے دانتے اور سوئفٹ کے تخیلات کو ایک دوسرے سے ملا کر اول الذکر کے منظوم ڈرامے کو ثانی الذکر کے منشور ہجویہ افسانے سے بھڑا دیا ہے۔ دانتے کے تصور کی مدح سرائی کے بعد یہ فرماتے ہیں: ’’سوئفٹ نے بھی Guiliver's Travels میں اپنے تخیل کے بل پر کچھ ایسا ہی معجزہ دکھایا ہے کہ اس کی چار دنیائوں کی ہر چیز میں Mathematical Exactitude کا خیال رکھا گیا ہے دانتے کے تخیل میں بھی کچھ ایسی ہی طاقت ہے‘‘۔ (ص 9) ریاضیاتی تعین Mathematical Exactitute اگر سوئفٹ کے افسانے میں ہے تو ٹھیک ہے‘ وہ ایک نثری داستان ہے مگر کیا شاعری میں بھی یہ ریاضیاتی عنصر کوئی جوہر ہو سکتا ہے؟ جناب کلیم الدین احمد بداہتہً ایسا ہی سمجھتے ہیں‘ اس لیے کہ ان کے سامنے دانتے کی منظوم تمثیل Divine Comedy کا پورا نقشہ شاعری سے زیادہ تمثیل اور داستان کی حیثیت سے ہے اور سوئفٹ کا جو Nursery Tale(بچوں کو بہلانے کے لیے دادی اماں کی کہانی) انہوںنے بچپن میں مزہ لے لے کر پڑھی تھی اس لیے کہ اس میں ایک دل فریب کہانی کی دل چسپی تھی۔ وہی انہیں دانتے کی افسانوی نظم یا منظوم داستان میں بھی ملتی ہے ۔ اور وہ جس طرح بچپن کی کہانی پر فریفتہ ہو گئے تھے۔ اسی طرح جوانی کے قصے پر بھی فریفتہ ہیں۔ تصویر کشی‘ منظر نگاری اور کردار نگاری کی جزئیات میں ان کا انہماک دنیا کے ہر دور میں یکساں ہے۔ داستان افسانے اور ڈرامے کے ساتھ انہماک اور ان پر فریفتگی بجائے خود بری چیز نہیں اور اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ایک شخص کی ترجیح اور ذاتی پسند کسی خاص صنف اداب اور ہئیت فن کے لیے ہو مگر اس ترجیح اور پسند کو نہ تو اقدار ادب بنانے کی اجازت دی جا سکتی ہے اور نہ معیار تنقید۔ معروضیت Objectivity اور غیر شخصی انداز Impersonality تو تخلیق کے بھی مطلوب ہے جبکہ کوئی بامعنی تنقید معروضیت اور غیر شخصی و اصولی انداز کے لیے بغیر ممکن ہی نہیں۔ جناب کلیم الدین احمد کا کم از کم اس عمرانی حقیقت و صداقت کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ کہ دنیا کے ہر ادب کے لیے کوئی ایک صنف یا ہئیت معیار سخن نہیں ہو سکتی ۔مثال کے طور پر اگر کلیسائی تہذیب کے سبب مغرب میں تمثیل (ڈرامے) کو فروغ ہوا تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہو گا کہ غیر کلیسائی مشرقی بالخصوص اسلام سے متاثر معاشرے میں تمثیل کو فروغ ہو حالانکہ تمثیلی عناصر عربی فارسی اور اردو کی ادبیات میں بھی کافی ہیں لیکن ان کا تعلق اس قسم کے ڈرامے سے نہیں ہے جو ایکٹنگ اور رقص و موسیقی کے ساتھ اسٹیج پر تھیٹر میں پیش کیا جاتا ہے ۔ ٹھیک جس طرح مغربی اور مسیحی تہذہب میں سوانگ نقل اور آلاتی موسیقی و رقص کو پسندیدہ سمجھا جاتا ہے مشرقی اور مسلم تہذیب میں انہیں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے ۔ لہٰذا تہذیبی تاملات کے سبب اسلام سے متاثر ادبیات میں ایک ہئیت ادب کی حیثیت سے بھی ڈرامے کو وہ فروغ حاصل نہیں ہوا جو مسیحیت سے متاثر ادبیات میں ہوا۔ بہرحال عربی ‘ فارسی اور اردو ادبیات بالخصوص شاعری میں مثنوی رزمیہ مرثیہ‘ قصیدہ اور غزل کی ایسی عظیم الشان ترقیات ہوئی ہیں جن کا جواب کوئی مغربی ادب اور اس کی کوئی ہئیت سخن پیش کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ شاعری کے سلسلے میں قدامت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو عربی و فارسی کے مقابلے میں انگریزی و لاطینی کا سرمایہ فن کیا ہے؟ اگر یونان اور روم کے چار شاعروں کے نام کمال فن کے لیے پیش کیے جاتے ہیں تو کم از کم چودہ نام ایران اور عرب کے ایسے شاعروں کے لیے جا سکتے ہیں جو تخیلق کے بہتر نمونے دنیا کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ اب دیکھیے کہ جناب کلیم الدین احمد دانتے اور اقبال کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے فلکیات کی بحث اٹھاتے ہیں ۔ بطلیموس Ptolemy اور کوپر نیکس Copernicus کے نظاموں کے حوالے دیتے ہیں۔ ڈیوائن کامیڈی میں دانتے کو اپنے نقشہ افلاک کے لیے بطلیموسی نظام کاپیرو بتاتے ہیں اور اقبال کو بھی کوپر نیکس کی تحقیقات کے باوجود بطلیموس ہی کا پیرو تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ’’جاویدنامہ‘ کا کوئی نقشہ افلاک ہے جو ان کے خیال میں ڈیوائن کومیڈی کی طرح سیاروں کے ایک نظام پر مبنی ہے۔ ان مفروضات کی روشنی میں وہ دانتے کے فلکیاتی منصوبہ بندی کو منظم و مرتب اور اقبال کی مزعومہ منصوبہ ندی کو غیر منظم اور غیر مرتب پاتے ہیں چنانچہ ان کی زود حس رگ تنقید جو پھڑکتی ہے تو نہایت مشتعل ہو کر بڑے طیش سے فرماتے ہیں: ’’اسے نظام اقبال کہہ لیجیے۔ لیکن جس کا نظام ایسا ہو اس کی شاعری کیسی ہو گی؟ شاعری تن آسانی نہیں‘ شاعری دماغی کاہلی نہیں‘ جو شاعر معمولی جانے بوجھے Facts سے اس قدر غفلت برتتاہے اس کی شعری سے بے لطفی کے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے؟‘‘ (ص 21-22) سوال یہ ہے کہ ناقد موصوف شاعری پر تنقید فرما رہے ہیں یا فلکیات پر ؟ اگر تھوڑی دیر کے لیے برائے گفتگو مان لیا جائے کہ اقبال نے اپنے ’’تماشائے آسماں‘‘ میں نہ تو بطلیموس کے نقشہ افلاک کی پیروی کی ہے نہ کوپر نیکس کے نظام کی تو اس سے زیادہ سے زیادہ اتنا ہی تو معلوم ہو سکتا ہے کہ یا تو اقبال کو فلکیات میں ورک نہیں تھا یا وہ کسی سائنسی نظام کی پابندی نہیںکر سکتے تھے؟ اتنی سی بات سے یہ نتیجہ کوئی بھی آدمی حوش ہو ہواس میں رہتے ہوئے کیسے نکال سکتا ہے کہ اقبال تن آساں‘ کاہل اور غافل تھے اور ان عیوب کے سبب ان کی شاعری ناقص رہ گئی ؟ کیا اقبال کے خلاف جناب کلیم الدین احمد کا جوش و خروش Animusاتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ اد ب فن ‘ شاعری اور شائستگی کے ’’معمولی جانے بوجھے Facts‘‘ (حقائق) کو یکسر نظر انداز کرنے اور پامال کرنے پر تل گئے ہیں؟ اس سلسلے میں ہمارے محنتی نقاد نے تو تن آسانی اور دماغی کاہلی کی انتہا کر دی ہے۔ اس کے علاوہ انہوںنے چند اہم حقائق سے دانستہ چشم پوشی کی ہے بلکہ ان کے کتمان Concealment کا اخلاقی و علمی جرم بھی کیا ہے۔ جب وہ شاعری کی فنی تنقید سے ہٹ کر بعض علمی واقعات کا سراغ لگانا اور تعاقب کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ تو انہیں یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش بھی ایک تنقید کے ایک فرض منصبی کے طور پر کرنی چاہیے تھی کہ ڈیوائن کومیڈی اور جاوید نامہ کے خلائی سفر کا محرک مقصد اورپس منظر کیا ہے یہ ایک معلوم و معروف اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دونوں کتابوں کی پیش رو تصنیفات حضڑت محی الدین ابن عربی کی ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ابولاعلامقری کی ’’رسالۃ الغفران‘‘ ہیں اور ان دونوں تصنیفات کا سر چشمہ تخلیق معراج النبیؐ کا عظیم الشان او رعدیم النظیر واقعہ ہے۔ دانتے کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ معراج کے واقعے اور ابن عربی اور معری کی اس پر مبنی تخلیقات سے واقف تھا اس کے دور میں اور ملک میں مسلم حکماء و صوفیاء کے تصورات و تجربات سے آگای علمی حلقوںمیں عام تھی۔ شواہد یہ واضح اشارہ بھی کرتے ہیں کہ دانتے نے انتہائی تعصب تاریک خیالی اور بعض و عداوت کے ساتھ اپنی تخلیق میں اسلام ‘ پیغمبر اسلامؐ اور تعلیمات اسلامی کے خلاف اپنے دل کا بخار نکالا ہے۔ (دانتے کا وہ صلیبی جنگوں میں حصہ لے چکا تھا) یہاں تک کہ یہ بدتمیز جاہل اور وحشی پیغمبر اسلامؐ کی شان میں انتہائی گستاخی کرنے سے بھی باز نہیں آیا۔ اس کی بجائے کہ ایک شریف انسان کی طرح اس احسان فراموش نے اس علمی و فنی قرض کا اعتراف کیا ہو گا جو اس نے اپنے پیش رو مسلم دانش وروں سے لیا تھا جبکہ اسے معلوم تھا کہ خود اس کے استاد ٹومس ایکوائی نس Thomas Aquinas نے ابن رشد Averroes کے فلسفے ہی کو سامنے رکھ کر اپنا سارا نظام فکر مرتب کیا تھا۔ ملاحظہ ہو سپین کی میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آسن Asinکا بیان: ’’جب دانتے اپنی اس حیرت انگیز نظم کا تصور ذہن میں لایا تو اس سے کم از کم چھ سو سال پہلے اسلام میں ایک مذہبی روایت موجود تھی جو حضرت محمد صلعم کی مساکن حیات مابعد کی سیاحتوں پر مشتمل تھی۔ رفتہ رفتہ آٹھویں صدی سے لے کر تیرھویں صدی تک مسلم محدثین‘ مفسرین ‘ علماء ـ‘ صوفیا ‘ حکماء اور شعراء نے سب سے مل کر اس روایت کو ایک مذہبی تاریخی حکایت کر لباس پہنا دیا کبھی یہ روایات شروع معراج کی شکل میں بیان کی جاتی تھیں‘ کبھی راویوں کی اپنی روایات کی صورتمیں اور کبھی ابتاعی تالیفات کے انداز میں۔ ان تمام روایات کو ایک جگہ رکھ کر ڈیوائن کامیڈی سے مقابلہ کیا جائے تو مماثلت کے بہت سے مقامات خود بخود سامنے آ جائیں گے بلکہ کئی جگہ بہشت اور دوزخ کے عام خاکے ان کے منازل و مدارج تذکرہ ہائے سز و جزاء مشاہدہ مناظر‘ انداز حرکات ‘ و سکنات افراد‘ واردات اور حالات سفر رموز و کنایات و اشارات دلیل راہ کے فرائض اور اعلیٰ ادبی خوبیوںمیں مطابقت کا ملہ نظر آئے گی‘‘۔ (اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی منقول از شرح جاوید نامہ مولفہ یوسف سلیم چشتی ص 25-26)۔ ڈاکٹر ول ڈیوراں کہتا ہے: ’’اطالیہ کے علماء اور حکماء اسلامی تصورات سے بخوبی آگاہ ہو چکے تھے اور حال میں کامیڈی پر جو ریسرچ ہوئی ہے اس کی بدولت یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ دانتے کے تصورات کا ماخذ اسلامی ہے۔ کیونکہ دانتے فلسفے کا طالب علم تھا اس لیے وہ ابن رشد‘ ابن سینا‘ ٹامس ایکویناس‘ اورارسطو ‘ افلاطون اور نو فلاطونی حکمت (حکمت الاشراق) ان تمام فلسفیانہ مذاہب سے واقف تھا۔ ابو العلا مقری کے رسالہ الغفران اور ابن عربی کی فتوحات مکیہ میں آسمانوں کی سیر دکھائی گئی ہے۔ یہ سب کتابیں دانتے کی نگاہ میں تھیں اور اس نے اپنی تصنیف کا خاکہ انہی دو کتابوں کو سامنے رکھ کر تیار کیا‘‘۔ (ص 68 ’’شرح جاوید نامہ‘‘ از یوسف سلیم چشتی) اب دیکھنا یہ چاہیے کہ جاوید نامہ کی تخلیق میں اقبال کے پیش نظر نہ تو کوئی ڈرامہ لکھنا تھا ‘ نہ اپناکوئی سفر نامہ اور نہ سیاروں کا کوئی نقشہ مرتب کرنا۔ جہاں تک خلائی سفر کے ڈھانچے میں نظام شمسی کے سیاروں کی سائنسی ترتیب کا سوال ہے کیا کوئی پڑھا لکھا آدمی دیانت داری کے ساتھ یہ سوچ سکتا ہے کہ اقبال نظام بطلیموس اور نظام کوپرنیکس کی ان باتوں سے بھی واقف نہ تھے جو مبتدیوں کو بھی معلوم ہیں؟ کیا اقبال کی معلومات عامہ General Knowledge کسی کلیم الدین احمد سے کم ہو سکتی تھی؟ یہ تو فہم عامہ Common Sence کی ایک بات ہے کہ جب اقبال نے اپنے آسمانی سفرمیںسیارں کی وہ ترتیب نہ رکھی جو عام طور پر ماہرین فلکیات رکھتے ہیں تو اس کا کوئی خاص مطلب اور مقصد ہی ہو گا۔ اور یہ محض کوئی عقیدت مندانہ قیاس نہیں ہے۔ بلکہ عین علمی تحقیق کا تقاضا ہے کہ کم از کم حقائق کا تجسس کر کے دیکھا جائے کہ سیاروں کی عدم ترتیب کا محرک و مقصود کیا ہے؟ مشکل یہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد حسن ظن کی اخلاقی خوبی سے تو عاری ہیں ہی فہم عامہ سے بھی بسا اوقات خالی ہو جاتے ہیں اور عیب چینی کے جوش میں انہیں کسی بات کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ جب وہ اپنے آپ کو ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ کے ایک عالم کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں اور اسی حیثیت سے دونوں پر تقابلی تنقید کر رہے یں تو انہیں ضرور بالضرور دیکھنا اور سمجھنا تھا ک جاوید نامہ کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ بہرحال اکتوبر 32ء میں ’’چودھری‘‘ کے نام سے خود علامہ اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ کا تعارف اس طرح کرایا کہ جاوید نامہ اصل میں معراج نامہ ہے۔ اقبال چاہتے تھے کہ ’’گلشن راز جدید‘ کی طرح جدید علوم کی روشنی میں معراج النبیؐ کی ایک شرح لکھیں جو اس قسم کا معراج نامہ جدید ہو ۔ لیکن معراج نامے کے ذریعے وہ حیات و کائنات کے جن اہم مسائل و موضوعات پر اظہار خیال کرنا چاہتے تھے ان کی وسعت اور تنوع اس بات کا متقاضی تھا کہ توجہ صرف معراج تک محدود نہ رکھی جائے اور خلائی سفر کا ہیولا زیادہ سے زیادہ لچک دار نہو ۔ چنانچہ بہت سوچ سمجھ کر اقبال نے جاوید نامہ کی منصوبہ بندی اس طرح کی کہ خلائی سفر کا بنیادی نقشہ تو معراج النبیؐ کی ان تفصیلات کے مطابق ہو جو اسلامی روایات میں معروف و مسلم ہیں نہ کہ ان جزئیات کے مطابق جو کسی سائنسی نظام سیارگان میں پائی جاتی ہیں۔ خواہ وہ بطلیموس کا فرسودہ اور ازکار رفتہ نظام ہو۔ سج پر دانتے کی ڈیوائن کامیڈی مبنی ہے یا کوپر نیکس کا جدید اور رائج الوقت نظام۔ لیکن معراج کے اس نقشے کے اندر اقبال نے اپنے موضوعات کے لحاظ سے اپنے تخیلات کو آزاد چھوڑ دیا کہیں مناظر کی تصویر کشی کی‘ کبھی واقعات بیان کیے کسی جگہ شخصیات کی کردار نگاری کی اور ان کے ساتھ مکالمہ کیا۔ اور کسی مقام پر اپنے یا دوسروں کے اشعار درج کر دیے ۔ ظاہر ہے کہ اپنے صنفی قماش کے لحاظ سے جاوید نامہ ایک تمثیلی نظم ہے نہ کہ شعری ڈرامہ ‘ اور اسی لیے اس میں ڈرامائیت کے جتنے عناصر ہیں میں تو اس حقیقت کا بھی انکشاف کرنا چاہتا ہوں کہ ڈوائن کامیڈی کوئی شعری ڈرامہ شیکسپئیر کے ڈراموں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ بھی جاویدنامہ کی طرح ایک تمثیل نظم Dramatic Poem ہے اور اگر خالص ڈرامہ کے اصولوں کی روشنی میں ا س کا جائزہ لیا جائے تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ بالکل ایک ناقص اور ناکام تخلیق ہے۔ کیا ڈوائن کامیڈی کو جوں کا توں اسٹیج کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈوائن کامیڈی کو بھی جاوید نامہ کی طرح جو کچھ کردار نگاری‘ منظر کشی بیان واقعات اور مکالمہ نگاری ہے وہ سب ایک طویل تمثیل نظم کے اجزا کے طورپر ہی ہے اور اس میں شاعری کا کوئی عنصر ایسا نہیں ہے جو جاوید نامہ میں موجود نہ ہو اور بہتیرے مقامات پر بہتر شکل میں ہو۔ درحقیقت جاویدنامہ میں فنی توجہ کا جو ارتکاز ہے اور اس کی وجہ سے شروع سے آخر تک شعریت کا جو تسلسل ہے وہ ڈوائن کامیڈی میں مفقود ہے اس لیے کہ دانتے ’’مالک یوم الدین‘‘ بن کر اپنے کلیساکے گناہ گاروں کو سزا اور وفاداروں کو جزا دینے کی داستان سرائی اور اپنی متوفیہ محبوبہ کی ذات و صفات میں جلوہ الٰہی دکھانے میں اتنا منہمک ہے کہ اسے نہ تو حق و صداقت پر غور کرنے کی فرصت ہے نہ ایک تمثیلی نظم کے فنی سانچے پر دھیان دینے کی۔ چنانچہ ڈوائن کامیڈی کا فنی مطالعہ سنجیدگی و آذادی سے کرنے والے یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ بسا اوقات یہ تمثیلی نظم ایک منظوم داستان Verse Taleبنتی نظر آتی ہے۔ اس کے برخلاف جاوید نامہ میں اقبال نہ تو ڈرامہ نگاری کی کوشش کرتے ہیں نہ داستان سرائی کی نہ معتصبانہ انتقام کوشی کرتے ہیں اور نہ دوسرے عقیدوں کی مقدس شخصیتوں کی توہین ۔ وہ پوری فکری و فنی یکسوئی اور وقار کے ساتھ صر ف زندگی‘ تاریخ اور انسانیت کے اسرار و رموز بیان کرتے ہیں اور اکثر ان شخصیتوں کے افکار احترام کے ساتھ پیش کرتے ہیں جن کا شریعت محمدیؐ سے کوئی تعلق نہیں اوراس بیان اور پیش کش میں وہ ایک تمثیلی نظم کی حدود کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں اور شعر یت کا بھی التزام بالقصد یا بلا قصد کرتے ہیں۔ جس چیز کو جناب کلیم الدین احمد طنزاً نظام اقبال کہتے ہیں وہ حقیقتا ًنظام اقبال ہی ہے جو نہ صرف بطلیموس اور کوپرنیکس کے سائنسی نظاموں سے مختلف ہے بلکہ خلائی سفر کا تخیلی خاکہ پیش کرنے والے اپنے دونوں پیش روئوں ابن عربی اور دانتے کے نظاموں سے بھی مختلف ہے او ر شعوری طور پر مختلف ہے: ’’جاوید نامہ کو ڈیوائن کامیڈی اور فتوحات سے دو باتیں ممیز کرنے والی ہیںَ پہلی یہ کہ اس میں وہ تمثیلاتی مظاہرات اور معمات Sybolism ناپید ہیں جو ان میں ہر مقامات پر ملتے ہیں اور جن کی وجہ سے آج تک ان کے بعض مباحث مباحث عقدہ ہائے لاینحل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ دوسری یہ کہ اقبال نے زیادہ تر سیاروں (وہ بھی سات نہیں چھ) کی سیاحت پر اکتفا کی ہے۔ وہ دوزخ اور اعراف کے نزدیک تک نہیںگیا اور ساتویں سیارے میںپہنچنے کے بجائے آں سوائے افلاک جا نکلا ہے اور یہ غالباً اس لیے کہ جنت اور حضور اور تجلی کے نئے تصورات اور نئے مقاصد و معانی دنیا کے سامنے رکھنے تھے۔ ’’ندائے جمال‘‘ کی سماعت کا شوق بھی کچھ کم کشش کا باعث نہیں تھا۔ کلیم الٰہی مشکل تھی لیکن سمیع اللہی میں کیا باک ہو سکتا تھا۔ جن لوگوں کو دراصل جہنم دکھانے کی ضرورت تھی ان کو اقبال نے ’’فلک زحل‘‘ کے قلزم خو میں مبتلائے عذاب دکھایا ہے۔ اور وہ ایسے لوگ نہیںہیں جو خالص مذہبی یا اخلاقی نقطہ نظر سے مجرم یا گناہ گار ہوں بلکہ وہ ایسی ارواح رذیلہ ہیں جو ملک و ملت سے غداری کی مرتکب ہوئی ہیں اور جن کو دوزخ نے بھی اپنے اندر قبول نہیںکیا۔ ’’فتوحات مکیہ‘‘ اور ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ’’حیات بعد الموت‘‘ کے حقائق اور کیفیات کی کہنہ معلوم کرنے کی کوششیں ہیں مگر معنوی اعتبار سے دونوں جدا ہیں۔ اول الذکر عرفانی مشاہدات کی حامل ہے آخر الذکر علمی ادبی اور سیاسی نکات پر حاوی ہے۔ افرادکے اذہان اور اخلاق کی شائستگی دونوں کا نصب العین ہے۔ تاہم صوفی اور ڈرامہ نویس اپنی توجہ مختلف مقاصد کو پیش نظر رکھ کر حیات ما بعد الممات ہی پر مرکوز رکھتے ہیں۔ اقبال کے لیے حیات بعد الموت کا مسئلہ بہت پیش پا افتادہ ہو چکا ہے۔ (کیونکہ وہ ایک مسلم عالم اور حکیم ہے) اس لیے وہ اپنی توجہ زیادہ تر حیات حاضرہ یا حیات مطلق یا بالفاظ دیگر بقائے حیات انسانی کے مسئلہ پر صرف کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ بات اس قدر اہم نہیں کہ مرنے کے بعد دوزخ یا بہشت یا اعراف میں انسانوں کی زندگی کیسی ہو گی؟ اس کے برعکس جس بات نے اسے تمام عمر پیچ و اضطراب میں رکھا ہے وہ یہی موجودہ حیات انسانی ہے جو اقوام مشرق کے لیے ان کی سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی پستی کی وجہ سے موت سے بدتر ہو چکی ہے اور جس کے پاکیزہ ارتقاء کی ضرورتوں سے اہل مغرب بوجہ اپنے مذہبی اخلاقی اور روحانی انحطاط کے غافل ہو چکے ہیں اور قریب ہے کہ اسے (یعنی حیات انسانی کو) ایک ایسی دنیاوی قیامت سے دوچار ہونا پڑے جو مشرق اور مغرب دونوں کی موجودہ نسلوں کو تباہ و برباد کر کے دنیا میں ایک ہموار نسل اور ایک ہم مقصد واحد قوم کے ظہور اور فروغ کے لیے میدان صاف کر جائے بقا و دوام حیات انسانی کے مباحث ہی اشارہ کرتے ہیں کہ اقبال نے اس تصنیف کا نام ’’جاوید نامہ‘‘ کیوں رکھا۔ (ص 31-33 ’’شرح جاوید نامہ‘‘ از یوسف سلیم چشتی) یہ ہے علمی تحقیق اور ادبی تنقید کا وہ صحیح مثبت اور تعمیری نمونہ جس سے جناب کلیم الدین احمد کے کلیبانہ (Cynical)ذہن کو نہ کوئی مناسبت ہے نہ دل چسپی موصوف نے اس بدیہی حقیقت پر بھی غور کرنے کی زحمت نہیں گوارا فرمائی کہ آخر اقبال نے سیارہ کی بجائے افلاک کا لفظ اپنے منازل سیاحت کے لیے کیوں اختیار کیا؟ اگر وہ علمی سنجیدگی اور تنقیدی بصیرت کے ساتھ صرف اسی چیز پر غور کر لیتے تو انہیںمعلوم ہو جاتا کہ نظام اقبال کیا ہے اور کیوں ہے اور یہ کہ اقبال نے عالم بالا کی سیاحت کسی بطلیموس اور کوپر نیکس سے نہیں کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کے نقشے پر کی ہے جس کی ہر منزل سفر کو فلک کہاگیا ہے۔ شاید جناب کلیم الدین احمد کو دانتے کے نظام بططلیموس کی تو واقفیت ہے مگر اقبال کے اختیار کردہ نقشہ معراج کی روایت کی کوئی خبر نہیں۔ سوال ہے وہ اردو کے ناقد ہیں یا انگریزی بلکہ اطالوی کے؟ اگر وہ اردو کے ناقد ہیں تو اپنے ادب کی روایات سے اتنے بے خبر اور بیگانہ کیوں ہیں اور اس بے خبری اور بیگانگی کے باوجود انہیں ایک معتبر و مستند نقاد کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اردو و فارسی ادب کے سر چشموں اور ذہنی فضا سے ناواقف کوئی ناقد مثال کے طور پر ٹی ایس ایلیٹ اگر اردو فارسی ادب پر تنقید کرے تو اس کا وزن کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ ایک رتی بھر بھی نہیں۔ چنانچہ اقبال کے جاوید نامہ کے متعلق جنا ب کلیم الدین احمد کے حسب ذیل بیانات کا وزن رتی بھر بھی نہیں: ’’اقبال کا سفر کچھ عجیب قسم کا ہے ۔ وہ سورج سے واقف نہیں زمین سے پرواز کر کے وہ قمر نہیں فلک قمر تک پہنچتے ہیں‘‘۔ (ص 17) اگر خد ا کے حضور میں اقبا ل کھڑا ہو سکے تو پھر انبیاء سے پرہیز کیوں؟ اس کے علاوہ وہ تو بودھ مت‘ نہ زرتشت کے مذہب اور عیسائیت کی خوبیوں سے واقف ہیں اور اگر ہیں تو اس کا اظہار ضروری نہیں سمجھتے۔ پھر اسالم کی تعلیم کو پیش کرنے کے عوض ابوجہل کی فریاد رقم کرتے ہیں اس کی وجہ شایدیہ ہے کہ اسلام کے رموز وہ افغانی کی زبان سے بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ وجہ کچھ بھی ہو ۔ یہ حصہ کمزور ہے اوراسے حذف کر دینے میں کوئی کمی محسوس نہ ہو گی بہرکیف فلک قمرسے اقبال پرواز معکوس کرتے ہیں اور پھر عطارد میں پہنچتے ہیں ۔‘‘ (ص 18) ’’ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ حضرت آدمؑ کو جنت سے نکالاگیا تو وہ کیسے ارض اور زہرہ کو Bypass کرتے ہوئے عطارد اور زہرہ میںپہنچے اور ایک دو روز کے بعد یہاں سے پرواز کر کے زمین پر پہنچے… اب فلک زہرہ کی باری آتی ہے یعنی وہ پھر اوپر کی طرف پرواز کرتے ہیں ‘‘ (صفحہ18) ’’…یہ تھا اقبال کے سفر کا خلاصہ اور ظاہر ہے کہ اس میں بہت جھول ہے… ان کے نظام میں Neptune Uranusاور Plutoکی جگہ نہیں۔ ان کے عوض ایک گمنام جہان ہے اور پھر جنت اور عرش معلیٰ کو وہ Galaxiesسے بھی ناواقف نہیںیعنی اقبال کا تصور واضح نہیں۔‘‘ (ص 21) ’’…دو ٹکڑے اور ہیں جو غیر ضروری ہیں۔ نکوہش آسمان کے بعد نغمہ ملائل ہے اور عالم بالا کے سفر کی ابتدا سے پہلے زمزمہ انجم ہے۔ بخلاف دانتے اقبال نہ تو ملائک کو دیکھتے ہیں اور نہ انجم کو ۔ پھر نغمہ ملائک کیوں اور زمزمہ انجم کیا؟ ان کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں جن کی وجہ سے سمجھ میں نہیںآتی ہے۔ قمرمیں جہاں دوست عطارد میں جمال الدین افغانی اور وسعید حلیم پاشا ہیں لیکن زہر ہ میں خدایان اقوام قدیم بھی ہیں اور فرعون اور کچز بھی مریخ میں حکیم مریخی اور نبیہ مریخی ہیں۔ مشتری میںحلاج غالب اور طاہرہ ہیں اور خواجہ اہل فراق ابلیس بھی اور زحل میں جعفر اور صادق ہیں۔ اس Placing کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ زحل اور زہرہ اگر جہنم ہیں تو ان کا مقام نیچے ہونا چاہیے تھا اور ترتیب سیارگان اس طرح ہوتی: زہرہ‘ زحل‘ قمر‘ مریح‘ مشتری اور عطارد۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ اقبال کا تخیل اپنے خیالی سفر کی واضح منطقی متعین تصویر پیش نہیں کر پاتا‘‘۔ (ص 23) مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ بات قطعی اور حتمی نیز دستاویزی طور پر واضح ہو گئی ہے کہ جناب کلیم الدین احمد اپنے تنقیدی شعور کی واضح‘ منطقی ‘ متعین تصویر پیش نہیں کر پاتے ۔ الجھی الجھی‘ بہکی بہکی ‘ متضاد ‘ غیر منقول اور ناقابل فہم باتیں کرتے ہیں۔ خود ہی وجہ بیان کرتے ہیں مگر معاملے کو سمجھتے نہیں اور غیر ضروری باتیں کرنے کے فن میں تو وہ اتنے بڑے استاد ہیں کہ اگر ان کی پوری تنقید کو تنقید غیر متعلق Critisism of Irrelevance کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ اقبال کے منصوبہ سیاحت اور مقصد تخلیق کو وہ سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں لیکن نظام سیارگان پر طویل طویل اور لاطایل گفتگو شوق سے کرتے ہیں اور ایک ہی بات کو بار بار دہراتے ہیں ملاحظہ کیجیے بہ زعم خود واضح منطقی اور متعین تبصروں کو: ’اس کے علاوہ وہ نہ بودھ مت‘ نہ زرتشت کے مذہب اور نہ عیسائیت کی خوبیوں سے واقف ہیں اور اگر ہیں تو اس کا اظہار ضروری نہیں سمجھتے‘‘۔ (ص 18) یعنی جناب کلیم الدین احمد کو معلوم نہیں کہ حقیت کیا ہے؟ اقبال مذکور مذاہب کی خوبیوں سے بالکل ناواقف ہیں یا ان کا اظہار ضروری نہیں سمجھتے ؟ شاید ناقد کو بھی معلوم ہو گا کہ شاعر کا مطالعہ دنیا کے مذہبوں اور فلسفوں کے متعلق کم از کم جناب ناقد اور ان کے ممدوح دانتے سے تو یقینا زیادہ تھا۔ جناب کلیم الدین احمد نے فلسفہ و دینیات کی وہ معرکہ آرا کتاب پڑھی اور سمجھی ہے جس کا نام Reconstruction of Religious Thought in Islam ہے اور جس کے مصنف علامہ اقبال ہیں؟ اور سب سے بڑا لطیفیہ یہ ہے کہ چند ہی سطروں قبل جناب کلیم الدین احمد خود ہی تحریر فرما چکے ہیں : ’’…پھر سروش اور نوائے سروش کے بعد رومی اقبال کو وادی یرغمید کی طرف جسے ملائکہ وادی طواسین کہتے ہیں لے جاتے ہیں اور ایک دیوار پر سنگ قمر سے کھدے ہوئے چار طواسین نبوت کو دکھاتے ہیں۔ ان میں چار مشہور مذہبوں کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ بانیان مذہب گوتم بدھ‘ زرتشت ‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد صلعم ہیں‘‘۔ (ص 17) یعنی اقبال بقول کلیم الدین احمد: ’’نہ تو وہ بدھ مت ‘ نہ زرتشت کے مذہب اور نہ عیسائیت کی خوبیوں سے واقف ہیں اوراگر ہیں تو ان کا اظہار ضروری نہیںسمجھتے‘‘۔ اور وادی یرغمید میں سنگ قمر پر کھدے ہوئے چار طواسین نبوت کو دیکھتے بھی ہیں جن میں : ’’چار مشہور مذہبوں کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ بانیان مذہب گوتم بدھ‘ زرتشت‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد صلعم ہیں‘‘۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے؟ سوا اس کے کہ : دروغ گو را حافظ نہ باشد اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے کہ جناب کلیم الدین احمد کا ممدوح تو ایک جہل مرکب ہے جو اسلامی علوم و فنون اور اقدار و اشخاص کو ان سے مستفیض ہونے کے باوجود یا تو نظر انداز کرتا ہے یا ان کی تحقیر کرتا ہے۔ جبکہ اقبال ہر مذہب اور مکتب فکر کے محاسن اور ان کی عظیم شخصیتوں کے فضائل کا اعتراف و اعلان کرتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود دانتے کے مریدوں اور عقیدت مندوں نے جب ا س کی Comedyکو Divine کہہ دیات تو ان کے مقلد جناب کلیم الدین احمد نے بھی لندھور بن سعد ان کی داستان کو مقدس Divine تسلیم کر لیا اور دوسروں کی تخلیقات کو اس کے معیار سے جانچنے لگے۔ حالانکہ بجنوری کے اس خیال کا وہ مذاق اڑاتے رہے کہ: ’’دیوان غالب ہندوسان کی ایک الہامی کتاب ہے‘‘۔ جب کہ اقبال نے واقعتا زندگی کے حقائق و معارف کو بالکل آفاقی طور پر پیش کر کے انہیں اپنی عظیم شاعری میں زندہ و جاوید بنا دیا۔ مگر اس ادبی کارنامے کے باوصف جناب کلیم الدین احمد شعریت اور صداقت کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر تنقید کے نام تنقیص کا بازار گرم کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ’’ڈیوائن کامیڈی کا یہ نام دانتے کا تجویز کردہ نہیں ہے۔ اس نے اپنے آسمانی ڈراما کا نام فقط کامیڈیا رکھا تھا۔ لفظ ڈیوائن کا اضافہ اس کے مداحوں اور قدردانوں نے کیا۔ اس کتاب کے جس سب سے پہلے ایڈیشن کا نام ڈیوائن کومیڈی رکھا گیا وہ 1555ء میں شائع ہوا تھا۔‘‘ (ص 65 شرح جاوید نامہ از یوسف سلیم چشتی) گویا پیران نمی پر ندو مریدان ہمی پر انند پر عمل صرف مشرق میں نہیں ہے۔ مغرب میں بھی ہے۔ ایک مغربی شاعر کے مداحوں اور قدردانوں نے تو اس کی کومیڈی کو اس حد تک الہامی اور مقدس بنا دیا کہ وحی الٰہی سے ملا دیا (یہ سب معانی لفظ ڈیوائن میں مضمر ہیں) مگر ہمارے مغرب نواز ناقد کا الزام صرف اردو والوں پر ہے کہ وہ اپنی چیزوں کی مداحی کرتے ہیں یہاں تک کہ دیوان غالب کو ایک الہامی کتاب کہنے کی وجہ سے بچارے بجنوری آج تک طعنہ سن رہے ہیں: حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر آخر جنا ب کلیم الدین احمد نے جب اقبال اور دانتے کے موازنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اس سلسلے میں سیاروں اور ستاروں پر رصد لگانے سے بھی باز نہ آئے تو ڈیوائن کامیڈی کی وجہ تسمیہ بتانے سے انہوںنے کیوںپہلی تہی کی جبکہ اس کی ساری مداحی کومیڈی کو ڈیوائن ماننے پر مبنی ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ یورپ کے عیسائیوں نے دانتے کی کامیڈی کو ڈیوائن کیوں قرار دیا؟ کیا صر ف اس لیے کہ Here is God's Plenty (یہاں خدائی فرمانروائی ہے)؟ یا اس لیے کہ اس کتاب کی شاعری کلام الٰہی کی طرح شان دارہے؟ تصویر کی فراوانی اور جابجا شعریت کے عمدہ نمونوں کے باوجود کامیڈی کی یہ مداحی کہ وہ ڈوائن ہے کسی فنی خوبی پر مبنی نہیں ہے جس کی حیثیت سولہویں صدی کے ناقدوں کے لیے ثانوی تھی۔ خاص کر یورپ اور دنیائے مسیحیت میں چنانچہ ’’طربیہ‘‘ میں ’’خداوندی‘‘ کی صفت اس لیے دریافت کی گئی کہ اس میں عیسائی مذہب کے تصورات اور ان پر مبنی تاریخ کے جلوے پیش کیے گئے تھے۔ یہ بالکل اسی قسم کا دینیاتی کارنامہ تھا جیسا انگریزی کے اس مشہور مقولے سے ظاہر ہوتا ہے: Justifying the Ways of God to man اس فرق کے ساتھ کہ : Justifying the ways of a Christian God to man in history یعنی تاریخ میں انسان کے ساتھ خدائے مسیحیت کے طریقوں کا جواز مہیا کرنا۔ عیسائیوں کے نزدیک سولہویں صدی میں اس کارنامے کی اہمیت خاص کر اس لیے تھی کہ وہ اسلامی تصور حیات نظام معاشرت اور علوم فنون سے اس وقت تک بہت مرعوب تھے کہ اگرچہ ان کے خلاف سخت تعصب میں مبتلا تھے۔ لہٰذا جب دانتے نے دنیا و آخرت کے معاملات و شخصیات کی ایک ایسی تخیلی تعبیر پیش کی جس سے عیسائیت کے عقائد و اقدار کی حقانیت و فوقیت ظاہر ہوتی تھی تو مسیحی دنیا نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی تعریف میں اتنا مبالغہ کیا کہ جس چیز کو خود اس نے محض ایک کومیڈی قرار دیا تھا اسے ڈیوائن بنا دیا۔ اب ذرا اعتراض برائے اعتراض کی یہ تکنیک بھی ملاحظہ فرمائیے: ’’پھر اسلام کی تعلیم کرنے کے عوض ابوجہل کی فریاد رقم کرتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اسلام کے رموز وہ افغانی کی زبان سے بیان کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ یعنی خود ناقد کے لفظوں میں وجہ کچھ بھی ہو اور وجہ معقول وجہ موجود ہے ۔ اسلام کی تعلیم نہ صرف افغانی کی زبان سے پیش کی گئی ہے بلکہ پورا جاوید نامہ اس تعلیم سے پر ہے۔ پھر بھی تنقید کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی یہ کہ یہ حصہ کمزور ہے۔ اسے حذف کر دینا چاہیے اور اس سے کوئی کمی محسوس نہ ہو گی۔ ایسی تنقید اگر پوری کی پوری حذف کر دی جائے تو اقبالیات میں کوئی کمی محسوس نہ ہو گی۔ بقول جناب کلیم الدین احمد دانتے نے ڈیوائن کومیڈی کا نقشہ مرتب و منظم اور اپنے وقت کے لحاظ سے حکیمانہ Scientific طورپر بنایا تھا۔ اور اس کی تفصیلات منطقی بلکہ ریاضیاتی تعین کے ساتھ پیش کی تھیں لیکن اس سوال کا کیا جواب ہے کہ دانتے نے اپنے مذہب اور تمام مذاہب کی مسلمہ روایات کے خلاف اپنے خیالی سفر آخرت کا ایک بڑا حصہ افلاک کے بجائے زمین پر گزارا؟ جناب کلیم الدین احمد فرماتے ہیں: ’’غرض دانتے نے ایک عالی شان عمارت تعمیر کی ہے جس کی وسعت تحت الثریٰ سے عرش معلی تک ہے اور اس کے مختلف حصوں میں تناسب ہے‘‘۔ (ص 10) یہ عالی شان عمارت بالکل زمین بوس ہو جاتی ہے جب ہم غور کرتے ہیں کہ دوسری دنیا میں بھی کوئی تحت الثریٰ ہے ؟ پھر یہ کیا تناسب ہے جو تحت الثریٰ اور عرش معلی دونوں پر ایک ہی وقت میں محیط ہے؟ ایسی بلندی ایسی پستی تحت الثریٰ اور عرش معلی کا جو پیوند دانتے نے لگایا ہے وہ بداہتہً انمل ہبے جور ہے۔ دانتے اگر سیاروں کی سیر کر رہا ہے تو طبقات ارض میں کیسے داخل ہو جاتا ہے؟ جنت اور دوزخ زمین پر کہاںْ دانتے کے تخیلی سیاحت کسی سائنسی تصور کی بنیاد پر ہے یا کسی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر؟ جناب کلیم الدین احمد جیسا مغربی ادب کی مدلل مداحی اور غیر مدلل وکالت کرنے والا بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ ڈیوائن کامیڈی کو ایک مذہبی عقیدے کی بجائے کسی سائنسی تصور پر مبنی ہے۔ اس کے لیے کہ دانتے کے مسیحی محرک کے علاوہ حیات بعد موت کا کوئی بھی سفر لازماً مذہبی عقیدے پر مبنی ہے ورنہ بے چاری سائنس تو ابھی مسائل حیات سے ہی عہدہ برا نہیں ہو سکی ہے۔ پھر اگر یہ ایک مذہبی تصور اور شاعرانہ تخیل میں کوئی کلیم الدین احمد کسی دانتے کے منشا کے بالکل برخلاف سائنس کو داخل کرنے پر اڑ ہی جائے تو عقل سوال کرے گی۔ ’’کسی سائنسی نظا م میں خواہ وہ بطلیموس ہو یا کوپر نیکس کا اور اس کی بنیاد زمین ہو یا سورج سماوات اور ارض آسمان اور زمین کے قلابے کیسے ملائے جائیں گے‘‘؟ دانتے کو اگر افلاک کی سیر کرنا ہے تو خلائوں میں ہی پرواز کرے اور اگر طبقات ارض کا سراغ لگانا ہے تو سطح زمین پر یاز مین دوز غاروں ہی میں چہل قدمی کرے یہ تحت الثریٰ میں غوطہ لگا کر عرش معلی تک پہنچنا چہ معنی دارد؟ اس طرح کا ناہموار اور متضاد سفر متناسب کیسے ہو سکتا ہے؟ صرف اس لیے کہ دانتے صاحب نے نشہ تخیل کی ترنگ میں زمین و آسمان کی طنابیں کھینچ کر ملا دی ہیںْ یہ تو نرا تصوف اور وہ بھی سالک کا نہیں مجذوب کا تصوف ہوا۔ جو رسم و راہ منزل سے واقف نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ دانتے کا نقشہ سیاحت نہ تو نظام بطلیموس پر مبنی ہے نہ نظام کوپر نیکس پر نہ نظام مسیحیت پر بلکہ اسے نظام دانتے کہہ لیجیے۔ بے بنیاد مذہبیت اور دقیانوسی سائنسیت کا ایک معجون مرکب یا چوں چوں کا مربہ جس میں کچھ قاشیں زمین کی ہیں اور کچھ آسمان کی۔ ’’لیکن جس کا نظام ایسا ہو اس کی شاعری کیسی ہو گی۔ شاعری تن آسانی نہیں ہے شاعری دماغی کاہلی نہیں ہے جو شاعر معمولی جانے بوجھے Facts سے اس قدر غفلت برتتا ہے۔ اس کی شاعری سے بے لطفی کے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے‘‘۔ اور بالکل یہی الفاظ اس قسم کی تن آساں کاہلانہ اور غافلانہ تنقید کے متعلق بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں جس کا نمونہ جناب کلیم الدین احمد کی تنقید ہے ۔ بالخصوص وہ بے خبر اور بے لطف تنقید جو ’’اقبال… ایک مطالعہ‘‘ میں پیش کی گئی ہے ڈیوائن کامیڈی کے غیر عاقلانہ نقشہ سیاحت کے بعد اب ذرا جاوید نامہ کے نقشہ سیاحت پر ایک نظر ڈالیے: 1 نقشہ سیاحت سے پہلے دیباچہ کتاب اس مفکرانہ و شاعرانہ انداز میں مرتب ہوتا ہے: خیال من بہ تماشائے آسماں بودہ است بدوش ماہ و بہ آغوش کہکشاں بودہ است گماں مبرکہ ہمیں خاکداں نشیمن ماست کہ ہر ستارہ جہاں است یا جہاں بودہ است ان دو شعروں میں سائنس اور شاعری علم اور فن کی ترقیات کا عطر جس سحر آگیں اور فکر انگیز طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس کی ایک مثال بھی دانتے کی ڈیوائن کامیڈی سے نہیں پیش کی جا سکتی۔ دانتے کے کسی دو شعر کا موازنہ اگر ان دو شعروں کے ساتھ کر دیا جائے تو اقبال کی دولت فکر اور ثروت فن کے مقابلے میں دانتے کے تخیل اور شاعری کا افلاس ظاہر ہو جائے گا۔ جناب کلیم الدین احمد تواٹھارویں انیسویں صدی کے انگریز نقادوں کے خوشہ نشین ہیں کیوں نہیں اقبال اور دانتے کے موازنے میں میتھیو آرنلڈ کے Touch Stone Method کا استعمال کرتے ہیں؟ اس طریق نقد کے مطابق اعلیٰ قسم کے مفرد اشعار کو نمونہ بن کے طورپر سامنے رکھ کر انہی کے معیار سے شعری تخلیقات کی قدر و قیمت کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ 2 اس کے بعد مناجات ہے جس میں شکوے اور وہ فن کارانہ اندازہے جس کے لیے اقبا ل مشہور ہیں اور اس فن میں دنیا کا کوئی شاعر ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا واقعہ یہ ہے کہ شاعری میں خدا سے کلام کرنے کا جو اسلوب اقبال نے نکالا ہے اس کی لطافت اور بلاغت صحیح معنے میں ایک الہام ربانی کی شان رکھتاہے اور اگر کسی انسان کے کلام شاعری میں ڈیوائن کہنا معقول ہوتا تو وہ سب سے پہلے اقبال کا ہی کلام ہوتا۔ چند بلیغ اشعار ملاحظہ ہوں: اے خوش آں روزے کہ ازیام نیست صبح او رانیم روز و شام نیست اے خدا روزی کن آں روزے مرا وا رہاں زیں روزے سوزے مرا روشن از نورش اگر گردو رواں صوت راچو رنگ دیدن می تواں غیب ہا ازتاب او گردد حضور نوبت او لایزال وے مرور اے ترا تیرے کہ مارا سینہ سفت حرف ادعونی کہ گفت و با کہ گفت روے تو ایمان من قرآن من جلوہ داری دریغ از جان من از زیان صد شعاع آفتاب کم نمی گردد متاع آفتاب دانتے ایسے اشعار کہہ سکتا ہے؟ وہ معرفت وہ شعریت کے ایسے کامل امتزاج پر قادر ہے؟ اگر ہو تو اس کے چند ہی ایسے اشعار پیش کیجیے! 3 دیباچہ و مناجات کے بعد تمہید آسمانی ہے آسمان زمین کو طعنہ دیتا ہے: خاک اگر الوند شد جز خاک نیست روزن و پایندہ چوں افلاک نیست زمیں اپنے ’’ورد بے نوری‘‘ کا شکوہ خدا سے کرتی ہیں جواب میں ندا آتی ہے: اے امینے ! از امانت بے خبر غم مخور اندر ضمیر خود نگر شستہ از نوع جاں نقش امید نور جاں از خاک تو آید پدید عقل آدم بر جہاں شب خوں زند عشق او بر لا مکاں شب خوں زند کسی آدم خاکی کو سیاحت آسمانی پر ابھارنے کے لیے اس سے بہتر اور زیادہ فنکارانہ تمہید کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ 4 اب تمہید زمینی ہے تاکہ آمادہ سیاحت انسا ن کو ایک عظیم الشان خلائی سفر کے لیے ذہنی طورپر بالکل تیار کر دیا جائے۔ یہ سفر درحقیقت ’’عروج آدم خاکی‘‘ کا تخیلی مظاہر ہ ہے۔ اقبا ل نے ’’بال جبریل‘‘ میں کہا تھا: باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر اور: عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے عروج آدم خاکی کا یہ کائناتی تصور معراج النبیؐ کے عظیم الشان اور بے مثال تاریخی واقعہ سے ماخوذ ہے اور اسی کی طرف خاص طور سے اشارہ کرتا ہے۔ لہذا فطری اور منطقی طور پر اس موقع پر اسرار معراج کی تشریح ضروری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اقبال اپنے رہنمائے سفر مولانا رومی کی زبان سے یہ تشریح کراتے ہیں۔ رومی کی روح نہایت ڈرامائی طریقے پر نمودار ہوتی ہے اور ایک حسین شاعرانہ تصویر کھینچ جاتی ہے: روح رومی پردہ ہارا بر درید از پس کہ پارہ آمد پدید یہ ظہور اس پس منظر میں ہوا کہ اقبال رومی کی مشہور غزل گنگنا رہے تھے۔ (’’بکشائے لب کہ قند فراوانم آرزو ست‘‘) جس سے ایک خاص کیفیت اور فضا پیدا ہو گئی اور اسی عالم میں آفتاب غروب ہو گیا۔ شام کا وقت دریا کا کنارہ اپنے آپ سے مکالمہ خود کلامی میں جاودانی کی آرزو اس کے بعد کا منظر کی تبدیلی اور ایک معروف صاحب معرفت کا ڈرامائی ظہور۔ یہ اقبال کی وہی پسندیدہ اور سحر آفرین تکنیک ہے جو انہوںنے خضر راہ میں اختیار کی تھی۔ اس کے بعد رومی اور اقبال کے درمیان اسی طرح مکالمہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس طرح ’’خضر راہ‘‘ میں اقبال خواجہ خضر کے درمیان ہوا تھا۔ موقع اور مقصد کی مناسبت سے اقبال رومی سے سوالات کرتے اور رومی جوابات دیتے جاتے ہیں چند بصیرت افروز اور سرور انگیز اشعار ملاحظہ ہوں: چیست جان؟ جذب و سرور و سوز و درد ذوق تسخیر سپہر گرد گرد چیست تن؟ بارنگ و بو خوکردن است با مقام چار سو خو کردن است از شعور است ایں کہ گوئی نزد و دور چیست معراج؟ انقلاب اندر شعور انقلاب اندر شعور از جذب و شوق دارہاند جذب و شوق از تحت و فوق ایں بدن با جان ما انباز نیست مشت خا کے مانع پرداز نیست دانتے اور کلیم الدین احمد اس ادراک و عرفان اورجذب و مستی کا شعور اور فہم اگر نہیں رکھتے تو یہ کچھ زیادہ تعجب کی بات نہیں ۔ 5 اس کے بعد افلاک کی سیر شروع ہوتی ہے۔ اور اس سیاحت کی پہلی منزل فلک قمر ہے۔ چاند کے ہولناک کوہساروں کی تصویر نظر آتی ہے۔ قمر کے ایک غار میں جہاں دوست (وشوامتر) سے ملاقات ہوتی ہے اس کا سراپا بیان کر کے اس کے کردار کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں۔ پھر وادی یرغمید میں پہنچتے ہیں۔ یہ وادی طواسین ہے جس میں طواسین رسل نظر آتی ہیں۔ ان طواسین میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ گوتم بدھ زرتشت اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات ہیں یہ آفاقیت وسعت علم اور وسعت نظر دانتے جیسے تنگ نظر تنگ دماغ اور کم علم لوگوں کو سرحد تخیل سے پرے ہے۔ 6 فلک عطارد میں جمال الدین افغانی اور سعید عالم پاشا سے ملاقات ہوتی ہے۔ افغانی دین و وطن کا صحیح مفہوم اور فرق بتاتے ہوئے ملوکیت اور اشتراکیت دونوں کا پردہ چاک کرتے ہیں: زندگی ایں را خروج آں را خراج درمیان ایں دوسنگ آدم زجاج شعر و حکمت کا کیسا معنی خیز اور پرلطف امتزاج ہے: افغانی محکمات عالم قرآنی کی وضاحت کرتے ہوئے خلافت آدم حکومت الٰہی ارض ملک خداست اور حکمت خیر کثیر است جیسے بنیادی تصورات پر روشنی ڈالتے ہیں‘ اس کے بعد ملت روسیہ کو پیغام دیتے ہیں کہ قرآن کے نقطہ نظر سے ان موضوعات پر بصیرت افروز بحث کرتے ہیں جن کی اہمیت اشتراکی تصور حیات میں بہت زیادہ ہے۔ سعید علیم پاشا مشرق و مغرب کے فرق و اختلاف کو واضح کرتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ اب مغرب کا شعلہ ’’نم خوردہ‘‘ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ مصطفی کمال کی نام نہاد اصلاحات کا پول کھول کر ترکوں کو پیغام دیتے ہیں کہ ایک جہان تازہ پیدا کرنے کے لیے بوسیدہ اور فرسودہ مغربی تصور حیات کی بجائے اپنے ضمیر اور قرآن کی طرف رجوع کریں۔ 7 فلک زہر ہ میں خدایان اقوام کہن کی مجلس نظر آتی ہے اورانکشاف ہوتا ہے کہ قدیم جاہلیت کے بت دور حاضر کی جدید جاہلیت میں اپنی زندگی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ اس دور میں کوئی بت شکن خلیل اللہ نہیں ہے۔ مادہ پرستی کی تاریک فضائے ٹوٹے اور گلے ہوئے پرانے بتوں کے حوصلوں کر دیے ہیں اور وہ سر خوشی میں نغمہ ریز ہیں ۔ عصر حاضر میں الحاد و دہریت کے بڑھتے ہوئے اثرات کی اس سے بہتر شاعرانہ فنی و جمالیاتی اور استعاراتی و علاماتی تعبیر نہیں ہو سکتی۔ کوئی دانتے کیا اس سے بہتر تمثیل کسی واقعے یا تخیل کے اظہار کے لیے پیش کر سکتاہے؟ اسی جگہ ایک طرف عہد قدیم کے فرعون اور دوسری طرف دور جدید کے کیچز کی روحوں کو یکجا مبتلائے عذاب دکھایا گیا ہے۔ اپنے اپنے وقت کے دونوں شداد غرقاب ہوئے تھے لہذا ان کے حال زار کے مشاہدے کے لیے شاعر زہرہ کے ایک دریا کی تہہ میں اترتا ہے۔ اس منظر کی تصویر کشی دنیائے ادب میں شاعری اور تمثیل کا ایک معیار اعلیٰ ترین معیار پیش کرتی ہے۔ اسی موقع پر مہدی سوڈانی کی روح بھی نمودار ہوتی ہے اورافریقہ و عرب کو ایک ولولہ انگیز پیغام دیتی ہے۔ 8 فلک مریح میں شاعر کی ملاقات ایک جہاں گشت حکیم مریخی سے ہوتی ہے جو دنیا کے ممالک کی سیر کر چکا ہے اورقوموں کے احوال سے واقف ہے۔ حکیم اور شاعر کے درمیان تقدیر و تدبیر کے مسئلے پر مکالمہ ہوتاہے۔ اس فلک کی سب سے دلچسپ شخصیت نبیہ مریح ہے جو درحقیقت آزادی نسواں کی بے مہار تحریک کی علم بردار ہے اور مساوات کے نام پر مردوزن میں تفرقہ پیدا کر کے سماج کے اندر بے پردگی اور بے حیائی پھیلانا چاہتی ہے اور اس طرح پورے نظام معاشرت کو تباہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ مغربی معاشرے میں اس مرگ امومت کی ایک نہایت اثر انگیز اور عبرت خیز تمثیل ہے جس کو اقبال آج کے متمدن سماج کی سب سے بڑی لعنت اور موجودہ عالم انسانیت کے لیے سب سے بڑ ا خطرہ سمجھتے تھے۔ یہ اقبال کے انہی خیالات کی تجسیم ہے جو انہوںنے خاص کر ضرب کے باب ’’عورت‘ ‘ میں ظاہر کیے ہیں پرفریب نبیہ مریح کی کردار نگاری ادبیات عالم میں اپنی مثال آپ ہے ۔ 9 فلک مشتری میں حلاج‘ غالب اور قرۃ العین کی روحیں متشکل ہوتی ہیں۔ منصور اپنے مشہور تاریخی نعرے انا الحق کی ایک معقول تشریح کرتا ہے۔ غالب رحمتہ اللعالمین کی حقیقت اپنی ایک مثنوی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں: ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہ للعالمینے عالم بود اس سلسلے میں حلاج بھی شریک گفتگو ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ: ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آنکہ از خاکش بروید آرزو یاز نور مصطفیٰ اور ابہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفیٰ است حلاج موجودہ زمانے کے اہل تصوف پر بھی تنقید کرتا ہے۔ یہیں خواجہ اہل فراق ابلیس اپنی پوری شان سے نمودار ہو کر آدم کی خلقی کمزوریوں اور عملی کوتاہیوں کا شکوہ خدا سے کرتا ہے اور درخواست کرتا ہے: اے خدا یک زندہ مرد حق پرست لذتے شاید کہ یابم در شکست 10 فلک زحل میں ہندوستان کی سیاست زیر بحث آتی ہے اور جعفر و صادق جیسے ملک وملت کے غدار سامنے لائے جاتے ہیں: جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ آدم ننگ دیں ننگ وطن پھر روح ہندوستان حور پاک زاد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور ملک کے موجودہ حالات پر نالہ و فریاد کرتی ہے۔ اس موقع پر اہل ملک کے نام ایک پیغام بھی نشر کیا جاتا ہے۔ اس سیارے کا قلزم خونیں جس میں خاص کر غداران قوم و وطن کی ارواح رذیلہ غوطہ زن اور مبتلائے عذاب ہیں نہایت ہولناک اور عبرت انگیز ہیں۔ 11 آں سوئے افلاک کی طرف پرواز کرتے ہوئے نیٹشے کے مقام اور پیغام پر تبصرہ کیا گیاہے جس میں اس مجذوب فرنگی کو اپنے وقت اور ماحول کا منصور بتاتے ہوئے واضح کیا گیاہے کہ اگرچہ اس کا جذبہ صحیح تھا مگر ا س کی فکر غلط ہو گئی۔ اس لیے کہ اسے منصور کی طرح کوئی شیخ احمد سرہندیؒ اسلامی توحید کی تعلیم دینے کے لیے نہ ملا۔ یہ جرمنی فلسفی کلیسا کے بت خانے کو توڑ کر ’’لا‘‘ کی منزل تک تو اپنے واردات قلبی سے پہنچ گیا۔ مگر اسلامی تجلیات سے بے بہرہ مند نہ ہونے کے سبب ’’الا‘‘ کی منزل مقصود تک رسائی نہ حاصل کر سکا۔ اور اس طرح اس کا فلسفہ منفی اور تخریبی ہو کر رہ گیا۔ مثبت اور تعمیر نہ بن سکا۔ اگر وہ انسانی خودی اور فوق البشر کے تصور کے ساتھ ساتھ خالق بشر کے مقام کبریا سے واقف ہو جاتا تو ایک نئی اور بہتر دنیا کا پیغام دے سکتا تھا۔ اس کے بعد ’’حرکت بجنت الفردوس‘ ہوتی ہے جہاں پہنچ کر زمان و مکان اور جنت و جہنم کی اصلیت و حقیقت پر سے پردہ اٹھایا جاتا ہے ۔ یہاں قصر شرف النساء میں ایک مثالی مسلم خاتون کا کاردار بہت پراثر اور خیال انگیز طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ خاتون اپنی زندگی میں ہر روز ایک چبوترے پر بیٹھ کر ایک مرصع تلوار اپنے پہلو میں رکھ کر قرآن حکیم کی تلاوت کیا کرتی تھیں اور ان کی موت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق یہی دو چیزیں ان کے ساتھ قبر میں دفن کی گئیں اس تمثیل کا علامتی پیغام یہ ہے: مومناں را تیغ باقرآں بس است تربت مارا ہمیں ساماں بست است آگے بڑھ کر کشمیر کے دو عظیم فرزندوں امیر کبیر سید علی ہمدانی (جنہیں جناب کلیم الدین احمد نے ناواقفیت کے سبب شاعروں کے زمرے میں شامل کر لیا ہے ص 31) اور ملا طاہر غنی کشمیری سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس موقع پر شاہ ہمدان فقیری اور شاہی کی اصلیت اور بصیر ت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ غنی اور ہمدانی کے ساتھ مکالمے سے کشمیر کی تاریخ اور سیاست کے نہایت فکر انگیز جلوے نظر آتے ہیں۔ تعجب ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے ’’امیر کبیر‘‘ شاہ ہمدان سید علی ہمدانی کو غنی اور بھر تری ہری کے ساتھ شاعر کیسے قرار دے دیا؟ ’’…اور جو شعرا ہیں سید علی ہمدانی‘ غنی کشمیری بھرتری ہری …‘‘ (ص 31) کیا جناب کلیم الدین احمد نے جاوید نامہ پڑھا نہیں یا سمجھا نہیں۔ اس لیے کہ متعلقہ سرخیوں پھر ان کے تحت اشعار سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ’’شاہ ہمدان‘‘ کون ہے شاعر یا امیر کبیر۔ بہرحال اب ایک صحبت با شاعر ہندی بھرتری ہری گرم ہوتی ہے اس کے بعد حرکت بہ کاخ سلاطین شرق ہوتی ہے جہاں نادر شاہ ایرانی ‘ احمد شاہ ابدالی اور سلطان شہید ٹیپو جلوہ نما ہوتے ہیں۔ شاعر ’’زندہ رود‘‘ کے شاعرانہ نام سے ایرانیوں کے مغرب پرستانہ حجابات پر نادر شاہ کے استفسار کے نتیجے میں تنقید کرتا ہے۔ اور ان کی غیر اسلامی وطن پرستی اور عجمیت کی شدید مذمت کرتاہے۔ ابدالی ایشیا میں افغانوں کی سیاسی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہیں تلقین کرتاہے کہ ترکوں کی طرح مصطفیٰ کمال کے غار تباہی میں گر کر اپنی ملی خودی نہ کھو بیٹھیں اور اپنے قومی استقلال کو باقی رکھیں سلطان ٹیپو کے سامنے شاعر ہندوستان کے حالات بیان کر کے ایک نئی بیداری کا ذکر کرتا ہے۔ سلطان زندہ رود کے ذریعے رود کاویری کو پیغام دیتا ہے اور موت و حیات کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فلسفہ شہادت پر ندرت آمیز اور فکر انگیز خیالات کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد ’’حضور‘‘ کی منزل آتی ہے تجلی ذات کے مباحث اٹھتے ہیں علم و عشق کے حقائق بیان کیے جاتے ہیں پھر ندائے جمال آتی ہے زندہ رود اپنی التجائیں بارگاہ سرمدی میں پیش کرتا ہے۔ شاعر خاکدان عالم سے نکلنا چاہتا ہے: ایں چنیں عالم کجاشایان تست آب و گل راغے کہ بردامان تست ندائے جمال تنبیہہ کرتی ہے: زندہ؟ مشتاق شو خلاق شو ہمچو ماگیر ندہ آفاق شو! ہر کہ اورا قوت تخلیق نیست پیش ماجز کافر و زندیق نیست اسی عالم میں ’’تجلی جلال‘‘ کی بجلی سی گرتی ہے: نا گہاں دیدم جہان خویش را آں زمین و آسمان خویش را غرق در نور شفق گوں دیدمش سرخ مانند طبرخوں دید مش زاں تجلی ہا کہ در جانم شکست چوں کلیم اللہ فتادم جلوہ مست یہاں اقبال کا معراج نامہ جدید ختم ہو جاتا ہے ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل بننے کا راز پا چکا ہے۔ عروج آدم خاکی کا نسخہ کیمیا آںسوئے افلاک سے لے کر اقبال جب اپنی زمین پر واپس آتے ہیں تو خطاب بہ جاوید کر کے سخنے بہ نذاد نو رقم کرتے ہیں جس میں حالات حاضرہ کی دردناکی اور مستقبل کی ہولناکی کا نہایت پر اثر اور جان سوز نقشہ کھینچ کر ایسی بصیرت افروز نصیحتیں کی گئی ہیں کہ اگر نئی نسلیں ان پر غور اور عمل کریں تو عصر حاضر کی آتش نمرود سے بھی انداز گلستاں پیدا ہو سکتا ہے اور فرعون و سامری وقت کے سارے طلسم ٹوٹ کر بنی نوع انسان کے ارض موعود تک پہنچنے کی سبیل نکل سکتی ہے: دین سراپا سوختن اندر طلب انتہایش عشق و آغازش ادب آبروئے گل زرنگ و بوئے است بے ادب بے رنگ و بو بے آبرو ست ستر زن یا زوج یا خاک لحد ستر مرداں حفظ خویش از یار بد حرف بدرا برلب آدردن خطاست کافر و مومن ہمہ خلق خدا ست آدمیت احترام آدمی با خبر شو از مقام آدمی آدمی از ربط و ضبط تن بہ تن بر طریق دوستی گامے بزن بندہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق کفر و دیں راگیر در پہنائے دل دل اگر بگریزد از دل وائے دل گرچہ دل زندانی آب و گل ست ایں ہمہ آفاق آفاق دل ست رقص تن در گردش آرد خاک را رقص جاں برہم زند افلاک را علم و حکم از رقص جاں آید بدست ہم زمیں ہم آسماں آید بدست فردا زوے صاحب جذب کلیم ملت ازوئے وارث ملک عظیم رقص جاں آموختن کارے بود غیر حق را سوختن کارے بود تاز نار حرص و غم سوزد جگر جاں برقص اندر نیاید اے پسر اے مرا تسکین جان نا شکیب تو اگر از رقص جاں گیری نصیب سر دین مصطفیٰؐ گویم ترا ہم بہ قبر اندر دعا گویم ترا ٭٭٭ 4 ’’جاوید نامہ‘‘ کی یہ منصوبہ بندی اپنی جگہ بالکل مرتب مربوط اور منظم ہے اور جس مقصد کے لیے عالم جاوید کی طرف شاعر نے پرواز کی تھی وہ اس سے پورا ہو جاتا ہے۔ یہ ہر جہت سے ایک کامیاب موثر عظیم الشان اور ادبیات عالم میں فقید المثال تخلیق شاعری ہے۔اس میں نہ صرف اقبال اپنے عروج پر ہیں بلکہ یہ مشرقی شاعری کا نقطہ کمال اور عالمی اد ب کی معراج ہے۔ اپنے مضامین کی وسعت موضوعات کے تنوع کرداروں کی رنگارنگی مناظر کی دل کشی افکار کی گہرائی اشعار کی ساحری‘ تصورات کی آفاقیت اور مقاصد کی رفعت کے لحاظ سے دنیا کی کوئی شعری تخلیق اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ یہ وہ شاعری ہے جو دانتے کے بس کی بات نہیں اس حقیقت کے باوجود اردو کے مغربی نقاد جناب کلیم الدین احمد کے تنقیدی (یا بہتر لفظ میں غیر تنقیدی )لطائف و ظرائف ملاحظہ فرمائیے: ’’آپ نے دیکھا کہ دانتے سفر کرتا ہے تو وہ راستے سے بھی واقف ہے اور اپنی منزل سے بھی ۔ اقبال کا سفر بے سنگ و میل ہے اوریہ اس لیے کہ ان میں مرئی تخیل کی کمی تھی یا پھر یہ کہ وہ کاوش سے گھبراتے تھے اور وہ شاید جانتے تھے کہ ان کے قارئین بھی ان کے سفر کو Visualize نہیںکریں گے ۔ کیونکہ یہاں تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے۔ اسی لیے کوئی یہ سوچتا بھی نہیں کہ اقبال کا نظریہ کائنات کیا تھا‘‘۔ (ص 50) ’’اقبال کے پیش نظر کائنات کا کوئی واضح نقشہ نہ تھا اور ان کا تخیل پرواز کرتاتھا تو اسے یہ خبر بھی نہ ہوتی تھی کہ وہ بلندی کی طرف جا رہا ہے یا نیچے کی طرف اور جس طرح اقبال کو قصوں سے یعنی انسانی تجربوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی اور جس طرح انہیں کردار نگاری سے کوئی واقفیت نہ تھی اور ان سب باتوں میں وہ دانتے کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے اسی طرح… جاوید نامہ میں وہ شاعری کی طرف توجہ بہت کم کرتے تھے۔ جو مثالیں میں نے دی ہیں اور یہ تھوڑی ہیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دانتے کا تخیل ایک بحر ذخار ہے لیکن اس پر دانتے کو پورا پورا قابو بھی ہے اور اس بحر ذخار کے مقابلے میں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں اقبال کا تخیل ایک جوئے کم آب ہے ۔ اسی لیے ’’جاوید نامہ‘‘ میں وہ وسعت وہ تنوع وہ رنگینی ‘ وہ زرینی و ہ نور کی ضیا باری اور وہ ظلمت کی ہیبت ناک تاریکی نہیں جو ڈیوائن کومیڈی میں ہے‘‘۔ (ص 91-92) ’’اقبال کے پیش نظر کائنات کا کوئی واضح نقشہ نہ تھا اور ان کا تخیل پرواز کرتاتھا تو اسے یہ خبر بھی نہ ہوتی تھی کہ وہ بلندی کی طرف جا رہا ہے یا نیچے کی طرف اور جس طرح اقبال کو قصوں سے یعنی انسانی تجربوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی اور جس طرح انہیں کردار نگاری سے کوئی واقفیت نہ تھی اور ان سب باتوں میں وہ دانتے کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے اسی طرح… جاوید نامہ میں وہ شاعری کی طرف توجہ بہت کم کرتے تھے۔ جو مثالیں میں نے دی ہیں اور یہ تھوڑی ہیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دانتے کا تخیل ایک بحر ذخار ہے لیکن اس پر دانتے کو پورا پورا قابو بھی ہے اور اس بحر ذخار کے مقابلے میں جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں اقبال کا تخیل ایک جوئے کم آب ہے ۔ اسی لیے ’’جاوید نامہ‘‘ میں وہ وسعت وہ تنوع وہ رنگینی ‘ وہ زرینی و ہ نور کی ضیا باری اور وہ ظلمت کی ہیبت ناک تاریکی نہیں جو ڈیوائن کومیڈی میں ہے‘‘۔ (ص 91-92) ’’ یہ تھے جہنم کے کچھ مناظر جن کے سامنے اقبال کے دو منظر مفلس رشتہ داروں جیسے نظر آتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ جاوید نامہ میں کوئی تنظیم نہیں۔ ایک جہنمی منظر زہرہ میں ہے اور دوسرا زحل میں دانتے میں ایک تنظیم ہے جو بالکل منطقی ہے۔ جس میں بے ترتیبی کا کوئی امکان نہیں ۔ اس کے علاوہ دانتے کی منظر نگاری میں وہ واقفیت اور وہ جزئیات ہے جو اقبال کے بس کی بات نہیں۔ میں نے صرف چند قصے ‘ چند کردار ‘ چند مناظر پیش کیے ہیں اگر آپ ڈیوائن کومیڈی کا تفصیلی مطالعہ کیجیے۔ تو آپ کو اقبال کے تخیل کی مفلسی کا زیادہ احساس ہو گا‘‘۔ (ص 71) ’’جاوید نامہ‘ ‘ میں نہ تو جہنم ہے اور نہ المطہر… دانتے تو جہنم کا تفصیلی جغرافیہ پیش کرتا ہے…‘‘ (ص 63) ’’اقبال جنت الفردوس سے بہ آسانی عرش معلیٰ پر پہنچ جاتے ہیں اور جو دیکھتے ہیں اس کا چند لفظوں میں بیان کر دیتے ہیں۔ دانتے مختلف تجلیوں سے گزرتا ہوا عرش معلی تک پہنچتا ہے اورجو جلوے وہ عالم بالا کے سفر میں دیکھتا ہے ان کا کبھی چند لفظوں میں کبھی بالتفصیل بیان کرتا ہے اور ان تجلیوں کو دیکھ کر پھر وہی احساس ہوتا ہے کہ اقبال کا تخیل مفلس تھا‘‘۔ (ص 82) ’’اسی طرح اقبال انسان دوست ہوں لیکن انہیں زید ‘ عمر‘ بکر سے کوئی دل چسپی نہیں۔ سوئفٹ نے کہا تھا کہ وہ Tom, Dick اور Harry سے محبت کرتا ہے لیکن اسے انسان سے نفرت ہے۔ اقبال کو انسانی تجربوں کے امکانات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جس کے بغیر بزرگ شاعری ‘ اچھی شاعری یا یوں کہیے کہ شاعری ممکن نہیں ۔ دانتے میں یہی خوبی ہے جو اقبال میں نہیں ہے‘‘۔ (ص 50) ’’بس انہی چار سطروں میں پوری ٹریجڈی کا بیان ہے۔ Siena نے مجھے بنانا اور Maremma نے مجھے مٹایا۔ یہ شاعری ہے جو اقبال کے بس کی بات نہیں‘‘۔ ’’یہ مثالیں بطور نمونہ از خروارے تھیں۔ اقبال کو انسانی تجربوں کے امکانات سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اور نہ انسانی املیوں سے بہت سی وجہوں میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری جوئے کم آب ہو کر رہ گئی ۔ اب کرداروں پر نظر ڈالیے۔ اقبال کے ’’جاوید نامہ‘‘ میں زیادہ انسانی کردار ہیں اور کچھ فوق فطرت ہستیاں ہیں‘‘۔ (ص 30) ’’… نادر ابدالی اور سلطان شہید سے بھی باتیں ہی باتیں ہیں نہ تو ہم کسی کی جان دار تصویر دیکھتے ہیں اور نہ ان کے کرداروں کی خصوصیات اجاگر ہوتی ہیں‘‘۔ (ص 31) ’’…لیکن ان سبھوں سے زیادہ دل چسپ کردار نبیہ مریخ کا ہے وہ عورتوں کی آزادی کا حامی ہے… یہ ایک جان دار کردار ہے اقبال اسے پسند کریں یا نہ کریں… ایک ابلیس کا کردار ہے جس سے اقبال کو ہمیشہ سے ہمدردی رہی ہے‘‘۔ (ص 32) ’’زروان کوئی کردارنہیں وہ روح زمان و مکاں ہے لیکن اس کا بیان رنگین و شاعرانہ ہے‘‘۔ (ص 33) ’’…یہی رنگینی اور شعریت سروش کے بیان میں بھی ہے‘‘۔ (ص 33) ’’… یہ تھے اقبال کے کردار۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں زیادہ اقبال کے Mouth Pieceتھے کچھ سپاٹ اور غیر دلچسپ تھے ۔ نبیہ مریخ اور ابلیس دل چسپ تھے اور حکیم مریخی زروان اور سروش کا رنگین اور شاعرانہ بیان ہے‘‘ ۔ (ص 34) ’’چند انسانوں کے Portraits کو لیجیے ‘ ان کی فراوانی ایسی ہے کہ چند نمونوں پر قناعت نہ کی جائے تو یہ مقالہ ختم نہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ دانتے نے روما اور یونان کی تاریخ کی کامل ورق گردانی کی ہے۔ اسی لیے تصویروں کی کمی نہیں‘‘۔ (ص 41) ’’Lapia کی زندگی کا چار صفحوں میں خلاصہ ایسا ہے جس کی مثال مشکل سے کسی اور شاعر میں ملے گی‘‘۔ (ص 51) ’’جاوید نامہ ‘‘ میں نہ تو کوئی ایسی کردار نگاری ہے اور نہ المیہ قصے ہیں۔ (ص 54) ’’آپ نے اقبال کی جنت الفردوس دیکھی اور آپ نے دانتے کی جنت ارضی بھی دیکھی۔ ظاہر ہے کہ اقبال نے صرف چند روایتی جزئیات بیان کرنے پر اور وہ بھی چند شعروں پر قناعت کی ہے۔ اس کے مقابلے میں دانتے کی جنت ارضی زیادہ واضح ‘ زیادہ حقیقی‘ زیادہ ٹھوس اور زیادہ شاعرانہ ہے تکرار کی ضرورت نہیں لیکن اس کے بیان میں دانتے نے اپنے خواس خمسہ سے کام لیا ہے …پیش کش کا یہ ڈرامائی انداز اقبال کو نہیںآتا… آپ کو تمثیل سے کوئی دلچسپی نہ ہو پھر بھی آپ اس رنگین و متحرک شعری تصویر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اقبال اس قسم کی کوئی تصویر پیش نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ باتیں کر سکتے ہیں۔ وہ وطنیت کی خرابیاں بتا سکتے ہیں‘ اشتراکیت و ملوکیت کی مذمت کر سکتے ہیں اور وہ خلافت ازم حکومت الٰہی‘ ارض ملک خداست اور حکمت خیر کثیر است کے رموز بیان کر سکتے ہیں لیکن انہیں شاعری سے کوئی دل چسپی نہیں۔ اور Beatrice کی تصویر جیسی کوئی چیز اقبال میں نہیںملتی‘‘۔ (ص 95-96) ’’ظاہر ہے کہ ہر مقا م پر دانتے کی برتری ظاہر ہوتی ہے ۔ کیونکہ دانتے دنیا کا ایک بہترین شاعر ہے اور وہ اپنے مقصد سے مجبور ہو کر شعریت سے کنارہ کش نہیں ہو جاتا یہ نہیں کہ دانتے میں کوئی فلسفہ نہیں یا اس کا کوئی پیغام نہیں‘ یا اسے کچھ کہنا نہیںلیکن وہ شعریت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وہ اول اور آخر شاعر ہے بڑا شاعرہے‘ دنیا کے بزرگ ترین شاعروں میں اس کا شمار ہے‘‘۔ اس کے بعد George Santayana کا ایک طویل اقتباس انگریزی میں پیش کر کے جناب کلیم الدین احمد بڑے اعتماد کے ساتھ فرماتے ہیں : ’’کیا آپ اقبال کے ’’جاوید نامہ‘‘ کے متعلق یہ باتیں کہہ سکتے ہیں‘‘ (ص 99) اس سے قبل ایک موقع پر ٹی ایس ایلیٹ کا بھی طویل اقتباس انگریزی میں ڈیوائن کومیڈی کے لیے اپنی مداحی کی تائید میں پیش کر چکے ہیں۔ (ص 90) اس قسم کی بے محابا بے تحاشا بے موقع و محل ‘ متضاد‘ لغو اور بے مغز تنقیدی فقرہ بازیوں کو پڑھ کر بے اختیار یہ شعر یا د آتا ہے: بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کوئی اور کیا سمجھے گا ‘ شاید جناب کلیم الدین احمد ہی ہوش میں آنے پر اپنی بدحواسی کے ایسے مظاہروں کو سمجھ نہ پاتے ہوں گے۔ ۔ غالباً وہ بعض جدیدیوں کے اس قول پر تنقید میں بھی عمل پیرا ہیں کہ وہ اپنے ہی لیے یعنی صرف اپنے کسی جذبے کی تسکین کے لیے لکھتے ہیں‘ لہٰذا اپنی باتوں کی سمجھ میں وہ قارئین کے اشتراک کی پرواہ نہیں کرتے اور مخاطب کے رد عمل سے بالکل بے فکر ہو کر جو جی میں آتا ہے‘ بے سمجھے بوجھے لکھتے چلے جاتے ہیں۔ اور جب محسوس کرتے ہیں کہ وہ شاید اردو والے ان کے اشارات پر اعتماد و اعتبار نہیںکریں گے تو فوراً انگریزی کے نامور نقادوں کی سند لے آتے ہیں۔ تاکہ اگر غور و فکر سے نہیں تو مرعوب ہی ہو کر لوگ کسی طرح ان کی بات مان لیں۔ جب اس سے بھی تسکین نہیں ہوتی تو ایک ہی بات کو گھما پھرا کر بار بار دہراتے ہیں۔ اور لطیفہ یہ ہے کہ کہتے بھی جاتے ہیں: ’’اس کی تصویر آپ دیکھ چکے لیکن تکرار کے باوجود ا س میں ایک حصہ آپ کو پھر سناتا ہوں‘‘۔ (ص 51)۔ تنقید نہیں ہوئی داستان گوئی ہو گئی! پتہ نہیں جناب کلیم الدین احمد کو قارئین کے حافظے پر بھروسہ نہیں یا اپنے ذہن پر اعتماد نہیں۔ شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ تمام ادعاء تحکم اور تمرد کے باوجود ہمارے عظیم نقاد سخت احساس کمتری میں مبتلا ہیں‘ جسے وہ ادب کے مقابلے میں کبھی اپنی اور کبھی مغربی ادبا ناقدین کی برتری کا اظہار کر کے Camouflage یا Purgate یا Sublimate کرتے ہیں۔ دانتے اور اقبال کے موازنے میں جناب کلیم الدین احمد کی ساری تنقید کا ماحصل اورمحور یہ ہے کہ اقبال چونکہ دانتے کی طرح تمثیل نگاری نہیں کرتے اور اپنی شاعری کے لیے اطالوی شاعر سے بالکل مختلف محرکات رکھتے ہیں پھر ان کا اسلوب سخن بھی اطالعی سے جداگانہ ہے۔ لہٰذا وہ بحیثیت شاعر دانتے کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی غیر جانبدار اور سمجھ دار شخص ناقد کے اس موقف پر غور کرتے گا تو اسے سخت حیرت ہو گی۔ کہ جو شخص بار بار منطقیت اور معقولیت کے دعوے اور مطالبے کرتا ہے وہ اتنا غیر منطقی اور غیر معقول کیوں ہے کہ شاعری کے صرف ایک اسلوب کو حرف آخرمان کر دو مختلف اسالیب رکھنے والے شاعروں کا موازنہ اسی اسلوب کے معیار سے کرتا ہے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ دنیا اس کے ’’ایک مطالعہ‘‘ کو اقبال (اور دانتے) کا بہترین (تقابلی) مطالعہ سمجھ لے؟ اول تو اس مطالعے میں سرے سے شاعری اور شعریت کے معیار کو سمجھا ہی نہیں گیا ہے بلکہ تمثیل اور ڈرامائیت کو معیار فرض کر کے شاعری پر اسی معیار سے حکم لگا دیا گیا ہے ۔ اس کو منطق کی اصطلاح میں ’’قیاس مع الفارق‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی دو چیزوں کے درمیان بنیادی فرق ہونے کے باوجود ایک کو دوسری پر قیاس کرنا۔ اس کو بے بنیاد قیاس اور تنقید بالرائے کہا جا سکتا ہے‘ یعنی موضوع کے حقائق سے صرف نظر کر کے صرف ذاتی قسم کی رائے زنی کرنا اور بے پر کی اڑانا۔ دوسری مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ناقد نے دو متقابل فن کاروں میں ایک کو معیار مان کر دوسرے کے بارے میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ یہ فتویٰ بلا تفقہ Degree without Jurisprudence ہے‘ جس کا ارتکاب جناب کلیم الدین احمد نے ’’اقبال… ایک مطالعہ‘‘ بالخصوص دانتے اور اقبال کے موازنے پر صریحاً کیا ہے ۔ جب دانتے ہی معیار ہے تو اقبال کے ساتھ موازنہ چہ معنی دارد؟ آخر دونوں کے درمیان تقابل کی بنیاد کیا ہے؟ وہ کون سا معیار ہے جس کے مطابق دونوں کواصولی طور پر پرکھا جائے؟ موضوع معیار کیسے ہو سکتا ہے؟ صر ف اس لیے کہ جارج سنٹیانا اور ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ نے ایسا ہی کہا ہے؟ مغرب دانتے پر ایمان لائے ہوئے ہے تو ہم بھی لازماً ایمان لے آئیں؟ علمی نقطہ نظر فنی معیار‘ اور ادبی تصور تنقید میں مغرب کو معیار تسلیم اور فرض کر کے کیا جانے والا ایک مطالعہ محض ایک نظر سے بھی بدتر ہے ۔ جو جناب کلیم الدین احمد یکے بعد دیگرے ’’اردو شاعری‘‘ اور ’’اردو تنقید‘‘ پر ڈال چکے ہیں۔ ’’جاوید نامہ ‘‘ کے خلائی سفر کا نقشہ پیش کر کے میں واضح کر چکا ہوں کہ اقبال کس طرح اپنی راہ منزل اور منزل مقصود دونوں سے واقف تھے‘ اس لیے … کہ ان کا مقصد دانتے کی طرح آزاد اور بے مہار سیاحت کرنا نہیں تھا بلکہ معراج النبیؐ کے نقش قدم اور نمونے پر عالم بالا کی سیر کر کے ایک تو دنیا کی چند مشہور شخصیتیں کی ہم کلامی کے ذریعے حیات و کائنات کے بعض اہم اور بنیادی مسائل پر اظہار خیال کرنا تھا دوسرے خداوند کائنات کے حضور میں پہنچ کر اپنے تخیل کی روشنی میں وہاں سے دنیائے انسانیت کے لیے ایک پیغام لانا تھا‘ لیکن یہ بہرحال ایک شاعر‘ دنیا کے بزرگ ترین شاعر کی معراج تھی لہٰذا فطری طور پر اس میں شعریت کے عظیم ترین مظاہر پائے جاتے ہیں اور چونکہ نظم کا ہیولا تمثیلی تھا لہٰذا منظر کسی ‘ مکالمہ نویسی‘ بیان قصہ اور کردار نگاری سب کچھ اس معراج نامہ جدید میں ہے۔ گرچہ شاعر کے مقصد خاص اور بنائے ہوئے منصوبے کے تحت ہے اوراسی مقصد و منصوبہ کے تناسب سے اور اس کی حدود میں ہے‘ آزاد سنا رہے ہیں اور ہر معاملے میں اپنی شکصی و گروہی تعصبات و جذبات کا اظہار کر رہے ہیں دل کا بخار نکال رہے ہیں مخالفوں سے انتقام لے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی معشوقہ کو جمال الٰہی کا پرتو ہی نہیںایک جز بنا دیتے ہیں۔ مگر تاریخ عظیم ترین شخصیت اور دنیا کے سب سے بڑے انسانؐ کو مبتلائے عذاب دکھا رہے ہیں اس لیے کہ اس انسانؐ کے مذہب پر چلنے والوں سے ان کے باپ دادا اور خود ان کی لڑائی ہو رہی ہے۔ حالانکہ اپنے سارے فسانے کا خاکہ انہوںنے اسی مذہب کے دانش وروں کی تخلیقات سے مستعار لیا ہے۔ اور اسی خاکے میں اپنے اوہام و خرافات کو ملا کر ایک معجون مرکب تیار کر لیا ہے۔ جو بس ایک طلسم سامری ہے زریں گو سالہ پرستی پر مبنی جسے اقبال کے ’’جاوید نامہ‘‘ کی ’’ضرب کلیم‘‘ پاش پاش کر سکتی ہے ۔ خواہ اس طلسم کے گرفتار ان سے کتنیا ہی ڈیوائن بنا کر پیش کریں۔ جب کہ بے چارے شاعر نے تو اسے محض ’’کومیڈی‘‘ ہی کہا تھا۔ جناب کلیم الدین احمد فرماتے ہیں: ’’کوئی یہ سوچتا بھی نہیں کہ اقبال کا نظریہ کائنات کیا تھا؟‘‘ ’’اقبال کے پیش نظر کائنات کا کوئی واضح نقشہ نہ تھا‘‘۔ کائنات کیا ہے اور نظریہ کائنات کیا ہے اور اردو زبان میں ان الفاظ کا کیا مطلب ہے ہمارے عظیم ناقد اس سے واقف نہیں معلوم ہوتے وہ تو بس نظام سیارگان کو ساری کائنات اور اس کا نظریہ سمجھتے ہیں اور وہ بھی اس نظام اور نظریے کو جسے دانتے نے محض اتفاق اختیار کر لیا تھا۔ اس لیے کہ اسے ہر قدم پر دوسروں کے نتائج فکر کا سہارا لینے کی ضرورت تھی۔ سیاحت کا خاکہ بنایاا س نے اسلامی دانش وروں کی تخلیقات کو بلا حوالہ اور کسی علمی فرض داری کا ذکر کیے بغیر لیکر اور کائنات کا نظریہ بقول کلیم الدین احمد لے لیا بطلیموس سے بس اتنے ہی پر: ’’جاوید نامہ‘‘ میں نہ تو جہنم ہے نہ المطہر… دانتے تو جہنم کا تفصیلی جغرافیہ پیش کرتا ہے‘‘۔ اقبال نے بھی کیا ستم کیا کہ جاوید نامہ کا نقشہ ’’ڈیوائن کومیڈی‘‘ کو سامنے رکھ کر نہیں بنایا‘ جس طرح دانتے نے ڈیوائن کامیڈی کا نقشہ فتوحات مکیہ کو سامنے رکھ کر بنایا تھا‘ اور اس سے بھی بڑی ستم ظریفی کہ بطلیموس کی شاگر ی اختیار کی نہ کوپرنیکس اور فلفسہ و شعر کو سائنس اور فلکیات سے بالکل الگ کر دیا! واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک کائنات کی واقعیت و نظریہ کائنات پیش کرنے کا تعلق ہے دانتے کا علم و دانش اقبال کے مقابلے میں ایک بچے سے زیادہ نہیں۔ جناب کلیم الدین احمد کہتے ہیں: ’’دانتے نے روما اور یونان کی تاریخ کی کامل ورق گردانی کی ہے‘‘۔ اور اتنے پر ارشاد ہوتا ہے : ’’یہ نہیں کہ دانتے میں کوئی فلسفہ نہیں یا اس کا کوئی پیغام نہیں‘ یا اسے کچھ کہنا نہیںلیکن وہ شعریت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا‘ وہ اول و آخر شاعر ہے‘‘۔ اور اقبال؟ دانتے کے زیر مطالعہ آنے والی ‘ تاریخ یونان و روما سے بہت آگے بڑھ کر اقبال نے تو رتواریخ عالم کی جس میں پورے ایشیا اور افریقہ کی قدیم و جدید تاریخ نیز تاریخ یورپ بھی شامل ہے۔ صرف کامل ورق گردانی نہیں کی تھی۔ اس کا بہ غور مطالعہ کیا تھا‘ اور یہ مطالعہ بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی تک کی قدیم و جدید الہیات و دینیات ‘ فلسفہ سائنس معاشیات نفسیات‘ جغرافیہ‘ عمرانیات اور ادبیات پر بھی محیط تھا۔ اور عظیم ترین شاعر ہونے کے علاوہ اقبال کے ایک عظیم فلسفی بھی تھے‘ ان کے زبردست علمی مطالعے اور منطقی تجزیے کی دستاویز ان کے خطبات مدارس موجود ہیں جو آج بھی یونیورسٹیوں کے ایم اے کورس (فلسفہ) میں تشکیل جدید الہیات اسلامیہ Reconstruction of Religious Thought in Islamکے نام سے تجویز کردہ ہیں۔ اور اجتہادی مطالعے اور تجدیدی فکر کا ایک نشان ہیں۔ جہنم کا شاعرانہ اور خیالی جغرافیہ پیش کرنے اور یونان اور روما کے اوہام و خرافات کی تصویریں بنانے کے علاوہ دانتے کا نظریہ کائنات کیا تھا؟ لے دے ر ایکوانی نس کا مسیحٰ علم تھا جو اطالوی شاعر محض کی ساری ذہنی پونجی تھی اور یہ پونجی بھی کسی نظام فکر اور باضابطہ نظریے کی شکل میں نہیں تھی‘ محض ایک عقیدے Dogmaکی صورت میں تھی‘ جب کہ دنیا جانتی ہے کہ بلاشبہہ قرآن اور اسلام سے روشنی حاصل کر کے اور ختم المرسلؐ کی شریعت پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اقبال نے وسیع اور اعلیٰ تفکر کے بعد اپنا ایک نظام فکر اور نظریہ کائنات و حیات مرتب کیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اقبال کا مندرجہ ذیل بیان ان کے ایمان اور علم کی پختگی اور گہرائی کا ثبوت ہے: ’’میںنے دنیا بھر کے علوم و فنون کے مطالعے کے بعد یہ راز پایا ہے کہ تمام علوم و فنون کے آخری مسائل Ultimate Problems کا حل صرف قرآن حکیم میں ہے‘‘۔ اسی لییے ان کے سوانح نگار ان کے پرائیوٹ سیکرٹری کا یہ بیان درج کرت ہیں کہ پوری دنیا سے اقبال کے پاس مختلف علوم و فنون کے جو سوالات آتے تھے ان کے جواب وہ صرف قرآن کی آیتوں کو سامنے رکھ کر لکھواتے تھے۔ اب جناب ناقد کی ایک اور گل افشانی گفتار ملاحظہ فرمایے: ’’اقبال انسان دوست ہوں لیکن انہیں زید‘ بکر ‘ عمر سے کوئی دل چسپی نہیں۔ سوئفٹ نے ہا تھا کہ وہ Tom, Dick اور Harry سے محبت کرتا ہے لیکن اسے انسان سے نفرت ہے اقبال کو انسانی تجربوں کے امکانات س کوئی دلچسپی نہیں ‘‘۔ ’’اقبال کو انسانی تجربوں کے امکانات سے کوئی دل چسپی نہ تھی اور نہ انسانی المیوں سے‘‘۔ ’’اقبال کو قصوں سے یعنی انسانی تجربوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی‘‘ جاوید نامہ میں تو ایسی کردار نگاری ہے اور نہ المیہ قصے ہیں‘‘۔ ایک ہی بات کو طرح طرح کے ہیر پھیر سے کہنے میں جناب کلیم الدین احمد نے جو کمال پیدا کر دیا ہے اس میں ظاہر ہے کہ اردو کا کوئی ناقد ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ مگر مشکل یہ ہے کہ بات پھر بھی نہیں بنتی۔ اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کہنے والے کی مراد کیا ہے ممکن ہے یہ بے چاری اردو زبان کا قصور ہو اس لیے ایک مغرب آگاہ نقاد قطعیت وضاحت او ریقین کے بلند بانگ دعووں کے باوجود مبہم منتشر الخیال اور کج مج زبان کیسے ہو سکتا ہے؟ انسانی تجربوں سے جناب کلیم الدین احمد کا مطلب سمجھنے کی جب ہم کوشش کرتے ہیں تو کبھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ مفہوم قصہ ہے اور کبھی یہ کہ المیہ ہے اور کبھی کردار نگاری بھی۔ بہرحال! موصوف اس انسانی تجربے کو بنی نو عانسان سے نہیں افراد انسانی سے متعلق بتاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا المیہ و قصہ بیان کیا جائے اور ان کے کردار کی تصویر کشی کی جائے‘ اس سلسلے میں اقبال کی مفروضہ و مزعومہ کوتاہی کی تشریح کرتے ہوئے وہ اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اقبال کی انسان دوستی کا ذکر کر کے بھی اسے پس پشت ڈال دیتے ہیں اورانگریزی ہجو نگار سوئفٹ کی انسان سے نفرت کا تذکرہ کر کے بھی افراد انسانی کے ساتھ ان کی دل چسپی کا اقرار کرتے ہیں‘ آخر یہ تنقید کا کون سا پینترا ہے ؟ جس کے متعلق ایک شخص تو انسان دوست ہوتے ہوئے انسانی تجربوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور دوسرا شخص مردم بیزار ہوتے ہوئے ھبی انسانی تجربوں سے دلچسپی رکھتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کی ذہنی ورزش اور موشگافی جنا ب کلیم الدین احمد نے اپنے مغربی پرستاروں سے سیکھی ہے اور اسی کو تنقیدی تصور کی معراج سمجھتے ہیں ۔ ورنہ معمولی غور و فکر سے واضح ہوجائے گا کہ ایک انسان دوست افراد انسانی اور ان کے تجربات سے بھی دل چسپی اور ہم دردی رکھتا ہے ارو ان کے درود و داغ و جستجو و آرزو کو محسوس کر سکتا ہے۔ جبکہ مردم بیزاری ایسی انسانی ہمدردی نہیںرکھ سکتا۔ رہی یہ بات کہ سوئفٹ نے بقول کہ جناب کلیم الدین احمد ریاضیاتی تعین کے ساتھ قصے کیکردار کی تفصیل پیش کی ہے۔ اور یہ چیز اقبال کے وہاں نظر نہیں آتی۔ تو کیا جناب کلیم الدین احمد یہ سامنے کی بات بھی نہیں جانتے یا اس کو نظر اندا زکرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اقبال نے شاعری کی ہے اورسوئفٹ نے داستان گوئی ؟ دانتے نے تھی شاعری کے علاوہ ڈرامہ نگاری کی ہے جس کے لیے قصہ و کردار اور ان کی جزئیات نگاری اس کے لیے ضروری ہے جبکہ ڈرامہ نگاری اقبال کا مقصد نہیں وہ صرف شاعری کے شغل میں منہمک ہیں اور اپنے مخاطب کو ہئیت اور فن کی حد تک شعریت کے سوا کسی اور ادبی عنصر کی طرف مائل کرنا نہیں چاہتے ورنہ جہاں تک قصہ و کردار نگاری کی استعداد کا تعلق ہے جناب کلیم الدین احمد نے بھی تو ‘ بخالت و خساست ہی کے ساتھ کم از کم کچھ اعترافات کہے ہیں: ’’جو دیکھتے ہیں اس کا چند لفظوں میں بیان کر دیتے ہیں‘‘۔ ’’ان سبھوں میں زیادہ دل چسپ کردار نبیہ مریخ کا ہے… یہ ایک جاندار کردار ہے… ایک ابلیس کا کردا ہے‘‘۔ ’’زروان کوئی کردار نہیں وہ روح زمان و مکاں ہے لیکن اس کا بیان رنگین و شاعرانہ ہے‘‘۔ ’’نبیہ مریخ اور ابلیس دلچسپ تھے اور حکیم مریخی‘‘ ’’زروان اور سروش کا رنگین اور شاعرانہ بیان ہے‘‘۔ ایک کرتب اور دیکھیے: ’’اقبال نے صرف چند روایتی جزئیات بیان کرنے پر اور وہ بھی چند شعروں کی قناعت کی ہے ۔ اس کے مقابلے میں دانتے کی جنت ارضی زیادہ واضح ‘ زیادہ حقیقی‘ اور زیادہ ٹھوس ‘ زیادہ شاعرانہ ہے‘‘۔ روایتی جزئیات ‘ جزئیات نہیںہیں کیا؟ جنت کی غیر روایتی جزئیات کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا کسی نے جنت اور جہنم کو دیکھ اہے ؟ مگر جنا ب کلیم الدین احمد چونکہ مغرب کے عیسائیوں کی طرح دانتے کی تصنیف کو ڈیوائن مانتے ہیں لہٰذا ان کے نزدیک دانتے جنت اور جہنم دونوں کے جغرافیہ سے واقف ہیں‘ جبکہ حالت یہ ہے کہ دانتے کو جنت اور جہنم کا روایتی محل وقوع بھی زیر بحث کامیڈی کی حد تک معلوم ہے‘ بس وہ اپنے تخیل سے کام لیتا ہے۔ ایسا تخیل جو صرف خواب دیکھ سکتا ہے۔ حکمت اور سائنس کی ٹھوس دنیا سے کوئی تلعق نہیں رکھتا‘ چنانچہ بطلیموس کے نظام سیارگان میں اسے کوئی نقص نظر نہیں آتا اور یک عامی کی طرح اس پر ایمان لانا ہی اس کا مقدر ہے۔ پھر کیا چند شعروں میں کوئی واضح حقیقی ‘ ٹھوس اور شاعرانہ تصویر نہیں بنائی جا سکتی؟ اگر ایسا ہے تو دانتے کے متعلق یہ ارشادات عالی کیوں ہیں؟ ’’بس انہی چار سطروں میں پوری ٹریجیڈی کا بیان ہے‘‘۔ ’’Lapiaکی زندگی کا چار سطروں میں خلاصہ ایسا ہے کہ جس کا کوئی مثال مشکل سے کسی اورشاعر سے ملے گی‘‘َ اور چونکہ دانتے کا الہامی و الوہی کلام ہے لہٰذا: ’’یہ شاعری ہے جو اقبال کے بس کی بات نہیں ‘‘۔ اب یہ بھی دیکھیے کہ جو چیز : ’’زیادہ واضح‘ زیادہ حقیقی اور زیادی ٹھوس ہے وہ ’’زیادہ شاعرانہ‘‘ بھی ہے‘‘۔ دنیا کی کس زبان اور اد ب میں یہ معیار ہے کہ وہ زیادہ واضح زیادہ حقیقی اور زیادہ ٹھوس ہو انگریزی تنقید بھی اس قسم کی غیر منطقی باتوں کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر انگریزی دانی کے بل پر غریب اردو کے سر ہر طرح کے الابلا ڈال دی جاتی ہے۔ اس قماش کے بیانات کو دیکھ کر کہنے کو جی چاہتا ہے کہ تنقید جناب کلیم الدین احمد کے بس کی بات نہیں۔ وہ ایسی تنقید نگاری انگریزی میں کیوںنہیںکرتے؟ موصوف نے بلاشبہ ایک کتاب کبھی لکھی ہے: Psycho-Analysis and Literary Criticism (تحلیل نفسی اور ادبی تنقید) جس پر دیباچہ لکھنے سے ٹی۔ ایس ۔ ایلیٹ نے بہت لطیف طریقے پر یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ نفسیات اس کا موضوع نہیں‘ اس پر بھی جناب کلیم الدین احمد کو تنبیہہ نہیں ہوئی کہ انہوںنے نفسیات میں اپنی مہارت اور انگریزی زبان و ادب پر اپنی قدرت کا ثبوت دینے کے لیے یہ کتاب شائع کی‘ اور اب یہ ایک دستاویز ہے کسی بھی انگریزی دال کے لیے یہ جاننے کی خاطر کہ مغربی و انگریزی تصور ادب اور طرز تنقید کے شید ا جناب کلیم الدین احمد اپنی انگریزی دانی کا مظاہرہ انگریزی میں کس طرح کرتے ہیں۔ اول تو اس کتاب کو پڑھ کر کوئی شخص سمجھ ہی نہیں سکتا کہ مصنف کا نقطہ نظر کیا ہے دوسرے یہ کہ پوری کتاب میں جناب کلیم الدین احمد مصنف کے بیانات و اقوال تو گویا نہیں ہیں‘ صرف تحلیل نفسی کے ماہرین اور علمائے فن کی رائیں جمع کر دی گئی ہیں‘ بس اقتباسات کا انبار جو مرتب کر دیا گیا ہے اور مختلف اقتباسات کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے Conjunction کی طرح مصنف کتاب کے چند جملے ہیں۔ اس طرح فی الواقع یہ کوئی تنقیدی تصنیف نہیں۔ ایک علمی تالیف ہے‘ جس میں دیے ہوئے موضوع پر معلومات فاہم کی گئی ہیں۔ ایک زمانے میں میں نے کوشش کی تھی کہ اس کا اردو ترجمہ کر کے جناب کلیم الدین احمد کے اردو دانوں کی معلومات میں اضافہ کرنے میں جو کچھ کسر چھوڑی ہے اس کو پورا کر دوں‘ اور مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے ایک دو باب کا ترجمہ بھی اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ مریخ میں کیا تھا لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ کارعبث ہے جس کو معلومات حاصل کرنی ہو گی‘ انگریزی میں تحلیل نفسی اور ادب کے تعلق پر پائے جانے والے مواد کا مطالعہ کر لے گا۔ بہرحال اقبال کی انسان دوستی اور انسانی تجربوں سے ان کی دلچسپی خود جناب کلیم الدین احمد کے اس جملے سے ظاہر ہے جو شاید بے خیالی میں وہ لکھ گئے ہیں: ’’اقبال کے جاوید نامہ میں زیادہ انسانی کردار ہیں‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان ہی اقبال کی پوری شاعری کا موضوع ہے اور جاوید نامہ کی تصنیف کا سب سے بڑا مقصد عروج آدم خاکی ہی ہے۔ چنانچہ اقبال نے انسان اور اس کے معاملات و مسائل پر جس زور و قوت ‘ وسعت و بصیرت اور عمق و رفعت کے ساتھ توجہ مرکوز کی اور انسانیت کے امکانات و مضمرات کو جس اعتماد و استدناد کے ساتھ وہ روشنی میں لائے ہیں پھر حیات و کائنات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتے ہوئے انسان کا جو مقام بلند انہوںنے پورے منصوبہ فطرت میں واضح کیا ہے اور تاریخ کے ٹھو س حقائق کو جس لطیف نفیس اور بلیغ انداز میں اعلیٰ ترین شعریت میں ڈھال دیا ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے تخلیقی ادب میں نہیں پائی جاتی‘ نہ مشرق میں نہ مغرب میں نہ دور قدیم میں نہ دور جدید میں۔ انسان بحیثیت انسان کے ساتھ شغف میں دانتے اقبا ل کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔ زید ‘ عمر ‘ بکر کے ساتھ سوئفٹ اور دانتے کی دلچسپی نہ کہ ہمدردی‘ جیسی بھی اور جتنی بھی ہے زیادہ سے زیادہ ایک داستان گو اور افسانہ طراز کی دلچسپی ہے۔ اس کے پیچھے نہ تو کوئی منظم فکر ہے اور نہ جامع نظام اقدار حتیٰ کہ کوئی واضح تصور انسانیت بھی نہیں سوئفٹ تو متشکک Sceptic اور کلبیانہ Cynical ذہن ہی رکھتاہے جبکہ دانتے ایک نہایت متعصب ‘ جانب دار اور کینہ پرور Prejudiced, Biased, Malevolent شخص ہے لیکن انسان سے اقبال کی دل چسپی ایک آفاقی نظریے پر مبنی ہے ۔ جس سے عالمی انسانی اخوت مساوات اور حریت کے تصورات پیداہوتے ہیں مغرب کا کوئی شاعر عظمت انسانی کا یہ نغمہ نہیں گا سکتا: آدمیت احترام آدمی باخبر شواز مقام آدمی (جاویدنامہ) کلام اقبال میں محبت انسانی کا جو بحر ذخار ہے اس کے سامنے دانتے کی انسان سے دل چسپی ایک جوئے کم آب ہے ۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں انسان کے متعلق نغمہ ملائک اور ’’پیام مشرق‘‘ میں ’’تسخیر فطرت‘‘ بالخصوص اس کے حصہ اول میں ’’میلاد آدم‘‘ سے بہتر اور برتر کوئی تخلیق انسانیت کے موضوع پر دانتے ‘ گیٹے اور شیکسپئر وغیرہ کی عظیم ترین شعرائے مغرب میں کسی کے یہاں تلاش بسیار کے بعد بھی دریافت نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح ’’بال جبریل‘ کی نظمیں ’’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں ‘‘ اور ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ انسانیت کے مضمرات و امکانات پر بے مثال شاعرانہ تخلیقات ہیں جن کی نظیر مغربی ادب میں تلاش کرنا لاحاصل ہو گا۔ پوری ’’ڈیوائن کومیڈی‘‘ میں اگر ایک نظم یا حصہ نظم بھی اقبال کی مذکور تخلیقات کے برابر ہو تو نشان دہی کی جائے۔ جناب کلیم الدین احمد نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں منظر نگاری اور کردار نگاری کے سلسلے میں اقبال کی صلاحیت ہی سے جابجا شدید انکار کیا ہے حالانکہ خود بعض مواقع پر چند حسین مناظر اور جان دار کرداروں کے حوالے بھی دیے ہیں لیکن اس کی بجائے کہ ان حوالوں سے صحیح اور مثبت نتائج وہ اخذ کرتے اور اس معاملے میں ایک متوازن رائے کا اظہار کرتے اپنے منفیانہ مقصد اور انداز کے سبب انہوںنے جو خوبیوں کی مثالیںبھی خامیوں ہی کو اجاگر کرنے کے لیے دی ہیں۔ اس سلسلے میں موصوف نے یہ حرکت بھی کی ہے کہ صر ف چند ان کرداروں کی تحسین کی ہے جنہیں وہ ذاتی طورپر اپنے ذہن کے رجحان اور مزاج کی بنا پر پسند کرتے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ کہ خود ہی وہ یہ وضاحت بھی کرتے ہیں : ’’اقبال اسے پسند کریں یا نہ کریں‘‘۔ مگر کلیم الدین احمد ضرور پسند کرتے ہیں‘ حالانکہ کردار تخلیق کیا ہے اقبال نے‘ نہ کہ کلیم الدین احمد نے ۔ یہ نبیہ مریخ کاکردار ہے جو بے مہار اور غیر ذمہ دار آزادی نسواں کی علامت ہے اور سراسر اقبال کے زرخیز تخیل کی پیداوار ہے ۔ اسی طرح ابلیس کا کردار ہے ۔ جسے جان دار تسلیم کرتے ہوئے جناب کلیم الدین احمد یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سے اقبال کو ہمیشہ ہمدردی رہی ہے‘‘َ سوال یہ ہے کہ جب فن کی مخلوق آ پ کے سامنے ہے تو اس کے حسن تقویم کے معترف آپ بھی اپنی تمام نقادی کے باوجود ہیں تو اب خالق کی پسند اور ہمدردی کی فکر آپ کو کیوں ہے؟ آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہونا چاہیے کہ وہ مخلوق فن آپ کو تنقیدی طور پر پسند ہے اور حسین معلوم ہوتی ہے۔ تنقید میں پسند و ناپسند کی اس بحث سے واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال تو ایک سچے پکے اور بڑے فنکار کی طرح اپنی ذاتی پسند و ناپسند سے الگ ہو کر معروضی طور پر اپنے موضوع فن کے ساتھ انصاف کرتے ہیں حق شاعری ادا کرتے ہیں زبردست جمالیاتی حس اور ذہنی توازن کا ثبوت دیتے ہیں‘ یہاں تک کہ بنیہ مریخ اور ابلیس جیسے اپنے نقطہ نظر سے ملعون کرداروں کو بھی جان دار تصویر اتارتے ہیں مگر جناب …ناقد اور ان کاممدوح دانتے فن میں شخصی پسند و ناپسند ہی کو فیصلہ کن معیار بنائے ہوئے ہے۔ دانتے اپنے سے مختلف عقیدہ و خیال رکھنے والی تاریخ کی عظیم ترین شخصیتوں کو نظر انداز کرتا ہے اور اس کی ایسی تصویر بناتا ہے کہ اس میں اسے جمال قدسی کا پرتو نظر آنے لگتا ہے۔ جس پر جناب کلیم الدین احد جیسے عیب چیں بھی اتنے فدا ہیں اور اس کو اتنی بڑی چیز سمجھتے ہیں کہ اس کو نہ صرف ڈیوائن کومیڈی کی سبھی تصویروں کے تاج کہتے ہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی فرماتے ہیں کہ: ’’Beatriceکی تصویر جیسی کوئی چیز اقبال میں نہیں ملتی‘‘۔ ظاہر ہے کہ بیٹریس جیسی کوئی چیز اقبال کے یہاں کیسے ملے گی؟ انہوںںے لوگوں کی تفریح طبع کے لیے کوئی کامیڈی تو لکھی نہیں ہے۔ اور انہوں ںے تو ایک معراج نامہ جاوید یا گلشن راز جدید‘ حیات و کائنات اور انسانیت کے اسرار و رموز منکشف کرنے کے لیے لکھا ہے۔ جاوید نامہ میں کومیڈی کی طرح کوئی رسمی عشق و عاشقی اور روایتی انتقام کشی یا متعصبانہ جنون مذہبی تو ہے نہیں۔ یہاں ت ایک وسیع النظر اصولی اور آفاقی نقطہ نظر ہے جو پوری سنجیدگی اور ذمے داری کے ساتھ فرد اور معاشرے کی اصلاح و ترقی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اور اس نقطہ نظر میں ایک جودت فکر اور جدت انداز ہے جس کی ہواب بھی دانتے جیسے سرگشتہ خمار رسوم و قیود کو نہیں لگ سکتی دانتے کی فکر کا جو پیمانہ ہے وہی اس کے فن کی سطح بھی بناتا ہے۔ اور اقبال کی فکر کا معیار ہی ان کے فن کا مرتبہ بھی متعین کرتا ہے ۔ اس لیے کہ یہاں فکر و فن ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف مخلوط بلکہ وابستہ و پیوستہ ہیں۔ بہرحال! جاوید نامہ میں جناب کلیم الدین احمد تین کرداروں کو قابل ذکر قرار دیتے ہیں حکیم مریخی زروان اور سرو ش مگر یہ نچ لگی ہوئی ہے: ’’لیکن جو فنی حسن کاری Matrilda اور Beatriceکی تصویروں میں ہے وہ زروان اور سروش میں نہیں Catoاور Ulysses میں جو وقار ہے وہ حکیم مریخی میں نہیں‘‘۔ (ص 51) اس عجیب و غریب تنقیدی تکنیک سے قطع نظر کہ دانتے کے بہترین کردار بیٹرس کا موازنہ نبیہ مریخ سے نہیں خیا جاتا۔ جو جناب کلیم الدین احمد کے خیال میں جاوید نامہ کی بہترین تصویر ہے دیکھنا یہ ہے کہ آخر دانتے کی وہ تصویریں کیا ہیں جن کے مقابلے میں اقبال کی تصویریں نہیں ٹھہرتیں‘ ملاحظہ ہو یہاں دانتے کی سبھی تصویروں کی تاج یعنی اس کی محبوبہ دلنواز بیٹرس کی تصویر : میںنے اکثر آغاز صبح دیکھا ہے کہ مشرق بالکل گل گوں ہے لیکن آسماں کے دور حصے بالکل مصفا ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب نقاب پو ش ہے اس لیے بخارات کے پردوں کی وجہ سے آنکھیں سورج سے آنکھیںملا سکتی ہیں اسی طرح پھولوں کے بادلوں کی بارش میں جو فرشتوں کے ہاتھوں سے ہو رہی تھی اور پھولوں کے بادل اس تخت کے گرد اٹھ اور گر رہے تھے سفید نقاب ڈالے اور زیتون کا تاج پہنے ہوئے ایک حسینہ نظر آئی جو سبز شال کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھی اور جس کالباس دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح سرخ تھا اور میری روح کو جس کو ایک طویل مدت سے اس کی حضور میں رعب حسن سے کانپنے کا موقع نہ ملا تھا اب بغیر اس کے حسن کا نظارہ کیے ہوئے اس پراسرا ر طاقت سے جو اس میں پنہاں اورنمایاں تھی پرانی محبت جاگ اٹھی (ص 48-50) یہ جناب کلیم الدین احمد کا دیا ہوا اردو ترجمہ ہے جو اطالوی متن کے بین السطور درج کیا گیا ہے‘ مگر سروش کی جو تصویر دی گئی ہے اس میں سراپا سے متعلق چند اشعار درج کیے گئے ہیں اور جلوہ سروش کے عنوان سے جو پوری نظم جاوید نامہ میں درج ہے وہ نقل نہیں کی گئی حالانکہ بیٹرس کی تصویر کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق دانتے کے تصورات اور احساسات بھی درج کر دیے گئے ہیں بلکہ تصویر کے گردوپیش کے مناظر بھی دیے گئے ہیں سروش کی پوری تصویر یوں ہے: نکات مذکورہ بالا بیان کرنے کے بعد عارف ہندی خاموش ہو گیا اس پر محویت کا عالم طاری ہو گیا اور اس نے عالم اور اس کی دل چسپیوں سے بکلی قطع تعلق کر لیا ذوق و شوق نے اسے از خود رفتہ کر دیا وہ نیرنگ شہود کے دائرے سے نکل کر وجو د کے دائرے میں آ گیا جب عاشق کو حضور ی نصیب ہوتی ہے تو ہر ذرہ طور بن جاتا ہے لیکن اگر اسے حضور حاصل نہ ہو تو نہ نور ہے نہ ظہور یکایک ایسی نازنین نمودار ہوتی ہے جو غار قمر کی تاریکی شب میں ایک درخشاں ستارے کی طرح طلوع ہوتی ہے اس کے سیاہ بال سنبل کی طرح لانبے اور کمر تک رسا تھے اس کے نور طلعت س کوہ و کمر روشن ہو رہے تھے وہ جلوہ مستانہ میں غرق تھی اور بے پیے مست ہو کر عالم کیف میں گانا گا رہی تھی اس کے سامنے ایک فانوس خیال رقصاں تھا جس کا رنگ کہنہ سال آسمان کی طرح بار بار بدل رہا تھا اس فانو س کے اندر رنگ برنگ کے اجسام نظر آ رہے تھے شکرے گوریوں پر جھپٹ رہے تھے اور چیتے ہرنوں پر میں نے رومی سے پوچھا اے دانائے راز! اپنے کم نظر رفیق سفر کو اس اسرا ر سے آگاہ کر انہوںنے جواب دیا چمکتی ہوئی چاندی کی طرح کا یہ پیکر یزدان پاک کے فکر کی تخلیق ہے جو ذوق نمو سے بے تاب ہو کر شبستان وجود میں آ گئی ہے ہماری ہی طرح ایک جہاں گشت مسافر ہے تو مسافر‘ میںمسافر‘ وہ بھی مسافر اس کی شان جبریلی اور اس کا نام سروش ہے وہ ہوش اڑاتی بھی ہے اور ہوش میں لاتی بھی ہے اس کی شبنم ہمارے غنچہ وجود کو شگفتہ کرتی ہے اس کے سانسوں کا سوز آتش مرد ہ کو زندہ کر دیتا ہے ساز دل میں نغمہ شاعری اسی کے فیض سے پیدا ہوتا ہے محمل لیلیٰ میں شگاف اسی کی انگلیاں کرتی ہیں اس کے نغمے میں میں نے حقائق و معانی کی ایک دنیا آباد دیکھی ہے ایک لمحے کے لیے تو بھی اس کی نوا سے ایک شعلہ حاصل کر لے (اس مفصل و مکمل تصویر کے بجائے جناب کلیم الدین احمد نے بس چند اشعار کے ترجمے یہ دیے ہیں): اس طلسم شب میں تھا اک پیکر ناز آفریں اس شب بے اختراں کا اختر روشن جبیں اس کی زلفوں کی لٹیں سنبل ہی سنبل تاکر اس کے چہرے سے فروزاں کوہ و صحرا و دشت و در غرق تابانی فروغ جلوہ مستانہ سے مست بے مے زمزمے جاری لب جانانہ سے ناچتا تھا اس کے آگے ایک فانوس خیال ذوفنوں پر کار مانند سپہر کہنہ سال دامن فانوس پر تھے نقشہائے رنگ رنگ شکرے چڑیوں پر جھپٹتے اور آہو پر پلنگ دانتے اور اقبال کی بنائی ہوئی تصویروں کاموازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے : ۱۔ دانتے کے سامنے ایک حسن مجسم کانمونہ تھا اور اس نے اسی کا نقشہ کھینچا مگر ایک حقیقی عورت کا کوئی ٹھوس پیکر ابھرنے کے بجائے ایک خیالی دیوی کا خاکہ مرتب ہوا۔ ۲۔ اقبال کے سامنے کوئی اصل ایسی نہیں تھی کہ جس کی نقل آسانی سے اتار لی جاتی‘ محض ایک خیال تھا‘ وہ بھی روح القدوس جیسی پراسرار ہستی کا‘ لیکن یہ شاعر کے تخیل کی زرخیزی ثروت اور دست ہنر کی چابکدستی ہے کہ ہم جبریلی شان کے ایک پیکر کو‘ اس کی جملہ بنیاید صفات کے ساتھ مجسم دیکھتے ہیں۔ ۳۔ بیٹرس کی تصویر ایک قلب ماہیت ہے جب کہ سروش کی تصویر مطابق اصل ہے۔ ۴۔ سروش کی تصویر کا پس منظر اور پیش منظر نیز اس کی جزئیات شاعر کے سیاحت نامے کے عین مقصد اسرار حیات کی نقاب کشائی کے عین مطابق ہیں۔ جبکہ بیٹرس کی تصویر شاعر کے پرواز تخیل کو محدود کرنے والی ہے۔ اس لیے کہ تماشائے آسمان کی بجائے یہ تصویر نظر کو خود اپنے جلوے پر مرکوز کرنے والی ہے۔ غور کیجیے کہ جس جاوید نامہ کی منصوبہ بندی کو ناقص اور تنظیم کو کمزور بتایا جا رہا ہے اس میں ایک ایک تصویر جو ابھرتی ہے کتاب کی مجموعی تنظیم سے وابستہ ہے اور اس کے منصوبے کو آگے بڑھاتی ہے۔ یہ نہیں کہ ڈوائن کومیڈی کی طرح تصویروں پر تصویریں تصویروں کے لیے ہی جمع کی جا رہی ہیں یہ دیکھے بغیر کہ ان تصویروں سے پوری نظم کے ارتقائے خیال میں مدد ملتی ہے یا رکاوٹ پڑتی ہے۔ اگر ڈیوائن کومیڈی ایک شعری ڈرامہ ہے جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو اس کے مناظر اور کردار و واقعات کیا اسی طرح اپنی اپنی جگہ مستقل بالذات اور مقصود فن ہیں؟ جناب کلیم الدین احمد نے جن تصویروں‘ منظروں اور کرداروں کا ذکر ڈیوائن کومیڈی کی خوبیوں کے طور پر کیا ہے وہ سب مل کر زیادہ سے زیادہ مختلف چہروں کا ایک نگار خانہ بناتے ہیں یہ اسٹوڈیو اور جس کی عبارت جناب کلیم الدین احمد نے کتاب میں نقل کر کے اسی کی ہا ں میں ہاں ملاء ہے وہ محض ایک بیان بلا توجیہہ اور ایک دعویٰ بلا دلیل ہے اور جو شخص نہ جارج سنٹیانہ کا مقلد ہو اور نہ جناب کلیم الدین احمد کا معتقد وہ آسانی سے اس بیان اور دعوے کر رد کر سکتا ہے ۔ اس کے برخلاف اقبال کا جاوید نامہ شعری ڈرامہ نہیں۔ تمثیلی نظم ہے۔ اور اس کا ایک ایک جز اپنے مقصد تخلیق اور منصوبہ عمل کا حصہ اور اس کی تکمیل کا مرحلہ ہے۔ اسی طرح جناب کلیم الدین احمد کے خیال ڈیوائن کامیڈی کی ایک اور عمدہ اور جاوید نامہ کی تصویروں سے بہتر تصویر پر نظر ڈالیے: ’’جنت ارضٰ میں دانتے لکھتا ہے کہ ایک حسینہ تنہا گاتی ہوئی پھولوں کو توڑ رہی ہے جن سے اس کا دستہ نگین ہے۔ دانتے ااسے قریب بلاتا ہے تاکہ اس کے گانے کا مفہوم سمجھ سکے۔ وہ دانتے کی آواز سن کر ٹھٹک جاتی ہے۔ اور ایک رقاصہ کی طرح آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہے اور لال اور زرد پھولوں پر اس کی طرف مڑ کر حیا سے آنکھیں جھکا لیتی ہے اور کنارے پہنچ کرجہاں ندی کی ہلکی موجیں گھاس کو چھو رہی ہیں وہ اس سے آنکھیں چار کرتی ہے۔‘‘ مجھے یقین ہے کہ ایسی درخشاں چمک زہرہ کی پلکوں کے نیچے بھی نہ چمکی تھی جب وہ اتفاقاً اپنے لڑکے کے تیر سے مجروح ہو گئی تھی وہ مسکرائی دوسرے کنارے پر سے اور اس کے ہاتھو ں میں بہت سے رنگوں کے پھول تھے جو جنت ارضی میں بغیر بیج ہی کھلتے ہیں تین قدم کی دوری تھی لیکن وہ چشمہ Hellespontکی طرح حائل رہا جس نے Leanderاور Xerxes کو علیحدہ رکھا‘‘ (ص 47-48) اس کے مقابلے میں دیکھیے کہ جاوید نامہ میں روح زمان و مکان زروان کو کس طرح متشکل کیا جاتا ہے: اس سحاب نور سے اترا فرشتہ پر فشاںؓ جس کے دو چہرے تھے اک چہرہ تھا شعلہ اک دھواں اک تیرہ و تار شب اور دوسرا روشن شہاب آنکھ بیدار ایک کی ہے ار دوسرے کی مست خواب کیسے رنگارنگ ڈینے سرخ سرخ اور زرد زرد نقرئی‘ نارنجی‘ نیلے ‘ سبزسبز اور لاجورد (ص33) جناب کلیم الدین احمد کی دی ہوئی اس نیم تصویر کو مکمل شکل کی اصل کتاب میں دیکھیے: ’’رومی کا کلام سن کر میرا دل بے قرار ہو گیا میرے جسم کا ہر ذرہ پارے کی طرح مچلنے لگا یکایک میں نے دیکھا کہ مشرق سے مغرب تک آسمان نور کے ایک بادل میں ڈوب گیا اس بادل سے ایک فرشتہ نازل ہوا جس کے دو چہرے تھے ‘ ایک آگ کی طرح ‘ دوسرا دھواں یہ رات کی طرح تاریک ‘ وہ شہاب کی طرح روشن اس کی آنکھ بیدار‘ اس کی آنکھ خواب میں اس کے بازوئوں کے رنگ سرخ و زرد سبز و سیمیں و کبود و لاجورد اس کے مزاج میں خیال کی طرح روانی زمین سے کہکشاں تک ایک لمحے میں رسا ہر وقت ایک نئی ہوا میں ایک نئی فضا میں محو پرواز اس نے کہا میں زروان ہوں میں دنیا پر غالب ہوں میں نگاہوں سے پوشیدہ بھی ہوں اور ان پر ظاہر بھی ہر تدبیر میری تقدیر سے وابستہ ہے خاموش اور گویا سب میرے شکار ہیں شاخ میں غنچہ مجھ سے پھوٹتا ہے آشیانے میں پرند میری وجہ سے نالہ کرتے ہیں دانہ میری پرواز سے درخت ہو جاتا ہے میرے فیض سے ہر فراق وصال بن جاتا ہے میں خدا کا عتاب اور خطاب دونوں ہی لاتی ہوں لوگوں کو تشنہ اس لیے کرتی ہوں کہ انہیں شربت ملے میں ہی زندگی ‘ موت اور حشر ہوں میں ہی حساب و دوزخ و فردوس و حور ہوں آدمی اور فرشتہ سب میرے دام میں ہیں عالم شش روزہ میرا ہی فرزند ہے شاخ سے جو پھول بھی تم توڑتے ہو وہ میں ہوں ہر چیز جو تم دیکھتے ہو اس کا سر چشمہ میں ہوں یہ جہاں میرے طلسم میں اسیر ہے میرا سانس اس جہاں کو ہر لمحہ بوڑھا بنا رہا ہے جس کسی کے دل میں لی مع اللہ وقت کی حدیث بیٹھ گئی اس جواں مردنے میرا طلسم توڑ دیا اگر تو چاہتا ہے کہ میں درمیان سے ہٹ جائوں ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے لی مع اللہ پڑھ میںنہیںجانتا اس کی نگاہ میں کیا جادو تھا میری نظروں سے یہ جہان کہنہ غائب ہو گیا یا تو میری نگاہ ایک دوسری دنیا میں کھلی یا جو دنیا تھی وہی بدل گئی کائنات رنگ و بو سے میں رحلت کر گیا اور ایک عالم بے ہائو ہو میں جا پہنچا اس پرانی دنیا سے میرا رشتہ ٹوٹ گیا اورایک نئی دنیا میرے ہاتھ آ گئی ایک دنیا کے چلے جانے سے میری جان بے قرار ہو گئی یہاں تک کہ میری خاک سے ایک دوسری دنیا نمودا ر ہوئی جسم پہلے سے زیادہ سبک ہو گیا اور روح زیادہ سیار دل کی آنکھیں کھل گئیں اور جاگ اٹھیں تمام پردے اٹھ گئے اور میرے کانوں میں ستاروں کا گیت آنے لگا ظاہر ہے کہ سروش کی طرح زروان کی تصویر بھی ‘ ہوائی لا شے Airy Nothing کو ایک جسم و مکان اور نام A Local Habitation and Nameدیتی ہے‘ جبکہ دانتے کی متقابل تصویریں صرف معلوم و مجسم افراد کے نقشے پیش کرتی ہیں اس لیے خود جناب کلیم الدین احمد کے نظریہ ادب و شعر کے مطابق ذیل جملے دانتے سے زیادہ اقبال کے کمالات پر صادق آئیں گے: ’’دانتے کا تصور اس کی خیالی دنیا کی ایسی صاف‘ واضح اور ٹھوس تصویر کھینچتا ہے کہ اس کا ایک ایک گوشہ منور ہو جاتا ہے‘‘۔ (ص 9) صاف بات یہ ہے کہ دانتے کی دنیا اتنی خیالی نہیں جتنی اقبال کی ہے غور کیجیے کہ اقبال نہ صرف جبریل امین بلکہ وقت کو ایک شکل اور مجسم کردار عطا کرتے ہیں جبکہ دانتے صرف مجسم شخصیتوں کے خاکے کھینچتا ہے۔ وہ محصوس کو محسوس کراتا ہے اور اقبال غیر محسوس کو محسوس۔ اس سلسلے میں جہاں تک فکر و تخیل کا سوال ہے اقبال کی ہر مقام برتری ثابت ہوتی ہے۔ زروان روح زماں و مکاں ہے۔ زماں و مکاں کے افکار و حقائق سے اقبال کی واقفیت ماہرانہ ہی نہیں مجتہدانہ تھی یہاں تک کہ وہ نظریہ زماں کے مشہور عالم فرانسیسی فلسفی برگاں کی معلومات میں اضافہ کر سکتے تھے‘ اور اسے غور و فکر کی نئی راہیں دکھا سکتے تھے۔ محولہ بالا اشعار میں اقبال نے لی مع اللہ وقت کی حدیث کو اپنے تصور زمان کا محسور بنا کر خیالات کا آظہار کیا ہے اور جو فکر انگیز اشارات اس سلسلے میں انہوںنے کیے ہیں ان کی ہوا تک دانتے کونہیں لگی ہے مگر اتنے دقیق موضوع کو جس لطیف تخیل کے ساتھ جیسے نفیس اشعار میں اقبال نے واضح کیا ہے وہ انہی کا حصہ اور کارنامہ ہے۔ کسی دانتے شیکسپئر اور گیٹے کے بس کی بات نہیں اس تخیل کی ثروت و وسعت دانتے کے ذہن کو انتہائی مفلس اور ایک جوئے کم آب ثابت کرتی ہے۔ جناب کلیم الدین احمد نے دانتے کی تعریف میں زمین و آسمان کا قلابہ ملاتے ہوئے بہت لخلخے کے ساتھ اپنی حمایت میں جارج سنٹیانہ کا ایک طویل اقتباس پیش کیا ہے جس کے آخری جملے یہ ہیں: ’’اگر کسی چیز کو ایک تخیلی قدر عطا کرنا ایک شاعر کا کم سے کم عمل ہے تو تمام چیزوں کو تخیلی قدر عطا کرنا اور اس نظام کو عطا کرنا جو یہ چیزیں مل کر بناتی ہیں بداہتہ عظیم ترین عمل ہے۔ دانتے نے یہی کام انجام دیا ہے‘‘ (ص 99 انگریزی عبارت کا ترجمہ میں نے کیا ہے ۔ ع‘ م ) یہ باتیں دانتے سے زیادہ اقبال کے لیے ہیں] مگر بے چارے سنٹیانا کو کیا معلوم کہ وہ غریب تو علاقائیت Provincialism کی گود میں پلا اور بڑھا مغربی ادبیات اس کے لیے سب کچھ تھیں‘ اور جہاں تک جناب کلیم الدین احمد کا معاملہ ہے‘ شاید غنی کشمیری نے انہی کے لیے کیا تھا: غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را واقعی پیر کنعاں کی بدنصیبی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ ان کا نور نظر کسی زلیخا کی آنکھیں ٹھنڈی کرے؟ جب اردو کے ناقد اور ہند ایرانی ثقافت کے فرزند اردو اور فارسی بلکہ مشرق کے عظیم ترین شاعر کی قدر شناسی کی بجائے کسی اطالوی اور مغربی شاعر عظیم کے ساتھ اس کا موازنہ اور اس میں صرف اس کی تنقیص کر کے اپنی تائید میں مغرب ہی کے آدمیوں اور ناقدوں کی رائے پیش کرنے لگیں تو مغربی ادباء و ناقدین کی علاقائی عصبیت اور تنگ نظری کاجرم بھی نسبتاً کچھ ہلکا نظر آتاہے اور کم از کم سمجھ میں آتا ہے بلکہ ان غریبوں کی مجبوریوں کے پیش نظر ایک حد تک فطری معلوم ہوتا ہے۔ یہی حال ایلیٹ کے اس اقتباس کا ہے جو جناب کلیم الدین احمد نے دانتے کی مداحی پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے ایک جگہ پیش کیا ہے: ’’کہیں بھی شاعری میں معمولی تجربوں سے ہٹا ہوا اتنا دور کا تجربہ اس ٹھوس طریقے پر روشنی کی ایسی ماہرانہ پیکر تراشی کے ذریعے بروئے اظہار نہیں لایا گیا ہے جبکہ روشنی صوفیانہ تجربات کے بعض اقسام کی خاص ہئیت ہے‘‘۔ (ص 89-90انگریزی سے ترجمہ میرا ہے۔ ع۔ م) جناب کلیم الدین احمد نے دانتے کی کھینچی ہوئی Cato اور Ulysses کی تصویروں کا بھی ذکر کرتے ہوئے ارشاد کیا ہے: ’’کیٹو اور یولی سیز میں جو وقار ہے وہ حکیم مریخی میں نہیں‘‘ (ص 51) کیٹو کی تصویر یہ ہے : ’’میں نے تنہا ایک ضعیف بزرگ دیکھا جس کے چہرے سے ایسی عظمت کے آثار نمایاں تھے کہ بیٹا بھی اس سے زیادہ اپنے باپ کی تعظیم نہیں کرتا اس کی داڑھی لمبی تھی جس میں سفید بال تھے اس کے سر کے بالوں کی طرح سفید اور سر کے بال دو لٹوں میں اس کے سینہ پر پڑے ہوئے تھے اور چار مقدس روشنیوں کی شعاعوں سے اس کا چہرہ ایسا روشن ہو گیا تھا کہ گویا سورج میں اس کی درخشانی آ گئی تھی‘‘ (ص 46 ) یہ یولی سیز ہے: ’’میرے بھائیو! میں نے کہا تم جو ہزاروں خطروںسے گزر کر پچھم پہنچے ہو اب یہ مہلت کم جو تمہارے حواس کو بچ رہی ہے ان تجربوں سے محروم مت رکھو جو سورج کے تعاقب میں تمہیں سونی دنیا دکھا سکتی ہے اپنے آغاز کو یاد کرو تم جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے کے لیے نہیں پیدا کیے گئے تھے بلکہ علم اور طاقت حاصل کرنے کے لیے (ص 44-45) اب دیکھیے حکیم مریخی کی تصویر اقبال کے موقلم سے کھینچی ہوئی: ایک بوڑھا جس کی ڈاڑھی تھی سراسر مثل برف علم و حکمت پہ کی تھی جس نے ساری عمر صرف تیز تھیں اس کی نگاہیں مثل دانا یان غرب پیرہن اس کا مثال پیر تو سایان غرب کہنہ سال اونچا قدوقامت مثال نخل سرو اور چہرہ تمتماتا صحت ترکان مرد نکتہ داں و آشنائے رسم و راہ طریق آنکھ کی تابانیاں آئینہ فکر عمیق (ص 31) حکیم کہتا ہے: جیسے پیرایے میں دیکھیں ہو وہی وضع جہاں گر بدل جائے نظر بدلیں زمین و آسماں (ص 32) مریخ کی تصویر کشی کے بعد اقبال نے جاوید نامہ میں حکیم مریخ کے نمودا رہونے پر سرخی اس طرح لگائی ہے: ’’برآمدن انجم شناس مریخی از رصد گاہ‘‘ (رصد گاہ سے مریخ کے انجم شناس کا نمودار ہونا) اس کے بعد وہ چار اشعار میں جن کا منظوم ترجمہ اوپر دیا گیا ہے‘ پھر اس کے آگے مذکورہ بالا سرخی کے تحت دیے ہوئے عنوان پر اقبال مزید کہتے ہیں: آدمی کو دیکھ کر وہ پھول کی طرح کھل اٹھا اور طوسی و خیام کی زبان میں بولا مٹی کا پتلا چند و چوں کا اسیر تحت و فوق کی حدود سے باہر آ گیا بغیر سواری کے مٹی کو اس نے طاقت پرواز دی ثابت کو سیار ہ کا جوہر عطا کیا اس کا نطق اور ادراک نہر کی طرح رواں ہے میں اس کی گفتار سن کر حیرت میں ہوں یہ سب خواب ہے یا جادوگری مریخیوں کے لب پر فارسی زبان! وہ بولا! حضرت محمد مصطفیٰؐ کے زمانے میں ایک صاحب معرفت مریخی تھا اس نے اپنی چشم جہاں بیں کھول کر دنیا کو دیکھا اور خطہ آدم کی سیر کے لیے تیار ہوگیا ہستی کی فضائوںمیں اڑتا ہوا وہ صحرائے حجاز میں اترا جو کچھ اس نے مشرق و مغرب میں دیکھا اسے رقم کیا دنیا کا جو نقشہ اس نے کھینچا وہ باغ بہشت سے بھی زیادہ رنگین ہے میں بھی ایران اور انگلستان ہو آیا ہوں اور دریائے نیل اور گنگا کے ملکوں میں بھی گھوما ہوں میں نے امریکہ جاپان اور چین بھی دیکھا ہے تاکہ زمین کے خزانوں کی تحقیق کروں میں زمین کے شب و روز سے واقف ہوں میں نے اس بحروبر کا سفر کیا ہے میری نگاہوں کے سامنے انسان کی تمام سرگرمیاں ہیں گرچہ وہ ہمارے کاموں سے بے خبر ہے‘‘۔ اس کے بعد حکیم مریخی کے ساتھ رومی اور اقبال کے کئی مکالمات ہیں جن میں زیادہ تر اظہار حکیم مریخی ہی نے کیا ہے۔ اس سے قطع نظر یہ کہ حکیم مریخی کا وجود اقبال کے فن کا تخلیق کیا ہوا ہے جب کہ کیٹو اوریولی سیز کے پہلے سے معلوم وجود میں دانتے نے صرف کچھ رنگ بھر دیے ہیں‘ کیا کیٹو اور یولی سیز دونوں مل کر بھی حکیم مریخی کی بلند و بالا شخصیت کا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟ یہ دونوں حضرات تو ابھی زمین ہی تلاش و جستجو میں سرگرداں ہیں اور بقول حکیم مریخی اہل مریخ ک کاموں سے بے خبر ہیں۔ میں جب کہ حکیم کی نگاہوں کے سامنے انسان کی تمام سرگرمیاں ہیں یہاں تک کہ خودروئے زمین پر حکیم نے براہ راست مشاہدے اور مطالعے کے لیے جن خطوں کے سفر کیے ہیں ان سب تک کیٹو تو کیٹو یولی سیز جیسا جہاں گشت بھی نہیں پہنچا ہے ذرا یولی سیز اور حکیم مریخی کے مکالموں کا ایک دوسرے سے موازنہ کر کے دیکھیے اور سوچیے کہ کیا کوئی باخبر اور سمجھدار آدمی کہہ سکتا ہے کہ: ’’کیٹو اور یولی سیز میں جو وقار ہے وہ حکیم مریخی میں نہیں؟‘‘ نواح مرغدین میں حضرت سلیمانؑ کے وزیر اعظم آصف برخیا کی نسل کی ایک قد آور شخصیت حکیم مریخی کے سامنے کیٹو اور یولی سیز بونوں سے زیادہ نہیں۔ دوسرے اہم کردار بھی جاوید نامہ میں ہیں جہاں دوست ہے ‘ نادر‘ ابدالی اور سلطان شہید ہیں خود رہبر سفر رومی کی شخصیت ہے۔ ہر کردار کا بڑا مفصل سراپا تو بیان نہیںکیا گیا ہے مگر کرداروں کے مکالمے اوران کے حضور کے پس منظر میں‘ ج سے ان کی شخصیت اور خصوصیت کا تعین ہوتا ہے سروش زروان اور مریخ کا موازنہ تو ہم دانتے کی بہترین تصویروں سیکر کے دیکھ ہی چکے ہیں کہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے جو جناب کلیم الدین احمد نے اپنی عدم واقفیت اور کم نظری کے سبب پیش کی ہے وہ دانتے کی چھوٹی سے چھوٹی چند سطری تصویروں پر تو سر دھنتے ہیں اور صرف مکالمے کو بھی بعض اہم اشخاص کی کردار نگاری کے لیے ڈوائن کومیڈی میں کافی سمجھتے ہیں لیکن ابھی آپ نے دیکھا کہ دانتے کی یولی سیز کا صرف ایک مکالمہ درج کر کے اسے اقبال کے حکیم مریخی سے زیادہ باوقار کردار انہوںنے قرار دے دیا۔ حالانکہ جاوید نامہ میں حکیم کا جو مختصر اور موثر سراپا پیش کیا یگا ہے وہ تو ہے ہی ا س کے علاوہ اس کے ظہور کا پس منظر اور سب سے بڑھ کر اس کا ایک مکالمہ نہیں کئی مکالمات اتنے مفصل اور موثر ہیں کہ ان کے سامنے یولی سیز ایک طفل مکتب معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح جاوید نامہ کے بہتیرے کردار اپنے پس منظر اور مکالمات میں روشنی میں پڑھنے والے کے دماغ پر ٹھوس دیرپا اور بہت ہی فکر انگیز اثرات مرتسم کرتے ہیں۔ لیکن ان نمایاں حقائق کے باوجود ’’اقبال ایک مطالعہ‘‘ کا انداز تنقید یہ ہے: ’’نہ تو کسی ہم جان دار تصویر دیکھتے ہیں اورنہ ان کے کرداروں کی خصوصیات اجاگر ہوتی ہیں‘‘ (س 31) ’’یہ تھے اقبال کے کردار دیکھا آپ نے ان میں زیادہ اقبال کے Mouth Piece تھے کچھ سپاٹ اور غیر دل چسپ ‘‘ (ص 34) اقبال کے کرداروں کی پوری تصویر ان جملوں کے مصنف پیش کرنے کی جرات یا صلاحیت نہیں رکھتے۔ بدترین کمال حق Concealment & Suppression of Facts کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے بعد نہایت ڈھٹائی سے لغو بیانات دیے چلے جاتے ہیں ’’چہ دلادر ست دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘ یعنی ٹھیٹ ہندوستانی محاورے میں: ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ممدوح دانتے کی جناب کلیم الدین احمد نے بھی صرف روما اور یونان کی تاریخ کی کامل ورق گردانی کی ہے۔ اس محدود نظری کے لیے ہم دانتے کو تو کسی حد تک معذور سمجھ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ غریب ایسے زمانے میں پیدا ہوا تھا جب علوم و فنون کی اشاعت پورے طور سے آفاقی سطح پر نہیں ہوئی تھی۔ پھر وہ پیدائشی طور پر مغربی عصبیت میں مبتلا تھا۔ لیکن کوئی کلیم الدین احمد بیسویں صدی کی آخری چوتھائی میں ہندوستان ایشیا اور افریقہ کی تاریخ اور علوم و فنون سے اتنا بیگانہ و ناواقف ہو کہ اس تاریخ کے کرداروں سے نہ تو اس کو کوئی دلچسپی ہو اور نہ وہ ان کے شاعرانہ موقعوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہو…نہ سرف ناقابل فہم اور نامعقول بلکہ ناقابل معافی ہے۔ موصوف کے بیانات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقبال کی بنائی ہوئی حسین اور خیال انگیز تصویروں کے باوجود چہروں کو بس پسند نہیں کرتے جن کا نقشہ کھینچا گیا ہے‘ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے‘ کہ جو معیار ڈوائن کومیڈی کی تصویروں کی تحسین کے لے استعمال کیا جائے وہ جاوید نامہ کی تصویروں کے لیے تصویروں کے چند اجزا بیان کر کے بھی کام میں نہ لایا جائے۔ کہتے ہیں: ’’Lapia کی زندگی کا چار سطروں میں خلاصہ ایسا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے کسی اور شاعر میں ملے گی‘‘۔ اور اس قسم کی مختصر مرقع نگاری کی بناپر اعلان کیا جاتا ہے: ’’ڈواین کومیڈی جیسا کہ میں نے کہا ایک بے مثل Gallery of Portraitsہے‘‘ (ص 51) کرداروں کے ایسے چار سطری خلاصے جاوید نامہ میں بے شمار ہیں اور ان پر مشتمل تصویروں کا ایک آئینہ خانہ کیا حیر ت خانہ عالم ہے۔ مگر جناب کلیم الدین احمد کو نہ تو اس کی خبر ہے اور نہ اس سے دلچسپی ۔ ان کی سخن فہمی کا تو عالم یہ ہے کہ جہاں دوست جیسے اہم تاریخی کردار کے بار ے میں کہہ گزرتے ہیں: ’’لیکن جہاں دوست دوسرے کرداروں کی طرح اقبال کا Mouth Pieceہے ۔ اس کی زبانی یہ کچھ باتیں کہنا چاہتے ہیں‘‘ (ص 30) حالانکہ خود انہوں نے جہاں دوست کے جاوید نامہ میں مرقع سے متعلق د ونہایت خیال انگیز اشعار درج کیے ہیں جن کے مصرعے چار ہوئے یعنی ڈوائن کومیڈی کی چار سطریں: ایک پیپل کے تلے اک عارف ہندی نژاد جس کی آنکھیں سرمہ کی تاثیر سے روشن سواد سر پہ وہ باندھے جٹا پوشاک سے عاری بدن دودھا سانپ اس پہ پیچاں دھیان میں اپنی مگن اگر انہی سطروں پر غور کیا جائے تو کیا یہ وشوامتر استاد رام چندر جی‘ کی زندگی کا ایسا خلاصہ نہیں جس کی مثال مشکل سے کسی شاعر کے یہاں ملے گی؟ غور کیجیے… پیپل کے تلے‘ عارف ہندی نژاد‘ آنکھیں سرمہ کی تاثیر سے روشن‘ سر پہ وہ باندھے جٹا‘ پوشاک سے عاری بدن‘ دودھیا سانپ اس پہ پیچاں‘ دھیان میں اپنی مگن… جیسی تاریخ بداماں‘ تہذیبی قدروںاور شخصی خصوصیتوں سے معمور‘ معنی آفریں‘ منقبش اور فکر انگیز تصویروں پر اتنی بھرپور اور خیال انگیز کوئی ایک تصویر بھی جناب کلیم الدین احمد نے ڈوائن کومیڈی سے نہیں پیش کی ہے۔ اور اس پر یہ کہ ایسی جاندار اور نادر اور حسین تصویر کے حامل کردار کو وہ محض Mouth Pieceکہہ کر نکل جاتے ہیں! یہ علم ہے یا ظلم ذوق ہے یا بدذوقی ؟ ایسا ہی ظلم وہ ہر جگہ کرتے ہیں او ر ایسی ہی بدذوقی کا ثبوت وہ ہر موقع پر دیتے ہیں: ’’اسی طرح جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کا بھی یہی رول ہے کہ ان کی زبانی دین و وطن اشتراکیت و ملوکیت شرق و غرب ‘ خلافت آدم‘ حکومت الٰہی ‘ حکمت خیر کثیر است‘ پیغام افغانی یا ملت روسیہ‘ ان جیسے موضوعات پر اقبال اپنے خیالات دوسروں کی زبانی بیان کر سکیں گے۔ فرعون اور کیچز اور درویش سودانی میں کوئی جان نہیں حلاج غالب اور طاہرہ میں صرف حلاج میں کچھ جان ہے اور وہ بھی اس کی آزاد خیالی کی وجہ سے‘‘۔ (ص 30) صاف مترشح ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کا Bias(تعصب) چوں کہ اقبال کے منتخب موضوعات و اشخاس کے خلاف ہے لہٰذا وہ ان موضوعات اور اشخاص سے متعلق اقبال کی ہر بات کی آنکھ بند کر کے تنقیص ضروری سمجھتے ہیں یا ضروری کرتے ہیں چنانچہ جن موضوعات و اشخاص کو وہ خود پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنے خیال میں اقبال کی اصلی و کلی فکر سے دور سمجھتے ہیں ان کی دبی دبی اور ہلکی سی تحسین کر کے صرف ان کے لیے ایک ترجیحی اور فائق مقام بنانا چاہتے ہیں ورنہ اس جملے کامطلب کیا ہے: ’’صرف حلاج میں کچھ جان ہے اور وہ بھی اس کی آزاد خیالی کی وجہ سے؟‘‘ جب اقبال کا ہر کردار ان کا آلہ کار Mouth Piece ہے تو اس میں جان کہاں سے آئی؟ اس کی اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے؟ یعنی اقبال کے موقلم سے اس نے اپنی تصویر آپ کھنچوائی‘ وہ بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح آزاد ہو کر اپنے ہی عامل پر سوار ہو گیا۔ یا اس کی تصویر بناتے وقت شاعر کا ذہن اونگھ گیا؟ منصور کی آزاد خیالی اس کی زندگی میں ہو گی‘ جیسی طاہرہ اور غالب کی بھی تھی: بندگی میں بھی وہ آزادہ و خوبین ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا (غالب) لیکن جناب کلیم الدین احمد تصور کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد طاہرہ اور غالب کی روحیں تو فن کار کے قبضے میں آ گئیں اور حلاج کی روح نے گویا شاعر ہی کی روح پر قبضہ کر لیا ۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایسا ہی لطیفہ جناب ناقد نے جاوید نامہ کی نبیہ مریخ کے سلسلے میں کیا تھا اور کہا تھا کہ چونکہ وہ آزادی نسواں کی علمبردار تھی‘ لہٰذ ا اس کی تصویر بہت جاندار اور دل چسپ ہے‘ چاہے اقبال اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ اس طرح کی عجیب و غریب باتوں سے بھید یہی کھلتا ہے ک سارا معاملہ اقبال کی پسند و ناپسند کا نہیں‘ جناب کلیم الدین احمد کی پسند و ناپسند کا ہے‘ جو اپنی جگہ بہت ہی سخت ہے اتنی سخت کہ تنقید جیسے علمی معروضی فن میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ آخر یہ Mouth Piece کا معاملہ کیا ہے؟ کون ہے وہ فن کار جس کے ذاتی میلانات و خیالات نہیں ہوتے؟ ڈوائن کومیڈی کا تو سارا نظام دانتے کے شخصی میلانات و خیالات پر مبنی ہے۔ کرداروں اور مناظر کے انتخاب اور ان کے موقع و محل Placing اور رنگ و آہنگ انداز و ادا سب کے بارے میں فیصلہ شاعر ہی کا ہے اور تمام اشیاء وہ اشخاص اس کے ذہنی طلسم میں گرفتار ہیں۔ لیکن یہ پیز ہمارے مغربی نقاد کو اقبال میں تو بری طرح محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ دانتے میں ان کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا‘ حالانکہ دانتے کے برخلاف اقبال نے اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں اور اپنے محبوب نظریہ حیات سے ٹکرانے والوں کے ساتھ بھی انصاف کیا ہے اور تاریخ عالم میں جس کا ذکر جو کردار کر رہا ہے۔ اس کو ٹھیک ٹھیک پیش کر دیا ہے اور اس سلسلے میں نہ صرف وسیع واقفیت بلکہ گہری ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے عظیم اشخاص میں ایک طرف افغانی ‘ سوڈانی ‘ رومی اور ٹیپو وغیرہ ہیں تو دوسری طرف وشوامتر ‘ گوتم‘ نیٹشے اور ٹولسٹواے بھی ہیں۔ حدیہ کہ ابلیس سے بھی بقول جناب کلیم الدین احمد کے ہی اقبال کو ہمیشہ سے ہمدردی رہی ہے۔ کیا یہ عقیدے اور نظریے کی ہمدردی ہے؟ کیا اقبال کے اندر شیطان ملول کیے ہوئے تھا؟ ان سوالوں کا جواب تو کوئی بے وقوف ارو بے خبر ہی دے سکتا ہے۔ صاف اور سیدھی بات ہے کہ اقبال نے ابلیس کے ساتھ فن کا راز انصاف کیا ہے۔ اور ان کا شاعرانہ ذوق دنیا کی مکروہ ترین شخصیت میں بھی حسن کا ایک پہلو دیکھ سکتا ہے۔ یہ حس انصاف و جمال نہ تو دانتے کو نصیب ہے اور نہ کلیم الدین احمد کو ۔ یہ بات اقبال اور دانتے کے ابلیسوں کا موازنہ کرنے سے بالکل واضح اور ثابت ہو جائے گی۔ دانتے کا ابلیس جہنم میں… اور ان مہیب شکلوں میں مہیب ترین ابلیس ہے جو اپنی تاریک و غم انگیز اقلیم میں کمر تک یخ بستہ ہے اور اس کا ایک ایک ہاتھ دیوتائوں کی سی جسامت سے دوچند تھا اسی سے اس کے قد و قامت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ وہ پہلے ا س قدر حسین تھا کہ جتنا وہ اب بدصورت ہے۔ اسی سے ساری بلائیں پھیلیں ہیں ۔ اس کے سر میں تین چہرے تھے۔ سامنے والا شعلہ رنگ تھا دوسرا سفید و زرد تھا اور تیسرا سیاہ تھا۔ اس کے بازوئوں کے دو بڑے پنکھ کہ اتنے بڑے بادبان کبھی کسی جہاز میں بھی نہ تھے چمگادڑ کے پنکھ کی طرح ہلتے تھے اور ان سے یخ زا ہوائیں نکلتی تھیں اسی وجہ سے یہ جہنم کا یہ حصہ بالکل یخ بستہ تھا۔ اس کی چھ آنکھوں سے آنسو ٹپکتے تھے جو تینوں ٹھوڈیوں پر خونی جھاگ کی طرح ڈھلکتے تھے اور ہر منہ سے وہ ایک گناہ گار کو چبا رہا تھا‘‘۔ (ص 39) اقبال کا ابلیس فلک مشتری پر غالب طاہرہ اور حلاج کے ساتھ مکالمے کے اختتام پر… نمودار شدن خواجہ اہل فرا ق ابلیس غالب ‘ طاہرہ اور حلاج سے گفتگو کے بعد شاعر سوچ رہا ہے کہ روشن دلوں کی صحبت ایک دو ہی لمحے نصیب ہوتی ہے۔ لیکن وہی لمحات پورے وجود عدم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ابھی کی صحبت عشق کو زیادہ مضطرب اور عقل کو مزید بصیرت عطا کر کے ختم ہو گئی۔ اس صحبت کے تصور میں شاعر نے آنکھیں بند کر لیں کہ اسے اپنے اندر اتار لے اور آنکھوں میں دل میں بٹھا لے اسی عالم میں… ’’یکایک میں نے دیکھا کہ دنیا میں اندھیرا چھا گیا مکان اور لامکاں سب تاریک ہو گئے اس سیاہی شب میں ایک شعلہ سا لپکا اور اس کے اندر سے کود کر ایک پیر مرد نکلا اس سرمئی قبا جسم پر ڈالے ہوئے اور پورا جسم پیچ کھاتے ہوئے دھوئیںمیں ڈوبا ہوا رومی نے کہا! خواجہ اہل فراق! وہ سراپا سوز و ساز اور خونیں ایاق بہت پرانا ہے کم ہنستا ہے اور کم بولتا ہے اس کی نگاہیں لوگوں کے دلوں میں اتر جاتی ہیں رند‘ملا‘ اور حکیم و خرقہ پوش کی صفات اس کی شخصیت میں یکجا ہیں محنت و ریاضت میں وہ زاہدان سخت کوش کی طرح ہے اس کی فطرت ذوق وصال سے بے گانہ ہے اس کا زہد یہ ہے کہ اس نے ںسن ازل کے جمال کا دیدار ترک کر دیا ہے اور چونکہ جمال خداوندی سے الگ ہونا آسان نہ تھا لہٰذا اس نے ترک سجود کر کے اپنے آپ کو ابدی فراق میں مبتلا کر لیا ذرا اس کی واردات قلبی کو دیکھو اور مشکلات میں اس کے ثبات و استقلال پر غور کرو وہ ابھی تک خیر و شر کی جنگ میں غرق ہے اس نے سینکڑوں پیغمبر دیکھے مگر ایمان نہیںلایا اس کے بعد دو بند اور ہیں پھر نالہ ابلیس ہے جس میں وہ خدا سے شکوہ کرتا ہے ‘ اور آخر میں جب وہ جی بھر کر خدا سے انسان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی شکایت کر چکتا ہے تو کہتا ہے: اے خدا ایک زندہ مرد حق پرست لذتے شاید کہ یا بم در شکست (خدایا! میرے مقابلے میں ایک مستعد مرد حق کھڑا کر تاکہ میں بھی اپنی شکست کا لطف اٹھا سکوں) جاوید نامہ کی اس تصوری میں ابلیس کے ساتھ بھی پورا انصاف کیا گیا ہے۔ اور اس کے حقیقی خدوخال نمایاں کیے گئے ہیں جن کے نقوش دنیا کے تمام مذاہب میں پائے جاتے ہیں پھر اس تصویر میں ابلیس کا وہ کائناتی کردار بھی اجاگر ہو جاتا ہے جس کی روایات ادیان و مذاہب کی تاریخ میں ملتی ہے یہ ایک مستند موثر مکمل‘ قائل کن اور نہایت فکر انگیز تصویر ہے جو اس کتاب کے مقصد اور منصوبے سے بھی ہم آہنگ ہے جس میں یہ واقع ہوئی ہے۔ اس کے برخلاف ڈوائن کومیڈی کا ابلیس محض یونانی صنمیات کا ایک دیوتا معلوم ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ دانتے نے ابلیس کی تصویر کشی اور کردار نگاری میں ان روایا ت کو بھی ملحوظ نہیں رکھا جو اس کے اپنے مذہب عیسائیت میں پائی جاتی ہیں کجا یہ کہ ان کی تفصیلات سے استفادہ کرنا جو اسلامی روایات میں موجود ہیں اور جن کی خبر دانتے کو ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ عہد وسطیٰ کے علمی حلقوں میں یہ روایات یورپ میں بھی پھیلی ہوئی تھیں اس مستند ذریعہ معلومات کی بجائے دانتے نے یونانی اساطیر و خرافات کی مکروہ شخصیتوں کے نمونے پر ایک خیالی ‘ ہوائی اور بے رنگ اور بے لطف تصویر ابلیس جیسی رنگین بلکہ ہزار رنگ کی پیش کر دی ہے اور اس طرح ایک زندہ اور توانا متحرک اور فعال شخصیت کا نقش بنانے کی بجائے فقط ایک بھیانک گڈا Scare Crow کھڑا کر دیا۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ دانتے کے پاس کوئی سمجھا اور سوچا ہوا نظریہ کائنات نہیں ہے اور درحقیقت کوئی پختہ عقیدہ بھی نہیں ہے اس کا ذہن ایک کباڑ خانہ ہے اور وہ اس کباڑ خانے سے چند بوسیدہ و فرسودہ زنگ خوردہ اور کرم خوردہ مسالوں اور مادوں کو نکال کر ایک مورت تفریح طبع کے لیے گھڑ لیتا ہے جب کہ اقبال کے ذہن میں ایک طرف تو اسلامی عقائد اور اقدار و افکار و تصورات کا پورا نظام ہے دوسری طرف ان روایا ت پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد اور ذاتی مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے نتیجے میںمختلف علوم و فنون کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا ہوا ایک کلی نظریہ حیات اور نقشہ کائنات ہے۔ جس کے اجزاء و عناصر کے طور پر نہایت خلاقی و دراکی اور اجتہاد و جدت کے ساتھ ایک بھرپور حقیقی جاندار اور طلسم آفریں تصویر بنائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانتے نے سارا زور ابلیس کے بدن پر گوشت اور پوست چڑھانے میں صرف کر دیا ہے جبکہ اقبال نے صرف تمثیل کے فنی تقاضے کی حد تک ابلیس کے چند علامتی نقوش پیش کر کے پوری قوت اس کی تاریخٰ شخصیت کے کردار نگاری میں ؒگائی ہے۔ اس کے متعلق کچھ رومی سے کہلوایا ہے اور بہت کچھ خود اس کی زبان سے اپنے ساتھ مکالمے اور پھر خدا سے اس کے شکوے کے دوران سب سے بڑھ کر یہ کہ اقبال نے انسان کے انسان کے ساتھ شیطان کے ازلی رشتے اور کائنات و کائنات میں اس ے اصل رول کی نشاہی دہی کی ہے بات یہ ہے کہ اقبال کا منصوبہ و مقصد دانتے کی طرح حیات بعد الممات کی تصویر کشی اور جنت و جہنم کی نقاشی نہیں ہے۔ بلکہ حیات و کائنات دنیا انسان اور تاریخ کے بنیادی اصولی اور اہم ترین آفاقی اور عملی مسائل کو عالم بادید کی طرح پر رکھ کر دیکھنا اور دکھانا ہے۔ اسی لیے اپنی عظیم ترین تخلیق کا عنوان انہوںنے جاوید نامہ تجویز کیا اور دانتے کی طرح کوئی کومیڈی لکھ کر زندگی کے سنجیدہ مسائل کو ایک طربیہ تماشا کا موضوع بنانے کی جسارت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید نامہ شاعری ہے اور دنیا کی عظیم ترین شاعری اور ڈوائن کامیڈی فقط ایک کومک ڈراما ہے۔ جہاں تک ابلیس کے کردار کی تاریخی روایت کا تعلق ہے تو اس صداقت عامہ کو یاد کر لینا چاہیے کہ یہ ایک مذہبی تصور ہے لہٰذا اس کے مستند نقش و نگار صرف الٰہیات اور دینیات ہی میں مل سکتے ہیں۔ نہ کہ غیر مذہبی صنمیات اساطیر اور خرافات میں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ابلیس کی تصویر کے لیے تو اقبال نے صحیح سرچشمہ معلومات پر انحصار کیا ہے جب کہ دانتے نے غلط ذرائع اختیار کیے ہیں… ان حقائق کے باوجود جناب کلیم الدین احمد فرماتے ہیں: ’’ابلیس کی جیسی ہیبت ناک تصویر دانتے نے کھینچی ہے اس کے مقابلے میں اقبال کا ابلیس کچھ بھی نہیں اور پھر بات یہ بھی ہے کہ اقبا ل کو ابلیس سے ہمدردی تھی وہ ا س کے مداحوں میں سے تھے‘‘۔ (ص 51) معلوم ہوا کہ ابلیس کے نقش و نگار بنانے میں جناب ناقد کی نظر جو کچھ اہمیت ہے ہیبت ناکی کی ہے۔ جناب ناقد کا یہ بیان ان کے اور ان کے ممدوح دانتے دونوں کے شعور کا پول کھول دیتا ہے۔ بلاشہ ہیبت کا ایک عنصر ابلیس کی شخصیت میں ہے مگر یہی سب کچھ نہیں ہے لہٰذا جو تصویر صرف اس عنصر کو سامنے رکھ کر بنائی جائے گی وہ یک رخی One Dimensional ہو گی کیا کوئی دانشور دیانتداری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ ابلیس کی شخصیت میں ایک ہی بعد Dimensionہے کوئی دانتے ایسا سمجھ دار ہے اور کوئی کلیم الدین احمد ہی ایسا کہہ سکتا ہے جن میں ایک حقیقت سے بے خبر ہے اور دوسرا فن سے ناواقف ۔ اسی علمی و تنقیدی ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ جناب ناقد اقبال کو ابلیس کا ہم درد ہی نہیں مداح قرار دے رہے ہیں۔ جناب ناقد بتا سکتے ہیں کہ ابلیس کے ساتھ اقبال کی ہمدردی کیسے ظاہر ہوتی ہے اور شاعر نے شیطان کی مدح کیسے کی ہے؟ پھر یہ فنی سوال بھی اٹھے گا کہ کیا کسی کردار کے ساتھ ہمدردی اور اس کی مداحی کی تصویر کشی میں مانع و مزاحم ہوتی ہے؟ یہ ایک جانی اور مانی ہوئی بات اور ادب کا مسلم الثبوت تصور ہے کہ کسی کردار کی بہترین تصویر وہی ہوتی ہے جو کردار کے ساتھ مصور کی ہمدردی اور اس کی تحسین پر مبنی ہو۔ اس لیے کہ اس مثبت انداز نظر کے سبب ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ مصور تصویر کے موضوع کی تمام ضروری خصوصیات اور مضمرات کو آشکارا کر دے مگر جناب کلیم الدین احمد کا معاملہ تو یہ ہے : جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں جو چاہے آپ حسن کرشمہ ساز کرے تنقید کا یہی انداز محبوبی جناب ناقد نے اقبال …ایک مطالعہ میں ۃر جگہ دکھایا ہے اور دانتے اور اقبال کے ابلیسوں کے موازنے میں یہ انداز اپنے عروج پر ہے بہرحال جناب کلیم الدین احمد کے غور و فکر کے لیے میں ابلیس کے متعلق اقبال کے نقطہ نظر کے سب سے بنیادی نکتے کی طرف موصوف کو متوجہ کرتا ہوں اقبال نے ابلیس کو خواجہ اہل فراق کہا ہے اور جاوید نامہ میں اس کے ظہور پر عنوان لگاتے ہوئے اسے یہی لقب دیا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ ابلیس کو اہل فراق کا سرتاج قرار دینے کا مطلب اقبال کے نزدیک کیا تھا؟ جاوید نامہ کے اسی مقام پر جس کا حوالہ و ترجمہ اوپر کی سطروں میں دے چکا ہوں اقبال رومی کی زبان سے کہتے تھے : فطرتش بے گانہ ذوق وصال زہد او ترک جمال لایزال تاگستن از جمال آساں بنود کر پیش افگند از ترک سجود ان اشعار کا واضح مفہوم یہ ہ کہ ابلیس نے روز اول سے حکم خداوندی سے سرتابی کر کے آدم کو سجدہ تعظیمی کرنے سے انکار کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے خدا کو سجدہ کرنے سے محروم ہو گیا۔ خدا کی رحمت سے دور ہو گیا اس پر غضب الٰہی نازل ہوا اور وہ ملعون بن گیا اب وہ کبھی جمال ایزدی کا دیدار نہ کر سکے گا‘ ابد تک حسن حقیقی کے فراق میں جلتا رہے گا۔ کیا یہ ابلیس کی مداحی ہے؟ یا فی الواقع اس کے کردار کی حقیقی تصویر کشی؟ اگر یہ حقیقت نگاری ہمدردی ہے تو اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت نگاری کے لیے ہمدردی ضروری ہے۔ اور یہ عنصر اقبال کے فن میں بدرجہ اتم موجود ہے جبکہ دانتے اور اس کے مداح جناب کلیم الدین احمد اس سے یکسر محروم نظر آتے ہیں نہ دانتے ابلیس کی شخصیت کو سمجھ سکتا ہے نہ جناب کلیم الدین احمد اقبال کے فن کو ۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال نے ابلیس کی حقیقت پسندانہ کردار نگاری ایک بے مثال شاعرانہ انداز و فلسفیانہ و مفکرانہ موقف سے کی ہے اور یہی عظیم ترین شاعری کا وہ راز سر بستہ ہے جس کی گرہ کھولنے میں دانتے اور ا سکے مداح کی انگلیاں فگار ہو رہی ہیں مگر گرہ کھل نہیں پاتی۔ بہرحال کم از کم ایک کردار اقبا ل کا ایسا ہے جس سے جناب کلیم الدین احمد بھی اس درجہ متاثر ہیں کہ اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں اور دانتے کے کسی کردار سے اس کا اپنے خیال میں موازنہ کر کے اسے گرانے کی کوشش نہیں کرتے چنانچہ فرماتے ہیںـ ’’ایک نبیہ مریخ دل چسپ ہے جو شاید اتفاقی ہے کیونکہ اقبال کو اس سے اور اس کے نظریے سے کوئی ہمدردی نہ تھی‘‘َ (ص 51) یہ بھی تنقید کی عجیب و غریب منطق ہے ۔ کہ دانتے کے ابلیس کے مقابلے میں اقبال کا ابلیس کچھ بھی نہیںَ اس یلے کہ اقبال کو ابلیس سے ہمدردی تھی وہ اس کے مداحوں میں سے تھے۔ جب کہ نبیہ مریح دل چسپ ہے …کیونکہ اقبال کو اس سے اور اس کے نظریے سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ کوئی بتائے کہ کیا واقعی مشرق اور مغرب میں کہیں بھی ادب و فن کا ایسا کوئی تصور ہے جو موضوع کے ساتھ فنکار کی ہمدردی کو تقاضائے فن کی تکمیل میں سد راہ بتاتا ہو اور عدم ہمدردی کو معاون قرار دیتا ہو؟ معروف و مسلم تو یہی ہے کہ ہمدردی ہی فن کار اور موضوع کے درمیان نتیجہ خیز رشتہ قائم کرت ہے معلوم ہوتا ہے ہمارے مغربی نقاد ٹی ایس ایلیٹ کے اس نظری معروضیت کو یہاں سے خلط ملط کر رہے ہیں جو فن میں فن کار کی شخصیت کو فنا کرنے پر مبنی ہے یعنی جناب کلیم الدین احمد فن کے لیے مفروضہ غیر شخصی و معروضی طریق کار کو بالکل منفی و سلبی انداز میں لے رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ کیٹس نے منفی صلاحیت Negative Capability کی بات کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ گویا اسی تصور کو الیٹ نے اپنے طور معروضی مترادف Objective Correlation کی شکل میں پیش کیا اور اسی مقصد کے لیے فنائے شخصیت Extinction of Personality کا نسخہ تجویز کیا۔ لیکن یہ کیٹس اور الیٹ دونوں کے تصورات کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔ دونوں میں سے کسی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ فن کار کی اپنی پسند و ناپسند شخصی طور پرہوتی ہی نہیں‘ بلکہ ان کے مذکور بیانات کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فن کار فنی عمل میں شخصی عصبیت کو راہ نہیں دیتا اور اپنی ساری توجہ تخلیق فن پر مرکوز رکھتا ہے ۔ یہ دوسرے لفظوں میں ایک فنی ارتکاز اور جمالیاتی انہماک ہے ورنہ ہر فن کار کے کچھ اپنے مقاصد اور محرکات ہوتے ہیں۔ اس کی ایک خاص نظر زندگی اور کائنات کے مسائل پر ہوتی ہے اورفنی و جمالیاتی انہماک کے پیچھے بھی فن کار کا انداز نظر اپنے طور پر کام کرتا رہتا ہے۔ کیا کوئی شخص ٹی ایس ایلیٹ کی مشہور نظموں The Waste Land, Hollow Men, Ash Wednesday, Four Quartetsکو اس کے مخصوص تہذیبی نقطہ نظر فکری رجحانات اور مذہبی عقائد کے حوالے کے بغیر سمجھ سکتا ہے۔ کیٹس کا بھی ایک تخیل حیات توتھا ہی ورنہ وہ زندگی کی خامیوں اور کلفتوں کا شکوہ کیوں کرتا؟ اس کی زبردست حس جمال بھی اس کے احساس مرض کو دبا نہیں سکتی۔ اب ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ ابلیس کے ساتھ ان کی مزعومہ ہمدردی کے باوجود اقبال کے ابلیس کو جناب کلیم الدین احمد بالکل غیر دلچسپ اور بے جان بھی قرار نہیںدیتے۔ مگر چونکہ دانتے کے ابلیس کے ساتھ مقابلہ کر کے اقبال کے ابلیس کو گرانا ضروری ہے لہٰذا خاص اسی مقصد کے لیے موصوف ایک ادبی نظریہ وضع کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اس طرح کے خود ساختہ نظریات اور غیر معقول مفروضات میں سے اقبال …ایک مطالعہ بھرا ہوا ہے۔ اس نام نہاد تنقیدی مطالعے میں جناب کلیم الدین احمد نہ تو ادبی مسلمات کا لحاظ کرتے ہیں نہ خود کسی علمی اجتہاد کا ثبوت دیتے ہیں سبس اپنے تعصبات مزعومات پسند اور ناپسند کا اظہار و بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور ساری منطق صرف پہلے سے قائم کردہ خیالات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے چھانٹتے ہیں چنانچہ نبیہ مریخ کے لیے اپنی پسندیدگی کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں: ’’ان سبھوں سے زیادہ دل چسپ کردار نبیہ مریخ کاہے… اقبال اسے ناپسند کرتے ہیں کیونکہ وہ عورتوں کی آزادی کی حامی ہے‘‘۔ (ص 32) اور صرف اسی لیے جناب کلیم الدین احمد اس کو پسند کرتے ہیں۔ یعنی اقبال کے ظرف فن میں تو اتنی وسعت ہے کہ وہ ناپسندیدہ کرداروں کو بھی دلچسپ اور جان دار تصور کرتے ہیں جبکہ جناب کلیم الدین احمد کا ظرف تنقید اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں ذاتی طور پر پسندیدہ موضوعات کے سوا کوئی چیز سماتی ہی نہیں۔ چنانچہ معروضیت کا مطالبہ کرنے والا ناقد تو بالکل شخصی انداز سے کام کرتا ہے۔ اور جس فن کار پر غیر معروضی ہونے کی تہمت لگائی جاتی ہے فی الواقع وہی معروضیت کا ثبوت دیتا ہے! ڈوائن کومیڈی اور جاوید نامہ کی منظر نگاریوں کا جو تقابل جناب کلیم الدین احمد نے کیا ہے اس مٰں بھی معاملے کی نوعیت و حقیقت وہی ہے جو کردار نگاریوں کے سلسلے میں ثابت ہو چکی ہے۔ دونوں تخلیقات میں منظر کشی کے بہترین موقع و مقام کو لیا جائے۔ یہ دربار خداوندی میں حاضری کا موقع ہے ۔ دانتے کی حاضری اس طرح ہوتی ہے: ’’پہلی بار دور سے اسے خدا ایک درخشاں نقطہ دکھائی دیتاہے۔ جس سے ایسی تیز روشنی پھیلتی ہیں کہ آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں بند کرنا پڑتا ہے ارو اس نقطہ درخشاں کے گرد ایک منور دائرہ اسی تیزی سے گردش کر رہا ہے کہ جس کی رفتار کی پیمائش ناممکن ہے اور دوسری بار دانتے نزدیک سے تجلی جلال و جمال دیکھتا ہے : اے لامتناہی الطاف الٰہی‘ جس کی وجہ سے میں نے اس ابدی جمال سے آنکھیںسینکیں‘ اتنی دیر تک کہ گویا میری بصارت جاتی رہی اور اس کی گہرائیوں میں میںنے دنیا کے بکھرے ہوئے شیرازوں کو ایک جلد میں مجلد دیکھا‘ جوہر اور عرض اور ان کی خصوصیتیں اس طرح ایک دوسرے سے گھل مل گئی تھیں کہ دیکھنے میں ایک واحد شعلہ نظر آتا تھا‘‘۔ (ص 96-97) دانتے کی حضوری کا مذکورہ بالا نقشہ پیش کرنے سے پہلے جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کی حضور ی کا ذکر اس طرح کیا تھا: ’’اور اب اس مقام کو لیجیے جب اقبال کو حضور ی حاصل ہوتی ہے‘‘۔ وہ حصہ جس کا عنوان ہے : ’’افتادن تجلی جلال:‘‘ ناگہاں پھر ہوگیا پیش نظر اپنا جہاں دورتاحد نگہ پھیلے زمین و آسماں غرق نور شفق گوں اس کی وہ پہنایاں سرخ صندل کی طرح پھیلی ہوئی پرچھائیاں آ پڑی دل پر مرے برق تجلائے الست کر دیا مثل کلیم اللہ ان جلوئوں نے مست نور نے پردے ہٹائے ہر نہفتہ راز سے سلب کر لی طاقت گفتار اس اعجاز سے اسی عنوان کے تحت جاوید نامہ میں آگے کے اشعار اس طرح ہیں: عالم بے چند و چوں کے ضمیر سے ایک سوز ناک آہ نکلی: مشرق سے گزر جائو اور افرنگ کے طلسم میں بھی نہ رہو نہ قدیم کی کوئی قیمت ہے نہ جدید کی وہ نگینہ دل جو تو شیطان سے ہار گیا جبریل امینؑ کے یہاں بھی گروی رکھنے کا نہیں تھا زندگی کی مجلس آرائی اور خودداری دونوں ہے تو کہ قافلے میں ہے بے ہمہ اور باہمہ رہ تو ماہتاب عالم تاب سے بھی زیادہ تاباں ہے زندگی اس طرح بسر کر کہ تیری روشنی ہر ذرے تک پہنچے ہوا میں اڑتے ہوئے تنکوں کی طرح سکندر‘ دارا‘ قباد اور خسرو سب چلے گئے تیری تنک جامی سے میکدہ رسوا ہوا پوری صراحی اٹھالو حکمت کے ساتھ پیو اور رخصت ہو جائو‘‘۔ لیکن یہ اقبال کی حضور ی کا محض ایک سب سے چھوٹا اور آخری حصہ ہے جب کہ جاوید نامہ میں اقبال نے حضور کا جو عنوان قائم کیا ہے و ہ اس طرح شروع ہوتا ہے: ’’گرچہ جنت اسی کی تجلیوں میں ایک ہے دل کو دیدار دوست کے سوا کسی چیز سے قرار نہیںآتا‘‘ اسکے بعد دس اشعار اور ہیں جن میںپہلا بند ختم ہوتا ہے اور پھر دوسرا بند اس طرح شروع ہوتا ہے ’’میں تمام حور و قصور سے گزر گیا اور کشتی جان نور کے سمندرمیں ڈال دی میں تماشا ئے جمال میں غرق ہو گیا جو لازوال اور ہمہ دم منقلب تھا میں ضمیر کائنات میں گم ہو گا حیات میری نگاہوں کے سامنے رباب بن کر نمودار ہوئی جس کا ہر تار ایک نیا رباب تھا اور اس کی ہر نوا دوسری سے زیادہ خوش فشاں تھی ہم سب نارونور کا ایک ہی خاندان نظر آنے لگے چاہے وہ انسان ہو یا مہرومہ و جبریل و حور ہماری روح کے سامنے ایک آئینہ نصیب ہو گیا اور اس میں حیرت یقین کے ساتھ ہم آمیز دکھائی پڑی…‘‘ یہ تجلی جمال کی کیفیت ہے جس کے نظارے میں محو ہو کر چند مزید اشعار کے بعد شاعر خدا سے خطاب کرتا ہے جس کے آخر میں کہتا ہے: ایں چنیں عالم کجا شایان تست آب و گل داغے کہ بردامان تست (ایسی دنیا تیرے شایان شان کیسے ہو سکتی ہے؟ آب و گل تو ایک داغ ہے جو تیرے دامن پر ہے!) اس کے بعد ندائے جمال آتی ہے ۔ جس میں گیارہ اشعار ہیں۔ اسی موقع پر یہ دو نہایت فکر انگیز اشعار کہے گئے ہیں: زندگی ہم فانی و ہم باقی است ایں ہمہ خلاقی و مشتاقی است زندہ؟ مشتاق شو خلاق شو ہمچو ماگیرندہ آفاق شو (زندگی فانی بھی ہے اور باقی بھی۔ یہ پوری کی پوری خلاقی اور مشتاقی ہے اگر تو زندہ ہے تو تخلیق و تجسس سے کام لے۔ ہماری طرح آفاق گیر ہو)۔ آگے اقبال اور خدا کے درمیان کئی مکالمات ہوتے ہیں اور ندائے جمال بار بار آتی ہے حیات و کائنات کے اسرار و رموز منکشف کرتی ہے تب جا کر تجلی جلال ہوتی ہے۔ اب جلوہ الٰہی کی دونوں تصویروں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھا جائے ایک دانتے کی پیش کی ہوئی سیدھی سادی اکہری بالکل غیر معمولی قسم کی تصویر ہے جس میں کچھ عام قسم کے احساسات و خیالات ظاہر کیے گئے ہیں۔ جن سے نہ یہ معلوم ہوتا ہیکہ شاعر خدا سے کیا چاہتا ہے اور نہ یہ کہ خدا شاعر سے کیا چاہتا ہے۔ بلکہ شاعر تو جلوہ الٰہی کی تاب بھی نہیں لا سکتا۔ یہ حضوری ایک گونگے کی حضوری ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خدا کے حجور نہ کچھ کہنا تھا نہ سننا تھا تو وہاں پہنچے ہی کیوں شاید اسسوال کو جواب نہ شاعر کے پاس ہے اور نہ ہی اس کے مداح کے پاس مداح تو خیر معذور ہے اس لیے کہ وہ شاعر کے حضور میں اسی طرح گنگ ہے (جہاں تک ذہین سوالات کا تعلق ہے) جس طرح غریب خدا کے حضور میں مگر دانتے کی پرواز تو بہت بلند نظر آ رہی تھی وہ کیوں اپنے خدا سے ہم کلامی کا شرف تصور میں بھی حاصل نہیں کرتا غالباً ا س لیے کہ ڈوائن کامیڈی کا کوئی حقیقی محبوب ہی ہی نہیں ۔ بس ایک مجازی محبوبہ عشق طراز ہے۔ جس تک ہی شاعر کے تخیل کی رسائی ہے اور اسی لے وہ اسے ہی محبوب حقیقی کا روپ دینے کی کوشش ھی کرتا ہے۔ لیکن اقبال کی تصویر بہت ہی مرکت جامع اور غیر معمولی اور ہمہ جہت ہے شاعر معرفت و بصیرت کا حامل بھی ہے اور متلاشی بھی وہ حق آگاہ ہے اس کی حکیمانہ نظر جلوہ الٰہی کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ایک جمال اور دوسرے جلال اور یہ ترتیب بھ نہایت بصیر ت مندی کے ساتھ قائم ہوتی ہے کہ پہلے جلوہ جمال ظہور پذیر ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی سارا مکالمہ شاعر کا ہوتاہے اس کے بعد جلوہ جلال نمودار ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں پوری کائنات شفق گوں ہو ججاتی ہے اور شاعر کے ساتھ وہی ہوتاہے جو حضرت موسیٰؑ کلیم اللہ کے ساتھ ہوا تھا۔ اقبال کا شعور اتنا محیط اور محتاط ہے کہ انہوںنے کلیم الٰہی ندائے جمال کے ساتھ کی ہے۔ بجائے جمال مجسم کے۔ ظاہر ہے کہ ندائے جمال ہو کہ تجلی جلال دونوں حضور ہی کے پہلو ہیں۔ اسی لیے اقبال نے دونوں کے لیے حضور کا عنوان قائم کیا ہے ۔ جب کہ حضور کا یہ بسیط و مرکب تصور نہ تو دانتے کو نصیب ہے نہ کلیم الدین احمد کومعلوم۔ ڈوائن کامیڈی اور جاوید نامہ دونوں کا نقطہ عروج حضور ہی ہے مگر دانتے اس نقطے پر پہنچ کر ٹھہر جاتا ہے اس لیے کہ اس کو ایسی بلندی کائنات کی انتہائی بلندی عرش معلیٰ پر سنبھالنے والی کوئی چیز اس کے ذہن و قلب اور روح کے اندر نہیں جب کہ اقبال کی ذہنی و روحانی ثروت اور قلبی معرفت انہیںخاص اس نقطہ عروج پر نہ صرف لے جاتی ہے بلکہ اس نے دیر تک انہیں اس پر قائم رکھا ہے ۔ ان کا دل ماسوا سے آگے بڑھ کر حقیقت مطلق تک پہنچنے کے لیے بے قرار ہے اور ان کا دماغ حقیقت کے اسرار کو جاننے کے لیے مضطرب ہے چنانچہ حضور خداوندی میں پہنچ کر جمال الٰہی سے حوصلہ پا کر اقبال کی زبان ان کے دل و دماغ کا ساتھ دیتی ہے اور وہ رب کائنات سے کلام کر کے جواب میں بھی اس کا کلام ایک ندائے جمال کی صورت میں سنتے ہیں۔ یہ شاعری بھی ہے اور پیغام بری بھی جو دانتے کے بس کی بات نہیں بات یہ ہے کہ اقبال کو ذوق حضور ی میسر ہے اس لیے وہ اپنے محبوب حقیقی کے ساتھ اپنی داستان شوق کو طو ل دیتے ہیں۔ اور دانتے کو یہ ذوق میسر نہیں لہٰذا وہ قصہ مختصر تو کیا شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے: یہ حرفے تواں گفتن تمنائے جہانے را من از ذوق حضوری طول و ادم وارستانے را (اقبال : زبور عجم) دوسرے مناظر کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ اس سلسلے میں جناب کلیم الدین احمد نے موازنے کی ایک عجیب و غریب غیر منطقی اور غیر منقول تکنیک حسب معمول اختیار کی ہے ۔ اس کے بجائے کہ وہ کسی خاص مقام پر یا چند متعین مقامات کا تقابل پہلو بہ پہلو کرتے اور ان کا تجزیہ کر کے متعلقہ تنقیدی حقائق کی تشریح کرتے۔ انہوںنے کیا یہ ہے کہ اقبال کے چند مناظر دے کر ان کی تحقیر میں مبالغہ آمیز بیانات دے دیے ہیں اور پھر دانتے کے بہت سارے مناظر پیش کر کے ا کی تعظیم میں عقیدت کے پھول نچھاور کر دیے ہیں اور یہ لطیفہ کیا ہے کہ اقبال کے بعض مختلف منظروں کو مختصر ہونے کی وجہ سے کم تر قرار دیا گیا ہے مگر دانتے کے ویسے ہی مختصر منظروں کو مختصر ہونے کے باوجود مختصر ہونے کی وجہ سے اعلیٰ قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی تنقیدی بددیانتی اندرونی تضاد سے خالی نہیں ہو سکتی تھی تو وہ بھی بالکل فطری طور پر اس عجیب موازنے میں موجود ہے۔ اور شاید اسی تضاد کے احساس جرم کی وجہ سے اپنے عیب پر پردہ ڈالنے کے لیے غیر تنقیدی اعلانات بھی ہیں جن کا شاعری سے کوئی تعلق نہیں ۔ ملاحظہ ہوں تنقید کی یہ بدحواسیاں: ’’ان مثالوںسے ظاہر ہے کہ جاوید نامہ میں منظر نگاری ہے اور جو مناظر اقبال نے پیش کیے ہیں ان میں د و جہنمی مناظر ہیں…جاوید نامہ میں نہ تو جہنم ہے اور نہ المطہر ۔ یہ دو جہنمی مناظر البتہ ہیں۔ اب ان مناظر کا دانتے کی جہنم کے کچھ مناظر سے مقابلہ کیجیے۔ دانتے تو جہنم کا تفصیلی جغرایہ پیش کرتا ہے‘‘۔ (ص 63) یعنی جاوید نامہ میں منظر نگاری اور قابل ذکر منظر نگاری تو ہے یہاں تک کہ جہنم کے بھی ایک نہیںدو مناظر ہیں مگر جاوید نامہ میں پھر بھی جہنم نہیں ہے۔ جبکہ ڈوائن کومیڈی میں پورا جہنم کدہ آباد ہے۔ اس لیے کہ دانتے تو جہنم کا جغرافیہ داں ہی ہے اور وہ اپنی شاعری میں جہنم کا پورا جغرافیہ غالباً اس کے جملہ طبقات کی تحقیق کر کے پیش کرتا ہے: مزید ارشاد ہوتا ہے: ’’کہہ سکتے ہیں کہ اقبا ل کو جہنم سے کوئی دل چسپی نہیں تھی لیکن انہوںنے حسین مناظر بھی پیش کیے ہیں۔ خاص طور پر زہرہ مریخ اور پھر جنت الفردوش کا بیان شاعرانہ ہے۔ اقبال کی جنت الفردوس کا دانتے کی جنت ارضی سے مقابلہ کیجیے۔ اقبال نے چند سطروں پرقناعت کی ہے۔ دانتے وہاں کے حسین نظارے کا مفصل شاعرانہ بیان کرتا ہے‘‘؛۔ (ص 17) ’’…پھر ان میں کچھ کی تصویریں دیکھیے۔ کس اختصار اور حسن کے ساتھ دانتے انہیں پیش کرتا ہے‘‘۔ (ص 78) یعنی حسین مناظر تو کبھی کبھی شاید غلطی سے ہ اقبال پیش کر دیتے ہیں اور وہ کچھ نہ کچھ شاعرانہ بھی ہو جاتے ہیں مگر ان کا دانتے س کیا مقابلہ؟ اقبال تو بس چند سطروں پر قناعت کرتے ہیں اور دانتے حسین نظاروں کا مفصل بیان کرتا ہے اب یہ دوسری بات ہے کہ کبھی کبھی دانتے بھی اختصار سے کام لیتا ہے۔ لیکن اس کااختصار بھی حسین ہے‘ اس لیے کہ یہ اس کا اختصار ہے کسی اور کا نہیں اگر یہی اختصار کوئی اور مثلاً اقبال کرے تو دانتے والی بات پیدا ہو ہی نہیں سکتی اس لیے کہ دنیائے وجود میں حسن اختصار کے جملہ حقوق قدرت نے دانتے کے لیے محفوظ کر دیے ہیں۔ اب ایک طرفہ تماشا دیکھیے جناب کلیم الدین احمد فرماتے ہیں: ’’یہ قمر ہے (دانتے کا): مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایک پرسکون دبیز ٹھوس اور روشن بادل نے مجھے اپنی آغوش میںلے لیا جو ہیرے کی طرح سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا اور اس ابدی موتی نے مجھے اپنے اندر اس طرح جذب کر لیا جیسے پانی سورج کی کرنوں کو جذب کر لیتا ہے اور اس میں ایک لہر بھی نہیں اٹھتی‘‘ (ص 78-79) اس کے مقابلے میں جناب کلیم الدین احمد نے جاوید نامہ کے فلک قمر کے تین بندوں میں صرف ایک بند کا جو آدھا حصہ پیش کیا ہے اس پر نظر ڈالیے ایسا سناٹا اور ایسا کوہسار ہولناک دل سراپا سوز اور باہر سے کتنا چاک چاک سینکڑوں پربت مثالی حافظین ویلدرم منہ پہ بل کھاتا دھواں بھرپور شعلوں سے شکم کوئی سبزہ اس کے سینے سے کہیں اگتا نہ تھا کوئی طائر ان فضائوں میں نہیںتھا پر کشا ابر سب بیگانہ نم اور ہوائیں تند و تیز تھیں زمین مردہ سے دن رات سرگرم ستیز ایک جہاں فرسودہ جسمیں رنگ ہی پیدا نہ صوت زندگانی کا نشاں کوئی نہ تھے آثار موت کوکھ میںاس کے نہ کوئی ریشہ نخل حیات اور نہ اس کے بطن میں کوئی نشان حادثات دونوں مناظر کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ دانتے کو چاند کے بارے میں اتنی معلومات بھی میسر نہیں جتنی آج کل اسکول کے بچوں کو حاصل ہیں اور یہ کہ اس نے چاند کی کوئی منظر کشی کرنے کے بجائے چاند میں داخلے کے وقت صرف اپنے شاعرانہ احساسا ت بیان کیے ہیں جب کہ اقبال نے باضابطہ چاند کی تصویر اتارنے کی کامیاب و موثر کوشش کی ہے۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ چاند کی ماہیت اور اس کی صورت حال کے معلق انہیں کافی واقفیت حاصل تھی اور اس سلسلے میں تازہ ترین معلومات ان کے حافظے میں تھیں‘ حالانکہ اس وقت تک جب اقبال نے فلک قمر پر تصور میں قدم رکھا انسان نے چاند پر کمند نہیں ڈالی تھی۔ اور اب دیکھیے دانتے کا جہنم کدہ: ’’میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے ایک ہیبت ناک پاتال کے کنارے کھڑا ہوں جو ان گنت آہ و بکا سے گونج رہی تھی یہ اس قدر تاریک گہری اور ابر آلود تھی کہ اس کی تہہ کی طرف غور سے دیکھنے سے بھی میں کچھ نہ دیکھ سکا‘‘۔ اور اب دانتے دیکھتا ہے: ’’میں ایسی جگہ پہنچا جہاں کوئی روشنی نہ تھی اور جہاں سمندر کی غرش تھی کیونکہ مختلف سمت سے ہوائیں اسے تھپیڑ ے مارتی تھیں یہ جہنمی طوفان کبھی تھمتا نہ تھا اور تھپیڑوں سے روحوں کو بھنور کی طرح چرخ اور اذیت دیتا تھا اور جیسے موسم سرما میں ایک کشادہ اور گھنا جھنڈ بنا کر سار اڑتے ہوئے جاتے ہیں اسی طرح وہ آفت خیز ہوا ان گناہ گاروں کو لیے جا رہی تھی یہاں وہاں اوپر نیچے ‘ یہ انہیں بہاے جاتی تھی اور انہین آرام یا اذیت کی کمی کی کوئی امید تسلی نہیں دیتی تھی اور جیسے لق دق اپنے گیت گاتے ہوئے ایک لمبی قطار میں ہوا میں اڑتے ہیں اسی طرح گریہ و زاری کرتے ہوئے ان روحوں کو آتے دیکھا جو ہوائوں کے تصادم سے ادھر ادھر ماری پھر رہی تھیں‘‘ (ص 63-66) اس کے بعد کئی اور مناظر جا بجا سے پیش کیے گئے ہیں اور بالعموم اطالوی متن کے ساتھ سطریں مصرعوںکی طرح درج کی گئی ہیں۔ اس منظر کشی کے مقابلے میں زہرہ اور زحل سے جاوید نامہ کے مناظر جو جہنم جستہ جستہ پیش کیے گئے ہیں میں اقبال … ایک مطالعہ‘ میں دیے گئے منظوم ترجمے کے ساتھ (جو معلوم نہیں کس کا ہے؟) متعلقہ تفصیلات درج کرتا ہوں جو اصل متن سے لی گئی ہیں اور زیر بحث کتاب میں حذف کر دی گئی ہیں: فرور فتن بدریائے زہرہ و دیدن ارواح فرعون و کشنررا (دریائے زہرہ کی تہوں میں اترنا اور فرعون و کچز کی روحوں کو دیکھنا) صاحب ذکر جمیل پیر رومی جن کی ضرب حضرت ابراہیمؑ کی ضرب جیسی دبدبہ رکھتی ہے عالم مستی میں یہ غزل گائی اور تمام پرانے بت سجدے میں گر پڑے! غزل… غزل ختم کر کے انہوںنے مجھ سے کہا اٹھ اے پسر اور صرف میرا یہ دامن پکڑے رہ… دیکھ یہ کوہ گراں یہ کوہسار بے کلیم برف کے تودوں سے جو لگتا ہے اک انبار سیم اس کے پیچھے اک سمندر بیکراں الماس گوں ہیں نمایاں تربروں سے جس کے احوال دروں اس کے سینے میں نہیں سیل و تلاطم سے خلل ہے نہاں اس کی طبیعت میں سکون لم یزل یہی جگہ ہے مست اقتدار سرکشوں کی غیب کے منکروں اور حاضر پرستوں کی دیکھو وہ ایک شخص مشرق کا ہے اور دوسرا مغرب کا یہ دونوں ہی مردان حق کے ساتھ جنگ و جدال کرتے رہے ایک کی گردن پر کلیم اللہ کا ڈنڈا پڑا دوسرے کا جسم ایک درویش کی تلوار سے دو ٹکڑے ہو گیا دونوں ہی فرعون ہیں یہ چھوٹا وہ بڑا دونوں بیچ دریا میں پیاس سے مر گئے دونوں نے موت کی تلخی چکھی ہے ظالموں کی موت خدا کی ایک نشانی ہے کسی سے ڈرو نہیں میرے پیچھے پیچھے چلے آئو میرے ہاتھ میں ہاتھ دو‘ کسی کا خوف نہ کرو میں موسیٰؑ کی طرح دریا کا سینہ کھولتا ہوں اور تمہیں اس کی تہہ میں لے چلتا ہوں بحر نے ہم پہ کیا سینے کو اپنے بے نقاب جیسے وہ تھا تو ہوا لیکن نظر آتا تھا آب قصر تختہ بند اس کا وادی بے رنگ و بو اور تاریکی مسلسل تہہ بہ تہہ اور تو بہ تو پیر رومی نے سورہ طہ پڑھی جس سے دریا کے اندر ماہتاب اتر آیا اجلے اجلے کوہ پھیلے صاف عریاں سرد سرد ان میں دو حیراں پریشاں مضطرب سرگشتہ مرد انہوںنے بہ یک نگاہ رومی کی طرف دیکھا پھر ایک دوسرے پر نظر ڈالی فرعون بولا یہ سحر یہ روشنی کی نہر یہ صبح اور یہ نور و ظہور کہاں سے آیا؟ اس کے بعد رومی و فرعون کا مکالمہ ہے ۔ پھر مہدی سوڈانی نمودار ہوتے ہیں: ’’پانی کے اندر بجلی سی کوندنے لگی دریا کی موجیں اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے لگیں…‘‘ دوزخ کا دوسرا منظر فلک زحل پر نظر آتا ہے: ارواح رذیلہ کہ باملک و ملت غداری کردہ و دوزخ ایشاں را قبول نہ کردہ (وہ ناپاک روحیں جنہوںنے اپنے ملک و ملت کے ساتھ غداری کی اور دوزخ نے بھی انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا ) راست بازوں کے امام، پیر رومی نے جو تمام راست رووں کے مقام سے واقف ہیں، کہا ’’ اے سخت کوش گردوں نورد‘‘ تو نے اس عالم زنار پوش کو دیکھا ہے؟ اس نے گرد اپنی کمر کے لپٹا رکھی جو شے وہ کسی سیارے کی دم سے چرا کو باندھی ہے اس قدر بوجھل کہ چلنے میں خرام اس کا سکوں جو بھلائی بھی ہو اس کے حکم سے زشت و زبوں گرچہ اس کا پیکر آب و گل سے تیار ہوا ہے مگر اس کی سطح پر پاؤں رکھنا مشکل ہے برق کے کوڑے لئے لاکھوں فرشتے چیرہ دست قاسم قہر خدا ہیں اس میں از روز الست مارتے جاتے ہیں درے پیہم اس سیارے کو اس کے محور سے ہٹائے دیتے ہیں اس بیچارے کو ایک عالم ہے کہ ہے مردود و مطر و دسپر شام کے مانند ہے اس کی سحر بے نور مہر یہ ان روحوں کی منزل ہے جن کا یوم النشور نہیں دوزخ بھی انہیں اپنا ایندھن بنانے سے گریزاں ہے اس کے اندر دو پرانے شیطان بند ہیں جنہوں نے صرف اپنی جسمانی راحتوں کے لئے پوری قوم کی روح کو قتل کر دیا۔ بنگال کا جعفر اور دکن کا صادق ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن اس کے بعد ’’ قلزم خونیں‘‘ ہے جس میں جعفر و صادق غرقاب نظر آتے ہیں: جو نظر آیا مجھے اس کی نہیں تاب بیان اس قدر وحشت، رہا باقی نہ تن میں ہوش جاں دیکھتا ہوں اک سمندر خون کا دہشت فگن اس کے باہر، اس کے اندر، تند طوفاں موج زن ناگ ہی ناگ اس کے اندر جیسے قلزم میں نہنگ کالے کالے ان کے پھن اور بال و پر سیماب و رنگ موجیں ہی موجیں کہ تھیں خونخوار مانند پلنگ جان بلب تھے ان کی ہیبت سے لب ساحل نہنگ تھی سمندر سے نہ اک لحظہ بھی ساحل کو اماں کوہ کے تودے کے تودے خوں میں گرتے ہر زماں کیسی کیسی کشمکش امواج خوں کے درمیاں ایک کشتی ان کے اندر لے رہی تھی ڈبکیاں اور اس کشتی میں تھے دو آدمی ہی زرد رو زشت صورت، خشک لب، مکروہ تن، آشفتہ مو دانتے اور اقبا کے جہنموں کے درمیان اگر کوئی فرق ہے تو صرف حجم کا، ورنہ نوعیت دونوں کی ایک ہے۔ اقبال نے دوزخ کے جو چند مناظر پیش کیے ہیں وہ اپنی جگہ اتنے ہی واقعاتی اور ٹھوس ہیں جتنے دانتے کے تمام مناظر۔ اگر اقبال نے دانتے کی طرح دوزخ کی بہت زیادہ تصویریں نہیں پیش کیں تو محض اس کی وجہ سے یہ غیر ذمے دارانہ لغو اور بے بنیاد بیان کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ’’ دانتے کی منظر نگاری میں وہ واقعیت، وہ جز نگاری ہے جو اقبال کے بس کی بات نہیں ‘‘ کیا کوئی سمجھ دار شخص کہہ سکتا ہے کہ اقبال کی منظر نگاری میں واقعیت اور جزئیات نگاری، نوعیت کے لحاظ سے دانتے کی منظر نگاری سے کم تر ہے؟ ایک قلزم خونیں ہی کو لے لیجئے۔۔۔۔ خون کا دہشت فگن سمندر، جس کے اندر باہر تند طوفان موج زن، اس کے اندر نہنگوں کی طرح ناگ ہی ناگ، جن کے کالے کالے پھن اور سیماب رنگ بال و پر، خونخوار چیتوں کی طرح بپھرتی ہوئی موجیں، جن کی ہیبت سے لب ساحل پڑے ہوئے نہنگ بھی جاں بہ لب، اس بحر خوں میں ہر لمحہ کوہ کے تودے کے تودے گرتے ہوئے اور تیز لہریں ہر وقت ساحل سے ٹکراتی ہوئی، اس قلزم خونیں کی کوہ پیکر موجیں ہر لحظہ پیچ و تاب کھاتی ہوئی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں اور اس طوفان خوں میں ایک ہچکولے کھاتی ہوئی ناؤ، جس کے اندر دو زرد رو زشت صورت خشک لب، مکروہ تن، آشفتہ مو اشخاص لرزاں و ترساں۔۔۔۔ اگر یہ بھیانک، رونگٹے کھڑے کر دینے والی تصویر بھی واقعاتی و جزئیاتی نہیں ہے تو دنیا کی کون سی تصویر جزئیاتی و واقعاتی ہو سکتی ہے؟ کیا دانتے کی تصویریں اقبال کی اس ایک تصویر سے کسی بھی درجے میں زیادہ ٹھوس اور اثر آفریں ہیں؟ واقعہ تو یہ ہے کہ تفصیلات کی طوالت کے باوجود دانتے کے پیش کردہ دوزخی مناظر میں کوئی ایک تو کیا سب ملا کر بھی، اس ایک تصویر کے برابر جہنم کی ہون کیوں اور ہیبت انگیزیوں کی عکاسی و نقاشی نہیں کر سکتے۔ اب یہ جناب کلیم الدین احمد کے ’’ تخیل کی مفلسی‘‘ ہے کہ وہ اس واضح حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور اپنے افلاس تخیل کے سبب بے سروپا اور بے معنی تبصرے کرتے ہیں۔۔۔۔ اب ایک لطیفہ یہ بھی ملاحظہ ہو کہ جناب کلیم الدین احمد نے زحل کے قلزم خونیں کا صرف ایک ابتدائی حصہ ہی نقل کیا ہے، جب کہ اس کا دوسرا اور آخری حصہ وہ ہے جو فریاد یکے از زورق نشنیان قلزم خونیں کے عنوان سے جاوید نامہ میں درج ہوا ہے۔ فریاد کو ہم چھوڑ بھی دیں، جو تین بندوں میں ہے اور نہایت لوزہ خیز ہے، تو اس تمثیل کے خاتمے پر قلزم خونیں کے اس پر ہیئت منظر ہی کا مشاہدہ کریں: ’’ یکایک ایک ہولناک صدا بلند ہوئی، جس سے صحرا و دریا کے سینے چاک چاک ہو گئے۔ اقلیم بدن کا جوڑ جوڑ ٹوٹ گیا، دم بہ دم پہاڑ پر پہاڑ ٹوٹنے لگے۔ تمام پہاڑ بادل کی طرح اڑنے لگے اور ایک عالم صور اسرافیل کے بغیر ہی منہدم ہونے لگا۔ اندرونی تب و تاب سے بے قرار ہو کر بجلی اور کڑکے نے خونیں سمندر کی تہہ میں پناہ ڈھونڈی۔ موجیں اتنی پر شور اور از خود رفتہ ہو گئیں کہ تمام کوہ و کمر خون میں ڈوب گئے۔ فضا کے ظاہر و باطن پر جو کچھ گذر گئی اسے بس ستاروں کے لشکر نے دیکھا اور وہ بھی بے پروائی سے گزر گئے۔‘‘ اس کے علاوہ دوسرے بہت سے واقعاتی و جزئیاتی مناظر جاوید نامہ میں ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد بھی اقرار کرتے ہیں: ’’ زہرہ کی منظر کشی تفصیلی ہے‘‘ (ص56) ’’ مریخ زمین ہی جیسا سیارہ ہے اور یہاں بھی طلسم رنگ و بو ہے یہ بھی صاحب شہر و دیار کاخ و کو ہے اور یہاں کے باشندے بھی ذوفنوں ہیں بلکہ اہل زمین سے در علوم جان و تن برتر ہیں، اور یہاں ایک شہر مرغدین ہے جو بظاہر آئیڈیل شہر معلوم ہوتا ہے اور یہاں کے باشندے بھی آئیڈیل ہیں۔۔۔۔۔۔ دیکھا آپ نے یہ کیسا آئیڈیل شہر ہے؟۔۔۔۔‘‘ (ص 58-60) ایک مختصر خاکہ مشتری کا ہے۔ جنت الفردوس کا نقشہ بھی نہایت دلچسپ، رنگین اور زرین ہے۔ چند اشعار کے ترجمے جناب کلیم الدین احمد کے دئیے ہوئے یہ ہیں۔ لازوال اور ہر زماں نوع دگہ طور دگہ وہم میں آتا نہیں گوبر ملا آئے نظر ہر زماں اس کے کمال و جمال دونوں بدلتے رہتے ہیں۔ وہ مہر و ماہ سے بے نیاز ہے اور اس کی حدود میں نہہ سپہر سما جاتے ہیں۔ لالہ ہی لالے ہیں جو آسودہ کہساروں میں ہیں نہریں ہی نہریں خراماں اس کے گلزاروں میں ہیں غنچے ہی غنچے لہکتے، سرخ، نیلے، چھپئی پھوٹتی ہے قدسیوں کے سانس سے ہر ہر کلی اس کا پانی نقرئی، اس کی ہوائیں عنبریں قصر اجلے اجلے، گنبد ان کے اوپر زمردیں شامیانے لعل گوں، زر تار ان کی ہر طناب سیم تن شاہد، حسینیں جن کی ہیں آئینہ تاب ایسے ایسے حسین و جمیل، تاباں و درخشاں، پر کیف و پر اثر مناضر کے باوصف ہمارے نقاد مغربی کا مریضانہ خبط ملاحظہ کیجئے: ’’ ظاہر ہے کہ اقبال نے صرف چند روائتی جزئیات بیان کرنے پر اور وہ بھی چند شعروں میں قناعت کی ہے۔ اس کے مقابلے میں دانتے کی جنت ارضی زیادہ حقیقی، زیادہ ٹھوس اور زیادہ شاعرانہ ہے۔‘‘ (ص95) دانتے کی انقلابی جزئیات کا بھی مشاہدہ کیجئے۔ ایک ڈھلوان راستے سے جو نہ مسطح تھا اور نہ بہت زیادہ ڈھلوان، ہم لوگ اس وادی کے نزدیک پہنچے جس کا کنارہ آدھے سے زیادہ طے ہو چکا تھا سونا، نفیس چاندی، سرخ اور سفید سیسہ صاف اور چمکیلا تیل، تازہ زمرد جیسے وہ ابھی شق ہوا ہو ان سب چیزوں کی گھاس اور پھولوں کے رنگوں کے آگے جو نشیب میں تھے کوئی حقیقت نہ تھی جیسے کم قیمت جواہر قیمتی جواہر کے آگے ماند پڑ جاتے ہیں فطرت نے وہاں صاف رنگین مصوری ہی نہ کی تھی بلکہ ہزاروں خوشبوؤں کی دل آویزیاں مل جل کر ایک ایسی نگہت بن گئی تھیں جو کسی نے کبھی نہ سونگھی ہو میں نے وہاں روحوں کو گھاس اور پھولوں پر بیٹھے دیکھا جو پہلے نشیب کی وجہ سے نظر نہ آ سکی تھیں اور وہ Salva Regina گا رہی تھی۔ (ص93-94) اقبال کی تصویر کے اجزاء و عناصر ہیں۔۔۔۔۔ لالہ، کہسار، نہر، گلزار، غنچہ رنگ بہ رنگ، قدسیوں کا سانس، پانی، ہوا، نقرئی، عنبریں، قصر، گنبد، سفیدی، زمرد، شامیانہ، لعل، زرتار، طناب، سیم تن، شاہد جبیں، آئینہ تاب۔ دانتے کی تصویر کی جزئیات ہیں۔۔۔۔۔ ڈھلوان راستہ، مسطح وادی، کنارہ، سونا، چاندی، سیسہ، سرخ، سفید، تیل، زمرد، ساف، چمکیلا، تازہ، گھاس، پھول، نشیب، جواہر، خوشبو، روحیں، نغمہ کیا کوئی شخص ہوش و حواس میں رہتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ دوسری تصویر پہلی تصویر سے ’’ زیادہ واضح، زیادہ حقیقی اور زیادہ ٹھوس ہے؟‘‘ اور جہاں تک’’ زیادہ شاعرانہ‘‘ کا تعلق ہے، اس پر تبصرہ کرنا ہی عبث ہے۔ اقبال کی تصویر کی شعریت کے سامنے دانتے کی شعریت گرد و غبار ہے۔ بہرحال، دونوں تصویروں میں کئی اجزاء تو مشترک ہیں، لیکن اقبال کی تصویر سے جنت الفردوس کی جو شان و شوکت نمایاں ہوتی ہے وہ دانتے کی جنت ارضی میں کم تر ہے اور جنت الفردوس میں قدسیوں کے سانسوں سے کھلتی ہوئی کلیوں کا جو تصور ہے اس تک دانتے کے تخیل کی پرواز ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ اقبال کے مقابلے میں دانتے کے تخیل کی واقعیت اور رفعت دونوں کی کم تری کا بین ثبوت ہے۔ جنت تو جنت الفردوس ہی ہو سکتی ہے، نہ کہ جنت ارضی، اور اس حقیقت سے اقبال باخبر ہیں، جب کہ دانتے بے خبر۔ پھر بھی ایک بے خبر اور بے مغز، تنقید نگاری کا نمونہ ملاحظہ ہو: ’’ پیش کش کا یہ ڈرامائی انداز اقبال کو نہیں آتا۔۔۔۔۔ اگر آپ کو تمثیل سے کوئی دلچسپی نہ ہو پھر بھی آپ اس رنگین و متحرک شعوری تصویر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اقبال اس قسم کی کوئی تصویر پیش نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ان کے بس کی بات نہیں، باتیں وہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔ لیکن انہیں شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ اس کے باوجود جناب کلیم الدین احمد کو اقبال کی شاعری سے غایت دلچسپی ہے اردو شاعری پر ایک نظر’’ میں پورا ایک باب اقبال کی شاعری پر ہے، عالمی ادب میں اقبال کے مقام پر ایک مستقل مقالہ بھی انہوں نے رقم فرمایا ہے اور جب راقم السطور نے اس کا جواب دیا تو اب جواب الجواب کے طور پر یہ’’ اقبا۔۔۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ بھی جو چار سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے، ہمارے سامنے ہے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی زبردست شاعری ایک کابوس کی طرح ہمارے مغربی نقاد کے ذہن پر سوار ہے، وہ تمام اردو شعراء کو اپنے خیال میں تہہ تیغ کر چکے ہیں اور دنیائے ادب میں کسی کے مام کا قائل نہیں، کسی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کا مطالعہ عالمی ادب کی سطح پر کیا جائے۔ چنانچہ 1969ء میں غالب صدی کے موقع پر پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام جناب اختر اور نیوی کے منعقدہ کردہ ’’ یوم غالب‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے جناب کلیم الدین احمد نے چٹکی لی تھی کہ غالب کی شاعری پر جو اتنا بڑا ہنگامہ دنیائے اردو میں بپا ہے تو ذرا اس پہلو سے بھی مطالعہ کر کے دیکھا جائے کہ عالمی ادب کی سطح پر غالب کا مقام کیا ہے؟ (یہ تقریر ٹیپ ریکارڈ کی ہوئی ہے) اس کے بعد اقبال صدی کے آغاز پر حلقہ ادب بہار کے یوم اقبال منعقدہ پٹنہ کا افتتاح کرنے کے لئے جب راقم السطور نے جناب کلیم الدین احمد کو عالمی ادب اور اقبال کا موضوع دیا اور اس عرصے میں اسی موضوع پر راقم السطور کا ایک مقالہ بھی ’’ نقوش‘‘ میں شائع ہو گیا تو جناب کلیم الدین احمد نے گویا ضروری سمجھا کہ اقبال کی تنقیس کی جائے اور اس طرح ان کا مضمون اور پھر کتاب ایک رد عمل کے طور پر اقبال کی شاعری کے عالمی مقام کے خلاف شائع ہوئی۔ اقبال کی شاعری جس سے بقول جناب کلیم الدین احمد اقبال کو ’’ کوئی دلچسپی نہیں‘‘ ہمارے نقاد مغربی کے گلے میں پھانس ہے جسے نکالنے کے لئے وہ بے قرار ہیں، مگر وہ شاعری ایسی سخت جان ہے کہ نکلتی ہی نہیں آخر اس تنقیدی فن کاری کا کوئی جواب ہے کہ اقبال کی شاعری میں مناظر بھی ہیں حسین اور پر اثر تصویریں بھی ہیں، تمثیلیں بھی ہیں، شعریت بھی ہے، مگر ‘‘ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے! یہ تنقیدی وحدت الوجود کا عجیب و غریب تصوف ہے، جس میں نہ فکر و دانش ہے، نہ علم و فہم، نہ دلیل و منطق، بس جذبات ہیں اور جذباتی بیانات اور اپنے لچر دعوؤں کو قارئین پر ٹھونسنے اور ان پر دھونس جمانے کے لئے اقتباس پر اقتباس اور بار بار ایک ہی قسم کی لایعنی باتوں کی فضول تکرار۔ شاید یہ تکنیک جھوٹ کو بار بار دہرا کر سچ بنانے کی، نازی جرمنی کے دروغ باف وزیر گوہیلز سے سیکھی گئی ہے۔ دانتے کے ساتھ اقبال کے موازنے میں جناب کلیم الدین احمد نے بار بار کردار نگاری، منظر کشی، قصہ گوئی اور ترتیب و تنظیم کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے بعض اہم امور پر دونوں کا موزانہ کر کے دیکھ لیا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے نہ صرف یہ کہ پورے حقائق پیش نہیں کئے بلکہ جو مثالیں انہوں نے سامنے رکھیں ان کا بھی غلط تجربہ کیا اور غلط تر نتائج اخذ کئے۔ بہر حال! موصوف نے اپنے تبصروں میں بارہا ڈوائن کومیڈی، کی ڈرامائیت کا ذکر بھی کیا ہے اور پڑھنے والوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ’’ جاوید نامہ‘‘ ڈرامائیت سے خالی ہے۔ لیکن معاملے کی نوعیت و حقیقت یہ ہے کہ ڈیوائن کومیڈی بھی دراصل کوئی ڈرامہ نہیں ہے، جسے مثال کے طور پر شیکسپیئر کے ڈراموں کی طرح اسٹیج کیا جا سکے، یہ بس ایک طویل تمثیلی نظم ہے اور یہی کیفیت جاوید نامہ کی بھی ہے، چنانچہ ایک تمثیلی تنظیم جاوید نامہ میں اسی طرح ہے جس طرح ڈوائن کومیڈی میں جیسا کہ میں قبل دکھا چکا ہوں، اب یہ دوسری بات ہے کہ جناب کلیم الدین احمد اقبال کے تخلیقی منصوبے کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ آئیے! ہم ایک بالکل طائرانہ نظر ڈال کر جاوید نامہ کے صرف چند ڈرامائی مقامات کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ جناب کلیم الدین احمد نے دانتے کی وکالت میں اقبال کے کمالات کو کس دیدہ دلیری کے ساتھ نظر انداز کیا ہے۔ شاعر خلائی سفر پر روانہ ہونے سے قبل رب العالمین سے ’’ مناجات‘‘ کرتا ہے اس لئے کہ اس کا مقصد سیاحت نہیں معرفت ہے۔ مناجات کے ختم ہوتے ہی آسمانی سفر کی’’ تمہید‘‘ شروع ہوتی ہے، آسمان زمین کو اشتعال دلاتا ہے، اس کے جواب میں سب سے پہلے نغمہ ’’ ملائک‘‘ سنائی دیتا ہے، جس میں انسان کی ایسی عظیم الشان توصیف کی گئی ہے کہ پوری دنیائے شعر و ادب اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے بعد ’’ تمہید زمینی‘‘ ہے اور اس میں اقبال رومی کی وہ مشہور غزل گنگناتے نظر آتے ہیں جس کا آخری شعر ہے گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست میں نے کہا!’’ میں نے بہت جستجو کی کہ وہ گوہر مرا دست یاب نہیں ہوتا۔‘‘ اس نے کہا’’ جو دست یاب نہیں ہو رہا ہے اس تک پہنچنا ہی میری آرزو ہے۔‘‘ اس ڈرامائی موقع پر نہایت ڈرامائی طریقے سے اور صرف چند شعروں میں انتہائی دلفریب منظر نگاری اور دلکش کردار نگاری کے ساتھ روح عالم برزخ کے پردوں کو چیرتی ہوئی نمودار ہوتی ہے: موج مضطر خفت برسنجاب آب شد افق تار از زیان آفتاب از متاعش پارہ وزدید شام کوکبے چوں شاہدے بالائے بام روح رومی پردہ ہا رابر درید از پس کہہ پارہ آمد پدید طلعش رخشندہ مثل آفتاب شیب او فرخندہ چوں عہد شباب پیکر روشن زنور سرمدی در سراپایش سرور سرمدی برلب او سر پنہان وجود بند ہائے حرف و صوت از خود کشود (موج مضطر سطح دریا پر، جو سنجاب کا فرش معلوم ہوتی تھی، خوابیدہ تھی، آفتاب غروب ہو چکا تھا اور افق تاریک ہو رہا تھا، شام نے گویا آفتاب کی متاع نور کا ایک ٹکڑا چرا لیا، جو افق پر اس طرح چمکنے لگا جیسے کوئی حسین لب بام آئے۔ اس عالم میں پہاڑوں کے عقب سے ایک عالم ماہ پارہ نمودار ہوا۔ یہ رومی کی روح تھی جو پردوں کو چیرتی ہوئی نمودار ہوئی۔ اس کا چہرہ آفتاب کی طرح درخشاں تھا اور اس کی پیری میں شباب کی تازگی نظر آ رہی تھی اس کا جسم نور سرمدی سے روشن تھا اور اس کی رگ رگ میں ایک سرور سرمدی چھایا ہوا تھا، اس کے لبوں پر مستی کا سر نہاں تھا او روہ حرف و صورت کی ساری بندشوں کو کھول رہا تھا۔ اس کی گفتگو حقائق کی عکاسی کا ایک آئینہ تھی، جس میں علم و دانش کے ساتھ سوز دروں کی آمیزش تھی) رومی موقع کی مناسبت سے آدم خاکی کے انتہائی عروج کی نشان دہی کرنے والے تاریخ انسانی کے نہایت عظیم الشان واقعے، معراج محمدیؐ کے اسرار و رموز شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس طرح در حقیقت اقبال جاوید نامہ کا مقصد تخلیق اور مطمح نظر واضح کرتے ہیں۔ اس بیان کے اختتام پر روح زماں و مکاں زردان بڑے ڈرامائی انداز میں ظاہر ہوتی ہے، جس کی حسین تصویر کشی کا ذکر قبل کیا جا چکا ہے۔ زروان خلائی مسافر کو عالم علوی کی سیاحت کے لئے اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ یعنی جاوید نامہ کا مصنف ڈوائن کومیڈی کے مصنف کی طرح کسی جنگل میں بھٹک کر اتفاقاً ایک عجیب و غریب عالم میں نہیں پہنچتا ہے اور نہ زمین ہی پر جنت و جہنم میں گھومتا رہتا ہے، بلکہ وہ ایک متعین مقصد کے لئے اور ایک منصوبے کے تحت عالم بالا کی سیر اور وہاں سے حیات و کائنات کا مشاہدہ و مطالعہ کرتا ہے۔ اس پرواز کے وقت ایک زمزمہ انجم آسمانوں میں آدم خاکی کا استقبال کرتا ہے: عقل تو حاصل حیات، عشق تو سر کائنات پیکر خاک! خوش بیا ایں سوئے عالم جہات (تیری عقل حاصل حیات، تیرا عشق سر کائنات ہے ) آدم خاکی! ہم اس عالم جہات میں تیرا خیر مقدم کرتے ہیں اس خلا کی سفر کی منزل اول فلک قمر ہے جس پر عالم انسانیت کا ایک حقیقت شناس سفیر اس دعوے کے ساتھ قدم رکھتا ہے: ایں زمیں و آسماں ملک خداست ایں مہ و پرویں ہمہ میراث ماست (یہ زمین و آسمان خدا کی سلطنت ہیں یہ مہ و پروین سب ہماری میراث ہیں) قمر کی منظر کشی قبل نقل کی جا چکی ہے۔ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ فلک قمر پر اقبال کی ملاقات وشوامتر، استادرام چندر جی، سے ہوتی ہے، جس کی شان یہ ہے: ’’ عارف ہندی کہ بہ یکے از غار ہائے قمر خلوت گوفتہ و اہل ہنداوارا جہاں دوست می گویند‘‘ (ہندوستان کا ایک عارف جو غارہائے قمر میں سے ایک میں خلوت نشیں ہے اور اہل ہند سے ’’ جہاں دوست کہتے ہیں‘‘ ) جہاں دوست کی کردار نگاری پر مشتمل تصویر پہلے ہی درج کی جا چکی ہے، مگر جناب کلیم الدین احمد کی دی ہوئی تصویر سے، جو بجائے خود ہی کتنی ہی حسین، پر اثر اور خیال انگیز ہو، نہ تو جہاں دوست کی اور نہ غار قمر کی وہ پوری تصویر سامنے آتی ہے جو جاوید نامہ میں پندرہ اشعار پر مشتمل ہے۔ اس بھر پور تصویر سے غار قمر کے ساتھ ساتھ عارف ہندی کا سراپا اور اس کا کردار دونوں یک جا مجسم نظر آتے ہیں اور اس مرکب تجسیم سے ایک زبردست تمثیلی ہیولا مرتب ہوتا ہے۔ بہرحال یہاں رومی اور وشوامتر کا مکالمہ ہوتا ہے، جس سے قدیم ہندوستان کا فلسفہ لکھ کر سامنے آ جاتا ہے اور اس طرح تاریخ کے ایک دور، ایک مذہب اور ایک ملت کی کردار نگاری ہوتی ہے اور اقبال جاوید نامہ کے ذریعے، اسلامی نصب العین کو محور و معیار بنا کر، جو آفاقی نقشہ فکر پوری انسانیت کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں اس کا ایک جز نہایت شاعرانہ فلسفیانہ اور تمثیلی انداز میں قارئین کے سامنے آ جاتا ہے۔ اس کے بعد جلوہ سروش، ہماری نگاہوں کے سامنے آتا ہے، رومی سروش کا تعارف شاعر سے کراتے ہیں اور پھر نوائے سروش ابھرتی ہے: ترسم کہ تو می رانی زورق بہ سراب اندر زادی بہ حجاب اندر، میری بہ حجاب اندر (مجھے اندیشہ ہے کہ تو سراب میں کشتی چلا رہا ہے تو حجاب میں پیدا ہوا اور حجاب ہی میں مرے گا) اب خلائی مسافروں کا قافلہ وادی یرغمید میں جسے ملائکہ ’’ وادی طواسین‘‘ کہتے ہیں، وارد ہوتا ہے اس عظیم الشان وادی کی تصویر کشی کی جاتی ہے، جس کے آخر میں شاعر کہتا ہے: پردہ رابر گیرم از اسرار گل باتو گویم از طواسین رسل (اسرار کل سے پردہ اٹھاتا ہوں اور تجھے طواسین رسل کے بارے میں بتاتا ہوں) سب سے پہلے طاسین گوتم ہے جس میں توبہ آوردن زن رقاصہ عشوہ فروش کا قصہ نہایت شاعرانہ و مفکرانہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ گوتم ایک ولولہ انگیز اور عبرت خیز نصیحت کرتے ہیں: مے دیرینہ و معشوق جواں چیزے نیست پیش صاحب نظراں حور جناں چیزے نیست (پرانی شراب اور جواں معشوق کوئی چیز نہیں صاحب نظروں کے سامنے جنت کی حور بھی کچھ نہیں) اس نفی کے بعد اثبات اس طرح ہوتا ہے: بگداز از غیب کہ ایں وہم و گماں چیزے نیست در جہاں بودن ورستن زجہاں چیزے ہست (غیب سے گزر جاؤ کہ یہ وہم و گماں کچھ نہیں دنیا میں رہ کر دنیا سے بے نیاز ہو جانا ایک بات ہے) اس نفی و اثبات کا موازنہ اس سے کیا جائے کہ دانتے ایک معشوق جواں ہی کے فراق و تلاش میں اسی کو زندہ جاوید بنانے کے لئے ڈوائن کہلانے والی کومیڈی کا خواب دیکھتا ہے۔ بہرحال! گوتم کی نصیحت کا اثر، رقاصہ پر ہوتا ہے، اور وہ مجسم رقص اور سراپا نغمہ بن کر یہ سحر آفریں غزل گاتی ہے: فرصت کش مکش مدہ ایں دل بیقرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را (اس دل بے قرار کو کش مکش کا موقع نہ دے گیسوئے تابدار میں ایک دو شکن اور بڑھا دے) اس طرح ڈرامائی اور شاعرانہ انداز میں گوتم بدھ کا فلسفہ حیات ہمارے سامنے ممثل ہو کر آ جاتا ہے۔ اس کے بعد طاسین زرتشت میں اہرمن اور زرتشت کا مکالمہ ہوتا ہے، نور و ظلمت کی معرکہ آرائی کا ایک فکر انگیز منظر نمودار ہوتا ہے او راس کے آخر میں یہ روشنی زرتشت کی تعلیمات سے ملتی ہے: راہ حق با کارواں رفتن خوش است ہمچو جاں اندر جہاں رفتن خوش است (راہ حق پر ایک کارواں کے ساتھ چلنا اچھا ہے جہاں میں جان کی طرح دوڑنا اچھا ہے) اور اب ’’ طاسین مسیح ‘‘ میں رویائے حکیم طالسطائی دیکھتے سب سے پہلے تو ایک مبہوت کن منظر ہے: درمیان کوہسار ہفت مرگ وادی بے طائر و بے شاخ و برگ تاب مہہ از دود گرد او چوقیر آفتاب اندر فضائش تشنہ میر رود سیماب اندراں وادی رواں خم بہ خم مانند جوئے کہکشاں پش اوپست و بلند راہ، ہیچ تند سیر و موج موج و پیچ پیچ غرق در سیماب مردے تا کمر با ہزاراں نالہ ہائے بے اثر قسمت او ابرو بادو آب نے تشنہ و آبے بجز سیماب نے برکراں دیدم زئے نازک تنے چشم او صد کارواں را رہزنے کافری آموز پیران نحشت از نگاہش زشت خوب و خوب زشت اس زبردست منظری نگاری کے ساتھ ساتھ، جس کی خبر جناب کلیم الدین احمد کو نہیں، ایک نوجوان مرد اور ایک نوجوان عورت’’ افرنگین‘‘ کا عبرت خیز و بصیرت افروز مکالمہ درج ہے۔ نوجوان یہودی زرپرستی کی علامت ہے اور ’’ افرنگین‘‘ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، مسیحی یورپ کی ہلاکت خیز معاشرت و سیاست کی علامت ہے، جس طرح طاسین گوتم میں رقاصہ عیش و دنیا کی علامت تھی۔ اسی علامتی انداز میں یہودیت و عیسائیت کی تمثیل، طالسطائی کے خواب میں اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ جدید تمدن اور مغربی تہذیب کے سارے تار و پور بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ مرد یہودی کو زن مسیحی کو طعنہ دیتی ہے: قیمت روح القدوس نشناختی تن خریدی، نقد جاں درباختی (تو نے روح القدوس کی قدر نہیں کی اور روح کو فروخت کر کے جسم خرید لیا) یہ چند اشعار پر مشتمل ایک فرد جرم کا آخری شعر ہے اور خلاصہ ہے یہودی افرنگیں کو ایک مسلسل و موثر جواب دیتا ہے جس کے آخری دو اشعار یہ ہیں: آنچہ ما کردیم بانا سوت او ملت او کرد بالا ہوت او مرگ تو اہل جہاں را زندگی است باش! تابینی کہ انجام تو چست؟ (جو کچھ ہم نے حضرت مسیحؑ کے جسم کے ساتھ کیا ان کی ملت نے وہی ان کے ساتھ کیا۔ اگر تو مرجائے تو دنیا کو ایک نئی زندگی مل جائے دیکھ تیرا انجام کتنا برا ہوتا ہے) اس فکری و فنی کمال کے ساتھ اقوام و ملل اور ادوار و اعصار کی تمثیلی و علامتی کردار نگاری کسی دانتے کے بس کی بات نہیں، اس غریب کا محدود و مفلس تخیل ان حقائق و افکار کا ادراک کرنے سے یکسر قاصر ہے جو اقبال نے بحر علم و دانش کی تہوں سے موتیوں کی طرح نکال کر اپنے خزانہ ذہنی میں جمع کر لئے ہیں اور انہیں ایک دولت فن بنا کر اصحاب ذوق کے درمیان لٹایا ہے۔ طاسین مسیح جیسا کوئی شہ کار شاعری ڈوائن کومیڈی میں کہیں نظر نہیں آتا، حالانکہ ایک متعصب اور غائی مسیحی ہونے کے سبب دانتے سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنے پسندیدہ مذہب کے اساطیر و روایات کے ساتھ اس کے افکار و خیالات کا بھی کوئی طلسم مرتب کرے گا، مگر دانتے کو نہ تو کوئی وسیع علم میسر تھا اور نہ کسی عمیق تفکر کی ہوا لگی تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ کچھ دلچسپ تماشے دکھا سکتا تھا اور وہی اس نے کیا ہے۔ سب سے آخر میں پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم، خاتم الانبیاؐ کی ’’ طاسین محمدؐ‘‘ ہے اور جناب کلیم الدین احمد کے فہم و شعور کے بالکل برعکس، اس طاسین میں ’’ نوحہ روح ابوجہل در حرم کعبہ‘‘ کے زیر عنوان، سب سے بڑے دشمن اسلام کی زبانی اور علامتی طور پر اور علامتی طور پر ایک جہل سراپا’’ ابوجہل‘‘ کے ذریعے پیغام اسلام کے وہ بنیادی نکات پیش کئے گئے ہیںجو سرا سر علم و دانش پر مبنی ہے۔ صرف چند اشعار پر غور کیجئے: مذہب او قاطع ملک و نسب از قریش و منکر از فضل عرب عور نگاہ اویکے بالا و پست باغلام خویش بریک خواں نشست قدر احرار عرب نشناختہ باکلفتان حبش در ساختہ احمراں با اسوداں امیختند آبروئے درد مانے ریختند ایں مساوات، ایں مواغات اعجمی ست خوب می دانم کہ سلمانؓ منروکی ست (اس کا مذہب ملک و نسب کو قطع کرنے والا، وہ خود قریش ہو کر بھی عربوں کی فوقیت سے منکر، اس کی نگاہ میں بلند و پست سب ایک، اپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ گیا، شرفائے عرب کی قدر نہ جانی اور بد ہیئت حبشیوں کے ساتھ گھل مل گیا۔ سرخ و سیاہ کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا، ایک پورے خاندان کی آبرو لٹا دی، برادری و برابری کا یہ تصور عرب سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ سلمان رضی اللہ عنہ عجمی ہے) اس آفاقی و انسانی پیام کی اشاعت سے قدیم جاہلیت کی تاریکیوں پر کیسی ضرب پڑی اور ان کے علمبردار کتنے مضطرب ہوئے۔ اس کیفیت کو جہت معنی خیز طریقے منعکس کرنے اور جدید جاہلیت کے روشنی نما تاریکی فروشوں کو اشارۃ ایک زبردست تنبیہہ کرنے کے بعد شاعر فلک عطارد میں داخل ہوتا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وادی طواسین میں دنیا کے عظیم ترین مذاہب کے بنیادی افکار کو شعری و تمثیلی انداز سے منقش کرنے کے لئے اقبال نے علامتی طور پر موزوں ترین شخصیتوں اور واقعات کا انتخاب کیا۔ ہندو دھرم اور فلسفے کی ترجمانی کے لئے رام چندر جی کے استاد وشوامتر سے بہتر کوئی اساطیری۔۔۔۔ شخصیت نہیں ہو سکتی تھی، زرتشت کے نظریہ نور و ظلمت کی تشریح بدی کی قوت، اہرمن کے ساتھ مقابلہ کرا کے ہی مناسب طور پر ہو سکتی تھی گوتم کے فلسفہ ترک دنیا کی اس سے زیادہ موزوں و موثر تمثیل نہیں ہو سکتی تھی کہ خود دنیا کو ایک عشوہ طرز رقاصہ کی شکل میں گوتم بدھ کے ہاتھ پر توبہ کرتے ہوئے دکھایا جائے۔ عالم مسیحیت اور یہودیت کے ساتھ اس کی تاریخی کش مکش پھر مسیحی یورپ کی تہذیبی و تمدنی غارت گری پر تبصرہ و تنقید کے لئے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کی مشہور عالم شخصیت ٹولسٹوائے (طالسطائی) ہی سب سے زیادہ موزوں و موثر ہو سکتا تھا۔ اس لئے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ اپنی دنیا کے فاسد عقائد اور باطل تصورات کے خلاف فکری طور پر ایک زبردست صدائے احتجاج بلند کی بلکہ علا بھی اس نے سرمایہ و کلیسا کی سازش سے پیدا ہونے والی تمام انسانیت سوز عیش کوششوں سے ترک تعلق کر لیا۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بت خانہ عالم میں اپنے توحید کے پیام سے جو زلزلہ ڈال دیا تھا اور اپنی شریعت و سیرت کے ذریعے تمام امتیازات کو مٹا کر جو آفاقی اخوت، مساوات اور حریت قائم کی تھی اس انقلاب آفریں طاقت کا اس سے بڑھ کر کیا اظہار ہو سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ابو جہلوں کی روح پانی بے بسی پر نوحہ و فریاد کرتی پھرے؟ اسی طرح فلک عطارد پر جن شخصیتوں کا انتخاب اقبال نے دور حاضر کی انسانیت کو ہر جہت سے پیغام اصلاح دینے کے لئے کیا ہے۔ وہ بھی اپنی اپنی جگہ علامتی حد تک پر اثر ہیں۔۔۔۔ جمال الدین افغانی عصر حاضر میں بین اللیت اور تجدید و احیائے دین کے سب سے پہلے عالمی نقیب ہیں، سعید حلیم پاشا، مصطفیٰ کمال کی فساد انگیز اور تباہ کن انتہا پسندیوں کا پردہ چاک کر کے اسلامی اعتدال و توازن کی حقیقت کو واضح کرنے والی سب سے زور دار تر کی شخصیت ہیں، ان تاریخی شخصیتوں کے روبرو حاضر ہو کر ہمارا شاعر ’’ زندہ رود‘‘ کا لقب اپنے لئے اختیار کر لیتا ہے پہلے افغانی ’’ دین و وطن‘‘ اور اشتراک و ملوکیت پر اظہار خیال کرتے ہیں اور سعید حلیم پاشا’’ شرق و غرب‘‘ پر اس کے بعد جب ’’ زندہ رود‘‘ افغانی سے سوال کرتا ہے: زورق ماخاکیاں بے ناخداست کس نداند عالم قرآں کجاست (ہم خاکیوں کی کشتی نا خدا سے محروم ہے کوئی نہیں جانتا عالم قرآن کہاں ہے؟) تو افغانی ایک مختصر تمہید کے ساتھ حسب ذیل ’’ محکمات عالم قرآنی‘‘ پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہیں: خلافت آدم، حکومت الٰہی، ارض ملک خداست، حکمت خیر کثیر است یہ محکم حقائق اس لائق ہیں کہ ہر سوچنے سمجھنے والا انسان، جسے حیات و کائنات اور اس میں انسان کا مقام اور طریق عمل جاننے کی فکر ہے، ان کا بغور مطالعہ کرے اور ان اسرار و رموز کو سمجھنے کی کوشش کرے جو ان پر ظاہر کئے گئے ہیں، مگر یہ بات جناب کلیم الدین احمد کے لئے نہیں ہے، وہ ان حقائق کے اظہار کو صرف باتیں بنانا گویا محض لفاظی سمجھتے ہیں اور انہیں شعور بھی نہیں کہ شاعری فقط تمثیل و ترنم کی بازی گری ہونے کی بجائے حقائق و معارف کا آئینہ و نغمہ بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال زندہ رود کے ساتھ سعید حلیم پاشا اور افغانی کا مکالمہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ ’’ پیغام افغانی باملت روسیہ ‘‘ نشر ہوتا ہے جو یقینا عصر حاضر کی انسانیت کے لئے ایک فکری دستاویز ہے۔ آخر میں پیر زندہ رود رومی کی فرمائش پر ایک غزل گاتا ہے: ایں گل ولالہ تو گوئی کہ مقیم اندہمہ راہ پیما صفت موج نسیم اندہمہ (یہ لالہ و گل جنہیں تم ساکن تصور کرتے ہو در حقیقت سب کے سب موج نسیم کی طرح راہ پیما ہیں) فلک زہرہ کا منظر سامنے آتے ہی اقبال کے احساسات میں ایک نئی لہر پیدا ہو جاتی ہے۔ اس مقام کی تفصیلی منظر کشی کے معترف جناب کلیم الدین احمد بھی ہیں: آن ہوائے تند و آں شبگوں سحاب برق اندر ظلمتش گم کردہ تاب قلزمے اندر ہوا آویختہ چاک داماں و گجر کم ریختہ ساحلش نا پید و موجش گرم خیز گرم خیز و باہوا ہاکم ستیز رومی ومن اندر آں دریائے قیر چوں خیال اندر شبستان ضمیر ٭٭٭ تانشان کوہسار آمد پدید جوئبار و مرغزار آمد پدید کوہ و صحرا صبہار اندر کنار مشکبار آمد نسیم از کوہسار نغمہ ہائے طائران ہم نفس چشمہ زار و سبزہ ہائے نیم رس تن ز فیض آں ہوا پائندہ تر جان پاک اندر بدن بلتیدہ تر از سرکہ پارہ کردم نظر خرم آن کوہ و بحمرآں دشت دور وادی خوش بے نشیب و فراز آب خضر آرو بخاک او نیاز اس طلسمی فضا میں ’’ مجلس خدایان اقوام قدیم‘‘ برپا ہوتی ہے اور ’’ نغمہ لعل‘‘ بلند ہوتا ہے۔ اس کے اجد پیر رومی اور مرید ہندی دریائے زہرہ میں، جس کی پر اثر تصویر کشی کی گئی ہے، غوطہ لگاتے ہیں اور فرعون و پخچر کی ارواح کو دیکھتے ہیں۔ اقبال نے ’’ لوڑد آف خرطوم‘‘ کو ’’ ذو الخرطوم‘‘ کا نہایت معنی خیز خطاب دیا ہے۔ اسی عالم میں مہدی سوڈانی نمودار ہوتے ہیں اور ایک ولولہ انگیز پیغام اہل عرب کو دیتے ہیں، پھر ریگ زار عرب میں تحریک اسلامی کے سفر کی ایسی حسین، فکر انگیز اور وجد آور تصویر کشی کرتے ہیں کہ ڈیوائن کومیڈی کا کوئی مقام اس سحر آفریں اور وجد آور تمثیل کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے اس ایک بند کے مقابلے میں اگر ڈوائن کومیڈی کے اندر کوئی نمونہ فن ہو تو اس کے مداح پیش کریں: سارباں یاراں بہ یثرب مابہ بخد آں حدی کو ناقہ را آرز لوجد ابر بار یداز زمیں ہا سبزہ رست می شود شاید کہ پائے ناقہ سست جانم از درد جدائی در نفیر آں رہے کو سبزہ کم دار دبگیر ناقہ ست سبزہ ومن مست دوست او بدست تست ومن درد ست دوست آب را کردند بر صحرا سبیل بر حجل ہاشستہ اوراق نخیل آں دو آہو در قفائے یک دیگر از فرازتل فروید آید، نگر یک دم آب آز چشمہ صحرا خورد باز سوئے راہ پیما بنگرد ریگ دشت از نم مثال پرنیاں جادہ بر اشتر نمی آید گراں حلقہ حلقہ چوں پر تیہو غمام ترسم از باراں کہ دوریم از مقام سارباں یاراں بہ یثرب مابہ بخد آں حدی کو ناقہ را آرد بہ وجد اب مریخ کا سفر شروع ہوتا ہے یہاں حسین مناظر بھی ہیں، موثر کردار بھی اور دلچسپ قصے بھی۔ سیارے کی فضا کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور اس کے پس منظر میں انجم شناس مریخی از رصد گاہ برآمد ہوتا ہے۔ رومی، زندہ رود اور حکیم مریخی کے مابین مکالمے ہوتے ہیں۔ ایک نہایت خوب صورت ’’ شہر مرغدین‘‘ کی سیر ہوتی ہے یہ زر تار تصویر دیکھنے کے لائق ہے۔ اس کے معترف ہمارے مغربی نقاد ہیںاسی سیارے پر ’’ احوال دو شیزہ‘‘ مریخ کہ دعوائے رسالت کردہ بیان کئے جاتے ہیں مریخ کی یہ مدعیہ نبوت در حقیقت علامت ہے مغربی تحریک آزادی نسواں Womens Liberation کی۔ اقبال نے اس کی لاجواب صورت گری اور کردار نگاری کی ہے۔ یہ دور حاضر کے اس خانہ برباد فتنے کی مستقبل Futurist تمثیل ہے جس سے ہم دو چار ہیں۔ انگریزی میں اس قسم کی بصیرت افروز شاعری یا فن کاری یا دانش وری کو Prophetic کہتے ہیں۔ فلک مشتری کا نظارہ کرنے کے بعد ہم یہاں’’ ارواح جلیلہ علاج و غالب و قرۃ العین طاہرہ‘‘ کا مشاہدہ کرتے ہیں، جن کے بارے میں شاعر عنوان سفر میں ہی کہتا ہے کہ بہ نشیمن بہشتی نگر ید ندد بگردش جاوداں گرائیدند ہم ان بے قرار روحوں کی لوائیں اور ان کے ساتھ زندہ رود کے خیال انگیز مکالمے سنتے ہیں۔ اسی عالم میں خواجہ اہل فراق ابلیس نمودار ہوتا ہے ابلیس کا ظہور بہت ڈرامائی اور نالہ ابلیس نہایت معنی آفریں ہے۔ ابلیس کی دعا کا یہ خاتمہ انتہائی پر اثر اور عبرت خیز ہے۔ اے خدایک زندہ مرد حق پرست لذتے شاید کہ یابم در شکست (اے خدا میرے مقابلے پر ایک ایسے مرد حق پرست کو کھڑا کر جس کے ہاتھوں میں شکست کا لطف اٹھا سکوں) یہ ایک شعر نہ صرف پوری انسانی تاریخ پر ایک سبق آموز تبصرہ ہے بلکہ مستقبل کی انسانیت کے لئے ایک چیلنج، ایک ولولہ انگیز للکار بھی ہے اور یہ پیغام ایک نہایت لطیف و دقیق شعری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ فلک زحل پر ملک و ملت سے غداری کرنے والے افراد کی ’’ ارواح رذیلہ‘‘ کو اس عالم بیچارگی میں دکھایا گیا ہے کہ جہنم بھی انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہاں ’’ روح ہندوستان‘‘ آشکارا ہوتی ہے: آسماں شق گشت و حورے پاک زاد پردہ را از چہرہ خود برکشار (آسماں شق ہو گیا اور ایک حور پاک زاد نے اپنے چہرے سے پردہ اٹھایا) اس پر اثر منظر کے آخر میں رومی کہتے ہیں: گفت ردی روح ہنداست ایں نگر از فغانش سوز ہا اندر جگر (رومی نے کہا ’’ دیکھو، یہ ہندوستان کی روح ہے اور اس کی آہ و فغاں جگر سوز ہے‘‘ ) اس کے بعد ’’ روح ہندوستان نالہ و فریاد می کند‘‘ اس درد انگیز نالے کے تیسرے بند کے آخر سے پہلے کا شعر ہے: ملتے راہر کجا غارت گرے است اصل اواز صادقے یا جعفرے است (جہاں کہیں کسی قوم میں کوئی غارت گر پیدا ہوا ہے اس کی اصل صادق یا جعفر کی خصلت ہے) یہیں ’’ جعفر از بنگال و صادق از دکن‘‘ کی روحیں ایک ہولناک ’’ قلزم خونیں‘‘ میں غوطہ زن نظر آتی ہیں۔ یہاں پہنچ کر سیاروں کا سفر ختم ہو جاتا ہے اور شاعر ’’ آں سوئے افلاک‘‘ پرواز کرتا ہے جس کی سرحد پر ایک شخص بڑے ڈرامائی انداز میں نظر آتا ہے: برثغور یں جہان چون و چند بود مردے باصدائے درد مند (اس جہان چون و چند کی سرحدوں پر ایک شخص ایک صدائے درد مند بلند کر رہا ہے) یہ ’’ مقام حکیم المانوی نطشہ‘‘ ہے جس کے بارے میں اقبال کا یہ مشہور شعر اسی مقام کے بیان کے اواخر میں ہے: کاش بود در زمان احمدے تار سیدے بر سرور سرمدے (کاش یہ شخص۔۔۔۔۔’’ مجذب فرنگی‘‘ ۔۔۔ شیخ احمد سرہندیؒ مجدد الف ثانی کے زمانے میں ہوتا تو اسے سرمد کا سرور عرفان حاصل ہوتا) اور اس سے تین اشعار قبل یہ شعر نطشہ کے پورے فلسفے پر ایک جامع اور موثر تنقید ہے: اور بہ لادر ماندروتا الانرفت از مقام عبدۂ بیگانہ رفت (وہ لا الہ کے عالم نفی ہی میں ٹک کر رہ گیا اور الا اللہ کے عالم اثبات میں نہیں پہنچ سکا۔ اسے مقام بندگی حاصل نہ ہو سکا) اس کے بعد’’ حرکت بہ جنت الفردوس‘‘ ہوتی ہے اور ’’ قصر شرف النسائ‘‘ میں ایک ایسا منظر قصہ اور کردار نظر آتا ہے جو ایک خاتون اسلام کی مثالی سادگی کا نمونہ ہے اور گویا نبیہ مریخ کی فساد انگیز رنگینی و پرکاری کا جواب ہے۔ اس منظر میں دو شعر دو بندوں کے خاتمے پر، ایسے ہیں جو اسلام کی آفاق گیر تحریک اور پنجاب کی شکل میں ہندوستان یا آج کی دنیا میں مسلمانوں کے زوال پر نہایت فکر انگیز اور عبرت خیز تبصرے کرتے ہیں: مومناں را تیغ با قرآں بس است تربت مارا ہمیں ساماں بس است ٭٭٭ خالصہ شمشیر و قرآن رابہ برد اندراں کشور مسلمانی بمرد علامتی اور تمثیلی طور پر ان شعروں کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات اور اسلام کی پیش قدمیوں کا راز یہ ہے کہ قرآن دستور حیات ہو اور اس کے نفاذ کے لئے قوت اقتدار حاصل ہو، لیکن جب یہ دونوں سرمائے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے تو ان کی ملی موت واقع ہو گئی۔ لہٰذا اب حیات نو کی صورت یہی ہے کہ یہ دونوں سرمائے پھر میسر آ جائیں اور ان کے حصول کی جدوجہد ہی ملت اسلامیہ کا آئندہ نصب العین ہونا چاہئے۔ یہ نصیب العین مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں ہے۔ بلکہ جب تک خواتین اسلام اس نصیب العین کو اختیار نہیں کریں گے مسلمانوں کی آئندہ نسلیں مردان کار نہیں پیدا کر سکیں گی۔ یہاں اقبال کی ملاقات اپنے آبائی وطن ’’ کشمیر‘‘ کی دو عظیم ہستیوں، ایک شاعر و غنی کشمیری، اور دوسرے سید علی ہمدانی سے ہوتی ہے ان دو بزرگ ہستیوں کے ساتھ مکالمے کے نتیجے میں شاعر پر جو زبردست اثر ہوتا اس کے تحت وہ اپنے ہم زاد ’’ زندہ رود‘‘ کی زبانی یہ انقلاب پرور غزل گاتا ہے: گفتند جہان ما آیا بتومی سازد گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن (مجھ سے پوچھا گیا ’’ کیا ہماری دنای تجھے راس آ رہی ہے؟‘‘ ) میں نے کہا ’’ راس نہیں آ رہی‘‘ کہا گیا’’ بدل ڈالو!‘‘ ہندوستان کے ایک قدیم شاعر بھرتری ہری سے بھی یہیں ملاقات ہوتی ہے اور مکالمہ بھی، جس کے آخر میں بھرتری ہری کہتا ہے: پیش آئین مکافات عمل سجدہ گزار زانکہ خیزردز عمل دوزخ و اعراف و بہشت (مکافات عمل کے آئین پر عمل کرو، اس لئے کہ عمل ہی سے دوزخ و اعراف و بہشت سب وجود پذیر ہوتے ہیں) اس کے بعد ’’ حرکت بہ کاخ سلاطین مشرق‘‘ ہوتی ہے جہاں نادر، ابدالی اور سلطان ٹیپو جیسے جلیل القدر شاہان مشرق سے جو ماضی قریب میں گزرے ہیں ملاقات ہوتی ہے۔ ان سلاطین مشرق کو پیش کرنے سے اقبال کا مقصد بداہتہ یہ ہے کہ عہد حاضر ہے ہندوستان ایشیا اور ملت اسلامیہ کے سامنے تاریخ کا ایک ورق رکھ کر انہیں ایک نئی تحریک زندگی کی نئی تعمیر اور ہیئت اجتماعی کی جدید تشکیل کے لئے دیں۔ اس سلسلے میں اقبال خاص کر یہ کام بھی کرنا چاہتے ہیں کہ مغربی بالخصوص برطانوی مورخوں کے برخلاف مذکورہ سلاطین مشرق کو صحیح رنگ میں دکھائیں اور انگریزی سامراج نے ایشیا کی تاریخ کو مسخ کرنے اور اس طرح اقوام ایشیا کو تہذیبی طور پر فنا کرنے کی جو مکروہ سازش کی ہے اس کا پردہ چاک کر دیں، تاکہ ہماری آئندہ اور تعلیم یافتہ نسلیں اپنی روایات سے شرمانے کی بجائے ان پر فخر کریں۔ اس مقام کی منظر نگاری بھی نہایت دل کش اور پر اثر ہے: ہر طرف فوار ہاگو ہر فروش مرغک فردوس زاد اندر خروش اس پر فضا مقام پر سلطان ٹیپو، سلطان نادر شاہ اور سلطان احمد شاہ ابدالی کے ساتھ زندہ رود کا مکالمہ ہوتا ہے، جس کے دوران ناصر خسر و علوی کی روح نمودار ہوتی ہے اور ’’ غزلے مستانہ‘‘ گا کو غائب ہو جاتی ہے: از سر شمشیر داز نوک قلم زاید ہنر اے برادر ہمچو نو راز نادرو نا راز نارون (علم و فن تلوار کی دھار اور قلم کی نوک دونوں کی ہم آہنگی سے پیدا ہوتے ہیں، جیسے روشنی آگ سے اور آگ نارون کے درخت سے ابھرتی ہے) ’’ پیغام سلطان شہید (ٹیپو) بہ رور کادیری‘‘ جو حقیقت حیات و مرگ و شہادت کے بیان پر مشتمل ہے۔ نہایت بصیرت افروز اور ولولہ انگیز ہے۔ سب سے پہلے تو ٹیپو اپنے علاقے کے مشہور دریا’’ کادیری‘‘ کو خطاب کرتا ہے: رور کادیری یکے نرمک خرام خستبہ شاید کہ از سیر دوام در کہتاں عمر ہا نالبرۃ راہ خود راہ باشرہ کاوید؟ اے مرا خوشتر زجیحون و فرات اے دکن را آب تو آب حیات آہ شہرے کو در آغوش تو بود حسن نوشیں جلوہ از نوش تو بود کہنہ گرویدی شباب تو ہماں پیچ و تاب و رنگ و آب تو ہماں موج تو جز دانہ سا گوہر نہ زاد طرہ تو تا ابد شوریدہ باد اے ترا سازے کہ سوز زندگی است ہیچ میدانی کہ ایں پیغام کیست؟ اس خطاب کے دوران دریائے کاویری دریائے حیات میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اب اس کی حیثیت علامتی اور ایماتی ہو جاتی ہے، جو فکر و فن دونوں کا کمال ہے، اور ایسے کمالات جاوید نامہ میں ہر طرف بھرے ہوئے ہیں۔ اب سلطان شہید اپنا فلسفہ پیش کرتا ہے: اے من و تو موجے از دور حیات ہر نفس دیگر شواد ایں کائنات (ہیں اور تو (رود کاویری) دریائے زندگی کی ایک لہر ہیں اور سطح دریا ہی کی طرح یہ کائنات ہر لمحہ بدل رہی ہے) اس پیغام کے آخر میں فطری طور پر اپنے خاص تاریخی کردار اور کارنامہ حیات کے مطابق سلطان ٹیپو اسلام کے فلسفہ جنگ پر یہ دل فروز روشنی ڈالتا ہے: جنگ شاہان جہاں غارت گری است جنگ موس سنت پیغمبری است (بادشاہوں کی جنگ دنیا میں لوٹ مار مچانے کے لئے ہے مگر مرد مومن سنت پیغمبری کی پیروی میں جنگ کرتا ہے) جنگ مومن چیست؟ ہجرت سوئے دوست ترک عالم، اختیار کوئے دوست (مومن کی جنگ کیا ہے؟ دوست کی طرح ہجرت، یعنی دنیا چھوڑ کر کوئے دوست کو اختیار کرنا) آنکہ حرف شوق با اقوام گفت جنگ را رہبانی اسلام گفت (جس ذات اقدسؐ نے اقوام عالم کو حرف شوق سنایا۔ اس نے ایک حدیث میں جنگ کو اسلام کی رہبانیت قرار دیا) کس ندا ند جز شہید ایں نکتہ را کوبہ خون خود خرید ایں نکتہ را (شہید ہی اس نکتے کو سمجھ سکتا ہے، جس نے اسے اپنے خون سے حاصل کیا ہے) اب زندہ رود ’’ فردوس بریں‘‘ سے رخصت ہو رہا ہے اور حوران بہشتی اس سے ایک غزل کا تقاضا کرتی ہیں جس کے جواب میں وہ گاتا ہے: بہ آدمے نہ رسیدی، خداچہ می ہوتی زخود گریختہ آشنا چہ می جوئی! (جب تو کسی آدم تک نہیں پہنچ سکا تو خدا کی جستجو کیا کرتا ہے؟ اپنے آپ سے بھاگ کر دوست کی تلاش کیا کرتا ہے؟) اس کے بعد زندہ رود ربط العالمین کے ’’ حضور‘‘ میں پہنچ جاتا ہے اور ندائے جمال سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتا ہے جس کے آخر میں تجلی جلال ہوتی ہے اور سیاحت علوی میں ختم ہو جاتی ہے۔ اس عظیم الشان ذہنی سفر سے مفکر شاعر حقائق و موارف کے جو خزانے لے کر اپنی دنیا میں واپس آتا ہے انہیں فطری طور پر نئی نسل کو ایک تحفے کے طور پر عطا کرتا ہے اور ’’ خطاب بہ جاوید۔۔۔ سخنے بہ نژاد نو‘‘ کے عنوان سے مستقبل کی انسانیت کے لئے اپنے پیغام کا عطر پیش کرتا ہے ایک لفظ میں یہ پیغام ’’ رقص جاں‘‘ یعنی روحانی ارتقا کی حرکت ہے جس کے بغیر وہ نام نہاد’’ حیاتیاتی ارتقائ‘‘ Biological Evolution جو محض جسمانی و مادی ہے، نہ صرف بے معنی بلکہ تباہ کن ہے۔ معراج انسانیت، جس کی کلید حاصل کرنے کے لئے اقبال نے آسمانوں کی سیر کی، وہ ذہنی، روحانی اور اخلاقی و تخلیقی ارتقا ہے جو مادی، جسمانی اور حیاتیاتی ارتقا کی کامیابی کی واحد ضمانت ہے۔ اس طرح اقبال کے جاوید نامہ کی سیر دانتے کی سیر کی طرح کوئی تفریح Comedy نہیں، یہ صحیح معنی میں ایک الوہی Divine فیضان کی تخلیق اور الوہی مقاصد کا ایک اعلان ہے۔ کیا جاوید نامہ کی یہ سیاحت علوی ایک ’’ چلتی پھرتی تصویر‘‘ اور ایک ’’ رنگین فلم‘‘ نہیں ہے اور اس کی پیش کش کا انداز ڈرامائی نہیں ہے، کیا یہ ایک ’’ رنگین و متحریک شعری تصویر‘‘ نہیں ہے؟ ضرور ہے۔ پھر کوئی کلیم الدین احمد اس واضح اور نمایاں واقعے کا اتنی قطعیت کے ساتھ انکار کیوں کر رہے ہیں؟ کیا جاوید نامہ کی تخلیق تنظیم پر کوئی صاحب ذوق یہ تبصرہ کر سکتا ہے؟ ’’ دوسری کمی یہ ہے کہ بہت سے بے کار حصے ہیں۔ مناجات بجائے خود ایک مکمل نظم ہے۔ اسی طرح ’’ نکوہش آسمانی‘‘ اور تمہید زمینی دونوں ایک مکمل نظم کے دو حصے ہیں۔ اسی طرح نغمہ ملائک اور زمزمہ انجم دونوں الگ الگ مکمل نظمیں ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بابجا اقبال اپنی غزلیں اور کبھی رومی کے اشعار کھینچ لاتے ہیں جن سے فنی تکمیل کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ (ص24) ظاہر ہے کہ یہ احساس ایک ’’ تن آسانی‘‘ اور’’ دماغی کابلی‘‘ پر مبنی ہے۔ ہمارے محنتی نقاد نے اپنے دماغ کی ساری چستی اور تن دہی صرف دانتے اور اس کی ’’ ڈوائن کومیڈی‘‘ کو سمجھنے اور سمجھانے پر صرف کر دی ہے، لیکن اقبال اور ان کے جاوید نامہ کے تخلیقی منصوبے تک پر غور کرنے کی ضرورت انہوں نے نہیں محسوس کی ہے۔ ممکن ہے ایسا اس لئے بھی ہو کہ ڈوائن کومیڈی پر مغربی تنقید کے مدحیہ قصائد کے دفتر کے دفتر موجود ہیں۔ جبکہ جاوید نامہ پر تحقیق و تنقید گویا ہوئی ہی نہیں ہے، لہٰذا جناب کلیم الدین احمد کو ڈوائن کومیڈی کی تمام خوبیاں تو معلوم ہو گئیں مگر جاوید نامہ کے اوصاف سے بے خبر رہے۔ اور اس بے خبری میں یقینا بے ذوقی بھی شامل ہے، ورنہ ایک محیط و مرکب ہیئت نظم کے مختلف و متنوع اجزا و عناصر کو اپنی اپنی جگہ ’’ مکمل‘‘ کہہ کر’’ فنی تکمیل کی کمی‘‘ کا اعلان کرنے کی جسات انہیں نہیں ہوتی اور یہ حقیقت آسانی سے ان کی سمجھ میں آ جاتی کہ ایک بڑے کل کے سالم اجزا بھی ہوتے ہیں، زندگی میں بھی، سائنس میں بھی، آرٹ میں بھی۔ ان سارے حقائق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کی اقبال پر تنقید صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک خاص قسم کے فکری مواد کو شاعری کا موضوع کیوں بناتے ہیں۔ ہمارے مغربی نقاد کے دل کا چور یہ ہے: وہ (اقبال) باتیں کر سکتے ہیں وہ وطنیت کی خرابیاں بتا سکتے ہیں، اشتراک و ملوکیت کی مذمت کر سکتے ہیں اور وہ خلافت آدم، حکومت الٰہی، ارض ملک خداست اور حکمت خیر کثیر است کے رموز بیان کر سکتے ہیں۔ لیکن انہیں شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ (ص95) سوال ہے، کیا باتیں، پتے کی اور کام کی باتیں شاعری اور بہترین شاعری کا مواد نہیں بن سکتیں؟ کیا انسان کی فضیلت، خدا کی حکومت، روئے زمین خدا کی ملکیت ہے اور حکمت و دانش کی اہمیت جیسے حیات و کائنات کے عظیم ترین موضوعات شاعری کا موضوع نہیں ہو سکتے؟ کیا صرف قصہ، کہانی، تماشا اور تصویر ہی شاعری کے لئے موزوں ہیں؟ جناب کلیم الدین احمد کی عبارت اور بحث کے مضمرات ان سوالوں کا جواب اثبات میں دیتے نظر آتے ہیں، ورنہ یہ کیا بات ہوئی: ’’ انہیں شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘ دنیا کے بہترین شاعر کو شاعری سے دلچسپی نہیں، جس نے دقیق ترین افکار کو فن کی رعنائی بخشی ہے، اور یہ بات معلوم ہوتی ہے اس شخص کو جس نے نام نہاد’’ بیالیس نظمیں‘‘ اور ’’ پچیس نظمیں‘‘ لکھ کر صرف شاعری کی مٹی پلید کی ہے! دانتے تو بدترین مسیحی تعصبات کی تبلیغ کرنے کے بعد بھی شاعر باقی رہتا ہے اور اقبال اسلام کے بہترین تصورات کا ابلاغ کرنے کی وجہ سے گویا شاعری کے دائرے سے خارج ہو جاتے ہیں یہ ایک عجب و غریب انحراف نفی Peseversion ہے جس کے مظاہر’’ اقبال‘‘ ۔۔۔۔ ایک مطالعہ کے تقریباً ہر صفحے پر آشکار ہیں۔ ٭٭٭ 5 جناب کلیم الدین احمد’’ شارح جاوید نامہ‘‘ کا ایک طویل اقتباس پیش کرتے ہیں، جس کا آخری پیراگراف یہ ہے: ’’ بخلاف اس کے اقبال نے منظر کشی پر خاص توجہ مبذول نہیں کی۔ انہوں نے مصوری کی بجائے حقائق نگاری اور نکات آفرینی پر زیادہ زور دیا ہے اور شاعرانہ استعداد سے زیادہ اپنی حکیمانہ قابلیت کے شواہد پیش کئے ہیں۔‘‘ (ص55) یہ اقتباس صرف یہ ثابت کرنے کے لئے دیا گیا ہے کہ: ’’ یہ جملہ شاعرانہ استعداد سے زیادہ اپنی حکیمانہ قابلیت کے شواہد پیش کئے ہیں‘‘ قابل غور ہے (ایضاً) چنانچہ چٹکی لی گئی ہے: ’’ زیادہ سے زیادہ لکھنے والے اقبال کے حکیمانہ شعور پر صفحے کے صفحے سیاہ کر دیتے ہیں لیکن ان کی شاعرانہ استعداد پر روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا نہیںکرتے‘‘ (ایضاً) اور یہ کام جناب کلیم الدین احمد اس خوبی کے ساتھ انجام دیتے ہیں کہ آخر میں اعلان ہوتا ہے: ’’ انہیں (اقبال کو) شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘ (ص95) سب سے پہلے تو دیکھنا چاہئے کہ یہ ’’ شارح جاوید نامہ‘‘ کون ہیں جن کا اقتباس جناب کلیم الدین احمد نے اپنی مزعومہ اقبال شکنی کی تائید میں دیا ہے پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ اقتباس کس کتاب کا ہے اور کتاب میں کس مقام پر ہے؟’’ اقبال۔۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ ان سوالوں کے جواب میں کسی حوالے سے بالکل خالی ہے، شاید اس لئے کہ یہ تنقیدی مطالعہ ہے ہی بلا تحقیق، لہٰذا اس خالص شخصی و تاثراتی قسم کے مطالعے میں تحقیق کے اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ بہر حال ! تحقیق و تجسس سے دریافت ہوتا ہے کہ یہ اقتباس جناب یوسف سلیم چشتی کی ’’ شرح جاوید نامہ ‘‘ (مطبوعہ لاہور آرٹ پریس، اکتوبر1965ئ) کے صفحہ نمبر80 پر واقع ہے اور کتاب کے اس حصے میں ہی جس کا عنوان ہے۔ ’’ ڈیوائن کو میڈی اور جاوید نامہ کا موازنہ‘‘ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محولہ پیراگراف کے باقی جملے یہ ہیں: ’’ جاوید نامہ فارسی ادبیات میں شاہ نامہ، مثنوی، گلستان اور دیوان حافظ کے بعد پانچویں کتاب ہے اور حقائق نگاری کے لحاظ سے مثنوی اور مکتوبات کے بعد تیسری کتاب ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے جو بلا مبالغہ صدیوں کے بعد منصہ شہود پر آتی ہیں۔‘‘ (ص 80-81 شرح جاوید نامہ از یوسف سلیم چشتی) محلولہ اقتباس کو عبارت کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے سے انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا مطلب سرے سے وہ نہیں ہے جو جناب کلیم الدین احمد سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف سلیم صاحب، برخلاف جناب کلیم الدین احمد کے دانتے کے مقابلے میں اقبال کی خصوصیت، شان امتیازی اور فوقیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ انہوں نے دانتے کے بارے میں تو صرف یہ کہا کہ اس نے: ’’ اپنی نظم میں منظر نگاری کا کمال دکھایا ہے‘‘ (ص80ایضاً) جب کہ اقبال نے: ’’ مصوری کے بجائے حقائق نگاری اور نکات آفرینی پر زور دیا ہے۔‘‘ (ایضاً) صرف اسی حقیقت پر زور دینے کے لئے یوسف سلیم نے اقبال کے جاوید نامہ کو فردوسی کے ’’ شاہ نامہ‘‘ مولانا روم کی مثنوی معنوی اور ’’ دیوان حافظ‘‘ کے ساتھ ساتھ سعدی کی مثنوی ’’ گلستان‘‘ اور مجدد الف ثانی کے ’’ مکتوبات‘‘ کے مشابہ اور ہم پلہ قرار دیا ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں ’’ حقائق نگاری کے لحاظ سے۔۔۔‘‘ یعنی محولہ اقتباس بداہتہ’’ اقبال کی شاعری اور فن پر تبصرہ نہیں ہے فکر و دانش پر تبصرہ ہے اور اس تبصرے کا مقصد دانتے کے مقابلے میں اقبال کی برتری ثابت کرنے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ اس مقصد کی وضاحت یوسف سلیم صاحب نے مختلف پہلوؤں سے کئی اہم امور پر روشنی ڈال کر کی ہے ان کا محولہ اقتباس ’’ ڈیوائن کومیڈی اور جاوید نامہ کا موازنہ‘‘ کا دوسرا نکتہ ہے، جبکہ پہلا نقطہ یہ ہے: ’’ ڈینٹے کی نظم کا محرک، جیسا کہ اس نے اپنی ’’ داستان نو‘‘ میں لکھا ہے یہ ہے کہ وہ اپنی محبوبہ کو زندہ جاوید کرنا چاہتا تھا۔‘‘ (ص79) ’’ لیکن اقبال کی نظم کا محرک، عورت یا محبوبہ نہیں ہے بلکہ بنی آدم کی بہبود کا خالص ترین جذبہ ہے۔ ڈینٹے کو ایک عورت سے محبت تھی، اقبال کو ساری دنیا سے (تمام انسانوں سے) محبت تھی۔ دونوں نے سوز جگر سے کام لیا ہے مگر دانتے کا عشق انفرادی تھا، اقبال کا عشق آفاقی تھا۔‘‘ (ص79-80) یہ تو محولہ اقتباس کا سباق ہوا، اب سیاق بھی ملاحظہ فرمائیے جو موازنے کا تیسرا نکتہ ہے: ’’ ۔۔۔۔۔ ڈیوائن کومیڈی میں از اول تا آخر عیسائیت کا اور جاوید نامہ میں اسلام کا رنگ جھلکتا ہے۔‘‘ (ص81) اس کے بعد موازنے کا چوتھا نکتہ بھی ملاحظہ ہو: ’’ دینٹے نے اپنی تصنیف میں تثلیت، تجسم اور کفارہ کا ذکر تو کیاہے مگر اس طرف کہیں اشارہ بھی نہیں کیا کہ عیسائیت دنیا میں کس قسم کا نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ بخلاف ایں جاوید نامہ میں اقبال کا سب سے بڑا دینی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس اخلاقی، سیاسی اور عمرانی نظام کا مفصل خاکہ پیش کر دیا جو قرآن حکیم اس دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔‘‘ (ص81) پانچواں نکتہ ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ از اول تا آخر رموز و کنایات اور اشارات اور تمثیلی مظاہرات سے معمور ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعض مقامات لاینحل ہو کر رہ گئے ہیں بالیقین نہیں کہ جا سکتا کہ شاعر کا اس خاص علامتSymbol سے کیا مطلب ہے بخلاف ایں جاوید نامہ میں یہ معماتی رنگ نہیں ہے۔ چونکہ یہ کتاب نظم میں ہے اس لئے کہیں کہیں استعارات اور کنایات ضرور آ گئے ہیں مگر ان کا مفہوم متعین کرنا دشوار نہیں ہے۔ (ص86) چھٹا نکتہ ’’ ڈینٹے نے اپنی توجہ حیات بعد المحات کے مسائل پر بالخصوص مبذول کی ہے۔ اس کو اس بات کی جستجو ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ اقبال نے اپنی اس کتاب میں زیادہ زور اس بات پر دیا ہے کہ موجودہ زندگی کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ (ص82) ساتواں نکتہ ’’ ڈینٹے نے بنی آدم کو کوئی پیغام نہیں دیا مگر اقبال نے نوجوانان عالم کو ایسا جامع پیغام دیا کہ اسے ہر قوم کا نوجوان اپنی زندگی کا دستور العمل بنا سکتا ہے۔‘‘ (ص 83) آٹھواں نکتہ ’’ ڈینٹے نے اپنا فلسفہ کہیں پیش نہیں کیا (چونکہ وہ خود فلسفی نہیں تھا) مگر اقبال شاعر ہونے کے علاوہ فلسفی بھی ہیں اور ایک مستقل فلسفہ کے بانی ہیں یعنی فلسفہ خودی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جاوید نامہ میں جہاں اور مسائل حیات کا حل پیش کیا ہے وہاں اپنا فلسفہ بھی پیش کیا ہے۔‘‘ (ص83) نواں نکتہ ’’ ڈینٹے نے بارگاہ ایزدی میں پہنچ کر یہ سوال تو کیا ہے کہ اے خدا! مجھے تثلیت کا راز سمجھا دے مگر اس کا کوئی جواب خدا کی طرف سے نہیں ملا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جواب حاصل کئے بغیر ڈینٹے نے تثلیث کا مراقبہ کیسے شروع کر دیا۔۔۔۔ اقبال نے بھی بارگاہ ایزدی میں پہنچ کر خدا سے گفتگو کی ہے اور آخری سوال یہ کیا ہے کہ۔۔۔۔ اس کا جواب بارگاہ ایزدی سے ملا۔۔۔۔۔‘‘ (ص83) دسواں نکتہ ’’ ڈینٹے نے زندگی اور مسائل زندگی سے بہت کم تعرض کیا ہے۔ اس کی نظر کلیسائی مسائل تک محدود رہی ہے لیکن اقبال نے زندگی اور اس کے متعلقہ مسائل پر بہت زیادہ توجہ صرف کی ہے۔‘‘ (ص84) یوسف سلیم چشتی صاحب نے حقائق کی ترجمانی کے سلسلے میں دانتے کی کم علمی اور کم عقلی پر بہتیرے قائل کن شواہد پیش کیے ہیں۔ ایک مثال یہ ہے: ’’ اگرچہ کامیڈی میں اس نے مذہبی مسائل پر بھی بحث کی ہے مگر کسی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا کیونکہ دے نہیں سکتا تھا۔ مثلاً اس نے پطرس (یسوع مسیح کے مشہور شاگرد اور کیتھولک عقیدہ کے مطابق جانشیں) سے یہ پوچھا کہ خدا کی مشیت اور انسانی اختیار میں کس طرح مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے تو اس نے جواب دیا کہ تم مجھ سے وہ سوال کرتے ہو جس کا جواب عرفا بھی نہیں دے سکتے میری کیا حقیقت ہے!‘‘ ’’ قیاس کن زکلستان من بہار مرا‘‘ (ص69شرح جاوید نامہ) ان ناقابل تردید شہادتوں سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یوسف سلیم صاحب نے زیر بحث جملے، جن کا حوالہ جناب کلیم الدین احمد نے اپنی تائید میں دیا ہے، اصلاً اور قطعاً اس معنے میں لکھا ہی نہیں جو ناقد موصوف ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ اب جہاں تک اقبال کے فن اور شاعری کا تعلق ہے۔ یوسف سلیم صاحب کے بیانات ’’ شرح جاوید نامہ‘‘ میں یہ ہیں: ’’ فلسفیانہ نظم ہونے کے باوجود پوری کتاب ادبی لطافتوں سے معمور ہے۔‘‘ (ص15) ’’ تمام نقاد ان فن اس امر پر متفق ہیں کہ جاوید نامہ اقبال کی وہ لازوال تصنیف ہے جس نے خود انہیں بھی زندہ جاوید بنا دیا۔ یہ کتاب ان کے شاعرانہ کمالات کا بہترین نمونہ ہے اور بلا شبہہ ان کی زندگی کا حاصل ہے جس میں انہوں نے شاعری میں فلسفہ کو اس طرح سمو دیا ہے کہ ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔‘‘ (ص14) ’’ کتاب میں اکثر و بیشتر مقامات میں جو مکالمات درج ہیں وہ بہت برجستہ بلیغ اور دلچسپ ہیں‘‘ (ص16) مشکل فلسفیانہ مباحث کے مطالعہ سے چونکہ دماغ تھک جاتا ہے لہٰذا اس تھکن کو دور کرنے اور طبیعت میں شگفتگی پیدا کرنے کے لئے مناسب مقامات پر دلکش غزلیں بھی درج ہیں۔ (ص17) ’’ اقبال نے پیام مشرق میں شعر اور حکمت میں فرق بتاتے ہوئے یہ لکھا تھا:‘‘ حق اگر سوزے ندار دو حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت جاوید نامہ میں ہم کو اکثر و بیشتر مقامات میں حکمت اور سوز دل کا خوشگوار امتزاج نظر آتا ہے جس کی وجہ سے کلام میں غضب کی دل کشی اور جاذبیت پیدا ہو گئی ہے (ص19) ’’ جاوید نامہ میں اقبال نے سوز و ساز زندگی کے اہم موضوع کو ایسے دلکش، لطیف اور نادر استعارات کے پردوں میں بیان کیا ہے کہ اس کی مثال دنیا کے بہت کم شاعروں کے کلام میں مل سکے گی۔‘‘ (ص21) یہ بیانات یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اقبال کی ’’ حکیمانہ قابلیت‘‘ کے ساتھ ساتھ ان کی ’’ شاعرانہ استعداد‘‘ کے متعلق یوسف سلیم صاحب، شارح جاوید نامہ، کے حقیقی خیالات کیا ہیں اور وہ جناب کلیم الدین احمد کے تخیلات سے کتنے مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ اس کے باوجود جناب کلیم الدین احمد اگر شارح جاوید نامہ کا کوئی بیان اقبال کی شاعری کے خلاف اپنی تنقید کی تائید میں پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں تو یہ کھلی تلبیس اور جعل و فریب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کے تنقیدی بیانات کی قطعیت کے باوجود ان کو اپنی رایوں پر زیادہ اعتماد نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ راتیں وہ عام طور پر بلا غور و فکر، بلا تحقیق اور بلا دلیل، محض اپنے خاص میلانات و احساسات اور بالکل شخصی جذبات و تاثرات کی بناء پر قائم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی تقویت کے لئے جو سہارے وہ ڈھونڈتے ہیں وہ بھی بہت کمزور ہوتے ہیں ایک مشرقی عالم، شارح جاوید نامہ کا جو سہارا انہوں نے تلاش کیا تھا وہ تو جھوٹا ثابت ہو گیا، اور مغربی علماء و ناقدین کے جو سہارے انہوں نے لمبے لمبے اقتباسات کی شکل میں دریافت کئے ہیں وہ بھی بالکل لغو اور ناکارہ ہیں، اس لئے کہ غیر متعلق، بے محل اور ناموزوں ہیں۔ اگر کوئی ٹی ایس ایلیٹ یا کوئی جارج سنیٹا نا دانتے کی کسی ادا کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے یہ کہاں معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے مقابلے میں دانتے کی فضیلت کیا ہے؟ یہ تو یک طرفہ فضائل و مناقب کا بیان ہے اور ایسے لوگوں کا ہے جو اپنی کم علمی اور کم نظری کے سبب اقبال کے کمالات سے سراسر نابلد ہیں۔ ان بے چاروں کے سامنے دانتے کا نمونہ کمال ہے اور اس کو بھی پرکھنے کے لئے ان کے پاس ایک نہایت ناقص، محدود اور علاقائی (بقول آرنلڈProvincial) معیار ادب تصور فن ہے، نہ تو مشرقی شاعری کے نمونوں سے وہ واقف ہیں اور نہ ان کے ذوق میں اتنی وسعت Catholicity ہے کہ وہ ان نمونوں کی قدر و قیمت جان کر ان سے لطف لے سکیں۔ وہ ایک آفاقی انداز نظر Cosmicvision سے بہرہ ور نہیں۔ اور نہ وہ وسیع المشرب Liberal ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مغربی علماء و ناقدین اور ان کے پیرو بالعموم ایک قسم کی قبائلیت میں مبتلا ہیں اور جناب کلیم الدین احمد کی تنقیدیں بالخصوص ’’ اقبال۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ اسی قبائلی انداز Tribal Attitude پر مبنی ہیں۔ بہرحال! جناب کلیم الدین احمد دانتے کی شاعری کی مدح سرائی میں رطب اللسان ہیں: ’’ دانتے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ دوسرے شاعروں کے مقابلے میں تشبیہوں کا زیادہ استعمال کرتا ہے۔۔۔۔ اس لئے ان دیکھی چیزوں کو، ایسی چیزوں کو جن کو ہماری آنکھوں نے نہ کبھی دیکھا ہو اور نہ کبھی دیکھ سکیں گی وہ مرئی بنا دیتا ہے اور یہی کمال شاعری ہے۔‘‘ (ص100) ’’ دانتے کی تشبیہیں‘‘ آرائشی نہیں، یہ حسین تصویریں نہیں جن سے وہ اپنی نظم کو سجاتا ہے ان کا ایک فنی مقصد ہے غیر مرئی کو مرئی بنانا، اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوتا ہے (ص111) مقابلے میں اقبال کی ہجو اس طرح کی جاتی ہے: اقبال میں تشبیہیں، استعارے، کناتے، وغیرہ ملتے ہیں، لیکن ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ (ص112) ’’ یہاں تشبیہیں بھی ہیں اور استعارے بھی لیکن ان میں کوئی خاص جاذبیت نہیں‘‘ (ص113) ’’ اقبال شاعری نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو ان کا ایک خاص نظریہ ہے اور کچھ رومانی قسم کا ہے اور نیا نہیں‘‘ (ص114) ان بیانات کی تائید میں دونوں شاعروں کے کلام سے کچھ مثالیں دی گئی ہیں مگر ان سے نتیجہ ظاہر ہے کہ وہی نکالا گیا ہے جس کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ دونوں مثالوں سے یہ سمجھنا نا ممکن ہے کہ دانتے میں ایسی کون سی خوبی ہے جو اقبال میں نہیں، لیکن جناب ناقد کا اصرار ہے کہ جو خوبی دانتے میں ہے وہ اقبال میں نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ اقبال کی تشبیہوں اور استعاروں کی: ’’ کوئی خاص اہمیت نہیں‘‘ اور ان میں: ’’ کوئی خاص جاذبیت نہیں‘‘ یہ گویا جناب کلیم الدین احمد کی ادائے خاص ہے جس کے سامنے تنقید تو تنقید، فہم عامہ کے بھی سارے اصول اور تقاضے ہوا ہو جاتے ہیں اور رہ جاتے ہے جناب ناقد کی ہٹ دھرمی اور نافہمی Obtuse Obstinacy ذرا غور کیجئے کہ دانتے کی حسب ذیل تشبیہات میں کون سی ’’ خاص اہمیت‘‘ اور ’’ خاص جاذبیت‘‘ ہے: سال نو کے اس حصے میں جب آفتاب اپنی زلفوں کو صورت البروج کے نیچے گرماتا ہے اور لمبی راتیں جنوب کی طرف رواں ہوتی ہیں جب پالا زمین پر اپنی سفید بہن (برف) کی صورت کی نقالی کرتا ہے اگرچہ اس کا نقش تا دیر قائم نہیں رہتا غریب کسان جس کا چارہ کم ہو رہا ہے اٹھتا ہے اور کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھتا ہے کہ کھیت بالکل سفید ہے، تب اپنا ہاتھ زانو پر مارتا ہے اور غمزدہ ہو کر کمرے میں ٹہلنے لگتا ہے اس بے کس کی طرح جسے کوئی امید باقی نہ رہی ہو پھر وہ باہر دیکھتا ہے تو امید کی صورت نظر آتی ہے کیونکہ دنیا کی مشکل اس قلیل مدت میں بالکل بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور وہ اپنے انکس کوے کو بھیڑوں کو میدان میں لے جاتا ہے (ص101-102) جو اقبال کی ان تصویروں میں نہیں ہے ہے ملوکیت بھی ایسے ہی بدن کی فربہی سینہ بے نور اس کا یک قلم دل سے تہی شہد کی مکھی ہے یہ کر کر کے جو پھولوں کو مس پتیوں کو چھوڑ کر ہونٹوں میں لے اڑتی ہے رس ٭٭٭ چاند بھی ہے دھول کے بوجھل دھوئیں سے عین قیر آفتاب اس کی غبار آگین، فضا میں تشنہ میر ایک دریا پارے کا سنسان وادی میں رواں خم پہ خم کھاتا ہوا مانند جوئے کہکشاں (ص12ترجمہ از فارسی) اس سلسلے میں ’’ شہد کی مکھی‘‘ اور ’’ جوئے کہکشاں‘‘ کی تصویریں جناب ناقد کو اچھی بھی لگتی ہیں، پھر بھی ان کے خیال میں نہ تو اقبال کی تصویروں کی کوئی خاص اہمیت اور ان میں کوئی خاص جاذبیت ہے اور نہ اقبال شاعری کرتے ہیں گرچہ اقبال کی شاعری سے انکار کے ساتھ یہ ٹکڑا بھی لگا ہوا ہے: ’’اور اگر کرتے ہیں‘‘ اس کے علاوہ اقبال کے ’’ خاص نظریہ‘‘ کو ’’ رومانی‘‘ بھی بتایا گیا ہے گرچہ اس کے ساتھ بھی ایک ٹکڑا لگا ہوا ہے کہ یہ نظریہ: ’’ نیا نہیں‘‘ یہ عجیب و غریب کے متضاد اور پر پیچ بیانات ہیں جو مسائل تصوف کی طرح مبہم اور پر اسرار ہیں اور ان کا تجزیہ کرنے سے صرف ناقد کے ذہن کی پرا گندگی اور بے چارگی کا علم ہوتا ہے وہ اقبال کی شاعری اور اس کے فنی کمالات کو کھلی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے چشم پوشی بھی کرنا چاہتے ہیں، اس لئے کہ چشم پوشی کے بغیر دانتے کی برتری ثابت نہیں ہو سکتی، جس کا بیڑا انہوں نے اٹھا لیا ہے، چنانچہ اقبال پر جناب کلیم الدین احمد کی ساری تنقید اسی دو دلی اور دورنگی Ambicalence کا شکار ہے۔ اسی نفسیاتی مرض کے سبب موصوف کمال شاعری اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ دانتے: ’’ ان دیکھی چیزوں کو۔۔۔۔ مرئی بنا دیتا ہے‘‘ یعنی حقیقت کا فریب نظرIllusionپیدا کرتا ہے اور ایک طلسم خیال قائم کرتا ہے اول تو یہ شاعری کی سب سے بڑی اور امتیازی خصوصیت نہیں اور محض اس پر کمال شاعری کو مبنی یا منحصر قرار دینا ادبی آگہی کا ثبوت نہیں، دوسرے یہ کہ یہ بات بھی دانتے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اتنی معمولی سی اور ابتدائی چیز ہر قابل ذکر شاعر کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ شاعری تخیل Imagination کا فن ہے اور پیکر سازی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ تشبیہہ کا تو مطلب ہی ہے شبیہیں تیار کرنا۔ لہٰذا اگر دانتے کے یہاں تشبیہیں بہت ہیں تو کوئی کمال اور امتیاز کی بات نہیں۔ تشبیہیں اقبال کے یہاں بھی کم نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ دانتے کی تشبیہیں آرائشی نہیں، تو اس کا مطلب اگر صرف اتنا ہے کہ ان کا ایک فنی مقصد ہے اور وہ وہی ہے: ’’ غیر مرئی کو مرئی بنانا‘‘ تو اس فنی مقصد میں کامیاب، صرف دانتے نہیں ہوتا، دنیا کا ہر بڑا شاعر ہوتا ہے اور اقبال بھی اپنے ناقد کے چھوٹا پن کے باوجود، ایک بڑے شاعر ہی ہیں، کم از کم دانتے کے اتنے بڑے شاعر تو ہیں ہی۔ اس سلسلے میں پتہ نہیں دانتے کی شاعری کے کس حسن کو واضح کرنے کے لئے جناب کلیم الدین احمد نے دانتے کی تشبیہوں کے بارے میں یہ بھی فرما دیا ہے: ’’ یہ حسین تصویریں نہیں جن سے وہ اپنی نظم کو سجاتا ہے۔‘‘ سوال ہے: ’’ کیا تصویروں کا حسین ہونا اور ان سے نظم کا سجنا کوئی برائی ہے؟ آخر اس حسن و آرائش سے کون سے فنی مقصد‘‘ کو نقصان پہنچتا ہے؟ غالباًاس بیان کے مضمرات یہ ہیں کہ منفرد تصاویر ایسی ہونی چاہئیں جن سے نظم کے موضوع کے ارتقا اور اظہار میں کوئی رکاوٹ یا الجھن پیدا ہو۔ اس اعتبارسے ظاہر ہے کہ اقبال کے مقابلے میں دانتے کا کوئی امتیاز ہو ہی نہیں سکتا، اس لئے کہ خود جناب کلیم الدین احمد کے بقول ان کا ایک خاص نظریہ ہے، اور نظریہ خواہ کتنا ہی رومانی ہو واضح ہو کر رہتا ہے اور ساری فن کاری مع تشبیہات و استعارات اسی نظریے کے ابلاغ و اظہار ہی کے لئے ہوتی ہے۔ کم از کم اس میں تو کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی اقبال پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ وہ تشبیہوں کے حسن و آرائش پر اپنے مقصد فن کو قربان کر دیتے ہیں۔ اب جہاں تک ارتقائے خیال کا تعلق ہے پچھلی سطروں میں تفصیل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ اقبال نے جاوید نامہ میں کس یکسوئی کے ساتھ اور کتنے مربوط طریقے پر اپنا مقصد حاصل کیا ہے جبکہ دانتے کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی اس لئے کہ اول تو اس کی کومیڈی کا کوئی واضح فکری تصور نہیں، دوسرے تصویروں کی کثرت و طوالت نے کسی کلی مفہوم کی بجائے اجزاء کو زیادہ دل کش بنا دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تشبیہہ، استخارہ، کنایہ اور تلمیح کا استعمال جس کثرت اور شدت کے ساتھ اقبال نے کیا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے فن شاعری کو ان وسائل کو اپنے اعلیٰ مقاصد کی وضاحت کے لئے استعمال کیا ہے، اس کی مثال دنیائے شاعری میں کم ہی اور بمشکل ملے گی۔ اقبال نے اپنے دقیع افکار و خیالات کا اظہار بالعموم ایک حسین و جمیل پیرائے میں اور زبردست رعنائی ادا کے ساتھ کیا ہے اور یہ ان کے اسلوب کی رنگینی و نغمگی ہے جس نے ٹھوس، گہرے اور پر معنی تصورات کو نہایت دل کش اور دل نشیں بنا دیا ہے، یہاں تک کہ جو لوگ ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے وہ بھی ان کے طلسم کلام کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد نے دانتے اور اقبال، دونوں کی اصل عبارتیں ضرور نقل کی ہیں۔ مگر اطالوی اور فارسی کی لسانی ادواح اور الفاظ و تراکیب کے حسن نیز مصرعوں اور شعروں کے آہنگ کا موازنہ وہ نہ تو کرتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں۔ اطالوی میں ان کی استعداد ہمیں معلوم نہیں اور فارسی کا ذوق انہیں معلوم نہیں ہوتا، ورنہ وہ ایک فارسی شاعر اور وہ بھی اقبال جیسے عظیم شاعر کے مقابلے میں دانتے کی تشبیہات کا ذکر کرنے کی جسات نہیں کرتے، اس لئے کہ صنائع و ہدائت میں مشرقی شاعری بالخصوص فارسی شاعری کا جو ذخیرہ ہے اس کی گرد کو بھی اطالوی تو کیا یونانی، جرمنی، فرانسیسی اور انگریزی وغیرہ تمام یورپی زبانوں کی شاعری مل کر بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اس سلسلے میں ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ اقبال نے تو فارسی جیسی قدیم زبان میں اس کے صدیوں کے شاعرانہ تجربات کے بعد فن کاری کی اور بلا شبہہ اس زرخیز اور شیریں زبان کے تمام وسائل شعری کا ماہرانہ و مجتہدانہ استعمال کیا ۔ جب کہ دانتے اطالوی زبان کا پہلا بڑا شاعر ہے اور اس نے اس وقت اس زبان میں شاعری کی جب اس کا سانچہ بھی خام ہی تھا، چنانچہ خام کاری کے بہتیرے نشانات دانتے کی شاعری میں موجود ہیں ایسی حالت میں اقبال کی فارسی تشبیہات کے مقابلے پر دانتے کی اطالوی تشبیہات کا بیان ایک اسکول کے طالبعلم کے اس جواب کی طرح ہے جو وہ درسیات کے امتحان کے کسی سوال پر دیتا ہے۔ اس قسم کی مبتدیانہ اور ٹیکسٹ بک تنقید کو تنقید کہنا تنقید اور ادب دونوں کی توہین ہو گی۔ اسی قسم کی مبتدیانہ تنقید کا نمونہ یہ ہے: ’’ ان (اقبال) کا ایک خاص نظریہ ہے جو کچھ رومانی قسم کا ہے اور نیا نہیں۔‘‘ شیلی نے کہا تھا: Poets are the Unacknowledged Legsilators of the World. اقبال Unacknowledged کی بجائے Acknowledged کہتے ہیں۔ (ص114-115) یعنی اقبال کا نظریہ وہی ہے جو شیلی کا تھا اور ویسا ہی رومانی ہے جیسا رومانی شعرائ، بالخصوص انگریزی شعاعری میں احیائے رومانیتRomantic Revival کی تحریک کی اس دوسری نسل کا تھا جس میں شیلی اور کیٹس جیسے نوجوان تولد ہوئے؟ یقینا جناب کلیم الدین احمد نے انگریزی ادب کی تاریخ میں ایسے رومانی شعراء کا تذکرہ پڑھا ہے جو شاعر اور شاعری کے متعلق بہت ہی بلند بانگ دعوے کرتے تھے لیکن اقبال کا ان سے کیا تعلق ہے یا ہو سکتا ہے؟ شیلی اور کیٹس فکری اعتبار سے بالکل نابالغ تھے اور انہوں نے فن کا بھی جو سرمایہ چھوڑا ہے وہ اقبال کے دور اول کے اس کلام سے بھی کم تر اور کہتر ہے جو ’’ بانگ درا‘‘ میں ہے پھر اقبال ایک رومانی شخص یا شاکر نہیں تھے، ایک حقیقت پسند مفکر تھے اور انہوں نے شاعر کوAcknowledged Legislator نہ کبھی سمجھا اور نہ کہا شاعری، حتیٰ کہ اپنی شاعری کے بارے میں ان کا اعلان تو یہ تھا: نغمہ کجا و من کجا؟ ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را ٭٭٭ نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں کوئی دلکش صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی جناب کلیم الدین احمد کو سمجھنا چاہئے کہ اگر اقبال نے کبھی ’’ شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کہا تو اس کا مطلب مجرد شاعری اور ہر قسم کی شاعری کو پیغمبری کا جزو قرار دینا ہر گز نہیں تھا، ورنہ وہ حافظ جیسے عظیم شاعر پر اتنی سخت تنقید نہیں کرتے اور اسے ’’ گوسفند ایران‘‘ نہیں کہتے۔ اقبال کا تصور شعر یہ ہے: حق اگر سوزے نہ دارد حکمت است شعری گو دو چو سوز از دل گرفت یعنی سارا زور حق پر ہے جس کا بیان اگر خشک طریقے پر کیا جائے تو وہ ’’ حکمت‘‘ ہے اور اگر اسے ’’ سوز‘‘ کے ساتھ پیش کیا جائے تو وہی شعر ہے۔ اس طرح اصل اہمیت و عظمت حق کی ہے اور اگر کوئی شاعری عظیم ہے تو اسی حق کی آئینہ دار ہونے کے سبب، محض شاعری ہونے کی وجہ سے نہیں۔ اس نقطے کو نہ تو شیلی سمجھ سکا نہ کیٹس اور نہ جناب کلیم احمد کیٹس نے اپنی رومانیت میں حسن و صداقت کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دے دیا۔ Truth is a beauty and beauty truth اقبال نے بھی بانگ درا کی نظم ’’ شیکسپیئر ‘‘ میں کہا حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن دل انساں کو تیرا حسن کلام آئینہ ظاہر ہے کہ اقبال کا شعر کیٹس کے شعر سے مختلف ہے، اس لئے کہ اس میں حسن کو آئینہ حق تو کہا گیا ہے مگر حق کو آئینہ حسن نہیں کیا گیا اور اس طرح کیٹس کے مانند اقبال نے حسن و حق کو ایک دوسرے کا مترادف قرار نہیں دیا، حالانکہ یہ شعر اقبال کے دور اول کا نتیجہ فکر ہے، لیکن اس وقت بھی وہ کیٹس اور شیلی سے بہت زیادہ پختہ فکر کے مالک تھے۔ لہٰذا جناب کلیم الدین احمد اردو شاعری پر ایک نظر ہی سے اقبال کو جو شیلی کا خوشہ چیں ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ ان کے خام خیال کے سوا کچھ نہیں یا تو وہ شیلی کو کوئی بڑی چیز سمجھتے ہیں یا اقبال کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، ورنہ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز لطیفہ ہے کہ اقبال جیسے قدر اول کے عظیم دانش ور اور فن کار کا موازنہ شیلی جیسے قدر دوم کے شاعر سے کیا جائے۔ شاید جناب کلیم الدین احمد اقبال کو صرف ’’ بانگ درا‘‘ کا شاعر تصور کرتے ہیں یا خود ان کا تصور شاعری بانگ درا سے آگے کی بلند تر، عمیق تر اور وسیع تر شاعری کا متحمل نہیں۔ یہ تنقید کا عجز ہے جسے زبردستی تخلیق پر تھوپنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں تک تو خیر جناب کلیم الدین احمد نے اپنے آپ کو فن تک محدود رکھا تھا اور تنقید فن ہی کو اپنی کتاب ’’ اقبال۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ کا مقصد و موضوع قرار دیا تھا: ’’ میں نے اپنے چھ مقالوں میں کوشش کی ہے کہ اقبال کے شعری کائنات کا جائزہ لیا جائے۔ ان کے فلسفہ کا نہیں، ان کے پیغام کا نہیں ان کے خیالات کا محض خیالات کی حیثیت سے نہیں لیکن چونکہ یہ چیزیں ان کی شاعری میں ایسی گھل مل گئی ہیں اس لئے ان کا ذکر کبھی کبھی آ ہی گیا ہے لیکن ضمنی طور پر ‘‘ (ص7) اس کے برخلاف اب فرماتے ہیں: ’’ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ (اقبال) کیسے پیغمبر ہیں اور ان کے پیغامات کیا ہیں۔‘‘ (ص115) دونوں بیانات میں تضاد اور تصادم ظاہر ہے، مگر زیر نظر کتاب پوری کی پوری اسی قسم کے تضادات سے بھری ہوئی ہے، جیسا کہ گذشتہ صفحات میں بھی دستاویزی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے۔ بہرحال، جناب کلیم الدین احمد تیرنانہ جاننے کے باوجود گہرے پانیوں میں اترنے کے لئے تیار ہو ہی گئے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اقبال کے چند افکار و تصورات کو پیش کر کے جناب کلیم الدین بار بار بس ایک ہی بات کہتے ہیں ان کا آہنگ تنقید ملاحظہ ہو: ’’ ظاہر ہے کہ یہ پیغامات نئے نہیں اور ان کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں۔‘‘ (ص125) ’’ ظاہر ہے کہ یہ باتیں بھی نئی نہیں اور ان میں کوئی خاص صفت اور گہرائی بھی نہیں۔‘‘ (ص126) ’’ جنت الفردوس میں جو باتیں ہوتی ہیں ان میں بھی کوئی خاص بات نہیں ‘‘ (ص127) ’’ ظاہر ہے کہ اقبال کی مناجات میں خیالات نئے نہیں‘‘ (ص129) یہ عجیب و غریب، ظاہری، سرسری اور سطحی تبصرے جس معیار کی اہم باتوں پر کئے گئے ہیں وہ خود جناب کلیم الدین احمد کے جاوید نامہ سے پیش کئے گئے اقتباسات کی روشنی میں یہ ہیں۔۔۔ ہندوستان اور مشرق کے حالات و معاملات، عالم اسلام کے احوال، مغرب اور پوری دنیا کے مسائل و موضوعات، اشتراکیت و ملوکیت کی بحث، مشرق و مغرب کا فرق، دین و وطن کا فرق، اسرار عشق، تصور خودی، محکمات عالم قرآنی، حکومت الٰہی، حکمت خیر کثیر است، عقل و دل، مسلہ رحمۃ للعالمین، حریت، مساوات، احترام آدمی، خلافت الٰہی، زماں و مکاں، توحید۔ اگر یہ باتیں بھی خاص اور اہم نہیں ہیں تو دنیا کی کون سی باتیں اہم اور خاص ہو سکتی ہیں؟ رہا باتوں کا نیا اور تازہ ہونا، تو اول تو نیا پن اور تازگی در حقیقت انداز نظر اور انداز بیان میں ہوتی ہے اور کوئی بازوق شخص اقبال کی شوخی اندیشہ اور جدت ادا سے انکار نہیں کر سکتا۔ جدید و قدیم کے باہمی رشتے کے متعلق اقبال کا شعر مشہور ہے۔ زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم (علم اور دین) ضرب کلیم) پھر بھی اگر نیا پن کا کوئی مطلب ہے جیسے اپج Originality وہ اقبال کے یہاں بدرجہ اتم ہے۔ ہاں اگر نیا کا مطلب عجوبگی اور معمگی ہے تو وہ اقبال جیسے بالغ نظر اور پختہ فکر انسان کا حصہ نہیں ہو سکتا، وہ خامکاروں اور نابالغوں ہی کو مبارک ہو۔ اقبال کی طرفگی خیال ملاحظہ ہو: اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق (مرد بزرگ ضرب کلیم) جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود کہ سنگ وحشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا (تخلیق ضرب کلیم) حلقہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں آہ! محکومی و تقلید و زوال تحقیق (اجتہاد ضرب کلیم) اقبال جدت و تجدید کو کتنا اہم سمجھتے ہیں اس کا اندازہ ذیل کی ان نظموں سے بھی ہو گا جو ضرب کلیم میں ہیں: دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے افلاک منور ہوں تیرے نور سحر سے خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی (جدت) ٭٭٭ سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں نے جدت گفتار ہے نے جدت کردار ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار (مہدی برحق ضرب کلیم) اقبال کا آئیڈیل یہ ’’ مرد بزرگ‘‘ ہے مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں بات میں سادہ و آزادہ معانی میں دقیق یہ محض باتیں نہیں ہیں، گرچہ اپنی جگہ یہ بھی بہت ہی پتے کی اور کام کی باتیں ہیں واقعہ یہ ہے کہ اقبال نے تو ایک ’’ تشکیل جدید‘‘ کا آدرش سامنے رکھ کر شاعری کی، پورے موجودہ سماج کی تشکیل جدید اسی مقصد کے لئے انہوں نے ’’ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ Reconstruction of Religious Thought in Islam کے خطبات مدارس دئیے اور اس کے لئے ایک زبردست نگار خانہ فن سجایا، ایک دنیائے شاعری تخلیق کی۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد اقبال کے نظام فکر سے کوئی ہمدردی اور دلچسپی نہیں رکھتے، بلکہ انہیں یہ نظام فکر سخت ناپسند ہے، یہی وجہ ہے کہ موصوف کو اقبال کے کلام میں جدت فکر صرف وہاں نظر آتی ہے جہاں ان کے خیال میں اقبال اپنے نظام فکر سے انحراف کرتے نظر آتے ہیں یا دوسروں کے وہ تصورات پیش کرتے ہیں جو اس نظام سے متصادم ہیں۔ ہم گزشتہ سطور میں بتا چکے ہیں کہ صرف اسی وجہ سے جناب کلیم الدین احمد اقبال کی پیش کردہ شخصیتوں میں نبیتہ مریخ کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ پسندیدگی منصور علاج کے لئے بھی ہے، چنانچہ جس جگہ کہا جاتا ہے: ’’ جنت الفردوس میں جو باتیں ہوتی ہیں ان میں کوئی خاص بات نہیں‘‘ وہیں اور اسی تسلسل میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ البتہ علاج کی باتیں دلچسپ ہیں‘‘ (ص127) اقبال کے افکار کی اہمیت کو جان بوجھ کر کم کرنے کے لئے ہمارے مغربی نقاد ایک ہتھکنڈا اور استعمال کرتے ہیں: ’’ اب ذرا دیکھئے تو کہ ان پیغامات کی کیا اہمیت ہے؟ مشرق کو اقبال کئی بار پہلے بھی بشارت دے چکے ہیں۔ اس کی تکرار کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی تعلیم وطن کو وہ اہل مغرب کے مکر و فن کا نتیجہ بتاتے ہیں لیکن ایک زمانہ تھا کہ اقبال وطنیت کے حامی تھی۔‘‘ (ص124) یعنی چونکہ اقبال مشرق کو پہلے بھی پیام دے چکے ہیں، لہٰذا اب مزید پیغام انہیں نہیں دینا چاہئے۔ پھر یہ کہ ان کی فکر میں تکرار کے ساتھ ساتھ تضاد بھی ہے، پہلے وہ وطنیت کے حامی تھے اور اب مخالف ہیں۔ ظاہر ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کا یہ الزام اس پہلے الزام سے مختلف ہے کہ اقبال کے پیغام میں کوئی اور اہم بات نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے پہلے الزام کو ثابت کرنے کے لئے جب انہوں نے کلام اقبال کے اقتباسات بطور شہادت فراہم کئے تو موصوف کو احساس ہوا کہ خاص اور اہم بات نہیں ہونے والی بات نہیں چلے گی۔ چنانچہ فوراً انہوں نے حسب عادت پینترا بدل دیا اور ایک نیا حربہ Stunt لے آئے۔ غور کرنا چاہئے کہ جو شخص بار بار ایک ہی پیغام کی تکرار کرتا ہو اس کے یہاں تضاد نہیں ہو گا اور اگر تضاد ہے تو وہ یقینا ایک نئی ، خاص اور اہم بات ہے۔ مثلاً یہی کہ اقبال نے اپنے ابتدائی دور میں بعض وقت وطنیت کا اظہار کیا تھا مگر اس کے بعد وہ آفاقیت یا اسلامیت کا پرچار کرنے لگے۔ اس سے قطع نظر کہ اسلامیت بہر حال ایک عالمی، بین الاقوامی اور آفاقی اصول ہے، جبکہ وطنیت ایک بالکل مقامی، علاقائی اور محدود قسم کا تصور ہے یہ بات سرے سے حقیقت کے خلاف اور محض لغو ہے کہ اقبال اپنی شاعری کے کسی بھی دور میں وطن کے پجاری تھے اور بعد میں وطن کے مخالف ہو گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ وطن دوست ہمیشہ رہے، شروع سے آخر تک، اور وطن پرست کبھی بھی نہ رہے، فرق صرف اتنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ فطری طور پر ان کے ذہن کی وسعتیں بڑھتی گئیں اور وہ روز بروز زیادہ سے زیادہ آفاقیت کی طرف مائل ہوتے گئے، لیکن وطن کی محبت اور اہمیت نہ ان کے دل سے گئی اور نہ دماغ سے کم ہوئی۔ چند لفظوں میں اقبال کے پیغام کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ مغربی بالخصوص برطانوی وطن پرستی اور قوم پرستی نے پوری دنیائے انسانیت بالخصوص مشرق کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ لہٰذا اصلاح احوال کا راستہ صرف یہ ہے کہ ایک سیاسی انقلاب ہو اور مشرق کو اس کے حق کے مطابق حریت و مساوات کے ساتھ عالمی سطح پر انسانیت کی خدمت اور ترقی کا موقع ملے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ ہندوستان اور دوسرے تمام ایشیائی اور افریقی ممالک برطانوی اور یورپی سامراج کے چنگل سے آزاد ہوں۔ بلا شبہہ اس سیاسی انقلاب کے لئے اقبال ایک فکری انقلاب بھی ضروری سمجھتے تھے۔ وہ یہ تھا کہ دنیا مغربی مادیت کے ہاتھوں برباد ہو چکی ہے اور یورپی اور کلیسائی اخلاق نے انسانیت کو روبہ زوال کر دیا ہے۔ لہٰذا سرمایہ داری، اشتراکیت اور دونوں کی داشتہ جمہوریت سے مختلف ایک نظریہ ایسا درکار ہے جو حقیقی روحانیت کو پوری دنیا میں ابھار کر مادیت کو صحیح رخ پر لگا دے اور آج کے انسانوں کو ایسے اخلاق سے آراستہ کرے جو اسے جدید ترین آلات و وسائل کا بہتر استعمال سکھا سکیں، اور ضروری ہے کہ یہ نظریہ نری روحانیت اور اخلاقیات کا کوئی صوفیانہ تصور نہ ہو بلکہ ایک کلی، جامع، ٹھوس اور عملی ضابطہ فکر اور نظام حیات ہو جو کائنات و حیات اور فکر و عمل کی تمام جہتوں کے لئے بہترین عقائد اور سانح ترین اعمال کی ضمانت دے سکے۔ یہ نظریہ اقبال کے خیال میں صرف اسلام ہے، کسی فرقے کے مذہب کے طور پر نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے نظریے اور نظام، فلسفہ حیات اور طریق زندگی کے طور پر۔ اسی لئے اقبال نے توحید اور اس کے تحت وحدت آدم پر بہت زیادہ زور دیا۔ اب اقبال کا مطالعہ بجا طور پر یہ تھا کہ اسلامی توحید کا آفتاب دور حاضر کی ظلمتوں میں مشرق ہی سے طلوع ہو سکتا ہے، اس لئے کہ مغربی افق بالکل تاریک ہو چکا ہے بلکہ وہی تاریکیوں کا منبع ہے۔ لہٰذا شعاع امید میں یہ اعلان کرنے کے باوجود کہ: مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے عذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کو (ضرب کلیم) اقبال یقین کرتے تھے کہ: خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز (ایضاً) صرف ’’ شعاع امید‘‘ کا مطالعہ بھی یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہو گا کہ دور حاضر کی انسانیت کی تشکیل جدید کے لئے اقبال کا انقلابی پیغام کیا تھا اور کیوں تھا۔ آخری دو بندوں کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش ٭٭٭ اک شوخ کرن شوخ مثال نگہ حور آرام سے ففارغ صفت جوہر سیماب بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن یہ خاک کہ جس کا ہے خزف ریزہ در ناب اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی جن کے لئے ہر بحر پر آشواب ہے پایاب جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں محفل کا وہی ساز ہے بے گانہ مضراب بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلمان تہہ محراب مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ شب وک سحر کر ’’ ضرب کلیم‘‘ کے ان اشعار میں ہندوستان کی جس محبت و اہمیت کا اظہار ہوا ہے وہ ’’ بانگ درا‘‘ کے شاعرانہ حب وطن سے بہت زیادہ ہے کہ: خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے اسی خاک کو ’’ خاور کی امیدوں کا مرکز‘‘ کہا گیا ہے اور اسی خاک کا ہر خزف ریزہ در تاب ہے اس سے وہ غواص معانی اٹھے ہیں جن کے عمق فکر کے لئے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب یہ خطہ ارض محفل ہستی کا وہ ساز ہے جس کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ: اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب پھر اس خاک وطن کے ساتھ اقبال کی وابستگی کا عالم یہ ہے: چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب حب وطن کے ان اصول و آفاقی مظاہر کے سامنے خاک وطن کے ہر ذرے کا دیوتا ہونا کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا بلکہ ایک معصوم سی طفلانہ بات معلوم ہوتی ہے، مگر صاف ظاہر ہے کہ یہ حب وطن، وطن پرستی اور قوم پرستی کی تنگ دماغی اور محدود نظری سے بہت آگے، ایک اصولی نکتہ، نظر اور عملی موقف ہے، یہاں وطن برائے وطن کا تصور نہیں ہے My Country, Wrong or right کا تعصب اور جارحیت نہیں ہے، یہ عالم انسانیت کی خدمت کے لئے ایک مرکز اور محاذ ہے۔ اس طرح ایک ’’ قوم ‘‘ بین الاقوامی عامل International Fator بن جاتی ہے اور بین الاقوامیت قوم کی نفی بھی نہیں کرتی۔ یہ ایک فطری، مرکب اور متوازن نقطہ نظر ہے اور اس کا ہی اظہار اقبال کے ابتدائی دور کے ’’ ترانہ ہندی‘‘ اور’’ ترانہ ملی‘‘ دونوں میں ہوا تھا۔ غور کیا جائے تو: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور: چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، اس لئے کہ: مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ایک طرف ’’ ترانہ ہندی‘‘ میں کہا: اے آب رود گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا دوسری طرف ’’ ترانہ ملی‘‘ میں کہا: اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا بات یہ ہے کہ ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست موج اسلام ہر جگہ بلا امتیاز رواں ہے: اس کی زمین بے حدود، اس کا افق بے ثغور اس کے سمندر کی موج، دجلہ و دینوب دنیل (مسجد قرطبہ بال جبریل) اسی لئے اقبال نے عصر حاضر کے مسلمان یا انسان سے سوال کیا: رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لئے؟ (مسجد قرطبہ بال جبریل) اور تلقین یہ کی: تو ابھی گزر میں ہے قید مقام سے گزر مصر و حجاز سے ترا پارس و شام سے گزر (مسجد قرطبہ بال جبریل) اس عزم کے ساتھ: کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد (مسجد قرطبہ بال جبریل) اس آفاقی منصوبہ انقلاب میں اقبال کے نزدیک مشرق اور اس میں ملت اسلامیہ کی حیثیت و اہمیت اور معنویت یہ ہے: ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نقطے سے اب تک بے خبر یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا میں اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے (طلوع اسلام) اس عملی موقف سے قطع نظر، فکری طور پر اقبال مشرق و مغرب دونوں کے امراض کی تشخیص اس طرح کرتے ہیں: مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام (عصر حاضر ضرب کلیم) ٭٭٭ نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت (انقلاب ضرب کلیم) ٭٭٭ اس طرح فی الواقع دونوں مریض ہیں: نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری (مشرق یا مغرب ضرب کلیم) بہرحال! اقبال وحدت آدم کے علمبردار تھے اور ان کے نزدیک اسلامی توحید ہی اس آفاقی نصب العین کے حصول کا واحد ذریعہ تھی: اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملت آدم مکے نہ دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم (مکہ اور جنیوا ضرب کلیم) اسی مقصد کے لئے یہ تجویز انہوں نے پیش کی جو اپنے وقت میں صرف ایک مدبرانہ پیش بینی تھی، جب کہ آج وہ ایک حقیقت کی طرح نمایاں ہو رہی ہیں: پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے طہران ہوگر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے (جمعیت اقوام مشرق ضرب کلیم) یہ محض چند قیمتی نمودنے ہیں ان انمول باتوں کے جو اقبال کی وسیع و عریض دنیائے شاعری کے چپے چپے پر بکھری ہوئی ہیں اور جن کی وحدت وجودت اور خصوصیت و اہمیت سے کوئی کور ذوق ہی انکار کر سکتا ہے۔ جاوید نامہ میں یہی باتیں ایک تازہ و منفرد انداز میں یکجا کر دی گئی ہیں اور یہ تمثیلی نظم گویا اقبال کے کلام و دیباچہ کا خلاصہ اور عطر ہے۔ دانتے یا دنیا کا کوئی شاعر اپنی پوری کائنات فکر و فن میں ان باتوں کا ایک چوتھائی حصہ بھی پیش نہیں کر سکتا۔ خاص کر دانتے کے فرسودہ، رسمی اور جامد افکار تو ان باتوں کی گرد کو نہیں پہنچتے اتنے بڑے پیمانے پر اتنا بڑا تفکر دانتے کے بس کی بات نہیں۔ رہا جاوید نامہ کے فکری نکات کے متعلق جناب کلیم الدین احمد کا یہ چیستانی تبصرہ کہ: ’’ ظاہر ہے کہ یہاں بھی اس قسم کی باتیں ہیں جو اقبال کی دوسری نظموں میں ملتی ہیں۔‘‘ (ص113) تو یہ بھی ظاہر ہی ہے کہ اقبال کی فکر مرتب و منظم ہے اور ان کے نظام فکر کے اجزاء ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں، آخر وہ فلسفی بھی تو تھے اور اپنا ایک نظریہ اور پیغام رکھتے تھے، لہٰذا اپنی شاعری میں وہ فطری طور پر ایک ہی قسم کی باتیں شروع سے آخر تک کرتے رہے ہیں اور ’’ بانگ درا‘‘ سے ’’ ارمغان حجاز‘‘ تک ان کے ذہن اور فن کا جو ارتقاء ہے وہ مربوط ہے، وج عناصر فکر ابتدا میں گویا اشارات تھے وہ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ واضح، متعین، پر معنی اور پر تاثیر عبارات میں ڈھلتے گئے۔ تعجب ہے کہ جناب کلیم الدین احمد فن میں عضویاتی ربط، ایک آدرش کی طرح تلاش کرتے ہیں مگر فکر میں اقبال کے عظیم الشان ربط خیال کی تحقیر کرتے ہیں! اب ذرا یہ بھی دیکھئے کہ دانتے کی باتوں میں جناب کلیم الدین احمد خوبیاں کس طرح پیدا کرتے ہیں: ’’ دانتے میں بھی باتیں ہیں، کام کی باتیں ہیں۔ اس نے بنیادی عیسائی فلسفلہ St. Thomas Aquinas سے لیا ہے، لیکن جس نظام خیالات پر اس نے جہنم اور المطہر کی بنیاد رکھی ہے وہ ارسطو سے ماخوذ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ارسطو کی Ethics کے اوراق اس کی نظروں کے سامنے تھے۔ ارسطو کے مطابق فطرت کا مقصد خیر ہے۔ وہ فطری طور پر برا نہیں۔ لیکن اس کی صلاحیتوں میں کچھ خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ ان کی کمزوریوں کی وجہ سے ہوں یا طاقت کی وجہ سے۔ اگر انسان کا بہیمی حصہ اس کی عقل پر در پڑتا ہے تو وہ نفس پرستی کا شکار ہو جاتاہے اور اس کا نتیجہ بو الہوسی، بسیار خوری، حرص، غصہ یا نخوت۔۔۔ اور یہ نفس پرستی کسی اچھی چیز کی جستجو کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مثلاً بچے، غذا، جائیداد، کردار، اور اسی لئے دانتے ان گناہوں کو زیادہ قابل معافی سمجھتا ہے لیکن انسانی صلاحیتوں میں بدنظمی کا ایک دوسرا سبب بھی ہو سکتا ہے یعنی حواس کے عوض جارحانہ عنصر قابو سے باہر ہو جاتا ہے ایک نتیجہ اس کا تشدد ہوتا ہے اور دوسرا فریب، جسے دانتے تشدد سے زیادہ برا سمجھتا ہے اور جیسے اس نے تشدد کی تین قسمیں بیان کی ہیں اسی طرح وہ فریب کی دس قسمیں بیان کرتا ہے لیکن اگر کوئی Pagan شاعر ان نیکیوں او ربرائیوں کا بیان کرنے کا قصد کرتا ہے تو وہ اپنے کرداروں کو ارضی ماحول میں پیش کرتا ہے لیکن دانتے اس دنیا کو گویا پس منظر میں پیش کرتا ہے اس پیش منظر میں ان کے گناہوں کے ابدی نتائج ہیں۔ اس لئے ڈوائن کومیڈی کا موضوع صرف مذہبی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے اور سیاسی بھی لیکن میں ان کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ دانتے جبر و اختیار کے مسئلہ پر بھی بحث کرتا ہے۔۔‘‘ (ص133-34) ’’ اگر دانتے کا کوئی پیغام ہے تو ’’ Piccarda‘‘ کے قصے میں ہے وہ ایک راہبہ تھی لیکن اسے کوئی زبردستی اغواء کر کے لے گیا اور اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دی۔ اس کا قصور یہی ہے کہ اس نے مدافعت نہ کی اور رہبانیت کی قسم کو توڑنے کو زندگی پر ترجیح دی۔ اس لئے اسے پست ترین فردوس قمر میں جگہ ملی ہے۔‘‘ (ص135) ’’ یہی دانتے کی تعلیم ہے۔ اس کی رضا میں کامل سکون قلب ہے۔ لیکن یہاں ایک قسم کا تضاد بھی ہے Piccarda کہتی تو ہے وہ رضائے الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قانع ہے۔ اس کی تمنا ضرور ہے کہ وہ زیادہ بلند نشیں ہو کیونکہ یہ اس کی اخلاقی فطرت کا تقاضا ہے۔ دانتے صرف عیسائی ہی نہیں افلاطونی بھی تھا۔‘‘ (ص138) ان بیانات میں اظہار و بیان کا جو الجھاؤ ہے اس سے قطع نظر، خواہ وہ دانتے کے ذہن کا ہو یا جناب کلیم الدین احمد کی زبان کا، قابل غور نکتے یہ ہیں: 1 دانتے کی باتیں وہی ہیں جو اقبال کی بھی ہیں۔ جیسے رضائے الٰہی کے آگے سر تسلیم خم رکنا اور اس کے باوجود زیادہ بلند نشیں ہونے کی تمنا کرنا، اسی طرح یہ کہ فطرت کا مقصد خیر ہے اور یہ کہ ایک نتیجہ اس کا تشدد ہوتا ہے اور دوسرا فریب جسے دانتے تشدد سے زیادہ برا سمجھتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے ایمان و اخلاق کی باتوں کو اقبال نے دانتے سے کہیں زیادہ اور بہت ہی بہتر انداز میں پیش کیا ہے: ملاحظہ ہوں: فرورفتن بہ دریائے زہرہ و دیدن ارواح فرعون و کشنررا ارواح رذیلہ کہ باملک و ملت غداری کردہ و دوزخ ایشاں را قبول نہ کردہ قلزم خونیں 2 حیرت ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کو اس بات میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا کہ دانتے نے بنیادی عیسائی فلسفہ St. Thomas Aquairas سے لیا ہے لیکن جس نظام خیالات پر اس نے جہنم اور المطہر کی بنیاد رکھی ہے وہ ارسطو سے ماخوذ ہے اور یہ کہ ’’ دانتے صرف عیسائی ہی نہیں افلاطونی بھی تھا‘‘ کیا جناب کلیم الدین احمد کو معلوم نہیں کہ St. Aquinas ایک Chiristian Divine ہیں، جب کہ ارسطو اور افلاطون دونوں Pagan ہیں کم از کم اس پیوند کاری سے یہ تو معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ دانتے کی اول تو اپنی کوئی فکر نہیں، دوسرے اس کی فکر میں انتشار اور پرا گندگی ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کا نظام فکر کسی دوسرے سے مستعار نہیں ہے ان کا اپنا مرتب کیا ہو اہے اور اس کا سرچشمہ صرف کلام الٰہی ہے۔ دوسروں سے انہوں نے جو کچھ بھی استفادہ کیا ہے، خواہ وہ مشرق کے ’’ صاحب نظراں‘‘ ہوں یا مغرب کے ’’ حکیمان فرنگ‘‘ اپنے محور فکر کی بنیاد پر کیا ہے اور اپنے بنائے ہوئے معیار ہی پر کسی کے تصورات و خیالات کو جزوی طور پر قبول یا رد کیا ہے۔ اقبال مسلمہ طور پر ایک باضابطہ مفکر اور فلسفی تھے، جب کہ دانتے محض شاعر تھا اور فکر و خیال کی ہر وادی میں گھومتا تھا: ’’ فی کل واذ یھیمون‘‘ 3اگر ’’ ڈوائن کومیڈی کا موضوع صرف مذہبی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہے اور سیاسی بھی‘‘ تو کیا یہ ایسی خاص الخاص بات ہے جو اقبال کے یہاں نہیں؟ بدیہی طور پر، جاوید نامہ میں جو اخلاقی اور سیاسی موضوعات زیر بحث آئے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ جو مذہبی تصورات پیش کئے گئے ہیں ان کی گرد کو بھی ڈوائن کومیڈی کے موضوعات و تصورات نہیں پہنچ سکتے اور نہ پہنچ سکے ہیں، ڈرامہ دکھانا اور چیز ہے اور علم و دانش اور جاوید نامہ کا تو مقصد تصنیف ہی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی موضوعات پر اظہار خیال ہے، جبکہ ڈیوائن کومیڈی کی تخلیق کے بارے میں جناب کلیم الدین احمد نے اعتراف کیا ہے: ’’ دانتے نے محبت کی تھی اور اس محبت کی یاد ہمیشہ تروتازہ رہی لیکن اس نے کبھی جذبات کی نمائش کی صورت اختیار نہ کی، بلکہ یہ محبت اس لافانی محبت میں تبدیل ہو گئی جس نے کائنات کی تخلیق کی ہے۔۔۔ اور یہ Beatrice ہے جو دانتے کی ڈوائن کومیڈی کی وحدت کا سبب ہے۔ وہ ابتدا سے آخر تک موجود ہے۔ یہ وہ نقش ہے جو مدام گردش میں بھی ہے اور جس کا دانتے کے رویا کے ہر دائرے کے ہر نقطے سے لگاؤ ہے۔ اسی کی مدد سے دانتے نے حقیقت ابدی کی مرئی اور منفرد شبیہہ اپنی نظم میں کھینچنے کی کوشش کی ہے۔ ورجل رہ نما نہیں، وہ تو Beatrice کا قاصد ہے جو اس کے حکم کے مطابق دانتے کی رہبری کرتا ہے لیکن پس منظر میں ہمیشہ Beatrice ہے اور اس کی محبت ہے۔ وہی حقیقت کے انکشاف کا وسیلہ ہے اور وہی حقیقت کا عرفان ہے Beatrice ایک علامت بھی ہے اور محبت کی ایک ابدی مظہر بھی۔ اس کی محبت سے دانتے کو جو آسودگی، فیضان اور اہتزاز حاصل ہوا تھا اسی نے ایک تخیلی اور شعری عمل کے ذریعے دیدار حق کی خارجی ہیئت اختیار کی۔ اس کی آنکھیں، اس کی مسکراہت جویائے حق کی رہنمائی کرتی ہے۔ یعنی دانتے انسانی محبت کے تجربے سے تجلیات الٰہی کے حصوں تک پہنچتا ہے۔‘‘ (ص138,39) اور جناب کلیم ا لدین احمد کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ جو شخص اردو غزل گویوں کی طرح اپنے عشق مجازی، وہ بھی نامراد عشق مجازی، کو عشق حقیقی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر خام کار صوفیوں کی طرح محبوبہ مجازی کو معشوق حقیقی بنانے پر تلا ہوا ہو اور اس شخصی مقصد کے لئے ایک پورا ڈرامہ رچاتا ہو۔۔۔۔ اس کو مذہبی، اخلاقی اور سیاسی مفکر ثابت کرنے کی کوشش ایک کار عبث ہے! بہرحال، دانتے کے عشق پر لفاظی کے بعد جناب کلیم الدین احمد کو احساس ہوتا ہے کہ عشق تو اقبال کا بھی ایک اہم موضوع ہے حالانکہ وہ محولہ بالا اقتباس کی تمہید میں کہہ چکے ہیں: ’’ پھر ایک بات یہ بھی ہے، جو اقبال میں نہیں، کہ دانتے نے محبت کی تھی۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (ص138) لہٰذا اب وہ اپنے ضمیر کی خلش کو تسکین دینے کے لئے ایک بار پھر بار بار کی دہرائی، چبائی اور گھسی پٹی یہ باتیں بناتے ہیں: ’’ اقبال عشق کی باتیں کرتے ہیں لیکن یہ باتیں ہی باتیں ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں تہہ دار باتیں معلوم ہوتی ہیں جن سے اقوام کی قسمت وابستہ ہے، تعمیر ملت اسلامیہ وابستہ ہے لیکن یہ محض دل خوش کن باتیں ہیں اور یہ باتیں ان کی دوسری نظموں میں بھی بکھری پڑی ہیں۔‘‘ (ص139) یعنی وہ باتیں: ’’ جن سے اقوام کی قسمت وابستہ ہے، تعمیر ملت اسلامیہ وابستہ ہے ‘‘ ’’ باتیں ہی باتیں ہیں‘‘ مگر یہ باتیں بڑی ٹھوس، علمی، حقیقی اور ’’ تہہ دار‘‘ ہیں کہ اس کی محبت سے دانتے کو جو آسودگی، فیضان اور اہتزاز حاصل ہوا تھا اسی نے ایک تخیلی اور شعری عمل کے ذریعے دیدار حق کی خارجی ہیئت اختیار کی! اور ’’ وہی حقیقت کے انکشاف کا وسیلہ ہے اور وہی حقیقت کا عرفان ہے!!‘‘ ایک دوشیزہ کی ایک جھلک نے تو دانتے کو تجلیات الٰہی کے حصول تک پہنچا دیا، اور جس شخص نے نہ صرف عشق خدا اور عشق رسول میں اپنی عمر کا بہترین حصہ گزارا بلکہ اس عشق عظیم کے حیات آفریں مضمرات کا مطالعہ و تجزیہ زندگی کے تمام مظاہر اور انسانیت کے تمام مسائل میں کیا، یہاں تک کہ جاوید نامہ میں تخیلی طور پر براہ راست خدا کے حضور میں حاضر ہو کر’’ ندائے جمال‘‘ اور’’ تجلی جلال‘‘ دونوں کا تجربہ کیا، اس کا عشق۔۔۔ باتیں ہی باتیں ہے! اس ہرزہ سرائی سے بڑھ کر علم و ادب اور تحقیق و تنقید نیز عقل و دانش پر ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ یہ محض مغربی علماء و ناقدین کی بدترین غلامی نہیں بلکہ ایک مریض و مفلوج دماغ کی حرکت مذبوحی ہے۔و اقعہ یہ ہے کہ اس قسم کی دیوانگی کے ساتھ کوئی علمی مکالمہ اور تنقیدی تبادلہ خیال محال ہے۔ اب ایک اور پینترا ملاحظہ کیجئے: ’’ اصل بات یہ ہے کہ اقبال میں جو نظام خیالات ہے وہ بالکل Arbitrary ہے۔ اس کے مختلف حصوں میں کوئی ناگزیر ربط نہیں۔ یہ نہیں کہ ہر خیال کی معنی خیزی دوسرے خیالات سے وابستہ ہو اور اس کی کوئی مخصوص جگہ عام نظام خیالات میں ہو۔ میں نے ان کے پیغام یا فلسفہ اب اسے جو کہیے کا تجزیہ کیا ہے اور آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ جاوید نامہ میں کوئی ایسا محیط پیغام یا فلسفہ نہیں جس میں ہر خیال، ہر جذبے کا اپنا مخصوص مقام ہو اور جس میں ہمیں اس کی قدر و قیمت کا اندازہ مکمل نظام خیالات کے Frame of Referance سے ہو اس کے برخلاف دانتے کے جذبات و خیالات کے لئے ایک محکم Frame of Referance ہے اور ہر جذبے، ہر خیال کو ہم اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب کہ پوری نظم ہمارے پیش نظر ہو۔ دانتے نے ایسے وسیع پیمانے پر جذبات و خیالات کا ایک نظام پیش کیا ہے جس میں ہر جذبے، ہر خیال کا ایک مخصوص مقام ہے اور ان خیالات و جذبات میں ایک اٹل ترتیب ہے، ایک ربط کامل ہے، منفی سے مثبت تک ایک لمبا سلسلہ ہے اور ہر جزو دوسرے اجزا کی روشنی میں سمجھا اور جانچا پرکھا جا سکتا ہے کہ ایلیٹ نے The Sacred Wood میں لکھا ہے۔۔۔۔‘‘ (ص139-140) اس کے بعد استاد ازل کا ایک طویل اقتباس ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دانتے کی مداحی میں جناب کلیم الدین احمد نے جو لفاظی اور نفس درازی کی ہے وہ دراصل ایلیٹ کی سفارشی دستاویز کا ایک عقیدت مندانہ ترجمہ ہے۔ گرویدہ مسیحیت الیٹ نے ایک مسیحی کارنامے کے متعلق یقینا اسی طرح محسوس کیا ہو گا جس طرح اس نے اپنے اظہار جذبات میں تاثر دیا ہے۔ انگریزی میں مدیہ تنقید کے لئے ایک بڑا اچھا پیرایہ بیان ہے۔ جب کوئی ناقد کسی فن کار کی تعریف میں نہایت جذباتی طور پر زمین و آسمان کے قلابے ملاتا نظر آتا ہے تو کہتے ہیں He has gone Lyrical یعنی اس نے غزل گوئی شروع کر دی۔ یہی حال دانتے کے سلسلے میں ٹی ایس الیٹ اور اس کی تقلید محض میں جناب کلیم الدین احمد کا ہے۔ کوئی ان مداحان دانتے سے پوچھے: وہ کون سا Frame of Referance ہے جو دانتے کے یہاں ہے اور اقبال کے یہاں نہیں ہے؟ کیا یہ معشقہ عشوہ طراز بیترس کی محبت ہے؟ کیا یہ عقیدہ مسیحیت ہے؟ بیترس کی محبت کو جو لوگ تخلیق کے تمام حوالوں کا مرکز بتاتے ہیں وہ ایک لایعنی اور لغو قسم کی بات کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ڈوائن کومیڈی ایک Comicopera سے زیادہ کوئی معنویت نہیں رکھتی رہا یہ کہ دانتے کو کائنات کے ہر ذرے میں اپنی محبوبہ کا ہی جلوہ نظر آتا ہے، تو ایک فراق زدہ مجنوں کی یہی کیفیت ہوتی ہے، اور اگر شاعر جنوں میں کچھ بک رہا ہے تو ضروری نہیں کہ ناقد بھی اس کے تعزل اور تصوف کو ایک فلسفہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ایلیٹ یا دوسرا کوئی مغربی نقاد اس طرح کی بے بنیاد اور مضحکہ خیز فلسفہ طرازی کرتا ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ہے وہ یہ کہ دانتے کے یہاں فکر و فلسفہ نام کی کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں جسے’’ مکمل نظام خیالات‘‘ کہا جا سکے اور تخلیق کے ہر جز کو اسی نظام کے حوالے سے سمجھا جائے۔ لہٰذا زبردستی کا ایک ’’ جذبات و خیالات کا نظام’’ معمولی عشق و محبت کے افسانے سے مرتب کیا جا رہا ہے‘‘ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دانتے کا مرکز حوالہ Centre of Referance مسیحیت ہو، جس طرح اقبال کا مرکز حوالہ اسلام ہے اور اس طرح دونوں شاعروں کا اپنا اپنا نظام فکر ہے، گرچہ یہ فرق پھر بھی باقی رہے گا کہ جاوید نامہ میں جناب کلیم الدین احمد کے بے معنی انکار کے باوجود جو ’’ محیط پیغام‘‘ یا فلسفہ ’’ بداہتہ‘‘ ہے وہ ڈوائن کومیڈی میں نہ ہے، نہ ہو سکتا تھا، اس لئے کہ اقبال کا تفکر اور منظم فکر دانتے کو میسر نہیں، مسیحیت اس کے لئے صرف ایک عقیدہ Dogma اور چند رسوم و روایات کا مجموعہ Collection of ceremonies and traditions ہے، جب کہ اقبال نے اسلام کو ایک نظریے Ideology اور نظام System کے طور پر اختیار اور پیش کیا ہے اور اس نظریہ و نظام پر مبنی ایک مکمل فلسفہ حیات مرتب کر کے اس کے اصولوں کو کائنات کے تمام مظاہر پر منطبق کر دیا ہے۔ جاوید نامہ اس فلسفہ حیات کی سب سے بڑی دستاویز اقبال کی شاعری میں ہے۔‘‘ اس بنیادی حقیقت نفس الامر کو سامنے رکھ کر جناب کلیم الدین احمد غور فرمائے تو انہیں جاوید نامہ میں مناجات سے لے کر خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژاد نو) تک ایک ایسا ربط کامل اور ’’ منفی سے مثبت تک ایک لمبا سلسلہ‘‘ بہ آسانی اور واضح طور پر نظر آ جاتا جس میں ہر جذبے ہر خیال کا ایک مخصوص مقام ہے اور ان خیالات و جذبات میں ایک اٹل ترتیب ہے اور ہر جز دوسرے اجزا کی روشنی میں سمجھا اور جانچا پرکھا جا سکتا ہے تب انہیں تمہدی آسمانی نغمہ ملاتک تمہید زمینی اور زمزمہ انجم سبھی سالمات Atoms کا محور Nucleus نظر آ جاتا اور ان کی سمجھ میں آتا کہ بقول ایسٹ ’’ Complete Scale from the negative to Positive‘‘ واقعی کیا ہوتا ہے اور کس طرح بنتا ہے، پھر انہیں یہ کہنے کی جسارت نہیں ہوتی: ’’ ملت روسیہ میں جبروتی ہے کیوں کہ اس کے سامنے بھی ایک مقصد ہے اور وہ بھی باہزاراں چشم یک نگہ ہے لیکن وہ لاسے الا کی طرف نہیں آتی ہے۔ اس معمہ کاحل اقبال کے پاس نہیں ‘‘ (ص131) اور انہیں معلوم ہوتا کہ اس معمہ کا حل دنیائے شاعری میں اقبال کے سوا اور کسی کے پاس ہے ہی نہیں اور دانتے کے پاس تو مطلقاً نہیں ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے انقلابی تصور توحید سے نہ دانتے واقف ہے نہ ایلیٹ، اس لئے کہ دونوں تثیلیث کے فرزند ہیں۔ رہی منفی و مثبت شاعرانہ احساسات و جذبات کی تنظیم نو تو اس کا بھی جو سلیقہ اقبال کو ہے دانتے یا کسی اور شاعر کو نہیں ہے، اس لئے کہ شاعری کے احساسات و جذبات کی تنظیم اپنے آپ نہیں ہو سکتی، جب تک اس کی پشت پر افکار و خیالات کی تنظیم کے لئے ایک محور تخیل اور نظام فکر نہ ہو، اور فکر کا یہ محور و نظام دنیائے شاعری میں صرف اقبال کومیسر آیا ہے۔ اس سلسلے میں بے چارے ایسٹ کی محرومی و مجبوری ہماری سمجھ میں آ سکتی ہے، اس لئے کہ اس غریب کے سامنے منظم نظر آنے والی شعری تخلیق کا جو بڑے سے بڑا نمونہ تھا وہ فقط دانتے اور شیکسپیئر کا تھا۔ لہٰذا اس نے اپنی تنقید میں اسی کو معیار بنایا۔ مگر جناب کلیم الدین احمد کی یہ بد قسمتی اور نفسیاتی بے چارگی ہمارے لئے وجہ ماتم ہے کہ اقبال کی شاعری میں بالخصوص جاوید نامہ کے اندر اتنی زبردستی تخلیق و فکری تنظیم پر جو ان کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے، انہوں نے از خود غور کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی اور الٹیوں کی سفارشات پر انہوں نے اس حد تک انحصار کر لیا اور اس پر ستم ظریفی یہ کی کہ اسی کو معیار بنا کر اقبال کے منصوبہ تخلیق میں کیڑے نکالنے لگے۔ آخر اس کور چشمی کا کوئی جواب اور جواز ہے کہ فلک عطارد پر پیغام افغانی باملت روسیہ میں اقبال تو اسی لا و الا کے معمے کا حل پیش کرتے ہیں اور ہمارے مغربی نقاد ارشاد کرتے ہیں کہ: ’’ کہ اس معمہ کا حل اقبال کے پاس نہیں؟‘‘ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے! ایک ملک قمر کی ترتیب افکار اور تنظیم خیالات کو لیجئے پہلے ’’ نہ تا سخن از عارف ہندی‘‘ پھر’’ طاسین گوتم‘‘ تب ’’ طاسین زر تشت‘‘ اس کے بعد’’ طاسین مسیح‘‘ اور سب سے آخر میں ’’ طاسین محمدؐ‘‘ اب اس ترتیب و تنظیم پر بھی غور کیجئے کہ جاوید نامہ میں اقبال نے مناجات سے ’’ زمزمہ انجم‘‘ تک تو اپنی سیاحت علوی کے مقاصد و عزائم واضح کئے اور یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کا معراج نامہ جدید در حقیقت و عروج آدم خاکی کی ایک داستان ہے، جو ماضی کے اہم واقعات اور حال کے عبرت انگیز تجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ولولہ انگیز اشارات پر مبنی ہے اور یہ کہ سارے افکار کا مرکز اسلام ہے۔ اس کے بعد فلک قمر پر انہوں نے مختلف مذاہب کے انبیاء و اولیاء کے حوالے سے حیات و کائنات کا بنیادی فلسفہ پیش کیا۔ پھر فلک عطارد پر تاریخ کے دو عظیم مفکروں اور مجاہدوں کی زبان سے اہم ترین موضوعات و مسائل پر تبصرے کرائے۔ اس کے بعد فلک زہرہ پر زمانہ حال کے انتشاد فکر اور مغربی استعماء پر روشنی قدیم اساطیر اور جدید تواریخ کے ذریعے ڈالی۔ فلک زہرہ پر عصر حاضر کے سب سے بڑے فتنے، بے مہار آزادی نسواں کی نشان دہی کر کے جدید مغرب زدہ معاشرت کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی۔ تب تلک مشتری پر اپنے تصور خودی کی تمثالیں تراشیں اور آج کے انسان کو تسخیر کائنات کے لئے للکارا۔ اس کے بعد فلک زہرہ پر تاریخ ہند کا ایک خونیں ورق کھول کر سر زمین شرق کے نام ایک تنبیہہ جاری کی، تاکہ جس خطہ ارض سے تجدید انسانیت اور انقلاب زمانہ کا علم اٹھنے والا ہے، وہاں کے مردان کار پوری طرح ہوشیار اور بیدار ہو جائیں۔ سب سے آخر میں آں سوئے افلاک پر مغربی خودی کے سب سے بڑے مفکر کی کردار نگاری کر کے ایک طرف نسائیت اور معاشرت کے بہترین نمونے اور اس طرح نئی نسلوں کے صحیح و صالح آغوش مادر کی نشان دہی کی اور دوسری طرف اسلامی خودی کے مظہر کامل سلطانی، کے بعض ان مشرقی مظاہر کی تصویر کشی کی جو زمانہ قریب میں سر زمین ہند اور اس کے قرب و جوار میں نمودار ہوئے ہیں۔ اس بصیرت افروز، عبرت خیز اور فکر انگیز داستان کا نقطہ عروج ’’ حضور‘‘ الٰہی ہے، جس میں پہلے ’’ ندائے جمال‘‘ ایک حیات بخش پیغام دیتی ہے،پھر تجلی جلال ظہور پذیر ہوتی ہے، تب سیاحت علوی کے خاتمے پر ہمارا مفکر شاعر، خطاب بہ جاوید کر کے ’’ سخنے بہ نژاد نو‘‘ نشر کرتا ہے۔ کیا یہ عظیم الشان تنظیم فکر اور ارتقائے خیال بغیر کسی ’’ محیط پیغام یا فلسفہ‘‘ کے ہے؟ جاوید نامہ کا پورا منصوبہ ہی ایک محیط پیغام اور فلسفے کے اظہار کے لئے ترتیب دیا گیا ہے کیا یہ ایک ثابت شدہ واقعہ نہیں ہے کہ فلک عطارد، پر محکمات عالم قرآنی۔۔۔۔ خلافت آدم، حکومت الٰہی، ارض ملک خداست، حکمت خیر کثیرست۔۔۔۔ ایک جامع پیغام اور کلی فلسفے کے اساسی تصورات کی ترتیب کرتے ہیں؟ جناب کلیم الدین احمد کو شاید معلوم نہیں کہ قرآن حکیم۔۔۔۔ اسلام کے دستور حیات۔۔۔۔ میں آیات الٰہی کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں۔ ایک محکمات، دوسری متشابہات اور وضاحت کی گئی ہے کہ محکمات ہی ام الکتاب ہیں اور جو الراسخون فی العلم ہیں وہ محکمات پر یقین رکھتے اور عمل کرتے ہیں اور متشابہات کے چکر میں نہیں پڑتے۔ یہ محکمات قرآنی حیات، کائنات، دنیا، انسان، فرد، سماج اور جملہ علوم و فنون کے بنیادی اور آخری مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ ان محکمات پر اقبال کی نظر اتنی گہری اور ان کا ایمان اتنا قوی ہے کہ وہ اپنے وقت کے تمام علمی و فکری اور فلسفیانہ سوالات کے جو دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے پاس آتے تھے، جوابات قرآن ہی کی آیات سے دیتے تھے۔ چنانچہ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے ان سے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ وہ سارے دنیوی علوم کے مشکل ترین سوالات کے جوابات لکھوانے کے لئے ان علوم کی ان کتابوں کی طرف، جو ان کے کتب خانے میں سجی ہوتی تھیں، رجوع کرنے کی بجائے صرف قرآن سے کیوں رجوع کرتے ہیں، تو اقبال نے انکشاف کیا کہ تمام علوم و فنون کے آخری مسائل Ultimate Problems کے حل قرآن ہی کی آیات میں ہیں، جبکہ دنیا کی دوسری کوئی کتاب جو متعلقہ علوم و فن پر لکھی ہوئی ہوتی ہے محض ان مسائل کے بیان پر اکتفا کرتی ہے اور اگر کوئی حل پیش کرتی ہے تو وہ حل نہیں ہوتا بلکہ ایک نیا مسئلہ کھڑا کرتی ہے اور یہ کہ اس حقیقت کا عرفان اقبال کو علوم و فنون کی منتہی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی ہوا، یہاں تک کہ جب انہوں نے قرآن کی آیات میں تدبر کیا تو انہیں پتہ چلا کہ وہ انتہائی مسائل جن کے حل کرنے سے علما و فلاسفہ عاجز آ چکے ہیں ان کا حل در حقیقت محکمات قرآنی میں ہے۔ یہی وہ بصیرت افروز نکتہ ہے جس کی طرف اشارہ عصر حاضر کے سب سے بڑے دماغ، علامہ ابا لا علیٰ مودودی نے یہ اقرار و اعلان کر کے کیا ہے کہ حیات و کائنات کے اہم ترین اور اساسی موضوعات و مسائل کے فہم میں ان کی واحد محسن کتاب قرآن حکیم ہے، جو ہر موضوع کے مضمران کا قتل کھولنے کے لئے شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب یہ انکشاف دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ جناب کلیم الدین احمد نے ٹی ایس الیٹ کے اس اقتباس کو صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں ہے جس پر انہوں نے خوامخواہ ’’ بس اندھی تقلید کے جوش میں‘‘ دانتے کے مزعومہ و مفروضہ نظام خیالات کی بے دلیل مداھی کی ایک سست بنیاد عمارت کھڑی کر دی ہے۔ الیٹ کہتا ہے: ’’ دانتے نے جذبات کی وہ جامع ترین اور منظم ترین پیش کش کی ہے جو کبھی کی گئی ہے۔ وہ جذبے کا تجزیہ اتنا نہیں کرتنا جتنا دوسرے جذبات کے ساتھ اس کا ربط دکھا دیتا ہے۔۔۔۔ لیکن دوسرے سارے فن کار دانتے کی طرح منفی سے مثبت تک کے اس مکمل نظام کے اظہار میں کامیاب نہیں ہوئے۔۔۔۔ انتہائی حسی سے انتہائی ذہنی اور انتہائی روحانی تک جذبات کی تعمیر مکمل ہے۔‘‘ (ص141) جناب کلیم الدین احمد کی دی ہوئی انگریزی عبارت کے اس مفہوم پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ الیٹ دانتے کے افکار سے نہیں، جذبات سے بحث کر رہا ہے اور وہ جذبات بھی فی الواقع دانتے کے نہیں بلکہ اس پیش کردہ واقعات سے پیدا ہونے والے جذباتی تاثرات و کیفیات ہیں، اور الیٹ کی اس مداحانہ تنقید میں سارا زور تصور فن کی تکمیل اور تنظیم پر ہے، مگر جناب کلیم الدین نے جذبات کی اس تنظیم میں ایک محیط پیغام یا فلسفہ کا سراغ لگا لیا ہے اور جذبات کے ساتھ ساتھ خیالات کا ایک نظام بھی ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس قماش کی His master,s voice کو انگریزی محاورے میں More royalist than the king کہتے ہیں اور دوسرے پہلو سے فارسی کی یہ مثل بھی اس معاملے پر صادق آتی ہے: ’’ پیراں نمی پرندو مریداں ہمی پرانند‘‘ یا پھر وہ جو کہتے ہیں: ’’ مدعی سست گواہ چست‘‘ بات یہ ہے کہ الیٹ کے جس فتوے نے جناب کلیم الدین احمد کے لئے ذاتی غور و فکر کی تمام راہیں بند کر کے انہیں تقلید محض پر مجبور کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ: ’’ اور ڈیوائن کومیڈی کو مجموعی طور پر لیجئے۔ آپ اس کا مقابلہ شیکسپیئر کے کل ڈراموں کے سوا کسی اور چیز سے نہیں کر سکتے۔۔۔۔ دانتے اور شیکسپیئر نے دنیائے جدید کو اپنے درمیان تقسیم کر لیا ہے۔ تیسرا کوئی نہیں۔۔۔ شیکسپیئر جذبات انسانی کی عظیم ترین وسعت کو پیش کرتا ہے، دانتے عظیم ترین رفعت اور عظیم ترین عمق کو۔ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔‘‘ (ص142) ’’ سلکٹڈ اسیز‘‘ سے پیش کی ہوئی جناب کلیم الدین احمد کی پسندیدہ، ٹی ایس ایلیٹ کی یہ رائے ان کے لئے تو دین و ایمان ہے اس لئے کہ یہ ایک تو دانتے اور شیکسپیئر جیسے مایہ ناز مغربی فن کاروں کی تاج پوشی ہے، دوسرے یہ تاج شاعری جدید انگریزی تنقید کے پوپ کے مقدس ہاتھوں سے پہنایا ہوا ہے۔ اور اس قسم کی رائے زنی کے لئے الیٹ کی طرف سے تو کم از کم ناواقف کا عذر پیش کیا جا سکتا ہے، حالانکہ ہمہ دانی کا دعویٰ کرنے والے کے لئے جہالت کوئی معقول عذر نہیں، لیکن جناب کلیم الدین احمد تو علم و فن کا خون دانستہ کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نظام فن کی ترتیب میں دانتے اور شیکسپیئر مل کر بھی شعریت کے لحاظ سے اقبال کا مقابلہ نہیں کر سکتے، جب کہ نظام فکر کے معاملے میں دانتے اور شیکسپیئر جیسے معمولی مطالعہ کے فن کار کسی مقام پر ہیں ہی نہیں اور اقبال فکر و فلسفہ بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ اقبال کی شاعری میں فکر و فن کی عظمتوں کو جو امتزاج کامل ہے وہ دنیائے شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مشرق و مغرب میں کہیں بھی نہ تو کسی شاعر نے آج تک اتنے زبردست تفکر سے کام لیا ہے اور نہ کسی مفکر نے اتنی عظیم شاعری کی ہے، پھر تفکر بھی ایک منظم فکر اور محیط فلسفے کی شکل میں اورشاعری صنائع و بدائع اور فصاحت و بلاغت کے جملہ فن کے ساتھ پھر فکر و فن دونوں کے سالمات ایک انتہائی طاقت ور جذبے اور اس سے پیدا ہونے والے سوز و گداز سے پگھل کر ایک ہم آہنگ مرکب میں ڈھلے ہوئے، جس کے نتیجے میں حسن و صداقت کی ایک ایسی کامل یک جہتی کہ اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اور اس یک جہتی میں ایسی آفاقیت کہ جدید و قدیم اور مشرق و مغرب کے تمام صالح و صحیح افکار اور حسین و جمیل استعارات کا عطر مجموعہ اقبال کی شاعری کالی داس، دانتے، رومی و حافظ، شیکسپیئر اور گیٹے اور غالب کی بہترین اقدار فکر اور روایات فن کی امانت دار اور ان میں توسیع و اضافہ کرنیوالی ہے۔ اس عظیم و بسیط مرکب و منظم، زیبا و رعنا اور دانش ورانہ و خرد مندانہ شاعری پر تنقید صرف اسی قول سے کی جا سکتی ہے: ان معن الشعر الحکمۃ وان من البیان لسحرا (شعر سے حکمت ٹپکی پڑتی ہے اور بیان سے جادو جاگتا نظر آتا ہے) ادب و فن کی تاریخ میں اقبال کا ایک عدیم النظیر کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک عظیم شاعری کے ذریعے ایک عالمی انقلاب اور آفاقی ارتقاء کا پیغام صرف اپنی قوت فکر اور طاقت فن کی بنیاد پر دیا ہے، جو ایک بدترین حال میں بہترین مستقبل کی بشارت اور اس طرف پیش قدمی کا بصیرت افروز اور ولولہ انگیز نغمہ ہے۔ جاوید نامہ کے نغمہ ملائک سے بہتر حدی خوانی کاروان انسانیت کے اگلے مراحل سفر کے لئے نہ پہلے کبھی ہوئی ہے نہ بعد میں کبھی ہو گی: فروخ مشت خاک از نوریاں افزوں شود روزے زمین از کوکب تقدیر او گردوں شود روزے خیال او کہ از سیل حوادث پرورش گیرد زگرداب سپہرنیل گوں بیروں شود روزے یکے در معنی آدم نگر! از ماچہ می پرسی! ہنوز اندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں را دل از تاثیر او پرخوں شود روزے (ایک دن ایسا آئے گا کہ مشت خاک فروغ پا کر نوری مخلوق ملائکہ سے بڑھ جائے گی۔ زمین اس کے کوکب تقدیر کی بدولت آسمان بن جائے گی۔ اس کا تخیل جو ابھی سیل حوادث کے طمانچے کھا کر پرورش پا رہا ہے سپہرنیل گوں کے گرداب سے ایک روز باہر نکل پڑے گا۔ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ ذرا آدمی کے باطن میں جھانک کر دیکھو کائنات کا یہ شعر ابھی فطرت کی گہرائیوں میں موزوں ہو رہا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ موزوں ہو جائے گا اور یہ پیش پا افتادہ مضمون حیات ایسا موزوں ہو گا کہ ایک روز اس کی تاثیر سے دل یزداں خون ہو جائے گا) تصور کیا جا سکتا ہے کہ استعارات و علائم اور نغمہ و زمزمہ نیز افکار و خیالات سے لبریزان چند اشعار کے پیچھے فکر و فن کے ریاض اور جذبوں اور حوصلوں کی کیسی عظیم الشان دنیا اور کتنی حسین و زرین کائنات آباد ہو گی اور شعر و حکمت کے اس زندہ و توانا نظام جسمانی سے معطر ہو کر یہ تاباں و درخشاں مصرعے کس چابک دستی سے برآمد ہوئے ہوں گے۔ مشت خاک کو فروغ نوریوں کے مقابلے میں بجائے خود ایک جہان معنی ہے انسان کے کوکب تقدیر کی روشنی میں زمین کا گردوں بننا ایک سحر آفریں طلسم خیال قائم کرتا ہے۔ انسانی تخیل کا سیل حوادث میں غوطہ لگاتے ہوئے گرداب سپہر نیلگوں سے بیرون ہونا ایک ایسی کائناتی تصویر ہے جس میں تاریخ انسانی کے سارے درد و داغ و جستجو و آرزو کو مجسم کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد مسلسل چار مصرعوں میں ایک ہی استعارے کو ایک سحر آفریں تسلسل اور ترتیب کے ساتھ پھیلایا گیا ہے اور اس کے ہر جز سے فکر و نغمہ کا پورا پورا دائرہ کھینچ دیا گیا ہے۔ اس استغارے میں ارتقاء کو تخلیق شعر کا عمل قرار دیا گیا ہے، جس طرح ایک مضمون شاعر کے دماغ میں موزوں ہوتا ہے اسی طرح انسانیت اپنے خالق کے ذہن میں مکمل ہو رہی ہے اور اس تکمیل حیات کا اظہار لفظ بہ لفظ، ترکیب بہ ترکیب، محاورہ بہ محاورہ، استعارہ بہ استعارہ، مصرع بہ مصرع کائنات کے قرطاس پر ہو رہا ہے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ شعر انسانیت شاعر کائنات کے ذہن میں موزوں ہو جائے گا اور لوح وجود پر اس کے اظہار کی تکمیل ہو جائے گی۔ اور اس شعر کے بنیادی مضمون و مواد میں بالقوہ ایسا بے مثال اور اتنا بے حساب حسن ہے کہ جب اس کی ہیئت نمود مکمل ہو جائے گی اور یہ اپنی تمام زیبائی ورعنائی مضمرات و اشارات اور رنگ و آہنگ کے ساتھ اپنے خالق کے سامنے جلوہ آرا ہو گا تو اس کے جمال و کمال کی تاثیر سے خود خالق کا دل پر خون ہو جاتا ہے۔ ان اشعار میں سائنس اور فلسفہ کے ٹھوس حقائق کو شعر و ادب کی جن اداؤں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ دیدنی ہیں اور وہی اقبال کی فن کا نشان ہیں، جن سے دنیا کے شاعروں سے ان کا امتیاز و تفوق ظاہر ہوتا ہے۔ افسوس! کہ جناب کلیم الدین احمد علم و آگہی کے ادعا کے باوجود فکر و فن کے ان نمایاں نکات سے بالکل نابلد نظر آتے ہیں یہ صورت حال یقینا ان کے ذوق و شوق دونوں کو بے حد مشتبہہ بنا دیتی ہے۔ موصوف اپنے اقتباساتی و تجزیاتی اسلوب نقد کے باوصف اپنے موضوع کے اوصاف سے بحث کرتے ہی نہیں، صرف اپنے تعصبات و مفروضات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا یہ غیر علمی رویہ مایوسکن ہے، جب کہ بایں ہمہ بے ذوقی و بے شعوری ان کا ادعائی انداز بیان بے زار کن ہے، شدید احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے تنقید کو فقط نکتہ چینی کا ایک کھیل بنا دیا ہے۔ اور اگر وہ محض عیوب تک بھی محدود رہتے تو کم از کم ایک صفائی کرنے والے Scavenger کا رول ہی ادا کرتے، لیکن ستم اور غضب یہ ہے کہ اپنی اندھی صفائی میں وہ بسا اوقات کوڑا کرکٹ کو تو سجا سجا کر رکھتے ہیں اور لعل و جواہر کو پھینک دیتے ہیں اس قسم کی تنقید ادب کی جانچ نہیں، ادب پر ایک آنچ ہے اور اس سے فن کی قدر شناسی کی بجائے فن کی ناقدری ہوتی ہے۔ یہ تعمیری نہیں، تخریبی تنقید ہے اور اس کا نتیجہ دنیائے ادب میں آگہی کی قیمت پر نادانی کی اشاعت ہے۔ ٭٭٭ 6 اقبال کی لمبی اردو نظمیں (1) شاعری، اردو شاعری اور اقبال کی شاعری پر جناب کلیم الدین احمد کے افکار و خیالات کے جو تجزیے اور تبصرے میں گزشتہ سطور میں کر چکا ہوں ان سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمار ے مغربی نقاد نہ صرف یہ کہ ادب و شعر کا ایک نہایت ناقص تصور اور شعور رکھتے ہیں۔ جس کے تحت ہی وہ مشرقی بالخصوص اقبال کی فارسی اور اردو شاعری پر نظر ڈالتے بلکہ خود اس مغربی اور انگریزی ادب کا ان کا مطالعہ جو ان کی ساری پونجی ہے، بے حد خام محدود اور ناقابل اعتبار ہے۔ اول تو انہوں نے چند مغربی علما و ناقدین کے فرمودات کو وحی الٰہی تصور کر لیا ہے۔ دوسرے وہ ان فرمودات کو صحیح طور سے تخلیقات کے عملی نمونوں پر منطبق کرنے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتے، یا پھر جان بوجھ کر ادب و شعر کے ساتھ مذاق فرماتے ہیں جیسا کہ موصوف نے ’’ 24نظمیں‘‘ اور’’ 25نظمیں‘‘ خود تخلیق فرما کر شاعری کے میدان میں کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر مربوط اور استعاراتی نظموں کا معیار یہی نظمیں ہیں تو یقینا اقبال کی نظمیں اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، اور نہ ان کو ایسے معیار پر ہونا چاہئے تھا ورنہ دنیائے شاعری ایک اقبال سے محروم ہو جاتی اور اس کے مقدر میں کلیم الدین احمد یا عظیم الدین احمد جیسے شاعر ہوتے، جنہیں متشاعر کہنا بھی ایک تکلف ہے۔ پتہ نہیں’’ اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں اقبال، غالب اور میر کا خون کر کے جو ’’ گل نغمہ‘‘ کھلایا گیا تھا وہ آج باغ شاعری کے کس کونے میں کھاد بن رہا ہے۔ بہرحال سخن فہمی، سخن سنجی، اور سخنوری کے اس معیار کے باوجود جناب کلیم الدین احمد کی بلند بانگ تنقید ملاحظہ فرمائیے: ’’ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے قارئین بھی، نظم کیا ہے؟ اس کی کیا خصوصیتیں کیا ہیں؟ وہ کیا چیز ہے جو نظم کو خطابت، نرے پیغام، غیر شعر اور نثر سے ممیز کرتی ہے، ان چیزوں سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے۔ لیکن تنقید کی دشوار گزار راہ میں جہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں، بے دھڑک گامزن ہوتے ہیں۔ مجھے کہنے دیجئے کہ نرا پیغام یا پیراپیگنڈہ شاعری نہیں۔ جو باتیں آپ نثر میں زیادہ وضاحت زیادہ تعین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں اسے نثر ہی میں کہنا زیادہ مناسب ہے۔ شعر میں اس کی کوئی جگہ نہیں اور شعر، شعر باقی نہیں رہتا، منظوم نظر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خطابت اور شاعری جدا جدا چیزیں ہیں۔ خطابت مفید ہے اس سے اچھے اور بڑے کام لئے گئے ہیں اور لئے جا سکتے ہیں۔ لیکن خطابت شاعری نہیں۔‘‘ (ص149 اقبال ۔۔۔۔ ایک مطالعہ) ’’ تنقید کی دشوار گزار راہ‘‘ بھی کوئی معراج کی راہ ہے جس میں ایک منتہی پر پہنچ کر فرشتوں کے سردار کے پر جلنے لگے تھے: اگر یک سرموے برتر پرم فروغ تجلی بہ سوزد پرم اور منظوم وہنے کے بعد بھی کوئی چیز ’’ نثر‘‘ کیسے ہو جاتی ہے؟ جیسے آج کل ’’ نثری نظم‘‘ کی اصطلاح بعض وہ نقاد چلائے ہوئے ہیں جن کا قافیہ شاعری میں تنگ ہو رہا ہے؟ شاید’’ منظوم نثر‘‘ ہی کا نمونہ کامل ہیں ’’ بیالیس نظمیں ‘‘ اور’’ پچیس نظمیں ‘‘ اور ان سے ایک پیڑھی آگے ’’ گل نغمہ‘‘ بہر حال سوال یہ ہے کہ اقبال کی پانچ نظمیں کا مطالعہ کرنے کے لئے اس ادعائی تمہید کی ضرورت کیا ہے، اور اس قسم کی باتوں کا جو یہاں ظاہر کی گئی ہیں اقبال کی شاعری اور نظم نگاری سے کیا تعلق ہے؟ کیا اقبال کی نظمیں ’’ منظوم نثر‘‘ ہیں؟ کیا ان میں’’ نرا پیغام یا پیراپیگنڈہ‘‘ ہے جو’’ شاعری نہیں؟‘‘ آخر’’ خطابت شاعری نہیں‘‘ کہہ کر جناب کلیم الدین احمد کس شاعری کی نفی کرنا چاہتے ہیں؟ اقبال کی شاعری کی؟ اور کیا واقعی شاعری میں خطابت Rhetoric Propaganda واقعی دنیائے ادب میں ممنوع ہے؟ مذکور اقتباس کے خاتمے پر اور اسی کے تسلسل میں ہمارے مغربی نقاد فرماتے ہیں: ’’ خفر راہ کو لیجئے۔۔۔‘‘ (ص149) اس سے معلوم ہوا کہ دعائی تمہید اقبال ہی کی نظم نگاری پر تنقید کرنے کے لئے ہے اور اس تمہید میں جناب کلیم الدین احمد نے جو کچھ ارشاد کیا ہے اسی کا اطلاق وہ اقبال کی نظموں پر عام طور سے کریں گے اور اسی طرح اپنے دعوے کی دلیلیں دے کر ثابت کریں گے کہ اقبال کی شاعری بالعموم محض خطابت، نرا پیغام یا پیراپیگنڈہ اور گویا منظوم نثر ہے شاعری نہیں۔ اس تجزیے سے بدیہی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد ذہنی طور پر کم از کم اقبال کی شاعری کو پرکھنے کے سرے سے اہل نہیں۔ اس لئے کہ وہ اقبال کی شاعری کا کوئی اصول و معروضی مطالعہ کرنا ہی نہیں چاہتے، بلکہ محض اپنے شخصی مفروضات اور جذباتی تعصبات کا اثبات اور اظہار اقبال کی نظم نگاری کے سلسلے میں کرنا چاہتے ہیں مذکورہ اقتباس پر میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان سے بھی بین اشارہ ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد ہی دراصل خود اپنے اس بیان کا بالکل صحیح نشانہ ہیں۔ ’’ تنقید کی دشوار گزار راہ میں جہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں، بے دھڑک گامزن ہوتے ہیں‘‘ (ص149 اقبال ۔۔۔ ایک مطالعہ) آخر اس سے بڑھ کر تنقید کی راہ میں بے دھڑک گامزن ہونا اور کیا ہو گا کہ ایک شخص اقبال کی شاعری کو نرا پراپیگنڈہ ، خطابت اور منظوم نثر ثابت کرنے کے لئے چار سو سولہ صفحات کی کتاب لکھتا ہے (گرچہ اس میں تنقیدی تبصروں کا حجم کم اور دوسروں کے اقتباسات زیادہ ہیں)؟ واقعہ یہ ہے کہ ’’ اقبال کی پانچ نظمیں‘‘ کا مطالعہ کرنے کے لئے جناب کلیم الدین احمد نے جو تمہید باندھی ہے وہ نہ صرف قطعاً نا مناسب اور غیر متعلق بلکہ لا یعنی اور لغو ہے اور اگر کوئی باذوق شخص، جو اقبال کی شاعری سے باخبر بھی ہے اس تمہید پر ایک نظر ڈال کر نہ صرف کتاب بند کر دے بلکہ اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دے تو اسے معذور سمجھنا چاہئے، تنقید خوانی تصنیع اوقات کے لئے کیوں کی جائے؟ جناب کلیم الدین احمد جیسے ہزاروں نقاد زیر نظر کتاب جیسی لاکھوں کتابیں بھی لکھ ماریں گے تو اردو اور فارسی ادب کا ذوق و شعور رکھنے والے اقبال کی شاعرانہ عظمت سے بدگماں نہیں ہوں گے، اور وہ ان سب نظموں کو جھوم جھوم کر پڑھتے ہی رہیں گے جن میں ہمارے مغربی نقاد اپنے اوہام و خرافات کی بناء پر کیڑے نکال رہے ہیں۔ شاید موصوف بھی اس حقیقت حال سے آگاہ ہیں۔ اسی لئے وہ پڑھے لکھے قارئین کی بھی شعر و ادب میں ان باتوں سے ناواقفیت کا رونا روتے ہیں جو ان کے زعم میں بنیادی باتیں ہیں یہ مریضانہ حد تک Pathologically ’’ بے دھڑک‘‘ اور ڈھیٹ ہونے کی ایک مثال ہے۔ کیا شعر و ادب کا ذوق و شوق پوری اردو دنیا میں صرف کلیم الدین احمد کو حاصل ہے؟ یقینا موصوف کا زعم یہی ہے، اور یہ بے عقلی کی انتہا ہے یہ بے عقلی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کا علم محدود، دماغ تنگ اور نظر سطحی ہو، اور جناب کلیم الدین احمد ان منفی اوصاف کے مالک ہیں، ان کا تو انگریزی اور مغربی ادبیات ہی کا مطالعہ سراسر مقلدانہ اور جامد ہے، بس انیسویں صدی کے غیر حکیمانہ تصورات ہی کے وہ اسیر ہیں وہ بھی آرنلڈ جیسے باکمالوں کے تنقیدی موقف کے فہم سے عاری ہو کر مشرقی ادبیات کا کتنا ذوق اور شعور وہ رکھتے ہیں یہ ان کے اب تک کے تنقیدی کارناموں ہی سے واضح ہے۔ ایشا شخص اپنے آپ کو ہمہ داں اور اردو کے تمام ادیبوں کو جاہل سمجھتا ہے!یقینا یہ اردو ادب کا ظرف ہے کہ وہ ایسے کم علم، کم نظر اور نافہم شخص کی بے دھڑک بے ڈھب اور بے ڈھنگی باتوں کو بھی تنقید کے نام سے اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے۔ جناب کلیم الدین ایسی عامیانہ اور طفلانہ تنقیدیں، جیسی وہ مشق ناز کے طور پر اردو ادب کے متعلق کیا کرتے ہیں، ذرا انگریزی زبان میں انگریزی ادب کے متعلق کر کے دیکھیں۔ انہوں نے ادب میں تحلیل نفسی کے موضوع پر جو ایک کتاب انگریزی میں دوسروں کے حوالوں کے بل پر مرتب فرمائی تھی اس کا حشر نہیں معلوم ہے۔ بہرحال، جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کی جن پانچ لمبی اردو نظموں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے وہ یہ ہیں: 1خضر راہ 2طلوع اسلام 3 ذوق و شوق 4 مسجد قرطبہ 5 ساقی نامہ ان میں ان کے معیار پر صرف ایک نظم ’’ ساقی نامہ‘‘ پوری اترتی ہے جب کہ باقی سبھی نظمیں ناقص ہیں اسی لئے وہ فیصلہ کرتے ہیں: ’’ ساقی خانہ اقبال کی بہترین اردو نظم ہے‘‘ (ص200) یہ فیصلہ جن خوبیوں پر مبنی ہے وہ موصوف کے نزدیک یہ ہیں: 1 ’’ اقبال اس نظم میں بعض لفظوں کی تکرار کا بہت فن کارانہ استعمال کرتے ہیں جن سے نظم کے مختلف حصے زیادہ مربوط ہو جاتے ہیں اور ایک لفظ کی گونج ہم دوسرے لفظوں میں سنتے ہیں۔‘‘ (ص202) 2’’ خیالات میں ایسا ربط و تسلسل ہے کہ اکثر وہ Verse paragragh لکھتے ہیں اور جب تک یہ پیراگراف پورا نہیں ہوتا بات پوری نہیں ہوتی۔‘‘ (ص206) 3یہ شاعری ہے اور اچھی شاعری ہے اس میں انفرادی رنگ ہے باتیں بھی ہیں اور کام کی باتیں ہیں کہیں شعریت کو پس پشت نہیں ڈالا گیا ہے۔ (ص208) ان باتوں سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ ناقد موصوف کے لفظوں میں یوں ہے: ’’ یہاں اردو شاعری کے بندھے ٹکے مضامین نہیں۔ خیالات نئے ٹکنیک نئی ہے یہاں بھی ’’ خضر راہ‘‘ یا ’’ طلوع اسلام‘‘ کی طرح وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اور جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اسے کہہ بھی جاتے ہیں، لیکن یہاں کہنے کا ڈھنگ شاعرانہ ہے۔ اسے خیال کہتے، فلسفہ کہتے لیکن یہ خیال، یہ فلسفہ شعری تجربہ بن گیا ہے اسی لئے اس میں جذبات کی گرمی اور تخیل کی رنگینی ہے۔ خطیبانہ اسلوب یا نثریت کا نام و نشان نہیں۔‘‘ (ص216) ’’ ساقی نامہ‘‘ کے تجزیہ کے آخر میں پانچوں نظموں کے مطالعے کا خلاصہ بھی تقابلی انداز میں پیش کر کے بتایا گیا ہے کہ باقی چار کے مقابلے میں پانچویں نظم کی امتیازی خصوصیت اور وجہ ترجیح و تفوق کیا ہے: ’’ خضر راہ‘‘ میں دو بند شعریت کے حامل ہیں ایک تو پہلا بند ہے جس میں شاعر ساحل دریا پر کھڑا شب کا سماں پیش کرتا ہے اور دوسرا وہ جس میں وہ شب میں صبح کا سمان دکھلاتا ہے۔ دونوں تصویریں حسین اور یادگار ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ تعلیم ہے، پیغام ہے، اب اسے جو کچھ کہئے، جسے صورت شعر میں پیش کیا گیا ہے، صرف اس لئے کہ اشعار زود اثر ہوتے ہیں کہیں کہیں خطیبانہ اسلوب ہے لیکن شعریت نہیں اور یہ پیغام نثر میں بھی اپنی زبانی یا خضرؑ کی زبانی سنایا جا سکتا تھا طلوع اسلام شروع سے آخر تک خطیبانہ اسلوب میں لکھی گئی ہے اور پھر ایک ہنگامی نظم ہے، البتہ ایک دو شعر یادگار شعر ہیں: گماں آباد ہستی میں۔۔۔۔۔۔ حقیقت ایک ہے ہر شے کی۔۔۔۔ ’’ ذوق و شوق‘‘ کا پہلا بند انتہائی شعریت کا حامل ہے اور اگر اقبال اس بیان میں شرح و بسط سے کام لیتے تو شاید یہ یادگار نظم ہوتی لیکن وہ اپنے Pet Ideas میں منہمک ہو جاتے ہیں اور شاعر کو دون ہمتی سمجھتے ہیں۔ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کا موضوع جیسا کہ میں نے کہا مسلمانوں کے لئے دل خوش کن ہے۔ یہ خیال کہ صرف مرد مومن، مرد حر، مرد آزاد کے کام کو۔ ۔۔۔۔۔ وہ فنون لطیفہ میں ہو یا زندگی کے کسی اور شعبے میں۔۔۔۔ زندگی جاوید عطا ہوتی اور ہو سکتی ہے اور نقش نو ہو کہ کہن، اگر وہ مرد مومن کی تخلیق نہیں تو وہ فانی ہے یہ بات مسلمانوں کے لئے دل خوش کن اور ہمت افزا ہو تو ہو لیکن واقعیت سے دور ہے اور جس نظم کا موضوع کھوکھلا ہو یا غلط ہو وہ نظم کس کام کی؟ ’’ ساقی نامہ‘‘ البتہ ایک بہت ہی لطیف، پیچیدہ رنگین توانا نظم ہے اور اس میں نقوش اور آہنگ کی ایسی فنکارانہ گونج ہے Reverberation ہے جو اردو نظموں میں ناپید ہے۔ (ص216-14) ان تبصروں سے جناب کلیم الدین احمد کا تنقیدی کو بڑا نمایاں ہے، وہ یہ کہ ’’ شاعری اور اچھی شاعری‘‘ کا معیار ان کے نزدیک یہ ہے کہ وہ Verse Paragraph کی طرح ربط و تسلسل رکھتی ہو۔ معیار شاعری کا یہ تخیل جناب کلیم الدین احمد نے خاص کر ٹی ایس ایلیٹ سے مستعار لیا ہے جس نے بہ اعتراف خود، اپنی شاعری کا جواز مہیا کرنے کے لئے، جو تنقیدیں لکھیں ان میں اس نے انیسویں صدی کی رومانی شاعری کے مقابلے میں اٹھارہویں صدی کی کلاسیکی شاعری کا امتیاز واضح کیا۔ اسی لئے اس نے طنز نگار ڈرائیڈن کی شاعری کی بازیافت کی اور اسی مقصد کے لئے اس نے شیکسپیئر کے مقابلے بن جانسن کا احیا کیا۔ الیٹ کی شاعری بالعموم Verse Paragraphکی طرح مربوط ہوتی ہے اور یہ اس کے اس قول کے مطابق ہے کہ شعر کے اندر ایک اچھی طرح لکھی ہوئی نثر کی بنیادی خوبی ہونی چاہئے۔ لیکن کیا یہ اعلیٰ شاعری کا کوئی معیار ہے؟ اور کیا الیٹ کی شاعری اعلیٰ معیار کی حامل ہے؟ جدید نظم نگاری میں ایلیٹ کا جو مقام بھی مغربی بالخصوص انگریزی ادب کے ایک حلقے میں سمجھا جاتا ہو۔ مگر ایلیٹ کی شاعر اعلیٰ شاعری کا نمونہ نہیں ہے یہ ایک اوسط درجے کی نظم نگاری ہے اور خود انگریزی میں عصر حاضر کا ایک دوسرا شاعر، ولیم ٹبلوئیٹس الیٹ سے بدرجہا بہتر شاعر ہے اور ایلیٹ کے برخلاف اس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ Verse Paragraph نہیں لکھتا، نہ اس کے اشعار اچھی طرح لکھی ہوئی نثر کی خوبی رکھتے ہیں، بلکہ وہ شاعر ہے، شعر لکھتا ہے اور اس کے اشعار میں وہ شعریت ہے جو ایلیٹ کے یہاں بہت ہی کم ہے کیا جناب کلیم الدین احمد اس سوال کا سیدھا اور دو ٹوک جواب دیں گے۔ کہ شاعری، اچھی شاعری کے لحاظ سے انیسویں صدی کی رومانیت نہتر و برتر ہے یا اٹھارہویں صدی کی کلاسیکیت؟ یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور معلوم و مصروف ہے کہ ہر دور کا ایک رحجان ہوتا ہے، کبھی ہیئت پر زور دے کو کلاسیکی میلان ابھرتا ہے کبھی تخیل پر زور دے کر رومانی میلان ابھرتا ہے۔ پھر ہر زمانے کا اپنا ایک ذوق بھی ہوتا ہے، کبھی لوگ کلاسیکی عناصر کو پسند کرتے ہیں اور کبھی رومانی عناصر کو یہ رحجان اور ذوق بلا وجہ نہیں ہوتا، تاریخی اور نفسیاتی طور پر عمل اور ردعمل کا ایک چکر چلتا ہے جب لوگ خیالات کی فراوانی اور تندی سے تھکنے اور اکتانے لگتے ہیں تو ان کی دلچسپی اسالیب کی ترتیب و ترکیب کے ساتھ بڑھ جاتی ہے اور جب وہ ہیئت کی میکانکی یکسانی، خشکی اور جمود سے بے زار ہوتے ہیں تو تخیل کی گرمی، شادابی اور رنگا رنگی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ چنانچہ مثال کے طور پر انگریزی میں اٹھارہویں صدی کی ہیئت پرستی کے رد عمل میں انیسویں صدی کی تخیل پسندی کا ابھار ہوا اور پھر انیسویں صدی کے تخیلی ابہام کے رد عمل میں بیسویں صدی کے فن کاروں نے وضاحت اور منطقیت پر زور دینا شروع کیا، جب کہ خود اٹھارہویں صدی کی کلاسیکیت سولہویں اور سترھویں صدی کی پہلی رومانیت کا رد عمل تھا۔ اسی لئے انیسویں صدی کو ’’ احیائے رومانیت‘‘ Romantic Revival کا دور ککہا گیا ہے۔ اس تاریخی تناظر Perspective میں اگر کوئی کلیم الدین احمد شاعری میں بھی مربوط Verse Paragraph کی بات کرے تو ہم اس کو سمجھ سکتے ہیں، لیکن اگر یہ بات کرنے والا تاریخی حقائق کو یکسر نظر انداز کر کے Verse Paragraph ہی کو معیار شاعری، ہمہ گیر، اصولی اور آفاقی معیار بتانے یا بنانے کی کوشش کرے اور اسی کو واحد معیار تصور کر کے اعلیٰ سے اعلیٰ شاعری کو اسی کی کسوٹی پر پرکھنے لگے تو ایسے ناواقف، نادان اور بے ذوق و بے شعور شخص کی تردید و مذمت میں جتنے سخت سے سخت الفاظ بھی استعمال کئے جائیں کم ہیں۔ اس لئے کہ یہ شخص اپنے ادب کی توہین و تذلیل کے ساتھ ساتھ ادب کے تمام قارئین کے ذوق و شعور کو خراب بلکہ غارت کرتا ہے اور تنقید کے نام پر صرف تحقیر و تمسخر کی گرم بازاری کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک نہایت ضروری سوال یہ بھی ہے کہ آخر نظم میں یہ ربط و تسلسل ہے کیا جس پر اتنا زور دیا اور شور مچایا جا رہا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ نظم کے اشعار ہیں عضویاتی پیوستگی اور ہم آہنگی ہونی چاہیے، یعنی اس درجے کا تناسب اعضا جو احسن الخالقین نے جسم انسانی کی تخلیق میں ظاہر کیا ہے۔ اگر ربط و تسلسل کا مفہوم یہ ہے تو صریحاً یہ حدود فطرت سے تجاز اور مظاہر حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے۔ کمال درجے کی عضویاتی پیوستگی تو کارخانوں میں ڈھلنے والی میکانکی اوزار میں بھی نہیں مل سکتی اس لئے کہ وہ بہرحال نقل ہے اور بالکل اصل نہیں ہو سکتے اس لئے عضویاتی پیوستگی کی گفتگو زیادہ سے زیادہ اعتباری و اضافی ہو سکتی ہے اور تناسب و توازن کے بڑے سے بڑے انسانی معیار میں بھی چند گوشوں کی رعایت کرنی ہی ہو گی، چاہے شاعری کی دنیا میں تناسب و توازن کے تجربے کا معیار ڈوائیڈن اور یورپ جیسے شاعروں کی دو مصرعوں کی بتیوںCouplets ہی تک محدود کیوں نہ ہو۔ فارسی اور اردو میں بھی مثنوی کی مثال موجود ہے۔ اب دو مصرعوں کی ابیات پر مشتمل یا چند شعروں کے ہندوںStanzas پر مبنی نظموں کا بھی حال ظاہر ہے کہ یہی ہو گا، یعنی ان کی ہیئت کے عناصر کی ترتیب میں کچھ حاشیے فطری طور پر چھوڑنے ہوں گے۔ خواہ ارتقائے خیال کتنا ہی مربوط مسلسل ہو، اس کی چند گم شدہ کڑیاں بھی ہوں گی اور ہوتی ہیں، منظم سے منظم ہیئت میں ہوتی ہیں، دنیا کا کوئی فن کار اور فن کا کوئی نمونہ اس کلتے سے مستثنیٰ نہیں، شیکسپیئر ہو، دانتے ہو، گیٹے ہو، اقبال ہو، سب شاعر و فن کار ہیں، انسان ہیں، احسن الخایقین نہیں اور ان کی حسین سے حسین مخلوق فن ’’ احسن تقویم‘‘ نہیں ہو سکتی۔ اس سلسلے میں فن لطیف کا یہ بنیادی نکتہ بھی برابر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ شعر اور نظم اقلیدس کی ہیئت نہیں ہے اور نہ ریاضی کے فارمولے پر مبنی ہو سکتے ہیں۔ انسانی تخیل کی اعلیٰ سے اعلیٰ پیداوار حرف و صورت اور کلمہ و کلام کی حدود میں ہی صورت پذیر ہو گی، خواہ یہ صورت مختصر سی رباعی اور قطعے کی ہو یا طویل مسدس اور جدید نظم کی ہو۔ ان حقائق کی روشنی میں ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے اندر بھی ترتیب ہیئت کی وہی خوبیاں دکھائی جا سکتی ہیں جو جناب کلیم الدین احمد نے ’’ ساقی نامہ‘‘ میں دریافت کی ہیں۔ سب سے پہلے تو دعا کی تمہید ہے جو مسجد قرطبہ میں لکھی گئی: ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو تجھ سے مری زندگی سوز و تب و در دو داغ تو ہی مری آرزو، تو ہی مری جستجو ٭٭٭ پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو ٭٭٭ فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو بہ رو اس خیال انگیز’’ تمہید‘‘ میں اقبال کا وہ نقطہ نظر بھی ہے جس کا اظہار ان کی شاعری کا نصب العین ہے۔ انہوں نے اپنی پہلی نظم ہمالہ ہی میں تمنا کی تھی: لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو اور’’ ذوق و شوق‘‘ میں بھی اعلان کیا: میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو یہ محض ماضی کے احیا کی آرزو نہیں ہے بلکہ اس کا مطمح نظر وقت کا ایک خاص تصور ہے جو کوئناتی اور آفاقی ہے: زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصہ جدید و قدیم اس تصور زمان میں ماضی بھی ویسا ہی زندہ و توانا، اہم اور معنی خیز ہے جیسا حال اور مستقبل، اور تینوں زمانوں کو ایک سطح پر رکھ کر انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور ہم آہنگ کر کے ہی حیات کے تسلسل اور ارتقائے انسانیت کی مکمل، واضح، متعین اور موثر تصویر حاصل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ تاریخ کے اسی تسلسل اور وقت کے اسی تاریخ ساز بہاؤ کا اظہار مسجد قرطبہ کے آغاز میں ہوتا ہے: سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو جسمیں نہ دن ہے نہ رات اس طلسم آفریں آغاز کے صرف بارہ مصرعوں میں وقت کی جو تصویر کشی کی گئی ہے اس کی مثال دنیائے ادب میں ناپید ہے، شیکسپیئر دانتے اور گیٹے کی متحدہ کوششیں بھی وقت کے موضوع پر اس سے بہتر کوئی چیز نہیں پیش نہیں کر سکتیں اور نہیں کرتی ہیں تیرھویں مصرعے سے گویا وقت کی تعریف میں تشبیب کے بعد گریز شروع ہوتا ہے اور صرف چار مصرعوں میں مکمل ہو جاتا ہے: آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا اس نفی کے بعد اثبات ہوتا ہے: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدائے تمام مرد خدا کا عمل شخص سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پورا بند پہلے بند کا جواب ہے اور دونوں کے درمیان موسیقی کے نغمات کا ربط ہےPoint اور Counter Points کا تسلسل ہے، بہر حال دوسرے بند میں وقت کی فنا بد اماں رو کے مقابلے میں عشق کا ابدیت آفریں تصور پیش کر کے اس کی تاریخی تعین و تعریف بھی کر دی گئی ہے، ورنہ محض اور مجرد عشق ایک مجہول اور بے معنی و بے اثر خواہش کا نام ہوتا، جیسا کہ عام طور پر بڑے بڑے شعراء کے عشقیہ مضامین میں پایا جاتا ہے، یا پھر بعض ایسے شعراء عظیم بھی ہیں جو عشق کو صرف جسمانی، جنسی محبت یا ہوس کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ دونوں انداز کے عشق انگریزی کے ان مابعد الطبیعی Metaphysical شعراء کا طرۂ امتیاز ہیں جن کی بڑی تعظیم تکریم ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی تنقیدوں میں کی ہے اور ما بعد الطبیعی شاعروں کی دریافت واحیا الیٹ کا خصوصی کارنامہ بھی سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس کی اپنی شاعری میں بھی مابعد الطبیعی شعراء مثلاً جون ڈن کے تخیل اور اسلوب دونوں کا رنگ و آہنگ ہے۔ شیکسپیئر دانتے اور گیٹے کا عشق بھی یا تو ہوس ہے یا تصوف ان سب کے مقابلے میں اقبال عشق کا ایک ٹھوس، تعمیری اور انقلابی تصور تاریخ کے سیاق و سباق میں پیش کرتے ہے: عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیٰ عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک عشق ہے صبہائے خام، عشق ہے کاس الکرام عشق فقیہہ حرم، عشق امیر جنود عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام اور بند اس شعر پر ختم ہوتا ہے: عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات عشق سے نور حیات، عشق سے نار حیات وقت اور عشق کے مابین صحیح ربط قائم کر لینے کے بعد انکشاف کیا جاتا ہے: اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت وبود چونکہ تاریخ کے ایک خاص تناظر میں مسجد قرطبہ کی تعمیر ہوئی ہے اور اس کی آفاقی اہمیت ہے لہٰذا دنیا کی اس مسلمہ طور پر عظیم الشان عمارت کے ’’ معجزہ فن‘‘ کی ساری تشریح اسلام اور ایمان کے استعاروں اور محاوروں میں کی گئی ہے، جو فکری اعتبار سے بالکل فطری اور حقیقت پسندانہ اور فنی لحاظ سے واحد نتیجہ خیز اور اثر آفریں طریق تعبیر ہے، ورنہ مسجد قرطبہ کا نہ مفہوم متعین ہوتا اور نہ معنویت واضح ہوتی۔ اسپین میں مسلمانوں کی تاریخ سے الگ کر کے مسجد قرطبہ کا مطالعہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہ اقبال کا کمال فن اور عظمت فکر ہے کہ انہوں نے اسلام کے تصور عشق پر مبنی ایک طرزتعمیر کو بالکل آفاقی رنگ و آہنگ دے دیا ہے: عرش معلی سے کم سینہ آدم نہیں گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق دل میں صلوۃ و درود، لب پہ صلوۃ و درود اسی پر سوز اور ولولہ انگیز کیفیت پر یہ بند تمام ہوتا ہے: شوق مری لے میں ہے، شوق مری نے میں ہے نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے بلا شبہہ نغمہ اللہ ہو کی وجد آفرینی کو جناب کلیم الدین احمد اور ان کے جیسے نقاد محسوس کر سکتے ہیں اور نہ سمجھنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن اگر ان کے اندر ناقدانہ دیانت کا ایک ذرہ بھی ہوتا ہے اور ذوق شعری کی انہیں ہو ابھی لگی ہوتی تو با آسانی ان کی سمجھ میں آ جاتا کہ کسی اقبال نے یہ پوری نظم، جو اپنی جگہ خود ایک بے مثال معجزہ فن میں، نغمہ توحید کی اسی وجد آفریں کیفیت میں ہی تخلیق کی ہے، یہی نغمہ اس کا سرچشمہ الہام Source of Inspirations ہے اور جس طرح شاعر کے رگ و پے میں جاری ہے اسی طرح مسجد قرطبہ کے نقوش میں مرتسم اور نظم کے استعارات سے منعکس ہے۔ مسجد قرطبہ جیسی دنیا کی بہترین نظم کوئی ایسا شخص بھی لکھ سکتا تھا جس کے رگ و پے میں ایمان موجزن اور ریشہ ہائے دل میں اسلام پیوست نہ ہو؟ یہ عقیدے کا نہیں، فن اور فن کا سوال، بنیادی سوال ہے، جس سے گریز کرنے والی تنقید تنقید نہیں، محض کوڑا کرکٹ ہے اور اس کی موزوں جگہ ریکسین کی جلد والی کتاب نہیںDustbin ہے بہرحال، اللہ ہو کے نغمہ شوق نے موضوع، شاعر اور نظم کے درمیان ایسا کامل ارتباط اور مکمل ہم آہنگی اور یک جہتی پیدا کر دی ہے کہ اس وجد آفریں فضا میں ہر مصرع ایک راگ کی طرح پھوٹتا ہے اور دوسرے راگوں سے مل کر نغمے کے حجم میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے ہسپانیہ کی سر زمین پر، مسجد قرطبہ کے صحن میں، زمانے کی رو تھوڑی دیر کے لئے رک گئی ہے، اس لئے کہ ایک بندہ عشق دو زانو ہو کر محو دعا ہے، صلوۃ و درود پڑھ رہا ہے اور دوسرے اپنے ہی جیسے بندگان عشق کے ایک بے نظیر کارنامہ عشق کا مشاہدہ و مطالعہ کر رہا ہے اور فن تعمیر کے نقوش کو انتہائی کمال کے ساتھ فن شاعری کے نقوش میں ڈھال رہا ہے۔ اس لمحہ تخلیق میں بندۂ مومن ہی انسان کامل ہے، مرد خدا ہے اور پوری خدائی پر حاوی ہے۔ چنانچہ بالکل منطقی اور فطری طور پر آگے کا بند اس شعر سے شروع ہوتا ہے: تیرا جلال و جمال، مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل یہ مرد خدا کتنا قدیم، کتنا تاریخی، کتنا آفاقی اور لافانی ہے، ملاحظہ کیجئے: مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم ؑ و خلیل ؑ اس کی زمین بے حدود، اس کا افق بے تغور اس کے سمندر کی موج دجلہ و دنیوب و نیل اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل مومن اور مسجد قرطبہ ایک ہی جلوے کے دو مظاہر ہیں اور اس جلوے میں جلال و جمال دونوں ہم آہنگ ہیں، مرد مسلمان کی اذانوں سے سر کلیمؑ و خلیلؑ فاش ہے۔ یہ دین ابراہیمی کا اظہار ہے، یونانی ہسمیات کا نہیں، یونانی ضم خانے خاکی تھے اور فانی ہوئے لیکن دین ابراہیمی کا معجزۂ فن آج بھی پائیدار اور لازوال ہے: تیری بنا پائیدار، تیرے ستون بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل تیرے درو بام پر وادی ایمن کا نور تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیلؑ سر زمین ہسپانیہ سے سر زمین عرب تک کے جغرافیائی اور دین ابراہیمی کی تاریخ کے حوالوں، استعاروں اور علامتوں سے مزین یہ چند اشعار مسجد قرطبہ کے خارجی اور داخلی اشارات دونوں کی صورت گری کرتے ہیں، یہی شاعری ہے، لیکن یونانی خرافات سے بھرے ہوئے متعصب دماغ اور ذوق شاعری سے خالی دل اس کا لطف کیاجانیں مرد خدا اور معجزہ فن کا یہ مشترک آہنگ پھیلتا اور بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جناب کلیم الدین نے اپنی ذہنی بے چارگی کے سبب محسوس ہی نہیں کیا کہ اقبال بندۂ مومن کے قلب و نظر کو مسجد قرطبہ کا مترادف Correlative قرار دے رہے ہیں اور جو کچھ وہ مومن کے بارے میں کہہ رہے ہیں وہ مسجد ہی کی تشریح ہے۔ آخر مسجد قرطبہ کی تعمیر میں تخیل اور دست ہنر بھی تو مومن ہی کا کام آیا ہے۔ پھر مسجد قرطبہ کسی خلاء میں معلق نہیں ہے، یہ مسلم اسپین کی مجسم علامت ہے، اسلامی جہاد کا نشان ہے یہ تو اقبال کی شاعری کا کمال ہے کہ اس نے ہسپانیہ کی سر زمین پر مسجد قرطبہ کا مطالعہ کر کے تاریخ اور تہذیب کے ایک زریں دور اور باب کو حرف و صورت میں متشکل کر دیا۔ اسی لئے زیر نظر بند کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا ہے۔ مرد سپاہی ہے وہ، اس کی زرہ لآ الہ سایہ شمشیر میں اس کی پنہ لآ الہ اور اس کے بعد ایک پورا بند بندہ مومن کی صفات پر مشتمل ہے، جو در حقیقت مرد کامل کا ایک ولولہ انگیز اور بصیرت افروز نقش ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ حیات و کائنات کی اشرف المخلوقات انسان کی بہترین شاعرانہ تعبیر اقبال اپنے مخصوص انداز میں، اسلامی استعارات و علائم کے ذریعے کر رہے ہیں۔ اس بند کے حسن کو سمجھنے کے لئے اسلام و ایمان شرط نہیں ہے، مگر اسلام و ایمان کو گوارا کرنا ضرور شرط ہے، ورنہ تعصب کی کور نگاہی تو شرہ چشم کو دن کی روشنی میں بھی چشمہ آفتاب سے بے خبر رکھتی ہے۔ اقبال موضوع کی مناسبت سے اور اس کے داخلی کوائف و مضمرات کی آئینہ بندی کے لئے، مسجد قرطبہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: تجھ سے ہوا آشکارا بندہ مومن کا راز اس کے دلوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز اس کا مقام بلند، اس کا خیال عظیم اس کا سر در، اس کا شوق، اس کا نیاز، اس کا ناز ہاتھ ہے اللہ کا، بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز خاکی و نوری نہاد بندہ مولیٰ صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب، اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقین اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ بہت ہی فطری اور منطقی طور پر مسجد اور مومن کے درمیان موجود رشتے کی نتیجہ خیزی کی نہایت حسین اور خیال انگیز تعبیر و تشریح کے بعد شاعر مسجد قرطبہ کو ایک بار پھر مخاطب کر کے کہتا ہے: کعبہ ارباب فن، سطوت دین مبین تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمین پہلے مصرعے میں غور کرنے کے لئے ایک نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ اقبال نے مسجدقرطبہ کو کعبہ ارباب فن اور سطوت دین مبین بہ یک وقت دونوں ہی قرار دیا ہے اور اس طرح دین کے ساتھ فن کی اہمیت اور ہم آہنگی واضح کر دی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے مسجد قرطبہ کو اپنی عظیم الشان شاعری کا موضوع مذہبی جذبے کے ساتھ ساتھ ایک فنی محرک کے تحت بنایا اور زیر نظر نظم جس طرح ایک مسلمان کا خراج عقیدت اپنی شان دار تاریخ کے ایک زریں باب کو ہے اسی طرح فن شاعری کا خراج فن تعمیر کو ہے، اور یہ دونوں مقاصد ایک جگہ جمع ہو کر بجائے خود ایک باکمال کارنامے کی تخلیقی کا باعث بن گئے ہیں لیکن ہمارے مغربی نقاد کو عیب چینی سے فرصت نہیں کہ فکر و فن کے اس امتزاج کامل پر نظر بھی ڈال سکیں۔ اس کے بعد کے دوسرے تمام اشعار میں ہسپانیہ یا اندلس کی سر زمین پر عرب مسلمانوں کے کمالات و اثرات کا انتہائی حکیمانہ و شاعرانہ ذکر و بیان۔۔۔۔ ہے، جس کی ابتداء اس معنی خیز شعر سے ہوتی ہے: ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں بعد کے شعر اسی حسن کی تفسیر ہیں ایک بار پھر غور کرنے کا مقام ہے پہلے شعر میں ’’ کعبہ ارباب فن‘‘ اور ’’ سطوت دین مبین‘‘ ہی کے تصورات کے تسلسل میں یہ پر خیال تصویر پیش کی گئی ہے کہ یہ ’’ قلب مسلمان‘‘ کا حسن ہے جو مسجد کے در و بام پر منعکس ہے اس طرح دین بجائے خود ایک قدر جمال Aesthetic Value بن جاتا ہے یا قدر جمال ایک اصول دین بن جاتی ہے۔ دین کا یہ جمالیاتی احساس یا جمالیات کا دینی عرفان کوئی اقبال ہی کر سکتا تھا، جب کہ کسی کلیم الدین احمد کے بس میں اتنا بھی نہیں کہ کم ا ز کم اس احساس و عرفان کو اس کے بین ثبوت کے بعد سمجھ ہی سکے۔ اس بند میں تاریخ کے حقائق اور سیاست کے رموز کس طرح شعری پیکروںمیں ڈھل گئے ہیں۔ اس کا مطالعہ لطف و بصیرت دونوں کے لئے ضروری ہے: آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار حامل ’’خلق عظیم‘‘ صاحب صدق و یقیں جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب سلطنت اہل دل فقر ہے، شاہی نہیں جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلس خوش دل و گرم اختلاط سادہ روشن جبیں آض بھی اس دیش میں ہے عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے حامل ’’ خلق عظیم‘‘ ،’’ صاحب صدق و یقیں‘‘ سلطنت اہل دل فقر ہے شاہی نہیں ’’ ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ میں ‘‘ اور’’ خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں‘‘ کے معانی و مضمرات پر اگو لا دین اور روشن خیال کہلانے والے دانش ور بھی تھوڑی دیر کے لئے غور کر لیں تو اقبال کی ’’ فرقہ پرستی‘‘ کی وسعتوں کے مقابلے میں انہیں اپنی’’ انسانیت دوستی‘‘ کی حدیں سمٹتی نظر آئیں گی۔ شاید اقبال ذہن کی وسعتیں ہی ہمارے مغربی نقادوں کے ذہن میں سما نہیں پاتیں یا انہیں سہما دیتی ہیں۔ بھلا وہ کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ اپنے شیشے کے خواب محل پر گرنے والے حقیقت کے اس پتھر کو: جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں عہد وسطیٰ مغرب کے لئے یقینا ایک دور ظلمتDark Age تھا، اس لئے کہ اہل مغرب صلیبی جنگوں سے پہلے جہالت، تعصب اور ہم کی تاریکیوں میں پڑے ہوئے تھے، مگر عربوں سے رابطے اور استفادے کے بعد انہوں نے علم و حکمت کے کچھ سبق سیکھے، خاص کو مسلم اسپین اور غرناطہ اور قرطبہ میں اس کی یونیورسٹیوں، کتب خانوں اور لیبارٹریوں نے یورپ کو روشنی علم و ہنر عطا کی، اور اسلام کے فیض سے ہی بالآخر یورپ میں نشاۃ ثانیہ Renaissanceاور ’’ اصلاح دین‘‘ Reformation دونں کی تحریکیں بیک وقت چلیں لیکن مسیحی مغرب کا تعصب پھر بھی قائم رہا اور روشن خیالی Enlightement میں بھی تنگ نظری اس درجہ مغربی ذہن پر حاوی رہی کہ نشاۃ ثانیہ کو مسلم عرب اور ہسپانیہ سے منسوب کرنے کی بجائے یونان و روم کے نام نہاد علوم و فنون سے منسوب کیا گیا، حالانکہ اگر عہد وسطیٰ یورپ کے لئے ظلمت کا دور تھا تو زمانہ قدیم جس میں یونان و روم سانس لے رہے تھے، پوری دنیا کے لئے عہد ظلمت تھا اور اس وقت یونانی و رومی ایک دور جاہلیت ہی کے اوہام و خرافات میں مبتلا تھے۔ ان کے خاص کر المیہ ڈرامے اسی جاہلیت کی وحشتوں کے یادگار ہیں۔ اہل مغرب کی یہ تہذیبی وحشتیں نشاۃ ثانیہ کے قریب اس کے دوران اور اس کے بعد بھی باقی رہیں، خاص کر اسلامی مشرق کے خلاف، یورپ کے ظلمت پسندوں کی احسان فراموشی اور بد تہذیبی کی سب سے نمایاں مثال دانتے کی کومیڈی ہے، جس کو مغرب والوں نے خوش عقیدگی میں ’’ ڈوائن‘‘ بنا رکھا ہے۔ خود ہسپانیہ اور قرطبہ میں احسان فراموش مغربی فسادیوں Vandals نے جس تہذیبی غارت گری کا ثبوت دیا ہے اس کی طرف ایک درد ناک اشارہ اگلے بند کا پہلا شعر کرتاہے: دیدہ انجم میں ہے تیری زمین و آسماں آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں مسجد قرطبہ کے صحن میں کھڑا ہو کر ایک مومن شاعر اتنی عظیم الشان مسجد کو جو کعبہ ارباب فن ہونے کے ساتھ ہی سطوت دین مبین بھی ہے، بے اذان، صدیوں سے بے اذاں کیوںپاتا ہے؟ یہ لطیف سوال صدیوں کی بہ یک وقت شان دار اور الم ناک تاریخ پر محیط ہے جس قرطبہ نے آٹھ سو سال تک تربیت غرب کی اس کو غرب ہی نے ایسا تاراج کیا کہ صدیوں تک اس کی فضا بانگ اذاں سے محروم رہی۔ شرق کے لئے تابناک اور غرب کے لئے شرم ناک تاریخ انسانی کے اس پورے باب کو صرف دو مصرعوں نے ہماری نگاہ تصور کے سامنے روشن کر دیا ہے۔ شاعری یہ ہے نہ کہ وہ جس پر جناب کلیم الدین احمد جیسے غرب پرست سر دھنتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ کس بصیرت اور فن کاری کے ساتھ شاعر مشرق و انسانیت عصر حاضر کے آفاق کی نقش گری کر کے اہل شرق اہل اسلام اور دنیائے انسانیت کے سامنے چند نہایت خیال انگیز سوالات رکھتا ہے۔ کونسی وادی میں ہے، کونسی منزل میں ہے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دیں جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا ماضی اور حال کے معنی خیز، فکر انگیز، شوخ اور حسین نقش پیش کرنے کے بعد فطری اور منطقی طور پر ہمارا مفکر شاعر، مستقبل کے لطیف، روح پرور اور بصیرت افروز اشارے انتہائی حسین اور وجد آفریں انداز میں کرتا ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کی فکر رسا تو صرف دو اشعار کے معانی تک پہنچ سکے گی جو آخری بند کی تمہید ہیں: وادی کہسار میں غرق شفق سے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لئے سل ہے عہد شباب ہسپانیہ کی سر زمین پر غروب آفتاب کا یہ حسین منظر، جس میں حسن فطرت اور جمال انسانیت دونوں سموئے ہوئے ہیں، نظم کے عروج و اختتام کے لئے موزوں ترین صورت ہے۔ نظم وقت کے موضوع پر دنیا کی بہترین شاعری سے شروع ہوئی تھی اور وہ نظم سے متعلق ہر نکتے کا طلوع تھا۔ اب پوری نظم کے تخیل اور ارتقائے خیال کا آفتاب اپنے جملہ مقامات نور افگنی طے کر کے غروب ہو رہا ہے ہیئت نظم کے اس نقطہ عروج پر موضوع کی مناسبت سے شاعر بجا طور پر اپنے پڑھنے والوں کو فکر و عمل دونوں کا پیغام اپنے مخصوص، بے نظیر اور نا قابل تقلید شاعرانہ و حکیمانہ انداز میں دے رہا ہے: آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کش مکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر ظاہر ہے کہ ایسے انقلابی افکار کی ’’ تاب‘‘ نہ فرنگ لا سکتا ہے نہ فرزندان فرنگ، حالانکہ اس نظم کی حد تک ابھی ’’ چہرہ افکار‘‘ پردے ہی میں ہے۔ پھر صورت شمشیر شاعری کے کیسے ہی مخملیں میان میں ہو اہل مغرب اور مغرب زدوں کے لئے قضائے مبرم کی طرح ہولناک ہے، اس سے اس جہاد کی بو آتی ہے جسے مغرب تو صلیبی جنگوں ہی کے وقت سے اختیار کئے ہوئے ہے مگر اسلامی مشرق میں اسے منسوخ کرانے کے لئے اس نے مسلم سماج کے اندر سے کاٹ کر ہندوستان میں خاص کرایک پورا فرقہ ہی کھڑا کر دیا ہے اب ایسے خطرناک تخیل کو خواہ اچھی سے اچھی اور بڑی سے بڑی شاعری کے کیسے اور کتنے ہی حسین اور پرخیال استعاروں اور نغموں میں پیش کیا گیا ہو، مغربی نقادان فن کس طرح پسند کر سکتے ہیں؟ ان کا مقدر اور مشن ہی اس تخیل پر مبنی نظم میں کیڑے نکالنا اور اس مقصد کے لئے بے سروپا باتیں بنا نا ہے۔ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ نہ صرف اقبال اور اردو کی بہترین نظم ہے بلکہ دنیا کی بہترین نظم ہے اس کے لازوال فنی حسن اور فکری بصیرت کے سامنے شیلی اور کیٹس کے سارے اوڈOdes اور دیگر نظمیں گرد ہیں ئیٹس کی Sailing to Byzantium اور ایلیٹ کی Waste Land تو کسی شمار میں ہی نہیں شیکسپیئر دانتے اور گیٹے کی بھی کوئی نظم اگر ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے ٹکر کی ہو تو جناب کلیم الدین پیش فرمائیں اور تقابلی مطالعے کے لئے مباحثہ کریں اردو میں لکھیں یا انگریزی میں تو سخن فہمی عالم بالا معلوم ہو جائے یہ نظم اپنے نکتوں کی ترتیب اور نغموں کی تنظیم کے لحاظ سے خیالات کے ربط و تسلسل، استعارات کی فراوانی، علامات و تلمیحات کی معنی خیزی اور ارتقائے خیال کی پیوستگی نیز ہیئت کے مختلف حصوں اور تخیل کے مختلف پہلوؤں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے بلا مبالغہ ایک نغمہ موسیقی ایک سمفنی Symphony ہے۔ شروع سے آخر تک راگوں کے ایک نظام کی طرح نظم کے تمام اجزا نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بلکہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں اس ہموار و ہم آہنگ قماش نغمہ کو Orchestration کہیے یا Organic Symmetry کہئے اگر دنیا کے کسی نظم میں جسم انسانی کی طرح عضویاتی پیوستگی ممکن ہے تو اس کا بہترین اور عظیم ترین نمونہ مسجد قرطبہ ہی ہے جس کی کوئی مثال دنیائے شاعری میں نہیں ہے جیسا نظم کا موضوع ہے ویسی ہی نظم ہے: ہے تہہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں مسجد قرطبہ کے اس تنقیدی مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ شاعری کے ہر معیار کے لحاظ سے اس نظم کا فنی مقام کیا ہے۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد نے محض اپنے غلط جذبات اور ناقص احساسات کی بناء پر بیڑہ اٹھایا ہے کہ اس نظم کو فنی طور پر خام ثابت کر کے چھوڑیں گے چنانچہ وہ اپنے معمول اور مخصوص انداز کے مطابق طرح طرح کے بے سروپا اعتراضات فرماتے ہیں کسی عبدالحق کا اقتباس پیش کر کے اور گویا ان کے نکتوں کو صحیح مان کر موصوف یہ غیر منطقی نتیجہ انہی نکتوں سے نکالتے ہیں: ’’ ان باتوں سے صرف ایک ہی منطقی نتیجہ نکل سکتا ہے اور وہ یہ کہ مسجد قرطبہ نظم نہیں، منتشر خیالات کا مجموعہ ہے۔‘‘ (ص186) ذرا اس تنقید کا بانکپن دیکھئے کہ کسی عبدالحق کی باتوں سے کوئی کلیم الدین احمد ایک اقبال کی مشہور زمانہ نظم کے بارے میں ایک نہایت قطعی اور حتمی قسم کا نتیجہ اخذ کر لیتا ہے، اگر تنقید کا معیار یہی ہے تو پھر اقبال کی شاعری پر قلم اٹھانے کی جسارت کیسے ہوئی؟ اسی طرح کسی اسلوب کا ایک لغو قسم کا اقتباس پیش کر کے اور اپنی مخصوص منفی و تخریبی تکنیک سے اس کا تجزیہ کر کے ایسا ہی ایک غیر معقول فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ ’’ اگر کسی نظم کا آخری بند شروع میں بھی آ سکتا ہے، خصوصاً جب ایسا کرنے سے اسے ایک فطری پس منظر بھی مل جاتا ہے تو وقت کے بہاؤ کے پر ہیبت عمل کو مرکز نگاہ بنانا فنی ہوش مندی نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ (ص187) اور یہ تنقید ہوش مندی ہے کہ آپ عبدالحق صاحب اور اسلوب صاحب کی تشریحات کو اقبال صاحب کی تخلیق پر عائد کر رہے ہیں؟ یہ حرکت ظالمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ طفلانہ بھی ہے اور اس سے تخلیق کی نہیں، تنقید کی آبرو ریزی ہوتی ہے۔ تنقید متن تخلیق کا تجزیہ ہے، نہ کہ اس متن کی ان تشریحات کا بخیہ ادھیڑنا جو دوسروں نے اپنے ذہن سے کی ہیں یہ تو تنقید پر تنقید ہوتی ہوئی، تخلیق پر تنقید کہاں ہوئی؟ جناب کلیم الدین احمد کی خوردہ فروش تنقید کا یہ کمال بھی ملاحظہ فرمائیے: ’’ دیکھا آپ نے صرف چودہ اشعار مسجد قرطبہ سے متعلق ہیں۔‘‘ (ص188) اور باقی چون اشعار کس نظم کے ہیں؟ کیا واقعی کسی نظم یا کسی تحریر کا مطالعہ اسی طرح کیا جاتا ہے کہ تصنیف کے عنوان سے متعلق جو کچھ براہ راست نہیں ہے اس کو نکال کر جو مواد بچ جائے بس وہی موضوع کا بیان سمجھا جائے؟ نظم کے اس طرح حصے بخرے کرنا تو کسی قصاب کے لئے بھی دشوار ہے، لیکن نثر میں یہ کام اگر کوئی کرنا ہی چاہے تو آسانی سے کر سکتا ہے۔ چنانچہ جناب کلیم الدین احمد کی چار سو سولہ صفحات کی کتاب ’’ اقبال۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ سے اگر وہ تمام حصے نکال دئیے جائیں جن کا واقعتا کوئی تعلق اقبال کی شاعری سے نہیں ہے اور جن میں بیشتر دوسروں بلکہ دوسری زبانوں کے بالکل ہی بے محل حوالے اور اقتباسات ہیں تو شاید اس بے مغز کتاب کے دو سو صفحوں سے زیادہ باقی نہیں رہیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ لغو باتوں کے انبار کو حذف کر دینے سے یہ مطالعہ کم از کم قابل مطالعہ بن جائے اور قارئین کو اپنے وقت کی زیادہ بربادی کا احساس نہ ہو۔ اب ذرا یہ طرفہ تماشہ بھی دیکھئے کہ اگر جناب کلیم الدین احمد کے معیار سے نظم کا مثلہ کیا جائے تو ان کے محولہ چودہ اشعار میں بھی کمی کرنی پڑے گی، جیسے یہ اشعار: وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لئے سیل ہے عہد شباب ٭٭٭ رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود ٭٭٭ ہے تہہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار حامل خلق عظیم، صاحب صدق و یقین ٭٭٭ کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں ٭٭٭ اس طرح ضرب کلیمی سے چھ اشعار اور نکل گئے اور اب مسجد قرطبہ صرف آٹھ اشعار کی نظم رہ گئی، جو ظاہر ہے کہ ایک لمبی نظم نہیں ہوتی۔ لہٰذا جناب کلیم الدین احمد کو اپنے طریق تنقید کو اس کے منطقی نتیجے تک پہنچا کر اب یہ کرنا چاہئے کہ وہ ’’ اقبال کی پانچ لمبی نظموں‘‘ کی فہرست سے مسجد قرطبہ کو خارج کر دیں! لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے۔ اس لئے کہ ان کی تنقید اور منطق کے درمیان مشرقین کا فرق ہے۔ چنانچہ عقل و منطق پر ایک اور ضرب کلیمی ملاحظہ فرمائیے: ’’ اس کے علاوہ اگر آپ پہلے دو بندوں کو حذف کر دیں اور آخری بند کو بھی اور صرف بیچ کے پانچ بندوں کو پڑھیں تو آپ کو کسی خلاء کا احساس نہیں ہو گا۔‘‘ (ص188) خلاء کیا نظم ہی کا احساس نہ ہو گا؟ نظم نہیں، منتشر خیالات کا مجموعہ جو ٹھہرا! اور جب نظم ہی نہیں تو اس پر تنقید کیا؟ پھر تو بس خلا ہی خلا ہے! اور ایسا اس لئے ہو گا کہ ہر الٹی بات کا نتیجہ بھی الٹا ہی نکلتا ہے! خلاقی تنقید کا نتیجہ آخر خلا کے سوا کیا نکل سکتا ہے اس قسم کی خلائی تنقید تنقید ہے یا محض تخلیق کا کیری کیچرCaricature اور کیری کیچر بھی بدترین قسم کا جس کا نہ کوئی مطلب ہے نہ لطف! پہلے بند میں وقت کے موضوع پر کہے گئے اشعار پیش کر کے فرماتے ہیں: ’’ پہلا مصرع تو درست ہے سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات ہے، لیکن دوسرے فقرے کا مفہوم واضح نہیں، سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات ہے، اصل حیات و ممات سے کیا مقصود ہے؟‘‘ (ص189) وہ پورا شعر جس کا ایک مصرع جناب کلیم الدین احمد کے خیال میں درست ہے اور دوسرا گویا نا درست، اس لئے کہ انہیں اس کا مفہوم سمجھ نہیں آیا، یہ ہے: سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات پہلے مصرعے کا مفہوم تو جناب کلیم الدین کے نزدیک بھی واضح ہے، اس لئے میں ان کی آسانی کے لئے صرف دوسرے مصرعے کی تفسیر کر دیتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ روز و شب کا سلسلہ اور شام و سحر کی گردش جو نقش گر حادثات ہے تو انہیں حوادث زمانہ میں حیات و ممات بھی ہیں اور یہ وقت ہی ہے جس کی رو میں کوئی پیدا ہوتا ہے اور کوئی مرتا ہے، اس طرح زمانہ زندگی اور دنیا کے تمام واقعات کا سرچشمہ ہے۔ یہ تو بالکل سامنے کی اور صاف بات ہے، لیکن فلسفہ والہیات سے اقبال کے شغف اور ان علوم میں ان کی مہارت، پھر ان کی فکر کی تہہ داری اور فن کی دبازت کے پیش نظر، ہم حادثات کا مفہوم حادث و قدیم کے تقابل سے بھی سمجھ سکتے ہیں، یعنی صرف ذات خداوندی قدیم ہے، ازل سے ابد تک ایک ہی طرح رہی ہے اور رہے گی، جب کہ دوسری تمام ہستیاں اور چیزیں حارث ہیں، عرصہ زماں میں ان کا ظہور ہوتا ہے اور اسی میں وہ فنا بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ تو صرف ایک شعر کا مفہوم ہوا اور اس کے دونوں مصرعوں کے درمیان واضح طور پر ناگزیر معنوی ربط بھی ظاہر ہوا۔ گرچہ جناب کلیم الدین کی نثر میں عبارت کی خامی کی ایک ہی مثال نہیں ہے، ان کے تنقیدی بیانات کی عبارتوں میں اس قسم کی خامیوں اور عجز زبان کی بہتات ہے، جب کہ وہ خود شاعری میں نثری سلاست کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بہرحال غور کرنے کی اصل بات یہ ہے کہ جب شرح کی مدد کے بغیر جناب کلیم الدین احمد کو اشعار کے سمجھنے میں اتنی مشکل ہوتی ہے تو وہ کسی نظم وہ بھی معنی و مضمرات سے پر اعلیٰ پائے کی نظم کی خوبیوں اور خامیوں کی جانچ اور پرکھ کیسے کر سکتے ہیں؟ اقلیدس کے آلات سے زاویوں کی ترتیب وغیرہ ناپ کر؟ بالعموم وہ اسی طرح کا ناپ تول تنقید میں کرتے ہی ہیں، اور اسی لئے ان کی تنقیدیں کم از کم سخن فہمی سے یکسر عاری ہوتی ہیں، بس وہ شاعری کو بھی فن تعمیر سمجھ کر اس کے خارجی ڈھانچے کو بعض اوزاروں سے ناپ کر اندھا دھند فیصلے کیا کرتے ہیں اس قسم کی بے مغز و بے معنی تنقید کی بکثرت مثالیں ہم جاوید نامہ پر موصوف کے تبصروں میں اچھی طرح دیکھ چکے ہیں، حالانکہ یوسف سلیم چشتی کی شرح جاوید نامہ ان کے سامنے تھی، جس کا ایک اقتباس انہوں نے کتاب اور مصنف کے حوالے کے بغیر اور سیاق و سباق سے بالکل الگ کر کے او ر سراسر مغالطہ آمیز طریقے سے پیش کیا تھا، مگر ظاہر ہے کہ فارسی شاعری، اور وہ بھی اقبال کی عظیم فارسی شاعری سے لطف لینے کے لئے فارسی دانی اور سخن فہمی شرط اولیں ہے، جب کہ سخن فہمی عالم بالا کا جو عالم اردو میں ہے اسے ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ چنانچہ اقلیدسی تنقید کے کچھ دلچسپ زاویے اور ملاحظہ کیجئے: ’’ اب پھر حسب معمول ایک کمی یہ بھی ہے۔مختلف شعروں میں ناگزیر ربط نہیں۔ یہ سلسلہ روز و شب کبھی نقش گر حیات و ممات ہے تو کبھی تار حریر دو رنگ ہے، کبھی ساز از کی فغاں ہے تو کبھی صیرفی کائنات ہے، یعنی یہاں چار استعارے ہیں، نقش گر تار حریر دورنگ، ساز ازل کی فغاں اور سیرنی کائنات اور ان میں کوئی ربط نہیں۔ ایک ربط بظاہر معلوم ہوتا ہے اور وہ سلسلہ روز و شب کی تکرار ہے۔ بہر کیف اگر صرف یہی کہنا تھا کہ تمام معجزۂ ہائے ہزفانی ہیں اور کار جہاں بے ثبات ہے، یعنی کل من علیھا فان تو یہ کوئی نئی بات نہیں پھر خیالات کی رو میں یہ کہہ کر ’’ اول و آخر فنا،باطن و ظاہر فنا‘‘ انہوں نے زبردست مغالطہ کھایا ہے وہ بھول گئے کہ۔‘‘ ھو اول و الاخرو الظاھرو الباطن (ص190) اگر یہ الفاظ نثر میں اور تنقید کے طور پر نہیں لکھے گئے ہوتے تو بس ان پر اس شعر سے کافی تبصرہ ہو جاتا: بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی نثر بھی اتنی الجھی ہوئی، بکھری ہوئی ہوتی ہے؟ تنقید کے نام پر اس دیدہ دلیری سے قارئین کو صریح مغالطہ دیا جاتا ہے؟ عبارت کے اس قسم کے نقص پر میں زیادہ زور نہیں دینا چاہتا کہ ’’ سلسلہ روز و شب نقش گر حیات وممات‘‘ قرار دیا گیا ہے جبکہ اقبال نے سلسلہ روز و شب کو نقش گر حادثات اور پھر اصل حیات و ممات کہا ہے، مگر جناب کلیم الدین احمد دونوں مصرعوں کو ملا کر نقش گر حیات و ممات کہتے ہیں تو اس سے ایک بات کی اور غمازی ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ پہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں ربط نہ ہونے کے سبب دوسرے مصرع کا مفہوم واضح نہ ہونے کی شکایت جو انہوں نے قبل کی سطروں میں کی تھی وہ خود ان کے نزدیک صحیح نہ تھی اور محض ایک غمزہ ناقدانہ کے طور پر کی گئی تھی، اس لیے کہ نقش گر حادثات واقعی نقش گر حیات و ممات بھی ہے اور یہی دونوں مصرعوں کو ملا کر پہلے شعر کا بدیہی مفہوم ہے۔ بہرحال، دیکھنے کی چیز مذکور بالا تنقیدی اقتباس میں یہ ہے کہ ہمارے مغربی نقاد نے تصویر وقت کے مختلف پہلوؤں کو جو ایک مرکب کے اجزا ہیں ایک دوسرے سے الگ الگ ہی نہیں بلکہ ٹکراتے ہوئے دکھایا ہے۔ کیا اتنی موٹی سی اور سامنے کی بات بھی وہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ یہ وقت کی مختلف و متنوع ادائیں ہیں اور ان کے درمیان تضاد نہیں، مطابقت بھی ہو سکتی ہے؟ اگر سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات ہے اور حیات و موت اسی سلسلے میں واقع ہوتی ہے، یہ رات اور دن، اندھیرے اور اجالے کا سلسلہ ایک ریشمی لچھا ہے جس کے دو رنگ ہیں اور ذات الٰہی کی قبائے صفات اس ریشمی لچھے کے دھاگوں سے تیار ہوتی ہے، اس لیے کہ صبح و شام اور گردش ایام کے تسلسل ہی میں صفات الٰہی کا نور ہوتا ہے، جس سے عارف کو ذات الٰہی کا سراغ ملتا ہے، اور یہ سلسلہ وقت ساز ازل کی فغاں ہے، اس لیے کہ حیات ظاہر ہے کہ اول روز سے عرصہ زماں ہی میں نمودار ہو رہی ہے اور وقت کے گزرتے ہوئے لمحات ہی میں ممکنات زندگی کے تمام نشیب و فراز سامنے آ رہے ہیں، اس طرح یہ سلسلہ ایام در حقیقت صراف کائنات ہے، جو زمانے کے پردے پر ظاہر ہونے والے ہر وجود کے کھرے اور کھوٹے کی پرکھ کے لئے ایک کسوٹی ہے، لہٰذا جو بھی وقت کے معیار پر پورا نہیں اترے گا وہ فنا ہو جائے گا، واقعہ یہ ہے کہ انسان کے شب و روز کی حقیقت یہی ہے کہ وہ زمانے کی ایک رو، ایک لہر ہیں، لہٰذا انسانی ہنر کے تمام کمالات عموماً اور معمولاً اپنے اپنے وقت پر نمودار ہو کر بالآخر غائب ہوتے جائیں گے اور ہو رہے ہیں، اس لئے کہ کار جہاں بے ثبات ہے اور نئے پرانے ہر نقش کی آخری منزل فنا ہے، اول بھی فنا آخر بھی فنا، ظاہر بھی فنا، باطن بھی فنا، سلسلہ روز و شب میں وقوع پذیر ہونے والے جملہ واقعات و حوادث آنی و فانی ہیں۔۔۔۔ تو اس پوری تفصیل میں تضاد کہاں ہے، بے ربطی کہاں ہے؟ اس کا ہر جز ایک ہی حقیقت کی تشریح کرتا ہے، تمام اشعار از اول تا آخر ایک ہی موضوع کے نکات پیش کرتے ہیں اور پہلے مصرع میں نقش گر حادثات سے آخری مصرعے میں منزل آخر فنا تک پورا کا پورا بند ایک سمفنی، ایک ہم آہنگ قماش نغمہ کی طرح منظم ہے، یا ایک جملے کی طرح مرتب ہے، اس حد تک کہ پہلے مصرعے میں جو مبتدا ہے اس کی خبر آخری مصرعے میں دی گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ اقبال نے وقت کی جو تصویر کشی کی ہے وہ آیت قرآنی ’’ کل من علیھا فان‘‘ کی تفسیر ہے جیسا کہ جناب کلیم الدین احمد نے بجا طور پر بتایا ہے تو اس کی اہمیت یہ کہہ کر کیسے کم کی جا سکتی ہے کہ ’’ یہ کوئی نئی بات نہیں‘‘ جیسا کہ ناقد موصوف بالکل بے جا طور پر فرماتے ہیں؟ اول تو ہر پرانی بات غیر اہم نہیں ہوتی، دوسرے اہمیت کی بات نہیں، چاہے وہ نئی ہو یا پرانی، بلکہ اس برتاؤ کی ہے جو شاعر اس بات کے ساتھ کرتا ہے، یہ تنقیدی نکتہ یقینا ناقد موصوف کو بھی معلوم ہو گا، مگر اقبالؒ پر اعتراض کرنے کا شوق اورجذبہ اس شدت سے ان کے ذہن پر طاری ہے کہ تنقید کے سارے نکتے ان کے دماغ سے محو ہو گئے ہیں اور اعتراض برائے اعتراض، لچر اور پوچ اعتراض کو انہوں نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ اسی طرح کا لغو اعتراض یہ بھی ہے کہ جناب کلیم الدین احمد تیر مارنے کے انداز میں کہتے ہیں کہ انہوں (اقبال) نے زبردست مغالطہ کھایا ہے، وہ بھول گئے کہ ’’ ھو الاول والاخر و ظاہر والباطن‘‘ مغالطہ واقعہ یہ ہے کہ اقبال نے نہیں، کلیم الدین احمد نے کھایا ہے یا قارئین کو دیا ہے معلوم ہوتا ہے جناب کلیم الدین احمد ’’ کل من علیھا فان‘‘ کی پوری عبارت سے بھی واقف نہیں ہیں ورنہ ان کو سمجھنا چاہئے تھا کہ ’’ کل من علیھا فان‘‘ کے ساتھ یہ ٹکرا بھی ہے ’’ ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘ یعنی جہاں ہر چیز فانی ہے وہاں ایک ذات، رب ذوالجلال والاکرام کی، باقی ہے اور جس اقبال نے فنا کی تصویر کھینچی ہے وہ بقا سے بھی پوری طرح آگاہ ہے اور اسے فنا و بقا کے تمام الاہیاتی رموز و اسرار معلوم ہیں جب کہ ہمارے نقاد کی واقفیت چندان زبان زد جملوں تک محدود ہے جو عام طور پر اردو میں مستمل ہیں، چنانچہ بے چارے نقاد اپنی اس علمی پونجی کے بل پر اقبال جیسے نابغہ عصر اور علامہ وقت پر بالکل اسی سادگی کے ساتھ منہ آتے ہیں جیسے شوخ و شریر بچے بزرگوں کی داڑھی سے کھیلتے ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد کو تو اس کا بھی پتہ نہیں کہ اقبال کا تصور زمان کیا تھا او راس سلسلے میں فلسفہ وقت کی تکمیل کس طرح وہ اسلامی دینیات سے کیا کرتے تھے، اور اس معاملے میں انہوں نے کس طرح ’’ لا تسلیر الدھر‘‘ کی حدیث سنا کر برگساں کو متحیر کر دیا تھا کیا جناب کلیم الدین احمد کو اس مشہور آیت کی خبر ہے۔ ’’ وتلک ایام ندوالھا بین اناس‘‘ یعنی اور ان ایام کو ہم (باری تعالیٰ) لوگوں کے درمیان گردش دیتے ہیں ان حقائق سے واضح ہو جاتا ہے کہ ’’ اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا‘‘ وہی شخص کہہ سکتا ہے جو ’’ ھو الاول والاخر والظاھر والباطن‘‘ سے بھی واقف ہو۔ اب اس نکتے کو سمجھنے میں کیوں مغالطہ ہو کہ دنیا کے اول و آخر ظاہر و باطن کو فنا اسی لئے ہے کہ دراصل خالق دنیا ہی اول و آخر اور باطن و ظاہر ہے، لہٰذا اس کے سوا سب فانی ہے اور صرف وہی باقی ہے۔ جب کہ یہ پوری بات ’’ کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘ سے ہی عیاں ہے، مغالطہ کس نے کھایا ہے، اقبال نے جو پوری بات جانتے تھے یا جناب کلیم الدین احمد نے جو محض ادھوری بات ہی جانتے ہیں؟ ’’ نیم ملا خطرہ ایمان‘‘ Little Knowledge is a dangerous thing کی معنی خیز مثل یہاں بالکل چست اور ہمارے مغربی نقاد پر چسپاں ہو جاتی ہے۔ اسی ناقص علم کی بنیاد پر جناب کلیم الدین احمد وقت کے متعلق مسجد قرطبہ کے بند کا موازنہ شیلی کی چند سطروں اور پھر شیکسپیئر کے ایک پورے سانٹ کے ساتھ فرماتے ہیں۔ ان کے خیالی میں شیلی کے: ’’ بیان میں ایک حسن کاری ہے جو اقبال کے شعر میں نہیں‘‘ (ص190) اس بیان کا ایک ہی مطلب ہے وہ یہ کہ ہمارے مغربی نقاد سرے سے نہ تو حسن کا کوئی احساس رکھتے ہیں اور نہ حسن کاری سے واقف ہیں ورنہ مسجد قرطبہ میں اقبال کے متعلقہ بند کے مقابلے میں وہ شیلی کے ان اشعار کو ہر گز نہیں رکھتے جن کا ترجمہ موصوف نے تو نہیں دیا مگر میں ذیل میں درج کرتاہوں: ’’ ایک ذات باقی رہتی ہے اور سب بدلتے اور گزرتے رہتے ہیں۔ نور آسمانی ہمیشہ سے چمک رہا ہے، زمین پر سائے اڑے جاتے ہیں ۔‘‘ زندگی رنگا رنگ شیشے کی ایک بلند عمارت کی طرح نور ازل کی سفید تجلیات پر ایک داغ لگاتی ہے یہاں تک کہ موت اسے کچل کر ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ بلاشبہہ یہ بھی شاعری ہے، مگر مسجد قرطبہ کی اس عظیم الشان شاعری کے ساتھ اس کا کیا مقابلہ؟ سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات سلسلہ روز و شب تار حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیرو بم ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلہ روز و شب صیرنی کائنات تو ہوا اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو جسمیں نہ دن ہے نہ رات آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا ایک فکری موضوع پر، محض چند تصویروں کی مدد سے، اتنی زبردست اور پر معنی و پر نغمہ شاعری کا تصور بھی شیلی نہیں کر سکتا، جس کا تخیل صرف استعارہ و تشبیہہ میں الجھا ہوا ہے اور بالکل یہی حال شیکسپیئر کے سانٹ کا بھی ہے، جس کا اردو ترجمہ دینے کی زحمت جناب کلیم الدین احمد نے گوارا فرمائی ہے، ملاحظہ ہو گرچہ یہ ذرا آزاد ترجمہ ہے اور ترجمانی کی شکل میں ہے، مع تبصرہ کے: ’’ ہم لمحوں کو گزرتے ہوئے نہیں دیکھتے لیکن موجوں کو ساحل کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں جہاں سنگریزے بکھرے ہوئے ہیں۔ اور شیکسپیئر نے موجوں اور لمحوں کی رفتار کو دیکھا ہے۔ کیسے ایک موج آگے بڑھتی ہے تو ا سکی جگہ دوسری موج لے لیتی ہے اور ایک لمحہ گزرتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا لمحہ آ جاتا ہے لیکن وہ موجیں ہوں یا لمحے دونوں آگے بڑھے جاتے ہیں۔ انسان پیدا ہوتا ہے اور وہ روشنی کے سمندر سے آہستہ آہستہ پختگی تک پہنچتا ہے لیکن جہاں پختگی کا تاج اس نے پہنا تو منحوس گہن اس کے انوار سے نبرد آزما ہوتا ہے اور وقت نے جو عطیہ دیا تھا وہ چھین لیتا ہے وقت گویا تیرے شباب کے حسن کو برماتا ہے اور حسن کی جبیں پر شکنوں کی متوازی لکیریں کھودتا ہے اور فطرت کی صداقت کے نادر نمونے اس کی خوراک ہیں اور جو چیز بھی ہے اسے وہ اپنی درانتی سے کاٹ دیتا ہے۔‘‘ (ص191-92) اس ترجمانی کا انگریزی متن درج کر کے جناب کلیم الدین احمد نے ارشاد کیا تھا: ’’ یہ شاعری ہے‘‘ اور ترجمانی کے بعد فرماتے ہیں: ’’ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ یہاں ہر چیز واضح ہے متعین اور ٹھوس انداز میں بیان کی گئی ہے اور استعارے اس لئے ہیں کہ وہ معانی کو واضح بھی کریں اور انہیں تہہ دار بھی بنائیں۔‘‘ (ص192) جہاں تک ہر چیز کے واضح، متعین اور ٹھوس ہونے کا تعلق ہے وہ اقبال کے اشعار میں بھی ہے اور شیکسپیئر کے اشعار سے زیادہ ہے۔ اسی طرح اقبال کے استعارے شیکسپیئر کے استعاروں سے زیادہ معانی کو واضح کرنے اور تہہ دار بنانے والے ہیں، اس کے ساتھ ہی ایک نہایت اہم فنی نکتہ خود جناب کلیم الدین احمد کے پیش کردہ معیار سے یہ ہے کہ شیکسپیئر تو طرح طرح کے استعارے استعمال کر کے وقت کی تصویر کو رنگا رنگ کے ساتھ گنخلک بھی بنا دیتا ہے، چنانچہ وہ بے ربطی اور تضاد اشعار کے درمیان جس کا الزام بالکل بے بنیاد طور پر ہمارے مغربی نقاد نے اقبال پر لگایا تھا در حقیقت شیکسپیئر کی نظم میں ہے۔۔۔ کبھی موج اور سنگریزی ہے، کبھی روشنی، کبھی تاج اور گہن، کبھی تیر اور درانتی۔۔۔۔ سب ایک ہی سانس میں، جب کہ اقبال نے صرف ایک تصویر گزرتے ہوئے حوادث کی بنائی ہے اور اس کے لئے تار حریر دو رنگ اور ساز ازل کی فغاں کے جو رنگ استعارے کے طور پر استعمال کئے ہیں وہ بھی صرف حوادث کے رنگ و آہنگ کو منقش کرتے ہیں اور اس چستی و چابک دستی کے ساتھ کہ بجائے خود انہیں مستقل استعارہ کہنا بھی مشکل ہے۔ اس لحاظ سے واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا استعارہ زیادہ سے زیادہ علم البلاغت Rhetoric کی اصطلاح میں ایک مفصل استعارہ Expanded Metaphor ہے، جب کہ شیکسپیئر مخلوط استعارے Mixed Metaphor کا ارتکاب کرتا ہے، اور جناب کلیم الدین احمد جانتے ہی ہوں گے کہ فنی طور پر انگریزی علم البلاغت میں بھی مفصل استعارے کو پسندیدہ اور مخلوط استعارے کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ (اس سلسلے میں میرا ذاتی خیال کچھ اور ہے) اس سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ شیکسپیئر نے وقت کے موضوع پر ایک پورا سانٹ لکھا، اس کے باوجود وضاحت اور تکمیل کی کمی اس کی شاعری میں نمایاں ہے، جب کہ اقبال نے مسجد قرطبہ میں وقت کے موضوع پر پہلے بند میں جو کچھ کہا ہے وہ صرف تمہید ہے ایک بڑے موضوع پر اظہار خیال کی اور وہ تمہید بھی اتنی مکمل و موثر ہے کہ ایک طرف تاریخ کے گزرتے ہوئے لمحات کا واضح اور متعین احساس ہوتا ہے اور دوسری طرف اصل موضوع سے تاریخ کی اس تصویر کی کامل مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔ اقبال نے وقت کو صیرنی کائنات کہا ہے، جو محض کوئی استعارہ نہیں ہے وقت کی تعریف کے لئے، بلکہ اس سے صرف یہ تنبیہہ مقصود ہے جو پوری نظم کا محرک ہے: تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلہ روز و شب صیرنی کائنات تو ہوا اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات غور کرنے کی بات ہے کہ مسجد قرطبہ کا پہلا بند وقت کے موضوع پر کوئی مستقبل بالذات نظم نہیں ہے بلکہ تاریخ کی ایک عظیم الشان یادگار اور اس کے توسط سے دنیا کی عظیم الشان ملت اور اس کے مثال افراد کے موضوع پر ایک مرتب و منظم نظم کا حصہ، تمہیدی حصہ ہے۔ اب جناب کلیم الدین احمد ایک طرف تو شاعر سے ایک مربوط نظم کی توقع کرتے ہیں اور دوسری طرف خود سالم و کامل نظم کی بجائے اس کے ٹکڑوں کا الگ الگ تجزیہ و مطالعہ کرنا چاہتے ہیں موصوف کے طریق تنقید کا بہ تضاد ان کے تمام کارناموں کا طرۂ امتیاز ہے۔ انہوں نے اسی خوردہ فروشی کے ساتھ اردو شاعری پر ایک نظر ڈالی ہے اور اردو تنقید پر بھی اور دونوں کو اپنے تیر نیم کش سے مجروح کیا ہے، جبکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اپنے مطالعے کے موضوعات سے وہ منظم کل کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اسی متضاد طرز تنقید کا استعمال موصوف مسجد قرطبہ کے پورے مطالعے میں کرتے ہیں۔ دوسرے بند میں عشق کے بارے میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے اس کو وہ ایک ہی خیال کی تکرار کہہ کر غیر دلچسپ اور غیر اہم قرار دیتے ہیں اور اس سلسلے میں عشق پر دوسری نظموں میں اقبال کے اشعار کا حوالہ دیتے ہیں، مثلاً ’’ ذوق و شوق‘‘ کا ایک بند پیش کر کے تبصرہ کرتے ہیں: ’’ اقبال یہ خیال نہیں کرتے کہ ایک ہی بات یا ایک ہی قسم کی بات کو بار بار سننے سے سامعین کی طبیعت منفض ہو جاتی ہے۔‘‘ (ص193) یہ ہے ایک ناقد کا بیان ایک شاعر کے خاص موضوع کے بارے میں جو زیر نظر نظم میں بھی بروئے اظہار آیا ہے! عشق بال شبہہ اقبال کا محبوب مضمون ہی نہیں، ان کی فکر کا ایک عنصر اور فن کا محرک ہے۔ لہٰذا اگر وہ مختلف مواقع پر اس مضمون سے متعلق اظہار خیال کرتے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں اور نہ کوئی انوکھی یا بری بات ہے۔ عشق کے موضوع پر اہل ذوق رومی سے اقبال بلکہ دانتے سے گیٹے تک کے اشعار الگ الگ ان میں ہر ایک کی شاعری اور بار بار صرف کسی ایک کی شاعری میں بھی پڑھتے آئے ہیں اور کبھی ان کی طبیعت منفس نہیں ہوتی، مگر، شاعری،عشقیہ شاعری سے بھی لطف لینے کے لئے ذوق شرط اولین ہے، جس کی بے حد افسوس ناک کمی جناب کلیم الدین احمد میں بداہتہً پائی جاتی ہے۔ ذوق ادب کے ساتھ ساتھ کچھ کومن سنس کی بھی کمی ہے اور تنقیدی معقولیت تو سرے سے موصوف کے یہاں غائب ہی ہے، ورنہ مسجد قرطبہ میں عشق سے متعلق اقبال کے بیان پر وہ اس بد مذاقی اور پھوہڑ پن کے ساتھ اعتراض نہیں کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کی اس انداز کی بے محل اور بے عقل نکتہ چینی قارئین کی طبیعت کو حد درجہ منفض ہی نہیں، مشتعل اور بے زار کر دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے مغربی نقاد مسجد قرطبہ کی ہیئت نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے کبھی وقت اور کبھی عشق کو الگ سے کیوں لیتے ہیں اور کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک پوری نظم پر تنقید فرما رہے ہیں، نہ کہ اس کے الگ الگ پہلوؤں پر، جب کہ وہ خود ہی فن کار سے ایک سالم ہیئت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں؟ اقبال نے ’’ ذوق و شوق‘‘ یا کسی دوسری نظم میں عشق پر اظہار خیال اس نظر کے سیاق و سباق میں کیا ہے اور مسجد قرطبہ میں عشق پر اظہار خیال اس نظم کے سیاق و سباق میں ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اقبال وقت کے فنا انگیز سیلاب پر روک لگا کر پائیدار فن کاری یا کسی انسانی عمل کا واحد وسیلہ عشق کو سمجھتے ہیں اور وقت کے تناضر میں انہیں عشق ہی کا کارنامہ مسجد قرطبہ کی شکل میں دکھاتا ہے، تو وہ موضوع نظم اور مقصود تخلیق کی مناسبت سے عشق کا تذکرہ اس لئے نہ کریں کہ وہ اس موضوع پر پہلے بھی اظہار خیال کر چکے ہیں؟ا قبال اپنے فکر و فن کی سنجیدگی کو ملحوظ رکھیں یا کسی تلون پسند ناقد کی تفریح کا سامان کریں؟ اور ستم ظریفی یہ کہ ہو صاحب دوسروں سے تفن کا تقاضا کر رہے ہیں ان کی اپنی تکرار پسندی کا عالم یہ ہے کہ اکتا دینے والی کثرت و شدت کے ساتھ ’’ ربط و تسلسل‘‘ کی گردان جا و بے جا اس طرح کرتے ہیں گویا یہی وظیفہ حیات ہے۔ اگر ایک صاحب نظریہ مفکر شاعر کے کچھ مخصوص موضوعات ہیں جن پر وہ بالکل اصولی طور سے بار بار زور دیتا ہے تو اس پر وہ شخص کیسے اعتراض کی جسارت کرتا ہے جو محض خوش فعلی اور نفسیاتی الجھن کے طور پر آنکھ بند کر کے صرف چند بندھے ٹکے خیالات ہی کی قے اور تکرار و گردان کرتا ہے؟ اس سلسلے میں ایک اور موشگافی ملاحظہ کیجئے: وہ (اقبال) ایک ہی سانس میں عشق کو دم جبرئیل، دل مصطفیٰؐ رسول خدا اور کلام خدا کہتے ہیں۔ یوں تو قلم ہاتھ میں ہے۔ آپ سب کچھ لکھ سکتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو رسول خدا ہے وہ کلام خدا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر وحی البتہ ہو سکتی ہے اور وہ کلام خدا کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ اسی طرح عشق بہ یک وقت فقیہہ حرم، امیر جنود اور ابن السبیل نہیں ہو سکتا۔ (ص194) کیوں نہیں ہو سکتا؟ اقبال کا مطلب بہت صاف ہے۔ علم و فقہ ہو، فوج و لشکر ہو، سیاحت و سفر ہو، دین کی راہ میں ساری سرگرمیوں کا محرک ایک محیط عشق، اسلامی نظریہ و نصب العین کے ساتھ عشق، خدا تعالیٰ اور رسولؐ کے ساتھ عشق ہی ہے۔ اسی طرح عشق خد اکے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت و سیرت کا بھی محور و مرکز تھا اور خدا کے ساتھ رسولؐ کا رابطہ فرشتوں کے جس سردار، حضرت جبرئیل ؑ کے ذریعے تھا وہ بھی عشق ہی کا ایک مظہر تھا اور جبرئیل ؑ کے ذریعے جو کلام رسولؐ پر نازل ہوتا تھا وہ بھی ظاہر ہے کہ عشق ہی کا ایک جلوہ تھا۔ عشق کی یہ ساری ادائیں متنوع ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں، یہ سب ایک ہی حقیقت کے پہلو ہیں۔ پوری کائنات ہی ایک مظہر عشق ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کے ممدوح میر بھی تو محبت کے موضوع پر محولہ کتاب اشعار میں یہی کہتے ہیں: محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور محبت مسبب، محبت سبب محبت سے آتے ہیں کار عجب ہمارے نقاد یہ سوال آخر کس عقل سے کرتے ہیں؟ ’’جو رسول خدا ہے وہ کلام کدا بھی ہو سکتا ہے؟‘‘ بات بہت صاف ہے رسولؐ بھی خدا کا ہے اور کلام خدا خدا کا ہے ہی اور دونوں عشق کے تار میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس میں تضاد ہے کیا؟ بات بس وہی ہے جو خود جناب ناقد نے اقبال کی طرف اشارہ کر کے لکھی ہے، حالانکہ اس سے صحیح کردار نگاری ان ہی کی ہوتی ہے: ’’یوں تو قلم ہاتھ میں ہے آپ سب کچھ لکھ سکتے ہیں‘‘ یہاں تک کہ ہم آہنگی کو تضاد قرار دے سکتے ہیں، جنوں کا نام خرد رکھ سکتے ہیں اور خرد کا نام جنوں۔ ایک اور لطیفہ ملاحظہ فرمائیے۔ ناقد موصوف میر کے اشعار کو محبت کے موضوع پر اقبال کے اشعار سے بہتر قرار دیتے ہیں، جس پر کوئی مجموعی تبصرہ کرنے کی ضرورت مجھے محسوس نہیں ہوتی،ا س لئے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عشق و محبت کے موضوع پر اقبال کے ساتھ میر کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا اور نہ میر کے اشعار میں وہ بلوغت و بصیرت اور جدت و نفاست ہے جو اقبال کے اشعار میں ہے یہاں صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ میر کے محولہ پہلے شعر کو ہمارے نقاد موصوف اقبال کے اس شعر سے بہتر قرار دیتے ہیں: عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات عشق سے نور حیات، عشق سے نار حیات اور وجہ ترجیح اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’ وجہ یہ ہے کہ میرا ایک استعارہ استعمال کرتے ہیں محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور اور اس مصرع اور دوسرے مصرع میں ربط ہے۔ نہ ہوتی محبت یعنی اگر محبت ظلمت سے نور نہ کاڑھتی تو ظہور بھی نہ ہوتا۔ اقبال پہلے مصرع میں ایک استعارے کا استعمال کرتے ہیں:‘‘ ’’ عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات‘‘ یہاں عشق مضراب ہے جس کی ضرب سے تار حیات سے نغمہ پیدا ہوتا ہے، لیکن دوسرے مصرع میں وہ اس استعارے کو بھول جاتے ہیں اور نثری ڈھنگ سے کہتے ہیں: ’’ عشق سے نور حیات، عشق سے نار حیات‘‘ اور بھول جاتے ہیں کہ تار حیات سے نغمہ تو نکل سکتا ہے لیکن تار حیات نور حیات اور نار حیات نہیں ہو سکتا۔ اقبال استعارے کو بھولے نہیں ہیں مگر وہ جناب کلیم الدین احمد کی طرح استعارے کی بھول بھلیوں میں نہیں پڑے ہیں۔ اقبال کے دونوں مصرعوں کا مفہوم واضح ہے۔ اور دونوں کے درمیان معنوی ربط بھی صریحاً نظر آتا ہے۔ پہلے مصرعے کا مطلب تو یہی ہے کہ تار حیات کا بسیط نغمہ عشق کے مضراب ہی سے نکلتا ہے یعنی زندگی کی ساری ادائیں عشق ہی کی مرہون منت ہیں، بقول میر کے محبت ہی مسبب ہے تمام مظاہر حیات کا، خواہ وہ مظاہر جلالی ہوں اور نار حیات کی نشان دہی کرتے ہوں یا جمالی ہوں اور نور حیات کا جلوہ دکھاتے ہوں۔ نور حیات اور نار حیات کی خیال آفریں ترکیبوں کے بعد بھی یہ ’’ نثری ڈھنگ‘‘ کی بات بھی خوب رہی۔ اب رہی یہ بات کہ یہ نغمہ اور نور اور نار کیسے ہوتا ہے؟ تو شاید کلیم الدین احمد جانتے نہیں یا بھول گئے کہ ایک میگھ ملہار ہوتا ہے اور ایک وہپک راگ، یعنی ایک جلال اور نار آفریں نغمہ ہوتا ہے اور ایک جمال اور نور آفریں آہنگ ہوتا ہے۔ دونوں اس نغمے کے دو رخ ہیں جو تار حیات سے اس پر عشق کی چوٹ پڑنے سے نکلتا ہے۔ یہ تہہ داری، معنی آفرینی اور نغمگی میر کے شعر میں کہاں ہے؟ جناب کلیم الدین احمد شاید لفظ ’’کاڑھا‘‘ پر فدا ہیں لیکن مضراب تار نغمہ، نور اور نار کی ہم آہنگ جمال آرائی ان کے پلے نہیں پڑتی یا انہیں بھاتی نہیں تو یہ اپنا اپنا ذوق اور اس کی رسائی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پر لطف بات یہ ہے کہ میر نے کہا’’ کاڑھا‘‘ اور اقبال نے کہا’’ نقش گر‘‘ اور دونوں کا معنی بالکل ایک ہے، مگر ہمارے ناقد کو ایک ہی معنے کے لئے لفظ کاڑھا پسند ہے، لفظ نقش گو پسند نہیں اور اسی پسند و نا پسند پر نکتہ چینی کی پوری عمارت کھڑی ہو گئی! ’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر جناب کلیم الدین احمد کی اب تک کی ساری کلوخ اندازیں جس جذبے کے تحت کی گئی ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اقبال نے جہاں دنیا کی ہر چیز کو فانی کہا وہاں یہ استغنا کیوں کر دیا: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدائے تمام یہ ایک بات ہمارے مغربی نقاد کو اتنی گراں گزری ہے کہ وہ فنون لطیفہ اور عجائبات عالم متعدد مثالیں دے کر فرماتے ہیں: ’’ اب میں یہ کیسے کہوں کہ اقبال دنیا کے فنون کے قدیم و جدید نمونوں سے ناواقف تھے، واقف ضرور تھے۔ انہوں نے ایک نظریہ بنا رکھا تھا کہ وہی فنی کارنامے زندہ جاوید ہیں جنہیں کسی مرد خدا یا مرد مومن یا مرد حر نے بنایا ہے۔ وہ نقاشی میں ہوں مصوری میں ہو یا موسیقی میں ہو یا شاعری میں ہو، ممکن ہے آپ بھی اس نظریے سے متفق ہوں کیونکہ یہ بہت دل خوش کن نظریہ ہے اور احساس کمتری کو دور کرتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت سے دور ہے۔۔۔۔ اقبال نے صرف مسلمانوں کے لئے ایک دل خوش کن بات کہہ دی تھی ممکن ہے وہ اسے سچ سمجھتے ہوں اور آپ اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے یہاں نہ فلسفہ ہے نہ شعر ہے نہ سچائی ہے۔‘‘ (ص197-98) ان ہسٹریائی الاہنوں سے انگریزی مثال کے مطابق بلی تھیلے سے باہر آ جاتی ہے اور یہ بھی ایک بار پھر معلوم ہو جاتا ہے کہ چاہے اردو والے احساس کمتری میں مبتلا ہوں یا نہ ہوں جیسا ہمارے مغربی نقاد نے طنز کیا ہے، نقاد موصوف ضرور احساس کمتری اور طلسم، ہیچ مقداری میں اس درجہ مبتلا ہیں کہ انہوں نے بلا وجہ فنون لطیفہ وغیرہ کی بحث نکالی ہے اور سیکولرزم اور لبرلزم کی ترنگ میں یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ: ’’ یہاں نہ فلسفہ ہے نہ شعر ہے نہ سچائی ہے‘‘ جب جناب کلیم الدین کے بقول اقبال نے: ’’ ایک نظریہ بنا رکھا تھا‘‘ تو فلسفہ کیسے نہیں ہے، چاہے یہ کسی کے لئے دل خوش کن ہو یا بیزار کن؟ پھر اگر اقبال کے نظریے سے کسی کو اتفاق نہیں ہے اور ان کا فلسفہ اسے پسند نہیں آتا ہے تو کیا وہ نظریاتی اختلاف اور شخصی نا پسندیدگی کی بناء پر کسی نمونہ شاعری کے شعر ہونے ہی سے انکار کر دے گا؟ لیکن جناب کلیم الدین بڑی بے باکی سے اس طرح کا انکار کرتے ہیں چنانچہ زیر بحث باب کے خاتمے پر فرماتے ہیں: ’’ یہ بات مسلمانوں کے لئے دل خوش کن اور ہمت افزا ہو تو ہو لیکن واقعیت سے دور ہے اور جس نظم کا موضوع کھوکھلا ہو یا غلط وہ نظم کس کام کی۔‘‘ یہ ہے معیار سخن فہمی اور ادبی تنقید کا جناب کلیم الدین احمد ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں صرف فن پر تنقید کا اور دوسری طرف فکر کو وہ اپنے تنقیدی فتوؤں کا واحد معیار بنا دیتے ہیں۔ بہرحال، تضاد فکر تو ان کا امتیازی نشان ہے اور یہ شے کثیف ان کی تنقید کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کے اسلام و ایمان پر ہمارے مغربی نقاد جو اس درجہ برہم ہیں تو اس کی حقیقت فنی اعتبار سے کیا ہے؟ا ول تو عقائد و نظریات کی بناء پر فنی حسن و قبح کا فیصلہ کوئی کلیم الدین احمد ہی کر سکتا ہے اور اس سلسلے میں اپنے احساس کمتری کو بڑی آسانی سے دوسروں پر عائد کر سکتا ہے، وہ اپنے مسلمان ہونے پر پشیماں ہے اور ایک احساس جرم رکھتا ہے، لہٰذا صفائی دینا اور معذرت کرنا ضروری سمجھتا ہے، تاکہ لوگ اس کے مظاہرہ آزاد خیالی ہی کی وجہ سے اس کی بڑائی کے قائل ہو جائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اقبال اتنے چھوٹے دماغ اور کمزور دل کے انسان نہیں تھے، ورنہ اتنے بڑے فن کار نہیں ہوتے، وہ نہ صرف ایمان رکھتے تھے بلکہ اس کی توانائیوں پر فخر کرتے تھے اور ایک متعین نظریہ حیات اور فلسفہ کائنات پر مبنی اس ایمان کے تمام نمونوں کی برملا قدر کرتے تھے اور فنی قدر شناسی کر کے دنیا کو ان کی قدر کرنے پر ابھارتے تھے، خاص کر اہل ایمان کو ان کی عظمت رفتہ کی یادگاروں سے واقف کر کے ان کے دلوں میں اپنے شان دار ماضی کے لئے ایک ایسا بے پناہ جذبہ قدر بیدار کرنا چاہتے تھے۔ جو ان کے اور عام انسانیت کے مستقبل کی بہتر تعمیر و ترقی کا سامان کرے۔ فرض کیجئے کہ اس مقصد کے لئے اپنی تہذیب کے کارنامے پر فخر میں ایک فن کار مبالغہ کرتا ہے اور اپنے قارئین کی خودی جگانے کے لئے کبوتر کے تن نازک میں شاہین کا جگر پیدا کرنا چاہتا ہے، تاکہ کم تری کے شکار کچھ برتری کا احساس بھی کر سکیں، ان کے پست کئے ہوئے حوصلے بلند ہوں اور وہ ایک ولولہ تازہ کے ساتھ میدان عمل میں گامزن ہو جائیں۔۔۔۔ تو کیا فکری اور کیا فنی، کسی بھی اعتبار سے اس موقف میں کیا مضائقہ ہے؟ اور اگر موضوع کے کھوکھلا یا غلط ہونے سے کوئی نظم بے کار ہو جاتی ہے تو پھر دانتے کی اس کومیڈی کی تعریف میں جناب کلیم الدین احمد کیوں رطب اللسان ہیں جس میں ’’ واقعیت سے دور‘‘ کتنے ہی تخیلات اور اوہام و خرافات بھرے پڑے ہیں، خاص کر اس نادان اور یا وہ گو شاعر نے پیغمبر اسلام کے ساتھ جو بدتمیزی کی ہے؟ اقبال نے کلیم الدین احمد جیسے پورس کے ہاتھیوں ہی کے بارے میں کہا ہے:ـ حق ہے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات اسلام کا محاطبہ یورپ سے در گزر (’’جہاد‘‘ ضرب کلیم) اس تناظرPerspective میں غور کرنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ اقبال نے ’’ مرد خدا یا مرد مومن یا مرد حر‘‘ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے۔۔۔۔ حالانکہ بجائے خود یہ الفاظ بھی مسلم فرقے کے افراد سے آگے کی ایک عمومی اپیل اور آفاقی معنویت اصولی ایمان اور نظریہ اسلامی کے حوالے سے رکھتے ہیں۔ اس کا مقصود یہ حسین اور فکر انگیز خیالات و نکات ہیں: مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق سے اصل حیات موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کیسوا اور زمانے میں ہے جن کا نہیں کوئی نام یہ فلسفیانہ و شاعرانہ صداقتیں، خواہ کسی نظریہ اور عقیدے سے ابھری ہوں، واقعہ یہ ہے کہ روح فکر اور جان فن ہے اور تاریخ کے تمام عظیم کارنامے، جن میں ایک مسجد قرطبہ اور دوسرا نظم مسجد قرطبہ بھی ہے، انہی صداقتوں کے فیض سے تحریک پا کر بروئے عمل آئے ہیں۔ لیکن اقبال کے ہم عقیدہ ایک ناقد کی ذہنی بے چارگی اور خوف کمتری کا عالم یہ ہے کہ وہ ایسی صداقتوں کا احساس و اقرار کرنے سے یکسر قاصر ہے اور خوب کو ناخوب کہنے پر تلا ہوا ہے: تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر مغرب اور اس کے تصورات کی غلامی ہمارے مغربی نقاد کے حواس پر ایسی طاری ہے کہ عقیدہ و نظریہ کے عظیم فنی محرک ہونے کے اس بیان کا بھی اس کے ذہن پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا: اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں ہست و بود رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل خون جگر سے سدا سوز و سرور و سرود تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کا کشود اور یہ آفاقی لے اور انسانی تڑپ بھی ہمارے مغربی ناقد کے دل کو چھوئی نہیں: عرش معلی سے کم سینہ آدم نہیں گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود کیا یہ اشعار یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں کہ اقبال در حقیقت زمانے کی تباہ کاریوں کے مقابلے میں عشق کے پائیدار تعمیری کارناموں کی نغمہ سرائی کر رہے ہیں اور عمومی طور پر عظمت انسانی کا راگ گا رہے ہیں؟ اب اگر عشق کی یہ عظمت انہیں ان کے عقیدے اسلام ہی کے ذریعے معلوم ہوئی ہے اور وہ اسی کے استعاروں سے اپنی فکر کا ابلاغ کرتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ مسجد قرطبہ کا ماحصل ایک شعر میں بس یہ ہے۔ ہرگز نہ نمیرد آں کہ دلش زندہ شدبہ عشق ثبت است بر جردیدۂ عالم دوام ما چنانچہ عشق کسی بھی عقیدے اور نظریے سے عشق، ان تمام کمالات کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے جن کا ذکر جناب کلیم الدین احمد نے یہ صرف یہ دکھانے کے لئے کیا ہے کہ غیر اسلامی محرکات کے تحت بھی فنون لطیفہ کی تخلیق ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس حقیقت سے انکار کون کر رہا ہے، جو آپ کو اقرار کی ضرورت محسوس ہوئی؟ کیا اقبال نے یہ کہا ہے کہ دوسرے ادیان و نظریات سے متاثر ہو کر فنون لطیفہ کی تخلیق نہیں ہو سکتی یا نہیں ہوتی ہے؟ نہ صرف یہ کہ مسجد قرطبہ میں ایسا کوئی بیان اقبال کا نہیں ہے بلکہ کہیں اور کبھی بھی انہوں نے یہ بات نہیں کہی ہے اور نہ ان کے کسی شارح یا مداح نے ایسی بات کی ہے۔ پھر ہمارے مغربی نقاد کس چیز کی تردید کے لئے بے قرار ہیں اور کیوں؟ کیا انہیں یہ بھی پسند نہیں ہے کہ ایک مومن شاعر ایک حسین و جمیل مشہور عالم مسجد کی تعریف میں یہ کہے: ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلب مسلمان میں ہے اور نہیں ہے کہیں ٭٭٭ تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز ٭٭٭ تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل کیا ہمارے مغربی نقاد اس حقیقت سے بھی انکار کر دیں گے کہ مسجد قرطبہ مسلمانوں ہی کی تعمیر کی ہوئی ہے اور اس کے در و بام، ستون و سقف اور گنبد و مینار میں اسلامی فن تعمیر کے بہترین کمالات ظاہر ہوئے ہیں؟ اقبال تو مرد مومن تھے، اگر کوئی غیر مسلم بھی مسجد قرطبہ پر اظہار خیال کرے تو کیا وہ سلامی تہذیب اور مسلم تاریخ کو خراج عقیدت پیش کرنے پر مجبور نہیں ہو گا؟ اور اگر اسلام کے حوالے کے بغیر کچھ بھی لکھے گا تو وہ ہوائی لاشے محض نہیں ہو گا؟ جناب کلیم الدین احمد ان حقیقتوں اور صداقتوں کو نظر انداز کر کے تنقید لکھنے کی جرأت کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر اقبال مسجد قرطبہ کو فن کا ایک بے نظیر کارنامہ کہتے ہیں اور اسے اسلامی تہذیب کا بہترین نشان قرار دیتے ہیں تو کیا یہی بات دوسرے مذاہب کے ماننے والے، بالخصوص عیسائی، اپنے مذہب سے متعلق کارنامے کے بارے میں نہیں کہتے ہیں؟ کیا جناب کلیم الدین احمد واقف ہی نہیں کہ انہوں نے دیگر مذاہب سے متعلق فنون لطیفہ کے نمونوں کی جو فہرست پیش کی ہے ان کی مذہبی اہمیت متعلقہ سماجوں میں کیا ہے؟ آخر یہ Notre Dame کیا ہے؟ جناب کلیم الدین احمد’’ واقف ضرور‘‘ ہیں مگر ’’ انہوں نے ایک نظریہ بنا رکھا ہے کہ وہی کارنامے زندہ جاوید ہیں جنہیں کسی مرد خدا یا مرد مومن یا مرد حر‘‘نے نہیں بنایا ہے؟ غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را (غنی کشمیری) مسجد قرطبہ پر جناب کلیم الدین احمد کی پوری تنقید از اول تا آخری فکری دیوالیہ پن، ذہنی بودے پن اور تنقیدی افلاس کا انتہائی عبرت خیز نمونہ ہے۔ 2 تنقید کلیمی کا یہی حال زار ’’ ذوق و شوق‘‘ کے سلسلے میں بھی ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کو اپنی پرانی باتوں کا حوالہ دینے کا بہت شوق ہے اور یہ کام وہ بالکل نجومیوں کی طرح کرتے ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ نجومی اپنی کسی پیش گوئی کے اتفاقاً صحیح ثابت ہو جانے کے بعد بغلیں بجاتے ہیں اور ہمارے ناقد صرف یہ تصور کرتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے اپنی تنقید کی طفولیت میں کہا تھا وہ کہولت میں بھی لازماً صحیح ہو گا۔ اس معاملے میں شاید وہ اپنے آپ کو اردو تنقید کا مسیح اس معنے میں بھی خیال کرتے ہیں کہ وہ پیدا ہونے کے بعد گہوارے ہی میں بولنے لگے تھے انگریزی محاورہ ہے: ’’ I told you so‘‘ اردو میں بھی کہتے ہیں: ’’ میں نے تو تم کو بتا دیا تھا‘‘ قریب یہی اندا زہوتا ہے جناب کلیم الدین احمد کا خود اپنا حوالہ دیتے ہوئے۔ اس طرح وہ شاید جتانا چاہتے ہیں کہ ان کے خیالات نہایت پختہ اور اٹل شروع ہی سے رہے ہیں گرچہ دوسرے لوگ اسے جمود فکر، ضد، آڑ اور ہٹ دھرمی بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال ’’ ذوق و شوق‘‘ پر تبصرہ اسی شان سے شروع ہوتا ہے: میں نے اردو شاعری پر ایک نظر میں لکھا ہے: ’’ اقبال اکثر اچھے اچھے اشعار لکھتے ہیں لیکن شاید انہیں اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ انہوں نے اچھے اشعار لکھے ہیں۔ وہ ان شعروں کو جلد پس پشت ڈال دیتے ہیں اور اپنے کیالات سے الجھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ ذوق و شوق‘‘ کے پہلے بند کو لیجئے۔۔۔۔۔ اس حسین شاعری کے بعد اقبال اپنے بندھے ٹکے مضامین کی طرف توجہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘ (ص176-78) وہ اچھے اچھے اشعار کیا ہیں جو اقبال رو میں لکھ تو جاتے ہیں مگر جانتے نہیں کہ کیا لکھ گئے ہیں، اور بد قسمتی سے ان اشعار کی تخلیق کے وقت جناب کلیم الدین احمد اقبال کے پہلو میں موجود نہیں تھے کہ شاعر کو اچھے برے کی تمیز سکھاتے؟ یہ اشعار فطرت کے مناظر کی تصویر کشی سے تعلق رکھتے ہیں اور پہلے بند میں پائے جاتے ہیں۔ اقبال کی نظموں میں جزوی و تمہیدی طور پر جہاں جہاں فطرت کی شاعری ہے اس کے بارے میں جناب کلیم الدین احمد اسی طرح حسرت و افسوس کرتے ہیں کہ اقبال اپنی شاعری کی اس صلاحیت سے کام نہیں لیتے اور دوسرے خیالات میں الجھ جاتے ہیں۔ کیا جناب کلیم الدین نے سنجیدگی کے ساتھ کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا کی ہے کہ اقبال کے لئے ممکن نہیں تھا کہ کسی ناقد سے پوچھ کر اپنی شاعری کے موضوعات متعین کرتے؟ اگر کوئی کلیم الدین احمد کے تنقیدی تجزیوں سے محض اسی طرح چند ٹکڑے نکال کر کہے کہ موصوف نے اچھے اچھے تنقیدی نکات اٹھائے ہیں مگر ان کو خبر ہی نہیں ہے کہ اچھے تنقیدی نکتے یہی ہیں، چنانچہ وہ ایسے نکتوں کو پیش کرنے کے بعد اپنے بندھے ٹکے اور گھسے پٹے تنقیدی خیالات سے الجھ جاتے ہیں۔۔۔۔۔ تو موصوف کا رد عمل کیا ہو گا؟ موصوف کو سمجھنا چاہئے کہ اقبال ورڈ زورتھ نہیں ہیں اور نہ ہونا چاہئے تھے، اور نہ ان کو ہونا چاہئے تھا: (اقبال کا مقام ورڈ زورتھوں سے بہت اونچا ہے) ان کا مقصد فطرت نگاری نہیں تھی، ورنہ وہ اگر اس موضوع پر توجہ مرکوز کرتے تو ورڈس ورتھ کو لوگ بھول جاتے، ٹھیک جس طرح ان کا مقصد ڈرامہ نگاری نہیں تھی اور اگر وہ اس پر توجہ مرکوز کرتے تو شیکسپیئر کا امتیاز ختم ہو جاتا، اس لئے کہ فطرت کی شاعری اور واقعات و اشخاص کی تمثیل کے جو ٹکڑے جا بہ جا اقبال کی شاعری میں بکھرے ہوئے ہیں وہ ان کی زبردست فطرت نگاری اور تمثیل نگاری کی صلاحیت ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اقبال تو ایک مفکر شاعر ہیں جو اپنی شاعری کے ذریعے دنیا کو دور حاضر میں انسانیت کی نئی تشکیل و تعمیر کا ایک جاں پرور اور ولولہ انگیز پیغام دینا چاہتا ہے۔ آخر ہمارے مغربی نقاد اتنے بھولے کیوں ہیں یا تنقید اقبال کی اس مبادیات سے مطلقاً نابلد کیوں ہیں کہ جس نظم ’’ ذوق و شوق‘‘ پر وہ تبصرہ فرما رہے ہیں اس کا موضوع فطرت نگاری نہیں ہے، لہٰذا فطرت کی منظر کشی پہلے بند میں محض جزوی و تمہیدی طور پر کی گئی ہے؟ عنوان ہی سے ظاہر ہے کہ معاملہ ذوق و شوق، شاعر کے ذہن و قلب کے اضطراب کا ہے، نہ کہ منظر نگاری کا ہمارے ناقد نے عنوان نظم کے ساتھ ہی شاعر کا اپنا دیا ہوا یہ نوٹ نہیں دیکھا کہ ’’ (ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے)؟‘‘ اب یہ تو واقعی اقبال کے زبردست تمثیلی احساس اور واقعیت و حقیقت پسندی کا ملال ہے کہ فلسطین کی مناسبت سے انہوں نے عرب ہی کے ریگ زار کی تصویر کشی کی ہے، جب کہ یہی تصویر نظم کے موضوع و مقصود کے لئے بھی موزوں ترین ہے، اس لئے کہ ذوق و شوق کا تعلق اسلام، اس کی تہذیب اور تاریخ کے ساتھ عشق سے ہے اور ظاہر ہے کہ مطلع اسلام عرب ہی ہے لہٰذا اسلام کے ساتھ عشق کے موضوع پر اظہار خیال کا بہترین پس منظر عرب ہی کا جغرافیہ ہو گا لیکن ہمارے مغربی نقاد کو نہ ان باتوں کی خبر ہے اور نہ ان کا مقصد پوری نظم کی تنقید ہے وہ تو صرف چند اشعار ادھر سے ادھر لے کر اپنی پرانی عادت کے مطابق ان کا شد کرنا چاہتے ہیں، خود کلی ہیئت کی تنظیم کا مطالبہ فن کار سے کرتے ہیں مگر بہ نفس نفیس کبھی بھی کل ہیئت کا اس کے تمام سیاق و سباس اور موضوعات و مضمرات کے ساتھ مطالعہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں فرماتے۔ چنانچہ کس ظالمانہ سادگی سے بند کا آخری شعر پیش کر کے ارشاد فرماتے ہیں: ’’ یہ صدائے جبرئیل کیوں آئی اور کیسے آئی یہ پوچھنا بے کار ہے‘‘ (ص181) پوچھنا اگر کار آمد بھی ہو تو کم از کم جناب کلیم الدین احمد کو سمجھانا بے کار ہے۔ لیکن میں اس سوال کا جواب اس لئے عرض کرتا ہوں کہ سندر ہے اور وقت ضرورت کام آئے بات یہ ہے کہ اقبال نے سر زمین فلسطین پر وہاں کے جغرافیہ اور تاریخ کی روشنی میں فطرت کی ایک نہایت دل نواز اور خیال انگیز تصویر کھینچی ہے اور وہ منظر ایسا حسین و دل کش ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے انسان اس میں کھو جاتاہے۔ لیکن اقبال حالت سفر میں ہیں اور ان کی منزل بہت دور ہے۔ یہ نکتہ بہت ہی صاف طور پر نظم کے پہلے بند کے پہلے ہی شعر میں درج کر دیا گیا ہے: قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں اس کے بعد بند کے آخری شعر سے قبل منظر کشی اس تصویر پر ختم ہوتی ہے: آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں اب بند کا یہ آخری شعر ہے: آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہل فراق کے لئے عشق دوام ہے یہی یعنی اقبال جیسے مسافر راہ حق کا مقام کسی محل کے اندر عشرت کوشی نہیں بلکہ ریگ زار عالم میں سفر، مدام سفر ہے، اس لئے کہ مسافر ابھی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہے ابھی محبوب حقیقی کے ساتھ اس کا وصال نہیں ہوا، اس کی پوری زندگی گویا ایک فراق ہے۔ یہ شعر نہ صرف یہ کہ پورے بند کے مضمرات کا ماحصل ہے بلکہ اگلے بند کی تمہید بھی ہے، اس لئے کہ اس میں اہل فراق کی نسبت سے عشق کا ذکر ہے اور اس سلسلے میں شاعر کے خصوصی واردات و احساسات کا نہایت ہی شاعرانہ و مفکرانہ بیان ہے۔ چنانچہ اگلے بند کا پہلا ہی شعر فراق کے کیف میں ڈوبا ہوا ہے: کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لئے حیات کہنہ ہے بزم کائنات تازہ ہیں میرے واردات اس کے بعد اشعار بھی اسی کیفیت کی تفصیل بڑے ہی حسین اور خیال انگیز انداز میں پیش کرتے ہیں اور نہایت نادر و بصیرت افروز نکات اٹھاتے ہیں: کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات ذکر عرب کے سوز میں فکر عجم کے ساز میں نے عربی مشاہدات نے عجمی تخیلات قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تابدارابھی گیسوئے دجہ و فرات عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ تصورات صدق خلیلؑ بھی ہے عشق صبر حسینؑ بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق یقینا یہ اشعار عشق کے متعلق ہیں اور اقبال نے ان کے علاوہ بھی اردو اور فارسی میں مختلف پہلوؤں سے مختلف مقامات پر عشق کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اور ہر موقع پر کہے گئے اشعار کی اپنی خاص شان، معنویت اور اہمیت ہے۔ لیکن مذکورہ بالاا شعار میں جو ندرت فکر اور نفاست بیان ہے وہی اپنی جگہ دوسرے تمام مواقع پر کہے گئے عشقیہ اشعار سے منفرد و ممتاز ہے۔ اگر کسی کو شاعری کا ذوق ہو اور وہ اقبال کے فن کے سیاق و سباق سے باخبر ہو تو ان اشعار پر اسی طرح سر دھن سکتا ہے جس طرح پہلے بند کے مناظر فطرت سے متعلق اشعار پر بلکہ ان سے بھی زیادہ، اس لئے کہ وہاں صرف خارجی مناظر کا حسن ہے جن کا ایک جلوہ قلب و نظر کی تازگی کے لئے کافی ہے اور یہاں خیالات کا حسن ہے جو تہہ در تہہ ہے او را س کے بے شمار جلوے ہیں جن سے ایک حساس انسان زندگی بھر بصیرت ومسرت حاصل کر سکتا ہے لیکن جناب کلیم الدین احمد کی نافہمی کا یہ عالم ہے کہ انہیں پہلے بند کا آخری شعر تو بے معنی معلوم ہوا اور دوسرے بند کے مذکورہ بالا اشعار پر موصوف اس بد ذوقی کے ساتھ تبصرہ بلکہ تمسخر کرتے ہیں: ’’ اور اگر میں اقبال سے نا انصافی نہیں کر رہا ہوں تو ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی غزنوی کارگہ حیات میں نہیں تو فکر نہ کرو اقبال تو موجود ہے۔ اگر ذکر عرب کے سوز میں عربی مشاہدات نہیں اور اگر فکر عجم کے ساز میں عجمی تخیلات نہیں تو کیا پروا، اقبال کے اشعار میں تو عربی مشاہدات اور عجمی تخیلات موجود ہیں۔‘‘ (ص180) صاف معلوم ہوتا ہے کہ سطور محولہ بالا کا راقم یا تو مخبوط الحواس ہے یا مسخرہ اور اس نے تنقید کو محض بازیچہ اطفال بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس قسم کا تبصرہ نافہمی اور کج فہمی کاایک نہایت مکروہ مرکب ہے اور ا س کا مقصد کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ نہیں۔ ذرا سمجھ داری ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں: ’’ دوسرے، تیسرے اور چوتھے بند میں اہل فراق یا فراق کا کوئی ذکر نہیں۔‘‘ (ص181) حالانکہ دوسرا بند تو سارا کا سارا فراق اور اہل فراق ہی کے بارے میں ہے اور عشق کے متعلق اس بند کے اشعار صریحاً فراق ہی سے ماخوذ اور اسی پر مبنی ہیں۔ اسی طرح تیسرے بند میں بھی فراق کے مضمرات جاری رہتے ہیں۔ پہلا ہی شعر ہے: آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو پھر اپنے بارے میں بھی شاعر بتاتا ہے: میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو یہ سب فراق اور اس سے پیدا ہونے والی جستجو نہیں تو اور کیا ہے؟ چنانچہ تیسرا بند بدیہی طور پر فراق کے اس شعر پر تمام ہوتا ہے: فرصت کش مکش مدہ ایں دل بے قرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را چوتھا بند بھی اپنے معانی کے لحاظ سے ایک اہل فراق کی اس صداپر ختم ہوتا ہے: تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے اب ذرا ایک ناقد کی بے ایمانی یا بے شعوری ملاحظہ کیجئے کہ نظم تو بالکل اپنے تخیل کے مسلسل و مربوط ارتقا کے نتیجے میں فراق ہی کے اشعار پر ختم ہوتی ہے اور آخری بند پورا کا پورا فراق کی کیفیات سے لب ریز ہے، مگر تنقید یہ فرمائی جاتی ہے (آخری بند کے چھ اشعار میں سے آخری تین اشعار کو پیش کر کے) ’’ ظاہر ہے کہ ان میں شعروں کو پہلے تین شعروں سے کوئی لگاؤ نہیں۔‘‘ (ص186) جناب کلیم الدین کو قارئین کی عدالت میں لاجواب کرنے کے لئے پورا بند ذیل میں درج کرتا ہوں: تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفیٰ عقل تمام لولہب گاہ بحیلہ می بردگاہ بزرو می کشد عشق کی ابتدا عجب عشق کی انتہا عجب عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگ آرزو ہجر میں لذت طلب عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب گرمی آرزو فراق! شورش ہاد ہو فراق موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق کیا باذوق اردو داں قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جب شاعر کہتا ہے کہ اس نے علم کو بے شر پایا، اس کے دل میں عشق و عقل کے درمیان ایک معرکہ بپا رہا، اور عشق کی شان یہ ہے کہ کبھی حیلے سے لے جاتا ہے اور کبھی بزور کھینچتا ہے۔۔۔۔۔۔ تو یہ ساری ادائیں بداہتہ ایک فراق زدہ ہی کی ہیں، جیسے ابھی تک گوہر مقصود کا وصال حاصل نہیں ہوا؟ مگر ہمارے مغربی نقاد کا حال یہ ہے: دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گو کھلا! کیا جناب ناقد سمجھتے ہیں کہ قارئین اصل نظم سے واقف نہیں یا وہ نظم کا متن پڑھنے کی بجائے محض تنقیدی ہفوات پر اعتماد و انحصار کر لیں گے؟ اس سلسلے میں جذب تنقید کی یہ بڑ بھی سنئیے: ’’ بہر کیف ان تین شعروں میں کوئی نئی بات نہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ ایک ہی بات کو دہرایا گیا ہے۔ ہجر میں لذت طلب، گرمی آرزو و فراق، شورش ہاؤ ہو فراق، موج کی جستجو فراق، قطرہ کی آبرو فراق۔ بات ایک ہی ہے، کہنے کا ڈھنگ ذرا مختلف ہے اقبال ہجر کو وصل سے بڑھ کر جانتے ہیں کیونکہ وصل مرگ آرزو سے عبارت ہے اور ہجر لذت طلب ہے۔ لیکن اسٹیسونسن نے کہا تھا کہ جو لطف سفر میں ہے وہ منزل پر پہنچنے میں نہیں۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ موج کی جستجو فراق کچھ یوں ہی سی بات ہے۔ موج سمندر سے ہم کنار ہونے کی آرزو میں پیہم ناصبوری کی حالت میں نہیں رہتی ہے۔ البتہ قطرہ کی تقدیر ہے کہ وہ گوہر بن جائے پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ اس شعر میں کس وصال کا ذکر ہے۔‘‘ عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا گوچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب یہ عین وصال کب حاصل ہوا؟ کیا اسی وصال میں اقبال کو یہ علم حاصل ہوا کہ وصل میں مرگ آرزو ہے؟ اب اس گتھی کو آپ ہی سلجھائیں۔ پھر ایک بات یہ بھی کہہ دی جائے کہ اقبال کو جبرئیل اہل فراق کہتے ہیں اور اقبال خود جاوید نامہ میں ابلیس کو خواجہ اہل فراق کا لقب دیتے ہیں۔ (ص181) یعنی تنقید نہیں ہوتی ’’ میرکلو‘‘ (ازمانپوری) کی گواہی ہو گئی! بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی سوال یہ ہے کہ نئی بات کیا ہوتی ہے اور کیا ایک بات کو دہرانا فنی و فکری کسی بھی اعتبار سے بھی ہر حال میں برا ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں کوئی صاحب عقل نہیں دے سکتا، مگر جناب کلیم الدین احمد اثبات ہی کو فرض کر کے بار بار یہی اعتراض تقریباً ہر کام کی بات پر دہرائے چلے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کو، ان کی طبع نکتہ چیں کو کوئی اعتراض کے قابل بات نہیں ملتی تو چونکہ انہیں اعتراض بہرحال اور برائے اعتراض ہی کرنا ہے لہٰذا وہ نئی پرانی بات کا قصہ شروع کر دیتے ہیں جو گویا ان کا Stock in Trade اور Trademark ہے اور اپنے اس منفرد مال تجارت کا استعمال وہ Ad Nauseim کرتے ہیں اور ایک گھسی پٹی، بے ڈھب، بے ڈھنگی بات سنتے سنتے قاری کو متلی سی ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی موصوف کا خاص کاروباری اندا زہے کہ اردو قارئین کو مرعوب کرنے اور اپنی بے وزن باتوں کو وزن دار ظاہر کرنے کے لئے وہ بالکل غیر ضروری اور ناموزوں طور پر یکایک کسی مغربی یا انگریزی ادیب و شاعر کا حوالہ دے دیتے ہیں۔ اگر اسٹیونسن نے لطف سفر کی بات کی ہے تو اقبال کے لطف فراق میں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیوں ہمارے مغربی نقاد نے اس سلسلے میں اسٹیونسن کا ذکر کیا؟ اقبال کی تائید میں، تردید میں یا یہ دکھانے کے لئے کہ اقبال نے سرقہ کیا ہے؟ تنقید کلیمی کی خوبی یہ ہے کہ اس سوال کا جواب عبارت تنقید میں موجود نہیں ہے، رہی اشارات تنقید تو وہ محبوب کے غمزے سے کم نہیں: عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا ہمارے ناقد یہ نہیں سوچتے کہ اسٹیونسن جیسے لوگوں کا نام اقبال کے ساتھ موازنے میں لینا بد مذاقی ہے اور اس سے تنقید مغربی کا بھرم کھلتا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’ موج کی جستجو فراق کچھ یوں ہی سی بات ہے۔‘‘ کیوں؟ اس لئے کہ ’’ موج سمندر سے ہم کنار ہونے کی آرزو میں پیہم ناصبوری کی حالت میں نہیں رہتی ہے۔‘‘ اگر پیہم ناصبوری کو شرط فراق مان لیا جائے تو پھر فراق کا لفظ لغت سے نکال دینا پڑے گا۔ اس لئے کہ فراق ہمیشہ آرزوئے وصال پر مبنی ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فراق کے بعد وصال متصور ہے۔ چنانچہ ساحل آشنا ہونے سے پہلے موج کی جستجوئے ساحل ظاہر ہے کہ فراق کی شدید ترین تڑپ ہے اور شاید اس سے بہتر استعارہ فراق کے لئے ہو نہیں سکتا۔ جناب کلیم الدین احمد نے کبھی دریا میں لہروں کا اضطراب اور پیچ و تاب نہیں دیکھا ہے؟ دیکھا تو ہو گا۔ مگر غالباً اس پر غور نہیں کر سکے اور اقبال کے استعارے پر غور کرنے کی تو انہیں ضرورت ہی نہیں، اس لئے کہ: ’’ کچھ یوں ہی سی بات‘‘ بطور سخن تکیہ کے انہیں کہنا ہی ہے یہ نکتہ کلیمی بھی لاجواب ہے:ـ ’’ البتہ قطرہ کی تقدیر ہے کہ وہ گوہر بن جائے۔‘‘ کیا مطلب؟ فی بطن الناقد! عبارت تو حسب معمول متعز لانہ ہے ،مگر اشارت یہی ہے: ’’ کچھ یوں ہی سی بات ہے‘‘ یعنی قطرہ کی آبرو بھی فراق نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی ’’ تقدیر ہے کہ وہ گوہر بن جائے‘‘ سوال یہ ہے کہ اقبال نے قطرہ کی آبرو کی بات کی ہے یا گوہر کی؟ پھر یہ قطرہ بمقابلہ سمندر ہے اور استعارہ بداہتہً یہ ہے کہ قطرہ سمندر سے جدا ہو کر اور رہ کر ہی اپنے مستقبل اور منفرد وجوہ کی آبرو برقرار رکھتا ہے، ورنہ سمندر سے واصل ہو کر تو وہ اس میں جذب ہو جاتا ہے۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد استعارے پر غور کرنے کی زحمت کیوں گوارا فرمائیں؟ ان کی تنقید کا کمال تو یہ ہے کہ وہ کسی Point کوDiscus نہیں کرتے، Dismissکرتے ہیں، اب یہ اردو والوں کا متعزلانہ مزاج ہے کہ وہ اس ادا کو تنقید سمجھ کر سینے سے لگائے ہوئے ہیں ورنہ ایسی کج ادائیاں اگر انگریزی جیسی کاروباری زبان میں بروئے اظہار آئیں تو کوئی نوٹس ہی نہیں لیتا بلکہ ان اداؤں کی اشاعت کے لئے کوئی ناشر ہی نہیں ملتا، یا پھر کوئی کالم نگار کسی اخبار کی دو سطروں میں ان محبوبانہ اداؤں کو Dismiss کر کے ان کی صحیح جگہ پہنچا دیتا Waste paper basket میں واقعہ یہ ہے کہ مغربی نقاد کے غمزوں، شتر غمزوں کا شمار بہت مشکل ہے۔ آخر اس سادگی کا کوئی جواب ہے کہ اقبال نے جاوید نامہ میں ابلیس کو خواجہ اہل فراق کہا ہے تو اب وہ اپنے آپ یا کسی کو ’’ اہل فراق‘‘ نہ کہیں، ورنہ گویا دزیات ابلیس میں شامل ہو جائیںگے؟ فراق بمقابلہ وصال یک معروف شاعرانہ مضمون ہے، جس کے فلسفیانہ مضمرات بھی ہو سکتے ہیں، جبکہ خواجہ اہل فراق نہ صرف انداز بیان کی شوخی ہے بلکہ محبوب ازل سے روز ازل جو ابلیس کی ابدی جدائی اور دوری ہوئی اس کی ایک زبردست شاعرانہ تعبیر ہے۔ چنانچہ اہل فراق اور خواجہ اہل فراق کے ڈانڈے ملانا محض Carping of the warst type اور Stretching a point to the extent of point lessness ہے۔ منطق کے نام پر اس طرح کی غیر منقطی موشگافی Hair-Spilitting فن، زبان، ادب اور تہذیب سب کی نفی کرنے والی ہے اور ایک قسم کی بدترین خود شکستگی Self Defeatism ہے۔ زیر بحث پورے بیان میں صرف ایک سوال جو جناب کلیم الدین احمد نے اٹھایا ہے وہ مناسب موقع ہے، یعنی فراق کے مضمون میں۔ ’’ عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا۔‘‘ کیسے آ گیا؟ یہ واقعی ایک ’’ گتھی‘‘ ہے لیکن ناقدیہ تیور کیوں دکھاتے ہیں ’’ اب اس گتھی کو آپ ہی سلجھائیں؟‘‘ قاری کیوں سلجھائے؟ ناقد کیوں نہیں سلجھائیں؟ تنقید اتنی سستی اور تفریحی کیوں ہو کہ زحمت فکر تنقید نگار کی بجائے تنقید خواں کو کرنی پڑے؟ جناب کلیم الدین احمد تو ایک ایک شعر کی پوری نظم میں پیوستگی تلاش کرتے ہیں، پھر وہ کیوں غور نہیں کرتے کہ ذوق و شوق کا ارتقائے خیال کس طرح ہوا ہے؟ انگریزی نظموں میں تو وہ ایک شعر کی بازگشت دوسرے شعروںمیں دکھاتے ہیں، کای یہی چیز ایک اردو نظم میں نہیں ہو سکتی؟ وہ کیوں یہ فرض کرتے ہیں کہ اردو نظم ارتقائے خیال سے خالی ہے، اور اس کے بعد محض اپنے مفروضے کا ثبوت تلاش کرتے اور جہاں نہیں بھی ہو تو ذہنی طور پر دریافت کر لیتے اور بغلیں بجاتے ہیں؟ یہ تنقید ہے یا تغزل، یعنی نیم وحشی صنف سخن بلکہ سراپا وحشی، اس لئے کہ نثر کا معاملہ ہے؟ جس گتھی کو جناب کلیم الدین احمد نہیں سلجھا سکے میں اسے زیر نظر نظم کے پہلے بند کا دوسرا شعر پیش کر کے سلجھا دیتا ہوں: حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردہ وجود دل کے لئے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں یہ تو معلوم ہی ہے کہ نظم اس شعر سے شروع ہوتی تھی: قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں یہ بھی معلوم ہے کہ نظم کا موضوع’’ حسن ازل‘‘ ہی کی تلاش کا ’’ ذوق و شوق‘‘ ہے چنانچہ حسن ازل کی منظر نگاری اور اس کی جلوہ آرائی کے بعد پہلے بند کے آخری شعر کے اس مصرعے پر ہم نظر ڈال چکے ہیں: اہل فراق کے لئے عیش دوام ہے یہی یعنی تلاش حسن میں دشت حیات کے اندر مسلسل سفر، فلسطین کی مقدس سر زمین پر ہمارے شاعر کو حسن ازل کے جلوے میں تھوڑی دیر کے لئے عین وصال میسر آیا تھا اس کے بعد یہ کیفیت شروع ہو گئی: ’’ ایک بار دیکھا ہے، دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے‘‘ اس طرح پہلے بند کے محولہ آخری شعر میں ایک تہہ اور ابھرتی ہے: ’’ حسن ازل کی نمود، جو قلب و نظر کی زندگی‘‘ ہے اور اس کا سامان ’’ دشت میں صبح کا سماں کرتا ہے‘‘ اس کے بارے میں ’’ صدائے جبرئیل‘‘ آتی ہے کہ متلاشی حسن کا’’ مقام‘‘ یہی ہے، یہی وہ گوہر مقصود ہے جس کی جستجو عاشق سادق کو کرنی ہے، اور: اہل فراق کے لئے عیش دوام ہے یہی اس شعر کو بار بار پڑھئے، اوپر کے اشعار کو پڑھئے اور اس سے بالکل پہلے کے شعر پر غور کر کے پڑھئے: آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں یہ اشارہ سفر کا ہے، جبکہ اس سے پہلے دوران سفر بیت المقدس کی وادی میں حسن ازل کی ایک جھلک دکھائی جا چکی ہے اب ’’ اہل فراق کے لئے عیش دوام‘‘ ’’ حسن ازل کی نمود‘‘ بھی ہے اور ایک بار اس حسن جہاں آراء کو دیکھ کر عمر بھر اسی کی تلاش میں پیہم جستجو بھی ہے۔ کیا دبازت ہے اس پیرایہ بیان میں اور کیسی نفاست ہے الفاظ کی نشست میں! یہ ایک طلسم خیال ہے چمن زار تخیل ہے، شعر رنگیں ہے اور افسانہ ازل سے حقیقت ابد تک پر محیط ہے۔ قرآن حکیم میں۔ ’’ الست بربکم‘‘ اور ’’ قالو ابلی‘‘ سے عظیم الشان واقعہ کائنات پر نظر ڈالئے، فطرت اور وہ بھی دشت عرب اور وادی مقدس کے مناظر فطرت پر نگاہ ڈالئے، تب عین وصال پر ایک بار پھر غور کیجئے واقعہ ازل کے سیاق و سباق میں بھی پھر لطف لیجئے بصیرت حاصل کیجئے ایک آفاقی کیفیت میں کھو جائیے تا آنکہ آپ کا پورا وجود رقص کرنے لگے، آپ کی روح وجد میں آ جائے نظم کو ختم کرتے ہوئے اس کا آخری شعر پڑھ کر: گرمی آرزو فراق، شورش ہائے و ہو فراق موج کی جستجو فراق، قطرہ کی آبرو فراق لیکن شاعری کے یہ حسین و درخشاں اور بیش قیمت وبے بہانکے تنقید کے کوڑاکرکٹ کے انبار میں موتیوں کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور ان موتیوں کو جومیں اپنے قلم کی نوک سے کرید رہا ہوں تو جہاں تک جناب کلیم الدین احمد کے ذوق و شوق کا عالم ہے یہ انگریزی محاورے میںPearls before the Swine ہیں اور اردو محاورے بقول غالب از طرف اقبال: یا رب نہ وہ سمجھے گے میری بات ولے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور کیا خیال ہے انگریز ناقد غزل کا، انگریزی محاوری زیادہ مہذب ہے یا اردو غزل کا ایک شعر؟ وہ دونوں میں سے جس کو پسند فرمائیں اپنے لئے اختیار کر لیں۔ بہرحال ’’ ذوق و شوق‘‘ کی ترتیب ہیئت پر ذرا بھی غور کئے بغیر جناب کلیم الدین احمد کے فتوے ملاحظہ فرمائیے: ’’ ذوق و شوق‘‘ میں اگرچہ صرف پانچ بند ہیں لیکن اس نظم میں تھرم ناقص ہے یعنی بندوں کی ترتیب اٹل نہیں۔ ان میں ردو بدل ممکن ہے اور اشعار کی بھی ترتیب بھی اٹل نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ بعض بند نا مکمل ہیں اور آزاد نظم کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ مثلاً دوسرا بند:۔۔۔۔۔ اور یہ چوتھا بند ہے جو مکمل ہے اور دوسرے بندوں سے بالکل آزاد ہے۔۔۔۔۔۔ (ص183) نہ بند آزاد ہے نہ نظم اور نہ فوری ناقص ہے، لیکن تنقید ضرور تمام اصول نقد سے آزاد اور معریٰ عن المعنی ہے اس لئے کہ ایک ناقص عقل کا نتیجہ ہے میں قبل بھی اشارہ کر چکا ہوں اور پہلے بند کے آخری اور دوسرے بند کے پہلے شعر، پھر پورے دوسرے بند کا حوالہ دے کر واضح کر چکا ہوں کہ پوری نظم ایک ترتیب کے ساتھ آگے بڑھتی ہے ایک بار پھر زور دیتا ہوں کہ دیکھئے یہ ہے پہلے بند کا آخری مصرعہ: اہل فراق کے لئے عیش دوام ہے یہی یعنی جلوہ حسن ازل اور روز ازل پھر مظاہر فطرت میں اس سے شاد کام ہونے کے بعد زندگی بھر اور انسانی و اجتماعی زندگی کے تمام مشاغل کے دوران، ہر قسم کی فکری و عملی سرگرمی کے ذریعے پیہم اسی حسن کی جستجو اور اس کے وصال کی امید میں اس کے فراق میں، اضطراب چنانچہ دوسرے بند کا پہلا ہی مصرع ہے: کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لئے مے حیات اسی زہر عشق کی تفصیل آگے کے اشعار میں ہے، یہاں تک کہ بند کے آخری دو اشعار عشق کو ’’ عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین‘‘ صدق خلیل صبر حسین اور معرکہ وجود میں بدر و حنین قرار دیتے ہیں۔ تیسرا بند عشق کی معرکہ آرا ’’ تلاش‘‘ اور ’’ جستجو‘‘ کا بیان کرتے ہوئے ’’ گیسوئے تابدار‘‘ میں ’’ یک دو شکن زیادہ‘‘ کرنے اور ’’ دل بے قرار‘‘ کو ’’ فرصت کش مکش‘‘ نہ دینے کی التجا براہ راست معشوق ازل سے کرتا ہے اب چونکہ تیسرے بند کے آخر میں خطاب براہ راست معشوق ازل سے ہے اور اسی کے عشق کی آگ شاعر کے دل میں فروزاں ہے، لہٰذا فطری طور پر چوتھا بند اس کی بارگاہ میں نذرانہ حمد پیش کرتا ہے: لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب گنبد آبگیز رنگ تیرے محیط میں حباب عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود فقیر جنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمال بے نقاب انہی اشعار کے تسلسل میں عشق حقیقی کے یہ حسین و خیال انگیز اشعار پڑھیے اور وجد کیجئے: شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب اور بند کا یہ آخری شعر تو شاعری کی تاریخ میں لاجواب ہے: تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے طبع زمانہ تازہ کو جلوہ بے حجاب سے جب کہ نظم شروع ہوئی تھی اس طرح: قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں ایک طرف: ’’ چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں‘‘ اور دوسری طرف: ’’ تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے‘‘ جناب کلیم الدین احمد کی عقل کو تو دونوں بیانات میں تضاد ہی نظر آئے گا۔ (حالانکہ سرسری مطالعہ کی وجہ سے ان کی نظر اس تضاد پر پڑ نہیں سکی) لیکن ایک باذوق شخص کو جس نے پوری نظم کا منظم مطالعہ دیانت داری کے ساتھ کیا ہو گا، یہ بھی یاد آئے گا کہ دونوں شعروں کے دوسرے مصرعوں میں ایک نمایاں ربط و تسلسل اور معنوی ہم آہنگی ہے: چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں ٭٭٭ طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے اور اسے یہ بھی یاد آئے گا کہ شروع میں جو جلوہ اس طرح نظر آیا تھا، نظم کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں: حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردہ وجود اب نظم کے نقطہ عروج کی طرف بڑھتے ہوئے اسی جلوے کی طلب اور تقاضا اس ندرت وجودت کے ساتھ، ارتقائے خیال کے گزشتہ مرحلوں کو سامنے رکھتے ہوئے، نہایت فکر انگیز انداز میں ہوتا ہے: تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے یعنی وہی چشمہ آففتاب جس سے نور کی ندیاں رواں ہوتی تھیں اب عصر حاضر میں اس کی گردش سے پورا جہاں تیرہ و تار ہو رہا ہے لہٰذا زمانے کو ضرورت ہے کہ حسن ازل ایک بار پھر پردہ وجود چاک کرے اور اپنے جلوہ بے حجاب سے عصر حاضر کی تمام خستگی، فرسودگی اور کبیدگی کو دور کر دے۔ شروع سے آخر تک نظم کے اندر اشعار اور ان کے معانی و مضمرات کی یہ پیوستگی و ہم آہنگی اور نغمات کی گونج Rovebration ہمارے مغربی نقاد کو کیوں محسوس نہیں ہوتی اور تمام حقائق کے برخلاف کیوں وہ اصرار کرتے ہیں کہ بندوں کی ترتیب اٹل نہیں، ان میں رد و بدل ممکن ہے اور اشعار کی بھی ترتیب اٹل نہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ جناب ناقد کے یہ اٹل خیالات نظم کے مطالعے کا نتیجہ نہیں بلکہ پہلے سے قائم کئے ہوئے خیالات Preconceived nations ہیں جن کا اطلاق نظم پر ادھر ادھر سے چند اشعار کو کھینچ کر، وہ بالکل آنکھ بند کر کے کر دیتے ہیں۔ یا تو وہ محنت سے جی چراتے ہیں، یا اشعار کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا جان بوجھ کر آسمان پر تھوکتے ہیں۔ بعض وقت مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد اشعار کے معاملے میں بالکل Colour Blindہیں۔ یہی وجہ ہے اس قسم کی ہٹ دھرمی کی: ’’ (چوتھا بند پیش کرکے) اس کی لمبی چوڑی تشریح کی جاتی ہے لیکن یہ احساس ذرا بھی نہیں ہوتا ہے کہ یہ بند مکمل ہے اور اسے نظم سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ ’’ ذوق و شوق‘‘ کے فورم پر ایک بدنما دھبہ ہے۔‘‘ (ص183) اس قسم کا بے حس لایعنی اور لغو تبصرہ تنقید کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ بندوں اور شعروں کی ترتیب اپنی جگہ بالکل صحیح ہے اور ان میں رد و بدل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا چوتھے بند کی لمبی چوڑی تشریح کی بھی ضرورت نہیں اگلے اور پچھلے بندوں سے اس کا ربط بالکل ظاہر ہے اور ایک ایک بند کو لے کر مکمل یا نا مکمل کی تمیز محض بے تمیزی بلکہ بد تمیزی ہے، جب بند نظم میں اپنی جگہ قائم ہے تو مکمل اور نا مکمل کی بحث اٹھتی ہی کہاں ہے؟ انگریزی تنقید کے رٹے رٹائے فقروں اور جملوں سے کوئی بامعنی تنقید نہیں ہوتی، جب تک ان فقروں کے اور جملوں کے موزوں استعمال کا سلیقہ نہ ہو اور موضوع کا مرتب مطالعہ سمجھ بوجھ کر نہیں کیا گیا ہو۔ افسوس کہ جناب کلیم الدین احمد کے زیر بحث بیانات اس سلیقے اور سمجھ سے بالکل خالی ہیں۔ اس بحث کے آخر میں گویا الیٹ اور اقبال کا موازنہ ہمارے مغربی نقاد اس طرح کرتے ہیں: ’’ الیٹ بہت ہی سخت گیر بالذات فن کار ہے، اس سے قطع نظر کہ اس کے جذبات ذاتی ہوتے ہیں، ان میں گہرائی اور شدت ہوتی ہے، وہ الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط ہے اور ہمیشہ اسے بہترین اور معین الفاظ کی تلاشی رہتی ہے اس میں ایک بزرگ سنجیدگی ہے جو اقبا ل میں بحیثیت فن کار نہیں پائی جاتی ہے۔‘‘ (ص148) سخت گیر بالذات اور ’’ بزرگ سنجیدگی‘‘ کی نفیس اردو کی داد تو ماہرین لسانیات دیں گے اگر انہوں نے جناب کلیم الدین احمد کی لسانی ایجادات کی طرف توجہ دینا مناسب سمجھا، دیکھنا یہ ہے کہ الیٹ جیسے ایک دوسرے درجے کے شاعر کا موازنہ اقبال سے ہو رہا ہے اور نکات تقابل یہ بتائے جا رہے ہیں کہ: ’’ اس کے جذبات ذاتی ہوتے ہیں، ان میں گہرائی اور شدت ہوتی ہے۔‘‘ یہاں تک کہ: ’’ اس میں ایک بزرگ سنجیدگی ہے جو اقبال میں بحیثیت فن کا رنہیں پائی جاتی ہے۔‘‘ جناب کلیم الدین احمد اپنے مجرم ضمیر کو تسکین دینے کا قارئین کو گمراہ کرنے کے لئے ’’ بحیثیت فن کار‘‘ کہہ کر اپنے بیان کے مضمرات سے بڑی بزدلی کے ساتھ گریز کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر ان کے یہ مفروضے مان لئے جائیں کہ گویا اقبال کے یہاں فن کارانہ سنجیدگی و بزرگی نہیں پائی جاتی اور ان کے جذبات نہ تو ذاتی ہوتے ہیں اور نہ ان میں گہرائی اور شدت ہوتی ہے، تو نہ صرف یہ کہ ایلیٹ سے اقبال کا موازنہ ہی فضول ہے بلکہ اقبال کی شاعری پر اس ’’ بزرگ سنجیدگی‘‘ کے ساتھ جناب کلیم الدین احمد کی تنقید بھی عبث ہے۔ ایسی تنقید پر کیا اور کیسے تبصرہ کیا جائے کہ جس اقبال کی شاعری بہت ہی شدت سے محسوس کئے گئے نہایت گہرے جذبات و احساسات اور افکار و خیالات پر مبنی ہے اس کے جذبات نہ تو ذاتی ہیں نہ گہرے نہ شدید، مگر ایلیٹ جس کے فکر و نظر کی دنیا بہت محدود، جس کے جذبات بالکل سرد اور احساسات فالج زدہ ہیں اس کے یہاں جذبات کی اصلیت و شدت و عمق سب کچھ ہے؟ اسی طرح ’’ سنجیدگی‘‘ کا آخر مفہوم کیا ہے جس کی روشنی میں ایلیٹ تو اس صفت سے متصف ہے اور اقبال اس سے محروم؟ جس شخص نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک عظیم مقصد کے لئے شاعری کا اتنا وافر، وسیع اور متنوع سرمایہ تخلیق کیا کہ ایک درجن الٹیوں کی پوری شاعری اس کے صرف ایک گوشے میں سما جائے اس کے یہاں تو ایک فن کار کی ’’ بزرگ سنجیدگی‘‘ نہیں اور یہ سنجیدگی اس شخص کے یہاں ہے جس کی فن کاری ایک چھوٹے سے حصار میں سمٹی اور سکڑی ہوتی، سوکھی اور پھیکی سی چیز ہے؟ اور لفظ ’’ بزرگ‘‘ کی مزہ داری پر جتنا بھی وجد کیاجائے کم کم ہے! الیٹ دنیا کے بزرگ فن کاروں کی فہرس میں سرے سے ہے ہی نہیں، جب کہ اقبال ہے ایسٹ کی نظموں۔۔۔۔۔۔ ویسٹ لینڈ، ایش ونز ڈڈے، ہولومن اور فور کواڑمٹس۔۔۔۔ کے سارے فکری و فنی مواد کو سمیٹ کر ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو اقبال کی صرف ایک نظم ’’ ذوق و شوق‘‘ اکیلے ہی اس مواد پر بھاری پڑے گی۔ فور کو اڑٹس کا سارا فلسفہ ہے کیا؟ مسیحی تصوف اور یونانی تظسف کا یہ ملغوبہ کیٹس سے لے کوئیٹس تک کے خیالات کی باز گشت سے بھرا ہوا ہے۔ جس Stillness کو ایلیٹ نے اپنا مطمح نظر اور گوہر مقصود قرار دیا ہے اسے ہی کیٹس نے ’’ گویشن ارن‘‘ Grecian Urn میں پیش کیا ہے۔ اورئیٹس نے Sailing to Byzantium میں Artifice of Enternity قرار دیا ہے۔ فلسفہ تو اقبال کے آب و گل اور ریشہ ہائے دل میں سمایا ہوا ہے، وہ باضابطہ فلسفی تھے اور مشرق و مغرب کے تمام فلسفوں سے مجتہدانہ واقفیت رکھتے تھے، ان پر ماہرانہ و ناقدانہ تبصرے کر کے اپنے خاص عالمانہ نتائج اخذ کر سکتے تھے۔ ان کے مدراس لکچرز Reconstruction of Religious Thought in Islam فلسفہ کے ایم اے کورس میں تجویز کردہ ہیں۔ تصوف میں ان کے گھر کی چیز تھی اور اس کے بارے میں وہ ایک مبصرانہ نقطہ نظر رکھتے تھے۔ شاعری کا سارا ساز و برگ انہوں نے ان ذاتی خیالات و احساسات سے تیار کیا تھا جن میں تاریخ، فلسفہ، تصوف اور ادب وغیرہ متنوع علوم و فنون کے ارتعاشات و ارتسامات ہیں۔ الیٹ جیسے بونوں کو اقبال جیسے دیووں کے مقابلے وہی لا سکتا ہے جو تناسب و توازن کے احساس سے بالکل خالی ہے۔ رہی یہ بات کہ الیٹ: ’’ الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط ہے اور ہمیشہ اسے بہترین اور معین الفاظ کی تلاش رہتی ہے۔‘‘ تو اقبال کے مقابلے میں یہ کوئی امتیازی بات ہی نہیں، وہ بھی بہترین بلکہ حسین ترین الفاظ کا استعمال اپنے احساسات کے اظہار کے لئے کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں انہیں نہ احتیاط کی تلاش ہے نہ تلاش کی ضرورت، اس لئے کہ واقعتہً ایک بزرگ فن کار ایک عظیم شاعر ہیں اور ان کا عام ریاض و وجدان دونوں مل کر ایک ایسی تخلیقی فضا پیدا کر دیتے ہیں جس میں مخصوص خیالات کے لئے ’’ معین الفاظ‘‘ خود ہی خیالات کے ساتھ ہی لوگ قلم یا زبان شاعر یا سطح حافظہ پر ابھرتے جاتے ہیں۔ الیٹ تو الفاظ کا بیوپاری ہے اور وہ گن گن کر، تول تول کر اپنا مال بیچتا ہے، جبکہ اقبال کا دماغ معانی کا ایک سرچشمہ ہے جس سے الفاظ کے دھارے قطرات معانی کے ساتھ اس زور اور شور سے پھوٹتے ہیں کہ ان گنت ذہنوں کی کھیتیاں سیراب ہوتی رہتی ہیں اور یہ اتھاہ چشمہ بلکہ سمندر بے روک بہتا رہتا ہے۔ یہ وہ انمول اور بے حساب متاع فقیر ہے جس کے بارے میں اقبال خود کہتے ہیں۔ مرے قافلے میں لٹا دے اسے لٹا دے، ٹھکانے لگا دے اسے (ساقی نامہ) الیٹ کے پاس الفاظ و معانی کا یہ خزانہ کہاں ہیں؟ اقبال کے سرمایہ فکر و فن کے مقابلے میں وہ ایک ٹٹ پونجیا بنیا ہے۔ 3 ’’ طلوع اسلام‘‘ کو جناب کلیم الدین احمد اقبال کی لمبی اردو نظموں میں سب سے کمزور نظم قرار دیتے ہیں۔ لیکن بقول خود 38 سال پہلے اردو شاعری پر ایک نظر میں انہوں نے اس نظم کے جو اوصاف بتائے تھے، خاص کر اس بند کا حوالہ دے کر جسے کمزور شاعری سمجھتے ہیں، ان پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایلیٹ کی جو بعض خوبیاں ناقد موصوف نے اقبال کے مقابلے گناتی تھیں ان میں چند38 سال پہلے اقبال کی کمزور شاعری میں بھی انہیں محسوس ہوتی تھیں اور گرچہ ان کے خیالات وحی کی طرح اٹل ہوتے ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹل بھی سکتے ہیں، اسی لئے اب وہ اقبال سے ہٹ کر الیٹ کی طرف چلے گئے ہیں اور اقبال بے چارے ہاتھ ملتے رہ گئے، اسے ہم احمد کی پگڑی محمود کے سر کہنے کی بجائے جناب کلیم الدین احمد کا 38 سالہ ارتقائے فکر کہیں تو شاید بہتر ہو گا۔ ملاحظہ کیجئے، اقبال کیسی دولت سے 38 سال بعد محروم ہو گئے: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشریں نہ تدبیریں۔۔۔ جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشریں ان شعروں میں اقبال کا خاص رنگ موجود ہے۔ خیالات میں گہرائی ہے، صداقت ہے، بے پناہ زور ہے، بیان میں شان و شوکت بھی ہے۔۔۔ اقبال کے جذبات و خیالات خیالی نہیں، وہ سب کے سب ذاتی ہیں اور جوش کے ساتھ محسوس کئے گئے ہیں اس لئے ان میں صداقت بھی ہے۔۔۔۔۔۔ (ص162-63) ان محاسن کے باوجود جناب کلیم الدین کا تنقیدی کوبڑ دیکھئے: ’’ اس بند کو نظم نہیں کہہ سکتے۔ یہاں ارتقائے خیال نہیں۔ بعض شعروں کو حذف کر سکتے ہیں اور ربط و تسلسل میں کسی قسم کی کمی نہ ہو گی۔ ان کی ترتیب میں بھی تغیر و تبدل کی گنجائش ہے۔ غزل کی طرح یہاں بھی ہر شعر میں ایک مکمل خیال ہے اور پھر ہر شعر میں اثر بھی ہے۔۔۔۔۔‘‘ (ص163) بند کو نظم کون کہتا ہے؟ نظم تو کئی بندوں کا مجموعہ ہے، اگر وہ ایک ہی بند کی نہیں ہے۔ پھر ایک بند میں ارتقائے خیال کی تلاش کیوں ہے؟ ارتقائے خیال تو پوری نظم میں ہونا چاہئے! رہی بعض شعروں کو حذف اور رد و بدل کرنے کی بات تو کرنے کی حد تک یہ بات جناب کلیم الدین احمد کی نثر میں بھی کی جا سکتی ہے اور اس کا ایسا خلاصہ پیش کیا جا سکتا ہے جس میں اصل عبارت کے تمام نکتے آ جائیں بلکہ عبارت بھی زیادہ مربوط و موثر ہو جائے، لیکن کیا جناب کلیم الدین کی تنقید کے ساتھ یہ انصاف ہو گا؟ اسی طرح موصوف نے نظم کے دو اشعار تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے حذرائے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں اور گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی پوری نظم اور متعلقہ بندوں سے نکال کر ان کا جو موازنہ اور ان کے مابین محاکمہ کیا ہے وہ کوئی تنقید ہے؟ کہاں تو آپ نظم پر بحیثیت نظم تبصرہ فرماتے اور ایک مکمل ہیئت کا حسن تلاش کرتے اور منفرد اچھے اشعار کو جداگانہ قرار دے کر رد کرتے ہیں اور کہاں پھر خود ہی ایک ایک شعر لے کر حسن و قبح کی جستجو شروع کر دیتے ہیں! یہ سب کیا ہے اور یہ بار بار ربط و تسلسل اور ترتیب کی رٹ کیوں ہے؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ تنقید نگار کو شاعری کے مطالعے سے کوئی سروکار نہیں، صرف رٹا رٹا یا سبق طوطے کی طرح دہرائے اور اپنے منہ میاں مٹھو کہلانے سے دلچسپی ہے۔ زیر بحث تنقید میں مسلسل اسی طرح بے موقع و بے محل بار بار کی پٹی ہوئی لکیریں پیٹی گئی ہیں، کبھی بندوں کو الگ الگ کر کے ان کا مثلہ کیا جاتا ہے کہیں شعروں کو ایک ایک کر کے ذبح کر کے ان کے پارچے کئے جاتے ہیں۔ یوں ہی الٹ پلٹ باتیں، الجھی الجھی، متضاد اور لایعنی باتیں بنائی جاتی ہیں۔ ایک تضاد فکر دیکھتے صفحہ164پر ارشاد ہوتا ہے۔ ایک شعر کی تعریف میں دوسرے کی تنقیص کر کے: ’’ لیکن شعریت ہے اور وجہ یہی ہے کہ اس شعر میں خیال محض نہیں بلکہ استعارہ بن گیا ہے۔‘‘ لیکن استعاروں بھرے ہوئے اشعار کے بارے میں صفحہ168 پر دوسرا ارشاد ہوتا ہے: ’’ استعاروں کی بوقلمونی خیال کی مفلسی کی پردہ پوشی نہیں کر سکتی۔‘‘ ظاہر ہے کہ اعتراضات کی یہ بہ قلمونی اور پینترے بازی جناب کلیم الدین احمد کی مفلس الخیالی اور مفلوک الفکری کی ذرا بھی پردہ پوشی نہیں کر سکتی۔ ربط و تسلسل اور ترتیب اقبال کی نظموں میں عام طور پر ویسی ہی ہے جیسی دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر کے یہاں ہو سکتی ہے اور اگر اس معنے میں اقبال کے یہاں واقعی نہیں جس معنے میں جناب کلیم الدین احمد اسے تلاش کرتے ہیں تو وہ دنیا کے کسی شاعر تو شاعر خود ناقد موصوف کے ذہن میں نہیں ہے۔ الٹے سیدھے تجزیے کا نام تنقید نہیں۔ ذرا اس تجزیے کا انداز دیکھتے جس سے محولہ بالا نتیجہ شاعر کے خیال کی مفلسی کے بارے میں اخذ کیا گیا ہے: ’’ پہلے مصرع میں دریا سے گہر پیدا ہوں گے، دوسرے مصرع میں شاخ ہاشمی میں برگ و بر پیدا ہوں گے، تیسرے مصرع میں صبابوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا کرتی ہے، چوتھے مصرع میں خون صد ہزار انجم سے سحر پیدا ہوتی ہے، پانچویں مصرع میں جگر خوں ہو تو چشم دل میں نظر پیدا ہوتی ہے۔ چھٹے مصرع میں چمن میں دیدہ ور بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے، لیکن ہوتا ہے اور آخری مصرع میں بلبل اپنے ترنم سے کبوتر کے تن نازک میں شاہین کا جگر پیدا کرتی ہے۔‘‘ (ص168) اور گہرے شعری استعاروں کی یہ ساری بو قلمونی ہمارے مغربی نقاد کے خیال میں خیال کی مفلسی ہے، جب کہ وہ اپنی بکواس اور کریکچر کو بڑی پر معنی تنقید تصور کرتے ہیں۔ اسی واہی انداز تنقید پر حوصلہ یہ دکھاتے ہیں کہ اقبال جیسے قادر الکلام اور بلند فکر شاعر کو نصیحت فرمانے کی جسارت کرتے ہیں: ’’ شاعری قافیہ پیمائی نہیں، بند پیمائی نہیں، تک بندی نہیں، یہ پیچیدہ، رنگین و زریں و یکتا تجربوں کا فن کا راز بیان ہے۔ اور یہ تکرار اقبال کی ایک خاص کمزوری ہے۔ ایک ہی نظم میں وہ ایک ہی بات کی تکرار کرتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ یک تکرار نا گزیر نہیں۔ یہ ان کے فن پر بدنما دھبہ ہے۔‘‘ (ص168) ’’ 42 نظمیں‘‘ اور’’ 25نظمیں‘‘ کے ’’ شاعر‘‘ کو کیا معلوم کہ شاعری کس کو کہتے ہیں اور جو شخص نثر میں بھی تکرار ہی پر تکیہ کرتا ہو اسے کیا خبر کہ نظم میں تکرار کہاں ضروری ہے اور کہاں غیر ضروری؟ تنقیدی احساس سے جناب کلیم الدین احمد کو کیا واسطہ؟ اس کا مایہ دار تو وہ اقبال تھا جو بالعموم فرمائش پر شعر نہیں کہتا تھا بلکہ جب اہم خیالات واردات بن کر اس پر طاری ہوتے تھے تبھی زبان کھولتا تھا اور بعض وقت کسی کسی نظم کا پورا پورا ندف کر دیتا تھا۔ ’’ پیچیدہ‘‘ رنگین و زرین و یکتا تجربوں کا فن کا راز بیان کا تو ہمارے ناقد نے صرف نام سنا ہے، اپنے مغربی استادوں کی تحریروں میں اور اقبال کی پوری عمر اسی میں گزری یہاں تک کہ ایسے تجربوں اور ان کے فن کارانہ بیانات کا وہ ایسا ذخیرہ چھوڑ گئے ہیں کہ شیکسپیئر، دانتے اور گیٹے بھی اس کی ثروت وجودت پر رشک کر سکتے ہیں۔ بعض وقت جی چاہتا ہے کہ جناب کلم الدین احمد کو جتایا جائے: ’’ ایاز! قدر خود بہ شناس!‘‘ بہرحال، جناب کلیم الدین احمد کا فتویٰ ہے: ’’ طلوع اسلام میں اقبال اپنے مقصد میں ایسے منہمک ہو جاتے ہیں کہ شاعری کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتے۔‘‘ (ص165) یہ فتویٰ جن حجتوں پر مبنی ہے ان میں خاص یہ ہیں: ’’ اقبال کی نظمیں چند محدود خیالات کے گرد چکر لگاتی ہیں خصوصاً وہ نظمیں جنہیں وہ خود اہم سمجھتے تھے۔ اور جنہیں وہ خود اہم سمجھتے تھے ان نظموں کو ان کے قارئین بھی اہم سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت ان کی اہم نظموں کا تجزیہ کر کے ثابت کی جا سکتی ہے لیکن ابھی اس کا موقع نہیں۔‘‘ (ص170) یعنی 416 صفحات کی پوری کتاب میں بھی اس کا موقع نہیں، جیسا کہ عبارت سے ظاہر ہوتا ہے؟ وہ نادر موقع کب آئے گا؟ ممکن ہے زیر نظر کتاب کی ایک جلد اور اقبال کے غریب قارئین کے سروں پر مارنے کے لئے جناب کلیم الدین احمد کی کارگر فکر میں تیار ہو رہی ہو۔ یہ بھی لائق غور ہے کہ بات ’’ طلوع اسلام‘‘ تک محدود نہیں۔ اس کی لپیٹ میں تمام نظمیں ہیں۔ اور دیکھتے: ’’ خطیبانہ اسلوب ایسا واضح ہے کہ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، شاعری کا لہجہ زیر لبی ہوتا ہے کیوں کہ اس کا تعلق داخلی تجربے سے ہوتا ہے اور اقبال کی شاعری میں داخلی تجربوں کی نمایاں کمی ہے۔‘‘ (ص174) جناب کلیم الدین احمد یقینا مرض نسیان میں مبتلا ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے قارئین کا حافظہ کمزور ہے، وہ بھول گئے کہ صفحہ162 اور 163 پر وہ یہ اقرار اقبال کے متعلق کر چکے ہیں: ’’ خیالات میں گہرائی ہے، صداقت ہے۔۔۔۔ اقبال کے جذبات و خیالات خیالی نہیں، وہ سب کے سب ذاتی ہیں اور جوش کے ساتھ محسوس کئے گئے ہیں اس لئے ان میں صداقت بھی ہے۔‘‘ دروغ گو را حافظہ نہ باشد! جب خیالات میں گہرائی ہے، صداقت ہے، وہ سب کے سب ذاتی ہیں اور جوش کے ساتھ محسوس بھی کئے گئے ہیں تو پھر: ’’ اقبال کی شاعری میں داخلی تجربوں کی نمایاں کمی‘‘ چہ معنی دارد؟ معلوم ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کی باتوں کو سمجھنے کے لئے دنیا کے مسلمہ ادبی تصورات کے ساتھ لغت الفاظ کو بھی بدلنا پڑے گا! کس طمطراق کے ساتھ فرماتے ہیں: ’’ سب سے بڑی کمی اس نظم میں یہ ہے کہ یہ یک قلم شاعری نہیں یہ شروع سے آخر تک خطیبانہ اندازمیں لکھی گئی ہے۔ اقبال کی اکثر نظموں میں یہ نقص پایا جاتا ہے لیکن قارئین کو اس کا احساس نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو اسے خوبی سمجھنے لگتے ہیں۔‘‘ (ص172) اس کے فوراً بعد موصوف کو احساس ہوتا ہے کہ شاید کوئی غلط بات ان کی زبان تنقید سے نکل گئی، لہٰذا گویا بدل انعلط کے طور پر صراحت کرتے ہیں: ’’ ایک لمبی اور پیچیدہ نظم خصوصاً ڈرامہ میں موقع و محل کے اعتبار سے خطیبانہ اسلوب اپنایا جاتا ہے۔۔۔۔‘‘ (ص173) اتنا کہہ کر اور شیکسپیئر کے The Merchant of Venice کا ایک اقتباس دے کر ناقد موصوف پھر چونکتے ہیں کہ اس طرح تو اقبال کے خطیبانہ اسلوب کا بھی جواز نکل آئے گا، اس لئے کہ ’’ طلوع اسلام‘‘ کا مطالعہ ایک لمبی نظم ہی کی حیثیت سے ہو رہا ہے، چنانچہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے اب دوسرا اور پہلے سے بھی بڑا، سفید و براق جھوٹ ملاحظہ ہو: ’’ لیکن طلوع اسلام نہ تو ڈرامہ ہے اور نہ کوئی لمبی پیچیدہ نظم ہے‘‘ (ص173) تو ہے کیا؟ آپ تو اس نظم کا مطالعہ ایک لمبی نظم ہی کے طور پر فرما رہے ہیں، زیر نظر باب کا عنوان ہے ’’ اقبال کی پانچ نظمیں‘‘ اور اس کا پہلا جملہ ہے: ’’ اس مقالے میں میں اقبال کی پانچ لمبی نظموں کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ (ص149) شاید ’’ طلوع اسلام‘‘ کے لمبی نظم نہ ہونے کا انکشاف تجزیے کے بعد ہوا ہو! طلوع اسلام کو یک قلم شاعری کے دائرے سے خارج کرنے کے لئے جو خاص حجتیں جناب ناقد نے دی ہیں ان میں ایک دعویٰ (اس لئے کہ موصوف کی حجت ہمیشہ دعویٰ ہوتی ہے، دلیل نہیں) یہ ہے کہ: ’’ اقبال کی نظمیں چند محدود خیالات کے گرد چکر لگاتی ہیں۔‘‘ اور دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ اقبال کا انداز خطیبانہ ہے جب کہ: ’’ شاعری کا لہجہ زیر لبی ہوتا ہے‘‘ یہ دونوں ہی دعوے غلط ہیں اور اقبال کی نظموں کے موضوعات محدود ہو سکتے ہیں بلکہ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ان کے پاس ایک ہی موضوع ہے مگر جہاں تک ان کے خیالات کا تعلق ہے ان کی وسعت میں دانتے سے گیٹے تک کی شاعری کے سارے خیالات سما سکتے ہیں: ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے اور: مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق یہ نہ تری شاعری ہے نہ تعلیٰ، بلکہ اقبال کے خیالات کے بحر ذخار کا اشاریہ ہے، اور ان خیالات کی وسعت و رفعت و عمق کی پیمائش ظاہر ہے کہ کسی کلیم الدین احمد کا چھوٹا سا دماغ نہیں کر سکتا، ایک محدود نظر اور قلیل المطالعہ شخص ایک وسیع النظر اور کثیر المطالعہ ذہن کا احاطہ تو کیا،ا ندازہ بھی کر ہی کیسے سکتا ہے؟ یوں چھوٹا منہ بڑی بات کا معاملہ دوسرا ہے۔ خطابت کو تو جناب کلیم الدین احمد خود ہی سند جواز دے چکے ہیں، گرچہ اس کے بعد بھی شاعری کا لہجہ زیر لبی بتاتے ہیں اور اس طرح اپنی تضاد بیانیوں میں ایک اضافہ کرتے ہیں، اور ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، اس لئے کہ ان کا پورا ذہن ہی متضاد اور بالکل الجھا ہوا Confused ہے۔ شاعری کے لہجے کا زیر لبی ہونا کیا کوئی تسلیم شدہ ادبی تصور اور شعریات کا قاعدہ کلیہ ہے یا ہمارے ناقد ایک ایجاد بندہ کر رہے ہیں؟ شاعری ہر قسم کی ہوتی ہے اور مختلف موضوعات و تجربات کے لحاظ سے اس کا لب و لہجہ بدلتا رہتا ہے، ورنہ بلند خیالات کا اظہار شاعری کے دائرے سے خارج ہو جائے گا۔ اسی طرح استعاروں کی بو قلمونی بجائے خود کوئی چیز نہیں، اصل چیز تخیل کی خصوصیت ہے، بعض تخیلات کے لئے استعارے کی بو قلمونی ہی درکار ہوتی ہے، ورنہ اس تخیل کے تمام پیچ و خم بروئے اظہار نہیں آ سکتے۔ اگر تجربہ پیچیدہ ہے جس کی تحسین ناقد موصوف نے کی ہے تو وہ کسی سادہ سے استعارے کے ذریعے کیسے بروئے اظہار آئے گا؟ اس کے موزوں، مکمل اور موثر اظہار کے لئے تو متنوع استعارات استعمال کرنے ہی ہونگے۔ لہٰذا اقبال کے مختلف استعاروں کو یک جا کر کے ہمارے ناقد جو تضاد تخیل کا اشارہ اپنے گمان میں کرنا چاہتے ہیں وہ صرف ان کے فہم کا فتور ہے ورنہ یہ تضاد نہیں تنوع ہے، پیچیدگی خیال ہے، جس کا اظہار رنگا رنگ استعاروں سے فطری و منطقی طور پر کیا گیا ہے۔ البتہ تضاد اور تنوع کا فرق سمجھنے کے لئے ایک مثبت فکر نیز ذوق لطیف کی ضرورت ہے، جب کہ ہمار مغربی نقاد ان دونوں ضروری اوصاف تنقید سے یکسر عاری ہیں۔ آئیے اب طلوع اسلام کا ایک معروضی مطالعہ کریں۔ سب سے پہلے تو یہ جان لینا ہے کہ موضوع طلوع اسلام کا ایک معنی اور محل وقوع ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں جب مغربی و مسیحی طاقتوں نے مل کر خلافت عثمانیہ اور سلطنت ترکی کو پاش پاش کر دینے کا منصوبہ بنایا تو عصر حاضر میں کفر و اسلام کا ایک زبردست معرکہ برپا ہوا۔ اس معرکے میں بڑی حد تک اور مجموعی طور پر فتح اسلام کی ہوئی۔ جدید تاریخ میں مغربی و مسیحی خاص کر برطانوی سامراج نے اپنی طاقت ور سازشوں سے عالم اسلام کو مسلسل شکست پر شکست دی تھی اور اس کے ایک بڑے حصے کو اپنی نو آبادی بنا کر اسلامی تہذیب کو پارہ پارہ کرنا شروع کر دیا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بیسویں صدی میں تیرہ سو سال کی شان دار تابانی کے بعد اسلام کا آفتاب غروب ہو جائے گا۔ لیکن یورپ کا مرد بیمار اتحادیوں سے تن تنہا اس طرح لڑا کہ صلیبی جنگوں میں فتح ایوبی کی یاد تازہ ہو گئی، حالانکہ اتحادیوں نے جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کا کچومر نکال دیا تھا، اور یہ صرف ایمان کی قوت اور خدا کی مشیت تھی کہ ترکی جیسا پسماندہ ملک یورپ کی بڑی طاقتوں اور نہایت ترقی یافتہ اقوام کے متحدہ محاذ کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور میدان جنگ میں ترک نوجوانوں نے یورپ کی بہترین فوج کے چھکے چھڑا دئیے۔ اس تاریخی جنگ کے انجام پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں، خاص کر ہندوستان کے مسلمان نہایت بے قراری سے دست بہ دعا تھے کہ عالم اسلام کا آخری چراغ نہ بجھے۔ اللہ نے دعا قبول کی اور ترک جیت گئے اس عظیم الشان واقعے نے پوری ہندوستانی قوم خاص کر ملت اسلامیہ کو مسرور شادمان کر دیا۔ غلام ہندوستان کی پہلی اور فیصلہ کن عوامی تحریک آزادی خلافت کی تحریک کی شکل میں اہل ملک اور اہل ملت کے دلوں کو گرما رہی تھی۔ اس تحریک کے اصولوں سے دلچسپی لینے والوںمیں قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ بین اللیت یا پین اسلامزم کے علمبردار بھی تھے اور وہ اسلام پسند بھی تھے جو اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر ایک آفاقی نشاۃ ثانیہ اور عالمی انقلاب کی تمنا کر رہے تھے۔ اقبال خاص کر اسی آخری حلقے کے سر خیل تھے اور ان کی پوری شاعری اسی تمنا کا اظہار تھی۔ چنانچہ اپنے مخصوص شاعرانہ و فلسفیانہ انداز میں اقبال نے اتحادیوں کے مقابلے میں ترکی کی فتح کو عصر حاضر میں طلوع اسلام قرار دیا اور اسی حیثیت سے نہایت ولولہ انگیز طور پر اس کا خیر مقدم کیا، اس کا جشن منایا اور اس کی شان میں نغمہ سرائی کی ایک زور دار نظم لکھی جو اپنی جگہ ہر جہت سے، فکر و فن کے تمام اصولوں کے لحاظ سے ایک عظیم کارنامہ شاعری ہے گرچہ یہ خود اقبال کی بہترین نظم نہیں ہے۔ موضوع کے لحاظ سے فطری طور پر نظم ایک نئی صبح کے خیر مقدم سے شروع ہوتی ہے: دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک یابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی یہ امروز و فردا کی صحرا نہیں ہے بلکہ وہ سحرا ہے جس سے ’’ شبستان وجود‘‘ لرزتا ہے اور جو بندہ مومن کی اذاں سے پیدا ہوتی ہے: عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی ان اشعار میں شرق سے طلوع آفتاب کے بعد پیدا ہونے والی گرمی اور بیداری کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ استعارات اور واقعات ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے ہیں اور اس طرح استعارہ مفہوم کو مخفی کرنے کی بجائے واضح کرتا ہے بلکہ خوف مفہوم کا جزو بن کر اس کے ساتھ ساتھ پھیلتا جاتا ہے۔ اس بیان میں تاریخ کے اشارات کو جس طرح علائم کے طور پر استعمال کیا گیا ہے وہ بھی لائق غور ہے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ طلوع اسلام کو اقبال نے عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا سے تعبیر کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان کو مسلمان کر دیا طوفان مغرب نے یعنی کفر و اسلام کا معرکہ تاریخی لحاظ سے مغرب و مشق کا مقابلہ بھی ہے اس نقطے کی خاص اہمیت یہ ہے کہ جب ترکوں نے اتحادیوں کو شکست دی تھی تو وہ موجودہ صدی اور عصر حاضر میں مشرق کی تہذیب کی حامل کسی قوم کی پہلی فتح تھی مغربی تہذیب کے سامراجی اور نو آبادیاتی لشکر پر یہی وجہ ہے کہ مومن کو اقبال نے ایک مرکب تہذیب کا علمبردار قرار دیا ہے جو شکوہ ترکمانی ذہن ہندی، نطق اعرابی کے متنوع عناصر پر مشتمل ہے۔ اب مشرق اور عالم اسلام میں پیدا ہونے والی اس بیداری کو بڑھانے کے لئے شاعر اپنے عزم کا اظہار اس شاعرانہ انداز سے کرتا ہے: اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل نوارا تلخ ترمی زن چوں ذوق نغمہ کم یابی تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں شاخ ساروں میں جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے دوسرے بند میں مختلف و متنوع حسین اور خیال انگیز استعاروں کے ذریعے ’’ طلوع اسلام‘‘ کی ابھرتی ہوئی کرنوں اور بیداری مسلم کی اٹھتی ہوئی لہروں کا ایک مرقع پیش کیا گیا ہے: سرشک چشم سلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کامل را صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہمسفر پیدا اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صدا ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ان میں ہر استعارہ اپنی جگہ تاریخ کا ایک اشارہ ہے اور واقعہ کو علامت بناتا ہے۔ اقبال کا یہی علامتی انداز بیان ہے جو زندگی کے ٹھوس حقائق کو لطیف شاعری میں تبدیل کر دیتا ہے اور حکمت و سحر کا ایک طلسم قائم کرتا ہے، لیکن اس کو سمجھ کر اس سے پورا پورا لطف لینے کے لئے ضروری ہے کہ موضوع اور اس کے مضمرات و تفصیلات سے کافی واقفیت اور فن شاعری کا پختہ شعور ہو۔ تب ہی فکری اختلاف کے باوجود اگر وہ کسی کو ہو، اقبال کے مخصوص خیالات بھی مطالعہ فن کی حد تک گوارا ہوں گے اور مواد و ہیئت کی باہمی کیمیا گری کا عمل بھی سمجھ میں آ جائے گا، استعاروں کے معانی اور علامتوں کے مضمرات، نیز تلمیحوں کے اشارات اور مصرعوں کے زمزموں سے لطف لینا ممکن ہو گا، اور اگر کسی کو ان اشعار پر تنقید کا حوصلہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ دماغ صاف، نظر وسیع، ذہن رسا اور ادراک تیز ہو، ورنہ سمندر کے ساحل پر سپیاں چننے اور ریت کے گھروندے بنانے یا چھینٹے اڑانے سے کیا ہو گا، سوا اس کے کہ: کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا؟ ہمت اور مہارت ہو تو سمندر کی تہوں میں غوطے لگائیے، موجوں سے الجھئے، دھاروں میں تیریے اور بالآخر موتیاں نکالیے! بہرحال! جب نقشہ احوال یہ ہے، جس کی تصویر کشی تہ بہ تہ استعاروں سے کی گئی ہے تو اب شاعر کا فرض یہ ہے: نوا پیر ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے کبوتر کے تن نازک میں شاہین کا جگر پیدا ٭٭٭ تیرے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے چنانچہ شاعر مومن کو مخاطب کر کے اس کی حقیقت اور کائنات میں اس کا منصب اسے یاد دلاتا ہے: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے مکاں فانی، کمیں آئی، ازل تیرا، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی جہاں کے ہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے یہ نکتہ سر گزشت ملت بیضا سے ہے پیدا کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے ان اشعار میں معراج نبویؐ، ختم نبوت، خلافت آدم، آخرت، حیات ابدی، تخلیق کائنات، امکانات انسانیت، ملت اسلامیہ کے آفاقی و تعمیری کردار، تاریخی کارنامے اور ایشیا کے لئے امت مسلمہ کی خدمت و اہمیت سبھی کے نہایت واضح، نہایت حسین اور نہایت فکر انگیز اشارات ہیں اور ایک شخص اگر اسلام اور مسلمان کی حقیقت ہی سے بیزار اور ہر قسم کے حیات بخش افکار کا منکر نہ ہو تو وہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پورے بند میں نظم کے مرکزی کردار مسلمان کی بہترین اور حسین ترین، انتہائی شاعرانہ اور انتہائی حکیمانہ مرقع نگاری کی گئی ہے۔ چنانچہ جو خیالات پورے بند میں ظاہر کئے گئے ان کا منطقی نتیجہ یہ مرتب ہوتا ہے: سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا یقینا بند کا یہ آخری شعر استعارے سے بالکل عاری اور صاف صاف خطیبانہ تلقین ہے۔ لیکن موضوع نظم کے لحاظ سے یہ بالکل فطری و ضروری ہے۔ ورنہ طلوع اسلام کا نہ مطلب واضح ہوتا، نہ اس کا مقصد پورا ہوتا، پھر ابھی نظم کو جاری رہنا ہے، اس لئے کہ موضوع کے کئی پہلو اور مرکزی تخیل کے کئی مضمرات ابھی بروئے اظہار آنے ہیں۔ چنانچہ تیسرے بند کا مذکور بالا آخری شعر جہاں گزشتہ اشعار کا خلاصہ پیش کرتا ہے وہیں آئندہ بند کے اشعار اور خیالات کا پیش خیمہ اور تمہید بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہ نظم کے حصوں کے درمیان ایک عضویاتی ربط و تسلسل ہے۔ جس کا لحاظ طبع شاعر کی تنقیدی حس نے اپنے آپ، ایک شدید اندرونی احساس کے تحت کیا ہے، جب کہ دل شاعر کی کیفیات سے بے خبر، موضوع نظم سے بیگانہ اور ذوق شاعری سے عاری ایک ناقد کو اپنے خود ساختہ ادبی تصورات اور تنقیدی مفروضات کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ چوتھا بند بیدار ہوتے ہوئے مسلمانوں کو دنیا کی امامت کی تیاری کے لئے صداقت، عدالت، شجاعت کے سبق خود ان کی شان دار تاریخ سے دیتا ہے: یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی میان شاخ ساراں صحبت مرغ چمن کب تک ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا؟ زور حیدرؓ، فقر بوذرؓ، صدق سلمانیؓ ان اشعار سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا طلوع اور ملت اسلامیہ کا نیا ابھار کسی فرقے کا احیا نہیں ہے بلکہ ایک آفاقی قوت، ایک کائناتی اصول اور گویا پوری انسانیت کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ ہمارے مغربی نقاد کو ان میں صرف ایک شعر پسند آیا۔ گماں آباد ہستی میں یقین مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی یقینا ایک بہت ہی خوبصورت اور خیال انگیز شعر ہے یہ اور ایک حسین اور معنی خیز استعارے میں ملفوف ہے۔ لیکن کیا ہمارے ناقد کو معلوم نہیں کہ یہ غزل کا شعر نہیں ہے کہ آپ سیاق و سباق کے دوسرے اشعار سے الگ کر کے بس اس ایک شعر کو پسند کر لیجئے یہ ایک نظم کے ایک بند کا شعر ہے اور اس کا حسن دوسرے اشعار کے درمیان ہی اجاگر ہوتا ہے۔ دنیا شکوک و شبہات، مفلوج کن الجھنوں اور گمراہ کن ظلمتوں کی جگہ ہے جب کہ راہ حیات میں قدم آگے بڑھانے اور منزل کا پتہ پانے کے لئے ایک نور یقین اور ایک شعاع ایمان کی ضرورت ہے اور یہ روشنی اسلام ہی سے مل سکتی ہے، نور الٰہی کے پرتو سے ہی زندگی کی راہیں روشن ہو سکتی ہیں۔ اسلام وسیع و عریض کائنات میں انسان کے لئے اسی طرح مینار ہدایت ہے جس طرح جنگل کی اندھیری رات میں کسی راہب کی کٹیا میں جلتا ہوا چراغ اسلام کا یہ رہنما کردار ایک بار پھر دور حاضر کی اس دنیا میں ابھر رہا ہے۔ جو طبقہ پرستی، فرقہ پرستی، علاقہ پرستی، زر پرستی، جاہ و اقدار پرستی، نسل و قوم پرستی اور سب سے بڑھ کر انسان پرستی کی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے، مغربی فلسفوں کی خیط مادہ پرستی نے فکر و خیال کی جو ظلمت اور فعل و عمل کی جو وحشت عالم انسانیت پر طاری کر دی ہے اس کو دور کرنے کا صرف ایک راستہ آج کی دنیا کے پاس ہے اور وہ اسلام کا تصور توحید اپنے پورے نظریہ حیات اور نظام زندگی کے ساتھ ہے، اسلام نے جس طرح قدیم جاہلیت کی لعنت کو دور کیا تھا اسی طرح وہ جدید جاہلیت کی لعنت سے بھی نجات دلا سکتا ہے۔ اسی لئے بند کے شروع میں شاعر نے کہا: یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی اور اب دین فطرت کی اسی رمز کو بیابان کی شب تاریک میں قندیل رہبانی قرار دیا گیا ہے۔ مادہ پرستی کی تفرقہ پردازیاں، بیاباں کی شب تاریک ہیں اس لئے کہ مغربی فلسفہ حیات نے نئی دنیا کو تشکیک کا تحفہ دیا ہے جو آدمی کو انسانیت کی تمام قدروں اور خود اپنے وجود پر شک میں مبتلا کرتا ہے اور یہ شک آدمی اور آدمی کے درماین ایک مصنوعی تفریق کر کے طرح طرح کی دیواریں کھڑی کر دیتا ہے اور باہمی ہمدردی اور تعاون کی بجائے بے دردی اور تنازعہ کو بقا و ارتقاء کا اصول قرار دیتا ہے، نفسیاتی الجھنوں کو جبلت اور معاشیاتی جدلیات کو تاریخ بتاتا ہے اور انسان کو بالکل حیوان کی سطح پر لے آتا ہے۔ اسی اصول، جبلت اور تاریخ کی روشنی میں یورپ کی قوموں نے نسلی وطنیت کو فروغ دیا، نو آبادیاتی اور سامراجی اقدامات عالمی سطح پر کئے، یہاں تک کہ ان کی قوم پرستی اور زر پرستی نے بالآخر اقتدار کی پہلی عالمی جنگ، جنگ عظیم اول برپا کی اور اس کے تباہ کن اثرات نے انسانیت کو پارہ پارہ کرنے کے ساتھ ساتھ مشرق کی غلامی پر گویا مہر تصدیق ثبت کی نیز ملت اسلامیہ کو فنا کرنے کی سازش کی۔ ’’ طلوع اسلام‘‘ ہی اس سازش اس تفریق، تباہی، حریت کش فتنہ اور جنگ بازی کا توڑ، جواب اور بہتر متبادل ہے۔ اب ایک ایسی ہی صبح طلوع ہو رہی ہے جس کا انتظار انسانیت کو ماضی قریب کی دو تین صدیوں سے تھا: ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کی زندانی ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا اس کے بعد پانچویں بند نے ایمان و یقین کی فتوحات کے ساتھ ساتھ ان کی راہ میں حائل فتنوں سے بھی خبردار کیا ہے اور جہاں توحید کی آفاق گیر وحدت پر روشنی ڈالی ہے وہیں توحید کی فطری مساوات سے متصادم ہونے والوں کو تنبیہہ بھی کی ہے: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نقطہ ایماں کی تفسیریں براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں چہ باید مرد راطبع بلندے مشربے نابے دل گرمے، نگاہ پاک بینے، جان بیتابے اس بند کی آفاقیت دنیا کے سارے انسان پرستوں کو شرمانے کے لئے کافی ہے، لیکن یہ کوئی ہوائی اور خیالی آفاقیت اور مبہم قسم کی صوفیانہ انسان دوستی نہیں ہے، یہ توحید اسلامی کے ٹھوس، متعین اور مفصل تصور پر مبنی ہے اور اس کے پیچھے ایک مثالی معاشرہ ہے۔ اس اعلیٰ انسان دوستی ہی سے ہمہ گیر امن پسندی اور محبت کے فاتح عالم ہونے کا پہلو بھی پیدا ہوتا ہے حسب معمول بند کا ہر شعر مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہے جس ذوق یقین کی بات پہلے شعر میں تھی اسی کا ذکر یقین محکم کے طور پر آخر میں ہے اور پہلے مصرع کے پہلے حصے میں جو غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں کا ملتدا تھا اسی کی خبر آخری شعر کے آخری مصرعے میں اس طرح ہے: ’’جہاد زندگانی میں ہیں بہ مردوں کی شمشیریں‘‘ اب اگر کوئی اس خوب صورت بند سے صرف ایک خوبصورت شعر: حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذر بے کا دل چیریں نکال کر کہے کہ بس شعر ہے تو یہ ہے باقی صرف وعظ ہے تو اس شخص کے ذوق اور فہم پر ماتم کرنے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے؟ اس شخص کو تو اتنی تمیز بھی نہیں کہ اس شعر سے پہلے کہ شعر: تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے عذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کے تعزیریں سے الگ ہو کر اس کے مزعومہ واحد خوب صورت شعر کا کوئی معنی و مطلب ہی نہیں رہ جاتا اور اس کا سارا حسن غارت ہو جاتا ہے، اس لئے کہ جو خیال قبل کے شعر میں پیش کیا گیا ہے اس کی تمثیل و تشبیہہ بعد کے شعر میں ہے! جو لوگ نظم کے حسن صوت کے متلاشی ہیں انہیں منفرد اشعار کے حسن پر زور دے کر خود اپنے ادبی تخیل کی رسوائی کا سامان نہیں کرنا چاہئے۔ نظم خیالات کے ارتقاء کا نام ہے اور خیالات کوئی ضرور نہیں کہ صرف استعاروں اور کنایوں میں ظاہر کئے جائیں اور ہر شعر میں استعارہ ہی خیال کا ابلاغ کرے، اس لئے کہ نظم کی ہیئت میں مجموعی اور کلی اثر کی اہمیت ہوتی ہے چنانچہ مختلف اشعار کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے دیکھنا تنقید نظم کا صحیح طریقہ نہیں۔ پانچ بندوں میں طلوع اسلام کا پورا پس منظر اور اس کے محرکات و مضمرات نیز اصول و اثرات بیان کرنے کے بعد چھٹے بند میں بے مثال شاعرانہ انداز سے ترکوں کی فتح کے اس خاص واقعے کی تصویر کشی کی گئی ہے جس پر نظم کا بنیادی تخیل مبنی ہے: عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے ستارے شام کے خوان شفق میں ڈوب کر نکلے ہوتے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے طمانچے موج کے کھاتے تھے، جو بن کر گہر نکلے غبار رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا خبر دیتی تھی جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے زمیں سے نوریان آسمان پرواز کہتے تھے یہ خاکی زندگہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے جہاں میں اہل ایمان صوت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے علامتی شاعری کی یہ بہترین مثال ہے اور مسائل حاضرہ پر اس سے بہتر شاعری دنیا کے کسی شاعر نے کی ہو تو اس کا نام لیا جائے اور نمونہ کلام پیش کیا جائے۔ کلام اقبال کی یہ اشاریت اتنی دبیز نفیس اور لطیف ہے کہ اس کی تصویروں میں تاریخ و سیاست کے واقعات ہی استعارات بن گئے ہیں یہاں تک کہ تازہ ترین سائنسی ایجادات اور صنعتی آلات نے پر خیال اشارات کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عقابی شان جنگ عظیم میں جرمنی کے نشان عقاب کی علامت ہے اور خون شفق جنگ کی زبردست خون ریزی کا اشارہ ہے۔ مدفون دریا آب دوزوں میں زیر دریا تیرنے والے ہوتے بحری طاقت رکھنے والی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ماہر، ترقی یافتہ یورپی قوم تباہ ہو گئی، مگر کمزور و پسماندہ موجوں کے طمانچے کھا کھا کر ہی گہر بن کر نکلے۔ جرمنی کیمسٹری میں اپنی تمام ترقیات و کمالات کے باوجود جنگ عظیم کے نتیجے میں غبارہ رہ گذر بن گیا جب کہ جبیں خاک پر رکھنے والے سجدہ گزار ترک عملاً اکسیر گو نکلے علم کیمیا کے وسائل تو جرمنی نے استعمال کئے مگر اس کا مقصد صرف ترکی کو حاصل ہوا، جرمنی کا مادی ترقی پر ناز خاک میں مل گیا اور ترکی کا روحانی نیاز اس کے کام آیا۔ جنگ عظیم اول میں ترکی و جرمنی حلیف تھے، لیکن شکست نے جرمنی کا پرچم تو سرنگوں کر دیا، جب کہ ترکی کا پرچم بہرحال بلند رہا، یہاں تک کہ جب اتحادیوں نے اپنے جدید ترین اسلحوں اور مضبوط ترین حربوں سے ترکی پر یلغار کر دی تب بھی یورپ کا مرد بیمار فنا نہیں ہوا بلکہ مرد خدا بن کر اس نے حریفوں کے دانت کھٹے کر دئیے چنانچہ برقی وسائل سے کام لینے والے غفلت میں پڑے رہے۔ جرمن اتحادیوں کے مقابلے میں اور اتحادی بھی ترکوں کے مقابلے میں بے خبر نکلے حالانکہ ان کا نظام خبر رسانی برق رو تھا، لیکن ایک پسماندہ مسلم ملک کا نرم رو قاصد اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود فتح و نصرت کا پیام زندگی لایا۔ اس معرکے میں عرب کے پیر حرم کی قوم پرستی اور ترک دشمنی کم نگاہی اور بے بصری ثابت ہوئی، جب کہ جوانان تتاری Young turks نے تدبر اور فراست ایمانی کا ثبوت دیا۔ ظاہری و مادی اسباب اور تاریخی عوامل کے پیش نظر یہ وقت کا اتنا عظیم الشان واقعہ ہے کہ آسمان پرواز فرشتے بھی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے اور انہوں نے زمین کو اپنا خراج عقیدت پیش کیا: یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے یہ در حقیقت اس خاکساری و نیاز مندی ہی کا کمال تھا جو جنین خاک پر رکھنے والوں کا طرۂ امتیاز تھا۔ یہ عبودیت کا ایک کرشمہ اور ایمان کا ایک کارنامہ تھا اس لئے کہ: جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے جس طرح اسلام لازوال ہے اسی طرح ملت اسلامیہ لافانی ہے، دونوں میں ایک قانون قدرت ہے اور دوسرا مظہر فطرت، جیسے آفتاب عالم تاب، جو ہمیشہ ہی چمکتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا غروب بھی طلوع ہی کی ایک شکل ہے، ایک افق پر ڈوبتا ہے تو دوسرے پر نکلتا ہے: طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب بگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں (مدنیت اسلام ضرب کلیم) لہٰذا بند ٹیپ کے اس شعر پر ایک منطقی نتیجے کے طور پر ختم ہوتا ہے: یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گو تقدیر ملت ہے اس نظم میں خاص کر یقین و ایمان کی تکرار متنوع انداز میں اس لئے کی گئی ہے کہ مادہ پرست اتحادیوں کے مقابلے میں جرمنی جیسی طاقت کی شکست کے باوجود خدا پرست ترکی کی فتح صرف اس کے جوانوں کی جرأت ایمانی کی بدولت ہوئی، حالانکہ اسباب و وسائل کے لحاظ سے وہ بالکل بے سر و سامان تھے۔ چنانچہ اس فتح کے نتیجے میں طلوع اسلام گویا عصر حاضر میں طلوع روحانیت بمقابلہ مادیت ہے، اور یہ در حقیقت آدمیت اور انسانیت کا طلوع بمقابلہ وحشت و حیوانیت ہے۔ اسی لئے اس شعر میں جوانان تتاری کو آدم خاکی کے مترادف قرار دیا گیا ہے، جب کہ اس میں عبودیت اور خاکساری کا ایک پہلو بھی مضمر ہے: زمین سے نوریان آسماں پرواز کہتے ہیں یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے واقعہ یہ ہے کہ اقبال کی عظیم شاعری کا یہ اعلیٰ نمونہ معانی و مطلب کی تہوں اور رشتوں کا ایک طلسم انگیز اور خیال آفریں مرکب ہے حالانکہ موضوع بظاہر وقتی Topical قسم کا ہے، لیکن یہ شاعر کا فنی برتاؤ اور اس کی فکری گہرائی ہے جو تخلیق کو لافانی بنا دیتی ہے چنانچہ ان واقعات کے گزر جانے کے بعد بھی جن سے تخلیق کا تارو پود تیار ہوا تھا شاعری کے فکر و فنی اثرات اپنی جگہ قائم ہیں۔ فن کی اس کیمیا گری میں اقبال کا کوئی جواب دنیا کی کسی زباں کی قدیم یا جدید شاعری میں نہیں ہے۔ چھ بندوں میں طلوع اسلام کے تاریخی واقعے کی ولولہ انگیز تصویر کشی کے بعد اقبال توقع اور تمنا کرتے ہیں کہ روحانیت، انسانیت اور اسلامیت کا جو آفتاب ترکی کے افق سے طلوع ہوا ہے وہ اب پوری جدید دنیا کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے آسمان وقت پر اپنا نور آفریں سفر جاری رکھے گا۔ لہٰذا وہ مرد مسلمان کو تلقین کرتے ہیں: تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی، وہ خراسانی، وہ افغانی، وہ تورانی تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا مضاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر شبستان محبت میں حریرو پرنیاں ہو جا گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا انسانی اخوت و محبت، خود شناسی اور حقیقت پسندانہ توازن کا یہ پیغام مرد مومن کے لئے اس لئے ہے کہ وہ انسانیت کا سب سے مکمل نمونہ ہے اور فطرت یا قدرت الٰہی کی بہترین تخلیق ہے: ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی مرد مومن علم اشیاء اور حب خالق و مخلوق کا جامع ہے، وہ کائنات کی حقیقتوں اور فطرت کے اصولوں کا علم حاصل کر کے اس سے ملنے والی قوتوں کا استعمال خدمت خلق اور تزئین انسانیت کے لئے کرتا ہے، نہ کہ عیاشی، خود غرضی اور اقتدار پرستی کے لئے، جیسا کہ مغربی اقوام کر رہی ہیں مومن کے لئے علم و محبت دو الگ الگ چیزیں نہیں، حکمت اور انسانیت اس کے نزدیک ایک ہی حقیقت کے دو رخ ہیں اور دونوں کا سرچشمہ ایک ہے، یعنی ذات الٰہی، جو تعلیم اسماء اور حب خلق دونوں کا مرکز ہے۔ اسی طرح علم ومحبت کا مقصود بھی مومن کے لئے ایک ہی ہے، یعنی رضائے الٰہی کا حصول علم و محبت کی اس جامعیت، سالمیت اور وحدت کو ہمارے عظیم شاعر نے ایک نغمے سے تشبیہہ دی ہے، جس میں سبھی سر ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، اور اس نغمہ انسانیت کو وہ ایک کائناتی موسیقی اور فطرت کا سب سے شیریں نغمہ قرار دیتا ہیں: نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی لیکن اپنے آفاقی مشن پر آگے بڑھنے سے پہلے مرد مومن کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس دنیا کی صورت حال، ترقی کے تمام دعوؤں کے باوجود کیا ہے جس کی اصلاح نئی تعمیر اور انقلاب کے لئے اسے کام کرنا ہے۔ آٹھواں بند اسی صورت حال کا عبرت انگیز نقشہ اس طرح کھینچتا ہے: ابھی تک آدمی صید زبوں شہر یاری ہے یقمات ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے یہ عصر حاضر میں مغربی فکر و عمل اور فلسفہ و سیاست کی خامیوں اور بتاہیوں کی انتہائی پر اثر تصویر کشی ہے۔ جس سے آج کے پر فریب مادہ پرست تمدن کا پردہ بالکل چاک ہو جاتا ہے۔ یورپ کے افکار کا سارا طلسم عمل کی دنیا میں آ کر بکھر چکا ہے اور تہذیب و ترقی کے سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہو چکے ہیں۔ جب کہ عمل ہی معیار ہے کسی فکر کے حسن و قبح کو پرکھنے کا اور آدمی جو کچھ ہے اپنے عمل ہی کی بدولت ہے۔ چنانچہ مذکورہ بالا اشعار کے تسلسل میں یہ مشہور زمانہ شعر آتا ہے: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے یہ شعر جہاں اہل مغرب کی بد عملی پر ایک سرزنش ہے وہیں اہل مشرق کی بے عملی پر ایک تنبیہہ بھی بہرحال، آج کی دنیا کے معاملات میں جو گرہ پڑ چکی ہے وہ کیسے کھلے؟ جدید تمدن کی گتھی کون سلجھائے؟ ایک محیط خزاں کو موسم بہار میں کیسے تبدیل کیا جائے؟ ان سوالوں کا جواب ایک ہی ہے مرد مومن اپنا تاریخی رول ادا کرے: خروش آموز بلبل ہو، گرہ غنچے کی وا کر دے کہ تو اس گلستان کے واسطے باد بہاری ہے آج کی جنگ باز دنیا میں یہ نوائے بہار نوائے امن و محبت ہی ہو سکتی ہے، اور اس کا خطہ ایشیا ہے، جہاں سے شعلہ محبت بار بار اٹھ کر ہر زمانے میں جنگ و فساد کے خس و خاشاک کو خاکستر اور ماحول انسانیت کو منور کرتا رہا ہے۔ ایسی ہی ایک چنگاری محبت کی وہ ہے جو ایشیائی تہذیب کے علمبردار ترکی کے قلب سے اٹھی ہے اور اندھیروں میں گھری ہوئی زمین اس کی روشنی سے چمک اٹھی ہے: پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی زمین جو لانگہ اطلس قبایان تتاری ہے یقینا یہ مشرق کے لئے ایک نوید جاں فزا ہے اور دنیا کا جو یوسف بے کارواں ایک عرصے سے چاہ وقت میں پڑا ہوا ہے اس کے لئے نئی زندگی کی خوشخبری ہے: بیا پیدا خریدار است جان نا توا نے را پس از مدت گزرا افتا برما کاروانے را اس شعر میں جو تلمیح ہے وہ ایک پوری داستان کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ایک جہان معنی کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہ داستان وہ ہے جسے قرآن کریم نے احسن القصص کہا ہے۔ حضرت یوسفؑ کو ان کے بھائیوں نے ان کی خوبیوں اور محبوبیت سے جل کر چاہ کنعاں میں ڈال دیا، لیکن بالآخر ایک کارواں نے ان کو نکال کر کنویں سے بازار مصر میں بیچ دیا۔ مصر میں بھی وہاں کی زلیخا نے، جو صاحب اقتدار تھی، ان پر تہمت لگا کر انہیں قید خانے میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس وقت حقیقت کا راز فاش ہو گیا جب ملک اپنی تاریخ کی شدید ترین مصیبت میں پڑ گیا۔ اس مصیبت سے نکلنے کا نسخہ صرف یوسف کنعاںؑ کے پاس تھا۔ جب دنیا کو یہ معلوم ہوا تو اس نے اقتدار و انتظام سلطنت کی کنجیاں حضرت یوسفؑ کے حوالے کر دیں۔ یہ باطل کی جگہ حق کا تمکن فی الارض تھا، جس نے سر زمین مصر کے باشندوں کی نجات کا سامان کیا۔ یہی حال عصر حاضر میں محبوب خدا کی امت کا ہے، جس کی بدخواہی میں برادران یوسف یعنی انسانی برادری کے غیر اسلامی اور مسلم دشمن ارکان نے مل کر اسے آفات کے گہرے کنوئیں میں بھی ڈالا اور بازار عالم میں کوڑیوں کے مول فروخت بھی کر دیا اور اپنے اقتدار کے بل پر تہمت لگا کر زندان وقت میں بھی ڈال دیا۔ مگر اب کہ عالم انسانیت تاریخ کے شدید ترین بحران سے دو چار ہے اور اصحاب اقتدار خواب پریشاں میں مبتلا ہیں۔ یوسف اسلام اور اس کے شعور و کردار کی دنیا کو پھر ضرورت ہے۔ چنانچہ یوسف وقت کے دوبارہ عروج کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا ہے اور کاروان انسانیت نے اسے دریافت کر لیا ہے: ’’ آؤ کہ جان ناتواں کے خریدار نمودار ہو رہے ہیں‘‘ اور ایک مدت کے بعد کئی قافلہ ہماری طرف سے گزر رہا ہے۔ اس شاعرانہ بیان میں حسن تعبیر یہ ہے کہ ابھی یوسف وقت چاہ آفات سے برآمد نہیں ہوا ہے لیکن اس کے برآمد ہونے کا وقت آ گیا ہے، اس لئے کہ کاروان انسانیت کا رخ اس طرف ہو گیا ہے اور دنیا اس یوسف گم گشتہ کی بازیابی کی طرف مائل ہو گئی ہے۔ یہ بیان ایک لمحہ تاریخ کی ٹھیک ٹھیک تعین بھی ہے اور مستقبل کا واضح اشارہ بھی۔ تلمیح کا اتنا موثر استعمال کوئی اقبال ہی کر سکتا ہے جو فکر و فن دونوں کے ہمالہ کی چوٹی پر پہنچ چکا ہے۔ نواں اور آخری بند یوسف جہاں کی دریافت پر دیدۂ یعقوبؑ کا جشن مسرت ہے بوتے پیرہن آیا چاہتی ہے اور بے نور آنکھیں روشن ہونے والی ہیں، پیر کنعاں کا روز سیاہ ختم ہو رہا ہے: بیاساقی نواے مرغ نار از شاخسار آمد بہار آمد، نگار آمد، نگار آمد، قرار آمد کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا صدائے آبشاراں از فراز کوہسار آمد سرت گردم تو ہم قانون پیشیں سازد ساقی کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد کنا راز زاہداں بر گیروے باکانہ ساغر کش پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد بہ مشتاقان حدیث خواجہ بدر و حنین آور تصرف ہائے پنہانش بچشم آشکار آمد وگر شاخ خلیل از خون سانمناک کی گردد ببا زار محبت نقد ما کامل عیار آمد سر خاک شہیدے برگہاے لالہ می پاشم کہ خونش بانہال ملت ما ساز گار آمد بیاتا گل بیفشانیم ومے ور ساغر اندازیم فلک راسقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم اس حسین پر معنی اور وجد آور بند سے وہی لطف لے سکتا ہے جو فارسی زبان و ادب سے واقف ہے، شاعری کا ادا شناس اور تاریخی استعاروں کا فہم رکھتا ہو۔ آٹھ آٹھ اشعار پر مشتمل نو بندوں کی یہ نظم شاعری اور فن کاری کا مہتمم بالشان کارنامہ ہے، اتنے بڑے پیمانے پر اتنے پھیلے ہوئے مواد کو سمیٹ کر ایک منظم ہیئت میں مرتب کرنا اور شروع سے آخر تک بنیادی تخیل کو مسلسل ترقی دینا نہ صرف ایک انتہائی غیر معمولی ذہنی استعداد کا ثبوت ہے بلکہ زبردست جذبہ قلبی کا نشان ہے۔ اس میں فکر کی وسعت اور فن کی بلوغت اپنے عروج پر ہے۔ یقینا یہ ایک الہامی کیفیت کا کرشمہ ہے۔ بلا شبہہ اس نظم کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک شخص دور حاضر میں اسلامی نشاۃ ثانیہ سے دلچسپی، واقفیت اور ہمدردی رکھتا ہو، اس لئے کہ نظم کا موضوع و مواد طلوع اسلام سے ہے۔ چنانچہ نظم کی معروضی تنقید اسے اس طرح سمجھ کر ہی ممکن ہے، اور میں نے نظم کا جو تجزیہ کیا ہے وہ میری اسی سمجھ کے سبب ممکن ہوا، جب کہ جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کے تعصب Bias کو سمجھنے کی بجائے صرف اپنے تعصب سے کام لیا اور اس طرح معروضی تنقید کے بنیادی اصول کو نظر انداز کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا تجزیہ صرف خامی، اور بد ذوقی کا ایک تماشا بن کر رہ گیا۔ کمزوری و طلوع اسلام میں نہیں، اس ذہن میں ہے جو صرف غرب کا پرستار ہو۔ 4 خضر راہ پر تنقید میں بھی جناب کلیم الدین احمد نے اپنے ذہنی افلاس، تضاد اور الجھن کا اسی طرح اظہار کیا ہے جس طرح دوسری نظموں کے سلسلے میں اور بالکل وہی فرسودہ اور ہوائی باتیں کہی ہیں جو وہ بار بار ہز ماسٹرس وائس گراموفون کے مانند کہتے رہے ہیں۔ ’’ یہ چار حصے اپنے اپنے طور پر مکمل ہیں اور ایک دوسرے سے بے نیاز ہیں کسی قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ صرف بدنما داغ ہی نہیں بلکہ یہ حقیقت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ خضر راہ نظم نہیں کیونکہ اس کے مختلف حصوں میں ربط کامل تو بڑی چیز ہے سرے سے کوئی ربط ہی نہیں۔‘‘ یہ بیان نہ صرف ادب کے نام پر ایک برس کا داغ ہے بلکہ اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ اقبال۔۔۔۔۔ ایک مطالعہ تنقید کی کتاب نہیں، تنقیص کا مسخرہ پن ہے اور مصنف کتاب ادب، شاعری اور تنقید کے تمام اصولوں سے بیگانہ ہیں۔ ’’ یہاں باتیں ہیں، شاید کام کی باتیں ہیں لیکن ان میں شعریت نہیں یہ نثر میں زیادہ وضاحت، زیادہ تعین، زیادہ زور کے ساتھ کہی جا سکتی ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے اقبال اپنے نثری خیالات کو وزن جامہ پہناتے ہیں۔‘‘ (ص155) آپ نے جو کچھ کہا ہے غلط کہا ہے اور آپ کی یہ سب باتیں بے کار ہیں، ان میں واقعیت اور حقیقت نہیں ہے۔ آپ اپنے ذاتی خیالات کو بہت ہی ناموزوں طور پر تنقید کا جامہ پہناتے ہیں مگر وہ بالکل بے وزن، سراسر لغو اور عبث ہیں۔ چنانچہ آپ کے یہ نادر خیالات آپ ہی پر چسپاں ہوتے ہیں: ’’ اگر ہم خوبیوں کی نشان دہی کریں اور خامیوں سے چشم پوشی کر لیں تو یہ بد دیانتی ہو گی یا اگر ہم خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کر لیں تو یہ بھی بد دیانتی ہو گی، اور اگر خوبیوں اور خامیوں میں فرق نہ کر سکیں، اگر ہمیں اچھے برے کی تمیز نہیں ہے تو تنقید لکھنا یا لکھانا جرم ہے۔‘‘ (ص156) آپ خوبیوں اور خامیوں میں فرق نہیں کر سکتے ہیں، آپ کو اچھے برے کی تمیز قطعاً نہیں ہے لہٰذا آپ تنقید لکھ کر ایک سنگین ادبی جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں، اور آپ نے اس سلسلے میں ایک زبردست اخلاقی جرم کا بھی صریحاً ارتکاب کیا ہے، یعنی آپ نے فریب دہی Cheating کی کوشش کی ہے اور آپ کی مذکورہ بالا عبارت ایک کھلا دھوکہ Fraud ہے۔ آپ خامیوں سے چشم پوشی کی بات کرتے ہیں اور خامیوں کو ہی خوبیاں بنا کر پیش کرنے کی بات بھی کرتے ہیں اور دونوں صورتوں کو ’’ بد دیانتی‘‘ کہتے ہیں، مگر متبادل کے طور پر نہ تو خوبیوں سے چشم پوشی کا ذکر کرتے ہیں اور نہ خوبیوں کو خامیوں بنا کر پیش کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں، اور اس طرح معاملے کا صرف ایک رخ قارئین کے سامنے رکھتے ہیں اور اسی یک طرفہ بحث پر ایک فیصلہ بھی کر دیتے ہیں، جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ دوسروں کی مزعومہ خامیاں تو لوگوں کے سامنے آئیں لیکن آپ کی خامیاں کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ بھی نہ ہو سکے۔ اس سے بڑھ کر بددیانتی کیا ہو گی؟ اور اس بد دیانتی کا ارتکاب آپ بالقصد کر رہے ہیں، آپ کے دل میں چور ہے اور آپ کا ضمیر مجرم ہے۔ اسی لئے آپ نثر میں بھی منطقی طور پر اپنے بیان کے مقدمات ترتیب نہیں دے سکتے اور آپ کی عبارت بے ربط و تسلسل ہوتی ہے، لیکن اس خبط ربط کے باوجود آپ بڑے ادعا کے ساتھ اپنا من مانا نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بڑا تیر مارا، حالانکہ اس قسم کی کھینچ تان سے آپ صرف اپنے شعور اور کردار کی رسوائی کا سامان کرتے ہیں۔ آپ ’’ خضر راہ‘‘ کے بارے میں بڑے اطمینان سے فرماتے ہیںـ: ’’ میں نے جو اس نظم کا تجزیہ کیا ہے اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ ’’خضر راہ‘‘ میں حسن صورت کی کمی ہے، یعنی اس کا فورم ناقص ہے اگر اس نظم کا فورم ناقص نہ ہوتا تو پھر ربط و تسلسل کی کمی نہ ہوتی، اور جہاں ربط و تسلسل ہے وہ مصنوعی ہے۔‘‘ (ص158) آپ کے اس تجزیے میں ظاہر ہے کہ حسن سیرت کی بھی کمی ہے، اس لئے کہ یہ ایک ناقص فہم پر مبنی ہے۔ اگر فہم ناقص نہ ہوتا تو ربط و تسلسل کی کمی کا اعلان ایک سانس میں کر کے دوسرے ہی سانس میں جہاں ربط و تسلسل ہے اس کے مصنوعی ہونے کا اعلان نہیں کیا جاتا، اس لئے کہ کیا مصنوعی ہے اور کیا فطری اس کی تمیز کے سلسلے میں تمام باخبر لوگ آپ کے تخیل سے زیادہ اقبال کے تصور پر اعتماد کریں گے۔ اقبال شاعر ہیں، ایک عظیم شاعر، اور آپ محض ’’ نقاد‘‘ ہیں، ایک معمولی نقاد آپ کے معمولی کم فہم اور کج فہم ’’ نقاد‘‘ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے ’’ خضر راہ‘‘ کے پورے منصوبے اور نظام سے منہ موڑ کر نظم کے صرف تین بند الگ کر لئے ہیں اور دوسرے بند سے بھی چار اشعار نکال لئے ہیں، اور اس قیمے کو ایک جگہ رکھ کر فرماتے ہیں: ’’ یہ نظم Perfect ہوتی، کمی صرف یہ ہے کہ اس کا وسط کا حصہ قدرے مختصر ہے۔‘‘ (ص161) کیا اس طفلانہ خوش فعلی کو Perfect تنقید کہا جا سکتا ہے، جس کی خامی محض اختصار نہیں، مخبوط الحواسی اور فتور عقل ہے؟ جناب کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ جناب کی سمجھ میں یہ سامنے کی بات بھی نہیں آئی کہ نظم کا عنوان ’’ خواجہ خضر‘‘ نہیں، ’’ خضر راہ‘‘ ہے یعنی اقبال خواجہ خضر کے اساطیری کردار کو ایک خضر راہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور ان سے مسائل حاضرہ پر ہدایت چاہتے ہیں، اس لئے کہ وہ صاحب معرفت کی حیثیت سے معروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی مناظر کی تصویر کشی محض تمہیداً کر کے سب سے پہلے خواجہ خضر کے نمودار ہونے کے لئے تمثیلی طور پر ایک مناسب حال پس منظر تیار کیا گیا ہے، اس کے بعد ان سے عصر حاضر کے اہم ترین اور مشکل ترین امور پر سوالات کئے گئے ہیں، جن کے جوابات ایک ایک کر کے خواجہ خضر ’’ خضر راہ‘‘ کے طور پر دیتے ہیں، مگر ہمارے مدعی انتقاد سوالات اور جوابات کو حذف کر کے صرف مناظر قدرت والے حصے کو Perfect نظم بنانے کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ کند ذہنی ہے بد مذاقی ہے یا محض ایک بھونڈا مذاق؟ بہر حال، سنجیدہ تنقید نہیں ہے۔ اس طرح کی شوشہ بازی نیاز فتح پوری مرحوم تنقید کے نام پر کیا کرتے تھے اور شعراء کے کلام پر ایسی ہی الٹی سیدھی اصلاحیں دیا کرتے تھے۔ لیکن جن شعراء کے کلام پر وہ اصلاح فرمایا کرتے تھے وہ تو آج بھی شاعر کی حیثیت سے پڑھے جاتے ہیں، جب کہ نیاز فتح پوری کو نقاد کی حیثیت سے جاننے والے اب بہت کم رہ گئے ہیں، حالانکہ ان کی وفات کو ابھی چند ہی سال ہوئے ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد کی نیاز فتح پوریت کا حشر کیا ہو گا؟ مجھے یقین ہے کہ اگر در سیات سے ان کی کتابیں نکال دی جائیں تو زیادہ سے زیادہ دس سال کے اندر وہ آثار قدیمہ بن کر ادب کے عجائب خانے میں اپنی صحیح جگہ پہنچ جائیں گی! خضر راہ پر بحیثیت نظم ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو جائے گا کہ اس کے خلاف ہمارے مغربی نقاد کی جملہ بازیوں کی حقیقت کیا ہے۔ پہلے بند میں خضر کی روائتی شخصیت کے لحاظ سے دریا کا ایک حسین ترین منظر ہے راست کے وقت سطح آب تصویر آب کی طرح ساکت ہے۔ اس سناٹے میں ’’ پیک جہاں پما خضر‘‘ نمودار ہوتے ہیں، جو سحر کی طرح قدیم ہونے کے باوجود ہمیشہ تروتازہ رہتے ہیں۔ وہ شاعر کے دل کی کیفیت بھانپ کر اس سے خطاب کرتے ہیں۔ کہہ رہا ہے مجھ سے اسے جویائے اسرار ازل چشم دل واہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب اس خطاب نے شاعر کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا اور اس کے دل میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا: دل میں یہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا دوسرے بند میں شاعر خضر کی چند تلمیحات سے مختصر لیکن نہایت موثر کردار نگاری کر کے ان سے چند سوالات کرتا ہے، جن کے موضوعات یہ ہیں: صحرا نوردی زندگی سلطنت سرمایہ و محنت دنیائے اسلام ان میں سے ہر عنوان پر خضر نے الگ الگ اظہار خیال کیا ہے اور موضوع کی مناسبت سے گہرے حقائق کا انکشاف کیا ہے۔ اس نظم میں بھی طلوع اسلام کی طرح آٹھ آٹھ اشعار کے بند ہیں صحرا نوردی پر صرف ایک بند ہے اور اس کا خاص حسن یہ ہے کہ صحرا نوردی کی نہایت خوب صورت تصویر کشی کے بعد اس کو حرکت حیات کی ایک فلسفیانہ اور شاعرانہ علامت بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ بند کے آخری دو اشعار یہ ہیں: تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی! ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی! جناب کلیم الدین احمد کی اس صریح غلط بیانی اور فریب دہی کے برخلاف کہ بندوں میں ربط و تسلسل نہیں ہے دوسرا بند ’’ جواب خضر‘‘ کا پہلے بند اور اس کے موضوع کے بالکل تسلسل میں ’’ زندگی‘‘ کے عنوان سے شروع ہوتا ہے اور ناقد موصوف کے اس کذب و افترا کے بھی برخلاف کہ ربط و تسلسل جہاں ہے مصنوعی ہے۔ دوسرا بند ٹھیک اس لفظ کی تشریح سے شروع ہوتا ہے جس پر پہلا بند ختم ہوا تھا، گویا اگلا بند پچھلے بند کے اندر سے نکلا ہے، لفظی کے علاوہ معنوی ربط بھی بالکل ظاہر ہے، اس لئے کہ ’’ صحرا نوردی‘‘ کو ’’ گردش پیہم‘‘ قرار دے کر ’’ راز دوام زندگی‘‘ بتایا گیا ہے لہٰذا اب براہ راست زندگی کے تصور کی تفسیر کی جا رہی ہے۔ دو بند اس تفسیر پر صرف ہوئے ہیں۔ پہلے میں مطلق زندگی کی تعریف نہایت شاعرانہ و حکیمانہ انداز سے کی گئی ہے اور استعارہ و تلمیح کا حسب معمول وافر استعمال کیا گیا ہے۔ ٹیپ سے پہلے کا آخری شعر ہے؟ قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی ٹھیک اس شعر کے تسلسل میں بند اس شعر پر ختم ہوتا ہے: خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو دوسرا بند اسی پختگی کا طریقہ اور مصرف بتاتا ہے جس سے موضوع نظم یعنی ’’ خضر راہ‘‘ کا مقصد پورا ہوتا ہے بند کا پہلا شعر ہے: ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے آخری اور ٹیپ کا شعر یہ ہے: یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے اس عمل کا معیار کیا ہو گا اور منزل کیا ہو گی؟ پھر اگر اہل حق و صداقت باطل کے خلاف جدوجہد کریں تو اس راہ عمل میں ان کا سابقہ کن قوتوں سے ہو گا؟ جواب اقتدار اور حکومت ہے۔ لہٰذا اب ’’سلطنت‘‘ کے موضوع پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور اس سلسلے میں مغربی اقتدار اور تمدن کا کھوکھلا پن واضح کیا جاتا ہے۔ آخری اور ٹیپ کا شعر ہے: اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو اس شعر سے پہلے کا شعر یہ تھا: گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زر گری یعنی مغربی بالخصوص برطانوی سامراج زر پرستی ہے اور سرمایہ داری تمیز بندہ و آقا کوئی ہے جو فساد آدمیت ہے، جیسا کہ ہم ’’ طلوع اسلام‘‘ میں دیکھ چکے ہیں عصر حاضر میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کا غلبہ ہے، خاص کر زیر نظر نظم کی تخلیق کے وقت پورے طور پر تھا، جس کے نتیجے میں انسانیت کی تفریق اس طرح ہو گئی کہ ایک طرف امیر اور قوی اقوام و افراد کی صف ہے اور دوسری طرف غریب و ضعیف کی لیکن زمانے کے حالات بدل رہے ہیں اور جیسا’’ ساقی نامہ‘‘ میں کہا گیا: گیا دور سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کو مداری گیا لہٰذا اس نظم۔۔۔۔۔ خضر راہ۔۔۔۔۔ کا چوتھا موضوع ’’ سرمایہ و محنت‘‘ کی کشمکش ہے، جسے سب سے پہلے شاعری کا موضوع ایشیا بالخصوص ہندوستان میں اقبال ہی نے بنایا اور نہایت بصیرت و لطافت کے ساتھ اس کشمکش کے اسرار و رموز واضح کر دئیے۔ پہلا بند شروع ہوتا ہے اس شعر سے: بندہ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات اور ختم ہوتا ہے اس شعر پر: اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے دوسرے بند میں نہایت شاعرانہ و حکیمانہ طور پر دنیا کے مزدوروں، غریبوں اور کمزوروں کو پیغام دیا جاتا ہے، جو شروع اس طرح ہوتا ہے: ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک اور ختم اس طرح: کومک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو لیکن اقبال نے سرمایہ و محنت کے درمیان ’’ خروش‘‘ پر جو عظیم الشان شاعری کی ہے وہ ایک مارکسی اور اشتراکی کے نقطہ نظر کے موقف سے نہیں کی ہے، ان کا مطمح نظر اور نصب العین اسلام ہے جو اشتراکیت سے بدرجہا بہتر توازن سرمایہ و محنت، امیر و غریب اور قوی و ضعیف کے درمیان قائم کرتا ہے، وہ اس طرح کہ مخلوق خدا کو معاشی بنیاد پر متصادم طبقات میں تقسیم کر کے انسانیت کو مستقل تفرقے اور سماج کو مستقل آویزش میں مبتلا کرنے کی بجائے، جیسا کہ اشتراکیت کرتی ہے، ہر طبقے کے انسان کو دوسرے طبقے کے انسان کا بھائی، ہمدرد اور مددگار بنا کر صحیح اور موثر انسانی مساوات پیدا کرتا اور سماج کو ایک ہمہ گیر اخوت سے ہمکنار کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود ’’ دنیائے اسلام‘‘ کا حال کیا ہے؟ آخری بند اسی سوال کا جواب دیتا ہے۔ پہلے بند میں اسی موضوع پر ملت اسلامیہ کی درد ناک صورت حال بیان کی جاتی ہے اور دوسرے بند میں فروغ اسلام کا طریقہ بتایا جاتا ہے، جس میں خود شناسی و خود داری، مشرقی اتحاد، دینداری، اخوت اسلامی، اصولی و عملی آفاقیت اور خلافت کے تصورات پیش کئے گئے ہیں۔ اس بند کا کلیدی شعر یہ ہے: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شعر اور یہ شعر عالم اسلامی کے اتحاد کا رخ واضح کرتا ہے: ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرت کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر آخری بند آخری موضوع کے ساتھ ساتھ پوری نظم اور اس کے تمام موضوعات کا ماحصل اس طرح پیش کرتا ہے کہ سبھی نکتوں کو ایک نکتے میں سمیٹ لیتا ہے، اور وہ ہے ابھرتے ہوئے مستقبل کی نشان دہی، جس کا مدار ایمان کی رجائیت پر ہے۔۔۔۔ صحرا نوردی،زندگی، سلطنت، سرمایہ و محنت اور دنیائے اسلام سب ایک نقطہ ایمان کی تفسیریں (طلوع اسلام) ہیں ایک ہی موضوع کے مختلف پہلو ہیں ایک ہی مضمون کی مختلف جہتیں ہیں ایک فکر کے نقوش اور ایک جذبے کی ادائیں ہیں پوری نظم ایک تمثیلی مکالمہ ہے شاعر اور خضر کے درمیان، شاعر نے ایک مقصد کے تحت ایک شخص سے متعدد سوالات کئے ہیں اور وہ شخص ان سب کے جوابات دیتا ہے۔ یہ دراصل ایک ہی شخص کی دو آوازیں ہیں سوال بھی اقبال ہی کا ہے اور جواب بھی اقبال ہی کا، صرف تمثیلی زبان خضر کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری بند میں سائل و مجیب، شاعر و خضر، دونوں کی آوازیں گویا مل جاتی ہیں: عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج موج دریا کسی طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ کھول کر آنکھیں میرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ مسلم اسی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیش نظر لایخلف المیعاد دار ان خیالات کو نثر تو کیا، نظم میں ادا کرنے کے قابل بھی آج تک کوئی شاعر نہیں ہو سکا۔ دانتے، شیکسپیئر اور گیٹے کو اگر بیسویں صدی کی تمدنی و سیاسی اور علمی و ترقیات کے تناظر میں فکری و پیامی شاعری کرنی ہوتی تو ان کے املیوں، طربیوں اور تمثیلوں کا سارا کس بل نکل جاتا، جب کہ ملٹن اور ایسٹ کو تو اس سلسلے میں شمار کرنا ہی فضول ہے۔ مسیحی تخیل پر مبنی مغربی شعراء کی ساری شاعری کو ترازوئے تنقید کے ایک پلے پر رکھ کر دوسرے پلے پر اقبال کی شاعری رکھ دی جائے جس کا ایک اعلیٰ نمونہ خضر راہ ہے تو دوسرا پلہ پہلے پلے سے بھاری نظر آئے گا۔ جناب کلیم الدین احمد اپنی نحیف و نزار نثر میں ان توانا خیالات کا اظہار فرمائیں گے؟ یہ تو ابو الکلام آزاد کی پر شوکت اور طاقت ور نثر کے بھی بس کی بات نہیں! یہ شاعری ہے فکر و خیال کی شاعری، کوئی الشائے لطیف یا ورڈس ورتھ کی فطرت نگاری یا شیکسپیئر کی مکالمہ نویسی ہے!! اس شاعری میں سحر آفریں تصویریں، تلمیحیں، علامتیں، تشبیہیں اور استعارے ہیں، طرفگی ہے، نغمگی ہے، خیال انگیزی ہے، منظر نگاری بھی ہے اور فلسفہ طرازی بھی، تمثیل بھی اور تفکر بھی، اور اشعار میں ربط و تسلسل سے لے کر بندوں میں ارتقائے خیال تک سبھی کچھ موضوع اور اس کے مضمرات کے لحاظ سے اپنی اپنی جگہ مکمل و موثر ہے۔ میں نے یہ تجزیہ پوری نظم کا مرتب مطالعہ کر کے پیش کیا ہے اور اس کے پس منظر و پیش منظر دونوں کے تناظر کو ملحوظ رکھا ہے۔ یہی اصولی، مثبت معروضی اور تعمیری تنقید اور قدر شناسی ہے۔ جناب کلیم الدین احمد نے پوری نظم کا مطالعہ سرے سے کیا ہی نہیں ہے، نہ اس کے منصوبہ تخلیق کو سمجھنے کی کوشش کی، نہ نظام فکر کو، نہ نقشہ فن کو، شاید وہ فکری شاعری سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے بلکہ سرے سے ذوق ادب سے محروم ہیں اور تنقید کا بھی کوئی معیار اور اصول ان کے پیش نظر نہیں، وہ بالکل منفی و تخریبی اور کلبیانہ و وحشیانہ انداز میں صرف شخصی فتوؤں اور ناقدریوں کا بازار گرم کرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ نئے سرے سے ادب، شاعری، تنقید اور اقبال سب کا مطالعہ کریں۔ اگر وہ اتنے ریاض کے بعد اقبال کو سمجھ گئے تو شاید وہ قارئین بھی ان کی چیسانی تنقید کو سمجھنے لگیں جن کی نافہمی کا وہ مسلسل شکوہ کرتے ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد کے تنقیدی مطالعات کی بنیادی اور مفلوج کن حامی یہ ہے کہ وہ: ’’ اپنے دعوے اور مطالبے کے برخلاف‘‘ کسی نظم کی وحدت تخیل پر نظر ڈالتے ہی نہیں، وہ نظم کا مطالعہ بالکل غزل کی طرح کرتے ہیں، جو محض نیم وحشیانہ نہیں، مکمل طور پر وحشیانہ انداز تنقید ہے۔ آخر یہ ایک ہیئت نظم کی کون سی تنقید ہے کہ نظم کے اندر سے صرف کچھ Purple Patches کو چن کر ان کی تعریف کر دی جائے اور باقی پوری نظم کو رد کر دیا جائے؟ ایک طویل نظم کے مختلف حصے مختلف انداز کے ہوتے ہیں، جیسے ایک متناسب جسم کے مختلف اعضا مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں، مگر سب اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے طور پر ایک خاص وحدت کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں، ایک ہی دھاگے سے پروئے ہوتے ہیں، بالکل عضویاتی طور پر۔ اقبال کی ہر قابل ذکر نظم۔۔۔۔۔۔ اور ایسی بے شمار ہیں۔۔۔۔ مختلف الاعضاء اور متنوع الجہات ہونے کے باوصف واحد الخیال اور واحد الاثر ہے اقبال کے اپنے سوچے سمجھے، خاص خاص موضوعات اور مخصوص و منفرد افکار و خیالات ہیں، جن کے اظہار کے لئے مخصوص و منفرد الفاظ، تراکیب، تصاویر اور سالیب بھی ہیں۔ ایک پورا نظام فکر اور نظام فن ہے۔ دونوں مل کر ایک جہان معنی بلکہ ایک کائنات تخیل کی تخلیق کرتے ہیں۔ یہ کائنات اپنے متنوع پہلوؤں کے ساتھ نہایت مربوط، منظم اور ہم آہنگ ہے۔ اردو اور فارسی نظموں اور غزلوں کے اشعار کے دفتر اس طرح ہم رشتہ ہیں کہ ایک کی گونج دوسرے میں سنائی دیتی ہے، ایک کا عکس دوسرے میں دکھائی پڑتا ہے، اس لئے کہ سب کا رنگ ایک ہے اور آہنگ ایک ۔ اس ہم آہنگ اور ہموار فن کی قدر شناسی ایک ہم آہنگ اور ہموار تنقیدی تصور اور عمل سے ہی ممکن ہے، جب کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جناب کلیم الدین احمد کے تنقیدی تصور اور عمل کے مابین بھی تضاد اور تصور کے اندر بھی الجھنیں ہیں۔ موصوف کی تنقید نگاری انگریزی الفاظ میں Confused and Confusing ہے حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ Clear and Clarifying ہے،یہ فریب بھی ہے اور فریب کاری بھی یعنی انگریزی الفاظ میں Illusion and Cheating خضر راہ، طلوع اسلام، ذوق و شوق، مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ کا جیسا کچھ بھی ہوا مطالعہ تو جناب کلیم الدین احمد نے فرمایا، لیکن اقبال کی چند اور طویل اردو نظمیں بھی مشہور ہیں۔ مثلاً 1تصویر درد 2شمع اور شاعر اور سب سے بڑھ کر 3شکوہ و جواب شکوہ اسی طرح ہمالہ بھی گرچہ پہلی اور بالکل ابتدائی نظم ہے مگر یہ ایک امید افزا تجربہ اور آغاز ہے اور جو شخص416 صفحات کی ایک ضخیم کتاب اقبال کی شاعری پر لکھ رہا ہو اور اس میں ایک باب لمبی اردو نظموں کے لئے مخصوص کر رہا ہو اسے پہلی لمبی نظم کے امکانات و اشارات کا جائزہ بھی لینا چاہئے تھا۔ لیکن یہ تو اس وقت ہوتا جب واقعی کوئی علمی و تنقیدی مطالعہ مقصود ہوتا۔ یہاں تو مقصد اپنے گمان میں صرف جملہ ’’ عیب ہے‘‘ شمار کرنا ہے۔ اس کے ہنر سے بالکل قطع نظر کر کے چنانچہ عیب کے نمونے کے طور پر چار بہترین نظموں کا مثلہ کر دیا گیا اور ایک نظم کو صرف اس لئے بخش دیا گیا کہ ’’ تبلیس‘‘ کا پردہ چاک نہ ہو، ورنہ جو فرضی نقائص، خضر راہ، طلوع اسلام، ذوق و شوق اور مسجد قرطبہ میں زبردستی دکھائے گئے ہیں وہی ساقی نامہ میں بھی بہ آسانی دکھائے جا سکتے ہیں، اگر اس کا قیمہ بھی اسی طرح کر دیا جائے جس طرح باقی چار نظموں کا کیا گیا ہے۔ خوبصورت سے خوبصورت جانور کو اگر ذبح کر کے قصاب کے چھرے سے اس کے ٹکڑے پارچے کر دئیے جائیں تو ظاہر ہے کہ تناسب اعضاء کا حسن ظاہر ہو گا اور نہ کسی خاص عضو کا یہی ہے وہ سازشی منصوبہ تنقید جس کے تحت تصویر درد، شمع اور شاعر، شکوہ اور جواب شکوہ کو قصداً نظر انداز کیا گیا، حالانکہ شیلی، کیٹس، تیٹس اور الیٹ وغیرہ جیسے انگریزی شاعروں کی جو نظمیں جناب کلیم الدین احمد کی نگاہ میں فن کا نمونہ کمال ہیں یا کم از کم پتیکو خوبی ہیں، ان سے کسی طرح کم اقبال کی یہ نظمیں نہیں، خاص کر شکوہ اور جواب شکوہ جیسی کوئی چیز تو پورے مغربی ادب میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی، نہ فکر کے اعتبار سے نہ فن کے اعتبار سے، اور ہمالہ کا موازنہ بھی پورے اعتماد کے ساتھ انگریزی کی کئی مشہور نظموں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم یہ بات تو پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کے ممدوح کسی بھی مغربی شاعر کا پہلا شعری تجربہ اتنا شاندار نہیں ہوا ہے۔ ٭٭٭ 7 اقبال کی مختصر اردو نظمیں جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کی مختصر اردو نظموں پر تنقید کے باب میں آٹھ نظمیں شامل کی ہیں: ایک آرزو ستارہ شعاع امید علم و عشق فرشتوں کا گیت فرمان خدا (فرشتوں سے) روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے لالہ صحرا ایک اور مختصر اردو نظم ’’ شاہین‘‘ کا تقابلی مطالعہ انہوں نے ہوپکنس کی ’’ دی ونڈ ہودر‘‘ کے ساتھ ایک الگ باب میں کیا ہے اس طرح نو مختصر اردو نظموں کا جائزہ لے کر موصوف نے اپنے محبوب Pet تنقیدی تخیلات کا اظہار اتنے اصرار و تکرار کے ساتھ کیا ہے کہ انگریزی لفظ قے آورAdnauseam ہی اس اکتا دینے والے Boring طرز تنقید کی صحیح تعریف کر سکتا ہے۔ ان میں اکثر مطالعات میں جناب کلیم الدین احمد نے انگریزی شعرا کے ساتھ موازنہ بھی کیا ہے اور حسب معمول اقبال کی خامیاں بھی واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ تین نظموں کا انہوں نے صرف تجزیہ کیا ہے فرشتوں کا گیت اور فرمان خدا کے تجزیے میں ہمارے ناقد نے فرض کیا ہے کہ: ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف فرشتے ہی نہیں خدا بھی مارکسی خیالات سے متاثر ہو گیا ہے۔‘‘ (ص225) اور حاصل مطالعہ یہ کہ: ’’ آپ نے اشتراکی خیالات سے مماثلت بھی دیکھ لی اور فرق بھی اور اصل فرق یہ ہے کہ اقبال جذبات میں بہہ نہیں گئے بلکہ ان کو سلیقہ سے پیش کیا ہے۔ یہاں نہ نعرہ بازی ہے نہ پروپیگنڈہ کام کی باتیں کام کی زبان میں ہیں۔ اور گرچہ یہ فرمان خدا ہے لیکن Tone غیر معمولی طور پر بلند آہنگ نہیں۔ ترقی پسند نظموں کے مقابلے میں نسبتاً دھیما اور زیر لبی معلوم ہوتا ہے۔ گرچہ ترتیب اشعار اٹل نہیں پھر بھی اشعار میں ربط ہے تسلسل ہے ارتقا ہے۔‘‘ (ص328) جناب کلیم الدین احمد کی تنقید کا یہ مفروضہ تو سرے سے غلط ہے کہ زیر بحث نظموں میں مارکسی یا اشتراکی خیالات پیش کئے گئے ہیں۔ یہ خیالات بدیہی طور پر اسلامی ہیں، یعنی اقبال کے الفاظ میں یہ آیت’’ قل العفو‘‘ کی تفسیر اور ’’ فقر غیور‘‘ پر مشتمل ہے۔ انسان کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کے کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار (اشتراکیت ضرب کلیم) لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے فقیر غیور (اسلام ضرب کلیم) اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زر و سیم (فقر و ملوکیت ضرب کلیم) اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاحات جو فقر سے ہے میسر تو نگری سے نہیں اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں (مسلمان کا زوال ضرب کلیم) ان اشعار اور دیگر بے شمار اشعار نیز بیانات وغیرہ سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اقبال کے تخیل میں اشتراکیت کے نظریے کا کوئی عنصر نہیں اور ان کے کلام و پیام میں سماجی انصاف اور معاشی مساوات کے جو تصورات ہیں وہ سب کے سب اسلام کے نظریہ زندگی اور نظام حیات پر مبنی ہیں چنانچہ انہوں نے بعض وقت اشتراکی سیاست اور روسی اقدامات کا جو کچھ خیر مقدم کیا وہ ایک منفی اور جزوری نقطہ نظر اور انداز سے: ہوتے ہیں کسر چلیپا کے واسطے مامور وہی کہ حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیساؤں کے لات و منات (بلستویک روس ضرب کلیم) لہٰذا بات صرف اتنی نہیں جتنی جناب کلیم الدین احمد کے اس جملے سے معلوم ہوتی ہے: ’’ لیکن پھر بھی اشتراکیت اور ان میں فرق یہ ہے کہ وہ ایک خالق کے قائل ہیں جس کی اشتراکیت میں جگہ نہیں۔‘‘ (ص327) اور یہ سامنے کی بات بھی ادھوری ہے: ’’ لیکن مارکسی نظام میں زمام عقل کے ہاتھ میں ہے، عشق کے ہاتھ میں نہیں اقبال کے نظام خیالات میں زمام عشق کے ہاتھ میں ہے۔ یہی بنیادی فرق ہے۔‘‘ (ص324) بنیادی فرق اتنا عام قسم کا نہیں یہ فرق تو اشتراکیت اور حسرت موہانی کے درمیان بھی ہو سکتا ہے یہی بات اقرار خالق اور انکار خالق کے درمیان فرق کی ہے یہ سب عام قسم کی ایسی باتیں ہیں جو اردو اور دوسری زبانوں کے بے شمار شعرا کو اشتراکیت پسندوں سے بین طور پر الگ کرتی ہیں۔ ان میں اقبال کا کوئی امتیاز اور خصوصیت نہیں۔ جب ہمارے فن پرست ناقد فکر کے دریا میں قدم رکھ رہے ہیں تو بقول اقبال ان کو جاننا چاہئے: ہر قطرہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی (لالہ صحرائی) بات وہی ہے جس کی طرف اشارہ اقبال کے ان چند اشعار سے ہوتا ہے جو میں نے مشتے نمونہ کے طور پر پیش کئے ہیں۔ اشتراکیت کے مقابلے پر اقبال اس سے یکسر مختلف ایک نظریہ و نظام حیات کے علمبردار تھے، اور وہ اسلام ہے، جس کے بارے میں اقبال کا تصور ہے کہ وہ اشتراکیت یا کسی بھی تصور حیات سے بہتر و برتر، زیادہ جامع، مکمل اور موثر ہے، اور اشتراکیت کے چند نعرے مثلاً عدل اجتماعی اور مساوات، نظام اسلام کے چند صرف چند اجزاء ہیں، جن کی اصلیت و حقیقت بھی صحیح طور پر نظام اسلامی ہی کے تحت ظاہر ہو سکتی ہے، ورنہ: زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی بہرحال، ان نظموں کی رسمی تعریف جناب کلیم الدین احمد نے صرف ترقی پسند شاعروں کی مذمت کے لئے کی ہے اور تبصرے کے لئے ان کا انتخاب بھی اسی مقصد کے لئے ہے، ورنہ ان سے بہتر بہتیری نظمیں اقبال کے ہر مجموعہ کلام میں موجود ہیں۔ اسی محدود مقصد کے سبب ہمارے ناقدان معمولی نظموں کا موازنہ کسی انگریزی نظم سے کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے یہ گویا آٹھ نظموں کی گنتی پورا کرنا ہوا، حالانکہ ایک مستقل تنقیدی کتاب میں چن کر بہترین تخلیقات کو جمع اور ان پر مثبت تبصرہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر زیر نظر کتاب کا مقصد سرے سے اقبال کا مطالعہ ہے ہی نہیں حالانکہ کتاب کا نام رکھ کر دعویٰ یہی کیا گیا ہے، مقصد تو صرف اقبال کی منفی تنقید اور تخریبی تنقیص ہے اسی لئے تخلیقات کے انتخاب سے لے کر ان پر تبصرے تک، ہر چیز کا انداز منفیانہ ہوتا ہے، گرچہ اس صورت واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے ناقد کو اچھے برے کمتر اور بہتر کی تمیز بھی کم ہی ہے اس بے تمیزی کے بے شمار مظاہر ہم قبل کی بحثوں میں دیکھ چکے ہیں اور مزید دیکھیں گے۔ چنانچہ مذکورہ نظموں کی تحسین کے وجوہ بجائے خود مشتبہ ہیں وہ یہ ہیں: 1’’ کام کی باتیں کام کی زبان میں ہیں‘‘ 2’’ Tone غیر معمولی طور پر بلند آہنگ نہیں۔‘‘ 3’’ ترقی پسند نظموں کے مقابلے میں نسبتاً دھیما اور زیر لبی معلوم ہوتا ہے‘‘ 4’’ ترتیب اشعار اٹل نہیں، پھر بھی اشعار میں ربط ہے، تسلسل ہے، ارتقاء ہے‘‘ آخری نقطہ جناب کلیم الدین احمد کی معروف و مسلمہ تضاد بیانیوں کا ایک شاہکار ہے مہمل نویسی کی انتہا ہے کہ: ’’ اشعار میں ربط ہے، تسلسل ہے، ارتقاء ہے‘‘ لیکن: ’’ ترتیب اشعار اٹل نہیں‘‘ ربط و تسلسل اور ارتقائے خیال کے باوصف یہ اٹل ترتیب آخر کس جادو کا نام ہے، جو صرف ہمارے ناقد کی زنبیل میں ہے، جہاں وہ اس کا نام لیں موجود اور جہاں نام نہ لیں غائب؟ تنقید نہیں ہوتی، نظر بندی کا تماشا ہوئی۔ اس قسم کی مضحکہ خیز کرتب بازی کی لغویت کا احساس بھی ہمارے ناقد کو نہیں ہوتا۔ پہلا نکتہ غماز ہے کہ ہمارے ناقد شاعری کے فہم سے بہت دور ہیں۔ ’’ یہ کام کی باتیںکام کی زبان میں‘‘ کیا ہوتی ہیں؟ ایک طرف تو جناب کلیم الدین احمد اقبال کے تفکر کو نشانہ تنقید بناتے ہیں اس لئے کہ وہ کام کی باتوں پر مشتمل ہے مگر دوسری طرف کام کی باتوں کی تحسین کرتے ہیں اس طرح وہ اقبال کے اپنے خیال میں راست انداز بیان کی مذمت کرتے ہیں اس لئے کہ وہ اسے کچھ کاروباری قسم کی چیز سمجھتے ہیں، لیکن پھر کام کی زبان کو پسند بھی کرتے ہیں یہ تضاد فکر تو خیر، جناب کلیم الدین احمد کا طرۂ امتیاز ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ تنقید شعر کے لئے کام کی زبان میں کام کی باتوں کا سراغ لگانا ہی ایک غیر تنقیدی فعل ہے اور اس طرز فکر نیز طرز بیان سے ادبی نافہمی کا اظہار ہوتا ہے خاص کر کام کی زبان ، کا فقرہ صریحاً چغلی کھاتا ہے کہ ہمارے ناقد ادب اور اس کے مضمرات سے بہت کم واسطہ رکھتے ہیں۔ کام کی زبان نثر اور وہ بھی محض کاروباری نثر کی زبان ہو سکتی ہے نہ کہ شاعری کی دوسرے اور تیسرے نکتوں کا مفہوم ایک ہی ہے اور نہایت مغالطہ آمیز ہے۔ یہ کس نے طے کیا ہے کہ شاعری کا لہجہ لازماً زیر لبی ہوتا ہے؟ یہ تو محض ایک ذاتی مفروضہ ہے جس کی کوئی سند دنیائے ادب میں نہیں، اور اگر کسی مغربی ادیب نے ایسی کوئی بات زیر لب کہہ بھی دی ہے تو وہ غلط ہے، اسے معیار تسلیم نہیں کیا جا سکتا، ورنہ اسالیب بیان کا تنوع نیز موضوع و اسلوب کے درمیان ہم آہنگی کا کوئی معنی ہی نہیں رہ جائے گا۔ پھر فرمان خدا جیسی نظم کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا لہجہ بلند آہنگ نہیں (غیر معمولی کی قید کے ساتھ) حد درجے کی نا فہمی بلکہ ادبی بے حسی ہے۔ پہلے ہی شعر کا آہنگ دیکھئے: اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو اور اسی آہنگ میں دوسرا شعر بھی: گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کمبخشک فرو مایہ کوشاہیں سے لڑا دو یہاں تک کہ: جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو ان اشعار کا آہنگ زیر لب نہیںUnder toneاور Bass ترکیا Bari tonesبھی نہیں، Alto یا Tenor ہے۔ یہ بلند ترین آہنگ ہے اور نظم کے موضوع، مفہوم اور موقع کے لحاظ سے یہی ہونا چاہئے تھا اس لئے کہ یہ فرمان خدا ہے کسی انسان کی سرگوشی نہیں، اور وہ بھی جلال کی آواز ہے، اس لئے کہ: میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو اس خفگی کی پر جلال آواز زیر لب کیسے ہو سکتی ہے؟ اقبال ایک شاعر تھے، صاحب شعور اور وہ فطری طور پر جانتے تھے کہ جلال الٰہی کا آہنگ کیا ہوتا ہے، وہ کلیم الدین احمد کی طرح ناقد محض، فقط نکتہ چین اور عیب جو نہیں تھے، جو موقع و محل کو سمجھے بغیر صرف اپنی ذاتی پسند و نا پسند کو معیار و اصول بنا کر پیش کرتا ہو۔ جناب کلیم الدین احمد یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ کا جو لہجہ ہے وہ ’’ فرمان خدا‘‘ کا نہیں ہو سکتا، ایک تو گیت اور فرمان کا فرق ہے، دوسرا فرشتہ و خدا کا فرق ہے! اور فرشتوں کا گیت بھی Bass کے Under tone میں نہیں Bari tone میں ہے۔ تیسری مختصر اردو نظم جس کی تعریف جناب کلیم الدین احمد نے کی ہے روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے: ’’ اس نظم کا شمار اقبال کی بہترین مختصر نظموں میں ہے اور اس نظم سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شاعری اور پیغام میں کوئی بیر نہیں۔ خیالات اس نظم میں بھی کچھ اس قسم کے ہیں جن سے اقبال کی دوسری نظمیں بھری پڑی ہیں لیکن یہاں ایک دوسری شعری دنیا ہے۔‘‘ (ص329) ’’ کاش اقبال اسی قسم کی شاعری کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کرتے‘‘ (ص331) ’’ یہاں اقبال کے فلسفے کا، ان کے پیغام کا نچوڑ ہے اور اس میں ایک والہانہ شعریت بھی ہے جو اقبال کی دوسری نظموں میں کم ملتی ہے۔‘‘ (ص333) یعنی جس طرح پچھلی دو نظموں کی تعریف ترقی پسند شاعری کی مذمت کے لئے کی گئی تھی اسی طرح اس نظم کی تحسین اقبال ہی کی شاعری کی عام تنقیص کے لئے کی جا رہی ہے کیا والہانہ شعریت اقبال کی دوسری نظموں میں کم ہے؟ ’’ ذوق و شوق‘‘ ہو ’’ مسجد قرطبہ‘‘ ہو ’’ لالہ صحرا‘‘ ہو’’ شاہین‘‘ ہو یا کوئی اور قابل ذکر نظم ہو۔۔۔۔۔ اور ایسی بڑی چھوٹی قابل ذکر نظمیں لا تعداد ہیں۔۔۔ والہانہ شعریت تو سبھی میں ہے یہ والہانہ شعریت تو در حقیقت اقبال کی پوری شاعری کی خصوصیت ہے اور جو ’’ شعری دنیا‘‘ زیر نظر نظم میں ہے وہ کوئی ’’ دوسری‘‘ نہیں وہی ہے جو اقبال کی اکثر نظموں میں عام طور پر پائی جاتی ہے اقبال نے ’’ اسی قسم کی شاعری کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ‘‘ کی ہے، بلکہ توجہ کیا وہ ناقد تو تھے نہیں کہ منصوبہ باندھتے۔ انہوں نے تو ایک فطر شاعر کی طرح بے اختیار، بالکل والہانہ انداز میں ایسی شاعری کی ہے رہی یہ بات کہ شاعری اور پیغام میں کوئی بیر نہیں تو اگر جناب کلیم الدین احمد پر یہ حقیقت منکشف ہی ہو گئی ہے تو پھر ’’ اقبال۔۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ جیسی کتاب لکھنے کی ضرورت ہی کیوں لاحق ہوئی؟ اقبال نے کہا تھا: جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے چنانچہ جب جناب کلیم الدین احمد کو کلام اقبال کی یہ رمز معلوم ہو گئی کہ: ’’ شاعری اور پیغام میں کوئی بیر نہیں‘‘ تو تمام مرحلہ ہائے تنقید اپنے آپ طے ہو جانے چاہئیں پیغام کو شاعری بنانے کا نمونہ اقبال سے بڑھ کر کس نے دنیائے ادب میں پیش کیا ہے؟ دانتے، گیٹے اور شیکسپیئر کا پیغام ہے ہی کیا؟ پیغام تو اقبال کے پاس ہے، ملٹن سے بھی بڑا، بہت بڑا پیغام ایک مستقل نظریہ کائنات اور مکمل نظام فکر کے ساتھ اور اس پیغام ہی کی تحریک پر اقبال نے شاعری کی ہے: نغمہ و کجا و من کجا، ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطاری کستم ناقہ بے زمام را (اقبال) اور یہ بسیط و مرکب پیغام ظاہر ہے کہ محض ایک یا چند مختصر نظم یا نظموں میں سما نہیں سکتا: کچھ اور چاہئے وسعت میرے بیاں کیلئے (غالب) چنانچہ اس پیغام کی وسعت نے لاتعداد طویل اور مختصر فارسی و اردو نظموں کی شکل اختیار کی۔ یہاں تک کہ سب سے بڑی نظم ’’ جاوید نامہ‘‘ ایک تمثیل کی صورت میں بروئے تخلیق آئی ایسی حالت میں یہ طفلانہ تمنا کہ: ’’ کاش اقبال اسی قسم کی شاعری کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کرتے‘‘ اقبال کی شاعری سے یکسر نا واقفیت کی دلیل ہے اور اس کی توہین بھی اقبال دوسرے اور تیسرے درجے کے ان انگریزی شعراء کی صف میں نہیں تھے جن کی مدح میں ہمارے مغربی نقاد رطب اللسان ہیں، جیسے شیلی، ہوپکنس، الیٹ، ئیٹس، مارول، بلیک، پوپ، روجرز، اقبال کا پہلا مجموعہ کلام ’’ بانگ درا‘‘ ہی ان سب کے لئے کافی ہے بہرحال جس طرح طویل اردو نظموں میں ’’ ساقی نامہ‘‘ جناب کلیم الدین احمد کے نزدیک بے عیب تھی اسی طرح مختصر نظموں میں روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے (شعاع امید اور ’’ علم و عشق‘‘ کو بھی کامیاب قرار دیا گیا ہے) لیکن ٹھیک جس طرح اس کا مقابلہ کسی انگریزی یا مغربی نظم سے نہیں کیا گیا تھا اسی طرح اس کا بھی نہیں کیا گیا، جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال۔۔۔ ایک مطالعہ میں جہاں کہیں اقبال کے عیوب دریافت کئے جاتے ہیں تو ان کا مقابلہ انگریزی و مغربی تخلیقات شعری کے محاسن سے کیا جاتا ہے۔ جیسے یہ تخلیقات کوئی معیار اور نمونہ ہوں جن کے حوالے اور نسبت سے اقبال کی تخلیقات کو پرکھا جا رہا ہو، اور پرکھ کا یہ عجیب و غریب انداز اتنا عام ہے کہ دوسرے اور تیسرے درجے کے شاعروں، بلکہ متشاعروں کو اقبال سے بھڑا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’ ساقی نامہ‘‘ اور ’’ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ جیسی نظمیں اگر کامل ہیں تو ان کا کوئی جواب انگریزی یا مغربی شاعری میں بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو کم از کم یہ تو کہنا چاہئے کہ یہ لاجواب تخلیقات ہیں اگر ہے تو دکھایا جانا چاہئے کہ کہاں ہے اور کیسے ہے؟ اس سوال پر، جو جناب کلیم الدین احمد کے طرز تنقید سے اپنے آپ اٹھتا ہے، موصوف کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے؟ آخر یہ کس چیز کی پردہ داری ہے؟ اب دیکھئے کہ عیب چینی کا انداز کیا ہے؟ ’’ ایک آرزو‘‘ کے بعض پہلوؤں کی تعریف کرتے ہوئے ویسی ہی تمنا کا اظہار کرتے ہیں جیسی ’’ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ کے سلسلے میں کر چکے ہیں: ’’ میں نے قدرے تفصیل سے اردو شاعری پر ایک نظر میں اس نظم کا ذکر کیا ہے۔ ایک اور راہ جو اقبال نے نکالی وہ لیرک شاعری ہے۔ اس ڈھنگ کی کچھ نظمیں لکھیں لیکن بہت جلد منظر نگاری کے ساتھ اس قسم کی نظموں سے بھی وہ دست بردار ہو گئے۔ اگر اقبال اس طرف توجہ کرتے تو بہت کچھ کر سکتے تھے اس کا مرکزی خیال نیا نہیں۔۔۔ اسی خیال کو مختلف انگریزی شاعروں نے مختلف طور پر بیان کیا ہے۔۔۔۔۔‘‘ (ص304) اگر خدانخواستہ اقبال کسی طرح اپنی روشن ضمیری سے، جناب کلیم الدین احمد کی تمنا کو، اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی جان لیتے اور اس پر عمل بھی کرتے تو وہ بھی معمولی قسم کے مختلف انگریزی شاعروں کی طرح ایک شاعر ہوتے، پوپ روجرز یا زیادہ سے زیادہ ئیٹس ہوتے، جن کے حوالے ہمارے مغربی نقاد نے اس سلسلے میں دئیے ہیں اور اگر فطرت نگاری کو ہی شاعری کا واحد موضوع بنا کر مظاہر فطرت کی پرستش میں زندگی گزارتے تو ورڈس ورتھ بنتے ظاہر ہے کہ روجرز، پوپ، ئیٹس اور ورڈس ورتھ بننے کی آرزو جناب کلیم الدین احمد تو اپنے مبلغ فن کے لحاظ سے کر سکتے ہیں جس کا ثبوت انہوں نے 42نظمیں اور25نظمیں لکھ کر دیا ہے، مگر اقبال کا مطالعہ بالکل مختلف ہے: یہ پورب یہ پچھم، چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ (شاہین، بال جبریل) شاہین شاعری کی قوت و شوکت، بلند پروازی اور زیبائی و رعنائی کا تصور بھی چکوروں کیبس کی بات نہیں۔ اس لئے جناب کلیم الدین احمد اگر اقبال کی معراج کا تعین اپنے ذہن سے کرتے ہیں تو وہ یقینا مجبور ہیں معذور ہیں۔ ’’ ایک آرزو‘‘ اقبال کی ایک معمولی سی نظم ہے گرچہ شاعری کے معیار عام سے ایک اعلیٰ نمونہ فن ہے، جس پر ورڈس ورتھ جیسا فطرت نگار بھی وجد کر سکتا اور محسوس کر سکتا تھا کہ مناظر قدرت کی ایسی زبردست شاعرانہ تصویر کشی اس کی اپنی تصویروں سے کسی طرح کم نہیں اور نظم کے آخری دو شعر پڑھ کر تو اسے یہ رشک بھی ہو سکتا تھا کہ کاش وہ بھی فطرت کو حقیقت اور بصیرت کے ساتھ اس خوبصورتی و معنی خیزی کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتا: اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر درد مند دل کو رونا میرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے یہ اشعار ان تمام لوگوں کی توقعات پر یقینا پانی پھیر دیتے ہیں جو زیر نظم میں زندگی سے فرار فطرت کی آغوش میں پناہ گیری اور لیرک شاعری وغیرہ کے عناصر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ صرف ’’ ایک آرزو‘‘ ہے جب کہ شاعر کی اور بھی اس سے زیادہ بڑی آرزوئیں ہیں۔ کیا خیال ہے نقاد ان فن کا اس آرزو کے بارے میں جو علی الترتیب دو جگہ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کی تمہیدی دعا میں بروئے اظہار آئی ہے: راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو تجھ سے مری زندگی سوز و تپ و درد و داغ تو ہی مری آرزو، تو ہی مری جستجو؟ بات یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں تغزلLyricism تمثیل Dramatism اور کی شاعری Nature Poetry سبھی کے اجزا اور مفردات پائے جاتے ہیں جو خاص خاص نظموں میں مستقل طور پر موجود ہونے کے علاوہ عام نظموں میں بھی جا بجا بکھرے ہوئے ہیں اپنی پہلی ہی نظم ہمالہ میں اقبال نے فطرت کی جو عظیم الشان شاعری کی ہے وہ ان کی فطرت نگاری کی قوت و صلاحیت ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے علاوہ جزوی طور پر ’’ ذوق و شوق‘‘ ’’ خضر راہ‘‘ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ اور ’’ ساقی نامہ‘‘ جیسی مفکرانہ نظموں میں بھی موقع کے لحاظ سے فطرت کی تصویر کشی ہے وہ اپنی جگہ خود ایک نقطہ کمال ہے پھر ایسی ہی بے شمار نظموں میں تمثیل کے اعلیٰ نمونے بھی ہیں بعض جگہ تغزل کی کیفیات بھی حسب موقع نمایاں ہیں۔ لیکن یہ سب ادائیں ایک بڑے مرکب کے اجزاء و عناصر ہیں اور وہ ہے زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور انسانیت کی بلند ترین منزلوں کی مرقع نگاری لیکن جناب کلیم الدین احمد نہ تو اس بڑے مرکب سے آگاہ ہیں اور نہ اجزاء و عناصر پر ان کی نگاہ صحیح اور پورے طور پر پڑتی ہے، یہاں تک کہ جن نظموں پر وہ تبصرہ کرتے ہیں ان کی مکمل ہیئت ترکیبی تک کو نظر انداز کر دیتے ہیں، یا شاید سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں۔ ابھی جو انہوں نے ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ اور ’’ فرمان خدا‘‘ (فرشتوں سے) کا تجزیہ کیا ہے اس میں اس حقیقت کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے کہ یہ بالکل علیحدہ علیحدہ نظمیں نہیں ہیں بلکہ تمثیلی انداز میں ایک مرکب کے دو اجزاء ہیں دونوں نظمیں متعلقہ مجموعے میں مذکورہ عنوانات کے ساتھ ایک ہی جگہ یکے بعد دیگرے، ترتیب وار درج ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ کے جواب میں ’’ فرمان خدا‘‘ (فرشتوں سے) ناول ہوتا ہے جس سے ایک تمثیلی ہیولا ابھرتا ہے، مگر ہمارے مغربی نقاد کا دھیان بھی اس ہیولے کی طرف نہیں جاتا اور وہ مرکب کے دونوں اجزاء کو الگ الگ نظموں کی طرح زیر بحث لاتے ہیں۔ یہی حرکت وہ ’’ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ سے متصل ٹکڑے ’’ فرشتے جنت سے آدم کو رخصت کرتے ہیں‘‘ کے ساتھ کرتے ہیں یہاں تک کہ نظم پر تبصرے کے دوران اس ٹکڑے کا ایک ادھورا حوالہ بھی دیتے ہیں تو دونوں ٹکڑوں کے درمیان ربط پر کوئی گفتگو نہیں کرتے اور دونوں سے مرکب ہونے والی تمثیلی ہیئت کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے۔ چنانچہ پہلے ٹکڑے کا حوالہ ایک غیر متعلق سی چیز بن کر سامنے آتا ہے۔ جہاں تک مرکزی خیال کے نیا ہونے یا نہ ہونے کا تعلق ہے یہ بات اپنی جگہ نہ اچھی ہے نہ بری، بلکہ قابل ذکر بھی نہیں ہے، مگر جناب کلیم الدین احمد نے اپنے اس بے محل بیان کے سلسلے میں پوپ اور روجرز کا حوالہ دے کر گویا یہ اشارہ کیا ہے کہ زیر نظر نظم کا موضوع مستعار ہے اس قسم کا اشارہ فقط نیش زنی ہے اور گرچہ یہ عقرب کا مقتضائے طبیعت ہے مگر اس کی ایذا رسانی بھی مسلم ہے دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ شاعری کے لحاظ سے پوپ، روجروز اور ئیٹس کی تخلیقات کی کای نسبت اقبال کی نظم کے ساتھ ہے؟ پوپ کی نظم کی ترجمانی جناب کلیم الدین احمد اس طرح کرتے ہیں: ’’ پوپ کی آرزو یہ ہے کہ وہ آبائی چند بیگہ زمین میں قناعت کے ساتھ اپنی زمین پر اپنے ملک کی ہوا میں سانس لے سکے۔ ایسے ہی لوگ خوش بخت ہیں جو بغیر کسی تردد کے گھنٹوں، دنوں اور سالوں کو گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں جو صحت مند ہیں، جن کا سامان مطمئن ہے۔ جنہیں دن کو سکون اور رات کو نیند کی نعمت میسر ہے جو مطالعہ بھی کرتے ہیں اور آرام بھی یہ دل خوش کن تفریح ہے اور معصوم بھی، اور اس سے تفکر کو خوشی محسوس ہوتی ہے اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا ہی میں لیکن دنیا سے وہ الگ تھلگ زندگی بسر کریں اور جب وہ مر جائیں تو کوئی نوحہ گر بھی نہ ہو۔ اسی طرح وہ دنیا سے رخصت ہو جائیں اور ان کی قبر پر سنگ مزار بھی ان کی نشان دہی نہ کرے۔‘‘ (ص304-5) اس ترجمانی پر موصوف کا تبصرہ ہے: ’’ جزئیات میں یہ نظم اقبال کی نظم سے مختلف ہے لیکن مرکزی خیال ایک ہی ہے۔‘‘ (ص305) روجرز کی نظم نقل کرنے کے بعد تبصرہ و تجزیہ کیا جاتا ہے: ’’ یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں اور اس کی جزئیات انگریزی ہیں۔ پھر بھی یہ جزئیات عام نہیں بلکہ خاص ہیں اور انہیں سے اس نظم کی اصلیت پر مہر ثبت ہو جاتی ہے۔ اقبال بھی دامن کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا چاہتے ہیں اور روجرز بھی کہتا ہے:‘‘ ’’ Mine be a cot beside the hill‘‘ لیکن یہاں اس Cot سے متعلق ایسی جزئیات کا بیان ہے جس سے اس کی واقفیت سے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ چڑیوں کے چہچہوں کے عوض یہاں مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہے۔ چشمے کی شورش سے باجا سا نہیں بجتا ہے بلکہ چشمہ پن چکی چلاتا ہے۔ بلبل کی جگہ ابابیل ہے۔ سبزے، بوٹوں اور گلوں کے عوض خوشبودار پھول ہیں جو شبنم پی رہے ہیں۔ مسافروں کو اقبال کا ٹوٹا ہوا دیا امید بندھاتا ہے اور بجلی چمک کر ان کی کٹیا دکھاتی ہے، لیکن روجرز کا مسافر! Oft shall the Pilgrim lift the latch and Share my meal a welcome guest اور سب سے Convincing جزئیات ہیں: And Lucy at her Wheel shall sing in russet gown and apron blue the village church among the trees with merry peals shall swell the breeze آپ Lucky اور اس کے لباس کو دیکھتے ہیں اور اس کے گانے کو سنتے ہیں اس طرح گاؤں کے گرجا کے گھنٹوں کی آواز کو بھی سنتے ہیں۔ (ص306) اس کے بعد ایک آرزو کا موازنہ انگریزی شاعر ولیم ٹبلرئیٹس کی نظم The lake isle of innis free کے ساتھ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ’’ اسی موضوع پر ایک اور انگریزی نظم ہے جو پوپ اور روجرز دونوں کی نظموں سے بہت اچھی ہے اور اقبال کی ’’ ایک آرزو‘‘ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘ اقبال کہتے ہیںدنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب Yeats بھی دنیا کی محفلوں سے تنگ آ گیا ہے۔ اقبال بھی سکوت کی تمنا کرتے ہیں اور Yeats کو بھی Peace کی خواہش ہے۔لیکن انداز بیاں میں شعری لحاظ سے بہت فرق ہے Yeats جب سڑک پر یا Pavement Gray پر کھڑا رہتا ہے یا چلتا ہے اور یہاں لفظGray بہت معنی خیز ہے تو وہ اپنے مامن کی پکار سنتا رہتا ہے اور یہ پکار دن رات اس کے کانوں میں گونجتی رہتی ہے: For always night and day i hear lake water lapping with tow sounds by the shore اور صرف وہ کانوں ہی سے نہیں سنتا: I hear it in the deep heart,s core اس پکار کے سامنے اقبال کے پہلے دو شعر مقابلتاً پھسپھسے معلوم ہوتے ہیں: دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو Yeatsدنیا کی محفلوں کا ذکر نہیں کرتا، شورش کا ذکر نہیں کرتا وہ صرفRoadway اور Pavement Gray کا ذکر کرتا ہے اور سارے دنیا کے ہنگامے، اس کی شورشیں اس کی محفلیں سامنے آ جاتی ہیں۔ بہر کیف اقبال کی آرزو یہ ہے کہ دامن کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو لیکن وہ کوئی دامن کوہ ہو اور کیسا ہی جھونپڑا کیوں نہ ہو لیکن Yeats جانتا ہے کہ Exactly وہ کیا چاہتا ہے وہ Lake isle of innis free جانا چاہتا ہے۔ کوئی جزیرہ نہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ وہاں کیا کرے گا۔ وہ وہاں مٹی اور ٹھاٹر سے ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنائے گا۔ نوسیم کی لتیں لگائے گا اور شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ بھی ہو گا اور وہاں وہ تنہائی میں زندگی بسر کرے گا جہاں صرف شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہو گی اور وہاں اسے کچھ امن ملے گا، کیوں کہ امن صبح کی نقاب سے آہستہ گرتا ہوا زمین تک پہنچتا ہے، جہاں جھینگر گاتے ہیں اور وہاں آدھی رات میں ستاروں کی جگمگاہٹ ہو گی اور دوپہر کو ارغوانی دمک ہو گی اور شام چڑیوں کی پرواز کی آواز سے گونجتی ہو گی۔ یہ تو اس نظم کے نثری معنی ہوئے۔ اس کے آہنگ کے حسن اور اس کے نقوش کے حسن کو کیسے اردو میں بیان کیا جائے۔ دوسر بند بار بار پڑھیے: And i shall have some peace there for peace comes dropping solw, dropping from the veils of the morning to where the cricket sings, where midnight,s all a qlimmer and noon,s purple glow and evening full of the linnet,s wings اس قسم کی Rhythm اردو میں ممکن ہی نہیں اور خصوصاً جس طرح ہر بند کی آخری سطر نسبتاً مختصر ہوتی ہے اور اس سے اس کا Rhythmic اثر نمایاں ہو جاتا ہے۔ پھر نقوش Veils of Midnight,s all a glimmer the morning اور noon,s a purple glow Evening full of the linnet,s wings ایسے نقوش اقبال کو میسر نہیں ۔ ان کی تصویریں عام ہیں۔ خاص نہیں ہیں‘‘۔ (ص 11-308) تو بات یہ ہے کہ اقبا ل یا کوئی شاعر ارد و (یا فارسی و عربی وغیرہ) میں اچھی سے اچھی شاعری بھی کرے تو اس کی ایک بنیادی خامی قدرت الٰہی کی طرف سے جناب کلیم الدین احمد کے بقول یہ مقدر کر دی گئی ہے کہ: ’’اس قسم کی Rhythm اردو میں ممکن ہی نہیں‘‘۔ اب اس کے بعد تنقید کی بھی حد ختم ہو جاتی ہے اور معاملہ دین و ایمان یا کم از کم تصوف کا آپڑتا ہے۔ ہمار ے مغربی نقاد کا عقیدہ Dogma ہے کہ انگریزی آہنگ شعری منزل من اللہ ہے۔ جس پر شاعری ختم ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا کسی اردو (فارسی عربی یا شرقی) شاعر کے امکان سے باہر ہے کہ وہ آہنگ شعری میںانگریزی کا مقابلہ کرے۔ ادب کے اس تصور پر ظاہر ہے کہ کوئی سنجیدہ تنقید بھی ممکن نہیں۔ بس یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کو جب مشرقی عروض‘ موسیقی اور آہنگ شعری کا سرے سے کوئی درک ہی نہیں ہے۔ تو ایک مشرقی زبان اردو ادب و شعر پر تنقید کی دیوانہ وار جسارت انہوںنے کی کیسے؟ کیا فنون لطیفہ کی یہ مبادیات انہیںبتانی پڑے گی کہ ہر زبان کے ادب میں شاعری کا آہنگ اس کے مخصوص عروض پر مبنی ہے۔ اور عروض کی بنا اس تہذیب کی موسیقی ہے جس سے کسی خاص ادب کا تعلق ہے اور یہ کہ مشرقی موسیقی مغربی موسیقی سے‘ اسی طرح مشرقی بالخصوص ‘ عربی و فارسی و اردو‘ عروض بالخصوص مغربی انگریزی معروض سے بالکل مختلف ہے؟ رہی یہ بات کہ مشرقی موسیقی و عروض بہتر ہے یا مغربی؟ تو اس بحث کا فیصلہ کون کرے گا؟ اور کر بھی سکے گا؟ کم از کم کسی کلیم الدین احمد پر تو اس سلسلے میں قطعاً اعتماد نہیں کیا جا سکتا وہ نہ تو مرقی موسیقی و عروض کے ماہر ہیں۔ مغربی موسیقی و عروض کے اور ان کے ذوق شعری کے بارے میں تو جتنا کہا جائے اتنا ہی بہترہے۔ آخر کس سند پر وہ اس قسم کا بیان دیتے ہیں کہ ’’اس قسم کی Rhythm اردو میں ممکن ہی نہیں‘‘؟ یہ ایک حد درجہ غیر ذمے دار انہ اور جاہلانہ بیان ہے۔ موسیقی کا ارتقاء اور فروغ دنیا جانتی ہے کہ مشرق میں بہت زیادہ ہوا ہے اور مغرب سے قدیم تر ہے ۔ بالیدہ تر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مشرقی زبانوں بالخصوص عربی و فارسی عروض کامقابلہ مغربی عروض کم ہی کر سکتا ہے۔ چنانچہ آہنگ شعری یعنی Rhythm کے لحاظ سے مشرقی شاعری مغربی شاعری سے ایک درجہ زیادہ ہو سکتی ہے۔ کم نہیں۔ اردو کا عروض اور آہنگ شعری مشرقی عروض و آہنگ کا بہترین وارث ہے۔ رہی یہ بات کہ انگریزی Rhythm اور عروض زیادہ آزادیوں بلکہ بے قیدیوں کو روا رکھتا ہے۔ لہٰذا ا س میں لچک شاید زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ شعر میں نثر کی بھی گنجائش نہیں ۔ تو یہ بات مطلق خوبی کی نہیں‘ ہو سکتی‘ اسی کو انگریزی Rhythmکا نقص بھی کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایسی مشتبہ چیز کو نشان امتیاز بنانا بجائے خود ایک غیر تنقیدی فعل اور ایک انتہائی بے خبری اور بد ذوقی پر مبنی ہے۔ اب ذرا دیکھیے کہ انگریزی نظم کے جس آہنگ Rhythmکو اتنا سراہا گیا ہے کہ : ’’اس قسم کی Rhythm ارد و میں ممکن ہی نہیں‘‘۔ وہ اقبال کی زیر بحث اردو نظم کے اس آہنگ Rhythm کے مقابلے میں کیا ہے: لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو ہو ہاتھ کا سرہانا سبزہ کا ہو بچھونا شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو موضوع اور اس کے ہر پہلو کے لحاظ سے آہنگ کی مناسبت اور تاثیر کا جو کڑا سے کڑا اوربڑا سے بڑا معیار قائم کیا جائے گا مندرجہ بالا اشعار کا آہنگ اس کے مطابق ہو گا۔ اور اس آہنگ کے مقابلے میں ئیٹس کے آہنگ میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہے جسے بنائے فضیلت اور وجہ فوقیت قرار دیا جا سکے۔ اگر The lake isle of innis free کا آہنگ اس کے خیالات و احساسات کے مطابق ہے تو ایک اردو کا آہنگ بھی کم از کم ایسا ہی ہے ۔ مختلف مناظر فطرت کی رنگ بہ رنگ ادائوں کامکمل موثر انعکاس اشعار کے الفاظ و تراکیب و استعارات اور ان کی باہمی ترتیب و تنظیم سے ہوتا ہے۔ نظم پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے ہے کہ جیسے ایک تصویر دیکھ رہا ہو‘ ایک نغمہ سن رہا ہو۔ جس کے نقوش اس کے شعور پر مرتسم ہونے کے ساتھ ساتھ لاشعور میں بھی سرایت کر جاتے ہیں۔ ایک طلسم‘ ایک سحر کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ شاعر کی ایک آرزو ہر قاری کی آرزو بن جاتی ہے۔ اس سے بڑھ کراور کیا کامیابی ہو گی کسی آہنگ کی؟ ٹھیک یہی بات نقوش یعنی تصویروں Images کے بارے میں کہی جائے گی۔ ہمارے نقاد نے انگریزی شاعر کی بنائی ہوئی جو تصویریں پیش کی ہیں وہ یہ ہیں: ۱۔ ’’صبح کے نقاب‘‘ ۲۔ نصف شب کی تب و تاب۔ ۳۔ دوپہر کی ارغوانی دمک ۴۔ شام لینٹ کے پروں کی آواز وں سے پر۔ اس میں سے کون سی تصویر ایسی ہے جس کا بدل ‘ نعم البدل‘ اقبال کی پیش کردہ تصویروںمیں موجود نہیں جب کہ اقبال کی تصویریں ئیٹس کی تصویروں سے بہت زیادہ زیادہ رنگارنگ زیادہ شوخ اور زیادہ پر اثر ہیں: ۱۔ چڑیوں کے چہچہوں کو سرود اور چشمے کی شورشوں کو باجا کہا جانا ‘ الفاظ کے ایسے انتخاب اور ان کی ایسی نشست و برخاست کے ساتھ جو بجائے خود نغمہ ریز ہیں۔ ۲۔ گل کی کلی کی چٹک کا جام جہاں نما کی طرح حقیقت افروز ہونا اور کھلنے کی تعبیر لفظ چٹک سے‘ جیسے ٹھیک لمحہ شگفتگی اور اس کی آواز کی تصویر اتار لی گئی ہو جس کا مترادف انگریزی میں نہیں ہے۔ ۳۔ ہاتھ کا سرہانا اور سبزہ کا بچھونا ایک Idyllic تصویر ہے اور اس پربہار فطری ادائے خلوت کا جلوت کو شرمانا ایک انتہائی لطیف Yricism ہے۔ ۴۔ دونوں کناروں پر ہرے ہرے نوٹوں کا صف بستہ ہو کر ندی کے صاف پانی میں عکس فگن ہونا ایک سامنے کی تصویر ہونے کے باوجود ایک جہان فطرت کی پیکر سازی ہے۔ ۵۔ کہسار کے دلفریب نظارے کو پانی کا موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھنا ایک بولتی ہوئی‘ متحرک اور نادار تصویر در تصویر ہے‘ جس سے ندی کی روانی کے ساتھ ساتھ دامن کوہ کی رعنائی کا اندازہ ہوتا ہے اور قاری کی نظر ایک بار پھر گزشتہ تمام نظاروں کی طرف نئے سرے سے مائل ہو جاتی ہے۔ ۶۔ زمین کی آغوش میں سبزہ کا سویا ہونا اور اس کے پس منظر میں پانی کی جھاڑیوں میں پھر پھر کے چمکنا بہ یک وقت واقعاتی و تصوراتی نقشہ فطرت ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے شاعر اور اس کے قاری کی طرح پانی …ایک منظر فطرت…بھی پانچویں تصویر کی طرح جمال فطرت سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اور ٹھیک ایسی حالت میں اس کی تصویر کشی کر کے شاعر نے جمال فطرت میں ایک اضافہ کر دیا ہے۔ ۷۔ اس کے بعد گل کی ٹہنی کا جھک جھک کر بہتے ہوئے پانی کو اس طرح چھونا گویا کوئی گل غدار آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ رہا ہے اعلیٰ درجے کی مسلسل اور منظم تصویر کشی کی مثال ہے۔ ۸۔ یہاں تک کہ غروب آفتاب کی سرخی کاافق پر اس طرح نمودار ہونا اور پورے منظر کو رنگین کر دینا جس طرح دلہن کو مہندی لگائی جاتی ہے اور رنگ حنا بہار حسن کو دوبالا کر دیتا ہے۔ پھر دلہن سے وابستہ شادی کے موقع پر ہر پھول کا زریں قبا ہو جانا… مصوری فطرت کا نقطہ کمال ہے۔ جناب کلیم الدین احمد فقط ارغوانی کی موہوم سی دمک اور نصف شب کی پراسرار تابانی اور نقاب صبح نیز زمزمہ شام کی مبہم سی تصویروں پر فدا ہیں جب کہ یہاں صاف‘ تازہ‘ رنگین‘ زریں اور مرکب تصویروں کا ایک پورا سلسلہ ‘ تمام جزئیات کے ساتھ‘ ایک نغمہ ریز اور طلسم آفریں آہنگ میں ہمارے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ ایسے نقوش ئیٹس کو کہاں میسر ہیں؟ رہی یہ بات کہ اس کی تصویریں‘ بقول جناب کلیم الدین احمد عام نہیں خاص ہیں تو میں اس قول پر یہ اضافہ کروں گا کہ خاص الخاص ہیں‘ اتنی خاص کہ شاعر کے ذہن تک محدود ہیں‘ قاری کے ذہن تک کم از کم آسانی سے اور پورے طور پر نہیں پہنچتیں۔ ا س لیے کہ ئیٹس کے پیکر جزئیات سے خالی اور غیر واضح ہیں۔ ان کی تشریح و تفصیل اور تجسیم نہیںہوتی ان میں عمومیت اور آفاقیت نہیں محدود قسم کی مقامیت ہے جسے آئرلینڈ سے باہر کے لوگ شرح کے بغیر مکمل طور سے سمجھ ہی نہیںسکتے۔ جناب کلیم الدین احمد نے Linnet نام کے پرندوں کا پرے کا پرا اپنے بازو پھڑپھڑاتا ہوا آئرلینڈ کی جھیلوں‘ نہروںاور ندیوںپر ام کے وقت اترتے دیکھا اور سنا ہے؟ اور یہ نصف شب کی تابانی کیا ہے؟ ہر شب تو شب ماہ نہیں ہوتی اور نہ جگنو ہر موسم میں اڑتے ہیں نہ لیک آئیل میں برقی قمقمے لگائے گئے ہوں گے۔ اس لیے کہ شاعر کے تمدن سے فرار چاہتا ہے؟ اور دوپہر کی ارغوانی دمک تو ظاہر ہے کہ کوئی خاص چیز نہیں۔ سوا اس کے کہ آئر لینڈ کی دھوپ کو زبردستی ایک نرالی دھوپ قرار دیا جاے اس لیے کہ دھوپ کا رنگ تقریباً ہر جگہ ارغوانی ہی ہوتا ہے۔ حالاں کہ یہ سوال پھر بھی جواب طلب رہ جائے گا کہ ایک سرد علاقے کی دھوپ ہی کیا اور کتنی؟ نقاب صبح بھی ایک پیش پا افتادہ منظر ہے۔ بس ایک ہلکی سی صوفیت ئیٹس کی بعض تصویروں میں ہے لیکن اس کے باوجود یہ تصویریں گریزاں قسم کی اور بہت تھوڑی سی ہیں ان کا مقابلہ نہ تو اقبال کی رنگارنگ‘ کثیر اور بسیط اور مسلسل نیز شوخ تصویروں سے کیا جا سکتا ہے نہ ترنم آفریں اور سحرآگیں آہنگ سے اقبال نے فطرت کے ایک رخ کی قد آدم تصویر کھینچی ہے جب کہ ئیٹس کی تصویر پاسپورٹ سائز ہے ئیٹس کی سیاحی شناخت ہو جائے مگر اس سے لطف عام اور جلوہ عام کانگار خانہ فن نہیںسجتا۔ بات یہ ہے کہ ئیٹس نے اپنے محدود تخیل کی ایک بہت چھوٹی سی دنیا بسائی ہے بس ایک مختصر سا گم نام جزیرہ جہاں وہ سماج کی نگاہوں سے بھاگ کر پناہ لینا چاہتا ہے گرچہ سراپا تمدن کی زندگی میں غرق ہے۔ اقبال کا وہ موضوع و مقصد یہ نہیں۔ ان کی اردو دنیا سے علیحدہ ہو کر کوئی مامن تلاش کرنا نہیں ان کا تو قول ہے: ہے گرمی آدم سے ہنگامہ عالم گرم سورج بھی تماشائی‘ تارے بھی تماشائی (لالہ صحرا…بال جبریل) نظم کا خاتمہ بلاوتجہ تو اس شعر پر نہیں ہوتا: ہر درد مند دل کو رونا میرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیںجگا دے دراصل یہی وہ آرزو ہے۔ اور یہ ایک ہی آرزوہے جو بانگ درا کی ایک ابتدائی نظم میں مناظر فطرت کے پس منظر میں بروئے کار آئی ہے۔ جب کہ بال جبریل کی عظیم الشان تخلیق میں مسجد قرطبہ اور پوری اسلامی تاریخ کے تناظر میں Perspective میں ظاہر ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ بے چارے ئیٹس کیا اس کے استاد شیکسپئر کا تخیل بھی فکر وفن کی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ لیک آئیل تو خیر ئیٹس کی ابتدائی نظم ہے اور مبتدیوں کو پڑھائی جاتی ہے (پٹنہ یونیورسٹی کے ابتدائی کورس میں شامل ہے) اس کا انتہائی شاہکار "Sailing to Byzantium"کی بھی معراج کمال بس یہ ہے کہ وہ ایک سنہری بلبل Golden Nightingale بن کر کسی بادشاہ کے دربار میں (چابھی پر) ترنم ریز ہوا اور اسی کو یہ کرگسوں میں پلا ہوا فریب خوردہ شاہین ابدی صنعت Artifice of Eternity تصور کرتا ہے جب کہ یہ کوئی نادر خیال بھی نہیں اس سے قبل کیٹس نے یہی آرزو منقش یونانی صراحی Grecian Urnکی شکل میں کی تھی اور اس کے بعد Waste Land اور Hollow Menسے بھاگ کر حتیٰ کہ Ash Wednesday سے گزر کر یہی تمنائی اس الیٹ نے Four Quartest کی نیم فلسفیانہ اورنیم صوفیان شاعری کے پردے میں ایک ازلی و ابدی سکون و سکوت Stillness کے عنوان سے کی ہے۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی دنیا کچھ اور ہے اور ان انگریزی شاعروں کی دنیا کچھ اور: پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور اب یہ جو جناب کلیم الدین احمد شاعری میں "Exactly"کی بات کرتے ہیں اور کسی خاص جزیرے میں ئیٹس کے جھوپڑے میں گھاس پھونس سے لے کر اس کی خانہ باغ میں سیم کی گن کر نولتوں تک کا ذکر کرتے ہیں پھر دامن کوہ میں روجر ز کی کھٹیا کا ذکر فرماتے ہیں یہ سب محض غلط مبحث ہے وہ شاعری میں افسانے کے عناصر تلاش کرتے ہیں۔ فنون لطیفہ میں شاعری موسیقی سے قریب تر ہے ی نسبت مصورہ کے۔ لہذا شاعری کی خصوصیت موسیقی کی طرح کیفیات ہیں نہ کہ جزئیات جو مصوری کی خصوصیت ہے اور اد ب میں مصوری سے قریب تک جو صنف ہے وہ افسانہ ہے۔ چنانچہ شاعری میں بنیادی طور پر ایک آفاقی "Universal" اپیل ہوتی ہے جو کچھ جوہری یا عنصر Essential or Elementalقدروں Values پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ تعین Exactnessپر۔ اس سلسلے میں جناب کلیم الدین احمد شیکسپئر کے اس قول سے گمراہ ہوتے ہیں کہ: Airy Nothing کو A lacal habitation and a name دیا جائے۔ اول تو شیکسپئر تنقیدی و ادبی تصورات پر کوئی سند اور حرف آخر نہیں۔ دوسرے وہ اصلا ڈراما نگار ہے اور ڈراما Fiction یعنی افسانہ ہی کا ایک انداز ہے۔ لہٰذا اگر شیکسپئر کسی ڈرامائی ہیولے کے لیے تخیل کو ایک متعین مقام اور نام دینا ضروری سمجھتا ہے تو ا س میں کوئی خاص مضائقہ نہیں لیکن اگر وہ شاعری کے لیے یہ فارمولا تجویز کرتا ہے تو غلط ہے۔ ظاہر ہے کہ شیکسپئیر تو اس طرح صنف و ہئیت کی فارمولا سازی کرتا نہیںہے۔ لہٰذا اس کے تمام فرمودات ایک ڈراما نگار شاعر یا شاعر ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ہیں اور ان کا موقع و محل خالص شاعری نہیں بلکہ ڈراما نگاری اور اس کے ساتھ لازمی طورپر مخلوط ہے ۔ چنانچہ صرف شاعری پر بحث کے دوران اس مخلوط نقطہ نظر سے گفتگو کرنا مبحث ہے اور ناقابل اعتبار ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پوپ یا روجرز یا ئیٹس کی نظموں میں ’’اصلیت‘‘ ’’واقعیت ‘‘ Convincing جزئیات اور Exactnessکا جو سراغ جناب کلیم الدین احمد نے لگایا ہے وہ بے موقع و محل ہے اور اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا سوا ا سکے کہ ہمارے نقاد کا ذہن بالکل الجھا ہوا اور مخبوط Confusedہے ۔ پھر جزئیات اور اصلیت اورواقعیت کیا اقبال کی پیش کردہ تصویروں میں نہیں ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہیں اور جناب کلیم الدین احمد کو بھی اس کا احساس ہے اس لیے ک ہوہ بات بات بنانے کے لیے اقبال کے بنائے نقوش کو عام اوردوسروں کے نقوش کو خاص کہتے ہیں۔ یعنی نقوش تو اقبال کے یہاں بھی ہیں مگر وہ عام ہیں اس طرح جناب کلیم الدین احمد کی ژولیدہ بیانیوں سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو مغربی شعراء اور اقبال کے درمیان فرق صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنے نکتوں کو عمومی شکل میں پیش کرتے ہیں Generalise جب کہ مغربی شعراء انہیں خاص الخاص بناتے ہیں Particularise کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اقبال اور دوسرے شعراء کے اسالیب بیان ایک دوسرے سے مختلف ہیں اول الذکر کے یہاں تعمیم کا رجحان ہے اور ثانی الذکر کے یہاں تخصیص کا لیکن اس فرق کو وجہ ترجیح بنانا جیسا کہ جناب کلیم الدین احمد نے کیا ہے محض فتور ذہنی ہے۔ اس فتور ذہنی کی مثالیں دوسرے پہلوئوں سے دوسری مختصر نظموں کی تنقیدوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ نظم ’’ستارہ‘‘ کو اچھی نظم کہنے کے باوجود اس کے خیالات کو ایک ہی سانس میں پیش پا افتادہ یا غلط اور Unscientific قرار دیا گیا ہے۔ اب یا تو ہمارے نقاد کو پیش پا افتادہ مقام کا معنی معلوم نہیںہے یا لفظ غلط اور Unscientific کے محل استعمال سے وہ واقف نہیں اس لیے کہ ایک چیز بہ یک وقت پیش پا افتادہ اور Unscientific دونوںنہیںہو سکتی پیش پا افتادہ کا ترجمہ ہے سامنے کی بات یعنی انگریزی میں Commonیا Pedertrian ظاہر ہے کہ جو چیز عام قسم کی اور سامنے کی ہو گی وہ کم از کم غلط ور غیر حکیمانہ تو نہ ہو گی ۔ جس جملے میں مذکورہ بیان دیا گیا ہے اس کے فوراً بعد جملہ اس طرح شروع ہوتا ہے: ’’مثلاً اس نظم (ستارہ) کا مرکزی خیال جو آخری شعر میں ہے: سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں شیلی کی اس سطر سے ماخوذ ہے: "Naught may endure but mutability" (ص 312) یہ شاید نظم کے خیالات کی چوتھی قسم ہے۔ یعنی پیش پا افتادہ غلط اور غیر حکیمانہ کے بعد ماخوذ ظاہر ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کے نثری بیان کی عبارت اتنی گنجلک ہے کہ کوئی نقطہ واضح نہیںہوتا۔ لہٰذا اب یہ قاری کے ذہن پر منحصر ہے کہ ان کے بیان کا جو مطلب بھی چاہے سمجھ لے۔ بہرحال ایک سوال یہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کو کیسے معلوم ہوا کہ اقبال کی نظم کا مرکزی خیال شیلی کی ایک سطر سے ماخوذ ہے دونوں شاعروں کے خیالات میں مشابہت اتفاقاً بھی تو ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے نقاد کو اس احتمال سے کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ ان کو تو بس یہ بتانا ہے کہ کائنات شروع ہوئی مغرب کے علم و ادب پر اور ختم بھی اسی پر ہو گئی۔ چنانچہ آگے فرماتے ہیں : ’’پھر دوسرا خیال مال حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو یعنی مآل حسن آخر زوال ہے اور اسے اقبال اپنی ایک دوسری نظم ’’حقیقت حسن‘‘ میں بھی بیان کر چکے ہیں… پھر کل من علیھا فان ہے اور اس قسم کے خیالات مغربی شاعری میں بھی عام ہیں‘‘۔ (ص 13-312) اس قسم کی نکتہ چینی کو قانون کی اصطلاح میں Compounded Offence یعنی جرم مرکب کہا جائے گا۔ آخر اس قسم کی وضاحت کا مطلب ہے کیا؟ ایک خیال خود شاعری کی کسی اور تخلیق میں بھی ظاہر ہو چکاہے قرآن حکیم میں بھی ہے اور مغربی شاعری میں بھی اس سے معلوم ہوا اور اس میں خرابی کیا ہے؟ خیال ماخوذ ہے؟ تو قرآن سے ماخوذ ہے یا مغربی شاعری یا خود اقبال سے یا بیک وقت تینوں سے؟ اگرماخوذ کا معنی مستعار ہے تو کہیںایسا بھی کوئی مستعار ہوتا ہے؟ قرآن سے تو اقبال کے سبھی خیالات ماخوذ کہے جا سکتے ہیں اور مغربی ادب سے تو شاید دنیائے وجو د ہی ماخوذ ہے ۔ غالباً ہمارے نقاد ماخوذ کا استعمال پیش پا افتادہ کے مفہوم میں لکھ رہے ہیں اور یہ ان کی عجیب و غریب اردو دانی کا ایک اور ثبوت ہے : تنقید کا ایک اور معیار دیکھیے: غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے تمام رات تیری کانپتے گزرتی ہے یہ محض فریب نظر ہے کہ ستارہ کانپتا ہوا نظر آتا ہے۔ ننھی سی جان جان اس کی ننھی سی نہیں ممکن ہے کہ وہ نظام شمسی کی طرح کسی نظام کا مرکز ہو۔ جو اوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے یہ بھی پیش پا افتادہ بات ہے پھر اجل ہے لاکھ ستاروں کی اک ولادت مہر فنا کی نیند مے زندگی کی مستی ہے ولادت مہر سے لاکھوں ستارے فنا نہیں ہو جاتے البتہ وہ دن کو آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں آفتاب رات کو چھپ جاتا ہے تو اس کی اجل نہیں آ جاتی ‘‘۔ (ص 312) شاید اقبال جیسے کم پڑھے لکھے آدمی کویہ حقائق معلو م نہیں تھے۔ یا ممکن ہے اقبال کی زندگی یا کم از کم ان اشعار کی تخلیق کے وقت ان سائنسی حقائق کا انکشاف نہیں ہوا ہو ویسے اقبال کے بعض اشعار سے معلوم ہوتاہے کہ اپنے زمانے کے سائنسی انکشافات کے بارے میں انہوںنے کچھ سن رکھا تھا: تہی زندگی سے نہیںیہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں گماں مبر کہ ہمیں خاکدان نشیمن ماست کہ ہر ستارہ جہان ست یا جہان بودہ است اس قسم کے لاتعداد اشعار سے شبہ ہوتا ہے کہ اقبال سائنسی حقائق کی واقفیت کم از کم اتنی تو رکھتے ہی ہوں گے جتنی کہ جناب کلیم الدین احمد کی معلوم ہوتی ہے۔ تب پیش پا افتادہ تو پیش پا افتادہ Unscientific باتیں اقبال نے ان اشعار میں کیوں کیں جن کا ذکر ابھی ہمارے نقاد نے فرمایا ہے؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اقبال کو زمین سے آسمان پر چمکتا ہوا ستارہ ایک ننھی سی جان نظر آیا ہواور وہ بظاہر کانپتا ہوا بھی دکھائی پڑا ہو ؟ ایسا قرین قیاس معلوم ہوتا ہے ۔ ا س لیے نظم اس طرح شروع ہوتی ہے: قمر کا خوف کہ ہے خطرہ سحر تجھ کو مآل حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو ظاہر ہے کہ جب ستارہ کی ہستی یا تابانی کو ایک طرف آسمان دنیا پر چاند کے طلوع ہونے کا خطرہ ہے اور دوسری طرف طلوع سحر کا اس لیے کہ دونوں حالتوں میں اس کا وہ نور ماند پڑ جائے گا جو انسان کو نظر آتاہے۔ تو اس خطرے کے خوف سے اس کو فطری طور پر لرزہ براندام ہونا ہی چاہیے۔ اور پورے بند میں اسی خوف و خطر کی تشریح ہے لہٰذا آخری شعر میں ‘ پہلے بند کے اگر ستارے کو ننھی سی جان کہ کر ڈرتا اور کانپتا ہوا دکھایا گیا ہے تو یہ عین موضوع نظم کے مطابق ہے او رنظم کے نقطہ عروج کی طرف ارتقائے خیال کا منطقی مرحلہ ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے لیے دوسرے بند میں کہا گیا : اجل ہے لاکھ ستاروں کی اک ولادت مہر یہ کوئی Unscientific بات ہونے کے بجائے آئے دن بلکہ روز مرہ کا مشاہدہ اور ایک سامنے کی بات ہے کہ آفتاب جب طلوع ہوتا ہے تو ستارے آسمان دنیا سے غائب سے ہو جاتے ہیں اور اس طرح قدرت کے مناظر بدلتے جاتے ہیں۔ رات اور دن صبح اور شام کی گردش ایام جاری رہتی ہے یہ تغیر یہ حرکت یہ انقلاب کائنات اور حیات کی ایک حقیقت ہے ۔ جس پر روشنی نظم کے آخری شعر میں ڈالی گئی ہے: سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں اس صورت حال میں سائنسی حقائق کی بحث اٹھانا اوراس کی بنا پر کسی نظم کے خیالات کی مذمت کرنا کیا انتہائی بدمذاقی بلکہ شعر و ادب کی مبدیات سے ناواقفیت کی دلیل نہیں ہے؟ اس بد مذاقی اور ناواقفیت پر مشتمل معیار تنقید کو یکسر غلط اور سراسر Unscientific کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟ تنقیص کا بھی سلیقہ ہونا چاہیے: عیب کردن را ہنر باید بعض وقت محسوس ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کو یہ سلیقہ اور ہنر بھی میسر نہیں ۔ لالہ صحرا کا موازنہ جناب کلیم الدین احمد نے ایک طرف مارول کی "To his eoy mistress" سے کیا ہے اور دوسری طرف بلیک کی "Ah Sunflower" سے فرماتے ہیں۔ ’’لالہ صحرا میں: But at my back I always hear time's winged chariot hurrying near کے برابر کوئی سطر نہیں اور : time's winged chariot سا کوئی استعارہ بھی نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ دشت Desert سہی لیکن Deserts of vast eternityکا جو مفہوم ہے وہ اقبال کی نظم سے کوسوں پرے ہے‘‘۔ (ص 337) یہ مارول کے سلسلے میں ۃی بلیک کی نظم پیش کر کے کہتے ہیں: ’’نظم کی حیثیت سے یہ لالہ صحرا سے بہتر ہے گرچہ اس میں وہ خیالات کی گہرائی نہیں جو لالہ صحرا میں ہے بات یہ ہے کہ اقبال کا Egoبہت زبردست تھا ا سلیے وہ علاحدگی Detaghment سے واقف نہ تھے۔ اور نہ ہو سکتے تھے۔ لالہ صحرا ایک علامت ہے اور اسے وہ بطور علامت استعمال کر سکتے تھے۔ اور اپنی ذات اپنی شخصیت اپنے Ego کو پس پردہ رکھ سکتے تھے۔ اس سے زیادہ گہرائی زیادہ معنی خیزی‘ زیادہ شعریت آ جاتی۔ لیکن وہ پہلی سطر سے آخر تک اپنی ذات کو فراموش نہیں کر سکتے… ظاہر ہے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اپنے خیالات کا بالواسطہ اظہار نہیں کر سکتے…بلیک پہلی سات سطروں میں اپنی شخصیت کو بالکل پس پش ڈال دیتا ہے… دوسرے بند میں ایک لمحہ کے لیے وہ سورج مکھی کو بظاہر پس پشت ڈال دا ہے …آخری سطر میں ایک لفظ My کا استعمال کر کے پوری نظم کو ایک استعارہ بنا دیتا ہے اور اسے نئی معنی خیزی عطا کرتا ہے‘‘۔ ( 39-337) مارول کی نظم بحیثیت نظم بالکل معمولی قسم کی ہے اور اس کا مرکزی خیال بھی خود جناب کلیم الدین احمد کے بقول ’’پیش پا افتادہ خیال ہے‘‘ لیکن ہمارے مغربی نقاد کا معیار تنقید یہ ہے کہ لوگوںکو پوری نظم پڑھنے اور سمجھنے کی تلقین کرنے کے باوجود نظم کے محض ایک استعارے Time's winged chariot اور ایک خیال Deserts of vast eternity کو لے کر وہ پوری نظم کے بارے میں فیصلہ کر دیتے ہیں یہاں تک کہ ایک Deserts of vast eternity کا جو مفہوم ہے وہ اقبال کی نظم سے کوسوں پرے ہے۔ لالہ صحرا کامرکزی خیال پیش پا افتادہ نہیں۔ بلکہ جناب کلیم الدین احمد کے بقول ہی اس میں خیالات کی جو گہرائی ہے وہ بلیک کی Ah Sunflowerمیںبھی نہیں۔ پھرہئیت نظم میں بھی کوئی خامی جناب کلیم الدین احمدنے نہیں دکھائی ہے۔ بلکہ ارتقائے خیال کا تجزیہ اس طرح کیا ہے جیسے وہ ایک مرتب و مربوط ہئیت میں ہو۔ اس کے علاوہ تصویروں کی بھی انہوںنے تعریف ہی کی ہے۔ لیکن وہ برہم صرف اس لیے ہیں کہ غلطی سے اردو کے کسی مبصر نے لالہ صحرا کا موازنہ انگریزی نظم سے کر دیا ہے۔ لہٰذا اردو نظم کی تمام خوبیوں کے باوجودا س میں کوئی نہ کوئی نقص نکال کر اسے انگریزی نظم سے کم تر ثابت کرنا ہمارے مغربی نقاد کے لیے واجب اور فرض ہو گیاہے۔ اس لیے کہ اردو تنقید میں ان کا فریضہ منصبی یہی ہے کہ وہ عیسائی مشنریوں کی طرح اہل مشرق پر تہذیب مغربی کی برتری واضح کرتے رہیں لہٰذا ایک طرف تو یہ مغربی کرتب دکھایا گیا ہے کہ انگریزی نظم کی بعض تصویریں لے کر انہی بلا دلیل اقبال کی تصویروں سے بہتر قرار دے دیا گیاہے اور آگے بڑھ کر ایک زبان کی محض چند تصویروں کی بنیاد پر اسے دوسری زبان کی پوری نظم ہی پر ترجیح دے دی گئی ۔ اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی اس لیے کہ مجرم ضمیر کی خلش کو تسکین کہاں؟ تو پھر ایک اردو نظم کے مقابلے میں ایک انگریزی نظم کی وجہ ترجیح یہ بتائی گئی کہ انگریزی تخلیق میں ذات سے علاحدگی ہے جو اردو نظم میں نہیں اس لیے کہ اردو شاعر کا Egoبہت زبردست تھا چنانچہ بلیک نے تو سورج مکھی کو استعارہ بنا دیا اور اقبال لالہ صحرا کو علامت نہ بنا سکے۔اس کو کہتے ہیں بہانہ ڈھونڈ کے پیدا کیا جفا کے لیے کیا شاعری میں Egoکا اظہار بجائے خود ناموزوں ہے؟ ٹی ایس ایلیٹ نے ضرور فن میں فنائے ذات Extinction of Personalityکی بات کی ہے اور ترسیل خیال کے لیے معروضی مترادف Objective Correlation کی اہمیت پر بھی زور دیاہے لیکن لفظ می کا استعمال اس کے مضمرت کے ساتھ سہی ۔ اظہار ذات کو اگر اپے آپ ثابت کرتا ہے۔ تو پھر بلیک نے My(میرا) کا استعمال کر کے آخر… کیا ثابت کیا؟ ہمارے مغربی نقاد فرماتے ہیں: ’’پوری نظم کو ایک استعارہ بنا دیا‘‘ یہ استعارہ کس کا ہے اور کس کے لیے ہے بلیک کہتا ہے: Where my Sunflower wishes to go (جہاںمیرا سورج مکھی جانے کی تمنا کرتا ہے) یہ منزل Graveقبر فنا ہے۔ اس طرح سورج مکھی شاعر یعنی انسان کے سفر حیات کا استعارہ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ گرچہ ایک فن کار نے اسے اپنی ذات کی فنا کا استعارہ بنا یا ہے مگر دراصل یہ پوری حیات انسانی کی فنا کا استعارہ ہے۔ لہٰذا ذات کا استعمال ایک حسین شاعرانہ استعار ا تخلیق کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ٹی ایس الیٹ کے نظریہ شاعری کا بھی اثبات ہو جاتاہے۔ شاعر نے اپنی ذات کو ایک معروضی مترادف بنا دیا ہے ۔ اور اب جو اظہار ذات ہو ا وہ بالواسطہ ہوا۔ گرچہ ایلیٹ کانظریہ بجائے خود محل نظرہے اور کاسی آفاقی صداقت کا حامل نہیںہے۔ لیکن واقعہ ہے کہ جس طرح اس کا اثبات بلیک کے سورج مکھی میں ہوا ہے اسی طرح لالہ صحرا میں ہوا ہے اور اس معاملے میں اقبال کاکارنامہ یہ ہے کہ زیادہ عدقیق اور حسین ہے۔ بلیک کیکوئی شخصیت یا خودی Egoنہیں تھی۔ جس سے علاحدگی مشکل ہوتی‘ جب کہ اقبال کی خودی یا شخصیت شیکسپئیر یا گیٹے اور دانتے سے بھی بڑھ چڑھ کر تھی اور وہ فناے ذات بلکہ ارتقائے ذات کا نظریہ رکھتے ہیں اور اپنے کلام سے دنیا کو اسی کا پیام دیتے ہیں۔ لیکن لالہ صحرا میں انہوںنے جناب کلیم الدین احمد کے بیان کے بالکل برخلاف لالہ صحرا کو ایک زبردست حسین اور خیال انگیز علامت Symbol بنا دیا ہے اور اس مقصد کے لیے اپنی شخصیت کو لالہ کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کر دیا ہے۔ اقبال کی نظم میں انسان اور پھول کی یہ ہم آہنگی Identification بلیک کی نظم سے بدرجہا بہتر زیادہ موثر و مکمل ہے۔ بلیک نے تو صرف ایک جگہ آخر میں ایک لفظ میرا کہہ کر ہم آہنگی کا محض ہلکا سا اشارہ کیا ہے۔ لیکن اقبال نے شروع سے آخر تک اپنے آپ اور پھول کے درمیان ایک مساوی نسبت Equationقائم کر لی ہے: یہ گنبد مینائی یہ عالم تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی بھٹکا ہوا راہی میں بھٹکا ہوا راہی تو منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ تو شعلہ سینائی‘ میں شعلہ سینائی تو شاخ سے کیوں پھوٹا‘ میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبہ پیدائی اک لذت یکتائی یہاں تک اس نظم کا خاتمہ اس تمنا پر ہوتا ہے : اے بادبیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو خاموشی و دل سوزی‘ سرمستی و رعنائی لالہ صحرا کو اپنے وجود کی علامت اقبال اپنے ابتدائی دور ہی میں بانگ درا کی مشہور نظم شمع اور شاعر (سنہ 1912) میں بتا چکے ہیں۔ شاعر شمع کو مخاطب کر کے کہتا ہے: در جہاں مثل چراغ لالہ صحرا ستم نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ بالکل یہی خیال لالہ صحرا کے ان دو شعروں میں ظاہر ہوا ہے: بھٹکا ہوا راہی میں بھٹکا ہوا راہی تو منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحراتی خالی ہے کلیموں سے کوہ و کمر ورنہ تو شعلہ سینائی میں شعلہ سینائی فارسی اور اردو اشعار کا مطلب یہ ہے کہ لالہ صحرا کی طرح شاعر بھی اپنی جگہ ضیا پاش تو ہے مگر اس سے کسب نور کرنے والے نہیں وہ ایک ویرانے میںجلوہ نما ہے اس کی نغمہ پردازی وہ اثر نہیںپیدا کر رہی جو اس کامقصو د ہے۔ اسی خیال کو شمع اور شاعر کے مرکزی استعارے میں شاعر نے شمع کو مخاطب کر کے ظاہر کیا تھا۔ دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش گیسوئے تواز پر پروانہ دارد شانہ درجہاں مثل چراغ لالہ صحرا ستم نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ مدتے مانند تو من ہم نفسی می سوختم در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ می طپد صد جلوہ در جن اہل فرسود من برنمی خیز ازیں محفل دل دیوانہ از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی لالہ صحرا اور شمع اور شاعر میں فرق بس یہی ہے کہ آخر الذکر میں شاعر نے اپنے آپ کو شمع سے علیحدہ کرلیا ہے۔ جب کہ اول الذکر میں اس نے لالہ صحرا کے ساتھ ہم آہنگی قائم کر لی ہے۔ اور اسی ہم آہنگی نے لالہ صحرا کو ایک حسین علامت بنا کر ایک شان دار نظم تخلیق کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قابل نقاد نے لالہ صحرا کو سمجھا ہی نہیں ہے ورنہ وہ ہرگز یہ نہ کہتے: ’’لالہ صحرا ایک علامت ہے اور وہ اسے بطور علامت استعمال کر سکتے تھے‘‘۔ استعمال کر سکتے تھے کیا؟ انہوںنے تو استمعمال کیا ہے ۔ اور اس استعمال نے ہی لالہ صحرا کونظم کے اندر ایک علامت بنا دیا ہے۔ ورنہ لالہ صحرا اپنی جگہ کوئی علامت ہی کیوں ہو وہ تو ویسے ہی ایک حقیقی پھول ہے جیسے سورج مکھی۔ یہ تو شاعرانہ استعمال ہے جو لالہ صحرا کو علامت بناتا ہے۔ جیسا کہ اقبال کی نظم میں ہے۔ آخر جناب کلیم الدین احمد سمجھتے کیا ہیں؟ کیا اقبال نے محض ایک پھول کی تصویرکشی کی ہے؟ اس پھول کا تو پورا برتائو ہی زیر بحث نظم میں علامتی اور ایمائی طور پر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچویں سے ساتویں شعر تک ایسے خیالات کا اظہار ایسے پیکروں کے ذریعے کیا گیا ہے جو لالہ صحرا سے بحیثیت ایک پھول کے کوئی تعلق نہیں رکھتے : غواص محبت کا اللہ نگہبان ہو ہر قطرہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی ہے گرمی آدم سے ہنگامہ عالم گرم سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی ان اشعار کو جنا ب کلیم الدین احمد نے نظم کے چوتھے شعر: تو شاخ سے کیوں پھوٹا‘ میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبہ پیدائی‘ اک لذت یکتائی کے مفہوم کی توسیع ایک بدلے ہوئے استعارے میں قرار دیا ہے۔ لیکن انہوںنے نظم کے آخری دو شعروں کے درمیان نسبت پر غور نہیں کیا۔ نظم کا خاتمہ تو اس تمنا پر ہوتا ہے: اے باد بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی جب کہ نظم شروع ہوئی تھی اس احساس سے: یہ گنبد مینائی‘ یہ عالم تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی لالہ صحرا کے عنوان سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ پس منظر و دشت و بیاباں ہے جو صحرا کے مترادت الفاظ ہیں ۔ اسی نسبت سے دشت کی پہنائی بھی ہے اور اس میں چلنے والی باد بیابانی بھی ۔ دشت و صحرا یا بیاباں ایک وسیع و عریض لق و دق میدان ہے جو آبادی سے خالی ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کو پوری کائنات کا استعارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس میں انسان اپنی قسم ایک ہی مخلوق ہے اور دوسرے بہتیرے مظاہر فطرت مثلاً زمین و آسمان کوہ و صحرا و سمندر سے قد و قامت میں بہت چھوٹی ہے ۔ چنانچہ نظم کا پہلا شعردشت کا استعمال ایسی وسیع استعاراتی مفہوم میں کرتا ہے: یہ گنبد مینائی یہ عالم تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی ناپید اکنار آسمان… گنبد مینائی… دنیا کو گھیرے ہے اور ایک وسیع و رعریض کائنات کا مظہر ہے۔ جس میں انسان اپنی قسم کی ایک ہی تنہا و یگانہ مخلوق ہے۔ ایک طرف دشت وجود کی وسعتیں ہیں اور دوسری طرف انسان ایک چھوٹے سے نقطے کی طرح اس میں اکیلا مسافر ہے ظاہر ہے کہ یہ ایک ہیبت ناک اور دہشت انگیز صورت حال ہے جس کا شکوہ ابھی اقبال نے اپنے اس شعر میں کیا ہے: یہ مشت خاک‘ یہ صرصر‘ یہ وسعت افلاک کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد (غزل ۴۔ بال جبریل) اس صورت حال میں شاعر کو ایسا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے وہ اپنی منزل سے بھٹک گیا ہو۔ اور ایک گم کردہ راہ کی طرح بادیہ پیمائی کر رہا ہو۔ ایسے عالم میں جب کہ اسے لالہ صحرا دکھائی دیتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ جیسے ایک رفیق سفر مل گیا ہو اس لیے کہ لالہ صحر ا بھی صحرا میں اکیلا ہی بہار دکھا رہا ہے۔ بھٹکا ہوا راہی میں بھٹکا ہوا راہی تو منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی شاعر اور لالہ صحرا کے درمیان یہ ہم آہنگی یا انسان اور پھول کے درمیان یہ رفاقت اور بھی مضمرات رکھتی ہے جس طرح ایک لالہ اپنے شوخ رنگ سے پورے صحرا کو روشن کیے ہوئے ہے اسی طرح شاعر یا انسان اپنے شوخ رنگ سے پورے صحرا کو روشن کیے ہوئے ہے اسی طرح شاعر یا انسان پوری کائنات کو اپنی سرگرمی سے آباد کیے ہوئے ہے: میری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد (غزل۔ بال جبریل) شاعر کو ا س انسانی کارنامے پر فخر و ناز بھی ہے: قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد (غزل ۔ بال جبریل) اور تعمیر کائنات کی اس ریاضت کی بدولت ہی انسان کو خلیفۃ اللہ اور اشرف المخلوقات کے مقام شوق پر فائز کیا گیا ہے: مقام شوق تیرے قدسیوں کے بس کا نہیں انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیادہ (غزل ۔ بال جبریل) خلافت الٰہی کی امانت داری نے تمام مشکلات کے درمیان بھی انسان کو پر خطر پسند بنا دیا ہے اور اس کی اولوالعزمی ملاحظہ ہو: خطر پسند طبیعت کا سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد روح ارضی نے آدم کا استقبال کرتے ہوئے اس مقام شوق کی ایک ولولہ انگیز بصیرت افروز اور حوصلہ افزا تشریح کی ہے: ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں یہ کوہ ‘ یہ صحرا‘ یہ سمندر‘ یہ ہوائیں تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے تعمیر خودی کو اثر آہ رسا دیکھ خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ (روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔ با ل جبریل) انسانیت کے ان امکانات ‘ قوتوں اور کارناموں کے پیش نظر کہنا بے جا نہ ہو گ اکہ انسان ایک مظہر قدرت ہے نور الٰہی کے انعکاس کا ایک ذریعہ ہے جلوہ خداوندی کا حامل ہے او ر اسی شعلہ سینائی کا مسکن ہے جو وادی ایمن میں کوہ طور کی چوٹی پر حضرت موسیٰؑ کے سامنے تجلی ریز ہوا تھا۔ گرچہ اس عظیم حقیقت کے قدر شناس گویا مفقود ہیں لالہ صحرا میں اپنا جلوہ دکھا رہاہے اور انسان دشت وجود میں لیکن کلیم اللہ کی نگاہ میں جو اس جلوے کی طالب ہو ناپید ہے۔ خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ تو شعلہ سینائی‘ میں شعلہ سینائی حالانکہ اپنے وجود ے اندر مضمر کمالات کو بروئے عمل لانے ہی کے لیے لالہ شاخ گل سے پھوٹا اور شاعر (انسان )محبوب حقیقی سے بچھڑ کر دنیا میں آیا: تو شاخ سے کیوں پھوٹا میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبہ پیدائی اک لذت یکتائی یہی نکتہ ’’روح ارضٰ آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ کے پہلے بند میں بیان کیا گیا ہے: کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ اس جلوہ بے پروا کو پردوں میں چھپا دیکھ ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ لہٰذا خواہ لالہ صحرا کی رنگ فشانی ہو یا انسان کی ضو فگنی دونوں عشق و محبت حقیقی ازلی و ابدی اور کائناتی و آفاقی عشق و محبت کے کرشمے ہیں۔ لیکن دشت و جود کی پہنائیوں اور بیابان ہستی کی وسعتوں میں محبت کی یہ خطر پسندی ایک بے حد خطرناک اور پر ہول عمل ہے ۔ اس لیے شاعر خدا ہی سے دعا کرتا ہے جس کی رضا جوئی کے لیے اس نے خلافت ارضی کا بار امانت صرف سودائے محبت میں اٹھالیا ہے: غواص محبت کا اللہ نگہباں ہو ہر قطرہ دریا میں دریا کی ہے گہرائی کائنات وجود کی وسعتوں میں سیر کرنے والے مسافر اور بحر ہستی کی تہوں میں غوطہ لگانے والے تیراک کو شاید معلوم نہیں کہ اس نے جنون عشق میں کتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے: دریں ورطہ کشتی فروشد ہزار کہ پیدا نہ شد تختہ برکنار کتنی ہی موجیں حیات کی اٹھتی ہیں مگر بہت کم ساحل مقصود تک پہنچ جاتی ہیں زندگی کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں ہر طرف بھنور ہی بھنور ہے جو غوطہ لگانے والوں کو ڈبوتا بھی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی غرقابی پر روتا بھی ہے ۔ یہ ناکام ساحل موجیں ہیں جو گرداب کے لپیٹ میں آ جاتی ہیں اور گویا گرداب بن کر اپنی نامرادی پر نوحہ کرتی ہیںـ: اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی لیکن ان تمام خطرات کے باوجود جذبہ عشق انسا ن کو ہمیشہ سرگرم رکھتاہے اسے مہم جوئی پر ابھارتا ہے خطر پسند طبیعت کی سرگرمی اور مہم جوئی ہی ہے جس سے سارا ہنگامہ وجود اور ساری رونق حیات ہے: ہے گرمی آدم سے ہنگامہ عالم گرم سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی کائنات کی وسعتوں میں انسان کی تمام ہنگامہ آرائیو ں کے سامنے کواکب سیارے اور ستارے یہاں تک کہ دنیا کو گرمی و روشنی پہنچانے والا آفتاب عالم تاب بھی محض تماشائی ہے۔ یہ مظاہر فطرت صرف اطاعت کر رہے ہیں جب کہ انسان محبت کرتا ہے۔ خالق کی اسی محبت نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اور اسی لیے وہ خالق کی نیابت کی امانت کا اہل قرار پایا ہے یہاں پہنچ کر ایک لطیف سا اشارہ ہوتا ہے کہ لالہ صحرا کے ساتھ انسان کی جو مساوی نسبت ہے اور ہم آہنگی ہوئی تھی اس میں کچھ فرق آ گیا ہے۔ اس لیے کہ لالہ بھی ایک مظہر فطرت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جب کہ انسان دیگر مظاہر فطرت سے آگے بڑھ کر راز خداوندی اور امانت الٰہی کا حامل ہے۔ لیکن یہ بار امانت بڑاہنگامہ خیز‘ شور انگیز اور جانکاہ اور جاں گداز ہے۔ اس لیے شاعر ایک لمحے کے لیے مظہر فطرت لالہ صحرا جیسا سکون و اطمینا ن طلب کرتا ہے: اے باد بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی یہ نظم کا آخری شعر ہے پہلے شعر میں گنبد مینائی کے نیچے ایک عالم تنہائی ہے ۔ دشت وجود کے اندر شاعر کو جس خوف کا احساس ہوتا تھا اس سے نجات کی ایک صورت یہی ہے کہ وہ بھی باد بیاباں کے جھونکوں کے درمیان لالہ صحرا کی طرح خموشی و دل سوزی کے ساتھ اپنی جگہ اور اپنے کوائف میں سرمست ہو کر اپنے وجود کی رعنائیوں کی بہار دکھائے۔ لیکن شارع ایک انسان کا یہ مقدر نہیں اس کی خاموشی و دل سوزی اور سرمستی و رعنائی اس کے قلب و روح کی اندرونی کیفیت تو ہو سکتی ہے اور اس میں وہ یقینا لالہ صحرا کے ساتھ شریک ہے مگر وہ تو ازل سے جنس محبت کا خریدار ہے اور اسے رز و شب کی بے تابی عطا ہوتی ہے فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیںـ: عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن تیری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی اور یہ نمود انسان کا وظیفہ حیات اور راز فطرت ہے: تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی اسی لیے روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے اس بند پر ختم ہوتی ہے: نالندہ تیرے عود کا ہر تار ازل سے تو جنس محبت کا خریدار ازل سے تو پیر صنم خانہ اسرار ازل سے محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ اب لالہ صحرا کے اس کلیدی شعر کو ایک بارپھرپڑھیے: ہے گرمی آدم سے ہنگامہ عالم گرم سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی ساری کائنات تماشائی اور انسان تماشاگاہ عالم۔ لہٰذا معاملہ فقط اک جذبہ پیدائی اک لذت یکتائی کا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورا ہنگامہ عالم ہے ۔ یہ مقام شوق ہے ۔ اور اسی مقام کے تقاضے پورے کرنے کے لیے انسان شاخ ازل سے ٹوٹ کر روئے زمین پر آیا: باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر اور اس کے ساتھ ہی: عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کریہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے کیا دشت وجود کے لالہ صحرا کی یہ رنگین زرین فکر انگیز ‘ حیات کش‘ جاں افزا‘ اور ولولہ انگیز داستان محض اقبال کے Ego کا فسانہ ہے۔ جیسا کہ جناب کلیم الدین احمد سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں؟ نظم کا معروضی تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ موصوف نے سرے سے نظم کو سمجھا ہی نہیں ہے ممکن ہے کہ وہ مارول اور بلیک کی انگریزی نظموں کو سمجھتے ہوں‘ مگر اقبا ل کی اردو نظم کو سمجھنے سے یکسر قاصر نظر آتے ہیں ورنہ لالہ صحرا جیسی شان دار‘ عمیق و رفیع‘ دبیز اور نفیس تخلیق کا موازنہ اس کی شرمیلی محبوبہ کے نام (مارول) اور آہ ! سورج مکھی (بلیک ) جیسی نظموں کے ساتھ کرنے کی جسارت نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر وہ لالہ صحرا کی تصویروں کے مطالب کو سمجھ سکتے تو ازل بسیط ریگ زاروں Deserts of vast eternity اور ’’وقت کے پردار رتھ‘‘ Time's winged chariot یا ’’آفتاب کے قدم‘‘ Steps of the Sun اور ’’سہانی سنہری زمین‘‘ Sweet Golden Clime جیسی تصویریں گنبد مینائی دشت کی پہنائی ’’شعلہ سینائی‘‘ غواص محبت ‘‘ ’’قطرہ دریا‘‘ ’’بھنور کی آنکھ‘‘ ، ’’ہنگامہ عالم‘‘ اور ’’باد بیابانی‘‘ جیسی تصویروں کے آگے گرد معلوم ہوتیں خاص کر اس لیے کہ ان تصویروں کے پیچھے موضوع نظم اور خود کلام شاعر کے تصورات و مضمرات کی ایک ناپید کنار دنیا ازلی و ابدی و سرمدی نغمات سے معمور ہے۔ جب کہ مارول کی دنیائے تصور بھی چھوٹی سی ہے اور تخیل شاعری بھی منقبض قسم کا جناب کلیم الدین احمد نے لالہ و صحرا کے سلسلے میں جس نافہمی اور ناقدری کا ثبوت دیا ہے اس پر بہترین تبصرہ نظم کا یہ شعر ہی ہے: خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ کمر ورنہ تو شعلہ سینائی میں شعلہ سینائی واقعہ یہ ہے کہ یہ پر معنی تبصرہ اقبال کے متعلق جناب کلیم الدین احمد کی پوری تنقید خاص کر زیر نظر کتاب ’’اقبال…ایک مطالعہ‘‘ پر بالکل چست اور چسپاں ہے۔ ٭٭٭ لالہ صحرا ہی کی طرح شاہین پر بھی جناب کلیم الدین احمد کی تنقید نافہمی اور کج فہمی پر مبنی ہے۔ وہ تنقید کا آغاز کرتے ہوئے اردو شاعری پر ایک نظر‘ میں کیا ہوا اپنا تبصرہ نقل کرتے ہیں: ’’اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اردو شاعری اور مغربی شاعری میں کس قدر تفاوت ہے تو شاہین کا ہوپکنس کی دی ونڈ ہوور سے مقابلہ کیجیے۔ آپ شعری کے بہت سے ایسے امکانات کا پتہ چلے گا جن کی اردو شاعروں کو خبر نہیں۔ اور ان کی پرواز سے بہت دور ہیں۔ وہ پورب اور پچھم کی دنیا میں تو سانس لیتے ہیں مگر شاعری کے نیلگوں آسماں تک ان کی رسائی نہیں‘‘ (ص 342) آخری جملے کے الفاظ ہمارے نقاد نے اقبال کی نظم ’’شاہین‘‘ سے مستعار لیے ہیں نظم کا ایک شعر ہے: یہ پورب یہ پچھم یہ چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ اقبال نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ ان کا مطلب بخوبی سمجھتے تھے۔ لیکن یہی بات جناب کلیم الدین احمد کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی ۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ اقبال اقبال کے اشعار سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ چنانچہ پورب اور پچھم چکوروں کی دنیا کیا ہوتی اور شاعری کے نیلگوںبے کراں آسماں تک رسائی کیسے حاصل کی جاتی؟ س کا مطلق علم جناب کلیم الدین احمد کو نہیں ہے ورنہ وہ یہ بات کم از کم ’’وند ہوور‘‘ اور شاہین کے موازنے میں ہرگز نہیں کہتے۔ اول تو ونڈ ہوور کے مصنف کی اپنی دنیا ہی چکوروں کی دنیا تھی وہ زندگی کے وسیع میدان سے بھاگ کر رہبانیت کی کوٹھری Cloister میں بند ہو گیا تھا۔ دوسرے اس مصنف (ہوپکنس) کی شاعری ایک نہایت محدود قسم کی چیز ہے۔ اقبال جیسے وسیع النظر آفاقی نقطہ نظر اور ہمہ گیر جدوجہد کے حامل شاعر کی عظیم الشان بسیط مرکب اور عمیق و رفیع شاعری سے اس ہوپکنس اور س کی شاعری کاکیا مقابلہ؟ لیکن جناب کلیم الدین احمد کو اس بنیادی حقیقت کا کوئی شعور ہی نہیں اس لیے کہ وہ خود ہوپکنس سے بھی زیادہ محدود شخصیت رکھتے ہیں اور اپنی 42+25=67تھرڈ کلاس متبذل اور طفلانہ نظموں کو شاعری سمجھتے ہیں۔ اب ’’شاہین‘ ‘ کے سلسلے میں جناب کلیم الدین احمد کی سخن فہمی کا معیار ملاحظہ ہو وہ نظم کے مندرجہ ذیل دو اشعار کو حذف کر کے فرماتے ہیں: نہ باد بہاری نہ گل نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ’’دو شعروں سے حذف کر دینے سے تسلسل میں کوئی کمی نہیں محسوس ہوتی‘‘۔ (ص 345) جس سیاق و سباق سے یہ حسین پر معنی اور خیال انگیز اشعار نہایت بد ذوقی کے ساتھ نکالے گئے ہیں وہ یہ ہیں: کیا میں نے اس خاک داں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل س ہے فطرت مری راہبانہ نہ باد بہاری نہ گل چیں نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربت غازیانہ ہمارے مغربی نقاد تیسرے اور چوتھے شعر کو بیچ سے نکال کر ‘ پہلے دوسرے اور پانچویں اشعار کے درمیان تسلسل اس طرح دریافت کرتے ہیں: ’’اگرآپ ان دو شعروں (3 4) کو حذف کر دیں تو خیالات کے تسلسل میںآپ کو کوئی خلا نہیں محسوس ہو گی‘‘۔ (ص 345) یہ عجیب و غریب تسلسل ہے جو موج خیال کے بہترین دھاروں کو حذف کر کے دریافت کیا جاتا ہے۔ ہمارے مغربی نقاد کی سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے ‘ دوسرے اور پانچویں شعر کا کیا ربط تیسرے اور چوتھے شعر کے ساتھ ہے وہ گمان کرتے ہیں کہ باقی سب اشعار تو شاہین کی زبانی ادا ہوتے ہیں مگر تیسرے اور چوتھے اشعار شاعر کی زبان ہیں: ’’ایک لمحہ کے لیے شاید وہ (اقبال) بھول جاتے ہیں کہ یہ باتیں شاہین کی زبانی کہی جا رہی ہیں۔ ان شعروں میں (۳،۴) کی زبان شاعر کی زبان بن جاتی ہے اور اس کے خیالات کی ترجمانی کرتی ہے‘‘۔ (ص 45-344) جناب کلیم الدین احمد بھول جاتے ہیں کہ پوری نظم اور اس کے تمام اشعار ہی شاعر کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں اور شاعر کی زبان سے اد اہوئے۔ رہی یہ بات کہ نظم کاموضوع شاہین ہے اور ااس میں واحد متکلم کا استعمال اس کے لیے ہوا ہے ‘ تو یقینا ایسا ہی ہے اور دوسرے تمام اشعار کی طرح نمبر 3,4بھی تخیلی طور پر شاعر کی زبان سے نہیں شاہین کی زبان سے ہی ادا ہوئے ہیں آخر اس میں بے ربطی کیا ہے کہ جس نے یہ کہا کہ ۱۔ ’’میں نے اس نے خاکداں سے کنارا کیا جہاں رزق کا نام آب و دانہ ہے‘‘۔ ۲۔ بیاباں کی خلوت مجھے خوش آتی ہے۔ اس لیے کہ ازل سے مری فطرت راہبانہ ہے‘‘۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ۱۔ بیاباں میں نہ باد بہاری ہے نہ گل چیں نہ بلبل ‘ نہ نغمہ عاشقانہ کی بیماری ۲۔ اور خیاباں میں یہ سب چیزیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے خیابانیوں کی ادائیں بہت دلبرانہ ہوتی ہیں لہٰذا ان سے پرہیز لازم ہے؟ ظاہر ہے کہ شعر نمبر 3,4شعر نمبر 2ہی کے خیال کی Concreteاور Convincing (ٹھوس اور قابل کن ) تشریح ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کیسی دل فریب چیزوں سے کنار ہ کشی اختیار کی گئی ہے۔ اور اس تشریح سے اس ترک لذت کی اہمیت اشکارا کرتی ہے جسے شاہین نے اختیار کیا ہے۔ یہ ترک شاہین کی قناعت اور اس کے زہد پر دلالت کرتا ہے‘ ساتھ ہی اس کی صلابت و شجاعت کا راز بتاتا ہے۔ چنانچہ پانچواں ہی شعر بالکل تیسرے اور چوتھے کے تسلسل میں جس طرح یہ دونوں دوسرے شعر کے تسلسل میں تھے یہ ہے : ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربت غازیانہ خیاباں کی نزاکتیں کم زوری اور کاہلی پیدا کرتی ہیں۔ دل بری کی ادائیں سستی اور آرام طلبی کا باعث ہیں باد بہاری ‘ گل چیں اور بلبل اور ان سب کی فضا میں عشق و محبت کے عشوے اور نغمے جی کوروگ لگاتے ہیں طبیعت کو بیمار کرتے ہیں یہ ساری چیزیں خاکدان کے خمیر میں ہیں اور یہ آب و دانہ کا فتور ہے۔ لہٰذا خیاباں چھوڑ کر شاہین نے بیاباں کی خلوت اختیار کی۔ یہ اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ جو راہبوں کی طرح محفلوںاور عشرتوں سے دور رہنا پسند کرتی ہیں اس کے اندر تو کل اور زہد کی شان ہے ۔ چنانچہ آگے کے دو شعار اسی شان زہد اور اس کے ساتھ ساتھ جوا ں مرد کی ضربت غازیانہ پر روشنی ڈالتے ہیں: حمام و کبوتر کا بھوکا نہیںمیں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا پلٹنا ‘ پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ان اشعار سے بعض نادان ناقدوں کے اس بے بنیاد الزام کی بھی قطعی تردید ہو جاتی ہے کہ اقبال کا شاہین فاشزم کی علامت ہے۔ کم از کم اقبال پرندوں میں شاہین کی قوت و شوکت کا مطمح نظر جبرو تشدد اور خوں ریزی نہیںقرار دیتے ۔ اس کے برخلاف وہ شاہین سے اقرار کراتے ہیں کہ اس کی زندگی زاہدانہ ہے اور وہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ فضا میں اس کا پلٹنا جھپٹنا پلٹ کر جھپٹنا بھی شکار کے لالچ میں دوسرے پرندوں پر حملہ آوری کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ایک ریاض اور ورزش ہے جواں مر د کی ضربت غازیانہ کو قائم رکھنے اور ترقی دینے کے لیے اوریہ جوانمردی کوئی معمولی اور محدود قسم کی مردانگی نہیں ہے۔ اس میں ایک مرد آفاقی کا انداز ہے: نہ چینی و عربی وہ نہ رومی و شامی سماسکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی (اقبال۔ بال جبریل غزل 45) یہی آفاقیت ہے جو شاہین کو کسی ایک جگہ نشیمن بنا کر چین سے بیٹھنے نہیںدیتی یہ بے سروسامانی اس پرندے کے فقر و درویشی کی دلیل ہے۔ گرچہ وہ قوی اور متحرک ہے مگر ظالم اور عیش کوش نہیں ہے اس کی بے نیازی غیرت اور خودی کا ایک نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس کا زاہدانہ و فقیرانہ جلال بجائے خود ایک تصویر جمال ہے: یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ ان شعروں پر نہایت ربط و تسلسل ‘ ترتیب و تنظیم‘ مکمل ارتقائے خیال اور فکر انگیزی اور معنی پروری کے ساتھ یہ شان دار حسین اور عظیم تخلیق اختتام پذیر ہوتی ہے۔ ’’شاہین‘‘ اقبا ل کا ایک محبوب اور اہم موضوع ہے اور ا ن کی شاعری میں اس کی ایک بنیادی علامتی حیثیت ہے ۔ لفظ شاہین اور اس کے مشتقات کو انہوںنے بکثرت استعارے کے طور پر مختلف معانی میں استعمال کیا ہے پیام مشرق کے باب لالہ طور میں ایک رباعی (یا قطعہ؟) ہے: قبائے زندگانی چاک تاکے چوموراں آشیاں اور خاک تاکے؟ بہ پرواز او شاہینی بیاموز تلاش دانہ در خاشاک تاکے؟ بال جبریل کے مشہور اشعار ہیں: عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں (ایک جوان کے نام) یہ اور اس قسم کے بے شمار اشعار کی گونج نظم ’’شاہین‘‘ میں محسوس ہوتی ہے۔ اگر شاہین سے وابستہ اقبال کے خیالات کا چند لفظوں میں خلاصہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بنیادی نکات تین ہیں… قوت اس کے باوجود زہد دونوں کے نتیجے میں بلند نگاہی شاہین کے یہی تینوں عناصر زیر نظم نظم میں نہایت پیوستگی اور خوب صورتی کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں اس طرح کہ ایک علامتی نظم ہونے کے باوجود اس کے اشعار میں ہم بتدریج پرندوں کی دنیا کا درویش کا مجسم ہیولا ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے مغربی نقاد نے شاید نظم کی ان خصوصیات پر غور کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیںفرماتی ہے۔ اس لیے کہ ان کا مقصد اقبال کی نظم کا مطالعہ نہیں ۔ بلکہ ہوپکنس کی نظم کے ساتھ اس کا موازنہ کر کے اس میں عیوب نکالنا ہے… عیب چینی کی مثال ملاحظہ کیجیے: ’’راہب تارک دنیا ہوتا ہے زاہد ہوتا ہے لیکن غازی نہیں ہوتا مجاہد نہیںہوتا‘‘۔ (ص 345) یہ اعتراض اس نظم کے پانچویں شعر پر ہے۔ جس میں ضربت غازیانہ کی ترکیب ہے اور ہمارے مغربی نقاد کیا چاہتے ہیں کہ اس ترکیب کا مفہوم دوسرے شعر کی فطرت مربی راہبانہ سے متصادم ہے اور اس طرح اقبال نے گویا متضاد باتیں کی ہیں چنانچہ فرماتے ہیں: ’’اقبال کا شاہین راہب بھی ہے زاہد بھی ہے غازی بھی ہے‘‘۔ (صفحہ 345) اس قسم کے اعتراض سے بدیہی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے مغربی نقاد یا اردو میں مستعمل الفاظ کے معنی سے واقف نہیں یا شاعر کی زبان میں نہیں سمجھتے یا اقبال کی شاعری سے بالکل بے خبر ہیں۔ زیر نظر نظم میں راہب کا استعمال زاہد کی حیثیت سے تو ہوتاہے مگر تارک الدنیا کے صوفیانہ مفہوم میں قطعاً نہیں ہوا ہے یہاں تک کہ لفظ درویش کا استعمال بھی گوشہ گیر کے صوفیانہ مفہوم کے بالکل برخلاف آشیاں سے بے نیاز ہو کر وسیع فضائوں میں پرواز کرنے والے کے معنی میں ہوا ہے۔ شاہین کی راہبانہ فطرت کا مطلب شاعر نے نظم کے پہلے ہی شعر میں واضح کر دیا ہے: کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ اس کے بعد دوسرے شعر میں پہلے شعر کے مفہوم کے تسلسل میں اور اس کی تشریح کے لیے کہا گیا ہے: بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ معلوم ہوا کہ نظم شاہین میں رہبانیت کا استعمال قناعت اور خلوت گزینی نیز بلند پروازی کے لیے ہوا ہے۔ یعنی جس طرح اقبال کی شاعری میں شاہین چند خیالات کی علامت ہے اسی طرح راہب بھی ہے۔ بالخصوص شاہین کے سیاق و سباق میں دیکھیے قندیل رہبانی کا استعارہ: گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ظاہر ہے کہ ایسا راہب جو لوگوں کو اندھیرے میں روشنی دکھانے کا عزم رکھتا ہو زاہد ہونے کے ساتھ ساتھ غازی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں صفات اقبال کے مرد مومن کی شخصیت میں نمایاں طورپر جلوہ گر ہیں اور شاہین اسی شخصیت کا ایک اشاریہ ہے۔ تاریخ اسلام کے کئی ہیرو اس شخصیت کے نمونے ہیں شاہین صفت ’’طارق کی دعا‘‘ (اندلس کے میدان جنگ میں) یہ ہے: یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصود و مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی (بال جبریل) غازی کی صفت ایک طرف یہ ہے کہ لذ ت آشنائی اسے دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے اور دوسری صرف یہ کہ اس کا مطلوب و مقصود شہادت ہے۔ یہی وہ بلند نگاہ اور باعمل بے نیازی ہے جو شاہین کو بیک وقت راہب و زاہد اور غازی و مجاہد دونوں بناتی ہے اور ان دونوں کیفیات کے درمیان اقبال کے تصور شاہین میں کوئی تضاد نہیں بلکہ کامل ہم آہنگی ہے۔ اس واضح حقیقت کے باوجود ہمارے مغربی نقاد ساقی نامہ کا مذکور ذیل شعر پیش کر کے فرماتے ہیں: کہیں جرہ شاہین سیماب رنگ لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ ’’شاہین صرف جھپٹتا ہی نہیں وہ حمام و کبوتر کا شکار کرتا ہے اور حمام و کبوتر ہوں یا چکور ہوں ان کے لہو سے وہ آلودہ چنگ کرتا ہے اس لیے یہ صرف لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ نہیںہے‘‘۔ (ص 346) ساقی نامہ کا ایک شعر تو جناب کلیم الدین احمد کو یاد ہے اور وہ اس سے استدلال کرتے ہیں مگر بال جبریل کی یہ نصیحت وہ کیوں فراموش کر گئے؟ بچہ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سال خورد اے ترے شہپر پہ آساں رفعت چرخ بریں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں یہاں کبوتر کے لہو میں جو مزا ہے اس سے انکار نہیں۔ بلکہ اس کابرملا اقرار کیا گیا ہے ۔ لیکن دیکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اقبال شاہین کے سلسلے میں جس چیزپر زور دیتے ہیں اور اس پرندے کو اس چیز کی علامت قرار دیتے ہیں وہ سخت کوشی اور اس کی یہ تصویر ہے : جھپٹنا‘ پلٹنا‘ پلٹ کر جھپٹنا اسی لیے اصل مزا کبوتر کے لہو میں نہیں‘ اس پر جھپٹنے میں ہے چکوروں کے لہو سے آلودہ چنگ رہنے میں نہیں سیماب رنگ ہونے میں ہیں اور یہ خصوصیت کسی دوسرے کا لہو پینے سے حاصل نہیں ہوتی خود اپنے لہو کی آگ میں جلنے سے میسر آتی ہے: ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام یہی وہ جاں سوزی او رسخت کوشی ہے جس سے دنیا کی زندگی کی تلخیوں میں شیرینی پیدا ہوتی ہے: سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں لیکن جناب کلیم الدین احمد کو ان سب باتوں کا علم ہے نہ احساس انہیں بس یہ ثابت کرنا ہے کہ اقبال کے افکار حقیقی نہیں۔ چنانچہ اپنی خود نوشت سوانح عمری سے کبوتر اور باز کا ایک قصہ نقل کر کے نتیجہ نکالتے ہیں: ’’یہ (باز کی کبوتر دشمنی) حقیقت ہے باقی شاعری ہے‘‘ (ص 346)۔ جس واقعے اور حقیقت کا ذکر جناب کلیم الدین احمد نے کیا ہے وہ اقبا ل کے مشاہدے میں بھی آ چکی تھی اور ظاہر ہے کہ جس شخص نے شاہین کی ان صفات کا سراغ لگایا ہے جن کی طرف بہت کم لوگوں کی نگاہ جاتی ہے اور ہمارے مغربی نقاد تو یقینا ان شاہینی صفات کامشاہدہ و مطالعہ بھی نہیں کر سکے ہیں۔ اس شخص کو یہ پیش پا افتادہ بات تو معلوم ہی تھی کہ شاہین کبوتر کا شکار کرتا ہے اور وہ ایک شکاری پرندہ ہے آخر انہوںنے یہ کیا سمجھ کر فرمان خدا میں کہا تھا: گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو ظاہر ہے کہ یہاں بھی شاہین قوی شکاری کی علامت ہے اور کنجشک فرومایہ کمزور شکار کی۔ لہٰذا نظم شاہین میں یہ سوال اس کا نہیں ہے کہ علم الحیوانات کے مطابق شاہین کیا ہے بلکہ سوال صرف یہ ہے کہ شاعر نے اس پرندے کو کس معنی و مقصد کے لیے استعمال کیا ہے ؟ اگر ہم شاہین کو ایک استعارہ اور علامت مان لیں جو وہ بداہتہً اقبال کی شاعری میں ہے۔ تو علم البلاغت کی رو سے ہمیں معلوم ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ کی طرح مستعار اور مستعار منہ کے درمیان جزوی تطبیق استعارے کے لیے کافی ہے ۔ چنانچہ اقبال نے شاہین کا استعارہ اپنے مخصوص پیغام کے سیاق و سباق میں اس کی چند مخصوص جزئیات کے پیش نظر استعمال کیا ہے‘ نہ کہ عام اور تمام صفات کو سامنے رکھ کر حالانکہ وہ اس کی ان صفات سے جو مخصوص جزئیات سے مختلف اور ان کے علاوہ ہیں نہ صڑف یہ کہ اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اپنے مخصوص پیغام سے الگ ہو کر عام معنوں میں ان کا استعمال بھی کرتے ہیں جیسا کہ فرمان خدا کے محولہ بالا شعر میں ہوا ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کے انداز تنقید سے ہویدا ہے کہ انہوںنے اس معروضی ‘ علمی ‘ اور مرتب و منظم طریقے سے شاہین کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ لہٰذا وہ بھی بعض دوسرے سطحی اور سرسری مطالعہ کرنے والوں کی طرح یہ سستا اور عامیانہ و سوقیانہ قسم کا اعتراض دوسروں سے بھی زیادہ بھونڈے طریقے سے کرتے ہیں: یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا شاہین چکوروں اور ان کی دنیا کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اپنی طاقت پر اسے غرہ ہے ۔ کیوں کہ وہ لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ رہتا ہے۔ شاید اسی لیے کسی نے کہا ہے کہ اقبال میں Fascist رجحان تھا اور وہ نری طاقت کے پجاری تھے‘‘ (ص 347) یہ ایک نہایت پر مذاق تنقید ہے ۔ بالکل مسخرا پن ہے ایک مصرعے پر ہی اعتراض کا محل تعمیر کر لیا گیا ہے۔ جب کہ پورا شعر ہے: یہ پورب ‘ یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ اب ذرا غور کیجیے کہ شاعر نے پہلے مصرع میں پورب اور پچھم کی حد بندیوں کو چکوروں کی دنیا کہا ہے جب کہ اپنی وسیع دنیا اس نے بے کراں نیلگوں آسماں کو قرار دیا ہے خود جناب کلیم الدین احمد اقرار کرتے ہیں: ’’بہرکیف وہ (شاعر یا شاہین) دو دنیائوں کا مقابلہ کرتا ہے وہ ایک طرف یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا ہے اور دوسری طرف وہ نیلگوں آسماں بے کرانہ ہے‘‘۔ (ص 347) جب حقیقت امر یہ ہے کہ ایک مصرعے پر اعتراض جڑنے کا حاصل؟ اعتراض برائے اعتراض؟ یقینا اور بداہتہً یہی ہے کہ جو جناب کلیم الدین احمد کی معترضانہ تنقید کا امتیازی اور کاروباری نشان Trade Mark ہے۔ اگر اقبال کسی کی تحقیر وہ بھی ضعیف کی تحقیر کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ ہمارے نقاد سمجھنا چاہتے ہیں تو اس مصرعے میں کس کی تحقیر ہے۔ کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو کنجشک فرومایہ ضرور کہا ہے مگر ظاہر ہے کہ اس کی تحقیر کے لیے نہیں‘ بلکہ ایک مظلوم اور ضعیف کی حیثیت سے اس کے ساتھ ہمدردی کے لیے جب کہ یہاں شاہین کے عام روایتی مفہوم کے پیش نظر اس کو ایک جابر و ظالم شہ زور کی حیثیت سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ یہ بیان نہایت لغو اور مضحکہ خیز ہے کہ: ’’اقبال میں Fascist رجحان تھا اور وہ نری طاقت کے پجاری تھے‘‘۔ وہ اقبال (فطرت) کے اس اصول اور تاریخ کے اس سبق سے یقینا آگاہ ہیں: تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات (ابوالعلا معری۔ بال جبریل) اس شعر کے انداز اور پوری نظم کے بیان سے جس کا یہ آخری شعر بطور نتیجہ و سبق درج کیا گیا ہے ظاہر ہے کہ اقبال کو ان لوگوں سے ہمدردی ہے جو جرم ضعیفی کے مرتکب یا زیادہ صحیح لفظ میں ملزم اپنے کسی قصور کے بغیر ہیں چنانچہ وہ (اقبال) چاہتے ہیں کہ ضعیفوں کو قوت حاصل کر کے قویوں کے ساتھ مقابلہ کرنے پر ابھاریں۔ خود خدا کی زبانی انہوںنے یہ فرمان جاری کرایا ہے کہ : کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو یہی وجہ ہے کہ ضرب کلیم کے آغاز میں ’’ناظرین‘‘ سے خطاب کر کے تلقین کرتے ہیں: جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ نہ زور دست و ضربت کاری کا ہے مقام میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات فطرت لہو ترنگ ہے غافل! نہ جل ترنگ یہ واقعتہً زندگی کے حقائق ہیں عدم تشدد Non-Violence کا فلسفہ ایک لایعنی چیز ہے اور جو لوگ اس کی تلقین کرتے ہیں وہ یا تو زندگی کے حقائق سے بالکل بے خبر ہیں یا محض دکھاوا Hypocrisy کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں گاندھی جی نے اس نام نہاد فلسفے کو محض ایک سیاسی حربے Political Stunt کے طور پر انگریزوں حاکموں کے مقابے میں استعمال کیا‘ صرف اس لیے کہ وہ برطانوی سامراج کی طاقت کامقابلہ طاقت سے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ۔ مگر ن کے اس فلسفے کا بھرم کھل گیا جب انہوںنے پہلی جنگ عظیم میں جرمن کے مقابلے پر برطانیہ اور اس کے رفقاء کا ساتھ دیا۔ اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ حق و ناحق یا خیر و شر کی جنگ تھی‘ جس میں ایک حق پسند غیر جانبدار نہیں رہ سکتا او رایسے موقع پر شر کے خلاف ہتھیار اٹھانا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ جب معاملے کی اصلیت یہ ہے تو پھر عدم تشدد کا فلسفہ ہچ معنی دارد؟ خیر و شر اور حق و باطل کی رزم آراء اور اس میں خیر اور حق کے لیے شر اور باطل کے خلاف مسلح جہاد ہی کے علمبردار اقبا ل بھی ہیں: ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی (ارتقائ۔ بانگ درا) ہو حلقہ یاراں تو برشیم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن (مومن۔ ضرب کلیم) یہی وہ روح اور روحانی جدلیات ہیں۔ جس پر دنیا کی ہر نظریاتی کش مکش مبنی ہے اور جس کے نتیجے میں تاریخ کے انقلابات بھی رونما ہوئے ہیں اور ارتقائے حیات کا بھی سامان ہوا ہے جس سے گریز کی کھلی شکست اور مسائل زندگی سے فرار ہے: مجاہدانہ حرارت نہ رہی صوفی میں بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست فقیہہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست (شکست ۔ ضرب کلیم) سلطان ٹیپو کی وصیت یہ ہے: باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول (ضرب کلیم) حق کے لیے سرفروشی کی ایک تاریخی مثال او ر عظیم الشان نمونہ حضرت امام حسینؓ کا ہے جو اقبال کے سب سے بڑے علامتی شاہین ہیں اور ان کی شخصیت کو شاعرنے مجاہد حق کاایک مستقل استعارہ بنا دیا ہے: حقیقت ابدی ہے مقام شبیری قوت اقبال کے نزدیک حیات کا ایک بنیادی عنصرہے‘ جسے وہ جلال سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور ان کے خیال میں زندگی کے اندر توازن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب جمال کے ساتھ ساتھ جلال بھی موجو د رہے: مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی کہ سربسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ کہ جس کا شعلہ نہ ہو سرکش و بے باک (جلال و جمال۔ ضرب کلیم) ان اشعار میں فلاطون کی تیزی ادراک پر زور حیدری کو ترجیح دی گئی ہے۔ حالانکہ حضرت علیؓ تلوار کے ساتھ ساتھ علم کے بھی دھنی تھے او راسلام کے فلسفیانہ تصوف کے سارے سلسلے ان تک ہی پہنچتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق انہیں باب علم خوب زبان نبوت نے کہا ہے مگر افلاطون کے مقابلے میں اقبال حضرت علیؓ کے زور بازو کو نمایاں کرتے ہیں اور حیدری کو بھی شبیری کی طرح ایک استعارہ بنا دیتے ہیں: جسے نان جویں بخشی ہے تو نے اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر یہ ترجیح زندگی کے حقائق کے پیش نظر ہے: حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسم افلاطون (مدنیت اسلام۔ ضر ب کلیم) اقبال انسانی کردار میں حقیقت پسندانہ توازن چاہتے ہیں۔ ان کا مثالی انسان ایک مرکب معتدل اور جامع شخصیت کا حامل ہے: قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان (مرد مسلمان ۔ ضرب کلیم) اقبال قوت کے بارے میں فی الواقع کیا نظریہ رکھتے ہیں وہ اس فکر انگیز نظم سے قطعی طور پر واضح ہو جاتاہے: اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں سو بار ہوئی حضرت انسان کی قبا چاک تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے صاحب نظراں نشہ قوت ہے خطرناک اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے عقل و نظر و فہم و ہنر ہیں خس و خاشاک لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بڑھ کر ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاق (قوت اور دیں۔ ضرب کلیم) اس سلسلے میں اقبال کو اہل مغرب اور ان کے مشرقی شاگردوں سے جن میں ایک جناب کلیم الدین احمد بھی ہیں ‘ یہ شکایت ہے کہ یہ حضرات اسلامی جہاد پر تو اعتراض کرتے ہیں‘ حالانکہ یہ نہایت معقول حدود میں صرف حق کے دفاع کے لیے باطل کے خلاف تیغ آزمائی ہے۔ مگر اہل مغرب صرف سامراجی اور نو آبادیاتی مفادات کے لیے یعنی باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے کمزور قوموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں تو مغرب پرست اس جارحانہ جنگ بازی کے جواز تلاش کرتے ہیں:ـ تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی دنیا کو ہو جس کے پنجہ خونیں سے ہو خطر باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے یورپ زدہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے یہ بات اسلام کا محاسبہ‘ یورپ سے درگزر (جہاد۔ ضر ب کلیم) بعض بے خبر لوگ اقبال کے تصور شاہین کے سرچشمے کے طور پر نطشہ کے فلسفہ قوت کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ غور نہیں کرتے کہ اقبال نے تو نطشہ کو مجذوب فرنگی کہا ہے اور اسے ایک سبق دینے کی بات کی ہے۔ اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھا تھا مقام کبریا کیا ہے مجذوب فرنگی کی ترکیب پر خود اقبال نے یہ نوٹ کر دیا ہے: ’’جرمنی کا مشہور مجذوب فلسفی نیٹشا جو اپنے قلبی واردات کا صحیح اندازہ نہ کر سکا اور اس لیے اس کے فلسفیانہ افکار نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا‘‘۔ (بال جبریل) ضرب کلیم میں حکیم نطشہ کے عنوان سے پوری نظم ہی ہے: حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم نگاہ چاہیے اسرار لا الہ کے لیے خدنگ سینہ گردوں ہے اس کا فکر بلند کند اس کا تخیل ہے مہر و ماہ کے لیے اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی ترس رہی ہے مگر لذت گنہ کے لیے اقبال نے اپنے ایک مکتوب میں بھی واضح کیا ہے کہ نظریہ خودعی کی تشکیل میں نطشہ کے افکار کا کوئی دخل نہیں۔ نطشہ فوق البشر کا قاتل تھا۔ اور اقبال کی اسلام پسندی اس تصور کو قبول کر ہی نہیںسکتی تھی۔ اس لیے کہ اس سے شرک کی بو آتی ہے اور انسان کا مقام نیم خدا کا ہو جاتا ہے جو اسلامی توحید کے بالکل خلاف ہے اور توحید اقبا ل کا محبوب ترین موضوع تھا۔ بعض لوگ اقبال کے تصور شاہین کے سلسلے میں مسولینی کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ اس قسم کی باتیں کرنے والا نیم ملا ہیں۔ جو ناقص مطالعے کی بنیاد پر طرح طرح کے خیالات قائم کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے اقبال کا منظم مطالعہ کیا ہی نہیں وہ نہ کافی غور و خوض سے کام لیتے ہیں اور نہ کسی بات کو اس کے صحیح پس منظر میں دیکھتے ہیں مسولینی پر اقبال کی د و نظمیں ہیں ایک بال جبریل میں جس کا ماحصل صرف یہ ہے کہ اطالیہ کے مرد آہن نے اپن مری ہوئی قوم کو زندہ کر دیا اور اس کی شخصیت کے جادوسے ایک قدیم قوم میں جو بوسیدہ و فرسودہ ہو چکی تھی نئی زندگی کے آثار نظر آنے لگے: چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب ی محبت کی حرارت یہ تمنا یہ نمود فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے زخمہ در کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب فیض یہ کس کی نظر کا ہے؟ کرامت کس کی ہے؟ وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب (مسولینی) یہ مسولینی کا تعمیری دور تھا جب اس نے اپنی قوم کو ایک بار پھر صڈیوں کی پسماندگی کے بعد ترقی کی شاہراہ پر کھڑ ا کر دیا تھا ۔ اور دیگر ترقی یافتہ اقوام یورپ کے مساوی سطح پر لے آیا تھا۔ بجائے خود اس کے کارنامے سے کوئی بھی حقیقت پسند انکار نہیںکر سکتا۔ لیکن جب مسولینی کا تخیربی دور شروع ہوا اور اس نے جارحیت کی راہ اختیار کی تو اس کے سامراجی عزائم کے خلاف اقبال نبے بھی آواز بلند کی اور 1935ء میں ابی سینا لکھ کر حبشہ پر اٹلی کے جارحانہ حملے کی شدید مذمت کی : اے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہ روما نے کر دیا سر بازار فاش فاش پیر کلیسا! یہ حقیقت ہے دل خراش (ضرب کلیم) اس نظم میں روما کے ساتھ ساتھ یورپ پورے یورپ کی مذمت ہے۔ اس لیے کہ مسولینی کے اطالیہ سے پہلے یورپ کی دوسری قومیں برطانیہ‘ فرانس اور پرتگال بھی نو آبادیاتی سامراج دنیا‘ بالخصوص ایشیا اور افریقہ میں پھیلا چکے تھے۔ چنانچہ نظم کے محولہ بالا آخری بند سے پہلے کے دو بند اس طرح ہیں: یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش ہونے کو ہے یہ مردہ دیرینہ قاش قاش تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال غارتگری جہاں میں ہے اقوام کی معاش ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش مغربی سامراجیت اور نوآبادیت کی عام مذمت کا یہی رخ اقبال کی مسولینی پر دوسری نظم میں نمایاںہے: کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟ بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج میں پھٹکتا ہوں تو چھلی کو برا لگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار تو چھلنی میں چھاج میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زحاج یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج آل سیزر چوب نے کی آب یاری میں رہے اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاقج پردہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج (مسولینی ۔ ضرب کلیم) یہ اشعار مسولینی نے اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں س خطاب کر کے کہے ہیں۔ سنہ 1935ء ہی میں 12اگست کو یہ نظم لکھی گئی تھی۔ جب کہ اس س چار روز قبل 18اگست کو ابی سینیا تخلیق کی گئی تھی دونوں کا مفہوم ایک ہے: پردہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج مسولینی کی زبان سے نہ صرف اس کی اپنی بلکہ تمام مغربی اقوام کی غارت گری آدم کشی کا برملا اعتراف یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ نہ صرف یہ کہ اقبال فاشزم کے کھلے مخالف ہیں اور ہر قسم کے سامراجی ظلم و تشدد کی مذمت کرتے ہیں بلکہ وہ نری طاقت کے پجاری نہیں ہیں۔ جو شخص صاحب نظراں کو تنبیہ کرتا ہو کہ نشہ قوت ہے خطرناک اس پر طاقت پرستی کا الزام ایک لغو اتہام سے سوا کیا ہے؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ اقبال نہ ترک دنیا کے قائل ہیں نہ دین و دنیا کی کلیسائی تفریق کے روادار ہیں۔ وہ انسانیت کا توازن برقرار کرنے اور رکھنے کے لیے روحانی قوت اور مادی طاقت کے درمیان ایک اعتدال اور ہم آہنگی چاہتے ہیں۔ ترک کے بارے میں ان کا تصور یہ ہے: کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری (بال جبریل) تسخیر کائنات کی اس جدوجہد میں جو انسان کا منصبی فریضہ ہے وہ ایک ایسے مثالی فقر کے طالب ہیں جس کی دستاویز خون دل شیراں سے لکھی جائے اور جس کے گریباں میں ہنگامہ رستا خیز ہو: اب حجرہ صوفی میں وہ فقرنہیںباقی خون دل شیراں ہو جس فقر کی دستاویز اے حلقہ درویشاں وہ مرد خدا کیسا؟ ہو جس سے گریباں میںہنگامہ رستا خیز (بال جبریل) یہی فقر اسلام ہے : لفظ اسلام سے یورپ کا اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر غیور اور اسی فقر کو اقبال مستقبل کا دین سمجھتے ہیں جس طرح یہ ماضی کا دین رہا ہے: اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زرو سیم (فقر و ملوکیت۔ ضرب کلیم) یہ فقر غیور اگر ملت اسلامیہ کے شاہین بچوں کا شعار بن جائے تو وہ ہر مشکل کو دور اور ہر مسئلے کو حل کر سکتے ہیں اس لیے کہ : عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں اس لیے مسلمان کا زوال کی تشخیص اور اس کے علاج کی ترکیب اقبال کے نزدیک یہ ہے: اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں اگر جہاں میں میرا جوہر آشکارا ہو قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں (مسلمان کا زوال۔ ضرب کلیم) یہ قلندری شاہین میں پائی جاتی ہے۔ جو پرندوں کی دنیا کا درویش ہے۔ جو جسور بھی ہے اور غیور بھی۔ شاہین کی ان اعلیٰ صفات کا ذکر اقبال نے اپنے ایک مکتوب میں بھی کیا ہے اور انہی صفات کے ایک مجسمے کے طور پر وہ شاہین کا علامتی و استعاراتی استعمال کرتے ہیں۔ یہ باتیں تو شاہین ک تخیل کے بارے میں ہوئیں جس کی واقفیت جناب کلیم الدین احمد کو بہت ہی تھوڑی ہے۔ یہی معاملہ اس کی نظم کی فن کاری کا ہے‘ جس کا احساس و شعور بھی ہمارے مغربی نقاد کو کم ہی ہے۔ جس طرح وہ لالہ صحرا کو سمجھنے سے یکسر قاصر رہے تھے اسی طرح شاہین کا فہم ان کے بس کی بات نہیں معلوم ہوتی‘ جیسا کہ ہم نظم کے تخیل کے سلسلے میں دیکھ چکے ہیں۔ موصوف جس طرح لالہ صحرا میں نباتیاتی شاعری کا تجسس کر کے ناکام ہوئے تھے اسی طرح شاہین میں حیواناتی شاعری کی جستجو کے نامرا د ہوتے ہیں۔ وہ انگریزی شعراء کے بعض نمونوں کو سامنے رکھ کر شاعری کو کبھی Botany(علم نباتات) اور کبھی Zoology (علم حیوانات) کی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ ان کا مطمح نظر فطرت کی شاعری Nature Poetry ہے جبکہ اقبال کا مقصد ہی سرے سے یہ نہیں ہے کہ انہوںنے جس طرح لالہ صحرا کو اپنے پیغام کا ایک جزو کا اشاریہ و استعارہ بنایا تھا اسی طرح شاہین کو بھی ایک علامت ہی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اور پھول یا پرندے کی چند حقیقی و فطری جزئیات صڑف اس لیے پیش کرتے ہیں کہ ان سے ہی علامت و استعارہ کے اشارات مرتب کریں اسی لیے وہ صرف اتنی ہی جزئیات پیش کرتے ہیں جتنی ایک خاص پیغام ک استعارہ و علامت کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس سے زیادہ جزئیات نگاری کی کوشش بالقصد نہیں کرتے ورنہ ان کی شاعری کا مقصد ہی فوت ہو جاتا‘ حالانکہ لالہ اور شاہین کا جتنا مشاہدہ و مطالعہ اقبال نے کیا ہے اتنا کسی انگریزی شاعر کے بس کی بات نہیں اس لیے کہ ان دونوں مظاہر فطرت کا ظہور زمین کے اس خطے ہی میں زیادہ ہے جس سے اقبا ل کا تعلق ہے جب کہ انگریزی شعرا کے علاقے میں یہ ظہور بہت ہی معمولی اور ناقص قسم کا ہے۔ لالہ ہو کہ شاہین(یا سورج مکھی) سبھی کی خاص جلوہ گاہ صحرا ہے ۔ (یا کھلی دھوپ) جو گرم ممالک کی چیز ہے یعنی مشرق کی نہ کہ سرد ممالک یعنی مغرب کی۔ بہرحال ہمارے مغربی نقاد اقبال کے شاہین اور پوپرنیکس کے دی ونڈ ہوور کے فنی موازنے کی تمہید اس شان سے باندھتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اپنے مخصوص Free Style میں کچھ غیر متعلق سی خبط ربط باتیں کر کے فرماتے ہیں: ’’لیکن اس نکتے سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی پیش کیا جائے ا س میں شعریت ہو فن کارانہ حسن ہو‘‘۔ (ص 348) یہ "Running Commentary" اقبال کے اس شعر پر کی گی ہے: نوع دیگر بیں جہاں دیگر شود ایں زمیں و آسماں دیگر شود گویا جنا ب کلیم الدین احمد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک شاعر کا مشاہدہ و مطالعہ کتنا ہی نادر تازہ اور منفرد ہو مگر وہ شعریت اور فن کارانہ حسن سے خالی ہو سکتا ہے ۔جیسا کہ موصوب کا مطلب معلوم ہوتا ہے‘ اقبال کا مشاہدہ کائنات اور مطالعہ حیات ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’بہرکیف اب The Wind Hover کو لیجیے۔ لیکن اس سے پہلے میں آپ کی توجہ ٹینی سن کی ایک مختصر سی نامکمل نظم کی طرف مبذول کرانی چاہتا ہوں‘‘۔ (ص 348) چنانچہ The Eagle Fragment کو نقل کر کے اس کا تجزیہ شروع کر دیتے ہیں اور نتیجہ اخذ کرتے ہیں: ’’ظاہر ہے کہ یہ مختصر سی نظم بہت کامیاب ہے اور کامیاب اس لیے کہ شاعر خیالات میں الجھ کر نہیںرہ جاتا وہ صاف واضح متعین اور ڈرامائی تصویر پیش کرتا ہے‘‘۔ (ص 349)۔ یعنی شاعری کا معیار کمال یہ ہے کہ اس میں خیالات نہیںہوں بس صاف ‘ واضح متعین اور ڈرامائی تصویر ہو مطلب یہ کہ مصوری بلکہ فوٹو گرافی ہو۔ اور وہ بھی ڈرامائی قسم کی اور فوٹو + فوٹو =شاعری !! ایسے ایسے لغو تصورات پر دعویٰ ہے نقادی کا۔ غریب اردو بھی کیسے کیسے ستم ظریفوں کی پردہ پوشی کیے ہوئے ہے! اس فری اسٹائل کے خاتمے پر ایک بار پھر فرماتے ہیں: ’’اب The Wind Hover کو لیجیے: (ص 349)۔ لیکن یاد آتا ہے کہ جس بیساکھی کے سہارے آگے بڑھنا ہے وہ چھوٹ گئی ہے‘ لہٰذا موضوع کے کنارے آ کر پھر پلٹتے ہیں: ’’لیکن دو تین باتیں کہہ دی جائیں تاکہ اس نظم کو سمجھنے میں سہولت ہو رچرڈز نے کہا ہے …‘‘ (ایضاً) جناب کلیم الدین احمد کو نہ تو اپنے فہم پر اعتماد ہے نہ دوسروں کے…اس لیے انہوںنے سب سے پہلے تو انٹرمیڈیٹ میں پڑھی ہوئی ٹینی سن کی نظم کا سہارا لیا اس کے بعد وہ آئی اے رچرڈس کی سند لے آئے۔ اس طرح اردو کے قاری کا پورا کلاس لے کر ہمارے مغربی نقاد نے اس کے ذہن کو اچھی طرح مرعوب کر دیا جو ان کی خاص اور نمایاں تنقیدی Strategy اور Technique دونوں ہے۔ تب اپنے مطلب پر آئے اور اردو شاعری کے سب سے اہم اور عظیم نمونے کلام اقبال پر چاند ماری شروع کر دی۔ اب چونکہ ہمارے نقاد کے دل میں ہوپکنس کے مبہم اور ژولیدہ فکر ہونے کا چور موجود ہے ۔ لہٰذا اپنے ممدوح کی پراگندہ خیالی پر پردہ ڈالنے کے لیے موصوف نے مشکل گوئی کو ہی معیار سخن بنادیا‘ چنانچہ رچرڈز کے بیان سے نتیجہ نکال کر اسے ہوپکنس کی شاعری کے ساتھ اس طرح جوڑ دیا: ’’ یہ بات میں نے اس لیے کہہ دی کہ ہوپکنس کی نظمیں مشکل اور کہیں کہیں غیر واضح ہیں اور انہیں سمجھنے اور شاعر کی فن کاری کے حسن سے پورا پورا لطف اٹھانے کے لیے قاری کو ذہنی کاوش کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ذہنی کاوش بے کار نہیں ہوتی باکار ہوتی ہے‘‘۔ (ص 350) معلوم ہوتا ہے کہ معمہ بازی میں ہوپکنس ہی جدیدی شاعروں کا امام ہے ‘ بہرحال ہمارے نقاد یہ خوش خبری دیتے ہیں کہ جو معمے کا صحیح حل نکالے گا اسے زبردست انعام ملے گا اور چونکہ جناب کلیم الدین احمد اپنے خیال میں پہلے سے انعام یافتہ ہیں لہٰذا وہ افادہ عام کے لیے صحیح حل پر مشتمل رسالہ شائع کر نے جا رہے ہیں‘ جس کی خریداری کے لیے ترغیب کا اشتہار وہ دے چکے ہیں۔ لیکن شاید وہ محسوس کرتے ہیں کہ تینی سن کی نظم اور رچرڈز کا بیان بھی اس کاروباری اثر کے لیے کافی نہیں ہے جو وہ اپنا مال پیش کرنے سے پہلے لازماً قائم کر لینا چاہتے ہیں‘ اس لیے ونڈ ہوور کی طرف آتے آتے پھر پلٹ جاتے ہیں اور اب ہوپکنس کا تعارف شروع کر دیتے ہیں: ’’دوسری بات جس کا جاننا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہوپکنس 1844ء میں پیدا ہوا تھا…‘‘ (ص 350) اس سے بھی اطمینان نہیںہوتا تو ہوپکنس کی ایک پوری نظم Pied Beautyنقل کر کے اس کے حسن کی جھلکیاں اردو قارئین کو دکھاتے ہیں۔ اس طرح چکراتے چکراتے اور انگریزی محاورے میں جھاڑیاں پیٹتے پیٹتے بلکہ ساتھ ہی جھاڑیاں لگاتے لگاتے Beating about the bush and hedging شاید وہ تھک جاتے ہیں تو بے دم ہو کر ایک بار پھر پکار اٹھتے ہیں: ’’اب The wind hoverکو لیجیے‘‘ (ص 353) اور اب واقعی ہوا میں چکر لگانے والا (دی ونڈ ہوور) کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور قارئین کی جان میں جان آتی ہے کہ تنقید کا ہوائی جہاز جو اتنی دیر سے اپنے اڈے کے اوپر ہی اوپر قلابازیاں کھا رہا تھا اب خدا خدا کر کے واقعی منزل پر اتر گیا ہے۔ دونوں نظموں کا پہلا شعر درج کیا جاتا ہے: ’’کہاں کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ اور کہاں I caught this morning, morning minion, kingdom of day light's dauphin, dapple-dawn- drawn falcon" (ص 353) اس پر تبصرہ ہوتا ہے: ’’’اقبال کے یہاں صرف ایک نثری بیان ہے۔ میں نے اس خاکداں سے کنارا کیا جہاں رزق کا نا م آب و دانہ ہے۔ اس میں نہ تو جذبات کی گرمی ہے نہ تخیل کی رنگ آمیزی بخلاف اس کے ہوپکنس میں ایک مسرت آمیز حیر ت ہے کہ اسے یہ نایاب تجربہ حاصل ہو گیا ہے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے I caught یہ نہیں کہ اس نے واقعی شاہین کو پکڑ لیا تھا بلکہ اس لیے کہ اس صبح کے دلارے آفتاب کو چک کا جلوہ میسر ہو گیا تھا جسے بوقلمونی صبح کا حسن کھینچ لایا تھا۔ پھر یہاں شعریت بھی ہے جذبات کی گرمی بھی ہے اور تخیل کی رنگ آمیزی بھی‘‘۔ (ص 54-353) اس کے بعد انگریزی شاعر میں اسلوب کی تعریف کی جاتی ہے اور Alliterationکا حسن اجاگر کرتے ہوئے کہا جاتا ہے : ’’وہ تکرار حروف Alliteration کو صرف ترنم پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ لفظوں کو مربوط کرنے کے لیے اس طرح تین الفاظ گویا ایک لفظ بن جاتے ہیں اور بات کم لفظوں میں اور زیادہ موثر اور یادگار طورپر کہی جاتی ہے‘‘۔ (ص 345) جناب کلیم الدین احمد کے یہ سارے تنقیدی بیانات توڑ مروڑ Distortionاور تحریف Perversion کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اقبال کے شعر کو نثری بیان قرار دینے کے لیے صرف ایک جملے میں اس کامعنی بتا دیا گیا ہے اور ہوپکنس کی سطروں میں شعریت تلاش کرنے کے لیے اس کی بھونڈی تکرار حروف اور ژولیدہ ترکیب الفاظ تک کی مداحی کی گی ہے ۔ اگر شعریت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہوپکنس کا بیان نہایت پر تصنع پر پیچ اور سستی قسم کی ترنم آفرینی پر مشتمل معلوم ہو گا‘ جبکہ اقبال کے بیان میں ایک حیرت انگیز تصور کے اجزا کو ایسے مرتب سلیس اور دبیز انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ نفاست تخیل کے ساتھ ایک پر اثر آہنگ نغمہ بھی نہایت فطری اور بے ساختہ طور پر پیدا ہو گیا ہے۔ جناب کلیم الدین احمد اپنی شعری حسیات کے کند ہونے کے سبب خاکداں اور اس سے وابستہ آب و دانہ پر غور نہیں کر سکے۔ وہ اس لطیف ایمایئت کو بی نہیںسمجھ سکے کہ شاعر نے دوسرے کی زبانی پرندے کے جسم کی تصویر کشی کے بجائے براہ راست پرندے ہی کی زبانی اس کے کردار کی ایک بنیادی صفت کا ذکر کیا ہے دنیا کو خاکداں سے تعبیر کرنا ایک جہان معنی کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ استعارہ ہے پستی اور گھریلو دنیا داری کا‘ جس سے شاہین بلند تر ہے۔ اسی طرح آب و دانہ کا استعارہ محاورے کی طرح معروف و مستعمل ہے اور خاکداں کی عمومی علامت کا ایک جز اور اس کی تفصیل ہے۔ شاہین نے خاکداں اور اس کے آب و دانہ سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اس لیے کہ وہ زمین کی پستیوں میں نہیں بلکہ نیلگوں آسماں کی بلندیوں کی مخلوق ہے اس کی پرواز فضائوں میں ہوتی ہے اور اس کا رزق بھی اسے وہیں ملتا ہے دونوں مصرعوں میں تصویر اور مفہوم کی کامل مطابقت کے علاوہ الفاظ کی نشست و برخاست اور حروف کی ترتیب بھی قابل غور ہے۔ میں اور خاکداں میں ن غنہ استعمال کیاگیا ہے جب کہ نے اور کناراکا ن ملفوظ ہے۔ پھر ایک ر پہلے مصرع کے آخری لفظ کنارا میں ہے اور اس کی گونج ختم ہوتے ہی دوسرے مصرع کا دوسرا لفظ رزق بھی ر سے شروع ہوجاتا ہے حروف اور ان ی آوازوں کی لطیف ترتیب میں جو تربیت یافتہ اور نفیس ترنم ہے وہ ہوپکنس کی تکرار حروف سے زیادہ شائستہ اور دبیز آہنگ پیدا کرتاہے اس میں مصنوعی کوشش نغمہ کی بجائے ایک فطری نغمگی ہے۔ ہوپکنس باجا بجا کر بلکہ ڈھول پیٹ کر برے بھونڈے اور کرخت و کریہہ انداز میں زبردستی کا ترنم ابھارنے کی کوشش کرتا ہے جب کہ شعر اقبال ایک جوئے نغمہ خواں کی مانند اپنے آپ رواں ہے یہ روانی بیان ہوپکنس کے شعر میں مفقود ہے پھر جو Kingdom of daylight's dauphin, morning minion اور Dapple, Dawn, Drawn کی ترکیبیں اورتصویریں وہ تراشتا ہے وہ تکلف ہی تکلف ہے اور اس میں ہاتھوں کی طرح خوش فعلی کا بھاری بھرکم انداز ہے جس کا سرا گم نہایت ثقیل ہے۔ آخری دونوں بوجھل اور لمبی نیز الجھی ہوئی تراکیب الفاظ میں لفظی ہیر پھیر طبیعت کومنغض کرنے والا ہے ذرا اس تصنع آمیز پیکر سازی پر غور کیجیے: ’’دن کی روشنی کی سلطنت کا شہزادہ چتلی صبح کا کھینچ کر بلایا ہوا‘‘ پہلی تصویر اس سے قبل کی تصویر صبح کا دلارا کی غیر ضروری تکرار ہے اور دونوں ہی تصویریں پیش پا افتادہ اور فرسودہ ہیں۔ دوسری تصویر میں صرف چتلی کا لفظ ایک تازہ تصویر پیش کرتا ہے مگر اس کا نقش پیچ در پیچ ترکیب الفاظ میں دھندلا جاتا ہے اور قاری کی توجہ تصویر کے حسن سے ہٹ کر ایک مغلق ترکیب کے تانے بانے کھولنے میں لگ جاتی ہے۔ یہ طریق بیان ایجاز ہو تو اعجاز نہیں بلکہ عجز بیان ہے‘ اس قسم کی ترکیبوں کا آہنگ بھی ناہموار اور غیر سلیس ہے۔ ان حقائق کے باوجود ہمارے مغربی نقاد کو اصرا ر ہے ک جذبات کی گرمی اور تخیل کی رنگ آمیزی اور نتیجتا شعریت ہوپکنس کے شعر میں ہے۔ مگر اقبال کے شعر میں نہیںہے۔ یہاں تک کہ ونڈ ہوور کا پہلا ہی حصہ صرف پیش کر کے اور تجزیے سے بھی پیش تر موصوف نے یہ تحکمانہ حکم لگا دیا: ’’یہ نظم کا پہلا حصہ ہے۔ اس کے مقابلے میں اقبال کی شاہین پھیکی اور بے رنگ معلوم ہوتی ہے‘‘۔ (ص 353) ایک کی نظم کا ایک حصہ پیش کر کے دوسرے کی پوری نظم کے بارے میں شروع ہی میں فیصلہ کر دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ ناقد کے ذہن میں پہلے سے قائم کیا ہوا ایک خیال Preconcieved Notion ہے جس کو ثٓبت کرنے ہی کے لیے انہیںدلیل بازی کرنی ہے۔ پھر مطالعے کا یہ کچا پکا انداز بھی کہ ادھورے اور پورے کاموازنہ کیا جا رہا ہے ایک طرفہ تماشا ہے ۔ اس کے علاوہ نظم کے مطالعے میں غزل کی طرح ایک ایک شعر ے کو تجزیہ و مقابلہ کرنا بھی ستم ظریفی کی حیرت انگیز مثال ہے شاعر سے تو مطالبہ ہے کہ کلی ہئیت نظم کا اور تنقید ہو رہی ہے تغزل کے اندا ز سے‘ فرداً فرداً اشعار کو لے کر۔ اگرایسا نہیںہوتا تو کم از کم ناقد کو اتنا تو کرنا ہی چاہیے تھا کہ جیسے جیسے اس نے انگریزی نظم کا ایک حصہ نقل کر دیا ہے اسی طرح اس کے مقابلے میں اردو نظم کا بھی ایک پورا حصہ نقل کر دیتے‘ اس میں ایک مشکل یہ ضرور ہوتی کہ اقبال کی نظم کے نواشعار اور اٹھارہ مصرعے ایک دوسرے سے اتنے مربوط اور ہم آہنگ ہیں کہ ہوپکنس کی نظم کی طرح انہیںٹکڑے ٹکڑے کر کے دیکھنا اور دکھانا گویا ایک آہنگ نغمہ کے تار و پور بکھیرنا ہوتا۔ پھر بھی ونڈ ہوور کے مقابلے پر شاہین کے چار ابتدائی اشعار کو رکھ کر ہی دونوں کا تجزیہ کرنا تھا۔ تب ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہین کے پہلے شعر سے جو بیان شروع ہوتا ہے اس کے شاعرانہ مضمرات و محاسن کیا ہیں۔ بہرحال جس انداز سے شاہین اور ونڈ ہوور کی تقابلی تنقید شروع ہوتی ہے وہ آخر تک قائم رہتا ہے اور جہاں جہاں ہمارے مغربی نقاد مشکالت میں پھنس جاتے ہیں اپنے کسی مغربی استاد کومشکل کشائی کے لیے بلا لیتے ہیں اور ان کے حوالے اس انداز سے پیش کرتے ہیں گویا وحی نازل ہو رہی ہو۔ ذہنی بے چارگی کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: ’’رچرڈز نے بھی My heart in hiding سے متعلق لکھا ہے دوسرے اچھے شاعروں کی طرح میں یہ توقع کرتا ہوں کہ جب کبھی ہوپکنس کچھ اس طرح کے الفاظ لکھ دیتا ہے جو بظاہر قافیہ کی صورت کی وجہ سے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں یا جن سے دل خوش کن ترنم کی صدا آتی ہے تو وہاں کوئی اہم نکتہ موجود ہوتا ہے‘‘۔ (ص 357) کاش ایسی ہی خوش عقیدگی ہمارے مغربی نقاد غریب اردو شعرا کے بارے میں بھی ظاہر کرتے‘ جب کہ اس کی سند جواز ان کے اپنے پیر و مرشد ہی عطا کر رہے ہیں! ’’The Wind Hover ایک بہت ہی مشکل اور پیچیدہ نظم ہے ۔ اسے سمجھنے کے لیے اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے جب رچرڈز جیسے نقاد کو یہ دشواری پیش آئی تو ہم آپ کو کون پوچھتا ہے؟‘‘ (ص 66-365) اس ایمان بالغیب کے بعد تنقید اور تبصر ے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟ آنکھ بند کر کے آپ رچرڈز کی تنقید پر اسی طرح ایمان لے آئیے جس طرح رچرڈز ہوپکنس کی شاعری پر ایمان لاتا ہے! ’’آپ نے دیکھا کہ رچرڈز لیوس اور امپسن جیسے نکتہ رس نقاد ہوپکنس کی نظم The Wind Hover کی عظمت اور اس کی اندرونی روحانی کش مکش اس کی دشواری اور اس کی حسن کاری کے معترف ہیں‘‘۔ (ص 367) ظاہر ہے کہ جب انگریز نقاد انگریز شاعر کی انگریزی نظم کے معتقد ہیں تو لازم آتا ہے کہ اردو نقاد اردو شاعر کی اردو نظم پر کیچڑ اچھالیں‘ اگر وہ اردو نقاد انگریزی پر ایمان رکھتے ہوں اس لیے کہ ایک بااصول آدمی ایک ہی دین کا کلمہ گو ہو سکتا ہے اور اگر وہ اپنے پسندیدہ ترین دین کا مبلغ و مجاہد بھی ہے تو دوسرے ادیان کے کلمہ گویوں سے اسے جنگ بھی کرنی ہے! بس ایک سوال یہ ہے کہ ونڈ ہوور کی عظمت و تقدیس کے گیت تو ہوپکنس کے پجاریوںنے گائے‘ لہٰذا پجاریوں کے پجاریوں کے لیے لازم ہو گیا کہ دیوتا کی حمد میں وہ بھی خوش الحانی کے ساتھ گیت گائیں لیکن شاہین کامطالعہکون کرے گا اور اس کے فنی محاسن کا سراغ کون لگائے گا؟ کلیم الدین احمد نے تو صرف اس کی ہجو ایک فریضے کی طرح کی ہے ! غریب اردومیں رچرڈز لیوس‘ امپسن کہاں ؟ یہاں تو فقط کلیم الدین احمد ہیں اور کلیم الدین احمد کا مبلغ تنقید ذیل کی سطروں سے واضح ہے: ’’کچھ قصور تو اردو زبان کا ہے اس کے اوزان و بحور کا اس میں وہ Effectsنہیںپیدا کیے جا سکتے جو انگریزی شاعری میں ممکن ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہوپکنس نے شاہین کو دیکھا ہے اس کی پرواز کو دیکھا ہے لیکن اقبال کے لیے شاہین محض علامت ہے ۔ انہیں کچھ کہنا ہے اور شاہین محض ایک Mouth Pieceہے جس کے ذریعے وہ اپنے خیالات کو بیان کرتے ہیں‘‘۔ (ص 355) یعنی اگر انگریزی شاعر بلیک ’’سورج مکھی‘‘ کو علامت بنائے تو وہ شاعری ہے اچھی شاعری اور اگر اردو شاعر اقبال شاہین (لالہ صحرا)ٰ کو علامت بنائے تو اس کی شاعری ناقص بلکہ مشتبہ! اگر ہوپکنس نے ونڈ ہوور کی مصوری کی ہے اور اقبال نے شاہین کے موضوع پر علامتی شاعری کی ہے جیسے کہ جناب کلیم الدین احمد کہنا چاہتے ہیں تو دونوں کے درمیان موازنے کی جہت ہی کیا ہے؟ دونوں کاموضوع سخن بھی مختلف ہے تو ظاہر ہے کہ اسلوب فن بھی مختلف ہو گا! بہرحال ہمارے مغربی نقاد فرماتے ہیں کہ ہوپکنس نے شاہین کو دیکھا ہے اور اقبال کے لیے شاہین محض علامت ہے کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال نے شاہین کو دیکھا ہی نہیں ہے عبارت تنقید سے بداہتاً ایسا ہی مترشح ہوتا ہے اور یہ ایک جاہلانہ تنقید کی دیدہ دلیری کی انتہا ہے۔ اردو اور انگریزی نظموں کے بیانات سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ انگریزی شاعر نے تو صرف شاہین کی پرواز کو دیکھا ہے اور اردو شاعر نے باضابطہ ایک ماہر علم الطیور Ornithologistکی طرح شاہین کی سیرت کی خصوصیات کا مطالعہ کیا ہے اس کے بعد اور اسی گہرے مطالعے کی بنیاد پر اس کو اپنے ایک خاص خیال کی علامت کے طورپر پیش کیا ہے اور اس علامتی اظہار میں بھی پرندے کی متعلقہ خصوصیات کی ضروری تصویر کشی کی ہے۔ لیکن ہمارے ناقد کو البتہ شاہین کے بارے میں صرف کتابی علم ہے۔ لہٰذا وہ پرندے کے صرف اسی رخ سے واقف ہیں جو انگریزی شاعر نے دکھایا ہے ۔ جہاں تک اردو زبان اور اس کے اوزان و بکور کے قصور کا معاملہ ہے صاف اور سیدھی بات ہے کہ یہ ا س سلسلے میں جناب کلیم الدین احمد کوئی بیان دینے کے اہل نہیں ہیں۔ ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ وہ اردو زبان اور اس کے اوزان و بحور کے خصائص و محاسن سے نابلد ہیں پھر ان کا حافظہ بھی کمزور ہے اور نیت میں بھی فتو رہے انہوںنے لمبی نظموں پر تبصے کے سلسلے میں اقبال کے ساقی نامہ کی تعریف کی تھی۔ ملاحظہ کیجیے اس نظم میں اردو زبان اور اس کے اوزان و بحور کا وہ کمال جو ہمارے مغربی نقاد کو انگریزی ہی میں نظر آتا ہے: ہوا خیمہ زن کاروان بہار ارم بن گیا دامن کوہسار گل و نرگس و سوسن و نسترن شہید ازل لالہ خونیں کفن جہاں چھپ گیا پردہ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے ہوئے آشیاں میں طیور وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی ‘ لچکتی‘ سرکتی ہوئی اچھلتی‘ پھسلتی‘ سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ اسی طرح ذوق و شوق سے پہلے بند میں اردو زبان نے جو تصویر کشی کا کمال دکھایا ہے ا س کی تعریف بھی جناب کلیم الدین احمد کر چکے ہیں ایک آرزو میں بھی اردو شاعری کا کے اوزان و بحور کا سحر ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہ سب کچھ تو بانگ درا کی پہلی ہی نظم ہمالہ میں عیاں ہے ایک بند ملاحظہ کیجیے: آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی سنگ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو خضر راہ کے پہلے بند کا تو کوئی جواب انگریزی کیا پوری مغربی شاعری میں نہیں ہے: ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر گوشہ دل میں چھپاتے اک جہان اضطراب شب سکوت افزا‘ ہوا آسودہ‘ دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل چشم دل وا ہو تو تقدیر عالم بے حجاب دل میں یہ سن کربپا ہنگامہ محشر ہوا میںشہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا لسانیاتی ‘ صوتیاتی‘ نغماتی اور شعریاتی عناصر سے اگر کلیم الدین احمد صاحب واقف ہیں تو خود غور فرمائیں کہ ان اشعار کے مقابلے میں ہوپکنس کے انگریزی اشعار ایک طفلانہ تتلاہٹ اور قلقاری سے زیادہ کیا حیثیت رکھتے ہیں ؟ اس سلسلے میں میں نے مسجد قرطبہ کا ذکر قصداً نہیں کیا ہے۔ اس میں ارد و زبان اور اس کے اوزان و بحور دیکھ کر جو کرشمہ ظاہر ہوا ہے اس کی مثال نہ یونانی و لاطینی و اطالعی میں ہے نہ جرمن اور فرانسیسی روسی اور انگریزی میں ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کو ماہرین سے مشورہ کر کے اس صداقت پر غورکرنا چاہیے کہ دنیائے شاعری میں فارسی زبان اور اوزان و بحور کی کوئی نظیر یورپ کی کسی زبان اور اس کے عروض مٰں نہیں ہے۔ (اوزان و بحور کے معابلے میں کوئی باخبر دانش ور فارسی کے مقابلے پر کسی مغربی زبان کا نام لینے کی جسارت بھی نہیں کر سکتا) اردو نے فارسی لسانیات صوتیات‘ معنویات اور نغمیات کا یہ ورثہ بدرجہ کمال اپنے اندر جذب کر لیا ہے ۔ بلکہ دور حاضر میں تو خود فارسی شاعری کی رہنمائی اقبال ہی نے کی ہے‘ جن کا آہنگ اوردو میں بھی وہی ہے جو فارسی میں ہے۔ یہ آہنگ بقدر ضرورت اور حسب موقع شاہین میں بھی آشکارا ہوا ہے: ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربت غازیانہ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا میرا نیلگوں آسماں بے کرانہ اسی نظم کا یہ ٹکڑا بھی کم نہیں: نہ باد بہاری نہ گل چیں نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ان اشعار میں دیکھنا چاہیے کہ شاعر نے کس ہم آہنگی اور خوب صورتی کے ساتھ فارسی الفاظوںکی آوازوں کے اندر اردو الفاظ کی آوازوں کو سمو دیا ہے۔ جس سے فارسی کا حسن و نغمہ دوبالا اور دو آتشہ ہو گیا ہے۔ جہاں تک ونڈ ہوور میں جاں سوز روحانی کش مکش کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے۔ لیکن شاعری میں اس کا جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ خود جناب کلیم الدین احمد کے بقول تضاد ہے جس کے سبب نظإ کسی قدر دشوار اور پیچیدہ ہو گئی ہے ۔ لیکن نظم کے اندر اس دشوار اور پیچیدہ طریقے سے کش مکش اور تضاد کا غلبہ کیوں معلوم ہوتا ہے ؟ اور بظاہر ا س کش مکش و تضاد اور دشواری و پیچیدگی کا احساس شاہین میںکیوں نہیں ہوتا؟ جناب کلیم الدین احمد کہتے ہیں کہ شاہین ’’اکہری اور سادہ معلوم ہوتی ہے …اس میں کوئی گہرائی یا پیچیدگی نہیں‘‘۔ جب کہ دی وند ہوور کے ’’خیالات اور اظہار خیالات میں گہرائی آ گئی ہے‘‘۔ یہ دونوں نظموں کا بالکل سطحی مطالعہ اور ایک طرفہ مقابلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے شاعری کو شخصیت کی الجھنوں کاتختہ مشق نہیں بنایا ہے ۔ اس لیے کہ انہوںنے اپنے ذہن کی ساری کش مکش نہایت عمیق و وسیع او رمرتب و منظم غور و فکر کر کے پہلے ہی حل کر لی ہے اور فن کے لیے ایک سو ہو گئے ہیں‘ ورنہ ذاتی طور پر : اسی کش مکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی اس عظیم و بسیط روحانی کش مکش کے مقابلے میں جو ایک فلسفی‘ صوفی‘ فقیہہ ‘ مجاہد اور شاعر کو برداشت کرنی پڑی غریب ہوپکنس جیسے راہب کی کش مکش ہے ہی کیا؟ چنانچہ کش مکش کا ایک لطیف و حسین اشارہ شاہین کے ابتدائی چار اشعار میں بھی ملتا ہے: کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ نہ باد بہاری نہ گل چیں نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ بیاباں و خیاباں کے احساسات کے درمیان اس کش مکش کا اندازہ آخری شعر میں الفاظ کی نوعیت و شدت سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ادائیں بہ دلبرانہ ہیں اور ان سے پرہیز لازم ہے۔ اس سے اوپر کے شعر میں خیاباں کی جو تصویر باد بہاری گل چیں اور بلبل کے الفاظ سے کھینچی گئی ہے اس کی کشش بیماری نغمہ عاشقانہ سے اور بڑھ جاتی ہے۔ ایسی پرکشش تصویر خیاباں کے مقابلے میں جب کوئی کہتاہے کہ: بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو تو بہ یک وقت ا س کی حسرت و طمانیت دونوں کا ایسا زبردست احساس ہوتا ہے کہ جس کے سامنے ہوپکنس کی تشفی اور ’’اطمینان‘ ‘ ہی اکہری اور سادہ سی چیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد کا حال اس معاملے میں عجیب و غریب ہے ۔ وہ بیابان اور خیابان کے مقابلے کا ذکر کرتے ہوئے بھی اصرار کرتے ہیں: ’’لیکن اقبال کی روح ان کے ذہن میں کوئی کش مکش نہیں‘‘ (ص 356) آخر یہ کشف ہمارے مغربی نقاد کو کیسے ہوا؟ شاید اس لیے کہ اقبال کے کلام میں وہ لفظی پیچیدگی نظر نہیں آتی جو ہوپکنس کے کلام میں نمایاں ہے یعنی انکشاف یہ ہوتا ہے کہ ہمارے مغربی نقاد مطالب اور الفاظ کی پیچیدگی کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تصور کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناقص تصور ہے اور غیر عقلی و غیر ادبی و غیر تنقیدی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہوپکنس کی ونڈ ہوور کے کئی حصے مجذوب کی بڑمعلوم ہوتے ہیں اس لیے کہ اس گم راہ صوفی اور ناتراشیدہ شاعر کو نہ تو اپنی واردات کا واضح فہم تھا اور نہ ہی اسے اسلوب سخن پر قدرت حاصل تھی۔ ذرا غور کییے کہ ایک لفظ Chevalierکو گویا نظم کا کلید قرار دے کر اس کی متعدد تعبیریں کی گئی ہیں اور سب غیر واضح اورغیر یقینی ہے۔ یہ ایک طرح کامعمہ ہیں یا دیوانے کا خواب‘ جس کے حل اور تعبیر میں بڑے بڑے انگریزی ناقدین و علما کی سرگشتگی کا یہ عالم ہے کہ جناب کلیم الدین احمد ہی کے بیان کے مطابق ایک آئی اے ’’رچرڈز نے لکھا ہے پہلے میں نے سمجھا تھا کہ Chevalier سے اشارہ Christکی طرف ہے لیکن اب میرا خیا ل یہ ہے کہ اس سے اشارہ شاعر کی طرف ہے‘‘۔ (ص 362) امپسن کاحال یہ ہے کہ بقول جنا ب کلیم الدین احمد نے ’’لکھا ہے کہ Chevalierجسمانی یا روحانی سرگرمی کی تجسیم ہے یا Christیروشلم کی طرف رواں دواں یا سواروں کے رسالہ کا فوجی جو حملے کے لیے تیار ہے یا Pegasus وہ پر دار گھوڑا ہے جس نے اپنی ٹاپوں سے کوہ Helieonپر پانی کا چشمہ بہا دیا تھا‘ ا س لیے مجازاً جوہر سخن وری یا پھر شاہین‘‘ (ص 362) شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ہا ہمارے مغربی نقاد کو یہ ساری تشریحات یپش کرتے ہوئے بھی احساس نہیں کہ وہ اپنے قارئین کے ذوق و شعور میں اضافہ کے کے بجائے یا تو ان کی ذہنی الجھن کا سامان کر رہے ہیں یا اپنے آپ کو مضحکہ خیز بنا رہے ہیں رچرڈز اور امپسن جتنی بھول بھلیوں میں چاہیں دوڑتے اور بھٹکتے رہیں جب معنی فی بطن الشاعر ہے تو گمراہی اور گم شدگی کے سوا حاصل کیا ہو گا؟ مختصر یہ کہ ہوپکنس ایک متشاعر Poetasterہے جس کی پر تصنع شاعری ژولیدہ بیانی اور مصنوعی ترنم کا ایک ملغوبہ ہے کچھ لوگوں نے اس طر ز شاعری کو جدید آہنگ کا ایک پیش رو تجربہ سمجھ لیا ہے۔ لیکن یہ تجربہ کامیاب نہیں ہے اور جن لوگوںںے ابھی شاعری میں ا سکی پیروی کی ہے انہوںنے کوئی کارنامہ انجام نہیںدیا ۔ ایسے خام کار کا موازنہ اقبلا جیسے مارہ فن کے ساتھ تنقید کی توہین ہے ۔ اب میں رچرڈز اور امپسن کے شعری تصورات کے متعلق جن کا بہت چرچا جناب کلیم الدین احمد نے کیا ہے اپنے تیسرے مجموعہ مضامین تشکیل جدید کی ایک بحث سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں تاکہ اردو قارئین کو معلوم ہو جائے کہ جناب کلیم الدین احمد کے پیران تنقید کی حقیقت حال کیا ہے: ’’جدید شاعری کا ایک بہت بڑا مسئلہ الفاظ کے معانی سے متعلق ہے ۔ اس سلسلے میں معمولی سے انحراف اور تجدد کے دو انداز پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ شاعر کو بحیثیت فن کار معنی سے کوئی مطلب ہی نہیں وہ تو بس الفاظ و آہنگ کا صانع و خالق ہے‘ اس کی طبیعت رواں ہوتی ہے تو الفاظ اس کی زبان سے اس طرح پھوٹتے ہیں جس طرح چشمہ کوہ سے پانی کی دھاریں کبھی آئی اے رچرڈز اسی تخیل کی طرف مائل نظر آتا ہے۔ گرچہ دراصل اس کامقصد ہئیت نظم کی فنی ترکیب و تشکیل پر پورا زور دینا اور ایک سوئی کے ساتھ زور دینا تھا بہرحال اس لفظی بازی گری کے خلاف امپسن نے احتجاج کیا اور الفاظ کے مجرد آہنگ سے زیادہ زور ان کی معنی خیزی اور تہہ داری پر دیا اور اس معاملے میں اس نے اتنا مبالغہ کیا کہ ابہام ہی کو مقصود فن قرار دے کر ان کی سات قسمیں دریافت کیں( سون ٹائیپس آف ایمبگوٹی) یہ انحراف و تجدد کا ایک دوسرا انداز ہوا۔ الفاظ کی جو تقسیم رچرڈز وغیرہ نے علمی اور جذبی کے خانوں میں کی تھی اس کے سلسلے میں امپسن نے جذبی پر علمی کو ترجیح دی۔ برخلاف رچرڈز کے اولین موقف کے امپسن کا بیان ہے: ’’جب کوئی ایسا معاملہ در پیش آ جائے جہاں عمل الفاظ کو جذبی اور علمی دونوں طور سے ترجمانی کی گنجائش ہو تو زیادہ امکان اس کا ہی ہے کہ علمی پہلو جذبات و کردار پر اہم اثرات ڈالے ‘ اور بالعموم اس کا انحصار غلط عقیدوں کے تسلیم کرنے پر نہیں ہے‘ لہٰذا یہ بات لاحاصل ہے کہ عقیدے کے احساسات کو بالکل شاعری سے نکال ڈالنے کی بات کی جائے‘‘۔ (کومپلکس ورڈز ص 10) اس طرح امپسن نے رچرڈز کے اس موقف کو رد کر دیا کہ شاعری میں الفاظ سے وابستہ جذبات مفہوم و معنی سے آزاد ہیں۔ اس کے علاوہ امپسن نے یہ بھی بتایا ہے کہ بعد میں خود رچرڈز نے اپنے مذکورہ موقف کو رد کر دیا جب کہ اسنے دی فلوسفی آف ریٹرک لکھی امپسن ہی کے الفاظ میں رچرڈز نے ’’یہ خیال ترک کر دیا کہ شاعر کے لیے بہتر ہے کہ وہ الفاظ کے معنی کے متعلق تردد نہ کرے‘‘۔ بلکہ اس کی گفتگو کا انداز اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’مطالعہ شاعری کا گوارا انداز یہی ہے کہ مکمل مفہوم کو جذبے پر قابو حاصل ہو‘‘ (کومپلکس ورڈز ص 14) رچرڈز کے اس تازہ تر موقف میں جہاں تک ترقی ہوئی ہے کہ اس نے جذبی ع علمی الفاظ کی مصنوعی تقسیم کو بھی گویا ترک کر دیا ہے۔ اس کا بیان اب یہ ہو گیا ہے : ’’پرانی بلاغت ابہام کو زبان کا ایک نقص سمجھتی تھی اور اس کو ختم یا محدود کر دینا چاہتی تھی۔ لیکن نئی بلاغت اس کو قوت زبان کا ایک ضروری اور ناگزیر نتیجہ اور بیش تراہم بیانات کا لازمی وسیلہ سمجھتی ہے بالخصوص شاعری اور مذہب میں‘‘۔ (دی فلوسفی آف ریٹرک ص 40) لفظوں کی معنویت کی اس بحث میں رچرڈز نے بعض قیمتی اضافے کیے ہیںَ ابہام کو اضافی اور عام بولنے والوں سے موافقت کو ابلاغ کی شرط قرار دیتے ہوئے محولہ بالا مقالے میں اس نے لکھا ہے : ’’اس حقیقت سے انکار کا کوئی خواب بھی نہیں دیکھ سکتا کہ اس لیے کہ زبان ایک سماجی حقیقت اتنی ہی ہے جتنی شخصی اظہار کا ایک حصہ‘‘۔ (ص 54) مستحکم معانی سیاق و سباق ہی سے ماخوذ ہوتے ہیں معنی الفاظ کے متعلق اپنے اس تصور کو رچرڈز نے آہنگ شعری (ردم) پر بھی چسپاں کر دیا ہے۔ اپنی کتاب پریکٹیکل کریٹی مزم ہی میں اس نے لکھ دیا تھا کہ آہنگ کے معنی پر اثر ڈالتا ہے اور ا س سے اثر پذیر بھی ہوتا ہے: ’’اچھے اور برے آہنگ کے درمیان فرق محض سلسلہ ہائے آواز کا نہیں ہے۔ بلکہ بات ذرا زیادہ گہری ہے اور اس کو سمجھنے کے لیے الفاظ کے معانی پر بھی غور کرنا ہو گا‘‘۔ (ص 227) عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ آہنگ براہ راست جذبات کو اپیل کرتا ہے اور رچرڈز بھی آہنگ کی جذباتی تاثیر کا قائل ہے۔ آوازیں بہت اہم ہیں اور شاعر کے لیے سامان کار ہیں شعر کے لیے ان کی اہمیت الفاظ کے لغوی معانی سے کم نہیں ہے لیکن رچرڈز کا تصور یہ ہے کہ ’’واقعی آوازیں آہنگ کی پوری ذمے داری اٹھانے سے قاصر ہیں‘‘۔ لہٰذا کسی نظم کے آہنگ پر اظہار رائے صحیح طور پر اسی وقت ممکن ہے جب مفہوم و معنی کو بھی بس میں شامل کر لیا جائے۔ ‘‘ (ص 67-364) ان باتوں سے اول تو یہ معلوم ہوا کہ آہنگ شعری کے لیے معانی اور ان کے سیاق و سباق کی اہمیت الفاظ سے کم نہیں دوسرے یہ کہ رچردز ہو یا امپسن یا کوئی اور کسی کو بھی معیار حق اور آخری سند نہیں تسلیم کیا جا سکتا۔ نہ صرف یہ کہ ان خرد مندیوں کے نظریات بدلتے رہتے ہیں بلکہ ان کی انتہا پسندیاں بے اعتدالی پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذا ان کی تقلید کی بجائے ان کے ساتھ صرف تبادلہ خیال کیا جانا چاہیے ۔ اب یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ای ام فوسٹر جیسا کہ انگریزی میں ادیب شاعری کے بارے میں کیا کہتا ہے: ’’اگر اس کی نثر کی بنیاد پر فیصلہ کیاجائے تو انگریزی ادب درجہ اول میںجگہ نہ پائے گا۔ یہ اس کی شاعری ہے جو اسے یونانی فارسی‘ اور فرانسیسی معیار تک پہنچاتی ہے۔اس کے باوجود انگریز قوم کو بہت ہی غیر شاعرانہ سمجھاجا تا ہے‘‘۔ یہ Notes on the english characterنام کے ایک مضمون کا اقتباس ہے۔ اس میں انگریزی نثر کے بار ے میں جو کچھ کہا گیاہے اس پر تو کلیم الدین احمد کو غور کرنا ہی چاہیے۔ خاص شاعری کے متعلق لائق توجہ یہ نکتہ ہے کہ فوسٹر نے یونانی اور فرانسیسی کے ساتھ فارسی ادب کو بھی معیار اور سند مان کر انگریزی ادب کے لیے اس کو ایک مثالی نمونہ قرار دیاہے۔ پھر انگیرزی شاعری کو بھی وہ ایک اڑتی مچھلی Flying Fishبناتا ہے۔ جو کبھی کبھی ایک نامہربان دریائے شور Inhospitable Salt Seaکی خاموش لہر سے اچھل پڑتی ہے۔ یعنی فوسٹر یہ بات مانتا ہے کہ مجموعی اور عمومی طورپر انگریز قوم کی طبیعت میں شعریت نہیں بس کبھی کبھی بعض شعری کارنامے بادلوں میں بجلیوں کی طرح چمک اٹھتے ہیں۔ وہ انگریزوں کے اس غیر شاعرانہ مزاج کی توجیہہ یہ کرتا ہے کہ ان کا دل گرچہ بالکل سرد نہیں ہے مگر بالیدہ بھی نہیں ہے: An undeveloped heart not a cold one چنانچہ فوسڑ کا خیال ہے کہ اس کی قوم میں ہمدردی کی گرم جوشی رومان اور تخیل پایا تو جاتا ہے اور اسی صورت حال کے سبب ایک نغمہ قومی گاہے گاہے ابھر آتا ہے ۔ ورنہ عام طور پر جذبات و احساسات سطح کے نیچے مڑتے تڑے اورنامعلوم سے پڑے رہتے ہیں۔ یہ توجیہہ مخالفانہ نہیں ہے ہمدردانہ ہے اور فوسٹر نے گویا قومی دفا ع میں اس جمالیاتی جذبہ و احساس کا سراغ تہوں میں لگانے کی کوشش کی ہے ۔ جو سطح پر نظر نہیں آتا۔ چنانچہ اس نے انگریزوں کے کردار کو دریا کی طرح گہرا بتایا ہے ۔ اور اس کی گہرائیوں میں وہ کچھ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ اس کے باوجود یہ نقطے اپنی جگہ رہ جاتے ہیں: ۱۔ فارسی ادب اور شاعری انگریزی کے لیے ایک نمونہ ہے۔ ۲۔ انگریزی ادب و شاعری ماہی جستہ کی طرح گاہے گاہے کی چیز ہے۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد انگریزی ادب و شاعری کو عمومی طورپر اور مطلقاً ایک مثالی نمونہ بنا کر اردو ادب و شاعری کی جانچ اور پرکھ اس کے معیار سے کرتے ہیں اس غلامانہ تقلید اور غلو آمیز وفاداری کے لیے انگریزی ہی میں ایک نہایت عبرت انگیز محاورہ ہے: More royalist than the king یعنی بادشاہ سے بھی زیادہ بادشاہ پرست! زیر بحث باب میں جناب کلیم الدین احمد نے شاہین کا موازنہ دی وند ہوور سے کیا ہے اور ا س سے قبل کے باب میں انہوںنے اقبا ل کی آٹھ نظموں کا مطالعہ کیا تھا جو یہ ہیں: ’’ایک آرزو ‘ ستارہ‘ (بانگ درا) ، شعاع امید، علم و عشق(ضرب کلیم) ، فرشتوں کاگیت ، فرما ن خدا، روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، لالہ صحرا (بال جبریل)۔ اس طرح کل نو مختصر نظمیں پانچ بال جبریل سے دو دو بانگ درا اور ضرب کلیم سے ۔ میں نے دونوں ابواب کوملا کر اپنے تبصرے کے لیے ایک ہی باب قائم کیا ہے اس لیے کہ شاہین کے لیے ایک الگ باب غیر ادبی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اور وہ یہ تھے کہ انگریزی نظموں اور تنقیدوں کے درمیان اردو نظم کو دبا کااس کا کچومر نکالا جائے اورایک معمولی انگریزی شاعری یا متشاعر کی نظم کی تعریف میں پیران نمی پرند د مریداں ہمی پرانند ک مصداق زمین و آسمان کے قلابے ملائے جائیں۔ بہرحال جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کی مختصر نظموں کا انتخاب غور و فکر کر کے نہیںکیا ہے ۔ اسی لیے انہو ں نے مجموعوں کی ترتیب اشاعت بھی ملحوظ نہیں رکھی ہے اور بانگ درا کے بعد چھلانگ لگا کر ضرب کلیم تک پہنچ گئے ہیں اور دوسرے مجموعے بال جبریل کو تیسرے نمبر پر رکھا ہے ۔ بانگ دار میں دوسے بہت زیادہ نظمیں لائق انتخاب ہیں اور ستارہ سے بدرجہا بہتر کئی نظمیں مثلاً: جگنو‘ محبت‘ حقیقت حسن‘ حسن و عشق ایک شام‘ تنہائی‘ چاند‘ بزم انجم‘ سیر فلک‘ موٹر ان کے علاوہ بھی کئی حسین نظمیںہیں: اسیری ‘ پھول‘ شعاع آفتاب‘ ارتقائ‘ شاعر‘ رات او ر شاعر‘ پھول کا تحفہ عطاہونے پر‘ دو ستارے‘ کوشش ناتمام‘ کلی‘ کنار راوی‘ ابر‘ سرگزشت آدم‘ ماہ نو ‘ گل رنگیں۔ بانگ درا کی ان نظموں کی فن کاری اور خیال انگیزی کا ایک ہلکا سا اندازہ حسب ذیل مختصر نظم سے ہو سکتا ہے جس کے موضع کی شعریت ایک غیر متوقع شے ہے: کسی پتے کی بات جگندر نے کل کہی موٹر ہے ذوالفقار علی خاں کی کیا خموش ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز مانند برق تیز مثال ہوا خموش میں نے کہا نہیں ہے یہ موٹر پر منحصر ہے جادہ حیات میں ہر تیز پا خموش ہے پاشکستہ شیوہ فریاد سے جرس نکہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش مینا مدام شورش قلقل سے پابگل لیکن مزاج جام خرام آشنا خموش شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشی سرمایہ دار گرمی آواز خامشی ایک خالص صنعتی اور میکانکی موضوع کو اس اعلیٰ فلسفیانہ انداز میںنہایت فن کارانہ نمونہ شاعری میں ڈھالنے کی کتنی اور کیسی مثالیں ہمارے مغربی نقاد انگریزی شاعری سے دے سکتے ہیں حالانکہ موٹر جیسی مشین مغرب ہی کی ایجاد ہے؟ کیا موٹر پر اقبال کی نظم سے بہت کوئی شعری تخیق انگریزی میں یا مغربی ادب سے جنا ب کلیم الدین احمد پیش کر سکتے ہیں؟ ذرا خموش کی معنی خیز ردیف کے پانچ شعروں میں استعمال کے بعد آخری اور چھٹے شعر میں خامشی کایہ پر معنی استعمال دیکھیے: شاعر کے فکر کو پر پرداز خامشی سرمایہ دار گرمی آواز خامشی سرمایہ دار گرمی آواز کی ترکیب پر موٹر کے Internal Combustion engine کے سیاق و سباق میں غور کیجیے اور پھر شاعر کے فکر پر پرداز پر غور کیجیے اقبال کی غزل کا ایک شعر ہے: جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز اب سوچیے کہ سٹیم کی گرمی جس طرح موٹر کو تیز رفتاری عطا کرتی ہے۔ اسی طرح گرمی تخیل شاعر کو پرپرداز دیتی ہے۔ یہ ہے سائنس اور شاعری کے درمیان کامل ہم آہنگی کے اس خواب کی تعبیر جو میتھیو آرنلڈ نے انیسویں صدی کے اواخر میں دیکھا تھا۔ میں قبل بھی اقبال کی لمبی نظموں کے مطالعے کے دوران طلوع اسلام کے ایک بند کے متعدد اشعار کر تجزیہ کر کے واضح کر چکا ہوں کہ اقبال کی کیمیائے شعریت تازہ ترین سائنسی انکشافات اور صنعتی ایجادات مثلاً Submarine اور Telegraph کو بھی حسین استعارات میں تبدیل کر سکتی ہے ان تین اشعار کو ایک بار پھر پڑھیے: ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے غبار رہ گزر میں کیمیا پر ناز تھا جن جو جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر نکلے ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا خبر دیتی تھی جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے اس طرح جدید ترین مادی ترقیات کو شاعری میں جذب کر نے کی صلاحیت اردو زبان اس کے استعارات و علائم اور عروض آہنگ میں تو اقبال کے اشعار سے ہی ثابت ہوتا ہے کہ جب کہ انگریزی زبان کی خامیوں اور کوتاہیوں کا عالم یہ ہے کہ شاہین جیسے ایک پرندے پر بھی ہوپکنس نے جو نظم لکھی تو اس میں نہ وضاحت فکر ہے نہ سلاست بیان۔ بال جبریل سے پانچ مختصر نظمیں جو جناب کلیم الدین احمد نے لی ہیں ان میں یہ تین تو واقعی بہترین تخلیقات ہیں: ۱۔ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔ ۲۔ لالہ صحرا ۳۔ شاہین لیکن فرشتوں کا گیت اور فرمان خدا سے بدرجہا بہتر تخلیقات کو انہوں نے چھوڑ دیا جن میں چند یہ ہیں: ۱۔ ہسپانیہ ۲۔ طارق کی دعا ۳۔ لینن ۴۔ زمانہ ۵۔ جبریل و ابلیس ۶۔ اذان ۷۔ نپولین کے مزار پر ۸۔ جدائی ان میں سب سے چھوٹی نظم جدائی میں صرف نقل کر دیتا ہوں: سورج بنتا ہے تار زر سے دنیا کے لے ردائے نوری عالم ہے خموش و مست گویا ہر شے کو نصیب ہے حضوری دریا‘ کہسار‘ چاند ‘ تارے کیا جانیں فراق و ناصبوری شایاں ہے مجھے غم جدائی یہ خاک ہے محرم جدائی ضرب کلیم کے بارے میں بعض سطح بیں اور کم نظر ناقدوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ اس میںشعریت بہت کم ہے ۔ اور علم و عشق اور شعاع امید کے علاوہ کسی نظم کی شعریت پر ان کی نگاہ نہیں پڑتی۔ یہی بات جنا ب کلیم الدین احمد نے بھی کی ہے ۔ لیکن چند مزید نظموں کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں: ۱۔ معراج ۲۔ مدنیت اسلام ۳۔ مرد مسلمان ۴۔ سلطان ٹیپو کی وصیت ۵۔ نگاہ ۶۔ نگاہ شوق ۷۔ فنون لطیفہ ۸۔ سرور ۹۔ مسولینی ان کے علاوہ بھی بکثرت چھوٹی چھوٹی نظمیں متنوع اہم موضوعات و مسائل پر ایسی ہیں جن کا ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ اپنی جگہ نہایت حسین‘ پر معنی اور خیال انگیز ہے۔ یہ نظمیں ایجاز کا اعجاز ہیں اور بہ یک وقت فکری طور پر دقیق اور فنی طور پر نفیس ہیں۔ انہیںہم شاعری کے نگینے کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر باب ’’عورت‘‘ میں جدید عمرانیات کے ایک انتہائی پیچیدہ اور نزاعی مسئلے پر ’’عورت‘‘ کے عنوان سے د ونظمیں ۱۔ پردہ اور ۲۔ خلوت دقیقہ سنجی اور معنی آفرینی نیز جدت فکر اور رعنائی خیال سے پر ہیں۔ بروقت میں مدنیت اسلام کا ایک مختصر تجزیہ کر کے دکھانا چاہتا ہوں کہ اقبال نے دقیق ترین افکار کو کس طرح حسین ترین اشعار میں ڈھال دیا ہے: بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں طلوع ہے صف آفتاب اس کا غروب یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسم افلاطوں عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت‘ عرب کا سوز دروں پہلے مصرعے میں ایک سیدھا سا سوال ہے لیکن دوسرے مصرعے میں اس کے جواب نے پورے شعر کو لطیف اشارات سے لبریز کر دیا ہے۔ صرف دو ترکیبیں… نہایت اندیشہ و کمال جنوں… ایک پوری صدیوں کی رنگارنگ تاریخ اور تہذیب کی نشان دہی کرتی ہیں اور اندیشہ جنوں کے الفاظ کی علائم کی طرح جہان معنی کا درواز ہ کھولتے ہیں ان لفظوں میں تنوع بھی ہے اور توازن بھی۔ ان میں فلسفیانہ خیالات شاعرانہ استعارات بن گئے ہیں ان کے پس منظر میں نہ صرف امت مسلمہ کی تاریخ ہے بلکہ عربی فارسی اور اردو کی پوری شعری روایت بھی ہے جس کی تجدید و توسیع اقبا ل کے منفرد اجتہاد فکر اور انداز بیان سے ہوتی ہے۔ اس طرح کہ معلوم و معروف الفاظ میں نئے مضمرات اور اثرات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس شعر سے آشکار ہوتا ہے کہ اسلام بہ یک وقت جذبہ و عقل کا ایک معتدل مرکب ہے اور اس مرکب کے دونوں پہلو کبھی ساتھ ساتھ اور کبھی کبھی الگ الگ مسلمانوں کی تاریخ میں نشیب و فراز میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ اسلامی تہذیب میں بڑے بڑے حکما بھی پیدا ہوئے ہیں اور مجاہدین بھی اور ایسے افراد بھی جو ایمان کی فراست اور جرات دونوں کے جامع تھے اور یہی وہ مرد مسلمان تھے جو انسانیت کا بہترین اور مثالی نمونہ تھے: قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں یہی وہ مرد مومن ہے جو اللہ کی برہان ہے: ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان (مرد مسلمان…ضرب کلیم) دوسرا شعر مدنیت اسلام کے عروج و زوال کی داستان کا مرقع نہایت ہی دلآویز ہے اور بصیرت افروز انداز میں پیش کرتا ہے۔ عروج و زوال کو طلوع و غروب کی فطرتی علامتوں سے تعبیر کرتے ہوئے ئبجائے نشیب و فراز کی طرف اشارہ کرنے کے ایسے تنوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی تہ میں یکسانی ہے: یگانہ اور مستان زمانہ گوناگوں نشیب و فراز کو گوناگوں قرار دینا اور اس کے اندر بھی ایک یگانگی کا سراغ لگانا بہ یک وقت ایک دقیقہ دان فلسفی اور نکتہ سنج شاعر کے تفکر اور تخیل کا کمال ہے بلندی و پستی کی ایسی حسین توجیہہ اقبال پہلے بھی پڑھ چکے ہیںـ: جہاں میں اہل ایماں کی صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے‘ ادھر نکلے‘ ادھر ڈوبے ‘ ادھر نکلے (طلوع اسلام۔ بانگ درا) یہاں یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ بانگ درا کے شعر میں تصویریت اور حرکیت زیادہ ہے۔ مگر رعنائی خیال اور نفاست بیان میں ضرب کلیم کا شعر بھی کسی طرح کم نہیں بس اسمیں ایجاز اور ارتکاز کی وہ خصوصیت نمایاں ہے جس کے سبب ضرب کلیم کے اکثر اشعار میں دبازت قبل کے مجموعوں سے بڑھ کر ہے اور نتیجتا معانی کی تہوں میں اضافہ ہو گیا ہے بلکہ آہنگ کی گہرائیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ یگانہ اور مثال زمانہ گوناں گوں کے ترنم کی نغمگی ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے سے فزوں تر ہے۔ شاید یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ بانگ درا کے مصرعے میں تسویر کا طلسم ہے اور ضرب کلیم کے مصرعے میں ترنم کا جادو۔ شاعری میں مصوری سے موسیقی کی طرف بڑھنا ارتقائے فن کی دلیل ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن ایک متوسط اور معتدل نظام حیات پر مبنی ہے۔ چنانچہ اس کو سب سے زیادہ فروغ بھی عہد وسطی میں ہوا۔ جب زمانے کا مزاج اعتدال پر تھا۔ اسلام کی روشنی علم و اخلاق کی روشنی تھی اور ہے اس کے اثر سے عہد قدیم کی وہ ظلمت و جہالت کافور ہو گئی جو اوہام و خرافات سے پیدا ہوئی تھی اسی طرح یہ تہذیب اسلامی اس برہنگی اور بے شرمی کی بھی روادار نہیں جو نام نہاد ترقی اور مصنوعی روشن خیالی کے نام پر آج کی دنیامیں مغربی تصورات و اقدار کے سبب عام ہو رہی ہے ۔ دور قدیم کا انسان ذہنی طور پر اساطیر کا غلام تھا۔ جب کہ دور جدید کا انسان تمام اعلیٰ اصولوں اور شریفانہ قدروں سے آزاد ہو چکا ہے۔ یہ دونوں انتہا پسندیاں جاہلیت کی دین ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پرانی جاہلیت میں حقائق سے بے خبر لوگ افسانہ و فوں کی فضا میں سانس لیتے تھے۔ اورنئی جاہلیت میں اخلاقی نظم و ضبط سے بے گانہ ہو کر مردوعورت اپنی فطرت کے قیود توڑ چکے ہیں۔ اور بے حیائی اور بے حجابی میں مبتلا ہیں۔ اسلامی مدنیت ان دونوں لعنتوں سے پاک ہے۔ اس میں آزادی فکر چند ضوابط کی پابند ہے۔ اور علم کی ساری ترقیات اخلاقیات کی حدود میں ہیں۔ ایسا زبردست توازن اسلام کے کردار میں اس لیے نہیں کہ یہ کوئی خیالی فلسفہ نہیں جیسے افلاطون کا طلسم فکر ہے یا اس جیسے دوسرے تمام فلسفیوں اور مفکروںکے نظریات ہیں اسلام ایک دین ہے جس کے تصورات ابدی وازلی حقائق حیات پر مبنی ہیں۔ اس لیے کہ یہ حقائق خالق حٰات کا نازل کیا ہوا دین ہے جو انسان کی فطرت اور اس کے تمام تقاضوں سے واقف ہے۔ جس طرح تیسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں فسانہ و فسوں کے الفاظ علامات کی طرح حسن آٖریں اور خیال انگیز تھے اسی طرح چوتھے شعر میں طلسم افلاطون کی ترکیب بجائے خود ایک طلسم خیال کا دروازہ کھولتی ہے۔ ایک تو افلاطون کا نام محاورے میں فلسفہ و فکر کا مترادف ہے دوسرے طلسم کا اضافہ اس فکرو فلسفہ کو بالکل خیالی اور غیر حقیقی بنا دیتا ہے۔ اگر قبل کے شعر میں فسانہ و افسوں کے ساتھ ملا کر چوتھے شعر کے طلسم افلاطوں کو دیکھا جائے جو شاعر کا منشا بھی ہے تو دونوں اشعار کے معنوی و لفظی ارتباط کے علاوہ ان کی گہری شعریت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں فن کا کمال یہ ہے کہ الفاظ و تراکیب کا علامتی استعمال بھی ایک سلیس بیان کی طرح ہوا ہے یعنی استعارہ محاورے میں حل ہو گیا ہے یہ بلاغت اظہار کا نقطہ عروج ہے جو بلوغ فکر اور رعنائی تخیل کا مشترک نتیجہ ہے ۔ دونوں اشعار میں ترنم کی نغمگی الفاظ و حروف کی مخصوص ترتیب سے پیدا ہوتی ہے ۔ چاروں مصرعوں میں ’’ر‘‘ ن‘‘ اور ’’س‘‘ کا استعمال ایک ترنم آفریں آہنگ ابھارتاہے۔ یہ نغماتی کیفیت غالباً بالقصد نہیں ہے بلکہ طبع شارع کا سر جوش ہے۔ اقبا ل کے مدرکات ان کے محسوسات بن جاتے ہیں اور نتیجتا اشعار میں تصویر و ترنم کے کوائف از خود بروئے کار آ جاتے ہیں۔ یہ بلکہ شعری یقینا فکر و فن کے مسلسل اورعمومی ریاض کی بدولت ہے چنانچہ شاعر کو الگ الگ ہر شعر یا نظم کے لیے کوئی پرتکلف تیاری اور زبردستی کی محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چار شعروں میں اسلامی مدنیت کے مرکب متوازن متنوع مسلسل متین اور محکم انداز و ادا کی فلسفیانہ و شاعرانہ تشریح کے بعد پانچویں اور آخری شعر میں گزشتہ نکات کا یہ خلاصہ و نتیجہ نکالا جاتا ہے: عناصر اس کے بین روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز دروں اس شعر کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک ترکیب حکمت و فلسفہ تواریخ روایات اور شعر ونغمہ سے مملو ہے۔ مدنیت اسلام کی تمام خصوصیات کو روح القدس کے ذوق جمال کے عناصر قرار دے کر اقبال نے دین اسلام کی الوہی بنیاد اور قدر جمال دونوں کو ایک دوسرے میں سمو دیا ہے ۔ اور اس طرح دین کی اس جامع اور متوازن ترکیب کی نشاندھی کی ہے جس میں اخلاقیات اور جمالیات کے اصول و آداب بہ یک وقت پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ روح القدس کے اسی ذوق جمال کی تشریح و تمثیل کے لیے عجم اور عرب کی تصویریں حسن طبیعت اور سوز دروں کی ان ترکیبوں کے ساتھ پیش کی گئیں جن کی ندرت اور معنویت پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں عرب و عجم کی جو خیال انگیز کردار نگاری کی گئی ہے اور دونوں کرداروں کو جس لطافت کے ساتھ ایک دوسرے سے پیوستہ کر کے اسلام کے ساتھ وابستہ کیا گیاہے اس پر تبصرے کے لیے عربی کا یہ مقولہ ہی موزوں ہو سکتاہے: ان من الشعر لحکمۃ وان من البیان السحرا (شعر سے حکمت مترشح ہے اور بیان سے جادو) پانچ شعروں کی یہ مختصر سی نظم اپنے موضوع ترسیل کی ہر جہت سے مکمل کامیاب اور موثر ہے۔ اور فکر و فن دونوں کے درجہ کمال پر پہنچتی ہے۔ یہ وہ نمونہ شاعری ہے جس کی نظیر ادبیات عالم میں مفقود ہے اور انگریزی کی کوئی مختصر نظم کسی بڑے سے بڑے شاعر کی بہتر سے بہتر نظم اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچتی ۔ اقبال کے اردو کلام کا ایک مجموعہ اور ہے ’’ارمغان حجاز‘‘ جس کو جناب کلیم الدین احمد نے لمبی اور مختصر دونوں قسموں کی نظموں کے جائزے میں یکسر نظر انداز کر دیا ہے ۔ حالانکہ ایک بہت ہی حسین نظم تصویر اور مصور کے عنوان سے جو اس مجموعے میںہے اس کے علاوہ بڈھے بلوچ کی وصیت بیٹے کو اور ’’آواز غیب‘‘ بھی قابل ذکر ہے۔ نظموں کے اس جائزے کے آخر میں اور اس سلسلے کا دوسراباب ختم کرتے ہوئے میں چار ایسی نظموں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن میں بعض کو آپ طویل کہہ سکتے ہیں اور بعض کو متوسط۔ ان میں دو پہلے مجموعے بانگ درا کی ہیں: ۱۔ گورستان شاہی ۲۔ فلسفہ غم اور دو آخری مجموعے ارمغان حجاز کی: ۱۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ ۲۔ عالم برزخ پہلی دو تو فکری Reflective انداز کی ہیں اور آخری دو تمثیلی Dramatic انداز کی فلسفہ اور شعریت چاروں میں ہے۔ اقبال کی شاعری میں فنی ارتقاء او ر ان کی نظم نگاری کے تمثیلی امکانات پر بحث کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ایک ناقد کی نگاہ میں مطالعہ اقبال کا یہ پہلوبھی رہنا چاہیے ۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد متعلقہ مباحث میں اس پہلو سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ اس کم نظری کی ایک وجہ تو کج فہمی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ موصوف کا مطالعہ اقبال نہ تو مکمل ہے نہ منظم اپنے ادبی مطالعے اور تنقیدی بصیرت کی اس کمی کو موصوف نے انگریزی اور مغربی ادبیات و تنقیدات کے طویل او ربے محل اقتباسات سے پوراکرنے کی کوشش فرمائی ہے جو محض ناکام ہے۔ ٭٭٭ 8 اقبال اور ملٹن زیر نظر کتاب کے باب ملٹن اور اقبال کی تمہید میں جناب کلیم الدین احمد رقم طراز ہیں: ’’ملٹن اور اقبال میں کوئی قدر مشترک نہیں اور ملٹن اوراقبال کا موازنہ An exercisa in futility سے زیادہ نہیں‘‘۔ (ص 371) لیکن صفحہ 369سے 416تک پینتالیس صفحات میں ہمارے مغربی نقاد نے یہی لغو کام کیا ہے جو بہرحال غیرمتوقع نہیں‘ اس لیے کہ تضاد بیان اور کارعبث جناب کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری کی نمایاں ترین خصوصیات ہیں ۔ چنانچہ کار عبث کی ایک خاص مثال تو اس باب میں یہی ہے کہ ملٹن کے موضوع شاعری کی تعین و توضیع مارول کی ایک نظم سے کی گئی ہے : ’’بہرکیف اب ملٹن کو لیجیے کومس کا وہی موضوع ہے جو مارول کی نظم کا ہے ‘‘۔ (ص 375) اس طرح کی وضاحت بھی ہمارے مغربی نقاد کی ایک امتیازی خصوصیت ہے ۔ انہوں نے تنقید کو تدریس بنا دیا ہے اور بالکل آئی اے ۔ بی اے کے طالب علموں کی طرح درسیاتی تنقید Text Book Criticism کرتے ہیں۔ وہ پٹنہ کالج کے انگریزی کلاسوںمیں اپنے انگریز معلمین کے لکچروں کو بھی اچھی طرح حفظ کیے ہوئے ہیں اور ان کے نوٹس Notesکا استعمال اپنی عالمانہ تنقیدوں میں بکثرت کرتے ہیں اور قطعاً نہیں سوچتے کہ دنیائے تنقید طالب علمانہ کلاسوں سے بہت آگے کی چیز ہے۔ خیر اقبال اور ملٹن کا موازنہ اس طرح شروع ہوتا ہے: ’’ان نظموں کا جائزہ لینے سے پہلے ایک بات اور کہہ دی جائے کہ ملٹن رزمیہ نگار ہے اور اقبال کو رزمیہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں‘‘۔ (ص 383) یہ ہمارے مغربی نقاد کا پرانا تنقیدی حربہ Stuntہے۔ وہ جب شاعری میں موازنہ کرنا دشوار پاتے ہیں تو صنف سخن کی بات کرکے غلط مبحث کر دیتے ہیں۔ اقبال اگر رزمیہ نگار نہیں ہیں تو ؟ اور ملٹن رزمیہ نگار ہیں تو؟ موازنہ شاعری میں کرنا ہے۔ موازنہ شاعری میں کیجیے۔ اور اگریہ آپ کے لیے آسان نہیں تو پھر تنقیدلکھنا ہی کیا ضروری ہے؟ اگر آپ اصولی اور معروضی تنقید نہیں کر سکتے تو بہتر ہو گا کہ تنقید کیجیے ہی نہیں تاکہ نہ آپ کا قیمتی وقت برباد ہو نہ قارئین کا۔ اب ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ملٹن نے شیطان کا وہ کون سا اور کیسا رزمیہ رقم کیا ہے جس کی اقبال کے یہاں کمی یا فقدان ہے؟ اس سلسلے میں جناب کلیم الدین احمد کے چند جملے یہ ہیں: ’’ملٹن کا شیطان ایک Archangel ہے جو اپنے تکبر کی وجہ سے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار نہیںکرتا بلکہ اپنے کو خدا کا ہمسر سمجھنے لگتاہے۔ اور صرف سمجھتا ہی نہیں وہ ملائکہ کی ایک فوج جمع کرتا ہے اور خدا سے اس کا تخت چھین لینا چاہتا ہے ملائکہ میں جنگ ہوتی ہے… اگر یہ جنگ جاری رہتی تو سارا عالم تباہ ہو جاتا۔ تو خدا اپنے بیٹے کو دس ہزار رعدے کر بھیجتا ہے اور آخر کار شیطان کو شکست ہوتی ہے اور وہ اس کی فوج عالم بالا سے تحت الثریٰ میں پھینک دی جاتی ہے بھلا بتائیے تو ایسا رزمیہ اقبال کی نظموں میں کہاں پھر ملٹن اوراقبال کا موازنہ کہاں تک جائز ہے؟ (ص 85-383) یہ موازنہ صریحاً ناجائز ہے اور ایک سنگین جرم ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ شیطان کا ایسا رزمیہ اقبال کی نظموںمیں نہیںہے اور نہ ہو سکتا تھا اور نہ ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ اقبال شاعر اور فلسفی ہونے کے باوجود اور اپنے انداز بیان کی تمام شوخیوں نیز جرات فکر کے باوصف ایک حق پسند عالم اور مرد مومن تھے۔ حقائق پر نگاہ رکھتے تھے اور نہایت گہری بصیرت کے حامل تھے۔ چنانچہ دنیا کی بڑی سے بڑی شاعری کے لیے لایعنی اساطیر وخرافات کا سہارا لینا پسند نہیںکرتے تھے۔ زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کو لطیف ترین شاعری میں تبدیل کرنے کی بے مثال استعداد رکھتے تھے۔ اور فن کاری کے لیے یا وہ گوئی کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے جب کہ ملٹن کا دماغ یونانی صنمیات کے واہیات خرافات سے بھرا ہوا تھا اور بے چارہ سمجھتا تھا کہ اوٹ پٹانگ افسانہ تراشی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ غریب عقیدتاً پکا عیسائی تھا اور شاعر کی حیثیت سے بھی اس کامجموعی و عمومی تصور مسیحی تھا۔ لیکن اس کی شخصیت بری طرح منقسم تھی لہٰذا عیسائی اور علمبردار مسیحیت ہونے کے باوجود اس نے شیطان جیسے مذہبی تاریخ کے ایک نمایاں ترین وجود کی تصویر کسی بھی انجیل مقدس سے بالکل ہٹ کر خالص یونانی دیومالا کے تخیل کے تحت کی۔ ظاہر ہے کہ حقائق اور عقائد دونوں کو مسخ کرنے والے ایسے ابلیسی رزمیہ کا کیا موازنہ اقبال کی حقیقت پسندانہ اور بصیرت افروز شاعری سے ہو سکتا ہے؟ قارئین کو یاد ہو گا گرچہ مغربی نقاد فارسی مثل کے مطابق حافظہ نہیں رکھتے کہ دانتے اور اقبال کے موازنے میں جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کے جاوید نامہ کے خلائی سفر پر اعتراض کیا تھا کہ اس میں سیاروں او رستاروں کی وہ ترتیب نہیںہے جو فلکیات کی معلومات کے مطابق ہونی چاہیے۔ پھر انہوںنے اقبال کی لمبی اردو نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے مسجد قرطبہ کی شاعری کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا۔ کہ اس میں ان کے مفروضہ حقائق کے خلاف بیانات ہیں۔ لیکن اقبال کے جاوید نامہ اور مسجد قرطبہ پر ت تو جناب کلیم الدین احمد کا اعتراض ہوائی اور بے بنیادی ہے جیسا کہ قبل کی بحثوں میں واضح کر چکا ہوں جب کہ ملٹن کے ابلیسی رزمیہ میں حقائق کی صریح خلاف ورزی کا خود جناب کلیم الدین احمد نہ صرف یہ کہ اپنے بیان سے معناً اور قطعاً اعتراف کرتے ہیں بلکہ رزمیہ کی اصطلاح کا سہارا لے کر اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات؟ اسلام کامحاسبہ یورپ سے درگزرا بہت ساری غیر متعلق‘ فضول اور لا یعنی باتوں کے بعد جناب کلیم الدین احمد اس تقابلی مطالعے کا ماحصل یہ بیان کرتے ہیں: ’’ابلیس جاوید نامہ میں ایک Pathetic Figure ہے لیکن شیطان کو ہم Patheticنہیں کہہ سکتے…جہاں تک شاعری کا سوال ہے اس سے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کاش اقبال مارول جیسی کوئی نظم لکھتے جو مثال میں نے کومس سے پیش کی ہے ا س قسم کی کوئی چیز لکھ سکتے اور اس قسم کی شاعری ان کی دسترس سے باہر ہے اور اگر ان کی ابلیس کے متعلق جو نظمیں ہیں ان کاپیراڈٓئزلوسٹ کے جو چند نمونے میں نے پیش کیے ہیں ان سے موازنہ کیا جاے تو اقبال میں صرف باتیں ہی باتیں نظر آئیں گی جن میں کوئی خاص بات نہیں اور اگرچہ میں ملٹن کی شعری عظمت کا قائل نہیںہوں پھر بھی جو چند مثالیں میں نے پیش کی ہیں وہ اقبال کی نظموں کی مفلسی ظاہر کرتی ہے خصوصاً ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کا شیطان مجلس شوریٰ سے مقابلہ ایک قسم کی تنقیدی بد مذاقی اور بے راہ روی ہے ۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں نہ تو کوئی پس منظر ہے اور نہ کسی مشیر کی شخصیت اور صورت صاف ابھرتی ہے یہاں تک کہ ابلیس کی بھی شخصیت اور صورت پر الفاظ پردہ ڈال دیتے ہیں لیکن ملٹن میں شیطان کی مجلس شوریٰ کا ایک شاعرانہ مرعوب کن پس منظر ہے پھر شیطان کو ہم دیکھتے ہیں اور اس کی شخصیت بھی ہم پر اثر انداز ہوتی ہے… اقبال کی نظم میں صرف الفاظ الفاظ الفاظ ہیں‘‘۔ (ص 16-414) ان سطروں سے معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ جناب کلیم الدین احمد شاعری کے نام سے بالکل غیر شاعرانہ امور پر تنقید کر رہے ہیں اور ان امور کے بارے میں بھی ان کے ذہنی مفروضے غلط ہیں۔ انہیں اقبال کے ابلیس پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ وہ ایک Pathetic Figure ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو اس میں ازروئے شاعری کیا مضائقہ ہے؟ غور کرنے کی بات ہے کہ اقبال ابلیس کی ٹریجڈی پیش کرتے ہیں اور ملٹن کا رزمیہ۔ اب اصحاب فکر سوچیں کہ خدائے کائنات کے مقابلے میں بڑے سے بڑے شیطان کی جتنی بھی حقیقی حیثیت زیادہ سے زیادہ المناک ہونے کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے؟ ابلیس کی ساری رزم آرائی انسان کے مقابلے میں ہو سکتی ہے یا خدا کے مقابلے میں ؟ یہ تو ملٹن کا منحرف Perverse ذہن تھا جس نے یونانی صنمیات کو سامنے رکھ کر خدا اور ابلیس کے درمیان گویا دیوتائوں کی جنگ کا افسانہ تراش لیا اور اسی جنگ کے مضمرات کے پیش نظر اس تمثیلی انداز میں ابلیس اور اس کے اصحاب کی کردار نگاری اور خدا کے ساتھ ان کی لڑائی کی تصویر کشی کی۔ ظاہر ہے کہ اقبال کے یہاں ابلیس سے متعلق یہ خرافات اور اس کی ڈراما نگاری یا رزمیہ طرازی نہ ملے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا شاعری سے کیا تعلق ہے ؟ ملٹن نے ابلیس پر بڑا زبردست رزمیہ لکھا ہے تو لکھا ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ اقبال نے ابلیس پر جو نظمیں اردو اور فارسی میں لکھی ہیں وہ مجموعی اور کلی طور پر ملٹن کے رزمیے سے کم تر شاعری کی حامل ہیں؟ تنقید کے ان بنیادی اور اصلی سوالوں کے جواب تو کیا شعور بھی جناب کلیم الدین احمد کو میسر نہیں ہے چنانچہ وہ تنقید کے نام پر صرف ابلہ فریبی سے کام لیتے ہیں اور اس پر ہرزہ کاری پر طمطراق دکھاتے ہیں کم علمی اور کم نظری آدمی کے اندر کم ظرفی پیدا کر دیتی ہے: ’’اقبال کی نظم میں صرف الفاظ الفاظ الفاظ ہیں‘‘۔ گفتگوکا یہ ہسٹریائی انداز وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ کوئی کام کی کوئی پتے کی بات نہیں‘ لہٰذا وہ صرف بکواس کرتا ہے اور چونکہ اسے احساس ہے کہ لوگ اس کی بکواس پر کان نہیں دھریں گے لہٰذا چلانے لگتا ہے مگر بلا پھاڑنے سے وہ اور بھی زیادہ مسخرا نظر آنے لگتا ہے۔ جاوید نامہ اور پیام مشرق میں اقبال نے ابلیس پر جو شاعری کی ہے ا س قسم کی شعری ملٹن ت کیا جس کی شعری عظمت کے جناب کلیم الدین احمد جیسے نقاد قائل بھی نہیں ہیں شیکسپئر اور گیٹے اور دانتے کے بس سے بھی باہر ہے۔ بال جبریل اور ضڑب کلیم بھی ابلیس کے متعلق جو چند خیال انگیز نظمیںپائی جاتی ہیں اور ان میں جس طرح تصور ابلیس کے معمے کو حل کرنے کی بصیرت افروز کوشش کی گئی ہے۔ اس کو بھی سردست چھوڑ دیجیے صرف ارمغان حجاز میں ابلیس کی مجلس شوریٰ ہی کی شاعری نہ کہ ڈرامے اور رزمیے پر ایک نگاہ ڈالیے۔ یہ نہ رزمیہ ہے نہ ڈراما صرف ایک تمثیلی نظم ہے۔ اور اس ہئیت سخن کی حدود میں بے حد کامیاب پر اثر اور فکر انگیز ہے۔ اس نظم کاموضوع نہ تو ابلیس کی شخصیت و صورت کی نقاشی ہے نہ اس کے مشیروں کی گرچہ یہ ضرور ہے کہ موضوع کے اعتبار سے نظم کے کرداروں کی نوعیت کا اظہار کیا گیاہے خاص کر ابلیس کے متعلق جو اقبا ل کا تخیل ہے اس کے مطابق ابلیس کے بیانات درج کیے گئے ہیں۔ ابلیس کا استعمال اقبال نے اکثر خیر و شر کی تاریخی کش مکش میں ایک علامت کے طور پر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں بھی حالات حاضرہ پر بھی ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے تبصرہ مقصود ہے اور ابلیس کو منفی طور پر اسی زاویہ نگاہ کا ترجمان بنایا گیا ہے ۔ جب ک اس کے مشیروں کی حیثیت اس ترجمانی میں معاون کی ہے یہاں دیوتائوں کی جنگ کی کوئی نامعقول وجہ نہٰں ہے۔ دور حاضر کی مختلف نظریاتی قوتوں کی کش مکش کے حقائق پیش کیے گئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں چند پیغمبرانہ Prophetic اشارے کیے گئے ہیں۔ یہ نظم 1936ء میں اقبال نے اپنی موت سے دو اور جنگ عظیم ثانی سے تین سال قبل کہی تھی۔ اس زمانے میں عالمی طاقتوں کے مقابلے اور مقابلے کی حقیقت کی اس سے بہتر تصویر کشی دنیا کے کسی شاعر نے نہیںکی ہیـ نہ کر سکتا ہے اول تو کسی شاعر کو یہ بصیرت ہی حاصل نہیں تھی کہ وہ احوال زمانہ کا ایسا سچا مطالعہ کر سکے‘ دوسرے یہ کہ اقبال کے سوا دنیا کے کسی شاعر کے بس کی بات نہیں کہ الاہیات‘ تاریخ‘ فلسفہ اور سیاست کو انتہائی خوب صورتی کے ساتھ ترکیب د کر زندگی کے سخت ترین حقائق کو لطیف ترین شاعری میں ڈھال سکے۔ نظم کے آغاز میں ابلیس کہتا ہے: یہ عناصر کا پرانا کھیل ! یہ دنیائے دوں ساکنان عرش اعظم کی تمنائوں کا خوں اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کار ساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں میں نے دکھایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیرو کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوازں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اس نحل کہن کو سرنگوں صدر مجلس کے یہ افتتاحی کلمات ا سکی زبردست تاریخی شخصیت کے عین مطابق ہیں اور الفاظ کے مطالب سے لہجے تک ہر چیز شاہ ظلمت کے شایان شان ہے حالاں کہ اقبال کا ابلیس خدا کے مقابلے میں بداہتاً اور فطرتاً Pathetic Figureہے مگر کائنات میں اس کی جلالت شان کا پورا پور ااظہار ان کلمات سے ہوتا ہے ا س کے ساتھ ہی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا بلیس ملٹن کے شیطان کی طرح نہ تو کوئی اذکار رفتہ Out Dated قوت ہے نہ ایک جاہل وحشی بلکہ سابق اور معزول شدہ معلم الملکوت ہے ہے جس کی شیطانی کارستانیاں آج تک کارفرما ہیں اور عصر حاضر کا پورا سرمایہ دارانہ نظام ایک ابلیسی نظام ہے جو شیطانی قوتوں کے بل پر قائم اور جاری ہے۔ اس کے بعد پہلا مشیر دور حاضر میں ابلیس کے غلبہ و تسلط کا عبرت انگیز بیان کرتا ہے: اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام پختہ تر ا س سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و ملا ملوکیت کے ہیں بندے تمام طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام بیسوی صدی کے دوسرے نصف تک مغربی ملوکیت اور سرمایہ داری نے مل کر دنیائے انسانیت‘ خاص کر مشرق اور عالم اسلام کے شعور اور کردار کو جس طرح کچل کر رکھ دیا تھا یہ اشعار اس کا نہایت خیال انگیز شاعرانہ مرقع پیش کرتے ہیں: آرزو تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام آج کے ابلیسی دور میں تشکیک‘ کلبیت اورخود شکستگی Sceptisism, Cynicism , Self Defeatism کے جو تباہ کن میلانات انسانی سماج میں خاص کر پس ماندہ اقوام میں پھیے ہوئے ہیں ان کا نقشہ اس ایک شعر میں اتار دیا گیا ہے ۔ بعد کے اشعار میں ملت مسلمہ کے دین و تاریخ کے استعاروں کا استعمال کرنے کے علاوہ ملی معاشرے کی حالت کی تصویر کشی خصوصیت کے ساتھ اس لیے لے کی گئی ہے کہ آگے چل کر خدا کے آخری پیغام اور شرع پیغمبر ؐ کی حامل ہونے کے سبب اسی ملت کو انسانیت کی امیدوار شیطان کے لیے وجہ پریشانی بتایا گیا ہے اور یہ محض ذاتی عقیدے کا معاملہ نہیں ہے کہ فن کار کے تصورات اور مطالعہ تاریخ کا معاملہ ہے جس پر دنیا کے ایک عظیم ترین شاعر کے محرکات شاعری مبنی ہیں۔ اب دوسرا مشیر جمہوریت کے بارے میں جس کا چرچا عام ہے سوال کرتا ہے: خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟ تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر پہلا مشیر جواب دیتا ہے: ہوں مگر میری جہاں بینی بتانی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پردہ وہ گیا اس سے خطر ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر کاروبار شہر یاری کی حقیقت اور ہے یہ وجود میرو سلطاں پر نہیں ہے منحصر مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر تو نے کیا دیکھا نہیںمغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر اس جواب میں جو سیاسی بصیرت اور دانش ورانہ گہرائی ہے ا س سے قطع نظر غور کررنے کا نقطہ یہ ہے کہ افکار کو کس لطافت کے ساتھ اشعار بنایا گیا ہے: کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں منحصر مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر شہریاری میرو سلطاں اور پرویز کادربار جیسے الفاظ سامنے کی کھردری حقیقتوں کو ایک داستانی اور اساطیری رنگ دے دیتے ہیں‘ پارلیامنٹ اور اسلمبلی کا ترجمہ مجلس ملت کر کے ایک جدید سیاسی اصطلاح کو محاورہ زبان کی سلاست اور رسم تہذیب کی نفاست دے دی گئی ہے اور یہ مصرع تو اپنی ظاہری سادگی کے باوجود ایک جہان معنی کے پیچ و خم رکھتا ہے: ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر خاص کر جب کہ پہلے مصرعے میں پرویز کا دربار واضح طور پر آ چکا ہے: مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو فرہاد و شیریں اور فرہاد و پرویز اور پرویز و شیریں کی داستان تاریخ ادب کی سب سے مشہور داستانوں میں سے ایک ہے اور گرچہ یہ ایک داستان محبت ہے مگر اس میں سیاست کے پہلو بھی مضمر ہیں جن کا نیہایت معنی خیز فن کارانہ استعمال اقبال نے اپنے کلام میں دوسری بہتیری جگہوں کی طرح یہاں بھی کیا ہے شیریں ایک مزدور اور جمہور کی محبوبہ تھی لیکن بادشاہ وقت پرویز نے اپنی دولت اقتدار کے زر پر اسے حاصل کرنا چاہا حالانکہ اس کے پا س کئی حسنائیں تھیں ؤجب کہ فرہاد کے لیے صرف ایک شیریں تھی۔ پرویز کا ارادہ اقدام ظاہر ہے کہ ہوس ملک گیری اور ذاتی خواہشات و مفادات کی تسکین و تحصیل کی ایک شکل تھی۔ یہی لذت پرستی عشت کوشی اور اس مقصد کے لیے اقتدار طلبی اور طاقت آزمائی جس طرح ملوکیت کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے اسی طرح جمہوریت کی بھی ہے: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری (اقبال) تیسرا مشیر عصر جدید کے تازہ ترین فتنے اشتراکیت کا تعارف کراتا ہے: روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ہے جگر کیا س یہودی کی شرارت کا جواب؟ وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب! نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب! کیا بتائوں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب دقیقہ رسی اور نکتہ سنجی کے علاوہ کلیم بے تجلی اور مسیح بے صلیب کی ترکیبیں شعری تلمیحںات کا روپ دھار لیتی ہیں اور نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب محض جملہ بازی نہیں ایک پرخیال قول محال ہے پھر مارکس نے جس طرح سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اسرار و رموز کا پردہ چاک کیا ہے اس لیے یہ شاعرانہ تعبیر اردو ادب کی روایات کے سیاق میں غضب کی چیز ہے: کیا بتائوں کیا ہے کافر کی نگاہ پر سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب ا کے بعد مزدور اور سرمایہ دار کے رشتوں میں انقلاب کی یہ زبردست شاعرانہ تعبیر دیکھیے: توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب س طرح کی تصویریں جو اقبال کے کلام میں بکثرت پائی جاتی ہیں خیالات کو محسوس فنی پیکر عطا کرتی ہیں اور کائنات معنی کے دروازے کھولتی ہیں۔ چوتھا مشیر کیا حسین اور معنی خیز جوب دیتا ہے : توڑ اس کا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوںمیں دیکھ آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب کون بحرم روم کی موجوؤں سے ہے لپٹا ہوا گاہ بالدچوں صنوبر گاہ نالدچوں رباب تیسرے مشیر کو فکر ہے کہ مارکس نے مغربی سیاست کی پردہ داری کر کے ابلیس نظٓم کے لیے لیے اچھا نہیں کیا: میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب اب پانچواں مشیر ابلیس کو مخاطب کر کے ملوکیت سرمایہ داری جمہوریت اور اشتراکیت (امپیریلزم‘ کپیٹلزم‘ ڈیموکریسی‘ کمیونزم) کے امکانات پر ایک فیصلہ کن بیان دینے کا موقع دیتا ہے: اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار تو نے جب چاہا کیا ہر رپدگی کو آشکار آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز ابلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کار تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار کام تھا جن کا فقط تسبیح و تقدیس و طواف تیری عبرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار وہ یہودی فتنہ گر وہ روح مزدک کا بروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرخ کتنی سرعت سے بدلتاہے مزاج روزگار چھاگئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر جس کو دانائی سے ہم سجھے تھے اک مشت غبار فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار ان اشعار کو ایک طرف تو اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے قدم کی انتہائی شاعرانہ و مفکرانہ تصویر کشی ہے: وہ یہودی فتنہ گر وہ روح مزدک کو بروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار فتنہ فردا کی ہئیت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپیے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار اور دوسری طرف مغرب کے سرمایہ دارانہ تمدن و تہذیب اور حکمت و سیاست پر نہایت کاری طنز ہے: گرچہ ہیں تریے مرید افرنگ کے ساحر تمام اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار اس کے علاوہ شیطان کا ایک شاگرد اس کی شیطنیت کے کارناموں اور کمالات کو بھی اس شاعرانہ انداز میں پیش کرتا ہے‘ گرچہ اشعار کے مطالب صرف پر مذاق Funny ہیں: اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار آب و گل تیری حرارت سے جہان سو ز و ساز آبلہ جنت تیری تعلیم سے دانائے کار تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محڑم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار کام تھا جن کا فقط تسبیح و تقدیس و طواف تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار کیا ان صفات کا مالک ہیرو مطلقاً Pathetic Figure ہے ؟ نظم کے شروع میں بھی ابلیس نے اپ؛نے کمالات کے جو بلند بانگ دعوے اپنی زبان سے کیے ھتے وہ بھی ایک Magestic Figure فکری کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبا ل نے ابلیس کی جو کردار نگاری کی ہے وہ بہرحال ایک شان دار شخصیت کا ہیولا پیش کرتی ہے۔ گرچہ یہ ملٹن کے شیطان کی شخصیت کی طرح نہ تو بھیانک Macabre ہے اورنہ خدایانہ Godlyاس کی ایک حد ہے اور وہ خدائے کائنات اور اس کے دین کے مقابلے میں ابلیس کی بے چارگی ہے حالانکہ خدا کے دین سے برگشتہ بڑے بڑے انسان اور اس کے زبردست سے زبردست اقتدار سے ابلیس کو کوئی خوف و خطر نہیں بلکہ وہ انہیں اپنا ہی کارنامہ سمجھتا ہے۔ چنانچہ انہی حقائق کے پیش نظر نظم کے آخر میں ابلیس اپنے مشیروں سے خطاب کر کے بیک وقت ملوکیت سرمایہ داری جمہوریت اور اشتراکیت سبھی رائج الوقت نظریات سے مرکب تمدن و تہذیب کے مقدو و مستقبل پرایک قطعی تبصرہ کرتا ہے۔ جس میں وہ اشتراکیت کو خاص نشانہ بناتا ہے اس لیے کہ یہی مادہ پرستانہ باطل تصور حیات کی معراج ہے اور خدا پرستی کے مقابلے میں خدا بے زاری کا نقطہ کمال ہے اس کے بعد وہ اسلام کی حقیقت و قوت پر وقت کے تازہ ترین فکری میلانا ت کی روشنی میں صرف اپنا خیال ہی نہیں ‘ ابلیس کی حیچتی سے اندیشہ ظاہر کرتا ہے: ابلیس اپنے مشیروں سے عصر حاضر میں نافذ و غالب نظام ابلیسی کے حالات و کوائف پر تبصرے سن چکا ہے اورا س نظام کے مستقبل کے متعلق تمام سوالات اس کے سامنے ہیں انہی تبصروں اور سوالات کی روشنی میں وہ جواب دیتاہے۔ اس کے جواب کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں وہ اپنی آفاقی طاقت اور انے نظام کے استحکام کا علاج کرتے ہوئے اشتراکیت کی حقیقت ااشکارا کرتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ اسنظم کے لیے مستقبل کا فتنہ اور خطرہ صرف ایک ہے اسلام جس کی زندگی کے آثار دست برباد زمانہ کی تمام تباہ کاریوںکے باوجود باقی ہیں دوسرے حصہ میںوہ امت مسلمہ کی غفلت اور بے عملی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کرتا ہے کہ عصر حاضر کے تقاضے ہی شرع پیغمبرؐ کو آشکارا کر دیں گے۔ اس کے بعد وہ شریعت محمدیؐ کی انقلابی خصوصیتوں کا ذکر کرتا ہے اور آکر میں توقع و تمنا کرتا ہے کہ خود اہل اسلام اپنے دین انقلاب آفریں حقیقت سے بے خبر رہیں گے۔ تیسرے حصے میں وہ ان صوفیانہ ‘ کلامی اور خانقاہی موضوعات کا تذکرہ کرتا ہے جن میں الجھ کر مسلمانوں کے شعور و کردار کی ساری قوتیں مفلوج ہو رہی ہیںچنانچہ شیطان اپنی ذریات کو حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ انہی لایعنی دور اذکار مضحکہ خیز اور تباہ کن امور میں مشغول رکھیں تاکہ شیطنیت کا غلبہ اور انسانیت کی پستی برابر قائم رہے۔ ۱ ہے میرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو کیا زمیں کیا مہرومہ کیا آسماں تو بتو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق میں نے جب فرما دیا اقوام یورپ کا لہو کیا امامان سیاست کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو! کار گاہ شیشہ جو ناداں سمجھتاہے اسے توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوںکو چاک مزدکی منطق کی سبوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روز گار آشفتہ مغز آشفتہ ہو ہے اگر مجھ کو کوئی خطر تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شہرار آرزو خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے 2 جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں ہے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر! حافظ ناموس زن مرد آزما مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقان نے فقرہ نشیں کرتاہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب یہ غنیمبت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے 3 توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات ہو نہ روشن اس خدااندیش کی تاریک رات ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے ہیں صفات ذات حق سے جدا یا عین ذات آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات ہیںکلام الل کے الفاظ حادث یا قدیم امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات کیامسلمان کے لیے کافی نہیں اس دور میں یہ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے تابساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات ہر نفس سے ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے یہ نظم ایک نہایت بالیدہ و تراشیدہ فن کاری کا نمونہ ہے۔ اور اس کے اجزاء و عناصر کی ترکیب و ترتیب میں اقبال نے تقریباً اسی قسم کی مہارت فن کا ثبوت دیا ہے جو مسجد قرطبہ ساقی نامہ‘ اور ذوق و شوق میں ظاہر ہوتی تھی۔ اگر اقبال کے اجتماعی افکار کی مانت و ثقاہت اور تنقید حیات کو خواہ مخواہ شاعری میں مزاحم نہ سمجھا جاؤئے نیز ان کے عقائد پر چین بہ چیں ہونے سے احتراز کیا جائے اور صرف اردو زبان و ادب کے محاورات و استعارات پر توجہ مرکوز کی جائے تو یہ محسوس ہوئے بغیر نہیں رہے گا کہ اقبا ل کے آخری مجموعہ کلام کی پہلی اردو نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ ایک مکمل نظم اور اعلیٰ درجے کی شاعری ہے۔ نظم کا تاروپور کس چابکدستی کے ساتھ تیار کیا گیا ہے اس کو دیکھنے کے لیے ان دو اشعار پر اور ان کے سیاق و سباق پر ذرا غور کیجیے: آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام ٭٭٭ ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو پہلا شعر نظم کے ابتدائی مرحلے میں ابلیس کے پہلے مشیر کا کہا ہواہے جس میں وہ ابلیسی نظام کے عصر حاضر میں محکم ہونے کا اعلان کر رہا ہے اور واضھ کر رہا ہے کہ اس نظٓم کے تحت خوئے غلامی میں عوام اتنے پختہ تر ہو چکے ہیں کہ حریت انسانی کے لیے سر اٹھانے کی کوئی آرزو تک دلوں میں پیدا ہو کر پروان نہیںچڑھ سکتی دوسرا شعر خو د ابلیس کا کہا ہوا ہے جس میں اس کے خطبہ صدارت کے پہلے حصے میں نظم کے آخری مرحلے پر آیا ہے کہ روئے زمین پر کم از کم ایک ملت ایسی ابھی باقی ہے جس کی خاکستر میں حریت انسانی کا شرار آرزو سلگ رہا ہے اور یہ کسی وقت روشن ہو کر پروے ابلیسی نظام کو بھسم کر سکتا ہے دونوں شعروں میں ایک لفظ آرزو کو طلسم خیال کی کید کے طور پر نہایت موثر انداز میں استعمال کیا گیا ہے یہاں تک کہ اس استعارے میں علامت کی رنگیں زیرں اور آفاق گیر تہیں اور پہنائیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ آرزو کے اس نتیجہ خیز اور پر اثر استعمال کے موضوع نظم سے متعلق مضمرات پر غور کرنے سے معلمو ہوتا ہے کہ شاعر نے نظم کے بنیادی تخیل کے طور پر ابلیسی نظام اور شرع پیغمبر کے وجود و عدم کا تقابل آرزو کے عدم و وجود کی بنا پر کیا ہے۔ شرع پیغمبر انسانیت کی آرزو ہے جب کہ ابلیسی نظام اس آرزو کے فقدان پر مبنی ہے۔ اس طرح فلسفی شاعر نے اپنے نظریے کی فنی ترسیل کے لیے ایک ایسا استعارہ تشکیل دیا ہے جو بہ یک وقت تاریخ کے نشیب و فراز محبت کی اونچ نیچ اور شعریت کی کیفیات سب کو سموء ہوئے ہے اس کے نتیجے میں اردو شاعری کی روایت میں لفظ آرزو کا جو رومانی مفہوم ہے اس میں شاعر کے انفرادی تجربے کی بدولت ایک انقلابی معنی کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس طرح کی فکر نے فن کی توسیع و ترقی کا سامان کیا ہے ۔ ذرا خاکستر میں دبے ہوئے شرار آرزو کا یہ شاعرانہ کرشمہ ملاحظہ فرمائیے جو متعلقہ شعر کے فوراً بعد کے شعر میں کیا گیا ہے گویا پہلے شعر کے خیا کی تشریح و تجسیم کے طور پر ظاہر ہوا ہے: خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو اگر کسی خفیتہ بخت سنگ دل کو اشک سحر گاہی اور وضو کی تصویروں سے چڑ نہ ہو تو اس شعر میں شرار آرزو کے نور کو مدنظر رکھتے ہوئے بہ یک وقت شاعرانہ و عارفانہ سوزو گداز کی ایک دنیا آباد ہے۔ جہاں تک ابلیس کا تعلق ہے ا س کے افتتاحی اور صدارتی خطبے دونوں مل کر ایک نہایت بارعب پرجلال اور شان دار شخصیت کو پیش کرتے ہیں اور ان شیطانی خطبات میں شاعری خطاب اور فراست سبھی کچھ اعلیٰ معیار پیر ہے۔ یہ شخصیت صڑف پر ہیبت نہیں پر مغز بھی ہے۔ یہ شیطان مجسم لیکن شیطان محضں ہے جو اپنی حدود سے آگاہ بھی ہے۔ یہ ایک مرکب تہہ دار اور پہل ودار شخسیت ہے جو دقیق فلسفیانہ افکار کا اظہار نفیس ترین اشعار میں کر سکتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کے حقیقی اصلی اور عملی ابلیس کے مقابے میں ملٹن کا شیطان محض روایتی‘ اساطیری اور روایتی ہے۔چنانچہ ملٹن کے شیطان میں ڈرامائیت جتنی بھی ہو شعریت میں وہ اقبال کے ابلیس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ملٹن کا شیطان Irrelevant ہے اور اقبال کا ابلیس Up to Dateہے۔ ملٹن کے شیطان ہی کی طرح جناب کلیم الدین احمد کے تنقیدی تصورات بھی Irrelevantہیں اس کے باوجود کہ وہ گاہے گاہے سند کے طور پر رچرڈز اورایمپسن جیسے بیسوی صدی کے انگریزوں ناقدوں کے حوالے دیتے ہیں یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ انہیں بیسویں صدی کی روح تنقید سے توکیا آشنائی ہو گی انیسویں صدی کی بھی بہترین تنقیدی روایات کا ادارک نہیں اور ان کے سارے تنقیدی مفروضے اٹھارویں صدی کی ہیئت پر ستانہ انگریزی تنقید سے ماخوذ ہیں۔ اس بے مغز ہییئت پرستی سے انگریزی میں سب سے پہلے کولرج نے انیسویں صدی کے اوائل میں بغاوت کی اور خاص کر شاعری میں تخیل کی اہمیت پر زور دیا جب کہ انیسویں صدی کے اواخر میں میتھیو آرنلڈ نے تفکر کی اہمیت واضھ کر کے شاعری اور تنقید دونوں کے استناد اور ثقاہب کا سامان کیا۔ بیسویں صدی میں ٹی ایس ایلیٹ اپنے متضاد فکری پیچ و خم کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ عظمت ادب کی تعین کا آخری معیار نہ صرف اخلاقی بلکہ الاہیاتی ہے جب کہ اف آر لیوس اپنی تمام تر فن موشگافیوں کے باوجود عظمت فکر کا قائل ہے۔ رچرڈز نے اپنے ضرور دور میں اول یں لفظ کی ہمہ گیر اہمیت کی وکالت کی تھی مگر بعد میں وہ بھی زلف معنی کا اسیر ہو گیا۔ جب کہ ایمپسن معنویت اسے بھی آگے بڑھ کر باطینت کی تہوں میں غوطہ زن ہو گیا۔ میں یہاں صرف آرنلڈ اور کولرج کے چند تنقیدی تصورات پیش کرتا ہوں تاکہ جن لوگوں کا مطالعہ ادب انیسویں صدی سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے جیسے جناب کلیم الدین احمد وہ ان کے قارئین دونوں ملاحظہ فرمائیں کہ مغربی اور انگریزی تصور ادب کی س دنیا میں لوگ سانس لیتے ہیں اس کے نقش و نگار کیا ہیں اور بعض مغرب پرست اپنے سرچشمہ الہام سے بھی کتنے دور ہیں اور ان کا سروش کتنا غلط انداز ہے : کولرج:… 1. Poetry is a free and vital power. Criticism which would bind it down to any one model and bid it grow in a mould is a free mere despotism of false taste, a usupation of empty rules life and substance. (The Inquiring Spirit, Edited by Katlben Coburn. London. 1951, p.151) 2. All knowlegde rests on the coincidence of an object with a subject (Biographia Literaria XII) 3. (Rejects) Scheme of pure Mechanism whick began by manufacturing mind out of sence and sense out of sensation and whick reduced all from to shape and all shape to impressions from without. (Coleridge on Logic and Learnign Edited by A.D. Synder P . 130) 4. May there not be yet either or deeper presence, the source or ideas to which even reason must convert itself? (The inquiring spirit P. 126) 5. What is faith but the personal realisation of the reason by its union with will? (The Friend III) 6. But faith is a total act of the soul it is the whole state of the mind, or it is not at all, and in this consists its power as well as its exclusive worth. (Ibid, 11). 1. But for poetry the idea is every thing the rest is a world of illusion ...... poetry attaches its emotion to the idea the idea is the fact. (The study of poetry Essays in Criticism Edited by S.R. Little Wood, 1960, P,1) 2. In poetry as a criticism or life under the conditions fixed to such a criticism by the laws of poetic truth and poetic beauty, the spirit of our race will find its consolation and stay. (Ibid, P.3) 3. It is by a large free sound representation of things that poetry this high criticism of lifr has truth of substance. (Ibid P. 17) 4. But for supreme poetical success more is required than the power ful application of ideas to Life; it must be an application under the condition fixed by the laws ow poetic truth and poetic beauty. Those laws fix as an essential condition..... high seriousness...... The high seriousness whick comes from absolute sincerity. (Ibid, P. 29) کولرج کے تصورات کا خلاصہ یہ ہے کہ شاعری ایک آزاد طاقت ہے لہٰذا اس کی تنقید کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ نہ یہ کہ تنقید کے خلاف ہم آہنگی کے قوانین Acts of Uniformity پاس کرنے لگے۔ چنانچہ ’’وہ تنقید جو شاعری کو کسی ایک نمونے کے ساتھ باندھنے کی کوشش کرے اور اسے ایک خاص قالب میں ڈھلنے کا حکم دے محض ایک جعلی ذوق کی مطلق العنانیت اور بے مغز قوانین کا حیات و حقیقت پر تصرف بے جا ہے‘‘۔ اسی لیے کولرج نے خالص میکانیت کے منصوبے کو ر د کر دیا ہے جو حوا س سے دماغ اور سنسنی سے حواس تشکیل دینا چاہتا ہے اور تمام ہئیت کو گھٹا کر شکل اور تما م شکل کو خارجی تاثرات بنا دیتا ہے فلسفیانہ سطح پر کولرج نے محسوس کیا ہے کہ ادبی تنقید کی جو اٹھارویں صدی تک انگریزی میں رائج تھی۔ اصل غلطی یہ تھی کہ وہ لاک Locke کے اس نظریے پر مبنی تھی کہ موضوع Subject جامد Passive ہے اور معروض Objectمتحرک Activeاسی طرح کولرج نے نہ تو ہیوم Humeکے اس تصور کو اختیار کیا کہ ہر چیز موضوع کے اندر جذب ہو جائے اور نہ برکلے Berkeleyکے اس تصور کو کہ معروض بالکل تحلیل ہو کر صرف موضوع رہ جائے۔ جاس لیے کہ ان دونوں حالتوں میں موضوع و معروض کے درمیان ربط باہمی کی بجائے صرف ایک کے غلبے کا خیال پایا جاتا ہے ۔ لہٰذا کولرج نے یہ موقف پیش کیا کہ تمام علم صڑف موضوع اور معروض کے اتفاق باہمی پر مبنی ہیں۔ ۔ کولرج کے خیال میں ذہنی زندگی Intellectual Lifeاخلاقی زندگی Moral Life پر مبنی ہے۔ وہ سوال کرتا ہے کہ ذہنی عمل میں جب احساس (Sense)بڑھ کر فہم Understandingمیں اور فہم عقل Reasonمیں تبدیل ہو جاتا ہے تو عقل کی ترقی کا اگلا مرحلہ کیا ہے؟ ’’کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک بلند تر یا عمیق تر وجود ہو جو خیالات کا سرچشمہ ہو اور عقل کو لازماً اسی میں تبدیل ہونا پڑے؟‘‘ چنانچہ کولرج کا فیصلہ ہے کہ انسانی شعور اپنی انتہائی بندی و چستی کی حالت میں مذہبی ہوتا ہے۔ بلند تر اور عمیق تر وجود الوہی ہے۔ اس میں سرچشمہ خیالات کی افلاطونی الوہیت بھی ہے ۔ اور طاقت و حضور کی مسیحی الوہیت بھی۔ لہٰذا عقل کی منزل ایمان ہے ’’ایمان ا سکے سوا کیا ہے کہ اعقل ارادے کے ساتھ واسل ہو کر اپنی شخصی تکمیل کاسامان کرے‘‘؟ اب چونکہ عقل فہم پر فہم احساس پر اور ایمان ان سب پر موقوف ہے لہٰذا ایمان انسان کے اندر ہر قسم کی جزویت اور انتشار و انقسام کا مخالف ہے۔ ’’ایمان رو ح کا کلی عمل ہے۔ یہ یا تو ذہن کی مجموعی کیفیت ہے یا کچھ ہے ہی نہیں اور اسی میں اس کی طاقت نیز بلا شرکت غیرے قدر وقیمت مضمر ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ کولرج ایمان کو عقل عملی نور حیات اور تمام صلاحیتوں کے ارتباط و امتزاج سے پیدا ہونے والی مرکزی طاقت سمجھتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ کولرج عقل کے اثر کو اس نقطے سے بھی آگے بڑھا دینا چاہتا ھتا جہاں کانٹ Kant اسے روک کر دکھنا چاہتا تھا۔ انسانی آگہی کے متعلق اس کا احساس لاک سے زیادہ ثروت مندا ور کانٹ سے زیادہ مکمل تھا۔ شلنگ Schellingکی طرح وہ عقل و فہم ہی کو ایک ایسے جسمانی تقاضے کی گہرائیوں سے ابھرتا ہوا محسوس کرتا تھا جو سطح شعور کی تہوں کو چھوتا تھا یعنی فطرت ایمان آرنلڈ کے افکار کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’شاعری کے لیے خیال ہی سب کچھ ہے‘‘۔ خارجی حقیقت Fact کوئی چیز نہیں۔ ’’شاعری کا جذبہ خیا ل سے منسلک ہے خیال ہے (اس کے لیے ) حقیقت ہے‘‘۔ ’’شاعری تنقید حیات ہے جو ان شرائط کے تحت کی جاتی ہے جو ایسی تنقید کے لیے شاعرانہ صداقت اور شاعرانہ حسن نے معین کی ہیں‘‘۔ شاعری زندگی کی اعلیٰ تنقید ہے اور اس میں ’’مادے کی صداقت اشیاء کی وسیع آزاد اور صالح نمائندگی‘‘ سے آتی ہے۔ ’’عظیم ترین شاعرانہ کامیابی کے لیے زندگی پر خیالات کے طاقت ور اطلاق سے زیادہ کی ضرور ت ہے‘‘۔ وہ یہ کہ شاعری میں زندگی پر خیالات کا اطلاق انہی شرطوں پر ہو گا جو شاعرانہ حسن و صداقت کے قوانین نے معین کی ہیں‘ اور ان قوانین کی معین کی ہوئی ایک بنیادی شرط ہے۔ ’’اعلی متانت…وہ اعلیٰ متانت جو مطلق خلوص سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔ کولرج اور آرنلڈ کے یہ افکار و خیالات جناب کلیم الدین احمد کے قدموں تلے سے انگریزی تصور ادب کی وہ زمین کھینچ لیتے ہیں جس پر کھڑے ہو کر وہ پورے ادب اردو اور اس کی شاعری پر سراسر منفی تنقید کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ان کے مطالعہ اقبال کا محل بھی زمین بوس ہو جاتا ہے اور اقبال کی شاعری پر ان کے تمام کلبیانہ Cynicaتبصرے محض ہوائی قلعے Castles in the airثابت ہوتے ہیں۔ 9 اقبال کی فارسی نظمیں ’’ اقبال فارسی کے اچھے شاعر ہیں۔۔۔۔ لیکن ان کی لمبی نظمیں کامیاب نہیں ہیں۔ ان میں فلسفہ ہے، پیغام ہے،فکر انگیز باتیں ہیں۔ لیکن یہ فلسفہ، یہ پیغام، یہ تفکر شعری تجربہ نہیں بن پایا ہے۔‘‘ (ص219) جناب کلیم الدین احمد ’’ اقبال۔۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ اقبال کی فارسی نظموں کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ اسرار خودی کو لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ’’ رموز بے خودی‘‘ کو ملا کر فیصلہ صادر کرتے ہیں: ’’ ان دونوں نظموں، اسرار خودی اور رموز بے خودی، میں پیغمبری ہو، شاعری نہیں۔ خیالات ہیں، ممکن ہے کہ کام کے خیالات ہوں، لیکن ان کا بیان نثر میں زیادہ وضاحت، تعین اور منطق کے ساتھ ممکن تھا۔ لیکن جہاں شاعری سے بہت سے ناجائز مصرف لئے گئے ہیں وہاں ایک یہ بھی سہی۔‘‘ (ص222) اس کے علاوہ فرماتے ہیں: ’’ پھر یہ بھی ہے کہ یہ مثنوی ضرورت سے زیادہ طویل ہے۔ خیالات کو اگر مختصر اور جامع طور پر بیان کیا جاتا تو شاید ان کا اثر زیادہ ہوتا۔‘‘ (ص224) اور ایک ارشاد یہ بھی: ’’ سب سے اہم خرابی یہ ہے کہ اس نظم میں خیالات کا پراگندہ غبار ہے جو ذرا غور و فکر اور کدو کاوش کرنے سے دور ہو جاتا۔‘‘ (ص230) ان باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے مغربی نقاد کو نہ تو مثنوی کی صنف سخن سے واقفیت ہے اور نہ فارسی میں اس صنف کی عظیم الشان روایت سے وہ باخبر ہیں حتیٰ کہ مولانا رومؒ کی مشہور عالم مثنوی سے بھی آگاہ نہیں۔ جن دو نکتوں کی بنیاد پر ہمارے نقاد نے اسرار خودی کے شاعری ہونے کا انکار کیا ہے وہ یہ ہیں: 1طوالت زیادہ ہے 2 اس کی وجہ سے انتشار خیالات ہے اور ان دونوں نکتوں کے ثبوت میں وہ دو دلیلیں پیش کرتے ہیں: 1بہت سی حکایات ارتقائے نظم میں حائل ہیں۔ 2نظم کا خلاصہ پیش کرنا نقاد کے لئے ممکن ہوا۔ گرچہ ہمارے نقاد مثنوی میں حکایات کو ’’ ایک فرسودہ روایت‘‘ (ص229) قرار دیتے ہیں۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ مثنوی کو جانتے ہی نہیں اور اس لاعلمی کے سبب اس صصنف سخن کو انگریزی Couplet کا مترادف محض تصور کرتے ہیں انہیں اس حقیقت کا ذرا بھی احساس نہیں کہ انگریزی Couplet کی محدود اور معمولی قسم کی شاعری کو فارسی مثنوی کی غیر معمولی طور پر وسیع دنیائے شاعری سے کوئی نسبت نہیں، کہاں ایک جوئے کم آب اور کہاں بحر ذخار؟ ذرا بے خبری کی گلفشانی گفتار ملاحظہ کیجئے: ’’ مثنوی میں ایک طرف تو جیسا کہ عنوانات سے ظاہر ہے مطالب الگ الگ بیان کئے گئے ہیں اور ہر حصہ ایک اکائی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر حصے میں بے جا طوالت سے کام لیا گیا ہے۔ اس لئے خیالات کا اثر Diluted ہو گیا ہے۔‘‘ (ص229) یعنی جناب عالی مثنویٰ کو جدید مغربی انداز کی نظم سمجھتے ہیں، جس کا ایک مختصر، معین اور مربوط سانچہ ہوتا ہے، حالانکہ اس سانچے میں بھی اقبال کی بہترین نظمیں ہیں، مگر ہمارے نقاد انہیں مختصر نظمیں قرار دیتے ہیں اور مثنوی کو طویل نظم، جبکہ انہیں مطلقاً خبر نہیں کہ مثنوی اور جدید نظم کا فر ق محض طویل اور مختصر کا نہیں۔ مثنوی بالعموم طویل ہوتی ہی ہے اور روایت کے لحاظ سے طوالت و وسعت اور دونوں سے پیدا ہونے والا ایک قسم کا ’’ انتشار‘‘ عملاً مثنوی کی ہیئت سخن کاجز ہو گیا ہے۔ لہٰذا طوالت، انتشار، حکایت اور قابل خلاصہ ہونے کی بناء پر مثنوی پر اعتراض اس صنف شاعری کی اصل ہیئت ہی پر اعتراض ہے، ٹھیک جس طرح غزل کی ہیئت پر اعتراض کیا گیا ہے، اور جناب کلیم الدین احمد کے تصور شاعری کے مطابق اگر مثنوی کی کردار نگاری کی جائے، جیسی کہ وہ غزل کی کر چکے ہیں، تو جہاں غزل کو نیم وحشی صنف سخن قرار دیا گیا ہے وہاں مثنوی کو مکمل طور پر وحشی صنف سخن قرار دینا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ تنقید کے اس صریحاً وحشیانہ انداز کے ساتھ مثنوی جیسی مہذب صنف سخن کا مطالعہ نہیں کیا جا سکتا، خواہ وہ رومی کی مثنوی معنوی ہو یا اقبال کی مثنوی اسرار خودی اور رموز بے خودی۔ ایسی حالت میں یہ نا ممکن ہے نہ معقول نہ مفید کہ اقبال کی مثنوی پر جناب کلیم الدین احمد کی تنقید پر تنقید کی جائے۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ قارئین کو ان کی تنقید کی مفلس الخیالی اور ہرزہ کاری سے آگاہ کر دیا جائے۔ لہٰذا مثنویوں یا بقول جناب کلیم الدین احمد لمبی نظموں پر موصوف کی فنی تنقید کو مہمل ہونے کی وجہ سے نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔ لیکن اپنے برخود غلط انداز تنقید کے مطابق موصوف فکر سے بحث نہ کرنے کا اعلان کرنے کے باوجود موضوعات فکر کو بھی نہایت بھونڈے انداز پر چھیڑتے ہیں۔ اس لئے یہاں ان کے چند لغو بیانات برائے عبرت نقل کئے جاتے ہیں، جو موصوف نے’’ رموز بے خودی‘‘ اور’’ گلشن راز جدید‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے صادر کئے ہیں: ’’ ایک حصے میں عقل و عشق میں تفریق کی جاتی ہے۔۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عقل اور عشق میں کچھ بیر نہیں، کوئی تضاد نہیں، کوئی مخاصمت نہیں۔‘‘ (ص232-33) ’’ لطف یہ ہے کہ وہ پیغمبری کی باتیں کرتے ہیں، اسلام کی باتیں کرتے ہیں، اسلام کے نکتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ سورۂ اخلاص کی تفسیر لکھتے ہیں اور پیغمبر اسلام کی یہ Humility نہیں سیکھتے جنہوں نے کہا تھا:‘‘ انا بشر مثلکم یوحیٰ الی انما الھکم الہ واحد (ص236) ’’ اگر وہ کوئے دلبراں سے کام رکھتے، اگر دل زار رکھتے اور غم یار سے واقف ہوتے۔ اگر ان کی خاک غبار رہ گزر ہوتی اور ان کی خاک میں دل بے اختیار ہوتا تو وہ زیادہ اچھے شاعر ہوتے۔‘‘ (ص ایضاً) میں جانتا ہوں کہ جناب کلیم الدین احمد کی یہ ساری باتیں نہ صرف یہ کہ محض باتیں ہیں۔ بلکہ حقیقتاً غلط اور واقعتہً غیر متعلق باتیں ہیں جو نہ تو سرے سے اقبال کے یہاں پائی جاتی ہیں اور نہ ان کا شاعری کے حسن و قبح سے کوئی تعلق ہے۔ لیکن مغربی نقاد اردو قارئین کو گمراہ کرنے کے لئے جو ڈھول پیٹ رہے ہیں اس کا پول کھول دینے میں مضائقہ نہیں۔ 1 ۔ اقبال عقل و عشق کے درمیان ویسی کوئی تفریق نہیں کرتے جس کی تہمت لگائی گئی ہے۔ وہ صرف عقل کے مقابلے میں عشق کو اولیت دیتے ہیں، اس لئے کہ ان کے نزدیک تمام صحیح قسم کی عقلی سرگرمیوں کی قوت محرکہ عشق ہی ہے، اور اسی لئے وہ عقل اور عشق کے درمیان اس توازن کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں جو مغرب کی عقل پرستی کے ہاتھوں برہم ہو گیا ہے اور آج ایک آندھی، بلا مقصد، بے کردار اور عقل محض پوری انسانی تہذیب کو ہلاک کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ذرا اقبال کے عقل و عشق کے سلسلے میں اس مشہور شعر پر غور کیجئے: اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے (غزل۔ بانگ درا) دل پر پاسبان عقل کے پہرے کو اقبال پسند کرتے ہیں، صرف کبھی کبھی اس پہرے سے آزادی چاہتے ہیں، تاکہ آدمی عقل کا غلام اور قیدی بن کر نہ رہ جائے: صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول (سلطان ٹیپو کی وصیت، بال جبریل) اقبال عقل بے مہار کو انسان کی شخصیت کانقص سمجھتے ہیں اور عشق کی بے عزتی کو سماج کی خامی: عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی (فرشتوں کا گیت، بال جبریل) چنانچہ زمانہ حاضر کے انسان کا المیہ یہ ہے: عشق ناپید و خردمی گردش صورت مار عقل کو تابع فرمان نظر نہ کر سکا بہرحال، جنوں و خرد کا قضیہ ہی فضول ہے اور وہ خرد پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کے سبب پیدا ہوا ہے، ورنہ جنوں بھی فہم و ادراک سے خالی نہیں: زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک (غزل۔ بال جبریل) عقل و عشق کے معرکے میں اقبال کا موقف یہ ہے: عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرۂ لایحزنوں کر خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر بال جبریل کی اس مشہور رباعی میں خرد کی نفی نہیں ہے بلکہ مفکر شاعر اقرار کرتا ہے کہ وہ خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہے عقل کی سب منزلیں طے کر چکا ہے، فلسفے کی تمام بحثیں سر کر چکا ہے، مگر اس کو اطمینان قلب اور جوش عمل نصیب نہیں ہو سکا ہے جن کی جستجو میں وہ سرگرداں ہے، اس لئے کہ: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں (غزل، بال جبریل) بات یہ ہے کہ اخلاقی مسائل کا حل اور تہذیبی اقدار کی تشکیل نہیں کر سکتی، گرچہ دور حاضرہ میں مادہ پرستانہ سائنس اور فلسفے نے بلند بانگ دعوے کئے ہیں: خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے خرد بیزار دل سے، دل خرد سے (رباعی، بال جبریل) اس باہمی اور اندرونی بے زاری کو دور کر کے قوائے عمل کو حرکت میں لانے کی ایک صورت ہے: میرے مولا مجھے صاحب جنوں کر یہ کسی دیوانگی کی تمنا نہیں ہے، یہ اس عشق کی آرزو ہے جو امت مسلمہ کے ان اسلاف کو حاصل تھا، جن کے بارے میں قرآن حکیم نے کہا ہے کہ وہ سنگین سے سنگین حالات میں بھی حزن و یاس سے دوچار نہیں ہوئے، اس لئے کہ وہ قرآن کے لفظوں میں ’’ الراسخون فی العلم‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ جذب دروں‘‘ رکھتے تھے، ایمان کی دولت سے مالا مال تھے۔ یہ جذب دروں انسان کے اندر ایک سوز اور نشاط پیدا کرتا ہے جو خرد کو بھی جنوں کی طرح متحرک اور فعال بنا دیتا ہے، اقبال اسی سوز و نشاط کے خواہاں، کوشاں اور غزل خواں تھے: یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز (غزل، بال جبریل) واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا عشق بھی خرد بداماں تھا۔ آخر وہ باضابطہ اور اعلیٰ درجے کے فلسفی تھے، ’’تشکیل جدید الاہیات اسلامیہ‘‘ جیسی فلسفے کی معرکہ آراء کتاب کے مصنف تھے، جو فلسفے کے ایم اے کورس میں تجویز کردہ ہے۔ اقبال کا عشق تو جناب کلیم الدین احمد کی دسترس سے باہر ہی ہے، اقبال کی عقل کی بھی جناب کلیم الدین احمد کو کیا خبر؟ عقل و عشق کے سبق کلیم الدین احمد جیسے لوگوں کو اقبال سے لینے چاہئیں، نہ کہ اقبال کو سبق دینے کی جسارت کرنی چاہئے۔ ان حقائق کی روشنی میں اگر جناب کلیم الدین احمد اقبال کے اس مشہور شعر کی کیفیات کی بازیابی کر سکیں تو ان کے دل و دماغ کے چودہ طبق روشن ہو سکتے ہیں: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی 2اقبال کو خاکساری Humility کا سبق وہ صاحب دے رہے ہیں جو اسرار خودی اور رموز بے خودی دونوں سے نابلد ہونے کے باوجود اپنے مستعار تصور ادب پر اتنے نازاں، مغرور اور متکبر ہیں کہ میرو غالب سے لے کر اقبال تک کی شاعری کی تحقیر کرتے ہیں اور جب کسی بھی ادیب یا شاعر پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کی توہین ہی کرتے ہیں، بہ شرطیکہ وہ ان کے فرانگی آقاؤں میں نہ ہو۔ پھر مبلغ علم ملاحظہ ہو کہ ایک تو قرآن کی آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول قرار دے رہے ہیں، دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو بتا دیں کہ وہ بھی انہیں کی طرح بشر ہیں اور ان کی دعوت در حقیقت ان کی نہیں، خدا کی ہے، جو وحی کے ذریعے انہیں القا کی گئی ہے اور وہ دعوت بھی صرف یہ ہے کہ ’’ تمہارا معبود صرف ایک اللہ ہے‘‘ غور کیجئے کہ اس دعوت وحی اور اعلان توحید کا خاکساری سے کیا تعلق ہے؟ اس میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا اقرار صرف اس لئے ہے کہ وہ کامل اور خالص توحید کی دعوت انسانوں کو دیں اور انہیں یقین دلائیں کہ یہ کوئی انسانی دعویٰ نہیں، الوہی پیغام ہے۔ ظاہر ہے کہ جناب کلیم الدین نے نہ تو قرآن کا مطالعہ کیا ہے اور نہ اسلام کا، جب کہ اقبال قرآن میں غوطہ زن ہو کر علم و حکمت کے اس بحر نا پیدا کنار کی تہوں سے چند گہر ہائے آبدار نکال چکے تھے اور دوسروں کو اسی غوطہ زنی کی دعوت دیتے تھے: قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار (اشتراکیت، ضرب کلیم) قرآن اور اسلام کے متعلق اقبال کا علم اتنا مجتہدانہ تھا کہ وہ علمائے وقت کو تنبیہہ کر سکتا تھا: خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق (اجتہاد۔ضرب کلیم) رہی خاکساری تو جناب کلیم الدین احمد نے اسرار خودی اور رموز بے خودی کے درمیان آخر کیا ربط دریافت کیا ہے؟ رموز بے خودی ہیں کیا؟ اقبال کا یہ شعر ہمارے نقاد کی نظر سے گزرا ہے: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں؟ اور ان اشعار کی خاکساری کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آبجو یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر (بال جبریل) اقبال کی کسر نفسی کی دستاویز تو ان کے مکاتیب ہیں جن میں انہوں نے اپنے برابر کے بلکہ کم تر لوگوں کی بھی تعظیم میں مبالغہ کیا ہے۔ یہ شعر اقبال ہی کا ہے: آدمیت احترام آدمی باخبر شواز مقام آدمی یہ بھی دیکھئے: قبائے علم و ہنر لطف خاص ہے ورنہ تری نگاہ میں تھی میری ناخوش اندامی (غزل۔ بال جبریل) رہیں بعض شاعرانہ تعلیاں تو یہ خاکساری کا کوئی مسئلہ نہیں پیدا کرتیں، یہ شاعری کا ایک معمول ہے۔ دوسری بات یہ کہ اقبال کی تعلیوں میں شاعر کے منصب اور مقام انسانیت پر فخر و ناز کے پہلو بھی شامل ہیں، کچھ مرد مومن کی رفعت شان بھی ہے۔ لہٰذا ان تعلیوں میں ذاتی کبر و غرور کے کیڑے نکالنا نہ صرف کار عبث ہے بلکہ کیڑے نکالنے والے کا انحراف نفسیPerversion یا لا علمی Ignorance ہے۔ 3 اقبال کے یہاں ’’ دل زاد‘‘ اور ’’ دل بے اختیار‘‘ کے فقدان کا شکوہ عجیب قسم کی ستم ظریفی ہے۔ ایک طرف تو انہیں عقل کے مقابلے میں عشق کا علمبردار کہا جا رہا ہے اور دوسری طرف ان کے کلام میں کیفیات عشق بلکہ اساس عشق کی نفی کی جا رہی ہے۔ تضاد بیان، ابلہ فریبی اور یادہ گوئی کی شاید کوئی حد ہی نہیں ہے جناب کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری میں اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار ہمارے مغربی نقاد کی نظر سے گزرے ہیں؟ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں (غزل۔ بانگ درا) اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانہ دل (دل۔ بانگ درا) ٭٭٭ تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہہ گہہ محبت، وہ نگہ کا تازیانہ (غزل بانگ درا) ٭٭٭ شہید محبت نہ کافر نہ غازی محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی (محبت۔ بال جبریل) آخر اقبال کے اشعار میں ’’ فغان نیم شبی‘‘ اور’’ جگر پر خوں‘‘ اور’’ آہ سحر گاہی‘‘ کا تذکرہ اس کثرت و شدت کے ساتھ کیوں ہے؟ اقبال کی نگاہ میں ’’ سرمایہ غم فرہاد‘‘ کی قدر و قیمت دیکھئے: خرید سکتے ہیں دنیا میں عشرت پرویز خدا کی دین ہے سرمایہ غم فرہاد ’’ درد جگر‘‘ کی عظمت کا معیار یہ ہے: خدائی اہتمام خشک و تر ہے خداوند خدائی درد سر ہے ولیکن بندگی استغفر اللہ یہ درد نہیں، درد جگر ہے (رباعی۔ بال جبریل) بلا شبہہ اقبال کا عشق ہوس نہیں، ان کی محبت لذت کے لئے نہیں اور وہ نہ تو کوئے بتاں میں آوارگی کو پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلنے پر فخر کرتے ہیں۔ ان کی درد مندی کا ہدف یہ ہے: ہر درد مندل دل کو رونا مرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے (ایک آرزو۔ بانگ درا) اقبال کا عشق عقل سے مرکب اور تربیت یافتہ ہے: عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے (ادبیات۔ ضرب کلیم) ’’ گلشن راز جدید‘‘ پر بھی ایک اعتراض تو ہمارے مغربی نقاد کا وہی ہے جو وہ اسرار و رموز میں کر چکے ہیں: ’’ سوال یہ ہے کہ اسے نظم کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا یہ ایک نظم ہے یا نو نظموں کو یک جا جمع کر دیا گیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مختلف سوالات میں کچھ ربط ہے لیکن یہ ربط ناگزیر نہیں۔‘‘ یہ ایک نظم میں نو نظمیں اس لئے برآمد کی گئی ہیں کہ شاعر نے نو سوالات قائم کر کے ’’ ان کے ترتیب وار جوابات‘‘ (ص236) پر دئیے ہیں اور حالانکہ ہمارے نقاد کو اقرار ہے کہ ’’ مختلف سوالات میں کچھ ربط ہے‘‘ لیکن اعتراض کا پہلو یہ نکالا گیا ہے کہ یہ ربط ناگزیر نہیں۔ اول تو ایک لمبی مثنوی میں ربط و ارتباط کا سوال ہی غلط ہے، جیسا میں قبل واضح کر چکا ہوں خاص کر زیر بحث مثنویوں میں جہاں مختلف موضوعات کے لئے باضابطہ ابواب قائم کر کے ہر موضوع پر متعلقہ باب پر اظہار خیال کیا گیا ہے، چنانچہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہر باب کو ایک موضوعاتی نظم قرار دے کر اس کا تجزیہ کیا جاتا، مگر تنقید مغربی کی عشوہ طرازی یہ ہے کہ ابواب کی فہرست دے کر نظم کی ابواب میں تقسیم ہی کو ہدف اعتراض بنایا جاتا رہا ہے اور موضوعات کے تنوع کو پریشاں خیالی سے تعبیر کیا جاتا ہے: دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا دوسرے یہ کہ سوالات کے درماین ربط کے ناگزیر ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں ہم جناب کلیم الدین احمد کے ذوق اور رائے پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ دوسرا اعتراض سوالات کی نوعیت و حقیقت ہی کے بارے میں ہے: ’’ جہاں فورم سوال و جواب کا ہو وہاں دیکھنا چاہئے کہ سوالات ایسے ہوں جو فطری طور پر کسی Given Situation سے پیدا ہوں۔ اگر سوالات کا مقصد یہ ہو کہ ان سے مانی الذہن جوابات نکالے جائیں تو یہ Pseudo Question ہوں گے۔ ’’ گلشن راز جدید‘‘ میں سارے سوالات اسی قسم کے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ہی ہے کہ جو خیالات اقبال کے ذہن میں پہلے سے محفوظ ہیں انہیں براہ راست نہیں سوالات کے ذریعہ ظاہر کیا جائے۔ دیکھئے۔‘‘ Christina Rosseltti کی نظم ’’ Uphill‘‘ اور A.E.Housman کی نظم ’’ Is my team Ploughing‘‘ اور آپ کو Genuine سوالات اور Ungenuine سوالات میں فرق ہے وہ واضح ہو جائے گا۔ (ص237-38) کاش جناب کلیم الدین احمد ہمت کر کے محولہ بالا انگریزی نظمیں، جو بہت ہی چھوٹی چھوٹی ہیں، محض چند سطروں کی، نقل کر دیتے تو پڑھنے والوں کو صرف سوالات نہیں، شاعری کے بھی Genuine اور Ungenuine ہونے کا فرق اپنے آپ معلوم ہو جاتا! لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کرنے سے احتراز کیا ہے، ورنہ 416 صفحات میں بڑی گنجائش ہوتی ہے اور ہمارے نقاد لمبے لمبے انگریزی ہی نہیں، اطالوی اقتباس بھی اسی کتاب میں درج کر چکے ہیں۔ روزیٹی اور ہاؤس مین بہت ہی کوتاہ قد اور کوتاہ دست فن کار ہیں اور ان کی محولہ بالا نظمیں تو اتنی چھوٹی ہیں، قد اور قدر دونوں میں کہ گلشن راز جدید کے مقابلے میںان کا ذکر کرتے ہوئے بھی ایک با ذوق اور باشعور آدمی کو شرم آنی چاہئے۔ پھر ان نظموں میں بھی سوالات کا جو پس منظر ہے وہ ’’ مافی الضمیر‘‘ ہی ہے۔ یوں پس منظر کا ’’ مافی الضمیر‘‘ ہونا بجائے خود بری بات نہیں، بشرطیکہ معنی محض مافی الضمیر یعنی فی بطن الشاعر نہ ہو۔ چنانچہ سوالات کے اصلی و نقلی ہونے کی بحث ہی فضول بلکہ نقلی ہے۔ مثنوی، مثنوی ہے، کوئی ڈراما نہیں ہے کہ اس میں ارضیہ Setting ہو۔ ہاں، ہمارے مغربی نقاد کی یہ مشکل ضرور ہے کہ وہ باتوں کو صاف صاف رکھنے کی بجائے اکثر خلط مبحث کرتے ہیں۔ انہیں اصناف ادب کی شاید تمیز ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نظم کو بس دو خانوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔۔۔ لمبی نظم اور مختصر نظم۔۔۔ اور بالکل نہیں سمجھتے کہ لمبی یا مختصر ہونے سے کوئی ہیئت سخن نہیں بنتی، اس لئے کہ ہر ہیئت سخن میں لمبی تخلیقات بھی ہوتی ہیں اور مختصر بھی، اور اس سے ہیئت پر کوئی اثر یا کوئی فرق نہیں واقع ہوتا۔ بلاشبہ کسی منظوم ڈرامے میں مثنوی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ ہر مثنوی ڈراما نہیں ہے۔ لہٰذا اس میں ڈرامے کی خصوصیات تلاش کرنا لغو ہے۔ ’’ بندگی نامہ‘‘ پر ہمارے مغربی نقاد کا اعتراض وہی ہے جو وہ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے وارد کر چکے ہیں: ’’ اقبال کا پورا نظریہ ایک دل خوش کن لیکن غلط مفروضے پر مبنی ہے۔‘‘ (ص339) اول تو ہمارے نقاد نظریے کا معنی ہی نہیں جانتے، دوسرے اقبال کے نظریے پر گفتگو کرنے کی وہ نہ صلاحیت رکھتے ہیں نہ ہمت۔ رہے تخلیقی مفروضے اور منصوبے (جنہیں ہمارے فاضل نقاد نظریہ قرار دیتے ہیں) تو ملٹن کے لایعنی مفروضے کو تو وہ لائق ستائش اور مخزن شاعری تصورکرتے ہیں مگر اقبال کے مفروضے سے انہیں چھینک آتی ہے، جیسا کہ میں اقبال اور ملٹن کے موازنے میں دکھا چکا ہوں۔ اس کے علاوہ شاعری کے لئے مفروضے کی معنویت کولرج اور آرنلڈ کے ان بیانات سے واضح ہو جاتی ہے جو اقبال اور ملٹن کی بحث کے آخر میں پیش کر چکا ہوں۔ جناب کلیم الدین احمد ’’ سائنٹفک واقعات‘‘ کے گن گاتے ہیں، لیکن سمجھتے نہیں کہ اگر ان واقعات کی بناء پر شاعری کی قدر شناسی کی جائے تو ٹینی سنTen tyson انگریزی کا سب سے بڑا شاعر ہو گا اور شیکسپیئر ایک بہت معمولی اور چھوٹا ’’ مسافر نامہ‘‘ کو اس حقارت کے ساتھ ہمارے نقاد رد کر دیتے ہیں: ’’ مسافر نامہ‘‘ نظم نہیں، منظوم سفر نامہ ہے جس میں کوئی خاص بات نہیں۔ (ص240) خاص بات اور عام بات کا فرق جناب کلیم الدین احمد کو کس حد تک معلوم ہے، اس سے قطع نظر کر کے ہم ’’ نظم‘‘ اور’’ منظوم‘‘ کا فرق ضرور جاننا چاہیں گے، گرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نقاد اس کو نہیں بتا سکتے ہیں، شاید ان کے سامنے انگریزی تنقید شاعری کی تاریخ کا یہ واقعہ نہیں ہے کہ آرنلڈ نے ڈرائیڈن اور پوپ کو شاعر Poet کی بجائے ناظم Versifier کہہ کر رد کر دیا تھا، جب کہ یہ دونوں شعراء مانے ہوئے مثنوی نگاری Couplet Writer تھے اور اپنی بیتوں میں تخیلات کی بجائے صرف خیالات پیش کر کے ہجو و طنز کے کارنامے انجام دیتے تھے: ’’ گرچہ وہ نظم لکھتے ہیں، گرچہ ایک خاص معنے میں وہ نظم گوئی کے استاد ہو سکتے ہیں، ڈرائیڈن اور پوپ ہماری شاعری کے کلاسک نہیں، ہماری نثر کے کلاسک ہیں۔‘‘ (مطالعہ شاعری، تنقیدی مضامین) یہ انیسویں صدی کا فتویٰ تھا اٹھاہویں صدی پر، جسے آرنلڈ نے ’’ نثر اور عقل کا دور‘‘ (Age of porse and reason) قرار دیا ہے۔ لیکن بیسویں صدی میں الیٹ اور لیوس جیسے نقادوں نے ڈرائیڈن اور پوپ کا احیا اور استقبال بحیثیت شاعر کیا اور بحث کی کہ شاعری صرف تخیلات کی نہیں، خیالات کی بھی ہوتی ہے۔ پھر موجودہ صدی میں شاعری کا ایک مکتب فکر انگریزی میں ایسا بھی پیدا ہوا جو واضح اور قطعی قسم کے منتخب، تراشیدہ اور پر معنی الفاظ کے سلیقہ مندانہ استعمال کو ہی شاعری کی معراج سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ الیٹ نے بنیادی طور پر شعر کے اندر اچھی طرح لکھی ہوئی نثر کی سلاست کو ضروری قرار دیا ہے، ہمارے مغربی نقاد کو اپنے انگریزی ادب کی تاریخ کے اس پیچ و خم کی بھی واقفیت معلوم نہیں ہوتی، وہ نہ صرف یہ کہ ایک قدیم اور فرسودہ دنیا میں سانس لیتے ہیں بلکہ شاید دنیائے ادب کے دھارے سے الگ ہو کر انہوں نے اپنی تنقید کے لئے ایک صوفیانہ اور خود ساختہ حصار قائم کر لیا ہے اور بسم اللہ کے اسی گنبد میں بیٹھ کر اپنے ادبی وظائف کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں موصوف نے تنقید کا ایک پنک آشرم بنا لیا ہے۔ جس کی افیونی فضا میں وہ تنقید کے نام پر کچھ الٹے سیدھے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک سراسر موہوم معیار ادب سے یکسر منفی تنقید نگاری کرنے والا کوئی دوسرا شخص، جناب کلیم الدین احمد کے سوا عالمی ادب کی پوری تاریخ میں نہیں ملے گا۔ انگریزی کا تو کوئی ناقد ان کی طرح کلبی Cynic نہیں۔ ان کا استاد، لیوس بھی سخت گیر ہونے کے باوجود کثرت سے ادیبوں اور شاعروں کی تحسین کرتا ہے، جبکہ جناب کلیم الدین احمد کے مقدر میں صرف اردو ادب کی مذمت ہے۔ بہرحال، اقبال کی مثنوی ’’ مسافر‘‘ میں بھی نظم کے ساتھ ساتھ شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے اور مغربی نقاد کے ذوق اور ایمان داری دونوں کی داد دیجئے: طے نمودم باغ و راغ و دشت ودر چوں صبا بگذشتم از کوہ و کمر خیبر از مردان حق بیگانہ نیست در دل او صد ہزار افسانہ ایست جادہ کم دیدم از و پیچیدہ تر یا وہ گردد درخم و پیچش نظر سبزہ در دامان کہسارش مجوے از ضمیرش برنیاید رنگ و بوے سر زمین کبک او شاہین مزاج آہوے او گرید از شیراں خراج در فضایش جرہ بازاں تیز چنگ لرزہ برتن از نہیب شاں پلنگ درہ خیبر کے علاقے کی، جیسا بے آب و گیاہ مگر شدائد تاریخ سے لبریز وہ ہے، اس سے بہتر شاعرانہ تصویر، جو دل پر نقش ہو جائے، کیا ہو گی؟ کیا ان چند اشعار میں خیبر کی تاریخ اور جغرافیہ کی ایک جھلک نہیں ملتی؟ کیا اس سے خیبر کی ایک دل چسپ اور یادگار کردار نگاری نہیں ہوتی؟ کیا ان اشعار میں خیبر کا افسانہ ایک رومانی رنگ نہیں اختیار کر لیتا؟ ان سوالوں کے جواب اثبات میں ہیں۔ یہی شاعری ہے، ٹھوس حقائق پر مشتمل، دل نواز شاعری۔ اس شاعری میں روح خیبر کی جو تصویر کشی ہوئی ہے۔ وہ سرحد کے متعلق تمام تاریخوں اور ناولوں سے زیادہ واضح، معنی خیز اور پر اثر ہے۔ یہی اقبال کا کمال فن ہے، ورنہ ضمیات و خرافات پر شعر گوئی تو بہت آسان ہے، جیسا کہ ملٹن نے شیطان کے موضوع پر کیا ہے، تعریف تو جب ہے کہ کوئی سرحد اور خیبر کے سنگلاخ سے شاعری کے پھول کھلائے، جیسا کہ اقبال نے کیا ہے: اب ذرا کابل کا بھی نظارہ کیجئے: شہر کابل خطہ جنت نظیر آب حیواں از رگ تاکش نظیر چشم صائب از سوادش سرمہ چیں روشن و پائندہ باداں سر زمیں در ظلام شب سمن زارش نگر بربساط سبزہ می غلطد سحر آں دیار خوش سواد آں پاک بوم باد او خوشتر زباد شام و روم آب او براق و خاکش تابناک زندہ از موج نشیمن مردہ خاک ناید اندر حرف و صوت اسرار او آفتاباں خفتہ در کہسار او ساکنانش سیر چشم و خوش گہر مثل تیغ از جوہر خود بے خبر قصر سلطانی کہ نامش دلکشاست زاتراں راگر دراہش کیمیاست یہ خیبر سے متضاد تصویر ہے، گرچہ اسی کو کوہستانی علاقے کی ہے جس میں ایک دوسری حد پر خیبر بھی واقع ہے۔ افغانستان کی پہاڑیوں میں در السلطنت کابل کی جو خصوصیت اور خوبی ہے وہ ان اشعار سے ٹھیک ٹھیک مترشح ہوتی ہے۔ اس تصویر میں شہر کے جغرافیہ و تاریخ اور سر زمین و قوم دونوں کی چند جھلکیان ہیں، اور ایک مسافر نامہ میں جھلکیاں ہی پیش کر سکتا ہے۔ یہ بہرحال سفر نامے کی شاعری ہے مگر شاعری ہے، اور اقبال کا کمال فن ہے کہ سفرنامہ بھی شاعری بن گیا ہے۔ کسی فارسی شاعر نے کہا ہے: اگر بہ دل نہ خلد آنچہ از نظر گزرد زہے روانی عمرے کہ در سفر گزرد ان اشعار میں جو جستہ جستہ مثنوی ’’ مسافر‘‘ سے پیش کئے جا رہے ہیں۔ ’’ روانی عمر‘‘ بھی ہے اور’’ بہ دل خلد‘‘ کی کیفیت بھی۔ چند اشعار اور ملاحظہ ہوں: قند ہار آں کشور مینو سواد اہل دل را خاک او خاک مراد رنگ ہا، بو ہا، ہوا ہا، آب ہا آب با تابندہ چوں سیماب ہا لالہ ہا در خلوت کہسار ہا نار ہایخ بستہ اندر نار ہا کوے آں شہر است ما، کوے دوست سارباں بربند محل سوے دوست می سرایم دیگر از یاران سنجد از نوائے ناقہ را آرم بوجد قندہار کے بارے میں ان اشعار کو پڑھ کر صرف اقبال کا ناقہ سفر ہی نہیں، ہم بھی وجد میں آ جاتے ہیں۔ آخر شاعری اور شاعرانہ تصویر کشی کا اس سے بہتر کیا نمونہ دنیا کی کسی زبان کی شاعری میں اور کسی موضوع پر ہو سکتا ہے؟ رنگ ہا، بو ہا، ہوا ہا، آب ہا آب ہا تابندہ چوں سیماب ہا لالہ ہا در خلوت کہسار ہا نار ہا یخ بستہ اندر نار ہا جب ایک معمولی سے سفر نامے میں ایسی زبردست شاعری پائی جاتی ہے تو دوسری فارسی مثنویوں۔۔۔۔ اسرار و رموز، گلشن راز جدید، بندگی نامہ۔۔۔ کی سنجیدہ و اعلیٰ، اعلیٰ متانت اور تنقید حیات کی شاعری کا تصور بہ آسانی کیا جا سکتا ہے: قیاس کن زگلستان من بہار مرا ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں بھی جناب کلیم الدین احمد کے نزدیک ’’ تعمیری خرابیاں اسی قسم کی ہیں جو دوسری نظموں میں ملتی ہیں۔‘‘ (ص241) ’’ یعنی یہاں گیارہ نظموں کا ایک گلدستہ ہے، خیالات ہیں، تعلیم ہے لیکن شاعری کی طرف توجہ کم ہے۔ اقبال بھی ترقی پسندوں کی طرح باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘‘ (ایضاً) در حقیقت اس مثنوی کے 14 ابواب ہیں، لیکن ہمارے نقاد نے اپنی خاص تکنیک کے سخت قارئین کو بتائے بغیر کتاب کے موضوعات کی تقسیم اس طرح کر دی ہے کہ دو باب اول و آخر تو سرے سے نکال دئیے ہیں اور باقی بارہ میں بھی شروع کے گیارہ الگ کر لئے ہیں، جنہیں وہ ’’ گیارہ نظموں کا ایک گلدستہ‘‘ کہتے ہیں، اس کے بعد اصل متن کے تیرھویں باب پر، جس کو انہوں نے اپنے حساب سے بارہواں بنا دیا ہے، علیحدہ تبصرہ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں اس طرح کی زبردستی کی Arbitrary تقسیم کا کیا جواز ہمارے نقاد کے پاس ہے؟ شاید وہ ’’ منیرہ بیگم صلاح الدین سلمہا دختر نیک اختر علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال‘‘ کے ساتھ ’’ جملہ حقوق مع حق ترجمہ‘‘ میں خود کو بھی شریک سمجھتے ہیں، حالانکہ کاپی رائٹ کی رو سے وہ سب ’’ بحق منیرہ محفوظ ہیں‘‘ ممکن ہے کہ اصل معاملہ یہ ہو کہ ہمارے نقاد نے ’’ حق ترجمہ‘‘ کے ساتھ ایک اور حق’’ حق تقسیم نظم‘‘ کا اضافہ کسی منطق یا قانون کی رو سے، جو دنیا کو معلوم نہیں، کرا لیا ہو اور وہ بلاشرکت غیرے انہی کے لئے ’’ محفوظ‘‘ ہو۔ جناب کلیم الدین کی حرکت سے مجھے یہ پر مذاق نتائج اس لئے نکالنے پڑے کہ انہوں نے اپنے خیال میں تخلیقات کو بہتر شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ آخر زبردستی کی ایسی تنقید کا کیا جواب ہے ہمارے پاس، اس کے سوا کہ ہم اس کے مضحکہ خیز مضمرات یا مفروضات کو آشکارا کر دیں؟ ابواب مثنوی کو موضوعات کی بجائے اجزائے نظم قرار دینے کی جو کوشش ہمارے نقاد ’’ لمبی نظمیں‘‘ کا عنوان لگا کر شروع ہی سے کر رہے ہیں اس پر تبصرہ میں ابتدائے بحث میں کر چکا ہوں۔ بہرحال، تجزیے کے ساتھ تنقید کی یہ بے راہ روی بھی دیکھئے: ’’ دشواری یہی ہے کہ خیالات جب تک شعری تجربے نہ بن جائیں ان کی شعری دنیا میں اہمیت نہیں ہو سکتی، فلسفے میں ہو سکتی ہے، مذہب میں ہو سکتی ہے۔ اگر ان نظموں کا Religious or Philosophical verses سمجھیں، Poems نہ سمجھیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ (ص241) یہ خیالات بھی پرانے ہیں اور بار بار کے دہرائے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں مجھے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اول تو ہمارے نقاد کے پاس شاعری Poetry کو نظم Verse سے ممیز کرنے کا کوئی بے خطا پیمانہ ہے ہی نہیں، انگریزی ادب کی تاریخ میں جس کے ہی خوشہ چیں ہمارے نقاد ہیں، ڈرائیڈن اور پوپ کی نظم نگاری کا معاملہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ دوسرے، جو لوگ جناب کلیم الدین احمد کی طرح اقبال کی نظموں میں فلسفہ، مذہب اور سیاست کے موضوعات کی سطح پر ہی توجہ مرکوز کرتے ہیں وہ اپنے غلط ذہنی مفروضوں کی بنا پر تہہ میں بیٹھی ہوئی شعریت پر دھیان دینے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے، بلکہ شاید اصل متن کے مکمل و مرتب مطالعے کی توفیق بھی انہیں نہیں ہوتی او غالباً فہرست دیکھ کر یا زیادہ سے زیادہ ادھر ادھر کے کچھ اقتباسات بالکل سرسری طور سے لے کر وہ خوا مخواہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ دقیق افکار لطیف اشعار میں نہیں ڈھل سکتے یہ بے چارگان تنقید اقبال کے خلاق ذہن کا اندازہ اپنے ذہن سے لگاتے ہیں۔ اس بے چارگی پر دیدہ دلیری دیکھئے: ’’ خیالات جب تک شعری تجربے نہ بن جائیں ان کی شعری دنیا میں اہمیت نہیں ہو سکتی۔‘‘ اور شعری دنیا کے ٹھیکیدار آپ ہیں، جب کہ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ خیالات شعری تجربے بنتے کیسے ہیں۔ اقبال کے خیالات ان کے شعری تجربے بھی ہیں اور اسی لئے وہ اشعار میں ان کا اظہار اس جوش، نفاست اور رعنائی کے ساتھ کرتے ہیں، سب سے بڑھ کر ان کے لہجے کی متانت بہ یک وقت ایک مفکر اور فن کار کی اعلیٰ متانت ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے خیالات محض خیالات ہی نہیں محسوس کئے ہوئے واردات ہیں، ان کے دماغ نے جو کچھ سوچا ہے ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر ان کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے اور ایک درد مند دل کی آواز بن گیا ہے، جو ایک ’’ دل کشا صدا‘‘ بن کر شاعری میں، ایک ایک شعر میں گونج رہا ہے اور یہ گونج اتنی وجد آور ہے کہ مصرعے اور ترکیبیں ہماری زبانوں پر جاری اور ہمارے حواس پر طاری ہو جاتی ہیں۔ آہنگ اقبال کی نغمگی آخر کسی مغنی کے آلاتی راگ کی پیداوار تو نہیں، نفس شاعری کی حرارت ہی کا ترنم ہے۔ اقبال نے شاعر کے اور خود اپنے متعلق ’’ خون جگر‘‘ کے سلسلے میں جو کچھ کہا ہے وہ ایک حقیقت ہے: اہل زمین کو نسخہ زندگی دوام ہے خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری (شاعر۔ بانگ درا) ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو (دعا: مسجد قرطبہ۔ بال جبریل) خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو (ذوق و شوق۔ بال جبریل) مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے شاعر ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے (شاعر۔ ضرب کلیم) خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر مے خانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد (ایجاد و معانی ضرب کلیم) یہ کسی تنقید نگار کی بے مغز باتیں نہیں ہیں، اس عظیم فن کار کے احساسات و تجربات اور ان پر مبنی افکار و خیالات ہیں جو شعر کی اس اہمیت و رفعت کا قائل اور خود اس کا عملی نمونہ تھا: وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل (ایجاد معانی ضرب کلیم) بانگ سرافیل سے وحشت زدہ ہو کر اقبال کو ترقی پسندوں کے مماثل قرار دینا تنقید کی مفلس الخیالی ہے۔ اردو شاعری میں ترقی پسندوں یا اشتراکیوں نے بالعموم جو فکر و احساس سے خالی پروپیگنڈہ بازی کی ہے ظاہر ہے کہ اس کو اقبال کی مفکرانہ اور احساسات سے لبریز شاعری سے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی۔ اس کا اعتراض اسی کتاب میں خود جناب کلیم الدین احمد فرمان خدا فرشتوں سے کا تجزیہ کرتے ہوئے کر چکے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اقبال کی لمبی فارسی نظموں یعنی مثنویوں پر اپنی تنقید کا خلاصہ جناب کلیم الدین احمد نے پیش کیا ہے وہ ایک عجوبہ ہے:ـ ’’ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نظم کے مفہوم سیو اقف نہ تھے یا وہ لمبی نظمیں نہ لکھ سکتے تھے۔ لیکن کچھ روایت کی پابندی کچھ پیغمبری کا بھوت، کچھ خیالات محض اور شعری تجربوں میں جو فرق ہے اس سے ناواقفیت۔۔۔۔ یہ باتیں ان نظموں کو شعری حیثیت سے زیادہ کامیاب نہ بنا سکیں۔‘‘ (ص242) معلوم ہوا کہ ’’ روایت کی پابندی‘‘ بھی شاعری میں حائل ہوئی۔ اس سے کم از کم ان فارسی مثنویوں کی روایت کا اعتراف تو ہوا جن کے پس منظر میں اقبال نے اپنا انفرادی تجربہ پیش کیا ہے، اور یہ روایت جس کو مزاحم شاعری کہا جا رہا ہے کیا ہے؟ رومی، فردوسی، سعدی وغیرہ کی عظیم الشان شاعرانہ روایت ہے، جس کے سامنے شعریت کے لحاظ سے انگریزی شاعری کا پورا سرمایہ گرد ہے۔ رہا ’’ پیغمبری کا بھوت‘‘ تو اس کی شعر آفرینی کا اندازہ یا تو پیغمبر کو ہو سکتا ہے یا اس کی امت کو، اور ہمارے مغربی نقاد دونوں میں سے کوئی نہیں، بلکہ پیغمبرانہ شاعری کے کافر ہیں جناب کلیم الدین احمد جب اس قسم کی غیر تنقیدی بات کرتے ہیں تو وہ دراصل فکر اور فن کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور پیغام کو کلام سے یا کلام کو پیغام سے علیحدہ کر کے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نقطہ نظر بوسیدہ فرسودہ اور بالکل غلط ہے خاص کر اقبال جیسے اعلیٰ متانت کے حامل اور تنقید حیات کے علمبردار شاعر کے سلسلے میں آخر پیغمبری کو شاعری سے الگ یا شاعری کو پیغمبری سے جدا فرض ہی کیوں کیا جائے؟ ایسا کوئی اصول شاعری کا کہاں ہے جو فکر و فن کو اس طرح تقسیم کرتا ہو؟ جہاں تک ’’ خیالات محض اور شعری تجربوں میں جو فرق ہے اس سے ’’ ناواقفیت‘‘ کا تعلق ہے، یہ کم از کم کسی کلیم الدین احمد کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی اقبال کے بارے میں کہے۔ اگر خیالات اور شعری تجربوں کے درمیان فرق سے اقبال بھی واقف نہیں اور اگر خیالات اقبال کے یہاں بھی تجربات نہیں بن پائے ہیں تو پھر دنیائے شاعری میں کون ہو گا وہ شخص جو فن کاری کے اس بنیادی وصف سے متصف ہو؟ کسی شیکسپیئر، کسی دانتے اور گیٹے کے متعلق اس قسم کی تنقید عتبی واہیات ہے اتنی ہی کسی اقبال، کسی رومی اور فردوسی کے متعلق۔‘‘ اقبال کی مثنویاں اگر جدید انگریزی نظم یا منظوم ڈرامے کے معیار پر، جناب کلیم الدین احمد کے نزدیک، تنظیم ہیئت کے لحاظ سے پوری نہیں اترتیں، حالانکہ مثنویوں کو عام موضوعات نظم یا ڈرامے کے معیار پر جانچنا ہی پرلے درجے کی جہالت و حماقت ہے، تو کم از کم ان مثنویوں کے خیالات کو شعری تجربات تو ماننا ہی چاہئے، اس لئے کہ ان کا اظہار تجربات ہی کی شکل میں ہوا ہے، اور تجربات کو محض کسی مخصوص ہیئت کے خارجی قواعد کا پابند قرار دینا تنقید کی انتہائی بے راہ روی ہے۔ بہرحال! ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کی شعریت کے صرف چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔ ’’ بخوائندہ کتاب‘‘ کے بعد جو اس طرح شروع ہوتا ہے: سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است ’’ تمہید‘‘ ہے جس کے ابتدائی تین اشعار میں ’’ پیر رومی‘‘ کی تعریف یوں ہوتی ہے: پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروان عشق و مستی را امیر منزلش برتر زماہ و آفتاب خیمہ را از کہکشاں ساز و طناب نور قرآن درمیان سینہ اش جام جم شرمندہ از آئینہ اش اور یہ تمہید ’’ روح مومن‘‘ کی رومی کی زبان سے اس شاعرانہ تشریح پر ختم ہوتی ہے: ستر حق بر مرد حق پوشیدہ نیست روح مومن ہیچ میدانی کہ چیست قطرۂ شبنم کہ از ذوق نمود عقدۂ خود را بدست خود کشور از خودی اندر ضمیر خود نشست رخت خویش از خلوت افلاک بست رخ سوے دریاے بے پایاں نہ کرد خویشتن را در صدف پنہاں نہ کرد اندر آغوش سحریک دم پتسید تابکام غنچہ نورس چکید دوسرا باب شاعر کی طرف سے ’’ خطاب بہ مہر عالم تاب‘‘ ہے جس میں ظاہر ہے کہ ’’ اقوام شرق‘‘ کے موضوع کی نسبت سے ’’ شاہ خاور‘‘ کی رعایت کی گئی ہے اٹھارہ اشعار کا یہ پورا باب اعلیٰ شاعری کا نمونہ ہے۔ شروع کے چند اشعار یہ ہیں: اے امیر خاور، اے مہر منیر می کنی ہر ذرہ را روشن ضمیر از تو ایں سوز و سرور اندر وجود از تو ہر پوشیدہ را ذوق نمود می رود روشن تر از دست کلیم ز ورق زرین تو در جوے سیم پر تو تو ماہ را مہتاب داد لال را اندر دل سنگ آب داد لالہ را سوز دروں از فیض تست در رگ او موج خوں از فیض تست نرگساں صد پردہ را برمی درد تا نصیبے از شعاع تو برد خطاب اس شعر پر ختم ہوتا ہے: پس نخستیں بایدش تطہیر فکر بعد ازاں آساں شود تعمیر فکر یہ اس لئے کہ ’’ فکر شرق‘‘ غلام ہو چکی ہے اور غلامی کے سبب مریض ہے، لہٰذا اقوام شرق کا پہلا اقدام ایک بہتر مستقبل کی طرف یہی ہونا چاہئے کہ فکر کی تطہیر ہو اور وہ دام فرنگ سے آزاد ہو جائے۔ بعد کے ابواب میں ’’ حکمت کلیمی‘‘ اور’’ حکمت فرعونی‘‘ کا فرق واضح کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں حکمت فرعونی کا بیان تو تنبیہہ و احتراز کے لئے ہے اور حکمت کلیمی کا پسند و اختیار کے لئے حکمت کلیمی کے آخری دو شعر یہ ہیں: مرد مومن از کمالات وجود او وجود و غیر اوہر شے نمود گو بگیرد سوز و تاب از لا الہ جزبکام او نہ گردد مہر و مہ اس کے متضاد ’’ حکمت فرعونی‘‘ کی تشریح کا خلاصہ و خاتمہ اس شعر پر ہوا ہے: آہ قومے دل زحق پر داختہ مردو مرگ خویش رانشناختہ اب آگے کے باب میں ’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے کلمے اور اس کے تمام اصولی و تاریخی اور عملی مضمرات و اثرات کی نہایت زور دار، نکتہ اس فکر انگیز اور ولولہ خیز تفسیر کی گئی ہے، جس کا ماحصل آخری شعر میں یہ ہے: ہر کہ اندر دست او شمشیر لاست جملہ موجدات را فرما نرواست اس باب میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا تانا بانا لا اور الاہی کے تاروں سے تیار ہوا ہے اور اسی ترکیب پر حیات کا توازن برقرار ہے۔ لاجلال ہے اور الاجمال، لا سے حرکت ہے اور الا سے سکوں، المختصر لاہر باطل کی نفی ہے اور الاحق کا اثبات اور پتے کی، بلکہ کانٹے کی، بات یہ کہ: در مقام لانیا ساید حیات سوے الامی خرامد کائنات اس کے آگے ’’ فقر‘‘ ،’’ مرد خر‘‘ اور’’ اسرار شریعت‘‘ کی الگ الگ مگر ایک کے بعد دوسرے کے تسلسل میں مستقل ابواب کے تحت تفصیل و تصریح ہے۔ ’’ اقوام شرق‘‘ کی ’’ تعمیر فکر‘‘ کے ان بنیادی اور اصولی و نظریاتی تصورات کی تشریح کے بعد فطری طور پر عصر حاضر اور اس میں شرق کے احوال کا تجزیہ ہے ’’ اشکے چند بر افتراق ہندیاں‘‘ سیاسات حاضرہ اور ’’ حرفے چند با امت عربیہ‘‘ کے ابواب ہیں سب کے آخر میں ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کی فکر و تدبیر ہے۔ ذرا ان اشعار کی فکر انگیز اور حوصلہ خیز شاعری ملاحظہ کیجئے: سوز و ساز و در و داغ از آسیاست ہم شراب وہم ایاغ از آسیاست عشق راما دلبری آموختیم شیوۂ آدم گری آموختیم ہم ہنرہم دیں زخاک خاور است رشک گردوں خاک پاک خاور است دانمودیم آنچہ بود اندر حجاب آفتاب از ما وما از آفتاب ہر صدف را گوہر از نیسان ماست شوکت ہر بحر از طوفان ماست روح خود در سوز بلبل دیدہ ایم خون آدم در رگ گل دیدہ ایم فکر ما جویاے اسرار وجود زر نخستیں زخمہ برتار وجود داشتیم اندر میان سینہ داغ بر سر راہے نہادیم ایں چراغ اس کے بعد ایک منصوبہ عمل کا خاکہ دیا گیا ہے جو خود داری کے ساتھ خود کفالتی اور اس طرح خود گری پر مبنی ہے۔ اس نظام عمل کا آخری شعر اور خلاصہ یہ ہے: واے آں دریا کہ موجش کہ تپید گوہر خود راز غواصاں خرید غور کیجئے شعریت اور شاعری کے اس کمال پرکہ ایک سیاسی و معاشی منصوبے کی تعبیر اس طرح استعاراتی اور علاماتی انداز میں کی گئی ہے کہ دریا مشرق کا اور موتی اس کی تہوں میں، مگر اس کی بجائے کہ اس دریا کی اپنی موج خودزور لگا کر اپنا موتی نکال لے، ہو یہ رہا ہے کہ دوسرے لوگ باہر سے آ کر اس دریا میں غوطہ لگا رہے ہیں اور جن کا موتی ہے انہی کے ہاتھوں زیادہ سے زیادہ گراں قیمت پر بیچ کر موتی والوں کو لوٹ اور اپنی زندگی سنوار رہے ہیں: واے آں دریا کہ موجش کم تپید نظم ’’ حضور رسالتمآب‘‘ پر ختم ہوئی ہے اس لئے کہ گرد تو گردو حریم کائنات از تو خواہم یک نگاہ التفات مثنوی کا یہ تتمہ اسی طرح جزو نظم ہے جس طرح تمہید نیز خطاب بہ مہر عالم تاب اس لئے کہ شاہ خاور کی طرح شاہ امم ؐ بھی شاہ مشرق بلکہ شہنشاہ مشرقین ہیں اور اقوام مشرق کے آئندہ لائحہ عمل کے لئے ان سے ہدایت یابی ضروری ہے رحمۃ للعالمینؐ سے استفاضہ شاعر کے عقیدے، نظریے، نصب العین اور نظم کے منصوبے کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ مثنوی شاعر کے اس سوز و گداز پر نہایت شاعرانہ انداز میں ختم ہوتی ہے۔ بندۂ چوں لالہ داغے در جگر دوستانش از غم او بے خبر بندۂ اندر جہاں نالاں چوں نے تفتہ جاں از نغمہ ہائے پے بہ پے در بیاباں مثل چوب نیم سوز کارواں بگذشت ومن سوزم ہنوز اندریں دشت و درے پہنا درے بو کہ آید کاروانے دیگرے جاں زمہجوری بنالد در بدن نالہ من واے من! اے واے من میں نے اسرار و رموز جیسی شہرۂ آفاق مثنویوں کی بجائے پس چہ باوید اے اقوام شرق کا تجزیہ قدرے تفصیل کے ساتھ خاص کر یہ دکھانے کے لئے کیا ہے کہ اقبال نسبتاً ایک معمولی نظم کے تار و پود بھی کس شاعرانہ انداز سے تعمیر کرتے ہیں اور کس طرح موضوعات کے تنوع کے باوجود شاعری کی حد تک ایک مربوط ارتقائے خیال ان کی ہر تخلیق میں پایا جاتا ہے، پھر پیش پا افتادہ سے پیش پا افتادہ اور دقیق و ثقیل سے دقیق و ثقیل نکات کو وہ ایک تخلیقی ترنم اور شعری استعاروں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ بحیثیت فن کار اقبال کے وجود کے دوتار ہیں۔ ایک فلسفہ دوسرا نغمہ اور یہ دو تارہ ارغنوں ہر وقت بجتا رہتا ہے، خیال انگیز اور حیات بخش اور جاں فزا نغمے بکھیرتا رہتا ہے، چنانچہ جو موضوع اور جو نکتہ بھی اس ارغنوں کے تاروں پر آ جاتا ہے وہ ایک سرمدی راگ بن جاتا ہے۔ اقبال کی شخصیت ہی بہ یک وقت مفکرانہ و شاعرانہ ہے اور ہر وہ چیز جسے وہ چھو دیتے ہیں فکر و نغمہ کا ایک مرکب بن جاتی ہے۔ رہی ہیئت سخن کے لوازم کی پابندی تو اول تو اقبال کا ذہن ہی مربوط ہے، یہاں تک کہ ان کی غزلوں میں بھی بہت کم انتشار خیال ہے، دوسرے، روایتی مشرقی اصناف، جیسے مثنوی میں وہ اس کی زبان کی جس میں لکھنے میں عظیم شاعرانہ روایت کی پابندی فطری طور سے گرچہ مجتہدانہ و منفرد انداز میں کرتے ہیں اس لئے کہ ان کے خیالات تازہ اور تجربات پختہ ہیں۔ موضوعات نظموں کی جدید مغربی روایات سے بھی وہ نہ صرف آگاہ بلکہ قدرے متاثر ہیں، آخر انیسویں صدی تک کا پورا انگریزی و مغربی ادب تو ان کے سامنے تھا ہی اور وہ اس پر نہایت ناقدانہ و مبصرانہ نگاہ بھی رکھتے تھے، جیسا کہ ان کی بعض نثری تحریروں اور مکاتیب نیز شعری تبصروں سے واضح ہوتا ہے لیکن اقبال کلیم الدین احمد جیسے معمولی اورغیر تخلیقی ذہن کے لوگوں کی طرح مغرب کے مقلد محض اور تابع مہمل نہیں تھے، مغربی فلسفہ ہو یا ادب دونوں میں ان کا مطالعہ مجتہدانہ تھا، فلسفے میں ان کی اجتہادی نظر کی دستاویز ’’ تشکیل جدید الاہیات اسلامیہ‘‘ Reconstruction of Religious thought in islam پر ان کے خطبات مدراس ہیں اور ادب پر ان کی گہری اور آزاد نگاہ کا ایک ثبوت ’’ پیام مشرق‘‘ کا اردو دیباچہ ہے، جس میں جرمن شاعری کے ایک خاص پہلو پر نہایت دقیقہ رسی اور نکتہ سنجی کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے اور چند سطروں میں موضوع کا مخصوص گوشہ بالکل منور ہو گیا ہے۔ اشعار میں مغربی ادب و فلسفہ کی عظیم ہستیوں پر جو فکر انگیز تبصرے ہیں وہ علم و دانش کی ایک الگ دنیا آباد کئے ہوئے ہیں اور محض چند مصرعوں میں پوری پوری تحریک، رحجان تصور اور اسلوب کے ایسے بصیرت افروز مرقعے بن گئے ہیں جن کی تشریح کے لئے تحقیقی و تنقیدی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اقبال کی نظموںمیں ہیئت کی جدید مغربی ترتیب سے تاثر کا بہت ہی واضح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم روایتی اصناف سخن میں ان کی طبع آزمائی کا موازنہ قدیم اساتذہ سخن کے کارناموں سے کرتے ہیں۔ ابھی جو میں نے ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کی ہیئت کا ایک سرسری جائزہ از اول تا آخر ربط خیال کا سراغ لگانے کے لئے لیا ہے اس کو ہی سامنے رکھ کر اگر قدیم فارسی مثنویوں کی ترکیب ہیئت کا مطالعہ کیا جائے تو اس سلسلے میں ذہن اقبال کی تازگی، انفرادیت اور تنظیم کا اندازہ ہو جائے گا۔ یہ چیز شعوری ہے یا غیر شعوری، اس پر بحث کی ضرورت نہیں ظاہر ہے کہ اقبال نے بیسویں صدی میں نظم نگاری کی ہے اور عالمی ادبیات میں غرق ہو کر کی ہے۔ لہٰذا اس وسیع مطالعے کے اثرات تو یقینا ان کے ذہن پر مرتب ہو کر ان کے فنی مزاج کا جز بن گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال کے ذہن کی اخاذی و درا کی ہمیں اچھی طرح معلوم ہے، انہوں نے مشرق و مغرب کے سارے سمندروں میں غوطے لگائے ہیں اور سب کی تہوں سے موتی نکالے ہیں ایک طرف سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں ہے تو دوسری طرف خرد افزود مرا درس حکیمانہ فرنگ اور اقبال اس تاثر، ہمہ گیر تاثر کا برملا اعتراف نہایت فراخ دلی کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے کہ وہ ایک عظیم ذہن کی ترکیب میں رد و قبول کے تمام حقائق سے آشنا ہی نہیں، اس کے سارے مراحل خود طے کر چکے ہیں۔ انہوں نے واقعی عصر حاضر تک کی علمی و ادبی ترقیات کو ایک عالمی معیار سے جذب کیا ہے اور اپنے خاص آفاقی محور فکر کے مطابق ان ترقیات کے اثرات کو اپنے وسیع و عمیق ذہن میں مرتب کیا ہے، اور ہر چیز کو اپنے مخصوص رنگ میں رنگ کر اپنے خاص الخاص آہنگ کے ساتھ اس شان سے پیش کیا ہے کہ دنیائے شاعری میں ایک عظیم الشان اضافہ کیا ہے اور شاعری کی سرحدوں کو شیکسپیئر، دانتے اور گیٹے سے بہت آگے بڑھا دیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی مقلد محض کی طرح اقبال نے ہر اس ہیئت سخن میں طبع آزمائی نہیں کی ہے جو مغرب میں رائج رہی ہے اور جس ہیئت سخن کو انہوں نے اختیار بھی کیا ہے تو آنکھ بند کر کے اس کے پورے سانچے کو جوں کا توں قبول نہیں کر لیا ہے، بلکہ اپنی انفرادی استعداد، اپنی مشرقی روایت اور اپنے موضوع سخن نیز مقصد فکر کے مطابق اس میں تراش و خراش کی ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کا کارنامہ تخلیقی و اجتہادی ہے اور ان تنقیدی رواج پرستوں سے یکسر مختلف ہے جو ہر نئی چیز کو نگل کر فوراً اگل دیتے ہیں اور اپنے کمزور معدے کی اس قے کو تنقید کا نام دے کر اتراتے پھرتے ہیں۔ ان نکات و حقائق کی روشنی میں اقبال کی مثنویوں، دوسری لمبی نظموں اور بعض مختصر یا طویل تمثیلی نظموں کا، خواہ وہ فارسی میں ہوں یا اردو میں مطالعہ مرتب و منظم بالا ستیعاب مطالعہ، آزاد نظر اور تمام مفروضات سے خالی ذہن کے ساتھ کیا جائے، نہ کہ جناب کلیم الدین احمد کے غلامانہ اور مغربی مفروضات سے بھرے ہوئے ذہن کے ساتھ، سرسری، منتشر اور جزوی طور پر تو اقبال کی گہری وسیع اور منظم و مرکب شعریت کا اتنا زبردست احساس ہو گا کہ ذوق لطیف سے بہرہ ور ایک شخص اپنے آپ کو ایک رنگین و زرین دنیا میں کھویا ہوا اور نغمات کی بارش میں نہایا ہوا پائے گا۔ کیا کوئی بڑے سے بڑا مغرب پرست، حتیٰ کہ کلیم الدین احمد جیسا کلبیانہ ذہن کا انسان بھی، اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ اقبال کی منظومات ایک پورا نظام فن، ایک کائنات شاعری، ایک دنیائے تخلیق تخلیق کرتی ہیں، جس کا رنگ و آۃنگ اس دنیا کا مشاہدہ کرنے والے کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے؟ کسی بھی شاعر کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے؟ا ور جو شاعر اپنی ایک شعری دنیا آباد کر سکتا ہو اس کی شاعری میں کلام کرنا کیا صحیح ذوق اور حقیقی شعور کا ثبوت ہو سکتا ہے؟ رہی یہ بات کہ بڑے سے بڑے شاعر کی ہر چیز ایک ہی سطح پر نہیں ہوتی اور یہ کہ اپنے اپنے مذاق یا خیال کے لحاظ سے کسی کو ایک عظیم شاعر کی بھی کوئی ادا پسند ہوتی ہے اور کسی کو دوسری، تو یہ ایک معقول اور قابل فہم بات ہے۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد کے فیصلے نہ تو معقول ہیں نہ قابل فہم۔ اس لئے کہ وہ نہ صرف اقبال کی مجموعی شاعرانہ حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ سرے سے شاعری ہی کا غلط تصور پیش کرتے ہیں۔ بہرحال، جناب کلیم الدین احمد اقبال کی ’’ مختصر نظموں‘‘ (فارسی) کو پسند کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی پسندیدہ نظموں کی حسب ذیل فرست جاری کی ہے: 1دیگر آموز 2از خواب گراں خیز 3خواجہ و مزدور 4 میلاد آدم 5 انکار ابلیس 6اغوائے آدم 7 آدم از بہشت بیروں آمد 8تصبح قیامت 9نوائے وقت 10فصل بہار 11سرود انجم 12نسیم صبح 13لالہ 14کرمک شب تاب 15نغمہ ساربان حجاز 16ساقی نامہ 17تنہائی 18شبنم 19قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور 20نوائے امروز 21جوئے آب 22کشمیر 23 حور و شاعر 24قطرۂ آب 25آرزو مذکورہ بالا نظموں کی تعریف میں ہمارے نقاد فرماتے ہیں: ’’ ان نظموں میں پیغام، ترنم اور جذبات سب ایسے گھل مل گئے ہیں کہ ان میں فرق کرنا نا ممکن ہے اور ان کی کامیابی کا یہی راز ہے‘‘ (ص243) یہ بیان اپنی جگہ ٹھیک ہے، مگر جناب کلیم الدین احمد کا ذہن اس سلسلے میں صاف نہیں، چنانچہ تحسین کا جو اصولی موقف وہ پیش کرتے ہیں اس پر اس وقت قائم نہیں رہتے جب نظموں کے اشعار کا عملی تجزیہ کرتے ہیں۔ ’’ نسیم صبح‘‘ کے دو اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ ان دو شعروں میں جو فطرت کے شعری دروں بینی ہے، ان میں جو لطافت ہے، جو دل آویزی ہے اس پر اقبال کے پیغام کو نچھاور کیا جا سکتا ہے۔ کاش اقبال سمجھتے کہ یہ شاعری ہے، پیغام شاعری نہیں۔‘‘ (ص247) یہ بیان لازم ہے کہ پچھلے بیان سے متضاد ہے پہلے بیان میں نظموں کی ’’ کامیابی کا راز‘‘ یہ ہے کہ ’’ پیغام، ترنم اور جذبات سب گھل مل گئے ہیں‘‘ لیکن دوسرے بیان میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ شعروں میں جو فطرت کی شعری دروں بینی ہے اس پر اقبال کے پیغام کو نچھاور کیا جا سکتا ہے‘‘ اتنا ہی نہیں، مزید ارشاد ہوتا ہے ’’ پیغام شاعری نہیں‘‘ اس تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد اور بعض وقت قارئین کے خوف سے یا اپنے مجرم ضمیر کی خلش سے مجبور ہو کر، جو بھی کہیں، در حقیقت اور فی الواقع وہ صرف فطرت کی شاعری کو پسند کرتے ہیں اور اسی کو شاعری کہتے ہیں، چنانچہ جہاں جہاں انہوں نے جزوی طور پر اپنی پسند کا اظہار فرمایا ہے وہاں وجہ پسند یہی فطرت کی شاعری ہے مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، اور خضر راہ جیسی لمبی اردو نظموں میں تو انہوں نے تنقید کا یہ تماشا دکھایا ہی ہے کہ پیغام پر مشتمل حصوں کو الگ کر کے صرف فطرت کی شاعری پر مبنی اجزاء کو مکمل نظم اور شاعری قرار دیا ہے۔ اس معاملے میں موصوف کی بے حسی اور بد مذاقی کا یہ عالم ہے کہ نہایت دیدہ دلیری اور دریدہ دہنی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں: ’’ اس پر اقبال کے کلام کو نچھاور کیا جا سکتا ہے‘‘ اگر واقعی اقبال کے پیغام کو فطرت کی شاعری پر نچھاور کر دیا جائے تو پھر اقبال کی شاعرانہ حیثیت اور ان کی شاعری کی وقعت کیا رہ جائے گی؟ پیغام ہی تو اقبال کے کلام کا محرک و مقصود ہے اور کلام کے سارے نقوش اسی پیغام پر مبنی ہیں۔ کوئی شخص پیغام کو کلام سے الگ کر کے اقبال کی شاعری پر کیا اور کیسے تنقید کر سکتا ہے اور ایسی بے بنیاد تنقید کا وزن کیا ہو گا؟ تخلیق کی نوعیت کو نظر انداز کر کے تنقید، تنقید ہو ہی کیسے سکتی ہے؟ پھر کوئی کلیم الدین کون ہوتا ہے کسی دوسرے کی اصل پونجی کو نچھاور کرنے والا؟ جو لوگ صحیح معنوں میں اقبال شناس ہیں وہ پلٹ کر بہت ہی جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کا پیامی شاعری پر کلیم الدین احمد کی پوری تنقید کو نچھاور کر دیا جا سکتا ہے، اور یہ ایک نہایت معقول بات ہو گی، اس لئے کہ اردو ادب سے اگر کلیم الدین احمد کی تنقید کو نکال کر پھینک دیا جائے تو اردو ادب کے کیف و کم میں کوئی فرق واقع نہیں ہو گا، بلکہ بازار ادب ایک کھوٹے سکے سے پاک ہو جائے گا، جبکہ اردو ادب کا کوئی تصور اقبال کی شاعری کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، اور یہ شاعری فکری و پیامی شاعری ہے، جس کے بہتیرے اجزا و وسائل میں ایک جز اور وسیلہ فطرت کی شاعری بھی ہے اور اس کا استعمال بھی پیامی شاعری ہی کے لئے ہوا ہے، وہ بجائے خود مفقود نہیں ہے۔ اقبال نہ ورڈس ورتھ تھے نہ ہونا چاہتے تھے، نہ انہیں ہونا چاہئے تھا، وہ ورڈس ورتھ جیسے شاعر فطرت سے بہت آگے کے، بہت بڑے شاعر ہیں اور ان کی کائنات شاعری میں ورڈس ورتھ جیسے کتنے ہی ستارے پڑے ہوئے ہیں پیام کے خلاف تنقید کا ایک اور حملہ دیکھئے: ’’ شاعری غم عشق ہے، پیام نہیں۔ البتہ عشق پیام بن جائے یا پیام غم عشق بن جائے تو اور بات ہے۔‘‘ (ص247) الفاظ کے پیچ و خم کے باوجود نقاد کا خیال بس یہ ہے کہ ’’ شاعری پیام نہیں‘‘ اور’’ غم عشق‘‘ ہے۔ اس طرح بنیادی طور پر پیام اور غم عشق کے درمیان تفریق کر دی گئی، مگر چونکہ اقبال کے یہاں تفریق ہے ہی نہیں، لہٰذا فوراً بات برابر کرنے کے لئے کہہ دیا گیا ہے۔ ’’ عشق پیام بن جائے یا پیام غم عشق بن جائے تو اور بات ہے۔‘‘ آخر اس پر تکلف ہیر پھیر کی ضرورت کیا ہے؟ دنیا جانتی ہے کہ اقبال کا پیغام محض فلسفہ کا کوئی خشک نظریہ نہیں ہے، جسے غیر شخصی طور پر اور صرف فکری سطح پر پیش کر دیا گیا ہو، بلکہ یہ پیغام اقبال کے درد مند دل کی پکار ہے اور اپنے پیغام سے انہیں عشق ہے، اتنا زبردست عشق ہے کہ اسی محبوب پیغام کی تحریک سے مجبور ہو کر انہوں نے شاعری کی اور ان کی ساری فن کاری صرف اپنی فکر کی تزئین کے لئے وقف رہی، بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ یہ پیغام کا گہرا عشق ہی تھا جس نے اقبال کو سراپا نغمہ بنا دیا: نغمہ کجا و من کجا، ساز سخن بہانہ ایست سوے قطار می کشم ناقہ بے زمام را ٭٭٭ نہ زباں کوئی غزل کی، نہ زباں سے باخبر میں کوئی دلکشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی ان اشعار میں نغمگی سے بیزاری کا اظہار نہیں ہے بلکہ نغمگی کا محرک بتایا گیا ہے اسی طرح غزل کی زبان سے بے خبری کا اعلان بھی مقصود نہیں ہے سوا اس کے اقبال تنقیدی طور پر غزل کی کوئی خاص زبان نہیں مانتے، بلکہ مقصد صرف دلکشا صدا پر زور دینا ہے۔ یہ مشہور شعر اس سلسلے میں اور بھی واضح ہے: مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی ظاہر ہے کہ یہاں مشاطگی فن کی حقیقت سے انکار نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ حسن معنی کو کسی تکلف کی ضرورت نہیں، مثال کے طور پر لالہ ایک خوب صورت پھول ہے اور اس کے رنگ کی شوخی فطرت کی حنا بندی پر مبنی ہے، کسی مصنوعی رنگ کی مرہون منت نہیں، یعنی معنی کا حسن خود ہی لفظ کا حسن پیدا کرتا ہے، اگر معنی واقعی حسین ہو۔ لفظ و معنی کے اس عضویاتی ربط پر اور اقبال کی شاعری میں اس کی فراوانی پر ہمارے مغربی نقاد نے غورکرنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے؟ اقبال کی شاعری پر تنقید سے پہلے انہوں نے اقبال کا نظریہ شاعری جاننے کی کوشش کی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں، حالانکہ اقبال کی شاعری پر ایک مستقبل کتاب لکھتے ہوئے اگر وہ تنقید کا یہ بنیادی فریضہ انجام دے لیتے تو ان کا مطالعہ اقبال بھی حقیقی ہو جاتا، اور ان کے ذہن میں بھی ایک ادبی آگہی پیدا ہو جاتی، مگر وہ اپنے پہلے سے قائم کئے ہوئے کچے پکے خیالات میں اس بے چارگی کے ساتھ اسیر ہیں کہ انہیں آزاد نظر، کھلے دماغ اور حکیمانہ انداز سے تنقیدی مطالعہ کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ جناب کلیم الدین احمد کس درجہ اپنے مفروضات کے قیدی ہیں اس کا ایک اور مظاہرہ اس طرح ہوتا ہے: ’’ اس نظم میں آٹھ بند ہیں اور اگرچہ کسی ایک بند کو حذف کر دیا جائے تو کوئی کمی محسوس نہ ہو گی پھر خیالات میں ربط ہے اور کچھ خیالات کی ترقی بھی ہے۔‘‘ (ص252) یہ بیان ’’ سرود انجم‘‘ کے بارے میں ہے ذرا تضاد اور ژولیدگی کا کمال ملاحظہ کیجئے کہ ’’ کسی ایک بند کو حذف کر دیا جائے تو کوئی کمی محسوس نہ ہو گی۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی ایک ہی سانس میں ’’ پھر خیالات میں ربط ہے۔‘‘ جب خیالات میں ربط ہے تو کسی ایک بند کو حذف کر دینے سے کوئی کمی کیسے محسوس نہ ہو گی؟ صاف اور سیدھی بات ہے۔۔۔۔ یا تو خیالات میں ربط نہیں ہے، لہٰذا ایک بدن حذف کر دینے سے کمی نہ ہو گی، یا خیالات میں ربط ہے تو کسی بند کو حذف کرنے سے لازماً کمی محسوس ہو گی۔ بہ یک وقت ربط و حذف دونوں کیسے جمع ہو سکتے ہیں؟ تنقید کا شوق پورا کرنے کے لئے؟ ایسی شوقین تنقید جو حقائق کو مسخ کرنے والی ہو ادب کا کوڑا کرکٹ ہے! اقبال کی فاری نظموں کے مطالعے کا اختتام ہمارے مغربی نقاد اس شان سے کرتے ہیں کہ ایک نظم ’’ حور و شاعر‘‘ کے اشعار نقل کرنے کے بعد تبصرہ فرماتے ہیں:ـ ’’ یہ رومانی نقطہ نظر ہے۔ پھر بھی اگر اقبال اسی نظریہ پر عمل کرتے اور پیغمبری کی تمنا نہ کرتے تو بہت اچھے شاعر ہوتے‘‘ شیلی نے کہا ہے: The desire of the moth for the star of the night for the morroe the devoting to something a far from the sphere of our sorrow (ص263-64) شیلی کا اقتباس جناب کلیم الدین احمد نے یہ دکھانے کے لئے پیش کیا ہے کہ ’’ حور و شاعر‘‘ میں جو ’’ رومانی نقطہ نظر‘‘ ہے وہ انگریزی شاعر سے مستعار ہے، چنانچہ اقتباس کے آخر میں کہتے ہیں: ’’ مشابہت ظاہر ہے۔‘‘ (ص264) یعنی اگر اقبال اسی طرح شیلی کی تقلید میں رومانی شاعری کرتے تو ہمارے مغربی نقاد کے خیال میں ’’ بہت اچھے شاعر ہوتے‘‘ جب کہ ابھی وہ ’’ شاعر‘‘ اچھے شاعر (ص262) ہیں۔ اس سے قبل بار ہا ہمارے نقاد نے اقبال کے بارے میں یہی بات فطرت کی شاعری کے ان آثار میں کہی سلسلے میں کہی ہے جو اقبال کی شاعری میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، لیکن اگر اقبال ورڈس ورتھ کی تقلید کرتے تو ’’ زیادہ اچھے‘‘ یا’’ بہت اچھے‘‘ شاعر ہوتے یا ہو سکتے تھے۔ اب یہ فیصلہ تو ہمارے مغربی نقاد کو ہی پہلے کرنا ہے کہ رومانی یا فطرت کی شاعری کے لئے اقبال کو شیلی کی تقلید کرنی چاہئے یا ورڈس ورتھ کی اور جب ہمارے نقاد اپنے خیال میں یک سو ہو جائیں گے تو پھر اقبال کی روح کو عالم بالا سے بلا کر ان سے فرمائش کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی ’’ پیغمبری کی تمنا‘‘ سے توبہ کریں اور مغربی نقاد کی تمنا کے مطابق فطرت کی یا رومانی شاعری پر اکتفا کریں، تاکہ فن کی آخرت میں ان کی نجات کا سامان ہو سکے، اگرچہ اس میں ایک اندیشہ یہ ضرور ہے کہ اگر اقبال شیلی کو عالم بالا میں بھول نہ گئے ہوں، جیسا کہ جناب کلیم الدین احمد دنیا میں فراموش کر گئے ہیں تو اقبال فرمائش کرنے والے سے پلٹ کر پوچھ سکتے ہیں کہ ’’ پیغمبری کی تمنا‘‘ تو شیلی نے بھی کی تھی اور انگریزوں نے اس تمنا وک اس کی شاعری میں حائل تصور نہ کیا، اب وہ کون انگریز ہے جو میری ہی تمنا کو شاعری میں حائل سمجھتا ہے؟ا س سوال کا جواب دینے کے لئے اگر جناب کلیم الدین احمد سامنے آئے تو ظاہر کہ اقبال انہیں زیادہ سے زیادہ اینگلز انڈین یا انڈو اینگلین سمجھیں گے اور اپنی آفادیت کے باوجود فطری طور سے اقبال کو جناب کلیم الدین احمد کے خیال کے استناد پر شبہہہ ہو گا اور اس صورتمیں خطرہ ہو گا کہ اقبال کی روح اہل دنیا کی ابلہ فریبی کو دیکھ کر تیزی سے عالم بالا کی طرف پلٹ جائے گی۔ خبر، اقبال کی روح اگر جناب کلیم الدین احمد کی بار بار کی تمنا کا جواب دینے کے لئے دنیا میں واپس آ گئی تو جناب کلیم الدین احمد ہی سمجھیں گے کہ وہ اس روح کا سامان کیسے کریں گے ہمیں تو ابھی یہ سمجھنا ہے کہ ہمارے مغربی نقاد نے سرے سے شیلی کا حوالہ ہی غلط دیا ہے۔ اقبال اور شیلی کی نظموں کے درمیان ’’ مشابہت ظاہر‘‘ تو کیا پوشیدہ بھی نہیں، شیلی کی سطروں کا ترجمہ ہے: پروانے کی تمنا ستارے کے لئے شب کی صبح کے لئے کسی چیز کی پرستش جو دور نہ ہو ہمارے عالم حزن سے اقبال کے متعلقہ اشعار کا ترجمہ یہ ہے: ’’ میں کیا کروں کہ میری فطرت قیام سے موافقت نہیں کر سکتی۔‘‘ میں لالہ زاد میں صبا کی طرح دل بے قرار رکھتا ہوں جب نظر کسی حسین محبوب پر پڑتی ہے تو اسی لمحہ میرا دل ایک حسین تر محبوب کے لئے تڑپنے لگتا ہے میں شرر سے ستارہ اور ستارہ سے بڑھ کر آفتاب تلاش کر رہا ہوں میں کسی منزل کا خیال نہیں رکھتا کہ قرار میں میری موت ہے میں اس شے کی انتہا چاہتا ہوں جس کی کوئی انتہا نہیں یہ طلب ایک بے صبر نگاہ اور آرزو مند دل کی ہے بہشت جاودواں میں عاشقوں کا دل مردہ ہو جائے گا وہاں نہ کوئی نوائے درد ہے، نہ غم، نہ غم گسار اقبال اور شیلی کے اشعار میں تفاوت ظاہر ہے۔ شیلی عالم حزن سے دور بھاگنا چاہتا ہے اور اقبال ایک عالم درد جاوداں کے آرزو مند ہیں۔ شیلی کا نقطہ نظر یقینا رومانی ہے، اس لئے کہ اس میں فرار کا احساس ہے ’’ کش مکش زندگی‘‘ سے وہ گریز ہے جسے اقبال نے شکست قرار دیا ہے اس کے برخلاف اقبال کا نقطہ نظر ایک ایسے حقیقت پسند کا ہے جو مسلسل جدوجہد کر کے خوب سے خوب تر کی جستجو میں زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ شیلی ایک منزل اور قرار کا متلاشی ہے جب کہ اقبال’’ کسی منزل کا خیال‘‘ تک نہیں رکھتے اور ’’ فرار میں موت‘‘ سمجھتے ہیں۔ پروانے کی انتہا ستارہ اور شب کی انتہا صبح ہے جہاں تک شیلی کی پرواز تخیل کا تعلق ہے مگر اقبال اس شے کی انتہا چاہتے ہیں جس کی کوئی انتہا نہے۔ دونوں نقطہ ہائے نظر میں فرق تو واضح ہے، مگر ہمارے مغربی نقاد کو دھوکہ شیلی کے بیان میں ایک لفظ ’’ دور‘‘ Afar سے ہوا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ دور کی چیز کی تمنا ہی ترقی کی تمنا ہے، لیکن انہوں نے غور نہیں کیا کہ ایسی معصوم تمنا تو بچے کی بھی ہوتی ہے۔ جب وہ ماں کی گود میں چاند کے لئے ہمکتا ہے۔ پھر موصوف نے اس پر بھی دھیان نہیں دیا کہ دوری بھی دنیا کے غموں سے مطلوب ہے، یعنی ایک فرار ظاہر ہے کہ ایسی تمنا صرف قرار اور آسودگی کی تمنا ہے، اسی لئے پروانہ ستارہ چاہتا ہے اور شب صبح اقبال کی آرزو اس سے بالکل مختلف ہے: ز شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتا ہے سر منزلے ندارم کہ بمیرم از قرارے یہاں شرر سے ستارہ تک جستجو نہیں ہے، اس سے آگے آفتاب کی تلاش ہے اور اس سے بھی آگے تلاش و جستجو ہی ہے، جس کی کوئی آخری منزل کوئی حد اور انتہا نہیں اس لئے کہ قرار موت ہے اور شاعر زندگی دوام کی طلب میں سرگرداں ہے۔ جو ’’ کوشش ناتمام ‘‘ سے میر آتی ہے: راز حیات پوچھ لے خضر خجسہ گام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے (کوشش ناتمام بانگ درا) یہ راز حیات نہ شیلی کو معلوم ہے نہ کلیم الدین احمد کو۔ یہ دونوں اپنے اپنے رومان میں سرمست ہیں۔ یہ چکور ہیں، پورب اور پچھم کی حدوں میں اسیر، جب کہ اقبال کا نصب العین یہ ہے: یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ (شاہین۔ بال جبریل) جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کی پچیس کامیاب فارسی نظموں کا ذکر کیا ہے۔ جن میں چار زبور عجم سے انتخاب کی گئی ہیں اور اکیس پیام مشرق سے۔ اس فہرست میں چند اور نظموں کا اضافہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے، جیسے: حیات جاوید بوئے گل محاورہ علم و عشق کبر و ناز محاورہ مابین خداو انسان شاہین و ماہی طیارہ یہ وہ نظمیں ہیں جو عمومی طور پر جناب کلیم الدین احمد کے اس مذاق سخن کے مطابق ہیں جس کی بناء پر وہ نظموں کا انتخاب کرتے ہیں، اور ان میں پیام کی لے ذرا دھیمی ہے اور افکار زیادہ تر بالواسطہ پیش کئے گئے ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد کی منتخب کردہ اکثر نظمیں پیام مشرق کے باب ’’ افکار‘‘ کے تحت درج ہیں اور میرا کیا ہوا اضافہ بھی اسی باب سے ماخوذ ہے۔ لیکن اقبال کی راست پیامی شاعری بھی کم شاعرانہ نہیں۔ پیام مشرق کے باب ’’ نقش فرنگ‘‘ سے نمونے کے طور پر میں دو پیامی نظموں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ تاکہ تنقید کی تنگ دامانی اور شاعری کی ہمہ گیری کا کچھ اندازہ ہو۔ ’’ پیام‘‘ ایک طویل یا متوسط نظم ہے اس میں نو بند ہیں اور ہر بند میں پانچ شعر 45اشعار کی اس نظم میں خاص کر فرنگ سے ہے: از من اے باد صبا گوے بداناے فرنگ عقل تابال کشود است گرفتار تراست اس آغاز کے بعد اسی بند کے دوسرے چار اشعار پہلے شعر کی تشریح و تفصیل اس طرح کرتے ہیں: برق را ایں بجگرمی زند، آں رام کند عشق از عقل فسوں پیشہ جگر وار تر است چشم جز رنگ گل و لالہ نہ بنید ورنہ آنچہ در پردہ رنگ است پدید ار تراست عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب این است کہ بیمار تو بیمار تراست دانش اندوختہ، دل زکف انداختہ آن زاں نقد گراں مایہ کہ در باختہ ظاہر ہے کہ یہ پیام مشرق ہے جو مغرب کے نام نشر کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا شاعر مشرق اسی موقف سے گفتگو کر رہا ہے جس پر وہ قائم ہے، یہ گویا عقل و عشق کا مکالمہ ہے جو نظم کی ساخت اور موضوع کی نوعیت کے لحاظ سے ایک آواز میں کیا جا رہا ہے اور وہی دونوں طرف کی باتیں کہتی ہے، جب کہ مکالمے کے لئے معمولاً دو آوازیں درکار ہوتی ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ نظم کا مقصد مباحثہ نہیں، ’’پیام‘‘ ہے اور وہ ایک طرف سے دوسری طرف دیا جا رہا ہے، مشرق مخاطب ہے اور مغرب مخاطب، حالانکہ عشق کا علمبردار جس وسیع النظری سے گفتگو کرتا ہے اس میں عقل کے بھی تمام دعاوی سمرات و اشارات بن کر آ جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو عقل و عشق کا یہ موازنہ: عقل خود بیں دگر و عقل جہاں بیں دگر است بال بلبل دگر و بازوے شاہیں دگر است دگر است آں کہ برد دانہ افتادہ زخاک آن کہ گیر د خورش از دانہ پرویں دگر است دگر است آں کہ زند سیز چمن مثل نسیم آں کہ در شدید ضمیر گل و نسریں دگر است دگر است آں سوے نہ پردہ کشادن نظرے ایں سوے پردہ گمان و ظن و تخمیں دگراست اے خوش آں عقل کہ پہناے دو عالم با اوست نورا فرشتہ و سوز دل آدم با اوست غور کیجئے کہ عقل کی اتنی رعایت کی گئی ہے کہ عقل کے مقابلے پر عشق کو ایک بہتر و بر تر قوت کی حیثیت سے لانے کی بجائے عقل ہی کی دو قسمیں کر دی گئی ہیں اور عشق کی ساری فضیلتیں ایک قسم کی عقل ہی سے منسوب کر دی گئی ہیں۔ا س طرز پیش کش میں عقل عدل، اعتدال اور عمیق نکتہ سنجی ہے، بہرحال مغرب اس عقل کا سرمایہ دار نہیں جو تعقل کی تمام وسعتوں، گہرائیوں اور بلندیوں پر محیط ہے، وہ محض ایک سطحی، پست اور محدود عقل پر نازاں ہے۔ اس لئے کہ اس کا ضمیر عشق کی اس قوت سے خالی ہے جو عقل کے تمام عناصر و مضمرات کو بروئے عمل لاتی ہے۔ اسی لئے شاعر مغرب کی عقل کے سامنے عشق کی وہ متبادل طاقت رکھتا ہے جو مشرق کے ضمیر میں پنہاں ہے: ماز خلوت کدہ عشق بروں تاختہ ایم خاک پارا صفت آئینہ پرداختہ ایم درنگر ہمت مارا کہ بہ دادے فگینم دو جہاں را کہ نہاں بردہ عیاں باختہ ایم پیش ما می گذرد سلسلہ شام و سحر بر آب جوئے رواں خیمہ برا فراختہ ایم در دل ما کہ بریں دیر کہن شبخوں ریخت آتشے بود کہ در خشک و ترا انداختہ ایم شعلہ بودیم، شکستیم و شرر گردیدیم صاحب ذوق و تمنا و نظر گردیدیم اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ گرچہ مشرق میں عشق کی اصلی کیفیات روبہ زوال ہو چکی ہیں مگر زمانے کا تقاضا اور دنیائے انسانیت کا مطالبہ یہ ہے کہ مشرق بیدار ہو اور عصر حاضر کی عقل کو عشق کا پیغام دے، تاکہ عالم میں ایک انقلاب ہو اور ایک نئی تعمیر کا سامان ہو سکے۔ چنانچہ ایک بند اس شعر پر ختم ہوتا ہے: وقت آن است کہ آئین دگر تازہ کنیم لوح دل پاک بشوئیم و ز سر تازہ کنیم اور دوسرا بند اس شعر پر: چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پئے تعمیر جہان دگر است حال کی تمام خرابیوں کے باوجود شاعر کو امید ہے کہ مستقبل بہتر ہو گا اور ایک ایسا انقلاب ہو کر رہے گا جس کی قیادت مشرق کا عشق کرے گا اور مغرب کی عقل اس کے تابع ہو گی۔ چنانچہ نظم اس رجائی پیشین گوئی پر ختم ہوتی ہے: زندگی جوے روان است و رواں خواہد بود ایں مے کہنہ جوان است و جواں خواہد بود آنچہ بوداست و نباید زمیاں خواہد رفت آنچہ بایست و نبود است ہماں خواہد بود عشق از لذت دیدار سراپا نظر است حسن مشتاق نمود است و عیاں خواہد بود آن زمینے کہ برو گریہ خونین زدہ ام اشک من در جگرش لعل گراں خواہد بود مژدہ صبح دریں تیرہ شبانم دادند شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند زیر بحث نظم کے تمام بندوں اور شعروں میں جو شعریت ہے وہ محتاج تبصرہ نہیں، جس شخص کو بھی فارسی زبان اور شاعری کا کچھ ذوق ہے وہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اقبال کا کھلا پیام بھی شاعرانہ احساسات و محاورات سے لبریز ہے یہی دنیائے شاعری میں اقبال کا امتیاز و تفوق ہے۔ جہاں دوسرے عالمی شعراء کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے وہاں بھی اقبال کی شاعری کا دریائے لطافت اپنی تمام وسعتوں اور گہرائیوں کے ساتھ موجزن ہے۔ یہ نظم ایک نمونہ ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کہ اقبال کی پیامی شاعری شاعری ہے، زبردست شاعری ہے، دنیا کی عظیم ترین شاعری ہے۔ اب ایک مکالماتی نظم ’’ موسیولینن و قیصر ولیم‘‘ میں ’’ قیصر ولیم‘‘ کا جواب سنئیے: گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست طواف اندر سرشت برہمن ہست دمادم نوخداونداں تراشد کہ بیزار از خدایان کہن ہست زجور رہزنان کم گو کہ رہرو متاع خویش را خود راہزن ہست اگر تاج کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہادر انجمن ہست ہوس اندر دل آدم نہ میرد ہماں آتش میان مرزغن ہست عروس اقتدار سحر فن را ہماں پیچاک زلف پر شکن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست ایک خالص سیاسی موضوع پر، جس میں شہنشاہیت اور اشتراکیت کے درمیان مکالمہ و مقابلہ ہے، اس سے بہتر شاعری کیا ہو سکتی ہے؟ پھر سات اشعار اور چودہ مصرعوں میں خیالات کا ارتقاء و عروج جس ربط و تسلسل اور خوبصورتی کے ساتھ ہوا ہے وہ بھی اپنی جگہ پیامی شاعری کا ایک نمونہ ہے۔ آخری دو شعر عصر حاضر کی پوری سیاست کو ایک حسین استعاراتی و اساطیری رنگ میں برہنہ کر دیتے ہیں: عروس اقتدار سحر فن را ہماں پیچاک زلف پر شکن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست ان شعروں میں اجتہاد فن کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ شیریں فرہاد کے افسانے کو ایک نئے رنگ میں پیش کر کے پرانے اساطیر سے نئی علامت تراشی گئی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ’’ ناز شیریں‘‘ کا خریدار خسرو ہے۔ لیکن یہاں شاعر کہتا ہے کہ خریدار فرہاد بھی ہو سکتا ہے، اصل چیز ’’ ناز شیریں‘‘ ہے جو یہاں عروس اقتدار کی علامت ہے، جس کے پیچاک زلف پر شکن کو سیاست کے ایک خاص اسلوب شہنشاہیت یا سامراج کا مستقل، آفاقی اور لازوال وصف قرار دیا گیا ہے، جس کی شکلیں اور ادائیں زمانے کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہیں مگر اس کی اصلیت و حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ دنیا پرست اور مادہ پرست اقتدار بہر حال سامراجی اہلیت رکھتا ہے، چاہے تاریخ کے پردے پر وہ جاگیر داری کی صورت میں ظاہر ہو، یا شہنشاہیت کی، یا سرمایہ داری کی یا جمہوریت کی یا اشتراکیت کی صورتوں میں: زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی اسی خیال کو دوسری طرح اس شعر میں ادا کیا گیا ہے: نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست اس طرح کوہکن ہو یا خسرو، شیریں اقتدار کے دیوانے دونوں ہیں، یہاں خسرو شہنشاہیت کی تاریخی علامت ہے اور کوہکن اپنے معنے اور پیشے کے لحاظ سے اشتراکیت کی علامت، یعنی بندۂ مزدور کا بدل بن جاتا ہے۔ یوں اقبال کے انفرادی تجربے کی کیمیا نے روایت کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے اور اس کے مفہوم میں اضافہ کر دیا ہے یہ ہے ایک مجتہد فن کار کا کمال شاعرانہ۔ ٭٭٭ 10 اقبال کی اردو اور فارسی غزلیں جناب کلیم الدین احمد بانگ درا کی ایک غزل پیش کر کے اس کے مندرجہ ذیل شعر کے بارے میں تبصرہ کرتے ہیں: ساماں کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی مقصد ہے اگر منزل غارت گر ساماں ہو ’’ یہ غزل کا شعر نہیں معلوم ہوتا۔ اس میں ایک پیام ہے ولولہ انگیزی ہے، زور ہے۔‘‘ (ص267) شاید اقبال۔۔۔۔ ایک مطالعہ کے پیش لفظ میں جناب کلیم الدین احمد نے تغزل کی بحث اس لئے چھیڑی تھی کہ آگے چل کر زیر نظر باب میں انہیں اقبال کی غزلوں کی توصیف تغزل سے الگ ہو کر کرنی تھی۔ ’’ یہ غزل کا شعر نہیں معلوم ہوتا۔‘‘ تو غزل کا شعر کیا ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب جناب کلیم الدین احمد ہی سے سنئیے: ’’ جیسا کہ میں نے بار بار کہا ہے غزل میں ریزہ خیالی ہوتی ہے اور یہ ریزہ خیالی پراگندگی پیدا کر سکتی ہے اور کرتی ہے۔‘‘ (ص267) یہ غزل کی تعریف ہوئی، لیکن جناب کلیم الدین احمد نے پوری غزل نہیں، اس کے ایک شعر کے متعلق کہا ہے کہ وہ ’’ غزل کا شعر نہیں معلوم ہوتا‘‘ حالانکہ جس غزل سے یہ شعر لیا گیا ہے وہ پوری کی پوری مذکورہ بالا تعریف کے مطابق غزل نہیں معلوم ہوتی۔ لہٰذا محولہ بالا شعر میں غزلیت کے فقدان کی جوہ کچھ اور بھی ہے اور وہ بقول جناب کلیم الدین احمد یہ ہے: ’’ اس منیں ایک پیام ہے، ولولہ انگیزی ہے، زور ہے‘‘ معلوم ہوا کہ غزل کے شعر میں پیام نہیں ہونا چاہئے ولولہ انگیزی نہیں ہونی چاہئے، زور نہیں ہونا چاہئے، جب کہ پوری غزل میں۔ ’’ ریزہ خیالی ہوتی ہے اور یہ ریزہ خیالی پراگندگی پیدا ہو سکتی ہے اور کرتی ہے۔‘‘ غزل اور اس کے اشعار کی اس تعریف کے باوجود جناب کلیم الدین احمد اقبال کی غزلوں کی توصیف اس طرح کرتے ہیں: ’’ ہاں اگر شاعر کی کوئی خاص شخصیت ہو، اگر اس کے خیالات میں ہم آہنگی ہو۔ اگر کامل غور و فکر کے بعد وہ کچھ کہنا چاہتا ہے تو پراگندگی سے نجات مل سکتی ہے۔ وہ ایک عقبی زمین پیدا کر سکتا ہے اور یہ عقبی زمین خیالات میں ربط باہمی پیدا کر سکتی ہے انہیں بلور کی سی صفائی دے سکتی ہے۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ اقبال نے یہ مشکل آسان کر دی ہے۔ ان کے خیالات کی ایک عقبی زمین ہے اور ہر شعر اس عقبی زمین سے متعلق ہے اور اس وجہ سے ہر شعر میں بلور کی سی صفائی ہے، جان ہے اور شعروں میں ربط ہے۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیالات ایک مرکز کے گرد چکر کھاتے ہیں اور مرکزیت انہیں پراگندگی سے بچاتی ہے۔ اسی مرکزیت کی وجہ سے شعروں میں ربط پیدا ہو جاتا ہے اور اکثر مسلسل غزل کی صورت پیدا ہو جاتی ہے، کم سے کم کئی اشعار ایک سلسلہ خیال میں بندھ جاتے ہیں۔‘‘ (ص267-68) ان نکتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کی غزلوں کی توصیف در حقیقت غزلوں کی حیثیت سے نہیں کی ہے، بلکہ اسی لئے کی ہے کہ ان غزلوں میں، ان کے خیال میں، تغزل کی کمی بلکہ فقدان ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ریزہ خیالی اور پراگندگی گویا نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ جناب کلیم الدین احمد کے نکتہ نظر سے اقبال کی غزل کی خوبی یہ ہے کہ وہ ’’ مسلسل غزل‘‘ ہے۔ بات یہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن اسی معنے میں قرار دیا ہے کہ اس کے اشعار میں باہمی ربط نہیں، تسلسل نہیں، ترتیب و تنظیم نہیں، جب کہ موصوف کو یہ ساری صفات اقبال کی غزلوں میں مل جاتی ہیں، لہٰذا وہ ان کو مہذب مان کر ان کا خیر مقدم کرتے ہیں، حالانکہ وہ اقبال کی مسلسل غزل کی مثال پیش کر کے یہ بھی کہتے ہیں: ’’ ظاہر ہے کہ یہ کوئی نظم نہیں‘‘ (ص268) لیکن ساتھ ساتھ یہ ارشاد کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں: ’’ لیکن شعروں میں ایک قسم کا ربط ہے۔‘‘ (ص268) ظاہر ہے کہ دونوں بیانات کچھ متضاد سے ہیں۔ ایک غزل ’’ کوئی نظم نہیں‘‘ ہے اور اس کے شعروں میں ’’ ایک قسم کا ربط‘‘ بھی ہے۔ ان بیانات میں تطبیق کی صرف ایک صورت ہے، وہ یہ کہ اقبال کی غزل مکمل نظم تو نہیں ہے، مگر اس میں نظمیت پائی جاتی ہے۔ جناب کلیم الدین احمد کا مطلب صریحاً یہی ہے وہ اقبال کی غزلیات کی نظمیت ہی کو اس کی خصوصیت اور خوبی تصور کرتے ہیں۔ غزل کے بارے میں یہ نقطہ نظر اردو تنقید کے سامنے ایک مسئلہ بن کر آتا ہے اس کے مضمرات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزل کو صرف ’’ مسلسل غزل‘‘ ہونا چاہئے اور اردو غزلیں عام طور پر مسلسل نہیں ہوتیں، سوا اقبال کی غزل کے، لہٰذا غزل کا پورا سرمایہ: ایں دفتر پارینہ غرق مے ناب اولیٰ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقبال کی غزل کے پیچھے کوئی روایت نہیں ہے، اسی لئے وہ تغزل سے عاری اور تسلسل سے مزین ہے۔ اس موقف کا سرسری تجزیہ بھی یہ بتانے کے لئے کافی ہو گا کہ اس طرح نہ صرف یہ کہ تاریخ ادب کے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اقبال کی غزل کی توصیف بھی ایک غلط بنیاد پر کی گئی ہے، اور اس صورت حال کی تہ میں لطیفہ یہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے تنقید میں دعواے اجتہاد کے باوجود غزل کے روایتی تصور ہی کو غزل کا صحیح تصور تسلیم کر لیا ہے، اور اب اس سے گریز و احتراز یا اس کی مذمت کو اپنا تنقیدی شعار بنا لیا ہے، اس کی بجائے کہ اس روایتی تصور پر تنقید کر کے اس کی اصلاح کرتے۔ فارسی اور اردو غزل کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس صنف سخن کی عظیم الشان روایت میں ہر قسم کے عناصر پائے جاتے ہیں اور اس روایت میں ہیئت اور ذہنیت دونوں کا تنوع موجود ہے۔ اقبال سے پہلے بھی فارسی و اردو دونوں میں مسلسل غزلیں بھی کہی گئی ہیں اور تغزل کے مفہوم میں پیام ولولہ انگیزی اور ’’ زور‘‘ کی کیفیات بھی شامل رہی ہیں۔ مولان روم کی اس مشہور غزل کو اقبال نے جاوید نامہ میں نقل بھی کیا ہے: بکشاے لب کہ قند فروانم آرزوست بنماے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست اس غزل میں بھی ایک قسم کا ربط، پیام اور ولولہ انگیزی اور ’’ زور‘‘ ہے یہ کیفیت کم و بیش حافظ کی غزلوں میں بھی ہے، غالب کی اردو غزلوں میں بھی ہے اور دوسرے اردو شعراء کے دوائن میں بھی اس کے آثار جا بہ جا پائے جاتے ہیں رہی یہ بات کہ ہر شاعر اقبال نہیں ہے اور نہ اس کے پاس اقبال کا پیغام فکر اور نظام فن ہے، تو یہ ایک واقعہ ہے ۔ بہرحال شاعری کی تاریخ میں اقبال کا ایک امتیاز اور اجتہاد ہے۔ لیکن ان کی انفرادیت کا تجربہ ایک روایت ہی کے پس منظر میں بروئے عمل آیا ہے۔ اس روایت کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے تغزل کہا جاتا ہے۔ یہ تغزل اقبال کی غزلوں میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ اقبال کے اشعار میں سوز و گداز کا وہ سرمایہ بھی فراواں ہے جسے مایہ تغزل سمجھا جاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اقبال نے تغزل کے مفہوم میں توسیع کی ہے اور سوز و گداز کے مضمرات میں اضافہ کیا ہے، انہوں نے بہت سی وہ باتیں خدا سے کی ہیں جو عام شعراء عورتوں سے کیا کرتے ہیں، ان کی محبت عورت سے کم اور انسانیت سے زیادہ ہے۔ ان کا عشق ایک اصولی مقصد سے زیادہ اور شخصی حسن سے کم ہے، ان کے عشق و محبت میں شکنگی و افتادگی کی بجائے فتح مندی و سربلندی ہے۔ لیکن خدا، انسانیت، مقصد، فتح مندی اور سر بلندی کے ساتھ وابستہ احساسات و جذبات اقبال کے یہاں اتنے شدید، لطیف اور عمیق ہیں کہ ان کا کلام سوز و گداز کا ایک بحر ذخار بن گیا ہے۔ اقبال کی غزل کی ساری ولولہ انگیزی ان کے تغزل کے مخصوص عناصر کی مرہون منت ہے: سوز و گداز حالتے است! بادہ زمین طلب کنی پیش تو گریباں کنم مستی ایں مقام را (زبور عجم) ٭٭٭ یہ کون غزلخواں ہے پر سوز و نشاط انگیز اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز (بال جبریل) یہ تغزل کی تاثیر کا نقطہ عروج ہے، لیکن یہ فارسی و اردو غزلوں کی روایت میں اجتہاد کا بھی نقطہ عروج ہے۔ اس سے تغزل کی نفی نہیں ہوتی، اس میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی اقبال ہی کر سکتا ہے، مگر مشرقی شاعری کی روایت ہی میں کر سکتا تھا۔ مغربی شاعری کا پورا دفتر اس پر سوز و نشاط انگیز، غزلخوانی سے خالی ہے۔ جناب کلیم الدین فطری طور پر تغزل کی اس تاریخ اور تاثیر سے بے خبر ہیں۔ اس لئے ان کی مذمت غزل بھی غلط وجوہ سے ہوتی ہے اور توصیف اقبال بھی غلط وجوہ سے۔ جہاں تک ہیئت غزل میں ربط و تسلسل کا تعلق ہے، یہ پوری بحث ہی فضول، لغو اور عبث ہے۔ اقبال کی غزلوں میں ربط و تسلسل ہے تو ٹھیک ہے اور ایک واقعے کے طور پر اس کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے، اس کے اسباب و نتائج کی تشریح بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کو بجائے خود غزل کی خوبی قرار دینا یکسر غلط ہے۔ اچھی غزل صرف و مسلسل غزل نہیں ہوتی، غیر مسلسل بھی ہو سکتی ہے، غزل کے منفرد اشعار کو ’’ ریزہ خیالی‘‘ اور’’ پراگندگی‘‘ قرار دینا صریح زیادتی اور حس لطیف کا فقدان نیز ادبی شعور کی مفلسی ہے۔ غزل غزل ہے، نظم نہیں ہے، اور تغزل کو تنظیم کا پابند کرنے کی کوشش نسیم و صبا کے جھونکوں کو پابہ زنجیر کرنے کی سعی لاحاصل ہے۔ چنانچہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کی غزلوں میں تسلسل کی کیفیت کوئی ہیئت کی تنظیم نہیں ہے، بلکہ صرف ان کے احساسات، جذبات اور خیالات کی تندی، تیزی اور روانی کا اشاریہ ہے، یعنی فنی اعتبار سے ایک اتفاقی امر ہے، فکر اعتبار سے اس کی معنویت و اہمیت جو بھی ہو۔ اب دیکھئے کہ جناب کلیم الدین احمد غزل اور خاص کر اقبال کی غزل کی کتنی واقفیت رکھتے ہیں۔ بال جبریل میں شروع کی سولہ غزلوں کے بعد ایک وقفہ ہے، جس میں اقبال نے حکیم سنائی کے مزار پر اپنے تاثرات تین حصوں میں بیان کئے ہیں اور ان پر خود ہی یہ نوٹ لگایا ہے: ’’ اعلیٰ حضرت شہید امیر المومنین نادر شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کے لطف و کرم سے نومبر1933ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنویؒ کے مزاد مقدس کی زیارت نصیب ہوئی ۔ یہ چند افکار پریشاں جن میں حکیم ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے، اس روز سعید کی یادگار میں سپرد قلم کئے گئے:‘‘ ما آز پے سنائی و عطا آمدیم ان چند افکار پریشاں کا مطالعہ و تجزیہ جناب کلیم الدین احمد اس طرح شروع کرتے ہیں: ’’ اب ان کی ایک لمبی غزل سے کچھ اشعار پیش کئے جا رہے ہیں، جن سے اقبال کے خیالات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔‘‘ (ص277) اس کے بعد اپنے خیال میں لمبی غزل کو جناب کلیم الدین احمد نے تین حصوں میں بانٹ دیا ہے، پھر ہر حصے پر الگ الگ تبصرہ کیا ہے۔ لیکن اس معاملے میں انہوں نے یہ عجیب و غریب حرکت کی ہے کہ اقبال نے اپنے ’’ چند افکار پریشاں‘‘ کے جو تین حصے واقعی کئے ہیں اور وہ بال و جبریل میں اسی طرح درج ہیں انہیں جوں کا توں پیش کرنے کی بجائے بیچ کے پورے دوسرے حصے کو اڑا دیا ہے اور اصل کے صرف دو، پہلے اور تیسرے حصے کو ملا کر اس طرح تین حصوں میں تقسیم کیا ہے گویا اصل تین حصے یہی ہیں۔ اس تحریف اور تلبیس کا مقصد کیا ہے اور جواز کیا؟ ایسی بد دیانتی، بے ایمانی اور بد مذاقی کا کوئی جواز تو ہو ہی نہیں سکتا، دیکھنا چاہئے کہ مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ان تبصروں سے مل جاتا ہے جو موصوف نے اپنے بنائے ہوئے ہر حصے پر کئے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’ پہلے حصے میں اقبال کا نظریہ خودی ہے جس سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں اور یہی خودی توحید ہے جسے ہم آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں اقبال سمجھتے ہیں اور اسی لئے وہ نگاہ پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔‘‘ (ص279) ’’ دوسرے حصہ میں اقبال کا وہ Questionable نظریہ ہے جس نے انہیں شاعری کی صراط مستقیم سے بہکا دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ غلامی ذوق حسن و زیبائی سے محرومی کا دوسرا نام ہے۔ آزاد بندے جسے زیبا کہیں وہی زیبا ہے کیونکہ غلاموں کی بصیرت پر بھروسا ممکن نہیں اور صرف مردان حر کی آنکھ بینا ہے اس میں بہت سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔‘‘ غلامی کیا ہے؟ مرد حر کون ہے؟ حسن کا کیا Conceptionہے، ذوق حسن و زیبائی کسے کہتے ہیں؟ (ص279) ’’ رہا تیسرا حصہ تو وہ Orthodox مسلمانوں کی نظر میں صرف Questionable نہیں بلکہ کفر ہے۔ وہ نگاہ عشق و مستی میں ہو یا نگاہ باخبر میں پیغمبر اسلام کو وہی اول، وہی آخر، وہی قرآن، وہی فرقاں، وہی یسین، وہی طہٰ کہنا درست نہیں۔۔۔۔ میں یہ ملایانہ اعتراض نہیں کرتا لیکن اقبال خود بھی اور دوسرے لوگ بھی ان کے خیالات کا سرچشمہ اسلام کو بتاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بہت سے خیالات Unislamic ہیں۔ اس سے ان کی شاعری پر اثر نہیں پڑتا۔ اسی لئے میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ شاعری کیسی ہے؟ خیالات، فلسفہ، سائنس بدلتے رہتے ہیں لیکن شاعری نہیں بدلتی۔‘‘ (ص279-80) تو ظاہر ہو گیا کہ ہمارے ناقد نے لمبی غزل کا انتخاب اور اس کی تین حصوں میں من مانی تقسیم صرف اس لئے کی کہ اقبال کے تغزل یا شاعری پر نہیں، ان کے افکار و خیالات پر تنقید کریں۔ اس منفی تنقید کا مطلب یہ بھی ہے کہ اقبال کے بعض اہم اور معروف و مقبول تصورات پر ضرب لگا کر ان کی فکر کی مذمت کی جائے، اور اس طرح ان کے چاہنے والوں کے درمیان بھی ان کی تصویر بگاڑی جائے۔ بہرحال، ہمارے نقاد کہتے ہیں ’’ یہی خودی توحید ہے جسے ہم آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں اقبال سمجھتے ہیں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کے خیال میں اقبال کے نظریہ خودی اور اسلام کے تصور توحید کے درمیان تصادم ہے، چنانچہ ’’ ہم آپ‘‘ یعنی مسلمان تو ایسے نظریہ خودی کو قبول کرنا تو کجا، اسے سمجھ بھی نہیں سکتے، اور اقبال گویا اس معاملے میں عام مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں اور ان کے خیالات ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل فہم ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد نے یہ سارا مغالطہ ’’ ہم آپ ‘‘ سے پیدا کیا ہے، اگر وہ ’’ میں‘‘ یا صرف’’ ہم‘‘ کہتے تو بات دوسری ہوتی اور بس یہ معلوم ہوتا کہ نقاد کے نزدیک شاعر کا نظریہ خودی اسلام کے تصور توحید سے متصادم ہے، جبکہ ہم آپ کہہ دینے سے بداہتہ تمام وہ لوگ شامل ہو گئے جو توحید کے کلمہ گو ہیں۔ ذرا غور کیجئے اس فتنہ پردازی پر کہ اقبال کا نظریہ خودی اسلام کے تصور توحید سے متصادم ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہو تو پھر اقبال کا سارا نظام فکر ہی برہم ہو جاتاہے لیکن یہ بات صریحاً غلط ہے۔ بقول جناب کلیم الدین احمد اگر ’’ اقبال کا نظریہ خودی‘‘ وہ ہے ’’ جس سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں‘‘ تو اس میں تصور توحید کے خلاف کون سی بات ہے؟ بلکہ یہ تو عین توحید ہے کہ انسان اپنی حقیقت یعنی خلافت الٰہی کو پہچان کر کائنات کے طلسم رنگ و بو کو توڑنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے، اس لئے کہ وہ صرف رب العالمین کا بندہ ہے اور خدا نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے، اور تمام مخلوقات، حتیٰ کہ چاند اور سورج کو اس کے لئے مسخر کر دیا ہے، لہٰذا کوئی بھی مخلوق نہ تو خدا کی خدائی میں شریک ہو سکتی ہے، نہ اس کو انسان اور خدا کے درمیان پردہ بن کر حائل ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے، چنانچہ شرک سے جس طرح خدا کی خدائی میں خلل واقع ہوتا ہے اسی طرح انسان کی خودی بھی اس سے مجروح ہوتی ہے اور اس کی خلافت و اشرفیت پر اس سے حرف آتا ہے۔ ایک خدا، ایک انسان، اور انسان کی ترقی کی کوئی حد نہیں۔ اس کے سوا کہ وہ خدا کا بندہ ہے، اور یہ بندگی ہی ہے جس کے بل پر وہ ارتقاء کا انتہائی مرحلہ طے کر سکتا ہے، اس کی معراج ہو سکتی ہے، وہ ستاروں اور سیاروں سے بہت آگے، سدرۃ المنتہیٰ تک جا سکتا ہے، جیسا کہ معراج النبیؐ کے عظیم الشان تاریخی واقعہ سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات (نماز۔ ضرب کلیم) ٭٭٭ یہ بندگی خدائی، وہ بندگی خدائی یا بندۂ خدا بن یا بندہ زمانہ (غزل۔ بال جبریل) ٭٭٭ سبق مال ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں سے گردوں (غزل۔ بال جبریل) ٭٭٭ ناوک ہے مسلمان، ہدف اس کا ہے ثریا ہے سر سرا پر وہ جاں نکتہ معراج (معراج۔ ضرب کلیم) ٭٭٭ یہ خیالات بیک وقت خودی اور توحید دونوں کے بنیادی نکات ہیں اس طرح اقبال کا نظریہ خودی عین عقیدہ توحید ہے، اور اس کو ہم بہت صاف صاف اور بہ خوبی سمجھتے ہیں، لیکن افسوس کہ آپ بالکل نہیں سمجھتے اور نہ شاید سمجھنا چاہتے ہیں۔ جناب کلیم الدین احمد کا ارشاد ہے کہ زیر نظر لمبی غزل کے ’’ دوسرے حصے میں اقبال کا وہ Questionable نظریہ ہے جس نے انہیں شاعری کی صراط مستقیم سے بھٹکا دیا۔‘‘ اور موصوف کے لفظوں میں یہ گمراہ کن نظریہ یہ ہے کہ ’’ غلامی ذوق حسن و زیبائی سے محرومی کا دوسرا نام ہے۔‘‘ یعنی اقبال نے اپنی شاعری میں انگریزی سامراجی، برطانوی شہنشاہیت و نو آبادیت اور اس سے پیدا ہونے والی ایشیا و افریقہ بشمول ہندوستان کی غلامی پر جو شدید احتجاج کیا، پھر اس غلامی کو ختم کرنے کے لئے حریت و انقلاب کا جو پیغام دیا وہ جناب کلیم الدین احمد کے نزدیک ایک Questionable یعنی اردو میں قابل اعتراض نظریہ ہے اور قابل اعتراض ہی نہیں، اتنا غلط اور گمراہ کن ہے کہ اس نے اقبال کو ’’ شاعری کی صراط مستقیم سے بھٹکا دیا‘‘ جناب کلیم الدین احمد کی اس منطق کو پڑھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ اقبال نے بالکل صحیح کہا تھا کہ ’’ غلامی ذوق حسن و زیبائی سے محرومی کا دوسرا نام ہے۔‘‘ اگر ایسا نہیں ہوتو تو کسی کلیم الدین احمد کی ایسی غلامانہ تنقید کیسے دنیا کے سامنے آتی جسے ’’ حسن و زیبائی‘‘ کا ’’ ذوق‘‘ اتنا بھی نہیں کہ حریت کی قدر جمال کو سمجھ سکے؟ موصوف پوچھتے ہیں: ’’ غلامی کیا ہے؟‘‘ کوئی بتاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟ غلامی کی سب سے بڑی قسم ذہنی غلامی ہے، جسے اقبال نے اس طرح واضح کیا ہے: حلقہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق (اجتہاد۔ ضرب کلیم) جب کسی قوم پر دوسری قوم کی غلامی مسلط ہو جاتی ہے تو غلام قوم کے افراد صرف حاکم قوم کے فکر و نظر کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور ان کے اندر جرأت نہیں ہوتی کہ حاکم قوم کے پیش کئے ہوئے افکار و تصورات کی تحقیق و تنقید کر سکیں۔ بلکہ وہ آنکھ بند کر کے حاکموں کے علوم و فنون اور تہذیب و معاشرت کے تمام تصورات کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ حاکم کے فرمودات کو وحی الٰہی اور اس کے ارشادات کو دین و ایمان سمجھتے ہیں۔ اس تقلیدی ذہنیت سے قوموں میں جمود پیدا ہوتا ہے اور ان کا زوال موت کی حد تک پہنچ جاتا ہے: بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوے کم آب اور آزادی میں بحر بیگراں ہے زندگی (خضر راہ۔ بانگ درا) موصوف پوچھتے ہیں: ’’ مرد حر کون ہے؟‘‘ مرد حر وہ ہے جو کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو۔ جو ہر چیز پر آزاد ذہن کے ساتھ غور و فکر کرے جو کسی کی ظاہری چمک و دمک اور مادی طاقت سے مرعوب نہ ہو، جو اپنی رائے میں کسی دوسرے انسان کا پابند محض نہ ہو جس کے پسند و نا پسند اور رد و قبول کا اپنا معیار ہو، جو غیرت مند، خود دار اور ہمت ور ہو، جو اجتہاد و انقلاب کی جرأت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر جناب کلیم الدین احمد غلامی میں مبتلا ہیں اور اقبال مرد حر ہیں۔ اس لئے کہ ہمارے نقاد نے اپنی عقل مغرب، یورپ اور انگلستان کے ہاتھ گرو رکھ دی ہے جب کہ ہمارا شاعر مغرب، یورپ اور انگلستان کے بڑے بڑے مفکر اور مدبر کو چیلنج کر کے عقلی طور پر زیر کر سکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ’’ حسن کا کیاConception ہے۔ ذوق حسن و زیبائی کسے کہتے ہیں؟‘‘ تو ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب مختلف اہل نظر کے نزدیک مختلف ہو گا۔ کوئی کہے گا خوبصورتی یا تناسب اعضاء کوئی کہے گا نیک سیرتی یا استقامت کردار۔ اس سلسلے میں کوئی بھی جواب محیط جامع اور قطعی و آخری نہ ہو گا، بلکہ ہر جواب اضافی، محدود اور غیر معین اور عارضی ہو گا۔ حالات کے لحاظ سے جواب میں تنوع بھی ہو گا۔ ایسا ہی ایک جواب اقبال کا بھی ہو سکتاہے خاص کر غلامی اور حریت کے سیاق و سباق میں چنانچہ اقبال کے دو مناسب موقع اشعار سنئیے: مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر ترا نفس ہے اگر نغمہ نہ ہو آتش ناک (جلال و جمال۔ ضرب کلیم) حسن و زیبائی کی بہ تعریف اقبال کے نظریہ آزادی اور تصور حریت کے بالکل مطابق ہے اور یقینا اس غلامانہ و مریضانہ تعریف سے مختلف ہے جو صرف نزاکت و نرمی میں حسن و زیبائی دریافت کرتی ہے۔ اقبال کے چاروں مصرعوں کے نکات کو مرتب کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اول تو پہلے شعر میں جمال و زیبائی کی اس فرسودہ تعریف کو رد کر رہے ہیں۔جو صرف نزاکت اور اس طرح کمزوری پر زور دیتی ہے اس کے بعد دوسرے شعر میں وہ اس عدم توازن کو دور کرنا چاہتے ہیں جو محض حسن و جمال کی مبالغہ آمیز مدح سرائی سے پیدا ہوتا ہے، چنانچہ وہ جمال کا انکار کرتے ہیں، صرف اس کو جلال کے ساتھ ملا کر ایک معتدل تصور پیش کرتے ہیں: نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر یہ ایک مرکب، متوازن، معقول اور موثر نقطہ نظر ہے۔ اب یہ بھی دیکھئے کہ خودی، توحید، حریت اور حسن کے تصورات اقبال کے یہاں الگ الگ اجزائے پریشاں نہیں ہیں بلکہ ایک کلی، مرکب اور جامع اور عملی نظریہ حیات کے عناصر اور باہم و گر پیوستہ ہیں۔ مشتے نمونہ کے طور پر ضرب کلیم کی ایک نظم ’’ نکتہ توحید‘‘ کے یہ اشعار دیکھئے: سرور جو حق و باطل کی کار زار میں ہے تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے جہاں میں بندم حر کے مشاہدات ہیں کیا تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہئے اسی سلسلے میں یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیے: عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت، عرب کا سوز دروں (مدنیت اسلام۔ ضرب کلیم) اس لئے کہ: حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں (ایضاً) یہ بھی دیکھئے: آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات (ہندی مکتب۔ ضرب کلیم) بات یہ ہے کہ سارا معاملہ نقطہ نظر اور طریق فکر کا ہے جو اگر درست ہو تو خودی، توحید، حریت اور حسن کے تصورات کے بارے میں نہ تو ایک صاحب نظر کو مغالطہ ہو گا نہ اسے لایعنی سوالات کر کے خود کو اور دوسروں کو شکوک و شبہات میں الجھانے کی ضرورت ہو گی: آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات یہ شعر جناب کلیم الدین احمد کے تمام سوالات کا جواب ہے۔ اگر ان کا ذہن مغرب کا محکوم اور ان کا اندیشہ گرفتار خرافات نہ ہوتا تو وہ عجیب و غریب جسارت نہیں کرتے کہ اقبال کے پیام حریت کو Objectionable نظریہ قرار دے کر ایسا لغو خیال ظاہر کریں: ’’ جس نے انہیں شاعری کی صراط مستقیم سے بہکا دیا۔‘‘ اگر آزادی کی تڑپ اور انقلاب کی تمنا کسی شخص کو شاعری کی صراط مستقیم سے بہکا سکتی ہے تو جو شخص اس انسان کی فطری تڑپ اور تمنا کو گمراہ کن کہے اس کے بارے میں اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ’’ ذہنی غلامی نے اسے زندگی کی صراط مستقیم سے بہکا دیا ہے!‘‘ ایسے گم کردہ راہ شخص کی تنقید کیا اور اس کے سوالات کیا! یہاں ضرب کلیم سے اقبال کی ایک چھوٹی سی خوب صورت نظم نقل کرنے کو جی چاہتا ہے: یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکاراتی کچھ اور ہے نظر آتا ہے کاروبار جہاں نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی اسی نگاہ سے ہر ذرہ کو جنوں میرا سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی (نگاہ شوق) جناب کلیم الدین احمد کو یہ ’’ نگاہ شوق میسر نہیں‘‘ حالانکہ برصغیر میں ایک پوری قوم اس سے بہرہ ور ہو کر سزاوار کار فرمائی ہو چکی! موصوف کا تیسرا اعتراض جسے وہ خود ’’ ملایانہ اعتراض‘‘ کہتے ہیں نہایت دلچسپ گرچہ انتہائی عبرت خیز ہے۔ انہوں نے اقبال کے اس شعر پر کفر کا فتویٰ Orthodox مسلمانوں کی طرف سے لگا دیا ہے: نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسین، وہی طہٰ اور یہ نتیجہ بھی نکال لیا ہے: ’’ اقبال خود بھی اور دوسرے لوگ بھی ان کے خیالات کا سرچشمہ اسلام کو بتاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بہت سے خیالات Un-islamic ہیں۔‘‘ گزشتہ ایک باب میں دکھا چکا ہوں کہ Orthodox اسلام کے متعلق جناب کلیم الدین احمد کا مطالعہ کتنا سطحی اور ناکافی ہے۔ موجودہ اعتراض بھی اسلام کے ایسے ہی نیم ملایا نہ علم پر مبنی ہے اول تو معترض یہ بھول جاتے ہیں کہ جس لمبی غزل میں زیر نظر شعر واقع ہوا ہے اس پر لگائے ہوئے نوٹ میں اقبال نے وضاحت کر دی ہے: ’’ یہ چند افکار پریشاں، جن میں حکیم (سنائی) ہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی کی گئی ہے۔۔۔۔۔‘‘ دوسرے یہ کہ شعر کے پہلے ہی مصرعے میں صاف کہہ دیا گیا ہے: نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر یعنی اقبال کوئی شرعی عقیدہ نہیں بیان کر رہے ہیں، بلکہ بعض مجذوب صوفیا کا خیال پیش کر رہے ہیں، جو عشق و مستی میں پیغمبر اسلام کے ساتھ اپنی محبت میں غلو کرتے ہیں اور ’’ اول و آخر‘‘ سب کچھ حضورؐ ہی کو سمجھنے کا اعلان کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ دوسرے مصرعے وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسین وہی طہٰ میں پہلے مصرعے کے ’’ وہی اول، وہی آخر‘‘ کی طرح Un-orthodox بات نہیں کہی گئی ہے۔ رسول کریم ؐ کی زندگی قرآن مجسم تھی اور آپ کے اقوال و اعمال حق و باطل کے درمیان فرقان تھے، یہ بالکل Orthdox اسلامی عقیدہ ہے۔ رہے قرآن شریف کی دو سورتوں کے ابتدائی حروف مقطعات یسین اور طہٰ۔ تو بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ان میں براہ راست خطاب رسول اکرمؐ کی ذات ہی سے ہے۔ اس مختصر تشریح سے واضح ہو گیا کہ اقبال اسلام کا مکمل مطالعہ کر چکے ہیں اور دینیات و الاہیات کے موضوعات پر ان کی نظر گہری، وسیع اور پختہ تھی، جب کہ جناب کلیم الدین احمد کا مطالعہ اسلام بالکل ناقص اور خام ہے۔ اس مبلغ علم پر یہ جسارت آمیز بیان کہ ’’ ان (اقبال) کے بہت سے خیالات Un-islamicہیں۔‘‘ ایک کھلی ستم ظریفی ہے۔ اقبال کے خیالات میں اسلام کتنا اور کیسا تھا، اس کا فیصلہ تو علماء اسلام ہی کر سکتے ہیں، کوئی کلیم الدین احمد نہیں۔ یہاں عصر حاضر کے سب سے بڑے عالم علامہ ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شائع شدہ بیان نقل کرنا کافی ہو گا کہ ’’ اقبال اکابر مفکرین اسلام میں ایک ہیں۔‘‘ ایک دوسرے عالم دین مولانا ابو الحسن علی ندوی بھی اقبال کے اس درجہ شیدا ہیں کہ انہوں نے ایک پوری کتاب ہی ’’ نقوش اقبال‘‘ کے نام سے افکار اقبال کی تشریح و توصیف کے لئے لکھی ہے۔ علامہ سید سلمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ بھی اقبال کے گرویدہ تھے۔ اقبال کے ہم عصر علمائے اسلام میں سے کسی نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اقبال کہ ’’ بہت سے خیالات غیر اسلامی Un-islamicہیں۔‘‘ اس حقیقت حال کے پیش نظر کسی نیم ملا کا یہ کہنا کتنی بڑی جہالت ہے کہ ’’ اقبال خود بھی اور دوسرے لوگ بھی ان کے خیالات کا سرچشمہ اسلام کو بتاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بہت سے خیالات Un-islamicہیں؟‘‘ ایک سوال اور یہ اٹھتا ہے کہ اقبال کے ’’ خیالات کا سرچشمہ‘‘ اگر اسلام نہیں تو کیا ہے؟ پھر ہمارے مغربی نقاد اقبال کی شاعری میں کس چیز کی ’’ پیغمبری‘‘ کی مذمت کرتے ہیں؟ اقبال کا پیغام اسلام کے سوا ہو کیا سکتا ہے؟ اقبال تو خود ہی Orthodox مسلم ہیں اور اس کی حیثیت سے انہوں نے ’’ خانقاہیت‘‘ کے خلاف جہاد کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ ’’ خیالات، فلسفہ، سائنس بدلتے رہتے ہیں لیکن شاعری نہیں بدلتی۔‘‘ تو میتھیو آرنلڈ کے مشہور بیان کا یہ تقریباً لفظی ترجمہ حد درجہ طفلانہ اور مضحکہ خیز ہے جس طرح فلسفہ اور سائنس بدلتے ہیں، شاعری بھی بدلتی ہے۔ شاعری کوئی وحی الٰہی تو ہے نہیں۔ کیا شیکسپیئر سے الیٹ تک انگریی شاعری میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے؟ اور اردو شاعری میر سے اقبال تک یکساں رہی ہے؟ رہی یہ کہ بات کہ خرد کے نظریات بدل جاتے ہیں، مگر جنوں کے واردات نہیں بدلتے، تو اس کے لئے سب سے پہلے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ شاعری میں خرد کا دخل نہیں، یہ صرف جنوں کی پیداوار ہے ۔ جناب کلیم الدین احمد اس جنوں انگیزی کے لئے آمادہ ہیں؟ تب اقبال پر ان کے وہ سارے اعتراضات ہوا ہو جائیں گے جو انہوں نے Factsکی دہائی دے کر لگائے ہیں۔ کم از کم آرنلڈ کا مطلب اپنے مذکورہ بیان سے یہی تھا کہ چونکہ شاعری کی عقل نہیں، دل کی زبان ہے، لہٰذا یہ زوال ہے، جبکہ عقل سے تعلق رکھنے والی ہر چیز متغیر ہے، اور متغیر ہونے والی چیزوں میں اس نے فلسفہ اور سائنس کے ساتھ مذہب کو بھی شامل کر لیا تھا، یہاں تک کہ اس کا خیال تھا کہ مذہب بھی جو آئندہ بچ رہے گا شاعری ہی میں ہو گا۔ کیا اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے کہ شاعری کی ابدیت کے متعلق یہ پورا نظریہ بے معنی Absurdہے؟ یہ دراصل انیسویں صدی کے ادیبوں اور شاعروں کے اوہام و خرافات Superstitions and Legendes میں ایک تھا جو وقت کے ساتھ ختم ہو گیا، مگر جناب کلیم الدین احمد جیسے حضرات جو ابھی تک انیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں اسے سینے سے لگائے ہوئے ہیں، اس لئے کہ ان کی تعلیم و تربیت انیسویں صدی کے تخیلات پر پلے ہوئے انگریز معلموں کے تحت ہوئی تھی۔ اقبال کی فارسی غزلوں کا مطالعہ شروع کرتے ہوئے جناب کلیم الدین ارشاد فرماتے ہیں: ’’ مضامین تو اسی قسم کے ہیں جو اردو غزلوں یا ان کی نظموں میں ملتے ہیں لیکن اردو غزلوں کے خلاف ان میں ایک وجد آور کیفیت ہے۔‘‘ (ص283) اگر یہ بیان اس طرح ہوتا کہ ’’ اردو غزلوں سے زیادہ ان میں ایک وجد آور کیفیت ہے‘‘ تو ہم اس پر زیادہ اعتراض نہیں کرتے، اس لئے کہ اردو اور فارسی کے درمیان بہرحال زبان کی لطافت اور روایت کی ثروت کا ایک فرق ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اقبال کی شاعری نے اس فرق کو بہت ہی کم کر دیا اور ا س کے کمالات کے باعث اردو فارسی کے ہم پلہ ہو گئی ہے۔ بہرحال، سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ جناب کلیم الدین احمد زیر بحث باب ہی میں اقبال کی اردو غزل کے بارے میں یہ جملے بھی کہہ چکے ہیں: ’’ ایک جوش ہے، ایک روانی ہے، ایک گہری شعریت ہے۔‘‘ (ص270) کیا یہ ’’ ایک وجد آور کیفیت ہے؟‘‘ جواب اثبات ہی میں ہو گا، اس لئے کہ جب جوش، روانی، گہری شعریت سب کچھ ہے ہی تو پھر وجد آوری میں کمی کیا ہو سکتی ہے؟ آخر وجد آور کیسے آتا ہے؟ خیر، یہ تو جناب کلیم الدین احمد کے بیان میں تضاد ہوا، جس کا اتنا وافر ثبوت زیر نظر کتاب میں ہے کہ اگر اس کی تنقید کو ’’ تنقید تضاد‘‘ کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا، اور موصوف بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جب شاعری میں صنعت تضاد ہوتی ہے تو تنقید میں کیوں نہ ہو؟ میں موصوف سے اتفاق کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ ضرور ہونی چاہئے، بلکہ ہے اور وہ بہ نفس نفیس اردو تنقید میں اس صنعت کے امام ہیں۔ اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے اردو غزلوں کا انتخاب زیادہ تر ربط و تسلسل کے لئے کیا ہے، یعنی ان کے پیش نظر خیالات اور ان کی ترتیب ہے۔ پھر ان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ بالعموم چھوٹی بحروں کے سطحی ترنم سے متاثر ہوتے ہیں، بڑی بحروں کی پیچیدہ، دبیز اور عمیق نغمگی کا احساس انہیں کم ہی ہوتا ہے ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’ یہ چار مختصر غزلیں چھوٹی بحروں میں ہیں، اسی لئے ان میں روانی ہے۔‘‘ (ص274) اس جملے سے سخن فہمی عالم بالا معلوم ہو جاتی ہے۔ چھوٹی بحروں میں مختصر غزلیں اقبال کے تغزل کی خصوصیت اور امتیاز نہیں۔ ان کی بیشتر اہم، نمائندہ اور معرکہ آرا غزلیں متوسط یا طویل ہیں اور بڑی بحروں میں ہیں۔ حکیم سنائی کے مزار پر کہے ہوئے اشعار سے قطع نظر، جناب کلیم الدین احمد نے بال جبریل سے آٹھ غزلیں لی ہیں۔ جن میں چار ان کے ہی بقول مختصر اور چھوٹی بحروں میں ہیں۔ باقی چار میں تین مشہور غزلیں ہیں: 1۔ اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا 2۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 3۔ اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں کیا ان غزلوں میں ’’ ایک وجد آور کیفیت‘‘ نہیں؟ ضرور ہے، اور یہ کیفیت صرف بال جبریل کی غزلوں تک بھی محدود نہیں۔ پہلے مجموعے بانگ درا کی بھی بہتیری غزلوں میں پائی جاتی ہے اور ضرب کلیم کی بھی کئی غزلوں میں ہے۔ بانگ درا سے یہ غزل جناب کلیم الدین احمد نے خود ہی پیش کی ہے: پھر باد بہار آئی، اقبال غزل خواں جو غنچہ ہے اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہو ایسی غزلیں بانگ درا میں اور بھی ہیں۔ چند ملاحظہ ہوں: 1۔ پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر چشم مہرومہ و انجم کو تماشائی کر 2۔ کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے سے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں 3۔ چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں جھلک تیری ہویدا، چاند میں، سورج میں، تارے میں 4۔ انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں 5۔ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی 6۔ گلزار ہست وبود نہ بے گانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ کیا یہ غزلیں وجد و کیف سے خالی ہیں؟ کوئی باذوق اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیکھ سکتا۔ بانگ درا کی ایسی غزلیں بال جبریل کی غزلوں کا پیش خیمہ نیز نمونہ ہیں۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد نے ان کا مطالعہ کرنے کی بجائے انہیں صرف دو جملوں میں رد کر دیا ہے: ’’ بانگ درا کی غزلوں سے بحث نہیں۔ ان میں اقبال نئے رستے کی تلاش میں ہیں اور یہ رستہ انہیں بال جبریل میں مل جاتا ہے۔‘‘ (ص267) یہ ایک نیم صداقت Half Truth ہے۔ اقبال نے نیا رستہ بانگ درا ہی میں پا لیا تھا اور اسی پر وہ آگے بڑھے بال جبریل میں۔ لیکن جناب کلیم الدین احمد کو اس حقیقت کے مطالعے کی فرصت یا اس کی واقفیت نہیں۔ اسی طرح وہ ضرب کلیم کی غزلوں کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بلا شبہہ ضرب کلیم میں غزلوں کی تعداد ہی بہت کم ہے، مگر جو چند غزلیں ہیں ان میں بیشتر اعلیٰ معیار کی حامل ہیں اور ان کی دبازت و نفاست بال جبریل کی غزلوں سے بھی بعض وقت بڑھ جاتی ہے۔ یہ غزل ملاحظہ کیجئے: دل مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزہ ستارہ ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمہ سحر نے مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ ’’ وجد آور کیفیت‘‘ ،’’ ولولہ انگیزی‘‘ ،’’ زور‘‘ ،’’ جوش‘‘ ،’’ روانی‘‘ اور ’’ گہری شعریت‘‘ میں یہ غزل اقبال کی کسی بھی اردو یا فارسی غزل سے ذرا بھی کم کہی جا سکتی ہے؟ ضرب کلیم کی فقط پانچ غزلوں میں سے ایک تو یہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی قابل ذکر اور عمدہ غزلیں یہ ہیں: 1۔ نہ میں عجمی، نہ ہندی، نہ عراقی و حجازی کہ خودی سے میں نے سیکھی دو جہاں سے بے نیازی 2۔ ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ! اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ یہ غزل بھی اچھی ہے: تری متاع حیات، علم و ہنر کا سرور مری متاع حیات، ایک دل ناصبور اس طرح ضرب کلیم کے پانچ میں سے چار غزلیں بال جبریل کی ’’ مے باقی‘‘ ہیں اور درد تہہ جام کے مانند تیز و تند ہیں۔ اب بال جبریل سے بھی چند نہایت کیف آگیں، پر معنی، وجد آور اور ولولہ انگیز غزلیں وہ ملاحظہ کیجئے جو جناب کلیم الدین احمد کی نگاہ انتخاب میں نہیں آ سکیں: 1۔ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہاے الاماں بت کدہ صفات میں 2۔ گیسوے تابدار کو اور بھی تاب دار کر ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر 3۔ اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد 4۔ پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے 5۔ تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہہ محبت، وہ نگہ کا تازیانہ 6۔ اک دانش نورانی، اک دانش برہانی ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی 7۔ یہ کون غزل خواں ہے پر سوز و نشاط انگیز اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز 8۔ وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبریل دے تو کہوں 9۔ تو ابھی رہ گذر میں ہے قید قیام سے گزر مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر 10۔ پھر چراغ لالہ سے روشن ہوے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن 11۔ دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے 12۔ کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری 13۔ یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی 14۔ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں 15۔ نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے 16۔ خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ 17۔ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر 18۔ اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ 19۔ جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی 20۔ مجھے آوہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا 21۔ ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام 22۔ مری نواسے ہوئے زندہ عارف و عامی دیا ہے میں نے انہیں ذوق آتش آشامی 23۔ کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف بال جبریل میں (حکیم سنائی کے مزاد پر تاثرات والی ’’ لمبی غزل‘‘ کو ملا کر) کل 77غزلیں ہیں۔ ان میں آٹھ کا انتخاب جناب کلیم الدین احمد نے کیا ہے۔ باقی 29میں23کا انتخاب میں نے بہت مشکل سے کیا ہے، اس لئے کہ اکثر غزلوں کا عالم یہ ہے کہ: کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست ’’ بانگ درا‘‘ بال جبریل اور ضرب کلیم کی یہ سب اردو غزلیں ’’ ایک وجد آور کیفیت‘‘ کی حال ہیں، جب کہ ان کی تعداد میں اضافہ بھی بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر صرف میری منتخب کی ہوئی اردو غزلوں ہی کو سامنے رکھا جائے تو ان کا مجموعی حساب یہ ہوتا ہے: بانگ درا 6 بال جبریل 23 ضرب کلیم 4 33 اب ان میں جناب کلیم الدین احمد کی منتخب کردہ کم از کم یہ غزلیں جوڑ دیجئے: بانگ درا 1 بال جبریل 7 8 اس طرح کل 41منتخب اردو غزلیں ہوئیں، جب کہ یہ انتخاب بھی مکمل نہیں ہے۔ اردو غزلوں کا یہ وزن اور حجم ایسا اور اتنا ہے کہ غزل کا اعلیٰ سے اعلیٰ، بلکہ شاعری کا بلند سے بلند، جو معیار مقرر کیا جائے گا اس پر اقبال کی اردو غزلیں پوری اتریں گی، اور فارسی میں اقبال ہی کی غزل کا جو معیار بھی ہو اس سے ان کی اردو غزل پر کیفیت کے لحاظ سے کوئی حرف نہیں آئے گا۔ بہرحال، اقبال کی فارسی غزلوں کا جو مطالعہ جناب کلیم الدین احمد نے کیا ہے وہ نتائج کے لحاظ سے صحیح ہے۔ یہی بات اصلاً اردو غزلوں کے سلسلے میں بھی ہے اس فرق کے ساتھ کہ موصوف نے اقبال کی اردو اور فارسی غزلوں کے درمیان جو امتیاز کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ اردو زبان غالب کے پیچیدہ تغزل کے بعد اس عظیم تجربے کے لئے تیار اور سازگار ہو چکی تھی جو اقبال نے کیا اور اس کے نتیجے میں اردو غزل فارسی غزل کے ہم پلہ ہو گئی۔ اقبال کی بزرگ شاعرانہ شخصیت، تغزل کے میدان میں، اردو اور فارسی دونوں میں ایک ہی سطح پر بروئے اظہار آئی ہیں یہی وجہ ہے کہ جناب کلیم الدین احمد نے بھی بالآخر اپنے تغزل اقبال کے مطالعے کا حاصل اس طرح خاتمہ باب پر پیش کیا ہے: ’’ ظاہر ہے کہ اقبال کا طرز جداگانہ ہے۔ انہوں نے اپنی ایک الگ راہ نکالی ہے جیسا کہ میں نے کہا ہے اردو میں ان کی غزلیں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اسی طرح ان کی فارسی غزلیں بھی ایک بڑا کارنامہ ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے غزل کو نئے خیالات دئیے۔ نئی آواز دی، اور اپنے خیالات کے لئے موزوں اور مناسب طرز بھی اختیار کیا۔ ان کا فارسی کے کسی کلاسکی غزل گو شاعر سے موازنہ کرنا ایک بے کار سی بات ہے۔ کیونکہ ان کی خیالی اور جذباتی دنیا الگ تھی۔ اس کی فن کارانہ تشکیل کے لئے ہرنے اپنے طور پر اپنے زمانے کی مروجہ زبان اور زبان کے لوازمات کا استعمال کیا تھا۔ اقبال کی بزرگی یہی ہے کہ انہوں نے کسی کی تقلید نہیں کی بلکہ اپنا جہان شاعری آپ پیدا کیا، جیسا کہ انہوں نے کہا ہے:‘‘ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر ازندوں میں ہے وہ زندوں میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ (ص301) یہ سب باتیں ٹھیک ہیں، مگر فارسی اور اردو کے کلاسیکی غزل گو شعراء سے اقبال کا موازنہ کرنا مفید ہو سکتا ہے اور اس موازنے میں یہ نکتہ حائل نہیں ہو سکتا کہ ’’ ان کی خیالی اور جذباتی دنیا مختلف تھی‘‘ اس لئے کہ ہر قابل ذکر شاعر کی ’’ خیال اور جذباتی‘‘ دنیا دوسرے قابل ذکر شاعر سے مختلف ہوتی ہی ہے، اور یہ بھی ایک فطری اور معمولی چیز ہے کہ ہر شاعر نے اپنی دنیا کی ’’ فن کارانہ تشکیل کے لئے اپنے طور پر اپنے زمانے کی مروجہ زبان اور زبان کے لوازمات کا استعمال کیا تھا۔‘‘ یہ سب باتیں اگر مختلف اردو اور رحجانات کے شعراء کے درمیان موازنہ میں حائل تصور کر لی جائیں تو پھر تقابلی مطالعہ ممکن نہ ہو گا۔ آخر دانتے، ملٹن اور ہوپکنس کے ساتھ جناب کلیم الدین احمد نے اقبال کا موازنہ کیسے کیا ہے، جب کہ ’’ خیالی و جذباتی دنیا‘‘ اور’’ مروجہ زبان اور زبان کے لوازمات‘‘ کا زبردست فرق شعراء مغرب اور شاعر مشرق کے مابین معلوم و مسلم ہے؟ (راقم السطور نے ’’ اقبال کی فارسی شاعری ‘‘ اور’’ موازنہ اقبال و غالب‘‘ میں اقبال کی غزل کا موازنہ’’ فارسی کے کلاسیکی غزل گو‘‘ شعراء کے ساتھ کیا ہے۔ یہ دونوں مقالے میرے پہلے مجموعہ مضامین ’’ نقطہ نظر‘‘ میں شامل ہیں) بہرحال، اقبال کی فارسی غزل کا جو مطالعہ جناب کلیم الدین احمد نے کیا ہے اس کے سلسے میں خاص کر ایک بات مجھے کھٹکی۔ وہ یہ کہ انہوں نے یہ مطالعہ زبور عجم کی غزلوں سے شروع کیا ہے، اس کے بعد پیام مشرق کی غزلوں کا ذکر کیا ہے، حالانکہ تخلیقی ترتیب کے لحاظ سے پیام مشرق کا مطالعہ پہلے ہونا چاہئے تھا۔ تنقید نقطہ نظر سے بھی اہم تر حصے کو بعد میں آنا چاہئے تھا، جب کہ خود جناب کلیم الدین احمد کو تغزل کے معاملے میں پیام مشرق اور زبور عجم کی اس ترتیب کا احساس ہے۔ وہ زبور عجم کی غزلیات کا مطالعہ ان لفظوں پر ختم کرتے ہیں: ’’ ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ زبور عجم کی غزلیں فارسی کی دوسری غزلوں سے مختلف ہیں۔ز بان مختلف ہے، لہجہ مختلف ہے، تیور مختلف ہے، باتیں بالکل نئی اور مختلف ہیں۔‘‘ (ص289) اور اس کے فوراً بعد پیام مشرق ی غزلیات کا مطالعہ ان لفظوں سے شروع کرتے ہیں: ’’ اب ایک دو غزلیں ’’ مئے باقی‘‘ سے دیکھئے۔‘‘ (ایضاً) اس مطالعے میں موصوف نے دو پوری غزلیں نقل کی ہیں، پھر تین غزلوں کے جستہ جستہ اشعار دئیے ہیں، اس کے بعد چھ غزلیں پوری کی پوری، اور آخر میں ایک پوری غزل اور زبور عجم کے مطالعے میں موصوف نے صرف چھ غزلیں پیش کی تھیں۔ ان حقائق پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ جناب کلیم الدین احمد مرتب و منظم انداز میں اپنے موضوع کا مطالعہ کرنے کے عادی نہیں ہیں، وہ بالعموم سرسری اور سر راہے طور پر مطالعہ کرتے ہیں۔ بس ’’ ایک نظر‘‘ ۔۔۔۔ پراں و پریشاں نظر۔۔۔۔ ڈالتے ہیں کسی بھی چیز پر، وہ اردو شاعری ہو، اردو تنقید ہو، اقبال ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید سالم اور جامع نہیں ہوتی، پارہ پارہ اور ناقص ہوتی ہے، بالکل غیر متناسب انداز میں وہ اقتباس پر اقتباس ایک گذراں تبصرے Running Commentaryکے ساتھ دیتے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک من مانا Arbitary نتیجہ چند مشتبہ مفروضات Doubtful hypotheses کی بنیاد پر اخذ کر لیتے ہیں، جن کا نشانہ Target یکسر غیر یقینی Uncertain ہوتا ہے۔ اس قسم کے تبصرے قیاس کے تیر تکے Guessworkہیں، جنہیں ٹھیٹ محاورے میں ہم اٹکل پچو Conjectures & Surmises کہہ سکتے ہیں۔ ایسے مطالعات میں علم اور فکر کم، رائے زنی اور جملہ بازی زیادہ ہوتی ہے۔ پیام مشرق میں 44غزلیں ہیں۔ اقبال نے ان غزلوں کے لئے جو باب قائم کیا ہے اس کا نام انہوں نے ’’ مئے باقی‘‘ رکھا ہے، جو حافظ کے مشہور شعر کی ایک ترکیب ہے: بدہ ساقی مے باقی کہ در جنت نہ خواہی یافت کنار آب رکن اباد و گلگشت مصلا را اور یہ حقیقت ہے کہ اس باب میں اقبال کی غزلیات کی سرشاری و سرمستی حافظ کے تغزل کی یاد دلاتی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اس مستی میں جو ہشیاری ہے، تعقل اور تفکر کا زبردست عنصر ہے وہ حافظ کی مئے باقی میں ایک نمایاں اضافہ ہے۔ حافظ کی سرمستی و رعنائی شراب کی ہے۔ یا عشق کی، یا تصوف کی، اس بحث سے قطع نظر، بہرحال یہ صرف احساسات اور جذبات کا سر جوش ہے، اس کے برخلاف اقبال کی سرمستی و رعنائی کا راز یہ ہے کہ ان کے ادراکات و افکار ہی احساسات و جذبات میں ڈھل گئے ہیں او راس طرح فکر و احساس دونوں دو آتشہ بن گئے ہیں، جب کہ حافظ کے یہاں ایک ہی آنچ ہے، احساس کی۔ جناب کلیم الدین احمد نے مئے باقی کی جو ایک درجن غزلیں پیش کی ہیں ان میں صرف حسب ذیل کا موازنہ حافظ کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، اس معنے میں کہ وہ گویا انہی کے رنگ میں، انہی کی سطح پر، مگر ایک درجہ ان سے آگے ہیں: صورت نہ پرستم من، بت خانہ شکستم من آں سیل سبک سیرم، ہر بند گستسم من ٭٭٭ نہ تواندر حرم گنجی نہ در بت خانہ می آئی ولیکن سوے مشتاقاں چہ مشتاقانہ می آئی ٭٭٭ باز بہ سرمہ تاب دہ چشم کرشمہ زاے را ذوق جنوں دو چند کن شوق غزل سرائے را ٭٭٭ از چشم ساقی مست شرابم بے مے خرابم، بے مے خرابم ٭٭٭ عرب از سرشک خونم ہمہ لالہ زار بادا عجم رمیدہ بورا نفسم بہار بادا ٭٭٭ ’’ مے باقی‘‘ میں چند اور غزلیں اسی رنگ و آہنگ کی یہ ہیں: 1۔ حلقہ بستند سر تربت من نوحہ گراں دلبراں، زہرہ وشاں، گلبدناں سیم براں 2۔ خیز و نقاب برکشا پروگیان ساز را نغمہ تازہ یاد دہ مرغ نوا طراز را 3۔ بیاکہ ساقی گل چہرہ دست برچنگ است چمن زہاد بہاراں جواب ارژنگ است 4۔ ہواے فروویں در گلستان میخانہ می سازد سبواز غنچہ می ریزد، زگل پیمانہ می سازد 5۔ دانہ سبحہ بہ زنار کشیدن آموز گر نگاہ تو دوبیں است ندیدن آموز 6۔ ایں گنبد مینائی، ایں پستی و بالائی در شد مدل عاشق، با ایں ہمہ پہنائی 7۔ فرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بت خانہ ایں جلوت جانانہ، آں خلوت جانانہ 8۔ بیاکہ بلبل شوریدہ نغمہ پرداز است عروس لالہ سراپا کرشمہ و ناز است 9۔ مراز دیدۂ بینا شکایت دگراست کہ چوں بہ جلوہ در آئی حجاب نظر من است زبور عجم کے دو حصے ہیں، تمہیدی اشعار کے علاوہ پہلے حصے میں 56تخلیقات ہیں جن میں دو نظمیں ہیں، دوسرے حصے میں75تخلیقات میں تین نظمیں ہیں۔ اس طرح دونوں حصے ملا کر کل غزلیات126ہیں۔ یہ عام قسم کی غزلیات نہیں، نہ صرف پیام مشرق کی ’’ مئے باقی‘‘ بلکہ دوسری تمام غزلیات سے بھی ان کا انداز جدا ہے۔ یہ غزل الغزلات قسم کی چیز ہیں۔ یہ ’’ نغمہ داؤد‘‘ کے نقش قدم پر ہیں شاعر نے ان غزلوں کے آغاز میں خدا سے جو’’ دعا‘‘ کی ہے اس کے پہلے اور آخری اشعار یہ ہیں: یا رب درون سینہ دل باخبر بدہ در بادہ نشتہ رانگرم، آں نظر بدہ ٭٭٭ خاکم بہ نور نغمہ داؤد بر فروز ہر ذرہ مرا پرو بال شرر بدہ ٭٭٭ کتاب کی خصوصیت کی طرف ایک اشارہ حسب ذیل اشعار سے بھی ہوتا ہے جو گویا منظوم بلکہ انتہائی شاعرانہ پیش لفظ کے طور پر ’’ بخوانندہ کتاب زبور‘‘ کے عنوان سے بالکل شروع میں درج کئے گئے ہیں: می شود پردۂ چستمم پر کاہے گاہے دیدہ ام ہر دو جہاں رابہ نگاہے گاہے وادی عشق بسے دور و دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے در طلب کوش و مدہ دامن امید زدست دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے اس کے بعد اول کا افتتاح اس شعر سے ہوتا ہے: زبرون در گزشتم زدرون خانہ گفتم سخنے نگفتہ راچہ قلندرانہ گفتم پھر حصہ دوم کا افتتاحی شعر یہ ہے: شاخ نہال سدرۂ خاروخس چمن مشو منکراو اگر شدی منکر خویشتن مشو اور اس حصے کی غزلیات سے قبل تمہیدی اشعار یہ ہیں: دو عالم راتوں دیدن بمینائے کہ من دارم کجا چشمے کہ بنیدآں تماشاے کہ من دارم وگر دیوانہ آید کہ در شہر افگند ہوے دوصد ہنگامہ برخیزدز سوداے کہ من دارم مخور ناداں غم از تاریکی شبہا کہ می آید کہ چوں انجم درخشد داغ سیماے کہ من دارم ندیم خویش می سازی مرا لیکن ازاں ترسم نداری تاب آں آشوب و غوغاے کہ من دارم یہی وہ ’’ نواے راز‘‘ ہے جس کی طرف اقبال نے اپنے قارئین کو بال جبریل کی ایک غزل میں متوجہ کیا ہے: اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم فغان نیم شبی بے نواے راز نہیں ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ زبور عجم‘‘ کیا ہے۔ یہ در حقیقت ایک مسلسل ’’ مناجات‘‘ ہے۔ یعنی خدائے کائنات سے ایک انسان کی سرگوشی، جو ’’ شکوہ‘‘ اور’’ جواب شکوہ‘‘ سے بھی آگے کی چیز ہے۔ اس میں حیات و کائنات کے سارے مسائل پر ایک خود آگاہ اور خدا شناس شاعر نے اپنے مخصوص والہانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ خیالات کی طرفگی، افکار کی رعنائی، احساسات کی باریکی، جذبات کی گہرائی، تخیلات کی پہنائی، استعارات کی تازگی، تراکیب کی عمدگی، اور مصرعوں کی نغمگی کے لئے یہ کتاب اپنا جواب آپ ہے۔ یہ محض دیوان غزل نہیں دیوان شاعری ہے۔ اس کی شعریت کی ہمالیائی بلندی پر اقبال کی پہلی نظم ’’ ہمالہ‘‘ ہی کا ایک شعر صادق آتا ہے: مطلع ول فلک جس کا ہو وہ دیواں ہے تو سوے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے تو ایک معنی خیز بات یہ ہے کہ اقبال یا کلام اقبال کے مرتبین نے زبور عجم پر غزلیات عنوان نہیں لگایا ہے۔ اور غزلوں کے بیچ میں بلا عنوان پانچ نظمیں بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ بہرحال، زبور عجم عمومی طور پر غزلیات ہی کا مجموعہ ہے اور تغزل کی معراج ہے۔ حصہ اول کی تیسری غزل کا مطلع بھی اس حقیقت کی نشاندہی کرتاہے: غزل سرائے و نواباے رفتہ باز آور بایں فسردہ دلاں حرف دل نواز آور جب کہ موضوع ان غزلیات کا وہی ہے جس کی طرف پہلے حصے میں ایک شعر کی پہلی غزل سے اشارہ کیا گیا ہے: عشق شور انگیز راہر جادہ در کوے تو برد برتلاش خود چہ می نازد کہ رہ سوے تو برد ظاہر ہے کہ جناب کلیم الدین احمد کو زبور عجم کی غزلوں کے ان مضمرات کی نہ خبر ہے نہ ان سے دلچسپی۔ پھر کسی موضوع کے منظم، کلی اور عمیق مطالعے کی توقع بھی ان سے نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے کہ ان کا پرانگدہ انداز تنقید ایسے مطالعے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ زبور عجم کی غزلوں کی زیادہ اہمیت کا احساس رکھتے ہوئے بھی انہوں نے اس مجموعہ کلام سے صرف ایک درجن غزلیں نقل کی ہیں غالباً انہیں مطالعہ کرنے سے زیادہ نمونہ دکھانے کی فکر ہے۔ زبور عجم کی چند نمائندہ غزلیں جو جناب کلیم الدین احمد کے انتخاب میں نہیں آ سکیں یہ ہیں: 1۔ از مشیت غبار ماصد نالہ برانگیزی نزدیک تراز جانی باخوے کم آمیزی 2۔ نواے من ازاں پر سوز و بیباک و غم انگیز است بخاشاکم شرار افتاد و باد صبحدم تیزاست 3۔ بر عقل فلک پیما ترکانہ شبیخوں بہ یک ذرہ درد دل از علم فلاطوں بہ 4۔ عقل ہم عشق است واز ذوق نگہ بیگانہ نیست لیکن ایں بیچارہ رآ اں جرأت رندانہ نیست 5۔ اگر نظارہ از خود رفتگی آرد حجاب اوے نگیرد بامن ایں سودا بہا از بس گراں خواہی 6۔ بدہ آں دل کہ مستی ہائے او ازبادہ خویش است بگیرآں دل کہ از خود رفتہ و بے گانہ اندیش است 7۔ فرصت کش مکش مدہ ایں دل بیقرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تابدار را 8۔ جانم در آویخت با روز گاراں جوے است نالاں در کوہساراں 9۔ بحر فے می تواں گفتن تمناے جہانے را من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را 10۔ چند بروے خود کشی پردۂ صبح و شام را چہرہ کشا تمام کن جلوۂ ناتمام را (حصہ اول) 11۔ زمانہ قاصد طیار آں دلآرام است چہ قاصدے کہ وجودش تمام پیغام است 12۔ بانشہ درویشی در سازو دمادم زن چوں پختہ شوی خود رابر سلطنت جم زن 13۔ خیال من بہ تماشائے آسماں بود است بدوش ماہ وبآغوش کہکشاں بود است 14۔ از نوا برمن قیامت رفت و کس آگاہ نیست پیش محفل جزبم و زیر و مقام و راہ نیست 15۔ ما از خداے گم شدہ ایم اور بجستجوست چوں ما نیاز مند و گرفتار آرزو ست 16۔ نہ یابی در جہاں یارے کہ داند دل نوازی را بخود گم شو نگہدار آبروے عشق بازی را 17۔ فروغ خاکیاں از نوریاں افزوں شود روزے زمیں از کوکب تقدیر ماگردوں شود روزے 18۔ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم از خدا خودی طلب ہم از خودی خدا طلب 19۔ من ہیچ نمی ترسم از حادثہ شب ہا شبہا کہ سحر گردد از گردش کوکب ہا 20۔ تو کیستی؟ زکجائی؟ کہ آسمان کبود ہزار چشم براہ تو از ستارہ کشود 21۔ مئے دیرینہ و معشوق جواں چیزے نیست پیش صاحب نظراں حور و جناں چیزے نیست 22۔ قلندراں کہ بہ تسخیر آب و گل کرشند زشاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند 23۔ باز ایں عالم دیرینہ جواں می باتست برگ کاہش صفت کو گراں می بالست 24۔ لالہ ایں گلستاں داغ تمناے نداشت نرگس طناز او چشم تماشائے نداشت 25۔ من بندۂ آزادم، عشق است امام من عشق است امام من عقل است غلام سن (حصہ دوم) (اقبال کے فارسی کلام کا جو متن میں نے استعمال کیا ہے وہ لاہور سے شائع شدہ 1973ء وہ کلیات فارسی ہے جس کے مرتب اور ناشر ڈاکٹر جاوید اقبال ہیں اور ان کے مشیر و معاون مولانا غلام رسول مہر۔ میں متن کے اس نسخے کو خاص کر اردو دنیا کے لئے، اس نسخے سے بہتر سمجھتا ہوں جو ایران سے مرتب ہو کر شائع ہوا ہے) زبور عجم کی غزلوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں مقطع اور تخلص نہیں ہوتا اس کے علاوہ بہتیری غزلیں اتنی مربوط و منظم ہیں کہ اگر ان پر عنوان لگا دیا جائے تو وہ باضابطہ نظم ہو جائیں گی۔ اس کے باوجود تغزل اور اس کا سوز و گداز تقریباً سبھی غزلوں میں ہے اور اتنا پر کیف ہے کہ: سوز و گداز حالتے است رابادہ زمن طلب کنی پیش تو گربیاں کنم مستی ایں مقام را یہ تغزل ہے جس کا کیف اپنے اظہار و ابلاغ کے لئے کسی رسم و روایت کا محتاج نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کی شاعری وہ ’’ مے سرکش‘‘ ہے جس کی ’’ حرارت‘‘ ’’ مینا گداز‘‘ ہے، یہاں تک کہ غزل جیسی صدیوں کے شکنجے میں کسی ہوئی ہیئت سخن بھی پگھل کر ایک آتش سیال بن جاتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ تغزل کے تمام محاسن کے باوصف یہ دراے تغزل چیزے دگر بھی ہے۔ اسی لئے اس کے اثرات محض شعر و شاعری تک محدود نہیں رہے، ان سے ایک پوری تہذیب کو نئی زندگی ملی، ایک پورے دور کو نئی گرمی ملی اور ان کا درخشاں عکس آج کے مشرق کی نشاۃ ثانیہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ پیام مشرق کی ایک غزل میں تو اقبال نے یہ کہا: نواے من بہ عجم آتش کہن افروخت عرب ز نغمہ شوقم ہنوز بے خبر است یہ متعلقہ غزل کا مقطع ہے، جب کہ پیام مشرق ہی کی ایک دوسری غزل کا مطلع ہے: عرب از سرشک خونم ہمہ لالہ زار بادا عجم رمیدہ بورا نفسم بہار بادا آج مشرق و مغرب کا جہاں ’’ دگرگوں‘‘ ہے اور ’’ تاروں کی گردش تیز ہے‘‘ اس انقلاب میں اس شاعر انقلاب کی نواے سینہ تاب کا حصہ کتنا ہے جس نے اس عزم کے ساتھ نوا پیرائی کی تھی؟ مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر (شعاع امید۔ ضرب کلیم) ’’ شاعر فردا‘‘ نے خود جو پیشین گوئی کی تھی وہ یہ ہے: پس از من شعر من خوانند و دریا بند دمی گویند جہانے راد گرگوں کردیک مرد خود آگاہے (زبور عجم۔ حصہ دوم) کیا کسی شاعر کا یہ دعویٰ قابل توجہ ہے؟ اس سوال کا جواب مستقبل قریب ہی دے گا، لیکن یہ بات اپنی جگہ واضح ہے کہ ایسے ایک انقلاب شاعری کا مطالعہ وہ تنقید نہیں کر سکتی جو سرے سے شاعری میں ’’ وراے شاعری چیزے دگر‘‘ کی قائل ہی نہ ہو۔ اقبال کو کوئی مذہبی معنے میں ’’ پیغمبر‘‘ نہیں مانتا اور پیغمبر آخری الزماںؐ کے بعد کسی کی پیغمبری کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ یہ بات بھی معلوم و مسلم ہے۔ لیکن شاعری کی سرحدیں کیا ہیں؟ اس کا جواب کم از کم مغربی شاعری اور تنقید کے پاس نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ شاعری کی حدیں اقبال ہی کی شاعری سے متعین ہوتی ہیں۔ کلام انسانی کی تاثیر اور تحریک میں کسی شاعر کا کلام اس حد سے آگے نہیں جا سکتا جو کلام اقبال کی حد ہے۔ اس کے آگے کلام الٰہی اور کلام نبوت ہے۔ اس حد میں ایک شاعر پیامبر بھی ہو سکتا ہے، اگر اس کے مطالعہ و تفکر اور مشاہدہ و تجربہ نے اسے یہ اہلیت بخشی ہو کہ وہ انسانیت کو کوئی پیغام دے سکتا ہے۔ اقبال یقینا یہ اہلیت دنیا کے کسی بھی شاعر سے زیادہ رکھتے تھے، جب کہ شعریت میں دنیا کا کوئی بھی شاعر ایسا نہیں جو اقبال کے سرمایہ شعری کے وزن اور حجم کا مقابلہ کر سکے۔ بہرحال فکر و نظر کی تمام ثقاہت و متانت کے باوصف، اقبال کے دوسرے بہتیرے اشعار کی طرح بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ شوخی بیان ’’ زبور عجم‘‘ کی غزلوں میں ہے، ایسی شوخی جو شکوہ اور مناجات کی تمام معلوم حدوں سے آگے بڑھی ہوئی ہے اور خاص کر ایک بندۂ خدا اور عاشق رسولؐ کے کلام میں اس شوخی کا رنگ اور آہنگ معمول سے زیادہ محسوس ہوتا ہے ’’ بندۂ گستاخ‘‘ تو اقبال اقراری طور پر ہیں۔ لیکن وہ بہرحال بندہ ہیں اور اپنے ’’ مقام بندگی‘‘ کو کسی بھی حالت میں ترک کرنے کے لئے تیار نہیں، اس لئے کہ ’’ درد و سوز آرزو مندی‘‘ ان کے لئے ایک ’’ متاع بے بہا‘‘ ہے: متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی (بال جبریل) اور دراصل یہ درد و سوز آرزو مندی کی خلش اور تپش ہے جو انہیں شوخ بیانی پر مجبور کرتی ہے۔ یقینا اس شوخی میں ایک جنوں ہے، لیکن یہ ایک ’’ باشعور‘‘ جنوں ہے: اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں (بال جبریل) یہ وہ ’’ صاحب ادراک‘‘ جنوں ہے جو ’’ مشعل راہ‘‘ ہو سکتا ہے: زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک (بال جبریل) در حقیقت اقبال ایک کش مکش میں ہیں۔ انہوں نے خدا سے دعا کی تھی: خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر (بال جبریل) یہ دعا قبول ہوئی اور انہیں ’’ اسلاف کا جذب دروں‘‘ جس کی انہوں نے تمنا کی تھی، حاصل ہوا۔ لیکن شاعری کی دنیا میں مشکل یہ آ پڑی کہ: وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں ندا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں (بال جبریل) ظاہر ہے کہ ’’ بال جبریل‘‘ اور’’ نفس جبریل‘‘ کا حصول آسان نہیں ہے۔ دوسری طرف ’’ حرف راز‘‘ کا اظہار’’ نفس جبریل‘‘ کے بغیر مشکل ہے۔ اقبال اپنی ’’ نواے پریشاں‘‘ کو رسمی ’’ شاعری‘‘ نہیں سمجھتے تھے اس لئے کہ وہ ’’ محرم راز درون مے خانہ‘‘ تھے۔ وہ ’’ راز حرم‘‘ کے امین تھے اور ان کی ’’ گفتگو کے انداز محرمانہ‘‘ تھے: میری نواے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ ٭٭٭ راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ (بال جبریل) اقبال کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ ’’ راز حرم‘‘ کے انکشاف کے لئے ’’ نواے راز‘‘ کی حدود کیا ہیں، دونوں کے درمیان توازن اور تطبیق کیسے بروئے کار آئے؟ یہ شاعری کا بھی نازک ترین سوال ہے اور شریعت کا بھی۔ اس سلسلے میں اقبال کی باریک راہ اعتدال یہ ہے: حرم کے پاس کوئی اعجمی ہے زمزمہ سنج کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی (بال جبریل) اس کے باوجود احتیاط ملاحظہ ہو: کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف (بال جبریل) ’’ جامہ ہائے احرامی‘‘ ’’ تار تار‘‘ مگر’’ حرم کا غلاف‘‘ ’’ سلامت!‘‘ ’’ جام شریعت‘‘ اور’’ سندان عشق‘‘ کی یہی وہ لطیف و نفیس ہم آہنگی ہے جس کا اعلان اقبال نے زبور عجم (حصہ اول) کی ایک غزل کے آخری شعر میں اس طرح کیا ہے: باچنیں زور جنوں پاس گریباں داشتم درجنوں از خود نہ رفتن کار ہر دیوانہ نیست اس غزل کا مطلع بھی بہت معنی خیز ہے: عقل ہم عشق است واز ذوق نگہ بیگانہ نیست لیکن ایں بیچارہ را آں جرأت رندانہ نیست اور اقبال کی غزلیں عشق کی جرأت رندانہ سے لبریز ہیں۔ زبور عجم (حصہ دوم) کی یہ آخری غزل اس جرأت رندانہ کا عروج اور شاہکار ہے: خود راکنم سجودے، دیر و حرم نماندہ ایں در عرب نماندہ، آں در عجم نماندہ در برگ لالہ و گل آں رنگ و نم نماندہ در نالہ ہائے مرغاں آں زیرو بم نماندہ درکار گاہ گیتی نقش نوی نہ بینم شاید کہ نقش دیگر اندر عدم نماندہ سیارہ ہائے گردوں بے ذوق انقلابے شاید کہ روز و شب را توفیق رم نماندہ ہے منزل آرمیدند پا از طلب کشیدند شاید کہ خاکیاں را در سینہ دم نماندہ یادر بیاض امکاں یک برگ سادہ نیست یا خامہ قضارا تاب رقم نماندہ اس غزل میں اقبال کے تغزل کی شوخی فکر اور شوخی بیان آخری سرحدوں تک پہنچی ہوئی ہے۔ چنانچہ اگر جناب کلیم الدین احمد کے غیر شاعرانہ، غیر ناقدانہ اور غیر عالمانہ ذہن سے سوچا جائے تو پہلے ہی شعر پر ’’ کفر‘‘ کا فتویٰ لگ سکتا ہے۔ اقبال کی ایک غزل کے اس شعر پر تو اس کی اشاعت ہی کے وقت کچھ لوگوں نے کفر کا فتویٰ لگا دیا تھا: دردشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ (پیام مشرق) لیکن متذکرہ بالا غزل کا مطلع تو اس ’’ کفر‘‘ میں اوپر کے شعر سے بہت آگے بڑھا ہوا ہے: خو دراکنم سجودے، دیر و حرم نماندہ ایں در عرب نماندہ، آں در عجم نماندہ وہاں تو معاملہ صرف جبریل کو زبوں صیدے، قرار دے کر یزداں کو ’’ بکمند آور‘‘ کا تھا جس کا مفہوم اقبال کے قدر شناس صوفیا و علما نے یہ بتایا کہ شاعر موحد ہے، لہٰذا وہ جبریل تک کے آستانے سے گزر کر صرف یزداں کے آستانے پر اپنی ’’ جبین نیاز‘‘ جھکانا چاہتا ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ ’’ خود راکنم سجودے‘‘ کا ہے اور دیر کے ساتھ ساتھ حرم کے وجود کی بھی نفی کا ہے۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفیان شرع متین اس مسئلے میں؟ فتویٰ تو جناب کلیم الدین احمد Orthodox مسلم کی جانب سے دیں گے لیکن اگر کوئی باخبر اور با ذوق بات سمجھنی چاہے تو تھوڑے غور سے سمجھ سکتا ہے شاعر کہتا ہے کہ جب عرب حرم سے بے گانہ ہو گیا اور عجم دیر سے، تو اب وہ ’’ ذوق و شوق‘‘ کیا کرے جس کے ’’ جذب دروں‘‘ کا عالم یہ ہے؟ کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں (بانگ درا) آخر ’’ آستانہ یار‘‘ کہاں ہے؟’’ حقیقت منتظر‘‘ کے آستانے کی تلاش بالآخر شاعر کو اس مقام پر پہنچاتی ہے: غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ (بال جبریل) اور اس شعر سے پہلے یہ شعر ہے: یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی یا بندۂ خدا بن، یا بندہ زمانہ شاعر ایک ’’ بندہ خدا‘‘ ہے، لہٰذا خدائے وحدۂ لا شریک کا آستانہ تو اس کی پیشانی ہی میں ہے، اور اگر زمانے کی خرابی سے یہ آستانہ الٰہی اپنی اصلی و حقیقی شکل میں کہیں اور کسی مندر، کسی مسجد، کسی معلوم و معروف عبادت گاہ میں نہیں پایا جاتا تو ہر بندۂ خدا کے اپنے وجود میں بہرحال موجود ہے اور وہ اپنی سجدہ گزاری کا شوق بے اختیار اپنے آپ کو سجدہ کر کے پورا کر سکتا ہے، جو در حقیقت اپنے خدا کو سجدہ کرنا ہو گا۔ آخر ’’ قالو ابلی‘‘ کا نور تو اس کے دل میں شعلہ فگن ہے ہی۔ فرشتوں نے روز ازل آدم کو سجدہ (بحکم خداوندی) کیا تھا، آدم کس کو سجدہ کرے؟ اپنے آپ کو کر سکتا ہے؟ سجدے کا مطلب کیا ہے؟ ملائکہ نے آدم کو سجدہ کس معنے میں کیا تھا؟ مفسرین، علماء اور فقہا کا اتفاق ہے کہ سجدۂ عبادت نہیں، سجدہ تعظیمی تھا۔ اب جس شخص کو دینی شعائر کے موجودہ دور زوال میں اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرنی ہے اور اس کا دینی احساس جتنا شدید و عمیق ہے، اس کا تصور توحید جتنا لطیف ہے، وہ اگر اپنی خودی کا اتنا ہی مستعد محافظ ہے اور ا س کی ’’ پاسبانی‘‘ اتنی ہی شدت کے ساتھ کرنی چاہتا ہے، صرف اس لئے کہ اس کے خیال میں اس کا ’’ ضمیر‘‘ کسی حرم کا آستانہ ہے تو اگر وہ ان تحفظات کے ساتھ اور انہی مقاصد کے لئے ’’ خود را کنم سجودے‘‘ بالکل استعاراتی اور علامتی، نہ کہ حقیقی انداز میں، اور شریعت نہیں، شاعری کی زبان میں کہتا ہے تو کیا مضائقہ ہے؟ جہاں تک اقبال کے تصور الہ اور احساس عبدیت کا تعلق ہے وہ ان اشعار سے عیاں ہے: شہید ناز او بزم وجود است نیاز اندر نہاد ہست و بود است نمی بینی کہ از مہر فلک تاب بسیماے سحر داغ سجود است (لالہ طور۔ پیام مشرق) اس قسم کے متغزلانہ اور مناجانی اشعار میں اقبال کے سامنے اس معراج کا تصور بھی ہوتا ہے جو تاریخ انسانی کی عظیم ترین ساعت میں ایک ’’ عبدؐ‘‘ کو حاصل ہوئی تھی، اور اس کی نگاہوں میں اس ’’ صلوۃ‘‘ کا منظر بھی ہوتا ہے جسے ’’ معراج المومنین‘‘ اس لئے کہا گیا کہ ایک مشہور روایت کے مطابق’’ اس سجدہ شوق‘‘ کے وقت یا تو مومن اپنی نگاہ تصور میں خدا کو دیکھ رہا ہوتا ہے یا خدا مومن کو۔ زیر نظر پوری غزل ارتقائے حیات اور عروج آدم خاکی کی ان آرزوؤں سے لبریز ہے جو بروقت اور بظاہر خوں گشتہ اور خاک شدہ معلوم ہوتی ہیں مگر ان آرزوؤں سے حیات اور انسانیت کے مضمرات و امکانات روشن ہوتے ہیں۔ اقبال کی غزل او رپوری شاعری انہی مضمرات و امکانات کا وہ نغمہ دل آویز ہے جس کا آہنگ تغزل اور شعریت کی معراج اور سدرۃ المنتہیٰ ہے: سرود رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سرآمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید (اقبال۔ ارمغان حجاز۔ ’’حضور حق‘‘ ) ٭٭٭ عالمی ادب میں اقبال کا مقام ہر ادب اپنی ایک مخصوص فضا رکھتا ہے جس کے پس منظر میں ہی اس کے تخلیقی نمونے نے روبہ عمل آتے ہیں اور پورے طور پر سمجھے سمجھائے جا سکتے ہیں۔ کوئی پارۂ ادب اپنے معاشرے سے الگ ہو کر وجود پذیر اور قابل فہم نہیں ہو سکتا، تمام ادبی تخلیقات ایک خاص ماحول سے تعلق رکھتی ہیں۔ کسی بھی ادب کا جب ایک سانچہ معین ہو جاتا ہے تو اس میں کئے جانے والے ہر تجربے کی ایک روایت ہوتی ہے، جس کے نقوش و اشارات ہی اس تجربے کی عمومی تشکیل کرتے ہیں۔ ادبیات لسانیات پر مبنی ہوتی ہیں، ایک زبان کے اپنے محاورات اور استعارات ہوتے ہیں جو اس کے ادب کے تار و پود تیار کرتے ہیں۔ انسان کی دوسری سرگرمیوں کی طرح ادب بھی وقت اور مقام کی حدود کا فطری طور پر پابند ہے۔ اس عملی حقیقت کے باوجود عالمی اور آفاقی ادب کی گفتگو موجودہ بین الاقوامی صدی میں عام ہو گئی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس گفتگو کی لے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال کا سبب واضح ہے۔ انسانوں کے مختلف اقوام و ادوار میں تقسیم ہونے کے باوجود، انسانیت کا بنیادی تصور تو ایک ہی ہے۔ قدیم زمانے میں یہ بات اولاد آدم اور بندگان خدا کی حیثیت سے کی جاتی تھی۔ اب حیاتیات و نفسیات کی تخلیقات کے علاوہ سائنسی انکشافات، صنعتی ایجادات اور سیاسی و معاشی حالات و واقعات نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔ اس طرح یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ ملک اور دور کے پس منظر کے باوجود ادب کا ایک پہلو عالمی و آفاقی بھی ہے۔ ایک ادبی تخلیق کی خصوصیت جو بھی ہو، اس کے اندر ایک عمومیت بھی ہے یا ہو سکتی ہے۔ کسی ادبی نمونے کا پہلا تعلق تو یقینا اس زبان کے مضمرات سے ہو گا جس میں وہ پیش کیا گیا ہے، لیکن دوسرے مرحلے پر اس کا رشتہ دوسری زبانوں سے بھی قائم ہو سکتا ہے ۔ اگر یہ رشتہ نہیں ہوتا تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ممکن نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ ادب کے خصوصی و عمومی اور مقامی و عالمی پہلوؤں کے درمیان تناسب و توازن کی صورت کیاہو گی؟ اس کا کون سا حصہ محدود ہو گا اور کون سا آفاقی؟ یہ ادبی تنقید کا بہت ہی نازک اور پیچیدہ سوال ہے، اور اس میں بحث و نزاع کی کافی گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں صرف اپنے مطالعے اور غور و فکر کے نتائج پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معلوم ہے کہ ہر ادبی تخلیق مرکب ہوتی ہے دو اجزاء سے، ایک مواد اور دوسرے ہیت، جہاں تک ہیئت اور مواد کو الگ الگ اکائیوں میں بانٹ کر دیکھنے کا تعلق ہے، ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ لسانی وسیلہ اظہار کی تخصیص کے سبب ہیئت ایک بالکل مقامی اور محدود عنصر ہے، جب کہ مواد کے اندر عالمی و آفاقی ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ انسانی ذہن پورے عالم انسانیت کے لئے یکساں ہے۔ لیکن زبانیں مختلف اور متفرق ہوتی ہیں۔ فن کے تنوع میں فکر کی وحدت کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ جدا جدا اسالیب کے درمیان موضوع مشترک ہو سکتا ہے الفاظ کی رنگا رنگی میں معانی کی یکتائی پائی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا مختلف ادبیات کے صرف مواد، موضوع، فکر اور معنی کا موازنہ کر کے ان کے باہمی اوصاف کا تعین کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ ادب جب مواد و ہیئت دونوں ہی اجزاء سے مرکب ہے تو صرف ایک ہی جز کو لے کر پورے مرکب پر کوئی قطعی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ ترجمے سے کسی تحریر کا صرف مفہوم سمجھ میں آ سکتا ہے۔ اس کی قدر و قیمت کی ادبی تعین نہیں ہو سکتی۔ تنقید ادب کے مسلمہ اصول کے مطابق، ادب ایک ایسا تخلیقی مرکب ہے جس کے موضوع اور اسلوب کے درمیان ایک عضویاتی ارتباط ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے عناصر ترکیبی کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے دیکھنے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کی پوری حقیقت گرفت میں نہ آئے اور اس کی نوعیت و اصلیت کا ایک ناقص تصور ہمارے سامنے آئے۔ لہٰذا اس صورت میں دوسرے ادب پاروں کے ساتھ اس کا موازنہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ دوسری طرف، اگر کسی خاص ہیئت کو تنقید و تقابل کا معیار مان لیا جائے، تب بھی یہی خرابی لازم آئے گی۔ بلکہ یہ محض مواد کو معیار ماننے سے بھی زیادہ غلط اور نا قابل عمل صورت ہو گی۔ ہر ادب کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے جس کا ہی اظہار اس کے مختلف اصناف و اسالیب میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اس ذہنیت کو نظر انداز کر کے اس ادب کا کوئی مطالعہ نتیجہ خیز اور درست نہیں ہو گا۔ ایک زبان ایک خاص سماج میں پروان چڑھتی ہے اور اس سماج کے مختلف اداروں اور مسلمہ قدروں ہی کی مطابقت میں اس کے ادب کی ہیتیں تشکیل پاتی ہیں۔ لہٰذا محض کسی ادب کی ہیئت کو الگ سے لے کر اس کا موازنہ دوسرے ادب کی ہیئت سے کرنا ایک فعل عبث ہے۔ تب ادبیات عالم کے تقابلی مطالعے کا صحیح نہج کیا ہے؟ میرے خیال میں اس نہج کے دو بنیادی عوامل ہیں۔ 1۔ ہر ادبی تخلیق میں فکر و فن کا جو مرکب ہو اس کی مجموعی قدروں کا تعین کیا جائے پھر مختلف ادبیات کی قدروں کے مجموعوں کا تقابلی مطالعہ کر کے ان کے باہمی اوصاف کی تشریح کی جائے۔ ایک زبان کا ادب پارہ اپنے عناصر ترکیبی کے جو نتائج پیش کرے ان کا موازنہ دوسری زبان کے ادب پارے کے عناصر ترکیبی کے نتائج سے کر کے ایک تقابلی میزان کل نکالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس طرح مختلف ادبیات کا تحلی تناسب اور اس کی روشنی میں مختلف ادبی نمونوں کے مراتب کی نسبت معلوم ہو سکتی ہے۔ 2۔ لیکن عالمی ادبیات کے اس موازنے کا آخر معیار کیا ہو گا؟ جب تک ایک عمومی و اصولی معیار ایسا نہیں دریافت ہو جائے جس کا اطلاق آفاقی طور پر کیا جا سکے، کوئی موازنہ وہ تقابلی نتائج نہیں پیدا کر سکتا جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ یہ معیار متقابل ادبی تخلیقات کی اندرونی ترکیب کا تنقیدی تجزیہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ادبی تخلیق کی قدر و قیمت معین کرنے کے لئے ایک تنقیدی مطالعے کا بنیادی اصول کیا ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں بحثیں تو بہت کی جا سکتی ہیں او رکی جاتی رہی ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جدید ادبی تنقید میں مواد و ہیئت کی عضویت کے تسلیم کر لئے جانے کے بعد اب یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے کہ ایک ادیب جس نسبت سے اپنے مواد کو ہیئت میں ڈھالتا ہے وہی اس کے نمونہ تخلیق کے وصف کی تعین کا معیار بن سکتی ہے۔ یعنی ہر ادب کا ایک تخلیقی مسئلہ ہوتا ہے، جو اس کے ادب کے دونوں عناصر ترکیبی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک ادبی تخلیق کو دیکھ کر جو ضروری سوال اٹھتے ہیں وہ یہ ہیں: الف: اس تخلیق کا موضوع کیا ہے؟ ب: اس موضوع کو کس اسلوب سے ادا کیا گیا ہے؟ ان سوالوں کا تعاقب کرتے ہوئے، سب سے پہلے تو تخلیق کے مواد کی نوعیت آشکار کی جائے گی، اس کے تمام مضمرات کو تجسس کر کے اس کی اہمیت واضح کی جائے گی، اور ساتھ ہی ہیئت کے مقابلے میں اس کی پیچیدگی کا سراغ لگایا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھنا پڑے گا کہ یہ مواد اپنی مخصوص نوعیت و اہمیت اور پیچیدگی کے ساتھ ایک خاص ہیئت میں کس طرح بروئے اظہار آیا، جو ہیئت اظہار کے لئے اختیار کی گئی وہ کہاں تک موزوں تھی اور کتنی موثر ثابت ہوتی۔ یہ معیار ادبی تخلیقات کے مستقل بالذات مطالعے کے لئے بھی اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا ان کے تقابلی مطالعے کے لئے خواہ یہ تقابل ایک ہی زبان کی ادبیات کے درمیان ہویا مختلف زبانوں کی ادبیات کے مابین، اس معیار کی یہ عمومیت اور ہمہ گیری، عالمی ادبیات کے تقابلی مطالعے کے لئے اس کی موزونی اور نتیجہ خیزی کی ایک اور دلیل ہے۔ یہ تنقید ادب کا سب سے جامع معیار ہے، جس میں تجزیہ و تقابل کی تمام شرطیں بدرجہ کمال پوری ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا ادب کے آفاقی مطالعے کے لئے یہ ایک بہترین معیار ہے۔ اس اصولی موقف سے اقبال کا مقام عالمی ادب میں متعین کرنے کے لئے چند اجتماعی حقائق پر ایک نظر ڈال لینا بھی مناسب ہو گا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اب تک ادب کے عالمی مطالعے کا انداز کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایک آفاقی معیار سے ادبیات عالم کے مطالعے کی کوئی سنجیدہ اور باضابطہ کوشش اب تک نہیں ہوئی ہے۔ مشرقی ادبیات اور مغربی ادبیات کے درمیان کسی تنقیدی موازنے کی کوئی مثال میرے سامنے نہیں ہے۔ اس معاملے میں اہل مشرق بڑی مجبوریوں سے دو چار رہے۔ اور نتیجہ ان کی کوتاہیاں چند در چند ہیں۔ بین الاقوامی دور حاضر کی علمی اور عملی سہولتیں ان کے نصیب میں بہت ہی کم آئیں۔ اس کے علاوہ ان کے ذہن پر مغرب کی مرعوبیت ایسی طاری رہی کہ وہ مغربی ادبیات کے ساتھ اپنی ادبیات کا تقابل کرنے کی جرأت ہی نہیں کر سکے۔ تنقید کی بالیدگی بھی مشرق میں اتنی کم ہوئی کہ خود اس خطے کی زبانوں کی ادبیات کا کوئی تقابلی مطالعہ نہیں کیا جا سکا دوسری طرف اہل مغرب نے جدید علم و حکمت کے تمام اثاثوں اور دعوؤں کے باوجود اس سلسلے میں ایک یکسر غیر علمی اور غیر حکیمانہ روش اختیار کی۔ انہوں نے اپنے خطے کی زبانوں کی ادبیات کا تو ہر جہت سے مطالعہ کیا اور اپنی تنقیدوں کا انداز اکثر و بیشتر بر اعظمی رکھا۔ اس کے علاوہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوئے۔ جنہوں نے مختلف مشرقی زبانوں اور ان کے ادبوں کا بھی الگ الگ مطالعہ کیا۔ لیکن مشرقی ادبیات سے متعلق ان مغربی مستشرقوں کا رویہ عام طور پر سرپرستانہ رہا۔ اور انہوں نے ان کے تقابلی مطالعے کی بھی کوئی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اور صنعت کی طرح تہذیب اور ادب میں بھی اہل مغرب نے اہل مشرق کو اپنے سے بہت کم تر اور بالکل پس ماندہ تصور کیا اور مشرقی ادبیات کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ ان کا سنجیدہ تنقیدی مطالعہ کر کے ان کی عالمی قدر و قیمت تہذیب حاضر کے پس منظر میں واضح کریں اور مغربی ادبیات کے ساتھ ان کا موازنہ نہ کر کے ان کے آفاقی مقام کی تعین کریں چنانچہ مغرب کی ادبی تنقیدوں میں مشرقی ادبیات کے حوالے گویا مفقود ہیں۔ میں اس صورت حال کو اہل مغرب کی ادبی نو آبادیت اور سامراجیت پر محمول کرتا ہوں۔ بہرحال، یہ ادب کا ایک سیاسی اور سرا سر غیر ادبی تصور ہے۔ لیکن لطیفہ یہ ہے کہ اس تصور کے فروغ میں اہل مشرق نے بھی مغرب والوں کے ساتھ بھر پور تعاون کیا ہے۔ جب سے میکاؤلے کی نسل ایشیا میں پروان چڑھی ہے اس نے یہ تبلیغی مہم اپنے سر لے لی ہے کہ ہر جہت سے مشرقی ادبیات کو ناقص محض قرار دیتے ہوئے اس کی تشکیل نو بالکل مغربی معیار ادب پر کر ڈالے۔ چنانچہ اس صدی کی دوسری چوتھائی سے جو ادبی تنقیدیں مشرقی ادبیات میں شروع ہوئی ہیں ان کا نصف صدی کا کارنامہ یہی ہے کہ وہ مغربی ادبیات کے حوالوں سے بھری ہوئی ہیں اور ان میں مشرقی ادیبوں کا جو کچھ موازنہ مغربی ادیبوں کے ساتھ ہے وہ صرف یہ دکھانے کے لئے کہ مشرقی ادب میں وہ کیا کیا نقائص ہیں جن کو مغربی ادب کے معیار سے دور کیا جانا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ ادبی مطالعے کا یہ انداز کہ اس قسم کے ادبی تصورات کو اصول موضوعہ تسلیم کر کے دوسری قسموں کے تمام ادبی تصورات پر حکم لگا دیا جائے اور پھر اسی اصول موضوعہ کے مطابق تمام ادبی نمونوں کی قدر و قیمت معین کی جائے، کسی طرح عالمی ادب کا آفاقی معیار بننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہ تو بالکل مقامی، علاقائی اور محدود قسم کا تصور ہے، جو بجائے اوصاف و اقدار کے محض اغراض و مفادات پر مبنی ہے۔ لہٰذا ادب کے جس مرکب اور متناسب معیار کی نشان دہی میں نے ادبیات عالم کے تقابلی مطالعے کے صحیح نہج پر بحث کے دوران کی ہے اسی پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی اس لئے کہ اس کے مضمرات و عوامل بالکل اصولی اور آفاقی ہیں۔ اور اس میں کوئی نقطہ نظر پہلے سے طے شدہ نہیں ہے جس کو خواہ مخواہ عائد کرنا مقصود ہو، بلکہ وہ ایک یکسر عملی و تجربی معیار ہے جس میں تنقیدی تجزیے اور تقابل ہی کے معروف و مسلم طریقوں سے موضوع مطالعہ کی حقیقت و اہمیت دریافت کرنی ہے۔ اگر انسانیت کی کوئی آفاقی قدریں ہیں تو ان کی تصین عام انسانیت ہی کے معیار و منہاج پر کی جا سکتی ہے۔ اس آفاقی معیار ادب پر جب ہم اقبال کی شاعری کو پرکھتے ہیں تو ہمیں اس کے اندر حسب ذیل دو نکتے نمایاں طور پر نظر آتے ہیں: 1 اقبال کا فنی مسئلہ ان کی صف کے دوسرے تمام عالمی شعراء کے مقابلے میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور دشوار تھا۔ اقبال نے ایک ایسے دور میں شاعری کی جب سائنس اور صنعت کی ترقیات اور سیاست و معاشیات کی تحریکات نے پرانی دنیا کے پورے نظام کو تہہ و بالا کر کے ایک نئی دنیا کے پیچ در پیچ اور رنگ برنگ مسائل کھڑے کر دیتے تھے، علوم و فنون کے سارے انداز بدل رہے تھے، اور انسانی ذہن نت نئی گتھیوں اور الجھنوں سے دو چار تھا، شعور کی گرہوں کے ساتھ ساتھ لا شعور کی تہیں بھی دریافت کی جا رہی تھیں۔ ان حالات و کیفیات سے اقبال کو اپنی تعلیم و تربیت کے دوران براہ راست سابقہ پڑا۔ ان ہی کے بقول وہ ’’ اس آگ میں مثل خلیل ؑ‘‘ ڈالے گئے۔ اس کے علاوہ اقبال نے عالم انسانیت کی ’’ تشکیل جدید‘‘ کا ایک نہایت وسیع اور وزنی نصب العین بھی اختیار کر لیا۔ اور اپنی شاعری کو اس کی تعمیل کا ایک وسیلہ قرار دیا۔ پھر اپنے وقت کے دھاروں کے بالکل برخلاف، انہوں نے اسلام جیسے انتہائی مرکب اور جامع نظریہ حیات و کائنات کو اپنا نصب العین بنایا۔ اس طرح ایک طرف اسلامی نظام زندگی کا احیاء اور دوسری طرف اس احیاء کے ذریعے انسانیت کی ’’ تشکیل جدید‘‘ تفکر کی دوہری مشقت اقبال کے ذہن پر پڑی۔ اس مشقت میں بہت زیادہ اضافہ دو خاص واقعتوں سے ہو گیا۔ ایک یہ کہ اقبال اپنی تربیت کے لحاظ سے باضابطہ ایک فلسفی تھے، جس کے سبب علم و فکر کا ایک بار گراں ان کے دماغ پر تھا۔ دوسرے ان کے ملک کی غلامی انہیں ایک سیاسی جدوجہد پر بھی ابھار رہی تھی، چنانچہ انہیں وکالت و قیادت کی عملی زحمتوں سے بھی گزرنا پڑا اور سیاست کے الجھیڑوں سے نمٹنے کی ضرورت بھی لاحق ہوئی۔ 2۔ اپنی شخصیت اور اپنے زمانے کی یہ ساری پیچیدگیاں ہی وہ مواد تھیں جنہیں اقبال کو ہیئت شاعری میں ڈھالنا تھا۔ یہ امر واقعہ ہمارے سامنے ہے کہ اقبال کے اشعار شعریت کے کسی بھی معیار کے مطابق اعلیٰ قسم کے اشعار ہیں۔ اس لئے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اقبال اپنی فکر کو فن بنانے میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اپنے نصب العین کو ایک شعری وجود عطا کر دیا، ان کے تصورات استعارات میں ڈھل گئے، ان کی آواز نغمہ بن گئی۔ اس کارنامے سے اقبال کا فنی خلوص اور فکری رسوخ دونوں واضح ہو جاتے ہیں۔ اقبال نے اپنے موضوع ذہنی کو ایک جمالیاتی معروضیت بخشی اور اپنی شخصیت کو اپنے فن میں گم کر دیا۔ ان کے شاعرانہ احساسات کی سالمیت قابل رشک ہے۔ کلام اقبال میں مواد ہیئت کی عضویت کمال درجے پر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی تخیل اپنے مختلف عناصر کے موزوں اسالیب اظہار خود تراشی ہے۔ ان کے الفاظ ان کے معانی کے ساتھ بالکل پیوستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دقیق سے دقیق اور ثقیل سے ثقیل خیالات بھی شعری تمثیل و ترنم کی ایمانیت و لطافت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ اقبال کے نظام فکر ہی کی طرح ان کا اپنا ایک نظام اساطیر بھی ہے، جس کے استعارے، تلمیحیں اور کنایے اپنا ایک مخصوص رنگ و آہنگ رکھتے ہیں، اور ان کے اشارات و علامات نے احساسات و جذبات کی ایک خاص الخاص دنیا بسائی ہے۔ ا س دنیا کی امتیازی شان یہ ہے کہ یہاں شاعری کی صنعت نصب العین کی فطرت سے کامل طور پر ہم آہنگ ہے۔ مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنا بندی ان حقائق کے پیش نظر عالمی ادب میں اقبال کا مقام متعین کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ مشرق ادبیات میں ان کی جگہ کیا ہے۔ مشرق میں جو زندہ زبانیں پائی جاتی ہیں۔ ان مشاہیر شعراء کی صف اولین میں سے ہم سب سے پہلے رومی، حافظ، سعدی اور خیام کا موازنہ اقبال کے ساتھ کرنا چاہیں گے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ تو بالکل واضح ہے کہ نہ صرف افکار کی گراں مائیگی اور وسعت کے اعتبار سے بلکہ اصناف و اسالیب کی کثرت اور تنوع کے لحاظ سے بھی اقبال کی جامعیت کا مقابلہ ان میں کوئی ایک شاعر تنہا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا موازنے کی جہت یہی ہو سکے گی کہ اقبال کے کسی ایک ہی پہلو کا تقابل ان میں سے ہر ایک کی پوری شاعری سے الگ الگ کیا جائے۔ موازنے کی یہ جہت ہی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مجموعی طور پر فارسی کا کوئی ایک شاعر پورے اقبال کے برابر نہیں ٹھہرتا۔ اس کے بعد دیکھئے تو رومی کی مثنویات کا حجم جو بھی ہو، اقبال کی فارسی مثنویاں (اسرار و رموز وغیرہ) اور اردو مثنوی (ساقی نامہ) ملا کر یہ اعتبار وصف رومی کی شاعری پر ایک دقیع اضافہ ہے۔ ’’ صوفیت ‘‘ میں ’’ پیر رومی‘‘ اور ’’ مرید ہندی‘‘ کا رشتہ جو بھی ہو شاعری میں معاملہ مختلف ہے ایک تو تنقید میں شعراء کے اپنے بیانات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، دوسرے شاعری کے بارے میں رومی کے متعلق اقبال کا کوئی بیان میرے علم میں نہیں۔ بہرحال فکر و فن کی مجموعی شعریت کا جو انداز کلام اقبال میں ہے وہ کلام رومی پر ایک قدر زائد ہے۔ اقبال نے رومی کے بہترین عناصر کو جذب کر کے ان کے محاسن میں توسیع کرنے کے علاوہ کچھ نئے اوصاف کا اضافہ بھی کیا ہے۔ حافظ کے دیوان کا موازنہ اگر صرف ’’ پیام مشرق‘‘ کے باب غزلیات’’ مے باقی‘‘ سے کر لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ خود حافظ کی زمین پر اقبال کے تصرفات کیا کچھ ہیں۔ اس کے علاوہ ’’زبور عجم‘‘ اور’’ بال جبریل‘‘ کی غزلیں حافظ کی حدود تغزل سے بلا شبہہ آگے نکلی ہوئی ہیں۔ حافظ کے تغزل کی جتنی بھی خصوصیات بتائی جاتی ہیں وہ تو اقبال کی غزلوں میں بدرجہ اتم ہیں ہی ان کے علاوہ شعریت کی جو نئی نئی تہیں، نئے نئے اشارے، تازہ بہ تازہ استعارے، لطیف سے لطیف کنائے اور خیال انگیز تلمیحیں ہیں وہ جدت طراز تخیلات و تصورات اور نہایت دبیز احساسات و جذبات کا پیرایہ اظہار بن کر غزلیات حافظ پر ایک اضافہ ہی تو ہیں دیوان حافظ کی مے باقی غزلیات اقبال میں نہ صرف تازہ تر ہو گئی ہے، بلکہ اس کا نشہ دو آتشہ ہو گیا ہے۔ خیام کی رباعیات’’ پیام مشرق‘‘ کے حصہ رباعیات کے ساتھ ملا کر پڑھی جائیں تو یہ عجیب و غریب نکتہ دریافت ہو گا کہ اقبال کی فکر انگیزی میں خیام کی عیش کوشی سے زیادہ آب و تاب اور انبساط و نشاط ہے، رباعیات اقبال کے مسرت و بصیرت کے مرکب میں رباعیات خیام کے مسرت محض کے مفرد سے زیادہ زور اور اثر ہے۔ اقبال نے بصیرت کو مسرت بنایا ہے، جب کہ خیام نے مسرت کو بصیرت بنانے کی کوشش کی ہے، نتیجہ آسانی سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ سعدی کا موازنہ شعریت میں اقبال کے ساتھ کرنا کوئی بہت موزوں کام نہیں ہے۔ اقبال کا تفوق اس معاملے میں ظاہر ہے۔ جہاں تک دانش وری کا تعلق ہے، اقبال کے اجتماعی تصورات سعدی کی شخصی اخلاقیات سے بہت ممتاز ہیں ار ان کی آفاقی اہمیت واضح تر۔ اردو شاعری میں میر و غالب نے روایت ارتقاء کو جہاں تک پہنچایا تھا، اقبال نے اس سے بہت آگے بڑھا دیا۔ میر کا فنی تجربہ تو بہت ابتدائی اور سادہ قسم کا تھا اور اس کی جو کچھ دلربائی ہے وہ اس کی اسی معصومیت پر مبنی ہے غالب کا تجربہ یقینا بلوغت کی پیچیدگی رکھتا ہے، لیکن اقبال نے اسی بالغانہ پیچیدگی کو درجہ کمال پر پہنچایا اور غالب کے یہاں جو کچھ ناہمواریاں اور سلوٹیں رہ گئی تھیں ان کو بالکل دور کر کے نفاست بیان کا ایک انتہائی معیار قائم کیا۔ معانی کے تنوع اور تخیل کی وسعت میں تو اقبال کا موازنہ میر و غالب کے ساتھ کرنا ہی فضول ہے۔ سنسکرت کے کالی داس اور عربی کے امراء القیس کا اقبال کے ساتھ موازنہ ویسا ہی ہو گا جیسے کسی تجربے کا آغاز کا تقابل اس کی ہیئت عروج کے ساتھ کیا جائے یہاں میں ایک تنقیدی نکتہ پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ یہ کہ اقبال کی شاعری در حقیقت مشرقی ادبیات کی تمام شاعرانہ روایات کا نقطہ عروج ہے۔ فارسی، سنسکرت اور عربی میں شاعری کے جتنے تجربات اقبال سے قبل ہو چکے تھے، ان سب کے بہترین احساسات و نقوش کو اپنے اندر سمیٹ کر اور سمو کر اقبال کے فن نے ارتقاء کا ایک نیا مرحلہ طے کیا، جو اس وقت مشرقی شاعری کی منزل آخریں نظر آ رہا ہے۔ اردو زبان مشرق کی مذکورہ تینوں کلاسیکی زبانوں کی بہترین لسانی روایات کی اہم ترین نمائندہ ہے اور اقبال کی اردو شاعری نے ابھی ان زبانوں کے تمام شعری وسائل کی ترکیب اور ارتکاز اپنے اندر کر لیا ہے، اقبال کا فن مشرق میں اپنے پیش رووں کے کارناموں کی توسیع اور تجدید کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری ہی مشرقی ذہن کی بہترین نمائندہ ہے اور عالمی سطح پر اس کی آفاقی اہمیت کا پس منظر یہی ہے۔ اس پس منظر میں اس شاعری نے وہ فکری و فنی قدریں ترتیب دی ہیں جو بین الاقوامی ادب کا ایک مثالی معیار پیش کرتی ہیں۔ ٹیگور کی شاعری اقبال کے مقابلے میں ٹھوس قدریں بہت کم رکھتی ہے، اتنی کم کہ اگر نوبل پرائز کی سیاسی سفارشیں نہیں ہوتی تو شاید اس مقابلے کا ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ٹیگور کا نغمہ صرف تھکے ہوئے ذہن کے لئے وقتی فرحت کا ایک سامان مہیا کرتاہے، یازیادہ سے زیادہ متصوفانہ جذب کا حامل ہے۔ جب کہ اقبال کا نغمہ انسانی روح کے اندر وہ عرفان و انبساط پیدا کرتا ہے جس سے حیات کی تزئین و تنظیم کے ساتھ ساتھ کائنات کی تسخیر و تشکیل کا حوصلہ اور شعور بیدار ہوتا ہے۔ ٹیگور ہمارے ذہن کو سلاتے ہیں اور اقبال جگاتے ہیں ٹیگور کا کام کائنات کی حرکت کو ایک نقطے پر جامد دیکھنا چاہتا ہے اور زندگی کی الجھنوں سے گریزاں ہے، جبکہ اقبال کی شاعری ترقی پذیر وجود کا ساتھ دیتی اور الجھنوں کے حل میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اقبال جدید ذہن کے پیچیدگیوں کو آئینہ دکھاتے ہیں، اس ترکیب کے ساتھ کہق دیم ارتعاشات بھی جھلک اٹھتے ہیں، جب کہ ٹیگور صرف قدیم ذہن کا بہت ہی سادہ سا انعکاس کر پاتے ہیں اقبال کے نقوش کلام میں جو دبازت ہے، ٹیگور اس سے بہرہ ور نہیں۔ اب عالمی سطح پر صرف تین شعرا ایسے ہیں جن کے ساتھ اقبال کا موازنہ کرنے سے ادبیات عالم میں اقبال کا مقام واضح ہو جائے گا۔ ایک اطالوی شاعر، دانتے (1365-1321) دوسرے انگریز شاعر، شیکسپیئر(1564-1616ئ) تیسرے جرمن شاعر گیٹے (1749-1832ئ) یہ تینوں پوری دنیا کے بہترین و عظیم ترین شعرا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک ان تینوں کے درمیان ترتیب مدارج کا تعلق ہے، اس میں اختلاف کیا جاتا ہے اور ٹھیک جس طرح عالمی سطح پر ان شعرا کی قدر افزائی میں یورپ والے بجائے اصولی و ادبی معیار کے ایک براعظمی و سیاسی تعصب سے کام لیتے ہیں، اسی طرح براعظمی سطح پر ان کے درمیان ترتیب مدارج میں یورپ کے متعلقہ ممالک اور خطے قومی سیاست کی عصبیت اور علاقائی جانبداری سے کام لیتے ہیں۔ بہرحال ہمیں اہل مغرب کی قومی و علاقائی سیاست و عصبیت سے کوئی مطلب نہیں۔ ہمارے مقصد کے مناسب بات یہی ہے کہ ہم نے گزشتہ سطور میں عالمی ادب کے آفاقی و اصولی معیار کی جو تعین کی ہے اس کی روشنی میں اقبال کا موازنہ دانتے، شیسکپیئر اور گیٹے کی شاعری سے کریں۔ تیرھویں، چودھویں صدی کی اطالوی میں دانتے نے جو شاعری کی، کیا واقعی وہ شاعری کے اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی ’’ ڈوائن کومیڈی‘‘ (طربیہ خداوندی) کے تخیل و تفکر کے لحاظ سے؟ کیا اطالوی زبان اور اس کی شاعرانہ روایت دانتے کے مفروضہ عظیم تخیل کی بھی متحمل تھی؟ میں سمجھتا ہوں کہ دانتے کا فنی مسئلہ تو بہت معمولی تھا۔ اس لئے کہ اپنے وقت اور اپنی ادبی و فکری روایات میں اس شاعر کو کسی خاص اور قابل ذکر پیچیدگی سے سابقہ درپیش نہیں تھا۔ لیکن لسانی وسائل کا ایک دشوار مسئلہ ضرور اس کے لئے سد راہ تھا۔ چنانچہ دانتے کے لئے شعری تجربے کی گنجائش بہت ہی محدود تھیں اور وہ شاعرانہ مہم طے کرنے میں بہت دور تک نہیں جا سکتا تھا۔ لہٰذا دانتے کی شاعری اپنی جگہ عظیم ہوتے ہوئے بھی ممطافت و نفاست کے اس درجہ کمال پر نہیں کہ آفاقی معیار سے اس کا موازنہ پورے طور پر اقبال کی شاعری کے ساتھ کیا جا سکے۔ شاعری کے اعتبار سے ڈوائن کومیڈی ہی کی سطح پر جاوید نامہ ایک فائق تر تخلیق ہے۔ سولھویں، سترھویں صدی کے انگریزی شاعر شیکسپیئر سے اپنے تاثر کا اظہار اقبال نے اپنے ابتدائی دور کی نظم ’’ شیکسپیئر‘‘ (بانگ درا) میں کیا ہے اور اس کے حسن کلام کو’’ دل انساں‘‘ کا ’’ آئینہ‘‘ بتایا ہے لیکن پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، بال جبریل اور ضرب کلیم کے اقبال کی شاعری شیکسپیئر کی شاعری سے اسی طرح ایک درجہ آگے ہے جس طرح ’’ پیر رومی‘‘ کی شاعری سے۔ بلا شبہہ شیکسپیئر کا خاص کارنامہ اس کے منظوم ڈرامے ہیں اور اس کے فن کا اصل جوہر انہی میں پوری طرح نمایاں ہوا ہے، جب کہ اقبال کے کلام میں اس صنف سخن کی کوئی اہمیت، جاوید نامہ کی تمثیلی ہیئت اور بعض دوسری تمثیلی نظموں کے باوجود نہیں لیکن ہم عالمی ادب کے آفاق معیار کی تعین کے سلسلے میں یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ محض ایک خاص ہیئت پر انحصار کرنے کے بجائے توجہ اس نقطے پر مرکوز کرنی پڑے گی کہ اعلیٰ شعریت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کیا نسبت قائم ہوتی ہے۔ شیکسپیئر ڈراما نگاری کا یقینا عظیم ترین ماہر ہے اور کردار نگاری میں اس کا جواب نہیں، لیکن جوہر شاعری میں اقبال کا فن عظیم تر ہے۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے میں ایک کسوٹی اہل نظر کے سامنے رکھتا ہوں۔ شیکسپیئر کے ڈراموں سے شاعرانہ عناصر کو نکال کر یکجا کر دیا جائے، اس لئے کہ شاعری ڈرامے کا صرف ایک اسلوب ہے اور اس کی اصلیت ڈرامے کے ہیولے سے ماورا ہے، اس کے بعد شیکسپیئر کے سانٹیوں کو بھی ان شاعرانہ عناصر میں جوڑ کر، شیکسپیئر کی صرف شعریت کا ایک مجموعہ تیار کر لیا جائے۔ اب اس مجموعے کا موازنہ اقبال کے تمام شاعرانہ عناصر کے مجموعے سے کیا جائے۔ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس خالص شاعرانہ تقابل میں اقبال کا فن شیکسپیئر سے عظیم تر ثابت ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیکسپیئر کے شاعرانہ عناصر کا حجم اور وزن اقبال کے عناصر شعری کے مقابلے میں بہت کم نکلے گا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اگر مشہور نقاد ’’ میتھیو آرنلڈ‘‘ کے مقولے ’’ اعلیٰ سنجیدگی‘‘ کو معیار تسلیم کر کے اقبال اور شیکسپیئر کا موازنہ کیا جائے تو شیکسپیئر کا سرمایہ فن اقبال کے مقابلے میں اتنا قلیل ہو گا کہ دونوں کے درمیان تقابلی مطالعے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جا سکے گی۔ اٹھارھویں، انیسویں صدی کے جرمن شاعر، گیٹے کا ذکر اقبال نے اپنے ابتدائی دور کی ایک نظم ’’ مرزا غالب‘‘ (بانگ درا) میں بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’ پیام مشرق‘‘ کو گیٹے کے دیوان مغرب کا جواب ہی کہا جاتا ہے۔ گیٹے کا سرمایہ شاعری بھی دانتے اور شیکسپیئر سے کچھ زیادہ ہے۔ بہرحال،اگر گیٹے کی دوسری تخلیقات سے قطع نظر کر کے صرف اس کی شاعری پر توجہ مرکوز کی جائے تو اقبال کے مقابلے میں یہاں بھی معاملہ مجموعی طور پر وہی نظر آتا ہے۔ جو شیکسپیئر اور اقبال کے موازنے میں دیکھا جا چکا ہے۔ اقبال کے عناصر شاعری گیٹے سے زیادہ ہیں اور گیٹے کے جو ہر شاعری میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اقبال کے یہاں بلند تر پیمانے پر نہیں پاتی جاتی ہو۔ جبکہ کلام اقبال کی تمام اعلیٰ قدریں گیٹے کے یہاں پائی ہی نہیں جاتیں۔ رہی یہ بات کہ گیٹے کی شخصیت بڑی مرکب، ہمہ جہت اور قد آور تھی۔ بلا شبہہ اس معاملے میں مغربی ادبیات کی کسی شخصیت کا پورے معنی میں اقبال کے ساتھ موازنہ اگر ہو سکتا ہے تو وہ گیٹے ہی کی ایک شخصیت ہے۔ لیکن شخصیت کے لحاظ سے جو قد و قامت اقبال کا ہے، کیا گیٹے اس کے قریب بھی کہیں پھٹک سکتا ہے؟ اقبال کی شخصیت نے ایک پورے دور کو پیام انقلاب دیا اور ان کے ذہن میں انسانی ارتقا کے ایک نہایت نازک مرحلے پر عمیق ترین بصیرت کا ثبوت دیا اور ان کی فکر نے ان کے وسیع الاثر تحریک کی رہنمائی کی، جب کہ گیٹے کے ذہن و فکر یورپی نظام اجتماعی کی روایتی حدود سے باہر نہیں نکل سکے، بجز ان شخصی ہنگاموں کے جو اس رومان زدہ شاعر نے معاشرتی اخلاق کی ’’ زنجیروں‘‘ کو توڑ کر وقتاً فوقتاً بپا کئے۔ گیٹے کی شخصیت کا سفلہ پن اس کے مشہور ڈرامے ’’ فاؤسٹ‘‘ کے واقعات و احساسات سے معلوم ہو جاتا ہے خواہ اس کو اعتراف جرم کی ایک عبرت انگیز دستاویز ہی کیوں نہ سمجھا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ گیٹے کی شخصیت سالم نہیں تھی، اس کے احساسات منتشر تھے اور اس کے یہاں فنی معروضیت کا بھی کوئی مستقل معیار نہیں، جب کہ اقبال کی شخصیت کی سالمیت، جمعیت اور شاعرانہ معروضیت بالکل واضح ہے۔ دانتے، شیکسپیئر اور گیٹے پر اقبال کے شاعرانہ تفوق کے اسباب عالمی سطح سے مطالعہ کرنے کی صورت میں بہ آسانی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں نمایاں ترین تنقیدی نکات حسب ذیل ہے: 1اقبال کا انفرادی تجربہ ایک عظیم ترین فنی روایت کی بنیاد پر روبہ عمل آیا۔ میں بتا چکا ہوں کہ اقبال کی شاعری مشرقی ادبیات کے بہترین عناصر کی جامع ہے۔ اس شاعری کو عربی، سنسکرت اور فارسی شاعریوں کے صدیوں کے فنی تجربات ورثے میں ملے اقبال سے پہلے مشرق کی ان کلاسیکی زبانوں میں چند اہم ترین شعراء پیدا ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ اردو میں بھی کم از کم دو عظیم فن کاروں کی تخلیقات سامنے آ چکی تھیں۔ یہ بات دانتے، شیکسپیئر اور گیٹے کو اس پیمانے پر نصیب نہیں ہوئی تھی۔ دانتے تو گویا اطالوی میں پہلا اہم شاعر تھا۔ شیکسپیئر کے انگریزی متقدمین کے تجربات معمولی قسم کے تھے یہی صورت حال جرمن میں گیٹے کو در پیش تھی۔ ان تینو ںزبانوں میں مذکورہ تینوں شعراء کے پیش رووں میں کسی ایسے شاعر کا نام نہیں لیا جا سکتا جو کسی خاص تخلیقی عظمت کا حامل ہو۔ اطالوی اور انگریزی میں تو قصہ یہ ہے کہ دانتے اور شیکسپیئر تک ان زبانوں کی لسانی سلاست بھی مکمل نہیں ہوتی تھی اور ان کے اظہار و بیان کا ڈھانچہ زیر تشکیل تھا۔ ان فن کاروں کی استعمال کی ہوئی زبان میں متروکات کی کثرت اسی حقیقت کی دلیل ہے۔ جہاں تک ان مغربی زبانوں کے پس منظر میں یونانی اور لاطینی کی روایات کا تعلق ہے یا بالکل واضح ہے کہ یورپ کی ان قدیم کلاسیکی زبانوں میں شعری روایت کا وہ سرمایہ موجود نہیں جو عربی، فارسی اور سنسکرت میں ہے، خواہ دوسری اصناف ادب کی جو بھی ثروت ان کے اندر پائی جاتی ہو۔ اقبال سے پہلے عربی و فارسی شاعری کے وسائل بیان و اظہار کی بلاغت ان زبانوں کے صنائع و بدائع کے نہایت ترقی یافتہ نظام سے بھی عیاں ہے۔ مشرق کی کلاسکی شاعری کی بالیدگی و پیچیدگی اور بلوغت و نفاست کا مقابلہ مغرب کی کلاسیکی شاعری قطعاً نہیں کر سکتی۔ 2تیرھویں صدی کے دانتے، سولھویں صدی کے شیکسپیئر اور اٹھارھویں صدی کے گیٹے کے مقابلے میں بیسویں صدی کے اقبال کے مسائل فن جتنے زیادہ تھے اتنے ہی وسائل فن بھی مہیا ہوئے۔ سائنس اور صنعت، سیاست اور معیشت کی ترقیات نے عصر حاضر کے ادب و شاعری کے سامنے جو مسائل کھڑے کر دئیے ہیں ان کا تصور بھی قبل کے ادوار میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ خود ادبیات کی جو ترقیاں اقبال کے زمانے میں ہو چکی تھیں ان کا کوئی سراغ دانتے، شیکسپیئر اور گیٹے کے زمانوں میں ظاہر ہے کہ نہیں ملتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بین الاقوامی ادب اور عالمی شاعری کا کوئی تخیل گیٹے، شیکسپیئر اور دانتے کے سامنے تھا ہی نہیں، ہ تو صرف اقبال ہی کو نصیب ہوا چنانچہ دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں اقبال وہ تنہا شاعر ہیں جنہوں نے شعوری طور پر، اعلان کر کے آفاقی قدروں کو سامنے رکھ کر ایک عالمی شاعری کا نمونہ کمال تخلیق کیا۔ا س اعتبار سے فکر و فن، فلسفہ و شاعری دونوں میں اقبال نے مشرقی و مغربی تمام ہی ادبیات کی بہترین روایات اور عظیم ترین تجربات کو اپنی منفرد تخلیقات میں ترکیب دے کر ایک بہتر اور عظیم تر فن کاری کا ثبوت دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے شعر و ادب کو پیش آنے والے مشکل ترین مسائل کو اپنی فن ریاضت اور فکری بلوغت کے بل پر موثر ترین وسائل شعری میں تبدیل کر دیا، اور اس طرح ادبی و شعری اظہار و بیان کے امکانات بے حد وسیع کر دئیے۔ جدید ترین احساسات اور دقیق افکار کو نفیس ترین شاعری میں ڈھالنے کا جو کارنامہ اقبال نے انجام دیا ہے اس کی عظمت کا اندازہ کرنے کے لئے انگریزی کے دور جدید شعر ائیٹس اور الیٹ کے ساتھ اقبال کا تقابلی مطالعہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ شعرا اقبال کے مقابلے میں کتنے کچے اور چھوٹے ہیں۔ ئیٹس تو دود جدید کے مسائل کی تاب ہی نہ لا سکا اور بالعموم اپنے وطن آئر لینڈ کے مرغزاروں میں پناہ گیر رہا۔ چنانچہ اس کے فن پر حقیقی زندگی کی جو کچھ پرچھائیاں ہیں وہ سطحی اور مقامی سیاست تک محدود ہیں اور ان کی شعری قدر و قیمت بہت مشتبہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آفاقیت کی اس کی معدودے چند کوششیں بہت ہی مختصر اور ہلکی ہیں۔ دوسری طرف الیٹ پر مسائل حیات بجلی بن کر گرے اور انہوں نے اس کے فن کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ چنانچہ اس کی شاعری، اس کی مشہور ترین نظم کے عنوان کے مطابق ایک ’’ خرابہ‘‘ ہے جس میں اس نے تباہ شدہ ٹکڑوں کو فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اس معاملے میں الیٹ کی فنی الجھنوں کی انتہا یہ ہے کہ اپنی مذکورہ نظم کے اشارات کی ایک شرح اس کو لکھنی پڑی، اس کے باوجود یہ تخلیق اور اس کی دوسری تمام اہم تخلیقات ادب کے اکثر قارئین کے لئے ’’ مسائل تصوف‘‘ ہیں جن کے اسرار و رموز سے لطف اہل ارادت ہی اپنی خوش عقیدگی کی بدولت لے سکتے ہیں۔ ان دونوں کے برخلاف، اقبال نے نہ صرف یہ کہ عصر حاضر کے تمام اہم اور بنیادی مسائل کو اپنی شاعری میں بالکل جذب کر لیا بلکہ ان سے وسائل فن بھی پیدا کئے ہیں۔ انہوں نے واقعات کو استعارات میں بدل دیا ہے اور حقائق کو علامت کی لطافت عطا کی ہے۔ تاریخ اقبال کی چابک دست فن کاری اور غلاق تخیل کے ہاتھوں تلمیح بن گئی ہے۔ انہوں نے زندگی کے ٹھوس عناصر کو اپنے فن کے رنگ و آہنگ میں ڈبو کر اساطیر بنا دیا ہے۔ اقبال کے کلام میں کائنات کی ہر ادا شاعرانہ تمثیل و ترنم کے ساتھ نقش پذیر ہوتی ہے۔ دور حاضر کے ادب و شاعری میں قاموسیت کی کوشش الیٹ نے بھی کی مگر اس کو شعریت کا روپ دینے میں کامیابی حاصل کی صرف اقبال نے۔ اس کے علاوہ جس طرح اقبال کی شعریت بلیغ و لطیف ترین ہے اسی طرح ان کی قاموسیت بھی، بخلاف الیٹ کے، ہمہ گیر اور وسیع ترین ہے۔ اقبال کے پیش نظر شاعری کے ذریعے ایک نصب العین کی ترجمانی تھی جبکہ دانتے، شیکسپیئر اور گیٹے کے سامنے اتنا سنجیدہ اور پیچیدہ کوئی تصور نہیں تھا۔ اس طرح بہ خلاف اپنے ہم صف دوسرے شعراء کے اقبال کے فن پر فکر کا دباؤ انتہائی حد تک بڑھا ہوا تھا۔ اس صورت حال کے باوجود، اقبال نے شاعرانہ ایمائیت کے جس کمال کا ثبوت دیا ہے وہ دنیائے ادب میں ایک نادر اور بے نظیر واقعہ ہے۔ بلا شبہہ دانتے کے پاس بھی مسیحیت کا تصور تھا اور گیٹے بھی کچھ افکار رکھتا تھا، جن میں مسیحی قدریں بھی شامل تھیں اور ان اقدار فکر کا سراغ شیکسپیئر کے تخیل میں بھی ملتا ہے، مگر نصیب العین کو وہ محیط باضابطگی جو اقبال نے اسلامی نظریہ کائنات اور نظام حیات کی صورت میں اختیار کی کسی دوسرے شاعر کے یہاں قطعاً نہیں پائی جاتی۔ عظیم ترین عالمی شعراء کی سطح سے ذرا نیچے اتر کر ہم باضابطہ فکری و نظریاتی شاعری کا تجسس کریں تو ملٹن پر نگاہ پڑتی ہے۔ لیکن ملٹن کی شاعری شعریت کے اعتبار سے ایسی نہیں کہ اس کا موازنہ اقبال کے کلام کے ساتھ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ مسیحی نصب العین کے باوصف، ملٹن کے تصور کی آفاقیت بہت ہی مشتبہ ہے وہ عیسائیت کے اندرونی فرقہ وارانہ مناظروں میں اس درجہ محو تھا کہ عالم انسانیت کو کوئی پیغام دینے کے لئے اس کا ذہن فارغ نہ تھا۔ چنانچہ ملٹن کا مطمح نظر عالم مسیحیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کے برخلاف، مشرق اور ملت اسلامیہ کے پس منظر کے باوجود اقبال نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ ان کا مقصود نظر پوری انسانیت ہے اور اسلام کا اصولی تصور انہوں نے سراسر آفاقی سطح پر پیش کیا ہے۔ اسی لیے اقبال اسلام کو محض کسی ملت کے نسلی یا جغرافیائی مذہب کے طور پر نہیں، بلکہ ایک آفاقی فلسفے، ایک عالمی نظریے اور ایک انسانی دعوت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ ’’ مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق‘‘ بہر حال، اقبال نے زندگی کے ایک نصب العین کو شاعری کی ہیئت میں اس کے تمام لوازم و عناصر کے ساتھ نافذ کیا، اس طرح کہ نصب العین کی اصولی قطعیت شاعری کے تخلیقی عمل میں گرچہ برقرار رہی مگر اس نے ایک ایمائی پیرایہ اختیار کر لیا۔ یہ فکر اور فن کی مستقل بالذات ہستیوں کے درمیان ایک ازدواج کامل کی مثال تھی ۔ یہ خلوص فکر و فن کا تخلیقی امتزاج تھا۔ اقبال کے مفکرانہ سوز اور شاعرانہ گداز نے مل کر ایک ایسی ہیئت اظہار اختیار کی جس کی کوئی نظیر عالمی ادب کی پوری تاریخ میں نمودار نہیں ہوئی ہے۔ اقبال کی شاعری در حقیقت مشرقی اور مغربی ادبیات کا ایک آفاقی پیمانے پر نقطہ اتصال بھی ہے اور نقطہ عروج بھی۔ نظر عمومی طور سے بروئے عمل آ جائے تو اب یہ واقعی ممکن ہے کہ پورے معنی میں عالمی ادب کی تخلیق ہو جس کی قدر و قیمت صحیح معنی میں ایک بین الاقوامی معیار تنقید سے معین کی جائے ۔ اس وقت اقبال کا نمونہ کامل عالمی ادب کا سب سے روشن مینار ہدایت ہو گا: مشرق سے ہو بے زار، نہ مغرب سے حر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر (اقبال) ٭٭٭ (اس مقالے کو ایک مستقل کتاب کا خلاصہ یا مقدر سمجھا جائے) اشاریہ شخصیات ابراہیم ؑ/ خلیل ؑ اللہ 76, 141, 237, 274, 275, 302, 318, 566 ابلیس/شیطان۔ 65, 78, 87, 88, 96, 100, 122, 123, 124, 125, 126, 127, 128, 129, 130, 132, 165, 278, 281, 282, 427, 434, 436, 437, 438, 439, 440, 441, 442, 443, 447, 448, 449, 450, 453, 454, 455, 480, 497 ابن رشد57, 58 ابن سینا58 ابو الاعلیٰ مودودی216, 530 ابوالحسن ندوی530 ابوالکلام آزاد329 ابو العلاء معری56 ابو العلاء مقری57, 58 ابوجہل64, 96, 159 ابوذرؓ306 احسان بن دانش24 احمد292 احمد سرہندیؒ/مجدد الف ثانیؒ79,122/177, 167 احمد شاہ ابدالی 80, 87, 116, 168, 169 اختر اور نیوی150 اختر شیرانی24 آدم (حضرت) 64, 73, 76, 78, 81, 88, 99, 120, 128, 333, 340, 342, 343, 345, 372, 373, 376, 423, 424, 426, 444, 497, 557 ارسطو58, 204, 206 آرنلڈ میتھیو37, 40, 72, 226, 426, 456, 461, 462, 476, 478, 531, 573 آزاد24, 46 آسن (پروفیسر)57 آصف برخیاہ116 افلاطون58, 206, 393, 394, 429, 431, 432, 572, 578 اقبالؒ 1, 2, 3, 4, 5, 6, 7, 8, 9, 10, 11, 12, 13, 17, 19, 23, 24, 26, 27, 28, 29, 30, 31, 32, 33, 34, 35, 36, 37, 38, 39, 40, 41, 42, 45, 46, 47, 48, 49, 50, 53, 55, 56, 58, 59, 60, 61, 62, 63, 64, 65, 66, 67, 68, 70, 71, 72, 74, 75, 81, 84, 85, 86, 87, 88, 89, 90, 91, 92, 93, 94, 95, 97, 99, 100, 101, 102, 103, 105, 106, 107, 111, 112, 114, 115, 116, 117, 118, 119, 120, 121, 122, 123, 125, 126, 127, 128, 129, 130, 131, 134, 135, 136, 137, 138, 144, 145, 146, 147, 148, 149, 150, 151, 153, 154, 158, 160, 161, 162, 163, 164, 166, 168, 169, 172, 173, 173, 175, 176, 177, 178, 179, 780, 181, 182, 183, 184, 185, 186, 187, 188, 189, 190, 191, 192, 193, 194, 195, 196, 197, 198, 199, 200, 201, 203, 204, 206, 207, 208 ,209, 210, 211, 212, 213, 214, 215, 216, 218, 219, 220, 222, 223, 224, 225, 226, 231, 232, 234, 235, 237, 23, 241, 245, 246, 247, 248, 249, 250, 251, 252, 253, 254, 255, 257, 258, 259, 260, 261, 262, 263, 264, 265, 266, 267, 268, 269, 270, 271, 272, 273, 274, 275, 276, 278, 279, 280, 281, 281, 284, 288, 289, 290, 291, 292, 294, 295, 296, 297, 298, 299, 300, 301, 302, 303, 313, 317, 319, 320, 321, 322, 326, 327, 328, 329, 330, 331, 332, 333, 334, 336, 337, 338, 340, 341, 342, 343, 344, 345, 346, 347, 348, 349, 350, 351, 356, 357, 359, 360, 361, 362, 364, 366, 367, 368, 369, 370, 377, 378, 379, 381, 383, 385, 386, 387, 388, 389, 390, 391, 392, 393, 394, 395, 396, 397, 398, 399, 400, 401, 402, 403, 405, 406, 407, 408, 409, 410, 411, 414, 415, 417, 418, 423, 425, 426, 428, 429,430, 432, 433, 434, 435, 436, 437, 438, 439, 440, 441, 442, 445, 446, 449, 453,455, 462, 463, 465, 466, 467, 468, 469, 470, 471, 472, 473, 474, 476, 477, 476, 480, 481, 482, 483, 484, 485, 486, 487, 493, 494, 495, 496, 497, 498, 499, 500, 501, 502, 503, 504, 505, 506, 510, 512, 513, 514, 515, 516, 517, 518, 519, 520, 521, 522, 523, 524, 525, 526, 528, 529, 530, 531, 532, 533, 534, 535, 539, 540, 541, 542, 543, 548, 550, 551, 552, 553, 554, 555, 556, 558, 559, 560, 566, 567, 568, 566, 570, 571, 572, 573, 574, 575, 576, 577, 578 اکبر19, 24 امپسن410, 418, 419, 420, 422, 456 امراء القیس569 انیس15 اھرمن156, 160 ایلیٹ، ٹی، ایس14, 16, 19, 24, 25, 36, 37 39, 45, 63, 89, 91, 98, 112, 129, 211, 212, 213, 216, 217, 218, 229, 234, 288, 289, 290, 261, 292, 328, 331, 342, 357, 366, 367, 456, 478, 531, 576, 577 بایرن19 بایزید285 براؤننگ24 برکلے460 برگساں111 برنارڈ شاہ51 بطلیموس55, 58, 59, 61, 63, 71, 93, 97 بکر86, 95, 99 بلیک19, 342, 363, 364, 365, 366, 367, 377, 410, 411 بن جالس226 بھرتری ھری80, 168 بہزاد486 بیٹرس102, 103, 106, 207, 208, 211, 214 پطرس24 پکارڈا205 پگارسس ۔Pageasus 418 پوپ16, 19, 23, 231, 242, 343, 344, 345, 348, 359, 478, 484 پورس266 ٹالسٹائی123, 156, 157, 160 ٹام86, 95 ٹامس ایکوائی نس57, 58, 94 ٹیپو سلطانؒ شہید80, 87, 116, 122, 168, 169, 170, 392, 328, 467 ٹیگور570 ٹینی سن24, 402, 404, 477 جارج سینٹا یانا89, 91, 106, 111, 112 جانسن37 جاوید21, 81, 172, 212, 215, 550 جگر مراد آباد40 جبرئیل ؑ (روح القدس)111, 132, 133, 234, 237, 261, 276, 203, 278, 420, 429, 433, 427, 537, 554, 556 جذبی24 جعفر65, 78, 143, 144, 166 جگر مراد آباد18 جگندر424 جمال الدین افغانی 65, 69, 76, 120, 122, 161 جمیل مظہری24 جنید285 جوش18, 24 جہاں دوست۔75 جہاں دوست154 چودھری59 حافظ11, 20, 23, 48, 49, 67, 190, 218, 485, 517, 541, 568, 569 حالی24, 45 حسرت موہانی49, 336 حضرت حسینؓ 18, 274, 285, 393 حفیظ24 حکیم مریخی65, 87, 88, 96, 101, 102, 121, 128, 130, 164, 167, 195 چکبست24 خاقان452 خسرو پرویز132, 473, 511, 512 خضر ؑ (حسرت) 163, 226, 227, 228, 319, 321, 322, 323, 324, 325, 326, 327, 328, 330, 331, 313, 499, 525 خواجہ اہل فراق۔۔۔ دیکھئے ابلیس خیام 115, 568, 569 دارا 132, 394 دانتے 1, 3, 11, 27, 34, 37, 38, 39, 46, 50, 53, 55, 56, 57, 58, 59, 60, 65, 67, 68, 69, 70, 71, 72, 75, 76, 77, 84, 85, 86, 88, 89, 90, 91, 93, 94, 96, 97, 99, 100, 101, 102, 103, 106, 107, 110, 111, 112, 116, 117, 118, 121, 122, 124, 125, 126, 127, 128, 130, 131, 134, 135, 136, 137, 138, 139, 140, 144, 145, 146, 147, 148, 149, 150, 151, 156, 158, 172, 173, 174, 176, 177, 178, 179, 180, 184, 185, 186, 187, 188, 189, 203, 204, 205, 206, 207, 208, 209, 210, 211, 212, 213, 216, 217, 218, 231, 233, 234, 246, 245, 259, 266, 295, 098, 328, 367, 438, 440, 487, 495, 541, 571, 573, 574, 575, 577 دبیر15 درد19 ڈرائیڈن229, 231, 478, 484 ڈک86, 95 ڈون16, 19, 234 رازی416 راشد۔ ن م19 رام چندر جی وشوامتر/جہاں دوست 75, 118, 122, 154, 160 رچرڈز37, 403, 404, 409, 410, 417, 418, 419, 420, 421, 422, 456 روجرز342, 343, 344, 345, 346, 347, 348, 358, 359 روح ہندوستان78 روش صدیقی24 رومی 15, 17, 20, 22, 74, 75, 104, 108, 116, 117, 122, 123, 125, 127, 141, 142, 143, 151, 152, 153, 154, 155, 162, 163, 164, 165, 166, 167, 218, 416, 464, 486, 487, 488, 468, 572 زرتشت 66, 67, 76, 156, 160, 214 زروان 87, 88, 96, 97, 102, 108, 109, 110, 117, 153 زندہ رود 80, 161, 162, 164, 165, 169, 171 ذوالفقار علی خان 424 زھرہ (شخصیت) 107 زید 86, 95, 99 سامری 81 سپنسر17 سٹینونسن279 سروش 87, 88, 97, 102, 103, 104, 105, 106, 117, 155 سعدیؒ 177, 486, 568, 569 سعید حلیم پاشا 65, 76, 120, 161 سکندر 132, 394 سکندر علی وجد24 سلیم 285 حضرت سلیمان ؑ 116, 159 سنجر285 سودا 49 سوئفٹ53, 86, 95, 96, 99 سوئیزن 24 سیزر 398, 447 سیماب24 سینائی ؒ /سینا 301, 368, 519, 529, 533, 538 شاد 9 شداد 77 شرف النساء 79 شلنگ 461 شیریں 445, 511, 512 شیطان۔ دیکھئے ابلیس شیکسپیئر 7, 11, 17, 21, 22, 23, 24, 37, 38, 39, 46, 50, 51, 59, 100, 111, 151, 191, 213, 217, 218, 229, 231, 233, 234, 245, 254, 256, 257, 258, 271, 295, 297, 328, 329, 341, 357, 358, 367, 440, 477, 495, 531, 571, 572, 573, 574, 575, 577 شیلے 19, 24, 39, 189, 190, 245, 254, 255, 331, 324, 360, 503, 504, 505, 506 صادق 65, 78, 143, 166 صفی 24 طارق 427 طوسی 115 طہ 530 عارف ہندی 214 عبدالحق 248 عبدالرحمن بجنوری 10, 11, 67, 68 عبدالعزیز خالد 18 عبدالمغنی (ڈاکٹر) 1, 9, 113 عرفی 20, 23 عطار 15, 17, 519 حضرت علیؓ 306, 393 علی ہمدانی سید (امیر کبیر)79, 80, 168 عمر 86, 95, 99 غالب 4, 5, 10, 11, 12, 13, 19, 23, 40, 41, 45, 46, 48, 49, 65, 77, 120, 121, 123, 149, 150, 165, 218, 222, 284, 342, 517, 569, 573 غلام رسول مہر550 غنی کاشمیری۔ طاہر غنی کاشمیری 40, 79, 80, 112, 269 فارابی301 فاسٹر۔ ای۔ ایم422, 423 فانی 49 فراق 19, 24 فخر الدین علی احمد 4, 19, 24 فردوسی 20, 44, 486, 487 فرعون 65, 77, 81, 120, 141, 142, 163, 206 فرھاد 445, 473, 511 فغفور 452 فور کوارٹس 290 فیض 19 قرۃ العین طاہرہ 65, 77, 120, 121, 123, 165 قیصر 306, 510 کالی داس 218, 569 کانٹ 461 کچز 65, 77, 120, 141, 142, 163, 206 کرسٹائینا روزیٹی 475, 476 کسریٰ 306 حضرت کلیم اللہ ؑ 81, 82, 132, 142, 237, 446, 489 کلیم الدین احمد 1, 2, 4, 5, 6, 8, 10, 11, 12, 13, 14, 15, 16, 18, 19, 20, 21, 23, 24, 25, 27, 28, 29, 30, 31, 32, 33, 34, 35, 36, 37, 40, 42, 48, 49, 50, 51, 52, 53, 54, 55, 56, 59, 61, 63, 64, 65, 66, 67, 68, 70, 71, 72, 75, 79, 80, 81, 84, 89, 90, 91, 92, 93, 95, 96, 97, 98, 99, 100, 101, 102, 106, 107, 108, 111, 112, 113, 117, 118, 119, 120, 121, 122, 125, 126, 127, 128, 129, 130, 131, 133, 135, 136, 138, 139, 144, 145, 146, 149, 150, 151, 154, 157, 159, 161, 162, 172, 173, 174, 175, 176, 177, 178, 181, 183, 184, 186, 187, 188, 189, 190, 191, 192, 193, 194, 195, 196, 197, 198, 199, 203, 204, 206, 207, 208, 211, 212, 213, 215, 216, 217, 218, 221, 222, 223, 225, 226, 225, 230, 236, 237, 242, 243, 245, 246, 247, 248, 249, 250, 251, 253, 254, 256, 257, 258, 259, 161, 263, 265, 266, 267, 268, 269, 270, 271, 273, 275, 276, 280, 281, 282, 284, 286, 287, 288, 289, 291, 292, 293, 294, 296, 297, 298, 299, 231, 236, 237, 242, 243, 245, 246, 247, 248, 249, 250, 251, 253, 254, 256, 257, 258, 259, 161, 263, 265, 266, 267, 268, 269, 270, 271, 273, 275, 276, 280, 281, 282, 284, 286, 287, 288, 289, 290, 291, 292, 293, 294, 296, 297, 298, 299, 31, 323, 324, 328, 329, 330, 331, 332, 333, 334, 336, 337, 338, 340, 341, 342, 343, 344, 345, 350, 355, 356, 357, 358, 359, 360, 362, 363, 365, 367, 369, 370, 377, 378, 379, 381, 387, 388, 389, 390, 395, 401, 402, 403, 404, 406, 410, 411, 412, 413, 414, 415, 416, 418, 418 422, 423, 424, 425, 433, 434, 435, 436, 438, 439, 440, 455, 456, 462, 463, 465, 466, 467 470, 471, 473, 475, 476, 477, 479, 482, 483, 484, 486, 487, 494, 496, 498, 499, 501, 503, 504, 506, 513, 514, 515, 516, 518, 519, 521, 522, 523, 524, 525, 527, 529, 530, 531, 532, 533, 534, 535, 536, 538, 539, 540, 541, 542, 543, 548, 556 کوپرنیکس 55, 58, 59, 61, 63, 71, 93 کولرج 19, 456, 460, 461, 462, 477 کیٹس 19, 24, 39, 129, 130, 189, 190, 191, 245, 290, 331, 357, 376 کیٹو 102, 113, 116 کیقباد 132 گاندھی 391 گوتم بدھ 66, 67, 76 122, 155, 156, 160, 214 گوئبلز150 گیٹے 11, 25, 34, 37, 38, 39, 46, 100, 111, 218, 231, 233, 234, 245, 259, 295, 298, 328, 341, 367, 440, 487, 494, 571, 573, 574, 575, 577 لاپیا88, 79,118 لاک 460, 461 لوسی 348 لیلیٰ104 لینن 427, 510 لیوس 37, 410, 456, 478, 479 مارکس 446, 447, 448 مارول 342, 363, 364, 365, 377, 378, 335, 438 مجاز 24 طہٰ530 یسین 530 رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ پیغمبر ؐ اسلام، النبیؐ، رسول ؐ، 56, 57, 58, 59, 63, 66, 67, 74, 76, 77, 78, 83, 91, 92, 94, 115, 159, 160, 193, 209, 214, 234, 260, 261, 266, 276, 443, 450, 451, 454, 466, 470, 471, 492, 530, 522, 523, 529, 530, 552, 553 محمود 292 محمود غزنوی 274, 275 محی الدین ابن عربی 56 مزدک 447, 448 مسولینی 396, 397, 398, 399, 428 مصطفیٰ کمال پاشا76, 80, 161 معصوم کاظمی 6 ملٹن 3, 11, 24, 27, 34, 328, 340, 435, 436, 438, 439, 440, 442, 449, 455, 477, 480, 541, 577 منصور حلاج 65, 77, 78, 79, 120, 121, 123, 165, 195, 196 مومن19 منیرہ بیگم 483 مہدی برحق195 مہدیؒ سوڈانی 120, 122, 142, 163 میر 45, 48, 49, 223, 261, 262, 263, 569 میر کلو (از مانپوری )278 ابن مریم مسیحؑ /عیسی ؑ/مسیحا ؑ66, 67, 76, 158, 214, 270, 446, 452, 507 میکالے 6, 35 میکاول 565 نادر شاہ ایرانی 80, 87, 116, 168, 169 نادر شاہ غازی 519 ناصر خسرو علوی 129 نبیہ مریخی 65, 87, 88, 96, 101, 102, 121, 128, 130, 164, 167, 195 نپولین 427 نمرود 81, 470 نیاز فتح پوری 322 نیٹشے 78, 122, 166, 167, 395 (مجذوب فرنگی) 392 ورجل 208 ورڈز ورتھ 16, 19, 20, 28, 29, 271, 329, 344, 499, 500, 503 ڈاکٹر ول ڈیوراں 58 ہاؤس مین 476 ہوپ کنز 16, 19, 333, 341, 342, 378, 379, 384, 402, 403, 404, 405, 406, 407, 408, 409, 410, 411, 413, 415, 416, 417, 418, 426, 541 ہیری 86, 95 ہیوم 460 حضرت یعقوب ؑ 318 یلدرم 138 حضرت یوسف ؑ 317, 317 یوسف سلیم چشتی۔ 58, 63, 68, 176, 177, 180, 181, 182, 250 یولیسس 102, 113, 116 ییٹس 16, 19, 24, 39, 229, 245, 290, 331, 342, 343, 344, 345, 348, 349, 353, 355, 356, 357, 358, 359 ٭٭٭ کتب و رسائل اپنی تلاش میں 19 اردو ادب 7 اردو تنقید پر ایک نظر 13, 14,91 اردو شاعری پر ایک نظر 5, 14, 36, 91, 149, 191, 622, 291, 378 ارمغان حجاز 204, 433, 434, 440, 559 اسرار و رموز 17, 474 اسلام اور ڈیوائن کامیڈی 58 اقبال اور عالمی ادب 1, 4, 5, 8, 36, 254 اقبال ایک مطالعہ 5, 6, 8, 10, 32, 36, 71, 127, 130, 140, 141, 170, 174, 191, 223, 224, 247, 320, 341, 342, 343, 378, 513 اقبال کا تصور خودی9 اقبال کا فن 9 اقبال کی پانچ نظمیں224, 225 اقبال کی فارسی شاعری 541 اقلیدی 250 ام الکتاب۔ دیکھئے قرآن انجیل 437 آہنگ4, 5 بال جبریل 9, 74, 100, 201, 344, 171, 372, 373, 383, 384, 386, 387, 390, 396, 399, 424, 426, 440, 467, 468, 469, 472, 474, 485, 506, 518, 519, 523, 534, 525, 536, 538, 539, 547, 553, 554, 555, 557, 568, 572 بانگ درا 14, 19, 191, 199, 204, 257, 368, 392, 413, 423, 424, 430, 431, 434, 467, 473, 474, 485, 505, 513, 525, 534, 535, 539, 557, 572, 573 پریکٹیکل کوٹی مزم 421 پس چہ باید کرد اے اقوام شرق 493, 494 پیراڈائیز لوسٹ 34, 438 پیام مشرق 100, 182, 440, 494, 506, 541, 542, 543, 545, 551, 556, 558, 568, 569, 572, 573 تحلیل نفسی اور ادبی تنقید98 تشکیل جدید 6, 7, 12, 39, 418 تشکیل جدید الہیات اسلامیہ Reconstruction of relegious thoughts in islam 66, 94,195, 470, 494 جاوۃ اعتدال 6 جاوید نامہ 55, 56, 59, 60, 61, 62, 68, 69, 71, 80, 84, 85, 87, 89, 91, 92, 93, 95, 100, 102, 103, 106, 107, 108, 114, 116, 117, 118, 119, 123, 124, 126, 127, 131, 132, 133, 135, 137, 145, 146, 151, 153, 154, 170, 172, 173, 175, 176, 177, 178, 179, 181, 182, 188, 193, 203, 207, 210, 212, 213, 214, 215, 219, 250, 278, 281, 357, 438, 440, 516, 572 خطبات مدارس 794, 290 داستان نو 177 دی فلاسفی آف ریٹرک 420 دیوان مغربی 25 دیوان حافظ11, 176, 177 دیوان مغرب 573 دی ویسٹ لینڈ39, 45 ڈیوائن کامیڈی 55, 56, 57, 58, 59, 60, 61, 62, 68, 69, 70, 71, 72, 75, 76, 89, 93, 100, 101, 106, 107, 117, 118, 121, 123, 126, 131, 135, 137, 151, 153, 158, 163, 173, 176, 178, 188, 205, 207, 211, 212, 242, 571, 272 رباعیات خیام 569 رسالہ الغفران 56, 58 زبور عجم 7, 136, 137, 506, 517, 541, 542, 545, 547, 548, 551, 552, 555, 568, 572 سیلیکٹڈ ایسیز 36, 217 شاہنامہ 15, 176, 177 ضرب کلیم 35, 42, 193, 194, 195, 198, 199, 202, 2003, 266, 335, 336, 391, 392, 393, 394, 395, 397, 398, 400, 423, 424, 427, 430, 440, 471, 474, 485, 486, 522, 523, 524, 526, 527, 528, 534, 535, 536, 539, 552, 572 عالمی ادب میں اقبال کا مقام (مقالہ) 5, 6, 7, 8, 11, 39 فتوحات مکیہ 56, 62, 93 فاؤسٹ34, 573 قرآن حکیم /کلام الٰہی /کلام خدا/فرقان 73, 76, 79, 94, 161, 167, 178, 215, 216, 260, 261, 283, 316, 335, 361, 451, 469, 470, 471, 488, 520, 529, 530, 537, 552 کامیڈیا 68 کتاب7 کلیات فارسی 550 کامپلیکس ورڈز 419, 420 گلستان 176, 177 گلشن راز جدید 59, 102 مثنوی (سعدی) 176, 177 (ماہنامہ) مریخ98 ’’ مطالعہ شاعری‘‘ 489 مکتوبات (امام ربانی)177 موازنہ اقبال و غالب 541 وید10 ٭٭٭ مقامات ابی سینیا /حبش 159, 397 اٹلی 47, 57, 58, 399 آفتاب /سورج /مہر/خورشید 64, 71, 75, 133, 137, 157, 238, 282, 286, 287, 301, 309, 311, 312, 362, 363, 377, 397, 424, 429, 489, 491, 505, 522, 534 اعراف /برزخ 61, 62, 434, 436 افریقہ 93, 397, 523 افغانستان 481 امریکہ 116 انگلستان /برطانیہ 47, 115, 397 ایران /فارس 11, 15, 54, 200, 537, 550 آئرلینڈ 356, 576 ایشیا 40, 93, 168, 169, 200, 201, 202, 203, 116, 216, 327, 397, 523, 537, 565 بدر 274, 285, 318 برزخ ۔ دیکھئے اعراف برطانیہ۔ دیکھئے انگلستان بغداد 200, 237 بہار 74, 150 بہشت /جنت 61, 62, 64, 70, 74, 79, 97, 133, 149 بیت المقدس 283 پٹنہ 4, 90, 35, 149, 150, 357, 436 پربت خافظین 138 پرتگال 397 پلوٹو 64 پنجاب 167 تبریز 301 ترکی 300, 311, 312, 316 تہران 203 جاپان 116 جرمنی 47, 300, 311, 391, 395 جنت۔ دیکھئے بہشت جنیوا203 جہنم /دوزخ 61, 62, 65, 70, 79, 97, 136, 139, 176 چاند/قمر/ماہتاب 64, 65, 72, 74, 104, 137, 138, 139, 147, 154, 204, 206, 404, 489, 505, 522, 535, 549 حجاز 200, 241, 274, 537, 559 حنین 274, 285, 318 خرطوم 163 خورشید ۔ دیکھئے آفتاب خیبر 479, 480, 481 دجلہ 200, 274 دکن100 دوزخ ۔ دیکھئے جہنم ڈینیوب 200, 237 راوی 200 روس 336 روم /روما 88, 93, 94, 118, 241, 242, 297, 246 زحل 62, 65, 78, 85, 140, 142, 145 زرتشت (طاسین) 156, 214 زھرہ 64, 65, 76, 77, 85, 136, 137, 140, 141, 145, 214 سدرۃ المنتہیٰ 559 سورج۔ دیکھئے آفتاب سومنات 274 عرب 54, 156, 200, 227, 240, 241, 272, 272, 274, 275, 183, 301, 429, 433, 544, 551, 555, 556, 557 عطارد 64, 65, 160, 161, 214, 215 علی گڑھ 7 غرناطہ 241 فارس۔ دیکھئے ایران فرات (دریائے) 170, 200, 274 فرانس 397 فلسطین 272 , 273, 282 قرطبہ (مسجد) 226, 228, 231, 233, 235, 236, 237, 238, 239 قرطبہ مسجد 241, 242, 245, 246, 248, 254, 255, 258, 259, 260, 263, 267, 268, 269, 345, 452, 499 قلزم خونیں144 قصر شرف النساء 167 قمر۔دیکھئے چاند قندھار 481, 482 کابل۔ 301, 480, 481 کاخ سلاطین مشرق 168 کاشغر 327 کشمیر 79, 168, 497 کعبہ (حرم) 159, 239, 310, 330, 341, 357, 414, 476, 488, 528, 244, 554, 555, 556, 557 کوفہ 200 کاویری (دریائے) 129 کیمبرج 35, 36 گنگا 116, 200 گوتم (طاسین ) 155, 157, 214 گیا 2, 4 لاہور 4, 7 لاہور آرٹ پریس 176 لکھنؤ 7 لبک آئیل 356, 357 ماہتاب۔ دیکھئے چاند محمد صلی اللہ علیہ وسلم (طاسین) 159, 214 مریخ 65, 77, 96, 114, 115, 117, 136, 137, 146, 164 مرغدین (شہر) 164 مسیح ؑ (طاسین)156, 157, 214 مشتری 65, 77, 123, 146, 165, 214 مصر 200, 317, 537 مکہ 203 مہر۔ دیکھئے آفتاب میڈرڈ (یونیورسٹی) 57 بخد 164, 274 نیپچون 64 نیل 116, 200, 237, 327 وارثی کنج 9 وہائٹ ہاؤس کمپاؤنڈ2 ہسپانیہ 57, 235, 236, 237, 240, 241, 242, 243, 417, 438 یثرب 164 یرغمید (وادی) وادی طواسین 66, 76, 155 یورپ /فرنگ 22, 38, 43, 68, 93, 157, 160, 202, 240, 241, 242, 266, 300, 307, 311, 315, 335, 395, 397, 398, 400, 414, 451, 438, 551, 574 یورنیس 64 یونان 88, 93, 94, 118, 241, 24 ہمالہ 232, 331, 332, 345 ہند 547 ہندوستان 6, 40, 78, 165, 166, 167, 168, 197, 198, 199, 200, 214, 215, 224, 300, 326, 523 ہیلیون (کوہ) 418 ٭٭٭ اصطلاحات ابدیت 532 ادبیت 99 آدمیت 325 اسلامیت 96, 312 اشاریت 25, 311 اشتراکیت 76, 88, 120, 173, 193, 197, 326, 327, 335, 336, 337 اشرفیت 522 آفاقیت 192, 197, 309, 327, 576, 577 الوہیت 461 انسانیت 162, 197, 198, 200, 210, 304, 307, 308, 314, 317, 373, 399, 442, 450, 472, 517, 522, 561, 566, 577 ایمائیت 567, 577 بدھ مت (بدھ ازم) 64, 66 براعظمیت 40 پان اسلام ازم 161, 30 پیکریت 25 توحید 197, 198, 307, 388, 309, 470, 520, 521, 522, 523, 526, 558 ثنویت 22 جاہلیت 307, 431 جمالیت 25 جمہوریت 197, 325, 444, 445, 449, 512 حرکیت 430 خانقاہیت 531 رجائیت 327 روحانیت 197, 312 رومانیت 25, 189 زرتشت مت (ازم) 64, 66 سالمیت 47, 567, 774 سرمایہ داری 197, 499 سیکولر ازم 264 شہنشاہیت 511, 512, 523 شیطانیت 450 صوفیت 568 عضویت 536, 567 عمومیت 563 غزلیت 48 فاشزم 398 کفر 300, 301, 302, 320, 329 قاموسیت 576, 577 قطعیت 578 لبرل ازم 264 مادیت 197 مدنیت 428, 430, 431, 432, 433 مزدکیت۔ 159, 451 مسیحیت 54, 64, 66, 69, 71, 125, 157, 157, 160, 168, 212, 437, 577 معروضیت 567, 576 معقولیت 90 معنویت 518 ملوکیت 76, 788, 120, 161, 173, 193, 203, 398, 400, 442, 443, 444, 445, 449 منطقیت 90 میکانکیت 460 میکادلانہ (میکاولیت) 35 نثریت 27 نو آبادیت 523 نو فلاطونی حکمت 58 وطنیت 88, 196, 207 ہیئت 563 اسلام 54, 56, 57, 64, 68, 69, 94, 159, 167, 168, 170, 171, 174, 178, 200, 201, 212, 214, 215, 237, 238, 242, 265, 266, 268, 269, 272, 291, 295, 296, 297, 298, 299, 300, 301, 305, 306, 307, 310, 312, 313, 317, 319, 323, 324, 325, 326, 327, 328, 330, 331, 335, 336, 337, 393, 395, 396, 400, 426, 428, 429, 430, 431, 432, 433, 442, 449, 450, 451, 456, 471, 521, 522, 527, 529, 530, 531, 566 شریعت محمدی ؐ 60, 61, 94, 460 دین مصطفیٰ ؐ 83 ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End