اقبال کا نظام فن ڈاکٹر عبد المغنی اقبال اکادمی پاکستان اقبال کا فن ’’اقبال اور عالمی ادب کے دیباچے میں میں نے اقبال کے فن کے موضوع پر ایک مستقل کتاب اردو وانگریزی میں تصنیف کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔یہ کتاب اسی عزم کی تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے۔اس میں صرف اردو کلام کی فنی تنقید ہے۔ابھی فارسی کلام کی تنقید باقی ہے۔ جس کے لئے اس کتاب کا حصہ دوئم زیر ترتیب ہے۔ اس حصے کی زبان انگریزی ہو گی۔ اگر اللہ تعالیٰ فرصت نصیب کرے تو یہ منصوبہ مکمل ہو جائے۔ ’’اقبال کا تصور خودی کے موضوع پر بھی اردو اور انگریزی دونوں میں ایک کتاب زیر فکر ہے۔اگر میں خدا کے فضل وکرم سے اس سلسلے کی تکمیل کر سکا تو کم ازکم میرا یہ اطمینان ہو جائے گا کہ اقبال کی شاعری کا جو قرض دنیائے ادب پر ہے۔ وہ میری حد تک ادا ہو گیا۔ اقبال کے فن شاعری کی قدر شناسی میں جو چیز روز اول سے آج تک عام طور پر حائل ہوتی رہی ہے۔وہ ان کی عظیم فکر ہے۔ جس کا شہرہ اور رعب اتنا زیادہ ہے کہ اپنی پسند یا نا پسند دونوں میں اسی سے بالکل شخصی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔حالانکہ ان میں بعض معروضی مطالعے کا دعویٰ کرتے ہیں۔میں یقینا اقبال کے شیداؤں میں سے ایک ہوں۔اور ذہنی طور پر ان کی فکر سے بھی وابستہ ہوں،لیکن میں ہمیشہ اقبال کے فن پر اپنے ان تمام مطالعات میں زور دیتا رہا ہوں،جو میں نے اب تک مختلف مواقع پر کیے ہیں۔اور ان میں سے بیشتر میرے چاروں مجموعوں۔۔ نقطہ نظر،جادہ اعتدال، تشکیل جدید اور معیار واقدار۔۔۔ میں شامل ہیں۔ ’’اقبال اور عالمی ادب‘‘ کی تصنیف بھی اسی جہت سے کی گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ ایام طفولیت سے آج تک میری طبیعت پر کلام اقبال کا گہرا اور وسیع اثر ان کی شاعرانہ فن کاری کے سبب ہی ہوا ہے۔ اگر چہ یہ واقعہ بھی اپنی جگہ ہے کہ اس فن کاری کا موضوع اور مواد یعنی اسلامی نقطہ نظر بھی یقینا میرے ذہن کو وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ زیادہ ایپل کرتا رہا ہے۔میں مجموعی طور پر اقبال کو پسند کرتا ہوں۔ان کی فکر کا شیدا ہوں،ان کے فن کا مداح ہوں۔ لہذا میری تنقید اقبال بلا شبہ ایک قدر دان کی تنقید ہے۔ اور میں یقین کرتا ہوں کہ اگر تنقید قدر شناسی ہے (Appereciation) نہ کہ ناقدری (Deprectiation) تو یہ قدر دانی پر ہدایۃ مبنی ہے۔ جب کہ عیب جوئی اور نکتہ چینی کے لئے جو تنقید کی جاتی ہے۔ وہ دل کا بخار نکالنے کے سوا کوئی مفہوم ومقصد نہیں رکھتی اور بدترین قسم کی کبیانہ (cynical) انداز فکر پر مبنی ہے۔ جس کو نہ تو اعلیٰ تنقید کہا جا سکتا ہے اور نہ اعلیٰ ادب۔ تنقید صریحا جانچ کے ساتھ ساتھ پرکھ ہے۔ جس کے لئے جوہر شناسی لازمی ہے۔اور جوہر شناسی قدر دانی کے بغیر ممکن نہیں۔اگر اس معنی میں تمام شخصی تعصبات سے خالی ہو کر کلام اقبال کی بالکل معروضی تنقید کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اقبال کو جوہر شاعری نہ صرف دنیا کے کسی شاعر کے جوہر سے کم نہیں،بلکہ بہ وجوہ اور بدرجہا زیادہ ہے۔ اس لیے کہ اقبال نے خالص شاعری کی ہے،خواہ وہ فکر وپیام ہی کیوں نہ ہو، تمثیل نگاری اور داستان طرازی گویا نہیں کی ہے۔یہاں تک کہ بعض اوقات تمثیل اور داستان کے جو پیرائے انہوں نے اختیار کیے ہیں وہ بھی بالوضاحتہ فکر وپیام کے لئے ہے۔ یہ فکر وپیام ہی ہے۔ جس کے بلیغ اظہار کے لئے اقبال نے فن شاعری کے تمام لوازم بالکل فطری طور سے استعمال کیے ہیں۔اس لیے کہ شاعری ان کے مزاج میں داخل ہے۔اور فن کا وفور ان کی طبیعت میں ہے۔ ’’اقبال کا فن‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ آج سے قریبا بائیس سال قبل میں نے نقوش لاہور میں لکھا تھا۔ وہ میرے پہلے مجموعہ مضامین ’’نقطہ نظر‘‘ میں شامل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس موضوع پر اس سے قبل کس نے کیا لکھا اور جہاں تک مجھے معلوم ہے،اس کے بعد بھی شاید ہی کسی نے آج تک اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہو۔البتہ میرے دوست ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (صدر شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی) نے اقبال کا فن کے نام سے مختلف اشخاص کے مضامین پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ اور اس مجموعے میں میرا وہ مضمون نہیں ہے۔ جو اس موضوع پر اس عنوان سے میرے علم کی حد تک پہلی کوشش ہے۔ میں نے اپنی اس کتاب میں جو منسوبہ تحریر اختیار کیا ہے۔ وہ فہرست مضامین سے عیاں ہے۔ اول تو میں نے غزل کو وہ اہمیت دی ہے۔ جس کی مستحق وہ کلام اقبال میں ہے۔ اس لیے کہ میں اقبال کو اردو ،فارسی کا سب سے بڑا غزل گو بھی سمجھتا ہوں۔ اور ان کی اردو غزل کو ان کی فارسی غزل ہی کی طرح اہم سمجھتا ہوں۔ دوسرے میں نے اقبال کے قطعات اور رباعیات کو بھی روشنی میں لانے کی کوشش کی ہے۔ تیسرے ان کی بڑی نظموں کا مطالعہ کرنے کے لئے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ موضوع یا دور سے متعلق ان کی چھوٹی نظموں کا بھی مطالعہ کیا جائے۔تاکہ کوہ فن کی بلند ترین چوٹیاں ایک تناسب کے ساتھ گرد وپیش کی ابھری ہوئی چٹانوں کے پس منظر میں دیکھی جا سکیں۔ اور ان کا حسن ووقار زیادہ سے زیادہ نمایاں ہو۔ چوتھے یہ کہ اقبال کے مختلف ادوار کی مختلف نظموں کے درمیان جو ایک داخلی ربط اور محیط تسلسل ہے۔ اس کا سراغ لگا کر دکھایا گیا ہے کہ کلام اقبال ایک ہموار ارتقا پر استوار ہے۔ اور الگ الگ نظموں کے اندر جو تنظیم خیال ہے۔ وہ مجموعی طور پر تمام نظموں میں پائی جاتی ہے۔ اس صورت حال سے اقبال کے ذہن کی خلاقی کے ساتھ ساتھ ان کے دست ہنر کی چابک دستی کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مواد شاعری پر ذہن اقبال کی فنی گرفت نہایت محیط و مضبوط ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال دنیا کے منظم ترین شاعر ہیں۔ عبد الغنی ۲۲ دسمبر ۱۹۸۲ء ؁ وارثی گنج،عالم گنج،پٹنہ نمبر ۷ وحدت وانفرادیت اقبال کے افکار نے ایسا طلسم قائم کر دیا ہے کہ ان کے فن کی طرف بمشکل کسی کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔حالانکہ یہ طلسم درحقیقت فن ہی پر مبنی ہے۔ اقبال کے تصورات شاعری کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔اور ان کا مطالعہ کرنے والے سب سے پہلے شاعری ہی سے لطف لیتے ہیں۔اسی لطف کے سبب وہ ان کے افکار کے طلسم میں گرفتار ہوتے ہیں۔جن کے اظہار کے لئے یہ شاعری کی گئی ہے۔ چنانچہ اگر شاعری کو ہٹا دیا جائے تو افکار میں طلسم کی جو کیفیت ہے۔ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ افکار اپنی جگہ کتنے ہی اہم، دل چسپ اور مفید ہوں،ان کے اندر جادو کی سی کیفیت ان تصویروں اور آوازوں سے ہی پیدا ہوتی ہے۔جن سے اشعار مرتب ہوتے ہیں۔اشعار اقبال کے استعارات کی رعنائی اور ان کے آہنگ کی نغمگی ہی اس طلسم کی ضامن ہے۔جس کی نسبت کلام اقبال کی طرف جاتی ہے۔ اس طرح حقیقت پسندانہ تنقیدی تجزیئے سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے افکار کا طلسم فی الواقع اشعار کا طلسم ہے۔ ظاہر ہے یہ کمال فن کا ہے نہ کہ فکر کا۔ بلا شبہ اقبال کی فکر ہی ان کے فن کی محرک بھی ہے۔ اور اس کا مواد موضوع بھی۔ لیکن اس کا اظہار نہ صرف نظم بلکہ شاعری میں ہوا ہے۔ اس بنیادی نقطے کو سامنے رکھ کر غور کیا جانا چاہیئے کہ شعریت کوئی خلا کی چیز نہیں ہے۔اور برائے شعریت نہیں ہو سکتی،ایک با معنی اور موثر شاعری چند خیالات،احساسات اور جذبات کی پیش کش کے لئے ہوتی ہے۔ یہی پیش کش اس کا مقصد ہے۔ چنانچہ خیالات،احساسات اور جذبات جس قسم اور درجے کے ہوں گے۔شاعری کا انداز ومعیار بھی اتنا ہی اور ویسا ہی ہو گا۔اگر شاعری کی اس تعریف میں تبلیغ کا عنصر مضمر نظر آئے تو یہ بھی سمجھ لینا چاہیئے کہ تبلیغ ابلاغ ہی کے بلند ترین جذبے کا نام ہے اور اس کے ساتھ ترسیل کی موثر ترین شکل کا مفہوم وابستہ ہے۔ اول تو اظہار خیال کسی بات کو مخاطب تک پہنچانے کے لئے ہوتا ہے،اگر کسی صحیح الدماغ اور سلیم الطبع آدمی کا اظہار خیال ہے۔دوسرے یہ کہ بات جتنی اچھی اور بڑی ہوگی۔اس کا اظہار بھی اتنا ہی اچھا اور بڑا ہوگا۔اگر اظہار کرنے والا اپنی بات کی خصوصیت سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے بیان پر پوری طرح قادر ہو۔ لہذا اقبال کو اگر ایک مبلغ تسلیم کر لیا جائے،اور ان کے کلام کے کسی پیام کا وسیلہ اظہار تصور کیا جائے،تو یہ بھی آسانی سے تسلیم وتصور کیا جا سکتا ہے۔ کہ مبلغ نے اپنے پیام کو زیادہ سے زیادہ پر اثر بنانے کے لئے بہتر سے بہتر وسیلہ اظہار اختیار کیا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے حسین سے حسین تر نقوش کلام مرتب کیے ہیں،زبان وکلام اورقواعد وعروض پر پوری پوری قدرت حاصل کرکے عمدہ سے عمدہ الفاظ تراکیب اور بحور استعمال کی ہیں۔موزوں ترین استعارات و علائم سے کام لیا ہے۔مسحور کن آہنگ پیش کیا ہے۔فن کی یہ ساری سعی بلیغ ایک لفظ تبلیغ میں مضمر ہے۔ اب یہی سعی بلیغ ہے جو کلام کی بلاغت کی انتہائی کیفیت پیدا کرتی ہے۔فن کی یہ بلاغت ذہن کی اس بلوغت کا مظہر ہے،جس پر فکری تبلیغ کا اوج کمال مبنی ہوتا ہے۔ لیکن اقبال کے فکر کی بلوغت اور ان کے فن کی بلاغت الگ الگ اکائیاں نہیں ہیں۔ایک ہی اکائی کے دو پہلو ہیں۔جن کے درمیان فرق تنقید کی چشم امتیاز چاہے تو کر سکتی ہے۔ جب کہ شاعری کے لمحہ تخلیق میں دونوں ایک دوسرے کے اندر بالکل مدغم ہیں،اور اس ادغام کا نتیجہ واحد ہے،جو اجزا سے ترکیب پانے والا ایک ایسا مرکب ہے جس کے اجزا اپنی جدا گانہ حیثیت کھو چکے ہیں۔اور ایک کل کے اجزائے ترکیبی بن چکے ہیں،فکر وفن کے مکمل ادغام کی یہ سورت صرف اس خلوص کی بنا پر رو بہ عمل آئی ہے کہ جو اقبال کے معاملے میں بیک وقت فکر اور فن دونوں کی خصوصیت ہے۔اقبال کے سارے افکار وتصورات نہ صرف ان کے مشاہدات ومطالعات ہیں۔ بلکہ احساسات وجذبات بھی ہیں۔یعنی تجربات واردات بن چکے ہیں۔ واقعات محسوسات میں بدل گئے ہیں۔حقائق کوائف میں ڈھل گئے ہیں۔ شاعر کے خلوص کی شدت وحدتکائنات وحیات کے تمام مظاہر ومناظر کو تپا اور کھلا کر ایک تخلیقی وحدت کی شکل دے دیتی ہے۔یہی وحدت اقبال کا فن ہے۔ جو فکر کے تمام ضروری اجزا سے مرکب اور فن کے تمام ضروری عناصر پر مشتمل ہے۔ اس میں دل کا سوز وگداز بھی ہے۔اور دماغ کا تفکر وتعطل بھی،رومان کی جمالیات بھی ہے اور مذہب کی اخلاقیات بھی ہے۔ فلسفہ ہے تو شعر کے رنگ میں اور شعر ہے تو فلسفہ کے آہنگ میں،اقبال کی شاعری ایک پیچیدہ وبالیدہ عمل ہے۔جس کی تہیں اور جہتیں،مضمرات واثرات رنگ بہ رنگ ہیں۔ مگر سب کا مطمح نظر اور ماحصل ایک ہے۔ یہ ایک ارتکاز ہے۔ مواد وہیئت کی ان ساری اداؤں کا جو فن کے تار وپود بنتی ہیں۔ یہ مرکب ومرتکز فن ایک زبردست توازن کا کرشمہ ہے۔ دونوں کے خلوص پر مبنی فکر وفن کی جو یکسوئی کلام میں پائی جاتی ہے۔وہ کوئی اکہری اور سادہ سی کیفیت نہیں ہے۔ اس کے اندر مواد وہیئت اور موضوع واسلوب کی کشیدگی وکشاکش کی ایک داستان مضمر ہے،فن شعر کے نقطہ نظر سے اقبال کے مسائل ماقبل کے تمام شعراء سے بہت زیادہ تھے۔ایک انتہائی ترقی یافتہ صنعتی اور سائنسی تمدن کی جو پیچیدگیاں اقبال کے سامنے تھیں۔ وہ دانتے،شکیسپئیر، گیٹے،رومی، فردوسی، حافظ اور بیدل کے سامنے نہ رہی تھیں۔ اقبال کے دور میں بین الاقوامی سطح پر تہذیب ،آرٹ وسائنس کے ودکلچروں میں منقسم ہوتی نظر آرہی تھیں۔اور فنون لطیفہ بالخصوص شاعری کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔دنیا ایک تہذیبی بحران سے دوچار تھی۔انقسام وانتشار کے آثار ہرسو نمایاں تھے۔انسانیت ایک دوراہے پر کھڑی تھی۔ پرانی قدریں مشتبہ ہو رہی تھیں۔ اور نئی قدروں کا سراغ نہیں مل رہا تھا۔ سب سے بڑھ کر مشرق کا ماحول جس سے اقبال وابستہ تھے،غلامی، پس ماندگی اور جہالت میں ڈوبا ہوا تھا۔اقبال اپنے زمانے کے حقائق کے متعلق نہ صرف بہت باخبر اور آگاہ تھے، بلکہ بے حس حساس اور مضطرب تھے۔ان کا ذہن اور مطالعہ مجتہدانہ تھا۔ اور وہ سماج کی تجدید کا نصب العین رکھتے تھے۔ انقلاب احوال کی یہ تمنا اقبال کے یہاں اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں کی طرح کوئی رومانی چیز بھی نہیں تھی،بلکہ ایک ٹھوس حقیقت تھی ،جوزبردست ذہنی وعلمی جدوجہد کا تقاضا کرتی تھی۔ ایسے کڑے درد کو گیت میں ڈھالنا شمشیر وسنان بلکہ توپ وتفنگ کی سخت وکرخت آواز کو ایک نغمہ شیریں میں تبدیل کرنے سے کم دشوار نہ تھا۔چنانچہ شاعر کادل شوریدہ فطری طور پر ایک طلسم پیچ وتاب میں گرفتار تھا،ایک طرف فکر کے مطالبے تھے ،تودوسری طرف فن کے تقاضے اور دونوں بے حد سخت بے حد شدید،اقبال کے ذہن یا فن میں اگر ذرا بھی سقم یا نقص یا ضعف ہوتا تو ولیم بٹلرئیٹس کی طرح رومان وتصوف میں گم ہو جاتے ۔ یا ٹی، ایس،ایلٹ کی طرح تمدن کے جلتے ہوئے خرابے میں خود بھی جل کر راکھ ہو جاتے۔اور دوسرے درجے کی الجھی الجھی ،بجھی بجھی شاعری سے زیادہ کوئی چیز آج انسانیت کو دے نہیں پاتے۔ لیکن اقبال کا ذہن نہایت ہی استوار اور فن نہایت مستحکم تھا،چنانچہ انہوں نے جدید تہذیب وتمدن کے آتش کدے میں قدم رکھ کر اس کے سر کش شعلوں ہی کو گلزار بنا دیا۔ انہوں نے زندگی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن کو اپنے فن کے توازن سے دور کرنے کی بلیغ کوشش کی، یہاں تک کہ مسائل حیات سے وسائل کی شاعری پیدا کیے اور تاریخ کو تلمیح بنا دیا۔ فن کا یہ توازن ایک فکری استقامت پر مبنی تھا۔ اقبال کی فکر وفنی اور ہم آہنگی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے فکر کو کبھی اپنی فنی زندگی کا مسلہ نہیں بننے دیا۔ بلکہ شروع سے ہی ایک سلیم ومستقیم فکر کو مسلے کے حل کے طور پر قبول کر لیا۔ اور اسے اپنی تمام کوششوں کو معیار ومحور بنا دیا۔جس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ فن کی تخلیق وتزئین کے لئے یکسو ہو گئے۔اور اس تخلیقی عمل پر اپنی بہترین توجہات اور صلاحیتیں مرکوز کر سکے۔ یہ ایک انتہائی باشعور فن کار کی ذہنی کشیدگی کا موزوں ترین حل بھی تھا۔ اور حسین ترین پھل بھی، پھر اس حل سے کشیدگی ختم نہ ہوئی ،بلکہ صرف نتیجہ خیز ہو گئی۔اور اس چیز نے مواد وہیئت کے درمیان کشاکش کو برابر ایک صحیح تعمیری اور مثبت رخ پر رکھا۔ یہ حل باضابطہ ایک نظریہ کائنات اور نظام حیات کی شکل میں تھا۔ جسے شاعر نے نہ صرف اپنے ماحول اور خاندان سے ورثہ میں پایا تھا۔بلکہ اس کے تمام اجزا پر زاتی غور وفکر اور مطالعہ ومشاہدہ کرکے اسے خود حاصل کیا تھا۔اس نظریہ ونظام کا نام دین اسلام ہے۔ جس کے عقائد وافکار اور اقدار واخلاق پر اقبال کا ایمان ایک مفکر ومحقق جویائے حق کا ایمان ہے۔ جو اتنا محکم،رفیع اور وسیع وعمیق ہے کہ زندگی وفن کی تمام پہنائیاں اور باریکیاں اس کے اندر سمٹ آئی ہیں۔ اور شاعر نے اپنی فن کارانہ شخصیت میں ان سب کو پوری اور اچھی طرح سمولیا ہے۔اس لیے کہ اس کی شاعری اس کی شخصیت کا ایک ایسا بسیط اظہار ہے۔جس میں فن خود زندگی بن گیا ہے۔ اس لیے کہ زندگی ایک فن کی طرح لطیف وجمیل ہو گئی ہے۔ یہ ایمانیات وجمالیات کا وہ نقطہ اتصال ہے۔جس سے بلند تر ارتقا وعروج کا تسور نہ زندگی میں کیا جا سکتا ہے نہ فن میں۔ کلام اقبال کی اس فکری وفنی ہم آہنگی کو ادب میں روایت وانفرادیت کاارتباط واشتراک اور تعامل وتعاون بھی کہا جا سکتا ہے۔شاعر نے اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعے جو ذہنی ثروت حاصل کی ہے۔ اس نے اس کی ذہانت کو اس قابل بنا دیا ہے کہ اپنے انفرادی عمل سے اس میں اضافہ کرے۔اور یہ اضافہ اس نے ایک ایسی زبردست ہیئت میں کیا ہے کہ جو مشرق ومغرب کی شاعرانہ روایات کے بہترین مواد کا خلاصہ ہے۔ ایسا آفاقی جوہر ظاہر ہے کہ بڑے فنی اجتہاد کا نتیجہ ہے۔اور ایک تجدیدی کار نامہ ہے۔عصر حاضر میں گیٹے اور غالب کے بعد دنیاکی شاعری کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عظمت شاعری کے سلسلے بند ہونے لگے تھے۔ اردو میں تو غالب اور اقبال کے درمیان تقریبا تیس پینتیس سال تک کوئی اہم شاعر نظر ہی نہیں آتا ہے۔انگریزی میں بھی وکٹورین عہد نے ٹینی سن اور براوننگ سے بہتر شاعر پیدا نہ کیے۔جب کہ اس سے قبل رومانی عہد میںورڈز ورتھ،کولرج،بائرن، شیلی اور کیٹس آفاقی سطح پر عظمت شاعری کا کوئی نمونہ اپنی مجموعی تخلیقات میں پیش نہیں کرتے۔ اس دور کی فارسی وعربی شاعریمتوسط درجے کے معمولی فن کاروں کا ایک سلسلہ ہے۔اس طرح صرف اردو ،فارسی ہی نہیں عالمی شاعری کے تجربات وروایات کو اپنے فن میں سمو کر اقبال نے عصر حاضر میں عظمت شاعری کا ایک ایسا کار نامہ انجام دیا ہے کہ جو دانتے،گیٹے، شکیسپیئر، رومی، حافظ،بیدل اور غالب کے اکتسابات وکمالات پر ایک دقیق اضافہ ہے۔ اقبال کے اردو فارسی کلام میں مختلف زبانوںاور زمانوں کے متعدد شعراکے فکر وفن پر ناقدانہ تبصرے ملتے ہیں،جن سے عیاں ہوتا ہے کہ اپنے فن کے پیش رو باکمالوں کے کار ناموں پر اقبال کی نظر کتنی گہری اور وسیع ہے۔ اس سے یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ اقبال ہی نے صحیح معنوں میں بین الاقوامی اور آفاقی شاعری بالکل شعوری طور پر پوری آگہی اور ذمہ داری کے ساتھ کی، اس حقیقت حال کے باوجود اقبال کے بے شمار شیدائی اور معدودے چند مخالفین دونوں ہی عام طور پر اقبال کی شاعری کے متعلق ایک غیر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔جو بنیادی طور پر یہ ہے کہ اس مرکب ومربوط شاعری کے دونوں اجزا فکر وفن کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دو لخت کر دیا جاتا ہے۔ ایک سالم وجود کی اس غیر فطری تقسیم میں لطیفہ یہ ہے کہ مخالف اور شیدائی دونوں ہی بلا استشنا دانستہ یا نا دانستہ اپنے رویے کی بنیاد فکرکے متلعق اپنے تاثر یا تعصب پر رکھتے ہیں۔ شیدائی تو فکر کو مرکز نظر بناتے ہیں،مخالف بھی فکر ہی کے خلاف اپنے گہرے تعصب کی بنا پر فن کو نشانہ ملامت بناتے ہیں۔اگرچہ وہ دعوی یا اعلان یہ کرتے ہیں کہ فکر سے ان کا کوئی مطلب نہیں، مگر جب وہ تنقید کرتے ہیں تو اپنے اس دعوے پر قائم نہیں رہتے۔اپنے اعلان کے بالکل برخلاف فن پر تنقید کرتے ہوئے فکر کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔اور اس کے متعلق اپنی نا پسندیدگی بلکہ برہمی کوشش کے باوجود چھپا نہیں سکتے۔یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال کے فنی نقائص کے بارے میں ان کے سارے مفروضے ایک سرسری تجزیے کے بعدبالکل خیالی اور ہوائی ثابت ہو جاتے ہیں۔پھر بجائے خود خالص فن کی بات کرنا ایک بے خبری اور نادانی کی دلیل ہے۔کوئی فن خالص ہوتا ہی نہیں،اس میں فکر کی نہ صرف آمیزش بلکہ نمائش ہوتی ہے۔لہذا علمی وتقیدی نقطہ نظر سے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اقبال کی فکر جو بھی ہو اس نے فن کی شکل کس حد تک اختیار کی ہے۔اور یہ کہ فن کے ساتھ ہم آہنگ اور اس کا کامیاب اظہار ہے یا نہیں؟۔ اس طرح سوچنے سے واضع ہو جاتا ہے کہ اقبال کا عظیم فن در حقیقت ایک عظیم فکر کا آئینہ ہے۔ اور فن کے اس آئینے میں فکر کا عکس تو پورے طور پر جلوہ فگن ہے ہی،اس کے علاوہ اس کے عکس نے شیشہ فن کی دبیز تہوں سے گزرتے ہوئے کچھ رنگین وزریں نقوش بھی حاصل کر لیے ہیں۔ چنانچہ جس شکل میں یہ عکس بالاخر نمودار ہوا ہے۔ وہ اس کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو بہت ہی تاباں ودرخشاں بنا دیتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ شیدائی اور مخالف دونوں اقبال کے فن کا مطالعہ ایک جامع نقطہ نظر سے کریں۔ اور فکر کو خواہ وہ پسند کرتے ہوں یا ناپسند صرف فن کے مواد وموضوع کے طور پر لیں۔ پھر جہاں تک شاعری کا تعلق ہے۔ ساری توجہ فن پر مرکوز کریں۔اور یہ دیکھیں کہ شاعر اپنے مخصوص افکار وتصورات کے ابلاغ میں کہاں تک کامیاب ہوا ہے۔اس نے اپنی ہئیت فن کے لوازم ووسائل کا استعمال کتنی تاثیر کے ساتھ کیا ہے ۔ مختصر یہ کہ اس کا ذہن کس درجے کا فن بن سکا ہے اور اس فن کی قدروقیمت دنیائے شاعری کے اس پس منظر میں کیا ہے جس کی روایات میں اقبال کی منفرد استعداد نے اجتہاد کیا ہے۔ مطالعہ فن کا یہی انداز حقیقی بھی ہے اور مثالی بھی ۔ اس کے مضمرات فن کی تمام جہتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اور ا س کے تمام اوصاف کو روشنی میں لے آتے ہیں۔ سنہ 1982ء میں جب یہ سطریں لکھی جا رہی تھیں تو اقبال کی وفات کو چوالیس سال ہو چکے ہیں اور اقبالیات کے نام سی بہتیری کتابیں اور مضامین تحریر کیے گئے ہیں لیکن افسوس کہ نہ صرف اردو و فارسی بلکہ دنیا کی تمام زبانوں کے سب سے بڑے شاعری کی شاعری پر بہت ہی کم کام کیا گیا ہے اور جو کچھ کیا گیا ہے وہ ایک عظیم ترین آفاقی شاعر کے شایان شان نہیں۔ اقبال کا فن اجتہادی تھا جبکہ اس پر رقم کی گئی تنقیدیںغلامانہ مقلدانہ قسم کی ہیں جن میں مغربی معیاروں کے ساتھ ساتھ مغربی نمونوں کی برتری بھی اصول موضوعہ کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے ۔ چنانچہ اقبال کے جید کارناموں کا مطالعہ مستعار اور فرسودہ و بوسیدہ تصورات کے تحت بڑی مرعوبیت کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کی اصلیت اور عظمت کا سراغ گویا نہیں ملتا اور محض رسمی و روایتی قسم کے تبصرے بعض وقت نہایت لغو تبصرے ہمارے سامنے آتے ہیں اور تنقید کے نام پر تمسخر کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اقبال کے فن کا ایک آزاد نظر اور آفاقی معیار سے مطالعہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور تنقید کا واجب الادا فریضہ ہے۔ ٭٭٭ تصور فن دنیائے شاعری کی پوری تاریخ کا ایک سرسری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اقبال دنیا کے سب سے زیادہ باخبر باشعور اور صاحب علم شاعر تھے فلسفے میں فلسفیانہ مہارت کے علاعہ وقت کے دیگر علوم و فنون کی ترقیات پر ان کی نظر بہت وسیع اور گہری تھی۔ مشرق و مغرب کے شعرا اور ان کے کمالات سے وہ اچھی طرح واقف تھے اقبال نے اپنی متعدد نظموں اور اشعار میں جا بہ جا مفکروں کے ساتھ ادیبوں اور شاعروں کے متلعق بھی تنقیدی تبصرے کیے ہیں جو بہت دلچسپ ہیں اور نہایت فکر انگیز ہیں۔ یہ حقائق واضح کرتے ہیں کہ اقبال ایک عظیم فن کار ہونے کے علاوہ ایک عظیم ناقد کا ذہن بھی رکھتے تھے اور اسلوب بیان پر انہیں جو بے پناہ قدرت تھی اس کا اظہار ان اہم تنقیدی نکات میں بھی بہت ہی مبصرانہ طور پر ہوا ہے جو متعدد اشعار میں بکھرے ہوئے ہیں خود اپنے طرز کلام اور مقاصد شاعری کے متعلق اقبال نے کئی معنی خیز بیانات دیے ہیں‘ ضرورت ہے کہ ان سب بیانات کو ایک ترتیب سے جمع کر کے تجزیہ و تبصرہ کے ذریعے وہ صحیح نتائج نکالے جائیں جو شاعر کا مقصور حقیقی ہیں۔ اس طرح ہمارے سامنے ا قبال کا فن بلاکل روشن ہو جائے گا ۔ اور اس سے ان کے فن شاعری کے مطالعے میں وہ مدد ملے گی جو کسی اور ذریعے سے نہیں مل سکتی۔ اس لیے کہ اقبال کے اپنے شعر کے متعلق تنقیدی بیانات شاعرانہ تعلیاں نہیں ہیں نہ یہ کوئی تفنن طبع اور من کی موج ہے بلکہ یہ بہت ہی سنجیدہ‘ سچے اور پکے خیالات ہیں جو ایک بامقصد شارع نے اپنے بسیط فن نظام کے اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھانے کے لیے پیش کیے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا تصور فن ان کے ان افکار کا ایک ضروری حصہ ہیں جن کے ابلاغ کے لیے انہوںنے شاعری کا ذریعہ اظہار اختیار کیا۔ اقبال کے فن اور تصور فن کے درمیان پوری پوری مطابقت ہے۔ یہ ایک بے حد خیال انگیز اور نتیجہ خیز واقعہ ہے۔ اس سے شاعر کے ذہن اور فکر کی اس ہم آہنگی کا بین ثبوت ملتا ہے۔ جس پر اقبال کا فنی کمال اور کارنامہ مبنی ہے ۔ اور جس سے بڑی کوئی بنیاد اور کسوٹی عظمت فن کی مقصود نہیں۔ اس سلسلے میں بال جبریل کی دو غزلوں کے دو اشعار نہایت حقیقت افروز ہیں: کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف خدا کا شکر الامت رہا حرم کا غلاف ٭٭٭ حرم کے پاس کوئی عجمی ہے زمزمہ سنج کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی پہلے شعر میں بداہتہً شاعر کے ذہن اور تصور کی تصویر کشی ہے ۔ جوش جنوں مخصوص تصور خودی کا عملی اظہار ہے اور اس اظہا رکا موقع و مرکز ظاہر ہے کہ حرم کعبہ ہے جو حقیقی و علامتی دونوں طور پر شاعر کے افکار و خیالات کا قبلہ مقصود ہے ۔ اس لیے کہ اس کے پسندیدہ نظریہ حیات دین اسلام کا منبع و مامن ہے لیکن اس منبع و مامن کے ساتھ عقیدت و محبت کے کمال جوش جنوں کے باوجود اس کا ادب و احترام ایک سلیقہ نظم و ضبط اور اعتدال و احتیاط پیدا کرتا ہے چنانچہ قبلہ مقصود کے عشق کی تمام وارفتگیوں کے درمیان بھی شاعر کو اتنا ہوش اور تحمل ہے کہ وہ صرف حرم کے گرد طواف ہی کرتا رہا۔ حرم کے غلاف پر دست درازی کی جسارت اس نے نہ کی۔ جنون عشق کا یہ ادب عشق کی اصلیت و عظمت کی دلیل ہے ۔ اس جذبہ محبت کی صداقت و رفعت پاکیزگی اور گہرائی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جام شریعت اور سندان عشق کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کا وہ زبردست فکری توازن ہے جو اقبال کی سب سے بڑی فنی طاقت ہے۔ دوسرا شعر ظاہر کرتا ہے کہ اقبال کی شاعری کا یہ اشاریہ ہے ۔ یہاں بھی زمزمہ سنجی کا موقع و مرکز حرم کعبہ ہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ کمال جوش و جنوں میں گرم طواف رہنے کے باوجود حرم کا غلاف تو سلامت رہا تھا جبکہ حرم کے پاس زمزمہ سنجی سے تمام طواف کرنے والوں کے جامہ ہائے احرام تار تار ہو جاتے ہیں غلاب کعبہ کی سلامتی اور جامہ احرام کی دریدگی کے درمیان یہ فرق حرم کے گرد طواف اور حرم کے پاس زمزمہ سجنی کا فرق نہیں ہے بلکہ شاعری کے سیاق و سباق میں طواف اور زمزمہ سنجی تو ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ لہٰذا فرق جو کچھ ہے وہ غلاف اور احرام پر الگ الگ مرتبت ہونے والے اثرات میں ہے جو طواف اور زمزمہ سنجی بلکہ یوں کہیے کہ زمزمہ سنج طواف کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ کعبہ کا غلاف تو سلامت رہتا ہے مگر حاجی کا جامہ احرام تار تار ہو جاتا ہے۔ کمال جوش جنوں حج کرنے والے کے رگ و پے میں بجلی بن کر دوڑ رہا ہے اس کا طواف اور زمزمہ سنجی دونوں اسی برقی کیفیت میں ہیں۔ زمزمہ سنجی کے عالم میں نوائے اقبال اور عالم طواف میں اس کی حرکت خودی دونوں مل کر فضا میں بجلی کی لہریں دوڑا رہی ہیں۔ اوران کے زیر اثر پورے ماحول پر تاب کاری طاری ہے اس حالت میں غلاف کعبہ تو اپنی جگہ سالم رہتا ہے مگر جامہ احرام کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ یعنی مرکز حج اپنی جلالت شان کے ساتھ قائم و دائم ہے جبکہ حاجی جوش جنوں میں اپنا گریباں چاک کر رہا ہے۔ اس صورتحال سے جہاں اقبال کے فن کی تاثیر معلوم ہوتی ہے وہیں ان کے ذہن کی استقامت بھی نظر آتی ہے۔ اقبال اپنی شاعری کے جادو سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے اشعار اپنی سحر آفرینی سے لوگوں کو دیوانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے اندر انتہائی جوش و جذبہ پیدا کر رہے ہیں۔ ان کی خفیہ حسیات کو بیدار کر رہے ہیں۔ ان کے سوئے ہوئے جذبہ عشق کو جگا رہے ہیں۔ ان کے اندر حوصلہ و ولولہ پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ہ ایک شاعر کے نغمات سے آرزوئیں بیدار ہو رہی ہیں۔ عزم ابھر رہا ہے ۔ ہمت بلند ہو رہی ہے ۔ جنون عمل پیدا ہو رہا ہے ۔ اور حقیقت کی جستجو اتنی شدید ہو رہی ہے کہ اس پر پڑا ہوا جامہ احرام تنگ ہو کر پارہ پارہ ہونے لگا ہے۔ ذوق و شوق کی یہی وہ انتہا ہے جو کسی بھی فن کار کا مطمح نظر اور منتہائے مقصود ہو سکتی ہے۔ اقبال کا فن یقینا اس انتہا کو پہنچ چکا ہے لیکن اس انتہا کو صحیح رخ پر رکھنے کے لیے اس کے پیچھے وہ عظیم ذہن بھی کام کر رہا ہے جو کمال جوش و جنوں میں بھی ایک حد کے اندر ایک نقطے پر گرم طواف ہے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھ کر اپنے قبلہ مقصود کی پاسبانی کر رہا ہے۔ اس فن کا تصور خود فن کار کی نگاہ میں کیا ہے؟ ذیل کے اشعار اسی سوا ل کے جواب پر روشنی ڈالتے ہیں: دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے ٭٭٭ زندگی مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں ٭٭٭ لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں (مرزا غالب …بانگ درا) دانہ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں ہونہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں (صدائے درد…بانگ درا) قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست پائے قوم محفل نطم حکومت چہرہ زیبائے قوم شاعر رنگین نوا ہے دیدہ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہم درد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ (شاعر…بانگ درا) ٭٭٭ عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگین بیانوںمیں کہ بام عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں اثر یہ بھی ہے اک میرے جنون فتنہ ساماں کا مرا آئینہ دل ہے قضا کے رازدانوں میں (تصویر درد…بانگ درا) ٭٭٭ تھی حقیقت سے نہ غفلت کی فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں ٭٭٭ ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟ اٹھ گیا ناوک فگن مارے کا دل پر تیر کون؟ (داغ …بانگ درا) ٭٭٭ مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں (غزل …بانگ درا) ٭٭٭ لطف کلامکیا جو نہ ہو دل میں درد عشق بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے (غزل…بانگ درا) ٭٭٭ اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا (ترانہ ملی …بانگ درا) ٭٭٭ مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سنائوں کس کو؟ تپش شوق کا نظارہ دکھائوں کس کو؟ (رات اور شاعر… بانگ درا) ٭٭٭ شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری شان خلیل ہوتی ہے اسو کے کلام سے عیاں کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو ‘ کلی نہ ہو‘ سبزہ نہ ہو ‘ چمن نہ ہو (شاعر…بانگ درا) ٭٭٭ محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے تصدق جس پہ حیرت خانہ سینا و فارابی فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی میسر جس سے ہے آنکھوں کو ابتک عشق عنابی (عرفی…بانگ درا) ٭٭٭ حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن دل انسان کو ترا حسن کلام آئینہ حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا (شیکسپئیر… بانگ درا) ٭٭٭ نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے ذرا تھام ابھی (غزل …بانگ درا) ٭٭٭ سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات ہو نہ روشن ت سخن مرگ دوام ہے ساقی (غزل …بال جبریل) جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے نگاہ شاعر رنگین نوا میں ہے جادو (غزل …بال جبریل) مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنیٰ کو کہ فطرت خود بخود کرت ہے لالے کی حنا بندی (غزل …بال جبریل) مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ (غزل …بال جبریل) نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی (غزل …بال جبریل) اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی (غزل …بال جبریل) یہ کون غزل خواں ہے پر سوز و نشاط انگیز اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنون آمیز (غزل …بال جبریل) ٭٭٭ یوں داد سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس یہ کافر ہندی ہے بے تیغ و سناں خونریز (غزل …بال جبریل) وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں (غزل …بال جبریل) حدیث بادہ زمینا وجام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا (غزل …بال جبریل) جہان صوت و صدا میں سما نہیں سکتی لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب (غزل …بال جبریل) خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے؟ (غزل …بال جبریل) میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ (غزل …بال جبریل) تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر (غزل …بال جبریل) ٭٭٭ تیری قندیل ہے ترا دل تو آپ ہے اپنی روشنائی (غزل …بال جبریل) راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ (غزل …بال جبریل) مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے (غزل …بال جبریل) نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے (غزل …بال جبریل) عطار ہو‘ رومی ہو‘ رازی ہو‘ غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی (غزل …بال جبریل) مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا (غزل …بال جبریل) پیر حرم نے کہا سن کے مری رویداد پختہ ہے تیری فغاں اب نہ اسے دل میں تھام (غزل …بال جبریل) اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مراشعلہ نوا قندیل (غزل …بال جبریل) مرے حلقہ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ رسم و کج کلاہی (غزل …بال جبریل) حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کا مرے سینہ ادراک میں ہے (غزل …بال جبریل) نہ ستارے میں ہے نے گردش افلاک میں ہے تیری تقدیر مرے نالہ بے باک میں ہے (غزل …بال جبریل) کیا عجب ! مری نوا ہائے سحر گاہی سے زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے (غزل …بال جبریل) چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی (غزل …بال جبریل) عزیز تر ہے متاع امیر و سلطاں سے وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز براقی (غزل …بال جبریل) ٭٭٭ تلاش اس کی فضائوں میں کر نصیب اپنا جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے (غزل …بال جبریل) ترکی بھی شیریں تازی بھی شیریں حرف محبت ترکی نہ تازی (غزل …بال جبریل) تیرے نفس سے ہوئی آتش گل تیز تر مرغ چمن ہے یہی تیری نوا کا صلہ (غزل …بال جبریل) رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمہ خرد (غزل …بال جبریل) صاحب ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش (غزل …بال جبریل) صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی (غزل …بال جبریل) کر بلبل و طائوس کی تقلید سے توبہ بلبل فقط آواز ہے طائوس فقط رنگ (غزل …بال جبریل) ٭٭٭ پریشان کار و ہار آشنائی پریشاں تر مری رنگیں نوائی (رباعیات…بال جبریل) کوئی دیکھے تو میری نے نوازی نفس ہندی مقام نغمہ سازی (رباعیات…بال جبریل) جمال عشق و مستی نے نوازی جلال عشق ومستی نے نیازی (رباعیات…بال جبریل) ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو (دعا ‘مسجد قرطبہ …بال جبریل) فلسفہ و شعر کی اور حقیقت کیا ہے حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں رو برو (دعا ‘مسجد قرطبہ …بال جبریل) ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام (مسجد قرطبہ…بال جبریل) رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف صوت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود (مسجد قرطبہ…بال جبریل) ٭٭٭ تیری فضا دل افروز‘ میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور‘ مجھ سے دلوں کی کشود (مسجد قرطبہ…بال جبریل) شوق مری لے میں ہے شوق مری نے میںہے نغمہ اللہ ہو ‘ میرے رگ و پے میں ہے (مسجد قرطبہ…بال جبریل) کعبہ ارباب فن! سطوت دیں مبیں تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں (مسجد قرطبہ…بال جبریل) نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر (مسجد قرطبہ…بال جبریل) ٭٭٭ باد صبا کی موج سے نشو و نمائے خار و خس میرے نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو (ذوق و شوق … بال جبریل) ٭٭٭ خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر (جاوید کے نام…بال جبریل) رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں اور آتا بھی نہیں مجھ کو سخن سازی کا فن (خانقاہ…بال جبریل) ٭٭٭ جو کو کنار کے خوگر تھے ان غریبوں کو تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند (تمہید…ضرب کلیم) ٭٭٭ ارتباط حرف و معنی؟ اختلاط جان و تن؟ جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے (جان و تن…ضرب کلیم) ٭٭٭ نہ جدا رہے تو اگر تب و تاب زندگی سے کہ ہلاکی امم ہے یہ طریق نے نوازی (غزل…ضرب کلیم) ٭٭٭ سرد و شعر و سیاست ‘ کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ اگر خودی کی حفاظت کریںتو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ (دین و ہنر…ضرب کلیم) ٭٭٭ عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے آبرو کوچہ جاناں میںنہ برباد کرے کہنہ پیکرمیں نئی روح کو آباد کرے یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے (ادبیات…ضرب کلیم) ٭٭٭ یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات (تیاتر…ضرب کلیم) ٭٭٭ مجھے خبر نہیں شاعری ہے یا کچھ اور عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرور (امید…ضرب کلیم) ٭٭٭ جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے (سرود…ضرب کلیم) ٭٭٭ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کہ حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا جس کے دل دریا متلاطم نہیںہوتا اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کانفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیںقومیں جو ضرب کلیمی نہیںرکھتا وہ ہنر کیا (فنون لطیفہ…ضر ب کلیم) ٭٭٭ نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک (جلال و جمال…ضرب کلیم) ٭٭٭ فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی (مصور…ضرب کلیم) ٭٭٭ کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشور ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک اور پیدا ہوا یازی سے مقام محمود مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے تو رہے اور ترا زمزمہ لاموجود جس کو شروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود (سرود حلال…ضرب کلیم) ٭٭٭ نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور نہ میرا فکر ہے پیمانہ ثواب و عذاب خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے فقیہہ شہر کہ ہے محرم حدیث و کتاب اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں نالے و چنگ و رباب (سرودحرام…ضرب کلیم) ٭٭٭ مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے شاعر تیرے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی مے شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو شمشیر کی مانند ہو تیری میں تیری لے ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلیٰ اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے (شاعر…ضرب کلیم) ٭٭٭ ہے شعر عجب گرچہ طرب ناک و دل آویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز اقبال یہ ہے خارا تراشی کا زمانہ از ہرچہ بہ آئینہ نمائند بہ پرہیز (شعر عجم…ضرب کلیم) ٭٭٭ عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بے زار چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار (ہنر وران ہند…ضرب کلیم) ٭٭٭ ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خداداد کوشش سے جہاں مرد ہنر مند ہے آزاد خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد (ایجاد معانی…ضرب کلیم) ٭٭٭ وہ نغمہ سردی خون غزل سرا کی دلیل کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تابناک نہیں نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں کسی چمن میں گریبان لالہ چاک نہیں (موسیقی…ضرب کلیم) ٭٭٭ میں شعر کے اسرار سے محرم نہیںلیکن یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل (شعر…ضرب کلیم) ٭٭٭ شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن فاش یوں کرتاہے اک چینی حکیم اسرار فن شعر گویا روح موسیقی ہے رقص اس کا بدن (رقص و موسیقی…ضرب کلیم) ٭٭٭ چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے پیچ و خم روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللہی صلہ اس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن صلہ اس رقص کا درویشی و شاہنشاہی (رقص…ضرب کلیم) ٭٭٭ ان اشعار میں تصور فن کے جو نکات پیش کیے گئے ہیں ان میں کچھ تو عام قسم کے ہیں اور کچھ خاص بلکہ بعض خاص الخاص ۔ خاص نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبا ل منفی منفعلانہ او رقنوطی انداز فکر کو رد کرتے ہیں جبکہ مثبت فعال اور رجائی انداز کو قبول کرت یہیں وہ تحرک اور نمو کے قائل ہیں جمود اور سکون کو پسند نہیں کرتے۔ وہ زندگی اور ترقی کے علمبردار ہیں مرگ و زوال سے بے زار ہیں یہاں تک کہ ان کی جمالیات کے عناصر قوت و شوکت اور سعی و جدوجہد میں نہ کوئی صنعف و مسکنت ہے اور سکوت و قرار۔ چنانچہ جمالیات اور فنون لطیفہ کا وہ نقطہ نظر ان کے نزدیک قابل مذمت ہے جو ایک مرگ آسا جمو د کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور وہ نقطہ نظر مستحسن ہے جو ایک زندگی بداماں حرکت کا ساماں کرتا ہے۔ یہ خاص نکات اقبال کے خاص الخاص نظریے پر مبنی ہیں جو بیک وقت زندگی اور فن دونوں پر محیط ہے۔ اورفن کو زندگی سے الگ نہیں بلکہ اسی کی ایک تصویر ادا تصور کرت اہے۔ زندگی کے معاملے میں اقبلا کی جمالیات ان کی اخلاقیات کے ساتھ ہم آہنگ اور دونوں ایک دوسرے میں پیوست ہیں جبکہ دونوں کا سرچشمہ دینیات ہے لہٰذا اقبال فن کاری کو بھی عبادت قرار دیتے ہیں اورجمالیات کو ایک تقدس عطا کرتے ہیں۔ یہ بڑا پیچیدہ مرکب رنگین ارو زریں تصور فن ہے جس سے فن میں لطافت اور گہرائی کے ساتھ ساتھ وسعت و عظمت کے وہ اہم ترین پہلو پیدا ہوتے ہیں جو روایتی معنوں میں جمالیاتی فن کاری سے بہت آگے کی باتیں ہیں۔ اس طرح اقبال کی شاعری میں شاعری کے رسمی تصور سے بہت اگے بڑھ کر پیغمبری کے وہ انداز نمایاں ہوتے ہیں جن کے متعلق مختلف ناقدوں نے مختلف توججیہات پیش کی ہیں۔ حالانکہ یہ بات بہت صاف ہے کہ چند افکار و اقدار کا موثر ابلاغ کرتا ہے۔ بعض مقاصد کی طرف لوگوں کو دل نشین انداز میں متوجہ کرتا ہے ان کے ضمیر کو جگاتا ہے اور روح کو بیدار کرتا ہے یعنی شاعر انقلاب احوال اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ کام کے بعض اجزا کی انجام دہی کرتا ہے ۔ اسی لیے اس سلسلے میں مشہور قول اس طرح ہے: شاعری جزویست از پیغمبری اس قول میں شاعری کو پیغمبری کا صرف ایک جزو قرار دیا گیا ہے نہ کہ مکمل پیغمبری اس صحیح طرز تعبیر سے اپنے آپ واضح ہو جاتا ہے کہ شاعری کے ساتھ پیغمبروں کا کوئی تصادم نہیںبلکہ اگر کسی شاعری میں پیغمبری کا کوئی جزو بروئے اظہار آ جائے تو وہی معراج شاعری ہے اقبال یہ معراج حاصل کر چکے ہیں اور ان کا سدرۃ المنتہیٰ دنیا کے کسی بھی شاعر س بلند تر ہے۔ اقبال کا شاعرانہ پیغام یا پیام شعری خودی ہے جو فنی طورپر وجودیت سے زیادہ بامعنی نتیجہ خیز اور جمال آفریں ہے۔ وجودیت اصلاً واحد متکلم کا یکطرفہ اظہار ہے۔ اس لیے خود آگاہی کی لطافت اورتخاطب کی بلاغت دونوں سے خالی ہے جبکہ خودی کا اظہار جمع حاضر کے لیے ہوتا ہے۔ لہذا اس میں خود شنادسی کی رعنائیوں کے ساتھ ساتھ معرفت انسانی کی پر تاثیر حس کاری بھی ہوتی ہے۔ اقبال کے اشعار کا جادو ان کے قارئین کے سرچڑھ کر بولتا ہے۔ صرف شاعر کے سر پر کابوس کی طرح سوار نہیں ہوتا اسی لیے تمام شاعرانہ ایمائیت کے باوجود اقبال کے کلام میں ابہام نہیں اور بعض دقیق استعارات ع علامات کے باوصف یہ کلام آئینے کی طرح شفاف اوردرخشاں ہے۔ اس میں ایک ایسا کیف ہے جو برقی رو کے مانند مخاطب پر اثر ڈالتا ہے۔ اقبال کی خودی کے مضمرات فن کے بہترین امکانات کو رو بہ عمل لاتے ہیں۔ خودی کا مقصود عرفان حق ہے اور معرفت اسی کی تمہید اور وسیلہ ہے۔ یہ عرفان حق ہی عشق کا وہ تصور پیدا کرتا ہے جس کے بغیر فن کا کوئی عظیم نمونہ بروئے تخلیق نہیں آ سکتا۔ یہ عشق ہی ہے جو فن کار کے اندر ایک سوزوگداز پیدا کرتا ہے اور اسے تاب سخن عطا کرتا ہے ذوق و شوق سے سرشار کرتا ہے۔ اور بہتر سے بہتر حسن کاری پر آمادہ کرتا ہے۔ تخلیق جمال کی اس قوت محرکہ کے لیے اقبال نے متعدد فکر انگیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مثلاً سوز زندگی‘ جنون فتنہ‘ ساماں درد عشق‘ پیش شوق‘ حرف راز‘ لطیفہ ازلی‘ راز درون میخانہ‘ اسرار کتاب‘ راز حرم‘ آہ سحرگاہی‘ فطرت ‘ آئینہ ادراک‘ بجلی کے سوز و براقی‘ حرف محبت‘ ذوق آتش آشامی‘ جمال عشق و مستی‘ جگر کاکہو‘ حرف تمنا ‘ خون جگر ‘ شوق ‘ آرزو‘ خون دل و جگر‘ ’’ذوق جذبہ ہائے بلند‘‘،’’تب و تاب زندگی‘‘، ’’سوز خودی‘‘ ’’ساز حیات‘‘، ’’ذکر و فکر و جذب و سرور‘‘،’’دل کی رمز‘‘ ’’شے کی حقیقت‘‘،’’سوز حیات ابدی‘‘،’’مرحلہ شوق‘‘، ’’روح کا رقص‘‘، ’’مختصر یہ کہ عشق حسن اور حق کو ایک دوسرے کے ساتھ ترکیب دے کر حسن کلام کی آئینہ گری کرتاہے ۔ یہ تصویر کیٹس کے اس تصور سے بدرجہا بہتر ہے زیادہ بالغانہ اور بلغ ہے کہ جس کے مطابق وہ حسن و حق اصلاً ایک دوسرے کے مترادف قرار پاتے ہیں۔ اس لیے کہ حق تو یقینا سراپا حسن ہے‘ مگر حسن سراپا حق نہیں‘۔ اسی لیے جب بوالہوس حسن پرستی کا شعار غالب کے بقول اختیار کرنے لگتے ہیں تو آبروئے شیوہ اہل نظر رخصت ہو جاتی ہے۔ اقبال کے تخیل و فکر لفظ و معنی اور آمد و آورد کے باہمی تعلق و تناسب پر بھی روشنی ڈالی ہے ان کے خیال میں ’’لطف گویائی‘ ‘ کا بلند ترین درجہ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ جب تک فکر کامل تخیل کا ہم نشین نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں فکر کی پرواز بمعنی تخیل میں حقیقت (بمعنی تشکر حقائق) سے غفلت نہ ہونی چاہیے۔ یہ فکر کامل ہی ہے جو شاعر کو کھری بات کہنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اور فن کار کے اندر وہ جرات اندیشہ پیدا کرتی ہے جسے اقبال شان خلیل سے تعبیر کرتے ہیں ۔ چنانچہ اہل فکر کامل اس طرح تخیل کا ہم نشیں ہو تو کسی شاعر کے تخیل کے محل پر فلسفیوں کے افکار محض کا پورا حیرت کدہ تصدق کیا جاتا ہے مطلب یہ کہ فکر و خیال کا مرکب فکر محض اور خیال محض کے مفردت سے زیادہ حسین موثر اور کارآمد ہے ۔ یہی وہ متوازن مرکب ہے ‘ جو فن کار کا سینہ روشن کر کے اس کے سوز سخ کو عین حیات بنا دیتا ہے۔ اسی سے غزل میں وہ سوز و نشاب پیدا ہو جاتا ہے جو ایک جنو ن آمیز اندیشہ دانا کی ترکیب کا باعث ہوتا ہ۔ اس کی موجودگ میں شاعری کی نوائے پریشاں محرم راز درون مے خانہ بن جاتی ہے۔ تخیل و فکر کو یہ ہم آہنگی قلب شاعر کو آئینہ ادراک بنا دیتی ہے۔ ا س ہم آہنگی کی حلت صاحب ساز سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ غافل نہ رہے ۔ اس یلے کہ کبھی کبھی سروش غلط آہنگ بھی ہوتا ہے جب شاعر کے ذہن میں یہ بیداری پیدا ہو جاتی ہے تب ہی اسے اپنے بلند مرتبے اور اس کی اہمیت کا مجتہدانہ احساس ہوتا ہے اور وہ بلبل و طائوس کے فقط آواز اور فقط رنگ کی تقلید سے توبہ کر کے ایک باشعور فن کار کی طرح اپنی راہ الگ نکالتا ہے۔ اور شر ف انسانی کے بام رفعت پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کوشش نواگر کو تب وتاب زندگی سے مربوط رکھ کر سماج کی صحت و عافیت کا سامان کرتی ہے اس کوشش کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ اہل نظر کا ذوق و شوق شے کی حقیقت کو دیکھنے لگتا ہے۔ حقیقت بینی ہنرو فن میں ضرب کلیمی اور حسن و جمال کے ساتھ جلال کی تاثیر پیدا کرتی ہے۔ اس لے خارا تراشی اور سنگلاخ میں ُھول کھلانے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ مختصر یہ کہ تخیل و تفکر کا ارتباط ایک شاعر کو ایک دانش ور کے ذہن کی مضبوطی عطا کرتا ہے یہی حال لفظ و معنی کے ربط باہم کا ہے ۔ اقبال ارتباط حرف و معنی کو ’’اختلاط جان و تن‘‘ کہتے ہیں او ران کے نزدیک اس اختلاط کی مثال چنگاری پر پڑی ہوئی راکھ کی ہے۔ ان کے خیال میں قبائے لفظ اخگر معنی کے لیے خاکستر سے زیادہ کوئی اہمیت نہیںرکھتی۔ یعنی لفظ کو معنی کا پردہ نہیں اس کا آئینہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اصلیت معنی کی ہے جس کی تابانی لباس الفاظ سے اسی طرح پھوٹتی ہے جس طرح راکھ سے چنگاری۔ واقعہ یہ ہے کہ معنی کا دہکتا ہوا انگارا ایک قبائے خاکستر خود اپنے اند ر سے پیدا کر لیتا ہے۔ اس کی شعلگی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ کر خاکستر کا روپ دھارنے لگتی ہے جو روشنی اور گرمی کو دیر تک قائم رکھنے کے لیے ایک قالب بن جاتا ہے۔ مواد وہئیت کے رشتے کی یہ تعبیر بڑی خیال انگیز ہے اور اس کی متعدد تہیں ہیں۔ یہ تعبیر اقبال کے موضوع اور اسلوب کے باہمی تعلق کے لیے نہایت موزوں اور چست ہے۔ اس سے فکر وفن کی ہم آہنگی کے متعلق ان کے نظریے کی بھی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ دوسری جگہ اقبال نے شعر کو روح موسیقی اور رقص کو موسیقی کا بدن قرار دیا ہے۔ یعنی نغمہ فن ک روح تو شعر ہے مگر اس کا جسم رقص ہے۔ اس خیال کی تشریح اس طرح کی جا سکتی ہے کہ الفاظ میں رقص جیسا پیچ و خم ہوتا ہے حرکت ہوتی ہے زاویے اور دائرے ہوتے ہیں۔ لیکن تجسیم کی ان ساری ادائوں کا ایک لطیف مفہوم ایک عمیق مقصد اور ایک رفیع مطمح نظر ہوتا ہے اور یہی جان شعر ہے۔ ورنہ محض رقص بدن کے خم و پیچ میں کچھ نہیں۔ جو کچھ ہے روح کے رقص میں ہے اور وہ ضب کلیم اللہی سے کم سحر آفریں نہیںبلکہ درحقیقت ایک سحر ہے جو دنیا کے بڑے بڑے جادو کے سانپ کی بنائی ہوئی لاٹحیوں کو نگل لیتا ہے اور غلط قسم کے ہر طلسم کو توڑ کر ااپنا ایک ناقابل شکست طلسم قائم کرتا ہے‘ جس کے زورسے نیل حیات کی پرشور موجوں میں کاروان حق کے لیے راہ پیدا ہوتی ہے۔ اقبال اپنے شعر میں روح کا یہی رقص دیکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ رقص بدن کے خم پیچ کو وہ یورپ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک معنی خیز بات ہے۔ اس سے جہاں ایک بار پھر معنیٰ کی اہمیت پر روشن پڑتی ہے وہیں یہ اشارہ بھی مل جاتا ہے کہ اہل یورپ درحقیقت لفظو ں کے گورکھ دھندے میں گم ہیں ان کے فنون لطیفہ اپنی ظاہر پرستی سے روح کو خوابیدہ اور بدن کر بیدار کر رہے ہیں انہوںنے جسم کی زیبائش و آرائش ہی کو مقصود معیار بنا لیا ہے۔ سطحی جسم پرسی کا یہ عمل رواج زمانہ بن گیا ہے۔ اور ایشیا خاص کر ہندوستان کے فن کار بھی اس میں مبتلا ہو گئے ہیں ایک قد م آگے بڑھ کر اقبال اس حسن طبیعت کو عجمی لے قرار دیتے ہیں ۔ جسمانیات سے یہ غیر معمولی شغف ایک قسم کی اتنہا پسندی ہے جس میں قدیم ہند اور قدم ایران اسی طرح مبتلا رہے ہیں جس طرح جدید مشرقی و مغربی یورپ اور امریکہ ہیں‘ اس لیے کہ اول نشاۃ ثانیہ کے نام سے انہوںنے قدیم یونان اور روم کی ظاہر پرستیوں کا احیاء کیا‘ دوسرے موجودہ میکانکی تمدن کی بے حیائیوں کا اضافہ بھی اس احیا میں کر دیا ۔ اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے اقبال نے ضرب کلیم کی ایک نظم ’’مدنیت اسلام‘‘ میں فکر و فن کا یہ جادہ اعتدال پیش کیا ہے: بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں نہ تو اس عصر رواں کی حیا سے بے زاری نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسم افلاطوں عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز دروں ٭٭٭ یہ ذوق جمال ہی حسن طبیعت اور سو ز دروں کا وہ امتزاج پیدا کر سکتا ہے جس سے فن شعر میں لفظ و معنی کی صحیح موزوں اور موثر ترکیب بروئے عمل آ سکتی ہے۔ اور تمام فنون لطیفہ میں جسم و روح یا مواد و ہئیت اور موضوع و اسلو کا نتیجہ خیز توازن ابھر سکتا ہے۔ آمد و آورد کا تعلق ہسب وکسب اور فطرت و صنعت سے ہے۔ اس کے ساتھ ہی جدت و قدامت کا سوال بھی وابستہ ہے۔ ضرب کلیم کے باب ادبیات فنون لطیفہ میں مرد بزرگ کے عنوان سے ایک نظم ہے جس کے حسب ذیل اشعار معنی خیز ہیں: پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں بات میں سادہ و آزادہ معانی میں دقیق ٭٭٭ ضرب کلیم ہی کی ایک چھوٹی سی نظم ’’ادبیات‘‘ کے عنوان سے نقل کی جا چکی ہے۔ اس کا یہ شعر خیال انگیز ہے: کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے ٭٭٭ بال جبریل کی مشہور نظم ذو ق و شوق کے دوسرے بند کا پہلا شعر ہے : کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مے حیات کہنہ ہے بزم کائنات تازہ ہیں میرے واردات ٭٭٭ تازگی جدت ‘ آزادی تخلیق اقبا ل کے محبوب الفاظ ہیں۔ جہاں تک فطرت کا تعلق ہے وہ نہ صرف یہ کہ اقبال کو نواپرپے بہ پے مجبور کرتی ہے بلکہ وہ نئی نسل کی علامت جاوید کے لیے خدا سے دل فطرت شناس کی دعا کرتے ہیں۔ اور محبوب فرزند کو تلقین کرتے ہیں کہ سکوت لالہ و گل سے کلام پیداکر لیکن ’’ایجاد معانی‘‘ کو ’’خداداد‘‘ تسلیم کرنے کے باوجود اقبال کا خیال ہے کہ بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا اس سلسلے میں وہ ریاض فنون کو کوہ کنی سے تشبیہہ دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ خانہ فرہاد کی ساری روشنی ’’شررتیشہ‘‘ سے ہے چنانچہ میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاددونوں کی خون رگ معمار گرمی سے ہے تعمیر یہی وجہ ہ کہ ایک طرف ’’حسن معنی‘‘ کو فن کار کی مشاطگی کی کوئی ضرورت نہیںمعلوم ہوتی اور ایسا محسو س ہوتا ہے ک فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی‘‘ جبکہ دوسری طرف نگاہ شاعر نگیں نوا میں ایسا جادو ہے کہ جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے ان بیانات میں کوئی تضاد نہں یہ صرف ایک ایسے بالیدہ و پیچیدہ ذہن کے اشارات ہیں جو موضو ع کے تمام اطراف کا احاطہ کرتا ہے۔ اور ہر مسئلے کی تمام جہتوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع ترکیبی نقطہ نظر اختیار کرتا ہے۔ پھر یہ ذہن اتنا مستحکم اور خلاق ہے کہ متنوع اطراف اور مختلف جہتوں کو اپنے فکر و فن کے محور پر جمع کر کے یک سو اور یک جہت کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ریاضح بھی جو ہر خداداد کا ایک حصہ بن جاتا ہے جدید و قدیم کا فرق ختم ہو جاتا ہے اور تقلید کی نشانات تخلیق کے امکانات میں گم ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عظی فن کی کیمیا گری ہے جسے اقبال اپنا سوز نفس قرار دیتے ہیں۔ اور اسے اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ اپنے نفس کی موج کا موازنہ باد صبا کی موج سے کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ مظہر فطرت سے تو نشوونمائے خار و خس ہوتا ہے جبکہ تخلیق فن سے نشوو نمائے آرزو بات یہ ہے کہ بڑی فن کاری کے لیے فطرت شناسی کے ساتھ ساتھ خود شناسی بھی ضروری ہے ورنہ فن کار صرف عکاس اور نقال بن کر رہ جائے گا نقاش اور خلاق نہ بن سکے گا۔ اسی لیے اقبال نے مصور کو مخاطب کر کے کہا ہے: فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی فطرت اور خودی کا امتزاج ایک بلند تر سطح پر اس کاقرار میں ملتا ہے کہ شاعر کی غزل خوانی ایک فغاں بن کر جو ستاروں تک پہنچتی ہے تو یہ سکھائی ہوئی بھی افلاک و نجوم کے خالق و مالک ہی کی ہے ۔یعنی جو اس کا منتہاہے وہی اس کا مبدا ہے۔ اس طرح شاعری میں خد ا اور خودی یا ایک درج نیچے اتر کر فطرت اور خودی کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ جاتاہے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ قاب قوسین کی وہ قربت پیدا ہو جاتی ہے جو شاعرانہ الہام کا معیار ہے اس معنے میں شعر کو تلمیذ رحمان کہا گیا ہے ۔ بشرطیکہ وہ ہر وادی میں بھٹکتا نہ پھرے اور محض لفاظی کر کے اپنے فن کی عظمت کو داغدار نہ کرے۔ توازن کا یہی وہ تناظر ہے جس میں اقبال کے اس قسم کے بیانات کو دیکھنا چاہیے کہ وہ غزل کی زبان سے باخبر نہیں ہیں خاراشگافوں سے شیشہ سازی کا تقاضا نہ کیا جانا چاہیے نہ ان کا شعر کچھ ہے شاعری کوئی چیز یہ بس ایک نوائے پریشاں ہے جس جیں کوئی رمز و ایما نہیں اس لیے کہ شعر کو سخن سازی کا فن نہیں آتا۔ اول تو یہ بیانات شعرا کی عالم تعلیوں سے بالکل مختلف بلکہ ان کے برعکس دنیا کے عظیم ترین شاعرکے انکسار پر مشتمل ہیں اور ایک خوشگوار تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر متعلقہ اشعار کا مطالعہ ان کی مکمل شکل اور سیاق و سباق میں کیا جائے تو تصور فن کے بہ ظاہر منفی اشارت بھی مثبت معانی اختیار کر لیں گے مثلا ً اگر ایک شعر کے پہلے مصرعے میں کہا گیا ہے کہ شاعر غزل کی زبان سے باخبر نہیں ہے تومصرعے میں ایک دل کشا صدا گوہر مقصود بھی بتایاگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی صدا یوں ہی دل کشا نہیںہوتی جب کہ اس کے پیچھے خون جگر کے ساتھ ساتھ فن کا ریاض نہ ہو۔ جو آواز جتنی زیادہ تربیت یافتہ اور آہنگ نغمہ کے زیر و بم سے واقفیت پر مشتمل ہوگی۔ بشرطیکہ واقعی قدرت نے کسی کو اچھی آواز دی ہو اور وہ ایک بامعنی آواز ہو‘ اس کے اندر دل کشائی کا اندازہ اتنا ہی ہو گا اب یہ واقعی بڑی خاکساری ہے کہ جو شخص شعرائے عالم میں سب سے زیادہ صاحب علم اور ن کے اسرار و رموز سے بھی کامل طورپر واقف ہے وہ اپنے آپ کو گویا آداب شاعری سے نابلد قرار دے رہاہے گرچہ اس کے ساتھ ہی مقصود شاعری کے حصول کا آرزو مند ہے ۔ بہرحال اگر یہ کوئی معمہ بھی ہو تو اس کا حل شعر کے پہلے مصرعے کے ابتدائی الفاظ ہی میں موجود ہے ۔ یعنی نہ زباں کوئی غزل کی یہ الفاظ نہ تو شاعرانہ تعلی کے ہیں نہ عارفانہ انکسار کے بلکہ ایک نہایت اہم تنقیدی بیان کے جو اقبال کی مخصوص و منفرد غزل گوئی کی تفہیم کے لے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ عام طور پر ناقدین سمجھتے ہیں کہ غزل گوئی کی کوئی خاص الخاص زبان اور انداز بیان ہے جس سے ہٹ کر غزل کا جوہر نہیں دکھایا جا سکتا۔ مثلاً زبان میں لوچ‘ لچک‘ نرمی‘ اور انداز میں ربودگی و شکستگی ۔ اقبال فن غزل کے اس تصور کی قطعی تردید کرتے ہیں اس لیے کہ اول تو وہ جانتے ہیں کہ زبان و انداز غزل کے متعلق عام ناقدوں کا یہ خیال بالکل ناقص اور حقیقت سے بعید ہے ورنہ اردو ہی میں غزل گوئی کا شرف صرف میر کے لیے مخصوص ہوتا۔ اس میں غالب کا کوئی حصۃ نہ ہوتا اور فارسی میں تو حافظ کا زبردست تغزل پرھ تغزل کے دائرے ہی سے خارج ہو جاتا۔ دوسرے خود اقبال کی عظیم غزل گوئی عام تصور غزل کے برعکس ایک تصور پر مبنی ہے۔ لہٰذا اقبال نے ضروری سمجھا کہ غزل کے زبان و انداز کے متعلق اپنا موقف واضح کر دیںَ اسی طرح جہاں کے ایک شعر دوسرے مصرعے میں خاراشگافیوں سے شیشہ بازی کا تقاضا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ وہیں پہلے ہی مصرعے میں اصل بات بتا دی گئی ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے مفکر شاعر کو حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں۔ یہ گویا ایک ار پھر نہ زبان کوئی غزل کی جیسا تنقیدی بیان ہے ظاہر ہے کہ اقبال بادہ و مینا و جام کے شاعر نہیں ہیں۔ وہ زندگی کے ٹھوس حقائق کے نغمہ خواںہیں لہٰذا ان کا فن شیشہ سازی کا کوئی آسان نرم و نازک کام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے خارا تراشی کی صلابت و ریاضت درکار ہے۔ بلاشبہ یہ بڑی کٹھن کوہ کنی ہے مگر عظیم فن کاری کی جوئے شیر اس کے بغیر اس لیے نہیںپھوٹ سکتی اور جب تک یہ جوئے شیر رواں نہ ہو مزرع زندگی بھی ہری نہیںہو سکتی جو حقیقی شاعری کا مطمح نظر اور معیار کمال ہے۔ چنانچہ شاعر کی نوائے پریشاں ایک محرم را ز درون میخانہ کی قلندرانہ آواز ہے جیسا کہ متعلقہ اشعار کے متعلقہ مصرعوں سے ظاہر ہے کہ اس نوائے پریشان کی اہمیت یہ ہے: عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں (تصوف… ضرب کلیم) جہاںتک رمز و ایما اور سخن سازی سے انکار کا تعلق ہے یہ درحقیقت تمہید ہے ’’خانقاہ‘‘ کے موضود پر اس بیان کی: قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن ٭٭٭ اب متعلقہ شعر کو پڑھیے: رمز و ایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں اور آتا بھی نہیںمجھ کو سخن سازی کا فن ٭٭٭ نظم انہی دو شعروں پر مشتمل ہے اور اس کا مفہوم واضح ہے۔ اس پس منظر میں رمز و ایما سے انکار کا فکری مقصد معلوم ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ فن کے نقطہ نظر سے اصل اعتبار اس بیان کا ہے کہ رمز وایما اس زمانے کے لیے موزوں نہیں بلاشبہ یہ ایک تنقیدی بیان ہے اور اس میں ایک زبردست عصری آگہی موجود ہے۔ اسلوب بیان ماحول اورمخاطب نیز موضوع کی مناسبت سے ہی کارگر ہوتاہے جدید تمدن کی کرختگی حالات کی سنگینی اور ٹھوس حقائق کی فن کاری کے پیش نظر عصر حاضر کے لیے رمز و ایما کی ناموزونی اور بے اثری کا احساس ایک متوقع امر ہے۔ اگر فن کی بلاغت کسی خیال کی ابلاغ کے لیے ہے تو جو لو گ رمز و ایما کے ادا شناس نہیں ہیں یا جنہیں ایمائیت کے اسرا ر و رمو ز پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ہے ان کے سامنے رمز و ایما کے استعمال کا حاصل کیا ہے؟ بہرحال اس سلسلے میں اقبال کے ایک فارسی شعر کا یہ تنقیدی بیان شاعر کے نقطہ نظر اور عمل کی پوری اور قطعی وضاحت کرتا ہے : وقت برہنہ گفتن است‘ من بہ کنایہ گفتہ ام یعنی زمانہ تو صاف صاف با ت کہنے کا ہے مگر شاعر نے اپنے اظہار خیال میں کنایے کا استعمال کیا ہے اور یہ کنایہ ظاہر ہے کہ لطیف و نفیس ہونے کے باوجود معمہ نہیں ہو گا آئینہ ہی ہو گا تاکہ الفاظ حسن معنی پر نقاب ڈالنے کی بجائے صرف اس کی تزئین کریں ایسی تزئین کہ جس سے حسن کچھ نکھر جائے۔ یہ نکتہ فارسی کے ایک او ر شعری بیان میں اقبال نے اس طرح پیش کیا ہے: برہنہ حرف و گفتن کمال گویائی است یعنی استعارہ و کنایہ کے پردے میں گفتگو کرنا شاعری کے نقطہ نظر سے کمال گویائی اور بہترین اظہار خیال ہے۔ بشرطیکہ یہ پردہ نقاب کا نہیں‘ آئینے کا کام کرے اور رنگ صہبا کی عکاسی کے لیے ایک شفاف شیشہ بن جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس پر مسجد قرطبہ کے تمہیدی حصہ دعا کے آخری شعر میں ا س طرح روشنی ڈالی گئی ہے: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو بلاشبہ اس بیان میں فلسفہ و شعر کو ایک کر دیا گیا ہے لیکن معاملہ دونوں کی ظاہری ہئیت کا نہیں ہے۔ ان کی حقیقت اصلی کا ہے ۔ اور وہ ایک حرف تمنا ہے جو انسان کی تمام تہذیبی سرگرمیوں کے مطلوب و مقصود…محبوب ازل… سے متعلق ہے۔حرف تمنا کا طریق تعبیر سراسر قدر جمال کی ترجمانی ہے اور اس سے فلسفے میں بھی ایک ایسی لطافت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے شعر سے قریب کر دیتی ہے۔ اقبال فلسفی بھی ہیں ار شاعر بھی پھر انہوںنے اپنی شاعری میں زندگی کا ایک فلسفہ ہی پیش کیا ہے ۔ لہٰذا فن کے نقطہ نظر سے یہ امر بہت ہی اہم فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہے کہ ایک فلسفی شاعر اپنے فلسفے کو شعر میں سمونے کے لیے دونوںکے درمیان جو قدر مشترک تلاش کرتا ہے وہ ایک قدر جمال ہے گرچہ ساتھ ہی وہ ایک قدر اخلاق بھی ہے ۔ اب حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو ‘ کی معنویت پر غور کیجیے غزل یا شاعری کی کوئی بھی صنف ہو ا س کا مقصد کسی محبوب کی آرزو ہی کا خیال ہے مگر جمال یار کا رعب ایسا ہے کہ حرف آرزو کا اظہار ممکن نہیں لہٰذا اب محبوب سے یا ا س کے بارے میں جو بھی گفتگو ہو گی پردے پردے میں ہو گی‘ اور اس کے لیے استعارہ کنایہ علامت جیسے وسائل اظہار استعمال کیے جائیں گے۔ یہ معاملہ تو شاعری کا ہوا جس کے صنائع و بدائع یہ وسائل ہیں فلسفے میں بھی خیالات کی وضاحت کے لیے ایک خاص خاص اصطلاحات وہ محاورات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس طرح فلسفہ و شعر دونوں میںذہن و قلب کی کیفیات کا موثر اظہار زبان و بیان کے مخصوص وسائل کے ذریعے ہوتا ہے چنانچہ دونوں ہی صورتوں میں حرف مطلب زبان سے بالواسطہ ادا ہوتا ہے اس لیے کہ حرف کی حد یہی ہے اور اس کے آگے منزل ہے وہ حرف و حکایت کی نہیں‘ وصال و یگانگت کی ہے بات یہ ہے کہ حجاب اکسیر ہے ارادہ کوئے محبت کو خواہ محبت کرنے والا فن کار ہو یا فلسفی یہاں ہمارا تعلق ایک فن کار سے ہے اور موضوع بحث اس کا تصور فن ہے یہ نکتہ یقینا اقبال کی زبردست تنقیدی ذہانت کا ثبوت ہے ک ہوہ نہ صرف فن کی ادائے خاص کی تشریح کرتے ہیں بلکہ فکر کو بھی اس تشریح میں لطیف طریقے سے شامل کر کے فن و فکر کی یکجہتی کا سامان کرتے ہیں۔ ہئیت سخن کے بارے میں اقبال کا خیال ہے: شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے یہ ایک بار پھر ظرف سے زیادہ مظروف کی اہمیت پر تاکیدی نشان ہے شکل اظہار شیشے کی صراحی کی طرح ایک پیچیدہ صناعت سے مرتب ہوئی ہو یا مٹی کے سبو کی طرح ایک سادہ کاری گری کا نتیجہ ہو اعتبار شکل کا نہیں اس کے اندر پوشیدہ مادے کا ہے اس کی تاثیر اور خاصیت کا ہے۔ اگر کسی شکل سے خواہ وہ کتنی ہی سادہ ہو ذہن میں سرور اور نور پیدا ہوتا ہے تو وہی مطلوب ہے لیکن اگریہ جان فزا اثر نہ پیدا ہو تو قیمتی سے قیمتی اور رنگین سے رنگین شکل بھی بے کار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہئیت خالی ظرف نہ ہو۔ اس کے اندر بیش قیمت اور مفید مواد بھی ہونا چاہیے۔ اب اگر مواد کے لحاظ سے کوئی ہیئت بہت حسین و جمیل ہے تو یہ بڑی خوشگوار بات ہے ورنہ حسن برائے حسن یعنی صرف ظاہری خوبصورتی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اس تناظر میں مندرجہ ذیل اشعار پر غور کیا جانا چاہیے: یہی کمان ہے تمثیل کہ تو نہ رہے رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات تمثیل کو ہی انگریزی میں ڈرامہ کہتے ہیں جس کے بہترین فن لطیف ہونے پر اردو ک ایک ناقد کو بڑا اصرار ہے اور خود انگریز ڈرامے کے اندر پائی جانے والی شاعری پر اتنا ناز کرتے ہیں کہ شیکسپئیر کو دنیا کا سب سے بڑا شاعر نیز ڈرامہ نگار تصور کرتے ہیں۔ اقبال شیکسپئیر کی عظمت اپنی جگہ تسلیم کرتے ہوئے بھی فن تمثیل کو معیار و مقصد ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ تمثیل میں جو نقالی پائی جاتی ہے اسے وہ شرف انسانی کے منافی اور تشکی کردار یا تعمیر شخصیت کے لیے سخت مضر سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ ڈرامے کی ایکٹنگ کردار کی اپنی ہستی کو مسخ کر دیتی ہے اس سے آدمی کا تشخص ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنی خودی کا جذبہ کھو کر زندگی کے حقیقی نغمے سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ایک مصنوعی فن ایک مصنوعی فضا پیدا کر تا ہے۔ جس سے پوری زندگی مصنوعی بن کر رہ جاتی ہے۔ اسی لیے اقبال نے ڈرامے کی جدید شکل سینما کو دوزخ کی مٹی اوراس کے بنائے ہوئے بت خانہ تخیل کو خاکستری قرار دیاہے۔ وہ اسے صنعت آزری بت گری اور تہذیب حاضر کی سوداگری کہتے ہیں۔ شاید اسی لیے اپنے بعض خیالات کی نوعیت کے پیش نظر چند اعلیٰ تمثیلی نظمیں لکھنے کے باوجود اقبال نے ایکٹنگ پر مشتمل منظوم تمثیلین لکھنا پسند نہ کیا۔ اقبال کی شاعری میں ڈرامائی عنصر کی کمی نہیں اور وہ بڑی کامیاب کردار نگاری نیز نہایت پر اثر فضا بندی کرتے ہیں مگر ان کے کردار عموماً حقیقی ہوتے ہیں اور فرضی کردار بھی حقیقت ہی کا سبق دیتے ہیں۔ چنانچہ اقبال کی تمثیلی نظموں میں سارا زور شخصیتوں کی نقالی کی بجائے افکار کی علامت نگارتی پر ہوتا ہے فنی طورپر یہ شاعری کی اس عظیم روایت کی توسیع ہے اس روایت کے کلاسیکی نمونوں میں شاعری کی اعلیٰ قسم کی ہے لیکن ڈرامہ نگاری جدید مغربی مفہوم میں نہیں ہے۔ جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ معروف و مسلم ہے کہ شاعری شاعری ہے اور ڈرامہ ڈرامہ جو نثر میں بھی ہوتا ہے بلکہ عصر حاضر میں بالعموم نثر ہی میں ہوتا ہے‘ اور یہ ادب کی دو الگ الگ صنفیں ہیں۔ اور دونوں مستقل بالذات ہیں نہ تو شاعری ڈرامے کی محتاج ہے نہ ڈراما شاعری کا محتاج ہے۔ چنانچہ ہر ایک کے لوازم الگ ہیں اوصاف الگ ہیں اور واقعہ تو یہ ہے کہ اگر صنف شاعری میں ڈرامہ تحریر کیا جائے تو اس سے شعریت میں خلل واقع ہو سکتا ہے اور خود ڈرامے میں وہ خامی پیدا ہو سکتی ہے جس کو دور کرنے کے لیے شیکسپئر جیسے ماہر فن کو بھی اپنے منظوم ڈراموں میں جا بجا نثر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تصور فن پر اوپر کے مباحث سے حس ذیل نتائج نکلتے ہیں: 1 اقبال کی شاعری اپنے فن کی تمام روایات و آڈاب کو ملحوظ رکھنے کے باوجود رسوم و قیود کی پابند محض نہیں ہیں ہئیت اور اسلوب کے اوصاف و لوازم کے بارے میں شاعر کا خیال اور عمل دونوں ممتاز و منفرد اور مجتہدانہ ہیں اس کے افکار و احساسات اپنے اظہار کے لیے وہی شکل اختیار کرتے ہی جو ان کے لیے سب سے موزوںاور چست ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس کے پیچھے کتنا ہی بڑا ریاض ہو اس میں کسی قسم کا تصنع اور تکلف نہیں ہے۔ 2 یہ تخلیقی آزادی شاعر کے مقصد تخلیق کی دین ہے۔ وہ شاعری شاعری کے لیے نہیں کرتا۔ زندگی کی تزئین کے لیے ایک خاص نظریے کے تحت اور اس کے جذبے سے مجبور ہو کر کرتا ہے وہ اپنے قلب و ذہن کی آنچ سے اپنے پورے ماحول کو گرم اور روشن کرنا چاہتا ہے اس کام کو وہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے لہٰذا اپنے مقصد کی بلیغ ترسیل کے لیے اپنے وسیلہ اظہار کو بھی زیادہ سے زیادہ موثر بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے حالانکہ اس کے لیے الگ سے اور ارادۃً کوئی سعی کرنے کی ضرورت نہیں اس کی رنگین بنانی اس کی رنگین خیالی ہی کا پرتو ہے۔ 3 فکر کی پیشگی تعین و توضیح نے فن کار کو فن کو کے لیے یکسو کر دیا ہے۔ اسی لیے اس کے تصورات تنوع کے باوجود ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ اس کے اسالیب بیان میں ہمواری و استواری ہے۔اس سے فکر و فن کی یک جہتی کے علاوہ ایک زبردست فنی ارتکاز بھی پیدا ہوتا ہے۔ اردو میں پہلی اہم نظم ہمالہ سے آخری اہم نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ تک بیان پر یکساں قدرت اور اظہار کا یکساں کمال اسی یکسوئی اور ہمواری کے سبب ہے۔ 4 ایک ناقد فن اور کامل الفن شاعر ہونے کے لحاظ سے یہ اقبال کا حق اور فرض دونوں ہیں کہ ہیئت سخن کے سلسلے میں کسی کی نقالی کی بجائے اپنے خاص معیار ردو سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس زبان میں اور جس مقاصد کے لیے وہ شاعری کر رہے ہیں وہ مگربی تمثیل کے بجائے مشرقی تغزل کے متقاضی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ شاعری کے لیے عام طور پر غزل خوانی اور غزل سرائی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جبکہ تمثیل کی خامیوںاور خرابیوں پر وہ تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی بے شمار اور بہترین موضوعاتی نظموں میںتمثیل کے اعلیٰ عناصر بڑے ہی نفیس انداز میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کا مقصد ڈرامہ نگاری نہیں ہے‘ حقیقت نگاری اور اثر انگیزی ہے اسی لیے نظموں میں تمثیلوں کا استعمال بالوضاحتہ علامتوں کے طور پر ہوا ہے‘ جو خالص شعری کا ایک حسین وسیلہ اظہار ہیں ۔ بشرطیکہ وہ مفہوم کی سریت نہیں صراھت پر مشمتل ہوں۔ جیسا کہ اقبال کی نظموں میںنمایاں طور پر نظر آتا ہے واقعہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر اقبال کے کلام میں تمثیل کا عنصر ایک وسیع او ر عمومی شاعرانہ انداز میں پایا جاتا ہے اس کا خاص مصرف معانی کی استعاراتی تجسیم ہے۔ جو رنگ شاعری کا اشاریہ ہے گویا قدیم صنائع و بدائع کا جدید پیرایہ بیان ہے جو سادہ ترین تشبیہات سے پیچیدہ ترین علامات تک محیط ہے یہ پیکر سازی اور تمثیل نگاری ہے جس کا وافر سرمایہ کلام اقبال میں موجود ہے۔ اقبال کا تصور تصویر ساز ہے ان کے خیالات بالعموم حسین پیکروں ہی میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہ پیکر قدیم و جدید مشرق و مغرب اور شوخ و لطیف ہر قسم کے رنگوں اور ززاویوں سے بنتے ہیں مظاہر فطرت اور صنائع شاعری کا پورا رنگ محل اقبال کے تصرف میں ہے۔ 5 کلام اقبال کے رنگ سے بھی زیادہ اہم اس کا آہنگ ہے شاعری اصلاً ایک نغمہ ایک ملفو ظ موسیقی ہے۔ اس کا پہلا اور بہترین اثرا س کی لے اور لحن ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے آداب و ضوابط کا نام عروض ہے جو آوازوں کی ترتیب کا ایک نظام ہے ۔ اقبال کا آہنگ سراپا ترنم ے۔ ان کے الفاظ و تراکیب کی نشست اور بندش سے ہمیشہ ایک قماش نغمہ مرتب ہوتی ہے۔ دقیق سے دقیق اور ثقیل سے ثقیل الفاظ و تراکیب بھی اقبال کے دست ہنر میںموسیقی کا تناسب و توازن اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض ماہرین لسانیات و صوتیات نے اقبال کے استعمال کیے ہوئے حڑوف کا جو تجزیہ کیا ہے اس سے بھی ترنم کی اسی کیفیات کا سراغ ملتا ہے اقبال کی شاعری روح کا رقص ہ یجو ہر لمحہ ایک بسیط آفاقی او رسرمدی موسیقی کے تال اور سر پر جلوہ نما ہوتا ہے۔ یہ اقبال کے خیالات اور احساسات کی حرکیت کا بہترین طریق اظہار ہے ۔ ا س سے ان کی طبع شاعرانہ کے سرجوش کا سرگم پیداہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شاعر نے اپنے فن کے لیے فغاں نالہ نوا اور صدا کے استعارات بکثرت استعمال کیے ہیں۔ میر نے اپنے دریائے طبیعت کی روانی کا جو دعویٰ کیا تھا اس کی بہترین اورعظیم ترین دلیل اقبال کا نشاط انگیز سیل معانی ہے۔ 6 اقبال کے تصوری شاعری میں رنگ و آہنگ کی یہ فراوانی ہر فطرت کا منظر پیش کرتی ہے اقبال نے بلا شبہ بلبل کو فقط آواز اور طائوس کو فقط رنگ قرار دے کر دونوں کی تقلید سے توبہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن یہ بلبل طائو س کے مفردات سے ترکیب پانے والی رنگین نوائی کی طرف بھی ایک لطیف اشارہ ہے فقط بلبل و طائوس کی تقلید کا لائق ترک ہونا ایک بات ہے اور دونوں کے آزادانہ امتزاج سے اک نغمہ رنگین ترکیب دینا بالکل دوسری بات ہے اقبال کی مشہور شاعرانہ علامتوں لالہ و شاہین کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اپنی فکن کاری کے رنگ و آہنگ کے لیے مظاہر فطرت کے ساتھ شاعر کی وابستگی کتنی شدید تھی‘ اپنے خیالات و احساسات کے تمثیل و ترنم کے لیے اقبال نے جس کثرت و شدت سے فطرت کے مظاہر و مناظر کا استعمال کیا ہے وہ ان کی شاعرانہ ذہنیت کا ایک نمایاں ثبوت ہے لیکن فطرت ورڈز ورتھ کی طرح اقبال کا موضوع و مقصود نہیں ہے ایک بلند تر موضوع مقصود کے اظہار کا فنی وسیلہ ہے ۔ ان کی فن کار ی کا مقصود موضوع انسان اور اس کے سماج کو کائنات و حیات کے اصلی و ازلی حسن و جمال سے آگاہ و سرشار کرنا ہے لہٰذا وہ فطرت کو ا س طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ سوئے ؤخلوت گاہ دل دامن کش انساں بن جاتی ہے ۔ اس کی بجائے کہ خود ہی مرکز نظر ہو کر رہ جائے‘ جیسا کہ ورڈز ورتھ کی طرح کے فطرت نگار شعرا عام طور پر چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں اقبال کی فنی و فکری بصیرت فطرت نگاروں سے بہت آگے بڑھی ہوئی ہے اس کے باوجود کہ ورڈس ورتھ نے کہا تھا: What the man has made of wan وہ یہ نہ سمجھ سکا کہ حسن فطرت کی حفاظت بھی جس کو اس نے اپنی شاعری کا مطمح نظر بنایا تھا‘ ذہن انسانی کے معیار حسن کو درست کر کے ہی ممکن ہے ۔ لہٰذا اس فطرت نگار نے سارا زور فطرت کی رعنائیوں کی تصویر کشی پر صرف کر دیا۔ اقبال کا طریق کار اور طرز فکر دوسرا ہے وہ سارا زور ذہن انسانی کے معیار حسن کو درست کرنے پر صرف کرتے ہیں۔ تاکہ یہ ذہن جمال فطرت کی رعنائیوں کا صحیح اور محکم طور پر احساس کر سکے۔ اس لیے کہ یہی احساس جمال فطرت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کی تزئین کا ضامن بھی ہو گا۔ جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو یہ جادو عملاً ایک اخلاقی قدر ایک تعمیری جذبہ نظر ایک سعی تزئین کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہی جمالیات و اخلاقیات کے علاوہ فطرت و انسانیت کے درمیان مطابقت و موافقت کا وہ بہتر نسخہ ہے جس کی تلاش ورڈز ورتھ کو تھی مگر اس کو دریافت کیا اقبال نے۔ بات یہ ہے کہ اقبال فطرت کے مظاہر کے بجائے اس کے اسرار کی جستجو میں تھے۔ انہوںنے شیکسپئر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے ابتدائی دور میں کہا تھا: حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا یہ فطرت کا وہ بلند تر وسیع تر اور عمیق تر مفہوم ہے جس کے تجسس میں اقبال اور شیکسپئیر شریک کار ہیں جبکہ ورڈس ورتھ بائرن‘ شیلی اور کیٹس جیسے رومانی شاعروں کو فطرت کے اس مفہوم کی بلندیوں‘ وسعتوں اور گہرائیوں کی خبر نہیں۔ دوسری طرف کیٹس کے علاوہ دور حاضر کے انگریزی شعراء ولیم ٹیلر ئیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ کی کم نظری اور خام دماغی کا حال یہ ہے کہ علی الترتیب ان شعرا نے پائیداری کی تلاش میں یونانی صڑاحی بلبل اور نقطہ سکون کو اپنا معیار مطلوب قرار دیا۔ اس کے لیے ئیٹس نے ایک معنی خیز ترکیب Artifice of Eternity (صنعت ابایت) کا استعمال کیا‘ یعنی یہ شعر فطرت سے مایوس ہو کر صنعت کی طرف مبذول ہو گئے اور اس طرح انہوںنے جدید تمدن کی صناعی کے مقابلے میں زندگی اور فنون لطیفہ کے لطیف ترین نمونے شاعری کی شکست تسلیم کر لی اور حرکت و نمود کے بجائے جمود و سکون اختیار کر لیا۔ لیکن عصر حاضر میں ۃی اقبال نے فطرت و صنعت دونوں کو ایک بلند تر حقیقت کا خادم قرار دے کر زندگی کی اصلیت اور فن کی عظمت آشکار کر دی۔ 7 اقبال کا تصور فن ان کے فن کی طرح زندگی اور فنون لطیفہ کے تضاد و تصادم کے درمیان ایک اعتدال و توازن کی تلاش ہے‘ اضداد کی کش مکش سے ترکیب و تطبیق کا ایک نظام کشش بروئے کار لانے کی کوشش ہے‘ ذہنی کشیدگی سے عملی بالیدگی پیدا کرنے کی سعی ہے اس مقصد کے لیے اقبال کوئی پر تکلف مصنوعی طریقہ اختیار نہیں کر سکتے۔ ایک فطری ہم آہنگی سے کام لیتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فن شاعری پر اس فکری توحید کا پرتو ہے جو اقبال کا عقیدہ و نظریہ ہے ۔۔ چنانچہ اس توحیدی نقطہ نظر اور طریق عمل نے فن و فکر فطرت و صنعت اور رنگ و آہنگ کی ثنویت کو ختم کر کے اس عظیم وحدت کو جنم دیا ہے جو اقبال کی شاعری ہے۔ اس وحدت کی پہنائی میں احساس و ادراک جذبہ و خیال‘ تخیل و تصور‘ اور مختلف احساسات و ادراکات‘ جذبات و خیالات‘ اور تخیلات و تصورات ایک دوسرے کے اندر مدغم ہو گئے ہیں یہاں تک کہ تمثیل و ترنم کے مختلف وسائل فن بھی پوری طرح ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ جو چیز خون جگر ہے وہی شعلہ نوا بن کر رونما ہوتی ہے۔ ٭٭٭ امتیاز و اجتہاد اقبال کے تصور فن سے ان کے فن کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ انہی کے لفظوں میں یہ ہے: پر سو ز و نشاط انگیز یہ ایک بار پھر دو اضداد کی ترکیب و توازن ہے ‘ ایک طرف سوز ہے اور دوسری طرف نشاط اور دونوں مل کر ایک قماش نغمہ تخلیق کرتے ہیں۔ سو ز و گداز کی صفت عام طور پر ایک ہی مفہوم میں گویا یہ الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہوں‘ چند شعرا سے منسوب کی جاتی ہے اور خاص کر غزل گوئی کی صفت لازم سمجھی جاتی ہے۔ اقبال نے بھی اس کا استعمال عبارت کی حد تک غزل خوانی ہی کے سیاق میں کیا ہے۔ پورا مصرع یوں ہے: یہ کون غزل خواں ہے پر سوز نشاط انگیز لیکن اس مصرعے میں غزل خوانی کا لفظ مطلق شاعری کے لیے بدیہی طور پر استعمال کیا گیا ہے اور ان لفظوں میں شاعر نے اپنے فن شعر کی نوعیت کا تعارف کرایا ہے۔ چنانچہ اس قسم کی شاعری کا جو اثر اس کے خیال میں مرتب ہوتا ہے یا مترتب ہونا چاہیے وہ دوسرے مصرعے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز اس سے قطع نظر کہ جنون و خرد کا امتزاج اقبال کا مطمع نظر اور مزاج دونوںہے۔ اس لیے کہ ان کے خیال میں عقل کی روشنی دل کی گرمی کے بغیر پھیل نہیں سکتی‘ فن کے نقطہ نظر سے قابل اعتبار یہ امر ہے کہ اقبال فن میں سوز و نشاط کی آمیزش کو جذبہ حیات کی پیدائش کا محرک تصور کرتے ہیں۔ یہ جذبہ جب اپنے نقطہ عروج یا درجہ مطلوب تک پہنچتا ہے تو وہ کیفیت ابھرتی ہے جس پر روشنی اس شعر سے پڑتی ہے: حرم کے پاس کوئی عجمی ہے زمزمہ سنج کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی پرسوز نشاط انگیز غزل خوانی کے ذریعہ اندیشہ دانا کی جنوں آمیری کا یہ عالم کلام اقبال کا امیتاز و اجتہاد ہے۔ اس کلام یں سوز کے ساتھ گداز کی عام شاعرانہ ترکیب توڑ دی گئی ہے اور اس کی جگہ نشاط کا جوڑ لگایا گیااہے۔ یہ ایک غیر معمولی امر ہے اور ایک اجتہاد پر مبنی ہے۔ سوز سے نشاط کس طرح پیدا ہوتا ہے۔ کیا سوز کا کوئی خاص اور غیر معروف مفہوم پیش نظر ہے؟ اقبال نے شعر کی بہترین تعریف اس طرح کی ہے: عزیز ہے متاع امیر و سلطان سے وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز براقی یہاں سوز کو براقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ اس صفت برق کو اقبال نے اپنے فن میں موجود و مضمر فکر سے بھی منسوب کیا ہے : صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی یہ برق میں نور کے پہلو پر تاکیدی نشان ہے۔ نور ایک نہایت وسیع تصور ہے اس میں حضور سرور اور سرور کی وہ سبھی کیفیات مدغم ہیں جن کا ذکر اقبال نے اپنے کلام کے سلسلے میں کیا ہے لیکن برق اور سوز دونوں کا ایک پہلو آتشیں بھی ہے اور ہمارے شاعری نے نغمے کو آتش ناک ہی قرار دیا ہے: نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک لہٰذا نغمہ اقبال کا نشاط سوز و براقی و آتش ناکی پر مبنی ہے نشاط یقینا ایک اثر نغمہ ہے لیکن ساز و گداز کی بجائے اس کاسوز براقی سے مشتق ہونا اور آتش ناکی پر مشتمل ہونا ایک منفرد اور امتیازی کمال ہے اور یہ دنیائے شاعری میں اقبال کا ایک اجتہادی کارنامہ ہے ۔ اقبال نے اپنے فن کے ناقد کی حیثیت سے نہ کہ محض شاعرانہ ترنگ میں کہا ہے: وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں اور یہ حرف راز اتنا دقیق و لطیف ہے کہ: جہان صوت و صدا میں سما نہیں سکتی لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب لیکن الہام شاعرانہ کا اندرونی تقاضائے اظہار اتنا شدید تھا کہ : تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر اسرار کتاب کوئی معمولی ترکیب نہیں ہے پتہ نہیں اقبال نے فکر و فن کے کس عالم میں اپنی شاعری کے حرف راز کے لیے اسرار کتا ب کی ترکیب استعمال کی ؟ ظاہر ہے کہ ویسی ہی شوخی بیان ہے جیسی ان کے متعدد مجموعہ ہائے کلام کے ناموںمیں پائی جاتی ہے جیسے ’’بال جبریل‘‘ ’’ضرب کلیم‘‘ ’’زبور عجم‘‘ بہرحال یہ محض کی شوخی نہیں ہے۔ اس کے اندر ایک ایسی اعلیٰ و ارفع سنجیدگی مضمر ہے کی دینیات کے علاوہ کسی دوسرے علم و فن کے لیے اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم شاعری میں اسرار کتاب کے افشا کرنے کا تصور دنیا کے کسی اور شاعر نے پیش نہ کیا ہے۔ ا س معاملے میں اقبال کا ذہن اتنا محکم ہے کہ انہوںنے ضرب کلیم میں باضابطہ سرود حرام اور سرود حلال کے عنوانات سے مطلوب و نامطلوب فن کاری کی تشریح کی ہے۔ اول الذکر میں سب سے پہلے تو یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ان کی شاعری کوئی پیمانہ عذاب و ثواب نہیں ہے یعنی شاعری فن کا معاملہ ہے دین کا نہیں اور اس کا عمل اصلاً جمالیات سے متعلق ہے نہ کہ اخلاقیات سے فن اور جمالیات کے موقف سے اب وہ اعلان کرتے ہیں۔ اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں نالے و چنگ و رباب اسی طرح ثانی الذکر میں وہ مقصد فن محض شگفتگی کی بجائے زندگی و پایندگی کو قرار دیتے ہیں: کھل تو جاتا ہے معنی کے بم و زیر سے دل نہ رہا زندہ و پایندہ تو کیا دل کی کشود اپنے اس خیال کی تائید میں انہوںنے ایک نظم میں فقیہہ شہر کو اور دوسری نظم میں فقیہان خودی کو گواہ بنا کر پیش کیا ہے ۔ ثواب و عذاب کی فقہی بحث سے اظہار بے تعلقی کے باوجود سرو د حرام و سراد حلال کے فنی تفقہ کا مطلب کیا ہے اس سوال کا جواب شاعری کے لیے استعمال کی گیء اسرار کتاب کی شرعی ترکیب میں ہے۔ دینی مباحث سے الگ رہ کر بھی فن میں ا س اعتماد کے ساتھ دینی اصلاحات کا استعمال اور دینی مقاصد کی اشاعت یقینا فن کا اجتہاد ہے۔ یہ اجتہاد فن ایک تجدید فن کا پیش خیمہ اور وسیلہ ہے ۔ انیسویںصدی کے آخری ایام میں عصر حاضر کے ہر ادب بالخصوص شاعری میں زوال کے دن تھے۔ رومانیت کے بچے کھچے آثار بھ مٹ چکے تھے اور ایسا معلوم ہوتاتھا کہ سائنس اور صنعت کے بڑھتے ہوئے مادی انقلاب نے شاعری کے امکانات ختم کر دیے ہیں۔ اس لیے کہ اس فن لطیف کا جوہر روحانی ہے یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کی ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بڑا شاعر پیدا نہ کر سکی اور شاعری میں جدت کے نام پر ساری کوششیں صرف نو بہ نو رجحان و رواج ثابت ہوئیں انگریزی میں ئیٹس اور ایلیٹ کی کوتاہ نظری یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مگرب میں عظمت شاعری کا آفتاب غروب ہو چکا تھا اور صرف چند انجم کم ضو طلسم شب میں گرفتار تھے ۔ مشرق کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ فارسی کا آسمان تو بہت قبل تاریک ہو چکا تھا۔ اردو کے افق پر بھی غالب ستارہ سحر کی طرح اپنی چمک دکھا کر غائب ہو چکے تھے… ایشیا اور یورپ دونوں جگہ فکر کا بحران فن کے زوال میں عیاں تھا۔ ان حالات میں میتھیو آرنلڈ نے خود ایک اہم وکٹورین شاعر ہونے کے باوجود اپنی تنقیدوںمیں شاعری کے بہتر مستقبل کا کوئی واضح اور معین معیار پیش نہ کیا‘ چنانچہ اس کے جانشینوں نے اس کے فنی تصورات کو نظر انداز کر دیا تھا۔ آرنلڈ نہ تو کوئی بڑا شاعر تھانہ بڑامفکر لہٰذا بعض نیم صداقتوں کے ادراک و اظہار کے باوصف اس کی رسائی ہمہ گیر آفاقی حقائق تک نہ ہو سکی۔ اردو میں یہی حال حالی کا ہے۔ قدیم طرز سخن کے خلاف ایک رد عمل تووہ ضرور ظاہر کر سکے‘ مگر فن شاعری کی تشکیل جدید کے لیے درکار اوصاف کے وہ حامل نہ تھے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ مغرب کا آخری عظیم شاعر گیٹے تھا اور مشرق کا آخری عظیم شاعر عبدالقادر بیدل۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں بڑی شاعری کے لیے درکار فکر مشرق میں مضمحل ہو چکی تھی اور فن مغرب میں منتشر ہو چکا تھا۔ چنانچہ مثال کے طور پر فارسی اور اردو شاعری کے اسالیب سخن تو سلامت تھے مگر موضوعات مفقود یا مجروح جب کہ انگریزی شاعری میں ڈرامے کا مایہ ناز اسلوب اپنی واقعیت کھو چکا تھا۔ یہاں تک کہ وقت کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار برنارڈ شا کو انگریزی ڈرامے کی تجدید کے لیے نثر کا قالب اختیار کرنا پڑا۔ اور بیسویں صدی میں نثری ڈرامے ہی کو انگریزی ادب میں فروغ ہوا۔ حالانکہ ٹی ایس الیٹ نے تنقید و تحقیق دونوں ہی ذرائع سے شعری ڈرامے کی احیا کی زور دار کوشش کی۔ لیکن یہ کامیاب نہ ہوئی اور اس کے نتیجے میں فن کا کوئی عظیم نمونہ سامنے نہیں آیا۔ اس پس منظر میں اقبال نے فکر و فن دونوں کی تشکیل جدید کا بیڑہ اٹھایا ۔ اس مقصد کے لیے مشرقی اسالیب فن میں انہوںنے ایک خاموش ہمہ گیر اور عہد آفریں انقلاب برپا کر دیا۔ غزل ان کے ہاتھوں گل و بلبل کی نزاکتوں سے آگے بڑھ کر خودی و خدا کی صلاحیتوں کی ترجمان ہو گئی۔ حالانکہ اس کے استعارات و علائم اور ہئیت سخن اپنی عام روایتی شکل میں برقرار رہے مگر ان کے مفاہیم و مضمرات یکسر بدل گئے۔ اسی طرح نظم کے مختصر و طویل سانچے پہلے سے فارسی اور اردو می مستعمل تھے‘ ان میں ہی ضروری ترمیم اور اضافہ کر کے اقبال نے ان کے امکانات و کمالات کو تمثیل و رزمیہ کی وسیع و پیچیدہ قماشوں تک وسیع کر دیا۔ جدید انداز کی موضوعاتی نظمیں (ردیف و قافیہ کے ساتھ) مثنوی مثلث مربع مخمس مسدس اور ترکیب بند سبھی صورتوں میں اقبال نے اس کثرت وجودت کے ساتھ تخلیق کی ہیں کہ ان کا ایک وسیع و عریض نظام فن مرتب ہو گیا ہے ۔ اس نظام میں رباعیات اور قطعات کے مختصر پیمانے بھی اپنی جگہ رکھتے ہیں اقبال کی نظموں میں ڈرامائی عناصر و مظاہربھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ خاص تمثیلی نظمیں بھی متعد د ہیں اس طرح مشرقی بیانہی اور مغربی تمثیلیہ اسالیب کے امتزاج سے ایک ایس ہئیت پیدا ہو گئی ہے جو مخصوص ارفع و اعلیٰ تصورات کے موزوں ترین ابلاغ کے ساتھ ساتھ دونوں ہی اسالیب کے بہترین فنی اوصاف پر مشتمل ہے۔ یہ گویا فن شاعری سے عصر حاضر کے فکری تقاضوں کا جواب ہے ڈرامہ نگاری کا فن تھیٹر کے زوال اور سینما کے عروج کے ساتھ ختم ہو چکا ہے پھر آج کے حقائق کی سنگینی واضح اور راست اظہار کی طالب ہے۔ لہٰذا اپنی شاعری میں اقبال نے تمثال آفرینی اور پیکر تراشی کی حد تک تمثیلی عناصر کو باقی رکھتے ہوئے بالعموم ایک لطیف و نفیس بیانیہ انداز اختیار کیا ہے ۔ اور استعارات و علائم کے وافر استعمال سے اس کی شعریت کو زیادہ سے زیادہ تہ دار اور معنی آفریں بنای دیا۔ پھر انہوںنے جو چند تمثیلی نظمیں لکھیں ان کو موضوعاتی نظم کے سانچے تک محدود رکھا۔ زیادہ پھیل کر ڈرامے کے نشیب و فراز میں بکھرنے اورالجھنے نہ دیا۔ اس انضباط نے شاعری کوجدید ذہن کے لے زیادہ سے زیادہ قابل قبول دلکش اور پر اثر بنا دیا۔ اس انداز نظم کو اقبال کے مخصوص اسلوب تغزل کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے ت ومحسوس ہو گا کہ درحقیقت اقبال نے نظم و غزل کے ظاہری سانچوں کو اپنی اپنی جگہ برقرا ر رکھتے ہوئے بھی طر ز فکر اور طرز ادا کے لحاظ سے دونوں کی اندرونی سرحدوں کو توڑ کر انہیں ایک ہی دائرہ فن کے زاویوںمیںتبدیل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی غزلوں میں مسلسل مضامین اور ان کے درمیان عام طورپر ربط و ارتباط ہوتے ہیں‘ جبکہ بہتیری غزلوں میں تخلص نہیں ہوتا جس سے وہ نظموں کی طرح موضوعاتی نظر آنے لگتی ہیں۔ حالانکہ تغزل کی پوری لطافت و ایمائیت ان میں موجود ہوتی ہے۔ اقبال کی آواز شاعری میں ایک مجتہد انہ غزل ہے۔ میر ا خیال ہے کہ بنیادی طور پر شاعری کی دو آوازیں ہیں‘ایک تغزل کی اور دوسری تمثیل کی ان میں تغزل کی آواز زیادہ قدیم اور اصلی اور خالص ہے۔ اسی میں نغمہ دائود اور غزل الغزلات کا مقدس آہنگ بھی رونماہواہے اور فارسی شاعری کی بے مثال صدائے فن و نوائے سخن بھی جب کہ تمثیل کا ظہور اس وقت ہوا جب شاعری میںڈرامے کی ملاوٹ ہو گئی اور نغمہ روح کے ساتھ نقالی اعضاء کو بھی شامل کر لیا گیا یہ وہ ڈرامہ نگاری تھی جو گویا غزل سرائی سے الگ ہو کر ایک دوسری ہئیت سخن کے لیے اختیار کی گئی گرچہ اسمیں اصل سرچشمہ فن کے کچھ قطرات باقی رہ گئے اب دنیائے شاعری میں یقینا یہ اقبال کا امتیاز و اجتہاد ہے کہ انہوںنے تمثیل کے اضافی عنصر کو بھی کسی نہ کسی درجے اور شکل میں برقرار رکھتے ہوئے تغزل کے اصل نغمہ شاعری کو خود ا س کی بہتری اندرونی آلائشوں سے پاک کر کے خودی و خدا کے درمیان مکاملے کی اس خالص شکل میں دوبارہ زندہ و پایندہ بلکہ غالب و رائج کر دیا ۔ جس میں وہ نغمہ دائود اور غزل الغزلات کا آہنگ لے کر پہاڑوں اور پرندوں کی مترنم تسبیح و تقدیس کے ساتھ پھوٹا تھا۔ اس طرح اقبال کے آفاقی و سرمدی تغزل میں پر اسرار فطرت کا بسیط حسن مسایل حیات کا جلال اور جذبہ عبودیت کا جمال و تقدس ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر شاعری کی تمام تہوں اور جہتوں کو نقطہ کمال تک پہنچا دیتے ہیں۔ اقبال کے لفظوںمیں یہی وہ سوز و سخن ہے جو عین حیات اور سوز حیات ابدی ہے‘ یہ سوز بڑی درد مندی سے پیدا ہوا ہے۔ اس کی نوائے عاشقانہ کے پیچھے عصر حاضر میں انسانیت کے ابتلا اور زندگی کے المیہ کی ایک دردناک داستان ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ا س ابتلا و المیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک آتش ناک نغمہ ایک ’’شعلہ نوا‘‘ ابھرا جس کے سوز و براتی نے بڑے نشاط انگیز انداز میں انسانیت اور زندگی کے ٹوٹے ہوئے رشتے کائنات اور خالق کائنات دونوں کے ساتھ جوڑ دیے۔ یہ شعلہ نوا ذکر و فکر و جذب و سرور سے روشن ہوا ہے اور ایک سینہ روشن کے سوز نفس کی کیمیا گری کر کرشمہ ہے۔ یہ وہ شعر عجم نہیں جو صرف طرب ناک و دل آویز ہے۔ بلکہ یہ وہ شعر ہے جس سے فرد و ملت دونوں کی شمشیر خودی تیز ہوتی ہے ۔ اس نغمہ شوق سے عصر حاضر کی شب تاریک میں انسانیت کی راہیں روشن ہو سکتی ہیں اور ایک بوسیدہ و فرسودہ دنیا کی جگہ نئی دنیا آباد ہو سکتی ہے: اندھیری شب ہے ‘ جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا قندیل ٭٭٭ تلاش اس کی فضائوں میں کر نصیب اپنا جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے اس آتش ناک نغمے سے فروغ حیات کی بجھی ہوئی چنگاری دوبارہ فروزاں ہو سکتی ہے‘ اوربگڑا ہوا مقدر بن سکتا ہے: کیا عجب مری نوا ہائے سحر گاہی ہے زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے ٭٭٭ نہ ستارے میں ہے‘ نے گردش افلاک میں ہے تیری تقدری مرے نالہ بے باک میں ہے ٭٭٭ کیا فن کے یہ مقاصد و اثرات فن کی تجدید کا سامان نہیں کرتے اور اس تجدید کے ذریعے خود زندگی کی تجدید کا اہتمام نہیں کرتے شاعری کے لیے اقبال کا اپنا نصب العین یہ ہے: وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل ٭٭٭ فن اور زندگی دونوں کی ابتدا و اتنہا کی آواز دینیات کے نقطہ نظر سے اول یہی نغمہ جبریل ہے جس سے ہمیشہ تاریخ انسانیت میں منزل حیات کے صحیح رخ اور راہ مستقیم کا الہام ہوتا ہے‘ پھر بانگ سرافیل ہے جس سے غلط وادیوں میں بھٹک کر فنا ہو جانے والے کاروان حیات کو زندگہ کیا جا سکتا ہے۔ خواہ صحیح رخ پر انسانیت کو گامزن کرنے کی مہم ہو یا اس کو ایک حیات تازہ دینے کی تحریک ہو‘ دونوں تجدید کے کارمانے ہیں اور فردو ملت نیز فن و زندگی و دونوں کی حیات ابدی کا راز اسی کارنام میں مضمر ہے ۔ یہ ایک انقلابی کارنامہ ہے اور پیہم بدلتی ہوئی تاریخ کے ہرموڑ پر کسی نہ کسی اجتہاد سے انجام پاتا ہے۔ عصر حاضر کی شاعری میں اس اجتہاد فن کا اعزاز و امتیاز اقبال کو حاصل ہوا۔ اسی لیے وہ رسمی و روایتی معنوں میں اپنے کلام کو محض شاعری کہنا اور کہلانا پسند نہیں کرتے تھے اس لیے کہ ان کے زمانے میں شاعری فقط بلبل کی آواز اور طائوس کے رنگ کی تقلید کا نام تھا جو ایک فرسودہ و بوسیدہ سی چیز تھی۔ اقبال کو شکایت تھی: مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ یعنی اقبال کی اعری کسی خارجی ؤمحرک کی تحریک نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بدلتے ہوئے موسموں میں سب سے خوشگوار اور سرور انگیز موسم بہار کا عطیہ بھی نہیں‘ یہ ایک سراسر داخلی جذبے کا اظہار ہے لیکن یہ کوئی عام اور معمولی جذبہ نہیں ہے یہ ایک پوری دنیا کو بدل ڈالنے کے جذبے سے کمتر کوئی چیز نہیں یہ حیات و کائنات میں ایک انقلاب عظیم کا جذبہ ہے سرو د و جلال میں اقبال کہتے ہیں: ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک اور پیدا ہو یازی سے مقام محمود مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود جو کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہاں خودی منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود ٭٭٭ یہ مثالی نصب العین وہی ہے جس کی طر ف بال جبریل کی ایک غزل کے شعر سے اشارہ کیا گیا تھا: مرے گلوں میں ہے اک نغمہ جبریل آشوب سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے اس نصب العین میں مابعد البطیعتی پہلو نمایاں ہے اور اس کی رفعت کی تشریح مشکل لیکن اقبال کے بے شمار اشعار کے اشارات و کنایات سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ ا س خودی کے اظہار کا آخری نصب الدین ہے جس کے مظاہرے موجودہ ماحول میں بھی متوقع و مطلوب ہیں ۔ بال جبرئیل کی ایک مناجاتی انداز کی غزل میں اقبال خدا سے دعا کرتے ہیں‘ نغمہ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر یہ نو بہار کیا ہے جس کا نغمہ اقبال اپنی شاعری کو بنانے کی تمنا کرتے ہیں۔ یقینا یہ اس جہان تازہ کی آواز ہے جس کی فضائوں کی نشاندہی غزل کی آہ صبح گاہ‘ میں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کلام اقبال میں آہ سحر گاہی اور نغمہ و نالہ صبح گاہی کے جو بیانات کثر ت سے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سوز و گداز کے علاوہ ایک نئی صبح‘ ایک جہان تازہ کی سحر کے اشارات بھی مضمر ہیں ۔ اس سحر کے بارے میں بھی اقبال کا تصور غیر معمولی ہے: یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا (’’صبح‘‘ …ضرب کلیم) مطلب یہ کہ اقبال کی شاعری کا سارا سو ز و گداز کسی معمولی و عارضٰ سرور و انبساط اور وقتی تشخص لطف و مسرت کے لیے نہیں ہے وہ جس حیات تازہ کے طالب ہیں وہ محدود اور فنا آمیز نہیں ایک زندگی جاوداں اور وجود بیکراں ہے جو ایک بار حاصل ہونے کے بعد بھی کبھی ختم نہیں ہوتی یہ آفاقی زندگی عصر حاضر سے قبل انسانیت کے ایک طبقہ کو برابر میسر رہی تھی۔ مگر لادین مغرب کی بنائی ہوئی نئی دنیا نے جس میں آج کی انسانیت سانس لے رہی ہے اس زندگی کے سراغ گم کر دیے ہیں۔ لہٰذا ہمارا شاعر اپنی نوائے عاشقانہ سے دلوں میں گم گشتہ مثالی و آفاقی زندگی کی مطلب اور تڑپ پیدا کر دینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے نصب العین کی صریح نشاندہی بڑے ولوہ انگیز انداز میںکرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ اگر دلوں میںایک اعلیٰ نصب العین کو پانے کی آرزو پید ا ہو گئی ت اتنی انقلاب انگیز آرزو سے جو جذبہ ہائے بلند ابھریں گے وہ دور حاضر یا مستقبل قریب میں ایک نوبہار کا سامان اپنے آپ پید ا کر لیں گے۔ چنانچہ شاعر کی تمنا اپنے محبوب ازل سے یہ ہے کہ اگر اس نوبہار کا مشاہدہ اس کے نصیب میں نہ ہو تو اس کے کلام کا دم نیم سوز کم از کم آنے والی بہار کا مژدہ جاں فزا ثابت ہو اور اس کی حیثیت ایک خوش نوا پرندے کی ہو جو بہار کی آمد سے پہلے اس کے استقبال میں فضا کواپنے نغمات سے بھر دیتا ہے۔ تجدید فن اور تجدید زندگی دونوں کے لیے کلام اقبال کا پیغام حیات ابدی یہی ہے جو نغمہ جبریل بھی ہے اور بانگ سرافیل بھی۔ یہ دراصل نغمہ اللہ ہو ہے جو شاعر کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے اور جس کا شوق اس کی نے اور لے سے مترشح ہے۔ یہ سرود جلال کا وہی زمزمہ لاموجود ہے جس کی تشریح اس شعر سے ہوتی ہے : یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ (لا الہ الا اللہ… ضرب کلیم) اس نغمے کا حسین ترین نقش مسجد قرطبہ میں جلوہ فروز ہے۔ اقبا ل نے مسجد قرطبہ کو ایک طرف قلب مسلمان کے حسن کا مترادف Objective Correlativeقرار دیا ہے تو دوسری طرف دنیا کی عظیم ترین شاعری کی قدر جمال کا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم میںبہ نسبت دیگر تمام منظومات کے اقبال نے اپنے تصور فن پر سب سے زیادہ روشنی ڈالی ہے۔ اس نظم سے جو آٹھ اشعار میں پچھلے باب میں نقل کر چکا ہوں ان میں صڑف دو کا اعادہ موجودہ باب کے خاتمہ بحث کے آغاز ک لیے موزوں ہو گا: تیری فضا دل فروز‘ میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور‘ مجھ سے دلوں کی کشود ٭٭٭ کعبہ ارباب فن ! سطوت دین مبیں تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں ٭٭٭ اقبال کی نوا سینہ سوز ہے اورا اسے سے دلوں کی کشود ہوتی ہے ۔ یہ وہی پر سوز و نشاط انگیز غزل خوانی کی دوسرے لفظوں میں ترجمانی ہے جس سے ہم نے زیر نظر موضوع پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ اب سب سے اہم نقطہ جو قابل غورہے یہ ہے کہ شاعر نے مسجد قرطبہ کو سطوت دین مبین کے ساتھ ساتھ کعبہ ارباب فن بھی کہا ہے اور اس طرح دین کی اخلاقیات اور فن کی جمالیات کو ایک دوسرے میں مدغمکر دیا ہے ۔ اس ادغام سے فن کا ایک امتیازی و اجتہادی تصور مرتب ہوتا ہے اور فن کے سوتے دین کی گہرائیوں میں ڈوب کر سرچشمہ حیات تک پہنچ جاتے ہیں۔ مسجد قرطبہ مطلق دین کی ایک آفاقی‘ ازلی اور ابدی علامت ہے۔ اس کے سیاق و سباق میں اسلام اور اس کے مشتقات دین کی ایک آفاقی ازلی اور ابدی علامت ہے۔ اس کے سیاق و سباق میں اسلام اور اس کے مشتقات کا جو کچھ استعمال ہوا ہے وہ دین مطلق کی حقیقی و اصولی نشاندہی کے لیے ہے اس لیے کہ قرآن حکیم کے لفظوں میں دین صرف اسلام ہے اور اسلام ایک قانون فطرت ہے جس ا منشا بندگی رب ہے اور کائنات کا ایک ایک ذرہ اس قانون کا پابند ہے ۔ اس طرح انسان اور اس کی تمام سرگرمیوں کا رشتہ کائنات کے تمام مظاہر اور حیات کی قوت محرکہ کے ساتھ استوار ہو جاتاہے جو عمل بھی اس عظیم رشتے پر مبنی ہو گا وہ لازماً آفاقی و ابدی ہو گا۔ اسی لیے زمانے کے تمام فنا آموز تغیرات کے درمیانصرف اس نمونہ فن کے لیے حیات جاوداں مقدر ہے جس کے متعلق اقبال کہتے ہیں: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام اس لیے کہ : مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام (مسجد قرطبہ) اور اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیںرفت و بود (مسجد قرطبہ) عشق ایک بہت عام اور قدیم تصور ہے اور ہر دور میں بے شمار لوگوں نے اس کی بے شمار تعبیریں کی ہیں لیکن فن کی قدر جمال کی کوئی تعریف و تشیرح عشق کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ واقعہ یہ ہے کہ عشق کی عمومیت و قدامت ہی فن کی جوہری آفاقیت کی ضامن ہے۔ اس لیے کہ بڑے فن کی بنا ایک جذبہ عشق پر استوار ہوتی ہے۔ یہی جذبہ فن کار کے خون جگر سے اس کے نمونہ فن میں زندگی پابندگی کا سامان کرتا ہے: رنگ ہو یا خشت و سنگ‘ چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود (مسجد قرطبہ) یہ خون جگر عشق اور دین کے درمیان مشترک ہے اس لیے کہ سچا عشق دل کی گہرائیوں سے ہوتا ہے اور عاشق کی رگ رگ سے لہو کھینچ لیتا ہے اور عشق کا سرچشمہ نیز مثالی نمونہ ہو ہے جسے عشق حقیقی کہا جاتا ہے جبکہ عشق حقیقی ذات باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ جو دین کا بھی محبوب ہو مقصود ہے ۔ اس طرح عشق محاورے کی حد تک عام ہوتے ہوئے بھی علامت کی مانند خاص الخاص ہے اور اس تصور کے ساتھ تخلیق کی ساری رعنائیاں اور کارفرمائیاں ناگریز طور پر وابستہ ہیں۔ خالق و مخلوق کے درمیان‘ خواہ فن میں ہو یا زندگی میں عشق ہی کا باہمی رشتہ ہے اور حیات و کائنات کی تمام رنگینیاں اسی رشتے پر مبنی ہیں انفس و آفاق کے سارے نغمات محرک یہی رنگینیا ں ہیں اور شاعری نغموں کا نغمہ ہے ۔ عصر حاضر میں اقبا ل کا اصل فنی اجتہاد دہی ہے کہ انہوںنے شاعری کو صدیوں کی تمثیلات کی آلودگیوں سے نکال کر خالص اور حقیقی تغزل کی ا راہ پر لگا دیا جس کی فطری پہنائیوں ہی سے نغمہ شاعری پھوٹا تھا۔ یہ ایک عظی الشان تجدید فن ہے بلا شبہ اس تجدید کی روح مشرقی ہے اور یہ ایک قدرتی امر ہے ۔ اس لیے کہ دین اور فن دونوں کا منبع تاریخ انسانی ہی مشرق رہا ہے ۔ اور یہ بھی تجدید ہی کا ایک اہم پہلو ہے کہ عصر حاضر کی ادبیات و سیاسیات میں مغرب اور اس کے تمثیلی انداز فکر و فن کے غلبے کے باوجود مشرق کے ایک فن کار نے تغزل کی مرکزی و فنی برتری کا ثبوت اپنے تخلیقی تجربات س فراہم کر دیا ہے اور اس طرح اعری کے لیے بالکل ناسازگار ماحول میں جب کہ سائنس اور صنعت نے فنون لطیفہ کا وجود مشتبہ بنا دیا تھا۔ شاعری کی فتوحات کے کمالات دکھائے اور مستقبل کے لیے اس کے امکانات روشن کر دیے۔ تغزل کے کے اس ٹھوس اجتہادی کارنامے کے پیش نظر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اقبال نے جمالیات فن کی ترتیب کے لیے جس تصور عشق سے کام لیا ہے وہ عام معنوں میں مثالی و ماورائی یعن عینی و مابعد الطبیعتی نہیں ہے جبکہ فن یا زندگی کے لیے عینیت اور مابعد الطبیعت کی بھی اہمیت ہے بہرحال اقبال کا تصور عشق ہی بہت حقیقی و عملی ہے۔ اور اس کی مثالیت و ماورائیت اس کے معیار کی انتہائی بلندی اور مطمح نظر کی اتھاہ گہرائی کے سبب ہے۔ چنانچہ اس عشق کے مرکز نظر حسن کا جو جلوہ اقبال نے قلب مسلمان میں دیکھا اور دکھایا ہے وہ علامتی طور پر وسیع و رفیع ہونے کے ساتھ ساتھ تجربی طور پر دقیع ہے۔ اس کاجلوہ مسجد قرطبہ کی ٹھوس تعمیر کے منار بلند سے عیاں ہے جس پر کھڑے ہو کر اذان سحر دینے کا شرف ایک بندہ مومن کو حاصل ہوا ہے اور یہ اذاں نہ صرف ’’ندائے آفاق‘‘ ہے بلکہ ستاروں سے گزر کر ترقی فکر و فن کے سدرۃ المنتہیٰ تک جانے اور لے جانے والی ہے۔ یہی معراج شاعری ہے جو دنیائے ادب کو اقبال کے امتیازی و اجتہادی فن اور تصور فن سے میسر آتی ہے: علام نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب (مسجد قرطبہ) ٭٭٭ نظم و غزل ارد و میں نظم و غزل کا استعمال الگ الگ دو مختلف معنوں میں آتا ہے ۔ یہ استعمال حالی کے بعد رونما ہونے والی جدید مغربی انداز کی تنقید کا رواج دیا ہوا ہے ۔ اس کے مطابق نظم کا مطلب جدید مغربی انداز کو موضوعاتی نظم ہے جس میں کوئی موضوع متعین کر کے ایک عنوان کے تحت اظہار خیال کیا جاتا ہے چنانچہ اردو میں نظ نگاری کی ساری تنقیدی بحث نظم کے اسی تصور پر مبنی ہوتی ہے اس سلسلے میں بعض نقادوں نے نظم نگاری کا ایک خاص معیار اپنے خیال میں اور مغرب کے حوالہ و سند سے فرض کر لیا ہے اور اسی مفروضہ و مزعومہ معیار سے وہ تمام اردو نظموں کامطلاعہ کر کے اپنے گمان میں ان کے معائب و نقائص دریافت کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے مغرب پسند ناقدین نے الفاظ و اصطلاحات کے استعمال میں بڑی بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری سے کام لیا ہے جو شاید کچھ تو ان کی غیر متوازن بلکہ اندھی مغرب پسندی پر مبنی ہے اور کچھ ادبی تصورات سے اس ناواقفیت پر جو ناکافی غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اگر تھوڑے سوچ و بچار اور سمجھ بوجھ سے کام لیا جائے تو یہ سامنے کی بات بآسانی واضح ہو جائے گی کہ نظم کی ضد نثر ہے نہ کہ غزل لہٰذا غزل بھی نظم ہی کی ایک ہئیت اصلاً و اصولاً ہے پھر غزل کے علاوہ نظم کی متعدد ہئیتیں زمانہ قدیم سے رائج ہیں مثلاً مثنوی ‘ قصیدہ ‘ رباع‘ قطعہ‘ مرثیہ‘ مثلث‘ مربع‘ مخمس مسدس‘ ترجیح بند‘ ترکیب بند‘ ان میں بعض اصناف کے نام ہیں اور بعض ہئیتوں کے بہرحال یہ سب نظم کی شکلیں ہیں اورہمارے شعرا نے ان شکلوں میںاشعار کے دفتر کے دفتر لکھ رکھ دیے ہیں اس طرح جدید موضوعاتی نظم اوردو نظم نگاری کی کسی نئی اور انوکھی ہئیت کا نام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی سے اقبال تک جو موضوعاتی نظمیں لکھی تئی ہیں وہ مثنوی مثلث مخمس مسدس اور مثمن کی قدیم ہئیتوں میںہیں ارو ان میں بندوں کی ترتیب اسی طرح ہے جس طرح قدیم ادب میں ہوا کرتی تھی۔ جہاں تک اردو نظموں میںمربوط ارتقائے خیال کا تعلق ہے ۔ یہ بھی کوئی ایاب و نادر چیز نہیں ۃے ۔ اردو کے قدیم منظوم قصوں میںداستان ک مختلف مراحل کی تصویر کشی ایک ارتقائے خیال کے ساتھ ہوتی ہے اورمرثیہ تو مختلف موضوعات کے مرتب نقشوں کا ایک خزانہ ہے انہی منظوم داستانوں اور مرثیوں میں بے شمار رزمیے بھی پائے جاتے ہیں اس سلسلے میں اگر منظومات میں الگ الگ انفرادی طور پر ارتقائے خیال کے اوصاف پر بحث کرکے خوبیوں اور خامیوں کی پرکھ کی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ ضروری ہے مناسب اور مفید ہے نیز تنقید کا فرض منصبی ہے لیکن ہمارے مغرب پسند ناقدین بڑ ا ستم کرتے ہیں او ر انتہائی نااہلی کا ثبوت دیتے ہیں جب وہ اول ت و نظم نگاری کا سراغ صرف جدید موضوعاتی نظموں میںلگاتے ہیں دوسرے مغربی بالخصوص انگریزی ادب سے مستعار ایک خیالہ نقشہ نظم کو نظم نگاری کا مثالی معیار فرض کر کے اسی کی نسبت کے جدید اردو نظموں کی ترکیب و ترتیب کاجائزہ لیتے ہیں اور تجزیے کی عجیب و غریب تکنیک سے ان نظموں میں بالعموم خامیاں ہی خامیاں دریافت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انگریزی میں Couplet, Sonnet, Ode, Quatrain, Stanza کی جو شاعری جس کی بھی ہے اس کی ترکیب و ترتیب آخر کیا اور کیسی ہے اور کامیاب ترین نظموں کو جا نمونہ واقعتا موجود ہے اس کے مقابلے میں فنی طور پر اردو کی کامیاب ترین نظمیںکیسی ہیں اگر اس سوال کا جواب انگریزی کی بہترین شاعری کا موازنہ اقبال کی بہترین شاعری سے کر کے تلاش کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ خالص فن نظم نگاری کے اعتبار سے بھی اقبا ل کا کلام بلند ترین معیارپر ہے۔ بہرحال اقبال محض نظم نگار نہیںہیں‘ وہ جتنے بڑے نظم نگار ہیں اتنے ہی بڑے غزلگو بھی لیکن جس طرح نظم نگاری ک متعلق اردو کے مغرب پسند نقادوں نے نامعقول باتیں کی ہیں اسی طرح غزل گوئی کے بارے میں مشرقیت کے دعوے دار ناقدین نے نامناسب اور غیر حقیقی خیالات کا اظہار کیاہے۔ ان کا گمان ہے کہ غزل کی کوئی خاص زبان اور اسلوب ہ جس کے امتیازی خصائص ہیں نرمی نزاکت‘ لوچ‘اور لچک اس سلسلے میں سوز و گداز کی بھی مخصوص تشریح کی جاتی ہے چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ تغزل کے اس مشرقی معیار سے اقبال غزل گو ہیں ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ خاص قسم کی غزل گوئی کو معیار تسلیم کر کے کوئی کہتا ہے کہ میر ااردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ غالب سب سے بڑے شاعر ہیں اور اقبال تو گویا غزل گوئی کی اس روایت میں جو میر و غالب کی بنائی ہوئی ہے کہ پر ہیں میں نہیں۔ اسی لیے عصر حاضر کا رئیس المتغزلین کبھی حسرت کو کہا گیا کبھی جگر کو کبھی فراق کو ۔ تغزل کے معیار و روایت کی تعین و تشریح کے لیے لکھی جانے والی یہ عجیب و غریب تنقید صرف ذہنی افلاس کی دلیل ہے اور نقد و نظر سے یکسر خالی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا اندرونی تضاد ملاحظہ فرمائیے۔ یہ ایک ہی سانس میں معیار تغزل کی نمائندگی کے لیے میر و غالب دونوں کو پیش کرتی ہے۔ حالانکہ ان میں ہر ایک کا اسلوب سخن دوسرے سے بالکل جدا گانہ ہے۔ اور اگر تغزل کی وہ تعریف مان لی جائے جو ہمارے مشرقی قسم کے نقاد کرتے ہیں تو اس کی روایت سے غالب کو اسی طرح خارج کرنا پڑے گا جس طرح اقبال کو کیا جاتاہے‘ غالب کے اندر غزل گوئی کی وہ صفات بالکل مفقود ہیں جن کو لوازم تغزل بتایاجاتا ہے واقعہ تو یہ ہے کہ طرز بیان کے اعتبار سے غالب و اقبال کے ایک دوسرے کے مماثل ہیں جبکہ میر ان دونوں سے متغا یر اب یہ بھی دیکھنا چاہیی کہ اقبا ل و غالب کا اسلوب وہی ہے جو فارسی میں حافظ کا ہ جبکہ میر کو حافظ سے دور کا تعلق بھی نہیں چنانچہ اگر اردو تنقید کی عجیب و غریب تعریف تغزل کو تسلیم کر لیا جائے تو غالب و اقبال کے ساتھ ساتھ حافظ بھی جہان غزل گوئی سے جلا وطن ہو جائیں گے پھر تغزل کیا رہ جائے گا سوا رونے گانے اور بو س و کنار کے؟ شاید ہمارے مشرقی ناقدین نے اپنے تخیلات کا منطقی تجزیہ اور اس کے نتائج پر غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے ورنہ اپنے تصورات کے ان مضمرات سے جن کی تشریح میں نے ابھی کی ہے خد انکی وحشت ہو گی اور وہ نہیں کبھی قبول نہیںکریں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ غزل شاعری کی ایک ہیئت یا صنف ہے اس کا کوئی اسلوب اور طریقہ نہیں ہے شاعری کی کسی بھی صنف کا بشمل غزل کے کوئی بھی رنگ و آہنگ ہو سکتاہے ۔ اور مختلف شاعروں کے مختلف صنفوں میںمختلف رنگ و آہنگ فطرتہً اور لازماً ہوں گے۔ ورنہ ایک سے زیادہ شعراء کے درمیان نہ کوئی امتیاز رہ جائے گا نہ بنائے موازنہ اور ہر صنف سخن تنوع اور اس کے لطف سے خالی ہو جائے گی۔ غزل کی جو عظیم روایتی فارسی اور اردو میں ہے اس کے اسالیب سخن متنوع ہیں‘ ایک طرح نرمی ‘ نزاکت‘ لوچ اور لچک کا انداز تو ہے تو دوسری طرح شوخی شوکت صلابت اور محکمی کا اندا ز بھی ہے اردو غزل کی ابتدائی روایات ہی میر کے ہم عصر سودا کا طرز پہلے انداز کا نہیں ہے۔ دوسرے انداز کا ہے ۔ تعجب ہے کہ سودا کو سرے سے نظر انداز کر کے صرف میر کے طرز سخن کی بنیاد پر تغزل کا ایک تنقیدی تصور کیسے مرتب کر لیا گیا‘ جہاں تک سوز و گداز کا تعلق ہے اگر ان کو غزل گوئی کے اوصاف مان بھی لیا جائے تو اول یہ اوصاف ہو سکتے ہیں۔ لوازم نہیں۔ اور ان کے بغیر بھی غزل گوئی ہو سکتی ہے۔ دوسرے سوز ایک چیز ہے اور گداز دوسری چیز ‘ چنانچہ کوئی ضروری نہیں کہ بیک وقت دونوں ہی چیزیں مترادف طور پر موجود ہوں۔ پھر آخر اس سوز و گداز کا مطلب کیا ہے؟ کیا رقت اور ربودگی؟ ممکن ہے کہ بعض حضرات یہی سمجھتے ہوں مگر سوز و گداز کو رقت و ربودگی کا مترادف قرار دینا سخت نادانیہو گی سوز و گداز تو ہر دردمند دل کی کیفیت ہے اور جس دل می درد عشق یا درد حیات ہو گا اس میں بھی سوز و گداز بھی ہو گا۔ خاص کر سوز و گداز ضرور ہو گا تپش تڑپ اور حرارت کے معنے ہیں واقعہ یہ ہے کہ سو ز و گداز جذبے کا دوسرا نام ہے اور جذبہ عشق اور شاعری اور بالخصوص غزل گوئی دونوں کے لیے ضروری ہے ۔ اقبال غالب‘ حافظ سبھی اس جذبہ تغزل سے سرشار تھ خواہ میر کی طرح رقت و ربودگی ان کے یہاں نہ ہو۔ نظم و غزل دونوں میں اقبال کی شاعری کا انداز یکساں ہے ۔ ایک ہی اسلوب سخن اور طرز بیان ہے جو غزل میں بھی اسی شان سے نمایاں ہے جس سے نظم میں رونما ہوا ہے ۔ اس ہمواری اور ہم آہنگی کی وجہ ظاہر ہے۔ اقبال کا ایک کاص جذبہ و تخیل ہے جو ان کے مخصوص احساسات و افکار سے پیدا ہو ا ہے ۔ اسی کے اظہار و ابلاغ کے لیے انہوںنے شاعری کی ہے اور اس صنف سخن میںطبع آزمائی کی ہے جو اردو شاعری میں موجود تھی۔ لیکن اپنے فن کی روایت سے وفاداری اور انصاف کرتے ہوئے بھی ان کی انفرادیت نے اجتہاد کر کے اس روایت میں زبردست توسیع و اضافہ کیا ہے یہاں تک کہ اس کی مکمل تجدید و ترقی کا سامان ہوا ہے او ر اردو شاعری اپنے ارتقاء کے نقطہ عروج پر پہنچ گی ہے اقبال کے ہاتھوں میں غزل اور نظم کی ہئیت بنیادی طورپر وہی ہے جو مثلاً غالب و حالی کی شاعری میں تھی۔ مگر دونوں کے اسلوب اور معیار میں مجموعی طورپر ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا ہے جس کا تصور بھی غالب و حالی نہ کر سکتے تھے۔ غالب کو زیادہ سے زیادہ تنگ نائے غزل بقدر ظر ف نہیںمعلوم ہوتی تھی۔ اور وہ اپنے بیان کے لیے کچھ اوروسعت کے طلب گار تھے۔ اسی طرح حالی نے زیادہ سے زیادہ افراد قوم کے اخلاق کی اصلاح کی ایک کوشش کی لیکن اقبال کی شاعری فقط بیان کی وسعت اور اخلاق کی اصلاح تک محدود نہیں وہ غزل کی تنگ ناء مٰں بھی اپنے ظرف و ضمیر کا مکمل و موثر اظہار کرنے پر قادر ہیں اورنظم کی وسعتوں میں انہوںنے افراد کے اخلاق کی اصلاح سے بہت آگے بڑھ کر اقوام کے ذہن میں انقلاب کا سامان کیا ہے۔ چنانچہ اقبال کا جذبہ دل اور جذبہ عشق جو ان کی شاعری میں بروئے اظہار آیا ہے اس نے اپنی وسعتوں اور گہرائیوں اور بلندیوںکا ایک مخصوص و مناسب رنگ و آہنگ نظم و غزل دونو ں میںیکساں طور پر اختیار کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے جذبات و محسوسات نے ہر فن کے سانچے کو پگھلا کر اپنے ڈھب پر ہموار کر یا ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال کی نظموں کے ساتھ ساتھ غزلوں میں بھی اشعار کے درمیان ایک خالص ربط و ترتیب کا احساس ہر پڑھنے والے کو ہوتا ہے یہ بات اشعار کی خارجی تنظیم کے بجائے ان کی داخلی ترتیب پر مبنی ہے اقبال کے ہر صنف کے اشعار میں ایک مخصوص قسم کاوالہانہ پن سرجوش اور وروانی ہے جیسے کسی دریا کی لہریں یا سمندر کی موجیں سطح آب پر مچلتی ہوئی بہتی چلی جا رہی ہوں۔ اور پیچ و خم کے باوجود ان کی رواتی تسلسل اور باہم و گرارتباط میں کوئی فرق ‘ شگاف اور رخنہ نہ پڑ رہا ہو یا ایک فوارہ ہو جس کے قطرات یکساں زور کے ساتھ ایک ہی رفتار سے پھوٹ رہے ہوں۔ اس طرح غز ل اورنظم دونوں ایک ہی کیفیت میں ڈوبی ہوئی ایک ہی رنگ میں ان پر چھایا ہوا ہے ایک ہی آہنگ ان پر طاری ہے غزل ہے تو مسلسل نظم ہے تو مربوط ۔ دونوں منضبط۔ یہ کتاب دل کے اسرار کا سیل معانی ہے جس کا ضبط کرنا ایک قلندر کے لیے بہت مشکل تھا۔ لیکن جب بے اختیارو بے ساختہ اس نے یہ اسرار کہہ ڈالے تو دیکھا گیا کہ ان پر مشتمل اشعار میں بے پناہ جو ش اور زور کے ساتھ ساتھ زبردست ربط وضبط بھی ہے۔ رنگ و آہنگ کی اس یکسانی کے باوجود اقبال کے اشعار میں تنوع و فور اور وسعت کا احساس ہوتاہے‘ طرح طرح کے نکتے قسم قسم کے استعارات میں آوازوں کے نو بہ نو پیچ و خم کے ساتھ نظم و غزل دونوںہئیتوں میں جلوہ نما ہوتے ہیں ہر لحظہ ان کی ایک نئی ان اور نئی شان ظاہر ہوتی ہے ۔ یکسنی میں اس رنگارنگی میںیکسانی کا راز کیا ہے؟ کیا یہ ایک متضاد کیفیت ہے ؟ اس سوال کا صحیح جواب دینے کے لیے اقبال ہی کے ایک شعر کا طرز بیان مستعار لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دراصل فطرت کا سرور ازلی ہے: آہنگ میں یکتا صفت سورۃ رحمن (مرد مسلمان…ضرب کلیم) مدنیت اسلام (ضرب کلیم) کے ایک شعر کے استعارے میں یہ صفت یگانہ اور مثال زمانہ گوناگوں ہے فطرت رنگارنگی کے باوجود اپنا ایک رنگ رکھتی ہے۔ اور زمانہ انقلابات کے باوجود اپنا ایک آہنگ رکھتا ہے چنانچہ جس طرح زمانے کی رولمحات میں تقسیم ہو کر بھی ایک ہے اسی طرح فطرت کا نغمہ بے شمار راگوں میں ظاہر ہو کر بھی ایک سرود ازلی ہے۔ فطرت اور زمانے کے تصورات کے ساتھ ساتھ ان کی تصویر وتجسیم بھی اقال کی نظم و غزل دونوں کے اسالیب میں ہوتی ہے ۔ا س لیے کہ تنوع اور تسلسل کی ترکیب خود شاعر کی اپنی فطر ت میں اس درجہ راسخ ہے کہ ا س کا عکس ناگریز طور پر اس کے کلام پر بھی پڑا ہے۔ فن کار کا فن اس کے ذہن کا اشاریہ ہے ۔ ذہن اورفن کا یہ ارتباط پوری شاعری میں جلوہ نما ہے اور نظم و غزل دونوںنے اس سے یکساں تابندگی پائی ہے۔ کلام اقبال میں نظم و غزل کی ہم آہنگی ان اصناف سخن کی اس مصنوعی تفریق کو بھی ختم کرتی ہے جو اردو کے مغرب پسند ناقدین نے قائم کر رکھی ہے۔ اقبال کی شاعری میںدونوں ہی اصناف اس طرح ایک نظم میں پروئی ہوئی ہیں کہ دونوں کو نظم ہی بمقابلہ نثر کہنا چاہیے پھر یہ محض ہئیتی طور پر نثر سے ممیز نظم نہیں بلکہ حقیقی طور پر شعر بمقابلہ نثر ہے۔ اس لیے کہ اس میں شعریت کا عنصر بدرجہ کمال ہے اور یہ اعلیٰ شعیرت ہی اپنے مخصوص اسلوب میں جلوہ فگن ہے ۔ یہ نظم و غزل دونوں کو شاعری کے ایک خاص رنگ وا ٓہنگ میں ڈھالتی ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے تمام اسالیب پر یکساں قدرت رکھتے ہیں خواہ و ہ غزل ہو قطعہ ہو رباعی ہو مخمس ہو مسدس ہو مثمن ہو اور تمام اسالیب نظم میں انہوںنے شاعری کے بہترین نمونے اعلیٰ درجے کی شعریت کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ ہر صنف شعری میں اقبال کا طر ز بیان متانت و سکون کا ایک نفیس مجموعہ ہے۔ متانت ان کے مقاصد میں پیدا ہوئی ہے ۔ اور شوکت ان کے مزاج سے ۔ یہ مقاصد اورمزاج دونوں شخص کے بھی ہیں اور فن کار کے بھی‘ اس لیے کہ اقبال کے معاملے میں شخص فن کار سے الگ نہیں ہے یا فن کار شخص سے الگ نہیں ہے فن کار اور شخص کی اس ہم آہنگی کو تنقید کے ایک نقطہ نظر سے فن میں فنائے شخصیت کہا جاسکتا ہے اوردوسرے نقطہنظر سے فن میں اظہار شخصیت اس سلسلے میں ٹی ایس ایلیٹ کے تصرو کر زیادہ اہم نہیں سمھتا۔ اس لیے کہ فنائے شخصیت اور معروضی مترادف ے متعلق جو کچھ اظہار خیال اس مشہور انگریز شاعر اور ناقد نے کیا ہے وہ ایک جانی اور مانی ہوئی حقیقت کی ترجمانی کے لیے صرف ایک خاص انداز بیان ہے ورنہ کوئی فن کار اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کچھ نہیںکرتا اور ہر فن کار فن میں اپنی شخصیت کا اظہار جوں کا توں نہیں کرتا وہ بہرحال فن کی ہئیت اس کے لوازم‘ اوصاف اور اسالیب و آداب کا اظہار کرتا ہے اور شخصیت کے اسی حصے یا جز کو فن میں منعکس ہونے دیتا ہے جو ہئیت اوصاف اور اسالیب و آداب کے مطابق ہو اور وہ بہرحال اپنی شخصیت یا اقبال کے لفظ میں خودی کے بعض پہلو کا اظہار زندگی کے دوسرے اشغال کی طرح فن میں بھی کرتا ہے۔ متانت نے اقبال کے طرز بیان میںدیانت تہہ داری دقیقہ سنجی اورمعنی آفرینی کے کوائف پیدا کر دیے ہیں۔ جبکہ شوکت قوت صلابتر وضاحت وضاحب انبساط‘ وقار اور سرور پیدا کرتی ہے۔ متانت و شوق کے مضمرات سے مرکب ہو کر جو اسلوب سخن ابھرتا ہے وہ بہت ہی محکم ہونے کے ساتھ ساتھ محرک بھی ہے ۔ اس کی سنجیدگی اور بالیدگی ولولے اور حوصلے جگاتی ہے۔ اس کی پرمعنی زمزمہ سنجی آرزوئوں اور تمنائوں کو بیدار کرتی ہے اس کے زور اور شور سے دلوں میں اہتزاز و ابتہاج محسوس ہوتاہے اور اس کے تعقل اور تجمل سے دماغوںمیںفکر و انگیز ارتعاشات کی بجلیاں سی کوندتی ہیں۔ متانت ہمہ درا کی ہے اور شوکت ہمہ برا تی۔ اسلوب کی اس متین شوکت پر یا شوکت متانت کی بڑی اچھی اور نہایت خیال انگیز تشریح بال جبریل کی ایک غزل کے اس شعرسے ہوتی ہے: جو ذکر کی گرمی سے شعلے کی طرح روشن جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز متانت و شوکت کی یہ پرشکوہ معنی آفرینی ایک پر سو ز نشاط یا نشاط انگیز سوز پر مبنی بھی ہے اور منتج بھی ۔ ایک سینہ روشن سے اٹھنے والا سخن ایسا ہی ہوتا ہے اور وہ عین حیات ہونے کے ساتھ ساتھ سوز حیات ابدی پر مشتمل ہے اور اس کا باعث ہوتا ہے۔ یہی نغمہ جبریل کی علامت بھی ہے اور بانگ سرافیل بھی اس لیے یہی ہے: وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یہ ایک انسان کا کلام ہے مگر اس پر صحیفہ آسمانی کا نور پرتو فگن ہے ۔ اور صحیفہ آسمانی کی زبان متانت و شوکت کامعیار ہوتی ہے۔ جس کی طرف پرواز اقبال کے طرز بیان کا امتیازی نشان ہے۔ ٭٭٭ غزلیں (بانگ درا) اقبال کے فن کا مطالعہ ان کی نظموں سے شروع کیا جاتا ہے اور تجریہ و تنقید میں زیادہ زور بھی انہی کے اوصاف پر دیا جاتا ہے۔ اس طرز تنقید کی ایک وجہ تو غزل گوئی کا وہ روایتی نصاب ہے جسے معیار تسلیم کر لیا گیا ہے اور ا سکی روشنی میں اقبال کی غزلوں کو وہ اہمیت عام طور پر نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق ہیں۔ دوسری وجہ مغربی انداز کا یہ تصور ہے کہ فنی اعتبار سے مطلق طور پر غزل کی وہ اہہمیت نہیںہے جو نظم کی ہے۔ اس سلسلے میں پہلے مجموعہ کلام بانگ درا کی ترتیب نے بھی تنقید کا عام رجحان متعین کیا ہے مجموعے کے تینوں حصوں میںنظموں ہی کی فہرست غالب اور نمایاں ہے جبکہ ہر حصے کے آخر میں گویا ضمیمے کے طور پر غزلیات کا ایک چھوٹا سا عنوان قائم کر کے صفحہ فلاں تا صفحہ فلاں رقم کر دیا گیا ہے۔ اس صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کا کمال فن نظم میں ظاہر ہوا ہے جبکہ غزل محض تفن طبع کے لیے ہے۔ اس صورت حال میں اگر کسی ناقد نے اقبال کی گزلوںکی تحسین و تعریف کی بھی ہے تو تغزل کے بجائے نظم نگاری کے نقطہ نظر سے ۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ اقبال کی شاعری میں ان غزلوں کی صحیح قدر و قیمت پورے طور سے واضح کی جائے تاکہ اردو شاعری یادنیائے شاعری میں ان کی اہمیت کا احساس عام ہو۔ ا س سلسلے میں سب سے پہلے تو فن کا بنیادی نکتہ یاد کر لینا چاہیے کہ اقبال نے جس روایت کے پس منظر میں شاعری کی وہ عمومی طور پر غزل ہی کی تھی جس میں اردو شاعری ہی نہیں‘ اردو زبان و ادب کے نہ صر ف لسانی و فنی وسائل بلکہ ادبی و فکری تصورات بھی پروان چڑھے تھے چنانچہ اردو ادب اور ا س کے تہذیبہ ماحول میں غزل کی اس درجہ رائج اور راسخ تھی کہ اقبال نے اپنے ذہن و مزاج کے بالکل خلاف داغ جیسے ایک روایتی شاعر کی شاگردی اختیار کی ارور ان کے رنگ میں چند غزلیں یا چند اشعار بھی کہے۔ اس لیے ہ رنگ زمانہ یہی تھا۔ اور داغ اپنے وقت کے سب سے بڑے شاعری سمجھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی وفات پر اقبال نے ان کی شاعری کو جو خراج عقیدت پیش کیا اس میں کہا: آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے! (داغ…بانگ درا) لہٰذا اقبال کے فنی تجربے میں غزل کی بھی بڑی اہمیت ہے اردو میں خاص کر پہلے مجموعہ کلام بانگ درا میں اقبال کی غزلوں کی تعداد یقینا نظموں سے کم ہے۔ لیکن طرز فکر اور اسلوب سخن دونوں کے اعتبار سے یہ گزلیں اسی اقبال کی ہیں جن کی نظم نگاری نگاہ تنقید میں شاعری کا سب سے بڑا نمونہ فن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں ان کی غزل کا مرتبہ شیکسپئیر کی شاعری میں اس کے سونٹ کے مرتبے سے بھی زیادہ بلند ہے۔ شیکسپئیر کے نظام فن میں سونٹ کی حیثیت ایک ضمیمے سے زیادہ نہیں۔ لیکن اقبال کے نظام فن میں غزل ایک جزو ترکیبی ہے نظموں میں اقبال کے جو مضامین زیادہ وسعت اور تشریح کے ساتھ بروئے اظہار آئے ہیں وہ سب غزلوں میں بھی اختصار اور ایجاز کے ساتھ ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ کیفیت بانگ درا ہی کی غزلیات سے شروع ہو جاتی ہے اور حصہ اول میں بھی نمایاں ہے۔ اس حصے کی پہلی ہی غزل یہ ہے: گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ آیا ہے تو جہاں میںمثال شرار دیکھ دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیںہوں میں تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہگذر میں نقش کف پائے یار دیکھ ٭٭٭ کیا اس ابتدائی غزل کو بھی اقبال کے علاوہ کسی اردو شاعر سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟ احساس اور اظہار دونوں کے لحاظ سے چار اشعار کی اس مختصر سی غزل میں مجموعی و عمومی طور پر اقبال کا خاص انداز نمایاں ہے مختلف اشعار کے الگ الگ معانی کے باوجو د پوری غزل ایک ہی کیف میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایک ہی رجحان کی غماز ہے چنانچہ جزوی طور پر مختلف المعنیٰ اشعار کا کلی مفہوم واحد ہے اور وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک اشعار میں ایک ارتقائے خیال بھی ہے چنانچہ پہلے شعر میں گلزار ہست و بود کو یگانگی کے ساتھ با ر بار دیکھنے کی جو تلقین کی تھی وہ دو اشعار کے بعد آخری شعر میں اس مشورے پر ختم ہوتی ہے کہ اگر ذوق دید ہے تو ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھنا چاہیے اس سے واضح ہوتا ہے کہ گلزار ہست و بود کو بار بار گہرائی سے دیکھنے کامطلب یہ تھا کہ اگر ذوق دید ہوتو اس گلزار کی ہر روش میں محبوب کا جلوہ نظر آ سکتا ہے۔ بیچ کے دو اشعار اس نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔ دوسرے شعر میں ہستی کی ناپایداری کی یاد چشم تماشا کا دلا کر گویا اسے فہمائش کی گئی ہے کہ زندگی کی مختصر سی مہلت کے ایک ایک لمحے کو قیمتی سمجھ کر اس کا پورا مصرف لے کر اور پیہم مشاہدہ و مطالعہ سے کام لے کر پھر تیسے شعر میں محبوب کو خطاب کر کے اپنی ہستی کی حقارت کے باوجود دیدار کے لیے اپنے شوق و انتظار کا والہانہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح چند اشعار میں فلسفہ حیات اور جذبہ عشق دونوں کا اظہار کر دیا گیا ہے اور دونوں کے امتزاج سے ایک ایسی بصیرت کا سامان کیا گیا ہے جس میں جنون و خرد مل کر بصیرت کے ساتھ ساتھ مسرت کا اہتمام کرتے ہیں یعنی بصیرت ہی اتنی گہری اور وسیع ہے کہ اس کی تہوں میں اور پہنائیوں میں مسرت کے چشمے اپنے آپ پھوٹتے ہیں اور بہتے ہیں۔ اس مرکب احساس کا اظہار جن لفظوں میں اور جس آہنگ میں ہوا ہے ان میں اقبال کی مخصوص متانت اور شوکت کے عناصر ہم آمیز ہیں۔ ایک وقار کے ساتھ مصرعوں میں روانی اور شعروں میں نغمگی ہے۔ اردو کے الفاظ کی لطافت کے ساتھ ساتھ فارسی تراکیب کی نفاست بھی ہے گلزار ہست و بود مثال شرار‘ ’’ہستی ناپایدار‘‘ ’’ذوق دید‘‘ اور نقش کف پائے یار جیسی بیک و شیریں ترکیبیں دیکھن کی چیز دم دے نہ جائے‘ ’’میرا شو ق دیکھ‘‘ ، ’’مرا انتظار دیکھ‘‘ اور ’’بار بار دیکھ‘‘ جیسے سلیس و فصیح لفظوں کے ساتھ روز مرہ اور محاورے کی طرح شیر و شکر ہیں۔ ان الفاظ و تراکیب کے حروف و اصوا میں ایک نشاط انگیز قماش نغمہ بھی ہے اور سرور انگیز جوئے سرور آفریں بھی۔ صرف چار اشعار مل کر تصور کی سطح پر ایک ولولہ تصویر پیش کرتے ہیں جس میں زمین سے آسمانی تک مجاز و حقیقت کے سارے جلوے نمایاں ہیں گلزار ہست و بود میں ایک ہستی ناپایدار کا نقش کف پائے یار دیکھنا ارضیت کے ساتھ معرفت اور حقیقت کے ساتھ مثالیت کا زبردست امتزاج ہے ارو یہ مبنی ہے ایک شوق بے اختیار کے کیف انتظار پر میر کے یہاں تو اس نشاط تصور کاسوال ہی نہیں نہ اس رنگ تصویر کی گنجائش ہے غالب کی شوخی میں بھی یہ طراری اور طراوت نہیں ہے۔ یقینا شوکت بیان کے لحاظ سے غالب و اقبال کے درمیان مماثلت ہے مگر غالب کے یہاں جو موقع ظرافت کا ہے وہی اقبال کے یہاں متانت کا ہے جس کی وجہ سے کلام اقبال میں زیادہ وقار اور وفود کا احساس ہوتا ہے۔ لہجے کی ہمواری اور استواری بھی اقبال کے یہاں زیادہ نہیں ہے جس سے ولولہ و زمزمہ دونوں میں اضافہ وہتا ہے ۔ اس ہئیت سخن میں فن کے روایتی سانچے کو توڑا نہیں گیا تھا اک ذراموڑا گیا ہے اس میں تبدیلی کے بجائے توسیع کی گی ہے۔ اور انقلاب کی بجائے ارتقاء ہوا ہے تغزل کی ساری مسلم الثبوت ادائیں ا س غزل سرائی میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود احساس ہونے لگتا ہے کہ ان ادائوںمیں ایک نئی خموشی سے پیدا ہو رہی ہے تغزل میں مجازی و حقیقی شیو ے برابر ہی مضمر رہے ہیں۔ لیکن اب دونوں کے امتزاج سے آفاقیت کا ایک نیا عشوہ ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ غزل کو عجم کے آب رکنا باد اور گلگشت مصلیٰ نے پروان چڑھایا ہے مگر اب اسی ویاد میں کوہ اصنم اور ریگ نواح کاظمہ کی ہوائیں چلتی محسوس ہو رہی ہیں۔ یہ شیراز کی تصویر میں نجد کا ترنم ہے اس طرح عشق کی اصلی روایت جس بیت عتیق سے روئے زمین پر جلوہ افروز ہوئی تھی صدیوں کے بعد ایک بار پھر اسی کے گرد طواف کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بانگ درا ہے جو جلد ہی بال جبریل پر پرواز کرے گی اور دنیائے غزل پر ضرب کلیم لگا کر بالآخر زبو ر عجم بن جائے گی اور پیام مشرق کہلائے گی۔ حصہ اول کی چند دوسری غزلوں کے بھی متعدد اشعار اقبال کے مخصوص تغزل کی کیفیات کے حامل ہیں یہاں صڑف ان غزلوں کے بعض اشعار نقل کیے جا تے ہیں جو اپنی جگہ پوری کی پوری دلچسپ اور خیال انگیز ہیں: انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتاہوں جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی نرالا عشق ے مرا نرالے میرے نالے ہیں نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں ٭٭٭ جنہیں وہ ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں حقیقت اپنی آنکھوں پر جب نمیاںہوئی اپنی مکاں نکلا ہمارے خان دل کے مکینوں میں اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہ سائی سے تو سنگ آستان کعبہ جا ملتا جبینوںمیں کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں؟ کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوںمیں ٭٭٭ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہوا دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی میں انتہائے عشق ہوں تو انتہائے حسن دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی ٭٭٭ وہ میکش ہوں فروغ مے سے خود گلزار بن جائوں ہوائے گل فراق ساقی نامہربان تک ہے وہ مشت خاک ہوں فیض پریشانی سے صحرا ہوں نہ پوچھو میری وسعت کی زمیں سے آسماں تک ہے ٭٭٭ کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے مدام گوش بہ دل رہ یہ ساز ہے ایسا جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے ٭٭٭ سختیاں کرتا ہوں دل پر غیر سے غافل ہوں میں ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں جاہل ہوں میں علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گو ہر بدست وائے محرومی با خرف چین لب ساحل ہوں میں ٭٭٭ ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر‘ آپ ہی منزل ہوں میں ٭٭٭ بعض دوسری غزلوں کے چند متفرق اشعار یہ بھی ہیں: لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے ٭٭٭ حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب وہ جو تھا پردوں میںپنہاں خود نما کیونکر ہوا ٭٭٭ تقلید کی روش سے تو بہترہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے ٭٭٭ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ٭٭٭ یہ کل تیرہ غزلوں کا انتخاب ہے اور اس میں اقبال کے تغزل کے یہ سب نکات موجود ہیں: ۱۔ خودی ۲۔ آزادی خیال ۳۔ تفکر و تعقل ۴۔ سوز و نشاط ۵۔ شوخی و بے باکی بلاشبہ منتخب اشعار معتدبہ تعداد میں ہونے کے باوجود بیشتر ان غزلوں میں واقعہ ہوئے ہیں جن میں غزل کے عام روایتی و رسمی اشعار بھی کثیر تعداد میں ہیں اور یہ بھی ہے کہ ان میں متعدد اشعار بعض رسمی مضمرات کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ اسی حصے میں دو غزلیں اس قسم کے اشعار کی بھی ہیں: نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی ٭٭٭ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ٭٭٭ یقینا ایسے اشعار کا کوئی تعلق اقبا ل کے تغزل سے نہیں ہے ۔ لیکن قابل غور نکتہ یہ ے کہ بالکل ابتدائی دور میں بھی ایسے اشعار کی تعداد برائے نام ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان شعروں میں سہل ممتنع کی جو کیفیت ہے اس سے قدرت بیان کا اندازہ تو بہرحال ہوتا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ شعر گوئی کے شروع ہی میںاقبال نے غزل کی کلاسیکی زبان میںمہارت حاصل کر لی تھی اور نئے تجربے کے لیے درکار کمال فن انہیںمیسر آ چکا تھا۔ پھر اس قسم کی غزلوں میں بھی بعض ایسے اشعار چمک اٹھتے ہیں جو روایتی مفہوم کے باوجود ایک انفرادی تیور رکھتے ہیں: ستم ہو کہ وعدہ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں ٭٭٭ ایسے شعروں کا انداز داغ کی بجائے غالب کا ہے جن کے سہل ممتنع قسم کے اشعار ان کے عام اسلوب سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی غزل گوئی کا حصہ ہیں اس لیے کہ ان میں بھی جا بجا غالب کا تیور جھلک اٹھتا ہے جس کی صلابت میں اقبال نے اضافہ کیا ہے۔ بہرحال ا س حصے میں چند بہت طویل غزلیں ہیں اور باقی بھی اکثر معتدبہ حجم کی ہیں اور ان میں روایتی اور غیر روایتی اشعار ملے جلے ہیں ظاہر ہے کہ اقبال اپنے ہی ایک مقطعے کے مطابق ابھی اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ گرچہ اپنی تلاش کا یہ انداز بہت خاص اور امتیازی ہے۔ آپ ہی گویا مسافر‘ آپ ہی منزل ہوں میں حصہ اول کی غزلیات میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ان میں بعض نصف سے زاید میں مقطع تخلص سے خالی ہے۔ جو غزل کی عام روایت میں ایک خاص انفرادیت ہے۔ اور آئندہ یہ ایک مخصوص تغزل کا نشان ہو گا۔ حصہ دوم کی غزلیات حصہ اول کی بہ نسبت کمیت میں نصف کی حد تک کم مگر کیفیت میں اتنی ہی زیادہ ہو گئی ہیں۔ پہلی غزل اس حصے میں بھی عشق و فلسفہ یا معرفت و حکمت کا ایک مرکب ہے جبکہ طرزبیان میں تندی و تیزی پہلے سے کچھ بڑھ گئی ہے اور شدت احساس میں بھی قدرے اضافہ معلوم ہوتا ہے : زندگی انسان کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے زم کے سوا کچھ بھی نہیں گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر شمع بوئی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محر م نہ ہو کھل گیا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں؟ اس حصے کی خاص و ممتا زترین غزلیں حسب ذیل قطعوں سے شروع ہوتی ہیں: زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیںہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا ٭٭٭ چمک تیری عیاں بجلی میں ‘ آتش میں‘ شرارے میں جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں ستارے میں ٭٭٭ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ‘ عام دیدار یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا ٭٭٭ ان میں پہلی اور دوسری بہت ہی طویل ہیں اور ان میں اقبال نے زندگی اور زمانے کے مختلف موضوعات پر بڑی بے باکی شوخی‘ نکتہ سنجی او رعمدگی سے اپنے خیالات احساسات اور جذبا ت پیش کیے ہیں۔ اسی طرح حصہ اول کی بعض غزلوں کے ساتھ ملا کر ان غزلوں کو دیکھنے سے عیاں ہوتا ہے کہ اقبال غزل کو چند متعین روایتی موضوعات کی بجائے تمام ان تازہ واردات کا وسیلہ اظہار بنارہے ہیں جو ایک کہنہ بزم کائنات میں ان کے قلب پر نازل ہوئی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہئیت غزل کا سانچہ پگھل کراقبال کی صہبائے تخیل کی تندی کو اپنے اندر سمونے کے لیے پھیلنے لگا ہے۔ حسب ذیل معروف یا معنی اشعار جن میں چند زبان زد میں انہی غزلوں کے ہیں: جو موج دریا لگی یہ کہنے سفر سے قائم ہے شان میری گہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبروکا نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیںسنورتے ہوا نہ سبزہ رہ کے پانی عکس سرو کنار جو کا اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں نگہ کو نظارے کی تمنا ہے دل کو سودا جستجو کا سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر ذرا سا اک دل دیا ہے وہ بھی فریب خوردہ ہے آرزو کا کمال وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھڑے یقیں ہے مجھ کو جو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا ٭٭٭ بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی روانی بحر میں‘ افتادگی تیری کنارے میں جو ہے بیدار انسان میں وہ گہری نیند سوتاہے شجر میں پھول میں حیواں میں ‘ پتھر میں ستارے میں سکوں نا اشنا رہنا اسے سامان ہستی ہے تڑپ کس دل کی یارب چھپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں ٭٭٭ گزر گیا وہ اب دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا کچھ جو آوارہ جنوںتھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیںہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ نہ بنے گا نہ پائدار ہو گا میں ظلمت شب میں لے کر نکلوں گا اپنے درماندہ کا رواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہوگا ٭٭٭ ان اشعار میں تغزل اقبال کے مندرجہ ذیل پہلو نمایاں ہیں: ۱۔ عصری حسیت ۲۔ سیاست و معاشرے کے اشارت ۳۔ بصیرت مستقبل ۴۔ نظریاتی نظریاتی رد عمل ۵۔ وفور‘ وسعت‘ والہانہ پن ان غزلوں کے اسلوب سخن کا مطالعہ ‘ جن سے یہاں اشعار لیے گئے ہیں۔ صاف صا ف بتاتا ہے کہ بہت ہی پیچیدہ ثقیل ثقہ اور دقیق خیالات و احساسات کو بھی ‘ جن کا اظہار اب تک غزل میںنایاب تھا‘ تغزل کے رنگ و آہنگ اور استعارات و کنایات میں اس پختگی اور نفاست کے ساتھ جذب کیا رہا ہے کہ عنقریب غزل کا تصور ہی بدل جائے گا‘ گرچہ تغزل کی تصویر نہ صرف باقی رہے گی بلکہ اس کے نقوش پہلے سے بدرجہا زیادہ تیکھے ہو جائیں گے۔ بہرحال ان غزلوں میں تخلص کی روایت کی پابندی سختی سے کی گیء ہے شاید یہ اہتمام فن فکر کی جدت کو زیادہ گوارا بنانے کے لیے ہے۔ لیکن تخلص بھی شاعر کے مخصوص ذہن ہی کی طرف منقطع میں اپنے خاص موقعے پر واضح اشارہ کرتا ہے: نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ‘ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی کہیں سر راہگذار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا حصہ سوم کی سات آٹھ غزلیات میں اس کے باوجود کہ ایک غزل کا مقطع ہے: خبر اقبال کی لائی ہے گلستاں سے نسیم نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی واقعہ یہ ہے کہ اقبال کاتغزل اپنے ٹھکانے پرپہنچ گیا ہے اور تقریباً ہر غزل انتخاب ہے ۔ حسب ذیل مطلعوں کی مشہور غزلیں اسی حصے میں ہیں: نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینہ میں اسے اور ذرا تھام ابھی ٭٭٭ پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر چشم مہر و ماہ و انجم کو تماشائی کر ٭٭٭ پھر بار بہار آئی‘ اقبال غزل خواں ہوا غنچہ ہے اگر گل ہو‘ گل ہے تو گلستاں ہو ٭٭٭ کبھی اے حقیقت منتظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں ٭٭٭ ان غزلوں کو بلا تکلف و تامل ’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ قبل کے دو حصوں میں بھی متعدد غزلیں ایسی ہی تھیں اور ان سب کے بے شمار اس تغزل کی طرح صریح اشارہ کرتے ہیں جس کا نمونہ کمال ’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں کو سمجھا جاتا ہے حصہ سوم کی غزلوں کے اشعار کا ایک مختصر انتخاب حسب ذیل ہے: عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجاب محمل سے محمل جو گیا عزت بھی گئی غیرت بھی گئی ‘ لیلا بھی گئی ٭٭٭ تیرے پیمانوں کا ہے‘ یہ اے مئے مغرب اثر خندہ زن ساقی ہے‘ ساری انجمن بے ہوش ہے ٭٭٭ پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عشق فرمودہ قاصد سے سبک گام عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی شیوہ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی تو ہے زناری بت خانہ ایام ابھی سعی پیہم ہے ترازو سے کم و کیف حیات تیری میزان ہے شمار سحر و شام ابھی ٭٭٭ تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر نفس گرم کی تاثیر ہے اعجاز حیات! تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم دل کو بیگانہ انداز کلیسائی کر پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے پھر جہاں میں ہوس شوکت ورائی کر ٭٭٭ آخری دونوں منتخب غزلوں (پھر باد بہار آئی… اور کبھی اے حقیقت منتظر…)میں علی الترتیب چھ اور سات اشعار ہیں اور سب کے سب انتخاب ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں غزلوں میں جو وفورو سرور اور عمدگی و نغمگی ہے وہ بال جبریل کے بہترین اشعار ہی میں پائی جاتی ہے ۔ حصہ سوم کی غزلیات میں بھی نصف ایسی ہیں جن کے مقطعوںمیں تخلص کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ گرچہ ان بے تخلص مقطعوں میں بالعموم واحد متکلم کا معتزلانہ انداز موجود ہے ۔ بہرحال اس حصے کے بے تخلص یا باتخلص مقطعوں میں اقبا ل نے اپنے فن پر خیال انگیز تبصرے کیے ہیں مثلاً نکلی تو لب اقبال سے ہے کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا! پیغام سکوں پہنچا بھی گئی‘ دل محفل کا تڑپا بھی گئی ٭٭٭ مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلیٰ اقبال کوئی دن اور بھی بادیہ پیمائی کر ٭٭٭ مرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ زخمہ ہائے عجم رہا وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی ٭٭٭ منزل لیلیٰ کا عدم حصول صرف ایک مسلسل تجسس اور جستجو کا غماز ہے گرچہ بادیہ پیمائی تو ایک عاشق فکر و فن کو عمر بھر کرنی پڑتی ہے۔ بہرحال حصہ سوم میں آ کراقبال کے تغزل کی وہ بادیہ پیمائی جو بانگ درا کے حصہ اول سے شروع ہوئی تھی منزل مقصود کے بہت ہی قریب گویا منزل مقصود تک پہنچ گئی ہے۔ اسی لیے اپنے لب سے نکلی ہوئی صدا کو وہ کسی اور کی ایک برتر ہستی کی صدا سمجھنے لگتے ہیں۔ جو سکوں بخش ہونے کے ساتھ ساتھ اضطراب انگیز بھی ہے یہی نوائے عاشقانہ کی خاصیت ہے اور یہ نوائے عاشانہ اپنی اصلیت میں عربی ہے چنانچہ اس کے باوجود کہ نہ تو شاعر عربی ہے اورنہ اس کی زبان عربی ہے۔ اور اس کا سازفن زخمہ ہائے عجم کا ستم رسیدہ ہے اس کا زلی پیمان وفا اپنی جگہ برقرار وپائدار ہے۔ وہ شہید ذوق وفا ہے لہٰذا ایک عجمی ہئیت سخن کے باوجود اس کی نوا عربی ہے اس کی سدا میں قرآن کریم کی عربی مبین کی بازگشت ہے۔ یہ ایک دل کشا صدا ہے۔ جس کی اصلیت کا تعارف خواہ عربی ہو مگر اس کے اثرات و مقاصد میں عجمی و تازی کا کوئی فرق و امتیاز نہیں‘ یہ درحقیقت ایک ایسے شخص کی گفتگو کا انداز محرمانہ ہے جو راز حرم سے باخبر ہے۔ ی راز حرم راز حیات ہے اور سوز حیات ابدی پیدا کرتا ہے ۔ اس کا آہنگ زمزمہ لاموجود کا سرود حلال ہے۔ جس کی گرمی سے ستاروں تک کا وجود پگھل جا سکتا ہے۔ یہ خالص تغزل کا نغمہ ہے۔ حصہ سوم کی مذکور ذیل غزل کی نوائے عاشقانہ پر تغزل اور فن غزل گوئی کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ ساز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترآئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گدا زمیں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے حرم خانہ خراب کو ترے غضو بندہ نواز میں نہ وہ عشق رہیں گرسیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف یار میں جو میں سر بہ سجدا ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا‘ تجھے کیا ملے گا نماز میں پہلا ہی شعر اعلیٰ تغزل مین ڈوبا ہواہونے کے باوجود چونکا دینے والا ہے۔ اس لیے کہ اس کا پہلا ہی مصرع مجاز و حقیقت کی عشقیہ روایت میں ایک انقلاب کا غماز ہے ۔ یہاں مجاز کو حقیقت بنانے کی تمنا کی بجائے جو بالعموم غزل گویوں کی پرواز تخیل کا منتہا ہے حقیقت ہی کو مجاز کی شکل میں دیکھنے کی آرز و ہے اور دوسرا مصرع اشارہ کرتا ہے کہ ہزاروں سجدے جو عاشق صادق اور بندہ کامل کی جبین نیاز میں تڑ پ رہے ہیں وہ اسی محبوب حقیقی کے لیے وقف ہیں جس کے لباس مجاز میں جلوہ افروز ہونے کا انتظار ہے۔ یقینا یہ ایک موہوم تمنا ہے ایک خیالی آرزو ہے لیکن ا س سے عشق و تغزل کا ایک تیور معلوم ہوتا ہے جو بہت ہی شوخ ہونے کے علاوہ نہایت نادر ہے اس سے شاعر کی بے باکی سے زیادہ اس کی محبت کے حوصلے اور ولولے ظاہر ہوتے ہیں اس کے ظاہر کی گہرائی اور ذوق و شوق کی شدت آشکار ہوتی ہے۔ اس شعر میں ایک عمیق جذبہ ایک باریک خیال اور ایک ناز ک احساس ہے جس کا اظہار بڑے والہانہ اور پر معنی انداز میں ہوا ہے۔ الفاظ کی نشست تراکیب کی ندرت اور آہنگ کی انتہائی نغمگی نے لمبی بحر اور پیچیدہ شکل میں ہونے کے باوجود اس شعر کو ضرب المثل کی حد تک زبان زد کر دیا ہے۔ دقیق خیالات اور لطیف افکار کو ایسے رواں دلنشیں اور معنی خیز انداز میں ظاہر کرنے کے لیے روح کو جو بالیدگی اور اسلوب کو جو پختگی درکار ہے وہ اس شعر میں بدرجہ کمال نمایاں ہے۔ یہی کیفیت دوسرے شعر کی بھی ہے ۔ جس میں پہلے شعر کے عاشقانہ تخاطب وتخیل کو جاری رکھتے ہوئے ایک نئے اور زیادہ نغماتی رنگ و آہنگ میں پیش کیا گیا ہے ۔ اور اس مقصد کے لیے موسیقی کا استعارہ بڑی دقیقہ سنجی کے ساتھ استعمال کیا گیاہے۔ استعارے کے ساتھ ساتھ پورا شعر موسیقی کے نغمے میں ڈوباہوا ہے ۔ اس حد تک کہ الفاط ہی نغمات معلوم ہوتے ہیں اس لفظی موسیقی کے باوجود معانی و مضمرات بھی واضح اور متعین ہیں۔ یہ قدرت بیان اور جذبہ صادق نیز فکر کامل کاایک حسین ترین مرکب ہے۔ تیسرے شعر میں تخاطب محبوب سے بدل کر عاشق کی طرف ہو جاتا ہے ۔ اور اسے جلوہ محبوب کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے آئینہ دل کو توڑنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ ا س لیے کہ اس آئینے کے خالق کی نگاہ میں اس کی سلامتی سے زیادہ ا س کی شکست ہی عزیز ہے۔ مفہوم واضح ہے جلوہ معشوق دل کی درد مندی پر منعکس ہو سکتا ہے جب تک محبوب کے مقابلے میں شکستگی و افتادگی قلب عاشق میں نہ پیدا ہو جائے‘ اس کی آرزو اور ذوق و شوق کا اعتبار قائم نہیں ہوتا اور اعتبار کے بغیر دیدار محبوب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس خیال کو آئینے کے تصور میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ استعارہ نہایت موزوں ہے حقیقت منتظر کا جلوہ ایک صاف و شفاف اور براق پردے ہی پر منعکس ہو گا اور پردہ سیمیں قلب انسان کے سوا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ لباس مجاز کی تمنا کے باوجود معاملہ حقیقت کا ہے جو خارجی جلوے سے نہیںباطنی مشاہدے سے ہی نظر آ سکتی ہے اور اس مشاہدے کا آلہ صرف دل ہے لہٰذا جس کسی کو مشاہدہ حقیقت کی تمنا ہوا سے سب سے پہلے اپنے قلب کو ا س کے تحمل کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ محبوب حقیقی کی تجلی کوئی معمولی اور آسان بات نہیں۔ اب جب قلب انسان مصفی و مزکی ہو کر جلوہ الٰہی کے لیے تیار و سازگار ہو جائے گا تو برق تجلے چمکے گی اور ظاہر ہے کہ آئینے کی طرح شفاف جس سطح پر وہ گرے گی اس میں شگاف پیدا کر دے گی۔ یہ برق تجلیٰ جب کوہ طور کے اییک حصے پر گری تھی تو ا س نے پاس پاش کو دیا تھا۔ چنانچہ انسان کے آئینہ دل پر بھی جسے ہی جلوہ فگن ہو گی اسے پارہ پارہ کر دے گی لیکن یہ شکستگی بڑی کامیابی ہے۔ شادکامی ہے اور محبوب کی نگاہ اعتبار میں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ چوتھے شعر میں استعارہ پہلے سے بھی زیادہ رنگین ہو جاتا ہے۔ اور محبت کے معاملے میں شمع و پروانہ کی قدیم ترین علامت استعمال کی جاتی ہے۔ پروانے کی زبان حال سے شمع کو کہلوایا گیا ہے کہ عشق کی پرانی تاثیر نہ تو شمع کی حکایت سوز میں باقی رہی ہے‘ نہ پروانے کی حدیث گدا ز میںحالانکہ اس اعتراض کے وقت پروانہ بہرحال اپنے معمول اور فطرت کے مطابق اپنے جذبہ دل سے مجبور ہو کر شمع کے گرد طواف عشق کرتا جا رہا ہے مطلب یہ کہ محبوب کا جمال اپنی جگہ تاباں ہے اور عاشق کا دل ناصبور بھی تپاں مگر اب عشق کے اصلی سوز و گداز میں معلوم ہوتا ہے ہ کمی ہو گئی ہے۔ اور وہ پہلی سی بات نہ رہی ہے۔ شاید یہ ماحول کا اثر ہے۔ لہٰذا حقیقت منتظر آرزو کے باوجود جلوہ نما کیسے ہو جب عاشق و محوبوب یا خلق خدا کے اس رشتے ہی میں کمزوری آ گئی ہے جوجلوہ نمائی کی بنیاد تھا؟ اس طرح تغزل کی ایک خالص ترین علامت کے ذریعے شاعر نے عصر حاضر کی کیفیت بیان کر دی ہے ۔ حیات و کائنات کے تعمیری و تخلیقی جذبہ عشق کی یہ خامی ظاہر ہے کہ نہایت تشویش انگیز ہے۔ پانچواں شعر انسان کے جرم خانہ خراب اور خدا کے عفو بندہ نواز دونوں کا ذکر بیک وقت کرتا ہے۔ جرم خانہ خراب کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ یہ کسی معمولی جرم کی نشاندھی نہیں کرتی۔ اس کا اشارہ جرم عشق کی طرف ہے لیکن جرم کے لفظ سے دنیا میں انسان کی اخلاقی کوتاہیوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے ہم اس تہہ دار تصور سے دنیا میں انسان کی اخلاقی کوتاہیوں کی طرف بھی اشار ہ ہوتا ہے ہم اس تہہ دار تصور کی تشریح باسانی اس طرح کر سکتے ہیں کہ انسان نے خلافت ارضی کا بار امانت اٹھاکر گویا اپنے آپ کو تباہی میں ڈال دیا ۔ مگر اس نے یہ جسارت محبت کی شد ت میں کی۔ اور جس ذمہ داری کو انگیز کرنے پر زمین و آسمان اور پہاڑ تک آمادہ نہ ہوئے اسے اپنے سر جو لے لیا تو اپنے عشق کی طاقت اور محبوب ازل کی رحمت پر اعتماد کرکے۔لہٰذا اگر زمے داری کی ادائیگی میں اس سے کوتاہی ہوئی ہے تو نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی سے کوئی پناہ اگر مل سکتی ہے تو اسی رحیم و کریم ہستی کے دامن عفو و رحمت میں جس کے ساتھ اس نے روز ازل سے محبت و عبودیت کا پیمان وفا باندھا تھا۔ مختصر یہ کہ عشق کی حقیقت منتظر ہی زندگی میں سلامتی کا راستہ دکھا سکتی ہے۔ اگر خلوص دل کے ساتھ اس کی طرف ایک بار پھر رجوع کیا جائے۔ تو اس طرح اقبال کے تغزل کی کیمیائے فن غم عشق اور غم روزگار نیز جذبہ دین اور جلوہ حسن دونوں کو ملا کر ایک حسین ترین مرکب تخلیق کرتی ہے جو ذہن کی شادابی کے ساتھ ہی فن کی آبیاری بھی کرتا ہے۔ واقعہ ازل کی زیر نظر تلمیح میں معنی کی ایک اور تہہ گناہ اولیںاور توبہ آدمؑ کی قبولیت کی بھی ہے۔ حضرت آدمؑ نے ضعف بشری اور ارغوائے شیطانی سے فرمان الٰہی کی خلا ف ورزی کر کے اپنے حاصل شدہ خانہ جنت کو خراب کر لیا۔ لیکن اس کے بعد اس کے اعتراف و استغنا پر خدا کی رحمت مائل بہ کرم ہوئی اور اس نے آدمؑ کی توبہ قبول کر کے اسے دنیا میں حسن عمل کا موقع عنایت کیا اور س کے صلے میں جنت کی بازیابی کا وعدہ کیا۔ اس طرح محبوب ازل نے شکستہ دل عاشق کی دست گیری کی اور اسے اپنے دامن رحمت میں پناہ دی۔ یہ ایک نہایت حوصلہ افز اپیغام ہے جو خالق کی طرف سے مخلوق کو ملا ہے اور اس نے حق تعالیٰ کے عشق آفرین حسن میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حسن صرف حنس نہیں ہے مہرباں بھی ہے لہٰذا اس کے لیے شیفتگی میں بھی از حد اضافہ ہو جاتا ہے تغزل کے یہ عمیق مضمرات اور لطیف احساسات اقبال کے تغزل کا امتیازی نشان ہیں۔ بہرحال حسن ازل کی کرم گستری کے باوجود ہمارا شاعر دنیائے انسانیت میں کاروبار عشق کی سرد بازاری پر ملول ہے۔ وہ غزنوی و ایاز کی تاریخی تلمیحات کے ذریعے علامتی طور پر انسانی حسن و عشق دونوں کے اضمحلال پر پر درد تبصرہ کرتا ہے جس کا مقصد یہ جتانا ہے کہ جب دلوں کے جذبے سرد پڑ رہے ہوں اور کیا حسن کیا عشق سبھی اپنی آب و تاب کھو رہے ہیں‘ تو ایسے وقت میں حقیقت مطلوب کی جلوہ نمائی کیسے ہو گی۔ جب آئینہ دل ہی مکدر ہے تو جلوہ حسن کہاں منعکس ہو گا پھر اس انعکاس کے بغیر خانہ عشق کی تاریکی کیسے دور ہو گی؟ چھٹے شعرمیں اپنے اس احسا س کے اظہار کر کے ساتویں اور آخری شعر میں شاعر اپنے اس احساس کو زیادہ تیز تہہ دار اور تاب دار بنا دیتا ہے۔ ایک بار پھر مجاز سے حقیقت کی طرف رخ کر کے وہ اپنے آپ کو نوع انسانی کا نمائندہ تصور کر کے کہتا ہے کہ تلاش حق اور جستجوئے خیر میں جب وہ ہر طرف سے تھک کر حسن ازل کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوا تو زمین تک پکار اٹھی کہ جس کا دل صنم آشنا ہے اسے نما ز میں کیا ملے گا غور کیجیے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کبھی محبوب حقیقی کے حضور عاشق صادق کا سجدہ ایسا ہوتا تھا کہ اس سے روح زمین کانپ جاتی تھی‘ اور آج وہی زمین طعنہ دیتی ہے صنم آشنائی کا ایک ایسے عاشق الٰہی کو جس کی جبیں میں حقیقت منتظر کے لیے ہزاروں سجدے تڑپ رہے تھے۔ کیا محبوب حقیقی کے حضور سجدہ گزاری کے لیے بیتابی کا اقرا ر و اعلان محض ایک فریب تھا اعلیٰ ترین سطح پر حسن و عشق کی دنیا کا یہ برڑا ہی نازک سوال ہے کہاں تو جبین نیاز میں ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں اور کہاں ایک سجدے پر سجدہ گاہ کی طرف سے اسی جبین نیاز کو صنم آشنائی کا طعنہ؟ اقبال نے ضرب کلیم کی ایک چھوٹی سی اسی عنوان کی نظم میں نماز کی تعریف اس طرح کی ہے: یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات بال جبریل میں بھی ساقی نامہ میں انہوںنے کہا تھا: وہ سجدہ ہے لائق اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام اس پس منظر میں زمین کی طرف سے سجدہ گزار کو صنم آشنائی کے طعنے کا مطلب واضح ہے۔ یہاں ایک لطیف نکتے پر غور کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ عشق و محبت کی عام روایت اور رسوم تغزل کا استعمال محبوب کے مفہوم میں ہوتا ہے اور وہ مقصود محبت ہوتا ہے لیکن یہاں صنم آشنائی کو عشق حقیقی کی ضد قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جو صنم آشنا ہے اسے نمازعشق میں کچھ نہ ملے گا۔ کہہ سکتے ہیں کہ یاں ایک بار پھر مجاز و حقیقت کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے لیک قابل غور یہ ہے کہ اقبال نے صریحاً مجاز کو حقیقت کے ساتھ متصادم کر دیا ہے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر اسی تصادم سے وہ تعشق و تغزل کے لطیف ترین مفاہیم پیدا کرنا چاہتے ہیں اس کوشش میں انہوںنے تضاف بیان کا خطرہ بھی مول لے لیا ہے غزل شروع میں ہوئی تھی اس آرزوسے کہ حقیقت منتظر لباس مجاز میں نظر آئے تاکہ جبین نیاز سجدہ گزاری کی ساری تمنائیں پوری کرے لیکن ختم ہوئی ہے اس تصور پر کہ صنم آشنائی مقصد سجود کے حصول میں حائل و مزاحم ہے اس طاہری تضاد کا حل تھوڑے غور سے مل جائے گا غزل کے پہلے شعر میں حقیقت منتظر کو مخاطب کر کے اسی سے لباس مجاز میں رونما ہونے کی التجا کی گئی ہے۔ لہٰذا یہ امر شروع سے متعین ہو گیا تھا کہ جبین نیاز ے سارے سجدے صرف محبوب حقیقی کے لیے وقف ہیں۔ چنانچہ اب غزل کے خاتمہ پر آخری شعر میں بالکل منطقی طور پر مجازی محبوبوں یعنی اصنام دنیا کی آشنائی کو محبوب حقیقی کی عبادت و محبت میں حائل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس طرح اقبال نے مجازی و حقیقی تصورات کی روایات میں ایک خاموش انقلاب پیدا کر کے تغزل کی ایک منفررد راہ نکالی ہے۔ اور اپنی شاعری کے زور سے عشق کے خالص دینی تصور کو بھی فنی حسن کی بنیاد بنا دیا ہے ۔ جبکہ ان سے قبل کے شعراء زیادہ سے زیادہ مجا ز و حقیقت کے میل تال سے عشق کے ایک مبہم صوفیانہ تصور کو قدر جمال بنائے ہوئے تھے صوفیانہ تصور میں مجاز و حقیقت کی سرحدیںایک دوسری سے ایسی ملی ہوئی ہیں کہ اس کے سبب شاعری میں جو کچھ حسن پیدا ہوتا ہے وہ صرف ابہام کا ہے اور یہ بڑی آصان بات ہے کہ لیکن اقبال کا امتیاز و اجتہاد یہ ہے کہ انہوںنے عشق و محبت کے واضح اور قطعی دینی و شرعی تصور سے تغزل کی زیادہ گہری تہیں اور شاعری کی نئی جہتیں پیدا کی ہیں۔ زیر نظر غزل میں پہلے شعر سے آخری شعرتک چودہ مصرعوں کی معنوی و فنی ترتیب ایک ترکیب غمہ کی طرح استوار و ہموار ہے ‘ مصرع سے مصرع اس طرح ملا ہوا ہے کہ جیسے راگ سے را اور شعر سے شعر اس طرح نکلا ہے جیسے سر سے سر ‘ نکتے سے نکتہ پیدا ہوتا چلا گیا ہے اور تصوریروں پر تصویریں ابھرتی گئی ہیں استعارات‘ کنایات‘ اور علامات ہیں رنگ کی شوخیاں ہیں اور آہنگ کی طرب ناکیاں فن کی یہ ساری ادائیں ایک زبردست فکر کے پہلو بہ پہلو بلکہ اسی سے ماخوذ اور اسی پر مرکوز ہیں۔ ایک جمیل تصور نے ایک حسین تصویر بنائی ہے۔ ایک دل کش تخیل نے ایک دل نواز ترنم ابھارا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ غزل وہ سراد ازل ہے جو وکوت پردہ ساز سے نکل کر محرم گوش اور طرب آشنائے خروش ہو گیا ہے۔ بال جبریل بانگ درا کا تغزل فن غزل گوئی پر کامل عبور کے بعد ایک نئی غزل کی تمہید ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ثمر پیش رس بھی ہے۔ یہ اقبال کے کمال تغزل کا وہ دیباچہ ہے کہ جس میں مضامین کتاب کا خلاصہ بھی ہے اور نمونہ بھی لیکن کتاب اپنی تمام تر تفصیل وتشریح کے ساتھ نمودار ہوتی ہے ۔ بال جبریل میں اور اقبال کے فنی ارتقاء میں یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ان کا دوسرا مجموعہ ککلام بخلاف پہلے کے شروع ہی ہوتا ہے غالیات سے‘ اور ان کا تسلسل چھہتر غزلوں تک قائم رہتا ہے۔ اس ترتیب سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال نے خود اپنے کلام کے دوسرے مجموعے میں غزل کو پہلے سے زیادہ اہمیت دی ہے اور اس پر زیادہ توجہ صرف کی ہے یعنی جیسے جیسے ان کا شعری تجربہ بڑھتا گیا ان کے فن میں تغزل کی اہمیت بھی بڑھتی گئی‘ اور اس کا کمال بھی فزوں تر ہوتا گیا۔ بال جبریل کی غزل (۱) ہے: میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشبند میری فغاں سے رستخیر کعبہ و سومنات میں گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو اک راز تھا سینہ کائنات میں پانچ اشعار کی یہ غزل ایک نغمہ لا ہوتی ہے جو عالم ناسوت کی سطح سے ابھرا ہے ۔ اور زمین سے اٹھ کر آسمانوں میں بلکہ چرخ نیلی فام سے بھی پرے اپنی منزل کی طرف محو پرواز ہے یہ اگر حمد یہ تو حمد کی ہر روایت سے الگ اور اگر غزل ہے تو غزل کی رسم سے جدا۔ شاید یہ حمد بھی ہے اور غزل بھی۔ لیکن ایک انوکھی حمد ہے اور ایک نرالی غزل ہے‘ اس میں بے پناہ تغزل ہے بے اندازہ تعشق ہے مگر غزل گوئی اور عشق کی ہر حد سے آگے یہاں معلوم و معروف مجاز و حقیقت اور ان کی شاعری کا نشان نہیں ملتا۔ اس لیے کہ شاعر و عاشق کی نگاہ تیز لباس مجاز سے گزر کر حقیقت منتظر تک پہنچ گئی ہے۔ اور جبین نیاز میں تڑپتے ہوئے ہزاروں سجدے ادا ہونے لگے ہیں۔ اقبال کا تغزل بانگ درا میں جس نقطے پر ختم ہوا تھا ٹھیک وہیں سے وہ بال جبریل میں شروع ہو ا ہے۔ دونوں مجموعوں کی گزل سرائیوں کے درمیان عبور ایک تسلسل کے ستھ ہے اب کوئی صنم حتیٰ کہ بت کدہ صفات میں بھی راہ میں حائل نہیں‘ نوائے شوق براہ راست حریم ذات میں نغمہ ریز ہے۔ فن کا تخیل حور و فرشتہ سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ اور تجلیات الٰہی میں اپنی تخلیقی سرگر میوں سے گویا خلل انداز نظر آتا ہے۔ ایک آفاقی تصور نے دیر و حرم کے تعینات کی تحدید ختم کر دی ہے۔ اور اب حریم حرم اور راز نرم کے سوا کچھ نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ زمزمہ لاموجود کے اس سرود جلال میںخود شاعر ایک انسان کی ذات حائل ہو رہی ہے۔ وہ دنیا کی ایک مخلوق ہے اور مسائل حیات میں محصور ہے لہٰذا کبھی تو جب وہ اپنے فن اور جذبے کی بلندی پر ہوتا ہے اس کی تیز نگاہ ارو ادراک دل و جور کو چیر کر روح کائنات سرچشمہ ہستی تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن بعض وقت جب جذبہ فن اپنی بلندی پر نہیں ہوتے یہ نگاہ اپنے ہی توہمات میں جو عالم ناسوت کے پیدا کیے ہوئے ہیں الجھ کر رہ جاتی ہے بہرحال یہ الجھن اتنی اہم نہیں ہے جتنی یہ حقیقت کہ خالق نے ایک مخلوق کو پردہ از ل سے نکال کر روئے زمین پر اپنے نائب کی صورت میں نمایاں کردیا ہے۔ اور اس طرح ایک پوری کائنات کے اصل راز کو فاش کر دیا ہے۔ چنانچہ اب کہ انسانیت کا راز حیات برسر کائنات افشا ہو چکا ہے‘ کوئی راز راز نہ رہ سکے گا‘ راز حرم دریافت ہو چکا ہے‘ لہٰذا تغزل کے انداز محرمانہ ہیں۔ ایک نوائے عاشقانہ حرف راز کا اظہار کر دینا کی زبان کے استعارات و نغمات میں کر رہی ہے۔ بانگ درا کی ایک غزل کا بہت ہی معنی خیز شعر ہے: شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعاروںمیں ایک پہلوسے تو یہ ’’درکفے جام شریعت ‘ در کفے سندان عشق‘‘ کا توازن ہوا۔ لیکن یہاں ہمارے پیش نظر معاملے کا دوسرا پہلو فن کی صورت گری ہے اس اعتبار سے زیر نظر غزل کے طرز تکلم پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ پوری کی پوری استارے کی لطیف ترین شکل کنایے پر مبنیہے۔ ہر شعر کیس نہ کسی کنایے کے ذریعے ترسیل ہوتا ہے اقبا کا مطلب ان کنایوں سے جو بھی ہو دیکھنا یہ ہے کہ کنایہ در کنایہ کا ایک پورا سلسلہ پانچ شعروں تک جاری رہا ہے‘ تصوف فلسفہ اور الاہیات کی وہ ساری بحثیں جن کا تعلق خداوخودی کے معاملات سے ہے‘ ان اشعار میں اس کیمیائی طریقے پر آب مقطر کی طرح چمک رہی ہے کہ ہماری نگاہوں کے سمانے صرف تغزل اور شاعری کا آب زلال ہے جبکہ جن عناصر سے یہ زلال تیار ہوا ہے وہ کہیں تو تہوں میں پڑے رہ گئے ہیں یقینا یہ فن کی قرنبیق ہے جس نے سارے مواد فکر کو حل کر کے اتنا رقیق کر دیا ہے کہ وہ اپنی اصلی شکل ترک کر کے قطرہ قطرہ ایک ایک شعر ایک ایک مصرعے کی باریک و لطیف نلکی سے ٹپک رہا ہے جو اہر فکر کو جوہر فن میں ڈال رہا ہیل۔ ایسے پاکیزہ و درخشاں قطرات کی چکاں و آویزاں زنجیر ایک حسین ترین تصویر پیش کرتی ہے۔ اور ان قطرات کا پیہم تقاطر ایک جل ترنگ کا نغمہ جمیل پیدا کرتا ہے ۔ حالانکہ غزل کا سارا مضمون لہو ترنگ کا ہے۔ اس لیے کہ زندگی کے سنگین حقائق سے مرتب ہوا ہے لیکن مسائل حیات کے میدان جنگ میں بھی ہم ایک روح پرور نوائے چنگ سنتے ہیں یہ فن تغزل کا نقطہ کمال ہے اب یہ نوائے چنگ حدی ہو یا رجز بہرحال ایک نغمہ فن ہے اوراس کو سن کر قطب کی گہرائیوں میں ایک تلاطم برپا ہوتا ہے۔ شاعر کی اس نوا سے چمن شگفتہ بھی ہوتا ہے اور اس کا سوز نفس ہنر میں ضرب کلیمی کے انداز بھی پیدا کرتا ہے۔ خالص تغزل کا یہ فن عشق کی رنگینیاں بھی رکھتا ہے اور شعرا کا آہنگ بھی‘ دونوں ہی مکمل ترین شکل میں نوائے شوق حریم ذات بت کدہ صفات تجلیات فغاں راز دل وجود اور سینہ کائنات جیسے الفاظ و تراکیب اپنے سیاق و سباق میں مختلف احساسات کو استعاراتی و علامتی پیکر عطا کرتے ہیں۔ ان پیکروں میں فکر و بیان کی جو شوخیاں ہیں وہ نقوش کلام کو زیادہ سے زیادہ گہرا اور ریکھا بناتی ہیں۔ پھر مخصوص حروف کی ترتیب سے جو آوازیں پیدا ہوتی ہیں ان کی گونج اور گنگناہٹ ایک سماں پیدا کرتی ہے ان سب کے خیالات کا مربوط ارتقاء ایک کیفیت ہی نہیں ایک عالم ایک نظام تخلیق کرتا ہے ۔ خواہ انداز نظر مناجات کا ہو یا شکوہ کا۔ انداز تغزل نغمہ دائود اور غزل الغزلات کا ہے یہ انسان اور خدا کے درمیان سرود عشق کا وہ بسیط آہنگ ہے جس کے اندر کائنات کی ساری وسعتیں سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ تصویر کی ان گنت گہرائیوں کے ساتھ ترنم کی یہ وسعتیں فن تغزل کو اس کی انتہائی بلندیوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ بال جبریل ہی کی ایک غزل کا آخری شعر ہے: اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں یہی بات بال جبریل کی غزلوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ زبور عجم خاص غزلیات (فارسی) کا مجموعہ ہے اور با ل جبریل کی غزلیات (اُردو) کے ساتھ اس کی کافی مشابہت ہے۔ بالعموم تخلص کے تکلف سے دونوں ہی مجموعوں کی غزلیات خالی ہیں اور دونوں کی غزلیات کا انداز یہ ہے کہ شاعر نے حیات و کائنات کے جو کچھ تجربات حاصل کیے ہیں اور ان کے متعلق جو کچھ احساسات و جذبات اور افکار و خیالات ہیں‘ خواہ ا ن کا تعلق زمین وآسمان کے موضوعات سے ہو یا خودی و خدا کے مسائل سے ان سب کا بے ساختہ اظہار ایسی شوخی و تندی اور روانی و شیرینی کے ساتھ ہوا ہے کہ قاری کا تخیل ایک نئی اور لطیف تر فضامیں پرواز کرنے لگتاہے گویا سیل معانی کے تلاطم میں اشعار کی لہروں پر بہنے لگتا ہے‘ اپنے فرسودہ و سوختہ ماحول سے اوپر اٹھ کر ایک تازہ و شاداب عالم میں سیر کرنے لگتا ہے۔ ان مجموعوں کی ہر غزل مظاہر فطرت کی طرح سوئے خلوت گاہ دل و دامن کش انسان ہے۔ اس لیے کہ ایک راز دان فطرت کی فغان نیم شبی ہے جو اسرار و رموز پر پڑے ہوئے پردے اٹھا کر نگاہوں کو نور بصیرت سے روشن کرتی ہے۔ اور دلوں کو دنیا میں تہلکہ بپا کر کے انہیں جلوہ حقیقت کے نظارے کے لیے سراپا آرزوبنا دیتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ بال جبریل کی غزلیات اردو کی زبو ر عجم ہیں۔ ان غزلیات میں معانی کے وفور کے ساتھ اسالیب کا تنوع بھی ہے کبھی مناجات ہے کبھی شکوہ کہیںمعرفت کہیں سیاست کسی چیز کی تنقید‘ کسی چیز کی تحسین‘ سوز کے ساتھ ساز‘ نغمے کے ساتھ نالہ‘ فغاں کے ساتھ سرود‘ خودی بے خودی ‘جنوں و خرد ‘ ناز و نیاز بڑی بحر بھی ‘ چھوٹی بحر بھی ایک سے ایک قافیہ اور ردیف‘ رنگ بہ رنگ تشبیہ و استعارہ نوبہ نو تلمیح و کنایہ‘ ہر قسم کے رموز و علائم تازہ بہ تازہ الفاظ و تراکیب‘ فطرت و صنعت دونوں کے اشارات فقروں اور جملوں کے پیچ و خم مصرعوں کا تلاطم اور شعروں کا توازن مجاز حقیقت کے لباس میں اور حقیقت مجاز کے لباس میں پرکار سادگی اور واضھ پیچیدگی ایک کشاکش‘ ایک کشش‘ الغرض حیات سے لب ریز ایک کائنات اور کثرت میں ایک وحدت ۔ بال جبریل کی غزلوں کا انتخاب ویساہی مشکل ہے جیسا زبور عجم کی غزلوں کا تقریباً ہر غزل میںکچھ ایسا کرشمہ ہے کہ دامن د اس کی طرف کھنچتا ہے اور نظر اس پر ٹھہرتی ہے بہرحال مشتے نمونہ کے طور پر چند غزلوں اور چند اشعار کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ غزلیات 1 گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر (مطلع) 2 اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد (مطلع) 3 پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے (مطلع) 4 دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی دل ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی 5 متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی (مطلع) 6 اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں (مطلع) 7 یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز (مطلع) 8 وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں (مطلع) 9 تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر (مطلع) 10 پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن (مطلع) 11 کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری (مطلع) 12 یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی (مطلع) 13 خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں (مطلع) 14 نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاںہے تیرے لیے‘ تونہیں جہاں کے لیے (مطلع) 15 خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ (مطلع) 16 افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر (مطلع) 17 ہر شے مسافر ہر چیز راہی کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی (مطلع) 18 ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہدی کبریائی (مطلع) 19 اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ (مطلع) 20 خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیاہے کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے (مطلع) 21 ستاروںسے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (مطلع) 22 حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کامرے آئینہ ادراک میں ہے (مطلع) 23 کریںگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیںسوئے کوفہ و بغداد (مطلع) 24 مری نوا سے ہوئے زندہ عارف و عامی دیا ہے میں نے انہیں ذوق آتش آشامی (مطلع) 25 فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ فقر ہے میروں کا میر‘ فقر ہے شاہوں کا شاہ (مطلع) ٭٭٭ اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا ٭٭٭ گدائے مے کدہ کی شان بے نیازی دیکھ پہنچ کے چشمہ حیواں پہ توڑتا ہے سبو ٭٭٭ اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی‘ کبھی پیچ و تاب رازی ٭٭٭ اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے دونوں کے صنم خاکی‘ دونوں کے صنم فانی ٭٭٭ ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند ٭٭٭ لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا ٭٭٭ کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے کب تک رہے محکومی انجم میں میری خاک یا میں نہیں یا گردش افلاک نہیں ہے ٭٭٭ دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ وستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب ٭٭٭ خودی کی شوخی و تندی کبر و ناز نہیں جو ناز ہو بھی تو لذت بے نیاز نہیں ٭٭٭ اک اضطراب مسلسل غیاب ہو کہ حضور میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں ٭٭٭ عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف ٭٭٭ رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بے باکی ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بیباک ٭٭٭ ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا تو ہی آمادہ ظہور نہیں ٭٭٭ فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے ٭٭٭ جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پہ اسرار شہنشاہی ٭٭٭ مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا ٭٭٭ خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا صیاد کی زد میں مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراتی ٭٭٭ فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیر مقام رنگ و بو کر ٭٭٭ وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری ٭٭٭ عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیں مقیم ٭٭٭ عشق تیری انتہا‘ عشق میری انتہا تو بھی ابھی ناتمام‘ میں بھی ابھی ناتمام ٭٭٭ فریب خوردہ منزل ہے کارواں ورنہ زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل ٭٭٭ مے شبانہ کی مستی تو ہو چکی لیکن کھٹک رہا ہے دلوں میں کرشمہ ساقی ٭٭٭ عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہکشاں یہ ستارے‘ یہ نیلگوں افلاک ٭٭٭ زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک ٭٭٭ مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے ٭٭٭ اس خاک کو اللہ نے بخشے ہیں وہ آنسو کرتی ہے چمک جن کی ستاروں کو غرقناک ٭٭٭ اس کو خودی ہے ابھی شام و سحر میں اسیر گردش دوراں کا ہے جس کی زبان پر گلہ ٭٭٭ میں نے پایا ہے اسے اشک سحر گاہی میں جس درناب سے خالی ہے صدف کی آغوش ٭٭٭ پوری پوری غزلوں کے علاوہ یہ چند اشعار جو دوسری غزلوں سے لیے گئے ہیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ اقبال کے تغزل میں نہ صرف یہ کہ جدید رومانی تخیلات بڑی زیبائی اور رعنائی بیان کے ساتھ ادا ہوئے ہیں بلکہ قدیم کلاسیکی تصورات بھی کثیر تعداد میں بروئے اظہار آئے ہیں۔ گرچہ شاعر کے خاص احساسات کے سبب ان میں ایک تازگی پیدا ہو گئی ہے۔ دونوں قسم کے تخیلات و تصورات ایک مخصوص شاعرانہ جذبے کی گرمی سے پگل کر منفرد قسم کے جمالیاتی نقوش و نغمات میں ڈھل گئے ہیں۔ منتخب اشعار میں متعدد ایسے ہیں جن میں عام طور سے نگاہ انتخاب نہیں پڑتی‘ بعض منتخب غزلیں بھی ایسی ہیں جن لوگوں کی نظر نہیں جاتی‘ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ بیشتر ناقدین ایک ایک غزل اور ایک ایک شعر کا پورا مطالعہ کرنے کی بجائے شاید صرف مطلعوں پر غور کر لیتے ہیں اور جو مطلع انہیںپسند آ جاتا ہے اس کی پوری غزل کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ پھر بالعموم اشعار کے انتخاب میں اقبال کے رنگ تغزل کے بجائے یا اس سے زیادہ عمدہ طرز غزل گوئی کا تجسس کیا جاتا ہے نتیجہ یہ ہے کہ بسا اوقات اقبال کے مخصوص تغزلکے بہتیرے عناصر کی نشان دہی نہیں ہو پاتی۔ اقبال کے مخصوص و منفرد و تغزل کی تشریح کے لیے چند غزلوں کے تجزیے سے قبل چند اشعار کا مطالعہ کرنا مفید ہو گا۔ ایک بالکل گمنام شعر ہے: اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی بہ ظاہر یہ ایک مختصر معمولی اور سادہ سا شعر ہے‘ لیکن اس کے معانی نیز طرز ادا پر جتنا زیادہ غور کیا جائے گا یہ اقبال کے تغزل کے کمالات کے ساتھ ساتھ پوری غزل گوئی کی بہترین روایات پر انتا ہی محیط نظر آئے گا۔ پورے شعر میں صرف ایک ترکیب پیکر خاکی استعمال کی گئی ہے۔ اور اسی کی بنیاد پر دونوں مصرعوں کے الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے جو بالکل معمولی اور سادہ نظر آتے ہیں مگر لفظ شے کا استعمال جس تکرارو انداز سے ہوا ہے وہ پیکر خاکی کو اس کی تمام خاکساریوں کے باوجود خلاصہ کائنات بنا دیتا ہے چھوٹی سی تصویر سے اتنا بڑا تصور اور سامن کی بات سے اتنا دور کہ نکتہ صرف دو لفظوں پہلے مصرعے کے آخر میں تیری اور دوسرے کے آخر میں نگہبانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ پورے شعر میںسب سے اہم او رمعنی خیز لفظ ’’اک شے‘‘‘ ہے جس کا استعمال ایسے عنوان سے ایسے لہجے میں ہوا ہے کہ ایک شے کے اندر ایک جہاں سمویا ہوا محسوس ہوتاہے شعر کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اور خود شاعر ہے تو بس ایک پیکر خاکی لیکن اس کے اندر ایک ایسی چیز ہے جو خدائے کائنات کی امانت ہے اور اب گردش لیل و نہار کے نشیب و فراز اور عالم آب و گل کی مشکلات کے پیش نظر شاعر یا انسان کے لیے اس عظیم شے کی نگہبانی مشکل ہو گئی ہے لہٰذا یہ شے جس کی امانت ہے اب وہی اس کی حفاظت کا سامان بھی پیدا کر ے۔ آخر مٹی کا ایک بدن امانت الٰہی جیسی گراں مایہ چیز کا بوجھ کب تک اٹھا سکتا ہے ؟ لیکن اگر وہ یہ بات امانت ‘ اب تک ‘ اتنے برسوں اتنی صدیوں سے اٹھا رہا ہے تو بجائے خود یہ بارکشی اس حقیر خاکی وجود کی عظمت کی دلیل ہے یہ وجود اپنی اصلیت میں کتنا ہی حقیر ہو ‘ کتنی عظیم تر‘ عظیم ترین بلکہ واحد وجود کا آئینہ دار مظہر ترجمان اور پاس دار ہے چنانچہ اپنی تمام خلقی خامیوں کے باوجود انسان کی ہستی کائنات کی سب سے بڑی ہستی خالق ہستی کے بعد ہے اور تمنا و توقع ہے کہ خالق کائنات انسان جیسے جوہر حیات ضائع نہ کرے گا۔ نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑے گا۔ بلکہ اس کی عاجزی و زاری پر اس سے بار امانت واپس لینے کی بجائے اپنی توفیق و عنایت فضل و کرم اور رحمت و برکت سے اسے اس قابل بنا دے گا کہ اس دنیا کے وجود کی آخری ساعت تک یہ بار امانت اتھائے رہے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرتا رہے۔ اس شعر میں ظاہر ہے کہ خودی و خدا کے جدید رومانی تصور کے ساتھ عاشق و محبوب کا قدیم کلاسیکی تخیل بھی ہم آمیز ہے اور اس حد تک کہ ذرا بھی فرق و امتیاز دونوں کے درمیان ممکن نہیں ایسے دقیق مرکب تصور کے اظہار کے لیے پیکر خاکی کی فرسودہ سی ترکیب کو اس تازگی کے ساتھ استعمال کیا گیا کہ وہ علامت و استعارہ کی شرح پر معنی اور پر اثر بن گئی ہے اور اسی کے ذیل میں اک شے جیسے پیش پا افتادہ کا لفظ کا ایسا مصرف لیا گیا ہے کہ وہ وورا الورا کی طرح لطیف ہو گیا ہے ی ہصرف طرز ادا اور انداز نظر کا کرشمہ ہے غزل گو شعرا محبت کی بات کرتے نہیںتھکتے‘ لیکن اقبال کے انداز نظر نے محبت کو امانت الٰہی اور خلافت ارفہی کا حامل بنا دیا ہے ۔ اور یہ ان کا خاص تصور عشق اپنے مجاہدانہ مضمرات کے ساتھ ہے‘ پیکر خاکی ارو اک شے کے الفاظ بالکل پامال قسم کے ہیں مگر اقبال کے طرز ادا نے انہیں اتنا بارونق اور تروتازہ بنا دیا ہے کہ ان کے اندر بالکل نئے فلسفیانہ و شاعرانہ معانی پیدا ہوگئے ہیں غور کییے تو انداز نظر اور طرز ادا کی یہ کار فرمائی مبنی ہے۔ اندیشہ و بیان کی اس شوخی پر کہ پیکر خاکی میں جو شے ہے وہ خالق پیکر کی ہے اور اب پیکر خاکی خالق پیکر کی امانت کا بار اٹحانے سے فریاد کر رہا ہے شکوہ کر رہا ہے اور مناجات کے انداز میں کر رہا ہے۔ بات دنیا اور زمانے کی مشکلات کی کر رہا ہے مگر پہنچتی ہے پرواز کے دین اور ازل تک یہ ہے تغزل اقبال کا سوز و نشاط اور اس کی وسعت و رفعت و عمق۔ ایک غیر معروف شعر یہ بھی ہے: کوئی بتائے مجھے کہ یہ غیاب ہے کہ حضور سب آشنا ہیں یہاں ایک میں ہوں بیگانہ غیاب و حضور اور آشیانہ و بیگانہ کے تضاد و تقابل سے ایک عجیب و عمیق مفہوم پیداہو گیا ہے۔ شاعر بھری انجمن دنیامیں اپن آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ یہ غیاب ہے کہ حضور موجودگی کہ عدم موجودگی؟ یہ غیبوبت اور حاضری کوئی معمولی موجودگی و عدم موجودگی نہیں ہے ۔ اس کا اشارہ عربی الفاظ غیاب و حضور سے ہی ہوجاتا ہے ۔ جن کے کچھ اصطلاحی مفاہیم ہیں یہاں دنیا کی محفل میں سب ایک دوسرے سے واقف ہیں‘ اپنی اپنی پہچان اور شناسائی ایک دوسرے کے ساتھ رکھتے ہیں لیکن شاعر محسوس کرتا ہے کہ اس کی شناخت سب سے الگ اور دوسروں کے لیے نامعلوم ہے کوئی اس کو جانتا پہچانتا نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح دنیا والوں سے جدا رہنا کیا شاعر کا تعلق کسی اور عالم سے قائم کرتا ہے۔ کیا وہ اس دنیا سے باہر اور بالا کسی اور ایسی محفل کا رکن ہے جہاں اس کی شناخت معلوم و معروف ہے؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟ کوئی دے بھی سکتا ہے؟ یہ بڑا مشکل استفہام ہے اور ااسی استفہامیہ انداز میں شاعری اور تغزل کا سارا حسن و اثر مضمر ہے۔ اس سوال کا جواب واضح ہے اگر دوسرے مصرعے کے مطلب پر غور کیا جائے جب شاعر دنیا میں سب کا رفیق ہو تے ہوئے بھی سب سے جدا ہے اعزا و احباب کی بھری محفل میں بیگانگی کا احساس کرتا ہے تو یقینا اس کا رشتہ و پیوند کسی اور عالم سے ہے کسی ایسی انجمن سے ہے جو دنیا کی محفلوں سے مختلف ہے اور اس انجمن میں شاعر دل و جان سے حاضر ہے ۔ اپنے تفکر و تصورات کی بنیاد پر شاعر محبوب حقیقی کی بارگاہ میں بار پا چکا ہے اور اس بارگاہ حق میں اس پر حقائق حیات کا ایسا واضح انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کی کوئی وقعت اور اس کے معاملات کی کوئی اہمیت اور اس کے تعلقات کی کوئی معنویت اس کی نگاہ میں باقی نہ رہی ہے چنانچہ دنیا میں رہتے ہوئے وہ بھی عالم بالا کے تصور سے سرشار ہے۔ شاید اب دنیا کا سماج مردان خدا کے لائق نہ رہا ہے‘ اہل دنیا کے افکار و اخلاق اتنے پست اور ذلیل ہیں کہ ان کے ساتھ بیگانگی کا اقرار باعث شرم ہے لہٰذا دنیا والوں کو محسوسکرنا چاہیے کہ وہ زوال کی کس حد تک آ چکے ہیں۔ اور کوشش کرنی چاہیے کہ اس حد سے پلٹ کر عروج کی طرف مائل ہوں۔ اجنبیت کا احساس و اظہار بجائے خود بہت زیادہ غیر معمولی نہیںہر ذہین و عظیم فرد کوئی عبقری کوئی نابغہ‘ اپنے ااپ کو سماج میں اجنبی پاتا ہے۔ یعنی بعض وقت معاشرت کا زوال بھی افراد ک ایک حلقے میں اجنبیت اور تنہائی کا احساس پیدا کرتا ہے لیکن اجنبیت کے منفی تصور کے ساتھ ساتھ شناسائی کے مثبت تصور کا توازن ایک نہایت غیر معمولی امر ہے شاعر اگر تنہا ہے تو ا س لیے نہیں کہ محروم و مظلوم‘ یا منحرف و مفرور ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اس کے دل و دماغ میں ایک اور ہی عالم بسا ہوا ہے ا س کا ذہن وجود کے ایک بہتر دائرے میں آباد ہے یہی وج ہے ک معمولی اجنبیتوں کی طرح شاعر نہ تو نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ہے ۔ نہ اخلاقی آوارگیوں میں مبتلا ‘ نہ شکست خوردہ مایوس‘ نہ برہم و تخریب کار چونکہ اس دنیا کی بیگانگی اس دنیا کی آشنائی کے سبب ہے جہاں نگاہیں ہیں جلوہ حقیقت سے شاد کام ہو چکی ہیں۔ لہٰذا شاعر کا نفس مطمئن اس کاذہن پر سکون اور پر یقین اس کا کردار صالح اور تعمیری ہے‘ اس کے عزائم بلند ہیں اس کی امیدیں فتحمندانہ ہیں۔ استفہام‘ بیگانگی اور آشنائی غیاب اور حضور سب تغزل کی متاع عام ہیں مگر اقبال کا ایک انداز خاص ان کومتاع خاص میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس طرح روایت تغزل میں ایک بیش قیمت اضافہ خموشی اور پختگی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ یہی اقبال کی فن کاری کا ممتاز اور منفرد اسلوب ہے۔ جو نہایت حسین ہونے کے ساتھ ہی نہایت موثر بھی ہے۔ یہ شعر بھی محتاج توجہ ہے : نہ بادہ ہے نہ صراحہ نہ دور پیمانہ فقط نگاہ سے رنگین ہے بزم جانانہ سب الفاظ غزل کے جانے مانے الفاظ ہیں ارو ان کے تصورات بھی معروف و مسلم لیکن شاعر نے ان کو استعمال جس استعاراتی انداز میں کیا ہے اس نے پرانے لفظوں کو نئی علامتوں کی شکل دے دی ہے۔ یہ دنیا ایک بزم جانانہ ہے اور اس کی ساری رنگینی نگاہ یار کے جلوہ محبوب سے ہے یہ جلوہ ہی اتنا مدہوش کن ہے کہ بادہ و صراحی اور دور پیمانہ کی ضرورت کا کوئی احساس اہل بزم کو نہیں‘ وہ سب مست مے ظہور ہیں۔ اس دنیا کا سارا کاروبار محبوب ازل کی نگاہ کرم کا مرہون منت ے اگر عرفان حقیقت ہو تو انسان کی سرشاری ک لیے نگاہ یار کا تصور ہی کافی ہے۔ خالق اسباب اپنی جلوہ فرمائی کے لیے اسباب و علل کا محتاج نہیں کن فیکون کی طرح ایک نگاہ ہی پوری کائنات میں جو اس کی انجمن ناز ہے ایک برق تجلی دوڑا رہی ہے انفس و آفاق کی ساری آیات حسن حق کے جمال جہاں آرا کی شاہدت دے رہی ہیں پورے شعر میں نگاہ کا لفظ سب سے اہم اور معنی خیز ہے ۔ یہ اقبال کا ایک خاص لفظ ہے جس کا استعمال انہوںنے استعارے کے طور پر کثرت کے ساتھ مخصوص مطالب کے لیے اپنے اشعار میں کیا ہے مثلاً: فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے ٭٭٭ نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم شرمہ سا کیا ہے اس شعر کی بھی اشارت و ادا پر غور کرنے کی ضرورت ہے: عجب مزا ہے مجھے لذت خودی دے کر وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں بظاہر تو یہ خودنگری و خود گریکا شعر ہے لیکن س میں ایک لطیف اشارہ خود گیری اور خود شکنی کی طرف بھی ہے‘ اپنے آپ میں نہ رہنا اردو محاورے میں خود پسندی و خود نمائی کا مفہوم بھی رکھتا ہے جو اقبال کے تصور خود ی کے خلاف ہے۔ معرفت نفس یا خود شناسی کا مطلب خود داری کے ساتھ خاک ساری بھی ہے۔ فرد کی وقعت کے ساتھ معاشرے کی اہمیت اور سب سے بڑھ کر خالق کائنات کی عظمت کا احساس اس تصور خودی میںمضمر ہے۔ لذت خودی ایک بہت ہی تیز نشہ ہے۔ اس کا سودا جس کے سر میں سما جائے وہ جامے سے باہر آ جا سکتا ہے۔ جبکہ عرفان نفس آدمی کے اندر وقار پیدا کرتا ہے۔ خالق کے لیے جذبہ عبودیت کے ساتھ ساتھ احترام آدمی کا احساس ابھارتا ہے اس طرح ایک لفظ خودی کے متنوع مفاہیم کی طرف لطیف اشارہ کر کے بڑے نازک خیالات کا اظہار کیا گیاہے ۔ یہ شعر بھی خودی کی بڑی خوب صورت اور خیال انگیز تعبیر و ترجمانی کرتا ہے: غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ حرکت وعمل اور سعی و ترقی کی شاعرانہ پیش کش تغزل کے اس شعر میں لائق مطالعہ ہے:ـ نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ گوشہ فراغت قفس اور آشیانہ محاورے کی حد تک عام تصویریں ہیں جن کا استعمال کثرت سے اردو شاعری میں خاص کر غزل میں ہوتا ہے۔ اقبال نے ان تصویروں کا بہت ہی موثر مصرف اپنے ایک خاص تصور کے ابلاغ کے لیے کیا ہے۔ وہ دنیا کو ایک کھی فضا قرار دے کر اس بات سے قطعی انکار کرتے ہیں کہ اس فضا میں کوئی گوشہ فراغت ہو سکتا ہے جس کی تلاش عام طور پر لوگوں خاص کر فن کاروں کو رہتی ہے۔ یہاں تک کہ قفس تو قفس‘ آشیانہ بھی گوشہ فراغت نہیں ہے۔ حالانکہ لوگ اسے امن و اطمینان اورسکون و قرار کی جگہ سمجھتے ہیں اور اسی کے حصول کے لیے بڑی محنت سے اس کی تعمیر کرتے ہیں‘ لیکن اقبال کا خیال ہے کہ ایک کھلی فضا میں جہاں ہر طرف اورہر لمحہ حرکت وت غیر کا عمل جاری ہے فراغت اور گوشہ فراغت کی کوئی گنجائش نہں۔ لہٰذا دنیا فرصت اور آرام کی جگ نہیں ہے سعی و جہد کا مقام ہے۔ یہ ایک راہ گزر ہے جس کی مسافتوں میںنشیب و فراز طے کرنا ہے ۔ کوئی منزل عیش نہیں‘ زندگی ایک فر ہے عیش جاوداں اس سفر کے بعد ایک دوسری دنیا میں ہے۔ ا س رواں شعر کی فصیح بلاغت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے : تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے دونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانی صنم اردو شاعری میں ایک محشر خیال ہے اور یہاں اقبال نے پورے صنم خانے بسا دیے ہیں میرے تیرے سب کے دلوں میں میر نے کہا تھا: سب اسی زلف کے اسیر ہوئے۔ خواہ وہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔ اس ہمہ گیر محبت کے دام میں سب اسیر ہیں۔ ہر دل میں ایک ہی صنم نہیں پورا صنم خانہ ہے لیکن مصرعہ اول میں اردو غزل کا اتنا زبردست صنم خانہ آباد کر لینے کے بعد‘ دوسرے مصرعے میں ہمارا شاعر پورے اور سارے صنم خانے کو توڑ دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ صرف ایک لفظ‘ خاکی کا تیر استعمال کرتا ہے اور خود ہی اس تیر آزمائی کا نتیجہ بھی بتا دیتاہے کہ مٹی کے گھروندے ٹوٹ کر فانی ثابت ہوتے ہیں یوں تو بقول کارخلیلاں خار گدازی ہے جب کہ آزر کا پیشہ خارا تراشی ہے۔ اور جب قوم آزر کا شعار اختیار کرتی ہے تو شاعرایک شان خلیل کے ساتھ سامنے آتا ہ۔ دنیا بت گر ہو تو بت پرست ہو تو ہو شاعر بت شکن ہے۔ لیکن یہاں اقبال اپنی کسی مجاہدانہ سرگرمی کا ذکر نہیں کرتا صرف یہ حقیقت بڑے شاعرانہ و متغزلانہ انداز میں ظاہر کرتے ہیں کہ گرچہ ہر انسان کا ذہن ایک بتخانہ تصورات ہے مگر یہ بت خانہ خاکی ہے ا س لیے کہ آدم خاکی کے ذہن کی پیداوار ہے جو عالم خاک و باد کی حدود میں کام کرتا ہے لہٰذا ایسے ناپایدار صنم خانے کو فنا ہونا ہیہ ہے اللہ بس باقی ہو جس کل من علیہا فان حالانکہ یہ ایک صوفیانہ و فلسفیانہ یا دینی تصور ہے اور اس سے ایک عبرت انگیز اخلاقی سبق ملتا ہے لیکن اس کا اظہار بڑے شاعرانہ استعارے میں اور نہات متغزلانہ انداز سے ہوا ہے جس سے خاکی و فانی وجود کے اندر بھی بڑی رومانوی دلچسپیاں اور دل فریبیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اخلاقیات کی فضا میں بھی جمالیات کی ہوا چلنے لگتی ہے خاکی وفانی کا سبق حاصل کر کے بھی ذہن صنم خانے کے حسن کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس طرح جمالیات کی دل فریبی میںاخلاقیات کی روح پروری زیادہ گہری تہ دار آب دار اور پائیدار محسوس ہوتی ہے۔ یہ بلاشبہ تغزل اقبال کا بانک پن اور اس کی فن کاری کا اجتہاد و امتیاز ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ تغزل میں اقبال کارومانی تجربہ عظیم ترین کلاسیکی معیار کی استواری و رعنائی رکھتا ہے: اب صرف نمونے کی چند غزلوں کا مطالعہ کیجیے: گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر عشق بی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذراسی آب جو یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو میںہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر نغمہ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر حسن و عشق کے عمیق ترین احساسات اور بلند ترین تخیلات سے یہ پوری غزل لب ریز ہے ایک والہانہ جذبہ شروع سے آخر تک تمام اشعار پر طاری ہے لیکن پوری اردو شاعری میں یہ انداز تغزل کسی شاعر کا نہیںکہ اپنی ذات کو نہ صرف خالق کائنات کے ساتھ وابستہکرے بلکہ کار جہاں میں اپنی مصروفیت و مہارت کو اتنی وسعت دینے کی تمنا کرے کہ پوری کائنات پر محیط ہوجائے۔ یقینا یہ عشق کی آفاقیت ہے جو حسن کی آفاقیت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے مطلوب ہے لیکن ایسا شوخ بے باک کارواں اور کارفرما عشق اور کہاں ملتا ہے ۔اس عشق کے لیے شاعر کا خلوص اس آہنگ نغمہ کی روانی و فراوانی سے نمایاں ہے جو ایک سرمستی کی طرح بھی وجد میں رقص کناںہیں غزل شروع ہوتی ہے اس آرزو سے کہ محبوب ازل کی زلف گرہ گیر اتنی زیادہ تابدار ہو جائے کہ عاشق اسیر سے برھ کر مدہوش ہو جائے۔ اور سو ا محبوب کی ادائوں اور اشاروں کے کسی اور بات کا احساس اسے نہ رہ جائے محبت کی اس یکسوئی اور فرض کے لیے اس خلوص کی بنیاد پر دوسرے شعر میں محبوب سے التجا ہے کہ یا تو اس کا جلوہ حسن عام اور نمایاں ہو یا عاشق کا جذبہ و عمل تاکہ محبوب کی حقیقت واضح ہو جائے او ر عاشق کی حسرت پوری۔ اس طرح یقین و اطمینان کی کیفیت سے سار ا عالم سرشار ہو جائے اورمنصوبہ تخلیق ارتقاء کے نقطہ کمال تک پہنچ جائے۔ لیکن حسن بے کراں اور عشق محدود لہٰذا یا تو حسن اپنے کرم کے حساب سے عشق کو اپنی بے کرانی کے ساتھ ہم کنار کر دے یا اسے بھی اپنی ہی طرح بے کنار ایک پوری غزل اسی ایک خیال کی نقش گری پر مشتمل ہے: کیا عشق ایک زندگی مستعار کا کیا عشق پایدار سے ناپایدار کا وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا میری بساط ہی کیا ہے ؟ تب و تاب یک نفس شعلہ سے بے محل ہے الجھنا شرار کا کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا پھر ذوق و شوق دیکھ دل بیقرار کا کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو یہ غزل نمبر ۵ ہے جبکہ اوپر کی زیر تجزیہ غزل نمبر ۳ ہے فن کا ایک سوال یہاں سے اٹھنا چاہیے کہ نمبر ۵ غزل ہے؟ اسے نظم کیوں نہ کہا جائے خاص کر اس کے آخری شعر کھے پش نظر جس کا قافیہ باقی چار اشعار سے مختلف ہے جبکہ مضمون تو مسلسل و مربوط از اول تاآخرہے یہی سوال غزل نمبر ۱۶ کے بعد ان تین قطعات کے بارے میں اٹھ سکتا ہے جنہٰں ملا کر گویا ایک غزل کر دیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد گویا غزلیات بال جبریل کا حصہ دوم اس سہ غزلہ کو غزل نمبر ۱ کی حیثیت سے اس حصے میں شامل کر کے شروع ہوتا ہے۔ یہ صورت حال تقریباً ویسی ہی ہے جیسی زبور عجم میں پائی جاتی ہے کہ غزلیات کے درمیان محض چند تخلیقات نظم کی ہئیت میں بھی ہیں۔ پہلے حصے میں ۵۶ غزلیات کے درمیان د و نظمیں ہیں اور دوسرے حصے میں ۷۵ غزلیات کے در میان تین نظمیں ہیں) میرا خیال ہے کہ اقال نے چونک بال جبریل اور زبور عجم دونو میں اپنی منفرد غزلیات اس مجتہدانہ انداز مین پی سکی ہیں کہ مقطع و تخلص کا تکلف اٹھا دیاہے۔ لہٰذا غزلیات کے درمیان جو بلا عنوان چند تخلیقات نظم کی ہئیت میں رکھ دی گی ہیں۔ اور اس سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ زبور عجم ور بال جبریل دونوں کی غزلیات پر مصنف یا مرتب کسی نے بھی آ ج تک غزل کا عنوان نہ لگایا ہے چنانچہ جس طرح غزلیں بے عنوانہیں اسی طرح نظمیں بھی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان تخلیقات کو رسماً غزل نہ سمجھا جائے جس کا ایک معروف روایتی سانچہ صدیوں سے فارسی اور اردو میں چلا آ رہا ہے بلکہ انہیں غزل الغزلات یا نغمہ دائود کی آفاقی شاعری کے سرمدینغمات تصور کیا جائے اس لیے ہ ان کے مضامین اور طرز ادا ایسے ہی کچھ ہیں۔ بہرحال زیر نظر غزل کا چوتھا شعر بھی ایک آرزو‘ ایک التجا پر مشتمل ہے وہ یہ کہ شاعر اگر صدف ہے تو اس کے قطرہ فن کوگہراب دار ہونے کا موقع ملے گا اور اگر وہ خزف ہے تو اس میں اتنی آب وتاب پیدا ہو جائے کہ وہ گوہر شاہوار کی طرح قیمتی بن جائے یعنی ایک انسان کے اندر ودیعت کیے ہوئے تمام قوی پورے طور سے بروئے عمل آ جائیں اور انسانیت کے سارے امکانات کمالات بن جائیں آرزو ئے کمال کے باوجود پانچویں شعر میں ایک حسین سی حسرت ہے شاعر تمنا کرتاہے کہ جس نئی بہار انسانیت کے لیے وہ نغمہ سرائی کر رہا ہے اگر اسے دیکھنا اس کے نصیب میں نہ ہو تو کم از کم جو بہار آنے والی ہے وہ ضرور آئے ارو جب آئے تو اس بہار کا مژدہ جان فزا دینے والا طائر خوش الحان کو سمجھا جائے اور بہار کا دیدار کرنے والے مستقبل کے انسان جو بھی سمجھیں بہرحال اس بہار کا ظہور اور اس کاپیام شاعر کی ہی غزل سرائی سے وابستہ ہے یا ہو‘ چھٹے شعر میں شاعر اپنے خالق محبوب کو بتاتا ہے کہ وہ روئے زمین پر اس کی خشی ہوئی خلافت نے فرائض محبتر کی انجام دہی میں اتنا مشغول و منہمک ہے کہ اب گویا محبوب کو بھی ملاقات کے لیے اپنے فرمانروا عاشق کا دیدار اس وقت تک کرنا پڑے گا جب تک دنیا میں کار عشق تمام نہ ہو جائے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ انسان کی کمزوریاں کہیں اس کا ر عشق میں اس کو نامراد نہ کردیں وہ فرائض محبت کی ادائیگی میں ناکام نہ ہو جائے اوربار خلافت کماحقہ تحمل نہ کر سکنے کے باعث روز حساب وہ داور محشر کے سامنے بارگاہ محبوب میں شرمسار نہ ہو‘ گرچہ عاشق کی اس خجالت پر محبوب کو بھی سوچنا پڑ گا کہ کہیں عشق کی نامرادی جذب محبت کی کمی کے سبب نہ ہو۔ لہٰذا ساتویں اور آخری شعر کے اس مفہوم کے بعد بات پھر وہی پہلے شعر کے سامنے آ جاتی ہے: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر اس لیے کہ التفات کامل کے بغیر جذب کامل نہیں ہو سکتا۔ اور جذب کامل کے بغیر کار عشق مکمل نہیںہو سکتا ۔ ممکن ہے مضمون کے لحاظ سے یہ غزل ایک فلسفہ ہو یا ایک مسئلہ تصوف ہو لیکن اسلوب سخن کے اعتبار سے یہ ایک نغمہ کامل ہے جس میں غالب سے بھی بڑھ کر حافظ کا رنگ و ٓہنگ ہے۔ گرچہ تخیل کی گہرائی اور تفکر کی بلندی میں غالب و حافظ کوئی بھی اس تغزل کے قریب نہیں پھٹکتا۔ دیوان شمس تبریز میں رومی کے تغزل میں بھی ایسی ہی سرمستی ہے مگر تخیل کا وہ نظم و ضبط اور ادراک کا وہ رسوخ رومی کی غزلوں میں نہیں جو اقبال کی غزل میں ہے بہرحال زیر نظر غزل میں ’’گیسوئے تابدار‘‘ ’’محیط بے کراں‘‘ ، ’’گوہر شاہوار‘‘ ، ’’نغمہ نوبہار‘‘،’’دم نیم سوز‘‘، ’’طائر ک بہار‘‘ ، ’’کار جہاں‘‘، ’’اور ’’دفتر عمل‘‘ کی ترکیبوں اور ان کے علاوہ ہو ش و خرد قلب و نظر حجاب آب جو بے کنار صدف گہر خذف نیز عشق و حسن کی تصویروں کو اس ترتیب کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے کہ ارتقائے خیال کا ایک ولولہ انگیز فکر انگیز اور سحر آفریں نقشہ نگاہ و دل کے اندر آراستہ ہو جاتا ہے۔ غزل نمبر 6(حصہ اول) ہے: پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے نہ کر دیں مجھ کو مجبور نوا فردوس میںحوریں مرا سوز دروں پھر گرمی محفل نہ بن جائے کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو کھٹک سی ہے جو سینے میں غم منزل نہ بن جائے بنایا عشق نے دریائے ناپیداں کراں مجھ کو یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری وہی افسانہ و نبالہ محمل نہ بن جائے عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے غزل شرو ہوتی ہے ایک نادر خیال سے کہ موت کے بعدبھی خاک آدم بکھر کر دوسری زندری میںایک بار پھر د ل بے قرار نہ بن جائے اورنتیجتہً جو مشکل اب اس دنیا میں ہے وہی پھر دوسری دنیا میں سامنے نہ آ جائے۔ چنانچہ عالم آخرت میں بھی دنیاے ولی ہی کا کاروبار شوق نہ شروع ہوجائے۔ آج زمانے کے احوال شاعر کو غزل سرائی پر مجبور کرتے ہیں تو کل فردوس کی حوریں اسے نغمہ سنجی پر مجبور نہ کر دیں اور جو سو ز دروں یہاں گرمی محفل بنا ہوا ہے وہاں بھی گرمی محفل نہ بن جائے۔ دو اشعار میں عالم بالا اور اس کی متوقع کیفیات کاایک تصور قائم کرنے کے بعد تیسرے شعر میں شاعر ایک مبہم سی بات کہتا ہے کہ دل میںجو خلش سی برابر رہتی ہے وہ ایک بار پھر منزل بن کر نہ ستانے لگے۔ اس لیے کہ چھوڑی ہوئی منزل کی یاد راہی کے دل سے محو نہیں ہوتی یہ چھوڑی ہوئی منزل کون ہے اس دنیا کے نقطہ نظر سے یہ باغ بہشت ہے جو تخلیق کے فوراً بعد مسکن آدم بنا تھا مگر آخرت کے زاویہ نگاہ سے یہ دنیا ہو سکتی ہے جس میں ایک عمر گزار کر انسان یہاں سے رحلت کرتا ہے ۔ بعد کا شعر اس ابہام سے پردہ اٹھا کر واضح کرتاہے کہ باغ بہشت یعنی فردوس گم گشتہ کی یاد تو غم منزل پر جادہ حیات کے راہی کو میدان عمل میں دوڑ ا رہی ہے تاکہ وہ پھیلے ہوئے کار جہاں کو جلد سے جلد سمیٹ کر اپنی منزل اولیں کی طرف پرواز کر جائے مگر اس جدوجہد کی محرک خود بڑی نازک اور خطرناک چیزہے۔ اس کی بے اعتدالی انسا ن کے دل میں موج زن عشق کے دریائے ناپید ا کنار کو ایک ساحل تک محدودکر سکتی ہے۔ تب کائنات کی بیکراں وسعتوں میں پرواز مشکل ہو جائے گی اور دریائے حیات کے اس پار تیر جانا بھی آسان نہ ہو گا لہٰذا انسا ن کو اپنی ذات میں گم ہو کر نہ رہ جانا چاہیے۔ بلکہ اپنے آپ کو پہچان کر اپنے رب اور اس کی وسیع کانات کو جاننا اور اس کی آفاقی سطح پر عمل پیرا ہونا چاہے تاکہ دنیا سے آخرت تک حیات کی ساری منزلیں وہ بآسانی سر کر سکے اور دونوںراہوں میں بہ شوق گامزن رہ سکے۔ لیکن اس کے بعد کا شعر اس اندیشے کو بیان کر کے او ردونوں کی راہوں میں بہ شوق گامزن رہ سکے۔ لیکن اس کے بعد کا شعر اس اندیشے کو بیان کر کے ایک بار پھر ابہا م کا پردہ ڈال دیتا ہے ۔ کہ کہین عالم بے رنگ و بو بھی انسان کا ذوق طلب اسے عشق کی ایک نئی جستجو کی طرف مائل نہ کر دے او رقیس و محمل کا افسانہ ایک نئے انداز سے دوسری دنیا میں بھی شروع نہ ہو جائے۔ ا س طرح چھوڑی ہوئی منزل کا راز راز ہی رہتا ہے غور کیجیے تو اس کا راز رہنا ہی بہتر ہے ۔ اس رمزیت سے ایک تو راز کا اپنا حسن ابھرتا ہے اور ذوق تجسس کو ابھارتا ہے ۔ دوسرے گہری ایمایت برڑی معنی آفریں کار آفریں ثابت ہوتی ہے۔ منزل کوئی ہو جب تک اس کا نشان باقی ہے اس کا تصور بھی قائم رہے گا اور تصور ایک تصویر بنائے گا وار جو اپنی طرف دامن دلکو کھینچے گی اور یہ کشش اقدام و عمل پر آمادہ کرے گی‘ چنانچہ ساتواں اور آخری شعر پھر ہمیں دنیا کے دارالعمل میں پہنچا دیتا ہے۔ جہاں ہم منزلیں اولیں کے آسماں سے ٹوٹے ہوئے کوکب انسان کو حصول منزل کے لیے کوشاں پاتے ہیں اور محسو س کرتے ہیں کہ اس کی کوششیں مرحلہ بہ مرحلہ کامیاب ہو کر منزل کے قریب پہنچتی جا رہی ہیں یہ دیکھ کر آسمان کے وہ ستارے جو ازل سے فلک نشین رہے ہیں سہمے جاتے ہیں کہ فلک کائنات کا کوکب درخشاں جو اپنی ایک لغزش سے ٹو ٹ کر کبھی زمین کی پستی میں گر چکا تھا دوبارہ عروج پر کر ستارہ کیا مہ کامل نہ بن جائے۔ ارتقا ء اور اس کے محرک درد دل اور آرزوے منزل کا مضمون عالم رنگ و بو اورعالم بے رنگ و بو کے جس تانے بانے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اس سے ایک بسیط نغمہ حیات کے تارو پود تیار ہوتے ہیں یہ گویا Pointاور Counter Pointکی موسیقی ہے جو بیان و بدیع کی صنعت تضاد و صنعت اشتقاق وغیرہ سے بہت آگے کی چیز ہے اور ایسی نادر فن کاری کا تصور بھی اقبال کائف و نشر معنی و بیان کا ایک بے مثال شیوہ ہے جس کی جدت وجوت بے نظیر ہے مجبور نوا ’’سو ز دروں‘‘،’’گرمی محفل‘‘،’’غم منزل‘‘،’’ناپید کراں‘‘،’’عالم بے رنگ و بو‘‘اور ’’مہ کامل‘‘ کے علاوہ افسانہ دبنالہ محمل اور عروج آدم خاکی جیسی پر معنی اور پر اثر ترکیبیں توالی اضافات کے باوجود سبک و شیریں اور ترنم آفریں ہیں اور محض تین تین لفظوں میں تاریخ انسانی رسم عشق اور روایت فن کے واقعات و تجربات کا عطر پیش کرتی ہیں۔ ایسی ہی ترکیبوں سے جو کلام اقبال میں بکثرت پائی جاتی ہیں وہ تلمیحات وعلامات مرتب ہوتی ہیں جو زندگی کو شعر اور شعر کو زندگی بناتی ہیں۔ دل سوز دروں ’’فردوس‘‘،’’حوریں‘‘،’’غم منزل‘‘اور ’’عشق و طلب‘‘ کے الفاظ پوری غزل میں حسین تصورات و احساسات کی ایک سنہری لکیر اور زنجیر بناتے ہیں کہ ان کے زر افشان تسلسل سے ایک شیرازہ جمال بندھ جاتاہے اور اسی سے سات شعروں اور چودہ مصرعوں کا شیرازہ خیال اور شیرازہ بیان مرتب ہوتا ہے۔ حصہ اول کی غزل نمبر 4کو پڑھ کر بیک وقت کہکشاں اور شہاب ثاقت کے تصورات ابھرتے ہیں: اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں کارواں تھک کرفضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں کہہ گئیں راز محبت پردہ داری ہائے شوق تھی فغاں وہ بھی جسے ضبط فغاں سمجھا تھا میں تھی کسی درماندہ رو کی صدائے دردناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں ایک سے پانچ اشعار تک انسانی ارتقاء کے نقطہ کمال کا والہانہ عاشقانہ و شاعرانہ بیان ہے‘ شروع میں انسان نے اپنا میدان عمل صرف زمین کو سمجھ رکھا تھا اور تصور کرتا تھا کہ دنیائے آب و گل ہی اس کا جہاں ہے لیکن قدرت کے اسرار و رموزکی بے حجابی سے نگاہوں کا طلسم ٹوٹ گیا اور معلوم ہوا کہ آسمان درحقیقت وہ ردائے نیلگوں نہیںہے جو زمین کے اوپر تنی ہوئی ہے بلکہ اس سے بہت آگے رفعتو ں کا وہ آسماں وہ مقام،ہے جسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتاہے اور جہاںپہنچ کر خاتم المرسلینؐ نے آفاق کی تمام آیات الٰہی کا راست مشاہدہ کیا اور کائنات کے سارے حقائق بے حجاب ہو گئے معراج النبیؐ کے اس عظیم الشان سفر ارتقاء میں مہر و ماہ مشتری جیسے سارے ستارے پیچھے رہ گئے نمائندہ انسانیت کے بڑھتے ہوئے قدموں کے سامنے زمین و آسمان کی ساری وسعتیں سمٹ گئیں۔ اور عشق الٰہی کی ایک جست نے پوری کائنات کو قدموںمیںڈال دیا۔ محبت حقیقی کی پردہ داریاں بھی کاشف اسرار ثابت ہوئیں چنانچہ ضبط فغاں بھی فغاں ہی کی طرح غماز عشق بن گئی لیکن چھٹے اور آخری شعر میں ایسا لگتا ہے کہ ارتقاء کا وہ طلسم یکایک ٹوٹ گیا جو مسلسل پانچ شعروں میں ابھرتا رہا تھا۔ اس لیے کہ جس چیز کو شاعر نے کاروان ارتقاء کے کوچ کی آواز تصور کیا تھا وہ فی الواقع کارواں سے بچھڑے ہوئے ایک درماندہ رہرو کی دردناک صدا تھی‘ مطلب یہ کہ ارتقا کا نقطہ عروج تو چودہ صدیوں قبل انسان کاملؐ نے حاصل کر لیا اور واضح کر دیا تھا مگر کاروان انسانیت عروج آدم خاکی کے اس صراط مستقیم پر گامزن نہ رہا جو کبھی روشن پامال ہوا تھا ۔ لہٰذا مادی ترقی کے تمام انکشافات و ایجادات کے باوجود منزل ارتقاء صرف ایک نشان رہ بن کر رہ گئی ہے اس لیے کہ روحانی زوال نے عصر حاضر میں زندگی کے اس توازن کو برہم کر دیا جو مادی و روحانی عناصر کی باہمی ترکیب اور ہم آہنگی سے کبھی قائم ہو اتھا۔ ’’جولاں گاہ زیر آسمان‘‘ک،’’اب و گل کے کھیل‘‘،’’بے حجابی‘‘،’نگاہوں کا طلسم‘‘،’’ ردائے نیلگوں‘‘ ، ’’کارواں‘‘، ’’فضا کے پیچ و خم‘‘،’’مہر و ماہ و مشتری‘‘، ’’ہم عناں‘۔ ’’عشق کی اک جست‘‘، ’’راز محبت‘‘،’’پدہ دار ہائے شوق‘‘،’’اور صبط فغاں کی تاباںو درخشاں تصویر وں نے دس مصرعوں میں کہکشاں کا ایک سلسلہ نجوم مرتب کر دیا تھا کہ گیارہویں اور بارہویں مصرعوںنے گویا ایک لمحے کے لیے اس روشن لکیر کو اس طرح بجھا دیا تھا کہ جس طرح شہاب ثاقب چمک کر بجھ جاتا ہے اب یہ دوسری بات ہے کہ اس برقی صدمے کے بعد پڑھنے والے کے چودہ طبق روشن ہو جائیں اور وہ شدت سے محسوس کرنے لگے کہ اس نے کیا پا لیا تھا اور کیا کھو دیا تھا اور اسے کیا پانا تھا اور ابھی بھ وہ ایک بار پھر کیا کچھ یا سکتا ہے۔ اور اس بازیائی منزل کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے‘ تصویروں کے ساتھ مصرعوں کا ترنم اتنا تیز ہے جیسے ایک روشن راستے پر کوئی قافلہ نغمہ سارباں کی لہروں پروادی حیات میں دوڑ رہا ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ غزل کے اشعار ساز حیات کے زیر وبم پر رقص کناں ہیں ۔ غزل نمبر 40 بھی ایک نغمہ ارتقا ہے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاںاور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان ومکاں اور بھی ہیں گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں یہ غزل عصر حاضڑ کے ارتقا اور تصور ارتقاء پر ایک تنقیدہ تبصرہ اور ارتقاء کے بلند تر مدارج کی طرف زبردست اشارہ ہے۔ خلائی سفر اور چاند تاروں میںنئی دنیائوں کی تلاش آج کی سائنس کا محبوب مشغلہ ہے۔ جسے گویا ترقی کی معراج سمجھا جا رہا یہ مگر تقریباً پون صدی پیشتر جب خلائی سفر کی راہوں اور وسائل کا صرف تجسس کیا جا رہا تھا تو اقبال کی نگاہ بصیرت نے نہ صرف اس کی آنے والی عملی شکلوں کو دیکھ لیا بلکہ ان کی خامی و کوتاہیکو سمجھ کر مستقبل کی انسانیت کو ارتقا کی اگلی اورآخری منزلوں کا پیام دیا وہ یہ کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں جو انسان کے جذبہ عشق کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ فضائیں اور خلائیں سب کی سب زندگی سے بھری ہوئی ہیں اور حیات کے سینکڑوں کارواں ان فضائوںمیں سرگرم سفر ہیں۔ لہٰذا آدمی کو صرف عالم رنگ و بو پر قناعت نہ کرنی چاہیے بہار زندگی کے جاں فزا چمن اور بھی ہیں جن کے سرسبز وشاداب درکتوں کی شاخوں میں آشیانے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ انسان کی حیثیت کائنات میں شاہیں کی ہے جو برابر اونچی سے اونچی پروازیں کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس کے سامنے بلند سے بلند تر پرواز کے لیے ایک سے ایک اور سے ور آسماں موجود ہیں چنانچہ اسے اسی دنیا کے شب و روز میں الجھ کر نہ رہ جانا چاہیے۔ اس کے زمان و مکاں دنیائے دنی کے وقت و مقام کے علاوہ بھی ہیں یہ سارے اسرار حقیقت جن کا انکشاف شاعر نے کیا ہے اس صرف اس کے سینے کے راز نہیں ہیں‘ بلکہ اس نے انہیں اس طرح افشا کر دیا ہے کہ دوسرے متعدد رازداں بھی پیدا ہو گئے ہیں اور ایک پوری انجمن بن گئی ہے۔ جس سے توقع کی اجتی ہے کہ وہ شارعر کے پیام کی اشاعت اور تعمیل کر کے کاروان انسانیت کو ارتقا کی راہوں پر آگے اور بلند تر منزلوں کی طرف بڑھائے گی۔ یہ سرود زندگی ہے اور نغمہ راز بھی۔ اس میں صرف دو ترکیبیں اسعتمال کی گئی ہیں۔ عالم رنگ و بو او رمقامات آہ و فغاں جن میں آخری بہت ہی تازہ و شاداب او ر معنی خیز و فکر انگیز ہے ۔ اس ایک ترکیب نے اپنے سیاق و سباق میں منازل حیات کے تمام سفروں کی ایک حسین و جمیل اور عاشقانہ و شاعرانہ تعبیر کر دی ہے ۔ وہ یہ کہ انسن کتنا ہی ترقی کر جائے اور کائنات کی بے کراں وسعتوں میں عروج کے جس نقطے پر بھی پہنچ جائے اسے قرار و اطمینان نصیب نہ ہو گا۔ اس لیے کہ اس کی ساری مساعی اپنے محبوب حقیقی کے فراق میں اور اس کے ساتھ وصال کے لیے ہیں اور جب تک کہ یہ وصال میسر نہیں آ جاتا‘ اس کی کوشش و کامیابی کا ہر مقام آہ و فغاں ہو گا جو وہ محبوب کی جدائی میں مسلسل بلند کر رہا ہے اور سعی ارتقاء میں اس کی حرکت گویا ایک نالہ فراق اور تمنائے وصال ہے یہ غزل فارسی تراکیب کی بجائے مفرد الفاظ ہی کی ترکیب سے ایک وجد اور نغمہ تخلیق کرتی ہے۔ اس سے اردو الفاظ کے سرود آفریں آہنگ کا اندازہ ہوتا ہے لیکن یہ سرود صر ف الفاظ کی ترتیب کا نہیں ہے اس میں جو روح نغمہ ہے وہ معانی کی ترکیب سے ابھرتی ہے۔ یہ لفظ و معنی کا بہترین آہنگ ہے جو زبان شعر پیدا کر سکتی ہے۔ تغزل اقبال کی معنی آفریں دل نواز اور ولولہ انگیز نغمگی و رنگینی سے لب ریز حسب ذل غزلیںبھی ہیں: نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے (مطلع) ٭٭٭ پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن (مطلع) ٭٭٭ خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ (مطلع) ٭٭٭ افلاک سے آتا ہے نالوںکا جواب آخر کرتے ہیںخطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر (مطلع) ٭٭٭ یہ بالعموم سات اشعار کی متوسط بحروں میں ہیں چھوٹی بحر کی مختصر غزلیں اقبال نے کم کہی ہیں۔ اس طرح خیالات کے مانند ان کے نغمات کا بھی ایک خاص حجم ہے جس کی خصوصیت توازن ہے ‘ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال نے ایک ہی لہجے میں‘ ایک آہنگ سے اپنے احساسات و ادراکات کا اظہار یکسوئی ویکسانی کے ساتھ کیا ہے اور گویا غزلیات بال جبریل ‘زبو ر عجم کی طرح‘ ایک ہی نغمے کے سر اور تال از اول تا آخر ہیں یہ ذہن کی استواری اور فن کی ہمواری کے ساتھ جذبہ شعری کے تسلسل کی دلیل ہے۔ اقبال کی فکر کا ایک چشمہ خیال کی طرح بہتی ہے اور ان کا فن ایک شاہراہ کی طرح چلتا ہے۔ یہ ایک عظیم ارتکاز کا حسن ہے جس کی نمود کے لیے وہب و کسب اور ریاض و الہام کے ساتھ روایت و تجربہ ایک دوسرے میںمل کر شیر و شکر ہو گئے ہیں یہ قند مکرر جمال مرکب اور مجموعہ خوبی ہے شعر اور زندگی کا عطرمجموعہ ہے۔ ٭٭٭ ضرب کلیم ضرب کلیم نظموں کامجموعہ ہے۔ لیکن اس کی پانچ غزلوںمیں سے ایک یہ ہے: دل مردہ دل نہیں ہے‘ اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کاچارہ ترا بحر پرسکوں ہے یہ سکوں ہے یا فسوں ہے نہ نہنگ ہے نہ طوفان نہ خرابی کنارہ تو ضمیر آسماں سے بھی آشنا نہیں ہے نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزہ ستارہ ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمہ سحر نے مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا جسے آ گئی میسر مری شوخی نظارہ ٭٭٭ اگر پانچ اشعار کی ایسی غزلیں ضرب کلیم میں بال جبریل کی غزلوں کی تعداد کانصف بھی ہوتیں تو ہم اول الذکر مجموعہ کلام کو تغزل میں ثانی الذکر سے کسی طرح نہیںسمجھتے محولہ بالا غزل کا ایک ایک مصرعہ اقبال کے فکر وفن کا آب مقطر شعریت کا عطر اور جان سخن ہے۔ پہلے شعر میں دل مردہ کو دوبارہ زندہ کرنے کا پیام بالکل سادہ الفاظ میں مگر پرزور ترنم کے ساتھ دیاگیا ہے۔ لیکن دوسرا شعرایک رنگین آفاقی تصویر پیش کرتا ہے جو حیات کی تمثیل بن جاتی ہے اور علامتی طورپر اس میں پیام شاعر کے سارے اشارات آ جاتے ہیں۔ دریائے حیا ت عصر حاضر جہاں تک مشرق اور ملت اسلامیہ کا تعلق ہے۔ اتنا بے جان اور پر سکون نظر آتاہے گویا اس کی لہروں پر کوئی فسوں پھونک کر انہیں ساکت کر دیا گیا ہے اور جب زندگی کے سمندرمیں موج ہی نہیں تو وہ خطرات کہاں جن سے تحریک عمل ہوتی ہو چنانچہ ا س خاموش سطح آب کے دھاروں میں نہ تو کوئی نہنگ ابھرتا ہے‘ نہ طوفان اٹھتا ہے۔ نہ لہریں کناروں کوکاٹتی ہیں یہ جمود بڑی بے بصری اوربے خبری کا نتیجہ ہے۔ ایک مردہ دل بے عمل ملت کو فکر ہی نہیں علم ہی نہیںکہ قدرت الٰہی زندگی کو کس برق رفتاری سے ایک منزل سے دوسری طرف لے جا رہی ہے۔ اور مشیت کی نگاہیں ستاروں کی چشمکوں سے کیا اشارہ کر رہی ہیں۔ اس صورت حال میں شاعر اپنے پامال حوادث میں بچے ہوئے ایک شرارے کو نغمہ سحر بنا کر نیستان مشرق وملت میںڈال دیتا ہے۔ تاکہ وہ شعلہ بن کر پورے ماحول کو روشن و رمتحرک کر دے لیکن حال کی تعمیر و ترقی کے لیے درکار ماضی کی آگاہی اور مستقبل کی بصیرت کوئی آسان چیز نہیں یہ متاع دین و دانش صرف ان آزاد و جریاہل نظر کو میسر آئے گی جنہیں اقبال کا پھیلا ہوا نور بصیرت حاصل ہو گیا ہو۔ حال ہرلمحہ ماضی ومستقبل بن رہا ہے لہٰذا دونوں پر گرفت ضروری ہے۔ اس غزل میں ’خرابی کناارہ‘‘ ’’ضمیر آسمان‘‘ ’’غمزہ ستارہ‘‘،اور ’’خاک پے سپر‘‘ تازہ بہ تازہ ترکیبیں ہیں ان ک علاوہ نغمہ سحر جہان دوش و فردا اور شوخی نظارہ کی شاداب ترکیب ہیں۔ ان تراکیب کے علاوہ بحر فسوں ’’نہنگ‘‘ ’’طوفان‘‘ ’’نیستاں‘‘ اور ’’شرارہ ‘‘ کے نقوش و علائم ہیں۔ صرف دس مصرعوں میں اتنے سارے نگینے ۔ جہاں کثرت سے فارسی تراکیب کا استعمال تخیل کے زیادہ سے زیادہ ارتکاز پر دلالت کرتا ہے وہیں مفرد الفاظ کا اسعتمال بہت زیادہ سوچے سمجھے انتخاب کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ارتکاز و انتخاب گویا ضرب کلیم کے تغزل کا معیار ہے۔ اس سے نغمہ آفرینی کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ مگر معنی آفرینی میں اضافہ ہوتاہے‘ اس غزل کو بال جبریل کی بہترین غزلوںمیں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اپنی خصوصیت بھی تراکیب و الفاظ کے انتخاب و استعمال سے نمایاں ہے۔ اس کو پڑھ کر دلوں میں ویساہی سرور‘ ولولہ اور حوصلہ پیداہوتا ہے جیسا با ل جبریل کی کسی اچھی سے اچھی غزل کو پڑھ کر اس کا مطلب یہ کہ اقبال کا آہنگ تغزل اب بھی جاری ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ خود تغز ل کی طرف کسی وجہ سے زیادہ مائل نہیں: شاعر کے جذبہ دل اور دست ہنر کا ثبوت دوسری غزل سے بھی ملتاہے: ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ میسرآتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں چراغ فروغ مغر بیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے تری نظر کا نگہباں ہو صاحب ازاغ وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کورذوق اتنا صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ ٭٭٭ ان غزلوں کی ردیف اور قافیہ بھی پچھلی غزلوں کی طرح نازک ہیں۔ اور ان کے استعمال سے ارتکاز و اختصار میں مدد ملتی ہے ایک ایک لفظ اپنی جگہ چنا ہوا ہے گرچہ بعض تصویر جیسے اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ نامانوس ہے ۔ مگر اس کی اجنیبت ہی اس کی معنویت پر تاکیدی نشا ن لگانے والی ہے ۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو اس تصویر سے ہول آئے لیکن خاص سیاق و سباق میں مخصوص ترسیل خیال کے لیے یہ ایک موزوں وموثر علامت ہے منزل کا سراغ اہل مشرق کو اس لیے نہیںمل رہا ہے کہ نہ صرف اہل مغرب کی پھیلائی ہوئی تاریکی بلکہ اس تاریکی میں پوشیدہ درندوں کا خوف بھی ان پر مسلط ہے ۔ لہٰذا چیتے کی آنکھ روشنی کے ساتھ ساتھ جرا ت و قوت کی علامت ہے جو تارکی اور خوفناک سے خوفناک جنگل میں اپنا راستہ آپ نکالتی ہے اور بناتی ہے۔ دوسرا شعر بالکل سادہ ے صرف اس کا تخیل نادر ہے۔ وہ یہ کہ بندہ حر کے لیے انتظام دنیا سے فراغت نہیں جبکہ غلاموں کو اقدام و عمل کے لائق نہ ہونے کے سبب فرصت نصیب ہے تیسرے شعر میں بھی مشرق و مغرب اور غلامی وا ٓزادی کے تضا د و تصادم سے ایک نغمہ خیال پیداکیا گیا ہے مگر اس میں ایک معنی آفریں تلمیح تصور کے دریچے کو اپنی تیزروشنی سے رنگین کر رہی ہے یہ تلمیح قرآن حکیم کی سورہ نجم کی آیت ماز اغ البصر وما طغیٰ سے ماخوذ ہے جس میں واقعہ معراج کا ولولہ خیز ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب رسول اللہؐ نے کھلی آنکھوں سے انوار الٰہی کی تجلی جمال کامشاہد ہ کیا اوراس طر ح ہمیشہ کے لیے انسانیت کے سامنے ترقی و ارتقاء اور فروغ و عروج کا آخری سنگ میل نصب کر دیا‘ لہٰذا جو لوگ اس رسولؐ کو ماننے والے ہیں ان کی نگاہوں کو مغرب کے محدود ناقص مادی فروغ سے خیرہ نہ ہونا چاہیے۔ وہ اپنے رسول ؐ کے نقش قدم رپ چلیں تو اس چرخ نیلی فام سے پرے جا سکتے ہیں جو یورپی سائنس اور صنعت کے برق و بخارات کی حد ہے چنانچہ اہل مشرق کو معلوم ہونا چاہیے کہ اہل مغرب کے مادی عیش کی جو بزم عیش عصر حاضر میںسجی ہوئی ہے وہ بالکل عارضی اور کھوکھلی ہے۔ اور بہت جلد فنا ہو جانے والی ہے ایک جلوہ پا بہ رکاب ہے اس لیے کہ اس کی ظاہری چمک دمک کی کوئی ٹھوس بنیادنہیں وہ آبگینے کی طرح کمزور ہے۔ مغربی تہذیب اپنے خنجر سے اپ ہی خود کشی کرے گی‘ اس کا آشیانہ ایک شاخ نازک پر تعمیر ہوا ہے ۔ جو بہت جلد ٹوٹ جانے والی ہے۔ چوتھے شعرمیں اس طرح جدید تمدن و تہذیب کی کردار نگاری کے بعد شاعر افسوس ظاہر کرتاہے کہ مروجہ نصاب تعلیم کی کتابوں نے لوگوں کو اتنا کو ر ذوق بنا دیا ہے کہ آفاق میں پھیلے ہوئے تمام آثار و مظاہر کا روز مشاہدہ کرنے کے باوجو دانہیں حقیقت کا سراغ نہیںملتا۔ جس طرح چوتھے شعر میں مثال ستارہ کی ترکیب سے ایک سامنے کے خیال کو مزین کیا گیا تھا اسی طرح پانچویں اور آخری شعر میں بوئے گل کی ترکیب کو حقیقت و صداقت کی علامت بنا دیا گیا غزل منزل مقصود کا سراغ لگانے سے شروع ہوئی تھی اور بوئے گل کا سراغ پر ختم ہوتی ہے ۔پہلے شعر میں چیتے کی آنکھ جیس ثقیل تصویر کا استعمال کیا گیا تھا جبکہ آخری شعر میں صبا جیسی لطیف چیز کو ذریعہ ادراک بنایا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں کتاب تک کے نقش کو رزوقی کا سرچشمہ قرار دیا یگا ہے۔ لیکن اس متضاد کے پیچھے ایک آہنگ ہے جو پہلے اور آخری دونوں شعروں اور ان میںمستعمل پیکروں میں یکساں ہے۔ یہ فطرت کا آہنگ ہے چیتے کی آنکھ بھی ایک مظہر فطرت ہے‘ جس طرح اندھیری شب میں اور صبا بھی مظہر فطرتہے جس طرح بوئے گل ہے اس طرح پوری غزل میںمشرق و مغرب کے تقابل کے متوازی صنعت و فطرت اور مصنوعی و حقیقی موازنہ بھی جاری و ساری ہے۔معلوم و معروف خیالات کی پیش کش کے لیے ایک غیرمعمولی فن کاری ہے۔ باقی تین غزلوں کے چند منتخب اشعار یہ ہیں؛ تیری متاع حیات علم و ہنر کا سرور میری متاع حیات‘ ایک دل ناصبور معجزہ اہل فکر‘ فلسفہ پیچ پیچ معجزہ اہل ذکر موسیٰؑ و فرعوں و طور ٭٭٭ نہ میں اعجمی ‘ نہ ہندی نہ عراقی نہ حجازی کہ خودی سے میںنے سیکھی روجہاںسے بے نیازی تو مری نظر میں کافر میں تری نظرمیں کافر ترا دیں نفس شماری مرا دیں نفس گدازی ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا کہ سکھا سکھے خرد کو رہ و رسم کارسازی ٭٭٭ دریا میں موتی ! اے موج بیباک! ساحل کی سوغات ؟ خارو خس و خاک! میرے شرر میں تجلی کے جوہر! لیکن نیستاں تیرا ہے نمناک! ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک! ٭٭٭ ان اشعار کی نمایاں خصوصیت دقیقہ سنجی ہے ۔ ان میں چند چنے ہوئے معنی خیز الفاظ کو حسین و درخشاںپیکروں کی شکل میںہیرے کی طرح سیاق و سباق میں جڑ دیا گیاہے چنانچہ ایک ایک لفظ نے پورے پورے مصرعے اور شعر کومنور کر دیا ہے ۔ ’’دل ناصبور‘‘ ، ’’موسیٰ و فرعون و طور‘‘،’’نفس گدازی‘‘،’’دشت و در‘‘،’’رہ و رسم کارسازی‘‘،’’موج بیباک‘‘،’’شرر‘‘،’’نیستاں‘‘،اور ’’تقدیر کے چاک‘‘ ایسے ہی الفاظ و فقرات ہیں۔ ٭٭٭ ’’ضرب کلیم‘ ‘ کی غزلوں کو ہم اقبال کے تغزل کا درد تہ جام کہہ سکتے ہیں۔ جس کو چکھ کر اس مئے تغزل کا احساس شدید ہو جاتا ہے جوشاعر نے بال جبریل میں بڑے والہانہ انداز سے بڑی فراوانی کے ساتھ چھلکائی ہے۔ اور جس کے رنگین بلبلے بانگ درا میں بھی چشمکیں کرتے نظر آتے ہیں۔ آخری مجموعے کی چند غزلیات پر یقینا اس فکر و تخیل کا دبائو شدید ترین ہے جس کی آہٹیں پہلے ہی مجموعے سے ملنے لگتی ہیں اور جس کی زور دار آواز دوسرے مجموعے میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔ لیکن آخری مجموعے تک اس فن کی استواری و ہمواری قائم رہتی ہے اور اس اسلو ب کی محکمی باقی رہتی ہے۔ جس کی قومیں پہلے ہی مجموے میں زیادہ رونما ہوئیں اور دوسرے لفظ میں نقطہ کمال کی حد تک رو بہ عمل آئیں۔ اس طرح اقبال کی غزل گوئی کا بھی ایک بسیط نظام فن اسی معیار کا ہے جو ان کی نظم نگاری نے قائم کیا ہے۔ یہ نظام اردو غزل میں اتنا ہی منفرد ہے جتنا اردو نظم میں ا س لیے کہ یہ اسی شاعری کا ایک حصہ ہے جس کا دوسرا حصہ نظم ہے۔ اقبال کافنی ارتقا تمام ان اصناف سخن میں مربوط ہے جن میں انہوںنے طبع آزمائی کی ہے۔ بہرحال اقبال کی غزلوں کے بارے میں تنقیدہ نقطہ نظر سے یہ خیال صحیح نہیں کہ وہ نظموں کی طرح مربوط ہیںمیرا خیال ہے کہ اقبال کی غزلوں میں جو ربط خیال نظر آتا ہے وہ درحقیقت ایک چشمہ خیال ہے تسلسل تو دونوں صورتوںمیں ہوتا ہے مگر آخر الذکر میں بندھا ٹکا نہیں ہوتا۔ کچھ سیال قسم کاہوتاہے۔ اور سطح پر بہت زیادہ توجہ ہونے کے بجائے زیریں دھارے کے طورپر چلتا ہے۔ یہ بات تغزل کی بہترین روایت کے مطابق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ شاعر ی میں اگر کسی صنف کی ہئیت کا چشمہ خیال کی روادار اور آئینہ دار ہو سکتی ہے تو وہ غزل ہی ہے اور اردو غزل نے اس آئینہ داری کا بہترین ثبوت دیا ہے۔ اقبال کی غزل اس ثبوت کا بہترین نمونہ ہے۔ چشمہ خیال کی کیفیت حافظ کے یہاں بھی ہے اور غالب کے یہاں بھی بلکہ فارسی و اردو کے دوسرے متعدد عظیم شعرا کے کلام میں بھی یہ وصف پایا جاتا ہے لیکن اندرونی تسلسل روانی خیال اور روانی بیان دونوں کے لحاظ صے جتنا محکم اور مکمل اقبال کی غزلوں میں ہے دوسرے کسی شاعر کی غزلیات میں نہیں ہے۔ چنانچہ غزل کے اشعار میں ربط کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے بھی اگر ایک حسن سمجھا جائے تو اس کا مفہوم یہی اندرونی اور سیال قسم کا ربط ہے جو اس معنے میں اقبال کا طرہ امتیاز ہے ۔ کہ ان کے کلام میں مستقل طور پر پایا جاتا ہے اور کسی فن کا ری کا مرہون منت نہیں۔ ایک اندرونی جذبے کا نتیجہ ہے۔ ذہن و قلب کی گہرائیو ں سے پھوٹا ہوا ایک فطری چشمہ ہے ۔ جس کے اجزاء و عناصر جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ افکار و خیالات اور تصورات و ادراکات بھی ہیں۔ عشق اقبا ل کے تغزل کی بنیاد اسی طرح ہے کہ جس طرح دوسرے غزل گو شعراء کے تغزل کی۔ عشق حقیقی کا تصور بھی جو تغزل اقبال کی خصوصیت ہے دوسرے بہتیرے غزل گو شعراء کے یہاں بلکہ تقریباً تمام ہی غزل گویوں کے اشعار ایک معتدبہ حصے میں پایا جاتا ہے ۔ پھر رومی کا دیوان شمس تبریز تو اسی حقیقی عشق پر پور ا کا پورا مبنی ہے لیکن اقبال کا عشق دوسرے وہ آفاقی عناصر بھ رکھتاہے جو پیش و غزل گویوں کے یہاں تقریباً مفقود ہیں یہ عناصر مشاہدہ کائنات اور مطالعہ حیات پر مبنی ایک مستقل فلسفہ زندیگ نطریے اور نظام فکر کے اجزاء ہیں جن کا مقصود تجدید معاشرہ اصلاح انسانیت اور انقلاب عالم ہے‘ اتنی منظم فکر عشق کے شاعرانہ گداز میں کیسے تحلیل ہوئی یقینا یہ ایک حیرت کی بات ہے اتنی منظم فکر عشق کے شاعرانہ گداز میں کیسے تحلیل ہوئی یقینا یہ ایک حیرت کی بات ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ سکتے ہیں کہ اس جذبہ دل اور آہ سحر کا فیض ہے جو اقبال کے عشق او رشعر دونوں کی قوت محرکہ ہے لہٰذا شاعر نے فلسفہ و تجربہ کے ذریعے جو کچھ آگہی حیات و کائناات کے متعلق حاصل کی اور انسانی معاشرے کی زمین کے لیے جو کچھ تفکر اس نے کیا وہ سب ایک درد دل کے تیزاب میں گھل کر عشق و غزل کے ذریں ذرات میں تبدیل ہو گیا۔ اب یہ بات بطور سوال اپنی جگیہ ہے کہ اتنے وسیع و پیچیدہ ذہن کو جس دست ہنر نے فن بنایا وہ کتنا زبردست ہے؟ دماغ تنقید ہمیشہ اس سوال پر غور اور تعجب کرتا رہے گا اورنتیجتہ نقد فن اور اصول فن دونوں کے کچھ قیمتی سبق سیکھتا رہے گا۔ اس سبق کے بنیادی نکات ہوں گے خلوص فکر اور رسوخ فن جن سے فن اور نقد فن دونوں کا خمیر اٹھتا اور معیار بنتا ہے۔ اقبال کی زبان غزل گرچہ زیادہ متداول نہیںہے مگر بالکل نئی بھی نہیںہے۔ غالب کے تین اسالیب میں ایک اور غالب اسلوب اسی زبان کا ہے جو مثال کے طور پر ا س قسم کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے: مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے یا: اے تازہ وار دان بساط ہو اے دل زنہار اگر تمہیں ہوس نائو نوش ہے لیکن غالب کے اسلوب میں ہمورای نہیں ہے اور بہت کچھ مغلق اور بہت متبذل اسالیب بھی ان کے اشعار میں پائے جاتے ہیں۔ جبکہ اقبال کی شاعری میں اغلاق تو بالکل نہیں اور ابتذال مستثنیٰ ہے۔ پھر غالب کے متوسط اسلوب میں بھی مکمل یکسانی نہیں ہے۔ بعض وقت توالی اضافات کی کثرت ہوتی ہے جیسا کہ دوسرے شعر کے پہلے مصرعے اور متعلقہ غزل کے متعدد اشعار میں ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کی زبان بالکل استوار و ہموار ہے۔ اس میں پیچیدگی کے باوجود کہیں ژولیدگی نہیں اور صراحت کے باوصف سادگی نہیں یہ ایک مکمل متین زبان ہے مگر خشک نہیں‘ اس میں وقار کے ساتھ ساتھ نشاط ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ربودگی اور رقت نہ ہونے کے باوجود اس طرز بیان میں سو ز و گداز خاص طور پر سوز بدرجہ اتم موجود ہے ۔ اس طرح اقبال کے متغزلانہ اشعار کی تاثیر شوکت بیان سے پیدا ہوتی ہے۔ جو عام روایت تغزل کے پیش نظر ایک غیر معمولی کارنامہ اور کہا جاتا ہے کہ غالب کے اسلوب سخن کے امکانات اقبال کے طرز بیان میں نہ صرف بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ بلکہ نقطہ کمال تک پہنچ گئے ہیں اس لیے کہ اردو غزلیات میں بھی اقبال کا سرمایہ فن غالب سے بہت زیادہ ہے۔ ٭٭٭ رباعیات و قطعات اقبال نے اردو شاعری کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے او رسبھی میں اپنی انفرادیت کے امتیازی نشانات قائم کیے ہیں۔ قدیم صنفوں میں غزل کے علاوہ رباعیات و قطعات بہت زیادہ متبداول ہیں اس کے باوجود کہ قطعے کا ایک تعلق غزل سے رہا ہے‘ یہ رباعی کی طرح نظم کی ایک شکل ہے۔ اس لیے کہ غزل کی بحراور ہئیت میں ہونے کے باوجود اس کا باقاعدہ تسلسل خیال اسے ایک نظم کی خصوصیت عطا کرتا ہے۔ رباعی تو بداہتہً چار مصرعوں کی ایک نظم اور اختصار کے باوجود نظم کی بہت ہی موثر اور حسین ہئیت ہے جب کہ قطعہ مختصر و طویل دونوں قسموں کا ہوتا ہے اقبال کے قطعات مختصر ہوتے ہیں شاید اس لیے کہ جو باتیں انہیں زیادہ طوالت کے ساتھ کہنی ہوتی ہیں ان کے اظہار کے لیے وہ لمبی اور چھوٹی دونوں طرح کی جدید نظموں بالعموم مسمط کی مختلف قسموں مثلث‘ مسدس‘ مخمس‘ اور ترکیب بندیا پھر مثنوی اور غزل کی ہستیوں میں رقم کرتے ہیں۔ بہرحال اقبال کے قطعات اتنے ہی بھرپور ہوتے ہیں جتنی ان کی رباعیات۔ قطعات کی تعداد قطعات کے عنوان سے برائے نام ہیں ایک قطعہ بانگ درا میں ہے اور چار قطعات با ل جبریل میں ہیں۔ جبکہ ضرب کلیم میں اور ارمغان حجاز بہ عنوان قطعات سے خالی ہیں۔ لیکن ضرب کلیم کے آخر میں محراب گل افغان کے افکار اورارمغان حجاز میں ملازادہ اور ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘ کے اشعار تقریباً سب ہی گویا قطعات ہیں۔ ضرب کلیم کی چھوٹی چھوٹی بہت ساری نظمیں بھی درحقیقت قطعات ہی ہیں جن پر عنوان موضوع لگا کر انہیں نظم کی شکل دے دی گئی ہے ۔ ایسی چند نظمیں بال جبریل میں بھی ہیں۔ بہرحال خواہ بانگ درا کا ایک قطعہ ہو یا بال جبریل کے چار قطعات یا محراب گل افغان اور ملازادہ ضیغم لولابی کی قطعہ نما منظومات سب کی سب تخلیقات اقبال کی رعنائی خیال اور شوخی بیان سے اسی طرح پر ہیں جس طرح ان کی غزلیات و رباعیات اور جدید نظمیں ہیں ایک ہی طرز فکر اور ایک ہی اسلوب فن ہر ہئیت سخن میں اس کے مخصوص پیمانے پر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ بانگ درا کے واحد قطعے کا انداز یہ ہے: کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پر رو رو کے کہہ رہا تھا کہ مصر و ہندوستان کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں غضب ہیں یہ مرشد ان خود بیں خدا تیری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں سنے گا اقبال کون ان کو یہ انجمن ہی بدل گئی ہے نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں ٭٭٭ بال جبریل کے ایک قطعے کا انداز یہ ہے : انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات ٭٭٭ دوسرا قطعہ یوں ہے: اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا یہ شعر نشاط آور و پرسوز و طربناک میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج کرتاہے مرا جوش جنوں مری قبا چاک ٭٭٭ دوسرے مجموعے کے قطعات میں بیان کی صفائی اور زور پہلے مجموعے کے قطعے سے کچھ زیادہ ہے‘ اگرچہ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلا قطعہ طویل بحر میں ہے۔ جبکہ دوسرے اور تیسرے قطعات متوسط بحروں میں۔ بہرحال آخر الذکر دونوں قطعوں میں زیادہ جوش اور روانی خیال اور اس کے اظہار دونوں میں ہے۔ اس کو ہم فکر کی تیزی اور فن کی پختگی میں اضافہ و ارتقاء کہہ سکتے ہیں۔ ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ بیس چھوٹے چھوٹے ٹکڑوںمیں منقسم ہیں جن میں ایک گویا مستزاد کی شکل میں ایک گیت ہے باقی انیس کو قطعات کہنا چاہیے جن کا انداز فکر و فن یہ ہے : وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بیداغ ضرب ہے کاری اگر ہو جنگ تو شیران غائب سے بڑھ کر اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو یہ بے کلاہ ہے سرمایہ کلاہ داری ٭٭٭ اس میں ضرب کلیم کی مخصوص دقت نظر اور دقیقہ سنجی کے ساتھ ساتھ ایک ولولہ اور زمزمہ بھی ہے اس کے خیالات و الفاظ دوونوں میں صلابت و شوکت ہے ۔ اس لیے کہ اس کا موضوع ہے شجاعت و غیرت۔ ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض میں انیس ٹکڑے ہیں جن میں پہلا مستزاد کی ہئیت میں ایک گیت ہے اور دو فرد ہیں ۔ باقی سولہ قطعات میںجن احساسات کا اظہار جس اسلوب سے کیا گیا ہے ان کے نمونے کے طور پر دو قطعات درج ذیل ہیں: تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ کوئی بتائے یہ مسجد ہے یا کہ میخانہ یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ طلسم بے خبری کا فری و دیں داری حدیث شیخ و برہمن فسوں و افسانہ نصیب خط ہو یا رب وہ بندہ درویش کہ جس کے فقر میں انداز ہو کلیمانہ چھپے رہیں گے زمانے کی آنکھ سے کب تک گہر میں آب و لرکے تمام یک دانہ ٭٭٭ ضمیر مغرب ہے تاجرانہ‘ ضمیر مشرق ہے راہبانہ وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ‘ یہاں بدلتا نہیں زمانہ کنار دریا خضر نے مجھ سے کہا بہ انداز محرمانہ سکندری ہو قلندری ہو یہ سب طریقے ہیں شاطرانہ حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایان خانقاہی انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ آہنگ آستانہ غلام قوموں کے علم و عرفاں کی یہی ہے رمز آشکارا زمین اگر تنگ ہے تو کیا ہے ‘ فضائے کردوں ہے بے کرانہ خبر نہیںکیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ مری اسیری پہ شاخ گل نے کہہ کے صیاد کو رلایا کہ ایسے پر سوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پر آشیانہ ٭٭٭ ان قطعات پر باآسانی عنوان لگاکر انہیں ضرب کلیم کی چند پر معنی و پر اثر نظموں میں شامل کر لیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ واقعہوئے ہیں ارمغان حجاز میں جو شاعر کے آخری کلام ور باقیات فن کا مجموعہ ہے۔ فکر کی شوخی اور بیان کی رعنائی دونوںمیں نمایاں ہے جچے تلے الفاظ میں ایک سے ایک خیال انگیز نکتہ بڑے حسین آہنگ میں پیش کیا گیا ہے گویا خیالات کی موسیقی تصورات کی ترکیب اور الفاظ کی ترتیب سے پیدا کی گئی ہے ۔ اس میں ردیف و قافیہ کا جادو بھی ہے۔ جو پابند کہلانے والی نظم کے کمال فن پر دلالت کرتا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قدیم ہیتوں کے نغمہ شعریت کی وسیع و حسین ترین تصویر کشی کلام اقبال نے کی ہے۔ بانگ درا میں کتاب کے خاتمے پر ظریفانہ کے عنوان سے جو باب ہے اس میں انتیس مندرجات ہیں۔ جن میں دو بظاہر غزلیںنظر آتی ہیں۔ لیکن ایک کے پہلے دو مصرعے ہی ہم قافیہ و ہم ردیف نہیں اور ایک میں غزل کی طرح ردیف و قافیہ گرچہ مطلع ہی ہے مگر یہ بات قطععے میں بھی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا کہہ ستے ہیں کہ ظریفانہ کے سبھی مندرجات قطعات ہیں عنوانباب یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ حصہ مزاحیہ کلام کا ہے‘ گرچہ مسجد تو بنا دی شب بھر میں … والا قطعہ محض چند ہندی الفاظ کے خاص استعمال سے ابھرنے والی ظرافت کو چھوڑ کر پورا کا پورا بالکل سنجیدہ کلام ہے ‘ بہرحال زیر نظر باب کے چند مزاحیہ قطعات ملاحظہ کیجیے: مشرق میں اصول دین بن جاتے ہیں مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلے واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں ٭٭٭ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاں کی راح روشن مغربی ہے مدنظر وضع مشرق کو جانتے ہیںگناہ یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ٭٭٭ شیخ صاحب بھی تو پرونے کے کوئی حامی نہیں مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہو گئے وعظ میں فرما دیا کل آپ نے صاف صاف پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے ٭٭٭ یہ کون دن کی بات ہے اے مرد ہوش مند غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی آتا ہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی ٭٭٭ تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ؟ دفع مرض کے واسطے پل پیش کیجیے تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجیے بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجیے ٭٭٭ انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک چھتریاں‘ رومال مفلر‘ پیرہن جاپان سے اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی آئیں گے غسال کا بل سے کفن جاپان سے ٭٭٭ جان جائے ہاتھ سے نہ ست ہے یہی اک بات ہر مذہب کا تت چٹے بٹے ایک ہی تھیلے کے ہیں ساہوکاری‘ بسوہ داری ‘ سلطنت ٭٭٭ اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے الکشن‘ ممبری‘ کونسل ‘ صدارت بنائے خوب آزادی نے پھندے میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے ٭٭٭ سنا ہے میں نے کل یہ گفتگو تھی کارخانے میں پرانے جھونپڑے میں ہے ٹھکانا دست کاروں کا مگر سرکار نے کیا خوب کونسل ہال بنوایا کوئی اس شہر میں تکیہ نہ تھا سرمایہ داروں کا ٭٭٭ شام کی سرحد سے رخصت ہے وہ رند لم یزل رکھ کے میخانے کے سارے قاعدے بالائے طاق یہ اگر سچ ہے تو ہے کس درجہ عبرت کا مقام رنگ اک پل می بدل جاتا ہے یہ نیلی رواق حضرت کرزن کو اب فکر مداوا ہے ضرور حکم برداری کے معدے میں ہے درد لایطاق وفد ہندوستان سے کرتے ہیں سر آغا خاں طلب کیا یہ چورن ہے پے ہضم فلسطین و عراق ٭٭٭ ان اشعار کے بارے میں اگر پہلے سے نہ بتا دیا جائے تو ہر قاری انہیں اکبر الہ آبادی کا کلام تصور کرے گا ۔ ظرافت کے ساتھ ساتھ لطیف مزاح اور کاری طنز جا بجا ان قطعات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میںدیدہ ووری بی ہے نکتہ سنجی بھی طنز و مزاح و ظرافت کے سارے ہجویہ وسائل تصورات کی شوخی کے علاوہ انگریزی یا ہندی کے الفاظ کے تیکھے الفاظ اور اردو الفاظ کے ساتھ ان کا قافی ملا کر پیدا کیے گئے ہیں‘ ان میں مغربی تجد د غلامانہ تقلید معاشرتی بے راہ روی‘ سیاسی دیوالیہ پن اور معاشی ناکارگی کو نشانہ تنقید و ملامت بنایا گیا ہے۔ کم عقل تعلیم یافتوں اور بے ایمان لیڈروں کاپول کھول کر ان کے مغربی حڑبوں کے ساتھ استہزاد و تمسخر کیا گیا ہے۔ لیکن اثر و کیفیت نہ تو خندہ بے جا کی ہے نہ قہقہہ بے اختیار کی۔ بلکہ ایک لطیف اور معنی خیز تبسم کی ۔ یقینا یہ اکطر کا فن اور رنگ ہے مگر اس میں اقبال کی نظر اورچابک دستی بھی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اکبر و اقبال کا مقصد ایک ہی ہے۔ گرچہ مطمع نظر میں تھوڑا سا فرق ہے۔ اقبال کا اندازہ زیادہ مثبت اور مستقبلی ہے۔ جب کہ اکبر کا رویہ منفیانہ وار ماضی پسندانہ ہے۔ لیکن تجدد‘ تصنع تقلید نقالی اور غلامی کے خلاف دونوں ہی یکساں طور پر ہیں بہرحال ظرافت میں اکبر کا اختصاص ہے کہ جبکہ اقبال کے یلے یہ تفنن طبع ہے۔ طنز و مزاح میں اکبر کی عظمت اظہر من الشمس ہے۔ وہ یقینا اردو کے سب سے بڑے ہجو نگار ہیں۔ اور عالمی ادب کی سطح پر ان کامقام انگریزی طنز نگار شاعرپوپ سے کسی طرح کم نہیں۔ اقبال کا یہ میدان نہیں گرچہ اس سلسلے میں ان کی فنی مہارت کے چند نمونے ہمارے سامنے ہیں واضح ہو کہ اس بحث میں میں نے ہجو طنز ظرافت‘ اور مزاح کے الفاظ کا استعمال اصطلاحی طور پر نہیں کیا ہے بلکہ اردو محاورے کے الفاظ کیا ہیں اس سلسلے میں فنی گفتگو میں نے اپنے بعض ان مضامی میں کی ہے جو میرے چند ہائے مجموعہ مضامین میں شامل ہیں)۔ ٭٭٭ رباعیات کی تعداد باون ہے۔ 39 بال جبریل میں ہیں اور 13ارمغان حجاز میں ہیں بال جبریل کی متعدد رباعیات بہت معروف متداول ہیں اور گھروں سے محفلوں تک کتبوں کی شکل میں آویزاں کی جاتی ہیں۔ غزلوں اور نظموں میں اقبال کے فکر و فن کے جو کمالات ظاہر ہوئے ہیں وہی رباعیات میں بھی رونما ہوئے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ چار مصرعوں کی تجدید اور ان کی خاص ترتیب کے باعث جو ذہن و فن دوسری ہئیتوں میں پھیلا ہوا ہے وہ رباعیوںمیں سمٹا ہوا ہے ۔ اس طرح اختصار و ارتکاز سے ایجاز کا اعجاز ظاہر ہوتا ہے۔ یہ رباعیاں نگینوں کی طرح جڑائو اور موتیوں کی طرح چمک دار ہیں۔ فارسی و اردو میں رباعی کی ایک عظیم الشان روایت ہے اور اقبال کی رباعیات اس روایت میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ان میں اقبال کی شاعری کے بنیادی تصورات کا عطر کشید کر لیا گیا ہے اور یہ عطر ان کے مخصوص فن کے بلوریں شیشے میں محفوظ کیا گیا ہے۔ عطر کی جاں فز ا خوشبو اور شیشے کی آب و تاب ذیل کی ان چند رباعیات میںملاحظہ ہوں جو زیادہ متداول نہیں ہیں: مکانی ہوں کہ آزاد مکاں ہوں جہاں میں ہوں کہ خود سارا جہاں ہوں وہ اپنی لامکانی میں رہیں مست مجھے اتنا بتا دیں میںکہاں ہوں ٭٭٭ عرب کے سوز میں ساز عجم ہے حرم کا راز توحید امم ہے تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے ٭٭٭ وہ میرا رونق محفل کہاں ہے مری بجلی مرا حاصل کہاں ہے مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں خدا جانے مقام دل کہاں ہے ٭٭٭ ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے ترا دم گرمی محفل نہیں ہے گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیںہے ٭٭٭ خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا مقام رنگ و بو کا راز پا جا برنگ بحر ساحل آشنا رہ کف ساحل سے دامن کھینچتا جا ٭٭٭ خرد ہے راہرو روشن بصرہے خرد کیا ہے؟ چراغ رہ گزر ہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہگذر کو کیا خبر ہے ٭٭٭ کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق کبھی سوز و سرور انجمن عشق کبھی سرمایہ محراب و منبر کبھی مولا علی خیبر شکن عشق ٭٭٭ یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے کہ جاں مرتی نہیں مرگ بدن سے چمک سورج میں کیا باقی رہے گی اگر بیزار ہو اپنی کرن سے ٭٭٭ زمانے کی یہ گردش جاودانہ حقیقت ایک تو‘ باقی فسانہ کسی نے دوش دیکھا ہے نہ فردا فقط امروز ہے تیرا زمانہ ٭٭٭ ترا تن روح سے ناآشنا ہے عجب کیا آہ تری نا رسا ہے تن بے روح سے بیزار ہے حق خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے ٭٭٭ چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے سمن ہے ‘ سبزہ ہے باد سحر ہے مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے ٭٭٭ ارمغان حجاز کی چند منتخب رباعیات یہ ہیں: خرد کی تنگ دامانی سے فریاد تجلی کی فراوانی سے فریاد گوارا ہے اسے نظارہ غیر نگہ کی نامسلمانی سے فریاد ٭٭٭ حدیث بندہ مومن دل آویز جگر پر خوں‘ نفس روشن‘ نگہ تیز میسر ہو کسے دیدار اس کا کہ ہے وہ رونق محفل کم آمیز ٭٭٭ نہ کہ ذکر فراق و آشنائی کہ اصل زندگی ہے خود نمائی نہ دریا کا زیاں ہے نے گہر کا دل دریا سے گوہر کی جدائی ٭٭٭ ترے دریا میں طوفان کیوںنہیںہے؟ خودی تیری مسلماں کیوںنہیں ہے؟ عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟ ٭٭٭ کبھی دریا سے مثل موج ابھر کر کبھی دریا کے سینے میں اتر کر کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر مقام اپنی خودی کا فاش کر ٭٭٭ علم العروض کے اعتبار سے یہ رباعی کی چوبیس بحریں ہیں جو اس ہئیت نظم کے لیے مخصوص ہیں اور یہ صنف سخن بھی انہی بحروں تک محدود بتائی جاتی ہے۔ لیکن بابا طاہر اور ان کے بعد اقبال نے ایک مختلف بحر ہزج مسدس محذوف میں بھی رباعی لکھی ہے۔ جس کا وزن ہے مفای لن فعولن مثلاً دلوں کو مرکز مہر و وفا کر والی مشہور رباعی۔ رباعی کو ترانہ بھی کہتے ہیں۔ اور ان کا قماش نغمہ ہونا بھی معلوم ہے۔ مذکورہ بالا رباعیات میں بڑے باریک خیالات اور بڑے دقیق اشارات نہایت زور و اثر رعنائی اور روانی کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ حسین و خیال انگیز پیکر تراشے گئے ہیں مطالعہ باطن بھی ہے مشاہدہ خارج بھی ہے۔ انفس و آفاق دونوں کی آیات ہیں معرفت کے رموز اسرار فطرت کے ذریعے واضح کیے گئے ہیں۔ تازہ بہ تازہ نو بہ نو نکات کا اظہار کرتے ہیں۔ فطرت کی پر خیال تصویروں کو لیجیے جو چند معانی کا وسیلہ اظہار ہیں صرف ایک مظہر فطرت کا دریا کر لیا جائیے تو آخری رباعی میں موج دریا‘ سینہ دریا اور ساحل دریا تینوں مقامات آب کا استعمال ابھر کر اور گزر کر کے چست وموزوں افعال کے ساتھ کر کے آخری مصرعے میں مقام خودی انہی مراحل کے اندر فاش کرنے کی تلقین کی گی ہے۔ ظاہر ہے کہ دریا کے یہ سارے پیکر آدمی کی نفسی و روحانی حرکات کے استعارے ہیں اور انہیں بڑے حرکی انداز میں ایک ترتیب سے اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ایک منظر ایک سماں نگاہوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ اور اس نظارے کے بعد بلکہ اس کے دوران ہی ذہن غور و فکر کی طرف مائل ہونے لگتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ پر معنی استعمال سطح آب کا خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا والی رباعی میں ہوا ہے ۔ جس میں شاعر کے مقام رنگ و بو کا راز پا جا کا اشارہ کرنے کے بعد بہ خیال انگیز تصویر جلوہ نما ہو کر ایک جہان معنی اورعالم کیف کا دروازہ کھولتی ہے: برنگ بحڑ ساحل آشنا رہ کف ساحل سے دامن کھینچتا جا مطلب یہ ہے کہ انسان کو روئے زمین پر سمندر کی مانند رہنا چاہیے جو بار بار ساحل سے ٹکرانے کے باوجود کسی ساحل میں بند نہیں ہوتا۔ کسی ساحل پر ٹھہرتا نہیں بلکہ اس کی موجیں اپنے تلاطم اور تصادم سے ساحل پر جھاگ اڑا کر فوراً ہی اپنی سطح کے دھاروں اور ان کی لہروں اور تہوں کی طرف پلٹ جاتی ہیں۔ اس طرح سکون ساحل کو چھوتے ہوئے بھی سمندر کی موجیں ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں۔ یہی ان کی زندگی تابندگی اور پاکیزگی ہے اور وہ اپنے آپ کو کف ساحل سے االودہ نہیں کرتیں وسط دریا کی صاف و شفاف سطح پر رواں دواں رہتی ہیں۔ جس کی تہوں میں موجوں کے تلاطم سے ایک سے ایک گوہر شاہوار کی پرورش اور سیرابی ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا زندگی کے سمندر سے حقیقت و صداقت کا موتی نکالنے اور اس کے اندر حسن و جمال کی آب و تاب پیدا کرنے کے لیے کف کی طرح ساحل پر آسودہ و آلودہ رہنے کی بجائے موج کی طرح دھاروں اور تہوں میں اچھلنا اور اترنا پڑے گا۔ ایک اور رباعی میں اظہار خودی کے لیے تہہ دریا سے گوہر کی جدائی کا استعارہ اس آن بان کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے : نہ کر ذکر فراق و آشنائی کہ اصل زندگی ہے خود نمائی نہ دریا کا زیاں ہے‘ نے گہر کا دل دریا سے گوہر کی جدائی دل دریا گویا آغوش ربوبیت ہے جس سے جدا ہوئے بغیر موتی اپنی چمک دمک دنیا کو نہیںدکھا سکتا اور چونکہ اظہار ذات ضروری ہے لہذا یہ جدائی گوارا کرنی ہی ہو گی اس تصویر میں فراق و آشنائی کا تصور بندہ ورب کے باہمی ربط اور رتشتے کی طرف اشار ہ کرتا ہے ‘ شاعر کہنا چاہتا ہے کہ انسان کے لیے فنائیت مقصود حیات نہیں‘ اثبات ذات ہے اور اسی اثبات سے ہر فرد کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ لہٰذا عبد کا مقام ر ب سے جدا رہ کر اپنی عبدیت کا کمال دکھانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ابدی وصال نہیں‘ ازلی فراق مطلوب ہے‘ انسان کی خودی کے اسی اظہار سے خالق کامنشا بھی پورا ہوتا ہے۔ اور مخلوق کا مقصد بھی ۔ منصوبہ تخلیق کی یہ تکمیل سب کے لیے مفید ہے ۔ ایک اور رباعی کا پہلا مصرعہ ہے: ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ اشارہ ہے حرکت و عمل کی طرف۔ اسی اشارے کی بنیاد پر باقی تین مصرعوں میں حرکت کو خودی کے مسلماں ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ اپنی بے عملی اور جمود کے باوجود تقدیر یزداں کا شکوہ کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اور آخر میں تان اس جھنجھوڑ دینے والے کے سوال پر تو ڑ دی گئی ہے: تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟ یعنی اگر کسی کیدریائے وجودمیں طوفان سعی و عمل ہو تو وہ اپنی تقدیر آپ بنا سکتاہے۔ اس لیے کہ کوششوں پر تقدیر یزداں کا سایہ کرم گستر ہو گا۔ فطرت کی دوسری تصویریںبھی ہیں جیسے یہ پیکر گلستاں: چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے سمن ہے‘ سبزہ ہے باد سحر ہے مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے ٭٭٭ ان مصرعوں میں تصویر ہی تصویر اور اشارے ہی اشارے ہیں کوئی بیان نہیںکوئی تلقین نہیں‘ بس پھولوں کی ایک تروتازہ اور سرسبز و شاداب انجمن ہے جس میںایک ہی کمی ہے اور وہ ساری تازگی و شادابی کو بے لطف و بے اثر بنا رہی ہے۔ جب تک یہ کمی دور نہیح ہو جاتی چمن میں ہنگامہ رنگ و بو گرم نہں ہو سکتا۔ اورا س کے بغیر باغ کے سارے پھول محض کاغذی ثابت ہوں گے۔ وہ کمی یہ ہے کہ اس ہرے بھرے چمن میں لالہ اگر ہے بھی تو سوز جگر سے خالی ظاہر ہے کہ یہ لالہ رنگ گلستاں کا ضامن اور اس کی خوبی کی علامت ہے اگر لالہ کے جگر میں سرخی کا سوز نہ ہو تو آتش گل فروزاں نہیں ہو سکتی۔ اور رنگ چمن اپنی بہار دکھا نہیں سکتا۔ یہ آتش گل یہ سوز جگر بداہتہً جذبہ دل کی گرمی کا اشاریہ ہے۔ زندگی کے تمام سازوسامان کے باوجود اگر یہ گرمی ن ہہوت و فرد معاشرہ دونوں بے جان ہیں اور عصر حاضر میں یہی کیفیت مشرق و ملت کے خیاباں کی ہے۔ عشق کی آگ بجھ چکی ہے ہر طرف ایک اندھری اور راکھ کا ڈھیر ہے۔ خواہ ظاہری چمک ودمک جتنی بھی ہو۔ مظاہر قدرت کے ساتھ ساتھ صنعت انسانی کی تصویریںبھی حسن کا راز انداز میں استعمال کی گئی ہیں مثلاً چراغ کا استعارہ دور باعیوں کی اس طر حآیا ہے کہ پورا مفہوم ہی استعارے پر مبنی ہے۔ ایک رباعی میں کہا گیاہے کہ عقل بھی گرچہ ایک سرچشمہ نور ہے مگر یہ چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی روشنی میں راستہ تو طے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن منزل تک پہنچنے کے لیے اس سے آگے جانا پڑے گا۔ یعنی عقل ذریعہ ہے مقصد نہیں۔ مرحلہ راہ ہے منزل مقصود نہیں۔ دوسری رباعی میں خرد کو چراغ راہ گزر قرار دے کر بتایا گیا ہے کہ اس کی روشنی صرف باہرکی دنیا کو روشن کر سکتی ہے۔ اندر کی دنیا کو منورنہیں کر سکتی‘ بلکہ راستے پر رکھے ہوئے چراغ کی طرح خرد کو خانہ دل کے اندر کی کیفیات کی خبر تک نہیں ہوتی لہٰذا نور خرد صرف ہماری بصارت کا نور ہے بصیرت کا نہیں خارجی مشاہدے میں مددگار ہے باطنی مطالعے میں نہیں۔ ترسیل خیال کے لیے جان و دل کے مجرد تصورات کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس صورت میں موضوع اور استعارہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ الایہ کہ الفاظ کو استعارہ فرض کر کے موضوع کے مضمرات کی تشریح کی جائے اگرچہ یہ اس لیے مشکل ہے کہ جان و دل کی حیثیت کثرت استعمال سے محاورے کی ہو گئی ہے۔ یہ رباعی دیکھیے: وہ میرا رونق محفل کہاں ہے مرا بجلی مرا حاصل کہاں ہے مقام اس کا ہے دل کی خلوتوں میں خدا جانے مقام دل کہاں ہے یہ دل ظاہر ہے کہ انسان کا دل ہے اور گویا انسانیت کی علامت ہے ۔ اس کے باطنی حسن اور اس کی تخلیقی اصلیت کا اشارہ ہے یہ حیات و کائنات کی سب سے قیمتی متاع ہے اور دو سوز آرزو مندی کی متاع بے بہا ہے ۔ یہی و ہ شے انسان کے پورے وجودمیں ہے جو اس کا رشتہ محبوب ازل کے ساتھ استوار کرتی ہے۔ بلکہ اسے محبوب کے ساتھ وابستہ کر دیتی ہے۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے ہ محبوب کا مقام تو دل میں ہے لیکن دل کا مقام کہاں ہے استفہام کا واضح اشارہ یہی ہے کہ مقام دل دل محبوب میں ہے۔ اس طرح دل بڑی چیز ہے۔ سب سے بڑی چیز ہے۔ اسکی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ اس کے درد سوز ہ آرزو کو زندہ و پائندہ رکھنا انسان کا اولین فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہی کائنات میں اس کی شرافت و کرامت کی ضامن ہو گی۔ اقبال کی رباعیات میں اخلاقیات کے علاوہ فلسفہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ولولہ بھی ۔ اردو رباعیات میں زیادہ تر صرف اخلاقیات ہیں ضنہیںفلسفہ کہنا موزوںنہ ہو گا۔ فارسی میںخاص کر عمر خیام کی رباعیات کی طرف ایک فلسفہ منسوب کیا جاتا ہے۔ اور ان میں ایک ولولہ بھی پایا جاتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فلسفہ نشاط ہے۔ ممکن ہے ایسا ہ ہو اور اس خاص فلسفے کے جو متصوفانہ مضمرات بتائے جاتے ہیں وہ شاید عام طور پر صحیح نہ ہوں۔ لیکن نشاط کے ساتھ ساتھ ساز جتنا بھی ہو خیام کی رباعیات میں وہ سوز سے یکسر خالی ہیں اس لیے کہ ان کے اندر عشق کا وہ حقیقی تصور واضح نہیں ہے جو سوز کا سرچشمہ ہے لہٰذا خیام کی رباعیات میں اخلاقیات کی تلاش کار عبث ہے۔ اور ان کا جو کچھ ولولہ ہے وہ ایک جسمانی تلذذ کا سرور ہے ۔ خواہ وہ خمریات کا نتیجہ ہو یا ذہنی عیش کوشی اور ایبقوریت کا ۔ یہ ولولہ بہرحال سطحی ہے۔ اور اس میں کلبیت کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کی رباعیات اخلاقیات کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہے اس میں ایک واضح تصور عشق ایک متعین فلسفہ حیات کا زبردست اضافہ کرتی ہیں۔ چنانچہ اس عشق و فلسفہ سے اقبال کی رباعیات میں جو ولولہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ وہ محض نشاط کا نہیں نشاط کار کا ہے۔ اس سے وابسطہ نشاط تصور میں رجائیت ہے۔ اثباتی حرکت ہے عزم و یقین ہے۔ یہ وہ روحانی سرور ہے جو گہرائیوںسے پھوٹتاہے اور تہوں میں سرایت کرتا ہے۔ اقبال کی رباعی ایک نغمہ فکر اور ترانہ عمل ہے خیام کی رباعی کے ساتھ اس کا فنی و تجزیاتی موازنہ فارسی شاعری پر گفتگو کر تے ہوئے اس کتاب کے دوسرے حصے میں کیا جائے گا۔ ٭٭٭ جدید نظمیں (بانگ درا) فطرت کی شاعری ہمالہ ’’جدید نظمیں کا عنوان اس باب پر اس لیے لگایا گیاہے کہ غزل‘قطعہ اور رباعی وغیرہ بھی نظم ہی کی اصناف بمقابلہ اصناف نثر ہیں اور اگر برائے گفتگو غزل کو الگ بھی کر دیا جائے تو قطعہ و رباعی کو لازماً نظم ہی قرار دینا ہو گا۔ یہی بات مثنوی‘ قصیدے اور مرثیے کے لیے ہو گی۔ ہمارے اس باب میں ایک مثنوی بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقبا ل کی نظمیں مسمط کی اقسام ‘ مثلث‘ مخمس‘ مسدس‘ ترکیب بند ہیں اور یہ سب نظم کی قدیم ہئتیں ہیں۔ لیکن اردو تنقید کے عام محاورات کا لحاظ کرتے ہوئے قارئین کی سہولت کے لیے میں نے موضوعاتی نظموں کے لیے جدید نظمیں کا عنوان اختیار کیا ہے۔ اس قسم کی پہلی نظم مسدس کے ترکیب بند میں ہے۔ آٹھ بندوں اور چوبیس شعروںکی اس بالکل ابتدائی نظم کے اڑتالیس مصرعے شاعری منظری نگاری اور تاریخ کے احساسات تصاویر اور اشارات سے مملو ہیں۔ پہلا بند موضو ع کا جامع تعارف اور شاعر کے انداز نظر کا اظہار بھی کراتا اور کرتا ہے: اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستان چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ میں کچھپیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تو جواں ہے گردش شام و سحر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے پہلے مصرعے میں فصیل کشور ہندوستاں کی ترکیب جغرافیہ و تاریخ کو ایک پیکر شعر میں ڈھالتی ہے ۔ جبکہ دوسرے مصرعے میں ایک ایسی شاعرانہ تصویر دی گئی ہے جو دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ کو اس سے بھی اونچے آسمان کے لبوں سے ایک بوسہ قبول کرتی ہوئی دکھاتی ہے۔ ہمالہ کی بلندی اور ا س کے ساتھ ہندوستان کے لیے اس کی پاسبانی کی اس سے بہتر شاعرانہ تصویر متصور نہیں۔ اس تصویر کا ایک ایک لفظ چنا اور جڑا ہوا ہے۔ صرف ایک لفظ جھک کر کی بلاغت پر غور کیا جاے تو ہمالہ و آسمان کے تناظر میں اس کے حسن اور معنی آفرینی کا مطالعہ کیا جائے۔ تیسرے مصرعے میں یہ بیان دے کر ایک قدیم ترین مظہر فطرت ہونے کے باوجود ہمالہ کی سطح پر فرسودگی کا کوئی نشان نہیںہے شاعر اسے گردش شام و سحر کے درمیان جوان قرار دیتا ہے چوتھے مصرعے کا پہلا مستقل لفظ جواں ہے اور آخری درمیاں جبکہ دونوں کے بیچ گردش شام و سحر کی محاورے کی حد تک سلیس شاعرانہ ترکیب ہے۔ دوسرے شعر کا سارا حسن الفاظ کے انتخاب اور نشست میں مضمر ہے جبکہ پہلے شعر میں تصویروں کی جمال آفرینی تھی۔ اسی طرح دو شعروں اور چار مصرعوں میں ہمالہ کا محل وقوع اس کی تاریخ اور اس کی رفعت و قدامت کی ولولہ انگیز شاعرانہ تربیر کے بعد مسدس کے پہلے بند کے آخر میں ٹیپ کا یہ شعر سامنے آتاہے: ایک جلوہ تھا… پہلے مصرعے میں یہ کہہ کر کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو وادی سینا میں کوہ طورپر جمال الٰہی کا ایک جلوہنظر آیا تھا۔ دوسرے مصرعے میں شاعر وادی ہندمیں واقع کوہ ہماہ کو چشم بینا کے لیی سراپا جلوہ ہی جلوہ بتاتا ہے۔ اس طرح جغرافیہ و تاریخ اور عشق و قدامت کے ساتھ معرفت و بصیرت کا اضافہ بھی ہو جاتا ہے اور ہمالہ کی تصویر اجمالاً ہر جہت سے مکمل ہو جاتی ہے اس فن کاراانہ تصویر کشی سے پتھر کا مہیب پہاڑ دل کی لطیف ترین دھڑکنوں کا مرکز اور پیکر بن جاتا ہے۔ ایک مظہر فطرت کسی قسم کی خارجی آرائش سے بے نیاز صرف نگاہ شاعر ررنگین نوا کے جادو سے ایک عروس فن کی شکل میں جمیل میں رونما ہے۔ پہلے بند کے حسن و تاثیر کی اس فضا میں دوسرے بند سے اجمال کی تفصیل شروع ہوتی ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ظاہر ی نگاہ میں جو چیز صرف ایک وسیع و رفیع کوہستان ہے وہ درحقیقت برصغیر ہندوستان کی وہ جغرافیائی اور قدرتی دیوار ہے جو تاریخی و عملی طور پر صدیوں سے اس عظیم خطہ ارض کی پاسبانی کر رہی ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اگر اس کو فطرت کی شاعری کے ایک دیوان سے جو کلام الٰہی اوراس کی آیات کا ترجمان ہے مشابہ قرار دے دیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مطلع اول فلک ہے ۔ جہاں سے گویا ہمالہ کی قدری شاعری شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک بصیرت افروز کلام کی طرح اس کوہستاں کے مناظر انسان کی نگاہوں کو خلوت دل اور اس کے ذکر و فکر کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اس عالم میںنظر آتا ہے کہ پورا پہاڑ برف پوش ہے۔ اس لیے کہ اکثر اس کی چوٹیوں پر برف گرتی رہتی ہے اور ا س کی براق سفیدی اس شان سے چمکتی ہے کہ اس کے آگے آفتاب کی تابانی بھی ماند پڑتی نظر آتی ہے۔ یہ کیفیت قلہ کوہ پر آفتاب کی شعاعوں سے پیداہونے والی تاب کاری کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ ہمالہ کی چوٹیوں پر جب برس اس طرح دمکنے لگتی ہے تو محسوس ہوتاہے کہ گویا وہ سورج کی کرن پر ہنس رہی ہو اور اپنی تابانی کے مقابلے میں اس کی تابانی کامذاق اڑا رہی ہو۔ ہمالہ سے پھوٹنے والے اس نور مرکب کو جو برف اور شعاع آفتاب کا مجموعہ ہے دستار فضیلت سمجھا جاتا ہے۔ جو کلاہ مہر عالم تاب پر فائق و حاوی ہے۔ اس لیے کہ آفتاب کی کلاہ صرف اس کی شعاع ہے جبکہ ہمالہ کی دستار کے یچ میں پتھر‘ برف اور اس کی شعاع کا انعکا س تین عناصر شامل ہیں۔ پہلے بند میںفصیل ’’پیشانی‘‘ ’’بوسہ‘‘ ’’دیرینہ روزی‘‘ ’’جوانی‘‘ ’’گردش شام و سحر‘‘ ’’جلوہ‘‘ ’’کلیم‘‘ ’’طورسینا‘‘ ’’سراپا تجلی‘ ‘ اور ’’چشم بینا‘‘ کی تصویروں کو ’’امتحان ‘‘ ’’دیدہ ظاہر‘‘ ’’کوہساتان پاسبان‘‘ ’’دیوار‘‘ مطلع‘‘ ’’دیوان‘‘ ’’خلوت گاہ و دل‘‘ ’’برف ‘‘ دستار فضیلت‘‘ ’’خندہ زن کلاہ‘‘ اور مہر عالم تاب‘ کی دوسرے بند میں واقع ہونے والی تصویروں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو خاص کر سراپا تجلی کے سیاق و سباق میں دیواں اور دستار کے پیکروں پر غور کیا جائے تو ہمالہ پر نظر آنے والے مناظر فطرت قلب پر نازل ہونے والے مظاہر معرفت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ان میں صنم ہو جاتے ہیں۔ دیواں اوردستار کے استعارے یقینا پیچیدہ ہیں۔ مگر ان میں تو نہ کوئی تصنع ہے نہ تعقید اور نہ آہنگ کلا م ۔ ان سے کوئی تعویق پیدا ہوتی ہے ۔ بلکہ ان کی ترکیب و ترتیب ارتقائے خیال اور روانی بیان میں تسلسل اور توازن قائم رکھتی ہے۔ تیسرے بند میں قدامت ‘ رفعت‘ وسعت اور لطافت و صباحت کاملا جلا بیان ہے۔ یعنی ماسبق کے تصورات کا زیادہ ثروت مند بناتے ہوئے ان میں بعض نئے تصورات کا اضافہ نئی تصویروں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن وادیوں میں تیری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن تو زمین پر پہنائے فلک تیرا وطن چشمہ دامن ترا ائینہ سیال ہے دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے یہ قدامت کی انتہا ہے کہ پورا عہد کہن ہمالہ کی عمر رفتہ کی اک آن ہے اور رفعت کی حد یہ ہے کہ پہاڑ کی چوٹیاں زمین کی تہوںمیں اپنی جڑیں استوار کر کے آسمان کے ایک بلند ترین ستارے ثریا کے ساتھ سرگرم سخن نظر آتی ہیں وسعت کا عالم یہ ہے کہ زمین کے سب سے بڑے رقبے پر محیط ہو کر پہنائے فلک میں سلسلہ کوہ کی چوٹیاں پھیلی وئی ہیں پہاڑ کی بلندیاں اتنی ہیں کہ ہر وقت اس کی وسعتوں میں کالی گھٹائیں خیمہ زن رہتی ہیں۔ اور اس سلسلہ کوہ کو ابروباد اپنا مستقل مسکن بنائے ہوئے ہیں چنانچہ دامن کوہ میں جو بے شمار چشمے رواں ہیں ان کی شفات سطح پر ہر وقت ہوائیں اس طرح چلتی رہتی ہیں گویا اس کو صاف و شفاف رکھنے کے لیے موج ہوا کا دامن رومال کی مانند جنبش کرتا رہتا ہے چشمہ دامن ’’دامن موج‘ ’’آئینہ سیال‘‘ ’’اور رومال‘‘ کے پیکر معنوی اور صوتی طور پر بالکل ہم آہنگ ہو کر معنی آفرینی اور نغمہ ریز ہیں۔ اس تصویر و ترنم کی گنگناہٹ دماغ میں گونجتی ہے: چشمہ دامن ترا آئینہ سیال ہے دامن موج ہوا جس کے لیے رومال ہے حروف ل‘ م‘ ن‘ سے مرتب ہونے والے اس شعر کے الفاظ و تراکیب کی نغمگی استعاروں کے حسن معنیٰ کو دوبالا کر رہی ہے۔ چوتھا بند ابروباد و برق کی آنکھ مچولی کے لیے مخصوص ہے‘ ہوا ایک سرکس اسپ تیز رفتار کی طرح چل رہی ہے۔ اور اس بادتند میں چوٹیوں پر کالی گھٹائوں کے اندر بجلیاں اس طرح چمک رہی ہیں کہ گویا رہوار ہوا کی تیزی رفتاری کو صحیح رخ پر بڑھانے کے لیے بجلی کے کوڑے چل رہے ہوں۔ ابروبار و برق کی یہ آنکھ مچولی ہمالہ کی عناصر قدرت کی ایک بازی گاہ بنائے ہوئے ہے۔ اور اس بازی گاہ میں مہیب و سیاہ لکہ ہائے ابرفیل بے زنجیر کی مانند دوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برق سر کہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے دست قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر ابر کو پہلی تصویر میں رہوار ہوا پر سوار کر کے اس ے ہاتھوں میں برق سر کہسار کا تازیانہ دیا گیا ہے اور تینوں عناصر کو میدان فطرت میں کھیلتے دکھایا گیا ہے۔ لیکن دوسری تصویر میں ہوا اتنی تند و تیز ہو جاتی یہ کہ اب خود اب ایک فیل بے زنجیر کی صورت اڑنے لگتا ہے یہ نتیجہ ہے جمال فطرت کے جلوے سے پیدا ہونے والے فرط طرب کا۔ گویامئے فطرت کے نشے نے ابر کو بدمست کر دیا ہے اور قابو سے باہر فیل بے زنجیر ہو گیا ہو یقینا یہاں ایک ہی منظر میں دوتصویروں کا تصادم ہوتا ہے مگر ایک تصویر میں سے دوسری تصویر نکل کر پھر اسی میں مدغم ہو جاتی ہے اور یہ ہم آہنگ تبدیلی رفتار ہو کی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے جس سے بادل کی بدلتی ہوئی فطری شکلوں کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ لہٰذا تصویروں کا تصادم فی الواقع کوہسار ہمالہ پیہم نمودار ہونے والی متنوع تصاویر فطرت کی حقیقت پسندانہ آئینہ سامانی کے لیے ہے۔ بدلتے ہوئے مناظر کو بڑے فن کارانہ انداز سے ایک دوسرے میں مدغم کر کے منقش کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی تضاد و تکلف نہیں تنوع کی بے ساختگی ایک بے ساختہ رنگا رنگی ہے متنوع مناظر فطرت کی ٹھوس لیکن شاعرانہ عکاسی ہے۔ ہمالہ بازی گاہ عناصرمیں فطرت کا ایک ہنگامہ خیز رخ چوتھے بند میں دکھانے کے بعد پانچویں بند میں شاعر اس کا پرسکون رخ دکھاتا ہے جس میں نسیم صبح کی سبک خرامی ہے غنچوں کی نمود ہے زبان برگ کی گویا خامشی ہے اور سکوت گل کا افسانہ ہے: جنبش موج نسیم صبح گہوارہ بنی جھومتی ہے نشہ ہستی میں ہر گل کی کلی یوں زبان برگ سے گویا ہے اس کی خامشی دست گل چیں کی جھٹک میں نے نہیں دیکھی کبھی کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا کنج خلوت خانہ قدرت ہے کاشانہ مرا دامن کوہ کے پھولوں کلیوں اور پتوں کا یہ ایک اچھوتا حسن ہے جس کی سکوں بخشی ایک خلوت خانہ قدرت سجاتی ہے جس طرح دوسرے بند میں پہاڑ کی چوٹی کا حسن‘ خلوت گاہ دل آراستہ کرتا تھا۔ گرچہ کوہستاں کے سارے بند میں پہاڑ کی چوٹی کا حسن ‘ مگر ان کا جمال خلوت کے تفکر کی طرف مائل کرنے والا ہے مظاہر کو دیکھ کر دل حقائق کے ادراک کے لیے بے قرار ہوتا ہے۔ اس لیے کہ حسین مناظر کے پیچھے ایک اس حسن ظاہر سے بھی بڑی حقیقت جمال باطن کی پوشیدہ ہے۔ اسی لیے بصارت تیز ہو کر بصیرت بنتی ہے اور بصیرت گہرائی میں اتر کر معرفت بن جاتی ہے مشاہدے سے مطالعہ اور مطالعے سے ادراک پیداہوتا ہے۔ کوہسار ہمالہ پر مناظر قدرت کا رنگ دیکھ لینے کے بعد چھٹے بند سے ان مظاہر قدرت کا آہنگ سنائی دیتا ہے جو اس کہسار کے ساتھ وابستہ ہیں: آتی ہے ندیٰ فراز کوہ سے گاتی ہوئی کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی آئینہ سا شاہد قدرت کو دکھلاتی ہوئی سنگ راہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی چھیڑتی جا اس عراق دل نشیں کے ساز کو اے مسافر! دل سمجھتا ہے تری آواز کو ہمالہ جیسے بلند و بالا پہاڑ کی اونچائیوں سے اتر کر جس ندی کے دھارے ڈھلوانوں میں بہتے ہوں اس کی موسیقی کا تصور ہی سامعہ نواز ہے‘ پھر اس جوئے کوہ کا پانی یقینا آئینے کی طرح صاف و شفاف ہو گا‘ لہٰذ کیا روانی اور کیا صفائی دونوں میں ہمالیہ کی ندیاں کوثر و تسنیم کے لیے بھی قابل رشک ہو سکتی ہیں۔ وہ بلاشبہ جنت نگاہ اور فردوس گوش شامل ہیں۔ ان کے شفاف پانی میں شاہد قدرت اپنے رخ زیبا کا حسین عکس دیکھ دیکھ کر سنورتا ہے۔ یہ اٹھلاتی ہوئی بلند ترین ندیاں انتہائی تیزی کے ساتھ رواں دواں ہیں کبھی پتھروں سے ٹکراتی ہوئی اور کبھی ان سے بچ کر نکلتی ہوئی۔ شاعر ہمالہ کی اس موج آب کے دل نشیں نغمے کو سنتا ہے اور راہ حیات کے اس تیزرو مسافر کی تیز گامی کو سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی راہ حیات میں اپنی منزل کی طرف کچھ اسی طرح تیز گام ہے ۔ اس بند میں سب سے نمایاں چوتھا مصرع ہے جس میں الفاظ کا انتخاب اور ان کی نشست اس نغمہ موسیقی کو محسوس کرانے کے لیے بہت موزوں ہے جو ہمالہ کے جوئیباروں سے پھوٹتا ہے ۔ پہلے مصرعے میں حروف و صوت اور لفظ ومعنی کی ترکیب اور ترتیب جس ترنم فطرت کی ابتدا کرتی ہے چوتھا مصرع اس کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ اور ترنم کی اس لکیر کے درمیان فطری طور سے سطح آب پر قریب کے مظاہر قدرت کا عکس بھی پرتو فگن ہو کر ترنم کی ثروت میں اثر کے لحاظ سے اضافہ کرتا ہے۔ آخری شعر میں شاعر اس نغمے کے آہنگ کو عراق دلنشیں سے تشبیہہ دے کر خود بھی منظر کی موسیقی میں شامل ہو جاتا ہے۔ ساتویں بند میں بھی نغمہ کوہسار جاری رہتا ہے اور جوئبار کے بعد آبشار کا ترنم ایک حسین ترین پس منظر میں ابھرتا ہے‘ شام ہو رہی ہے لیلیٰ شب کی دراز زلفیں کھل چکی ہیں‘ ہر طرف سکوت ہے ‘ درخت تک تفکر میں گم نظر آتے ہیں فطرت کی یہ خاموشی تکلم سے بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے ۔ رنگ شفق کوہسار پر لرزاں ہے‘ اور گویا عروس فطرت کے رخسار پر غازہ مل کر اس کے شعلہ حسن کو فروزاں کر رہا ہے۔ اس عالم میں آبشاروں کی صدا دامن دل کی کھینچتی ہے۔ اور انسان ایک دوسری دنیا میں کھو جاتا ہے لیلیٰ شب زلف رسارنگ شفق اور دامن دل کی ترکیبیںاور شبیہیں جو کیفیت پیدا کرتی ہیں اس میں مل کر آبشاروں کی صدا ایک نہایت خیال انگیز نغمہ رنگیں کی فضا قائم کرتی ہے فطرت کے رخسار پر صنعت کے جس غازے کا ذکر کیا گیا ہے وہ اول تو شفق جیسے مظہر فطرت ہی کا گلگلونہ ہے دوسر ے یہ نگاہ شاعر رنگیں نوا کا وہ غازہ فن ہے جس کے فیض سے عروس ہمالہ کے حسین رخسار جمیل تر نظر آنے لگتے ہیں۔ کوہسار پر رنگ شفق کے سرخ عکس کی یہ بہترین شاعرانہ تعبر و تمثیل ہے۔ دنیا کے سب سے اونچے اور پرانے کوہسار کی اس شاعر انہ حقیقیت پسندانہ تصویر کشی کے بعد آخری بند میں شاعر ہمالہ کو مخاطب کر کے اس سے فرمائش کرتا ہے کہ وہ اسے اس صدیوں پہلے گزرے ہوئے قدیم ترین وقت کی داستان سنائے جب اس کی دادی آبائے انسان کا مرکز بنی ار پہلی بار انسان کے قدیم اس قدیم زمین پر پڑے تاکہ اس سیدھی سادھی بالکل فطری زندگی کا کچھ ماجرا معلوم ہو جس پر تمدن کے پر تکلف رنگ کا داغ نہ پڑا تھا اور زندگی کا معصوم چہرہ غازہ صنعت کاری سے بالکل تروتازہ تھا اپنی اس شاعرانہ تمنا کو پورا کرنے کے لیے شاعر عالم تصور میں ساعت وقت کی سوئیوں کو صدیوں پیچھے کی طرف لے جانا چاہتا ہے تاکہ ماضی کے فردوس گم گشتہ کا نظارہ کرے: اے ہمالہ داستاں اس وقت کی کوئی سنا مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا داغ جس پر غازہ رنگ تکلف کا نہ تھا ہاں دکھا وے اے تصور! پھر وہ صبح و شام تو لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو کوہ ہمالہ جیسے قدیم ترین مظہر قدرت کے دامن میں کھڑے ہو کر قدرت کے عجائب اور فطرت کے اسرار کا مشاہدہ و مطالعہ کرتے ہوئے۔ یہ تمنا بالکل فطری ہے۔ کسی بھی دور جدید کا ترقی یافتہ انسان جب اس طویل و عریض اور حسین و جمیل کوہسار کو دیکھے گا اور اس کے مناظر مظاہر پر غور کرتے گا تو اس کے دل و دماغ میں تاریخ انسانی کے بعید ترین ماضی کے متعلق ایک شدید تجسس فطری طور پر اور بے ساختہ پیدا ہو گا اور یقینا اس کی نگاہ تصور ماقبل تمدن کی معصوم سادگی اور اس کی اس عظمت و شوکت کا نظارہ کرنے لگے گی جو ہمالہ کی مہیب چٹانوں اور ان کے پھیلے ہوئے سلسلوں اور ان کی ابھری ہوئی چوٹیوں سے ہویدا ہے ’’آبائے انساں‘‘ کی ترکیب ہی قاری کے تخیل کے سامنے سے وقت کے پردے ہٹا کر اسے آغاز تاریخ کے لمحات میں پہنچا دیتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ نظم کا ارتقائے خیال مسلسل ہے اور مختلف بندوں کے درمیان ایک ترتیب ہے ساتھ ہی ہر بند کے مصرعے اور اشعار ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ہئیت کی اس تنظیم کے علاوہ استعارات و علامات اور کنایات و اشارات کا پورا نظام ہے منتخب الفاظ و تراکیب کی نشست معنی آفرینی بھی ہے اور نغمہ آفریں بھی‘ ان فنی کمالات سے کوہ ہمالہ کی ایک دل آویز اور فکر انگیز شاعرانہ حقیقت پسندانہ تصویر رونما ہوتی ہے۔ ہمالہ کی تصویروں میں کوئی تصنع نہیں نہ اس کے آہنگ میں کوئی تکلف ہے۔ کوئی بات نہ تو دور انکار ہے نامانوس نہ فضول بلکہ سامنے کی حقیقت اور فطرت کے متنوع پہلو میں جنہیں فن کارانہ طور پر ایک نظم میں مناسب طور پر پرو دیا گیا ہے صرف یک چیز بعض کانوں کو کھٹک سکتی ہے وہ ہے توالی اضافات کی کثرت لیکن یہ چیز کم و بیش اقبال کے پورے کلام میں ہے اور ان کی بہترین نظموں میں بھی پائی جاتی ہے اقبال کے علاوہ بھی اہم اردو شعراء کے بہترین اشعار میں یہ بات موجود ہے کہ غالب تو غالب‘ حسرت کے کلا م میں بھی یہ عنصر ہے۔ جہاں بھی ہے یہ کوئی اجنبی یا ثقیل و کریہہ چیز نہیں اردو زبان و ادب کے اسالیب و محاورات میں فارسی الفاظ کی تراکیب خون کی طرح جاری و ساری ہیں۔ اور ان کی ثروت و زینت کے ضامن ہیں۔ اس سلسلے میں لسانی و ادبی نکتہ نظر صرف طریق استعمال اور محل استعمال کا ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہمالہ کی توالی اضافات والی ترکیب اپنی جگہ بہت ہی چست موزوں اور حسین سب اور راواں ہیں۔ ان میں بڑی شیرینی ‘ معنی آفرینی اور نغمہ آفرینی ہے۔ رنگینی زرینی اور خیال انگیزی ہے ان غور کیجیے ان ترکیبوں پر: فصیل کشور ہندوستاں ‘ کلیم طور سینا‘ امتحاں دیدہ ظاہر‘ سوائے خلوت گاہ دل ‘کلاہ مہر تاب عالم تاب ‘ برق سر کوہسار‘ جنبش موج نسیم صبح‘ کنج خلوت خانہ قدرت‘ مسکن آبائے انساں‘ غازہ رنگ تکلف۔ اگر ان خوب صورت ارو درخشاں تراکیب کو زیورات جیسا سامان آرائش قرار دیا جائے تب بھی فن کے نقطہ نظر سے کوئی مضائقہ نہیں۔ شاعری بجائے خود تزئین حیات ہے اور اس کے جملہ وسائل اظہار عناصر جمال ہیں‘ شعر میں سادگی نہ شرم لازم ہے نہ کوئی بڑا وصف پھر یہ ساری تراکیب اپنے اس سیاق و سباق میں نگینے کی طرح جڑی ہوئی ہیں جس میں مفرد الفاظ اور نرالی اضافات سے خالی تراکیب کی کثرت ہے۔ ہمالہ کا جسم فطری و پیدائشی طور پر بہت صحت مند اور خوبصورت ہے‘ اس کے تمام اعضا قدری طور پر سڈول ہیں اور سجل ہیں۔ اس کی رگوں میں خون حیات گرم جولاں ہے اس متناسب اور حسین جسم پر اگر زیورات بھی ہیں تو یقینا وہ بہار حسن اور اس کی دل کشی میں اضافہ کر رہے ہیں سنگلاخ ہمالہ کودست فن کار نے ایک عروس کی طرح آراستہ و پیراستہ کر دیا۔ اس سے سلسلہ کوہ کی صلابت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے‘ صرف اس کی نفاست میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے‘ پہاڑ کا جمال جمیل تر ہو گیا ہے۔ تین اور بالکل ابتدائی نظموں کا مطالعہ فنی اعتبار سے مفید ہو گا بانگ درا کی دوسری نظم گل نگیں اور تیسری نظم عہد طفلی میں بھی ہمالہ کی طرح مسدس ہیں۔ ان میں پہلی بار چار بندوں پر مشتمل ہے اور دوسری دو بندوں پر‘ دونوں میں ترکیب بند ہے۔ دانوں میں فارسی تراکیب اور ان میں توالی اضافات کثرت سے ہیں۔ اس مشابہت کے باوجود اگر پہلی نظم کسی کو نہایت پر تصنع اور پر تکلف معلوم ہوتی ہے جب کہ دوسری سادہ و فطری نظر آتی ہے تو اس کی کوئی وجہ اس کے سوا سمجھ میں نہیں آتی کہ ایسا سمجھنے والے شاید دونوں نظموں کے موضوعات اور حجم میں فرق سے متاثر ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بالکل شخصی و موضوعی قسم کا تاثراتی انداز نظر ہے۔ اس قسم کے مطالعے میں معروضیت اور اصولی و فنی انداز تنقید نہیں ہے۔ غور کیجیے دونوں نظموں کی توالی اضافات والی ترکیب پر۔ گل رنگیں شناسائے خراش عقیدہ مشکل‘ شریک شورش محفل‘ نگاہ چشم صورت ہیں‘ برگ ریاض طور زخمی شمشیر جستجو چراغ خانہ حکمت رشک جام جم‘ توسن ادراک انسان۔ عہد طفلی وسعت آغوش مادر‘ نشان طفل جاں‘ شور زنجیر در بلاشبہ پہلی نظم میں توالی اضافات سے دوسری سے دوگناہ بلکہ تین گنا ہے۔ لیکن اول تو پہلی کے بند میں بھی دوسرے سے دوگنا ہیں دوسرے موضوع کے لحاظ سے تصویروں کا استعمال ہے۔ عہد طفلی میں شاعر نے صرف ایک بچے کے احساسات واحد متکلم میں اسی کی طرف سے بیان کیے گئے ہیں۔ جبکہ گل رنگیں میں ایک تو شاعر نے پھول کے وجود کی بالکل فلسفیانہ ترجمانی کی ہے ۔ دوسرے وہ خود متکلم ہے اورپھول مخاطب چنانچہ ایک مظہر فطرت کی تصویر کشی کی بجائے اس مظہر کے متعلق شاعر کے احساسات بیان کیے گیے ہیں گویا پھول پر شاعر نے اپنی کیفیات طاری کر دی ہیں یا پھول کے احساسات بیان کیے گئے ہیں گویا پھول پر شاعر نے اپنی کیفیات طاری کر دی ہیں یا پھول کو دیکھ کر شاعر کے دل میں اپنے متعلق جو احساسات ابھرے ان کا بیان اس نے پھول کے ساتھ اپنا تقابل کر کے کیا ہے۔ اس طرح گل رنگیں کا موضوع بہت پیچیدہ ہے جبکہ عہد طفلی کا موضوع نسبتاً سادہ ہے۔ یہ پیچیدگہ اور سادگی ان تصورات میں نہیں‘ جہاں تک نظم کا تعلق ہے‘ یہ فرق ان تصورات کے متعلق شاعر کے تصور میں ہے اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں موضوعات میں توالی اضافات سے قطع نظر ایک تو فارسی الفاظ و تراکیب یکساں نمایاں ہیں دوسرے انداز فکر فلسفیانہ بھی ہے ۔ دونوں کے الفاظ و تراکیب پر ایک نظر ڈالیے: گل رنگیں گل رنگیں‘ زیب محفل‘ فراغت ‘ بزم ہستی‘ سراپا سوز و ساز آرزو‘ بے گداز آرزو‘ آئیں‘ دست جفا جو‘ گل چیں‘ دیدہ حکمت دیدہ بلبل‘ مستور ‘ مثل بو ‘ سامان جمعیت جگر سوزی‘ سرمایہ قوت‘ آئینہ حیرت‘ تلاش متصل ‘ شمع افروز‘ خرام آموز ‘ ناتوانی۔ عہد طفلی عہد طفلی‘ دیار نو‘ جنبش‘ حرف بے مطلب‘ درد طفلی ‘ سوئے قمر ‘ بے آواز پا‘ کوہ و صحرا‘ دروغ مصلحت آمیز‘ وقف دید‘ مائل گفتار ‘ سراپا ذوق استفسار۔ چار بندوں کی نظم میں اکیس الفاظ کی فہرس ہے اور دو بندوں کی نظم میں بارہ الفاظ ہیں گویا فارسی کے ان مفرد و مرکب الفاظ کا استعمال جن کا آسان تر بدل موجود ہے دونوں نظموں تقریباً برابر ہے۔ اب دونوں نظموں میں سے ایک ایک شعر نمونے کے طور پر لیتا ہوں: تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں اے گل رنگیں تیرے پہلو میں شاید دل نہیں ٭٭٭ درد طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے شور زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے پہلا شعر گل رنگیں کا پہلا ہی شعر ہے اور اس کے پہلے ہی مصرعے میں شناسائے خراش عقدہ مشکل‘ کی چار الفاظ پر مشتمل توالی اضافات ہے ‘ دوسرا شعر عہد طفلی کا تیسرا شعر ہے اور اس میں تین الفاظ شورش زنجیر در‘ پر مشتمل توالی اضافات ہے شور ش زنجیر در کی ترکیب ایک طفل شیر خوار کے لبوں سے ادا ہوتی ہے۔ اور اس کی توالی اضافات بھی ایک تتلاہٹ محسو سہوتی ہے۔ جبکہ صوتی اور طور پر اس سے زنجیر سے ہلنے کی صدا بھی ابھرتی ہے لہٰذا اپنے محل استعمال ہیں یہ بالکل چست ہیں لیکن شناسائے خڑاش عقدہ مشکل‘ کی ترکیب ایک عاقل و بالغ بلکہ مفکر و فلسفی یا کم از کم باشعور فن کا ر کی زباں سے نکلتی ہے۔ جبکہ وہ گل رنگیں کو خطاب کر کے اس کے ساتھ اپنے حال دل کا موازنہ کر رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ پھول کتنا ہی رنگیں و حسین ہے اس کے پہلو میں سوچنے اور محسوس کرنے والا دل نہیں ہوتا لہٰذا وہ بہت معصوم سادہ لوح اور مطمئن ہے جبکہ شاعر اپنے پہلو میں ایک حساس دل رکھتا ہے۔ اور سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں ہے۔ ہو زخمی شیر ذوق جستجو ہے ایک سے ایک عقدہ مشکل اس پر اپنی خراش ڈال رہا ہے۔ یہ خراش عقدہ مشکل اپنا ایک خاص لطف رکھتی ہے اور شاعر کا دل مجروح اس لطف کا شناسا ہے یہ شناسائی گرچہ اولاً اور بہ ظاہر پریشانی کا باعث ہے لیکن بالآخر اور درحقیقت یہی پریشانی سامان جمعیت بن جائے گی ا س سے دل میں ایک تلاش متصل پیدا ہوتی ہے جبکہ صوتی طور پر اس سے زنجیر ہلنے کی صدا بھی ابھرتی معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا پنے محل استعمال میں یہ بالکل چست ہے لیکن شناسائے خراش عقدہ مشکل‘ کی ترکیب ایک عاقل و بالغ بلکہ مفکر و فلسفی یا کم از کم باشعور فن کار کی زبان سے نکلتی ہے ۔ جبکہ وہ گل رنگیں کو خطاب کر کے اس کے ساتھ ساتھ اپنے حال دل کا موازنہ کر رہا ہے۔ وہ کہنا یہ چاہتا ہے کہ پھول کتنا ہی رنگین و حسین ہو اس کے پہلو میں سوچنے اور محسوس کرنے والا دل نہیںہوتا لہٰذا وہ بہت معصوم سادہ لوح اورمطمین ہے جبکہ شاعر اپنے پہلو میں ایک حساس دل رکھتا ہے اور سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں ہے۔ وہ زخمی شمشیر ذوق جستجو ہے ایک سے ایک عقدہ مشکل ا س پر اپنی خراش ڈا ل رہا ہے یہ خراش عقدہ مشکل اپنا ایک خاص لطف رکھتی ہے اور شاعر کا دل مجروح اس لطف کا شناسا ہے یہ شناسائی گرچہ اولاً اور بہ بظاہر پریشانی کا باعث ہے لیکن بالآخر اور درحقیقت یہی پریشانی سامان جمعیت بن جائے گی ا س سے دل میں ایک تلاش متصل پیدا ہو تی ہے جو توسن ادراک انسان کے لیے خرام آموز ہے یہ وہ جگر سوزی ہے جو چراغ خانہ حکمت ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح ایک شورش زنجیر در کی ترکیب پوری نظم کے موضوع سوز و ساز آرزو کا اشاریہ ہے‘ اس سوز و ساز کی کیفیت ہی کو شاعر نے خراش عقدہ مشکل کی ترکیب میں ممثل کیا ہے ۔ جو صوتی و معنوی دونوں لحاظ سے بالکل موزوں ہے۔ لہٰذ ا فن کے نقطہ نظر سے توالی مضافات کے بجائے رشتہ معنی کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔ اس لحاظ سے معلوم ہو گا کہ دونوں ترکیبیں اپنے اپنے مفاہیم موثر ترین طریقے سے ادا کرتی ہیں۔ یہی وہ بڑی سے بڑی کامیابی ہے جس کی توقع شاعری سے کی جا سکتی ہ۔ اقبال کی توالی اضافات کا موازنہ غالب کے ابتدائی کلام میں پائی جانے والی توالی اضافات سے کیا جائے تو فن کے کچھ نکات روشن ہوں گے۔ غالب کا ایک شعر ہے: شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا تماشائے بیک کف بردن صدول پسند آیا مرغوب بن مشکل پسند اور تماشائے بہ یک کف بردن صد دل کا موازنہ شناسائے خڑاش عقدہ مشکل سے کیا جائے اور اس سلسلے میں یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اقبال کی ایک ترکیب جس کے پہلے مصرعے میں واقع ہے اور اس کا دوسرا مصرع توالی اضافات سے خالی ہے: اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں اقبال و غالب کے متعلقہ اشعار پر ایک نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے شعر کا مفہوم واضح ہے جبکہ غالب کے شعر کا مفہوم غور طلب اور مبہم ہے ۔ اور اس ابہام میں دونوں مصرعوں کی توالی اضافات نے اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کے شعر کے پہلے مصرعے میں توالی اضافات سے کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ تو شناسائے خراش عقدہ مشکل کی ترکیب بآسانی سمجھ میں آتی ہے اور دوسرے مصرعے پر نظر ڈالتے ہی پورے شعر کا مفہوم آئینے کی طرح واضح ہو جاتا ہے تب محسوس ہوتا ہے کہ اس وضاحت میں پہلے اس مصرعے کی ترکیب معنی ایک دبازت پیدا کر رہی ہے اس طرح اقبال کی ترکیب اور بند ش الفاظ کی پیچیدگی اظہار خیال کا ایک موثر وسیلہ ہے جبکہ غالب کی ترکیب و بندش کی زولیدگی اخفائے خیال کا باعث ہے۔ دونوں شاعروں کے ابتدائی کلام میں فارسیت کے یکساں غلبے کے باوجود اسلوب بیاں کا یہ نمایاں فرق کچھ معنی رکھتا ہے۔ وہ یہ کہ ابتدائے کلام سے اقبال کے ذہن اور فن میں ایک ہمواری اور استواری ہے جو غالب کے یہاں نہیں ہے ۔ ایسا جس وجہ سے بھی ہو‘ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اردو شاعری میں اقبال کا تجزیہ غالب کے بعد اگلا قدم ہے۔ بہرحال عہد طفلی میں تو ایک کامیاب مختصر نظم ہے ہی گل رنگیں کی ہئیت فن پر ایک نظر ڈالنا مفید ہو گا۔ پہلے بند میں شاعر ہمالہ کی طرح موضوع کا اجمالی تعارف موثر طریقے سے کراتا ہے: تو شناسائے خراش عقدہ مشکل نہیں اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں اس چمن میں سراپا سوز و ساز آرزو اور تیری زندگانی بے گداز آرزو دوسرا شعر پہلے شعر کی تشریح وتفصیل ہے گل رنگیں درد دل سے خالی ہے۔ لہٰذا محفل کی زینت ہوتے ہوئے بھی شورش محفل میں شریک نہیںجبکہ ایسی فراغت خاطر اور بے فکری دنیائے ہست و بود میں شاعر یا انسان کو حاصل نہیں۔ لہٰذا چمن حیات میں شاعر تو سراپا سوز و ساز آرزو ہے جبکہ گل رنگیں کی زندگی اس سوز و ساز سے یکسر خالی ہے۔ شاعر حساس ہے گل بے حس اس کے باوجود حسن قدرت کا ایک مظہر ہے۔ اور شاعر کو اس سے ای الفت ہے۔ وہ بہت ہی نزاکت و احتیاط اور اسغراق سے اس کا مطالعہ کر رہا ہے اور شاعر کو اس سے ایک الفت ہے وہ بہت ہی نزاکت و احتیاط اور استغراق سے اس کا مطالعہ کر رہا ہے چنانچہ دوسرے بند میں کہتا ہے: توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں یہ نظر غیر از نگاہ چشم صورت میں نہیں آہ! یہ دست جفا جو اے گل رنگیں نہیں کس طرح تجھ کو سمجھائوں کہ میں گل چیں نہیں کام مجھ کو دیدہ حکمت کے الجھیڑوں سے کیا دیدہ بلبل سے میں کرتا ہوں نظارہ ترا یہ خالص شاعرانہ انداز مطالعہ یا عاشقانہ طرز فکر ہے جس میں دیدہ حکمت کے مقابلے پر دیدہ بلبل کو ترجیح دی گئی ہے۔ گویا بلبل کی طرح شاعر بھی عاشق گل ہے‘ لہٰذو وہ گل چیں بن کر پھول توڑنا نہیں بلبل کی طرح اسے صرف دیکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح شاعر اور گل رنگیں کے درمیان ایک خاموش گہری ہم آہنگی قائم ہو جاتی ہے۔ تیسرے بند کے چار مصرعے اس ہم آہنگی میں اضافہ اور اس کی تفصیل کرتے ہیں۔ سوز بانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے میری صورت تو بھی اک برگ ریاض طور ہے میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دور ہے ٭٭٭ یہ مصرعے اقبال کی اس مفکرانہ (Reflective) شاعری کے نمونے کے مصرعے ہیں جو ان کے کلام میں جابجا فطرت اور اس کے مظاہر کثرت سے پائی جاتی ہے۔ ان مصرعوں میں جو پر معنی خطاب گل رنگیں سے ہے وہ آئندہ اسی طرح دوسرے مظاہر کے ساتھ بھی ملے گا مثلاً چاند‘ لالہ ‘ اختر صبح‘ شعاع آفتاب‘ گل رنگیں کی خاموشی بے معنی نہیں‘ اس کے سینے میں بھی کوئی راز ہے اور وہ بھی تجلی الٰہ کا ایک مظہر انسان ہی کی طرح ہے۔ دونوں باغ عدن سے ٹوٹے ہوئے یا اکھڑے ہوئے پھول ہیں اور اپنے اصلی چمن سے دور ایک اجنبی جگہ رکھا رہے ہیں ۔ لیکن ٹیپ کا شعر ایک پہلو یعنی فطرت کی جہت سے ہم آہنگی کے باوجود وسرے پہلو یعنی دنیوی حقیقت کے لحاظ سے انسان اور گل رنگیں کے درمیان امتیاز پر روشنی ڈالتا ہے: مطمئن ہے تو پریشاں مثل بو رہتا ہوں میں زخمی شمشیر ذوق جستجو رہتا ہوں میں یہ وہی بات ہے جو پہلے بند میں کہی گئی تھی اس طرح دوسرے اور تیسرے بند میں گل رنگیں اور اپنے درمیاں ایک فطری ہم آہنگی تلاش کرکے شاعر تیسرے بند کے آخر میں اپنے اصل موضوع‘ سوز و ساز آرزو کی طرف لوٹ آتا ہے اورپھول کے برخلاف انسان کے اندر اس کااثبات کرتا ہے ۔ لیکن بیچ کے اشعار میں ظاہر ہونے والی ہم آہنگی انسان اور فطرت کے درمیان فاصلے کو نہ صرم کم کرتی ہے بلکہ ایک نیا رنگ دے دیتی ہے وہ یہ کہ قدرت کا جو راز اور حسن مناظر قدر ت میں پوشیدہ ہیں وہ انسان میں ظاہر ہے اس لیے کہ مناظر تو اپنی جگہ ساکن وساکت رہتے ہیں مگر انسان متفکر و متحیر رہتا ہے۔ تخیل کی اس خوبصورت اور خیال انگیز پیچیدگی کو فن نے ایک پیچیدہ لیکن مرتب ہئیت میں ظاہر کیا ہے پہلے بند میں وہ موضوع کا اجمالی اظہار کرتا ہے دوسرے موضوع سے متعلق اور اس کو زیادہ زرخیز بنانے کے لیے وہ پس منظر کی وہ تفصیلات بیان کرتا ہے جن کے سبب وہ نہ صرف یہ کہ موضوع اپنے تمام مضمرات و تضمنات کے ساتھ واضھ ہو جاتا ہے بلکہ اس کی معنویت میں بڑا اضافہ ہوتا ہے چنانچہ تیسرے بند کا آخری شعر بیچ کے دو بندوں کو پہلے بند کے ساتھ جوڑ کر تکلم کے ارتقائے خیال کو ایک قدم آگے بڑھاتا ہے اور چوتھے اور آخری بند کی تمہید بن جاتا ہے: یہ پریشانی مری سامان جمیعت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو رشک جام جم مرا آئینہ حیرت نہ ہو یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے تو سن ادارک انسان کو خرام آموز ہے یہ نظم کا خلاصہ و خاتمہ ہے اور جو موضوع پہلے بند سے شروع ہوتا تھا اس کی تکمیل ہے ۔ شاعر گرچہ گل رنگیں کی طرح سکون و اطمینان سے بہرہ مند نہیں بلکہ فکر مند اور پریشان ہے مگر پریشانی اور اس سے پیدا ہونے والی ناتوانی امید ہے کہ ایک جمعیت و قوت کا سامان بنے گی اورجو انسان اپنی سادگی میں صرف دیدہ بلبل پر قناعت کر رہا تھا اور دیدہ حکمت کو الجھیڑوں کا باعث سمجھ رہا تھا اب فکر و نظر کی بدولت اپنی جگر سوزی کو چراغ خانہ حکمت بنتا ہو اپائے گا اور اس کی فلسفیانہ حیرت بالآخر ایک ایسی بصیرت میں تبدیل ہو جائے گی جو رشک جام جم‘ ہو گی۔ لہٰذا خراش عقدہ مشکل کی خلش اور سوز و ساز آرزو کی تپش جس نے درد مند شاعر کو ایک مظہر قدرت اور حسن فطرت تک گویا تلاش حقیقت میں پہنچا دیا تھا ایک شمع جہاں افروز ثابت ہو گی اس لیے کہ یہ تلاش متصل ہی ہے جو توسن ادراک انسان کو خرام آموز ہے اس طرح ترکیب بند کی معروف و مسلم تکنیک کے بالکل مطابق گل رنگیں کا مسدس نہایت مربوط طریقے پر موضوع تخیل کا ابلاغ کرتا ہے۔ لہٰذ ا فن کے نقطہ نظر سے گل رنگیں اسی طرح ایک کامیاب تجرب ہے جس طرح پہلے ہمالہ اور اس کے بعد تیسری نظم عہد طفلی میں کیا گیا ہے ۔ جبکہ دونوں کے درمیان تیسری تخلیق گل رنگیں ہی ہے۔ ہمالہ کے بعد تیسری نظم فطرت ابر کوہسار ہے۔ اورپچھلی نظموں کی طرح مسدس کے ترکیب بند میں ہے۔ ہمالہ گل رنگیں‘ اور ابر کوہسار تو عنوان ہی سے فطرت کی نظمیں معلوم ہوتی ہیں جبکہ عہد طفلی ابھی چونکہ فطرت ہی کی سادگی معصومیت اور تازگی پر ایک شاعرانہ تخلیق ہے لہٰذا اسے نظم فطرت ہی کہنا چاہیے۔ عہد طفلی کی طرح ابر کوہسار میں بھی مظہر فطرت واحد متکلم میں براہ راست اپنی منظر نگاری خود کرتا ہے جبکہ ہمالہ اور رل رنگیں دونوں میں موضوع واحد حاضر تھا اور شاعر نے اس سے خطاب کر کے اس کی تصویر کشی اس انداز سے کی تھی کہ اس میں اپنے احساسات و خیالات کے رنگ اور لکیریں بھی ملا دی تھیں مواد و بیان کے عناصر عنصر کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمالہ فکریہ بیانیہ Descriptive Reflective ے گل رنگیں فکریہReflectiveہے اور عہد طفلی یا تو عہد طفل میں ہے یا ابر کوہسار میں جبکہ خالص اور بالکل معروضی منظر نگاری صرف ابر کوہسار میں ہے۔ اس لیے کہ عہد طفلی میں بہرحال معروض اور منظر کے ساتھ ایک معروضی مظہر بھی ہے جو بے شعر یا کم شعری سہی فطری قوت گویائی کسی نہ کسی درجے اور شکل میں رکھتا ہے۔ اور گرچہ وہ شاعری نہیں کر سکتا مگر ان احساسات و جذبات کا مالک ہے جو اس سے منسوب کیے گئے ہیں بلکہ عہد طفلی کا بیان صیغہ ماضی میںہونے والے کے سبب یہ صورت بھی پیدا ہو گئی ہے کہ ایک بالغ انسان ہی اپنی طفولیت کو یاد کر رہا ہے۔ اس کے برخلاف ابر کوہسار کو شاعر نے تھوڑی دیر کے لیے جو زبان حال دے دی ہے تو وہ اپنے وجود اور عمل کی ایک نہایت و حسین و جمیل ترجمانی اور نقاشی ہے روک ٹوک ایک والہانہ سرمستی کے ساتھ کر رہا ہے۔ فطرت کی اس سے بھی زیادہ حسین نظم ایک آرزو ہے جس کی ہئیت غزل کے قطعے کی ہے اس میں دامن کوہ میں بہتے ہوئے ایک چشمے کے کنارے گل بوٹے پرند‘ شفق شبنم‘ بادل‘ بجلی ‘ صبح و شام اور اس قدرتی پس منظر میں ایک شیدائے فطرت کی ایسی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے آدمی بالکل اسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جس کی کاغذی تصویریں اس کی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے۔ فطرت کے رنگ اور آہنگ کی اس سے زیادہ حسین اور موثر عکاسی و نقاشی ممکن نہیں۔ دنیا کا کوئی فطرت نگار شاعر خواہ وہ ورڈس ورتھ ہی کیوںنہ ہو مناظر قدرت کے حسن و اثر کی فنی تخلیق میں اس سے آگے ایک انچ نہیں بڑھ سکتا اس نظم کے ایک ایک شعر ایک ایک پیکر‘ ایک ایک نغمے پر‘ روح وجد کرتی ہے۔ جنت نگاہ اور فردوش گی ش کی ترکیبوں کا استعمال اگر مناظر قدرت کی تصویروں کے سلسلے میں کسی بھی انسانی تخلیق کے لیے کیا جا سکتا ہے تو وہ ایک آرزو یقینا ہے۔ دل آویز تشبیہوں استعاروں اور تمثالوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ نغمات کا ایسا وفور ہے کہ الفاظ رقص و موسیقی کے پیکر اور صدائیں معلوم ہوتے ہیں اس ولولہ خیز اور زمزمہ انگیز منظر فطرت میں گویا جان پڑ گئی ہے۔ شاعر کی بحیثیت ایک شیدائے فطرت کے اس میں شمولیت اور تمام مناظر کے ساتھ مکمل ہم آہنگی ہے۔ اس شمولیت نے خاص کر قاری کی ذہنی شمولیت کا سامان پہلے ہی سے کر دیا ہے۔ فطرت کی شاعر ی پر مشتمل دوسری نظمیں بھی قابل ذکر ہیں مثلاً ماہ نو‘ موج دریا‘ چاند (۱) جگنو‘ کنار راوی ‘ ایک شام‘ (۲) صبح کا ستارہ ‘ کلی‘ ستارہ نمود صبح‘ رات اور شاعر‘ بزم انجم۔ مظاہر فطرت کے عنوان سے بانگ درا کی دیگر نظمیں بھی لائق مطالعہ ہیں‘ ان کے علاوہ دوسرے موضوعات پر لکھی ہوئی نظموں میں بھی جا بجا فطرت کی شاعری کے بہترین نمونے بکھرے ہوئے ہیں ’’خضرر اہ‘‘ کے ابتدائی حصوں میں ’’شاعر‘‘ اور ’’صحرا نوردی‘‘ کے ذیلی عنوانات کے تحت فطرت کی حسین ترین شاعری پر تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن کچھ اور عام قسم کی نظمیں بھی ہیں جن میں اس قسم کی شاعری کی مثالیں ملتی ہیں۔ گورستان شاہی کی یہ تمہدی ملاحظہ کیجیے: آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارہ خاموش میں صبح صادق ہو رہی ہے رات کی آغوش میں کس قدر اشجار کی حیرت افزا ہے خامشی بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے ٭٭٭ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ کے آخری بند میں پہلے گویا خاتمہ نظم کے آغاز کے طور پر یہ بند دیکھیے: پردہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتی ہے صبح داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتی ہے صبح لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتی ہے یہ بے زمان طائر کو سرمست نوا کرتی ہے یہ سینہ بلبل کے زنداں سے سرور آزاد ہے سینکڑوں نغموں سے باد صبحدم آباد ہے خفتگان لالہ زار و کوہسار و رود بار ہوتے ہیں آخر عروس زندگی سے ہمکنار یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح مرقد انسان کی شب کا کیوں نہ ہوا انجام صبح محولہ بالا دونوں نظموں میں فطرت نگاری کا ایک سرسری تجزیہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال فطرت کی شاعری کے لیے بہترین استعداد بلکہ اس کا ملکہ رکھتے ہوئے بھی فطرت نگاری کو اپنا مقصد فن بنانا نہیں چاہتے۔ اس لیے کہ ان کے سامنے ایک بلند ترین مطمح نظر ہے جس کے مقابلے میں وہ محض فطرت نگاری کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے گرچہ ایک تو حسن فطرت سے تاثر ان کی شاعرانہ حسیات میں شامل ہے دوسرے فطت میں وہ ایک بلند تر حقیقت کا جلوہ دیکھتے ہیں تیسرے یہ کہ بحیثیت فن کار وہ ایک وسیلہ اظہار اور سامان تزئین کے طور پر مظاہر قدرت کے امکانات سے واقف ہیں۔ چنانچہ گورستان شاہی ‘ کی تمہید جس نظارہ فطرت سے انہوںنے تیار کی ہے وہ بہترین فنی تمہید ایک خاص موضوع کے مضمرات کی موزوں فضا تیار کر نے کے لیے ہے۔ غور کیجیے خرقہ دیرینہ مکدر سا جبین ماہ کا ائینہ چاندنی پھیکی نظارہ خاموش‘ دھیمی سی نوا‘ ہے خامشی‘ کی تصویروں پر گورستان کے تناظر میں اس اس سلسلے میں لفظ خامشی کی تکرار پر بھی خا ص کر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ ٹیپ کے شعر میں خود شاعر نے اپنے اوپر کی منظر نگاری سے جو نتیجہ نکالا ہے اسے درج کر دیا ہے یعنی یہ کہ بظاہر کائنات کے جلوے کتنے ہی دلکش ہوں باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے لہٰذا جس خامشی کی تصویر شاعر نے پیش کی ہے وہ درحقیقت لب ہستی پہ آہ سرد ہے ۔ وگورستان شاہی‘ کے برخلاف والدہ مرحومہ کی یاد میں کا موضو ع بھی موت ہونے کے باوجود اس نظم میں رات کے بجائے صبح کی منظر نگاری کی گئی ہے۔ اور ایک دوسرا ہی نتیجہ نکالنے کی کوشش کی گیء ہے۔ اس لیے کہ یہاں فطرت نگاری کا مقصد مختلف ہے اور اقبال کی فطرت نگاری بھی فطرت نگاری کے لیے نہیں ہوتی۔ کسی بلند تر مقصد کے لیے ہوتی ہے چنانچہ دوسری نظم میں شاعر فلسفہ پیش کرتا ہے ۔ کہ آئین ہستی یہی ہے کہ ہو ہر شام صبح لہٰذا سے یقین کہ مرقد انسان کی شب کا انجام و صبح ہی ہو گی ٹیپ کے اس مفہوم سے پہلے بند کی پوری منظر نگاری موت کے مقابلے میں عروس زندگی کی آراستگی پر مبنی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نگاری کے سلسلے میں اقبال کا بیانیہ بھی معلوم فکریہ ہے۔ چنانچہ فطرت کی بہ ظاہر بیانیہ شاعری کے حسین ترین نمونے ایک آرزو کا بھی تجزیہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس نظم کے بیس اشعار میں اگرچہ اٹھارہ منظرنگاری پر مشتمل ہے۔ مگر چودھویں شعر سے بھی منظر نگاری کے مقصد کے اشارات ملنے لگتے ہیں۔ جب کہ آخر کے دو شعروں میں مقصد بالکل نمایاں ہو گیا ہے: راتوں کو چلنے والے رہ جائیں گے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے جب آسماں پر ہر سو بادل گھرا ہوا ہو پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن میں اس کا ہم نوا ہوں وہ میری ہمنوا ہو کانوں پہ ہو میرے دیر و حرم کا احساں روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو نالہ مرا دعا ہو اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے یعنی دامن کوہ میں ایک چھوٹا سا جھونپڑا بنانے کے باوجود دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل نہ سکا اور عزلت میں دن گزارتے ہوئے بھی ایک آرزو یہی رہی کہ امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو ۔ لہٰذا دنیا کی محفلوں سے اکتایا ہوا شاعر پچھلے پہر‘ اٹھ کر اپنی کٹیا میں خدا کے حضور نالہ و زاری کرتا ہے جب سارا عالم سوتا ہے تو کائنات کی محیط خامشی میں یہ درد کا مارا روتاہے اور تمنا کرتا ہے کہ اس کے نالوں کی صدارت کے تاروں تک پہنچے ان کے قافلے کے کوچ کے لیے بانگ درا ثابت ہو اور غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدا ر کر دے تاکہ وہ ایک نئی صبح کا نظارہ کریں اور نفس سوختہ شام و سحر کو تاز ہ کرکے خورشید حیات کے سفر کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہونے کا سامان کریں۔ یہ ہے فطرت اور اس کی اچھی سے اچھی بڑی سے بڑی شاعری کی طرف اقبال کا رویہ وہ فطرت کے پجاری نہیں‘ اس کو یاتو اپنی کیفیات کا مظہر یا اپنے فن کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور اسی انداز سے برتتے ہیں۔ اس رویے پر روشنی خود شاعری نے ایک پوری نظرم انسان اور بزم قدرت میں ڈالی ہے۔ اس کے دو حصے ہیں پہلے میں معموہ ہستی کو بزم قدرت قرار دے کر اس کے فطری حسن اور چند مظاہر قدرت کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس حصے کے آخر میں بزم قدرت کی طر ف سے دوسرے حصے میں انسان کی سیہ بختی کا فکری سوال اٹھایا گیا ہے جس کا جواب بزم قدرت کی طرف سے دوسرے حصے میں اسی تفصیل سے دیا گیا ہے جو شاعر نے بزم قدرت کے حسن و نور کی مرقع نگاری میں دکھائی تھی اس کا ماحصل یہ ہے کہ بزم قدرت انسان کو خطاب کر کے زبان حال سے کہتی ہے : انجمن حسن کی ہے تو تری تصویر ہوں میں عشق کا تو ہے صحیفہ ‘ تری تفسیر ہوں میں نظم اس نتیجے پر ختم ہوتی ہے : تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار ہے نہ سیہ روز رہے پھر‘ نہ سیہ کار رہے معلوم یہ ہوا کہ عالم وجود میں کائنات کا مرکز مخلوقات کے درمیان انسان اشرف المخلوقات ہے اور پوری بزم قدرت اپنے تمام حسین و جمیل مناظر کے ساتھ تنظیم حیات اور تزئین ہستی کے لیے ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کی خدمت پر مامور ہے۔ لہذا انسان کی حقیقت فطرت سے بڑی چیز ہے۔ اور فطرت کے ذریعے بھی اسی کے عرفان کی کوشش مقصد زندگی اور مقصود فن ہونی چاہیے۔ اقبال اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں اور ان کی پوری شاعری اسی کی ترجمانی ہے اس شاعری کا موضوع انسان ہے۔ نہ کہ فطرت اور فطرت صرف اس فن کاری کا ایک اہم وسیلہ اظہار ہے جو اس شاعری کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناظر فطرت کی تصویر کشی میں اس کے سارے حسن و جمال کے باوجود ایک نگاہ انسانی کا عنصر کبھی شامل ہے جسے مصور کی نگاہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور آلہ تصویر بھی ۔ اس نگاہ ہی کا فیض ہے کہ شاعر مناظر کی عکاسی کی بجائے یا اس کے ساتھ ساتھ نقاشی بھی کرتا ہے۔ اور اس نقش آرائی میں وہ خون جگر ملا دیتا ہے جو اس کے مقصد حیات کا رنگ ہے۔ عناصر فطرت سے تعلق رکھنے والی بانگ درا کی حسب ذیل نظمیں شاعری میں انسان اور فطرت کے احساسات کے امتزاج پر مبنی ہیں۔ نوید صبح‘ شبنم اور ستارے‘ شعاع آفتاب‘ پھولوں کی شہزادی‘ آفتاب صبح‘ پھول ‘ دو ستارے‘ اختر صبح‘ چاند اور تارے ‘ سیر فلک ‘ گل پژمردہ۔ فطرت سے اقبال کا شغف اور ان کا تصور فطرت نگاری ان حسین و دل کش نظموں میں بھی ظاہر ہوا ہے جو انہوںنے بچوں کے لیے یا ان کے متعلق لکھی ہیں یا بالعموم انگریزی سے ترجمہ کی ہیں: ترجمہ ایک مکڑا اور مکھی‘ ایک پہاڑ اور گلہری‘ ایک گائے اور بکری‘ ہمدردی ‘ آفتاب ‘ پیام صبح۔ طبع زاد پرندے کی فریاد‘ طفل شیر خوار‘ ایک پرندہ اور جگنو ‘ بچہ اور شمع بعض نظموں میں اقبال نے فطرت کا استعمال تمثیل یا محض مثال کے طور پر کیا ہے جیسے ایک مکالمہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ ’’ایک مکالمہ‘‘ خالص تمثیلی مکالمہ ہے ایک ’’مرغ سرا‘ ‘ اور ایک ’’مرغ ہوا‘ کے درمیان جبکہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ‘‘ میں شجر سے ٹوٹ کر ہمیشہ کے لیے سوکھ جانے والی شاخ کی صرف مثال دی گئی ہے ۔ دونوں صورتوں میں ایک اخلاقی سبق دیا گیا ہے ۔ ’’خضر راہ‘‘ میں فطرت کی شاعری کا حوالہ گزر چکا ہے بال جبریل کی تینوں عظیم ترین نظموں… مسجد قرطبہ ذوق و شوق‘ ساقی نامہ… میں فطرت کی بہترین شاعری کے نمونے ملتے ہیں اور ان کے علاوہ وجدانی لالہ صحرا‘ شاہیں‘ جیسی فطرت کے موضوعات پر لکھی ہوئی حسین ترین تخلیقات ہیں اور روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے جیسی عظیم فکری نظم میں فطرت کے ارضی حسن کو جس دل آویز طریقے سے پیش کیا گیا ہے اس کی مثال دنیائے شاعری میں ملنی مشکل ہے۔ ضرب کلیم میں بھی فطرت کی نہایت جمالیاتی اور جمال آفریں تمثیل شعاع امید جیسی شاندار نظم میں پیش کی گئی ہے اس کے علاوہ نسیم و شبنم اور صبح چمن کے لطیف و حسین مکالمات فطرت ہیں۔ اس مجموعے کی ایک چھوٹی سی نظم تو گویا فطرت پر نگاہ شاعر ہے: بہار و قافلہ لالہ ہائے صحرائی شباب و مستی و ذوق و سرور و رعنائی اندھیری رات میں چشمکیں ستاوں کی یہ بحر‘ یہ فلک‘ نیلگوں کی پہنائی سفر عروس قمر کا عماری شب میں طلوع مہر و سکوت‘ سپہر مینائی نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی ضر ب کلیم کے آخر میں محراب گل افغان کے افکار اور ارمغان حجاز کے تقریباً خاتمے پر ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض نہ صرف یہ کہ جمال فطرت کے دو مشہور خطوں کے متعلق ہیں بلکہ ان کا پورا ارضیہ اور اشعار میں جاری و ساری احساسات کے ساتھ ساتھ نقوش کلام فطرت کے اشارات سے مملو ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی پوری شاعری کے استعارات و علامات کا بہت بڑی حصہ مظاہر فطرت پر مشتمل ہے ۔ اور کلام کی تازگی و شادابی اور زیبائی و رعنائی کا باعث ہے اقبال نہایت وسیع اور گہری نگاہ فطرت رکھتے تھے۔ اور فطرت کے جمال و زیبائی کی ادا شناسی ان کے مزاج فن میں داخل تھی۔ اس لیے بھی ان کا ذہن مناظر قدرت میں مضمر بلند حقائق کے ادراکات سے معمور تھا۔ وہ ایک دل فطرت شناس رکھتے تھے۔ ان کے نشاط تخیل کی تہہ میں یہی فطرت شناسی اپنے وسیع ترین معنوں میں اور عمیق ترین مضمرات کے ساتھ جاگزیں تھی۔ کیا فطرت کی اتنی ثروت مند شاعری فطرت نگاری میں کوئی مقام نہیں رکھتی؟ بعض ناقد کا ایسا ہی خیال ہے اس لیے کہ ان کے حساب سے اقبال کی فطرت نگاری کا حجم زیادہ وقیع نہیںلہٰذا اس کا وزن بہت کم ہے ۔ چنانچہ تمنا کی جاتی ہے کہ کاش اقبال اپنی فطرت نگاری کی صلاحیت سے کام لیتے اور خالص فطرت کی مکمل شاعری کرتے تو اگر ابھی محض اچھے شاعر ہیں تو اس صورت میں بڑے شاعر ہو جاتے۔ یہ بڑا ہی خام خیال ہے اور بڑی ہی طفلانہ تمنا ہے جو نہ صرف اقبال کی شاعری بلکہ نفس شاعری سے بھی عدم واقفیت پر مبنی ہے۔ شاعری محض فطرت کی نہیں ہوتی ۔ اور جو شاعری فطرت نگاری کہلاتی ہے اس میں بھی فطرت کے ساتھ کچھ اور تصورات ملے ہوئے ہتے ہیں بلکہ انہی تصورات کے تحت فطرت نگاری بھی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر سب سے بڑے فطرت نگار شاعر ورڈس ورتھ کو لیجیے اس کا تصور فن یہ تھا کہ وہ صنعتی تمدن کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی کے معاملے میں تہذیب انسانی کی سادگی تازگی اور معصومیت اصلیت کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا بلکہ ان عناصر کے تحفظ کے لیے وہ تہذیب و تمدن دونوں کے دائرے سے باہر دور وحشت تک میں جانے کے لیے تیار تھا۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں اور انیسویں صدی کے اوائل میں یہ ایک رومانی رد عمل تھا۔ انگلستان کیک اس صنعتی انقلاب کا جس کے نتیجے میں فطرت و معصومیت کے مظاہر تباہ ہو رہے تھے وہ انسانی زندگی پرتصنع غالب آ رہا تھا یہی وجہ ہے کہ ورڈس ورتھ کے تخیل میں فطرت صرف مناظر قدرت… کوہسار و جوئبار و اشجار و طیور وغیرہ کا نام نہیں بلکہ اس معصومیت سے بھی اس کا نام ہے جو ایک بچے حتیٰ کہ کہ ایک احمق میں پائی جاتی ہے اور غریب و سادہ دیہاتیوں میں موجود ہے چنانچہ ورڈز ورتھ کے تصور میں فطرت کی سادگی و معصومیت بلکہ الوہیت کا مثالی نمونہ ایک طفل شیر خوار اور اس کی طفولیت ہے۔ بہرحال احیائے رومانیت کے دوسرے عظیم شعرا مثلاً کولرج‘ بائرن‘ شیلی اور کیتس کی شاعری میں بھی فطرت نگاری کے عنصر نمایاں ہیں کولرج تو ابتداً ورڈس ورتھ کا شریک کار ہی تھا اور شیلی اور کیٹس کے مشہور موضوعات شاعری میں علی الترتیب باد مغرب و اسکائی لارک اور عندلیب و خزاں جیسے مناظر فطرت ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی متعدد عناصر قدرت کو ان شعرا نے اپناموضوع بنایا پھر فطرت کے لیے ان شعرا کی حسیات اور علامات فطرت کا ان کے ہاتھوں کثیر استعمال معلوم و معروف ہے۔۔ بائرن جیسے طنز نگار کی شاعری میں بھی فطرت نگاری کا عالم یہ ہے کہ اس کے شاہکار ڈان جوان میں ھسین ترین مناظر قدرت کی تصویر کشی بڑی نازک فطری حسیات کے ساتھ کی گئی ہے چنانچہ انگریزی تنقید ان سب شعرا کے فن میں فطرت نگاری کو اہم عنصر تسلیم ہے اور انہیں بھی کامیاب فطرت نگار قرار دیتی ہے۔ عالمی ادب کے اس معیار اور صحیح تنقیدہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال کی شاعری میں بھی فطرت نگاری کو ایک اہم عنصر تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور انہیں کامیاب فطرت نگار قرار دینا پڑے گا۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اقبال اس معنے میں شاعر فطرت نہیں جس میں مثال کے طور پر ورڈس ورتھ ہے اس لیے کہ ان کی شاعری نہ تو مناظر فطرت کی عکاسی تک محدود ہے ۔ نہ وہ مناظر فطرت کے پجاری ہیں۔ اقبال فطرت کو دیکھتے ہی ہیں ایک وسیع تر مفہوم میں اور بلند تر نقطہ نظر سے ۔ انہوںنے اپنے ابتدائی دور کی نظموں میں شیکسپئر میں ایک مشہور ڈرامہ نگار شاعر کی تعریف اس طرح کی ہے: حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا بداہتہً یہاں فطرت کا مفہوم عناصر و مناظر و مظاہر نہیں حقیقت کائنات اور روح حیات ہے جسے اسی نظم کے ایک اور شعر میں حق کہا گیا ہے: حسن آئینہ حق دل آئینہ حسن دل انسان کو ترا حسن کلام آئینہ یہی وجہ ہے کہ شیکسپئر کی شاعری میں بھی جا بجا مناظر قدرت کی بہترین عکاسی کے باوجود اس کو فطرت نگار یا ا س معنے میں شاعرفطرت نہیں کہا جا تا جس میں ورڈس ورتھ کو کہا جاتا ہے۔ بلکہ تسلیم شدہ امر یہ ہے کہ شیکسپئر فطرت انسانی کا نقاش ہے اپنے ڈراموں میں جس طرح اس نے کرداروں اور مکالموں کے ذریعے انسانی فطرت کے مختلف پہلوئوں ان کی گہرائیوں اور گتھیوں کی تشریح و تمثیل کی ہے اس سے نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ وہ فطرت کے اسرار و رموز سے آشنا تھا اور حقائق حیات سے واقف تھا۔ لہٰذا اسی وسیع اور عمیق آگہی کی بنیاد پر اس نے انسانی فطرت کی باریکیوں اور تہوں کا سراغ پا لیا اور اسے اپنے منظوم ڈراموں میں موثر طور پر شاعرانہ حسن کے ساتھ پیش کیا۔ اقبال نے شیکسپئیر کے فن کی اسی حقیقت پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے اور جس والہانہ طریقے پر ڈال ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے ہی معیار فن اور اس کامثالی نمونہ تصور کرتے ہیں۔ اقبال کی شاعری کے کمالات‘ اسی تصور کی فنی شہادت دیتے ہیں۔ لہٰذ اقبال کا حسن کلام بھی آفاقی صداقت و حقیقت اور اس سے ہم آہنگ انسانیت کا آئینہ دہے وہ بھی اسرار فطرت کے جو یا ہیں صرف اس کے مظاہر کے شید نہیں۔ وہ مناظر قدرت کے اندر مضمر اصلیت کا تجسس کرتے ہیں اور انسان کو اس سے آگاہ نیز ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ مناظر میں رونما ہونے والے فطرت کے جلوے اس مقصد پر مشتمل فنی عمل کے لیے آئینے کا کام کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح وہ مظاہر فطرت ہیں اسی طرح مظاہر فن ہیں اور جس طرح قدرت نے انہیں اپنی حقیقت کے اظہار کے لیے وسائل کے طور پر بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے اسی طرح شاعر نے بھی اس حقیقت کے متعلق اپنے تصورات کی ترسیل کے لیے ان کا بہت ہی حسن کارانہ فنی مصرف لیا ہے ۔ مصرف ومقصد دونوں کا شاعرانہ اقرار ملاحظہ کیجیے: محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایاں حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن جن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی ہے مہر کی ضو گستری‘ شب کی سیہ پوشی میں ہے آسماں صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت‘ شفق کی گل فروشی میں ہے یہ عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار ہیں طفلک نا آشنا کی کوشش گفتار میں ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے چشمہ کہسار میں دریا کی آزادی میں حسن شہر میں صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے (’’بچہ اور شمع‘‘…بانگ درا) اس بے قرار ی کا نقطہ قرار یہ ہے : ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر تو پایا خانہ دل میں اسے مکیں میں نے (سرگزشت آدم… بانگ درا) ٭٭٭ نکات فن اب تک جن نظموں کا مطالعہ فن کی کسی نہ کسی جہت سے ہم نے کیا ہے‘ ان میں خاص خاص تخلیقات مسدس کے ترکیب بند میں ہیں اور شاعر نے اسی ہئیت میں اپنے خیالات کا اظہار مربوط و موثر طریقے سے کیا ہے اگرچہ اس کے علاوہ قطعہ غزل کی ہسیت بھی اس نے کامیابی کے ساتھ استعما ل کی ہے جو مسدس کے ترکیب بند میں ظاہر ہوئی ہے۔ دونوں صورتوں میں ترسیل و ابلاغ کے لے بہت ہی حسین وسائل کا اظہار سے کام لیا گیا ہے۔ جن میں مظاہر فطرت کے استعاروں علامتوں اور پیکروں کی کثرت ہے‘ اگرچہ کبھی کبھی مجرد تصورات و تصاویر کی معنی آفریں بلاغت بھی دکھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ الفاظ و تراکیب کی نغمہ ریز حد تک موزوں اور رواں نشست بندش و ترتیب ہے قدیم ہستیوں کے تصویروں کے رنگ اور ترکیبوں کے آہنگ کے ساتھ تخیلات و تصورات کی تازگی و شادابی سے مجموعی طور پر جدید وحید ہئیتوں کی شکل دے دی گئی ہے۔ چنانچہ ان نظموں پرموضوعات کی عنوان بندی ہئیت کی اندرونی جدت و جودت کے لیے ایک بالکل چست اور ناگریز سرخی ہے۔ فن کی روایات میں اجتہاد ‘ تجربے اور تجدید کی بکثرت مثالیں بانگ درا کی نظموں میں ملتی ہیں۔ ایک ترکیب بند ہی کو شاعر نے اتنے مختلف طریقوں سے استعمال کیا ہے اگر اس ہئیت میں رقم کی ہوئی تمام تخلیقات کے اشعار کی ہئیتی ترتیب و ترکیب کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک مستقل مقالے کا موضوع ہو گا‘ بعض وقت کسی ایک نظم میں بھی ترتیب و ترکیب کی مختلف ہئیتیں جمع کر دی گئی ہیں۔ ایک نظم ’’شمع‘‘ کی مثال لیجیے اس کا پہلا بند مسدس ہے اور دوسرا بھی۔مگر تیسر مثمن چوتھا پھر مسد س مگر پانچویں میں بارہ مصرعے ہیں۔ اور چھٹے میں بیس‘ پھر ٹیپ کے اشعار قوافی بالکل الگ الگ ہیں حسن و عشق جیسی نظم مسبع ہے۔ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت مخمس ہے۔ پہلی کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ردیف ترکیب پر مبنی ہیں جبکہ دوسری کی ترجیح پر نظم انسان صرف ایک مصرعے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد ایک بند چھ مصرعوں کا ہے اور دوسرا چودہ مصرعوں کا۔ ان ہئیتوں میں بیانیہ بھی ہے مکالمہ بھی تمثیلیں بھی ‘ اور اظہار خیال کبھی واحد متکلم میں ہے‘ کبھی واحد حاضر کو خطاب کر کے کبھی واحد غائب کا ذکر کر کے اور بعض وقت تینوں صیغوں کا استعمال کر کے۔ ہئیت و اسلوب کے تنوع کے علاوہ نقوش فن خاص کراستعارات و علامات کا استعمال اقبال جس کثرت و شدت کے ساتھ کرتے ہیں اس سے پوری پوری نظم علامتی ہو جاتی ہے اور آہنگ اسے غنائیہ بھی بنا دیتا ہے۔ چنانچہ تخیل کاوفور شعریت سے وفور میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہی چیز فکر کو فن میں تبدیل کر تی ہے۔ اس طرزفن کاری کے لیے حقیقت حسن اور حسن و عشق تو بہت نمایاں نمونے ہیں لیکن دوسری متعدد نظمیں بھی جن کا موضوع بہ ظاہر غیر شاعرانہ ہے اسی فن برتائو کی پر تاثیر مثالیں پیش کرتی ہیں۔ ایک نظم سلیمیٰ کو لیجیے پورے آٹھ مصرعوں میں تو امیس فطرت میں ہیں حسن کے دلکش مظاہر اور حق کے اشارات کے پیکر تراشی کے بعد آخر دو مصرعوں میں مطلق حسن و حق کی دونوں صفات جمال و کمال کا ذکر نہایت لطیف انداز میں کیا گیا ہے: جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ بیں نے خورشید میں قمر میں تاروں کی انجمن میں صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں جس کی چمک سے پیدا جس کی مہک ہویدا شبنم کے موتیوں میں پھولوں کے پیرہن میں صحرا کو ہے بسایا جس نے سکوت بن کر ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا آنکھوں میں ہے سلیمیٰ تیری کمال اس کا یہی اسلوب سخن کوشش ناتمام کا ہے: فرقت آفتاب میں کھاتی ہے پیچ و تاب صبح چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے لیے رہتی ہے قیس روز کو لیلیٰ شام کی ہوس اختر صبح مضطرب تاب دوام کے لیے کہتا تھا قطب آسماں قافلہ نجوم سے ہمرہو! میں ترس گیا لطف خرام کے لیے سوتوں کو ندیوں کا شوق بحر کا ندیوں کو عشق موجہ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے حسن ازل کو پردہ لالہ و گل میں ہے نہاں کہتے ہیں بے قرار ہے جلوہ عام کے لیے راز حیات پوچھ لے خضر حجتہ گام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے کیا اس انداز کی نظم نگاری کو اشاریت یا علامت نگاری (Symbolism)کہا جاسکتا ہے؟ بعض لوگ اس سوال کا جواب نفی میں دیں گے۔ اور ان کی یہ دلیل ہو گی کہ دونوں نظموں کے آخری اشعار اشاریت کا طلسم ابہام توڑے دیتے ہیں۔ جس سے علامت نگاری کی ایمائیت مجروح ہوتی ہے۔ اس طرح جب یہ سوال کیا جائے گا کہ دوسری بے شمار نظموں میں جو پیکر تراشیاںالفاظ و تراکیب کے ذریعے کی گئی ہیں اور خیالات کی تجسیم کے لیے طرح طرح کی تصویریں بنائی گئی ہیں کیا انہیں تصویریت یا پیکریت (Imagism) کے نمونے کہا جا سکتا ہے ؟ تو بعض لوگ پھر نفی میں جواب دیتے ہوئے یہ کہیں گے کہ یہ الفاظ و تراکیب کے پیکر واضح بیانات کے درمیان واقع ہوئے ہیں۔ اور صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ تصویریں افکار کی تزئین کے لیے استعمال کی گئی ہیں لہٰذا تصویر و پیکر کی لطافت باقی نہیں رہتی۔ میرے خیال میں یہ جوابات اور ان کے دلائل بہت ہی رسمی اور بالکل ہی روایتی قسم کے ہیں۔ میں سوال یہ کرتا ہوں کہ کیا علامت نگاری اور پیکر تراشی میں تجربے نہیں کیے جا سکتے جبکہ خود علامت نگاری اور پیکر تراشی رومانیت کے اندر تجربے کر کے پیدا کی گئی ہے؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اشاریت اور تصویریت کے اثبات کے لیے اتنا کافی ہے کہ کسی ہیئت سخن میں علامت و پیکر کے عناصر و مظاہر نہ صرف پائے جاتے ہیں۔ بلکہ بہت نمایاں اور بعض اوقات غالب ہیں۔ کلام اقبال کے دور اول میں فن کے یہ سارے حقائق اشارہ کرتے ہیں۔ کہ اقبال کا اسلوب سخن اپنے موضوعات کے اظہار کے لیے بہت لچکدار چست اور کارگزار ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اپنے ذریعہ اظہار پر شاعر کی مکمل قدرت و مہارت معلوم ہوتی ہے بلکہ فن کے اندر اجتہاد و تجدید کے لیے اس کی آمادگی ‘ استعداد اور ضرورت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اسی کے ساتھ واضح ہوتا ہے کہ فن کار اپنے فن کی روایت کا احترام کرتا ہے۔ اس کی اہمیت سے واقف ہے اور اس کے آداب و لوازم ملحوظ رکھنا چاہتا ہے۔ یعنی اپنی فنی ضروریات کے لیے وہ جدت کی تمام کوششیں چند حدود کے اندر کرتا ہے۔ اس کے اختراعات میں اعتدال و اجتہادات میں توازن ہے۔ اقبال وقعہ یہ ہے کہ جس طرح فکر کی تنظیم کرتے تھے اسی طرح فن کی بھی‘ اس لیے کہ نظم و ضبط ان کے نزدیک ادب کے ان دونوں عناصر ترکیبی کے وجود و فروغ کے لیے ایک شرط لازم ہے اور چونکہ وہ دونوں کے ادا شناس ہیں لہٰذا وہ بخوشی اور باآسانی اتنے بڑے پیمانے پر اپنے تجربات کو روایات کے ساتھ ہم آہنگ کر پاتے ہیں۔ اقبال نے جدید تصورات کے ابلاغ کے لیے قدیم اصناف و اسالیب کے تمام لسانی و ادبی وسائل جس کمال کے ساتھ پیش کیے ہیں اس سے ان کی وہ زبردست تنقیدی حس آشکار ہوتی ہے۔ جو کسی بھی عظیم فن کاری کی بنیاد بنتی ہے۔ اقبال کا فنی عمل بہت پیچیدہ ہے ۔ مرکب اور مرتب ہے۔ انہوںنے اپنے پر زور افکار کے پرشور طلاطم کے باوجود ہئیت فن کی جمالیاتی نزاکتوں کا پورا پور الحاظ کیا ہے اور بلاغت کو ہمیشہ ایک نفاست بیان کے ساتھ ادا کیا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نفاست ہی بلاغت کی حامل ہو گئی ہے۔ چنانچہ فن کی صورت حال یہ ہے کہ ہئیت کے سانچوں کو موڑ کر ان کے اندر مواد کو اس چابکدستی کے ساتھ سمو دیا گیا ہے کہ قاری فن کار کے تجربات کی الجھنوں کا مطلق احساس نہیںکرتا۔ صرف اپنے احساسات کی تازگی اور شادابی میں محو رہتا ہے مخاطب کی یہی شاد کامی کسی بھی متکلم کا انتہائی مطمح نظر ہوتا ہے۔ از نوا برمن قیامت رفت و کس آگاہ نیست پیش محفل جز بم و زیر و مقام و راہ نیست …(اقبال) اقبال کا فنی رویہ ایک فلسفی کا ہے اور وہی اس حیرت و بصیرت کا باعث ہے جو ان کی شاعری کا نمایاں ترین اور غالب اثر ہے ۔ جب کہ مسرت اسی حیرت و بصیرت کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے ‘ ورنہ اگر فنی رویہ محض فن کارانہ ہوتا تو وہ لازماً کاری گری کے ابتذال تک پہنچ جاتا ہے اور دفع الوقعی کے سوا کوئی اثر پیدا نہ کرتا۔ یہی فلسفیانہ رویہ ایک طرف مناظر قدرت اور مظاہر فطرت کا مکمل مصرف لیتا ہے۔ اور دوسری طرف مناظر و مظاہر سے نتائج اخذ کر کے ان کے مضمرات کو حقائق کائنات کا وسیع کر دیتا ہے۔ پرھ مظاہر و حقائق کی اصلیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کلام اقبال کی یہی آفاقی اپیل ہے جو ان کے تمام اشعار سے ہویدا ہے اور متنوع موضوعات پر مشتمل معمولی سے معمولی نظموں میں پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ بچوں کا گیت ہو یا وطن و ملت کا ترانہ ہو‘ اعزا ز و احباب کا نوحہ ہو اشخاص کا خاکہ ہو تاریخی واقعات کا مرقع ہو سیاسی امور کا نقشہ ہو یا مذہبی جذبات کا عکس ہو‘ ذاتی واردات کا نقش ہو‘ کسی خیال کی تمثیل ہو‘ یا کسی فلسفے کی پیش کش‘ ہر موضوع میں شاعر فلسفی یا فلسفی شاعر کے لیے فکر کا ایک سبق اور فن کا ایک نکتہ ہے اور وہ بیک وقت دونوں کا منبع و محور اور ایک دل آویز شکل میں ان کا معمار بھی ہے۔ المیہ شاعری بانگ درا میں اقبال کے موضوعات فن کی جو فہرست اوپر دی گئی ہے اس میں سے صرف ذاتی واردات کو لے کر میں دکھانا چاہتا ہوں کہ ایک فلسفی کی نظر میں کس طرح بالکل شخصی و جذباتی امور سے بھی غیر شخصی اور جمالیاتی معروضیت فن پیدا کرتی ہے۔ سب سے پہلے تو غم مرگ کے نہایت رقت آمیز اور جاں گداز موضوع کو لیجیے۔ اس سلسلے میں حسب ذیل نظمیں قابل ذکر ہیں: خفتگان خاک سے استفسار‘ گورستان شاہی ‘ فلسفہ غم۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ ان میں ایک شاعر کا ذاتی المیہ ہے ۔ دوسرا اس کے ایک عزیز دوست کا۔ تیسرا ملت کا چوتھا انسانیت کا۔ یہ سب نوحے ہیں۔ مگر ان میں کوئی بھی مرثیہ ہیں آہ و بکا ماتم و سینہ کوبی سے یہ سب خالی ہیں۔ جذبات کی گرمی سبھی میں ہے مگر احساسات کی لطافت کی حد میں اس لیے کہ ان میں ایک ادراک ہے ۔ ایک دانشمندی ہے اقبا ل اپنی نوائے غم کی تشریح خود اسی عنوان کی ایک نظم میں اس طرح کرتے ہیں: زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش بربط کون و مکاں جس کی خاموشی پہ نثار جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت آہ امید محبت کی برائی نہ کبھی چوٹ مضراب کی اس ساز نے کھائی نہ کبھی مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی چھیڑ آہستہ سے دیتی ہے مراتار حیات جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے یہ محرومی و مہجوری کے درد کی نوا ہے اور ہر نوحے کی کیفیت یہی ہوتی ہے کہ کسی متاع عزیز کی رحلت یا اس کا عدم حصول ایک احساس فراق و نامرادی پیدا کرتا ہے جس سے سوز و گداز ابھرتا ہے لیکن ا ب اگر وہ رقیق ہو گیا تو اس سے صرف جذباتیت کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اور اگر وہ دقیق ہو گیا تو بصیرت کا باعث ہوتا ہے ۔ پہلی صورت سطحی ہے ۔ اور دوسری گہری بڑا فن گہرائی سے نکلتا ہے سطرح پر نہیں کھیلتا نوائے غم سے ’’فطرت کی بلندی‘‘ کا حصول بڑی آگہی کی بات ہے اور اس آگہی کے لیے ’’رفعت شبنم‘‘ کے ’’مذاق رم‘‘ کی جو پیکر تراشی کی گئی ہے وہ حسن فن کی دلیل ہے۔ یہی دلیل محولہ بالا چاروں نوحوں Elegies میں نمایاں ہے گورستان شاہی اور والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ کی معنی آفرینی اور حسن کارانہ فطرت نگاری ہم دیکھ چکے ہیں باقی نظموں میں بھی فطرت کی علامت گری کاکمال دیکھیے: مہر روشن چھپ گیا اٹھی نقاب روئے شام شانہ ہستی پہ ہے بکھرا ہوا گیسوئے شام یہ سیہ پوشی کی تیاری کسی کے غم میں ہے محفل قدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے کر رہا ہے آسماں جادو لب گفتار پر ساحر شب کی نظر ہے دیدہ بیدار پر غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موج ہوا ہاں مگر اک دور سے آتی ہے آواز درا دل کی بیتابی الفت میں دنیا سے نفور کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامہ عالم سے دور منظر حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں ہم نشین خفتگان کنج تنہائی ہوں میں (بند اول ’’خفتگان خاک سے استفسار‘‘) ٭٭٭ آتی ہے ندی جبین کوہ سے گاتی ہوئی آسماں کے طائروں کونغمہ سکھلاتی ہوئی آئینہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور گر کے وادی کی چٹانوں پر یہ ہوجاتاہے چور نہر جو تھی اس کے گوہر پیارے پیارے بن گئے یعنی اس افتاد سے پانی کے تارے بن گئے جوئے سیماب رواں پھٹ کر پریشاں ہو گئی مضطرب بوندوں کی اک دنیا نمایاں ہو گئی ہجر ان قطروں کو لیکن وصل کی تعلیم ہے دو قدم پر پھر وہی جو مثل تار سیم ہے ایک اصلیت میں ہے نہر روان زندگی گر کے رفعت سے ہجوم نوع انسان بن گئی پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم (بند ماقبال آخر ’’فلسفہ غم‘‘) نہ تو یہ محض منظر نگاری ہے۔ نہ نظم کے ارتقائے خیال سے الگ کوئی ٹکڑا ہے۔ گرچہ دونوںنظموں میں فطرت نگاری کا محل وقوع مختلف ہے‘ یہ تمہید ہے اور دوسری میںگویا خاتمہ۔ یہی ترتیب گورستان شاہی میں ہے جہاں تمہید ہے اور والدہ مرحومہ کی یا د میں میں جہاں تقریباً خاتمہ ان سب نظموں کے خاتمے پر اپنے اپنے موضوع کے مطابق اور ارتقائے خیال کا منطقی نقطہ عروج ہیں۔ خفتگان خاک سے استفسار کا آخری شعر یہ ہے: تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے یاد کر لینا چاہیے کہ عنوان نظم میں استفسار شامل ہے۔ چنانچہ منظر فطرت کی تمہید کے بعد دو بندوں میں مسلسل سوال ہی سوال ہے جس کا سلسلہ مذکور بالا شعر پر ختم ہوتا ہے۔ گورستان شاہی میں تمہید کے بعد بھی بار بار فطرت کی تصویریں فلسفیانہ خیالات کی ترسیل و تزئین کے لیے پیش کی جاتی ہیں ساتویں بند کا پہلا شعر ہے: سلسلہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار اور اس دریائے بے پایاں کو موجیں ہیں ہزار اس کے بعد اس بحر ناپیدا کنار میں چاند کی صورت گری کے بعد ٹیپ کے شعر میں یہ تصویر ملتی ہے: اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے جو مہتاب تھا آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا ساتویں بند کا یہ خاتمہ ہی آٹھویں کے آغا ز کی تمہید بن جاتا ہے: زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار نویں بند میں پھر فطرت کی ولولہ خیز حسن کاری شروع اس طرح ہوتی ہے: ہے مرگ گل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی کوئی سورج کی کرن شبنم میں ہے الجھی ہوئی اور ختم اس طرح: پتیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح دست طفل خفتہ سے رنگین کھلونے جس طرح اس کے بعد ٹیپ کا یہ شعر سبق دیتا ہے: اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے دسواں اور آخری بند پوری نظم کے تمام اجزا کو سمیٹ کر موضوع پر لے آتا ہے ۔ اور اس کی نشاندہی کی ابتدا اس طرح کرتا ہے: دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں اور انتہا اس شعر پر: ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور اور یہ بھی دیکھیے کہ آخری بند کی ابتدا و انتہا کے درمیان جو اشعار ہیں وہ کس طرح ایک بار پھر فطرت کی تصویروں سے ارتقائے خیال کو عروج پر پہنچاتے ہیں: اشک باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در گریہ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہ گویاں کے ہم آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفان کے ہم ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ خواب سے امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ ’’ فلسفہ غم‘‘ کا عنوان ہی اس کے موضوع کی تعین کرتا ہے اور پوری نظم میں نہایت منطقی دلیلوں اور بڑی جاندار تصویروں کے ذریعے موضوع کے مضمرات واضح کئے گئے ہیں چنانچہ آخری بند گویا ’’ فلسفہ غم‘‘ کا نچوڑ اور عطر ہے: مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں عقل جس دم دہر کی آفات میں محصور ہو یا جوانی کی اندھیری رات میں مستور ہو دامن دل بن گیا ہو رزم گاہ خیر و شر راہ کی ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر خضر ہمت ہو گیا ہو آرزو سے گوشہ گیر فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمیر وادی ہستی میں کوئی ہمسفر تک بھی نہ ہو جادہ دکھلانے کو جنگو کا شرر تک بھی نہ ہو مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں یہ گویا موت سے زندگی اور ظلمت سے نور یعنی یاس سے بھی امید پیدا کرنے کا نکتہ بھی ہے اور نغمہ بھی ۔ آخری شعر کی تصویروں اور الفاظ کے پیکروں پر غور کرنے سے اس بصیرت و مسرت کا تجزیہ ہو سکتا ہے جو دونوں مصرعوں سے ٹپک کر ’’ فلسفہ غم‘‘ کو ایک پیغام نشاط بنا دیتی ہے۔ دنیا کے ’’ ظلمات‘‘ میں مرنے والوں کی ’’ جبیں روشن‘‘ ہونا اور اس کا ’’ اندھیری رات‘‘ میں تارے چمکنے سے مشابہ ہونا ایک نہایت خیال انگیز صورت گری اور فن کاری ہے۔ فن کا یہی جادو ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے آخری بند میں نکھرتا ہے جبکہ اس کے قبل کے بند میں خاتمہ نظم اور اثبات موضوع کے طور پر ایک معنی خیز فطرت نگاری کی گئی ہے جس میں ’’ صبح‘‘ کا پیکر بار بار علامتی طریقے پر استعمال کیا گیا ہے: دام سیمیں تخیل ہے مرا آفاق گیر کر لیا ہے جس سے تری یاد کو میں نے اسیر یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حیات جلوہ گاہیں اس کی ہیں لاکھوں جہان بے ثبات مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے ہے وہاں بے حاصلی کشت اجل کے واسطے سازگار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے نور فطرت ظلمات پیکر کا زندانی نہیں تنگ ایسا حلقہ افکار انسانی نہیں زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر مثل ایوان سم مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے آفاق گیر’’ دام سیمین تخیل‘‘ کی یہ کرشمہ سازی ملاحظہ کی جانی چاہئے۔ اس بند میں بالکل بیانیہ اور فکریہ انداز ہے۔ اس کے باوجود ایک ایک شعر، ایک ایک مصرع، ایک ایک لفظ میں کوٹ کوٹ کر شعریت کی بجلیاں بھری ہوئی ہیں اور نکتہ بہ نکتہ، پیکر بہ پیکر خیالات و احساسات کا ابلاغ اس طرح ہوا ہے کہ پورا موضوع نظم اپنے تمام مضمرات کے ساتھ متشکل ہو گیا ہے، ’’ دل درد آشنا‘‘ مرحومہ ماں کی یاد سے اس طرح ’’ معمور‘‘ ہے جیسے کعبے میں ’’ دعاؤں سے فضا‘‘ حیات’’ فرائض کا تسلسل‘‘ ہے جس کی ’’ جلوہ گاہیں لاکھوں جہان بے ثبات‘‘ ہیں اور ان میں ہر ’’ منزل ہستی‘‘ کی رسم و راہ مختلف ہے۔ چنانچہ ’’ آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ‘‘ ہے۔ جہاں کشت اجل کے واسطے بے حاصلی ہے اور ’’ تخم عمل کے واسطے سازگار آب و ہوا‘‘ ہے۔ لہٰذا سمجھنا چاہیے کہ نور فطرت ظلمت پیکر کا ززندانی نہیں، اس لیے کہ حلقہ افکار انسانی ایسا تنگ نہیں کہ جسم اور مادی دنیا تک ہی محدود ہو، والدہ مرحومہ کی زندگانی ’’ مہتاب سے تابندہ تر‘‘ تھی اور اس زندگانی کے عالم خاک و باد سے ان کا سفر ’’ خوبتر تھا صبح کے تارے سے بھی‘‘ فرزند شاعر کی کی دعا ہے کہ مرحومہ کا مرقد’’ مثل ایوان سحر‘‘ فروزاں ہو اور ان کا ’’ خاکی شبستان‘‘ نور سے معمور رہے۔ آسمان ان کی لحد پر ’’ شبنم افشانی‘‘ کرے اور ’’ سبزہ نورستہ‘‘ ان کے اس گھر کی نگہبانی کرے معلوم ہوتا ہے کہ مصرعے سے مصرع، شعر سے شعر اور پیکر سے پیکر نکل رہا ہے اس سلاست اور سلسلے کے ساتھ کہ اس کی ترتیب کو توڑ کر شعر کو نثر کرنا بھی مشکل ہے۔ یہ تازگی تخیل، گرمی جذبہ ربط فکر، لطافت احساس، باریکی تصور قدرت بیان اور تنظیم فن کا فیض ہے۔ انگریزی میں دو نوحے بہت مشہور ہیں، ایک گرنے کی الیجی دوسرے مینی سن کا ان میموریم پہلے میں ایک دہقانی گور غریباں کا نقشہ ہے۔ دوسرے میں ایک عزیز دوست کا مرثیہ۔ گور غریباں کے نقشے میں چند ٹھوس اور خیال انگیز تصویریں ہیں، جبکہ عزیز دوست کے مرثیے میں کچھ المیہ جذبات اور کچھ فلسفیانہ افکار ہیں۔ پہلی نظم مختصر سی ہے اور اس میں مربوط ارتقائے خیال ہے۔ لیکن دوسری نظم میں صرف خیالات کا ایک سلسلہ دراز ہے جس کے مختلف حصوں میں کوئی ربط و تنظیم نہیں ہے، یہ دونوں نظمیں اپنے اپنے شاعروں کے شاہکار تصور کی جاتی ہیں، جبکہ اقبال کے نوحے ان کی بالکل معمولی اور ابتدائی نظمیں ہیں۔ اگر شعریت اور سلیقہ نظم کے لحاظ سے موقع و حجم کے اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے مثال کے طور پر ’’ گورستان شاہی‘‘ کا موازنہ گور غریباں اور ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا موازنہ ان میموریم سے کیا جائے تو اقبال کی نظموں کی فنی قوتوں اور فلسفیانہ خوبیوں نیز شاعرانہ محاسن کا احساس شدید تر ہو جائے گا اور کم از کم یہ معلوم ہو گا کہ اپنے مخصوص فکر و فن کے قالب میں ڈھال کر اقبال نے نوحے کو بھی فطرت کی طرح ایک ایسا رنگ و آہنگ دیدیا ہے جس کی شعریت غم و الم کے خام ذاتی جذبات کو ایک پختہ فنی شکل عطا کرتی ہے۔ ٭٭٭ رومانی شاعری اب دو بالکل ذاتی واردات یا شخصی حادثات کو لیجئے۔ ایک کا بیان۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر میں ہے اور دوسرے کا ’’ پھول کا تحفہ عطا ہونے پر‘‘ میں دونوں مختصر نظمیں ہیں اور کسی حسین کی شادکامی اور شاعر کی محرومی پر مشتمل ہیں۔ لیکن دونوں کا فنی برتاؤ اور شعری تاثر یکساں ہے۔ برتاؤ یہ ہے کہ واقعات کے پیچھے اور۔۔۔۔۔ان سے پیدا ہونے والے مضمرات و احساسات کی تصویر کشی ایک فلسفیانہ نگاہ سے بالکل شاعرانہ انداز میں کی گئی ہے اور اس مقصد کے لئے پیکر تراشی کے ساتھ ساتھ مربوط ارتقائے خیال کے بعد بالکل آخر میں نتائج نکالے گئے ہیں چنانچہ اس برتاؤ کا تاثر حسن و حزن اور ایک آگہی کا ارتعاش ہے۔ پہلی نظم میں ایک حسین کے آغوش میں مچلتی ہوئی بلی کی تصویر کھینچ کر ادائے حسن اور احساس عشق کی شوخیاں دکھائی گئی ہیں، جبکہ دوسری دست حسن کی گل چینی اور گل عاشق کی نامرادی کا نقشہ پیش کرتی ہے حسن کے تعلق سے شاعر کا جذبہ عشق کبھی بلی کی تصویر کھینچ کر ادائے حسن اور احساس عشق کی شوخیاں دکھائی گئی ہیں جبکہ دوسری دست حسن کی گل چینی اور گل عاشق کی نامرادی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ حسن کے تعلق سے شاعر کا جذبہ عشق کبھی بلی سے رقابت محسوس کرتا ہے، کبھی پھول سے اور دونوں صورتوں میں رشک محرومی اور اس کے سبب آگہی کا باعث ہوتا ہے یہ رومانیت کا فلسفہ بھی ہے اور فلسفے کی رومانیت بھی۔ حسن و عشق کے رومانی موضوع پر زیر بحث ابتدائی دور اور اس کے مجموعہ کلام بانگ درا میں چند قابل ذکر نظمیں یہ ہیں: درد عشق، دل، محبت، حقیقت حسن، حسن و عشق، وصال، جلوۂ حسن، عاشق ہرجائی، فراق، پیام حقیقت حسن کا مفہوم اس کی ابتدا و انتہا کے دو اشعارے ہی واضح ہے خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا جہاں میں کیوں نہ تو نے مجھے لازوال کیا ٭٭٭ چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا اس خوبصورت نظم میں جو ایک حسین شکل کا تناسب اعضا رکھتی ہے حسن کو عارضی دفانی قرار دیا گیا ہے جبکہ ’’ جلوہ حسن‘‘ میں دنیا میں حسن کے وجود ہی پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے: آہ! موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں؟ خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں؟ اس کے باوجود ’’ حسن و عشق‘‘ اور وصال جیسی جمالیاتی نظموں میں نہ صرف یہ کہ وجود حسن اور اس کی زیبائی و رعنائی کا اقرار و اثبات ہے بلکہ اس کے ساتھ عشق کے وصال کی ولولہ خیز اور خیال انگیز تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ لیکن ’’ فراق‘‘ اور ’’ پیام‘‘ کا انداز مختلف ہے، دونوں کے آخری مصرعے بلاترتیب یہ ہیں: اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے (پیام) ٭٭٭ شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں (فراق) کیا عشق حقیقی کا عرفان عشق مجازی میں فراق سے حاصل ہوتا ہے۔ ’’ عاشق ہرجائی‘‘ حسن و عشق دونوں کے مختلف پہلوؤں اور ان کی متعدد تہوں کو پیش کر کے گویا اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس نظم کے، جس میں شاعر کے جذبات و احساسات کا اعتراف ہے دوحصے ہیں پہلے میں شاعر اپنی طبیعت کو مجموعہ اضداد بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی ’’ ہستی کا ہے آئین تفضن پر مدار‘‘ یہی وجہ ہے حسن مجازی کے متعلق اس کے رویے میں اس تضاد و ابہام کی: حسن نسانی ہے سجل تیری فطرت کے لیے پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پرواہ بھی ہے دوسرے حصے میں اس تضاد و ابہام کی توضیح و تطبیق اس طرح ہوتی ہے: گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں بہ گویا نظم کے عنوان و موضوع ’’ عاشق ہرجائی‘‘ کی تشریح ہے۔ اس تشریح کو اگر بالکل مادی و جسمانی معنے میں لیا جائے تو ’’ ہرجائی‘‘ کا لفظ ہی ایک رسوائے زمانہ مفہوم رکھتا ہے۔ اور وہ بیان منطبق ہو جائے گا، لیکن پوری نظم کا کلیدی شعر جو اس کے اصل مطلب کی طرف صریح اشارہ کرتا ہے، یہ ہے: دل نہیں شاعر کا، ہے کیفیتوں کی ر ستخیز کیا خبر تجھ کو، درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں دل کی رستخیز ہی حسن و عشق کا اصل معاملہ ہے جس پر پوری روشنی ’’ دل‘‘ کے خیال انگیز نکات سے پڑتی ہے۔ نظم شروع ہوتی ہے اس معنی خیز بیان سے: قصہ دار و رسن بازی طغلانہ دل التجائے آرنی سرخی افسانہ دل دل کا حسن سے کیا تعلق ہے اور اس صورت میں حسن و عشق دونوں کے معانی کیا ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ یہ اشعار کرتے ہیں: حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا تو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانہ دل عرش کا ہے کبھی کعبہ کا ہے دھوکا اس پر کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانہ دل اس کے فوراً بعد یہ شعر نہایت معنی خیز اور خیال آفریں ہے: اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانہ دل شاعر کیوں دیوانہ دل ہے اور دل کس کا دیوانہ ہے؟ یہ بڑے مشکل سوالات ہیں جن کے جواب کا تجسس کرنا عبث ہے اور پتے کی بات صرف یہ ہے: عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے لیکن ’’ درد عشق‘‘ (نظم) عصر حاضر میں یہ ہے کہ: پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے چنانچہ نظم ان دو شعروں پر ختم ہوتی ہے: یہ انجمن ہے کشتہ نظارۂ مجاز مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز ہر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے مجاز ہو، یا حقیقت، دونوں صورتوں میں ’’ محبت‘‘ (نظم) کے اجزا و اثرات یہ ہیں: چمک تارے سے مانگی چاند سے داغ جگر مانگا اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے تڑپ بجلی سے پائی، حور سے پاکیزگی پائی حرارت کی نفس ہائے مسیح ابن مریم ؑ سے ذرا سی پھر ربوبیت ہے شان بے نیازی لی ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیر شبنم سے پھر ان اجزا کو گھولا چشمہ حیواں کے پانی میں مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے مہوس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا گرہ کھولی ہنر نے اس کے، گویا کار عالم سے ہو جنبش عیاں، ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے خرام ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے چٹک غنچوں نے پائی داغ پائے لالہ زاروں نے یہ حسن و عشق دونوں کا آفاقی تصور ہے جس میں نہ روال کا سوال ہے نہ فراق و وصال کی کش مکش کا، اس کا وصال بھی ایک فراق ہے اور فراق ایک وصال۔ اس تصور پر مبنی نہ تو حسن کو زوال ہے نہ عشق کو، نہ تو یہ حسن محدود ہے نہ عشق، فطرت ہو، انسانیت ہو، کسی کے بھی مناظر و مظاہر کی اپنی کوئی اصلیت نہیں، یہ سب پردۂ مجاز ہیں جس کے پیچھے ایک بسیط، ہمہ گیر، ازلی اور ابدی حقیقت پوشیدہ ہے۔ اور جب تک یا جس حد تک اس کی کشش موجود اور باقی ہے تمام مناظر و مظاہر کی آب و تاب برقرار ہے۔ لہٰذا عشق کا اظہار جس شکل میں ہو حسن کا اصلی و حقیقی مطح نظر سامنے رہنا چاہئے، تب ہی عشق میں گہرائی بھی آئے گی اور گیرائی بھی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حسن و عشق کے رومانی تصور میں بھی اقبال کی فلسفیانہ نظر کار فرما ہے اور ان کا ذہن اپنے جذبے کے عناصر اور حقائق دونوں کا تجزیہ کر رہا ہے۔ ٭٭٭ بڑی نظمیں ان چھوٹی چھوٹی خوبصورت، سڈول اور سجل نظموں میں اقبال نے بنیادی رومانی موضوعات پر ان خیالات و احساسات کا اظہار کیا ہے، فکر و فن کے لحاظ سے ان کا موازنہ اگر بائرن شیلی اور کیٹس جیسے خالص رومانی اور حسن پرست شعراء کی چھوٹی نظموں کے ساتھ کیا جائے تو مجموعی طور پر اقبال کے ذہن کی رسائی اور فن کی پختگی کا شدید تر احساس ہو گا اور معلوم ہو گا کہ اقبال کی ابتدا میں بھی جو رسوخ و بلوغ تھا اس سے بہتیرے اہم رومانی شعرا بہرہ ور نہ تھے۔ جہاں تک ان شعراء کی بڑی نظموں کا تعلق ہے ان میں بھی تخیل کی خام رومانیت اپنی جگہ ہے، جبکہ ہیئت کا سانچہ، شاید ان کی پریشانی فکر کے سبب، پارہ پارہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ بانگ درا کی سطح پر بھی جس کی بلندیوں کا ذکر ابھی باقی ہے، یہ رومانی شعراء اقبال کے مقالے میں نہیں آتے۔ کولرج کی رومانیت میں صوفیت کی جو لہر نظر آتی ہے وہ اول تو زیادہ تر دیکھنے والوں کی نگاہ پر کولرج کے تنقیدی افکار کا عکس ہے، دوسری پریشانی فکر کولرج کے یہاں بھی ہے اور دو نظموں: Qubla Khan, Ancient Mariner کے سوا اس کے یہاں شاعری کی کوئی بڑی کوشش نظر نہیں آتی پھر ان نظموں میں بھی Ancient Mariner تو بس ایک پر اسرار داستان ہے جبکہ Qubla khan صرف ایک پارچہ تخلیق ہے، نامکمل اور ناقص ورڈس ورتھ ضرور ایک پختہ فکر استاد فن ہے اور اس کی تخلیقات کا حجم بھی بہت بڑا ہے، تصور بھی اونچا اور گہرا ہے۔ لیکن فطرت سے اس کے شغف کی انتہا پسندی اس کے دائرۂ شاعری کو بہت محدود کر دیتی ہے اور اس دائرے میں بھی ایک محدود موضوع کے بیان اور طرز بیان کی تکرار و طوالت خستگی و فرسودگی پیدا کرتی ہے، چنانچہ اسی باب میں آئندہ ہم اقبال کے پہلے مجموعہ کلام کی جن بڑی نظموں پر تنقید کرنے والے ہیں۔ وہ ورڈس ورتھ کے دائرہ فن اور حدود شاعری سے آگے کی چیزیں ہیں۔ میرے خیال میں بانگ درا میں اقبال کی بڑی نظمیں چھ ہیں جن کے عنوانات حسب ذیل ہیں: ’’ تصویر درد، شمع اور شاعر اور جواب شکوہ، خضر راہ، طلوع اسلام‘‘ یہ انتخاب میں نے فن ہی کے نقطہ نظر سے کیا ہے اور ان لوگوں سے میرا شدید اختلاف ہے جو ان سب یا ان میں سے چند کو فنی اعتبار سے اہمیت نہیں دیتے۔ میری رائے میں اول تو اقبال کے فن شاعری کے ارتقا میں یہ نظمیں دور اول کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور شاعر کے فن کی بلند تر منزلوں کا نشان ان نظموں کا سراغ گم کر کے نہیں مل سکتا۔ دوسرے یہ کہ اپنی اپنی جگہ یہ نصف درجن بڑی نظمیں تقریباً ڈیڑھ سو چھوٹی نظموں کی فن پیمائیوں سے حاصل کی ہوئی، ایک کوہستان شاعری کی چوٹیاں ہیں۔ چنانچہ فن شاعری کے جو چھوٹے چھوٹے تجربات دوسری نظموں میں بکھرے اور پھیلے ہوئے ہیں، وہ ان تخلیقات میں سمٹ کر مرتکز ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ان کا مطالعہ و تجزیہ شاعری اور اقبال کی شاعری کی ترقیات کو سمجھنے کے لئے دلچسپی اور فائدے سے خالی نہ ہو گا۔ تصویر درد (حب وطن) اس نظم کا موضوع حب وطن ہے اسی موضوع پر اس سے قبل ایک چھوٹی سی نظم ’’ صدائے درد‘‘ ملتی ہے: جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے سر زمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں دانہ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں حسن ہو کیا خود نما، جب کوئی مائل ہی نہ ہو شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے بالکل یہی احساسات و جذبات ’’ تصویر درد‘‘ میں بھی زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اور ایک وسیع پیمانے پر ادا ہوتے ہیں یعنی جو گل تر فکر و فن کا بڑی نظم میں کھلا ہے۔ اسی کا غنچہ یہ چھوٹی نظم ہے۔ ترتیب فہرست میں ’’ صدائے درد‘‘ نمبر16ہے اور تصویر درد نمبر34اس کے علاوہ پہلی نظم ’’ ہمالہ‘‘ میں بھی زیر نظر موضوع کے ارتعاشات پائے جاتے ہیں، خاص کر شروع کے دو بندوں اور آخری بند میں۔ انیسویں نظم ’’ ایک آرزو‘‘ کا خاتمہ بھی متعلقہ موضوع کے اشارات پر ہوتا ہے اور صدائے درد ایک صدائے درا بنتی نظر آتی ہے، تیسویں نظم ’’ سید کی لوح تربت‘‘ کے حسب ذیل اشعار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں: وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جواب نہ آئیں ان افسانوں کو نہ چھیڑ ٭٭٭ سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے یہی تخیل انیسویں نظم ’’ شاعر‘‘ کا ہے: قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم منزل صفت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم محفل نظم حکومت، چہرۂ زیبائے قوم شاعر رنگیں نواہے دیدۂ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ ٭٭٭ یہ اقبال کے فن کی ایک قابل ذکر اور خیال انگیز خصوصیت ہے کہ جب کبھی وہ کوئی بڑی تخلیق پیش کرتے ہیں تو اس سے اقبال اس تخلیق کے موضوع کے مختلف اجزاء چند چھوٹی چھوٹی نظموں میں بروئے اظہارآ چکے ہوتے ہیں اور اس کے بعد بھی تخلیق کی بازگشت چند اور چھوٹی نظموں میں سنائی دیتی ہے۔ اس طرح فن کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے جو اپنے رنگ و آہنگ کے نغموں سے گونجتی رہتی ہے۔ گویا اقبال کے نغمات ایک موسیقی کے راگ ہیں۔ واقعی اقبال کی شاعری اپنا ایک مستقل اور وسیع نظام فن رکھتی ہے جس کو ملحوظ رکھے بغیر اس کے مختلف اجزاء کو بالکل الگ الگ کر کے دیکھنا قوس قزح کے رنگوں کو بکھیر دینا ہے۔ پھر بنیادی اور کلی نظام کے تحت چھوٹے چھوٹے نظام مختلف موضوعات کے ہیں جن کے اپنے اپنے اجزا ہیں اس طرح ایک نظام سیارگاں کی کیفیت رونما ہوتی ہے۔ ٭٭٭ اسی نظام کا ایک سیارہ حب وطن ہے جس کا سب سے بڑا مظہر ’’ تصویر درد‘‘ ہے آٹھ بندوں کی اس نظم میں انہتر اشعار ہیں، مختلف بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے کسی میں سات، کسی میں آٹھ، کسی میں نو، کسی میں دس، کسی میں بارہ اور سب ترکیب نہ ہیں۔ پہلے بند میں اس ’’ دستور زباں بندی‘‘ کا بیان ہے جو دنیا کے احوال نے انسان پر عائد کر دیا ہے۔ یہ گویا عنوان نظم میں ’’ تصویر‘‘ کے تصور کی تشریح اور اس کی بے زبانی کی توضیح ہے، اگرچہ اس سے زبان حال کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ پھر جن پیکروں سے ’’ تصویر‘‘ کے نقوش آراستہ ہوئے ہیں وہ اسے تصویر درد ثابت کرتے ہیں۔ بند کے آخر میں ٹیپ کا شعر فارسی ہے اور واوین میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی دوسرے شاعر یا دوسری تخلیق کا حوالہ ہے اور حوالے کے اس شعر کا مفہوم ما قبل کے تمام اشعار کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ گویا بند کے باقی اشعار ٹیپ کے شعر کی تظمین کرتے ہیں۔ اس قسم کی تظمین اقبال کی متعدد نظموں میں پائی جاتی ہے اور بہت ہی چست و موزوں اور معنی آفریں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعر کی تضمین کی گئی ہے، خواہ وہ معنوی ہو یا لفظی، گرچہ زیادہ تر معنوی ہے، وہ خاص اسی موقعے کے لیے کہا گیا تھا جس پر اس کا استعمال اقبال نے کیا ہے، اس مبصرانہ و فن کارانہ معنوی تضمین سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا مطالعہ فن اور احساس شعریت بہت ہی وسیع و عمیق ہے اور وہ ماضی کے اساتذہ فن کے بڑے ادا شناس ہیں جبکہ اپنے فن کے تقاضوں سے بھی پوری طرح آشنا ہیں اور ان کی انفرادیت اتنی مستحکم ہے کہ تمام روایات کو اپنے فن میں جذب کر کے ایک نئی زندگی اور تابندگی دے سکتی ہے۔ فارسی کے اساتذہ سخن کا یہ تخلیقی استعمال یقینا اقبال کی شاعری کی ثروت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بہرحال اس تمہیدی بند میں اپنے تخیل کی ترسیل کے لیے شاعر نے ایسی حسین تصویریں پیش کی ہیں: اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری بند کی ٹیپ میں شاعر نے دنیا کو ایک ’’ حسرت سرا‘‘ بتایا ہے جس میں وہ ایک ’’ خروش بے نفس‘‘ رکھتا ہے ۔ یہ دونوں پیکر ’’ تصویر درد‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہیں۔ دوسرا بند پہلے ہی شعر سے قبل کے بند خاص کر اس کی ٹیپ کے اندر سے نکلتا ہوا معلوم ہوتا ہے، شاعر بتاتا ہے کہ انسان ’’ ریاض دہر‘‘ میں نا آشنائے بزم عشرت اور محروم مسرت ہے، لیکن تصویر درد کے تصور کو اس طرح آگے بڑھا کر، وہ تمہید کے بعد اپنے موضوع کی طرف آنے کے لیے دوسرے ہی بند میں ایک راستہ نکالتا ہے اور تسلسل بیان کو برقرار رکھتے ہوئے یہ خیال پیش کرتا ہے کہ تمام محرومیوں اور نارسائیوں کے باوجود: یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قدرت کا سراپا نور ہو جس کی حقیقت، میں وہ ظلمت ہوں پھر اس معنی خیز تصور کو ایک نہایت حسین اور پر خیال تصویر سے آراستہ کیا گیا ہے: خزینہ ہوں، چھپایا مجھ کو مشت خاک صحرا نے کسی کو کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں؟ کائنات میں انسان کے اس کے گم شدہ مقام کا سراغ دے دینے کے بعد شاعر خود انسانیت کا ترجمان بن جاتا ہے تاکہ اب موضوع پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے وہ بالکل تیار ہو جائے اور اس سلسلے میں اس کی حیثیت واضح ہو جائے۔ چنانچہ بند ٹیپ کے اس شعر پر ختم ہوتا ہے: مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ آنکھوں کے سامنے آتا ہے یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایک ملک کی صورت حال پر تبصرہ کرنے کے لیے شاعر نے ایک آفاقی تمہید سے کام لیا ہے اور اس میں انسان اور فن کار کا مقام واضح کیا ہے۔ اگلے بند میں پچھلے بند کی ٹیپ کے شعر کی دو شعروں میں تفصیل کر کے ہندوستنا سے اپنا پر درد خطاب شروع کر دیتا ہے: رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں نظم کے اس طویل ترین بند میں اہل ہندوستان کو آنے والی تباہی سے خبردار کر کے سنبھلنے کا مشورہ دیا گیا ہے اور ایک بار پھر اس مقصد کے لیے خیالات کی ترسیل فطرت سے ماخوذ معروضی مترادف کے ذریعے کی گئی ہے: نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑا اس باغ میں گل چیں تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنا دل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں شاعر مظالم اور جبر و استبداد کے خلاف روح ہندوستان کو فریاد کرنے کی تلقین کرتا ہے اور خاص کر دو نکتے اہل وطن کے سامنے رکھتا ہے۔ اول یہ کہ وہ زمانے کی رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں، دوسرے یہ کہ فعال بنیں: ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں ٭٭٭ یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے ہم وطنوں کو اس تنبیہہ و تلقین کے بعد شاعر بحیثیت محب وطن اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے اس طرح تیسرے بند کی ٹیپ میں جو لائحہ عمل شاعر نے اہل وطن کے سامنے رکھا تھا اب چوتھے بند میں اس پر خود بھی اپنے مخصوص دائرے میں عمل پیرا ہونے کے محکم ارادے کا ذکر کرتاہے: جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو جو شکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا شمع و چراغاں غنچہ و چمن اور دانہ و تسبیح کی تصویریں، شاعر کے شیریں جذبات کو حسین لباس فن میں پیش کرتی ہیں۔ بہرحال جس کام کا بیڑا شاعر نے اٹھایا ہے اس کے لیے اپنی خاص استعداد سے وہ آگاہ ہے اور اس آگہی کے اعلان پر بند ختم ہوتا ہے: جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے اگلا بند اس مقام آگہی سے ایک عبرت خیز اعلان پر شروع ہوتا ہے: کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے اب جو تخاطب تمام ہندوستانیوں سے تھا اس کا رخ اس تخاطب کے تسلسل میں ایک حصہ قوم کے طور پر مسلمانوں کی طرف ہوتا ہے اور ان کو اہل ملک کے ساتھ اتحاد و رواداری کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ وہ آگے بڑھ کر وطن کی آزادی و اصلاح اور انقلاب حال کی تحریک میں ایک آزاد ذہن اور صاف قلب کے ساتھ شریک ہوں اور اس طرح اپنے کلمہ توحید کا تقاضا پورا کریں: تعصب چھوڑنا داں! دہر کے آئینہ خانے میں یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے ٭٭٭ زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے اس کے بعد مسلسل تین بندوں میں ملک کی بہتری کے لئے محبت کا نسخہ کیمیا متنوع نکات و استعارات کے ساتھ تجویز کیا گیا ہے، یہ نسخہ تمام ہندوستانیوں کے لیے ہے اور اگر مسلمان اس کو استعمال کریں اورکرائیں تو اسلام کے پیغام اخوت انسانی کے پیش نظر یہ ان کا فرض بھی ہے اور حق بھی، خاص کر شاعر چونکہ وطن دوست ہونے کے ساتھ ساتھ دین پسند بھی ہے لہٰذا اس کا موقف دین و وطن دونوں کی خدمت ہے اور یہ اس کی خاص بصیرت ہے کہ وہ دونوں کے درمیان عصر حاضر کے دوسرے بہتیرے دانشوروں برخلاف کوئی تضاد محسوس نہیں کرتا۔ اسی بصیرت کی دین وہ اعتماد ہے جس کی بناء پر اقبال اپنے وطنی اور دینی دونوں بھائیوں کی کم عقل و بے عملی پر تنقید بھی کرتے ہیں اور انہیں فکر و عمل کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے درد دل کا پر زور اور پر تاثیر اظہار کر کے خود ایک خاموش تصویر درد بنے رہنے کی بجائے پورے ملک کو ایک تصویر درد بنا دیتے ہیں۔ موضوع سخن کے اندر یہ تہ جس لطیف فن کاری سے پیدا ہوئی ہے اس کے نشانات، ایک منظم منصوبہ فکر اور مرتب ارتقائے خیال کے علاوہ، یہ ہیں: شجر ہے فرقہ آرائی، تعصب ہے ثمر اس کا یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو نہ اٹھا جذبہ خورشید سے اک برگ گل تک بھی یہ رفعت کی تمنا ہے کہ لے اڑتی ہے شبنم کو پھرا کرتے نہیں خبروح الفت فکر درماں میں یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو ٭٭٭ جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں غلامی ہے اسیر امتیاز ماو تو رہنا شراب روح پرور ہے محبت نوع انساں کی سکھایا اس نے محبت کو مست بے جام و سبو رہنا محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے سخت خفتہ کو بیدار قوموں نے ٭٭٭ بیابان محبت دشت غربت بھی، وطن بھی ہے یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے مرض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرض ایسا چھپا جس میں علاج گردس چرخ کہن بھی ہے جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے وہی اک حسن ہے لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں یہ شیریں بھی ہے گویا، بیتوں بھی، کوہکن بھی ہے اجاڑا ہے تمیز ملت و آئین نے قوموں کو مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے؟ ٭٭٭ بلاشبہ اس خطاب میں خطابت ہے، جو پوری نظم میں جگہ جگہ پائی جاتی ہے۔ لیکن اول تو خطابت اگر شاعرانہ ہو تو وہ بھی شاعری ہے، دوسرے بعض موضوعات کے لیے خطابت ہی موزوں وسیلہ اظہار ہے، جیسے حب وطن کا موضوع، غلامی، تفرقے اور اندیشہ تباہی کے پس منظر میں جب موضوع میں ایک سیاسی عنصر پیدا ہو جاتاہے اور نعرہ انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی شعریت کا اندازہ کرنے کے لیے جوش کی گھن گرج کے ساتھ موازنہ کافی ہو گا۔ اقبال کی شاعری میں جو فن کارانہ نکتہ سنجی اور درد مندی ہے وہ جوش کے کلام میں سیاسی للکار اور جھنکار سے بدل جاتی ہے۔ لہٰذا خطابت Rhetoric کی بھی ایک جگہ شاعری میں ہے۔ اگر اس کا اظہار موقع و محفل کے مناسب اور شعریت کے ساتھ ہو جو اقبال کی خطیبانہ شاعری کی خصوصیت ہے۔ ’’ تصویر درد‘‘ کی شاعری میں خطابت کا جوہر بالعموم شاعرانہ حسن کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جیسا کہ آخری بند کے محولہ بالا اشعار کی نفاست بیان سے نمایاں ہے لیکن بعض مواقع پر نفاست میں رخنہ پیدا ہو گیا ہے جس کا اندازہ ’’ ارے‘‘ اور’’ او‘‘ جیسے الفاظ کے استعمال سے ہوتا ہے۔ اسی طرح مختلف بندوں کے درمیان ربط خیال اور ارتقائے خیال کے باوجود بعض بندوں کے اندر تسلسل بیان میں کہیں کہیں شگاف نظر آتا ہے۔ ایک بات اور بعض نکات کی تکرار ہے، گرچہ اس کی توجہ معانی کے تنوع اور بیان کے تسلسل دونوں سے کی جا سکتی ہے۔ بہرحال نظم کی یہ جزوی خامیاں ایک مجموعی طور پر کامیاب تجربے کے چند معمولی نقائص ہیں اور ابتدائے کار کی فطری صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں، جبکہ مجموعی کامیابی اور عمومی شعریت تنظیم ہیئت اور اسلوب کلام کے مستقبل میں رونما ہونے والے بہتر و برتر تجربات و کمالات کی طرف واضح اور قطعی اشارہ کرتی ہے۔ اقبال کے نقوش کلام Figures of Speechکا شوخ رنگ اور مترتم آہنگ Musical Rhythm ’’ تصویر درد‘‘ میں عام طور سے نمایاں ہو کر ایک عظیم فن کے امکانات روشن کرتا ہے جبکہ بندوں کی تنظیم کا منصوبہ و سلیقہ اس فن کی استواری و ہمواری کی توقعات کا مظہر ہے۔ ’’ تصویر درد‘‘ کی بازگشت، وطن پرستی پر مشتمل مندرجہ ذیل نظموں میں سنائی دیتی ہے: ’’ ترانہ ہندی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، نیا شوالہ، سوامی رام تیرتھ، رام، نانک، اسیری، خضر راہ کا ایک باب، سلطنت‘‘ اقبال کی وطن دوستی کے متعلق طرح طرح کی باتیں فکر اور فن دونوں کے سلسلے میں کی گئی ہیں اور بالعموم اس کو نظام اقبال کے اندر ایک تضاد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ فکر و فن دونوں کا بہت ہی سطحی اور ناقص مطالعہ ہے، فن کے اعتبار سے وطن دوستی کی شاعری میں گاہے گاہے خطابت کے باوجود فن کارانہ حسن عمومی طور پر موجود ہے ’’ ترانہ ہندی‘‘ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور ’’ نیا شوالہ‘‘ اور ان سے قبل’’ صدائے درد‘‘ کو غیر شاعرانہ کہنے کی جسارت کوئی بے ذوق ہی کر سکتا ہے، فکر کے سلسلے میں سب سے مشہور شعر ہی کا مسئلہ لیجئے: پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے لوگ عام طور پر صرف دوسرا مصرعہ پڑھ کر سمجھ لیتے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اقبال کبھی وطن پرست تھے، یہاں تک کہ ان کی نگاہ میں ’’ خاک وطن کا ہر ذرہ دیوتا‘‘ تھا، لیکن ذرا دوسرے مصرعے کو پہلے سے ملا کر پورے شعر پر غور کیجئے، پھر یہ بھی دیکھئے کہ یہ ٹیپ کا شعر ہے ’’ نیا شوالہ‘‘ کے پہلے بند کا تو واضح ہو جائے گا کہ شاعر نے نظم کے پہلے ہی شعر میں برہمن سے جو یہ خطاب کیا تھا اسی کے ذیل میں زیر نظر شعر آتا ہے: سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے معلوم ہوا کہ شعر برہمن کو خطاب کر کے اس کے اس تخیل کو باطل کرنے کے لئے کہا گیا ہے کہ ’’ پتھر کی مورتوں میں خدا ہے‘‘ اس لیے کہ جہاں تک خدائی کے مظاہر کا تعلق ہے زمین یا خاک وطن کے ذرے ذرے سے جلوۂ آگہی آشکار ہے۔ پورے بند کا مقصود بداہتہً فرقہ آرائی اور تعصب کی وہ مذمت ہے جو ہم ’’ تصویر درد‘‘ میں دیکھ چکے ہیں ۔ چنانچہ ’’ نیا شوالہ‘‘ کا دوسرا بند پورا کا پورا اس ’’ محبت‘‘ کے نشے میں ڈوبا ہوا ہے، جسے اقبال نے ’’ تصویر درد‘‘ میں ملک کے امراض کے لیے نغمہ شفاء کے طور پر تجویز کیا ہے۔ اس لحاظ سے زیر بحث شعر فی الواقع ’’ نیا شوالہ‘‘ کے پہلے بند کا خلاصہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے بند کی تمہید ہے۔ اس معاملے میں اگر اس بین حقیقت کو ذہن نشین کر لیا جائے کہ اقبال وطن پرور اور وطن دوست تھے، وطن پرست نہیں تھے تو ساری الجھن دور ہو جائے گی اور تب انہوں نے رام نانک اور سوامی رام تیرتھ جیسے غیر مذاہب کے بزرگوں کی جو تعریف کی ہے وہ بھی بآسانی سمجھ میں آ جائے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا ذہن ہر دور میں فرقہ وارانہ تعصب سے بالکل خالی رہا اور فرقہ پرستی کو وہ خدا پرستی کے منافی اسی طرح سمجھتے رہے جس طرح وطن پرستی کو، اس لیے کہ ان کے عقیدۂ توحید کی آفاقیت کی راہ میں فرقہ پرستی اور وطن پرستی دونوں کی تنگ نظری حائل اور مزاحم ہے۔ اقبال کے فن کی ہمیہ گیر اپیل صرف اور خالص و کامل خدا پرستی پر مبنی ہے، یہ خدا پرستی ہی وہ بسیط انسان دوستی پیدا کرتی ہے جس کے اجزائے ترکیبی بیک وقت وطن دوستی اور ملت دوستی دونوں ہیں۔ وطن دوستی اس ترکیب میں ملت دوستی کی مددگار ہے اور ملت دوستی میں وطن دوستی بھی شامل ہے۔ نغمہ اقبال ان کے تصور انسانیت کے اسی تار حریر دو رنگ کا سلسلہ فن ہے۔ ٭٭٭ شمع اور شاعر (اسلام پسندی) اس نظم کا موضوع ملت اسلامیہ ہے۔ یہ اقبال کا خاص اور محبوب موضوع ہے جس کی وسعتوں اور گہرائیوں میں آفاقیت اور انسانیت کے مضمرات سموئے ہوئے ہیں۔ اس کا پرایہ بیان نہایت حسین و دل آویز ہے اور یہ شاعر کی بہت ہی اچھی اور اہم تخلیقات میں ایک ہے۔ اگر کوئی ناقد اس کو نظر انداز یا رد کرتا ہے تو فن کے متعلق اپنے کسی معروضی نقطہ نظر کی بنیاد پر نہیں، اس لیے کہ نظم فن کا ایک دلکش نمونہ ہے، بلکہ اپنی بالکل موضوعی فکر اور اس کے یکسر ذاتی تعصبات کے سبب۔ ایسا ناقد در حقیقت شاعری پر تنقید نہیں کرتا، اسلام اور ملت اسلامیہ کے موضوع شاعری ہونے پر تنقید کرتا ہے اور اپنی کم نظری اور کم ظرفی کی بناء پر تصور کرتا ہے کہ مذہب اور اس کی امت اچھی شاعری کی تخلیق میں لازماً مزاحم ہے۔ یہ نقطہ نظر صریحاً فن و ادب کی پوری تاریخ سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ فن اور شاعری کے عظیم ترین کارنامے مذہبی تخیل و احساس کے تحت ہی رو پذیر ہوئے ہیں۔ بہرحال، الگ الگ شمع اور شاعر کے تصورات سے اقبال کا شغف بہت زیادہ رہا ہے۔ ان دونوں عنوانات پر ان کی کئی نظمیں بانگ درا میں ہیں مثلاً: ’’ شمع و پروانہ، شمع، شاعر(1) بچہ اور شمع، رات اور شاعر، شاعر (2)‘‘ شمع اور شاعر ایک مکالمہ ہے شاعر اور شمع کے درمیان، گویا تمثیلی نظم ہے اس میں شمع اور شاعر دونوں کے متعلق اقبال کے وہ خیالات جمع ہو گئے ہیں جو الگ الگ دونوں تصورات پر مختلف عنوانات سے ظاہر کئے گئے ہیں اور اس یک جائی سے کچھ نئے احساسات و اشارات بھی ابھر آئے ہیں، جو گویا دو عناصر کے میل سے پیدا ہونے والی ایک تیسری اور مرکب چیز کی شان ہے جس میں دونوں ترکیبی عناصر کے خصائص مع اضافہ شامل ہو گئے ہیں اس نظم کی تخلیق سے قبل اس کے موضوع سے متعلق اشارات متعدد نظموں میں موجود ہوتے ہیں، جن میں بعض وہ بھی ہیں جن کی مثال وطن دوستی کے عناصر کے لیے دی گئی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعری میں ملت دوستی اور وطن دوستی، خدا پرستی اور انسان دوستی کی بنیادوں پر اس طرح ایک دوسری میں سموئی ہوئی ہیں کہ ایک ہی نظم میں بہ یک وقت دونوں کے احساسات شروع ہی سے کلام اقبال میں رونما ہیں۔ یہ اقبال کے اس درد محبت اور تصور عشق کا فیض ہے جو ان کے نظام فکر کا مرکزی نقطہ ہے اور عقیدۂ توحید اسی کی ٹھوس عملی شکل ہے۔ توحید کی وحدت ہی عشق کو آفاقی بناتی اور وحدت انسانی کا معین و محکم تصور پیدا کرتی ہے۔ یہ آرزو اسی تصور پر مبنی ہے: ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید نہیں جگا دے (ایک آرزو) یہی آرزو اس شعر میں ایک تلقین بن گئی ہے: سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے (سید کی لوح تربت) اور تلقین کا نتیجہ فن کی درد مندی ہے: مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہم درد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ (شاعر نمبر1) اس درد مندی کا جو مظاہرہ ’’ تصویر درد‘‘ میں ہوا ہے اس میں ہم وطنوں کے ساتھ ساتھ ہم مذہبوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے: زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطر قرآن کو چلیپا کر دیا تو نے زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے ’’ پیام عشق‘‘ کے آخری اشعار گویا’’ شمع اور شاعر‘‘ کا پیش خیمہ اور اس نصب العین کا منشور ہیں جو اس نظم میں پیش کیا گیا ہے: گئے وہ ایام، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نور دیوں کا جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا وجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ، یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا یہ ہند کے فرقہ مانہ اقبال آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن تبوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا اقبال قوم کا لفظ ملک و ملت دونوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، وطن دوستی کے موضوع پر ان کے اشعار میں ہم اس لفظ کا استعمال اہل وطن کے لیے دیکھ چکے ہیں اور اب اہل ایمان کے لیے دیکھ رہے ہیں گرچہ قوم کے ساتھ ساتھ ملت کا استعمال بھی قوم ہی کے معنی میں ایک شعر کے اندر کیا گیا ہے اور اس طرح قوم و ملت کو مترادف بنا دیا گیا ہے، بات یہ ہے کہ یہاں اقبال انگریزی لفظ ’’ نیشن‘‘ اور اس کے تصور کا ترجمہ و ترجمانی نہیں کر رہے ہیں، بلکہ الفاظ کا استعمال غیر سیاسی اور غیر اصطلاحی مفہوم میں محاورہ زبان کے عام استعمال کے تحت کر رہے ہیں۔ پھر قوم و ملت کا ترادف، شعوری یا غیر شعوری طور پر، ذہن اقبال میں دونوں کی ہم آہنگی کا بھی ایک ثبوت اور ہے۔ اس سلسلے میں آخری شعر بہت معنی خیز ہے، شاعری فرقہ سازی کی مذمت کرتا ہے اور اس کو آزادی یعنی بت سازی و بت پرستی قرار دیتا ہے جس سے دامن بچا کر وہ ’’ غبار راہ حجاز‘‘ ہو جانا چاہتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام پسندی اقبال کے تخیل میں فرقہ سازی سے نجات کی ایک صورت ہے جو فرقہ آرائی اور اس کے تعصب سے بالکل پاک، ایک خالص نظریاتی و اصولی نصب العین ہے۔ اسی نصب العین کا اظہار حسب ذیل ملی نظموں میں ہوا ہے: عبدالقادر کے نام، صقلیہ، بلاد اسلامیہ، گورستان شاہی، قطعہ، خطاب نہ نوجوان اسلام، ہلال عید ان کے علاوہ ترانہ ملی، وطنیت اور شکوہ ملی شاعری کے سنگ میل ہیں لیکن عام خیال آرائی کے برخلاف، ان میں سے کسی کا تصادم ’’ تصویر درد‘‘ کی وطن دوستی کے ساتھ نہیں ہے۔ ’’ ترانہ ملی‘‘ کا پہلا شعر ہے: چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا یہ شعر’’ ترانہ ہندی‘‘ کے پہلے شعر کی جو حسب ذیل ہے ہرگز نفی نہیں کرتا: سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا ترانہ ملی میں بھی ’’ چین و عرب ہمارا‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ ہندوستاں ہمارا‘‘ کہا گیا ہے اور ’’مسلم ہیں ہم‘‘ کا اعلان کر کے یہ اقرار بھی کیا گیا ہے کہ ’’ وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ترانہ ہندی میں کہا گیا ہے کہ ’’ ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا‘‘ اور دوسری طرف ترانہ ملی میں جتایا گیا ہے کہ: اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا اور ترانہ ملی کے اس شعر میں جو ’’ موج دجلہ‘‘ ہے: اے موج دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا وہ ترانہ ہندی کے اس شعر میں ’’ آب رود گنگا‘‘ تھی: اے آب رود گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟ اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا اندلس سے ہندوستان اور دجلہ سے گنگا تک، توحید کی آفاقیت پر مرتب ہونے والا انسانیت کا ایک ہی قافلہ ہے جو تاریخ کے ہر مرحلے پر اور جغرافیہ کے ہر خطے میں رواں دواں ہے۔ اسی عنوان کی نظم میں ’’ وطنیت‘‘ کی مخالفت انسانیت کی اس آفاقیت پر نہ صرف یہ کہ کوئی ضرب نہیں لگاتی بلکہ اس کے حسن کو نکھارتی ہے، نظم کے نیچے قوسین میں تشریح عنوان و موضوع کے طور پر درج کر دیا گیا ہے: ’’ یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘‘ اس تصور کے تحت رونما ہونے والی وطنیت پر شاعر کا اعتراض پہلے بند کی ٹیپ سے ظاہر ہے: ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے یعنی وطن کی پرستش غلط ہے۔ اس لیے کہ یہ خدا کی پرستش میں شرک کے مترادف ہے، لہٰذا مذہب کے آفاقی و انسانی عقیدہ توحید کے منافی ہے۔ پھر وطن پرستی کی محدود نظری کا عملی پہلو بالکل تباہ کن ہے: ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی چنانچہ آخری بند خلاصہ نظم کے طور پر وطن پرستی کی ہولناکیوں اور تخریب کاریوں کو واضح کر دیتا ہے: اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قوسیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے یہ قومیت اسلام’’ مخلوق خدا ‘‘ کی اقوام میں نہیں بانٹتی اور تباہ کن قید مقامی کی اجازت نہیں دیتی، یہ ایک خدا ایک انسان کی آفاقی و تعمیری توحید قائم کرتی ہے۔ یہاں ’’ وطنیت‘‘ نیشنلزم کا ترجمہ معلوم ہوتی ہے جس کے لیے بعد میں قوم پرستی کا لفظ وضع کیا گیا۔ چنانچہ اقبال نے قوم پرستی کی مخالفت اسی وطن پرستی کی خامیوں اور خرابیوں کے سبب کی ’’ وطنیت‘‘ آفاقی انسانی تصور کو پیش کرنے والی ایک حسین سیاسی نظم ہے جس میں تعمیر ہیئت بھی ہے اور تزئین خیال بھی اور ترنم تو غضب کا ہے۔ ’’ شمع اور شاعر‘‘ ترکیب ہند کی ہیئت میں ہے اور مختلف بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے، سب سے پہلے ’’ شاعر‘‘ پانچ فارسی اشعار کے اولین اور مختصر ترین بند میں ایک منظر پیش کرتا ہے جس میں رات کے وقت شمع کے ساتھ اس کے مکالمے کی آواز آتی ہے۔ وہ اپنی ’’ منزل ویراں‘‘ میں روشن شمع سے کہتا ہے کہ اس کے ’’ گیسو‘‘ سنوارنے کے لیے تو ’’ پر پروانہ‘‘ کا ’’ شانہ‘‘ موجود ہے مگر شاعر کے ناز اٹھانے والا کوئی رفیق دنیا میں نہیں اور اس کی ہستی ایک ’’ چراغ لالہ صحرا‘‘ کی طرح ہے جس کے نصیب میں نہ تو کسی محفل میں فروزاں ہونا ہے نہ کسی کا شانے میں حالانکہ ایک مدت تک شمع کی طرح اس نے بھی نفس سوزی کی ہے، لیکن ایک پروانہ بھی اس کے شعلے پر نہ گرا۔ چنانچہ اس کے فرسودہ آرزو دل میں ’’ صد جلوہ‘‘ تڑپ رہا ہے اور اس کی محفل میں ایک ’’ دل دیوانہ‘‘ بھی ابھر نہیں رہا۔ لہٰذا وہ شمع سے سوال کرتا ہے: تو نے یہ آتش عالم فروز کہاں سے فراہم کر لی کہ ایک کرمک بے مایہ کو سوز کلیم عطا کر دیا؟ یہ پورا بند فارسی زبان کے بہترین آہنگ میں ایک نہایت دلربا نغمہ شعر ہے اور اس کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ فارسی شاعری اور اس کے اساتذہ کے بہترین کلام کا جو ذوق اقبال فارسی اشعار پر اپنی تضمینوں میں اب تک زیادہ تر چھوٹی نظموں میں ظاہر کرتے رہے تھے اب وہ بڑھ کر مستقل فارسی گوئی کی شکل اختیار کرنے لگا ہے جو فارسی شاعری کی بہترین روایت میں ہونے کے ساتھ ایک دلکش انفرادی اسلوب اظہار بھی رکھتا ہے۔ اس کے بعد پانچ بندوںمیں ’’ شمع‘‘ اردو کی بہترین شعری روایات کے مطابق نہایت فکر انگیز جواب دیتی ہے جس کے بعد باقی پانچ بندوں میں اسی انداز میں شاعر کا ولولہ خیز جواب الجواب ہے۔ اس طرح تمہیدی بند کو چھوڑ کر شمع و شاعر اپنے اپنے مکالمے کے لیے پانچ پانچ بند مخصوص کر لیتے ہیں اور گیارہ بندوں کی تمثیلی نظم دو کرداروں کے مکالمات میں تقریباً برابر برابر تقسیم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس تقسیم کی تکنیک اتنی لطیف ہے کہ غور کرنے ہی پر پتہ چلتا ہے کہ پہلے حصے میں شاعر کے سوال کے بعد جب دوسرے حصے میں شمع کا جواب شروع ہوا تو وہ کہاں تک گیا اور پھر کہاں سے شاعر کا جواب الجواب اسی حصے اور اس کے مضامین و بیان کے تسلسل میں کسی تیسرے حصے کا اعلان کیے بغیر بڑی خاموشی سے شروع ہو گیا؟ شمع و شاعر کے جوابات کو اس طرح ایک دوسرے کے اندر مخلوط کرنے سے شاعر کا فنی مقصد کیا ہے؟ میرے خیال میں اس ترکیب سے شمع و شاعر کے احساسات کو، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ہم آمیز کر کے ادائے موضوع کے تاثر کو زیادہ دبیز اور شدید کرنا مقصود ہے۔ تکنیک کی اس ندرت کی ایک ہلکی سی جھلک ’’ تصویر درد‘‘ میں بھی دیکھی جا چکی ہے۔ جب ایسے ہی لطیف انداز میں شاعر نے اپنے آپ کو تصویر درد بنانے کے بعد وطن کو ہی آہستہ آہستہ ایک تصویر درد میں تبدیل کر دیا۔ اس طرح وطن اور شاعر کی باہمی پیوستگی بھی موضوع کے تقاضے سے ہو گئی اور تصویر درد کا موضوع بھی زیادہ دبیز و شدید تاثر کا حامل ہو گیا۔ شمع اور شاعر میں شاعرانہ تخیل اور فن کارانہ اسلوب کا یہ ترکیبی عمل زیادہ بالیدہ و تراشیدہ شکل میں رونما ہوتا ہے: مجھ کو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا گل بدامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں شعلہ ہے مثل چراغ لالہ صحرا ترا یہ بالکل ترکی بہ ترکی جواب ہے اور مکالمے کی چستی نیز تمثیل کی تاثیر کا باعث ہے، شمع شاعر اور اس کی ملت کے اندر خلوص کی گرمی کا فقدان پاتی ہے اور اس کے وجود کی خواہاں ہے، ساتھ ہی وہ خرابی احوال کے وجوہ و اسباب کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ یہ مصرع اسی کی دلیل ہے: ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا اس کے بعد اسی بند کے دوسرے اشعار میں مزید نشاندہی ہوتی ہے: کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی تبخانہ ہے کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا ترا مکالمے اور تمثیل کی چستی و تاثیر کے ساتھ پیکروں کا حسن اور دل آویزی جا ری ہے نہ صرف کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے، جیسے درخشاں پیکر ہیں بلکہ قیس، صحرا، محمل اور لیلا کے استعارے بھی ہیں، جو سب موضوع کی مناسبت سے نہایت معنی خیز اور خیال آفریں ہیں، اس کے علاوہ ترتیب الفاظ کی غنائیت ہے: تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا پہلے بند کی ٹیپ ماقبل کی دلیلوں کا نتیجہ نکال کر آنے والے بند کے مفہوم کی تمہید بن جاتی ہے: اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا اگلا بند بہت مختصر مگر پورے کا پورا تاثیر میں ڈوبا ہوا اور اپنی تصویروں نیز ترنم کے لحاظ سے پرکیف ہے: تھا جنہیں ذوق تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبحدم کوئی اگر مالائے بام آیا تو کیا بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے، آواز درا ہو یا نہ ہو ’’ ذوق تماشا‘‘ ،’’ وعدۂ دیدار عام‘‘ ،’’ شعلہ آشام‘‘ ،’’ آتش بجام، باد بہاری‘‘ ،’’ آخر شب‘‘، ’’ بالائے بام‘‘ ،’’ سودائی سوز تمام‘‘ ،’’ گرم نوا‘‘ اور’’ آواز درا‘‘ جیسی ترکیبیں اور ’’ انجمن‘‘ ، ’’ ساقیا‘‘، ’’ محفل‘‘ ،’’ گلشن‘‘ ،’’ پیام‘‘ ،’’ بسمل‘‘ ،’’ شعلہ‘‘ ،’’ پرانہ ‘‘ اور’’ کارواں‘‘ جیسے الفاظ ایک پر خیال فضا قائم کرتے ہیں اور شاعر جو تصویر خیال قاری کو دکھانا چاہتا ہے وہ پردہ سیمیں کے پیکروں کی طرح نگاہوں میں پھرنے لگتی ہے۔ چوتھا بند تمثیل کے منظر اور مکالمے کو جاری رکھتے ہوئے نگاہ تخیل کو حال کی بد حالی کے ساتھ ماضی کی خوش حالی کی طرف لطیف طریقے سے موڑ دیتا ہے اور ایک تقابلی مطالعے سے عبرت دلا کر گویا مستقبل کے لیے خبردار اور تیار کرنا چاہتا ہے: رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں رقص میں لیلا رہی، لیلیٰ کے دیوانے رہے مینا،پیمانے، ساقی، دشت جنوں پرور، رقص، لیلا، لیلا کے دیوانے تصویر کا رنگ اور ترنم کا آہنگ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اب کہ چشم تصور بالکل خوف فشاں ہے اور شمع کا گداز اور شاعر کا سوز اپنے عروج پر پہنچ رہے ہیں، قاری کے دل پر ایک زبردست ضرب لگائی جاتی ہے: دائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ٹیپ کے اس شعر کے بعد شمع کے مکالمے کا آخری سے پہلے کا بند اب تک ارتقائے خیالی کے منطقی نتیجے اور موضوع نظم کے تقاضے کے مطابق، ماضی و حال کی تابانی و تاریکی کا موازنہ جاری رکھتے ہوئے، اگلی ٹیپ کے شعر میں مستقبل کی درخشانی کا ایک جلوہ دکھاتا ہے: جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی شہراں کے مٹ گئے، آبادیاں بن ہو گئیں سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے موج کی آزادیاں سامان شیون ہو گئیں اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہو گئیں دیدۂ خونبار ہو منت کش گلزار کیوں؟ اشک پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہو گئیں شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی یہ ماضی کا وہ شاندار، خیال انگیز اور ولولہ خیز استعمال ہے جو اقبال کی شاعری کا ایک امتیازی نشان ہے اور اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ حال کے آئینے میں ماضی کی تصویر دکھا کر اس پر مستقبل کا عکس ڈال دیا جاتا ہے، گویا ماضی برائے ماضٰ نہیں برائے مستقبل ہے، اور ماضی و حال و مستقبل تینوں کی ترکیب ایک تو وقت کے بارے میں شاعر کے اس تصور کی ترجمانی ہے کہ: تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات (مسجد قرطبہ) دوسرے ان تینوں زمانوں کی پیوستگی سے شاعر تاریخ کے تسلسل اور حیات کی ہم آہنگی کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہے تاکہ ماضی سے سبق لے کر مستقبل کی تعمیر و ترقی کا سامان کیا جائے۔ اشارہ مستقبل کے علاوہ آئین مستقبل کا ذکر بھی اشارۃ ہوتا ہے: دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے موج کی آزادیاں سامان شیون ہو گئیں اس کے علاوہ نور ایمن، پابند نشیمن اور آسودۂ دامان خرمن کی تراکیب صرف تصاویر نہیں ہیں، تصورات بھی ہیں اور کنایتہ آئندہ طرز عمل کی طرف متوجہ کرنے والی ہیں۔ چنانچہ چھٹا بند شمع کے جواب کی تکمیل اس طرح کرتا ہے کہ یاس و افسردگی کے جو نکتے شمع نے اب تک پیش کیے تھے اب انہیں وہ امید و شگفتگی میں تبدیل کر دیتی ہے اور پورا بند نشاط رجائیت سے چھلکنے لگتا ہے۔ چند اشعار یوں ہیں: مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش نقد خود داری بہائے بادۂ اغیار تھی پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے نا ونوش ٹوٹنے کے ہے طلسم ماہ سیمایان ہند پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش فارسی تراکیب اور توالی اصنافات کی کثرت بجائے ابہام و ژولیدگی کے ثروت خیال اور روانی بیان کا باعث ہے۔ یہ اسلوب اظہار کچھ دقیق ہونے کے ساتھ نفیس بھی ہے اور لطیف بھی۔ پھر اس سے وہ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے جو موضوع تخلیق کے طور پر مقصود فن ہے۔ اسی لیے وہ سب شبیہیں استعمال کی گئی ہیں جن کی رعنائی ملی حافظے پر مرقسم ہے اور ان کی جمال آفرینی دلوں میں احتراز پیدا کرتی ہے۔ ’’ پیمانہ بردار خمستان حجاز‘‘ لبریز صدائے نا و نوش’’ طلسم ماہ بیمایان ہند‘‘ پیغام خروش، شراب خانہ ساز، نغمہ پیرا، مینا بدوش جیسے نقوش و نغمات کو دیکھ اور سن کر تاثر یہ ہوتا ہے گویا محفل کا رنگ ہی بدل گیا ہو اور ماتم کی جگہ جشن کا ماحول بن گیا ہو۔ جنت نگاہ بھی موجود ہو اور فردوس گوش بھی۔ گذشتہ بند میں ہم نے دیکھا تھا کہ ’’ سطوت توحید‘‘ جن نمازوں سے قائم ہوئی تھی وہ ہند میں’’ نذر برہمن‘‘ ہو گئیں مگر موجودہ بند میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ طلسم ماہ سیمایان ہند ٹوٹ رہا ہے اور علامتی طور پر، سلیمی کی نظر پیغام خروش دے رہی ہے۔ یہ نکتہ ’’ مقابل نکتہ ‘‘ Point Counter point کی موسیقی ہے، بہرحال، ان علامتی بیانات کا مطلب تصویر درد کی وطن دوستی کے خلاف جذبات ابھارنا ہرگز نہیں۔ یہ صرف ایک ملی نظم کا وہ اصولی و نظریاتی موقف ہے جس کی تعیین موضوع تخلیق ہی سے ہو جاتی ہے، چنانچہ اس کی تشریح مقصود فن بن جاتی ہے جہاں تک نظریہ و اصول کا تعلق ہے، یہ وہی آفاقی توحید ہے جس کی رو سے نہ تو نمازوں کی نذر برہمن ہونا چاہیے نہ نظر کو طلسم ماہ سیمایان ہند میں گرفتار ہونا چاہیے۔ ورنہ ’’ سطوت توحید‘‘ اور اس کی آفاقیت مجروح ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ برہمن اور ماہ سیمایان ہند کے ساتھ ساتھ مے مغرب کو بھی رد کیا گیا اور شراب خانہ ساز طلب کی گئی ہے جو ملے گی تو یقینا پیمانہ بردار خمستان حجاز سے لیکن جب خانہ ساز ہے تو ہندوستانی بھی ہو گی اور مشرقی بھی اس لیے کہ مئے مغرب نے دل کے ہنگامے پورے مشرق بشمول ہندوستان میں خموش کر ڈالے ہیں، گرچہ مغرب کی مذمت بھی مغرب کے جغرافیہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کی ہو شربا اور دل شکن مے فروشی کے خلاف ہے چنانچہ شمع خاموش ہونے سے پہلے شاعر کو ٹیپ کے شعر میں یہ پیغام دیتی ہے: آنکھ کو بیدار کر دے وعدہ دیدار سے زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے اس کے بعد پانچ بندوں میں جو شاعر کا جواب الجواب ہے اس کا رخ شمع کی طرف نہیں، ملت کی طرف ہے اور یہ خود شمع کی تلقین پر ہے، اس لیے کہ یاد کر لینا چاہیے کہ پہلے حصے میں نظم شروع ہوئی تھی شاعر کے شمع کے ساتھ ایک سوال سے جس کے جواب میں نظم کے دوسرے حصے میں شمع نے صرف شاعر ہی نہیں، اس پوری ملت کی ہمدردانہ تنقید و تنبیہہ کی جس کی نمائندگی اور ترجمانی کی تمنا شاعر کو ہے، لہٰذا اب شمع تاریکیوں میں روشنی کی ایک کرن دکھا کر شاعر کو تلقین کرتی ہے کہ وہ دیدار منزل کے وعدے سے خواب غفلت میں پڑے ہوئے افراد ملت کی آنکھوں کو بیدار کر دے اور اپنے جوہر گفتار کے سوز سے مردہ دلوں کو زندہ کر دے یعنی اب وقت آ گیا ہے کہ شاعر کا وہ سوز دروں جس کے ضائع ہونے کا شکوہ اس نے شمع کیا تھا، واقعی محفل میں گرمی پیدا کرے اور اس کے پر سوز نغموں سے ایک پوری ملت بیدار ہو جائے اس سلسلے میں شاعر سے شمع، شمع سے ملت، ملت سے شمع، شمع سے شاعر اور شاعر سے ملت کی طرف جو خاموش انتقال ذہنی مسلسل ہوتا ہے، اس کی فن کارانہ ترکیب، پیچیدگی اور معنی آفرینی پر غور کیا جانا چاہیے۔ بہرحال ملت کے نام شاعر کے خطاب میں جن خاص نکات پر زور دیا گیا ہے وہ یہ ہیں: 1۔ ملی اصلیت، وسعت و جمعیت 2۔ خود داری، کار گزاری و ہنگامہ آفرینی 3۔ توحید، تسخیر و ترقی 4۔ بشارت مستقبل یہ اقبال کے پیغام کے بنیادی نکات ہیں جو بانگ درا میں خضر راہ، اور طلوع اسلام اور بال جبریل میں مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ جیسی عظیم نظموں کا موضوع ہیں۔ ان پانچ بندوں کے درمیان، جن میں یہ نکات بروئے اظہار آئے ہیں، جو ربط و ارتقا ہے اس کا کچھ اندازہ ان کی ٹیپ کے شعروں سے بھی ہو سکتا ہے۔ بند7 فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں ٭٭٭ بند8 کیوں چمن میں بے صد امثل رم شبنم ہے تو لب کشا ہو جا سرود بربط عالم ہے تو ٭٭٭ بند9 بیخبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے ٭٭٭ بند10 راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ ٭٭٭ بند11 شب گریزاں ہو گی، آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے ٭٭٭ پہلا شعر ملی جمعیت کی اہمیت موج و دریا کے استعارے سے واضح کرتا ہے جس طرح موجیں مل کر دریا بنتی ہیں اور ہر موج اسی وقت تک رواں ہے جب تک دریا کے اندر دوسری موجوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسی طرح افراد مل کر ایک ملت تعمیر کرتے ہیں اور ہر فرد کی اہمیت اسی وقت تک ہے جب تک وہ ملت کے ساتھ دوسرے افراد کی معیت میں رابطہ استوار رکھے ہوئے ہے اور اس طرح ملی جمعیت کے استحکام کا باعث ہے۔ دوسرا شعر جمعیت کے ساتھ ساتھ موثر حرکت کی ضرورت رم شبنم کی متضاد تصویر پیش کر کے واضح کرتا ہے۔ شبنم چمکدار ہونے کے باوجود بہت چھوٹی اور عارضی ہوتی ہے، آفتاب کی پہلی کرن کے ساتھ وہ سبزہ گل پرسے اس خموشی کے ساتھ اڑ جاتی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ ایک ملت کو اس طرح صدائے حیات سے خالی نہیں ہونا چاہئے، خاص کر اس ملت کو جو سرور بربط عالم ہے اس کی نواؤں سے ہنگامہ عالم گرم ہے اور نغمہ زندگی رواں، جبکہ اس کا سکوت دنیا کی روح کا سکوت ہے۔ تیسرے شعر میں اس خیال کی تشریح و تکمیل اور تعین کر دی گئی ہے، امت مسلمہ آئینہ و ایام کا جوہر اور زمانے میں خط کا آخری پیغام ہے، یعنی اسلام ایک ازلی و ابدی اور آفاقی نظریہ ہے، کوئی نسلی وقتی اور محدود قسم کا مذہب نہیں ہے، جو تاریخ کے کسی عمل اور مرحلے میں اگر فنا ہو جائے تو عالم انسانی کے حالات میں کوئی خاص فرق نہ واقع ہو لہٰذا اہل ایمان کو اپنی ہستی و حیثیت کا شعور اور اس کے مطابق ان کا کردار ہونا چاہئے، انہیں تنگ نظری اور کاہلی چھوڑ کر وسیع النظر اور مستعد ہونا چاہیے تاکہ وہ دنیا میں اپنا حقیقی رول ادا کر کے اپنے اصلی مقام پر فائز ہو جائیں۔ خلق کی خدمت ان کا فرق ہے اور خلق کی قیادت ان کا حق ہے جب تک وہ اپنا فرض ادا نہ کریں گے، ان کا حق انہیں نہ ملے گا۔ چوتھے شعر میں شاعر اپنی اس آتش نوائی کا راز کھولنے کے لیے اپنے دل کے آئینے میں جلوہ تقدیر دکھانا چاہتا ہے، یعنی اس کی نغمہ سنجی گرمی نشاط تصور سے ہے، وہ حال کی تاریکی سے آگے، مستقبل کی روشنی دیکھ رہا ہے۔اور اسے پوری ملت کو دکھا کر اس روشن مستقبل کی طرف بڑھانا چاہتا ہے۔ پانچواں شعر مستقبل کے روشن ہونے کی واضح، متعین اور قطعی بشارت دیتا ہے۔ آخر کے تینوں شعروں میں، جوہر آئینہ ایام، خدا کا آخری پیغام، آتش نوائی، جلوہ تقدیر، جلوہ خورشید اور نغمہ توحید جیسے معنی آفریں پیکروں کے ذریعے ابلاغ خیال کیا گیا ہے۔ ان بندوں کی پر خیال شعریت کا نمونہ دکھانے کے لئے بند 9اور بند11کا نقل کرنا کافی ہو گا: (9) آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو آہ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو، راہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو دیکھ آ کر کوچہ چاک گریباں میں کبھی قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو دائے نادانی! گہ تو محتاج ساقی ہو گیا مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو شعلہ بن کے پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو بے خبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے ٭٭٭ بند11 آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار نکہت خوبیداہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی نالہ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے ٭٭٭ معانی اور بیان کے لحاظ سے یہ اشعار نہ صرف اقبال کی شاعری کے بہترین نمونے ہیں بلکہ شاعری کی حسین ترین مثالیں پیش کرتے ہیں معانی کے اعتبار سے غور کیا جائے تو ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ملی موضوع پر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں وسیع ترین قومی و انسانی اشارات سموئے ہوئے ہیں، جس سے ایک بار پھر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی ملی شاعری وطنی یا بین الاقوامی تصورات کو مانع نہیں ہے بلکہ ان سب کی جامع اور اس طرح آفاقی ہے اس لیے کہ اقبال کا ملی تصور دین کے کسی رسمی عقیدے پر مبنی نہیں ایک اصولی نظرئیے پر استوار ہے، جس سے زیادہ انسانی و آفاقی کوئی تصور دنیائے وجود کے سامنے نہیں آیا۔ اور اس کے مقابلے میں وطنیت جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ جیسے خرد کے بدلتے ہوئے نظریات مخلوق خدا کو اقوام، اعداد اور طبقات میں تقسیم کرنے والے ہیں۔ بند 9میں ’’ دہقاں‘‘ سے خطاب کر کے اسے اپنی حقیقت سے آشنا ہونے کی تلقین کی گئی ہیں۔ اس طرح بند کا آغاز کر کے باقی سب اشعار اسی تلقین کی تشریح و تفصیل مختلف استعاروں میں کرتے ہیں، جو سب کے سب دنیا کے تمام مجبوروں اور مظلوموں کے لیے عام ہیں، یہاں تک کہ آخری شعر ’’ شعلہ‘‘ بن کر خاشاک غیر اللہ، کو پھونک دینے کی ہدایت کرتا ہے اور اسے باطل شکنی کا پیام قرار دیتا ہے۔ یعنی معرکہ فرقوں، طبقوں، خطوں، گروہوں، نسلوں، ذاتوں اور علاقوں کے درمیان نہیں جو سب کے سب ’’ خاشاک غیر اللہ‘‘ ہیں، بلکہ حق و باطل کے تصورات کے درمیان ہے، اس کے بعد ٹیپ میں بھی مخاطب کو ’’ جوہر آئینہ ایام‘‘ اور’’ زمانے میں خدا کا آخری پیغام‘‘ کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بالکل اصولی و عمومی تخاطب ہے۔ جوہر آئینہ ایام اور خدا کے آخری پیغام کے درمیان کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ اسلام بمعنی بندگی رب خدا کا اولین پیغام بھی ہے اور آخری بھی بلکہ ’’ ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘ کی آیت کے مطابق واحد پیغام ہے حتیٰ کہ ’’ فکل اسلم وجھد، للہ طوعاً او کرھاً‘‘ کی آیت اسلام کو پوری کائنات کا نظام قدرت قرار دیتی ہے، اس لیے کہ قانون فطرت اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اور اس کی اطاعت تمام مخلوقات کو کرنی ہے۔ اس لحاظ سے خدا کا آخری پیغام و حقیقت ایک آفاتی پیغام توحید ہے اور وحدت انسانی پر مشتمل ہے، نیز ایک ازلی و ابدی قانون قدرت ہے، لہٰذا جوہر آئینہ ایام ہے۔ بند11بھی انہی تصورات کا ترجمان ہے۔ اس میں حسب ذیل اشعار تو بداہتہً رائج الوقت جبر و استبداد کو جو ملک و ملت اور پوری انسانیت بالخصوص عالم مشرق پر مسلط ہے، پیغام فنا دیتے ہیں: دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی نالہ صیاد سے ہوں گے نواساماں طیور خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی ان استعاروں میں اس نو آبادیاتی سامراجیت کے استحصال و استبداد کا انجام نمایاں ہے جو اپنی برق رفتار مادی ترقیات کے بل پر پوری دنیا، خاص کر ایشیا و افریقہ میں سالہا سال سے ظلم و ستم اور وحشت و بربریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، یہاں تک کہ اس نے جدید تمدن کی روشنی علم و ہنر کے باوجود عالم انسانیت پر ایک ہمہ گیر ظلمت مسلط کر دی ہے، چنانچہ بند کا پہلا ہی شعر اس کی تاریکی کے دور ہونے کا مژدہ سناتا ہے اور بعد کے سب اشعار اس تخیل کی تفسیر کرتے ہیں: آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی یہاں تک کہ آخری شعر ایک لطیف پیش گوئی بالکل عمومی انداز میں کرتا ہے: آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی بہرحال، اس ابہام کی قطعی وضاحت ٹیپ کے شعر میں جو خاتمہ نظم ہے ہو جاتی ہے: شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے ظاہر کہ یہاں رات کی اسی ظلمت کے سیماب پا ہونے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر بند کے پہلے شعر میں ہوا تھا اور اس طرح بند کی بھی ابتدا و انتہا، نظم کی ابتدا و انتہا کی طرح ایک دوسری سے مربوط ہیں۔ جہاں تک ’’ نغمہ توحید‘‘ کا تعلق ہے، اس کی آفاقیت سے کوئی خدا پرست انکار نہیں کر سکتا، اسی لیے شاعر نے توحید کے متوقع غلبے کو جلوۂ خورشید، کے آفاق گیر استعارے میں ظاہر کیا ہے اور اس کے مقابلے میں جو کچھ ہے اسے شب کے ہمہ گیر پیکر میں ممثل کر دیا ہے۔ چنانچہ بند کے دیگر درمیانی اشعار کی کائناتی شعریت ملاحظہ کیجئے: اس قدر ہو گی، ترنم آفریں باد بہار نکہت خوبیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی آخری شعر میں ’’ پیغام سجود‘‘ اور’’ خاک حرم‘‘ سے وحشت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ حرم لفظی و معنوی اور لغوی و اصطلاحی طور پر حریم کو کہتے ہیں، جو یہاں حریم خداوندی ہے اور کائنات کا حقیقی حریم ناز ہے، اس کی خاک سے کسی بھی انسان کی جبیں کا آشنا ہونا اس کے لیے معراج زندگی ہے۔ اسی مفہوم میں دلوں کو پیغام سجود کا یاد آنا فردوس گمشدہ کی دریافت سے کم نشاط انگیز نہیں۔ یہ سب خالص توحید کے اشارات ہیں اور بہار و بیداری، وصال و اتحاد اور سوز و ساز کا جو پیغام اوپر کے اشعار میں دیا گیا ہے وہ انہی اشارات پر مبنی ہے۔ ان بندوں میں اقبال کا اسلوب سخن اور طرز فن اپنے شباب اور معیار کمال پر ہے۔ ان کے اشعار میں ایک نغمہ ریز آہنگ کے ساتھ پے بہ پے تصویروں کے جو رنگ نمایاں ہیں اور رنگ و آہنگ کے اس اجتماع سے جو علامتی بلکہ طلسماتی فضا پیدا ہوتی ہے وہ اقبال کی شاعری کا امتیازی نشان ہے غور کیجئے نقوش و نغمات کی اس فراوانی، روانی اور خیال آفرینی پر: بند9 دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو قیس تو، لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محفل بھی تو مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو کیا یہ وفور اور والہانہ پن صرف تصویر و ترنم کے لیے ہے اور ایک پریشانی خیال کا آئینہ ہے؟ سیاق و سباق اور موضوع نظم پر ایک نظر اس سوال کا جواب نفی میں دینے کے لیے کافی ہے۔ پورے بند کا مقصود، جیسا کہ اس کے پہلے مصرعے سے واضح ہے ’’ آشنا اپنی حقیقت سے‘‘ ہونا ہے جس پر گردش ایام اور انقلاب احوال نے تہ بہ تہ پردے ڈال رکھے ہیں، لہٰذا اب شاعر ایک ایک نکتہ لے کر رنگ بہ رنگ تصویروں کی مدد سے تمام تصورات پر پڑا ہوا ایک ایک پردہ اٹھاتا اور اس کے پیچھے چھپی حقیقت دکھاتا جاتا ہے۔ اس فن کارانہ تکنیک سے مظاہر کی حقیقت اور وجود کی اصلیت منور ہو جاتی ہے۔ اگر منفرد تصویروں کی بہتات میں کسی کو کچھ ابہام کا احساس ہو تو اسے یہ نہ بھولنا چاہئے کہ مجموعی طور پر موضوع کا تصور نہ صرف واضح بلکہ زیادہ سے زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ بندش الفاظ کے ظاہری ابہام سے معانی کی وضاحت فن شاعری کا معیار مطلوب ہے۔ بند11 ’’ سحر کے نور سے‘‘ آسماں کا، آئینہ پوش ہونا، رات کی ’’ ظلمت‘‘ کا ’’ سیماب پا‘‘ ہونا’’ باد بہار‘‘ کا ’’ ترنم آفریں‘‘ ہونا، غنچے کی نکہت خوابیدہ کا نوا ہونا سینہ چاکان چمن، سے سینہ چاکان چمن کا آ ملنا۔ ’’ باد صبا‘‘ کا بزم گل کی ہم نفس ہونا اشک شاعر کی شبنم افشانی کا ’’ سوز و ساز‘‘ پیدا کرنا ’’چمن کی ہر کلی ‘‘ کا ’’ درد آشنا‘‘ ہو جانا، ’’ سطوت رفتار دریا کا مآل‘‘ موج مضطر کا ’’ زنجیر پا‘‘ ہونا، دلوں کو پیغام سجود یاد آ جانا، جبیں کا خاک حرم سے آشنا ہو جانا، ’’ نالہ صیاد‘‘ سے طیور کا ’’ نوا ساماں ہونا‘‘ خون گلچیں سے کلی کا رنگیں قبا ہونا ’’ جلوہ خورشید ‘‘ سے شب کا گریزاں ہونا۔ ’’ نغمہ توحید‘‘ سے چمن کا معمور ہونا۔ یہاں بھی جلوؤں کی فراوانی نظر کی حیرانی کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن کسی اعلیٰ نمونہ فن سے پیدا ہونے والی یہی وہ حیرانی ہے جو احساس کی شادمانی کا باعث ہوتی ہے اور ذہن کی سیرابی کا بھی۔ اگر کسی فن پارے سے اس طرح حیرت و مسرت و بصیرت بیک وقت تینوں کے مرکب احساسات پیدا ہوں تو وہ اس کی کامیابی کی معراج ہے۔ نظم سوال سے شروع ہوئی تھی اور جواب در جواب کے مراحل سے گزر کر یاس و الم کی تصویروں کے بعد امید و نشاط کے پیکروں پر ختم ہو گئی۔ یہ مکالماتی تمثیل اول سے آخر تک استوراتی نقوش اور لفظی نغمات سے پر ہے۔ بندوں کے درمیان ا رتعائے خیال کے سلسلے میں انتقال ذہنی کی لطافتوں کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ ہر بند کے اندر اشعار کے درمیان ربط و تسلسل کا اندازہ ٹیپ کے شعروں سے بھی کیا جا سکتا ہے، جو اگلے بند کی تمہید اور اس کے ساتھ رابطہ ہونے کے علاوہ پچھلے بند کا خلاصہ معانی کے ایک تسلسل ہی میں پیش کرتے ہیں۔ بہرحال یہ ممکن ہے کہ بعض اشعار کی ترتیب بالکل ناگزیر اور کامل نہ ہو، لیکن ایک لمبی نظم میں یہ کوئی معیوب چیز نہیں ہے، جبکہ عمومی ارتعائے خیال اور ربط فکر یا تسلسل بیان میں اس سے کوئی رخنہ پیدا نہ ہوتا ہو۔ جہاں تک استعارات کی کثرت کا تعلق ہے اس سے نہ تو ابہام پیدا ہوتا ہے نہ تضاد، یہ صرف ایک مسرت انگیز تنوع اور فرحت بخش وفور ہے جو کسی مرکزی خیال کے تمام اطراف و مضمرات کا احاطہ اور ان کی صراحت کرتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمثیلیہ الفاظ کا ایک غنائیہ ہے جس کے استعارات و نغمات تصورات و خیالات کو رقصاں و مترنم پیکروں میں پیش کرتے ہیں۔ شاعری میں موسیقی و مصوری کی لطیف اداؤں کا ایسا امتزاج بہت نادر ہے۔ ’’ شمع اور شاعر‘‘ کے بعد ملی موضوعات پر چھوٹی بڑی جتنی بھی نظمیں بانگ درا میں ہیں سب میں اس اہم نظم کے نقوش کچھ نہ کچھ نظر آتے ہیں، مثلاً: مسلم، حضور رسالب مآبؐ میں، جواب شکوہ، تعلیم اور اس کے نتائج شاعر 21 ، فاطمہ بنت عبداللہ، تضمین بر شعر ابو طالب کلیم، صدیق، تہذیب حاضر، کفر و اسلام، بلال، مسلمان، تعلیم جدید، فردوس میں ایک مکالمہ، مذہب 2پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، خضر راہ، طلوع اسلام۔ بال جبریل کی بھی چند اہم نظموں خاص کر ’’ مسجد قرطبہ‘‘ جیسی عظیم ترین تخلیق پر ’’ شمع اور شاعر‘‘ کے اثرات نمایاں ہیں۔ ضرب کلیم اور ارمضان حجاز تک کی بعض نظموں میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ نظم فکر و فن دونوں کے اعتبار سے اقبال کی شاعری کا ایک سنگ میل ہے۔ ٭٭٭ شکوہ و جواب شکوہ ان نظموں کی اشاعت سے آج تک ان کی تاثیر اور مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ بچوں سے بوڑھوں تک پوری اردو دنیا میں لوگ اسے یاد بھی کرتے ہیں اور گاتے بھی ہیں، اس مجموعہ نظم کے اشعار سے محفلیں گرمائی جاتی ہیں۔ مساجد کے ممبروں سے سیاسی جلسہ گاہوں تک اس کے مصرعے ہر انجمن میں ایک برقی رو دوڑا دیتے ہیں، نجی مجلسوں میں بھی اس کے بند کے بند پڑھے جاتے ہیں اور مکانوں دکانوں اور اداروں میں ان کے خوشخط کتبے آویزاں کئے جاتے ہیں۔ اس نظم کے الفاظ و تراکیب محاورۂ زبان بن چکے ہیں۔ اس سے قبل پذیرائی اور شہرت مسدس حالی کی تھی۔ لیکن اس کی جگہ اس مسدس اقبال نے اس طرح لے لی کہ آج نئی نسلیں حالی کے مسدس سے کم ہی واقف ہیں جبکہ اقبال کا شکوہ و جواب شکوہ اردو ادب کے ہر طالب علم کی زبان پر ہے۔ میں اقبال کی ان دونوں نظموں کو ایک ہی مرکب تخلیق سمجھتا ہوں اسی لیے مجموعہ نظم بھی کہتا ہوں اور صرف نظم بھی اس لیے کہ فی الواقع ان نظموں کی نوعیت مکالمہ و جواب مکالمہ کی ہے، جس طرح ہم شمع اور شاعر میں دیکھ چکے ہیں اور اس طرح اس مجموعہ نظم میں بھی ایک تمثیلی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ایک طرف بندہ مسلم کا کردار اور اس کا شکوہ ہے اور دوسری طرف خدائے کائنات کا سردار اور اس کا جواب ہے۔ چنانچہ شکوہ و جواب شکوہ کے ابتدائیوں میں اس فضا کی ہلکی سی نظر کستی بھی ہے جس میں مکالمہ مابین بندہ و خدا واقع ہوتا ہے اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو شکوہ میں ہی جواب شکوہ کے وہ مضمرات و ارشادات موجود ہیں جو بعد میں ایک مستقل نظم کی صورت میں رو پذیر ہوئے، چنانچہ شکوہ کا زور بیان جواب شکوہ کے پنہاں نکات کی شدت کے سبب ہی ہے، اسی لیے جب وہ نکات نظم کی شکل میں عیاں ہوئے تو پہلی تخلیق کا منطقی نتیجہ نظر آئے، خود شاعر نے مکالمے کا انداز اور جواب کی تکنیک ملحوظ رکھتے ہوئے گویا پہلی تخلیق کے جوابی مضمرات نکتہ بہ نکتہ نکال کر رکھ دئیے۔ اس سلسلے میں میں ان لوگوں سے اختلاف کرتا ہوں جو جواب شکوہ کو شکوہ سے کم اہمیت دیتے ہیں بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ جواب کے بغیر شکوہ کا حسن اور مفہوم مکمل ہی نہیں ہوتا۔ اس موضوع پر شاعر کا نقطہ نظر ’’ شمع اور شاعر‘‘ کے مطالب سے ہی واضح ہے، شمع نے شاعر کے شکوے کا جو جواب دیا ہے وہ لفظ و معنی دونوں کے لحاظ سے جواب شکوہ کا ثمر پیش رس ہے۔ جو فنی تکنیک پہلی نظم میں برتی جا چکی تھی اسی کا زیادہ وسیع اور پیچیدہ تجربہ دوسری نظم میں کیا گیا ۔ ’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ کو مذہبی نظم قرار دے کر شاعری کی حیثیت سے رد کرنا سخت بے ذوقی کی دلیل ہے۔ مسدس حالی کے مقابلے میں اس نظم کی تاثیر اور مقبولیت کا راز ہی یہ ہے کہ جس ملی موضوع کو حاکی نے ایک درد مندی کے ساتھ نظم کر دیا تھا اسے اقبال نے درد مندی کے علاوہ فن کاری سے کام لے کر ایک زبردست شاعری بنا دیا۔ ’’ شکوہ ‘‘ کی مشہور تمہید ہے: کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں فکر فردا نہ کروں، محو غم دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے خاکم بہ دہن ہے مجھ کو ’’ جواب شکوہ‘‘ کی تمہیدی منظر نگاری چار بندوں پر پھیلی ہوئی ہے اور واضح ڈرامائی انداز رکھتی ہے۔ پہلے بند میں اپنے شکوہ کو نالہ بیباک قرار دے کر پھر اس کے فلک رس ہونے کا بیان دے کر، دوسرے بند میں شاعر اہل فلک پر اس کے اثر کا نقشہ کھینچتا ہے: پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی! بولے سیارے، سر عرش بریں ہے کوئی! چاند کہتا تھا، نہیں اہل زمیں ہے کوئی! کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ نہیں ہے کوئی! کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضوان سمجھا مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا دونوں ہی بندوں میں شعریت نمایاں ہے اور تمثیل کا عنصربھی پنہاں ہے، اس فرق کے ساتھ کہ شکوہ کا آغاز شاعر کو تفکر میں غرق دکھاتا ہے، جبکہ جواب شکوہ کی ابتدا کچھ اس قسم کے قصے کی منظر نگاری پر مشتمل ہے جیسا اردو کی تمثیلی مثنویوں میں پایا جاتا ہے۔ دونوں حالتوں میں شاعری کا دلکش رنگ و آہنگ یکساں ہے۔ پہلے بند میں بندش الفاظ کے ترنم کے علاوہ گل و بلبل کی استعاراتی علامت کو بڑی عمدگی و تازگی، طرفگی اور خیال آفرینی کے ساتھ استعمال کیاگیا ہے، جبکہ دوسرے بند میں گردوں، سیارے، چاند، کہکشاں اور رضوان کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصے کے کردار اور ایک پر اثر منظر کی جزو ترکیبی بنا دیا گیا ہے۔ اس شاعرانہ پس منظر میں ’’ شکوہ‘‘ کا شکوہ ایک اور تمہیدی بند کے بعد نظم کے تیسرے بند سے شروع ہو جاتا ہے: تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم پھول تھا زیب چمن، پر نہ پریشان تھی شمیم شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم بوے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم؟ ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی! ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟ یہاں بھی فلسفیانہ خیالات کی ترسیل ’’ پھول‘‘ ،’’ شمیم‘‘ ،’’ بوئے گل‘‘ اور’’ نسیم‘‘ کے شاعرانہ پیکروں کے ذریعے کی گئی ہے۔ لیکن ان پیکروں کے علاوہ بڑی گہری شعریت انداز تخاطب کی شکوہ سنج شوخی میں ہے، جو تاری کے تمام روایتی تصورات کو برہم کر کے اسے ہمہ تن تجسس بنا دیتی ہے اور اس عالم میں وہ گویا سانس روک کر آخر تک پورا’’ شکوہ‘‘ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور جب وہ اس عجیب و غریب داستان کو ختم کرتا ہے تو اس کا ذہن حیرتوں اور سوالوں سے معمور ہو جاتا ہے، اور وہ اپنی اس ذہنی کیفیت پر جتنا غور کرتا جاتا ہے اس کی مسرت و بصیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اپنے اپنے ماحول اور پوری کائنات کے متعلق اس کے شعور کے ساتھ ساتھ اس کے احساس شعریت میں بے پناہ وسعتیں، گہرائیاں اور بلندیاں پیدا ہوتی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں حالی کے مسدس کو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ حال کے متعلق عبرت اور ماضی کے بارے میں حسرت ہوتی ہے، حالانکہ موضوع شکوہ و جواب شکوہ اور مسدس حالی دونوں ہی ملی نظموں کا ایک ہی ہے، لیکن حالی کا شکوہ صرف اپنے ہم مذہبوں سے ہے، جس میں معناً کوئی غیر معمولی بات، کوئی ندرت و جدت نہیں اور لوگ اس کے عادی ہیں، جبکہ اقبال کا شکوہ خدا سے ہے، جو بڑی ہی نادر و جید اور غیر معمولی بات ہے اور بالکل خلاف عادت ہے۔ اس کے علاوہ حالی کے تخیل میں ہمدردگی و غمگساری جتنی بھی ہو تفکر اور شعریت کا عنصر نہیں ہے، پھر یہ تخیل ہی کا فرق ہے جو اسلوب بیان میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ حالی سیدھے سادے انداز میں مدو جزر اسلام تو دکھا سکتے ہیں، لیکن نہ تو نفاست کے ساتھ انسان کے کارناموں کے بیان واقعہ کی تاب سخن ان کے اندر ہے نہ شوکت بیان کے ساتھ خدا کی طرف سے انسان کی کوتاہیوں پر تنبیہہ کا شاہانہ انداز ان کے بس میں ہے۔ ’’ جواب شکوہ‘‘ کا یہ آہنگ ملاحظہ کیجئے: آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا اشک بے تاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے جہاں تک افسانہ ملت کے غم انگیز اور اس پر پیمانہ چشم یا پیمانہ دل کے اشک بیتاب سے لبریز ہونے کا تعلق ہے یہ کیفیت مسدس حالی میں بھی ہے۔ مگر ’’ دل دیوانہ‘‘ کے ’’ شوخ زباں‘‘ اور’’ نعرہ مستانہ‘‘ کے ’’ آسماں گیر‘‘ ہونے کا راز صرف’’ شکوہ‘‘ میں ہے جبکہ ’’ جواب شکوہ‘‘ اسی کا عکس نیز نقش ہے۔ اوپر کے بند میں ٹیپ کا پہلا مصرعہ ’’ شکوہ‘‘ ہی سے متعلق ہے۔ جس کے ’’ حسن ادا‘‘ کی داد دیتے ہوئے خداوند عالم کی زبان اعلان کرتی ہے کہ حسن ادا کے سبب شکوہ جیسی تلخ چیز بھی شکر کی طرح شیریں بن گئی۔ یہ شیرینی، تخیل کی مسلمہ تلخی کے باوجود شاعرانہ اسلوب بیان کی ہے۔ بہرحال بندوں کو خدا سے ’’ ہم سخن‘‘ کرنے کا کارنامہ ’’ شکوہ و جواب شکوہ ‘‘ دونوں نے مل کر ہی انجام دیا ہے، اس لیے کہ نظم کے دونوں حصے مربوط ہو کر ہی اس دو طرفہ مکالمے کا منظر پیش کرتے ہیں جس میں باری باری سے بندہ اور خدا دونوں ایک دوسرے سے ہم کلام ہو کر ایک تمثیل کے کردار بن جاتے ہیں۔ تاریخ، فلسفہ اور سیاست کے پر خیال نکتوں کے درمیان اور ان کی فنکارانہ پیشکش کے لیے اعلیٰ نفیس، دبیز اور لطیف شاعری کی چند جھلکیاں نظم کے دونوں حصوں میں ملاحظہ کیجئے: شکوہ تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے آئے عشاق گئے وعدہ فرا لے کر اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر درد لیلیٰ بھی وہی، قیس کا پہلو بھی وہی نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی امت احمد مرسلؐ بھی وہی، تو بھی وہی پھر یہ آزردگی، غیر سبب کیا معنی؟ اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی؟ وادی نجد میں شور سلاسل نہ رہا قیس دیوانہ نظارۂ محمل نہ رہا حوصلے وہ نہ رہے، ہم نہ رہے، دل نہ رہا گھر یہ اجڑا ہے کہ، تو رونق محفل نہ رہا اے خوش آن روز کہ آئی وبصد ناز آئی بے حجا باز سوئے محفل ما باز آئی بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے سنتے ہیں جام بکف نغمہ گو کو بیٹھے دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے جواب شکوہ دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے نہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے آئیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں سینکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا رخت بردوش ہو اے چمنستاں ہو جا ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے سے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے سے ٭٭٭ دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان رفعنالک ذکرک دیکھے مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا وہ تمہارے شہدا پانے والی دنیا گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح بلاشبہ دونوں حصوں کے انداز گفتگو میں کچھ فرق ہے۔شکوہ کا ’’ نعرہ مستانہ‘‘ جواب شکوہ میں ذرا یا زیادہ موقع کے لحاظ سے متین ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے، انسان اور خدا کی آوازوں کے درمیان امتیاز ہونا ہی چاہیے۔ بہرحال دونوں آوازوں میں شعریت کا مطلق رنگ و آہنگ یکساں ہے۔ میں نے جس ترتیب سے ایک ہی سلسلہ بیان کے جو حوالے نظم کے دونوں حصوں میں دینے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک بند کے مصرعوں میں، پھر ٹیپ کے دو مصرعے ملا کر چھ مصرعوں میں جو ناگزیر اور منطقی ربط خیال ہے اس کے علاوہ مختلف بندوں کے درمیان بھی ارتقائے خیال مربوط ہے۔ جہاں تک پوری نظم میں تمام اشعار کے درمیان ا رتباط کا تعلق ہے، دونوں حصوں کے مابین باہمی تنظیم منصوبہ نظم ہی سے ہویدا ہے اور اس منصوبے کی تعمیل بھی اس ارتباط پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ شکوہ و جواب شکوہ کی مطابقت تو واضح ہے لیکن ہر دو حصے میں الگ الگ ارتقائے خیال اس نقطہ نظر سے تلاش کرنا عبث ہے کہ کوئی ایک نکتہ یا مضمون نظم کا موضوع ہے اور سارے اشعار اسی کے ارتقاء کا سامان کرتے ہیں، البتہ نظم کا جو عمومی تخیل ایک ملت کی مرقع سازی اور خاکہ نگاری پر مشتمل ہے وہ شروع سے آخر تک اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ موضوع تخیل ہے اور فنکاری کے سارے پیچ و ختم اسی مرکزی نقطے کے گرد نمایاں ہوتے ہیں، خیالات اور احساسات ایک روانی اور تسلسل کے ساتھ مربوط طریقے پر رونما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں تمام ارتقائے خیال کی رفتار اتنی تیز ہے کہ قاری کے لیے دم مارنا مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اسلام کا نظریہ حیات کسی تعصب کے تحت قاری کے مطالعے میں حائل نہ ہو تو شکوہ و جواب شکوہ کی فنی خوبیاں اس پر اپنے آپ واضح ہو جائیں گی۔ شاعری کی زبان و بیان کا استعمال اسی نظم میں اسی شان سے ہوا ہے جس کا اظہار کسی بھی انسانی موضوع کی فنی نقش گری میں ہو سکتا ہے بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ فنکار کے اندرونی جذبے کے سر جوش نے نمونہ فن میں ایک ایسی حرارت پیدا کر دی ہے جس کی آنچ مشکل سے مشکل مواد کو گھلا یا موڑ کی ہیئت کے سانچے میں بالکل فطری طور پر ڈھال دیتی ہے۔ جبکہ ایک تنقیدی نگاہ فنکار کے اندر سے ابھر کر اس سانچے کی نوک پلک بلا تکلف اور بے ساختہ درست کرتی رہتی ہے۔ شکوہ و جواب شکوہ اقبال کی ایک بڑی کامیاب حسین، پر اثر اور اہم شاعرانہ تخلیق ہے، جس کے ارتعاشات خضر راہ اور طلوع اسلام سے بھی آگے بڑھ کر ساقی نامہ ذوق و شوق اور مسجد قرطبہ کے مصرعوں اور شعروں میں فسوس کئے جائیں گے، جبکہ قبل اس کے آثار تصویر درد، اور شمع اور شاعر کے بندوں میں بھی نمایاں تھے۔ ٭٭٭ خضر راہ بعض ناقدین ’’ خضر راہ‘‘ کی چند جزئیات کی بہت تعریف کرتے ہیں مگر پوری نظم یا اس کے بیشتر حصوں کو سیاسی اور خطیبانہ قرار دے کر گویا رد کر دیتے ہیں۔ اول تو بجائے خود یہ طریق تنقید نہ صرف متعصبانہ بلکہ سراسر جاہلانہ ہے، اس لی کہ کسی بھی نظم کا کلی مطالعہ، اس کے تمام مضمرات کے ساتھ ہونا چاہیے اور اس کے اجزا کو بھی ایک کلی ہیئت کے تحت رکھ کر دیکھنا چاہیے، نہ کہ مثلہ کر کے محض پارچوں کا مزہ لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ نظم کا مطالعہ اس کے موضوع و مقصد کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ فن کار اپنے تخیل کی ترسیل میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں، ورنہ ساری تنقید بجائے شاعری کے فنی عمل کے اس کے نظریے پر مبنی ہو گی اور اس کی خوبی و خامی کے متعلق ناقد کی ذاتی پسند و نا پسند ہی معیار نقد بن جائے گی جو اصول تنقید سے بد ترین انحراف ہو گا تیسرے یہ کہ خضر راہ اقبال کی واحد نظم نہیں ہے ان کی متعدد اہم نظموں میں ایک ہے اور ایک وسیع نظام فن کا جز ہے۔ لہٰذا اس کا تنقیدی مطالعہ اس فن کاری کے سیاق و سباق میں ہونا چاہیے جس میں یہ نظم واقع ہوئی ہے تاکہ فن کار کے ذہنی و فنی ارتقا میں نظم کا مقام متعین ہو کر اس کی حقیقی قدر و قیمت معین ہو سکے۔ یہ نظم بھی ’’ شمع اور شاعر‘‘ اور’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ کی طرح ایک تمثیلی مکالمہ ہے جس میں شاعر اور خواجہ خضر کے درمیان سوال و جواب ہے، جبکہ پچھلی نظموں میں علی الترتیب شاعر و شمع اور شاعر و خدا کے مابین سوال و جواب تھا۔ اس نظم میں زبردست فطرت نگاری کے پس منظر میں ’’ تصویر درد‘‘ کی وطن دوستی اور ’’ شمع اور شاعر‘‘ اور’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ کی ملت دوستی کے عناصر کے علاوہ دو نئے موضوعات’’ زندگی‘‘ اور’’ سرمایہ و محنت ‘‘ پر روشنی ڈالی گئی ہے جن میں پہلا موضوع فلسفیانہ ہے، جب کہ دوسرا سیاسی، اور دونوں ہی نہ صرف شعریت سے بھرپور بلکہ نظم کے دیگر اجزا کے ساتھ فنی طور پر مربوط اور منصوبہ نظم کی مجموعی کامیابی میں مددگار ہیں۔ نظم ’’ تصویر درد‘‘ اور’’ شمع اور شاعر‘‘ کے مانند ترکیب بند ہے۔ ابتدا ’’ شاعر‘‘ کے سوالات سے ہوتی ہے جو نظم کے پہلے حصے میں واقع ہوئے ہیں۔ یہ حصہ دو بندوں میں ہے، پہلا فطرت کی منظر نگاری پر مشتمل ہے اور دوسرا شاعر کے بیان پر، گرچہ اس بیان کا اشارہ پہلے ہی بند کے آخری تین اشعار خاص کر ٹیپ میں مل جاتا ہے جبکہ سات شعروں کے اس بند میں صرف چار اشعار فطرت کے ایک منظر ’’ ساحل دریا پہ اک رات‘‘ کے لیے وقف ہیں یہ منظر نگاری بھی در حقیقت ایک پس منظر ہے، ایک خاص کردار کے ظہور کے لیے اور اس کی معروف خصوصیت کے مطابق خواجہ خضر دو باتوں کے لیے مشہور ہیں، اول یہ کہ ان کی جولاں گاہ سطح آب ہے جس پر یا جس کے گرد وہ دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر سیر کرتے رہتے ہیں گرچہ دشت و صحرا میں بھی گشت لگاتے ہیں، دوسرے یہ کہ وہ بہت باخبر اور صاحب علم ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی نگاہوں پر بہت سی اشیاء اور بہتیرے واقعات کے وہ حقائق و مصالح روشن کر دئیے ہیں جو عا انسانوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں چنانچہ شاعر، اپنی مفکرانہ تلاش حقیقت کے سلسلے میں ’’ اک رات‘‘ ،’’ ساحل دریا پہ‘‘ ،’’ محو نظر‘‘ تھا تو ماحول کی یہ تصویر نظر آئی: ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب شب سکوت افزا، ہوا آسودہ دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب بہ نظر غور دیکھا جائے تو ان اشعار میں تین ہی منظر کشی کرتے ہیں، اس لیے کہ پہلا شعر منظر کے متعلق کم اور شاعر کے متعلق زیادہ ہے، بلکہ اس کا دوسرا مصرع تو بالکل تصویر منظر کے خلاف ہے، اس لیے کہ منظر سکوت و سکون کا ہے، جبکہ شاعر اپنے ’’ گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب‘‘ ہے۔ اس طرح منظر اور ناظر کے درمیان تضاد ہے۔ بلا شبہہ یہ تضاد ہی دراصل منظر کے سکوت و سکون کی دل کشی میں اضافہ کرتا ہے، یہاں اقبال نے واقعہ یہ ہے کہ تمثیل نگاری کے ایک بہترین فنی طریقے کا استعمال کیا ہے جس سے تمہید نظم نہایت پر اثر ہو گئی ہے۔ اس فنی طریقے کے علاوہ یہ نکتہ بھی منصوبہ نظم پر دلالت کرتا ہے کہ شاعر نے جو سکون و سکوت منظر فطرت میں دکھایا ہے وہ دراصل اس کے انسانی ماحول کے جمود کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کو توڑنے کے لیے ہی شاعر کا دل ایک جہان اضطراب بنا ہوا ہے۔ جہاں تک منظر اور اس کی تصویر کشی کے حسن کا تعلق ہے، اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ اس قسم کی مثالوں سے جو کلام اقبال میں جا بجا کثرت سے بکھری ہوئی ہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کو فطرت نگاری میں ید طولیٰ حاصل ہے اور وہ اس موضوع پر کمال فن کاری کا اظہار کرتے ہیں، حالانکہ یہ ان کا خاص موضوع نہیں، بہرحال، یہ چار یا تین اشعار آٹھ یا چھ مصرعوں میں فطرت نگاری کے ان فنی تجربوں کا نقطہ عروج پیش کرتے ہیں جن کا مشاہدہ ہم فطرت سے متعلق اقبال کی نظموں یا ان کے متعدد اشعار میں قبل کر چکے ہیں ان مصرعوں میں ایک ایک لفظ اور ترکیب گویا مناظر فطرت اور ان کے جلوے سے پیدا ہونے والے احساسات کا عطر ہے اس عطر فطرت کی خوشبو کا اندازہ کرنے کے لیے ایک شعر کا تجزیہ بھی کافی ہو گا: شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب پہلا ہی مصرعہ منظر کی ایک مکمل تصویر صرف تین پیکروں میں کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔ پہلے پیکر میں شب سکوت افزا ہے، دوسرے میں اس سکوت افزائی کا اثر فضا پر یہ ہے کہ ہوا آسودہ ہے اور تیسرے میں سطح پر اثر یہ ہے کہ دریا نرم سیر ہے، ہوا کے لیے الف کا استعمال تین بار ہوا ہے جس میں دو بار لگاتار ممدودہ کی شکل میں اور پانی کے لیے رکا استعمال بھی تین بار ہوا ہے فضا کے کامل سکوت اور سطح کی پر سکون روانی کے لیے ان حروف کا استعمال موزوں ترین ہے، یہ تینوں پیکر ایک لفظ، سکوت افزا کا فیض ہے۔ شاعر نے رات کو محض ساکت نہیں کہا سکوت افزا کہا ہے یعنی وہ پرسکوت ہونے کے ساتھ ساتھ سکوت انگیز بھی ہے۔ اس طرح صرف آٹھ لفظوں میں رات کے سکوت کی موثر ترین تصویر کشی کے بعد دوسرے مصرعے میں منظر کو تصویر آب سے تشبیہہ اس تمہید کے ساتھ دی جاتی ہے کہ نظر حیراں تھی نظر کی حیرانی تو مشاہدہ کا رد عمل ہے جبکہ منظر کا مشاہدہ صرف تصویر آب کی نشاندہی کرتا ہے۔ بس ایک مختصر سی فقط دو لفظوں کی بالکل سادہ ترکیب مصرع اول کی تصویر پر ایسا پر اثر حکم لگاتی ہے کہ خود تصویر کے اندر اس کی تکمیل ہونے کے باوجود ایک اضافہ سا ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تشبیہہ کا بہترین مصرف ہے، بعد کا شعر ’’ تصویر آب‘‘ کی ایک تفصیل ہے اور اس کے بعد کا شعر سکوت افزا کی تفصیل۔ ان تفصیلات سے اس مکمل تصویر میں تو فی الواقع اضافہ نہیں ہوتاجو زیر بحث شعر میں کھینچی گئی ہے۔ مگر اس تصویر کے اثرات میں ضرور توسیع ہوتی ہے۔ بہرحال، منظر فطرت کا یہ طلسم پانچویں ہی شعر میں ٹوٹ جاتا ہے اور نہایت ڈرامائی گرچہ تمہید کے مفہوم کے لحاظ سے متوقع طور پر خواجہ خضر کی شخصیت منظرپر ابھرتی اور جزو منظر بن جاتی ہے: دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویاے اسرار ازل چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب خضر کی شخصیت کا خاکہ صرف دو پیکروں پر مشتمل ایک ہی شعر میں مرتب ہو جاتا ہے پہلے مصرعے میں ان کو’’ پیک جہاں پیما‘‘ کہا گیا ہے اور دوسرے میں ان کے متعلق بیان ہے کہ ’’ جس کی پیری میں مانند سحر رنگ شباب‘‘ یہ دونوں پیکر خضر کی کردار نگاری کے لیے تقریباً کافی ہیں چونکہ وہ جہاں گرد مشہور ہیں لہٰذا انہیں ’’ پیک جہاں پیما‘‘ کہا گیا اور چونکہ ان کے بارے میں غیر معمولی طول عمر کی روایت مروج ہے لہٰذا ان کی پیری میں مانند سحر رنگ شباب کا بیان دیا گیا، یعنی جس طرح صدیوں سے ایک ہی طرح بہر روز طلوع ہونے کے باوجود تازگی و شادابی کا وہ مظہر ہے جسے شباب کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے، اسی طرح خضر بھی صدیوں پر محیط طول عمر کے باوجود جوانوں کی طرح چستی و مستعدی سے پیہم جہاں گردی کرتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد کا شعر مکالمے کا آغاز ہے، جو خضر کی طرف سے ہوتا ہے۔ ایک مصرعے میں خضر کا پہلا ہی بیان ان کے کردار او رشخصیت کا ایک اور گوشہ ہماری نگاہوں کے سامنے لے آتا ہے۔ قبل کے پیکروں میں جو شاعر کے بیان پر مشتمل تھے، خضر کی ظاہری شخصیت کا خاکہ کھینچا گیا تھا، لیکن اب ان کا صرف ایک ملفوظ ان کے کردار کی باطنی حقیقت کو آشکار کر دیتا ہے: چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب خود خضر کی نگاہوں پر مروجہ روایات کے لحاظ سے، تقدیر عالم بے حجاب ہے اور وہ اس بصیرت کا یہ نسخہ شاعر کو بتاتے ہیں کہ چشم دل وا ہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ خضر کا یہ قول جس طرح ان کے کردار کے مطابق ہے اسی طرح شاعر کی متجسس طبیعت کے تقاضے کا جواب ہے۔ چنانچہ وہ اقرار کرتا ہے: دل میں یہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا شاعر کا یہ بیان اس کی کردار نگاری بھی اس کی ہی زبان سے کرتا ہے اور نظم کے موضوع و مقصد کے اظہار کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ لہٰذا اب کے پہلے بند میں پہلے شعر کے پہلے مصرعے کے ’’ محو نظر‘‘ کی تشریح و تمثیل ہو چکی ہے، دوسرے مصرعے کے جہان اضطراب کی تصریح و تصویر دوسرے بند میں پیش کی جا رہی ہے: اے تری چشم جہاں بیں میں پروہ طوفان آشکار جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش ’’کشتی مسکیں‘‘ و جاں پاک و دیوار یتیم علم موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نور و زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟ اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش؟ ہو رہا ہے ایشیا کا خرقہ دیرینہ چاک نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش گرچہ اسکندر ہا محروم آب زندگی فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناو نوش بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیٰؐ خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش آگ ہے، اولاد ابراہیم، نمرد ہے! کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟ ٭٭٭ یہ سوالات شاعر اور خضر دونوں کے کرداروں کے مطابق ہیں، شاعر ’’ شہید جستجو‘‘ ہے لہٰذا وہ صحرا نوردی، زندگی اور سلطنت جیسے بنیادی سوالات کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے دو اہم ترین سیاسی سوالات۔۔۔۔سرمایہ و محبت اور زوال ایشیا۔۔۔ اس کے سامنے رکھتا ہے جو ’’ چشم جہاں بیں‘‘ کا مالک ہے، لہٰذا ان مشکل مسائل کو حل کر سکتا ہے جو شاعر کے دل کو ایک جہان اضطراب بتائے ہوئے ہیں۔ سوالات کے بیان میں چند نکات خصوصی طور پر لائق توجہ ہیں، اول تو یہ کہ اقبال شاید دنیا کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے روس اور چین سے باہر اشتراکیت کے ابھار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سرمایہ و محنت یا سرمایہ دار و مزدور کے معاشی معاشرتی اور سیاسی مسئلے کی بین الاقوامی اہمیت کو حسین و متین شاعری کا موضوع بنایا اور اس کے مضمرات و اثرات کی طرف لطیف اشارے کیے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ اشتراکی نہ ہونے اور نہایت دین پسند ہونے کے باوجود اقبال نے سرمایہ محنت کی کش مکش میں محنت کے موقف کی پر زور تائید کی اور سرمایہ کے خلاف اس کی بغاوت کا ولولہ انگیز شاعرانہ خیر مقدم کیا اس سے ایک بار پھر واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا انداز نظر بالکل انسانی و آفاقی تھا اور وہ سماجی انصاف کے مطلق علم بردار تھے، چنانچہ کم زوروں، مظلوموں اور محروموں کی حمایت اپنا فرض تصور کرتے ہیں دوسرے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ملت دوستی کو ایشیا کا خرقہ دیرینہ سے وابستہ کر دیا ہے یعنی وہ اپنے ملی موقف میں ایک آفاقی نقطہ نظر سے پورے مشرق کو اس لیے شامل کرتے ہیں کہ اس کے ’’ خرقہ دیرینہ‘‘ کو بہت ہی جابرانہ و ظالمانہ طور پر ’’ چاک‘‘ کر کے اور اس کی قیمت پر مغربی ’’ اقوام نو دولت‘‘ کے ’’ نوجوان‘‘ پیرایہ پوش ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ غریب و مجبور مشرق کی قیادت کرتے ہوئے پوری ملت اسلامیہ تاریخ کے ایک انتہائی خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے اور ایک زبردست آگ کے شعلوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس طرح اقبال کی نگاہ میں ’’ دنیائے اسلام‘‘ عالم مشرق کا مترادف ہے اور عصر حاضر میں قبل کے بھی تمام ادوار کی طرح، دبی اور کچلی ہوئی انسانیت کی واحد پناہ گاہ اور پشت پناہ ہے۔ یعنی بین الاقوامی سطح پر عدل و راستی کی علم بردار ہے۔ یہ مطمح نظر اور اس کے تصورات اقبال کے دل کی گہرائیوں میں پیوست اور ان کے احساسات میں جذب ہو گئے ہیں۔ چنانچہ وہ ایسے ٹھوس تصورات کو بھی زندہ و تابندہ شعری پیکروں کی حرارت بخش سکتے ہیں۔ بند کے پہلے شعر میں خضر کی ’’ چشم جہاں بیں‘‘ پر حقائق کے آشکار ہونے کو دریا کی تہ میں خموش سوئے ہوئے ہنگاموں کے طوفانوں کا آشکار ہونا کہا گیا ہے۔ یہ طرز تعبیر خضر کی نسبت سے حقیقت پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ حسن استعارہ کے لحاظ سے شاعرانہ بھی ہے۔ دوسرے شعر میں ’’ کشتی مسکین‘‘ و ’’ جان پاک‘‘ و’’ دیوار یتیم‘‘ کی تلمیحات بہت ہی پر خیال ہیں، جبکہ دوسرے مصرعے کے آخر میں ’’ حیرت فروش‘‘ کی ترکیب تلمیح کو جاری رکھتے ہوئے، خیال انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ نغمہ ریز بھی ہے، بعد کے اشعار میں ’’ صحرا نورد‘‘ بے روز و شب و فردا و دوش’’ خروش‘‘ خرقہ دیرینہ اقوام نو دولت اور ’’ پیرایہ پوش‘‘ جیسے تروتازہ اور معنی آفریں الفاظ و تراکیب شعریت کی فضا قائم رکھتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کے دو اشعار پھر تلمیحات پیش کرتے ہیں۔ ایک تو ’’ آب زندگی‘‘ اور’’ فطرت اسکندری‘‘ محاورے کی حد تک عام علامتیں ہیں دوسرے ہاشمی اور ترکمان سخت کوش کا تقابل عصر حاضر کی ایک پر درد و تاریخی داستان عبرت پر مبنی ہے، جس کے پس منظر میں ہاشمی کا ناموس دین مصطفیٰؐ، بیچنا اور ترکمان سخت کوش کا ’’ خاک و خون‘‘ میں ملتا ایک حقیقت افروز مرقع نگاری ہے۔ ٹیپ کا شعر’’ آگ‘‘ اولاد ابراہیم نمرد اور اامتحاں کے طلسم الفاظ کی ترتیب سے ایک گنجینہ معنیٰ کا دروازہ کھولتا ہے اور عصر حاضر کی تمام کرب ناکیوں کو گویا ایک زمانے کی رو کا بیک وقت فلسفیانہ و شاعرانہ پیکر عطا کر دیتا ہے، اس لیے کہ حال کا صیغہ ’’ پھر‘‘ کی توقیت کے ساتھ عصر حاضر کے امتحاں کو قرون ماضیہ کی ایک ایسی مثال کے طور پر پیش کرتا ہے جو ادوار مستقبل میں بھی رونما ہو سکتی ہے۔ نظم کا دوسرا حصہ ’’ جواب خضر‘‘ کے عنوان سے شروع ہوتا ہے اس جوابی مکالمے میں پہلا موضوع’’ صحرا نوردی‘‘ ہے، جس میں صحرا اور صحرا نوردی کی حسین ترین فطرت نگاری کی گئی ہے: کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے؟ یہ تگا پوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل! اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہوکا بے پروا خرام وہ خضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و میل وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح یا نمایاں بام گردوں سے جبیں جبرئیل وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلبیل تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی ہے یہی اے بخیر راز دوام زندگی ٭٭٭ اس بند میں منظر فطرت کے ساتھ ساتھ فطرت کی سادہ و آزاد زندگی کی تصویریں بھی ہیں اس کے علاوہ کچھ عشق و محبت کے پیکر ہیں اور کچھ فطرت اور محبت کے میل تال سے ابھرنے والے فلسفہ زندگی کے اشارے بھی برداشت کی کوئی تصویر نہیں، مگر فضائے دشت میں بانگ رحیل کے گونجنے کا تصور ہے اور اس تصور میں شدت پیدا ہوتی ہے، رہین خانہ کے خطاب سے جو فضائے دشت سے متضاد ہے۔ ریت کے ٹیلے پہ، آہو کے دبے پروا خرام، کے ساتھ حضر بے برگ و ساماں اور سفر بے سنگ و میل کی تصویر اس پیوستگی کے ساتھ دی گئی ہے کہ برات عاشقاں بر شاخ آہو، کا معنی خیز بیان یاد آ جاتا ہے، جس کی توثیق ٹیپ سے پہلے کے آخری شعر میں سودائے محبت سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں، زیادہ تر سماعی اور کچھ مرئی، تصویریں پہلے شعر میں تگا پوئے دما دم کے زندگی کی دلیل ہونے کے نقوش ہیں، ان کے بعد فضائے دشت میں نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح، صحرا کی وسعتوں میں سفر کا ایک جمال افروز منظر پیش کرتا ہے۔ اسی طرح سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب، ایک منظر حسن ہے۔ پانی کے چشمے پر مقام کارواں بھی ایک روح افزا نظارہ ہے، لیکن قدرت کے ان سب ٹھوس مناظر کو چند مجرد تصورات سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جو کلام اقبال کی ایک خصوصیت ہے۔ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح و بام گردوں سے جبین جبرئیل کا نمایاں ہونا ہے، سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب چشم جہاں بین خلیل ؑ کے روشن تر، ہونے کی یاد دلاتا ہے اور پانی کے چشمے پر مقام کارواں اہل ایماں کے جنت میں گرد سلسبیل جمع ہونے کا نقشہ کھینچتا ہے ان تشبیہات میں حسن و جمال اور زیبائی و رعنائی کے ساتھ ساتھ بصیرت معرفت اور آخرت کے نقوش بھی ہیں، منصوبہ نظم اور موضوع تخلیق کے اعتبار سے تشبیہات کی بہ نوعیت بالکل موزوں اور خیال انگیز ہے۔ یہاں حسن صداقت کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور فطرت محبت کی ایک ادا معلوم ہوتی ہے جبکہ محبت راز حیات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بند کا آخری شعر مناظر قدرت کے پس منظر میں سودائے محبت کے لیے ’’ تازہ ویرانے‘‘ کی تلاش کا ذکر کرتاہے اور اس صحرا کو عشق کی جولاں گاہ یا تربیت گاہ بنا دیتا ہے، پھر اس جولاں گاہ اور تربیت گاہ کی دل فروزی میں اضافہ کرنے کے لیے، آبادی میں انسان کے زنجیری کشت و نخیل ہونے کا تذکرہ کرتا ہے چنانچہ ارتقائے خیال کے منطقی نتیجے کے طور پر ٹیپ کا شعر اعلان کرتا ہے کہ جام زندگی گردش پیہم سے ہی پختہ تر ہے اور یہی راز دوام زندگی ہے اس سے معلوم ہوا کہ صحرا نوردی کی فطرت نگاری مناظر قدرت کی منظر کشی کے لیے نہیں ہے، ایک خاص موضوع فکر کی تمہید کے لیے اور تصور تخلیق کا پس منظر فراہم کرنے کے لیے ہے، یعنی فطرت برائے فطرت نہیں، فطرت برائے حقیقت ہے۔ لہٰذا جواب کے پہلے بند کی ٹیپ ما قبل کے اشعار کا منطقی نتیجہ نکالنے کے ساتھ ہی دوسرے بند میں مابعد کے اشعار کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے اور اس طرح صحرا نوردی کے تصور اور اس پر مشتمل بند کو فکری و فنی دونوں اعتبار سے زندگی کے تصور پر مشتمل جواب خضر کے آئندہ بند کے ساتھ بالکل مربوط کر دیتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد کر لینا چاہئے کہ تمہید نظم کی تصویر آب کے مقابلے میں صحرا نوردی کی مرقع نگاری در حقیقت اس پیغام عمل کا اشاریہ ہے جو شاعر خضر کی زبان سے دینا چاہتا ہے۔ جواب خضر میں ’’ زندگی‘‘ کا موضوع دو بندوں میں ادا ہوا ہے پہلے میں زندگی کی حقیقت اور اصلیت بتائی گئی ہے اور دوسرے میں اس کا مصرف اور مطمع نظر دونوں بند مترنم آہنگ میں ایک نغمہ فکر پیش کرتے ہیں جبکہ تصویروں کا رنگ کم سے کم ہے اور جو کچھ ہے محاورے کی حد تک سادہ ہے مثلاً ’’ سر آدم‘‘ ’’ ضمیر کن فکاں‘‘ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں جوئے کم آب، بحر پیکراں، قلزم ہستی، حباب، شمشیر، بدخشاں، لعل گراں ان بندوں کے اشعار میں سارا افسوں ترتیب الفاظ سے ابھرنے والی زمزمہ پر دازی کا ہے: برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی ٭٭٭ ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے فکر خاکی میں جاں پیدا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے ٭٭٭ ان اشعار میں صرف آوازوں کی ترکیب سے ایک طلسماتی صدا بندی کی گئی ہے: ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ، جادواں پیہم دواں، ہر دم جواں پیکر خاکی میں جاں خاکستر سے آپ اپنا جہاں بلا شبہہ یہ محض صدا بندی نہیں ہے، اس میں معنی آفرینی بھی ہے۔ جاں کے ساتھ تسلیم جاں کا تقابل، جاودوں، جواں کا تشابہ، پیکر خاکی اور جاں کا تضاد، خاکستر اور جہاں کا توازن۔ آواز اور مفہوم دونوں کی سرود آفریں تنظیم کرتے ہیں۔ دوسرے بند کے آخری دو شعر گویا موضوع کا ماحصل ہیں: خاک مشرق پر چمک جائے مثال آفتاب تابدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے سوئے گردوں نالہ شبگیر کا بھیجے سفر رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے پہلا شعر خاک مشرق کی تمثیل بدخشاں سے کرنا ہے اور مثال آفتاب چمکنے کا مقصد لعل گراں کی تخلیق بتاتا ہے۔ دوسرے شعر میں سوئے گردوں، نالہ شبگیر کا سفیر، بھیجنے اور اس کا مقصد رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرنے کے خیالات ہیں دونوں ہی شعروں میں تصورات بجائے خود بہت حسین ہیں اور ان کا مترنم مصرعوں میں ڈھل جانا ایک نمایاں فن کاری ہے اس حسن اور فن کاری کا اظہار جن معانی و مطالب کے لیے ہوا ہے وہ موضوع کے بنیادی تخیل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہاں ملی شاعری میں خاک مشرق پر زور اس شاعری کی پہنائیوں پر دلالت کرتا ہے۔ ان پہنائیوں کے سلسلے ضرب کلیم کی شعاع امید تک دراز ہیں، نالہ شبگیر اور رات کے تاروں میں راز داں کے پیکر ملی شاعری کی ظاہری سیاست کو عشق و محبت کی رومانیت کے رنگ میں ڈبو دیتے ہیں اور ایک خارجی مطالعے کو باطنی مشاہدہ بنا دیتے ہیں جس سے ایک پر اسرار شاعرانہ رمزیت پیدا ہو جاتی ہے۔ رمزیت کی اس فضا میں آخری بند کی ٹیپ کے شعر کی خطابت اپنی کرختگی کھو کر ایک لطیف تنبیہہ بن جاتی ہے اور اس کا پیغام حسن کلام کی ایک ادا جس کا مجموعی تاثر صرف ایک خواب سے بیدار ہونے کا ہوتا ہے۔ یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے دور حاضر میں جب مشرق خاص کر ہندوستان (نظم کی تخلیقی کے وقت) ایک جابر سلطنت کا غلام تھا، عمل کی تلقین کے بعد سلطنت کا سوال فطری طور پر اٹھتا ہے۔ قبل صحرا نوردی زمین کی وسعتوں میں آزادی کے ساتھ حرکت کے موضوع پر تھی اور زندگی ایک خود دار ، باعزت اور جرأت مندانہ طرز حیات کے موضوع پر۔ چنانچہ اب اس فعال اور پر وقار زندگی کے لیے بالکل منطقی طور پر ’’ سلطنت‘‘ کے اسرار و رموز خضر کی زبان سے منکشف کیے جا رہے ہیں۔ اس موضوع پر جو کچھ کہا گیا ہے، غلام ہندوستان کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر اور یہ منصوبہ نظم کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم کی ایک آیت ان الملوک کا حوالہ دے کر سلطنت کو ’’ اقوام غالب کی اک جادوگری‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اور اس سلسلے میں حکمراں کی فریب کاری کو ساحری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ اقتدار محکوم کے ذہن کو اپنے حربوں سے مسخر کر لیتا ہے۔ اس پر فریب طلسم کی حقیقت پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک تلمیح سے کام لیا گیا ہے: جادوے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری محمود و ایاز کی روایت کی تاریخی حقیقت جو بھی ہو، روایت میں اسے داستان عشق بنا دیا گیا ہے اور یہ قصہ ہے ایک غلام کے اپنے آپ کو آقا کو محبوب تصور کرنے کا۔ اقبال نے معمول کے مطابق اپنی تخلیقی جدت سے کام لے کر روایت کی ایک بالکل نئی اور انوکھی تعبیر پیش کی ہے۔ انہوں نے آقا و غلام کے رشتے پر پڑے ہوئے محبت کے پردے کا ایک گوشہ اٹھا کر اور جادوے محمود، کا اثر چشم ایاز پر دکھا کر ساز دلبری کے پیچھے چھپے ہوئے حلقہ گردن کا راز کھول دیا ہے۔ گرچہ اس طریق تعبیر سے محمود و ایاز کی روایتی داستان کی شعریت مجروح ہوتی ہے، مگر شاعری کے پیش کردہ آزادی و غلامی کے سیاسی تصور میں یکایک شعریت کی برقی رو دوڑنے لگتی ہے۔ تلمیح کی یہ تجدید نہایت فن کارانہ ہے۔ اس کے بعد شعر ایک دوسری تلمیح کے ذریعے غلامی کا حلقہ گردن توڑنے کے لیے جہاد آزادی کا بہترین استعارہ استعمال کرتا ہے: خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری طلسم سامری کی تمثال بہت ہی معنی خیز ہے اور اس کی کئی تہیں ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی آزادی کے لیے فرعون وقت کے ساتھ کامیاب مقابلہ کیا تھا۔ مگر ترکیب میں سامری کے طلسم کا ذکر ہے، جس نے اپنے جادو و عیاری سے وہ کام کرنا چاہتا تھا جو فرعون بھی اپنے جبر و ظلم سے نہ کر سکا تھا، فرعون تو بنی اسرائیل کو جسمانی طور پر غلام بنائے ہوئے تھا لیکن سامری نے انہیں دوبارہ ذہنی طور پر غلام بنا دینے کی کوشش کی، جبکہ حضرت موسی ؑ کے پیغام توحید نے بنی اسرائیل کو ذہنی طور پر ہر قسم کی غلامی سے بالکل آزاد کرا دیا تھا۔ یہ انداز تلمیح ایک تو موضوع کے مطابق ہے، دوسرے جادوے محمود کے تسلسل میں ہے۔ چنانچہ بعد کے شعر میں توحید سے روبہ عمل آنے والی مطلق حریت کا ذکر ہوتا ہے۔ سروری زیبا فقط آں ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری وہ استعاراتی اشعار کے بعد ایک لمبی نظم میں یہ سادہ سا بیان شعریت کی فضا میں حائل نہیں ہوتا، جب کہ بتان آزری کی پر خیال تلمیح بھی موجود ہے۔ اس کے بعد مغرب کے اس نام نہاد جمہوری نظام پر تنقید ہوتی ہے جس کے فریب کار علم برداروں نے جمہوریت کے دعوے کے باوجود لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس خیال کی ترسیل کے لیے مغرب کے جمہوری نظام کو اس کی جدت کا شہرہ ہونے کے باوجود، ایک ساز کہن کہا گیا ہے، پھر استعارے کو جاری رکھتے اور اس کی تشریح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس ساز کے پردوں میں وہی نوائے قیصری ہے جو دور قدیم کے رومی سامراج میں تھی اور جس کا ہی جانشین برطانوی سامراج ہے یہاں پردوں کا استعمال بہت معنی خیز ہے، اگلے شعر میں یہ پردہ اٹھا دیا گیا ہے اور صاف صاف استبداد کے ننگے ناچ کا بیان ہے، گرچہ یہ بیان کچھ پیکروں میں ملفوف ہے: دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوکب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری لہٰذا بند کی ٹیپ میں شاعر یہ نتیجہ نکالتا ہے: اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو ’’ سراب رنگ و بو‘‘ گلستان، قفس اور آشیاں کے پیکر خطابت کو شعریت عطا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ٹیپ کے قبل زیر نظر بند کا آخری شعر تھا: گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری یہ شعر اگلے بند اور اس میں پیش کیے جانے والے موضوع’’ سرمایہ و محنت‘‘ کا پیش خیمہ ہے۔ برطانیہ کی سامراجی جمہوریت میں سرمایہ داری کی خصوصیت اور اس کے استحصال کا سراغ لگانا اقبال کی دانشوری کا بین ثبوت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ذہنی لحاظ سے وہ ایشیا کے تمام مفکروں سے زیادہ باخبر تھے اور یورپ کے مفکروں سے زیادہ زیرک اور نکتہ داں، ورنہ جمہوریت کے نقطہ عروج پر اس کے اندر سرمایہ داری کے عیوب و دریافت کرنا کسی ہمعصر مفکر کے بس کی بات نہ تھی، لہٰذا اقبال نے وقت کے تازہ ترین رحجان، سرمایہ و محنت کی کش مکش پر نہایت بصیرت افروز اظہار خیال کیا ہے۔ اس موضوع پر پہلے بند میں ’’ شاخ آہو پر برات‘‘ ’’ ساحر الموط‘‘ برگ حشیش اور شاخ بنات جیسے چند پیکروں کے باوجود سادہ انداز میں خیالات پیش کئے گئے ہیں اور ٹیپ میں یہ بصیرت افروز پیش گوئی دبے اور کھپے ہوئے محنت پیشہ عوام کے عروج کی کی گئی ہے۔ اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق اور مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے یہ پیش گوئی اس استبداد و استحصال کے لیے پیغام فنا ہے جو مغربی سامراج کی سرمایہ دارانہ چالیں پوری دنیا، خاص کر مشرق اور ہندوستان پر مسلط کئے ہوئے تھیں۔ اقبال نے سرمایہ کے خلاف محنت کی تائید و حمایت اس لیے بھی کی کہ مغربی استعمار اپنے جمہوری نظام کا نقاب لگا کر سرمایہ داری کا حلیف و رفیق بلکہ ایک عملی نمونہ بنا ہوا تھا اور اس کی تمام حرکتیں محض جنگ زرگری کے لیے تھیں، وہ ہر طرح مشرق کا استحصال کر کے اپنے خزانے بھر رہا تھا اور اہل مشرق کو مزدور بنا کر ان کے خون پسینے پر عیش کر رہا تھا، لہٰذا جب سرمایہ دارانہ جمہوریت کا تسلط ختم ہو گا اور دنیا میں محنت پیشہ عوام کا عروج ہو گا تو ہندوستان اور ملت اسلامیہ کے پاؤں کی بیڑیاں بھی کٹیں گی۔ اس تناظر میں زیر نظر موضوع کا دوسرا بند بڑے شاعرانہ انداز میں بندہ مزدور کو خضر کا پیام کائنات دیتا ہے: ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک! نغمہ بیداری جمہور ہے سامان عیش قصہ خواب آو را سکندر جم کب تلک آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک! توڑ ڈالیں فطرت انسان نے زنجیریں تمام دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک! باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو نظم کا آخری مضمون ’’ دنیائے اسلام‘‘ ہے جو تین بندوں میں ادا ہوا ہے جبکہ دوسرے مضامین میں دو بند سے زیادہ نہیں۔ پہلے بند میں ملت اسلامیہ کے زوال و انتشار کی تصویر ہے دوسرے میں اس کی نظریاتی آفاقیت اور عالمی اخوت کا بیان ہے، تیسرے میں ملت کے بہتر مستقبل کا پیام امیدوار استبداد باطل کے فنا یا مغؒوب ہونے کی پیش گوئی ہے، دوسرے اور تیسرے بندوں کے علی الترتیب حسب ذیل اشعار آخری مضمون نظم کی نوعیت پر فکر انگیز روشنی ڈالتے ہیں: ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر ٭٭٭ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلماں آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ اب ’’ مشرق کی نجات‘‘ اور’’ عام حریت‘‘ کے تناظر میں دوسرے بند کے ان اشعار پر غور کیجئے: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگا ہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر یہ ایک بین الاقوامی برادری کے قیام کا منشور ہے۔ اس میں ایک آفاقی نظریے کی بنیاد پر ایک عالمی اخوت کا بیان ہے، جو نسل، علاقہ، رنگ، زبان، فرقہ اور طبقہ وغیرہ کی تفرقہ انگیز حدود سے بالا ہے۔ خلافت کی اصطلاح ایک ایسی انسانی اخوت کی علامت ہے جو تمام تعصبات و امتیازات کو ختم کرنے والی ہے، یہاں تک کہ ایک مخصوص عقیدے کی تعین کے باوجود اول تو اس عقیدے کی حامل ملت کے اتحاد و تنظیم کو پورے مشرق کی نجات قرار دیا گیا، دوسرے اس نجات کو بڑھا کر ’’ عام حریت‘‘ تک وسیع کر دیا گیا، جو آفاقیت کا آخری معیار ہے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ دنیائے اسلام کی یہ پہنائیاں، صحرا نوردی، زندگی، سلطنت اور سرمایہ و محنت کے بنیادی کائناتی، عصری اور بین الاقوامی مضامین کے ساتھ ساتھ اور ان سے بالکل ہم آہنگ ہیں، نظم کے تخیل کا ارتقا اسی ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ شاعر نے ملت اسلامیہ اور دنیائے اسلام کو ایک طرف مشرق کی تحریک آزادی اور دوسری طرف محنت کش عوام کے لیے سماجی انصاف کی عالمی تحریک کے ساتھ ملا دیا ہے اور اس انسانی اتحاد سے انہوں نے اسلام کے تحت عام حریت کا نتیجہ نکالا ہے تصور کی یہ وسعت اقبال کے ملی موضوع کو ایک آفاقی موضوع بالکل فطری طور پر بنا دیتی ہے۔ اس تصور کے پیش نظر اقبال کا تصور دین مذہبی فرقہ واریت کی بجائے ایک نظریاتی عقیدے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اس کا مطمح نظر ایک عالمی برادری کا قیام قرار پاتا ہے مذکورہ ذیل شعر دین کا استعمال اسی مفہوم میں کرتا ہے: پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر سیاست کو چھوڑ کر حصار دیں میں داخل ہونے کی بات فرقہ وارانہ نظر سے کہی ہی نہیں جا سکتی، اس لیے کہ فرقہ واریت میں صرف سیاست ہوتی ہے، دین نہیں ہوتا، اور یہاں دین کے لیے سیاست چھوڑنے کی تلقین کی جا رہی ہے جس کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ فرقہ پرستی کی عارضی سیاست کی بجائے کسی نظام حیات کی مستقل قدروں کے تحفظ اور فروغ کی مہم درپیش ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ اس مہم کی انجام دہی کے نتیجے میں ملک و دولت اپنے آپ حاصل ہو جائیں، لیکن مقصود صرف اپنے نظریہ و نظام کی مرکزیت حرم کا تحفظ ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک اصولی موقف ہے جو اسلام کے تصور توحید کے وقار و معیار کے عین مطابق ہے۔ خلافت کا لفظ اردو میں ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور ہندوستان کی تحریک آزادی کے سب سے بڑے سنگ میل کا نقش ہے۔ اقبال کے بقول ’’ خلافت کی بقا دنیا میں استوار کرنے ہی کے لیے پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستانی مسلمان برطانوی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اس لیے کہ وہ ہندوستان کو غلام رکھنے کے ساتھ ساتھ خلافت اسلامیہ کے مرکز، ترکی کو بھی غلام بنا کر خلافت اور اس طرح ملت اسلامیہ کی عالمی مرکزیت ختم کر دینا چاہتا تھا۔ لیکن مسلمانوں کی برپا کی ہوئی تحریک خلافت اتنی آفاقی تھی کہ عالم اسلام کے ساتھ ساتھ پورا ہندوستان بھی بلا امتیاز فرقہ و ملت اس میں شامل ہو گیا اور ملی جدوجہد قومی و ملکی جدوجہد بھی بن گئی۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے ملی موضوع کی وسعتیں کتنی آفاقی و انقلابی ہیں در حقیقت یہ مضوع عصر حاضر میں انسانی معاشرے کی تشکیل جدید کا ہے۔ اس تشکیل کے اشارات دنیائے اسلام کے پہلے بند کی ٹیپ سے نمایاں ہونے کے علاوہ آخری بند کے چند اشعار سے بھی ہویدا ہیں‘‘ گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند ٭٭٭ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ بہ نظر غور دیکھا جائے تو نظم کا ارتقا جس تخیل کی بنیاد پر ہوا ہے اس کے منطقی نتیجے کے طور پر آخری مضمون ’’ دنیائے اسلام ملی تصویروں سے شروع ہوتا ہے اور آفاقی تصویروں پر ختم اس طرح ملت و آفاقیت کے عناصر دنیائے اسلام کی ترکیب ہم آمیز ہو کر کرتے ہیں۔ حسب معمول اور دیگر مضامین کی طرح آخری مضمون کی ترسیل بھی متعدد فنی نقوش کے ذریعے ہوئی ہے، لیکن نظم کے اس حصے میں راست انداز بیان کی سادگی غالب ہے، گرچہ یہ سادگی بھی اپنے طرز اظہار کی شوخی و شگفتگی کے سبب کتنی رنگین ہے۔ اس کا اندازہ پہلے بند کے ملی اشارات سے پر اشعار سے ہی کر لیا جا سکتا ہے۔‘‘ کیا سنتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستان مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز لے گئے تثلیت کے فرزند میراث خلیل خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نیاز لے رہا ہے فروشان فرنگستان سے پارس وہ مئے سرکش حرارت جس کی ہے مینا گداز حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند می ندانی اول آں بنیاد را ویراں کنند تثلیث کے فرزند، میراث خلیل، خشت بنیاد کلیسا، خاک حجاز، کلاہ لالہ رنگ، مے فروشان فرنگستان سے پاس، مے سرکش، مینا گداز، حکمت مغرب جیسے الفاظ و تراکیب محاورات کی طرح بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں لیکن مخصوص مطالب ان کے ذریعے جس تازگی و رعنائی کے ساتھ ادا ہوئے ہیں وہ ان کی خیال آفریں دلکشی کا باعث ہے۔ ایک شعر کا تجزیہ کر کے دیکھئے: ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے ہیں آج مجبور نیاز یہاں ان ترکوں کی ذلت کا بیان ہے جو اپنی شان و شوکت کے لیے دنیا میں مشہور ہیں، یہ بات دوسرے مصرعے میں ناز و نیاز کے تقابل سے واضح کی گئی ہے اور یہ الفاظ سیاست کے نہیں، محبت کے ہیں۔ جبکہ پہلے مصرعے میں سرخ رنگ کی ترکی ٹوپی کو، کلاہ لالہ رنگ کہا گیا ہے اور لالہ ایک پھول کا نام ہے، پھر کلاہ، عزت و وقار کی علامت ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ شاعر معمولی الفاظ و تراکیب کو بھی اپنے طرق استعمال سے دل کش اور خیال آفریں بنا دیتا ہے۔ بلا شبہ بند میں اس قسم کے شعر کے ساتھ ایسا شعر بھی ہے: ہو گیا مانند آپ ارزاں مسلمان کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز بیان کی صفائی اور بندش کی چستی کے علاوہ ایسے سادہ شعر میں بھی ایک تیکھا پن ہے جو دوسرے مصرعے کے طنزیہ تیور سے آشکار ہے۔ بہرحال شاعری لفظ و بیان ہی کا فن ہے اور علامت و استعارہ صرف تزئین عبارت کے لیے ہیں، جبکہ عبارت حسن ادا سے بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ لہجے کا حسن ہے، جو اقبال کے اسلوب سخن کی بنیادی و عمومی خصوصیت ہے اور ان کے ہر بیان میں یہ رعنائی انداز پائی جاتی ہے طرز اظہار کی طرفگی، جدت اور جودت کلام اقبال میں استعارہ و علامت کے بغیر بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ دراصل اقبال کے جمالیاتی احساسات کے سبب ہے، جن کا رنگ فطری و لازمی طور پر ان کے آہنگ بیان میں برابر نمایاں رہتا ہے۔ نظم کے آخری بند کے اشارات اس کے موضوع اور اسلوب دونوں کی شعریت کو نمایاں کرتے ہیں: عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلمان آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہان پیر دیکھ کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائی تدبیر دیکھ مسلم آستی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیش نظر لایخلف المیعاد دار خواب خضر ہونے کے باوجود یہ صریحاً خطاب اقبال ہے۔ یہ وہی تکنیک ہے جس کے نمونے ہم ’’ تصویر درد‘‘ اور’’ شمع اور شاعر‘‘ میں دیکھ چکے ہیں کہنا چاہئے کہ شاعر خضر سے اپنے سوالوں کا جواب پا لینے کے بعد اب آخر میں اپنا بیان دے کر خضرو شاعر کے مکالمے سے نکلنے والے نتائج پیش کر رہا ہے، تاکہ تمثیل محض ایک تماشا بن کر نہ رہ جائے بلکہ جو نکات سوال و جواب میں اٹھائے گئے ہیں ان کی بنیاد پر ایک آگاہی، ایک خبرداری کے اثرات پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر اپنے مکالمے کو عشق کی فریاد کہتا ہے اور قاری کو دل تھا م کر، اس فریاد کی تاثیر،د یکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ عشق کی فریاد کہہ کر پورے فکری مکالمے کو گہری شعریت کے رنگ میں ڈبو دیا گیا ہے، پھر فریاد کی تاثیر میں قاری کو بھی شریک کر کے گویا ایک نئے مکالمے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو شاعر اور قاری کے درمیان خاموش طریقے پر ہو گا اور اس میں دو بولنے والوں کی بجائے ایک بولنے اور دوسرا سننے والا ہو گا۔ اس کو اصطلاح میں خود کلامی کہتے ہیں اور اسے بھی تمثیلی قرار دیتے ہیں، کلام اقبال میں مکالمہ اور خود کلامی اکثر ایک دوسرے میں گھل مل کر جیسا کہ ہم قبل بھی دیکھ چکے ہیں، تخلیق کے تمثیلی انداز میں بڑی شدت پیدا کر دیتے ہیں۔ اسی انداز میں اقبال کی ایمائیت کا وہ لطیف اظہار ہوتا ہے جو ان کی خطابت کو ایک شاعرانہ نزاکت کے احساس سے معمور کر دیتا ہے چنانچہ دوسرے شعر میں گویا فریاد کی تاثیر کا ایک نقشہ یہ نظر آتا ہے کہ سطوت رفتار دریا کے عروج کے بعد موج مضطر زنجیر بننے لگی ہے یہ اشارہ ہے برطانوی شہنشاہیت اور مغربی استعمار کے تیز رفتار عروج کے بعد اتنے ہی تیز زوال کی طرف، جیسے دریا کی لہر جب چڑھتی ہے تو تیزی سے دوسرے کنارے کی طرف چلی جاتی ہے۔ مگر فوراً ہی اترتی ہے تو پلٹنے کے وقت گرداب در گرداب ہو کر اپنے ساحل کی طرف رخ کرتی ہے، جہاں سے اٹھتی تھی۔ انگلستان کی جغرافیائی ہیئت، جزیرہ کو دیکھتے ہوئے یہ کنایہ بہت دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ اس میں موج مضطر کا اپنی ہی تیزی میں زنجیر بن جانا حقیقت معاملہ کے لیے ایک خوبصورت اور خیال انگیز استعارہ ہے۔ اس کے بعد ’’ عام حریت‘‘ کے خواب کو اسلام سے منسوب کر کے مسلمان کو آج اس کی تعبیر دیکھنے کی تلقین سے ایمانی انداز میں یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا میں حریت فکر پھیلانے کا دعویٰ تو برطانوی و مغربی دانشوروں نے کیا تھا، مگر وہ ایک محدود حریت تھی، صرف اہل مغرب کے لیے اور اہل مشرق کی قیمت پر انہیں غلام بنا کر اس کے برخلاف مغربی استعمار کی شکست کے بعد جس کے آثار نمایاں ہیں، جب ملت اسلامیہ کی متوقع نشاۃ ثانیہ ہو گی تو صحیح اور پورے معنوں میں دنیائے انسانیت ایک ’’ عام حریت‘‘ سے لطف اندوز ہو گی اور یہ عمل مشرق و مغرب میں بندۂ مزدور کے دور آغاز سے شروع بھی ہو چکا ہے اس لیے کہ سرمایہ کے مقابلے میں محنت کی بڑھتی ہوئی فتح مندی عام حریت یا حریت عوام کی ایک نمایاں شکل ہے۔ لہٰذا یہ پرانی دنیا جس میں عام انسان اور ان کے ساتھ مسلمان بھی مغربی استعمار کے جبر و استبداد کے ہاتھوں دبے کچلے ہوئے تھے ختم ہونے والی ہے اور ایک نئی دنیا پیدا ہونے والی ہے جس میں اسلام کے تحت مشرق اور عام انسانیت کا احیاء ہو گا جس کی مثال ’’ سمندر‘‘ کی ہے جو جلتی ہوئی آگ کے اندر مر مر کر دوبارہ زندہ ہوتا رہتا ہے، گویا اس کی خاکستر ہی اس کے لیے سامان وجود ہو۔ یہ پیش گوئی اگر مغرب کے غلبے کے سبب قاری کی سمجھ میں آسانی سے نہ آ رہی ہو تو شاعر اسے خبردار کرتا ہے کہ وہ ذرا اپنے دل و دماغ کی آنکھیں بھی کھول کر شاعر کے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی سہی اک تصویر تو دیکھ لے۔ اس لیے کہ قاری اور عام لوگ صرف عیار مغربی سیاست کی تدبیر سے مرعوب ہیں، جبکہ شاعر تقدیر کے اشاروں کو اپنی خدا داد بصیرت اور مومنانہ فراست سے دیکھ اور سمجھ رہا ہے۔ یوں بھی چرخ گرداں کبھی ایک حال پر نہیں رہتا اور گردش ایام ایک کے بعد دوسری قوم، ملت اور ملک کو ابھرنے کا موقع دیتی ہے، اس لیے کہ سنت الٰہی کسی ظالم و جابر کو عالم انسانیت پر برابر مسلط رہنے کی اجازت نہیں دیتی اور اس کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں بالآخر اسے فتنوں میں ڈال کر تباہ کر دیتی ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو اللہ کی مشیت سے امید رکھنی چاہیے کہ حالات بدلیں گے اور مومنوں کے لیے اللہ کا وعدہ پورا ہو گا۔ مسلمان دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے ایک خیر امت بنائے گئے ہیں۔ انہیں اپنا یہ انسانی کردار تاریخ کے ہر دور میں دکھانے کی آرزو رکھنی اور فروغ انسانیت کے لیے اسلامی نصب العین کے خواب کی تعبیر و تکمیل کی کوشش گزشتہ ادوار کی طرح دور حاضر میں بھی کرنی چاہیے۔ اس طرح حال میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایک طرف ماضی کو آواز دی گئی ’’ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے ‘‘ اور دوسری طرف مستقبل کے اشارے کئے گئے ’’ آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ‘‘ اس طریقے سے بیک وقت کئی سطحوں پر گفتگو کرنا اقبال کی فنی ترکیب کی ایک اہم خصوصیت ہے وہ اپنے موضوع کی تمام جہتوں اور تہوں کا احاطہ کرتے ہیں، اور بڑی پیوستگی و ہم آہنگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ خواب حریت کا جو تعلق انہوں نے اسلام کے ساتھ دکھایا ہے اس کا سرسری تجزیہ بھی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک صدیوں کا تسلسل ہے جو گزشتہ سے آئندہ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں موجودہ بھی شامل ہے اگر صرف شریعت محمدؐ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیائے انسانیت میں تصور توحید کی بنیاد پر عام اور مکمل حریت فکر و عمل کا جو نصب العین اسلام نے ساتویں صدی عیسوی میں پیش کیا تھا اس کی تعمیل ملت اسلامیہ کم سے کم سترہویں صدی تک مسلسل کرتی رہی۔ اس کے بعد دوسری ملتوں نے اس نصب العین کو اختیار کرنے کا دعویٰ کیا، مگر انہوں نے اس میں تحریف و تحدید کی اور بڑی ہی ناقص شکل میں اسے دنیا کے سامنے رکھا، جس کے سبب انسانیت آزاد و غلام اقوام کے درمیان تقسیم ہو گئی، پھر ہر قوم میں طبقاتی تفرقے پیدا ہو گئے۔ چنانچہ اب کہ ایک بار پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے آثار ہویدا ہیں۔ یقین ہے کہ اسلام کے خواب حریت کی صحیح و مکمل تعبیر نکلے گی۔ حال کے تناظر میں ماضی و مستقبل کی یہ پوری تصویر صرف ایک شعر کے اشارات سے مرتب ہو جاتی ہے۔ فن کی یہ ثروت مندی فنکار کے ذہن کی زرخیزی کا پتہ دیتی ہے۔ (خضر کا مکالمہ تمثیلی ہے، خواہ آواز شاعری کی در حقیقت ہو، مگر اس کی خضر کی طرف نسبت اس کے سادہ و پر وقار اسلوب بیان کا تعین کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ خضر جیسا جہاں دیدہ بزرگ ایک فکری مکالمے میں رنگینی و رومانیت کی بجائے سادگی و متانت ہی اختیار کرے گا، اس فطری وقار کے باوجود بیان میں شاعرانہ طرفگی و تازگی ہے جو خضر کی اساطیری شخصیت کے عین مطابق ہے) طلوع اسلام ’’ طلوع اسلام‘‘ اس ثروت مندی و زرخیزی کا ’’ بانگ درا کی حد تک‘‘ سب سے بڑا نشان ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’ خضر راہ‘‘ نے اقبال کے فنی ا رتقا کو جس مرحلے پر چھوڑا ہے طلوع اسلام ٹھیک وہیں سے شروع ہوتی ہے خضر راہ کے آخری حصے دنیائے اسلام کو اسلام کی تمہید قرار دینا بالکل صحیح ہو گا۔ یوں تو خضر راہ کے مضامین و بیانات کی جھلک بال جبریل کی مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ اور ضرب کلیم کی ’’ شاع امید‘‘ میں بھی پائی جاتی ہے لیکن طلوع اسلام گویا خضر راہ کی توسیع اور اس میں ایک اضافہ ہے۔ نو بندوں کا یہ ترکیب بند ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے ولولہ انگیز خیر مقدم سے شروع ہوتا ہے اور ابتدا ہی میں واضح کر دیا گیا ہے کہ شاعر ملت اور مشرق کو ایک دوسرے کا مترادف تصور کرتا ہے: دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک یابی افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی عروق مردہ مشرق میں خون زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے شکوہ ترکہانی ’’ذہن ہندی‘‘ نطق اعرابی اثر کچھ خواب کا غنچوں میں ہے تو اے بلبل نوارا تلخ ترمی زن چوں ذوق نغمہ کمیابی تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں، شاخساروں میں جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی وہ چشم پاک ہیں کیوں زینت برگستواں دیکھیے نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے ’’ عروق مردہ‘‘ مشرق میں خون زندگی دوڑا خضر راہ کے بیان ربط و ضبط ملت بیضا ہے۔ مشرف کی نجات کی صرف تکرار نہیں اس میں ایک ترقی ہے یہاں ملت اور مشرق کو مدو مستقل تصورات کی حیثیت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش سے ایک قدم آگے بڑھ کر دونوں کو ایک ہی مرکب وجود کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ طلوع اسلام کو جس کا ذکر پہلے شعر میں طلوع آفتاب اور صبح روشن کے استعارے میں کہا گیا ہے دوسرے شعر میں عروق مردہ مشرق میں خون زندگی دوڑا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خضر راہ کے محولہ بالا شعر کا دوسرا مصرع تھا ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر وہاں طلوع اسلام کے متذکرہ شعر کا دوسرا مصرع ہے سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی یعنی اب مشرق کا معاملہ بیرونی طور پر صرف ایشیا والوں کا نہیں ہے پوری ملت اسلامیہ کا اپنا اندرونی معاملہ ہے اور یہ فیض اسلام سے پیدا ہونے والے عشق کا معاملہ ہے جسے سینا و فارابی جیسے مسلم فلسفی نہیں سمجھ سکتے، رومی و سنائی جیسے مسلم صوفی سمجھ سکتے ہیں اس لیے کہ زوال کے آثار سے عروج کا پہلو نکالنا دنیوی منطق کی دین نہیں، عینی عشق کا فیض ہے۔ مشرق و ملت کے اس اوغام کے بعد تیسرے شعر کا یہ بیان کہ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے بالکل موزوں ہے اسی لیے چوتھا شعر مرد مومن کے گردار و شخصیت کے اجزائے ترکیبی کی تعیین میں پورے مشرق کا احاطہ کرتا ہے شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی، اس کے بعد بیداری و حرکت اور جدوجہد کا پیام سب کے لیے عام ہے۔ چنانچہ جو شاعر خضر راہ کی ابتدا میں شہید جستجو تھا اب وہی دانائے راز بن کر چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ شاعر کے ذہن کا ارتقا ہے کہ اب اسے نہ تو شمع سے سبق لینے کی ضرورت ہے نہ خضر کے حلقہ درس میں بیٹھنے کی حاجت، بلکہ وہ خود معلم بن چکا ہے اور ملت و مشرق کے مرکز سے انسانیت کو ’’ علم و محبت‘‘ کا پیام دے رہا ہے۔ بند کے اشعار استعارات و علامات سے مملو ہیں ستاروں کی تنک یابی عروق مردہ سیناد فارابی، طوفان مغرب، طلاطم ہائے دریا، گوہر کی میرابی، شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی، خواب، غنچہ، بلبل، صحن چمن، آشیاں، شاخسانہ، تقدیر سیمابی، ضمیر لالہ، چراغ آرزو اور شہید جستجو کے معنی آفریں پیکر مل کر طلوع و فروغ تجسس تمنا سعی اور سرگرمی کی حیات آفریں فضا تخلیق کرتے ہیں۔ یہ ایک آفاق گیر نشاۃ ثانیہ کی نہایت حسین و پر خیال تمہید ہے۔ دوسرا بند پہلے بند کے اشارات کی تعیین و تشریح کر کے موضوع نظم۔۔۔۔ طلوع اسلام۔۔۔ کی تصریح و تفصیل کرتا ہے۔ اس کے نکات کا تجسس کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مسلمانوں کی آہ و زاری کا اثر ہونے لگا ہے اور دین ابراہیمی یا شریعت محمدیؐ کا ایک بار پھر بول بالا ہونے والا ہے۔ چنانچہ کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہو رہی ہے اور شجر ملت میں پھول پھل آ رہے ہیں۔ ایک تری شیرازی نے اعداء اسلام سے جنگ میں فتح حاصل کر کے عالم اسلام کا دل جیت لیا ہے اور ملت کی آنکھوں کا تارا بن گیا ہے۔ اس معرکے میں اگر عثمانی ترکوں پر کوہ غم بھی ٹوٹ پڑا ہے تو غم نہیں اس لیے کہ جب ہزاروں ستارے بجھ جاتے ہیں تب ہی صبح کا سورج نکلتا ہے بے سر و سامانی کے باوجود اتنے زبردست معرکے میں ترکوں کی کامیابی کا راز ان کی جہاں بینی ہے جو جہاں بانی سے زیادہ اہم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سال ہا سال کی بے نوری پر ماتم کے بعد چمن ملت میں ایک دیدہ ور گل نرگس کھلا ہے۔ لہٰذا عندلیب ملت کو اس ولولہ انگیز طور پر نوا پیراہونا چاہیے کہ جو لوگ کبوتر کی طرح کمزور اور لقمہ تر بنے ہوئے ہیں ان کے اندر شاہین کا جگر، پیدا ہوجائے۔ چنانچہ جس شاعر نے گزشتہ بند میں چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کرنے کا عزم کیاتھا اب وہ اس پر کاربند ہوا ور اپنا فرض ادا کرے: ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے یہ خیالات نیساں، خلیل اللہ کا دریا، گہر، کتاب ملت بیضا، شیرازہ بندی، شاخ ہاشمی، برگ و پر، صبا، بوئے گل، خون صد ہزار انجم، سحر، نرگس، دیدہ ور، بلبل، کبوتر، شاہین کی معنی خیز تصویروں کے ذریعے ادا کئے گئے ہیں یہ اسلوب سخن تاریخ کو تلمیح و تمثیل بناتا ہے نیساں دریا، کتاب اور شاخ کے پیکروں کے علاوہ جہاد کو ایک ادائے محبوبی بنا دیا گیا ہے اتربود آں ترک شیرازی دل تبریز وکابل را طلوع اسلام کے لیے طلوع سحر کی قدرتی تمثال کا فلسفیانہ ذکر کرنے کے بعد تدبیر جیسی سیاسی اصطلاح کو اول تو جہاں بینی بمقابلہ جہاں بانی کے لطیف طرز تعبیر سے پر لطف بنایا گیا۔ پھر اس کو چشم دل میں نظر پیدا ہونے اور اس کے لئے جگر پر خوں ہونے کا مترادف قرار دے کر محبت یعنی عشق مقصد کی گہرائی اور دلکشی عطا کی گئی اور اس سلسلے میں دیدہ ور گل نرگس کی ایک داستان بھی تصنیف کر دی گئی۔ کبوتر اور شاہین کا تقابل نزاکت و صلابت کے تضاد کے لیے اپنی جگہ بہت واضح ہونے کے ساتھ ساتھ موزوں بھی ہے اور بلبل کی نوا پیرائی سے اس تضاد کی قلب ماہیت یقینا ایک دلچسپ اور پر خیال استعارہ ہے اس فضا میں راز اور سوز و ساز کے الفاظ زندگی جیسے عام لفظ کو بھی ایک خاص مفہوم عطا کر کے اس میں تجسس کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ ٹیپ کے شعر کے حسب اشارہ تیسرا بند مسلمان سے خطاب کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور مرد مون کی اصلیت و حقیقت پر روشنی ڈالی جاتی ہے، جس میں فلسفیانہ افکار شاعرانہ انداز سے پیش کئے جاتے ہیں۔ پہلا شعر صرف ایک ولولہ خیز بیان اور تلقین ہے جس میں مومن کو خدا کا دست قدرت اور زبان قرار دے کر ایمان و یقین کی مضبوطی اور سرگرمی پیدا کرنے کے لیے ابھارا گیا ہے، تاکہ وہ عالم وجود میں اپنا مجوزہ کردار ادا کرے، دوسرے شعر سے اس کردار کی صورت گری نہایت دلکش تصویروں کے ذریعے شروع ہو جاتی ہے۔ مسلماں کی منزل چرخ نیلی فام سے اتنی آگے واقع ہوئی ہے کمر ستارے بھی اس کے کارواں کی گرد راہ ہیں مکان و مکیں سب فانی و آنی ہیں۔ مگر مرد مومن کا وجود ازل سے ابد تک محیط ہے، اس لیے کہ وہ زمانے میں خدا کا آخری پیغام جاوداں ہے۔ اس کا خون جگر کائنات کی لالہ گوں عروس کا حنا بند ہے، وہ معمار جہاں ہے اس لیے کہ دنیا کے معمار اول حضرت ابراہیم ؑ سے اس کی نسبت ہے، مومن کی فطرت ممکنات زندگانی کی امیں ہے اور جہاں کے جوہر مضمر کا معیار امتحاں وہی ہے، وہی وہ ارمغاں ہے جسے شب معراج ختم الرسولؐ اپنے ساتھ جہان آب و گل سے عالم جاوید میں لے گئے چنانچہ عصر حاضر میں ایشیا کی مجبور و مقہور اقوام کی پاسباں ملت بیضائے اسلام ہی ہے جیسا کہ اس کی تاریخ سے ثابت ہے، لہٰذا مسلماں کو ایک بار پھر صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھنا ہے، تاکہ وہ منصوبہ مشیت کی تکمیل کی خاطر دنیا کی امامت کے لیے آمادہ ہو جائے۔ جن پر شوکت اور خیال آفریں الفاظ و تراکیب کے ذریعے یہ خیالات ظاہر کئے گئے ہیں وہ بجائے خود تخیل نظم کے ارتقا کے لیے بہت موزوں ہیں۔ خدائے لم یزل کا دست قدرت زباں پرے چرخ نیلی فام سے منزل ستارے جس کی گرد راہ و کارواں خدا کا آخری پیغام جاوداں ضابند عروس لالہ خون جگر، نسبت ابراہیمی، معمار جہاں، فطرت امیں ممکنات زندگانی کی، جہاں کے جوہر مضمر کا امتحاں، جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر، نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغان جیسے تابندہ پیکر اس طرح جزو عبادت ہو گئے ہیں کہ تصویر و تصور کا فرق مٹ گیا ہے، تصور ہی تصویر بن گیا ہے یا تصویر تصور بن گئی ہے۔ یہ نقوش کلام کو محاورہ زبان بنانے کی شاعرانہ بلاغت ہے۔ چوتھا بند کردار امات کی، جس کا ذکر بند ما قبل کی ٹیپ میں کیا گیا ہے، نقش گری ہے۔۔۔ اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی، مقصود فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ رمز مسلمانی بھی ہے، لہٰذا مسلماں کو چاہیے کہ بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جائے اور تورانی و ایرانی و افغانی کے تفرے ختم کر دے، اس کے بازو میں پرواز شاہین قہستانی کی قوت ہے، اس لیے وہ میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک اختیار کئے رہے گا؟ واقعہ تو یہ ہے کہ گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ماضی کے قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے مٹا دیا تھا وہ زور حیدرؓ، فقر بوذرؓ اور صدق سلمانیؓ ہی تھا، جبکہ آج بھی دور جدید کے قیصر و کسریٰ سے پنجہ آزمائی کے لیے ترکی کے احرار ملت اتنے تجمل سے جادہ پیما ہوئے کہ صدیوں کے زندانی ایوان مشرق کے شگاف در سے اس کاروان جہاد کے تماشائی بنے دنیا میں ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم نے اس وقت جرمنی کو تباہ کر دیا مگر ترک اپنی جگہ مستحکم رہے، اس لیے کہ انگارہ خاکی میں جب یقیں کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے اندر بال و پر روح الامیں کی طاقت آ جاتی ہے۔ فکر انگیز نکات کے ساتھ ساتھ میان شاخاراں، صحبت مرغ چمن، پرواز شاہین قہستانی، بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی، تماشائی شگاف درسے، اور بال و پر روح الامیں کی ولولہ خیز تصویریں بھی گھلی ملی ہوئی ہیں اور نکات کو نغمات بنانے میں مددگار ہیں۔ پانچواں بند اس ذوق یقیں کی تشریح ہے جس کی طرف ماقبل کے بند کی ٹیپ میں اشارہ کیا گیا تھا۔ یہ نظم کے نصف ثانی کی ابتدا ہے اور نصف اول کی انتہا، جو خیالات و احساسات اب تک پیش کئے جا رہے تھے ان کے اظہار کی رفتار اور آواز یہاں بہت تیز اور بلند ہو جاتی ہے اور سلسلہ خیال اپنی پہلی منزل پر ما قبل کے تمام تصورات کو جلو میں لے کر پورے زور و شور اور شان و شوکت کے ساتھ وارد ہوتا ہے۔۔۔۔۔ مشرق جس غلامی میں مبتلا کر دیا گیا ہے اور اس کی زنجیریں نہ تو صرف شمشیروں سے کٹ سکتی ہیں نہ صرف تدبیروں نے جب تک ان کے پیچھے ذوق یقیں کی قوت متحرک نہ ہو جو اگر میسر آ جائے تو مرد مومن کا زور بازو اتنا بڑھ جائے گا کہ صرف اس کی نگاہوں سے تقدیریں بدلتی نظر آئیں گی، اس لیے کہ اقتدار حکومت ہو یا فتوحات علم، یہ سب ایک نقطہ ایمان کی تفسیریں ہیں، لیکن ا یمان خالص کا حصول آسان نہیں، اس لیے کہ حضرت ابراہیم ؑ جیسی نگاہ بت شکن درکار ہے، ورنہ ہوس دلوں کے اندر کتنے ہی بتوں کی تصویریں بنا لیتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا بت جو دور حاضر نے بنایا ہے بندہ و آقا کی تمیز ہے اور یہ فساد آدمیت ہے اگر اس سے حذر نہ کیا گیا تو خدا کا قائم کیا ہوا قانون فطرت اس فساد کے ذمے داروں کے لیے بڑی سخت تعزیریں تجویز کرتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ کائنات میں ایک وحدت کا تصور کام کر رہا ہے، خاکی و نوری تمام مظاہر ایک ہی حقیقت کے پرتو ہیں، ذرے کو بھی چیر کر دیکھا جائے تو اس میں خورشید عالم تاب کی شعائیں جگمگاتی نظر آئیں گی۔ لہٰذا جہاد زندگی میں مردوں کی شمشیریں ہیں: یقین، محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم۔ ’’ براہیمی نظر‘‘ کا پیکر عصر حاضر کی یونانی صنم گری پر ایک دلچسپ اور فکر انگیز تبصرہ ہے۔ ذرے کے دل میں لہو خورشید کا ایٹم کے متعلق جدید سائنس کی تحقئقات و ترقیات کو اسلامی تصور توحید کے ساتھ ہم آمیز کرنے کا دلکش اور حقیقت افروز استعارہ و اشارہ ہے تمیز بندہ و آقا کے خلاف فطرت کی تعزیریں کی تنبیہہ بظاہر اہل مشرق کے لیے ہے مگر بہ باطن اس کے اصل مخاطب عصر حاضر میں اہل مغرب ہیں، اس لیے کہ تاریخ میں ان کا سب سے بڑا جرم یہی تمیز و تفریق انسانیت ہے جسے انہوں نے فلسفوں اور اسلحوں کے ذریعے پوری دنیائے جدید پر مسلط کر دیا ہے، یہ ایک سے دوسرے پہلو کی طرف انتقال ذہنی کا لطیف ایمائی انداز ہے جو کلام اقبال کا امتیازی نشان ہے۔ ٹیپ کا فارسی شعر انسان کا عام نصب العین اور کردار پیش کرتا ہے جس شخص کو طبع بلند، مشرب ناب (دین خالص) دل گرم، نگاہ پاک بیں اور جان بیتاب میسر آ جائے اسے فکر و عمل کی ساری دولت مل جائے گی، وہ ایک مثالی انسان ہو گا، اسے ہی دنیا کی امامت کا حق ہو گا اور اسی کے زیر قیادت عصر حاضر میں انسانیت کی نشاۃ ثانیہ کا جہاد فتح یاب ہو گا۔ یہ بند کے تصورات کا خلاصہ اور نظم کے اب تک کے بیانات کا ماحصل ہے۔ اس کے بعد نظم کے نصف ثانی اور سلسلہ خیال کی دوسری لہر جس کی ابتدا پچھلے بند میں اس کے ماقبل کی انتہا کے ساتھ کی گئی تھی، چھٹے بند میں بالکل نمایاں ہو کر قاری کے سامنے اس خوبصورت انداز میں آتی ہے کہ دور جدید کی سائنسی ایجادات اور اس کے صنعتی آلات کو ایک طرف شاعرانہ استعارات میں ڈھال دیا گیا ہے اور دوسری طرف انسان کے ایمان و عمل اور ذہن و کردار کی طاقت کے مقابلے میں ان آلات کی کمتری اور ناکامی کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے۔ شاعری کا یہ عظیم نمونہ اپنی اصلی شکل میں لائق مطالعہ ہے: عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گہر نکلے غبار رہگذر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا خبر دیتی تھی جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے ٭٭٭ یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے شروع سے آخر تک تصویر ہی تصویر، استعارہ ہی استعارہ، علامت ہی علامت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آہنگ کی نغمہ آفریں رنگا رنگی ’’ عقابی شان‘‘ جرمنی کا قومی نشان ہے، جرمنوں کا جھپٹنا اور بے بال و پر نکلنا جنگ میں ان کی برق رفتار پیش قدمی اور ویسی ہی تیز پسپائی کا اشارہ ہے۔ شام کے ستاروں کا خون شفق میں ڈوب کر نکلنا جنگ عظیم اول کی زبردست ہلاکت آفرینی اور خونریزی کا اشارہ ہے۔ غروب سے مغرب کا کنایہ بھی لیاجا سکتا ہے، اور ستارہ شام کے ڈوبنے سے خوں آشام مغرب کے خوں آلود زوال کا اشارہ بھی مل سکتا ہے، اس لیے کہ جرمنی کی تباہی کے ساتھ ساتھ فتح مند اتحادی بھی جنگ کے بوجھ تلے دب کر پس گئے تھے اور مجموعی طور پر پورے یورپ میں انتشار پیدا ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں مغربی سماج اتنا کھوکھلا ہو گیا تھا کہ دنیا کی قیادت کے لائق نہ رہ گیا تھا۔ اس کی ساری اندرونی کمزوریاں ابھر کر سامنے آ گئی تھیں اور صاف نظر آنے لگا تھا کہ پورے مشرق پر اس کا سامراجی تسلط عنقریب ختم ہو جائے گا۔ جرمن آبدوزوں کی غرقابی اور ترکوں کی بے سر و سامانی کے باوجود فتح مندی کا موازنہ اس علامتی انداز میں کیا گیا ہے کہ زیر دریا تیرنے والے تو مدفون دریا ہو گئے جبکہ موج حوادث کے طمانچے کھانے والے گہر بن کر نکلے جرمنی اور ترکی دونوں کا مقابلہ یورپ کی دوسری اقوام سے ہوا جرمنی اپنے تمام جدید ترین اسلحوں اور صنعتی سامان جنگ کے باوجود تباہ ہو گیا، لیکن ترکی قدیم فرسودہ آلات سے کام لے کر اور گویا بے سر و سامانی کے عالم میں بھی محفوظ رہ گیا۔ا سی طرح جس جرمنی کو صدی کے اوائل میں اپنی سائنس ترقی اور علم کیمیا کی مہارت پر فخر و ناز تھا وہ جنگ کے نتیجے میں غبار رہ گزر بن گیا اور ترکی جہاں کے مسلمان اپنی بے نوائی اور بے بضاعتی کے عالم میں اپنی جبینیں خاک پر رکھ کر صرف آستانہ خداوندی پر سجدہ ریز اور اپنی جرأت ایمانی کے بل پر سر گرم ستیز تھے اکسیر گر ثابت ہوا، گویا اسے کیمیا میں مہارت نہ ہونے کے باوجود کہیں سے شکست کی فتح اور کمزوری کو طاقت میں بدل ڈالنے کا نسخہ کیمیا مل گیا ہو۔ یہ بہترین علامتی طریق تعبیر ہے جس کی ایمائیت چند در چند اشارات سے مملو ہے اور اس کے ساتھ ہی ما قبل کے شعر کی طرح محاورے کی مانند واضح اور سلیس ہے۔ یہی دبازت و نفاست بعد کے شعر کے اس استعارے میں ہے کہ جس ترقی یافتہ قوم یا اقوام کو ان کے برقی تار تازہ بہ تازہ پل پل کی خبریں پہنچایا کرتے تھے وہ تو حقائق و حوادث سے گویا بے خبر ثابت ہوئیں اور اچانک حملوں کا نشانہ بن گئیں، مگر جس پس ماندہ قوم کے ذرائع خبر رسانی بالکل سست رفتار اور روائتی انداز کے تھے اس کا قاصد حیات بخش اطلاعات وقت پر دیتا رہا اور بالآخر پیام زندگی لایا۔ یہ ایمائیت پر معنی ہے اس میں جہاں ترکی و جرمنی کا موازنہ ہے وہیں جرمنی کی شکست کے بعد ترکی و اتحادی کا مقابلہ بھی ہے، اس لیے کہ جس طرح جرمنی اتحادیوں کے مقابلے میں بے خبر ثابت ہوا تھا اسی طرح اتحادی ترکی کے مقابلے میں گویا بے خبر نکلے۔ ان سب اشعار میں علامتوں کے لیے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ جدید تصورات کی ترجمانی اور آلات کی نشاندہی سائنسی و صنعتی اصطلاحات کے ذریعے نہیں کرتے،ا ردو زبان کے محاورات اور مشرقی شاعری کے محاورے کی حد تک عام استعارات کے وسیلے سے کرتے ہیں۔ یہ پختگی ذہن، قدرت فن، جذب خیالات اور قوت بیان کا کمال ہے مغربی ترقیات کو ذہن و فن کی طاقت نے مشرقی نغمات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ شاعری کی کیمیا ہے جس کا نسخہ اور طریق استعمال عصر حاضر کے پورے عالمی ادب میں سب سے زیادہ اقبال ہی کو معلوم ہے ورنہ خود مغرب کے شاعر اپنے سماج کی صنعتی ایجادات کو اپنے ادب کی شعری روایات میں پوری طرح جذب کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ بہرحال آگے کے دو اشعار میں ایک تو عالم مشرق کی سیاسیات کا علامتی بیان ہے جس میں ترک جوانوں کو معمر شیوخ عرب سے زیادہ مدبر بتایا گیا ہے اور اس نکتہ سیاست کوعطر شاعری میں بسانے کے لیے پیر حرم کی کم نظری کا تقابل جوانان تتاری کی صاحب نظری کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں نوریان آسماں پرواز کو زمیں سے ہم کلام کر کے آفاقی انداز سے آدم خاکی کو زندہ تر پائندہ تر تابندہ تر کا خراج عقیدت ادا کر دیا گیا ہے اور یہ گویا ایک بار پھر ملائکہ واجنہ کے مقابلے میں فضیلت آدم کا ازلی اعتراف ہے۔ یہ فضیلت انسان کے باشعور ایمان کی بدولت ہے، لہٰذا بعد کے شعر میں اہل ایمان کے آفاق گیر تاریخی عمل کی ایک نہایت دلآویز اور خیال انگیز تصویر طلوع و غروب کے تسلسل کے استعارے سے مرتب کی گئی ہے۔ پچھلے شعر کے دوسرے مصرعے میں فارسی الفاظ کا ترنم تھا تو زیر نظر شعر کے دوسرے مصرعے میں بھاشا کے سادہ ترین الفاظ کا نغمہ ہے ما قابل کے چند اشعار بھی ایسا ہی ہے جن کے بیشتر دوسرے مصرعے بالکل سادہ الفاظ کے جادو جگاتے ہیں، جبکہ پہلے مصرعوں میں بالعموم تراکیب کا طلسم ہے۔ اس سے اردو زبان کے پورے آہنگ پر اقبال کی بے پناہ قدرت اور ان کے دست ہنر کے فنکارانہ پیچ و خم کا اندازہ ہوتا ہے وہ مفہوم کے لحاظ سے موزوں ترین تمثال و ترنم پیدا کرتے ہیں یقینا اس فنکاری میں فارسی اسماد تراکیب کا جتنا حصہ ہے اتنا بھاشا کے الفاظ و افعال کا نہیں ہے اس کی وجہ ظاہر ہے بھاشا ایک بولی تھی جس کے اندر وہ طاقت نہیں تھی جو فارسی جیسی ترقی یافتہ زبان میں ہے اور ادبی اعتبار سے اگر اردو نے بھاشا کے اندر فارسی کی روح نہیں دوڑا دی ہوتی تو بھاشا کا اپنا کوئی لسانی مستقبل ہی نہ ہوتا۔ لسانیاتی اعتبار سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے لیے اردو شاعری کا مقابلہ ہندوستان کی دیگر ان زبانوں کی شاعری کے ساتھ کرنا مفید ہو گا جن کے خمیر میں فارسی کے اجزاء و عناصر اس طرح داخل نہ ہو سکے جس طرح اردو کے خمیر میں ہوئے۔ ٹیپ کے شعر میں ایمان و یقین کو افراد کے ساتھ ساتھ ملت کی تعمیر و تقدیر کا سرمایہ و صورت گر بھی بتایا گیا ہے، اس لیے کہ پورے بند میں اہل ایماں کے ہی جمال و کمال کا تذکرہ تھا، لہٰذا ایمائی و علامتی بیانات کے بعد ان کا ماحصل صاف صاف آخری شعر میں پیش کر دیا گیا۔ اگلا بند ملت اسلامیہ اور اس کے تمام افراد کو اس منصب و مقام سے جو ان کے لیے پچھلے بندوں میں متعین کر دیا گیا ہے عصر حاضر میں عالمی سطح پر ایک آفاتی تحریک انسانیت چلانے کی تلقین کی جا رہی ہے پہلے شعر میں انسان اور مسلمان کو ایک دوسرے میں ضم کر کے مثالی مرد مومن کو علامتی طور پر کن فکاں کے راز تخلیق کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ تاکہ وہ اپنی حقیقت کا سراغ پا کر خودی اور خدا دونوں کا راز داں اور ترجماں ہو جائے۔ اس حق شناسی سے آج کی دنیا پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو گا کہ اقتدار دولت، منصب وغیرہ کی ہوس نے بنی نوح انسان کو قوموں ملکوں اور طبقوں میں تقسیم کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور دور جدید کے سارے مغربی فلسفے اس تقسیم و تفریق کو دور کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے کہ در حقیقت یہ ہلاکت انگیز تفرقہ پردازی انہی کا فتنہ ہے، لہٰذا اب مسلمانوں ہی کا انسانی فرض ہے کہ اپنے فکر و عمل سے اتحاد انسانیت کے واحد نظرئیے، توحید کا پیام دنیا کو اس طرح دیں کہ اخوت کا بیاں اور محبت کی زباں بن جائیں ورنہ ہندی خراسانی، افغانی اور تورانی کی حد بندیاں موج انسانیت کو محدود اور آسودہ ساحل کرنے والی ہیں، چونکہ خود مسلمان بھی رنگ زمانہ سے متاثر ہو کر رنگ و نسبت کے غبار سے بوجھل ہو چکے ہیں لہٰذا آفاقیت کی پرواز لگانے سے پہلے انہیں اس غبار کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینا چاہیے اس تزکیے کے بعد خود شناسی کی گہرائیوں میں ڈوب کر کائنات کے جاوداں اصولوں سے ہم آہنگ ہونے اور اس کے نتیجے میں جاوداں ہونے کا موقع ملے گا۔ ایک خود شناس و خود نگر ہستی ہی حق و ناحق کے درمیان امتیاز اور دونوں کے تعلق سے اپنے عمل میں توازن کا حسن پیدا کر سکتی ہے۔ زندگی کے معرکہ آرا کا راز میں اس ہستی کی سیرت فولاد کی طرح سخت اور آپس کے انسانی تعلقات میں ریشم کی طرح نرم ہو گی، وہ مسائل و مشکلات کے کوہ و بیاباں سے ایک تند سیلاب کی مانند اور اخوت و محبت کے گلستاں میں ایک مترنم نہر کی مانند گزرے گی۔ راز کن فکاں شرمندہ ساحل، غبار آلودہ رنگ و نسب بال و پر، مرغ حرم، حلقہ شام و سحر، مصاف زندگی، سیرت فولاد، شبستان محبت، حریر و پرنیاں، سیل تندرو، کوہ و بیاباں، گلستاں اور جوئے نغمہ خواں کے الفاظ و تراکیب وہ استعارات و علامات ہیں جن کے استعمال سے بڑے محکم خیالات کوسبک اور شیریں انداز میں ظاہر کیا گیا ہے جبکہ خودی کا راز داں خدا کا ترجماں، اور اخوت کا بیاں، محبت کی زباں جیسے راست سیدھے اور صاف بیانات بھی ایک سادہ موسیقی کا آہنگ رکھتے ہیں اور تخیل کا حسن آواز کے حسن میں اضافہ کرتاہے۔ ٹیپ کا شعر بھی ایسا ہی سیدھا سادا ایک بیان ہے، مگر اس کے معانی کا جمال پورے بند کی معنوی جمالیات کا نچوڑ اور ان کا نکھار ہے: ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی یقینا اس سادہ شعر میں بھی ساز فطرت اور نوا کا استعارہ موجود ہے لیکن وہ عبادت میں حل ہو گیا ہے۔ اقبال کی قدرت بیان اور نفاست اظہار کا یہ کرشمہ ہم پہلے بھی بار ہا دیکھ چکے ہیں۔ اس شعر کا کلیدی بیان علم و محبت کے متعلق ہے جو طلوع اسلام کے مضمرات و ارشادات کو اضح اور قطعی طور پر وہ عمومی و آفاقی شکل دیتا ہے جو شاعر کا مانی الضمیر ہے۔ مسلماں کو علم و محبت کی انتہائی علامت قرار دینا کوئی فرقہ پرستانہ مبالغہ آرائی نہیں ہے، نہ خطابت کی نعرہ بازی ہے۔ شاعر نے نظم کے سارے نکات و جہات کو سامنے رکھ کر بہت ہی سنجیدگی اور درد مندی کے ساتھ یہ کہنا چاہا ہے کہ اگر مسلمان اسلامی توحید کے پیغام اخوت اور عمل توازن کو اپنی شخصی و ملی سیرت کا جزو بنا لیں اور سچے اور پکے مسلمان بن جائیں تو وہ انسانیت کے شرف و فضل کا وہ معیار قائم کریں گے جو کائنات میں ان کے منصب، خلافت الٰہی کے شایان شان ہے۔ فطرت ایک ساز ہے جس میں بے شمار نوائیں ہیں مگر سب سے شیریں و حسیں نغمہ انسان کا ہی ہے اور مرد مومن یا مرد مسلماں ایک مثالی انسان کا دوسرا نام ہے۔ اسی حیثیت سے اس مثالی انسان کی شخصیت کے دو بنیادی عناصر ترکیبی یہ بتائے گئے کہ وہ بے انتہا علم اور بے انتہا محبت کا حامل ہے۔ یہ دو الفاظ محتاج تشریح نہیں ہیں، صرف ان کا ذکر ان کے وسیع مطالب کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہے اور شعر میں جس زور دار طریقے سے ان الفاظ کو نمایاں کیا گیا ہے اس سے ان کے معانی پر غور کرنا اور مضمرات کو سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ آٹھواں بند مثالی انسان اور مسلمان کے عصر حاضر کی وہ صورت حال پیش کرتا ہے جس میں اسے اپنا کام کرنا اور تاریخی فریضہ ادا کرنا ہے، ساتھ ہی اس فریضے کی کامیاب ادائیگی کے لیے اسے ایک موثر نصیحت کرتا ہے اور آخر میں طلوع اسلام کی نوعیت پر ایک فکر انگیز تبصرہ کرتا ہے: ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے خروش آموز بلبل ہو گرہ غنچے کی وا کر دے کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی زمیں جولاں گہ اطلس قبایان تتاری ہے یہ نظم کا سب سے زیادہ سیاسی بند ہے اور شاعری کے لیے سب سے خطرناک بعد کے بے شمار انقلابی اور ترقی پسند کہلانے والے شعرا نے اس بند کی سیاسی شاعری سے متاثر ہو کر لمبی لمبی نظمیں اسی کے رنگ و آہنگ میں کہنے کی کوششیں کی ہیں اور بعض نے تو گویا اپنی پوری ضخیم و حجیم شاعری کو اس بند کے اشعار کے طرز فکر اور طرز کلام پر مبنی کرنے کی سعی کی ہے، لیکن اس بند کے اشعار کا ایک مختصر تنقیدی و فنی تجزیہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال کی سیاسی شاعری بھی شاعری ہے سچی، پکی اور پوری شاعری، جبکہ دوسرے شعراء جو اس معاملے میں ان کی تقلید کرتے ہیں وہ سیاست و شعر کے فنی توازن کو قائم رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، شاید اس لیے کہ ان میں بعض کا مطح نظر نری شاعری ہے یا فقط سیاست، لہٰذا ان کے پاس کوئی ایسا ذہنی معیار نہیں جس پر سیاست و شعر کو ان کی تمام گہرائیوں کے ساتھ باہم ترکیب دیا جا سکے۔ اقبال کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ ان کے پاس ان کے نظریہ حیات اور تصور کائنات کی شکل میں ایک ایسا جامع اور معتدل معیار تھا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ محض سات اشعار کے اس بند کا ایک ایک مصرع، ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ پوری سیاست حاضرہ اور اس کے جدید ترین مضمرات کا نہایت ہی حقیقت افروز نقش پیش کرتا ہے۔ پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اقوام غالب کی ساری سیاست کی گرہیں اس طرح کھول کھول کر دکھانے کا مقصد طلوع اسلام کا پس منظر اور عصر حاضر میں اسلامی کردار کا پیش منظر بتانا ہے۔ غور کیجئے کہ روشنی علم و ہنر کے تمام دعوؤں اور ارتقا کے تمام نعروں کے باوجود ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے اور دور ترقی کا یہ المیہ قیامت سے کم المناک نہیں کہ ’’ انسان نوع انساں کا شکاری ہے بند کا یہ پہلا ہی شعر زبردست‘‘ اسی بیاں ہونے کے ساتھ ساتھ طاقتور شاعری کا ایک نمونہ بھی ہے لب و لہجے کے وقار کے علاوہ الفاظ و تراکیب کی شوکت ہے۔ خاص کر صید زبون شہر یاری کی ترکیب توالی اضافات کے باوجود بڑی سبک اور خیال آفریں ہے۔ اس میں چھپا اور گھلا ہوا صید زبوں کا استعارہ بھی ہے اور شہر یاری کی تلمیح یا علامت بھی چنانچہ پہلے مصرعے کی اس بندش کے بعد دوسرا مصرع اسی استعارہ و تلمیح کی تفصیل و توضیح اس انداز سے کرتا ہے کہ ایک ترقی یافتہ زمانے میں بھی انسانیت کے حال زار کی تصویر نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتی ہے اور ہم تصور کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جس طرح عہد قدیم کے بادشاہ جانوروں کا شکار اپنی سیر گاہوں اور شکار گاہوں میں تفریحاً کھیلا کرتے تھے، اسی طرح دور جدید کے صدر اور وزیراعظم اپنی ذاتی تفریح کے لیے انسانوں کا جنہلیں انہوں نے جانوروں سے بھی بدتر سمجھ یا بنا رکھا ہے، شکار کھیل رہے ہیں اور یہی قدیم و جدید سیاسی آمروں کا فرق طبیعت گویا قیامت کی علامت ہے۔ اس شعر میں معانی کی وسعت اور گہرائی کے علاوہ انسانیت کے لیے جو بے پناہ خلوص، ہمدردی اور سوز ہے وہی اسے شعریت کا آہنگ عطا کرتا ہے، ذہن کا خلوص فن کے رسوخ کا باعث ہے۔ اس میں ایک لطیف انتقال ذہنی بھی ہے، پہلے مصرعے میں آدمی صید زبون شہر یاری ہے کے ساتھ ابھی تک سے تاثر ہوتا ہے کہ بادشاہوں کے وقت سے انسانوں کا شکار کھیلا جا رہا ہے لیکن دوسرے مصرعے میں انساں نوع انساں کا شکاری ہے کے ساتھ قیامت ہے کا فجائیہ خاص کر نوع انساں کی تشریح کے ساتھ، اول تو سارا زور دور حاضر کے اصحاب اقتدار کی مردم آزاری پر دیتا نظر آتا ہے، جس کے مقابلے میں دور قدیم کا ظلم و ستم بھی گرد ہوتا دکھائی پڑتا ہے، دوسرے ماضی میں اگر چند آدمیوں یا طبقات کو نشانہ ستم بنایا جاتا تھا تو زمانہ حال میں پوری انسانیت ہی کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ بند کا دوسرا شعر تہذیب حاضر کی چمک دمک کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری اور محض صناعی قرار دیتا ہے، جس میں صنعتی کے ساتھ مصنوعی کا مفہوم مضمر ہے، یعنی بظاہر اور دعوؤں کی حد تک تو جدید تہذیب بڑی امن پسند، انصاف دوست اور انسانیت نواز ہے مگر در حقیقت اور عمل کے لحاظ سے قدیم تہذیبوں سے بھی کچھ زیادہ ہی جنگ باز ظالم اور انسانیت کش ہے نظر کو خیرہ کرنے والی چمک، صناعی اور جھوٹے رنگوں کی ریزہ کاری کے پیکر تہذیب حاضر کی پوری تصویر اتار کر رکھ دیتے ہیں جس میں اس کے ظاہر و باطن دونوں کے نقوش نمایاں ہو جاتے ہیں، یہ چہرہ وپس چہرہ کی بڑی گہری عکاسی ہے اور جدید تمدن و تہذیب کے پر فریب حسن کا ملمع اتار دیتی ہے، تیسرا شعر خرد مندان مغرب کے فخر و ناز کے سب سے بڑے موضوع حکمت یعنی سائنس کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری کے بھیانک روپ میں پیش کرتا ہے جس سے سائنس کے جدید ترین استحصال اور علم کی تذلیل کی شدید احساس ہوتا ہے۔ قبل کی بند کی ٹیپ میں مومن کو علم و محبت کا نمونہ کامل بتایا گیا تھا، جس کا اظہار خاص کر عہد وسطیٰ کے تمدن و تہذیب میں ہوا تھا، جب دنیا میں اسلام کا نظام حیات غالب تھا اور علم انسانیت کی ساری ترقی مسلم علماء و حکماء کے تحت ہو رہی تھی۔ پھر عصر حاضر کی حکمت، جب دنیا میں مغربی طرز حیات کا غلبہ ہے، کیوں ہوس کی آلہ کار بن گئی؟ یہاں غور کرنا چاہیے کہ حکمت یعنی علم کو محبت سے الگ کر دیا گیا ہے، جبکہ اسلام کے سلسلے میں علم و محبت کی ترکیب استعمال کی گئی تھی۔ اس سیاق و سباق میں اسلام کے مجموعہ علم و محبت کے مضمرات بہت زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ محبت یوں تو عشق کے معنی میں بہت ہی وسیع مفہوم کی حامل گویا ایک اصطلاح ہے لیکن سامنے کی بات یہ ہے کہ محبت کا تعلق آدمی کے ضمیر اور اخلاق و کردار سے ہے، جبکہ علم صرف دماغ، تصورات اور نظرئیے کی چیز ہے۔ لہٰذا شعر کا ایک فکر انگیز اشارہ یہ ہے کہ جدید مغربی تمدن میں پرورش پانے والی حکمت محبت سے خالی ہو کر تعمیر کی بجائے تخریب کا سرچشمہ اور الہ بن گئی ہے۔ مغربی ذہن و کردار کے اس نقص کو اگلا شعر تعین کے ساتھ واضح کر دیتا ہے اور تہذیب مغرب کے فساد کی جڑ کھود نکالتا ہے۔یہ شعر بتاتا ہے کہ مغربی سماج میں ایک طرف فسوں کار سیاسی تدبر کی چالیں ہیں اور دوسری طرف تباہ کار سرمایہ داری کی گھاتیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی سیاست کا مقصود انسانی ذہن و کردار کی تعمیر و ترقی نہیں ہے، صرف معاشی استحصال اور عیاشی ہے۔ اسی لیے مغربی سماج میں سارا زور معیار رہائش پر ہے، نصب العین حیات پر نہیں اور حیات کا جونصب العین وہاں پیش کیا جاتا ہے وہ بھی معیار رہائش ہی پر مبنی اور اسی کے لیے ہے، لیکن شاعر کہتا ہے کہ فکر و نظر کی یہی خرابی مغربی تمدن کی اصلی کمزوری ہے جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہو وہ تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا، اس لیے کہ سرمایہ داری کے مقاصد حرس و ہوس اور طریقے استحصال و استبداد ہیں، جو ظاہری اور وقتی چمک دمک کے باوجود ایک سماج کو گھن کی طرح اندر سے چاٹ جاتے ہیں اور بالآخر اس کے زوال و انتشار کا باعث ہوتے ہیں، بعد کا شعر اس سلسلے میں یہ پتے کی بات بتاتا ہے کہ اصل چیز عمل ہے کردار ہے اخلاق ہے، فقط نظریات، تصورات اور فلسفے نہیں زندگی جنت یا جہنم عمل کے نتیجے میں بنتی ہے لہٰذا عمل کی نوعیت ہی انسان کی اصل فطرت کا راز آشکار کرتی ہے، آدمی کی سرشت نہ نوری ہے، نہ ناری ہے، نہ سراپا خیر نہ شر، وہ اپنے جسم خاکی کی قوتوں سے جیسا کام لے گا قدرت اس کو ویسا ہی انعام دے گی، اس کی فطرت میں خیر و شر دونوں کے مادے اور صلاحیتیں ہیں، اب یہ اس کے شعور و کردار کا امتحاں ہے کہ وہ جنت کی طرف جاتا ہے یا جہنم کی طرف یہاں جنت اور جہنم کے پیکر علامتی طور پر اپنے تمام دنیوی و اخروی معانی میں استعمال کئے گئے ہیں، اس طرح کہ ذہن بیک وقت ایک معنی سے دوسرے کی طرف منتقل ہوتا ہے اور ہوتا رہتا ہے۔ اب تک کا بیان عصر حاضر کے بنیادی مسئلے کی زبردست نقاشی ہے۔ اگلا شعر اس مسئلے کو حل کرنے کی فکر انگیز شاعرانہ دعوت مرد مومن کو دیتا ہے اس لیے کہ حیات کے اس گلستاں کے واسطے باد بہاری وہی ہے۔ چنانچہ اب اس کا کائناتی فریضہ ہے کہ باغ کے بلبل کو نغمے کا پیام دے اور غنچے کی گرہ کھول کر اسے شگفتہ کر دے تاکہ باغ حیات میں عطر بیز ہوائیں چلنے لگیں اور وہ نغموں سے معمور ہو جائے، جو باغ کی خصوصیت ہے، جبکہ عصر حاضر کے مغربی تمدن کے تدبر، سرمایہ داری، حکمت اور نمائشی تہذیب نے چمن زندگی کی بوباس ختم کر دی ہے اور ایک مرگ آسا سناٹا طاری کر دیا ہے، نہ کسی کے دل کی کلی یہاں کھلتی ہے، نہ کوئی روح سرشار ہو کر محو ترنم ہوتی ہے۔ آخری شعر یہ بشارت دیتا ہے کہ اب گلستان حیات کے نغمہ و خوشبو سے آباد ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے، اس لیے کہ تاریخ میں ایک بار پھر ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی اٹھی ہے اور اس چنگاری سے روشن ہو کر نیز اس کی روشنی پھیلاتے ہوئے اطلس قبایان تتاری روئے زمین کو اپنے علم و محبت کی جولاں گہ بنا چکے ہیں اور ایک معرکے میں انہوں نے مغربی اقوام کی متحدہ طاقت کو شکست دے دی ہے یہ گویا حق و باطل تعمیر و تخریب جنت و جہنم اور انسانیت و حیوانیت کا ایک علامتی مقابلہ تھا جس کا نتیجہ رحجان زمانہ کا پتہ دیتا ہے اور اس سے نوع انسان کے لیے ایک بہتر مستقبل کی نشاندہی ہوتی ہے جس میں حق، تعمیر، محبت اور انسانیت کا غلبہ ایک بار پھر ایشیا کے مرکز سے شروع ہو جائے گا۔ یہ نکتہ نہایت فکر انگیز ہے کہ جنگ عظیم اول کے بعد مغربی اتحادیوں کے مقابلے میں ترکی کی فتح کو محبت کی چنگاری سے تعبیر اور اس نور عشق کو ایشیا یا مشرق سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات، اور سر گزشت ملت بیضا سے اقوام زمین ایشیا کی پاسبانی کے ان نکتوں کے تسلسل میں ہے جو پچھلے بندوں میں پیش کیے جا چکے ہیں۔ ساتھ ہی اس شعر کے مفہوم میں ایک قدر زائد بھی ہے۔ ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی، اٹھنے کا پیکر مشرق کی نجات اور اقوام زمین ایشیا کی پاسبانی کے علاوہ یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ جب آج کی محبت سے خالی دنیا میں محبت کی ایک چنگاری کہیں سے اٹھتی ہے تو اب وہ شعلہ بنے گی اور پوری دنیا کو گرم و روشن کرے گی۔ اس طرح اسلام اور مسلمانوں کے تحت ایشیا یا مشرق کو عصر حاضر کے بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کا مرکز نور قرار دیا گیا ہے۔ یہ اس آفاقیت کے عین مطابق ہے جو طلوع اسلام کی ملی شاعری کا موضوع و مضمون ہے ایشیا کے دل میں دل کے ساتھ ساتھ مرکزی ایشیا کا مفہوم بھی مضمر ہے اطلس قبایان تتاری کا پیکر عسکریت کو شعریت کا لباس عطا کرتا ہے۔ ٹیپ کا شعر فارسی ہے جس میں دوسرا مصرع وادین کے درمیان حوالہ ہے: بیا پیدا خریدار است جان نا توانے را پس از مدت گزار افتادبر ما کا روانے را یہ شعر پچھلے تمام بندوں کا خلاصہ اور آخری بند کا جو پورا کا پورا فارسی میں ہے اور اس کی ٹیپ حافظ کا مشہور شعر بیاتا گل بیفشا نیم۔۔۔۔ ہے پیش خیمہ ہے۔ مطلب یہ کہ ایک مدت کے بعد کوئی کارواں اس اندھے کنوئیں پر آیا جس میں یوسف دوراں کو اس کے برادران انسانیت نے ڈال دیا اور بند کر رکھا تھا چنانچہ اس کے باوجود کہ یوسف نحیف و نزار ہے کوئی خریدار تو اس کا پیدا ہوا۔ اس تلمیح کے اشارات پر جتنا غور کیا جائے گا معانی کی تہیں کی تہیں کھلتی چلی جائیں گی اور عصر حاضر کے انسانی سماج میں ملت اسلامیہ کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اور ہونے والا ہے سب کا ایسا عبرت خیز اور فکر انگیز نقشہ نگاہوں کے سامنے مرتب ہو گا کہ ماضی و حال و مستقبل کو پوری تاریخ صرف ایک اشارے میں منقش ہوتی نظر آئے گی۔ اس مرقعے کا یہ نقش بھی خاص کر لائق توجہ ہے کہ ابھی کوئی قافلہ یوسف وقت کنوئیں سے نکل سکا ہے نہ کسی نے اس کی کوئی قیمت بازار حیات میں لگائی ہے، مگر یہ تصور ہی نشاط انگیز ہے کہ کسی بیاباں کے اندھے کنوئیں میں بند یوسف کے قریب خریداروں کا کوئی کارواں آیا تو اب چونکہ داستان یوسف کے اگلے مرحلے معلوم ہیں اس لیے مستقبل کی تمام آزمائشوں کے باوجود پیام امید یہ ہے کہ یوسف دوراں بالآخر تمام آزمائشوں میں کامیاب ہو کر پاک دامنی، بصیرت مندی اور حوصلہ و عزم کے ساتھ روئے زمین پر متمکن ہو گا اور عالم انسانیت کے قحط کو دور کر کے اس کی خشک فضاؤں کو سر سبز و شاداب کر دے گا۔ تاریخ کے کسی خاص لمحے کی یہ متعین نشاندہی زیر نظر تمثیلی تلمیح کی بڑی ہی نادر خوبی ہے شاعری کی تخیل میں تاریخ کا اتنا سچا عکس پکا نقش اقبال کے فن کا امتیازی کمال ہے۔ آخری بند نظم کا عروج ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری کا بھی ایک نقطہ عروج ہے۔ اس میں وہی سرمستی و رعنائی ہے جو اقبال کی شاعری خاص کر فارسی شاعری کی خصوصیت ہے اور اس کا پورا اظہار زبور عجم، پیام مشرق اور جاوید نامہ میں ہوا ہے۔ ’’ شمع اور شاعر‘‘ کی ابتدا ایک پورے فارسی بند سے ہوئی تھی اور ’’ طلوع اسلام‘‘ کی انتہا ایک پورے فارسی بند پر ہو رہی ہے۔ دونوں ہی بند اقبال کی فارسی شاعری کا دل آویز نمونہ ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف نظموں بشمول ’’ طلوع اسلام‘‘ میں اقبال کے فارسی اشعار اور دوسروں کے چیدہ اشعار پر ان کی پر لطف و پر خیال تضمینیں جابہ جا بکھری ہوئی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال نے اردو شاعری میں نہ صرف یہ کہ ایک نئے انداز سے فارسی کی عظیم روایات کو جذب کیا ہے بلکہ اردو پر فارسی کے لسانیاتی و جمالیاتی اثرات کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے۔ وہ غالب کی طرح اور ان سے ایک دو قدم آگے جا کر بیک وقت اردو فارسی کے عظیم ترین شاعر ہیں۔ ’’ طلوع اسلام‘‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک مکمل نظم ہے۔ عصر حاضر میں ’’ دنیائے اسلام‘‘ کے اس غروب کے بعد جس کا مرقع ’’ خضر راہ‘‘ میں کھینچا گیا تھا، طلوع اسلام کے مضمون پر اقبال نے اس کے ان تمام مضمرات و نکات کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے جو مشرق و مغرب کے تصادم، قدیم و جدید کے تضاد اور دین و دنیا کے تقابل سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے جدید مغربی سماج کا نسخہ بھی اسلامی توحید کی شکل میں تجویز کر دیا اور اس نسخے کے استعمال کے لیے ایک بار پھر مشرق کے مرکز سے ملت اسلامیہ کو دعوت عمل دی ہے، اس لیے کہ مرض کا منبع مغرب ہے جبکہ مشرق اسلام کے تحت سرچشمہ شفا پہلے ہی رہ چکا ہے اور اب اسے اپنے اسی نسخہ شفا کو دوبارہ دریافت کر کے دور جدید کے لیے اسی طرح استعمال کرنا ہے جس طرح اس نے اسے دور قدیم کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کو ایک ترتیب کے ساتھ مختلف بندوں میں اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ ہر بند دوسرے کے ساتھ مربوطط ہے، جبکہ ہر بند کے اندر متعدد اشعار بھی آپس میں ربط خیال رکھتے ہیں۔ یہ اشعار استعارات و علائم، تشبیہات و کنایات اور تلمیحات و تصاویر سے پر ہونے کے علاوہ ایک انتہائی مترنم آہنگ سے مملو ہیں۔ یہ نقوش کلام جزو عبارت بن گئے ہیں اور اپنے سیاق و سباق میں بہت ہی معنی آفریں اور خیال انگیز ہیں۔ بلاشبہ نظم کے خیالات و افکار پر اسلام چھایا ہوا ہے، لیکن اول تو اسلام کو ایک آفاقی نظریے اور انسان دوست تصور کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ملت اور مشرق کو باہم مترادف کر دیا گیا ہے اور مغرب کو مشرق کے سامنے ایک فریق سے زیادہ ایک مریض کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ جب نظم کا موضوع طلوع اسلام ہے تو بداہتہً و لازماً فنی اعتبار سے مضمون تخلیق اسلام ہونا ہی چاہیے تھا، ورنہ فکر و فن دونوں ناقص رہ جاتے۔ یقینا نظم کے مختلف بندوں میں خیالات کی تکرار ہے، خاص کر بعض اشعار میں اور بعض خیالات کو ایک سے زیادہ بندوں میں پیش کیا گیا ہے، لیکن منصوبہ نظم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارتقائے خیال کے مراحل اور اظہار مقصد کے پیچ و ختم ہیں، شاعر بعض خیالات کو زیادہ اہم سمجھتا ہے، لہٰذا ان کی توسیع و تفصیل کرتا ہے اور بعض خیالات کے مختلف پہلوؤں کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف سیاق و سباق میں مختلف انداز سے ظاہر کرتا ہے اس طرح تنوع اور پیچیدگی کی وہ صورت نمودار ہوتی ہے جو ہر بڑے موضوع اور بڑی تخلیق کا خاصہ ہے۔ جہاں تک سیاسی بیانات اور خطابت کا تعلق ہے، دونوں کو شاعری کے رنگ و آہنگ میں ڈبو دیا گیا ہے۔ نتیجۃ تو کوئی کرختگی پیدا ہوتی ہے نہ تکدر بلکہ ایک آگہی، ایک جوش اور ولولہ عمل ابھرتا ہے۔ یہ فنی حسن اور تاثیر مشرق و مغرب کی کسی سیاسی و مقصدی شاعری میں اس درجہ کمال پر نظر نہیں آتی جو اقبال کی شاعری میں ہے۔ ’’ طلوع اسلام‘‘ بانگ درا کی شاعری کا وہ عروج ہے جو اقبال کی شاعری کے نقطہ عروج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بال جبریل میں ’’ مسجد قرطبہ‘‘ اقبال کی بہترین اردو نظم ہے۔ اور موضوعاتی نظم نگاری کی حدود میں دنیائے شاعری کی بہترین تخلیق ہے۔ اس پیمانے پر جو ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کا ہے دنیا کے کسی شاعر کی کوئی تخلیق اقبال کی نظم کے مقابلے میں نہیں پیش کی جا سکتی۔ ’’ طلوع اسلام‘‘ ایسی عظیم فنی تخلیق کی پیش رو یا اس کا ثمر پیش رس ہے۔ دونوں کا موضوع ایک برتاؤ ایک اثرایک ہے فرق صرف مدارج کا ہے۔ جو نغمہ شاعری ’’ شمع اور شاعر‘‘ سے شروع ہوا اور’’ طلوع اسلام‘‘ میں تیز ہو گیا وہی ’’ مسجد قرطبہ‘‘ میں اپنے عروج و کمال پر پہنچ گیا جبکہ اس کے گرد فن کے راگوں کا ایک پورا سلسلہ ہے جو نمایاں ترین صورتوں میں ’’ تصویر درد‘‘ اور’’ خضر راہ‘‘ سے ’’ ذوق و شوق‘‘ اور’’ساقی نامہ‘‘ تک پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ نقطہ کمال و عروج کے بعد بھی ’’ شعاع امید‘‘ اور’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں اسی نغمے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ اقبال کے نظام فن میں ’’ طلوع اسلام‘‘ دیباچہ کمال ہے۔ ٭٭٭ بال جبریل بال جبریل کی نظمیں اردو میں اقبال کے تمام فکری تصورات اور فنی تصاویر کا بہترین مرکب اور آب مقطر ہیں۔ اس مجموعے میں وطنیت، اسلامیت اور انسانیت کے موضوعات پر الگ الگ تخلیقات نہ ملیں گی، نہ فطرت و محبت کے مضامین پر کوئی اہم تخلیق علیحدہ پائی جائے گی۔ لیکن ان سبھی موضوعات و مضامین کے انضمام و اوغام سے روپذیر ہونے والی متعدد اہم اور عظیم نظمیں بال جبریل کو غزلوں کی طرح نظموں کا بھی بہترین اردو مجموعہ کلام ثابت کرتی ہیں۔ اس مجموعے میں اقبال کی تین بڑی نظمیں۔۔۔۔۔ مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ساقی نامہ۔۔۔ اقبال کی شاعری کا اوج کمال اور دنیائے شاعری کی معراج ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد چھوٹی نظمیں بھی بہت ہی اہم اور شاندار ہیں، مثلاً لالہ صحرا، شاہین، روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، زمانہ طارق کی دعا، فرمان خدا، لینن خدا کے حضور میں، اذاں، جبریل و ابلیس۔ یہ بڑی چھوٹی نظمیں، دوسری متعدد بہت چھوٹی چھوٹی اور کچھ متوسط نظموں کے درمیان جو سب اپنی اپنی جگہ کامیاب اور دلکش ہیں، اس طرح ابھری ہوئی ہیں کہ پورا مجموعہ ایک خوبصورت اور مستحکم عمارت کی مانند استوار اور شاندار نظر آتا ہے۔ چنانچہ مجموعے کی تمام نظموں کا باہمی رشتہ ایک عمارت کے ستون و سقف اور گنبد و مینار کا معلوم ہوتا ہے، ہم اردو شاعری کے اس تاج محل کا جائزہ بالکل معمولی اور مختصر نظموں سے شروع کرتے ہیں، تاکہ جس مادے اور مسالے سے ایک عظیم فن کی یہ حسین عمارت تعمیر ہوئی ہے اس کا کچھ اندازہ قارئین کو ہو سکے۔ الارض للہ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار؟ خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب؟ موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟ وہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں صرف چار اشعار کی اس نظم میں فطرت، مذہب، معیشت اور سیاست کو اس طرح شیر و شکر کیا گیا ہے کہ ان عناصر کو جدا جدا کر کے دیکھنا مشکل ہے یہ ایک مرکب طلسم ہے اور شاعری کا گہرا جادو۔ تین اشعار کے چھ مصرعے چھ سوالات اس انداز سے، اس رنگ و آہنگ اور تصویر و ترنم کے ساتھ کرتے ہیں کہ ایک طرف فطرت کی بالکل ارضی، ٹھوس اور حقیقت پسندانہ تصویر نگاہوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے اور دوسری طرف معرفت رب کا نقش دل پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس تاثر فن کی خوبصورتی یہ ہے کہ جواب سے پہلے انداز سوال ہی دل میں جواب کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ مٹی کی تاریکی میں بیج کو پالنے والا، دریاؤں کی موجوں سے سحاب اٹھانے والا، پچھم سے باد سازگار کو کھینچ کر لانے والا، خاک اور نور آفتاب کا مالک، موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب بھر دینے والا اور موسموں کو خوئے انقلاب سکھانے والا۔۔۔۔ نہ تو کوئی انسان ہے نہ انسان کی سائنس اور صنعت بلکہ صرف اور صرف باری تعالیٰ ہے، لہٰذا بالکل منطقی طریقے پر آخری شعر میں زمین دار کو خبردار کیا جاتا ہے کہ یہ زمین جس پر انسان کو غذا فراہم کرنے کے لیے قدرت الٰہی کی جانب سے یہ ساری تیاریاں ہوتی ہیں کسی انسان کی آبائی جاگیر نہیں، خدا کی ملکیت ہے اور جس انسان کے قبضے میں اس کا کوئی قطعہ آ گیا ہے اسے اشارہ ٔ جواب یہ ہے کہ اس حصے کو اپنے ہاتھوں میں خدا کی امانت اور ایک نعمت سمجھ کر اس کا حق اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ہر مصرع فطرت کی ایک تصویر اور فن کا ایک پیکر ہے۔ نہایت لطیف، نفیس، دبیز اور حسین، زراعت اور خوراک سے متعلق ایک ایک عنصر فطرت کو لے کر شاعرانہ تصاویر میں ڈھال دیا گیا ہے۔ شاعر کے بیانات صرف فطرت کے متعلق ہیں لیکن قاری خود معرفت کے سبق لیتا ہے۔ یہ فن کی ایمائیت ہے۔ ایک تاباں و درخشاں جلوۂ فطرت نگاہوں کے سامنے رونما ہوتا ہے اور یہ جلوہ ہی سوئے خلوت گاہ دل دامن کش انسان ہو جاتا ہے۔ ذہن انسانی کی یہ حقیقت باشعور شاعر کو معلوم ہے،لہٰذا وہ صرف سوالات و تصاویر پر اکتفا کرتا ہے۔ لیکن آخری شعر حسن فطرت، جمال معرفت اور لطف شعریت کے اس طلسم کو توڑ کر بالکل ایک سیاسی و معاشی جواب سراسر خطیبانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے ذہن کو ایک جھٹکا اور دھکا لگتا ہے اور قاری جمالیات کی نرم فضا سے نکل کر سیاسات کی گرم ہوا میں آ جاتا ہے، شبنم سے شعلہ پھوٹنے لگتا ہے۔ یہ ایک ڈرامائی انداز خبرداری ہے، یقینا اس سے ایک طلسم ٹوٹتا ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو دوسرا طلسم ابھرتا بھی ہے، ایک تمثیل کی طرح منظر بدل جاتا ہے، لیکن کہانی وہی رہتی ہے، پہلے اس کا ارتقا تھا اور اب انجام در پیش ہے۔ یہ انجام فطری اور منطقی ہے، سوالوں کی نوعیت سے ہی جواب کی کیفیت عیاں تھی، یقینایہ فطرت و سیاست جیسے متضاد عناصر کا میل ہے اور دونوں کو ملانے والا ایک تیسرا، درمیانی لیکن بنیادی، لیکن عنصر مذہب اور اس کا پیام معرفت ہے۔ بات جدید ترین سیاسی معاشیات کی ہے مگر محرک و مقصود قدیم دینی تصور ہے۔ اس ترکیب خیال اور ترتیب ہیئت سے تخلیق میں ایک زور اور اثر پیدا ہوتا ہے اور موضوع مع اپنے مضمرات کے نقش دل ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں ایک اثر اشتراکی احساس بھی دریافت کیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ انفرادی ملکیت زمین کا انکار نظم کا بنیادی تصور ہے، لیکن یہ نکتہ بھی یاد کر لینا چاہیے کہ یہاں انفرادی ملکیت کے مقابلے پر اجتماعی ملکیت کا تصور پیش نہیں کیا گیا ہے، بلکہ صاف صاف ربانی ملکیت اور انسانی امانت کا مرکب و جامع تصور موضوع تخلیق ہے، لہٰذا مجموعے کی سب سے زیادہ سیاسی و معاشی نظم ’’فرمان خدا‘‘ کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے، جب کہ اسی موضوع پر دوسری مشہور نظم ’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ باضابطہ اس روشنی کا اقرار عصر حاضر کے سب سے بڑے اشتراکی و معاشی سیاستداں سے کراتی ہے۔ محبت شہید محبت نہ کافر نہ غازی محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی وہ کچھ اور شے ہے محبت نہیں ہے سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی نہ محتاج سلطان، نہ مرعوب سلطاں محبت ہے آزادی و بے نیازی مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے یہ آدم گری ہے وہ آئینہ سازی محبت کے موضوع پر نظم کا ارتقائے خیال مکمل اور اشعار کی ہم آہنگی کامل ہے، اس میں بعض استعاروں اور علامتوں کے باوجود جو عبارت میں گھلے ملے ہیں، کمال فن پیکر تراشی پر نہیں، نکتہ وری اور دقیقہ سنجی پر مبنی ہے، بس منتخب الفاظ میں واضح خیالات ایک ترتیب کے ساتھ مربوط و منطقی انداز میں پیش کر دئیے گئے ہیں اور حسن شاعری مترنم روانی بیان سے عیاں ہے، یہ روانی ایک معنی آفریں تقابل الفاظ پر مشتمل ہے۔ ’’ نہ کافر نہ غازی‘‘ نہ ترکی نہ تازی، غزنوی کو ایازی، نہ محتاج سلطان نہ مرعوب سلطان، آزادی و بے نیازی، یہ آدم گری وہ آئینہ سازی، لفظیات کا ایسا استادانہ استعمال اقبال کی خاص فن کاری ہے۔ ان کے تفکر میں تصورات کی ایک حسین کشیدگی اتنی شدید ہے کہ اس کا اظہار اکثر الفاظ و تصاویر کی کشاکش میں ہوتا ہے اور اس سے کلام میں ایک کشش، ایک دل کشی اور دلکشائی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ذہانت کی شعریت ہے جس میں دنیا کا کوئی شاعر اقبال کا حریف نہیں، لیکن اس ذہانت کو شعریت کا سوز و گداز عطا کرنے والا جذبہ دل بھی اتنا ہی قوی ہے جتنا تفکر دماغ، کشیدگی کے باوجود یہ ایک ہم آہنگی ہے اور آہنگ نغمہ کا باعث، محبت کے موضوع پر اقبال کی بڑی بڑی نظمیں بھی ہیں۔ بال جبریل کی تینوں عظیم نغموں میں مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، ساقی نامہ میں یہی موضوع کار فرما ہے۔ جدائی سورج بنتا ہے تار زر سے دنیا کے لیے ردائے نوری عالم ہے خموش و مست گویا ہر شے کو نصیب ہے حضوری دریا، کہسار، چاند، تارے کیا جانیں فراق و نا صبوری شایاں ہے مجھے غم جدائی یہ خاک ہے محرم جدائی چھوٹی بحر میں تین اشعار اور چھ مصرعے فطرت کی ایک تصویر پیش کرتے ہیں۔ جس میں محبوب ازل کے ساتھ مظاہر فطرت کے وصال اور اس سے پیدا ہونے والے سکون کا ایک طلسماتی نقشہ ابھرتا ہے، لیکن چوتھا اور آخری شعر محبوب حقیقی سے انسان کے فراق کا اظہار کرتا ہے۔ وصال کے پس منظر میں فراق کا یہ منظر فطرت و انسانیت کا فرق واضح کرتا ہے۔ اس تضاد میں باہمی رقابت کا احساس نمایاں ہے۔ مظاہر فطرت، فراق و ناصبوری، نہیں جانتے جبکہ خاک آدم، محرم جدائی ہے اور غم جدائی ہی اس کے شایان شان ہے، اس لیے کہ قدرت الٰہی کا مقصد اور تزئین کائنات کا باعث یہی ہے۔ بہرحال فطرت و انسانیت کی رقابت دونوں کے درمیان ایک گہری اور وسیع ہم آہنگی کی غماز بھی ہے، اس لیے کہ دونوں کا منبع وجود اور مرکز نظر ایک ہی محبوب کا جمال جہاں آرا ہے اور اسی کی نسبت سے کوئی عاشق شاد کام وصال ہے اور کوئی مبتلائے فراق۔ اس طرح ظاہری تضاد و اختلاف کے باوجود تمام مخلوقات کے درمیان ایک رشتہ اتحاد و اتفاق ہے۔ جدائیوں کے اندر آفاقی وحدت کا یہ اشارہ حسین بھی ہے، نتیجہ خیز بھی۔ اس کو فطرت نگاری قرار دینا مبالغہ ہو گا، اس لیے کہ موضوع فطرت کا وصال و سکون نہیں، آدمی کا فرق و اضطراب ہے اور موضوع کی شدت تاثیر میں بے پناہ اضافے کے لیے ایک متضاد تمہید مرتب کی گئی ہے۔(روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، اور ذوق و شوق میں جدائی کے تصور پر دنیا کی بہترین شاعری کے دو کامل نمونے پائے جاتے ہیں) فرشتوں کا گیت۔ فرمان خدا یہ ایک تمثیلی نظم ہے اور مکالمے کی شکل میں۔ پہلے منظر میں فرشتے خداوند تعالے کے حضور میں ایک گیت گا کر عضر حاضر کے تلخ حقائق کا ایک مرقع پیش کرتے ہیں: عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی خلق خدا کی گھات میں رند دفقیہ و میر و پیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گردا ابھی، خواجہ بلند بام ابھی دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام عشق گرہ کشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی جوہر زندگی ہے عشق، جوہر عشق ہے خودی آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی عقل و عشق، رند و ققیہہ و میر و پیر، امیر و فقیر، بندہ و خواجہ، دانش و دین و علم و فن سب بندگی ہوس، ہو کر رہ گئے ہیں، انسان بندگی رب کا سبق فراموش کا چکا ہے۔ لہٰذا نقش گر ازل کا سب سے حسین نقش۔۔۔۔۔۔ انسان۔۔۔۔ ابھی نامکمل، ناقص اور خام ہے۔ یہ عصر حاضر میں زوال انسانیت کی انتہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج کی زندگی سے جو ہر عشق رخصت ہو چکا ہے، چنانچہ خودی بھی مفقود ہے، ورنہ حیات کی یہ شمشیر آب دار غیر اللہ کے خس و خاشاک کو کاٹ کر رکھ دیتی اور توحید خالص کا بول بالا ہوتا، جو انسان کا نصب العین اور منزل مقصود ہے۔ یہ گیت اپنے آہنگ کے لحاظ سے اول تا آخر ایک نغمہ ملائک ہے اور فرشتوں کے کردار کے عین مطابق ہے۔ اس مناجات کا جواب دربار خداوندی سے ایک فرمان کی شکل میں نازل ہوتا ہے: اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو حق رابسجودے، صنماں رابطوافے بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو خدا کی آواز میں فطرۃً ایک جلال اور تحکم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فرمان خدا پیغام اشتراکیت پر مبنی ہے اور اس میں اشتراکی سیاست کی انقلابی للکار ہے۔ اٹھو میری دنای کے غریبوں کو جگا دو، کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو، جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو، لیکن سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ سامراج کے خلاف بھی احکام اس نظم میں ہیں اور آزادی و غلامی کی جنگ میں ضعیف و قوی کے تصادم اور ان کے انقلاب حال کا اشارہ بھی واضح طور پر موجود ہے۔۔۔۔۔۔ گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقین سے کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو، اس کے علاوہ بندہ و خدا کے درمیان حائل ہونے والے پروہتی نظام اور اس کے مذہبی ہتھ کنڈوں کے خلاف بغاوت کا پیام بھی ہے۔۔۔۔ کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے، پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو، حق رابسجودے صنماں را بطوافے، بہتر ہے چراغ حرم و دیز بجھا دو۔ لیکن خدا نے در حقیقت انہدام حرم کا حکم نہیں دیا ہے۔ اس کا فرمان تطہیر حرم کے لیے ہے، کعبے کو ڈھانے کے لیے نہیں، اسے بتوں سے پاک کرنے کے لیے ہے۔ بیت اللہ کو فنا کرنے کے لیے نہیں، اس کی اصلی سادگی کو بحال کرنے کے لیے ہے۔۔۔۔ میں ناخوش و بے زار ہوں مر مر کی سلوں سے، میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو، اس سلسلے میں سب سے بصیرت افروز انکشاف یہ ہے کہ رب العالمین کا سارا عتاب، تہذیب نوی، پر ہے جسے وہ کارگہ شیشہ گراں قرار دیتا ہے۔ اور چونکہ یہ لادین، ضمیر فروش، انسانیت کش، خدا فراموش تہذیب مغرب کا بدترین تحفہ عصر حاضر کو ہے لہٰذا شاعر مشرق کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی دینداری، باضمیری، انسان دوستی، اور خدا پرستی کے جذبے سے کام لے کر فتنہ ساماں تہذیب نوی کو غارت کر دے: تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے، کا مطلب وہی ہے جو بانگ درا کی ایک غزل کے اس مصرعے کا ہے، جو شاخ نازک پر آشایانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔ یا بال جبریل کی ایک غزل کے اس مصرعہ کا ہے، چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ، اور دونوں مصرعوں کے ساتھ یہ مصرعے لگے ہوئے ہیں تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی، وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس، دونوں مصرعے مل کر دونوں شعروں کے مطالب و مضمرات واضح کر دیتے ہیں، یعنی ظاہری آب و تاب کے باوجود مغرب کی ابھاری ہوئی تہذیب جدید بالکل سست بنیادی ہے، لہٰذا اول تو یہ اپنے آپ ڈھے جائے گی، دوسرے ایک معمولی سا دھکا بھی اسے گرا دے گا، جیسا کہ جنگ عظیم اول کے بعد بالکل عیاں ہو چکا ہے۔ چنانچہ آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو، کا صریح مفہوم یہ ہے کہ تہذیب نوی کی کارگہ شیشہ گراں پر مشرق سے ضرب لگائی جائے اور اگر عقل اس چمکتی دمکتی گار گاہ سے مرعوب ہے تو آگے بڑھ کر جنوں اپنی مشہور زمانہ جرأت رندانہ سے کام لے اس کی ایک ہی ٹکر اس کارگاہ کے پرزے اڑا دے گی۔ اس طرح قطعی طور پر آشکارا ہے کہ فرمان خدا، اشتراکیت کی جدلیاتی مادیت اور طبقہ وارانہ جنگ کا پیغام نہیں، عصر حاضر کے عالم انسانیت میں ایک ہمہ جہت، بنیادی اور مکمل انقلاب کا فرمان ہے، جو معاشی، سیاسی، مذہبی، معاشرتی سطحوں پر کامل تغیر کا متقاضی ہے اور تغیر و انقلاب کے لیے پتے کی بات یہ ہے کہ مرکز عمل مشرق کو قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ اشتراکی روس ایک مغربی خطہ اور تہذیب نوی کا مرکز ہے۔ اقبال کو بلاشبہ مزدوروں، کسانوں، مجبوروں، محروموں اور مظلوموں کے ساتھ ہمدردی ہے اور وہ سرمایہ داروں، زمین داروں، جابروں، دولت مندوں اور ظالموں کے استبداد و استحصال کا خاتمہ بھی چہاتے ہیں، لیکن جس نصب العین اور طریق کار کے تحت وہ آج کی دنیا میں انقلاب کے داعی ہیں وہ اشتراکیت کا نہیں، اسلام کا ہے۔ اس لیے کہ اسلام کائنات و حیات کی فطرت و حقیقت ہے اور اشتراکیت جعل و فریب ’’ فرمان خدا (فرشتوں سے)‘‘ کا مفہوم نظم کے حصہ اول ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ سے ہی واضح ہو جاتا ہے۔ فرشتوں کا کلام ختم ہوا تھا اس شعر پر: جوہر زندگی ہے عشق، جوہر عشق ہے خودی آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی اور خدا کا کلام ختم ہوتا ہے اس حکم پر: تہذیب نومی کارگہ شیشہ گراں ہے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو عشق خودی اور جنوں کی تابانی اشتراکیت کی محبت کش، بدمست خرد پرستی میں کہاں؟ بہرحال اس مکالمہ ملائکہ و خدا میں دونوں کردار اصول تمثیل کے مطابق اپنا اپنا کردار اپنی اپنی آواز میں ادا کرتے ہیں، اسی لیے گیت میں جمال ہے اور فرمان میں جلال۔ یہ ایک چھوٹا موٹا شکوہ و جواب شکوہ ہے۔ اس میں فرشتوں کا لہجہ، بخلاف شکوہ انسانی کے، مناجاتی ہے اور صداؤں کے میل تال سے محسوس ہوتا ہے کہ گیت کسی ایک فرد کی نہیں پوری جماعت کی آواز ہے، اسی لیے اس میںایک گونج ہے جبکہ دوسری طرف خدائے ذوالجلال کی آواز میں گرج ہے۔ اس طرح حروف میں اصوات کو منقش کرنا، بڑی ہی باریک بیں فن کاری کا کارنامہ ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی چابکدستی بے خطا ہے اور انہوں نے روایتی ردیف و قافیہ سے نغمہ آفرینی کا جو کام لیا ہے اس سے مشرقی عروض شاعری کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اشعار اقبال جس جمال و کمال کے ساتھ معانی کے ارتعاشات کو لفظ و تراکیب اور ردیف و توانی کی صداؤں میں مرتسم کرتے ہیں اس سے کلام میں ایک طلسماتی فضا پیدا ہو جاتی ہے اور افسون نغمہ قاری یا سامع کے ذہن پر طاری ہو جاتا ہے لیکن یہ سحر ذہن کو مدہوش کرنے کی بجائے غیر معمولی طور پر روشن کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ ہر نغمہ کسی نکتہ پر مبنی ہوتا ہے اور ترنم نخیل کا وسیلہ اظہار ہے۔ ترنم کے ساتھ ساتھ چند تصویریں بھی ہیں۔۔۔۔ نقش گر، کوچہ گرو، بلند بام، گرہ کشا، تیغ تیز، پردگی نیام، کنجشک، شاہیں، کارگہ شیشہ گراں یہ تصویریں معنی آفریں اور خیال انگیز ہیں، متعلقہ تصورات کی عکاسی کے لیے ان کی موزونی اپنے آپ واضح ہے۔ ہیئت نظم بہت ہی مربوط و متناسب اور چست ہے، گیت کے مصرعے پہلے مصرعے سے فرمان کے آخری مصرعے تک ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں، خاتمے کے آداب جنوں اسی عقل و عشق کے لیے ہیں جن کا ذکر ابتدا میں ہوا تھا۔ ٭٭٭ لینن خدا کے حضور میں ’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ ایک دلچسپ اور فکر انگیز تخلیق ہے، یہ ایک کردار اور اس کے یکطرفہ مکالمے کی تمثیل ہے۔ نوعیت نظم کے لحاظ سے ابتدا میں ایک مناسب موضوع تمہدی ہے جس میں متعلقہ کردار اور کے ماحول کا پس منظر بڑی خوبصورتی سے مرتب ہوتا ہے: میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات محرم نہیں فطرت کے سرد و ازلی سے بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات اس قسم کے اشعار کے بعد اصل مکالمہ شروع ہوتا ہے اور موجودہ سیاست و معیشت نیز معاشیات کے سوالات پیش کیے جاتے ہیں، جن میں خاص کر سامراج، سرمایہ داری، میکانکی صنعت و حرفت، بے روح سائنس، بے دینی اور بد اخلاقی پر تنقید ہے اور مغربی تمدن و تہذیب کی اندرونی کمزوری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ چند جھلکیاں اس سیر حاصل تبصرے کی یہ ہیں: مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں مسجد سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات آخری دو شعروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ لینن کے نہیں اقبال کے خیالات ہیں۔ لیکن یہی بات بعض دوسرے اشعار بلکہ پورے طرز کلام اور انداز فکر کے متعلق، جن کا اظہار نظم میں ہوا ہے، بہ آسانی کہی جا سکتی ہے، اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ اقبال نے لینن کو خدا کے حضور کھڑا کر دیا ہے اور اس کی تقریر آخرت میں ہو رہی ہے، جب دنیا کے تمام حقائق پر پڑے ہوئے پردے اٹھ چکے ہیں، سب سے بڑھ کر نگاہ پر پڑا ہوا پردہ ہٹ چکا ہے، لہٰذا نگاہ روشن اور حقائق آشکار ہیں، بلاشبہہ یہ اقبال کی نظر ہے جو واقعات نظم کو ایسے زاویے سے دیکھ رہی ہے کہ سب چیزوں کی اصلیت عیاں ہو گئی ہے اور اصلیت کا تصور بھی اس زاویہ نظر کا آفریدہ ہے۔ لیکن شاعری اور تمثیل دونوں میں فن کار کا ہی نقطہ نظر ہر حال میں کام کرتا ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا لینن کے ملفوظات اس کے ماحول اور موقف سے گہرا تعلق نہیں رکھتے؟ اس سوال کا تعاقب اور اس کے جواب کا تجسس واضح کرتا ہے کہ لینن کی پوری گفتگو اس کے زمانے اور نظریے کے لحاظ سے بالکل حقیقت پسندانہ ہے، فرق بس یہ ہے کہ اشتراکی لینن عالم آخرت میں پہنچ کر، جہاں سے اس کی آواز آ رہی ہے، مشرف بہ اسلام ہو گیا ہے: اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات اسی شعر سے نظم کا آغاز ہوتا ہے اور کردار کی ساری گفتگو اسی مفروضے پر مبنی ہے کہ حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات، بعد کے دو اشعار بھی تمہید مکالمہ ہی میں اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں: آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے تو خالق اعصار و نگار ندۂ آفات آگے چل کر یہ سوال بھی کم حقیقت افروز نہیں: وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود؟ وہ آدم خاکی کہ جو ہے یزر سماوات؟ واقعہ یہ ہے کہ اقبال نے لینن کی کردار نگاری بڑی ہمدردی کے ساتھ کی ہے اور اس کی تاریخی شخصیت کو بہت ہی اچھی روشنی میں پیش کیا ہے، نظم کا ماحصل یہ ہے کہ لینن نے مغربی سامراج کے لادین استبداد و استحصال کے خلاف جو بغاوت کی وہ بالکل بجا تھی اور اس نے وقت کی ایک اہم ضرورت پوری کی لیکن ایک انسان ہونے کے سبب اس کے ذہن کی کچھ حدود تھیں، چنانچہ وہ اپنے ماحول سے آگے نہ دیکھ سکا بلکہ ماحول کے خلاف رد عمل میں اتنا محو رہا کہ اس نے کسی مثبت تصور پر غور ہی نہیں کیا اور ساری عمر اپنے معاشرے کے نقائص کی نفی میں لگا رہا، کلیسا، سامراج اور سرمایہ داری۔۔۔۔ مغرب کے مذہبی، سیاسی اور معاشی اداروں نے مل کر لینن کو اپنے سماج سے مایوس کر دیا اور اس نے پوری شدت، غلو اور انتہا پسندی کے ساتھ اس میں انقلاب کا بیڑہ اٹھایا۔ لینن کا پورا مکالمہ اسی انقلابی موقف سے ہے اور بالکل مطابق کردار ہے، نظم کے آخری دو شعر اسی لینن کے بالکل موزوں اور مناسب حال اقوال ہیں: تو قادر دعا دل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات آخری شعر میں روز مکافات کی دہائی اور پہلے شعر میں قادر و عادل کا خطاب منصوبہ نظم اور ارتقائے خیالی کے اعتبار سے کسی طنز پر نہیں، ایک حقیقت پر مبنی ہے، اس لیے کہ لینن کو روز مکافات کا یقین ہے اور وہ قانون مکافات کا عمل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، چنانچہ محولہ بالا دونوں اشعار سے قبل وہ پیش گوئی سی کرتا ہے: آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات ایک سیاسی نظم میں شاعری کی جتنی تصویریں اور ترنم کی جتنی تانیں جمع ہو گئی ہیں تفکر کو تخلیق بنانے کے لیے کافی ہیں، کردار نگاری میں حقیقت پسندی، مکالمہ نگاری میں نکتہ وردی، مناسب تمہید، مربوط ارتقا، موزوں خاتمہ۔۔۔۔۔ سب اجزا مل کر ایک کل کمی ترتیب کرتے ہیں۔ اس کل کی نتیجہ خیز تشکیل میں موضوع کی مکمل آگاہی کے ساتھ کردار کے لیے ہمدردی بھی ایک موثر رول ادا کرتی ہے۔ ’’ نپولین کے مزار پر‘‘ اور مسولینی جیسی نظمیں بھی وقت کی نمایاں شخصیتوں اور ان سے وابستہ تصورات و واقعات کی بہت موثر نقاشی کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں فن کا یہ نکتہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اقبال کسی موضوع کو اس کی حدود ہی میں لیتے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی اس کے حالات کے لحاظ سے کرتے ہیں، مثلاً مسولینی پر بال جبریل کی نظم زمانہ تخلیق تک کے قائد اطالیہ کی تصویر کشی کرتی ہے، جبکہ ضرب کلیم میں مسولینی اور ابی سینیا جیسی تخلیقات مغرب کے دوسرے جباروں کے درمیان ابھرنے والے آمر اطالیہ اور اس کے سامراجی عزائم کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ یہ ایک مفکر کی انصاف پسندی کے ساتھ ہی ایک فن کار کی حقیقت پسندی بھی ہے۔ اس عدل و حق پر مبنی فن کاری کی جمالیات کے یہ جلوے دیکھئے: راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز جوش کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز (نپولین کے مزار پر) ٭٭٭ یہ محبت کی حرارت، یہ تمنا، یہ نمود فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب فیض یہ کس کی نظر کا ہے؟ کرامت کس کی ہے؟ وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب! (مسولینی) طارق کی دعا شخصیات کی شاعرانہ کردار نگاری اور ان کے مخصوص افکار کو فنی پیکروں میں ڈھالنا اقبال کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ اس قسم کی شخصی نظموں سے اقبال کی شاعری میں تمثیل کے عناصر کا سراغ ملتا ہے اور ان کی قوت تمثیل نگاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ سلطان ٹیپو کی وصیت ’’ ضرب کلیم‘‘ کی طرح ’’ طارق کی دعا‘‘ بھی ایک ایسی ہی نظم ہے، جس کی شاعری اور فن کاری اقبال کے خاص افکار کے باوصف ہر صاحب ذوق کے لئے لائق مطالعہ ہے: یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی وہ نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی وہ عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خون عرب سے کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا خبر میں، نظر میں، اذان سحر میں طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے اس نظم کو پڑھتے وقت ہرگز نہ بھولنا چاہیے کہ یہ ایک اہم تاریخی مرحلے پر ایک تاریخ ساز کا ملفوظ ہے۔ یہ دعا ’’ اندلس کے میدان جنگ میں‘‘ کی گئی تھی جب اسلام پہلی بار مشرق کی حدود سے آگے بڑھ کر مغرب کی طرف فاتحانہ بڑھ رہا تھا اور اسلامی تصور کے تحت ایک عالمی اوربین الاقوامی حکومت کی داغ بیل پڑ رہی تھی، لہٰذا اس انقلابی موقع پر اسلام کے بہترین سپاہی نے گویا پوری دنیا کے سامنے اسلامی نظریہ حیات کا ایک نغمہ پیش کیا۔ بلاشبہ یہ ایک رجز ہے، لیکن غیر اسلامی تصورات کے تحت دنیا کی ساری جنگوں کے رجزوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ نکتہ نظم کے اس لہجے اور آہنگ سے بھی نمایاں ہے جو سراسر مناجات کا ہے اور اس میں لڑائی کی گھن گرج کی بجائے ایک دینی شعور اور شاعرانہ احساس کا سوز و گداز ہے۔ اندلس اقبال کا مجوب موضوع ہے جس پر ایک مستقل نظم ’’ ہسپانیہ‘‘ کے عنوان سے زیر نظر نظم سے قبل اور متصل اس طرح درج ہے گویا ’’ طارق کی دعا‘‘ کا پس منظر اور تمہدی ہے پھر ہسپانیہ سے قبل و متصل ’’ عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت‘‘ کی حسین دل آویز شاعری ہے اور اس سے بھی پہلے قید خانہ میں معتمد کی فریاد کے عنوان سے ہسپانیہ کے ایک علاقے اشبیلیہ کے ایک مفتوح بادشاہ کے حسرت انگیز احساسات ہیں، اور سب سے پہلے، سب سے بڑھ کر ’’ مسجد قرطبہ‘‘ (مع تمہدی دعا) کی بے مثال شاعری اور بے نظیر فن کاری ہے۔ مسجد قرطبہ میں لکھی گئی اقبال کی دعا اور’’ اندلس کے میدان جنگ میں‘‘ کی گئی’’ طارق کی دعا‘‘ کا موازنہ فنی اعتبار سے کیا جائے تو بحیثیت فن کار اقبال کی بے خطا حیات اور زبردست جمالیات کا کمال نظر آئے گا۔ اقبال کی دعا ایک مفکر، عارف اور شاعر کا اظہار خیال ہے اور طارق کی دعا ایک مجاہد، سپاہی اور فاتح کا بیان ہے، اور دونوں اپنی اپنی جگہ کامیاب ، دلکش اور خیال آفریں ہیں۔ اذان کرداروں کے خاکے اور مواقع کے مرقعے کے علاوہ اقبال ایک پورا تخیل مطلقاً تمثیلی انداز میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ تمثیل کے ختم ہوتے ہی تفکر کی ایک دنیا آباد ہو جاتی ہے اور بزم خیال بصیرت افروز نقوش سے آراستہ ہونے لگتی ہے۔ بشرطیکہ قاری کو موضوع سے ہمدردی ہو یا کم از کم وہ موضوع کا تصور کرنے کی صلاحیت اور فن سے فن کے لیے بھی لطف لینے کا ذوق جمال رکھتا ہو۔ ملاحظہ ہو یہ نظم: اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟ کہنے لگا مریخ، اوافہم ہے تقدیر ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فنے کو سزاوار زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں کیا؟ اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار؟ بولامہ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی تم شب کو نمودار ہو، وہ دن کو نمودار واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لبریز وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دل کہسار (اذان) بداہتہً اس حسین پارہ فن میں ’’ اذاں‘‘ ایک علامت ہے بیداری انساں کی، اس کی بیدار بختی کی گرچہ محاورے میں یہ ایک اسلامی شعار بلکہ عبادت کی اصطلاح ہے، اور اس میں شک نہیں کہ بندگی کا مفہوم انسان کی علامتی بیداری میں بھی مضمر ہے، بہرحال دیکھنا یہ چاہیے کہ اس بندگی و بیداری کا شاعرانہ مفہوم کیا ہے اور اسے کس فنکارانہ اسلوب سے پیش کیا گیا ہے۔ افلاک میں زمین کی مخلوق کے متعلق مکالمہ ہو رہا ہے، رات کا وقت ہے اور رات اپنی تاریکی کی انتہا پر پہنچ کر سحر کے قریب پہنچ چکی ہے، چنانچہ ستارہ صبح چمک رہا ہے نجم سحر دوسرے ستاروں سے ایک معنی خیز سوال کرتا ہے: آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟ اس سوال کا محل و موقع بہت موزوں ہے، رات آدمی کے لیے سونے کا وقت ہے اور تاروں کے لیے چمکنے کا، لیکن ستارے گویا انجان بن کر یا تعصب کے زیر اثر شب کے وقت آدم کی بیداری کا سوال اٹھاتے ہیں اور ان کا استفہام انکار کا پہلو لیے ہوئے ہے، لہٰذا مریخ اس انکار بیداری آدم کو فرض کر کے بیان دیتا ہے کہ ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزا وار ژہرہ ایک قدیم آگے بڑھ کر انسان کو کرمک شب کور قرار دیتی ہے۔ لیکن مہ کامل ستاروں کی اس رقیبانہ مذمت آدم میں شریک نہیں ہوتا، شاید اس لیے کہ طوف خریم خاکی اس کی قدیم خو ہے، لہٰذا وہ آدم خاکی کے احوال سے واقف ہے۔ چنانچہ وہ اپنے خیال میں عدل و توازن کی یہ بات کرتا ہے کہ انسان بھی ایک ستارہ ہی ہے مگر اس کا دائرہ تابانی افلاک نہیں اور اس کا وقت بیداری شب نہیں، وہ اپنی زمین پر ڈن کو نمودار ہوتا ہے اس لیے کہ قدرت نے اس کے لیے ایسا ہی نظام عمل تجویز کیا ہے۔ بہرحال مہ کامل فرض کی نشاندہی سے آگے بڑھ کر جس کی ادائیگی انسان کرتا ہے، فضل کی طرف اشارہ کرتا ہے اور گرچہ اس کی گفتگو ستاروں سے ہو رہی ہے، مگر ایک لطیف انداز سے اب اس کی بات کا رخ انسان کی طرف ہو جاتا ہے جو محفل گفتگو میں حاضر نہیں ہے۔ لیکن مہ کامل کی دعوت بالغیب اسی کے لیے ہے، وہ کہتا ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی عظیم تجلی کے انوار خفتہ ہیں کہ ا گر وہ لذت بیداری شب سے واقف ہو جائے، تو اس کی تابانی کے سامنے افلاک کے تمام ستاروں کی درخشانی ماند پڑ جائے، خواہ وہ ثابت ہوں یا سیار، یعنی انسان ایک خاک پر اسرار ہے، بظاہر پستیوں میں گرا اور غفلتوں میں پڑا ہوا لیکن اصلاً افلاک کے بلند ترین ستارے، ثریا سے بھی بلند تر۔ یہاں مکالمہ نجوم اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے اور تمثیل کا تجسس اپنی انتہا پر اس ڈرامائی فضا میں: ناگاہ فضا بانگ اذاں سے ہوئی لب ریز یہ گویا ستاروں کو بالخصوص مہ کامل کی دعوت کا آدم کی طرف سے جواب ہے، شاید جب افلاک کے ستارے انسان کو سویا ہوا سمجھ رہے تھے تو بنی نوع انسان کے نمائندہ عابدان شب زندہ دار شک سحر گاہی سے وضو کر رہے تھے اور ابھی ستاروں کی انسان کی گراں خوبی پر تقریر ختم ہوئی تھی کہ کسی عابد شب زندہ دار نے بانگ اذاں بلند کر کے شب تاریک کی گراں خوابی کا پردہ چاک کر دیا اور پوری فضا کو بیداری و روشنی کا پیام دیا۔ اس کا مطلب یہ کہ نوع انسان میں ابھی اس نور ازل کا احساس باقی ہے جو اس کے وجود کے اندر مضمر ہے اور کچھ آگاہ بشر عصر حاضر کی شب تاریک کو سحر کرنے کا حوصلہ دکھائیں تو اذان سحر اور صلواۃ فجر کا ایک پورا نظام حیات حقیقی و علامتی دونوں طور پر آج بھی موجود ہے، اس تمثیل میں مہ کامل کا کردار ایک زبردست علامت ہے اور اس کے پیکر کمال سے ذہن کمال ارتقا کی طرف بہ آسانی منتقل ہوتا ہے، عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے جبریل و ابلیس ’’ جبریل و ابلیس‘‘ ایک اور تمثیلی نظم ہے جس کے مکالمات ابلیس کی ایک فلسفیانہ کردار شاعرانہ استعارات میں پیش کرتے ہیں۔ سابق معلم الملکوت کی ایک ملاقات روح القدس سے ہوتی ہے۔ حضرت جبرئیل اپنے دیرینہ رفیق سے اس کے لیے میدان عمل کے متعلق سوال کرتے ہیں: ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو؟ ابلیس دنیا کی بڑی جامع اور دل کش تصویر کشی کرتا ہے: سوز و ساز و در و دواغ و جستجو و آرزو سوال و جواب کے یہ دو مصرعے مل کر ایک شعر، ایک آواز، ایک مفہوم پیدا کرتے ہیں وہ یہ کہ جہان رنگ و بو کی رونق سوز و ساز و درو داغ و جستجو و آرزو سے ہے، جو عالم بے کاخ و کو کی یکسائی و خموشی سے بالکل مختلف ہے،شائد جبرئیل کا مصرع ایک طنز ہے لیکن ابلیس کا مصرع طنز کو توصیف میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ کرداروں اور ان کے مکالموں کا لطیف و پر معنی فرق ہے۔ اس تمہیدی مزاج پرسی کے بعد جبریل ابلیس کے ساتھ ہمدردی کے طور پر اسے توبہ و اصلاح کا راستہ دکھانے کی ایک کوشش کرتے ہیں، جو روح القدس کے آفاقی کردار کے عین مطابق ہے: ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟ یہ سن کر ابلیس کی رگ شیطنت پھڑک اٹھتی ہے اور وہ بڑے غرور کے ساتھ جواب دیتا ہے: آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر مرا سبو اب یہاں میری گذر ممکن نہیں، ممکن نہیں کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو جس کی نو میدی سے ہو سوز درون کائنات اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لا تقنطوا یہاں ابلیس ایک ماہر نفسیات، ایک ماہر عمرانیات اور ایک فلسفی کی حیثیتوں کا مجموعہ بن کر ظاہر ہوتا ہے، یہ اس کے مشہور زمانہ علم و عقل کے مطابق ہے۔ جبریل ابلیس کی منطق کا جواب منطق سے نہیں دیتے، اس لیے کہ بخلاف ابلیس کے وہ سراپا عرفان ہیں، وحی الٰہی کے قاصد ہیں، حقائق کا براہ راست مشاہدہ کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ صرف آبروئے ملکوتیت کا حوالہ و واسطہ دے کر ایک بار پھر ابلیس کو توبہ کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ حجت تمام اور حق نصیحت ادا ہو جائے: کھو دیے انکار سے تو نے مقامات بلند چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو؟ ابلیس کی آتش وجود بھڑک اٹھتی ہے اور وہ نہایت سرکشی اور شیخی کے ساتھ یہ متکبرانہ جواب دیتا ہے: ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ مکیں کہ تو؟ میرے طوفان یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟ میں کھٹکھتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو بلاشبہ یہ غضب کی شاعری اور معرکے کی فلسفہ طرازی ہے، ساتھ ہی بڑی زبردست خطابت ہے۔ چند الفاظ میں کائنات کی علامت شر نے اپنے آفاقی کردار کی ایک موثر نقش گری کر دی ہو۔ کیا ابلیس کے اس رومانی جواب میں انسان کی عام یا شاعری کی خاص رومانیت کے اشارات بھی ہیں؟ کیا ہم ابلیس کے کردار میں اپنے لیے ایک انرونی کشش پاتے ہیں؟ کیا شاعر ابلیس کے احساسات میں شریک ہے؟ کیا ابلیس کائنات میں نمود و ترقی، سعی و جدوجہد اور سخت کوشی و رنگینی کا سرچشمہ ہے؟ کیا وہ خداوند عالم کا حریف ہے؟ یہ سوالات نظم کے بیانات و مضمرات سے اپنے آپ پیدا ہوتے ہیں اور بجائے خود واضح کرتے ہیں کہ نظم بہت ہی کامیاب، پر اثر اور پر خیال ہے۔ جہاں تک ان سوالوں کے جواب کا تعلق ہے، کسی دوسرے کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں، اقبال نے خود ہی محی الدین ابن عربی کے تصور پر مبنی ضرب کلیم کی ایک نظم میں یہ جواب دے دیا ہے: تقدیر (ابلیس و یزداں) ابلیس اے خدائے کن فکاں مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر آہ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود حرف استکبار، تیرے سامنے ممکن نہ تھا ہاں مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود یزداں کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ انکار سے پہلے کہ بعد؟ ابلیس بعد اے تیری تجلی سے کمالات وجود! یزداں (فرشتوں کی طرف دیکھ کر) پشتی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام ظالم اپنے شعلہ سوزاں کو خود کہتا ہے دود! ابلیس کے موضوع پر اقبال کی سب سے ہم تخلیق ارمغان حجاز میں ابلیس کی مجلس شوریٰ ہے جس میں شر کی یہ کائناتی علامت اپنی پوری طاقت و جلال کے ساتھ مع اپنے رفقا کے نمودار ہوتی ہے اور عصر حاضر کے مروجہ نظریات کو اپنا ہی فتنہ قرار دیتی ہے، لیکن نظریہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے لرزہ بر اندام ہے، لہٰذا اقبال کا ابلیس ملٹن کے شیطان کی طرح کسی ناقابل شکست طاقت کا نام نہیں، صرف قوت شر کے مجسمے کا نام ہے جس کا آغاز و انجام دونوں ہی اس کی تمام شہ زوریوں اور فتنہ پردازیوں کے باوجود، شکست و مایوسی ہے، اس لیے کہ وہ در حقیقت ’’ پستی فطرت‘‘ کی ایک تاریخی علامت ہے، گرچہ اس کا احساس کمتری اسے برتری کے مظاہرے پر مجبور کرتا ہے۔ اس طرح ابلیس کے کردار کی شوکت دراصل اس کا نفسیاتی مرض ہے لہٰذا اس کی کردار نگاری بھی اس نفسیاتی نکتے پر مبنی ہے۔ یہ فنی حقیقت پسندی لازماً جبریل و ابلیس میں ابلیس کی وہ مرقع نگاری کراتی ہے جس کا مشاہدہ ہم کر چکے ہیں۔ لیکن بال جبریل اورضرب کلیم کے ابلیسوں کی تصویر، ایک دوسری سے مختلف نظر آتی ہے، بہ نظر غور دیکھا جائے تو اس کا سبب فن تمثیل کا یہ اصولی نکتہ اور معاملہ ہے کہ پہلی نظم میں ابلیس کی ساری شیخی جبریل کے مقابلے میں ہے جنہیں وہ اگر اپنے سے کم تر نہیں توزیادہ سے زیادہ اپنے برابر سمجھتا ہے، جبکہ دوسری نظم میں استکبار کی بجائے انکسار خداوند عالم کے روبرو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی نظم میں در حقیقت متکلم ابلیس ہے اور جبریل مخاطب ہیں، لیکن دوسری نظم میں ابلیس مخاطب ہے اور یزداں متکلم اسی لیے بال جبریل کی نظم کا تکلم شعریت سے لبریز ہے مگر ضرب کلیم کی نظم کا تکلم صرف ایک حکیمانہ خطاب ہے جو ایک تمثیلی نظم کے شاعرانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ بات یہی ہے کہ پہلی نظم میں اصل آواز ابلیس کی ہے جس کی رومانیت شعر بداماں ہے جب کہ دوسری نظم میں اصل آواز خدا کی ہے جس کی الوہیت مظہر حکمت ہے۔ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے اردو میں اقبال کی بہترین تمثیلی نظم محولہ بالا عنوان سے لکھی گئی ہے۔ عالم تصور کے برخلاف، یہ نظم در حقیقت دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں ’’ فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘‘: عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے، لیکن تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے ہزار ہوش سے خوش تر تری شکر خوابی گراں بہا ہے ترا گریہ سحر گاہی اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی ٭٭٭ یہ فرشتوں کی وہی پر وقار اور نغمہ ریز آواز ہے جو ہم ’’ فرشتوں کا گیت‘‘ میں سن چکے ہیں۔۔۔۔ خاکی، سیمابی، کوکہی، مہتابی، شکر خوابی گریہ سحر گاہی، شادابی اور مضرابی جیسے الفاظ پر معنی خیالات کے لیے پر شوکت پیکروں کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہر خیال ایک جہان معنی ہے اور بشریت کے مضمرات ملکوتی زبان میں آشکار کرتا ہے۔ انسان ایک جان بے قرار ہے، اس لیے کہ جنت سے رخصت اور مرکز تجلی سے جدا ہو کر وہ ایک طویل ساعت فراق سے دو چار ہے، چنانچہ اسے خاکی کی بجائے سیمابی کہنا چاہیے اور گرچہ اس کا پتلا خاک سے بنا ہے مگر جو روح اس کے اندر پھونکی گئی ہے اس نے اس کی فطرت کو چاند تاروں کی طرح درخشاں بنایا ہے لہٰذا اسے اپنی فطرت کا عرفان پیدا کرنا چاہیے اور یہ عرفان اگر خواب میں بھی نصیب ہو جائے، تو ایسا خواب اس بیداری سے بہتر ہے جس میں حقیقت سے غفلت ہی غفلت نظر آتی ہے، بہرحال بیداری کا تقاضا شب زندہ داری ہے اور فراق محبوب میں جو گریہ سحر گاہی ہوتا ہے وہ انسان کے شجر حیات کو ہر دور میں سیراب کرتا اور شاداب رکھتا ہے، انسان کی آواز راز حیات کی صدا ہے۔ اس لیے کہ ساز انسانیت پر قدرت الٰہی کی طرف سے ضرب نغمہ لگائی گئی ہے۔ ان میں کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو کسی استعاراتی پیکر کے بغیر پیش کیا گیا ہو۔ اس طرح ہر نکتہ شاعری کی ایک تصویر ہے اور سب نکتوں کی تصویریں مل کر ایک قماش نغمہ کے اجزائے ترکیبی کی طرح حرکت کرتی ہیں۔ یہ حرکت بندش الفاظ اور چشتی تراکیب سے انتخاب ردیف تک ایک سلسلہ ترنم ہے۔ یہ ملکوتی سرود جنت سے رخصت ہوتے وقت آدم کے لیے ایک ولولہ خیز تحفہ ہے جو اس کی دنئی میں اسے ایک نیا فردوس آباد کرنے کا حوصلہ عطا کرے گا۔ زمزمہ ملائکہ کے بعد نغمہ زمینی بھی کم سرور آفریں حوصلہ خیز اور ولولہ انگیز نہیں۔ دیکھیے کس والہانہ انداز سے ’’ روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔‘‘ کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ! مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ! ایام جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ! بے تاب نہ ہو، معرکہ بیم و رجا دیکھ ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں یہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ ٭٭٭ مخمس کے یہ پہلے دو بند اس دنیا کی حسین ترین تصویر کشتی کرتے ہیں جو آدم کا نیا وطن ہے۔ اس تصویر میں زمین سے آسمان تک پورے آفاق کے نظارے ہیں، زمین، فلک، فضا، مشرق، سورج، بادل، کوہ، صحرا، سمندر، ہوا، ایک ایک لفظ ایک ایک پیکر ہے اور سب پیکر مل کر مظاہر فطرت کی دل کش نقش گری کرتے ہیں، سورج مشرق سے ابھر رہا ہے، بادل تصرف میں ہے، گنبد افلاک دنیا پر محیط ہے، فضائیں خاموش کھڑی کسی کا انتظار کر رہی ہیں، کوہسار روئے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں، صحرا تپ رہے ہیں، سمندر موجیں مار رہا ہے، ہوائیں چل رہی ہیں، گھٹائیں چھا رہی ہیں۔۔۔۔ اور آدم فلک سے زمین کی طرف اترتا ہوا اپنی نئی منزل سے قریب ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے قدم سطح زمین پر پہنچ جاتے ہیں، لیکن وہ بے تاب ہے ایک اجنبی ماحول میں پریشان ہے، کچھ کھو کر آیا ہے اور کھویا کھویا ہے۔ لہٰذا روح ارض اپنی سحر انگیز آواز کے ساتھ آدم کو صبر امید اور حوصلہ دلاتی ہے، اسے اپنے خزانے دکھاتی ہے، اپنی رعنائیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے، اس کی قوتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کا کام اور مقام بتاتی ہے اس پر جوش پر معنی اور پر اثر استقبال میں یکایک حسن و جمال اور ذوق و شوق کی برقی رو سی دوڑنے لگتی ہے جب خلا کی رقاصہ اپنی عشوہ طرازیوں اور نغمہ آفرینیوں کے درمیان اول یہ نکتہ اٹھاتی ہے کہ فردوس گمشدہ اور جلوۂ الٰہی سے محروم ہو کر گرچہ دنیائے ارضی میں آدم کو ایام جدائی کے ستم دیکھنے ہیں، مگر جلوۂ محبوب کی جھلک بھی اس کو نظر آ سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اپنی نگاہوں کو اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا، دیکھنے کا عادی بنا لے اور مظاہر فطرت کی اہمیت کو سمجھے، اس لیے کہ اب فطرت تک وہ مظاہر کے پردے چیر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔ محبوب کی نقاب پوشی اور نقاب کے اندر سے جلوہ افروزی عشق اور شاعری دونوں کا حسین ترین تصور ہے جس کی دل آویزی، ایام جدائی کی جفاؤں کو گوارا ہی نہیں، خوشگوار بنانے کے لئے کافی ہے۔ ابھی پہلے بند میں اٹھائے ہوئے اس نکتہ جمال کی رعنائیاں اپنا طلسم پھیلا رہی تھیں کہ دوسرے بند میں مغینہ ارض نے ایک شوخ نکتہ اور اٹھا دیا۔ فردوس گمشدہ میں آدم جلوۂ الٰہی کے بعد صرف فرشتوں کی ادائیں دیکھ رہا تھا لیکن آئینہ ایام میں وہ خود اپنی ادا دیکھ سکتا ہے، کائنات کے ذرے ذرے پر آدم کی ایک ایک حرکت کا عکس پڑے گا اور افق تا افق اس کے افعال کا نقش بیٹھے گا، لہٰذا دوسروں کا جلوہ دیکھنے والا اب اپنا ہی جلوہ دیکھے گا۔ بجائے خود یہ جمال خویشتن ایک نشاط انگیز احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حسن ازل کا جلوہ بے پردہ، جن پردوں میں چھپا ہے ان میں مظاہر آفاق کے ساتھ مظہر نفس بھی ہے، لہٰذا اپنی ادا دیکھتے دیکھتے کسی اور کی ادا بھی نظر آ سکتی ہے، حقیقت منتظر لباس مجاز میں ظاہر ہو سکتی ہے، اپنی ادا محبوب ازل کا جلوۂ با پردہ ثابت ہو سکتی ہے، معرفت نفس معرفت رب کا زینہ بن سکتی ہے۔ اس طرح حسن آفاق میں جمال انفس کے اشارے کر کے نظم کے تیسرے بند سے اسی جمال کی نقش آرائی شروع ہوتی ہے: سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے تعمیر خودی کر، اثر آہ رسا دیکھ! خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ! نفس انسانی میں ذہن کا بحر تخیل بھی ہے اور قلب کی آہواں کے شرارے بھی اور یہ دونوں پیکر ہیں انسانی ادراک اور احساس کے ان جمالیاتی پیکروں کے باعث وجود آدم میں اتنی کشش پیدا ہو جائے گی کہ ایک طرف گردوں کے ستارے، اسے دور سے دیکھیں گے اور دوسری طرف زمانہ اس کی آنکھوں کے اشارے سمجھے گا، انسان اس طرح روئے ارض پر ایک پیکر جمال، ایک مرکز نگاہ بن کر رہے گا۔ بشرطیکہ وہ تعمیر خودی کرے اپنے آپ کو پہچانے اپنے رب کو پہچانے، اپنے منبع اور اپنی منزل کو سمجھے اوراپنی اندرونی قوتوں اور فطری صلاحیتوں سے کام لے۔ اس کام کے لیے سارا سامان قدرت نے آدم کو دے رکھا ہے وجود آدم کائنات کی وسعتوں میں ایک شرر ہی کیوں نہ ہو، ا کے اندر خورشید جہاں تاب کی ضو پوشیدہ ہے، لہٰذا اسے فردوس گشتہ کی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہئے۔ جنت تو اس کے اپنے خون جگر میں پنہاں ہے چنانچہ اسے اپنے ہنر سے اب اک تازہ جہاں آباد کرنا اور بخشی ہوئی جنت کی بجائے اپنی جنت آپ پیدا کرنی ہے، عمل سے زندگی جنت بن سکتی ہے۔ یہ سب کچھ، کوشش پیہم سے ہی ممکن ہے جو پیکر گل کو معمار جہاں بنا سکتی ہے۔ یہ حسین تصورات حسین تصاویر میں بروئے اظہار آئے ہیں۔ خورشید جہاں تاب، تازہ جہاں، فردوس، خون جگر اور پیکر گل معنی آفریں الفاظ و تراکیب ہیں یہ الفاظ و تراکیب اپنے حروف و اصوات اور بندش و ترتیب کے لحاظ سے نغمات ہی نغمات ہیں۔ آخری بند کائنات میں انسان کے مقام کی نشان دہی کرتا ہے: نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے تو جنس محبت کا خریدار ازل سے تو پیر صنم خانہ اسرار ازل سے محنت کش و خونریز و کم آزار ازل سے ہے راکب تقدیر جہاں تیری رصنا دیکھ انسان کی فطرت کو ’’ عود‘‘ سے تشبیہہ دی گئی ہے اور اسے ازل سے نالندہ بتایا گیا ہے اس لیے کہ انسان روز ازل سے ہی بازار کائنات میں جنس محبت کا خریدار ہے یہ وہی ایام جدائی کے ستم والی بات ہے جس سے نظم شروع ہوئی تھی اور اب خاتمے پر اس کی تکرار مضمون تخلیق کو ایک مربوط ارتقائے خیال کر کے بعد منطقی نتیجے پر پہنچا رہی ہے۔ آدم نے خلافت ارض کی امانت الٰہی کا بار اپنے شوق سے اور ایک جذبہ عشق کے تحت اٹھایا ہے، چنانچہ اس نے گویا جنت دے کر محبت خریدی اور باغ عدن کے عیش کو چھوڑ کر دنیا کے دار المحن میں آ گیا، لہٰذا تخلیق کے وقت ہی سے وہ محبوب حقیقی سے جدا ہو گیا اور کار جہاں میں مشغول ہو کر فراق کے دن گزار رہا ہے جس جلوۂ حسن کو اس کی نگاہ عشق کبھی بے پردہ دیکھتی ہے، اب اسے پردوں میں چھپا، دیکھ کر دیدار کے لیے فریاد کر رہی ہے۔ دیدار و وصال ہو گا کہ نہیں؟ ایک کھلا سوال ہے اور ایک معینہ مدت تک اس کا جواب ملنے والا نہیں، چنانچہ پہلا بند دل عاشق میں بپا ایک حسین معرکہ بیم و رجا، پرختم ہوا تھا اور اب آخری بند اشارہ کرتا ہے کہ اس معرکے کی ابتدا میں روح ارضی نے آدم کو، بے تاب نہ ہو، کی جو تلقین کی تھی تاکہ حسن و عشق کی حیات افروز کش مکش شروع ہو جائے، وہ تلقین قبول ہو گی ہی اس لیے کہ فراق اور اس کا نالہ و فریاد انسان کی سرشت ہے اور اس نے عشق میں اسی کا سودا کیا ہے۔ یہ بات بڑی پر اسرار ہے، جب انسان نے خود ہی بار امانت اٹھا کر محبت میں فراق کا سودا کیا ہے تو اب فراق میں اتنی بے تابی اور آہ و زاری کیوں؟ آدمی واقعی ایک پر اسرار مخلوق ہے، لیکن جس کائنات میں وہ آباد ہے وہ بھی ایک صنم خانہ اسرار ہی ہے لہٰذا واقعہ یہ ہے کہ انسان ہی ازل سے پیر صنم خانہ اسرار ہے۔ چنانچہ اس کی پر اسرار طبیعت کا کمال دیکھئے کہ ایک عاشق کی طرح معصوم و کم آزار اور فریضہ محبت کی ادائیگی میں محنت کش ہونے کے ساتھ ساتھ خوں ریز بھی ہے، اپان خون پسینے کی طرح بہاتا ہے اور وہ دوسروں کا خون بھی، اگر ضروری ہو جائے تو حق و عدل کے لیے بہا سکتا ہے۔ امانت کی ادائیگی کے لیے یہ محنت، محبت کی یہ کش مکش، کار دنیا کی یہ سخت کوشی انسان کی فضیلت، شاد کامی اور فتح مندی کے باعث ہو گی، گرچہ وہ راضی بہ رضائے الٰہی ہے مگر اس نے منشاء مشیت کے تحت اپنے آپ کو اس درجہ حکام الٰہی کا پابند بنا لیا ہے کہ اس کی تدبیر اور خدا کی تقدیر میں کوئی فرق و فاصلہ باقی نہ رہ گیا ہے اور محب و محبوب کی رضائے باہم کا نتیجہ یہ ہے کہ بندہ محبت کی رضا خدائے محبوب کی کائنات میں راکب تقدیر جہاں ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح ملائکہ نے جن توقعات کے ساتھ آدم کو جنت سے رخصت کیا تھا اور روح زمین نے جن آرزوؤں کے ساتھ آدم کا استقبال کیا تھا وہ سب پوری ہوں گی اور ہونے لگی ہیں۔ یہ نظم تخیلات و تصاویر کی ایک شاخ زریں اور اول تا آخر اسما و افعال کا ایک نغمہ رنگیں ہے۔ اس تمثیل میں مکالمہ و منظر باہم پیوستہ ہیں، آسمان و زمین کی آوازیں ہم آہنگ ہیں۔ نوامیس فطرت کا یہ ارتباط کائنات کے سب سے اہم وجود، آدم کے لیے ہے، گرچہ وہ اس پورے تماشے میں بالکل خاموش ہے، اس لیے کہ اس کا ہی رخ زیبا تماشا گاہ عالم ہے وہ ایک نونہال ہستی ہے، گرچہ اس کی اصلیت اور مقدور کردار، پیر صنم خانہ اسرار کا ہے، لہٰذا وہ ملائکہ کے آغوش سے نکلتا ہے تو زمین اسے اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ اور دونوں مل کر اسے لوریاں سناتے اور اس کی عظمت کے گیت گاتے ہیں۔ گرچہ پیر صنم خانہ اسرار کی طرح ایام جدائی بھی عہد جوانی کے غماز ہیں، مگر ظاہر ہے کہ گہوارہ ارتقاء میں ابھی انسان کا عہد طفولیت ہی ہے اور وہ پہلی بار زمین پر قدم رکھ رہا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ موقع نظم عالم انسانیت کے نقطہ آغاز کے باوجود ایام کی تعین کا نہیں، امکانات کی نشاندہی کا ہے چنانچہ نظم کا سارا زور اسی نشاندہی پر صرف ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کائنات میں طلوع انسانیت پر اس سے بہتر نظم نہ تو کلام اقبال میں ہے نہ پوری دنیائے شاعری میں۔ ٭٭٭ زمانہ بیانیہ فکری شاعری کی ایک حسین مثال نظم ’’ زمانہ‘‘ ہے، گرچہ اس کے بھی بعض اشعار میں ڈرامائی اشارے ہیں، اس لیے کہ اقبال کی تیز شاعرانہ حیات اپنے تخیلات کو بالعموم رنگین پیکروں میں متحرک دیکھتی ہیں اور نتیجتہً ان کا اظہار کا تمثیل و ترنم کے ساتھ کرتی ہیں۔ طویل بحر میں دس اشعار کی یہ نظم دو حصوں میں معنی کے اعتبار سے منقسم ہے، نصف اول میں پانچ اشعار تک وقت کی فلسفیانہ تشریح شاعرانہ انداز میں ہے، اس کے بعد نصف ثانی کے باقی پانچ اشعار، خاص کر چار، عصر حاضر کے حال زار پر تبصرہ اور مستقبل کا لطیف اشارہ کرتے ہیں۔ ارتقائے خیال اس مربوط طریقے سے ہوا ہے کہ ابتدائے نظم میں کہا گیا: جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے ایک حرف محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ یعنی دور جدید کے مغربی چیرہ دستوں کو زمانہ حال میں اپنے تسلط و اقتدار پر بہت زیادہ نازاں نہ ہونا چاہیے۔ زمانے کا ورق الٹنے والا ہی ہے، اور ہمیشہ اسی طرح الٹتا رہتا ہے۔ ماضی کے بعد حال اور اس کے بعد مستقبل بہت تیزی سے ایک دوسرے کے تعاقب میں آتا ہے، جب کہ دنیا برابر نئی قوتوں کی منتظر رہتی ہے، تاریخ کے گزرتے ہوئے لمحوں کی حقیقت یہی ہے۔ اس طرح وقت کی فلسفیانہ تعریف میں بھی ستم گران وقت کے لیے ایک تنبیہہ ہے، یہ تیور نظم کے پہلے حصے کو دوسرے کے ساتھ اس انداز سے پیوستہ کرتا ہے کہ پہلا دوسرے کی تمہید بن جاتا ہے چنانچہ دوسرا شعر بھی تمہید و تنبیہہ ہی ہے۔ مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ کیا حسین ا ستعارہ ہے اور کتنا دبیز کہ بہ یک وقت مسجد و میخانہ دونوں ایک ہی تصویر میں جمع کر دئیے گئے ہیں! زمانہ اگر ساقی ہے تو اس مینا سے نئے حوادث قطرہ قطرہ ٹپک رہے ہیں اور اگر عابد ہے تو وہ اپنے روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتا ہے، جبکہ وہ ساقی بھی ہے اور عابد بھی، وقت تار حریر دو رنگ ہے ہی بہرحال وقت حساب لیتا ہے، لہٰذا روز حساب کو فراموش نہ کرنا چاہیے۔ قدرت نے ہر بات کا شمار کر رکھا ہے اور گن گن کر لوگوں کے اعمال کا بدلہ چکائے گی، لوگوں کو اپنے حال میں مگن نہ رہنا چاہئے، حوادث کا اندیشہ بھی رکھنا چاہئے اور مکافات عمل پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے۔ تیسرا شعر مختلف انسانوں کے ساتھ ان کے مختلف کرداروں کے مطابق زمانے کے مختلف سلوک کا خیال آفریں بیان ہے۔ ہر ایک سے آشنا ہوں، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری کسی کا راکب، کسی کا مرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ یہ تازیانہ عبرت اہل مشرق کے لیے خاص ہے، پہلے دو شعروں میں ایک چھپی ہوئی تنبیہہ اہل مغرب کے لیے تھی کہ وہ حال پر نازاں نہ ہوں، اب اہل مشرق کو جتایا جا رہا ہے کہ زمانے سے سابقہ تو سب کو ہے مگر ہر ایک کے ساتھ اس کا برتاؤ الگ ہے، کوئی زمانے پر سوار ہے، کسی پر زمانہ سوار ہے اور کسی کے لیے عبرت کا کوڑا ہے، یہ اپنے اپنے عمل پر منحصر ہے کہ وقت کس کے ساتھ کس طرح پیش آتا ہے اور کیا کرتا ہے چنانچہ چوتھا شعر لمحہ حاضر کی عملی اہمیت واضح کرتا ہے: نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور میرا ہے یا کہ تیرا مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مے شبانہ محفل مے کا بیغ اشارہ اس کے بعض تلازمات و تضمنات کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز سے استعمال کیا گیا ہے۔ دنیا ایک مے خانہ ہے اور مے نوش نوشا نوش میں لگے ہوئے ہیں، اس مقابلے میں اول تو ساری مے ایک ہی نشت شبانہ میں ختم ہو جاتی ہے اور جو نشست سے غیر حاضر ہوا محروم ہوا۔ دوسرے ساقی وقت ہر جلسہ مے نوشی میں تازہ شراب لاتا ہے، پچھلے جلسے کی بچی ہوئی نہیں رکھتا، اس لیے جس کسی کو وقت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے وقت پر ہولے ورنہ محرومی اس کا مقدر ہے۔ اس تصویر میں بھی اہل مشرق کو خبردار کیا گیا ہے۔ دو دو اشعار میں زمانے کی فلسفیانہ تشریح کرتے ہوئے اہل مغرب اور اہل مشرق دونوں کو مختلف جہتوں سے خبردار کرنے کے بعد پانچویں شعر میں بہ یک وقت دونوں ہی کو متنبہ کیا جا رہا ہے۔ مرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہنچاتی نہیں ہے ہدف سے بیگانہ تیر اس کا نظر نہیں جس کی عارفانہ اہل مغرب وقت کا غلط استعمال کررہے ہیں اور اہل مشرق استعمال کر ہی نہیں رہے، یورپ ستاروں پر رصد لگا رہا ہے، جبکہ ایشیا ضعیف الاعتقادی میں مبتلا ہے، دونوں ہی علم نجوم پر حد سے بڑھ کر بھروسہ کئے ہوئے ہیں اور اس طرح حقیقت سے نابلد یا غافل ہیں، حیات و کائنات کی معرفت کے بغیر محض مادی علوم انسان کو اس کی منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے یورپ کی لادینی اور ایشا کی اوہام پرستی دونوں ہی کی آخری ناکامی کا باعث ہو گی، گرچہ ایشیا بروقت بھی نامراد ہے اور یورپ اپنی موجودہ کامیابی پر پھولا ہوا ہے۔ بہرحال، دونوںہی ایک ترقی میں اور دوسرا پسماندگی میں فروغ انسانیت کے اصل نشانے سے ہٹے ہوئے ہیں۔ دونوں کو سمجھنا چاہیے کہ زمانے کے خم و پیچ کسی نجومی کے بس کے نہیں ہیں، ان کو پہچاننے کے لیے ایک عارف کی نگاہ چاہیے، جو اپنے نفس اور اپنے رب دونوں سے شناسائی رکھتی ہو۔ اس کے بعد دوسرے حصے کے دو اشعار مغرب کے ظاہری عروج کے لمحہ حاضر ہیں اس کے آئندہ زوال کے آثار دریافت کرتے ہیں: شفق نہیں مغربی افق پر، یہ جوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے طلوع فروا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ شفق نشان سحر بھی ہے اور علامت شام بھی، یہاں آخر الذکر کی طرف اشارہ نظر آتا ہے۔یعنی مغرب کے آسمان پر جو روشنی ہے وہ ابھرتے سورج کی نہیں، ڈوبتے سورج کی ہے۔ عروج کا پیام نہیں، زوال کا نشان ہے، اور شفق شام کی یہ سرخی خون انسانیت کے اس سمندر کا عکس ہے جو اہل مغرب نے اپنے زیر نگیں روئے زمین پر بہایا ہے۔ لہٰذا ماضی و حال میں مغرب کے سامراجی جتنا عیش کر چکے ہوں وہ وقت گزر چکا یا گزر رہا ہے، لیکن مستقبل ان کے ہاتھوں سے ان کی بد اعمالیوں کے سبب نکل چکا، چنانچہ اہل مشرق کو اب مستقبل پر نظریں جما کر اس کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس طرح پہلے شعر کے بیان جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا کی تصدیق و تکرار زیر نظر شعر کے بیان دوش و امروز ہے فسانہ سے ہوتی ہے اور کڑیاں ایک مربوط مسئلہ خیال کی ملنے لگتی ہیں، یہاں تک کہ دوسرے حصے کا دوسرا شعر ترقی حال کا راز کھول کر ایک ہولناک مستقبل کا اشارہ اہل مغرب کے لیے کرتا ہے: وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو اسی کی بے تاب کبلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ پہلے مصرعے کی خطابت کو دوسرے مصرعے میں بجلی اور آشیانہ کی شاعرانہ تصویر شعریت میں ڈبو دیتی ہے۔ ارتقائے خیال کے اس مرحلے پر، جب مغرب و مشرق کے احوال و حقائق نمایاں ہو چکے ہیں شاعر اپنے قاری کو بڑی ہو شیاری اور بڑے خوبصورت انداز سے، ایک ذہنی کشمکش میں ڈال کر اس کی ساری حیات کو بیدار کر دیتا ہے: ہوائیں ان کی فضائیں ان کی ہمندان کے، جہاز ان کے گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر؟ بھنور ہے تقدیر کا بہانہ! پورا خیال ایک بحری استعارے میں ممثل کیا گیا ہے اور بندش الفاظ روانی بحر کا آہنگ پیدا کرتی ہے، پھر انگریزوں یا یورپی اقوام کی بحری طاقت بھی اس استعارے کے پس منظر میں اس کی موزونی اور اثر انگیزی کی ضمانت دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر؟ مشرق کا جہاز اس سمندر وقت کے گرداب میں پھنس گیا ہے جس پر مغرب کا تسلط ہے ہوا اسی کی ہے فضا اسی کی ہے، سمندر اسی کا جہاز اسی کا، لہٰذا گرداب بھی اسی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ جس میں وہ مشرق کو پھنسائے ہوئے ہے، یہ آدمی کا آدمی کے لیے بنا ہوا مصنوعی جال ہے جس کو آدمی بآسانی توڑ سکتا ہے، اگر حوصلے سے کام لے، مگر اس جال کو تقدیر کا پھندا بتایا اور سمجھا جا رہا ہے، لہٰذا اس کو توڑنے کی کوشش کی بجائے اس پر صبر کیا جا رہا ہے۔ یہ بے جا صبر و تحمل ہے اہل مشرق اس کو جلد سے جلد ترک کریں۔ انہیں جاننا چاہیے کہ: جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ! اب ابتدائے نظم میں ’’ جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا‘‘ کا پور امفہوم نظم کے تقریباً آخر میں بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ مغرب نے اپنے سائنس، صنعت اور سیاست سے جو دنیا اپنے لیے جنت اور دوسروں کے لیے جہنم کی شکل میں بنائی تھی وہ اب پرانی ہو چکی اور گردش ایام اس کا ورق الٹنے والی ہے، مغرب کی تعمیر کی ہوئی فرسودہ دنیا مر رہی ہے اور ایک جہان نو پیدا ہو رہا ہے، فرنگیوں نے دنیا کو ایک جفا خانہ بنا رکھا تھا اور جوا بازی میں اپنی مہارت اور عیاری کے سبب دوسروں کو بے وقوف بنا کر ہرا رہے تھے مگر اب ان کی چالیں الٹی پڑ رہی ہیں اور وہ اپنے ہی کھیل سے آپ ہاریں گے، قمار بازی کا استعارہ سیاست بازی کے لیے انگریزی یا مغربی سماج کے سلسلے میں بہت موزوں اور دلچسپ ہے، اس لیے کہ جوا کھیلنا ان کی عادت ہے اور وہ اس میں اپنے ہاتھ کی صفائی کا بدترین مظاہرہ بساط عالم پر کر رہے ہیں۔ بہرحال، ان کی ساری پر فریب تدبیروں کی بازی تقدیر کی طرف سے مات ہونے والی ہے اس لیے کہ قدرت الٰہی دنیا کا کارخانہ قمار بازی پر نہیں، مکافات عمل پر چلا رہی ہے اور اہل مغرب کی مہلت عمل ان کے عمل بد کے نتیجے میں ختم کی جا چکی ہے، اب انہیں تاریخ کا حساب گذشتہ اقوام کی طرح اپنے وقت اور اپنی باری پر دینا ہے۔ لہٰذا اہل مشرق مغرب کے تباہ ہوتے ہوئے، عالم پیر کے طلسم سے نکل کر انسانیت کے ابھرتے ہوئے جہان نو کا استقبال اور اس میں بسنے بسانے کی تیار کریں۔ آخر میں وہ شخص یعنی شاعر جو زمانہ کے یہ سارے حقائق اس بصیرت و جرأت کے ساتھ آشکار کر رہا ہے سامنے آتا ہے اور اعلان کرتا ہے: ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ مستقبل اہل مشرق کے لیے کتنا ہی روشن ہو، بروقت وقت کی، تند و تیز، ہوا مغرب کی برق رفتار ترقیات کے سبب چل رہی ہے اور مشرق کے چراغ حیات کی لوتھر تھرا رہی ہے بلکہ بیشتر مقامات پر بجھ چکی ہے یا اتنی دھیمی ہے کہ روشنی کی کوئی لکیر اس سے نہیں پھوٹتی، لیکن مرد درویش اپنی شاعری کا چراغ جلا کر ذہنوں میں جالا پھیلا رہا ہے، فضا کی تاریکی دور کر رہا ہے، نگاہوں کو روشن کر رہا ہے، تاکہ اہل مشرق حقائق کو صاف صاف دیکھیں اور اپنی منزل کے راستے پر گامزن ہوں، حالات کا مقابلہ کریں، اپنی کشتی بھنور سے نکالیں، ساحل مراد کی طرف بڑھیں، زمانے کا ورق الٹ دیں اور زندگی کا ایک نیا باب شروع کریں، تاریخ میں ایک بار پھر انسان کو جدید دور جاہلیت کی ظلمتوں سے نکال کر ایک نیا باب شروع کریں، تاریخ میں ایک بار پھر انسان کو جدید دور جاہلیت کی ظلمتوں سے نکال کر نور حق کے دائرے میں لے آئیں۔ وقت کے موضوع پر یہ نظم اقبال کے تصور وقت کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ اس سے ان کے نظریے کے محرکات و مقاصد معلوم ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ وقت جیسے فلسفیانہ موضوع کو اقبال خالص انسانی و عملی پس منظر میں لیتے ہیں اور اس کو زبردست شاعرانہ انداز میں پیش کرتے ہیں، تاکہ قاری کا دماغ روشن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا د بھی گرم ہو اور وہ فکر سے عمل کی طرف قدم بڑھائے۔ اس نظم کی شعریت وقت کو ایک نکتہ فکر کے ساتھ ساتھ ایک نغمہ فن بنا دیتی ہے اور ہم اس کے لمحات کو اپنے دور کے آسمان پر خیال آفریں حرکتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ لالہ صحرا لالہ اقبال کی شاعری کے نظام علائم میں گل سرسبد ہے لالہ صحرا کی ترکیب اقبال نے ’’ شمع اور شاعر‘‘ میں اپنی ہی طرف منسوب کی ہے: در جہاں مثل چراغ لالہ صحرا ستم نے نصیب محفلے، نے قسمت کا شاد حسرت کے باوجود اس شعر میں بھی لالہ کی تنہائی و یکتائی نیز درخشانی و تابانی کا وہ احساس موجود ہے جو زیر نظر نظم کا موضوع ہے۔ شمع اور شاعر کی طرح ایک بار پھر شاعر لالہ صحرا، میں بھی اپنی اور لالہ کی ہستی کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیتا ہے اور ایک مشترک عمل کی نغمہ سرائی کرتا ہے۔ لالہ صحرا، ظاہر ہے کہ کوئی نباتاتی نظم نہیں ہے، ایک علامتی تخلیق ہے اور اسی حیثیت سے اس کے معانی و مضمرات کی تشریح و تعین صحیح طور پر کی جا سکتی ہے۔ مظاہر فطرت پر، ہم شروع سے دیکھ رہے ہیں، اقبال کی طبع آزمائی فقط فطرت نگاری کے لیے نہیں ہوتی ایک خاص مقصد کے لیے، ایک خاص تصور کے تحت ہوتی ہے۔ یہ مقصد ہمالہ اور گل رنگین وغیرہ خاص مظاہر فطرت پر لکھی ہوئی نظموں میں اسی طرح کار فرما ہے جس طرح تصویر درد، اور خضر راہ جیسی فکری تخلیقات کی جزوی منظر نگاری میں چنانچہ لالہ صحرا ہو کہ شاہین اقبال کے سبھی موضوعات فطرت ان کے مقصد شاعری کے مطابق ان کی نظموں میں بروئے اظہار آئے ہیں اس کے باوجود یہ حقیقت فن اپنی جگہ ہے کہ موضوعات فطرت پر لکھی ہوئی نظموں کے ساتھ ساتھ فکری نظموں میں بھی اقبال نے جن تصویروں اور تمثالوں کا استعمال بکثرت کیا ہے ان سے حسن فطرت کی رعنائیوں کا وفور اور سرور مترشح ہوتا ہے، اس لیے کہ قدرتی جمالیات سے اقبال کو بڑا گہرا شغف ہے، وہ غمزہ ستارہ سے لے کر ریگ نواح کاظمہ تک سے شدید طور پر متاثر ہوتے ہیں اور اس شدت تاثرکو حسین شاعرانہ پیکروں میں ڈھال دیتے ہیں، لیکن یہ پیکر ان کی کسی نہ کسی تصور کی تزئین و توضیح کے لیے ہوتے ہیں اور متعلقہ فکری تخلیقات کے مناسب موضوع ہوتے ہیں فطرت کے فن کارانہ برتاؤ کی یہ کیفیت ہم مسجد قرطبہ ، ساقی نامہ اور ذوق و شوق میں بھی پاتے ہیں۔ ’’ لالہ صحرا ‘‘ کا موضوع ہے:ـ اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی یہ نظم ہی کا ایک مصرع ہے اور اس کے مفہوم میں شاعر و لالہ شریک و ہم آہنگ ہیں۔ نظم ایک تصویر سے شروع ہوتی ہے جس سے پیدا ہونے والا احساس بھی ساتھ ہی درج کر دیا گیا ہے: یہ گنبد مینائی، یہ عالم تنہائی مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی ’’ گنبد مینائی‘‘ افلاک کی وسعت، رنگینی اور رعنائی کی خیال آفریں علامت ہے اور اس دشت و صحرا کی پہنائی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں گل لالہ اپنی بہار دکھاتا ہے اس اشارے کے اطلاق میں شاعر بھی لالہ کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے اور گنبد مینائی کی وسعتوں میں اپنے اور لالہ دونوں کے لیے ایک عالم تنہائی کا احساس کرتا ہے۔ پہلے مصرعے میں صرف دو لفظوں کی دو ترکیبوں کے ذریعے فطرت اور حقیقت دونوں کی پیکر تراشی کر دی گئی ہے۔ دوسرا مصرع اس پیکر کی تاثیر کا اندراج کرتا ہے اور خود شاعر اظہار کرتا ہے کہ گنبد مینائی کے نیچے ایک لق و دق صحرا کی وسعتیں بڑی پر ہول ہیں اور وہ ان سے خائف ہے۔ اوپر کھلا آسمان، نیچے دشت بے کنار اور اس فضا میں اکیلا شاعر یا اکیلا انسان، کائنات میں اپنی قسم کا تنہا وجود، مظاہر حیات کے حامل واحد سیارے زمین پر اور انسان کے ساتھ ساتھ گل لالہ مطلب یہ کہ جس طرح لالہ دشت زمین کی پہنائیوں میں تنہا اپنی بہار دکھا رہا ہے، اسی طرھ انسان صحرائے وجود میں اکیلا ہی رونق افروز ہے۔ لہٰذا لالہ و انسان ایک دوسرے کے مماثل بلکہ مترادف ہیں۔ اس مکمل آہنگی کے بعد اب دونوں کی یکساں صفات کی کچھ تفصیلات بیان کی جاتی ہیں: بھٹکا ہوا راہی میں، بھٹکا ہوا راہی تو منزل ہے کہاں تیری اے لالہ صحرائی دشت وجود میں گم لالہ بھی ہے، شاعر یا انسان بھی، اس لیے کہ دونوں کا سرچشمہ وجود ان سے دور ہو چکا ہے اور وہ اپنی اصلی منزل سے گویا بھٹک کر راہ حیات میں آوارہ ہیں محبوب ازل سے جدا ہو کر انہوں نے اپنے گوہر مقصود کا نشان کھو دیا ہے لہٰذا شاعر لالہ سے استفہام کرتا ہے کہ اس کی منزل اب کہاں ہے اس سوال کا جواب واضح نہیں اور اس کا ابہام بہت معنی خیز، بہت حسین اور بہت حقیقت افروز ہے۔ شاید جواب کی ضرورت ہی نہیں، سوال ہی کافی ہے۔ اس لیے کہ جواب بہرحال کہیں وجود ہے اور کبھی ملے گا، منزل کی گمشدگی ہی منزل کا سراغ دیتی ہے۔ اس کے متعلق بہت زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اصل بات یہ ہے کہ دشت وجود میں کیا پھول، کیا انسان سب کے سب سرگشتہ آوارہ ایک تجسس اور ایک جستجو میں لگے ہوئے ہیں، یہی ان کی زندگی ہے یہی ان کی ترقی کا باعث ہے، یہی انہیں بالآخر منزل مقصود تک پہنچا دے گی۔ بہرحال وسعت کائنات میں مظاہر وجود کی یہ نمود بجائے خود ایک جلوۂ حقیقت ہے۔ ایک سرمہ بصیرت ہے، مگر اس تجلی کا مشاہدہ کرنے والا کوئی نہیں، کوئی نہیں جو مظاہر قدرت سے قدرت تک پہنچنے کی کوشش کرے، قدرت سے کلام کرے اور اس کا پیغام لے، تاکہ جلوۂ حق تنہائی اور آوارگی کے عالم میں مخلوقات کی تسکین اور ہدایت کا باعث ہو۔ خالی ہے گلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ تو شعلہ سینائی، میں شعلہ سینائی سینا و کلیم کی یہ تلمیح بڑی خیال انگیز ہے، شعلہ سینائی کا پیکر اسی طرح لالہ کی تصویر کشی کرتا ہے جس طرح عالم تنائی ایک لالہ اکیلا ہی پورے صحرا کو روشن و رنگین کیے ہوئے ہے، اس کی سرخ شعاعیں پورے دشت کو منور کر رہی ہیں، جس طرح دشت وجود کا نور انسان کے شعلہ سوز سے ہے اور اس کی جفا طلبی ایک دشت سادہ کی رنگینیوں سے لالہ گوں کئے ہوئے ہے۔ بہرحال یہ رنگینی و روشنی لالہ و انسان دونوں کے وجود کا اندرونی تقاضا اور مقصد ہستی ہے۔ تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی یہ تمنائے حیات کی نمود اور آرزوئے کمال کا ظہور ہے، لالہ و انسان شجر قدرت کے پھول ہیں اور وہ اپنی شاخ سے الگ ہو کر اپنی یکتائی کا پر لطف جلوہ دکھا رہے ہیں، شاخ بہت ہی خیال آفریں اور حقیقت افروز پیکر ہے اور پھوٹا اور ٹوٹا کے افعال جہان معانی کا دروازہ کھولتے ہیں۔ لالہ شاخ سے ٹوٹا نہیں ہے اسی پر پھوٹا ہے وہ انسان کی طرح ذی شعور نہیں، صرف ایک مظہر فطرت ہے، لیکن انسان شاخ سے ٹوٹ گیا ہے، اس کے شعور نے اس پر ایک بار امانت ڈال دیا ہے، اس باریک فرق کے باوجود نمو اور نمود دونوں ہستیوں کا مشترک وصف ہے اور ان میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک یکتائی کے جذبے سے سرشار ہے۔ عالم تنہائی، شعلہ سینائی اور جذبہ پیدائی لذت یکتائی، لالہ کی ظاہری و باطنی دونوں قسم کی عکاسی کرنے والے پیکر ہیں اور ان تصویروں کا انطبا ق انسان پر بھی ساتھ ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک اور تصویر سرگشتگی و آوارہ خیالی میں بھی دونوں شریک ہیں، مگر اس ہم آہنگی میں صرف ایک بیان اپنی دقیقہ سنجی۔۔۔۔ پھوٹا اور ٹوٹا۔۔۔۔ سے بے شعور و با شعور مخلوقات کے درمیان لطیف سا فرق پیدا کر دیتا ہے۔ یہ ارتقائے خیال کا ایک ہلکا سا خم ہے جو تخیل کے آئندہ مرحلوں کے لیے ذہن کو تیار کر سکتا ہے۔ اگلا شعر ہے: غواص محبت کا اللہ نگہبان ہو ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی ابھی تک دشت کوہ و کمر اور شاخ کی تصویریں تھیں جن میں شاعر اور لالہ ایک دوسرے کے شریک تھے، اب دریا کی تصویر ہے اور بجائے لالہ و شاعر غواص محبت کا پیکر دریا کی مناسبت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ غواص محبت انسان ہے جس عالم تنہائی میں لالہ و انسان ایک دوسرے کے ساتھ تھے اور گویا فراق محبوب میں ’’ شعلہ سینائی‘‘ بنے ہوئے تھے، اب انسان اس کیفیت میں تنہا رہ جاتا ہے، اس لیے کہ اس کے شعور نے اسے وقتی طور پر شاخ سے کاٹ کر بالکل الگ کر دیا ہے۔ لہٰذا عالم فراق میں وہ کائنات کے بیکراں اور پر خطر دریائے محبت کی عوآصی کر رہا ہے، تاکہ گہر مقصود تک پہنچ سکے، حالانکہ یہ آسان کام نہیں، دریا کی گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے، ہر قطرۂ دریا میں دریا کی ہے گہرائی ایسی حالت میں تہ تک صحیح و سالم اتر کر موتی نکالنا بے حد دشوار ہے بلکہ سخت اندیشہ ہے کہ لہروں کا کوئی گرداب غواص کو غرقاب کر دے گا: اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی خواص دریا اور اس کی گہرائی کے تسلسل میں غواص کو گویا ایک موج سے تشبیہہ دی جا رہی ہے، اس لیے کہ موج ہی کی طرح غواص بھی سطح اور اس کی لہروں سے گزر کر تک تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح موج ایک ساحل سے اٹھ کر دوسرے ساحل تک جاتی ہے، اگر درمیان میں کوئی رکاوٹ یا حادثہ حائل نہ ہو، یہ گویا ساحل مراد تک پہنچنا ہے، جبکہ ایسی بیشمار موجیں ہیں جو ایک کنارے سے اٹھتی ہیں مگر دوسرے کنارے تک پہنچ نہیں پاتیں، درمیان ہی میں لہروں کا کوئی چکر بھنور بن کر ان موجوں کو فنا کر دیتا ہے، اس کے بعد موج کے ماتم، میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بھنور کی آنکھ مگر مچھ کی طرح رو رہی ہو۔ وہ دریائے محبت جس میں انسان موج کی طرح تیر رہا ہے، بہت ہی ہولناک اور پر خطر ہے۔ اس کے باوجود انسان کی خطر پسندی، جو اس کے ازلی و آفاقی عشق کی دین ہے، اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، ہر لمحہ بے تاب اور سرگرم رکھتی ہے اور اسی انسانی سرگرمی سے در حقیقت کائنات کی رونق اور عالم وجود کی ساری گرم بازاری ہے: ہے گرمی آدم سے ہنگامہ عالم گرم سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی کائنات کا فعال کردار انسان ہے، جبکہ تمام مظاہر فطرت، کیا چاند تارے اور کیا سورج، سب کے سب صرف تماشائی ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ شوق نمو اور ذوق نمود میں شریک رہنے اور ایک ناموس فطرت ہونے کے باوجود لالہ صحرا انسان سے کچھ جدا ہے، اس کے کندھوں پر بار امانت نہیں، اسے فریضہ خلافت نہیں ادا کرنا، آسمان کے سورج اور تارے کی طرح وہ بھی تماشائی ہے۔ بہرحال عالم تنہائی میں شعلہ سینائی بننے اور جذبہ پیدائی و لذت یکتائی میں لالہ صحرا انسان کے مانند ہے، اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا شاعر ایک انسان کی حیثیت سے لالہ صحرا کی بعض وہ صفات حاصل کرنا چاہتا ہے جو دریائے محبت کی غواصی اور ہنگامہ عالم کی گرمی میں اس کے لیے قدرے سکون و قرار اور سرور و نشاط کا باعث ہو سکتی ہیں: اے بادبیابانی مجکو بھی عنایت ہو خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی اس سوال ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خاموشی و دل سوزی اور سرمستی و رعنائی جو ایک غیر متحرک وجود کو نصیب ہے انسان کو بہ آسانی میسر نہیں، سکون و سرور ایک گل رنگین کا حصہ ہے مگر انسان تو بے تاب و پریشان ہے، بلا شبہہ وہ پھول کے حسن خاموش پر رشک کر سکتا ہے لیکن طنز بھی کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ لالہ صحرا کے آخری شعر میں یہ دونوں احساسات ہیں، جس انداز سے قریب کے ماسبق اشعار میں انسان کی سرگرمیوں کا فاخرانہ ذکر کیا گیا ہے، اس کے بعد بادبیانی سے گل لالہ کی طرح خاموشی و دل سوزی، سرمستی و رعنائی، طلب کرنا صرف رشک نہیں ہو سکتا، اس میں طنز کا ایک پہلو سیاق و سباق ہی سے نکل آتا ہے۔ اس صورت حال سے نظم کے موضوع و مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ مقصود نہ تو لالہ کی نباتیات کا بیان ہے نہ اس کے کمالات کا چرچا، صرف اس کی جمالیات پیش نظر ہے اور وہ بھی شاعر کی اخلاقیات کے تحت، اسی لیے لالہ کے ساتھ بعض جہتوں سے انسان کی ہم آہنگی کا بیان ہے اور بعض جہتوں سے فرق و امتیاز کا یہ ایک پیچیدہ و مرکب، حسین و جمیل، پر معنی اور خیال آفریں نظم ہے۔ اس سے کلام اقبال میں شعریت کی تہوں اور فن کاری کے پیچ و خم کا اندازہ ہوتا ہے۔ اقبال کی فطرت نگاری میں جو تصور کی پرواز، تخیل کی وسعت اور تفکر کی گہرائی نیز فن کی دبازت و نفاست ہے اس کا مزید اندازہ ملتے جلتے موضوعات پر انگریزی شعرا کے اظہار خیال سے ہوتا ہے۔ انگلستان کا ایک محبوب پھول ہے ’’ ڈیفو ڈل‘‘ Daffodil جس سے سترہویں صدی میں ما بعد الطبیعاتی رحجان کے ایک شاعر رابرٹ ہیرک Herric Robert نے بھی نظم لکھی ہے اور انیسویں صدی کی تحریک احیائے رومانیت کے شہرۂ آفاق فطرت نگار ورڈس ورتھ نے بھی ہیرک پھول سے براہ راست خطاب کر کے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہتا ہے، جیسے اقبال نے لالہ صحرا میں کای ہے: حسین ڈیفو ڈل! ہم یہ دیکھ کر روتے ہیں تم اتنی جلدی رخصت ہو جاتے ہو ہنوز سویر اٹھنے والا سورج اپنی دوپہر تک نہیں پہنچا ہے ٹھہرو، ٹھہرو تاوقتیکہ جلد بھاگنے والا دن گزر جائے بس نغمہ شام تک رک جاؤ اور ساتھ ساتھ عبادت کر کے ہم تمہارے ساتھ ہی چلیں گے ہمارے قیام کا وقت بھی تمہاری ہی طرح مختصر ہے ہماری بہار بھی ویسی ہی مختصر ہے یہ ابھار زوال سے اتنا ہی جلد دو چار ہوتا ہے جتنا تم یا کوئی اور چیز ہم مرتے ہیں جس طرح تمہارے لمحات، اور خشک ہو جاتے ہیں موسم گرما کی بارش کے مانند یا صبح کی شبنم کے موتیوں کی طرح جو پھر کبھی پائے نہیں جاتے ’’ To Daffodils‘‘ ورڈس ورتھ پھول کی تصویر کشی کر کے اس سے اپنا مخصوص فکری نتیجہ اخذ کرتا یا سبق لیتا ہے: میں ایک بادل کی طرح اکیلا گھوم رہا تھا جو وادیوں اور پہاڑیوں کے اوپر اوپر تیرتا ہے اس وقت یکایک میں نے ایک ہجوم دیکھا سنہری ڈیفوڈل کا ایک لشکر جھیل کے کنارے، درختوں کے نیچے نرم ہوا میں بلتے ناچتے ہوئے ان ستاروں کی طرح قطار اندر قطار جو چمکتے ہیں اور کہکشاں کی صف میں چشمک کرتے ہیں وہ ایک غیر مختتم لکیر میں پھیلے ہوئے تھے ایک جھیل کے کنارے ایک نظر میں مجھے دس ہزار دکھائی پڑے ایک زندہ دلانہ رقص میں اپنے سر مٹکاتے ہوئے لہریں بھی ان کے آس پاس ناچ رہی تھیں مگر وہ سرور میں چمچاتی لہروں سے سبقت لے گئے ایک شاعر بے اختیار شادماں ہوا ایسی پر نشاط صحبت میں میں محو نظارہ رہا محو نظارہ رہا، لیکن گویا سوچا ہی نہیں اس منظر نے مجھے کیسا خزانہ دیا تھا کیونکہ اکثر جب میں اپنے پلنگ پر لیٹتا ہوں خالی الذہن یا فکر مندی و آزردگی کی کیفیت میں وہ اس نگاہ باطن پر جلوہ نما ہوتے ہیں جو نشاط تنہائی ہے اور تب میرا دل مسرت سے پر ہو جاتا ہے اور ڈیفو ڈلوں کے ساتھ رقص کرنے لگتا ہے ہیرک کی نظم میں ایک دو پیش پا افتادہ تصویروں۔۔۔۔۔۔ موسم گرما کی بارش اور صبح کی شبنم کے موتی کے سوا کوئی منظر فطرت نہیں اور تخیل صرف فنا کا ہے جس میں انسان اور پھول شریک ہیں اس فرق کے ساتھ کہ پھول شاعر سے بھی زیادہ اور جلد فنا پذیر ہے۔ یقینا اس تصویر میں عبرت ہے مگر فکر و فن کی کوئی خاص، گہری اور اونچی بات نہیں ورڈس ورتھ کی نظم میں یقینا ایک مرقع فطرت اور اس کی شاعرانہ تاثیر کی تصویر بھی ہے۔۔۔۔ بادل ہیں، پہاڑیاں ہیں، پھول ہیں، درخت ہیں، جھیل ہے، ستارے بھی ہیں، پھولوں اور لہروں کا مقابلہ رقص بھی ایک نرم ہوا میں ہے، اور شاعر کے حافظے پر یہ سارے پیکر نقش ہو کر ایک خزانہ مسرت فراہم کرتے ہیں جو ہمیشہ شاعر کو بوقت ضرورت کام آتا ہے اور تکدر و تنہائی دونوں حالتوں میں ایک سرور عطا کرتا ہے۔ لیکن ’’ چشم باطن‘‘ کا ذکر کرنے کے باوجود شاعر فطرت ایک سرور تخیل سے آگے نہیں بڑھتا، اس لیے کہ وہ محض شاعر فطرت نگار ہے اس کی روح میں کوئی گہرائی نہیں، اس کے ذہن میں کوئی وسعت نہیں، چشم باطن کا حوالہ دینے کے باوجود نظم میں صرف مشاہدہ خارج کے ایک عکس یا نقش کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی کو نشاط تنہائی قرار دیا گیا ہے۔ عالم تنہائی کا بیان لالہ صحرا میں بھی ہے لیکن اس میں اقبال کا تخیل ایک شعلہ سینائی بلند کرتا ہے جس کا تصور بھی ورڈس ورتھ نہیں کر سکتا، حالانکہ شعلہ گل کو وہ کہکشاں کی طرح تاباں و درخشاں بتاتا ہے مگر اس کا ذہن اس سے آگے نہیں بڑھتا، اس کی نظر صرف سامنے کے نظاروں تک محدود رہتی ہے، خواہ وہ زمین کے ہوں یا آسمان کے، ان نظاروں کے پیچھے چھپی حقیقت کا احساس اس کو بہت ہی کم ہے۔ بلا شبہہ اس نے بچپن کی معصومیت کو الوہیت کے قریب تصور کیا ہے لیکن اس کا بھی مقصد صرف، سادگی، تازگی اور معصومیت جیسے معمولی تصورات کو ایک الوہی رنگ دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ ورڈس ورتھ مناظر قدرت ہی کی پرستش بھی کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے مظاہر پرستش یونان کے ضمیات و خرافات کی اساطیری علامتوں کو بے دریغ استعمال کرتا ہے اور ان کے لیے اپنا مذہب تک ترک کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ مذہب پر مبنی معاشرے میں لوگ فطرت سے دور جا چکے ہیں اور اس دوری ہی کو وہ دنیا داری کہتا ہے، گویا فطرت پرستی اس کے نزدیک کوئی دین داری ہو۔ یہ سب خیالات ورڈس ورتھ کی ایک چھوٹی سی پر معنی نظم ’’ The World in too much with us‘‘ میں بداہتہ موجود ہیں اور اس کی شاعری کا فکری رخ واضح کرتے ہیں۔ بلا شبہ فطرت کی یہ شاعری بہت اچھی، بہت دلچسپ، بہت کامیاب اور پر اثر شاعری ہے مگر اس شاعری کا دائرہ بادل، پہاڑ، پھول، درخت جھیل، ستارہ اور ہوا کے مظاہر سے آگے نہیں بڑھتا۔ جبکہ یہ سب چیزیں صرف مناظر یا علامات ہیں، حقائق و معارف نہیں۔ اقبال اور ورڈس ورتھ کے درمیان فرق یہی ہے کہ اقبال علامات کے ساتھ حقائق کا بھی براہ راست مطالعہ کرتے ہیں اور ورڈس ورتھ علامات کے مشاہدے ہی میں محو رہ جاتا ہے۔ اسی لیے اس کی چشم باطن جس نشاط تنہائی کا مرکز و معیار ہے وہ بہت ہی محدود اور ناقص ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کی نگاہ اور اس کا نشاط پوری کائنات پر محیط ہے جس میں خارج و باطن، آفاق و انفس سب شامل ہیں۔ اقبال وسیع ترین انسانیت کے شاعر ہیں جس کے لیے فطرت زیادہ سے زیادہ ایک دل کش جلوہ ہے، منزل حقیقت نہیں سب سے بڑی بات یہ کہ اقبال نے حقیقت ہی کو شعریت میں ڈھال دیا ہے اور اس کی عکاسی و نقاشی کے لیے فن کے ایسے ایسے پیکر تراشے ہیں کہ ورڈس ورتھ کا پورا نگار خانہ فطرت ان کے رنگ و آہنگ کے سامنے گرد ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مظاہر فطرت سے بھی جمال حقیقت کی آرائش کا جو کام اقبال نے لیا ہے ورڈس ورتھ نہ لے سکا۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ فن بے حد اہم ہے کہ فطرت اقبال کا وسیلہ فن ہے اور ورڈس ورتھ کا مقصد فن ۔ میرے خیال میں بحیثیت شاعر یہی فرق اقبال کی مضبوطی کا سبب ہے اور ورڈس ورتھ کی کمزوری کا۔ شاہیں ایک مظہر فطرت پر علامتی نظم، لالہ صحرا کی طرح شاہیں بھی ہے۔ اقبال کے تصور شاعری میں اس کی بڑی اہمیت ہے اور اس شاعری کے نظام فن میں اس کا ایک نمایاں مقام ہے۔ یہاں شاعر بخلاف لالہ صحرا، مظہر فطرت کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ نہیں کرتا، بظاہر اس سے الگ اور دور رہ کر اس کا مشاہدہ و مطالعہ دونوں کرتا ہے اور اس کی ایک ایسی تصویر کھینچتا ہے جو اسے اس نظریے کا ایک عامل بنا دیتی ہے جو اقبال کی شاعری اور زندگی کا نصب العین ہے۔ پہلا ہی شعر اس مشہور پرندے کو نہ صرف دوسرے پرندوں بلکہ خود اس کے متعلق دوسرے شعرا کے تصورات سے بالکل الگ کر کے ایک منفرد و ممتاز حیثیت دے دیتا ہے: کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب ودانہ فضائے زمین سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ تصویر شاہیں کو فلک نشیں بنا دیتی ہے اور عام تصور کے برخلاف اسے ایک زاہدانہ کردار عطا کرتی ہے، خاکداں کا لفظ بہت پر معنی ہے اور آب و دانہ سے کنارہ کشی ایک تجسس انگیز خیال آفرینی کا باعث ہے۔ دوسرا شعر کسی حد تک اس تجسس کو دور اور پہلے شعر کے تصور کی تشریح کرتا ہے: بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ بیابان کی خلوت، شاہیں کے فطری ماحول کی منظر نگاری ہے لیکن راہبانہ فطرت، ایک نیا انوکھا اور چونکانے والا خیال ہے، جس کے نتیجے میں شاہیں کی اصلیت و حقیقت کے متعلق تجسس کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ اول تو شاہیں کو شکاری پرندہ سمجھا جاتا ہے، دوسرے اقبال کو رہبانیت کا مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود شاعر اپنے محبوب پرندے کی تعریف میں راہبانہ کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن غور کیا جائے تو پہلا ہی شعر راہبانہ فطرت کی غمازی کرتا ہے۔ اس لیے کہ پرندے نے خاکداں سے کنارا کر لیا ہے اور آب و دانہ کو رزق نہیں سمجھتا، لہٰذا دوسرے شعر میں یہ نتیجہ نکالنا بالکل معقول ہے کہ ایسے پرندے کی فطرت راہبانہ ہے۔ دوسرے مصرعے میں رہبانیت کا اقرار دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کی اس تصویر کے بھی مطابق ہے کہ شاہیں کو بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے۔ اس طرح چوتھے مصرعے کا پیکر مسلسل تین ماہ قبل کے مصرعوں کے مواد سے تیار ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی تصویر کے تسلسل میں آئندہ دو اشعار شاہیں کے کردار کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتے ہیں جس کا ذکر پہلے دو شعروں میں ہوا ہے: نہ باد بہاری، نہ گلچیں، نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ یہ گویا ایک متضاد ماحول کی پر فریب اور شجر کار دل کشی کا نقشہ ہے جو اس کے برعکس رویے کی اہمیت اور اس کے حامل کردار کی صلابت میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ اس سے رہبانیت کی اندرونی طاقت کا بھی زبردست اظہار ہوتا ہے۔ صرف چند دلآویز پیکر بزم فطرت سے لے لیے گئے ہیں جن کا عکس بزم انسان میں بھی عام طور پر پایا جاتا ہے۔ باد بہاری، گلچیں، بلبل، نغمہ عاشقانہ، خیابانیوں، ادائیں، دلبرانہ جیسے الفاظ فطرت و انسانیت کے رومانی تصورات کا ایک نگار خانہ آراستہ کرتے ہیں اور فطری و انسانی حسن و عشق کی ایک داستان مرتب کرتے ہیں، مگر ان تمام رومانی دلآویزوں سے شاہیں آزاد، ان کے طلسم میں گرفتار نہیں، وہ نغمہ عاشقانہ کو ’’ بیماری‘‘ کہتا ہے اور خیانیوں سے ’’ پرہیز‘‘ کو لازم قرار دیتا ہے، حالانکہ اس کو اقرار کرنا پڑتا ہے: ادائیں ہیں ان کی دلبرانہ شاید اس اقرار اور اس کے اندر مضمر شدت احساس ہی کے سبب وہ ان کے خلاف اپنا رد عمل زیادہ زور کے ساتھ ظاہر کرتا ہے اور حد یہ ہے کہ رہبانیت اختیار کر چکا ہے، تاکہ دنیا کے پر فریب نظارے دوسروں کی طرح اسے بھی مریض اور کمزور بنا کر نہ رکھ دیں، اس لیے کہ اس کے سامنے زندگی کا جو بلند تر مقصد ہے اس کے حصول کے لیے حسن و عشق کی رومانیت نہیں، فکر و عمل کی صلابت درکار ہے، فطرت پرستی نہیں حقیقت پسندی درکار ہے، لطف و لذت نہیں، سخت کوشی و پنجہ آزمائی درکار ہے۔ لہٰذا خیابان عالم کی ایک نہایت حسن منظر نگاری اور اس کے متعلق اپنا رویہ ظاہر کر دینے کے بعد اب شاہیں اپنے اصل مقصد اور اس کے حصول کے لیے مطلوب کردار کی نشان دہی کرتا ہے۔ ہو اے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں کی ضربت غازیانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کہ زاہدانہ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ جلوت خیاباں کے مقابلے میں شاہین نے بہت سمجھ بوجھ کر بیاباں کی خلوت اختیار کی ہے، اس لیے کہ بیاباں کی کھلی وسعتوں اور سختیوں میں خیاباں کی تنگیوں اور نرمیوں کے برخلاف، جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا موقع ورزش ملتا ہے، جس سے جواں مرد کی ضربت غازیانہ، کاری ہوتی ہے۔ باد بہاری کے خواب آور جھونکوں کے درمیان ہو اے بیاباں کے تند و تیز تھپیڑے پسند کرنا باز کی زندگی کو زہدانہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا حمام و کبوتر جیسے شکاروں کے خون کا جو الزام باز پر ہے اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اس سلسلے میں باز کی ساری سرگرمیاں، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ، ورنہ شاہیں نہ تو پرندوں کا بھوکا ہے نہ لالچی، وہ صرف بقدر ضرورت اپنا رزق زمین کی پستیوں کی بجائے آسمان کی بلندیوں میں حاصل کرتا ہے اور اس کے لیے کڑی محنت، بڑی ریاضت کرتا ہے۔ جن لوگوں نے باز کو شکار کرتے ہوئے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس کا سارا کھیل شکار کرنے پر مرکوز ہے۔ شکار کھانے پر نہیں اور اس سلسلے میں اس کی فن کاری اور طول عمل سے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کا مقصد اپنی ورزش کے سوا کچھ اور نہ ہو اسی کیفیت کو اقبال نے لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ، سے تعبیر کیا ہے، یہ شاہین کی ایک حقیقی تصویر بھی ہے اور اس کے زاہدانہ و راہبانہ کردار اور ضربت غازیانہ کی علامت بھی۔ اپنی رائے اور اپنے ماحول کی مرقع نگاری کے بعد شاہین اپنے کردار کی آفاقیت پر تاکیدی نشان لگاتا ہے: یہ پورپ یہ پچھم، چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرا نہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ جب شاہیں نے خاکداں سے کنارہ کر لیا ہے، بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے، وہ خیابانیوں سے پرہیز لازم سمجھتا ہے تو اس کی فلک پردازی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا اور وہ بہ آسانی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کا نیلگوں آسمان بے کرا نہ ہے جبکہ دوسرے تمام پرندے چند سمتوں اور جہتوں میں محدود ہیں کوئی پورب، کوئی پچھم پر مبنی، چکوروں کی دنیا میں محصور ہے۔ اپنی اس آفاقیت کا آخری ثبوت شاہیں یہ دیتا ہے کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا، لہٰذا اس کی حیثیت پرندوں کی دنیا میں درویش کی ہے جو دنیا کے تمام ساز و سامان سے بے نیاز اور اس کے سارے پھندوں سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ درویش وہی ہے جس کے بارے میں قبل کہا چکا ہے کہ اس کی فطرت راہبانہ اور زندگی زاہدانہ ہے، وہ ایک جوانمرد ہے جو ضربت غازیانہ کا حامل ہے۔ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا، کہہ کر صرف ایک مصرع میں شاعر نے اہل دنیا کی تنگ دماغی اور محدود نظری کی ایک تصویر کھینچ دی ہے اور اس متضاد پس منظر کی ترتیب کے بعد دوسرے مصرعے میں صرف نیلگوں آسماں بے کرانہ، کے پیکر سے اس نے وسیع النظری اور اعلیٰ دماغی کا ایک موثر مرقع تیار کر دیا ہے اور پہلے مصرعے میں یہ پورب یہ پچھم کے لہجے سے چکوروں کی دنیا کی تحقیر نیز دوسرے مصرعے میں ایک صفت نیلگوں سے شاہیں کے آسماں بے کرانہ کی تعظیم کا احساس ابھار دیا ہے۔ درویش کا استعارہ بھی اپنی جگہ معنی خیز ہے اور شاہیں بناتا نہیں آشیانہ کے بیان کو خیال آفرین بناتا ہے۔ ان حسین تصویروں کو نہ کی ردیف اور بندش الفاظ کا ترانم نغمات میں تبدیل کرتا ہے۔ نظم از اول تا آخر ارتقائے خیال اور اشعار کے درمیان ربط معنوی کے لحاظ سے ایک مکمل ہیئت تخلیق ہے۔ اس میں شاہیں کی عادات و حرکات کی مصوری بھی ہے، اس کے ماحول کی عکاسی بھی اور اس کے احساسات و خیالات کی ترجمانی بھی صرف نو اشعار اور اٹھارہ مصرعوں میں یہ سب کچھ اس موثر طریقے سے کر لینا فن کے ایجاز کا اعجاز ہے اس نظم سے شاہین کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ اس تصور کے بالکل خلاف ہے جو لوگوں نے شاہین اور اس کے سلسلے میں اقبال سے منسوب کر رکھا ہے۔ یہاں نہ تو شاہیں کشت و خون کا پیکر ہے نہ اقبال نے اسے تشدد اور جبر و ستم کی علامت بنایا ہے، وہ قوت و طاقت کی تصویر پر بن کر ضرور ہمارے سامنے آتا ہے مگر یہ قوت و طاقت ایک زاہد اور راہب کی ہے جو دنیائے دنی کے حرص و ہوس کو بالکل ترک کر چکا ہے اور صرف ایک درویش و غازی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ یہ اقبال کے تصور ترک اور نظریہ قوت کے عین مطابق ہے: کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری (غزل۔ بال جبریل) ٭٭٭ تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے صاحب نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک لادیں ہو تو ہے زہر ہلا ہل سے بھی بڑھ کر ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک (’’قوت اور دین‘‘ ۔ ضرب کلیم) مطلب یہ کہ قوت کا استعمال دنیا کی دولت و سلطنت کے لیے نہیں بلکہ دفع شر اور قیام عدل و حق کے لیے ہونا چاہیے۔ اسی معنے میں شاہیں اقبال کے مرد مومن کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے یہاں فوق البشر کا کوئی تصور نہیں، اس لیے کہ اسلامی عقیدے میں انسان کامل ؐ بھی صرف خیر البشر ہے، خدا کا آخری رسول ؐ ہونے کے باوصف بشری ہے۔ شاہین پر اقبال کی نظم کے محاسن فنی کا اندازہ لگانے کے لیے اس کا موازنہ ورڈس ورتھ کی To the sky lark اور شیلی کی To a sky lark کے ساتھ کرنا نہایت مفید ہو گا۔ اسکائی لارک بھی شاہیں کی طرح آسماں پر داز ہے اور انگریزوں کا محبوب پرندہ ہے۔ ورڈس ورتھ کہتا ہے مغنی ہوا! دائر آسماں! کیا تو زمیں سے متنفر ہے جہاں ہجوم افکار ہے؟ یا عین اس وقت جب باز و محو پرواز ہیں، دل و نگاہ دونوں شبنمی زمیں پر ترے آشیانے سے لگے ہوئے ہیں؟ آشیانہ جس میں تو جب جی چاہے پٹک پر سکتا ہے اپنے کپکپاتے بازو سمیٹ کر، نغمہ خاموش کی صورت! آخری نقطہ نگاہ تک اور اس سے بھی پرے پرواز کرتا جا، جری زمزمہ پرواز! تیرا نغمہ محبت تیرے اور تیری محبوبہ کے درمیان ایک دائمی عہد سینہ میداں کے لیے کم سرور انگیز نہیں ہمیشہ تو گاتا نظر آتا ہے، ایک باعث فخر فضیلت، اوراق بہار سے بالکل بے نیاز بلبل کو اس کے سایہ دار جنگل میں رہنے دو تیرا نصیب ایک شاندار روشنی کی خلوت ہے جہاں سے تو دنیا پر ایک سیلاب نازل کرتا ہے نغمے کا ایک زیادہ الوہی جبلت کے ساتھ تو دانش مندوں کے زمرے میں ہے، جو اونچا اڑتے ہیں مگر کبھی بھٹکتے نہیں آسمان و آشیانہ کے مماثل نشانوں کے یکساں وفادار ہیں شیلی کہتا ہے: خوش آمدید، روح مسرور! چڑیا تو تو کبھی نہ رہی جو آسماں یا اس کے قریب سے اپنا دل نکال کر رکھ دیتی ہے فی البدیہہ فن کے کثیر نغمات میں اونچی اور اونچی تو زمینس ے اڑتی جاتی ہے ایک ابر آتشیں کی طرح نیلے سمندر میں تو اڑتی ہے اور گاتی ہوئی برابر اونچی اڑتی جاتی ہے اور اونچی اڑتی ہوئی برابر گاتی ہے سنہری بجلی میں ڈوبے ہوئے آفتاب کی جس کے اوپر بادل چمک رہے ہیں تو تیرتی اور دوڑتی ہے جسم سے بے قید ایک مسرت کی طرح جس کا سفر ابھی شروع ہوا ہے ہلکی سی سرخی بھی تیری پرواز کے دوران گھل جاتی ہے ایک ستارہ آسمان کی طرح دن کی پھیلی ہوئی روشنی میں تو نظر نہیں آتی، پھر بھی میں تیری تیز آواز نشاط سنتا ہوں تیر کی طرح تیز اس دائرہ سیمیں میں جس کا تیز جلتا ہوا چراغ دھیما ہو جاتا ہے صاف و سفید سحر کے وقت یہاں تک کہ ہم بمشکل دیکھ پاتے ہیں، ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ وہاں ہے تمام زمین و آسماں تیری آواز سے پر شور ہیں جیسے، جب رات صاف ہوتی ہے ایک اکیلے بادل سے ماہتاب اپنی شعاعیں برساتا ہے اور آسمان جل تھل ہو جاتا ہے تو کیا ہے ہم جانتے نہیں کون سی چیز سب سے زیادہ تیرے مشابہ ہے شبنم کے بادلوں سے نہیں برستے دیکھنے میں ایسے چمکیلے قطرے جیسے تیرے وجود سے ایک بارش نغمہ ہوتی ہے ایک پوشیدہ شاعر کی طرح فکر کی روشنی میں اپنے آپ نغمہ خواں یہاں تک کہ دنیا آمادہ ہو جاتی ہے ان امیدوں اور اندیشوں کے ساتھ ہمدردی کے لیے جن کی طرف اس نے توجہ نہ دی تھی۔ ایک اعلیٰ خاندان دوشیزہ کی مانند ایک محل کے مینار میں تسکین دیتی ہوئی اپنی محبت بھری روح کو ایک خفیہ ساعت میں عشق کی طرح شیریں موسیقی سے جو اس کے کمرے سے باہر ابل رہی ہے ایک نہری جگنو کی مانند ایک وادی شبنم میں بکھیرتی ہوئی نگاہوں سے دور اپنے فضائی رنگ کو پھولوں اور گھاس کے درمیان جو اسے نگاہوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں ایک گلاب کے مانند پردہ نشیں اپنی ہی سبز پتیوں کے درمیان جن کے پھول گرم ہواؤں سے جھڑتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس نکلتی ہوئی خوشبو اپنی زبردست شیرینی سے ان گراں باز و چوروں کو مدہوش کر دیتی ہے باران بہار کی صدا چمکتی ہوئی گھاس پر بارش کے جگائے ہوئے پھول جو کچھ بھی کبھی تھا پر سرور اور صاف اور تازہ، تیری موسیقی سب پر فائق ہے ہمیں سکھا اے پری یا چڑیا جو کچھ بھی تیرے شیریں خیالات ہیں میں نے کبھی نہیں سنی محبت یا مے کی تعریف جس نے ایسی الوہی ولولوں کا سیلاب اپنی سانسوں سے بہایا ہو حمد کا اجتماعی نغمہ یا زمزمہ فتح مندی تیرے گیت کے مقابلے میں سب کے سب ہوں گے فقط ایک بے معنی شیخی ایک ایسی شے جس میں ہم کوئی چھپا ہوا نقص محسوس کرتے ہیں کون اشیا سرچشمے ہیں تیرے سرود نشاط کے؟ کون سے میدان یا لہریں یا پہاڑ؟ آسمان یا زمین کے کون سے پیکر؟ تیری اپنی ہی جنس کا کون سا عشق؟ درد سے کیسی بے گانگی؟ تیری صاف و تیز مسرت میں سستی نہیں ہو سکتی ناراضگی کا سایہ کبھی تیرے قریب نہ پھٹکا تو محبت کرتی ہے مگر کبھی تو نے محبت کی غمگیں آسودگی کو نہ جانا سوتے یا جاگتے تو موت کے بارے میں بتا سکتی ہے زیادہ سچی اور گہری باتیں بہ نسبت ہم فانی انسانوں کے خواب کے ورنہ تیرے نغمے اتنے براق چشمے میں کیسے بہتے؟ ہم آگے اور پیچھے دیکھتے ہیں اور جو نہیں ہے اس کا غم کرتے ہیں ہماری مخلص ترین ہنسی کسی درد سے لبریز ہے ہمارے شیریں نغمے وہ ہیں جو غمناک ترین خیال کا اظہار کرتے ہیں تاہم اگر ہم تحقیر کرتے نفرت اور غرور اور خوف کی اگر ہم ایسی چیزیں بن کر پیدا ہوتے جو ایک قطرہ آنسو نہیں بہاتیں میں نہیں جانتا کہ کس طرح ہم کبھی تیرے نشاط کے قریب بھی پھٹکتے بہتر نغموں سے۔۔۔۔ نوائے مسرت کے بہتر تمام تر خزانوں سے جو کتابوں میں پائے جاتے ہیں تیرا سبز شاعر کے لیے ہوتا، اے زمین کو حقارت سے دیکھنے والی! مجھے اس مسرت کا نصف ہی سکھا جو تیرے دماغ میں محفوظ ہے ایسی سرور آفریں دیوانگی میرے ہونٹوں سے بہے گی پوری دنیا تب اسی طرح ہمہ تن گوش ہو گی جس طرح ابھی میں گوش بر آواز ہوں۔ شیلی کی نظم شاعری اور فطرت نگاری کی حد تک بڑی خوبصورت اور دلکش ہے مگر جہاں تک موضوع کی فن کاری کا تعلق ہے، یہ ایک پریشاں خیالی ہے۔ اسکائی لارک کی تصویر کے ساتھ بے شمار دوسری تصویریں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں اور ارتقائے خیال نہ واضح ہے نہ مربوط۔ اس کے علاوہ اسکائی لارک کے حوالے سے اپنے عام رومانی احساسات و جذبات کے اظہار کے سوا شاعر کا کوئی بلند ترین فکری و فنی مقصد نہیں۔ لہٰذا یہ نظم صرف ایک دلدادہ فطرت، وارفتہ محبت اور آزردہ حیات نوجوان کے بے محابا ولولوں کا بے تحاشا اظہار ہے، ایک جذبہ بے اختیار شوق ہے جو سینہ نظم سے باہر نکلا پڑتا ہے۔ یقینا یہ نظم ہی کے ایک بیان کے مطابق ایک سرود آفریں دیوانگی ہے اور دوسرے بیان کے مطابق الوہی ولولوں کا سیلاب ہے۔ اس دیوانگی اور سیلاب سے ضرور لطف لیا جا سکتا ہے اور مسرت کا احساس بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس میں نہ تو فکر کی سنجیدگی ہے نہ فن کی پختگی۔ بلا شبہ یہ ایک اچھی شاعری ہے مگر بڑی شاعری نہیں اور معیار فن کے لحاظ سے دوسرے درجے کی چیز ہے۔ اس میں ایک نمایاں نقص حقیقت پسندی کی کمی کا بھی ہے، شاعر نے اسکائی لارک کو ایک سراسر آسمانی مخلوق بنا دیا ہے جو زمین کو حقارت سے دیکھنے والی ہے، اور یہ صحیح نہیں اسکائی لارک آسماں میں کتنی ہی پرواز کرے، اس کا آشیانہ زمین پر ہوتا ہے ایک فطرت نگار تخلیق میں امر واقعہ کو اس طرح نظر انداز کرنا کھلا ہوا عیب ہے۔ اس کے برخلاف ورڈس ورتھ کی نظم فطرت نگاری کا ایک اعلیٰ معیار اور بے خطا نمونہ پیش کرتی ہے۔ وہ بھی اسکائی لارک کو مغنی ہوا اور زائر آسمان کہتا ہے اور یہ سوال بھی پرندے سے کرتا ہے کیا تو زمین سے متنفر ہے؟ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ بتاتا ہے کہ عین اس وقت جب بازو محو پرواز ہیں دل و نگاہ دونوں شبنمی زمین پر ترے آشیانے سے لگے ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سکائی لارک کے متعلق ورڈس ورتھ کا مشاہدہ شیلی کے مشاہدے سے زیادہ سچا ہے۔ اس سلسلے میں ورڈس ورتھ کا مطالعہ بھی زیادہ گہرا ہے۔ شیلی نے صرف اسکائی لارک کے نغمہ آواز کو سنا ہے جب کہ ورڈس ورتھ آواز کے علاوہ اس پرندے کے نغمہ خاموش کی بھی ٹھیک ٹھیک صورت گری کرتا ہے: اپنے کپکپاتے بازو سمیٹ کر مختصر یہ کہ شیلی کی اسکائی لارک ہیولا ہے جسم سے بے قید ایک مسرت کا جبکہ ورڈس ورتھ کی اسکائی لارک دانشمندوں کے زمرے میں ہے جو اونچا اڑتے ہیں مگر کبھی بھٹکتے نہیں، اور آسمان و آشیانہ کے مماثل نشانوں کے یکساں وفادار ہیں۔ لیکن ورڈس ورتھ کی دانشمندی، شبنمی زمین سے آگے نہیں بڑھتی، حالانکہ شاندار روشنی کی خلوت، اور الوہی جبلت کا ذکر وہ کرتا ہے مگر اس خلوت و جبلت کا نتیجہ فقط ایک نغمہ محبت ہے جو سینہ میداں کے لیے کم سرور انگیز نہیں اس کے مقابلے میں اقبال کا شاہیں بیاباں کی خلوت میں ایک فطر راہبانہ کے ساتھ بسیرا کرتا ہے۔ کبھی بناتا نہیں آشیانہ اور اس کا نیلگوں آسمان بے کرانہ ہے اس نے خاکداں سے کنارا کر لیا ہے اور خیابانیوں کی دلبرانہ اداؤں سے یہاں تک پرہیز کرتا ہے کہ فطرت و انسانیت کے مظاہر حسن سے شاید تاثر کے باوجود ایک بلند تر مقصد کے لیے ان سب کو ترک کر دیتا ہے: دباد بہاری، نہ گل چیں، نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ کہہ سکتے ہیں کہ شاہین اور اسکائی لارک متضاد موضوعات کے مطالعات ہیں لیکن دو بنیادی اوصاف دونوں کے درمیان مشترک ہیں، دونوں پرندے ہیں اور دونوں آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتے ہیں، بس نغمہ و آشیانہ کا فرق ہے، اسکائی لارک ان سے وابستہ ہے اور شاہیں اس سے بے نیاز چنانچہ جس طرح ورڈس ورتھ اور ایک حد تک شیلی نے اسکائی لارک کی کردار نگاری یا پیکر تراشی کی ہے اسی طرح اقبال نے شاہیں کی اس سلسلے میں کم و بیش فطرت نگاری تینوں شعرا کی تخلیقات میں ہے، لیکن تینوں کے انداز نظر میں اختلاف ہے۔ شیلی فطرت کا صرف رومانی پہلو لیتا ہے اور اس کو انسان کے رومانی پہلو سے ملا دیتا ہے۔ ورڈس ورتھ فطرت کی حقیقی تصویر کشی سے رومان کا لطف پیدا کرتا ہے اور اس کو انسانی حقیقت پسندی کے ساتھ ہم آمیز کر دیتا ہے، جبکہ اقبال فطرت، حقیقت اور انسانیت تینوں عناصر کو ایک محیط مطمح نظر کے تحت ترکیب دے کر ایک اعلیٰ معرفت و بصیرت کا پیام دیتے ہیں اور پرندے کو اپنے نظریہ حیات کی ایک علامت بنا دیتے ہیں۔ اقبال کی اس مرکب شاعری میں نغمہ مسرت اسی طرح ہے جس طرح شیلی اور ورڈس ورتھ کی رومانیت اور فطرت نگاری میں لیکن اس کے ساتھ اعلیٰ متانت و بصیرت ایک قدر زائد ہے۔ اقبال کی نظم میں جمالیات کے ہمراہ اخلاقیات بھی ہے جبکہ شیلی کو اخلاقیات سے مطلب نہیں ورڈس ورتھ صرف ایک اخلاقی سبق دانش مندی کے عنوان سے دیتا ہے جو اخلاقیات کے کسی مکمل نظریہ و نظام سے کمتر محض ایک رسمی و روایتی درس اخلاق ہے اور اقبال کی اخلاقیات رسم و روایت کی بجائے ان کے نظریہ کائنات اور نظام حیات کا عملی پہلو یا وسیلہ عمل ہیں۔ اس سلسلے میں فن کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ شیلی کے برخلاف ورڈس ورتھ اور اقبال دونوں اپنے اپنے پرندوں کا مرقع پورے فنی ارتکاؤ اور تنظیم ہیئت کے ساتھ مرتب کرتے ہیں۔ چند خیال آفریں پیکروں اور دلکش تصویروں کے ذریعے اپنے اپنے تخیل کی ترسیل کرتے ہیں اور ایک مکمل و موثر پارۂ فن تخلیق کرتے ہیں جس میں فطرت و حقیقت دونوں کا امتزاج ہے رومان کی چنگاری کے ساتھ ساتھ تجربے کی شبنم بھی ہے اس طرح نظم کی حد تک شاہیں اور To the sky lark دونوں تسلی بخش تخلیقات ہیں جبکہ To a sky lark صرف ایک جمال پرست شاعر کے شیریں جذبات کا حسین اظہار ہے جو موثر ہونے کے باوجود نامکمل غیر منظم اور غیر تسلی بخش ہے لیکن ایک اچھے فن سے آگے بڑھ کر جب ہم ایک بڑے فن کے نمونے کی تلاش کرتے ہیں اور اس کا سراغ ہیئت نظم سے باہر عکس فگن ہونے والے اشارات و اثرات میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو ورڈس ورتھ کی To the sky lark کی حدود معلوم ہو جاتی ہیں یہ بس ایک کامیاب موضوعاتی نظم ہے شاہیں کی طرح کسی بڑے تخیل کی علامت نہیں کسی تصور حیات کے کسی اہم جز کا پیکر نہیں لہٰذا لالہ صحرا کی طرح شاہیں کا امتیاز یہ ہے کہ وہ پورے فنی حسن اور شاعرانہ جمال کے ساتھ ساتھ ایک فکری نصب العین کی علامت اور ایک نظام فکر کا اشاریہ ہے، اور اس اعتبار سے ایک محیط و مربوط نظام فن کا جز ہے، ایک وسیع و منظم اخلاقی جمالیات کا حصہ ہے۔ ٭٭٭ ذوق و شوق ذوق و شوق اقبال کی نظموں میں ایک منفرد نوعیت کی تٰخلیق ہے، اس لیے کہ ایک بالکل ذاتی قسم کی نظم ہے اور اس کا انداز نظر خالص تغزل کا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ بہتیرے قارئین اس نمونہ فن کے احساسات میں اس طرح شریک ہو جاتے ہیں گویا اس کی کیفیات ان کی اپنی ہوں۔ غور کرنے سے اس صورت حال کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اقبال کی انا نہایت اجتماعی ہے، یا انہوں نے اپنی انا کو فن میں اس انداز سے متشکل کیا ہے کہ ان کے قارئین اس تشکیل میں اپنی ترفع یافتہ انا کا عکس دیکھنے لگتے ہیں۔ چنانچہ شاعر کا ذوق و شوق۔۔۔۔ اور آرزوئیں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ مزید غور کرنے پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے اسرار خودی میں جو رموز بیخودی سموئے ہوئے ہیں وہ سب کے لیے ایک عام کشش رکھتے ہیں، یعنی یہ شاعر کے ملی نیز انسانی نقطہ نظر کا آفاقی پس منظر ہے جو دوسرے افراد کو بھی شاعر کے انفرادی جذبات و خیالات میں شریک کر لیتا ہے، لہٰذا جب شاعر اپنی تمناؤں اور ولولوں، محرومیوں اور تنہائیوں، جستجوؤں اور بیتابیوں کا ذکر کرتا ہے تو وہ گویا اپنے تمام قارئین کے دلوں کی گہرائیوں میں خوابیدہ انہی کیفیات کو بیدارکرتا ہے۔ ترکیب بند میں لکھی ہوئی پانچ بندوں کی یہ نظم تیس اشعار پر مشتمل ہے اور ہر بند میں چھ اشعار ہیں جن میں ہر چھٹا شعر ٹیپ کا ہے جو متعلقہ بند کے مفہوم کا عروج اور آئندہ بند کے مفہوم کا پیش خیمہ ہے، جبکہ ہر بند کے اشعار اول تا آخر ایک سلسلہ خیال میں بندھے ہوئے ہیں اور پوری نظم جس کیفیت سے شروع ہوئی تھی اسی کی تفصیل و تشریح کر کے اسی کیفیت کے شدید وسیع اور عمیق و رفیع احساس پر ختم ہو جاتی ہے۔ نظم کے ہر بند میں شاعر کے قلب کی گہرائیوں سے ایک زمزمہ اٹھتا ہے اور حسین و معنی آفریں پیکروں میں منقش ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ پانچ بندوں کے پانچ زمزمے مل کر ایک بسیط نغمے کی ترکیب کرتے ہیں نظم کی ابتدا سے انتہا تک یہ نغمہ آہستہ آہستہ پھیلتا اور حجم میں بڑھتا جاتا ہے اس کا آغاز فطرت سے ہوتا ہے اور انجام محبت پر، جبکہ دونوں کے درمیان قدر مشترک ایک احساس فراق، اس کی بے تابی اور تابداری ہے۔ یہ بے تابی و تابداری تلاش حق اور عرفان حق دونوں کا باعث ہے۔ فطرت اور محبت دونوں کے نغمات کے اندر معرفت روح نغمہ بن کر کام کرتی ہے اور در و فراق کو نہ صرف گوارا ملکہ خوشگوار بناتی ہے ’’ ذوق و شوق‘‘ ایک غنائیہ کی طرح لطیف و نفیس رقصاں و تپاں، پر کیف اور وجد آور ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بال جبریل کا تغزل مقطر ہو کر اس نظم میں مجسم ہو گیا ہے اقبال کی اہم ترین نظموں کی چند بہترین صدائے بھی اس نظم میں گونجتی محسوس ہوتی ہیں۔ پہلا بند فطرت کی بہترین شاعری کا ایک باب ہماری نگاہوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے: قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردہ وجود دل کے لیے ہزار سود، اک نگاہ کا زیاں سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ! صنم کو دے گیا رنگ برنگ طیلیاں گرد مے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی دشت میں صبح کا سماں ہے چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں ہیں، یہ شاعر کے لیے قلب و نظر کی زندگی ہے اس لیے کہ وہ خیاباں کی جلوت کی بجائے بیاباں کی خلوت پسند کرتا ہے، عالم تنہائی میں دشت کی پہنائی کتنی ہی خوفناک ہو، اس کی مہم جو طبیعت کو پسند کرتا ہے، اس کی روح صحن چمن کی محدود فضا کی بجائے صحرا کی وسعتیں طلب کرتی ہے، پھر: حسن بے پرواہ کو اپنی بے حجابی کے لیے ہوں اگر شہر سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن (غزل۔ بال جبریل) چناں چہ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھ کر شاعر محسوس کرتا ہے کہ پردہ وجود چاک ہو گیا ہے اور حسن ازل بے پردہ ہو کر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے۔ لہٰذا ایک نگاہ کا زیاں، دل کے لیے ہزار گونہ سود مند ہے۔ یہ احساس جن دل فروز فروز مناظر سے ابھرتا ہے ان میں چند صحرا کی مناسبت سے یہ ہیں۔ سحاب شب کے رخصت ہو جانے کے بعد آسمان پر سرخ و کبود بدلیاں منڈلا رہی ہیں اور کوہ اضم رنگ برنگ چادروں میں لپٹا ہوا نظر آ رہا ہے جو ان رنگیں بدلیوں نے ان کی چوٹیوں پر بنی ہیں، ہوا بالکل صاف، ہر قسم کے گرد و غبار سے پاک ہے اور برگ نخیل شبنم صحرا کے بڑے بڑے قطروں سے دھل کر تازہ و شاداب شاخوں پر کھڑے ہیں، نواح کاظمہ کی ریگ شبنم کی تری سے ریشم کی طرح نرم ہو گئی ہے۔ یہ تین تصویریں فضا کے تین عناصر کی ہیں، ایک آسماں کا افق ہے، جس پر پہاڑ کی چوٹیاں سر اٹھائے ہوئے ہیں، دوسرے نخلستان ہے جس کے سبز و شفاف پتے صبح کی ہوا میں چمک رہے ہیں، تیسرے زمین کی ریگستانی سطح ہے جو شبنم سحر سے ملائم ہو چکی ہے۔ یہ بڑی ٹھوس واقعاتی تصویریں ہیں اور دشت میں صبح کے سماں کی جیتی جاگتی، زندہ و تابندہ پیکر تراشی کرتی ہیں۔ یہاں یاد کر لینا چاہیے کہ سر نظم شاعر کی وضاحت کے مطابق (’’ ان شاعر میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘ ) یہ نظم اکثر اشعار کے متعلق ہے، لہٰذا زیر نظر بند جو ابتدائے نظم ہے، ضرور ہی فلسطین میں رقم کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس دشت میں منظر صبح کی تصویر ہماری نگاہوں کے سامنے ہے وہ دشت عرب ہے۔ اس تصویر میں فلسطین کے ذکر کے باوجود ’’ کوہ اضم‘‘ اور’’ نواح کاظمہ‘‘ کے متعلق کسی جغرافیائی الجھن میں پڑنے کی ضرورت نہیں، اس لیے کہ فلسطین بھی عرب ہی کا ایک حصہ ہے۔ لہٰذا شام سے حجاز تک اور فلسطین سے مکہ و مدینہ تک ایک ہی زمین و آسمان اور اس کی جغرافیائی تاریخ ہے۔ وہی دشت و کوہ وہی ریگ زار و تخیل، وہی سحاب و ہوا ہر جگہ ہے خواہ وہ شام کا دریا ہو یا نواح حجاز، اس لیے اگر دشت عرب کی منظر نگاری فلسطین میں بیٹھ کر کی جائے اور مکہ و مدینہ کے کوہستان و ریگستان کے نام لیے جائیں تو موضوع و مقصود کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ مکہ و مدینہ کی مرکزیت کے سبب فلسطین میں ان کے آثار و مظاہر کی یاد اس ذوق و شوق کے مطابق ہے جس کا اظہار نظم میں ہوا ہے۔ اس پورے منظر میں اصل چیز حسن ازل کی نمود ہے جس کے لیے دشت و کوہ و ریگ زار تخیل کو صرف پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور تھوڑے غور سے واضح ہو سکتا ہے کہ حسن ازل سے مراد مظاہر فطرت نہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ جلوۂ حقیقت ہے جو کبھی وادی سینا میں نمایاں ہوا، کبھی وادی فاراں میں، اور اس کا مکمل ظہور آخر الذکر ہی میں ہوا جس کے حقیقی مناظر کوہ اضیم اور نواح کاظمہ ہیں۔ اس طرح دشت عرب میں طلوع سحر طلوع اسلام بھی ہے۔ قلب و نظر کی زندگی اقبال کے لیے صرف منظر و مظہر میں نہیں، اس کے اندر مضمر جلوۂ حق میں ہے جو جلوۂ حسن ازل ہے اور اقبال کا مرکز حسن و حق نواح کاظمہ اور دیار اضم ہی میں واقع ہوا ہے۔ دشت میں قلب و نظر کی فطری زندگی کی تصویر کی تکمیل نواح کاظمہ کے ریگ زار میں انسانی قافلوں کے سفر سے ہوتی ہے، ریگستان میں جہاں تہاں قافلوں کے قیام و رحلت کے نشاں پائے جاتے ہیں، کہیں آگ بجھی ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کارواں نے تھوڑی دیر کے لیے قیام کیا تھا اور کہیں خیمے کی رسی کا کچھ حصہ ٹوٹا پڑا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چندے دم لینے کے بعد کارواں راہ کے اگلے مرحلے کی طرف کوچ کر چکا ہے یہ صورت کسی ایک کارواں کی نہیں، بے شمار کارواں اسی طرح اس مقام سے جس کی تصویر کھینچی گئی گزرتے رہے ہیں۔ کارواں کے قیام و رحلت کا یہ مرقع بڑا حقیقی، بڑا حسین، بڑا خیال انگیز ہے لیکن یہ محض قافلے کی تصویر کشی نہیں ہے، یہ کاروان حیات کا نقشہ ہے اور جس مقام پر کارواں کا پڑاؤ بتایا گیا ہے وہ دنیا کی سرائے فانی ہے جہاں عارضی طور پر بالکل مسافروں کی طرح مختلف نسلوں کے بے شمار قافلے آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ اس تشریح و تجزیہ سے اقبال کی فطرت نگاری کی تہیں معلوم ہوتی ہیں، وہ بڑے لطیف استعاراتی انداز سے مناظر و مظاہر کی حسین سے حسین تصویر کشی کو ایک بلند تر مقصد کی طرف موڑ دیتے ہیں جس سے تصویر کا حسن بھی دوبالا ہو جاتا ہے اور مقصد فن بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ صحیح معنے میں بے جان تصویر میں جان ڈالنا، جسم میں روح پھونکنا، فطرت میں انسانیت پیدا کرنا اور استعارہ و ایما کے ذریعے الفاظ کے معانی میں فنی توسیع کرنا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی قوت تخیل اور قدرت بیان بے مثال ہیں۔ چنانچہ فطرت کی منظر نگاری کے آخر میں ٹیپ کا شعر پورے بند کے مفہوم میں ایک بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ جب دشت میں طلوع سے حسن ازل کی نمود اپنے عروج پر تھی اور قلب و نظر کی زندگی کا سامان ہو رہا تھا صدائے جبرئیل مذائے غیب بن کر آئی او راس نے حسن منظر میں محو شاعر کو پیام دیا کہ اس کا مقام یہی دشت حیات ہے جو کسی منزل کی گزر گاہ ہے اور اس میں وقفہ قیام کے باوجود سفر ہی سفر ہے۔ یہ گردش مدام ہی اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہ دونوں ترکیبیں بے حد معنی خیز اور خیال آفریں ہیں اور موضوع نظم کا احاطہ کرتی ہیں، اہل فراق وہ سبھی ہستیاں ہیں جو اپنی منزل سے جدا ہیں مگر مطلوب و محبوب منزل کی طرف کی طرف مسلسل گامزن ہیں اورتاحیات رہیں گی۔ اسی تگ و دو میں ان کے لیے راحت و مسرت ہے۔ گویا فراق میں سعی وصال، عیش دوام ہے۔ یہاں صدائے جبرئیل، حسن ازل کی وحی ہے اور سینا و فاراں کا دشت معرفت شاعر کا حقیقی مقام ہے وہ اپنے محبوب سے بچھڑاہوا اور اس کا متلاشی، اہل فراق ہے، چنانچہ جدائی و جستجو ہی اس کے لیے عیش دولم ہے۔ دوسرا بند ایک بسیط کیفیت فراق کا بیان ہے جس میں عصر حاضر کی حق پرستی سے دوری اور عشق مقصود سے محرومی کا درد ناک اور درد مندانہ ذکر ہے: کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات کہنہ ہے بزم کائنات، تازہ ہیں میرے واردات کیا نہیں اور غزنوی کار کہ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات ذکر عرب کے سوز میں، فکر عجم کے ساز میں نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات قافلہ حجاز میں ایک حسیںؓ بھی نہیں گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شروع و دیں بت کدہ تصورات صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق فراق زدہ شاعر اپنے ماحول میں ایک اجنبی ہے، خدا سے جدا، خلق میں بھی بیگانہ: کوئی بتاقئے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور سب آشنا ہیں یہاں ایک میں ہوں بیگانہ (غزل۔ بال جبریل) اس لیے کہ شاعر ایک منفرد ذہن رکھتا ہے اور اپنے ماحول سے مطمئن نہیں، وہ پوری بزم کائنات ہی کو اپنے تازہ واردات کے پیش نظر کہنہ و فرسودہ پاتا ہے، لہٰذا زندگی اس کے لیے زہر ہے اور مئے حیات، تلخ وہ ایک ہی محبوب۔۔۔۔۔ حسن ازل۔۔۔ کا پرستار ہے اور اس کے سوا کسی کو کارگہ حیات میں کارفر دیکھنا نہیں چاہتا۔ لیکن عصر حاضر میں حقیقت سے دوری اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہر طرف مجاز ہی مجاز کی پرستش ہو رہی ہے، یہاں تک کہ حرم میں بھی ’’ سومنات‘‘ کا منظر نظر آ رہا ہے۔ تاریخ کے ایک مرحلے پر دور قدیم میں ایک غزنوی اس وقت کے سومنات کی بت شکنی کے لیے نمودار ہواتھا، جبکہ دیر میں بت پرستی کا دور دورہ تھا، مگر دور جدید میں تو حرم بھی بت خانہ بنا ہوا ہے۔ چنانچہ بتان عصر حاضر، بھی کسی غزنوی کے منتظر ہیں۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ کیا عرب، کیا عجم، کیا ذکر، کیا فکر نہ کہیں سوز ہے، نہ کہیں ساز، خواہ وہ مشاہدات ہوں یا تخیلات، سب جذبہ حق اور جلوۂ حسن سے خالی او رمحروم ہیں۔ حجاز کا کاروان توحید تو موجود ہے اور دجلہ و فرات کی لہریں ایک بدپھر ید ان وقت سے لڑ کر اپنا خون بہانے والے شہیدوں کی راہ دیکھ رہی ہیں، لیکن پورے کارواں میں حسینؓ جیسا سرفروش امام جہاد موجود نہیں۔ لہٰذا جماعت بے قیادت اور جرأت ایمانی سے خالی ہے۔ یہ کم ہمتی اور پست حوصلگی اس لیے ہے کہ دلوں میں عشق کی گرمی ایمان کی حرارت باقی نہیں رہی، نہ دین کی غیرت ہے، نہ ملت کی حمیت، نہ خدا و رسولؐ کی محبت، نہ خلق خدا سے الفت۔ عقل و دل و نگاہ، سب بے سمت ہیں، بے کار ہیں، اس لیے کہ سب کا مرشد اولیں، تو عشق ہے اور وہ موجود نہیں۔ چنانچہ یہ اس کا فقدان ہی ہے جس نے شرع و دیں تک کو بت کدہ تصورات بنا کر رکھ دیا ہے۔ بہرحال، یہ صداقت اپنی جگہ ہے کہ خواہ آتش کدہ نمرود کے مقابلے میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا معرکہ ہو یا میدان کربلا میں حضرت امام حسینؓ کا معرکہ ہو یا بدر و حنین میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معرکہ ہو۔۔۔۔ سب کی روح، سب کی قوت محرکہ، سب کا جذبہ عشق اور صرف عشق تھا، حسن ازل کا عشق، محبوب حقیقی کا عشق، اس کے پیام توحید کا عشق، اس کے نظام اسلام کا عشق۔ تیسرا بند عشق کی دولت گم گشتہ کی جستجو پر مشتمل ہے: آیہ کائنات کا معنی دیر باب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو جلوتیان مدرسہ کو رنگاہ و مردو ذوق خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو باد صبا کی موج سے نشوونمائے خار و خس میرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو فرصت کش مکش مدہ ایں دل بے قرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را خطاب براہ راست حسن ازل، محبوب حقیقی سے ہے جو کائنات میں وجود باری تعالیٰ کی چاروں طرف پھیلی ہوئی آیات کا معنی و مطلب ہے۔ مگر بآسانی سمجھ میں نہیں آتا، مظاہر کی دل فریبی پردہ بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ کائنات و حیات کے بے شمار قافلہ ہائے رنگ و بو حسن کے عشق میں سرشار ہو کر اس کی تلاش میں نکلے اور آج حالت یہ ہے کہ اکیا علم و عقل کے مدعی مدرسے اور کیا عشق و عرفان کے دعویدار مے کدے، کیا جلوتی اور خلوتی، سب کے سب تلاش حق میں ناکام اور مرکز حسن سے دور ہیں، کوئی کور نگاہ و مردہ ذوق ہے کوئی کم طلب و تہی کدو، محبوب کا رنگ و بو نہ تو جدید درس گاہوں میں ہے، نہ قدیم خانقاہوں میں، نہ مغرب کے عقل پرست اداروں میں، نہ مشرق کے مدعی عشق اداروں میں ایسے ماحول میں شاعر دیکھتا ہے کہ صرف اس کی غزل میں آتش رفتہ کا سراغ پوشیدہ ہے، اس کا فن عشق کی متاع گمشدہ کا طالب ہے اور اس کے عمل کی تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو ہے، وہ عشق کی بجھی آگ کو پھر سلگانا چاہتا ہے تاکہ دلوں میں محبت کا اجالا پھیلے، نگاہوں میں روشنی آئے، دلوں میں ذوق و شوق زندہ ہو، مینائے غزل اور کدوئے زندگی مے محبت سے بھر جائیں اور حسن ازل کے دیوانے مے کدہ عشق کے رندان بلا نوش بڑھ بڑھ کے جام پر جام طلب کریں اور سرشار ہوں شاعر کی غزل ایک ایسے نفس کی موج ہے جس سے نشوونمائے آرزو ہے، جبکہ باد صبا کی موج سے محض نشوونمائے خار و خس ہے۔ اس طرح فطرت کے حسن سے زیادہ موثر و مفید ہے شاعر کا عشق اور اس سے پیدا ہونے والا جمال فن۔ ایسا بلا وجہ نہیں، شاعر کی نوا کی پرورش، خون دل و جگر سے ہوتی ہے اور اس کے ساز شاعری میں صاحب ساز کا لہو، ہی نغمہ آفریں ہے۔ بدلی ہوئی شکل میں یہ وہی خون حسین ؑ ہے جس کی طلب کربلائے وقت کے دیار میں بہنے والے دجہ و فرات کو ہے اور یہ ساز بھی وہی فکر عجم کا سایہ ہے جس میں عجمی تخیلات کے ساتھ ساتھ ذکر عرب کا سوز اور عربی مشاہدات بھی موجود ہیں۔ لیکن خود شاعر اپنی مینائے غزل میں ذرا سے بچے ہوئے بادہ مشانہ کو پورے مے کدہ وقت کے لیے کافی نہیں سمجھتا اور تمنا کرتا ہے کہ بادۂ عشق اس کے دل و جگر کو زیادہ سے زیادہ پر کر دے۔ لہٰذا وہ حسن ازل سے التجا کرت اہے کہ وہ اپنے گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کرے اور دل ’’ بے قرار‘‘ کو’’ فرصت کش مکش‘‘ نہ دے، اسے عشق کے لیے یک سو کر دے، ہوش و خرد اور قلب و نظر کو حسن ازل کے جمال جہاں سوز پر مرکوز کر دے: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر (غزل۔ بال جبریل) گیسوئے دجلہ و فرات کی تابداری کی طرف واضح اشارہ ٹیپ کے مصرع ثانی ایک اور شکن زیادہ کن گیسوئے تاب دار را میں مضمر ہے۔ یہ دونوں ہی بند استعارہ و علامت کے نگار خانے ہیں اور ان کی تصویروں کے اشارات سوال و جواب کی طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ بند2میں مے حیات، بزم کائنات، غزنوی، سومنات، ذکر عرب، فکر عجم، سوز، ساز، قافلہ حجاز، حسینؓ، گیسوئے دجلہ و فرات، بت کدہ تصورات، صدق خلیلؑ، صبر حسینؓ بد ر و حنین۔۔۔ استعارات و علامات و تلمیحات کی ایک دنیا آباد کرنے والے پیکر ہیں۔ یہ پیکر ٹیپ سے قبل کے پانچ اشعار میں نفی تصورات کے ذریعے ایک استفہام کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ بند3میں سابق بند کی ٹیپ کے اثبات کی تفصیل و تشریح کے ذریعے استفہام کا جواب دیا جاتا ہے اور پھر حسین و جمیل پیکروں کا ایک آئینہ خانہ سجایا جاتا ہے۔ ’’ آیہ کائنات‘‘ معنی دیر یاب قافلہ ہائے رنگ و بو، جلوتیان مدرسہ، خلوتیان مے کدہ، غزل آتش رفتہ، باد صبا کی موج، خون دل و جگر، نشوونمائے آرزو، رگ ساز، صاحب ساز کا لہو، گیسوئے تابدار۔ ان فنی پیکروں کی خیال آفرینی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف تین تصویروں پر غور کرنا کافی ہو گا جو بہ ظاہر سامنے کی ہیں مگر سیاق و سباق اور طریق استعمال نے انہیں بہت ہی دقیق و لطیف اور دبیز و نفیس بنا دیا ہے۔ قافلہ حجاز میں حسینؓ کے فقدان کے ساتھ عراق کے دو دریاؤں دجلہ و فرات کی خوں طلبی کا اشارہ کیا گیا اور اس مقصد کے لیے صرف ایک گیسو کو، تاب دار، کہہ کر عشق و فرض کی عظیم ترین قربانی کی یاد تازہ کر دی گئی ہے۔ قافلہ حجاز کا دریائے عراق پر لٹنا اور کٹنا اور اسکی موجوں کو اپنے خون سے سرخ کرنا پیام عشق کی سیلابی و طوفانی حرکیت کا ایک زبردست نقش ہے، حجاز سے چل کا عراق آنا اور راہ عشق میں قدم بڑھاتے ہوئے مر جانا، وطن کے عیش و آرام کو چھوڑ کر حق پر قربان ہونے کے لیے اجنبی وادیوں کا سفر کرنا یقینا حسن ازل کے گیسوئے تابدار کی ہوش ربا کشش ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ یہ شمع پر پروانے کا نثار ونا اور اس کے شعلوں کو اور سے اور فروزاں کرنا ہے نور حق پر نچھاور ہو کر اس کی لو کو بڑھانا ہے لیکن دور حاضر عشق کی اس کشش، محبت کے اس ایثار اور راہ حق میں جذبہ جہاد سے خالی ہو چکا ہے، اسی لیے دلوں کی کھیتیاں اجڑی ہوئی ہیں، گلستان حیات سے بہاریں روٹھ چکی ہیں، شمع زندگی کی لو بجھتی نظر آ رہی ہے۔ لہٰذا ہمارے سامنے شاعر کی غزل کی تصویر آتی ہے اور اس ایک پیکر سے یکایک عشق و محبت، حسن و جمال، عاشق و معشوق، شمع و پروانہ ، سوز و ساز اور ایثار و قربانی کے سارے افسانے تازہ ہو جاتے ہیں۔ غزل محبوب سے راز و نیاز ہے محبوب کے حسن و جمال کی داستان ہے، عاشق کے جذبہ فدائیت کا نغمہ ہے۔ اس سے حسن ازل کے گیسوؤں میں اور سے اور تاب داری پیدا ہوتی ہے اور عاشق ازل کے دل میں اس پر قربان ہونے کا ولولہ اور سے اور بڑھتا ہے۔ شاعر کی غزل کا محبوب یہی حسن ازل ہے اور اسی کی محبت میں اس نے اپنا دل خون کر لیا ہے۔ چنانچہ اس کے ساز سے جو نغمہ رواں ہے اس کی پرورش اس کے خون جگر سے ہوتی ہے۔ یہ خون دل و جگر حسن ازل کے ایک اور عاشق کے خون کی یاد دلاتا ہے جو کبھی معرکہ کرب و بلا میں دجلہ و فرات کے کنارے بہا تھا اور ہر دور میں حسن ازل کے عشاق اپنا خون دل و جگر اسی طرح بہا کر گلشن وجود کی آبیاری اور چمن حیات کی شادابی کا سامان کرتے رہے ہیں، کبھی آتش کدہ نمرود میں اور کبھی میدان بدر و حنین میں۔ ایک لفظ غزل کے یہ مضمرات اس لیے ہیں کہ اس سے قبل ایک تصویر قافلہ ہائے رنگ و بو کی متعلقہ بند کے شروع ہی میں آ چکی ہے۔ پوری کائنات ہستی ایک آیت ہے اور اس کا معنی وہی حسن ازل ہے، لیکن اس معنی کا دریافت کرنا آسان نہیں، اس کے حصول کے لیے آگ اور خون کے دریاؤں سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور عشاق قافلہ در قافلہ ریگ زار عالم میں اپنا خون بہاتے اور خون کے کتنے ہی دریا جاری کرتے ہوئے صدیوں سے گزرتے رہے ہیں۔ یہ ساری قربانیاں انہوں نے آیہ کائنات کے معنی کی تلاش میں دی ہیں۔ ان کا خون نذرانہ محبت ہے، ان کا قافلہ محبت اور محبوب کے رنگ و بو کا قافلہ ہے، شہادت حق کی تزئین وجود ہے: دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خون عرب سے کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کی تھی نعرہ لاتذر میں (طارق کی دعا۔ بال جبریل) چوتھا بند خالص حمد کا بند ہے، حسن ازل کے حضور قلب عاشق سے پر شوق نغمہ داؤد بے اختیار ابھرتا ہے: لوح بھی تو قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود فقر جنیدؓ و با یزیدؓ تیرا جمال بے نقاب شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے ایک ایک لفظ چنا ہو ااو راپنی جگہ نگینے کی مانند جڑا ہوا ہے۔ یہ غزل الغزلات ہے۔ اس میں آفاق کی پہنائی بھی ہے، انفس کی گہرائی بھی، نکتہ بھی، جذبہ بھی، نغمہ بھی، ایک والہانہ پن، ایک سرمستی، ایک رعنائی، سوز و سرود، لوح و قلم، ذرہ آفتاب، جلال و جمال، عشق و عقل، غیاب و حضور، جستجو و اضطراب، سبھی کیفیات عشق کے نقوش یکجا اور یک جہت ہیں، حسن ازل کی شان دیکھیے کہ آسمان کا پور ا’’ گنبد آبگینہ رنگ‘‘ اس کے ’’ محیط‘‘ میں فقط ایک ’’ حباب‘‘ ہے پھر یہ شان بھی دیکھیے کہ تین حصہ آب اور ایک حصہ خاک کی دنای میں حسن ازل کا ایک جلوہ ’’ ذرہ ریگ‘‘ کو شعاع آفتاب کی طرح چمکا کر سارے عالم کو روشن کر دیتا ہے۔ اس شان میں جلال اتنا کہ ’’ شوکت سنجر و سلیم‘‘ اس کا ادنیٰ نمونہ اور جمال ایسا کہ فقر جنید و با پزید میں بے پردہ اسی شان جلال و جمال کے حامل حسن ازل کا ’’ شوق‘‘ شاعر کو مطلوب ہے، جس کے بغیر اس کی نماز بے معنی و بے اثر ہے۔ نہ قیام میں دیدار محبوب نہ سجود میں مشاہدہ حق لیکن اگر کسی کو یہ شوق اور ذوق نصیب ہو جائے تو پھر عقل و عشق دونوں ہی شاد کام ہیں، اس لیے کہ نگاہ ناز دونوں کو آشنائے راز کر رہی ہے، گرچہ ہر ایک کی کیفیت دوسرے سے مختلف ہے، عقل غیاب میں ہے اور عشق حضور میں، بہرحال غیاب، اگر جستجو پر مائل کرتاہے تو حضور اضطراب میں مبتلا کرتا ہے اور دونوں ہی کیفیات ’’ ذوق و شوق‘‘ کی ہیں۔ اس طرح مختلف ہوتے ہوئے بھی حسن ازل کی ایک نگاہ التفات عقل و عشق دونوں کو بے قرار کر دیتی ہے، جو اصل کامیابی ہے اور اس میں دونوں طریقہ ہائے تلاش ہم آہنگ ہیں۔ دونوں کا ایک مقصد ہے۔۔۔۔ آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تلاش کرنا یہ تلاش عقل کے علوم ظاہری اور مشاہدہ خارجی سے بھی ہو سکتی ہے اور عشق کے علوم باطنی اور مطالعہ داخلی سے بھی، شرط یہ ہے کہ دونوں کا مقصود حسن ازل کی نمود ہو اگر یہ شرط پوری ہو جائے تو حسن کی نگاہ ناز، دونوں ہی طریقوں پر پڑ سکتی ہے اور ان کی مراد پوری ہو سکتی ہے، ان کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے جو عقل کے لیے جستجو ہے اور عشق کے لیے اضطراب۔ لیکن ٹیپ کا شعر واضح کرتا ہے کہ نہ تو عقل کو حسن ازل کا ذوق ہے نہ عشق کو حسن ازل کا شوق ہے، عصر حاضر میں آیہ کائنات کے معنی پر حجاب ہی حجاب پڑا ہوا ہے، کیا علوم ظاہری، کیا علوم باطنی، کیا مدرسہ جدید، کیا میکدہ قدیم، کیا جلوت کے طلب گار، کیا خلوت کے متلاشی، سب کی عقل اور دل دونوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہر صبح آفتاب کے افق عالم پر نمودار ہونے اور سطح زمین پر روشنی پھیلانے کے باوجود چار سو تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری کائنات بوسیدہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے اہل جہاں کی طبیعت میں فرسودگی آ گئی ہے اور وہ مضمحل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اب انسانیت کی نشاۃ ثانیہ کی واحد امید یہی ہے کہ ایک بار پھر حسن ازل اپنا جلوہ اسی طرح بے حجاب دکھائے جس طرح اس نے تاریخ کے گزشتہ نازک مراحل پر دکھایا ہے، کبھی نگاہ ابراہیم ؑ کو، کبھی نگاہ موسی ؑ کو، کبھی نگاہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیکن ختم المرسلین ؐ کے بعد اب کسی رسول کی نگاہ پر آیہ کائنات کے معنی دیر یاب کے روشن ہونے کا سوال نہیں۔ ہاں اس رسول ؐ کی امت میں کوئی بندہ حق میں امام حسنؓ کی طرح جلوہ حق دیکھ کر اپنی شہادت حق سے زمانے میں اجالا پھیلا سکتا ہے، انسانیت کو تازہ دم کر سکتا ہے، بنی نوع کو نئے حوصلوں اور ولولوں سے سرشار کر سکتا ہے۔ اس شعر کی خوبصورتی اور خیال آفرینی ایک قول محال پر مبنی ہے تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے دنیا جانتی ہے کہ آفتاب کی گردش ایک علامت نور ہے، لیکن شاعر اسے پیکر ظلمت قرار دے رہا ہے۔ یہ ایک تجسس انگیز بات ہے اور غور کرنے سے آشکار ہوتا ہے کہ شاعر کا مقصد دلوں کی روشنی ہے نہ کہ زمین پر اور فضا میں پھیلنے والی شعاعیں جو روز طلوع آفتاب کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں، مفہوم یہ ہے کہ شعاعیں تو ہر روز کی گردش زمین کے ساتھ، جسے استعاراتی طور پر حسن معنی کے لیے آفتاب سے منسوب کر دیا گیا ہے، ظاہری اجالا دنیا میں پھیلاتی ہیں، مگر اس کے باوجود انسان کے قلب و ذہن کی تاریکی نہیں جاتی بلکہ روز بروز بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ عصر حاضر میں تہ بہ تہ تاریکی کے پردوں نے جہاں کو تیرہ و تار کر دیا ہے اور گھٹا ٹوپ اندھیرا افق عالم پر چھا گیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر حسن ازل کا جلوۂ بے حجاب ایک بار پھر نمودار ہو تو طبع زمانہ تازہ نظر آنے لگے، یعنی باطن کی روشنی روح کو منور کر دے اور اسے حقائق صاف صاف نظر آنے لگیں، بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت پیدا ہو جائے۔ چشم سر کے ساتھ ساتھ چشم دل وا ہو جائے۔ آخری بند شاعر کے ذوق و شوق کی مکمل تصویر اس کے ہر رخ اور رنگ کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب گاہ بجیلہ می برد گاہ بزورمی کشد عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب گرمی آرزو فراق! شورش ہاو ہو فراق! موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق! ’’ علم نخیل‘‘ ،’’ بے رطب‘‘ ،’’ معرکہ کہن‘‘، عشق تمام مصطفیٰؐ ، عقل تمام بولہب، عالم سوز و ساز، موج کی جستجو اور قطرہ کی آبرو جیسے چند پر معنی پیکروں کے ذریعے یہ خیالات ظاہر کئے گئے ہیں کہ شاعر نے جو مادی علوم عقل حاصل کیے وہ عرفان حق کے معاملے میں بے ثمر ثابت ہوئے۔ کیا خوب استعارہ ہے، کھجور کے درخت کا علم تو حاصل کیا مگر یہ علم کھجور کا پھل نہ دے سکا! اس لیے کہ علم پھل نہیں، درخت دیتا ہے اور کھجور کی خاصیت جاننا ایک بات ہے، کھجور کا پھل کھانا دوسری بات۔ دشت عرب اور نواح کاظمہ کے پس منظر میں یہ استعارہ بہت ہی چست اور موزوں ہے۔ بہرحال شاعر اپنے علم کی اس بے ثمری سے اس کے حصول کے دوران اور ایک عرصہ دراز تک اس کے بعد بھی بے خبر رہا۔ اس لیے کہ مدت تک اس کی نگاہوں پر پردہ پڑا رہا ہے، لیکن اب کہ یہ پردہ اٹھ چکا ہے یا اٹھ رہا ہے اس کا دل ذوق و شوق سے معمور ہے۔ چنانچہ وہ خود اپنے اوپر طاری ہونے والی کیفیات اور ان کے درمیان اپنے تصور عشق کے ارتقا کا تجزیہ کرتا ہے، اول اول شاعر کے ضمیر میں عقل و عشق کا تاریخی معرکہ کہن بپا ہوا عقل کی علامت اور مجسمہ بولہب اور عشق کی علامت اور نمونہ ’’مصطفیٰؐ‘‘ دونوں ہی کی کش مکش شروع ہو گئی، بولہبی نے حسن ازل سے روگردانی اور سرکشی کا احساس پیدا کیا اور مصطفائی نے حسن ازل کے سامنے سر تسلیم و اطاعت خم کرنے کا جذبہ ابھارا۔ یہ کش مکش اقبال کے نزدیک ذاتی طور پر معرفت نفس اور معرفت حق کا پیش خیمہ ہے اور اجتماعی طور پر ارتقائے حیات کا ایک ضروری عمل: اسی کش مکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی (غزل۔ بال جبریل) ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بو لبہی (ارتقا۔ بانگ درا) چنانچہ شاعر منزل عشق کے تمام مراحل سے گزرا اور اس کی طبیعت نے ہر مرحلے سے لطف بھی لیا اور سبق بھی عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب ابتدا میں حیلہ و حوالہ اور حجت و تامل کی کیفیت ہوتی ہے، جبکہ انتہا میں ایک زور دار کشش انسان کے پورے وجود کو جلوۂ حسن اور جذبہ محبت میں جذب کر دیتی ہے۔ لیکن یہ جذب ضم ہونے پر دلالت نہیں کرتا، اس لیے کہ عشق حضور کے باوجود اضطراب ہے جو فراق کی علامت ہے جبکہ وصال میں قرار و سکون ہوتا ہے۔ یہی جذبہ و اضطراب عشق کا معیار ہے۔ محبت ایک عالم سوز و ساز ہے یعنی ایک دائمی حرکت و عمل ہے خواہ وہ سوز کی شکل میں ہو یا ساز کی صورت میں اس عالم میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق اس لیے کہ وصل میں مرگ آرزو ہے اور ہجر میں لذت طلب طلب و تمنا ہی محبت کی اصل حقیقت ہے، جو ہجر و فراق ہی میں ممکن ہے جبکہ وصل کی آسودگی کے بعد نہ کسی تمنا کا سوال ہے، نہ کسی طلب کا موقع سارا معاملہ آرزو کا ہے۔ تیسرے بند میں شاعر نے کہا تھا کہ اس کے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو ہے۔ یہ آرزو فراق میں زندہ و تابندہ رہتی ہے۔ مگر وصال میں مر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موقع وصال اگر کبھی پیدا بھی ہوتا ہے تو شاعر کی نگاہ رخ محبوب کی طرف اٹھنے تک کا حوصلہ نہیں رکھتی، کچھ تو رعب حسن ہے اور کچھ ادب عشق اسی لیے ٹیپ سے پہلے کا آخری شعر بہت معنی خیز ہے: عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب بہانہ جوئی کے باوجود حوصلہ نظر نہ ہونا بڑی بے بسی کی بات ہے مگر شاعر بہانہ جوئی کو بے ادبی کہتا ہے، یہ دراصل ادب کی انتہا ہے کہ دیدار محبوب کا بہانہ تلاش کرنے تک کو بے ادبی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے عشق میں اور محبوب کے متعلق شاعر کی لطافت احساس نیز شدت احساس کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہرحال، سوال یہ ہے کہ جب عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق، اور وصل میں مرگ آرزو ہے تو یہ عین وصال کا موقع کب پیدا ہو، اس کا مفہوم کیا ہے؟ یہ سوال صرف ایک بند کے ایک دو اشعار تک نظر کو محدود رکھنے سے پیدا ہوتا ہے، ورنہ پوری نظم کے ارتقائے خیال کو ابتدا سے انتہا تک دیکھا جائے تو مفہوم واضح ہے اور سوال کا جواب بھی اتنا عیاں کہ سوا غیر ضروری ہو جاتا ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ آخری بند کے آخری شعر میں (ٹیپ سے قبل) جب موضوع کے تمام نکات و مضمرات کو سمیٹ کر ایک نتیجہ نکالا جا رہا ہے، وصال کا بیان ضروری تھا، تاکہ فراق کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کا پورا وہ منظر نامہ واضح ہو جائے جس کی ترتیب پہلے بند کی منظر نگاری سے آخری بند کی کش مکش عقل و عشق تک کی گئی ہے۔ اس ترتیب کو سامنے رکھا جائے تو زیر نظر شعر ہمیں بے اختیار آغاز نظم کے اس شعر کی یاد دلاتا ہے: حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں یہ ہے عین وصال کا وہ موقع جب حسن ازل کا رخ انور بے نقاب تھا اور نگاہ بے ادب، بہانہ نظر تلاش کر رہی تھی، تاکہ دیدار محبوب سے اپنے آپ کو روشن کرے مگر حوصلہ نظر نہ تھا، حالانکہ ایک نگاہ کا زیاں، دل کے لیے ہزار سود تھا اور یہ نگاہ بے ادب، اٹھی بھی، اس لیے کہ بہانہ جو تھی لیکن رخ محبوب پر پڑنے کا یارا اسے نہ تھا، حضور نصیب بھی ہوا تو اضطراب ہی رہا، لمحہ وصال بھی باعث وصال نہ ہوا، اس لیے کہ: گرمی آرزو فراق! شورش ہائے و ہو فراق! موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق! یہ آخری بند کی ٹیپ اور خاتمہ نظم ہے جو پہلے بند کی ٹیپ اور مقدمہ نظم کے بالکل مطابق اور موافق ہے: آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی چنانچہ موج کی جستجو میں جو جذبہ فراق ہے وہ اس کی ہستی کے لیے عیش دوام ہے اور دریا سے الگ اپنا مستقبل وجود رکھنے والے قطرہ کی آبرو میں جو فراق کا پہلو ہے وہ اس کے تشخص کا ایک دائمی وصف اور اس کے لیے راحت جاں ہے۔ غالب کے برخلاف اقبال عشرت قطرہ دریا میں فنا، ہونا نہیں سمجھتے اور نہ وہ ایسی عنایت کی نظر کے طلب گار ہیں جو پر تو خور سے شبنم کو فنا کی تعلیم، کے مانند ہو۔ اقبال ہر حال میں اپنی خودی کی پاسبانی چاہتے ہیں اور ان کا سارا ذوق و شوق اس نکتے میں ہے کہ در حقیقت خودی کی پاسبانی ہی عشق خدا کی نگہبانی ہے۔ غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ خودی حالت فراق ہی میں ممکن ہے اور محبت کی ساری گرمی آرزو، فراق ہی کی بدولت ہے۔ عشق کی تمام جستجو اور اس کی ہاوہو فراق ہی کا اثر ہے۔ تب آخری سوال یہ ہے کہ اس التجا کا مطلب کیا ہے؟ طبع زمانہ تازہ کر جلوہ بے حجاب سے جواب اور مصرعے کا مطلب واضح ہے یہ وہی بات ہے جو بطور ایک واقعہ کے بند اول کے اس مصرعے میں تھی: حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردہ وجود اس کے باوجود کہ یہ دونوں صورتیں عین وصال کی معلوم ہوتی ہیں، شاعر انہیں اہل فراق کے لیے عیش دوام تصو رکرتا ہے اس قول محال پر غور کرنے سے یہ بنیادی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسانی وجود میں خودی و خدا کے درمیان وصال کی حد ادب کیا ہے۔ انسان کی ذات حرم نہیںہے، نہ ہو سکتی ہے۔ اس کے روحانی ارتقا کی حد یہ ہے کہ وہ حرم کا آستانہ بن جائے، بلکہ ہر انسان اصلاً حسن ازل کے حریم ناز کا آستانہ ہی ہے اور اگر وہ اپنی خودی سے غافل نہ ہو اور اس کی پاسبانی کرتا رہے تو یہ آستانہ ہمیشہ سلامت رہے گا اور اسے حریم ناز کا قرب برابر حاصل رہے گا، لیکن تاریخ کے مختلف مراحل پر اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان اپنے آپ سے غافل، اپنی حقیقت سے بے خبر اور اپنی اصلیت سے دور ہو گیا ہے۔ عصر حاضر بھی تاریخ انسان کا ایسا ہی ایک مرحلہ ہے۔ لہٰذا حسن ازل کے جلوۂ بے حجاب کا مطلب ا س کے کچھ نہیں کہ ایک بار پھر آستانہ حرم کی طرح انسان حرم کے قریب آ جائے تاکہ اس کی افسردہ طبیعت تازہ ہو جائے، اس کی خوبیدارہ آرزوئیں بیدار ہوں، ایک قافلہ رنگ و بو پھر آیہ کائنات کی تلاش میں نکلے اور ہمہ دم متحرک و متجسس و مضطرب موج کی طرح دریائے وجود میں رواں ہو، تاکہ بحر وجود میں قطرۂ انسانیت کی آبرو برقرار ہو، سلامت رہے اور بڑھے۔ اس طرح ایک باشعور، آرزو مند اور متجسس شاعر کا ’’ ذوق و شوق‘‘ پوری انسانیت کا ذوق بن جاتا ہے اور ایک فرد کی داستان محبت ایک عالم کی داستان عشق بن جاتی ہے۔ انسانی عشق کے آداب بھی معلوم ہوتی ہے اور اس کا اضطراب بھی اس کی ابتدا و انتہا، اس کا سوز و ساز، اس کا وصال و فراق سب کے حقائق و معارف آشکار ہوتے ہیں۔ اس ذوق و شوق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ نہایت شاعرانہ و فن کارانہ انداز میں شاعری، فن اور زندگی کے سب سے بڑے سب سے بنیادی اور سب سے آفاقی موضوع محبت کی اہمیت اور حقیقت دونوں ہی کا ایک متوازن، بالکل صحیح، مکمل اور نتیجہ خیز شعور پوری نظم کا مرتب مطالعہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس نظم میں محبوب حقیقی کے حضور شکوہ و جواب شکوہ کا ملا جلا مناجاتی انداز پایا جاتا ہے۔ گرچہ اس میں شاعری کی ایک ہی آواز ہے جو شاعر کی ہے، واحد متکلم میں، مگر یہ بڑی پہلو دار، پاٹ دار اور گونج دار آواز ہے، واقعہ یہ ہے کہ کلام اقبال کی پوری آواز کے ارتعاشات اس ایک آواز میں محسوس ہوتے ہیں۔ اس پر معنی تخلیق میں اقبال کا مخصوص رنگ و آہنگ اپنے شباب پر ہے۔ اس سے شاعر کے شوق فکر اور ذوق فن دونوں کی بلندیاں معلوم ہوتی ہیں۔ ٭٭٭ ساقی نامہ ’’ ساقی نامہ‘‘ کا کوئی متعین موضوع نہیں بلکہ یہ فکر اقبال کے عمومی و اساسی مضامین کا مجموعہ ہے اس میں پیام اقبال کے نمایاں عناصر کی تلخیص و تقطیر کی گئی، گویا یہ عطر مجموعہ ہے۔ چنانچہ مختلف اہم تخلیقات میں بکھرے ہوئے موضوعات اس نظم میں یک جو و یک جہت ہو گئے ہیں۔ یہ ایک نہایت خوشنما اور دبزی و نفیس قالین ہے جس میں متعدد رنگوں کے متنوع نقوش ایک دوسرے میں سمو کر بن دئیے گئے ہیں۔ عنوانات قائم کئے بغیر، خضر راہ کے ابواب۔۔۔ صحرا نوردی، زندگی، سلطنت، سرمایہ و محنت، دنیائے اسلام۔۔۔۔ ساقی نامہ کے اندر حل اور باہم و گر پیوست ہیں۔ ان کے علاوہ فطرت کی منظر نگاری، ذوق و شوق کے ارتعاشات اور طلوع اسلام کے ارتسامات بھی نظم کی سطح پر ابھرے ہوئے ہیں۔ لیکن اس تنوع کا ایک مرکز ہے، تصور خودی، جس کے گرد فطرت، عصر حاضر، مغرب و ملت، شخصی واردات اور حرکت و حیات کے نقطے اور زاویے جمع کر دئیے گئے ہیں، گویا خودی کے محور پر پوری کائنات فکر استوار کر دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے مثنوی کی بحر بڑی چستی و چابک دستی کے ساتھ استعمال کی گئی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے رواں دواں مصرعے اجزائے تخیل کو سمیٹ کر ایک رخ پر ہمواری کے ساتھ بہانے میں بہت مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ اس ہیئت سخن میں اقبال کا آہنگ بہت تند و تیز ہو گیا ہے۔ جس سے روانی نغمہ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اول تا آخر حرکت نظم اتنی تیز رفتار ہے کہ کسی ایک تصویر پر نگاہ جمتی نہیں بلکہ پراں تصویریں یکے بعد دیگرے سرعت کے ساتھ ابھرتی اور گذرتی جاتی ہیں۔ اسی لیے رنگ برنگ پیکروں کے باوجود سارا زور آہنگ پر پڑتا ہے اور ترسیل خیال پر معنی صداؤں کے ذریعے ہوتی ہے۔ دقیق سے دقیق نکات لطیف نغمات بن کر فردوس گوش ہوتے ہیں۔ یہ اقبال کی نہایت تیز و شدید صوتی حسیات کا بہترین اظہار ہے۔ گرچہ پیمانہ صوت یعنی مختصر ہے مگر آواز کی باریکی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اس آواز میں بانسری کا سر پلاپن ہے، کہہ سکتے ہیں کہ نظم کے ٹھوس خیالات لطیف آوازوں میں تحلیل ہو کر ایک دوسرے میں اس طرح گھل گئے ہیں کہ ان کو الگ خانوں میں تقسیم کر کے ان کا تجزیہ کرنا دشوار ہے ایک خیال دوسرے میں پیوست ہے، دوسرا تیسرے میں اور تیسرا چوتھے میں۔ اس طرح کڑی سے کڑی نہ صرف ملی بلکہ گتھی ہوئی ہے۔ اس سے ہیئت پر پیچ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت لچکدار ہو گئی ہے اور شاعر کو موقع ملا ہے کہ ہلکے ہلکے خم دے کر تخیل کو ایک کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بہ آسانی موڑتا چلا جائے۔ یہاں تک کہ نقطہ عروج غیر محسوس لیکن مربوط طور پر سامنے آ جائے۔ یہ ایک سیال اسلوب بیان ہے۔ ساقی نامہ کی چند جھلکیاں دیکھئے: فطرت ہوا خیمہ زن کاروان بہار ارم بن گیا دامن کوہسار گل و نرگس و سوسن ونسترن شہید ازل لالہ خونیں کفن جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں لہو کی ہے گردش رک سنگ میں فضا نیلی نیلی، ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور عصر حاضرمغرب زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے ہوا اس طرح فاش راز فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطان سے بیزار ہے گیا دور سرمایہ داری کیا تماشا دکھا کر مداری گیا گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے ملت اسلامیہ دل طور سینا و فاراں دو نیم تجلی کا پھر منتظر ہے کلیمؑ مسلماں ہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش تمدن‘ تصوف‘ شریعت‘ کلام بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب مگر لذت شوق سے بے نصیب بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد محبت میں یکتا‘ حمیت میں فرد عجم کے خیالات میں کھو گیا یہ سالک مقامات میں کھو گیا بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے واردات ذاتی ذوق و شوق جوانوں کو سوز جگر بخشدے مرا عشق میری نظر بخشدے مری نائو گرداب سے پار کر یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر بتا مجھ کو اسرار مرگ و حیات کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات مرے دیدہ تر کی بے خوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں مرے نالہ نیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز امنگیں مری آرزوئیں مری امیدی مری جستجوئیں مری مری فطرت آئینہ روز گار غزالان افکار کا مرغزار مرا دل مری رزم گاہ حیات گمانوں کے لشکر یقین کا ثبات زندگی حرکت حیات دمادم رواں ہے یم زندگی ہر اک شے سے پیدا رم زندگی یہ ثابت بھی ہے اور سیار بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر مگر ہر کہیں بے چگوں بے نظیر یہ عالم یہ تبخانہ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سومنات پسند اس کو تکرار کی خو نہیں کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں من و تو سے ہے انجمن آخریں مگر عین محفل میں خلوت نشیں چمک اس کی بجلی میں‘ تارے میں ہے یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے اسی کے بیاباں اسی کے ببول اسی کے ہیں کانٹے‘ اسی کے ہیں پھول کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت حضر ہے مجاز الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے ہوا ججب اسے سامنا موت کا کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا اتر کر جہان مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں مذاق دونی سے بنی روج زوج اٹھی وحشت و کہسار سے فوج فوج گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے اسی شاخ دسے پھوٹتے بھی رہے سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات بڑی تیز جولاں‘ بڑی زود رس ازل سے ابد تک رم یک نفس زمانہ کہ زنجیر ایام دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے خودی ارتقا یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے! خودی کیا ہے ؟ تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے؟ راز درون حیات! خودی کیا ہے ! بیداری کائنات! خودہ جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند اندھیرے اجالے میں ہے تابناک من و تو میں پیدا من و تو سے پاک ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی تجسس کی تاہیں بدلتی ہوئی دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے کرن چاند میں ہے شرر سنگ میں یہ بیرنگ ہے ڈوب کر رنگ میں اسے واسطہ کیا کم و بیش سے نشیب و فراز و پس و پیش سے ازل سے ہے یہ کش مکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے فرد فال محمود سے درگزر خودی کو نگہ رکھ‘ ایازی نہ کر وہی سجدہ ہے لائق اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام یہ عالم یہ ہنگامہ رنگ و صوت یہ عالم کہ ہے زیر فرمان موت یہ عالم ‘ یہ بت خانہ چشم و گوش جہاں زندگی ہے فقط خورد و نوش خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا‘ جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید‘ آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخی فکر و کردار کا یہ ہے مقصد گردش روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار بالکل واضح ہے کہ ہر منتخب موضوع پر اقبال نے اپنے افکار کا عطر نکال کر رکھ دیا ہے اور بڑے والہان انداز میں جوش و نشاط‘ سرمستی و رعنائی اور سوز و ساز کے ساتھ نغمہ پیرائی کی ہے۔ افکار کی ترتیب و تسلسل بھی نغمے کی طرح منظم ہے ۔ ابتدائے نظم میں فطرت کی پر بہار منظر نگاری کے بعد اور اسی کے تسلسل میں جوئے کہستاں‘ کوہ شکن حرکت کی تصویر کھینچی گئی ہے: وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی‘ لچکتی‘ سرکتی ہوئی اچھلتی ‘ پھسلتی ہوئی ‘ سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ اس کے بعد شاعر سے مے پردہ سوز‘ طلب کرتا ہے جس میں سوز و ساز ازل‘ ہے اور جس سے کھلتا ہے راز ازل۔ چنانچہ پہلا بند ٹیپ کے اس شعر پر ختم ہوتا ہے: اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے لڑا دے ممولے کو شہباز سے معلوم ہوا کہ بہار فطرت اور ایک سیل انگیز مظہر فطرت کی تصویر کشی کا مقصد عصر حاضر کا ایک راز کھولنا تھا۔ جو تاریخ انسانی میں ہمیشہ ایک راز ہی رہا ہے۔ اور وہ ہے قوت و ضعف کے توازن کا راز قدیم ادوار کی طرح دور جدید میں بھی ایک طرف کمزور مشرق ہے اور دوسری طرف طاقت ور مغرب جن کی علامتیں علی الترتیب‘ ممولا اور شہباز ہیں۔ دونوں کے درمیاں صف آرائی کا سامان ہے‘ اس لیے کہ مغرب مشرق کو غلام بنائے ہوئے ہے۔ اسی کا استحصال کر رہا ہے اور اس کو فنا کر دینا چاہتا ہے لہٰذا مشرق کے لیے نجات کا راستہ یہی ہے کہ وہ آمادہ پیکار ہو کر مغرب کا مقابلہ کرے۔ چنانچہ عصر دحاضر کی سیاست کے رازسے پردہ اٹھانے اور ممولے کو شہباز سے لڑنے کے قابل بنانے کے لیے ساقی فطرت …خداوند عالم سے دعا کرتا ہے ۔ ا س کے بعد فوراً ہی دوسرا بند سیاست حاضرہ کے بدلتے ہوئے تیور کا ذکر کرتا ہے: زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے اس انقلاب حال ہی کا نتیجہ ہے کہ راز فرنگ فاش ہو گیا ہے‘ سامراج کی چالوں کا بھید کھل گیا ہے‘ پرانی سیاست گری خوار ہے۔ اور گیا دور سرمایہ داری گیا پورے مشرق میں بیداری کی ایک لہر دوڑنے لگی ہے۔ چین تک کی غفلت دور ہو چکی ہے اور ہمالہ پر جمی ہوئی برف پگل کر ایک چشمہ رواں کی طرح ابلنے لگی ہے۔ لیکن مشرق کی امیدوں کامرکز ملت اسلامیہ ہے جس کے پاس ہی وہ نسخہ نور ہے جو عصر حاضر کی تاریک کو سحر کر سکتا ہے۔ اور پوری انسانیت کو مغربی جبر و ستم اور استبداد و استحصال سے بچا سکتا ہے۔ چنانچہ مسلماں ہے توحید میں گرم جوش‘ مگر خالص و کامل تو حید کی بازیابی ابھی باقی ہے عشق کی آگ بجھ چکی ہے‘ اور مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔ اس ٹیپ پر دوسرا بند تمام ہوتا ہے۔ لہٰذا تیسرا بند اس دعا سے شروع ہوتا ہے: شراب کہن سے پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر بال جبریل کی ایک غزل کا شعر ہے: وہی دیرینہ بیماری‘ وہی نا محکمی دل کی علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی دل کی نامحکمی ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے۔ اور جو ملت زوال پذیر ہوت ہے اسے یہی ضعف قلب یعنی ضعف ایمان کی دیرینہ بیماری لاحق ہوتی ہے جبکہ ترقی پذیر ملت کا دل پر یقین ہوتا ہے۔ طاقت ایمانی سے محکوم ہوتا ہے اس لیے کہ وہ عشق الٰہی عشق رسولؐ اور عشق دین کے آب نشاط انگیز سے سرشار ہوتی ہے۔ ترقی کی یہ کیفیت ماضی میں ملت اسلامیہ کے اندر موجود اور نمایاں تھی۔ اور آئندہ ترقی کے لیے دوباری اسی کو پیدا کرنا پڑ ے گا۔ لہٰذا ساقی سے التجا ہے کہ عشق کی شراب کہن اپنے زندان مے کدہ کو پھر پلا دے اور توحید کا وہی جام گردش میں لائے جو کمزوروں کے دل مضبوط کر کے انہیں ایمان کی دولت سے طاقت ور بنا دیتا ہے اور ممولے کو شہباز سے لڑا کر جتا دیتا ہے ۔ چوں کہ شاعر کو نور حق کا یہ پیغام دنیائے اسلام کو دینا ہے لہٰذا وہ ساقی فطرت سے دعا کرتا ہے کہ اسے عشق کے پر لگا کر اڑائے اور اسے جگنو کی طرح تاریکی میں اجالا پیدا کرنے کے قابل بنائے۔ لیکن وہ پرانی نسل کے لوگوں سے مایوس ہے اس لیے کہ وہ خوئے غلامی میں پختہ ہو چکے ہیں اور ان کے جسمانی و دماغی قویٰ مضحمل ہو گئے ‘ لہٰذا اس کی امیدیں نئی نسلوں سے وابستہ ہیں اور وہ چاہتا کو جوانان ملت مصلحت اندیش اور مصالحت باز خرد کی غلامی سے آزاد ہو جائیں اور عشق کی جرات رندانہ اختیار کریں تاکہ خود ان کی خرد بھی دوسروں کی غلامی سے آزاد ہو جائے۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب جو ان عشق کی بصیرت سے مالا مال ہو کر فراست ایمانی اور اس سے پیدا والی جرات عمل دونوں میں پیروں کے استاد بن جائیں اور ملت کی قیادت کریں۔ چنانچہ اسی خیال کے تسلسل میں شاعر کہتا ہے : جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق میری نظر بخش دے پھر وہ اپنے ذوق و شوق کے کوائف بیان کر کے بند کو اس ٹیپ پر ختم کردیتا ہے: مرے قافلے میں لٹا دے اسے لٹا دے! ٹھکانے لگا دے اسے یہ کون سی دولت ہے؟ ٹیپ سے پہلے بند کا آخری شعر ہے: یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر یہ متاع فقیر درد عشق ہے: مرے دیدہ تر کی بے خوابیاں مرے دل کو پوشیدہ بے تابیاں مرے نالہ نیم شب کا آغاز مری خلوت و انجمن کا گداز امنگیں مری آرزوئیں مری امیدیں مری ‘ جستجوئیں مری اس درد عشق نے ہی شاعر کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ زندگی حرکت ارتقاء اور خودی کے راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھا سکتا ہے اور نونہالان ملت کو بقا و ترقی کے ان رازوں کے آگاہ کر کے صاحب نظر اولولعزم اور سرفروش بنا سکتا ہے۔ لہٰذا چوتھا بند زندگی کے حقائق بیان کرتا ہے اور ان دو نہایت معنی خیز حسین اور فکر انگیز شعروں پر ختم ہوتا ہے: کہیں جرہ شاہین سیماب رنگ کہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ کبوتر کہیں آشیانے سے دور پھڑکتا ہوا جال میں نا صبور یہ تصویریں زندگی کے دو پہلوئوں کی پیکر تراشی کرتی ہیں۔ ایک قوت کا ہے ‘ دوسرا ضعف کا ‘ شاہین قوت کی علامت ہے ‘ کبوتر ضعف کی ۔ شاہین کو شکار کرتا ہوا دکھایا گیا ہے اور کبوتر کو شکار ہوتا ہوا۔ ا س فرق کو دلوں پر نقش کرنے کے لیے دونوں کی حرکات کو چند جزئیات کے ساتھ متشکل کر دیا گیا ہے ۔ شکاری لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ ہے اور شکار پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور۔ چونکہ شاعر کے مخاطب عصر حاضر کی تاریخ میں کبوتر کارول ادا کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس رول کو زیادہ سے زیادہ پرور دا ور وحشت خیز بنانے کے لیے کبوتر کی بے چارگی اور حسرت و اندوہ میں ہے یہ کہ بے پناہ اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ کہ یہ کبوتر کہیں آشیانے سے دور ہے ۔ لہٰذا وہ جال میں پھنس کر تڑپ رہا ہے ۔ اگر وہ شکاری کانوالہ تر بن گیا تو ا س کے آشیانے میں اس کی راہ دیکھنے والے اہل و عیال کا کیا ہو گا؟ اس تفصیل کے لطیف اشارات سے شکار کی درد مندی اور شکاری کی بے دردی کا نہایت عبرت انگیز مرقع تیار ہو جاتا ہے۔ اور جہاں کبوتر کے ساتھ بے اختیار ہمدردی ہوتی ہے وہیں جال کو توڑ کر نکل جانے اور آئندہ کبھی جال میں نہ پھنسنے بلکہ اپنے ضعف کو ہمیشہ کے لیے دور کر لینے کا شدید احساس بھی ابھرتا ہے۔ شاہین کی بھیانک تصویر اس پرندے کے عام تصور کے مطابق ہے نہ کہ اس حقیقت کے مطابق جو اس کی اقبال کی نگاہ میں ہے۔ اس تصور کا استعمال فرمان خدا میں بھی کیا گیا ہے : گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو بہرحال اس تصویر کا خاص مقصد کبوتر کا رول ادا کرنے والوں کو اس خطرے سے خبردار کرنا ہے جو ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے: تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات (ابوالعلا معری… بال جبریل) اس کے بعد پانچویں بند میں زندگی کی اس حرکیت‘ مشکل پسندی اور ترقی پسندی کا ولولہ انگیز بیان ہے جو کبوتر کے تن نازک پر شاہین کا جگر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے: فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات یہ بند تسلسل زماں کے ذکر پر ختم ہوتا ہے اور اس کے فوراً بعد چھٹے بند سے خودی کا بیان شروع ہو جاتا ہے ۔ اس طرح حرکت زندگی اور خودی کے درمیان وقت کو گویا رابطہ بنایا گیا ہے ۔ یہ بہترین رابطہ ہے اس لیے کہ خودی کا اظہار‘ اس کی تشکیل اور تکمیل سب ہی مراحل حوادث زمانہ کے درمیان اور ان کے ہاتھوں ہی طے ہوتے ہیں جیسا کہ اسی چھٹے بند کا ایک شعر واضح کرتا ہے: زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی خودی کا یہ بیان ساتویں اور آخری بند میں بھی جاری رہتا ہے ۔ اور اب مسلمان یا انسان کو… دونوں کے درمیان اقبال کے نزدیک کوئی فرق نہیں…ایک زنجیر ایام میں رواں دواں زندگی کا مسافر قرار دے کر تلقین کی جاتی ہے کہ وہ تصور خودی کو عملی شکل دے اور وسعت کائنات میں حیات کا ایک ذرہ حقیر ہونے کے باوجود خودی کے زور سے…جو راز درون حیات اور بیداری کائنات ہے ۔ قوت حیات کا مجسمہ بن کر کائنات پر اپنی فتح کا پرچم لہرا دے۔ یہی ساقی نامہ کا پیغام ہے‘ اس کو دل میں اتارنے کے لیے چھٹے بند کی ٹیپ میں ایک بہت ہی حسین اور خیال انگیز تشبیہہ استعمال کی گئی ہے۔ خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے خودی فلک نشین ہے اور آدمی خاک نشیں۔ لیکن وسعت کائنات میں آدمی کا ننھا سا وجود آنکھ کے تل کی موقر ہے۔ جوپورے جشم کا سب سے چھوٹا عضو معلوم ہوتا ہے مگر اہمیت کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے‘ جسم کی بینائی اسی سے ہے ‘ جس کے بل پر جسم کی پوری قوت کا اظہار ہوتا ہے اوردوسرے تمام اعضا کو اپنا اپنا کام صحیح انداز میں کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس استعارے کو جاری رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آدمی چشم فلک میں ایسی اہمیت رکھتا ہے کہ اس فلک کو آنکھوں کا ستارا سمجھنا چاہیے۔ اسی بات کو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ انسان چشم کائنات ہے اور اس کا دل اس کائناتی آنکھ کا تل ہے۔ یہ سب مضمرات ہیں سامنے کے اس مفہوم کے کہ جس طرح آسمان کی وسعتوں کا عکس آنکھ کے چھوٹے سے تل میں سما جاتا ہے اسی طرح خودی کی ساری وسعتیں دل انسان میں سمٹ آئی ہیں اگر یہ دل بیدار اور حق آگاہ ہو جب دل سے انسان کا یہ مقام ہے تو انسان کا فرق ہے کہ اپنی خودی پہچانے اور اس سے وہ کام لے جو قدرت الٰہی نے اس کے لیی مقدر کیا ہے۔ یہ کام کتنا بڑا ہے اور اس کا انعام کیا ہے اس کی تشریح آخری بند میں قبل کے بند میں ٹیپ کے زیر نظر شعر کے بعد اور ا س کے معانی کے تسلسل میں ہوتی ہے چنانچہ نظم کے آخری چار اشعار یہ ہیں: تو ہے فاتح عالم خوب و زشت تجھے کیا بتائوں تری سرنوشت حقیقت پہ ہے جامہ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ فروزاں ہے سینے میں شمع نفس مگر تاب گفتار رہتی ہے بس اگر یک سر موئے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم یہ ایک تفصیل کا خلاصہ ہے جس میں اس کے ولولہ انگیز اشعار ہیں: خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں تری آگ اس خاکداں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زمان و مکاں توڑ کر خودی شیر مولا جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید آسماں اس کا صید جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخی فکر و کردار کا یہ ہے مقصد گردش روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار بہرحال خاتمہ نظم کے آخری چار اشعار بہت معنی خیز ہیں اور ان کا ابہام بے حد خیال انگیز ہے۔ ایک مصرعے حقیقت یہ ہے کہ جامہ حرف تنگ میں اشارات کی ایک دنیا آباد ہے شاعر کا سینہ روشن ہے اور کائنات میںانسان کے مقام اور اس کی خودی کے کمالات و فتوحات کے متعلق عمیق خیالات کا ہجوم اس کے ذہن پر ہوا رہا ہے۔ مگر تاب گفتار کہتی ہے بس یعنی ایسے باریک خیالات کو بیان کرنے کا یارا زبان شاعر کو نہیں ہے ا س کیفیت کے اظہار کے لیے معراج النبیؐ کے واقعے پر ایک مشہور فارسی شعر کا حوالہ دے کر یہ واضح اشارہ کیا گیا ہے کہ عروج آدم خاکی کی منزل سدرۃ المنتہیٰ مادی کائنات کے آخری نقطے… تک ہے یعنی چرخ نیلی فام سے پرے ہے جیسا کہ شب معراج رفیق سفر رسولؐ حضرت جبرئیل کی زبان سے اد ا ہونے والے اس بیان سے مترشح ہوتا ہے۔ جو متعلقہ روایات پر مبنی سعدی کے محول فارسی شعر میں مضمر ہے۔ روح القدس نے سدرۃ المتہیٰ تک رسول اللہ ؐ کی رفاقت کے بعد کہا تھا کہ وہ اس سے آگے بال برابر نہیں بڑھ سکتے اس لیے کہ آگے انوار الٰہی کی و تجلی ہے جو فرشتوں کے سردار کے پر بھی جلا دے گی۔ لہٰذا اب ختم المرسلینؐ جلوہ حقیقت اور مشاہدہ حق کے آخری مقام کی طرف مقام عبدہ پر فائز ہونے کا سبب تنہا ہی بڑھیں۔ یہ ارفع مقام کائنات وجود میں اشرف المخلوقات کے سوا کسی کا نہیں لہٰذا انسان اگر اپنی حقیقت کی شناخت کر لے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرے تو چھٹے بند کے ایک شعر کے مطابق انسانی خودی کی ترقی کا یہ عالم ہے : ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے بس انسانیت کی ایک حد ہے‘انسانیت جس کی تعین آخری بند کے اس شعر سے ہوتی ہے: وہی سجدہ ہے لائق اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام یہ وہی بات ہے جو بال جبریل کی ایک غزل کے اس شعر میں ہے: وہ بندگی خدائی یہ بندگی گدائی یا بندہ خدا بن‘ یا بندہ زمانہ یہ مقام عبدہ کی بہترین تشریح ہے۔ انسانیت کے موضوع پر یہ شاعری کا نقطہ عروج ہے جس کو کلام اقبال نے ہی حاصل کیا ہے ۔ اس کلام میں فکر کا اعتدا ل اور فن کا توازن دونوں موجود ہیں اور کمال حسن و زیبائی اور انتہائے سرمستی و رعنائی کا باعث ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی ایک بار پھر نمایاں ہوتا یہ کہ اقبا ل نے انسانیت کی شاعری کا اوج کمال ملت کی شاعری کے ذریعے حاصل کیا ہے‘ جبکہ اس شاعری کی پہنائی میں مشرق وطن اور فطرت کی شاعری کے پہلو بھی شامل ہیں۔ اس لیے کہ ملت کی شاعری خودی اور عشق کے آفاقی تصورات پر مبنی ہے۔ اور ملی تاریخ کے حوالے فنی استعارات و علائم کا کام کرتے ہیں‘ اور اس تاریخ کی تلمیحات کے اشارات و کنایات شاعری کی لطیف ایمائیت پیدا کرتے ہیں۔ ٹیپ کے فارسی شعر سے قبل ساقی نامہ کے آخری شعر: فروزاں ہے سینے میں شمع نفس مگر تاب گفتار گہتی کہتی ہے بس! کا موازنہ شکوہ کے پہلے بند کی ٹیپ سے کرنا دلچسپ اور مفید ہو گا: جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو خاکم بدہن کے تحفظ کے باوجود شکوہ میں تاب سخں اتنی جرات آموز ہے کہ بندے کو خدا کا شکوہ خدا سے کرنے پر آمادہ کرتی ہے جبکہ وہی تاب گفتار ساقی امی میں کہتی ہے کہ بس حالانکہ فروزاں ہے سینے میں شمع نفس یہ فرق فن کی پختگی اور ارتقا کا ہے راز کی جوبات شاعر نے تصویر و ترنم کے رنگ و آہنگ کے باوجد شکوہ میں برملا اور واشگاف کہہ دی ہے ساقی نامہ میں اس کے اظہار کے لیے بعض تفصیلات کے باوجود ایک ایمائی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اس لیے کہ وہ محسوس کرتا ہے: حقیقت پہ ہے جامہ حرف تنگ یہ احساس فکر و فن دونوں کا نقطہ کمال ہے۔ اس کمال کا اظہار بڑے لطیف طریقے سے ساقی نامہ کی ابتدا و انتہا کی ایمائی ترکیب و ترتیب میں ہوا ہے۔ جس سے نظم میں ارتقائے خیال کی تنظیم بالکل نغماتی پیوستگی کے ساتھ ہوئی ہے ہم نے آخری بند میں انسانی خودی کی یہ حرکیت دیکھی ہے: بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر طلسم زماں و مکاں توڑ کر جبکہ اس سے قبل کے بند میں بھی ہم نے خودی کی یہ روانی عمل دیکھی تھی: زمانے کے دریا میںبہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی یہ انتہا کا منظر نامہ ہے اور انسان کے فکر و عمل سے تعلق رکھتا ہے جس کے بار ے میں نظم کا آخری بند بتاتا ہے: جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخی فکر و کردار کا ب اس یلغار اور شوخی کی تحریک بالکل ابتدائے نظم میں فطرت کے منظر نامے پر ملاحظہ کیجیے اس کا حوالہ قبل ہی دیا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں صر ف تین پیکروں کا مطالعہ کافی ہو گا: جہاں چھپ گیا پردہ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں اس سے قبل کے دو اشعار میں کاروان بہار کے خیمہ زن ہونے اور دامن کوہسار کے ارم بن جانے کا ذکر ہے‘ جس میں گل و نرگس و سوسن و نسترن بھی کھلے ہوئے ہیں اور شہید ازل لالہ خونیں کفن بھی لہٰذا جہاں پردہ رنگ میں چھپ گیا ہے ۔ اس منظر بہار میں سب سے نمایاں عنصر لہو کی گردش ہے جوش حیات ہے حرکت زندگی ہے اور یہ عنصر پوری فضا پر اس درجہ محیط اور اس حد تک شدید ہے کہ رگ سنگ میں بھی موج زن ہے: فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور بہار کی فضا یقینا پر سرور ہے اور اس کا سرور یہ ہے کہ ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور بلکہ اپنا نشیمن چھوڑ کر نیلی نیلی فضا کی وسعتوں میں ہوا کے دوش پر اڑتے پھر رہے ہیں‘ اور سے اور بلندیوں کی طرف پرواز کرتے جا رہے ہیں: مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ (شاہین) طیور سراپا حرکت میں ہیں اور محو تک و تاز : وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی‘ لچکتی‘ سرکتی ہوئی اچھلتی پھسلتی‘ سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے جب تو سیل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ یہ سعی و جدوجہد اور حرکت و عمل کا پیچ و خم ہے جس کی شدت اور زور کا عالم یہ ہے کہ اس سیل حیات کی راہ میں اگر چٹانیں حائل ہوں تو ریزہ ریزہ ہو جائیں اور اس طرح سخت سے سخت راہ بھی بڑھتے ہوئے قدموں تلے آ کر ہموار ہو جائے۔ یہاں انسانی خودی کے اقدام و ارتقا کے سلسلے میں آخری بند کا یہ مصرع بے اختیار یاد آتا ہے: بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کر فطرت کے محسوس مناظر اور خودی کے مجرد تصور کے درمیان ایسی زبردست ہم آہنگی اقبال کے فن کا بے نظیر کارنامہ ہے۔ ان کے جذبہ عشق کی یکسوئی مختلف عناصر وجود کی متنوع تصویروں کو ملا کر ایک کر دیتی ہے ۔ حسیات کی ایسی ہی یک جہتی عظمت فن کی دلیل ہے جس کی حامل اقبال کی شاعری دنیا کے کسی بھی شاعر کے کلام سے بڑھ کر ہے اس شاعری میں ذہن کا ارتکاز کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں سمویا ہوا بھی ہے ذہن و فن کا یہ امتزاج اپنے اس نقطہ عروج پر جو اقبال نے حاصل کیا ہے دنیائے شاعری میں بے مثال ہے۔ ٭٭٭ شاعری میں ذہن کا ارتکاز فن کے ارتکاز کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں سمویا ہوا بھی ہے۔ مسجد قرطبہ ہم فطرت ‘ وطن ‘ ملت ‘ انسانیت ‘ خودی اور عشق کے موضوعات پر اقبال کی اہم نظموں کا مطالعہ کر کے ان کے محبوب مضامین اور بنیادی عناصر فکر پر ان کی عظیم فن کاری کا کافی اندازہ لگا چکے ہیں۔ لیکن مسجدقرطبہ اس اندازے کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ اقبال کی شاعری کا عظیم ترین نمونہ ہے ۔ اورمیرے خیال میں تمثیل کے مد فاضل سے صرف نظر کر کے خالص نظم نگاری میں دنیا کی بہترین تخلیق ہے۔ اس نظم کی ترتیب ہئیت میں شروع سے آخر تک ایسی کامل یکسوئی اور اس کے عناصر ترکیبی کے درمیان ایسی مکمل پیوستگی ہے کہ خود اقبال کی دوسری اہم نظموں میں مواد کی انتہائی پیچیدگی کو انتہائی ہم آہنگی میں مرتکز کرنے کی اتنی بڑی مثال اتنے بڑ ے پیمانے پر نہیںملتی یقینا ایسی ہی ہمواری و استواری ذو ق و شوق میں بھی ہے۔ مگر اس کا پیمانہ مختصر ہے اور اس کا مواد سادہ سا۔ اس میں صرف شاعر کے انفرادی جذبات اور ذاتی واردات کا بیان ہے گرچہ احساسات کے اظہار میں عمومیت ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کے لطف و مسرت میں شرکت بھی پوری طرح ہوتی ہے۔ ساقی نامہ کا پیمانہ یقینا بڑا ہے‘ لیکن ارتقائے خیال کے تسلسل کے باوجود اس کی ہئیت میں ہمواری و استواری کی وہ شدت نہیں جو ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساقی نامہ کے عناصر کی تقسیم جس آسانی کے ساتھ کی جا سکتی ہے اور کی گی ہے وہ مسجد قرطبہ میں ممکن ہی نہیں۔ تنقید تو ہر چیز کا تجزیہ اور تشریح کر لیتی ہے۔ مگر یہ تجزیہ و تشریح ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے عناصر کے سلسلے میں مشکل سے ہوتی ہے۔ یہ گویا دریا کی لہروں کو گننا ہے جب کہ موج در موج ہونے کے باوجود سطح آب یکساں ہوتی ہے ہم نے ان کے مترنم آہنگ کے پیش نظر اقبال کی نظموں میں برابر نغمگی کا احساس کیا ہے‘ ظاہر ہے کہ شاعری میں مسویقی کی ادکار سراغ لگانا ایک استعارہ ہے لیکن مسجد قرطبہ کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ استعارہ حقیقت بن رہا ہے۔ بہرحال ساقی نامہ میں جو موسیقی صرف بانسری کی باریک سی آواز ہے وہ مسجد قرطبہ میں ایک ارغنون یا آرکسٹرا کی طرح دبیز بسیط اور تہہ دار ہے۔ اس نظم میں عصر عشق‘ ایمان‘ اور فن کا ایسا امتزاج ہے کہ عناصر ترکیبی میں سے کسی ایک کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بے اختیار دوسرے کا احساس بھی کرتے ہیں۔ شاعر نے واقعہ یہ ہے کہ نظم میں عشق و ایمان و فن کو وقت کی اتنی بسیط سطح پر مدغم کیا ہے کہ خود وقت عشق ‘ ایمان اور فن تینوں بنتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی طرح عشق پر ایک آیت قرآنی اور ایک حدیث رسولؐ کا پرتو پڑا ہے۔ آیت یہ ہے : والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنو ا و عملو الصلحت وتواصو باالحق وتواصو بالصبر (زمانے کی قسم ! بیشک انسان خسارے میں ہے سو ا ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوںنے نیک عمل کیا اور لوگوں کو حق اور صبر کی تلقین کی)۔ حدیث: لا تسبو الدھر فان اللہ ہو المدھر (زمانے کو برا نہ کہو اس لیے کہ یقینا اللہ ہی زمانہ ہے) اس نظم میں ہر بند کے اشعار اور سب بندوں کی تعداد مساوی ہے ۔ آٹھ آٹھ شعر کے کل آٹھ بند ہیں یہ تقسیم بھی ترتیب ہئیت کی کامل ہمواری و استواری کی ایک دلیل ہے۔ نظم ہسپانیہ کے پس منظر میں ہے جو اقبال کا محبوب ترین تاریخی موضوع ہے۔ اور اس پر ہسپانیہ اور طارق کی دعا جیسی نظمیں بھی بال جبریل ہی میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ اسی سلسلے میں عبدالرحمن اول سے معتمد تک ہسپانیہ کے عروج و زوال سے متعلق احساسات بھی ہسپانوی تاریخ ہی کے دو کرداروں کے جذبات کی شاعرانہ ترجمانی کرکے پیش کیے گئے ہیں مسجد قرطبہ میں ان چھوٹی نظموں کے ارتعاشات بھی جذب ہو گئے ہیں۔ نظم کے دو حصے ہیں پہلے میں دعا ہے جو پوری کی پوری مسجد قرطبہ میں لکھی گئی ہے۔ جیسی کہ عنوان کے نیچے قوسین میں شاعر کی طرف سے وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے حصے میں مسجد قرطبہ ہے جو شاعر کی وضاحت کے مطابق ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص مسجد قرطبہ میں لکھی گئی ہے۔ یہ وہی تکنیک ہے جو روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے (مع فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں) اور فرمان خدا (مع فرشتوں کا گیت) میں اختیار کی گئی ہے ۔ اس ترتیب سے تمثیلی رنگ ابھرتا تو ہے مگر دوسری نظموں کی طرح اس نظم میں دو آوازیں نہیں ہیں۔ فرشتے اور روح ارضی یا فرشتوں اور خدا کی بلکہ صرف ایک آواز شاعر کی ہے جو پہلے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر دعا مانگتا ہے پھر مسجد کے متعلق اپنے احساسات و خیالات کا اظہار کرتا ہے ۔ اس طرح دعا کے ساتھ اظہار خیال کو مربوط کرنا مسجد قرطبہ کی شاعری میں عصر عشق ایمان اور فن کو ہم آہنگ کر نے والے عامل کا تیسرا سراغ بہم کرتا ہے۔ یہ عامل رب اور عبد خالق حقیقی اور مجازی خالق نظم کے درمیان وہ رابطہ استوار جو فکر و فن کو باہم دگر پیوستہ کرنے والا اور بہ یک وقت عاشقانہ و شاعرانہ جذبہ پیدا کرتا ہے جیسا کہ مسجد قرطبہ میں لکھی گئی دعا خاص کر اس کے آخری شعر سے واضح ہوتا ہے: ہے یہی میری نماز‘ ہے یہی میرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو صحبت اہل صفا نور و حضور و سرور سر خوش و پر سوز ہے لالہ لب آبجو راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو میرا نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح نشور تجھ سے مرے سینے میں آتش اللہ ہو تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درود و داغ تو ہی مری آرزو تو ہی مری جستجو پاس اگر تو نہیں ہے شہر ہے ویراں تمام تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو پھر وہ شراب کہن مجھ کو عطا کر کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو چشم کرم ساقیا! دیر سے ہیں منتظر جلوتیوں کے سبو خلوتیوں کے کدو تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ اپنے لیے لا مکاں میرے لیے چار سو فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو ذوق و شوق اور ساقی نامہ دونوں کے آثار اس دعا میں ہیں جو مسجد قرطبہ کی بڑی حسین موزوں اور موثر تمہید ہے ۔ اس کا پہلا ہی شعر آنے والی نظم کے عناصر عشق ایمان فن …کا اشاریہ ہے۔ عشق کے درد مند فن کار کی نوائوں میں فطری طور پر اس جگر کا لہو ہے اور یہی خون جگر ہے جس سے وہ وضو کرتا ہے اور اس کی نواہی نماز ہے یا اس کی نماز اس کی نوا ہے اس طرح فیض عشق سے فن ایک طرز عبادت بن جاتا ہے اس لیے کہ جس ایمان نے عشق پیدا کیا وہی فن بھی پیدا کرتا ہے ۔ فن کے اسی تصور کی نشاندہی دعا کا آخری شعر بھی زیادہ تعین کے ساتھ کرتا ہے خواہ علم فلسفہ ہو یا فن شعر دونوں کی حقیقت جلوہ محبوب کے لیے لب عاشق پر ایک حرف تمنا کی ہے جو رخ محبوب کے پس پردہ اور نگاہوں سے دور ہونے کے سبب شرمندہ الفاظ ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ و شعر دونوں کی بڑی نہ تعریف اور مسجد قرطبہ کے انداز نظر اور ترکیب فن کا بہترین کراتی ہے۔ یہ نظم واقعی فلسفہ شعر کا ایک نہایت باذوق اور پر شوق حرف تمنا ہے۔ دعا کے بعد نظم کا پہلا بندوقت کی ایک فلسفیانہ تعبیر شاعرانہ انداز میں پیش کرتا ہے: سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات سلسلہ روز و شب اصل حیات و ممات سلسلہ روز و شب ستار حریر دورنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلہ روز و شب ساز ازل کی فغاں جس سے کھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلہ روز و شب صیرفی کائنات تو ہوا اگر کم عیار‘ میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات‘ موت ہے میری برات تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات اول و آخر فنا‘ یا طن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہہ نو منزل آخر فنا ’’نقش گر حادثات‘‘ ’’تار حریر دورنگ‘‘ ’’قبائے صفات‘‘ سازل ازل کی فغاں‘ ’’زیرو ممکنات‘‘ ’’صیرفی کائنات جیسی چند نفیس تصویروں اور سلسلہ روز و شب کی ترنم خیز اور خیال آفریں تکرا ر سے شاعر نے صرف چھ شعروں اور بارہ مصرعوں میں وقت کا ایک جمیل و جلیل پیکر تراش کر رکھ دیا ہے۔ جو موضوع نظم کے بالکل مناسب ہے۔ زمانہ ایک شان خداوندی ہے زندگی اسی سے عبارت ہے اور یہ زندگی کا امتحان بھی ہے ‘ بہرحال زمانہ لمحات کے ایک ایسے تسلسل کا نام ہے جس کی تقسیم ممکن نہیں‘ زمانے کا عمل غیر جانبدار اور منصافہ اس کا فیصلہ انسان کے عمل کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے بعد ٹیپ کے ساتھ آخر کے دونوں اشعار وقت کے وقت پیام کا ذکر کرتے اور بتاتے ہیں کہ دنیا اور اس کا ہر کام فانی ہے‘ اول و آخر ‘ باطن و ظاہر قدیم و جدید ہر چیز فانی ہے‘ انسانی ہنر و فن کے تمام کمالات بے ثبات اور عارضی ہیں‘ خیالات ‘ استعارات اور آہنگ کی مجموعی ترکیب کے لحاظ سے وقت کے موضوع پر یہ بند شاعری کا بہترین پارہ فن ہے۔ اس عالم فنا ہے بقا اور بقائے دوام کی صرف ایک صورت ہے چنانچہ دوسرا بند اس نادر استثنا کو بیان کرتا ہے اور کی ایک فلسفیانہ توجیہہ شاعرانہ طریقے سے کرتا ہے: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات‘ موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کو رو عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا تھام عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیںکوئی نام عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفیٰؐ عشق خدا کا رسولؐ عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک عشق ہے صہبائے خام ‘ عشق ہے اس کا الکرام عشق فقیہ حرم عشق امیر جنود عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات جس طر ح پہلے بند میں سلسلہ روز و شب کی تکرار طلسم آفریں تھی اسی طرح دوسرے بند میں عشق کی تکرار ہے ۔ اس تکرار میں معنی آفرینی بھی پہلے ہی کی طرح ہے۔ سلسلہ روز و شب کی تکرار نے وقت کی طاقت کا پیکر تراشا تھا اور عشق کی تکرار عشق کی طاقت کی تصویر کھینچتی ہے۔ ’’سیل ‘‘ ’’تقسیم‘‘ ’’دم جبرئیلؑ‘‘ ’’دل مصطفیٰؐ‘‘ ’’پیکر گل‘‘ ’’صہبائے خام‘‘ ’’کاس الکرام‘‘ ’’ابن السبیل‘‘ ’’مضراب‘‘ ’’نغمہ تار حیات‘‘ وغیرہ جیسے پیکر عشق کے جمال وجلال کا ایک مرق مرتب کرتے ہیں۔ اس عارفانہ و فن کارانہ عشق کو مرد خدا سے منسوب کیا گیا ہے اوراس کے کارمانے کو لافانی یعنی وقت کی دسترس سے باہر قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح عشق کی قوت وقت کی قوت سے ٹکراتی ہے ۔ تو فتح عشق کی ہوتی ہے اس لیے عشق ہی وہ جوہر ہے جو زندگی کو وقت کے معیار امتحان پر پورا اترنے کے قابل بناتا ہے۔ اوریہ جوہر ایمان و یقین کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتا۔ چنانچہ ایمان و یقین کا مجسمہ اور جوہر عشق کا آئینہ وہ انسان ہے جو مرد خدا ہے یہ وہی مرد مومن یا مرد مسلمان ہے جو اقبال کے تصور انسانیت کی علامت ہے۔ اس کا تعلق کسی فرقے علاقے طبقے اور زمانے سے نہیں یہ صرف ایک صاحب نظریہ اور صاحب کردار اور اصولی و عملی شخصیت ہے جو روئے زمین پر براہ راست خدا کا نائب اور بلا امتیاز پوری دنیا کا دوست فلسفی اور راہ بر ہے۔ اس مرد خدا کا جذبہ ایمان و عشق جب اپنی بہترین صلاحیتوں سے کام لے کر کوئی پارہ فن تخلیق کرتا ہے تو وقت کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے۔ آفاقی انسان کا کارنامہ ابدی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا محرک حسن ازل کا کائناتی و سرمدی عشق ہے۔ پچھلے بند میں وقت کو نفس گر حادثات‘ اصل حیات و ممات قبائے صفات‘ (الٰہی) کا تار حریر دورنگ ‘ ساز ازل کی فغاں‘ اور صیرفی کائنات‘ کے پیکروں میں منقش کر کے‘ ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات کا طوفان نقطہ کھینچا گیا تھا۔ دوسرا بند اسی زمانے کی رو کو تند و سبک سیر بتاتے ہوئے عشق کی بھی ایک ایسی طوفانی تصویر پیش کرتا ہے جو اپنے زور میں طوفان شکن بھی ثابت ہوتی ہے: عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی یہ تقویم زمانے کی تقویم کرتی ہے ۔ چنانچہ اس عظیم الشان ازلی و ابدی تقویم میں عصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام… ایک طرف بے کراں ماضی ہے اور دوسری طرف ناپید کنار مستقبل‘ ظاہر ہے کہ ان دونوں وسعتوں کے درمیان زمانہ حال ایک بہت ہی محدود مختصر سا لمحہ ہے۔ اس تصویر وقت اور عشق کی تصویر کے ساتھ ایس کے مقابلے میں موضوع نظم کے بنیادی اشارات مضمر ہیں مطلب یہ ہے کہ عصر حاضر کی سطحی و عارضی تابانیوں پر فریفتہ اور ان سے مرعوب ہونے کے بجائے زندگی کے اصلی اور دائمی محرک عشق کا کھویا ہوا جوہر دوبارہ حاصل کرنا چاہیے اس لیے کہ عصر حاضر کے تمام معجزہ ہائے ہنر فنا پذیر ہیں اور صرف اس نقش میں رنگ ثبات دوام ہ جس کو کسی مرد خدا کے جذبہ عشق نے تمام کیا ہو۔ عشق سے فروغ پانے والا یہ عمل صدیوں قبل ماضی میں ہو چکا ہے۔ اور وہ مستقبل میں بھی صدیوں تک قائم رہے گا۔ اسی عمل کی ایک نمایاں مثال مسجد قرطبہ ہے جو سپین میں مسلمانوں کی سلطنت کے خاتمے پر صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اپنی جگہ قائم ہے اور آئندہ رہے گی اس پر موت حرامہے اس نے وقت کو شکست دی ہے اس کا حسن لازوال ہے اس لیے کہ وہ عشق کی تخلیق ہے جو واصل حیات ہے۔ اس عشق کی بہت ہی موزوں اور خیال انگیز کردار نگاری‘ دم جبرئیل دل مصطفیٰؐ‘خدا کا رسولؐ اور خدا کا کلام جیسے پیکروں سے کی گئی ہ۔ جو سب کے سب اس تاریخ اسلام کے اشارات ہیں جن کے تناظر میں مسجد قرطبہ تعمیر کی گئی تھی اور تخلیق بھی جاری ہے۔ کاس الکرام‘ دفقیہ حرم‘ امیر جنود‘ اور ابن السبیل کے پیکر بھی تاریخ اسلام ‘ تاریخ سپین اور تعمیر قرطبہ کے اشارات بہم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک چابک دست فن کار نے وقت کے ساتھ ساتھ عشق کی مرقع نگاری اپنے موضوع کی مناسبت سے اور اس کے تخیل کے تمام پہلوئوں کی نقاشی کے لیے کی ہے۔ اسی لیے بند کی ٹیپ میں عشق کو نور حیات اور نار حیات کے ساتھ نغمہ تار حیات بھی کہا گیا ہے۔ نور و نغمہ گویا اس عظیم نمونہ فن کے عناصر ترکیبی ہیں جس کی شاعرانہ تصویر کشی تخلیق نظم کا مقصود ہے۔ دو بندوں میں وقت اور عشق کے تصورات کو فنی طورپر ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر عشق کی برتری ثابت کرنے کے بعد تیسرے بند میں شاعر عشق اور فن کے امتزاج کا جلوہ دکھاتا ہے اور آخر میں اس امتزاج کے تاریخی عامل کی طرف اشارہ کرتا ہے پچھلے بند کی ٹیپ میں عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات کاجو آہنگ نمودار ہوا تھا موجودہ بند میں اس کی تجسیم وتمثیل ہوتی ہے: اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صورت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل خون جگر سے سدا سوز و سرود و سرور تیری فضا دل فروز میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور مجھ سے دلوں کی کشود عرش معلی سے کم سینہ آدم نہیں گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا اس کو میسر نہیں سو و گداز سجود کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق دل میں صلوۃ درود لب پہ صلوۃ و درود شوق مری لے میں ہے شوق مرے نے میں ہے نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے یہاں عشق اور فن کے کردار ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں اور ا س ادغام کا ظہور ایک عاشق ایک انسان‘ ایک مومن ‘ ایک شاعر کی ہستی میں ہوتا ہے۔ جو عشق انسانیت‘ ایمان اور شاعری کے امتزاج سے ایک نمونہ فن کا نظم کی صورت میں اسی طرح تخیق کا رہا ہے جس طرح صدیوں قبل سپین میں اسلام کے مردان خدا نے مسجد قرطبہ تعمیر کی تھی۔ مختلف عناصر فکر کی ہی فنی ترکیب ہی مواد نظم کی شاعرانہ ترتیب کی ذمہ دار ہے۔ اسی ترکیب و ترتیب سے وہ پر معنی خیال آفریں ‘ رنگین زریں اور نغمہ ریز تنظیم فن رونما ہوتی ہے جس کا نام مسجد قرطبہ ہے شاعر کہتا ہے کہ مسجد کی تعمیر ایک لازوال عشق نے کی ہے اور عشق خون جگر سے جس سے معجزہ فن کی نمود ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ خون جگرہی وہ سوز و داز پیدا کرتا ہے جو چٹان کو بھی پگھلا کر دل کی طرح حساس‘ لطیف اور بے تاب بنا دیتاہے۔ خون جگر سے سدا سوز و سرود و سرود کی بارش ہوتی ہے اور عشق کایہ فن کار خون جگر دل انسان میں موج زن ہوتا ہے۔ جس پر انوار الٰہی کا پرتو پڑتا ہے۔ عرش معلی سے کم سینہ آدم نہیں۔ انسان کا قلب سو ز و گداز سجود سے لبریز ہے ۔ یہ وہ کیفیت ہے جو فرشتوں کو بھی نصیب نہیں۔ اس کیفیت کی بدولت کف خاک کا رتبہ پیکر نوری سے بھی بلند تر ہو گیا ہے ۔ شاعر اس کف خاک کا ایک مجسمہ اور آئینہ ہے اس کا شعور انسان انسان کے دل میں عشق کا سوز و گداز پیدا کرتا جس فن اپنی انتہائی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ عشق اور فن کار یہ ملا جلا ذوق و شوق شاعر کے خیال میں تصور پر توحید پر مبنی ہے کم از کم اس کا اور ا سکے موضوع کا تخلیقی سرچشمہ یہ تصور ہے۔ چنانچہ اس سرچشمے سے ابھرنے والے فنی نمونے یا زندگی کے کارنامے لازوال ہوتے ہیں‘ وقت کی دست برد سے محفوظ رہتے ہیں۔ توحید یا زندگی کے کارنامے لازوال ہوتے ہیں۔ وقت کی دست بر د سے محفوط رہتے ہیں۔ توحید کی عملی شکل عشق خدا و رسولؐ ہے لہٰذا شاعر اپنے تخلیقی ذہن کی ترکیب کرنے سے بت خانہ ہند سے اپنے آبائی تعلق کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اس سلسلہ بیان کے منطقی نتیجے کے طور پر پہلے بند کی ٹیپ میں وقت اور دوسرے بند کی ٹیپ میں عشق پر زور دینے کے بعد تیسرے بند کی ٹیپ میں ایمان کی نغمہ پیرائی کی گئی ہے۔ تین بندوں میں اس خوبصورتی کے ساتھ عصر ‘ عشق اور ایمان کے تار ملانے کے بعد چوتھے بند میں بالکل منطقی طور پر مسجد و مومن کو ایک دوسرے کے ساتھ مطلقاً ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔ اس ہم آہنگی سے جو بسیط نغمہ پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے: تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جیل و جمیل تیری بنا پائدار تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل تیرے درو بام پر وادی ایمن کا نور تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے اس کی اذانوں سے فاش سر کلیمؑ و خلیلؑ اس کی زمیں بے حدود اس کا افق بے تفور اس کے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل اس کے زمانے عجب اس کے فسانے غریب عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل ساقی ارباب ذوق فارس میدان شوق بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اس کی اصیل مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لا الہ سایہ شمشیر میں اس کی پنہ لا الہ مسجد قرطبہ کے نقش و نگار میں جمال و جلال دونوں کا اظہار اقبال کے تصور فن کی ایک اہم خصوصیت ہے اس لیے کہ جلال کے بغیر جمال کو وہ ایک کمزوری تصور کرتے ہیں جبکہ قوت اگر اس کا استعمال صحیح مقصد کے لیے ہو‘ اقبال کے نزدیک بجائے خود ایک قدر جمال ہے۔ میرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی ترے نصیب فلاطون کی تیزی ادراک مری نظر میں یہی جمال و زیبائی کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سر کش و بیباک (جلال و جمال…ضرب کلیم) یہ جمالیات کا وہ توازن ہے جس میں حسن و دل آویزی کے ساتھ قوت و تاثیر کو ہم آہنگ کر دیا گیا ہے اور اس میں صلابت نزاکت پر مقدم ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو اس تصور جمالیات میں فن پر زندگی کو مقدم کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ فن اگر زندگی سے خالی ہو تو موت کی نقش گری ہے: موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار (ہنروران ہند… ضرب کلیم) اور زندگی قوت و صلابت کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی کے اس تقدم کے باوجود اقبال فن میں جلال کا توازن چاہتے ہیں۔ اور نزاکت و صلابت کا یہی اعتدال نہاں مسجد قرطبہ میں نظر آتا ہے۔ ایک طرف تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار کی صلابت ہے اور دوسری طرف تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل کی لطافت کی لطافت ہے جبکہ تیرے دروبام پروادی ایمن کا نور جلوہ الٰہی کے دونوں پہلوئوں جلال و جمال کا مرکب پر تو ہے۔ پھر سر کلیمؑ و خلیلؑ بھی جلال و جمال کی ترکیب کی طرف ایک اشارہ ہے۔ ٹیپ میںقبل کے آخری شعر کے دونوں مصرعے جمال و جلال کے توازن کی تصویریں پیش کرتے ہیں ساقی ارباب ذوق کے ہمراہ فارس میدان شوق اور بادہ ہے اس کا رحیق کے ساتھ تیغ ہے اس ہے اس کی اصیل کے بیانات نرمی و سختی کے اس اعتدال پر مبنی ہیں جو زندگی کی حقیقت بھی ہے اور اس کا حسن بھی۔ جمال و جلال کی ترکیب و توازن کا نکتہ و پیکر مسجد قرطبہ کے سلسلے میں بہت ہی موزوں و پر معنی ہے ۔ اس لیے کہ اس عمارت میں فن تعمیر کا جو عظیم اسلامی نمونہ رونما ہوا ہے اس کے اندر یہ ترکیب و توازن اعلیٰ ترین معیار پر ظاہر ہوا ہے۔ اس معیار کی شاعرانہ توصیف کے لیے اقبال نے جس تصور جمالیات سے کام لیا ہے وہ مغرب کی جمہوری و اشتراکی انتہا پسندیوں اور بے اعتدالیوں سے پاک ہے اس میں نہ جمہوری نرمی و زیبائی کا غلو ہے نہ اشتراکی تندرستی و طاقت کا مطالغہ بلکہ وہ میانہ روی ہے جو اسلامی نقطہ نظر کی شان ہے اور جس کا ظہور عمارت اور اس پر نظم دونوں میں ہوا ہے اس لیے کہ دونوں کی تعمیر میں مرد خدا یا مرد مسلمان نے کی ہے۔ فن کا یہ نقطہ نظر دوسرے نقاط نظر کے مقابلے میں بداہتہً زیادہ ثروت مند اور نتیجہ خیز ہے۔ اسی لیے نہ تو فن تعمیر میں مسجد قرطبہ کا جواب ہے نہ فن شاعری میں ہی نظم کے مقررہ پیمانے پر مسجد قرطبہ کاجواب ہے۔ نظم کے زیر نظر بند میں اسلام اور اسلامی تاریخ کے رموز و علائم کا وفور ہے۔ یہ تخیل نظم کے اس نقطہ ارتقاء کے بالکل مطابق ہے جو چوتھے بند میں نمودار ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی کی مناسبت سے اس قسم کے خیال آفریں پیکر تراشے گئے ہیں۔ جیسے شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل میں تیرے دروبام پروا دی ایمن کا نور ‘ تیرا منار بلند جلوہ گاہ جبرائیل‘ اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیلؑ اس کے سمندر کی موج اور دجلہ و دینیوب و نیل‘ ان تصویروں میں وہی آفاقیت ہے جو اسلام کا طرہ امتیاز ہے اور دوسرے تمام ادیان و نظریات کے مقابلے میں ہے۔ اس کی زمین بے حدود ہے اس کا افق بے تغور ہے ۔ مسجد قرطبہ کے معمار کی صحیح ترین کردار نگاری ہے آفاقیت کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمان کے تجدیدی و انقلابی کردار کا عکس بھی عمارت کے نقوش پر مرقسم ہے۔ جیسا کہ فن تعمیر کی تاریخ میں مسلم معماروں کی جدت طرازیوں میں واضح ہے اس کے علاوہ انسانی سماج کی تشکیل و تعمیر جدید میں بھی اسلام کے تاریخی کارنامے کی طرف واضح اشارہ اس شعر سے ہوتا ہے: اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے عجیب عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل مسجد قرطبہ خود مرد مسلماں کے عجیب و غریب زمانے اور افسانے کا ایک مکمل و موثر نمونہ ہے یہ مسجد اسپین میں مسلمانوں کی ان ترقیات کی علامت ہے جن کی بدولت ہی دنیا میں وہ عصر حاضر نمودار ہوا ہے جسے اہل مغرب کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے بہت قبل اسلام کے عمرانی تصور کی کارفرمائی سے مدینہ منورہ کی ریاست و معاشرت نے دو رقدیم کے اوہام و خرافات اور یونانی و رومی اساطیر کی وحشتوں کو ختم کر کے ایک جدید تمدن اور روشن خیال تہذیب کے محکم عقائد اور شکستہ افعال پر مشتمل عالم انسانیت کی داغ بیل ڈال دی تھی۔ چنانچہ اندلس کے مسلمانوں کی ساری ترقیات اسی بنیاد پر استوار تھیں۔ بہرحال جس اسلامی ذہن و کردار نے یہ حیرت انگیز تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا‘ وہ اپنی جگہ لافانی ہے اور وقت کے نشیب و فراز اسے مٹا نہیں سکتے بلکہ ہر نشیب و فراز میں وہ ایک نئی آن اور نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے: جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جتیے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے (طلوع اسلام… بانگ درا) طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب یگانہ اورمثال زمانہ گونا گوں (مدنیت اسلام… ضرب کلیم) یہ اسلامی ذہن و کردار ہی ہے جو کبھی نمرود وقت کے مقابلے میں خلیل اللہ بن کر سامنے آیا ہے اور کبھی فرعون زمانہ کے مقابلے میں کلیم اللہ بن کر۔ اس لیے کہ اس کی اذانیں ہر زمانے میں اور ہر مقام میں کسی مسجد کے منار بلند سے خدائے وحدہ لاشریک کیلافانی و لاثانی عظمت کا اعلان کرتی رہی ہیں۔ لہٰذا معبود کی اس عظمت کا سایہ عابد کی ہستی پر بھی پڑتا رہاہے۔ چنانچہ وادی ایمن کے اسی نور ازل کا پرتو مسجد قرطبہ کے دروبام پر پڑ رہا ے جبکہ اس کا منار بلند ہر پیغمبر اسلام پر ہر دور میں نازل ہونے والی لازوال وحی الٰہی کے قاصد حضرت جبرئیل کی جلوہ گہ ہے۔ اسلامی فن تعمیر کے حسین ترین نمونے کی توصیف اسلامی استعاروں میں اس عظیم فنکاری کے ساتھ کرنے کے بعد بند کی ٹیپ میں اس نمونے کے حامل و عامل مرد مسلماں کے لافانی کردار کا راز بتایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ عالم وجود کی رزم گاہ خیر و شر اور تاریخ انسانیت کے معرکہ حق و باطل میں مرد مسلماں ایک اایسا بانکا مرد سپاہی ہے جس کی زرہ اور پنہ دونوں لا الہ ہے وہ اپنے عقیدہ توحید ہی کی شمشیر سے لڑتا بھی ہے۔ اور اسی کی ڈھال سے حملوں کی زد میں آ کر بچتا بھی ہے۔ وقت کے نمرودوں اور فرعونوں سے اس کی جنگ حق کا بول بالا کرنے کے لیے ہے کسی ذاتی شان و شوکت کے لیے نہیں۔ وہ بالکل بے غرض ہے لہٰذا اس کی طاقت بے پناہ ہے اس کا جذبہ صادق ہے لہٰذا ہمیشہ تازہ ہے ۔ اس کا ایمان پختہ ہے لہٰذا قابل شکست ہے اس نے اپنے آپ کو خدائی مرضی کے تابع کر دیا ہے لہٰذا اس کی مرضی دنیا کے معاملات طے کرنے میں کارفرما رہی ہے اس کے بلند مقاصد اس کی شخصیت کو دلنواز بناتے ہیں پانچواں بند بندہ مومن کی صفات کے لیے وقف ہے: تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز اس کا مقام بلند‘ اس کا خیال عظیم اس کا سرور‘ کا شوق اس کا نیاز اس کا ناز ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کارکشا‘ کارساز خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دلنواز نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو‘ پاک دل و پاکباز نقطہ پر کار حق مرد خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ اس بند میں تشبیہہ و استعارہ وغیرہ کی مشاطگی گویا نہیں ہے‘ اور جو چند پیکر ہیں وہ محاورے کی حد تک سادہ ہیں۔ لیکن شروع سے آخر تک حسن معنی کی ایسی لالہ کاری ہے کہ رنگ و آہنگ کی ایک دنیا آباد نظر آتی ہے ۔ یہ فصاحت کی بلاغت ہے اور سلاست کی نفاست‘ شاعر نے یہاں اپنے اسلوب کی روانی سے ایسی نغمہ آفرینی کی ہے کہ قاری خیال کے بہائو اور اس کی لہروں کے پیچ و خم میں محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ دل سوزی‘ سرمستی اور رعنائی کا کیف تمام اشعار پر چھایا ہوا ہے ۔ ترنم کی سحر انگیز نوائوں کے ساتھ ہی تمثیل کی طلسم آفرینی ادائیں بھی الفاظ و تراکیب کی بندش و نشست اور تصورات و نکات کی ترتیب و تنظیم سے رونما ہوتی ہیں… اس کے دنوں کی تپش‘ اس کی شبووں کا گداز‘ اس کا سرور‘ اس کا شوق‘ اس کا نیاز‘ اس کا ناز‘ غالب و کار آفریں‘ کارکشا‘ کارساز‘ اس کی ادا دلفریب ‘ اس کی نگاہ دلنواز ‘ زم ہو یا بزم ‘ پاک دل و پاک باز‘ یہ پانچ اشعار کے دوسرے مصرعے ہیں‘ انہیں اپنے پہلے مصرعوں کے ساتھ ملا کرایک لے سے پڑھا جائے تو نغمہ موسیقی کے زیر و بم بالکل خیال کی لروں کے اتارچڑھائو کے مطابق محسو س ہوں گے اور فکر کی ترقی پذیر حرکیت فن کی ترقی پذیر حرکیت کے ساتھ مکمل طور سے ہم آہنگ نظر آئے گی‘ الفاظ و معانی کے توازن کا یہ سلسلہ ٹیپ کے شعر میں پہلے مصرعے پر تمام ہو جاتا ہے: عقل کی منزل ہے وہ‘ عشق کا حاصل ہے وہ عقل و عشق اور منزل و حاصل کا یہ آفاقی توازن جو نتیجہ پیدا کرتا ہے وہ دوسرے شعر میں اس طرح منقش ہوتا ہے: حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ ان مصرعوں کے ساتھ مسلمان اور بندہ مومن کی کردار نگاری مکمل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگلا اورچھٹا بند مومن و مسجد کے کرداروں کو ایک کائناتی سطح پر اور ایک مقصد حیات کے لیے بالکل مدغم کر دیتا ہے: کعبہ ارباب فن! سطوت دین مبیں تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں ہے تہہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار حامل ’’خلق عظیم‘‘ صاحب صدق و یقین جن کی حکومت ہے فاش یہ رمز غریب سلطنت اہل دل فقر ہے‘ شاہی نہیں جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی خوش دل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں بوئے یمن آج بھی اس کی ہوائوں میں ہے رنگ حجاز آج بھی اس کی نوائوں میں ہے یمن کی خوشگوار آب و ہوا اور حجاز کی گرمی نوا نے اندلس کی زرخیزی و شادابی کے ساتھ مل کر جو روشن جبیں‘ خوش دل اور دل نشیں شخصیت تاریخ کے ایک دور اور جغرافیہ کے ساتھ ایک خطے میں پیدا کی اس کے دل آویز اور سحر کار نقوش کا نہ صرف یہ کہ مسجد قرطبہ کے دروبام اور ستون و مینار پر ہمیشہ کے لیے مرقسم ہو چکے ہیں بلکہ ہسپانیہ کی ہوائوں اور نوائوں میں آج بھی مرتعش ہیں اور عصر حاضر کی ترقیات کے ساتھ ساتھ اسپین کی نسلوں کی نسلوں کے لہو اور چشم و ابرو میں رواں دواں ہیں اور اشارہ کناں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ عمرانی نقشہ ایک دینی کارنامے پر مبنی ہے۔ اس کا سارا حسن و جمال اسلامی حکومت و معاشرت کا فیض ہے۔ اسی لیے شاعر نے بند کے آغاز میں مسجد قرطبہ کو بیک وقت کعبہ ارباب فن اور سطوت دین مبیں کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ دین و فن کا یہ امتزاج ہی دراصل مسجد قرطبہاور نظم مسجد قرطبہ دونوں کی تعمیر و تخلیق میں ایک خاص ذہن و فن کی کامل ہم آہنگی کی کلید ہے۔ عشق اور ایمان کے ارتباط سے تشکیل پانے والا یہ ذہن و فن بہترین قدر جمال کا حامل ہے۔ چنانچہ دین اور فن کا جذبہ اور سلیقہ جس حسن کا خالق ہو وہ کائنات میں بے نظیر ہے اور اس کے جلوے کا مرکز یا تو اس طرح تخلیق ہونے والے نمونہ فن میں ہے یا اس قلب مسلماں‘ میں ہے جو اس تخلیق کا عامل ہے۔ لہٰذا مسجد قرطبہ کی تعمیر و تخلیق دونوں کا حسن بے مثال اور لازوال ہے۔ اس عظیم ترین نمونہ حسن کو شاعر نے ایک عمرانی پس منظر اور ایک زندہ معاشرے کے تناظر میں پیش کر کے اس میں زندگی کی ایسی حرارت اور تابندگی پیدا کر دی ہے کہ تاریخ تعمیر اور شعری تخلیق تینوں مجسم ہو کر نگاہوں کے سامنے اپنی تمام رنگینی و زرینی کے ساتھ جلوہ آرا ہو جاتی ہیں۔ اور مسجد و نظم کے نقوش میں انسانی خون کی سرخی دوڑتی اور چمکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘ تاریخ کا ایک گزرا ہو ا لمحہ زندہ ہوجاتا ہے‘ اس لمحے کی ایک فنی تصویر بولنے لگتی ہے۔ اور اس تصویر کا شعری پیکر دلوں اور ولولوں سے معمور کر دیتا ہے‘ ہم اسلامی اسپین کو ایک عروس نو کی طرح آراستہ و پیراستہ دیکھتے ہیں‘ زمانے کی رو تھم جاتی ہے وقت کا احساس ختم ہو جاتا ہے ماضی حال بن جاتا ہے۔ یہ خاص مسجد قرطبہ کی شاعرانہ مرقع نگاری کا نقطہ عروج ہے لیکن اقبال نے عام شعرا کی طرح صرف ہئیت مسجد کو موضوع نہ بنایا ہے ۔ بلکہ اس ہئیت سے وابستہ بہت ہی اہم مضمرات کو بھی موضوع سخن بنا کر انہوںنے مسجد کا مطالعہ زندگی کے وسیع ترین اجتماعی پس منظر میں اور آفاقی تناظر میں کیا ہے۔ یہی نظم کی وہ فنی خوبی ہے جو اسے اس قسم کے موضوعات پر دنیا کی دوسری تمام نظموں سے ممتاز کرتی ہے اور ان کے مقابلے میں اس کی فضیلت و فوقیت کا باعث ہے۔ شاعر نے ایک عمارت کو ایک ملت کی علامت بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ وہ اس کی قبلہ گاہ اور مرکز عمل ہے۔ چنانچہ ملت و عمارت کی مرکب تصویر کو تاریخ کے فریم میں فٹ کر کے ماضی و حال و مستقبل اور ایمان و عشق کے تصورات کے تحت‘ ازل و ابد تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دین اور فن کو ہم آہنگ کر کے کیا گیا ہے جس سے فن لازوال ہو گیا ہے ۔ یہ حسن و عشق کا وہ حقیقی رشتہ ہے جس کی ابدیت لافانی نتائج پیدا کرتی ہے اس سلسلے میں ماضی و حال کا نقشہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ اب آخری دوبندحال و مستقبل کا خاکہ پیش کر کے آخر میں وقت پر انسان کے ابدی تصرف کا نسخہ تجویز اور اس کے نمونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ساتوں بند ہے: دیدہ انجم ہے تیری زمیں آسماں آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں دیکھ چکا لمنی شورش اصلاح دیں جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا یہ عصر رواں کی نقاشی ہے جس میں مغربیوں کے دگرگوں ہوتے ہوئے جہاں کی صدیوں پر مشتمل تاریخ کا ایک خیال آفریں مرقع مرتب کیا گیا ہے۔ اس مرقعے میں انقلاب زمانہ کے وہ اثرات دکھائے گئے ہیں جو مغربی دنیا کی تجدید اور یورپی ممالک کی ترقی کا باعث ہوئے۔ جرمنی فرانس ‘ اور روم (اطالیہ) میں اصلاح دیں اور نشاط ثانیہ کی وہ انقلابی تحریکات چلیں جو بالآخر پورے یورپ میں سائنس صنعت‘ سیاست اور معاشرت کی عظیم الشان تبدیلیوں کا سبب بنیں اور ان کے نتیجے میں مغربی ممالک آزادی فکر ایجاد و انکشاف اور تجارت و حکومت کے مراکز بن گئے۔ یہ سلسلہ روز و شب کے حادثات ہیں جیسا کہ پہلے بند میں وقت کی نقش گری کرتے ہوئے اشارہ کیا جا چکا ہے ۔ لیکن بند اول ہی مٰں اسی طرح کے دوسرے اشارے کے مطابق زمونے کی رو مسلسل چل رہی ہے ملت اسلامیہ بھی گردش ایام کے اس چکر میں محفوظ نہیں۔ شاعر روح مسلماں میں آج پھر وہی اضطراب دیکھتا ہے جو کچھ عرصہ قبل مغرب کی غیر اسلامی ملتوں کو اصلاح اور انقلاب سے دوچار کر چکا ہے ۔ انقلاب زمانہ کی یہ ساری باتیں شاعر کو ا س صورت حال کے مشاہدے سے یاد آتی ہیں جس کا پر حسرت ذکر زیر نظر بند کے پہلے ہی شعر کے مصرع ثانی میں کیا گیا ہے: آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں یہ صدیاں ملت اسلامیہ کے زوال کی ہیں۔ مسجد قرطبہ کی تعمیر ملت کے دور عروج کا ایک عظیم الشان نشان ہے اور اس کی فضا کا صدیوں سے بے اذاں ہونا علامت زوال ہے لیکن تاریخ ایک بار پھر نئے موڑ پر آ چکی ہے ۔ زمانے کے انداز بدلے جا چکے ہیں۔ بحر زمانہ کی تہہ میں ابھی کتنے ہی طوفان پل رہے ہیں اور گنبد نیلو فرری رنگ بدلنے والا ہے‘ جیسا کہ بند کی ٹیپ کے استفہام سے مترشح ہوتا ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ مستقل ہے۔ جو اس سوال کے جواب میں دیا گیا ہے جس کا اندراج بند کے دوسرے شعر میں کیا گیا تھا: کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں؟ یہ بڑ ا معنی خیز سوال ہے اور عشق بلا خیز کا ابہام اس کے معانی میں انتہائی وسعت پیداکر دیتا ہے۔ یہ عشق انسانیت کی قوت محرکہ بھی ہے اور ملت کی بھی۔ بعد کے اشعار‘ جو بداہتہً اس سوال کا جواب ہیں‘ عصر حاضر کی پوری انسانیت نیز ملت کی تاریخ کے نشیب و فراز پر نہایت بصیر ت افروز روشنی ڈالتے ہیں تاریخ کی حرکت کو عشق بلاخیز کا قافلہ سخت جاں کہہ کر شاعر نے انقلاب زمانہ کی سیاسی کروٹوں کو بڑی گہری شاعری کے رنگ میں ڈبو دیا ہ۔ پھر جن لفظوں میں اور جن نکتوں کے ساتھ اقبال نے مغرب کے دور جدید کی تصویر کشی ک ہے جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشان‘ اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں‘ جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں‘ لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں۔ ان سے تاریخ کے بہت گہرے مطالعے کے ساتھ ساتھ اس مطالعے کے شاعرانہ اظہار کے لیے چند رنگیں پیکر خیال نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔ اور کئی فنی حسیات کو بیدار کرتے ہیں۔ تاریخ کو تلمیح بنانا اقبال کا ایک نمایاں کمال فن ہے۔ وہ سیاست و صنعت کے تصورات و ایجادات کو کس طرح استعارات و علامات کی شاعرانہ صورتوں میں پیش کر تے ہیں ا س کا ایک نمونہ ہم طلوع اسلام میں دیکھ چکے ہیں مسجد قرطبہ میں یہ نمونہ بالیدہ ترین شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ زیر نظر بند میں جرمنی کی تحریک انقلاب مسیحیت کو جو لوتھر کی دینی اصلاحات پر مبنی تھی‘ اور جس نے پورے یورپ میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا اقبال نے صرف چار مصرعو ں میں متشکل کر دیا ہے۔ شور ش اصلاح دیں کی ترکیب Reformation کے پورے ہنگامے کی موثر پیکر تراشی کرتی ہے۔ حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت کا مصرع پابائیت کے خلاف بغاوت کی بالکل صحیح موزوں اور معنی خیز تصویر کشی کرتا ہے۔ متعلقہ شعر کا دوسرا مصرع اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں‘ کلیسا میں عصمت پیر کنشت کے حرف غلط بن جانے کا منطقی نتیجہ ہے اور پاپائے روم نیز دیگر پادریوں کی معصومیت کا عقیدہ ختم ہوجانے کے بعد دنیائے مسیحیت میں آزادی فکر کی جو لہر چل اس کی بہترین شاعرانہ تعبیر ہے اور اس آزادی کی حقیقت کے پیش نظر نہایت فکر انگیز بیان ہے۔ اس کے بعد انقلاب فرانس اور یورپ میں بادشاہت کے خلاف اس انقلاب کے سیاسی کارنامے پر صرف ایک مصرعے جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں‘ کے ذریعے بھرپور تبصرہ کر دیا گیا ہے۔ اٹلی سے پورے مغرب میں نشاۃ الثانیہ Renaissanceکی جو تحریک چلی یہاں تک کہ مسولینی کے دور اول نے اس نے درمیانے عرصے کے طویل دور زوال کے بعد‘ اطالیہ میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی‘ اس کی پوری تصویر مع پس منظر ایک شعر میں پیش کر دی گئی ہے۔ جس میں پہلا مصرع ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر نشاۃ ثانیہ سے قبل نیز اس کے ایک عرصہ بعد کے دو مختلف ادوار ماضی کی عکاسی کرتا ہے۔ اطالیہ دور قدیم میں یونان کا جانشین تھا۔ پھر عہد وسطیٰ میں قدامت اور پسماندگی کا گہوارہ بنا‘ اس کے بعد اسلامی اثرات کے تحت عہد وسطیٰ کے اواخر میں اس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی قیادت کی پھر یورپ کی دوسری قومیں جو نسبتاً نو دولت تھیں ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ گئیں اور اطالیہ کی کہنہ پرستی اس کے لیے گویا عصائے پیری بنی رہی‘ یہاں تک کہ مسولینی کے دور اول میں ایک بار پھر اس قدیم ملک میں ایک مختصر عرصے کے لیے جوانی کی تازگی آ گئی۔ جسے شعر کے مصرع میں ثانی لذت تجدد ہے وہ بھی ہوئی پھر جواں‘ میںمنقش کر دیا گیا۔ اس طرح طقط دو مصرعے ایک قدیم ملک کے ماضی و حال دونوں ٹھیک ٹھیک صورت گری ایک خیال انگیز شاعرانہ انداز سے کرتے ہیں۔ اسی طرح انیسویںصدی کے اواخر میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں روح مسلماں کے اضطراب کو نہایت ایمائی انداز سے بڑے لطیف پیرائے میں آئینہ دکھایا گیا ہے۔ راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں! عصر حاضر میں عالم انسانیت کی اس عمیق و حسین عبرت خیز اور فکر انگیز تصویر کشی کے بعد آخری اور آٹھویں بند میں مستقبل کے معنی خیز اشارات بڑے حکیمانہ و فن کارانہ اسلوب سے کیے جاتے ہیں: وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب آب روان کبیر ! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالم نوا ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کش مکش انقلاب صورت شمشیر ہے درست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جوہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر مسجد قرطبہ کے صحن میں شاعر دعا مانگ چکا ہے ا س کے بعد مسجد کی شان میں اس نے ایک شاندار قصیدہ پڑھا‘ جس میں وقت اور تاریخ کے پس منظر میں اس نے ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام و ملل کے عروج و زوال کی داستان بیان کی اور سب سے بڑھ کر اس داستاں کو رنگین و زریں‘ مسرت انگیز ‘ بصیرت افروز اور سبق آموز بنانے والے عشق‘ ایمان اور فن کے آفاقی عناصر کی نغمہ پیرائی کی۔ اس وقت کے لمحات تواریخ عالم اور مظاہر حیات و کائنات کی پر جلال و پر جمال تصاویر ہوئے گزرتے رہے‘ یہاں تک کہ آفتاب وادی کبیر میں غروب ہو گیا۔ ہسپانیہ کے کوہسار پر چھائے ہوئے بادل غازہ شفق سے گل گوں ہو گئے۔ آسمان لعل بدخشاں کی طرح چمکنے لگا۔ اس حسین فضا میں معصوم دو شیزائوں کے سادہ پر سوز گیتوں سے پوری وادی گونجنے لگی اور ہر سو عہد شباب کی مستی و رعنائی طاری ہو گئی۔ ایک خوبصورت سر زمین پر ‘ ایک خوبصورت تاریخ اور خوبصورت تعمیر کے سایے میں فطرت کے خوبصورت مناظر اور انسانیت کے خوبصورت مظاہر کے مشاہدے میں کھویا ہوا شاعر آب روان کبیر کے کنارے ماضی و حال سے مختلف‘ کسی اور زمانے کے خواب دیکھتا ہے۔ اس کی بصیرت اسے بتاتی ہے کہ ایک ‘ عالم نو پردہ تقدیر‘ میں مرتب ہو رہا ہے۔ او ر ابھی دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے‘ لیکن شاعر کی نگاہوں میں اس کی سحر بے حجاب ہے ۔ آنے والے دور کی یہ تصویر عصر حاضر کی مغربی طاقتوں کے لیے اتنی ہولناک ہے کہ شاعر اگر اس کے متعلق اپنے چہرہ افکار سے پردہ اٹھادے تو فرنگ اس کی نوائوں کی تاب نہ لا سکے۔ گردش ایام اشارہ کرتی ہے کہ یہ انقلاب ہو کر رہے گا۔ زندگی کا رخ بدلتا ہی رہتا ہے‘ زمانے کا دستور یہی ہے۔ روح امم کی حیات کش مکش انقلاب مغربی اقوام و ممالک کے اقتدار کے دن گئے ہوئے ہیں‘ وہ عصر حاضر میں تاریخ سے اپنا حصہ لے چکے ہیں اور زمانے میں اپنا رول ادا کر چکے۔ ان کا تمدن نقط عروج پر پہنچ کر مائل بہ زوال ہو چکا ہے۔ انہوںنے دو تین صدیوں تک جو کچھ عمل کیا ہے‘ اب اس کا حساب دینے کا وقت آ گیا ہے ۔ اس انقلاب دوراں میں جو عنقریب واقع ہونے والا ہے وہی ملت تاریخ کے پردے پر آگے بڑھے گی اور عنان وقت اپنے ہاتھ میں لے لے گی جو آنے والے دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا جائزہ لے کر اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لے گا۔ قدرت کا قانون یہی ہے کہ جو قوم زمانے کی ہر کروٹ کے ساتھ خود احتسابی سے کام لیتی وہی مشیت خداوندی کی تکمیل کا وسیلہ بنائی جاتی ہے‘ گویا وہ قضائے الٰہی کے ہاتھ میں ایک شمشیر آبدار ہے جو وقت کی تمام آلائشوں کو صاف کر کے مشیت کے حکم سے‘ اس کے منشا کے مطابق اور اسی کی تائید و نصرت سے‘ اس کی تعمیل کی راہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن گردش ایام کے تمام نشیب و فراز میں ایک نقش ہمیشہ پائیدار رہتا ہے اور ایک نغمہ برابر جاندار رہتا ہے۔ اس لیے کہ یہی نقش مکمل اور یہی نغمہ پختہ ہوتا ہے ۔ یہ نقش و نغمہ وہ ہے جو خون جگر سے پرورش پاتا ہے۔ وقت کے موضوع پر اظہار خیال کرنے والے پہلے بند کی ٹیپ تھی۔ اول و آخر فنا‘ باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا جبکہ دوسرا بند اس شعر سے شروع ہوا: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام اور آخری بند کی ٹیپ ہے: نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر نقوش کا یہ تسلسل نظم کی بہت ہی مربوط ہئیت اور اس نے تخیل کے مسلسل ارتقاء پر واضح دلالت کرتا ہے۔ تاریخ کا یہ پیام ازلی ہے کہ ہر نقش کو فنا ہے الا اس نقش کے جس کی تعمیر کسی مرد خدا نے اپنے جذبہ ایمان و عشق سے کی ہو‘ یہی نقش وہ نمونہ فن ہے جو کامل اور پختہ ہے اور زمانے کی حدود میں لافانی ہے۔ ’’ذوق و شوق‘‘ کا آغاز حسن فطرت کی مرقع نگاری سے ہوا تھا اور پہلا بند ٹیپ کو چھوڑ کر پورا کا پورا اسی کے لیے مخصوص تھا ساقی نامہ کی تمہید میں بھی جمال فطرت کی تصویر کشی پہلے بند کے بڑے حصے میں کی گئی تھی۔ خضر راہ کی ابتدا بھی فطرت کی منظر نگاری سے ہوئی تھی۔ لیکن مسجد قرطبہ کی تمہید و ابتدا وقت کے فلسفیانہ موضوع سے ہوئی اور ایک پورا خاص بند اس کے لیے وقف کر دیا گیا‘ جبکہ نظم کے آخری بند میں سرف ایک پہلا شعر فطرت کی منظر نگاری پر مشتمل ہے اور دوسر ا شعر فطری سادگی کے نغمے اور عہد شباب کے فطری ولولے کی پیکر تراشی کرتا ہے‘ اور تیسرے شعر کے پہلے مصرعے میں ایک مظہر فطرت سے متعلق ہے یعنی بند کے سولہ مصرعوں میں زیادہ سے زیادہ پانچ مصرعے فطرت کوئی ادا اور اس کا کوئی جلوہ پیش کرتے ہیں۔اس طرح فطرت کی خالص منظر نگاری مسجد قرطبہ میں دوسری بڑی نظموں سے بہت ہی کم ہے ‘ حالانکہ جہاں تک نظم کے آخری بند میں فطرت کی منظر کا تعلق ہے وہ شمع اور شاعر اور طلوع اسلام میں بھی ہے اور گرچہ پورا بند اس کے لیے وقف نہیں ہے مگر اس کا معتدبہ حصہ منظر فطرت پر مشتمل ہے ۔ جمال فطرت سے اقبال کا گہرا شغف ہم کئی نظموں میں دیکھ چکے ہیں اور ہم پاتے ہیں کہ کلی یا جزوی طور پر براہ راست فطرت کے موضوع پر شاعری کے علاوہ اقبال کے استعارات و علامات کا بہت بڑا حصہ مناظر قدرت کے موضوع پر شاعری کے علاوہ اقبال کے استعارات و علامات کا بہت بڑا حصہ مناظر قدرت کے اشارات پر مشتمل ہے اور کلام کی تازگی اور شادابی کا باعث ہے لیکن اقبال فطرت پرست نہیں‘ صرف فطرت پسند ہیں‘ اسی لیے مناظر کا خارجی حسن ان کی فن کاری کا مقصود نہیں اس مقصود کو حاصل کرنے کا جو ان کے پیش نظر ہے ایک وسیلہ ہے۔ یہ مقصود وہ حسن ازل ہے جو مظاہر فطرت کی حقیقت ہے حسن ازل صرف حسن فطرت میں نہیں‘ اس سے زیادہ جمال انسانیت میں ہے ‘ لہٰذا انسانیت کی معرفت فطرت کے لطف پر مقدم ہے‘ اس لیے کہ نفس انسانی کا عرفان رب کائنات کا عرفان ہے ۔ اور یہی زندگی اور فن کی بنیادی نیز آخری حقیقت ہے ۔ مسجد قرطبہ خالصتاً و کلیتہً اسی حقیقت کی عکاسی و نقاشی ہے۔ چنانچہ عصر عشق ‘ ایمان اور فن جیسے آفاقی عناصر ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے موضوع کی ترکیب اس طرح کرتے ہیں کہ انسانیت کی پوری تاریخ کا خلاصہ اور اس کے ادوار ماضی و حال و مستقبل میں مشیت و حکمت الٰہی کا جلوہ ہماری نگاہوں کے سامنے عیاں ہوتا ہے۔ پوری مسجد قرطبہ اول تا آخر ایک نغمہ ہے۔ جو صرف الفاظ کے آہنگ و تصاویر کے رنگ سے نہیں ابھرتا۔ رنگ و آہنگ کے علاوہ اور ان سے بڑھ کر وہ پوری ہئیت نظم اپنے آٹھ بندوں اور چونسٹھ اشعار اور ایک سو اٹحائیس مصرعوں کے ساتھ ہے جس کے آسمان میں آہنگ الفاظ اور رنگ تصاویر دونوں استعاروں کی طرح ٹنکے ہوئے جگمگا رہے ہیں۔ یہ ہئیت اپنے موا د و انداز کے لحاظ سے نہ تو فقط کسی افسانوی واقعے کا بیانیہ ہے۔ نہ محض کسی عشقیہ جذبے کا تغزل نہ خالی درس و وعظ۔ اس میں ایک تمثیلی کیفیت ہے جس میں سب سے پہلے شاعر صحن مسجد میں محو و عا نظر آتا ہے اور ہم اس کی نوا ئے عاشقانہ سنتے ہیں اس کے بعد دو بندوں تک وقت اور عشق کے موضوعات پر ایک بہترین فکری شاعری کا حسین ترین نغمہ ہے ۔ پھر مسلسل پانچ بندوں کے اندر ہمیں شاعری کی دو آوازیں سنائی دیتی ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ دونوں ایکد وسری میں ملی ہوئی ہیں‘ مسجد سے خطاب کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے شاعر عشق‘ ایمان‘ فن اور تاریخ کے موضوعات پر اپنے افکار و خیالات اور احساسات و جذبات کا اظہار روانی اور رعنائی کے ساتھ کرتا چلا جاتاہے۔ اور کہیں کہیں واحد متکلم کا صیغہ بھی اس طرح استعمال کرتا ہے کہ اس سے واحد حاضر کے ساتھ خطاب کی حقیقت و اہمیت مزید واضح ہو جاتی ہے آخری بند میں بھی ایک شعر خطاب کے سلسلے کو جاری رکھتا ہے لیکن دوسرے اشعار میں فطرت‘ فلسفہ‘ تاریخ‘ دن اور فکر کی فکری شاعری‘ شروع کے دو بندوں کی طرح ہے نظم کے مختلف بندوں میں بعض تصویروں کی تکرار ہے اور پہلے اور آخری بند کی ٹیپ کے اشعار نکتہ اور مقابل نکتہ کے مانند نغماتی طور پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ان ساری باتوں کا کردار ایک ہے جو خود شاعر ہے اور اپنے الفاظ میں بولتا ہے لیکن اس نے واحد متکلم کا استعمال بہت ہی کم کیا ہے گویا نہیں جبکہ اس نے مسجد کے لیے واحد حاضر اورمومن کے لیے واحد غائب کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ کیا اس کثرت اور اس سے پیدا ہونے والی شدت کے ساتھ واحد حاضر اور واحد غائب کا یہ استعمال مسجد اور مومن کو ایک کردار اور کردار کو اس کی اپنی زبان نہیں دیتا لفظاً نہیں معناً ہی سہی؟ کیا یہ تصویر مسجد کے سوا کسی کردار کی ہو سکتی ہے؟ تیری بنا پائیدار تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل تیرے دروبام پر وادی ایمن کا نور تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل کیا یہ تصویر مومن کے سوا کسی کردار کی ہو سکتی ہے؟ تجھ س ہو آشکار بندہ و مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش ‘ اس کی شبوں کا گداز اس کا مقام بلند‘ اس کا خیال عظیم اس کا سرور‘ اس کا شوق‘ اس کا نیاز‘ اس کا ناز ہاتھ ہے اس کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کارکشا‘ کارساز خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل‘ اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب ‘ اس کی نگہ دلنواز نرم دم گفتگو‘ گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو‘ پاک دل و پاکباز مسجد و مومن کی تصویروں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ یہ دونوں تصویریں نہ صرف ایک دوسرے سے وابستہ ہیں بلکہ ایک دوسرے میں مدغم ہیں اور یہ مومن کی متحرک شخصیت کے نقوش ہی ہیں جو مسجد کی منجمد ہئیت پر کندہ ہو گئے ہیں یا مسجد کے دروبام اور ستون و مینار پر کندہ نقوش پگھل کر مومن کے دنوں‘ اس کی شبوں اس کے سرور اور اس کے شوق‘ اس کے مقاصد‘ اس کی ادا‘ اس کی نگاہ‘ اس کی گفتگو‘ اس کی جستجو‘ اور اس کے رزم و بزم میں متحرک نظر آتے ہیں۔ پھریہ احساس بھی ہو گا ہ کہ مومن خود شاعر ہی ہے ‘ خواہ اپنی حقیقت میں یا اپنی آرزوئوں میں اس طرح تینوں کردار…شاعر مسجد اور مومن… مل کر ایک ہو جاتے ہیں جبکہ تین عناصر سے مرکب اس کردار کے تینوں عناصر کی ترکیب اس کی ہی شب اور عصر رواں کے مشترک کا پیکر ہے اور مرکب کردار کے تینوں عناصر کی ترکیب ہی اس کی ہی سطح پر ہوتی ہے۔ بہرحال‘ وقت کو پس منظر میں بھی رکھ دیں تو باقی تینوں کردار کسی عمل کے منظر میں نمودار نہیں ہوتے‘ نہ آپس میں کوئی مکالمہ کرتے ہیں‘ بلکہ ان سب کی کردار نگاری صرف ایک کردار… شاعر اپنے بیان سے کرتا ہے۔ لیکن وہ کوئی قصہ بیان نہیں کرتا صرف اپنے افکار و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایک فرد کا اظہار خیال ہونے کے باوجود تغزل محض کی آواز نہیں ہے۔ اس کی نوائے شوق کا ایک نغمہ کائنات ہے اور پوری حیات کا آہنگ۔ اس تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نمونہ فن کے لحاظ سے مسجد قرطبہ بہت پیچیدہ و بالیدہ و تراشیدہ تخلیق شاعری ہے۔ تمثیلی عمل کے بغیر بھی اس میں ایک تمثیلی تخیل ہے اور اس تخیل کو اداکرنے والے چند اہم کردار ہیں جو مکالمے کے بغیر بھی صرف اپنے خالق کی زبان سے اپنا ایک پر اثر مرقع پیش کرتے ہیں جس کی ترکیب سب کی مشترک ادائوں کے قوس قزحی عکس سے ہوتی ہے۔ اس عکس کی نقاشی میں شاعری کی دو آوازیں خود کلامی اور تخاطب کی ‘ تو بالکل نمایاں ہیں جبکہ تیسری آواز تمثیلی کرداروں کی بہ ظاہر خاموش ہونے کے باوجود ایک زبان حال رکھتی ہے‘ شاعر کا تخاطب اور بیان اپنے کرداروں کی ایسی ترجمانی کرتا ہے کہ ان کے نقوش بولتے محسوس ہوتے ہیں۔ چنانچہ مسجد قرطبہ منظوم تمثیلی Poetic Dramaنہ ہوتے ہوئے بھی اس معنے میں ایک تمثیلی نظم Dramatic Poem کہی جا سکتی ہے۔ کہ اس کے تخیل اور بیان کے عناصر و مظاہر میں تمثیل حیات کا ایک کائناتی احساس ہے ۔ اور اس تمثیل میں عشق کا عامل عصر کے عامل سے ٹکرا کر مسجد و مومن کی لافانی شخصیتیں تخلیق کرتا ہے۔ اس تاریخی تصادم و تخلیق میں ایک آفاقی تمثیل کا جو فلسفیانہ و شاعرانہ مواد ہے اس کو اقبال کے دست ہنر نے ایک ایسی ہئیت سخن میں منقش کر دیا ہے کہ الفاظ و تصاویر پر ایک نغمہ بسیط مرتب کرتے ہیں۔ شاعری کا یہ نغمہ ہندی ہے مگر اس کی لے حجازی ہے : عجمی خم ہے تو کیا‘ مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا ‘ لے تو حجازی ہے مری (شکوہ …بانگ درا) بلاشبہ مسجد قرطبہ کے نقوش اسلامی ہیں‘ اور یہ موضوع کی فن پیش کش کے لیے لازمی تھا۔ مسجد و مومن کے تصورات لازم و ملزوم ہیں یہی وجہ ہے کہ مسجد کے نقوش کی عکاسی کا شاعرانہ رد عمل مومن کی دعا سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک خالص و کال فنی عمل ہے جس کے بغیر حقیقت کی حقیقت پسندانہ تمثیل اور ایک خاص مواد کی موزوں و موثر شاعرانہ تخلیق ممکن نہ تھی۔ مسجد قرطبہ ایک حسین ترین نمونہ تعمیر ضرو ر ہے۔ مگر اس کی فن کاری ایک تصور حیات پر مبنی ہے اور ایک دائرہ تاریخ سے تعلق رکھتی ہے جو اسلام اور ملت اسلامیہ ہیں‘ لہٰذا اس کا کارنامہ فن کی کسی بھی فنی تعبیر کے لیے اسلام اور ملت اسلامیہ کے نکات و نقوش کا استعمال ناگزیر ہے۔ اور جب یہ تعبیر شاعری کی زبان میں کی جائے گی تو ان میں ایک جذبہ و ولولہ بھی ضرور ہو گا‘ ورنہ تصویر فن میں جان نہیں پڑے گی۔ اور موضوع کی روح بیدار نہ ہو گی۔ چنانچہ اقبال نے ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں اپنے مخصوص و معروف نظریہ و جذبہ اسلامی کے ساتھ فن کے یہی تقاضے بدرجہ اتم پورے کیے ہیں اور اپنے دینی احساسات و خیالات کے اظہار میں ایسا زبردست شاعرانہ کمال دکھایا ہے کہ خالص نظم نگاری میں اس کی کوئی نظیر دنیائے ادب میں نہیں۔ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کا موازنہ قدر اول کے انگریزی شاعر ورڈس ورتھ کی ایک مشہور ترین نظم کے ساتھ بہت ہی مفید ہو گا۔ اس نظم کو مختصر طور پر عرف عام میں ٹینٹرن ایبی Tintern Abbey کہا جاتا ہے جبکہ اس کا مکمل عنوان اس طرح ہے : سطریں جو جولائی کی تیرہ تاریخ کو 1798ء میں‘ ایک سیاحت کے دوران دریائے وائی کے کناروں پر دوبارہ پہنچنے کے بعد ننٹرن ایبی سے چند میل اوپر تحریر کی گئیں۔ بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ فنی نقطہ نظر سے یہ ورڈز ورتھ کی بہترین تخلیق ہے۔ حسب معمول اوس میں بھی فطرت کے شاعرانہ تصویر کشی کی گئی ہے‘ اگرچہ پس منظر میں ایک مسیحی خانقاہ ہے اس طرح مسجد قرطبہ سے ایک گونہ مشابہت بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس کی خانقاہ کے نقوش یا ان سے متعلق احساسات نظم میں مفقود ہیں۔ بس جو کچھ ہے شاعر کی اپنی ذہنی خانقاہ فطرت کے نقش و نگار ہیں۔ لیکن ایک خاص بات اس نظم میں یہ ہے کہ شاعر مناظر قدرت کے ساتھ ساتھ کچھ اشارات عالم انسانیت کے بھی ہیں اور بعض نکات عشق حقیقی کے بھی ہیں۔ گرچہ وہ اتنے سرسری اور پراسرار ہیں کہ مناظر قدرت سے الگ کر کے ان کو دیکھنا دشوار ہے۔ جہاں تک فطرت کی عکاسی کا تعلق ہے۔ اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں‘ وہ ورڈس ورتھ کی فطرت پرستی ہے جو اقبال کا موضوع نہیں۔ لیکن انسانیت اور محبت کی بعض گریزاں تصویریں یہ ہیں: تا آں کہ اس قالب جسمانی کا سانس بلکہ ہمارے انسانی خوں کی حرکت بھی معطل ہو جاتے ہیں اور ہم سو جاتے ہیں جسم کے اندر اور ایک درندہ روح بن جاتے ہیں جبکہ ایک ایسی آنکھ سے جو پر سکون ہو گئی ہے طاقت سے نغمے کی اور عمیق مسرت کی‘ ہم جان اشیا کے اندر دیکھنے لگتے ہیں …چونکہ میں نے سیکھ لیا ہے فطرت پر نظر کرنا اس طرح نہیں جس طرحں جوانی کے ایام بے فکری میں بلکہ اکثر سنتے ہوئے خاموش‘ پر درد نغمہ انسانیت کو جو نہ سخت نہ کھردرا اگرچہ بڑا ہی طاقتور ہے تننزیہ و تسخیر کے لیے‘ اور میں نے محسوس کیا ہے ایک وجود جو پریشان کرتا ہے مجھے مسرت سے ترفع یافتہ خیالات کی‘ ایک احساس بلند کسی ایسی شے کا جو بہت زیادہ گہرے طور پر سموئی ہوئی ہے جس کا نشیمن ڈوبتے سورجوں کی روشنی ہے اور محیط سمندر اور زندہ ہوا اور نیلا آسمان اور دماغ انسان: ایک حرکت اور ایک روح ؤجو تحریک دیتی ہے تمام ذی فکر اشیا کو اور فکر کے تمام موضوعات کو اور ساری چیزوں کے اندر رواں دواں ہے… اسی رو ح کو وہ میرے پاکیزہ ترین افکار کا لنگر خادمہ ‘ رونما‘ میرے قلب کی نگراں اور جان میرے پورے اخلاقی وجود کی قرار دیتا ہے چنانچہ وہ اپنے آپ کو فطرت کا ایک پجاری کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور فطرت کی اس دیوی کے لیے اپنی محبت کو وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف زیادہ سے زیادہ گرم بلکہ زیادہ سے زیادہ مقدس ہوتا ہوا بتاتا ہے۔ ان باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ ورڈس ورتھ کے لیے جو کچھ ہے منظر حیات ہے اور وہ اسے اپنے ہی تفکر کا محور تصوف کی حد تک بنائے ہوئے ہے انسانیت کا اشارہ ہے تو اسی کے حوالے سے اور محبت کا نکتہ ہے تو اسی پر مبنی‘ یہاں تک کہ اس سلسلے میں ورڈس ورتھ کے ذہن کا ارتقا فقط یہ ہے کہ وہ جن مظاہر پر فریفتہ ہے ان کے اندر کچھ دوسرے اور زیادہ گہرے عناصر کو بھی محسوس کرنے لگتا ہے۔ گرچہ یہ احساس بہت ہی مبہم ہے اور مختصر۔ اس کے برخلاف اقبال زندگی کا ایک جامع محیط اور وسیع و رفیع و عمیق نظریہ رکھتے ہیں۔ جو فطرت انسانیت اور محبت سبھی کی تشریح و توضیح و تعبین ایک توازن و ترکیب کے ساتھ کرتا ہے۔ اس توازن و ترکیب کا علم اقبال کو ان کے ایمان کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ ایمان انہیںنفس اور رب دونوں کی معرفت سے سرشار کرتاہے۔ یہ معرفت تاریخ فطرت کائنات اور حیات کی نہ صرف گہری بصیرت عطا کرتی ہے بلکہ اس محکم بصیرت کے ساتھ ایک جذبے کا سوز اور ایک ولولے کا گداز بھی عطا کرتی ہے مسجد قرطبہ کا حسن اسی بصیرت جذبے اور ولولے کا عطیہ ہے جبکہ ٹنٹرن ایبی میں معبد کی کوئی ہستی ہی نہیں اورساری اہمیت دریائے وائی (WYE) کے کناروں کی ہے‘ لہٰذا ورڈس ورتھ کی بصیرت محدود جذبہ خنک اور ولولہ سرد ہے‘ بات یہ ہے کہ فطرت کی پرستش وہ سرشاری پیدا کر ہی نہیں سکتی جو خد ا کی عبادت عطا کرتی ہے۔ رگ جاں کو چھیڑنے والی ہستی مظاہر کی نہیں ان کے خالق کی ہے اور اقبال نے خالق کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دعا کی اور اس کی عبادت کے لیے تعمیر کی گئی مسجد کو موضوع بنایا محض آب روان کبیر کے کنارے کھڑے ہو کر کسی اور زمانے کا خواب نہیں دیکھا جبکہ ورڈس ورتھ کی ساری دعائیں اور عبادتیں دریائے وائی کے کناروں پر نظر آنے والے مناظر کے لیے مخصوص ہیں اور ا س کے نیچے چند میل کے فاصلے پر واقع ننٹرن کی خانقاہ کا نام صرف پتے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور شاعر کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اقبال کی روح کے سو ز و گداز اور ورڈس ورتھ کی روح کی خنکی و سردی کا اثر دونوں کے فن پر بہ آسانی محسو س کیا جا سکتا ہے مسجد قرطبہ کے مصرعوں میں جو حرارت‘ تب و تاب اور نغمگی ہے ننٹرن ایبی اس سے خالی ہے۔ اس کی سطریں نسبتاً بہت ٹھنڈی بجھی بجھی اور اکھڑی اکھڑی ہیں اس فنی صورت حال میں کچھ میں کچھ حصہ انگریزی عروض کی ناہمواری اور مغربی موسیقی کی ناپختگی کا بھی ہے۔ بہرحال اصل معاملہ اس روح فن کا ہے جس پر یہاں بحث کی جا رہی ہے۔ اسی روح فن کی کار فرمائی فارسی میں اقبال کے جاوید نامہ کو دانتے کی اطالوی نظم نام نہاد‘ ڈواین کومیڈی سے بہتر تخلیق شاعری بناتی ہے‘ جس فطرت کی پرستش ورڈس ورتھ کے فن کی تجدید کرتی ہے اسی طرح ایک عورت کی پرستش دانتے کے شاعرانہ پرواز کے لیے زنجیر پا ہے جبکہ اقبال کا فن رب السموات و الارض کی بندگی کو مرکز نظر بنا کر شاعری اور زندگی دونوں کے سدرۃ المنتہیٰ تک جانے کے لیے آزاد اور فراخ ہے اور اپنی اس آزادی و فراخی سے ادب کی وسعتوں میں دنیا کا بلند ترین مینار تعمیر کرتا ہے۔ ٭٭٭ ضرب کلیم فن شاعری کو جو کمال بال جبریل کی نظموں میں وسیع پیمانے پر ظاہر ہوا ہے اس کے نمونے ضرب کلیم میں چھوٹے پیمانے پر نظر آتے ہیں۔ اس لیے کہ اب شاعر کا تخیل پیکر تراشی سے زیادہ نکتہ سنجی کی طرف مائل ہو گیا ہے ‘ مگر آہنگ نغمہ میں فرق واقع نہیںہوا ٹھوس سے ٹھوس نکتوں کے اظہار میں بھی الفاظ و تراکیب کا ترنم قائم رہتا ہے اور نکتوں کو دلپذیر بنانے میں معاون ہوتا ہے۔ اقبال اب زیادہ تر ایجاز کا اعجاز دکھاتے ہیں اور بہت ہی مختصر سانچوں میں پیچیدہ سے پیچیدہ مواد کو سمیٹ کر نگینہ سا بنا دیتے ہیں یہ صورت فن کاری ضرب کلیم کی نظموں کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے ہی سے واضح ہو جاتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ فکر و خیال کے گویا لاتعداد موضوعات پر چھوٹی چھوٹی نظمیں درج ہیں اور ’’تعلم و تربیت‘‘ ’’عورت‘‘ ’’ادبیات‘‘ ’’فنون لطیفہ‘‘ اور ’’سیاسیات مشرق و مغرب ‘‘ جیسے عنوات کے تحت با ضابطہ ابواب مرتب کیے گئے ہیں بہرحال اعلیٰ فکری متانت کے اس اہتمام کے ساتھ شاعرانہ فن کاری کا التزام میں ہے۔ ضرب کلیم کی فن کاری کا اندازہ نواب سر حمید اللہ خاں‘ فرماں روائے بھوپال کے نام کتاب کے انتساب کے انتساب میں کیے ہوئے فارسی اشعار ہی سے ہونے لگتا ہے۔ اس میں شاعر نے امم ایشیا کی داستان خونی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کلام کو سرمایہ بہار قرار دیا ہے اور ایک فارسی مصرعے کے حوالے سے اپنا آپ کو شاخ اپنے کلام کو گل اور جس کے نام انتساب کیا ہے ا س کی شخصیت کو دست کہا ہے اس کے فوراً بعد ناظریں سے خطاب اس طرح ہے: جب تک نہ زندگی کے حقائق پر ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ یہ روردست و ضربت کاری کا ہے مقام میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات فطرت ‘ لہو ترنگ ہے غافل نہ جل ترنگ ٭٭٭ کتاب کا موضوع یقینا زندگی کے حقائق ہیں اور شاعر اپنے کلام سے زور دست و ضربت کاری کا کام لینا چاہتا ہے ۔ اور عصر حاضڑ یا عرصہ حیات کو میدان جنگ قرار دیتے ہوئے نوائے چنگ طلب کرنے سے اپنے قارئین کو منع کرتا ہے‘ لیکن اتنی سنگین باتیں بھی اس نے زجاج اور سنگ کے پیکروں کا تقابل کرتے ہوئے اور میدان جنگ و نوائے چنگ کا تضاد بتاتے ہوئے کہی ہیں اور میں اپنے نظریہ شعر ہی کو قطریہ زندگی بنا دیا ہے: خون دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات جسم اور اس کے ظاہری اعضا کی بجائے دل و جگر‘ خون کا ذکر کر کے شاعر نے پوری زندگی کو‘ اس کی تمام سنگینی کے باوصف ‘ شاری کا لطیف پیکر عطا کر دیا ہے یقینا ٹھوس سے ٹھوس بلکہ کرخت سے کرخت حقائق کی تعبیر کا یہ انداز شاعرانہ ہے جس میں کوئی کمی آخری مصرعے کے لہو ترنگ جل ترنگ سے نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ جل ترنگ اگر موسیقی کا کوئی آلہ کار ہے تو اس کے مقابلے میں شاعر نے بھی لہو ترنگ کے نام سے موسیقی کا ہی ایک دوسرا آلہ وضع کیا ہے اور ترنگ کا نغمہ اس جدید آلے میں اسی طرح ہے جس طرح قدیم آلے میں پایا جاتا ہے فرق بس یہ ہے کہ قدیم آلہ اگر اس کے اندر پانی ڈالنے اور اس کو خاص طرح چلانے سے بجتا ہے تو جدید آلہ اس کے اندر خون انڈیلنے اور س کو گردش دینے سے بجے گا اور یہ جون اسی دل و جگر کا ہو گا جس کا ذکر پہلے مصرع میں آ چکا ہے ۔ اس طرح سنگ ضڑبت کاری میدان جنگ اور خون کی تصویریں بالقصد پیش کر کے شاعر نے اپنے مجوزہ موضوع سخن کے مطابق ان حالات و حقائق پر روشنی ڈالی ہے ۔ جس کے پس منظر میں اور جن سے مقابلہ کرنے کے لیے شاعر کو نواسنجی کری ہے لیکن وہ بہرحال ایک فن کار ہے‘ ایک شاعر ہے لہٰذا تصورات اس کے سامنے شاعرانہ رنگ و آہنگ میں ابھرتے ہیں اور جس طرح وہ ابھرتے ہیں اسی طرح وہ رقم بھی کرتاہے ۔ اور اپنے فن کارانہ منصب و اسلوب سے کبھی غافل نہیںہوتا۔ چنانچہ شاعری تو شاعری زندگی بھی اس کے تخیل میں خون جگر و دل سے عبارت ہے اور جل ترنگ کو چھوڑ کر وہ بھی لہو ترنگ ہی بجاتا ہے یعنی نغمہ آفرینی ہر حال میں اس کا مقصود و طریق ہے۔ (اس سیاق و سباق میں جل ترنگ تفریح کی علامت ہے اور لہو ترنگ ریاض دل و جاں کی تفریح کے مظاہر جو بھی ہوں شاعری ریاض دل و جاں کا نغمہ خاص ہے) بس اس کے نغمے کی نوعیت اور اس کی پیش کش کا اندازہ منفرد اور عام تصور ہم بانگ دراسے بال جبریل تک غزل کے ساتھ ساتھ نظم قطعہ وار رباعی سبھی اصناف شعری میں دیکھتے رہے ہیں۔ اب وہی کمالات‘ زور دست‘ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ ضرب کلیم میں بھی نظر آتے ہیں تمہید بھی کم شاعرانہ نہیں: تڑپ رہے ہیں فضا ہائے نیلگوں کے لیے وہ پرشکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند اس آغاز کتاب کا یہ شاعرانہ انداز دیکھیے: صبح یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز نہیںمعلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا یہ کتاب کے باب اول اسلام اور مسلمان کی ابتدا ہے فن کے نقطہ نظر سے لائق توجہ امر یہ ہے کہ صرف چار مصرعوں میں طلوع اسلام کی حسین پر اثر اور پر خیال نقش گری کر دی گئی۔ اس مقصد کے لیے صبح کا عنوان اور طلوع کا استعارہ اختیار کیا گیا ہے اور بڑی خوب صورتی سے اسے بندہ مومن کی اذان سے منسوب کر دیا گیا ہے پہلے مصرعے میں سحر کو فردا و امروز کی فرسودگیوں میں تقسیم کر کے اس کے سرچشمہ طلوع کے متعلق استفہام دوسرے مصرعے میں ایک ابہام اور تجسس پیدا کرتا ہے۔ پھر تیسرے مصرعے میں سب سے پہلے لرزتا ہے شبستان وجود ‘ کی انتہائی شاعرانہ تصویر کشی کر کے چوتھے اور آخری مصرعے میں بندہ مومن کی اذان کا ذکر اس لطیف انداز سے ہوتا ہے کہ صرف لطف بیان مفہوم کو بالکل علامتی بنا دیتا ہے۔ اور بندہ مومن کے ساتھ ساتھ اس کی اذاں ایک آفاقی پیکر میں ڈھل کر طلوع سحر کی دلیل بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس شبستان وجود میں کائناتی سطح پر اجالاپھیلتا ہے ۔ ایسا اجالا کہ گردش ایام میں تاریکی شب بھی اس کی روشنی پر پردہ نہیں ڈال سکتی مطلب یہ ہے کہ صبح تو روز ہوتی ہے اور ہر دور اور ماحول میں ہوتی ہے مگر ہر صبح پیام نو نہیں لاتی‘ فردا اور امروزکا حساب ایک فرسودہ سی چیز ہے جس میں کوئی تازگی نہیں۔ لہٰذا تازگی اور روشنی کا پیام لانے والی صبح کوئی اور ہے اور عالم وجود کی تاریکیاں صرف اسی صبح سے لرزہ براندام ہیں جو اگر واقع ہو جائے تو عصر حاضر کا پھیلتا اوربڑھتا ہوا اندھیرا دور ہو جائے گا اور کیا رات ‘ کیا دن‘ کیا گزرا ہواکل اور کیا آنے والا کل‘ ہر وقت اور ہر لمحہ روشنی ہی روشنی کا عمل ہو‘ ایسی مستقل و محیط صبح آفتاب کے طلوع و غروب سے نہیں بندہ مومن کی اذاں سے نمودار ہوتی ہے ۔ جب قضائے بسیط میں اللہ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور کائنات و حیات میں اس کی کبریائی قائم ہو جاتی ہے تو شعور ی و عملی طور پر سماج اس کی کبریائی کے نور میں صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے اور افراد صفیں باندھ کر رب دو جہاں کے حضور عبادت گزاری کے لیے بیدار ہو جاتے ہیں اور تیار ہونے لگتے ہیں۔ صبح عام اور خاص صبح کا فرق صرف یہ سحر اور وہ سحر کے اشارات سے متعارف کرایا گیا ہے اس طرح کم سے کم اور سادہ سے سادہ الفاظ و تصاویر کے ذریعے‘ لیکن ایک پرزور آہنگ نغمہ کے ساتھ‘ شاعر نے ایک دقیق و وسیع موضوع کو بہت ہی لطیف و مختصر اسلوب سے واضح کر دیا ہے۔ یہی انداز سخن لا الہ الا اللہ کے عنوان کی کتاب کی دوسری نظم کا ہے۔ جو شروع سے آخر تک معانی کی بے پناہ وسعت و ثروت کے باوجود ایک گل نغمہ ہے اور خواہ اس کے خالص اسلامی تصورات سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف اگر وہ ایک بار اسے تعصبات سے خالی ہو کر پڑھ لے تو بار بار گنگنانے پر مجبور ہے: یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ معراج چوتھی نظم ’’معراج‘‘ بھی ایک اسلامی واقعہ تاریخ کے متعلق ہے: دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج مشکل نہیں یاران چمن معرکہ باز پرسوز اگر ہو نفس سینہ دراج ناوک ہے مسلماں کا ہدف اس کا ہے ثریا ہے سراسر پردہ جان نکتہ معراج تو معنی و انجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مدو جزر ابھی چاند کا محتاج ہر شعر کسی استعارے یا تلمیح کے ذریعے ترسیل خیال کرتا ہے ذرہ کا مقابلہ ’’مہ و سر‘‘ سے ہے اور اس کا تصور ولولہ شوق اور لذت پرواز پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد دراج کو ایک پرسوز نفس سینہ کے ذریعے معرکہ باز پر ابھارا جاتا ہے۔ پھر مسلماں کو ناوک سے تشبیہہ دے کر اس کا ہدف ثریا کو مقرر کیا جاتا ہے۔ آخر میں قرآن حکیم کی سورۃ نجم کی آیات معراج کی طرف اشارہ کر کے چاند کی روشنی سے سطرح دریا پر مدوجزر کے سائنسی انکشاف کا معنی خیز ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ سب تصویریں مل کرمعراج کے تصور کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کے دل میں انسان کے آخری نقطہ عروج سدرۃ المنتہیٰ… کی طرف پرواز کرنے کا حوصلہ و ولولہ ابھارتی ہیں‘ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ معانی کی یہ تاثیر الفاظ و تراکیب کی فن کارانہ ترتیب اور مجموعی طور سے نظم کی تنظیم ہئیت پر مبنی ہے‘ ورنہ یہی باتیں اگر نثر میں یا غیر فن کارانہ طور پر کہی جائیں تو نہ کوئی نغمہ ابھرے گا نہ ولولہ پیدا ہو گا۔ باب اول اسلام و مسلمان میں بے حد اہم اسلامی موضوعات پر بہتیری چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں‘ جو اپنے اختصار کے باوجود بھرپور ہیں اوراجتماعی تصورات کی متانت کے ساتھ ساتھ شعری لطافت و نفاست بھی رکھتی ہیں۔ ان میں چند جو فنی طور پر زیادہ دلچسپ اور کامیاب یہ ہیں۔ علم و عشق‘ تصوف‘ فلسفہ‘ کافر و مومن‘ مومن ‘ مدنیت اسلام‘ تسلیم و رضا‘ نکتہ توحید‘ مرد مسلمان ٭٭٭ علم و عشق علم و عشق معارف و حقائق کا ایک سرور انگیز غنائیہ ہے: علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن بندہ تخمین و ظن ! کرم کتابی نہ بن عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات علم مقام صفات عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات علم ہے پیدا سوال ‘ عشق ہے پنہاں جواب عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں عشق کے ادنیٰ غلام صاحب تاج و نگین عشق مکان و مکیں‘ عشق زمان و زمیں عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح یاب شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام شورش طوفان حلال‘ لذت ساحل حرام عشق پہ تجلی حلال ‘ عشق پہ حاصل حرام علم ہے ابن الکتاب‘ عشق ہے ام الکتاب علم وعشق کا یہ موازنہ ایک ذہنی معرکہ ہے جو مکالمے کے مضمرات رکھتا ہے اور ایک حد تک نکتہ مقابل نکتہ کی موسیقی ہے ۔ آخری بند کی تصویروں طوفان ساحل بجلی حاصل‘ ابن الکتاب ام الکتاب۔ کو چھوڑ کر بیشتر اشعار نظم صرف تصورات کا نغمہ پیش کرتے ہیں ارو منتخب اور پر معنی الفاظ و تراکیب کی نشست و بندش وہ آہنگ ترتیب دیتی ہے جس سے خیالات موسیقی کی لہروں پر رقص کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس تکنیک میں ہر مربع کا آخری مصرع مستزاد کی طرح بند کے مفہوم کی توسیع و تعیین کرتا ہے۔ سبھی بند ارتقائے خیال کی رو میں ایک دوسرے سے پیوستہ نظر آتے ہیں نظم کا والہانہ پن صرف نکات فطر کی سرمستی و رعنائی سے پیدا ہوتا یہ۔ یہ شاعر کی دلسوزی اور اس کا تخیل کی دلکشی کا کرشمہ ہے۔ گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنج ہونے کی شاعرانہ مثال اقبال سے بڑھ کر کسی نے دنیائے ادب میں قائم نہ کی ہے۔ وہ انگریزی کے مابعد الطبعی شعرا Metaphysical Poets سے بدرجہا زیادہ شدت سے اپنے افکار کو محسوس کرتے ہیں اور اسی شدت احساس کو اپنی زبردست فن کاری سے نغمہ فن میں ڈھال دیتے ہیں۔ مرد مسلمان کچھ ایسا ہی غنائیہ مرد مسلمان بھی ہے: ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہار و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفت سورہ رحمن بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان یہ اقبال کی ایک مثالی سخصیت کی کردار نگاری ہے اور اس کی تشکیل میں فلسفہ و دینیات کے تصورات سے کام لیا گیا ہے ۔ مگر انہیں علامات و استعارات کے پیکروں میں ڈھال کر رنگین و زیں بنا دیا گیا ہے۔ الفاظ و تراکیب کی بندش حسب معمول سرود آفریں ہے نئی آن نئی شان کا ترادف گفتار و کردار کی مماثلت قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کی ہم آہنگی بخار اور بدخشاں کے ساتھ جبریل امیں وہ بندہ خاکی کا تقابل قاری و قرآن کا مقابلہ ‘ دنیا و قیامت کی مقاربت اور میزان کی تکرار ‘ شبنم و طوفاں کا توازن سرود ازلی کا سورہ رحمن سے تشابہ کا رگہ فکر کے انجم سے مقدر کے ستارے کی شناخت بڑی خیال انگیز تصاویر ہیں۔ اب ایک ایسی نظم بھی ملاحظہ کیجیے جس میں تصاویر کا رنگ اور آہنگ کا ترنم کم سے کم ہے اور سارا زور صرف ایک تہذیبی تخیل کی نقاشی پر دیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے محض چند منتخب الفاظ اور معنی خیز تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے اور اپنی تصاویر و تراکیب میں چند پیکر تراش لیے گئے ہیں۔ یہ الفاظ و تراکیب اور پیکر مل کر ایک فنی ہئیت تخلیق کرتے ہیں جس کے ارتقائے خیال میں ہر مصرع اور ہر شعر دوسرے مصرعے اور شعر سے مربوط ہے: مدنیت اسلام بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب یگانہ اور مثال زمانہ گونا گوں نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بے زاری نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے ‘ نہیں ہے طلسم افلاطوں عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم اس کا حسن طبیعت‘ عرب کا سوز دروں اس نظم کے معانی بہت دقیق ہیں‘ ایک ایک مصرعے بلکہ ایک ایک فقرہ پوری پوری تاریخ کا عطر ہے اور مدنیت بمعنی تہذیب جیسے وسیع و پیچیدہ عمرانی موضوع اور اس موضوع کی نسبت سے اسلام جیسے آفاقی نظریہ حیات کی پہنائیوں‘ تہوں اور بلندیوں کو فقط پانچ اور دس مصرعوں میں سمیٹ لیا ہے لیکن بیان معانی اتنا لطیف ہے کہ تاریخ و تہذیب اور دینیات و اخلاقیات کے گراں قدر اشارات محاورے کی طرح سلیس دوراں عبارت میں تحلیل کر دیے گئے ہیں واقعہ ہے کہ دبازت مفہوم اور نفاست اظہار میں یہ نظم ‘ اپنے پیمانے پر اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے اشعار میں اقبا کی فکر اور ان کے فن کا آب زلال قطرہ قطرہ ٹپکتا نظر آتا ہے۔ پہلا مصرع ایک سیدھا سا سوال ہے اور بالکل سامنے کی بات کے بارے میں ایک ہے بجائے خود یہ کہ ایک چونکا دینے والی بات ہے اور اس سے ایک ڈرامائی تجسس پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا مصرع صرف د و معمولی اور معروف ترکیبوں کے ذریعے پوری تہذیبی زندگی کی ایک جامع کردار نگاری کرتا ہے اور یہی بات اپنے سیاق و سباق میں ایک اور خاص طریق ادا کے سبب ان ترکیبوں کو بہت ہی معمولی اور زرخیز اور پرخیال بنا دیتی ہے۔ اندیشہ اور جنوں کے الفاظ ارد و اور فارسی میں عقل و عشق کے مترادفات ہیں۔ شاعر نے ان میں ہر ایک لفظ کے ساتھ تکمیل کے مفہوم کی اضافت لگا کر یہ معنی پیدا کیا ہے کہ اسلام صرف عقل یا صرف عشق کی سادگی نیز انتہا پسندی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرکب ہے عقل و عشق دونوں کا اور دونوں کے درجہ ہائے کمال کا یعنی اسلامی تہذیب انتہا پسندیوں کے درمیان حد درجے کا توازن پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا نقطہ اعتدال ہی نقطہ کمال بھی ہے۔ ایک طرف ایمان اتنا محکم کہ اللہ اور رسول اللہؐ کے ہر فرمان پر بلا چون و چرا یقین اور دوسری طرف تدبر اتنا زبردست کہ ارشاد قرآنی کے مطابق انفس و آفاق کی ساری نشانیوں کا مشاہدہ و مطالعہ اور پوری تاریخ انسانی سے عبرت پذیری۔ دوسرا شعر اسلام کی ابدیت اور امت مسلمہ کے لازوال ہونے کی نہایت حسین تعبیر ہے اور ایک معلوم و معروف مظہر فطرت کی تصویر پر مبنی ہے۔ لیکن مخصوص الفاظ اور ان کی نشست پھر دوسرے مصرعے کی شرح تصویر پر پورے شعر کے مفہوم میں ایک تازگی و طرفگی پیدا کرتی ہے ملت اسلامیہ خدا کے آخری پیغمبر کی حامل ہے اور اس کی شریعت دین کامل ہے ۔ لہٰذ ا گردش ایام کی کوئی کروٹ اس کو فنا نہیں کر سکتی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اس کی تاریخ میں نشیب و فراز بالکل قدرتی طور پر آئیں اور یہ اسی طرح ہے جیسے آفتاب کبھی کہیں طلوع اور کبھی کہیں غروب ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک افق پر غروب بھی حقیقت دوسرے افق پر طلوع ہے۔ چنانچہ وہ غروب گویا کبھی نہیںہوتا۔ صرف اس کے طلوع کے آفاق بدلتے رہتے ہیں اور وہ آسمان وجود کی وسعتوں میں کسی نہ کسی مصلعے پر ہمیشہ چمکتا رہتا ہے ۔ تبدیلی آفاق کے ساتھ یہ مدام تابانی خود زمانے کی شان ہے۔ جس میں انقلابات ہوتے رہتے ہیں‘ کبھی ماضی‘ کبھی حال‘ کبھی مستقبل‘ کبھی اچھا وقت کبھی برا وقت لیکن اس گردش ایام میں بھی زمانہ یکساں رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ اس میں رکاوٹ کبھی نہیں آتی وہ کہیں بند نہیں ہوتا۔ یہ زندگی کی رنگا رنگی ہے جو ایک بنیادی رنگینی پر مبنی ہے ۔ حیات کے رنگ بدلتے رہتے ہیں مگر بے رنگی کبھی نہیں ہوتی۔ آج ایک رنگ ہے کل دوسرا رنگ ہے مگر کوئی رنگ ہے ضرور‘ اس لیے کہ زندگی کا ظہور ہر رنگ میں ہوتا ہے اس طرح عرصہ حیات میں اور انقلابات زمانہ کے درمیان گونا گوں کے ساتھ ساتھ یگانگی بھی قائم ہے۔ ایک حقیقت ابدی کا یہ تنوع ہی اس کے تسلسل پر دلالت کرتا ہے اور مدنیت اسلام کی تاریخ اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ تیسرا شعر جدت و قدامت کے درمیان اسلام کے توازن پر روشنی ڈالتا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک طرف عہد قدیم کے اوہام و خرافات کے فسانہ و فسوں کی نفی کی گئی ہے اور دوسری طرف دور جدید کی حیا سے بے زادی کی گئی ہے اس لیے کہ عصر حاضر نے جہاں اقلیت کے زور پر قدیم اساطیر کی حماقتوں سے اپنی بے زاری کا اعلان کیا ہے وہیں عقلیت کے غلو میں تمام ان آداب و اخلاق سے بھی انکار کر دیا ہے ۔ جو انسانی شرافت و متانت کے غلو میں تمام ان آداب و اخلاق سے بھھی انکار کر دیا ہے جو انسانی شرافت و متانت کے ضامن تھے اور اس طرح ایک نئی شرارت کا آغاز کیا ہے جس کے سبب خاندانی رشتوں کا تقدس تک غارت ہو رہا ہے۔ اسلامی تہذیب اس افراط و تفریط سے پاک ہے اس میں روشن خیالی کے ساتھ حیا داری بھی ہے اور حکمت کے ساتھ مروت بھی اس طرز بیان سے فسانہ و فسوں عہد قدیم کی غیر پسندیدہ علامت بن جاتے ہیں اور حیا سے بے زاری عصر حاضڑ کی ناپسندیدہ علامت اس طرح گویا دونوں ادوار کے کرداروں کی بنیادی صفات کا انتخاب کر کے ان کو ان ادوار کی تہذیبی خصوصیات کا پیکر بنا دیا گیا ہے۔ یہ فکری ارتکاز کے ساتھ ساتھ فنی ایجاز بھی ہے۔ تین شعروں میں مدنیت اسلام کے عقل و عشق ‘ طلوع و غروب شوخی کردار اور احساس تقدس کے درمیان اعتدال و توازن کی شاعرانہ و مفکرانہ ترجمانی کے بعد چوتھے شعر میں تینوں بنیادی نکات کا خلاصہ و نتیجہ پیش کیا جاتا ہے اور پہلے مصرعے میں ایک جامع بات کہہ دی جاتی ہے کہ جدنیت اسلام کی بنیاد حقائق ابدی پر ہے پھر دوسرے مصرع میں اسی بات کی توثیق و تشریح یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ یہ مدنیت زندگی ہے‘ کوئی ‘ طلسم افلاطون نہیں۔ بس یہ تین الفاظ و تراکیب جہان معنی کی کلید ہیں‘ ان پر جتنا زیادہ غور کیا جائے گا اور انہیں اوپر کے اشعار سے بننے والے سیاق و سباق میں رکھ کر بھی دیکھا جائے گا تو ان الفاظ و تراکیب کے مضمرات اپنی تمام وسعتوں اور تہوں کے ساتھ واضح ہوتے جائیں گے۔ حقائق ابدی ہی زندگی کے ضامن ہیں اور یہ حقائق خالق زندگی کے بنائے ہوئے ہیں اور بتائے ہوئے ہیں‘ کسی انسان کی محدود نظر کے تیار کردہ طلسمات خیال نہیں ہیں‘ جیسا کہ محاورے اور ضرب المثل میں‘ طلسم افلاطون ہے جسے غیر عملی اور دوراز کار باتوں ک مفہوم میں طنز کے طو ر پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شان حقائق ابدی ہی کی زندگی کی ہے کہ اس میں عشق کی حد تک ایمان کے ساتھ ساتھ فکر و خرد کی بھی کارفرمائی ہوتی ہے۔ اور اس مرکب حیات کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔ صرف اس کے احوال بدلتے رہتے ہیں۔ زمانے کے ہر نشیب و فراز میں یہ مرکب اپنی کوئی نہ کوئی شان‘ کبھی جلال و قوت کی اور کبھی جمال و لطافت کی‘ دکھاتا ہی رہتا ہے اور ہر حال میں اپنے وقار و متانت کو قائم رکھتا ہے۔ روشن خیالی کے ساتھ ہی شریفانہ اخلاق کی پیروی کرتا ہے۔ مدنیت اسلام کی تعریف و تشریح کے بعد آخری شعرمیں اس مدنیت کی آفاقی ترکیب کے جمال و کمال کی نشاندہی کے لیے نہایت دل آویز اور بصیرت افرو زپیکر تراشے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مدنیت کے ان عناصر ترکیبی کو جن کا ذکر قبل کیا گیا‘ روح القدس کا ذوق جمال‘ قرار دے کر ان کے منزل من اللہ ہونے کی ایک انتہائی شاعرانہ تعبیر کی گئی۔ مدنیت اسلام کے عناصر دراصل اس وحی سے تشکیل پائے ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسل پر نازل ہوئی اور جس فرشتے کے ذریعے نازل ہوئی وہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جنہیں روح القدس کہا جاتا ہے۔ اول تو جبرئیل کے علم کی جگہ روح القدس کے لقب کا استعمال شعریت سے معمور ہے۔ دوسرے وحی کو ذوق جمال کہہ کر مذہب کی جمالیاتی قدر پر زور دیا گیا ہے جو اہل مذہب کے نزدیک ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے وحی الٰہی کو روح القدس کا ذوق جمال کہنے میں ازروئے حقیقت کوئی مضائقہ نہیں خود قرآن نے بارہا وحی کا فاعل حضرت جبرئیل کو قرار دیا ہے۔ گرچہ حسب موقع واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ وحی وہ بحکم الٰہی کرتے تھے اور وہ کتاب اللہ کے اوراق یا نکات پر مشتمل تھی۔ جس کی رسولؐ تک ترسیل میں فرشتے کی حیثیت صرف قاصد اور وسیلے کی ھتی بہرحال آخری شعر کے مصرع اول میں روح القدس کا ذوق جمال کے بیان کی تفصیل دوسرے مصرعے میں اس طرح کی جات ہے کہ اس ذوق جمال کے دو بنیادی عوامل ہیں‘ ایک عجم کا حسن طبیعت دوسرا عرب کا سوز دروں ان عوامل میں ایک کا تعلق ظاہر کی جسمانی نفاست سے ہے اور دوسرے کا باطن کے روحانی لطافت سے۔ اس طرح اسلامی تہذیب کو حسن ظاہر اور حسن باطن کا جامع قرار دے کر اس کے متوازن کردار کی تکمیل کر دی گیء ہے ۔ یہ تکمیل جن لفظوں میں کی گی ہے وہ بہت معنی خیز ہیں عجمی نفاست کو حسن طبیعت‘ اور عربی لطافت کو سوز دروں کہا گیا ہے۔ ایک طرف جمال ہے اور دوسری طرف جلال اور ایک نقطہ کمال ہے جس طرح عقل و عشق کے ادغام میں ہم نظم کے آغاز پر دیکھ چکے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو حسن اور سوز میں عقل اور عشق کی کارفرمائی نظر آئے گی نفاست ایک سلیقہ چاہتی ہے۔ جو عقل کی دین ہے اور لطافت اصلاً ایک جذبہ دل ہے جس کا سرچشمہ عشق ہے لیکن حسن و خرد اور جنون سے وابستہ ہو ئے بھی ان سے اک ذرا مختلف ہیں خرد اور جنون ذہن و قلب کی کیفیات ہیں جبکہ حسن و سوز ان کیفیات کے عملی رویے ہیں۔ اب غور کرنا چاہیے کہ مدنیت اسلام کے عربی الاصل ہونے کے باوصف اس میں ایک عجمی عنصر کا بھی اقرار کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اسلامی تہذیب کی موجودہ شکل کی تاریخی تعبیر ہے۔ اصلاً یہ تہذیب و فکر و ایمان کا ایک معتدل مرکب ہے۔ جس کی تشکیل ابتداً حجاز ہی میں ہوئی جو اس کا سرچشمہ اور مرکز ہے ۔ لیکن بہت جلد اپنی تاریخ کے دور اول ہی میں یہ تہذیب حجاز سے آگے بڑھ کر شام و عراق و فارس و ہندو چین نیز ممالک مغرب تک پھیل گئی ۔ اور عرب سے طلوع ہونے والا تمدن صدیوں تک عجم کی وسعتوں میں پروان چڑھتا ہے۔ لہٰذا اقبال مدنیت اسلام کا ایک جامع تاریخی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جس کا جواز خود عنوان نظم اور موضوع تخلیق میں مضمر ہے یہ موضوع ظاہر ہے کہ عقیدہ اسلامی کا نہیں ہے تہذیب اسلامی کا ہے لہٰذا اس میں ایمانیات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اصول کے ساتھ ساتھ اعمال تصورات کے ساتھ ساتھ ترقیات بھی شامل ہیں‘ اور شاعر اس پورے مرکب کو روح القدس کا ذوق جمال کہتا ہے۔ یہ شاعر بھی ہے اور دانش وری بھی جس کا جامع مفہوم یہ ہے کہ اپنی منزل من اللہ بنیادوں پر ملت اسلامیہ نے اقصائے عالم میں جتنی بھی ذہنی و اخلاقی اور مادری و روحانی ترقیات کی ہیں وہ سب مدنیت اسلام ہیں اس تشریح سے اقبال کی فکر میں اساسیت Fundamentalism کے ہمراہ تازگی خیال کا بھی بین ثبوت ملتا ہے اور یہی توازن و ترکیب ہے جو اقبال کے فن کی فوقیت اور آفاقیات کی ضامن ہے چنانچہ خود ان کے کلام میں عجم کے حسن طبیعت پر مبنی استعارات و علائم کے ساتھ ساتھ عرب کے سوز دروں پر مبنی آہنگ نغمہ بھی ہے ۔ اور دونوں کے میل تال سے ایک ولولہ انگیز طلسم شاعری مرتب ہوتا ہے جو ثقیل اور دقیق افکار کی متانت کو فن لطافت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے باب میں چھوٹی سی صرف دو اشعار کی قطعہ نما نظم ہے۔ مصلحین مشرق میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے کہ بزم خاوراںمیں لے کے آئے سائگیں خالی نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے حبیب و دامن میں پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی ساقیان سامری فن ایک جہان معنی کا دروازہ کھولنے والی ترکیب ہے۔ اول تو اس تصویر میں مشرق کو مے کدہ بمقابلہ مدرستہ مغرب علامتی طور پر فرض کر کے ساقیان کا پیکر تراشا گیا ہے‘ دوسرے ان ساقیوں کو بھی سامری فن بتا کر ان کی جادوگری کے کھوکھلے پن کی طرف ایک تاریخی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ تمہید تھی دوسرے مصرعے میں پیش کیے جانے والے نکتہ خیال کی ہے جو یہ ہے کہ مشرق کے مے کدے میں پرانی شراب بھی نہیں ہے۔ اس خیال کی صورت گری مصرع اول کے استعارہ کا معاملہ ہے لہٰذا بزم کا استعمال بجائے رزم کے اور اس کے برخلاف بے کدے کے مفہوم میں کیا گیا ہے۔ جس کی توضیح و توثیق‘ سائگیں بمعنی جام کے استعمال سے ہوتی ہے خاوراں اور سائگیں کے قدیم و متروکج الفاظ جن کا استعمال عام اظہار خیال میں شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ مشرق کی قدامت کی تصویر کشی کے لیے بہت ہی موزوں اور موثر ہیں۔ پہلے شعر میں اس طرح ایک نکتہ خیال کے اظہار کی ایمائی ابتدا کر کے دوسرے شعر میں پورے خیال کو صاف صاف اور پر زور طریقے پر بڑی قطعیت لیکن انتہائی خیال انگیز نفاست کے ساتھ‘ ایک نئی تصویر کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جن بادلوں کے اندر پرانی بجلیاں بھی نہیں ہیں ان سے نئی بجلیوں کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے یہ بڑا چبھتا ہوا سوا ل ہے اور قاری کے ذہن پر تازیانے لگا کر اسے اپنے احوال کی جستجو اور حقائق کے تجسس پر مجبور کرتا ہے۔ جس سے یہ توقع بھی کی جا سکتی ہے کہ قاری کو عبرت ہو گی اور وہ بصیرت پیدا کر ے گی۔ جو عمل کا پیش خیمہ بنے گی۔ اس طرح ایک نصیحت کا ابلاغ شعریت کے وفور کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ یہ ایمائیت اقبال کے تخیل کو پارہ فن بتاتی ہے ا س طرز بیان میں نفاست اظہار وضاحت خیال پر پردہ ڈالتی ہے بلکہ اس کو زیادہ روشن کرتی ہے بادل کے لیے جیب و دامن اور آستیں کی تفصیل ایک مجرد تخیل کی بڑی محسوس قسم کی تجسیم کرتی ہے۔ اور اجزائے خیال کو اععضا میں تبدیل کر کے ایک متحرک جسم کی شکل دے دیتی ہے۔ ٭٭٭ سلطان ٹیپو کی وصیت اب اسی باب میں ایک سیاسی شخصیت ‘ سلطان ٹیپو کی وصیت ملاحظہ کیجیے جو جو اپنے سیاسی تجربے پر مبنی ایک فلسفیانہ نصیحت شاعرانہ انداز میں کرتی ہے: تو رہ نورد شوق ہے‘ منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول! کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول! صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول! باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول! تاریخی اشارات سے مملو یہ نظم تحریک آزادی اور تحفظ حریت کی جدوجہد کو ایک جہاد شوق کی شکل میں پیش کرتی ہے۔ جب پورے ہندوستان میں عقل کی غلامی قبول کر کے غیر ملکی سامراج کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا تھا سلطان ٹیپو اپنی جرات ایمانی اور اس سے پیدا ہونے والے جذبہ عشق کے بل پر انگریزوں اور ان کے حلیفوں کی متحدہ طاقت سے آخر وقت تک تنہا مقابلہ کرتا رہا‘ اس لیے کہ وہ حق پرست تھا‘ توحید کا علم بردار تھا‘ دین و دنیا کی تقسیم اور مذہب و سیاست کی تفریق اور خدا و بادشاہ کے درمیان شرک کا قائل نہ تھا۔ وہ روئے زمین پر خلافت آدم کا حامل تھا‘ اس دنیا میں حق کا کلمہ بلند کرنے والا تھا۔ نہ کہ دنیا کی پرستش کرنے والا‘ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اس دنیا کو صرف راہ سفر سمجھتا تھا جب کہ اس کی منزل چرخ نیلی فام سے بھی پرے تھی اور دنیا کی کوئی دل فریبی ‘ حسن ظاہر کا کوئی عشوہ اس کو اپنی منزل کی طرف بڑھنے سے روک نہ سکتا تھا‘ اپنے دام میں الجھا نہ سکتا تھا۔ اس کی ہستی وہ جوئے آب تھی جو بڑھ کر دریائے تند و تیز ہونا چاہتی تھی اور کسی ساحل پر ٹھہرنے کے لیے آمادہ نہ تھی وہ اقدام و عمل جرات و شجاعت‘ حرکت و ترقی اور آزاعدی و حریت کا ایک پیکر تھا۔ جس کے نقوش حیات زبان حال سے اپنے بعد آنے والوں کو صحیح طرز فکر اور صالح طرز عمل کی وصیت کر رہے تھے۔ یہ ولولہ خیز تخیل و رہ نور د شوق‘ منزل‘ لیلیٰ محمل جوئے آب‘ دریائے تند و تیز‘ ساحل‘ صنم کدہ کائنات‘ محفل گداز‘صبح ازل‘ جبرئیل‘ عقل کا غلام‘ دوئی پسند‘ لا شریک‘ اور حق و باطل کی تصویروں اور تلمیحوں استعاروں علامتوں اور پیکروں کے ذریعے منقش کیا گیا ہے۔ چنانچہ خالص وعظ کا مل شعر بن گیا ہے اور وصیت نامہ مرقع فن میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ جو ایک بے جان وصیت میں زندگی کی گرمی و تابانی پیداکرتا ہے۔ یہ فن کیمیا گری ہے جو اجزائے افکار کو تحلیل کر کے اشعار نظم میں ترکیب دیتی ہے اور پرانے مواد کو ایک نئی شکل میں مرتب کرتی ہے۔ چار مصرعوں کی یہ چھوٹی سی قطعہ نما نگینہ جیسی ایک نظم یہ ہے: خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے‘ مگر صاحب کتاب نہیں (طالب علم) ایک لفظ طوفاں کا پیکر بحر کی موجوں میں اضطراب کے فقدان کے پس منظر میں ابھرتا ہیل۔ اور اپنے مفہوم سے خوابیدہ ذہنوں میں تلاطم پیدا کر دیتا ہے۔ اسی تلاطم کے عالم میں شاعر‘ کتاب خواں اور صاحب کتاب کا تقابل کر کے ایک پیام طالب علم کو دیتا ہے ۔ پہلی تصویر ایک محسوس مظہر فطرت کی تھی‘ جبکہ دوسری تصویر ایک مجرد خیال کی‘ ایک طرف قدرت کا اشارہ دوسری طرف شریعت کا دقدرت پس منظر میں ہے۔ اور شریعت پیش منظر میں۔ اس تناظر میں ایک دقیق و لطیف نکتہ فکر لفظ کتاب سے متعلق ہے جو کسی بھی طالب علم کے لیے موضوع کے عین مطابق موزوں ترین پیکر خیال ہے۔ ا ب اسے غور کرنا ہے کہ کتاب خواں اور صاحب کتاب کے درمیان کیا فرق ہے ۔ اور اس فرق کی نسبت سے اس کی موجودہ و مطلوبہ زندگی میں کیا فرق؟ وہ جتنا غور کرے گا اس کی سمجھ میں خود بخود آتا جائے گا کہ اس فرق کو دور کرکے مقصود فراغ خاطر کسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ باب عورت میں عورت کے عنوان سے پہلی نظم اس طرح ہے: وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ اسی کی سار سے ہے زندگی کا سوز دروں شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در کمنوں مکالمات فلاطوںنہ لکھ سکی لیکن اس کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطون تصویر کائنات کا رنگ تصویر نظم میں بھی جھلک رہا ہے ساز ہے قول محال کے طور پر ساز ہی سو ز دروں ۃے ۔ ثریا اور مشت خاک کے تقابل سے ابھرنے والا تصور ارتقاء ہے۔ مکالمات فلاطون اور شرار فلاطون کا موازنہ ہے پھر شرف کی تکرار ہے ۔ درج اور درمکنوں کی صوتی و معنوی رعایت ہے شعلے اور شرار کی نسبت ہے لیکن ان سب کا ماحصل عورت کے مقام کی بلندی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے مخصوص حیاتیاتی کردار کی پردگی کا حسین و پر خیال توازن ہے۔ چند لفظوں اور چند تصویروں اور چند نکتوں کے ذریعے ایک نہایت پیچیدہ موضوع کو آئینہ دکھایا گیا ہے اور اس سلسلے میں شاعر کا خاص نقطہ نظر پردے پردے میں نمایاں بلکہ پردوں ہی کی وجہ سے جمیل تر نیز واضح تر ہے۔ یہ میناکاری‘ ادبیات فنون لطیفہ کے باب مین اوربھی بڑھ گئی ہے اور حسب ذیل نظمیں دامن دل اپنی طرف کھینچتی ہیں: نگاہ‘ شاع امید‘ نگاہ شوق‘ نسیم و شبنم‘ فنون لطیفہ‘ صبح چمن۔ نگاہ صرف چار اشعار میں ایک جلوہ فطرت کو اس خوب صورتی سے منقش کرتی ہے۔ نگاہ بہار و قافلہ لالہ ہائے صحرائی شباب و مستی و ذوق و سرور و رعنائی اندھری رات میں چشمگیں ستاروں کی یہ بحر ! یہ فلک نیلگوں کی پہنائی سفر عروس قمر کا عماری شب میں طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی یہ کئی جلوئوں کا ایک جلوہ ہے‘ اس لیے کہ سب جلوے ایک دوسرے میں سموئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اور ان کا عکاس ایک ایک مصرع‘ ایک ایک ترکیب‘ ایک ایک لفظ حسن فطرت کی ایک ایک ادا کا آئینہ دار ہے ۔ پہلے مصرع میں فقط دو الفاظ ہیں ایک لفظ مفرود بہار‘ دوسرے قافلہ ہائے صحرائی کی توالی اضافات والی ترکیب بس ان دو لفظوں کا اثر یہ ہے کہ تاثرات کی ایک دنیا سج گئی ہے۔ شباب مستی‘ و ذوق و سرور و رعنائی پہلا مصرع تصویر بہار ہے اور دوسرا تاثیر بہار‘ تیسرے مصرعے میں منظر مختلف ہے اندھیری رات میں چشمگیں ستاروں کی میں جبکہ چوتھا مصرع اسی تصویر کی وسعت و عمق میں بے پناہ اضافہ اس ایمائی بیان سے کرتا ہے: یہ بحر ! یہ فلک نیلگوں کی پہنائی اس سے ایک طرف بحر کی ہول ناکی کا تصور ابھرتاہے تو دوسری طرف فلک کی نیلگونی کا حسن یہ گویا اندھیری رات اور ستاروں کی چشمکوں کی تعبیر و تفسیر ہے۔ جس سے شب تاریک میں وسیع و عریض آسمان پر بزم انجم کا یہ بیک وقت جمیل و مہیب پیکر تیار ہوتا ہے۔ بعد کا منظر چاند اور سورج کے آسمان پر نکلنے اور چمکنے کا ہے دونوں کا انداز رونمائی ڈرامائی ہے‘ عروس قمر کے سفر کے لیے عماری شب کا پیکر ہے اور طلوع مہر کے ساتھ ہی سپہر مینائی پر ایک سکوت تجسس و احترام طاری ہو جاتا ہے۔ یہ چند نظارے ہیں فطرت کے جمال وزیبائی کے اور ہر شخص بہ آسانی ‘ بے خرچ بلاقیمت‘ بلا زحمت ان پر نگاہ ڈال سکتا ہے۔ یعنی سارا معاملہ نگاہ کا ہے ورنہ بہارولالہ‘ شب و تار فلک نیلگوں ‘ بزم انجم عروس قمر اور طلوع مہر کے نظارے تو عام ہیں اس طرح حسن فطرت کی منظر نگاری میں بھی زور دیدہ وری اور شق نظارہ پر ہے مناظر قدرت کی طرف انسان کے رویے پرہے اس کے ذوق مشاہد ہ و مطالعہ پر ہے۔ نگاہ شوق اب ایک دوسری نظم میں نگاہ شوق کی کارفرمائی ملاحظہ کیجیے: یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند ہوئے جہاں میں سزاوار کارفرمائی اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی اسی نگاہ سے ہر ذرہ کو جنوں میرا سکھا رہا ہے راہ و رسم دشت پیمائی نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی جو نگاہ شوق پچھلی نظم میں مناظر قدرت کے لیے درکار تھی‘ اب وہی مظاہر حیات کے لیے مطلوب ہے۔ اور اگر کسی کو بد ذوق کو یہ نگاہ میسر نہیں تو اس کا وجود قلب و نظر کی رسوائی ہے جبکہ اگر نگاہ میسر ہو تو ذرہ ذرہ‘ رہ و سم و شت پیمائی ‘ کے لیے بے چین ہو اٹھے اور اپنی نمود و ترقی کے لیے عرصہ حیات میں بے انتہا جدوجہد کرنے لگے۔ اقبال اپنے کلام سے لوگوں میںیہی نگاہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے یے ان کے دل میں ایک جنوں ہے اور ایک عمر کی نے نوازی کے بعد وہ اب اتنا عام ہو رہا ہے کہ واقعی ان کے قوم کے ریگ زار کا ہر ذرہ دشت پیمائی حیات کی رسم و راہ سیکھ رہا ہے ۔ یا کم از کم انہیں خود ایک ایسی نگاہ شوق میسر آ گئی ہے کہ جس کی بدولت وہ لوگوں میں سعی و جدوجہد کا ذوق عام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ بہرحال کار جہاں سیکھنے اور چلانے کے لیے اس نگاہ شوق کا حصول ضروری ہے ۔ جس کے بغیر انسان کے کردار میں نہ تو قاہری و جباری کا جلال پیدا ہو ستکا ہے۔ نہ دلیری و رعنائی‘ کا جمال اور نہ محکوم قوم کے فرزند‘ جہاں میں سزاوار کارفرمائی ہو سکتے ہیں۔ یہ نکتہ نظم کے ابتدائی دو اشعار میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں ذوق آشکار ائی لہٰذا اگر نگاہ شوق شریک بینائی ‘ ہو جائے یعنی بصارت کے ساتھ بصیرت بھی شامل ہوجائے تو کاروبار جہاں اپنے ظاہر سے مختلف کچھ اور ہی نظر آنے لگے۔ اس تمہید کے عد وہ خیالات ہیں جنہیں ابھی بیان کیا گیاہے۔ غور کیاجائے تو نگاہ شق کے یہ دونوں ابتدائی و تمہیدی اشعار نگاہ کے آخری شعر کی توسیع معلوم ہوں گے اور زیر نظر نظم کے دیگر اشعار ابتدائی تمہید کی تفصیل و تشریح نظر آئیں گے اس لیے کہ پہلی نظم کی نگاہ درحقیقت یہی دوسری نظم کی نگاہ شو ق ہے اور جو نگاہ مناظر قدرت سے لطف اندوز ہونے کے لیے درکار ہے۔ وہی مظاہر قدرت سے مستفید ہونے کے لیے مطلوب ہے۔ نگاہ مشرق ہے تو فن بھی عام ہے شاعری جس طرح فطرت کے جمال و زیبائی کی ہوتی ہے ااسی طرح کائنات کے ضمیر کی اقبال جمال فطرت اور ضمیر کائنات دونوں کے راز داں ادا شناس اور نغمہ پرداز ہیں۔ ان کے فن کی فکر کا مواد دونوں ہی مظاہر حقیقت ہیں‘ دونوں کے فنی برتائو میں فرق صرف یہ ہے کہ فطرت کے پیکر اپنی عکاسی براہ راست کرتے ہیں‘ جبکہ کائنات کی تصویریں فطرت یا حیات کے دوسرے پیکروں کے ذریعے بالواسطہ منقش ہوتی ہیں حسن دونوں میں ۃے لیکن حسن کے اس تنوع سے لطف اندوز ہونے کے لیے نگاہ چاہیے نگاہ شوق! اس نگاہ سے دیکھا جائے تو نگاہ شوق میں ذوق آشنائی کاروبار جہاں شریک بینائی‘ سزاوار کارفرمائی رہ و رسم ‘ دشت پیمائی‘ اور خود نگاہ شوق جیسی خوبصورت اور خیال انگیز ترکیبیںہیں۔ صرف چھ اشعار ہیں نگاہ کا استعمال چھ بار ہوا ہے۔ جس میں دوبارہ نگاہ شوق کی ترکیب کے ساتھ‘ موضوع و عنوان کے ایک جز بمعنی کل کی یہ تکرار ہے تو مفہوم مرکزی پر زور دینے کے لیے مگرا س سے موسیقی کا آہنگ بھی پیدا ہوتا ہے جو تراکیب کے رنگ کے ساتھ مل کر بہت نظم میں چستی و زبیائی پیدا کرتا ہے۔ نسیم و شبنم ’’نسیم و شبنم ایک مختصر سا خوبصورت مکالمہ ہے: نسیم انجم کی فضا تک نہ ہوئی میری رسائی کرتی رہی میں پیرہن لالہ و گل چاک مجبور ہوئی جاتی ہوں میں ترک وطن پر بے ذوق ہیں بلبل کی نواہائے طربناک دونوں سے کیا ہے تجھے تقدیر نے محرم خاک چمن اچھی کہ سرا پردہ افلاک شبنم کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک گلشن بھی ہے اک سر سرا پردہ افلاک نسیم و شبنم کی اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ زندگی کی شان اور اس کا مقام کس ہستی اور اس کے دائرہ کار کی نوعیت پر نہیں‘ اس کے ذہن و کردار کے رویے پر منحصر ہے۔ نسیم چمن اگر خس و خاشاک میں الجھنے کی بجائے گل و لالہ کے اوراق اور بلبل کی نوائے طربناک‘ پر اپنی توجہ مرکوز رکھے تو سراسر پردہ افلاک اسے گلشن میں ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے حصول کے لیے ترک چمن کر کے افلاک میں پرواز کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ جو وجود جس عالم میں پیدا کیا گیا ہے اس کا مرکز عمل اسی عالم میں ہے۔ اور اگر وہ اپنا رویہ درست رکھے تو اسی عالم میں اپنے عمل سے زندگی کی ساری بلندیاں حاصل کر سکتا ہے نظم کی تصویریں فطرت کا پیکر جمال مرتب کرتی ہیں۔ لیکن شاعر کا مقصد اس پیکر جمال سے سرسراپردہ افلاک تک پہنچتا ہے ۔ ورنہ فطرت کے پیکر جمال کی حیثیت بھی چمن کے خس و خاشاک سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔ نظم کا تمثیلی ہیولا مع کردار و مکالمہ کے صرف ایک خیال کو مجسم کرنے کے لیے ہے اور اس تجسیم میں کارگر ثابت ہوا ہے۔ صبح چمن ایسا ہی ایک تمثیلی مکالمہ صبح چمن میں ہے پھول شاید تو سمجھتی تھی وطن دور ہے تیرا اے قاصد افلاک! نہیں دور نہیں ہے شبنم ہوتا ہے مگر محبت پرواز سے روشن یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے صبح مانند سحر صحن گلستان میں قدم رکھ آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے ہو کہ وہ بیاباں سے ہم آغوش لیکن ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے یہ حسن فطرت کا ایک منظر نامہ ہے۔ جس میں تین مناظر قدرت کی نقش آرائی ہے‘ پھول شبنم اور دونوں کو صحن چمن اور اپنے دامن میں سمیٹنے والی صبح تینوں مظاہر اپنا اپنا پیام اشاروں اور استعاروں میں بلکہ خود ہی اشارات و استعارات بن کر دیتے ہیں پھول سمجھتا ہے کہ فلک سے چمن تک نظر آنے والا فاصلہ زیادہ نہیں‘ شبنم کی اس تائید کرتے ہوئے اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے محنت کی شرط لگاتی ہے جس کا مجسم نمونہ خود اس کی محنت پرواز ہے صبح اپنی لطیف شخصیت کے حسین پیچ و خم کھولتی ہوئی بڑا نازک سا نہایت باریک بلند اور عمیق پیام دیتی ہے۔ اس قدرتی پیام سے طلوع سحر بڑی رنگین و زرین اور نادر و نفیس تصویر رونما ہوتی ہے۔ اس تصویر کے ایمائی نقوش پر غور کرنے سے یہ منظر ابھرتا ہے کہ صبح فضائے عالم میں بڑی آہستگی اور خموشی سے اس نزاکت کے ساتھ نمودار ہوتی ہے کہ باغ کے پھولوں پر چمکتے ہوئے شبنم کے موتی اس کے قدموں تلے آ کر ٹوٹتے نہیں بلکہ اس کی نرم خرامی کے ساتھ اس کا صبیح چہرہ اپنے نور سے انہیں اور چمکا دیتا ہے۔ اور وہ طلوع آفتاب تک گویا آغوش سحر میں یا کیف صبح پر مچلتے رہتے ہیں۔ پھر یہ صبح روئے زمین کے تمام کوہ و بیاباں سے ہم آغوش ہوتی ہے۔ مگر ان سے لپٹ کر نہیں رہ جاتی چند ہی لمحات کے بعد اپنے مسکن افلاک کی طرف لوٹ آتی ہے۔ اس لیے کہ دامن افلاک کبھی اس کے ہاتھوں سے نہیں چھوٹتا وہ ان کی بلندیوں پر رہتی ہے وہیں سے اترتی ہے اور وہیں واپس چلی جاتی ہے روز آتی ہے اور روز جاتی ہے۔ لہٰذا گردوں اور زمین کے درمیان پھول کا بتایا ہوا مختصر فاصلہ شبنم کی محنت پرواز سے طے ہوتا ہے تو اس پربہارو پر خیال منظر کا موقع و محل وہ نازک اندام ‘ نازک خرام اور نازک خیال صبح ہے جو ایک طرف گوہر شبنم کی تابانی کی محافظ ہے تو دوسری طرف کوہ و بیاباں کی صلابت و وسعت کی نگہ داری ہے مگر شبنم کی نرمی سے کوہ و بیاباں کی سختی تک کوہ ایک بلندی سے جمع کرتی ہے ۔ اس لیے کہ وہ بلندی کی مخلوق ہے۔ رفیع الاصل ہے خواہ اس کا ظہور و عمل ہماری نگاہوں کے سامنے زمین کی پستی میں ہی ہوتا ہے۔ صبح چمن کی ایسی لطیف و بلیغ تصویر کشی اتنے مختصر سے سانچے میں ایجاز کا اعجاز ہے۔ ’’فنون لطیفہ‘‘ اس فن و ادب و شعر کی بڑی خیال انگیز ترجمانی ہے جو ایسی حسین پر معنی تصویریں مرتب کر کے فکر و فن کی فصاحت و بلاغت کا کمال دکھاتا ہے‘ دل انساں کو لبھاتا اور ذہن انساں کو کچھ سکھاتا ہے۔ فنون لطیفہ اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرہ نسیاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیںرکھتا وہ ہنر کیا پہلے شعر میں ایک اصولی بیان تمام فنون لطیفہ کے متعلق ہے ۔ وہ یہ کہ ذوق نظر کے ساتھ حقیقت بینی بھی ضروری ہے ۔ ورنہ وسیلہ عمل بے نشانیہ مقصد ہوگا۔ اس کے بعد تمام اشعار میں اس نکتے کی تشریح و توسیع و تفصیل مسلسل شاعرانہ پیکروں اور مکمل فنی رنگ و آہنگ کے ساتھ کی گئی ہے۔ ذو ق نظر کے ساتھ حقیقت بینی اس لیے ضروری ہے کہ اسی سے فن میں پایداری پیدا ہوتی ہے ورنہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر ‘ سے زیادہ فن کی آ ب و تاب باقی نہ رہے گی‘ اور بہ ظاہر خوبصورت سے خوبصورت نمونہ فن بچوں کا کھلونا بن کر رہ جائے گا۔ اور کھلونے ہی کی طرح جلد ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ لہٰذا سوز زحیات ابدی کے حصول کے لیے ذوق نظر کے ساتھ ساتھ شے کی حقیقت کو دیکھنا بھی لازمی ہے۔ پھر پائیدار و استوار فن سلاتا نہیںجگاتا ہے۔ دباتانہیں ابھارتا ہے خواہ قیمتی و درخشاں گوہر ہو یا اس کا لطیف و حسین صدف‘ اس کی شان یہ ہونی چاہیے کہ دریا کی سطح پر قطرہ نسیاں بن کر ٹپکے تو اس کی تہوں میں اتر کر دل دریا میں ایک تلاطم بھی پیدا کرے۔ ورنہ بغیر تموج کے وہ اس میں اتر سکتا ہے نہ صدف میں پڑ سکتا ہے۔ نہ موتی بن سکتا ہے۔ اس طرح شاعر او رموسیقار کی ہستی چمن حیات کے لیے باد سحر کی ہے اور اگر باد سحر افسردہ ہو تو پورا چمن پژمردہ ہو جائے گا لہٰذا چمن حیات کی رونق و تازگی روح افزا ہو ائوں سے ہے جاں افزا نغموں سے ہے چنانچہ اگر فن جاں افزا ہو تو قوموں کے عروج کا باعث ہو سکتا ہے۔ اور وہی جاں بخش ہنر مندی دکھا سکتا ہے۔ جو ضرب کلیمی کے معجزے سے منسوب ہے جس نے ایک پوری قوم کو غلامی و غرقابی سے بچا کر تاریخ کے طویل ادوار میں کرامت و فضیلت کے مقام پر فائز کر دیا۔ شعاع امید فن کا یہی نقطہ نظر اور نمونہ کمال ضرب کلیم کی بہترین نظم شعاع امید میں بروئے اظہار آیا ہے۔ یہ ایک تمثیلی نظم ہے جس کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں سورج اپنی شعاعوں کو پیغام دیتا ہے: سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام دنیا ہے عجب چیز! کبھی صبح کبھی شام مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں بڑھتی ہی چلی آتی ہے بے مہری ایام نے ریت کے ذروں پہ چمکے میں ہے راحت نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام پھر میرے تجلی کدہ دل میں سما جائو چھوڑو چمنستاں دیبا بان و در و بام یہ ایک پیام ناامیدی ہے اور ا س میں بے مہر ی ایام ‘ سے شکست خوردگی کا احساس ہے‘ بہ ظاہر تو یہ گویا انسان کی طرف سے قد کی مایوسی ہے۔ اس لیے کہ مکالمہ اور اس کو ادا کرنے والا کردار سورج… ایک مظہر قدرت ہے اور س نے خطاب بھی ایک مظہر قدرت اپنی شعاعوں کو کیا ہے یعنی تکلم اور مخاطب دونوں دراصل ایک ہی مظہر قدرت کے دو رخ ہیں ایک گل اور سرچشمے کا دوسرا جزا اور سرچشمے سے جاری ہوکر بہنے والی امواج کا لیکن یہ مظہر قدرت درحقیقت ایک استعارہ و علامت ہے خالق و انسان کی اور سورج فی الواقع آفتاب حیات ہے جبکہ تمام انسان شعاع آفتاب ہیں۔ آفتاب نے آفاق عالم کو منور کرنے کے لیے اپنی شعاعوں کو پہنائے فضا میں بکھیر دیا ہے۔ لیکن دیا کی تاریکی دور نہ ہوئی یہ خطہ بے نور تاریک ہی رہا۔ لہٰذا اب آفتاب اپنی کرنوں کو روئے زمین سے واپس بلا لینا چاہتا ہے تاکہ وہ ایک ناقابل تنویر دائرہ ہستی میں اپنا مزید وقت اور جوہر ضائع نہ کریں بلکہ خود اپنے آپ کو ضائع ہونے سے بچا لیں اور سعی لاحاصل سے باز آ کر اپنی راحت کا سامان کریں۔ خیال کی ندرت اور تصویر کی تازگی واضح ہے۔ دوسرا حصہ شعاعوں کے جواب پر مشتمل ہے: آفاق کے ہر گوشہ سے اٹھتی ہیں شعاعیں بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش منبع نور سے نکل کر آفاق میں پھیلی ہوئی شعاعوں کااس چستی کے ساتھ اثبات میں جواب دینا ایک لائق غور واقعہ ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب اپنی کرنوں کو سمیٹنے کے لیے جتنا بے چین ہے کرنیں خود ہی سمٹ جانے کے لیے اتنی ہی بے قرار ہیں‘ چنانچہ ادھر پیغام واپسی آیا نہیں کہ ادھر سے اس پر بلا تاخیر‘ بے محابا اور بے تحاشا عمل شروع ہو گیا۔ مغرب و مشرق دونوں ہی افقوں پر صدیوں سے تھکی ہاری شعاعیں ناامید ہو کر اور اپنے دائرہ عمل سے بھاگ کر اپنے مرکز وجود کی طرف لوٹنے لگتی ہیں۔ اور ہر خطے کی کرنیں فریاد کرتی جاتی ہیں کہ اب روشنی نہ مغرب میں ممکن ہے نہ مشرق میں گرچہ اس مایوسی کے اسباب مختلف ہیں مغربی افق پر سائنس اور صنعت کے تصورات و آلات نے دھند اور دھواں پھیلا دیا ہے جو روز بہ روز ہ بہ تہ دبیز سے دبیزہوتا جا رہا ہے جبکہ مشرق میں ابھی ذہنوں پر تاریکی کے اتنے پردے نہیں پڑے ہیں اور لوگوں میں ذوق نظر باقی ہے‘ مگر اس خطے میں زندگی اور اس کا جوش و خروش ہی غائب ہے غلامی اور پسماندگی نے اس کی رونق حیات چھین لی ہے۔ لہٰذا کسی بھی افق پر چمکنے کا کوئی حاصل نہیں معلوم ہوتا چنانچہ کرنیں بے تاب ہو کر مہرجہاں تاب کے سینہ روشن میں چھپ جانا چاہتی ہیں۔ تاکہ تاریکی و خموشی کے بڑھتے ہوئے سایوں سے نکل کر ان کی اپنی روشنی و زندگی کی کسی نہ کسی شکل میں سلامت رہے۔ اپنے منبع و مرکز کی طرف شعاعوں کی یہ بے تابانہ پرواز ایک منظر تخلیق کرتی ہے اور اس منظر کے پس منظر کی بھی یاد دلاتی ہے۔ یہ دونوں مناظر مرکب ہو کر ایک خیال پیکر مرتب کرتے ہیں۔ آفتا ب اور شعاعوں کے درمیان مکالموں کے مذکور بالا دونوں حصے دراصل تمہید ہیں تیسرے حصے کی جو شعاعوں میں سے صرف ایک شعاع اور آفتاب کے مابین مکالمے پر مشتمل ہے یہی وہ نقطہ عروج ہے جس تک پہنچنے کے لیے نظم کا ارتقائے خیال اب تک دو حصوں میں ہوا ہے۔ آفتاب او رعالم شعاعوں کے مکالمے اور دونوںکے پیغام و جواب کے عمل و رد عمل کے بعد بہ ظاہر واقعہ مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ لیکن ٹھیک اس لمحہ اختتام پر ایک بالکل نیا‘ انوکھا اور چونکا دینے والا اقدام کرنوں ہی میں سے ایک خاص کرن کی جانب سے ہوتا ہے اور پورا منظر یکایک بدل کر رہ جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ واقعے کی تکمیل تو اب ہو گی چنانچہ ایک شدید تجسس کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ور اس عالم میں بڑے ناز وانداز کے ساتھ ایک منفرد شعاع اپنے درد اور عزم کا ایک ولولہ انگیز اظہار کرتی ہے: اک شوخ کرن‘ شوخ مثال نگہ حور آرام سے فارغ صفت جوہر سیماب بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گران خواب خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ در ناب اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں محفل کا وہی ساز ہے بیگانہ مضراب بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر یہ چند اشعار اقبال کے تصورات فکر اور تصاویر فن کا عطر ہیں۔ ان میں فطرت وطن مشرق اسلام اور آفاق سبھی کے عناصر جمع ہو کر مرکب ہو گئے ہیں اور ان عناصر سے ابھرنے والے اشارات استعارات ‘ تلمیحات اور علامات نہایت پر خیال و پر اثر پیکر تراشتے ہیں جن کی متحرک نمود ایک محیط آہنگ نغمہ ابھارتی ہے الفاظ و صوات و معانی ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے ہیں۔ بلکہ باہم پیوستہ ہو کر ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ تمثیل کی کردار نگاری ملاحظہ ہو کہ اول تو آفتاب کی دعوت وصال کا انکار کرنے والی کرن کو فطری طور پر شوخ کہا گیا ہے جس کے چند در چند معانی و مضمرات ہیں اور سب یہاں مضمر و مطلوب ہیں۔ خواہ وہ گستاخی کا مفہوم ہو یا تیزی و طراری اور بے تابی و بے قراری یا ناز و انداز کا پھر اس شوخی کو نگہ حور سے تشبیہہ دے کر اس کی رعنائی و زیبائی میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب صرف ایک مصرعے کے چند لفظوں میں کیا گیا اس کے دوسرے مصرعے میں آرام سے فارغ کی بلیغ توصیف کے ساتھ صف جوہر سیماب کی تشبیہ سے نگہ حور کی طرح کرن کی بے تابی عمل میں ایک برقی رو دوڑا دی گئی ہے ۔ اس طرح فقط دو مصرعوں میں ایک منفرد و ممتاز کردار کی غیر معمولی شخصیت کو ایک غیر معمولی مکالمے کے لیے مکمل طور پر تیار کر دیا گیا ۔ چنانچہ بالکل اپین مخصوص شخصیت اور کردار کے مطابق یہ شوخ کرن اپنے منبع نور۔ آفتاب عالم تاب۔ کے ساتھ نہایت جرات آمیز تاب سخن کا اظہار کرتی ہے۔ سب سے پہلے وہ ادب کے ساتھ رخصت تنویر طلب کرتی ہے اور اس وقت تک کے لیے جب مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب نہ ہو جائے پھر وہ مشق میں اپنا دائرہ کار اور مرکز عمل بڑی حقیقت پسندی نیز درد مندی کے ساتھ متعین کرتی ہے۔ وہ اپنا کام ہند کی تاریک فضا میں کرنا چاہتی ہے۔ اور اپنی بھلائی ہوئی روشنی و بیداری سے اس خطہ ارض کے مردان گراں خواب کو جگادینا چاہتی ہے چنانچہ وہ اپنے وطن یا مرکز ہندوستان کی وہ خصوصیت بتاتی ہے جس کی بنا پر اس نے اپنی تنویر کے لیے اس کا انتخاب کیا ہے وہ کہتی ہے کہ خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب اس خاک کی رفعت کا عالم یہ ہے کہ اس سے چشم مہ و پرویں بھی روشن ہے اور اس کا خزف ریزہ درناب ہے۔ اس سے وہ غواص معانی اٹھے ہیں جن کی تیراکی کے سامنے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب‘ یہ خاک کبھی ایک ایسے گرم نوا ساز کی طرح تھی جس کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں‘ لیکن آج محفل انسانیت کا روہی ساز ہے بیگانہ مضڑاب دنیا کے میدان عمل میں اب ہندوستان کی غفلت و نکہت کا عالم یہ ہے کہ یہاں کی دو بڑی ملتوں میں ہندوئوں کا نمائندہ‘ برہمن بت خانے کے دروازے پر پڑا سو رہا ہے اور مسلمان تہ محڑاب مسجد میں بیٹھا تقدیر کو روتا ہے ۔ اس صور ت حال میں آفتاب عالم تاب کی شوخ ہندوستانی کرن کی تہیہ کرتی ہے۔ مشرق سے ہو بے زار مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر یہ بڑا زبردست عزم ہے اور بڑی کٹھن مہم ہے تمام دوسری شعاعوں نے نظم کے دوسرے حصے میں سورج سے کہہ دیا تھا کہ مشرق و مغرب کہیں بھی اجالا ممکن نہیں لیکن ہندوستان کی شوخ و شنگ کرن مشرق و مغرب ہر جگہ شب کو سحر کرنے کا منصوبہ باندھتی اور حوصلہ دکھاتی ہے۔ یہ کرن کون ہے اور تنہا بار امانت اٹحائے رہنے پر کیوں بضد ہے۔ یہ کرن اقبال کے سوا کوئی اور نہیں! رہا ان کامنصوبہ و حوصلہ تو یہ کوئی نئی بات ان کے ساتھ نہیں۔ ’’شکوہ‘‘ کے آخری چار بند اسی عزم و مہم پر مشتمل ہیں جن کی نشان دہی شعاع امید کے آخری حصے میں ہوئی ہے۔ بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن کیا قیامت ہے کہ خود پھول میں غماز چمن عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں پتیاں پھول کی جڑ جڑ کے پریشاں بھی ہوئیں وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزاجینے میں کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں کتنے بے تاب ہیں جو ہر مرے آئینے میں کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں پھر اسی بادہ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں عجمی خم ہے تو کیا حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو مجازی ہے مری یہی بلبل تنہا جو شکوہ میں محو ترنم تھا حالانکہ عہد گل ختم ہو چکا تھا۔ ساز چمن ٹوٹ چکا تھا زمزمہ پرواز چمن ڈالیوں سے اڑ چکے تھے۔ قمریاں شاخ صنوبر سے گریزا ں ہو چکی تھیں پھولوں کی پتیاںجھڑ چکی تھیں باغ کی پرانی روشیں ویراں ہو چکی تھیں اور ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں ہو چکی تھیں۔ وہی اب شعاع امید میں اک شوخ کرن ہے جو رخصت تنویر کی طالب ہے جب کہ بے مہری ایام بڑھتی ہی چلی جاتی ہے نہ ریت کے ذروں پر چمکنے میں راحت ہے نہ مثل صبا فوطف گل و لالہ میں آرام اور سورج کی دعوت پر آفاق کے ہر گوشہ سے شعاعیں اٹھ اٹھ کر چمنستان و بیابان و دروبام سب چھوڑ دیتی ہیں اور خورشید سے ہم آغوش ہو جاتی ہیں۔ صرف تصویروں کا فرق ہے شکوہ میں گلستاں و بلبل کے پیکر ہیں اور شعاع امید میں آفاق و شعاع آفتاب کے لیکن تصور ایک ہی ہے۔ بانگ درا کی طویل نظم میں بلبل تنہا کی نوا کو بانگ درا بنانے کی آرزو ہے اور ضرب کلیم کی مختصر نظم میں اک شوخ کرن کو شعاع امید بنانے کی تمنا یہ ایک آرزو اسی عنوان سے بانگ درا کی ایک ابتدائی نظم میں بھی ظاہر ہو چکی ہے۔ جس میں حسن فطرت کی مرقع نگاری کا خاتمہ ان پیامی اشعار پر ہوا: پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو‘ نالہ مری دعا ہو اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے تصویر درد کا چوتھا بند بھی ایسے ہی پر عزم جذبات کا اظہار کرتا ہے: ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا مگر غنچوں کی صورت ہوں دل درد آشنا پیدا چمن میں مشت خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو جو مشکل ہے‘ تو اس مشکل کو حل کر کے چھوڑوں گا مجھے اے ہم نشیں ! رہنے دے شغل سینہ کاوی میں کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا دکھا دوں گا جہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا جو ہے پردوں میں پنہاں چشم بینا دیکھ لیتی ہے زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے ’’شمع اور شاعر‘‘ کے پہلے بند کی تمنا بھی اس سلسلے میں یاد آتی ہے: دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش گیسوئے تواز پر پروانہ وارد کاشانہ درجہاں مثل چراغ لالہ و صحرا ستم نے نصیب محفلے‘ نے قسمت کاشانہ مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ می طپد صد جلوہ در جان امل فرسود من برنمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی؟ کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی شعاع امید‘ کے عزم و آرزو کی یہ تھوڑی سی تفصیل میں نے اس لیے بیان کی ہے کہ یہ موضوع پیام اقال کا محرک اور ان کے کلام کا مقصود ہے لیکن ہمیں موجودہ بحث میں دیکھنا یہ ہے کہ اپنی فکری قوت محرکہ کو شاعر نے کس طرح اپنی ذہنی ارتقا کے ہر دور میں فن کے متنوع رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس معاملے میں الفاظ و تصاویر سے بہت کی ترکیب و تعمیر تک کی جمالیات کو مکمل طور پر ملحوظ رکھا ہے ۔ زیر نظر نظم شعاع امید کی تمثیل ہے جس میں شعاع کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور اس کی تشریح میں اس کے بہتیرے تلازمات و مناسبات اور مضمرات و اشارات کا ذکر کیا گیا ہے ‘ تین کردار ہیں‘ تین مکالمے ہیں‘ تینوں کے انداز جدا‘ مگر سب کی اصل ایک تنوع کے باوجد یہ وحدت فکر وحدت تاثر پیدا کرتی ہے۔ جس سے مرکزی نقطہ خیال‘ پر بے پناہ زور پڑتا ہے اور شاعر کا مقصد خالص فنی وسائل کے زبردست ارتکاز سے ہوتا ہے‘ اس مقصد میں عملی حقیقت پسندی اور اصولی آفاقیت کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہے ‘ یہ ترتیب‘ یہ ترکیب‘ یہ تنظیم ‘ یہ ارتکاز ایک بہت بڑی فن کاری کا فطری کامیاب اور موثر اسلوب ہے ۔ یہی اقبال کا طرز شاعری ہے اور اپنے کمالات کے سبب دنیا کا بہترین طرز شاعری ہے ۔ عظیم ترین شاعرانہ فن کاری کا نمونہ کامل ہے۔ اقبال کا فنی سانچہ اور شاعرانہ مزاج اتنا پختہ ہے کہ سیاسی مسائل حتیٰ کہ عصر حاضر کی سیاست طاقت کے واقعات‘ پر بھی جب وہ اپنے خاص موقف اور انداز نظر سے اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کے شدید سے شدید ذاتی جذبات بھی فن کے سانچے اور شاعرانہ مزاج پر کوئی خراش نہیںڈالتے اور ان میں کوئی رخنہ نہیں پیدا کرتے ہیں اقبال کا ذہن اتنا شاعرانہ اور ملکہ فن اتنا راسخ ہے کہ بالعموم سنگین سے سنگین موضوع بھی استعارات کے رنگ اور نغمات کے آہنگ میں ڈوب کر ہی اشعار میں ابھرتا ہے۔ اس بلاغت نظام کلام کی صرف تین مثالیں ہیں اور میں ضرب کلیم جیسے بے حد متین و دقیق مجموعے سے دیتا ہوں: ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ابی سینیا ‘ مسولینی پہلی نظم میں مغرب کی سرمایہ دارانہ و مستبدانہ سیاست کے تباہ کن استحصال کا جائزہ عالم مشرق کی سطح پر لیا گیا ہے اوراس مقصد کے لیے ایک ایک شعر میں ہندوستان کے ہندو اور مسلمان پھر عرب اور افغان کا جائزہ لیا گیا ہے اور پانچویں شعر میں مرکز مشرق کی حیثیت سے حرم کے متعلق ایک تبصرہ کر کے چھٹے شعر میں تبصرہ نگار شاعر کے بارے میں ایک بات تصویر موضوع کے نقوش میں آخری نقش کے طور پر درج کی گئی ہے‘ تصویر کا ہر نقش رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ واضح یا واضح ہونے کے ساتھ ساتھ رنگین بھی ہے۔ یہی اس نقش کی شوخی ہے تیکھا پن ہے اور بحیثیت مجموعی ہیبت نظم کا بانکپن ہے۔ دوسری نظم تین بندوں کا مثلث ہے جس میں ایک دلخراش حقیقت تھمے ہوئے جذبات اور دبے ہوئے احساسات کے ساتھ آہستہ آہستہ بیان کی گئی ہے پہلے بند میں یورپ‘ دوسرے میں تہذیب‘ تیسرے میں کلیسا کی نقاشی ہے اور آخری بند کی ٹیپ میں خاتمہ نظم کا یہ مصرع موضوع کی سنگینی اور نظم کی تاثیر پر حرف آخر ہے۔ پیر کلیسیا! یہ حقیقت ہے دلخراش ان چند لفظوں کا فنی وقار بحر خیالات کے تلاطم کو ایک قطرے میں بند کر دیتا ہے ۔ تیسری نظم عصر حاضر کی ایک انتہائی متنازعہ سیاسی شخصیت اور اس کے تاریخی کردار کو مع اس کے ماحول کے نہایت مبصرانہ انداز سے فنی طور پر منقش و منقح کرتی ہے۔ آمر اطالیہ اپنی خوں آشامیوں کے بعد‘ اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں‘ سے جو جذباتی خطاب کرتا ہے اس کی شاعری کے چند نقوش ملاحظہ ہوں: یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجہ ہے نہ راج آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں! تم نے لوٹے تخت و تاج ضرب کلیم کی اس نظم مسولینی ‘ کا موازنہ بال جبریل کی نظم مسولینی کے ساتھ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ پہلی نظم منتخب شخصیت کی شاعرانہ کردار نگاری کا باب اول ہے۔ اور دوسری نظم باب دوم اور دونوں مل کر ایک مکمل مرقع فن مرتب کرتی ہیں‘ اس تقابلی مطالعے سے اقبال کے نظام فن کی وسعت اور اس کے متنوع پہلوئوں کے درمیان توازن کا اندازہ ہوتا ہے‘ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسلوب فن کاری کی یکسانی‘ ہمواری اور استواری کا سراغ ملتا ہے۔ پہلی نظم کے تین اشعار درج ذیل ہیں تاکہ انہیں دوسری نظم کے مذکور بالا تین اشعار کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے: چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب یہ محبت کی حرارت! یہ تمنا یہ نمود فصل گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیر حجاب نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے زحمہ در کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب دونوںبیانات میں فرق جو کچھ ہے متکلم اور اس کے موقف کا ہے‘ پہلے اقتباس میں متکلم اور موقف مسولینی ہی سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ دوسرے اقتباس میں ان کا تعلق شاعر سے ہے‘ حالانکہ دونوں کا موضوع مشترک ہے‘ یہ ایک فطری امر ہے اوراس سے اقبال کی فن کارانہ حقیقت پسندی اور مہارت کا ثبوت ملتا ہے جب وہ مسولینی کی زبان سے اس کے خیالات کی ترجمانی کراتے ہیں تو ایک آواز سے کام لیتے ہیں۔ اور جب خود اس کے کمالات کی شرح کرتے ہیں تو دوسری آواز سے کام لیتے ہیں۔ لیکن یہ صرف تیور کا فرق ہے جبکہ اسلوب سخن دونوں حالتوں میں ایک ہی ہے اور وہ اقبال کا معروف و معین طرز و انداز ہے۔ شعریت معرفت سے لبریز ‘ لطیف اور دبیز نکتہ آفریں اور دل کشا‘ یہ موضوعاتی نظم نگاری کی حدود میں تمثیل کا اعلیٰ معیار ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ضرب کلیم جیسے مفکرانہ و فلسفیانہ مجموعہ کلام میں بھی چھوٹی بڑی متعدد نظمیںد انہی فن محاسن کی حامل ہیں جو بال جبریل کی شہرہ آفاق منظومات میں پائے جاتے ہیں اور فرق جو کچھ ہے حجم اور پیمانے کا ہے‘ اس سے اقبال کے ہموار رسوخ فن اور استوار ملکہ شعری کا ثبوت ملتاہے اور معلوم ہوتا ہے کہ بانگ درا کی فطری و پیامی شاعری سے جو جذبہ فن اور سلیقہ نر نمودار ہوتا تھا وہ مجموعہ بہ مجموعہ قائم رہتا ہے اور دوسرے مجموعے میں اپنے اوج کمال پر پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ بعد کے مجموعوں میں جاری رہتا ہے۔ ارمغان حجاز اقبال کی فن کاری شروع ہی سے لطیف و نفیس رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دقیق و باریک ہوتی گئی۔ ایک طرف لطافت و نفاست اور دوسری طرف وقت و باریکی کا امتزاج بانگ درا کے مختلف حصوں سے شروع ہو کر بال جبریل میں اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ جس کے بعد لطافت ونفاست کے عناصر کی موجودگی میں بھی وقت اور باریکی کے عناصر بڑھتے جاتے ہیں اور ضرب کلیم میں اپنے شباب پر نظر آتے ہیں‘ یہاں تک کہ آخری مجموعہ کلام ارمغان حجاز میں اس شباب کے چند اشعار اس طرح نگاہوں کے سامنے آتے ہیں کہ تمثیل کا وہ عنصر جو ابتدا سے اقبال کی شاعری میں کارفرما رہا تھا بہت زیادہ نمایاں اور غالب ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے کے معدودے چند نظموں میں بیشتر قابل ذکر تخلیقات باضابطہ تمثیلی ہئیت میں ہیں مثلاً ابلیس کی مجلس شوریٰ تصویر و مصور‘ عالم برزخ۔ دوسری دو قابل ذکر نظمیں بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو اور آواز غیب بھی ڈرامائیت سے خالی نہیں۔ آواز غیب ’’آواز غیب‘‘ چھوٹی سی سات اشعار کی نظم ہے۔ اس میں اقبال کے معلوم و معروف افکار کا اظہار دقیق انداز میں ہوا ہے۔ لیکن چند مصرعوں میں تصویریں چمک اٹھتی ہیں او ر ترسیل خیال میں لطافت پیدا کرتی ہیںاور باریکی تخیل کو روشن کرتی ہیں۔ دوسری شعر لیجیے: کس طرح ہوا کند ترا نشتر تحقیق؟ ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر پاک نشتر تحقیق جیسی چیز سے ستاروں کے جگر چاک کرنے کی بات کلم اقبال کی امتیازی فن کاری ہے‘ تیسرا اور چوتھا شعر بھی دیکھیے۔ تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس و خاشاک مہرومہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں؟ کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک؟ ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار‘ کے منصب و مقام کی تشریح‘ شعلہ خس و خاشاک مہر و مہ و انجم و افلاک کے پیکروں کی جاتی ہے‘ اور اس طرح فلسفیانہ تخیل کو استعارے کے ریشمی غلاف میں لپیٹ دیا جاتا ہے نظم کے باقی اشعار کی عام راست اندازی کے باوجود سات میں تین اشعار کے استعارات اور دیگر اشعار میں بھی جو ہر ادراک جہاں بیں نگہ پاک‘ اور آئینہ ضمیری‘ کی تراکیب مل کر ہئیت نظم کا ایک فنی سانچہ مرتب کرتی ہے۔ ٭٭٭ بلوچ کی نصیحت بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘ کے ابتدائی دو اشعار ایک سادہ سے منظر فطرت پر مشتمل ڈرامائی کیفیت تمہید موضوع کے طور پر پیدا کرتے ہیں: ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا بلوچ کے کردار کی نسبت سے یہ ایک موزوں تصویر ہے اور بلوچ کی نصیحت کے لیے موثر تمہید ہے جو اگلے ہی شعر سے شروع ہو جاتی ہے ابتدائی دو اشعار ہیں: غیرت ہے بڑٰ چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر کہتے ہیں کہ شیشہ کو بنا سکتے ہیں خارا بالکل سیدھے سادے انداز میں ایک تجربہ کار بلوچ اپنے بیٹے کو جو نصیحت کرتا ہے وہ اس کی تہذیب اور معاشرت کے فطری اخلاق کے مطابق ہے اور جن لفظوں میں نصیحت کرتا ہے‘ وہ اس کے معاشرتی اخلاق کے ساتھ ساتھ اس کے فطری ماحول کی سادگی آزادی‘ سختی اور کشادگی کے اشارات و کنایات سے معمور ہیں۔ اس طرح فکری تدریس فطری تمثیل کے ساتھ ہے۔ بہرحال بلوچ اپنی سادگی کے باوجود قدرت کا شاگرد ہے اور مظاہر حیات کو بڑی تاریکی سے دیکھتا ہے اور بڑی صفائی سے بیان کر سکتا ہے اس کے خیال کی باریکی اور اظہار کی صفائی کیسی شاعرانہ نکتہ سنجی کر سکتی ہے۔ اس کا نمونہ ملاحظہ کیجیے: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے شاہاں چہ عجب گربنو ازند گدارا یقینا ان اشعار میں مومن کی فراست کے نکات ہیں مگر ان کا فنی جواز بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ایک مسلمان بلوچ کے ملفوظات ہیں جس کے لیے ایمان سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور دین سے بڑھ کر کوئی اثاثہ نہیں‘ لہٰذا وہ بالکل اپنے کردار کے مطابق وہی کہتا ہے کہ جو اس کے ذہن و قلب میں فطری طور پر ہے‘ بلاشبہ بلوچ کے کلام میں ماحول اور دور کے سیاسی اشارات بھی ہیں لیکن ان کے بارے میں اس مرد حر کا انداز فکر اور انداز گفتگو اس کے معلوم و معروف تاریخٰ کردار کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے بہرحال بلوچ کے افکار میں اقبال کے افکار کا سراغ بھی اگر لگایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کو نہ صڑف یہ کہ بلوچ کے ساتھ ہمدردی ہے بلکہ اس کے نقطہ نظر کے ساتھ ان کی مکمل موافقت ہے ۔ اس طرح بلوچ کا پورا کردار شاعر کے تخیل کے ایک عنصر کی علامت بن جاتا ہے اور ایک نتیجہ خیز فن کاری کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اس سلسلے میں یہ انکشاف کرنے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ اقبال کی اپنی شخصیت بطور ایک امر واقع کے بلوچ سے بہت زیادہ مشابہ ہے بلوچ میں اقبال کے لالہ صحرا اور شاہیں دونوں کے محاسن مجتمع ہیںــ: اے باد بیا بانی مجھ کو بھی عنایت ہو خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی! (لالہ صحرا) ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جوانمرد کی ضربت غازیانہ یہ پورپ یہ پچھم‘ چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ (شاہیں) تصویر و مصور تصویر و مصور کا تمثیلی مکالمہ خودی کے موضوع پر ہے جس میں تصویر مخلوق بالخصوص انسان کی علامت یہ اور مصور خالق یا خدا تصویر کہتی ہے: کہا تصویر نے تصویر گر سے نمائش ہے مری تیرے ہنر سے ولیکن کس قدر نامنصفی ہے کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے اس سوال میں سادگی اور باریکی کا عجب امتیاز ہے تصویر مصور کو دیکھنا چاہتی ہے یہ اس کی سادگی صریحاً و بداہتہً ہے ۔ مگر اس تمنائے دیدار میں ایک باریکی خیال بھی ظاہر ہے ۔ جو آگے چل کر نمایاں ہو جائے گی‘ مصور جواب دیتا ہے: گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر نظر در دو غم و سوز تب و تاب تو اے ناداں قناعت کر خبر پر یہ جواب گرچہ آنکھیں کھولنے والا ہے اور دیدار سے مایوس بھی کرنے والا‘ لیکن ابھی تصویر کی تسلی نہیں ہوتی بلکہ اس کا تجسس کچھ اور بڑھ جاتا ہے اور وہ خبر پر قناعت کرنے کی بجائے اس پر سخت تنقید کرتی ہے: خبر عقل و خرد کی ناتوانی نظر‘ دل کی حیات جاودانی نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز سزاوار حدیث لن ترانی مصور کا جواب حقیقت افروز گرہ کشا اور فکر انگیز ہے: تو ہے میرے کمالات ہنر سے نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے اس طرح ارادہ اور لن ترانی کا تاریخی معرکہ ایک فیصلہ کن جواب پر ختم ہوتا ہے ۔ اور معلوم ہوتاہے کہ اپنے نفس کا عرفان ہی رب کا عرفان ہے ۔ اس لیے کہ مخلوق اگر اپنی حقیقت پہچان لے تو خالق کی حقیقت پہچان میں سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی اور خو د فراموشی کا وہ پردہ اٹھ جائے گا کہ جو یاد خدا میں حائل ہے لہٰذا خود شناسی ہی حد شناسی ہے اور تصویر و مصور کے درمیان فاصلہ ایک چشم بصیرت کے سوا کچھ بھی نہیں‘ جو اگر پیدا ہو جائے تو جلوہ مصور تصویر کی نگاہوں کے سامنے بلکہ ان کے اندر ہی ہے اور اگر نہ پیدا ہوا تو پردہ ہی پردہ ہے۔ شناخت کا یہ تصور خودی کے موضوع پر مبنی ہے جس کی باریکیوں اور نزاکتوں کو شاعر نے ایک مختصر سے تمثیلی مکالمے میں سمیٹنے اور کھولنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع کے فکری مضمرات سے قطع نظر‘ زیر نظر تمثیلی نظم کے فنی مضمرات بالکل واضح ہیں۔ بہت ہی اختصار اور سادگی کے ساتھ شاعر نے اپنے تخیل کی ایک تمثیل پیش کی ہے جس کا ایک ایک لفظ چنا ہوا اور ایک ایک فقرہ نپا تلا ہے۔ جبکہ مصرعے اوراشعار اپنے سیاق و سباق میں چستی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں‘ لفظوں کی لطافت اور ترکیبوں کی نفاست طرز اقبال کی فصاحت و بلاغت کی حامل ہے: تصویر گر‘ نامنصفی‘ چشم بینا‘ دیدہ ور‘ جہاں بینی‘ دردو غم‘ و سوز و تب و تاب‘ حیات جاودانی ‘ تگ و تاز ‘ سزاوار حدیث لن ترانی کمالات ہنر۔ عالم برزخ ’’عالم برزخ‘‘ کی تمثیل حریت و انسانیت کے مرکب موضوع پر ہے۔ اس میں چارکردار ہیں مردہ قبر صدائے غیب‘ زمین‘ ان کے مکالمات بہت ہی مختصر ہیں اور واقعات محدود‘ لیکن تصورات و اشارات بے حد وسیع و رفیع و عمیق ‘مردہ اپنی قبر سے سوال کرتا ہے: کیا شے ہے ؟ کس امروز کا فردا ہے قیامت؟ اے میرے شبستان کہن! کیا ہے قیامت؟ امروز فردا اور قیامت کے خاص تصورات کے ساتھ شبستان کہن کی ترکیب بھی مخصوص اسلوب سخن کی غماز ہے۔ قبر سے جواب ملتا ہے۔ اے مردہ صد سالہ تجھے کیا نہیں معلوم ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت! قیامت ایک معروف الاہیاتی تصور ہے جو ادیان میں پایا جاتا ہے۔ لیکن شاعر اسے ایک سامنے کی حقیقت بنا کر پیش کرتا ہے جو فلسفیانہ طور پر معنی خیز ہونے کے باوجود ایک سادہ سی قدرتی چیز معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قیامت کو کوئی مانے یا نہ مانے‘ موت تو ایک تسلیم شدہ امر ہے اور زندگی کی طرح شخص کو گویا ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے چنانچہ شاعر قیامت کو اسی موت کا پوشیدہ تقاضا‘ بزباں قبر قرار دے کر اسے بھی موت ہی کی طرح تسلیم شدہ حقیقت کی شکل دیتا ہے خیال کی یہ ندرت وجدت اقبال کی خاص دقیقہ سنجی ہے ۔ مردہ موت اور قیامت کے متعلق اپنا موقف بیان کرتا ہے: جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں ہر چند کہ ہوں مردہ صد سالہ و لیکن ظلمت کدہ خاک سے بے زار نہیں میں ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں ظلمت کدہ خاک کی ترکیب کلید معنی ہے اور اسی سے متعلق روح کا سوار بدن زار ہونا ہے۔ مردہ ظلمت کدہ خاک کو روح کے سوار بدن زارہونے پر اس حد تک ترجیح دیتا ہے کہ ایک بار پھر روح کے ہم رشتہ جسم ہونے کے خوف سے وہ قیامت تک کا انکار یا اس سے اعراض کرتا ہے‘ روحانی وجود یا وجود روح سے اس مردے کی اتنی شدید بے زاری کیوں ہے؟ اس راز کو کھولنے کے لیے صدائے غیب آتی ہے‘ جس سے روح جسم کی بھیانک حقیقت آشکار ہوتی ہے: نے نصیب مارو کثر دم نے نصیب دام دد ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگ ابد بانگ سرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جد مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے مقام گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد تخلیق و تراکیب خاص اقبال کے ہیں مصرع اول کی فارسیت کے بعد مصرع ثانی میں محکوم قوموں کے لیے مرگ ابد کا خیال شاعر کا معروف خیال ہے اور بانگ اسرافیل سے روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد‘ تک تیسرے اور چوتھے مصرعے کے الفاظ و خیالات‘ پھر پانچویں اورچھٹے مصرعوں میں ہر ذی روح کی منزل آغوش لحد ہونے کے باوجود آزاد مردوں کے مر کے جی اٹھنے کا تصور پیکر غلامی کے خلاف اور آزادی کے لیے اقبال کے مشہور جذبات اور ان کے اظہار کے لیے مخصوص سلیقے ہیں۔یہ محض ایک فرد کی موت کا معاملہ نہیں بلکہ پوری قوم کی موت و حیات قوم کی موت و حیات کی علامت بن گئی ہے پھر قیامت آخرت کی حیات ثانی ہونے کے علاوہ دنیا کی نشاۃ ثانیہ کی علامت بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ قبر بھی اس سیاق و سباق میں زوال کی علامت قرار پاتی ہے لیکن قبر کا مجسمہ زوال بھی غلامی کے زوال سے متنفر ہے: آہ ظالم! تو جہاں میں بندہ محکوم تھا؟ میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک تری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر تیر میت سے زمیں کا پردہ ناموس چاک الحذر محکوم کی میت سے سو بار الحذر اے سرافیل! اے خدائے کائنات اے جان پاک قبر کی یہ فریاد غلامی کے خلاف ایک عبرت ناک احتجاج ہے ۔ الحذر اقبال کا خاص نعرہ احتجاج ہے بندہ محکوم کی میت کی ظلمت سے قبر کی تاریکیوں کا تاریک تر ہونا اور اس میت کی شرم ناکی سے زمین کا پردہ ناموس چاک ہونا بھی شاعر کا خاص طرز فکر و اسلوب سخن ہے۔ غلامی کی یہ شدید مذمت جس انقلاب آزادی کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے لیے صور قیامت ہی کی ضڑورت ہے تاکہ مشرق بالخصوص ہندوستان کے غلام معاشرے کی تشکیل جدید ہو خواہ اس کے لیے پرانا محکوم معاشرہ بالکل مسمار ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس لییے کہ مکمل تخریب کے بغیر تعمیر ممکن نہیں۔ لہٰذا صدائے غیب ایک بار پھر بلند ہوتی ہے: گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام ہے اسی میں مشکل زندگانی کی کشود بنیادی و کلی انقلاب کی بہ یک وقت پرہول و پر بہار تصویر ہے‘ ایک طرف زلزلہ قیامت سے کوہ در اڑتے ہیں مانند سحاب اور دوسری طرف اسی زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود ہے صرف دو پیکر تخریب و تعمیر دونوں کی پر اثر نقاشی کر دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک استاد انہ ہنر مندی اور فن کارانہ چابک دستی ہے اس پیکر تراشی سے قیامت اپنی تمام ہولناکیوں کے باوجود ایک خوش آیند منظر پیش کرتی ہے اور یہی مطلوب انقلاب احوال کا نقشہ ہے جس کے حسن و فیض کی آئینہ بندی ایک بار پھر غور کیجیے فقط یہ چند الفاظ کرتے ہیں: زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود‘ اپنے سیاق و سباق کے اندر پیکر سے بڑھ کر ایک علامت کے مفہو م کی حامل بن جاتی ہے۔ اوراس کے تاثر سے ہم سماج کی وادیوں میں آزادی کی تازہ بہ تازہ برکتوں کو چشموں کی طرح بہتے ہوئے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس عالم میں زمین پکار اٹھتی ہے : آہ یہ مرگ دوام آہ یہ رزم حیات ختم بھی ہو گی کبھی کشمکش کائنات عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات عارف و عامی تمام بندہ آلات و منات خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انسان کی رات یہ سوال اقبال کے دست ہنر کا کمال ہے ۔ اور اس کے محرک ایک زرخیز تصور کا نشان ہے ۔مردہ و قبر کے درمیان ایک ایمائی مکالمہ غلامی و آزادی کے موضوع پر ہو رہا تھا اور صدائے غیب دونوں تصورات کی کش مکش کا حل ایک قیامت خیز انقلاب کامل کی شکل میں تجویز کر رہی تھی۔ لیکن روح زمین جو اپنی بساط پر غلامی و آزادی کے مسلسل معرکے سے عاجز آ چکی ہے اور اپنی سطح پر رونما ہونے والے تاریخ کے نشیب و فراز سے بے نیا ز ہو چکی ہے انقلاب آزادی سے بھی زیادہ بنیادی‘ ایک آفاقی نقطہ اٹھاتی ہے جو پورے عالم انسانیت کے تمام تصورات و اقدامات کے لیے ہمہ گیر ہے دنیا میں غلامی و آزادی سے بھی بڑھ کر مرگ دوام اور رزم حیات کی ایک کش مکش کائنات چل رہی ہے۔ اس لیے کہ عقل نے انسان اور انسانیت کی حاکمیت کے ایک سے ایک مشرکانہ فلسفے تراشے ہیں جو مختلف زمانوں ملکوں اور قوموں میں بتوں کی طرح پوجے جاتے ہیں اور ایک زمانے قوم اور ملک کے سبھی افراد کیا عارف اور کیا عامی اپنے اپنے لات و منات کی پرستش میں غلاموں کی طرح لگے ہوئے ہیں جس کا بھیانک نتیجہ یہ ہے کہ آدم یزداں صفات اپنے ہی تصورات کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو کر رہ گیا ہے خواہ وہ اپنے خیال میں آزاد ہو یا دنیا کی نظر میں غلام یہ انسان کے لیے انسان کی بندگی و غلامی روح زمین پر سب سے بڑا بوجھ ہے چنانچہ وہ عصر حاضر کی تمام اقوام اور ممالک میں شرک کے ہمہ دم بڑھتے ہوئے رجحان اور غلبے سے پریشان ہے اور ایسے جہاں کا ثبات جس میں انسانیت کی یہ عام رسوائی ہو رہی ہے‘ اس کے قلب و نظر پر گراں ہے‘ اسی سرگرانی کا شدید احساس ہے جو کہ زمین کی زبان حال سے سوال کرتا ہے: کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انسان کی رات یہ بڑابلیغ مصرع ہے جس پر تمثیل کا خاتمہ پوری نظم کے مفہوم میں توسیع کر کے موضوع کی تکمیل اس کی ایک نئی اور مرکزی جہت کے انکشاف سے کرتا ہے ‘ زمین کے بیان کا یہ انداز ‘ عالم برزخ‘ میں روحوں کے مشاعرے کو روح انسانیت کا ایک مکالمہ بنا دیتا ہے ۔ جس کے مطالب سے عصر حاضر کی برزخیت سے دنیا کی اعرافیت تک کی تہیں کھلتی ہیں حضرت انسان کی رات بہت طویل ہے اور تخلیق آدم کے وقت ہی سے شروع ہو گئی ہے ۔ جبکہ اس کا ایک مختصر نمونہ دور جدید میں قلب و نظر کی تاریکیاں ہیں جن میں سب سے ہول ناک غلامی کی وہ تاریکی ہے جو ہر قوم و ملک کے جسم ور وح پر مختلف ادوار میں طاری ہو رہی ہے ۔ اور اس محیط تاریکی سے نکلنے اور روشنی میں نے کا صرف ایک راستہ دنیا کے سامنے ہے۔ توحید جو انسان کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلانے کی واحد ضمانت ہے اور اسی کے ذریعے شرافت انسانی کا مستقل قیام ممکن ہے اور اسی کے وسیلے سے انسان برزخی زندگی کی کش مکش سے رہا ہو کر حیات جاوید کے فردوس نور میں داخل ہو سکتا ہے۔ نظم کی تحریک ظاہر ہے کہ ہندوستان کی غلامی اور مشرقی کی خواری سے ہوتی ہے‘ مگر اس مقصد کے لیے جو فنی تمثیل وضع کی جاتی ہے وہ نوع انسان کی غلامی اور بنی آدم کی خواری پر ختم ہوتی ہے ‘ چنانچہ اس غلامی و خواری سے رستگاری کا جو نسخہ تجویز کیا جاتا ہے وہ ایک ایسے قیامت خیز انقلاب عام کا ہے جس کے نتیجے ہے عام حریت اور احترام آدمی کا قیام پوری کائنات میں ہو جائے گا‘ وہ وہی نکتہ ہے جو شعاع امید میں رونما ہوا تھا: فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر اور اس سے بہت قبل شمع اور شاعر میں نمودار ہوا تھا: شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے فن کی یہ دبازت اور فکر کی یہ وسعت اقبال کے نظام شاعری کا امتیازی نشان ہے ۔ بہرحال ارمغان حجاز کی بیشتر نظموں میں فن کی استواری اور فکر کی ہمواری کے باوصف کچھ خشکی کا احساس ہوتا ہے اور اقبال کے اسلوب سخن کی عام شگفتگی میں کمی محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ ضرب کلیم میں اشعار کے گہرے تفلسف اور دقت بیان کے باوجود اظہار خیال کی شادابی و شادمانی برقرار ہے‘ ممکن ہے کہ ارمغان حجاز کی خشکی‘ کچھ ہیبت تمثیل کے سبب ہو جو اس مجموعہ کے عام اور غالب انداز سخن ہے اس لیے کہ تمثیل میں مواقع و اشخاص کے مطابق طرز بیان دخیتار کیا جاتا ہے ۔ اور فنی توجہ شاعری سے زیادہ ڈرامائیت پر دی جاتی ہے۔ اس صورت حال سے تمثیل اور نظم یا ڈرامہ اور شاعری کا فرق بحیثیت اصناف ادب معلوم ہو جاتا ہے۔ تمثیلی نظم یا نظم میں تمثیل شاعری میں حائل نہیں جبکہ ڈرامہ نگاری کم از کم جا بہ جا حائل ہو سکتی ہے۔ یہ شاعری کے لیے اچھا ہوا کہ اقبال کے کلام میں بے پناہ ڈرامائیت کے باوجود مستقل اور باضابطہ ڈرامہ نگاری کی کوشش بہت ہی کم ہے اور اس کا سارا زور فن ڈراما کے بجائے شاعری کی ہئیت سازی پر ہے۔ اسی لیے خاص شاعری میں فنی طور پر اقبال کا کوئی مد مقابل دنیائے ادب میں نہیں۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ اس تناظر میں ارمغان حجاز کی سب سے اہم اور اس طرح اقبال کی آخری بڑی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کا تنقیدی مطالعہ بہت دلچسپ ہو گا۔ یہ ایک تمثیل ہے جیسی اقبال کی کوئی دوسری اردو نظم نہیں ہے حالانکہ شمع اور شاعر خضر راہ‘ اور جبریل و ابلیس نیز لینن خدا کے حضور میں یا شعاع امید کے مکالموں کے علاوہ ڈرامائی عناصر بہتیری چھوٹی بڑی نظموں میں موجود ہیں۔ خواہ وہ فرشتوں کا گیت اور فرمان خدا ہو یا فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں اور روح ارضی کا استقبال کرتی ہے۔ یا دعا‘ اور مسجد قرطبہ‘ یا ارمغان حجاز کی چند چھوٹی نظمیں۔ لیکن ان میں کوئی بھی متنوع کرداروں کا کوئی مباحثہ اوسط پیمانے پر پیش کر کے ڈراما کی ہئیت بندی نہیں کرتی اور کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی دوسری ارد و نظمیں تمثیلی نظمیں Dramatic Poems ہیں جبکہ ابلیس کی مجلس شوریٰ منظوم Poetic Dramaہے۔ لیکن یہ بات جہاں اقبال کی دوسری نظموں کے مقابلے میں فنی و ہئیتی طور پر ابلیس کی مجلس شوریٰ کے امتیاز کی ہے وہیں اقبال کی تمثیلی نظم نگاری کے اس امتیاز کی بھی ہے جو دوسرے خاص کر دوسری زبانوں کے شعرا تمثیلی نظم نگاری کے مقابلے میں ہے اقبال کی شاعری منظوم تمثیل نگاری Versa Dramaکی نہیں‘ جس طرح مثال کے طور پر شیکسپئر کی ہے اقبال اور شیکسپئیر کے درمیان بحیثیت فن کار سب سے اہم فرق یہی ہے کہ شیکسپئیر اصلاً ایک ڈرامہ نگار ہے جس نے نظم میں ڈرامہ نگاری کی ہے جبکہ اقبال حقیقتا ً ایک شاعر ہیں جنہوںنے ڈرامائی عناصر سے بھی فنی طور پر کام لیا ہے۔ اسی لیے اقبال کی کثیر التعداد نظموں کو تمثیلی نظم Dramatic Poemsکا حامل تو کہا جا سکتا ہے مگر منظوم تمثیلی Poetic or Verse Dramaنہیںکہا جا سکتا جبکہ شیکسپئیر اسی منظوم تمثیل کا ماہر ہے اور اس کا بیشتر سرمایہ شاعری ڈراموں کے اندر بکھرے ہوئے نغمات پر مشتمل ہے جن میں چند سونٹوں Sonnets یعنی ایک قسم کے معتزلانہ قطعات کا معمولی سا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ابلیس کی مجلس شوری ایک قسم کا ڈرامہ ہونے کے باوجود ڈرامے کی مروجہ ہئیت کے لوازم… ابواب و مناظر… سے خالی ہے بس ایک ہی باب (ایکٹ) اور ایک ہی منظر (سین) میں مختلف کرداروں کے مکالمے ختم ہو جاتے ہیں گویا مباحثہ Discussion ہی اس ڈرامے کا عمل Actionہے کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح زیر نظر تخلیق ایک بابی نیز یک منظری ہے اور جہاں تک مباحثے کے عمل بننے کا تعلق ہے یہ کیفیت عصر حاضر کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا کے ڈراموں میں بھی بالعموم موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ڈرامائیت کے تمام عناصر کے باوصف ابلیس کی مجلس شوریٰ کو بھی اگر مستقل و باضابطہ ڈراما (تمثیل) کہنے کی بجائے ڈرامائی نظم (تمثیلی نظم) کہا جائے تو بہتر ہو گا اس لیے کہ اس طرح کا اس کا مطالعہ بحیثیت شاعری کرنا زیادہ مفید ہو گا اور یہ بات اقبال کے خاص نظام فن کے بھی مطابق ہو گی۔ اس فنی تشریح کے مطابق ابلیس کی مجلس شوریٰ کو اقبال کی اردو نظموں میں مستقل اور مکمل ڈرامہ کی تکنیک کے قریب ترین ایک شاندار تمثیلی نظم Dramatic Poemقرار دینا تنقیدی طور پر مناسب ترین بات ہو گی ۔ اس موقف سے زیر نظر نظم کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو گا کہ یہ تخلیق ارمغان حجاز کی دیگر تخلیقات کے برخلاف شاعری کا ویسا ہی شگفتہ و شاداب نمونہ ے جیسا کہ ہم ضرب کلیم کی متعدد اور بال جبریل کی اکثر نظموں میں پاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر تک اقبال کے دست ہنر کی گرفت اپنے فن پر مستحکم تھی اوروہ دقیق سے دقیق نیز ہنگامی موضو ع کو اپنی فن کاری کی کیمیا سے لطیف و نفیس شاعری میں ڈھال سکتے تھے۔ نظم ابلیس کے خطاب سے شروع ہوتی ہے: یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دوں ساکنان عرش اعظم کی تمنائوں کا خوں! اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کا دنوں میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کر دیا سرمایہ داری کا جنوں کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہوا ابلیس کا سوز دروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں یہ خطاب ابلیس کی شخصیت اور کردار کا موثر اظہار ہے۔ اور اپنے الفاظ کے رنگ و آہنگ سے وہ فطری طور پر کائنات کی ایک ایسی قوت کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے جو عرصہ حیات میں اپنے عامل شر ہونے پر نازاں ہے۔ اور اپنی تخریبی طاقت کے نشے میں چور ہے ۔ لیکن وہ خدائے کارساز کی برتری کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ اپنے حریف آدم کی اولاد پر خدا ہی کے غضب کا اعلان کرتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں اس کی دشمنی انسان کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے وہیں خدا کے ساتھ ایک قسم کی ہمدردی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ انداز گفتگو کی اس منطق سے خلافت آدم کے معاملے میں منصوبہ تخلیق پر ابلیس کے ازلی اعتراض کا اظاہر ہوتاہے اسی لیے وہ زبان کھولتے ہی دنیائے دوں کو محض عناصر کا پرانا کھیل قرار دیتا ہے اور بہت خوش ہے کہ وہ خدا و ملائکہ نے دنیائے انسانیت سے جو توقعات ابلیس کے خیال کے برخلاف قائم کی تھیں وہ ختم ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم زاد کی نسبتی برباد ہونے والی ہے۔ اس بربادی کو ابلیس اپنا کارنامہ تصور کرتا ہے۔ اس لیے کہ اپنے خیال میں تبالی کے اسباب اس کے ہی مہیا کیے ہوئے ہیں اور وہ عصر حاضر میں خاطر خواہ نتائج پیدا کر رہے ہیں۔ چنانچہ دور جدید میں پھیلائے اپنے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے ابلیس‘ ملوکیت‘ لادینی اور سرمایہ داری کو بنیادی اسباب تباہی کے طور پر پیش کرتا ہے اور بڑے شاعرانہ انداز میں دعویٰ کرتا ہے کہ جس تمدن کے ہنگاموں میں ابلیس کا سوز دروں ہو اس کی آتش سوزاں کو سرد نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ یہ تمدن زمانہ حاضر کی ہوائوں میں بہت زیادہ برگ و بار لانے کے باوجود ایک نخل کہن ہے جسے شیطانی قوتوں نے صدیوں کی آبیاری سے شاداب کیا ہے۔ ابلیس کا یہ تصور ملٹن کے تصور سے مختلف ہے۔ اقبال کے ابلیس میں جہاں اس کی مکتبرانہ شان و شوکت طاقتوری اور رنگینی ہے وہیں اس کا ثبوت شر ہونا بھی واضح ہے۔ اور ا س قوت کا انسان کے مقابلے میں استعمال کیا جانا بھی معلوم ہے جب کہ ملٹن کا ابلیس خدا کا حریف بننے کی کوشش کرتا ہے اور ملکوتی قوتوں کے مقابلے میںانپی شہ زوری دکھاتا ہے چنانچہ ایک انتہائی کریہہ و مہیب شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اگر ابلیس کی ان دو تصویروں کا تجزیہ کیاجائے تو یہ آسانی سے واضھ ہو جائے گا کہ اقبال کی تصویر حقیقی مستند اور متوازن ہے جبکہ ملٹن کی تصویر فرضی ناقابل اعتبار اور غیر معتدل ہے۔ اسی لیے ملٹن کے ابلیس میں ڈرامہ نگاری زیادہ اور شاعری کم ہے لیکن اقبال کا ابلیس زیادہ شاعرانہ اور کم ڈرامائی ہے۔ ملٹن نے اپنے ڈرامائی ابوالہول کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے مسیحی روایا ت کی حدود میں ایک موثر شاعرانہ شخصیت کی تعمیر کی۔ تمام مذاہب نے ابلیس کو خدا کا باغی قرار دیا ہے مگر ملٹن نے اسے خدا کا حریف بنا دیا ہے ۔ اس طرح واقعہ یہ ہے کہ ابلیس کی بجائے ایک دوسرے خدا کی تخلیق کی اقبال نے یہ غلطی نہیں کی کہ انہوںنے صرف ایک باغی خدا لیکن حریف انسان کی تصویر کشی کی فکر کے اس فرق نے فن کا فرق بھی پیدا کیا۔ جو اصناف شاعری کے اختلاف میں رونما ہوا۔ اقبال نے ڈرامائیت کے باوجود تمثیلی نظم کی شاعری کی اور ملٹن نے نظم کی ہئیت کے باوصف ایک ڈراما لکھا۔ ابلیس کی مجلس شوری ابلیس کے موضوع پر اقبال کے تصورات فکر اور تجربات فن کا نقطہ عروج ہے یوں تو ابلیس کے حوالے جا بہ جا کلام اقبال میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ کردار شاعر کے نظام فن میں ایک علامت بن گیا ہے لیکن اس سلسلے میں دو نظمیں خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ایک با ل جبریل میں جبریل و ابلیس دوسری ضرب کلیم میں تقدیر گرچہ آخری نظم کے خاتمے پر ماخوذ از محی الدین ابن عربی درج ہے مگر ابلیس و یزداں کا یہ مکالمہ فکر اقبال کے مطابق اور شاعر کے فن کا ایک نمونہ ہے یہ دونوں نظمیں بہرحال تمثیلی مکالموں کی شکل میں ہیں اور ان کے مطالعے سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے زہن میں ابلیس کا ایک ڈرامائی ہیولا تھا۔ اس کے باوجود سوال کیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے ملٹن کی طرح ابلیس پر ایک مستقل و مکمل ڈرامہ کیوںنہ لکھا؟ جواب کا تجسس کرنے سے یہ نکتہ دریافت ہو سکتا ہے کہ ابلیس چونکہ واقعہ تخلیق آدم میں بالکل ڈرامائی طور پر نمودار ہو تا ہے اور اسی اندا زمیں خدائے کائنات کے سوال و جواب کرتا ہے۔ لہٰذا جب کبھی اس کی شخصیت نگاہ تصور کے سامنے آتی ہے تو تمثیلی مکالمہ کرتی ہوئی۔ چنانچہ اقبال نے ابلیس کی ا س ڈرامائیت کو اس کی ہر کردار نگاری میں ملحوظ رکھا ہے ۔ گرچہ اس پر ڈرامہ لکھنے کے بجائے شاعری کی ہے اور تمثیلی نظم نگاری کی حد تک گئے ہیں اس لیے کہ ڈرامہ نگاری ان کا پسندیدہ وسیلہ اظہار نہ تھا اور شاید ابلیس کی ڈرامہ نگاری میں ملٹن کی بے اعتدالیوں بلکہ فکری کم راہیوں سے انہوںنے عبرت بھی حاصل ک ہو گی یہ تنقیدی نکتہ بہت زیادہ محتاج توجہ ہے کہ ملٹن ابلیس کو ایک شاندار ڈرامے کا کردار بنا کر کسی حد تک مجبور ہو گیا کہ یونانی ڈرامہ نگاری کے نمونے پر کردار نگاری میں صنمیات کی پیروی کرے اور اساطیر و خرافات کے مطابق انسانو ں یا شیطانوں کی کردار نگاری کے لیے دیوتائوں کی تخلیق کرے)۔ بہرحال ابلیس کا خطاب ایک پس منظر میں ہوا ہے اور وہ ہے عصر حاضر میں ابلیسی نظام کا فروغ نیز مستقبل میں اس کا استحکام۔ ابلیس کے پہلے خطاب سے محسوس ہوتا ہے کہ اپنی نقطہ عروج پر پہنچ کر نظام ابلیسی کے سامنے کچھ مسائل پیدا ہو گئے ہیں اور اس کی استواری کے متعلق بعض حل طلب سوالات در پیش ہیں‘ جن کو ایجنڈا بنا کر ہ ابلیس کی مجلس شوریٰ منعقد ہوتی ہے اور صدر مجلس کا خطاب اس شوریٰ کا افتتاح ہے ۔ بلاشبہ اس آغاز مشاورت میں ابلیس اپنے نظام کے بارے میں اتنا پراعتماد ہے کہ اس کے انداز گفتو میں ادعاپیدا ہو گیا ہے لیکن یہ ادعائی کیفیت ہی کسی اندرونی اضطراب کسی پیچیدگی احوال کی غماز ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی پوشیدہ اندیشے یا مجرم ضمیر کی کمزوری کے سبب ابلیس ایک طرف اپنی خود اعمادی کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنی ذریات کا اعتماد بحا ل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ابلیس کے سوال کے جواب میں اس کا پہلا مشیر تقریر کرتا ہے: س میں کیا شک ہے کہ محکم ہے ابلیسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام آرزو اول تو پیدا ہو نہیںسکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علم کلام ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید ہے جہاد اس دور میں مرد مسلمان پر حرام گرچہ پہلا مشیر ابلیس کی تائید اور اس کے دعوے کی توثیق کرتا ہے مگر ابلیسی نظام کی جو تعریف وہ کرتا ہے اسی سے کہ وہ خرابیاں اور کمزوریاں واضح ہو جاتی ہیں جو آیندہ اس کے تزلزل اور شکست کا باعث ہو سکتی ہیں‘ اس لیے کہ معلوم ہو جاتا ہے اس لیے کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ابلیسی نظام کی نہ تو کوئی اپنی مستقل طاقت ہے نہ اس کا کوئی مثبت کردار ہے‘ بلکہ اس کا سارا اعتماد و انحصار انسان کی کمزوریوں پر ہے جن کا ہی استعمال کر کے وہ دنیائے انسانیت کی تخریب کرتا ہے ابلیس نے عصر حاضر کے انسانی نظام میں ملوکیت لادینی اور سرمایہ داری کی خرابیوں کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی اشارہ کر دیا تھا کہ فرنگی یا مغربی تمدن کے ان عناصر کا تسلط اس لیے کہ کہ مغرب کے لادین اور سرمایہ دارانہ سامراج کے شکار جو لوگ ہیں انہیں ابلیس نے تقدیر پرستی کا سبق سکھا کر غلامی و ناداری پر رضا مند رہنے کے لیے آمادہ کر لیا گیا ہے ۔ چنانچہ پہلا مشیر ابلیسی نظام کی سب سے بڑی خصوصیت و برکت یہی بتاتا ہے کہ اس کے نفاذ اور غلبے سے عوام و خوئے غلامی‘ میں پختہ تر ہو گئے ہیں یعنی مغربی نظام ہی ابلیسی نظام ہے۔ اس لیے کہ وہ محکوم عوام الناس کو تقدیر پرست بنا کر انہیںزندگی و آزادی سے نامید کر دیتا ہے اور اس ابلیسی قنوطیت کے نتیجے میں لوگ محکومی و غلامی کو اپنا مقصد تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ آرزوئے حیات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پہلے مشیر کے خطاب میں اشارات کا رخ مشرق بالخصوص مسلما نوں کی طرف ہے۔ اس لیے کہ عصر حاضر میں مغرب کے ہاتھوں ابلیسی نظام کے فروغ و تسلط سے قبل وہی عالم انسانیت کے نگہبان تھے۔ لیکن اب تقدیر پرستی اور زوال پسندی نے انہیں لادین سرمایہ دارانہ ملوکیت کا ایسا پختہ غلام بنا دیا ہے کہ وہ ایک تباہ کن نظام باطن کے خلاف جہاد کا تصور تک ترک کر چکے ہیں اور ان کے درمیان دین کے نام پر صرف چند رسوم عبادت باقی رہ گئی ہیں۔ گویا ملوکیت طبع مشرق کے لیے افیون ثابت ہوئی ہے اور اس ے نشے نے مشرق میں ملت اسلامیہ کے قویٰ مفلوج کر دیے ہیں۔ اگر ان ارشادات کا مطالعہ و تجزیہ ابلیس کی آٖاقی شخصیت کی روشنی میں کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اپنے تمام فخر و ناز اور غرور تکبر کے باوجود ابلیس بڑی بودی سیرت کا حامل ہے۔ درحقیقت یہ خود ابلیس ہے جو اپنی نافرمانی و سرکشی کے نتیجے میں خدا کی رحمت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مایوس ہو کر مشیت الٰہی کے مقابلے میں سپر انداز و تقدیر پرست ہو گیا ہے جیسا کہ ضرب کلیم کی نظم تقدیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جس میں ابلیس کی پستی فطرت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اب رد عمل اور مایوسی میں ابلیس اپنی پستی فطرت کا عکس انسان کے اندر دیکھنا یا اتارنا چاہتا ہے یہ ابلیس کے متعلق بنیادی طور پر قرٓان کا نقطہ نظر ہے جسے اقبال نے اختیار کی اہے جو لو گ ابلیس کی اس حقیقت سے واقف ہیں‘ ان کے ذہن میں پہلے مشیر کی پوری تقریر پر ایک عبرت انگیز طنز Ironyبن جاتی ہے۔ جس کی فکری بلاغت ایک دل کش فنی لطافت رکھتی ہے۔ یہ اردو قارئین کے نقطہ نظر سے ایک قسم کا تمثیلی طنز Dramatic Irony ہے مشیر تو ابلیس کی مدح رک رہا ہے مگر اس کے سامعین اس میں قدح کا پہلو بھی دیکھ رہے ہیں جس کی کوئی خبر قصیدہ خواں کو نہیں ہے ڈرامائی لحاظ سے یہ بڑی دلچسپ صورت ہے۔ اس صورت حال میں ایک شعر موضوع نظم سے بڑا لطیف و عمیق تعلق رکھتا یہ اور اس کا مفہوم شروع سے آخر تک نظم کے ارتقائے خیال میں ایک مرکزی رول ادا کرتا ہے: آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام لفظ آرزو کا استعمال اقبال نے زیر نظر نظم کے علاوہ متعدد اہم نظموں میں اور اہم مواقع پر اس اہتمام کے ساتھ کیا ہے کہ اقبال کا ایک خاص لفظ اور ان کے مخصوص تصور کی خیال انگیز علامت بن گیا ہے۔ اقبال کے پیام میں جو رجائیت اور ان کی شاععری میں جو نشاط فن ہے اس کی حسین ترین ترجمانی لفظ آرزو سے ہوتی ہے۔ مسجد قرطبہ کی تمہید میں جو دعا ہے ا س میں آرزو کا لفظ اور تصور متعدد بار استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک شعر میں راہ محبت کا واحد مستقبل رفیق آرزو کو قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں دست دعا جس ہستی کے سامنے پھیلایا گیا ہے اسے واحد آرزو اور اس حیثیت سے مقصود جستجو بتاتے ہوئے اس کی عنایت سے زندگی میں سوز و تب و درود و داغ‘ کا اقرار کیا گیا ہے‘ پھر دعا کے آخری شعر میں فلسفہ و شعر کو ایسا حرف تمنا کہا گیا ہے جسے محبوب کے روبرو کہنا ممکن نہ ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ خواہ مسجد قرطبہ کا عشق ہو یا اسی عنوان کی نظم کا ذوق و شوق سبھی کو ایک بسیط و محیط آرزو سے تعبیر کیا جا سکتاہے۔ مختصر یہ کہ یہ آرزو زندہ رہنے کے لیے زندگی میںآگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کایاک فطری جذبہ ہے جو ہر قسم کی تعمیر و ترقی اور کمال و کامیابی کا محرک اصلی ہے۔ لہٰذا مشیر اول کا یہ بیان کہ عصر حاضر میں ابلیسی نظام کی محکمی نے محکوم قوموں یا دنیائے انسانیت سے بڑے حصے میں آرزو ہی کو فنا کر دیا ہے ۔ وقت کا سب سے بڑ ا المیہ اور زندگی کے ساتھ سب سے سنگین حادثہ ہے۔ فنی نقطہ نظر سے غور کرنے کی بات ہے کہ پہلے مشیر نے ابلیس کی تائید میں دور حاضر میں مشرق اور ملت اسلامیہ کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کا مرکزی نقطہ آرزو کا فقدان ہے۔ اور ابلیسی مغربی نظام کی شکار اقوام کی ساری تباہی و خرابی کا سبب یہی ہے۔ احوال و مسائل کی یہ تعبیر ہی بے حد شاعرانہ ہے جس سے سیاست کی گرہیں بھی محبت کی زلفوں کی طرح تابدار نظر آنے لگتی ہیں اور حقائق کی ساری رنگینی ایک عمیق شعریت کی لطافت میں ڈوب جاتی ہے۔ لفظ آرزو کے خیال آفریں استعمال کے علاوہ اقبال کی فن کاری کے دو اور نکات پہلے مشیر کے خطاب میں مضمر ہیں۔ جبریل و ابلیس نے کہا تھا : جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات اس کے حق میں تقنطو! اچھا ہے لا تقنطو اور پہلے مشیر کا زیر بحث خطاب اس شعر پر ختم ہوتا ہے: کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام اس طرح ابلیس کی ازلی نومیدی کا سای عصر حاضر کے ابلیسی نظام کی بدولت ملت اسلامیہ کی نومیدی پر پڑ رہا ہے ۔ اور اس کی عکس فگنی میں فرمان جدید کی ترکیب قاری کے نقطہ نظر سے مشیر ابلیس کے بیان کو ایک تمثیلی طنز بنا دیتی ہے‘ اس لیے کہ فرمان قدیم تو ابلیس کی نومیدی پر حجت تھا مگر فرمان جدید ابلیس کے شکار کی نومیدی پر حجت بن رہا ہے یعنی کس کی نومیدی اور کس کے سر؟ غور کیاجائے تو جس طرح آرزو نشاط فکر وفن کی ایک علامت ہے ‘ اسی طرح نومیدی بھی فکر و فن کے تعکدر کی علامت ہے اور لطیفہ یہ ہے کہ روز ازل انسان کو رجائیت عطا کی گئی تھی‘ جبکہ ابلیس کو قنوطیت ملی تھی‘ لیکن اب قنوطی رجائی کو قنوطی بنا رہا ہے اس طرح پوری نظم ہی ایک زبردست طنزیہ شاہکار بنتی نظر آتی ہے۔ اب دیکھیے کہ پہلا مشیر ابلیس تو ملوکیت کو طبع مشرق کے لیے موزوں افیون قرار دیتا ہے جبکہ باخبر قارئین کو معلوم ہے کہ اشتراکی نظریے کے مطابق مذہب ایک افیون ہے لیکن ابلیس کے خطاب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ شیطان نے دعویٰ کیا ہے : میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں اس طرح ہیبت ابلیس کی دین ہے ۔ اور اہل مشرق مذہب کی افیون کی بجائے ملوکیت کی افیون کے شکار ہیں پہلے مشیر کے بہ قول: یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام موجودہ زمانے کے سیاسی مباحث کے ایک مشہور فقرے کا یہ انعکاس کلام اقبال کے فنی اشارات کی ایک پر لطف مثال ہے ۔ اقبال کی شاعری میں رمزو ایما کے بکثرت استعمال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عصر حاضر کے منسائل سیوسائل فن پیدا کرتے ہیں اور ان وسائل کا استعمال اپنے خالص مقاصد و مطالب کے لیے بڑے بڑے لطیف انداز میں کرتے ہیں چنانچہ ان کے کلام کا ایک ایک اشارہ یاکنایہ یا استعارہ وسیع و پیچیدہ عصری مباحث کو آئینے کی طرح روشن کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں کلام کا یہ نشتر بھی قابل دید ہے کہ ملوکیت و لامذہبیت کو عملاً ایک دوسرے کے مترادف بنا کر ملوکیت کو افیون قرار دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ افیون مذہب نہیں۔ لامذہبیت ہے ۔ اور یہ مغربی تصور حیات کی دین ہے جس کا ایک ہی مظہر اشتراکی مخالفوں کو ایک تیکھا جواب دے دیا۔ یہ فکر کی موثر فنی تجسیم ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کا پورا فنی منصوبہ ہی تمام اہل مغرب اور ان کے مختلف نظریات پر ایک کاری طنز کرتا ہے۔ اس طنز کی بنیادیں کلام اقبال میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں ابلیس کی عرض داشت (بال جبریل میں) پہلی نظم میں اہل مغرب کو ابلیس کے سیاسی فرزند‘ فرض کر کے ان کے نام ابلیس کا یہ فرمان جاری کرایا گیا ہے کہ وہ اہل مشرق کو ان کے دینی و اخلاقی روایات سے بے گانہ کر کے ان کی تباہی کا سامان کریں دوسری نظم میں مغربی نظام اقدار کے تحت ابھرنے والے ارباب سیاست کو جمہور کے ابلیس قرار دیا گیا ہے اسی تناظر میں ابلیس کی مجلس شوریٰ کے دوسرے مشیر کا یہ سوال ابلیس کے مشیروں کے درمیان حالات حاضرہ پر ایک دلچسپ اور خیال انگیز تبصرے کا آغاز کرتا ہے۔ خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟ تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر پہلا مشیر ایک بصیر ت افروز اور عبرت انگیز جواب دیتا ہے: ہوں مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس وہ خود نگر کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے یہ وجود میر و سلطان پر نہیں ہے منحصر مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطان غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر جمہوریت ے بارے میں اس قسم کے خیالات اقبال نے متعدد مواقع پر ظاہر کیے ہیں اور اپنی دلیلیں بھی پیش کی ہیں۔ خاص کر خضر راہ کے باب سلطنت میں جس کے مطابق جمہوری قبا میں دیو استبداد ہی پائے کوب ہے اور مغرب کا جمہوری نظا م ایک ساز کہن ہے جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری اس کے علاوہ ضرب کلیم میں جمہوریت کے عنوان سے جو نظم ہے ا سکے مطابق یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو بنا کرتے ہیں تولا نہیںکرتے۔ لہٰذا اقبال مغربی جمہوریت کو ملوکیت کا اک پردہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ مغرب کے جمہوری نظام میں بظاہر حریت و اخوت و مساوات کا جو بھی دعویٰ ہو بباطن یہ عوام الناس کے مقابلے میں محض چند ہشیار ظالموں کی ہلاکت خیز چنگیزی بلکہ اس سے بھی بدتر ہے ا س تصور اظہار کے لیے شاہی کو جمہوری لباس پہنانے کاروبار شہریاری کی حقیقت کچھ اور ہونے غیر کی کھیتی پہ سلطان کی نظر اور اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ کی تصویریں استعمال کی گئی ہیں۔ یہ سب نکات نقوش مقرر کے مافی الضمیر کو سامع کے سامنے اچھی طرح روشمن کر دیتے ہیں۔ ایک تمثیل میں ترسیل کی یہ کامیابی کا یک کمال فن ہے۔ پہلے مشیر کا جواب ارکان مجلس کے لیے اطمینا ن بخش ثابت ہوتا ہے جبکہ قاری کے لیے یہ اپنی حدود میں اور اپنے موقع و محل کے لحاظ سے مسرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ بصیرت افروز بھی ہے ۔ یہ تاثر فکر و فن کی ہم آہنگی کے سبب ہے۔ یہ ہم آہنگی کس طرح سیاست کو شاعری بناتی ہے۔ اس لیے مثال کے طور پر ایک مصرعے کا تجزیہ کر کے دیکھیے: مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو مجلس ملت اسمبلی کا ترجمہ ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پرویز کا دربار ہے۔ دونوں الفاظ کا تعلق ایران سے ہے اور دونوں فارسی زبان کے اصطلاحی الفاظ ہیں مجلس ملت جدید دور کا ادارہ اقتدار ہے۔ اور پرویز کا دربار دور قدیم کا۔ پرویز کاعلم یا لقب تاریخی کے ساتھ ساتھ داستانی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اور شیریں کے تعلق سے تو وہ ایک شاعرانہ علامت ہی ہے اسی طرح دوسرے مصرعے میں سلطان کا لفظ پہلے مصرعے میں پرویز کی قدامت کی تائید کرتا ہے۔ پرویز سلطان کی یہ قدامت قدیم شہنشاہیت کے پیکر کو اس کے تمام جاہ و جلال اور جبر و ستم کے ساتھ نگاہوں کے سامنے لے آتی ہے اس طرح سیاق و سباق ک یاعتبا ر سے چند معمولی الفاظ کا خصوصی انتخاب اورمخصوص اسعتمال ہی شعریت کے خیال آفریں تاثرات ابھارتا ہے۔ یہ لفظوں کو پیکروں میں تبدیل کرنے کا کیمیائی و فنی عمل ہے‘ جس کے پختہ نمونے زیر نظم نظر میں بکثرت موجود ہیں ۔ اب تیسرا مشیر ایک نئے فتنے کا ذکر کرتا ہے: روح سلطانی رہے تو باقی تو پھر کیا اضطراب ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟ وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب! نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب کیا بتائوں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز! مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب کلیم بے تجلی مسیح بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن در بغل کتاب کافر کی نگاہ پردہ سوز‘ مشرق و مغرب کی قوموںکے لیے روز حساب توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب… تصاویر کا ایک آئینہ خانہ ہے ! مشیر ابلیسی نظام کو لاحق ہونے والے ایک تازہ اندیشے کا ذکر کر رہا ہے۔ مگر اس کا تخیل اور طرز بیان دقیقہ سنجیوں اور پیکر تراشیوں سے معمور ہے۔ اس لیے کہ ابلیس کا مشیر ہونے کے باوجود وہ اقبال کا کردارہے جسے کچھ فلسفہ اور کچھ شاعری اپنے خالق سے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ قصہ آدم کو اپنے لہو سے رنگین کرنے والے ابلیس کا شاگرد ہے اور پستی فطرت کے باوجود شوکت بیان ابلیس اور اس کی ذریات کے کبر و نخوت کے لیے ایک امتیازی اسلوب سخن بھی ہے بہرحال چند الفاظ میں نام لیے بغیر ماکس اور اس کی کتاب سرمایہ کی نہایت معنی خیز پر خیال اور پر اثر تصویر کشی کی ہے جس کا مفہوم اشارۃً و کنایۃً یہ ہے کہ اشتراکیت ملوکیت سے سرمایہ دارانہ جمہوریت تک تمام ان نظریات کے لیے ایک چیلنج ہے جو عوام الناس کا استحصال کرتے رہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ کمیونزم دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دے جو ابلیسی نظام کی نامرادیوں نابرابریوں غلامی اور برادر کشی کے لیے پیام فنا ہو زیر نظر اشعار کی گہری اور ہمہ گیر ایمائیت کی حد یہ ہے کہ مارکس کے ذریعے کمیونزم کی اشاعت کو اس یہودی کی شرارت کہا گیا ہے ۔ یہ ایک فقرہ یہودیوں کے تاریخی کردار کے علاوہ یہود و نصاریٰ کی چپقلش اور صدیوں تک نصاریٰ کے ہاتھوںیہودیوں کی ذلت اور یہودیوں کی طرف سے اس جبر و ستم کے رد عمل میں‘ جو ان پر روا رکھا گیا ‘ خفیہ منصوبہ بندیوں اور ریشہ دوانیوں پر بہترین تبصرہ ہے۔ یہ تبصرہ مسیحی نقطہ نظر پر مبنی ہے اس لیے کہ عصر حاضر میں ابلیسی نظام کے ستون مسیحی ہی ہیں اور انہی کے ذریعے قائم ہونے والے سرمایہ دارانہ سامراج کے لیے کمیونزم ایک چیلنج بن کر ابھر اہے۔ چوتھا مشیر فتنہ اشتراکیت کے توڑ پر اپنی مسرت کا اظہار کرتا ہے: توڑ اس کا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا گالد بالدچوں صنوبر‘ گاہ نالدچوں رباب چار مصری یہ شاعری نیز تاریخ نگاری غضب کی ہے تخیل کو بہت دیر تک مصروف و معمور رکھنے کے لیے ایک مصرع گاہ بالدچوں صنوبر گاہ نالدچوں رباب۔ بھی کافی ہیں۔ پھر بحرروم کی موجیں ہیں ان سے کوئی لپٹا ہوا ہے آل سیز ر ہیںسیزر کا خواب ‘ جیسی چست موزوںاور پر خیال اور فکر انگیز شاعرانہ ترکیب ہے رومتہ الکبریٰ کے مشہور عالم ایوان شہنشاہیت ہیں۔ لیکن دور جدیدکی رومی سلطنت کے سودائے ملوکیت کو مشیران ابلیس کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ چنانچہ تیسرا مشیر پھر خطرہ اشتراکیت پر زور دیتا ہے: میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب! مغرب کی سیاست کی پردہ دری مارکس کے نظریہ اشتراکیت اور اس کے تحت تجزیہ تاریخ کا سب سے بڑا کمال نگاہ اقبال میں ہے‘ جس کی طرف شاعر نے اپنے متعدد اشعار میں واضح اشارات کیے ہیں اس شعر میں عاقبت بینی کا لفظ بہت معنی خیز ہے جس کے طنزیہ مضمرات بہت وسیع ہیں۔ مشیروں کا مکالمہ اپنے شباب پر ہے لہٰذ ا پانچواں مشیر عصر حاضر میں عالم انسانیت کا ایک مجموعی اور آخری جائزہ لیتا ہے ‘ تاکہ اس کے بعد ابلیس اپنا قول فیصل ارشاد کرے: اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز آبلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کار تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار وہ یہودی فتنہ گروہ روح مزدک کا بروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر جس کو نادانی سے ہم سمجھتے تھے اک مشت غبار فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیاست پر مدار ’’ابلہ جنت‘‘ ، ’’روح مزدک‘‘، ’’زاغ دشتی‘‘ ، ’’شاہین و چرغ‘‘، ’’مشت غبار‘‘ کی تلمیحات علامات اور استعارات کے علاوہ آب و گل تیری حرارت سے جہان سو ز و سازہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار ‘ چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر‘‘ اور فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار جیسی پر معنی اور خیال آفریں تصویریں تصور و احساس کی ایک دنیا آباد کرتی ہیں او رشاعرانہ مناظر کا ایک سماں باندھ دیتی ہیں‘ محولہ بالا شعر میں مستقبل کی ہولناکی کی جو حسین اور پر اثر تصویر کشی ہے۔ اس کے ساتھ انسان کی پرواز فکر کی یہ پیکر تراشی تخیل کے سامنے پوری تاریخ انسانی کا ایک جلوہ رنگیں پیش کرتی ہے: چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار اس شعر کا ایک ایک لفظ معنی خیز ہے۔ انسان کو شیطان اور اس کے ذریات نے اک مشت غبار سمجھا تھا۔ اور اسی بنا پر تخلیق آدم کے وقت ابلیس نے آدم کے آگے حکم خداوندی کے باوجود سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اشارہ کر دیا تھا کہ انسان کے امکانات اور منصوبہ کائنات میں اس کے مقام و کردار کے متعلق خدا جو کچھ جانتا ہے اس کی خبر کسی کو نہیں۔ بہرحال صدیوں کی انسانی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اک مشت غبار کو حقیر سمجھنا ابلیس کی نادانی تھی۔ جس کا اعتراف خود ایک مشیر ابلیس کر رہا ہے‘ اس لیے کہ یہ مٹھی بھر دھول اپنے فکر و عمل سے آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر چھا گئی اس بیان میں لفظ آشفتہ کے مضمرات و اشارات کی تشریح کی جس قدر کی جائے معانی کی تہوں پر تہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ اقبال نے غزل اور تغزل کے ایک زرخیز تخیل کو بڑی خوبصورتی سے انسان کی ذہنی تاریخ اور عمل سرگزشت کا اشاریہ بنا دیا ہے اور اس کے تمام لفظی و معنوی تلازمات و مناسبات کا لحاظ کر کے ایسی عبارت آرائی کی ہے کہ ذہین اور حساس قاری بہت دیر تک اس کی معنوی و جمالیاتی کیفیات میں کھوجاتا ہے۔ مشت غبار کی جگہ خاک زمین ہے‘ مگر آشفتگی اسے بلند تر فضائوں میں پرواز کی تحریک کرتی ہے اور وہ بالآخر وسعت افلاک پر چھا جاتی ہے کمرہ خاکی کی حدود سے بہت دور نکل کر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ جاتی ہے۔ حالانکہ ذکر فتنہ اشتراکیت کا ہو رہا تھا‘ مگر پانچواں مشیر اس فتنے کو انسانی تاریخ کے طویل پس منظر میں دیکھتا ہے اور مجموعی طور پر عروج آد م خاکی کی پوری داستان کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی جو ترقیات انسان کے ہاتھوں صدیوں سے دنیا میں ہو رہی تھیں اب ان میں ایک اشتراکیت کا بھی اضافہ ہو گیا۔ لیکن یہ خیال ابلیس کا پانچویں مشیر کا ہے خود ابلیس کا نہیں لہٰذا آخری شعر: میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار کا طنز پور ا کا پورا مغربی ملوکیت ‘ سرمایہ داری اور جمہوریت کے مروجہ نظام حیات پر ہے اور مشیر ابلیس کے خیال میں عصر حاضر کے اس جہان مغرب کا مدار فقط ابلیس کی قیادت و سیاست پر ہے اس لیے کہ مغربی نظام ہی ابلیسی نظام ہے اور اب اس نظام کی برہمی اسی اندر سے ابھرنے والے ایک نئے تصور کمیونزم کے ہاتھوں میں مقدر معلوم ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ کمیونزم کا فلسفہ اصولاً امپیریلزم کیپٹلزم اور ڈیمو کریسی… نظام مغربی کے عناصر ترکیبی… پر تنقید کرکے ان سب کو رد کرتا ہے لہٰذا اگر کمیونزم کا یہ تصور غالب آ گیا تو دور جدید کا مروجہ ابلیسی نظام ختم ہو جائے گا۔ پانچویںمشیر کی یہ تقریر ابلیس کے آخری خطاب کے بعد ویسی ہی نادانی ثابت ہو گی جیسی خود ابلیس سے روز ازل آدم کو محض اک مشت غبار سمجھ کر سرزد ہوئی تھی۔ جو قارئین ابلیس کی آئندہ تقریر سے باخبر ہیں یا جب وہ باخبر ہو ں گے تو پانچویں مشیر کی تقریر کا بڑا حصہ انہیںتمثیلی طنز کا نشانہ معلوم ہو گا بہرحال اب ابلیس اپنے مشیروں کو ایک طویل مفصل اور قطعی خطاب کرتا ہے جس کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں اشتراکیت کا مذاق اڑاتا ہے اوراس کی بنیادی خامیوںاور کمزوریوں کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے مغربی نظام یعنی ابلیسی نظام کی محکمی پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے ۔ مگر مستقبل کے لیے ایک ایسے زبردست اندیشے اور خطرے کا ذکر کرتا ہے جس کی طرف کسی مشیر کی نگاہ نہ گئی تھی: ہے مرے دست تصوف میں جہاں رنگ و بو کیا زمیں کیا مہر و مہ کیا آسمان تو بتو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو کیا امامان سیاست‘ کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے توڑ کر دیکھتے تو اس تہذیب کے جام و سبو دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مرد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار آشفتہ مغزہ آشفتہ ہو ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے ٭٭٭ اس خطاب سے وہی طنطنہ اور دبدبہ ہے جو ابلیس کے پہلے خطاب میں تھا اور یہ اس کے تکبر اور شیخی کے عین مطابق ہے یہ خیالات کی شاعری ہے اور سار ا کمال فکروری اور سخن طرازی کا ہے ۔ حسب معمول لفظ و معنی کے اشارات اور پیکر تراشیاں بلند بانگ دعوئوں کو دلچسپ اور خیال انگیز بناتی ہیں۔ صرف دو تصویروں پر غور کیجیے: دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو ٭٭٭ مزدوروں اور کسانوں کے افلاس او رغربا کی معاشی کم زوری کو گریبانوں کے چاک ہونے سے تعبیر کرنا تنگدستی اور پریشاں حالی کی انتہائی پر اثر اور پر خیال شاعرانہ ترجمانی ہے‘ پھر دست فطرت کے مقابلے میں مزدکی منطق کی سوزن اور چاک گریباں کو دور کرنے کے لیے رفو کا اہتمام اظہار و بیان کی زیبائی و رعنائی کا باعث ہے۔ اس آرائش تخیل میں منطقیت اور شعریت کا وہ نادر امتزاج ہے جو کلام اقبال کا اختصاص ہے دوسری تصویر یہ ہے : خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو اشک سحر گاہی سے وضو عبادت و ریاضت جیسے متین اور ثقہ عمل کو محبت کے سوز و گداز سے آراستہ و پیراستہ کر دیتا ہے۔ اس تصویر میں اشک سحر گاہی‘ اور وضو تینوں الفاظ اپنے اپنے معانی کو ایک مرکب مفہوم میں ضم کر کے اوراق گل پر شبنم کے درخشاں قطرے کی طرح تازہ و شاداب پیکر کی تخلیق کرتے ہیں اور ابلیس کا کہا ہوا لفظ ظالم اس پیکر کے تقدس اور تابانی میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے۔ پھر ابلیس ہی کے بقول اس پیکر خوبی کا خال خال نظر آنا اس کے جادو کو اوربھی بڑھا دیتا ہے۔ ان سالم استعاراتی تصاویر کے علاوہ بھی لفظ و معنی کے رخ زیبا کی کئی دلکش جھلکیاں ہیں… کار گاہ شیشہ تہذیب کے جام و سبو خاکستر میں شرار آرزو ان میں آخری جھلکی ایک آئینہ خانے کا جلوہ پیش کرتی ہے‘ پہلے مشیر نے نظم کے ابتدائی مرحلے میں جس حلقہ انسانیت کے اندر آرزو کے فنا ہو جانے کا اعلان کیا تھا‘ اب اسی کی خاکستر میں نظم کے نقطہ عروج پر خو د ابلیس کو شرار آرزو کی چمک نظر آتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس شیطان کے لیے انسان اور خدا کے آخری پیغام کے حامل انسان کے اندر شرار آرزو کی تابانی سب سے زیادہ پریشانی کی بات ہے۔ یہی وہ شرار آرزو رحمت خداوندی کی تمنا اور اس سے وابستہ اطاعت الٰہی کا جذبہ ہے جس نے ہر دور میں ابلیس کو شکست دی ہے اور ابلیسی نظام کے تارو پور بکھیر دیے ہیں چنانچہ ابلیس اپنی اصل حریف طاقت کو اچھی طرح پہچانتا ہے ۔ اور ا س کی خصوصیات سے بھی واقف ہے لہٰذا جب وہ دیکھتا ہے کہ شرار آرزو سے شعلے کی طرح روشن ہو کر اشک سحر گاہی سے وضو کرنے والے ابھی باقی ہیں تو پکار اٹھتا ہے : جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے ٭٭٭ ابلیس اشتراکیت کو مزدکیت کہہ کر جتانا چاہتا ہے ۔ کہ یہ کوئی تازہ فتنہ نہیں‘ دور قدیم میں بھی ایران کے مزدک کے ہاتھوں رونما اور چندے اپنے بہار دکھا کر ختم ہو چکا ہے لہٰذا عصر حاضر میں بھی اسی طرح جلد ختم ہو جائے گا۔ پھر اس فتنے سے ابلیسی نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس لیے کہ اصلاً دونوں کے درمیان کوئی تضاد و تصادم نہیں۔ اسی طرح ابلیس کو بھی اسلام کا بھی تجربہ ہے اوروہ جانتا ہ کہ اسلام کا فروغ ابلیسی نظام کے لیے پیغام فنا ہے۔ لہٰذا اپنے مستقبل یا اپنے خیال میں دنیا کے مستقبل کے لیے اس کے فتنہ ہونے کا وہ قطعی اعلان کرتا ہے۔ دوسرے حصے میں ابلیس اسلام … فتنہ فردا… کی ان خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہے جو نظام ابلیسی کی جڑ کھودنے والی ہیں: جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں الحذ آئین پیغمبر سے سو بار الحذر حافظ ناموس زن مرد آزما‘ مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فعفور و خاقاں نے فقیر رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف منعموں کا مال و دولت کا بنایا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب بادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ زمیں چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے چند لفظوں میں ابلیس نے نظام اسلامی کی ان خوبیوں کا ذکر کر دیا ہے جو عصر حاضر کے بنیادی مسائل کا واحد اور بہترین حل ہیں۔ اس ذکر سے پہلے اور بعد دو اشعار میں اس نے بروقت امت مسلمہ کے حال زار کا تذکرہ بھی کیا ہے اوراسی حال کے مستقبل میں بھی جاری رہنے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے دلچسپ اور خیال انگیز نکتہ یہ ہے کہ گرچہ امت مسلمہ غافل و کاہل ہے مگر عصر حاضرکے تقاضے شرع پیغمبر کے دوبارہ فروغ کی راہ ہموار کررہے ہیں لہٰذا ابلیسوں کے کرنے کا کام اب صرف یہ ہے کہ کسی طرح امت مسلمہ کو شرع پیغمبر پر عمل اور اس کے مطابق اقدامات سے باز رکھیں۔ چنانچہ تیسرے اور آخری حصے میں ابلیس اس مقصد کے لیے ایک پورا منصوبہ عمل پیش کرتا ہے ۔ جس سے ان سارے فتنوں کی نشاندہی ہو جاتی ہے جو اسلام کی راہ میں حائل ارو اس کے فروغ میں مزاحم ہیں: توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک حیات ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے؟ ہیں صفات ذات حق‘ حق سے جدا عین ذات؟ آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟ میں کلام اللہ کے الفاظ حادثات یا قدیم امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟ کیا مسلماںکے لیے کافی نہیںاس دور میں یہ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟ تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے! تا بساط زندگی میں اس کے سبب مہرے ہوں مات خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوبتر جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے ابلیس کے آخری خطاب کے دونوںآخری حصے صرف مسائل پر مشتمل ہیں اور وہ بھی دقیق اور مشکل مسائل پر ‘ جو اگر نثر میں بھی بیان کیے جائیں تو آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیںگے۔ اور ان میں دلچسپی تو کم ہی لوگوں کو ملے گی۔ لیکن جس طرح اقبال کے گہرے تفکر نے ان کی سب گرہیں کھول دی ہیں اسی طرح ان کی فن کاری نے ایسے ٹھوس اور ثقہ نکات کو دلچسپ بنا دیا ہے ۔ ا سلسلے میں دیکھنے کی خاص بات یہ ہے کہ حقائق کو دل کشا بنانے کے لیے بہت زیادہ آرائش و زیبائش سے کام لینے کی کوشش نہ کی گئی ہے۔ مگر بے ساختگی اور سادگی سے جو کچھ کہا گیا ہے اس میں بھی جا بجا ایک فطری طرز بیان کے شاعرانہ پیکر اپنی آب و تاب دکھا رہے ہیں اور ان کی چمک دمک پورے سیاق و سباق کو روشن کرتی ہے۔ چند تصویریں ملاحظہ ہوں: مشرق کی اندھیری رات‘ بے ید بیضا‘ پیران حرم کی آستیںُ‘ فغفور و خاقاں‘ فقیر رہ نشیں‘ طلسم شش جہات‘ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات ‘ بساط زندگی ‘ مہرے‘ مات‘ تماشائے حیات‘ ذکر و فکر صبح گاہی‘ مزاج خانقاہی۔ بعض ترکیبیں عام ہوتے ہوئے بھی سیاق و سباق میں خاص معانی رکھتی ہیں اور ان کے رنگ و آہنگ میں ایک شوکت اور وقار ہے مثلاً: مرد آزما‘ مرد آفریں ‘ چشم عالم‘ عالم کردار‘ احتساب کائنات یہ طرز اقبال ہے جس کی جمالیات فن حسن معنی پر مبنی ہے۔ یہ ایک فطری لالہ کاری ہے جو مشاطگی کے تکلفات سے بے نیاز ہے۔ اقبال کے ابلیس اور اس کے مشیر شیطنت کے باوجود ایک سلیقہ سخن رکھتے ہیں وہ بڑی نفیس گفتگو کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار پورے زور اثر کے ساتھ کرتے ہیں چنانچہ ان کا لطف بیان ان کے اس اضطراب پر بھی وہ ڈالتا ہے جس میں وہ سب مبتلا ہیں اور ان کے اندیشے ایک خوش فکر اور خوش گفتار فلسفی کے شبہات بن جاتے ہیں بہرحال وہ حالات کا تجزیہ گہرائی اور دوربینی کے ساتھ کرتے ہیں اور حقائق کو دلچسپ اور خیال انگیز انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے بالخصوص ابلیس کے طرز بیان میںشوخی کے ساتھ ساتھ شیخی دعا تحکم اور تمرد ہے ۔ لیکن یہ بالکل ان کے شیطانی کردار کے مطابق ہے۔ فنی اعتبار سے تمثیل کا یہ انداز بہت کارگر ہے ۔ کہ عصر حاضڑ کے غیر اسلامی رجحانات کے ابلیسی سرپرستوں اور اس نقطہ نظر کے ابلیسی مخالفوں کی جانب سے‘ ایک طنزیہ اسلوب میں ہوا ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ بہ وجوہ اقبال کے فن کا ایک زبردست اشاریہ ہے۔ یہ ایک فکری و پیامی نظم ہے مگر شاعرانہ استعارا ت و اشارات سے مملو ہے‘ حالانکہ سارا زور حکایت کے بلیغ اظہار پر ہے نہ کہ زبان و بیان کی آراستگی و پیراستگی پر۔ اس طرح کلام اقابال میں فطری طور سے سنجیدہ ترین موضوعات اور دقیق۔ ترین افکار بھی ایک لطیف و نفیس‘ پرشوکت اور پروقار انداز میں بروئے اظہار آتے ہیں شعریت کا یہ ملکہ اور فن کا یہ رسوخ اتنا ہموار و استوار ہے کہ آخری مجموعہ کلام کی ایک طویل نظم میں بھی شروع سے آخر تک قائم رہتا ہے۔ لہٰذا اقبال کا فن شاعری از اول تا آخر اپنی جگہ ایک نادر نمونہ کمال ہے۔ لیکن اس فن سے پوری طرح لطف اندوز ہونے اور اس کی صحیح طور سے قدر شناسی کے لیے ضروری ہے کہ شاعرکے نقطہ نظر سے اگر اتفاق نہ بھی ہو تو کم از کم اس کو سمجھا جائے ار اس کے خلاف کسی قسم کا تعصب فنی مطالعے میں حامل نہ ہو‘ اس لیے کہ معروضی انداز نظر فن کار کے لیے اتنا ضروری نہیںجتنا اس کے قاری کے لیے اور ناقد کے لیے ہے۔ ٭٭٭ اشاریہ شخصیات (ا) آدم۔ 61, 94, 206, 254, 273, 296, 306, 307, 308, 309, 310, 311, 312, 313, 314, 369, 383, 428, 462, 463, 466, 467, 476, 478, 479 آرنلڈ میتھیو۔ 57 آزاد ‘ محمد حسین۔ 69 آزر۔ 117 آغا خان‘ سر۔ 144 ابراہیم ؑ ۔ حضرت۔ 246. 248. 268, 270, 351, 362نیز دیکھیے خلیلؑ ابلیس (شیطان) 44, 284, 285, 304, 305, 306, 307, 308, 447, 451, 454, 463, 464 465, 466, 467, 468, 469, 470, 471, 472, 473, 476, 477, 479, 480, 481, 482 , 483, 485, 486, 487, 488 ابن عربی ؒ ‘ محی الدین 306, 467 احمد مرسلؐ 237نیز دیکھیے رسول اللہؐ اسرافیل 485, 459 اسرائیل 253 اسکندر (سکندر) 89, 246, 256, 298 اقبال 5, 6, 7, 8, 9, 10, 11, 12, 13, 14, 15, 16, 17, 18, 20, 24, 32, 34, 35, 36, 37, 38, 39, 40, 41, 42, 43, 44, 45, 46, 47, 48, 49, 50, 51, 53, 54, 55, 56, 57, 58, 59, 60, 61, 62, 63, 64, 66, 69, 70,, 71, 72, 73, 74, 75, 76, 77, 78, 79, 80, 82, 83, 84, 85, 87, 88, 89, 90, 94, 95, 94, 97, 99, 110, 111, 112, 114, 115, 116, 117, 118, 120, 121, 124, 129, 130, 131, 134, 135, 136, 137, 138, 139, 140, 142, 145, 146, 149, 154, 155, 163 , 168, 170, 175, 176 ,177, 178, 179, 180, 181, 184, 185, 186 ,187, 188, 193, 197, 198 ,199, 201, 202, 206, 207, 208, 209, 210, 211, 212, 213, 215, 216, 220, 222, 227, 229, 232, 233, 236, 240, 241, 243, 247, 249, 253, 255, 257, 258, 260, 261, 262, 263, 264, 270, 273, 274, 276, 277, 282, 283, 284, 285, 288, 289, 293, 294, 296, 297, 299 ,300, 301, 306, 307, 308, 314, 315, 320, 321, 326, 329, 330, 331, 333, 334, 335, 342, 343, 345, 346, 348, 349, 385, 360, 364, 365, 366, 370, 374, 375, 377, 380, 381, 382, 383, 393, 392, 397, 399, 400 ,404 407, 408, 410, 411, 412, 414, 419, 420, 422, 426, 427, 433, 434, 441, 443, 444, 446, 447, 449, 450, 451, 452, 454, 455, 457, 458, 459, 461, 462, 463, 464, 465, 466, 467 ,468, 470, 471, 472, 473, 474, 476, 477, 482, 487, 488 اکبر الہ آبادی144, 145 ایاز91 ,94, 253 ایبک ‘ قطب الدین26 ایلیٹ ٹی ایس 12, 51, 56, 57, 74 ب بائرن 13, 50, 180, 198 بایزید بسطامی 356, 357 برائوننگ 13 برنارڈ شا جارج 57, 464 بو الحسن147 بوذر (حضرت بوذر غفاریؓ) 269 بولہت 360, 361 بہزاد 33, 40 بیدل‘ میرزا عبدالقادر۔ 11, 13, 57, 124 پ پرویز 474, 475 پوپ 145 ٹ ٹیپو سلطان 299, 428 ٹینی سن 13, 193 ج جبرئیل (جبرئیل امیں روح القدس) 23, 33 ,55, 60, 61, 62 ,63 ,75, 103, 248, 249, 285 ,304 ,305 ,307 ,308 ,347 ,349 ,385 ,368 ,377 ,386 ,388 ,390 ,392 ,394 ,405 ,419, 420, 421, 425, 428 ,429, 463, 467, 472 جگر (مراد آبادی ) 70 جم ۔ (جمشید)۔ 256 جنیدؒ (بغدادی) 356, 357 چ چنگیز ۔ 474, 475 ح حافظ (شیرازی)11, 13, 33, 40, 42, 70, 71, 121, 135, 281 حالی (خواجہ الطاف حسین) 57, 68, 69, 72, 233, 234, 236 حسرت موہانی 70, 163 حسینؓ امام250, 351, 352, 354, 362 حمید اللہ خان نواب سر 412 خ خاقان 484, 487 خسرو (امیر) 26 خضرؑ 82, 185, 241, 242, 244, 245, 246, 248, 250, 252, 161, 262, 264, 266 خلیل ؑ (حضرت ابراہیمؑ) 21, 117, 249, 250, 259, 260, 247, 350, 353, 390, 391, 392, 39نیز دیکھیے ابراہیمؑ خیام عمر ۔ 154 د داغ۔ 20, 77, 84 دانتے11, 13 ,411 ر رازیؒ (امام) 24, 106, 360 رام ۔ 208, 209 رسول اللہؐ ۔ 133, 351, 372, 377, 382, 390, 422, 425, نیز دیکھیے محمدؐ س سامری۔ 253, 426, 427 سرافیل: 33, 60, 61, 63, 75نیز دیکھیے اسرافیل سعدی (شیرازی) 377 سلیم (سلطان) 356, 357 سلیمیٰ 222 سنائی (حکیم غزنوی ) 266 سنجر (سلطان) 356, 357 سوامی رام تیرتھ 209 سودا 71 سیزر ۔ 477 سینا (بوعلی) 265, 266 ش شیریں 475 شیکسپئیر ۔ 11, 13, 21, 45, 46, 50, 77, 181, 464 شیلی ۔ 13, 50 ,180, 198, 335, 336, 141, 342, 343 ص صدیقؓ (حضرت ابوبکرؓ) 232 ط طارق (بن زیاد) 285, 289 301, 356, 383 ع عبدالرحمان اول۔ 300, 383 عبدالقادر (سر) 213۔ عبدالمغنی 8 عرفی ۔ 21 عطار (فرید الدین) 24 علیؓ ۔ مولا ‘ حیدر۔ 147, 269 غ غالب مرزا۔ 13, 19, 36, 42, 54, 70, 71, 72, 79, 84, 121, 135, 136, 137, 163, 168, 169, 282 غزالی (امام) 24 غزنوی سلطان محمود۔ 61, 91, 94, 253, 350, 351, 353, 369 غوری (سلطان شہاب الدین) 26 ف فارابی (ابونصر) 21, 265, 266 فاطمہ بنت عبداللہ۔ 232 فراق گورکھپوری۔ 70 فردوسی۔ 11, 13 فرعون ۔ 134, 253, 393 فرہاد ، 33, 39 فغفور۔ 484, 487 ق قیس (مجنوں) 81, 88, 133, 185, 217, 225, 230, 237 ک کرزن (لارڈ) 144 کلیم ؑ (حضرت موسیٰؑ) 89, 215, 323, 367, 390, 391, 392, 393, 446, 476 نیز دیکھیے موسیٰؑ کلیم ‘ ابوطالب۔ 232 کولرج۔ 13, 180, 198 کیٹس ۔ 13, 36, 50, 180, 198 گ گرے 193 گیٹے ۔ 11, 13, 57 ل لوتھر مارٹن۔ 399 لیلیٰ ۔ 81, 88, 90, 185, 217, 219, 225, 230, 237, 428, 429 لینن 285, 288, 295, 296, 297, 463 م مارکس ‘کارل۔ 476, 477 محمد ؐ (مصطفی ‘ ختم الرسلؐ ‘ خاتم المرسلینؐ)۔ 126, 238, 246, 248, 268, 351, 360, 361, 362, 386, 388, 424 مزدک۔ 487, 483 مسولینی۔ 298, 299, 400, 447, 448, 449 مسیح ‘ ابن مریم‘ مسیح ناصری۔ 197, 476, 485 معتمد ۔ 300, 301, 383 معری ۔ ابوالعلائ۔ 374 ملٹن۔ 307, 466, 467, 468 موسیٰ کلیم اللہ۔ 134, 156, 246, 253, 362 میر(میرتقی)۔ 42, 49, 70, 71, 49, 117 ن نارنگ ڈاکٹر گوپی چند۔ 7 نانک (گرو) ۔ 208, 209 نپولین۔ 298 نمرود۔ 89, 246, 248, 351, 355, 393 و ورڈز ورتھ۔ 13 ,49, 50, 172, 179, 180, 181, 198, 326, 327, 329, 330, 335, 341, 342, 343, 344, 407, 408, 410, 411 ہ ہیرک‘ رابرٹ۔ 326, 328 ی ییٹس‘ ولیم بٹلر۔ 12, 50, 56 کتب ‘ رسائل ‘ منظومات ا آفتاب۔ 178 آفتاب صبح۔ 177 آواز غیب۔ 451, 452 ابر۔ 173 ابر کہسار۔ 171, 172 ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ۔ 247, 473 ابلیس کی عرضداشت۔ 473. 488 ابلیس کی مجلس شوریٰ ۔ 47, 284, 307, 451, 463, 464, 465, 467, 473 ابوالعلا معری۔ 374 ابی سینیا۔ 298, 447 اختر صبح ۔ 177 اذاں۔ 285, 301, 302 ارتقائ۔ 360 ارمغان حجاز۔ 138, 142, 145, 148, 179 ,232, 451, 462, 463, 465 اسیری۔ 208 اقبال اورعالمی ادب ۔ 5, 6 اقبال کا فن۔ 7 اقبال کا فن ۔ (مرتبہ گوپی چند نارنگ) 7 الارض اللہ ۔ 286 امید۔ 30 انسان ۔ 184 انسان اور بزم قدرت۔ 176 ایجاد معانی۔ 33 ایک پرندہ اور جگنو۔ 178 ایک پہاڑ اور گلہری ۔ 177 ایک شام۔ 173 ایک گائے اور بکری۔ 177 ایک مکالمہ۔ 178 ایک مکڑا اور مکھی۔ 177 ب بال جبریل ۔ 17, 22, 23, 24, 25, 26, 27, 28, 29, 39, 55, 62, 75, 88, 89, 95, 97, 98, 100, 101, 120, 129, 131, 135, 138, 139, 145, 178, 223, 232, 265, 284, 285, 289, 292, 298, 308 ,335, 346, 347, 350, 353, 356, 360, 372, 374, 377, 383, 412, 414, 448, 449, 451, 465, 467, 473 بانگ درا۔ 19, 20, 21, 76, 77, 90, 97, 99, 135, 138, 139, 142, 155, 164, 173, 177, 182, 183, 187, 194, 198, 210, 223, 232, 264, 284, 292, 360, 393, 407, 414, 445, 450, 451 بچہ اور شمع۔ 178, 182, 211 بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو۔ 451, 453 بزم انجم۔ 173 بلاد اسلامیہ۔ 213 حضرت بلالؓ۔ 232 پ پرندے کی فریاد۔ 178 پھول۔ 177 پھول کا تحفہ عطا ہونے پر۔ 194 پھولوں کی شہزادی ۔ 177 پیام۔ 194, 195 پیام صبح۔ 178 پیام عشق۔ 212 پیام مشرق۔ 282 پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ 178, 232 ت ترانہ ملی۔ 20, 213, 214 ترانہ ہندی ۔ 208, 213, 214 تسلیم و رضا۔ 417 تشکیل جدید۔ 6 تصوف۔ 42, 417 تصویر درد۔ 20, 199, 200, 201, 207, 208, 209, 212, 213, 216, 240, 242, 261, 284, 321, 445 تصویر و مصور۔ 451, 455 تضمین بر شعر ابوطالب کلیم۔ 232 تعلیم اور اس کے نتائج۔ 232 تعلیم جدید۔ 232 تعلیم و تربیت۔ 412 تقدیر۔ 306, 467, 470 تمہید(ضرب کلیم) ۔ 29 تہذیب حاضر۔ 232 تیاتر۔ 30 ٹ ٹنٹرن ایبے۔ 408, 410, 411 ج جادہ اعتدال ۔ 6 جان و تن۔ 29 جاوید کے نام۔ 28 جاوید نامہ ۔ 282, 411 جبریل و ابلیس۔ 285, 304, 463, 467, 472 جدائی۔ 178, 289 جگنو173 جلال و جمال۔ 31, 391 جلوہ حسن۔ 194, 195 جمہوریت۔ 474 جواب شکوہ۔ 199, 232 ,234, 235, 236, 237, 238, 239, 240, 241, 242, 364 چ چاند (۱) ۔ 173 چاند (۲) ۔ 173 چاند اور تارے ۔ 177 ح حسن و عشق۔ 183, 184, 194, 195 حضور رسالتمآبؐ میں۔ 232 حقیقت حسن۔ 184, 194 خ خانقاہ۔ 29 ,42 خضر راہ۔ 173, 178, 199, 223, 232, 240, 241, 264, 265, 266, 283, 284, 321, 365, 403, 463, 474 خطاب بہ نوجوانان اسلام۔ 213 خفتگان خاک سے استفسار۔ 187, 189 ,190 د داغ ۔ 20, 77 درد عشق ۔ 194, 196 دل ۔ 194, 196 دو ستارے۔ 177 دین و ہنر۔ 30 دیوان شمس تبریزؒ۔ 121, 136 ڈ ڈان جواں۔ 180, 411 ذ ذوق و شوق۔ 28, 3, 178, 240, 284, 285, 289, 289, 290, 321, 345, 346, 381, 403, 471 ر رات اور شاعر۔ 21, 173, 211 رام ۔ 208 رقص۔ 33 رقص و موسیقی۔ 33 روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے۔ 178, 285, 290, 308, 309, 383, 463 ز زبور عجم۔ 55, 100, 101, 120, 129, 282 زمانہ ۔ 285, 315 س ساقی نامہ ۔ 95, 178, 227, 240, 265, 284, 285, 289, 321, 365, 366, 375, 378, 381, 382, 384, 403 ستارہ۔ 173 سرگزشت آدم۔ 182 سرمایہ۔ 476 سرود۔ 30 سرود حرام۔ 32. 55 سرود حلال۔ 30, 55, 61, 63 سلطان ٹیپو کی وصیت۔ 299, 428 سلطنت۔ 208 سلیمیٰ۔ 184 سوامی رام تیرتھ۔ 208 سیاسیات مشرق و مغرب۔ 412 سید کی لوح تربت۔ 200, 211 سیر فلک۔ 177 ش شاعر۔ 19, 21, 32, 200, 211, 212 شاہین۔ 178, 285, 33, 0343, 344, 379, 455 شبنم اور ستارے۔ 177 شعاع آفتاب۔ 177 شعاع امید۔ 178, 265, 384, 431, 439, 445, 446, 447, 463 شعر۔ 33 شعر عجم۔ 32 شکوہ۔ 199, 213, 233, 234,235, 236, 237, 239, 240, 241, 242, 364, 378, 407, 444, 445 شمع۔ 183, 211, 216 شمع او ر شاعر۔ 199, 210, 212, 215, 216, 232, 233, 234, 240, 241, 242, 261, 282, 320, 321, 403, 446, 462, 463 شمع و پروانہ۔ 211 شیکسپیئر۔ 21, 181 ص صبح ۔ 62 صبح چمن۔ 178, 431, 436 صبح کا ستارہ ۔ 173 صدائے درد۔ 19, 199, 200, 208 صدیقؓ ۔ 232 صقلیہ۔ 213 ض ضرب کلیم۔ 29, 30, 31, 32, 33, 38, 39, 42, 55, 62, 63, 73, 95, 130, 131, 134, 138, 139, 142, 178, 179, 232, 265, 298, 299, 306, 308, 335, 391, 393, 412, 414, 439, 445, 447, 448, 449, 451, 463, 465, 467, 470, 473, 474 ط طارق کی دعا۔ 285, 299, 300, 301, 356, 383 طالب علم ۔ 429 طفل شیر خوار۔ 178 طلوع اسلام۔ 199, 223, 232, 240, 264, 265, 266, 282, 283, 284, 365, 393, 399, 403 ع عاشق ہرجائی۔ 194, 195 عالم برزخ۔ 451, 457 عبدالرحمان اول کا کھجو ر کا بویا ہوا پہلا درخت۔ 300 عبدالقادر کے نام۔ 213 عرفی۔ 21 علم و عشق ۔ 417, 418 عورت۔ 412, 430 عہد طفلی۔ 164, 165, 166,167 169, 171, 172 غ غزل الغزلیات۔ 59, 100, 120 ف فاطمہ بنت عبداللہ ۔ 232 فراق۔ 194, 195 فردوس میں ایک مکالمہ۔ 232 فرشتوں کا گیت۔ فرمان خدا۔ 285, 288, 290, 293, 308, 374, 383, 463 فلسفہ۔ 417 فلسفہ غم۔ 187, 189, 191 فنون لطیفہ۔ 31, 431, 437 ق قرآن کریم ‘ حکیم۔ 90, 133, 252, 417, 420, 425, 483 قطعہ۔ 213 قوت اور دین۔ 335 قید خانے میں معتمد کی فریاد۔ 301 ک کافر و مومن۔ 417 کفر و اسلام۔ 232 کلی173 کنار راوی۔ 173 کوشش ناتمام۔ 184 …کی گود میں بلی دیکھ کر۔ 194 گ گل پژ مردہ۔ 177 گل رنگیں 164, 165 ,166, 167 ,169, 171, 172, 321 گورستان شاہی۔ 173, 174, 175, 187, 188, 189, 190, 193, 213 ل لا الہ الا اللہ ۔ 63 لالہ صحرا۔ 178, 285, 320, 321, 326, 330, 344, 416, 455 لینن خدا کے حضور میں۔ 285, 288, 295, 463 م ماہ نو۔ 173 محبت ۔ 194, 197, 288 محراب گل افغان کے افکار۔ 179 مدنیت اسلام۔ 38, 73, 393, 417, 421 مذہب (۲) ۔ 232 مرد بزرگ۔ 39 مرد مسلماں۔ 73, 417, 419 مرزا غالب۔ 19 مسجد قرطبہ۔ 27, 28, 44, 63, 65, 67, 178, 220, 223, 232, 240, 265, 284, 285, 289, 301, 321, 381, 382, 383, 384, 385, 391, 392, 396, 397, 399, 403, 404, 406, 407, 408, 410, 463, 471 مسدس حالی۔ 233, 234, 236 مسلم ۔ 232 مسلمان ۔ 232 مسولینی۔ 298, 299, 447, 448 مصور۔ 31 مصلحین مشرق۔ 426 معراج۔ 416 معیار و اقدار۔ 6 مکالمات افلاطون۔ 430 ملازادہ صیغم لولابی کشمیری کا بیاض۔ 179 موج دریا۔ 173 موسیقی ۔ 33 مومن ۔ 417 ن نانک۔ 208 نپولین کے مزار پر۔ 298 نسیم و شبنم۔ 178, 431, 434 نغمہ دائود۔ 59, 100, 120 نقطہ نظر۔ 6, 7 نقوش لاہور۔ 7 نکتہ توحید۔ 417 نگاہ۔ 178, 431 نگاہ شوق۔ 431, 432 نمود صبح۔ 173 نوائے غم۔ 188 نوید صبح۔ 177 نیاشوالہ۔ 208, 209 و والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ 174, 175, 187, 188, 189, 192, 193 وصال۔ 194, 195 وطنیت۔ 213, 215 ہ ہسپانیہ۔ 300 ہلال عید۔ 213 ہمالہ۔ 47, 155, 169, 171, 172, 200, 321 ہمدردی۔ 177 ہندوستانی بچوں کا قومی گیت۔ 184, 208 ہنروران ہند۔ 32, 391 ٭٭٭ مقامات اور ادارے ا اشبیلیہ۔ 301 اضم ‘ کوہ۔ 80, 346, 347, 348 اطالیہ (اٹلی) ۔ 298, 398, 400 افریقہ۔ 228 الوند ‘ کوہ۔ 298 امریکہ۔ 38 اندلس۔ 213, 300, 393, 394 انگلستان۔ 262 ایران۔ 38, 475, 483 ایشیا۔ 38, 57, 104, 228, 246,246, 247, 255, 256, 266, 268, 277, 280, 281, 317, 413 ایمن ‘ وادی۔ 390, 391, 392, 394, 405 ب بخارا۔ 419, 420, 453 بدخشاں۔ 250, 252, 401, 419, 420 بدر۔ 350, 351, 353, 355 برصغیر۔ 157 برطانیہ۔ 255 بغداد۔ 105 بھوپال۔ 412 پ پارس (فارس) ۔ 23, 103, 259, 260, 426 پٹنہ۔ 8 ت تبریز۔ 267 ترکی۔ 272, 273, 281 تسنیم۔ 161 ٹ ٹنٹرن ایبے۔ 408 ج جاپان۔ 143 جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ 7 جرمنی۔ 272, 273, 398, 399 جہان آباد (دلی)۔ 77 چ چین۔ 213, 238, 247, 371, 426 ح حجاز۔ 103, 212, 221, 222, 259,260, 348, 350, 351, 353, 354, 396, 425, 426 حنین۔ 350, 351, 353, 355 د دجلہ۔ 214, 350, 351, 353, 354, 355, 390, 392 دلی۔ 7, 453 دینوب۔ 390, 392 ر رکنا باد۔ 80 روس ۔ 247, 293 روم (رومۃ الکبریٰ) 38, 398, 477 س سومنات۔ 98, 350, 351, 353, 368 سینا‘ وادی۔ 156, 323, 348, 349 ش شام۔ 103, 144, 348, 390, 392, 405, 426 شیراز۔ 80 ط طور سینا۔ 89, 93, 134, 156, 367 ع عالم گنج۔ 8 عراق۔ 23, 144, 354, 326 ف فاران ‘ وادی۔ 348, 349, 367 فرات۔ 350, 351, 353, 354, 355 فرانس۔ 398, 400 فرنگستان۔ 259, 260 فلسطین ۔ 144, 348 ق قرطبہ۔ 65, 389 ک کابل۔ 143, 267 کاشغر۔ 257 کاظمہ۔ 80, 321, 347, 348 کربلا۔ 351, 353 کعبہ۔ حرم بیت عتیق۔ 17, 18, 80, 81, 84, 89, 90, 98, 217, 257, 258, 271, 291, 292, 350, 351, 395, 396, 484, 487 کوثر۔ 161 کوفہ۔ 105 گ گنگا۔ 214 ل لاہور۔ 7 م مدینہ منورہ۔ 348, 393 مراقش۔ 238 مسجد قرطبہ۔ 27, 28, 44, 63, 64, 65, 67, 178, 220 ,223, 232, 240, 265, 284, 285, 289, 301, 321, 381, 382, 383, 384, 385, 388, 389, 191, 392, 393, 394, 396, 397, 398, 399, 401, 403, 404, 406, 407, 408, 410, 463, 471 مصر۔ 103, 139 مصلیٰ۔ 80 مکہ۔ 348 ن نجد۔ 80, 237 نیل ۔ 257, 390, 392 و وارثی کنج۔ 8 واتی۔ دریا۔ 408, 410 ولر۔ 141 ہ ہسپانیہ (اسپین) 300, 383, 388, 389, 396, 397, 401 ہمالہ۔ 47, 155, 156, 157, 158, 159, 160, 161, 162, 163, 164, 169, 171, 172, 200, 321, 367, 371 ہندوستان (ہند)۔ 38, 139, 144, 156, 203, 204, 212, 213, 214, 219, 221, 222, 252, 255, 258, 274, 390, 426, 428, 441, 443, 444, 447, 460, 462 ی یمن ۔ 396 یورپ۔ 38, 57, 144, 255, 272, 317, 400, 454, 481 یونان۔ 38, 329, 400 اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End