حکمت اقبال محمد رفیع الدین اقبال اکادمی پاکستان دیباچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم عرصہ درا زتک اقبال کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اقبال کے تصورات علمی اور عقلی اعتبار سے نہایت برجستہ‘ زوردار‘ درست اور ناقابل تردید ہیں اور اگرچہ یہ تصورات اس کی نظم ونثر کی کتابوں میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں تاہم ان میںایک عقلی اور ایک علمی ربط موجود ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب صرف ایک تصور سے ماخوذ ہیں جسے اقبال خودی کا تصور کہتا ہے۔ لہٰذا اقبال کی تشریح کامطلب یہ ہونا چاہیے کہ خودی کے مرکزی تصور کے ساتھ اس کے دوسرے تمام تصورات کے علمی اور عقلی ربط کو واضح کیا جائے اور اگر ایسا کرنے کے بغیر اس کی کوئی تشریح کی جائے گی تو وہ مسلمانوں کے لیے بالعموم اور غیر مسلموں کے لیے بالخصوص پوری طرح سے قابل فہم اور تسلی بخش نہیں ہو سکے گی۔ دراصل اس وقت بھی اقبال کے خیالات کے متعلق جس قدر غلط فہمیاں مسلمانوں یا غیر مسلموں میں پائی جاتی ہیں ان کا سبب یہی ہے کہ اقبال کے خیالات کی علمی اور عقلی ترتیب اور تنظیم مہیا نہیں کی گئی ۔ دوسرے الفاظ میں میرا نتیجہ یہ تھا کہ اقبال کا فلسفہ دنیا کے اور بڑے بڑے فلسفوں کی طرح بالقوہ انسان اور کائنات اکا ایک مکمل ارو مسلسل فلسفہ ہے جس کا امتیازی وصف یہ ہوتا ہے کہ اس کے تصورات میں ایک عقلی یا منطقی ترتیب اور تنظیم موجود ہوت ہے جواسے موثر اور یقین افروز بناتی ہے اور اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے تصورات کی مخفی عقلی ترتیب اور تنظیم کو آشکار کرکے اس کے فکر کو ایک مکمل نظام حکمت … Philosophical System…کی شکل دی جائے تاکہ وہ نہ صرف پاکستان کے اندر پوری طرح قابل فہم بن جائے بلکہ دنیا کے آخری باطل شکن عالمگیر فلسفہ کی حیثیت سے دنیا کے علمی حلقوں میں اپنا مقام حاصل کر سکے۔ لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہو خدا کی توفیق سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ نہایت ضروری تھا۔ کہ اس کام کو انجام دینے کے لیے جو کتاب لکھی جائے اس میں ذیل کے راہ نما اصولوں کو شروع ہی سے مد نظر رکھا جائے: اول: ایک فلسفہ یا نظام حکمت اشخاص کی سند یا شہادت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ علمی حقائق اور عقلی استدلال پر اپنا دارومدار رکھتا ہے اس کے کسی تصور کو اس لیے نہیںمانا جاتاکہ کوئی شخص اس کی حمایت یا سفارش کر رہاہے بلکہ اس لیے مانا جاتاہے کہ وہ ایسے علمی حقائق پر مبنی ہے جو معلوم اور مسلم ہیں یا جن کے عقب میں ایسا زوردار عقلی استدلال موجود ہے جو ان سے انکار کی گنجائش باقی نہیںرہنے دیتا۔ اگر فلسفہ میں سند یا شہادت پیش کی جائے تو وہ صرف موثر علمی اور عقلی استدلال کے بعد اس کے نتائج کی تائید مزید کے لیے ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی فلسفی کی اپنی نہیں بلکہ ایسے دوسرے اشخاص کی سند یا شہادت ہی ہو سکتی ہے جن کے فکر کی عظمت سے مسلم ہو۔ جس طرح ہیگل یا کسی اور فلسفی نے اپنے کسی حکیمانہ نکتہ کو ثابت کرنے یا لوگوں سے منوانے کے لیے کبھی اپنا ہی کوئی قول بطور دلیل پیش نہیں کیا ہم بھی اقبال کے نظام حکمت کی تدوین کرتے ہوئے اقبال کے کسی حکیمانہ نکتہ کو ثابت کرنے یا لوگوں سے منوانے کے لیے خود اقبال کا ہی کوئی قول یا دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ اور خود اقبال نے بھی اپنے تصورات کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کبھی اپنے قول کو بطور دلیل کے پیش نہیں کیا۔ بلکہ قوانین قدرت اور حقائق علمی کی طرف اشارے کیے ہیں۔ لہٰذا اقبال کے نظام حکمت کی تدوین کے لیے جو کتاب لکھی جائے گی اس میں اقبال کا حوالہ نہیں دیاجائے گا بلکہ فقط علمی حقائق اور عقلی استدلال کی مدد سے اقبال کے تصورات کی صحت اور معقولیت کو ثابت کیاجائے گا۔ دوئم: اقبال کے تصورا ت کو علمی اور عقلی اعتبار سے مرتب کرنے اور منظم کرنے اور ان کی صحت اور معقولیت کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ تمام ایسے علمی حقائق کو ان کی عقلی اور علمی بنیادوں کے سمیت کام میں لایا جائے جو آج تک دریافت ہو چکے ہیں اور اقبال کے تصورات کی تائید کرتے ہیںخواہ ان کو دریافت کرنے والا فلسفی یا سائنس دان کوئی ہو اور دنیا کے کسی خطہ سے تعلق رکھتا ہو۔ سوئم: ان تمام حکیمانہ تصورات و نظریات کو علمی اور عقلی اعتبار سے غلط ثابت کیا جائے گا جو اقبال کے فکر اور اس کے مضمرات سے ٹکراتے ہیں کیونکہ وہ درحقیقت صحیح نہیںہیں اور معقول استدلال کی روشنی میں ان کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے کے بغیر اقبال اپنے حکیمانہ تصورات کی صحت اور معقولیت کی پوری پوری وضاحت نہ ہو سکے گی اور لوگوں کو معلوم نہ ہو سکے گا کہ آیا کسی خاص فلسفیانہ مسئلہ کے متعلق صحیح نقطہ نظر اقبال کا ہے یا ان نظریات کو جو اس کے فکر کے بالمقابل ہیں اور اگر صحیح نقطہ نظر اقبا ل کا ہی ہے تو اس کی علمی اور عقلی وجوہات کیا ہیں۔ چہارم: کتاب انگریزی زبان میں ہو گی۔ تاکہ دنیاکے علمی حلقوںمیں اقبال کے فلسفہ کو پڑھا جا سکے اور پرکھا جا سکے۔ دوسرے فلسفوں کے بالمقابل اس کے علمی مقام کو معین کیا جا سکے اوراس کی معقولیت اور عظمت کو تسلیم کیا جا سکے۔ ان راہ نما اصولوں کی روشنی میں اقبال کے نظام حمت کی تدوین کے لیے جو کتاب لکھنے کی توفیق مجھے خدا نے عطا کی اس کا نام آئیڈیالوجی آف دی فیوچر (Ideology of the Future)ہے ۔ یہ کتاب جون 1942ء میں مکمل ہوئی تھی اور اگست 1946ء میں طبع ہوئی تھی۔ ا س کتاب کی اشاعت کے تقریباً بیس سال بعد میںنے ان ہی راہ نما اصولوں کی روشنی میں فلسفہ تعلیم پر اس کتاب کے ایک با ب کی مزید تشریح او ر توسیع کر کے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام تعلیم کے ابتدائی اصول (First Priciples of Education)ہے۔ دراصل میری سادہ تحریریں’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ (یعنی اقبال کے فلسفہ خودی) کے تصورات اور موضوعات کی مزید تشریح اور توسیع کے طور پر لکھی گئی ہے۔ چونکہ اقبال نے اپنے فلسفہ خودی کے ذریعے سے ہی اسلام کی فلسفیانہ تشریح کی ہے اور فلسفہ خودی اسلام ہی کا فلسفہ ہے لہٰذا اگر آپ میری کتاب ’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ اقبال کا نظام حکمت ہے تو پھر وہ معاً اسلام کا نظام حکمت بھی ہے۔ لیکن چونکہ یہ کتاب بظاہر مطلق فلسفہ کی کتاب ہے ۔ لیکن چونکہ یہ کتا ب بظاہر مطلق فلسفہ کی کتاب ہے جس میں نہ تو اقبال کا کوئی حوالہ ہے اور نہ قرآن و حدیث کا ۔ اس لیے اس کو پڑھنے والے اسے بالعموم فلسفہ اقبال یا فلسفہ اسلام کی حیثیت سے نہیںبلکہ ایک مطلق فلسفہ کی حیثیت سے پڑھتے رہے ہیں۔ لہٰذا اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی ایک طرف اقبال کے چاہنے والوں کی یہ شکایت باقی رہی کہ اقبال پر لکھنے والوں میں سے کسی نے اقبالکے فلسفہ خودی کو ایک مسلسل عقلی نظا م کے طور پر پیش نہین خیا یا اس کی مکمل تشریح نہیںکی اور دوسری طرف اسلام سے دلچسپی رکھنے والے بھی بدستور یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دور میں اسلام بے برگشتہ تعلیم یافت مسلمانوں میں اور غیر مسلموںمیں اسلام کی تبلیغ کے لیے تعلیمات اسلام کی علمی اور عقلی بنیادیں واضح کرنے اور لہٰذا اسلام کو ایک نظام حکمت کے طور پر پیش کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس صورت کی بنا پر میں نے سمجھا کہ ہماری قو م کے ذوق کے پیش نظر اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی پر دو اور کتابیں لکھی جائیں جن میں سے ایک تو ایسی ہو کہ اس میں فلسفہ خودی کو قرآن او ر حدیث کے حوالوں کے ساتھ اسلام کے ایک فسلفہ کے طور پر پیش کیا جائے اور دوسری ایسی ہوکہ اس میں فلسفہ خودی کو اقبال کے حوالوں کے ساتھ اقبال کے فلسفہ کے طورپر پیش کیا جائے خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان دونوں کتابوں کے لکھنے کی توفیق دی۔ پہلی کتاب جس کا عنوان ’’قرآن اورعلم جدید‘‘ ہے میں نے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے لیے 1951ء میں لکھی تھی۔ اور دوسری کتاب ’’حکمت اقبال‘‘ کے نام سے اب پیش کر رہا ہوں ۔ حاص یہ ہے کہ جس حد تک مجھے خدا کی توفیق حاصل ہوئی ہے میںنے یہ تینوں کتابیں اس طرح سے رکھی ہیں کہ مجھے امید ہے کہ جو احباب اقبال کے فلسفہ خودی کا یا اسلام کا مطالعہ ایک خالص اور منظم فلسفہ یا سائنس کے طور پر کرنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر کا مطالعہ مفید مطلب پائیں گے(اس کتاب کے تیسرے ایڈیشن کے ناشر شیخ محمد اشرف ‘ کشمیری بازار لاہور ہیں) اور جو فلسفہ خودی کامطالعہ اسلام کے ایک فلسفہ کے طورپر کرنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ کا مطالعہ دلچسپی کا باعث پائیں گے اور پھر جو فلسفہ خودی کا مطالعہ اقبال کے حوالوں کی روشنی میں اقبال کے فلسفہ کے طورپر کرنا چاہتے ہیں وہ زیر نظر کتاب ’’حکمت اقبال‘ کا مطالعہ مدعا کے مطابق پائیں گے۔ امید ہے کہ جو احباب ان تینو ں کتابوں کامطالعہ کریں گے وہ دیکھیں گے کہ فلسفہ خودی کی مفصل تشریح کی حیثیت سے یہ تینوں کتابیں ایک دوسرے کی کمی کو پورا کرتی ہیں۔ ٭٭٭ پیش لفظ ڈاکٹر محمد رفیع الدین (1904-1965)پاکستان کے ان مایہ ناز اہل علم میں سے ہیں جن کے علمی کاموں کے نقوش ہماری مذہبی و ثقافتی زندگی پر نہایت گہرے ہیں انہوںنے علم و فکر کے متعدد چراغ روشن کیے اور دور جدید میںاسلام کی تعبیر و تشریح کے میدان میں حکیم الامت علامہ اقبال کی فکر کو آگے بڑھانے کی سعی فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب نے متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا۔ لیکن بنیادی طور پر ان کی فکر اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر مرکو ز رہی۔ ان کی تصانیف میں اسلام کی حقانیت پر اعتماد کا رنگ نہایت گہرا ہے اور وہ اسے نہ صرف ماضی کی ایک درخشاں حقیقت سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک انسانیت کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی اسلام ہی ہے ان کی آرزو تھی کہ اسلام کی ایسی تعبیر و تشریح کی جائے جو ایک طرف اس کے اصل وجوہر سے پوری مطابقت رکھے تو دوسری طرف عصر حاضر کے سیاقمیں نوع انسانی کے لیے ایک رہنما قوت کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں ممد و معاون ہو۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین کے نزدیک علامہ اقبال کا فکری کام نہایت دقیع تھا۔ چنانچہ فکر اقبال کی ترویج و ترقی ان کے نزدیک اسلام کی تائید و حمایت اور باطن کی تردید کے ہم معنی تھی۔ حکمت اقبال کا پہلا ایڈیشن ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی زندگی میں ہی لاہور کے ایک ادارے نے شائع کیا ہے جو عرصہ سے نایاب تھا۔ ادارہ تحقیقات اسلامی چودھری مظفر حسین صاحب سیکرٹری‘ مسلم ایجوکیشنل کانگریس لاہو ر کا شکر گزار ہے کہ انہوںنے اقبال کے فلسفہ پر اس اہم ترین کتاب کی طباعت کے لیے اس ادارے کا انتخاب فرمایا۔ میں اس حقیقت کااظہار کیے بغیرنہیںرہ سکتا کہ ادارہ کو اس کتاب کی اشاعت کی سعادت جناب محترم ملک معراج خال صاحب ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی وساطت سے حاصل ہوئی۔ ملک صاحب نہ صرف علامہ اقبال سے گہری عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب مرحوم کی علمی خدمات کے قدردان بھی ہیں۔ ’’حکمت اقبال‘‘ کی اشاعت میں ان کی دلچسپی جہاں ان کی علم دوستی کی مظہر ہے وہاں اس ادارے کی سرپرستی کی بھی غماز ہے۔ موجودہ ایڈیشن اردو کمپوزنگ کے ساتھ لیتھو کی بجائے آفسٹ پر طبع کیا گیا ہے‘ اور اس میں پہلے ایڈیشن کی خامیوں کو دور کرنے کا حتی المقدور اہتمام کیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ادارہ تحقیقات اسلامی کی یہ خدمت اہل علم میں بالعموم اور فکر اقبال سے دل چسپی رکھنے والوں میں بالخصوص قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ ظفر اسحاق انصاری ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی‘ اسلام آباد 28دسمبر 1995ء ٭٭٭ حکمت اقبال پر ایک عمومی نظر حکمت اقبال میں تصور خودی کا مقام اقبال کے تمام حکیمانہ افکار کر سرچشمہ صرف ایک تصور ہے جسے اقبال نے خودی کانام دیا ہے۔ اقبال کے تمام تصورات اسی ایک تصور سے ماخوذ ہیں اور اس سے علمی اور عقلی طورپر وابستہ ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے تمام تصورات خود ایک دوسرے کے ساتھ بھی ایک علمی اور عقلی رشتہ میں منسلک ہیں اور اقبال کا فکر ایک ایسے نظام حکمت کی صورت میں ہے جس کا ہر تصور دوسرے تمام تصورات علمی سے اور عقلی تائید اور توثیق حاصل کرتا ہے۔ جب تک ہم اس نظام حمت کے مرکز یعنی تصوری خودی کو ٹھیک طرح نہ سمجھیں ہم اقبال کے کسی تصور کو بھی ٹھیک سے نہیںسمجھ سکتے اور اس کے برعکس جب تک ہم اقبال کے ہر تصور کو جو اس کے نزدیک خودی کے حاصلات یا مضمرات میں سے ہے پوری طرح نہ سمجھ لیں ہم خودی کے تصور کو پوری طرح سے نہیںسمجھ سکتے اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبا ل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے افکار کو الگ الگ کر کے اپنے غور و فکر کا موضوع نہ بنائیں بلکہ ا س کے پورے فکر کا مطالعہ ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے کریں۔ ظاہر ہے کہ جب اقبا کا ہرتصور ایک پورے نظام فکر کا جزو ہے اوریہ پورا نظام فکر اس کی تشریح اور تفہیم کرتا ہے تو ہمارے لیے ضروری ہو جاتاہے کہ ہم اسے اس نظام کے جزو کی حیثیت سے ہی زیر غور لائیںَ اگر ہم ا س پورے نظام فکر سے الگ الگ کر کے یا اس کے کسی پہلو کو نظر انداز کر کے یا حذف کر کے یا غیر ضروری قرار دے کر ا س پر غور کریں گے تو اس کے صحیح مفہوم پر حاوی نہ ہو سکیں گے۔ جب تک ہم اقبال کے کسی تصور کی ماہیت کو اس کے پورے نظام فکر کی روشنی میں او ر اس کے باقی ماندہ تصورات کی مددسے معین نہ کریں گے وہ ہمارا اپنا پسندیدہ تصور ہو تو اقبال کا تصور نہیںہو سکتا۔ اقبال کا تصور تو وہی ہو سکتا ہے جس کی ماہیت اس کے پورے نظام فکر نے معین کی ہو۔ جب ہم ایک نظام حکمت کے کسی جزو کو اس سے الگ کر دیں تو وہ اسی طرح سے مردہ ہو جاتا ہے جس طرح کہ جسم حیوانی کا ایک عضو جسم سے کاٹ دیا جائے تو وہ مردہ ہو جاتا ہے۔ یہ اصول فہم اقبال کے لیے ایک کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبا ل کا مطالعہ کرنے والوں یا اقبال پر لکھنے والوں میںخواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی آج اقبال کے نظریات کے بارہ میںجس قدر غلط فہمیاںپائی جاتی ہیں جس قدر مباحثے یا اختلافات موجود ہیں جس قدر ان نظریات کو نادانستہ طور پر اپنے اپنے خیالات کی تائید میں استعمال کرنے کی غلط کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان کے مفہوم کے اندر تضادات کے شبہات پید ا کیے جا رہے ہیں ان سب کا باعث یہی ہے کہ انہوںنے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھا۔ ایک ایسے فلسفہ کے انر جس کے تمام تصورات صرف ایک ہی مرکز ی یا بنیادی تصور سے ماخوذ ہوں حقیقی تضادات کا ہونا ناممکن ہے ایسی حالت میں تضاد پڑھنے والے کے ذہن میں ہو تو ہو لیکن فلسفی کے ذہن میں نہیںہو سکتا۔ روضہ تاج محل ایک خوبصورت کل یا وحدت ہے جس میں کہیں کوئی تضاد موجود نہیںجس کی ہر اینٹ اس کی پوری وحدت کے ساتھ ہم آہنگ ہے لیکن فرض کیا کہ کسی حادثہ کی وجہ سے اس کے بیسیوں ٹکڑے ہو جاتے ہیں جو دور دور بکھر جاتے ہیں اگر وہاں سے کوئی ایسا شخص گزرے جس نے روضہ تاج محل کو ایک مربوط اور منظم کل کے طور پر کبھی نہ دیکھا ہو تو شاید بعض ٹکڑوں کے باہمی ربط کو سمجھ جائے لیکن بہت سے ٹکڑے ایسے ہوں گے جن کو وہ بے معنی اور بے ربط سمجھنے پر مجبور ہو گا حالانکہ ان میں سے کوئی ٹکڑا بھی ایسا نہ ہو گا جو اس ٹوٹ پھوٹ جانے والی خوبصورت عمارت کے کسی نہ کسیکونہ میں اپنی جگہ نہ رکھتا ہو۔ اقبال کے فلسفہ کا حال بھی ایسا ہی ہے اس کے تمام تصورات اس کے اندر اپنا عقلی ربط اور ضبط رکھتے ہیں۔ لیکن موجودہ صورت میں بکھرے ہوئے پڑے ہیں۔ ہم اقبال کے فلسفہ میں تضاد کا شبہ صرف اسی موقعہ پر کر سکتے ہیں جہاں ہم اس کے کسی تصور کو اس حد تک نہ سمجھ سکیں کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ اس کے بنیادی یا مرکزی تصور خودی کے ساتھ ا س کا عقلی اور علمی ربط کیا ہے اور لہٰذا اس کے پورے فلسفہ میں اس کا مقام یا محل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اقبال کے اوسط درجہ کے مطالعہ کرنے والے کے پاس اقبال کا فلسفہ منظم صورت میں موجود نہ ہو گا تو دوران مطالعہ میں اس کے لیے بارہا اس قسم کے مواقع کا پیش آنا ضروری ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کے فلسفہ کو منظم اور مربوط شکل میں پیش کرنا اقبال کی تشریح اور تفہیم کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ حکمت کی نوعیت اور ضرورت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود فکر یا حکمت کی نوعیت کیا ہے اور ہمیں اس کی ضرورت کیا ہے؟ اور پھر اقبال کا فکر ایک نظام حکمت کی صورت میں کیوں ہے؟ اقبال نے ایک ہی حقیقت پر اپنے افکار کی بنیاد کیوںرکھی ہے؟ کیااقبال کا یہ طرز عمل ضروری تھا یا محض اتفاقی ہے اور خود اقبال کے فکر کی اہمیت کیا ہے کہ اس کی تنظیم اور تشریح اور تفہیم ضروری سمجھی جائے۔ ہم شاید اس سوا ل کو نظر اندا ز کر دیتے لیکن حکمت اقبال کی منظم تشریح کے لیے اس سوال کا اٹھانا اور اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جس کائنات میں وہ آ نکلا ہے اس کی حقیقت معلوم کرے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کائنات کی حقیقت معلوم نہ ہو گی وہ جان نہیں سکتا کہ خود اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق کیاہے۔ کائنات کی حقیقت سے اسے اپنی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کیونکہ وہ خود بھی کائنات کا ایک اہم جزو ہے ۔ اور اپنی حقیقت وہ اس لے جاننا چاہتا ہے کہ تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ اسے اپنی عملی زندگی کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے اور اس زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ اپنی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کرے کہ ا س سے اپنے لیے اسی دنیا میں یا اگلی دنیا میں (اگر وہ بھی ہو تو) بہترین قسم کے نتائج اور ثمرات حاصل کر سکے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے متعلق ہر قسم کے تسلی بخش سوالات کا جواب حاصل کر لے گا تو اسی جواب میں اسے اپنے متعلق ہر قسم کے ممکن سوالات کا تسلی بخش جواب بھی مل جائے گا اور پھر وہ اس جواب کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کا صحیح حل معلوم کر سکے گا اور اپنی زندگی کا استعمال صحیح طریقے سے کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی حقیقت کا جو تصور بھی وہ قائم کرتا ہے وہ اپنی عملی زندگی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے مطابق بناتا ہے گویا اس کے لیے حقیقت تلاش کرنے نہ تو کوئی تفریح مشغلہ ہے اور نہ ہی کوئی علمی یا نظری مسئلہ بلکہ ایک شدید عملی ضرورت ہے جس کی اچھی یا بری تشفی اس کی روز مرہ زندگی کے تمام حالات اور اس کی تمام چھوٹی اور بڑی تفصیلات کو معین کرتی ہے۔ بدنی ضروریات کی تشفی کو تو ہم ایک عرصہ تک التوامیں بھی ڈال سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس ذہنی اور عملی ضرورت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ملتوی کر دیں تو ہمارا دماغی توازن بگڑنے لگتا ہے اور ہم جنون‘ ہسٹریا ‘ خوف ‘ غم ‘ پریشانی ایسے ذہنی امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ حکمت اقبال کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ وہی حکمت ہے جو انسان کی ذہنی اور عملی ضروریات کو پورا کرتی ہے یا نہیںَ حکمت کی عمومیت یہ کہنا غلط ہے کہ حقیقت کائنات کے تصورات یا نظریات حکما یا فلاسفہ سے مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل انسان کی فطرت اس طرح سے بنی ہے کہ آج تک کوئی تندرست فرد عالم یا جاہل ایسا نہیںہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے جو حقیقت کا ئنات کا کوئی اچھا یا برا صحیح یا غلط مختصر یا مفصل منظم یا غیر منظم عالمانہ یا جاہلانہ تصور نہ رکھے اور اپنی ساری زندگی کو اس کے مطابق نہ بنائے۔ حکما یا فلاسفہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اور لوگوں کی نسبت زیادہ ذہین اور زیادہ باریک بین ہوتے ہیں اور اپنے ذوق اور اپنی افتاد طبیعت کے لحاظ سے حقیقت کائنات کے مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے زیادہ موزوں اورمستعد ہوتے ہیں جس سے بعض افراد عام لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرنے یا کپڑا بننے یا اور بدنی ضروریات کی چیزیں تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے نوع بشر کے حکما اور فلاسفہ عام لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت کی چیز یعنی حقیقت کائنات کا صحیح تصور جو ہماری ذہنی اور روحانی سطح کی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقیقت کائنات کے متعلق خو دان کا اور دوسرے لوگوں کا تصور زیادہ سے زیادہ صحیح ہو تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ صحیح بنا سکیںَ لیکن حقیقت کائنات کے تصور کی ضرورت ہر انسان کے لیے اس قدر شدید اور فوری اور ناقابل التوا ہوتی ہے کہ لوگ کبھی فلسفیوں اور حکیموں کی تحقیق اور تجسس کے ایسے نتائج کا اظہار نہیںکرتے جو آئندہ کسی وقت دستیاب ہونے والے ہوں بلکہ جو نظریات پہلے ہی موجود ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ قبول کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں اور وہی نظریہ اپنی اولادوں کو وراثت میں سونپ جاتے ہیں لیکن اگر بعد میں آنے والی نسلیں کسی اور نظریہ سے جو کسی اور حکیم یا فلسفی نے پیش کیا ہو متاثر ہو جائیں تو اپنے نظریہ کو بدل لیتی ہیں اور پھر ان کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق بدل جاتی ہے تاریخ کے بڑے بڑے انقلاات اسی طرح دانائوں فلسفیوں اور حکیموں کے نظریات سے پیدا ہوتے ہیں۔ وحدت کائنات حکما اور فلاسفہ ہر دو ر میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے جو بعد میں آتے ہیں اپنے متقدمین کے فکرکی غلطیاں نکالنے اور درست کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کے اختلافات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اگرچہ فلسفیوں اور حکیموںکا پورا گروہ ابھی تک حقیقت کائنات کا صحیح تصور پیش کرنے سے قاصر رہا ہے تاہم جب سے اس گروہ نے حقیقت کائنات پر غور و خوض کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر آج تک یہ ایک پراسرار وجدانی شہادت کی بنا پر اس بات کا پختہ یقین ان پر غالب رہا ہے کہ کائنات ایک یکساں کل یا وحدت ہے یعنی وہ فاصلہ اور وقت دونوں کے اعتبار سے ایسے منطقوں یا حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جن میںمتضاد قسم کے قوانین قدرت جاری ہوںَ کائنات کے قوانین مسلسل اور مستقل ہیں۔ وہ نہ صرف ہر جگہ پر ایک ہی رہتے ہیں بلکہ ہر زمانہ میں بھی ایک ہی رہتے ہیں۔ وحدت کا عالم یہ وجدانی اعتقاد تمام بڑے بڑے حکیموں‘ فلسفیوں اور سائنس دانوں کے فکر میں خواہ وہ تصوریت پرست ہوں یا مادیت پرست‘ ایک قدر مشترک کا حکم رکھتا ہے۔ اگرچہ کوئی بڑا فلسفی یا سائنس دان اس کی صحت کی دلیل طلب نہیںکرتا بلکہ آغاز ہی سے اسے اپنے مسلمات میں شمار کرتا ہے تاہم اس کی صحت کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ وہ آج تک غلط ثابت نہیںہو سکا۔ سائنس اور فلسفہ کی تمام ترقیات جو اب تک وجودم میں آئی ہیں ان کی بنیاد یہی حقیقت ہے کہ اور وہ سب مل کر اس کی صحت کی شہادت دیتی ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ اگر جویان حق و صداقت اور طالبان علم و حقیقت اس عقیدہ سے آغاز نہ کرتے اور یہ عقیدہ صحیح نہ ہوتا تو کائنات ایک وحدت ہے اور اس کی تعمیر کے اندر ایک تسلسل موجود ہے جو کہیں نہیں ٹوٹتا تو سائنس اور فلسفہ دونوں ممکن نہ ہوتے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو سائنس دان اور فلسفی دونوں کو اپنے اپنے دائر ہ میں علمی تحقیق کے لیے اکساتا ہے اور اسی کی تصدیق سے وہ اپنی علمی تحقیق کے نتائج پر مطمئن ہوتے اور اس کیر اہ پر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ ظاہر ے کہ اگر فلسفی یا سائنس دان کو معلو م ہو جائے کہ جو علمی حقیقت اس نے دریافت کی ہے وہ محض وقتی اورمقامی ہے اور اس کی متبادل یا متوازی علمی حقیقتیں اس کائنات میںاور بہت سی ہیں یا آئندہ ہو سکتی ہیں(مثلاً یہ کہ پانی ایک ہی مقام پر کبھی ایک درجہ حرارت پر ابلتاہے اور کبھی دوسرے پر یا سطح سمندر سے ایک ہی بلندی پر کہیں ایک درجہ حرارت پر ابلتا ہے کہیں دوسرے پر) تو وہ اپنی تحقیق کے اس نتیجہ کو بیکار سمجھ کر چھوڑ دے گا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے ایک انسان کے لیے تو وحدت عالم کا نتیجہ ناگزیر ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے اور اس کا مقصد پوری کائنات میں کارفرما ہے۔ اسی طرح سے ایک تصوریت پرست فلسفی کا حکیمانہ زاویہ نگاہ بھی ا س عقیدہ کا تقاضا کرتا ہے لیکن یہ بات فطرت انسانی کے نہایت ہی اہم سربستہ رموز کو منکشف کرنے والی ہے جو کارل مارکس اور اس جیسے دوسرے حکمائے مارپین بھی اس عقیدہ سے پہلوتہی نہیں کر سکے۔ وحدت کائنات کے مضمرات وحدت کائنات کا مسلمہ ہمیں کئی نتائج کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ اول: کسی کثرت کے اندر وحدت کا ہونا نظم کے بغیر ممکن نہیں اور نظم ایک مرکزی اصول کے بغیر محال ہے۔ لہٰذا کوئی تصور ایسا ہونا چاہیے کہ جو کائنات کی وحدت کا اصول ہو جو ایک ایسے رشتہ کی طرح ہو جو کائنات کی کثرت کو پرو کر ایک وحدت بناتا ہو۔ دوم: کائنات کی وحدت کے اصول کو کائنات کی آخری اور بنیادی حقیقت ہوناچاہیے اور باقی تمام حقائق عالم کو اس کے مظاہر۔ کیونکہ اگر وہ اس حقیقت کے مظاہر نہ ہوں تو وہ ان میں اتحاد اور نظم پیدا نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ حقائق اپنی فطرت کے اختلافات کی وجہ سے اس قابل رہتے ہیں کہ ان میں اتحاد اورنظم پیدا کیا جا سکے۔ سوم: کائنات کی وحدت بطور وحدت کے عقلی طور پر سمجھ میں آنی چاہیے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام حقائق عالم کائنات کی بنیادی حقیقت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ساتھ عقلی طور پر وابستہ ہوں اور اس باہمی وابستگی کے سبب سے ایک ایسی زنجیر کی صورت اختیار کریں سج کا پہلا اور آخری حلقہ کائنات کی وہی بنیادی حقیقت ہو اور جس کے تمام حلقے ایسے ہوں کہ ہر حلقہ اگلے حلقے کی طرف راہ نمائی کر رہا ہو۔ حکما حقائق عالم کی ایسی ہی رنجیر کو نظام حکمت (Philosophical System)کا نام دیتے ہیں۔ چہارم: اگر ہم حقائق عالم میں سے کسی حقیقت کی علت بیان کیں تو وہ علت اس حقیقت کی تشریح تو کر دیتی ہے لیکن خود کئی سوالات پیدا کر دیتی ہے اور پھر ان سوالات کا جواب اور سوالات پیدا کرتا ہے اور علی ہذا القیاس یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اگر کائنات کو ایک وحدت مانا جائے تو ضروری ہو گا کہ ان پے در پے پیدا ہونے والے سوالات کا آخری جواب اور ہر حقیقت کی آخری تشریح کائنات کی وہی حقیقت ہو جو حقیقت الحقائق ہے۔ پنجم: اصول وحدت کائنات یا حقیقت کائنات کے ہزاروں تصورات ممکن ہیں لیکن ان میں صحیح تصور صرف ایک ہی ہوسکتا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو کائنات کی وحدت ختم ہو جاتی ہے۔ اور ضروری ہے کہ کائنات کے تمام صحیح اور سچے حقائق صرف اسی ایک تصور کے ساتھ علمی اور عقلی مطابقت رکھتے ہوں اور کسی دوسرے غلط تصور کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں اور جب کائنات کا صحیح نظام حکمت وجود میں آئے تو اس کا مرکزی اور بنیادی نقطہ یہی تصور حقیقت ہو۔ اگر کوئی ایک سچی حقیقت بھی ایسی ہو جو کسی نظام حکمت کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ نظام حکمت کسی غلط حقیقت پر مبنی ہے اور اگر کوئی علمی حقیقت جسے علمی حقیقت سمجھا جا رہا ہے کسی صحیح نظام حکمت کے ساتھ جو صحیح تصور حقیقت پر مبنی نہ ہو مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ علمی حقیقت علم کے معروف اور مسلم معیاروں پر پوری نہ اتر سکے گی۔ غلط تصورات صحیح نظام حکمت کے اندر نہیں سما سکتے اور صحیح تصورات غلط نظام حکمت کے اندر داخل ہو کر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتے۔ لیکن صحیح نظام حکمت ہر دور میں تمام صحیح تصورات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اوریہی اس کی صحت کا قابل اعتماد معیار ہوتا ہے۔ ششم: وحدت کائنات کا مطلب یہ ہے کہ حقائق عالم ایک عقلی ترتیب اور تنظیم اختیار کر سکتے ہیں حقائق عالم کی عقلی ترتیب اورتنظیم ہمارے معلوم اور نامعلوم حقائق کے درمیان ایک رابطہ یا کوشش پید اکرتی ہے۔ اور ہمیں ا س قابل بناتی ہے کہ ہم معلوم حقائق کی مدد سے نامعلوم حقائق کو پیہم دریافت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ عالم کے سلسلہ کی ساری کڑیاں اپنی اصلی عقلی ترتیب کے ساتھ ہمارے احاطہ علم میں آ جائیں۔ سائنس دان اور فلسفی دونوں اس کام کو انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی کوششوں سے معلوم حقائق کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جوں جوں ان کی تعداد زیادہ ہوتی چلی جائے گی صحیح اور سچے تصور حقیقت کے ساتھ ان کے مجموعے کی علمی اور عقلی مناسبت بڑھتی چلی جائے گی اورہر غلط تصور حقیقت سے ساتھ کم ہوتی جائے گی اور ہم اپنے وجدان کی شہادت کی بنا پر آسانی کے ساتھ بتا سکیں گے کہ حقیقت کائنات کا کون سا تصور ایسا ہے جو ان حقائق کے ساتھ مناسبت رکھتاہے اور کون سا ایسا ہے جو مناسبت نہیں رکھتا اور اس طرح سے ہم تصور حقیقت اور اس پر قائم ہونے والے صحیح نظام حکمت کے قریب آتے جائیں گے۔ ہفتم: صحیح نظام حکمت جب وجودمیں آئے گا تو ابتدا میں لازماً مختصر ہو گا اور پھر جوں جوں معلوم حقائق کی تعدادبڑھتی جائے گی اور وہ اس کے اندر سماتے جائیں گے تو وہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ حقائق علمی کی کوئی حد نہیںنئے دریافت ہونے والے علمی حقائق کی تائید اور توثیق کی وجہ سے یہ نظام حکمت روز بروز مفصل اور منظم اور معقول ہوتا جائے گا اور ااسی نسبت سے غلط نظام ہائے حکمت دن بدن اپنی معقولیت کھوتے جائیں گے حتیٰ کہ دنیا بھر میں یہ تسلیم کر لیا جائے گا کہ یہی نظام حکمت ہے جو ہر لحاظ سے درست اور تسلی بخش ہے اس نظام حکمت کے وجود میں آنے کے بعد ہر علمی ترقی خواہ وہ کسی شعبہ تعلیم سے تعلق رکھتی ہو یا تو س کی تائید کرے گی یا پھر وہ کوئی علمی ترقی ثابت نہ ہو گی۔ وحدت کائنات کے اعتقاد کا سرچشمہ وحدت کائنات پر انسان کے غیر شعوری وجدانی اعتقاد کا سرچشمہ دراصل اس کی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ کائنات کا کوئی ایسا خالق مانے جو ایک ہی ہو اور انسان کی فطرت کا یہ تقاضا بے معنی نہیں۔ فطرتی تقاضوں کو پور ی طرح سے مطمئن کرنے کا سامان قدرت کے اندر پہلے ہی موجود ہوتا ہے چونکہ کائنات سائنس دانوں اور فلسفیوں کی آج تک کی تحقیق سے ایک وحدت ثابت ہوئی ہے لہٰذا اس کے اندر کوء یاصول کارفرما ہے جو اس کو ایک وحدت بناتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اصول خدا یہ کہ جو کائنات کا خالق ہے اور جو ایک ہی ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ قرآن حکیم نے کائنات کی وحدت کی طرف پرزور الفاظ میں توجہ دلائی ہے اور اس کو اس بات کے ثبوت کے طورپر پیش کیا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے۔ ما تری فی خلق الرحمن من تفوت ط فارجع البصر ھل تری من فطور ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خا ساً وھو حسیر آ پ خدا کی تخلیق میں کہیں کوئی ناہمواری نہ دیکھیں گے۔ ذرا نظر دوڑائیے(اور کائنات کا مشاہدہ کیجیے) کیا آ پ کو خدا کی اس تخلیق میں کوئی بے ربطی نظر آتی ہے۔ پھر دوبارہ نظر دوڑائیے اور دیکھیے نگاہیں اس بات سے ناکام ہو کر آپ کی طرف لوٹیں گی کہ خدا کی تخلیق میں کہیں کوئی ناہمواری پا سکیں۔ قل ارایتم ماتدعون دفن اللہ ارونی ماذا خلقوا من الارض ام لھم شرک فی السموت اے پیغمبر (ان لوگوں سے کہیے ) کہ کیاتمہیںمعلوم ہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر کس سے حاجتیں طلب کرتے ہو مجھے بتائو تو سہی انہوںنے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ہی کوئی ان کا حصہ ہے؟ یعنی اگر کائنات کی تخلیق میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہوتا تو زمین و آسمان میں کہیں تو اس کی اپنی تخلیق کا نشان ملتا جہاں جدا قسم کے قوانین قدرت نافذ ہوتے۔ ظاہر ہے کہ منکرین قرآن حکیم کے اس سوال کے جواب میں اسی کائنات کا ایک حصہ پیش کر کے معقولیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ صاحب یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جو خدا کے اس شریک نے پیدا کیا ہے جسے ہم مانتے ہیں کیونکہ جب کائنات کے اس حصہ میں بھی قوانین قدرت وہی ہوں جو باقی کائنات میں ہیں تو کس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا خالق وہی نہیں جو باقی کائنات کا ہے۔ قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ وحدت کائنات کی حقیقت کو وحدت خالق کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے: قل لو کان فیھما الہتہ الا اللہ لفسدنا اے پیغمبر (ان لوگوں سے) کہیے کہ اگر زمین میں خدا کے سوائے اور بھی خدا ہوتے تو دونوں (یعنی زمین و آسمان) میں بدنظمی رونما ہوتی۔ یعنی چونکہ زمین او ر آسما ن میں کہیں بھی دو عملی یا بدنظمی یاتضاد موجود نہیں اور تم اس بدنظمی کا تصور بھی نہیںکر سکتے بلکہ وحدت کائنات اور تسلسل قوانین کے تحت خو خود بخود اپنے مسلمات میں شمار کرت یہو تو کیایہ اس بات کی دلیل ہے اور وحدت کائنات خالق کی دلیل ہے اور چونکہ قرآن حکیم چاہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو قوانین قدرت کے مطابق بنائے لہٰذا نسان کو یقین دلانے کے لیے کہ یہ قوانین قابل اعتماد ہیںَ قرآن حکیم بار بار ان کے تسلسل اور استقلال کی طرف توجہ دلاتاہے۔ لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا (اے پیغمبر) آپ خدا کے قوانین میں کہیں اور کبھی کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ (لن تجف لسنتہ اللہ تحویلا آپ خدا کے قوانین میں کہیں اور کبھی کوئی تغیرنہ پائیں گے۔ دوسرے فلسفیوں کی طرح اقبال بھی کائنات کو اس کی رنگار رنگی اور بوقلمونی کے باوجود ایک وحدت قرار دیتا ہے۔ زمانہ ایک حیات کائنات بھی ایک کمال بے بصری قصہ قدیم و جدید یہی وجہ ہے کہ اقبال کا فلسفہ دوسرے فلسفیوں کی طرح ایک نظام حکمت ہے لیکن اقبال میں اور دوسرے فلسفیوں میں یہ فرق ہے کہ اقبال کے نزدیک جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ کائنات کی وحدت کا اصول یا حقیقت کائنات جو کائنات کی کثرت کو وحدت میں تبدیل کرتی ہے حق تعالیٰ کا وجود ہے۔ ان صفا ت کے ساتھ جو خاتم الانبیاؐ کی تعلیم میں اس کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور دوسرے فلسفیوں میں سے ہر ایک حقیقت کائنات کا جو تصور قائم کیے ہوئے ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ خدا کی فطرت وہ اصول ہے جو پوری کائنات کو متحد کرتاہے۔ لہٰذا خدا کے عاشق کے دل میںپوری کائنات سما جاتی ہے۔ انسانی انا ایک ہے لییکن اس کے خارجی اثرات بہت سے ہوتے ہیں وہ مخفی ہے لیکن اس کے افعال شکار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح سے ذات حق ایک ہے لیکن کائنات کی کثرت میں اس کا ظہور ہوا ہے پھر وہ مخفی ہے لیکن کائنات کی تخلیق نے اسے آشکار بنا دیا ہے گویا انسانی انا کی فطرت خدا کی فطرت کی طرف راہ نمائی کرنے والی ہے۔ ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پنہائی اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی (اقبال) آرزوئے حسن اور علم کا باہمی تعلق اوپر میں نے ایک اصطلاح ’’علمی حقیقت‘‘ استعمال کی ہے اس اصطلاح کا مفہوم واضح کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ علم حقیقت کیا ہے اس کے حصول کے لیے خدانے ہمین کون سی استعداد دی ہے اور وہ کس طرح سے اپنا کام کرتی ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ نہ صرف پوری کائنات ایک وحدت ہے بلہ کائنات کی ہر چیز جسے ہم جانتے ہیں یا جان سکتے ہیں ایک وحدت ہے یا کم از کم ہم اسے ایک وحدت کی حیثیت سے ہی جان سکتے ہیں اور کسی حیثیت سے نہیں جان سکتے۔ اگر وہ ایک وحدت نہ بن سکے تو ہم اسے جان ہی نہیں سکتے۔ اور وہ ہمارے لیے قطعاً بے معنی ہو جاتی ہے۔ ایک وحدت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ معنی خیز ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اسے جان سکتے ہیں۔ اگر وہ معنی خیز نہ ہو تو نہ وہ ایک وحدت بن سکتی ہے اورنہ ہی ہم اسے جان سکتے ہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وھدت بناتی ہیں اور پھر کئی بڑی بڑی وحدتیں مل کر اس سے بھی بڑی وحدتیں بناتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہم سب سے بڑی وحدت یعنی پوری کائنات پر پہنچ جاتے ہیں کہ کوئی بڑی وحدت چند چھوٹی وحدتوں کا ایک مجموعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک کل (Whole)کی صورت میں ہوتی ہے جو ہمیشہ اپنے اجزا یا عناصر سے بڑھ کر ہوتا ہے اور جس کی تشریح یا تفہیم اس کے اجزا یا عناصر سے نہیں ہو سکتی۔ جیسے ایک جسم حیوانی کو وہ فقط چند اعضا کے مجموعے کا نام ہے یا جیسا کہ ایک خوبصورت شاہکار ہنر جس کی دلکشی اس کے اجزا پر نہیں بلکہ ایک مجموعی کیفیت پر موقوف ہوتی ہے جو اجزا کی ترکیب کا ایک پراسرار نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی وحدت کو جاننے کے لیے قدرت نے جو ہمیں استعداد بخشی ہے وہ ہماری آرزوئے حسن ہے جسے اقبال عشق بھی کہتا ہے ۔ آرزوئے حس جب جانن کے کام میں لگی ہوتی ہے تو اسے ہم عام طور پر وجدان کانام دیتے ہیں۔ کسی وحدت کے وجدان کا ایک احساس یا اعتقاد کی صورت میں ہوتا ہے ہمارا تما م علم فقط وجدانی تصورات یا اعتقادات کے ایک سلسلہ یا مجموعہ کی شکل اختیار کرتا ہے اور ہمارے علم کے درست یا غلط ہونے کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے یہ اعتقادات درست ہیں یا غلط۔ حواس اور عقل دونوں آرزوئے حسن یا وجدان کے مددگارہیں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم حواس یا عقل کے ذرائع سے بھی جانتے ہیں اور اپنی علمی جستجو میں سائنس دان کادارومدار زیادہ تر حواس پر ہوتا ہے اور فلسفی کا عقل پر‘ لیکن دراصل حوا س اور عقل دونوں ہماری آرزوئے حسن یا ہمارے وجدان کے مددگار ہیں یہ خود نہ وحدتوں کو جانتے ہیں اورنہ جان سکتے ہیں بلکہ وجدان ان کی مدد سے وحدتوں کو جانتا ہے اس میں شک نہیں کہ وجدان غلطی بھی کرتا ہے لیکن غلطی کے بغیر جانتا بھی وہی ہے اسی لیے طالبان علم و صداقت کی حیثیت سے اور معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی حیثیت سے بھی وجدان کے بغیر ہمارا چارہ نہیں۔ اس وقت میں جس کمرہ میں ہوں وہاں کمرہ کے دوسرے سرے پر میرے سامنے دور سبز رنگ کی ایک دیوار کے ساتھ ایک کرسی پڑی ہے۔ لیکن یہ بات کہ وہ کرسی ہے میرا وجدانی نتیجہ ہے جو ایک احساس یا اعتقاد کی صورت میں ہے۔ میرا مشاہدہ ہرگز نہیں کہ میں کرسی کو نہیں دیکھ رہا بلکہ رنگ کی اس کیفیت کو دیکھ رہا ہو جو میرے وجدان یا اعتقاد کی دخل اندازی کے بغیر بے معنی ہوتی ہے اگر میں کہوں کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک کرسی ہے و یہ بات قطعاً غلط ہو گی۔ لیکن اگر میں کہوں کہ جو کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اس کی بنا پر میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ وہ ایک کرسی ہے تو یہ بات صحیح ہو گی۔ میرا یہ نتیجہ کہ وہ ایک کرسی ہے غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک کرسی نہ ہو بلکہ کرسی کے پیچھے والی سبز دیوار پر ایک ماہر نقاش کابنایا ہوا نقش ہو۔ اگرچہ میں نے س کل یا وھدت پر ایسے میں ایک کرسی کہہ رہا ہوں اپنے وجدان یا اپنی آرزوئے حسن کو کام میں لا کر پورا غو ر و فکر کیا ہے اور اپنی عقل سے اس کی اندر کی چھوٹی چھوٹی وحدتوں کے باہمی تعلق کا پورا جائزہ لیا ہے ور میرا وجدان اس اعتقاد پر پہنچا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر جس بڑی وحدت کو بناتی ہیں وہ ایک کرسی ہی ہو سکتی ہے۔ ایک نقش نہیں ہو سکتی۔ تاہم غلطی کا امکان موجود ہے۔ مین پوری کرسی کو نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ صرف کرسی کے اوپر کی اس سطح کودیکھ رہا ہوں جس کا رخ میری طرف ہ۔ اور دراصل میں اس سطح کو بھی نہیں دیکھ رہا بلکہ رنگ کی ایک بے معنی کیفیت کو دیکھ رہا ہوں۔ میرا یہ نتیجہ کہ رنگ کی یہ کیفیت کسی کرسی کی سطح کا ایک حصہ ہے اور پھر یہ نتیجہ کہ یہ کرسیکا ایک حصہ ہی نہیں بلکہ پوری کرسی ہے فقط ایک اندرونی احساس یا اعتقاد ہے جسے پیدا کرنے کے لیے میرے مشاہدہ کی شہادت ناکافی ہے یہی وجہ ہے کہ گو ہمارے حواس اپنا پورا کام کر رہے ہوتے ہیں ہم ار بار اپنے وجدان کی غلطیوں کا شکارو ہوتے رہتے ہیں یہی حال ہمارے تمام حسی تجربات کا ہے خواہ ان کا ذریعہ دیکھنا ہو یاسننا یا چکھنا یا سونگھنا یاچھونا‘ ان میںسے کوئی بھی میرے وجدان کے بغیر ایک اور وحدت کی صورت اختیار کیے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ قرآن حکیم نے حضرت سلیمان اورایک سورج پرست ملکہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے : قیل لھا دخلی الصرح فلماراتہ حسبتہ لجتہ و کشفت عن ساقیھا انہ صرح ممرد من قواریر قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمان للرب العلمین اس (سورج پرست ملکہ) کو کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جائییھ جب اس نے محل (کے فرش) کو دیکھا تو اسے گما ن ہوا کہ وہ پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا سمیٹ لیا (تاکہ بھیگ نہ جائے) حضرت سلیمان نے کہا کہ یہ محل تو شیشہ کا بنا ہوا ہے ۔ اس پر ملکہ نے کہا ’’اے میرے پروردگارمیں اپنی جان پر ظلم کرتی رہی ہوں اور میں سلیمان کی طرح اللہ رب العلمین پر ایمان لاتی ہوں۔‘‘ رب العالمین پر ایمان لانے کے لیے تو حضرت سلیمان کا پیغام پہلے ہی پہنچ چکا تھا ملکہ نے دیکھا کہ کوئی تعجب نہیں کہ جس طرح وہ شیشہ کو پانی سمجھ رہی تھی وہ اپنے معبود حقیقے کے بارے میں بھی غلطی کا ارتکاب کر رہی ہو اور غلطی سے ہی سورج کو خدا سمجھ رہی ہو لہٰذا اس نے فوراً اپنے ایمان کا اعلان کیا ۔ اس قصہ کا ایک مقصد یہ بتانا ہے کہ نبوت انسان کی عملی زندگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھنے والے حقائق کے بارہ میں انسان کو وجدان کی غلطیوں سے بچانے کے لیے قدرت کا ایک انتظام ہے۔ عقل کا وظیفہ جسے ہم عقل کہتے ہیں اس کا کام فقط یہ ہے کہ وجدان جن وحدتوں کو قبول کر چکا ہوتا ہے وہ ان کے باہمی تعلق کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ اس تعلق کی روشنی میں وجدان ایک اور بڑی نامعلوم وحدت کو معلوم کرے جو ان معلوم وحدتوں کے مطابقت رکھتی ہو اور جس کے عناصر یا اجزا یہ وحدتیں ہوں یا ایسی ہت سی چھوٹی چھوٹی نامعلوم وحدتوں کو معلوم کرے جو ایک بڑی وھدت کے اجزا اور عناصر کے طور پر ہوں۔ اول الذکر عمل کو ترکیب (Synthesis)اور اورثانی ذکرکو تجزیہ (Analysis)کہاجاتا ہے ۔ وحدتوں کا باہمی تعلق معلوم کرنے کے لیے عقل ایک وحدت سے دوسری وحدت کی طرف اور دوسری سے تیسری وحدت کی طر ف اور تیسری سے چوتھی وحدت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور ن سب کے باہمی تعلق کو ٹٹولتی ہے۔ عقل کا کام صرف یہ ہے کہ کسی وحدت تک پہنچنے کیلیے ہمارے وجدان کو اکسائے وہ فقط کسی وحدت کے اجزا کے تعلقات پر غور کرتی ہے۔ پوری وحدت کا احسا س نہیں کر سکتی۔ وحدت کا احساس یا علم اس کا وظیفہ نہیںجب ہمارا وجدان کسی وحدت کے علم تک پہنچتا ہے تو ا س سے بہت پہلے عقل اس سے رخصت ہو چکی ہوتی ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ایسا ہوا ہے عقل وہ راستہ دکھاتی ہے کہ جو منزل کو جاتا ہے۔ لیکن خود ہمارے ساتھ منزل پر نہیں پہنچتی ۔ منزل پر پہنچنا تمنائے حسن کا کام ہے ۔ گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے ٭٭٭ خرد سے راہ رو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ رہ گزر ہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے عقل گو منزل عشق سے دور نہیں رہتی لیکن اس منزل میں داخل نہیں ہو سکتی: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی قسمت میں پر حضور نہیں اگر یہ کہا جائے کہ آرزوئے حسن یا وجدان کے بغیر وحدتوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینا مثلاً یہ بتانا کہ نو کا عدد چار سے بڑا ہے ممکن نہیں۔ لہٰذا کیوں نہ یہ کہا جائے کہ عقل آرزوئے حسن یا وجدان کی اس خاص حالت کا نام ہے جب وہ وحدتوں کے درمیان حرکت کر رہی ہوتی ہے تاکہ ان کی باہمی نسبتوں کو دریافت کرے تو اقبال اس سے بھی اختلاف نہیں کرتا اور مانتا ہے کہ عقل بھی عشق ہے اور ذوق حسن سے عاری نہیں لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ عقل کی فعلیت وحدتوں کے باہمی تعلقات کو ٹٹولنے کے لیے حرکت تک محدود رہتی ہے اس کی جرات نہیں کہ ایک محب یا عاشق کی طرح کسی وحدت کی وحدت یا زیبائی یا حسن کا مشاہدہ یا مطالعہ کرنے کے لیے رک جائے اور حسن کے کسی جلوہ پر فدا ہو کر اپنی حرکت کو سکون میں بدل دے۔ چنانچہ اقبال کہتا ہے: عقل ہم عشق است و از ذوق نگاہ بیگانہ نیست لیکن ایں بے چارہ را آں جرات رندانہ نیست جونہی کہ ہم وجدان کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کی بجائے کسی وحدت کا احساس بطور وحدت کے کرنے لگ جائیں یا محسوس کرنے لگ جائیں کہ ہم کسی علم تک پہنچ گئے ہیں یا ہم نے کسی بات کو جان لیا ہے فوراً ہماری عقل کی فعلیت موقوف اور ہمارے وجدان کی فعلیت شروع ہو جاتی ہے۔ ایک مثال سے عقل اور وجدان کے باہمی تعلق کی وضاحت عقل اور وجدان ( یا آرزوئے حسن) کے باہمی تعلق پر غور کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو فرض کیجیے جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو کہ وہ ایک بڑے مکان جس سے وہ ایک حد تک آشنا ہے ٹٹولتا ہو ایک خاص کمرے کی طرف نکل جائے جب وہ اپنے ہاتھوں سے دیواروں‘ ستونوں‘ دروازوں ‘ کھڑکیوں‘ سیڑھیوں اور راستوں کو ٹٹولتا جاتا ہے تو اس بات کا صحیح اور پورا تصور اپنے ذہن میں قائم کرتا جاتا ہے اور کہ وہ مکان کے کس حصہ میں پہنچا ہے اس کے ٹٹولتے ہوئے ہاتھ سے اپنے ماحول کا صرف ایک حصہ دکھاتے ہیں وہ حصہ جس سے وہ اندھیرے میں چھوٹا ہے لیکن اسے مکمل راہ نمائی صر ف اپنے تصور ہی سے ملتی ہے جو مکان کی ہر حصہ کی جس میں وہ قدم رکھتا ہے کہ پوری تصویر اس کے سامنے پیش کر جاتا ہے۔ عقل (Reason) دراصل اس آدمی کے ٹٹولتے ہوئے ہاتھوں کی طرح ہے جو ا س کے راستہ کے بعض نشانات کا پتہ دیتے ہیں اور وجدان (Intution)اس کے تصور کی طرح ہے جو اندر سے اس کے ماحول کا پورا نقشہ اس کے سامنے پیش کر دیتا ہے جس طرح اس پٹی باندھنے والے شخص کے راہ نما تصور کا باعث مکان ہے اور اس کی سابقہ واقفیت ہے اسی طرح سے ہمارے وجدان کا باعث ہماری فطرت آرزوئے حسن ہے۔ نفسیات تشاکلی کے متعلق اقبال کی رائے جرمن ماہرین نفسیات کا ایک مکتب جسے وحدتوں کی نفسیات (Gestalt Psychology)یا نفسیات تشاکلی (Configuration Psychology)کہا جاتا ہے اس حقیقت کے ثبوت میں نہایت ہی زور دار اور یقین افروز تجرباتی شواہد بہم پہنچاتا ہے کہ خارجی دنیا کے متعلق انسان کا علم وحدتوں کی شکل اختیار کرتا ہے اس مکتب نفسیات کا کہنا یہ ہے کہ ذی شعور کردار کے گہرے مطالعہ سے یہ ات آشکار ہو جاتی ہے کہ اس میں معرفت یا پہچان حسیات کے سلسلہ سے بلند اور بالا ہو کر کام کرتی ہے۔ یہ معرفت یا پہچان اشیا ء کے مادی‘ مکانی یا علتی تعلق کے بارہ میں شعور کا علم یا اندازہ ہوتا ہے یعنی انسانی شعور مختلف اشیاء کے ایک بے ترتیب مجموعہ سے بعض اشیاء کو جو اس کے مقصد کے پیش نظر ایک وحدت بناتی ہے چن لیتا ہے اس مکتب نفسیات کے متعلق اقبال لکھتا ہے: ’’تاہم اس خیال سے کچھ اطمینان ہوتا ہے کہ شاید جرمنی کا نیا مکتب نفسیات جسے نفسیات تشاکلی کہا جاتا ہے نفسیا ت کو ایک آزاد اور مستقل علم کی شکل دینے میں کامیاب ہو جائے اور اسی طرح سے شاید ابداعی ارتقاء (Emergent Evolution)کا نظریہ بھی آخر کار حیاتیات کی آزادی اور استقلال کا باعث بن سکے‘‘۔ کرداریت (Behaviourism)اور منطقی اثباتیت (Logical Positivism)اور اس قسم کے دوسرے سطحیت پسند فلسفے جو فلسفہ کے اس عالمگیر انحطاط کے دور میں حشرات الارض کی طرح پیداہو رہے ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ ان کے منکرین شعور موجدوں اورمبلغوں کی نگاہ ابھی تک انسان کے حسی تجربات کی وجدانی اور مابعد الطبیعیاتی بنیاد پر نہیں پڑی۔ چونکہ ہمارے وجدان کا باعث ہماری آرزوئے حسن ہے اقبال نے وجدان کو عشق اور جنون اور نظر وغیرہ کے ناموں سے بھی تعبیر کیا ہے: زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک ٭٭٭ خرد کے پاس خبر کے سوا اور کچھ نہیں ترا علاج نظر کے سوا اور کچھ نہیں ٭٭٭ سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است ٭٭٭ زمانہ ہیچ نداند حقیقت اورا جنوں قباست کہ موزوں بقامت خرد است سائنس اور وجدان جب سائنس دان کے پاس نام نہاد ’’مشاہداتی حقائق‘‘ (Observed Facts)(جن کو درحقیقت ہمارا وجدان صورت پذیر کرتا ہے) کی کچھ تعداد فراہم ہو جاتی ہے تو وہ محسوس کرتاہے کہ ان کی تشریح کے لیے بالفاظ دیگر ان کو منظم کر کے ایک وحدت بنانے کے لیے اسے ایک مفروضہ (Hypothesis)یا نظریہ (Theory)کی یا ایک وجدانی یا اعتقادی تصور کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ اس قس کا ایک وجدانی مفروضہ ایجاد کرتا ہے۔ اگر یہ مفروضہ جو درحقیقت مابعدالطبیعیات کی دنیا سے لایا جاتا ہے فی الواقع ان تمام حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو یعنی ان کو منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہو تو وہ مفروضہ بھی جب تک کہ ان حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو یعنی ان کو ایک منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہو تو وہ مفروضہ بھی جب تک کہ ان حقائق کی معقول تشیرح کر رہا ہو ایک ایسی ہی ناقابل یقین حقیقت شمار کیا جا سکتا ہے جیسی کہ کوئی اور علمی حقیقت جس کو سائنس دان مشاہدہ قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت سائنس دانوں کے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کبھی مشاہدہ میں نہ آئی ہو کیونکہ اس صورت میں کوئی دوسرا مفروضہ ان حقائق کی تشریح نہیں کر سکتا اور اس مفروضہ کی جگہ نہیںلے سکتا۔ گویا سائنس دان ایک غائب چیز کی موجودگی پر اس کے نتائج و اثرات کی وجہ سے یقی کر لیتا ہے۔ یعنی ایمان بالغیب ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ ویومنون بالغیب (وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں) وجدانی مفروضات کی ضرورت سائنس دان پر ہی موقوف نہیں ہم اپنی روز مرہ زندگی میں مفروضات ایجاد کرتے رہتے ہیں یعنی بعض تصورات پر ایمان لاتے رہتے ہیں مثلاً یہ کہ کل سورج طلوع ہو گا ۔ یا یہ کہ میرا دوست سخی ہے۔ حالانکہ سور ج کا طلوع ہونا تو یاک مشاہداتی علم ہے لیکن اس کا کل طلوع ہونا ایک مفروضہ ہے جس پر ایمان لانا اہم اپنے بہت سے کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے میرے دوست نے آ تک سخاوت کے بہت سے کام کیے ہیں۔ لیکن میرا یہ علم سخاوت اس کی طبیعت کا ایک جزو ہے اور وہ بھی آج کے بعد بھی کوئی کام سخاوت کا کرے گا ایک مشاہداتی علم ہرگز نہیں بلکہ ایک مفروضہ ہے یا وجدانی علم ہے ہماری ساری زندگی عملی دارومدار اسی قسم کے غائب از نظر مابعد الطبیعیاتی یا وجدانی حقائق پر ہے۔ مابعد الطبیعیات ہماری عملی زدنگی کی جان ہے اور اس کے بغیر ہم اپنی زندگی کے راستہ پرایک قدم بھ نہیں چل سکتے۔ بعض لوگوں کو مابعد الطبیعیات سے خواہ مخواہ نفرت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عملی زندگی مشاہداتی یا معروضی حقائق پر مبنی ہے۔ حالانکہ اگر ان کی عملی زندگی سے مابعد الطبیعیات کو ایک لمحہ کے لیے بھی الگ کر دیا جائے تو ان کی بیشتر حرکات و سکنات یک دم موقوف ہو جائیں۔ ہر وہ حقیقت جس پر ہم یقین کرتے ہیں شروع میں ایک مفروضہ ہی ہوتی ہے پھر جوں جوں نئے نئے حقائق منکشف ہو کر اس مفروضہ کی تائید کرتے جاتے ہیں وہ مفروضہ ہمارے لیے ایک حقیقت میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ا س پر ہمارا یقین حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر حقائق جو آشکار ہوتے جاتے ہیں اس مفروضہ کی تائدی نہ کریں تو ہم اس مفروضہ کو غطل سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں اور اس قسم کی ناقابل انکار حقیقت کی ایک مثال جس پر سائنس دان ایمان بالغیب رکھتا ہے ’’ایٹم‘‘ ہے جس کے اندرانی نظام کو آج تک دیکھا نہیں گیا ’’ایٹم‘‘ کو ایک مفروضہ کے طور پر آج سے صدیوں پہلے پیش کیا گیا تھا لیکن ان صدیوں میں ہم نے ایتم کے نتائج و ذرات کا یعنی ان وحدتوں کا جن کو ایٹم کا وجدانی تصور جوڑ کر ایک نئی وحدت بناتا ہے جو تجربہ کیا ہے اس نے ایٹم کو آج تک ایک ناقابل علمی حقیقت بنا دیا ہے اور اس حقیقت کا علم یہاں تک موثر ہے کہ ہمیں ناگاساکی اور ہیروشیما کو آن واحد میں تباہ کرنے پر قادر بنا سکتا ہے۔ سائنس دان ایک مفروضہ کو جو اس کے مشاہداتی حقائق کی معقول تشریح کر رہا ہو اسے مشاہداتی حقائق سے کم درجہ کی علمی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ وہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مشاہداتی حقائق تو سائنس ہیں لیکن یہ مفروضہ جو ان کو منظم کرتا ہے یا ان کی تشریح کرتا ہے سائنس نہیں ۔ بعض وقت الگ تھلگ مشاہداتی حقائق سے زیادہ یہ مفروضہ اس کے کام آتا ہے کیونکہ اس کو اپنی تحقیق او ر تجسس کو جاری رکھنے کے لیے اور نئے نئے مشاہداتی حقائق کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی یا راہ نما تصور کا کام دیتاہے اور اس مفروضہ کے بغیر اس کے مشاہداتی حقائق کی بھی کوئی زیادہ وقعت نہیںرکھتے۔ سائنس اور فلسفہ کا باہمی تعلق سائنس دان وجدانی مفروضات ایجاد کرنے کی جو ضرورت محسوس کرتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وحدت بناتی ہیں اور ہم کائنات کی فطرت اور اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ حقائق کو وحدتوں کی صورت میں جانیں اور سمجھیں۔ ضروری ہے کہ ہماری یہ مجبوری سائنس دان کو زود یا بدیر ایک ایسے مرحلے پر پہنچا دے جہاں اس کے دریافت کیے ہوئے حقائق کی تشریح ایک ایسے مفروضہ یا ایک ایسے وجدانی یا اعتقادی تصور ہی سے ہو سکتی ہو جو پوری کائنات کے حقائق کو متحد اور منظم کرتا ہو اور جب سائنس دان اس مفروضہ سے حقائق کائنات کی تشریح کرنے لگ جائے تو خواہ ہم اسے سائنس دان کہیں یا فلسفی دونوں صفات میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ فلسفی بھی سائنس دان کے بہم پہنچائے ہوئے حقائق کی تشریح ایک ایسے وجدانی تصور سے کرتاہے جو ا س کے خیال میں پوری کائنات کے حقائق کو اک وحدت بناتا ہے خواہ اس کا یہ تصور روحانیاتی ہو یامادیاتی ان مفروضات سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ دراصل سائنس دان اور فلسفی میں کوئی فرق نہیں دونوں کے کام ایک دائرہ ایک ہی ہے اور دونوں کی علمی تحقیق اور تجسس کا دارومدار بھی انسان کی ایک ہی استعداد پر ہے جسے ہم وجدان کہتے ہیں۔ سائنس کو اپنی ترقی کی انتہائوں پر پہنچ کر فلسفہ فننے کے بغیر چارہ نہیں رہتا کیونکہ اگر وہ اس مرحلہ پر فلسفہ نہ بن سکے تو بے معنی ہو جاتی ہے۔ اتفاقا اس بیسویں صدی میں سائنس اپنی ترقی کی ان انتہائوں پر پہنچ گئی ہے جہاں اسے فلسفہ کے بغیر چارہ نہیں۔ جہاں اس کے دریافت کیے ہوئے علمی حقائق کی تشریح ایک ایسے وجدانی یا اعتقادی تصور ہی سے ہو سکتی ہے جو پوری کائنات کے حقائق کو متحد اور منظم کرتا ہے ہم مانتے ہیں کہ تخلیق کی تین سطحیں ہیں۔ مادہ کی دنیا حیوانات کی دنیا اور انسانوں کی دنیا ان کے بالمقابل علم سے بھی تینہی بڑے شعبے ہیں طبیعیات‘ حیاتیات اور نفسیات اس صدی میں جو طبیعیاتی حقائق دریافت ہوئے ہیں انہوںنے ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تنظیم اور تشریح کے لیے یہ وجدانی تصوریا اعتقاد ایجاد کریں کہ کائنات کی آخری حقیقت شعورہے کیونکہ یہ تصور کہ کائنا ت کی حقیقت مادی ہے جسے ا ب تک سائنسدان قبو ل کر رہے ہیں۔ ان نئے طبیعیاتی حقائق کی تشریح کرنے سے قاصر ہے اس وجدانی تصور یا اعتقاد کو واضح کرنے کے لیے ایڈنگٹن (Eddington)اور جیمز جینز (James Jeans)ایسے ماہرین طبیعیات نے جو کتابیں لکھیں ہیں وہ بظاہر طبیعیات کی کتابین ۃیں لیکن کوئی نہین کہہ سکتا کہ وہ فلسفہ کی کتابیں نہیں ہیں اسی طرح سے اس صدی میں جو حیاتیاتی حقائق منکشف ہوئے ہیں انہوںنے ماہرین حیاتیات کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تشریح اس مفروضہ یا اعتقاد سے کریں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے مادہ نہیں۔ اس نظریہ کی تشریح کے لیے جے ۔ ایس ہالڈین (Haldane)نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نا م ہی حیاتیات کی فلسفیانہ بنیاد ہے (Philosophical Basis of Biology)۔ اور پھر اس وقت نفسیات کے میدان میں جو حقائق منکشف ہو رہے ہیںإ وہ بھی شعور کی حقیقت پر دلالت کرتے ہیںمجموعی طور پر یہ بات نہایت تسلی بخش ہے کہ ماہرین طبیعیات حیاتیات اور نفسیات ایسے حقائق کا انکشاف کر رہے ہیں جن کی معقول اور یقین افروز تشیرح کے لیے خدا کے تصور کے علاوہ کوئی دوسرا تصور کام نہیں دے سکتا اگرچہ اس تصور کے خلاف اہل مغرب فی الحال ایک دیرینہ علمی تعصب میں مبتلا ہیں۔ سائنسی نظریات کے تغیر کی سمت فلسفیوں اور سائنس دانوںکے نظریات کا بدلنا نہایت مفید اور اہم ہے کیونکہ وہ بدل بدل کر درستی کی طرف آتے رہتے ہیں جب نئے علمی حقائق دریافت ہوتے ہیں اور کوئی نظریہ جو پرانے علمی حقائق کی تشریح اور تنظیم کے لیے پہلے کافی سمجھا گیا تھا ان کی تشریح اور تنظیم کلیے کفایت نہیں کرتا تو فلسفی اور سائنس دان دونوں مجبور ہوتے ہیں کہ اس کی جگہ دوسرا نظریہ قائم کریں جو تمام نئے اور پرانے علمی حقائق کی تسلی بخش تنظیم او رتشریح کرتا ہو۔ اس کی مثال روشنی کا نظریہ امواج ہے جسے سب سے پہلے 1665ء میں ہوک (Hooke)نے پیش کیا تھا۔ بعد کی دو صدیوں میں یہ نظریہ ان تمام حقائق کی کامیاب تشریح کرتا رہا جو اس کے سامنے آتے رہے حتیٰ کہ 1914ء تک بھی یہ نظریہ ان حقائق کی معقول تشریح کرا رہا تھا جو فان لائے(Von Laue)نے روشنی کی ایکس (X)شعاعوں کے متعلق دریافت کیے تھے اور جن کی دریافت پر اس سائنس دان کو نوبل (Nobel)کا انعام دیا گیا تھا لیکن 1932ء میں جب اسے انعام حاصل کیے ہوئے ابھی نو سال ہی گزرے تھے یہ نئی علمی حقیقت سامنے آئی کہ ایکس (X)شعاعین منتشر ہو جات ہیں اور یہ حقیقت ایسی تھی کہ روشنی کا قدیم نظریہ امواج اس کی معقول تشریح کرنے سے قاصر تھا۔ لہٰذا روشنیکا ایک نظریہ ایجاد کیاگیا جسے نظریہ ذرات یا نظریہ کوانٹم (Quantum Theory) کہتے ہیں۔ اب یہ نظریہ قدیم اور جدید تمام حقائق علمی کی معقول تشریح کر سکتا ہے اگر ہوک کا وجدان ا س قدر تیز یا قوی ہوتا کہ اس کے ذہن میں یہ بات آ جاتی یا ہوک (Hooke)سے بہتر حقائق عالم کا وجدان رکھنے والا کوئی شخص اسے بتا دیتا کہ نور امواج کی صورت میں نہیں بلکہ ذرات کی صورت میں ہونا چاہیے تو یہ نظریہ روشنی کے متعلق نہ صرف اس وقت کے علمی حقائق کی بلکہ آج تک دریافت کیے ہوئے تمام علمی حقائق کی تشریح کے لیے کفایت کرتا ۔ تاہم اس سے یہ بات عیاںہوتی ہے کہ جوں جوں معلوم اور مسلم حقائق کی تعداد بڑھتی جاتی ہے حقیقت اشیاء کے متعلق ہمارا وجدانی تصور بھی زیادہ سے زیادہ درست ہوتاجاتا ہے اور یہ کہ حقیقت اشیا ء کا صحیح تصور ہی تمام علمی حقائق کی معقول اورمکمل تشریح کر سکتا ہے اور اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ضروری ہے کہ حقائق علمی ترقی کی وجہ سے بالاخر حقیقت اشیا کے ایسے وجدانی تصور پر پہنچ جائیں جو کامل طور پر صحیح ہو اور پوری کائنات کے ان تمام علمی حقائق کی معقول اور کامل طورپر تسلی بخش تشریح کر سکے جو قیامت تک دریافت ہوتے رہیں گے۔ وجدان اور عقلی استدلال کا تعلق عام طور پرسمجھا جاتا ہے کہ کائنات کی عقلی توجیہ کرتے ہوئے ایک فلسفی محض عقلی یا منطقی استدلال کے بل بوتے پر اپنے نتائج کو پہنچتا ہے۔ اور اپنے اس استدلال میں جذبات کو راہ پانے نہیں دیتا لیکن عقلی استدلال کا یہ نظریہ درست نہیں۔ ہر فلسفی پہلے کائنات کے ان حقائق کی روشنی میں جو اسے معلوم ہوں کائنات کی حقیقت کا ایک وجدانی تصور قائم کر لیتا ہے پھر وہ اپنے اس تصور کی علمی اور عقلی تشریح کرنے کے لیے یہ بتانے کے لیے کہ یہی تصور ہے جو کائنات کی وحدت کا اصول ہے اور سارے حقائق کو منظم اور متحد کرتا ہے عقلی استدلال سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ اس کے استدلال سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا استدلال اس کے نتیجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنا نتیجہ اسے پہلے ہی وجدانی طور پر معلوم ہوتا ہے اور اس کی طرف وہ اپنے استدلال کو اپنی پوری فکر ی قوت اور زور بیان کے ساتھ موڑتاہے۔ کوئی فلسفی چھوٹا یا بڑا اس اصول سے منحرف نہیں ہو سکتا۔ ایک فلسفی پر ہی موقوف نہیںایک سائنس دان یا ماہر ریاضیات بھی پہلے ایک حقیقت کو وجدانی طو ر پر محسوس کرتا ہے بعدمیں اسے تجربات یا استدلال سے ثابت کرتاہے۔ نیوٹن کا قانون ثقل سیب کو درخت سے نیچے گرتے ہوئے دیکھ کر پہلے وجدانی طور پر محسوس کیا گیا تھا اور بعد میں تجربات سے ثابت کیا گیا فیثا غورث کا مسئلہ بھی پہلے ایک وجدانی تصور تھا۔ جسے بعد میں ریاضیاتی طور پر ثابت کیا گیا۔ حکمت اقبال کی نوعیت کی تشریح ایک ماہر ریاضیات کی مثال ہے ایک ماہر ریاضیات جس ریاضیاتی حقیقت کو وجدانی طور پر محسوس کرتا ہے وہ اس کے نزدیک ایک حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ اسے ثابت کرے یا نہ کرے اور ثابت کر سکے یا نہ کر سکے لیکن وہ اسے ثابت اس لیے کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے وجدان میں شریک کرے۔ ہر ریاضیاتی حقیقت پہلے وجدانی طور پر ایک کل کی حیثیت سے محسوس کی جاتی ہے۔ بعد میں اسے ثابت کرنے کے لیے اس کا منطقی یا عقلی تجزیہ کیا جاتا ہے جسے ماہر ریاضیات بعض ریاضیاتی مسلمات سے شروع کرتا ہے۔ پھر ان مسلمات سے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے جو ایک مساوات کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہٰذایہ مساوات بھی ریاضیاتی مساوات میں داخل ہوجاتی ہے پھر اس نتیجہ یا مساوات سے وہ ایک اور نتیجہ اخذ کرتا ہے اور اس طرح ایک اور مساوات قائم کرتا ہے اور وہ بھی ایک ریاضیاتی مسلمہ بن جاتی ہے۔ علی ہذا القیاس وہ ی عمل جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ اسے اس ریاضیاتی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے جسے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے اس کا یہ عمل نتائج یا مساوات کی کڑیوں یا حلقوں سے بنی ہوئی ایک زنجیر پیدا کرتا ہے جسے ہم اسے ریاضیاتی حقیقت کا ثبوت کہتے ہیں۔ کیونکہ اس عمل سے وہ لوگوں کے ریاضیاتی مسلمہ طورپر ثابت یا قائم ہو جاتی ہے اور اسی کو ہم حقیقت کی تشریح یا تفسیر بھی کہتے ہیں۔ اگر ماہر ریاضیات کا ابتدائی تصور جس سے وہ آغاز کرتا ہے اور جسے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے درست ہو تو ا س کا ثبوت بھی درست ہوتا ہے اور ہم قدم بہ قدم اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں کیونکہ اس کا کوئی نتیجہ کسی قدم پر بھی غلط اور ناقابل فہم نہیں ہوتا اگر ہم ماہر ریاضیات کی وجدانی کیفیت کو درست مان کر اس کے ثبوت کے راستہ پر قدم بہ قدم واپس آئیں یعنی معنی سلسلہ ثبوت کی آخری کڑی سے آغاز کر کے پیچھے کی طرف آئیں تو پھر اس ریاضیاتی مسلمہ پر پہنچ جاتے ہیں جس سے اس نے آغاز کیا تھا۔ اس عمل سے بھی ریاضیاتی حقیقت کی درستی ثابت ہو جاتی ہے گویا ابتدائی حقیقت کے جو نتائج یا مضمرات ہوتے ہیں وہ سب کے سب اس حقیقت کے اندر اور اس کے ہر نتیجہ کے اندر بالقوہ موجود ہوتے ہیں ان کو بالفعل کرنا یا آشکار کرنا ہی اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ اس کی تشریح یا تفسیر کرنا یا اسے لوگوں کے مسلمات میں شامل کرنا ہے جو صورت اوپر بیان کی گئی ہے اس میں ثبوت مسلسل بھی ہے اور مکمل بھی۔ کیونکہ اس کی کڑیاں نہ صرف تعداد میں پوری ہیں بلکہ ایک منطقی ترتیب بھی رکھی گئی ہے۔ منظم اور مختصر ثبوت لیکن اگر ایک عالم ریاضیات کی وجدانی قوت غیر معمولی طور پر تیز اور قوی ہو اور وہ کسی ریاضیاتی حقیقت کو جو اس نے اپنے وجدان سے دریافت کی ہو اپنی یا اپنی طرح کے دوسرے عالمان ریاضیات کی تشفی کے لیے ثابت کر رہا ہو تو بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ا س کا وجدان ایک چھلانگ لگاتا ہے اور وہ اپنے سلسلہ ثبوت کی بعض درمیانی کڑیوں کو چھوڑ کر کسی اگلی کڑی پر پہنچ جاتا ہے اور درمیان میں ایک خلا (Gap)چھوڑ جاتا ہے جو اس حقیقت کے بعض نتائج یا مضمرات سے پر ہوتی ہیں اور بعض اور کڑیوں کو چھوڑ کر کسی اور اگلی کڑی پر جا نکلتا ہے اور اسی طرح کا ایک اور خلا درمیان میں چھوڑ جاتا ہے اور علی ہذا لقیاس اس قسم کا ثبوت مختصر تو ہوتا ہے لیکن غلط نہیںہوتا۔ اگرچہ ریاضیات کے ایک معمولی طلاب علم کو جو اس ماہر ریاضیات کے وجدان سے محروم ہو یہ ثبوت آاسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے تاہم یہ ثبوت مکمل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی تمام محذوف کڑیاں نہ صرف ماہر ریاضیات کے بنیادی تصور کے اندر بلکہ ان محذوف کڑیوں سے پہلے اور بعد کی مذکور کڑیوں کے اندر بھی بالقوہ موجود ہوتی ہیں۔ ایک دوسرا ماہر ریاضیات جو اس ریاضیاتی حقیقت کا پورا وجدان رکھتاہے اور اس کی مدد سے اور نیز محذوف کڑیوں سے پہلے اور بعد کی مذکور کڑیوں کی مدد سے محذوف کڑیوں و باسانی مہیا کر سکتا ہے بشرطیکہ محذوف کڑیاں اتنی اہم نہ ہوں کہ ان کی عدم موجودگی میں مذکور کڑیوں کے عقلی اور منطقی تعلق کو سمجھنا ناممکن ہو جائے۔ چنانچہ متبدیوں کو سمجھانے یعنی ماہر ریاضیات کے وجدان میں شریک کرنے کے لیے یہ محذوف کڑیاں فی الواقع مہیا کی جاتی ہیں اور اس طرح سے ثبوت خلائوں کو پر کر کے او ر اس کو ممکن حد تک طوالت اور وسعت دے کر مکمل کیا جاتا ہے۔ اور یہ سمجھاجاتا ہے کہ اب ہر شخص اسے باسانی سمجھ سکتاہے اور اس قسم کا مختصر ثبوت غیر منظم بھی نہیں ہوتا کیونکہ ثبوت کی ہر کڑی جو اس میں موجودہوتی ہے دوسری موجودہ کڑیوں کی نسبت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ا سکے اندر کھوئی ہوئی کڑیوں کو دریافت کر کے اپنی جگہ پر لے آنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اس صورت میں ماہر ریاضیات کا ثبوت منظم یا مسلسل تو ہوتا ہے لیکن مکمل نہیں ہوتا۔ غیر منظم اور مختصر ثبوت اب فرض کیجیے کہ ہمارا پہلا ماہر ریاضیات اپنی وجدانی ریاضیاتی حقیقت کے نتائج اور مضمرات درج کرتے ہوئے بعض نتائج و مضمرات کو اپنی تیز وجدانی قوت کی وجہ سے غیر ضروری سمجھ کر نہ صرف حذف کر دیتا ہے بلکہ بعض جن کو وہ درج کرتاہے ا س ترتیب کے ساتھ نہیں لکھتا کہ وہ اس حقیقت کے ایک مسلسل اورمنظم ثبوت کی کڑیاں بن جائیں گی بلکہ اس کا جو نتیجہ بھی کسی وقت اس کے وجدان کی روشنی میں آتا ہے بلا ترتیب لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کے تمام بڑے بڑے نتائج و مضمرات کو اسی طرح بے ترتیب لکھ دیتا ہے اس صورت میں ماہر ریاضیات کا ثبوت نہ صر ف غیر مکمل ہو گا بلکہ غیر مسلسل بھی ہو گا اور اس صورت میں ریاضیات کے ایک معمولی طالب علم کے لیے اس کاسمجھنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا لیکن ایک دوسرے ماہر ریاضیات کے لیے جو اس ساری حقیقت کا پورا وجدان رکھتا ہو ان بے ترتیب نتائج و مضمرات کو ایک مسلسل اورم کمل ثبوت کی شکل میں لانا اور پھر بھی آسان ہو گا کیونکہ اس کی تمام ضروری کڑیاں بے ترتیب ہونے کے باوجود اسے تمام غیر مرتب کڑیوں کو جو اس کے سامنے ہیں ان کی منطقی یا عقلی ترتیب میںرکھنا پڑے گا۔ اور دوسرے ان کی ترتیب کے درمیانی خلائوں کو ان کڑیوں سے پر کرنا پڑے گا جو ریاضیاتی حقیقت کے موجود کے ریاضیاتی وجدان کی غیر معمولی تیزی اور قوت کی وجہ سے محذوف ہو گی ہیں اور چونکہ دوسری محذوف کڑیاں بھی ترتیب کو چاہیں گی اور پہلی مذکور کڑیوں کو ترتیب کے بغیر ساری کڑیوں کی زنجیر میں انکا مقام بھی متعین نہ ہو سکے گا وہ بجا طور پر محسوس کرے گاکہ یہ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے نہیں بلکہ ان میںسے ہر ایک دوسرے کو چاہتا ہے اور دونو ں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اور لہٰذا دونوں کو ایک ساتھ ہی انجام دیا جا سکتا ہے ورنہ بالکل نہیں دیا جاسکتا۔ ایک ماہر ریاضیات اور فلسفی کا تقابل جس طرح سے ایک ریاضیاتی حقیقت کا ثبوت حقائق معلومہ و مسلمہ کے ایک سلسلہ یا نظام کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سے حقیقت کائنات کے کسی تصور کا ثبوت جو ایک فلسفی پیش کرتا ہے ۔ حقائق معلومہ و مسلمہ کے ایک سلسلہ یا نظام کی شکل میں ہوتاہے جسے ہم نظام حکمت کہتے ہیں۔ ایک فلسفی بھی حقیقت کائنات کا جو وجدانی تصور قائم کرتا ہے وہ بھی اس کے نزدیک ایک حقیقت ہی کا تصور ہوتا ہے خواہ وہ اسے ایک حقیقت کے طور پر ثابت کرے یا نہ کرے اور کر سکے یا نہ کر سکے لیکن وہ ثابت کرنے کی کوشش اس لیے کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے وجدان سے بہرہ ور کر ے اور اس کے ثابت کرنے کا طریق بھی وہی ہے جو ایک ماہر ریاضیات اختیار کرتا ہے وہ بھی ہمارے مسلمات سے آغاز کرتا ہے اور یہ مسلمات بھی بداہتوں (Self Evident Faiths)پر ا نکے عقلی اور منطقی نتائج پر معلوم اورمسلم علمی اور ریاضیاتی حقیتوں (Scientific and Mathematical Facts) پر اور ان کے نتائج اور مضمرات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ چند ایسے مسلمات کو جو اس کے بنیادی تصور کے مطابق ہوتے ہیں لے کر ایک نتیجہ نکالتا ہے گویا ان کو ایک دوسری شکل دیتا ہے اور ایک مساوات قائم کرتا ہے جو منطقی طورپر یعنی ہمارے ذہنی عمل کے قوانین کی رو سے ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے اور لہٰذا ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر اس نتیجہ سے ایک اور نتیجہ نکالتا ہے اور ایک مساوات قائم کرتا ہے جو منطقی طور پر یعنی ہمارے ذہنی عمل کے قوانین کی رو سے ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اور لہٰذا ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتیہے اور پھر ا س نتیجہ سے ایک اور نتیجہ نکلتا ہے اور ایک اور مساوات قائم کرتا ہے اور وہ بھی اگر درست ہو تو ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتی ہے وہ علی ہذ ا القیاس یہا تک کہ وہ اس عمل سے رفتہ رفتہ حقیقت کائنات کے اس وجدانی تصور تک پہنچ جاتا ہے جسے وہ درست ثابت کرنا چاہتا ہے اگر فلسفی کا تصور حقیقت درست ہو تو ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں کیونکہ پھر اس کا کوئی نتیجہ کسی قمد پر بھی غلط اور ناقابل فہم نہیںہوتا۔ اس صورت میں فلسفی کا ثبوت مسلسل بھی ہوتا ہے اورمکمل بھی ۔ کیونکہ اس کی کڑیاں نہ صرف تعداد میں پوری ہوتی ہیں بلکہ ایک منطقی یا عقلی ترتیب میں رکھی ہوی ہوتی ہیں۔ لیکن اگر فلسفی کی ذہنی یا وجدانی قوت غیر معمولی طور پر تیز ہو تو وہ اپنے وجدانی تصور حقیقت کا جو ثبوت پیش کرتا ہے اس میں بہت سے خلا ہوتے ہیں اور بہت سی کڑیاں غائب ہوتی ہیں اکثر بڑے بڑے فلسفی ایسے ہی ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ بڑے بڑے فسلفیوں کی کتابیں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں اکثر فلسفیوں کا فلسفہ مسلسل ہوتا ہے یعنی ا س میں استدلال کی کڑیاں عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ رکھی ہوتی ہیںَ لیکن ان کے درمیان کے خلائوں کی وجہ سے ان کڑیوں کا باہمی عقی یا منطقی ربط مبتدیوں اور عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا گویا مسلسل ہونے کے باوجود وہ عام لوگوں کے یے مکمل نہیں ہوتا لہٰذا ہر بڑے فلسفی کے شارحین یداہوتے ہیں جو اس کے ثبوت کے محذوف کڑیوں کو بیان کر کے اس کے فلسفہ کے خلائوں کو پر کرتے ہیں اور اس طرح سے اس کو عام لوگوں کے افہام کے قریب لے آتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑا فلسفی جو حقیقت کائنات کا ایک صحیح اور واضح تصور رکھتا ہو اس کے نتائج اور مضمرات کو ایک مسلسل اور منظم استدلال یا مساوات اور نتائج کی ایک زنجیر کی شکل میں بیان نہ کرے بلکہ اس کا جو نتیجی بھی کسی وقت اس کے وجدان کی روشنی میں نمودار ہو وہ بلا ترتیب لکھتا چلا جائے یہاں تک کہ اس کے تمام ضروری اور بڑے بڑے نتائج اور مضمرات کو اسی طرح سے بلا ترتیب لکھ د ے ا س صورت میں اس کا ثبوت نہ صرف غیر مکمل ہو گا بلکہ غیر مسلسل بھی ہو گا اور اس صورت میں عام لوگوں کے لیے اس کا سمجھنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا۔ اقبال کی حمت اسی نوعیت کی ہے لیکن ایسے شخص کے لیے جو اسیے فلسفی کے تصور حقیقت (Idea of Reality)کا پورا وجدان رکھتا ہو اس تصور کے ثبوت کو اس کے بیان کیے ہوئے نتائج اور مضمرات کی روشنی میں مسلسل اور منظم بنا کر پیش کرنا بھی آسان ہو گا۔ کیونکہ اس کی تمام ضروری کڑیاں بے ترتیب ہونے کے باوجود ا س کے پیش نظر ہوں گی اور اس کا وجدان ان کے باہمی عقلی اور علمی ربط کو اس لیے واضح کرے گا کہ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسے بھی ماہر ریائضیات کی طرح جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے دو کام ایک ساتھ کرنے پڑیں گے کیونکہ ایک تو یہ کہ اسے ان تمام غیر مرتب کڑیوں کو جو اس کے سامنے موجود ہیں ان کی منطقی اورعقلی ترتیب کے ساتھ رھنا پڑے گا اور دوسرے ان کی ترتیب کے درمیانی خلائوں کو ان کڑیوں سے پر کرنا پڑے گا جو فلسفی کی غیرمعمولی تیزی کی وجہ سے محذوف ہو گئی ہیں اس طرح سے اس کے پیش رو فلسفی کا تصور حقیقت ایک مسلسل اور مکمل نظام حکمت کی صورت میں سامنے آ جائے گا اور لوگوں کے لیے ا س کے وجدان میں شریک ہونا اور اس کے تصور حقیقت سے متفق ہونا آسان ہو جائے گا۔ حکمت اقبال کی تشریح کے لوازمات کسی حکمت کی صحت کی علامت نہ تو یہ ہے کہ اس کے تمام تصورات بالفعل اور فی الفور ایک منطقی سلسلہ کی صورت میں ہوں اور نہ یہ کہ ان کے منطقی سلسلہ کے اندر ایسے خلا موجود نہ ہوں جو ایک حد تک معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں سے پر ہو سکتے ہوں بلکہ فقط یہ ہے کہ ایک تو حقیقت کائنات کے متعلق اس کاتصور درست ہو اور دوسرے یہ کہ اس کے سارے معلوم اور مذکور تصورات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصور سے مطابقت رکھتے ہوں حکمت اقبا ل میں یہ اوصاف موجود ہیں۔ اس صور ت میں اگرچہ ی حکمت تصورات کا ایک مرتب سلسلہ نہیں بلکہ غلط تصورات کا ایک مجمودہ ہو گی تاہم صحیح اور درست ہو گی اور ایک نظام کی صورت میں ہو گی۔ تمام صحیح اور سچی علمی حقیقتیں جو اس کے ظہور کے وقت تک دریافت ہو چکی ہوں پہے ہی اس کے ساتھ مناسبت رکھیں گی بلکہ اس کے اندر بالقوہ موجود ہوں گی اگرچہ بالفعل اور آشکار طور پر اس کے ساتھ وابستہ نہ کی گئی ہوں۔ اگرچہ ان علمی حقیقتوں کی تعداد اس حکمت کو منظم کرنے کے لیے کفایت کرتی ہو اس کی معقولیت فلسفہ کے ایک معمولی طالب علم کو جو ا س کے بنیادی تصور حققیت کا پورا وجدان نہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ میں نہ آ سکے گی۔ چونکہ اس کے اندر کے تصورات ای منطقی یا عقلی سلسلہ کی صورت میں نہیں ہوں گے اس کی پہلی غلط فہمی یہ ہو گی کہ یہ تصورات آپس میں اور حکمت کے بنیادی مرکزی تصور حقیقت کے ساتھ کوئی منطقی یا عقلی ربط نہیںرکھتے اور یہ غلط فہی اسے اس حکمت کی معقولیت کا صحیح اندازہ قائم کرن سے باز رکھے گی اور اس کی دوسری غلط فہمی ی ہو گی کہ یہ تصورات ان علمی حقیقتوں کے ساتھ بھی کوئی منطقی یا عقلی ربط رکھتے ہوں جو اس حکمت سے باہر ہیں اور وہ یہ سمجھتا رہے گا کہ یہ بیرونی علمی حقیقتیں دراصل دوسرے فلسفیوں کے ساتھ (جو اتفاقاً منظم اور مسلسل بنا دیے گئے ہوں اور جن کے اندر یہ حقیقتیں توڑ موڑ کر سمو دی گئی ہوں) زیادہ مطابقت رکھتی ہیں اس طرح سے چونکہ وہ ان علمی حقیقتوں کو اس کی حکمت کی تائید کے لیے مہیا نہ کر پائے گا۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی اس کی معقولیت اس کی نگاہوںسے اوجھل رہے گی لہٰذا اگر ہم فلسفہ کے اس طالب علم کو اس حکمت کی معقولیت سے آشنا کرنا چاہیں تو ہمارے لیے اس کے سوائے کوئی چارہ نہ ہو گا کہ : اول: ہم اس حکمت کے تمام تصورات کو ان کی عقلی یا منطقی ترتیب سے آراستہ کریں جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے ساتھ اور حکمت کے بنیادی تصور حقیقت کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ دوئم: ہم اس تسلسل اور ترتیب کے درمیان خلائوں کو بحد امکان اور تصورات سے یعنی معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں سے جد قدر پر کر سکتے ہیں کریں اور اس طرح ؤسے ان خلائوں کی تعدا د اور طوالت کو جس قدر کم کر سکتے ہیں کریں اس کا سبب یہ ہے کہ اگر ایک بھی سچی علمی حقیقت ایسی ہو جسے ہم اس حکمت کے نظام سے باہر چھوڑ دیں تو ہم اس ضرورت کا حق ادا نہیںکر سکتے کم کرین اس کا سبب ی ہے کہ اگر ای بھی سچی علمی حقیقت ایسی ہو جسے ہم اس ھکمت کے نظام سے باہر چھوڑ دیں تو ہم اس ضرورت کا حق ادا نہیںکر رہے ہوں گے اور اس نظام حکمت کو اتنا معقول اور مدلل اور منظم نہیں بنا رہے ہوں گے جتنا ک وہ اپنے وقت کی معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں کی تعداد کے پیش نظر بن سکتا ہے چونکہ یہ تصورات بھی جو اس حکمت کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لائے جائیں گے ترتیب کو چاہیں گے اور پہلے اندرونی تصورات کی ترتیب کے بغیر اس پورے نظام حکمت میں ان کا صحیح مقام بھی معین نہ ہو سکے گا۔ لہٰذا یہ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے نہیں ہوں گے بلک ہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرے گا اوردوسرے کے بغیر نامکمل رہے گا۔ لہٰذا ہمیں ان دونوں کاموں کو ایک ساتھ ہی انجام دینا پڑے گا لیکن ان دونوں کو بیک وقت انجام دینے کے لیے د و شرطیں ضروری ہوں گی۔ اول: یہ کہ معلوم اور مسلم سچی حقیقتیں اپنی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے اس حد تک ترقی کر چکی ہوں کہ جب اس حکمت کے اندرونی تصورات کو عقلی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کی جائے اور اس سلسلہ میں ان علمی حقیقتوں کو اس ترتیب سے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لایا جا ئے تو خلائوں کی طوالت اور تعداد یہاں تک کم ہو جائے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل منطقی اور عقلی نظام کی شکل اختایر کر کے اور اپنی اس حیثیت کی وجہ سے باسانی ہر شخص کی سمجھ میں آ جائے۔ دوم: اس حکمت کے اندر پہلے ہی سے بعض ایسے معلوم او ر مسلم حقائق بھی سموئے ہوئے ہیں اور بالفعل اور آشکار طور پر موجودہوں جن ی وجہ سے اس حکمت کے ساتھ بیرونی علمی حقائق کی علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت واضح ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے اندرونی علمی حقائق کی موجودگی کے بغیر اس حکمت کے اندرونی تصورات کو ایک عقلی ترتیب دینا اور بیرونی علمی حقائق و کام میں لا کر اس کے خلائوں کو پر کرنا مشکل ہو گا اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نقاش فنکار ایک دلکش قدرتی منظر کا ایک وجدانی تصور مؤحسوس کرے پھر اس تصور کی انتہائی محبت کی وجہ سے اسے ایک خوبصورت رنگین تصور کے طور پر صفحہ قرطاس پر لانا چاہے اور وہ پہلے اس کا خاکہ بنانے کا فیصلہ کرے گا تاکہ بعد میں اس خاکہ کے اندر رنگ بھر کر تصویر کو مکمل کر سکے فرض کیا کہ خاکہ مکمل کرنے سے پہلے وہ اسے ایک ایسی حالت میں چھوڑ دیتا ہے کہ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ کسی وجدانی منظر کی تصویر کا خاکہ ہے لیکن ا س میں بعض درختوں پہاڑوں عمارتوں سڑکوں ‘ میدانوں‘ دریائوں اور کھیتوں کے گوشے اور زاویے بنائے اس حدک تک آشکار نہیںہوتے کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ تصویر کی کون سی چیز بنائیں گے۔ اس حالت میں ایک دوسرے ماہر فنکار کے لیے اپنی ساری مہارت کے باوجود یہ مشکل ہو گا کہ وہ تصویر کو اس کے سارے رنگین مظاہر کے سمیت مکمل کرنا تو درکنار اس کے خاکہ ہی کی تکمیل کر سکے لیکن اگرپہلا فنکار خاکہ کو مکمل تو نہیںکرتا لیکن اس کے خطوط کو یہاں تک آگے بڑھا دیتا ہے کہ ایک دوسرا فنکار اسے دیکھ کر معلوم کر لے کہ یہ خطوط آگے چل کر کس کس طرف کو بڑھنے والے ہیں اور کیا کیا شکلیں بنانے والے تھے اور خاکہ کی آخری شکل کیاہونے والی تھی تو اس صورت میں نہ وہ صرف خاکہ کو مکمل ہی کر سکے گا بلکہ اس قابل بھی ہو گا کہ تصویر کے سارے رنگوں کو خاکہ کے اندر اپنی اپنی جگہ پر بھر کر تصویر کو اس کی پوری آب و تاب اور مکمل اور مکمل دلکشی اور زیبائی کے ساتھ جلوہ گر کر سکے۔ شارح اقبال کی ضروری صلاحیتیں ان دو شرطوں کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت نوع بشر کے علمی ارتقاء کے ایک خاص مرحلہ پر پہنچ کر ایک ہی مسلسل اور مرتب علمی نظام کی صورت اختیار کر سکتی ہے اس سے پہلے نہیں ان دو شرائط کو ذہن میںرکھنے سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت کو اپنے وقت پر ایک مسلسل اور مرتب علمی نظام کی شکل دینے کی کوشش کرے گا اس کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ معلوم اور مسلم حقائق سے پوری طرح واقف ہو یعنی فلسفہ اور سائنس کی پوری وسعتوں پر اس کی نگاہ ہو اگر یہ استعداد اس میں نہ ہو گی تو اس کے پاس وہ تصورات ہی نہ ہو ں گے جن سے وہ اس سچی حکمت کو پر کر کے اس کی ترتیب اورتنظیم کو مکمل کر سکے۔ اس استعداد میں حکیمانہ بصیر ت اور اپج اور منطقیانہ ذوق اور باریک بینی کی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ ان صلاحیتوں کے بغیر وہ یہ نہیں دیکھ سکے گا کہ اس حکمت کے اندرونی تصورات کا آپس میں اور بیرونی علمی حقائق کے ساتھ اور حقیقت کائنات کے ساتھ کوئی عقلی اور علمی ربط ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا ہے؟ پھر اس کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ اس حکمت کے مرکزی تصور یعنی حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ایک ایسے وجدان سے بہرہ ور ہو جو مکمل ور پر تربیت یافتہ روشن اور طاقت ور ہو۔ اس استعداد کے بغیر وہ سائنس اور فلسفہ کی واقفیت کو غلط طور پر کام میں لائے گا ا س کا استدلال ٹھوکریں کھائے گا اور اس کی حکیمانہ اپج یا بصیرت غلط راہ پر چل نکلے گی ا س کا منطقیانہ ذوق غلط نتائج پیدا کرے گا او ر اس کی باریک بینی غلط راستہ اختیار کرے گی اس کے برعکس اگراس میں یہ استعداد ہو گی تو اپنے وجدان کے زور دار نور تجسس (Search Light)کی مدد س وہ نہ صرف دیکھ سکے گا۔ کہ کہاں تک اس حکمت کے اندر کے تصورات جو علمی حقیقتوں کے طور پر پیش کیے گئے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ حکمت کے مرکزی تصور کے ساتھ اور ان علمی حقیقتوں کے ساتھ جو اس حکمت کے باہر ہیں اور اس میں سموئی ہوئی ہیں عقلی ربط و ضبط رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لے گا کہ معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں میں سے کون سی ایسی ہیں جو حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ساتھ مطابقت رکھنے کی وجہ سے سچ مچ کی علمی حقیقتیں نہیںہیں ان کی خامیاں کیاہیں اور کس طرح سے ان خامیوں کو دور کرنے کے بعد ان کو سچ مچ علمی حقیقتیں بنایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کی مثال میں دوسرا نقاش فنکار پہلے فنکار کے نامکمل خاکہ یا اس کے نامکمل تصور کو صرف اسی صورت میں مکمل کر سکے گا کہ وہ پہلے فنکار کے وجدانی تصور حسن سے پوری طرح واقف ہو چکا ہو۔ حکمت اقبال کی خصوصیت اگر کسی حکمت کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اس قسم کی ہے جب اسے منظم کیاجائے تو تمام سچی علمی حقیقتین جو اس زمانہ تک دریافت ہو چکی ہیں سارے معلوم اور مسلم منطقی اور عقلی اصولوں کے مطابق اس کے اندر سما جاتی ہیں اور جو آئندہ دریافت ہونے والی ہوںوہ بھی اس کے اندر جذب ہو سکتی ہیں تو اس سے بڑھ کر کوئی ثبوت اس بات کا نہیں ہو سکتا کہ یہ حکمت جس وجدانی تصور حقیقت پر مبنی ہے وہ صحیح ہے اور خود یہ حکمت سچی اور پائیدار ہے اور تمام دوسری حکمتیں مٹ کر اس کی عالم گیر قبولیت کے لیے راستہ ہموار کر دیں گی۔ ظاہر ہے کہ ہم جب اس قسم کی حکمت کی بہترین تشریح کریںگے تو وہ اس کی عقلی اور علمی تنظیم اور ترتیب ہی کی صورت اختیار کرے گی اور اس کے برعکس جب ہم اس کو ایک عقلی اور علمی ترتیب اور تنظیم کے ساتھ دوبارہ لکھیں گے تو اس کی یہی ترتیب اور تنظیم ا س کی بہترین تشریح قرار پائے گی۔ اقبال کی حکمت اسی نوعیت کی ہے ایک سچی حکمت کے دو ضروری لوازمات جو اوپر بیان کیے گئے ہیں اس میں موجود ہیں وہ حقیقت کائنات کے ایک ایسے تصور پر مبنی ہے جو صحیح ہے اور اس کے سارے معلوم اور مذکور تصورات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصور سے مطابقت رکھتے ہوں حقیقت کائنات کایہ صحیح تصور جو حکمت اقبا ل کا بھی مرکز ہے اور خدا کا تصور ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ خدا انسان کو چاہتا ہے اور تخلیق اور تکمیل کائنات کا عمل دراصل تخلیق و تکمیل انسان ہی کا عمل ہے اور دوسرا یہ کہ انسان خدا کو چاہتا ہے او ر اس کی ساری زندگی تگ و دو جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی صرف یہ مقصد رکھتی ہے کہ خدا انسان کو پہنچے حقیقت کائنات کی حیثیت سے یہ تصور نہ صڑف واضح اور روشن ہے بلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتا ہے ۔ اقبال نے اپنے تصور حقیقت کے تمام ضروری نتائج و مضمرات کو بالوضاحت اور بالتکرار بیان کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ نتائج اور مضمرات ایک ہی تصور کے ساتھ عقلی اور علمی تعلق رکھنے کی وجہ سے ایک نظام حکمت کی سورت میں ہیں۔ اور ایک عقلی اور منطقی تنظیم اورترتیب پا لیناان کی فطرت میں ہے تاک ہچونکہ وہ شایدہ تر شعر کی زبان میںبیان کیے گئے ہیں وہ عقلی اور منطقی ترتیب اور تنظیم میںنہیں آ سکتے۔ ہو نہیں سکتا کہ ایک نظام تصورات شعر کی زبان میں بھی ہو اورپھر ایک منطقی اور عقلی ترتیب اور تنظیم بھی رکھتا ہو ۔ ہو نہیںسکتا کہ وہ جذبات کی گرمی اور منطق کی ٹھنڈک دونوںسے بیک وقت بہرہ ور ہو۔ اقبال کا فلسفہ اس کی غیر معمولی ذہانت اور وجدانی قوت رکھنے والے ماہر ریاضیات یا ماہر فلسفی کی طرح ہے جس کا تصور حقیقت صحیح ہے لیکن وہ اپنے تصور حقیقت کے نتائج کو جو بے اختیار اس کے قلب پر وارد ہوتے چلے جاتے ہیں ایک منطقی ترتیب اور تنظیم میںرکھنے کی فرصت یا ضرورت نہیں پاتا تاہم اس کے نتائج اس قدر مفصل ہیں کہ ہر موزو ں شخص جو اس کے تصور حقیقت کا صحیح وجدان رکھتا ہے باسانی ان کے منطقی سلسلہ کے خلائوں کو پر کر کے ا ن کو ایک مکمل منطقی ترتیب اور تنظیم کا جامہ پہنا سکتا ہے۔ اقبا ل نے اپنے فلسفہ میں حقیقت انسان و کائنات کی اصل تصویر کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ اس قدر مکمل ہے کہ مناسب قابلیت کا ہر انسان جو اقبال کے ذوق سے آشنا ہو اس خاکہ میں صحیح رنگوں کو اپنی اپنی جگہ بھر کر تصویر کو اس کی پوری زیبائی اور دلکشی کے ساتھ جلوہ گر کر سکتا ہے۔ حکمت اقبال کی تشریح کا مطلب اوپر کی بحث ہمیں جس اہم نتیجہ کی طرف راہ نمائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ کی ایک ایسی تشریح بہم پہنچائیں جو اس کے فلسفہ کو خواص اور عوام کے لیے اور غیروں اور اپنوں کے لیے موثر اور قابل فہم بنا دے اور اس کی صحیح اور تسلی بخش تشریح قرار پائے تو ضروری ہے کہ ہم اقبال کے تصور حقیقت کے نتائج اور مضمرات کو جو اس نے بلا ترتیب شعر کی زبان میں بیان کیے گئے ہیں نہ صرف یہ کہ ایک منطقی اور عقلی ترتیب کے ساتھ بیان کریںبلکہ ان کے درمیانی خلائو ں کو زیادہ سے زیادہ پر کریں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ اس عمل سے اس کے فلسفہ کی تشریح کس قدر طویل ہو جائے گی کیونکہ یہ تشریح جس قدر طویل ہو گی اسی قدر زیادہ اقبال کا فلسفہ قابل فہم اور اثر آفریںہو گا اور لوگوں کے اعتقاد اور عمل کو بدلنے والی ایک قوت ہو گا۔ غلط اور صحیح فلسفہ کے استدلال کا فرق یہ حقیقت ہے کہ ایک فلسفی کے ادراک کا آغاز اور انجام حقیقت کائنات کے ایک وجدانی تصور ہوتا ہے جو اس کے ذہن میںپہلے ہی سے موجود ہوتا ہے ۔ فلسفی کے استدلال کی سمت کو معین کر دیتی ہے اور اس کی صحت اور عدم صحت کا فیصلہ کر دیتی ہے اگر اس کا تصور حقیقت غلط ہو گا تو اس کے استدلال کی خشت اول ہی غلط رکھی جائے گی جس کے بعد ا س کا سارا استدلال خواہ اس کی دیوار ثریا تک چلی جائے غلط ہو جائے گا چونکہ اس کے استدلال کا راستہ منزل سے ٹہا ہوا ہوتا ہے۔ یہ راستہ ٹیڑھا ہی نہیںہوتا بلکہ دشوار گزار بھی ہوتا ہے اور اس راستہ پر چل کر اسے عمی حقائق کو اپنے تصورحقیقت کے مطابق ثابت کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے اور پھر بھی وہ ان کواپنے تصور کے مطابق ثابت نہیں کر سکتا اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے استدلال میں جا بجا عقلی اور منطقی خامیاں پید اہو جاتی ہیں۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے کہیں تو وہ بعض سچے علمی حقائق کو جو اس کے غلط تصور حقیقت کی غمازی کرنے کی استعداد کررکھتے ہوں نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہیں ان حقائق کو جو ا س غلط تصو ر حقیقت کی غمازی کرنے کی استعداد رکھتے ہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہیں ان حقائق کی غلط توجیہہ اور تشریح کرتا ہے اور ان کو غلط طور پر توڑ موڑ کر سمجھتا اور سمجھاتا ہے ۔ کہیں ان کی امیت کو اتنا کم کر دیتا ہے کہ وہ اس تصور حقیقت کو چیلنج نہ کر سکیں اورا سکے برعکس کہٰں وہ غلط علمی حقائق کو جنہیں اچھی طرح سے آزمایا اور پرکھا نہیں گیا اور جو اس کے غلط تصور حقیقت سے کسی مناسبت رکھتے ہیں اور اپنے استدلال میںجگہ دیتا ہے اور ان کی اہمیت کو بڑھاتا ہے کہ گویا وہی کائنات کی عقدہ کشائی کر سکتے ہیں و علی ہذ ا لقیاس۔ لیکن اگر اس کا تور حقیقت صحیح ہو اور وہ کائنات کے عمی ؤحقائق کو جو اس کے زمانہ تک دریافت ہو چکے ہیں ٹھیک طرح سمجھتا ہو تو اس کا استدلال صحیح ہوتا ہے اور یہ تمام علمی حقائق آسانی کے ساتھ اس کے نظام حکمت میں اپنی جگہ پاتے ہیں اور وہ جہاں ؤسے اسے مل سکیں تلا ش کرکے لاتا ہے اور اپنے نظام حکمت میں جگہ دیتا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کے تصور حقیقت سے مناسبت رکھتے ہیں اور اس کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے اگر اسے بعض غلط حقائق کو جنہیں علمی حقائق سمجھا جا رہا ہے توڑنا موڑنا بدلنا پڑتا ہے اور تو وہ اس طرح سے بدلتے رہتے ہیں کہ ان کی خامیاں اور کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں اور اگر بعض کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے تو وہ درحقیقت غلط اور نظر انداز کرنے کے قابل ہی ہوتے ہیں اور اگر کہیں ان کی اہمیت کو کم کرنا پڑتا ہے تو فی الواقع ان کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ اسی طرح کے اگر اسے بعض مفروضات ہی نہیں بلکہ تمام علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق فی الواقع صحیح علمی حقائق ہیں۔ گویا حقیقت کائنات کے تصور کی درستی اور درست فہمی اس کے سارے نظام حکمت کو درست کرتی ہے اور اس کے ساتھ بعض ایسے نام نہاد علمی حقائق کو بھی درست کرتی ہے جن کی نادر ستی ابھی آشکار نہ ہوئی ہو بلکہ بعض نئے درست علمی حقائق کی دریافت کی تحریک بھی کرتی ہے اور اس طرح درست تصور حقیقت کی مدد سے علم اپنے ہی تراشے ہوئے بؤتوں کوتوڑتا ہوا صڈاقت کی منزلوں کی طرف چلا جاتا ہے اقبال ہی ا بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ کہتا ہے: وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم علمی حقائق کی ترقی سے غلط فلسفے مٹتے ہیں اور صحیح فلسفہ ابھرتا ہے چونکہ حقائق معلومہ و مسلمہ جو ایک نظام حکمت کی کڑیوں کی صورت اختیار کرتے ہیں بداہتوں کے علاوہ علمی حقیقتوں پر بھی مشتمل ہوتے ہیں اور چونکہ علمی حقیقتیں ابھی تک سب کی سب دریافت نہیں ہو سکیں اور ہر فلسفہ ان کے ساتھ مطابقت بھی نہیں رکھتا اس لیے ہر فلسفہ کے اندر خلائوں کاہونا ضروری ہے۔ اور چونکہ علمی حقیقتیں سب کی سب قیامت تک بھی دریافت نہ ہوسکیں گی۔ لہٰذا اس فلسفہ کے اندر بھی جو ان حقیقتوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے یعنی صحیح فلسفہ کے اندر بھی تاقیامت خلائوں کا باقی رہنا ضروری ہے۔ بعض فلسفوں کے خلائوں کی تعداد اور طوالت زیادہ ہوتی ہے اوربعض کی کم۔ یعنی بعض فلسفوں کا استدلال زیادہ گنجان آباد ہوتا ہے اور بعض کا کم۔ جس قدر کسی فلسفہ کے منطقی تسلسل میں خلائوں کی تدداد زیادہ اور طوالت کم ہو گی یعنی جس قدر کسی فلسفہ کا استدلال زیاد ہ گنجان ہو گا اسی قدر وہ زیادہ آسان او ر قابل فہم اور معقول اور مضبوط اور مکمل اور مدلل سمجھا جائے گا چونکہ سچی علمی حقیقتیں ایک دوسرے کے ساتھ عقلی ربط یا مطابقت رکھتی ہیں لہٰذا ایک دوسرے کی تائید و توثیق کری ہیں اس کے برعکس چونکہ وہ غلط تصورات کے ساتھ کوئی عقلی ربط یا مطابقت نہیں رکھتیں اور ان کی تائید اور توثیق بھی نہیںکرتیں اس بنا پر ضروری ہے کہ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے اور علمی حقیقتوں کی تعداد بڑھتی جائے ان کی دلالت اور وضاحت بھی بڑھتی جائے اور ان کا توڑنا اور مسخ کر کے سمجھنا اور سمجھانا زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا جائے او ر اس طرح سے صحیح فلسفوں کے خلائوں کی تعداد و طوالت کم ہوتی جائے اور غلم فلسفیوں کے خلائوں کی تعداد اور طوالت بڑھتی جائے گی اور اس کے نتیجہ کے طور پر صحیح فلسفہ کی معقولیت کے ساتھ ساتھ غلط فلسفوں کی نامعقویلت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جائے ضروری ہے کہ اس نہ رکھنے والے قدرتی عمل کا نتیجہ یہ ہو کہ بالاخر دنیا میں صرف ایک ہی فلسفہ جو صحیح ہو کائنات کے صحیح تصور پر مبنی ہو اور اس بنا پر حال اور مستقبل کی تمام علمی حقیقتوں سے مطابقت اور مناسبت رکھتا ہو باقی رہ جائے اور باقی تمام فلسفے نامعقول اور بیکار سمجھ کر رد کر دیے جائیں اور اس سے یہ ناگزیر نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یہی فلسفہ ہو گا جو بالاخر انسانیت کو متحد کرے گا اور جب تک یہ فلسفہ ظہور پذیر ہو کر دنیا میںپھیل نہیںجائے گا اس وقت تک نوع بنی انسان کا امن اور اس کا اتحاد دونوں ممکن نہ ہوں‘آگے چل کر میں عرض کروں گا کہ کیوں یہ فلسفہ اقبال کا فلسفہ خودی ہی ہو سکتا ہے اور دوسرا کوئی فلسفہ نہیں ہو سکتا۔ شعر کی طرح فلسفہ بھی محبت کاترجمان ہے حقیقت نہ صڑف یہ ہے کہ فلسفی جب فلسفہ لکھتا ہے تو جذبات سے الگ ہو کر نہیںلکھتا بلکہ اس کے سارے جذبات اس تصور حقیقت پر مرتکز ہوتے ہیں جس کی تشریح وہ کر رہا ہے اسے اس تصور سے عشق ہوتا ہے اور خواہ یہ تصور مادی ہو یا روحانی اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں اوپر گزارش کر چکا ہوں حقیقت کائنات کا تصور ہر انسان کی عملی زندگی کی قوت محرکہ ہے اور فلسفی اس سے مستثنیٰ نہیں بلکہ وہ اسی قوت محرکہ کے زیر اثر اپنا سارا فلسفہ لکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کا تصور حقیقت ہر جگہ قبول کر لیا جائے اور تاکہ لوگ اپنی عملی زندگی کو اس طرح سے بنائیں جس طرح وہ خود اپنی عملی زندگی کو بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ ان فوائد سے مستفید ہوں اور ان نقائص سے بچ جائیں جنہیں وہ فوائد یا نقصانات سمجھتا ہے اور جن سے مستفید ہونا یا بچنا اس کی رائے مٰں اس کے فلسفہ کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسفہ شعر ہی کی طرح عشق کا اظہار ہے فلسفی جب اپنے عشق کو مقبول اذہان اور مرغوب خواطر بناناچاہتا ہے تو سیدھی روبروبات کہنے کی بجائے اپنے مخاطب کو بلاتا ہے کہ جس تصور کو وہ حقیقت کائنات سمجھتا ہے کیونکر تمام علمی حقائق اسی سے مطابقت اور مناسبت رکھتے ہیں اور مل کر اس کی تائید اور توثیق کرتے ہیں اور فلسفی یہ طریق گفتگو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ وہ جانتا ہ کہ وہ بے اثر نہ رہے گا۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اسے کوئی ایسا تصور حقیقت مل جائے جو فی الواقع تمام حقائق کو اپنے اردگرد منظم کر سکتا ہے اور اس تصور کے لیے وہ بے قرار رہتا ہے اقبال نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت کیا ہے حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو علمی حقائق تنہا صحیح تصور حقیقت کی طرف راہ نمائی نہیں کر سکتے لیکن فلسفی ایسے صحیح تصور حقیقت کو جو نہ صرف اس کے نظام حکمت کو معقول اور مدلل بنا سکتا ہو بلکہ تمام نادر درست علمی حقائق کو درست کر سکتا ہو اور نئے نئے درست علمی حقائق کی دریافت کے لیے راہ نمائی بہم پہنچا سکتا ہو کہاں سے لائے۔ ذہن انسانی حقیقت کائنات کے لاتعداد مادی اور وحانی تصورات قائم کر سکتا ہے کیونکہ اوصاف و خواص کی ذرا سی تبدیلی سے تصور بدل جاتا ہے۔ فلسفی یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان گوناگوں تصورات میں سے کون سا تصور حقیقت ایسا ہے جو اپنی فطفت اور اپنے اوصاف و خواص کی بنا پر حال کے علمی حقائق کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتا ہے کیونہ اسگر ایسا تصور مل جائے تو وہی مستقبل کے علمی حقائق کے ساتھ بھی مطابقت رکھے گا لیکن علمی حقائق کی تعداد ہمیشہ اس قدر کم رہتی ہے کہ فقط ان علمی حقائق کی مدد سے از خود اس تصور کا جان لینا ایک فلسفی کے لیے بہت دشوار ہے اس قدر دشوار کہ اسے ناممکن کے درجہ میں رکھنا ضروری ہے۔ تاہم ہر ایک فلسفی نے یہ کوشش کی ہے کہ اپنے زمانہ کے معلوم علمی حقائق کی بنا پر ایک تصور حقیقت قائم کرے اور پھر اس کی بنا پر ایک فلسفہ کی تعمیر کرے۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ ہر فلسفی کا تصور حقیقت ادھوار اور بیکار اور اس کا استدلال غلط اور نامعقول ہو کر رہ گیا ہے ۔ آج تک کوئی فلسفی ایسا نہیں ہوا جس کے استعدلال کی صحت یا معقولیت بجا طور پر دوسرے فلسفیوں کے شدید اعتراضات کی زد میں نہ آئی ہو۔ فلسفیوں کے باہمی اختلافات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ پھر اگر کوئی فلسفی دوسرے فلسفیوں کے اعتراضات کی روشنی میں اپنے فلسفہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کی کوشش میں کبھی کامیاب نہیںہوتا کیونکہ جب وہ اپنے غلط فلسفہ کی جو ایک غلط تصور حقیقت پر مبنی ہوتا ہے ایک خامی کودور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اندر اور خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ہم کسی کمرہ کے اندر ایک خوبصورت قالین جو کمرہ سے کسی قدر بڑا ہو اس طرح بچھانا چاہیں کہ وہ کمرہ میں پھیل جائے اور ساارے گوناگوں نقوش جو اس کے اندر بن گئے ہیں پیش نظر ہو جائیں تو ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ کمرے کی تنگی کی وجہ سے قالین میں جابجا شکن پڑ جائیں گے اور شکنوں کے اوپر کے نقوش کا منظر بگڑ جائے گا۔ یا نظروں سے اوجھل ہو جائے گا اور اگر ہم ان شکنوں کوا یک طرف سے ہٹانے کی کوشش کریں گے تو وہ کسی اور طرف ظاہر ہو گا اور اگر پھراسے طرف ہٹائیں گے تو ایک اور ہی طرف نمودار ہو جائیںگے یہی حال ایک ناقص اورادھورے تصور حقیقت کا ہے کہ یہ خوبصورت کائنات اپنے گوناگوں دلکش حقائق کے سمیت اس کی تنگ دامانی کے اندر سما نہیں سکتی۔ اگر ہم اس کے ناقص تصور حقیقت کی بنا پر کائنات کا کوئی نظام حکمت تیار کیں اور ا سطرح سے گویا کائنات کواس کے اوپر منطق کرنے کی کوشش کریں تو کائنات اس پر پوری طرح منطبق نہیں ہو گی اور نظام حکمت کے استدلال میں جا بجا عقلی اور منطقی الجھنیں پیدا ہو جائیں گی اور ان الجھنوں کی وجہ سے حقائق علمی جابجا مسخ ہو جائیں گے یانظر انداز ہو جائیں گے اور اگر ہم ان الجھنوں کو نظام حکمت کے ایک گوشہ سے دور کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ اس کے دوسرے گوشوں سے نمودار ہو جائیں گے۔ دو ممکن صورتیں ایک فلسفی کے لیے صحیح تصور حقیقت تک پہنچنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو اسے کائنات کے تمام حقائق علمی کی واقفیت فی الفور حاصل ہو جائے پھر وہ ان کی روشنی میں باسانی دیکھ لے گا کہ کون سا تصور حقیقت ایسا ہے جو ان حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کو منظم کرتاہے اس صورت میں اس کو تصور حقیقت کی فطرت اور اوصاف کا صحیح اندازہ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کیونکہ اگر وہ ان حقائق کے علم کے باجودحقیقت کا کوئی ایسا تصور قائم کرے گا جو کسی پہلو سے تھوڑا سا بھی غلط ہو گا تو کئی علمی حقائق اس کی تردید کرنے کے لیے موجود ہوں گے لیکن یہ امید عبث ہے دنیا بھر کے حکما اور علما اس بات پر متفق ہیں کہ نوع انسانی کا علم تاقیامت بھی کائنات کے تمام علمی حقائق کا احاطہ نہیںکر سکتا۔ خود قرآن حکیم نے اس حقیقت کی طرح اشارہ کیا ہے: قل لو کان البحر مذادً الکلمت ربی لنفدا البحر قبل ان تنفذوا کلمت ربی ولو جئنا بمثلہ مددا کہیے اے پیغمبر اگر سمندر کا پانی بھی میرے پروردگار کی قدرت کے نشانات کو لکھنے کے لیے بطور سیاہی ہو تو پانی نشانات کا ذکر ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گا خواہ ہم امداد کے طور ر ہی اتنا پانی اور شامل کر دیں۔ دوسری صور ت یہ ہے کہ فلسفی کو حقیقت کائنات کا صحیح تصور کہیں سے اتفاقاً دستیاب ہو جائے اور اس کا عشق اور وجدانی علم اسے یہاں تک حاصل ہو جائے کہ وہ اس کی روشنی میں ان تمام حقائق علمی کو صحیح طور پر دیکھ سکے اور سمجھ سکے جو آج تک دریافت ہوئے ہیں اور ان کو اس تصور کی بنیاد پر دوسرے تصورات کی دخل اندازی کے بغیر متحد اور منظم کر سکے ایسی حالت میں اگرچہ اس کے پاس حقائق علمی کم تعدا د میں ہوں گے تو تاہم حقیقت کائنات کے صحیح اور مکمل تصور کی روشنی میں اگر وہ ٹھیک طرح سے ان کو سمجھ سکے گا اور بتا سکے گا کہ کیونکر وہ فقط اس تصور سے مطابقت رکھتے ہیں اس صورت میں اس کانظام حکمت ناتمام تو ہو گا لیکن غلط نہیں ہو گا اور جوں جوں حقائق علمی دریافت ہوتے جائیں گے اس کے نظریہ کائنات میں اپنی جگہ پاتے جائیں گے اس طرح سے اس کا نظریہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اور یہ عمل تا قیامت جاری رہے گا جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اس قسم کے فلسفہ کے وجود میں آنے کے بعد فلسفہ کی تمام حقیقی ترقیوں کا دارومدار نئے فلسفوں کے ظہور پر نہیں بلکہ اس فلسفہ کی زیادہ سے زیادہ ترقی اور تکمیل پر ہو گا لیکن اگر فلسفی کو حقیقت کائنات کا صحیح تصور کہیں سے دستیاب بھی ہو جائے او روہ اس کے عشق اور وجدانی علم سے بہرہ ور بھی ہو جائے تو پھربھی اس تصور حقیقت سے استفادہ کرنے اور اس کی بنا پر ایک صحیح نظام حکمت کی تعمیر کرنے کے لیے یہ شرط ضروری ہو گی کہ اس کے زمانہ میں حقائق علمی یہاں تک ترقی کر چکے ہوں کہ وہ اتفاقی طور پر ہاتھ لگ جانے والے اس تصور حقیقت کے ساتھ ان حقائق کی مناسبت یا مطابقت باسانی دیکھ سکے ورنہ اس تصر حقیقت کے ساتھ ان کو علمی اور عقلی طور پر وابستہ کرنے کا امکان نہ پائے گا اور کسی اور تصور حقیقت کی تلاش میں بدستور سرگرداں رہے گا اور وہ یہ سمجھتا رہے گا کہ علمی حقائق اس تصور حقیقت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے اور لہٰذا یہ تصور حقیقت شاید درست نہیں یا شاید اس کی بنا پر کوئی فلسفہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس صورت میں کمی اس کے تصور حقیقت میں نہ ہو گی بلکہ ان حقائق علمی کی تعداد اور نوعیت میں ہو گی جو اس کے پیش نظر ہوں گے تاکہ فلسفی کا تصور حقیقت کائنات کے علمی حقائق سے بغل گیر ہو جائے ضروری ہو گا کہ کچھ تو اس تصور حقیقت زیادہ سے زیادہ صحیح اور کامل ہو کر ان حقائق کی طرف آگے بڑھے اور کچھ یہ حقائق ترقی کر کے اس کی طرف پیش قدمی کریں یہاں تک کہ اس کے ساتھ ان کے مجموعہ کی مناسبت آشکار ہو جائے۔ تصور حقیقت کے عشق کی ضرورت یہاں شاید یہ سوال کیا جائے گا کہ یہ بات تو سمجھ میں آ سکت ہے کہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے ایک فلسفی کو حقیقت وجود کے صحیح تصور سے واقف ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ اسے ا س تصور حقیقت کے ساتھ عشق بھی ہونا چاہیے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کا یہ خیال قطعی طور پر درست ہے کہ علم کا سرچشمہ انسان کا وجدان ہے اور وجدان کا باعث ہماری آرزوئے حسن یا عشق ہے۔ صحیح تصور حقیقت کا کامل عشق ہی اس کا کامل وجدان یا کامل علم ہے۔ اتنا کام علم جتنا کہ کسی شخص کی فطری استعداد علم اس کو کامل ہونے کی اجازت دے سکتی ہے: زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است زمانہ ہیچ نداند حقیقت او را جنوں قباست کہ موزوں بقاست خرد است بان مقام رسیدم چودر برش کر دم کہ طوف بام و در من سعادت خرد است قدرت نے ہر انسان کو عشق کی ایک خاص استعداد بخشی ہے۔ یہ استعداد بالعموم افراد کی ذہانت کی نسبت سے کم و بیش ہوتی ہے کوئی چاہے تو اسے غلط تصور حقیقت یا غلط محبوب کے لیے کام میں لائے اور کوئی چاہے تو اسے صحیح تصور حقیقت یا صحیح محبوب کے لیے استعمال کرے لیکن چونکہ استعدا د ایک ہی ہے یہ بات ہر حالت میں درست رہے گی کہ جس حد تک وہ اسے غلط تصور حقیقت کے لیے کام میں لائے گا اس حد تک وہ صحیح تصور حقیقت کے لیے میسر نہ آ سکیں گے انگریزی زبان میں ایک مثل ہے کہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کیک کھا بھی لیں اور کیک آپ کے پا س جوں کا توں موجود بھی رہے۔ اسی طرح سے ہو نہیں سکتا کہ آپ اپنی محبت کی استعداد کو کسی غلط تصور کے لیے استعمال بھی کر لیں اور پھر وہ صحیح تصور کے لیے بھی بچ رہے جس نسبت سے ایک انسان کی محبت خدا کے لیے بڑھتی جاتی ہے اسی نسبت سے باطل تصورات کی محبت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بالکل مٹ جاتی ہے اور اس مقام پر صحیح تصور حقیقت کی محبت اتنی کامل ہوجاتی ہے ک جتنی کہ انسان کی فطری استعداد اجازت دیتی ہو۔ لیکن یہ مقام ابراہیم خلیل اللہ کا ہے جن کے متعلق ارشاد قرآن میں ہے کہ وہ حنیف یعنی یک بین و یک اندیش تھے۔ اور ان کاایمان شرک کے تمام شوائب سے پاک تھا۔ غیر اللہ کی محبت کی تمام قسموں کو دل سے نکال کر اس مقام کو پا لینا بڑے مجاہدہ کے بعد ہی ممکن ہوتاہے۔ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں اگر فلسفی کی ساری استعداد محبت جو اسے فطرت کی طرف سے ارزانی ہوئی ہے ابھی حقیقت وجود کے صحیح تصور کے لیے وقف نہ ہوئی ہو اور اس استعداد کا کچھ حصہ کسی غلط تصور حقیقت کے لیے بھی کام آ رہا ہو تو وہ لازماً حقائق عالم کو کسی قدراس غلط محبت کی عینک سے دیکھے گا اور ان کی جو توجیہہ کرے گا وہ کامل طور پر درست نہ ہو گی۔ یعنی وہ ان حقائق کو صحیح تصور حقیقت کے ساتھ ٹھیک طرح سے متعلق نہ کر سکے گا اورلہٰذا وہ ایسا فلسفہ پیدا کرے گا جو اسی نسبت سے غلط اور ناقص ہو گا جس نسبت سے اس کی محبت غلط اور ناقص ہو گی۔ صحیح تصور حقیقت کامل کے طور پر تربیت یافتہ روشن اور طاقتور وجدان سے مرا د اس تصور کی ایک ایسی محبت ہے جو مجادہ اور ریاضت سے ترقی کر کے درجہ کمال پر پہنچائی گئی ہو۔ یہ محبت ایک روشنی ہے کیونکہ یہ غلط تصورات کی جہالتوں اور تاریکیوں سے پاک ہوتی ہے اور صحیح اور غلط اور نیک و بد اور زشت و زیبا میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کر سکتی ہے۔ پرھ یہ محبتر ایک طاقت ہے کیونکہ یہ غلط تصورات پر ان کی غیر معمولی قوت کے باوجود فتح پاتی ہے صحیح تصور کے کامل عشق کے بغیر فلسفی کا علم ناقص رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے نزدیک صحیح تصور حقیقت کا کامل عشق صحیح فلسفہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے اس کے بغیر عطار یا رومی یا رازی یا غزالی ایسا ایک شخص بھی علم سے محروم رہتا ہے: عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی غلط فلسفہ بھی غلط محبت سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ تصور حقیقت کا عشق صرف اس فلسفی کا ہی امتیاز نہیں ہوتا جو صحیح تصور حقیقت کو اپنے فلسفہ کی بنیاد بنا رہا ہے بلکہ استدلال کی طاہری اورعارضی قوت جو ایک فلسفہ غلط کو حاصل ہوتی ہے وہ اس کے موجد کے اس عشق کی وجہ ہوتی ہے جو اسے اپنے غلط تصور حقیقت سے ہوتا ہے۔ اس عشق کی وجہ سے وہ ان سچے حقائق سے آنکھیں بند کر لیتا ہے جو اس کے غلط تصور حقیقت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ور ان غلط حقائق کو صحیح سمجھ لیتا ہے جو اس کے غلط تصور حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوں مثلاً اگر کارل مارکس کو اپنے غلط تصور حقیقت سے عشق نہ ہوتا تو وہ ہرگز ایسا فلسفہ نہ لکھ سکتا جو قطعی طور پر غلط ہونے کے باوجود آج کروڑوں بندگا ن خدا کی زندگیوں کا مدار و محور بنا ہوا ہے۔ اب غور کیجیے ک ایک طر ف تو کائنات کا صحیح فلسفہ انسان کی شدید نظری اور عملی ضرورت میں سے ہے اور دوسری طرف سے اس کے بہم پہنچنے کی راہ میں ناقابل عبور دشواریاں ہیں لیکن قدرت کا قاعدہ ہے کہ انسان کی ہر شدید قدرتی ضرورت کی تشفی کے لیے وہ اپنا نظام کرتی ہے ۔ اور اس التزام کی بنیاد باسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر قدرت ایسا نہ کرے تو کائنات میں اس کے مقاصد کی تکمیل نہیںہو سکتی۔ جس طرح سے قدرت ہماری شدید بانی ضروریات کی تکمیل کے لیے بادل ہوا سورج چاند زمین اور آسمان ایسی قوتوںکو کارفرما کرتی ہے اسی طرح سے وہ ہماری شدید روحانی ضروریات کی تشفی کے لیے انبیاء کا سلسلہ قائم کرتی ہے۔ اس کتاب میں آگے چل کر اقبال کے نظریہ نبوت کی پوری تشریح کی جائے گی۔ یہاں صرف یہ گزارش کرنا مقصودہے کہ حضرت انسان کے لیے ہر نبی کا سب سے پہلا اور سب سے آخری اور سب سے زیادہ قیمتی تحفہ حقیقت کائنات کا صحیح تصور ہوتا ہے اسی تصور کو ہم خدا کا تصور کہتے ہیں۔ اس تصور کی پوری حقیقت ا سکے عملی اطلاق سے ہی سمجھ میں آتی ہے ۔ اور اس کا عملی اطلاعق جس کا ظہور سب سے پہلے نبی کی عملی زندگی کی مثال میں ہوتا ہے ا س وقت تک مکمل نہیںہوتا جب تک کہ بنی نو ع انسان کی سماجی زندگی کے ارتقا کر کے ایک خاص مقام تک نہ پہنچ جائے۔ جہاں سے اس کے تمام ضروری اور قدرتی پہلو مثلاً سیاست ‘ جنگ معاشیات‘ قانون‘ معاملات‘ وغیرہ پوری طرح سے نمایاں ہوں جونہی کہ انسانی سماج کا ارتقا اس مرحلہ پر پہنچتا ہے اس میں ایک ایسا نبی پیدا ہوتا ہے جو اپنی عملی زندگی ک مثال کے ذریعہ سے انسان کی عمملی زندگی کے ان تمام ضروری شعبو ں پر خدا کے تصور کا اطلاق کرتا ہے او ر اس اطلاق کے ذریعہ سے خدا کے تصور کی صٖات کے نظری اور عملی پہلوئوں کو آشکار کرتا ہے۔ وہ گویا پہلا شخص ہوتا ہے جو نوع بشر کو حقیقت کائانت کا ایسا کامل تصور عطا کرتا ہے جو ایک کامل اور صحیح فلسفہ کی بنیاد بن سکتا ہے اور بنتا ہے۔ اس بنی کے ظہور کے بعد نبوت کا اختتام ایک قدرتی بات ہے کیونکہ اس کے بعد انسان کے لیے کوئی مشکل باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنی عملی زندگی کو ہر قسم کی درستی اور ثروت کے اعتبار سے نقطہ کمال پر پہنچا سکے اور وہ خاتم الابنیاء جنہوں نے نوع انسانی کو حقیقت کائنات کا کامل تصور عطا کیا ہے جناب محبد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ فلسفی جس نے علمی حقائق کی ترقیوں کے اس دور میں سب سے پہلے اپنے فلسفہ کی بنیاد نبوت کاملہ کے عطاکیے ہوئے کامل تصور حقیقت پر رکھی ہے اقبال ہے اور وہ فلسفہ جو اس کے دور کے علمی حقائق کو نبوت کے عطا کیے ہوئے کامل تصور حقیقت کی بنیادوں پر منظم کرتا ہے فلسفہ خودی ہے۔ اقبال نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہی وہ تصور حقیقت کی بنیادوں پر منظم کرتا ہے فلسفہ خودی ہے اقبال نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہی وہ تصور حقایت ہے جو صحیح اور تمام حقائق کائنات کو منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بار بار کہتا ہے کہ وہ فلسفہ جو نبوت کاملہ کے عطا کیے ہوئے تصور حقیقت پر مبنی نہ ہو بلکہ حقیقت کے کسی ایسے تصور پر مبنی ہو جو کسی فلسفی نے حقائق عالم کی ناتمام معرفت کی بنا پر نبوت کی مدد کے بغیر خود بخود قائم کر لیا ہو بیکار اور غلط ہے اورتمام فلسفے جو آج تک وجود میں آئے ہیں ایسے ہی ہیں۔ صرف خدا کا عشق ہی صحیح فلسفہ کی بنیاد بن سکتاہے۔ اور اس عشق کا منبع رسولؐ کی اطاعت ہے۔ نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زناری برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری دل در سخن محمدی بند اے پور علی زبو علی چند ہیگل کے فلسفہ پر اقبال نے جو تحقیر آمیز تنقید کی ہے وہ دراصل اس کے نزدیک ہر غیر قرآنی فلسفہ پر صادق آتی ہے۔ حکمتش معقول و بامحسوس در خلوت نہ رفت گرچہ فکر جکر او پیرایہ پوشد چوں عروس طائر عقل فلک پرواز او دانی کہ چیست ماکیاں کز زور مستی خایہ گیر و بے خروس سچا تصور حقیقت فقط خدا کاتصور ہے جو زندہ اور حی و قیوم ہے۔ باقی تمام تصور ات حقیقت مردہ ہیں اور مرد ہ کی تصویر کشی بھی مردہ ہی ہوتی ہے۔ اگر آج اسے زندہ سمجھا جا رہا ہو تو یوں سمجھیے کہ وہ نزع کی حالت میں گرفتار ہے اور اسے آج نہیں تو کل مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا جائے گا۔ یا مردہ ہے یا نزعع کی حالت میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے ٭٭٭ بلند اقبال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا پھرا فضائوں میں شاہیں اگرچہ کرگس وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا ٭٭٭ حکیماں مردہ را صورت نگارند ید موسیٰ دم عیسیٰ ندراند دریں حکمت دلم چیزے نہ دید است برائے حکمت دیگر تپید است ظاہر ہے کہ حکمت دیگر سے اقبال کی مراد وہ حکتم ہے جو زندہ خدا کو حقیقت کائنات مانتی ہو۔ خدا ہی وہ تصور حقیقت ہے جو سچے عشق کا منبع ہے اور جس کی فلسفی کو ضرورت ہے۔ اسی عشق سے کائنات کے راز ہائے سربستہ منکشف ہوتے ہیں۔ یہی وہ خون جگر ہے جس سے فلسفہ کو لکھا جاتاہے تو پھر نہ حالت نزع میں گرفتا ر ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے اور خدا کا عشق خدا کے رسول کے عشق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا: مے ندائی عشق و مست از کجاست ایں شعاع آفتاب مصطفی است عقل تصور حقیقت کے تابع رہتی ہے اور اس کی راہیں اتنی ہی ہیں جتنے کہ حقیقت کے تصورات موجود ہیں ۔لہٰذا اقبال نے عقل کو’’عقل ہزار حیلہ‘‘ کہا ہے سچے فلسفہ کا دارومدار محض عقل پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ خدا کا سچا عشق عقل کی راہ نمائی کرے۔ سچے عشق کا راستہ فقط ایک ہے اور وہی انسان کی صحیح منزل کی طرف جاتاہے لیکن عقل کے راستے ہزاروں میں۔ نشان رہ ز عقل ہزار حیلہ مپرس بیا کہ عشق کمالے زیک فنی دارد اسی طرح سے وہ علم شیطانی ہے جو خدا کے سچے عشق سے راہ نمائی نہیں پاتا۔ ایسا علم صحیح فلسفہ کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ لیکن وہ علم جو خدا کی محبت کے ماتحت وجود میں آئے پاکیز ہ اور صحیح ہوتا ہے اور صحیح فلسفے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ علم بے عشق است از طاغوتیاں علم باعشق است از لاہوتیاں ٭٭٭ نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خورد دل است ٭٭٭ بے محبت علم و حکمت مردہ عقل تیرے بر ہدف نا خوردہ ٭٭٭ بچشم عشق نگر تا سراغ او بینی جہاں بچشم خرد سیمیا و نیرنگ است ٭٭٭ وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم ٭٭٭ نقطہ ادوار عالم لا الہ منتہائے کار عالم لا الہ لا و الا احتساب کائنات لا و الا فتح باب کائنات ٭٭٭ حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم نگاہ چاہیے اسرار لا الہ کے لیے ٭٭٭ فلسفی را با سیاستدان بیک میزان مسخ چشم آں خورشید کورے دیدہ آں بے نے ایں تراشد قول حق را حجتے نا استوار آں بیارد قول باطل را دلیلے محکمے ہر علمی حقیت (حکمت کی بات) صرف ایک فلسفے کے ساتھ پوری مطابقت رکھتی ہے اور وہ وہی ہے جو صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور پر مبنی ہو لہٰذا جہاں سے وہ مل جائے اسے تلاش کر کے اس فلسفہ کا جزو بنا دینا چاہیے۔ گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں کیر را بینی بگیر چونکہ صحیح اور سچی حکمت جو دنیا کی آخری حکمت ہو گی خدا کی محبت یا خدا کے عشق کی بنیاد پر قائم ہو گی اور نوع بشر کو متحد کر کے انہیں دائمی امن سے ہمکنار کرے گی۔ اقبال اس بات پر زورتحریک کرتا ہے کہ خدا کہ محبت کے نظریہ کو ایک فلسفہ یا حکمت کی شکل دی جائے۔ ا س کے بغیر نہ تو خود یہ نظریہ قائم قبولیت حاصل کر سکے گا اور نہ ہی عالم انسانی غلط فلسفوں اور باہمی آویزشوں اور رقابتوں سے نجات پا سکے گا۔ اس قسم کا فلسفہ جب بھی وجود میں آئے گا ایک عالم گیر انقلاب اپنے ساتھ لاء گا اور ایک نئی دنیا پیدا کرے گا۔ عقل جس پر اہل مغرب کی زندگی کا دارومدار ہے عشق سے راہ نمائی حاصل کرتی ہے اور خدا کا عشق جو اہل مشرق کا امتیار ہے۔ عقل سے قوت حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا جب عقل اور عقل ایک دوسرے کے ہم دوش ہو کر ایک دوسرے کے ممدو معاون بن جائیں گے تو پوری دنیا کے اندر ایک انقلاب کا رونما ہو جانا ضروری ہو گا۔ غریباں را زیرکی ساز حیات شرقیاں را عشق رمز کائنات زیرکی از عشق گرد و حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہمبر بود نقش بند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بند عشق را با زیرکی آمیز وہ لیکن ان تمام علمی حقائق کو جنہیںانسان کی جستجوئے صداقت آج تک دریافت کر سکی ہے حقیقت کے صحیح تصور کے ساتھ منسلک کرنے کے بعد بھی تصور حقیقت کی تشریح اپنے کمال کو نہیںپہنچے گی کیونکہ قیامت تک نئے نئے علمی حقائق دریافت ہو کرا س حقیقت کی تشریح کے رشتہ میں منسلک ہوت یرہیں گے اور اس کو زیادہ سے زیادہ روشن اور واضح کرتے رہیں گے اسی لیے اقبال نے تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے دیباچہ میں مشورہ دیا ہے: ’’جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کی نئی نئی راہیں کھلتی جائیں گی ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیں گے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم انسان کی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے تصور حقیقت کی روشنی میں ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں‘‘۔ اسی خیال کو اقبال نے اس شعر کا جامہ پہنایا ہے: گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر لیکن اگر کوئی شخص آج حقیقت کی معرفت تامہ کا خواہس مند ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت کے ذریعہ سے حقیقت کے حسن و کمال کا ذاتی احساس یا تجربہ یا عشق پیدا کرے ورنہ نہ تو کوئی دانائے راز حقیقت کائنات کی مکمل تشریح کر سکتا ہے اورنہ ہی کس فرد بشر کے لیے ممکن ہے کہ فقط اس کی تشریح کو سن کر یا پڑھ کر کائنات کی مکمل معرفت حاصل کر سکے۔ حقیقت پہ ہے جامہ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ فروزاں ہے سینہ میں شمع نفس مگر تاب گفتار کہتی ہے بس زباں اگرچہ دلیر است و مدعا شیریں سخن ز عشق چہ گویم جزا لکہ نتواں گفت رومی نے اس خیال کو بڑے زور دار الفاظ میں ظاہر کیا ہے: ہرچہ گویم عشق را شرح و بیاں چوں بعشق آیم خجل ہاشم ازاں گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است لیک عشق بے زباں روشن ترا است چوں قلم اندر نوشتن مے شتافت چوں بعشق آمد قلم برخود شگافت چوں سخن در وصف ایں حالت رسید ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید عقل در شرجش چوخر دل گل نجفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلت باید از دے رومتاب اقبال ایک ایسا عاشق زات فلسفی اپنے عشق کی حکیمان توجیہ اس لیے کرتا ہے کہ تاکہ اس ک امطالعہ کرنے والا ان عقلی اور علمی قسم کی رکاوٹوں سے نجات پائے جو حقائق علمی کی غلط بینی غلط فہی اور غلط ترجمانی سے اس کے عشق کی راہ میں پیدا ہو گئی ہوں اور تاکہ وہ ان کی رکاوٹوں سے نجات پا کر اس کے عشق سے بہرہ اندوز ہوں اور پھر جب ا س کی محبت کا چراغ اس طرح سے روشن ہو جائے تو وہ بے اختیار عبدت اور ریاضت کی طرف متوجہ ہو اور پھر عبادت ارو ریاضت کے راستہ ہی سے اپنے عشق کو یہاں تک ترقی دے کہ اسے کم از کم اس غرض کے لیے جو خود حکمت کی بھی حاجت نہ رہے پہلے حکمت سے اس کا عشق پیدا ہو اورپھر اس کے عشق سے حکمت پھوٹتی اور بڑھتی اور پھولتی رہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر علمی حقیقت اصرف ایک ہی تصور حقیقت کے ساتھ عقلی اور علمی طور پر وابست ہے اور وہ خدا کا تصور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ک کائنات کا ہر ذرہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے ک خدا ہی کائنات کی سچی حقیقت ہے اس لیے قرآن حکیم نے کائناب ک ہر علیمی حقیقت کو ایک آیت نشان کہا ہے: وفی الارض ایت للمومنین (اور زمین میں خدا پر یقین رکھنے والوں کے لیے بہت سے نشانات ہیں) یعنی چونکہ کائنات کی علمی حقیقتیں صرف خدا کے تصور کے ساتھ جو کائنات کی صحیح اور اصلی حقیقت ہے مطابقت رکھتی ہیں اور کسی باطل تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں لہٰذ ا وہ خدا کی خدائی کے نشانات یا دلائل یا شہادتیں ہیں۔ سچا فلسفی یہی کرتا ہے کہ جس قدر حقائق تمام نوع بشر کے دائرہ علم یں داخل ہو چکے ہوں اور ان کو معروف اور مقبول علمی اور بنیادی عقلی معیاروں کے مطابق کائنات کی سچی حقیقت کے ساتھ وابستہ کر کے معلوم کائنات کے ذرہ ذرہ سے کہلواتا ہے کہ کائنات کی سچی حقیقت وہی ہے۔ وفی کل شی لہ ایتہ تدل علی انہ واحد اور اس طریق سے باطل کے تصورات حقیقت کے حق میں تمام ممکن شہادتوں کو ملیامیت کر دیتا ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ابھی نوع بشر کے احاطہ علم میں بہت کم حقائق عالم داخل ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ کم ہوں یا زیادہ سب اسی کے تصور حقیقت کی تائید کر رہے ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ غلط تصورات حقیقت کے حق میں جھوٹی شہادتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں ان کا دارومدار بھی تو ان ہی حقائق کی غلط ترجمانی پر ہوتا ہے۔ جب ہماری معلوم کائنات کا ہر ذرہ بلند آواز سے اس بات کی شہادت دینے لگ جائے کہ کائنات کی سچی حقیقت خدا ہے تو وہ ساتھ ہی اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ خدا کے سوائے تمام تصورات حقیقت باطل اور نامعقول ہیں۔ ومن یدع مع اللہ الھاً اخر لھا برھان لہ بہ اور جو شخص خدا کو چھوڑ کر کسی اور معبود کو پکارے اس کے پاس کوئی دلیل یا شہادت موجود نہیں ہو سکتی۔ اور جب پوری کائنت میں ایک بھی علمی شہادت کسی باطل تصور حقیقت کے حق میں باقی نہ رہے تو پھر باطل تصورات حقیقت کا باقی رہنا ناممکن ہو جاتاہے اور پھر حقیقت کائنات کے صحیح تصور پر قائم کیا ہوا نیا سچا فلسفہ دنیا بھر میں اشاعت پذیر ہوتا ہے اور کسی مزاحمت کے بغیر دنیا کے کناروں تک پھیل جاتا ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ تصورات حقیقت فقط علمی دلچسپی کے نظریات نہیں ہوتے بلکہ افراد اور اقوام کی علمی زندگی کی پوری عمارتیں ان بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہیںلہٰذا جب وہ علمی حیثیت سے ختم ہو جائیں تو ان تعمیرات کا ختم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو ان پر کھڑی ہوں اور جب ساری دنیا ہی باطل ہو تصورات حقیقت پر تعمیر پائے ہوئے ہو تو ایسی حالت میں اس نئے سچے فلسفے کا ظہور ہونا اور اشاعت پانا جو دونوں دنیائوںکی حقیقت کے مرغوب اور مروج تصورات کوباطل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ساری دنیا کے لیے ایک قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ باطل تصورات حقیقت کے پرستاروں میں سے کون ایسا ہو گا جو کسی فرد واحد کی ذات میں اس قیامت کو ابھرتا ہوا دیکھے اور اسے مٹانے کے درپے نہ ہو جائے۔ لہٰذا اس قسم کے زلزلہ خیز فلسفہ کو پیش کرنا بڑی جرات کی بات ہے جس کی توقع ہر شخص سے نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ وہ اپنے فکر کی تلوار سے اپنے ہم عصر لوگوں کی دونوں دنیائوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے۔ حکمت و فلسفہ ہمت مرے باید تیغ اندیشہ بروئے دو جہاں آختن است ٭٭٭ خوگر من نیست چشم ہست و بود لرزہ برتن خیزم از بیم نمود تاہم یہ قیامت آ کر رہتی ہے اور جب حقیقت کے باطل تصور ات مٹ رہے ہوتے ہیں ا ور ان کے اوپر کی عمارتیں بھی منہدم ہو رہی ہوتی ہیں تو اس عمل کے ساتھ ساتھ اس نئے سچے نظام حکمت کی بنیادوں پر ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے جسے عاشقان جمال ذات مل کر اپنی مرضی کے مطابق تعمیر کرتے ہیں اور ان کی مرضی خداہی کی مرضی ہوتی ہے گویا اس سے پہلے ان کے اور خدا کے درمیان یہ مکالمہ ہو چکا ہوتا ہے: گفتند جہان ما آیا بتومے سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برھم زن اور پھر خدا ان عاشقوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہی ہو گا اور تمہاری مزاحمت کرنے والے مٹا دیے جائیں گے: قدم بیباک تر نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست یہی وجہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ صحیح تصور حقیقت پر ایک نئے فلسفے کی تشکیل کریں: عشق چوں با زیرکی ہمبر بود نقش بند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بند عشق را با زیرکی آمیز دہ چونکہ اس وقت صحیح تصور حقیقت اپنی پوری صحت اور صفائی کے ساتھ صرف مسلمان قوم ہی کے پاس ہے جو خاتم الانبیاء کی دعوت و تعلیم کی حامل ہے ۔ ضروری ہے کہ یہ قوم اپنے نظریہ کی وجہ سے کسی جنگ و جدال کے بغیر وئے زمین پر غالب آئے: ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے جب ایسا ہو گا تو یقینا یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا حادثہ اور عظیم الشان انقلاب ہو گا لیکن یہ حادثہ اور یہ انقلاب ضمیر افلاک میں مخفی ہونے کے باوجود اقبال کی نگاہوں میں آشکار ہے: انقلابے کہ نگنجد ضمیر افلاک بینم و ہیچ ندانم کہ چسان مے بینم ٭٭٭ حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے اس حادثہ یا انقلاب کے بعد جو حیرت انگیز نئی دنیا کے وجود میں آئے گی اس وقت ہم میں سے کوئی ا س کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور کسی کو اس کا خیال بھی نہیں آ سکتا کہ مسجد میں نہ مکتب میں اور نہ مے خانہ میں: کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام مسجد و مکتب و مے خانے میں مدت سے خموش ٭٭٭ عالم تو ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کے سحر بے حجاب یہ بات حیر ت میں ڈالنے والی ہے اور اگر زبان سے کہی جائے تو اسے کون مانے گا کہ کفر اور شرک اور فسق و فجور اور جنگ و جدال کے ایک ایسے طویل دور کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں دنیا کے ایک کنار سے دوسرے کنار تک خدا پرستی اور نیکی اور امن اور صلح اور سلامتی کا دور دورہ ہو گا۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی لیکن اہل فرنگ جو اس وقت دنیا میں غالب ہیں اس بات کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ آخر کار مسلمان قوم ہی غالب رہے گی۔ سمجھنا تو درکنار وہ تو ا س با ت کو سننا بھی گوارانہیں کریں گے۔ پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب خود قرآن حکیم کے اندر عالم انسانی کے اس شاندار مستقبل کی پیش گوئی موجود ہے قرآن حکیم میں بڑی تحدی سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ ابنیاء کا نظریہ حیات ہی دنیا میں غالب رہے گا۔ اور دوسرے تمام نظریات مٹ کر فنا ہو جائیں گے۔ کتب اللہ لا تغلبن انا ورسلی (خدا نے لکھ دیا ہے کہ بے شک میں اور میرے رسول ہی دنیا میں غالب رہیں گے) انتم الا علون ان کنتم مومنین (اگر تم سچے مومن بنو گے تو تم ہی دنیا پر غالب رہو گے) لقد سبقت کلمتنا بعبادنا المرسلین انھم لھم المنصور ون وان جندنا لھم الغلبون (اور بے شک ہمارے پیغمبروں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ یقینا وہ مظفر و منصور ہو ں گے اور ہمارا لشکر ہی لازماً غالب رہے گا)۔ اور پھر جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے متعلق بالخصوص فرمایا گیا ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظہر علی الدین کلہ و کفی باللہ شھیدا منکرین نبوت فلسفیوں کو آج تک اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود بھی کائنات کی سچی حقیقت کا پورا علم نہیںہوا۔ حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم نگا چاہیے اسرار لا الہ کے لیے اگرچہ اس حقیقت کے علم کی طر ف انہوںنے کچھ پیش قدمی ضرور کی ہے دراصل فلسفہ اور نبوت دو مختلف راستو ںسے ایک ہی منزل یعنی حقیقت عالم کی نقاب کشائی کی منزل کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ نبوت خاتم النبیینؐ کے ظہور سے پہلے اپنی جگہ پر نہ پہنچ سکی تاہم اس کی رفتارکا ہر قدم صحیح راستہ پر اٹھا اور صحیح منزل کی طرف بڑھتا رہا۔ اور اس کے برعکس اگرچہ فلسفی جزوی اور محدود کامیابیاں حاصل کرتا رہا لیکن حقیقت کائنات کے صحیح تصور سے محڑوم ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر منزل سے دور ٹھوکریں کھاتا رہا۔ نبوت کاملہ کی راہ نمائی کے بغیر صحیح قسم کے وجدان سے آغاز کرنا اور لہٰذا صحیح عقلی استدلال کو پانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہر دو امیر کارواں ہر دو منزلے رواں عقل بحیلہ می کشد عشق برو کشاں کشاں نبوت کی ایک ووکوشش یہ تھی کہ انسان کو نظام عالم کی عقلی ترتیب کی تفصیلا ت میں لے جانے کی بجائے انسان کو اس کے ضروری حقائق کی واقفیت اس حد تک بہم پہنچا دی جائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے عمل پر آمادہ ہو جائے جس سے نہ صرف اس کی عملی زندگی درست اور پر امن او رخوشگوار ہو بلکہ جس سے اس کے اندر وہ صحیح وجدان حقیقت بھی پیداہو جائے جو بیک وقت حقیقت اور حقیقت کا بنیادی علم ہوتا ہے۔ اور جسکے بغیر وہ نہ تو حقائق کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکتا ہے اور نہ ان کی صحیح عقلی اور علمی ترتیب کو دریافت کر سکتا ہے۔ زندگی کو درست اور پرامن اور خوشگوار بنانا اور حقائق عالم کی عقلی ترتیب کا دریافت کرنا انسان کی یہ دونوں ضرورتیں ایسی ہیں کہ نبوت کی روشنی کے بغیر ان کی عکمیل ممکن نہیں لیکن انسان کی پہلی ضرورت فوری تکمیل کا تقاضا کرتی ہے۔ اور دوسری ضڑورت اس نوعیت کی ہے کہ اگرچہ اس کی تکمیل کے لیے انسان ہر روز قدم بڑھاتا ہے لیکن اس کی آخری اور پوری تکمیل نوع بشر کے علمی ارتقاء کے ایک خاص مقام پر ہی ہو سکتی ہے اس سے پہلے نہیں ہو سکتی یہی سبب ہے کہ نبوت اپنے کمال کو پہنچ کر بھی ہمیں نظام عالم کی عقلی منطق کی واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ صرف اس اعلیٰ قسم کے وجدان کی ترتیب کا اہتمام کرتی ہے جو آخر کار اس واقفیت کے حصول کے لیے ضروری ہے اور جس کے بغیر ہمارا عقلی استدلال کامل طور پر درست نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ نے ٹھیک سمجھا کہ نظام عالم ایک زنجیر کی طرح ہے جس کی ہر کڑی اگلی کڑی کے ساتھ ای عقلی اور عمی تعلق رکھتی ہے ۔ لہٰذا اسے یہی نظر آیا کہ وہ نہایت آسانی سے یہ سلسلہ عالم کی ساری کڑیوں کو عقل کی مدد سے دریافت کر لے گا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ہر بار اپنے غلط وجدان کو ہی ایک منطقی زنجیر کی شکل دیتا رہا اور لہٰذا ہمیشہ ناکام رہا۔ اگر فلسفہ ذرا جرات سے قدم اٹھاتا اورنبوت کاملہ کے تصور حقیقت کو جب کہ وہ دنیا کے اندر ظہور پذیر ہو کر اس کی تعلیم دے چکی تھی تو اپنا لیتا تو اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتیں اور وہ صحیح عقلی استدلال جو صدیوں سے اس کی جستجو کا محور رہا ہے اسے حاصل ہو جاتا لیکن جب تک فلسفہ اپنے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ چلتے چلتے نبوت کے تصور حقیقت کے قرب و جوار میں ایک خاص مقام پر نہ پہنچ پاتا یہ دلیرانہ قاقدام اٹھانا اس کے لیے ممکن نہ تھا خوش قسمتی سے اس بیسویں صدی میں طبیعیات‘ حیاتیات اورنفسیات کے اکتشافات کی وجہ سے فلسفہ کو یہ مقام حاصل ہو گیا ہے اور ا س کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے اقبال کی حکمت میں تعلیم نبوت کی اصل یعنی توحید یا حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ساتھ پیوست ہونے کا دلیرانہ قدم بھی اٹھا لیا ہے۔ اقبال کافلسفہ خودی نبوت کے عطا کیے ہوئے تصور حقیقت کی ایسی تشریح بہم پہنچاتا ہے جس میں آج تک کے دریافت کیے ہوئے تمام عملی حقائق سموئے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی کہ مستقبل کے عملی حقائق بھی اس کے اندر کیوں سموئے نہ جا سکیں گے۔ فلسفہ کے اس دلیرانہ قدم نے اب راہ گم کردہ عقل کو اپنی منزل مقصود پر پہنچا دیا ہے اور اب اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ وہ اس کے بعد بھی بھٹکتی رہے گی۔ اگرچہ اسے عالمگیر انسانی سطح پر سمجھنے کے لیے کچھ وقت لگے گا کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے اور اس کے آگے اب اس کی کوئی منزل نہیں: در جہان کیف و کم گردید عقل پے بہ منزل برو از توحید عقل ورنہ ایں بے چارہ را منزل کجاست کشتی ادراک را ساحل کجاست اقبال کا مقام عظیم تعلیم نبوت اور افلسفہ کا یہ اتصال انسان کے علمی ارتقا کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو نوع انسانی کو ترقی کے ایک نئے دو رمیں داخل کرتا ہے اور اقبال اس دور کا نقیب ہے اس واقعہ سے اس عالمگیر ذہنی انقلاب کا آغاز ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور جس کے نتیجہ کے طور پر مسلمان قوم دنی امیںغالب ہو گی اور عالم انسانی امن اور اتحاد کی دولت سے مالا مال ہو گا۔ اس واقعہ سے حقیقت انسان کا علم جس پر انسان کے دائمی امن اور اتحاد کا دارومدار ہے۔ پہلی دفعہ ایسی منظم صورت میں سامنے آیا ہے جو دور حاضر کے انسان کو مطمئن کر سکتی ہے اور جو اس کی عالم گیر مقبولیت کی ضامن ہے۔ اقبال مسلمانوں کو نہایت زور دار الفاظ میں ’’عشق‘‘ اور ’’زیرکی‘‘ کی جس آمیزش کی دعوت دیتا ہے وہ خود ہی اس کا آغاز کرتا ہے اور اس طرح سے خود ہی ’’عالم دیگر]‘ کی بنیاد رکھتا ہے۔ گویا اقبال آئندہ کے لی اس عالمگیرذہنی انقلا ب کا نقیب ہی نہیں بلکہ بانی بھ ہے جس کے بعد اور کوئی ذہنی انقلاب نہیں آ سکے گا لہٰذا اقبال آئندہ کی مستقل عالمگیر ریاست (World State)کا وہ ذہنی اور نظریاتی بادشاہ ہے جس کی بادشاہت کو زوال نہین ایک معمولی آدمی کیلیے جو رسول نہیں بلکہ رسولؐ کا ایک ادنیٰ غلام ہے عظمت کایہ مقام اس قدر بلند ہے کہ اس سے بلند تر مقام ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اقبال اپنے اس مقام سے آگاہ ہے یہی سبب ہے کہ وہ بار بار اپنے اشعارمیں یہ کہتا ہے کہ اسے زندگی کے راز سے آشنا کیا گیا ہے آج تک کسی شخص نے کائنات کے وہ اسرا ر ورموز بیان نہیں کیے ہیں جو اس نے بیان کیے ہیں۔ اس کی حکمت معانی اور ھقائق کے بیش قیمت موتیوں کی ایک لڑی ہے جس کی کوئی نظیر آج تک پیش نہیں کی گئی ۔ اگرچہ وہ ایک ذرہ ہے لیکن سورج کی روشنی سے ہم کنار ہے ۔ علم و حکمت کے نور کی سینکڑوں صبحیں اس کے گریبان میں روشن ہیں۔ اس کی خاک جام جم سے زیادہ منور ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے۔ اس کے فکر کی رسائی ان حقائق تک ہوتی ہے جو ابھی دوسرے لوگوں پر آشکار نہیں ہوتے۔ چشمہ حیواں براتم کردہ اند محرم راز حیاتم کردہ اند ہیچ کس رازے کہ من گوتم نگفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت ذر ام مہر میز آن من است صد سحر اندر گریبان من است خاک من روشن ترا از جام جم است محرم از نازاد ہائے عالم است فکرم آں آہو سرفتراک بست کو ہنوز از نیستی بیرون نجست ٭٭٭ برآمد روزگار ایں فقیرے دگرد انائے راز آید نہ آید ٭٭٭ عمرہا در کعبہ و بت خانے مے نالد حیات تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں ٭٭٭ وہ جانتا ہے کہ اگر چہ آج کا انسان اپنی علمی بے مائیگی اورروحانی پس ماندگی کی وجہ سے پوری طرح اس کی قدردانی نہ کر سکے گا تاہم مستقبل میں پوری نو ع بشر اس کے افکار کو اپنائے گی اور اس کی فکری قیادت کو قبو ل کرے گی وہ تنہا نہیں رہے گا بلکہ سینکڑوں کارواں اس کے ہمراہ ہوں گے‘ وہ صبح عنقریب نمودا ر ہونے والی ہے جب لوگ جہالت کی نیند سے اٹھیں گے اور محبت کی اس آگ کے گرد جو اس نے روشن کی ہے آگ کے پجاریوں کی طرح ذوق و شوق سے جمع ہوں گے وہ مستقبل کے شاعر کی آواز ہے اور ایسا نغمہ ہے جسے زخمہ در کی حاجت نہیں اور جو ہر حالت میں بلند ہو کر رہے گا۔ اس کا کلام ایک عالم گیر انقلاب اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے جب یہ انقلاب آئے گا تو لوگ ا س کے اشعار پڑھ پڑ کر جھومیں گے اور کہیں گے کہ یہ وہ مرد خود آگاہ ہے جس نے دنیا کو بدل دیا ہے: عصر من دا نندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نغمہ من از جہان دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است نغمہ ام از زخمہ بے بروا ستم من نوائے شاعر فردا ستم بچشم کم مبین تنہا میم را کہ من صد کارواں گل درکنارم قلزم یاراں چو شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفان فروش انتظار صبح خیزاں مے کشم اے خوشا زر دشتیان آتشم ٭٭٭ پس از من شعر من خوانند دمے رقضد و می گوئند جہانے راہ دگرگوں کودیک مرد خود آگاہ ہے اقبال کی خود ستائی ٹھوس علمی حقائق ہیں اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اقبال کے اس قسم کے اشعار محض خودستائی کے جذبات یا شاعرانہ تعلیات پر مشتمل نہیں بلکہ ایسے ٹھوس حقائق کو بیان کرتے ہیں کہ جو مضبوط علمی اور عقلی بنیادوں پر قائم ہیں جو اس کے فلسفہ کا جزو لاینفک ہیں اور جن کا اظہار اس کے لیے خود اپنے فلسفہ کی تشریح کے لیے ضروری تھا کہ اگر اقبال ان کا اظہار نہ کرتا تو اس کا فلسفہ ناتمام رہ جاتا اور یہ ایک ایسی فروگزاشت ہوتی جس کی وجہ سے اقبال کی قوم ایک حد تک اس کے فکر کی معقولیت اوراہمیت سے نا آشنا رہ جاتی۔ اقبال کا امتیاز اس کے جواب میں شاید یہ کہا جائے گا کہ آج تک کوئی غیر مسلم فلسفی ایسا نہیں ہوا کہ جو نبوت کاملہ کے تصور حقیقت پر اپنے فلسفہ کی بنیاد رکھتا ہو تویہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن اگر اقبال سے پہلے بھی کوئی ایک بھی مسلمان فلسفی گزرا ہے تو اس کے فلسفے کی بنیاد لازماً خدا کے اسلامی تصور پر ہو گی تو پھر اقبال کی خصوصیت کیا ہے پھر کیوں نہ اس مسلمان فلسفی کو نوع بشر کا آخری فلسفی اور آئندہ کے عالمگیر ذہنی انقلاب کا بانی قرار دیا جائے اور پھر اس سلسلہ میں شاید شاہ ولی اللہ اور محی الدین عربی ایسے اکابر اسلا م کا نام لیا جائے لیکن اس زمانے کے خاص ذہنی حالات اور خاص علمی ماحول اور مقام کی بنا پر اقبال کے فلسفہ کو جو خصوصیات حاصل ہوئی ہیں وہ آج سے پہلے کسی مسلمان فلسفی کے فلسفہ کو حاصل نہیں ہو سکتی تھیں اور نہ حاصل ہو سکی ہیں۔ اقبال کے امتیازی مقام کی وجوہات پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال کے اس زمانہ میں حکمائے مغرب کی تحقیق و تجسس کی بدولت علم کے تینوں شعبوں یعنی طبیعیات حیاتیات اور نفسیات میں علمی حقائق نے اس سرعت سے ترقی کی ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی یہ ترقی سائنس کے ایک خاص اسلوب تحقیق کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جو اشیا کے خواص و اوصاف کے مشاہدہ کی بنا پر پوری احتیاط کے ساتھ صحیح صحیح علمی نتائج مرتب کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہ اسلوب تحقیق سب سے پہلے خود مسلمانوں نے قرآن کی راہ نمائی میں ایجاد کیاتھا لیکن محققین یورپ نے اس سے متواتر کام لیا ہے اور اس کو اس کا میٹھاپھل علمی حقائق کے ایک بیش بہا ذخیرہ کی صورت میں جسے ہم سائنس کہتے ہیں دستیاب ہوا ہے۔ پھر اس دور میں علمی تحقیق و تجسس کی کامیاب تحریک انسان اور کائنات کو ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے سمجھنے کی مختلف کوششوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ہر ایک نے دریافت شدہ علمی حقیقتوں کو حقیقت عالم کے کسی تصور کے ساتھ ان کے مرکز یا محور کے طور پروابستہ کر نے کی کوشش کی ہے یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے حقیقت عالم کا غلط تصور قائم کیا ہے اور اس کے اردگرد حقائق علمی کی تنظیم بھی غلط طور پر کی ہے۔ سائنس کے خاص اسلوب تحقیق کی وجہ سے فلسفہ کی دنیا میں ایک نیا طرز استدلال وجودمیں آیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ کوئی حقائق نظر انداز نہ ہونے پائیں حقائق کا معائنہ کامل احتیاط سے کیا جائے اور نتائج وہی اخذ کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور یہ طرز استدلال علمی دنیا میں آئندہ کے لیے ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اقبال نے ایک عرصہ تک یورپ میں رہ کر تعلیم پائی ہے اور اس دوران میں جیسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ وہ یورپ کی علمی ترقیات اور حکمت مغرب کی خصوصیات سے پوری طرح متاثر ہوا ہے۔ خرد افروز مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں علمی تحقیق و تجسس کی اروپائی تحریک نے اقبال کو بھی آمادہ کیا کہ وہ انسان اور کائنات کو ایک کل کے طور پر سمجھے لیکن اقبال کی یہ آمادگی اس کے مخصوص نفسیاتی ماحول کی وجہ سے مغرب کے باطل فلسفوں میں ایک اور غلط مشرقی فلسفہ کے اضافہ کا موجب نہیںہوئی بلکہ ان باطل فلسفوں کے خلاف اور ان فلسفوں کے زہر سے انسانیت کو بچانے کے لیے مہربان قدرت کے مفید ارو کامیاب ردعمل کی صورت اختیار کر گئی ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ ایک جسم حیوانی کے اندر ایک مہلک مرض کے جراثیم کے داخل ہونے ترقی پانے اور زہر پیدا کرنے کے بعد جسم حیوانی کے نمو اور تحفظ کے لیے کارفرما ہونے والی قوت حیات ایک رد عمل کرتی ہے۔ اور ضد سرایت (Anti-Toxin) مواد پیدا کر کے جراثیم کی ہلاکت اور جسم انسانی کی صحت کا اہتمام کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کے ذریعہ سے قدرت نے ایک ایسے فلسفہ کو نمودار کیا ہے جس کی روشنی میں نہ صرف مغرب کے موجودہ غلط فلسفوں کا کافی اور شافی جواب اور ابطال بالقوہ موجود ہے لہٰذا یہی فلسفہ ہے جو آگے چل کر پوری نوع انسانی کا فلسفہ بننے والا ہے قدرت کی عادت ہے کہ جب انسانوں کی قدرتی بدنی یا روحانی ضروریات کی تشفی میں کوئی شدید رکاوٹ پرورش کے لوازمات مہیا کرنے کے لیے ایک معجزانہ قدم اٹھاتی ہے اسی عادت کی وجہ سے جسم حیوانی مرض کے خلاف رد عمل کر کے صحت مند ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جب غلط نظریات اور تصورات اشاعت پذیر ہو کر عالم انسانی کو غلط راہوں پر لیے جا رہے ہوں تو اس میں ایسے دانائوں مفکروں اور راہنمائوں کا ظہور ہوتا ہے جو ان غلط تصورات کا ابطال کر کے انسانیت کو زندگی کے صحیح راستوں پر واپس لاتے ہیں۔ اقبال کا مخصوص نفسیاتی ماحول اقبال کے مخصوص نفسیاتی ماحول نے ممکن بنا یا ہے کہ وہ اپنے فلسفہ کی بنیاد حقیقت کائنات کے صحیح تصور پر رکھے اور اس نفسیاتی ماؤحول میں اس کا مسلمان ہونا اور پھر مسلمانوں میں بھی تصوف زہد اور ریاضت کا ذوق رکھنے والے ایک خاندان کا ہونا ارباب نظر اور اہل دل بزرگوں کی سحبت سے شغف رکھنا اور اس کی جستجو کرنا حتیٰ کہ اس کے حصول کے لیے کسی موقع کو نظر انداز نہ کرنا اس سے متواتر مستفید ہوتے رہنا عربی اور فارسی کے علوم اور اسلام کے علماء اور حکماء اور صوفیا کی کتابوں کا مطالعہ کا ذوق رکھنا اسے عناصر شامل ہیں جو اس ماحول نے اسے نبوت کے عطا کیے ہوئے صحیح تصور کائنات کے وجدان سے آشناسی نہیںکیا بلکہ اس تصور کے حسن و جمال کے ایک طاقت ور قلبی احساس یا عشق کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ خرد افروز مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے: مے نہ روید نحم دل از آب و گل بے نگاہے از خداوندان دل اقبال بنیادی طور پر ایک صوفی یا درویش ہے شاعر یا فلسفی نہیں افسو س ہے کہ اقبال کے غیر مبہم الفاظ میں بار بار کہنے کے باوجود ہم بالعموم اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ گویا اقبال ایک شاعر بھی ہے اور ایک فلسفی بھی تاہم بنیادی طور پر وہ نہ فلسفی ہے اور نہ شاعر بلکہ ایک درویش یا صوفی ہے اس کا شاعرانہ کمال اور اس کا حکیمانہ جوہر دونوں اس کے وجدان یا عشق کے خدمت گزار ہیں۔ اس کی ساری ذہنی کاوشوں کا حاصل یہ ہے کہ اس نے فلسفہ کی معروف اور دور حاضر کے انسان کے لیے قابل فہم زبان میں اپنے روحانی تجربہ یا عشق کی ترجمانی کی ہے اور اس عمل کے دوران میں جو فلسفیانہ افکار و تصورات اس کے ہاتھ لگے ہیں ان کو شعر کے زوردار اور پرا ثر طرز بیان کا جامہ پہنایا ہے۔ دوسرے شاعروں کی طرح محبت مجاز کی داستانوں اور غزلوں سے سننے والوں کا دل لبھانا اس کا مدعا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شاعر کے لقب کو جو بعض وقت اس کے نادان دوست اس پر چسپاں کرتے ہیں بڑے زور سے رد کرتاہے: نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثال شاعراں افسانہ بستم ٭٭٭ مدار امیدز ان مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست ٭٭٭ نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہاز ایست سوئے قطارے کشم ناقہ بے زمام را ٭٭٭ او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن کم نظر بے تانبے جانم ندید آشکارم دید و پنہانم نہ دید اقبال مولانا سلیمان ندوی کو اپنے ایک خط میں مورخہ 14 اگست 1913ء میں لکھتے ہیں: ’’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیںسمجھا ۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات اور روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے: نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست‘‘ اسی طرح اپنے ایک خط مورخہ 27 ستمبر 1913ء میں خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں: ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کوشاعر تصور نہیں کرتا اور نہ کبھی بحیثیت فن کے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ پھر میرا کیا حق ہے کہ میں صف شعرا میں بیٹھوں‘‘۔ اوپر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح سے اقبال اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ تمام ایسے فلسفے جو خدا کیمحبت یا بالفاظ دیگر حقیقت کائنات کے صحیح تصور سے عاری ہوں اور لہٰذا حقیقت کے غلط یا ناقص تصورات پر مبنی ہوں بے ہودہ اور بیکار ہیں اگر اقبال خود خدا کی محبت سے بہرہ ور نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی اس قیمتی حکیمانہ نتیجے پر پہنچ سکتا۔ اور یہ ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ خود اقبال کا دعویٰ بھی ہے کہ اسے روحانیت کا ایک درجہ اور معرفت حق تعالیٰ کا ایک مقام عطا کیا گیا ہے اس درجہ معرفت اور مقام محبت کو وہ افروزش سینہ سو دروں‘ ذو ق نگاہ‘ بادہ ناب وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتاہے اور اپنے لیے درویش فقیر ‘ قلندر ایسے القاب استعمال کرتا ہے جو صوفیا کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں: خرد افزد و مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخٹ مرا صحبت صاحب نظراں ٭٭٭ درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمرقند ٭٭٭ سر آمد روزگار ایں فقیرے دگرد انائے راز آید نہ آید ٭٭٭ قلندر جزو حرف لالہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے مجازی کا ٭٭٭ اے پسر ذوق نگاہ از من بگیر سوختن در لا الہ از من بگیر ٭٭٭ مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے ٭٭٭ از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد من ناید چومن مرد فقیر ٭٭٭ عصر حاضر را خرد زنجیر پاست جان بیتابے کہ من دارم کجاست ٭٭٭ اعجمی مردے چہ خوش شعرے سرود سوز و از تاثیر او جان در وجود ٭٭٭ جوہر انسانی کے اوصاف و خواص جہاں اقبال کے نفسیاتی ماحول نے اسے خدا کی محبت سے بہرہ ور کیا ہے وہاں اس کے جدید علمی ماحو ل نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی افعال و اعمال کے متعلق اپنے ان نظریات اور معتقدات کی علمی اور عقلی بنیادوں کو معلوم کر سکے جو اسے قرآن سے دستیاب ہوئے ہیں۔ اس علمی ماحول کی وجہ سے اس پر یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ یہ نظریات اور معتقدات جوہر انسانی کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہیں۔ وہ جوہرانسانی کو خودی کی حکیمانی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور ایک سائنس دان کی طرح روز مرہ کے مشاہدات کی روشنی میں اس کے عملی اثرات و نتائج کا جائزہ لیتاہے اور ان کی روشنی میں اس کے قدرتی و ازلی اور ابدی اوصاف و خواص کی تشریح کرتا ہے۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے اور یہ اتفاق علمی اور عقلی نقطہ نظر سے قرآن حکیم کی صداقت کی دلیل ہے کہ یہ اوصاف و خواص قرآن کی تعلیمات کے عین مطابق ہیںیہی وجہہے کہ اقبال کا فلسفہ خود ی ایک طرف انسان کی سائنس ہے اور دوسری طرف سے قرآن حکیم کی تفسیر ہے جس طرح سے ہم کارل مارکس کے فلسفہ کو اس تصور سے الگ نہیں کر سکتے کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے۔ خدا کی ان صفات کے ساتھ جو نبوت کاملہ کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں اقبال کی حکمت میں خدا کا اسلامی تصور جو اسے اس مخصوص نفسیاتی ماحول سے ما تھا محض ایک عقیدہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسی علمی حقیقت کے طور پر پیش ہو اہے جو انسانی جوہر کے اوصاف و خواص سے ایک ناگریز نتیجہ کے طور پر اخذ ہوتی ہے اور اجس کے ڈانڈے تمام دوسرے علمی اور عقلی تصورات یعنی طبیعتیات ‘ حیاتیات اور نفسیات کے حقائق سے جا ملتے ہیں نتیجہ یہ ہو ا ہے کہ اقبال کے ہاں حقیقت انسان کا مسئلہ فقط وحی کی روشنی میں ہی نہیں بلکہ جدید علمی حقائق کی روشنی میں اور جدید طرز استدلال کی مدد سے حل ہوا ہے۔ اقبال کی حکمت میں یہ بات پہلی دفعہ آشکار ہوئی ہے کہ خدا کا تصور تمام علمی حقائق کے ساتھ انسان کی زندگی کے تمام ضروری شعبوں کے ساتھ کیا علمی او ر عقلی مناسبت رکھتا ہے اوراس تصور کی یہ مخفی استعداد کہ صرف وہی کائنات کے تمام موجودہ اور آئندہ حقائق کی معقول تشریح اور مکمل تنظیم کر سکتا ہے۔ علمی تحقیق و تجسس کے دائرہ میں آگئی ہے اور یہ مذہب اور علم دونوں کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ مذہب ایک سائنس کب بنتا ہے مذہب انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات کو ضروری سمجھتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ معتقدان کون سے ہیں اور کیوں ضروری ہیں اور کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں۔ مذہبی معتقدات کے لیے جس حد تک کہ وہ صرف مذہبی معتقدات ہیں یہ ضروری نہیںکہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت بھی رکھیں یا علمی اور عقلی معیاروں کی رو سے درست بھی ثابت ہو سکیں۔ سائنس بھی حقیقت انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات پیش کر تی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ یہ معتقدات ہماری زندگی کے مقاصد کے پیش نظر کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں لیکن سائنس کے معتقدات اشیا کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہوتے ہیں اور تجربات ومشاہدات سے معلوم کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق درست تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ اگر کسی وقت اشیاء کے اوصاف اور خواص کے علم کی ترقی کی وجہ سے کسی مذہب پر ایک دور ایسا آ جائے گا کہ اس کے معتقدات بھی اشیا کے قدرتی اوصاف اور خواص پر مبنی ہو جائیں تو پھر وہ مذہب سائنس بن جاتا ہے اور اس میں اور سائنس میں کوئی فرق باقی نہیںرہتا ۔ اقبال پہلا مسلمان فلسفی ہے جس نے بتایا کہ مذہب اسلام کے معتقدات ایک خاص چیز کے قدرتی اوصاف وخواص پر مبنی ہیں جن کے علم کی طرف انسانی زندگی کے وہ حقائق جو مشاہدات پر مبنی ہیں راہ نماء کرتے ہیں اور وہ چیز انسانی انا یا خودی ہے لہٰذا اقبال کے فلسفہ میں مذہب اسلام ایک سائنس کی صورت اختیار کر گیاہے اور یہی اقبال کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ اسلا م کا یہ قدم جو آگے کو اٹھ چکا ہے اب واپس نہیں آ سکتا بلکہ اسی سمت میں اس سے بھی اگلے قد موں کی طرف راہ نمائی کرے گا۔ اب آئندہ جو بھی حقائق علمی دریافت ہو تے جائیںگے۔ اسلام کی سائنس کے عناصر بنتے جائیں گے۔ ا ب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ اسلام کو ایک نظام افکار کی شکل دینے کے لیے تصوف کے ان مفروضات کا سہارا لیا جائے جو قرون وسطیٰ کے صوفیوں نے ایجاد کیے تھے اور جنہیں اب تک حکمت اسلام کے عناصر خیال کیا جاتا رہا ہے اقبال خود لکھتے ہیں: ’’اب اسلام قرون وسطیٰ کے اس تصوف کی تجدید کو روانہ رکھے گا جس نے اس کے پیروئوں کے صحیح رجحانات کو کچل کر ایک مبہم تفکر ی طرف اس کا رخ پھیر دیا ہے اس تصوف نے گزشتہ چند صدیوں میںمسلمانوںکے بہترین دماغوں کو اپنے اندر جذب کر کے سلطنت کو معمولی آدمیوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھا۔ جدید اسلام اس تجربہ کو دہرا نہیں سکتا۔ اسلام جدید تفکر اور تجربہ کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور اب کوئی ولی یا پیغمبر اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکیوں کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا‘‘۔ اصلاح خودی کی برکتیں جوہر انسانی کے لیے خودی حکیمانہ اصطلاح کو کام میں لانے سے فطرت انسانی کے صحیح اسلامی تصور کے ساتھ علمی حقائق کی مطابقت علمی تحقیق اور عقلی محاکمہ کے دائرہ میں آ گئی ہے اوراقبال کے فلسفہ میںیہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ حال اور مستقبل کے تمام صحیح علمی حقائق کو اپنے اندر جذب کر سکے چونکہ خودی کا تصور صحیح ہے اور سائنسی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن حقائق کو سائنس دان تجربات اور مشاہدات کے ایک طویل عمل کے بعد دریافت کرتا ہے اقبال ان کو بلا دقت اور نہایت آسانی کے ساتھ خودی کی فطرت سے اخذ کرتاہے اس قسم کے تصورات میں سے ایک ارتقا کا تصور ہے جس کا سبب (Cause)اقبال کے ہاں خودی کی فطرت سے ماخوذ ہے اور جس کا طریقہ بھی ہم نہایت آسانی سے خودی کی فطرت سے اخذ کر سکتے ہیں۔ اس بیسویں صدی میں علم کے ہر شعبہ میں سچی علمی حقیقتوں کی تعداد یہاں تک ترقی کر گئی ہے کہ جب ہم حکمت اقبال کے اندرونی تصورات کو ایک عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں ان حقیقتوں کو اس ترتیب کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لانا چاہین تو علمی حقیقتوں کی کوئی ایسی کمی محسوس نہیں کرتے جو ہماری کوششوں کو کامیابی سے باز رکھ سکے۔ بلکہ ہماری کوششیں یہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور خلائوں کی تعداد اور طوالت یہاں تک کم ہوتی ہے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل عقلی یا منطقی نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر یہ کام اس بنا پر اور آسان ہو جاتا ہے کہ سچی علمی حقیقتوں کے موجودہ ترقی یافتہ مواد ہی سے بعض ضروری علمی حقیقتیں اقبال کی حکمت کے اندر خود اقبال کے ہاتھوں سے پہلے ہی داخل کر دی گئی ہیں۔ ان اندرونی حقیقتوں کی وجہ سے اقبال کی حکمت کے ساتھ بیرونی علمی حقیقتوں کی علمی اور عقلی مناسبت اور مطابقت نہایت آسانی کے ساتھ واضح ہو گئی ہے جس سے اس حکمت کے اندرونی حصوں کو بیرونی حصوں کے ساتھ جوڑنے کا کام آسان ہو گیا ہے۔ فلسفہ خودی کائنات کا آخری فلسفہ ہے حکمت اقبال کی یہی خصوصیات ہیں جو اسے کائنات کا وہ آخری فلسفہ بنا دیتی ہیں جو ہر دور کے باطل فلسفوں کا مسکت اور تسلی بخش جواب ہو۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی کے زمانہ میں اس قسم کے فلسفہ کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔ آج اگر مسلمان یاکوئی اور قوم جدلی مادیت (Dialectiacal Materialism)کا معقول علمی جواب دینا چاہے جسے دور حاضر کا انسان سمجھ سکے تو وہ صرف اقبال کے نظام حکمت سے ہی پیداکیا جا سکتا ہے۔ کسی اور فلسفہ سے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ انسان اور کائنات کی سچی حقیقت کو سمجھنے کے لیے جس قسم کی ذہنی رکاوٹیں کسی زمانہ میںپیدا ہوتی ہیں قدرت ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے علاج بھی ویسا ہی کرتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی اپنے مزاج کے لحاظ سے اپنے دور کے فلسفوں کی تمام ظاہری خصوصیات سے حصہ لیتا ہے تاکہ ان کا تسلی بخش جواب بن سکے۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی ایسے اکابر کے فلسفے اپنے زمانہ میں باطل فلسفوں کا جواب تھے۔ لیکن اس زمانہ کے یا آنے والے زمانہ کے باطل فلسفوں کا جواب نہیںاورنہ بتائے جاسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے اسلامی تصور پر مبنی ہونے کے باوجود وہ جدید علمی حقائق کی عقلی او رمنطقی حدود کے کسی نکتہ پر بھی نہ ان سے اتصال پیدا کرتے ہیں اورنہ ٹکراتے ہیں لہٰذا ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایک ایسے جدید نظام حکمت کی سورت اختیار کر سکیںجو عقلی اور منطقی طور پر مسلسل ہو اور جس میں حال اور مستقبل کے تمام علمی حقائق سموئے جا سکیں۔ اقبال کے علاوہ دوسرے تمام مسلمان فسلفیوں کے فلسفے فلسفہ اسلام کے ارتقاء کے وہ مراحل ہیںجو گزر چکے ہیں اقبال کا فلسفہ ان تمام مراحل سے آگے کافلسفہ ہے جو گزشتہ مراحل کے تمام حاصلات کو بھی اپنے اندر جمع کرتا ہے لیکن اب گزشتہ مرحلوں میں سے کوئی مرحلہ اس کو ہٹا کر اس کی جگہ نہیں لے سکتاکیونکہ ان میںکوئی فلسفہ ایسا نہیں جو اپنے اندرونی استدلال کو وسعت دے کر ایک جدید انسانی اور اجتماعی فلسفہ بن سکے اور آئندہ عالمگیر ریاست کو اپنے سیاسی یا اقتصادی یا اخلاقییا تعلیمی یا قانونی یا معاشرتی یا اطلاعاتی نظام کے لیے قابل فہم علمی تصورات بہم پہنچا سکے۔ یہ نکتہ نہایت ہی اہم ہے اور جس قدر جلد اس پر ہم حاوی ہو جائیں ہمارے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا کیونکہ اتنا ہی ہم اپنی قوتوں کو اور فلسفوں کی جستجو یا نشر و اشاعت پر صرف کرنے کے بجائے اس فلسفہ کی تفہیم اور نشر و اشاعت کے لیے آزاد کرسکیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں قدیم اسلامی فلسفوں کا بھی مکمل مطالعہ کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے دیکھا جائے کہ ان کے اندر کون سے تصورات ایسے ہیں جن کے مضمرات یا نتائج جدید فلسفہ اسلام یعنی فلسفہ خودی کی تنظیم اور ترتیب کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے عمدہ اور دل نشین طرزبیان مہیا کر سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ہم ان قدیم فلسفوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مستقبل میں پوری نوع انسانی کو اپنے دامن میں لینے والا اور زندگی کے نظری اور عملی پہلوئوں کے لیے پوری روشنی پہنچانے والا فلسفہ اسلام صرف ایک ہی ہے اور وہ فلسفہ خودی ہے یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر اقبال کو یہ کہنا زیب دیتا ہے : ہیچ کس رازے کہ می گوئم نہ گفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت اقبال کے افکار حکمت مغرب سے ماخوذ نہیں بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اقبال نے اپنے تصورات حکمائے مغرب سے مستعار لیے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کی نگاہ میں اقبال پر لکھنے یا ریسرچ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے ماخذ کو حکمت مغرب میں تلاش کیا جائے اور اسے وہ ایک نہایت ہی ضروری اور بڑا عظیم الشان کام سمجھتے ہوں جو لوگوں کو اقبال پر کرنا چاہیے دراصل یہ لوگ مادی علوم میں مغرب کے تفوق سے مرعوب ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان انسانی علوم میں بھی جس کو اقبال نے اپنے غور و فکر کا موضو ع بنایا ہے۔ کہاں کوئی مشرق کا آدمی مغرب سے الگ راہیں پیدا کر سکتا ہے۔ حالانکہ حکمائے مغرب کو خود اعتراف ہے کہ وہ انسانی علوم میں کوئی ترقی نہیں کر سکے یہ لوگ اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ تما م حکیمانہ افکار کسی نہ کسی تصور حقیقت کے اجزاء و عناصر کے ہوتے ہیں اس کی تشریح اور تفسیر کرتے ہیں اور اس کے اردگرد ایک نظام حکمت بناتے ہیں اقبال کا تصور حقیقت اسلام کا خدا ہے جس کے لیے وہ خودی عالم کی فلسفیانہ اصطلاح کام میں لاتا ہے اور مغرب میں ایک بھی فلسفی ایسا نہیں ہے جس کا تصور حقیقت اسلام کا خدا ہو لہٰذا ممکن ہی نہیں کہ کسی مغربی حکیم کا کوئی تصور اپنی اصلی حالت میں اقبال کے کام آ سکے اس میں شک نہیں کہ خودی (Self)کی فلسفیانہ اصطلاح بعض حکمائے مغرب میں بھی استعمال کی ہے لیکن ان میں کسی کے ہاں اس اصطلاح کے معنی وہ نہیںلیے گئے ہیں جو اقبال نے لیے ہیں اور جس کے منطقی یا عقلی مضمرات یا نتائج اسلام کے خدا کی صفات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں اگر اقبال کے فلسفہ کا مرکزی تصور خودی کا اپنا تصورہے جو کسی اور فلسفی کے ہاں موجود نہیں تو پھر ضروری ہے کہ اقبال کے اس مرکزی تصور کے مضمرات اورمتضات بھی اس کے اپنے تصورات ہوں اگرچہ ان میں سے بعض ایسے ہوں جو کچھ مغربی فلسفیوں کے تصورات سے مشابہت رکھتے ہوں اور بظاہر ان سے مستعار نظر آتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایک فلسفی جب اپنے تصور حقیقت کی تشریح یا ترجمانی کرے گا اور اس کے نتائج اور مضمرات پر بحث کرے گا تو اس غرض کے لیے ان ہی حقائق کو کام میں لائے گا جو اس کی تعلیم و تربیت اور مطالعہ اور مشاہدہ نے اس کے دائرہ علم میں داخل کر رکھے ہوں گے لیکن یہ حقائق ا س کے تصور حقیقت کے رشتہ میںمنسلک ہوتے وقت اس تصور کے رنگ میں اس طرح سے رنگے جائیں گے کہ وہ عقلی اور منطقی طورپر اسی کے مضمرات بن جائیں گے اقبال کے معلوم حقائق اسے اپنے تصور حقیقت کے نتائج کے استخراج اور استباط میں اس کی مدد کرتے ہیں اس کے لیے ایک اکساہٹ کا کام دیتے ہیں اس کی توجہ ضروری سمتوں کی طرف مبذول کرتے ہیں لیکن خو د ہی اپنی اصلی حالت میں اس کے تصور حقیقت کے نتائج نہیں بن سکتے ۔ بظاہر نظر آئے گا کہ وہ ان حقائق کو پوری طرح سے استعمال کر رہا ہے لیکن درحقیقت وہ ان کو صرف اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک کہ وہ اس کے تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور اس کی تشریح اور تفسیر کا درجہ اختیار کر سکتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اقبال کا تصور اترقا برگسان سے اس کا تصور خودی فشتے اور نیتشے سے اس کا تصور وجدان جیمز وارڈ سے اور اس کا تصور ریاست ہیگل سے ماخوذ ہے لیکن درحقیقت ظاہری مشابہت کے باوجود اقبال کے یہ تصورات ان فلسفیوں کے متوازی نظریات سے یکسر مختلف ہیں اور اقبا ل اور مغرب پر لکھنے والوں کے لیے بڑ اعظیم الشان کام دراصل یہی ہے کہ کس طرح سے اقبال کے تصورا ت ان فلسفیوں کے تصورات سے مختلف ہیں اور ان سے زیادہ معقول اور مدلل ہی نہیںبلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے پورے غور و فکر کے ساتھ مغربی فلسفہ کا مطالعہ کیا ہے ۔ یہاں تک کہ اقبال اس کی رگ رگ سے باخبر ہو گیا ہے اور وہ اس کے آب و گل میں سرایت کر گیا ہے۔ ہے فلسفہ مرے آب و گل میں پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں اقبال اگرچہ بے ہنر ہے اس کی رگ رگ سے باخبر ہے لیکن مغربی فلسفہ نے اقبال پر کوئی اثر نہیںکیا اس لیے کہ وہ حقیقت کے غلط تصورات پر قائم ہے۔ اسی فلسفہ کے متعلق وہ کہتا ہے: انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا! زناری برگساں نہ ہوتا! ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی حکمائے مغرب کے تصورات سے متاثر اور مرعوب ہونا تو درکنار اقبال ان تصورات کو اپنے وجدان حقیقت کی روشنی میں پرکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کہاں تک درستہے اور کہاں تک غلط جس حد تک کوئی تصوردرست ہوتا ہے وہ اسے اپنے حکیمانہ موقوف کی تشریح اور تفسیر کے لیے کام میں لاتا ہے اور جس حد تک وہ غلط ہوتا ہے وہ اسے نظر انداز کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف تنبیہ کرتا ہے۔ حکمت مغرب کا طلسم اس پر کام نہیںکرتا۔ وہ جانتا ہے کہ حکمت مغرب میں دانہ بھی ہے اور دام بھی اور وہ دانہ کو لے لیتا ہے اور دم کو توڑ دیتا ہے اس طرح سے حکمت مغرب کی آگ اس کے لیے گلزار ابراہیم بن جاتی ہے: طلسم عصر حاضر را شکستم ربودم دانہ و دامش گستم خدا داندکہ مانند ابراہیم بنار اوچہ بے پروا نشستم فلسفہ خودی کی آسان اور مختصر تشریح کا مطالبہ درست نہیں پھر بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی کی تشریح کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے لیکن اس مطالبہ جو دراصل فلسفہ خودی کی نوعیت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے ‘ درست نہیں فلسفہ خودی کوئی قصہ یا داستان نہیںکہ ہم چاہیں تو اسے مختصر بھی کر سکیں اور آسان بھی یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ علم طلب کویا طبیعیات کو یا حیاتیات کویا نفسیات کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے ظاہر ہے کہ ان علوم میں سے کوئی بھی اپنی قدرتی حدود سے زیادہ نہ آسان ہو سکتا ہے اور نہ مختصر ان میں سے ہر ایک اشیاء کے اوصاف و خواص کا علم ہے اور اشیاء کے اوصاف و خواص تو وہی ہو سکتے ہیں جو قدرت نے ان کو دیے ہیں۔ ہم ان کو تعداد میں کم نہیںکر سکتے۔ لہٰذاان کے علم کو آسان یا مختصر کیسے بنا سکتے ہیں۔ فلسفہ خودی بھی روح انسانی کے اوصاف و خواص کا علم ہے چونکہ روح انسانی کے اوصاف و خواص وہی ہیں جو قدرت نے اسے دیے ہیں لہٰذ ا ہم روح انسانی کے علم کو بھی اس کی قدرتی حدود سے زیادہ آسان یا مختصر نہیںبنا سکتے۔ اگر ہم ریاضیات یا طبیعیات کے علم میں سے بی اے یا بی اے کے اوپر کے معیار کے مسائل یا حقائق کو حذف کر کے صرف انٹرمیڈیٹ کے معیار کی ایک کتاب لکھ دیں تو ہمارا یہ دعویٰ غلط ہو گا کہ ہم نے ریاضیات یا طبیعیات کو آسان اور مختصر کر دیا ہے درآں حالیکہ دوسروں نے اسے خواہ مخواہ طویل اور مشکل بنا دیا تھا اور پھر علم کے متعلق انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے ۔ کہ وہ علم کو برابر وسعت دیتا رہے اور اس غرض کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ اور کسی خطرے کو زیادہ نہ سمجھے کہ علمی ریسرچ جس پر کروڑوں روپیہ دنیا بھر میں صرف ہو رہا ہے اور ہزاروں فضلا اور حکماء کام کر رہے ہیں انسان کی فطرت کے اسی پہلو کو مطمئن کرتاہے اور پھر روح انسانی کے اوصاف و خواص کا علم تو تمام علوم سے زیادہ ضروری اور مفید ہے بلکہ یہ علم تو انسان کی زندگی اور موت کا سوا ل ہے۔ اس کے بغیر اس وقت انسانیت ہلاکت کے دروازے پر کھڑی ہے۔ کیا ایسے مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کے متعلق کم جانے اور زیادہ تر تاریکی میں رہے تاکہ اس کے اعمال میں راہ وانی کا عنصر کم ہو اور بے راہ روی کا عنصر زیادہ ہو جس طرح سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جسمانی اعمال اور وظائف کو زیادہ سے زیادہ سمجھیں تاکہ جسمانی بیماریوں کے عوامل اور معالجات کو زیاد ہ سے زیادہ جانیں اور صحت اور تندرسی سے زندگی بسر کر سکیں اسی طرح سے ہمارے لیے یہ ضرور ہے کہ ہم اپنی خودی کے اعمال اور وظائف کو زیادہ سے زیادہ سمجھیں تاکہ خودی کی بیماریوں کے عوامل اورمعالجات کو زیادہ سے زیادہ جانیں اور اپنی ساری زندگی کو خوشگوار بنا سکیں۔ دور حاضر میں انسانی سوسائٹی کی تمام خرابیوں اور بدحالیوں(جب میں جنگ‘ مفلسی‘ بداخلاقی‘ بے اطمینانی‘ ظلم اور تشدد شامل ہیں) اور انسانی علوم کے اندرونی انتشار اور بے ربطی کا باعث خودی کے علم کی کمی ہے۔ ہر علم ترقی کرتاہے یہ علم کی ایک خصوصیت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے انسا ن علم کا پیاسا ہے اور دوسری طرف سے اشیا کے خواص کی ایک خصوصیت ہے و اوصاف کے علم کی کوئی حد نہیں اور پھر علم جب وسیع ہو گا اور ترقی کرے گا تو اسی نسبت سے اس کو حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جائے گا تو پھر کیا ایک علم ایسا ہونا چاہیے کہ جسے ہم بہ تکلف آسان اور مختصر رکھیں اور وہ علم بھی جوہر انسانی کا علم ہو جو سب سے زیادہ ضروری ہے ہم اپنے کسی عزیز کو جو پھیپھڑے کی بیماری میں مبتلا ہو کسی ایسے ڈاکٹر ک پاس نہیںلے جا سکتے جس کا علم انسانی پھیپھڑوں کے متعلق آج سے پچاس سال پہلے کی تحقیقات تک محدود ہو یا جس کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ پھیپھڑوں کے متعلق جو علم انسان کو آج تک حا؟صل ہو سکا ہے وہ اس کا نصف ہی جانتا ہے تو پھر جوہر انسانی کے متعلق محدود واقفیت کی خواہش کرنے میں کون سی حکمت ہے ہاں یہ درست ہے کہ خودی کا علم تو زیادہ سے زیادہ مبسوط اور مفصل بنایا جائے لیکن مبتدیوں کے لیے آسان اور مختصر کتابیں بھی ہوں پھر جو لوگ علم خودی کے ماہرین بننا چاہیں وہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جو علم خودی کی ان انتہائی تفصیلات پر مشتمل ہوں جو آج تک انسان کے دائرہ علم میں آ چکی ہیں تاکہ وہ ان تفصیلات کی گہرائیوں میں اورجائیں اور ان میں اضافہ کریں اور اس طرح سے خودی کا علم ترقی کرتا رہے اور پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ مشکل اور آسان کے اوصاف محض اضافی ہیں جو علم ایک شخص کے لیے مشکل ہے وہ دوسرے کے لیے آسان ہو جاتاہے جو اسے محنت سے حاصل کرتا ہے مشکل علوم میں سے کون سا علم ایسا ہے جس کے ماہرین ضروری تعداد میں موجود نہ ہوں اگر علم حاصل کرنے کی خواہش نہ ہو توکوئی علم آسان نہیں ہوتا۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ آسان ہے لیکن خود عربی دانوںمیں ایسے ایسے لوگوں کی تعداد کم نہ ہو گی جن کے لیے بغیر کوشش اور محنت کے قرآن کا سمجھنا مشکل ہے دراصل قرآن کے اس دعویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن صداقت ہے اور صداقت چونکہ پہلے ہی انسان کے دل کے اندر موجود ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے آ کو یا اپنے دل کو جانتا ہو اس کے لیے اس کا سمجھنا اور باور کرنا آسان ہوتا ہے۔ بل ہو ایت بینات فی صدور الذین اوتو العلم (بلکہ وہ روشن یعنی واضح اور قابل فہم آیات ہیں جو پہلے ہی ان لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں جن کو اپنے آپ کا علم دیا گیا ہے) فلسفہ خودی بھی چونکہ سچا فلسفہ ہے اور انسان کادل اس کے نکات کی صحت کی شہادت دیتا ہے لہٰذا وہ آسان ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مطالعہ یا کوشش یا محنت کے بغیر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ قدرت کا قانون ہے کہ انسان کوشش کے بغیر کوئی چھوٹی یابڑی کامیابی حاصل نہیںکر سکتا۔ لیس للانسان الا ماسعی انسان وہی کچھ حاصل کر سکتا ہے جس کے لیے کوشش کرے۔ کیا اقبال پر مزید لکھنے کا دور ختم ہو چکا ہے پھر بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اقبا ل پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے کیونکہ اس پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے لکھا جا چکاہے اقبال کی تحریروں کو اور نچوڑنے سے کیانکلے گا۔ آخر اقبال پر کہاں تک کوئی لکھ سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ بھی فلسفہ خودی کی نوعیت پر اور اس کی توسیع پر اور تنظیم پر ممکنات پر اور ان تصورات کی کمیت اورکیفیت پر غور نہیںکرتے جو اس میں مضمر ہیں۔ اقبال نے خودی پر لکھا ہے لہٰذا اقبال پر لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے افکار کی روشنی میں خود کے موضوع پر لکھا جائے اور خودی کے موضوع کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ خودی حقیقت کائنات ہے۔ ساری کائنات خودی کا کرشمہ ہے اور کائنات کی ہر چیز کا باعث خودی ہے۔ پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ بینی ز اسرار خودی است لہٰذا جو کچھ آج تک مادی کائنات میں یا حیوانات کی دنیا میں یا انسانوں کی دنیا پر ہوتا رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ خودی کے اعمال و افعال اور تصرفات و اثرات کا ہی نتیجہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام قوانین قدرت خودی کے اوصاف و خواص کے مظاہر ہیں سارا علم خودی کاعلم ہے خودی کا تصور علم کی ابتدا اورانتہا ہے اور حال اور مستقبل کے تمام حقائق علمی تصور خودی کے مضمرات ہیں اور اس کے اندر بالقوہ موجود ہیں لہٰذا جوں جوں علم اپنے تینوں شعبوںمیں یعنی مادہ حیوان اور انسان کے شعبوں میں ترقی کرے گا تصور خودی کی تشریح کانت نیا سامان پیدا ہوتا رہے گا اور ظاہر ہے کہ یہ عمل تا قیامت جاری رہے گا۔ اقبال پر لکھنے کا پہلا اہم قدم یہ ہے کہ ہم اقبال کے افکار کو ایک منطقی یا عقلی سلسلہ کی شکل دے کر یہ بتائیں کہ کس طرح سے طبیعیات حیاتیات اور نفسیات کے تمام سچے حقائق جو آج تک دریافت ہو سک ہیں۔ تصور خودی کے اجزاو عناصر ہیں۔یہ اقبال کے فلسفہ خودی کی پہلی تشریح اور تفسیر ہو گی جسے فلسفہ خودی کے ماہرین ہی نہیں بلکہ تمام تعلیم یافتہ لوگ بھی آسانی سے سمجھ لیں گے۔ جب اقبال کی اس قسم کی تشریح وجود میں آئے گی تواس وقت صاف طور پر نظر آجائے گا کہ اقبال کے کئی تصورات دور حاضر کے تمام انسانی اور نفسیاتی علوم یعنی عمومی فلسفہ انسان و کائنات فلسفہ سیاست فلسفہ اخلاق‘ فلسفہ تعلیم‘ فلسفہ قانون‘ فلسفہ اقتصادیات‘ فلسفہ تاریخ ‘ فلسفہ ہنر ‘ فلسفہ نفسیات‘ انفرادی اور اجتماعی فلسفہ وغیرہ وغیرہ کے ساتھ کئی نقطوں سے ٹکرائے ہیں۔ لہٰذا ان علوم میں سے کسی پر قلم اٹھانے والا اقبال کے ان تصورات کی تردید یا توثیق کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اور اقبا ل کے تصورات کی بنیاد اس قدر مضبوط ہے اور وہ تصورات اس قدر صحیح ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ان کی معقول تردید ممکن نہیں اور ان کی توثیق کے بغیر چارہ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال پر لکھنے کا دوسرا اہم قد م یہ ہو گا کہ تصور خودی کی بنیادوں پر ان تمام علوم کی تدوین اور تعمیر نئے سرے سے کی جائے گی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور ان علوم کی تعمیر نو کے سلسلہ میں بتایا جائے گا کہ کس طرح سے ان علوم کی موجودہ تدوین عقلی اور علمی نقطہ نظر سے غلط ہے اور اس طرح سے ان تمام علوم کو فلسفہ خودی کی شاخوں کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ گویا اقبال پر لکھنا اور اس زمانہ میں بھی اس وقت تک ختم نہیںہو سکتا جب تک کہ ہم انسانی‘ حیاتیاتی اور طبیعیاتی علوم کو نئے سرے سے اس طرح مدون نہ کر لیں کہ تصور خودی ان علوم کی روح کے طور پر نظر آنے لگے پھر اس ابتدائی کام کے بعد جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا فلسفہ خودی کی مزید تشریح اور توسیع ہوتی رہے گی۔ فلسفہ خودی کی تشریح ہمیشہ ترقی کرتی رہے گی شارحین اقبال کا کام لوگو ں کو یہ سمجھانا ہے کہ اقبال نے یہ کہا ہے لیکن جب تک وہ یہ نہ بتائیں گے کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ معلوم اور مسلم عقلی اور علمی معیاروں کے مطابق صحیح اور درست ہے وہ اس کام کو پوری طرح انجام نہیںدے سکتے۔ اگر ہمارے نزدیک اقبال کے افکار قابل قدر یا قابل قبول ہیں تو اس لیے ہیں کہ وہ علم او رعقل کے پیمانوں کے مطابق معیاری اور درست ہیں اور معیاری اور درست ثابت کیے جا سکتے ہیں اور درست ثابت ہو کر رہیں گے۔ اقبال کسی الہام کا مدعی نہیں اس کا دعویٰ فقط یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ علمی اور عقلی طور پر صحیح ہے اور کسی تصور کا عقلی طور پر درست ہونا اس کے سوائے اور کوئی معنی نہیںرکھتا کہ وہ ان تصورات کے ساتھ مناسبت و مطابقت رکھتا ہے جو عقلی و علمی طور پر درست مانے جا سکتے ہیں۔ صحیح تصورات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ عقلی نقطہ نظر سے ایک دوسرے کے موید ہوتے ہیں لہٰذا وہ تصورات کا ایک ایسا مجموعہ بناتے ہیں جس کے اندر کوئی تصور داخل نہیں ہو سکتا ہم اس مجموعہ سے کوئی تصور نکال کراس کی جگہ کسی غلط تصور کو نہیںرکھ سکتے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ تصور اس مجموعہ سے غیر متعلق اور الگ تھلگ نظر آئے گا اور اس ی وجہ سے مجموعہ کے منطقی تسلسل میں دراڑ پیدا ہو جائے گا جو آشکار طور پرنظر آئے گا لہٰذا کسی تصور کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ ہم بتا سکیں کہ وہ فی الواقع دوسرے تمام درست تصورات کے ساتھ علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت رکھتا ہے اور اس کی جگہ لینے والا کوئی دوسرا تصور ان کے ساتھ اس قسم کی کوئی مطابقت یا مناسبت نہیںرکھتا۔ اقبال کے تصورات‘ صحت اور معقولیت کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسانی حیاتیاتی اور طبیعیاتی علو م آخر کار اقبال کے تصور خود ی پر مبنی ہو جائیں اور خودی کی تشریح اور تفسیر قرا ر پائیں تصور خودی کی یہ تشریح اور تفسیر علم کی آج تک ٹھوکروں کا مداوا اور آج تک کی بے راہ روی کا علاج ہو گی جس کے لیے نوع انسانی ہمیشہ کے لیے اقبال کی شکر گزا ر ہو گی بعدمیں حقیقت انسان وکائنات کے متعلق ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا جائے گا وہ خواہ اس کا تعلق علم کے کسی شعبہ سے ہو خود بخود اس نظام افکار کا جزو بنتا چلا جائے گا یہی مطلب اقبال کا ہے جب وہ لکھتا ہے: ’’تاہم یہ یاد رہے کہ تحقیق علم و حکمت کی کوئی انتہا نہیں ہو سکتی۔ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کے نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیںگے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم انسانی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے نظریہ حیات پر قائم رہتے ہوئے ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں‘‘۔ ان معروضات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صر ف اقبال پر لکھنا ابھی ختم نہیںہوا بلکہ ابھی تک پوری طرح سے اس پر لکھنے کا آغاز بھی نہیںہوا۔ اور جب اس پر لکھنے کا آغاز ہوگا تو پھر اس پر لکھنا صڑف اس وقت ختم ہو جائے گا جب ہم انسان اور کائنات کے متعلق کسی پہلو سے بھی اور کچھ جاننے سے مجبور ہوجائیں گے اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان اس کرہ ارض پر موجود ہے یہ وقت کبھی نہیں آسکتا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزرتاجائے گا اقبال کے فلسفہ خودی کی معقولیت اور جاذبیت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جائے گی۔ لہٰذا مستقبل کا انسان جس قدر اقبال کی عظمت کا معترف ہو گا آج کا انسان نہیںہو سکتا۔ ایک سچے تصور حقیقت پر قائم ہونے والے نظام حکمت کی ہر ترقی ا س کی اگلی ترقی کو آسان کرتی ہے اور اس طرح سے اس کی غیر متناہی ترقیوں کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ جب اقبال کے فلسفہ خودی کی ایک اور ترقی یافتہ صورت اس کی منظم تشریح کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گی تو پھر وہ اور ترقی کرے گا اور لوگ تاقیامت ا س پر لکھتے رہیں گے اور اس کی ترقیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا کیونکہ علم کے تینوں شعبوں میں دریافت ہونے والے تمام حقائق صرف اسی کے اجزا و عناصر شمار ہوں گے۔ فلسفہ خودی کے مقابل تمام فلسفے مٹ جائیں گے فلسفہ خودی کی پہلی منظم تشریح کے ظہور سے کچھ عرصہ کیبعد اس کی تشریح کی اور توسیع کی ضرورت پیش آئے گی اور پھر کچھ مدت کے بعد اس کی دوسری مزید توسیع کی ضرورت لاحق ہو گی۔ علی ہذ القیاس اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک سچا فلسفہ ترقی کرتا رہتا ہے اور اس کی ترقیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اس کے برعکس چونکہ علمی حقائق ایک غلط فلسفہ کے ساتھ جو غلط تصور حقیقت پر مبنی ہوتا ہے مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا ان حقائق کی ترقی کی وجہ سے زود یا بدیر ایک ایسا وقت خود بخود آ جاتا ہے جب غلط فلسفہ کی فرضی معقولیت کا پردہ چاک ہوتا ہے اور وہ اپنا دم توڑ دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فکر اقبال کی اس قسم کی منظم تشریح ایک اسے دور کو قریب لائے گی جب دنیامیں صرف ایک ہی فلسفہ باقی رہ جائے گا اور وہ اقبال کا فلسفہ خودیہو گا اور دوسرے تمام فلسفے یا تو کلیتاً مٹ جائیں گے یا پھر نوع انسانی کے ادوار جہالت کی یادگار کے طور پر باقی رہیں گے یہی سبب ہے کہ اقبال دور حاضر کے انسان سے نہیں بلکہ مستقبل کے انسان سے امید رکھتا ہے کہ وہ پوری طرح سے اس کی عظمت کا اعتراف کرے گا اور اس کے فکر کو اپنی عملی زندگی کی بنیاد بنائے گا یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اس کے فکر نے وہ آہوئے تاتار فتراک میں باندھا ہے جو ابھی عام سے وجود میں نہیں آیا اس کے باغ کی زینت وہ سبزہ ہے جو ابھی اگا نہیں اور اس کا دامن پھولوں سے بھرا ہوا ہے جو ابھی شاخ ہی میں پوشیدہ ہیں۔ فکرم آں آہو سر فتراک بست کو ہنوز از نیستی بیروں نجست سبزہ نا روئیدہ زیب گلستم گل شاخ اندر نہاں درواہنم اور یہی وہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شاعر فردا کہتا ہے اور اپنے آپ کو ایسا نغمہ سمجھتاہے جسے زخمہ ور کی حاجت نہیں ہے اور جو ساز کائنات سے خود بخود بلند ہونے والا ہے وہ کسی آنے والے زمانہ میں اپنی روشن کی ہوئی آگ’’نار عشق‘‘ کے ان پجاریوں کا منتظر ہے جو ابھی سو رہے ہیں اور نیند سے اس وقت اٹھیں گے جب جہالت کی تاریکیوں کی رات کٹ جائے گی اور سچی حکمت کی صبح کا نور پھیلنے لگے گا چونکہ اقبال کو معلوم ہے کہ اس کا فلسفہ خودی نوع بشر کی علمی ترقیوں کے ایک خاص دور میں ہی پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ پوری قبولیت حاصل کر سکتا ہے اور اپنی پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہو سکتا ہے لہٰذا وہ اپنے تمام ہم عصروں سے یہ امید نہیںرکھتا ک وہ اس کی قدر کر سکیں گے چونکہ اس کی نے کی سر نرالی ہے۔ اس کا ہم عصر اس کا نغمہ کو سمجھ نہیں سکتا اس کے زمانہ کے لوگ رموز حیات سے ناواقف ہیں لہٰذا دور حاضر وہ بازور ہی نہیں جہاں اس کے یوسف کے خریدار پائے جا سکیں اس کا نغمہ کسی اور جہان سے تعلق رکھتا ہے جو ابھی پید انہیں ہوا اور اس کی جرس کسی اور ہی کاروان کو حرکت میں لانے والی ہے۔ بسکہ عود فطرتم نادر نواست ہم نشین از نغمہ ام نا آشنا است نغمہ ام ز زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم انتظار صبح خیزاں مے کشم اے خوشا زروشتیان آشتم عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نا امیدستم زیاران قدیم طورے سوزو کہ مے آید کلیم نغمہ من از جہاں دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است ٭٭٭ فلسفہ خودی کی اہمیت اور عظمت کا دعویٰ صحیح ہے اپنے فکر کی اہمیت اور عظمت کا یہ دعویٰ اقبال نے بار بار اپنے اس قسم کے اشعار میں کیا ہے درحقیقت خودی یا جوہر انسانی کے اوصاف کا ایک علمی اور عقلی نتیجہ ہے جس سے گریز کرنا ممکن ہے اقبال جوہر انسانی کے اوصاف کو معنی آدم کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح سے جب وہ ارتقا کی قوتوں کے نہ رکنے والے عمل سے انسان کی عملی زندگی میں آشکار ہوں گے تو انسان کی زندگی جس کی موجودہ غیر متوازن حالت دل میں کھٹکتی ہے ہر لحاظ سے موزوں اور تسلی بخش ہو جائے گی‘ یہاں تک کہ نوع انسانی اپنے حسن و جمال کی اس انتہا پر پہنچ جائے گی کہ جس کا ہم اس وقت تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اقبال سے کیا پوچھیں خود فطرت انسانی کے دعویٰ کی صداقت پر گواہ ہے۔ یکے در معنی آدم نگر از ماچہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے لہٰذااقبال کا یہ دعویٰ اس کے فلسفہ یا جزو لا ینفک ہے اگر اقبال اپنے فلسفہ کے اس جزو کے متعلق اس لیے خاموش رہتا کہ اس کے اظہار سے اس کی ستائش کا پہلو نکلتا ہے تو وہ گویا اپنے تصور خودی کی حقیقت کو بہ تمام و کمال بیان کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے جو اسے کسی قیمت پر قابل قبول نہ ہو سکتا تھا لہٰذا جو لوگ اقبال کے اس دعویٰ کو بے کار اور بے معنی نہیں سمجھتے وہ حق بجانب ہیں لیکن آج تک جو کچھ اقبال پر لکھا گیا ہے اس سے اقبال کے اس دعویٰ کی عقلی اور عملی بنیادیں آشکار نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ موجودہ اقبالی ادب کے حاصلات سے مطمئن نہیںَ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی اپنی کتاب ’’اقبالیات کا تنقیدہ جائزہ‘‘ میں جو 1955 ء میں چھپی تھی لکھتے ہیں: ’’فلسفہ خودی پر اب تک کوئی جامع اور مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی۔ اقبال کی وفا ت کو آج 17 سال ہوئے ہیں مگر اب تک ان پر جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیںہوا‘‘۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا تھا: ’’گو کلام اقبال کے متعلق مضامین کی فہرست بظاہر طویل ہے لیکن اس کی عظمت اور بلندی کی نسبت سے اب بھی بہت تشنہ اورمختصر ہے۔‘‘ اس پر قاضی احمد میاں اختر لکھتے ہیں: ’’ہر وہ شخص جس نے اقبالیات کی تعداد کے ساتھ ہی ان کی نوعیت اور قدر و قیمت کا اندازہ کر لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ اتفاق کرے گا کہ اب تک اقبالیات کے نام سے جو ذخیرہ ادب تیار ہو چکا ہے وہ اس پایہ کا نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے اور جس سے اقبال کے مطالعہ میں کافی مدد مل سکے اکثر تحریرات ایک دوسرے کی نقل ہیں یہی وجہ ہے کہ ناقدین اقبال کو ان پر اعتراض کرنے کا موقع مل گی اہے اب ضرورت اس بات کی مقتضی ہے کہ مطالعہ اقبال کے سلسلہ میں کوئی عملی اور ٹھوس کام کیا جائے اور ا س میں ایسے اصحاب فکر و نظر حصہ لیں جو اقبال شناسی میں امتیازی درجہ رکھتے ہوں‘‘۔ لیکن اگر اقبال کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو ان لوگوں کے اقوال اقبال نافہمی کے ایک مضحکہ خیز مظاہرہ سے کم نہیں جو کہتے ہیں ک اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ اقبال کے افکار میں سے کون سے مر گئے ہیں اور کون سے زندہ ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ اقبال پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے۔ فلسفہ خودی کی منظم اور مکمل تشریح کی خصوصیات ان حقائق کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ضروری ہے کہ فلسفہ اقبال کی منظم اور مکمل تشریح خصوصیات ذیل کی حامل ہوں: اول: ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے مسلسل اور مربوط نظام حکمت کی شکل میں ہو جس میں اقبال کے تمام تصورات جو اس وقت اس کی نظم یا نثر کی کتابوں میںبکھرے پڑے ہیں خواہ وہ کسی موضوع یا مطالعہ سے تعلق رکھتے ہوں ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اور اقبال کے مرکزی تصور خودی کے ساتھ عقلی اور عملی رشتہ میں منسلک ہوں۔ دوئم: ضروری ہے کہ ان کے اندر طبیعیات‘ حیاتیات اورنفسیات کے تمام ایسے حقائق جن کو آج تک سائنس دانوںاور فلسفیوں نے دریافت کیا ہے اور جو اقبال کے تصورات کے ساتھ مناسبت اور مطابقت رکھتے ہیں اپنے مناسب نتائج اور مضمرات کے سمیت اقبال کے تصورات کی تائید اور توثیق اور تشریح اور توسیع کے لیے سموئے ہوئے موجود ہوں۔ سوئم: ضروری ہے کہ اس کا مرکزی اور بنیادی تصور اقبا ل کا تصور خودی ہو جس کی اصل خدا کا وہ تصور ہے جو نبوت کاملہ کی تعلیمات نے پیش کیا ہے اوراس کے بعد دوسرے تمام تصورات خدا کے اسلامی تصور کی تشریح اور تفسیر کے طور پر ہوں لہٰذا س میں جا بجا قرآن کی آیات اور احادیث کو اقبال کے تصورات کی تائید اور توضیح کے لیے پیش کیا گیا ہو۔ چہارم: ضروری ہے کہ وہ تمام متداول اور رائج الوقت غلط قسم کے طبیعیاتی‘ حیاتیاتی اور نفسیاتی فلسفوں کی ایسی تردید پر مشتمل ہو جو صحیح حقائق کو غلط حقائق سے الگ کر کے اور غلط حقائق کو درست حقائق بنا کر اقبال کے فلسفہ خودی کے اندر سموتی ہو گویا وہ فلسفہ طبیعیات فلسفہ حیاتیات اور فلسفہ نفسیات کی تعمیر جدید کی شکل میں ہو۔ اقبال کا فلسفہ عالم انسانی کے عالم گیر نظریاتی مرض کا صحت بخش رد عمل ہے جب ایک جسم حیوانی میں کسی مرض کے جراثیم داخل ہو کر بڑھتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں یہاں تک کہ اس میںمرض کی حالت پید اکر دیتے ہیں تو زندگی کے رو رو حیوان کے اندر بہہ رہی ہوتی ہے(جو درحقیقت اسے پیدا کرتی ہے اور نشوونما کے سارے مرحلوں سے گزار کر جسمانی یا حیاتیاتی کمال تک پہنچاتی ہے) فوراً ان جراثیم کے خلاف ایک رد عمل کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیوان کے جسم کے اندر جراثیم کے زہر کا تریاق یا فاد زہر پیداہونا شروع ہوتا ہے جسے ماہرین علم الابدان انٹی ٹاکسنز (Anti-Toxins)یا اینتی باڈیز (Anti Bodies) کہتے ہیں ٰہ فادر زہر متواتر پیدا ہوتا اور ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور ان کا زہر بھی باقی نہیں رہتا اور ان کی بجائے یہ تریاق جسم میں باقی رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے مرض کا دوسرا فوری حملہ ممکن نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ا ب یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی مرض کے خلاف کوئی حفاظتی یا مدافعتی تدبیر اس سے زیادہ کارگر اور موثر نہیںہو سکتی کہ بدن میں مرض کی حالت مصنوعی طورپر پیدا کر کے قدرت کو اس کے خلاف رد عمل کرنے اور اس کا تریاق پیدا کرنے کا موقع دیا جائے بعض امر اض کے حفاظتی ٹیکے اسی اصول پر ایجاد کیے گئے ہیں پوری نوع انسانی کی صورت میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے۔ زندگی کی رو جس نے حضرت انسان کو ایک جونک کی حالت سے ترقی دے کر جسماتی اور حیاتیاتی کمال تک پہنچایا ہے اور اس کی نسل کو لاتعداد خطرات سے بچا کر اور ترقی اور فروغ دے کر دنیا کے کناروں تک پھیلایا ہے وہی اس کو نفیساتی اور نظریاتی کمال کے اس مقام تک پہنچانے کی ذمہ دار ہے جو درحقیقت ا س کی ساری کاوشوں اور محنتوں کامدعا اور مقصود ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے انبیاء کے ایک طویل سلسلہ کے ذریعے نوع بشر کی روحانی اور نظریاتی حفاظت و تربیت کا ایک نہایت ہی معقول اور تسلی بخش انتظام کیاتھا جس کے اثرات چاروں طرف کرہ ارض پر پھیل گئے تھے۔ لیکن اب جب کہ نبوت ختم ہوئے ایک زمانہ گزر گیا ہے ‘ مغرب کے غلط حکیمانہ تصورات تعلیم نبوت کے اثر کو جو اب تک نوع انسانی کی نظریاتی اور روحانی صحت کا ضامن تھا ختم کر رہے ہیں۔ ان غلط تصورات نے خطرناک نفسیاتی جراثیم کی طرح نو ع انسانی کے شعور میں گھس کر ایک عالمگیر جسمانی وبائی مرض کی طرح ایک نفسیاتی یا نظریاتی وبائی مرض پیداکر دیا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب نوع انسانی اس مرض کی وجہ سے نظریاتی طورپر ہمیشہ کے لیے مردہ ہو جائے گی لیکن ایسا ہرگز نہیںہو سکتا اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ زندگی کے رو جو درحقیقت خدا کے ارادہ کے عمل کا نام ہے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہے اور انہیں ضرور پا کر رہتی ہے۔ واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون (خدا اپنے مقصد پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیںجانتے) ارتقا کی پوری سرگزشت بتاتی ہے کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی زندگی کے مقاصد میں حائل نہیں ہو سکتی ۔ ذرا ن بے شمار خطرناک آسمانی حادثات اور ہولناک زمینی تباہیوں کو ذہن میں لائے جن کا سامنا زندگی کو سب سے پہلے ایک خلیہ کے حیوان سے لے کر آج تک کے مہذب انسان کے ظہور تک کرنا پڑاہے ۔ ہر آن یہ گمان رہتا ہے کہ زندگی ہمیشہ کے لیی کرہ ارض سے نیست و نابودہوجائے گی لیکن ایسا نہیںہوا خود غاروں کے اندر اور درختوں کے اوپر پناہ لینے والے کمزور نہتے اور بے بس انسان کی نسل کا جنگلی درندوں کے لشکر سے بچ نکلنا قدرت کا ایک معجزہ ہے جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ زندگی اپنے مقاصد کے حصول میںسے کسی سے شکست نہیں کھا سکتی۔ چونکہ نوع انسانی نے نہ صرف کرہ ارض پر زندہ رہنا ہے بلکہ اپنے روحانی کمال کو بھی پہنچنا ہے لہٰذا ممکن نہیںتھا کہ زندگی کی رو عالم انسانی کے اس ہمہ گیر نظریاتی مرض کے خلاف کاممیاب رد عمل نہ کرتی جو مغرب کے غلط تصورات نے پیدا کردیا ہے زندگی کا یہ رد عمل حکمت اقبال کی صورت میں نمودار ہوا ہے ۔ ضروری ہے کہ جسم حیوانی کے صحت بخش ردعمل کی طرح یہ رد عمل بھی برابر ترقی کرتا رہے یہاں تک کہ کرہ ارض سے غلط تصورات کا زہر نیست و نابود ہو جائے اورنوع انسانی اپنی نظریاتی صحت کی طرف پوری طرح سے لوٹ آئے ۔ زندگی کا روکا نہ ٹلنے والا تقاضا یہ ہے کہ عالم انسانی نظریاتی موت سے بچ جائے اور صحت یاب ہو کر پھر ارتقا کی راہوں پر چل نکلے اس وقت آدم خاکی زوال میں ہے کیونکہ وہ غلط نظریات کے زیر اثر ارتقا کی راہوں سے ہٹ گیا ہے اور نہایت سرعت کے ساتھ پستی کی طرف لڑھکتا چلا جا رہا ہے ۔ اسے فوری علاج کی ضرور ت تھی۔ جو زندگی نے خود اپنے صحت بخش رد عمل کے ذریعہ سے اقبال کے فلسفہ خودی کی صورت میں پیدا کر لیا ہے ضروری ہے کہ یہ رد عمل باربار بڑھتا او ر ترقی کرتا چلا جائے اور اس سے پیدا ہونے والے صحت بخش مواد (Anti Bodies)جو اقبال کے سچے معقول اوریقین افروز تصورات کی شکل میں ہیں یہاں تک ترقی کریں کہ انسانی سوسائٹی کے جہنم کے کونے کونے میںپھیل جائیں اور مضر اورمہلک تصورات کے اثر کو ناکام بنا دیں لہٰذا نہ صرف یہ ضرور ی ہے کہ خود قدرت کے اپنے اہتمام کے ساتھ فلسفہ اقبال کی پہلی مکمل اور منظم تشریح وجود میں آئے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تشریح متواتر ترقی اور توسیع پاتی رہے یہاں تککہ تمام نفسیاتی حیاتیاتی اور طبیعیاتی حقائق علمی کو اپنے اندر جذب کر لے اور اپنی معقولیت کی کشش کی وجہ سے آخر کار پورا علم انسانی کے شعور پر حاوی ہو جائے۔ اقبال کو بجا طور پر اس بات کا یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے: پس از من شر من خوانند دمے رقصند دمے گویند جہانے را دگرگوں کردیک مرد خود آگاہے ٭٭٭ خودی کی حقیقت خودی کیا ہے اقبال کی حکمت میں خودی سے مراد وہ شعور ہے جو خود شناس اور خود آگا ہ ہو اور اپنی ذات اور اپنے مقاصد کا احساس یا شعور رکھتا ہو لیکن یہاں شعور کا مطلب ہو ش یا تمیز نہیں بلکہ وہ چیز ہے جس کا خاصہ ہو ش یا تمیز رکھنا ہے جس کی وجہ سے ایک انسان تمیز یا ہوش رکھتا ہے انسان میں یہی چیز ہے جو خود شناس یا خود آگاہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’میں‘ کہتی ہے اس لیے اقبال کو ’’انا‘‘ یا ’’ایغو‘‘ یا ’’من‘‘ بھی کہتا ہے اور پھر یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ ہے اور جب مرتا ہے تو یہی وہ چیز ہے جو اس کے جسم سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اقبال کے لیے ’’روح‘‘اور ’’جان‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے اور اس کو ’’زندگی‘‘ اور ’’حیات‘‘ کے ناموں سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے ٭٭٭ ارتباط حرف و معنی اختلاف جان و تن جس طرح اخگر قبا پوش اپنے خاکستر سے ہے ٭٭٭ زندگی بغیر شعور کے نہیں ہوتی لہٰذا ان معنوں میں کہ شعور زندگی ہے ایک خاص سطح کا شعورحیوان میں بھی موجود ہے ۔ لیکن حیوان کا شعور آزاد نہیںبلکہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ناقابل تغیر جبلتوں کے ماتحت کام کرتا ہے اس کے برعکس انسان کا شعور جبلتوں سے آزاد ہو کر اور ان کی مخالفت میں بھی عمل کرتا ہے اس لیے وہ خو د شناس اور خود شعور ہے اور اپنے مقاصد کو جانتا ہے۔ حیوان اپنے شعور کی وجہ سے فقط سوچتا جانتا اور محسوس کرتا ہے لیکن انسان اپنے شعور کی وجہ سے نہ صرف جانتا ہے سوچتااور محسوس کرتا ہے بلکہ جب وہ ایسا کرتا ہے تو وہ جانتا بھی ہے کہ وہ جانتا سوچتا ور محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ہم انسان کے شعور کو خود شناس اور خو دآگاہ کہتے ہیں۔ اسے شعور نہیں بلکہ خود شناسی خود شعوری یا خود آگاہی کہنا چاہیے اقبال اسی کو خودی کہتا ہے۔ خودی کے اوصاف و خواص…خود آگاہی خود آگاہی خودی کا ایک حیر ت انگیز خاصہ ہے اسی خاصہ کی وجہ سے کائنات برپا ہے او ر انسان ساری تگ و دو اور جدوجہد اسی خاصہ کی وجہ سے ہے اسی کی وجہ سے خودی اپنے آپ کو بغیر آنکھوں کے دیکھتی ہے اور بغیر کانوںسے سنتی ہے بلکہ اپنے آپ کو کسی حس کی مدد سے بغیر براہ راست پوری طرح سے جانتی ہے میں جانتا ہوں کہ میں ہوں کیونکہ میں سو چ رہا ہوں جان رہا ہوں اور خوشی یا غم محسوس کر رہا ہوں لیکن میری کوئی حس مجھے اپنے آپ کو جاننے میں مدد نہیں دے رہی اگرچہ میں اپنی خودی کو ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا لیکن اس کے باوجود بغیر ان آنکھوں کے ا س طرح سے دیکھ رہا ہوں کہ میرے لیے اپنے آپ کا علم ان چیزوں کے علم سے بدرجہا زیادہ یقینی ہے جن کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتا ہو ںان کا جاننا میرے لیے اسی وجہ سے ممکن ہے کہ میں اپنی خودی کو جانتاہوں کیونکہ ان کا علم وہی ہے جس کو میری خودی جانتی ہے اور میری خودی سے باہر ان کا کوئی علم نہیں لہٰذا اگر میں اپنی خودی کو نہ جانوں تودنیاکی کسی چیز کو دیکھنے کے باوجود نہیں جان سکتا اگر دنیا بھر میں کسی چیز کا یقینی علم ہمیں حاصل ہے تو وہ فقط اپنی خودی کا علم ہے ہم اپنی خودی کے علم سے ہی اپنے دوسرے غیر خودی کے علم کو پرکھتے ہیں۔ خودی کا وجود فریب یا وہم نہیں خارج کی دنیا کے متعلق ہمارا علم قیاسی ہے اور ہمارا قیاس حواس پر مبنی ہوتا ہے۔ حواس کے تاثرات کے بدلنے سے خواہ اس کا کوئی سبب خارج میں ہو یا نہ ہو ہمارا علم بد ل جاتا ہے ۔ اس لیے کوئی شخص کائنات کے متعلق تو کہہ سکتاہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور زمین اور آسمان درحقیقت موجود نہیںہیں یا ان کی حیثیت ایک ایسے خواب یا وہم سے زیادہ نہیں جو خالق کائنات کی ہستی کے لیے ایک پردہ کا کام دے رہا ہے لیکن کوئی شخص خود ی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک وہم ہے خودی کا وجود محسوس دنیا خارجی دنیا یا مادی دنیا کی چیز نہیں یہی سبب ہے کہ ہمارے حواس او رہمارے قیاسات اس کو جاننے کاوسیلہ نہیں بنتے۔ فروغ دانش ما از قیاس است قیاس ماز تقدیر حواس است چو حس دیگر شد ایں عالم دگر شد سکون و دیر و کیف و کم دگر شد توان گفتن جہان رنگ و بو نیست زمین و آسمان و کاخ و کو نیست خودی از کائنات رنگ و کو نیست حواس ماجہان ماو او نیست اگر کوئی کہے کہ میں اپنی خودی کے وجود کا دھوکا یا وہم ہو رہا ہے اور درحقیقت ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کہہ سکتی ہو تو اس سے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ اس دھوکے یا وہم کا علم یا احساس کس کو ہو رہا ہے۔ اگر اس دھوکے یا وہم کا علم یا احساس ایک حقیقت ہے اور خو د ایک دھوکا اور وہم نہیں وہ چیز کیونکر ایک دھوکا یا وہم ہو سکتی ہے جس کو یہ علم یا احسا س ہو رہا ہے اور یہی چیز خودی ہے جو اپنے آپ کو ’’من ‘‘ کہتی ہے۔ اگر گوئی کہ ’’من‘‘ وہم و گمان است نمودش چوں نمود ایں و آن است بگو با من کہ دارائے گمان کیست یکے در خود نگر آں بے نشان کیست یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ خارج کی دنیا تو آشکار موجود ہو لیکن اس کے باوجود اس کا وجود مشکوک اور دلیل اور ثبوت چاہتا ہو اور اس کے اسرار ورموز پر کوئی جبریل بھی حاوی نہ ہو سکے اور خودی نظروں سے اوجھل ہو اور اس کے باوجود اس کا ہونا یقینی ہو اور ثبوت یا دلیل سے بے نیاز ہو بلکہ تمام دعاوی اور مسائل اور تمام براہین اور دلائل اس کے ہونے پر مبنی ہوں۔ اس سے زیادہ خودی کے حقیقی ہونے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے لہٰذا خود ی حق ہے اور باطل نہیں وہ موجود ہے اور غیر موجود نہیں اور اس کا وجود بے مقصد اور بے سود نہیں۔ جہاں پیدا و محتاج دلیلے نمی آید بفکر جبرئیلے خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است یکے اندیش و وریاب ایں چہ راز است خودی را حق بداں باطل پندار خودی را کشت بے حاصل پندار زمان و مکان سے بے نیازی اس کے باوجود کہ خودی انسان کے جسد عنصری میں جاگزین ہے جو سلسلہ لیل و نہارکی پابندیوں سے گھرا ہوا ہے وہ خود زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہے کیونکہ وہ اپنے خیال کے ذریعہ سے ادھر ماضی اور مستقبل کی انتہائی تک اور ادھر کائنات کے دور دراز گوشوں تک جہاں روشنی بھی کروڑوں برس میں آتی ہے آن واحد میں جا پہنچتی ہے۔ بخاک آلود و پاک از مکان است بہ بند روز و شب پاک از زمان است خیال اند کف خاکے چنان است کہ سیرش بے مکان و بے زمان است چونکہ ہم خود ی کو کسی حالت میں بھی نہ ان آنکھو ں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہاتھو ں سے چھو سکتے ہیں اور غیر کی خودی اپنی خودی نہیں ہوتی کہ ہم حواس کی مدد کے بغیر براہ راست اسے دیکھ سکیں ہم غیر کی خودی کا علم خواہ وہ خودی ہو یا انسان کی فقط اس کے مظاہر اور اثرات اور اعمال اور افعال کے مطالعہ سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ خودی ایک نورانی قوت یا قوت نور ہے خودی ایک نور ہے لیکن مادی روشنیوں میں سے کوئی روشنی ایسی نہیں جو اس کی مماثل ہو اور پھر خودی ایک قوت ہے لیکن مادی قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہیں جس کے ساتھ ا س کو مشابہت دی جا سکے یہی وہ نورانی قوت یا قوت نور ہے جس کا انسان میں اور دنیا کی ہر چیز میں ظہور ہے ۔ یہی زندگی ہے۔ وا نمودن خویش را خوئے خودیست خفتہ ور ہر ذرہ تیروئے خودیست نکتہ نورے کہ نام او خودیست در وجود ما شرار زندگی است اقبال کے الفاظ میں خودی ’’شعور کا وہ روشن نکتہ ہے جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات و تمینات مستیز ہوتے ہیں وہ یہ ایک لازوال حقیقت ہے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرز بند ہے‘‘اور اس کا خاصا یہ ہے کہ وہ عمل اور خو د نمائی کے لے بے تاب رہتی ہے۔ قوت خاموش و بیتاب عمل از عمل پابند اسباب و علل مشکلات پر غالب آنے کی خواہش خودی کا خاصہ ہے لفظ خودی کی اس تشریح سے ظاہر ہے کہ اقبال نے اس لفظ کو استعمال انگریزی لفظ (Self or Self-Conscousness) کا جو مدت سے فلسفہ کی ایک اصطلاح کے طور پراستعمال ہو رہا ہے۔ فارسی یا اردو ترجمہ کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ خودی کی اس سادہ اورمعروف فلسفیانہ اصطلاح کو سمجھنے میں بالعموم اقبال کے ایسے معتقدین کو بھی دقت پیش آئی ہے جو اس کے بہت قریب رہے ہیں اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ خودی کا لفظ اب تک فارسی اور اردو می ایک اور معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے یعنی خود پرستی ‘ خود مختاری ‘ خود سری‘ خود آرائی‘ خود غرضی غرور نخوت اور تکبر کے معنوں میں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود اقبال نے بھی اپنی قوم کی موجودہ حالت کے پیش نظر خودی کی گوناگوں فطری صفات سے ہے اس صفت پر خاص زور دیا ہے جس کا ایک پہلو خود نمائی یا حب استیلا یا حب تفوق (Self-Assertion)ہے۔ زندگانی قوت پیداستے اصل او از ذوق استیلاستے اس صفت کی رو سے خودی کا ایک مقصد کا تصور کرتی ہے پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری قوت سعی و عمل صرف کرتی ہے اور اس عمل سے اسے اپنے مقصد میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کا یعنی اپنی قوتوں کا اظہار کرتی ہے اور اس خودی اظہاری یا وانمودن خویش سے اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے اس بنا پر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ خودی کی فلسفیانہ اصطلاح روزمرہ کی زبگان میں استعمال ہونے والی لفظ خودی کے ساتھ معنی اشتراک کا رکھتی ہے ان کا خیال ہے کہ اقبال کے نزدیک جذبہ خود نمائی یا ذوق استیلا کے جائز اور ناجائز استعمال میں کوئی خاص خوبی ہے اور اقبال کی تعلیم یہی ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو اس جذبہ کا اظہار کیا ائے یہ بات قطعاً غلط ہے ک اس کی وجہ پوری تفصیل کے ساتھ آگے تو چل کر بیان کی جائے گی لیکن یہاں اس غلط فہی کو رفع کرنے کے لیے دو گزارشات ضروری ہیں ایک تو یہ کہ خودی کے مقاصد اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی جدوجہد یا عمل سے خودی کو مستقل اور مکمل اطمینان (جو اس کی پیہم ترقی اور ترفع کا ضامن ہے) اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے کہ جب ا سکا مقصد اس کی فطرت کے مطابق ہو۔ غلط مقصد کی پیروی سے خودی کو عارضی تسلی ہو تو لیکن آخر کار اسے بے اطمینانی اور ناکامی کا احساس ہوتا ہے ایسی صورت میں اس کی جدوجہد آخر کار خود اس کے اندر رونی فطرتی مقصد کو شکست دے دیتی ہے اور دوسری گزارش یہ ہے کہ عمل یا جدوجہد احساس کا مدعا لازمی نتیجہ ہے۔ اور خودی ہر آن کوئی نہ کوئی مدعا افچھا یا برا صحیح یا غلط رکھنے پر مجبور ہے اور لہٰذا ہر وقت عمل یا جدوجہد کرنے پر بھی مجبورہے۔ غلط مدعا غلط عمل پیدا کرتا ہے اور صحیح مدعا صحیح عمل پیدا کرتا ہے ۔ اقبال صرف اسی عمل کی تلقین کرتا ہے جو خودی کی فطرت کے مطابقت رکھتا ہو اور لہٰذا صحیح ہو اور اس کے نزدیک صحیح مدعا اور لہٰذا صحیح عمل مومن کا امتیاز ہے۔ گویا اقبال نے جو عملی جدوجہد اور خودنمائی پر زور دیا ہے اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد یا مدعا کو درست کریں اور اسی کو وہ یقین محکم یا ایمان کہتا ہے اگر مدعا نقائص سے پاک اور شکوک و شبہات سے آزاد ہوکر درست ہو جائے تو وہ ایک طاقتور عزم یا ارادہ عمل بن جاتا ہے۔ اقبال کی وضاحت اقبال نے خود اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ خودی سے اس کی مراد غرو ر یا تکبر نہیں چنانچہ اسرار خودی کے دیباچہ میں اس نے لکھا ہے : ’’ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میںبمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیاہے کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا یقین ذات ہے‘‘۔ قاضی نذیر احمد کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے: ’’اسرار خودی اور رموز بے خودی دونوں کا موضوع یہی مسئلہ خودی ہے ان کتابوں کے پڑھنے سے آ پ کو اطمینان ہو جائے گا کہ اگر ان دونوں میں یا کسی اور کتاب میں آپ کو کوئی ایسا شعر ملے جس میں خودی کامفہوم تکبر یا نخوت لیا گیا ہو تو اس سے مجھے آگا ہ کیجیے‘‘۔ مطلب یہ تھا کہ میں نے اپنی کسی کتاب میں بھی لفظ خودی کو تکبر یا نخوت کے معنوں میں استعمال نہیںکیا۔ نیٹشے (Nietzche)پر اقبال کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نوٹ اقبال اکادمی کے پاس محفوظ ہے اس نوٹ میں لفظ خودی کی تشریح کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے: ’’لفظ خودی کو بڑی مشکل سے اور بادل نخواستہ چنا گیا ہے ادبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے اندر بہت سی خامیاں ہیں اور اخلاقی نقطہ نظر سے اسے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہمیشہ برے معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور دوسرے الفاظ میں جو ’’میں‘‘ کی مابعدالطبیعیاتی حقیقت کوبیان کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اتنے ہی ناموزوں ہیں مثلاً انا‘ شخص‘ نفسانیت‘ انانیت۔ ضرورت درٓصل اس بات کی ہے کہ میں یا ’’اخو‘‘ کے لیے ایک ایسا لفظ مل جائے جو بے رنگ ہو اور کسی اخلاقی مفہوم کے بغیر ہو۔ جہاں تک مجھے معلمو ہے فارسی یا اردو میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں فارسی لفظ ’’من‘‘ بھی اتنا ہی اموزوں ہے تاہم شعر کی ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے بھی میں نے یہ سمجھا ہے کہ لفظ خودی سب سے زیادہ موزوں ہے۔ فارسی زبان میں کسی قدر اس بات کی شہادت بھی موجود ہے کہ لفظ خودی ایغو کے سادہ مفہوم یعنی ’’من‘‘ کے بے رنگ معنوں میں استعمال کیا گیا ہے گویا مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے خودی کا لفظ ’’من‘‘ کے اس ناقابل بیان احسا س کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو ہرفرد انسانی کی بے مثل انفرادیت کی بنیاد ہوتا ہے‘ مابعد الطبیعیاتی طور پر اس لفظ کا کوئی مفہوم ایسے لوگوں کے لیے نہیں جو اس کے اخلاقی مفہوم سے نجات نہیں پا سکتے میں زبور عجم میں پہلے کہ چکا ہوں : گرفتم ایں کہ شراب خودی بسے تلخ است بد رو خویش نگر زہر ما بدر مان کش ترجمہ: خود ی کی شراب بے شک تلخ ہے لیکن اپنے مرض پر نگاہ رکھو اور اپنی صحت کی خاطر میرے زہر کو پی لو۔ جب میں نفی خودی کی مذمت کرتا ہوں ت ومیرا مطلب اس سے اخلاقی معنوںمیں ایثاریا نفس کشی کی مذمت نہیں ہوتا۔ نفی خودی کی مذمت میں ایسے افعال کی مذمت کرتا ہوں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ’’میں‘‘ کو ایک مابعد الطبیعیاتی قوت کی حیثیت سے مٹا دیا جائے کیونکہ اسے مٹانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اجزا بکھر جائیں وہ حیات بعد ممات کے قابل نہ رہے جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں اسلامی تصوف کا نصب العین خودی کا مٹانا نہیں۔ اسلامی تصوف میں فنا سے مراد انسانی ایغو کا مٹانا نہیں بلکہ اس کا مکمل طور پر خدا کی ذات کے سپر د کر دینا ہے اسلامی تصوف کا نصب العین ایک ایسا مقام ہے جو فنا کے مقام سے بھی آگے ہے یعنی مقام بقا جو میرے نقطہ نظر سے اثبات خودی کا بلند ترین مقام ہے جب میں کہتا ہوں کہ لعل کی طرح سخت ہو جائو تو میری مراد نیتشے کی طرح یہ نہیں ہوتی کہ بے رحم ارو بے درد ہو جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ خودی کے عناصر کو مجتمع کرو تاکہ وہ بعد از مرگ زندہ رہنے کے لیے فنا کا مقابلہ کر سکے۔ اخلاقی نقطہ نظر سے لفظ خودی(جیسا کہ اسے میں نے استعمال کیا ہے) کا مطلب ہے خود اعتمادی خودداری اپنی ذات پر بھروسہ حفاظت ذات بلکہ اپنے آ پ کو غالب کرنے کی کوشش جبکہ ایسا کرنا زندگی کے مقاصد کے لیے اور صداقت انصاف اور فرض کے تقاضوں کو پورا کرنے کی قوت کے لیے ضروری ہو اس قسم کا کردار میرے اخلاق میں اخلاقی ہے کیونکہ وہ خود ی کو اپنے قویٰ کے مجتمع کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ اور ا س طرح تخیل اور انتشار کی قوتوں کے خلاف خودی کو سخت کر دیتا ہے عملی طور پر مابعد الطبیعیاتی ایغو دو بڑے حقوق کا علم بردار ہے اول زندہ رہنے کا حق او ر دوئم آزا د رہنے کا حق جیساکہ خداوندی قانون نے مقرر کیا ہو‘‘۔ خودی ذہنی کیفیتوں کو منظم کرتی ہے خودی کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ ہے کہ وہ ہماری ذہنی حالتوں میں وحدت پیدا کرتی ہے اقبال نے لکھا ہے: ’’خودی ذہنی حالتوں کی ایک وحدت کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے ذہنی حالتیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتیں وہ ایک دورے کو شامل ہوتی ہیں اور حقیقتاً ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں وہ ایک مرکب کل کی جسے ہم ذہن کہتے ہیں بدلی ہوئی کیفیتوں کے طور پر ہوتی ہیں آپس میں تعلق رکھنے والی ان حالتو ں کی وحدت یا یوں کہیے کہ واقعات کی عضویاتی وحدت ایک مخصوص طرز کی وحدت ہوتی ہے یہ ایک مادی شے کی وحدت سے بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایک مادی چیز کے اجزا ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں ذہنی وحدت قطعی طور پر بے مثال ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ میرا فلاں اعتقاد میرے دوسرے اعتقاد کے دائیں یا بائیں طرف پڑا ہے اورنہ ہی یہ کہنا ممکن ہے کہ روضہ تاج محل کے حسن کا احساس جو میرے دل میں ہے آگرہ سے میری دوری کی نسبت سے بدلتا رہتا ہے‘ میرا گنجائش کا تصور گنجائش کی دنیا میں گنجائش سے متعلق نہیں ہوتا۔ درحقیقت خودی گنجائش کی ایک سے زیادہ دنیائوں کا تصور پیداکر سکتی ہے۔ بیدار شعور کی گنجائش اور عالم خواب کی گنجائش آپس میں کوئی تعلق نہیں رکھتیں وہ نہ ایک دوسرے سے مزاحمت کرتی ہیں ارو نہ ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہیں۔ جسم کے لیے صرف ایک ہی قسم کی گنجائش ہو سکتی ہے لہٰذا خودی جسم کی طرح گنجائش کی پابند نہیں‘‘۔ خودی کی تنہائی اور انفرادیت خودی کا ایک وصف اس کی تنہائی ہے جس کی وجہ سے ہر خودی بے چگوں اور بے نظیر ہوتی ہے اقبال خودی کے اس وصف کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’’ایک خاص نتیجہ پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک منطقی قضیہ کے تمام بنیادی مفروضات ایک ہی خودی کے اعتقادات میں شامل ہوں اگر میں اس مسئلہ پر یقین رکھوں کہ تمام انسان فانی ہیں اور ایک اور خودی اس مسئل پر یقین رکھتی ہے کہ ارسطو ایک انسان ہے تو اس حالت میں کوئی نتیجہ ممکن نہیں ہوتا۔ نتیجہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ دونوں مسئلوں پر میں خود یقین کروں پھر کسی چیز کے لیے میری خواہش بنیادی طور پر میری ہی ہوتی ہے اس کی تشفی سے میری ذاتی تسکین ہوتی ہے اگر اتفاقاً تمام بنی نو ع انسان اییک ہی چیز کی خواہش مند ہے تو ان سب کی خواہش کی تسکین سے بھی میر ذاتی تسکین ہوتی ہے۔ اگر اتفاقاً تمام نو ع انسانی ایک ہی چیز کی خواہش مند ہو تو ان سب کی خواہش کی تسکین سیبھی میری خواہش کی تسکین نہ ہو گی جب تک کہ وہ چیز خود مجھے میسر نہ آئے دندان ساز میرے دانت کے درد کے لیے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن میرے درد کو محسوس نہیں کر سکتا۔ میری راحتیں میری کلفتیں اورمیر ی خواہشیں فقط میری ہی ہوتی ہیں اور میر ی ہی مخصوص خود ی کے اجزا و عناصر شمار کی جا سکتی ہیں جب میرے اس عمل کی ایک سے زیادہ راہیں کھلی ہوئی ہیں تو ان میں سے ایک راہ کو اختیار کرنے کے لیے مجھے ہی محسوس کرنافیصلہ کرنا یا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ خود خدا بھی ظاہری طور پر اور براہ راست میرے لیے یہ کام نہیںکرتا۔ اسی طرح سے آپ کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ میں ماضی میں آپ سے متعارف ہو چکا ہوں میرا کسی مقام یا شخص کو پہچان لینا میرے ماضی کے کسی جربہ کی بنا پر ہی ہو سکتا ہے اور کسی دوسری خودی کے ماضی کے تجربہ کی بنا پر نہیں ہو سکتا اپنی ذہنی حالتوں کے اس عجیب و غریب و باہمی تعلق کو ہم فقط ’’میں‘‘ کے لفظ سے ظاہر کرتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں نفسیات کا سب سے بڑا عقدہ ہمارے سامنے نمودار ہونے لگتا ہے۔ اس’’میں‘‘ کی حقیقت کیا ہے‘‘۔ خودی کے اوصاف خودی کوئی ایسی چیز نہیں جو مکان (Space)میں کہیں پڑی ہوئی ہو بلکہ اس کی اصل ایک فعلیت ہے وہ انسان کے فکر و عمل کی ایک قوت ہے جو ایک مقصد اختیار کرتی ہے ۔ اور جس کا مقصد انسان کے افعال کو مربوط کرنا ہے اور ان کے اندر ایک وحدت پیدا کرنا ہے یہ انسان کی وہی اندرونی قوت ہے جو فیصے کرتی ہے اندازے قائم کرتی ہے اور معلومات حاصل کرتی ہے۔ انسان کے رجحانات فکر و عمل طے کرتی ہے اور اس کی آرزوئوں اور امیدوں کا اور اس کے عزائم اور مقاصد کا اور اس کے اندرونی احساسات و جذبات کا سرچشمہ ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’جہاں اندرونی احساس موجود ہو وہاں خودی گویا اپنا کام کر رہی ہے خود خودی کو ہما س وقت جانتے ہیں جب وہ کچھ معلوم کر رہی ہو‘ فیصلہ کر رہی ہو یا عزم کر رہی ہو‘ خودی یا روح کی زندگی ایک قسم کا تنائو ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خودی اپنے ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہو اور ماحول خودی پر اثر انداز ہو رہاہو خودی باہمی اثر اندازی کے اس میدان سے باہر کھڑی نہیں رہتی بلکہ اس کے اندر ایک حکمران قوت کی حیثیت سے موجود رہتی ہے اور اپنے تجربات کے ذریعہ سے اپنی تعمیر اور تربیت کرتی ہے۔ اور اس موضوع پر قرآن کا ارشاد واضح ہے: یسئلوک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً (یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہیے روح خدا کے حکم کی پیداوار ہے اور تم لوگ کم ہی علم دیے گئے ہو)۔ لفظ امر کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن نے خلق اور امر کے درمیان جو فرق کیا ہے ہم اس کی طرف رجو ع کریں خلق کے معنی ہیں پیدا کرنا اور امر کے معنی ہیں حکم کرنا جیسا کہ قرآن میں ہے الخلاق والامر (اسی کے لیے پیدا کرنا اور حکم کرنا بھی) اوپرنقل کی ہوئی آیت کا مطلب یہ ہے کہ روح بنیادی فطرت حکم ہے کیونکہ وہ خدا کی حکمران قوت سے پیدا ہوتا ہے اگرچہ ہم یہ نہیں جانتے کہ کس طرح سے خدا کا حکم ان وحدتوں کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک ایک خودی ہے۔ ضمیر متکلم جو لفظ ربی میں ہے خودی کی فطرت اور اس کے کردار پر مزید روشنی ڈالتی ہے اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ روح کو ایک ایسی چیز سمجھا جائے کہ جو منفرد اور معین ہو اور تمام اختلافات کے سمیت جو اس کی وسعت میں اس کے توازن میں اور اس کی وحدت کی اثر اندازی میں پائے جاتے ہیں۔ کل یمعل علی شاکلتہ وربکم اعلم بمن ھوا اھلی سبیلا (ہر شخص اپنے طریق کار پر کام کرتا ہے اور تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہے جس کی راہ سب سے زیادہ صحیح ہے) اس طرح سے میری اصل شخصیت ایک چیز نہیں کہ بلکہ ایک فعل قرار پاتی ہے میرا تجربہ ایسے افعال کاایک سلسلہ ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ایک حکمران مقصد کی وحدت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے میری ساری حقیقت میرے حکمران جذبہ فکر و عمل کے اندر موجود ہے آپ میرا تصور اس طرح سے نہیں کر سکتے کہ گویا میں کوئی چیز ہوں جو فاصلہ کے اندر کہیں پری ہے یا گویا میں مادی دنیا کے اندر موجود تجربات کا ایک سلسلہ ہوں بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ میری تشریح تفہیم یا تعریف میرے اندازوں اور فیصلوں کی بنا پر میرے رجحانات فکر و عمل کی بنا پر میرے عزائم اور مقاصد اور میری آرزوئوں اور امیدوں کی بنا پر کریں‘‘(ضمناً اس اقتباس سے یہ بات بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ جس چیز کے لیے قرآن نے روح کا لفظ استعمال کیا ہے اسی کو اقبال خودی کہتا ہے)۔ خودی مادہ سے پیدا نہیں ہوئی مغرب کے بعض حقیقت ناشناس حکمانے یہ سمجھا ہے کہ انسان کا شعور یا اس کی خودی فقط مادہ کی ایک ترقی یافتہ حالت کا وسٖ ہے جب مادہ کے ذرات ترق کر کے حیوان کے دماغ کی صورت میں ایک خاص قسم کی طبیعیاتی اور کیمیائی ترکیب حاصل کر لیتا ہے تو اس میں شعور کا جوہر پیدا ہو جتا ہے اور جب یہ ترتیب اور ترکیب ختم ہو جاتی ہے تو یہ جوہر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اقبال ایسے حکماء مادیین سے یکسر اختلاف کرتا ہے جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہو سکتی ہے لہٰذا ہمیشہ موت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں وہ جب تک وہ مر نہیں جاتے ممکن نہیں کہ وہ موت کے غم سے نجات پا سکیں‘ چنانچہ اقبال مادہ پرست حکیم کے پیرو سے خطاب کر کے کہتا ہے : تیری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی اقبال کے نزدیک خودی مادہ کی کسی ترقی یافتہ حالت کا نام نہیںبلکہ مادہ کی ہر حالت کا وجو د اس کا مرہون منتہے وہ مادہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس نے مادہ کو پید اکیا ہے روح کی خاصیت یہ ہے کہ وہ خدا کی محبت کی شراب سے مست ہوتی ہے گویا روح سے محبت ہے اور انسانی جسم جو مادہیا خاک سے بنا ہے اس مے کا ساغر ہے۔ اقبال ان لوگوں سے جو مدت سے جسم اور جان کے باہمی تعلق کے متعلق الجھن میںپڑے ہیں اور نہیںجانتے کہ آیا روح جسم (خاک تیرہ) سے ہے یا جسم رو سے خطاب کر کے کہتا ہے کہ اصل مشکل یہ نہیں کہ مے ساغر سے ہے یا ساغر مے سے یعنی جسم روح سے ہے یا روح جسم سے بلکہ یہ سار مے سے کیسے بھرا جائے یعنی محبت کاکممال جو روح کی بالیدگی کے لیے ضروری ہے کیسے حاصل کیا جائے تاہم یو سمجھ لینا چاہیے کہ جان کا تعلق بدن سے ایسا ہی ہے جیسا کہ معنی کا حرف سے جان یا روح معنی ہے اور جسم حرف جان تن کا جامہ اس طرح سے اوڑھ لیتی ہے جس طرح سے انگارہ نے بھی اپنا قبائے خاکستر خود تیار کیاہے جس طرح حرف معنی سے پیدا ہوتا ہے معنی حرف سے پیدا نہیں ہوتا اور خاکستر انگارہ سے بنتا ہے انگارہ خاکستر سے پیدا نہیں ہوتا اسی طرح سے انسانی جسم اپنی جبلتوں یا حیوان قسم کی خواہشوں کے سمیت خودی سے پیدا ہوتا ہے اور خودی جسم سے پیدا نہیں ہوتی۔ : عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے میری مشکل مستی و سوز و سرور و درد داغ تیری مشکل مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے ارتباط حرف و معنی اختلاط جان و تن جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے خودی حقیقت کائنات ہے یہ کہنا کہ انسانی خودی نے انسانی جسم اور انسانی جسم کی خواہشات کو خود پیدا کیاہے اوروہ جسم کے پیدا نہیں ہوئی اس لیے درستہے کہ کائنات کی آخری حقیقت بھی ایک خودی ہے جس کو اقبال فلسہ کی زبان میں کائناتی خودی کہتا ہے اور جس کو مذہب کی زبان میں خدا کہا جاتا ہے کائناتی خودی کے مقصد نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور یہی اس کا مقصد شعور کی صورت میں اس کائنات کے اندر نمودار ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کائناتی خودی کا یہی مقصد ہے کہ جو انسان کے جسم کو پیدا کر کے اس کے اندر انسانی خودی یا انا کی صورت میں آشکار ہوا ہے ان معنوں میں یہ کہنا بجا ہے کہ انسان کی خودی نے ہی انسان کے جسم کو پیدا کیا ہے: قالب از ماست شد مانے ازو ساغر از مے مست شد نے مے ازو اگر پوچھا جائے کہ ایک کرسی کی حقیقت کیا ہے تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ لکڑی لیکن لکڑی کی حقیقت کیا ہے؟ سائسن کا طالب علم بجا طور پر اس کا جواب دے گا کاربن لیکن کاربن کی حقیقت بھی کچھ ہے اور وہ ایک خاص قسم کے غیر مرئی ذرات ہیں جن کو جواہر (Atoms) کہ اجاتا ہے پھر ان سالمات کی حقیقت برقی توانائی ہے لیکن کیا برقی توانائی کائنات کی آخری حقیقت ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور حقیقت ایسی نہیں کہ جس کی پھر کوئی حقیقت نہ ہو۔ اقبال اپنی انگریزی کتاب (Reconstruction of Religious Thoughts in Islam)میں ایک طویل بحث کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے: The Ultimate Nature of Reality is Spiritual and must be considered as in Ego. (ترجمہ) کائنات کی آخری حقیقت فطرت روحانی ہے اور ضروری ہے کہ اسے ایک خودی یا ایغو تصور کیا جائے ) اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت کے تمام مظاہر کا اور پوری کائنات کے وجود کا باعث خودی ہے۔ یہ عالم یہ بت خانہ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سومنات چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے اسی کے بیاباں اسی کے ببول اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ہیں پھول ٭٭٭ پیکر ہستی ز آثار خودیست ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد یونانی حکما کے قیاسات جب سے حضرت انسان نے کائنات پر غور و فکر کا آغاز کیا ہے اس حقیقت کا ایک غیر متزلزل اور سکون پرور وجدانی احساس اس کا شریک کار رہا ہے کہ گویہ کائنات ایک بے حد و حساب کثرت کی صورت میں ہے تاہم یہ کثرت کسی ایک ہی چیز کے ایسے مختلف مظاہر پر مشتمل ہے جو بالاخر پھر اسی کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اس میں مل جاتے ہیں لیکن وہ ایک ہی چیز فی الواقع کون سی ہے یہ مسئلہ ہمیشہ اس کی ذہنی کاوشوں کا موضوع بنا رہا ہے۔ سب سے پہلے چھٹی صدی قبل مسیح میں یونانی فلسفیوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں کیں۔ یونانی فلسفی تھیلز (Thales) کا خیال تھا کہ دنیا پانی سے بنی ہے اور تماما شیاء پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں، انیکسی مینز (Anaxemeanes) نے پانی کی بجائے ہوا کو تمام اشیاء کا ہیولیٰ قرار دیا۔ انیکسی مینڈر (Anaxemander) کا یہ خیال تھا کہ پانی، ہوا، آگ، مٹی ایسے عناصر دراصل کسی اور ہی چیز سے الگ ہو کر صورت پذیر ہوئے ہیں جو غیر محدود اور غیر متشکل ہے۔ دیماکر یطس (Demacritus) نے جسے موجودہ علم طبیعات کا بانی کہا جاتا ہے یہ نظریہ قائم کیا کہ دنیا کی آخری حقیقت جواہر (Atoms) ہیں جو حجم اور صورت میں مختلف ہوتے ہیں۔ تمام مرکب اجسام ان ہی سے بنے ہیں اور مرکب اجسام کے اندر جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کا باعث کچھ تو یہ ہے کہ جن جواہر سے وہ بنتے ہیں وہ حجم اور صورت میں مختلف ہوتے ہیں اور کچھ یہ کہ ان کے جواہر کی ترتیب الگ الگ ہوتی ہے۔ حقیقت کائنات کے متعلق قدیم حکمائے یونان کے ان نظریات میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ اس حقیقت کی نوعیت مادی ہے اس لحاظ سے یہ نظریات دور حاضر کے حکمائے مادیین کے نظریات سے مختلف نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مادہ کے اوصاف و خواص کے متعلق آج کے حکمائے ماویین کے تصورات زیادہ واضح ہیں تاہم ہمارے ان جدید حکماء کے نظریات اس بات کی تسلی بخش وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ مادہ کے اندر زندگی اور شعور کے اوصاف کیونکر نمودار ہو گئے ہیں۔ شعور اور مادہ کا فرق بظاہر شعور اور مادہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، مادہ بے حس اور بے جان ہے آپ ایک کرسی کو آگے یا پیچھے یا دائیں یا بائیں دھکیل سکتے ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں، اگر چاہیں تو اس کے اجزاء کو الگ الگ کر سکتے ہیں اور پھر جوڑ سکتے ہیں کرسی آپ سے کوئی مزاحمت نہیں کرے گی۔ اس کا اپنا کوئی مقصد یا مدعا نہیں، تمام بے جان مادی اشیاء کی حالت ایسی ہی ہے لیکن شعور کی کیفیت مادہ سے بالکل جدا ہے عام معنوں کے لحاظ سے جب مادہ کے اندر شعور موجود ہو تو وہ ایک اندرونی مقصد یا مدعا کے مطابق حرکت کا اظہار کر سکتا ہے اگر آپ ایک حیوان کی حرکات کو اپنی خواہش کے مطابق ضبط میں لانا چاہیں تو آپ کو ایک نہایت ہی پیچیدہ عمل کرنا پڑے گا جو اس بات کے گہرے مطالعہ پر موقوف ہو گا کہ ایک حیوان کا کردار خارجی اثرات سے کیونکر متاثر ہوتا ہے اور پھر بھی اس میں آپ کو پوری کامیابی حاصل نہ ہو سکے گی اور وہ اس لئے کہ ہر حیوان کی حرکات اس کے اپنے اندرونی مقصد یا مدعا کے مطابق سرزد ہوتی ہیں اس بنا پر مدعا کے مطابق عمل کرنا شعور کا ایک خاصہ قرار دیا گیا ہے جو مادہ میں قطعاً موجود نہیں۔ مادہ اور شعور کی اصل ایک ہے لیکن مادہ اور شعور کے اس نہایت ہی وسیع ظاہری اختلاف کے باوجود فلسفیوں اور سائنس دانوں نے اپنے اس لاشعوری وجدانی اعتقاد کی وجہ سے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ کائنات کی آخری حقیقت ایک ہی ہونی چاہئے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ مادہ اور شعور دونوں کو ایک ہی چیز ثابت کیا جائے اس لئے یا تو وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ شعور دراصل مادہ ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے اور یا یہ کہ مادہ در حقیقت شعور ہی کی صفات کا ایک مظہر ہے۔ سائنس دانوں کا وہ طبقہ جو انیسویں صدی سے تعلق رکھتا ہے، بالعموم اول الذکر نظریہ پیش کرتا رہا ہے اور اس کے برعکس فلسفیوں میں سے اکثر موخر الذکر نظریہ کے حامی رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ مادہ ایک غیر فانی حقیقت ہے اس لئے کسی چیز کی کوئی اصلیت نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے اوصاف و خواص مادہ کی طرح نہ ہوں۔ یعنی جب تک کہ اسے مادہ کی طرح دیکھا اور چھوا نہ جا سکے یا وہ اس قابل نہ ہو کہ معمل میں اس پر مادہ کی طرح تجربات کئے جا سکیں۔ چنانچہ یہ قدرتی بات تھی کہ وہ شعور کو ذی حیات مادہ کی ایک خاصیت قرار دیں یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ شعور کی مانند کوئی چیز تخلیق کائنات کا سبب ہو سکتی ہے یا مظاہر قدرت کے ساتھ اس کا کوئی سروکار یا علاقہ ہو سکتا ہے ان کا خیال تھا کہ شعور مادہ کی ہی ایک خاص حالت کا وصف ہے جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب مادہ ایک خاص کیمیائی ترکیب پا لیتا ہے یا طبیعیات کے خاص قوانین کے تحت میں آ جاتا ہے۔ قدیم سائنس دانوں میں سے بائل (Boyle) 1672-1691ء نے کہا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ’’ جب متحرک مادہ کو اپنی جگہ پر چھوڑ دیا جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس سے انسانوں اور حیوانوں کے مکمل اجسام ایسی حیرت انگیز موجودات یا اس سے بھی زیادہ محیر العقول وہ اجزائے مادہ جو زندہ حیوانات کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں خود بخود وجود میں آ جائیں‘‘ چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے وہ قدرت کے اندر ایک تعمیر کنندہ روح یا قوت شعور کا ہونا ضروری قرار دیتا تھا لیکن انیسویں صدی میں صرف لارڈ کیلون (Kalvin) 1824-1907ء ہی ایک ایسا سائنس دان ہے جس کی ذہانت نے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ قدرت شعور کے اوصاف سے بے بہرہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ کائنات کے اندر ایک تخلیقی اور رہنما قوت بھی کار فرما ہے تاہم فلسفہ جو سائنس کی طرح حقیقت کی کسی جزوی یا محدود واقفیت پر کبھی قانع نہیں ہو ااور جو تلاش حقائق میں وجدان کی راہ نمائی سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، ہمیشہ اس بات پر اسرار کرتا رہا ہے کہ عقدہ کائنات کا معقول اور مکمل حل جس کے لئے انسان فطری طور پر بیتاب ہے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نظام عالم میں شعور کو ایک مرکزی حیثیت نہ دی جائے۔ قرون وسطیٰ کی اروپائی حکمت کا مقصد تو عیسائیت کی عقلی توجیہہ کے سوائے اور کچھ نہ تھا لیکن شعور جیسا کہ وہ انسان اور کائنات کے اندر موجود ہے نہ صرف قرون وسطیٰ کے فلسفہ کا بلکہ عصر جدید کے ان بڑے بڑے فلسفیانہ نظریات کا بھی واحد موضوع رہا ہے جو ڈیکارٹ، لیبنر، شوپن ہار، نینٹے، کانت، سپائی نوزا، ہیگل، فشٹے، کروچے اور برگسان ایسے مقتدر فلسفیوں نے پیش کئے ہیں اور جن میں وہ خدا، روح کائنات، حقیقت مطلقہ، تصور مطلق، قوت، ارادہ کائنات، شعور ابدی، افراد حیات، خودی شعوری قوت حیات وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سائنس کی مادیات کو پہلا چیلنج سائنس کی مادیات پر سب سے پہلے جس فلسفی نے شدید اعتراضات کئے وہ انگلستان کا بشپ جارج برکلے تھا جس نے کہا کہ مادی دنیا اپنی کوئی جدا ہستی نہیں رکھتی کیونکہ ہم فقط حواس کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہ جاننا شعور کے بغیر ممکن نہیں چونکہ ہمارے شعور سے باہر مادہ کی کائنات کا اپنا کوئی وجود نہیں ہو سکتا اس لئے جو چیز حقیقتاً موجود ہے وہ شعور ہے نہ کہ مادہ، حواس کے ذریعہ سے ہمیں جس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے وہ مادہ نہیں بلکہ فقط رنگ، صورت، شکل، آواز، نرمی اور سختی وغیرہ مختلف اوصاف ہیں اور ان اوصاف کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ شعور ان کا احساس کرے اور شعور کے بغیر ان میں سے کوئی چیز بھی موجود نہ ہو سکے گی پس مادہ کی حقیقت فقط شعور ہے۔ برکلے اپنے نظریہ کی روشنی میں ایک غیر فانی ابدی شعور کی ہستی کو ثابت کرنے کے لئے جو دلیل قائم کرتا ہے وہ اسی طرح کی ہے۔ ’’ آسمان کے تمام ستارے اور زمین کی تمام چیزیں مختصر یہ کہ وہ تمام اشیاء جو اس کائنات کی ترکیب میں حصہ لیتی ہیں شعور کے بغیر کوئی وجود نہیں رکھتیں اگر میں ان کا احساس نہ کروں یا اگر وہ میرے یا کسی اور مخلوق ہستی کے شعور کے اندر موجود نہ ہوں تو پھر یا تو ان کا کوئی وجود ہی نہیں یا ان کا وجود کسی ابدی شعور کے علم میں ہے۔‘‘ نو تصوریت برکلے کی اس تصوریت کو اس زمانے میں ایک جدید فلسفہ جسے نو تصوریت کہنا چاہئے اور جس کے شارحین اٹلی کے دو فلسفی کروچے اور جینٹلے ہیں بہت مضبوط سہارا مل گیا ہے یہ دونوں فلسفی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کائنات روح اور شعور کے سوا اور کچھ نہیں ان کا فلسفہ نہ صرف زمانہ کے لحاظ سے جدید ترین ہے بلکہ بہت سے حکماء کے خیال کے مطابق موجودہ زمانہ کے فلسفوں میں سے ایک نہایت ہی اچھوتا اور اثر انگیز فلسفہ ہے یہ فلسفہ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہمارے شعور کا احساس ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت کے بارہ میں ہمیں یقین ہو سکتاہے اس مفروضہ سے استدلال کرتے ہوئے ہم اس فلسفیانہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر کائنات کی حقیقت کوئی ایسی چیز ہے جسے ہم جان سکتے ہیں تو وہ لامحالہ ہمارے شعوری تجربہ یا احساس کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور چونکہ خود شعوری ہمارا واضح ترین احساس ہے اس لئے مادی کائنات کی حقیقت بھی لازماً ایک اعلیٰ قسم کی خوشنودی ہے۔ اقبال کی تنقید جیسا کہ پہلے بیان کیاجا چکا ہے انیسویں صدی کے ماہرین طبیعات کے لئے اس قسم کے خیالات کو قبول کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ ایسا کرنے سے قائم بالذات ازلی اور ابدی میکانکی قوی کے طور پر ان کے مادی قوانین کی بنیادیں اکھڑ جاتی تھیں اور ان قوانین کی بنیاد یہ عقیدہ تھا کہ مادہ کا اپنا خارجی وجود ہے جو شعور کے افعال و خواص پر ہر گز موقوف نہیں، اقبال لکھتے ہیں: ’’ طبیعات ایک تجرباتی علم ہے جو ہمارے حسی تجربات سے بحث کرتا ہے ماہر طبیعات کی تحقیق و تجسس کا آغاز و انجام محسوس مظاہر قدرت سے تعلق رکھتا ہے جن کے بغیر وہ اپنے دریافت کئے ہوئے حقائق کی صداقت کا امتحان نہیں کر سکتا یہ صحیح ہے کہ وہ غیر مرئی اشیاء مثلاً جواہر کو بھی اپنے مفروضات میں داخل کرتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بغیر وہ اپنے حسی تجربات کی تشریح نہیں کر سکتا گویا طبیعیات کا علم فقط مادی دنیا کا مطالعہ کرتا ہے جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے جان سکتے ہیں یہ مطالعہ جن ذہنی اعمال و افعال پر یا جن روحانی یا جمالیاتی احساسات و تجربات پر موقوف ہے، اگرچہ وہ سب مل کر ہمارے تجربہ کی پوری وسعت کا ایک عنصر ہیں تاہم وہ طبیعات کے دائرہ تحقیق سے خارج تصور کئے جاتے ہیں اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ طبیعات کا مطالعہ مادی کائنات تک یعنی کائنات کے اس حصہ تک جس کا مشاہدہ ہم اپنے حواس سے کرتے ہیں محدود ہے لیکن جب میں آپ سے پوچھوں کہ آپ مادی دنیا کی کون سی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ اپنے ارد گرد کی معروف اشیاء کا ذکر کریں گے مثلاً زمین، آسمان، پہاڑ، کرسیاں، میز وغیرہ جب میں آپ سے مزید یہ سوال کروں کہ ان اشیاء میں سے آپ خاص کر کس چیز کا مشاہدہ کرتے ہے تو آپ کا جواب فوراً یہ ہو گا کہ ان کی صفات و خصوصیات کا ظاہر ہے کہ اس قسم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ہم اپنے حواس کی شہادت کی حقیقت کا ایک تصور قائم کرتے ہیں اس تصور کا حاصل یہ ہے کہ اشیاء اور ان کے اوصاف الگ الگ چیزیں ہیں یہ دراصل حقیقت مادہ کا ایک نظریہ ہے یعنی محسوسات کی حقیقت اور ادراک کرنے والے شعور کے ساتھ ان کے تعلق اور ان کے بنیادی اسباب کا نظریہ مختصر طور پر یہ نظریہ حسب ذیل ہے۔‘‘ محسوسات (رنگ آواز) ادراک کرنے والے ذہن کی حالتیں ہیں اور لہٰذا اگر قدرت کو خارج میں وجود رکھنے والی کوئی چیز قرار دیا جائے تو یہ قدرت کے دائرے میں نہیں آتیں اس بنا پر وہ کسی معقول معنوں میں مادی اشیاء کی صفات نہیں ہو سکتیں جب میں یہ کہوں کہ آسمان نیلا ہے تو میرا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ آسمان میرے ذہن میں نیلاہٹ کا ایک احساس پیدا کرتاہے یہ نہیں کہ نیلاہٹ ایک صفت ہے جو آسمان میں پائی جاتی ہے ذہنی حالتون کی حیثیت سے وہ تاثرات ہیں یعنی کچھ ایسے نتائج جو ہماری ذات میں نمودار ہوئے ہیں ان نتائج کا سبب مادہ ہے یا مادی چیزیں ہیں جو ہمارے حسی اعصاب اور دماغ کے ذریعہ سے ہمارے شعو رپر اثر انداز ہوتی ہیں یہ مادی سبب چھونے یا ٹکرانے سے عمل کرتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس میں صورت حجم، ٹھوس پن اور مزاحمت کی صفات موجود ہوں۔ پہلا فلسفی جس نے اس نظریہ کی تردید کا کام اپنے ذمہ لیا کہ مادہ ہمارے حسی تجربات کا ایک نا معلوم سبب ہے برکلے (Barkaley) تھا ہمارے زمانے میں وائٹ ہیڈ نے جو ایک ممتاز ماہر ریاضیات اور سائنس دان ہے قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ مادیت کا مروج نظریہ بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس نظریہ کی رو سے رنگ و آواز وغیرہ فقط ذہنی حالتیں ہیں اور قدرت کا کوئی جزو نہیں، آنکھ یا کان میں جو چیز داخل ہوتی ہے وہ رنگ یا آواز نہیں بلکہ وہ ایتھر (Eather) کی نا ابل دید امواج یا ہوا کی نا قابل شنید لہریں ہیں قدرت وہ نہیں جو ہم اسے سمجھتے ہیں ہمارے ادراکات سراب کی طرح ہیں اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ قدرت کی صحیح بے نقابی کرتے ہیں۔ قدرت خود اس نظریہ کے مطابق دو حصوں میں بٹ جاتی ہے ایک ہمارے ذہنی تاثرات اور دوسرے وہ خارجی ناقابل فہم اور نا قابل امتحان موجودات جو ان تاثرات کو پیدا کرتے ہیں، اگر طبیعات فی الواقع مدرک اور معلوم اشیاء کا کوئی مربوط اور صحیح علم ہے تو مادہ کا مروج نظریہ ترک کر دینا ضروری ہے اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ یہ ہمارے حواس کی شہادتوں کو جن پر ایک ماہر طبیعات جو تجربات و مشاہدات سے سروکار رکھتا ہے کلی انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ مشاہدہ کرنے والے کے ذہنی تاثرات سے زیادہ حقیقت نہیں دیتا۔ یہ نظریہ قدرت اور قدرت کا مشاہدہ کرنے والے کے درمیان ایسی خلیج حائل کر دیتا ہے جسے پاٹنے کے لئے اسے اس مشکوک مفروضہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی نامعلوم چیز موجود ہے جو گویا بسیط فضا کے ایک برتن میں پڑی ہے اور کسی خاص قسم کے ٹکراؤ کے نتیجہ کے طور پر ہمارے احساسات کو پیدا کرتی رہتی ہے۔ پروفیسر کے وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں یہ نظریہ قدرت کے ایک حصہ کو محض ایک ’’ خواب‘‘ اور دوسرے حصہ کو محض ایک ’’ انکل‘‘ بنا کر رکھ دیتا ہے اس طرح سے طبیعات اپنی بنیادوں پر تنقید کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بالاخر اس بات کی معقول وجہ پاتی ہے کہ اپنے ہی تراشے ہوئے بت کو آپ ہی توڑ ڈالے اس طرح سے تجرباتی نقطہ نظر جو شروع میں گویا حکمیاتی مادیات کو ضروری قرار دے رہا تھا۔ آخر کار مادہ کے خلاف بغاوت پر ختم ہو جاتا ہے حاصل یہ کہ چونکہ اشیاء ایسی ذہنی حالتیں نہیں جو کسی نامعلوم چیز سے جسے ہم مادہ کا نام دیتے ہیں پیدا ہو رہی ہیں لہٰذا وہ سچ مچ کے مظاہر قدرت ہیں جو قدرت کی حقیقت ہیں اور جن کو ہم بالکل اسی طرح سے جانتے ہیں جیسا کہ وہ فی الواقع قدرت کے اندر موجود ہیں۔ سائنس دانوں کے نئے تصورات جب برکلے نے نیوٹن (Newton) کے طبیعات ی قوانین پر سب سے پہلے اعتراض اٹھایا تو سائنس دانوں نے ایک نفرت آمیز طعن و تشنیع کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ کسے خبر تھی کہ اس بحث میں کہ آیا مادہ حقیقی ہے یا شعور۔ فلسفی جلد ہی سائنس دانوں پر غالب آ جائیں گے اور وہ بھی سائنس دانوں کی اپنی ہی تحقیقات و انکشافات کی بدولت فلسفی تو مدت سے کائنات کی ایک ایسی تشریح پر مصر تھے جو حقیقت شعور پر مبنی تھی اگر ان کا نقطہ نظر عام قبولیت حاصل نہ کر سکا تھا تو اس کی وجہ فقط سائنس ہی کی رکاوٹ تھی لیکن اب بیسویں صدی کی سائنس کے انکشافات سے جن میں نظریہ اضافیت، نظریہ کوانٹم اور عالم حیات کے بعض حقائق شامل ہیں یہ رکاوٹ دور کر دی ہے طبیعات جدید کی تحقیقات نے مادہ کو (جو کسی وقت ٹھوس سادہ اور روشن حقیقت کا درجہ رکھتا تھا) اور اس کے ساتھ قوت، حرکت، فاصلہ، وقت اور ایتھر کو محض لاشے میں بدل دیا ہے ڈاکٹر جوڈ (Joad) کے الفاظ میں: ’’ جدید مادہ ایک ایسی بے حقیقت چیز ہے جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ یہ فاصلہ اور وقت کے مرکب کا ایک ابھار برقی رو کا ایک جال یا امکان کی ایک لہر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے اندر کھو جاتی ہے۔ اکثر اوقات اسے مادہ کی بجائے دیکھنے والے کے شعور کا ہی ایک پھیلاؤ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں: ’’ لیکن مادہ کے تصور کو جس شخص نے سب سے بڑی ضرب لگائی ہے وہ ایک اور ممتاز ماہر طبیعات حکیم آئن سٹائن (Einstien) ہے جس کے انکشافات نے نوع بشر کی علمی دنیا کے اندر ایک دورس انقلاب کی داغ بیل ڈالی ہے۔ رسل (Russel) کہتا ہے ’’ نظریہ اضافیت نے ’’ وقت‘‘ کو ’’ فاصلہ وقت‘‘ میں مدغم کر کے مادہ کے قدیم تصور کو فلسفیوں کے تمام دلائل سے بڑھ کر شکستہ کیا ہے۔ عقل عامہ کے نقطہ نظر سے مادہ ایک ایسی چیز ہے جو مرور وقت سے نہیں بدلتا اور فضا میں حرکت کرتا ہے لیکن اضافیت کی جدید طبیعات کی رو سے یہ نظریہ بے بنیاد ہو گیا ہے اب مادہ کا کوئی جزو ایک ایسی قائم بالذات شے نہیں جس کی فقط حالتیں بدلتی رہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے متعدد واقعات کا ایک نظام ہے۔‘‘ مادہ کا وہ پرانا ٹھوس پن جاتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام خاصیات بھی جاتی رہی ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک فلسفی کو گریز پا خیالات سے زیادہ حقیقی نظر آتا تھا۔‘‘ پروفیسر روژے (Roughier) نظریہ اضافیت سے پیدا ہونے والے نتائج پر بحث کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ فلسفہ اور طبیعات جدید‘‘ میں لکھتا ہے: ’’ اس طرح مادہ الکترانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے جو خود لطیف لہروں کی صورت اختیار کرتے ہوئے فنا ہو جاتے ہیں۔ گویا مادہ کا مستقل نقصان اور قوت کا ناقابل تلافی انتشار عمل میں آتا ہے۔ دوام مادہ کے اس ہمہ گیر اصول کی بجائے جو سائنس دانوں نے سائنس کی بنیاد قرار دیا تھا اور جو اسے قابل فہم بناتا تھا یعنی ’’ نہ تو کوئی چیز وجود میں آتی ہے اور نہ فنا ہوتی ہے۔‘‘ اب ہمیں یہ متضاد اصول وضع کرنا چاہئے کہ ’’ کوئی چیز وجود میں نہیں آتی، ہر چیز فنا ہو جاتی ہے۔‘‘ دنیا ایک آخری بربادی کی طرف بڑھی چلی جا رہی ہے اور ایتھر جس کے بارہ میں ناحق یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ کائنات کا سہارا ہے۔ کائنات کی آخری قبر ثابت ہوتی ہے۔‘‘ ڈاکٹری ہیری شمٹ (Harry Schmidt) نے اپنی کتاب ’’ اضافیت اور کائنات‘‘ میں یہ بتاتے ہوئے کہ نظام عالم میں نظریہ اضافیت کے داخل ہونے کے بعد کائنات کی کیفیت کیا ہوئی ہے بڑے مایوسانہ انداز میں لکھا ہے: ’’ فاصلہ اور وقت بے حقیقت ہو کر رہ گئے ہیں خود حرکت بے معنی ہو گئی ہے اجسام کی شکل و صورت ہمارے نقطہ نظر پر موقوف ہو گئی ہے اور کائنات کی ایتھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی ہے۔ افسوس کہ تم نے خوبصورت دنیا کو ایک شدید ضرب کے ساتھ برباد کر دیا ہے اب یہ ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور اس کے ٹکڑے منتشر کر دئیے گئے ہیں اب ہم ان ٹکڑوں کو فنا کے سپرد کرتے ہیں اور بڑے درد کے ساتھ اس حسن کا ماتم کرتے ہیں جو تباہ ہو گیا ہے۔‘‘ مادہ کی اصل لیکن اگر مادہ حقیقی اور پائیدار نہیں تو پھر مادہ کی عدم موجودگی میں ہم مخلوقات کی اس بو قلمونی اور رنگا رنگی کی وجہ کیا بتا سکتے ہیں جس میں جا بجا حسن کار، ہنر، مدعا، تناسب، ہم آہنگی اور بے خطا ریاضیاتی ذہن کے اوصاف کار فرما نظر آتے ہیں۔ یقینا یہ سب شعور ہی کے اوصاف ہیں لہٰذا شعور ہی کائنات کی آخری حقیقت ہے جس سے دنیا جگمگا رہی ہے مادہ کے فانی ہونے کے بعد اب اس نظریہ کے لئے کائنات کی آخری حقیقت شعور ہے نہ صرف راستہ صاف ہو گیا ہے بلکہ اب اس نظریہ کے تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ آج شعور کو کائنات کی حقیقت قرار دینا عقلی طور پر اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انیسویں صدی میں یہ ماننا ضروری تھا کہ کائنات فقط مادہ سے بنی ہے۔ فلسفہ تو اپنی ساری تاریخ میں سائنس کی تائید کے بغیر بلکہ سائنس کی مخالفت کے باوجود کائنات کی روحانی توجیہہ پر اصرار کرتا رہا ہے اور فلسفہ کا یہ نظریہ قدیم سائنس کے مادیاتی نظریہ سے کسی طرح کم معقول یا کم قابل قبول نہیں تھا لیکن اب سائنس بھی اس کی تائید میں وزن دار شہادت پیش کر رہی ہے۔ چونکہ مادہ بے حقیقت اور فانی ثابت ہوا ہے۔ لہٰذا طبیعات کے ماہرین محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب وہ مادہ کی دنیا کے اندر محدود رہ کر طبیعات کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے اور مجبور ہیں کہ مادہ کی دنیا سے آگے نکل کر صداقت کی جستجو کریں کیونکہ اب مادہ کی حقیقت مادہ سے پرے کی دنیا میں ہی معلوم کی جا سکتی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان اور یورپ کے بہت سے ماہرین طبیعات مثلاً ریڈنگٹن، جینز، وائٹ ہیڈ، آئن سٹائن، شروڈ نگر اور پلانک مادی دنیا کی حقیقت کی وضاحت روحانی نقطہ نظر سے پیش کر رہے ہیں اب وہ ماہرین طبیعات ہی نہیں بلکہ ماہرین ماوراء طبیعات بھی ہیں ان سب سائنس دانوں کے دلائل اس مفروضہ کی تائید کرتی ہیں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے مادہ نہیں۔ جوڈ (Joad) لکھتا ہے: ’’ سر بر آوردہ سائنس دانوں کی نگاہ میں علم طبیعات کی ترقی کی موجودہ منزل ایسے نتائج کی طرف راہ نمائی کر رہی ہے جو قدیم مادیات کے نتائج کے بالکل برعکس ہیں اور جو کائنات کی روحانی توجیہہ کی اتنی ہی پر زور تاکید کرتے ہیں جتنی کہ آج سے پچاس سال پہلے سائنس کائنات کی مادی توجیہہ کی تائید کرتی تھی۔‘‘ نظریہ کو انٹم کے موجد پروفیسر پلانک کے ساتھ مسٹر جے ڈبلیو این سیلون کی ایک گفتگو 26جنوری 1931ء کے رسالہ آبزرور میں شائع ہوئی تھی اس میں پروفیسر پلانک کہتا ہے: ’’ میں شعور کو ایک بنیادی حقیقت سمجھتا ہوں اور مادہ کو شعور کا نتیجہ سمجھتا ہوں ہم شعور سے آگے نہیں جا سکتے ہر چیز جس کا ہم ذکر کرتے ہیں ای جس چیز کو موجود تصور کرتے ہیں اس کی ہستی شعور پر مبنی ہے۔‘‘ سر آلیور لاج (Oliver Lodge) لکھتا ہے: ’’ کائنات پر شعور کی حکومت ہے خواہ یہ شعور کسی ماہر ریاضیات کا سمجھا جائے یا کسی مصور کا یا کسی شاعر کا یا ان سب کا یا ان کے علاوہ اوروں کا یہی وہ حقیقت ہے جو ہستی کو معنی خیز بناتی ہے ہماری روز مرہ کی زندگی میں رونق پیدا کرتی ہے۔ ہماری امید کو بڑھاتی ہے اور جب علم ناکام رہ جاتا ہے تو یقین کے ساتھ ہمیں قوت بخشتی ہے اور تمام کائنات کو ایک لازوال محبت سے پر نور بناتی ہے۔‘‘ جیمز جینز کا معقول استدلال سر جیمز جینز کا استدلال یہ ہے کہ مادہ سب کا سب ریاضیاتی نسبتوں کی صورت میں ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ریاضیات کا دخل جس طرح ایک جوہر کی ہیئت ترکیبی میں نظر آتا ہے اسی طرح فلک کے نظامات میں بھی موجود ہے۔ ریاضیات کے قوانین جس طرح قریب ترین مادی اشیاء پر حاوی ہیں اسی طرح کائنات کے دور دراز حصوں پر بھی حکمران ہے لیکن ریاضیات کا علم جو ہمیں اس وقت حاصل ہے وہ کائنات کے مطالعہ سے حاصل نہیں ہوا بلکہ ہمارے اپنے منطقی یا عقلی استدلال سے حاصل ہوا ہے جس کو کائنات کے مطالعہ سے کوئی تعلق نہیں اپنی قوت استدلال کی راہنمائی میں اپنے ہی ذہن کی پیداوار کے طور پر قوانین ریاضیات کو مرتب کرنے کے بعد جب ہم کارخانہ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ نہ صرف کائنات کی تعمیر ان قواعد کے مطابق ہوئی ہے بلکہ یہی قوانین اس کائنات کی آخری صورت ہیں چونکہ مادہ غیر حقیقی ہے اس لئے کائنات آخر کار قوانین ریاضیات کے ایک مجموعہ کے بغیر کچھ ثابت نہیں ہوتی ہم نے ان قوانین کو جو ہمارے شعور سے باہر کی دنیا میں جاری و ساری ہیں، خود بخود کیونکر دریافت کر لیا اور پھر یہ قوانین مادی دنیا کی تعمیر میں خود بخود کیونکر کام آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ہماری طرح کے ایک شعور کی تخلیق ہے یہ شعور ہماری طرح ٹھیک ٹھیک ریاضیاتی یا منطقی انداز کے ساتھ سوچ سمجھ سکتا ہے پس ضروری ہے کہ خارج کی دنیا اور ہمارا اپنا شعور دونوں اسی شعور عالم نے پیدا کئے ہوں سر جیمز جینز اپنی کتاب ’’ پر اسرار کائنات‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ کائنات کسی مادی تشریح کی متحمل نہیں ہو سکتی اور میری رائے میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اپنی حقیقت ایک خیال سے زیادہ نہیں آج سے تیس سال پہلے ہم سمجھتے تھے یا فرض کرتے تھے کہ ہم ایک آخری میکانکی حقیقت کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں آج دنیا بڑی حد تک اس بات پر متفق ہے (اور جہاں تک علم طبیعات کے ماہرین کا تعلق ہے اس رائے سے اختلاف تقریباً مفقود ہے) کہ علم کا دریا ایک غیر میکانکی حقیقت کی طرف بہہ رہا ہے کائنات ایک بڑی مشین یا کل کی بجائے ایک بڑے تصور کی صورت میں نظر آنے لگی ہے اب شعور کوئی ایسی چیز نہیں جو مادہ کی دنیا میں اتفاقاً داخل ہو گئی ہو بلکہ اس کی بجائے ہم یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ ہمیں شعور ہی کو مادہ کی دنیا کا خالق اور حکمران قرار دینا چاہئے ہمارے اپنے شعور کو نہیں بلکہ اس شعور کو جس کے اندر وہ جواہر جن سے ہمارا شعور صورت پذیر ہوا ہے خیالات کی حیثیت رکھتے ہیں تازہ علم ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے پہلے جلد بازی سے قائم کئے ہوئے تاثرات پر کہ ہم ایک ایسی دنیا میں آ پہنچے ہیں جو زندگی سے کچھ سروکار نہیں رکھتی یا زندگی سے عملاً عداوت رکھتی ہے نظر ثانی کریں اغلب ہے کہ مادہ اور شعور کی قدیم دوئی جو اس فرضی عداوت کی ذمہ دار تھی بالکل ناپید ہو جائے گی نہ اس لئے کہ مادہ اور بے حقیقت ثابت ہو جائے گا یا شعور مادہ ہی کی ایک خصوصیت بن جائے گا بلکہ اس لئے کہ ٹھوس اور حقیقی مادہ آخر کار شعور ہی کی ایک مخلوق یا شعور ہی کا ایک ظہور مانا جائے گا ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ایک منظم اور مدبر ہستی کا پتہ دیتی ہے جو ہمارے شعور کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت رکھتی ہے جس حد تک ہمیں علم ہو سکا ہے جذبات اخلاق اور احساس کے اوصاف کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایک ایسے انداز فکر کے لحاظ جسے ہم کسی بہتر لفظ سے تعبیر نہ کر سکنے کی وجہ سے ریاضیاتی انداز فکر کہتے ہیں۔‘‘ حیاتیات کے حقائق کی شہادت برگسان اور ڈریش تصوری اور نو تصوری فلاسفہ کے نظریات اور طبیعات جدید کی شہادت کے علاوہ جن میں سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہر ایک کے اندر اس خیال کی پر زور تائید موجود ہے کہ کائنات کی حقیقت شعور یا روح ہے، حیاتیات کے بعض حقائق بھی اس نتیجہ کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔ ان حقائق کی بنا پر بعض منظم فلسفے قائم کئے گئے ہیں جن میں سے ایک ارتقائے تخلیقی کا فلسفہ ہے جسے برگسان نے مدون کیا ہے اور دوسرا اینٹی لیچی کا فلسفہ ہے جسے ڈریش نے پیش کیا ہے مادیت کے حامیوں کا خیال ہے کہ زندگی مادہ کی ایک خاص حالت کے وصف کے سوا کچھ نہیں جب مادہ ایک خاص کیمیاوی ترکیب کو پا لیتا ہے تو اس میں زندگی کی خاصیت نمودار ہو جاتی ہے حیوان جو اس طرح سے وجود میں آتا ہے ایک حساس مشین یا کل کی طرح ماحول کی کیفیات سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کی جسمانی بناوٹ میں ایک تبدیلی ظاہر ہوتی ہے جوں جوں ادوار گزرتے جاتے ہیں ماحول کی ان نوبہ نو کیفیات کے باعث جن سے حیوان کا سابقہ پڑتا رہتا ہے اس تبدیلی میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس طرح حیوانات کی نئی نئی اقسام وجود میں آتی رہتی ہیں۔ لیکن حیاتیات کی تازہ تحقیقات اس نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتیں۔ پروفیسر جے ایس ہالڈین کا خیال ہے کہ وہ حکماء جو حیاتیات کا مطالعہ سنجیدگی سے کرتے ہیں اب اس بات کے قائل نہیں رہے کہ زندگی فقط مادہ کی کسی خاص کیمیاوی ترکیب کا نتیجہ ہے جرمنی کے ماہر حیاتیات ڈریش (Driesh) کے تجربات بالخصوص اس نتیجہ پر مجبور کرتے ہیں کہ ماحول کی خارجی کیفیات سے متاثر ہونے کے باعث جو حرکات ایک زندہ انسان سے سرزد ہوتی ہیں وہ ایک کل یا مشین کی حرکات سے یکسر مختلف ہیں۔ کل ایک بیرونی طاقت سے حرکت میں لائی جاتی ہے اور خود چند اجزا کے مجموعہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی اس کے برعکس حیوان جسم کی ایک خاص شکل و صورت حاصل کرنے اور قائم رکھنے کے لئے ایک اندرونی میلان کا اظہار کرتا ہے یہ ایک مجموعہ اجزا کی طرح نہیں بلکہ ایک ناقابل تقسیم وحدت کی طرح عمل کرتا ہے جس کے اندر ایک رحجان طبیعت ایسا ہے جو اس وحدت کی ضروریات کی خبر رکھتا ہے اگر ہم ایک کیکڑے کی ٹانگ کاٹ دیں تو اس کی جگہ دوسری ٹانگ پیدا ہو جاتی ہے کوئی کل یا مشین اپنے ٹوٹے ہوئے پرزہ کو خود بخود مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ڈریش نے ایک جنین کو اس کی نشوونما کے شروع میں تجربہ کے لئے دو حصوں میں کاٹا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا کا ایک حصہ بھی نشوونما پا کر مکمل حیوان بن جاتا ہے خواہ جنین کو کہیں سے کاٹا جائے اور خواہ اس کے اس ایک حصہ کی نسبت کل کے ساتھ کچھ ہو۔ تجربہ کے نتائج میں کوئی فرق نہیں آتا اس کا مطلب یہ ہو اکہ وہ خلیات (Cells) جو ایک مکمل جنین میں نشوونما پا کر سر بننے والے ہوں نا مکمل جنین میں ٹانگ بن سکتے ہیں۔ دراصل جنین کا کوئی حصہ بڑھتے ہوئے حیوان کی ضرورت کے مطابق کسی عضو کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ڈریش لکھتا ہے ’’ یہ عجیب کل ہے جس کا ہر حصہ ایک ہی جیسا ہے‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک حصہ کل کی حیثیت کیونکر پیدا کر لیتا ہے، جنین کے اعضاء کی نشوونما میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے اگر ایک نیوٹ (Newt) کی دم کاٹ دی جائے تو اس کی جگہ دوسری دم پیدا ہو جاتی ہے اور اگر دم ابتدا ہی میں کاٹ دی جائے اور ایک تازہ کٹی ہوئی ٹانگ کے بقیہ کے ساتھ جوڑ دی جائے تو دم دم کی شکل میں نہیں بلکہ ٹانگ کی شکل میں نشوونما پانے لگ جاتی ہے۔ کائنات کے مادی اجزا کا ذکر کر کے ہم اس قسم کے حقائق کی کوئی تشریح نہیں کر سکتے اس لئے ڈریش نے جنین کی نشوونما کی تشریح کرنے کے لئے اس مفروضہ کو بیکار سمجھ کر ترک کر دیا کہ زندگی طبیعات یا کیمیا کے خاص خاص قوانین کے عمل کا نتیجہ ہے وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم حیاتیاتی رد عمل کو کسی میکانکی نقطہ نظر سے نہیں سمجھ سکتے اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک سوال کا معقول جواب یا ایک گفتگو کا کوئی ایسا حصہ جو کسی دوسرے حصہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو حیاتیاتی رد عمل مکمل حیوان کا رد عمل ہوتا ہے اس کے کسی جزو کا رد عمل نہیں ہوتا۔ ضروری تھا کہ عمل حیات کی تشریح کے لئے کائنات کا ایک اور روحانی یا غیر مادی عنصر تصور کیا جائے چنانچہ ڈریش نے طبیعاتی کیمیائی نظریہ کو رد کر کے اینٹی لیچی (Entelechy) کا ایک نظریہ پیش کیا۔ا ینٹی لیچی گویا ایک سوچی سمجھی ہوئی تجویز ہے جو کسی نہ کسی طرح حیوان کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کی قوت حیوان کی نشوونما کے دوران میں اس کے ہر ایک حیاتیاتی رد عمل میں نمودار ہوتی ہے۔ حیوان کے اندر ایک مدعا یا مقصد کام کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک مناسب شکل و صورت اختیار کرتا ہے۔ مقصد یا مدعا ایک ایسی خود اختیار تدبیری اور انتظامی قوت شعور ہے جو حیوان کے مجموعی مفاد کے لئے اس کو ڈھالتی اور بناتی ہے اور جو خود اختیار تدبیری اور انتظامی قوت شعور ہے جو حیوان کے مجموعی مفاد کے لئے اس کو ڈھالتی اور بناتی ہے اور خود اپنے ارادہ کو بھی اس مفاد کے اقتضا کے مطابق بدلتی ہے ضروری ہے کہ یہ قوت کائنات کے اندر زندگی کی ساری نشوونما اور ارتقا سے دلچسپی رکھتی ہو۔ برگسان اسی قوت کو قوت حیات (Vital Impestus) کا نام دیتا ہے اس کے نزدیک اس قوت میں اور شعور میں کوئی فرق نہیں۔ ڈریش نے بھی اینٹی لیچی کا تصور شعور اور نفسیات کے مطالعہ کے لئے استعمال کیا ہے اس کے نزدیک جہاں حیاتیات جسم حیوانی کی شعوری نشوونما کا مطالعہ ہے حیوان کا کردار جس میں انسان کا کردار بھی شامل ہے حیوان کی نشوونما سے ملتا جلتا ہے دونوں ایک ہی مقصد یا مدعا کی طرف بڑھتے ہیں جس طرح سے حیوان کی نشوونما کی سمت ایک اینٹی لیچی سے متعین ہوتی ہے اس طرح اس کا کردار ایک مماثل نفسیاتی میلان سے مطمئن ہوتا ہے یہ میلان تازہ جنم لینے والے حیوان کی ان مفید حیات حرکات میں نمودار ہوتا ہے جنہیں وہ کسی تجربہ سے نہیں سیکھتا۔ زندگی کے مطالعہ سے اس طرح کے بعض اور حقائق کا بھی پتہ چلتا ہے جو ڈریش کے نتائج کی تائید کرتے ہیں۔ برگسان نے ان حقائق کو اپنی کتاب ارتقائے تخلیقی (Creative Evolution) میں اس بات کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ زندگی کا مخفی محرک یا مدعا ہی روئے زمین پر حیوانات کی اولین پیدائش اور پھر رفتہ رفتہ ان کی بلند تر اقسام کے ظہور اور ارتقا کا باعث ہوا ہے۔ برگستان کا استدلال لا مارک ( Lamarck) نے حیوانات کے ارتقاء کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ضروری ہے کہ ایک زندہ حیوان کی جسمانی بناوٹ ماحول کی کیفیات سے مطابقت پیدا کرے۔ جب یہ مطابقت پیدا ہو جاتی ہے تو حیوان کے جسم میں ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جو اگلی نسلیں وراثتاً حاصل کرتی ہیں اور چونکہ یہ نسلیں خود بھی مجبور ہوتی ہیں کہ ماحول کے ساتھ جسمانی مطابقت پیدا کریں اس لئے موروثی تغیر میں اور اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حیوان کی ایک اور نئی قسم وجود میں آ جاتی ہے۔ اول تو یہ نظریہ ان حقائق کے خلاف ہے جو اب اچھی طرح سے ثابت ہو چکے ہیں کہ حیوان کے جسم میں ایک نمایاں تبدیلی آہستہ آہستہ جمع ہونے والی چھوٹی تبدیلیوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ فوری طور پر بھی ظاہر ہو جاتی ہے یہ اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک کہ حیوان کے اندر کوئی شعوری یا غیر شعوری میلان ایسا موجود نہ ہو جس سے وہ ایک فوری تبدیلی اور اصلاح اختیار کر سکے۔ دوئم۔ ماحول کے ساتھ جسمانی بناوٹ کو مطابق کرنے کی ضرورت ارتقاء کے رک جانے کی وجہ بن سکتی ہے لیکن اس کے جاری رہنے کی وجہ نہیں بنس کتی۔ جونہی کہ ایک حیوان کی جسمانی ساخت ماحول کے ساتھ اتنی مطابقت حاصل کر لے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو قائم رکھ سکے تو اس کے مزید بدلنے یا ترقی کرنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر مطابقت ماحول فی الواقع زندگی کی حفاظت کے لئے عمل میں آتی ہے تو زندگی کی حفاظت کا انتظام ہو جانے کے بعد حیوان کو زیادہ منظم اور ترقی یافتہ اجسام کی طرف ارتقاء نہیں کرنا چاہئے۔ برگسان لکھتا ہے: ’’ ایک چھوٹا سا جانور زندگی کے حالات کے ساتھ اتنی ہی مطابقت رکھتا ہے جتنا کہ ہمارا جسم کیونکہ وہ اپنی زندگی کو قائم رکھنے پر قادر ہے تو پھر زندگی ایک ایسے جانور کے مرحلے پر پہنچ جانے کے بعد فنا کے خطرات سے بے پرواہ ہو کر مزید ترقی کے راستے پر گامزن کیوں رہتی ہے زندہ حیوانات کے بعض اجسام جو ہم آج دیکھتے ہیں دور دراز زمانوں سے جوں کے توں چلے آئے ہیں اور ادوار کے گزرنے سے ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو پھر زندگی کو آج سے پہلے کسی خاص جسم حیوانی پر جا کر ٹھہر جانا چاہئے تھا لیکن جہاں جہاں ممکن تھا یہ رک کیوں نہ گئی؟ اگر خود اس کے اندر کوئی ایسی قوت محرکہ نہ تھی جو اسے خطرات کے باوجود زیادہ سے زیادہ تنظیم اور ترقی کی منزل کی طرف لے جانا چاہتی تھی تو پھر یہ آگے کس طرح بڑھتی گئی؟‘‘ یہ حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ شعور مادہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ خود بخود موجود ہے شعور خود ایک بنیادی حقیقت ہے اور مادہ کی خاصیات کا مظہر نہیں اگر شعور اپنی جدا حقیقت رکھتا ہے تو مادہ کے بے حقیقت ثابت ہونے کے بعد ہم آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کائنات کی ساری حقیقت بھی یہی ہے اور مادہ اسی سے ظہور پذیر ہوا ہے جس طرح سے حیوانات کی مختلف قسمیں عمل ارتقاء سے وجود میں آئی ہیں اس طرح سے مادہ کی موجودہ حالت بھی عمل ارتقاء کا نتیجہ ہے جو قوت حیوانات کے ارتقاء کا سبب ہے وہی مادہ کے ارتقاء کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا مادہ کی حقیقت بھی شعور ہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ طبیعات جدید اس نتیجہ کی پر زور تائید کرتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ شعور کی صفات کیا ہیں؟ کائناتی شعور کی صفات سر جیمز جینز شعور کی صرف ایک صفت یعنی کامل ذہانت یا کامل ریاضیاتی فکر تسلیم کرتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب ہم شعور عالم کی ایک صفت ریاضیاتی کے قائل ہو جائیں تو ہم اس نتیجہ کو روک نہیں سکتے کہ اس کے اندر وہ تمام صفات موجود ہیں جو ہمارے علم کے مطابق شعور کا خاصہ ہیں اور بغیر کسی استثنا کے ریاضیاتی ذہانت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ سر جیمز جینز نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ شعور عالم ریاضیاتی فکر کے اعتبار سے ہمارے ہی شعور کی طرح ہے لیکن کوئی وجہ نہیں کہ وہ شعور کی دوسری صفات کے اعتبار سے بھی ہمارے ہی شعور کی طرح نہ ہو۔ جہاں تک ہمارے تجربہ کا تعلق ہے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ شعور کے اندر ریاضیاتی فکر تو موجود ہو لیکن شعور کی دوسری صفات مثلاً محبت، اخلاق، جذبات، طلب مدعا وغیرہ موجود نہ ہوں جس طرح دھواں تنہا نہیں ہوتا بلکہ آگ اور اس کی حرارت کے ساتھ پایا جاتا ہے اسی طرح سے ریاضیاتی ذہانت تنہا نہیں ہوتی بلکہ شعور کی باقی صفات کے ساتھ ان کے ایک پہلو کے طور پر پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ کے متعلق جہاں سے دھواں نکل رہا ہو یہ کہئے کہ ہم دھوئیں کی حد تک تو جانتے ہیں کہ وہاں ضرور موجود ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہاں آگ بھی ہے تو یہ موقف علمی اور عقلی طور پر درست نہیں ہو گا جہاں ذہانت اور ریاضیاتی فکر کے اوصاف بدرجہ کمال ہوں گے وہاں شعور کی باقی صفات کا بحالت کمال ہونا بھی ضروری ہے کامل ترین ذہانت کامل ترین شعور کا ہی ایک وصف ہو سکتی ہے اور کامل ترین شعور وہ ہے جو کامل طور پر اپنے آپ سے آگاہ اور خود شناس اور خود شعور ہو اس لئے ایک ریاضیاتی فکر ہی نہیں بلکہ اپنے آپ سے بدرجہ کمال آگاہ ہونے کی وجہ سے ایک کامل شخصیت یا انا یا ایغو ہے اسی کائناتی خودی یا ایغو کو مذہب کی زبان میں خدا کہا جاتا ہے اسی کے مقصد نے کائنات اور جسم انسانی کو پیدا کیا ہے۔ اسی کے مقصد کا دوسرا نام انسانی خودی ہے۔ انسانی خودی کا مرکزی وصف خدا کی محبت ہے انسانی خودی کا سب سے بڑا اور مرکزی وصف یہ ہے کہ اس کے اندر خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ عمل اپنا اظہار پانے کے لئے ہر وقت بیتاب رہتا ہے یہ جذبہ اس قدر طاقتور ہے کہ اگر یہ بھٹک کر انسان کی کسی اور خواہش کو اپنا مقصود نہ بنا لے تو انسان کی تمام انسانی اور حیوانی قسم کی خواہشات کو اپنے تابع رکھتا ہے اور اس کو اپنی غرض کے لئے استعمال کرتا ہے لہٰذا انسان فقط خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر یہ جذبہ ختم ہو جائے تو انسان بھی باقی نہ رہے۔ نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی اقبال نے مرید ہندی اور پیر رومی کی ایک گفتگو نظم کی ہے اس میں جب مرید ہندی پیر رومی سے پوچھتا ہے کہ آدمی کی حقیقت کیا ہے خبر یا نظر تو پیر رومی جواب دیتا ہے: آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است (آدمی کی حقیقت دیدار ہے، اور دیدار سے مراد دوست یعنی خدا کا دیدار ہے، اس کے علاوہ آدمی جو کچھ ہے وہ اس کا چھلکا ہے) خدا کی خواہش خودی کی اپنی خواہش ہے اور انسان کی حیوانی خواہشات خودی کی اپنی خواہشات نہیں بلکہ انسان کے جسم کی خواہشات ہیں جسم خودی کا خدمت گزار ہے اس کا حاکم نہیں اس کی وجہ جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ خودی انسان کے جسم سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خودی نے اپنی غرض کے لئے انسان کے جسم کو اس کی تمام حیوانی قسم کی خواہشات کے سمیت جو اس کی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے کام کرتی ہیں پیدا کیا ہے تاکہ خودی اپنے کئے ہوئے زندہ جسم میں موجود رہ کر خدا کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ خودی کی حقیقت کا راز یہ ہے کہ وہ خدا کو چاہتی ہے اور اس کے سوائے اور کچھ نہیں چاہتی اور خدا کی محبت اسے تیغ برآں بنا دیتی ہے۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ وہ شخص جو اپنے جسم کو ہی اپنا مقصد حیات قرار دے لیتا ہے وہ اپنی خودی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرے اور نشوونما پا کر مکمل ہو جائے۔ لہٰذا وہ اپنی اس غیر دانشمندانہ روش کے شدید نقصانات کو اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں بھی جھیلتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دوسروں کی زمین میں گھر بنا لے اور بعد میں لوگ اسے گرا دیں یا دوسروں کا کام کرنے میں اپنی زندگی صرف کر دے اور اپنا کوئی کام نہ کرے اور بعد میں کف افسوس ملتا رہے۔ مولانا روم ایسے شخص کو تنبیہہ کرتے ہیں: در زمین مرد مان خانہ مکن کار خود کن کار بے گانہ مکن کیست بیگانہ تن خاکئے تو کز برائے ادست غمنا گئے تو شاید یہاں یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا کوئی عقلی اور علمی شواہد ایسے ہیں جو اقبال کے اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ انسان کا مرکزی وصف خدا کی محبت ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں سب سے پہلے انسان اور حیوان کے فرق پر غور کرنا چاہئے۔ ایک مثال سے انسان اور حیوان کے فرق کی وضاحت اس میں شک نہیں، جبلتی یا حیوانی خواہشات مثلاً جبلت تغدیہ، جبلت غضب، جبلت فرار، جبلت جنس، جبلت امومت، جبلت تفوق، جبلت اختیار وغیرہ انسان اور حیوان دونوں میں مساوی طور پر موجود ہیں اس کے باوجود حیوان اور انسان میں کم و بیش کا فرق نہیں بلکہ مخلوقات کی قسم کا فرق ہے یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان ایک برتر اور بہتر قسم کا حیوان ہے یا حیوان ایک کمتر یا پست تر درجہ کا انسان ہے بلکہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انسان مخلوقات کی ایک قسم ہے جو حیوانات سے بالکل جدا اور ممتاز اور ممیز ہے۔ ایک ایسی گھوڑا گاڑی کا تصور کیجئے جس میں بارہ گھوڑے اس سے جتے ہوئے ہیں کہ ہر گھوڑا جدھر چاہے جا سکتا ہے اس قسم کی ایک گاڑی میں اگر گھوڑوں کو ضبط رکھنے والا کوچوان نہ ہو گا تو گاڑی کبھی دائیں طرف حرکت کرے گی اور کبھی بائیں طرف اور کبھی ٹھہر جائے گی اور پھر کبھی ایک رخ پر اور کبھی دوسرے رخ پر چلنے لگے گی لیکن اگر ہم دیکھیں کہ گاڑی نہایت تیزی اور آسانی کے ساتھ ایک خاص سمت میں حرکت کر رہی ہے اور نہایت عمدگی اور صفائی کے ساتھ جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے راستوں کے موڑ کاٹتی چلی جاتی ہے تو ہم فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ گاڑی کے اندر کوئی ہوشیار کوچوان موجود ہے جو گھوڑوں پر پورا ضبط اور کنٹرول رکھتا ہے اور ہر ایک کو روک کر ایک خاص سمت میں چلا جا رہا ہے جو اس نے معین کی ہے۔ حیوان ایک ایسی گھوڑا گاڑی کی طرح ہے جو کوچوان کے بغیر ہو۔ اس کی فطری خواہشات یا جبلتوں میں سے ہر ایک تمام دوسری خواہشات سے قطع نظر کر کے اپنی تشفی کرتی ہے۔ حیوان کی ہر جبلت کے اندر ایک زبردست حیاتیاتی زور یا دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے حیوان اس کی تشفی پر مجبور ہوتا ہے ہر جبلت کی فعلیت بعض خاص اندرونی اور بیرونی حالات اور کوائف کے موجود ہونے پر آغاز کرتی ہے جن کے مجموعہ کو جبلت کی تحریک ( Stimulus) کہا جاتا ہے۔ جبلت کی تحریک اس وقت نمودار ہوتی ہے جب حیوان کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اور نسل کی بقا کے لئے ایک خاص قسم کا عمل کرے جب تحریک موجود ہو جائے تو حیوان جبلت کی فعلیت کو شروع ہونے اور انتہا تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا حیوان اس قابل نہیں ہوتا کہ کسی بہتر اور بلند تر مقصد کے لئے اپنی کسی جبلت کی تشفی کو روک سکے، محدود کر سکے یا ترک کر سکے۔ دراصل حیوان جبلتوں کی تشفی سے بالاتر کوئی مقصد رکھتا ہی نہیں جب بھی حیوان کسی جبلت کی مخالفت پر مجبور ہوتا ہے تو اس کی ایک جبلت کسی دوسری جبلت کی مخالفت کرتی ہے جس کے بعد طاقتور جبلت کمزور جبلت کی جگہ لے لیتی ہے اور کمزور جبلت طاقتور جبلت کی تشفی کے لئے راستہ چھوڑ دیتی ہے۔ انسان کے معاملہ میں صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے انسان کی شخصیت ایک ایسی گھوڑا گاڑی کی طرح ہے جس میں ایک ہوشیار کوچوان موجود ہو۔ انسان میں بھی وہی جبلتیں ہیں جو حیوان میں ہیں اور انسان میں بھی ان کا حیاتیاتی زور یا دباؤ ویسا ہی ہے جیسا کہ حیوان میں ہے۔ تاہم انسان حیوان کے برعکس اپنی ہر جبلت کی تشفی کو جس حد تک چاہے روک سکتا ہے یا کم کر سکتا ہے یا بالکل ترک کر سکتا ہے تاکہ اپنی تمام جبلتوں کو اپنے کسی خاص مقصد کے ماتحت متحد اور منظم کرے اور کسی مطلوبہ سمت کی طرف ان کے اظہار کی راہ نمائی کرے انسان جب اپنی کسی جبلت کی مخالفت کرتا ہے تو اس کی مخالفت حیوان کی طرح بے اختیار اور خود بخود نہیں ہوتی بلکہ ایک اختیاری فیصلہ کے ماتحت ہوتی ہے بالعموم وہ اپنی جبلتوں کی مخالفت اس طرح سے کرتا ہے کہ اس مخالفت کے دوران کسی جبلت کی تشفی ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام جبلتی خواہشات کو روک دیت اہے بلکہ اپنی جان کو جس کی حفاظت کے لئے جبلتیں اپنا کام کرتی ہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تاکہ ہر مزاحمت کے بغیر کسی خاص مقصد کو جو اسے پسند ہے حاصل کر سکے۔ حیوان کی زندگی عمل کے الگ الگ خانوں پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے ہر خانہ پر کسی جبلت کا تسلط ہوتا ہے اور کسی خانہ کا اس سے پہلے اور بعد کے خانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کے برعکس ایک فرد انسانی کی زندگی ایک منظم کل یا وحدت کی صورت اختیار کرتی ہے اور ہر جبلت کے فعل کو (جس حد تک اس کو اپنی تشفی کی اجازت دی گئی ہو) اس طرح سے نظم و ضبط میں لاتی ہے کہ وہ اس وحدت یا کل کا ایک جزو بن جاتا ہے انسان کی جبلتی خواہشات کی یہ تنظیم یا وحدت یا راہ نمائی یا تجدید جو انسان کی اس استعداد سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ جبلتوں کی مخالفت کر سکتا ہے ہر گز ممکن نہ ہوتی، اگر انسان کے اندر ایک ایسی خواہش موجود نہ ہوتی جو جبلتوں پر حکمرانی کر سکتی۔ انسان کی یہی پر اسرار خواہش ہے جو اس کی شخصیت کی گھوڑا گاڑی کے ہوشیار کوچوان کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی شخصیت کے اندر وحدت اور تنظیم پیدا کرتی ہے اس خواہش کی خدمت اور اعانت کے لئے ہی انسان کی تمام دوسری خواہشات موجود ہیں۔ پر اسرار حکمران انسانی خواہش کون سی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پر اسرار خواہش جو انسان کی شخصیت کی گاڑی کے ڈرائیور کا مقام رکھتی ہے اور اس کے تمام اعمال اور افعال کی قوت محرکہ ہے، کون سی ہے اس سوال کے جواب میں ایک حقیقت بالکل واضح ہے کہ وہ کوئی ایسی خواہش ہی ہو سکتی ہے جس سے حیوان محروم ہے اور جو انسان ہی کا خاص امتیاز ہے۔ دور حاضر کے تمام حکماء جنہوں نے فطرت انسانی کے رموز و اسرار پر قلم اٹھایا ہے اس بات پر متفق ہیں کہ انسان میں خواہش موجود ہے کہ وہ کسی نصب العین سے محبت کرے اور یہ خواہش انسان سے نچلے درجہ کے حیوانات میں قطعاً موجود نہیں بظاہر نصب العین سے محبت کرے اور یہ خواہش انسان سے نچلے درجہ کے حیوانات میں قطعاً موجود نہیں بظاہر نصب العین کی محبت کے علاوہ انسان میں اور خواہشات ایسی ہیں جوانسان سے خاص ہیں اور حیوان میں قطعاً موجود نہیں مثلاً نیک عملی کی خواہش، جستجوئے صداقت یا علم کی خواہش تخلیق حسن یا آرٹ کی خواہش لیکن یہ تینوں خواہشات نصب العین کی خواہش کے ماتحت رہ کر اپنا اظہار اپتی ہیں، دراصل یہ تینوں خواہشات نصب العین کی محبت کے تین پہلو ہیں اور نصب العین کی محبت سے الگ اپنا وجود نہیں رکھتیں۔ نصب العین ایک ایسا تصور ہوتا ہے جسے انسان اپنے علم کے مطابق حسن اور کمال کی انتہا سمجھتا ہے انسان سارا حسن جس کی وہ تمنا کرتا ہے اپنے نصب العین کی طرف منسوب کرتا ہے نیکی صداقت اور آرٹ کی خواہشات کا منبع حسن کی یہی آرزو ہے جس کو انسان کا نصب العین اس کے خیال کے مطابق مکمل طور پر مطمئن کرتاہے۔ حسن کی تمنا خواہ کوئی صورت اختیار کرے وہ دراصل انسان کے پسندیدہ نصب العین ہی کی تمنا ہوتی ہے۔ جب ہم اپنے اخلاق میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے نیکی کا نام دیتے ہیں لیکن ہم اسی عمل کو نیک اور حسین سمجھتے ہیں جو ہمارے اپنے ںصب العین سے مطابقت رکھتا ہے اسی طرح سے جب ہم اپنی معلومات میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے علم یا صداقت کی جستجو کہتے ہیں لیکن ہم صرف ان ہی حقائق کو صحیح اور سچا سمجھتے ہیں جو ہمارے نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں یا اس کے خلاف نہ ہوں پھر اسی طرح سے جب ہم اپنی تخلیقات میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے آرٹ کا نام دیتے ہیں لیکن کسی ایسی تخلیق کو حسین نہیں سمجھتے اور نہ اس کی تمنا کرتے ہیں جو ہمارے نصب العین سے مناسبت نہ رکھتی ہو۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ انسان کی تمام خواہشات میں سے صرف ایک خواہش ایسی ہے جو صرف انسان میں ہے اور حیوان میں نہیں اور یہ مخصوص انسانی خواہش نصب العین کی محبت ہے۔ پھر کیا وہ پر اسرار خواہش جو انسان کی جبلتوں پر حکمران ہے جو اس کی شخصیت کی گاڑی کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہتی ہے چلاتی ہے اور جو اس کے تمام اعمال و افعال کا منبع اور سرچشمہ ہے یہی نصب العین کی محبت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب اثبات میں ہو سکتا ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا نصب العین ہی اس کی تمام جبلتی خواہشوں کو کم کرتا یا ترک کرتا ہے بلکہ نصب العین کی محبت ہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ خود اپنی جان عزیز کو بھی جس کی حفاظت کے لئے جبلتی خواہشات پیدا کی گئی ہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے مسلسل واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ انسان دار پر چڑھ جاتا ہے، سینے پر گولی کھا لیتا ہے،ز ہر کا پیالہ پی لیتا ہے لیکن نصب العین کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے باز نہیں آتا۔ خودی اور نصب العین کا باہمی تعلق اقبال نے خودی اور اس کے نصب العین کے باہمی تعلق کا ذکر اس طرح سے کیا ہے کہ گویا خودی نصب العین کی محبت ہے اور نصب العین کی محبت خودی ہے نصب العین کو اقبال کبھی مدعا کبھی مقصد، کبھی مقصود، کبھی آرزو اور کبھی تمنا کا نام دیتا ہے۔ خودی کی بقا کا دار و مدار نصب العین کی محبت پر ہے اس لئے کہ خودی کی زندگی خودی کی حرکت کا ہی دوسرا نام ہے اگر وہ حرکت نہ کرے تو مردہ ہے دریا کی ایک لہر کی طرح کہ جب تک وہ چلتی رہے لہر ہے، تھم جائے تو کچھ بھی نہیں۔ ساحل افتادہ گفت بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موج از خود رفتہ تیز خر امید و گفت بستم اگر بردم اگر نر دم نیستم زندگی یا خودی فقط حرکت یا ذوق پرواز یا ذوق سفر ہے۔ سمجھتا ہے تو راز زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی ٭٭٭ ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں لیکن خودی کی حرکات یا پرواز اس کا سفر نصب العین کی محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ نصب العین کی محبت ہی خودی کو حرکت پر اکساتی ہے اس کی حرکت کی سمت کو معین کرتی ہے اور اس کے کارواں کے لئے درا کا کام دیتی ہے۔ زندگانی را بقا از مدعاست کاروانش را درا از مدعاست خودی کے تمام اعمال و افعال اس کے نصب العین کے حصول کے لئے سر زد ہوتے ہیں۔ خودی اپنے آپ کو کلیتاً نصب العین کے تابع کر دیتی ہے اور اسی کو نیک و بد، خوب و زشت اور حق و باطل کا معیار بناتی ہے اور لہٰذا ہر فعل اور عمل کو اسی کی وجہ سے قبول کرتی یا رد کرتی ہے۔ نصب العین ہمارے عمل کی جان ہے اور جن ہی کی طرح ہمارے عمل کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارا نصب العین ہی ہے جو ہمارے ہر عمل کا کیف و کم معین کرتا ہے۔ چوں حیات از مقصدے محرم شود ضابط اسباب ایں عالم شود خوشتن را تابع مقصد کند بہر او چنید گزیند روکند ہمچو جان مقصود پنہاں در عمل کیف و گم ازدے پذیر و ہر عمل نصب العین ہی اعمال انسانی کی قوت محرکہ ہے نصب العین ہی وہ قوت ہے جو خودی کے عمل کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے اس کی حرکت کو تیز کرتی ہے۔ اسی کی ایڑ سے خودی کے عمل کا گھوڑا باد صر صر کی طرح چلنے لگتا ہے۔ زندگی کی قوتیں سیماب کی طرح ہیں اگر ان کی کوئی سمت معین نہ ہو تو وہ کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لڑھک جاتی ہیں۔ نصب العین ان قوتوں کے بہاؤ کی سمت متعین کرتا ہے۔ لہٰذا ان سب کو ایک مرکز پر لا کر مجتمع اور متحد اور منظم کر دیتا ہے۔ نصب العین فرد کی زندگی کا ایک ایسا مرکز ہے جس کی طرف اس کی تمام قوتیں سمٹ کر آ جاتی ہیں نصب العین کی محبت ہی خودی کے لئے ممکن بناتی ہے کہ اس دنیا کے تمام اسباب و ذرائع کو اپنے کام میں لائے کیونکہ نصب العین ہی ان کے استعمال کی ضرورت محسوس کراتا ہے اگر ہماری رگوں میں خون بڑی تیزی سے گردش کر رہا ہو یعنی اگر ہم اپنی پوری قوت سے سرگرم عمل ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ کسی نصب العین کی شدت محبت ہی ہمیں ایسا کرنے پر اکسا رہی ہے۔ نصب العین کی محبت کے بغیر ہم اپنی کسی اندرونی یا بیرونی قوت کو استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا کوئی مصرف ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا لہٰذا ہماری ہمت بیکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ نصب العین ایک ایسی قوت ہے جس کے اثر سے ایک پوری قوم کے ہاتھ پاؤں متحرک ہو جاتے ہیں اور سینکڑوں گاہیں بیک وقت اپنا زاویہ بدل لیتی ہیں گویا یہی وہ قوت ہے جو ایک قوم کے تمام افراد کو آپس میں متحد و منظم کر کے ایک قوم بناتی ہے نصب العین ہی خودی کی تمام ہنگامہ آرائیوں کے سبب ہے وہی اس کے خاموش اور پر سکون سمندر میں تلاطم پیدا کرتا ہے اب اقبال کے الفاظ میں سنئے: مدعا گرد و اگر مہمیز ما ہمچو صر صر مے رود شبدیز ما مدعا راز بقائے زندگی جمع سیماب قوائے زندگی گردش خونے کہ درد گہائے ماست تیز از سعی حصول مدعاست مدعا مضراب ساز ہمت است مرکزے کو جاذب ہر قوت است دست و پائے قوم راجنبا نداد یک نظر صد چشم را گرداند او آرزو ہنگامہ آرائے خودی موج بیتابے زوریائے خودی ہمارے تمام چھوٹے چھوٹے مقاصد (Ends) نصب العین کے ذیلی اور ضمنی مقاصد ہوتے ہیں جو اس کے ماتحت اس کی اعانت کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور ہم ان کو نصب العین کی اہمیت اور کشش ہی کی وجہ سے اہمیت دینے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نصب العین کی محبت ہمارے تمام اعمال کی قوت محرکہ ہے وہی ان کو پیدا کر کے ان کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ آرزو صید مقاصد را کمند دفتر اعمال را شیرازہ بند نصب العین کی محبت ہی وہ پر اسرار انسانی خواہش ہے جو انسانی شخصیت کی گاڑی کے زبردست کوچوان کی حیثیت رکھتی ہے لیکن شخصیت انسانی کی اس پر اسرار مرکزی اور حکمران خواہش کے متعلق صرف یہ معلوم کر لینا کہ وہ کسی نصب العین کی خواہش ہوتی ہے کافی نہیں جب تک یہ معلوم نہ کیا جائے کہ وہ کون سے نصب العین کی خواہش ہے کیونکہ نصب العین سینکڑوں ہو سکتے ہیں اور ان میں سے بعض مختلف درجوں پر اچھے او ربلند بھی ہو سکتے ہیں اور بعض برے اور پست بھی، ان میں سے کون سا نصب العین ہے جو در حقیقت اس خواہش کا مقصود ہے اور لہٰذا صحیح اور سچا نصب العین ہے چونکہ نصب العین حسن و کمال کا ایک تصور ہوتا ہے اور نصب العین کی خواہش حسن کی خواہش کا دوسرا نام ہے لہٰذا ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ خواہش ایک ایسے نصب العین کے لئے ہے جو منتہائے حسن و کمال ہو یعنی جس کے اندر وہ تمام صفات حسن بدرجہ کمال موجود ہوں جن کا ہم تصور کر سکتے ہیں جو ان تمام نقائص سے کلیتاً پاک ہو جو ہمارے ذہن میں آ سکتے ہیں حسن میں کمال کی خواہش اس لئے شامل ہے کہ جو چیز ناقص ہو وہ حسین نہیں ہو سکتی۔ نقص حسین کا نقیض ہے لہٰذا محبت کا دشمن ہے یہ صحیح ہے کہ بسا اوقات ہم ایک ناقص تصور سے بھی محبت کرتے ہیں لیکن یہ اسی وقت تک ممکن ہوتا ہے جب تک کہ اس کا نقص ہماری نظروں سے اوجھل رہے جوں ہی کہ ہم اس کے کسی نقص کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ہمارے لئے ناممکن ہو جاتا ہے کہ ہم اس کی محبت کو پھر کسی درجہ میں بھی قائم رکھ سکیں یہی وجہ ہے کہ اقبال کہتا ہے کہ ہمارا نصب العین ایسا ہونا چاہئے جس کا حسن مکمل طور پر دلربا ہو جس کے حسن کا احساس یا عشق یہاں تک ترقی کر سکے کہ اس کی شدت اور گہرائی کے اندر کوئی کمی یا کسر باقی نہ رہے یہاں تک کہ انسان کی خودی اس کے عشق کی شراب سے مست اور مخمور ہو جائے۔ اقبال کے نزدیک یہ نکتہ اس قدر اہم ہے کہ اسے جان لینا گویا زندگی کے راز سے واقف ہو جانا ہے اور اسے نہ جاننا راز زندگی سے بیگانگی ہے۔ اے راز از زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز مقصدے از آسمان بالاترے دلربائے دلستانے دلبرے کوئی نصب العین پوری طرح سے دلربا، دلستان اور دلبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دل یا خودی کے تقاضائے حسن و کمال کو پوری طرح سے مطمئن نہ کرے یعنی جب تک کہ وہ حسن کی ان صفات سے بدرجہ کمال بہرہ ور نہ ہو جن سے ہماری خودی محبت کر سکتی ہے اور ان نقائص سے بدرجہ اتم پاک ہو جن کو ہماری خودی نقائص سمجھ کر ناپسند کر سکتی ہے۔ کامل نصب العین کی صفات۔ غیر محدود اور لازوال حسن انسان کے نصب العین کی ان عمومی اور مجمل صفات کی روشنی میں ہم اس کی مخصوص اور مفصل صفات بآسانی معلوم کر سکتے ہیں، مثلاً ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ضروری ہے کہ انسان کے نصب العین کا حسن غیر محدود اور لازوال ہو کیونکہ اگر ایک انسان یہ سمجھتا ہو کہ اس کے نصب العین کے حسن و کمال کی ایک حد ہے جس سے آگے وہ نہیں جا سکتا تو وہ سمجھے گا کہ اس کا ایک حصہ یا ایک پہلو حسن اور زیبائی کے اوصاف سے محروم ہے اور جہاں اس کا حسن ختم ہوتا ہے وہیں سے یہ محرومی شروع ہو جاتی ہے اور پھر اگر وہ یہ جانتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اس کے نصب العین کاحسن ختم ہو جائے گا تو وہ یہ سمجھے گا کہ وہ اب بھی حسین نہیں کیونکہ اس کے حسن کو ختم کرنے والی کل کا دن آج بھی آنے والے دنوں میں شمار ہو رہا ہے۔ ازلی اور ابدی زندگی پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا نصب العین زندہ ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر کسی ایسی چیز کے تصور کو اپنا نصب العین نہیں بنا سکتا جو اس کے نزدیک مردہ اور بے جان ہو وہ خود زندہ ہے۔ لہٰذا کسی ایسی چیز کے لئے جو مردہ ہونے کی وجہ سے اس سے پست تر درجہ کی ہو وہ محبت کا جذبہ محسوس نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی ستائش کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی خدمت کے لئے طرح طرح کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے حسن کی طرح اس کی زندگی غیر فانی ہو کیونکہ اگر اسے یقین ہو جائے کہ اس کا نصب العین کل کو اپنی زندگی سے محروم ہونے والا ہے تو وہ یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو گا کہ وہ آج بھی دائمی زندگی سے محروم ہے یہی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے نصب العین کے اندر زندگی کے وہ تمام اوصاف جن سے وہ آشنا ہے موجود ہوں مثلاً یہ کہ وہ سنے، دیکھے، سمجھے، محسوس کرے اور اس کی محبت کا جواب محبت سے دے۔ محبت اور عدم محبت کے جذبات انسانی دنیا میں اس کا کوئی مقصد یا مدعا ہو اور اسے اس بات کی قدرت حاصل ہو کہ وہ حصول مدعا کے لئے عمل کرے اور اپنے عمل کو کامیاب بنائے دوسرے الفاظ میں اسے اس قابل ہونا چاہئے کہ بعض اعمال کو پسند کرے اور بعض کو نا پسند اور جن اعمال کو پسند کرتا ہو ان کی اعانت اور امداد کرے اور جن کو ناپسند کرتا ہو ان کی مخالفت کرے اور بالآخر روک دے، اپنے مددگاروں اور چاہنے والوں کی حوصلہ افزائی کر سکے اور مخالفوں اور دشمنوں کو سزا دے سکے، مختصر یہ کہ ضروری ہے کہ اس میں محبت اور عدم محبت کے تمام جذبات موجود ہوں اور وہ اپنے مدعا کی پیش برو کے لئے ان کا اظہار کرے اگر کسی انسان کے نصب العین میں یہ اوصاف موجود نہ ہوں یا ان میں سے کوئی ایک صفت بھی موجود نہ ہو اور وہ اس بات سے آگاہ ہو جائے تو اس کے لئے نصب العین سے محبت کرنا اس کی ستائش کرنا یا اس کی خدمت یا اعانت کر نا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ محبت کرنے والے سے عمل کا مطالبہ محبت ہمیشہ محبوب کی خاطر عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی خوشنودی حاصل کی جائے اور وہ رضا مند اور مہربان ہو اور وہ چاہنے والے سے قریب تر آ جائے کوئی نصب العین رکھنے یا کسی نصب العین سے محبت کرنے کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ عمل کے ذریعہ سے اس کی جستجو کی جائے اس کی خدمت اور اعانت کی جائے اور اس طرح سے اس کا قرب ڈھونڈا جائے لیکن اگر ایک نصب العین جس سے انسان محبت کرتا ہے نہ کوئی عمل پسند کرتا ہے اور نہ ناپسند کرتاہے نہ اس کے نزدیک کوئی بات اچھی ہے اور نہ بری، دوسرے الفاظ میں انسانی دنیا میں اس کا کوئی مدعا ایسا نہیں جس کے حصول کے لئے وہ متمنی ہو تو اس کا چاہنے والا کیونکر جان سکتا ہے کہ اس کی خدمت اور اعانت کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے انسان اپنے نصب العین کی اعانت کے لئے عمل کرنا چاہتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ یہ عمل کیا ہو وہ ایسی محبت سے مطمئن نہیں ہو سکتا جو اس سے کسی عمل کا مطالبہ نہ کرے اور جو خود عمل کی صورت اختیار نہ کر سکے اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اس کا نصب العین نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ جانتا ہے، نہ محسوس کرتا ہے نہ اس کی محبت کا جواب دے سکتا ہے نہ اس کی قدر دانی کر سکتا ہے تو وہ اپنے کسی عمل سے کوئی تسلی نہیں پا سکتا اور اس کے دل میں اپنے عمل کو جاری رکھنے کے لئے کوئی جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا جسے ہم نیکی کہتے ہیں وہ انگریزی کی مشہور مثل کے باوجود کبھی آپ اپنا انعام نہیں ہوتی بلکہ آخر کار یہ دل نواز یقین ہمیشہ اس کا انعام ہوتا ہے کہ وہ اس کے نصب العین کے نزدیک ہے جسے وہ ایک شخصیت سمجھتا ہے پسندیدہ ہے۔ قوت اور قدرت پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایک انسان کا نصب العین پوری طرح سے طاقتور اور قوی ہو کیونکہ اگر وہ سمجھے کہ اس کا نصب العین اتنی قوت نہیں رکھتاکہ اپنے مددگاروں کو جو اس کے مدعا کی پیش برو کے لئے کام کرتے ہیں نوازے یا اپنے دشمنوں کو جو اس کے مدعا کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں سزا دے تو وہ محسوس کرنے لگے گا کہ ایسے نصب العین کی محبت یا اعانت ایک بے سود مشغلہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی وہ دنیا کو اپنے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کی پوری سعی کرے گا اس کے دشمن اس کی کوششوں کو ناکام بنا دیں گے اور جو کچھ اس نے بنایا ہے آسانی سے بگاڑ دیں گے لہٰذا وہ سمجھے گا کہ اس کا نصب العین کمزور اور ناتواں ہے اور اس کی محبت یا اعانت کا حقدار نہیں۔ نیکی پھر ضروری ہے کہ اس کے نصب العین کے اندر نیکی کی تمام صفات بدرجہ کمال موجود ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات حسن کی صفات ہیں کیونکہ ہم انہیں چاہتے اور پسند کرتے ہیں اگر وہ محسوس کرنے لگ جائے کہ اس کے نصب العین کے اندر ان میں سے بعض صفات موجود نہیں یا موجود تو ہیں لیکن بدرجہ کمال موجود نہیں تو وہ اس کو ایک نقص تصور کرے گا اور اس سے محبت ترک کر دے گا۔ بے مثلی اور بے چگونی پھر اس کے نصب العین کو اپنی صفات میں بے مثل اور بے نظیر ہونا چاہئے کیونکہ اگر اسے معلوم ہو کہ دنیا میں کوئی اور تصور ایسا ہے جس کے اندر یہ صفات اسی درجہ کمال میں موجود ہیں تو وہ بیک وقت دو نصب العینوں سے محبت کرنے کے لئے مجبور ہو گا اور ایسا کرنا اس کی فطرت کے قوانین کی وجہ سے اس کے لئے نا ممکن ہو گا کوئی شخص بیک وقت دو نصب العینوں سے محبت نہیں کر سکتا اور حسن کی صفات بھی ایسی ہیں کہ وہ ایک سے زیادہ نصب العینوں میں موجود نہیں ہو سکتیں۔ خالقیت آخر کار یہ بھی ضروری ہے کہ پوری کائنات کی تخلیق اس کے نصب العین کے مدعا کے ماتحت اور اس کی خدمت اور اعانت کے لئے ہو اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کا نصب العین خود کائنات کا خالق اور حکمران نہ ہو اور ان تمام صفات کا مالک نہ ہو جو ان دو صفتوں کے اندر مضمر ہیں اگر ایسا نہ ہو تو وہ قوانین قدرت جو کائنات کی مادری حیاتیاتی اور انسانی سطح پر کام کر رہے ہیں اس وجود کی تخلیق نہ ہوں گے جو اس کا نصب العین ہے لہٰذا اس کے اور اس کے نصب العین کے مشترک مدعا کے ساتھ متصادم ہوں گے اور وہ اور اس کا نصب العین اس قابل نہ ہوں گے کہ اس مدعا کو حاصل کر سکیں اور پھر اگر وہ جانتا ہو کہ کائنات جس میں اس کا اپنا وجود بھی شامل ہے خود بخود وجود میں آ گئی ہے اور اس کے نصب العین کی حکمرانی کے دائرہ سے باہر ہے تو وہ محسوس کرے گا کہ اس کا نصب العین اس سے پست تر درجہ کا یا زیادہ سے زیادہ اس سے مساوی درجہ کا کوئی وجود ہے لہٰذا اس سے محبت کرنے یا اس کی خدمت و اعانت کرنے یا اس کے لئے اپنی زندگی کو وقف کرنے کا کوئی جذبہ اپنے دل کے اندر محسوس نہیں کرے گا۔ یہ وہ صفات ہیں جو قرآن حکیم نے خدا کی صفات بتائی ہیں، یہی سبب ہے کہ اقبال رومی کی زبان میں ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی حقیقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کو دیکھنے کی ایک آرزو ہے۔ آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است خودی کی فطرت سے باہر قدم رکھنا ممکن نہیں انسان کسی مذہب یا ملت میں چلا جائے وہ اپنی فطرت سے بھاگ نہیں سکتا اور مجبور ہوتا ہے کہ ہر حالت میں اپنی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرے اگر وہ خدا کی صفات کے حسن و کمال سے آشنا نہ ہو سکے اور لہٰذا خدا سے محبت نہ کر سکے تو اس کا جذبہ محبت کسی غلط نصب العین کے ذریعہ سے اپنے آپ کو مطمئن کرنے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کا نصب العین خواہ کچھ ہو وہ کوئی بے جان چیز مثلا! ایک پتھر یا درخت یا دریا یا پہاڑ ہو یا کوئی بت یا قوم یا ملک یا نسل ہو یا کوئی زندہ حیوان مثلاً گائے یا بندر یا سانپ ہو یا کوئی ایسا تصور ہو جو کسی نظریہ یا ازم کا مرکز ہو۔ انسان ہر حالت میں خدا کی محولہ بالا صفات کو اپنے ںصب العین کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور پر منسوب کرتا ہے مثلاً اگر اس کا نصب العین کسی ایسی چیز کا تصور ہو جو مردہ اور بے جان ہے تو پھر بھی وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ ایک زندہ شخصیت ہے جس کے اندر محبت اور نفرت اور قدرت اور قوت اور حسن اور نیکی اور صداقت کے اوصاف بدرجہ کمال موجود ہیں یہی سبب ہے کہ اس کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ اپنے تمام اعمال کو اس کے تابع کرے اور دل ہی دل میں اس سے دعائیں مانگے اور برکتیں چاہے۔ مرا از خود بروں رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم اسرار حیات کی کلید چونکہ انسان کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ خدا کی آرزو یا محبت ہے اقبال بجا طور پر سمجھتا ہے زندگی کے سر بستہ رموز کی کلید انسان کا اپنا دل ہے اور زندگی کے مقصد کو سمجھنے کے لئے اسے اپنے دل ہی کی آرزو کو سمجھنا چاہئے۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن اپنی اسی آرزو یا محبت کی وجہ سے انسان خدا کے ذکر سے دلجمعی اور اطمینان قلب حاصل کرتا ہے۔ دل ما آتش و تن موج دودش تپیدن دم بدم ساز و جودش بذکر نیم شب جمعیت او چو سیمابے کہ بند و چوب عووش الذین امنو و تطمئن ولبہم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل خدا کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، خبردار دلوں کو اطمینان خدا کے ذکر سے ہی حاصل ہوتا ہے) قرآن حکیم میں ہے کہ ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے ولقد کرمنا بنی آدم( اور بیشک ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے) انسان کی اس عزت اور عظمت کا باعث یہی ہے کہ خدا نے اس کے دل میں اپنی محبت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت انسان کی سب سے بڑی ضرورت خدا ہے اور اس کی باقی تمام ضرورتیں اس سب سے بڑی ضرورت کے ماتحت اس کی خدمت گزار ہیں۔ انسان کی اس ضرورت کا پورا کرنا، اس کو خدا کی معرفت بہم پہنچانا اور اس کو یہ بتایا کہ کون سا عمل خدا کی محبت کی نشوونما کرنے والا ہے اور کون سا اس کے منافی ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خدمت ہے انسان کی ساری رگ و دو کا مقصود انسان کی اس ضرورت کی تکمیل ہونا چاہئے۔ ہم انسانیت کے لئے اور جو کچھ بھی کریں وہ اس ضرورت کی تکمیل کی کوشش کے بالمقابل ہیچ ہے۔ کیونکہ انسان کی اسی ضرورت کا نام انسان یا آدم ہے۔ یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ انسان کی انسانیت کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اسے خدا کی محبت کا جذبہ عطا کیا گیا ہے چونکہ انسان کی اصل خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔ خدا کا منکر ہونے سے جو بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس سے انسان کو اپنا منکر ہونا لازم آتا ہے اگر انسان اپنے آپ پر ایمان لے آئے تو یہ کافی ہے کیونکہ پھر اس ایمان میں خدا پر ایمان لانا خود بخود شامل ہو جاتا ہے انسان کو خود اپنی ذات کی تکمیل اور شخصیت کی نشوونما کے لئے خدا کے تصورکی ضرورت ہے جو شخص خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا ہے وہ در حقیقت اپنی تکمیل کا خواہش مند ہے۔ لہٰذا یہ آخر کار خدا پرستی نہیں بلکہ خود پرستی ہے ہم خودی سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے ہماری خودی ہی سب کچھ ہے اسی کو جاننا، پہچاننا اور اس کی تربیت اور تکمیل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے لیکن اس کا کیا علاج ہے کہ یہ مقصد خدا کی مخلصانہ عبادت اور اطاعت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ مرا از خود برون رفتن محال است بہر رنگے کی ہستم خود پرستم خدا کی محبت کے لئے اقبال کی اصطلاحات انسان سرا سر آرزوئے جمال ہے اور یہ آرزوئے جمال کمزور بھی نہیں بلکہ نہایت طاقتور ہے انسان کیا ہے تمنائے حسن کا ایک زبردست طوفان ہے جو موجزن ہے اگر یہ طوفان تمنا نہ رہے تو انسان بھی باقی نہیں رہتا۔ نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی اسی آرزوئے جمال یا خدا کی محبت کو اقبال نے اپنے کلام میں کبھی آرزو، کبھی تمنا، کبھی دل، کبھی نظر، کبھی نگاہ، کبھی درد، کبھی داغ، کبھی سرور، کبھی سوز، کبھی بادہ، کبھی نشہ، کبھی مشتاقی، کبھی مستی، کبھی شوق، کبھی خون دل، کبھی خون جگر، کبھی آہ سحر، کبھی جان، کبھی غم، کبھی تب و تاب، کبھی جذب اندروں، کبھی جذب مسلمانی، کبھی جذب قلندرانہ، کبھی فقر، کبھی درویشی، کبھی ذوق تجلی، کبھی عشق اور کبھی محبت کے ناموں سے تعبیر کیا ہے اور چونکہ یہ آرزوئے جمال مخالفانہ آرزوؤں سے آزاد ہونے کے بعد نہایت ہی زور دار عمل میں ظاہر ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ تسخیر کائنات ہوتا ہے لہٰذا اقبال اسے کبھی ذوق تسخیر کا نام بھی دیتا ہے۔ چیست جاں جذب و سرود و سوز و درد ذوق تسخیر سپہر گرد گرد خدا کی محبت کے بغیر انسان مردہ ہے جب انسان کی اصل فقط خدا کی محبت ہے اور اس کے علاوہ انسان اور کچھ بھی نہیں یا زیادہ سے زیادہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ یا گوشت کا ایک ڈھیر ہے تو پھر یوں کہنا چاہئے کہ جو شخص ہمہ تن خدا کی محبت نہیں وہ بحیثیت ایک انسان کے موجود ہی نہیں کیونکہ جس حد تک ایک انسان اپنی زندگی کے تقاضوں کی تشفی اور تکمیل کرتا ہے اسی حد تک وہ زندہ اور موجود سمجھا جا سکتا ہے۔ زندگی یا خودی اس وقت آشکار ہوتی ہے جب خدا کی محبت آشکار ہوتی ہے اور اپنی تکمیل اور تشفی کے مدارج سے گزرتی ہے یہی خودی کی نمود یا زندگی کی نمود ہے خدا کی محبت کی تربیت خودی کی نمود ہے اور خودی کی نمود کا ہی دوسرا نام زندگی یا وجود ہے۔ زندگی فقط خدا کی محبت کی آشکارائی ہے۔ اگر خدا کی محبت نہیں تو زندگی بھی نہیں۔ تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا جو شخص اس بات کا قائل نہیں کہ اس کے اندر خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ موجود ہے جس کی تسکینا ور تشفی اسے خدا کا مقرب بنا سکتی ہے وہ شخص اپنے آپ کو ایک انسان کی حیثیت سے نہال سدرہ کی مقدس شاخ یا دوسرے لفظوں میں بالقوہ خدا کا مقرب نہیں سمجھتا بلکہ چمن کائنات کا کوڑا کرکٹ سمجھتا ہے وہ خدا کا ہی منکر نہیں بلکہ اپنا بھی منکر ہے۔ لیکن اگر انسان خدا سے الگ ہو کر خدا کا منکر بنتا ہے توتو اپنے آپ سے الگ ہو کر اپنا منکر تو نہ بنے اگر وہ اپنا منکر نہیں تو پھر اسے خدا کے اقرار سے گریز کیسے ہو سکتا ہے۔ شاخ نہال سدرہ خار و خس چمن مشو منکر او اگر شدی منکر خویشتن مشو خدا کا انکار اپنا انکار ہے خدا کے اقرار کا مقصد یہ ہے کہ خدا سے ایسی محبت کی جائے جس سے انسان کی اپنی شخصیت کی ترقی اور تکمیل ہو۔ جو شخص خدا کا اقرار کرتا ہے لیکن خدا سے محبت نہیں کرتا وہ خدا کے اقرار سے اپنی شخصیت کی تربیت کا فائدہ حاصل نہیں کرتا وہ خدا کا منکر تو نہیں لیکن اپنا منکر ہے جب وہ خدا کے اقرار کے مقصود سے بے خبر ہے تو اس کا اقرار انکار سے بہتر نہیں بلکہ بدتر ہے کہ یہ خدا کو جاننے کے بعد خدا کی ناقدری ہے۔ منکر حق نزو ملا کافر است منکر خود نزو من کافر تر است خدا پر ایمان لانے اور خدا سے محبت کرنے کا فائدہ خود انسان کو ہے کہ اس کے بغیر انسان کا اپنا وجود متحقق نہیں ہو سکتا۔ خودی کی زندگی یہ ہے کہ وہ بڑھے اور پھولے اور تربیت اور ترقی پا کر اپنے مخفی کمالات کو آشکار کرے نشوونما زندگی کا خاصہ ہے۔ زندگی اگر نشوونما نہ پائے تو زندگی نہیں، بیج اگر نشوونما پا رہا ہے تو زندہ ہے اگر نشوونما پانے سے رہ گیا ہے تو مردہ ہے اگر ایک جسم حیوانی نشونما پا رہا ہے تو زندہ ہے ورنہ مردہ ہے یا جان بلبل، اور آشکارائی وجودیا زندگی سے الگ نہیں کئے جا سکتے۔ گفت موجود آنکہ مے خواہد نمود آشکارائی تقاضائے وجود خودی کی زندگی اور ترقی کیلئے خدا کی محبت کی ضرورت لیکن خودی کی تربیت اور ترقی اور نشوونما اور بالیدگی کا مقصد خدا کی محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ خودی فقط خدا ہی کی سمت میں کامل نشوونما پا سکتی ہے۔ لہٰذا خدا کے منکر کو چاہئے کہ اپنی زندگی کی فکر کرے یعنی خدا پر ایمان لائے اور خدا کی محبت کا حق ادا کر کے زندگی پائے۔ وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا جو شخص خدا کے بغیر جی رہا ہے وہ مردار ہے۔ اگرچہ لوگ اس کا ماتم نہیں کرتے۔ آنکہ بے حق زیست جز مردار نیست گرچہ کس در ماتم او زار نیست خدا کی محبت سے دل کی کلی شگفتہ ہوتی ہے جس طرح سے پھول کی کلی نسیم سحر کے بغیر کھل نہیں سکتی۔ انسان کے دل (یعنی خودی) کی کلی خدا کی محبت کے بغیر کھل نہیں سکتی جس طرح سے صبح کی ہوا کے زندگی بخشنے والے اثر سے پھول کی کلی شگفتہ ہو جاتی ہے اسی طرح سے خدا کی محبت کی زندگی اور راحت بخشنے والے اثر سے انسان کا دل مسرت سے بھر جاتا ہے مومن کے دل کی ساری داستان کا حاصل اور ا سکی زندگی کی ساری تگ و دو کا باعث یہ ہے کہ جس طرح کلی نسیم سحر کے لئے تشنہ ہوتی ہے۔ مومن کا دل خدا کی محبت کے لئے تشنہ ہوتا ہے۔ کلی کو دیکھ کہ ہے تشنہ نسیم سحر اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ انسان کا خدا سے بھاگنا اپنی تربیت اور تکمیل کو روک دینا ہے۔ حالانکہ خدا وہ ذات پاک ہے جو انسان کو پیدا کرتی ہے اور پھر اسے جسمانی نشوونما کے کمال پر پہنچاتی ہے۔ یہی ذات پاک اس کی روحانی اور نفسیاتی نشوونما کی ضامن بھی ہے۔ اگر لالہ کی کلی جو کھل کر ایک دلہن کی طرح رنگین لباس میں ملبوس ہو جاتی ہے۔ نسیم سحر سے گریز کرے تو وہ اپنے حسن کے کمال کو کیسے پہنچ سکتی ہے۔ عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں خدا کی محبت خودی کے ارتقا کی شرط ہے انسان کا خدا سے گریز کرنا اپنے آپ سے گریز کرنا ہے کیونکہ خدا کی محبت کے بغیر انسان اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اور اگر انسان خدا سے بھاگے تو زود یا بدیر پھر اس کو خدا ہی کی طرف واپس لوٹنا پڑے گا۔ از کہ بگریزیم از خود ایں محال از کہ رو تابیم از خود ایں خیال مومن اسی حقیقت کا اعتراف کرت اہے جب وہ کہتا ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ منجا من اللہ الا الیہ (کفر اور ہر بری چیز سے بچنا اور ایمان ہر اچھی چیز پر قدرت پانا خدا کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور خدا سے بھاگنے کے بعد اگر کوئی راستہ نجات کا ہے تو خدا ہی کی طرف ہے)جس طرح سے خدا نے انسان کی جسمانی نشوونما اپنے ذمہ لے رکھی ہے اسی طرح سے اس نے انسان کی روحانی یا نفسیاتی نشوونما بھی اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ لیکن چونکہ انسان اپنے فکر و عمل میں آزاد ہے وہ اپنی نشوونما کی روحانی یا نفسیاتی سطح پر اپنے اختیارات کو غلط طور پر کام میں لاتا ہے اور اس طرح سے خدا کے مقاصد میں حائل ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کا روحانی یا نفسیاتی ارتقا جو دراصل اس کی خودی کا ارتقا ہے۔ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے اختیارات کو تمام و کمال خدا کے تابع نہ کر دے اور اپنے آپ کو کلیتاً خدا کے سپرد نہ کر دے۔ اقبال اس خیال کو یوں ظاہر کرتاہے: خویش را در باز و خود را باز گیر دام گستر از نیاز و ناز گیر (اپنے آپ کو ہار دے اور اس کے نتیجہ کے طور پر اپنی خودی کو پالے، اطاعت اور فرمانبرداری کا دام پھیلا اور خود داری کو اپنی گرفت میں لا) یک بینی اور یک اندیشی کے بغیر خودی اپنے آپ کو نہیں پا سکتی چونکہ خدا کی محبت خودی کی مرکزی خواہش ہے اور باقی خواہشات اس کے تابع ہیں جو خواہش اس خواہش کی حریف ہوتی ہے وہ خودی کی اپنی خواہش نہیں ہوتی بلکہ خودی کی خواہش کے راستہ میں ایک ناگوار بلکہ خطرناک رکاوٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر ایسی خواہش کو مٹانا خودی کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ خودی اپنے آپ کو پا سکے اور اپنی فطرت کے مخفی کمالات کو آشکار کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں ماسویٰ اللہ سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہونا خودی کی فطرت ہے۔ جب تک کہ خودی غیر اللہ کے ساتھ وابستہ رہے وہ اپنے آپ کی طرف آنے کے لئے یعنی اپنی فطری محبت کی تشفی اور تکمیل کے لئے آزاد نہیں ہوتی اس کے برعکس جب وہ غیر اللہ سے کٹ جائے تو اپنے آپ کی طرف لوٹنے کے لئے آزاد ہو جاتی ہے اور غیر اللہ کو اپنے نصب العین کے تابع کر دیتی ہے جب تک انسان خدا کی محبت میں پختہ نہ ہو یا ماسویٰ اللہ سے پوری طرح نہیں کٹ سکتا۔ تانہ رمز لا الہ آدمی بدست بند غیر اللہ را نتواں شکست اگر ہم غیر اللہ کی محبت سے کنارہ کش ہو کر خودی کے جذبہ محبت کو آزادی کے ساتھ اپنا اظہار کرنے دیں تو خدا ملتا ہے اور اگر ہم آزادی کے ساتھ خدا کی جستجو کریں تو ہماری خودی اپنے کمال کو پہنچتی ہے گویا ہمیں اپنی خودی سے خدا ملتا ہے اور خدا سے اپنی خودی ملتی ہے اور دونوں انعامات کی حقیقت ایک ہی ہے۔ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم از خودی خدا طلب اس شعر کا پہلا مصرع گویا قرآن حکیم کی اس ایت کا ترجمہ ہے وتتبل الیہ تبتیلا(ہر ایک سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہو جائیے) خدا کی نمود خودی کی نمود ہے انسانی خودی کی زندگی یا اس کے وجود کی علامت یہ ہے کہ وہ برابر نشوونما کرتی رہے اور اس کے مخفی کمالات کی نمود یا آشکارائی ہوتی رہے۔ لیکن یہ بات خدا کی محبت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور جب انسانی خودی کی نمود ہوتی ہے یعنی اس کے مخفی علمی، اخلاقی، روحانی اور جمالیاتی کمالات آشکار ہوتے ہیں تو ا س دنیا میں خدا کی صفات کے کمالات و محاسن کی آشکارائی یا نمود بھی ساتھ ہی عمل میں آتی ہے۔ خدا کی نمود خودی کی نمود کی صورت اختیار کرتی ہے۔ خودی را از وجود حق وجودے خودی را از نمود حق نمودے ٭٭٭ خودی اور تخلیق تخلیق کائنات کا سبب تخلیق کائنات کا باعث خودی کا مرکزی وصف محبت ہے جس کی طرف اقبال بار بار زور دار الفاظ میں توجہ دلاتا ہے۔ خودی ہمہ تن محبت ہے اور اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک نصؓ العینی حسن کے محبوب کی محبت کا جذبہ محسوس کرتی ہے۔ اس سے شدید محبت کرتی ہے اور ہر قسم کی ممکن رکاوٹوں اور مزاحمتوں کو راستہ سے ہٹاتے ہوئے اس کی سمت میں اپنے عمل کو جاری رکھتی ہے یہاں تک کہ اسے پا لیتی ہے۔ نصب العین کی محبت کا یہ وصف جس طرح سے انسانی خودی میں موجود ہے اسی طرح سے کائناتی خودی میں بھی موجود ہے اور دونوں صورتوں میں وہ خود بخود اپنا اظہار پاتا ہے اقبال نے اپنے خطبات میں لکھا ہے: ’’ حقیقت کائنات کوئی ایسی قوت حیات نہیں جو کسی نصب العین سے بے نیاز ہو بلکہ اس کی فطرت سراسر نصب العین کی جستجو ہے۔‘‘ انسان کا نصب العین خدا ہے اور خدا کا نصب العین انسان کی وہ حالت کمال ہے جو اس کے جسمانی کمال کے علاوہ جسے مدت ہوئی وہ حاصل کر چکا ہے اور تمام کمالات یعنی علمی، اخلاقی، روحانی اور جمالیاتی کمالات کی آئینہ دار ہو گی اور جو حالت کمال ہونے کی وجہ سے تمام تعارضات اور تضادات سے مبرا ایک وحدت ہو گی۔ کمال حسن کی اس حالت پر پہنچی ہوئی نوع انسانی کے لئے بطور ایک نصب العین کے خدا نے محبت کا احساس کیا لہٰذا جوش محبت سے اسے وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور اسے لفظ’’ کن‘‘ (ہو جا) کہا تاکہ وہ وجود میں آئے۔ کیونکہ قرآن حکیم میں ہے کہ خدا جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ اس قول کن کا نتیجہ یہ ہے کہ اب وہ بتدریج عالم وجود میں آ رہی ہے یعنی ایک ابتدائی حالت سے آغاز کر کے اپنی حالت کمال کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ کائنات کی اس تدریجی ترقی کا مقصد انسان کی تکمیل ہے کیونکہ صرف انسان ہی خدا کے قول کن کا مدعا اور مخاطب اور اس کے تخلیقی عمل کا نشان یا مقصود ہے۔ ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست انسان خدا کا محبوب اور مقصود ہے جب خدا کی محبت کائنات کی تخلیق اور تدریجی ترقی کی صورت میں اپنے مطلوب کی جستجو کرنے لگی تو اس کا نتیجہ انسان تھا۔ یہی سبب ہے کہ خدا کی محبت کا جلوہ پوری کائنات اور کائنات کی ہر چیز کی تدریجی ترقی اور تربیت کی صورت میں اس کائنات کے مادی پردہ کے پیچھے صاف طور پر نظر آ رہا ہے۔ عشق اندر جستجو افتاد و انسان حاصل است جلوہ او آشکار از پردہ آب و گل است اپنی حالت کمال پر پہنچی ہوئی نوع انسانی خدا کا وہ محبوب ہے جو اس سے کھو گیا ہے اور اب خدا کائنات کے طویل ارتقائی عمل کے ذریعہ سے اس کی جستجو کر رہا ہے۔ خدا بھی ہماری طرح ایک آرزو رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے پیکر خاکی کا دیدار کرے جس کا حسن درجہ کمال پر ہو اس کے دیدار کے لئے اس نے یہ ہنگامہ عالم برپا کیا ہے رنگ و بو کا یہ تماشا خانہ محبوب کے نظارہ کے لئے ایک بہانہ ہے ورنہ اس کا مدعا اور کچھ نہیں: ما از خدائے گم شدہ ایم و جستجوست چوں ما نیاز مند و گرفتار آرزوست ہنگامہ بست از پے دیدار خاکئے نظارہ را بہانہ تماشائے رنگ و بوست کائنات خدا کی ایک آیت یا نشان ہے لیکن آیت کا مطلب بہت دیر کے بعد کھلنے والا ہے کیونکہ اس کا مطلب وہ انسان ہے جو کائنات کے ایک طویل تدریجی ارتقاء کے نتیجہ کے طور پر آئندہ اپنے کمال کو پہنچے گا۔ کائنات کی مادی، حیاتیاتی اور نفسیاتی یا انسانی سطحوں پر خدا کی رنگا رنگ مخلوقات کے قافلے جو ارتقائے کائنات کے مقامات اور مدارج ہیں اسی انسان کی تخلیق اور تکمیل کے سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو وقت کی رفتار یا گردش روزگار جو کائنات کے تدریجی ارتقاء کو اپنے ساتھ لاتی ہے اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ انسان کی خودی اپنے کمال کو پہنچے اور پوری طرح سے آشکار ہو جائے: یہ ہے مقصد گردش روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار اقبال کو بجا طور پر اس بات کی شکایت ہے کہ ہمارے علماء دین جو اس بات کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ خدا انسان کا محبوب ہے اور انسان کو چاہئے کہ خدا کی عبادت اور اطاعت کرے بہت کم اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ انسان بھی خدا کا محبوب ہے اور خدا کے لئے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو اسے ایک محبوب کے لئے جسے وہ ترقی دے کر حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانا چاہتا ہے کرنا چاہئے۔ یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ ظاہر ہے کہ یہاں حرم خدا سے اور چراغ امت مسلمہ سے (جو نوع انسانی کے لئے خدا کی روشن کی ہوئی ایک شمع ہے) استعارہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں میں اپنے مستقبل کے متعلق ایک گہری مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ افسوس کہ خدا کا نور جن نگاہوں کے نظاروں کی تمنا خود کر رہا تھا وہی نگاہیں خدا کے نور کے دیدار سے مایوس ہو گئی ہیں۔ خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہو گئیں عمل تخلیق ایک دوسرے کیلئے خدا اور انسان کی جستجو ہے چونکہ انسان کا محبوب خدا ہے اور خدا کا محبوب انسان ہے خدا اور انسان دونوں کائنات کے ارتقائی عمل کے ذریعے سے ایک دوسرے کی جستجو کر رہے ہیں جب انسان اپنی حالت کمال کو پہنچے گا تو اس وقت ایک طرف سے خدا انسان کو پائے گا اور دوسری طرف سے انسان خدا کو پائے گا۔ تلاش اوکنی جز خود نہ یابی تلاش خود کنی جز او نہ بینی اس طرح سے جب خدا کو پانے سے انسان کی اپنی خودی کا مخفی حسن بے حجاب ہو گا تو یہی وقت ہو گا جب انسان کے لئے خدا کا حسن بھی پوری طرح سے بے حجاب ہو گا خدا کی نمود انسان کی نمود ہے اور انسان کی نمود خدا کی نمود ہے۔ نمود اس کی نمود تیری نمود تیری نمود اس کی خدا کو تو بے حجاب کر دے خدا تجھے بے حجاب کر دے خدا اور انسان دونوں کی ایک دوسرے کے لئے جستجو کا عمل ایک ہی ہے یہاں تک کہ یہ کہنا کہ اس عمل کے ذریعہ سے خدا انسان کی جستجو کر رہا ہے یا یہ کہنا کہ انسان خدا کی جستجو کر رہا ہے ایک ہی بات ہے:ـ در خاکدان ما گہر زندگی گم است ایں گوہرے کہ گم شدہ ما ایم یا کہ اوست ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ہر لمحہ بدل کر ایک نئی حالت اختیار کرتی ہے۔ ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود تغیرات کے اس غیر متناہی سلسلہ سے خود ثابت ہوتا ہے کہ کائنات ابھی نامکمل ہے اور اس سے پہلے کہ یہ اپنی حالت کمال کو پہنچے جہاں انسانیت کاملہ کا ظہور ہو اسے ابھی بہت سی منزلوں سے گزرنا ہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون ان تغیرات کی وجہ یہ ہے کہ کائنات بہتر سے بہتر حالتوں کو اختیار کرنا چاہتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خود شہید آرزو ہے اور ہر آن ایک زیادہ خوبصورت اور پھر اس سے بھی زیادہ خوبصورت پیکر کی تمنا اسے دامن گیر رہتی ہے اس کی جستجو اس وقت ختم ہو گی جب نوع انسانی اپنی حالت کمال کو پہنچے گی۔ فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو ’’ رہتی نہ ہو‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ کہنے والے کو شک ہے کہ شاید فطرت ہستی شہید آرزو نہ بھی رہتی ہو بلکہ مخاطب پر اس سوال کا جواب چھوڑنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک بلیغ اور موثر طرز بیان سے بتایا جائے کہ وہ در حقیقت شہید آرزو رہتی ہے۔ یعنی مخاطب خود بھی غور کر کے دیکھ لے کیا کائنات کے حقائق صاف طور پر بتا نہیں رہے کہ کائنات کے اندر بھی ایک آرزوئے حسن موجود ہے جس کی وجہ سے وہ ایک ایسے پیکر سے آراستہ ہونا چاہتی ہے جو منتہائے حسن و کمال ہو اور یہ پیکر حسن اسے اس وقت نصیب ہو گا جب ایک طرف سے انسانیت کاملہ خدا کو پائے گی اور دوسری طرف سے خدا انسانیت کاملہ کو پائے گا۔ تخلیق کی حقیقت خدا کی تخلیق اگر کسی کھوئے ہوئے محبوب کی جستجو کی صورت اختیار کر رہی ہے اور تخلیق کے دوران خدا کی صفات حسن و کمال اپنا اظہار پا رہی ہیں تو اس میں تعجب کی بات کون سی ہے۔ تخلیق کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی محبوب کی جستجو کرنا جس سے محبوب کے سامنے اپنی صفات اور ممکنات کا اظہار ہو۔ آفریدن جستجوئے دلبرے وا نمودن خویش را بر دیگرے وجود یا خودی یا زندگی کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تخلیق میں اپنے آپ کا یعنی اپنی صفات کا اظہار کرتی ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ خودی یا زندگی یا وجود ہی نہ ہو۔ خودی کے لئے تخلیق یا جستجوئے محبوب ضروری ہے۔ گفت موجود آنکہ مے خواہد نمود آشکارائی تقاضائے وجود کائنات کا ہر ذرہ اس بات کا گواہ ہے کہ تخلیق میں اپنے آپ کا اظہار کرنا خودی کی فطرت ہے کیونکہ خودی کا زور عمل یا خودی کی قوت تخلیق کائنات کے ہر ذرہ میں پوشیدہ ہے۔ وا نمودن خویش را خوئے خودیست خفتہ در ہر ذرہ نیروئے خودیست آج انشقاق جوہر سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ میں کتنی قوت چھپی ہوئی ہے۔ ارتقاء تخلیق کے کئی اور لوازمات میں سے ایک ہے اگر پوچھا جائے کہ کائنات خدا کے قول کن سے فی الفور کیوں پیدا نہ ہو گئی اور کیوں اس کی بجائے ایک طویل ارتقائی عمل سے وجود میں آ رہی ہے تو اقبال اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ خودی کی فطرت کا ایک تقاضا ہے کہ اس کی تخلیق ہمیشہ ایک ایسے ارتقائی عمل کی صورت اختیار کرتی ہے جس پر ایک مدت صرف آتی ہو۔ چو فطرت مے تراشد پیکرے را تماش مے کندور روزگارے دراصل تدریجی تکمیل یا تدریجی ارتقاء ہی نہیں بلکہ عمل تخلیق کے اور بہت سے لوازمات ہیں جو خودی کی فطرت سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً تخلیق کا پہلے ایک ذہنی یا شعوری حالت میں موجود ہونا اور بعد میں ایک عزم سے یا قول کن سے شروع ہونا کسی محبوب یا مقصود کی محبت اور جستجو کی شکل اختیار کرنا مقصود یا محبوب کے غلط اور ناقص متبادلات یا اقبال کے الفاظ میں پیکر اغیار کا ظہور اور ان کا ترک یا استیصال، وحدت خالق سے کثرت کا ظہور، زمان و مکان کا ظہور، عناصر تخلیق کے اندر جذب یا کشش کا ظہور، خوب و نا خوب، نیک و بد اور حق و باطل کے امتیاز کا ظہور، خودی کی صفات جلال و جمال کی آشکارائی وغیرہ، تخلیق خدا کی ہو یا انسان کی اس کے لوازمات میں کوئی فرق نہیں آتا یہی سبب ہے کہ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جو شخص آفرینش کائنات کے اسرار و رموز معلوم کرنا چاہے اسے اپنے آپ پر نگاہ ڈالنی چاہئے خدا واحد ہے اور مخفی ہے لیکن اپنی تخلیق کی وجہ سے کثیر بھی ہے اور آشکار بھی ہے، ضروری ہے کہ کثرت اور آشکارائی کی طرح خدا اور انسان کی تخلیق کے اور لوازمات بھی مشترک ہوں اور انسان کی تخلیق خدا کی تخلیق کی طرف راہ نمائی کرتی ہو۔ اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی اس مضمون کو سمجھانے کے لئے اقبال نے تصویر اور مصور کا ایک مکالمہ لکھا ہے۔ تصویر اپنے مصور کو دیکھنا چاہتی ہے تو مصور کچھ گفتگو کے بعد اسے کہتا ہے: مرے دیدار کی ہے ایک یہی شرط کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے ظاہر ہے کہ یہاں مصور خدا سے اور تصویر انسان سے استعارہ ہے۔ قرآن حکیم میں ہے صورکم فاحسن صورکم (اس نے تمہاری تصویریں بنائیں اور تمہاری تصویریں عمدہ بنائیں) اقبال کا یہ نظریہ کہ اگر انسان اپنے آپ پر نگاہ ڈالے تو وہ خدا اور کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھ سکتا ہے دراصل قرآن حکیم ہی سے ماخوذ ہے جس کا ارشاد ہے: وفی انفسکم افلا تبصرلن (اور خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات تمہاری اپنی جانوں میں موجود ہیں کیا تم نہیں دیکھتے) اسی لئے کہا گیا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ(جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا) ایک خط کی تخلیق کا عمل جب کوئی شخص ایک خط لکھنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دل میں کہتا ہے کہ اس مضمون کا لکھا ہو ایک خط سپرد ڈاک ہو جائے۔ اس کا یہی عزم اس کے خط کے لئے اس کا قول کن ہے اس قول کے وقت اس کے خط کا ایک ایک لفظ اس کے شعور کے اندر موجود ہوتاہے اور وہ خط کی اسی ذہنی یا شعوری صورت کو ہی خارجی طور پر ظہور پذیر کرنے کے لئے قول کن سے خطاب کرتا ہے۔ تاہم جب تک خط اس کے ذہن میں ہی ہوتا ہے، عملی طور پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس کے الفاظ در حقیقت کیا ہیں۔ قول کن کے بعد تخلیق کی صورت میں زمان و مکان کے اندر خط کا بیرونی ظہور فوری نہیں ہوتا بلکہ تدریجی تکمیل یا تدریجی ارتقا کے ایک عمل کی صورت اختیار کرت اہے جب تک خط اس کے شعور میں ہوتا ہے اس وقت تک اگرچہ خط کے وہ الفاظ جن کا ارادہ وہ کر چکا ہوتا ہے اس کے سامنے نہیں آتے تاہم اس کے شعور میں موجود ہوتے ہیں اور پھر قول کن سے اس کے شعور میں وہ الفاظ ہی وجود میں نہیں آتے جو در حقیقت اس کے مقصد سے مطابقت رکھتے ہیں اور لہٰذا درست اور زیبا اور اچھے ہوتے ہیں بلکہ وہ تمام الفاظ بھی جو اس کے مقصد سے نزدیک یا دور کی مطابقت کا کوئی امکان رکھ سکتے ہیں وجود میں آتے ہیں لیکن مقصود الفاظ کو غیر مقصود الفاظ سے ممیز کرنے کا موقع اس وقت آتا ہے جب وہ خط لکھنے لگتا ہے کیونکہ اس وقت وہ ان الفاظ کو جو اس کے مقصد سے در حقیقت مطابقت نہیں رکھتے عملی طور پر جان لیتا ہے لہٰذا یا تو لکھ کر کاٹ دیتا ہے یا بغیر لکھنے کے اپنے ذہن میں منسوخ کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے مقصد کے اعتبار سے غلط اور ناخوب اور برے ہوتے ہیں۔ ترک و اختیار اور تنسیخ و تثبیت کے اس عمل سے وہ در حقیقت اس صحیح مطلوب اور مقصود خط کی جستجو کرتا ہے جس کو اس نے قول کن کہا تھا اور جو اس کے شعور میں شروع سے ہی موجود ہو گیا تھا۔ اس طرح سے خط کی تخلیق میں لکھنے والے کی تمام صفات جلال و جمال اپنا اظہار پاتی ہیں اگر درست الفاظ کی ترتیب اور تنظیم میں لکھنے والے کی صفات جمال کام کرتی ہیں تو غلط الفاظ کی تردید اور تنسیخ میں اس کی صفات جلال بروئے کار آتی ہیں۔ الغرض اس کا خط لکھنا کسی مقصود یا مطلوب کی ایسی جستجو کی صورت اختیار کرتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کا اظہار کرتا ہے اور اسی بنا پر وہ تخلیق یا آفریدن کا ایک عمل ہوتا ہے جس پر اقبال کی یہ تعریف صادق آتی ہے: آفریدن جستجوئے دلبرے وا نمودن خویش را بر دیگرے پھر جب تک خط اس کے ذہن میں ہوتا ہے خط زمان و مکان کی دنیا میں نہیں ہوتا او رنہ ہی یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خط کے مقصد کے اعتبار سے کون سے الفاظ درست ہیں اور کون سے نادرست، کون سے زیبا ہیں اور کون سے نازیبا اور کون سے اچھے ہیں اور کون سے برے، لیکن جونہی کہ وہ خط لکھنے لگتا ہے خط کا مضمون ایک ابتدا سے ایک انتہا کی طرف حرکت کرنے یا بتدریج ارتقا کرنے یا تکمیل پانے لگتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے کاغذ پر کچھ فاصلہ طے کرتا ہے اور کچھ وقت صرف کرتا ہے اس طرح خط کی تخلیق سے حرکت اور خط کے زمان و مکان وجود میں آتے ہیں پھر خط لکھنے والا اپنے مقصد سے جو کشش رکھتا ہے وہ خط کے تمام الفاظ کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور ان کی باہمی کشش کی صورت اختیار کرتی ہے ان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے اور ان کے اندر ایک خاص ترتیب اور تنظیم اور تسلسل پیدا کرتی جاتی ہے گویا خط جب خارج میں تخلیق کی صورت اختیار کرتاہے تو کسی مطلوب یا مقصود کی محبت اور جستجو، مقصود کے غلط اور ناقص متبادلات، حرکت، تدریجی ارتقائ، خط کے زمان و مکان، الفاظ کی باہمی کشش، درست و نا درست اور خوب و نا خوب کا امتیاز اور لکھنے والے کی صفات جلال و جمال کا اظہار خط کی تخلیق کے لوازمات کے طور پر نمودار ہوتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق کا عمل کائنات کی تخلیق کی صورت میں بھی تخلیق کے یہی لوازمات اظہار پاتے ہیں۔ خدا کے قول کن کے وقت کائنات اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ خدا کے شعور میں موجود ہو گئی تھی۔ کائنات کی اس ذہنی یا شعوری حالت کو ہی خدا نے کن کا حکم دیا تھا۔ کائنات کی ایسی حالت کو ہی قرآن حکیم نے لوح محفوظ یا ام الکتاب کہا ہے تاہم تخلیق کی صورت میں کائنات کا خارجی ظہور فی الفور نہیں ہوا بلکہ اس نے تدریجی ارتقاء کے ایک عمل کی صورت اختیار کی ہے اور یہ عمل عرصہ دراز سے جاری ہے اور جب تک نوع انسانی اپنی تکمیل کی انتہا کو نہیں پہنچ جاتی برابر جاری رہے گا۔ تخلیق حسن کی جانب خودی کے ارادہ کی حرکت کا نام ہے۔ حرکت تخلیق کی اصل ہے جس کے بغیر تخلیق ممکن ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کی بنیاد حرکت ہے اور پوری کائنات متحرک ہے: فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود خودی یا زندگی کا راز اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ وہ اپنے مقصود کی طرف اڑنے یعنی نہایت سرعت کے ساتھ حرکت کانے کا ایک ذوق ہے۔ سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی جب تک کائنات فقط خدا کے شعور میں تھی وہ زمان و مکان میں نہیں تھی لیکن جب اس نے خارج میں تخلیق کی صورت اختیار کی اور اس کی حرکت وجود میں آئی تو اس حرکت کے ساتھ ہی زمان و مکان بھی وجود میں آ گئے کیونکہ حرکت کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز حرکت کر ہی ہے وہ ایک ابتدا سے ایک انتہا کی طرف آگے بڑھ رہی ہے اور لہٰذا ایسا کرتے ہوئے کچھ وقت صرف کر رہی ہے اور کچھ فاصلہ طے کر رہی ہے یعنی اس کی حرکت زمان و مکان میں ہے۔ پھر تخلیق کائنات کی ابتدا کے ساتھ ہی خوب و نا خوب اور زشت و زیبا اور حق و باطل کا امتیاز بھی نمودار ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ وہ حسن کو ضد حسن سے ممیز کرتی ہے اور جب حسن کے کسی تصور سے محبت کرتی ہے تو اس کی ضد سے بیزار ہوتی ہے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب سے قرب تلاش کیا جائے اور بیزاری کا تقاضا یہ ہے کہ محبت کی خاطر مرجع بیزاری کو دور کیا جائے اور برباد کیا جائے چونکہ خودی سراسر محبت ہے اس کی تمام صفات فقط اس کی محبت کی خدمت اور اعانت کے لئے اور محبت کے مقاصد کی تحصیل اور تکمیل کے لئے اظہار پاتی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خودی کی جملہ صفات اس کی مرکزی صفت محبت کے تقاضے یا شوؤں یا کوائف ہیں اور ان صفات کی شکل میں خود محبت ہی اپنی مختلف حالتوں اور موقعوں کا اظہار کرتی ہے۔ خدا کی تخلیق میں صفات جمال و جلال کی کار فرمائی تاہم کائناتی خودی کی بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ براہ راست اور بلا واسطہ محبت کی خدمت اور اعانت کرتی ہیں۔ مثلاً رب، حافظ، حفیظ، وکیل، رحمن، رحیم، مومن، مہیمن، غفار، وہاب، رزاق، باسط، رافع، رقیت، معز، فتاح وغیرہ ایسی صفات کو صفات جمال کہا جاتا ہے اور بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ بالواسطہ یعنی محبت کے راستہ کی رکاوٹوں کو دور کر کے محبت کی خدمت اور اعانت کرتی ہیں مثلاً قہار، مذل، منتقم، مانع، ضار وغیرہ ایسی صفات کو صفات جلال کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ اگر اس کی صفات جمال اپنے اظہار کے لئے کسی ایسے تصور حسن کا تقاضا کرتی ہیں جس کی تحصیل اور تکمیل کے لئے وہ اپنی تخلیقی اور تربیتی کارروائی کرے تو اس کی صفات جلال اپنے اظہار کے لئے ایسے ضد حسن تصورات کا تقاضا کرتی ہیں جنہیں وہ اپنے آپ کا مخالف اور غیر سمجھے اور اپنے تصور حسن کی تخلیق اور تکمیل کی خاطر اپنے راستہ سے ہٹائے اور برباد کرے۔ لہٰذا وہ حسن کے ساتھ ضد حسن بھی پیدا کرتی ہے اور ضد حسن سے اس کی بیزاری محبت حسن کے تابع رہتی ہے۔ کائنات کی تخلیق کے اندر قدم قدم پر جدوجہد اور کش مکش اور پیکار کا باعث یہی حقیقت ہے اقبال اس حقیقت کا ذکر اس طرح سے کرتا ہے: ساز داز خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را مے شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل انسان کی تخلیق میں صفات جلال و جمال کا عمل اگر ہم اپنے آپ پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے جب ہم کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے بہت سے امکانات ہمارے ذہن میں آتے ہیں لیکن جب ہم فی الواقع وہ کام کرنے لگتے ہیں تو ہم صرف ایک امکان کو جو ہمارے مقصود سے در حقیقت مطابقت رکھتا ہے خوب اور حق اور زیبا سمجھ کر چن لیتے ہیں اور باقی تمام امکانات کو جو دراصل خوب اور ناخوب اور حق اور باطل اور زشت اور زیبا کا ممزوح یا مرکب ہوتے ہیں نا خوب اور باطل اور زشت سمجھ کر رد کردیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مقصود سے پوری پوری مطابقت نہیں رکھتے جو امکان حق اور خوب اور زیبا ہوتا ہے وہ صرف ایک ہی ہوتا ہے لیکن باطل اور ناخوب اور زشت امکانات جو حق و باطل کی شرکت سے بنتے ہیں بہت سے ہوتے ہیں۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول عمل ارتقاء میں تخریب اور تبذیر کی حکمت خد اکی تخلیق کی صورت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خدا کا کسی امکان کو سوچنا اس کو پیدا کر دینا ہے۔ خدا پہلے اپنے پسندیدہ تخلیق کے تمام امکانات کو عمل میں لاتا ہے اور پھر اس ایک امکان کو چن لیتا ہے جو تخلیق کی صورت اختیار کرنے کے بعد یعنی عملی طور پر اس مقصد کے مطابق اور لہٰذا خوب اور حق دار زیبا ثابت ہوتا ہے اور باقی امکانات کو یا تو وہ صفحہ ہستی سے بالکل مٹا دیتا ہے یا نظر انداز کر دیتا ہے جس کے نتیجہ کے طور پر وہ جس حالت کو پہنچ جاتے ہیں اسی پر قائم رہتے ہیں اور مزید ترقی نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ کائنات کے ارتقاء کے دوران مادی حیاتیاتی اور انسانی سطح ارتقاء پر ایسی مخلوقات بھی وجود میں آتی رہی ہیں جو خدا کے نصب العین یعنی انسانیت کاملہ کی تخلیق سے براہ راست کوئی تعلق نہ رکھتی تھیں اور فقط تخلیق کے اصل مرکزی سلسلہ کی ضمنی یا اتفاقی پیداوار تھیں اور یہی وجہ ہے کہ خودی ایسی مخلوقات کو یا تو مٹا دیتی رہی یا ایک ہی حالت پر موجود رہنے کے لئے چھوڑ دیتی رہی۔ مثلاً خودی نے لاکھوں نظام ہائے شمسی پیدا کئے لیکن بظاہر صرف ایک نظام شمسی اس کے مقصد کے مطابق تھا۔ یعنی وہ جس کے ایک زمین نامی سیارہ میں زندگی نمودار ہو کر نشوونما پا رہی ہے اس نے لاکھوں گلشنوں کو پیدا کیا ہو گا لیکن اس کا مقصود صرف چند خوبصورت پھول تھے جن کی اقسام نباتاتی عمل ارتقاء میں باقی رہ گئی ہیں۔ اس نے قدرت میں سینکڑوں ناخوشگوار آوازیں پیدا کی ہوں گی۔ تب جا کر اسے چند خوش گلو پرندوں کے دل آویز نغمے میسر آئے ہیں، اس نے ہزاروں انبیاء پیدا کئے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہی کو تعلیم نبوت کے کمال پر پہنچایا اور موثر حالت میں باقی رکھا اس طرح سے یہ بات اس کی فطرت میں ہے کہ وہ اقبال کے الفاظ میں گویا اپنے آپ کو فریب دے دے کر اپنے مقصود کو حاصل کرتی ہے۔ بعض لوگ اسے قدرت کا قہر یا اسراف سمجھتے ہیں۔ لیکن در حقیقت خودی کا یہ کام اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اگر خودی ایسا نہ کرے تو وہ خودی نہ ہو۔ خودی جو چیز پیدا کرنا چاہتی ہے وہ فی الفور پیدا نہیں کرتی بلکہ قدرت اور اختیار کے باوجود اپنے آپ پر لازم کرتی ہے کہ پہلے بہت سے ناکام تجربات کرتی اور نا مکمل تخلیقات کا خون کرتی رہے لیکن آخر کار اس کی تخلیق اس کمال کو پہنچتی ہے جو اس کا مقصود ہوتا ہے۔ اس ظاہری قہر اور اسراف کے بغیر جمال معنوی کی تخلیق اور تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔ خودی کی صفات کے مطابق حسن کی تخلیق اور تکمیل کے لئے غیر حسن کی تخلیق اور تباہی ضروری ہے۔ علامہ اقبال اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خود فریبی ہائے او عین حیات ہمچو گل در خون وضو عین حیات بہریک گل خون صد گلشن کند از پئے یک نغمہ صد شیون کند شعلہ ہائے اور صد ابراہیم سوخت تا چراغ ایک محمد بر فروخت عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی خلق و تکمیل جمال معنوی صد نیستاں کاشت تا یک نالہ رست صد چمن خون کرد تا یک لالہ رست نقشبا آورد و افگند و شکست تا بلوح زندگی نقش و توبست نالہ ہا در کشت جاں کاریدہ است تا نوائے یک اذاں بالیدہ است مدتے پیکار با اصرار واشت با خداوندان باطل کار داشت تخم ایماں آخر اندر گل نشاند باز بانت کلمہ توحید خواند ترک و اختیار تخلیق کے لوازمات ہیں ترک اور اختیار کے اسی عمل کی وجہ سے جو تخلیق کو لازم ہے اور جس کا دارومدار محبت پر ہے۔ اقبال تخلیق کو کسی محبوب کی جستجو سے تعبیر کرتا ہے۔ آفریدن جستجوئے دلبرے دا نمودن خویش را بر دیگرے تخلیق و تکمیل کائنات کی غرض سے ترک و اختیار کے اس عمل کا ذکر قرآں حکیم میں ہے: یحمحو اللہ ما یشاء یثبت و عندہ ام الکتاب (41) (خدا اپنی تخلیق میں جس چیز کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب یا لوح محفوظ ہے۔ جس میں یہ بات طے شدہ موجود ہے کہ کیا چیز مٹائی جائے گی اور کیا چیز باقی رکھی جائے گی) وربک یخلق ما یشاء و یختا وما کان لھم الخیر۔ سبحن اللہ و تعالیٰ عما یشرکون (68) (اور تمہارا رب جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور پھر اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے جس چیز کو چاہتا ہے مزید ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچانے کے لئے چن لیتا ہے لیکن ایسا چناؤ ان لوگوں کے بس میں نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو معاذ اللہ انسان خدا کا شریک ٹھہرتا لیکن خدا پاک ہے اور بلند ہے ہر اس چیز سے جسے یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں) قبول حق کیلئے ترک باطل ضروری ہے خودی جب اپنے نصب العین کی آزردگی عمل تشفی اور تسکین کرنے لگتی ہے تو اسے معاً معلوم ہونے لگ جاتا ہے کہ کون کون سی چیزیں ہیں جو اس کے نصب العین کی نقیض ہیں اور جن کی آرزو وہ نہیں کر رہی اور جن کا وجود اس کی آرزو کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ باطل باہر سے نہیں آتا بکہ حق کے ساتھ ہی اس کے نقیض کے طور پر خود بخود نمودار ہو جاتاہے یہ ایسا ہی ہے کہ جب ہم ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہوں تو ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس کی مخالف سمت کو پیچھے چھوڑتے جائیں حرکت کی فطرت میں ہے کہ اس سے بیک وقت دو سمتیں نمودار ہوتیں ہیں ایک موافق اور دوسری مخالف۔ تخلیق بھی ایک قسم کی حرکت ہے اور اس سے بھی دو سمتیں پیدا ہوتی ہیں ایک موافق اور دوسری مخالف، خودی کے لئے نصب العین کی سمت حق ہے اور نصب العین کے خلاف کی سمت باطل ہے۔ جب خودی نصب العین کی طرف ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو غیر نصب العین کو (جو اس کے نقیض کے طور پر پاس ہی موجود ہوتا ہے) ایک قدم پیچھے چھوڑ جاتی ہے حق کے قبول کو باطل کا ترک لازم آتا ہے اور جس حد تک ہم حق کو قبول نہیں کرتے ہم باطل کو قبول کرتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم حق کو قبول کریں اور باطل کو معاً ترک نہ کریں یا باطل کو قبول کریں اور حق کو معاً ترک نہ کریں۔ روشنی کا تصور تاریکی کے بغیر سچ کا جھوٹ کے بغیر انصاف کا ظلم کے بغیر اور حق کا باطل کے بغیر ممکن نہیں جو شخص سچ انصاف اور حق سے محبت کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ، ظلم اور باطل سے نفرت کرے۔ اسی طرح سے سچائی، انصاف اور حق کی اعانت جھوٹ، ظلم اور باطل کی مخالفت کے بغیر ممکن نہیں۔ خودی کے تخلیقی عمل کے ہر قدم پر جس طرح سے حق یا حسن ایک نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے اسی طرح سے باطل بھی ایک نئی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے اور حق یا حسن کی اس شان سے ہمکنار ہونے کے لئے باطل کی اس نئی صورت کو فنا کرنا خودی کے لئے ضروری ہوتا ہے ابلیس باطل کی قوتوں پر مسلط ہے۔ خودی کے لئے ضروری ہے کہ ان قوتوں سے کسی حالت میں بھی صلح نہ کرے بلکہ ان کے بالمقابل اپنی جلالی صفات کا مظاہرہ کرے اور ان کے ساتھ پوری قوت سے نبرد آزما ہو کر ان کو راستہ سے ہٹا دے ورنہ اس کی ترقی اور تکمیل خطرہ میں پڑ جائے گی: بزم یا دیواست آدم را وبال رزم یا دیواست آدم را کمال جلال کی تائید کے بغیر جمال بے اثر اور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ وہ غیر محفوظ اور غیر مکمل سمجھا جاتا ہے۔ جمال کا کمال یہی ہے کہ وہ جلال کے ساتھ ہو ورنہ وہ ناقص ہے اور نقص حسن کا نقیض ہے۔ نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بیباک تخریب تعمیر کیلئے ناگزیر ہے چونکہ کائنات کی تخلیق میں خدا کی صفات جلال و جمال دونوں اپنا کام کر رہی ہیں کائنات میں ربوبیت یا تعمیر اور استیصال یا تخریب بھی دونوں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کار فرما ہیں۔ تخریب تعمیر کی اغراض کے ماتحت اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے عمل میں آتی ہے لہٰذا کائنات کی تعمیر کی طرح تخریب بھی خدا کی محبت اور رحمت اور ربوبیت کی مظہر ہے اور خدا کی صفات جلالی بھی ویسی ہی قابل ستائش ہیں جیسی کہ صفات جمالی، قرآن حکیم میں ایک مقام پر ارشاد ہے کہ جو قوم خدا کے نشانات کو جھٹلایا کرتی تھی۔ خدا نے اسے تباہ کر دیا اور جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا اور پھر اس کے بعد آیت کا تتمہ ہے کہ سب ستائش اللہ کے لئے ہے جو اہل جہاں کا رب ہے اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس قوم کی ہلاکت بھی خدا کی محبت اور رحمت اور ربوبیت کا مظہر تھی اور یہ وہ صفات ہیں جن کی وجہ سے خدا ستائش کے لائق ہے اس لئے کہ اگر یہ قوم تباہ نہ ہوتی تو تخلیق حسن کے راستہ میں بدستور ایک رکاوٹ بنی رہتی اور پھر کائنات کی ربوبیت اپنے کمال کو نہ پہنچ سکتی۔ قطع دابر القوم الذین کذبوبا بایات الدوا الحمد للہ رب العلمین۔ (اور ان لوگوں کی جڑ کٹ گئی جنہوں نے خدا کے نشانات کو جھٹلایا تھا اور سب ستائش اللہ کے لئے ہے جو اہل جہان کا رب ہے) ایک باغبان اپنے باغ کے حسن کو قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہے کہ درختوں کے نیچے اور کیاریوں میں سے ایسے پودوں کو اکھاڑ کر باہر پھینک دے جو اس کے مقصد کے مطابق نہیں اور غیر ضروری ہونے کے علاوہ ان پودوں اور درختوں کی کھاد اور نمی کو جذب کر لیتے ہیں جن پر باغ کے حسن کا دار و مدار ہے اس کے لئے درانتی کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ پودوں کو کھاد اور پانی مہیا کرنا اس کے تخریبی کام کے بغیر اس کا تعمیری کام بار آور نہیں ہو سکتا لہٰذ ا اس کا تخریبی کام بھی قابل ستائش ہے اس نکتہ کو سمجھانے کے لئے مولانا روم ایک درزی کی مثال دیتے ہیں۔ جب ایک درزی کوٹ تیار کرنے لگتا ہے تو کپڑے کو بہت سے ٹکڑوں میں کاٹ دیتا ہے اور پھر بعض ٹکڑوں کو چن لیتا ہے اور بعض کو بیکار سمجھ کر رد کر دیتا ہے اسے بجا طور پر کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے کپڑے کے ایک حصے کو کیوں ضائع کر دیا ہے۔ عمل تخلیق میں حق کے ساتھ باطل نیکی کے ساتھ بدی اور زیبائی کے ساتھ زشتی کا ظہور ضروری رہے الغرض خودی کی فطرت کی بنا پر جس میں جمال اور جلالی دونوں قسم کی صفات موجود ہیں یہ ضروری ہے کہ جب خودی ایک حسین اور کامل نصب العینی مخلوق کو بتدریجی وجود میں لانے کا عمل شروع کرے تو اس عمل کی ابتدا کے ساتھ ہی حسن کے بالمقابل قبح زیبائی کے بالمقابل زشتی، حق کے بالمقابل باطل اور نیکی کے بالمقابل بدی فوراً موجود ہو جائیں جب تک تخلیق کا آغاز نہ ہو اس وقت تک عملی طور پر معلوم نہیں ہو سکتا کہ کون سی چیز مقصد تخلیق کے مطابق ہے اور کون سی غیر مطابق لہٰذا حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ حسن کیا ہے اور قبح کیا ہے زیبائی کیا ہے، اور زشتی کیا ہے، نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے، خیر کیا ہے اور شر کیا ہے، جب تک شاخ نہ پھوٹتی نہ گل ہوتا ہے اور نہ خار اور جب پھوٹتی ہے تو دونوں نکل آتے ہیں اسی طرح سے جب تک خودی تخلیق کا آغاز نہیں کرتی زشت اور نکو دونوں کا وجود نہیں ہوتا لیکن جب آغاز کرتی ہے تو دونوں خود بخود بیک وقت نمودار ہو جاتے ہیں۔ ورنہ تخلیق جاری ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ تخلیق ترک زشت اور اختیار نکو کا ہی نام ہے: چہ گویم نکتہ زشت و نکو چیست زبان لرزو کہ معنی پیچ دار است برون از شاخ بینی خار و گل را درون او نہ گل پیدا نہ خار است تخلیق سے روگردانی کفر ہے انسان جب بھی نیکی اختیار کرتا ہے اور بدی ترک کرتا ہے تو خدا کے مقصد کی تائید کرتا ہے اور خدا کی تخلیق میں شریک ہوتا ہے اگر وہ خدا کی تخلیق میں شریک نہ ہو ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بدی کو اختیار کر لیاہے اور نیکی کو ترک کر دیا ہے اور وہ خدا کے تصور حسن اور مقصد تخلیق کا مخالف ہے ایسے شخص کو اگر کافر یا زندیق کہا جائے تو بالکل بجا ہے: ہر کہ اورا لذت تخلیق نیست پیش ماجز کافر و زندیق نیست لوح محفوظ اور تقدیر جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کائنات کی شعوری یا ذہنی حالت میں جسے قرآن حکیم نے لوح محفوظ یا ام الکتاب یا کتاب مبین یا کتاب محفوظ کہا ہے تخلیق کے امکانات کے تمام سلسلے موجود ہوتے ہیں اور ہر سلسلہ امکانات آزادانہ طور پر ظہور پذیر ہو کر رد یا قبول کئے جانے کے لئے مہیا ہوتا ہے۔ تاہم ان میں سے صرف ایک سلسلہ امکانات ایسا ہوتا ہے جو خدا کے مقصد سے پوری پوری مطابقت رکھتا ہے اور قبول ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی حقیقت کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق کے آزاد ہونے کے باوجود کیوں قرآن نے فرمایا ہے کہ کوئی خشک یا تر چیز لوح محفوظ سے باہر نہیں ’’ ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین 59‘‘ او رایک حدیث میں ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ لکھا گیا ہے اور اسے لکھنے کے بعد قلم خشک ہو گیا ہے کہ اس سے اور کچھ لکھا نہیں جا سکتا (جف القلم بما ھو کائن)کائنات کی اسی شعوری حالت کو اقبال زمان خالص کہتا ہے اسی زمان خالص کو قرآن حکیم نے تقدیر کا نام بھی دیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ زمان خالص جیسا کہ ہمارے شعوری تجربہ کے گہرے تجزیہ سے آشکار ہے الگ الگ رجعت پذیر واقعات کی ایک لڑی نہیں بلکہ ایک عضوی کل ہے جس میں ماضی پیچھے نہیں رہ جاتا بلکہ حال کے ساتھ رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ مستقبل زمان خالص کے لئے ایک طے شدہ حقیقت کے طور پر موجود ہوتا ہے لیکن ان معنوں میں نہیں کہ وہ سامنے پڑا ہوا ہے اور اسے فقط عبور کرنا باقی ہے بلکہ ان معنوں میں کہ وہ اس کی فطرت میں ایک ایسے امکان کی حیثیت سے موجود ہوتا ہے جسے آزادانہ طور پر رد یا قبول کیا جا سکتا ہے۔ جب زمان کو اس طرح سے ایک عضوی کل کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اسی کو قرآن حکیم نے تقدیر کا نام دیا ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے عالم اسلامی کے اندر اور باہر نہایت ہی غلط طور پر سمجھا گیا ہے۔ تقدیر زمان کی وہ حالت ہے جس میں اس کے ممکنات ابھی پردہ خفا سے باہر آئے ہوئے نہیں ہوتے۔‘‘ قرآن حکیم کا نظریہ تخلیق اور خودی تخلیق کائنات کے متعلق اقبال کا یہ نظریہ کہ اس کا بنیادی سبب خدا کی صفت محبت کا اظہار ہے قرآن حکیم کے ارشادات کے مطابق ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے۔ ایک کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ 1 ما خلقنا السموات والارض وما بینھما لا عبین ما خلقنا ھما الا بالحق ولا کن اکثر بہم لا یعلمون (ہم نے کائنات کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ہم نے اسے بالحق پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے) 2خلق السموات والارض بالحق ان فی ذالک لا یتہ للمومنین (خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے بے شک اس حقیقت کے اندر اس پر ایمان لانے والوں کے لئے خد اکا ایک نشان ہے) 3وخلق اللہ السموات والارض بالحق، لتجزی کل نفس بما کسبت وہم لا یظلمون (اور خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے تاکہ ہر جان کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے اور ان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا) بعض قدیم و جدید مفسرین نے بالحق سے مراد یہ لی ہے کہ کائنات کی تخلیق بے مقصد نہیں بلکہ یہ کسی ’’ نظام اور قانون‘‘ کسی’’ ضبط اور ترتیب‘‘ اور کسی’’ حکمت اور مصلحت‘‘ کے مطابق ہے لیکن جب ہم اوپر کی آیات میں سے آیت نمبر ایک کی روشنی میں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ قرآن حکیم کے نزدیک بالحق کا جو مفہوم بھی ہے وہ کھیل یا لعب کے برعکس ہے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے تو بالحق کی یہ تفسیر قرآن حکیم کے مفہوم کو پوری طرح سے ادا نہیں کرتی۔ لعب اور تخلیق میں فرق کیونکہ اگر ہم کسی کھیل پر مثلاً فٹ بال، کرکٹ یا شطرنج وغیرہ پر غور کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر کھیل کا بھی ایک مقصد یا نصب العین ہوتاہے مثلاً فٹ بال کھیلنے والی ٹیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ رکاوٹوں کے باوجود زیادہ سے زیادہ گول سے جیتے و علی ہذا القیاس اور پھر ہر کھیل کے عمل کے لئے کھیل کے مقصد کے ماتحت اور اس کے تنگ دائرہ کے اندر بھی ایک ’’ نظام اور قانون‘‘ ایک’’ ضبط اور ترتیب‘‘ اور ایک ’’ حکمت اور مصلحت‘‘ کا وجود ہوتا ہے۔ دراصل ایک کھیل اور سنجیدہ عمل میں فرق یہ نہیں کہ ایک کا مقصد نہیں ہوتا اور دوسرے کا مقصد ہوتا ہے۔ بلکہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ کھیل کا مقصد نقلی اور فرضی اور بناؤٹی ہوتا ہے جس کا خودی کی فطرت کے سچے تقاضوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کے برعکس سنجیدہ عمل کا مقصد خودی کی غیر مبدل فطرت اور اس کے نصب العین کی محبت سے پیدا ہوتا ہے اور خودی کی آرزوئے حسن کی تشفی کرتا ہے حق خدا کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے۔ خدا حق ہے کیونکہ قائم بالذات لازوال اور ثابت اور انمٹ ہے۔ فذالکم اللہ ربکم الحق (یہ تمہارا پروردگار ہے جو حق ہے) فتعالی اللہ الملک الحق (پس بلند ہے اللہ جو بادشاہ ہے برحق) خدا کی ذات کی مرکزی صفت محبت بھی حق ہے اور اس کے سلسلہ میں اس کے شوؤں اور کوائف کے طور پر اظہار پانے والی جملہ صفات جلال و جمال بھی حق ہیں اسی طرح سے خدا کی محبت اور جملہ صفات جمال و جلال کا مقصود اور مطلوب یعنی خدا کا نصب العین (یا آئندہ زمانہ میں حالت کمال کو پہنچنے والی کائنات یا نوع انسانی) بھی حق ہے کیونکہ وہ خدا کی صفات حقہ سے پیدا ہوتا ہے اور ان کا مرجع اور مظہر ہے۔ اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں باقی ہے فقط نمود سیمیائی تخلیق بالحق کا مطلب لہٰذا تخلیق بالحق کا مطلب ہے ایسی تخلیق جو خدا کی صفات حقہ کے اظہار کے لئے عمل میں آئی ہو اور جس میں خدا کی صفات حقہ کا اظہار ہو رہا ہو۔ کائنات کی تخلیق تخلیق بالحق ہے کیونکہ یہ خدا کی صفات کے اظہار کے لئے عمل میں آئی ہے اور اس میں خدا کی صفات جلوہ گر ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے کائنات کی تخلیق بالحق کو خدا کی ہستی اور صفات کاا ور نیز اس بات کا کہ خدا پر ایمان لانا ضروری ہے ایک نشان یا ثبوت کہا ہے۔ خلق السموات والارض بالحق ان فی ذالک لایہ للمومنین۔ (خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے بے شک اس حقیقت پر ایمان لانے والوں کے لئے اس کے اندر خدا کا ایک نشان یا ثبوت موجود ہے) تخلیق بالحق میں نشان راہ کائنات کی تخلیق بالحق ایک نشان اس لئے ہے کہ اول جو اس پر ایمان لائے گا اسے یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ اسے حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کرنا ہے ورنہ وہ باطل کے ساتھ خود بھی پس جائے گا۔ دوئم: چونکہ کائنات کی تخلیق تخلیق بالحق ہے وہ خدا کی صفات کی جلوہ گاہ ہے اور لہٰذا خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اگر کائنات کی تخلیق بالحق نہ ہوتی تو اس میں خدا کی مرکزی صفت محبت کا اظہار نہ ہوتا یعنی اس کا مقصد خدا کا کوئی سچا اور محبوب نصب العین نہ ہوتا اور اگر ا س میں صفت محب کا اظہار نہ ہوتا تو اس میں ربوبیت یعنی تدریجی تربیت اور تکمیل بھی نہ ہوتی اور چونکہ خدا کی تمام صفات ربوبیت کے عمل میں اظہار پاتی ہیں لہٰذا اس صورت میں کائنات کے اندر خدا کی صفات جمال و جلال کا اظہار نہ ہو سکتا۔ پھر اس تخلیق کا مشاہدہ اور مطالعہ ہمارے لئے معرفت حق کا سبب نہ بن سکتا لیکن چونکہ کائنات کی تخلیق بالحق ہے کائنات خدا کی ہستی اور صفات کا نشان اور خدا پر ایمان لانے کی ضرورت کا ثبوت اور خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کائنات کی تخلیق بالحق نہ ہوتی تو ہم ایمان لانے کے لئے مکلف اور جزا اور سزا کے مستحق نہ ٹھہرتے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا ہے: وخلق اللہ السموات والارض بالحق لتجزی کل نفس بما کسبت وہم لا یظلمون (اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بالحق پیدا کیا ہے تاکہ ہر جان کو اس کے عمل کی جزا یا سزا ملے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا) فرضی نصب العین اور غلط نصب العین میں فرق نہیں کھیل کے نقلی بناوٹی اور فرضی نصب العین سے جو عمل سر زد ہوتا ہے وہ انسان کو اس کے فطری مقصود حیات کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں لے جاتا چونکہ غلط نصب العین بھی فرضی نصب العین کی طرح انسان کو اس کے فطری مقصود کی طرف بڑھنے نہیں دیتا لہٰذا غلط نصب العین کا معتقد بھی فرضی نصب العین کے پرستار کی طرح ایک بیکار مشغلہ یا کھیل میں مصروف رہتا ہے اگر ایسے شخص کو اس دنیا کی زندگی میں سفلی خواہشات کی بے لگام تشفی کی وجہ سے ایک گونہ عارضی مسرت یا راحت نصیب ہو جائے تو اس پر اترانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ اس کا انجام خدا کا وہ عذاب ہے جو انسان کو اپنے فطری تقاضوں کو روکنے، دبانے یا نظر انداز کرنے کی وجہ سے جھیلنا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غلط نصب العینوں کی پیروی کرنے والوں کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کا دین لہو و لعب ہے کیونکہ ان کا نصب العین دنیاوی زندگی کا تعیش ہے خدا نہیں۔ وذر الذین اتخذو دینھم لعبا وغرتھم الحیوۃ الدنیا وذکربیہ ان تبسل نفس بما کسبت(6:70) (اور جن لوگوں نے کھیل اور تماشا کو اپنا دین بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے۔ ان سے کوئی سروکار نہ رکھئے اور قرآن سے ان کو ڈراتے رہئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی جان اپنے کئے کی وجہ سے ہلاک ہو) لعب اور تخلیق میں دوسرا فرق کھیل اور سنجیدہ عمل میں دوسرا فرق یہ ہے کہ کھیل کے نتیجہ کے طور پر فریقین میں سے کوئی بھی ہار سکتا ہے اور پھر اس میں نہ ہارنے کی کوئی اصلی اور حقیقی سزا ہے اور نہ جیتنے کا کوئی اصلی اور حقیقی انعام ہے۔ اگر کوئی سزا یا انعام ہے تو وہ بھی نقلی اور بناوٹی ہے اور کھیل ہی کا ایک حصہ ہے اس کے برعکس سنجیدہ عمل کے نتیجہ کے طور پر ہمیشہ ایک فریق کی فتح ہوتی ہے اور وہ اہل حق کا گروہ ہوتا ہے اور ہمیشہ دوسرے فریق کی ناکامی اور رسوائی ہوتی ہے اور وہ اہل باطل کا گروہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر خدا نے کوئی کھیل کھیلنا ہوتا تو وہ اس کائنات کی صورت میں نہ ہوتا جو حق و باطل کی رزم گاہ ہے اور جس میں حق ہمیشہ باطل کا سر کچل دیتا ہے باطل ہمیشہ حق سے مار کھاتا ہے اور جو اس بناء پر کھیل کے ہر وصف سے خالی ہے بلکہ خدا کا کھیل کہیں اس کی اپنی فرشتوں کی مجلس میں قائم ہوتا جہاں باطل نہ موجود ہوتا نہ کچلا جاتا۔ لیکن اس کائنات میں باطل کا جو انجام ہونے والا ہے اس کے پیش نظر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس سے علاقہ نہ رکھے۔ اس مضمون کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا ہے: وما خلقنا السماء والارض وما بینہما لا عبین لو اردنا ان تتخذلھوا لا خذنا من لدنا ان کنا فعلین بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ھوا زاھن ولکم الویل مما تصفون (21:16) (اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات کو بطور ایک کھیل کے نہیں بنایا اور اگر ہم کوئی کھیل قائم کرنا چاہتے تو اپنے قریب کی فرشتوں کی مجلس میں قائم کر لیتے بشرطیکہ ہم یہ چاہتے بلکہ یہ کائنات حق و باطل کا میدان کار زار ہے جہاں ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں اور حق باطل کو سر کچل دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مٹ جاتا ہے جو کچھ تم کہتے ہو اس کے لئے تم پر افسوس ہے) تخلیق بالحق کے مضمرات اگر کائنات ایک کھیل کے طور پر بنتی ہے تو اس کے لاتعداد نصب العین ممکن تھے کیونکہ فرضی اور بناوٹی نصب العینوں کی کوئی حد نہیں ہو سکتی لیکن سچا نصب العین جس کا تقاضا خودی کی فطرت کی مضمر ہے فقط ایک ہی ہو سکتا ہے جب نصب العین خودی کی فطرت کے مطابق ہو یعنی حق ہو تو جو وجود نصب العین بنتا ہے وہ بھی حق ہوتا ہے اور حق کی خوبیوں اور قوتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے لہٰذا اس وجود کو جہاں تک ممکن ہو خود بھی اپنی نصب العینی صورت کی جانب بدلنا اور ڈھلنا پڑتا ہے اور اس غرض کے لئے ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامنا کر کے ان کو راستہ سے ہٹانا پڑتا ہے اگر وہ وجود اپنی نصب العینی صورت میں نہ ڈھل سکے اور کاوٹوں اور مشکلوں کے ساتھ تعاون کرے تو خدا کا جلال اس کو ان رکاوٹوں اور مشکلوں کے سمیت برباد کر کے خدا کے سچے نصب العین کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے اسی بنا پر قرآن حکیم نے بھی یہ دعا سکھائی ہے: ربنا ما خلقت ھذا باطلافقنا عذاب النار ترجمہ: اے ہمارے پروردگار تو نے یہ کائنات (بالحق پیدا کی) بالباطل پیدا نہیں کی لہٰذا (اگر ہم کائنات کے سچے نصب العین کے مطابق خود ڈھل نہ سکیں تو ہماری مدد فرمائیے اور) ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ چیز جو خدا کی صفات جمال و جلال کے عمل اور اظہار کی (یا دوسرے لفظوں میں خدا کے نصب العین کی) ممد و معاون ہے حق ہے اور ہر وہ چیز جو خدا کی صفات جمال و جلال کے عمل و اظہار کی (یا خدا کے نصب العین کی) ممد و معاون نہیں باطل ہے۔ قائما بالقسط کا مطلب خدا کا نصب العین جو برحق ہے خدا کی صفات برحق کا تقاضا ہے اور خدا کی صفات کے اظہار سے ہی عالم وجود میں آ سکتاہے۔ لہٰذا اس کی تخلیق اور تکمیل ان خاص قوانین اور ضوابط کے ماتحت ہوتی ہے جو خدا کی صفات کے اندر بالقوہ موجود ہیں اور اس کے نصب العین کے مطابق ہیں۔ کائنات اپنی سطح پر خواہ وہ مادی ہوں یا حیوانی یا انسانی خدا کے حکم سے ان قوانین و ضوابط پر چلنے کے لئے مجبور ہے ان ہی قوانین و ضوابط کو قرآن مجید نے قسط (عدل) کہا ہے جس کو خدا نے اپنی کائنات میں قائم کر رکھا ہے کہ وہ ایک خاص نصب العین کی سمت میں جو حق ہے اور جس کا پا لینا اس کے لئے ضروری ہے آگے بڑھ رہی ہے۔ بسا اوقات انسان چاہتا ہے کہ حق کے مقتضیات سے بے پرواہ ہو کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرے اور اس کی خواہشات حق کے تابع نہ ہوں بلکہ حق اس کی خواہشات کے تابع ہو جائے لیکن ایسا نہ ہو سکتا ۔ حق تابع نہیں بلکہ متوع ہے اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جات اکیونکہ یہ نظام اپنے مقصد یا نصب العین پر قائم ہے اور اس صوت میں کائنات کا کوئی مقصد یا نصب العین باقی نہ رہ سکتا ۔ لواتبع الحق ھوا ہم لفست السموات ولارض ومن فیھن۔ اگر حق ان کے تابع ہو جائے تو آسمان اور زمین میں اور جو مخلوقات ان کے درمیان بس رہی ہے ان میں فساد برپا ہو جائے۔ یہی مطلب قرآن حکیم کے اس ارشاد کا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات خدا کے تابع فرمان ہیں۔ لہ اسلم من فی السموات والارض آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات خدا کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ تمام قوتیں جو کائنات کے نصب العین کی مخالف ہیں اور لہٰذا حق نہیں بلکہ باطل ہیں ان قوتوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں جو کائنات کے نصب العین کی معاون ہیں اور لہٰذا باطل نہیں بلکہ حق ہیں قرآن حکیم کی تعلیم وہ قوت ہے جو حق ہے اس کے ظہور کے بعد آخر کار تمام باطل تعلیمات کا مٹ جانا ضروری ہے۔ قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (کہہ دیجئے کہ وہ تعلیم جو حق تھی آ گئی اور وہ تعلیمات جو باطل تھیں مٹ گئیں بیشک باطل اپنی فطرت کی وجہ سے مٹ جانے والا ہے) انسان کی آرزوئے حسن حق کی محبت انسان کے اندر نمودار کر دی گئی ہے تاکہ انسان بھی خدا کے نصب العین کی تکمیل کے لئے اس کا شریک کار بن جائے اس نصب العین کی تکمیل انسان کی اپنی ہی تکمیل ہے اس طرح خدا اور انسان کا نصب العین بالاخر ایک ہی ہے گویا اگر انسان حق کا اتباع کرے تو کسی پر احسان نہیں کرے گا بلکہ اس میں اس کا اپنا ہی فائدہ ہو گا اور اس سے اسے اپنی ہی فطری محبت کی تشفی حاصل ہو گی۔ یایھا الناس قد جاء کم من ربکم فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ اے لوگو تمہارے پاس وہ تعلیم جو (حق کا عمل اور اظہار ہے اور لہٰذا) حق ہے پہنچ گئی ہے جو شخص اس سے مستفید ہو کر راستہ پائے گا اس کی ہدایت اپنی ہی جان کے لئے ہو گی۔ تخلیق کی اولین صورت جب خداوند تعاولیٰ نے اپنے تصور حسن یعنی انسانیت کاملہ کے تصور کو قول کن کہا تو خارج میں انسانیت کاملہ کی اولین صورت جو وجود میں آئی وہ ایک قسم کے نور کی شکل میں تھی جو ایک خاص قسم کی برقی لہروں پر مشتمل تھی جنہیں اب سائنس دان کاسمک شعاعوں یا کائناتی شعاعوں کا نام دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نور ہے نور خدا کے اسماء حسنی میں ایک ہے اور نور سے جو چیز سر زد ہو وہ نوری ہو سکتی ہے۔ لیکن خدا کے نور میں اور اس نور میں فرق یہ ہے کہ خدا کا نور روحانی اور غیر مادی اور غیر مخلوق اور بے مثل ہے وہ زندہ ہے بلکہ خود زندگی یا خودی یا حیات یا روح ہے اور اسے ہم ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے اور یہ نور مادی اور مخلوق ہے اور اس کا خالق اس کی مماثل صفات رکھنے والا کوئی اور نور بھی پیدا کر سکتا ہے۔ چونکہ نور سب سے پہلی مادی چیز ہے جو خدا نے پیدا کی لہٰذا نور مادی اشیاء میں سب سے زیادہ خدا کے قریب ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان اشیاء میں سب سے زیادہ لطیف ہے یہاں تک کہ کوئی مادی چیز نہیں جو اپنی حرکت میں نور سے بڑھ کر رفتار حاصل کر سکے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ جدید طبیعیات کی تعلیم یہ ہے کہ نور کی رفتار سے زیادہ رفتار کسی چیز کی نہیں ہو سکتی اور یہ رفتار تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لئے یکساں رہتی ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کی اپنی حرکت کس نظام سے تعلق رکھتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نور مادی تغیرات کی اس دنیا میں ہستی مطلق سے قریب ترین چیز ہے۔‘‘ پھر جوں جوں یہ ابتدائی نور مادی طور پر پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہوتا گیا وہ اپنے مصدر حقیقی سے دور ہوتا گیا اور ا س میںکثافت آتی گئی یہاں تک کہ وہ مٹٰ بن گیا اور مٹی کی حالت میں آ کر وہ زندگی یا روح جو اس کے اندر مخفی تھی آشکار ہونے لگی لہٰذا وہ حیوان کی صورت میں آیااور پھر اپنی حیوانی ترقی کی انتہا پر انسان کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے نیچے کے تمام حیوانات (جن میں خودی اتنی آزاد یا ترقی یافتہ نہیں کہ وہ خدا کے زندہ مقدس فوق الطبیعاتی یا روحانی نور کو سمجھ کر اس کے لئے کشش محسوس کر سکیں اور جن کے شعور میں کائنات کی ہر چیز کی طرح خدا کی محبت چھپی ہوئی ہے) مادی نور کے لئے ایک نہ ایک رنگ میں کشش محسوس کرتے ہیں اگر پروانہ شمع کے نور پر فدا ہے تو چکور چاند کے نور پر جان چھڑکتی ہے پرندے سمندروں میں روشنی کے میناروں کے ارد گرد رات بھر چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ زندگی خدا کے نور کو مادی نور سے اس وقت ممیز کرنے لگتی ہے جب وہ انسان کی صورت میں خود شعر اور خود نگر ہو جاتی ہے اس مادی نور میں جو انسانیت کاملہ کی اولین صورت تھی خدا کا نور خدا کی محبت کی صور میں بطور جان کے چھپا ہوا موجود تھا اس لئے خدا نے اپنے آپ کو کائنات کا نور کہا ہے: اللہ نور السموات ولارض (اللہ کائنات کا نور ہے) تخلیق اور حرکت خدا کے قول کن میں خدا کی محبت ہی نہیں بلکہ اس کے ارادہ تخلیق کی قوت اور اس کے حکم کا زور بلکہ اس کی تمام صفات جمال و جلال پوشیدہ تھیں خدا کی اسی ارادہ یا حکم کے زور کی وجہ سے یہ مادی نور برقی لہروں کی صورت میں اپنے ارتقاء کی منزل مقصود یعنی تکمیل انسانیت کی منزل کی طرف متحرک ہوا۔ اس مخلوق نور میں حرکت اس لئے تھی کہ وہ خدا کے ارادہ تخلیق کا مظہر تھا اور خدا کے ارادہ تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ تخلیق کی ابتدائی حالت کو حرکت دے کر اس کی انتہائی حالت یا حالت کمال تک جو اس ارادہ نے اس کے لئے معین کر رکھی تھی پہنچائے لہٰذا حرکت شروع سے ہی عمل تخلیق کی ضروری علامت کے طور پر رونما ہوئی طبیعات کا ایک مسلم اصول ہے کہ حرکت بغیر قوت کے نہیں ہوتی اس ابتدائی مادی نور کی حرکت کا باعث خدا کے قول کن کی بے پناہ قوت تھی جو مادی نہیں بلکہ ارادی قوت تھی۔ اب بھی یہی قوت اپنی مختلف حالتوں سے گزرتی ہوئی کائنات کی تخلیق اور نشو و ارتقاء کے لئے کار پرداز ہے چونکہ یہ قوت خدا کی تمام صفات جمال و جلال کی حامل ہے اور خدا کی تمام صفات اس کے اندر کار فرما ہیں لہٰذا یہ قوت زندگی اور خودی سے الگ ہونے کے باوجود خود زندگی اور خودی ہے اگر اس قوت کی صفات جمال براہ راست اور بلا واسطہ تخلیق و ارتقاء کے مقاصد کے لئے کام کرتی ہیں تو اس کی صفات جلال تخلیق و ارتقاء کی رکاوٹوں کو دور کر کے بالواسطہ ان ہی مقاصد کی پیش برو کے لئے کام کرتی ہیں۔ انسانی خودی سے مراد جب اقبال کہتا ہے کہ خودی انسان میں رونماہوئی ہے تو وہ خودی اسی قول کن کی قوت کو کہتا ہے جو خودی یا زندگی کی تمام صفات جمال و جلال کی حامل ہے۔ یہی قوت روح انسانی ہے جس کے متعلق قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ خدا کا امر یا حکم ہے۔ اقبال کے اس خیال کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے کہ اقبال حلول کا قائل ہے لیکن دراصل جس طرح سے ایک مصور کی خودی یا شخصیت تصویر میں حلول نہیں کرتی اور اپنی تمام صفات کمال کے ساتھ تصویر میں جلوہ گر ہونے کے باوجود اس سے الگ تھلگ رہتی ہے اس طرح سے خدا کی ذات یا خودی اس کی مخلوق کائنات میں حلول نہیں کرتی بلکہ اپنی تمام صفات کمال کے ساتھ مادی حیوانی اور انسانی کائنات میں جلوہ ریز ہونے کے باوجود اس سے جدا رہتی ہے۔ تخلیقی کائنات کے مراحل یہاں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح سے قول کن کی تخلیقی قوت نے برقی لہروں کی حرکت سے کام لیا اور ان کو گرہوں کی شکل دے کر ایسی برقی اکائیاں بنا دیں جو یا تو بے بار تھیں یا مثبت اور منفی باروں (Charges) کی حامل تھیں اور جن کو ہم نیوتران، پروتان اور الکتران کہتے ہیں اور پھر کس طرح سے ان برقی اکاؤں کی باہمی کشش سے کام لے کر اس قوت نے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر جواہر (Atoms) کی شکل دے دی اور پھر کس طرح سے اس نے جواہر کی باہمی کشش کے ذریعہ سے ان کو عناصر کے سالمات (Maecules) کی شکل میں جوڑ دیا اور پھر کس طرح سے مادہ کے دھوئیں یا گیس کا ایک بہت بڑا بادل وجود میں آیا جو اور چھوٹے چھوٹے بادلوں میں بٹ گیا اور پھر کس طرح سے ان بادلوں سے تاروں کے جمگٹھے بن گئے اور سیاروں کے نظام وجود میں آئے جن میں سے ہمارا نظام شمسی ایک ہے۔ طبیعیات کی کتابوں میں اس مادی ارتقاء کی تفصیلات موجود ہیں اگرچہ زمانہ حال کی لادینی طبیعیات کے حکماء اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اصل قوت جو مادی ارتقاء کے پیچھے کام کر رہی تھی وہ خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کی قوت تھی حاصل یہ ہے کہ خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی بے پناہ قوت مادی نور کو ربوبیت یا ارتقاء کی منزلوں کی طرف برابر آگے دھکیلتی رہی اور وہ برابر ارتقاء کرتا رہا۔ اور اس کا مادی ارتقاء ہمارے کرہ ارض پر اس وقت مکمل ہوا جب مادہ اس قابل ہو گیا کہ زندگی کو جنم دے سکے اور جب وہ اس قابل ہوا تو پہلوا حیوان جو وجود میں آیا وہ ایک خلیہ کا حیوان تھا جسے امیبا کہتے ہیں جس طرح سے کائناتی نور انسان کی اولین مادی صورت تھی امیبا انسان کی اولین حیوانی شکل تھی پھر امیبا خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی قوت سے برابر ارتقاء کرتا رہا۔ یہاں تک کہ مکمل جسم انسانی نمودار ہوا۔ جسم انسانی کے ظہور پذیر ہونے کے بعد انسان کی ساری ترقی اس کی نفسیاتی یا نظریاتی ترقی ہے جو اس کے روحانی اور نظریاتی کمال کا باعث ہو گی۔ خدا کے حسن کی کشش ہر چیز میں ہے چونکہ خدا کے قول کن اصل خدا کی محبت ہے جو کشش اور جذب ہی کا دوسرا نام ہے لہٰذا ربوبیت کے کام کو جاری رکھنے کے لئے خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی قوت نے ہمیشہ کشش یا جذب کی صورت میں اپنا اظہار کیا ہے۔ طبیعیاتی مرحلہ ارتقاء میں اس کشش نے برقی قوت کے مثبت اور منفی باروں کی باہمی کشش اور تمام مادی قوانین کی شکل اختیار کی حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں ممد حیات اعمال و افعال کی کشش اور تمام حیاتیاتی قوانین کی صورت میں اپنا اظہار کیا اور انسانی مرحلہ ارتقاء میں نصب العین کی محبت کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جا بجا اس کا ذکر کیا ہے کہ آرزوئے حسن یا عشق ایک جذب یا کشش کی صورت میں دنیا کی ہر چیز کے اندر موجود ہے عشق ہی کی قوت سے مادی، حیاتیاتی اور انسانی سطح ارتقاء پر کائنات کے تمام تخلیقی اور ارتقائی اعمال جاری ہوتے ہیں یہ خدا ہی کی محبت یا آرزوئے حسن ہے یعنی خدا کی وہی آرزوئے حسن جس کا مقصد خدا کا اپنا نصب العین ہے جو انسان میں نمودار ہوئی ہے اور نمودار ہو کر منتہائے حسن یعنی خدا کی طلب گار ہوئی ہے اسی طلب حسن کے ذریعہ سے انسان اپنے حسن کے کمال کو پہنچے گا اور وہ نصب العینی انسان بنے گا جسے خدا پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر خدا کی یہ محبت جس کا حامل خدا کا قول کن ہے کائنات کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے باطن میں نہاں ہو کر آگے نہ جاتی تو انسان میں کیسے نمودار ہو سکتی تھی۔ خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے، اس کی کہیں سامان مسرت کہیں ساز غم ہے کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے سورج اور چاند کی گردش جس کا بنیادی سبب برق کے مثبت اور منفی باروں کی باہمی کشش ہے لا الہ یعنی خدا کی محبت کے اس سوز ہی سے ممکن ہوئی ہے جو بعد میں انسان کے اندر نمودار ہوا ہے بلکہ یہ سوز پہاڑوں میں اور گھاس کے تنکوں میں اور ہر چیز میں موجود ہے۔ مہر و ماہ گر دوز سوز لا الہ دیدہ ام ایں سوز را در کوہ و کاہ خدا کی محبت کے اس سوز اور زور سے ہی جو بعد میں انسان کے اندر نمودار ہوا ہے آسمان گردش کرتا ہے اور کائنات کا تمام کاروبار چلتا ہے یہی سوز محبت آفرینش کائنات کی غرض و غایت ہے۔ نقطہ ادوار عالم لا الہ انتہائے کار عالم لا الہ چرخ را از زور او گردنگی مہر را پائندگی رخشندگی بحر گوہر آفرید از تاب او موج در دریا تپید از تاب او خاک از موج نشیمن گل شود مشت پر از سوز او بلبل شود شعلہ در رگہائے تاگ از سوز او خاک مینا تابناک از سوز او نغمہ ہایس خفتہ ور ساز وجود جودیت اے زخمہ ور ساز وجود قرآن حکیم میں ہے کہ دنیا کی ہر چیز خدا کے حسن کی ستائش کرتی ہے۔ وان من شی الا یسبح بحمدہ (اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی پاکیزگی کی ستائش نہ کرتی ہو) اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ہر چیز میں خدا کی محبت ہے۔ خدا اپنے محبوب کی جستجو میں ہے کائنات کی ہر چیز بتا رہی ہے کہ خدا کا ایک محبوب ہے جو اس سے بچھڑا ہوا ہے اور جسے وہ اپنی مسلسل تخلیقی فعلیت کے ذریعہ سے تلاش کر رہا ہے خدا کی محبت کبھی لالہ کی خوبصورت پتیوں پر اپنا پیغام لکھتی ہے کبھی پرندوں کے سینوں سے نکلنے والی درد ناک ہاؤ ہو میں ظاہر ہوتی ہے کبھی نرگس کے پھول میں آ نکلتی ہے گویا کہ چاہتی ہے کہ نرگس کی آنکھ سے اپنے محبوب یعنی مستقبل کی کامل نوع بشر کا مشاہدہ کرے اور حسینوں کے کرشمے کیا ہیں گویا خدا ان کی حسین آنکھوں سے اپنی محبت کا پیغام سنا رہا ہے۔ زمان و مکان کیا ہیں گویا ہمارے فراق میں خدا کی ایک محبت بھری آہ ہے جس نے زمان و مکان کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک حسین و جمیل پیکر خاکی کے حسن کا دیدار کرنے کے لئے خدا نے پوری کائنات کا ہنگامہ برپا کیا ہے یہ تماشائے رنگ و محبوب کے نظارہ کے لئے ایک بہانہ ہے خدا اپنی محبت کی وجہ سے کائنات کے ذرہ ذرہ میں پوشیدہ ہے اور لہٰذا ہم سے نا آشنا ہے اس کے باوجود وہ ماہتاب کی طرح آشکار ہے اور اسی طرح کاخ و کو کی آغوش میں چمک رہا ہے۔ عرض زندگی کا ایک گوہر تابدار ہماری اس خاکی کائنات میں گم ہے کیا وہ خدا ہے جسے ہم تلاش کر رہے ہیں یا ہم ہیں جنہیں خدا تلاش کر رہا ہے بات ایک ہی ہے۔ یہ گوہر تابدار ہم ہوں یا خدا جب ایک ملے گا تو دوسرا بھی ساتھ ہی مل جائے گا۔ ماز از خدائے گم شدہ ایم و بحستجوست چوں ما نیاز مند و گرفتار آرز است گاہے بہ برگ لالہ نوسید پیام خویش گاہے درون سینہ مرغان بہ ہاؤ ہوست و نرگس آرمید کہ بیند جمال ما چنداں کرشمہ دان کہ نگاہش بہ گفتگوست آہے سحر گہی کہ زند در فراق ما بیرون و اندروں زبر و زیر چار سو ست ہنگامہ بست از پئے دیدار خاکئے نظارہ اور بہانہ تماشائے رنگ و بوست پنہاں ہر ذرہ ذرہ و نا آشنا ہنوز پیدا چوں ماہتاب و باغوش کاخ و کوست در خاکدان ما گہر زندگی گم است ایں گوہرے کہ گم شدہ ما ایم یا کہ اوست کروڑوں برس کا عمل ارتقا خدا کے ایک لمحہ میں سما جاتاہے ارتقاء کا یہ عمل ہمارے پیمانہ وقت کے مطابق کروڑوں برس کی مدت میں پھیلا ہوا ہے لیکن خدا کے نزدیک ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ کا جھپکنا گویا ادھر خدا نے قول کن کہا اور ادھر کائنات کی وہ حالت کمال وجود میں آ گئی جس کے بعد قیامت کا زمانہ آنا مقدر ہے۔ واما امر السا عما لا کملح البصر اوھو قرب (اور قیامت کا آنا ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ کا جھپکنا بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے) انما امر اذا اراد شیا ان بقول لہ کن فیکون (اس کے حکم کی یہ کیفیت ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے) لیکن اگر ہم وقت کے اپنے پیمانہ کے مطابق کائنات کی تخلیق کے عمل کا جائزہ لے رہے ہوں اور اس کی تفصیلات اور جزئیات کا مطالعہ کر رہے ہیں جیسا کہ ہم کرنے پر مجبور ہیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ آنکھ جھپکنے کی یہ مدت اس قدر طویل ہے کہ کروڑ ہا برس کا عمل ربوبیت یا عمل ارتقاء جس کا ایک حصہ گزر چکا ہے اور ایک ابھی باقی ہے اس کے اندر سمایا ہوا ہے اور جب سے نسل انسانی پیدا ہوئی ہے نسلاً بعد نسلاً اس عمل ربوبیت کا مشاہدہ کرتی جا رہی ہے آئن سٹائن کے نظریہ نے اب اس حقیقت کو ریاضیاتی طور پر منکشف کیا ہے کہ وقت ایک اضافی چیز ہے۔ شعور کی ہر سطح کے لئے وقت کا پیمانہ الگ ہوتا ہے ہمارے بعض خوابوں سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ ہماری بیداری کی حالت کا ایک لمحہ ہماری نیند کی حالت کے ئی گھنٹوں بلکہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ اسی طرح سو سال کا عرصہ موت کی حالت میں صرف ایک دن یا ایک دن کے حصہ کے برابر ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے: فاماتہ اللہ ماۃ عام ثم بعثہ قالم کم لبثت قال لبثت یوماً او بعض یوم (اور خدا نے اسے ایک سو سال تک حالت موت میں رکھا اور پھر اسے زندہ کیا۔ لوگوں نے پوچھا تم کتنا عرصہ حالت موت میں رہے تو اس نے جواب دیا ایک دن یا اس کا کچھ حصہ) پھر قرآن میں ہے کہ خدا کا ایک دن ہماری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ فی یوم کان مقدار الف سنہ مما تعدون (ایک ایسے دن جس کی طوالت تمہارے حسابات کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوتی ہے) اقبال لکھتے ہیں: ’’ اگر ہم اس حرکت کا جس کانام تخلیقی ہے خارج سے مشاہدہ کریں دوسرے الفاظ میں اگر ہم اسے ذہنی طور پر سمجھیں تو یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہزاروں سال کی مدت میں پھیلا ہوا ہے کیونکہ قرآن کی مصطفحات کے مطابق اور تورات کی مصطفحات کے مطابق بھی خدا کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے لیکن ایک اور نقطہ نظر سے یہ ہزاروں سال کا عمل تخلیق ایک واحد ناقابل تقسیم فعل ہے جو ایسا سریع الحرکت ہے جیسے کہ آنکھ کا جھپکنا۔‘‘ قول کن کی ممکنات تخلیق ایک آزادانہ فعل ہے تاہم اپنے مقاصد کا پابند ہے۔ تخلیق کا ارادہ ایک آزادانہ جمالیاتی وجدان (Aesthetic Judgement) کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ارادہ کی ممکنات اس کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ ارادہ کی ممکنات کا پہلے سے موجود ہونا ارادہ کی آزادی میں فرق پیدا نہیں کرتا۔ خدا کے قول کن کے اندر خدا کی تمام صفات اور ربوبیت کی تمام قدرتیں اور قوتیں اور تخلیق کی تمام ممکنات جمع تھیں۔ اس لئے تمام تخلیق قول کن کی ممکنات کا ظہور ہے جو قول کن کے اندر مخفی قوتوں کے عمل سے ممکن ہوا ہے۔ تمام مادی قوانین یعنی مادی اشیاء کی تمام کیفیات اور خاصیات خدا کے قول کن کی ممکنات تھیں جو ظہور پذیر ہو گئی ہیں اگر ان قوانین کی تخلیق کے پیچھے خدا کا ارادہ تخلیق یا خدا کا جذبہ محبت یا خدا کی ربوبیت کی قوت کام نہ کرتی تو یہ کبھی وجود میں نہ آ سکتے یہی سبب ہے کہ ارتقاء کا عمل ایسا ہے جیسے کہ ایک بیج کا اپنی ممکنات کو ظہور پذیر کرنا اور اسی اظہار سے بالآخر ایک مکمل درخت بن جانا۔ مکمل درخت بیج کے اندر بالقوہ موجود ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ باہر آتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارتقا کے ہر مرحلہ پر خواہ وہ مادی ہو یا حیاتیاتی یا نفسیاتی زندگی کو جو قوتیں بھی کسی وقت حاصل ہو جاتی ہیں ان ہی قوتوں اور صلاحیتوں کے عمل سے نئی قوتیں اور صلاحیتیں جنم لیتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ نئی قوتیں اور صلاحیتیں پرانی قوتوں اور صلاحیتوں کے اندر بالقوہ موجود تھیں۔ مثلاً اگر برقی کائناتی شعاعوں کے اندر جذب اور دفع کے عمل کی وجہ سے حرکت نہ ہوتی تو ان سے الکتران اور پروتان کی برقی گھکڑیاں پیدا نہ ہو سکتیں اور اگر ان گھکڑیوں کے اندر باہمی کشش نہ ہوتی تو ان سے سالمات تیار نہ ہو سکتے اور اگر سالمات کے اندر باہمی کشش نہ ہوتی تو ان سے ایک بڑا بنولا تیار نہ ہوتا اور اس کے اندر محوری حرکت پیدا نہ ہو سکتی اور اس حرکت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بنولے نہ بنتے اور ہمارا نظام شمسی اور ہماری زمین وجود میں نہ آ سکتے۔ اسی طرح سے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں ہر حیوان اپنی قوتوں کے عمل سے اور قوتیں پیدا کرت اہے اور پھر ان نئی قوتوں کے عمل سے اور نئی قوتیں پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ انسان ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ تاہم تخلیق کا عمل اپنے کسی مرحلہ میں بھی خداوندی قول کن کے حکم اور زور کے بغیر ایک قسم کے بعد دوسرا قدم نہیں اٹھا سکتا اور تخلیق کی کسی حالت کو بھی اگلی حالت میں نہیں بدل سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیق میکانکی اور مادی نہیں بلکہ ارادی اور روحانی ہے اور اپنے ہر قدم پر خدا کے حکم اور آزادانہ ارادہ تخلیق کا نتیجہ ہے جسے ہم سلسلہ اسلوب کہتے ہیں وہ در حقیقت قول کن کی ممکنات کا سلسلہ ہے اور خالق کے نصب العین کے ماتحت اور خالق کی آزادنہ تخلیق سے ظہور پذیر ہوتاہے۔ ارتقاء کیلئے حیوان کی جدوجہد حیوان کی وہ قوتیں جن کو ہم جبلتوں کا نام دیتے ہیں جذب اور دفع کی صورت میں ہوتی ہیں اور ان قوتوں کا عمل حیوان کی جدوجہد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اس جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حیوان ان چیزوں کو قریب لائے اور حاصل کرے جو اس کی بقا اور نشوونما کے لئے ممد و معاون ہوں او ران چیزوں سے گریز کرے یا راستہ سے ہٹائے جو اس کی بقا اور نشوونما کے لئے مضر اور مخالف ہوں۔ حیوانی مرحلہ ارتقاء میں ایسا ہوتا رہا ہیکہ جب حیوانات اپنے ان مقاصد کے حصول کے لئے جو ان جبلتوں سے پیدا ہوتے تھے کوشش کرتے تھے تو ان کی جدوجہد خودی کائنات کے ارادہ کی قوت کا آلہ کار بن کر اسے زیادہ سے زیادہ کار فرما ہونے کا موقع دیتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان حیوانات کے اندر ایسی نئی قوتیں اور جسمانی کفیتیں رونما ہو جاتی تھیں جو ان کے مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہوتی تھیں اور اس طرح سے ان کی جدوجہد زندگی کی مخفی صلاحیتوں کو کسی قدر اور آشکار کر دیتی تھی اور حیوانات کو ارتقاء کی آخری منزل یعنی مکمل جسم انسانی سے اس کی تمام معروف قوتوں اور صلاحیتوں کے سمیت قریب تر لے آتی تھی اسی جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ پرندوں نے پر پیدا کر لئے اور اڑنا یا چلنا یا چہچہانا سیکھ گئے اور ہم نے بھی آنکھ، کان، ہاتھ، دانت اور دماغ ایسے پیچیدہ اعضاء یا فکر، تخیل، یاد اور ہوش ایسے مفید قویٰ پیدا کر لئے دیکھنے کی خواہش نے جو جدوجہد ہم سے کرائی وہی ہماری آنکھ بن گئی اگر کبک میں شوخی رفتار کی تمنا نہ ہوتی تو اسے پاؤں میسر نہ آتے، بلبل گانے کی آرزو نہ کرتا تو منقار نہ پا سکتا۔ ہمارے تمام قویٰ ہماری خواہش اور خواہش کے مطابق جدوجہد کے نتیجہ کے طور پر ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ چیست اصل دیدہ بیدار ما بست صورت لذت دیدار ما کبک پا از شوخنے رفتار یافت بلبل از سعی نوا منقار یافت زندگی مرکب چو درجنگاہ تاخت بہر حفظ خویش ایں آلات ساخت جذب اور دفع کے مظاہر کا سبب چونکہ عمل ارتقاء کی قوت محرکہ وہی محبت ہے جو روز ازل سے خدا کے ارادہ تخلیق یا خدا کے قول کن میں مضمر تھی۔ لہٰذا اس قوت کا ایک پہلو محبت ہے اور دوسرا بیزاری۔ کیونکہ خدا کو ہر وہ چیز پسند ہے جو اس کے عمل تخلیق کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور ہر وہ چیز ناپسند ہے جو اس کے عمل تخلیق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن میں جا بجا اس کا ذکر ہے کہ کون سے انسانی اعمال خدا کو پسند نہیں اور کون سے پسند ہیں۔ خدا کے قول کن کی قوت کے یہ دونوں پہلو مادی مرحلہ ارتقاء میں مقناطیسی یا برقی جذب اور دفع کی قوتوں میں اور حیوانی مرحلہ ارتقاء میں میلان اور فرار کی جبلتوں میں نمودار ہوئے تھے اور اب انسانی مرحلہ ارتقاء میں نظریہ کی محبت اور ضد نظریہ کی نفرت کے جذبات کی صورت میں نمودار ہوئے ہیں۔ انسان ہر اس چیز سے محبت کرتا ہے اور اس کو قریب لانے یا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے نصب العین کے لئے ممد و معاون ہو اور ہر اس چیز سے نفرت یا گریز کرتا ہے اور اس کو دور کرنے یا اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے نصب العین کی مخالف ہو۔ کوشش یا جدوجہد جس طرح سے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں حیاتیاتی ترقی کی کلید تھی۔ اسی طرح سے اب انسانی مرحلہ ارتقا میں نظریاتی یا نفسیاتی ترقی کی کلید ہے۔ مزاحمت کے خلاف خودی کی جدوجہد انسان جب اپنے نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو وہ خدا کی عطا کی ہوئی قوت کا اظہار کرتا ہے لیکن یہ قوت فقط ایک ہے اور وہ خدا کے قول کن کی قوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے عمل سے خدا کے ارادہ یا قول کن کی قوت کو جو حرکت ارتقاء میں کار فرما ہے زیادہ سے زیادہ بروئے کار آنے کا موقعہ دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قول کن کی ان ممکنات کو جو اب اس کی تمنائے حسن یعنی خد اکی محبت کی صورت میں اس کی خودی کے اندر آ نکلی ہیں ظہور پذیر کرتا ہے وہ جس قدر زیادہ خدا کی جستجو کرتا ہے اسی قدر زیادہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کو بالفعل یا آشکار کرتا ہے اور اسی قدر زیادہ وہ ذات باری تعالیٰ کی صفات حسن کو جو قول کن کے اندر مضمر ہیں اپنے اندر ظہور پذیر کرتا ہے گویا وہ اپنی جدوجہد سے اگر خد اکی تلاش کرتاہے تو اپنے آپ کو پاتا ہے اور اگر اپنے آپ کو تلاش کرتا ہے تو خدا کو پاتا ہے۔ تلاش او کنی جز خود نہ بینی تلاش خود کنی جزو او نہ یابی خودی کی مزاحمت کا منبع کوشش یا جدوجہد کا مطلب یہ ہے کہ خودی یا زندگی ہر قدم پر مزاحمت سے دو چار ہوتی ہے جسے مٹانے کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ مزاحمت خود زندگی کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ماضی سے متشکل ہوتی ہے۔ زندگی کا ایک وصف یہ ہے کہ جب وہ ترقی کر کے ایک حالت کو پا لیتی ہے تو اس حالت کا ایک پہلو جہاں اگلی حالت کے نمودار کرنے کے لئے ممد و معاون ہوتا ہے وہاں اس کا دوسرا پہلو اس کے نمودار ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی یا زندگی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف نت نئی ترقیاں حاصل کرنا چاہتی ہے بلکہ اس غرض کے لئے ان ترقیوں کا بھی محفوظ کرنا چاہتی ہے جنہیں وہ ایک دفعہ حاصل کر لیتی ہے۔ اگر وہ ماضی کی ترقیوں کو محفوظ نہ کرے تو مستقبل کی ترقیوں کو حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ زندگی کا مستقبل اس کے ماضی کے بنیادوں پر تعمیر پاتا ہے۔ زندگی اپنی تخلیقی قوت کے عمل سے نئی نئی خاصیتیں اور کیفیتیں نمودار کرتی ہے۔ لیکن جونہی کہ زندگی ایک کامیابی حاصل کر لیتی ہے وہ کامیابی مستقل اور خود کار اور غیر مبدل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے زندگی اس کی طرف بے پرواہ ہو کر اگلی کامیابیوں کی طرف توجہ کرتی ہے لیکن جب وہ ایسا کرنے لگتی ہے تو جو کامیابیاں وہ حاصل کر چکی ہوتی ہے وہی زندگی کو پست تر سطح سے متعلق ہونے کے باعث اس کی اگلی منزل کے راستہ کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ حیوانی مرحلہ ارتقا میں خودی کی مزاحمت مثلاً مادی مرحلہ ارتقاء میں زندگی کی کامیابیاں مادی قوانین کی صورت میں نمودار ہوتی تھیں۔ یہ قوانین مستقل اور خود کار اور غیر مبدل ہیں اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی تھے بلکہ اس لئے کہ اب ان کو بدلنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ ماضی میں عرصہ دراز تک بدل بدل کر اغراض ارتقاء کے لئے بہتر اور بلند تر ہوتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے ایک ایسی شکل اختیار کر لی جو حیونای زندگی کے نمودار ہونے کے لئے موزوں تھی تو وہ مستقل اور غیر مبدل بن گئے۔ اورتغیر ان سے اوپر کی سطح زندگی پر نمودار ہو گیا۔ حیوانی مرحلہ ارتقاء میں زندگی کو ان ہی مادی قوانین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو اس نے خود ایک مقصد کے ماتحت ظہور پذیر کئے تھے۔ حیوانات مجبور تھے کہ ان قوانین کے خلاف جدوجہد کر کے اپنے آپ کو ان کے مخالفانہ عمل کی زد سے محفوظ کریں اور ان کی مزاحمت کے باوجود اپنے لئے خوراک مہیا کریں تاکہ اس طرہ سے اپنی اور اپنی نسل کی زندگی کو برقرار رکھ سکیں۔ ان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیوانات کی جبلتیں مختلف سمتوں میں جو زندگی کی فطرت یا نصب العین کے مطابق یا دوسرے لفظوں میں قول کن کی ممکنات کے مطابق تھیں ارتقاء کرتی رہیں اور اس عمل کے دوران میں بے شمار انواع حیوانات وجود میں آئیں۔ مادی قوانین کی مزاحمت پر فتح پانے کے لئے زندگی نے جو جدوجہد کی اس نے ممکن بنایا کہ زندگی جبلتوں کی صورت میں نئی کامیابیاں حاصل کر سکے یہ جبلتیں مادی قوانین ہی کی طرح ساتھ ساتھ مستقل اور غیر مبدل او خود کار ہوتی گئیں۔ اس طرح سے حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء کے ہر قدم پر زندگی کا ماضی جو اس کی مزاحمت کا موجب بنا۔ مادی قوانین کے علاوہ ان جبلتوں پر بھی مشتمل تھا جو مختلف انواع حیوانات کے اندر وجود میں آ کر مستقل اور غیر مبدل اور خود کار ہو گئی تھیں۔ گویا ہر حیوان اپنی جدوجہد میں نہ صرف مادی قوانین کی مزاحمت کا بلکہ اپنے اور دوسرے انواع حیوانات کے غیر مبدل جبلتی مقاصد کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنے پر مجبور تھا۔ اس طرح سے وہ انواع حیوانات کی ایک باہمی عالمگیر اور مسلسل جنگ میں شریک تھا۔ ہر نوع حیوانات کی جدوجہد ایک ایسے کردار کے مطابق سر زد ہوتی تھی جو اس کی جبلتوں کے مقاصد سے معین ہوتا تھا۔ نظریاتی مرحلہ ارتقا میں خودی کی مزاحمت نظریاتی یا نفسیاتی مرحلہ ارتقاء میں جو اب جاری ہے زندگی نہ صرف مادی قوانین کی مزاحمت کا بلکہ جبلتوں کی مزاحمت کا بھی سامنا کر رہی ہے حالانکہ جبلتیں مادی قوانین کی طرح زندگی نے اپنی حفاظت بقا اور ترقی کے لئے پیدا کی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی افراد نہ تو مادی قوانین مثلاً موسمی حالات اور کشش ثقل وغیرہ کی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے بغیر اپنی جبلتی اور حیاتیاتی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی جبلتی لذتوں کے حد سے بڑھے ہوئے مطالبات کا مقابلہ کرنے کے بغیر اپنی آرزوئے حسن کی (جو ان کی تمام فطری خواہشات میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے) تشفی کر سکتے ہیں ان کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے نظریات جس حد تک کہ وہ قول کن کی ممکنات اور زندگی کی مخفی تمناؤں کے مطابق ہیں۔ مختلف سمتوں میں ارتقا کر رہے ہیں اور اس عمل کے دوران میں بے شمار نظریاتی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ نظریاتی ارتقاء کے ہر بین مرحلہ پر زندگی کے ماضی میں نہ صرف مادی قوانین اور حیوانی جبلتیں شامل ہیں۔ بلکہ نظریاتی جماعتوں کے وہ نظریات بھی شامل ہیں جو اس مرحلہ سے پہلے وجود میں آ چکے تھے۔ لہٰذا اس مرحلہ ارتقاء پر ہر نظریاتی جماعت نہ صرف مادی قوانین اور جبلتوں کی مزاحمت کا سامنا کرتی ہے بلکہ اپنی تمام ہم عصر نظریاتی جماعتوں کے گوناگوں مقاصد کی مزاحمت کا بھی سامنا کرتی ہے۔ ہر نظریاتی جماعت کی جدوجہد ایک ایسے کردار کے مطابق سرزد ہوتی ہے جو اس کے نظریہ کے مقاصد سے متعین ہوتا ہے۔ یہ مقاصد ہر نظریاتی جماعت کے نصب العین حیات میں بالقوہ موجود ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کی زندگی میں آشکار ہوتے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ کردار مستقل اور غیر مبدل اور خود کار بن جاتا ہے اور اسی کو ہم نظریاتی جماعت کے قانون یا رسم و رواج کا نام دیتے ہیں۔ اس موقعہ پر اگر نظریاتی جماعت کے بعض افراد کسی اور نظریہ حیات کی محبت میں گرفتار ہو جائے تو ان کو اس قانون یا رسم و رواج کی قوت کے خلاف جدوجہد کرنا پڑتی ہے تاکہ اس کی مزاحمت کا خاتمہ کر دیں اگر وہ اس جدوجہد میں کامیاب ہو جائیں تو اس واقعہ کو ایک بابرکت انقلاب کا نام دی اجاتا ہے اور اگر کامیاب نہ ہوں تو اسے ایک خطرناک بغاوت کہا جاتا ہے جسے بر وقت دبا دیا گیا ہو۔ رکاوٹ خودی کی کوشش کو زور دار بناتی ہے زندگی اپنے ماضی کی طرف سے جس مزاحمت کا سامنا کرتی ہے وہ اس کی ترقی یا منزل مقصود کی طرف ا سکی رفتار کو کم نہیں کرتی۔ اس کے برعکس چونکہ یہ مزاحمت اس کی کوششوں کو تیز تر کر دیتی ہے وہ اس کی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرتی ہے۔ جس طرح سے ایک جوئے کہستان کو جب پہاڑوں کے ایک تنگ درہ میں سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ بڑے زور سے بہنے لگتی ہے یہاں تک کہ ان چٹانوں کو جو اس کے راستہ کو دشوار بنا رہی ہوتی ہیں کاٹ کر بہار دیتی ہے۔ اس طرح سے جب زندگی کی رو کسی مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد اسے فنا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہو تو اس کی قوت اپنی انتہا پر ہوتی ہے زندگی کسی تھوڑی سی مزاحمت کو بھی خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہو برداشت نہیں کرتی اور اس سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔اس کے برعکس جب بھی اسے کوئی مزاحمت در پیش آتی ہے۔ خواہ وہ ایک پہاڑ کے برابر ہو تو وہ اپنی ساری قوت کو جمع کر کے اسے نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کوشش میں کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ خواہ مزاحمت کیسی ہی شدید کیوں نہ ہو۔ زندگی اسے فنا کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ رکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ قرآن حکیم نے اس حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون (اور خدا اپنے مقصد پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں) اگر زندگی کو ایک راہ سے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے کا موقعہ نہ ملے تو یہ کسی رکاوٹ کا سامنا کرنے والی ندی ہی کی طرح اپنی منزل کی طرف ایک اور کامیاب راستہ نکال لیتی ہے۔ اس کی جدوجہد کا نتیجہ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف مزاحمت ہو جاتی ہے بلکہ اپنے آئندہ جدوجہد کو جاری رکھنے کے لئے وہ خود بھی نئی صلاحیتوں اور قوتوں سے آراستہ ہو جاتی ہے جن کی وجہ سے وہ ارتقاء کی بلند تر سطحوں پر قدم رکھتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی مزاحمت کے خلاف جدوجہد کر کے اس پر غالب آنا زندگی کی فطرت کا ایک تقاضا ہے جسے زندگی مطمئن کرنا چاہتی ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ اپنے اندر سے خود اپنی مزاحمت پیدا کرتی ہے اقبال بڑی وضاحت کے ساتھ خودی کی اس خصوصیت کا ذکر کرتا ہے۔ در جہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پیداشت است ساز و از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را اوپر کے حقائق کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں اقبال اپنی نظم میں جس کا عنوان ’’ ارتقائ‘‘ ہے ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح سے مشکل پسندی مشکل کشی اور جفاطلبی زندگی کی خصوصیات ہیں کس طرح سے زندگی اپنے راستہ کی رکاوٹوں کو للکارتی ہے اور پھر نہایت دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے ان کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔ کس طرح سے جدوجہد ہی وہ عمل ہے جس کی مدد سے زندگی ارتقاء کے مادی حیاتیاتی اور نظریاتی مرحلوں میں آگے بڑھتی ہے۔ کس طرح سے قوموں کی زندگی اور ترقی کا راز ان کی جدوجہد میں مضمر ہے اور کس طرح بے چینی اور اضطراب کے اس عالم میں مسلمان قوم کی موجودہ جدوجہد کا راز بھی یہی ہے کہ وہ زندہ رہنا اور ترقی کرنا چاہتی ہے۔ حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز سرشت اس کی ہے مشکل کشی جفا طلبی سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی ہزار مرحلہ ہائے فغان نیم شبی کشاکش زم و گرما تپ و تراش و خراش ز خاک تیرہ دروں تابہ شیشہ حلبی مقام بست و کشاد و فشار و سوز و کشید میان قطرہ نیساں و آتش غبی اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی خودی کی تکمیل کے مرحلے چونکہ ارتقاء کا مقصد فقط انسان کی تکمیل ہے اور انسان کی اصل ایک خودی ہے جو ایک مکمل جسم حیوانی میں مقیم ہوئی ہے اور یہ مکمل جسم حیوانی ایک مکمل مادہ سے بنا ہے ضروری تھا کہ کائناتی خودی کی تخلیقی فعلیت کی تین منزلیں قرار پاتیں۔ جن میں سے پہلی منزل تکمیل مادہ دوسری منزل تکمیل جسم حیوانی اور تیسری منزل تکمیل خودی ہوتی۔ ضروری تھا کہ پہلے اس کیچڑ یا مٹی کی تکمیل کی جاتی جس سے انسان کا جسم بنا ہے۔ مادی ارتقاء کے کروڑوں برس اس مٹی کی تکمیل میں صرف ہوئے اس مرحلہ ارتقاء میں جوئے حیات کی تیز روان دیرپا اور کار آمد مادی ذرات یا جواہر کی تعمیر کی سمت میں بہتی رہی جو انسانی جسم کی ساخت اور نشوونما اور اس کے قیام اور ارتقا کے ساز و سامان کی تیاری کے لئے ضروری تھے۔ ان جواہر کی تعمیر کے دوران میں اور قسم کے بھاری اور پیچیدہ جواہر بھی وجود میں آتے رہے لیکن چونکہ وہ ارتقا کے مقاصد سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ دیرپا نہ تھے اور ماضی میں ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوتے رہے اور آج تک فنا ہو رہے ہیں۔ کیچڑ یا مٹی کے مکمل ہونے کے بعد جب اس سے جسم انسانی کی ابتدائی حالت وجود میں لائی گئی تو ضروری تھا کہ اس کی اور تکمیل کی جاتی یہاں تک کہ وہ اس قابل ہو جاتاکہ اس کے اندر انسان کا جوہر جسے آزاد اور خود مختاری کہا جاتا ہے نمودار ہو جاتا۔ لہٰذا حیاتیاتی ارتقا کے کروڑوں سال انسان کے جسم کی تکمیل میں صروف ہوئے اس مرحلہ ارتقا میں جوئے حیات کی تیز رو انسان کے جسم کی ان ترقی پذیر شکلوں کی تعمیر کی سمت بہتی رہی جو متواتر کامل سے کامل تر بنتی رہیں۔ یہاں تک کہ بالآخر انسان کے مکمل جسم پر ختم ہوئیں اس مرحلہ میں اور قسم کی حیوانی شکلیں بھی انواع حیوانات کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی رہیں لیکن چونکہ وہ ارتقا کے مقاصد کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی تھیں لہٰذا وہ اس قابل نہ تھیں کہ زندہ رہ سکتیں۔ وہ ماضی میں فنا ہوتی رہیں اور ان کے فنا ہونے کا عمل اب تک جاری ہے۔ جسم انسانی کی تکمیل کے بعد جب اس میں خودی کا جوہر نمودار ہوا تو ضروری تھا کہ اس جوہر کی تکمیل کر کے اسے مکمل کر دیا جاتا تاکہ تخلیق اور ارتقا کا مقصد پورا ہو۔ لہٰذا نظریاتی ارتقا کے لاکھوں برس آج تک تکمیل خودی پر صرف ہو چکے ہیں اور معلوم نہیں کہ اور کتنی مدت اس پر صرف ہو گی۔ اس نظریاتی ارتقاء کے دوران ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف قسم کی نظریاتی اشکال نظریاتی جماعتوں کی صورت میں پیدا ہو رہی ہیں۔ جن میں سے اکثر ساتھ ساتھ مٹی جا رہی ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ ارتقاء کے آخری مقصد یعنی تکمیل انسان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں اس طرح سے اگرچہ ارتقا کے ان تینوں مرحلوں میں شاخ زندگی سے ہر آن پھول جھڑتے رہے ہیں۔ لیکن نئے پھول نکلتے بھی رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ شاخ متواتر اپنے کمال کی طرف نشوونما پاتی رہی ہے مجموعی طور پر زندگی کے حاصلات نہ کبھی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں او رنہ بے ثبات۔ علامہ اقبال کی زندگی کی ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے اور اس شاخ سے پھوٹتے بھی رہے سمجھتے ہیں نادان اسے بے ثبات ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات ایک پہاڑی ندی سے خودی کی مماثلت ارتقاء کے مختلف مراحل میں سے زندگی (یعنی قول کن کی قوت) کی نہ رکنے والی مسلسل پیش قدمی کو اقبال ایسی تیز رو ندی سے تشبیہہ دیتا ہے جسے پہاڑوں کے درمیان بہتے ہوئے چٹانوں کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں اور وہ دائیں یا بائیں مڑ کر ان سے بچتی ہوئی اور یا پھر انہیں اپنے تیز اور تند بہاؤ کے پھاوڑے سے کاٹتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔ وہ جوئے کوہستان اچکتی ہوئی اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ دیکھ دیکھ اے ساقی لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام ٭٭٭ دمادم رواں ہے یم زندگی ہر ایک شے سے پیدارم زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمو کہ شعلہ میں پوشیدہ ہے موج دود گراں اگرچہ ہے محنت آب و گل خوش آئی اسے صحبت آب و گل اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ببول اسی کے بیاباں اسی کے ہیں پھول کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور کہیں پر ہے شاہین سیماب رنگ لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ ٭٭٭ ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی، فقط ذوق پرواز ہے زندگی، بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے ہوا جب اسے سامنا موت کا کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا اتر کر جہان مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں مذاق دوئی سے بنی زوج زوج اٹھی دشت و کہسار سے موج موج ٭٭٭ زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی تجسس کی ہیں بدلتی ہوئی دمادم نگاہیں بدلتی ہوئی سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے خودی جو روز ازل سے اس طرح اپنی پیدا کی ہوئی رکاوٹوں کے ساتھ کشمکش میں مصروف تھی اور مادی اور حیاتیاتی ارتقاء کے طویل اور دشوار گزار راستہ پر آہستہ آہستہ مگر پورے استقلال کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ آخر کار جسم انسانی میں نمودار ہوئی اور اب اس کے ذریعہ سے اپنی ترقی کی آئندہ منزلوں کو طے کر رہی ہے۔ ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر انسانی خودی کا یعنی خدا کی محبت کے جذبہ کا ظہور اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان پہلا اور آخری حیوان ہے جو خود شعور ہے۔ یعنی جس کا شعور اپنے آپ سے آگاہ ہے۔ انسان اپنی خود شعوری کی وجہ سے یہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہے جو اس سے بچھڑا ہوا ہے اور جس کے بغیر اس کی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے وہ تصورات حسن قائم کرتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے اور اپنی عملی زندگی کو ان کی پیروی کے لئے وقف کرتا ہے لیکن صرف ایک ہی تصور حسن ایسا ہے جو اپنی صفات اور خصوصیات کی وجہ سے اس کی خودی کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے اور انہیں پوری طرح سے مطمئن کر سکتا ہے اور وہ خدا کا تصور ہے۔ انسان میں خودی کا اور اس کے ساتھ خدا کی محبت کے جذبہ کا ظہور نوع انسانی کی تکمیل کے اصلی عمل کا نقطہ آغاز ہے۔ اس سے پہلے مادہ کی تکمیل اور اس کے بعد جسم حیوانی کی تکمیل اس عمل کی تیاری کے مرحلے تھے اب خدا کی محبت کا عملی اظہار کرنے سے نوع انسانی اپنے اس حسن یا کمال کو پہنچے گی ۔ جو خدا کے قول کن کا مقصود ہے۔ خدا نے جس کے حسن و کمال کی کوئی حد نہیں۔ انسان کو اپنے حسن اور کمال کی آرزو کے ساتھ اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ انسان اس آرزو کی تشفی کر کے خدا کے رنگ میں رنگا جائے اور اس طرح سے اپنے حسن و کمال کو انتہا کو پہنچے۔ ارتقائے کائنات کے جس نقطہ پر انسان میں خودی کا ظہور ہوا وہاں کائناتی خودی نے گویا اپنا راز جو آفرینش کائنات میں مضمر تھا۔ آشکار کر دیا انسان کے اندر جوہر خودی کے نمودار ہونے کے عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ یہ گویا کائنات کا اپنے ارتقاء کے ایسے نقطہ پر پہنچ جانا ہے جہاں وہ اپنی راہ نمائی خود کر سکتی ہے اور جہاں حقیقت مطلقہ گویا اپنے راز کو آشکار کر دیتی ہے اور اپنی اصل حقیقت کا سراغ بہم پہنچاتی ہے۔‘‘ انسان میں خودی کے ظہور کا مطلب یہ تھا کہ ایک مشت خاک میں خدا کی محبت زندہ ہو گئی ہے اور دنیا میں پہلی دفعہ حسن کا قدر دان اور چاہنے والا پیدا ہوا ہے جو اپنی محبت کی وجہ سے خدا کا راز دار بن سکتا ہے۔ او رکائنات کے راز ہائے سربستہ کی پردہ دری کر سکتا ہے۔ سنگ و خشت کی دنیا تو بے اختیار اور مجبور تھی۔ لیکن اب ایک ایسا وجود ظہور پذیر ہو گیا ہے جو آزاد ہے اور آزادی عمل سے اپنی اصلاح کرکے اپنی شخصیت کی نئی تعمیر کر سکتا ہے۔ خدا کی آرزو یا محبت اپنی حیرت انگیز قوتوں سے بے خبر زندگی کے آغوش میں سوئی پڑی تھی لیکن اب اس نے اپنی آنکھیں کھول لی ہیں اور اب گویا اس کے لئے ایک ایسا دروازہ کھل گیا ہے جہاں سے وہ خدا کے حسن کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ خدا کی آرزو کی اس بیداری سے جہاں دگرگوں ہو گیا ہے اور پوری دنیا ہی بدل گئی ہے۔ نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد خبر سے رفت ز گردوں بہ شبستان ازل حذر اے پروگیاں پردہ درے پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہاں مجبور خود گرے خود شکنے خود نگرے پیدا شد آرزو بے خبر از خویش باغوش حیات چشم دا کر دو جہان دگرے پیدا شد زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ہمہ عمر تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد کہاں انسان خاک کا پتلا اور کہاں خالق کائنات خدا جو منتہائے حسن و کمال ہے۔ انسان میں خودی اور خودی کے ساتھ خدا کی محبت کے ظہور کا مدعا کیا ہے۔ عقل اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے ربوبیت قرآن حکیم کی رو سے کائنات کے اندر تدریجی تخلیقی کے عمل کا وجود ایک حقیقت ہے اور اس کا باعث خدا کی ربوبیت ہے قرآن کی سب سے پہلی آیت الحمد للہ رب العلمین اس حقیقت کا اعلان کرتی ہے۔ امام راغب نے اپنی کتاب’’ المفردات‘‘ میں ربوبیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ھو انشاء الشی حالاً فحالاً الی حد التمام (وہ کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت تک نشوونما دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی حالت کمال کو پہنچ جائے) قرآن کی رو سے خدا رب السموات والارض آسمانوں اور زمین کا رب ہے اس لئے کہ وہ کائنات کا ایک کل کی حیثیت سے تدریجی ترقی دے رہا ہے اور پھر حدیث کے الفاظ میں خدا رب کل شی ہر چیز کا رب ہے۔ کیونکہ وہ کائنات کی عمومی تربیت اور تکمیل کے سلسلہ میں کائنات کی ہر چیز کی تربیت اور تکمیل کرتا ہے۔ مغرب کے حکماء بھی اپنے مشاہدات کی بنا پر اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ کائنات میں تدریجی تکمیل کا عمل ہوتا رہا ہے اور وہ اس عمل کو ارتقا یا ایوولیوشن کا نام دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات کو آج تک نہیں سمجھا کہ اس کا بنیادی سبب ایک قادر مطلق خدا کی تخلیق فعلیت یا ربوبیت ہے اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ نوع انسانی اپنے حسن و کمال کی اس انتہا تک پہنچے جو اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ایوولیوشن کی حقیقت اور اس کو سمجھنے کی اہمیت کو ایک شعر میں بیان کیا ہے۔ ہے ایوولیوشن بس اک تفسیر رب العالمین! کاش اس نکتے سے واقف ہوں مسلمان اندنون ارتقاء اقبال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن حکیم اس نظریہ کی تائید کرتا ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے۔ اقبال لکھتاہے: ’’ قرآن کی تعلیم اس بات کی موید ہے کہ کوئنات ارتقاء کر رہی ہے اور بدی پر انسان کی آخری فتح کی امید سے پر ہے۔ قرآن کی رو سے انسان کو اختیار ہے کہ چاہے تو کائنات کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر حیات جاوداں سے بہرہ ور ہو جائے۔ ایحسب الانسان ان یترک سلی الم یک نطفہ من منی یمی ثم کان علقہ فخلق فسوی فجعل منہ الزوجین الذکر والانئی الیس ذالک قادر علی ان یحیٰ الموتی (کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ بے کار سمجھ کر چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ پیٹ میں پڑے ہوئے منی کے ایک قطرہ سے بنا ہوا نطفہ نہیں تھا پھر وہ جما ہوا خون بن گیا۔ پھر خدا نے اسے بنایا اور درست کیا اور اس سے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔ کیا یہ خدا مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں) یہ نہایت ہی غیر اغلب ہے کہ ایک وجود جس کے ارتقاء پر لاکھوں برس صرف آئے ہوں بے کار سمجھ کر پھینک دیا جائے۔ لیکن انسان فقط ایک ارتقاء کرتی ہوئی شخصیت کی حیثیت سے ہی کائنات کے مقصد کے ساتھ مطابقت پیدا کرتا ہے۔ انسان کا اولین ظہور آگے چل کر اقبال لکھتا ہے: ’’ انسان کا اولین ظہور کس طرح سے ہوا۔ سب سے پہلے جاحظ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ حیوان کی زندگی کی نقل مکان اور ماحول سے تغیر پیدا ہوتا ہے۔ اخوان الصفا نے جاحظ کے خیالات کی مزید توضیح اور تشریح کی۔ تاہم ابن مسکویہ پہلا اسلامی مفکر گزرا ہے جس نے انسان کے اولین ظہور کا واضح اور بعض پہلوؤں سے کلیتاً جدید نظریہ پیش کیا۔ یہ بالکل قدرتی بات تھی اور روح قرآن کے بالکل مطابق تھی کہ رومی حیات بعد الممات کے مسئلہ کو زندگی کے ارتقاء کا مسئلہ سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں تھا۔ جسے ہم خالص مابعد الطبیعاتی قسم کے دلائل سے حل کر سکتے ہوں جیسا کہ بعض حکمائے اسلام نے سمجھا تھا۔ تاہما رتقاء کا نظریہ دور حاضر کے لئے امید اور ولولہ نہیں بلکہ مایوسی اور پریشانی کو ساتھ لے کر آیا ہے اور اس کا سبب دور حاضر کے اس بے بنیاد مفروضہ کے اندر پایا جا سکتاہے کہ انسان کی موجودہ حیاتیاتی اور نفسیاتی کیفیت یا حالت ارتقائے حیات کی آخری منزل ہے اور موت زندگی کی ایک واردات کی حیثیت سے کوئی تعمیری اہمیت نہیں رکھتی۔ اس دور کے انسان کو ایک رومی کی ضرورت ہے جو اس کے دل میں امید پیدا کر سکے اور زندگی کے لئے جوش اور ولولہ کی آگ بھڑکا سکے۔‘‘ ’’ ریاضیات کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں ارتقاء کا تصور بھی آہستہ آہستہ تعمیر پاتا رہا ہے۔ جاحظ پہلا شخص ہے جس نے اس بات کی طرف توجہ کی کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کو سفر کر جانے سے پرندوں کے اندر جسمانی تغیرات رونما ہو جاتے ہیں اس کے بعد ابن مسکویہ نے جو البیرونی کا ہم عصر تھا اس خیال کو ایک واضح نظریہ کی شکل دی اور اپنی مذہبی کتاب ’’ الفوز الاصغر‘‘ میں اسے استعمال کیا۔ میں یہاں اس کے ارتقائی نظریہ کا اختصار پیش کرتا ہوں۔ اس کی علمی حیثیت کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا فکر کس سمت میں حرکت کر رہا تھا۔ ابن مسکویہ کا خیال ہے کہ ارتقاء کے سب سے نچلے درجہ میں پودوں کو پیدا ہونے اور نشوونما پانے کے لئے کسی بیج کی حاجت نہیں ہوتی او رنہ ہی وہ نوع کو بیج کے ذریعہ سے قائم رکھتے ہیں۔ اس قسم کے پودے جمادات سے صرف اس لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں کہ ان میں کس قدر حرکت کی قوت ہوتی ہے جو بلند درجہ کی نباتات میں اور ترقی کر جاتی ہے اور اپنا مزید اظہار اس طرح سے کرتی ہے کہ پودا اپنی شاخیں پھیلا دیتا ہے اور اپنی نوع کو بیج کے ذریعہ سے قائم رکھتا ہے۔ پھرحرکت کی قوت رفتہ رفتہ کرتی ہے یہاں تک کہ ہم ایسے درختوں تک پہنچ جاتے ہیں جن کا تنا اور پتے اور پھل ہوتے ہیں۔ ارتقاء کے ایک بلند تر درجہ پر نباتاتی زندگی کی اشکال اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو اپنی نشوونما کے لئے بہتر زمین اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارتقاء کے آخری درجہ میں انگو رکی بیل اور کھجو رکا درخت آتے ہیں جو گویا حیوانی زندگی کے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ کھجور کے درخت میں جنسی امتیاز واضح طور پر نمودار ہو جاتاہے۔ جڑوں اور ریشوں کے علاوہ اس میں ایک ایسی چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو حیوان کے دماغ کی طرح کام کرتی ہے اور جس کی سلامتی پر کھجور کے درخت کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے یہ نباتاتی زندگی کے ارتقاء کا بلند ترین مقام ہے جس کے بعد حیوانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ حیوانی زندگی کی طرف پہلا قدم زمین میں گڑ جانے سے آزادی ہے۔ جو آزادی حرکت کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حیوانی زندگی کا اولین درجہ ہے۔ جس میں چھونے کی حس سب سے پہلے اور دیکھنے کی قوت سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔ حسوں کے ارتقاء سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے۔ جیسا کہ کیڑوں مکوڑوں رینگنے والے جانوروں چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ چوپایوں کی حیوانی زندگی گھوڑے میں اور پرندوں کی حیوانی زندگی باز میں اپنے کمال پر پہنچتی ہے اور آخر کار بندر میں جو ارتقاء کی سیڑھی پر حضرت انسان سے صرف ایک قدم پیچھے ہے۔ انسانیت کی سرحدوں تک جا پہنچتی ہے۔ بعد کا ارتقاء ایسے حیاتیاتی تغیرات پیدا کرتاہے جس کے نتیجہ کے طور پر عقلی اور روحانی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں یہاں تک کہ انسانیت بربریت سے نکل کر تہذیب کے میدان میں قدم رکھ لیتی ہے۔‘‘ ’’ اس طرح سے اسلامی فکر کے تمام خطوط کائنات کے حرکی یا ارتقائی تصور پر مرتکز ہو جاتے ہیں۔ اس نظریہ کو ابن مسکویہ کے اس تصور سے کہ زندگی ایک ارتقائی حرکت ہے اور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے اور تقویت ملتی ہے۔‘‘ قصہ آدم کی تشریح قرآن حکیم میں آدم کا قصہ لفظاً جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ آدم کو خدا نے مٹی سے بنایا اور فرشتوںکو کہا کہ جب میں اسے بنا سنوار کر مکمل کر لوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں۔ تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ آدم کو جنت میں آزادی سے رہنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن ایک خاص درخت کا پھل کھانے سے منع کر دیا گیا آخر کار جنت میں آدم نے خدا کی نافرمانی کی اور شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کی بیوی حوا کو سزا کے طور پر جنت سے نکال کر زمین پر ڈال دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زمین پر انسان کا ظہور ایک نہایت ہی طویل تدریجی اور تربیت عمل سے ہوا ہے جیسا کہ نظریہ ارتقاء کی رو سے تسلیم کرنا ضروری ہے تو پھر قرآنی قصہ آدم کی جو بظاہر زمین رپ انسان کے اولین ظہور سے تعلق رکھتا ہے توجیہہ کیا ہے لہٰذا اقبال قصہ آدم کے متعلق لکھتا ہے: ’’ اس قصہ میں قرآن پرانے استعارات کو کسی حد تک قائم رکھتا ہے۔ لیکن قصہ کے معتدبہ حصہ کو بدل دیاگیا ہے تاکہ اس کو بالکل نئے معنی پہنا دئیے جائیں۔ قصوں کو نئے معنی پہنانے اور ان کو زمانہ کی ترقی یافتہ روح کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے کلی یا جزوی طور پر بدلنے کا قرآنی دستور ایک نہایت ہی اہم نکتہ ہے جسے اسلام کا مطالعہ کرنے والے مسلموں اور غیر مسلموں نے ہمیشہ ہی نظر انداز کیا ہے۔ ان قصوں کو بیان کرنے سے قرآن کا مقصد شاذ ہی تاریخی ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد قریباً ہمیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک ہمہ گیر اخلاقیاتی یا حکیماتی مطلب پہنایا جائے اور قرآن اس مقصد کو اس طرح سے حاصل کرتا ہے کہ ایسے افراد یا مقامات کا نام حذف کر دیتا ہے جو کہانی کو ایک مخصوص تاریخی واقعہ کا رنگ دے کر اس کے معنی کو محدود کر دینے کا امکان رکھتے ہوں اور نیز ان تفصیلات کو بھی حذف کر دیتا ہے جو بظاہر احساسات کی ایک مختلف سطح سے تعلق رکھتے ہوں۔ قصوں کا اس قسم کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ غیر مذہبی لٹریچر میں یہ عام ہے اس کی مثال فاؤسٹ (Faust)کی کہانی ہے جسے گیٹے (Gaette)کی عبقریت نے بالکل ہی نیا مطلب پہنا دیا ہے۔‘‘ اس کے بعد اقبال ہبوط آدم کے قصہ پر مفصل بحث کرتا ہے اور بحث کے بعد ذیل کے نتیجہ پر پہنچتا ہے: ’’ اس طرح سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ ہبوط آدم کا قرآنی قصہ اس کرہ ارض پر انسان کے اولین ظہور سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس اس کا مطلب یہ بتانا ہے کہ کس طرح سے انسان ایک ابتدائی حالت سے جو جبلتی خواہشات کے زیر فرمان ہوتی ہے ترقی کر کے اس حالت میں قدم رکھتا ہے جہاں اسے ایک ایسی آزاد شخصیت کی شعوری ملکیت حاصل ہوتی ہے جو شک اور نافرمانی بھی کر سکتی ہے۔ ہبوط آدم کا مطلب کوئی اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ وہ انسان کا معمولی شعور کی حالت سے گزرنے کے بعد خود شعوری کی اولین جھلک کا دیکھنا ہے اور پابند قدرت اور مجبور زندگی کے خواب سے بیدار ہونے کے بعد خود اپنی ذات کے اندر افعال اور واقعات کا علل و اسباب کی دھڑکن کو محسوس کرنا ہے۔‘‘ انسانی تخلیق کی خصوصیات جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں اقبال کا خیال یہ ہے کہ اگر انسان اپنی خودی اوصاف و خواص پر نگاہ ڈالے تو وہ ’’ اسرار ازل‘‘ یعنی تخلیق کائنات کے اسرار و رموز کو جان سکتا ہے۔ ع اسرار ازل جوئی بر خود نظرے واکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم انسانی تخلیق کی خصوصیات کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں تو ان کی روشنی میں ہم خدا کی تخلیق اور کائنات کے عمل ارتقا کی خصوصیات کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جب کوئی کمہار پانی میں گوندھی ہوئی چکنی مٹی کی چکوندی کو اپنے گھومتے ہوئے چاک پر رکھ کر ہمارے سامنے اپنے ہاتھوں سے مٹی کا ایک برتن بناتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی تخلیقی فعلیت کے خواص کو ظاہر کرتی ہے۔ 1برتن کی تخلیق کی ایک ابتدا ہے اور ایک انتہا 2برتن اپنی ابتدا سے لے کر اپنی انتہا تک متواتر اپنے کمال کی طرف آگے بڑھتا ہے اور ابتدا اور انتہا کے درمیان بہت سے ضمنی مرحلوں میں سے گزرتا ہے۔ 3اپنی ابتدا سے لے کر انتہا تک برتن کی پیہم ترقی کا باعث کمہار کا ایک واحد مقصد یا نصب العین ہے جس کی وجہ سے اس کی تخلیق ایک واحد غیر منقسم اور مسلسل فعل بن جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ برتن کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت کی ارتقائی تبدیلی سے رونما ہوتی ہے۔ 4برتن کی تخلیق کا مدعا کمہار کے اس نصب العین کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ایک مکمل اور خوبصورت برتن بنایا جائے۔ لہٰذا اس کا مدعا حسن و کمال کی جستجو ہے۔ 5برتن کے ارتقا کے ہر مرحلہ پر کمہار کی فعلیت کا مقصد یہ ہے کہ اس کے سارے ماضی کا جو حاصل اس کے سامنے ہے اسے ایک خاص سمت میں بدل دیا جائے تاکہ وہ اس کے نصب العین کے قریب آ جائے برتن کے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر بھی کمہار کے تخلیقی فعلیت کا مقصد یہ نہیں کہ وہ کوئی چیز پیدا کر دے جو اس کی گزشتہ فعلیت کے نتیجہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھتی ہو بلکہ اسے کالعدم کر کے یا نظر انداز کر کے اپنی جگہ بناتی ہو۔ 6اگر برتن اپنے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر وہ صورت اختیار نہ کرے جو اس نے کی ہے تو وہ اپنے ارتقا کے اگلے مرحلہ میں داخل نہیں ہو سکتا اس کے ارتقا کا ہر مرحلہ پچھلے مرحلہ سے پیدا ہوتاہے اور اس کے ماضی کا ارتقا اس کے مستقبل کے ارتقاء کی بنیاد بنتا ہے اس کے باوجود اس کا مستقبل اس کے ماضی سے پیدا نہیں ہوتابلکہ کمہار کی قوت ارادی سے پیدا ہوتاہے۔ 7کمہار کا مخفی اندرونی مقصد اس کی تخلیق کی آشکار خارجی صورت میں ظہور پاتا ہے اور جوں جوں اس کی تخلیقی فعلیت آگے بڑھتی جاتی ہے اس کا یہ مخفی اندرونی مقصد بھی زیادہ واضح اور آشکار ہوتا جاتا ہے اور کسی نکتہ رس دیکھنے والے کے لئے یہ بتانا زیادہ آسان ہوتا جاتا ہے کہ وہ در حقیقت کیا ہے اور آخر کار خارج میں کس طرح ظہور پذیر ہو گا۔ خدا کی تخلیق کی خصوصیات ضروری ہے کہ کائنات کی تخلیق بھی یہی خصوصیات رکھتی ہو لہٰذا کائنات کے بارہ میں ہمارے ذیل کے نتائج درست ہوں گے۔ 1کائنات کی ایک ابتدا تھی اور بالاخر اس کی ایک انتہا ہو گی۔ 2کائنات اپنی ابتدا سے اپنی انتہا کی طرف متواتر آگے بڑھ رہی ہے اور اپنی ابتدا اور انتہا کے درمیان بہت سے درمیانی مرحلوں سے گزر رہی ہے۔ 3ابتدا سے لے کر انتہا تک کائنات کے ارتقا کا باعث کائناتی خودی کا ایک واحد مقصد یا نصب العین ہے جس کی وجہ سے اس کی تخلیق ابتدا سے لے کر انتہا تک ایک واحد غیر منقسم اور مسلسل فعل بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت کی ارتقائی تبدیلی سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ 4کائنات کی تخلیق کا مدعا کائناتی خودی کے اس نصب العین کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ایک مکمل اور خوبصورت کائنات (یعنی حسن و کمال کی انتہا پر پہنچی ہوئی نوع انسانی) وجود میں آئے گویا اس کا مدعا منتہائے کمال کی تخلیق ہے۔ 5کائنات کے ارتقا کے ہر مرحلہ پر کائناتی خودی کی فعلیت کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اس کے سارے ماضی کا جو حال اس کے سامنے ہے اسے ایک خاص سمت میں بدل دیاجائے تاکہ وہ اس کے نصب العین اور اپنے کمال کے اور قریب آ جائے۔ کائنات کے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر بھی کائناتی خودی کا مقصد یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی نئی چیز پیدا کرے جو اس کی گزشتہ تخلیقی فعلیت کے نتیجہ کے ساتھ کوئی علاقہ نہ رکھتی ہو اور اسے کالعدم یا نظر انداز کر کے اپنی جگہ بناتی ہو۔ 6اگر کائنات اپنے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر وہ صورت اختیار نہ کرے جو اس نے کی ہے تو وہ اپنے ارتقاء کے اگلے مرحلہ میں داخل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے ارتقاء کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے ماضی کا ارتقاء اس کے مستقبل کے ارتقاء کی بنیاد بنتا ہے اس کے باوجود اس کا مستقبل اس کے ماضی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ کائناتی خودی کی قوت ارادی سے پیدا ہوتا ہے۔ 7کائناتی خودی کا مخفی اندرونی مقصد اس کی تخلیق کی آشکار خارجی صورت میں ظہور پذیر ہو رہا ہے اور جوں جوں اس کی تخلیقی فعلیت آگے بڑھتی جا رہی ہے اس کا یہ مخفی اندرونی مقصد بھی زیادہ واضح اور زیادہ آشکار ہوتا جا رہا ہے اور کسی نکتہ رس دیکھنے والے کے لئے یہ بتانا زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے کہ وہ مقصد در حقیقت کیا ہے اور آخر کار خارج میں کس طرح سے ظہور پذیر ہو گا۔ اقبال نے خالق اور مخلوق کی حیثیت سے خدا اور انسان کے باہمی تعلق کو سمجھانے کے لئے ایک انسانی مصور اور تصویر کی مثال دی ہے۔ تصویر مصور سے کہتی ہے کہ میرے وجود کا دار و مدار تیرے ہنر پر ہے لیکن یہ انصاف نہیں کہ تو میری نظروں سے اوجھل رہے۔ کہا تصویر نے تصویر گر سے نمائش ہے میری تیرے ہنر سے و لیکن کس قدر نا منصفی ہے کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے مصور جواب دیتا ہے کہ تیرے لئے تو یہی اچھا ہے کہ تو خبر پر قناعت کرے۔ نظر (یعنی حسن کا ذاتی مشاہدہ اور احساس جسے محبت یا عشق کہتے ہیں) درد غم کا باعث ہوتی ہے۔ جب تک عشق پیدا نہ ہو قلب روشن نہیں ہوتا اور جہاں بینی کی استعداد حاصل نہیں ہوتی۔ جب تک جگر خون نہ ہو جائے چشم دل میں نظر پیدا نہیں ہوتی۔ لہٰذا نظر کا نتیجہ ہے محبوب کے عشق میں جلنا اور جل کر مر جانا۔ شرر کو دیکھو کہ وہ محبت کے سوز سے روشن ہوتا ہے اور اپنے نور سے جہاں کو دیکھتا ہے لیکن اسی جہاں بینی کی وجہ سے ایک لمحہ میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر نظر درد و غم و سوز و تب و تاب تو اے نادان قناعت کر خبر پر لیکن تصویر خبر پر قناعت نہیں کرتی اور مصور کو جواب دیتی ہے کہ خبر عقل و خرد کی بے چارگی کے سوائے اور کچھ نہیں۔ نظر دل کے لئے حیات جاوداں ہے۔ اس زمانہ کی تگ و دو نے ہر مشکل کو آسان کر دیا ہے۔ لہٰذا اس زمانہ میں یہ کہنا کہ میں تجھے دیکھ نہیں سکتی ایک ایسا عذر ہے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ خبر عقل و خرد کی ناتوانی نظر دل کی حیات جاودانی نہیں ہے اس زمانہ کی تگ و تاز سر دار حدیث لن ترانی پھر مصور یہ جواب دے کر اس گفتگو کو ختم کر دیتا ہے کہ میرے دیدار کی شرط یہ ہے کہ تو اپنی نظر سے پنہاں نہ ہو چونکہ تو میرے کمالات ہنر میں سے ہے۔ تیرا اپنے آپ کو دیکھ لینا ہی مجھے دیکھ لینا ہے۔ لہٰذا مجھ سے نا امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ تو ہے میرے کمالات ہنر سے نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے میرے دیدار کی ہے ایک یہی شرط کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے ظاہر ہے کہ اس نظم میں مصور خدا سے اور تصویر انسان سے استعارہ ہے۔ اقبال کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو پہچان لے تو وہ خدا کو پہچان لیتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو اقبال نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔ اگر خواہی خدا را فاش بینی خودی را فاش تر دیدن بیا موز تخلیق کائنات کا ہر قدم خدا کے قول کن کا نتیجہ ہے یہ حقیقت کہ کائناتی خودی ہماری نظروں سے مخفی ہے کائنات کی ارتقائی حرکت یا کائناتی خودی کی تخلیقی فعلیت کے لئے کوئی فرق پیدا نہیں کرتی۔ خودی انسان کی ہو یا خدا کی وہ اپنی تخلیق میں ہمیشہ ایک پر اسرار مخفی اور غیر مرئی قوت کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ کائناتی خودی کے مخفی ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت کا نتیجہ اور آئندہ حالت کا سبب ہے حالانکہ گزشتہ حالت آئندہ حالت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ صرف وقت میں اس سے پہلے آتی ہے اور اس کے ساتھ پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بغیر اس کے کہ اس پر ذرہ بھر اثر انداز ہو رہی ہو۔ دراصل کائنات کی کسی حالت کے بدلنے والی قوت کا نظارہ ان آنکھوں سے نہیں کر سکتے اور چونکہ کائنات کی ہر حالت کے اندر نئی حالت کو پیدا کرنے کے اسباب مخفی ہوتے ہیں۔ یعنی اس کے اندر ایسی خاصیتیں اور صلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ اگر کسی قادر مطلق کا حکم موجود ہو تو وہ اس نئی حالت میں بدل جائے جس میں وہ فی الواقع بدل جاتی ہے۔ ہم غلطی سے خود اس حالت کو ہی بدلنے والی قوت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی کوئی حالت اپنی خاصیتوں اور صلاحیتوں کے باوجود اس وقت تک کسی نئی حالت میں نہیں بدل سکتی جب تک کہ خدا کا حکم یا قول کن صادر نہ ہو اور اس کی تخلیقی قوت اور قدرت اس کو بدلنے کے لئے بروئے کار نہ آئے۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست خفتہ در ہر ذرہ یزوئے خودی یست اقبال کا نظریہ ارتقا خودی کی فطرت سے ماخوذ ہے ان حقائق کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اگرچہ سائنس کا فیصلہ یہ ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور یہ فیصلہ دنیا کے علمی حلقوں میں قبول کر لیا گیا ہے۔ تاہم اقبال سائنس کے اس فیصلہ کی بنا پر یا رائج الوقت تصورات کی کشش کی وجہ سے ارتقا کا قائل نہیں۔ اقبال کا نظریہ ارتقا نہ تو مستجحرات (Fossils) کی دریافت پر موقوف ہے اور نہ ہی کسی سائنس دان کے نظریہ ارتقا کی غیر معلوم کڑیوں کی کامیاب جستجو پر مبنی ہے بلکہ اس کا نظریہ ارتقاء خودی کی فطرت اور اس کے اوصاف و خواص کے علم سے ماخوذ ہے۔ یہ حقیقت کہ سائنس بھی اس نظریہ کی تائید کر رہی ہے اس کی صحت اور صداقت کا مزید ثبوت ہے کیونکہ ضروری ہے کہ ہر سچی فلسفیانہ حقیقت بشرطیکہ وہ فی الواقع سچی ہو زود یا بدیر سائنس سے بھی تائید مزید حاصل کرے۔ اگر بالفرض سائنس دان کل کو ایسے جدید حقائق سے آشنا ہو جائیں جن کی بنا پر وہ نظریہ ارتقاء سے انکار کرنے پر مجبور ہوں تو پھر بھی اقبال کا یہ نتیجہ کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور اس کا سبب خالق کائنات کی ربوبیت ہے اپنی جگہ پر قائم رہے اور زود یا بدیر سائنس دانوں کو یہ مان کر اس کی طرف لوٹنا پڑے گا کہ انہوں نے جدید حقائق کا مطلب غلط سمجھا تھا پھر اقبال کے نظریہ ارتقا میں یہ بات بھی داخل نہیں جیسا کہ ڈارون اور کئی حکمائے ارتقا نے سمجھا ہے کہ آدمی بندر یا کسی اور نچلے درجہ کے غیر انسانی حیوان کی اولاد ہے جو اب زندہ ہے یا پہلے زندہ رہ چکا ہے اقبال کے نظریہ ارتقاء کے اندر یہ بات مضمر ہے کہ انسان اپنے ارتقاء کی ہر منزل پر انسان ہی سے پیدا ہوا ہے یعنی انسان کی ہر بلند تر حالت انسان ہی کی پست تر حالت سے پیدا ہوئی ہے اور کسی غیر انسانی حیوان سے پیدا نہیں ہوئی اس کی مثال انسانی جنین کی نشوونما ہے۔ ایک فرد کی حیثیت سے انسان ہی کی حالت ہوتی ہے۔ ایک نوع کی حیثیت سے بھی اگرچہ انسان اپنی ترقی کی مختلف حالتوں میں سے گزرتا ہے۔ تاہم انسانی جنین کی ہر حالت کی طرف ان حالتوں میں سے بھی کسی حالت میں وہ سوائے انسان کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ماہرین حیاتیات کا اعتراف آج دنیا بھر میں چوٹی کے ماہرین حیات(جن میں ایک جولین ہکسلے (Julian Huxley)ہے اگرچہ عمل ارتقاء کی مادی اور لادینی توجیہہ کرتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے ماہرانہ مشاہدات کی بنا پر اس نتیجہ سے گریز نہیں کر سکے کہ عمل ارتقا کا حاصل انسان ہے اور آئندہ کا ارتقا بھی انسان ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ نظریات اور اقدار کی محبت انسان کا ایسا امتیاز ہے جو کسی حیوان میں موجود نہیں لہٰذا آئندہ کا ارتقا نظریاتی ہو گا اور ا س بات پر موقوف ہو گا کہ انسان اپنی محبت نظریات و اقدار کو کس حد تک مطمئن کرتا ہے علمی ارتقا کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نتیجہ ترقی یافتہ انسانی شخصیت ہے۔ انسانی ارتقا نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ ان گہرے معنوں میں بے مثال ہے کہ وہ ایک ہی راستہ ہے جو انسان کی ضروری خصوصیات کو پیدا کر سکتا تھا۔ حیاتیاتی نقطہ نظر سے یہ نا ممکن ہے کہ ارتقائے حیوانات کا کوئی اور راستہ آگے جا کر کسی ایسے حیوان وک پیدا کر سکے جو انسان سے بہتر اور بلند تر ہو۔ جولین ہکسلے (Julian Huxley)اپنی کتاب انسان ’’ دنیائے جدید میں ‘‘ (Man in the modern World)میں لکھتا ہے: ’’ عمل تخلیق کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نتیجہ ترقی یافتہ انسانی شخصیت ہے۔‘‘ ’’ انسان کے وجود میں آنے کے بعد ارتقا کی نوعیت یکایک بدل جاتی ہے۔ انسانی شعور کے ساتھ اقدار و نظریات پہلی دفعہ زمین پر ظہور پذیر ہوئے۔ لہٰذا مزید ارتقاء کا معیار یہ ہے کہ یہ نظریاتی اقدار کس حد تک مطمئن ہوتی ہیں‘‘ ’’ بظاہر حیاتیاتی نقطہ نظر سے یہ بات نا ممکن ہے کہ ارتقائے حیوانات کا کوئی اور راستہ آگے جا کر ایک نئے اعلیٰ اور ارفع جسم حیوانی تک جا پہنچے۔‘‘ انسانی ارتقاء کا راستہ بھی ایسا ہی بے مثال تھا جیسا کہ اس کا نتیجہ یہ ان معمولی معنوں میں بے مثال نہیں تھا کہ وہ دوسرے تمام حیوانات کے راستوں سے مختلف تھا۔ بلکہ ان عمیق معنوں میں بے مثال تھا کہ وہ ایک ہی ایسا راستہ تھا جو انسان کی ضروری خصوصیات کو پیدا کر سکتا تھا۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ ارتقاء کا مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو پیدا کر کے اس کی شخصیت کو نقطہ کمال پر پہنچایا جائے۔ گویا ماہرین حیاتیات کے ان نتائج سے بھی حضرت انسان کے بارے میں اقبال کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست ٭٭٭ خودی اور فلسفہ تاریخ تاریخ کے ناقص فلسفے انسانی افراد اور جماعتوں کے افعال کے سلسلہ کو انسانی تاریخ کہتے ہیں لیکن کیا انسانی اعمال جن سے تاریخ کا تار و پود بنتا ہے کسی قاعدے یا قانون کے پابند ہیں۔ کیا ان کا کوئی مقصد ہے۔ کیا ان کی کوئی سمت یا منزل مقصود ہے اگر ہے تو وہ کیا ہے۔ قومیں اور تہذیبیں کیوں ابھرتی ہیں ۔ کیوں مٹتی ہیں۔ کیا ان کے عروج و زوال کا کوئی اصول ہے۔ کیا کوئی قوم یا کوئی تہذیب ایسی بھی ہو سکتی ہے جو قوموں اور تہذیبوں کو مٹانے والے عوامل کی زد سے محفوظ رہ سکتی ہو ۔ اور ارتقائے عالم کی منزل مقصود ہو۔ اس قوم کے اوصاف اور امتیازات کیا ہوں گے۔ کیا ہم ایسی قوم کو وجود میں لا سکتے ہیں۔ کیا ہم اپنے آپ کو ایسی قوم بنا سکتے ہیں و علیٰ ہذا القیاس۔ بہت سے فلسفیوں نے جن میں ڈینی لیوسکی (Denilevsky) شپنگلر(Spengler) ٹائن بی (Toynbee) اور سوروکن (Sorokin) زیادہ مشہور ہیں اپنی بالعموم غیر معمولی اور غیر ضروری طوالت کی تصنیفات میں اس قسم کے بعض سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے جوابات مبہم اور غیر واضح اور الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ انسان کے اعمال انسان کی فطرت سے سر زد ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب تک پہلے انسان کی فطرت کا ایک معقول اور صحیح نظریہ پیدا نہ کیا جائے۔ تاریخ کے واقعات کے پیچھے جو قوانین قدرت کام کر رہے ہیں ان کو سمجھنا ممکن نہیں۔ تاریخ سب سے پہلے فرد انسانی کی فطرت کے اندر جنم لیتی ہے، فرد انسانی کے اعمال قوموں اور تہذیبوں کی تاریخ کی اکائی (Unit) کی حیثیت رکھتے ہیں جب تک اس اکائی کو نہ سمجھا جائے ممکن نہیں کہ ہم ان بڑے بڑے مجموعوں کو سمجھ سکیں جو اس اکائی سے صورت پذیر ہوتے ہیں اور فرد انسانی کی فطرت کو سمجھنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی شخصیت کی گاڑی کے ڈرائیور کو یعنی اس کے افعال کو اندرونی قوت محرکہ کو سمجھا جائے۔ جب تک ہمیں اس قوت کا علم نہ ہو ممکن نہیں کہ ہم معلوم کر سکیں کہ وہ کون سا قانون قدرت ہے جو انسان کے اعمال کو ضبط میں رکھتا ہے اور ان کی سمت اور منزل معین کرتاہے اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر حاوی ہے۔ فلسفہ خودی کی رو سے انسان کے اعمال کی قوت محرکہ سچے خدا کی محبت ہے اور یہی وہ قوت ہے جو افرد کو متحد کر کے ایک قوم کی شکل دیتی ہے۔ جب کوئی قوم سچے خدا سے محبت نہ کر سکے تو وہ اس کی بجائے کسی اور تصور کو جس کی طرف وہ حسن و کمال کے اوصاف منسوب کر سکتی ہو اپنا نصب العین بنا لیتی ہے اور پھر اسی سے محبت کرتی ہے اور اپنے سارے اعمال کو اس کی محبت کے تابع کر دیتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب وہ محسوس کرتی ہے کہ اس میں حسن و کمال کے اوصاف در حقیقت موجود نہیں وہ مجبور ہوتی ہے کہ اس کی محبت سے رجوع کرے یہاں تک کہ اسے بالکل ترک کر دے اور جب یہ نوبت آتی ہے تو قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ تاریخ عالم کے چار ادوار تاریخ کے ان فلسفیوں کی ایک اور غلطی یہ ہے کہ انہوں نے انسانی تاریخ کو کائنات کی باقی تاریخ سے الگ کر کے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ انسانی تاریخ مجموعی تاریخ کا ایک دور ہے جو اس کے پہلے ادوار سے بے تعلق نہیں ہو سکتا بلکہ ضروری ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگ اور مسلسل ہو۔ ایچ جی ویلز (H.G. Wells) نے اپنی عالمی تاریخ کی کتاب ’’ تاریخ کا خاکہ‘‘ (Outline of History) کو بجا طور پر آفرینش سے شروع کیا ہے اور اس نے اپنے اس موقف کی تائید کے لئے فریڈرک راٹزیل (Fredrich Ratzel)کا یہ نہایت ہی گہرا اور دانشمندانہ قول اپنی کتاب کے شروع میں نقل کیا ہے کہ ’’ نوع انسانی کی تاریخ کا فلسفہ جو فی الواقع اس نام کا مستحق ہو اس یقین سے پر ہونا چاہئے کہ ہستی تمام کی تمام ایک وحد تہے وہ ایک ہی تصور ہے جو شروع سے آخر تک یکساں رہنے والے ایک ہی قانون پر قائم چلا آتا ہے۔‘‘ فلسفہ تاریخ کے متعلق یہ نقطہ نظر بالکل درست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقائے عالم ایک واحد اور مسلسل عمل ہے جو شروع سے آخر تک ایک ہی مقصد رکھتا ہہے اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اور جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں اس عمل کو حرکت دینے والی قوت بھی ایک ہی ہے اور وہ خدا کا ارادہ تخلیق یعنی خود خدا ہے۔ اس عمل کا آغاز کائناتی شعاعوں سے ہوا تھا او راس کے پہلے بڑے دور میں مادی کائنات ترقی پا کر تکمیل کو پہنچی تھی۔ کائنات کی مادی تکمیل کا مقصد یہ تھا کہ مادہ اس حالت کو پا لے جو زندگی کے ظہور کے لئے سازگار ہو چنانچہ مادہ کی تکمیل کے ساتھ ہی زندگی کا نمایاں ظہور سب سے پہلے ایک خلیہ کے حیوان میں ہوا اور اس واقعہ سے تاریخ عالم کا دوسرا بڑا دور شروع ہوا جس کے اختتام پر کائنات کی حیاتیاتی تکمیل عمل میں آئی۔ کائنات کی حیاتیاتی تکمیل کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا جسم حیوانی وجود میں آئے جس میں خدا کی محبت کا جذبہ اس کے سارے اعمال کی قوت محرکہ کے طور پر نمودار ہو چنانچہ زندگی کے کروڑوں برس کے ارتقاء کے بعد یہ جسم حیوانی وجود میں آیا اور یہی انسان ہے پہلے انسان کے ظہور سے تاریخ عالم کا تیسرا بڑا دور شروع ہوتا ہے جسے انسانی تاریخ کا پہلا دور کہنا چاہئے۔ اس دور میں ارتقاء کی قوتیں زمین کے گوشہ گوشہ میں ان گنت انبیاء پیدا کر کے انسان کی نظریاتی تکمیل کے لئے کار فرما رہیں۔ اس دور کا مقصد یہ تھا کہ آخر کار ایک نبی کامل یا رحمتہ للعالمین ؐ کا ظہور ہو جس کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مثال میں خدا کی محبت کا جذبہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو جائے اور جو اس طرح سے نوع انسانی کو ایک ایسا کامل نظریہ حیات بہم پہنچائے جو انسان کی اخلاقی، سیاسی، روحانی، تعلیمی، قانونی، اقتصادی، علمی اور فنی ترقیوں کو نقطہ کمال پر پہنچا سکے۔ نبی کامل یا رحمتہ للعالمینؐ کے ظہور سے انسانی تاریخ کا دوسرا دور اور تاریخ عالم کا چوتھا اور آخری دور شروع ہوتا ہے اور وہ اس وقت ختم ہو گا جب نوع انسانی اپنے کمالات کو پہنچے گی امت مسلمہ یا نبی کاملؐ کی امت تاریخ عالم کے تیسرے اور چوتھے ادوار یعنی تاریخ انسانی کے پہلے اور دوسرے ادوار کے وسط میں نمودار ہوئی ہے تاکہ وہ نوع انسانی کی قیادت کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو سکے تاکہ ایک طرف سے وہ نبی کاملؐ کی وساطت سے تمام گذشتہ انبیاء کی تعلیمات کے کمال کی حامل بن جائے اور دوسری طرف سے اپنے اس امتیاز کی وجہ سے نوع انسانی کی آنے والی نسلوں کے لئے اسی طرح سے کامیاب راہ نما بنے۔ لتکونوا شہداء علی الناس جس طرح سے نبی کامل اس کے کامیاب راہ نما بنے ہیں ویکون الرسول علیکم شہیدا اسی لئے قرآن حکیم نے امت مسلمہ کو امتہ وسطاً کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ تاریخ عالم کے چار واقعات نہایت عظیم الشان ہیں۔ا یک تو وہ جب تخلیق عالم کا آغاز ہوا اور کائناتی شعاعیں یکایک ’’ فاصلہ۔ وقت‘‘ کے ایک بحر نا پیدا کنار کے اندر دوڑنے لگیں۔ دوسرا وہ جب سمندروں کے کنارے کیچڑ میں کہیں پہلا ایک خلیہ کا جاندار نمودار ہوا۔ تیسرا وہ جب پہلا مکمل جسم انسانی اپنے پہلو میں خدا کی محبت کا ایک طوفان لے کر ظہور پذیر ہوا اور چوتھا وہ جب ایک رحمتہ للعالمینؐ کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کے نمونہ میں وہ مکمل نظریہ زندگی نمودار ہوا جو اپنے اندر انسان کو اس کی ہر نوع کی ترقی کے نقطہ کمال تک پہنچانے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان میں سے ہر واقعہ ایک دور کا آغاز کرتا ہے جو اگلے دور کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور ا سکی آمد کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے یہاں تک کہ آخری دور آ جاتا ہے۔ لہٰذا انسانی ادوار کی تاریخ حیاتیاتی اور مادی ادوار سے بے تعلق نہیں۔ کارل مارکس (Karl Marx) نے بھی ایک فلسفہ تاریخ دیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس کا فلسفہ تاریخ فطرت انسانی کے غلط نظریہ پر مبنی ہے اور ارتقائے عالم کے بنیادی سبب کو بھی نظر انداز کرتا ہے لہٰذا وہ از سر تاپا غلط ہو کر رہ گیا ہے۔ خودی کی تکمیل اور انسان کا شاندار مستقبل کیا انسان فی الواقع اپنے حسن و کمال کی انتہا کو پہنچے گا؟ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ اقبال کہتا ہے کہ یہ سوال ہم سے نہ پوچھو بلکہ معنی آدم یعنی انسان کی فطرت پر نگاہ ڈالو۔ جس میں حسن و کمال خداوندی کے محبت کا ایک بے پناہ ناقابل التوا اور نا قابل مزاحمت جذبہ رکھ دیا گیا۔ یہ جذبہ ہر حالت میں اپنی تشفی پا کر رہے گا اور جب تشفی پائے گا تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ انسان خد اکی محبت یعنی تفکر فی الصفات (عبادت) اور حسن عمل کے ذریعہ سے صفات خداوندی کے حسن کو جذب کر کے اپنے حسن کی انتہا تک پہنچے گا۔ اس وقت انسان جو اب اپنے گوناگوں نقائص کی وجہ سے مصرع ناموزوں کی طرح دلوں میں کھٹک رہا ہے۔ ان نقائص سے پاک ہو کر مصرعہ موزوں کی طرح حسین اور دل کش ہو جائے گا۔ اس وقت اس کی مشت خاکہ فرشتوں سے بھی زیادہ مقدس اور منور ہو جائے گی اور اس کی تقدیر کا کوکب سعادت زمین کو اخلاقی، علمی جمالیاتی اور روحانی طور پر بلند اور روشن کر کے گویا آسمان کا مقام دے گا۔ فروغ مشت خاک نوریاں از افزوں شود روزے زمین از کوکب تقدیر او گردوں شود روزے یکے در معنی آدم نگر از ماچہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے غلط نظریا کا منبع بھی خودی ہے اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ کسی فرد انسانی یا گروہ کا نصب العین حیات یا تصور حسن اس کے تمام اعمال و افعال کو پیدا کر کے ان کو اپنے گرد منظم کرتا ہے۔ آرزو صید مقاصد را کمند دفتر اعمال را شیرازہ بند جب کوئی فرد یا گروہ اپنے نصب العین کواپنی قدرتی عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر چسپاں کرتا ہے اور ان کو اپنے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بناتا ہے تو ایک خاص نظریہ زندگی وجود میں آتا ہے جو اس نصب العین پر مبنی ہوتا ہے اس وقت نوع انسانی کی حالت یہ ہے کہ ان کے نصب العین یا تصورات حقیقت یا تصورات حسن بہت سے ہیں اور ان کی کثرت کی وجہ سے وہ بہت سی نظریاتی جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں صرف امت مسلمہ ایسی ہے جس کا نظریہ خدا کے عقیدہ پر مبنی ہے لیکن بظاہر اس کی حالت ایسی نہیں جس سے ایک عام انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکے کہ وہ نظریاتی ارتقاء کا مقصود ہو گی باقی نظریاتی جماعتیں جو نہایت طاقتور ہیں خدا کے عقیدہ سے محض بے تعلق ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ہی انسان کی منزل مقصود ہے اور تمام نظریاتی جماعتوں پر غالب آ کر دنیا میں پھیل جانے والی نظریاتی جماعت خدا پرستوں کی ہی جماعت ہو گی تو یہ بے خدا نظریاتی جماعتیں کہاں سے وجود میں آ گئی ہیں اور نظریاتی ارتقاء یا عمل تاریخ میں ان کا کردار کیا ہے۔ نظریاتی ارتقاء یا عمل تاریخ جو انسان کو اس کے حسن و کمال کی انتہا تک پہنچائے گا۔ ان جماعتوں کی موجودگی میں فی الواقع کیا صورت اختیار کرے گا اور کس طرح سے انجام پائے گا۔ اقبال کے نزدیک ان سوالات کا جواب بھی معنی آدم یا انسان کی فطرت یا (اقبال کی زیادہ پسندیدہ اصطلاح کو کام میں لاتے ہوئے) انسانی خودی کی فطرت سے پیدا ہوتاہے۔ تاریخ انسان کے اعمال و افعال سے بنتی ہے اور تمام انسانی اعمال و افعال انسان کی فطرت یا اس کی خودی کے منبع سے سرزد ہوتے ہیں لیکن انسانی خودی کے اندر خدا کی محبت کے سوائے اور کچھ نہیں اور انسان کے اعمال و افعال کی صور ت میں جو کچھ اس سے باہر آتا ہے بمصداق از کوزہ ہماں ترادد کہ در اوست وہ خدا ہی کی محبت کا شعوری یا غیر شعوری اظہار ہوتاہے اور خدا ہی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ محبت کی ایک صحیح یا غلط عملی شکل ہوتی ہے۔ مر از خود برون رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم خودی کی فطرت کے تقاضے کبھی بہک جاتے ہیں او رکبھی اپنی سیدھی راہ پر ہوتے ہیں لیکن انسان کی عملی زندگی میں جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے وہ بے خدا نظریات ہوں یا با خدا نظریات وہ سب خودی کی فطرت سے پیدا ہوتے ہیں اور خودی کے مدارج اور مقامات ہوتے ہیں۔ زندگی خودی کے اشاروں پر چلتی ہے اور اس کی فطرت کی ترجمانی اور تشریح کرتی ہے۔ نصب العین صحیح ہو یا غلط وہ ہر حالت میں خودی کا ہی نصب العین ہوتا ہے اور خودی کے ہی کسی مقام کا پتہ دیتا ہے جو شخص خدا کا منکر ہے اور کسی غلط نصب العین سے اپنا دل لگائے ہوئے ہے وہ خودی کے ایک مقام پر ہے اگرچہ اس کا یہ مقام نہایت ہی پست ہے اور جو شخص خدا کو مانتا ہے اور خدا کو اپنا نصب العین قرار دئیے ہوئے ہے۔ وہ خودی کے دوسرے مقام پر ہے اگرچہ اس کا یہ مقام نہایت بلند اور بالا ہے۔ لہٰذا انسانی خودی کے اشارات بامطالبات کی عملی تشریح یا تصنیف کے سوائے اور کچھ نہیں۔ زندگی شرح اشارات خودی است لا و الا از مقامات خودی است یہاں لا سے مراد خدا کا انکار اور غیر اللہ کا اثبات یعنی غلط نظریات اور الا سے مراد ہے خدا کا اثبات اور غیر اللہ کا انکار (یعنی صحیح نظریہ حیات) خودی کے جذبہ محبت کی ایک خصوصیت خودی براہ راست اور شعوری طور پر خدا سے محبت کرنا چاہتی ہے لیکن خدا کی ایسی محبت فقط کسی شخص سے یہ بات سن لینے اور یاد رکھ لینے سے پیدا نہیں ہوتی کہ خدا تمام صفات حسن کا مالک ہے اور صحبت کے قابل ہے۔ بلکہ خدا کے حسن کا ذاتی احساس کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خدا کی محبت خدا کے ذاتی حسن کے احساس کا ہی نام ہے اور احساس کے بغیر خدا کی محبت کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اقبال کے الفاظ میں خدا کی محبت شنید نہیں بلکہ دید ہے۔ یعنی وہی شخص خدا سے محبت کر سکتا ہے جو خدا کے حسن کا ذاتی احساس رکھتا ہو۔ اقبال شنید کے لئے خبر اور دید کے لئے نظر کی اصطلاحات کام میں لاتا ہے۔ عقل فقط خبر مہیا کرتی ہے لیکن باخدا لوگوں کی محبت سے اور صحیح قسم کے نظریاتی ماحول سے نظر حاصل ہوتی ہے۔ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں اگربدقسمتی سے خودی کا نظریاتی یا تعلیمی ماحول ایسا ہو کہ وہ خدا کی صفات حسن کے مشاہدہ میں رکاوٹ پیدا کرے اور خدا کے حسن کے احساس کی نشوونما نہ کر سکے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خودی کا جذبہ محبت رک جائے گا اور پھر خودی کسی نصب العین کی محبت کے بغیر ہی رہے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ خودی کا جذبہ محبت رک نہیں سکتا بلکہ کسی اور ناقص نصب العین کو جو فرد کے علم اور احساس کی پستیوں سے مناسبت رکھتا ہو خدا سمجھ کر اپنا لیتا ہے۔ خودی کا جذبہ محبت ایک تیز رفتار دریا کی طرح ہے کہ جب وہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے اپنی اصلی گزر گاہ پر نہ چل سکے تو پھر رکتا نہیں۔ بلکہ اپنی راہ سے ہٹ کر اس راستہ پر بہنے لگتا ہے جو آسان یا پست ہونے کی وجہ سے اسے بہنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح سے ایک غلط سمت کی طرف چل نکلتا ہے اور راستہ میں آبادیوں کو تباہ کرتا چلا جاتا ہے۔ خودی کی محبت کا سیل رواں بھی جب کسی نظریاتی یا جذباتی رکاوٹ کی وجہ سے اپنے صحیح نصب العین یعنی خدا کی طرف جو منتہائے حسن و کمال ہے راہ نہیں پاتا تو کسی دوسرے نصب العین کی طرف بہ نکلتا ہے جس کی طرف وہ راہ پا سکتا ہے جب کوئی انسان خدا کے حسن کا احساس نہ کر سکے تو پھر جس قدر تصورات اس کے دائرہ علم میں ہوتے ہیں ان میں سے جس تصور کو بھی وہ اپنی سمجھ کے مطابق سب سے زیادہ حسین سمجھتا ہے اسی کو اپنے جذبہ محبت کو مطمئن کرنے کی ضرورت سے مجبور ہو کر اپنا نصب العین بنا لیتا ہے۔ اگرچہ ضروری ہے کہ خدا کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے وہ نصب العین حسن و کمال کی صفات سے عاری ہو۔ تاہم اس طرح سے وہ اپنی محبت کے بہاؤ کو راستہ دیتا ہے اس حقیقت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے جو خودی یا زندگی کو ایک تیز رفتار ندی سے تشبیہہ دی ہے وہ کس قدر موزوں ہے۔ وہ جوئے کہستان اچکتی ہوئی لرزتی سرکتی چھلکتی ہوئی ذرا دیکھ اسے ساقی لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام اعصابی امراض کی جڑ اگر کوئی شخص خدا کے حسن کے احساس سے محروم ہو اور اس کا جذبہ محبت کسی اور غلط نصب العین کی محبت میں بھی اظہار نہ پا سکے یعنی اس کے دائرہ علم میں کوئی ایسا تصور موجود نہ ہو جو اس کے لئے اتنی کشش یا جاذبیت رکھتا ہو کہ وہ اس کی طرف تمام صفات حسن کو شعوری یا غیر شعوری طور پر منسوب کر سکے تو وہ ہسٹریا، جنون، ذہنی مجادلہ اور ایسے ہی دوسرے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتا ہے اور جب تک وہ کوئی ایسا تصور نہ پائے جس سے وہ صحیح طور پر یا غلط طور پر مطمئن ہو اور جو اس بنا پر اس کے جذبہ محبت کو راستہ دے سکے۔ وہ بدستور ان تکالیف میں مبتلا رہتا ہے اس لحاظ سے انسان میں خدا کی محبت کا جذبہ اس کی بھوک یا غذا کی خواہش سے مشابہت رکھتا ہے اگر کسی شخص کو شدت کی بھوک لگی ہو اور اس کو عمدہ، صحت بخش اور خوش ذائقہ غذا میسر نہ آ سکے تو وہ مجبور ہوتا ہے کہ اسے جو غذا بھی مل سکے اسی سے اپنا پیٹ بھرے۔ سخت قحط کے زمانہ میں اچھے بھلے باذوق انسان درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جب کوئی انسان خدا کی معرفت سے محروم ہو تو وہ کسی ایسے نصب العین کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو غلط اور ناقص ہونے کے باوجود اس کی کم علمی اور نادانی کی وجہ سے اس کے لئے کشش کا باعث ہوتا ہے کیونکہ ا س حالت میں اسے اپنی ایک شدید نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی نہ کسی تصور کی طرف حسن منسوب کرنا پڑتا ہے خواہ اس میں حسن کی کوئی صفت موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر انسان کو اچھی خوراک کبھی نصیب نہ ہوئی تو وہ گھٹیا خوراک ہی میں لذت محسوس کرتا ہے۔ غلط نصب العین کی ناپائیداری کا سبب جب ایک انسان خدا کے علاوہ کسی اور تصور کو اپنا نصب العین بناتا ہے تو وقتی طور پر اسے حسن و کمال کی انتہا سمجھتا ہے لیکن اس کی خدمت اور اطاعت کے دوران جب وہ اسے قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ پاتا ہے یا جب اس کا دائرہ علم وسیع تر ہو جاتا ہے اور اس سے بہتر اور خوب تر تصورات اس میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ اس کے نقائص سے باخبر ہو کر اسے ترک کر دیتاہے اور پھر کسی نئے غلط تصور کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب اسے بھی ناقص پاتا ہے تو اسے بھی ترک کر دیتا ہے وہ کسی ناقص محبوب سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی فطرت کا جذبہ محبت ایک ایسے محبوب کے لئے بنایا گیا ہے جس کا حسن کامل بے عیب اور لازوال ہے اقبال انسانی خودی کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ہر نگارے کہ مرا پیش نظر مے آید خوش نگاریست دے خوشتر ازاں مے بایست ٭٭٭ چو نظر قرار گیرو بنگار خوبروئے تپیداں زمان دل من پے خوبتر نگارے طلم نہایت آں کہ نہایتے ندارد بنگاہ نا شکیے بدل امیدوارے قرآن کی روشنی قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک قصہ میں فطرت انسانی کے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق قرآن حکیم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے انہیں شروع سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور وہ شروع سے ہی موحد تھے۔ ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل و کنا بہ عالمین (ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اس بات کو خوب جانتے تھے) وہ چاہتے تھے کہ اپنی ستارہ پرست مشرک قوم پر یہ بات واضح کریں کہ ان کے معبود سب ناقص ہیں اور انسان کی محبت کے لائق نہیں۔ انسان کی محبت کے لائق صرف ایک ایسی ہستی ہی ہو سکتی ہے جس کے حسن کی کوئی حد نہ ہو۔ جو ہر نقص سے مبرا اور ہر عیب سے پاک ہو ایسا معبود سوائے خالق ارض و سما کے اور کوئی نہیں ہو سکتا لہٰذا انہوں نے اپنی قوم کو موثر طریق سے وعظ و نصیحت کرنے کے لئے یہ ڈھنگ اختیار کیا کہ جب ایک ستارہ کو افق پر چمکتے ہوئے دیکھا تو لوگوں کو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ یہ روشن اور بلند ہے اور اس میں حسن ہے لیکن جب وہ ڈوب گیا اور اس کے حسن کی ناپائیداری آشکار ہو گئی تو کہا میں کسی ڈوبنے والے سے محبت نہیں کر سکتا۔ نقص اور محبت جمع نہیں ہو سکتے (لااحب افلین میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں کرتا) پھر جب چاند نکلا تو اسے اپنا خدا بتایا کہ اس کا حسن ہر ستارے سے بڑھ چڑھ کر ہے لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اسے بھی ناقص قرار دے کر ترک کر دیا اس کے بعد جب سورج طلوع ہوا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ وہ بڑا ہے اور اس کا حسن ستارے چاند دونوں سے بڑھ کر رہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ میں ایسی ہستی کو اپنا محبوب اور معبود بناتا ہوں جو سورج، چاند اور ستاروں کا خالق ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا حسن ان سب سے فائق ہو کہ خالق ہے اور یہ سب اس کی مخلوق ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ایک انسانی فرد کے لئے کامل سے کامل تر نصب العین کے اختیار کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ۔۔ یہاں تک کہ وہ اس سوسائٹی کے نصب العین تک پہنچ جاتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے اور جس کا وہ ایک فرد ہوتا ہے یہ سوسائٹی اس کے لئے ایک ایسا تعلیمی ماحول پیدا کر چکی ہوتی ہے کہ اس کا نصب العین اس سوسائٹی کے نصب العین سے آگے نہیں جا سکتااور بہتر اور بلند تر نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کا نصب العین اسی صورت میں بدلتا ہے جب پوری سوسائٹی کا نصب العین بدل جائے یا جب وہ سوسائٹی سے بغاوت کر کے خود ایک نیا نصب العین پیش کرے اور لوگوں کو انقلاب کی دعوت دے۔ حقیقت کفر کا تجزیہ ظاہر ہے کہ چونکہ خودی صرف ایک ایسے محبوب سے محبت کر سکتی ہے جو خدا کی صفات رکھتا ہو لہٰذا اس انسان کے ساتھ جو خدا کی بجائے کسی اور کو اپنا محبوب بنانے پر مجبور ہوتا ہے جو ماجرا پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے غلط اور ناقص محبوب کے اندر اسے غلطی سے خدا کی بعض صفات کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے اور وہ ان صفات کو شعوری طور پر اور سوچ سمجھ کر اس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور ایسا کرنے کے بعد وہ فرض کر لیتا ہے کہ اس میں وہ تمام صفات موجود ہیں جن کا وہ متمنی ہے اور وہ جو خداکی صفات ہیں تاکہ اپنی غلطی کو مکمل کر کے اپنے ناقابل التواء اور نا قابل انسداد جذبہ محبت کو مطمئن کرے۔ گویا وہ خدا کی باقی ماندہ صفات کو جن کو وہ اس محبوب کی طرف شعوری طور پر منسوب نہیں کر سکتا۔ غیر شعوری طور پر منسوب کر دیتا ہے لہٰذا وہ اسے ایک خدا بنا لیتا ہے جس کے ساتھ وہ اسی طرح سے محبت کرتا ہے جس طرح سچے خدا کے ساتھ محبت کی جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے انسان کی فطرت کے اس پہلو کا ذکر فرمایا ہے۔ واتخذا من دین اللہ نداد یحبونھم کحب اللہ والذین امنو اشد جاللہ (اور انہوں نے خدا کو چھوڑ کر مقابل کے معبود بنا لئے ہیں جن سے وہ ایسی ہی محبت کرتے ہیں جو انسان کی فطرت کی رو سے خدا کے لئے ہونی چاہئے اور وہ لوگ جو دولت ایمان سے بانصب ہیں۔ خدا سے شدید محبت کرتے ہیں) خدا کو چھوڑ کر کسی غلط اور ناقص محبوب کو اختیار کرنا ایسی غلطی نہیں ہوتی جس سے بآسانی نجات مل جائے بلکہ انسان اس غلطی پر جما رہتا ہے اس کی خودی اپنے نصب العین کے ساتھ اس طرح سے پیوست ہو جاتی ہے کہ گویا وہ اور اس کا نصب العین ایک ہی ہیں لہٰذا وہ اپنے نصب العین کے خلاف آسانی سے کوئی دلیل نہ سن سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے۔ غلط نظریاتی جماعت کی توسیع، تنظیم اور موت پھر غلط نصب العین کا ماننے والا اپنے غلط نصب العین کی محبت کو اپنی اولاد میں ایک قسم کے نظریاتی توالد کے ذریعہ سے براہ راست منتقل کرتا ہے اور پھر اس کی اولاد اپنی اولاد اور اس طرح سے ایک نوع حیوانی کی طرح جو حیاتیاتی اور جسمانی توالد کے ذریعہ سے بڑھتی اور پھیلتی ہے ایک ہی نصب العین کو ماننے والے افراد نفسیاتی یا نظریاتی توالد کے ذریعہ سے ایک عرصہ تک بڑھتے اور پھیلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک بہت بڑی جماعت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر اس جماعت کے اندر ایک تنظیم پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک ریاست کی شکل میں آ جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں جتنی ریاستیں ہیں ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی نصب العین حیات کو ماننے اور چاہنے والوں کی ایک جماعت ہے جو سیاسی طور پر منظم ہو گئی ہے۔ جب کسی ریاست کا نصب العین حیات غلط ہو تو اس کا وجود اس نصب العین کی پرستار ریاست کی حیثیت سے پائیدار نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک اسی نصب العین پر قائم رہے لیکن آخر کار ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اسے اس نصب العین کو ترک کرنا پڑتا ہے جب یہ وقت آتا ہے تو وہ ریاست مٹ جاتی ہے اور اس کی جگہ دوسری ریاست وجود میں آجاتی ہے۔ غلط نظریاتی جماعت کی موت کے اسباب اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی ریاست کا نصب العین غلط ہو تو وہ غلط قسم کے اخلاقی، اقتصادی، قانونی، تعلیمی، علمی، فوجی، مذہبی، جمالیاتی اور اطلاعاتی حالات پیدا کرتا ہے جو ہماری آرزوئے حسن کے مطابق نہیں ہوتے اور جن کو ہم آخر کار ناپسند رکتے ہیں وہ ہمیں نصب العین کے ناقص ہونے کا پتہ دیتے ہیں اور اس طرح سے ہمیں نصب العین سے نفرت کرنے اور بالآخر اسے ترک کرنے پر مجبور کرتے ہیں ایک ریاست کے تمام اعمال و افعال اس کے نصب العین سے سرزد ہوتے ہیں۔ ایک نصب العین کی محبت فقط ایک قلبی یا ذہنی کیفیت نہیں ہوتی بلکہ ایک بے پناہ قوت عمل ہوتی ہے جو فرد اور جماعت کے تمام افعال کو معین کرتی ہے اور اس کی زندگی کے تمام حالات کو پیدا کرتی ہے یا ان کو بدل کر نصب العین کے مطابق کرتی ہے۔ آرزو صید مقاصد را کمند دفتر اعمال را شیرازہ بند لہٰذا ایک منظم جماعت یا ریاست کا نصب العین اس کی زندگی کے حالات کے اندر اس طرح سے منعکس ہو جاتاہے۔ جس طرح سے ایک آئینہ کے اندر اس کے سامنے کی دنیا، اس کی عملی زندگی جو اس کی سیاسی، تعلیمی، فوجی، اخلاقی، مذہبی، علمی، جمالیاتی، قانونی، اقتصادی اور اطلاعاتی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کے نصب العین کی ہو بہو تصویر ہوتی ہے جو اتنی ہی زیبا یا زشت ہوتی ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس سے وہ پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ایک قوم کا غلط نصب العین اس کی عملی زندگی کی بدنما تصویر کی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے تو وہ اس کے نقائص سے واقف ہو جاتی ہے اور اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ ایک فرد کی طرح غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ایک نظریاتی جماعت بھی اپنے نصب العین کی طرف حسن کی چند صفات شعوری طور پر اور باقی صفات غیر شعوری طور پر منسوب کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فرد ہی کی طرح اپنی تمام جدوجہد کو حسن کی ان صفات کے عملی اور خارجی اظہار پر صرف کرتی ہے جن کو وہ اپنے نصب العین کی طرف شعوری طور پر منسوب کرتی ہے اور باقی تمام صفات حسن کو نظر انداز کرتی ہے لیکن یہی بات کہ وہ حسن صداقت اور نیکی کی بعض صفات کو نظر انداز کرتی ہے اس کے لئے نا ممکن بنا دیتی ہے کہ وہ ان صفات حسن کو اپنی عملی اور خارجی زندگی میں کامیابی کے ساتھ اجاگر کر سکے جن کی موجودگی وہ اپنے نصب العین میں شعوری طور پر محسوس کرتی ہے اور جن کو وہ عملی طور پر نظر اندا زکرنا نہیں چاہتی چونکہ وہ حسن کے بہت سے تقاضوں کی طرف سے عملاً بے پرواہ رہتی ہے وہ حسن کے ان چند تقاضوں کو بھی جن کی وہ پرواہ کرتی ہے آزادی اور عمدگی اور کامیابی کے ساتھ پور نہیں کر سکتی۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایک غلط نصب العین کی فطرت اس قسم کی ہوتی ہے کہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ جو قوم بھی اسے اپنائے اس کے حالات ایک خاص مدت کے بعد قوم کی ساری کوششوں کے باوجود دن بدن بگڑتے چلے جائیں یہاں تک کہ وہ بالکل تباہ و برباد ہو جائے۔ غلط نصب العین کی پرستار ریاست کی بربادی کا سامان اس کے نصب العین کی فطرت کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی ریاست کا آشیانہ شاخ نازک پر ہوتا ہے اور وہ اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرتی ہے۔ اسی بنا پر اقبال عصر جدید کی لادینی تہذیب کے علمبرداروں کو خطاب کر کے کہتا ہے۔ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا ایسی ریاست کی ناپائیداری کی وجہ یہ ہے کہ ہر غلط نصب العین یہ چاہتا ہے کہ حسن نیکی اور صداقت کے صرف چند تقاضوں کو پورا کر کے باقی تقاضوں کو نظر انداز کر دے۔ حالانکہ حسن نیکی اور صداقت کا کوئی تقاضا ان کے دوسرے تقاضوں کی مدد اور اعانت کے بغیر پور انہیں کی اجا سکتا۔ سارا حسن خدا کی ذات ہے اور حسن میں نیکی اور صداقت اور خداوند تعالیٰ کی تمام صفات جلال و جمال شامل ہیں۔ چونکہ حسن ایک وحدت ہے اور اس کا اکتساب یا تتبع ایک وحدت ہی کے طور پر کیا جا سکتا ہے ورنہ بالکل نہیں کیا جا سکتا مثلاً سیاسی مساوات جسے جمہوریت کہتے ہیں یا اقتصادی مساوات جسے اشتراکیت کہتے ہیں دونوں خدا کی صفت عدل کے مظاہر ہیں۔ لہٰذا دونوں میں سے کوئی مساوات بھی ایسی نہیں جسے کوئی انسانی جماعت خدا کی محبت کی تربیت اور ترقی کے بغیر یا خدا کی محبت سے بے نیاز ہو کر عمل اور مستقل طور پر حاصل کر سکے۔ غلط نظریاتی جماعتی کے عروج و زوال کا عمل تاہم قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ کے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ غلط نصب العین کی پیروی کا وہ عمل جس کے نتیجہ کے طور پر بالاخر ایک قوم جس کا کاروبار زندگی اس غلط نصب العین پر قائم ہو چکا ہو۔ اپنے نصب العین کی خامیوں او ربرائیوں سے آگاہ ہو کر اسے چھوڑ دیتی ہے اتنا طویل ہوتا ہے کہ آٹھ دس صدیوں کے عرصۃ میں پھیل جاتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے چاہنے والوں کی امیدیں بلند ہوتی ہیں ان کی محبت تازہ اور شگفتہ اور پر خلوص اور دلیر ہوتی ہے اور وہ ہر ممکن جدوجہد کرتے ہیں کہ جو حسن وہ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اسے جہان رنگ و بو میں آشکار کر کے دکھائیں اس سے ان کی محبت اور بھی ترقی پاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نصب العین کی ہر قسم کی فتوحات بڑھتی چلی جاتی ہیں اور اس کا دائرہا ثر و نفوذ پھیلتا چلا جاتا ہے اور نصب العین کی قوت اور شوکت ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے عروج کے اس انتہائی نکتہ پر پہنچ جاتاہے جہاں وہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کی وجہ سے پہنچ سکتا ہے۔ قدرت کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ ہر قوم کو خواہ اس کا نصب العین صحیح ہو یا غلط اپنی صلاحیتوں کی حد تک بڑھنے اور پھولنے کے تمام مواقع بہم پہنچاتی ہے اور ہر قوم زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سمت میں جس قدر اس کے نصب العین کی فطرت اسے ترقی کا موقعہ دے سکتی ہے ترقی کرتی ہے۔ غلط نصب العینوں کی عارضی ترقی کا سبب یہی ہے۔ قرآن حکیم نے اس قانون قدرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کلا نمدھوا الا وھولا ئمن عطاء ربک وما کان عطاء ربک محظورا (ہم سب کی مدد کرتے ہیں ان کی بھی یہ آپ کے پروردگار کی مہربانی ہے اور آپ کے پروردگار کی مہربانی محدود نہیں) لیکن رفتہ رفتہ جب ان کے غلط نصب العینوں کے نقائص آشکار ہونے لگتے ہیں تو ان کی محبت میں بھی زوال آنے لگتا ہے۔ وہ اب بھی اس کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں لیکن اب اس کے لئے ان کی ستائش کا جذبہ کمزور اور ان کے عمل کا جوش سرد ہونے لگتا ہے لہٰذا نصب العین کی قوت اور شوکت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور اس کے مداحوں اور عاشقوں کی محبت بھی اسی نسبت سے گھٹتی جاتی ہے زاور پھر وہ اپنی زندگی میں نصب العین کی محبت کے خلاء کو پر کرنے کے لئے عیش و عشرت اور تماشہ اور تفریح کی طرف رجوع کرتے ہیں جس نسبت سے نصب العین کے ساتھ ان کی محبت کم ہوتی جاتی ہے اسی نسبت سے عیش و عشرت کی طرف ان کی رغبت بڑھتی جاتی ہے اور یہ رغبت ان کی محبت کو اور کمزور کرتی جاتی ہے۔ عیش و عشرت سے قوم کی رغبت اس کے زوال کا سبب نہیں بلکہ اس کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لہٰذا جب یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب قوم کا زوال اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور اس کی اجل قریب ہے۔ غلط نصب العینوں پر قائم ہونے والی نظریاتی جماعتوں کی تقدیر یہی ہوتی ہے۔ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر قرآن حکیم نے ایسی ہر جماعت کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔ لکل امہ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستا خرئن ماعہ ولا یستقدمون ۔ (خدا نے ہر کافر قوم کے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو پھر ان کی موت ایک لمحہ کے لئے بھی آگے یا پیچھے نہیں ہوتی) ایسے موقعہ پر کسی بیرونی دشمن کا کچل دینے والا حملہ یا کسی اندرونی دشمن کی کامیاب بغاوت اس کے ختم ہونے کا ظاہری سبب بن جاتی ہے اور جب وہ ختم ہو جاتی ہے تو ایک نئے نصب العین کو چاہنے والی ایک نئی قوم اس کی جگہ لے لیتی ہے اگر اس نئی قوم کا نصب العین بھی غلط ہو تو آخر کار اس کا حشر بھی وہی ہوتا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے قومیں اور تہذیبیں جن میں سے ہر ایک کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے انسانی تاریخ کے اسٹیج پر نمودار ہوتی ہیں۔ ترقی کرتی ہیں اپنی شان و شوکت کی انتہا تک پہنچتی ہیں اور پھر روبہ زوال ہو کر آخر کار مٹ جاتی ہیں اور نئی قومیں اور تہذیبیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں جو اپنی باری پر پھر تاریخ کے اسی عمل کو دہراتی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے عمل کی آخری منزل جب کوئی قوم اپنے غلط نصب العین کو اس کے نقائص کی وجہ سے ترک کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ نیا نصب العین جو وہ اختیار کرے پہلے نصب العین کے نقائص سے پاک ہو لیکن چونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح نصب العین کیا ہے۔ اس لئے اس نئے نصب العین کے اندر اور نقائص موجود ہو جاتے ہیں جو پہلے نصب العین میں نہیں تھے اگرچہ ہر نصب العین حق و باطل اور حسن و غیر حسن کے امتزاج سے بنتا ہے لیکن ہر نیا نصب العین حسن کے بعض عناصر میں پہلینصب العین سے بلند تر ہوتا ہے۔ تاہم پرانے نصب العین کا ترک کرنا اور نئے نصب العین کا اختیار کرنا بڑے بڑے آلام و مصائب کا سامنا کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح سے نوع انسانی کا تصور حسن اس موتی کی طرح جو پے بہ پے آنے والے طوفانوںمیں پرورش پا کر اپنے کمال کو پہنچتا ہے بڑے تلخ تجربات اور صبر آزما حوادث کے سیلاب سے تربیت پا کر رفتہ رفتہ بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لہٰذ اایک دن ایسا ضرور آئے گا جب نوع انسانی کا تصور حسن بلندی میں آسمان سے بھی گزر جائے گا اور کرسی اور عرش تک پہنچے گا اور نوع انسانی حالات سے مجبور ہو کر اپنا تصور حسن خود خدا ہی کو قرار دے گا اور اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ خود انسان کی فطرت اس بات کی ضامن ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا اور نوع انسانی حسن نیکی اور صداقت کے اوصاف کو اپنے آپ میں آشکار کر کے خدا کے پسندیدہ نصب العینی انسان کے اس قدر قریب آ جائے گی کہ خدا کا دل اس کی محبت سے بھر جائے گا۔ خیال اوکر از سیل حوادث پرورش گیرد ز گرداب سپر نیلگوں بیرون شود روزے یکے در معنی آدم نگر از ما چہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں را دل ز تاثیر اوپر خون شود روزے اور جب انسان خدا کے نصب العین کو پوری طرح سمجھ بوجھ کر اپنائے گا تو پھر وہ اس نصب العین کو ترک نہیں کر سکے گا۔عمل تاریخ کے ان اسباب سے ہی جن کی تشریح اوپر کی گئی ہے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ وہ نظریاتی جماعت جو خدا کے ایسے صحیح اور کامل تصور پر جو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو قائم ہوتی ہے وہ عمل تاریخ کے ملیا میٹ کرنے والے اثرات سے محفوظ رہتی ہے چونکہ خدا کا ایسا تصور تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہوتاہے جو قوم اسے اپناتی ہے اور اس پر قائم رہتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے وہ اپنی محبت میں کبھی مایوسیوں سے دوچار نہیں ہوتی اور اس کی محبت کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس قوم پر بھی نصب العینوں کی باہمی رقابت اور جنگ و جدال کی وجہ سے ضعف اور قوت کے ادوارکا آنا جانا ضروری ہوتا ہے لیکن اس بات کے باوجود یہ قوم اور اس کا نصب العین تا قیامت موجود رہتے ہیں۔ اب میں عرض کروں گا کہ یہ کس طرح وجود میں آتی ہے اور تاریخ کے قدرتی عمل میں اس کا رول کیا ہوتا ہے۔ ٭٭٭ خودی اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ایک رحمتہ للعالمینؐ کی ضرورت چونکہ غلط تصورات حسن حق و باطل اور حسن و غیر حسن کے امتزاجات اور مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں او ران کی کثرت کی کوئی حد نہیں ہو سکتی سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں نوع انسانی کو کس طرح سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کا صحیح اور سچا نصب العین کیا ہے۔ اقبال کا جواب یہ ہے کہ خدا خود نوع انسانی کی رہنمائی کا اہتمام کرتا ہے اور اس اہتمام کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کا ایک سلسلہ پیدا کرتا ہے جو کامل نبی یا رحمتہ للعالمین پر ختم ہوتا ہے یہ کامل نبی یا رحمتہ للعالمین پہلے انبیاء کی طرح نوع انسانی کو نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ان کا سچا نصب العین خدا ہے بلکہ تعلیم نبوت کو درجہ کمال پر پہنچا کر انبیاء کے سلسلہ کو ختم کر دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی نظری تعلیم اور اپنی عملی زندگی کے نمونہ سے خدا کے تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرنے کی وجہ سے ایک کامل نظریہ حیات وجود میں لاتا ہے جو نوع انسانی کے ارتقاء کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کو زندگی کے تمام شعبوں میں حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ رحمتہ للعالمین جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن پر قرآن حکیم نازل ہوا ہے اور جن کا عطا کیا ہوا کامل نظریہ حیات اسلام کہلاتاہے۔ تخلیق عالم کے تین مرحلے اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی ہنگامہ عالم برپا کرتاہے یا جہان رنگ و بو پیدا کرتا ہے تو خدا کی ازلی اور ابدی صفات کے تقاضوں کی وجہ سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی خاک سے خدا کی آرزو یا محبت کا جذبہ نمودار ہو یعنی اس کا مدعا انسان کی طرح کی کسی ایسی مخلوق کی تخلیق یا تکمیل ہوتا ہے۔ جو ہمہ تن خدا کی آرزو یا محبت ہو۔ لہٰذا اس ہنگامہ عالم یا جہان رنگ و بو کے لئے آخر کار ایک رحمتہ للعالمین یا کامل نبی کا وجود ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی تعلیم اور اپنی عملی زندگی کے نمونہ کے اثر سے خدا کی محبت کی تربیت کر کے اس کو درجہ کمال پر پہنچائے چونکہ ضروری ہوتا ہے کہ یہ مخلوق آخر کار ایک ایسی خودی یا شخصیت کی صورت اختیار کرے جو ایک مکمل مادہ سے تعمیر پائے ہوئے مکمل جسم حیوانی میں جاگزیں ہو اور جس کا حسن اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ لہٰذا اس مخلوق کی تکمیل تین مرحلوں میں انجام پاتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی تکمیل کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس مادہ یا مٹی کو جس سے اس کا جسم تیار ہونا ہے، مکمل کر لیا جائے لہٰذا اس جہان رنگ و بو کی تخلیق کے پہلے مرحلہ یا پہلے دور ارتقا کا مقصد مادہ اور اس کے قوانین کی تکمیل ہوتا ہے اور اس دور کی تخلیقی کارروائی کو قرآن حکیم نے تقدیر یعنی اندازوں کے تقر رکا نام دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مادہ اور اس کے قوانین کی تکمیل کے ہر مرحلہ پر ریاضیاتی اندازوں اور حسابوں کا تعین عمل میں لایا جاتاہے۔ مادہ کی تکمیل کے بعد اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو جسم حیوانی اس مادہ سے تیار ہونا ہے اسے مکمل کیا جائے اور اسے بروقت ضرورت خود بخود عمل کرنے کے ایسے طریقے سکھا دئیے جائیں جو جبلتوں کی صورت میں جسم حیوانی میں راسخ ہو جائیں تاکہ حیوان خود بخود اپنی زندگی اور نسل کو قائم رکھ کر ترقی کے مدارج طے کرے اور پھر اس قدر مکمل ہو جائے کہ خودی کا مقام اور مسکن بن سکے۔ چونکہ اس دور کی تخلیقی کارروائی کا مقصد حیوان کے اندر جبلتی تقاضوں کو راسخ کرنا ہے لہٰذا خدا نے قرآن حکیم میں اس کو ’’ ہدایت‘‘ یعنی بدنی اور حیاتیاتی ضرورتوں کی تشفی کے طریقوں کی ’’ راہ نمائی‘‘ کا نام دیا ہے پھر جب خودی جسم حیوانی میں پیدا ہوتی ہے تو اس مخلوق کی تکمیل کا آخری دور شروع ہوتا ہے اور اس دور میں خودی ایک رحمتہ للعالمین یا مصطفیؐ کا ظہور ہو سکتا ہے اور یا پھر اس میں کوئی رحمتہ للعالمین ظہور پا چکا ہو گا۔ اور وہ اس کے نورسے منور ہو رہا ہو گا۔ اقبال نے اس مضمون کو چار شعروں میں اس طرح بیان کیا ہے۔ ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہ للعالمینے ہم بود خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمتہ للعالمینے انتہا است ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آنکہ از خاکش بر دید آرزو یا ز نور مصطفی اورا بہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفیٰ است نبوت کیوں ختم ہو جاتی ہے بعض لوگوں نے ابھی تک نہیں سمجھا کہ نبوت جس کا مقصد نوع انسانی کی ہدایت ہے۔ آخر کار کسی ایک نبی پر کیوں ختم ہو جاتی ہے اور کیوں جب تک نوع انسانی باقی ہے اور راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتی ہے یعنی تا قیامت جاری نہیں رہتی لیکن اگر ہم نبوت کی حقیقت کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیں تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ نبوت کی حقیقت نبوت اور وحی کی حیقیقت کے مطلق علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ نبی روحانی تجربہ رکھنے والا ایک ایسا انسان ہوتا ہے جس کی ذات میں خدا سے ملاپ کا احساس اپنی حد سے گزر کر بہ نکلنے پر مائل ہوتا ہے اور جماعتی زندگی کے محرکات کی نئی تشکیل اور راہنمائی کے مواقع تلاش کرتا ہے۔ اس کی شخصیت میں زندگی کا محدود مرکز اپنی غیر محدود گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے تاکہ پھر نئی قوت کے ساتھ ابھرے اور زندگی کی فرسودہ راہوں کی بیخ کنی اور اس کی نئی راہوں کی نشاندہی کرے اپنے وجود کی اصل کے ساتھ اس قسم کا رابطہ انسان کے ساتھ خاص نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وحی کا لفظ جس طرح سے قرآن حکیم میں استعمال ہو اہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک وحی زندگی کی ایک ہمہ گیر خاصیت ہے۔ اگرچہ ارتقائے حیات کے مختلف مرحلوں میں اس کی ماہیت یا کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ ایک پودا جو اپنی نوع کی موروثی شکل یا بناوٹ سے آزاد ہو کر فضا میں اگتا ہے۔ ایک جسم حیوانی جو ایک نئے ماحول کی رعایت سے ایک ایسا نیا عضو پیدا کر لیتا ہے جو اس کے باپ دادا کو حاصل نہیں تھا یا ایک انسان جو خودی کی اندرونی گہرائیوں سے علم کی روشنی حاصل کرتا ہے یہ سب وحی کی مختلف صورتیں ہیں جن کی ماہیت وحی پانے والے فرد کی ضرورت کے مطابق یا اس نوع کی ضرورت کے مطابق جس کا وہ فرد ہوتاہے بدل جاتی ہے۔‘‘ مظہر تقلیب ایک پودے یا جسم حیوانی کا اس طرح سے نشوونما پانا کہ اس کی موروثی شکل و صورت بدل جائے اور وہ ایک نئی نوع کا جد اول بن جائے ایک حیاتیاتی مظہر قدرت ہے جسے حیاتیات کی زبان میں تقلیب یا نوع کا فوری تغیر کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی کی خاصیات کا ایک تقاضا تھا کہ حیاتیاتی مرحلہ ارتقا میں تقلیبات بار بار اور نہایت کثرت کے ساتھ رونما ہوتی رہیں۔ حیوانات اور نباتات کی رنگا رنگی اور بو قلمونی جو آج اس کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آ رہی ہے ان ہی تقلیبات کا نتیجہ ہے اقبال کے اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اقبال کے نزدیک نبوت کا نظریاتی مظہر اسی حیاتیاتی مظہر کی ہی ایک مختلف اور انسانی مرحلہ ارتقا سے مناسبت رکھنے والی شکل ہے جسے ماہرین حیاتیات نے تقلیبات یا انواع کے فوری تغیرات کا نام دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم قدرت کے مظہر تقلیبات کے اسباب اور اس کی کیفیات کا تجزیہ کر کے اس کے سارے علمی مضمرات اور متضمنات پر حاوی ہو جائیں تو ہم سمجھ سکیں گے کہ اقبال نے تخلیق اور ارتقائے عالم میں رحمتہ للعالمین کے مقام کے متعلق اوپر کے چار شعروں میں جس خیال کا اظہار کیا ہے اس کی علمی اور عقلی بنیادیں کیا ہیں۔ تقلیبات کا سبب خودی کا زبردست جذبہ تکمیل ہے تقلیبات حیاتیاتی ہوں یا نظریاتی ان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خودی کی قوت تخلیق (یعنی خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کی قوت) کائنات کو حالت کمال پر پہنچانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات ہر وقت ایک پیکر خوب تر کی جستجو میں رہتی ہے۔ یہ قوت نہایت ہی زبردست اور بے پناہ ہے اور اپنے ہر کام پر ہر حالت میں غالب آنے والی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے۔ واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون (خدا اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے) پھر قرآن حکیم میں ہے ما کان اللہ لیعجزہ شی فی السموات والارض انہ کان علیما قدیرا۔ (اور خدا ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اس کو عاجز کر سکے وہ علم والا اور قدرت والا ہے) لہٰذا جب بھی اس قوت کو اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں کسی مزاحمت یا رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی پوری طاقت جمع کر کے اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے توڑ کر اپنی منزل مقصود کی طرف آگے نکل جاتی ہے۔ زندگی کے اسی وصف کی وجہ سے اقبال نے اسے جوئے کہستان سے تشبیہہ دی ہے کہ وہ بھی جب رکتی ہے تو پہاڑوں کی چٹانوں کو چیر کر آگے نکل جاتی ہے۔ رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ حیوان کامل حیاتیاتی ارتقا کا مقصود حیاتیاتی مرحلہ ارتقا ایک نہایت ہی چھوٹے سے حیوان امیبا سے شروع ہوا تھا جو مادی طور پر مکمل ہو جانے کی وجہ سے اس قابل ہو گیا تھا کہ زندہ ہو جائے اور زندگی کا جوہر پا لینے کی وجہ سے کشش ثقل اور ایسے ہی دوسرے مادی قوانین کی مزاحمت کا مقابلہ کر سکے جو تمام جامد اور بے حرکت مادی اشیاء کو اپنے ضبط کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ پہلا حیوان اپنی ساخت میں اتنا سادہ تھا کہ صرف ایک ہی خلیہ پر مشتمل تھا لیکن زندگی کی رو یا خدا کے قول کن کی قوت جو اس حیوان کے ا ندر کام کر رہی تھی اس کو برابر ترقی دیتی رہی یہاں تک کہ اس سے نئی انواع حیوانات پیدا ہوتی گئیں۔ جن کی جسمانی ساخت بتدریج زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتی گئی اور جن کے مراکز دماغی اور نظام ہائے عصبی متواتر زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نت نئی وجود میں آنے والی انواع حیوانات کسی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں ظاہر ہے کہ حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں خودی کی منزل مقصود یہ تھی کہ ایک ایسا کامل جسم حیوانی پیدا کیا جائے جو اپنی مکمل جسمانی اور دماغی ساخت کی وجہ سے اس قابل ہو کہ اس میں جوہر خودی نمودار ہو جائے تاکہ وہ آئندہ کے ارتقاء کا جو نظریاتی ارتقاء ہونے والا تھا ذریعہ بن سکے اور پھر اس کی اولاد کو ترقی دے کر روئے زمین پر پھیلا دیا جائے اور تمام حیوانات پر غالب کر دیا جائے۔ تاکہ وہ دوسرے حیوانات کی مزاحمت کے بغیر آزادی سے عمل ارتقاء کو جاری رکھ سکے۔ یہی حیوان کامل انسان ہے۔ حیاتیاتی ارتقا کی رکاوٹیں زندگی کو حیاتیاتی مرحلہ ارتقا میں اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ایک رکاوٹ حیاتیاتی وراثت کے قانون سے پیدا ہوئی۔ اس قانون کی وجہ سے ایک ہی نوع حیوانات کے افراد اپنے آباؤ اجداد کی جسمانی ساخت کا اعادہ کرتے ہیں خواہ وہ اچھی ہو یا بری پست ہو یا بلند اور اس سے سر مو انحراف نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ اس قانون سے قدرت کی غرض یہ تھی کہ جب حیوان کامل یا انسان وجود میں آئے اور اس کی نسل ترقی پانے لگے تو اس کی اولاد اپنی اس ابتدائی جسمانی ساخت کو جب سب سے پہلے انسان کو عطا ہوئی ہو اور جو کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقاء کا نہایت ہی قیمتی ثمر قرار پا چکی ہو۔ نسلاً بعد نسلاً ایک اندرونی حیاتیاتی دباؤ کی وجہ سے اپنی اصلی صورت میں ہمیشہ قائم رکھ سکے۔ تاکہ انسان اپنی اس پائیدار حیاتیاتی تکمیل اور برتری کی وجہ سے نہ صرف قائم رہے اور دنیا میں پھیل جائے بلکہ اپنے قائم رہنے اور پھیل جانے کی وجہ سے اپنے نظریاتی ارتقاء کو کسی ناقابل عبور مزاحمت کے بغیر جاری رکھ سکے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جب تک حیاتیاتی سطح ارتقاء پر ہر نچلے درجہ کی نوع حیوانات میں سے کم از کم ایک فرد حیاتیاتی وراثت کے قانون کو توڑ کر کسی بہتر اور بلند تر قسم کی جسمانی ساخت کا مالک نہ بنے جو اس کی اولاد میں بھی منتقل ہو اس وقت تک ایک نوع سے دوسری بلند تر نوع پیدا نہ ہو سکتی تھی اور حیوان کامل یا انسان کے ظہور تک نوبت ہی نہ پہنچ سکتی تھی۔ حیاتیاتی تقلیبات کا سلسلہ لہٰذا حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں ایسا ہوتا رہا کہ ہر بار جب خودی نے محسوس کیا کہ اس کی منزل مقصود کی طرف اس کی ارتقائی حرکت بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حد سے زیادہ سست ہو رہی ہے تو اس نے ایک غیرمعمولی کوشش کی اور یکایک گویا ایک جست سے اپنی رکاوٹوں کو عبور کر گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسا جسم حیوانی فوری اور معجزانہ طور پر وجود میں آ گیا جو اپنی نوع سے یکسر مختلف تھا اور اپنی ترقی یافتہ جسمانی ساخت کی وجہ سے کامل جسم حیوانی سے قریب تر تھا۔ پھر اس ترقی یافتہ جسم حیوانی کی اولاد سے ایک نئی اور بہتر اور بلند تر نوع حیوانات عالم وجود میں آئی۔ حیاتیاتی تقلیبات کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا یعنی جب تک کہ وہ کامل جسم حیوانی نمودار نہیں ہوا جو حیاتیاتی ارتقاء کی منزل مقصود تھا اور جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو تقلیبات کے ظہور کا سبب (یعنی منزل سے دور مزاحمت رکاوٹ اور سست رفتاری کا سامنا) زائل ہو جانے کی وجہ سے ان کا سلسلہ خود بخود منقطع ہو گیا اور یہ کامل جسم حیوانی آخری نوع حیوانی قرار پایا۔ یہی آخری اور کامل جسم حیوانی انسان ہے۔ حیاتیاتی ارتقاء کی شاہراہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت انسان کی اولاد ترقی پا کر تمام انواع حیوانات پر غالب آ چکی ہے اور اس کے ذریعہ سے کائنات کا آئندہ کا ارتقا جو نظریاتی قسم کا ہے جاری ہے۔ حیاتیاتی ارتقا کا وہ راستہ جو امیبا سے انسان تک جاتا ہے حیاتیاتی ارتقا کا سیدھا راستہ یا اس کی شاہراہ ہے جس پر ارتقا براہ راست خالق کائنات کے مقصد کے مطابق ہوتا رہا۔ اس شاہراہ کی ہر منزل پر جسم انسانی کی ایک نئی ترقی یافتہ صورت ایک جدید نوع حیوانی کی شکل میں ایک تقلیب کے ذریعہ سے وجود میں آتی رہی۔ تاہم اس شاہراہ کی مختلف منزلوں سے ارتقا کے غلط راستے بھی نکلتے رہے جن پر ارتقا جاری رہا لیکن تھوڑی دور آگے جا کر ختم ہو گیا کیونکہ ارتقاء کی شاہراہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ارتقا کی منزل مقصود پر پہنچ سکے۔ ارتقا کی ان گمراہیوں کی وجہ یہ تھی کہ شاہراہ ارتقا کی ہر منزل پر انسان کی پست تر اشکال کو ابھی حیوانی سطح پر ہی تھیں غلط قسم کا حیاتیاتی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے زندگی یا حیاتیاتی تکمیل کی قوت جو ان کے اندر کام کر رہی تھی اور جو کسی اور راستہ پر کامیاب ہو رہی تھی۔ موافق حالات نہ پانے کی وجہ سے ایسی سمتوں میں کام کرنے اور ایسی تقلیبات پیدا کرنے لگی جو جسم انسانی کی تکمیل کی طرف آگے نہ جاتی تھیں اور جو لہٰذا براہ راست اس کا مقصود نہ تھیں۔ زندگی کا قاعدہ ہے کہ وہ ناموافق حالات میں بھی اپنی جس قدر ممکنات کو جس قدر زیادہ ظاہر کر سکتی ہے، ظاہر کرتی ہے۔ موجودہ دور میں بعض غلط نظریاتی جماعتوں کی عارضی طاقت اور شان و شوکت زندگی کے اسی قاعدہ کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک تقلیب صحیح راستہ سے ہٹ جائے تو ضروری ہے کہ بعد کی تقلیبات اور بھی صحیح راستہ سے ہٹتی چلی جائیں کسی ریلوے کی برانچ لائن کی طرح کہ وہ مین لائن سے الگ ہوتی ہے تو پھر جس قدر آگے جاتی ہے اس قدر اس سے اور دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ آئندہ کے ارتقا کی نوعیت زندگی کا ایک اور قاعدہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقی کارروائیوں میں کفایت سے کام لیتی ہے اور اپنے کار آمد حاصلات کو کبھی ضائع نہیں کرتی بلکہ ان سے پورا کام لیتی ہے۔ اس قاعدہ کی وجہ سے زندگی ارتقا کے عمل میں اپنی جس مخفی استعداد کو ایک بار نمودار کر لیتی ہے اسی کو آئندہ کے ارتقا کے لئے کام میں لاتی ہے اور در حقیقت وہ اس کو نمدار ہی اسی لئے کرتی ہے کہ اسے آئندہ کے ارتقا کی اسکیم میں اس سے کام لینا ہوتا ہے۔ کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقا کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ حیوان کامل یا انسان وجود میں آ گیا ہے جو نہ صرف حیاتیاتی نقطہ نظر سے کامل ہے بلکہ جس کے اندر حیاتیاتی تکمیل کی وجہ سے ایک نئی استعداد یعنی خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ پیدا ہو گیا ہے لہٰذا زندگی کے اس قاعدہ کے مطابق ضروری ہے کہ انسان کے بعد کا سارا ارتقا انسان ہی کے راستہ سے ہوا اور اس کا دار و مدار انسان کی اس استعداد کے اظہار پر ہو۔ دوسرے لفظوں میں اب کائنات کے ارتقا کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ انسان اپنی عملی زندگی میں خدا کی محبت کے جذبہ کو کس حد تک مطمئن کرتا ہے چوں کہ جولین بکسلے (Julian Huxley) خدا کے عقیدہ سے نا آشنا ہے اور فطرت انسانی میں نظریات اور اقدار کے منبع کو نہیں جانتا وہ اس حقیقت کا اظہار اس طرح سے کرتا ہے۔ ’’ انسان کے وجود میں آنے کے بعد ارتقا کی نوعیت یکایک بدل جاتی ہے۔ انسانی شعور کے ساتھ اقدار اور نظریات پہلی دفعہ زمین پر ظہور پذیر ہوئے۔ لہٰذا مزید ارتقا کا معیار یہ ہے کہ یہ نظریاتی اقدار کس حد تک مطمئن ہوتی ہیں۔‘‘ چونکہ خدا کی محبت کا جذبہ جو صحیح نظریہ حیات کی بنیاد بنتا ہے وہی بہک کر غلط نظریات بھی پیدا کرتا ہے ظاہر ہے کہ نوع انسانی کے تمام نظریات اسی جذبہ کی پیداوار ہیں اور اسی کو مطمئن کرنے کی کامیاب یا ناکام کوششیں ہیں۔ زندگی شرح اشارات خودی است لا و الا از مقامات خودی است حیاتیاتی اور نظریاتی ارتقا کی مماثلت چونکہ زندگی ایک ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے لہٰذا خواہ وہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر سرگرم عمل ہو یا نظریاتی سطح ارتقاء پر۔ اس کے بڑے بڑے اوصاف و خواص کے اظہار میں کوئی بنیادی فرق نہیں آتا۔ مثلاً اگر زندگی حیاتیاتی سطح پر نشوونما کرتی ہے تو نظریاتی سطح پر بھی نشوونما کرتی ہے۔ اگرچہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر جسم حیوانی کی صورت میں ایک کل یا وحدت کی تشکیل کرتی ہے تو نظریاتی سطح ارتقا پر بھی انسانی شخصیت کی صورت میں ایک کل یا وحدت کی تشکیل کرتی ہے۔ا گر حیاتیاتی سطح پر ایک جسم حیوانی ایک خاص مادی شکل رکھتا ہے جو اس کے اعضا و جوارح کی ساخت سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ تو نظریاتی سطح پر انسانی شخصیت بھی ایک خاص نظریاتی شکل رکھتی ہے جو اس کے نصب العین کی صفات سے پیدا ہونے والے اعتقادات و تصورات، اخلاق و اعمال، عادات و شمامل اور افکار و آراء سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ اگر جسم حیوانی حیاتین، پروتین اور فلزات کی صورت میں مادی غذا جذب کر کے نشوونما پاتا ہے تو شخصیت انسانی بھی نصب العین کی صفات کے حسن کی صورت میں نفسیاتی غذا جذب کر کے نشوونما پاتی ہے۔ اگر جسم حیوانی نشوونما پا کر فرد کے والدین کے جسمانی نمونہ کے مطابق بن جاتا ہے تو شخصیت انسانی بھی نشوونما پا کر فرد کے والدین کے نظریاتی نمونہ کے مطابق بن جاتی ہے۔ اگر حیاتیاتی سطح پر ایک جسم حیوانی عمل توالد کے ذریعہ سے اپنی شکل کے اور بہت سے حیوانات پیدا کر کے اپنی مخصوص نوع حیوانی کو وجود میں لاتا ہے تو نظریاتی سطح پر ایک انسانی شخصیت بھی ایک قسم کے نظریاتی توالد کے ذریعہ سے اپنی ہی نظریاتی شکل کی اور بہت سی شخصیتیں پیدا کر کے اپنی مخصوص نظریاتی جماعت کو وجود میں لاتی ہے۔ اگر زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ضروری تھا۔ کہ انواع حیوانات ایک ایسی نوع حیوانات کی سمت میں ارتقا کرتی رہیں حیاتیاتی طور پر کامل ہو۔ یعنی نوع انسانی کی سمت میں تو ان ہی خصوصیات کی وجہ سے یہ بھی ضروری تھا کہ نظریاتی جماعتیں بھی ایک ایسی نظریاتی جماعت کی طرف ارتقا کرتی رہیں جو نظریاتی طور پر کامل ہو۔ یہ نظریاتی جماعت رحمتہ للعالمین کی امت ہے جس طرح سے ضروری تھا کہ پہلے انسان کے ظہور کے بعد جنگلوں کے دوسرے خونخوار حیوانات کے بالمقابل انسان کی ظاہری توانائی کے باوجود انسان کی نسل دنیا میں پھیل جائے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ رحمتہ للعالمین کے ظہور کے بعد ان کی روحانی اولاد یعنی مسلمان قوم دوسری قوموں کے بالمقابل اپنی موجودہ ظاہری کمزوری کے باوجود آخر کار دنیا میں پھیل جائے۔ جس طرح سے نوع انسانی کے ظہور کے بعد بھی حیاتیاتی ارتقا غلط راستوں پر جاری رہا اور دیر تک انسان سے کمتر درجہ کی انواع حیوانات وجود میں آتی رہیں۔ اسی طرح سے رحمتہ للعالمین کی امت کے ظہور کے بعد نظریاتی ارتقا بھی غلط راستوں پر جاری ہے اور نظریاتی اعتبار سے امت مسلمہ سے کمتر درجہ کی نظریاتی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ لیکن جس طرح سے ضروری تھا کہ نوع انسانی دوسری تما انواع حیوانات پر جو انسان کے ظہور سے پہلے اور بعد نمودار ہوئی تھیں مکمل طور پر غالب آئے۔ اسی طرح سے ضروری ہے کہ رحمتہ للعالمین کی امت بھی تمام نظریاتی جماعتوں پر جو رحمتہ للعالمین کے ظہور سے پہلے اور بعد نمودار ہوئی ہیں مکمل طور پر غالب آئے۔ قرآن حکیم نے زور دار الفاظ میں اس غلبہ کی پیش گوئی کی ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ با لھدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکفرون (خدا وہ ذات پاک ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے نظریہ حیات کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دوسرے نظریات پر غالب کر دے خواہ منکرین اس بات کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں) نظریاتی ارتقا کا نقطہ آغاز نظریاتی مرحلہ ارتقا پہلے مکمل جسم حیوانی یا پہلے انسان سے شروع ہوا تھا جو حیاتیاتی طور پر مکمل ہو جانے کی وجہ سے اس قابل ہو گیا تھا کہ اس میں خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ اس کی تمام جبلتی خواہشات کی حکمران قوت کی حیثیت سے پیدا ہو۔ جس طرح سب سے پہلے جاندار یعنی ایک خلیہ کے حیوان امیبا کے ظہور کے بعد ضروری تھا کہ ارتقا کلیتاً حیاتیاتی ہوتا۔ اسی طرح سب سے پہلے انسان کے ظہور کے بعد ضروری تھا کہ ارتقا کلیتاً نظریاتی ہوتا۔ سب سے پہلے انسان کو نہ صرف خدا نے حسن کی محبت کا جذبہ عطا کیا بلکہ اس کی نبوت بھی عطاکی۔ یعنی اپنی خاص رحمت سے وحی کے ذریعہ سے اس کو اور اس کی اولاد کو اس جذبہ محبت کی تسکین اور تشفی کی راہ نمائی بھی عطا کی اور بتایا کہ وہ خدا کی محبت اور عبادت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہو سکتا ہے۔ قدرت کوئی ضرورت پیدا نہیں کرتی جس کی تکمیل کا اہتمام خود نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر ضرورت ارتقا کے کسی مقصد کو پورا کرتی ہے اور اگر قدرت اس ضرورت کی تکمیل کا اہتمام نہ کرے تو اس ضرورت کو پیدا کرنے کا کوئی فائدہ یا مقصد ہی نہ ہو اور اگر ارتقا کا دار و مدار اس ضرورت کی تکمیل پر رکھا گیا ہو تو ارتقا بھی جاری نہ رہ سکے۔ یہی سبب ہے کہ سب سے پہلے انسان جن کو حضرت آدم کہا جاتا ہے خدا کے نبی تھے۔ چونکہ انسان از خود اپنے جذبہ محبت کے مقصود کو نہیں جان سکتا اور جذبہ محبت نہایت آسانی سے بہک جاتا ہے لہٰذا اگر وہ نبی نہ ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ خدا نے سب سے پہلے انسان کے دل میں اپنی محبت کا جذبہ تو پیدا کیا لیکن اس کی راہنمائی نہیں کی۔ بلکہ اس کو سرگرداں اور بے راہرو ہونے کے لئے چھوڑ دیا۔ ایسا ہونا خدا کی رحمت اور ربوبیت کے ان تقاضوں سے ہی بعید ہوتا جن کے ماتحت اس نے انسان کو اپنی محبت کا جذبہ عطا کیا تھا۔ نبی کی تعریف ہی یہ ہے کہ نبی وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی جدوجہد اور کوششیں نہیں بلکہ خدا کی خاص رحمت سے اور براہ راست خدا سے وحی پا کر اس بات کا علم حاصل کرتا ہے کہ انسان کی محبت کا مقصود فقط خدا ہے اور انسان خدا کی محبت کے فطری جذبہ کو عملی طور پر خدا کی عبادت اور اطاعت سے مطمئن کر سکتا ہے اور اپنی قوم کے دوسرے افراد کو اس علم سے مستفید کرتا ہے۔ نبی کامل ۔ نظریاتی ارتقا کا مقصود یہ بات آشکار ہے کہ حضرت آدم اور ان کی امت کا نظریہ حیات (اور ظاہر ہے کہ ان کی امت ان کی اولاد کے ایک حصہ پر ہی مشتمل ہو گی) نہایت سادہ ہو گا۔ اس وقت ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ضروری تقاضوں میں سیاست، عبادت، اخلاق، تعلیم، قانون، صنعت و حرفت، تجارت، سماجی اور خاندانی تعلقات اور جنگ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن حضرت آدم کے زمانہ میں جب انسان کی زندگی کی کاروبار کا دارومدار زیادہ تر سیر و شکار ہو گا۔ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ضروری تقاضے ابھرتے گئے ان پر خدا کی محبت کے اصول کا اطلاق کرنے کے لئے نئے نئے انبیاء پیدا ہوتے رہے اور ان کی روحانی اولاد سے نئی نئی امتیں وجود میں آتی رہیں اور ان کی عملی اور نظری تعلیم سے خدا کے عقیدہ پر مبنی نئے نئے نظریات پیدا ہوتے رہے جو انسان کے تمدنی ارتقا کے ساتھ ساتھ اپنی وسعت اور تفصیل میں بتدریج ترقی کرتے رہے ایک روایت کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ترقی پذیر انواع حیوانات کی طرح یہ نت نئی پیدا ہونے والی ترقی پذیر امتیں بھی اپنے نظریات کے سمیت کسی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی مرحلہ ارتقا میں خودی کی منزل مقصود یہ تھی کہ وہ ایک کامل نبی پیدا کرے جو اپنی عملی زندگی کی مثال سے ایسا نظریہ حیات وجو دمیں لائے جو خدا کی محبت کے اصول کو انسان کی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں مثلاً سیاست، عبادت، اخلاق، تعلیم، قانون، صںعت و حرفت، تجارت، سماجی اور خاندانی تعلقات اور جنگ وغیرہ پر چسپاں کرے اور لہٰذا ایک کامل نظریہ حیات ہو اور پھر ا س کامل نبی کی روحانی اولاد یا امت کو ترقی دے کر روئے زمین پر پھیلائے اور تمام نظریاتی جماعتوں پر غالب کر دے تاکہ وہ دوسری نظریاتی جماعتوں کی مزاحمت کے بغیر آزادی سے نوع انسانی کے ارتقا کو جاری رکھ سکے اور ان کو حسن و کمال کی انتہا تک پہنچا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نبی کا نظریہ حیات یا قانون شریعت وہی ہوتاہے جو لوگوں کو اس کی اپنی عملی زندگی کی مثال میں پوری طرح سے سمویا ہوا نظر آئے۔ جو کام ایک نبی اپنی عملی زندگی میں خود نہ کر سکا ہو اور وہ اس کے ماننے والے فقط اس کی زبانی نصیحت کی بنا پر کر لینے کا داعیہ نہیں پاتے اور وہ کام بجا طور پر اس کی تعلیمات سے عملاً خارج سمجھ لیا جاتا ہے۔ نظریاتی ارتقا کی رکاوٹیں حیاتیاتی سطح ارتقا پر زندگی کی جو خصوصیات ہمارے مشاہدہ میں آتی ہیں ہم ان کی بنا پر حیاتیاتی تقلیبات کی نہایت ہی معقول وجوہات قائم کر سکتے ہیں۔ ان وجوہات کی روشنی میں یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو نظریاتی مرحلہ ارتقا میں بھی اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں اپنی پیدا کی ہوئی جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک رکاوٹ پھر ایک قسم کے قانون وراثت سے پیدا ہوئی جس کو نظریاتی وراثت کا قانون کہنا چاہئے۔ اس قانون کے عمل سے ایک ہی نظریاتی جماعت کے افراد ہمیشہ اپنے آباد واجداد کے نظریہ حیات کو اختیار کرتے ہیں۔ خواہ وہ نظریہ حیات اچھا ہو یا برا۔ زیبا ہو یا زشت اور اس سے سر مو انحراف نہیں کرتے اس قانون سے قدرت کی غرض یہ تھی کہ جب بھی نبی کامل یا رحمتہ للعالمین ظہور پذیر ہوں اور ان کی روحانی اولاد بڑھنے اور ترقی پانے لگے تو وہ اپنے نبی کے کامل نظریہ حیات کو جو کہ ظاہر ہے کہ لاکھوں برس کے نظریاتی ارتقا کا نہایت ہی قیمتی ثمر قرار پا چکا ہو گا۔ نسلاً بعد نسلاً ایک اندرونی نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہمیشہ اسی اصلی صورت میں قائم رکھ سکیں۔ جس میں ان کے نبی نے اسے چھوڑا ہو تاکہ نبی کامل کی امت اپنی پائیدار نظریاتی تکمیل اور برتری کی وجہ سے نہ صرف قائم رہے اور دنیا میں پھیل جائے بلکہ اپنے قائم رہنے اور پھیل جانے کی وجہ سے نوع انسانی کو کسی ناقابل عبور مزاحمت کے بغیر حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ لیکن ہر نبی کی صورت میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ اس کی قوم ایک عرصہ تک تو اپنی عملی زندگی کو نہایت سختی کے ساتھ اس کے عطا کئے ہوئے نظریہ حیات کے تابع رکھتی تھی۔ لیکن پھ رایک وقت ایسا بھی آ جاتا تھا جب اس کے تمدنی حالات ترقی کر کے ان کی قدرتی عمل زندگی کے بعض ایسے اہم نئے گوشوں کو بے نقاب کر دیتے تھے جن کے متعلق نبی کی عملی زندگی کی مثال میں یہ راہنمائی موجود نہ تھی کہ ان پر خدا کے تصور کا اطلاق کس طرح سے ہو لہٰذا اس مرحلہ پر پہنچ کر نظریاتی ارتقاء کو جاری رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ اس نبی کی امت میں سے کم از کم ایک فرد ایسا پیدا ہو جو پہلے نبی ہی کی طرح خدا کی وحی سے علم اور اطمینان پا کر اور نظریاتی وراثت کے قانون کو برطرف رکھ کر اپنی عملی زندگی کی مثال کی صورت میں ایک نیا نبوتی نظریہ حیات پیش کرے جو خدا کے تصور کو قوم کے نئے حالات پر چسپاں کرے اور خدا کی وحی کے نام پر ہی دوسروں کو دعوت دے کہ وہ اس نظریہ کو قبول کریں۔ چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک نبوتی نظریہ حیات کے بعد دوسرا بہتر اور بلند تر نبوتی نظریاتی حیات پیدا نہ ہو سکتا اور ایک ایسے نبی کے ظہور کی نوبت نہ آ سکتی جو خدائے واحد کے عقیدہ کو اپنی نظریاتی تعلیم اور عملی زندگی کی مثال سے انسان کی ترقی یافتہ قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کر کے ایک کامل نبی قرار پائے۔ نظریاتی تقلیبات کا سلسلہ لہٰذا نظریاتی مرحلہ ارتقا میں زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ایسا ہوتا رہا کہ ہر بار جب زندگی نے محسوس کیا کہ اس کی منزل مقصود یعنی رحمتہ للعالمین کے ظہور کی طرف اس کی ارتقائی حرکت بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حد سے زیادہ سست ہو رہی ہے۔ تو اس نے ایک غیر معمولی کوشش کی اور یکایک گویا ایک جست سے اپنی رکاوٹوں کو عبور کر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا نبی معجزانہ طور پر ظہور پذیر ہو گیا جس کا نظریہ حیات زندگی کے نئے حالات پر بھی حاوی تھا اور جس کی روحانی اولاد سے ایک نئی امت پیدا ہوئی۔ اس طرح سے ایک نبوتی نظریہ حیات سے دوسرا بعض وجوہ سے بہتر اور بلند تر نظریہ حیات پیدا ہوتا رہا۔ نظریاتی تقلیبات کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا یعنی جب تک کامل نبی کا ظہور نہیں ہوا اور جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو نظریاتی تقلیبات کے ظہور کا سبب زائل ہو جانے کی وجہ سے ان کا سلسلہ خود بخود اسی طرح سے منطقع ہو گیا جس طرح سے حیاتیاتی تقلیبات کا سلسلہ ان کا مقصد حاصل ہونے اور ان کے ظہور کا سبب زائل ہونے کے بعد یعنی ایک مکمل جسم حیوانی یا انسان کے ظہور کے بعد خود بخود منقطع ہو گیا تھا۔ لہٰذا کامل نبی خاتم النبین یا آخیر نبی بھی قرار پائے۔ یہی کامل اور آخری نبی جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو قرآن حکیم نے رحمتہ للعالمین کا لقب دیا ہے۔ اس لئے کہ ان کی عملی زندگی کی مثال میں خدا کا عقیدہ انسان کی قدرتی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں ہو گیا ہے اور نبوتی راہنمائی کی تکمیل ہو گئی ہے اور نوع بشر جو حاصل عالم ہے تا قیامت کسی اور نبی کی قیادت سے بے نیاز ہو گئی ہے اور اب صرف ان کے ذریعہ سے اپنے حسن و کمال کی انتہا تک پہنچ کر خداکی انتہائی رحمتوں سے ہمکنا رہو گی۔ ارتقائے نبوت کے ان حقائق کی طرف ہی اشارہ کرتے ہوئے اقبال کہتا ہے کہ خودی سو انبیاء کو پیدا کر کے ختم کرنے کے بعد ہی ایک کامل نبی پیدا کرتی ہے۔ شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت تا چراغ یک محمد بر فروخت رحمتہ للعالمینؐ کی تعلیم کے امتیازات ہر گزشتہ نبی کی تعلیم (اور ایک نبی کی تعلیم دراصل کلیتاً اس کی اپنی عملی زندگی کی مثال کے اندر ہوتی ہے اور ا س کے نظریات یا اقوال میں نہیں ہوتی) صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور پر مبنی تھی لیکن رحمتہ للعالمین کے علاوہ کسی نبی کو ایسے تمدنی حالات پیش نہیں آئے کہ وہ اپنی زندگی کی مثال سے یہ بتائے کہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں میں خدا کے عقیدہ کے لوازمات اور تقاضے کیا ہیں اور کس طرح سے خدا کا عقیدہ ان شعبوں پر چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے ہر نبی کو جن سماجی حالات میں رہنا یا جن واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہ اس قسم کے تھے کہ ان کے پیش نظر ایک نبی ہونے کی وجہ سے اسے جو معرفت حق تعالیٰ عطا ہوئی اس کا بہت تھوڑا حصہ اس کی عملی زندگی کے نمونہ میں اپنا اظہار پا سکا۔ ہر نبی اپنی عملی زندگی کی مثال کی روشنی سے انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ان پہلوؤں کا رشتہ خدا کے عقیدہ سے واضح کر سکتا تھا جو اس کی قوم کے تمدنی اور اخلاقی حالات کی بنا پر ا سکی توجہ چاہتے تھے اور وہ مجبور تھا کہ انسانی زندگی کے ان پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتا جو ابھی اس کی قوم کے حالات میں رونما نہیں ہوئے تھے اور جن کے بارہ میں ان کو فی الحال خدا کی راہ نمائی کی ضرورت نہ تھی۔ اس طرح سے ہر گزشتہ نبی کے تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے صرف ایک حصہ پر ہی چسپاں کر سکا۔ یہی سبب ہے کہ ماضی کے ہر نبی کے نظریہ حیات نے صرف اس کی قوم کو یا اس کے عہد کو ہی مستفید کیا اور ان کے بعد زیادہ دیر تک اپنی اصلی حالت پر قائم نہ رہ سکا بلکہ ان کتابوں کے اندر بھی جو ان انبیاء پر نازل ہوئی تھیں کچھ عرصہ کے بعد ایسا مواد داخل کر دیا گیا جو نہ تو خدا کا قول تھا نہ نبی کا۔ ان نظریات کی وقتی یا جزوی حیثیت نہ صرف ان کی سرشت سے آشکار ہے بلکہ خود ان کے بانیوں کے ارشادات سے بھی واضح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ ایک ناتمام نبوتی نظریہ حیات ایک مستقل اور عالمگیر نظریہ حیات نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس غرض کے لئے وجود میں آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص قوم کو ارتقائے انسانیت کے ایک خاص مرحلہ کے اندر کام دے سکے اور آئندہ کے نظریاتی ارتقا کی ایک منزل قرار پائے۔ اس کا غیر مکمل ہونا اس کے لئے نا ممکن بنا دیتا ہے کہ ایک محدود عرصہ کے بعد اپنی زندگی قائم رکھ سکے۔ نبی کامل رحمتہ للعالمین جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ بات درست نہیں کیونکہ ان کو فرستادہ حق کی حیثیت سے جن اخلاقی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی، قانونی، سیاسی، جنگی اور جغرافیائی حالات کا سامنا کرنا پڑا ان کی وجہ سے وہ اپنی عملی زندگی کی مثال سے یہ بات واضح کر سکے کہ فرد اور جماعت کی قدرتی عملی زندگی کے اہم شعبوں پر خدا کا عقیدہ کیونکر چسپاں کیا جا سکتا ہے بالخصوص رحمتہ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی نبی کی عملی زندگی کے نمونہ میں ہمیں انسانی زندگی کے جنگی، قانونی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی پہلوؤں کے متعلق (جو یقینا انسان کی زندگی کے نہایت ہی اہم پہلو ہیں) ضروری راہنمائی نہیں ملتی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متاہل زندگی بسر کی۔ اپنے ساتھیوں کو تیار کیا کہ ان لوگوں کی مخالفت کا مقابلہ کریں جو ان کے پیغام کو مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ خدا پرستوں کی ایک ریاست قائم کی۔ اس کا انتظام کیا اور فوجی کارروائیاں کر کے دشمنوں سے اس کی حفاظت کی اس کے اندرونی اور بیرونی مسائل کو حل کیا اور اس کے سیاسی، قانونی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی، اطلاعاتی اور تبلیغی نظامات قائم کئے اور اس کی ایک خارجہ پالیسی وضع کی ہر نظریاتی جماعت کو اپنے نصب العین کی جستجو کے عمل میں اپنی ترقی اور توسیع کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور وہ نظریاتی جماعت جو خدا کے صحیح اور مکمل تصور پر مبنی ہو اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی نے اپنی عملی زندگی کی مثال سے اس قدرتی جدوجہد کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ جس میں سے مستقبل کی نوع انسانی کو خدا کے تصور پر مبنی ایک ریاست کی صورت میں منظم ہونے، قائم رہنے اور ترقی کرنے اور اس طرح سے عالم انسانی کے ارتقاء کو جاری رکھنے کے لئے لازماً گزرنا ہے اس جدوجہد کا نہایت ہی قیمتی اور روشنی اور ہدایت بخشنے والا نمونہ پہلی دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی نے مہیا کیا ہے اور یہی سبب ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین ہیں۔ اجتہاد کی حقیقت جب کوئی نظریہ حیات اسلام کی طرح خدا کے کامل اور صحیح تصور پر مبنی ہو اور خدا کے ایسے تصور کو انسانی قدرتی زندگی کے تمام اہم شعبوں (مثلاً اخلاق، سیاست، معاشیات، قانون، جنگ وغیرہ) پر چسپاں کرتا ہو تو اس کی زندگی یا ترقی کے امکانات کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ گو بعض وقت یہ محسوس کیا جائے کہ اس نظریہ حیات میں انسانی زندگی کے ان شعبوں کے متعلق جو ہدایت ملتی ہے وہ ضروری حد تک مفصل نہیں پھر بھی اس کی زندگی قائم رہتی ہے اور ایک تندرست جسم حیوانی کی طرح جو اپنے جسم کے نسبتاً غیر ضروری حصوں میں کٹے ہوئے گوشت کو اپنے اعضائے رئیسہ کی صحت اور درستی عمل کی وجہ سے دوبارہ پیدا کر لیتا ہے۔ ایسا نظریہ حیات بھی ہدایت کی مطلوبہ تفصیلات کو اپنے اندر سے پیدا کر لیتا ہے اسلام کی اصطلاح میں مطلوبہ تصورات کی اس تخلیق کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ اسلام کی پائیداری کا سبب چونکہ رحمتہ للعالمین اک عطا کیا ہوا نظریہ حیات خدا کے صحیح اور کامل تصور کو انسانی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرتا ہے اور لہٰذا نہ صرف اندرونی روح کے لحاظ سے بلکہ بیرونی صورت کے لحاظ سے بھی مکمل ہے اس لئے اسلام نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ تمام نظریات پر غالب آئے گا اور دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وقت بعض مخالف حالات اس کو مسلمانوں کی عملی زندگی کے کسی پہلو سے خارج کر دیں تو یہ جبراً پھر ان کی زندگی کے اس پہلو میں داخل ہو کر اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس طرح سے ایک مکمل طور پر صحت مند جسم حیوانی مرض کے خلاف رد عمل کرتا ہے اور اپنی گرتی ہوئی صحت کو بحال کر لیتا ہے اس طرح سے اسلام ہر اس غیر اسلامی تحریک کے خلاف جو اس کے اندر نمودار ہو کر اس کو مغلوب کرنا چاہتی ہے نہایت ہی قوت اور کامیابی کے ساتھ رد عمل کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تحریک مٹ جاتی ہے اور اسلام اپنی اصلی حالت پر باقی رہ جاتا ہے کئی صدیوں کے اندر پے بہ پے آنے والے شدید قسم کے حادثات کے باوجود اسلام اور مسولمانوں کا موجود رہنا بے معنی نہیں بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مٹنے کے لئے بلکہ زندہ رہنے کے لئے وجود میں آیا ہے اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا نظریاتی ارتقا کی شاہراہ نظریاتی ارتقا کا وہ راستہ جو پہلے نبی یعنی حضرت آدم سے براہ راست رحمتہ للعالمین تک جاتا ہے نظریاتی ارتقا کی شاہراہ ہے جس پر ارتقا براہ راست خالق کائنات کے مقصد کے مطابق ہوتا رہا ہے اس شاہراہ کی ہر منزل پر نبوتی نظریہ حیات کی ایک نئی ترقی یافتہ صورت اس کو ماننے والی ایک امت کے سمیت ایک نظریاتی تقلیب کے ذریعہ سے نمودار ہوتی رہی تاہم اس شاہراہ کی مختلف منزلوں سے نظریاتی ارتقاء کے غلط راستے بھی نکلتے رہے۔ جن پر غلط نظریات حیات اور ان کو ماننے والی غلط قسم کی نظریاتی جماعتیں پیدا ہوتی رہیں ان راستوں پر ایک غلط نظریہ سے دوسرا بہتر لیکن غلط نظریہ نکلتا رہا اور اس طرح سے ان پر بھی ارتقا جاری رہا لیکن تھوڑی دور آگے جا کر ختم ہو گیا۔ ارتقا کی شاہراہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ ان راستوں میں سے کوئی راستہ بھی ارتقا کی منزل مقصود تک پہنچ سکے گا بلکہ ان راستوں پر ہر منزل نظریاتی ارتقا کی منزل مقصود سے اور دور ہوتی گئی نظریاتی ارتقا کی ان گمراہیوں کی وجہ یہ تھی کہ انبیاء کی امتوں میں بعض ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جن کو غلط قسم کا تعلیمی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے نظریاتی تکمیل کے دباؤ نے جو ان کے اندر کام کر رہا تھا ان کی نظریاتی نشوونما کو غلط راستہ پر ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر غلط نظریہ حیات کو پیش کرنے والا انسان اپنے غلط نظریہ کے کچھ عناصر صحیح نبوتی نظریہ سے لیتا ہے اور اس میں کچھ غلط عناصر کی ملاوٹ کر کے ایک نیا نظریہ پیش کرتا ہے جو حق و باطل کی آمیزش کی وجہ سے کلیتاً باطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہر غلط نظریہ حیات تعلیم نبوت کا خوشہ چین ہے اور اپنی کامیابی کے لئے اس کے اجزاء عناصر کا مرہون منت ہے۔ اگر وہ باطل کے ساتھ حق کی آمیزش نہ کرے تو اس کے اندر کوئی کشش باقی نہ رہے۔ لیکن حق و باطل کی آمیزش کی وجہ سے وہ کلیتاً باطل ہو کر رہ جاتا ہے لہٰذا ناقبول ہوتا ہے۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول امت مسلمہ کا عالمگیر غلبہ ارتقا کی ایک ضرورت ہے ارتقا کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ جب ایک مکمل جسم حیوانی یا انسان ظہور پذیر ہو جائے تو اس کی اولاد متواتر ترقی کرتی اور بڑھتی رہے یہاں تک کہ زمین کو بھر دے اور اس کے بعد تاقیامت موجود رہے۔ اسی طرح سے ارتقا کے مقاصد کے لئے ضروری ہے کہ جب ایک مکمل نبی یا رحمتہ للعالمینؐ ظہور پذیر ہو جائے تو اس کی روحانی اولاد یا امت متواتر بڑھتی اور پھیلتی رہے۔ یہاں تک کہ زمین کو بھر دے اور اس کے بعد تاقیامت موجود رہے۔ یہی سبب ہے کہ اقبال بار بار اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ تکمیل انسانیت کے قدرتی عمل میں رحمتہ للعالمین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ انسانیت کی تکمیل حضور کے نمونہ کے مطابق اور حضور کی امت کے ذریعہ سے ہو گی۔ عالمی ارتقا کے ناقابل مزاحمت اور ناقابل انسداد عمل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حضور کی امت دنیا میں پھیل جائے گی اور باقی رہے گی اور اس کے علاوہ دوسری تمام قومیں مٹ کر اس کی دائمی زندگی اور عظمت کے لئے راستہ ہموار کریں گی۔ یہ بات کبھی کبھی وہ دبی زبان سے اور لطیف اور بلیغ اشاروں میں کہتا ہے جس سے اس کی بات بہت زیادہ موثر اور زور دار ہو جاتی ہے۔ مثلاً آئندہ زمانہ میں اسلام کی عالمگیر اشاعت اور قبولیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتاہے کہ اس واقعہ کا علم کسی کو نہیں لیکن وہ اسے صاف طور پر دیکھ رہا ہے۔ حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے ٭٭٭ کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام مسجد و مکتب و میخانے ہیں مدت سے خموش کچھ بات ہے کہ ہستی مٹی نہیں ہماری صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا ٭٭٭ عروج آدم خاکی کے منظر ہیں تمام یہ کہکشاں یہ ستارے یہ نیلگوں افلاک ٭٭٭ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے ٭٭٭ آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ٭٭٭ تاریخ کے مختلف انقلابات اور ان کی پیش رو علامات کا ذکر کرنے کے بعد اقبال مستقبل کے عالمی اسلامی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ روح مسلمان میں ہے آج وی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہ نہیں سکتی زبان دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا آب رواں کبیر ترے کنارے کوئی، دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب پھر اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ مستقبل کا انسان جو بندہ مومن اور رحمتہ للعالمین ؐ کا امتی ہو گا رات اور دن سے صورت پذیر ہونے والے وقت کے سیاہ اور سفید گھوڑے پر سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ وقت ہی کی طرح ا س کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ خدا کرے کہ وہ جلد آئے اور ہماری آنکھوں میں آباد ہو۔ کیونکہ وہی ہے جو آ کر اقوام عالم کو امن و اتحاد کی نعمتوں سے ہمکنار کرے گا۔ اس کی آمد سے پہلے مکمل اور مستقل عالمی امن اور اتحاد کا ظہور ناممکن ہے۔ وہی دیدہ امکان کا نور ہے کیونکہ وہی تخلیق کائنات کا اصل مقصود ہے۔ نوع انسان بے خدائیت کی خزاں سے چمن کائنات اجڑ گیا ہے۔ وہ آئے گا تو اس چمن میں بہار آئے گی۔ اے سوار اشب دوران بیا اے فروغ دیدہ امکان بیا رونق ہنگامہ ایجاد شو، در سواد دید ہا آباد شو، شورش اقوام را خاموش کن نغمہ خود را بہشت گوش کن ریخت از جور خزاں برگ شجر چوں بہاراں بر ریاض ما گذر، نوع انسان مزرع و تو حاصلی کاروان زندگی را منزلی جب مستقبل کا یہ انسان آئے گا تو اقبال بھی اپنے مقام کو پائے گا کیونکہ پھر دنیا میں ایسے لوگ موجود ہو جائیں گے جو ا س کی عظمت کے مقام کو پہچان سکیں گے اور اس کی قدر دانی کر سکیں گے۔ اقبال اس انسان کا منتظر ہے۔ انتظار صبح خیزاں مے کشم اے خوش زردشتیان را آتشم نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرواستم عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نا امید ستم زیاران قدیم طور مے سوزد کہ مے آید کلیم، نغمہ من از جہان دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است قرآن حکیم کی شہادت اگر ہم امام رازی کے طریق تفسیر یعنی منطقی تجزیہ اور استدلال سے الگ ہو کر قرآن حکیم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ قرآن حکیم سچے خدا کی محبت اور اطاعت کی براہ راست اور بلاواسطہ دعوت ہے جو منطقی تجزیہ اور استدلال سے بے نیاز ہے اور جس میں قوموں کی تقدیر کا یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہی قوم دنیا میں ہمیشہ زندہ اور سلامت اور خوشحال فارغ البال رہے گی جو سچے خدا کی محبت اور اطاعت کو اپنا شعار بنائے گی یہ قوم امت مسلمہ ہے اور دوسری ہر قوم زود یا بدیر خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: چوں سرمہ رازی راز دیدہ فروشتم تقدیر امم دیدم پنہاں بکتاب اندر یہی قوم تاریخ کے عمل کا مقصود اور مطلوب ہے اور تاریخ کا عمل اور قوموں کو رفتہ رفتہ مٹا کر اسی قوم کے استحکام اور استقلال کے لئے راستہ صاف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس کے مٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا غلط نظریات وہ بت ہیں جو خدا کی جگہ لیتے ہیں۔ وہ زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتے جاتے ہیں۔ پرانے ترک کر دئیے جاتے ہیں اور ان کی بجائے نئے گھڑ لئے جاتے ہیں۔ لیکن سچا نظریہ حیات یعنی اسلام جس کی بنیاد خدا کے اس صحیح اور کامل تصور پر ہے جو رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہے لازوال اور پائیدار ہے اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست من از حرم نگنشتم کہ پختہ بنیاد است یہاں بت غلط نصب العین سے اور حرم اسلام سے استعارہ ہے۔ زور دار پیش گوئی تاہم کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اقبال اشاروں پر قناعت نہیں کرتا بلکہ نہایت ہی کھلے اور زوردار الفاظ میں اسلام کے عروج اور امت مسلمہ کے عالمگیر غلبہ کی پیش گوئی کرتا ہے اور مسلمانوں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کے سوائے دنیا میں کوئی دوسری قوم موجود نہیں اور اگر ہے تو مٹ جانے کے لئے ہے اور اس کا وجود عارضی ہے۔ حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا تو ہے تجھے جو کچھ نظر آتا ہے نہیں ہے ٭٭٭ قدم بیباک تر نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست ٭٭٭ رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ ٭٭٭ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ٭٭٭ وہ علی الاعلان کہتا ہے کہ امت مسلمہ عمل تاریخ کے اس قاعدہ کی زد میں نہیں آتی جو قوموں کو اجل سے ہمکنار کرتا ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ صرف ان قوموں پر اثر انداز ہوتا ہے جو غلط اور ناقص تصورات حقیقت پر مبنی ہوں مسلمان قوم کے ساتھ خدا نے وعدہ کر رکھا ہے۔ انا نحن نزلنا الذکرو انا لہ لحافظون (ہم نے ہی ذکریا قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں) ذکر کی حفاظت ذکر کرنے والے کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا قرآن کی حفاظت کے وعدہ کے اندر مسلمان قوم کی حفاظت کا وعدہ بھی موجود ہے جو قرآن کی حامل ہے پھر اس سے زیادہ واضح الفاظ میں قرآن حکیم کا وعدہ ان آیات میں ہے۔ یریدون ان یطفوا نور اللہ بافواہم ویابی اللہ الا ان یتم نور ولو کرہ الکفرون۔ ہو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق یظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔ ’’ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے پھونک مار کر بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام ادیان اور نظریات زندگی پر غالب کر دے اگرچہ کافر ناخوش ہوں)‘‘ یہی سبب ہے کہ زمانہ کے بڑے بڑے حادثات مسلمان قوم کو مٹا نہیں سکے۔ ہر بڑا حادثہ جو اس قوم کو نیست و نابود کرنے کے لئے کافی تھا اس کے لئے زندگی کا سامان بن گیا۔ ہر آگ جو کسی نمرود نے اس کے لئے روشن کی وہ ایک گلزار بن گئی۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے خدا کا عشق وہ قانون ہے جس پر کائنات کے وجود کا دار و مدار ہے لیکن خدا کا عشق کلمہ توحید کی صورت میں ایک امانت کے طور پر مسلمان قوم کے پاس ہے۔ اگر یہ قوم مٹ جائے تو خود کائنات باقی نہیں رہتی۔ اقبال ان آیات کا حوالہ دے کر کہتا ہے: از اجل ایں قوم بے پرواستے، استوار از نحن نزلناستے ذکر قائم از قیام ذاکر است از دوام او دوام ذاکر است تا خدا ان یطفو فرمودہ است از فسردن ایں چراغ آسودہ است زانکہ مارا فطرت ابراہیمی است ہم بہ مولیٰ نسبت ابراہیم است از تہ آتش بر اندازیم گل، نار ہر نمرود را سازیم گل، شعلہ ہائے انقلاب روزگار چوں بباغ مارسد گرد و بہار آتش تا تادیاں گلزار کیست شعلہ ہائے او گل دستار کیست رومیاں را گرم بازاری نماند، آن جہاں گیری جہاں داری نماند، شیشہ سا سانیاں در خوں نشست رونق خمخانہ یوناں شکست مصر ہم در امتحان ناکام ماند، استخوان ادتہ اہرام ماند، در جہاں بانگ اذاں بودوست و ہست ملت اسلامیان بود است و ہست عشق آئین حیات عالم است امتزاج سالمات عالم است گرچہ مثل غنچہ دیگریم ما، گلستان میرو اگر میریم ما خودی کی ایک اہم خصوصیت اطاعت رسولؐ اور اقتدائے رفتگاں پر زور دینے کی وجہ سے اقبال کے بعض نادان نکتہ چین اسے ملائیت اور تحجر اور جمود کا طعنہ دیتے ہیں دراصل ایسے لوگ اقبال کی حکیمانہ بصیرت سے بے خبر اور اس کے فکر کی گہرائیوں سے نا آشنا ہیں۔ خودی یا زندگی کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اپنی ترقی کے کسی مرحلہ کے آغاز میں ج وبھی نئی شکل وہ اختیار کرتی ہے خواہ وہ ظاہری اسباب اور حالات جنہوں نے اس شکل کا اختیار کرنا اس کے لئے ممکن بنایا ہو۔ کچھ ہوں وہ شکل ہمیشہ کے لئے طے پا جاتی ہے اور آئندہ کے لئے اس میں کسی قسم کا رد و بدل ممکن نہیں ہوتا اور زندگی خواہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر کار پرداز ہو یا نظریاتی سطح ارتقا پر یہ بات ہر حالت میں درست رہتی ہے۔ مثلاً ایک نومولود بچہ کی شکل و صورت اور خد و خال کی جو تفصیلات آغاز حیات میں مقرر ہو جاتی ہیں وہی زندگی کے آخری لمحہ تک چلی جاتی ہیں اور نشوونما سے حجم اور وضاحت کے سوائے ان میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے جب کسی حیاتیاتی تقلیب کے نتیجہ کے طور پر ایک نئی نوع حیوانات کا جد اول یا پہلا فرد وجود میں آتا ہے تو اس کی شکل و صورت اور اعضاء و جوارع کی جو خصوصیات اس کے جسم میں ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ اس کی نوع میں نسلاً بعد نسلاً جب تک کہ نوع باقی رہے ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔ زندگی کے عمل کی ان خصوصیات کی وجہ سے ایک نوع حیوانی یا تو اپنی ابتدائی اور اصلی صورت پر ہمیشہ قائم رہتی ہے اور یا پھر کلیتاً مٹ جاتی ہے لیکن بدلتی نہیں۔ اسی طرح سے جب کسی نظریاتی تقلیب کے نتیجہ کے طور پر ایک نئی قدرتی (یعنی نبوتی) نظریاتی جماعت کا جد اول یا پہلا فرد ظہور پذیر ہوتا ہے تو عمل کے وہ قواعد اور رسوم اور قوانین اور طریقے جو اس کے نظریہ کے خصائص ہوتے ہیں اور جن کو مجموعی طور پر اس کا قانون شریعت کہا جاتاہے۔ اس کی نظریاتی جماعت یا امت میں نسلاً بعد نسلاً جب تک کہ وہ امت باقی رہے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ایک نوع حیوانی کی طرح ایک نبی کی نظریاتی جماعت بھی یا تو اپنی ابتدائی اور اصلی صورت پر ہمیشہ باقی رہتی ہے یا اگر اس میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہ ہو تو کلیتاً مٹ جاتی ہے لیکن بدلتی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ایک مذہب زندہ رہتا ہے اس کے پیرو اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنے اندر الحاد اور بدعت کے نمودار ہوئے کو روکتے رہتے ہیں۔ جس طرح سے حیاتیاتی وراثت کا قانون ایک نوع حیوانی کی اصلی شکل و صورت کی حفاظت ایک ایسے انتظام سے کرتا جو جسم حیوانی کے اندر موجود ہوتی ہے۔ا سی طرح سے نظریاتی وراثت کا قانون بھی ایک نبوتی نظریاتی جماعت کی شریعت کی حفاظت ایک ایسے انتظام سے کرتا ہے جو انسان کی فطرت کے اندر موجود ہوتا ہے۔ جسم حیوانی کے اندر کام کرنے والے وہی حیاتیاتی قوانین جو اس کے لئے توالد کو ممکن بناتے ہیں۔ حیوان کی آئندہ نسلوں کو ان کے جد اول کی شکل و صورت سے ذرہ بھر انحراف کرنے نہیں دیتے۔ اسی طرح سے فطرت انسانی کے وہی نفسیاتی قوانین جو کسی انسان کے لئے ممکن بناتے ہیں کہ وہ کسی نبی پر ایمان لائے اور اس کی روحانی اولاد قرار پائے۔ نبی پر ایمان لانے والوں کی آئندہ نسلوں کو اس کی شریعت سے سر مو انحراف کرنے نہیں دیتے۔ قرآن حکیم نے ذیل کی آیات مبارکہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (4:64) (اور ہم نے جو بھی پیغمبربھیجا اسی لئے بھیجا کہ خدا کے حکم کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے) فلا وریک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوانی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما (تمہارے پروردگار کی قسم جب تک یہ لوگ اپنے تنازعات میں تمہیں حکم نہ بنائیں اور حکم بنانے کے بعد آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ خوشی سے سر تسلیم خم کر دیں۔ اس وقت تک ایمان دار شمار نہیں ہوں گے) خودی کی اس خصوصیت کا نتیجہ زندگی کی اس خصوصیت کی وجہ سے انسان کی نظریاتی زندگی سے قریب کا تعلق رکھنے والا کوئی قول یا فعل جو نبی سے سر زد ہوتا ہے خواہ وہ کسی اتفاق کا یا سلسلہ اتفاقات کا نتیجہ ہو یا اس کے فوری اسباب اور حالات کچھ ہوں۔ وہ اس کی امت کے لئے تا قیامت شریعت کا ایک قانون بن جاتا ہے۔ جس کی دیدہ و دانستہ نافرمانی انسان کو ارتقا کی شاہراہ سے ہٹا دیتی ہے اور اس شاہراہ سے ہٹے ہوئے غلط راستوں پر پڑی ہوئی نظریاتی جماعتوں میں شامل کر دیتی ہے جن کے لئے مٹ جانا مقدر ہے۔ قرآن حکیم نے اس شاہراہ ارتقا کو جو صرف ایک ہی ہے صراط مستقیم کہا ہے اور اس سے ہٹے ہوئے غلط راستوں کو جو بہت سے ہیں سبل کہا ہے۔ ان ھذا صراطی مستقیما ماتبعو۔ ولا تتبعو السبل فتفرق لکم عن سبیلہ (بے شک یہ میرا راستہ سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو اور چھوٹے چھوٹے بہت سے راستوں کی پیروی نہ کرو جو تمہیں خدا کے راستہ سے ہٹا دیں) یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے صحابہ کو منع فرمایا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کی امت کی طرح اپنے رسولؐ سے زیادہ سوالات کر کے اپنے دین کو پیچیدہ اور مشکل نہ بنائیں۔ اتریدن ان تسئلو ارسولکم کما سئل موسی من قبل (کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے بے ضرورت ایسے سوالات کرو جیسے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کئے تھے) اور یہی سبب ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایسے اقوال اور افعال سے احتیاط فرماتے تھے جو امت کے لئے دین کو مشکل بنا دیں کیونکہ ضروری تھا کہ ان کو نظر انداز کرنے سے رسول کی نافرمانی لازم آئے۔ خودی کی اس خصوصیت کے بغیر ارتقا ممکن نہ ہوتا زندگی کی اس بنیادی خصوصیت کی روشنی میں یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ کیوں رحمتہ للعالمین کے عطا کئے ہوئے نظریہ حیات کے اندر اس بات کی ایک طاقتور اور ناقابل انسداد صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہمیشہ اسی حالت پر باقی رہے جس پر اس کے بانیؐ نے اسے چھوڑا تھا۔ زندگی کی یہ خصوصیت دراصل ارتقا کی ضروریات کے تابع وجود میں آئی ہے۔ اگر زندگی میں یہ خصوصیت نہ ہوتی تو جب اس کی انتھک کوششوں سے کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقا کے بعد انسان کی صورت میں جسمانی اور دماغی لحاظ سے ایک حیرت انگیز طور پر مکمل جسم حیوانی وجود میں آیا تھا۔ تو اس بات کی کوئی ضمانت نہ ہوتی کہ وہ آئندہ کے لئے نہایت ہی مشکل اور بدلتے ہوئے حالات کے باوجود اپنے حیاتیاتی کمالات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قائم رکھ سکے گا اور اس طرح سے آئندہ کے پورے ارتقا کا ایک قابل اعتماد راستہ بن سکے گا۔ پھر اسی طرح سے اگر زندگی میں یہ خصوصیت نہ ہوتی تو جب لاکھوں برس کے نظریاتی ارتقا کے بعد ایک رحمتہ للعالمین کی مقدس زندگی کی صورت میں ایک حیرت انگیز طور پر مکمل نظریہ حیات وجود میں آیا تھا تو اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہ ہوتی کہ وہ نظریہ حیات آئندہ کے نہایت ہی مشکلا ور بدلتے ہوئے حالات کے باوجود اپنے نظریاتی محاسن اور کمالات کو تاقیامت قائم رکھ سکے گا اور اس طرح سے بعد کے پورے ارتقائے انسانیت کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بن سکے گا قدرت کا قانون وراثت خواہ حیاتیاتی ہو یا نظریاتی وہ نہ صرف ارتقا کے منافی نہیں بلکہ ارتقا کے لئے از بس ضروری ہے اس کے بغیر زندگی نہ تو اپنی گزشتہ حاصلات کو محفوظ کر سکتی تھی اور نہ ہی ان کی بنیادوں پر آئندہ کے حاصلات کی تعمیر کر سکتی تھی یہ قانون اس بات کا ضامن ہے کہ کوئی تغیر یا تو مقاصد ارتقا کے لئے مفید ہو گا اور اس راستہ پر ظہور پذیر ہو گا جو صحیح ہے اور ارتقا کی بلند تر منزلوں کی طرف جاتا ہے اور یا پھر اس کو فنا کی قوتوں کے سپرد کر دیا جائے گا تاکہ وہ اسے زود یا بدیر مٹا کر رہیں۔ ہمارے فکر و عمل میں آئندہ کا ارتقائی تغیر انسانی شاہراہ ارتقا کی منزل مقصود مغرب کے غلط نظریات نہیں بلکہ نظریہ حیات کی وہ صورت ہے جو رحمتہ للعالمین کی عملی زندگی میں آشکار ہوئی تھی۔ لہٰذا مسلمان قوم کے اندر مستقبل میں جو تغیر رونما ہونے والا ہے وہ یہ نہیں کہ وہ مغرب کے کسی غلط نظریہ حیات کے پیرو بن جائیں گے بلکہ قرائن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلمان قوم میں ارتقا کی منزل مقصود کی طرف آئندہ کا تغیر یہ ہونے والا ہے کہ وہ اپنے لئے ایک جدید اسلامی نظام تعلیم نافذ کرے گی جس کے ذریعہ سے وہ طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی یا انسانی علوم میں سائنسی حقائق کو عقیدہ توحید کی روشنی میں منظم کر کے عقیدہ توحید کو ایک ایسی زبردست علمی اور عقلی قوت بنائے گی جو مخالفوں کے دلوں کو بھی مسخر کرے گی اور جس کی وجہ سے عالم انسانی امن اور اتحاد کی نعمتوں سے ہمکنار ہو گا اور ایسا نظر آتا ہے کہ اس پر امن عالمگیر علمی انقلاب کا آغاز پاکستان سے ہو گا۔ آخری قوم کے اعزاز کی شرط زندگی کے ان حقائق سے ظاہر ہے کہ اگر ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہم فی الواقع دنیا کی وہ آخری قوم ہونے کا اعزاز حاصل کریں جو کائنات کی حرکت ارتقا کا مقصود اور مدعا ہے اور جو اقوام عالم کی راہ نما اور زمین کی وارث ہونے والی ہے تو ہم کو چاہئے کہ رحمتہ للعالمین کے ہر قول اور فعل کو جو تاریخ کے معیاروں کے مطابق حضور کا قول اور فعل ثابت ہو چکا ہے یا تواتر اور توارث سے ہم تک پہنچا ہے۔ نہایت ہی گہرے عاشقانہ احترام کے ساتھ اپنی نظریاتی زندگی کا راہ نما بنائیں۔ اسی لئے اقبال کا یہ شعر کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں کسی بے بنیاد خوش فہمی پر مبنی نہیں بلکہ خودی کی لازوال فطرت کے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اگر ہم رحمتہ للعالمین کی مکمل اطاعت بجا نہ لا سکیں تو پھر ایسا تو نہیں ہو سکتاکہ ارتقائے انسانیت اپنی منزل مقصود کی طرف آگے نہ بڑھے۔ زندگی کی غیر مبدل خصوصیات کی وجہ سے اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو گا کہ ارتقا کی قوتیں ہمیں مٹا کر ایک اور قوم کو ہماری جگہ پر لائیں گی۔ جو ہماری طرح نہیں ہو گی بلکہ رحمتہ للعالمین کی سچی اور عاشقانہ اطاعت کی وجہ سے در حقیقت اس قابل ہو گی کہ حرکت ارتقا کا مقصود اور مدعا اور اقوام عالم کی راہ نما اور زمین کی وارث قرار پائے۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں ہوا ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحبکم (اے پیغمبران لوگوں سے کہئے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو۔ پھر خدا بھی تم سے محبت کرے گا) انتم الاعلون ان کنتم مومنین (اگر تم ایمان دار ثابت ہوئے تو تم ہی غالب رہو گے) اقبال نے گویا اس آیت کریمہ کا ترجمہ کر دیا ہے۔ رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ اگرچہ یہ حقیقت زندگی کی خصوصیات اور ارتقائے عالم کی ضروریات سے صاف ظاہر ہے تاہم قرآن حکیم نے خود بھی اس کا اعلان فرمایا ہے۔ وان تتولو یستبدل قوماً غیر کم ثم یکونوا امثالکم (47:38) (اگر تم خدا سے منہ نہ پھیر لو گے تو وہ تمہاری جگہ اور قوم لے آئے گا اور پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے) یاایھا الذین امنو من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ ذلہ علی المومنین اعزۃ علی الکفرین یجاھدون فی سبے اللہ ولا یخافون لامہ لائم ذالک فضل اللہ یوتیہ میں یشاء واللہ واسع علیم (5:57) (اے ایمان والو۔ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو پیدا کر دے گا جو خدا سے محبت کرے گی اور جس سے خدا محبت کرے گا۔ وہ مومنوں کے لئے نرم اور کافروں کے لئے سخت ہوں گے۔ وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ تمہارا ایمان اور عمل خدا پر تمہارا احسان نہیں بلکہ تم پر خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل عطا کرتا ہے اور خدا کا علم وسیع ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس فضل کا حقدار ہے) اسلام کے غلط اندیش، مصلحین اس زمانہ میں مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا پیدا ہو گیا ہے جن کی رغبت اسلام سے کم اور مغرب کے ناقص، غلط اور غیر اسلامی نظریات سے زیادہ ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے کالجوں کی تعلیم و تربیت لادینی اور بے خدا ہے اور انسانی زندگی کے متعلق لادینی اور بے خدا نقطہ نظر پیدا کرتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مغرب کے غیر اسلامی نظریات غلط اور نامعقول ہونے کے باوجود ایک ظاہری شان و شوکت اور چمک دمک رکھتے ہیں۔ ایسے غلط نظریات کے پرستار اور اسلام سے بیزار مسلمانوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسلام کی ایسی توجیہہ کریں جو اسلام کو ان کے غلط مگر پسندیدہ نظریات کے مطابق بنا دے یا قریب لے آئے۔ لہٰذا وہ کسی استاد کی راہ نمائی کے بغیر اسلام سے سطحی اور جزوی واقفیت پیدا کرنے کے بعد اسلام کے مصلحین اور ریفارمز کے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں اور اجتہاد کے نام پر اسلام میں رد و بدل کرتے ہیں او رامید رکھتے ہیں کہ عام مسلمان ان کی مذہبی قیادت کو قبول کریں گے۔ اپنے آپ کو یوں بلاوجہ غیر معمولی سمجھ بوجھ کا مالک قرار دے لینے کے بعد وہ ایک طرف سے تو دیندار اور پرہیز گار مسلمانوں کو کوستے ہیں کہ وہ ملا اور متحجر اور جامد ہیں اور زمانہ کے ساتھ نہیں بدلتے اور دوسری طرف اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ قرآن حکیم پر ان کے تشریحی اور تفسیری نقاط نہایت ہی جدید اور اچھوتے ہیں۔ اسلام مٹ چکا تھا لیکن ان کے قلم کی جدت طرازیوں نے اسے پھر زندہ کر دیا ہے۔ اجتہاد کی شرائط حالانکہ اجتہاد صرف ایسے مسائل میں ہو سکتا ہے جن کے بارہ میں خدا اور رسول کے ارشادات کے اندر پہلے کوئی راہ نمائی موجود نہ ہو اور بعض نئے غیر متوقع حالات کے اندر اسلام کے مطابق عمل کرنے کے لئے خود اسلام ہی کی تعلیمات کی روشنی میں اور اس کی روح کے مطابق نئے اصول اور قواعد وضع کرنے کی ضرورت پیش آئے ظاہر ہے کہ صحیح اور بے خطا اجتہاد کے لئے ضروری ہے کہ اجتہاد کرنے والا نہ صرف اسلام کی پوری تعلیمات سے اور اس کے احکام کی ساری علتوں اور حکمتوں سے باخبر اور اس کی روح سے آشنا ہو بلکہ اس کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اسلام کی محبت بھی درجہ کمال پر ہو۔ اگر اس کی محبت کامل نہ ہو گی تو جس حد تک وہ کامل نہ ہو گی اس حد تک اس کے دل میں غلط اور غیر اسلامی نظریات اور تصورات کی محبت سمائی ہوئی ہو گی جو اس کی بصیرت اسلامی کو خطا سے ملوث کرے گی اور اس کے اجتہاد کو غلط اور ناقص بنائیگی۔ لیکن خدا کی محبت کو وہی شخص درجہ کمال پر پہنچا سکتا اور قائم رکھ سکتا ہے جو عبادت اور ریاضت اور تقویٰ اور پرہیز گاری اور استغفار اور توبہ کو اپنا شعار بنائے۔ اجتہاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنی کو ذوقی کو مطمئن کرنے کے لئے ہم ان احکام کو ہی بدل ڈالیں جو بارگاہ ایزدی یا دربار رسالت سے صادر ہو چکے ہوں۔ ایسا کرنا اجتہاد کی اجازت کا نہایت ہی غلط استعمال ہے جو انکار نبوت یا دعویٰ نبوت سے کم مذموم نہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک خوبصورت شہر کے رہنے والے کسی شخص کو اجازت دے دی گئی ہو کہ جہاں کہیں کھلی زمین پائے عمارتیں بنائے لیکن وہ اس اجازت کا استعمال یوں کرے کہ کھلی زمین میں تعمیر کرنے کی بجائے شہر کی ایسی خوبصورت عمارتوں کو جو اس کے بگڑے ہوئے ذوق کے مطابق نہ ہوں گرا کر نئی بدصورت عمارتیں بنانے لگے ایسے اشخاص کے متعلق ہی اقبال نے کہا ہے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق ٭٭٭ احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند ٭٭٭ حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز زمانہ باتو نسازو تو با زمانہ ستیز ٭٭٭ قرآن کے ارشاد کو تاویل سے بدلنا اور قرآن کے ارشادات کی گہرائیوں میں جا کر ان کی معقولیت اور صداقت کے نئے دلائل اور براہین کو دریافت کرنا ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ ہماری تحقیق اور تفسیر کا مدعا اول الذکر نہیں بلکہ ثانی الذکر ہونا چاہئے۔ جمودخودی کی ایک خصوصیت ہے کاش کہ مسلمانوں کو اتباع شریعت کا مشورہ دینے کی وجہ سے اقبال کو جمود کا طعنہ دینے والے یہ جانتے کہ جمود بھی زندگی کی ایک خصوصیت ہے جو کمال کی جانب زندگی کی حرکت کے لئے ضروری ہے اسی لئے جمود کی وجہ سے زندگی طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی قوانین قدرت کو غیر مبدل اور لازوال بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اور ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ ان پر بھروسہ کر سکیں اور ان سے کام لے سکیں۔ اپنی ہر کامیابی کو جمود سے محفوظ کرنے کے بغیر زندگی اپنی اگلی منزل کی طرف قدم اٹھانے کے لئے آزاد نہ ہو سکتی اور نہ ہی منزل بہ منزل چل کر یہاں تک پہنچ سکتی اور نہ ہی اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ جمود سے کام لینے کے بغیر وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے گی۔ کاش کہ جدت پر فخر کرنے والوں کو یہ علم ہوتا کہ زندگی حیاتیاتی سطح پر مصروف عمل ہو یا نظریاتی سطح پر اس کا قاعدہ ہی یہ ہے کہ جب وہ مکمل اور مستقل قدر و قیمت کا ایک نمونہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بار بار اس کا اعادہ کرتی ہے اور اسے موت سے محفوظ رکھتی ہے تاکہ وہ قائم اور موجود رہ کر زندگی کے ارتقائی مقاصد کے لئے کام آ سکے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مکمل اور مستقل قدر و قیمت رکھنے کی وجہ سے وہ اس میں ایسی صلاحیتیں اور خوبیاں پیدا کر دیتی ہے کہ وہ زندہ اور قائم رہتا ہے اور زندگی کے ارتقائی مقاصد کے لئے کام آتا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں زندگی موت کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اپنی کامیابیوں کو ان کی اصلی حالت پر قائم رکھ کر موت کا شکار کرتی ہے۔ اتر کر جہان مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں ہوا جب اسے سامنا موت کا کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا سچا اسلام محفوظ ہے سچا اسلام وہی ہے جو رحمتہ للعالمین ؐ نے اپنے ساتھیوں کو دیا تھا اور جب آپؐ کی وفات سے پہلے ان کے اعتقاد اور عمل میں محفوظ ہو گیا تھا اور جو اب کسی تبدیلی کے بغیر تواتر اور توارث سے ہم تک پہنچا ہے اگر تاریخ کے کسی نکتہ پر وہ اسلام مٹ گیا تھا اور اس پر کاربند ہونے والا کوئی انسان بھی باقی نہیں رہا تھا تو اب کوئی بڑے سے بڑا ہوشیار اور ماہر نظریات مفسر اور مجتہد بھی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا کیوں کہ زندگی ہمیشہ زندگی سے پیدا ہوتی ہے موت سے کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ تسلسل جس طرح سے ایک نوع حیوانی کی بقا کے لئے ضروری ہے اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت کی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی نوع حیوانی مثلاً گھوڑے یا اونٹ کی نسل جب مٹ جائے تو کوئی بڑے سے بڑا ماہر حیاتیات بھی اسے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا اسلام کسی وقت مٹ گیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ بار بار رونما ہونے والے سخت مشکل حالات کے باوجود مسلمانوں پر ایسا وقت کبھی نہیں آیا جب انہیں ایسے لوگوں کی کمی رہی ہو۔ جو حضور اور آپ ؐ کے ساتھیوں کے نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوں۔ رحمتہ للعالمین ؐ کی امت کے ایک گروہ کے اعتقاد و عمل کا اپنی اصلی حالت پر تا قیامت موجود رہنا۔ زندگی کی خصوصیات کی بنا پر بھی یقینی اور ضروری تھا لیکن اس کی تائید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور پیش گوئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک فرقہ تا قیامت حق پر موجود رہے گا اور وہ وہی ہو گا جو میرے اور میرے صحابہ کے اعتقادات اور اعمال کے نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ شریعت کی پوری پابندی خودی کی ضرورت ہے غرض خودی کی فطرت کے تمام حقائق ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتے ہیں کہ اگر مسلمان اس کائنات میں اپنا وہ مقام پانا چاہتے ہیں جو خدا نے ان کے نظریہ حیات کی کاملیت کی بنا پر ان کے لئے مقدر کیا ہے تو ان کو چاہئے کہ اپنے بزرگوں کی طرح خدا کی محبت کو اپنے تمام اعمال کا سرچشمہ بنائیں اور اس غرض کے لئے رسولؐ کی عملی زندگی کے نمونہ کو اپنا راہ نما قرار دیں۔ مقام خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہ مصطفی رو زندگی کی خصوصیات کی بنا پر رحمتہ للعالمین کی مکمل عاشقانہ اشاعت کی جو اہمیت ثابت ہوتی ہے اسی کے پیش نظر اقبال، ورد کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ایسے ارکان اسلام کی پابندی پر زور دیتا ہے۔ لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشاد یعنی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخوں زند خیبر تن پروری را بشکند مومناں را خلوت افروز است حج ہجرت آموز و وطن سوز است حج طاعتے سرمایہ جمعیتے ربط اوراق کتاب ملتے، حب دولت را فنا سازد زکوۃ ہم مساوات آشنا سازو زکوۃ دل زحتی تنفقو محکم کند زر فزاید الفت زر کم کند ایں ہمہ اسباب استحکام تست پختہ محکم اگر اسلام تست صالحین سلف کے مسلک کی تقلید کا فائدہ یہ ہو گاکہ مسلمانوں کے اعتقاد و عمل کا اضمحلال دور ہو گا او ران میں خیالات کی ہم آہنگی اور عمل کی یک جہتی پیدا ہو گی۔ مضمحل گردو چو تقویم حیات ملت از تقلید مے گیرد ثبات راہہ آباروکہ ایں جمعیت است معنی تقلید ضبط ملت است ٭٭٭ اے پریشان محفل دیرینہ اش مرد شمع زندگی در سینہ اش نقش بر دل معنی توحید کن چارہ کار خود از تقلید کن عالمان کم نظر کا خطرناک اجتہاد اعتقاد و عمل کے انحطاط کے زمانہ میں بے بصیرت اور کم نظر عالمان دین کا اجتہاد غلط نظریات و تصورات کو تقویت پہنچاتاہے۔ اور قوم کے اعتقاد اور عمل کو اور مضمحل کرتا ہے اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کے لئے اس اجتہاد سے تو یہ بہتر ہے کہ ان بزرگوں کی پیروی کی جائے جو رحلت کر چکے ہیں۔ اجتہاد اندر زمان انحطاط قوم را برہم ہمے پچد بساط ز اجتہاد عالمان کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر عقل آبایت ہوس فرسودہ نیست کار پاکاں از غرض آلودہ نیست فکر شاں ریسہ ہمے باریک تر درع شان از مصطفی نزدیک تر اس زمانہ میں جو مسلمان اجتہاد کے طلب گار ہیں ان کا مقصد دراصل یہ ہے کہ قرآن کی تاویل سے اسلام کو بدل کر ان جدید مغربی غیر اسلامی نظریات یا اصنام فرنگی کے مطابق کر دیں جو ان کو اپنی نادانی کی وجہ سے پسند ہیں اور اس طرح سے گویا ایک نئی شریعت وجود میں لائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ دوسرے مسلمان اس خطرناک ہمت آزمائی میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ البتہ اس قسم کا اجتہاد کر کے وہ خود ہی اس پر بلا روک ٹوک عمل کریں۔ حریت افکار کے اس زمانہ میں یہ ان کا پیدائشی اور خدا داد حق ہے جس سے ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ہے کس کو یہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد چاہے تو کرے کعبہ کو آتشکدہ پارس چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد ایسے مصلحین اسلام کے متعلق اقبال لکھتا ہے۔ ’’ ہمارے مذہبی اور سیاسی مصلحین سے خطرہ ہے کہ اگر ان کے نوجوانانہ جوش تجدد پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تو وہ اصلاح کی صحیح حدود سے تجاوز کر جائیں گے۔‘‘ ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔ ’’ میں قدامت پسند ہندوؤں کے اس مطالبہ کو بنظر استحسان دیکھتا ہوں کہ انہوں نے نئے دستور میں مذہبی مصلحین کے خلاف تحفظات مانگے ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ یہ مطالبہ سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے پیش ہونا چاہئے تھا۔‘‘ ’’ اقبال کی تقریریں اور بیانات‘‘ شملہ (1948ئ) صفحہ98 ’’ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ میں اقبال لکھتا ہے۔ ’’ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اسلام میں تجدد کا ظہور تاریخ اسلام کا نازک ترین دور ہے۔ تجدد کے اندر اس بات کا رحجان موجود ہے کہ وہ ایک طرح کا اضمحلال ثابت ہو۔‘‘ مصطفی کمال پر نکتہ چینی اقبال کو مصطفی کمال کی نام نہاد اصلاحات بجا طور پر سخت ناپسند تھیں۔ کہتے ہیں کہ جب ایک سر بر آوردہ ہندی مسلمان نے مصطفی کمال سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے کہ خلافت کے اعزاز کو خود بخود چھوڑ دیا ہے۔ اپنی ریاست کو لادینی بنا دیا ہے۔ عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط اختیار کر لیا ہے اور پردہ ہٹا دیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ’’ ہم یورپ کی عیسائی قوموں کے قریب رہتے ہیں۔ وہ ہمارے دشمن اسی لئے تھے کہ ہماری ریاست اسلامی ہے اور ہم قبائے خلافت پہن کر دنیائے اسلام کی قیادت کر رہے تھے۔ ہم نے مذہبی ریاست کی علامات کو دور کر دیا ہے اور یورپین اقوام کے طور طریقوں کو اختیار کر لیا ہے تاکہ یہ لوگ ہمیں ترقی یافتہ سمجھیں اور ہماری مخالفت سے درگزر کریں۔‘‘ اقبال نے اس پر بڑے افسوس سے لکھا کہ تعجب ہے کہ وہ ترک قوم جن کا مقام مسلمان ہونے کی وجہ سے بلندی میں ستاروں سے بھی زیادہ ہے اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ وہ پستی میں ڈوبی ہوئی راہ گم کردہ عیسائی قوموں کے ہمسائے ہیں۔ سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترک عثمانی سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب ٭٭٭ زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر وہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور مصطفی کمال نے لادینی اور لاطینی کو اپنی قوم کی حفاظت کے لئے ضروری سمجھا۔ افسوس۔ کیسی الجھن میں پڑ گیا اسے معلوم نہیں کہ ناتوانوں کا علاج خدا پر بھروسہ کرنا اور خدا سے مدد مانگنا ہے جس کی طرف خدا ہو گا وہی غالب رہے گا کیونکہ خدا سب پر غالب ہے۔ لادینی و لاطینی کس پیچ میں الجھا تو دارو ہے غریبوں کا لا غالب الا ہو ’’ جاوید نامہ‘‘ میں اقبال مصطفی کمال پر اور بھی چبھتا ہوا اعتراض کرتا ہے۔ مصطفی کو از تجدد مے سرود گفت نقش کہنہ را باید زودد نونہ گردو کعبہ رارخت حیات گرز افرنگ آیدش لات و منات ترک را آہنگ نو درچنگ نیست تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست خلافت سے دستبردار ہو جانا مصطفی کمال کی دور اندیشی نہیں تھی اور قومیں تو اپنی عیاری سے بلا استحقاق مسلمانوں کی قیادت اور سرپرستی کا دعویٰ کرتی ہیں اور اپنی سیاسی اغراض کی بنا پر چاہتی ہیں کہ مسلمان ان کا یہ دعویٰ قبول کر لیں۔ ادھر ترکوں کا یہ حال ہے کہ مسلمان ان کو اپنی سیاست اور قیادت باصرار سونپتے ہیں اور وہ انکار کرتے ہیں۔ چاک کر دی ترک نادان نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ پنڈت نہرو کے جواب میں اقبال نے لکھا۔ ’’ سوئذر لینڈ کے قانون کو جس میں وراثت کا قانون بھی شامل ہے اختیار کرنا یقینا ایک شدید غلطی ہے جو نوجوانوں کے اصلاحی جوش و خروش سے پیدا ہوئی ہے۔‘‘ (تقاریر و بیانات صفحہ136) اسی طرح سے ترکیہ کے اس قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کی رو سے اذان اور قرآن کا ترکی زبان میں پڑھنا ضروری ہے۔ اقبال لکھتا ہے: ’’ ذاتی طور پر میں اس فیصلہ کو ایک شدید غلطی قرار دیتا ہوں۔‘‘ (تقاریر و بیانات صفحہ135) ضرب کلیم میں اقبال صاف طور پر بتاتا ہے کہ مصطفی کمال کی اصلاحات اہل مشر ق کے لئے کوئی قابل تقلید مثال نہیں ہیں۔ اسی طرح سے رضا شاہ پہلوی کی مثال بھی اہل مشرق کی آرزوؤں کی تشفی نہیں کر سکتی۔ میری نوا سے گریباں لالہ چاک ہوا نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی ٭٭٭ خودی اور عقل حقیقت عقل کا صحیح نظریہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ خودی کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسان خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے جسے سوچنے کے لئے ایک دماغ اور کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں دے دئیے گئے ہیں۔ چونکہ خدا کی محبت ہی انسانی خودی کے تمام افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے۔ ظاہر ہے کہ عقل انسانی زندگی میں محض ایک ثانوی کردار ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے وجود کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ محبت کی خدمت اور اعانت کرے اور وہ اسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔ زندگی یا خودی کا اصل سرمایہ خدا کی آرزو ہے۔ عقل اس آرزو کی پیداوار ہے۔ زندگی سرمایہ دار از آرزوست عقل از زائیدگان بطن اوست خدا کا عشق خودی کا امام ہے اور عقل خودی کی غلام ہے۔ من بندہ آزادم عشق است امام من عشق است امام من عقل است غلام من عقل محض ایک قوت ممیزہ ہے۔ جو خودی کو اس کے نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے میں مدد دیتی ہے۔ نصب العین کسی تصور کے حسن کا ایک اندازہ ہوتا ہے جو خودی کو براہ راست اپنے وجدان کی مدد سے کرنا پڑتا ہے۔ وجدان در حقیقت آرزوئے حسن کا ہی دوسرا نام ہے جو بالعموم اس وقت برتا جاتا ہے۔ جب آرزوئے حسن کسی چیز کے خوب و زشت حق و باطل یا نیک و بد کے متعلق فیصلہ صادر کر رہی ہو اور اپنے لئے علم بہم پہنچانے کا وظیفہ ادا کر رہی ہو۔ ہر تصور حسن ایک وحدت ہوتا ہے جس کے حسن کو براہ راست محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آرزوئے حسن اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ وہ عقل یا کسی اور قوت کے فیصلے قبول نہیں کرتی اور دراصل انسان کے پاس آرزوئے حسن کے علاوہ کوئی اور قوت ایسی ہے ہی نہیں جو حسن و قبح کے متعلق کوئی فیصلے صادر کر سکے۔ البتہ عقل آرزوئے حسن کو اپنے فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ احساس حسن عقل کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل حسن کی وحدت کو نہیں دیکھ سکتی۔ فقط اس کے اجزا کو دیکھ سکتی ہے اور حسن اجزا میں نہیں ہوتا بلکہ وحدت میں ہوتا ہے۔ عقل حسن کی نئی نئی وحدتوں کے اجزا کی طرف آرزوئے حسن کی راہنمائی کرتی ہے جس کی وجہ سے اس کی توجہ ان وحدتوں کی طرف ہو جاتی ہے جس کے اندر یہ اجزا موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقل خودی کی مدد دو طرح سے کرتی ہے ایک تو یہ کہ اسے بتاتی ہے کہ اسے اپنے موجودہ نصب العین کیلئے جدوجہد کس طرح سے کرنی چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ اسے نئے نئے بلند تر نصب العینوں یا تصورات حسن کے نظارہ یا مشاہدہ کے لئے اکساتی ہے۔ عقل نہ محبت کی قلمرو میں داخل ہو سکتی ہے اور نہ حسن کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ یہ امتیاز فقط آرزوئے حسن کو ہی حاصل ہے۔ چونکہ عقل ہمارے ساتھ کچھ راستہ طے کرتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہم حسن کی منزل پر پہنچتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ مدت ہوتی عقل ہم سے الگ ہو چکی تھی۔ خرد سے راہ رو روشن بصر سے خرد کیا ہے چراغ رہگزر ہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے انسانی اور معاشرتی علوم کی بنیاد محبت ہے نہ کہ عقل عقل کا یہ نظریہ نفسیات انسانی کے حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور عقل کے دوسرے تمام نظریات کی نسبت زیادہ معقول اور زیادہ یقین افروز ہے۔ اس نظریہ کی رو سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ انسانی اعمال و افعال کے تمام فلسفے دوسرے لفظوں میں ہمارے تمام انسانی اور معاشرتی علوم مثلاً فلسفہ سیاست، فلسفہ اخلاق، فلسفہ تاریخ، فلسفہ اقتصاد، فلسفہ تعلیم، فلسفہ قانون انفرادی نفسیات، اجتماعی نفسیات وغیرہ عقل سے نہیں بلکہ محبت کی راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ عقل صرف محبت کی راہ نمائی میں ان کو ترتیب دیتی ہے۔ اگر وہ نصب العین جس کی محبت ان کو وجود میں لاتی ہے صحیح ہو گا تو ان کو ترتیب دینے والی عقل بھی صحیح ہو گی ۔ لہٰذا جس انسانی یا معاشرتی علم کا بنیادی تصور خدا نہ ہو وہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اعمال انسانی کا حقیقی سرچشمہ خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔ مقام عقل کے متعلق دور حاضر کی غلط فہمی افسوس ہے کہ اب تک انسان کے امتیازی اوصاف میں سے ایک وصف کو جسے ادراک یا عقل کہا جاتا ہے حد سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا وصف جس کی وجہ سے اسے حیوانات پر فضیلت حاصل ہے یہی ہے۔ حالانکہ دراصل انسان کا امتیازی وصف جس کی وجہ سے وہ انسان بنتا ہے اور حیوانات سے برتر ٹھہرتا ہے اس کی آرزوئے حسن ہے جو صرف خدا کے تصور سے مستقل او رمکمل طور پر مطمئن ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی درجہ کی عقل تو اعلیٰ سطح کے حیوانات میں بھی موجود ہے۔ لیکن تصورات کے حسن و کمال کی محبت کم از کم حیاتیاتی زندگی سے اوپر کی سطح کے تصورات کی محبت سوائے انسان کے اور کسی حیوان میں موجود نہیں۔ انسان کی عقل کی اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ فقط اس قدر ہے کہ وہ انسان کی آرزوئے حسن کی خدمت گزار ہے لہٰذا اس کی اہمیت ذاتی اور اصلی نہیں۔ بلکہ آرزوئے حسن سے ماخوذ اور مستعار ہے۔ اگر انسان کی عقل آرزوئے حسن کی غلام اور خدمت گزار نہ ہو تو وہ اسے حیوانات سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ حسن کی تمنا میں ہی انسان کی تمام آرزوئیں جنم لیتی ہیں اور اپنی جستجو کی راہیں معین کرتی ہیں۔ حسن کی تمنا ہی انسان کے تمام اعمال کی خالق اور راہبر ہے۔ عقل کو یہ مقام حاصل نہیں۔ حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست ہرچہ باشد خوب و زیبا و جمیل، در بیابان طلب مارا دلیل نقش او محکم نشنید دردلت آرزوہا آفریند دردلت اقبال دور حاضر کے انسان کو جو اپنی نادانی سے عقل ہی کو انسان کا سب سے بڑا امتیازی وصف سمجھا ہوا ہے۔ خوب جھنجھوڑ کر جذبہ حسن کی اہمیت بتاتا ہے۔ ہے ذوق تجلی بھی اس خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک تجلی کی اہمیت ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی محبت کو تفکر فی الخلق (مشاہدہ قدرت) تفکر فی الصفات (عبادت) اور تخلق باخلاق اللہ(حسن عمل) کے ذرائع سے فروغ دے کر درجہ کمال پر پہنچائے۔ اس طریق سے اس کے دل کے اندر خدا کی معرفت کا وہ نور پیدا ہو گا جسے اقبال ’’ تجلی‘‘ یا’’ جلوہ‘‘ کا نام دیتا ہے اور چونکہ اس طریق سے اس کا جذبہ محبت پوری پوری تشفی حاصل کر لے گا۔ اور اس جذبہ کے علاوہ تشفی کا تقاضا کرنے والا کوئی اور جذبہ انسان کے اندر ہے ہی نہیں لہٰذا اس کے لئے بے اطمینانی اور پریشانی کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی اور عقل کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ اس کے دل میں کوئی اعتراضات یا شکوک یا شبہات پیدا کر سکے۔ اس کے برعکس اگر انسان کے دل میں خدا کی محبت اس کی استعداد کے مطابق اپنے کمال کو نہ پہنچے گی تو چونکہ اس کے جذبہ محبت کا ایک حصہ غیر مطمئن رہے گا۔ اس کا سکون قلب مکمل نہ ہو سکے گا اور عقل کے لئے موقع باقی رہے گا کہ اس کو شکوک و شبہات میں ڈالتی رہے۔ اگر انسان کا دل خدا کی معرفت کے نور سے پوری طرح منور نہ ہو تو اس کی عقل جو فقط اس نور سے ہی راہنمائی پا سکتی ہے بھٹکتی رہتی ہے اور اسے مسرور اور مطمئن ہونے نہیں دیتی۔ حکمت کے بیابانوں میں مدتوں خاک چھاننے کے بعد اگر عقل کو کہیں پناہ ملتی ہے تو توحید میں۔ در جہان کیف و گم گردید عقل پے بمنزل برداز توحید عقل اس کے علاوہ چونکہ شریعت کی پابندی اور نیک عملی کی زندگی خدا کی محبت کا نہ رکنے والا تقاضا ہے لہٰذا جب خدا کی محبت اپنے کمال پر ہو گی تو انسان شریعت کی پابندی یا نیک عملی کی زندگی کو کسی مجبوری سے اختیار نہیں کرے گا بلکہ ایک ایسی خواہش سے اختیار کرے گا جسے روکنا اس کے بس کی بات نہ ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان اپنی عقل کو مطمئن کرنا چاہتا ہے اگر وہ اس کے اعتراضات کا ایسا جواب مہیا کرنا چاہتا ہے جو اس کے لئے مکمل طور پر کافی اور شافی ہو۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ دین اور شریعت کے راستوں پر مجبوری سے نہیں بلکہ پورے ذوق و شوق سے گامزن رہے اور نہیں چاہتا کہ مختلف نظریات اور تصورات کے درمیان بھٹکتا پھرے تو اسے اپنے دل کو خدا کی محبت اور معرفت کے نور (تجلی) سے منور کرنا چاہئے ورنہ اس کی روح ا سکے فاسد خیالات کی دو لتیوں کی مار کھا کھا کر مردہ ہو جائے گی۔ دلوں میں خدا کے نور کا جلوہ فرد اور قوم دونوں کے لئے پیغام حیات ہے اور ہماری فطرت کا ایک زبردست تقاضا یہ ہے کہ ہم اس نور کو اپنے دلوں کے اندر بسائیں۔ بے تجلی مرد دانار رہ نہ برد از لکد کوب خیال خویش مرد بے تجلی زندگی رنجوری است عقل مہجوری و دین مجبوری است ٭٭٭ نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا ٭٭٭ ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے ٭٭٭ بے تجلی نیست آدم را ثبات جلوہ ما فرد و ملت را حیات ٭٭٭ تجلی سے یہاں اقبال کی مراد خدا کی معرفت یا خدا کی محبت کا نور ہے۔ ٭٭٭ خودی اور مشاہدہ قدرت خودی کی ایک اہم ضرورت مشاہدہ قدرت ہے خودی خدا کی محبت کے جذبہ کی مکمل تشفی چاہتی ہے جو اظہار محبت سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا خودی اپنے جذبہ محبت کی کامل تشفی کے لئے اظہار محبت کے تمام ممکن ذرائع کو کام میں لاتی ہے۔ ان میں سے ایک ذریعہ مظاہر قدرت کے اندر خدا کی صفات کے حسن و جمال کا مشاہدہ اور مطالعہ ہے۔ خدا مخفی ہونے کے باوجود کائنات میں آشکار ہے وہ زندگی ہے وجود ہے اور وجود کا خاصہ آشکارائی ہے۔ لہٰذا خدا نے اپنی صفات کو اپنی تخلیق میں پوری طرح سے آشکار کر رکھا ہے۔ گفتہ موجود آنکہ مے خواہد نمود، آشکارائی تقاضائے وجود، کائنات کی حقیقت سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی صفات کے حسن کی جلوہ گا ہے یوں سمجھنا چاہئے کہ کائنات گویا ہے ہی نہیں۔ فقط خدا ہی خدا ہے جس کا حسن کائنات کی صورت میں بے حجاب ہو گیا ہے۔ یا ہم ہیں جو اس حسن کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ گفت آدم! گفت از اسرار اوست گفت عالم! گفت او خود روبروست ٭٭٭ بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر جہان ناپید داد پیداست بنگر ٭٭٭ در و دیوار و شہر و کاخ و کو نیست کہ ایں جا ہیچ کس جز ما داد نیست ٭٭٭ زمین و آسماں و چار سو نیست دریں عالم بجز اللہ ہو نیست کائنات کا یہ مادی پیکر خودی عالم کی ہستی اور قدرت اور قوت کے نشانات میں سے ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز جو ہم دیکھتے ہیں اپنے وجود کے لئے خودی عالم کی صفات کی پر اسرار تخلیقی کارروائی کی مرہون منت ہے۔ پیکر ہستی و آثار خودیست ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست لہٰذا خودی کو خدا کے حسن کے مشاہدہ سے لذت اندوز ہو کر اپنے جذبہ محبت کی تشفی کرنے کے لئے کسی وقت کا سامنا نہیں ہو سکتا۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم قدت کے آئینہ پر نگاہ ڈال کر خدا کے حسن کا جلوہ مفت میں دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن حسن حقیقی کے اس نظارہ کے لئے شرط یہ ہے کہ ہمارا فطری ذوق حسن یا خدا کی محبت کا جذبہ مردہ نہ ہو چکا ہو اور ہماری نگاہ سلامت رہے۔ اندھیری رات میں یہ چشمگیں ستاروں کی یہ بحر یہ فلک نیلگوں کی پہنائی، سفر عروس قمر کا عماری شب میں طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی، نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی، ٭٭٭ صبح و ستار و شفق و ماہ و آفتاب بے پردہ جلوۂ ہائے نگاہ مے توان خرید فطرت کے مطالعہ سے خدا کی جو معرفت حاصل ہو سکتی ہے وہ کتابوں کے مطالعہ سے نہیں ہو سکتی۔ چمن کا ہر آتشیں رنگ گل لالہ انسان کے دل میں اپنی کشش پیدا کر کے انسانی خودی کی اس مخفی حقیقت کو آشکار کر رہا ہے کہ وہ سراپا آرزوئے حسن ہے۔ کھلا جب چمن میں کتب خانہ گل نہ کام آیا ملا کو علم کتابی، کہا لالہ آتشیں پیرہن نے، کہ اسرار جان کی ہوں میں بے حجابی قدرت کا حسن خدا کے حسن کا آئینہ ہے قدرت کا حسن خدا کا آئینہ ہے۔ جس میں خدا کا جمال منعکس ہوتا ہے اورقدرت کے حسن کا آئینہ جس میں قدرت کا حسن منعکس ہوتا ہے انسان کا دل ہے لیکن اچھے شاعر کا اچھا کلام انسان کے دل کا آئینہ ہے جس میں انسان کی آرزوئے حسن کا عکس نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جو کچھ سوچتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے حسن کی جستجو کے لئے کرتا ہے۔ حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن دل انسان کو ترا حسن کلام آئینہ، حسن خداوندی نے اپنے ارد گرد فطرت کا حجاب بنا ہوا ہے لیکن یہ حجاب اتنا باریک ہے کہ اس میں سے ان فرشتوں کے تبسم ہائے پنہاں جو اس حجاب کو بنتے ہوئے اس بات پر ایک رکی ہوئی ہنسی سے ہنس رہے ہیں کہ یہ حجاب ہے بھی اور نہیں بھی، آشکار نظر آتے ہیں۔ یہ کائنات انسان کو حق تعالیٰ کے دیدار کی دعوت دے رہی ہے اور یہ عجیب بات نہیں اس لئے کہ ہر حسین جس کا حسن چھپا ہوا ہو اپنے حسن کو بے حجاب کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ خدا کے حسن کو آشکار ہونا ہی تھا۔ کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہائی یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی خودی کی تربیت اور ترقی کا ذریعہ خودی کے جذبہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خدا کے حسن کا مشاہدہ کرے اور اس مشاہدے سے اطمینان اور سرور حاصل کرے تاکہ اپنے جذبہ محبت کو اور تیز کرے اور حسن کی نامعلوم گہرائیوں اور وسعتوں سے پوری طرح آشنا اور پوری طرح سے لذت اندوز ہو۔ فطرت کا حسن خودی کی اس کوشش کو آسان بناتا ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، زمین اور آسمان، سمندر، جھیلیں، بادل، ندیاں، ہوائیں، سحر کانور، شام کی شفق، باغ و راغ، رات اور دن کا تغیر، موسموں کا انقلاب، حیوانات اور نباتات کی زندگی اپنی تمام رنگا رنگی اور ثروت اور شوکت کے سمیت مختصراً قدرت کے تمام مظاہر جو قدرت کے مسلسل عمل تخلیق اور تربیت اور تعمیر اور ترتیب اور تنظیم اور تجویز اور تحفظ اور تحسن اور تجمیل اور تزئین کے آئینہ دار ہیں خالق کائنات کے حسن و کمال کا عکس ایسی ہی وضاحت اور صفائی سے پیش کرتے ہیں جیسے کہ کسی پاکمال فنکار کا شاہکاراس کے ذہنی، جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی کمالات کا عکس پیش کرتا ہے اور خودی جس قدر کارخانہ قدرت پر خدا کی صفات کے مظہر کے طور پر غور و فکر کرتی ہے۔ جس قدر مظاہر قدرت کی باریکیوں میں جاتی ہے۔ اور ان کے عوامل اور اسباب کا ان کی تفصیلات اور جزئیات کا اور ان کے نتائج اور حاصلات کا جائزہ لیتی ہے۔ اسی قدر زیادہ وہ خدا کی صفات کے حسن سے آشنا ہوتی ہے اور اس قدر زیادہ اپنی آرزوئے حسن کی تشفی پا کر مسرت اور اطمینان حاصل کرتی ہے اور اسی قدر خدا کی محبت کو اس کے درجہ کمال کے قریب لاتی ہے اور اسی قدر اپنی تربیت اور ترقی کا اہتمام کرتی ہے۔ قدرت گویا انسان کو خدا کی معرفت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تختی کا کام دیتی ہے۔ کوہ و صحرا دشت و دریا بحر و بر تختہ تعلیم ارباب نظر، قرآن حکیم میں مشاہدہ حسن کی اس شکل کو تفکر فی الخلق کہا گیا ہے اور مومن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے مظاہر قدرت پر غور و فکر کرے اقبال شاید قرآن حکیم کے اسی ارشاد کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ مومن قدرت کے مشاہدہ اور مطالعہ میں غرق رہتا ہے۔ علم ترساں از جلال کائنات عشق غرق اندر جمال کائنات مشاہدہ قدرت سے اقبال کا شغف جہاں موقعہ ملتا ہے اقبال خود مزے لے لے کر مظاہر قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں خدا کے حسن کو بے حجاب دیکھتا ہے۔ جو بڑی بے پرواہی کے ساتھ دشت و راغ میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔ پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح اور اس موتی کو چمکاتی ہے سورج کی کرن حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لئے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن مومن کے دل کی آنکھ کائنات کے مشاہدہ سے روشن ہوتی ہے کیونکہ وہ کائنات میں جو فقط خدا کی صفات کی مظہر ہے۔ خدا کی قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ چشم او روشن شود از کائنات تابہ بیز ذات را اندر صفات قدرت کا حسن قلب و نظر کی زندگی ہے کیونکہ وہ حسن ازل کی نمود ہے اور اس میں خود حقیقت وجود بے پردہ نظر آتی ہے۔ قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں، حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے بے پردہ وجود دل کے لئے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلسان ہمیں زندگی کا راستہ اندھوں کی طرح سر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے ارد گرد کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اپنی معرفت کے نور کو چمکانا چاہئے اور قرآن حکیم کا ارشاد بھی جو ہمیں انظر کہہ کر خطاب کرتا ہے یہی ہے۔ تو کہ مقصود خطاب انظری پس چرا ایں را چوں کوراں میری خدا نے ہمیں آنکھیں اس لئے دی ہیں کہ ہم ان کے نور سے قدرت کا مشاہدہ کریں اور اس مشاہدہ کے ذریعہ سے خالق قدرت کی محبت (نگاہ) پیدا کریں۔ بیا با شاہد فطرت نظر باز چرا ور گوشہ خلوت نشینی ترا حق داد چشمے پاک بینے، کہ از نورش نگاہے آفرینی، کائنات کے حسن کا احساس کائنات کا حسن ہمارے جذبہ حسن کا راہنما ہے۔ اسے اکساتا اور تیز کرتا ہے۔ اگر کائنات میں حسن نہ ہوتا تو ہماری خودی کی آرزوئے حسن نہ بیدار ہوتی نہ اپنے مقصود کو پا سکتی۔ حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست لیکن اس کے برعکس یہ بھی درست ہے کہ اگر ہمارے دل میں حسن کی آرزو نہ ہوتی تو کائنات کا حسن حسن نہ ہوتا کیونکہ ہمارے پاس کوئی معیار ہی نہ ہوتا۔ جس پر پرکھ کر ہم اسے حسن قرار دے سکتے پھر نہ ہم کائنات کے حسن کی ستائش کر سکتے نہ اس کے مشاہدہ اور مطالعہ سے اس کے خالق کا کوئی تصور قائم کر سکتے۔ حقیقت کا سارا علم ہمارے اندر ہے ہم سے باہر نہیں۔ قدرت کا مشاہدہ فقط اسے بیدار کرتا ہے اور ا سکی حفاظت کرتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ خدا کا عرفان اپنا عرفان ہے اور خدا پر ایمان لانا اپنے آپ پر ایمان لانا ہے اگر قدرت حسن فروش ہے تو خودی خریدار حسن ہے اور ایک کے بغیر دوسرا اپنا مدعا نہیں پا سکتا۔ ایک طرف سے خدا کا حسن کائنات میں پیدا اور ظاہر ہے اور دوسری طرف سے انسان کی آنکھوں میں مخفی اور مستور بھی ہے اگر خدا کا حسن ظہور پائے اور انسان کے دل کی آنکھوں میں مستور نہ ہو یعنی انسان کے دل میں اپنا وہ اثر یا احساس پیدا نہ کر سکے جو وہ انسان کی مخفی آرزوئے حسن کی وجہ سے پیدا کرتا ہے تو اس کا ظہور بھی بے معنی رہے لہٰذا حسن کا اصل مقام انسان کے دل کے اندر ہے اور یہ انسان کا دل ہی ہے جو حسن کامل کا صحیح محک و معیار ہے اور خارجی اشیاء میں سے کوئی شے بھی ایسی نہیں جو مکمل طور پر اس کے معیار کے مطابق ہو۔ حسن را از خود بروں جتن خطاست آنچہ مے بایست پیش ما کجا است اس سے ظاہر ہے کہ تجلی یا معرفت کاملہ کادار ومدار اسی حسن کے کامل احساس پر ہے جو انسان کے دل کے اندر مخفی ہے۔ وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی میری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری ٭٭٭ حکیم و صوفی و عارف تمام مست ظہور، کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری، خارجی کائنات کے مشاہدہ کا کام فقط یہ ہے کہ وہ اس احساس حسن کو بیدار کرتا ہے جو انسان کے دل کے اندر ہے اور مشاہدہ کائنات کا یہ کام نہایت ہی اہم ہے کیونکہ انسان کی معرفت کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔ ہر خودی نظروں سے مخفی رہتی ہے، کائنات کے مشاہدہ اور مطالعہ سے خدا کو جاننا بالکل ایساہی ہے جیسے کہ مثلاً میں اپنے کسی بہترین دوست کو اس کے بیرونی اعمال و افعال کو دیکھ کر جان لوں بیشک خودی عالم ہماری جسمانی یا مادی نظروں سے اوجھل ہے۔ لیکن یوں اوجھل ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے لئے کسی دوسری خودی کی نسبت جسے ہم جانتے ہوں، کم قابل فہم نہیں۔ نظروں سے اوجھل ہونا کائناتی خودی کی خصوصیت نہیں۔ ہر خودی ہماری جسمانی آنکھوں سے جو دراصل مادی اشیاء کو دیکھنے کے لئے بنی ہیں اوجھل ہوتی ہیں اور خودی عالم اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ انسان کا مادی جسم اس کی خودی کا ایک مظہر یا آلہ ہے۔ میں اپنے بہترین دوست کے بارہ میں جو کچھ جانتا ہوں ا سکی وجہ یہ نہیں کہ میں نے اس کی خودی یا شخصیت کو ان آنکھوں سے دیکھا ہے جو ایک نا ممکن بات ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کی شخصیت یا خودی کے بیرونی آثار اور نتائج کو دیکھتا ہوں اور ان کی بنا پر اس حقیقت کا (کوئی معروف معنوں میں منطقی یا علمی یا عقلی یا ریاضیاتی تصور نہیں بلکہ) ایک وجدانی تصور قائم کرتا ہوں یا براہ راست اور بلا واسطہ یہ احساس پیدا کر لیتا ہوں کہ وہ میری طرح کی ایک زندہ شخصیت یا خودی ہے کوئی روبوٹ یا مشین نہیں۔ ہر خودی مخفی بھی ہے اور آشکار بھی واحد بھی ہے اور کثیر بھی گویا میرا دوست میرے لئے ایک پہلو سے مخفی ہے اور دوسرے پہلو سے آشکار ہے وہ ایک ہے تاہم اس لحاظ سے کثیر ہے کہ بہت سے اعمال و افعال میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ میں اس کو جو ایک ہے اور مخفی ہے اس لئے جانتا ہوں کہ وہ آشکار بھی ہے اور کثیر بھی۔ اس طرح سے خدا ایک ہے اور مخفی ہے لیکن کائنات کے اندر اپنے تخلیقی اعمال و افعال کی وجہ سے کثیر بھی ہے اور آشکار بھی۔ اقبال نے اس سارے مضمون کو صرف دو شعروں میں خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ خدا یک ہے اور مخفی ہے اس کے باوجود وہ کائنات کی کثرت میں آشکار ہے اور خدا کا عاشق کائنات کو دیکھ کر خدا کو پہچانتا ہے۔ یہ کائنات اپنی بے اندازہ وسعت کے باوجود عاشق کے دل میں سما جاتی ہے کیونکہ وہ اس کے محبوب کے حسن کا مرقع ہے اگر تو تخلیق عالم کے اسرار کو جاننا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو دیکھ تو ایک بھی ہے اور مخفی بھی ہے۔ لیکن اپنے تخلیقی اعمال و افعال کی کثرت سے جانا جاتا ہے۔ ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پہنائی، اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی اقبال لکھتا ہے: ’’ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قدرت خالص مادیت کا ایک ڈھیر نہیں جو کسی خلا میں پڑا ہوا ہو یہ واقعات کی ایک تعمیر ہے اور کردار کی ایک منظم صورت ہے اور اس لحاظ سے وجود مطلق کے ساتھ ایک عضویاتی تعلق رکھتی ہے۔ قدرت خدا کی شخصیت کے ساتھ وہی تعلق رکھتی ہے جو کریکٹر انسانی شخصیت کے ساتھ رکھتا ہے۔ قرآن کے خوبصورت الفاظ میں یہ اللہ کی عادت ہے۔ انسانی نقطہ نظر سے یہ وجود مطلق کی تخلیق فعلیت کی ایک توجیہہ ہے جو ہم اپنے موجودہ حالات میں اس پر عائد کرتے ہیں۔۔۔ قدرت کا علم خدا کے کردار کا علم ہے۔ جب ہم قدرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دراصل خودی مطلق سے ایک طرح کی واقفیت پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور یہ عبادت ہی کی ایک اور شکل ہے۔‘‘ (صفحہ 57-56 تشکیل الہیات جدید) ٭٭٭ خودی اور سائنس سائنسی تحقیق کا اصل ماخذ مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ تمام سائنسی علوم کی بنیاد ہے۔ مشاہدہ قدرت کے لئے دنیا میں سب سے پہلی موثر آواز جو بلند ہوئی وہ قرآن حکیم کی آواز تھی جس کا ارشاد یہ تھا کہ مظاہر قدرت خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات ہیں۔ کیونکہ ان میں خدا کی صفات جلوہ گر ہیں۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اپنے خالق کو پہچانے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے سائنس دان جنہوں نے سائنسی طریق تحقیق ایجاد کیا تھا اور سائنسی علوم کی بنیاد رکھی تھی۔ مسلمان تھے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ قدرت خدا کی معرفت کے لئے تھا۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ ان کی سائنس کا مدار اور محور تھا۔ علم و حکمت کے میدان میں قدیم اہل یونان کے کمالات مسلم ہیں لیکن یونانی حکماء مشاہدہ قدرت کو نظر انداز کر کے اپنا سارا زور فقط خیالات اور تصورات پر صرف کرتے تھے۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سائنسی طریق تحقیق کے موجود بن سکتے۔ اس سلسلہ میں اقبال لکھتا ہے: ’’ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ تجرباتی طریق تحقیق یورپ کی ایجاد ہے۔۔۔۔ یورپ نے اس بات کا اعتراف کرنے میں بڑی دیر کی ہے کہ اس کے ہاں کے مروج سائنسی طریق تحقیق کا اصل ماخذ اسلام ہے۔ تاہم اس بات کا مکمل اعتراف ہو کر رہا ہے۔‘‘ اس کے بعد اقبال برفال (Briffoult) کی کتاب ’’ تعمیر انسانیت‘‘ (The Making of Humanity) سے کچھ عبارتیں اس بات کے ثبوت میں نقل کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یونانی فلسفہ کے اثر سے مسلمان عرصہ دراز تک روح قرآن سے غافل رہے۔ لیکن بالاخر انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کی۔ اقبال لکھتا ہے: ’’ سقراط کے صحیح شاگرد کی حیثیت سے افلاطون حسی تجربات سے جو اس کے خیال میں سچے علم کی طرف نہیں بلکہ فقط کسی رائے کی طرف راہنمائی کرتے تھے، نفرت کرتا تھا۔ کسی قدر مختلف ہے۔ یہ نقطہ نظر قرآن سے جو سننے اور دیکھنے کی قوتوں کو خدا کے نہایت ہی قیمتی انعامات سمجھتا ہے اور ان کو اس دنیا میں اپنی اپنی کارکردگی کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ قرار دیتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے قرآن کا مطالعہ کرنے والے مسلمانوں نے یونانی فلسفہ کے اثر کی وجہ سے شروع میں بالکل نہیں سمجھا۔ وہ قرآن کو یونانی فکر کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ انہیں یہ حقیقت سمجھنے کے لئے (اور وہ بھی پوری وضاحت سے نہیں) کہ قرآن کی روح دراصل یونانی فلسفہ سے متعارض ہے، دو سو سال سے بھی اوپر لگ گئے اور پھر اس حقیقت سے روشناس ہونے کا نتیجہ ایک قسم کی ذہنی اور علمی بغاوت میں رونما ہوا جس کی پوری اہمیت آج تک نہیں سمجھی گئی۔‘‘ ’’ لیکن قلبی واردات انسانی علم کا فقط ایک ذریعہ ہے قرآن کے نقطہ نظر سے علم کے دواور ذرائع بھی ہیں یعنی قدرت اور تاریخ (آگے چل کر اقبال تاریخ کو بھی قدرت میں شمار کر لیتے ہیں کیونکہ تاریخی واقعات بھی انسانی دنیا میں قدرت کے مظاہر ہیں۔ مصنف) اور جب قرآن علم کے ان سرچشموں سے کام لیتا ہے تو اس کی حقیقی روح پوری شان و شوکت سے بے نقاب ہوتی ہے۔ قرآن سورج اور چاند میں، سایوں کے دراز ہونے میں، رات اور دن کے تغیرات میں، انسان کے الوان اور السنہ کے اختلافات میں، دولت مندی اور مفلسی کے ایام کی گردش میں، غرضیکہ قدرت کے ان تمام مظاہر میں جو انسان کے حواس کے روبرو جلوہ افروز ہیں۔ حقیقت مطلقہ کے نشانات کا مشاہدہ کرتا ہے اور مسلمان کا یہ فرض ہے کہ ان نشانات پر غور و فکر کرے اور ان سے اس طرح سے نہ گزر جائے کہ گویا وہ بہرا اور اندھا ہے کیونکہ جو شخص اس دنیا میں ان چیزوں کو نہیں دیکھتا وہ اگلی زندگی کے حقائق کی طرف سے بھی اندھا رہے گا۔ مطالعہ قدرت کی یہ دعوت اس حقیقت کے تدریجی انکشافات کے ساتھ مل کر کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق کائنات اپنی اصل کے اعتبار سے متحرک اور محدود اور ترقی پذیر ہے۔ آخر کار یونانی فلسفہ کے ساتھ (جس کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے دور کی ابتدائی منزلوں میں نہایت ذوق و شوق سے کیا تھا) مسلمان مفکرین کے تصادم کے باعث ہوئی۔ یہ نہ جاننے کی وجہ سے کہ قرآن کی روح دراصل فلسفہ یونان سے متصادم ہوتی ہے اور یونانی فلسفہ پر اعتماد کرنے کی وجہ سے ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ وہ فلسفہ یونان کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں۔ روح قرآن کی حقائق پسندی کے پیش نظر اور یونانی فلسفہ کی خیال پرستی کی وجہ سے جو تصورات سے شغف رکھتا تھااور حقائق کو نظر انداز کرتا تھا۔ اس قسم کی کوشش کا نتیجہ ناکامی کے سوائے اور کیا ہو سکتا تھا۔ اس ناکامی کے بعد جو کچھ ہوا وہی ہے جس نے اسلامی تہذیب کی حقیقی روح کو آشکار کیا اور تہذیب حاضر کے بعض نہایت اہم عناصر کی بنیاد قائم کی۔‘‘ مسلمان سائنس کے موجد اس لئے بنے تھے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم کا یہ ارشاد تھا کہ خدا کی معرفت کے لئے قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ ان کی سائنس کا مرکزی یا بنیادی تصور تھا۔ عیسائیت کا نقطہ نظر جب اندلسی مسلمانوں کے سیاسی حالات نے پلٹا کھایا اور وہ اندلس سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو سائنس یورپ کے ان لوگوں کے ہاتھ آئی جو۔۔۔۔ جدید عیسائیت کے پیروکار تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے نادانی سے فرض کر لیا تھا کہ دین او ردنیا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک پاک اور مقدس اور دوسری ناپاک اور غیر مقدس۔ لہٰذا انہوں نے سمجھا کہ کائنات کے مشاہداتی علم کو جسے سائنس کہا جاتا ہے، خدا سے کوئی تعلق نہیں۔ سائنس اور سائنس دانوں سے کلیسا کی گہری اور آشکار دشمنی نے اس فرضی عقیدہ کے لئے مزید ثبوت بہم پہنچایا اور کلیسا اور ریاست کے افتراق نے جو دونوں کے شدید اور طویل جھگڑوں کے بعد ایک اٹل حقیقت کے طور پر رونما ہوا تھا۔ اس عقیدہ کو مزید تقویت پہنچائی اور اس کے لئے راستہ صاف کیا۔ لہٰذا اس عقیدہ نے جامہ عمل پہنا اور سائنس سے خدا کا نام خارج کر دیا گیا یہ کلیت وجود میں تفریق پیدا کرنے اور حقیقت کائنات کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی ایک نا معقول اور افسوسناک جسارت تھی جس کے پیچھے کوئی عقلی، علمی یا سائنسی دلیل یا شہادت موجود نہ تھی۔ تاہم سائنس کی بے خدائیت کا عقیدہ جو اس طرح عیسائیت کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ عیسائی مغرب کی دنیا میں جڑ پکڑ گیا۔ ظاہر بات ہے کہ سائنس میں اس عقیدہ کے جاگزیں ہونے کے بعد کوئی ایسے سائنسی نظریات پیدا نہ ہو سکتے تھے جو اس سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ لہٰذا ایسے سائنسی نظریات وجود میں آنے لگے۔ جو دراصل اسی کی پیداوار تھے لیکن جن کو آسانی سے اس کا ثبوت سمجھا جا سکتا تھا۔ ایسے سائنسی نظریات میں ہم انیسویں صدی کی طبقاتی مادیت اور میکانیت اور ڈارون کے مادی اور میکانکی نظریہ ارتقا کو شمار کر سکتے ہیں جنہوں نے اس خیال کو بظاہر ایک سائنسی حقیقت کا درجہ دیا کہ قدرت میں کوئی تخلیق یا راہ نما قوت کار فرما نہیں اور خدا کا عقیدہ مظاہر قدرت کی تشریح کے لئے غیر ضروری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ لوگ رفتہ رفتہ بھول گئے کہ سائنس کی بے خدائیت در حقیقت ایک مذہبی عقیدہ ہے جس کو عیسائیت نے جنم دیا تھا اور یہ سمجھنے لگے کہ یہ خود سائنس ہی کی ایک ضرورت ہے۔ اب بھی عیسائی مغرب کے سائنس دان یہ کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ اپنی سائنس کو ہر حالت میں اس راستہ سے بچائیں جو خدا کے عقیدہ کی طرف جاتا ہے۔ اور خواہ کچھ ہو جائے اس کو سختی کے ساتھ اس چار دیواری میں بند رکھیں۔ جو سائنس کی بے خدائیت کی نامعقول عقیدہ نے اس کے ارد گرد بنا رکھی ہے۔ مظاہر قدرت آیات اللہ ہیں ان کی روشن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے خدا اور مذہب کے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ایسے حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں جو قدرت میں کسی ذہنی یا تخلیقیق وت کے عمل کا ثبوت بہم پہنچاتے ہوں۔ خواہ وہ ثبوت کیسا ہی بین اور آشکار کیوں نہ ہو مثلاً وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ قدرت میں وہ سب چیزیں موجود ہیں جو کسی ذہن کی تخلیقی کارروائی کا پتہ دیتی ہیں مثلاً ترتیب، تنظیم، تجویز، تعمیر، تکمیل، وحدت، یکسانیت، تسلسل، مقصدیت، تطابق، توافق، ریاضیاتی فکر، زندہ حیوانات کی خود کارانہ نشوونما جو ان کو برتر اور بلند تر مدارج حیات کی طرف خود بے خود لے جاتی ہے۔ اگر یہ اوصاف قدرت کے اندر موجود نہ ہوتے تو قدرت میں کسی چیز کا وجود ہی نہ ہوتا اور طبیعیاتی اور حیاتیاتی علوم ممکن نہ ہوتے۔ اس کے باوجود مغرب کے سائنس دان ان کے وجود سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور ان کی کوئی تشریح کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ بعض وقت ان میں سے بعض حقائق کی تشریح کے لئے سخت مجبور ہو جائیں تو پھر بھی ان کی تشریح کے لئے خدا کے تصور کو کسی حالت میں بھی استعمال نہیں کرتے بلکہ کچھ من گھڑت فرضی مابعد الطبیعیاتی تصورات کو کام میں لاتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے کچھ حقائق کی تشریح کے لیے جیمز جینز کسی ریاضیاتی ذہن کو فرض کرتا ہے۔ برگساں کسی قوت حیات کا نام لیتا ہے۔ اور ڈویش کسی عالمی اسکیم یا انٹی لیچی کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام فرضی ہونے کے علاوہ ناکافی اور نا تسلی بخش ہیں۔ مثلاً کیا یہ ممکن ہے کہ کائنات میں کوئی اعلیٰ درجہ کا ریاضیاتی ذہن تو کار فرما ہو لیکن اس میں شخصیت کے اور اوصاف جو جذبات اور اخلاق سے تعلق رکھتے ہوں موجود نہ ہوں یا قدرت میں کوئی ایسی قوت اجسام حیوانات کی تخلیق اور تکمیل کے کاموں میں مصروف ہو جو سوچتی سمجھتی ہو۔ اپنے مقاصد سے آگاہ ہو اور ان کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتی ہو۔ لیکن ایک کامل شخصیت نہ ہو۔ ہمارا تجربہ اس قسم کے ادھورے تصورات کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاضیاتی فکر یا مقصدیت کے اوصاف جس وجود میں پائے جاتے ہوں وہ شخصیت کے باقی ماندہ جذباتی اور اخلاقی اوصاف سے بے بہرہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا معقولیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ قدرت میں جو ریاضیاتی ذہن یا قوت حیات کار فرما ہے وہ خودی عالم یا خدا ہی ہے لیکن سائنس کی بے خدائیت کا غیر عقلی عقیدہ مغرب کے سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے سے مانع ہے۔ علم کی نیام بے شمشیر سائنس کی بے خدائیت پر اقبال بڑے افسوس کا اظہار کرتا ہے اور پر درد الفاظ میں کہتا ہے: عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی اس شعر میں اور اس قسم کے دوسرے اشعار میں علم سے اقبال کی مراد سائنس ہے اور دوسرا کوئی علم نہیں۔ چنانچہ وہ خود اپنے ایک خط میں لکھتا ہے: ’’ علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دار و مدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے۔ جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو شیطنت ہے یہ علم۔ علم حق کی ابتداء ہے۔‘‘ اقبال کے اس شعر سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عشق الٰہی کی تیغ جگر دار سائنس کی نیام کے اندر اپنی جگہ پر موجود تھی اور بعد میں یہ افسوسناک حادثہ پیش آیا کہ کسی نے اس تلوار کو جو دنیا بھر کے تمام باطل تصورات اور نظریات کاٹ کر رکھ سکتی تھی اس نیام سے اڑا لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ نیام اب تک خالی پڑی ہے۔ یہ تیغ جگر دار کیسے اڑ گئی اور کس نے اڑائی؟ اقبال اس سوال کا جواب اپنے اشارہ کو بلیغ اور موثر بنانے کے لئے سننے والوں پر چھوڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں اقبال سائنس کی بے خدائیت کے اس تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس کی تشریح اوپر کی گئی ہے۔ اس تیغ جگر دار کو اڑانے کی ساری ذمہ داری مغرب کی کوتاہ اندیشی اور مسلمان سائنس دانوں کی کورانہ تقلید پر عائد ہوتی ہے۔ علم حق کا پہلا مرحلہ اگرچہ بے خدا سائنس الفاظ میں نہیں کہتی کہ خدا موجود نہیں۔ لیکن انسان اور کائنات کے متعلق اس کا نکتہ نگاہ اور اس کا طریق فکر و عمل ایسا ہے کہ گویا خدا موجود نہیں۔ وہ تمام طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا ان کا کوئی خالق نہیں اور اگر ہے تو ان کے ساتھ اب اس کا کوئی تعلق نہیں اور اس کی صفات کا کوئی نشان ان کے اندر موجود نہیں۔ اس طرح سے مغربی سائنس اس ایک ہی دروازہ کو بند کر دیتی ہے۔ جس کی راہ سے خدا کی معرفت کا نور سب سے پہلے حضرت انسان تک پہنچتا ہے۔ اقبال کا یہ خیال قرآن حکیم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے کہ خدا کی معرفت اور محبت کو بیدار کرنے کا پہلا ذریعہ انسان کے حواس ہیں جن کی مدد سے وہ مظاہر قدرت میں خدا کی صفات کا مشاہدہ کرتا جو قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بغیر ہم خالق، رب، رحیم، کریم، عادل، حفیظ، علیم، سمیع اور بصیر، مومن، مہیمن ایسے الفاظ کے معنی نہیں سمجھ سکتے جو اوصاف باری تعالیٰ کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کو سمجھنے کے بغیر خدا کی معرفت یا محبت یا اطاعت یا عبادت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سے قرآن حکیم کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان لانے کے لئے مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرے۔ حواس کے بعد خدا کی معرفت کا دوسرا ذریعہ ذکر ہے جس کی مدد سے ہر انسان قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بغیر اور مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر بھی خدا کی صفات پر غور و فکر کر سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ قدرت کے مشاہدہ سے ان الفاظ کے معنی سمجھ چکا ہوتا ہے جو خدا کی صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ اس ذکر کی کثرت سے خدا کے حضور یا قرب کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس قلب کی ایک کیفیت ہے جو عشق یا محبت سے تعلق رکھتی ہے اور شعور اور ادراک سے بالا ہے اقبال نے اس مطلب کو ایک شعر میں ادا کیا ہے۔ علم حق اول حواس آخر حضور آخر اوے نگنجد در شعور ایک اور جگہ اقبال ذکر اور فکر کی حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے۔ یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسما مقام ذکر کمالات رومی و عطار مقام فکر مقالات بو علی سیناء مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکان مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ علم بے عشق کے خطرناک نتائج بے خدا سائنس خدا کا انکار کرنے کے بغیر خدا کو نظر انداز کرتی ہے وہ دوسرے انسانوں کو بھی اس طرح سے سوچنے اور کام کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ گویا خدا موجود نہیں اور یہ نقطہ نظر خدا کے انکار سے بدتر ہے۔ بے خدا سائنس نے ہی اس نامعقول اور بے بنیاد عقیدہ کو رواج دیا ہے کہ معیاری فلسفہ وہی ہے جس میں خدا ایک حقیقت کے طور پر مذکور نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بے خدا سائنس کے اس زمانہ میں کائنات کے جس قدر فلسفے پیدا ہوئے ہیں مثلاً ڈارونزم، مارکسزم، میکڈوگلزم، فرائڈزم، ایڈلرازم، بی ہیویرازم، لاجیکل پازیٹوزم، ہیومنزم وغیرہ۔ وہ سب بے خدا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بے خدا سائنس کے اس زمانہ میں انسانی فطرت اور انسانی افعال و اعمال کے جس قدر نظریات وجود میں آئے ہیں۔ وہ بھی سب کے سب بے خدا ہیں۔ مثلاً بے خدا فلسفہ سیاست، بے خدا فلسفہ اخلاق، بے اخدا اقتصادیات، بے خدا قانون، بے خدا فلسفہ تعلیم، بے خدا فلسفہ تاریخ، بے خدا نفسیات فرد، اور بے خدا نفسیات جماعت، لہٰذا سائنس کا بے خدا ہونا کوئی معمولی سا، معصوم سا اور بے ضرر سا حادثہ نہیں۔ جو صرف کتابوں میں ہی رونما ہوا ہو۔ اس نے انسان کی کتابوں کو ہی نہیں بدلا۔ بلکہ اس کے مقصدوں، قدروں، منصوبوں، امیدوں، آرزوؤں اور حق و باطل خوب و زشت اور نیک و بد کے پیمانوں اور معیاروں کو بدل کر اس کے اعمال و افعال کو بھی بدل ڈالا ہے۔ انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ جو کچھ سوچتا ہے وہی کرتا ہے۔ اگر اس کے افکار و آراء اور تصورات اور نظریات بے خدا ہوں تو پھر اس کے اعمال و افعال کا بے خدا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا سائنس کا بے خدا ہو جانا عالم انسان کا بہت بڑا حادثہ ہے جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے۔ اسی کی وجہ سے اب دنیا میں کوئی ایسی ہمہ گیر اخلاقی اور روحانی قوت باقی نہیں رہی جو اندر سے انسانی اعمال کو ضبط میں لا کر صحیح راستہ پر ڈال سکے۔ یہی حقیقت ہے جو دور حاضر کے انسان کی تمام بد قسمتیوں اور پریشانیوں کا موجب ہے۔ مثلاً آزاد جنسیت کی وجہ سے اہلی زندگی کا بگاڑ، طفولیتی بے راہ روی، علم اور استاد کے احترام کا زوال اور علمی درسگاہوں کے ضبط و نظم کا فقدان، اقتصادی خوشحالی کے باوجود اطمینان قلب سے محرومی، ذہنی بیماریوں، خود کشیوں اور جرموں کی روز افزوں تعداد، سیاست دانوں کے جھوٹ اور فریب، سیاسی سازشیں اور ان سے پیدا ہونے والے سیاسی قتل اور سیاسی انقلابات، قومی اور بین الاقوامی معیار اخلاق کی پستی، میزائلوں اور ایٹم بموں کے چڑھتے ہوئے انبار، عالمگیر جنگوں کا ایک سلسلہ جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اگر سائنس باخدا ہو جائے تو یہ سب مقاصد اور مصائب ختم ہو جائیں اور آسمان کے نیچے ایک ارضی جنت وجود میں آ جائے۔ سائنس اور عشق کی گفتگو اقبال نے اس مضمون کو سائنس اور عشق کی ایک گفتگو کی صورت میں بیان کیا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ میری نگاہ پوری کائنات کی راز دار ہے اور زمانہ میری کمند میں گرفتار ہے۔ میری آنکھیں اس مادی کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ مجھے آسمان سے اس طرف کی دنیا یعنی عالم مابعد الطبیعیات سے کوئی سروکار نہیں ۔ میرے ساز سے سینکڑوں نغمے بلند ہوتے ہیں اور میں اپنے دریافت کئے ہوئے راز ہائے سربستہ کو سر بازار لے آتی ہوں تاکہ ہر شخص ان کو پرکھ سکے اور ان سے مستفید ہو سکے۔ نگاہم راز دار ہفت و چار است گرفتار کمندم روزگار است جہاں بینم بایں سز باز کردند مرابا آنسوئے گردوں چہ کار است چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم ببا زار افگنم رازے کہ دارم عشق جواب دیتا ہے کہ تمہاری افسوں گری سے سمندر شعلہ زار بنے ہوئے ہیں (مراد بحری جہازوں کی گولہ باری سے ہے) ہوا آگ برساتی ہے (مراد ہوئی جہازوں کی بم باری سے ہے) اور زہر آلود ہے (زہریلی گیس کی طرف اشارہ ہے) جب تک میرے ساتھ تیری دوستی تھی تو ایک ونر تھی۔ مجھ سے الگ ہونے کی دیر تھی کہ تیرا نور آگ بن گیا تو روحانیت کے خلوت خانہ میں پیدا ہوئی تھی (مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے تجھے خدا کی معرفت کی جستجو میں ایجاد کیا تھا) لیکن تو شیطان کے جال میں پھنس گئی (یعنی خداکے تصور کو ترک کرنے اور باطل تصورات حقیقت کو اپنانے کی وجہ سے) آ ہم دونوں مل کر اس خاکی کائنات کو گلستان بنائیں آسمان کے نیچے ایک ایسا بہشت بنائیں جو ہمیشہ قائم رہے۔ آ میرے درد دل سے ایک ذرہ لے لے (یعنی خدا کے عقیدہ کو قبول کر لے) اور اس جہان پیر کو پھر جوان بنا دے۔ ہم روز ازل سے ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اور ایک ہی نغمہ (یعنی خدا کی محبت کے نغمہ) کے زیرو بم ہیں۔ زا فسوں تو دریا شعلہ زار است ہوا آتش گذار و زہر دارست جو با من یار بودی نور بودی، بریدی از من و نور تو ناراست خلوت خانہ لاہوت زادی و لیکن درنخ شیطان فتادی بیا ایں خاکدان را گلستان ساز، تہ گردوں بہشت جادواں ساز زروز آفریش ہمدم استیم ہماں یک نغمہ را زیرو بم استیم جب انسان کے تمام اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا جو کام بھی خدا کی محبت کی تسکین اور تشفی کے لئے نہ ہو گا محض بے سود ہو گا۔ سائنس اگر خدا سے بے تعلق ہو گی تو وہ بیکار خیالات کا تماشہ خانہ ہو گی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ علم کو از عشق برخوردار نیست جز تماشہ خانہ افکار نیست بلکہ ایسی سائنس چونکہ سچے تصور حقیقت سے کٹ جاتی ہے وہ لازماً کسی جھوٹے تصور حقیقت پر مبنی ہو جاتی ہے۔ اس سے شیطانی قوتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور انسان کے اصلی مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ علم بے عشق از طاغوتیاں علم با عشق از لاہوتیاں خدا ہستی غائب نہیں ایک نظم میں اقبال کہتا ہے کہ فلسفہ مغرب کے قائلین کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی جستجو کرنا نادانی ہے اور ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ خدا ہستی غائب ہے اور جدید سائنسی علوم کی بنیاد ان حقائق پر ہے۔ جو محسوس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی حواس خمسہ کے ذریعہ سے معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا خدا کو ماننا علم اور عقل کی کوئی بات نہیں۔ اس زمانہ میں محض عقائد کو کوئی علمی حیثیت حاصل نہیں۔ مذہب ایک جنون ہے جس سے آدمی کے تخیل پر ناحق ایک لرزہ سا طاری رہتا ہے۔ لیکن اگر ہم فلسفہ زندگی پر غور کریں تو کچھ اور ہی قسم کے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب کے فلسفیوں کا یہ خیال درست نہیں کہ خدا ہستی غائب ہے اور خدا کو جاننے کا پہلا ذریعہ حواس خمسہ کے سوائے کوئی اور بھی ہے۔ خدا کو جاننے کا بنیادی ذریعہ حواس خمسہ ہی ہیں۔ کیونکہ خدا کی ہستی اور اس کی صفات مظاہر قدرت میں آشکار ہیں اور مظاہر قدر ت کا علم حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ اقبال نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ وہ علم جس کا دارومدار حواس پر ہے۔ ’’علم حق کی ابتداء ہے۔‘‘ علم حق اول حواس آخر حضور چونکہ خدا کی صفات محسوس کائنات میں آشکار ہیں لہٰذا خدا محسوس کائنات سے الگ نہیں اور خدا کا علم بھی محسوس کائنات ہی کا علم ہے۔ یہ بات کہ خد اہماری جسمانی آنکھوں سے مخفی ہے۔ اس صداقت میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتی۔ بعض وقت ہم کسی چیز کی ہستی کو اس کے محسوس آثار اور نتائج سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور پھر اس چیز کا علم بھی ایسا ہی معتبر اور یقینی ہوتا ہے جیسا کہ کسی اور محسوس چیز کا علم مثلاً ہم دور سے دھواں دیکھیں تو اس سے آگ کی موجودگی کا یقین کرتے ہیں حالانکہ آگ ہمیں نظر نہیں آتی۔ اسی طرح سے ہم اپنے کسی دوست کی شخصیت یا خودی کو اس کے آثار و نتائج سے جو اس کے اعمال، افعال اور اقوال کی صورت اختیار کرتے ہیں اچھی طرح سے جان لیتے ہیں حالانکہ اس کی شخصیت یا خودی سے بھی ہیروشیما کے دھماکہ کے بعد ہی دیکھا ہے اس کے باوجود اس دھماکہ کے وقت سائنس دانوں کو اس کے محسوس آثار و نتائج کی بنا پر اس کا پورا علم تھا۔ جو یہاں تک یقینی اور موثر تھا کہ اس کی مدد سے ہیروشیما ایسے ایک بڑے شہر کو لمحہ بھر میں تباہ کر دیا گیا۔ ایٹم کی طرح ہم خدا کو بھی اس کے آثار و نتائج یا اعمال و افعال کے ذریعہ سے جو مظاہر قدرت کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اوپر کی مثالوں میں اگر اپنے آثار و نتائج کے ذریعہ سے جانی ہوئی چیزوں یعنی آگ اور دوست کی شخصیت اور ایٹم میں سے کوئی چیز بھی کسی شخص کے نزدیک ہستی غائب یا مافوق الفطرت ( Super-Natural) نہیں تو خدا بھی ہستی غائب یا مافوق الفطرت نہیں۔ تمام طبیعاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت میں جو چیز ہمیں واضح طور پر نظر آتی ہے وہ نظم یا آرڈر (Order) کی موجودگی ہے جو سانس دان کو کشش کرتا ہے اور جسے سائنس دان اپنے مشاہدات اور تجربات کے ذریعہ سے دریافت کر کے ضبط تحریر میں لاتا ہے جہاں نظم دریافت نہ ہو سکے۔ وہاں سائنس کی تحقیق ناکام رہتی ہے اور رک جاتی ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نظم ایک جوہر میں، ایک سالمہ میں، ایک قلم یا کرسٹل میں، ایک نظام شمسی میں، برف کے ایک گالہ میں، ایک خلیہ میں، ایک جسم حیوانی میں اور ایک انسانی شخصیت میں موجود ہے۔ اور پھر جہاں تک ہمیں علم ہے یہ نظم جب سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ آج تک ہر زمانہ میں اور جہاں تک کائنات پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ہر جگہ ایک ہی رہتا ہے اور اس کی یکسانیت کبھی او رکہیں نہیں ٹوٹتی۔ اب یہ بات بالکل ظاہر ہے اور اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ کہ نظم ہمیشہ کسی ذہن کی کارفرمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم گندم کے کچھ دانے ایک فٹ پاتھ پر بکھرے ہوئے دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اتفاقاً گر گئے ہوں گے لیکن اگر وہی دانے ایک باقاعدہ ہشت پہلو ریاضیاتی شکل میں آراستہ ہوں تو ہم سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکیں گے کہ کسی زندہ باشعور ہستی نے ان کو یہ شکل دی ہے۔ طبیعاتی مظاہر قدرت کے اندر جو نظم پایا جاتا ہے وہ اس قدر جچا تلا ہے کہ ہم اسے ریاضیاتی اصطلاحات یا ریاضیاتی اصولوں میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایک بلند عمارت کی چھت سے نیچے گرائی ہوئی چھوٹی سی کنکری کی بڑھتی ہوئی رفتار یا حرارت سے پھیلنے والی لوہے کی ایک سلاخ کی بڑھتی ہوئی طوالت بھی ریاضیاتی قوانین کی پابند ہے۔ جو کائنات میں اس وقت بھی جاری تھے جب اس میں انسان جوان قوانین کو سمجھنے کی ذہنی استعداد رکھ سکتا ہے۔ موجود نہیں تھا۔ا گرچہ نظم خود ایک مقصد کا مظہر ہوتا ہے۔ تاہم جب ہم طبیعیاتی مظاہر قدرت سے ذرا اوپر آ کر حیاتیاتی مظاہر قدرت پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ہر چھوٹے یا بڑے جاندار کے جسمانی نظم کے اندر کسی مقصد کی کارفرمائی براہ راست نظر آتی ہے۔ حالانکہ کسی جاندار نے اپنے آپ کو خود نہیں بنایا اور نہ وہ مقصد جو اس کے جسمانہ کارخانہ کے کونے کونے میں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے، اس کا اپنا مقصد ہوتا ہے۔ لہٰذا جدید سائنسی علوم مظاہر قدرت کے اندر نظم اور مقصد کی جستجو اور دریافت کی کٹھن منزلیں طے کر کے یہ سوال بار بار پیدا کرتے رہتے ہیں کہ جب نظم اور مقصد ذہن کی کارفرمائی کے بغیر ممکن نہیں تو پھر یہ کس کا ذہن ہے جو قدرت کے ذرہ ذرہ میں کار فرما ہے۔ اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ اس کا ذہن ہے جس نے قدرت کے ذرہ ذرہ کو پیدا کیا ہے اور جسے خالق کائنات یا خدا کہا جاتا ہے۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ جدید سائنسی علوم کا ایک قدرتی جزو اور جزو لانیفک ہے۔ اگر مغرب کے علماء نے علوم جدیدہ سے خدا کے عقیدہ کو الگ کر دیا ہے۔ تو ایسا کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی علمی اور عقلی وجہ جواز موجود نہیں اور نہ ان کا ایسا کرنا اس کا ثبوت بن سکتا ہے کہ خدا ایک علمی تصور نہیں یا ہمیں خدا کو ایک غیر محسوس ہستی سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہئے۔ خدا کی ہستی ہستی غائب یا ماورائے علم ہستی نہیں بلکہ وہ ہستی ہے جس کی شہادت خود علوم جدیدہ بہم پہنچا رہے ہیں۔ اگر خدا غائب ہے تو ان معنوں میں کہ آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات ہماری جسمانی آنکھوں سے مخفی ہے۔ لیکن ان معنوں میں دنیا کی ہر وہ چیز بھی جسے ہم ان آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، غائب ہے۔ کیونکہ ہم دنیا کی کسی چیز کو بھی جسے ہم مرئی کہتے ہیں پوری طرح سے نہیں جان سکتے۔ ان ہی معنوں میں قرآن حکیم نے خدا کو ظاہر بھی کہا ہے اور باطن بھی۔ قرآن کی آیت لیومنون بالغیب میں لفظ غیب میں خدا کو شامل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا ہم سے کلیتاً مخفی ہے۔ بلکہ فقط یہ ہے کہ ظاہر اور آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات ہماری آنکھوں سے نہاں ہے۔ خدا مظاہر قدرت میں اپنی صفات کی آشکارائی کی وجہ سے آشکار ہے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ مظاہر قدرت خدا کی آیات یا خدا کے نشانات ہیں۔ اور خدا کو جاننے کے لئے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ کچھ مظاہر قدرت کا ذکر کرنے کے بعد قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔ ذالکم اللہ ربکم فانی توفکون (یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار۔ تم کہاں بھٹکتے پھر رہے ہو) یہ اشارہ صرف ایک ایسی ہستی کی طرف ہی کیا جا سکتا ہے جو صاف طور پر سامنے نظر آ رہی ہو۔ اسلام میں مشاہدہ و مطالعہ قدرت ایمان باللہ کے لئے ضروری ہے۔ مغرب کی موجودہ عیسائیت میں مشاہدہ و مطالعہ قدرت ایمان باللہ کے منافی یا کم از کم اس سے بے تعلق ہے۔ لہٰذا جس طرح سے فلسفہ مغرب میں نامشہور (Unseen) اور فوق الفطرت (Super Natural) کے الفاظ خدا کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اسلام میں جو فلسفہ زندگی ہے استعمال نہیں کئے جا سکتے اگر فلسفہ مغرب کے قائلین نے علوم جدیدہ سے خدا کے عقیدہ کو الگ کر دیا ہے تو ہمارے لئے ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور پھر خودی کی فطرت اس بات کی گواہ ہے کہ انسان آرزوئے حسن کے سوائے اور کچھ نہیں اور انسان کی یہ آرزوئے حسن خدا کے سوائے اور کسی نصب العین سے مطمئن نہیں ہوتی۔ اگر خدا کی جستجو کو نادانی سمجھا جائے تو انسان اپنی اس ایک ہی آرزو کی تشفی کیسے کرے گا۔ جس پر اس کی پوری فطرت مشتمل ہے۔ انسان کو عقل ہی کی نہیں بلکہ جنون یعنی خدا کی محبت کی بھی ضرورت ہے۔ اگر وہ عقل کل ہو جائے تو پھر بھی خدا کی محبت کے جنون سے بے نیاز اور بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ سچے خدا سے بے نیاز ہو گا تو اسے زندہ رہنے کے لئے کسی جھوٹے اور ناحقدار خدا کی محبت اور اطاعت کا پھندا اپنے گلے میں ڈالنا پڑے گا۔ لہٰذا اقبال فلسفہ مغرب کے قائلین پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے: تعلیم پیر فلسفہ مغربی ہے یہ، نادان ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش مذہب ہے جس کا نام، وہ ہے اک جنون خام ہے جس سے آدمی کے تخیل کو ارتعاش کہتا ہے مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش باہر کمال اند کے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدہ رای بے جنوں مباش سائنس محبت کی خانہ زاد ہے اوپر ہم نے دیکھا ہے کہ اقبال کا خیال یہ ہے کہ نصب العین کی محبت انسان کے تمام اعمال کو پیدا کرتی ہے اور ان کو اپنی غرض کے لئے کام میں لاتی ہے۔ ہمارا نصب العین ہی ہمارے لئے درست و نا درست صحیح اور غلط، نیک او ربد اور زشت و زیبا میں فرق پیدا کرتا ہے۔ مشاہدہ قدرت اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا عمل جس سے سائنس کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ خواہ ہمارا نصب العین صحیح ہو یا غلط، کامل ہو یا ناقص ہر حالت میں ہمارے مشاہدات کے نتائج ہمارے نصب العین کی روشنی میں ہی مرتب ہوتے ہیں اور اس کے تائیدی اور تشریحی حقائق کے طور پر بر وقت ضرورت کام آنے کے لئے ہمارے پاس محفوظ رہتے ہیں اگر ہمارا نصب العین غلط اور ناقص ہو گا تو ہمیں قدرت ایک خاص رنگ میں دکھائی دے گی۔ جو ا س نصب العین کا رنگ ہو گا اور ہمارے سائنسی مشاہدات اور سائنسی نتائج ایک خاص نقطہ نظر کے حامل ہوں گے جو اس نصب العین کے مطابق ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس حالت میں ہم قدرت کے مشاہدہ سے صحیح نتائج اخذ نہ کر سکیں گے اور وہ اسی نسبت سے غلط ہوں گے جس نسبت سے ہمارا نصب العین غلط ہو گا اور ہمارا نصب العین صحیح ہو گا تو ہم قدرت کا مشاہدہ اس حقیقت کی روشنی میں کریں گے کہ قدرت خدا کی تخلیق اور خدا کے حسن کا مظہر ہے۔ پھر قدرت بھی اور طرح سے نظر آئے گی اور اس کے مشاہدہ سے ہمارے نتائج بھی اور طرح سے مرتب ہوں گے۔ کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی اگر سائنس خدا کے تصور پر قائم ہو تو جوں جوں وہ ترقی کرتی ہے اپنے غلط نتائج کو خود بخود درست کرتی چلی جاتی ہے۔ بے خدا سائنس میں یہ خاصیت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حقیقت الحقائق یعنی خدا کے تصور کی روشنی اور راہ نمائی سے محروم ہوتی ہے۔ وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم وہ علم بے بصری جس میں ہمکنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم خد اکے عقیدہ کی روشنی میں کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے سے جو سائنس تعمیر ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف اغلاط سے پاک ہوتی ہے اور علم رنگ و بود کی صحیح تشریح اور تفسیر ہوتی ہے۔ بلکہ وہ ہمارے ذوق حسن (دیدہ) کی پرورش اور ہماری محبت (دل) کی تربیت کرتی ہے یہاں تک کہ ہمیں جذب و شوق یعنی معرفت حق تعالیٰ کی انتہائی منزلوں تک پہنچا دیتی ہے اور خود جبرائیل کی طرح خدا کا راز دار بنا دیتی ہے۔ علم تفسیر جہان رنگ و بو دیدہ و دل پرورش گیر دازو بر مقام جذب و شوق آرد ترا باز جوں جبریلؑ بگذارد ترا اقبال کے اس خط کے مطابق جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے لفظ’’ علم‘‘ سے یہاں اقبال کی مراد پھر سائنس ہے۔ اقبال نے سائنسی تحقیق و تعلیم پر بڑا زور دیا ہے اور اس کی وجہ سے اس کا یہ خیال ہے کہ سائنس کے ذریعہ سے مسلمان نظام عالم کی قوتوں کو مسخر کرنے کے لئے جدوجہد کر کے اپنی ممکنات کو آشکار کر سکتا ہے اور اپنی قوتوں کی توسیع کرسکتا ہے اور ہر لحاظ سے طاقتو رہو کر اپنے مقصد زندگی یعنی کلمہ توحید کی نشر و اشاعت کو زیادہ آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ یہ کائنات پیدا ہی اس لئے کی گئی ہے کہ مومن کی خودی اس کی تسخیر کر کے ترقی پائے اور اپنے کمال کو پہنچے۔ ماسوا از بہر تسخیر است و بس سینہ او عمرضہ تیراست و بس از کن حق ماسوا شد آشکار تا شود پیکان تو سنداں گداز ٭٭٭ خیزد دا کن دیدہ مخمورا دون مخوان ایں عالم مجبور را غامتیش توسیع ذات مسلم است امتحان ممکنات مسلم است جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن تو کہ مقصود خطاب انظری پس چرا ایں راہ چوں کوران بری چوں صبا بر صورت گلہا متن، غوطہ اندر معنی گلزار زن، آنکہ بر اشیا کمندا مذاخت است مرکب از برق و حرارت ساخت است علم اسما اعتبار آدم است حکمت اشیا حصار آدم است مظاہر قدرت کے علم کی اہمیت یہ جہان رنگ و بو کوئی راز نہیں بلکہ اس کی آفرینش کی غرض و غایت آشکار ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اسے مسخر کر کے خدا کے ایک سپاہی یا خادم کی حیثیت سے اپنی قوتوں میں اضافہ کرے اور خدا کی صفات حسن و کمال کو آشکار کرے۔ گویا کائنات ایک ساز ہے جس سے ایک دلکش نغمہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے تاروں کو جنبش دینے والا مرد مومن ہو۔ ذرا مرد مومن اس کے تاروں کو ہلا کر تو دیکھے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ جہاں رنگ و بو پیدا تو مے گوئی کہ راز است ایں یکے خود را بتارش زن کہ تو مضراب و ساز است ایں قرآن حکیم نے مظاہر قدرت کو آیات اللہ یا خدا کے نشانات اس لئے قرار دیا ہے کہ ان میں خدا کی صفات کا جلوہ اور اس کی قدرتوں اور حکمتوں کا نور روشن ہے۔ لہٰذا اشیاء کے خواص و اوصاف یا سائنسی حقائق خدا کے اسرار میں سے ہیں۔ ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنھار لایت لا ولی الالباب (بے شک آسمانوں اور زمین کے اندر جو کچھ پیدا کیا گیا ہے اور رات اور دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں) لہٰذا جو شخص خدا کی آیت کا مشاہدہ اور مطالعہ خدا کی آیات سمجھ کر کرتا ہے وہ مومن ہے۔ سائنس کی بنیاد ہی خدا کا یہ حکم ہے کہ نظام فطرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ قرآن میں ہے۔ انظروا ما ذا فی السموات والارض (جو کچھ زمین اور آسمان میں پیدا کیا گیا ہے اسے دیکھو) اقبال لکھتا ہے: ہر چہ مے بینی ز انوار حق است حکمت اشیا از اسرار حق است ہر کہ آیات خدا بیند حراست اصل ایں حکمت ز حکم انظر است بندہ مومن پر حکمت اشیاء یا سائنس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی حالت دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بہتر ہو جاتی ہے اور خدا کی محبت اور معرفت کے ترقی پا جانے سے دوسرے انسانوں کے لئے اس کی محبت اور ہمدردی اور دلسوزی بڑھ جاتی ہے۔ جب خدا کی تخلیق کا علم اس کے آب و گل کو روشن کرتا ہے تو اس کا دل خدا سے اور زیادہ ڈرنے لگتا ہے۔ بندہ مومن ازو بہروز تر ہم بہ حال دیگراں دل سوز تر، علم چوں روشن کند آب و گلشن از خدا شرمندہ تر گردو دلس ظاہر ہے کہ ایسی سائنس ہماری خاک کے لئے کیمیا کا حکم رکھتی ہے کہ اس کو کندن بنا دیتی ہے لیکن خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے سے جو سائنس تعمیر ہوتی ہے چونکہ وہ خوب و زشت کے صحیح معیار سے عاری ہوتی ہے اور ظلم اور انصاف کے درمیان فرق نہیں کر سکتی۔ اس کی تاثیر دہریت پرستی، مادیت پرستی، قومی خود غرضی، کمزور اقوام پر ظلم اور سفاکی اور ان کو غلام بنانے اور لوٹنے کی کوشش بد اخلاقی اور بے حیائی، بین الاقوامی مناقشات اور ہولناک عالمگیر لڑائیوں اور ان کے دوران میں ہیروشیما اور ناگاساکی ایسے پر امن شہروں کی تباہی کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم مغرب میں بے خدا سائنس کی اس تاثیر کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ افرنگیوں کی سائنس ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے نوع انسانی کی ہلاکت کے در پے ہے۔ یورپ کا گرا ہوا قانون اخلاق اور اس کی بے خدا سائنس افسوسناک ہیں۔ عقل جب خدا کی محبت کے تابع رہے تو ایک بلند پایہ روحانی فعلیت ہوتی ہے اور جب خدا کی محبت سے آزاد ہو جائے تو شطنیت بن جاتی ہے۔ مسلمان جو روح اور جسم کی ضرورتوں میں امتیاز کر سکتا ہے اس کا فرض ہے کہ مغرب کی اس بے خدا تہذیب کے طلسم کو توڑ ڈالے۔ علم اشیاء خاک ما را کیمیا است آہ در افرنگ تاثیرش جداست عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت چشم او بے نم دل او سنگ و خشت دانش افرنگیاں تیغے بدوش، در ہلاک نوع انسان سخت کوش، آہ از افرنگ و از آئین او! آہ از اندیشہ لا دین او! اے کہ جان را باز مے وانی ز تن سحر ایں تہذیب لا دینی شکن عقل اندر حکم دل یزدانی است چوں زول آزاد شد شیطانی است اہل مغرب نے مادی علوم میں یہاں تک ترقی کی ہے کہ اب وہ ماہ و پروین پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور وہ وقت بھی آ پہنچا ہے جب انسان چاند کی سطح پر نازل ہو گیا ہے لیکن جب تک انسان کی یہ ترقی یافتہ عقل خد اکی محبت کے ولولہ کے ساتھ شریک کار نہیں بنتی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ عقل جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار شریک شوزش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں صحرا نشینوں کی دانہ کاری سائنس فرنگیوں کے گھر پیدا نہیں ہوئی اس کیا صل کائنات کے متعلق نئے نئے حقائق کو دریافت کرنے کا ذوق ہے جوہر انسان کی فطرت میں ہے۔ جو شخص بھی مشاہدہ اور مطالعہ قدرت سے اس ذوق کی تشفی کا اہتمام کرے گا وہی سائنس دان بن جائے گا خواہ وہ مغرب کا رہنے والا ہو یا مشرق کا۔ اور پھر تاریخ کے حقائق بتا رہے ہیں کہ سائنس تو ایجاد ہی مسلمانوں کی ہے۔ جن کے ذوق دریافت کو قرآن نے معرفت حق تعالیٰ کے ایک ذریعہ کے طور پر اکسایا اور یہ کہہ کر اس کی راہ نمائی کی کہ اس کے نتیجہ کے طور پر تمہیں خدا کا عرفان حاصل ہو گا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم پھر اپنی ایجاد کے ساتھ شغف پیدا کریں لیکن اس کو خدا کے عقیدہ سے الگ رکھنے کا جرم کر کے مغرب کی لادینی تہذیب کے فروغ کا سبب نہ بنیں کیونکہ یہی لادینی تہذیب ہے جس نے مسلمانوں کے لئے بحیثیت مسلمان کے زندہ رہنا محال کر دیا ہے۔ اس نے کئی فتنے پیدا کئے ہیں اور مسلمانوں کو خدا سے بیگانہ کر کے پھر نیشنل ازم، عرب ازم، کمیونزم اور ایسے ہی دوسرے نو تراشیدہ بتوں کی پرستش پر مائل کر دیا ہے۔ گویا حرم کعبہ میں پھر لات اور عزی کو لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اس تہذیب کی بے خدا سائنس نے دلوں کی آنکھوں سے نور زائل کر دیا ہے۔ اور روحوں کو خدا کی محبت کے آب حیات سے محروم کر کے تشنگی سے مار ڈالا ہے۔ اس نے دلوں سے خدا کی محبت کا سوز ہی رخصت نہیں کیا۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ خود دلوں کو ہی جن میں خدا اور انسان کی محبت رہتی ہے۔ پیکران گل سے غائب کر دیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ دور حاضر کا انسان محض حیوانات کی سطح پر آ گیا ہے اور نیک و بد اور زشت و زیبا میں فرق نہیں کر سکتا۔ حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصل او جز لذت ایجاد نیست چوں عرب اندر اروپا پر کشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آن صحرا نشیناں کاشتند حاصلش افرنگیاں برداشتند ایں پری از شیشہ اسلاف ماست باز صیدش کن کہ اواز قاف ماست لیکن از تہذیب لادینی گریز، زانہ او با اہل حق و ارد ستیز فتنہ ہا ایں فتنہ پرداز آورد، لات و عزی در حرم باز آورد از فسونش دیدہ دل نا بصیر روح از بے آبیے او تشنہ میر لذت بے تابی از دل مے برد بلکہ دل از پیکر گل مے برد، مقصود مکتب اس دور میں مسلمانوں نے بھی اپنی تاریخ اور روایات اور قرآن کے ارشادات کو فراموش کر کے عیسائی مغرب کی کورانہ تقلید میں مغرب کی بے خدا سائنس کو جسے اقبال ’’ اندیشہ لادین‘‘ کہتا ہے اپنا لیا ہے اس وقت تمام عالم اسلامی میں مسلمانوں کے مدرسے اور کالج اور یونیورسٹیاں بے خدا سائنس کی درس و تدریس میں مصروف ہیں۔جس کی وجہ سے پورے عالم اسلامی میں نوجوان تعلیم یافتہ افراد اسلام سے دور اور دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال اس صورت حال پر بار بار اظہار افسوس کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں مدرسہ اور کالج میں خدا کا عقیدہ پھر اپنے مقام پر واپس لانا چاہئے۔ تعلیم کا تو مدعا ہی یہ تھا کہ خودی کو اپنی زندگی کے ایک ہی مقصد کی تکمیل کے لئے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور یہ مقصد علم اور عمل کے ذریعہ سے خدا کی محبت کے جذبہ کی آزادانہ نشوونما اور تسکین اور تشفی ہے۔ اقبال کو افسوس ہے کہ مکتب کو اپنے مقصود کا ہی علم نہیں۔ جبھی تو وہ خدا کی محبت (جذب اندروں) کی پرورش کا راستہ اختیار نہیں کرتا۔ مکتب از مقصود خویش آگاہ نیست نا بجذب اندردنش راہ نیست خدا کی محبت کی شراب (مے یقین) ہی زندگی میں سوز یا گرمئی عمل پیدا کر سکتی ہے۔ خدا کرے کہ توحید کاعقیدہ نظام تعلیم کی بنیاد بنے تاکہ یہ گرمی پیدا کرنے والا آگ کی طرح کا پانی مدرسہ کو بھی نصیب ہو۔ مے یقین سے ضمیر حیات ہے پر سوز نصیب مدرسہ یا رب یہ آب آتشناک دور حاضر کے مکتب کا بے خدا نظام تعلیم طالب علم کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ عمر بھر خدا کا نام لے سکے۔ یہ ایسا ہی جیسے کہ کسی کا گلا گھونٹ دیا جائے کہ پھر اس سے لا الہ الا اللہ کی صدا نہ نکل سکے۔ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ مغربی نظام تعلیم جو اب مشرق میں بھی رائج ہے۔ اس اصول پر مبنی ہے کہ طالب علم کو کسی عقیدہ کی تعلیم نہیں دینی چاہئے تاکہ اس کی عقل آزاد رہے اور اس میں خود ہر بات پر غور و فکر کر کے اسے رد یا قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ اگر استاد کی طرف سے اس پر کوئی عقیدہ ٹھونسا گیا تو پھر اس کی سوچ بچار ایک تنگ دائرہ کے اندر مقید ہو جائے گی لیکن اس اصول پر عمل کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ طالب علم کی عقل تو آزاد ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس کے خیالات کا کوئی مرکز یا محور نہیں بنتا وہ بغیر کسی ضبط یا نظم کے رہ جاتے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ طالب علم کے اندر اس عقیدہ کو پیدا کیا جاتا اور پختہ کیا جاتا جو اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اور جس کے لئے اس کی فطرت پیاسی ہے۔ یعنی خدا کا عقیدہ ایسی حالت میں اس کے ذہن پر کوئی خارجی اور مصنوعی دباؤ نہ پڑتا بلکہ وہ اپنی فطری آزادی کو حاصل کر لیتا اور اس کو غلام بنانے والے یا اس کی فطرت سے ہٹانے والے تمام تصورات خارج از بحث ہو جانے اور اس کے ساتھ ہی اس کے خیالات ک اندر ایک ربط یا نظم بھی پیدا ہو جاتا۔ کیونکہ پھر یہ عقیدہ اس کے تمام خیالات کا مرکز یا مدار بن جاتا اور وہ ان کو اپنے اس عقیدہ کو روشنی میں دیکھ سکتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں ایسے نظام تعلیم کے پیدا کئے ہوئے تعلیم یافتہ افراد کے دلوں میں خدا کی محبت مردہ ہوتی ہے اور اگر مشرق میں ایسے نظام تعلیم کے باوجود خدا کی محبت پھر بھی زندہ رہتی ہے تو مکتب کی راہ نمائی نہ ہونے کی وجہ سے مکتب جو خیالات اور افکار طالب علم کے ذہن میں پیدا کرتا وہ خدا کے عقیدہ کے ساتھ ملحق نہیں ہوتے اور ان میں کوئی فطری ربط نہیں ہوتا اور وہ مغرب کے گوناگوں غیر فطری عقائد کے تصرف میں آ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں عقل مغرب کی غلامی کی وجہ سے غلط طریق پر کام کرتی ہے اور غلط سمت میں سوچتی ہے۔ مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر، چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطے افکار سے مشرق میں غلام اگرچہ خدا کا عقیدہ انسان کی فطرت ہے۔ تاہم یہ مشت خاک انسان اس طرح سے بنا ہے کہ اگر اس کی مناسب قسم کی تعلیم و تربیت نہ ہو تو وہ اپنی فطرت کو سمجھنے میں ٹھوکریں کھاتاہے اورغلط اور ناقص تصورات کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ اگر ہمارا خیال یہ ہو کہ اگر ہم طالب علم کو آزاد رہنے دیں تواس کے دل میں خدا کی محبت خود بخود پیدا ہو جائے گی اس لئے کہ یہ اس کی فطرت ہے تو یہ خیال درست نہیں۔ خدا کے عشق کی آتش ہمہ سوز خودی کی مناسب پرورش اور تربیت کے بغیر روشن نہیں ہوتی۔ صوفیا کا قول ہے کہ خدا کی محبت ایک آگ ہے جو ماسویٰ اللہ کو جلا دیتی ہے۔ خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز خدا کے عقیدہ کو کالج کے سائنسی علوم سے نکال دینا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص اپنا گھر روشن دیکھنا چاہتا ہو لیکن ایک بڑی سی دیوار بنا کر سورج کی روشنی کو مسدود کر دے۔ پروفیسر ایک عمارت گیر ہے اور جو عمارت وہ تعمیر کر رہا ہے وہ روح انسانی ہے، حکیم قا آنی نے ایک عمدہ بات کہی ہے۔ جو پروفیسر کو مدنظر رکھنی چاہئے کہ اگر اپنے گھر کے صحن کو روشن رکھنا چاہتے تو صحیح عمارت گری یہ ہے کہ سورج کے سامنے دیوار کھڑی نہ کرو۔ شیخ مکتب ہے اک عمارت گر جس کی صنعت ہے روح انسانی نکتہ دلپذیر تیرے لئے کہہ گیا ہے حکیم قا آنی، پیش خورشید برمکش دیوار خواہی از صحن خانہ نورانی متاع دین و دانش کازیاں پھر بھی ہم یہ تمنا رکھتے ہیں کہ ہماری نئی نسلیں صحیح طور پر مسلمان ہوں۔ گویا ہم بے خدا سائنس کے روح فرسا نتائج اور اثرات سے بالکل بے خبر ہیں۔ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بلند ترین کتابوں کے ذریعہ سے یہ بتائیں کہ علم اخلاق، علم سیاست، علم اقتصادیات، علم تعلیم، علم قانون وغیرہ میں خدا کہیں نہ آتا ہے اور نہ آ سکتا ہے اور پھر یہ توقع رکھیں کہ ان نوجوانوں کی اخلاقی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور قانونی سرگرمیاں باخدا ہوں گی لہٰذا اقبال تنبیہہ کرتا ہے کہ اس بے خدا سائنس کی تعلیم کو بے خطر نہ سمجھو۔ اس سے تمہاری پوری قوم کی روح فنا ہو رہی ہے۔ مشو ایمن ازران علمے کہ خوانی، کہ ازوے روح قومے راتواں کشت ہمارے کالجوں کی بے خدا سائنس کی تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مغربیت اور جدیدیت کے کافر ادا معشوق کے خونریز غمزوں پر ایسے مرمٹے ہیں کہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اس طرح سے ہم نے دین کی متاع کو ہی نہیں بلکہ دانش (یعنی سچی باخدا سائنس) کی متاع کو بھی لٹا دیا ہے۔ حالانکہ اللہ والوں کی حیثیت سے دین اور دانش کی دونوں نعمتیں ہمارے لئے ہی مخصوص تھیں۔ متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی یہ کس کافر ادا کا غمزہ خونریز ہے ساقی غیروں کی تربیت دی ہوئی اور غیروں کے نظریہ کائنات میں رنگی ہوئی بے خدا سائنس کا پڑھنا اور پڑھانا ایسا ہی ہے جیسے اپنے منہ کو غیروں کے تیار کئے ہوئے غازہ کے استعمال سے خوبصورت بنانے کی کوشش کرنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنی قدر و قیمت کو دوسروں کے شعار کی نقل پر موقوف سمجھتے ہیں یہاں تک کہ ہم اپنے قومی امتیازات کو بالکل کھو چکے ہیں۔ ہماری عقل دوسروں کے خیالات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور خود آزادی سے کچھ نہیں سوچ سکتی۔ ہماری ذہنی اور ثقافتی زندگی کا ہر سانس دوسروں کا محتاج ہو گیا ہے۔ ہماری زبانوں پر ایسی گفتگو ہے جو دوسروں سے مانگی ہوئی ہوتی ہے اور ہمارے دلوں میں ایسی آرزوئیں ہیں جو دوسروں سے مستعار لی ہوئی ہیں۔ اقبال اس صورت حال پر افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے: علم غیر آموفتی اندوختی روئے خویش از غازہ اش افروختی ارجمندی از شعارش مے پری من ندانم تو توئی یا دیگری، عقل تو زنجیری افکار غیر در گلوئے تو نفس از تار غیر بر زبانت گفتگو ہا مستعار در دل تو آرزوہا مستعار تا کجا طوف چراغ محفلے ز آتش خود سوز اگر داری دلے عالم نو کی نقشبندی توحید کا عقیدہ جب مظاہر قدرت کے علم کے ساتھ یعنی سائنس کے طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی حقائق کے ساتھ مل جاتا ہے تو اس کے اندر جاذبیت اور کشش کی ایک ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کا حملہ ہمارے بدترین دشمنوں کو بھی بے بس کر سکتا ہے یہ قوت ایک ایسا آلہ حرب و ضرب بن جاتی ہے جس کا مقابلہ دور حاضر کے بہترین سامان حرب سے بھی ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ اس قوت کا حملہ دشمنوں کے دلوں کو مسخر کر کے ان کو دوست بنا دیتا ہے اور پھر ان میں مقابلہ کی ہمت ہی باقی نہیں رہتی۔ بلکہ وہ اپنا سارا سامان حرب بخوشی حملہ آوروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ گویا اگر عقیدہ توحید سائنس کے ساتھ مل جائے تو وہ ایک ایسا سامان جنگ بن جاتا ہے جس سے ہم دوسروں کو تیغ و تفنگ کے بغیر مغلوب کر سکتے ہیں۔ ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ سامان بھی ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ سائنس کو عقیدہ توحید کے ساتھ ملحق کر کے ایک پر امن عالمگیر انقلاب پیدا کریں۔ اہل مغرب کے لئے سائنس (زیر کی) زندگی کا سامان ہے۔ اہل مشرق کے لئے خدا کی محبت کائنات کا راز ہے۔ سائنس خدا کی محبت کے ساتھ مل کر حق شناس بن جاتی ہے۔ ورنہ وہ غلطیاں کرتی اور ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے۔ دوسری طرف سے دنیا میں خدا کی محبت کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا کام یعنی نشر و اشاعت کلمہ توحید جس میں خدا کا سچا عاشق لگا رہتا ہے۔ سائنس کی مدد سے پختہ بنیادوں پر قائم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ جب خدا کی محبت اور سائنس ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں گے تو ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہمت کر کے اٹھے اور سائنس کو خدا کے عقیدہ کے ساتھ بہم کر کے ایک نیا عالمگیر انقلاب پیدا کرے۔ غریباں را زیر کی ساز حیات شرقیاں را عشق رمز کائنات زیر کی از عشق گرد و حق شناس کار عشق از زیر کی محکم اساس عشق چوں بازیر کی ہمبر بود، نقشبند عالم دیگر شود، خیز و نقش عالم دیگر بند عشق را با زیر کی آمیزدہ قرآن حکیم میں کئی آیات ایسی ہیں جن میں اسلام کے آخری عالمگیر غلبہ کی زور دار پیشگوئیاں کی گئی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اگر اسلام کا غلبہ ہونا ہے تو اس کا ذریعہ خود مسلمان قوم ہی بنے گی۔ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی ینیر واما بانفسھم (بیشک خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے حالات کو نہ بدلیں) بے خدا سائنس کی مخالفت یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اب مغرب کا فکر بھی بے خدا سائنس کے خلاف رد عمل کر رہا ہے۔ پٹی رمی سوروکن (Pitirim Sorokin) جو ہارورڈ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر رہا ہے۔ اپنی کتاب ’’ ہمارے دور کا بحران‘‘ (The Crisis of our Age) میں لکھتا ہے: ’’ مذہب اور سائنس کی موجودہ مناقشت خطرناک ہی نہیں غیر ضروری بھی ہے۔ اگر حقیقت کے صحیح اور مکمل نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر وہ دونوں ایک ہی ہیں اور ایک ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ خدا کی صفات کو عملی دنیا میں بے نقاب کیا جائے تاکہ انسان کی شرافت اور خدا کی عظمت دونوں آشکار ہوں۔‘‘ اسی طرح سے فیلڈ مارشل سمٹس (Field Marshall Smuts) جو فلسفہ کی ایک نہایت ہی عمدہ اور اونچی کتاب ’’ کلیت‘‘ (Holim) کا مصنف ہے، لکھتاہے: ’’ سچائی کی بے لوث جستجو میں اور نظم اور حسن کے مشاہدہ کے ذوق کے اعتبار سے سائنس آرٹ اور مذہب کے بعض اوصاف و خواص سے حصہ لیتی ہے۔ یہ کہنا قرین انصاف ہو گا کہ شاید سائنس دور حاضر کے لئے خدا کی ہستی کا واضح ترین انکشاف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مستقبل میں نوع انسانی جو بڑے بڑے کام انجام دے گی۔ ان میں ایک یہ ہو گا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرہ کو دور کرے گی جو اس وقت ہمارے مستقبل کو در پیش ہے۔‘‘ لیکن حقیقت کا صحیح اور مکمل نظریہ جس کی روشنی میں سوروکن کے خیال میںمذہب اور سائنس ایک نظر آتے ہیں فقط مسلمان قوم کے پاس ہے۔ کیونکہ خدا کا اسلامی تصور خالص اور شرک کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ دنیا میں اسلام کے سوائے کوئی اور مذہب ایسا نہیں جو خدا کے تصور کی پاکیزگی پر اتنا زور دیتا ہو۔ پھر خدا کے اسلامی تصور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مظاہر قدرت جن کا مشاہدہ اور مطالعہ سائنس دان کا کام ہے۔ خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات ہیں اور خدا کی صفات ان کے اندر آشکار ہیں۔ مظاہر قدرت کا علم جسے سائنس کہتے ہیں خدا کے اسلامی تصور سے الگ نہیں ہو سکتا۔ یہ حقائق اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ خدا اور خدا کے تصور سے پیدا ہونے والی اخلاقی اقدار کو سائنس کے ساتھ ملحق کرنے کا عظیم الشان کام جو فیلڈ مارشل سمٹس کے خیال کے مطابق نوع انسانی آئندہ انجام دینے والی ہے۔ صرف مسلمانوں کے ہاتھ سے ہی انجام پا سکتا ہے۔ نقش ناتمام اگر ہم مسلمانوں کے دینی، علمی، اخلاقی اور سیاسی انحطاط کے اسباب کا تجزیہ کریں تو ان میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بنیادی سبب یہی نکلے گا کہ انہوں نے اپنی تعلیم کے لئے بے خدا سائنس کو اپنا لیا ہے۔ لہٰذا اس سبب کے ازالہ سے ان کا انحطاط زائل ہو سکتا ہے اور قرآن کی پیشگوئیوں کے مطابق ان کے عالمگیر غلبہ کے لئے راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان قوم کا یہ رول مقدر ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں میں سائنسی علوم کی نصابی کتابوں میں خدا اور سائنس کا الحاق کر کے اپنے دینی جذبہ کے احیاء اور عقیدہ توحید کے نشر و اشاعت کا سامان پیدا کریں گے۔ دراصل ہمارے نظریہ حیات کی ممکنات کے اندر ہی اس بات کی شہادت موجود ہے کہ ہم مستقبل کے اس عالمگیر انقلاب کا باعث بنیں گے جس کی تمنا اقبال نے کی ہے۔ تاہم جب تک کہ نوع انسانی سائنس کو خدا کے عقیدہ کے ساتھ ملحق نہیں کرے گی اس وقت تک وہ اپنے کمال کی جانب جو اس کی منزل مقصود ہے قدم نہ اٹھا سکے گی اور نقاش ازل کا نقش یعنی انسان جس کی تکمیل کے لئے اسے یہ ہنگامہ عالم برپا کیا ہے نامکمل رہے گا کیونکہ عقل اور عشق دونوں مل کر ہی انسان کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ جب دونوں مل جائیں گے تو نہ عقل بے زمام رہے گی اور نہ عشق اپنے مقام سے محروم رہے گا اور جب تک دونوں الگ الگ رہیں گے اس وقت تک نہ عقل اپنا صحیح راستہ پا سکے گی اور نہ ہی عشق اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے گا۔ عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی ٭٭٭ خودی اور ذکر ذکر۔ خودی کی ایک بنیادی ضرورت خودی حق تعالیٰ کی صفات کے حسن و کمال پر غور و فکر کر کے اپنے جذبہ حسن کو مطمئن کرنے کے لئے مظاہر قدرت کو ہی نہیں بلکہ لغت کو ان الفاظ کو بھی خدا کی صفات کی علامات کے طور پر کام میں لاتی ہے جو خدا کی صفات کے لئے مستعمل ہیں۔ قرآن حکیم نے ان الفاظ کو اسماء حسنیٰ یعنی حسین نام کہا ہے۔ بندہ مومن ان الفاظ کے مفہوم کو ذہن میں رکھ کر زبان اور دل سے بار بار ان کا اعادہ کرتا ہے اور اس عمل کے دوران اپنی توجہ اس حسن و کمال پر مرتکز کرتا ہے۔ جس کا یہ مفہوم آئینہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس طریق سے حسن کے باطنی مشاہدہ اور مطالعہ سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کی ثروت اور گہرائی سے آشنا ہوتاہے۔ جستجوئے حسن کی اس شکل کو ذکریا عبادت کہا جاتا ہے، اگرچہ لفظ عبادت کا مفہوم وسیع ہے اور انسان کی زندگی کے تمام اعمال کو عبادت میں شمار کیا جاتا ہے لیکن محدود معنوں میں عبادت کی اصطلاح ذکر کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بھی برتی جاتی ہے۔ ذکر انسان میں محبت کا سوز بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اس سوز سے وہ شعلہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک ایسے مرد خدا کی ضرورت ہے جس کے دل میں کثرت ذکر سے خدا کی محبت کا شعلہ روشن ہو گیا ہو اور جس کا ذہن فکر کی سرعت میں بجلی سے بھی زیادہ تیز ہو۔ پھر وہ دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے ایک قیامت برپا کر سکتا ہے۔ اے حلقہ درویشان وہ مرد خدا کیسا ہو جس کے گریبان میں ہنگامہ رستا خیز جو ذکر کی گرمی سے شعلہ کی طرح روشن جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز آدھی رات کے بعد سے لے کر صبح تک ذکر میں مشغول ہونا جس کی تحسین قرآن حکیم نے تنجا فی جنوبھم عن المضا کے الفاظ سے کی ہے خودی کے مقصد کے لئے زیادہ مفید اور موثر ہوتا ہے کیونکہ اس وقت خاموشی اور تنہائی اور خدا کی خاص رحمت کے نزول کی وجہ سے خودی ذکر پر اپنی توجہ زیادہ آسانی سے مرکوز کر سکتی ہے۔ جذبہ محبت خودی کو پارہ کی طرح بے قرار رکھتا ہے۔ لیکن ذکر نیم شبی اس کو اس طرح سے قرار اور جمعیت خاطر بخشتا ہے جس طرح چوب عود پارہ کو ساکن کر دیتی ہے۔ بذکر نیم شب جمعیت او چون سیمابے کہ بند و چوب عودش گویا ذکر یا عبادت کوئی لسانی یا صوتی مشق نہیں بلکہ خودی یا روح کی ایک داخلی جدوجہد ہے جو حسن کے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حسن کا قریبی مشاہدہ کر کے اس احساس کو او رگہرا کیا جائے۔ یہاں تک کہ انسان کی محبت اپنے کمال کو پہنچے وہی ذکر محبت کی پوری نشوونما کر سکتا ہے جو حسن کے سچے احساس سے پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں بار بار ذکر اور عبادت کے اخلاص پر بڑا زور دیا ہے۔ لالہ گوئی بگو از روئے جان ناز اندام تو آید بوئے جان تو عرب ہو یا عجم ہو ترا الا الہ الا لغت غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی صدف ایمان کا گوہر چونکہ مخلصانہ ذکر سے رفتہ رفتہ غیر اللہ کی محبت گھٹتی اور اللہ کی محبت بڑھتی جاتی ہے اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن کے لئے بے حیائی اور نافرمانی کا ارتکاب غیر ممکن ہو جاتا ہے اس لئے اسلام نے ذکر کی ایک خاص اقل قلیل صورت جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور عمل سے معین ہوتی ہے اور جسے صلاۃ یا نماز کہا جاتا ہے۔ ہر مسلمان پر لازم قرار دی جاتی ہے۔ نماز وہ گوہر ہے جو ایمان کے صدف میں پرورش پاتا ہے اور اس لحاظ سے مومن کا گویا چھوٹا حج ہے کہ اس میں مومن قلبی اور ذہبی طور پر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے نماز مسلمان کے ہاتھ میں ایک خنجر کی طرح ہے جو بے حیائی، بد اخلاقی اور نافرمانی کا قلع قمع کرتی ہے۔ لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشاء و یخی و منکر است لیکن نماز مومن کے لئے صرف اتنے ہی ذکر کا اہتمام کرتی ہے جو ذکر سے اس کی محبت پیدا کرنے اور مخلصانہ ذکر کی عادت کو راسخ کرنے کے لئے کم از کم درکار ہے۔ اس کے ذریعہ سے مومن کی خودی کو ذکر کی وہ تمام غذا میسر نہیں آتی جو اس کی اشتہائے حسن کو پوری طرح مطمئن کر کے اس کی پوری پوری نشوونما کر سکتی ہو۔ لہٰذا قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ مومن نماز کے بعد بھی کثرت سے خدا کا ذکر کرتا رہے۔ نماز میں بھی احساس حسن (جسے اقبال جذب اندروں کہتا ہے) نہ ہو تو نماز کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا اقبال کا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان میں یہی احساس حسن یا خدا کی مخلصانہ محبت کا جذبہ باقی نہیں رہا آج اگر ہم ان کی نماز کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نہ تو صفیں ذوق و شوق کے ساتھ درست کی ہوئی ہیں۔ نہ دل نماز پر جما ہوا ہے اور نہ ہی سجدہ میں کوئی لذت محسوس کی جا رہی ہے اس لئے کہ دلوں میں خدا کی محبت باقی نہیں رہی۔ صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے ٭٭٭ وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ جاتی تھی اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب سنی نہ مصر و فلسطین میں وہ اذان میں نے دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ سیماب ٭٭٭ تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ ٭٭٭ اقبال کو شکایت ہے کہ خدا کی سچی محبت کی طرف بلانے والے اب نہ مسجدوں میں ہیں نہ خانقاہوں میں اور نہ مدرسوں میں اور اب تنہا وہی ہے جو اس کی طرف سب کو دعوت دے رہا ہے۔ صوفیوں اور معلموں کے کدو خدا کی محبت کی خالص شراب سے خالی ہیں۔ اب اگر یہ شراب ناب کہیں ملتی ہے تو اقبال کے سبو چہ میں۔ میرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانہ میں کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو ٭٭٭ مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے ٭٭٭ جلوتیاں مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیاں میکدہ کم طلب و تہی کدو احساس حسن یا جذب اندرون یا خدا کی محبت ہی ایمان ہے۔ یہی دل کے مسلمان ہونے کی علامت ہے کوئی مسلمان ہو۔ یہ با ت کہنے والا ہو یا سننے والا ہو جب تک اس کا دل مسلمان نہ ہو گا۔ اس وقت تک اس کی نماز بے فائدہ رہے گی۔ آج مسلمان کا دل مسلمان نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی نماز بے نتیجہ ہے۔ میں بھی نمازی تو بھی نمازی دل ہے مسلمان میرا نہ تیرا، جذب مسلمانی اس احساس حسن کو اقبال جذب مسلمانی بھی کہتا ہے کیونکہ یہ مسلمان کا خاص امتیاز ہے اور اسے شرع مسلمانی سے ممیز کرتا ہے۔ شرع مسلمانی تو یہ ہے کہ مسلمان نماز کو اس کے ظاہری آداب کے ساتھ ادا کر دے اور جذب مسلمانی یہ ہے کہ مسلمان جب نماز ادا کرے تو خدا کے حسن و کمال کا سچا احساس یا عشق اس کی نماز کا رفیق ہو۔ یہی احساس حسن یا جذب مسلمانی اقبال کے نزدیک سر کائنات ہے کیونکہ اسی کی خاطر کائنات پیدا کی گئی ہے اور یہی انسان اور کائنات کو معراج کمال پر پہنچانے کا ذریعہ بننے والا ہے۔ یہی مومن کے تمام اعمال و افعال کی قوت محرکہ ہے جس کے بغیر مومن کے لئے صحیح قسم کے عمل کی راہ پیدا نہیں ہوتی۔ یہی وہ چیز ہے جو یقین یا ایمان کی شاخ کو زندہ سبز یا نمناک رکھتی ہے۔ اک شرع مسلمانی اک جذب مسلمانی ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک بے جذب مسلمانی اے رہرو فرزانہ نے راہ عمل پیدا نے شاخ یقین نمناک شریعت اسی احساس حسن یا عشق یا خدا کی محبت کے اظہار کے معین طریقوں کا نام ہے۔ اگر احساس حسن یا عشق مفقود ہو تو نماز ہی نہیں بلکہ ساری شریعت ایسے تصورات کا ایک مجموعہ بن جاتی ہے جن کا مقصد خدا طلبی یا خدا شناسی نہیں ہوتا بلکہ جو خدا کی بجائے خود مطلوب اور معبود بن جاتے ہیں اور لہٰذا بتوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ عقل و دل نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات اقبال ذکر کو کبھی آہ سحر گاہی کہتا ہے اور کبھی فغاں صبحگاہی او رکبھی آداب سحر خیزی کا نام دیتا ہے۔ جب تک انسان غیر اللہ کی محبت میں گرفتار رہتا ہے وہ اپنی آرزوئے حسن کی مکمل تشفی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ آرزو سوائے خدا کے اور کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتی اس وقت تک نہ تو اس کی شخصیت اپنے کمال کو پاتی ہے اور نہ ہی وہ مکمل طور پر اطمینان قلب سے بہرہ ور ہو سکتا ہے لیکن انسان ذکر کے بغیر خدا کی محبت کا وہ مقام حاصل نہیں کر سکتا جہاں وہ غیر اللہ کی محبت سے بے نیاز ہو جائے۔ نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں خرد کھوئی ہوئی ہے چار سو میں نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی امان شاید ملے اللہ ہو میں ٭٭٭ عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی یہی وجہ ہے کہ اقبال نے خود بھی ذکر نیم شبی کو اپنا شعار بنایا جس کو لندن کے جاڑے کی نہایت سرد ہوا بھی ترک نہ کروا سکی۔ زمستانی ہوا میں گو کہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹا مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی ذکر کے بغیر فکر نہ کامل ہوتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پا سکتا ہے ذکر اور فکر کو ساتھ ساتھ رہنا چاہئے۔ فقر قرآن اختلاط ذکر و فکر فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر خودی کے خواص کا علم ذکر اور نماز اور اسلام کی ایسی ہی دوسری تعلیمات پر اقبال کا ذور جیسا کہ اقبال کو ملا کہنے والے بعض ناقدر دانوں نے سمجھا ہے اس وجہ سے نہیں کہ وہ اسلام کا واعظ یا مبلغ بن کر اسلام کی ان تعلیمات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ فطرت انسانی یا انسانی خودی کے خواص کے جن ناقابل انکار حقائق کو وہ اپنی جستجو سے دریافت کر چکا ہے وہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں اور اقبال نے جس طریق سے ان حقائق کی جستجو کی ہے۔ وہ سائنس دان کے طریق جستجو سے چنداں مختلف نہیں۔ سائنس دان کا کام یہ ہے کہ وہ مشاہدات کے ذریعہ سے ہر چیز کے خواص معلوم کرنا چاہتا ہے لیکن بعض چیزیں دنیا میں ایسی بھی ہیں جو براہ راست کسی کے مشاہدہ میں نہیں آ سکتیں اور صرف ان کے خارجی اثرات ہی مشاہدہ میں آ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی چیزوں کے خواص کا علم سائنس دانوں کو ان کے اثرات کے مشاہدہ اور مطالعہ ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور سائنس دان ان کا علم حاصل کرنے کے لئے بالکل یہی طریقہ اختیار کرتا ہے۔ ان چیزوں میں سے جیسا کہ میں پہلے گذارش کر چکا ہوں ایک ایٹم ہے۔ شاید آج سے دس بارہ سال پہلے ایک امریکی سائنس دان نے الیکٹرانک خورد بین سے ایٹموں کو دیکھا تھا۔ لیکن ایٹم کے خواص کے متعلق جس قدر معلومات اس وقت سائنس دانوں کو حاصل ہیں وہ قریباً سب کی سب ایٹم کو دیکھنے سے پہلے اور اسے دیکھنے کے بغیر اس کے اثرات کے مشاہدہ سے حاصل ہوئی تھیں۔ اسی قسم کی ایک اور چیز انسانی خودی ہے جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ تاہم اس کے اثرات سے اس کے خواص معلوم کر سکتے ہیں۔ خودی کے خواص کا علم انسان کے لئے حد درجہ ضروری ہے کیونکہ خودی ہی انسان کی اصل ہے۔ انسان کے تمام اعمال و افعال جن سے دنیا کے اندر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ خودی کے ہی اعمال و افعال ہیں۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ خودی کیا ہے اور اس کے خواص کیا ہیں۔ اس کے افعال و اعمال کا منبع کیا ہے اور یہ کیا چاہتی ہے اور کیوں چاہتی ہے یہ جاننے کے بغیر ہم انسان کے اعمال و افعال کو ضبط میں نہیں لا سکتے اور نہ حسب منشاء ان سے کام لے سکتے ہیں مثلاً انسان کی باہمی جنگوں اور رقابتوں کو روک نہیں سکتے اور انسانی دنیا میں امن اور صلح اور ترقی اور خوشحالی کی مکمل فضا پیدا نہیں کر سکتے اور یہ نہیں بتا سکتے کہ انسان اپنے سیاسی، قانونی، تعلیمی، اخلاقی، علمی اور فنی، جنگی، سفارتی اور اقتصادی نظامات کو کیسے قائم کرے کہ وہ پائیدار ہوں درست ہوں اور اس کے لئے مفید ہوں اور پریشانیوں کا باعث نہ ہوں۔ اقبال نے خودی کے اثرات کو جو انسانی اعمال و افعال کی صورت میں ہیں سامنے رکھ کر خودی کے خواص کے متعلق کچھ نتائج اخذ کئے ہیں۔ اقبال کا فلسفہ ان ہی نتائج پر مشتمل ہے۔ اقبال سے پہلے بعض اور لوگوں نے بھی خودی کے اثرات سے خودی کے خواص معلوم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبال کے سوائے کسی کے نتائج خودی کے اثرات کی (جو افراد اور اقوام کے ماضی اور حال کی تاریخ کے آئینہ میں آشکار نظر آ رہے ہیں) تسلی بخش تشریح نہیں کر سکتے۔ یہ نتائج نہ تو ان اثرا ت کے ساتھ پوری پوری مطابق ترکھتے ہیں او رنہ ہی آپس میں اور دوسرے علمی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ لہٰذا معقولیت اور یقین افروزی کے درجہ سے گرے ہوئے ہیں۔ اگر اقبال نے خودی کے اثرات کے مشاہدہ سے یہ بات معلوم کی ہے کہ خودی فقط خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اور خودی کے تمام اثرات اور اعمال و افعال خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط اس کے اس جذبہ محبت سے پیدا ہوتے ہیں اور خودی کا جذبہ محبت ذکر و فکر سے تشفی پاتا ہے۔ تو وہ یہ بات کہنے پر مجبور ہے خواہ کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ یہ وعظ نہیں بلکہ مشاہدات کے ناگزیر نتائج کا اظہار ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان نتائج کو صحیح طور پر اخذ کرنے میں اقبال کو اسلامی تعلیمات نے بڑی مدد دی ہے اور نہ ہی اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات سے ان نتائج کی تائید مزید ہوتی ہے اگر کوئی شخص پانی کے خواص کا مشاہدہ کر کے یہ کہے کہ وہ صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر برف بن جاتا ہے تو خواہ وہ شخص جو برف سے نفرت کرتا ہو یا برف کے اخلاف ایلرجک (Allergic) ہو، اس بیان کو ناپسند کرے اس میں پھر بھی کوئی نقص نہیں ہو گا او رکہنے والے کو پھر بھی یہی کہنا چاہئے۔ عبادت کی اہمیت انسان کا وہ عمل جسے خدا کا نام دیا جاتا ہے اور جس کا بڑا عنصر ذکر ہے۔ انسان کے تجربات میں سب سے زیادہ قیمتی اور اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اس کے ذریعہ سے انسان اپنی زندگی کا سب سے بڑی اور سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی آرزو کو اپنا صحیح اور قدرتی اظہار پانے کا موقعہ دیتا ہے اور اس طریق سے اس کی مکمل اور مستقل تشفی کر کے اپنی شخصیت کے ارتقا کو نکتہ کمال پہنچانے کا اہتمام کرتا ہے یہ گویا انسانی خودی کا اپنے مبداء کی طرف عود اور اپنی منزل مقصود کی طرف رجوع ہے۔ یہ دو بچھڑے ہوئے عاشقوں کی ملاقات ہے جو کروڑ ہا برس کے ارتقائی عمل کی صورت اختیار کرنے والی ایک دوسرے کی طویل جستجو کے بعد ان کو میسر آتی ہے۔ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ عبادت ایک فطری عمل ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے سائنس دانوں کی جستجوئے صداقت کا ہی ایک تتمہ ہے۔ ’’ عبادت کا منبع انسان کی فطرت میں ہے۔ فکر کے ذریعہ سے شعور حقیقت کے عمل کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ ذکر کے دوران یہ سست رفتاری سے منکشف ہونے والے عالمگیر اصولوں کی جستجو کی قوت کی حیثیت سے اپنا کام ترک کر دیتاہے اور فکر سے بالا ہو کر براہ راست حقیقت کو اپنی گرفت میں لینا چاہتا ہے۔ تاکہ اس کے کام میں ارادی طور پر شرکت کر سکے۔ اس میں کوئی مخفی یا ناقابل فہم بات نہیں۔ عبادت حصول تجلی کے ایک ذریعہ کے طور پر ایک قدرتی حیاتیاتی فعل ہے جس سے ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اچانک ہی زندگی کی بڑی وحدت میں اپنا مقام دریافت کر لیتا ہے۔۔۔ دراصل عبادت کو قدرت کا مشاہدہ کرنے والے انسان کی جستجوئے علم کا ایک ضروری تتمہ سمجھنا چاہئے۔ قدرت کا سائنسی مشاہدہ حقیقت کے کردار کے ساتھ ہماری گہری وابستگی قائم کرتا ہے اور اس طرح سے اس کے زیادہ گہرے مطالعہ کیلئے ہمارے وجدان کو تیز تر کرتا ہے۔۔۔ سچ بات یہ ہے کہ علم کی ساری جستجو ہی دراصل ایک قسم کی عبادت ہے اور قدرت کا مشاہدہ کرنیوالا سائنسدان ایک قسم کا جویائے حق صوفی ہے جو عبادت کر رہا ہے۔‘‘ اگر مومن در حقیقت سچا مومن ہے تو ذکر اور تسبیح اور عبادت سے جو قوت اسے حاصل ہوتی ہے وہ اسے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر ضائع نہیں کرتابلکہ دنیا کو اپنے محبوب کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے کام میں لاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ دنیا کی کوئی چیز نہیں جو خدا کی تسبیح بیان نہیں کرتی۔ اگر انسان ذکر و تسبیح پر ہی اکتفا کرے تو اس کا درجہ جمادات اور نبادات سے بلند نہیں ہو گا جو بے شعور ہیں یا نیم شعور۔ لیکن انسان چونکہ خود شناس اور خود شعور ہے۔ کائنات میں اس کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ کائنات کی تعمیر اور تکمیل خدا کا شریک کار بنے اور اس غرض کے لئے فقط زبان سے نہیں بلکہ اپنی مسلسل عملی جدوجہد سے نعرہ تکبیر بلند کرے۔ زبان سے ذکر اور تسبیح کرنا اس کردار کی تیاری کے ذرائع ہیں۔ کیونکہ ان سے وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو اس کردار کو موثر طریق پر انجام دینے کے لئے کام آتی ہے۔ افسوس کہ اکثر علماء دین ذکر اور تسبیح پر زور دیتے ہیں لیکن خدا کی مرضی کے مطابق دنیا کو بدلنے پر زور نہیں دیتے۔ حالانکہ قرآن حکیم کے ارشادات کی رو سے خدا مومنین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی دنیا کو اس کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے جدوجہد کریں اور ان سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کی مدد ان کے ساتھ ہو گی۔ (اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہیں نصرت دے گا) خد اکی مدد یہی ہے کہ خدا کائنات کو ترقی دے کر جس کمال پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کا چاہنے والا مرد مومن بھی یہ کوشش کرے کہ کائنات اس کمال پر پہنچے۔ اقبال نے ان حقائق کو تین زور دار شعروں میں بیان کیا ہے۔ ان تنصر واللہ ینصر کم انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل، یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست یہ مذہب ملا و نباتات و جمادات ٭٭٭ خودی اور فلسفہ اخلاق فعل جمیل۔ خودی کی ایک اور ہم ضرورت انسانی خودی ہر ممکن طریق سے خدا کی محبت کے جذبہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ اس جذبہ کی تشفی کے لئے مظاہر قدرت کے مشاہدہ اور اسمائے حسنیٰ کے ذکر ایسے ذرائع سے خدا کی صفات کے حسن وکمال پر غور و فکر ہی نہیں کرتی۔ بلکہ اپنے عمل میں بھی خدا کی صفات کے حسن کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی آرزوئے حسن اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے ہر فعل کو معنوی طور پر یعنی فعل کے مقصد اور مدعا کے اعتبار سے خد اکی صفات حسن و کمال کے تقاجوں کے مطابق بنائے یہ ہو نہیں سکتا کہ خودی صفات خداوندی کے حسن سے متاثر ہو اس سے گہری محبت رکھتی ہو اور جہاں ممکن ہو اس کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے سرور اور لذت حاصل کرے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اس حسن کے اثر سے آزاد اور اس کی محبت سے فارغ اور اس کے سرور سے بے نیاز ہو۔ بلکہ غیر حسن کو حسن سمجھ کر اپنے عمل کو اس کے مطابق بنائے خودی ہمہ تن خدا کے حسن کی محبت ہے وہ خدا کے حسن کے قریب آنے اس کے حسن کو قریب لانے اور ہر رنگ میںاس کے حسن کا مشاہدہ اور مظاہرہ کرنے کا کوئی موقعہ ترک کرنا نہیں چاہتی خواہ اس کا تعلق اس کے فکر سے ہو یا اس کے عمل سے لہٰذا خودی چاہتی ہے کہ خدا کی صفات جس حسن یا کمال کی آئینہ دار ہیں وہ اس کو اپنے کردار کی اصل یا روح یا مقصد یا مدعا میں بھی نمودار کرے۔ لیکن خودی کے کردار میں اس حسن کا اظہار بعض وقت کم ہوتا ہے اور بعض وقت زیادہ۔ ظاہر ہے کہ حسن کے لئے خودی کی محبت جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر زیادہ وضاحت اور صفائی کے ساتھ وہ جان سکے گی کہ حسین عمل کیا ہے اور کیا نہیں اور اسی قدر زیادہ حسن اس کا عمل حسن سے عاری ہو گا۔ اقبال نے ایسے عمل کے لئے جس میں حسن موجود ہو۔ فعل جمیل، عمل خوب، عمل محمود اور عمل محبوب ایسی اصطلاحیں برتی ہیں اور ایسے عمل کو جس میں حسن موجود نہ ہو یعنی جس کا مقصد اور مدعا خدا کی صفات حسن کا آئینہ دار نہ ہو، فعل قبیح یا فعل نامحبوب یا فعل ناخوب یا فعل زشت یا فعل مذموم کہا ہے۔ جہان خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب یہاں بھی معرکہ آراء ہے خوب سے ناخوب نمود جس کی فراز خودی سے ہو وہ جمیل جو ہو نشیب میں پیدا قبیح و نا محبوب فراز خودی فعل جمیل کا مصدر اقبال کے یہ دو شعر ایک جدید فلسفہ اخلاق کی کلید ہیں۔ ان میں اقبال نے فعل جمیل کی تعریف ہی نہیں کی بلکہ اس کے منبع اور مصدر کو بھی بیان کیا ہے اور اس کے علل و اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کی مزاحمتوں اور رکاوٹوں کی بھی توضیح کی ہے اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ فعل قبیح یا فعل نا محبوب کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں خودی سے مراد انسانی خودی ہے۔ انسانی خودی کے جہاں میں خدا کی محبت کے سوائے اور کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا جہان خودی کا مطلب خدا کی محبت کی دنیا ہے۔ جو انسانی خودی میں آباد ہوتی ہے۔ مومن کی خودی کو فراز یا بلندی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب مومن کے دل میں خدا کی محبت ترقی پا کر اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ مومن کی خودی کا نشیب اس کی وہ حالت ہے جب اس کے دل میں خدا کی محبت ابھی اپنے ارتقا کی ابتدائی منزلوں میں ہوتی ہے اور کمزور ہوتی ہے۔ جہان خودی میں خوب و ناخوب کے معرکہ کا باعث یہ ہے کہ مومن جب ایمان لاتا ہے تو اس کی ساری فطری استعداد محبت خدا کے تصور کے لئے فوراً نہیں بلکہ رفتہ رفتہ ترقی پا کر مہیا ہوتی ہے۔ خدا کی محبت جو اس کے دل میں ایمان لانے کے بعد پیدا ہوتی ہے شروع میں غلط تصورات کی محبت سے گھری ہوئی ہوتی ہے۔ غلط تصورات مومن کی فطری استعداد محبت کا بہت سا حصہ اپنے تصرف میں لئے ہوئے ہوتے ہیں اور مومن کی محبت ان تصورات کو سخت مقابلہ کے بعد بتدریج بے اثر کرتی ہے اور محبت کا جو حصہ ان کے تصرف میں آ چکا ہوتاہے اس کو رہا کر کے اور اپنے ساتھ ملا کر اپنے آپ کو ترقی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ آخر کار اس کے دل میں خدا کے سوائے ہر تصور کی محبت مٹ جاتی ہے۔ خودی کے صحیح تصورات جو خدا کے تصور سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اس کے غلط تصورات پر جو غیر اللہ سے متعلق ہوتے ہیں غلبہ پانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا دونوں میں کشمکش ہوتی ہے جو تصور خودی کی محبت کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے وہی مقابل کے تصورات پر غالب آ جاتا ہے اور وہی خودی کی قوت عمل کا مالک بن جاتاہے اور خودی مقابل کے تصورات کو پس پشت ڈال کر اسی کے مطابق عمل کرتی ہے صحیح اور غلط تصورات کی یہ باہمی آویزش خودی کی محبت کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے اور جب تک کہ خودی کی محبت کا سارا ذخیرہ جو فطرت نے اسے دے رکھا ہے خدا کے تصور کے تصرف میں نہیں آتا جب تک خدا کا تصور غلط تصورات پر پوری طرح سے غالب نہیں آ جاتا ۔ دوسرے لفظوں میں جب تک مومن کے دل میں خدا کی محبت اپنے کمال کو نہیں پہنچتی۔ اس وقت تک صحیح اور غلط تصورات کی باہمی کشمکش جاری رہتی ہے کیونکہ اس وقت تک غلط تصورات خودی کی محبت کو خدا کے تصور سے ہٹا کر اپنے استعمال میں لاتے رہتے ہیں۔ غلط تصورات جو اس طرح سے خد اکے تصور کے ساتھ الجھ جاتے ہیں۔ بالعموم انسان کی جبلتی یا حیوانی خواہشات اور ان کے ماتحت پرورش پانے والی عادات سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان خواہشات میں خدا نے دو اہم خصوصیتیں رکھی ہیں جن کی وجہ سے وہ خدا کی محبت کی حریف بن جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے اندر ایک حیاتیاتی زور یا دباؤ ہوتا ہے جو خودی کو ان کی تشفی کے لئے مجبور کرتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ان کی تشفی کے اندر ایک حیاتیاتی قسم کی لذت ہے۔ قدرت میں ان دونوں خصوصیتوں کا مقصد یہ ہے کہ حیوان کو مجبور کیاجائے کہ وہ اپنی زندگی اور نسل کو قائم رکھنے کے لئے بر وقت ضروری اقدامات کرتا رہے۔ جب تک ایک مومن کے دل میں خدا کی محبت کمزور ہوتی ہے اس وقت تک وہ اپنی محبت کے عملی تقاضوں کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتا۔ جب تک ہماری محبت بیدار نہیں ہوتی ہم اپنی حیوانی جبلتی خواہشات کی قوت اور لذت کی وجہ سے ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے دباؤ سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں اوران کی لذت سے اس قدر مسحور ہو جاتے ہیں کہ ہم ان کے اصلی فطری مقصد اور مدعا کو بھول کر ان کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم بعض وقت ان کو تصورات حقیقت یا انسان و کائنات کے نظریات کی شکل دے لیتے ہیں چنانچہ مارکسنرم، فرائڈزم، ایڈلرزم اسی قسم کے نظریات ہیں جو بالترتیب جبلت تغذیہ جبلت جنس اور جبلت تفوق پر مبنی ہیں۔ جبلتی خواہشات سے مغلوب اور مسحور ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری خواہشات ہماری محبت کی اس فطری استعداد کو استعمال کر لیتی ہیں جو نصب العین کے لئے مخصوص ہے اور اس طرح سے ان کی قوت اس حد سے بڑھ جاتی ہے جو قدرت نے ان کے مقصد یعنی بقائے حیات کی ضرورت کے پیش نظر مقرر کی ہے۔ گویا ہماری خواہشات ہمارے نصب العین یا معبود کی جگہ لے کر خود ہمارا نصب العین یا معبود بن جاتی ہیں۔ خودی کے محرکات عمل انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس کی ساری عملی زندگی محبت اور خوف کے دو محرکات سے طے پاتی ہے۔ طرح تعمیر تو از گل ریختند با محبت خوف را آیختند لیکن انسان کے یہ دونوں محرکات عمل اس کے نصب العین زندگی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس کا نصب العین ان حیوانی خواہشات پر مشتمل ہو گا جو جسم سے تعلق رکھتی ہیں اور ماء وطین کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہیں اور لہٰذا غلط ہو گا تو اس کی محبت اور اس کا خوف دونوں غلط ہوں گے وہ غلط چیزوں سے محبت کرے گا اور غلط چیزوں کا خوف رکھے گا اور اس کا ہر عمل غلط اور قبیح اور نا خوب او رنا محمود ہو گا۔ خوف دنیا، خوف عقبیٰ، خوف جان خوف آلام زمین و آسمان، حب مال و دولت و حب وطن حب خویش و اقربا و حب زن امتزاج ماء وطین تن پرور است کشتہ فحشاء ہلاک منکر است اگر ایک ایسے غلط نصب العین سے پیدا ہونے والا عمل جو خواہشات حیوانی پر مشتمل ہو، بار بار ہوتا رہے تو تکرار کی وجہ سے وہ ایک عادت بن جاتا ہے جس سے اس کی قوت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جب ایک انسان خدا پر ایمان لاتا ہے اور اس کی فطری محبت آشکار ہوتی ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی جبلتی خواہشات اور ان کے ماتحت پیدا ہونے والی عادات کی محبت کے عملی تقاضوں کے ساتھ مزاحمت کر رہی ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مزاحمت کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دے۔ یہ مقابلہ نہایت مشکل ہوتا ہے لیکن مومن اپنی محبت کی حفاظت کی خاطر اس سے ہمت نہیں ہارتا اور اپنے آپ کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے سے دریغ نہیں کرتا یہاں تک کہ ایک چیتے کی طرح اپنے آپ پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ مرد مومن زندہ و باخود بجنگ برخود افند ہمچو بر آہو پلنگ شریعت۔ غلط عادات کا علاج غلط خواہشات کو روکنے اور غلط عادات کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مرد مومن اپنے اعمال کو زیادہ سے زیادہ سچے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بنائے اور ان کو بار بار کرے اور دہرائے اور ان پر مداومت اور مواظبت کرے یہاں تک کہ وہ عادات راسخہ میں تبدیل ہو جائیں۔ اس صورت میں غلط خواہشات اور عادات اظہار کا موقعہ نہ پانے کی وجہ سے کمزور ہو کر خود بخود مٹ جاتی ہیں اور مومن کے اپنے صحیح نصب العین سے سرزد ہونے والے صحیح عمل کے لئے راستہ ہموار ہو جاتا ہے جبلتی خواہشات اور ان کی پیروی میں پیدا ہونے والی غلط عادات کا مقابلہ اگرچہ آسان نہیں ہوتا۔ تاہم خدا کی محبت جو شریعت کی پابندی میں اظہار پاتی ہے اور جس ا دوسرا پہلوا خدا خوف ہے مومن کے لئے اس کام کو آسان بنا دیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی محبت اور خدا کا خوف ہر غلط محبت اور غلط خوف کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ جو شخص لا الہ کا عصا ہاتھ میں لے لیتا ہے یعنی دل سے یقین کر لیتا ہے کہ خدا کے سوائے اس کا کوئی مطلوب اور محبوب نہیں وہ ہر خوف کے طلسم کو توڑ دیتا ہے اور کسی ناچیز سے نہیں ڈرتا جس شخص کے تن میں خدا کی محبت جان کی طرح ہو اس کی گردن کسی باطل کے سامنے جھک نہیں سکتی۔ خوف اس کے سینہ میں راہ نہیں پاتا اور وہ غیر اللہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اقلیم لا میں آباد ہو جائے یعنی یہ سمجھ لے کہ خدا کے سوائے کوئی چیز اس کا مقصود نہیں وہ بیوی بچوں کی فکر سے بھی آزاد ہو جاتا ہے اور غیر اللہ کو یہاں تک نظر انداز کر دیتاہے کہ خدا کی محبت کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دیتا ہے۔ تا عصائے لا الہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست ہر کہ حق باشد چو جاں اندرتنش خم نگر دو پیش باطل گردنش خوف را در سینہ او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد مے کند از ماسوا قطع نظر می نہد سا طور بر حلق پسر شریعت کی پابندی غلط خواہشات اور عادات کا علاج اس لئے کرتی ہے کہ وہ ہر وقت مومن کی محبت کا امتحان کرتی رہتی ہے اور اس طرح سے اس کی محبت کی حفاظت اور ترقی کا باعث بنتی ہے لیکن وہ ان کا علاج اس لئے بھی کرتی ہے کہ وہ ان کی بجائے صحیح خواہشات اور عادات مہیا کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ لہٰذا مومن شریعت کا پابند رہتا ہے اس کے لئے اگر کلمہ توحید ایک صدف ہے تو نماز وہ گوہر ہے جس کے بغیر یہ صدف خالی رہتا ہے نماز مسلمان کا حج اصغر ہے اور وہ خنجر ہے جس سے وہ خدا کی نافرمانی اور بے حیائی اور برے کاموں کی خواہشات کو ہلاک کرتا رہتا ہے روزہ اس کی بھوک پیاس پر پابندی عائد کرتا ہے اور اسے تن پروری سے بچاتا ہے حج سے وہ یہ سیکھتا ہے کہ اگر اسے خدا کی محبت کی خاطر وطن چھوڑٹتا پڑے تو چھوڑ دے۔ زکوۃ کا حکم اسے بتاتا ہے کہ دولت سے محبت نہ کرے اور اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی شریک سمجھے۔ لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشاء و بغی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخون زند خیبر تن پروری را بشکند، مومناں را فطرت آموز است حج حجرت آموز و وطن سوز است حج حب دولت را فنا ساز و زکوۃ ہم مساوات آشنا ساز و زکوۃ شیطان کی اہمیت قرآن حکیم نے جبلتی خواہشات کے حد سے متجاوز مطالبات کو ہوی (بری خواہشات) کا نام دیا ہے اور مومن کو بتایا ہے کہ ہوی کو روکنے سے ہی وہ خدا کی محبت کے اس بلند مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ جہاں وہ جنت کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن اھوی فان الجنہ ھی الماوی (جو شخص اس بات سے ڈر جائے کہ اس نے خدا کے روبرو کھڑے ہو کر ہر نافرمانی کا جواب دینا ہے اور نفس کو بری خواہشات سے روک لے اس کا ٹھکانہ جنت ہے) شیطان ہوی کے مطالبات کو طرح طرح سے حسین اور دلکش بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اس کی یہ سب کارروائیاں فریب محض ہوتی ہیں۔ لہٰذا شیطان کی مخالفت خودی کی تربیت ترقی اور تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کے برعکس شیطان کی موافقت خودی کی ترقی کے لئے وبال ہے۔ رزم یا دیواست آدم را کمال بزم باد بو است آدم را وبال قرآن بار بار شیطان کے فریب کا ذکر کرتا ہے اور اس سے بچنے او رشیطان کی مخالفت کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ وزین لھم الشیطان اعمالھم (اور شیطان نے ان کے لئے ان کے برے اعمال کو حسین بنا کر پیش کیا ہے) یعلھم ویمھیھم وما یعدھم الشیطان الاغرورا (وہ ان سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو امیدیں دلاتا ہے لیکن شیطان جو وعدے بھی ان سے کرتا ہے محض فریب ہوتے ہیں) خد اکی حکمت نے شیطان اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مومن کی خودی کی مزاحمت کرے تاکہ مومن اپنی محبت سے مجبور ہو کر اس مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے نیکی کی تمام اندرونی قوتوں کو جمع کرے اور ان کے زور سے شیطان کی مزاحمت کو توڑ کر آگے نکل جائے۔ ایسا کرنے سے مومن کی خودی اپنے ارتقاء کے ایک بلند تر مقام پر قدم رکھتی ہے اور ایک بے نظیر راحت اور لذت محسوس کرتی ہے۔ خدا کے سچے عاشق کو ایسی دنیا کے اندر رہنے میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا جس میں اسے اپنے اور اپنے محبوب یعنی خدا کے دشمن کے ساتھ مقابلہ کر کے فتح یاب ہونے کا کوئی موقعہ نہ ملتا۔ مزی در آن جہانے کور ذوقے کہ یزداں وارد و شیطان ندارد جنت میں شہداء جنت کی ہر نعمت سے سرفرازہونے کے باوجود یہ تمنا کریں گے کہ خدا انہیں پھر دنیا میں بھیجے تاکہ وہ اس راحت اور لذت سے پھر بہرہ ور ہوں جو شیطانی قوتوں کو تباہ کرنے کے لئے جان تک کی بازی لگانے میں انہیں حاصل ہوئی تھی۔ گویا خدا کے عاشق کے لئے یہ وہ نعمت ہے جو جنت میں بھی موجود نہیں۔ اقبال کی نظم ’’ جبریل و ابلیس‘‘ میں ابلیس جن باتوں پر جبریل کے سامنے فخر کرتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر میں جرات کر کے خدا کی نافرمانی نہ کرتا تو میں انسان کو تاقیامت گمراہ کرتے رہنے کی اجازت بھی نہ مانگتا اور اگر مجھے یہ اجازت نہ ملتی تو خدا کی جستجو کے راستہ میں انسان کے لئے رکاوٹیں کون پیدا کرتا اور اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوتیں تو انسان جو محض ایک مشت خاک ہے اس کی خودی اپنے ارتقا کی ان بلند ترین منزلوں پر کیسے پہنچ سکتی جو ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے اور ان پر عبور پانے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔ لہٰذا اگرچہ میں خدا کے حضور سے راندا گیا ہوں جو میری موت سے کم نہیں۔ لیکن میرا لہو قصہ آدم کو رنگین کر گیا ہے۔ باغ آدم کی بہار کا دار ومدار میری اپنی تباہی پر ہے۔ عقل و خرد کا لباس جو دور حاضر میں اکثر گمراہ انسانوں نے پہن رکھا ہے اور جس پر ان کو فخر ہے اس کا تار و پود میرے پیدا کئے ہوئے فتنوں سے بنایا گیا ہے سب سے پہلے میں نے ہی عقل و خرد کی بنا پر خدا کے اس حکم کو محل اعتراض ٹھہرایا تھا کہ میں آدم کو سجدہ کروں۔ ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگین کر گیا کس کا لہو سچا مومن اپنی مخلصانہ محبت کی وجہ سے خدا کے خوف سے خدا کی ناراضگی کا خوف مراد لیتا ہے۔ وہ جسمانی تکلیفوں کی شکل میں خدا کے عذاب سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا خدا کی ناراضگی سے ڈرتا ہے۔ اس کے نزدیک اس سے بڑھ کر خدا کا عذاب اور کوئی نہیں ہوتا کہ خدا اس سے ناراض ہو۔ اسی طرح سے اس کے نزدیک خدا کی محبت جسمانی لذتوں کی صورت میں کسی انعام کی محبت نہیں ہوتی۔ بلکہ خدا کی رضا مندی کی محبت ہوتی ہے۔ مومن کے نزدیک خدا کی رضا مندی سے بڑھ کر کوئی اور انعام نہیں ہوتا۔ اگرچہ ہر فعل کی بدنی سزا یا بدنی جزا فعل کے اندر موجود ہوتی ہے اور اس سے الگ نہیں ہو سکتی تاہم جب کوئی شخص بدنی سزا کے خوف سے یا کسی بدنی راحت یا لذت کے طمع سے ایک برے کام کو ترک کر کے ایک اچھا کام کرتا ہے تو اس اچھے کام کی اچھائی ناقص رہ جاتی ہے۔ ایسے شخص کے نزدیک جو چیز ترک کے قابل ہوتی ہے وہ فعل کی برائی نہیں ہوتی بلکہ وہ بدنی تکلیف ہوتی ہے جو وہ سمجھتا ہے کہ فعل کی سزا ہو گی اور جو چیز قبول کرنے کے قابل ہوتی ہے وہ فعل کی اچھائی نہیں بلکہ وہ بدنی راحت یا لذت ہوتی ہے۔ جو اس کے خیال میں فعل کا انعام ہو گی۔ اچھا کام وہی ہے جو خدا کی محبت کے مقام کمال سے صادر ہو۔ محبت کے اس مقام پر یہ کام مومن کو اس لئے کشش کرتا ہے کہ وہ خود اسے زیبا نظر آتا ہے اور اس کی زیبائی کی محبت اور اس کے نقیض کی زشتی کی نفرت بے اختیار اس کے دل سے پیدا ہوتی ہے۔ صرف اس قسم کا اچھا کام ہی و ہ اصلی فعل جمیل ہوتا ہے جس کی جزا مومن کو خدا کی پوری رضا مندی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ اقبال اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے۔ جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گذر مینا و جام سے گذر یہ ہے مختصر الفاظ میں روئداد اور علمی اور نفسیاتی بنیاد اس معرکہ ’’ خوب ناخوب‘‘ کی جو جہان خودی میں برپا ہوتا ہے۔ محبت کی تشفی کا عمل محبت ہمیشہ اپنے اظہار اور اپنی تسکین اور تشفی سے ترقی پاتی ہے جس طرح سے ذکر خدا کی محبت سے پیدا ہوتاہی اور خدا کی محبت کی تشفی کا ایک عمل ہے اور خدا کی محبت کو ترقی دیتا ہے۔ اسی طرح سے فعل جمیل بھی خدا کی محبت کی تشفی کا ایک عمل ہے اور خدا کی محبت کو ترقی دیتا ہے دراصل ذکر اور فعل جمیل دونوں خودی کو ترقی دے کر نکتہ کمال تک پہنچانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کیونکہ دونوں خدا کی محبت کے اظہار اور اس کی تسکین اور تشفی کے طریقے ہیں اگر کوئی شخص اچھے عمل سے بے پرواہ ہو جائے اور فقط ذکر ہی سے اپنی محبت کو ترقی دینا چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں اسے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کا ذکر اخلاص سے عاری ہو گا۔ اس کے برعکس وہ محبت کی منزل کمال سے ہر روز اور دور ہوتا جائے گا۔ اس کی مثال اس مسافر کی طرح ہو گی جو د وگھنٹہ کے لئے تو اپنی منزل کی طرف چلے اور پھر سارا دن اس سے عین مخالف سمت چلتا رہے ایسا شخص منزل پر کیسے پہنچ سکتا ہے محبت کی ابتداء میں فعل جمیل ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محبت کمزور ہوتی ہے اور غلط جبلی خواہشات اور ان کے ماتحت راسخ شدہ عادات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن جب ذکر سے محبت کچھ ترقی کر جاتی ہے تو مومن اپنی محبت کی قوت سے اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کی خاطر اپنی غلط خواہشات کو کسی قدر روک کر صحیح قسم کے عمل کی طرف مائل ہو اور پھر اس صحیح عمل سے اس کی محبت اور ترقی کرتی ہے جس کی وجہ سے اسے ذکر کے اندر زیادہ گہری توجہ اور زیادہ لذت نصیب ہوتی ہے اور ذکر محبت کو ترقی دینے کے لئے اور بھی مفید اور موثر ہو جاتا ہے اور پھر یہ ترقی یافتہ محبت فعل جمیل کو اور آسان کرتی ہے اور ذکر اور فعل جمیل کا یہ تعاون جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ خودی کی محبت اپنی بلندیوں کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ جہاں وہ فعل جمیل کا اکتساب کسی مجبوری سے یا کسی مشکل جدوجہد سے نہیں کرتی بلکہ اس لئے کرتی ہے کہ یہ اس کی محبت کا ایک تقاضا بن جاتا ہے۔ جو اس کے دل کی گہرائیوں سے خود بخود ابھرتا ہے اور جسے روکنا اس کے بس کی بات نہیں رہتی محبت کے درجہ کمال پر پہنچ کر خودی کے لئے فعل جمیل سے رکنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ محبت کی ابتدائی منزل میں فعل قبیح سے رکنا۔ اس حالت میں مومن دین کے اوامر اور نواہی کو فقط دوسروں کی سند کی بنا پر ہی نہیں جانتا بلکہ ان کو اپنے دل کی گہرائیوں کے اندر محسوس کرتا ہے۔ اب وہ ان پر کسی مجبوری سے نہیں بلکہ ایک ایسی خواہش سے عمل کرتا ہے جس سے رکنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ فاش مے خواہی اگر اسرار دین جز بہ اعماق ضمیر خود مبین گر نہ بینی دین تو مجبوری است ایں چنیں دیں از خدا مہجوری است ظاہر ہے کہ اس مقام پر مومن کو کسی راہ نما کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ راہ نما کی عین مرضی کے مطابق وہ خود اپنی راہ نمائی کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کہے نہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو یہ بات راہ رو نکتہ داں سے دور نہیں ایک مشکل کا حل اب یہ بات غور طلب ہے کہ ایک طرف سے تو جب تک انسان کچھ عرصہ کے لئے متواتر فعل قبیح سے اجتناب اور فصل جمیل کا اکتساب نہ کرتا رہے اس کی محبت ذکر و فکر میں مشغول رہنے کے باوجود ترقی کر کے درجہ کمال پر نہیں پہنچ سکتی اور دوسری طرف سے جب تک اس کی محبت درجہ کمال پر نہ ہو اس وقت تک فعل قبیح سے متواتر اجتناب اور فعل جمیل سے متواتر اکتساب تو درکنار وہ اپنے دل سے اور اپنے پورے احساس اور یقین سے یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکتا کہ فعل جمیل کیا ہے اور فعل قبیح کیا ہے۔ اور کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی محبت جب تک کمزور رہتی ہے۔ متضاد قسم کے تصورات میں بٹی رہتی ہے اور یہ تصورات خودی کے صحیح اخلاقی فیصلوں کو غلط کرتے رہتے ہیں۔ پھر اس مشکل کا حل کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کے لئے ارتقا کرنا اور محبت کے درجہ کمال پر پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی یا نفسیاتی زندگی پر ارتقا ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ۔ خدا نے انسان کو ارتقا کر کے اپنی حالت کمال پر پہنچنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ہو نہیں سکتا کہ اس مشکل کا حل کارخانہ قدرت میں موجود نہ ہو۔ دراصل یہ مشکل انسانی اور نفسیاتی مرحلہ ارتقا کے ساتھ خاص نہیں۔ زندگی کو اس سے پہلے حیاتیاتی سطح ارتقا پر بھی ایسی ہی مشکل پیش آ چکی ہے اور زندگی نے وہاں اس کا حل پیدا کر لیا تھا یہ مشکل ایسی ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ ایک طرف سے جب تک ایک جسم حیوانی مکمل طور پر تندرست اور توانا نہ ہو وہ امراض کے جراثیم کی کامیاب مزاحمت نہیں کر سکتا اور جب تک وہ کچھ عرصہ کے لئے امراض کے جراثیم کی کامیاب مزاحمت نہ کرتا رہے وہ تندرست اور توانا نہیں ہو سکتا۔ اس حیاتیاتی مشکل کا حل زندگی نے عمدہ اور صحت بخش قدرتی خوراک مہیا کر کے خود پیدا کیا ہے۔ا گر جسم عمدہ غذا جس میں مناسب مقدار میں حیاتین اور فلزات موجود ہوں کچھ عرصہ کے لئے استعمال کرتا رہے تو یہ ایک طرف سے صحت اور توانائی اور دوسری طرف سے امراض کے جراثیم سے حفاظت دونوں کی ضمانت ہے۔ اسی طرح سے انسانی اور نفسیاتی سطح ارتقا کی مشکل کا حل کرنے کے لئے زندگی ’’ نبوت‘‘ کی صورت میں روحانی غذا کے طور پر ایک ایسی قدرتی تعلیم مہیا کرتی ہے جسے قبول کرنے کے لئے انسانی خودی فعل قبیح اور فعل جمیل میں فرق معلوم کر کے فعل قبیح سے اجتناب اور فعل جمیل کا اکتساب کر سکتی ہے اور اس طرح سے اپنی محبت کو فروغ دے سکتی ہے۔ نبوت زندگی کا اپنا انتظام ہے کیونکہ وہ انسان کے اختیار سے باہر ایک مظہر قدرت ہے۔ جس سے زندگی اپنے اسرار کو خود منکشف کرتی ہے اور عمل خوب و ناخوب کی گرہ کھولتی ہے۔ خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیوں کر گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات کامل طور پر توانا اور تندرست خودی وہی ہے جس کی محبت درجہ کمال پر ہو۔ ایسی خودی فعل ناخوب کے مرض پرور جراثیم سے محفوظ رہتی ہے اور اس کی توانائی کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ نبوت کے علم سے جو نبی کی شریعت کی صورت میں اسے میسر آتا ہو بالالتزام صحت بخش روحانی غذا حاصل کرتی رہتی ہے۔ خودی کی غذا حسن ہے۔ اگر نبی کامل ہو تو اس کی تعلیم کامل ہوتی ہے اور جس طرح سے کامل غذا کے اندر تمام حیاتین اور فلزات جن کی جسم کو ضرورت ہے موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے کامل نبی کی تعلیم ایسے تصور حسن کی نشاندہی کرتی ہے جس میں حسن و کمال کی وہ تمام صفات جن کی آرزو خودی کر سکتی ہے موجود ہوتی ہے اور پھر اس کی تعلیم خوب و ناخوب اعمال میں فرق کر کے اس روحانی غذا کے استعمال کے طریقے اور مواقع بھی بتاتی ہے۔ انکشاف حقیقت کا مقام شروع میں مومن نبی کی شریعت کو سمجھنے کے بغیر اور اپنے آپ کو مجبور کر کے اور بڑی جدوجہد کے بعد عمل میں لاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ شریعت کے احکام کی عقلی توجیہہ کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرتا ہے لیکن چونکہ نبی کی شریعت خودی کی فطرت پر مبنی ہوتی ہے اور زندگی کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے۔ شرع مے خیزد ز اعماق حیات روشن از نورش ظلام کائنات جوں جوں شریعت کی پابندی کی وجہ سے مومن کی محبت ترقی کرتی جاتی ہے۔ اس پر یہ حقیقت کھلتی جاتی ہے کہ یہ شریعت کوئی ایسی چیز نہیں جو اس سے غیر ہو یا اس کی فطرت سے بیگانہ ہو۔ اور آخر کار ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کی محبت درجہ کمال پر پہنچ جاتی ہے۔ یہاں وہ شریعت کے احکام کو ایک طاقتور اندرونی جذبہ کے ناقابل مزاحمت تقاضوں کے طور پر محسوس کرنے لگتا ہے۔ ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ اپنی محبت کو فروغ دے کر اس مقام کو پائے جب تک وہ اس مقام کو نہیں پاتا وہ خدا سے دور رہتا ہے۔ فاش مے کواہی اگر اسرار دیں جز باعماق ضمیر خود مبین، گر نہ بینی دین تو مجبوری است ایں چنیں دین از خدا مہجوری است جب مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن خود اس کی ذات پر نازل ہوا ہے۔ پھر وہ کتاب خوان نہیں رہتا بلکہ صاحب کتاب بن جاتا ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ وہ خود ہی قرآن بن جاتا ہے۔ جب تک مومن اس مقام کو نہیں پاتا کوئی بڑے سے بڑا مفسر بھی اسے قرآن کے رموز و اسرار سے آشنا نہیں کر سکتا۔ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف ٭٭٭ تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خوان ہے مگر صاحب کتاب نہیں ٭٭٭ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اس مفہوم کو اقبال نے اپنی نثر میں اور وضاحت سے بیان کیاہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’ مذہبی زندگی بالعموم تین ادوار میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ ان کو ’’ایمان‘‘ ۔ ’’ عقل‘‘ اور ’’ عرفان‘‘ کے ادوار کہا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں مذہبی زندگی ایک نظم کی صورت میں نظر آتی ہے۔ جسے ایک فرد یا ایک پوری قوم کو ایک مشروط حکم کے طور پر قبول کر لینا چاہئے۔ بغیر اس بات کے کہ انہوں نے اس حکم کی بنیادی حکمت یا مصلحت کو عقلی طور پر سمجھا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نقطہ نظر کسی قوم کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت پیدا کرے۔ لیکن جہاں تک فرد کی باطنی ترقی اور توسیع کا سوال ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ نظم کی مکمل اطاعت کے بعد نظم اور اس کے جواز کے اصل منبع کی عقلی تفہیم کا دور آتا ہے۔ اس دور میں مذہبی زندگی اپنی بنیادیں ایک طرح کے مابعد الطبیعیات میں تلاش کرتی ہے۔ یعنی کائنات کے ایک ایسے نظریہ میں جو عقلی نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہو اور جس میں خدا کا تصور بھی شامل ہو تیسرے دور میں ما بعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات لے لیتی ہے اور مذہبی زندگی کی حقیقت وجود کے ساتھ براہ راست تعلیق پیدا کرنے کی تمنا کرنے لگتی ہے۔ یہ ہے وہ مرحلہ جہاں مذہب زندگی اور قوت کو جذب کرنے کا ذاتی معاملہ نظر آتا ہے اور فرد ایک آزاد شخصیت کا مالک بن جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے آپ کو قانون شریعت کی بندشوں سے آزاد کر لیتا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ وہ معلوم کر لیتا ہے کہ قانون شریعت کا اصل منبع اس کے اپنے شعور کی گہرائیوں میں ہے جیسا کہ ایک مسلمان صوفی نے کہا ہے خدا کی کتاب کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ مومن کے دل پر اس طرح سے نازل نہ ہو جس طرح سے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔‘‘ (صفحہ181’’ تشکیل الہٰیات جدید‘‘ ) ٭٭٭ خودی اور آرٹ ثقافت اور تہذیب کا فرق فعل جمیل سے اقبال کا مطلب ایسا فعل ہے جو اپنے مقصد کے لحاظ سے حسین ہو یعنی جس کا مقصد خودی کے کامل نصب العین یا صحیح تصور حقیقت سے ماخوذ ہو اور لہٰذا صفات حسن کے مطابق ہو۔ لیکن خودی چونکہ ہمہ تن خدا کی آرزو ہے جو حسن کا مبداء اور منتہا ہے اور دوسری کوئی آرزو نہیں رکھتی ۔ وہ اپنی اس آرزو کو مطمئن کرنے کا کوئی طریقہ یا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور ہر وقت اپنی اس آرزو کی تشفی میں مصروف رہتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ہر فعل کو نہ صرف معنوی طور پر یعنی اس کے مقصد کے اعتبار سے حسین بنانے کی کوشش کرتی ہے بلکہ ہر فعل کی ظاہری صورت کو بھی خوبصورت بناتی ہے۔ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ انسان کوئی کام ایسا نہیں کرتا جس کو وہ معنوی طور پر ہی نہیں بلکہ ظاہری طور پر بھی خوبصورت بنانے کی کوشش نہ کرے۔ انسان کی روز افزوں ضروریات زندگی کا بہت تھوڑا حصہ ایسا ہے جو بقائے حیات کے لئے ضروری ہے۔ ان کا بیشتر حصہ انسان کی آرزوئے حسن کی تسکین کا سامان ہے جس سے انسان زندگی کے ماحول کی تحسین اور تزئین کا کام لیتا ہے۔ انسان کی تمنائے حسن کی کوئی انتہا نہیں اس لئے اس کی حسن آفرینی کی بھی کوئی حد نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جوں جوں تہذیب ترقی کرتی جاتی ہے۔ ہماری ضروریات بڑھتی جاتی ہیں۔ ہم زمانہ حال کے انسان کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لباس کی ساخت میں اور اپنے مکان کی تعمیر اور شکل و صورت میں اپنے میزوں، کرسیوں، صوفوں، قالینوں، تصویروں اور گھر کے دوسرے سامان کی ترتیب اور ترکیب میں بلکہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، بولنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھیلنے اور سفر کرنے کے طور طریقوں میں بھی حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ حسن آفرینی کی کوششوں سے تھکتا ہے اور نہ حسن سے سیر ہوتا ہے۔ ثقافت یا کلچر نصب العین کی معنویت کو یا اس کے باطنی حسن کو علم، اخلاق، سیاست، تعلیم، قانون اور حصول نصب العین کے لئے ایسے ہی دوسرے اعمال و افعال میں آشکار کرنے کا نام ہے۔ لیکن تہذیب جسے کہتے ہیں وہ زندگی کے ظاہری ماحول میں حسن طلبی اور حسن آفرینی ہے۔ خدا کی دوسری صفات کی طرح حسن آفرینی کی صفت میں بھی انسانی خودی خدا کے وجود کا عکس ہے کیونکہ خدا کی تخلیقی فعلیت بھی جس کا نتیجہ یہ کائنات ہے اپنے معنی اور مقصد اور مدعا کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اپنے نتائج کی ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے بھی حسین ہے۔ کائنات حسن سے لبریز ہے۔ ضیائے حسن اس کے ہر ذرہ میں چمک رہی ہے خدا نے کوئی چیز ایسی نہیں بنائی جو حسین نہ ہو۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم بعض چیزوں کے حسن کی پہچان سے قاصر رہ جائیں۔ محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایاں حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرہ میں ہے طوفان حسن حسن کوہستان کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہر کی ضو گستری شب کی سیاہ پوشی میں ہے آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت شفق کی گل فروشی میں ہے یہ ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے ٭٭٭ حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا، واں چاندی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے انداز گفتگو نے دھوکے دئیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چمک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ہنر یا آرٹ کی تعریف ایسا عمل جس میں کسی محسوس اور مرئی چیز کو ذریعہ یا واسطہ (Medium) بنا کر حسن کا اظہار کیا گیا ہو۔ ہنر یا فن یا آرٹ کہلاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انسان کا ہر کام اظہار حسن کا واسطہ بن سکتا ہے اور بنتا ہے لیکن جب حسن کے اظہار کے لئے اینٹ یا پتھر یا صوت یا صدا یا رنگ یا لفظ یا حرکت کو واسطہ بنا کر اس میں حسن کا اظہار کیا جائے تو جو فن اس سے پیدا ہوتا ہے اسے اسی ترتیب کے ساتھ تعمیر، مجسمہ سازی، سرود، موسیقی، مصوری، شاعری اور رقص کا نام دیا جاتا ہے۔ ہنر کی ان اقسام کے اندر تخلیق حسن یا مشاہدہ حسن سے لطف اندوز ہونا ایک خاص قسم کی تربیت چاہتا ہے اس لئے ہر انسان کو تخلیق حسن یا مشاہدہ حسن کے ذرائع کے طور پر کام میں نہیں لا سکتا۔ لہٰذا ہنر یا فن کی حیثیت سے زندگی کے عام کاموں کی تحسین اور تجمیل کے مقابلہ میں ان کی افادیت بہت محدود ہو جاتی ہے۔ تاہم ان میں سے ہر ایک، ایک خاص گروہ کو جو اس سے مستفید ہونے کی مہارت رکھتا ہے، متاثر کر سکتا ہے۔ حسن کے دو پہلو صداقت اور نیکی ہنر کی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ایک اہم بات یہ ہے کہ صداقت، نیکی اور حسن خدا کی صفات ہیں۔ ان میں سے ہر ایک حسن بھی ہے نیکی بھی ہے اور صداقت بھی۔ گویا صداقت اور نیکی حسن ہی کے دو پہلو ہیں۔ لہٰذا اگر حسن صداقت سے یا نیکی سے عاری ہو تو وہ حسن نہیں رہتا۔ ہر عمل جو کچھ وہ ہوتا ہے اپنے اندرونی مدعا یا مقصد اور اپنی ظاہری صورت دونوں سے مل کر بنتا ہے۔ اس لئے اگر کسی عمل کی ظاہری صورت حسین ہو لیکن اس کے پیچھے مدعا حسین نہ ہو تو اس کا حسن داغدار ہو جاتا ہے اور وہ اپنی کلی یا مجموعی حیثیت سے حسین نہیں رہتا۔ حسن کلی طور پر حسن ہوتا ہے اور زشتی کی ملاوٹ کو گوارا نہیں کرتا۔ اگر زشتی اس میں شامل ہو جائے تو وہ جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک کل کی حیثیت سے حسین نہیں رہتا۔ حسن ایک ناقابل تقسیم کل ہوتا ہے اور اسے اجزاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ کہ ہم کہہ سکیں کہ کوئی چیز آدھی زیبا ہے اور آدھی زشت۔ زشتی ہمیشہ زیبائی اور زشتی کے امتزاج سے بنتی ہے۔ کوئی چیز جس کے متعلق ہمارا فیصلہ ہو کہ وہ زشت ہے مکمل طور پر زشت نہیں ہوتی۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول گھٹیا آرٹ چونکہ آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کا ایک پہلو ہے ضروری ہے کہ یہ آرزوئے حسن کے اصل مقصود یعنی طلب جمال حقیقی کے ساتھ اور آرزوئے حسن کے دوسرے ممد و معاون پہلوؤں یعنی طلب خیز اور طلب صداقت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ لہٰذا جو آرٹ (خواہ وہ شعر ہو یا رقص یا مصوری یا موسیقی یا کوئی اور) بد اخلاقی کی طرف ایما کرتا ہو۔ وہ اخلاقی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ مطلق آرٹ کی حیثیت سے بھی پست اور گھٹیا ہوتا ہے۔ ایسا آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کا خالص اظہار نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں خودی کی آرزو کا اظہار جبلتی خواہشات کے اظہار کے ساتھ ملوث ہوتا ہے۔ وہ خالص خودی کا عمل یا انسانی عمل نہیں ہوتا بلکہ انسانی اور حیوانی اعمال کا امتزا ج ہوتا ہے ایسے آرٹ کا دیکھنا یا تخلیق کرنا وہ خاص قسم کا سرور پیدا نہیں کرتا جو سچے آرٹ کا امتیاز ہے اور اس سرور سے بالکل مختلف ہے جو جبلتوں کی تشفی سے حاصل ہوتا ہے۔ سچا آرٹ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں آرٹ کو بتکلف نیکی یا اخلاق کی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہئے۔ سچا آرٹ جستجوئے حسن کے سوائے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا۔ خودی کی ہر فعلیت کی طرح آرٹ بھی خودی کی آرزوئے حسن کا آزادانہ اظہار ہوتا ہے جو خود بخود اور بغیر کسی پابندی یا تکلف یا غرض کے فقط اپنی ہی خاطر عمل میں آتا ہے۔ لیکن سچا آرٹ چونکہ حسن کی سچی جستجو کرتا ہے وہ خود بخود خیر اور صداقت اور حسن حقیقی کی جستجو سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے تاکہ اپنے آپ کو آرٹ کی حیثیت درست اور مکمل بنا لے۔ اگر وہ خیر اور صداقت کو نظر انداز کر دے تو پھر نہ وہ حسن کا اظہار ہی رہ سکتا ہے اور نہ آرٹ۔ جب تک آرٹ جبلتوں کے دباؤ سے اور بدی اور بد اخلاقی کے اثر سے آزاد نہ ہو اور نیکی اور صداقت کو پوری طرح سے ملحوظ نہ رکھے۔ وہ نہ تو خودی کی آزادانہ فعلیت ہی ہو سکتا اور نہ ہی آرٹ کہلا سکتا ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک اعلیٰ درجہ کا فعل جمیل جو نیکی کے بلند ترین معیار پر پورا اتر سکے۔ صرف خدا کی محبت کے درجہ کمال پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سچے آرٹ کی توقع صرف اس شخص سے کر سکتے ہیں جس کا تصور حقیقت فی الواقع حسین ہو یعنی سچا خدا ہو اور جس کی خودی خدا کی محبت کے کمال کو پا چکی ہو۔ جس شخص کا تصور حقیقت حسین نہیں ہو گا۔ یعنی خدا کے سوائے کوئی اور ہو گا جیسا کہ مثلاً ایک کافر یا منکر خدا کا تصور تو اس کا آرٹ بھی خود بخود اس کے نازیبا اور ناقص تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت پیدا کر کے پایہ حسن سے گر جائے گا۔ یہی صورت حال کم و بیش اس شخص کے ساتھ پیش آئے گی جس کا تصور حقیقت تو صحیح اور حسین ہے لیکن جس کو اپنے تصور حقیقت کے ساتھ ایسی کامل اور خالص محبت نہیں جو غلط تصورات کی محبت کے ساتھ ذرا بھی ملوث نہ ہو۔ چونکہ آرٹ ہمیشہ فنکار کے تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت پیدا کر لیتا ہے اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ سچا آرٹ ایک مکمل طور پر آزاد فعلیت ہونے اور آرٹ برائے آرٹ ہونے کے باوجود ہمیشہ خود بخود مقاصد زندگی کا ترجمان اور خدمت گزار ہوتا ہے۔ سچا علم اور سچا آرٹ دونوں حسن حقیقی یعنی خدا کی محبت کے دو پہلو ہیں جو اسی کی خدمت اور اعانت کے لئے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات اس شعر میں حیات سے اقبال کی مراد آرزوئے حسن یا خدا کی محبت ہے۔ کیونکہ اقبال اپنے کلام میں جس چیز کو حیات کہتا ہے وہی ارتقا انسانی سطح پر آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ خدا کی آرزو اور آرٹ کا تعلق فن کی ہر قسم خواہ وہ مصوری (رنگ) ہو یا تعمیر (خشت) ہو یا مجسمہ سازی (سنگ) ہو یا موسیقی (چنگ) ہو یا شاعری (حرف) ہو یا گانا (صوت) ہو انسان کی آرزوئے حسن سے پیدا ہوتی ہے جس کا اصل مقصود خدا اور صرف خدا ہے۔ اقبال اسی آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کو کبھی خون جگر کبھی خون دل اور کبھی جنون کہتا ہے۔ آرزوئے حسن پتھر کی سل کو ایک مجسمہ کی صورت میں تبدیل کر کے دل (یعنی جذبات محبت کا مرکز) بنا دیتی ہے۔ یہی آرزوئے حسن صدا کو پرسوز اور پر سرور بنا کر ایک گانے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ فن کے تمام نقوش جو آرزوئے حسن کے اصل مقصود یعنی خدا کی سچی محبت سے بے تعلق ہوں، ناقص اور ناتمام رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے وہ نغمہ بھی جو آرزوئے حسن کے اصل مقصود سے بیگانہ ہو بے اثر اور بے سود ہے اور سودائے خام سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ وہ مردہ اور بے معنی ہے اور ایک ایسی آگ کی طرح ہے جو بجھ کر راکھ بن چکی ہو۔ ایسی آگ میں سوز کہاں ہوتا ہے لیکن وہ نغمہ جو خدا کی محبت کے سوز میں ڈوبا ہوا ہو اس کے اثر کی وجہ سے اسے خون دل میں حل کی ہوئی آتش سوزان کہنا چاہئے۔ رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صورت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود، قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل خون جگر سے صدا، سوز و سرور و سرود نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر ٭٭٭ نغمہ مے باید جنون پروردہ آتشے در خون دل حل کردہ، نغمہ گر معنی ندارد مردہ ایست سوز آواز آتش افسردہ ایست صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور میں وہ سارا حسن موجود ہے جس کی خودی کو آرزو ہے۔ لہٰذا خدا کے ذکر اور فعل جمیل کے ذریعہ سے خودی اس قابل ہو جاتی ہے کہ اپنی آرزوئے حسن کو پوری طرح سے مطمئن کرے اور اس طرح سے اپنی محبت کو درجہ کمال پر پہنچا دے۔ اس مقام پر پہنچ کر خودی کو ذکر اور فکر اور فعل جمیل سے ایسا سرور حاصل ہوتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ لہٰذا جو شخص اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے وہ سرور ہیچ نظر آتا ہے۔ جو اکثر اشخاص آرٹ یا فن سے حاصل کرتے ہیں اور ایسا شخص اگر فنکار ہو تو وہ اپنے فن سے خود ایسا سرور حاصل کرتا ہے اور اس کو دوسروں کے لئے بھی ایسے سرور سے بھر دیتا ہے جو کسی ایسے فنکار کے لئے ممکن نہیں ہوتا جو خدا کو نہ مانتا ہو یا خدا کو ماننے کے باوجود اپنی محبت کی پوری پوری نشوونما کرنے سے محروم رہ گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص کا فن اس کے لئے مشاہدہ حسن کی اس لذت کو پھر زندہ کر دیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کا فن محض فن کی حیثیت سے درجہ کمال پر ہوتا ہے۔ بعض اشخاص زندگی کی پریشانیوں سے عارضی طور پر نجات پانے اور تفریح حاصل کرنے کے لئے فن کی پناہ لیتے ہیں۔ ایسے لوگ اس لذت سے نا آشنا ہوتے ہیں جو خدا کی مخلصانہ عبادت میں انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ تمنائے حسن یا خدا کی محبت کے اظہار سے خودی کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کی نوعیت میں اظہار تمنا کے طریق کے بدل جانے سے کوئی فرق نہیں آتا تاہم تمنائے حسن کے اظہار کے بعض طریقے اس تمنا کی تسکین اور تشفی کے لئے دوسرے طریقوں سے زیادہ موثر ہیں۔ مثلاً خدا کے ذکر کے ذریعہ سے خودی جس قدر اپنی تمنائے حسن کی تشفی یا تسکین کر سکتی ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو آرٹ کے ذریعہ سے ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا ذکر کے ذریعہ سے اس تشفی اور تسکین کے عمل کے دوران خودی کو جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ بھی اس سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے جو آرٹ کے ذریعہ سے اسے حاصل ہو سکتا ہے۔ آرٹ کی دو خطرناک قسمیں آرٹ چونکہ خودی کی آرزوئے حسن کی تشفی کا عمل ہے اس سے بھی خودی کی محبت ترقی کرتی ہے۔ لیکن آرٹ کی بعض قسمیں ایسی ہیں مثلاً سرود، رقص، مصوری اور مجسمہ سازی جو آسانی سے جنسی تلذذ کا سامان بن جاتی ہیں۔ اس قسم کے آرٹ کو پاکیزہ بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن اگر مکمل طور پر ایسا کرنا مشکل ہو تو خودی کی حفاظت اور تربیت کے لئے اس سے احتراز ضروری ہے کیونکہ پھر یہ آرٹ کے مقام سے گر کر فقط جنسی اپیل کا ایک ڈھنگ بن کر رہ جاتا ہے۔ جب بھی ہم اس قسم کے آرٹ کا مشاہدہ کریں ہمیں دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ یہ آرٹ ہے۔ اس قسم کا آرٹ خودی کے لئے موت کا پیغام ہے۔ وہ مغنی جس کا دل پاک نہیں اپنے سانس سے نغمہ کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں مرجع عقیدت انسانوں کی تصویر کشی اور مجسمہ سازی بالخصوص آرٹ کی ایسی قسمیں ہیں جو ایک حد تک انسان کے مخلصانہ ذوق عبادت اور جذبہ یک بینی و یک پرستی کو چرانے اور ایک غیر محسوس طریق پر خدا سے ہٹانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے آرٹ سے بھی احتراز خودی کی پوری پوری نشوونما کیلئے ضروری ہے۔ سینما اس وقت سینما کی جو حالت ہے اس کا جو تاجرانہ مقصد اور مدعا ہے اور اس کے پیچھے زندگی کا جو سفلی اور حیوانی نقطہ نظر کام کر رہا ہے اس کے پیش نظر ہمیں سینما کو بھی آرٹ کی ایسی ہی اقسام میں شمار کرنا چاہئے۔ اقبال کی نگاہ میں یہ عہد قدیم کی بت فروشی اور بت گری کی ایک صورت ہے۔ وہ بت گری کوئی آرٹ(صنعت) نہ تھی بلکہ کافری کا ایک تقاضا تھا۔ یہ بھی کوئی آرٹ نہیں بلکہ ایک قسم کی ساحری ہے اور تہذیب نو کی پیدا کی ہوئی ایک تجارت ہے جس کا مقصد جلب زر کے سوائے اور کچھ نہیں۔ اقبال اسے بت سازی اور بت پرستی اس لئے کہتا ہے کہ یہ انسان کی آرزوئے حسن کو خدا سے ہٹا کر غلط راستہ پر ڈالتا ہے اور بت پرستی بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ انسان کی تفریح کا سارا سامان آرزوئے حسن کی صحیح تشفی سے پیدا ہونا چاہئے۔ ورنہ اس کی تفریح اس کی خودی کی نشوونما کے لئے مضر ہوتی ہے۔ اور اس کا انجام مسرت نہیں بلکہ حزن و ملال کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ وہی بت فروشی وہی بت گری ہے سینما ہے یا صنعت آذری ہے وہ صنعت نہ تھی شیوہ کافری تھا یہ صنعت نہیں شیوہ ساحری ہے وہ مذہب تھا اقوام عہد کہن کا یہ تہذیب حاضر کی سوداگری ہے تمثیل اسی طرح سے تیاتر یا تمثیل بھی خودی کی تربیت کے لئے خطرناک ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کمال اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اداکار اپنے آپ کو بالکل مٹا دے اور اپنی جگہ اس شخص کی خودی کو پوری طرح سے کار فرما کر دے جس کا کردار وہ ادا کر رہا ہے۔ ایک انسا ن اپنی شخصیت اور اس کے اندر جاگزیں ہونے والی آرزوئے حسن کا اس سے زیادہ برا استعمال اور کیا کر سکتا ہے کہ وہ اپنے دل میں جو خدا کا گھر ہے خدا کے سوائے اوروں کی خودی کو بساتا ہے۔ جس طرح سے اسلام سے پہلے کافروں نے خانہ کعبہ میں لات و منات ایسے بت پوجا کے لئے کھڑے کر دئیے تھے۔ ایسے کفر سے خد اکی پناہ، انسان کی زندگی اس کی خودی پر منحصر ہے۔ اس کی مسرت اس کی محبت، اس کی ذات کا تسلسل اور ثبات اور اس کی صفات سب کا دار و مدار اس کی خودی پر ہے۔ اگر وہ اپنی خودی کو ہی مٹا دے تو پھر اس کے پاس اور کیا چیز رہ جاتی ہے جس کی بنا پر اسے زندہ سمجھا جائے۔ چونکہ انسان کی خودی خدا کی طلب گار ہے اس کا مقام مہ و پردین سے بھی اونچا ہے۔ انسان اسی کی وجہ سے معزز اور مکرم ہے۔ اسے غیر اللہ کے لئے وقف کرنا اپنی تذلیل ہے۔ تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود حیات کیا ہے؟ اسی کا سرور و سوز و ثبات بلند تر مہ پروین سے ہے مقام اس کا اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات ظاہر ہے کہ جن حقائق کی بنا پر تیاتر یا تمثیل خودی کی تربیت کے لئے مضر ہے وہ اداکاری کی تمام قسموں پر صادق آتے ہیں۔ ہنروران ہند کا آرٹ ہنروران ہند کا آرٹ جنسیت میں ڈوبا ہوا ہے لہٰذا گھٹیا اور پست ہے۔ ان کا تخیل اس قسم کا ہے کہ انسان کے دل سے عشق و مستی یعنی خدا کی محبت رخصت کر دیتا ہے۔ ان کا تاریک فکر قوموں کے لئے ہلاکت ہے۔ یہ ہنر ور خدا پرست نہیں بلکہ برہمنوں کی طرح بت پرست ہیں اور ان کے صنم خانوں میں موت کی تصویریں بنا کر رکھی گئی ہیں۔ یعنی ان کے ہنر کی مخلوقات افراد اور اقوام کے لئے موت کا حکم رکھتی ہیں۔ ان کا ہنر انسانوں کو یہ جاننے سے باز رکھتا ہے کہ ان کی خودی ترقی کر کے بلند مقامات تک پہنچ سکتی ہے۔ وہ اپنے ہنر سے بدن کی خواہشات کو تو بیدار کرتے ہیں لیکن روح یا خودی کی خواہشات کو سلاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خواہ وہ شاعر ہے یا مصور ہے یا افسانہ نویس عورت کی کشش کے فریب میں مبتلا ہے۔ عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا، ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کا مزار موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار عجم کا شعر شعر کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ خدا کی محبت کی پرورش کرے اور اسے یہاں تک ترقی دے کہ انسان کی خودی باطل کو فنا کرنے کے لئے تلوار کی طرح تیز ہو جائے جس کی وجہ سے انسان دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے پرجوش زور دار اور انقلاب آفریں عمل پر آمادہ بن سکے۔ اگر مرغ سحر خیز کا نغمہ گلستان میں رونق نہیں لاتا بلکہ اسے اور بے رونق کر دیتا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ خاموش ہی رہے۔ کائنات کی رونق یہ ہے کہ اس میں حسن اور نیکی اور صداقت کا دور دورہ ہو۔ اگر شاعر کا شعر خدا کی اس کائنات میں بدی اور زشتی کو دور کر کے نیکی اور حسن اور صداقت کے اوصاف کو جو خدا کی محبت کے مقام کمال ہی سے صادر ہو سکتے ہیں، پھیلانے اور عملی طور پر موثر کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو شعر کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مانا کہ عجم کاشعر بڑا دلکش اور دل آویز اور بڑا زور دار اور موثر ہے یہاں تک کہ پہاڑ کے ٹکڑے اڑا دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ شمشیر خودی کو تیز نہیں کرتا اور اگر ایک پرویز کی سلطنت یعنی باطل کی قوت اس سے شکستہ نہیں ہوتی تو اس کا اثر کس کام کا ہے۔ ہے شعر عجم گرچہ طربناک و دل آویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستان بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز وہ ضرب اگر کوہ شکن کبھی ہو تو کیا ہے جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز سرود حرام فقیہوں میں یہ بحث چلی آتی ہے کہ سرود حلال ہے یا حرام لیکن اگر ہم اسرار حیات یا خودی کے اوصاف و خواص کی روشنی میں دیکھیں تو اس بحث کا فیصلہ آسان ہے۔ وہ سرود جو خدا کی محبت سے بیگانہ کرنے والا ہو حرام ہے کیونکہ وہ خودی کے لئے موت کا پیغام ہے اور ظاہر ہے کہ زندگی موت پر مقدم ہے اور ہم زندگی دے کر موت کو خرید نہیں سکتے۔ اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں نالے و چنگ و رباب خودی کے اوصاف و خواص کے پیش نظر خدا کی محبت سے محرومی انسان کے لئے موت ہے۔ ان کہ بے حق زیست جز مردار نیست گرچہ کس در ماتم او زار نیست بے شک گانے والے کی لے کی بلندی اور پستی سے جو گانے میں دلکشی پیدا ہوتی ہے اس سے دل کو بڑی مسرت حاصل ہوتی ہے اور اگر دل میں غم یا خوف کی کیفیت موجود ہو تو جاتی رہتی ہے۔ لیکن اگر مغنی کا سرود خدا کی محبت کے جذبہ کو کچلنے والا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سننے والے کا دل مر جائے گا اور زندہ اور پائندہ نہ رہے گا۔ اگر دل خود ہی مر گیا تو دل کی کشود کس کام آئے گی اگر نوا ایسے دل سے نکلے جس میں خدا کی سچی محبت کا سوز در حقیقت موجود ہو تو اس نوا کے اثر سے ستاروں کا وجود بھی جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کی قسمتوں پر حکمران ہیں پگھل سکتا ہے اور پوری دنیا مغنی کی مرضی کے مطابق بدل سکتی ہے۔ اگرچہ ایسی نوا کائنات میں بالقوہ موجود ہے اور کائنات کی ممکنات میں پوشیدہ ہے۔ تاہم ابھی بافعل اور آشکار نہیں ہوئی۔ ایسا سرود جس کی تاثیر سے آدم مستقل طور پر غم اور خوف سے نجات پا کر لاخوف علیھم ولا ہم یحزنون کا مصداق بن جائے اور ایازی یعنی غلامی اور شخص پرستی کا مقام محمود غزنوی یعنی بادشاہت اور بت شکنی کے مقام میں بدل جائے اور یہ پوری کائنات جو مہ و انجم کا ایک حیرت خانہ ہے لا موجود میں شمار ہونے لگے اور صرف تو باقی رہ جائے یا تیرا یہ اعلان کہ سوائے خدا کے اور کوئی موجود نہیں۔ یعنی یہ پرانی کائنات مٹ جائے اور ایک نئی کائنات وجود میں آئے جو تیری اور تیرے محبوب خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ دوسرے لفظوں میں ایسا سرود جسے عارفان خودی جائز اور مشروع سمجھتے ہیں۔ ابھی کسی مطرب کا منتظر ہے۔ مراد یہ ہے کہ کائنات خدا کی مرضی کے مطابق ضرور بدل کر رہے گی۔ لیکن اس تبدیلی کا ذریعہ ایک ایسا نغمہ ہی ہو سکتا ہے جس کی تاثیر سے لوگوں کے دل خدا کی محبت کے سوز سے پگھل جائیں۔ کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود، ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا، جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے، تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود، جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہاں خودی منظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود منکر خدا کا آرٹ جو شخص اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کے لئے خدا کے تصور سے کام نہیں لے سکتا اس لئے کہ وہ خدا کا منکر یا کافر ہے یا خدا کے تصور سے آشنا نہیں اس کا آرٹ اسی گھٹیا قسم کا آرٹ ہو سکتا ہے اگرچہ وہ دیکھنے والوں کے لئے فردوس نظر ہو اور وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ اس آرٹ نے ان پر جنت کا ایک دروازہ کھول دیاہے اور خدا کی قدرت کے راز ہائے سربستہ ان پر آشکار کر دئیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خودی کی تگ و دو سے مادی طور پر ترقی یافتہ بن جانا یا اس جہان سحر و شام کے ادوار میں سے دور جدید کا انسان بن جانا ایسے کارہائے نمایاں بھی حق و باطل اور زشت و زیبا کی اس حریفانہ کشمکش سے جو انسانی زندگی کی ایک خصوصیت کے طور پر انسان کے ضمیر کے اندر اور باہر جاری ہے، انسان کو نجات نہیں دلا سکتے۔ اس سے نجات پانے کا طریق صرف یہ ہے کہ انسان خدا پر ایمان لائے اور خدا کی محبت کو ترقی دے کر کمال پر پہنچائے۔ اس زمانہ کے کافر نے ایک نئی قسم کی بت پرستی کو جس میں لات و منات کی بجائے وطن اور قوم اور رنگ اور نسل کو اصنام بنایا جاتا ہے اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ خدا سے بیگانگی کے اس زمانہ میں اس کافر سے ہم اس سچے آرٹ کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جو صرف عشق حقیقی سے زندگی پانے والوں کا ہی امتیاز ہے، وہ مر چکا ہے اور یہی اس کا آرٹ جو غیر حسن کو حسن، موت کو حیات اور قبر کی تاریک رات کو زندگی کی روشنی سمجھتا ہے اس کا جنازہ پڑھا رہا ہے۔ ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر فاش ہے چشم تماشا پہ نہانخانہ ذات نہ خودی ہے نہ جہان سحر و شام کے دور زندگی کی حریفانہ کشاکش سے نجات آہ وہ کافر بے چارہ کہ ہیں اس کے صنم عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات تو ہے میت! یہ ہنر تیرے جنازے کا امام نظر آئی جسے مرقد کے شبستان میں حیات انسان کی تمام اعلیٰ سرگرمیوں کا مقصد خودی کی حفاظت اور تربیت ہے سرود اور شعر اور ہنر کی دوسری قسمیں ہی نہیں بلکہ ادب اور دین اور سیاست بھی انسان کے ایسے اعمال ہیں جن کا منبع بندہ خاکی کا دل یا اس کی آرزوئے حسن ہے۔ یہ اعلیٰ قسم کے اعمال انسان کا خاص امتیاز ہیں اور حیوان کے حصہ میں نہیں آئے۔ ان کا مقصد خدا کی محبت کے اسی جذبہ کی تشفی اور خدا اور اعانت ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات اور خدا کا خلیفہ اور ہمراز اور ہم کار بناتا ہے۔ ان اعمال کے نتائج اور فوائد میں سے ہ رایک اپنی قدر و قیمت میں ایک نا یاب اور قیمتی موتی کی طرح ہے۔ لہٰذا اس میں ذرا شک نہیں کہ ان اعمال کا مقام ستاروں سے بھی بلند تر ہے۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی خودی کی (یعنی خودی کی محبت کی جو فقط خدا کے لئے ہوتی ہے) حفاظت اور تربیت نہ کر سکے تو محض بے سود اور بیکار ہے کیونکہ اس سے زندگی کے مقصد کو اور اس عمل کے اپنے مقصد کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور اگر وہ عمل خودی کی حفاظت اور تربیت کرنے والا ہے تو عین زندگی ہے۔ اس دنیا میں جن قوموں نے اپنے دین اور اپنے ادب کو خودی کی تربیت اور ترقی کے مقصد سے بے تعلق کر لیا تھا وہ ذلیل ہو کر رہی ہیں۔ سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یکدانہ، ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسوں و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی، خودی سے جب ادب و دین ہوئے ہیں بیگانہ اگر آرٹ میں خودی کی تعمیر یعنی خدا کی محبت کی نشوونما کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو خواہ وہ مصوری ہو یا شاعری ہو یا موسیقی ہو یا گانا وہ افسوسناک ہے۔ انسان کے لئے زندگی خدا کی محبت ہے اور موت خدا سے دوری لیکن افسوس کہ مکتب ہویا مے کدہ (یعنی آرٹ جو حسن کی نمائش سے مست کرتا ہے) اس وقت دونوں بے خدا ہونے کی وجہ سے موت کا درس دے رہے ہیں۔ ہمیں جینا سیکھنا چاہئے اور اصل جینا خودی کا جینا ہے۔ اگر ہماری خودی زندہ ہو جائے تو ہم اس دنیا میں بھی زندہ رہیں گے اور اگلی دنیا میں بھی بدن کی زندگی جو شرر کی طرح ایک لمحہ سے زیادہ نہیں ہوتی ہماری اصل زندگی نہیں۔ انسان کی اصل بدن سے نہیں بلکہ روح سے ہے۔ بدن روح سے ہے، روح بدن سے نہیں۔ زندہ رہنے کے لئے ہمیں وجود یا زندگی کے لوازمات اور مقدمات اور مدارج کو سمجھنا چاہئے۔ اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر، وائے صورت گری و شاعری و نالے و سرود مکتب و میکدہ جز درس بنوں دن نہ دبند بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود، آرٹ کی تاثیر کا منبع آرٹ یا ہنر کی ساری مشکلوں اور کوتاہیوں کا سبب سمجھنے کے لئے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ جب ایک نے نواز اپنی سے اثر مے ڈوبی ہوئی مست کرنے والی سریں نکالتا ہے تو نے کی آواز میں شراب کا سرور کہاں سے آ جاتا ہے۔ یقینا اس کا منبع نے کی سوکھی ہوئی لکڑی نہیں بلکہ نے نواز کا دل ہے تو پھر یہ دل کیا چیز ہے۔ اس میں مست کرنے کی خاصیت اور اثر پیدا کرنے کی طاقت کہاں سے آئی ہے۔ یہی دل انسان کی خودی ہے جو اصل انسان ہے اور اس دل میں فقط ایک ہی آرزو ہے اور وہ آرزوئے حسن ہے جو صرف خدا کی محبت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہوتی ہے۔ عبادت، علم، اخلاق اور ہنر ایسے اعمال انسان کی اسی آرزوئے حسن کے پہلو ہیں اور اسی کی اعانت کے لئے وجود میں آتے ہیں۔ غلط اور ناقص اور نازیبا تصورات زیبائی کا لباس اوڑھ کر خدا کی محبت کے جذبہ کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں لیکن اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ غیر اللہ سے کٹ کر بالکل خدا کے لئے ہو جائے او رجب یہ کلیتاً خدا کے لئے ہو جاتا ہے تو انسان کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور وہ سچ مچ صاحب دل بن جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صاحب دل ایک نگاہ سے شہنشاہ ایران کا تختہ الٹ سکتا ہے اور اس کی نگاہ میں روم اور شام اور اس کی سلطنتوں کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ جب دل خدا کی محبت سے زندہ ہوں تو قوم بھی زندہ ہوتی ہے اور جب دلوں سے خدا کی محبت رخصت ہو جائے اور دل مردہ ہو جائے تو قوم بھی مر جاتی ہے۔ دل کی واردات پے بہ پے بدلتی رہتی ہیں کیونکہ اس میں جلال بھی ہے اور جمال بھی اس کی محبت کو رکاوٹوں کا سامنا ہونے لگے تو یہ جلالی صفات کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے محبت کی رکاوٹوں کو فنا کر دیتا ہے اور جب اس کی محبت کو موافق حالات پیش آئیں تو یہ حریر و پرنیاں کی طرح نرم ہو جاتا ہے اور سرا سر محبت نظر آنے لگتا ہے۔ اگر ایک فنکار کی ناقص ناتمام اور راہ گم کردہ محبت بھی اس کی نے کے نالوں میں کچھ اثر پیدا کر سکتی ہے تو پھر خود ہی سمجھ لیجئے کہ اگر اس کی محبت اپنے حقیقی محبوب کے لئے ہو گی اور درجہ کمال پر ہو گی تو اس کے نالہ نے میں تاثیر اور مستی کس درجہ کی ہو گی اور اس کا فن عمدگی کے کس مقام پر ہو گا۔ اگر فنکار یہ راز پا جائے تو اس کو فن کی تمام مشکلات کا حل یہیں سے ملے گا۔ اقبال اسی مضمون کو شعر میں بیان کرتا ہے۔ آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے دل کیا ہے اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے کیوں اس کی اک نگاہ الٹی ہے تخت کے کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں، مچتی نہیں سلطنت روم و شام و رے جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے، ہنر کے کمال کا معیار ایک فن کار کے متعلق بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اہل نظر ہوتا ہے، حسن کا ذوق رکھتا ہے اور حسن کو غیر حسن سے ممیز کر سکتا ہے۔ لیکن اگر ایک فنکار خود فن کی حقیقت اور اس کے مقصد سے نا آشنا ہو تو ہم اسے اہل نظر کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہنر کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کی سچی محبت کا ایسا سوز پیدا ہو جو اس کو زندہ جاوید بنا دے۔ یہ مقصد اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ ہنر کی تخلیق اس قسم کی ہو کہ وہ خدا کی محبت کی نشوونما کر سکے۔ اگر فنکار غیر حسن کو حسن بنا کر پیش کرے تو اس کا فن بدن کی اس زندگی میں جو شرر کی طرح ایک دو لمحہ کے لئے ہی ہوتی ہے۔ کسی قدر لذت یا سرور کا باعث ہو تو ہو لیکن نہ تو وہ خدا کی محبت کی تربیت کر سکے گا اور نہ ہی روح کی ابدی زندگی اور اس کی محبت کے ابدی سوز کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکے گا۔ لیکن بدن کی اس نفس یا دو نفس کی زندگی کی حقیقت کیا ہے کہ فنکار اپنے فن کو اس کا غلام بنا دے۔ ابرنیساں کا قطرہ اگر کسی صدف میں جا پڑے تو وہ گہر بن جاتا ہے فن کار کا جو ہر وہ قطرہ نیساں ہی سہی جو اس کے شاہکار کے صدف کو حسن کے گوہر تابدار سے پر کرتا ہے لیکن وہ صدف یا وہ گوہر جو قطرہ نیساں کے کمالات کی تخلیق ہونے کے باوجود دریا میں تلاطم پیدا نہ کر سکے دریا کے لئے بے حقیقت ہے۔ اسی طرح سے فن کار وہ شاہکار اور فن کا وہ حسن جو قوم کے اندر کوئی حرکت پیدا نہ کر سکے قوم کے لئے بے معنی اور بے کار ہے۔ باد سحر سے چمن میں پھول کھلتے ہیں اور یہ صحیح ہے کہ شاعر کی شاعری اور گانے والے کا گانا دونوں چمن قوم کے لئے باد سحر کا کام دے سکتے ہیں۔ لیکن وہ باد سحر بے کار ہے جس سے قوم کا گلستان شگفتہ ہونے کی بجائے مرجھا جائے۔ ایک ایسی قوم جو حالت جمود میں ہو جب تک اس کے لئے کسی معجزہ سے فکر و عمل کی نئی راہیں نہ کھل جائیں وہ انسانیت کی منزل مقصود کی طرف حرکت نہیں کر سکتی۔ ہنر ایسا ہونا چاہئے جو عصائے کلیمی کی طرح ہو جس کی ایک ضرب سے بے آب و گیاہ بیابان میں پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے تھے جو ایک معجزہ کا حکم رکھتا ہو اور ایک حیرت انگیز فکری انقلاب سے قوم کو ارتقا کے کھوئے ہوئے راستوں پر ڈال سکتا ہو۔ اقبال کہتا ہے: اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نو ہو کہ مغنی کا نفس ہو، جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا خطرناک شاعری اگر شعر خودی کی آرزوئے حسن کے اصل مقصود کو پیش نظر نہ رکھ سکے تو یہ انسانیت کے لئے نہایت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ فن کی اور قسموں کی نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے تھوڑے خرچ پر اور بار بار استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ اظہار مطلب کے لئے زیادہ موزوں اور موثر ہے۔ انسانی جذبات کو زیادہ آسانی کے ساتھ اپنے ضبط میں لا سکتا ہے اور ہماری روز مرہ کی زندگی سے بآسانی تعلق پیدا کر سکتا ہے اگر شاعر مقصود حیات سے نا آشنا ہو تو پھر وہ زشتی اور نازیبائی کو حسن بنا کر پیش کرتا ہے انسان کے ارتقا کی راہ میں ایک رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے۔ موت کی زندگی اور زندگی کو موت کا رنگ دے کر سامنے لاتا ہے۔ ایسا زہر تقسیم کرتا ہے جو شہد میں حل کیا گیا ہو۔ بعض اوقات ا س کا نقصان حساب باہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ لاتعداد انسانوں کی آرزوئے حسن کی غلط راہوں اور غلط منزلوں کی طرف راہ نمائی کر کے ان کو بڑی بڑی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جن سے وہ مر کر ہی نجات پاتے ہیں۔ ایسے شاعر کا کلام پھول کو تازگی سے اور بلبل کو ذوق پرواز سے محروم کر دیتا ہے۔ گویا اس کے اثر سے نہ حسن میں شوخی باقی رہتی ہے اور نہ عشق میں گرمی۔ انسان خیالات کے بحر بیکراں میں غرق ہو جاتا ہے اور عمل سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اس کا کام شراب کی سی مستی ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ہر انسان کو اپنی خودی کی سلامتی کے لئے اس کی چمکتی ہوئی شراب سے بچنا چاہئے۔ جس بدقسمت قوم میں ایسا شاعر پیدا ہو وہ اجل سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ وائے قومے کز اجل گیرد برات شاعرش دابوسد از ذوق حیات خوش نماید زشت را آئینہ اش در جگر صد نشتر از نوشینہ اش بوسہ او تازگی از گل برد، ذوق پرواز از دل بلبل برد دریم اندیشہ اندازد ترا، از عمل بیگانی مے سازد ترا از غم و مینا و جامش الحذر از مے آئینہ فامش الحذر مقدس شاعری اس کے برعکس اگر شعر خودی کی آرزوئے حسن کے مقصود سے آگاہ ہو تو عالم انسانی کے ارتقا کا ایک مفید اور موثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسا شعر کہنے والے شاعر کے متعلق اقبال لکھتا ہے کہ اس کا سینہ حسن کی جلوہ گاہ ہوتا ہے جس سے حسن کا نور پھیلتا ہے ۔ وہ اپنے شعر سے جس چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کے حسن میں اضافہ کر دیتاہے۔ قدرت کا حسن بھی اس کے کلام کے جادو سے اور زیادہ دلکش اور محبوب ہو جاتا ہے۔ اس کا فکر بلندی میں چاند اور ستاروں تک پہنچتا ہے وہ زشتی کو جانتا ہی نہیں اور حسن کو پیدا کرتا رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قافلے اس کی بانگ درا سے اس کے پیچھے اپنی منزلوں کی طرف چل پڑے ہیں۔ سینہ شاعر تجلی راز حسن خیزد از پہنائے او انوار حسن از نگاہش خوب گرد و خوب تر فطرت از افسوں اور محبوب تر فکر ادبا ماہ و انجم ہم نشین، زشت را نا آشنا خوب آفریں کارد انہا از درایش گام زن درپئے آواز نائیش گام زن جس طرح سے دل جسم کے اندر احساسات کا مرکز ہوتا ہے۔ شاعر ایک قوم کے لئے جذبات اور احساسات کا مرکز ہوتا ہے۔ وہ اپنی محبت کے سوز سے جو شاعری کی جان ہے۔ ایک نئی دنیا پیدا کرتاہے۔ خدا کی محبت کا سوز کائنات کے ہر ذرہ میں ہے اسی سے پوری کائنات کی تعمیر ہوئی ہے۔ وہ شاعری جو اس سے خالی ہے ایک طرح کا ماتم ہے۔ اگر شعر کا مقصود خدا کی محبت کی بنیاد پر انسانیت کی تعمیر ہو تو وہ نبوت کا وارث ہے۔ شاعر اندر سینہ ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبار گل سوز و مستی نقشبند عالمے است شاعری بے سوز و مستی ماتمے است شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارث پیغمبری است لہٰذا اقبال شاعر کو دعوت دیتا ہے کہ وہ زندگی کے مقصد کو اپنے ہنر کا معیار قرار دے اگر اس کی شاعری خدا کی محبت کو فروغ دینے کے کام آ رہی ہے تو قابل قدر ہے ورنہ نہیں۔ اے میان کیسرات نقد سخن بر عیار زندگی او را بزن، اگر ہنر کار کا ہنر خدا کی محبت کے جذبہ کی عملی تسکین اور تشفی کے لئے کام نہیں آ رہا تو وہ یقینا قوموں کی بربادی کا سبب بنے گا۔ ایسے ہنر سے گریز واجب ہے۔ نہ جدا رہے تو اگر تب و تاب زندگی سے کہ ہلاکئے امم ہے یہ طریق نے نوازی غلام اور کافر کا آرٹ چونکہ آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کی آزادانہ اظہار پر موقوف ہوتا ہے ایک غلام یا ایک ایسا آدمی جس کا تصور حقیقت صحیح نہ ہو، اعلیٰ قسم کا آرٹ پیدا نہیں کر سکتا۔ اکثر اوقات اس کے آرٹ کا مقصد یا فطرت کی نقل ہوتا ہے یا ان افراد کے ذوق کی ترجمانی اور خدمت گزاری جن کو یہ آرٹ محظوظ کرنا چاہتا ہے۔ ایک غلام اپنی پوری آرزوئے حسن کے مطابق ایجاد و تخلیق کی اہلیت سے محروم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی خودی اپنے صحیح تصور حقیقت کے لئے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کے غلط تصور حقیقت کے لئے سوچنے اور کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی ایجاد و تخلیق کی قوتیں اپنا آزادانہ اور مکمل اظہار نہیں پا سکتیں۔ اس کا آرٹ جدت کے وصف سے عاری ہوتا ہے۔ آرٹ حسن کے آزادانہ اظہار کا نام ہے چونکہ غلام کا آرٹ حسن کا آزادانہ اظہار نہیں ہوتا لہٰذا وہ سچا آرٹ بھی نہیں ہوتا۔ ایک فن کار اپنے آرٹ میں اپنے آپ کا مکمل آزادانہ اظہار اسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس کی خودی ہر قسم کے زشت اور ناقص تصورات حقیقت کے اثر سے آزاد ہو۔ ناقص تصورات حقیقت چونکہ خودی کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتے وہ اس کی آزادی کو سلب کر کے اسے اپنا غلام بنا لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں خودی آزادانہ تخلیق کے قابل نہیں رہتی۔ لہٰذا خدا سے کفر اور غلامی دونوں حالتیں اعلیٰ قسم کے آرٹ کے لئے سازگار نہیں۔ بلند ترین سطح کا آرٹ صرف اسی حالت میں ممکن ہے جب فن کار کی خودی ہر قسم کے غلط تصورات حقیقت کے اثر سے مکمل طور پر آزاد ہو۔ خواہ یہ اثر کفر سے پیدا ہو رہا ہو یا غلامی سے۔ غلامی کی حالت میں پیدا ہونے والے فنون لطیفہ کے اندر کئی قسم کی ہلاکتیں مخفی ہوتی ہیں۔ غلامی کے ساحرانہ اثرات کا ذکر کیا جائے۔ غلام کی فنی مخلوقات اس کے دل کی طرح بے نور ہوتی ہیں۔ اس کی سریں اس کے دبے ہوئے دل و دماغ کی طرح پست ہوتی ہیں۔ اس کی نے کی آواز ہی سے پتہ چل جاتاہے کہ وہ غلام ہے اس کا ساز انسانوں کی ایک پوری بستی کے لئے موت کا پیغام ہوتا ہے۔ مرگ ہا اندر فنون بندگی، من چہ گویم از فسون بندگی چوں دل او تیرہ سیمائے غلام پست چوں طبعش نوا ہائے غلام از نئے او آشکارا راز اد مرگ یک شہر است اندر ساز او ٭٭٭ خودی کا انقلاب خودی کی تربیت کے لوازمات۔ خلوت خدا کا ذکر، آیات اللہ کے طور پر مظاہر قدرت پر غور و فکر، فعل جمیل اور خدا کی محبت کے سوز و سرور سے ابھرنے والا آرٹ، خودی کی یہ چاروں فعلیتیں خدا کی محبت کو ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچاتی ہیں تاہم ان میں سے خودی کی ترقی اور تربیت کا زیادہ دار ومدار آخر کار مواظبت ذکر، قدرت پر غور و فکر اور فعل جمیل پر ہوتا ہے۔ ذکر اور فکر پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرنے کے لئے خودی کی خلوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر وہ ذکر اور فکر سے پورا فائدہ حاصل نہیں کر سکتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) خود غار حرا میں خلوت گزیں ہوئے تھے۔ اعتکاف کے اسلامی شعائر کی غرض و غایت بھی خلوت گزینی ہے۔ خودی را مردم آمیزی دلیل نارسائیا تو اے درد آشنا بیگانہ شواز آشنائی ہا ٭٭٭ از کم آمیزی تخیل زندہ تر زندہ و جوئندہ پابندہ تر ٭٭٭ وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی ٭٭٭ مصطفیٰ اندر حرا خلوت گزید مدتے جز خویشتن کس را ندید خودی کے مقام کمال کی کیفیتیں لہٰذا مومن شروع میں خلوت اختیار کرتا ہے۔ جب مومن خلوت کے ذکر اور فکر کو اور فعل جمیل کو کچھ عرصہ کے لئے بڑی احتیاط اور بڑے ذوق و شوق سے جاری رکھتا ہے تو وہ جلد ہی ایک عظیم الشان انکشاف حقیقت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس مقام پر خودی بے حد سرور اور اطمینان محسوس کرتی ہے اور اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ اس دنیا میں حاصل کرنا چاہتی تھی اس نے وہ سب کچھ پا لیا ہے اور اسے اور کسی چیز کی حاجت نہیں سوائے اس کے کہ جو کچھ اس نے پایا ہے اس کے پاس ہمیشہ موجود رہے اور اس میں ہمیشہ اور اضافہ ہوتا رہے۔ یہی خودی کا مقام کمال ہے۔ انسان کی محبت جو ذکر اور فعل جمیل سے رفتہ رفتہ ترقی پاتی رہتی ہے۔ بالآخر اس قدر طاقت ور ہوجاتی ہے کہ انسان کی پوری عملی زندگی پر حکمران ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ مزاحمت کرنے والے غلط تصورات یا اپنی کشش کھو کر بالکل مٹ جاتے ہیں یا اگر ان میں یہ صلاحیت موجود ہو تو خدا کی محبت کے ماتحت اس کے خدمت گزار بن جاتے ہیں۔ بہرحال ان میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ خودی کو مسلسل عبادت اور اطاعت اور عمل کے ذریعہ سے خدا کی معرفیت اور محبت میں ترقی پانے اور معرفت اور محبت کے مقام کمال پر پہنچ کر خدا کا دیدار کرنے سے باز رکھ سکیں۔ خدا کا دیدار حضورؐ کے ارشادات میں خدا کے دیدار کے مقام کو احسان کا نام دیا گیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح سے کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو (الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ) شاید بعض لوگوں کو شبہ ہو کہ خدا کو دیکھنا ممکن نہیں۔ لیکن اگر ہم دیکھنے کے عمل کا تجزیہ کریں تو یہ شبہ رفع ہو جاتا ہے۔ جب ہم کسی مادی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس چیز پر نظر ڈالنے اور روئت کا احساس کرنے تک جو عمل معرض وجود میں آتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ اس چیز سے جو روشنی کی شعاعیں بکھر رہی ہوتی ہیں وہ ہماری آنکھوں پر پڑتی ہیں۔ ہماری آنکھوں کا محدب شیشہ انہیں سمیٹ کر چیز کا ایک عکس بناتا ہے جس کی اطلاع عصب روئت کے ذریعہ سے دماغ تک پہنچتی ہے اور دماغ کی معرفت ہمارے شعور کو اس چیز کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ گویا جو چیز خارج میں موجود کسی جسم کو دیکھتی ہے وہ دراصل ہمارا شعور ہی ہوتا ہے اور ہمارا شعور بھی جو چیز دیکھتا ہے وہ خود وہ جسم نہیں ہوتا بلکہ اس جسم کے چند اوصاف ہوتے ہیں جن کے مجموعہ کو ہی ہم وہ جسم قرار دیتے ہیں۔ دماغ، عصب، روئت، آنکھ اور روشنی فقط ان اوصاف کا علم حاصل کرنے کے آلات یا ذرائع ہیں جن کو ہمارا شعور اپنے کام میں لاتا ہے۔ جب شعور کو ان اوصاف کا واضح علم ہو جاتا ہے تو خواہ وہ جسم آنکھوں کے سامنے رہے یا نہ رہے۔ شعور اگر چاہے تو اس کو پھر دیکھ سکتا ہے اور جس قدر شعور کا علم واضح ہو گا۔ اس قدر اس کی بلا واسطہ روئت جسم بھی واضح ہو گی۔ جب مومن کے دل میں مطالعہ جمال اور فعل جمیل سے حق تعالیٰ کے اوصاف کی محبت درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو شدت محبت کی وجہ سے ذکر اور فکر کے دوران میں مومن کی ساری توجہ ان اوصاف پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ اوصاف اس کے شعور پر چھا جاتے ہیں اور ان کا علم اس کے شعور پر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے۔ اس وقت مومن کا شعور حق تعالیٰ کو بالکل اس طرح سے دیکھتا ہے جس طرح سے اس دنیا کی کسی اور چیز کو دیکھنا اس کے لئے ممکن ہوتا ہے۔ چونکہ یہ روئت ان آنکھوں سے نہیں ہوتی جو مادی اجسام کے دیکھنے کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر بنائی گئی ہیں۔ اس لئے حدیث کے الفاظ ہیں کہ خدا کی عبادت اس طرح سے کر ’’ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے‘‘ (کانک تراہ) یعنی مومن خدا کو دیکھتا تو ہے لیکن اس کا دیکھنا ان آنکھوں کے ذریعہ سے عمل میں نہیں آتا۔ یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک ہم خدا کو روبرو نہ دیکھیں ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے حالانکہ ایمان لانا خدا کو دیکھنے کی پہلی شرط تھی۔ اس کٹ حجتی کیلئے ان کو سزا دی گئی۔ ایک زور دار کشش اپنے مقام کمال کے قریب پہنچ کر خودی خدا کی ذات کے لئے ایسی زور دار کشش محسوس کرتی ہے کہ اس کا اختیار اپنے آپ پر باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا وہ نہایت ہی بے بس ہو کر اپنے محبوب کی طرف کھنچ جاتی ہے۔ اور کچھ عرصہ کے لئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ اپنے محبوب کی آغوش میں چلی گئی ہے اور محبوب کے ساتھ پیوست ہو کر ایک ہو گئی ہے۔ جیسے ایک لوہے کی سوئی جب آہستہ آہستہ مقناطیس کے نزدیک لائی جا رہی ہو تو مقناطیس کے قریب پہنچ کر ایک مقام ایسا آ جاتا ہے جہاں مقناطیس اسے خود بخود فی الفور اٹھا لیتا ہے۔ یہ خودی کے ارتقاء کی وہ حالت ہے جو اسے خلوت میں عبادت سے حاصل ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ تاہم اس کی ترقی کے اور مقامات جو جلوت میں محبوب کے مقاصد کی تکمیل کے لئے پر زور اور دلیرانہ عمل سے حاصل ہو سکتے ہیں بعد میں آتے ہیں۔ جب تک خودی اس حالت میں ہوتی ہے (اور اس حالت میں وہ بالعموم بہت تھوڑی مدت کے لئے رہتی ہے) وہ خود فراموشی کے عالم میں ہوتی ہے اور اس کا اپنے الگ وجود کا احساس اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ گویا بالکل ہی مفقود ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہی خدا ہے اور وہ نہیں۔ اس حالت میں خودی زمان و مکان کی قیود میں نہیں ہوتی کیونکہ وہ دونوں کے خالق کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب انسان اس حالت سے اپنے آپ کو لوٹتا ہے تو دوسروں کے لئے اس کی کیفیت کو پوری طرح سے بیان نہیں کر سکتا اور اظہار مطلب کی بہترین کوششوں کے باوجود اپنے الفاظ کو ناکافی پاتا ہے بلکہ الفاظ اس کے مطلب کا حجاب بن جاتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس حالت کی پوری کیفیت کو جاننا چاہے اسے خود ہی اس میں سے گزرنا چاہئے۔ ہر معنی پیچیدہ در حرف نمی گنجد یک لحظہ بدل در شو شائد کہ تو دریابی ٭٭٭ حقیقت پہ ہر جامہ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ مولانا روم فرماتے ہیں کہ عشق کی کیفیت عشق ہی بیان کر سکتا ہے۔ کوئی آفتاب کو جاننا چاہے تو اسے آفتاب ہی کو دیکھنا چاہئے۔ ہرچہ گویم عشق را شرح و بیان، چوں عشق آیم خجل باشم ازان گرچہ تفسیرو بیان روشنگر است یک عشق بے زبان روشن تر است چوں قلم در وصف ایں حالت رسید ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید عقل در شرحش جو خر ورگل نجفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلت باید ازوے رومتاب ایک نئی قسم کی ولادت چونکہ خودی کی یہ حالت جب گزر جاتی ہے۔ تو انسان کی ایک ایسی نئی زور دار اور حیرت انگیز طور پر فعال زندگی کا سبب بنتی ہے جسے انسان کی نئی زندگی کہنا چاہئے۔ اس لئے اسے ایک اقبال ایک قسم کی پیدائش قرار دیتا ہے اور اسے بچے کی پیدائش سے ممیز کرنے کے لئے انسان کی پیدائش کا نام دیتا ہے۔ اس انسانی قسم کی پیدائش کے موقع پر انسان کائنات کی حدود زمان و مکان کو توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔ جس طرح سے انسان اپنی حیوانی قسم کی پیدائش کے وقت ایک بچہ کی صورت میں اپنی ماں کے پیٹ کی حدود سے باہر نکل آتا ہے۔ اس پیدائش کے بعد وہ کائنات کے اندر نہیں ہوتا بلکہ کائنات اس کے اندر ہوتی ہے۔ ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پہنائی انسان کی حیوانی پیدائش (جسے بچہ کی پیدائش کہا جاتا ہے) شکست شکم سے ہوتی ہے اور انسانی پیدائش عالم زماں و مکان کی شکست ہے۔ زاون طفل از شکست اشکم است زاون مرد از شکست عالم است اس انسانی قسم کی پیدائش سے بہرہ ور ہونا انسان کی بڑی خوش نصیبی ہے کیونکہ جس طرح بچے کو پیدائش کے بعد شباب حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو اس نئی قسم کی پیدائش کے بعد ایک نئی قسم کا شباب حاصل ہوتا ہے۔ زاون اندر عالم دیگر خوش است تا شباب دیگرے آید بدست زمان و مکان کی بندشوں سے رہائی کا یہ مقام مومن کی ترقی کے راستہ کی ایک ضروری قدرتی منزل ہے جسے مومن ضرور پا کر رہتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی نظریاتی یا نفسیاتی نشوونما میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور وہ صحیح قدرتی طریق سے جاری ہے لہٰذا خود مومن کو بھی اس بات کے لئے کوشاں ہونا چاہئے کہ اس کی محبت کی قدرتی نشوونما جاری رہے اور اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو تاکہ وہ اس مقام کو پائے جب تک وہ اس مقام کو نہیں پاتا اس کا ایمان ناقص رہتا ہے۔ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ٭٭٭ مشو در چار سوئے ایں جہاں گم بخود باز او بشکن چار سو را مومن کا یہی وہ مقام ہے جس کی وجہ سے مومن چرخ نیلی فام اور سورج اور چاند اور ستاروں کی بلندیوں سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ ان کو بحر وجود کے گرداب اور اپنے راستہ کی رکاوٹیں سمجھتا ہے اور اپنی منزل مقصود کو ان سے بہت آگے دیکھتا ہے۔ فضا تری مہ و پروین سے ہے ذرا آگے قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں ٭٭٭ دل اگر اس خاکدان میں زندہ و بیدار ہو تیری نگاہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ! ٭٭٭ دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب ٭٭٭ پرے ہے چرخ نیلی فام ہے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد را ہوں وہ کارواں تو ہے اس مقام کو پانے والے خود شناس لوگ وہی ہیں جو اس عالم خاکی کی حدود سے باہر کود جاتے ہیں اور جنہوں نے آسمان سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ ڈالا ہے۔ خود آگہان کہ ازیں خاکدان برون جستند طلسم مہر و سپہر و ستارہ بشکستند انسان کو جولا نگاہ یا مقصود عمل یہ مادی دنیا نہیں جو زیر آسماں آب و گل کا ایک کھیل سا بنا ہوا ہے بلکہ اس مادی دنیا سے پرے اسے خدا کے عرش تک پہنچنا ہے اور خدا کی محبت کو حاصل کرنا ہے انسان کی منزل مقصود خدا ہے، یہ مادی دنیا نہیں۔ شعلہ ور گیر زد در خس و خاشاک من مرشد رومی کہ گفت منزل ما کبریاست انسان کا آسمان یہ روائے نیلگوں نہیں جسے لوگ آسمان سمجھتے ہیں بلکہ اس کا آسمان اس سے پرے ہے۔ یہ آسمان تو نگاہوں کا ایک طلسم تھا جو خدا کے بے حجاب ہونے سے ٹوٹا اور ٹوٹ کر فقط ایک روائے نیلگوں ثابت ہوا۔ خدا کے دیدار سے یہ مسئلہ حل ہوا کہ میرا آسمان یعنی میری بلند ترین امیدوں اور آرزوؤں کی حد کیا ہے۔ میں اپنی تمناؤں کی فضا میں ایک ایسے قافلہ کے ساتھ پرواز کر رہا تھا جس میں مہرو ماہ و مشتری بھی شامل تھے اور میں یہ سمجھتا کہ یہ میرے ہم عنان ہیں۔ لیکن ان کا قافلہ تھک کر رہ گیا اور میری پرواز پھر بھی جاری تھی۔ یعنی میری منزل مقصود مہر و ماہ و مشتری سے پرے ایسی جگہ پر ہے جہاں اس قدر بلند ہونے کے باوجود ان کی رسائی نہیں۔ عشق کی ایک ہی جست سے میں نے اس زمین و آسمان کی حدود کو پار کر لیا اور میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ یہ کائنات بے کراں ہے۔ اقبال نے ایک غزل کے چند اشعار میں اس مضمون کو ادا کیا ہے۔ اپنی جولانگاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تیری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک روائے نیلگوں کو آسمان سمجھا تھا میں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ مشتری کو ہم عنان سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں ایمان کامل کا نشان جو مومن زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوا وہ بھی ماسویٰ اللہ کے طلسم میں گرفتار ہے اور پوری طرح سے موحد نہیں بن سکا۔ کسے از دو جہان خویش رو بردن نہ شتافت فریب خوردہ ایں نقش باطل است ہنوز جاوید نامہ میں جب شاعر رومی سے پوچھتاہے کہ معراج انسانی کیا ہے تو رومی جواب دیتا ہے کہ وہ خدا کے روبرو ہو کر انسان اک اپنا امتحان کرنا ہے کہ آیا وہ خدا کے سامنے ٹھہر سکتا ہے یا نہیں اور اس کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں یا نہیں اگر وہ ٹھہر سکے اور اس کے حواس مخنل نہ ہوں تو وہ پختہ اور قوی اور کامل عیار ہے ورنہ مجذوب ہو کر بے کار ثابت ہو جائے گا۔ اپنی روشنی کو بڑھانا اچھا ہے لیکن سورج کے سامنے لا کر اسے آزمانا چاہئے کہ وہ اتنی کم تو نہیں کہ ماند پڑ جائے۔ طیست معراج آرزوئے شاہدے امتحانے روبروئے شاہدے تاب خود را برفرودن خوشتر است پیش خورشید آزمودن خوشتر است پھر شاعر رومی سے پوچھتا ہے کہ خدا کے سامنے آنا ہم خاک و آب سے بنے ہوئے انسانوں کے لئے کس طرح ممکن ہے۔ خدا امرا ور خلق (یعنی زمان و مکان کی کائنات) کا مالک امر اور خلق سے باہر ہے اور ہم زمان و مکان کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ رومی جواب دیتا ہے کہ ’’ سلطان تمہارے ہاتھ آ جائے تو تم زمان و مکان کی اس تعمیر کو جو زمین و آسمان کی صورت میں نظر آتی ہے۔ توڑ سکتے ہو۔ جو شخص نکتہ سلطان سے استفادہ کر کے زمان و مکان کے طلسم کو نہیں توڑتا وہ جہالت کی موت مرتا ہے اور مر کر مورو ملخ کی طرح مٹی میں مل جاتا ہے۔ تم اس زمان و مکان کی دنیا میں ایک ولادت سے پہنچے تھے۔ اب ایک اور ولادت سے ہی اس سے باہر جا سکتے ہو اور ا س کی بندشوں سے آزاد ہو سکتے ہو۔‘‘ باز گفتم پیش حق رفتن چساں کوہ خاک و آب را گفتن چساں آمر و خالق برون از امر و خلق مازشت روزگاراں خستہ خلق گفت اگر سلطان ترا آید بدست مے تواں افلاک را از ہم شکست نکتہ الا بسلطان یاد گیر، ورنہ چوں مور ملخ در گل یمیر، از طریق زاون اے مرد نکوے آمدی اندر جہاں چار سوے ہم برون جستن بزاون مے توان بند ہا از خود کشاون مے توان یہاں قرآن کے اس اشارہ کی طرف تلمیح ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ اے جنو اور انسانو اگر تم سے ہو سکے تو کائنات کی حدود سے باہر نکل جاؤ۔ لیکن بغیر سلطان (یعنی غالب کرنے والی حجت یا قوت) کے تم ایسا نہیں کر سکو گے۔ یمعشر الجن والانس ان استطعنم ان تنفذوا من اقطار السموات والارض فانفذ والافتفرون الا بسلطان اقبال کے نزدیک سلطان سے مراد روح کا وہ مقام ہے جہاں وہ عبادات اور نوافل کی کثرت سے اس قابل ہو جاتی ہے کہ زمان و مکان کی حدود سے نکل کر خدا سے ملاقی ہو جائے۔ جسمانی اور روحانی ولادت کا فرق اقبال رومی کی زبان سے بتاتا ہے کہ یہ ولادت آب و گل سے تعلق نہیں رکھتی۔ آب و گل کی ولادت کے بعد انسان ہنستا ہے۔ وہ ولادت جستجو کرنے والے کی ہے اور یہ جستجو میں کامیاب ہونے والے کی ہے۔ وہ زمان کی حدود کے اندر سیر و سکون کا موقعہ دیتی ہے اور یہ زمان و مکان کی حدود سے باہر نکل کر اسرار حقیقت کی سیر کا۔ وہ روز و شب کی محتاجی ہے اور یہ روز و شب کی سواری۔ دونوں کے لئے اذان ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ اذان جو فقط زبان سے بلند ہو اور اس کے لئے ایسی اذان جو دل و جان سے ادا ہو۔ جب کسی انسان کے بدن کے اندر ایک جان بیدار ولادت پاتی ہے تو اس کے کارناموں سے دنیا لرزنے لگتی ہے۔ لیکن ایں زاون نہ از آب و گل است داند آں مردے کہ او صاحبدل است آں یکے با گریہ ایں باخندہ ایست یعنی آں جویندہ ایں یا بندہ ایست آں سکون و سیر اندر کائنات ایں سراپا سیر بیرون از جہات آں یکے محتاجی روز و شب است واں دگر روز و شب اور امر کب است ہر دوز ادن را دلیل آمد اذاں آن بلب گویند و ایں از عین جہان جان بیدارے چو زاید در بدن لرزہ ہا افند درین دیر کہن اقبال خود تمنا کرتا ہے کہ خدا اسے طلسم زمان و مکان کو توڑنے کے قابل بنا دے۔ زیر گردوں خویش را یابم غریب ز آنسوے گردوں بگو انی قریب تا مثال مہر و ماہ گرد و غروب ایں جہات و ایں شمال و ایں جنوب از طلسم دوش و فردا بگذ دیم، از مہ و مہر و ثریا بگذ دیم، ایک ہی مقام کی مختلف تعبیرات خودی کی یہی حالت ہے جو اقبال کے نزدیک کاشف اسرار حیات ہے اور جس کو اقبال کبھی اپنے ’’ من میں ڈوبنا‘‘ کبھی ’’ خودی میں ڈوبنا‘‘ اور کبھی’’ تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوبنا‘‘ کہتا ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن، ٭٭٭ عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف، ٭٭٭ خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ ہمت مردان ہیچ کارہ نہیں، ٭٭٭ ہزار چشمہ تیرے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر، ٭٭٭ ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا پھر اس حالت کو وہ کبھی اپنے آپ میں گم ہو جانے کا اور کبھی اپنے آپ کو گم کر دینے کا نام بھی دیتا ہے۔ بخود گم بہر تحقیق خودی شو، انا الحق گود صدیق خودی شو، ٭٭٭ یکے گم مے کنم خود را یکے گم مے کنم اورا زمانے ہر دورا یابم چہ راز است ایں چہ راز است ایں پھر اس کو اقبال کبھی حرائے دل میں بیٹھنے سے کبھی خود کو ترک کرنے سے اور کبھی خدا کے پاس خلوت گزیں ہونے سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ اند کے اندر حرائے دل نشین ترک خود کن سوئے حق خلوت گزیں اور پھر اس کو وہ کبھی جہان دل کے اندر جھانکنے کا اور کبھی اعماق ضمیر کے اندر نگاہ ڈالنے کا نام بھی دیتا ہے۔ اند کے اندر جہان دل نگر تاز نور خود شوی روشن بصر ٭٭٭ فاش مے خواہی اگر اسرار دیں جز باعماق ضمیر خود مبین لذت مجذوبیت سے خطرہ خودی کو اس حالت میں ایک ایسی گہری اور دل کشا مسرت نصیب ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر بڑی سے بڑی مسرت بھی اس کے سامنے ہیچ اور بے حقیقت رہ جاتی ہے۔ اس مسرت کی لذت خودی کو مست اور مخمور کر دیتی ہے۔ اسی نوعیت کی لیکن اس سے کم درجہ کی ایک مسرت جو بتدریج بڑھ رہی تھی خودی کو اس کے ارتقا کے گزشتہ مقامات اور مدارج میں بھی محسوس ہو رہی تھی اور اسے اپنی ہمت آزما جدوجہد کے دوران تسلیوں اور امیدوں کے سہارے دے رہی تھی۔ اب یہ عالم خود فراموشی کی مسرت اسی مسرت کے عروج کا نقطہ کمال ہے۔ یہ مسرت اس قدر جاذب ہوتی ہے کہ اسے ترک کر کے بیداری اور ہوشیاری کی حالت کی طرف لوٹنا بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے اور بعض وقت در حقیقت عاشق اسے ترک کر کے اپنی حالت صحو کی طرف واپس آنا نہیں چاہتا۔ لیکن اس خواہش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عاشق کے ذہنی قویٰ (جو اسے نہ صرف اس لئے دئیے گئے ہیں کہ وہ ان کی مدد سے محبوب کی پیدا کی ہوئی کائنات پر غور و فکر کر کے محبوب کے حسن و کمال کی معرفت حاصل کرے۔ بلکہ اس لئے بھی کہ وہ ان کی مدد سے اس دنیا کو محبوب کے مقاصد کے مطابق بدلنے کے لئے سر گرم عمل رہے) معطل ہو جانے کی وجہ سے بیکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کا یہ قاعدہ ہے کہ جن قویٰ سے کام نہ لیا جائے وہ ان کو کام کی استعداد سے محروم کر دیتی ہے۔ عاشق عالم زمان و مکان سے اپنا تعلق کھو دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس تعلق کو قائم رکھنا نہیں چاہتا۔ مستقل مجذوبیت کی یہ کیفیت اس عاشق کی قسمت میں ہوتی ہے جو نبوت کی تعلیم سے پوری طرح مستفید نہیں ہوتا اور جو اپنی کم علمی کی وجہ سے خودی کے محبوب اور مقصود کے متعلق غلط نقطہ نظر رکھتا ہے اور خودی کی فطرت سے یعنی خودی کی آرزوئے حسن کے فطری تقاضوں سے بے خبر ہوتا ہے۔ ان تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ خودی دنیائے عمل میں شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محبوب کی خدمت اور اطاعت کے لئے موجود رہے اور محبوب کے حسین و جمیل مقاصد کی پیش برو کے لئے کام کر کے اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کا سامان مسلسل طور پر پیدا کرتی رہے۔ جب تک کہ کائنات میں خدا کی جستجوئے حسن ختم نہیں ہوتی یعنی جب تک کائنات اپنے کمال کو نہیں پہنچتی۔ اس وقت تک مومن کی جستجوئے حسن بھی ختم نہیں ہوتی تو مومن خدا کا دوست ہونے کی وجہ سے کائنات میں خدا کے مقاصد کا ممد و معاون ہوتا ہے۔ لذت مجذوبیت پر مر مٹنے والا عاشق یا وہ عاشق جو مجذوب تو نہیں لیکن دنیا میں محبوب کے مقاصد کی تکمیل کے لئے پوری پوری جدوجہد کر کے اپنی محبت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ محبوب کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک پست تر مقام سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا وہ لذت ذکر و فکر سے جو خلوت میں اسے محبوب کے قرب کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے، واقف ہوتا ہے۔ لیکن لذت کردار سے جو اسے جلوت میں عالم انسانی کے گوشہ گوشہ میں باطل کو فنا کر کے حکم حق کو جاری کرنے کی عملی جدوجہد سے نصیب ہوتی ہے آشنا نہیں ہوتا۔ ایسے عاشق کے متعلق اقبال بڑے افسوس سے لکھتا ہے: وائے درویشے کہ ہوئے آفرید باز لب بربست ودم در خود کشید حکم حق را در جہان جاری نہ کرو نانے از جو خورد و کراری نہ کرد خودی میں ڈوب کر ابھرنا لیکن ایک ایسا عاشق جو نظری اور عملی طور پر نبوت کے علم سے پوری طرح مستفید ہو رہا ہو۔ نہ صرف یہ جانتا ہے کہ محبوب کے ساتھ اس کا تعلق ایک اطاعت گزار بندہ کا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی محسوس کرتا ہے کہ اس کا فطری جذبہ محبت فقط اطاعت ہی سے پوری تشفی پا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی پوری زندگی کو اور اپنی زندگی کی ہر چیز کو اپنے فکر و عمل کی قوتوں کے سمیت اپنے محبوب کی اطاعت اور خدمت کے لئے وقف کر دیتا ہے۔ اس لئے محبوب کے ساتھ پیوست ہو کر خود فراموش ہونے کی حالت میں بھی وہ اپنی خودی کو محبوب کی اطاعت کے لئے بیدار اور برقرار رکھنے کی کوششیں کرتا ہے اور اگرچہ کہ اس کی یہ کوشش خود فراموشی اور مست و مخمور کرنے والی مسرت کی وجہ سے نہایت ہی مشکل ہوتی ہے تاہم وہ اپنی محبت ہی کی وجہ سے اس میں کامیاب ہوتا ہے اور اپنی حالت بیداری و ہوشیاری کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اب اسے جو کچھ محسوس ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ محبوب کے آغوش میں چلا گیا ہے اور فقط خدا ہی خدا ہے اور وہ نہیں بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ محبوب خود اس کی آغوش میں آ گیا ہے اور اب وہی وہ ہے اور خدا نہیں یعنی وہ خود ہی خدا ہے گویا وہ اپنی ز بان حال سے اپنے احساسات کی بنا پر انا الحق کا نعرہ لگاتا ہے۔ یہ خودی میں ڈوب کر پھر ابھر آنے کا وہ نہایت ہی مشکل کام ہے جسے مردان بلا کش کی ہمت آسان بناتی ہے۔ خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ ہمت مردان ہیچ کارہ نہیں یہی ہے خودی کا اپنی تکمیل کے مقام پر پہنچنا یا خدا کی ذات کو بے پردہ دیکھنا یا عین خود ہو جانا یا زندہ ہو جانا اور یہی خودی کی نمودار اور آشکارائی ہے۔ یہی خودی کا کمال ہے۔ یہی اس کی بلندی ہے۔ یہی اس کی تعمیر ہے اور یہی اس کی تربیت ہے۔ بر مقام خود رسیدن زندگی است، ذات را بے پردہ دیدن زندگی است ٭٭٭ چشم بر حق باز گردن زندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است ٭٭٭ بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی، ٭٭٭ خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عین خود بودن کمال است ٭٭٭ چناں با ذات حق خلوت گزینی، کہ او بیند ترا اورا تو بینی، نعرہ انا الحق کا مطلب خودی کا اپنے آپ میں ڈوبنا اور پھر ابھر کر اپنے خدا ہونے کا احساس کرنا خودی کا وہ تجربہ ہے جس سے وہ اپنی تحقیق اور تصدیق کرتی ہے کیونکہ اسے یہ تجربہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ماسویٰ اللہ سے ہٹا کر پوری طرح اپنی گرفت میں دے دیتی ہے یعنی پوری طرح سے خود گیر اور خود دار ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی غیر اس پر اپنی گرفت یا حکومت نہیں رکھتا۔ بخود گم بہر تحقیق خودی شو انا الحق گود صدیق خودی شو ٭٭٭ خودی گیری و خود داری و گلبانگ انا الحق آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات خودی کے انا الحق کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ خودی فی الواقع خدا ہو جاتی ہے یا خدا ہو سکتی ہے بلکہ اس کا مطلب فقط اتنا ہی ہے کہ خودی خدا کی شدید محبت کی وجہ سے عارضی طور پر یہ احساس پیدا کر لیتی ہے کہ وہ خدا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو جب آگ میں رکھ دیا جائے تو وہ ا س قدر سرخ ہو جاتا ہے کہ آگ سے اس کا امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم لوہے کا ٹکڑا لوہے کا ٹکڑا ہی رہتا ہے اور وہ آگ نہیں بنتا جو اس کو گرم کر کے سرخ کر دیتی ہے۔ اسی طرح عبادت گزار مومن پر اس کی شدید محبت کی وجہ سے ایک حالت ایسی وارد ہوتی ہے کہ اس کی خودی اپنے جداگانہ وجود کو قائم رکھتے ہوئے بھی خدا کی محبت میں اس طرح جذب ہو جاتی ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو خدا سے امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ایک سچا عاشق اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ جانتا ہے کہ اس کا یہ احساس کہ وہ خدا ہے ایک غلطی ہے جو کثرت عبادت اور شدت محبت سے پیدا ہوئی ہے لہٰذا رفتہ رفتہ اس کا یہ احساس کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتا ہے اور عاشق پھر محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اور اس کا محبوب الگ الگ ہیں اور ان کا باہمی تعلق فقط معبود اور عبد اور خالق اور مخلوق کا ہے۔ محبوب اس کا خالق اور معبود ہے اور وہ محبوب کا مخلوق اور عبد ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور کئی اور اولیاء اللہ نے اپنے اس تجربہ کا ذکر فرمایا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک عاشق پر جو اپنی آرزوئے حسن کو مطمئن کرنے کے لئے جی بھر کر خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا ہے، یہ تینوں حالتیں گزرتی ہیں۔ کبھی اس کے شعور کی دنیا میں خدا ہی خدا ہوتا ہے اور وہ خود نہیں ہوتا کبھی وہ خود ہی خود ہوتا ہے اور خدا نہیں ہوتا اور کبھی خدا بھی ہوتا ہے اور وہ خود بھی ہوتا ہے اور یہ خودی کی فطرت کا ایک راز ہے۔ یکے گم مے کنم خود را یکے گم مے کنم اورا، زمانے ہر دورا یابم چہ راز است ایں چہ راز است ایں اس تیسری حالت کو نہ ہجران کہہ سکتے ہیں اور نہ وصال۔ اس کے باوجود وہ ہجران بھی ہے اور وصال بھی۔ لہٰذا یہ بات نہ عقل سمجھ سکتی ہے اور نہ عشق۔ ہم باخود وہم با او ہجراں کہ وصال است ایں اے عقل چہ مے گوئی اے عشق چہ فرمائی خودی کا مکمل ہونا یا اپنے خدا ہونے کا احساس پیدا کرنا ایک ہی بات ہے خودی نے ذکر اور فکر اور حسن عمل کے مشاغل کیوں اختیار کئے تھے۔ اگر ہمیں کہیں کہ وہ اپنی آرزوئے حسن کی تکمیل چاہتی تھی یعنی اس کا مقصد اپنی جستجو تھا تو یہ بالکل درست ہے۔ اس جستجو سے اسے جو کچھ حاصل ہواتھا وہ خدا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ گئی تھی۔ لہٰذا اگر ہم کہیں کہ ان مشاغل سے خودی کا مقصد یہ تھا کہ وہ خدا (یعنی خدا کی محبت اور دوستی) کو حاصل کرے اور یا خدائی کی جستجو کرے تو یہ بھی بالکل درست ہے۔ لیکن خدا کی اس جستجو سے اسے جو کچھ حاصل ہوا تھا وہ اس کی اپنی ہی مکمل خودی تھی۔ گویا خودی اگر خدا کی جستجو کرے تو اپنے آپ کو پاتی ہے اور اگر اپنے آپ کی جستجو کرے تو خدا کو پاتی ہے۔ تلاش او کنی جز خود نہ بینی تلاش خود کنی جز اونیابی، انسان کی عقل اور دل اور نظر سب خدا کے کوچے میں گم ہیں۔ جب تک انسان خدا کو نہ پائے نہ اس کی عقل صحیح ہوتی ہے نہ اس کا دل اطمینان پاتا ہے اور نہ اس کی نظر کو حسن کا وہ سامان مل سکتا ہے جس کی آرزو اس کو بے تاب رکھتی ہے لہٰذا انسان کا خدا کی جستجو کرنا در حقیقت اپنی ہی جستجو کرنا ہے۔ من بہ تلاش تو روم یا بہ تلاش خود روم عقل و دل و نظر ہمہ گم شدگان کوئے تو، خدا کو پانا اپنے آپ کو پانا ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال کے ہاں خدا کو تلاش کرنا یا اپنی خودی کو تلاش کرنا، خدا کی خودی میں گم ہونا یا اپنی خودی میں گم ہونا خداکی خودی کو گم کرنا یا اپنی خودی کو گم کرنا خدا کی خودی میں ڈوبنا یا اپنی خودی میں ڈوبنا‘ خدا کی نمود ہونا یا انسان کی نمود ہونا‘ خداکا انسان کو بے حجاب کرنا یا انسان کا خدا کو بے حجاب کرنا خدا کو فاش دیکھنا یا خودی کو فاش دیکھنا‘ خدا کو دیکھنا یا اپنے آپ کو دیکھنا‘ خدا سے خودی کو طلب کرنا یا خودی سے خدا کو طلب کرنا خدا کے ساتھ خلوت گزین ہونا یا اپنے آپ کے ساتھ خلوت گزین ہونا ۔ خدا کے نور سے اپنے آ پ کو منور کرنا یا اپنے نور سے اپنے آ پ کومنور کرنا‘ خدا کی طرف گامزن ہونا یا اپنی طرف گامزن ہونا‘ خد ا سے پیوستہ ہونا یا اپنے آپ سے پیوستہ ہونا۔ ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کے مختلف پیرائے ہیں اور ایک ہی عمل کی مختلف تعبیرات ہیں۔ نمود تیری نمود اس کی نمود اس کی نمود تیری خدا کو تو بے حجاب کر دے خدا تجھے بے حجاب کر دے ٭٭٭ اگر خواہی خدا را فاش بینی خودی را فاش تر دیدن بیا موز ٭٭٭ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب ٭٭٭ محکم از حق شو سوئے خود گام زن لات و عزی ہوس را سر شکن ٭٭٭ چناں با ذات حق خلوت گزینی کہ او بیند ترا‘ اورا تو بینی ٭٭٭ تو ہم بدذوق خودی رس کہ صاحبان طریق بریدہ از ہمہ عالم بخویش پیوستند ٭٭٭ اگرچہ خدا ہونے کا احسا س خودی کا ایک عارضی تجربہ ہوتا ہے ۔ تاہم وہ ان معنوںمیں عارضی نہیںہوتا کہ اس تجربہ کے منقطع ہونے اور اپنی معمولی حالت کی طرف عود کرنے کے بعد خودی کا یہ تغیر صاف طور پر نظر آتا ہے کہ خودی اس تجربہ کی وجہ سے مستقل طور پر خدا کی صفات کے رنگ سے رنگین ہو جاتی ہے اور خدا کے اخلاق سے متخلق ہو گئی ہے اور خدا کی دنیا کو بھی اسی طرح سے بدلنا چاہتی ہے جس طرح سے خدا خود اسے بدلنا چاہتا ہے۔ گویا مستقل طور پر خدا کی معاون بن گئی ہے۔ اہل مغرب سے تو یہ توقع ہی نہیں کہ وہ فطرت انسانی کے اسرار و رموز کو سمجھ سکیں گے۔ لیکن مشرق میں بھی اس حقیقت کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ ہر انسان کی خودی وہ مقام حاصل کر سکتی ہے جو ایک وقت میں منصور حلاج نے پایا تھا اور جسے پانے کے بعد اس نے انا الحق کہا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر انسان کی خودی اپنی قدرتی نشوونما کے نتیجہ کے طور پر بالاخر ایک ایسے مقام پر پہنچتی ہے جہاں وہ خدا کے ہونے کا احساس کرتی ہے۔ اور اس کے بعد وہ خدا کی دنیا کو بھی اسی طرح سے بدلنا چاہتی ہے جس طرح خدا اسے بدلنا چاہتا ہے ۔ اگر اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا جاتا تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی کہ بعض لوگ تو خدا سے بیزار ہیں اور بعض لوگ خدا کے عرفان کے مدعی ہیں اپ؛نی خودی کی نفی کرتے ہیں اور اپنے عرفان کو اپنی خودی کے استحکام اور اثبات کے لیے خدا کی نیابت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اور دنیا کو بدلنے کے لیے ایک زبردست قوت کے طورپر کام میں لاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انسان اب تک اس دنیا میں مشرق کے زیر قیادت نوع بشر کی تکمیل کا وہ کردار ادا نہیں کر سکا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اقبال حلاج کی زبان سے ہمیں بتاتاہے کہ اب مشرق میں ایک مرد قلندر نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور وہ خود اقبال ہے اقبال کا پیغام یہ ہ کہ انسان اپنی خودی کو بیکار نہ کرے۔ اخدا کے حضور میں محکم اور استوار رہے اور اس بحر نور میں ناپید نہ ہو جائے تاکہ دنیا میں خدا کی مرضی کو پورا کر سکے۔ بخود محکم گزر اندر حضورش مشو ناپید اندر بحر نورش ٭٭٭ شاہد ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن بنور ذات حق پیش ایں نورا ربانی استوار حی و قائم چوں خدا خود را شمار ٭٭٭ بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی اقبال نے سنائی اور رومی کی ایک گفتگو کے پیرایہ میں اپنے اس پیغام کی اہمیت کا خود ذکر کیا ہے۔ اس پیغام کا چرچا فردوس میں بھی ہے چنانچہ وہاں سنائی۔ رومی سے کہتا ہے کہ مشرق میں ابھی تک تو وہی ہے بیکار فلسفہ زندگی رائم ہے جو پہلے تھا لیکن حلاج (جس نے انا الحق کا نعرہ لگایا تھا اور جو اس بنا پر خوب سمجھتا ہے کہ انا الحق کے کیا معنی ہیں) یہ روایت کرتاہے کہ مشرق میں ایک قلندر نے خودی کایہ راز فاش کر دیا ہے کہ تعمیر خودی میں خدائی ہے یعنی تعمیر خودی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا کے اوصاف اور اخلاق اختیار کرتا ہے او ر خدا ہی کی طرح دنیا کو بدلنا چاہتا ہے۔ فردوس میں رومی سے یہ کہتا ہے سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آتش حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش خودی کا یہ احساس کہ وہ خدا ہے‘ عارضی ہونے کے باوجود خودی کے اندر ایک عظیم الشان مستقل انقلاب پیدا کر جاتا ہے جس کے بعد خودی کے لیے ایک بالکل ہی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ خودی کے اس انقلاب کے مختلف پہلو حسب ذیل ہیں۔ غیر اللہ سے مکمل کنارہ کشی خودی کی قوت کا راز چونکہ خودی میں خداکے سوائے اور کسی چیز کی خواہش باقی نہیں رہتی خودی کا عمل غلط خواہشات اور تصورات کے اثرسے پوری طرح آزاد ہو جاتا ہے اور خودی خدا کی محبت کے لیے نہایت آسانی کے ساتھ ہر قسم کی تکلیفیں اٹھا سکتی ہے۔ بلکہ اس قسم کی تکلیفوں کا کوئی احساس اس میں باقی نہیںرہتا۔ اقبال کی اصطلاح میں فقر خودی کی اس حالت کا نام ہے جب وہ غیر اللہ سے پوری طرح بے تعلق ہو کر خڈا سے اپنا تعلق جوڑ لیتی ہے۔ جب تک خودی فقر کے اس مقام کو نہیں پاتی یعنی جب تک اس کی ساری محبت باطل تصورات سے (جن میں انسان کی اپنی سفلی خواہشیں اور الفتیں بھی شامل ہوتی ہیں) کٹ کر خدا کے لیے نہیں ہو جاتی۔ خودی خدا سے پورا قرب حاصل نہیں کر سکتی اوراس پر خود فراموشی اور مستی اور سرور کی وہ کیفیت وارد نہیں ہو جاتی جسے اقبال خودی میں ڈوبنے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کیفیت کا وارد ہونا ہی اس با ت کی دلیل ہے کہ اب خودی کی ساری محبت غیر اللہ سے کٹ کر اللہ کے لیے ہو گئی ہے۔ لہٰذا خودی جب اس حالت سے عود کرتی ہے تو اپنی محبت کا سارا خلوص اور اپنی ساری یک بینی‘ یک اندیشی اور یک باشی جن کی وجہ سے وہ اس حالت تک پہنچتی ہے۔ اپنے ساتھ لاتی ہے۔ پھر ہو کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی کہ جو خدا نہ چاہتا ہو اور بڑے سے بڑا خطرہ کے باوجود کسی ایسے کام سے رک نہیں سکتی جو خدا چاہتا ہو۔ وہ چاہتی ہے کہ دنیا کی تمام قوتوں کو مسخر کر کے باطل کو فنا کرنے اور حکم حق کو جاری کرنے کے لیے کام میں لائے اور وہ اس غرض کے لے ہر خطرہ کو مول لینے پر آمادہ ہو جاتی ہے شک اور خوف کی تمام قسمیں اس سے رخصت ہو جاتی ہیں اور وہ ایک بے پناہ قوت عمل کی مالک بن جاتی ہے یوں سمجھیے کہ وہ ایک تیز تلوار بن جاتی ہے جو باطل کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اس تلوار کو تیز کرنے کے لیے لا الہ الااللہ کا پختہ یقین یا فقر یا عشق اسے پہلے فسان کا کام دے چکا ہوتاہے۔ خودی کا سر نہاں یہ ہے کہ وہ خدا سے محبت کرتی ہے اور خدا کے سوائے کسی اور محبوب کو قبول نہیںکرتی۔ خودی کی اصل حقیقت کیا ہے لا الہ الا اللہ یعنی خدا اور صرف خدا کی محبت کا ایک جذبہ۔ خودی ایک تلوار ہے جو لا الہ الا اللہ کی فساں پر تیز کی جاتی ہے۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ تیغ خودی کا کردار جب خودی کی تلوار فقر کی سان پر تیز کی جاتی ہے تو اس میں ایک زبردست قوت پیدا ہو جاتی ہے پھر ایک سپاہی کی ضر ب بھی وہ کام کرتی ہے جو پوری فوج سے بن آتا ہے۔ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر تیغ خودی اک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ بعض لوگ لا الہ الا اللہ کو چند الفاظ سمجھتے ہیں لیکن خودی کے لیے اس کلمہ کی حیرت انگیز تاثیر کو دیکھا جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کلمہ الفاظ کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ ایک شمشیر برہنہ ہے جو باطل کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ ایں دو حرف لا الہ گفتار نیست لا الہ جز تیغ بے زنہار نیست جب خودی کے اندر ایسا انقلاب پیدا ہوجائے توپھر یہ بات کوئی تعجب انگیز نہیںہوتی بلکہ معمولی نظر آتی ہے کہ خود ی اپنی قوت عمل سے باطل کو نیست و نابود کر کے حق پرستوں کی ایک نئی دنیا وجود میں لے آئے۔ تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے جس انسان کے اندر خودی کا یہ انقلاب پیدا ہو جاتاہے وہ خدا کا عبد (یعنی بندہ) بن جاتا ہے۔ عبدہ کائنات کی تخلیق کا مخفی راز ہے۔ کیونکہ کائنات اسی کو وجود میں لانے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لاالہ اگر تیغ زنہار ہے تو عبدہ اس تلوار کی دھار ہے۔ عبدہ حاصل کائنات اور حاصل تخلیق ہے۔ مارمیت اذرمیت ولا کن اللہ رمی(جب تم نے اپنے ہاتھ سے ریت پھینکی تھی تو تم نے نہیںپھینکی تھی بلکہ خدا نے پھینکی تھی) کی آیت کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدہ خدا کا ہاتھ بلکہ خود خدا بن جاتا ہے۔ لا الہ تیغ و دم او عبدہ فاش تر خواہی بگو ہو عبدہ عدہ چند و چگون کائنات عبدہ راز درون کائنات مدعا پیدا نہ گردد زیں و زیست تانہ بینی از مقام مارمیت خودی کا یہ انقلاب مومن کی اپنی ترقی کے نقطہ کمال پر اسلیے حاصل ہوتا ہے کہ وہ ماسویٰ اللہ کی محبت سے مکمل طورپر کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ خود ی کا کمال خدا کی مخلصانہ محبت سے حاصل ہوتا ہے اور خدا کی مخلصانہ محبت خودی کے کمال سے ۔ مومن کے یہ دونوں اوصاف درحقیقت ایک ہی وصف کے دو پہلو ہیں۔ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب دنیا کی ہر چیز سے کٹ جانا خدا کو پانے کی اور اپنے آ پ کو پانے کی ابتدائی شرط ہے۔ تو ہم بدذوق خودی رس کہ صاحبان طریق بریدہ از ہمہ عالم بخویش پیوستند مقام فقر توحید کامل کے اسی مقام کو اقبال فقر کا نام دیتا ہے کیونکہ اس مقام پر مومن فقط خدا کی رضاکا طالب ہوتا ہے اور دنیا سے بالکل بے نیاز ہو جاتا ہے۔ لیکن مومن کا فقر کافر کے فقر سے مختلف ہوتاہے۔ کافر دنیا کو چھوڑ کر دشت و در میں خلوت گزین ہو جاتا ہے اور پھر دنیا سے کوئی سروکارنہیں رکھتا۔ لیکن مومن دنیا کو صرف ایک مقصود اور محبوب کی حیثیت سے ترک کرتاہے لیکن خدا کی محبت کی تکمیل یعنی اپنے اصل محبوب اور مقصود کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر کام میں لاتا ہے۔ پھر دنیا اس کی حاکم یا آقانہیں رہتی بلکہ محکوم یا غلام بن جاتی ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز قسم کی مادی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ اخلاقی اور روحانی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے قبضہ قدرت میں لائے تاکہ ان کی مدد سے محبوب کے مقاصد کو زیادہ آسانی سے پورا کر سکے۔ اس طرح سے مومن کے ترک کانتیجہ تسخیر اور تعمیر کائنات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری مومن کے فقر کا اصل مقصد دنیا کو ترک کرنا نہیں بلکہ دنیا کو بزور بازو بدل کر درست کرنا ہوتاہے اسی لیے اقبال کو مومن کے فقر کو فقر غیور بھی کہتا ہے۔ یعنی ایسا فقر جو باطل کو برداشت نہیں کرتا۔ لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر غیور ترک جہاں کا ذکر کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ اسلام میں ترک جہاں کا مطلب تسخیر جہاں ہے۔ اے کہ از ترک جہاں گوئی مگو ترک ایں دیر کہن تسخیر او بعض غیر مسلموں کا یہ کہنا قرآن پر اتہام ہے کہ وہ ترک جہاں کی تعلیم دیتا ہے۔ کیا قرآن کی اسی تعلیم نے مومن کو دنیا کا حکمران اور مہ و پروین کا غلام نہیں بنا دیا تھا۔ اسی قران میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پروین کو غلام قرآن کا فقر بعض لوگ چنگ ورباب کی موسیقی یا بھنگ اور شراب کی مستی یا رقص اور سرود کی لذت کو فقر سمجھتے ہیں ۔ لیکن قرآن کا فقریہ نہیں۔ قرآن جس فقر کی تعلیم دیتاہے وہ ہر چیز کامحاسبہ کرتا ہے تاکہ یہ دیکھے کہ نیک کیا ہے اور بد کیا۔ زیبا کیاہے اور زشت کیا ہے۔ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ کونسی چیز رکھنے کے قابل ہے اور کونسی فنا کر نے کے لائق مومن کے فقر کا نتیجہ کائنات کی قوتوں کی تسخیر ہے۔ اس کے ذریعہ سے مومن خدا کی صفات کے رنگ میں رنگا جاتاہے۔ کافر کا فقر یہ ہے کہ بدنی خواہشات کو ترک کر کے خدا کی جستجو میں لگ جائے۔ مومن کا فقر یہ ہے کہ خودی کی تلوا رکو لا الہ الا اللہ کی فسان پر تیز کیاجائے۔ وہ خودی کو مارنا اور سوختہ کرنا ہے اور یہ خودی کو چراغ کی طرح روشن کرنا ہے۔ جب فقر آشکار ہوتا ہے تو چاند او ر سورج بھی اس کے خوف سے لرزہ براندام ہوتے ہیں۔ بدروحنین کے معرکے اور میدان کربلا میں حسین کی تکبیر فقر آشکارکے مظاہر ہیں۔ جب سے فقر آشکارائی کے ذوق سے عاری ہوا ہے مسلمان قوم کا وہ جلال باقی نہیں رہا۔ فقر قرآن احتساب ہست بود بے رباب و مستی و رقص و سرود فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیر او مالا صفات آن خدا را جستن از ترک بدن ایں خودی را بر فسان حق زدن آن خودی را کشتن دوا سوختن ایں خودی را چون چراغ افروختن فقر چوں عریاں شود زیر سپہر از نیست اوبلر زد ماہ و مہر فقر عریاں گرمی بدر و حنین فقر عریاں بانگ تکبیر حسین فقر را تا ذوق عریانی نماند‘ آں جلال اندر مسلمانی نہ نماند فقر کے معجزات جب صاحب فقر مومن اپنے محبوب کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے میدان میں آنے کا عزم کرتاہے تو چونکہ وہ خدا کی مرضی کے عین مطابق اور کائنات کے ارتقا کی سمت میں اور قول کن کی مخفی قوتوں کو آشکار کرنے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس کو خدا کے ایک مخفی انتظام سے اس کی پراسرار حکمت سے اور اس کے کام کو آسان بنانے کے لیے اس کے مناسب حال کچھ غیر معمولی قوتیں دی جاتی ہیں جن کے اصل سبب کو عا م لوگ نہیں جانتے کیونکہ وہ دراصل فقر کی کرامات یا فقر کے معجزات کے طور پرہوتی ہیں مثلاً کسی صاحب فقر مومن کو غیر معمولی علم دے دیا جاتاہے۔ کسی کو دین کی حکمت سمجھا دی جاتی ہے ۔ کسی کو غیر معمولی دانائی اور بصیرت عطا ہو جاتی ہے۔ کسی کو دلکش تقریر یا تحریر کا جوہر دے دیا جاتاہے۔ کسی کو جاذب قلوب شعر کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کسی کو قیادت اور لیڈر شپ کی غیر معمولی اہلیت دے دی جاتی ہے۔ کسی کے لیے لوگوںکے دلوں میں کشش پیدا کر کے مرجع خلائق بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کو سپہ سالار بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کوسلطنت‘ کسی کو اختیار اور اقتدار اور کسی کو بادشاہت اور تخت و تاج کے انعامات دے دیے جاتے ہیں ۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: فقر کے ہیں معجزات تاج و سر پر و سپاہ فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کاشاہ ٭٭٭ خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے جس کو سلطانی ٭٭٭ خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل چونکہ فقر کے مقامات اور درجات ہزاروں ہیں۔ اس کے انعامات بھی ہزاروں ہیں۔ کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے پردہ روح قرآنی تاہم اس کامطلب یہ نہیں کہ جس شخص کو ان نعمتوںمیں سے کوئی مل جائے تو وہ اس کے مقام فقر کی دلیل یا علامت ہو گی۔ کیونکہ بعض وقت یہ نعمتیں ایسے انسانوں کو جو فقر کے مقام پر نہ ہوں۔ ان کی آزمائش کے لیے بھی دی جاتی ہیں تاکہ دیکھا جائے کہ نعمت پانے والا خدا کا شکر بجا لاتا ہے یا نہیں۔ صبغۃ اللہ جب خدا کا عاشق خودی میں ڈوب کر ابھرتا ہے تو اس کی خودی خدا کی صفات حسن کے رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ جس طرح سے ایک سفید کپڑا جب کسی رنگ میں ڈبویا جائے تو اسی رنگ کو اختیار کر لیتا ہے ۔ پھر وہ خدا کے حسن سے ایک نیا حسن‘ خدا کے نور سے ایک نیا نور‘ خدا کے علم سے ایک نیا علم‘ خدا کی زندگی سے ایک نئی زندگی‘ اس کی قوت سے ایک نئی قوت اور اس کی محبت سے ایک نئی محبت لے کر آتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کی خودی خدا کی صفات کو جذب کر کے خدا کے اخلاق سے مستخلق ہو جاتی ہے۔ اور وہ خدا کے جمال کاایک عکس بن جاتا ہے ۔ اس کے نیک و بد‘ زت و زیبا‘ خوب و ناخوب اور محمود و نامحمود کے امتیاز کا معیار وہی ہوتا ہے جو خدا کا ہے۔ اس کا عدل وہ معمولی عام آدمیوں کا عدل نہیں رہتا۔ جو ہمیشہ ان کی اپنی سفلی اغراض سے ملوث اور ناقص تصورات کی ناپاک محبت سے آلودہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا عدل وہ اعلیٰ درجہ کا خالص اور صحیح عدل ہوتا ہے جو صرف خد اکی محبت کے منبع سے صادر ہوتا ہے اسی طرح سے اس کا صدق‘ اس کا کرم‘ اس کا حیا‘ اس کی عفت اور پاکیزگی اس کا رحم اور اس کی تمام اخلاقی صفات چونکہ خدا کی کامل اور خالص محبت سے سرزد ہوتی ہیں بلند ترین درجہ کی ہوتی ہے۔ رنگ او برکن مثال او شوی در جہان عکس جمال او شوی یہی خدا کا وہ رنگ ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں ہے کہ خدا کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہے اور یہ رنگ خدا کی عبادت سے انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ (صبغتہ اللہ ومن احسن من اللہ صبغتہ و نحن لہ عابدون) ہر اخلاقی قدر اتنی ہی قسموں یا درجوںکی ہوتی ہے ۔ جتنے انسانوں کے تصورات حسن یا نظریات زندگی ہوتے ہیں اگر کسی شخص کا تصور ح سن پست ہو گا تو اس کا عدل یا صدق بھی اسی نسبت سے پست ہو گا ۔ سچا عدل یا سچا صدق صرف خدا کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور ایک خدا شناس مومن ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ خودی پر خدا کا رنگ خدا کی گہری اور مخلصانہ عبادت اور محبت سے چڑھتا ہے۔ اس محبت کی وجہ سے خودی خدا کی صفات کے حسن کو جذب کرتی ہے اور ہوس کے بتوں کو توڑ کر تمام رزائل سے پاک اور تمام فضائل سے آراستہ ہو جاتی ہے۔ محکم از حق سوئے خود گام زن لات و عزائے ہوس را سر شکن خدا کی عبادت اورمحبت سے انسان کی خودی خدا کی صفات کو کس طرح سے جذب کر لیتی ہے؟ ارو کس طرح سے مستخلق باخلاق اللہ ہو جاتی ہے؟ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جذب کرنا زندگی کا خاصہ ہے اگر زندگی حیاتیاتی سطح پر غذا سے اپنی ضروریات کے مادی ذرات کو جذب کر کے نشوو نما پاتی ہے تو نفسیاتی یا نظریاتی سطح پر صفات حسن کو جذب کر کے نشونما پاتی ہے۔ حسن خودی سے وہی نسبت رکھتا ہے جو غذا جسم سے رکھتی ہے۔ جاوید نامہ میں جہاں دوست نے جو کام نو باتیں کہیںہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے گلاب کے پھول سے پوچھا کہ تم بادوخاک سے یہ خوشنما رنگ اور یہ دل نواز خوشبو کیسے حاصل کرتے ہو تو گلاب کے پھول نے جواب دیا کہ تم بجی کی رو سے و خاموش ہوتی ہے کسیکا پیغام کیسے سن لیتے ہو۔ جس طرح تم برق سے پیغام حاصل کر لیتے ہو جس میں بظاہر کلام کااوصف نہیں ہوتا میں باد و خاک سے جن میں رنگ و بو نہیں رنگ و بو حاصل کر لیتا ہوںَ دونوں کا انحصار زندگی کی اس خاصیت پر ہے کہ اپنی فطرت سے مناسبت رکھنے والی چیزوں کو جہاں سے مل جائیں جذب کر لیتی ہے اگر زندگی کے اندر یہ خاصیت نہ ہوتی تو وہ اپنے آپ کو قائم نہ رکھ سکتی۔ انسان کا جذبت ظاہر ہے کیونکہ وہ حسن سے حسن کو جذب کرتاہے لیکن میرا جذب ظاہر نہیں کیونکہ میں بظاہر غیر حسن سے حسن کو جذبت کر تا ہوں۔ من بگل گفتم بگو اے سینہ فچاک چوں بگیری رنگ و بو از باد و خاک گفت گل اے ہوشمند رفتہ ہوش چوں پیامے گیری از برق خموش جان بتن مار از جذب ایں و آن جذت تو پیدا و جذب ما نہاں خودی غیر محدود اور غیر فانی ہے چونکہ انسان کی خودی خدا کے ساتھ پیوست ہو کر خدا کی صفات سے حصہ لیتی ہے۔ وہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کے اعتبار سے خدا کی طرح غیر محدود ہے اگرچہ وہ ایک چھوٹی سی آب جو نظر آتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا تو کوئی چارہ نہیں خودی اپنی ممکنات کے اعتبار سے محیط بیکراں اس لیے ہے کہ وہ ہمہ تن خدا کی آرزو ہے اور خدا غیر محدود اور بیکراں ہے۔ چونکہ خدا غیر محدود اور ضروری ہے کہ غیر محدود ہونے کی آرزو خدا کی آرزو کے اندر موجود ہو۔ غیر محدود خدا کے لیے خودی کی آرزو اس بات کا ثبوت ہے کہ خودی کو غیر محدود ہونے کی آرزو بھی ہے اقبال اس آرزو کی ترجمانی کرتاہے۔ تو ہے محیط بے کراں میں ذرا سی آبجو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر اور پھر یہ آرزو ایسی ہے جو تشفی پانے کے لیے پیدا کی گئی ہے کیونک اس کی تشفی پانے سے ہی کائنات اپنی تکمیل کے مرحلے طے کر سکتی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی ضمانت ہے کہ خودی بے کنار ہو کر رہتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ خودی اپنی فطرت اپنی ممکنات اور اپنی بالقوہ صلاحیتوں کی وجہ سے بے کنار ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کے شعر میں ہم کنار ہونے کی آرز و بھی درحقیقت بے کنار ہونے کی آرزو ہی ہے پھر چونکہ خودی خدا کی صفات سے حصہ لیتی ہے اوروہ اپنی ممکنات کے اعتبار سے غیر محدود ہی نہیں بلکہ غیر فانی بھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابدیت میں بھی خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ زاہد کا یہ مقولہ کہ خودی فانی ہے اس بات کو نظر انداز کر جاتا ہے کہ خودی غیر محدود ہے ۔اگرچہ وہ بظاہر ایک حباب کی طرح محدود نظر آتی ہے۔ لیکن اس حباب میں ایک دریائے ناپیداکنار چھپاہوا ہے۔ اگر خودی اس بنا پر غیر محدود ہے کہ وہ خدا کی صفات میں حصہ لیتی ہے تو اس بنا پر غیر فانی کیوںنہیںہو سکتی۔ اگر زاہد ظاہر بین کو خودی کا غیر محدود ہونا سامنے نظر آ رہا ہے تو وہ اس سے یہ نتیجہ کیوںنہیں نکالتا کہ وہ غیر فانی بھی ہے۔ اے زاہد ظاہر بین گیرم کہ خودی فانی است آیا تو نمے بینی دریا بحباب اندر دل کی شہادت چونکہ اس مقام پر مومن خداکی ذات کو بے پردہ دیکھ لیتاہے۔ اور اس کی آرزوئے حسن جو اس کو بے قرار رکھتی تھی پوری طرح سے تشفی حاصل کر لیتی ہے۔ یعنی اتنی تشفی جتنی کہ ا س کی خودی کی استعداد کے پیش نظر اس دنیا میں ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ خدا کی ہستی کا جسے وہ پہلے اعتقادی طورپر اور بعد میں عملی طور پر مانتا تھا۔ اب ذاتی گواہ بن جاتا ہے اور اس کا دل کو ایک مکمل اور مستقل اطمینان نصیب ہوتا ہ ۔ کیونکہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے کائنات کے راز اورانسانی زندگی کا مدعا معلوم کرلیا ہے۔ اب خبر نہیں بلکہ نظر (یعنی مشاہدہ ) اس کے یقین و ایمان کا سامان بنتی ہے۔ اس حالت سے پہلے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو عربی زبان کو جاننے کے باوجود اس طرح سے جیسے کوئی شخص کسی اجنبی زبان کے الفاظ کو مطلب سمجھے بغیر دہرا رہا ہو۔ لیکن قلب کی اس شہادت اور دل کی اس تصدیق کے بعد وہ لا الہ الا اللہ کے معنی کی تہہ تک پہنچ جاتاہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ جب تک دل گواہی نہ دے کلمہ توحید کا مطلب پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا اللہ لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی لیکن دل کی گواہی یا تصدیق کی نعمت انسا ن کو خدا کی محبت کی انتہائی منزل پر ہی نصیب ہو سکتی ہے۔ یہی دل کی گواہی یا تصدیق خودی کے زندہ ہو نے کی شرط ہے۔ لا الہ کوئی بگو از روئے جان تاز اندام تو آید بوئے جان‘ عشق اور عمل سے خودی کا استحکام اگر مومن کا نمایاں وصف علم ہو تو خودی کے انقلاب اوراستحکام کے بعد اس کا علم کمال پر پہنچ جاتا ہے اور انسان اور کائنات کے اسرار و رموز اس پر اس طرح سے آشکار ہوتے ہیں کہ گویا جبریل بھی اس استحکام کے بعد ا س کا عشق محرک عمل کی حیثیت سے کمال پر پہنچ جاتاہے اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عمل کی قوت سے ایک قیامت برپا کر دیتا ہے۔ خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل اس حالت کمال کو پانے کے بعدجب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اس کی آیات کے مطالب اور معانی کو اورطرح سے سمجھتا ہے کیونکہ پھر اسے ایسا نظر آتا ہے کہ یہ معانی اور مطالب خود اس کے دل کے اندر پہلے ہی سے موجود تھے۔ ایسے ہی مومن کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو پا لیتا ہے تو اسے ایک علم حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کی آیات بینات پہلے ہی اس کے دل کے اندر موجود تھیں بل ھو ایات بینات فی صدور الذین اوتو العلم (بلکہ قرآن ایسی آیات بینات پر مشتمل ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم دیا جاتا ہے پہلے ہی سے موجود ہیں) گویا وہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن خود اس کے ضمیر پر نازل ہوا ہے اور جب یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے توآیات قرآنی کے معانی او رمطالب کی گرہیں اس پر کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اور جب تک یہ صورت حال پیدا نہ ہو رازی اور صاحب کشاف بھی اس کے لیے یہ گرہیں کھول نہیںسکتے۔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف جب تک کہ وہ اس حالت کو نہیںپہنچتا یعنی ان معنوںمیںخود صاحب قرآن نہیں بن جاتا وہ بار بار قرآن کی تلاوت کرنے کے باوجود قرآن کے مطالب پر حاوی نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا وہ قرآن پڑھنے میں ہی لگا رہتا ہے اور قرآن پر عمل کرکے خدا کی دنیا کو بدلنے کا وقت اس پر نہیں آتا۔ نہیں کتاب سے ممکن تجھے فراغ کہ تو کتاب خوان ہے مگر صاحب کتاب نہیں لیکن جب وہ اس حالت کمال کو پہنچ جاتاہے تو اس کے اپنے ضمیر کی روشنی دین کے اسرار و رموز اس پر منکشف کرتی ہے ۔ اس کے بغیر وہ کسی طریق سے ان اسرار و رموز کو کبھی نہیںجان سکتا۔ جب تک وہ اس حالت کو نہ پہنچے کہ وہ دین پر مجبوری سے عمل کرتا ہے رغبت سے عمل نہیںکرتا اور ظاہر ہے کہ جو شخص خدا کے احکام کی تعمیل مجبوری سے کرتا ہے وہ اس شخص کی نسبت خداسے بہت دورہے جو رغبت اور محبت سے ان کی تعمیل کرتاہے۔ فاش مے خواہی اگر اسرار دیں جز با عماق ضمیر خود مبیں گر نہ بینی دیں تو مجبوری است ایں چنیں دیں از خدا مہجوری است گویا ایسی حالت میں مومن فقط قاری نہیں رہتا بلکہ خود قرآن بن جاتاہے۔ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن علم عشق سے راہ نمائی پاتا ہے پھر جب وہ انسانوں کے پید اکیے ہوئے علوم پر نگا ہ ڈالتا ہے تو اسے یہ معلوم کرنے میںکوء دقت نہیںہوتی کہ کسی فلسفی یا حکیم یا سائنس دان یا عالم دین یا مفتی یا مجتہد یا مفسر یا فقیہ کی کونسی بات درست ہے اور کون سی غلط۔ اس کا علم خود اس کو بتاتا ہے کہ ان لوگوں کے علم نے جو خدا کی محبت کے کما ل سے محروم ہیں جو غلط حقائق کے بت کھڑے کر لیے ہیں ان کو کس طرح سے توڑا جا سکتا ہے اور ان کی جگہ صحیح حقائق کو کس طرح سے رکھا جا سکتا ہے۔ وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم عالم دین یا فقیہ منطق کی نازک خیالیوں یا لغت کی موشگافیوں سے انہی علمی مشکلات کو حل کرنا چاہتا ہے اور پھر بھی حل نہیںکر سکتا۔ لیکن ایسا مومن کلمہ توحید کے نور تجسس کی مدد سے ہر علمی حقیقت کو باسانی دیکھ لیتا ہے کیونہ وہ اس کے دل میں پہلے ہی موجود ہوتی ہے اور اسے دیکھنے کے لیے اسے فقط اپنے دل میں جھانکنا پڑتا ہے او ر اسے منطق اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیںرکھتا فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا خودی کے اسی مقام کو اقبال تجلی (یعنی خدا کے نور کا چمکنا) کہتا ہے اور اس بات پر زور دتیا ہے کہ تجلی کے بغیر انسان بے یقینی اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے اپنے شکوک و شبہات ہی اس کی ر وحانی موت کا موجب بن جاتے ہیں۔ گویا مقام تجلی انسان کے شکوک و شبہات کو دور کر کے ا س کے یقین کو محکم کرتاہے اور اس کی عقل اور اس کے دین کی صحیح راہ نمائی کرتاہے۔ تجلی کے بعد انسان کی عقل اسے خدا کے اور قریب لاتی ہے اور اس سے دور نہیں کرتی اور وہ احکام دین کی پابندی کسی مجبوری سے نہیںکرتا بلکہ ایک ایسی خواہش سے کرتا ہے جسے وہ روک نہیںسکتا۔ بے تجلی مرد دانا رہ نبرد از لکد کوب خیال خویش مرد بے تجلی زندگی رنجوری است عقل مہجوری و دیں مجبوری است مومن خدا کی تقدیر بنتا ہے خودی کے انقلاب کے بعد مرد مومن خدا کی تقدیر بن جاتا ہے۔ خدا جب کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے قول کن کہتاہے اوروہ ہو جاتی ہے ۔ کائنات قول کن سے وجود میں آ کر ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ قول کن کائنات میں خدا کی مرضی کا سرچشمہ ہے اور خدا کی مرضی اور خدا کی تقدیر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کائنات میں عمل تخلیق و تربیت کو آگے بڑھانے اور جار رکھنے کے لیے جو قوت کارفرما ہے وہ خدا کے قول کن کی یہی قوت ہے۔ دنیا کے تمام واقعات اور تمام تغیرات خدا کی تقدیر کا نتیجہ ہیں اور خدا کے قول کن کی قوت سے اور صرف اس ایک مقصد کے تحت جو قول کن میںپوشیدہ ہے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ جب بندہ مومن مقام تجلی پر پہنچنے کے بعدیہاں تک خدا کی مرضی کا تابع ہوجاتا ہے کہ اس کی مرضی باقی نہیںرہتی اور وہ اپنی مرضی کو خدا کی مرضی میں گم کر دیتا ہے۔ یعنی وہ خدا کی مرضی کو ہی اپنی مرضی بنا لیتا ہے تو وہ خدا کی مرضی یا خدا کے قول کن کا آلہ کار بن جاتا ہے اوراس کی مرضی خدا کی مرضی کا راستہ بن جاتی ہے۔ جس س ہو کر وہ اپنے آپ کو پورا کرنے کے لیے ظہور پاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ خدا کے قول کن کی قوت کے اظہار اور عمل کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مومن کو خواہ اس بات کا علم ہو کہ کیا ہو رہاہے۔ لیکن خدا کی مرضی مومن کی مرضی میں خودبخود نمودار ہونے لگتی ہے۔ جو بات اس کے منہ سے نکل جاتی ہے وہ ہو جاتی ہے۔ بند ہ مومن گویا ہمہ تن خدا کی مرضی یا خدا کی تقدیر بن جاتا ہے۔ کیونکہ ایسی حالت میں خدا کا قول کن اس کے دل میں اور اس کی زبان کی صورت میں اختیار کر لیتا ہے گویا اس کی خودی اپنی مرضی کو ناپید کر کے خد اکی مرضی کا راستہ بن جاتی ہے۔ چوں فنا اندر رضائے حق شود بندہ مومن قضائے حق شود پہلے صور ت حال یہ تھی کہ جو کچھ خدا چاہتا ہے بندہ مومن کوشش کرکے وہی چاہتا تھا۔ اب خودی کے بلند ترین مقام پر صورت حال یہ ہو جاتی ہے کہ جو کچھ بندہ مومن چاہتا ہے وہی خدا بھی چاہنے لگ جاتا ہے۔ یعنی وہی کچھ خدا کی مرضی بن جاتاہے۔ پہلے اس کی مرضی خدا کی مرضی میں گم تھی۔ اب خدا کی مرضی اس کی مرضی میںگم ہو جاتی ہے۔ اولیا ء اللہ کی کرامات اور دعائوں کی قبولیت کا باعث یہی حقیقت ہے یہ بات اس قدر عجیب ہے کہ جو لوگ خودی کے اس مقام کی خصوصیات سے بے خبر ہیں شاید اس پر یقین نہ کر سکیں۔ در رضایش مرضی حق گم شود ایں سخن کے با در مردم بود اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ مومن کے لیے زیبا نہیں کہ خدا کی تقدیر کا گلہ کرے۔ وہ خود خدا کی تقدیر بن سکتا ہے اور اسے خدا کی تقدیر بننا چاہیے۔ عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے مومن کو چاہیے کہ خدا کی عبادت اور اطاعت سے خودی کو ایسے بلند مقام پر پہنچا ئے کہ خدا خود چاہے کہ میرا بندہ مومن جو چاہتاہے میں وہی کروں۔ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے اگر بندہ مومن یہ کہے کہ یہ دنیا مجھے پسند نہیں۔ میں ایک نئی دنیا بنانا چاہتا ہوں۔ جو تیری مرضی کے مطابق ہو تو خدا اسے کہے کہ ہاں ایسا ہی کر لو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اقبال نے اس حقیقت کو ایک شعر میں بیان کیا ہے اور جو خدا اور بندہ مومن کے درمیان ایک مکالمہ کی صورت میں ہے۔ خدا نے بندہ مومن سے پوچھا کہ ہماری یہ دنیا تمہیں سازگار ہے تو بندہ مومن نے جواب دیا کہ سازگار نہیں کیونکہ آپ کی اور میری مرضی کے خلاف ہے خدا نے کہا اچھا اسے تو ڑ پھوڑ کر نئی دنیا بنا دو۔ ہم تمہارے ساتھ تعاون کریں گے اور جیسی دنیا تم چاہتے ہو ویسی ہی بنا دیں گے۔ گفتند جہان ما آیا بتومے سازو گفتم کہ نمے ساز و گفتند کہ برہم زن خدا کی محبت کے بلند ترین مقام پر پہنچ کر عاشق کو خود نظر آ جاتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی کا آلہ کار بن گیا ہے اور اب تقدیر کے مقاصد کے اس کے خیال‘ قول اور فعل کی وساطت سے پورے ہوںگے۔ اس کے چشم سرمہ سا کی محبت (یعنی خدا کا عشق) کیا چیز ہے۔ بس کچھ نہ پوچھیے۔ تقدیر کی گہرائیوں (یعنی تقدیر کے گہرے اور مخفی مقاصد کو) اپنے ہاتھ میں لے لینے سے کم نہیں ۔ نظر آئیں تجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں نہ پوچھ اے ہم نشین مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے جو شخص خدا کی مخلصانہ عبادت اور اطاعت کے ذریعہ سے خدا کے عشق کو درجہ کمال پرپہنچاتا ہے اور خدا کے جمال کا سچا عاشق بن جاتا ہے وہ تمام موجودات کا سردار یا حکمران بن جاتا ہے کیونکہ خدا جوکائنات کا اصل حکمران ہے وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ ہر کہ عاشق جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را خدا کی تیغ بے نیام لیکن خدا کی محبت کے بلند ترین مقام پر پہنچنا اپنے نفس کے ساتھ جنگ کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا انسان کا دل جنگاہ حق و باطل ہے جس میں اگر حق فتح یاب ہو جائے او ر انسان حق پرست بن کر خدا کے عشق کو کمال پر پہنچائے اور خودی میں ڈوب جائے تو اس کا نتیجہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ انسان کا خودی میں ڈوبنا خدا کی محبت میں جذب ہونا گویا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوبنا ہے۔ جب مومن اس ڈوبنے کے بعد ابھرتاہے تو تیغ بے نیام ہوکر باہر آتا ہے اورپھر جس طرح سے اس نے اسے اپنے دل کی جنگاہ حق و باطل میں باطل کا استیصال کر کے حق کو فتح یاب کیا تھا اور خدا کی مخلصانہ محبت کا نقش اپنے دل پر ثبت کیا تھا اسی طرح سے وہ خارجی دنیا کی رزم گاہ حق و باطل کا استیصال کر کے حق کو فتح یاب کرتا ہے اور خدا کی مخلصانہ محبت کا نقش دنیا پر ثبت کرتا ہے۔ اس طرح سے اس کے وجود ی تیغ بے یام خدا کی تقدیر کے مقاصد کو پورا کرتی ہے: نقش حق اول بجان انداختن باز او اور جہان انداختن ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کیفیت کو اپنے آپ پر وارد کر کے دیکھے کہ آیا وہ باطل کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے دلیر اور نڈر ہوتاہے یا نہیں اور ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے تقدیر کے مقاصد کو پورا کرتا ہے یا نہیں۔ ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا لوح و قلم جب مومن اپنی خودی کے مقام پر پہنچ کر خدا کا قول کن یا خدا کی تقدیر بن جاتا ہے تو اس کا مطلب دوسرے الفاط میں سوائے ا س کے اور کیا ہو تا ہے کہ لوح و قلم اس کے ہاتھ میں دیے جاتے ہیں اور وہ خدا کی تقدیریں خود لکھتا ہے بلکہ اس مقام پر وہ خود لوح محفوظ (الکتاب) بن جاتا ہے اور زمان و مکان کی حدود کو پھاند جاتا ہے۔ پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ کائنات (گنبد آبگینہ رنگ) میں گم ہے بلکہ کائنات اس کی خود میں گم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ پھر وہ اس کی خود ی میں بحر بیکراں میںایک حباب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ مومن کی بالقوہ صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ چاہے تو آشکار کر سکتا ہے۔ لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے وجود میں حباب تاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ مومن اپنے مقام کو سمجھے اور اپنی قدر کو جانے لیکن وہ ابھی تک اپنے مقام سے نا آشنا ہے اور اپنی قدر نہیں جانتا۔ کا ش کہ مومن یہ سمجھے کہ اپنی ان مخفی صلاحیتوں کی وجہ سے ہی اس لشکر رنگ وبو کا جسے کائنات کہتے ہیں سالار ہے۔ خدا نے اپنے نوری اور حضوری فرشتوں کو بھی اس کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے اوروہی کا رزار حق و باطل کا میدان مارنے والا ہے۔ تو مرد میدان تو میر لشکر نوری حضوری تیرے سپاہی کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی یہ کم سوادی یہ کم نگاہی‘ مومن جب اپنی خودی کے مقام کمال پر پہنچ کر خد ا کی محبت کا نقش اپنے دل پر ثبت کر لیتا ہے تو پھر کائنات اس کا شکار بن جاتی ہے۔ یعنی وہ کائنات کی قوتوں کو مسخر کر کے انہیں اپنے اور محبوب کے مشترک نصب العین کے لیے کام میں لاتا ہے اورخدا کی تقدیر اس کی تدبیر سے موافقت پیدا کر لیتی ہے کیونکہ پھر وہ خود ہی خدا کی تقدیر ہوتا ہے۔ نقش حق داری جہاں نخچیر تست ہم جہاں تقدیر یا تدبیر تست‘ حضرت بوعلی قلند ر کا قصہ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کہ مومن خدا کی تقدیر ہوتا ہے۔ اقبال نے حضرت بوعلی قلندر کا ایک قصہ بیان کیا ہے کہ آپ کا ایک مرید بازار میں گیا۔ درویش حالت استغراق میں تھا‘ راستہ سے ہٹ نہ سکا۔ پیشرو نے آواز دی کہ اے احمق عامل کے جلوداروں کا راستہ نہ روک۔ لیکن مرید پھر بھی اپنے خیالات کی دنیا میں کھویا ہوا اسی طرح چلتا رہا۔ چوبدار نے بدتمیزی سے درویش کے سر پر اپنا ڈنڈا مارا۔ درویش بڑا آزردہ ہو کر راستہ سے ہٹ گیا اور بو علی قلندر کے حضور پہنچ کر فریاد کی۔ آنسو آنکھوں سے رواں تھے۔ شیخ سخت ناراض ہوئے۔ اپنے کاتب کو بلا کر بادشاہ کو خط لکھوایا کہ تیرے عامل نے میرے مریدکو مارا ہے۔ ا س کمینے عامل کو واپس بلا لے ورنہ میں تیرا ملک کسی اور کو دے دوں گا۔ شیخ کے اس خط نے بادشاہ پر لرزہ طاری کر دیا۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ایسا ہی ہو گا لہٰذا اس نے فوراً عامل کو قید کر دیا اور حضرت بو علی قلندر سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی۔ باز گیر ایں عامل بد گوہرے ورنہ بخشم ملک تو یا دیگرے نامہ آں بندہ حق دست گاہ لرزہ ہا انداخت در اندام شاہ بہر عامل حلقہ زنجیر جست از قلندر عفع ایں تفصیر جست اختیار کا ظہور جب مرد مومن خدا کو آشکار دیکھنے اوراپنی خودی میںانقلاب پیدا کرنے کی وجہ سے خدا کی تقدیر بن جاتا ہے تو پھر اس کے لیے جبر و اختیار کا مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ پھر وہ ہمہ تن اختیار ہی بن جاتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ خدا کی تقدیر سے زیادہ اختیار کس کا ہے اور خدا کی تقدیر سے بڑھ کر کون سی چیز ہے جو جبر سے آزاد ہو۔ بندہ تا حق را نہ بیند آشکار بر نمے آید ز جبر و اختیار دنیا میں ایک ہی قوت کارفرما ہے اور وہ خدا کے قول کن کی قوت ہے۔ چونک یہ قوت ارتقا کے نچلے مرحلوں سے گزر کر ایک انسانی مرحلہ ارتقا پر کام کر رہی ہے۔ جہاں مومن ہی خدا کا قول کن ہے اس لیے سوائے مرد مومن کے دنیا میں کوئی قوت موجود نہیں۔ لہٰذا مرد مومن کو چاہیے کہ راہ زندگی میں بلا خوف و خطر قد م رکھے۔ قدم بیباک تر نہ در رہ زیست نہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست مومن کو چاہیے کہ اپنے بے نظیر مقام پر غور کرے اور زندگی کے اس غیر آباد بیابان سے ڈرتا ہوا نہ گزرے کیونکہ یہاں فقط وہ ہی وہ ہے اور اس کے علاوہ دونوں دنیائوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ خدا بھی مومن ہی کے جذبہ حسن کی تشفی کا ذریعہ ہے اور خدا کے فرشتے بھی مومن کے خدمت گزار ہیں۔ با خود اندیش و ازیں بادیہ ترساں مگزر کہ تو ہستی و وجود دو جہاں چیزے نیست کائنات ایک غیر آباد بیابان اس لیے ہے کہ اس میں فقط ایک مومن ہی بس رہا ہے اورکچھ نہیں۔ خدا حق ہے اور خدا کا قول بھی حق ہے (وقولہ الحق) مرد مومن جو خدا کا قول کن ہے حق ہے باقی ہر چیز بے حقیقت ہے۔ اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں باقی ہے فقط نمود سیمیائی‘ نقل اور عقل کی موافقت اقبال کا یہ خیال کہ مرد مومن اپنی خودی کے مقام کمال پر خدا کی تقدیر بن جاتاہے نہ مذہبی طور پر ناقابل فہم ہے اورنہ عقلی طور پر بلکہ نقل اور عقل دونوں کے اعتبار سے درست ہے۔ قرآن حکیم میں خدا نے رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر میرے بندے میرے متعلق آپ سے سوال کریں تو انہیںکہیے کہ میں قریب ہوں۔ جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تومیں اس کی دعا قبول کرتاہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بھی میری دعوت کو قبول کریں اور مجھ پر کامل ایمان لائیں۔ (اذا بنالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع ذادعان فلیسجیبو لی ولیومنا بی) اور خدا کی دعوت کیا ہے یہی کہ خدا سے ایسی دلی محبت کرو اور خدا کی ایسی مخلصانہ عبادت اور اطاعت کرو کہ جس سے تم زندہ ہو جائو۔ یا ایھا الذین امنوا استجیبو اللہ وللر سول اذا دعا کم لما یحییکم (اے ایمان والو خدا اور رسول کی دعوت کو قبول کرو۔ جب وہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلائے جو تمہیں زندہ کرنے والا ہو) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی مومن کا کوئی ایسا مقام نہیں جو اسے ایمان لانے کے بعد خدا اور رسول کی اطاعت سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی مقام کو اقبال خودی کی زندگی یا بیداری یا خودی کا انقلاب کہتا ہے اور خدا پر سچے اور کامل ایمان کا مقام بھی یہی ہے۔ اوپر کی آیت کے مطابق زندگی کے اس مقام کو پانے کی دعوت قبول کرنا اور اس کے نتیجہ کے طورپر خدا پر سچا اور کامل ایمان اور لانا قبولیت دعا کی شرط ہے۔ اقبال کے نزدیک ایسا ایمان کامل مومن کو خودی کے درجہ کمال پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ خودی کے اس درجہ کمال پر مومن مستجاب الدعوات ہو جاتاہے یا یہ کہنا کہ وہ خدا کی تقدیر بن جاتا ہے۔ دونوں باتوں میں معناً کوئی فرق نہیں۔ آیت میں یہ نہیںکہا گیا کہ خدا تمہاری کوئی دعا قبول کرے گااور کوئی نہیں کرے گا۔ بلکہ اس بات کا قطعی وعدہ ہے کہ جب تم مانگو گے تو دعا قبول کی جائے گی۔ لیکن اس کے لیے ایمان کامل کی شرط کا پورا کرنا ضروری ہے۔ گویا اگر ہماری کوئی دعا کسی وقت قبول نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہ ہو گی کہ ہم نے خدا کی دعوت زندگی کو پوری طرح سے قبول نہیںکیا۔ اور ہم خودی کی زندگی کے مقام یا ایمان کامل کے مقام پرنہیں پہنچے۔ مومن خدا کی تقدیر ان معنوںمیں بھی ہے کہ جب وہ دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنا چاہتا ہے تو خدا اس کی مد د کرتا ہے اور دنیا در حقیقت اس کی مرضی کے مطابق بدل جاتی ہے۔ اس طرح سے مومن خدا کے عمل کا ذریعہ اور اس کی تقدیر کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا (ان تنصر واللہ ینصر کم) حدیث میں ہے کہ جب مومن کثرت عبادات و نوافل سے خدا کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو خدا اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اورپائوں بن جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے اور کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔ حضورؐ نے جب احد کی جنگ میں مٹھی بھر ریت پھینکی تو وہ دشمنوں کی آنکھوں میں پڑ کر ان کی شکست کا باعث بنی۔ اس پر خدا نے فرمایا کہ جب آپ نے ریت پھینکی تو ااپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی ۔ (مارمیت اذرمیت ولا کن اللہ رمی) ارتقائی حرکت کا ہمہ گیر قانون عقلی طور پر یہ حقیقت قدرت کے جس قانون کی مظہر ہے کائنات کی ساری ارتقائی حرکت اسی پر مبنی ہے ۔ جب زندگی کی کوئی مخفی قوت ارتقا کے کسی مرحلہ پرایک حد تک آشکار ہو جاتی ہے۔ تو پھر زندگی ارتقا کے مقاصد کی پیش برو کے لیے اس حد تک اپنی کسی مخفی قوت پر نہیں بلکہ اپنی اس آشکار قوت پر انحصار کرتی ہے۔ اسی کو اپنا آلہ کار بناتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ سے ارتقا کے عمل کو آگے بڑھاتی ہے۔ گویا زندگی کن کے عمل کو جاری رکھنے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ہر قدم پر کن کے حاصلات ہی سے کام لیتی ہے۔ اور اس کے موجودہ حاصلات آئندہ حاصلات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مثلاً زندگی نے مادی مرحلہ ارتقا کے اندر مادہ کی ابتدائی حالت کی شکل میں برقی قوت کے مثبت اورمنفی باروں (Charges) کو آشکار کیا ہے۔ مادہ کی ابتدائی حالت ان ہی باروں سے عبارت تھی۔ پھر ان باروں کے عمل کے ذریعہ سے زندگی نے مادہ کو مزید ترقی دینے کا مقصد حاصل کیا جس سے مادہ کو نئی قوتیں حاصل ہوئیں۔ پھر ان نئی قوتوں کو مادہ کی مزید ترقی کا ذریعہ بنایا اور یہ عمل جاری رہا یہاں تک کہ مادہ کی وہ تمام خصوصیتیں جن کو آج ہم مادی قوانین قدرت کہتے ہیں ظہور پذیر ہو گئیں۔ اسی طرح سے جب پہلا حیوا ن وجود میں آیا تھا تو وہ ضبط ایک ہی خلیہ پر مشتمل تھا۔ اس خلیہ میں زندگی نے نقل و حرکت کی استعدادکے علاوہ اخذ غذا اور توالد کی دو جبلتیں بھی پیدا کیں جو ابتدائی حالت میں تھیں۔ زندگی نے ان دو جبلتوں کے فطری عمل کو حیوان کی مزید ترقی کا ذریعہ بنایا جس کے نتیجہ کے طور پر بہتر سے بہتر قسم کی انواع و حیوانات وجودمیں آتی رہیں یہاںتک کہ حضرت انسان نمودار ہوا۔ انسان کی تمام فطری قوتوں میں سب سے زیادہ اہم اور مرکزی اور بنیادی قو ت خدا کی محبت یا آرزوئے حسن ہے۔ اس قوت کے عمل کے ذریعہ سے ہی زندگی انسان کو ہزاروں سال سے متواتر ارتقا کے مدارج طے کروا رہی ہے جس کی وجہ سے انسان کو ہر مرحلہ پر نئی نئی قوتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ علوم کا سارا ذخیرہ اور زندگی کے مشاغل کی تحسین تزئین اور تسہیل کے سارے ذرائع اور طریقے جو انسان آج تک پیدا کر سکا ہے اسی قوت کے بعض پہلوئوں کے عمل کا نتیجہ ہیں۔ تاہم ابھتک نسل انسانی نے مجموعی طور پر اس قوت سے صحیح طورپر کام لینا نہیں سیکھا۔ جب انسان اپنی آرزوئے حسن کو صحیح تصور حسن کی محبت سے مطمئن کرتا ہے تو اس کی شخصیت اس قوت کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے جو کائنات کے تخلیقی اور ارتقائی عمل کو حرکت دے رہی ہے اور یہ خدا کے قول کن کی قوت ہے لہٰذا جس حد تک کہ مومن کی شخصیت اس قوت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ اس حد تک مومن کا اپنا قول کن بھی کائنات کے ارتقائی عمل پر اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے جس طرح سے کہ خدا کا قول کن پر اثر انداز ہو رہاہے کیونکہ اس حد تک خدا کا قول کن مومن کے قول کن کی صورت اختیار کرتاہے ۔ خدا انسان کے اندر کائنات کے ارتقاء کے آخر ی مرحلہ میں قول کن کی قوت کو آشکار کرتاہے۔ لہٰذااگر وہ کائنات میںاپنے آخری تخلیقی اور ارتقائی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی اس آشکار قوت سے کام لے جس سے انسان کی مرضی اور اس کی تقدیر کا آلہ کار بن جائے تو اس میں ٹعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ خدا کے سابق دستور اور طریق عمل کے عین مطابق ہے ۔ جب مرد مومن خدا کاہاتھ یا پائو ں یا کان یا آنکھ بن جائے تو تعجب کیا ہے کہ خدا اس کے ان اعضا سے پکڑنے ریت پھینکنے چلنے سننے یا دیکھنے کا کام لے۔ خدا بننے یا خدائی کا رازدان بننے سے اقبا ل کا مطلب بس اتنا ہی ہے اور اس میںغلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اقبال کے جو نکتہ چین غلطی سے سمجھتے ہیں کہ اقبال خودی اور خدا میں فرق نہیںکرتا وہ اس گزارش کو نوٹ فرمائیں۔ یک رنگی اور بیباکی خودی کے انقلاب کے بعد مومن یک رنگ یک دل اور یک زبان ہو جاتاہے اسے مکاری ‘ منافقت اور ڈپلومیسی کی ضرورت نہیںرہتی۔ چونکہ مومن کے دل میں خدا کی نہایت گہری اور شدید محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے خیالات ایک مرکز پر جمع ہو جاتے ہیں اور وہ مرکز خدا کی ذات ہوتا ہے۔ پھر وہ مخالف افکار و آرا اور متضاد اعمال وافعال کا شکار نہیںرہتا۔ خودی کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات اور اعمال کو خد ا کے مرکز پر جمع کرے لہٰذا جب اس کے خیالات اور عمال ایک مرکز پر جمع ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی فطرت کو پا لیتی ہے۔ اور اس کی زندگی کی قوت بھی ایک مرکز پر آ جانے کی وجہ سے ممکن حد تک بڑھ جاتی ہے۔ حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں مومن کی شخصیت میںایک مکمل وحدت اور ہم رنگی کے ساتھ ہی ایک مکمل خود اعتمادی کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے اپنے طے کیے ہوئے اعتقاد و عمل کی صحت پر اتنا بھروسہ ہوتاہے کہ وہ اپنے موقف کو کسی خوف سے بدلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ اگر زمانہ اس کے ساتھ موافقت نہ کرے تو وہ زمانہ سے موافقت نہیں کرتا بلکہ زمانہ کو بدل کر اپنے ساتھ موافق کرنے کے لیے جدوجہد کرتاہے۔ حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز زمانہ با تونسازو تو با زمانہ ستیز‘ لہٰذ ا اسے جھوٹ یا فریب یا روباہی سے جسے اقبال حیلہ افرنگی کہتا ہے کام لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ صاف صاف بات کہتا ہے خواہ نتائج کچھ ہوں۔ آئیں جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی محبت کے اندر یکسوئی اور بے باکی اس کی محبت کو درجہ کمال پرقائم رکھتی ہے۔ اخلاص کے بغیر محبت کی کامیابی ممکن نہیںہوتی لیکن اخلاص کو قائم رکھنا ذرا ہمت کاکام ہے۔ یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ یک رنگی و بے باکی اے ہمت مردانہ زندگی جاوید خودی کے انقلاب کے بعد مومن زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور موت اس پر حرام ہو جاتی ہے۔ یہ حقیقت کہ ہماری خودی ہمہ تن خدا کی محبت ہے جو حی و قیوم ہے اور خود بخود زندگی اور حیات ہے اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ہم خدا کی محبت کی نشوونما کر کے درجہ کمال پر پہنچا دیں تو ہم خود بھی خدا کی طرح جاوداں بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ضروری ہے کہ خدا کا کامیاب عشق بھی خدا کی صفات کو جذب کر کے جن میں وہ ہمیشہ کی زندگی ہے ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جائے۔ ہمارا او ر خدا کا تعلق اگرچہ ایک راز سربستہ ہے لیکن ہمارے دوام کا گواہ ہے۔ من داد چیست اسرار الٰہی است من داد بر دوام ما گواہی است جب ہم زندگی پر عاشق ہیں اور ہمارے عشق میں پوری طرح سے کامیاب ہونے کی صلاحیت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم زندگی بن جائیں۔ ہمارا قدرتی مستقبل جو ہماری غیر مبدل فطرت میں پوشیدہ ہے۔ زندگی ہے موت نہیں ورنہ ہم سراسر زندگی کا کامیاب عشق نہ سن سکتے۔ زندگی سانس کا یہ آنا جانا نہیںبلکہ اس کا منبع خدا ہے جو حی و قیوم ہے اور جس کی محبت ہماری فطرت میں ہے۔ زندگانی نیست تکرار نفس اصل و از حی و قیوم است و بس ضرور ی ہے کہ زندگی کا عشق بھی ایک ایسی چیز ہو جو زندگی کے اصل مرکزیا منبع سے کھو چکی ہو اور پھر اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی خواہش رکھتی ہو اور اسی خواہش کی وجہ سے وہ عشق بن گئی ہو۔ عشق کا اصل زندگی کی طرف لوٹنے کی تمنا کرنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ زندگی کو پا سکے گا جس کے بعد موت اس پر حرام ہو جائے گی کیونکہ عشق حقیقی کی تمنا ناکام نہیںہوتی۔ مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات و موت ہے اس پر حرام اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود‘ عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود جسم حیوانی اور شخصیت انسانی کی مماثلت ایک جسم انسانی کی صحت کا دارومدار اس پر ہوتاہے کہ اس کے اندر زندگی کی رو کس قدر قوی ہے اگر جسم انسانی میںزندگی کی رو قوی ہو تو وہ موت لانے والے عوامل یعنی بیماریوں اور جراثیمی سرایتوں پرباسانی غالب آ جاتا ہے۔ بیمار ‘ کمزور اور نحیف جسم حیوانی کے اندر زندگی کی رو کمزور ہوتی ہے۔ اور وہ بیماریوں اور جراثیمی سرایتوں کو قبول کرنے کے لیے اور بھی مستعد ہو جاتا ہے۔ جسم حیوانی کی صحت اور زندگی کی رو کی قوت کا دارومدار اس کی خوراک کی عمدی پر اور صحت کو قائم رکھنے والے دوسرے حالات کی موجودگی پر اور نیز ا س بات پر ہوتا ہے کہ اس کی جسمانی نشوونما اور پرورش کیسے ہوئی ہے۔ اسی طرح انسان کی روح یا خودی کی صحت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے اندر زندگی کی رو جو خدا کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے کہ کس قدر قوی ہے اور پھر اس رو کی قوت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کا تصور حسن جس سے اس کی خودی حسن کی غذا جذب کرتی ہے عمدہ اور حسین ہے یا نہیں اور اس کی زندگی کے تجربات اور اعمال اور افعال خدا کی محبت سے سرزد ہوتے ہیں یا نہیں اور اس نے خدا کی محبت کی نشوونما اور پرورش کس حد تک کی ہے۔ اس زندگی میں بھی اگر روح یاخودی میں زندگی کی رو یا خدا کی محبت قوی ہو تو وہ روحانی موت لانے والے عوامل یعنی گناہوں اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوںپر غالب آ جاتی ہے ۔ خدا کی محبت سے دور اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوں پر غالب آ جاتی ہے۔ خدا کی محبت سے دور اور اخلاقی کمزوریوں سے گھری ہوئی خودی خدا اور دور ہونے اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوں میںغرق ہونے کے لیے مستعد ہوتی ہے۔ اگر ایک قوی اور توانا جسم کچھ عرصہ کے لیے خوراک اور حفظان صحت کے لوازمات کو ترک کر دے تو وہ کمزور اور ناتواں ہو جاتا ہے اسی طرح سے اگر ایک قوی اور توانا خودی جس میں زندگی یا خدا کی محبت کی رو طاقت ور ہو کچھ عرصہ کے لیے خدا کی مخلصانہ عبادت اور حسن عمل کوترک کر دے تو وہ کمزور اور ناتواں ہو جاتا ہے ان حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جس طرح سے جسم کی صحت اور زندگی کی حالت کئی درجوں کی ہوتی ہے اسی طرح سے خودی کی صحت اور زندگی کی حالت میں بھی کئی درجوں کی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کا عشق بھی اپنی قوت اور شدت کے لحاظ سے کئی درجو کا ہوتاہے جس قدرزیادہ کوئی انسان خدا کی محبت سے بہرہ ور ہو گا اسی قدر زیادہ زندگی سے بہرہ ور ہو گا۔ زندگی کے مدارج اور حیات مطلق زبور عجم میںاقبال نے زندگی کے درجوں کے متعلق اپنے نقطہ نظر کو ذر ا وضاحت سے بیان کیاہے ۔ وہ کہتا ہیکہ زندگی اور موت اعتباری اوصاف ہیں۔ جن کا دارومدار حالات پر ہے۔ جہاں تک نوا کے سوز اور اثر کا تعلق ہے ہم کہیںگے کہ ایک بہرہ مردہ ہے۔ اسی طرح سے ایک اندھا جو بہرحال نواسے مست اور مسرور ہو جاتا ہے ۔رنگ کی طرف سے مردہ ہے روح خدا سے زندہ اور پائندہ ہوتی ہے۔ اور خدا سے ہٹ جائے تو خدا کی طرف سے مردہ اور غیر خدا کی طرف سے زندہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیات مطلق کیا ہے؟ اقبال کہتا ہے کہ حیات مطلق یہ ہے کہ انسان خدا کے ساتھ زندہ رہے کیونکہ خدا وہ زندہ ہستی ہے جو خود بخود زندہ ہے اور مرتی نہیں۔ جو خدا کے بغیر زندہ ہے وہ موت مطلق سے مرا ہوا ہے اگرچہ وہ بظاہر زندہ نظر آ رہا ہو اور لوگ اس کا ماتم نہ کر رہے ہوں۔ مردن و ہم زیستن اے نکتہ رس ایں ہمہ از اعتبارات است و بس مرد کر سوز نوا را مردہ لذت صوت و صدا را مردہ پیش چنگے مست و مسرور است کور پیش رنگے زندہ درگور است کور روح با حق زندہ و پائندہ است ورنہ ایں را مردہ آں را زندہ است آنکہ جی لا یموت آمد حق است زیستن یا حق حیات مطلق است ہر کہ بے حق زست جز مردار نیست گرچہ کس در ماتم او زار نیست کامل زندگی اس شخص کی قسمت میں ہوتی ہے جو خدا کی محبت کو عبادت اور حسن عمل سے ترقی دے کر کمال کے اس درجہ تک پہنچا دے جہا ں وہ خدا کو دیکھ لے اور زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہو جائے۔ خدا کا دیدار زندگی ہے اور زندگی خدا کادیدار ہے۔ قرآن حکیم میں ۃے کہ خدا احسان والوں کو پسند کرتاہے (واللہ یحب المحسنین) اور حدیث شریف میں ۃے کہ احسان کا مقا م یہ ہے کہ انسان خدا کی عبادت اس طرح سے کرے کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے (الاحسان ان تعبداللہ کانک تراہ) یہی وہ مقام ہے جہاں انسان بند زمان و مکان سے آزاد ہو جاتا ہے۔ انبیاء جو خدا کی مخلصانہ عبادت کی دعوت دیتے ہیں وہ دراصل احسا ن یا دیدار حق کے مقام کو پانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس دعوت کا نتیجہ احسان ہی نہیں بلکہ کمال زندگی بھی ہے ۔ لہٰذا دیدار حق اور کمال زندگی کے ایک ہی مقام کے دو نام ہیں۔ قرآن کا ارشادہے کہ ایمان والو خدا اور رسول کی پکار کو سنو جب وہ تم کو اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندہ کرنے والی ہے (یایھا الذین امنوا استجیبو اللہ وللرسول اذا دعا کم لما یحییکم) اقبال قرآن و حدیث کے ان مضامین کو ایک شعر میں جمع کرتا ہے۔ کمال زندگی دیدار ذات است طریقش رستن از بند جہات است ایسے زندہ دل باکمال عاشق صادق کو ہی خطاب کر کے اقبال کہتا ہے۔ لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے اگر ہو دل زندہ تو ناصبور رہتا ہے مہ و ستارہ مثال شرارہ یک دو نفس مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے زندہ رہنے کی شرط زندہ رہنے کی شرط یہ ہے کہ انسان خودی کے اس کمال تک پہنچے کہ جہاں وہ زمان و مکان (جس سے یہ جہاں بنا ہے) کی حدود کو عبور کر جائے اور اس طرح سے خود زمان و مکان سے آزاد ہو کر زمان و مکان (جہان) کو خودی کے دام میں لے آئے۔ اس کے برعکس اگر انسان کی خودی زمان و مکان کے دائرہ میں مقید رہے گی تو وہ موت کے بعد زندہ نہیں رہ سکے گا۔ حیات تو یہی ہے کہ جہاں خودی کا قیدی بنایا جائے۔ جو شخص خود جہاںکا قیدی ہے وہ جہاں کو اپنا قیدی کیسے بنا سکتاہے ۔ حیات چیست؟ جہاں را اسیر جان کردن تو خود اسیر جہانی کجا توانی کرد‘ خدا سے دور ہونا موت ہے۔ جو انسان زندہ ہو وہ خدا سے دور نہیں ہوتا اور جو دور ہوتا ہے وہ زندہ نہیں ہوتا۔ بے حضوری ہے تری موت کا راز زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں‘ ابدیت کے ابتدائی شرط عشق ہے اگر اس کے کچھ اور اصول اور لوازمات بھی ہیں تو وہ سب عشق کے ماتحت ہیں ۔ جس حد تک عقل مادی عناصر کی ترتیب کا نتیجہ ہے ار مادی دنیا کے اندر تصرف کرنے کے کام آتی ہے وہ جسم کی موت سے فنا ہو جاتی ہے۔ لیکن عشق کسی حالت میں فنا نہیںہوتا۔ اگر موت ایک شام ہے تو عشق ایک سورج ہے۔ سورج کے سامنے شام کہاں رہ جاتی ہے۔ عشق خود زندگی کا ہی سوزہے جہاں یہ سوز ہو گا وہاں زندگی ضرور ہو گی اور جہاں زندگی ہو گی وہاں موت کیسے ہو سکتی ہے۔ عشق کامرنا زندگی کا مرنا ہے جو محال ہے۔ ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے عشق سوز زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اس کی خودی کمال تک پہنچے۔ اگر زندگی کا مقصد صرف خودی کے قطرہ نیسان کو بہر بنا کر حالت کمال تک نہیںپنہنچا سکتا تو بے سود ہے۔ خودی کے کمال کے معنی یہ ہیں کہ خودی خود نگر ہو جائے یعنی خدا کا دیدار پا کر اپنے آپ کو دیکھ لے خود گر ہو جائے یعنی خدا کے عشق سے اپنی تعمیر اور تربیت مکمل کر لے اور خودگیر ہو جائے یعنی اپنے آپ کو غیر اللہ سے ہٹا کر پوری طرح سے اپنی گرفت میں یعنی اپنے اصلی محبوب کی محبت کی گرفت میں دے دے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو پھر خودی جسم کی موت سے بھی مرنہیںسکتی۔ زندگانی ہے صدف قطرہ نیسان ہے خودی وہ صدت کیا کہ جو قطرہ کو گہر کر نہ سکے‘ ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے تو موت سے بھی مر نہ سکے عاشق کامل کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ زندہ اور زندہ رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی یعنی خدا کے عشق سے بہرہ ور ہے۔ حالت عشق سے پہلے انسان کو شک رہتا ہے کہ وہ بعد از مرگ زندہ رہے گا یا نہیں۔ در بود و نبود من اندیشہ گماں ہاداشت از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من حیات بعد الممات کا ثبوت کافر کی بعد از مرگ زندگی موت سے بدترہوتی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے موت ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی موت نہیںہوتی۔ قرآن حکیم کا ارشادہے کہ اسے موت ہر طرف سے گھیرتی ہے۔ پھر بھی وہ مر کر عذاب سے نجات نہیں پاتا (ویاتیہ الموت من کل مکان وما ہو بمیت) اقبال اسی زندگی کو ہی موت کہتا ہے ورنہ موت نما زندگی تو بعد از مرگ کافر کی بھی بنتی ہے اور اسی موت نما زندگی کی وجہ سے اس کا بعد از مرگ عذاب دوزخ ممکن ہوتاہے۔ شعور جب خود شعور یا خود شناس ہو جائے جیسا کہ انسان کا شعور ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں جب شعور انسانی سطح پر آ جائے تو وہ خواہ کافر کا شعور ہو حیوان کے غیر خود شعور غیر خود شناس شعور کی طرح موت کے معمولی معنوں سے مر نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کی زندگی میں بھی ایسے خود شناس شعور کاوجود کا انحصار جس پر نہیںہوتا۔ بلکہ اس کی زندگی جسم سے الگ تھلگ اور بے نیاز ہوتی ہے۔ اسی خود شعور یا خود شناس شعور کو ہم انسانی شخصیت یا خودی یا روح کا نام دیتے ہیں اور یہ صرف انسا ن کا خاصہ ہے۔ حیوان خود شناسی یا خود شعوری کے وصف سے محروم ہے۔ کیونکہ حیوان فقط جانتا محسو س کرتا اور سوچتا ہے ۔ لیکن انسان جب جانتا محسوس کرتااور سوچتا ہے تو وہ جانتا بھی ہے کہ وہ جانتا محسوس کرتااور سوچتا ہے۔ اسی حقیقت کو ہم مختصر الفاظ میں یوں ظاہر کرتے ہیں کہ حیوا ن فقط باشعور ہے اور انسان خود شعور بھی ہے اسی خود شعوری کی وجہ سے انسان اپنے وجود کا اپنی انا کا اس کی وحدت کا اور اس کے تسلسل کا احساس کرتا ہے۔ اگر ایک انسان زید سو سال تک بھی زندہ رہے تو اسے معلو م ہوتا ہے کہ وہ وہی زید ہے جو چار سال کی عمر میں تھا۔ اس کے حافظہ میں اس کی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے واقعات جن سے پورا ایک دفتر بن سکتا ہے محفوظ ہوتے ہیں اگر وہ کچھ واقعات کو بھول کر بھی جائے تو پھر بھی وہ اس کے لاشعور میں محفوظ رہتے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک تحلیل ذہنی کا ماہر اس پر ہپناٹک نیند طاری کر کے ان کی پوری تفصیلات اس کے منہ سے کہلوا سکتاہے اور بیداری کے وقت اس سے اقرار کر وا سکتا ہے کہ وہ فی الواقع ظہور پذیر ہوئے تھے۔ اعمال کا نہ ملنے والا ریکارڈ آج ماہرین تحلیل نفسی کے تجربات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انسان کا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل ایسا نہیںہوتا کہ جو مٹ جائے بلکہ ہر عمل کا ریکارڈ اس کے لاشعور کے اندر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ واقعات کایہ حیر ت انگیز نہ مٹنے والا ریکارڈ انسان کے جسم کے اندر کہاں رہتاہے کہیںبھی نہیں۔ اس کا جسم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق انسان کی خود شعوری یا خودی سے ہے ۔ جو جسم سے الگ تھلگ اپنی زندگی بسر کرتی ہے۔ اگرچہ جسم پر حکمرانی کرتی ہے اور اپنے مقاصد کے لیے اسے بطور ایک آلہ کے استعمال کرتی ہے۔ اگر اس کا تعلق جسم سے ہوتا تو ہر تین سال کے بعد یہ فنا ہو جاتا اور انسان کی زندگی کاتسلسل ٹوٹ جاتا کیونکہ یہ امر مسلم ہے کہ کم و بیش ہر تین سال کے بعد دماغ کے تما م مادی ذرات مٹ کر نئے مادی ذرات کے لیے جگہ خالی کر دیتے ہیں۔ چار سار کی عمر سے لے کر سو سال کی عمر تک یہ عمل بتیس دفعہ ہو چکتا ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ شخصیت یا خودی یا خود شعوری جسم سے بے نیا ز ہو کر اپنے وظائف ادا کرتی ہے اور اپنی زندگی قائم رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خودی جسم کی موت سے نہیں مرتی۔ دماغ اور جسم خودی کے آلات ہیں جن کی مدد سے وہ اس دنیامیں اپنا کام کرتی ہے اور اپنے اعمال افعال او ر اپنے تجربات کو ترتیب دیتی ہے۔ اسمیں شک نہیںکہ اگر دماغ کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو خودی اپنے وضائف ٹھیک طرح سے یا پوری طرح سے ادا نہیںکر سکتی۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ خودی اور دماغ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا ایک دوسرے کے متوازی ہیںکیونکہ جیسا کہ نفسیات دیوانگی کی تازہ تحقیقات سے ظاہرہے دماغ کے مختل ہونے کے بعد بھی شخصیت لا شعور کی دنیا میں کام نہیں لے رہا مطلب فقط یہ ہے کہ خودی کا آلہ کار شکستہ ہو جانے کی وجہ سے خودی کو شعور کی دنیا میں کام نہیںدے رہا لیکن جب دماغ اور جسم خودی کے آلات کے طور پر صحت مند ہوں تو ان آلات کی مدد سے ہر تجربہ جو خودی کو حاصل ہوتا ہے اور ہر فعل جو ا س سے سرزد ہوتا ہے ۔ دماغ اور جسم کی وساطت کے بغیر خودی کا جز وبن جاتا ہے اور پھر ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ اور جسم کے مرجانے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ جسم کی زندگی میں بھییہ تجربہ یافعل جسم کا نہیں بلکہ خود ی کا حصہ تھا۔ اور خودی جسم کی زندگی میں اگرچہ جسم کو کام میں لاتی تھی تاہم جسم سے بے نیاز ہو کراپنی زندگی کو قائم کیے ہوئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ہے کہ انسان کے اعمال لکھے جاتے ہیں اورموت کے بعد اس کا اعمال نامہ اس کے سامنے کھل جاتا ہے (کتاباً یلقہ منشورا) اس سے ظاہرہے کہ شخصیت وہی کچھ ہوتی ہے جو اس کے اعمال کواس بنا دیتے ہیں اور جسم کی موت کے بعد اس کی خوشی یا ناخوشی‘ صحت یا بیماری اور قوت یا کمزوری اور اس کی زندگی کے کمال یا نقص کا دارومدار اس بات پر ہوتاہے۔ کہ اس کے اعمال کہاں تک خودی کی فطرت کے مطابق ہے۔ یعنی ان میں خدا کی مخلصانہ محبت کا حصہ کیا تھا جب خدا کی محبت کمال پر ہو تو خودی کی خود شناسی اور لہٰذا زندگی بھی کمال پر ہوتی ہے۔ کیونکہ خودی کی خود شناسی یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کو اپنی فطری استعداد کے مطابق پوری طرح سے جان لے۔اسی لیے اقبال کہتا ہے: ہر اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے انسان اور حیوان کی زندگی بعض وقت یہ سوال کیاجاتا ہے کہ آیا حیوانات بھی مرنے کے بعد زندہ رہیں گے اور ان کے اعمال کا بھی محاسبہ ہو گا۔ یہ سوال درحقیقت زندگی اورمحاسبہ اعمال کے متعلق ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ بعد از مرگ زندگی فقط خود شعوری کیلیے ممکن ہے کیونکہ یہی خود شعوری ہے جو جسم کی زندگی میں بھی جسم سے الگ رہ کر اپنی زندگی بسر کرتی ہے اوریہی خود شعوری ہے جو آزاد اور بااختیار فیصلوں کی قوت رکھتی ہے یا جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ان فیصلوں سے ظہور پذیر ہونے والے اعمال کو لاشعور کا جزو بنا کر یہاں تک محفوظ رکھے کہ وہ بعد از مرگ بھی اسی حالت میں رہیں حیوانات چونکہ خود شعور نہیں وہ اپنے فیصلوں اور کاموں میں آزاد نہیں بلکہ اپنی جبلتوں کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں اورچونکہ وہ خود شعور نہیںان کے بعد از مرگ زندہ رہنے اور اپنے اعمال کو محفوظ رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا اور محاسبہ اعمال تو بعد کی چیز ہے۔ ٭٭٭ خودی اور نشر توحید مومن کا میدان کار جب مومن کی خودی میں انقلاب آتا ہے ۔ تو وہ نہ صرف بے پناہ قوت عمل کا مالک بن جاتا ہے بلکہ اس قوت کے اظہار کے لیے میدان کار بھی تلاش کرتا ہے اور اس کا میدان کار باطل کا استیصال اور حکم حق کا اجرا ہوتا ہے۔ جس کی ابتدا کلمہ توحید کی اشاعت اور خدا کی محبت کی دعوت سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اپنے محبوب کی طرح وہ بھی چاہتا ہے کہ نوع انسانی اپنی ہر منزل کمال کو پہنچے۔ ا س کا مقصد حیات وہی ہوتا ہے جو اس کے محبوب کا مقصد ہے۔ لہٰذا جب تک اس کائنات میں خدا کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو اس وقت تک اس کے عاشق کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا اور خدا کا مقصد نوع بشر کی تکمیل ہے جو خدا کے قول کن سے ہو رہی ہے۔ خدا کی محبت میں خدا کے مقصد کی محبت بھی شامل نہیں ہے لہٰذا مومن خدا کے قول کن کا ممد و معاون بنتا ہے اور خدا کے بندوں کو خدا کی محبت کی طرف لاتا ہے اوراپنی دعوت کو موثر اور کامیاب کرنے کے لیے اپنے عمل قوتوں کو جو خدا کی محبت سے مزید قوت پا کر درجہ کمال کو پہنچ چکی ہوتی ہیں ۔ ہر ممکن طریق سے کام میںلاتا ہے اور ایسا کرنا اس کی اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ چونکہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق پہلے خود بدل جاتا ہے اس لیے وہ دنیا کو بھی بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے پہلے وہ خدا کے جمال کا نقش اپنی جان میں پیدا کرتا ہے اور اس کے بعد اس نقش جمال کو دنیا میں عام کر دیتا ہے۔ خدا کے دو مختلف قسم کے عاشق ایک خدا کا عاشق وہ ہے جو خدا کی محبت سے سرشارہو کر اللہ ہو کا ایک نعرہ لگاتا ہے۔ لیکن پھر خاموش ہو کر دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اپنی خاموش گوشہ نشین محبت کو اپنی نجات کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ وہ عبادت اور ریاضت تو کرتا ہے لیکن خدا کی محبت سے قوت پا کر باطل سے ٹکر نہیںلیتا اور خدا کا حکم دنیا میں جاری نہیںکرتا۔ حیدر کرارؓ کی طرح جو کی روٹی تو کھاتا ہ لیکن آپ کی طرح خیبر فتح کرنے کے لیے نہیں نکلتا۔ بلکہ ایک راہب کی طرح کسی خانقاہ کے گوشہ عزلت میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور بادشاہت سے گریز کرتا ہے۔ دوسرا عاشق خدا وہ ہے جس کے نعرہ سے کائنات ہل جاتی ہے اور اس کی قیادت کی تمنا میں اس کے کوچہ کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ وہ باطل سے ٹکراتا ہے تاکہ اسے ملیامیٹ کر کے دنیا میں خدا کا حکم جاری کرے۔ وہ باطل کی دنیا کو اپنا شکار سمجھتا ہے اور اسے فنا کے گھات اتار دینا چاہتا ہے ۔ چونکہ وہ خدا کا وہ کام کرتا ہے جس کا انجام پانا بالقوہ کائنات کی فطرت میں ہے اور جو ہر حالت میں انجام پا کر رہے گا اور وہ کائنات کے ارتقا کی قوتوں کو جو کائنات کے اندر مخفی ہیں اپنے ساتھ شریک کار بنا لیتا ہے۔ لہٰذا اس کی تدبیر خدا کی تقدیر سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی ہو جاتا ہے۔ عصر جدید کی دنیا میں جس میں دہریت‘ مادیت اور کفر اور الحاد کا دور دورہ ہے۔ ایسے عاشق کے لیے ایک زبردست چیلنج کا حکم رکھتی ہے۔ اسے چاہیے کہ اس چیلنج کو قبول کرکے اور عصر جدید کو مشرف بتوحید کر کے دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدل دے۔ اقبال حلاج کی زبان سے جس نے انا الحق کہا تھا ان حقائق کی تلقین کرتاہے کیونکہ انا الحق (میںخدا ہوں) کہنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان دنیامیں وہ کام کرے جو خدا کر رہا ہے ۔ اور اس طرح سے خدا کا معاون و شریک کار بن جائے۔ لہٰذا ان حقائق کی تلقین حلاج ہی کر سکتا ہے۔ اس طریق سے اقبال نے حلاج کے قول انا الحق کو جسے لوگوں نے کفر قرار دیا تھا ایک نئے معنی پہنائے ہیں جو اسلام کے مطابق ہیں۔ نقش حق اول بجان انداختن باز اورا در جہاں انداختن نقش جان تا در جہاں گردو تمام می شود دیدار حق دیدار عام اے خنک مردے کہ ازیک ہوئے او نہ فلک دارد طواف کوئے او‘ وائے درویشے کہ ہوئے آفرید‘ باز لب بر بست و دم درخود کشید حکم حق را جہاں جاری نہ کرو نانے از جو خورد و کراری نہ کرد‘ خانقاہے جست و از خیبر رمید راہبی و زید و سلطانی ندید نقش حق داری؟ جہاں نخچیر تست ہم عنان تقدیر با تدبیر تست عصر حاضڑ با تومے جوید ستیز نقش حق بر لوح ایں کافر بریز‘ مسلمانوں کا قومی نصب العین کلمہ توحید کی نشر و اشاعت مسلمانوں کا فطری مقصد زندگی اور قومی نصب العین ہے۔ کائنات میں مسلمان قوم کے وجود کا دارومدار کلمہ توحید کی نشر و اشاعت پر ہے۔ اگر وہ توحید کی نشر و اشاعت نہ کرے گی تو کائنات اپنے کمال کی طرف ارتقا نہیں کر سکے گا۔ لیکن چونکہ کائنات کا ارتقا ضرور جاری رہے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو مسلمان قوم ضڑور کلمہ توحید کی عالمگیر اشاعت کا کام دے گی اور یا پھر رب کائنات اسے مٹا کر ایک اور قوم پیدا کرے گا جو اس کام کو انجام دے گی۔ لیکن کلمہ توحید کی اشاعت اور قبولیت عالم انسانی کی تاریخ کا ایک ضروری باب ہے جو ہر حالت میں اس تاریخ کے اندر لکھا جائے گا۔ خواہ ا س باب کا مرکزی کردار موجودہ مسلمان قوم ادا کرے یا اس کی جگہ لینے والی کوئی اور مسلمان قوم کلمہ توحید کی عالمگیر اشاعت کائنات کے ارتقا کی ایک ضروری منزل ہے۔ جس سے کائنات ہر حالت میں گزرے گی خواہ ا س منزل کی راہ نمائی ہم کریں یا ہمارے مٹنے کے بعد کوئی اور قوم جو ہم سے زیادہ خدا سے محبت کرتی ہو اور خدا کے دین کی نشر و اشاعت کے لیے ہم سے زیادہ مستعد اور سرگرم عمل ہو۔ چنانچہ قرآن حکیم نے ایک طرف سے تو یہ ارشاد فرمایا ہ کہ مسلمان قوم دنیا کی تمام قوموں سے بہتر قوم ہے جو لوگوں کو راہ نمائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس لیے کہ وہ سچے خدا پر ایمان رکھتے ہیں (وہ ایمان جو نیک اور بد کی تمیز کا واحد معیار اور اس تمیز کو جامہ عمل پہنانے کا ایک ہی محرک ہے) اور اس بنا پر نیک کاموں کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں۔ (وکنتم خیر امہ اخرجت للناس تامر ون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تومنون باللہ۔ ۱۰۰۔۳۲) اور دوسری طرف سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے مسلمانوں اگر تم خدا کے دین کو ترک کر دو گے تو خداتمہاری جگہ ایک اور قوم لے آئے گا جو خد ا سے محبت کریںگے اور جن سے خدا محبت کرے گا جو مومنوںکے ساتھ نرمی اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے وہ لوگوں کی ملامت سے بے پرواہ ہو کر خدا کے دین کو پھیلانے کے لیے جہاد کریں گے۔ (یاایھا الذین امنوا من یرتدمنکم عن دینہ فسوف باتی اللہ بقوم یجبھم و یحبونہ دلہ علی المومنین اعزۃ علی الکفرین بجا ھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومہ لائم۔ ۵۷۔ ۵) پھراس وعید کے ساتھ قرآن حکیم کا یہ وعدہ بھی ہے کہ خدا نے اپنے رسول کو توحید کے صحیح اور سچے نظریہ حیات کے ساتھ بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ تمام باطل نظریات پر غالب آئے اور اگر اس بات میں کوئی شخص شبہ کرے تو اسے یہ معلوم ہو نا چاہیے کہ اس کی صداقت کی گواہی خود خدا دے رہا ہے اور خدا کی گواہی ہر گواہی سے کفایت کرتی ہے۔ کیونکہ اس سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں۔ (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و کفی باللہ شھیدا ۔ ۲۸۔ ۴۱) گویا مسلمان اگر توحید کی نشر و اشاعت کے لیے کام کریں تو خود خدا کا وعدہ ہے کہ وہ اس مہم میں ناکام نہیںرہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بڑے زور سے کہتا ہے کہ اگر مسلمان در حقیقت مسلمان ہے تو جب تک پوری دنیا سے کلمہ توحید کی آواز بلند نہ ہو لے اسے چین سے نہیںبیٹھنا چاہیے۔ تانہ خیزد بانگ حق از عالمے گر مسلمانی نیا سائی دمے ارتقا کی منزل مقصود کائنات کے ارتقا کا رخ عقیدہ توحید کی عالمگیر قبولیت کی طرف سے ہے جو ہر کر رہے گی۔ مسلمان اس ارتقا کاذریعہ بننے والا ہے او ر وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ بھی ہے۔ گویا توحید کے نغمے کائنات کے اندر سوئے ہوئے پڑے ہیںَ کائنات ایک ساز ہے جو کسی زخمہ ور کا منتظر ہے اور وہ زخمہ ور مسلمان ہے۔ مسلما ن اپنے ایمان کی وجہ سے کائنات کے خفیہ نغموں کو یعنی ارتقائے کائنات کی ممکنات کو خوب جانتا ہے اور قرآن کے علم کی وجہ سے ان کا علم اس کے خون میں رواں ہے۔ اسے چاہیے کہ کائنات کے ساز کے تاروں کو اپنی مضراب سے چھیڑ دے پھر دیکھے کہ اس سے کتنے حسین نغمے بلند ہوتے ہیں۔ یہ ساز اسی کے لیے بنایا گیا ہے کہ اگر وہ اسے اپنے کام میں نہ لائے تو بیکار ہے یعنی وہ اقوام عالم کا رہنما بنایا گیا ہے اس کے بغیر انسانیت اپنی منزل مقصود کو نہیںپا سکتی۔ مسلمان قوم کی زندگی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ خدا (اللہ اکبر یا تکبیر) پر ایمان رکھتی ہے۔ اس ایمان کے تقاضوں میں ایک بنیادی تقاضا عقیدہ توحید کی حفاظت اور اشاعت بھی ہے ۔ لہٰذا یہ تقاضا اس کی زندگی کا فطری مقصود ہے جسے وہ ترک کرے تو زندہ نہیںرہ سکتی۔ مسلمان قوم چہرہ ہستی کی رونق اور قرآن کی آیت کریمہ لتکونو ا شھدا علی الناس کے مطابق اقوام علم کی راہ نما ہے۔ نغمہ ہایش خفتہ در ساز وجود جویدت اے زخمہ ور ساز وجود‘ صد نواداری چو خون در تن رواں‘ خیز و مضرابے بتار او رساں زانکہ در تکبیر راز بود تست حفظ و نشر لا الہ مقصود تست تانہ خیزد بانگ حق از عالمے‘ گر مسلمانی نیا سائی دمے‘ آب و تاب چہرہ ایام تو در جہان شاہد علی الاقوام تو‘ مسلمان ساز کائنات کا مضراب ہے قرآن حکیم میں ہے: وکذالک جعلنا کم امہ وسطا لتکونو ا شھدا علی الناس وتکون الرسول علیکم شھیدا (اور اسی طرح سے ہم نے تم کو تاریخ عالم کے وسط میں آنے والی امت بنایاہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے خدا کی ہدایت کے پہنچے کی گوی دو اور رسول تمہارے سامنے خدا کی ہدایت کے آنے کی گواہی دے) مراد یہ ہے کہ جس طرح سے رسول پر یہ فرض کیا گیا تھا کہ وہ خدا کی ہدایت تم تک پہنچائے اسی طرح تم پر یہ فرض عاید کیا گیا ہے کہ تم خدا کی ہدایت لوگوں تک پہنچائو اور تمہیں ایک ایسی امت بنایا گیا ہے جو نوع انسانی کی تاریخ کے وسط میں آئی ہے تاکہ تم اس فرض کو بطریق احسن اداکر سکو۔ کیونکہ ایک طرف سے تو تم پہلے انبیاء کی امتوں میں سے جو قدیم زمانہ کی امتیں ہیں سب سے آخرپر ہو جس کی وجہ سے جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے وہ مکمل ہے اور تاقیامت نوع انسانیکی راہ نمائی کے سرچشمہ کے طور پر قائم رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اور دوسری طرف سے تم اپنی اسی مکمل تعلیم کی وجہ سے آئندہ زمانہ کی نسل انسانی کے راہ نماجو تمہاری راہ نمائی کو قبول کر کے اپنے حسن و کمال کی انتہا کو پہنچے گی۔ گویا تم عہد قدیم اور عصر جدید کے درمیان ایک واسطہ یا اتصال کی کڑی ہو۔ کائنات رنگ و بو کوئی راز نہیں۔ یہ اس لیے وجود میں آئی ہے کہ نوع انسانی جو حاصل کائنات ہے اپنے حسن کی حالت کمال کو پہنچے حسن نوع انسانی کی فطرت میں مضمر ہے اور بالقوہ اس کے اندر موجود ہے اور نوع انسانی کے اپنے ہی ایک ترقی یافتہ عنصر کی راہنمائی سے جسے مسلمان قوم کہا جاتا ہے بالفعل اور آشکار ہو گا۔ یہ کائنات گویا ایک ساز ہے جو اس بات کا منتظر ہے کہ اس کا ماہر زخمہ ور آئے اور اپنے مضراب سے اس کے تاروں کو چھیڑے اوران دلکش اور دلنواز نغموں کو بلند کرے اور جو اس کے اندر پوشیدہ ہیں اور وہ باہر زخمہ ور مسلمان ہے۔ جہان رنگ و بو پیدا تو مے گوئی کہ راز است ایں یکے خود را بتارش زن کہ تو مضراب و ساز اسب ایں عقیدہ توحید کی دلکشی اور فطرت انسانی کے ساتھ اور تمام علمی اورسائنسی حقائق کے ساتھ اس کی مطابقت اور ہم آہنگی مسلمان کے پاس ایک زبردست قوت تسخیر ہے جس سے وہ پوری دنیا کو بے تیغ و تفنگ اور پر امن طریق سے فتح کر سکتا ہے۔ ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ سامان بھی ہے عقیدہ توحید کی دل کشی کا دارومدار لیکن عقیدہ توحید کی ساری دلکشی کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ خدا نہ صرف انسان کی آرزوئے حسن کا واحد مقصود اور مطلوب ہے بلکہ خدا کی صفات کا حسن مظاہر قدرت میں آشکار ہے ۔ اور ہم مظاہر قدرت میں اس کامشاہدہ کر کے خدا کو جان سکتے ہیں۔ اور خدا کے ساتھ اپنی محبت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم مظاہر قدرت کے مشاہدہ سے حاصل ہونے والے علم سے (جسے آج کل سائنسی حقائق کا نا م دیا جاتاہے) خدا کے عقیدہ کو الگ کر لیں خدا کے عقیدہ کی جاذبیت اور دل کشی باقی نہیںرہتی اور وہ تسخیر قلوب کے ذریعہ کے طور پر پوری طرح سے موثر نہیں رہتا اور اس کی نشر و اشاعت جلد کامیاب نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے خدا کے عقیدہ کو مظاہر قدرت کے مشاہدہ اور مطالعہ کے ذریعے سے سمجھنے پر زور دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عقیدہ توحید کی نشر و اشاعت کے ضمن میں اقبال ہمیںبتاتا ہے کہ اگر عقیدہ توحید (عشق) کو سائنس (زیرکی) کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو پھر اس کی کشش دنیا کے اندر ایک انقلاب پیدا کر دیتی ہے اور ہمیں مشورہ دیتاہے کہ انہیں اور عقیدہ توحید اور سائنس کو آپس میں ملا کر اسلام کے حق میں ایک عالم گیر ذہنی انقلاب پیدا کریں۔ عشق چوں بازیرکی ہمبر بود نقشبند عالم دیگر شود خیزد نقش عالم دیگر بند عشق را با زیرکی آمیزدہ مستقبل کا طریق کار اقبال کے اس مشورہ کو جامہ پہنانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کے لے سائنسی علوم کی نصابی کتابوں کو دوبارہ اس طرح سے لکھیں کہ خدا کا عقیدہ ان علوم کو مدار و محور بن جائے ۔ اگر آج ہم اپنے فطری مقصد حیات کو جس پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے۔ یعنی کلمہ توحید کی نشر و اشاعت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیں تو ہم نہ صرف اندرونی طور پر پوری طرح سے متحد اور منظم ہو سکتے ہیں بلکہ کلمہ توحید کی موثر نشر و اشاعت کی غرض سے عقیدہ توحید کو سائنس کے ساتھ ملا کر ہم تسخیر قلوب اور فتح بلاد کی ایک ایسی قوت پیدا کر سکتے ہیں کہ جس کے سامنے ایٹمی ہتھیاروں کی قوت بھی بیکار نظر آئے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں طبیعیات‘ حیاتیات‘ اور نفسیات کے تمام حقائق عقیدہ توحید کی علمی اور عقلی تائید کے لیے مہیا ہو جاتے ہیں۔ جس سے عقیدہ توحید ایک یقین پر مجبور کرنے والی حقیقت بن جاتا ہے ۔ ایک قوم کسی مقصد حیات کے ماتحت ہی متحد ہو سکتی ہے۔ جس قوم کا کوئی مقصد نہ ہو یا جس قوم کا مقصد حیات ایسا ہو کہ اس کی سمجھ میںنہ آ سکتا ہو اور اس میں محبت کی گرمی اور عمل کا جوش پیدا نہ کر سکتا ہو تو وہ قوم متحد نہیں ہو سکتی۔ توحید کی نشر واشاعت ایک ایسا مقصد ہے جو ہمارے لہو کو گرما سکتا ہے۔ جب تک ہم اس بات سے غافل رہیں گے ہم دنیا میں اپنا رول اد انہیں کر سکیں گے۔ اور دنیا میں اول درجہ کی قوم شمار نہیں ہو سکیں گے۔ اقبال نے اس بات پر بڑا زوردیا ہے کہ مسلمان توحید کی نشر و اشاعت کو اپنا قومی نصب العین بنائیں تاکہ وہ ان کے اتحاد اور ان کی زندگی دونوں کا ضامن ہو۔ چوں زربط مدعائے بستہ شد زندگانی مطلع برجستہ شد مدعا راز بقائے زندگی جمع سیماب بقائے زندگی یہ دور اپنے براہیم کا منتظر ہے لیکن عقیدہ توحید کی نشر و اشاعت ہمیشہ تحریر و تقریر کے پر امن طریق سے جاری نہیں رہتی بلکہ اس کے دوران میں زود یا بدیر ایسے مواقع پیش آتے ہیں۔ جب باطل کی تشدد پسند قومیں مومن کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کے لیے ضرور ی ہوتا ہے کہ ان تشدد کی رکاوٹوں کو تشدد ہی سے دور کرے اور وہ اس ہمت آزما صورتحال کے لیے پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ لہٰذا جب یہ صورت حال پیش آتی ہے تو وہ اپنی قوت سے باطل کی رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان کو نیست و نابود کردتیا ہے۔ لا الہ الا اللہ ایک علمی نظریہ ہی نہیں بلکہ باطل کے لیے دعوت مبارزت بھی ہے اور اس کا مطلب صرف یہ ہے نہیںکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ میں خدا سے اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میرے بس میں ہے میں معبودان باطل کو جو اس دنیا میں عالم انسانی کی بہترین ترقی اور خوشحالی اور اگلی دنیا مین ان کی بہترین راحت اورمسرت پیدا کرنے والے میر ے اور میرے محبوب کے مشترک مقصد حیات کے راستہ میں حائل ہیں ملیامٹ کر کے رہوں گا۔ اور دنیا کے ایک ہی سچے خدا کو منوا کر رہوں گا۔ تاکہ بحیثیت ایک مسلمان کے خدا اور انسان کی طرف سے جو فرائض مجھ پر عائد ہوتے ہیں ان سے سبک دوش ہو جائوں ۔ تانہ خیزد بانگ حق از عالمے گر مسلمانی نیا سائی دمے اس لیے لا الہ کہنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ کہنے کے بعد جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے کہ جسے نبھانے کے لیے ایک انسان کو لرزہ براندام کر دیتی ہے۔ یہ خدا کو جان دینے کا عہد ہے۔ جو مے گویم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الہ را‘ مومن کے عقیدہ و توحید کے اندر یہ اقرار پوشیدہ ہے کہ جہاں تک اسکا بس چلے گا وہ معبودان باطل کو ملیامیٹ کر کے ایک ہی معبود برحق کی عبادت اور اطاعت کو دنیا میں باقی رکھے گا اور مون کی بے پناہ قوت عمل جو خودی کے نقطہ کمال پر اسے حاصل ہوتی ہے۔ اس اقرارپر عمل کا کام اس کے لیے آسان کرتی ہے۔ لا الہ الا اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مومن اس دنیا کو ایک بتکدہ سمجھے اور اپنے آپ کو ابراہیم خلیل اللہ کی طرح کا بت شکن اور اس بات کے لیے تیار رہے کہ وہ خلیل اللہ ہی کی طرح کسی وقت آگ میں ڈالا جائے گا۔ صنم کدہ جہاں اور مرد حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الہ میں ہے افسوس ہے کہ ہم ابھی تک بت پرستی کے اس دور کا ابراہیم پیدا نہیںہوا اور جو اس دنیا کو ایک صنم کدہ سمجھے اوراس کے بتوں کو توڑ کر فنا کر دے۔ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ بے شک توحید کا مطلب خدا کو ایک ماننا ہے لیکن خدا کو ایک ماننے میں خدا کو ایک منوانا بھی شامل ہے خدا کو ایک ماننے سے خودی اپنی محبت اور قوت کے کمال پر پہنچتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو پھر اس کی محبت اور قوت کا مصرف سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوتا کہ وہ اس طلسم رنگ و بو کو جسے کائنات کہتے ہیں اور جو خدا کی دشمنی اور بت پرستی کے ساتھ ہم معنی ہو گیا ہے توڑ کر خدا کو ایک منوائے۔ توحید کا مطلب یہی تھا لیکن افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں نے اسے اس طرح سے نہیں سمجھا۔ خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا‘ ٭٭٭ خودی اور فلسفہ سیاست ریاست کی تعریف انسانی افراد جب کسی نصب العین کے ماتحت ایک آزاد جماعت کی صورت میں منظم ہو کر اپنی زندگی بسر کرنے لگتے ہیں تو ان کے اس عمل کو سیاست کہتے ہیں۔ اور ان کی منظم جماعت کو ریاست کا نام دیتے ہیں۔ بعض وقت ایک جماعت جو کسی خاص نصب العین پر متفق ہو چکی ہو۔ ایسی مشکلات سے دوچار ہو تی ہے کہ وہ ایک ریاست نہیں بن سکتی اور کسی دوسری ریاست کے ماتحت غلامی کی حالت میں رہنے پر مجبور ہوتی ہے لیکن ایسی نظریاتی جماعت ہمیشہ آزاد ہونے اور ایک ریاست کی صورت میں آنے کی کوشش کرتی رہتی ہے اور اگر جماعت کا نصب العین جاندار ہو تو یہ کوشش زود یا بدیر کامیاب ہوتی ہے تاہم جب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہوتی ان کی تنظیم بھی جو ان کے مشترک نصب العین کی وجہ سے کسی نہ کسی درجہ میں ضرور موجود رہتی ہے۔ کامل نہیںہوتی۔ اس قسم کی نظریاتی جماعت بھی ایک بالقوہ ایک ریاست ہی ہوتی ہے کیونکہ اس پر بھی ایک ریاست کے قدرتی قوانین زندگی صادق آتے ہیں۔ سیاست کی بنیاد خدا کی محبت کا فطری جذبہ ہے انسان کے دوسرے تمام اعمال کی طرح انسان کے سیاسی عمل کا باعث بھی یہی حقیقت ہے کہ انسانی خودی کی اصل خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ ہے اور اس کے سوائے اور کچھ نہیں۔ خدا کی محبت کا یہی فطری جذبہ وہ قوت ہے جو نصب العین کی محبت کی صورت میں منظم انسانی جماعتوں یا ریاستوں کو وجود میں لاتی اور قائم رکھتی ہے اگرچہ انسان کا جذبہ محبت خدا کے لیے ہے اور خدا کی محبت ہی سے مکمل اور مستقل تشفی پا سکتا ہے تاہم جب کوئی فرد انسانی اپنے غلط قسم کے تعلیمی اور اخلاقی ماحول کی وجہ سے خدا کی صفات حسن و کمال کا ذاتی احساس نہ کر سکے تو پھر بھی اس کی محبت کا یہ طاقت ور جذبہ رکتا نہیں بلکہ کسی غلط یا ناقص نصب العین کی راہ سے اپنا اظہار پانے لگتا ہے۔ اس صورت میں وہ اپنے جذبہ محبت کو پوری طرح مطمئن کرنے کے لیے اس نصب العین کی طرف ان تمام صفات و کمال کو منسوب کر دیتا ہے جو دراصل خڈا کی صفا ت ہیں۔ اس طرح سے ایک غلط نصب العین انسان کے دل میں خدا کا قائم مقام بنتا ہے ہر غلط نصب العین کا چاہنے والا ہمیشہ ایک ایسے غلط تعلیمی اور اخلاقی ماحول کی پیداوار ہوتاہے جو اس خاص نصب العین کی محبت کو پیدا کر سکتا ہے۔ اگر حالات سازگار ہوں تو ایک نصب العین کو چاہنے والے افراد کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اپنی اس حد کو پہنچ جاتی ہے جو نصب العین کی فطرت اور خصوصیات نے معین کر رکھی ہو۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے نصب العین کی محبت اپنے تعلیمی اور نفسیاتی ورثہ کے طور پر دیتے ہیں اور ان کی اولاد میں متواتر اضافہ ہوتا رہتا ہے اور دوسری یہ ہے کہ وہ غیروں کو بھی اپنے نصب العین کی خوبی اور عمدگی کا قائل کر کے اپنے ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ان کی ایک بڑی جماعت پیدا ہو جاتی ہے اور اس جماعت کے افراد اپنے مشترک نصب العین کی محبت کی وجہ سے ایک دوسرے کے لے بھی ایک کشش محسوس کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ اتحاد کی یہ خواہش ان کو ایک قائد کے ماتحت اور منظم کردیتی ہے۔ کیونکہ دلوں کا اتحاد تنظیم کے بغیر کوی ٹھوس خارجی اور مرئی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ اس قسم کی ایک منظم جماعت کو ہی ہم ایک ریاست اور مملکت یا سٹیٹ کا نام دیتے ہیں۔ جماعتی نظم کا آغاز کسی نصب العینی جماعت کا منظم ہونا ا س کی زندگی کا کوئی مرحلہ ایسا نہیںہوتا کہ جو جماعت کے وجود میں آنے کے بعد کسی مناسب وقت پر نمودار نہیںہوتا۔ بلکہ جماعت کی تنظیم جماعت کے ظہور پذیر ہونے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے۔ جماعت اور تنظیم ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی جماعت کی تنظیم اس قدر ناقص ہو کہ اسے تنظیم شمار نہ کیا جائے۔ ایک ہی نصب العین کو چاہنے والے دو افراد کی جماعت میں بھی تنظیم کے بغیر نہیںہوتی۔ کیونکہ دونوں ہی سے ایک دوسرے کو نصب العین کی معرفت اور محبت میں اپنے آپ سے بہتر اور برتر سمجھتا ہے اوراپنا قائد تسلیم کرتا ہے۔ ہر نصب العینی جماعت پیدا ہوتے ہی منظم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد ممکن حد تک ترقی کرتی رہتی ہے اور اس کی تنظیم بھی اس کی توسیع کے ساتھ اس کے افراد کی محبت کی شدت یا قوت کے مطابق ترقی یافتہ اور پیچیدہ ہوتی جاتی ہے تاہم جب تک ایک منظم جماعت کی تنظیم افراد کی پوری زندگی کو ضبط میں لانے کے لیے آزادانہ ہو اور اس کو فی الواقع ضبط میں نہ لائے اس وقت تک وہ ایک ریاست نہیں کہلاتی۔ ریاست کی قوت حیات خدا یا خدا کے قائم مقام غلط تصور کی محبت مملکت کی قوت حیات یا روح یا زندگی ہے جس کے بغیر وہ مر جاتی ہے۔ اگرایک جاندار کے جسم سے قوت حیات رخصت ہو جائے تو وہ اسی وقت مر جاتا ہے۔ اسی طرح سے اگر کسی مملکت کا نصب العین کسی وقت غائب ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ مملکت اپنے وظائف کے تمام شعبوں کے سمیت اسی وقت ختم ہو جائے ۔ جس ططرح سے خون کا ایک دورہ ایک جاندار کے جسم کے کونے کونے کو قوت بہم پہنچاتا ہے اور اپنے وظائف کو انجام دینے کے لیے زندہ رکھتا ہے۔ اسی طرح سے ریاست کے نصب العین کی محبت ا س کے مختلف محکموں کو زندہ اور فعال رکھتی ہے۔ مملکت کے افراد میں نصب العین کی محبت جس قدر کمزور ہوتی ہے اسی قدر مملکت بھی کمزور ہوتی ہے اور غیر متحد اور غیر منظم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ایک منظم انسانی جماعت کے افراد جس قدر زیادہ اپنے نصب العین سے محبت رکھتے ہوں گے اسی قدر زیادہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بھی محبت رکھتے ہوں گے اور اسی قدر زیادہ ان کی جماعت زندہ اور صحت مند اور طاقت ور اور متحد اور منظم ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر مملکت اپنے تمام ذرائع تعلیم و تربیت کو جن میں سکول‘ کالج‘یونیورسٹی ‘ پریس‘ پلیٹ فارم‘ مطبوعات‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن شامل ہیں اپنے نصب العین کی محبت کو مخالف تصورات کی مخالفانہ محبت سے بچانے اور ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچانے کے لیے کام میں لاتی ہے۔ ہر ریاست اپنے نصب العین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نصب العین کے مطابق نہ صرف اپنا مخصوص تعلیمی نظام برپا کرتی ہے بلکہ اپنے مخصوص سیاسی قانونی اقتصادی اخلاقی‘ اطلاعاتی‘ تجارتی ‘صنعتی مالیاتی اور فوجی نظامات بھی قائم کرتی ہے۔ ان تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ جو قوت ایک ریاست کو پیدا کرتی ہے اسے متحد اور منظم کرتیہے اور اس کے تمام اعمال و افعال کی نوعیت اور سمت مقرر کرتی ہے۔ اور اسے زندہ اور قائم اور ترقی پذیر رکھتی ہے وہ خدا یا خڈا کے کسی قائم مقام غلط تصور کی محبت ہوتی ہے اور جس قدر اور جب تک یہ محبت طاقت ور ہوتی ہے اسی قدر اور اس وقت تک وہ ریاست بھی ترقی پذیر اور طاقت ور اور متحد اورمنظم ہوتی ہے۔ خودی کا ذوق انجمن آرائی ایک فرد انسانی کی زندگی اس کی اپنی ذات میں منحصر ہوتی ہے۔ وہ ہر حالت میں دوسرے افراد سے الگ تھلگ اور منفرد زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھتا ہے۔ اس کے جذبات اور محسوسات‘ اس کے فیصلے اور عزائم جو اس کو عمل پر آمادہ کرتے ہیں اس کے اپنے ہی دل میں پیدا ہوتے ہیں اور جب تک وہ اپنے قول یا فعل میں ان کا اظہار نہ کرے اس کے اپنے دل میں رہتے ہیں۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے پوری طرح سے آزاد اور خود مختار ہوتا ہے یاپھر وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کی پوری پوری نگہبانی کرتا ہے اور اگر کوئی اور آدمی ان میں داخکل انداز ہونا چاہے تو پوری قوت سے اس کی مخالفت کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس کا سبب کیا ہے کہ وہ ایسے افراد کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنے اور کام کرنے کو تیار ہو جاتاہے اور جو اسی کے نصب العین کو چاہتے ہوں اور جماعت کی عائد کی ہوئی بندشوں اور رکاوٹوں کو قبول کرتا ہے۔ اور اس کے جاری کیے ہوئے قوانین و ضوابط کی پابندی کرتاہے۔ اور اس طرح سے اپنی انفرادیت‘ آزادی اور خود مختاری کو اس جماعت کی انفرادیت کی خاطر قربان کرتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مصلحتاً یا مجبوراً ایسا کرتا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے وہ جماعت سے اعانت اور قوت حاصل کرتا ہے۔ بہت سے ایسے خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ جو تنہا اور الگ تھلگ زندگی بسر کرنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اور اپنے نصب العین کے لیے بہتر اور زیادہ کامیاب جدوجہد کر سکتا ہے۔ لیکن اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا سبب نہ کوئی مصلحت ہے نہ مجبوری نہ کوئی خوف نہ امید نہ دور بینی نہ مال اندیشی‘ نہ جلب منفعت نہ طلب اعانت نہ تمنائے قوت اور نہ مقصد حفاظت۔ بلکہ اس کا سبب فقط یہ ہے کہ انسانی خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ و دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کے باوجود محفل سازی اور انجمن آرائی کا ذوق رکھتی ہے۔ اور اس ذوق کو مطمئن کرنے سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ محض ضمنی یا اتفاقی ہیں جو خودی کا اولین مقصود نہیں ہوتے چونکہ خودی کی حقیقت فقط خدا کی محبت کا ایک فطری جذبہ ہے۔ اور خودی کی عقل آرائی اس کی فطرت کا ہی ایک تقاضا ہے صاف ظاہر ہے کہ خودی کا ذوق محفل آرائی اسی جذبہ محبت کا ایک پہلو ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدا کی محبت کے فطری جذبہ کا تقاضا نہ صرف یہ ہے کہ خودی اپنی جداگانہ منحصر بخود زندگی کو قائم رکھے بلکہ یہ بھی ہے کہ اس غرض سے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرے۔ یہی وجہ ہے کہ خودی کے ذوق محفل آرائی کے پیچھے نصب العین کی محبت کاجذبہ کام کر رہا ہوتا ہے اور ا س ذوق کی تحسین سے جو جماعت وجود میں آتی ہے اس کی بنیاد نصب العین کی محبت ہوتی ہے اور وہ ایک نصب العینی جماعت ہوتی ہے۔ جماعتی زندگی کے بغیر خودی اپنے جذبہ محبت کی مکمل تشفی حاصل نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنے کمال کو پہنچ سکتی ہے۔ زندگی انجمن آرا و نگہدار خود است اے کہ با قافلہ بے ہمہ شو با ہمہ رو‘ اپنے جذبہ محبت کی تکمیل اور تشفی چاہنے والے خود شناس لوگوں کا کام یہی ہے کہ وہ بیک وقت دوسروں سے الگ بھی رہتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی۔ برون ز انجمنے درمیان انجمنے بخلوت اندولے آنچتان کہ باہمہ اند فرد کی تکمیل کے لیے جماعتی زندگی کی ضرورت فرد کی ساری تگ و دو کا مقصد بے شک اس کی انفرادیت ہی کی تکمیل ہے ۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ جب تک فرداپنی انفرادیت کو جماعت کی انفرادیت میں گم نہ کر دے۔ اس کی انفرادیت کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی اگر فرد کو جماعت سے الگ کر دیا جائے ۔ تو خود فرد کی حیثیت سے بھی اس کی ہستی ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے کہ ایک لہر اگر دریا میں رہے تو لہر ہے اور دریا سے باہر نکل آئے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں جس طرح سے ایک لہر صرف دریا میں ہی دیکھی جا سکتی ہے ایک فرد جماعت میں ہی دیکھا جا سکتا ہے جماعت کے باہر اس کی انفرادیت کا کوئی وجود نہیںہوتا اگرایک پھول کی ضرورت ہو تو اس کو چمن میں سے توڑا نہیں جا سکتا ہے جہاں باقی پھولوں کے ساتھ مل کر اس کی آبیاری اور نشوونما ہوتی ہے۔ فرد کی خودی کی فطرت تنہائی پسند ضرور ہے کیونکہ وہ فقط اپنی ہی آرزوئوں کی دنیا میں رہتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کی تنہائی پسند فطرت کے تقاضے فقط جماعت سازی یا انجمن آرائی کے ذریعہ ہی سے پورے ہو سکتے ہیں۔ در جماعت فرد را بینیم ما از چمن اورا چوگل چینیم ما فطرتش وارفتہ یکتائی است حفظ او از انجمن آرائی است اسی بنا پر اقبال مسلمان کو تنبیہہ کرتا ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی جماعت سے الگ نہ رہے بلکہ جماعت کے ساتھ مل کر رہے ورنہ اس میں اس کا اپنا اور جماعت دونوں کا زیاں ہے۔ انحطاط کے اس دور میں مسلمانوں کی جماعت میں اچھے رہنمائوں کی کمی ہی نہیں بلکہ راہ پیمائوں کے ضبط اور نظم کا فقدان بھی ہے۔ ہم زیادہ دیر تک کسی راہ نما کے پیچھے نہیں چل سکتے۔ اور جلد ہی اس معمولی اور قابل گزر فروگزاشتوں یا کوتاہیوں کی بنا پر اس سے بگڑجاتے ہیں اور جماعت کی تنظیم سے الگ ہو جاتے ہیں اور ایک مقابل کی تنظیم قائم کر لیتے ہیں اور اس طرح سے ملت کے انتشار اور ضعف کا سبب بنتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم جماعت میں رہ کر جماعت کے اتفاق اور اتحاد کو قائم رکھیں اور ا س کی تنظیم کو انتشار سے بچائیں تو جماعت اپنے قائد کے ماتحت جو غلطیاں کرے گی۔ اپنی تنظیم اور اس سے پیداہونے والی قوت کی وجہ سے باسانی ان کی تلافی بھی کرے گی۔ اور اپنے اتحاد کی وجہ سے ترقی کے راستہ پر گامزن بھی رہے گی جو مسلمان فرد جماعت سے بددل ہو کر یا اس کی تنظیم یا قیادت سے مایوس ہو کر یا ناخوش ہو کر جماعت سے الگ ہوتا ہے اقبال اسے ایک اایسی ٹہنی سے تشبیہ دیتا ہے جو خزاں کے موسم میں درخت سے ٹوٹ وہ سوکھ جاتی ہے اور پھر تا قیامت موسم بہار کے برستے ہوئے بادلوں سے ہری بھری نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر وہ درخت کے ساتھ رہیں تو جب بہار آئے گی وہ بھی پور ے درخت کے ساتھ ہری بھری ہو جائے گی۔ ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار میں‘ ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے کچھ واسطہ نہیں ہے اسے مرگ و بار سے ہے تیرے گلستان میں بھی فصل خزاں کا دور خالی ہے جیب گل زر کامل عیار سے‘ جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور رخصت ہوئے تھے ترے شجر سایہ دار سے شاخ بریدہ سے سبق آموز ہو کہ تو نا آشنا ہے قائدہ روزگار سے ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ارشاد نبویؐ کی حکمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کہ جماعت کے ساتھ رہنا تم پر لازم ہے۔ جو جماعت سے الگ ہوا جہنم میں ڈالا گیا۔ علیکم بالجماعد من شذ شذ فی النار اس مضمون پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں شک نہیںکہ جماعت کے نظام ہستی کا دارومدار فرد پر ہے اگر فرد نہ ہو تو جماعت بھی نہیںرہتی لیکن فرد کی ہستی کا دارومدار بھی جماعت پر ہے۔ وہ جماعت کے وجود کا احساس کرنے کی وجہ سے اپنے وجود اور اپنی ممکنات کا احساس کرتا ہے۔ وہ جماعت کے اندر جماعت کے لیے اور جماعت کی وجہ سے زندہ رہتا اور کام کرتا ہے۔ اور جماعت ہی کی وجہ سے اس کے مخفی کمالات آشکار ہوتے ہیں۔ جماعت کا آئین اس کی قوتوں میں اعتدال اور تحریک پیدا کرتا ہے اور جماعت میں داخل ہو کر وہ ایک نہیںرہتا بلکہ جماعت بن جاتا ہے۔ جماعت کی قوت اس کی اپنی قوت ہو جاتی ہے۔ وہ ایک پھول سے چمن اور ایک قطرہ سے دریا بن جاتا ہے۔ لہٰذا جماعت کے اندر رہنا فرد کے لیے باعث رحمت ہے۔ جماعت اس کی مخفی قوتوں اور قابلیتوں کی تربیت کر کے ان کو کمال تک پہنچاتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ میل جول سے فرد پختہ ہوتا ہے۔ اس کی وحدت جماات کی کثرت کے بالمقابل ہی نمایاںہوتی ہے۔ اور جماعت کی کثرت اس کی وحدت کے اندر سمٹ کر وحدت بن جاتی ہے۔ فر د جماعت سے احترام اور وقار حاصل کرتاہے۔ لہٰذاجہاں تک ممکن ہو فرد کو جماعت کے اندر رہنا چاہیے اور اس سے تعاون کرنا چاہیے اور اس کے کاروبار کی رونق کو بڑھانا چاہیے۔ فرد را ربط جماعت رحمت است جوہر او را کمال از ملت است پختہ تر از گرمی صحبت شود‘ تا بمعنی فروہم ملت شود آئینہ یک دیگر فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے اخلاقی اور ثقافتی معیار کر پتا دیتا ہے۔ فرد اور جماعت کا باہمی تعلق ایسا ہی ہے جیسے ایک ایک موتی کا موتیوں کی لڑی سے یا ایک ایک ستارے کا کہکشاں سے۔ اگر ہر ایک موتی الگ موجود نہ ہو تو موتیوں کی لڑی کہاں سے آئے اور اگر ہر ایک ستارہ اپنا ولگ وجود نہ رکھتا ہو تو کہکشاں کاوجود بھی نہ ہو۔ فرد جب جماعت میں گم ہوتا ہے تو ایک قطرہ سے سمندر بن جاتا ہے۔ جماعت کی وجہ سے اس کے دل میں جدوجہد کرنے اور ترقی کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ جماعت ہی کی ضروریات کی روشنی میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کیا کیا ہے اور کیا نہیں کیا۔ اسے کیا کرنا چاہیی اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جماعت کی امیدوں اور آرزوئوں میں شریک ہونا ایسا ہے جیسے کہ زمزم کا صحت بخش پانی پینا۔ جو شخص جماعت کی امیدوں اور آرزوئوں سے حصہ نہیںلیتا اور اپنے اندر جدوجہد کرنے اور بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا کوئی جوش و خروش محسوس نہیں کر سکتا۔ اس کے نغموں کی گرمی اس کی بانسری کے اندر ہی سرد پڑ جاتی ہے۔ اس کی قابلیتوں کا پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتا ہے۔ اکیلا فرد اپنی زندگی کے مقاصد سے بے خبر رہتا ہے اور اس کے عمل کی قوتیں منتشر ہو کر ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ قوم ہی ہے جو ایک نظم و ضبط کے ماتحت اور قوم کے مشترک نصب العین کے لیے کام کرنا سکھاتی ہے۔ اور اس کی حرکت عمل کی سمت معین کرکے اس کے لیے ممکن بناتی ہے کہ وہ باد صبا کی طرح ایک منضبط اور دھیمی رفتار سے چل سکے۔ یہ صحیح ہے کہ جماعت میں رہ کر اسے جماعت کے قانون کا پابند ہونا پڑتا ہے اور لیکن چونکہ یہ پابندی اسے ایسے کاموںسے روکتی ہے جو اس کے اپنے کمالات کی آشکارائی کے لیے مضر ہوتے ہیں۔ لہٰذایہ پابندی اس کی اصلی فطرت کو مفید نہیںکرتی بلکہ آزاد کرتی ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے وہ شمشاد کی طرح چمن میں آزاد ہوتا ہے اور پابہ گل بھی ۔ فرد و قوم آئینہ یک دیگر اند‘ سلک و گوہر کہکشاں و اختر اند فرد تا اندر جماعت گم شود‘ قطرہ وسعت طلب قلزم شود مایہ دار سیرت دیرینہ او رفتہ و آئندہ را آئینہ او پیکرش از قوم و ہم جانش ز قوم ظاہرش از قوم و پہنائش ز قوم درویش ذوق نمو از ملت است احتساب کار او از ملت است ہر کہ آب از زمزم ملت نخورد‘ شعلہ ہائے نغمہ در عووش فرد‘ فرد تنہا از مقاصد غافل است قوتش آشفتگی را مائل است قوم با ضبط آشنا گرد اندش نرم رو مثل صبا گرد اندش پابہ بگل مانند شمشادش کند‘ دست و پابندد کہ آزادش کند چوں اسیر حلقہ آئین شود‘ آہوئے رم خوئے اور مشکین شود جماعت آفرینی کا جذبہ انسان کی خودی یک شناس ہے۔ وہ صرف خدا کو چاہتی ہے جو ایک ہے اور جب ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کو پہچانتی اور غلطی سے اس کے کسی قائم مقام تصور کو چاہتی ہے تو وہ بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں دو نصب العینوں یا دو معبودوں کی محبت کے لیے گنجائش نہیں محبت کرنا دل کا کام ہے لیکن جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں پیدا کیے ۔ (ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ) جب دل ایک ہے تو معبود بھی ایک ہی ہو سکتاہے یک شناس فطرت رکھنے کے باوجود خودی کے جذبہ محبت کا ایک زبردست تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کے چاہنے والوں کی ایک جماعت میں رہے۔ پھر اس کی محبت کا تقاضا صرف یہی ہے کہ جب جماعت موجود ہو تو جماعت میں رہے بلکہ یہ بھی ہے کہ جب جماعت موجود نہ ہو تو وہ اپنے نصب العین کی تبلیغ کر کے دوسروں کو اس کا معتقد بنائے اور اپنے ہم خیال لوگوں کی ایک جماعت پیدا کرے اور پھر متواتر اس کی توسیع اور ترقی کے لیے کوشش کرتا رہے۔ یہاں تک کہ پوری نو ع انسانی اس جماعت میں شامل ہوجائے۔ بخلوت انجمنے آفرین کہ فطرت عشق یکے شناس و تماشا پسند بسیاری است یہی وجہ ہے کہ ہر ریاست اپنے اطلاعاتی‘ مطبوعاتی اور نشریاتی مشروعات کے ذریعہ سے دنیا بھر کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے نظریہ حیات کے چاہنے والوں یا ہمدردوں میں شامل کرن کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ انبیا علیہ السلام اور ان کے امتیوں کی تبلیغ دین اور جماعت کے آفرینی کے پیچھے خودی کے جذبہ محبت کایہی پہلو کام کرتاہے۔ اگرچہ خدا کی وحی کی ہدایت سے اسے مزید تقویت اور توانائی بھی حاصل ہوتی ہے بلکہ غلط تحریکوں کے غلط روبانیوں اور ان کے پیروکاروں کی گمراہ کن تبلیغ اور تلقین کے عقب میں بھی خودی کے جذبہ محبت کی یہی خصوصیت یعنی تماشائے بسیاری کی الفت کار فرما ہوتی ہے۔ اگرچہ اس صورت میں وہ بھٹکی ہوئی ہوتی ہے اور اپنے اصلی مقصود یا مدعا کو نہیں جانتی۔ حکمائے مغرب کی غلطی اقبال کا یہ خیا ل کہ ریاست کا منبع خدا کی محبت کا جذبہ ہے اور جو خودی کی پوری فطرت سے ۔ روسو ہابیز اور لا ک ایسے فلسفیوں کے اس نظریہ کی تردید کرتا ہے کہ ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے انسان کی کوئی قدرتی حالت ایسی تھی کہ جب انسانی افراد جماعتی زندگی سے محروم تھے۔ جب کوئی قاعدہ یا قانون رائج نہیں تھا۔ اور جب ہر شخص جو چاہتا تھا کرتا تھا اور پھر خود سری‘ بے قانونی اور پیکار باہمی کی اس زندگی سے تنگ آ کر انہوںنے ایک شخص سے مصنوعی وعدہ کر لیا کہ وہ ا س کی رعایا ہوں گے اور ان کا حکمران وہ ہو گا اور وہ اس شرط پر اس کا حکم مانیں گے کہ وہ ان کے جان و مال کی حفاظت کرے گا اور ان کو امن دے گا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ انسانوں پر کوئی وقت ایسا نہیں آتا کہ جب وہ جماعتی تنظیم سے کلیتہً عاری تھے اور ایک دوسرے سے الگ تھلگ منتشر افراد کی صورت میں زندگی بسر کرتھے تھے۔ کسی نہ کسی درجہ کی جماعتی تنظیم شروع ہی سے انسانی افراد میں موجود تھی اور اگریہ کہنا درست ہے کہ ریاست کی اصل جماعتی تنظیم ہی ہے تویہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ ریاست کا وجود اس وقت کے حضر ت انسان کے ساتھ ہے جب وہ خود شعور اورخود شناس ہو کر خدا کی محبت کے جذبہ سے بہرہ ور ہوتا ہے اور مقام انسانیت سے نوازا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انسا ن کی جماعتی تنظیم یا ریاست ایک ابتدائی حالت سے ارتقا کر کے دور حاضر کی عظیم اور انتہائی طور پر منظم ریاستوں کی شکل میں اپنی موجودہ ترقی یافتہ حالت کو پہنچتی ہے۔ ریاست کا ارتقاء سب سے پہلی اور ابتدائی حالت کی ریاست خاندان تھا۔ جس کا سربراہ باپ یا خاندان کا سب سے زیادہ عمر رسیدہ بزرگ ہوتا ہے۔ اس ریاست کا نصب العین خاندان کے باہمی قرابت داری تھی۔ جس کا نمائندہ وہی خاندان کاسربرا ہ ہوتا تھا۔ پھر جب خاندان ترقی کر کے اسی نسل کے بہت سے خاندانوں کا ایک وسیلہ بن گیا تو قبیلے کا سب سے ممتاز آدمی اس کا سردار سمجھا جانے لگا اور اس طرح سے اب خاندان کی بجائے قبیلہ ایک ریاست بن گیا۔ اس ریاست کا نصب العین قبیلہ کی عصبیت تھی۔ جس کا نمائندہ قبیلہ کا سردار ہوتا تھا۔ پھر بہت سے قبیلوں سے ایک قبیلہ سب سے زیادہ معزز شمار ہوا اور اس کا سردار سرداروں کا سردار یا بادشاہ سمجھاگیا جسے ایک خاص خطہ زمین یا ملک کے رہنے والی قوم کا حکمران مانا گیا اور اس طرح سے قبیلہ کی بجائے ملک ایک ریاست بن گیا۔ اس ریاست کو منظم کرنے والا نصب العین بادشاہت کی عظمت یا تقدس کا تصور کرتا تھا جو بادشاہ کی ذات میں مجسم تھا۔ لیکن جلد ہی بادشاہوں کے مظالم نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کوئی نصب العین اس وقت تک پوری طرح سے تسلی بخش نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں عوام کی سود و بہبود مدنظر نہ ہو۔ لہٰذا ریاست کا نصب العین بادشاہت سے آگے بڑھ کر عوا م کی سود و بہبود قرار دے جسے آزادی مساوا ت اور اخوت وغیرہ کے ناموں سے تعبیر کیا گیا۔ لیکن ابھیان اقدار کے معنی محدود تھے کیونکہ ان کا اطلاق ایک محدود خطہ زمین کے لوگوں پر کیا جاتا تھا جو ایک خاص رنگ کے ہوں خالص زبان بولتے ہوں اور خاص نسل سے تعلق رکھتے ہوں اور اس بنا پر ایک قوم یا ایک نیشن کہلاتے ہوں۔ لہٰذا یسی صورت کا اصلی نصب العین قومیت یا وطنیت یا نیشنلزم تھا موجودہ دور میں انسان کے سیاسی نصب العین نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور وہ فلسفوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں جو کسی خاص خطہ زمین سے متعلق نہیں ہوتے مثلاً اشتراکیت اور جمہوریت اب سیاسی یا سماجی نظامات نہیںبلکہ پوری زندگی کے فلسفے شمار ہوتے ہیں اس لحاظ سے جدید ریاستیں آئندہ کی عالم گیر ریاست س یبہر قریب آ گئی ہیں۔ کیونکہ وہ ریاست بھی ایک فلسفہ پر قائم ہو گی جو انسانی خودی یا روح کا فلسفہ ہو گا۔ جماعت بندی خودی کا وصف ہے افسوس ہے کہ ان فلسفیوں میں سے کسی نے بھی اس حقیقت کی طرف توجہ نہیں کی کہ معاہدے فقط انسانوںمیں ہوتے ہیں ۔ لیکن جماعت بندی اور تنظیم کا وصف شروع ہی سے زندگی کے ساتھ چلا آتا ہے۔ زندگی کی مادی سطح پر جب ہم زندگی کے سب سے پہلے اہم مظہر یعنی جوہر یا ایٹم کو دیکھیں تو وہ بیجماعت بندی اور تنظیم کا ایک حیرت انگیز نمونہ نظر آتا ہے۔ اور اس طرح سے جماعت بندی کا وصف ایک سالمہ میں ایک قلم یا کرسٹل می‘ برف کے ایک گالے میں اوراجرام فلکی کے نظامات میں بھی کام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم مادی سطح زندگی سے اوپر زندگی کی حیاتیاتی سطح پر آئیں تو وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نوع حیوانات کا وصف کا اظہر کرتی ہے جوہر نوع کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایک طرح کی کشش رکتے ہیں جسے ماہرین نفسیات نے جبلت اجتماعی کا نامدیا ہے۔ اس کشش کی وجہ سے ہو ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بھی وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو وہ ایک منظم جماعت بن جاتے ہیں اور اس طرح سے عمل کرتے ہیں کہ گویا وہ ایک کل کے اجزا ہیں مثلاً پرندوں کی ڈاروں میں اور ہرنوں گرخروں ہاتھیوں زیبروں اور جرفوں ک گلوں میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ شاندار پرندہ یا حیوان قائدبنا لیا جاتا ہے جب تنظیم اورجماعت بندی کا یہ رجحان پوری طرح سے آزاد اور ترقی یافتہ ہو اوردوسری جبلتوں کی مزاحمت کے بغیراپنا اظہار پا رہا ہو تو جماعت کا کردار ایسا منظم ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک جسم واحد ہے اور جماعت کیافراد وہ خلیات ہیں جو اس جسم کی تشکیل کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ رجحان تمام انواع حیوانات میں پایاجاتا تاہم اب ت یہ صرف چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں جو اس لحاظ سے دوسری تمام انواع و اقسام میں زیادہ ترقی یافت ہیں۔ اپنے کمال کو پہنچا ہے۔ چیونٹیوں کے ایک گھر میں ہزاروں چیونٹیاں ہوتی ہیں تاہم وہ ایسی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتی ہیں کہ ہمیں ان کے گھر کو ایک تن واحد مجھنا چاہیے اوراسی طرح سے شہد ک مکھیوں کا ایک چھتہ بھی جسم واحد ہے اور جس کے خلیات آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ الگ الگ ہوتے ہیں اور یہ خلیات مکھیاں ہیں چھتہ کی تمام مکھیاں رانی پر جان فداکرتی ہیں شہد کی مکھیوں کی حیرت انگیزجماعتی تنظیم بڑی وضاحت کے ساتھ اقبال نے اس نظری کی تائید کرتی ہے کہ جماعت بندی جسے اقبال انجمن آرائی کہتا ہے خودی کی فطرت میں ہے ارو انسان کے اندر بھی اپنے اس کمال کو پہنچ سکتی ہے جو ہمیں اس وقت شہد کی مکھیوں کی زندگی میں نظر آتاہے کیونکہ ا سکا یہ کمال بھی خودی کی فطرت کے اندر بالقوہ موجود ہے ورنہ کہیں بھی اظہار نہیں پا سکتا۔ اب تمام انواع حیاتیات کا ارتقا موقوف ہو چکا ہے۔ اور خودی کا آئندہ سارا ارتقا صرف نو ع انسانی کی راہ سے ہونے والا ہے۔ کیونکہ نوع انسانی ہی اپنی آرزوئے حسن کی وجہ سے اس قابل ہے کہ خودی کے مخفی کمالات اور ا سکی پوشیدہ ممکنات کا مکمل اظہار کر سکے لہٰذا ہم آئندہ کی عالمگیر ریاست کے اندر جو خدا کے نصب العین پر قائم ہو گی حضرت انسان کی جماعتی تنظیم کے اس کمال کا نظارہ کر سکیںگے۔ آئندہ کی عالمگیر ریاست کی جماعتی تنظیم اورشہد کی مکھیوں کی جماعتی تنظیم مں فرق صرف یہ رہے گا کہ شہد کی مکھیوں کا مکمل صبط ارو نظم ان کی جبلتوں کے ماتحت رونما ہے۔ جن میں کوئی لچک یا تبدیلی ممکن نہیںہوتی اورمستقبل کے اندر انسانی افراد کامکمل ضبط اور نظم ان کے اپنے ارادہ اور اختیار سے ظہور پذیر ہو گا اور ا س سے کسی قسم کا انحراف ان کی اپنی تربیت یافتہ محبت کے لیے ناگوار ہو گا لیکن یہ صورتحال اس وقت پیدا ہو گی جب انسان اپنے ارتقاء کی اس انتہا تک پہنچ جائے گا جہاں خودی کی تمام صفات اور خصوصیات اپنی پوری ہم آہنگی اور دلکشی کے سات جلوہ افروز ہو گی۔ شہد کی مکھیوں کا چھتہ اس جماعتی تنظیم کا عکس ہونے کی وجہ سے خودی کی فطرت میں مضمر ہے اس با ت پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ خودی فطرت کس قسم کی ریاست کا تقاضا کرتی ہے۔ اور آئندہ کی آخری اور عالمگیر ریاست جو خودی کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرے گی اور اس کی تمام ممکنات کو آشکار کرے گی کس نوعیت کی ہو گی ظاہر ہے کہ شہد کا چھتہ ایک ایسی ریاست ہے جس میں سارا کام صرف ایک فرد کی مرضی کے مطابق انجام پاتا ہے۔ اور یہ فرد رانی ہ۔ رانی کو ریاست کے تمام افراد بالتفاق اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ اور س کے ہر حک کو بلا چون و چرا قبول کر لیتے ہیں اور ان معنوں میں یہ قائد ایک مکمل ڈکٹیٹر ہے تاہم وہ کوئی ایسا ڈکٹیٹر نہیں جو اپنی رعایات کے کسی ایک فرد کی خواہشات کو بھی نظر انداز کر دے یا ان کے خلاف ہر حالت میں اپنی مرضی منواتاہو اورجوجی میں آئے کر جاتا ہو خواہ نتائج کچھ ہوں بلکہ وہ ایسا ڈکٹیٹر ہے جس کی ہر بات وہی ہوتی ہے جو ریاست کے ہر فرد کی مرضی ہوتی ہے جو ہمیشہ اسی بات کو پسند یاناپسند کرتاہے جسے ریاست کا ہر فرد پسند یا ناپسند کرتا ہے۔ چھتہ ایک ایسی ریاست ہے جس میں حاکم اور محکوم کی مرضی ہمیشہ ایک ہوتی ہے اور ان میں کبھی تضاد پیدا نہیںہوتا اس لحاظ سے جمہوریت کی یہ تعریف اس پر صادق آتی ہے۔ کہ وہ عوام کی حکومت ہوتی ہے جو عوام کے لے ہوتی ہے اور جسے عوام ہی چلاتے ہیں ایک مکمل ڈکٹیٹر شب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل جمہوریت بھی ہے۔ لیکن وہ عصر حاضڑ کی معروف جمہوریت نہیں جس میں ہر مسئلہ پر ووٹ لیے جائیں اور جن میں اکاون فیصد اکثریت کا راج ہے بلکہ وہ اقلیت اور اکثریت کے جھگڑوں سے بے نیا ز ہے۔ اور اس میں اقلیت نہ موجود ہے اورنہ ہو سکتی ہے۔ مستقبل کی عالمگیر ریاست میں حاکم اور محکوم کی ہم آہنگی مستقبل کی عالمگیر ریاست بھی حاکم اور محکوم کی مرضیوں کی مکمل موافقت کی وجہ سے اسی طرح کی ایک مکمل ڈکٹیٹر شپ بھی ہو گی اور ایک مکمل جمہوریت بھی…لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریاست میں ڈکٹیٹر کی مرضی کے ساتھ عوام کے ہر ایک فرد کی اپنی مرضی کی مکمل موافقت کیونکر ممکن ہو گی اور اس سوال کا جواب ہمیں اس حقیقت سے ملتا ہے کہ فطرت انسانی یا خودی یا روح ہر فرد انسانی میں ایک ہی ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے یہ فطرت انسانی یا خودی یا روح ہمارے تمام اچھے اور برے کاموں کا سرچشمہ ہے ظاہر ہے کہ اگر ہم اپنی فطرت کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیں اور اس کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں تو ہمارے سامنے کام اچھے اور درست ہوں گے ارو اگرچہ غلطی کے راسطے بہت سے ہیں تاکہ درستی کاراستہ سب کے لیے ایک ہی ہے۔ انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے جب کہ اس پر کسی چیز کے اوصاف و خواص کا علم واضح ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس کا انکار نہیںکرتا بلکہ اسے درست تسلیم کرنے کے لیے اپنے آپ مجبور پاتا ہے۔ اشیاء کے اوصاف و خواص کا ایسا واضح علم سائنسی علم ہے یہی وجہ ہے کہ سائنسی علم کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں وہ ہر ملک میں ایک ہے خواہ کسی بھی ملک سے آیا ہو۔ اور ہر سائنس دان خواہ وہ کسی بی مذہب یا قوم کا ہو اس سے متفق ہے مثلاً اس وقت ایٹم کے اوصاف و خواص کا علم نہایت واضح ہے۔ نتیجہ یہ ہے ک ہر ملک خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب میں اپنے ہاں ایٹمی توانائی پیدا کرنے یا ایٹم بم بنانے کے لیے بلا چوں و چرا صحیح تسلیم کرتاہے اور اس سے استفاد ہ کرتا ہے۔ اب فرض کیجیے کہ کسی ملکم میں فطرت انسانی کا علم سائنسی علم کی سطح پر آ جاتا ہے ظاہر ہے کہ اس صورت میں اس کے متعلق تمام اختلافات ختم ہوجائیں گے اگر اس ملک میں عتعلیم کے ذریعہ سے اس علم کو عام کردیاجائے تو ہرشخص کو واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ا س کی خودی یا روح کے اوصاف کیا ہیں اور زندگی کے مختلف مواقع اور حالات میں ان کے مقتضیات اور مطالبات کیا ہیں اور وہ اس سے اور اس کی قوم سے کس قسم کا عمل چاہتے ہیں اور کس قسم کا عمل نہیں چاہتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں اس ملک کے اندر حاکم اور اشخاص محکوم کی مرضیوںمیں سے ہر بات کے لیے موافقت پیدا ہو جائے گی اور جون جوں خودی کا علم ترقی کرتا جائے گا یہ موافقت بھی ترقی کرتی جائے گی یہاں تک کہ اپنے اس کمال کو پہنچ جائے گی کہ جو خودی کی فطرت میں بالقوہ موجود ہے اور جس کا ایک ابتدائی مظاہرہ ہم شہد کی مکھیوں کی حیرت انگیز تنظیم میں دیکھتے ہیں چونکہ خودی یا فطرت انسانی کے صحیح علم کے بغیر انسان نہیں جان سکتا کہ اسے کون سا کام کرنا چاہیے اورکون سا نہیں کرنا چاہیے کون سا کام سا کے لیے خطرناک ہوتاہے اور کون سا نفع بخش لہٰذا خدا نے جو انسان کا خالق ہے انسان کو ا س کی بہتری کے لیے اس کی فطرت کا ضروری اور بنیادی علم جسے دین کہا جاتا ہے اپنی رحمت کے تقاضا سے رحمتہ اللعالمینؐ کے ذریعہ سے بہم پہنچایا ہے ۔ اور کہہ دیا ہے کہ اس علم کے مطابق کام کرتے رہو گے تو ہر غلطی اور پریشانی سے محفوظ رہو گے۔ چنانچہ حضورؐ کو ارشاد ہوا تھا کہ دین پر یکسوئی سے قائم رہیے اور یہ انسان کی وہ فطرت ے جس پر خدا نے تمام انسانوں کو پیدا کیا۔ ار خدا کی یہ تخلیق غیر مبد ل ہے۔ فاقم وجھک للذین حنیفا فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل الخلق اللہ (۳۰:۳) لیکن خودی کا بنیادی اور ضڑوری علم جونبوت یا خدا کے قول کے ذریعہ سے انسان کو حاصل ہوتاہے اپنی روشنی کی مدد سے مزید ترقی کرتا رہتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کا علم درحقیقت اس بات کا علم ہے کہ خود ی کیا چاہتی ہے اور جو کچھ چاہتی ہے کیوں چاہتی ہے اور اس علم کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ خودی خدا کو چاہتی ہے اور جو ایسی ایسی صفات کا مالک ہونا چاہیے کہ تاکہ خودی اس س مطمئن نہ ہو سکے لہٰذا خودی کا علم خدا کا علم ہے اور خدا کا علم خودی کا علم ہے۔ لیکن خدا کا علم خڈا یک قول سے نہیں بلکہ خدا کے فعل سے بھی حاصل ہوتا ہے اور خدا کا فعل قدرت اور اس کے مادی حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر ہیں جن کو قرآن حکیم نے خدا کی آیات نفس و آفاق کا نام دیا ہے اور چونکہ مادی اور حیاتیاتی مظاہر قدرت خارج کی دنیا یعنی آفاق سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ان آیات کو آفاق کہا گیا ہے اور چونکہ نفسیاتی مظاہر قدرت انسان کے ذہن سے تعلق رکھتے ہیں ان کوا ٓیات انفس کہا گیا ہے چونکہ ان مظاہر کا علم بڑھتا جا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا علم بھی جو دوسرے پہلو سے خودی کا اور خدا کے قول کا علم بھی ہے برابر بڑھتا جا رہاہے ضروری بات ہے کہ علم کی اس ترقی سے ایسا قوت آ جائے جب خودی کا علم سائنسی سطح پر نمودار ہو یعنی ناقابل انکار حد تک واضح ہو جائے علمی ارتقا کے اس مرحلہ کی پیش گوئی قرآن حکیم میں موجود ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ عنقریب ہم لوگوں کو انفس آفاق کے اندر اپنے نشانات دکھائیں گے جن سے یہ واضح ہو جائے گا کہ قرآن خدا کی سچی تعلیم ہے۔ سنریھم ایتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق (۵۳: ۴۱) علمی ارتقا کا یہ مرحلہ اقبال کے فلسفہ خودی کی صورت میں اس وقت پہنچ چکا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت پوری دنیا کے لیے اس وقت آشکا رہو گی جب نوع انسانی مادی حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت کے علم کے ساتھ خدا کے عقیدہ کو ملحق کر ے گی ار سائنسی حقائق اور خدا کے عقیدہ کا باہمی الحاق کائنات کے ارتقا کی ایک ضروری منزل ہے جو آ کر رہے گی۔ پاکستان کا عالمی رول قرآن بتا رہے ہیں کہ یہ الحاق سب سے پہلے پاکستا ن میں انجام پائے گا کیونکہ دنیا بھر میں ُاکستان ہی وہ ملک ہے جو خدا کے نام پر لیا گیا ہے اور جس میں خدا کا دین فلسفیانہ نظریات کے اس دور میں سب سے پہلے ایک جدید فلسفہ کی صورت میں جو فلسفہ خودی ہے نمودارہوا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ پاکستان ایک دینی ریاست تو بنے لیکن دین کی فلسفیانہ حکیمانہ یا سائنسی توجیہ کو جو فلسفہ خودی کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے کام میں نہ لائے اور اس فلسفہ کو اپنا نظریہ نہ بنائے لہٰذا پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں آئندہ کی عالمگیر ریاست کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب پاکستان میں یونیورسٹیوں کی نصابی کتب کے اندر خدا اور سائنس کے الحاق سے خودی کا علم ا س قدر عام ہو گا کہ حاکم اور محکوم کی مرضیوں کے درمیان مکمل موافقت پیدا ہو جائے گی رفتہ رفتہ پاکستان کی تخلیقی اور تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں خودی یا روح کے اوصاف و خواص کا سائنسی علم ا س قدرواضح اور شکوک و شبہات سے اس قدر بالا و بلند ہو جائے گا کہ تمام بنی نو ع انسان باسنای میں اس کی صڈاقت کااعتراف کرنے لگے گی۔ یہاں تک کہ اس اعتراف کی وجہ سے وہ پاکستان کی قیادت میں ایک عالم گیر صورت میں متحد اور منظم ہو جائے گی چونکہ ایسی ریاست ایک واضح اور روشن نظام حکمت پر مبنی ہو گی لہٰذا اس کے قائد اور عوام کے درمیان اختلا ف ناممکن ہو گا۔ اقبا ل کے نزدیک یہ صورت حال غیر متوقع یا عجیب نہیں کیونکہ خدا کا عقیدہ جب سائنس کے ساتھ مل جاتاہے تو ایک عالم گیر انقلاب پیدا کرتا ہے۔ عشق چوں بازیرکی ہمسر بود نقشبند عالم دیگر شود!! مروجہ جمہوریت غیر فطری ہے مروجہ جمہوریت میں اکاون فیصد اکثریت کی حکومت خودی کی فطرت کے منافی ہے خودی ہمیشہ ایک فرد کی قیادت میں جماعت پیدا کرتی ہے اور قائم رہتی ہے۔ اور وہ جماعت کا بہترین فرد سمجھا جاتا ہے۔ حیاتیاتی سطح ارتقا پر خودی ایک فرد سے حیوانات کی ایک پوری نوع پیداکرتی ہے اور یہ فرد اس نوع کا جد اول ہوتاہے ۔ اور جب تک نوع زندہ رہتی ہے ا س کے تمام افراد ا س فرد کے جسمانی نمونہ کی پیروی کرتے ہیں گویا وہ ان کا حیاتیاتی قائد ہوتاہے۔ اسی طرح سے نظریاتی سطح ارتقا پرخودی ایک فرد کی رہنمائی سے ایک پوری نظریاتی جماعت پیداکرتی ہے۔ اور وہ فرد ہمیشہ کے لیے اس جماعت کا قائد اول بنتاہے۔ اور اس کی وفات کے بعد جب جماعت کی قیادت کا سوال درپیش ہوتا ہے تو پھر بھی قائد اول کا مقام ایسا مقام ہوتاہے جس کی نظریاتی زندگی قائد اول نمونہ سے قریب ترین ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنے بہترین فرد کو اپنی نمازکا امام بنائو۔ اس ارشا د میں یہ ہدایت مضمر ہے کہ مسلمانوں کو اپنی دینی اور دنیاوی قیادت کے لے اکاون فیصد اکثریت کی بجائے ایک آدمی منتخب کرنا چاہیے جو نظریاتی اعتبار سے ان میں سے بہترین ہو۔ خودی کے اوصاف و خواص کے علم کے عام ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل کی ریاست میں نصب العین کی محبت یا معرفت تمام افراد میں ہر وقت یکساں رہے گی۔ بلکہ ہر زمانہ میں اس کے اندر ایک شخص ایسا موجود رہے گا جو جماعت کے نصب العین کو دوسرے افراد کی نسبت بہتر سمجھتا ہو اور جانتا ہوگا‘بہتر چاہتا ہو گا اور بہت عمل میں لاتا ہو گا۔ مستقبل کی ریاست میںایسا شخص ہی قائد چنا جائے گا ایسے قائد کو ان لوگوں کی رائے کا پابندنہیں کیا جا سکے گا۔ جن کی محبت یا معرفت قائد سے کم ہو اور وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کی تعداد زیادہ ہے۔ اس ریاست میں قائد کو مشورہ دینے والے لوگ موجود ہوں گے اور وہ ان مشوروں کو سنے گا اور ان پر غور کرتا رہ گا تاکہ وہ ان کی روشنی میں اپنی آراء کے نیک و بد کو زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھے۔ لیکن فیصلہ بہرحال اس کا اپنا ہو گا اور جب اس کے فیصلہ کی وضاحت کی جائے گی تو عوام میں سے ہر شخص کو یہی نظر آئے گا کہ یہ فیصلہ صحیح ہے اور قائد ہی کا فیصلہ نہیں بلکہ اس کا اپنا فیصلہ بھی ہے جو اس کے دل کی گہرائیوں میں مخفی تھا اور جسے وہ اپنے علم اور محبت کی نسبتی کمی کی وجہ سے پوری طرح نہ سمجھ سکاتھا۔ اس کے بالمقابل رواجی جمہوریت کا یہ طریق کار غلط ہے کہ اکثریت کی رائے کو قوم کے بہترین شخص کی رائے پر بھی ترجیح دی جائے خواہ اکثریت کی رائے ا س کی رائے سے کیسی ہی مختلف ہو اور کیسی ہی گھٹیا کیوںنہ ہو۔ اقبال بڑے زور دارا لفاظ میں ایسی جمہوریت کی مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم ایک اچھوتے اور حکیمانہ خیال کی توقع ایسے لوگوں سے کرتے ہو جو جاہل اور پست فطرت ہیں۔ کہاں چیونٹی اور کہاں حضرت سلیمان۔ ہم ایک چیونٹی سے حضرت سلیمان کی سی ذہانت طبع کی توقع نہیں کر سکتے۔ اس رواجی جمہوریت کو ترک کر دو کیونکہ اگر دو سو گدھے بھی جمع ہو جائیں تو ان سے انسان کے فکر کی توقع نہیںکی جا سکتی ۔ متاع معنی بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید ایسی جمہوریت بیکار ہے کیونکہ ا س میں افراد کو گنا جاتا ہے ان کی رائے کا وزن نہیں کیا جاتا۔ اس راز کو اک مرد قلندر نے کیا فاش ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے استبداد کا نیا لباس پھر ایسی جمہوریت میں اکثریت والوں کی رائے بھی اپنی نہیںہوتی۔ بلکہ چند خود غرض اور بددیانت دولت مندوںکی رائے ہوتی ہے جس کو وہ اپنی دولت اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر ان کے ووٹوں کی صورت میں لے آتے ہیں۔ گویا وہ درحقیقت جمہوریت نہیں ہوتی بلکہ بادشاہت اور استبداد کی ایک صورت ہوتی ہے جو جمہوریت کا لباس اوڑھ لیتی ہے۔ ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب‘ تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری‘ مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق‘ طب مغرب میں مزے میٹھے اثر آوری‘ گرمی گفتار اعضائے مجالس الامان‘ یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ میں جب ابلیس کا ایک مشیر دوسرے کو کہتاہے کہ تو سلطانے جمہور نئے فتنہ سے بے خبر ہے۔ یہ فتنہ خیر ہے شرنہیں۔ لہٰذا ابلیس کے کاروبار کو فروغ پانے سے روک دے گا۔ خیر ہے سلطانے جمہور کا غوغا کہ شر تو جہاں کہ تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر تو دوسرا مشیر اسے جواب دیتا ہے کہ میں سلطانے جمہور کی نئی تحریک سے باخبر ہوں لیکن وہی تو بادشاہت کا ایک پردہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ جب آدم اپنی حیثیت سے کسی قدر باخبر ہو نے کے بعد بادشاہوں کی غلامی اور سختی کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہونے لگا تو ہم نے اسے خو د دھوکہ میں مبتلا کرنے کے لے بادشاہت کو ہی جمہوریت کا لباس پہنا دیا۔ بادشاہت کا کاروبار بادشاہ کے بغیر بھی جاری رہ سکتاہے ۔ بادشاہت کا امتیازی نشان لوٹ کھسوٹ اور ظلم ہے۔ سویہ امتیاز ایک جمہوری نظام کے اندر مجلس ملت کو بھی حاصل ہے۔ مغرب کا جمہوری نظام دیکھ کر کیا وہ انصاف اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود کمزور قوموں کو غلام بنا کر ان پر چنگیز کی طرح کے مظالم نہیں ڈھارہا۔ ہوں ‘ مگر میری جہاں بینی بتای ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پردہ ہو اس سے کیا خطر ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے‘ یہ وجود میر و سلطان پر نہیں ہے منحصر مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو‘ ہے وہ سلطان غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر خودی کا ذوق انجمن آرائی ارتقائے کائنات ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ سے خودی خودی کی جستجو کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ کائناتی خودی ہے اور دوسری طرف سے انسانی خودی جو اپن مادی اور حیاتیاتی مراحل سے گزر کر انسانی مرحلہ تک پہنچتی ہے۔ خودی جب اپنی منزل مقصود کی طر ف حرکت کرتی ہے تو آپ کو بہت سے افراد کی صورت میں ظاہر کرتی ہے ۔ لیکن چونکہ وہ ایک ہے اور وہ ان سارے افراد کو ایک منظم وحدت کی اکائی بنا کر آگے چلتی ہے۔ حیاتیاتی اور انسانی مراحل ارتقاء پر ہم جنس افراد کی جماعتی تنظیم کا باعث خودی کی فطرت کا یہی تقاضا ہے ۔ اسی کو اقبال خودی کا ذوق انجمن آرائی کہتا ہے۔ اور خودی کی فطرت کا یہ تقاضا بھی خدا کی محؓت کا ایک پہلو ہے۔ خودی اپنی محبت کی تشفی کے لیے جو عمل کرتی ہے ا س میں تنہا نہیں رہنا چاہتی بلکہ اپنے تمام ساتھیوں کو اس میں شریک کرنا چاہتی ہے ۔ اوریہی وجہ ہے کہ خودی کا عمل پوری طرح سے موثر اور کامیات اسی صورت میں رہتا ہے کہ جب وہ پوری جماعت کی رفاقت میں انجام پائے۔ قرآن حکیم میں جو نماز باجماعت (وارکعو مع الراکعین ۴۳۔۲) کا حکم ہے اس کی بنیاد خودی کی فطرت کا یہی تقاضا ہے۔ احساس وحدت زندگی کا خاصہ ہے تمام انواع حیوانات کے وجود کا سرچشمہ ایک ہی ہے یعنی خودی کائنات لیکن وحدت کا احساس صرف ایک ہی نوع حیوانات کے فرد کے اندر آپس میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ایک ہی نوع کے افراد آپس میں مشابہت رکھتے ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر نوع حیوانات زندگی کے ارتقا کا ایک خاص مرحلہ ہے جو پچھلے ہر مرحلہ کو منسوخ کر کے اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ خودی ہر اس نئی منزل پر جہاں وہ آ نکلتی ہے ایک وحدت ہوتی ہے اور اپنے آ پ کو ایک وحدت کے طور پر محسوس کرتی ہے اور ایک وحدت کے طور پر رہنے اور کام کرنے کاجذبہ رکھتی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے اس اس بات کی ضمانت ہے کہ نوع انسانی میں بھی خودی اپنے ارتقاء کے اس مقام پر جو اس کا منتہائے مقصود ہے ایک وحدت ہونے کا احساس کرے گی اور ایک وحدت کے طور پر رہنے اور کام کرنے کا جذبہ رکھے گی۔ اسی وحدت کے احساس یا جذبہ کوہی ماہرین حیاتیات نے جبلت اجتماعی کا نام دیا ہے خودی اپنے ارتقاء کے کسی بلند ترین مقام پر قدم رکھتی ہے تو اپنے پست تر مقامات پر جن سے وہ آگے نکل چکی ہوتی ہے۔ حکمران ہوتی ہے اور لہٰذا ان کے ساتھ ایک ہونے کا احساس نہیں کر سکتی۔ اپنے ارتقاء کے ہر مقام پر خودی کی آرزوئیں اور ان آرزوئوں کو حاصل کرنے میں قوتیں بالکل نئی ہوتی ہیں اور پست تر مقام کی خودی ان آرزوئوں اور قوتوں میں اس کے ساتھ برابر کی شرکت نہیںکر سکتی۔ لہٰذا وحدت کا احساس جو ایک نوع حیوانات میں پایا جاتا ہے ۔ خودی کی اس بنیادی خصوصیت کے ماتحت رونما ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارتقا کے ہر مرحلہ پر اپنے تمام اراکین کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کر کے ایک منظم جماعتی زندگی کی تخلیق کرنا چاہتی ہے۔ ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ارتقا کے انتہائی مرحلہ پر جب خودی اپنے مبداء یعنی کائناتی خودی کے بہت قریب پہنچ جائے گی خودی کی یہی خصوصیت ایسے خود شناس افراد کی جماعت کی صورت میں رونما ہو گی کہ جو ایک دوسرے کے ساتھ اور کائناتی خودی کے ساتھ تعاون کر کے ایک اعلیٰ درجہ کی منظم جماعتی زندگی کو ظہور پذیر کریں گے۔ خودی کے جذبہ محبت کے پہلو کی حیثیت سے خودی کی یہی خصوصیت ہے جو ایک انسانی ریاست کی تنظیم کو ایک خلیہ کی تنظیم اور ایک نظام شمسی ایک قلم ایک سالمہ اور ایک جوہر کی تنظیم کو وجود میں لاتی ہے اور خودی کی یہی خصوصیت ہے جو مستقبل کی عالمگیر ریاست کی تنظیم کو نکتہ کمال پر پہنچائے گی۔ خدا کی محبت کا جذبہ جو انسانی جماعتوں کی تنظیم کا باعث ہوتا ہے حیوان کی قوت حیات کی صورت میں اور اس سے پہلے مادہ میں برقی رو کی صورت میں کام کرتاہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرح کی جماعتی تنظیم انواع حیوانات میں اور مادی مظاہر قدرت میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ایک جسم حیوانی سے نظریاتی جماعت کی مماثلت اقبال نے ایک نظریہ کی بنا پر منظم ہونے والی انسانی جماعت یا قوم کو بجا طور پر ایک جسم حیوانی کے مماثل قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’جس طرح ایک جسم ذوی الاعضا ء مریض ہونے کی حالت میں بعض دفعہ خود بخود بلا علم و ارادہ اپنے اندر ایسی قوتوں کو برانگیختہ کر دیتا ہے جو اس کی تندرسی کاموجب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک قوم جو مخالف قوتوں کے اثرات سے سقیم الحال ہو گئی ہو بعض دفعہ خود بخود رد عمل پیدا کرنے والی قوتوں کو پیدا کر لیا کرتی ہے۔ مثلاً قوم میں کوئی زبردست دل و دماغ کا انسان پیداہو جاتا ہے یا کوئی نئی تخیل رونما ہوتی ہے۔ یا ایک ہمہ گیر مذہبی اصلاح کی تحریک بروئے کار آتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قوم کے قوائے ذہنی اور روحانی تمام طاغی اور سرکش قوتوں کو اپنا مطیع و منقاد بنانے اور اس مواد فاسد کو خارج کر دینے سے جو قوم کے نظام جسمانی کی صحت کے لیے مضر تھا۔ قوم کو نئے سرے سے زندہ کر دیتے ہیں اور اس کی اصل توانائی اس کے اعضا میں عودکر آتی ہے‘‘۔ (مقالات اقبال ص 117) ایک جسم حیوانی اور ایک نظریاتی جماعت کی یہ مماثلت اتفاقی نہیں بلکہ اس کا ایک معقول سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں کے باعث زندگی کی رو ہے جو دونوں کے کام کرتی ہے اور جس کے فطرتی اوصاف و خواص دونوں میں ایک ہی ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ ایک جسم حیوانی اور ایک نظریاتی جماعت اور باتوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مماثلت رکھیں۔ زندگی کے وہی اوصاف و خواص ہیں جو پہلے حیاتیاتی سطح پر اور پھر انسان کے ظہور پذیر ہونے کے بعد نفسیاتی یا انسانی سطح پر کام کرتے ہیں لہٰذا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ دونوں سطحوں پر ان کا اظہار مماثل ہو گا۔ سوائے اس کے کہ ان دونوں سطحوں پر ان کے اظہار میں اتنا فرق موجود ہو جو خود ان سطحوں کے اپنے فرق کی وجہ سے ناگریز ہے اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔ ہر نظریاتی جماعت ایک نصب العین پر مبنی ہے مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ایک جسم حیوانی کے اندر ایک قوت حیات کام کرتی ہے جو اسے وجود میں لاتی ہے‘ اس کی نشوونما کرتی ہے او ر اس کی تندرستی اور طاقت کو قائم رکھتی ہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت یا جسم اجتماعی کے اندر نصب العین کی محبت ایک ایسی قوت کے طورپر کام کرتی ہے جو اسے وجود میں لاتی ہے ا س کی نشوونما کرتی ہے اور اس کی وحدت اور طاقت کو قائم رکھتی ہے۔ دراصل وہی قوت حیات جو حیوان میں کام کرتی ہے۔ انسانی مرحلہ ارتقامیں پہنچ کر نصب العین کی محبت کی صورت میں جلوہ گرہوتی ہے۔ اور ایک بیرونی شکل رکھتی ہے پھر ایک نظریاتی جماعت بھی ایک جسم حیوانی کی طرح ایک اندرونی قوت ہی نہیں بلکہ ایک بیرونی قوت بھی رکھتی ہے جو اس کے نصب العین کے ماتحت پیدا ہونے والے آئین اور قوانین روسوم و راج اور عادات و شمائل پر مشتمل ہوتی ہے اور جسم حیوانی کی طرح اس کے اندر بھی زندہ رہنے کا عزم ہوتاہے۔ اور جسم حیوانی کی طرح وہ بھی نشوونما پاتی ہے اور خوراک کی ضرورت محسوس کرتیہے جو ایسے تعلیمی مواد پر مشتمل ہوتی ہے جو نصب العین کی محبت کی نشوونما کرنے والا ہو۔ جسم حیوانی کی طرح اس کا بھی ایک مدعا ہوتا ہے اور وہ نصب العین کا حصول ہوتا ہے اور یہ بھی اپنے مدعا کے حصول کے لیے مزاحمت سے دوچار ہوتی ہے۔ اس مزاحمت پر عبور پانے کے لیے جدوجہد کرتی ہے اور اس جدوجہد سے اپنی طاقت میں اضافہ کرتی ہے اور جب جدوجہد ترک کردیتی ہے تو کمزور ہو جاتی ہے جس طرح سے ماضی جسم حیوانی کا حیاتیاتی ماحول حیوان کی نشوونما اور ارتقاء کی سمت اور اس کی فعلیت کے نتائج پرہوتا ہے اسی طرح سے زمانہ حال میں ایک نظریاتی جماعت کا نفسیاتی یا تعلیمی ماحول اس کی نشوونما اور ارتقا کی سمت اور اس کی فعلیت کے نتائج پر اثر انداز ہوت اہے مثلاً انگریزی قوم ایک نظریاتی جماعت اس لیے ہے کہ ان کا نظریہ ایک ہے اور وہ ہے انگلستان کی محبت ہے۔ لیکن ان کا یہ نظریہ اس لیے بن گیا ہے کہ وہ ایک ہی ملک میں رہتے ہیں ایک ہی زبان بولتے ہیں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی عادات و رسوم بھی ایک جیسی ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہوںنے شروع سے ہی مل کر ان کے نفسیاتی یا تعلیمی ماحول کو بنایا تھا اور اسی ماحول نے ان کے نظریہ کی تشکیل کی تھی اور اس کو وہ خاص صور ت دی تھی جو اسے اب حاصل ہے تاہم چونکہ ان کا یہ نفسیاتی اور تعلیمی ماحول ان کی فطری کے تقاضون کے مطابق نہیں تھا وہ ان کینظریہ کی صحیح اور پوری طرح نشوونما نہیںکر سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نظریہ اپنی نشوونما کے دوران کامل ہونے سے پہلے ہی ایک ملک کی علاقائی قومیت پر رک گیا ہے اور کامل ہو کر خدا کے نظریہ کی صورت اختیار نہیںکر سکا۔ سیاسی انقلاب کی حقیقت جس طرح سے حیاتیاتی ارتقا کے ادوار میں ایک جسم حیوانی کی جسمانی شکل و صورت کے انر اس مظہر قدرت کی وجہ سے جسے تقلیب کہا جاتاہے ایک فوری تبدیلی رونما ہو جاتی تھی اسی طرح سے نظریاتی ارتقا کے اس دور میں ایک نظریاتی جماعت کی نظریاتی شکل و صورت کے اندر بھی ایک نظریات تقلیب کی وجہ سے جسے بالعموم ایک انقلاب کہتے ہیں ایک فوری ترقی رونما ہو جاتی ہے۔ قریب کی تاریخ میں ایسی نظریاتی تقلیبات کی مثالیں‘ فرانسسیی انقلاب‘ روسی انقلاب‘ نازی انقلاب اور فسطائی انقلاب ہیں جنہوں نے فرانس‘ روس‘ جرمنی ‘ اٹلی کے نظریات کو بالترتیب فرانسیسی بادشاہت سے جمہوریت میں‘ روسی بادشاہت سے اشتراکیت میں جرمنی و طنیت سے جرمن نیشنل سوشلزم میں اور اطالوی وطنیت سے فسطائیت میں تبدیل کر دیا تھا۔ پھر ایک جسم حیوانی کی طرح ایک نظریاتی جماعت بھی ایک اندرونی بیماری کی وجہ سے جو اس صورت میں جماعتی نصب العین کے نقائص یا اس کے محاسن کی نافہمی کی صورت اختیار کرتی ہے۔ تعلیم اور تبلیغ کی حقیقت موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ جس طرح سے ایک جسم حیوانی تناسل اورتعالد کے ایک عمل سے جس میں نر اور مادہ اپنے جنسی وظائف ادا کرتے ہیں اپنی ہی شکل و صورت کے دوسرے افراد پیدا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے افراد کی نسل ترقی کر کے ایک بہتر بڑی نو ع حیوانات کی صورت اختیار کر لیتی ہے اسی طرح یہ نظریہ کا پرستارتعلیم اور تبلیغ کے ایک عمل سے جس سے قائد اور مقتدی یا استاد اور شاگرد اپنے تعلیمی وظائف ادا کرتے ہیں۔ اپنے نظریہ کے دوسرے پرستا ر پیدا کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نظریہ کے پرستاروں کی تعداد ترقی کر کے ایک بہت بڑی نظریاتی جماعت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ جس طرح سے ہر طرح حیوانی پہلے ایک مولود ہوتاہے اور پھرایک والد اور ا س طرح سے نظری کو چاہنے والا یک انسانی فرد پہلے ایک پروشاگرد ہوتاہے اور پھر ایک قائد یا استاد بن جاتا ہے پہلے اس کے راہنما یا استاد والدین ہوتے ہیں پھر وہ اپنی اولاد کا راہ نما استاد بنتا ہے۔ جس طرح سے ایک جسم حیوانی کی زندگی اس کی اس خواہش کے گرد گھومتی ہے کہ وہ ایک جسم حیوانی کی حیثیت سے زند ہ رہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت کی زندگی اس خواہش کے گرد گھومتی ہے کہ وہ ایک نظریاتی جماعت کی حیثیت سے زندہ رہے۔ جس طرح سے جسم حیوانی اپنے اندر ایک عضو (دل) رکھتا ہے جو اس کی قوت حیات کی تقسیم کا مرکز ہوتا ہے اور اس کے سارے جسم کے سارے اعضا ء و جوارح کے لیے خون بہم پہنچاتاہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت اپنے اندر ایک ایساادارہ (نظام تعلیم) رکھتی ہے جو اس کے نصب العین کی محبت کی تقسیم کا مرکز ہوتا ہے اور جماعت کے تمام افرادکے دلوں کے لیے نصب العین کی محبت کا آب حیات بہم پہنچاتاہے جس طرح سے ایک جسم حیوانی دوسرے مخالف جسم حیوانی کے مرکز حیات کو تباہ کر کے اسے ہلاک کر سکتا ہے اسی طرح سے ایک جسم حیوانی دوسری مخالف نظریاتیجماعت کے مرکز حیات کو تباہ کر کے اسے ہلا ک کر سکتاہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت دوسر ی مخالف نظریاتی جماعت کے مرکز حیات یعنی نظام تعلیم کو تباہ کر کے اسے ختم کر سکتی ہے۔ مثلاً دوسری جنگ عظیم کے فاتحین نے جرمنی ‘ جاپان اور اٹلی پر قبضہ کیا توانہوںنے نازی ازم ‘ میکاڈو ازم‘ فاشزم کے نظریات کو ختم کرنے کے لیے جو قدم اٹھایا تھا وہ یہ تھا کہ انہوںنے ملکوں میںنظام ہائے تعلیم کو ختم کر کے ان کی جگہ اپنے نظام تعلیم کو جاری کیا اور اس طرح سے ان کو اپنی نظریاتی جماعت میں شامل کر لیا ۔ جب ایک جسم حیوانی کے اعضاء و جوارح کے اندر مکمل اتحاد اور اشتراک عمل موجود ہو تو وہ تندرست و توانا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے جب ایک نظریاتی جماعت کے تمام افراد کے اندر مکمل تحاد اور اشتراک عمل ہوتو وہ اخلاقی لحاظ سے تندرست اور استعداد عمل کے لحاظ سے طاقت ور ہوتا ہے ۔ ایک نظریاتی جماعت بھی ایک جسم حیوانی کی طرح ان چیزوں کی طرف کشش محسوس کرتی ہے جو اس کی زندگی اور نشوونما کے لے ممد ومعاون ہوں اور ان چیزوں سے گریز کرتی ہے جو اس کی زندگی ور نشونما کے لیے مضر ہوں۔ جس طرح سے ایک جسم حیوانی کے اعمال کی راہ نمائی اس کا دماغ کرتاہے۔ اور اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت کے اعمال کی راہ نمائی اس کا قائد کرتا ہے۔ ایک نظریاتی جماعت ایک فرد کی طرح زندہ ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد کی طرح ایک نظریاتی جماعت بھی اپنی ایک زندگی رکھتی ہے اور اس کی زندگی ا س کے ہر فرد کی زندگی سے جدا ہوتی ہے۔ فرد کی طرح وہ بھی نشوونما پا کر اپنے کمال کو پہنچتی ہے اور جیسا کہ ہم شہد کی مکھیوں کے چھتہ میں دیکھتے ہیں فرد جماعت کے لیے ہوتاہے اور جماعت کے لیے ہی جیتا اور مرتا ہے اور جماعت کے لیے ہونا اور جماعت کے لیے جینا اور مرنا ہی ایک فرد کی حیثیت سے اس کا کمال ہے۔ وجود افراد کا مجازی ہے ہستی قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت یہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا اقبال لکھتا ہے: ’’فرد فی نفسہ ایک ہستی اعتباری ہے۔ یا یوں کہیے کہ اس کا نام ان مجردات عقلیہ کی قبیل سے ہے جس کا حوالہ دے کر عمرانیات کے مباحث کے سمجھنے میں آسانی پیدا کر دی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر فرد اس جماعت کی زندگی میں جس کے ساتھ اس کا تعلق ہے بمنزلہ ایک عارضی اور آنی لمحہ کے ہے۔ اس کے خیالات اس کی تمنائیں‘ اس کا طرز ماند و بود‘ اس کے جملہ قوائے دماغی و جسمانی بلکہ اس کے ایام زندگی کی تعداد تک اس جماعت کی ضروریات و حوائج کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ جس کی حیات اجتماعی کا وہ محض ایک جزوی مظہر ہوتا ہے ۔ فرد کے افعال کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ برسبیل اضطرار اور بلا ارادہ کسی خاص کام کو جو جماعت کے نظام نے اس کے سپرد کر رکھا ہے انجام دیتا ہے اور اس لحاظ سے اس کے مقاصد کو جماعت کے مقاصد سے تخالف کلی بلکہ تضاد مطلق ہوتا ہے اور جماعت کی زندگی بلا لحاظ اپنے اجزائے ترکیبی یعنی افراد کی زندگی کے بالکل جداگانہ ہوتی ہے‘‘۔ (مقالات اقبال ص 116) ہر نظریاتی جماعت ایک انا یا نفس ناطقہ رکھتی ہے ایک فرد کی طرح ایک قوم یا نظریاتی جماعت بھی ایک انا یا نفس ناطقہ رکھتی ہے اور فرد ہی کی طرح وہ ذوالعقل اور ذوالارادہ ہوتی ہے۔ فرد کی طرح اس کا بھی ایک مقصد یا مدعا ہوتا ہے اور وہ بھی ایک ماضی ‘ ایک حال اور ایک مستقبل رکھتی ہے اس کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے وہ اپنے کل کی فکر کرے اور اپنے حال کو اپنے مستقبل کے تابع رکھے یعنی اپنے حال کے ذریعہ سے اپنے مستقبل کی تعمیر کرے۔ اقبال لکھتا ہے: ’’اگرچہ قوم کی ذہنی اور دماغی قابلیت کا دھارا افراد ہی کے دماغ سے ہو کر بہتا ہے۔ لیکن پھر بھی قوم کا اجتماعی نفس ناطقہ جو مدرک کلیات و جزئیات ہے اور خیبر اور مرید ہے بجائے خود ضرور موجود ہوتا ہے۔ ’’جمہوری رائے‘‘ اور ’’قومی فطنت‘‘ وہ جملے ہیں جن کی وساطت سے ہم موہوم اور مبہم طور پر اس نہایت ہی اہم حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ قومی ہستی ذوالعقل اور ذوالارادہ ہے۔ ازوحام خلائق‘ جلسہ عام ‘جماعت انتظامی‘ فرقہ مذہبی اور مجلس مشاورت وہ مختلف ذرائع ہیں جن سے قوم اپنی تدوین اور تنظیم کا کام لے کر وحدت ادراک کی غایت کو حاصل کرتی ہے۔ …قوم ایک جداگانہ زندگی رکھتی ہے۔ یہ خیال کہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ اپنے موجودہ افراد کا محض ایک مجموعہ ہے اصولاً غلط ہے اور اس لیے تمدنی اور سیاسی اصلاح کی وہ تمام تجاویز جو اس مفروضہ پر مبنی ہوں بہت احتیا ط کے ساتھ نظرثانی کی محتاج ہیں۔ قوم اپنے موجودہ افراد کامجموعہ نہیں بلکہ اس سے بہت کچھ بڑھ کر ہے اس کی ماہیت پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ غیر محدود لامتناہی ہے۔ اس لیے کہ اس ک اجزائے ترکیبی میں وہ کثیر التعداد آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں جو اگرچہ عمرانی حد نظر کے فوری منتہا کے پرلی طرف واقع ہیں لیکن ایک زندہ جماعتوں کا حال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے۔ مجموعی حیثیت سے اگر نوع پر نظر ڈالی جائے تو اس کے وہ افراد جو ابھی پیدا نہیںہوئے ا س کے موجودہ افراد کے مقابلہ میں شاید زیادہ بدیہی الوجود ہیں موجودہ افراد کی فوری اغراض ان غیر محدود اور نامشہود افراد کی اغراض کے تابع ہوتی ہیں بلکہ جن پر نثار کر دی جاتی ہیں جو نسلاً بعد نسل بتدریج ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور علم الحیات کی اس حیرت انگیز حقیقت کو وہ محض بنگاہ استغنا نہیں دیکھ سکتا جس کے پیش نظر سیاسی یا متمدنی اصلاح ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقوا م کے لیے سب سے زیادہ مہتمم بالشان عقدہ فقط یہ عقدہ ہے (خواہ اس کی نوعیت تمدنی قرار دی جائے خواہ اقتصادی خواہ سیاسی) قومی ہستی کا سلسلہ بلا انقطاع کس طرح قائم رکھا جائے۔ مٹنے یا معدوم ہونے کے خیال سے قومیں بھی ویسی ہی خائدف ہیں جیسے افراد۔ کسی قوم کی مختلف عقلی یا غیر عقلی قابلیتوں اور استعدادوں کے محاسن کا اندازہ ہمیشہ اسی غایت الغایات سے کرنا چاہیے ۔ ہم کو لازم ہے کہ اپنے محاسن کو جانچیں اور پرکھیں اور اگر ضرورت آپڑے تو نئے محاسن پیدا کریں‘‘۔ (مقالات اقبال صفحہ 117,118,119) صحیح اور پائیدار ریاست کی علامت ریاستیں دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں یا تو کوئی ریاست خدا کے تصور پر مبنی ہو گی یا خدا کے کسی قائم مقام غلط و ناقص تصور پر مبنی ہو گی۔ چونکہ ریاست کے وجود کا باعث ہی خدا کی محبت کا جذبہ ہے جو خودی کی پوری فطرت ہے ظاہر ہے کہ وہی ریاست اپنے فطری مقصد کو پورا کرسکے گی وہی ریاست ارتقا کی منزل مقصودہوگی اور وہی ریاست زندہ اور قائم رہے گی جس کے سارے اعمال و افعال بالارادہ اور علی الاعلان خدا کی محبت کی خاطر خدا کی محبت کے سرچشمہ سے پھوٹیں گے ‘ اور جس کے پیش نظر اپنے اندر اور باہر خدا کی محبت اور اس کے خارجی عملی اظہار کو فروغ دینے کے سوائے کوئی دوسرا مقصد نہ ہو گا اور یا ہو گا تو اس مقصد کے ماتحت اس کے حصول کے ایک ذریعہ کے طورپر ہو گا۔ ریاست کے غلط نظریہ کے نقصانات‘ ناپائیداری جب کوئی ریاست کسی غلط یا ناقص نصب العین پر مثلا کسی جغرافیائیـ‘لسانی یا نسلی قومیت یا وطنیت پر یا کسی بے خدا غلط فلسفہ پر مبنی ہو جائے تو اس نادانی کے لیے اسے شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ریاست پائیدار نہیںہوتی اور ارتقا کے عوامل اسے زود یا بدیر اپنے پے بہ پے ٹھوکروں سے نیست و نابود کر کے اس پائیدار عالمگیر ریاست کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں جو خدا کے نصب العین پر مبنی ہو گی۔ ایک غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست اس مجرم کی طرح ہے جسے موت کا حکم سنا دیا گیا ہو۔ لیکن حکم کے نافذ ہونے میں ابھی کچھ دن یا مہینے یا سال باقی ہوں۔ ایسی ریاست کئی صدیوں تک بھی زندہ رہے تو اپنی آنے والی نسلوں کی تباہی کو روک نہیں سکتی۔ اس کتاب میں خودی اور عمل تاریخ کے عنوان کے ماتحت بالتفصیل عرض کیا گیا ہے کہ ایک غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست کیوں مٹ جاتی ہے اور اس کے مٹنے کا عمل کون سے مرحلوں سے گزرتا ہے۔ پست اور غلط اخلاقی معیار چونکہ ایک غلط نصب العین میں خدا کی صفات در حقیقت موجود نہیں ہوتیں اور صرف غلطی سے ا س کی طرف منسوب کی جاتی ہیں لہٰذا جو قوم اس سے محبت کرتی ہے اور اسے اپنی ریاست کی بنیاد بناتی ہے ا س سے دوسرا بڑا نقصان یہ بھگتنا پڑتا ہے کہ وہ زندگی اور اس کی اقدار اور اس کے مقاصد کے متعلق ایک غلط نقطہ نظر اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اس کے افراد کی آرزوئے حسن جو صرف خدا کی محبت سے تشفی حاصل کر سکتی ہے ۔ مکمل طور پر مطمئن نہیں ہو سکتی۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ ان کا غلط تصور حسن اس آرزو سے مزاحمت کرتا ہے اور ان کی محبت کو اپنی طرف مبذول کرکے غلط راستہ پر ڈال دیتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسری قوموں کے ساتھ برتائو کرتے وقت سچائی‘ انصاف‘ دیانتداری‘ آزادی ‘ مساوات اخوت نیکی ایسی اخلاقی اقدار کے متعلق اس ریاست کا تصور مضحکہ خیز حد تک غلط ہے‘ جانبدارانہ اور تنگ دلانہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ یہ جاننے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ عملی طور پر ان اقدار کے صحیح تقاضے کیا ہیں۔ اپنی بہترین کوششوں اور بہترین نیتوں کے باوجود اس قوم کے افکار و اعمال کی ندی غلط مقاصد کی سمت میں بہ نکلتی ہے۔ وہ ان چیزوں کو ناپسند کرتی ہے جو درحقیقت پسندیدہ اور قابل ستائش ہیں اور ان چیزوں کو پسند کرتی ہے جو درحقیقت ناپسندیدہ اور قابل نفرت ہیں۔ اخلاقی اقدار اور کردار کا منبع فقط ایک ہے اوروہ خدا کی محبت ہے۔ سچی نیکی اور اصلی سچائی وہ پھل اور پھول ہیں جو خدا کی محبت کے درخت پر نمودار ہوتے ہیں۔ اصلی پھل اور پھول ان کے اپنے ہرے بھرے درخت پر ہی مل سکتے ہیں۔ لیکن کاغذ کے بنے ہوئے نقلی پھل اور پھول جو لذت اور خوشبو سے عاری ہیں ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ جو فرد یا جماعت خدا کی سچی محبت سے محروم ہو اس سے اصلی نیکی‘ سچائی یا انصاف کی توقع عبث ہے ہر ضابطہ اخلاق کسی نصب العین سے پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر نصب العین کا قانون اخلاق جدا ہوتا ہے۔ غلط نصب العین سے پیدا ہونے والا قانون اخلاق وہ نہیںہو سکتا جو صحیح نصب العین سے پیدا ہوتا ہے اگرچہ اس کے لیے بھی وہی نام رکھ لیے جائیں اور وہی اصطلاحاات کام میں لائی جائیں۔ ہر غلط نصب العین کی نیکی الگ ہوتی ہے جو اس کی سرشت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے ۔ دنیا میں گھٹیا قسم کی نیکی گھٹیا قسم کی سچائی اور گھٹیا قسم کے عدل یا انصاف کی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنے کی غلط نصب العین یہی سبب ہے کہ بعض غلط نصب العینوں کو چاہنے والی قومیں ان اقدار کے مفہوم یا معنی پر متفق نہیں ہو سکتیں اور عین اس وقت جب ان میں سے ہر ایک دوسری گے گلے کاٹ رہی ہوتی ہے ہر ایک نہایت دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ یہ یقین رکھتی ہے کہ وہ نیکی انصاف اور سچائی کے لیے ایسا کر رہی ہے صحیح نصب العین ایک ہے لیکن غلط نصب العین بہت سے ہوتے ہیں اور جن میں سے ہر ایک اپنا الگ ضابطہ اخلاق رکھتا ہے اور تمنا رکھتا ہے کہ اسے غیر محدود وسعت اور قوت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس کے اخلاقی قانون کو دنیا بھر میں قبول کیا جائے تاکہ جو عظمت ا س کی طرف منسوب کی جا رہی ہے وہ آشکار ہو اور غیروں کو بھی سچ مچ کی ایک حقیقت نظر آئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ غلط نصب العینوںپر قائم ہونے والی ریاستیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مخفی یا آشکار طور پر بر سر پیکار رہتی ہیں اور وقت پا کر بڑے پیمانہ پر تباہی لانے والے اسلحہ سے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں اترتی ہیں اور تباہی اور خونریزی کا بازار گرم کرتی ہیں۔ کمزوروں پر ظلم چونکہ غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست کسی بلند عالم گیر اخلاقی قانون کی پابند نہیں ہوتی بلکہ اپنا قانون اخلاق فقط اپنے محدود اور تنگ ظرف نصب العین سے اخذ کرتی ہے اس کے نزدیک ہر ایسا فعل درست ہوتا ہے خواہ وہ کیسا ہی مذموم ہو جس سے اس کو کوئی مادی یا اقتصادی فائدہ پہنچتا ہو یا اس کے حلقہ اثر و اقتدار میں کوئی وسعت پیداہوتی ہو۔ لہٰذا وہ کمزور قوموں کے خلاف مخفی یا آشکار طور پر ہر قسم کی جارحانہ کاروائیاں کرنے میں دلیر ہوتی ہے اور ان کو محکوم بنانے اورمحکوم رکھنے کے لیے بلکہ اگر ضرورت ہو تو ان کو نیست و نابود کرنے یا کروانے کے لیے طرح طرح کے مظالم ڈھانا روا رکھتی ہے اور اس غرض کے لیے فوج اور پولیس کی قوت تعمیر کرتی ہے اور دارورسن اور زندان و سلاسل کی سزائوں سے کام لیتی ہے۔ یہ قاہری جس میں عدل کے تقاضوں کو جنہیں خدا دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے نظر انداز کر دیا جاتا ہے‘ کافری سیکم نہیں۔ جب ضابطہ اخلاق یا امرو نہی کا منبع خدا نہیںبلکہ کوء اور نصب العین ہو گا تو اس کا نتیجہ بھی یہی ہو گا۔ کہ طاقتور کمزور پر ظلم روا رکھے گا۔ اس دنیا میں حکومت(آمری) تسلط اور غلبہ(قاہری) کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن حکومت جب خدا کے سوائے کسی اور کی ہو تو وہ کفر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سروری خدا ہی کو زیب دیتی ہے خدا کے بندوں کو زیب نہیں دیتی البتہ خدا کے بندے خدا کے نائب بن کر خدا کی طرف سے حکومت کر سکتے ہیں قرآن میں الملک (بادشاہ) خدا کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اونچی شان والا سچا بادشاہ فقط خدا ہے۔ فتعا لی اللہ الملک الحق (۱۱۴:۲۰) علاوہ تمام انسانی بادشا ہ فقط بت ہیں جن کو ہم پرستش کے لیے کھڑا کرلیتے ہیں۔ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتان آذری‘ غیر حق چون ناہی و امر شود زور ور بر باتوان قاھر شود زیر گردوں آمری از قاہری است آمری از ماسوی اللہ کافری است اصلی حاکم وہی ہے جو جبر سے کام نہ لے بلکہ لوگوں کی رضامندی سے حکومت کرے۔ قوت کے استعمال سے حکومت کرنا ڈاکوئوں کا کام ہے۔ فوج و زندان و سلاسل رہزنی است اوست حاکم کز چنیں ساماں غنی است انتشار اور ضعف پھر غلط نصب العین کو چاہنے والی وم کبھ اس سے پوری طرح محبت نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی حسن اور صداقت کی محبت کا فطری جذبہ غلط نصب العین کی محبت سے ٹکراتاہے اوراسے کمال پر پہنچنے نہیں دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غلط نصب العین کو چاہنے والی قوم پوری طرح سے متحد اور منظم نہیں ہو سکتی اور اپنی پوری قوت کے ساتھ نصب العین کے لیے کام نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اپنی ترقی اور خوشحالی کی ممکن انتہائوں تک نہیںپہنچ سکتی۔ غلامی سے رضامندی کسی غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست کے لیے کبھی ممکن نہیں ہوتا کہ وہ فرد کی سچی آزادی سے بہرہ ور کر سکے۔ ایسی ریاست کے ماتحت زندگی بسر کرنے والا فرد بظاہر آزاد ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت اپنے غلط نصب العین کا جو اس کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتا غلام ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی تمام غلط تعلیم کی وجہ سے اپنی غلامی سے راضی بھی ہوتا ہے۔ اگر فرد اپنی ایک ہی آرزو یعنی خد ا کی محبت اور اطاعت کی آرزو کی تشفی کرنے کے لیے آزاد نہیں تو اس کی آزادی کا کچھ مطلب نہیں۔ اگر وہ اپنے آپ کے لیے آزاد نہیں تو پھر کس کے لیے آزاد ہے۔ لیکن اس قسم کی ریاست میں ایسی خارجی قوتیں موجود ہوتی ہیں جو فرد کی اس آرزو کو پورا کرنے نہیں دیتیں۔ ایک تو اس میں ایسے قوانین نافذ ہوتے ہیں جو اسے اپنی فطری آرزوئوں کے خلاف کام کرنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں اور پھر اس میں فرد ایسے تعلیمی اور اخلاقی ماحول سے گھرا ہوا ہوتا ہے جو بتدریج اس کی فطری آرزوئوں کو ہی بدل دیتا ہے۔ جو چیز پہلے اس کی نگاہ میں اچھی ہوتی ہے وہ اسے بری نظر آنے لگتی ہے۔ اور جو چیز پہلے بری ہوتی ہے وہ اسے اچھی نظر آنے لگتی ہے۔ تھا جو ناخوب بتدریج وہ خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر لہٰذا اس کی بصیرت ناقابل اعتماد ہوتی ہے۔ بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا آخرت کا عذاب نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایمان و عمل کی اس دولت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ جو اسے موت کے بعد کی زندگی میں خدا کے عذاب سے بچا کر راحت اور آسودگی سے بہرہ ور کر سکتی ہے۔اور یہ نقصان بھی کتنا بڑا ہے کہ ہم اس کا اندازہ نہیںکر سکتے۔ گویا ایک نصب العین پر قائم ہونے والی ریاست اس بات کا اہتمام تو کرتی ہے کہ فرد کی زندگی خوشحالی سے گزرے لیکن اس بات کو نہیں جانتی کہ فرد کی زندگی موت پر ختم نہیں ہوتی بلکہ زندگی کا بڑا حصہ موت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اور اس حصہ زندگی کی خوشحالی کا اہتمام یہ تقاضا کرتا ہے کہ فرد کو اس بات کا موقع دیا جائے اور ایسی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی آرزوئے حسن کی پوری پوری تشفی اور شخصیت کی پور ی پوری تکمیل کر کے اس بات کا یقین کر لے کہ وہ موت کے بعد زندہ رہے گا اور اس کے محاسبہ اعمال کا نتیجہ اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہو گا۔ اختصار حاصل یہ ہے کہ اس ریاست کے افراد جو ایک غلط نصب العین پر قائم ہوتی ہو ہر لحاظ سے ناکام اور نامراد رہتے ہیں۔ دنیا میں ان کے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے غلط نصب العین کی پیروی ایک غلط قسم کی اخلاقی زندگی بسرکریں۔ اپنے جھوٹے معبود کے غلط تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کی فریب کاری‘ بددیانتی اور غرض پرستی سے کام لیں۔ ہر قسم کی بدنی اور ذہنی صعوبتیں برداشت کریں۔ بڑی بڑی قربانیاں کریں۔ بڑی بڑی محنتیں اٹھائیں۔ بڑی بڑی کاوشیں مول لیں اور اپنی اولادوں کو اس کی خدمت کے لیے بڑی بڑی تکلیفیں جھیل کر پالیں۔ لیکن اس ساری تگ و دو کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ان کا جھوٹا معبود خود ان سے رخصت ہو جاتا ہے اور ان کو ذلت کی موت مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہاں بات ختم نہیں ہوتی بلکہ جس طرح وہ دنیا میں راہ گم کردہ ہوتے ہیں آخرت میں بھی ہوتے ہیں اور اپنی بداعمالیوں کی سزا بھگت کر رہتے ہیں۔ ایسے لوگو ہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس دنیا کی زندگی میںاندھا ہو کر رہے گا وہ بعد از مرگ زندگی میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ سے اور دور ہو جائے گا۔ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعی واضمل سبیلا (۷۲:۱۷) اس کے برعکس خدا کا صحیح اور خالص اسلامی عقیدہ چونکہ تمام نقائص اور شرک کے شوائب سے پاک ہوتا ہے وہ ایک نصب العین کی حیثیت سے ناپائیدار نہیںہوتا اور جو قوم اس سے وابستہ ہوتی ہے وہ بھی ناپائیدار نہیں ہوتی۔ قرآن حکیم کاارشاد ہے کہ خدا ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ان کے مضبوط اور پائیدار عقیدہ کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں مضبوطی سے قائم رکھتا ہے۔ (یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ ۲۷:۱۴) اور پھر یہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص معبود ان باطل کا انکار کرکے خدا پر ایمان لائے گا وہ یقینا ایک ایسے مضبوط حلقے کو تھام لے گا جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔ (ممن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقدا ستمسک بالعروۃ الوثقی لا انفصام لھا ۲۵۶:۲۴) خدا نے توحید کے پاکیزہ تصور کو ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور شاخیں آسمان کو چھو رہی ہوں اور جو خدا کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتارہے۔ (ضرب اللہ مثلا کلمہ طیبہ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء تو فی اکلھا کل حین باذن ربھا ۲۷:۱۴) اگرچہ ضروری ہے کہ ایسی قوم عارضی عروج پانے والی غلط نصب العینوں کی پرستار جماعتوں کی مخالفت اور چیرہ دستی کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لیے اپنی قوت کی کمی بیشی کے ادوار میں سے گزرتی رہے۔ تاہم وہ گاہ بگاہ سخت مشکل حالات سے دوچر ہونے کے باوجود زندہ رہتی ہے ۔ اور اپنے نصب العین کی اندرونی قوت‘ پاکیزگی اور کاملیت کی وجہ سے اس کی زندگی کبھی خطرہ میں نہیںہوتی۔ اگر اسے ایک مقام پر دبایا یا کمزور کیا جائے تو ہو کسی دوسرے مقام پر ابھرتی اور طاقت ور ہوتی ہے۔ سورج کی طرح کہ ادھر سے ڈوبتا ہے اور ادھر سے نکل آتا ہے: جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے اور آخر کار تمام مشکلات پر عبور پا کر اپنی پوری شان و شوکت کو پہنچتی ہے اور دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی قوم زندہ رہنے کے لیے اور زندہ رہ کر مقاصد ارتقاء کو پورا کرنے کے لیے وجود میں آتی ہے مٹنے کے لیے وجود میں نہیں آتی چونکہ وہ حاصل کائنات ہوتی ہے اور اس کا مٹنا پوری کائنات کے مٹنے کے مترادف ہوتا ہے۔ گرچہ مثل غنچہ دلگیریم‘ گلستان میرو اگر میریم قا امت مسلمہ کا امتیاز مسلمان قوم کا نصب العین خدا کا خالص‘ صحیح اور سچا عقیدہ ہے۔ جو شرک کی تمام آلائشوں سے پاک ہے اور خدا کا اس قسم کا عقیدہ صرف مسلمان قوم ہی کا امتیاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم اب تک زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ خدا کے احکام کا پابند رہے گا وہ لوگ جو ان کو چھوڑ دیں گے یا وہ لوگ جو ان کی مخالفت کریں گے ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت میں ہوں گے۔ لایزال من امتی امہ قائمہ بامراللہ لا یضرھم من خذلھم ولامن خالفھم حتی یاتی امر اللہ علی ذالک(ترمذی) یہی وجہ ہے کہ ہر شدید حادثہ جو مسلمان قوم کو پیش آیا ان کی ہستی کو مٹانے کی بجائے ان کے لیے رحمت ثابت ہوا اور ان کے لیے مزید قوت کا سامان بن گیا۔ انقلاب زمانہ کے شعلے جب بھی ان کے باغ میں پہنچے تو اس باغ کے لیے بہار بن گئے۔ شعلہ ہائے انقلاب روزگار چوں بباغ مارسد گرد و بہار مثلاً غیر تاتاریوں کے حملوں نے مسلمانوں کے لیے جو آتش نمرود جلائی تھی وہ ان کے لیے گلزار بن گئی اور خدا نے ان غیر مسلم حملہ آوروں کو مسلمان بنا کر کعبے کی پاسبانی کے لیے مقرر فرمادیا۔ ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ٭٭٭ آتش تاتاریان گلزار کیست شعلہ ہائے او گل دستار کیست آخر اگر تاریخ کے بڑے بڑے حادثات سے رومیوں‘ ساسانیوں اور یونانیوں کی ہستی مٹ گئی ہے تو ان حادثات کے باوجود مسلمانوں کی ہستی کیوں نہیں مٹ سکی۔ وجہ ظاہر ہے کہ مسلمان قوم خود حرکت ارتقا کا مقصود ہے اور ارتقا کے مقاصد کو پورا کرنے والی ہے۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیںہماری صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا مسلمان فرد کا کردار ایک فرد انسانی جو خدا کا صحیح عقیدہ رکھتاہے اور خدا سے سچی محبت رکھتا ہے وہ زندگی اور اس کی اقدار کے متعلق ایک صحیح نقطہ نظر سے بہرہ ور ہو جاتا ہے وہ جو بات سوچتا ہے کہتا ہے اور کرتا ہے اور وہ صحیح ہوتی ہے کیونکہ اس کا منبع یا مصدر صحیح ہوتا ہے۔ وہ ان باتوں کو پسند کرتا ہے جنہیں خد اپسند کرتا ہے ۔ جو درحقیقت نفرت کے قابل ہوتا ہے وہی جان سکتا ہے کہ نیکی سچائی انصاف مساوات اخوت آزادی‘ ترقی ایسی اصلاحات کے صحیح معنی کیا ہیں۔ چونکہ اس کا نصب العین تمام نقائص سے پاک ہوتا ہے اور وہ اس میں کوئی کمی یا نقص نہیں پاتا۔ لہٰذا اس سے مکمل اور مستقل طورپر محبت کر سکتا ہے۔ چونکہ خدا کی عبادت اور اطاعت سے اس کی محبت کا سوز ہر لمحہ ترقی کرتا جاتا ہے اسے یہ محسوس کر کے راحت ہوتی ہے کہ اس کا نصب العین اسے ہر لمحہ پہلے سے زیادہ حسین اور زیادہ دلکش نظر آتا ہے ۔ چونکہ اس کی محبت اس کی فطرت کے مطابق ہوتی ہے اور ااصانی سے کامیاب ہو جاتی ہے۔ محبت کی اس کامیابی سے اسے اطمینان قلب نصیب ہوتاہے اوروہ ہر قسم کی ذہنی بیماریوں اورپریشانیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت ترقی یافتہ اور متحد اور منظم اور طاقت ور اور دلیر ہو جاتی ہے۔ اسلامی ریاست کا کردار جب اس قسم کے افراد ایک منظم جماعت یا ریاست کی صورت میں متحد ہو تے ہیں جیسا کہ ان کو آخر کار ہونا ہی ہوتا ہے تو وہ زندگی اور ا س کی اقدار کے متعلق اس ریاست کے افراد کی طرح ریاست کا نقطہ نظر بھی درست ہوتا ہے۔ ایسی ریاست اس قابل ہوتی ہے کہ اپنی عملی زندگی میں حسن نیکی اور صداقت کی تمام صفات کا اظہار ان کی پوری ہم آہنگی کے ساتھ مکمل اور مستقل طور پر کرتی ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے یہ صفات ریاست کی عملی زندگی کے مختلف شعبوں یعنی سیاسی‘ اخلاقی‘ اقتصادی قانونی‘ تعلیمی ‘اطلاعاتی‘ علمی اور فوجی شعبوںمیں زیادہ سے زیادہ منعکس ہوتی جاتی ہیں۔ ایسی ریاست میں کوئی اقتصادی‘ مذہبی‘ اخلاقی‘ سماجی اور سیاسی ناہمواریاں نہیں ہو سکتیںَ اس کے افراد آزادی اور مساوات کی نعمتوں سے کود بہر ہ ور ہوتے ہیں اور دوسروں کو مستفید کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ ان تمام قوتوں سے محفوظ ہوتے ہیں جو فر د کی آزادی کے ساتھ مزاحمت کرتی ہیں مثلاً ان کے لیے کوئی ایسے قواننی نہیںہوتے جو ان کو ان کی مرضی کے خلاف کام کرنے کیلیے مجبور کریں ۔ کیونکہ صحیح تعلیم کے ذریعہ سے ان کی مرضیاں صحیح ہو جاتی ہیں اورقانون ان صحیح مرضیوں کے مطابق بنایا جاتاہے پھر اس ریاست میں کوئی تعلیمی یا سماجی اثرات ایسے نہیں ہوتے جو ان کو بالواسطہ اور ان کے جاننے کے بغیر اس بات پر آماد کر یں کہ وہ اپنی کوئی ایسی مرضی پیدا کریں جو ان کی فطرت کی آرزوئے حسن کے خلاف ہو۔ جوں جوں اس کے افراد میں خدا کی عبادت اطاعت اور ستائش کا ذوق بڑھتا جاتا ہے اور ذکر اور فکر اور آیات اللہ یا مظاہر قدرت کے مطالعہ میں ان کا انہماک ترقی کرتا جاتاہے ۔ اپنے نصب العین کے لیے ان کی محبت بھی ترقی کرتی جاتی ہے ۔اور ریاست کا اندرونی اتحاد اور اتفاق بھی بڑھتاجاتا ہے۔ اور اس کی قوت اور جدوجہد کی صلاحیت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے یہ سب اوصاف درجہ کمال تک پہنچ جاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ریاست ایسے افراد کی ایک طاقت ور مملکت بن جاتی ہے جو نہایت ہی خوشحال اور خوش بخت اور مسرور اور مطمئن ہوتے ہیں۔ ان کا عقیدہ توحید ان کی مکمل اور مستقل قوت طاقت اور راحت کا ضامن ہوتا ہے۔ ملتے چوں مے شود توحید مست قوت و جبروت مے آرد بدمست فرد از توحید لاہوتی شود ملت از توحید جبروتی شود ہر دو از توحید مے گیرد کمال زندگی این را جلال آن جمال مستقبل کی عالمگیر ریاست ایک اسلامی ریاست ہو گی ضروری بات ہے کہ ایسی ریاست بتدریج لیکن یقینی طور پر ایک وفاق یا فیڈریشن کی صورت میں دنیا کے کناروں تک پھیل جائے اور تمام نو ع انسانی پر محیط ہو جائے اور اس طرح سے قوموں کی باہمی کشمکش میں آخری فتح پانے والی اور شورش اقوام کو خاموش کرنے والی ریاست ثابت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے عقیدہ پر مبنی ہو گی جو انسان کی پوری فطرت کا ایک ہی تقاضا ہے۔ جو انسان کو مکمل او رمستقل طور پر مطمئن کر سکتاہے او ر جو تمام اندرونی نقائص اور تضادات سے مبرا ہونے کی وجہ سے پائیدا ر اور لازوال ہے۔ وہ ایسے خارجی اوصاف پر مبنی نہیں ہو گی جو عالمگیر نہ ہو سکیں اوراس کی وسعت کو محدود کر دیں۔مثلاً جغرافیائی حدود ‘ نسل زبان یا رنگ بلکہ وہ ایک ایسے عقیدہ پر مبنی ہو گی جو ہر انسان کے دل میں موجود ہو سکتا ہے۔ اور جسے پوری نسل انسانی اپنانا چاہتی ہے۔ اس کی حفاظت کا ذمہ لینے والے سپاہیوں کو موت سے ایسی ہی محبت ہو گی جیسی کہ ریاست کے دشمنوں اور مخالفوں کو زندگی سے لہٰذا ان کی بے نظیر جرات اور حوصلہ مندی ریاست کی حفاظت کی ضمانت ہو گی اورپھر ماضی اور مستقبل کے تمام طبیعیاتی‘ حیاتیاتی اور نفسیاتی حقائق اس کے نصب العین یعنی عقیدہ توحید کی عقلی اور علمی تائید اور حمایت کریں گے جس کی وجہ سے وہ مخالفوں کے دلوں کو کشش کرے گا اور ریاست کی پیہم توسیع کا باعث ہو گا۔ اقبا ل کا سیاسی مسلک چونکہ خدا کے تصور پر قائم ہونے والی ریاست انسان کے لیے ہر قسم کی برکتوں اور نعمتوں کا باعث ہوتی ہے اور غلط اور ناقص تصور پر قائم ہونے والی ریاست اس کے لیے ہر قسم کی مصیبتوں اور بدبختوں کا سبب بنتی ہے۔ اقبال نے بار بار اس بار پر زور دیا ہے کہ ریاست کسی غلط نصب العین پر نہیں بلکہ خدا کے صحیح نصب العین پر قائم ہونی چاہیے۔ سچا حکمران خدا ہی ہے ۔ اس کے علاوہ جس قدر تصورات ریاستوںکی بنیاد بنائے جاتے ہیں وہ جھوٹے خدائوں یا بتوں کی طرح ہیں جن کی طرف ان کے چاہنے والے خدا کی صفات غلط طور پر منسوب کرتے ہیں تاکہ ان کی ستائش اور پرستش کر سکیں اور ان کی ناپاک چوکھٹ پر اپنی عملی سیاسی زندگی کی تقدیس کو قربان کر سکیں۔ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتان آذری اقبال ’’الہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ میں لکھا ہے: ’’ایک سیاسی نظام کے طور پر سلام سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ توحید کے اصول کو نو ع انسانی کی عملی اور جذباتی زندگی کے اندر ایک زندہ قوت بنانے کی عملی تدبیر ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ خدا کی اطاعت کی جائے نہ کہ کسی تخت یا تاج کی اور چونکہ خدا ہی زندگی کی آخری روحانی بنیاد ہے۔ لہٰذا عملی طور پر خدا کی اطاعت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خود اپنی ہی فطرت کے بلند ترین تقاضوں کی اطاعت کرتا ہے‘‘۔ نظریہ وطنیت کے خطرناک نتائج خاص جغرافیائی حدود کے اندر ایک خاص خطہ زمین یا ملک کے رہنے والے لوگ جن میں بالعموم ملک کے علاوہ زبان نسل اور رنگ کا اشتراک بھی موجود ہوتاہے اور جو اپنے آپ کو ان اوصاف کے اشتراک کی بنا پر دوسروں سے الگ ایک گروہ یا جماعت تصور کرتے ہیں ایک قوم کہلاتے ہیں اور وہ خطہ زمین جس میں وہ رہتے ہیں ان کا وطن کہلاتا ہے۔ ایسے لوگ اگرانبیاء کی ہدایت کو نظر انداز کر نے کی وجہ سے خدا کی معرفت اور محبت سے بے نصیب ہوں تو اپنے ان ظاہری مشترک اوصاف کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اپنی زندگی کے جس مرحلہ پر بھی وہ منظم ہو کر ایک ریاست کی صورت میں آ تے ہیں وہ اپنی ریاست کا نصب العین اپنی قومیت یاوطنیت ہی کے تصور کو بناتے ہیں جس میں وہ خاص نسل اور زبان اور اپنے خاص رنگ اورجغرافیائی امتیازات کو بھی شامل سمجھتے ہیں اس زمانہ میں خدا کی جگہ لینے والے تمام غلط اور ناقص سیاسی نظریات میں سب سے زیادہ رواج پانے والے اور سب سے زیادہ پست اور رجعت پسندانہ اور نوع انسانی کے لیی سب سے زیادہ ضرر رساں نظریات میں سے ایک قومیت یا وطنیت کا نظریہ ہے یہ نوع انسانی بدقسمتی سے کہ اس وقت دنیا کی بیشتر ریاستیں اپنی اپنی وطنیت یا قومیت کے نصب العینوں پر قائم ہیں مثلاً انگریزی قومیت یا وطنیت انگلستانی ریاست کا فرانسیسی قومیت فرانسیسی ریاست کا اطالوی قومیت اطالوی ریاست کا۔ امریکی قومیت امریکی ریاست کا اور ہندوستانی قومیت ہندوستانی ریاست کا نصب العین ہے۔ نظریہ وطنیت کی بنیادیہ عقیدہ ہے کہ جو سب سے پہلے عیسائی مغرب کے نام نہاد مہذب لوگوں نے ایجاد کیا تھا اوراب پوری دنیا میں پھیل گیا ہے کہ سیاست کو مذہب سے الگ رہنا چاہیے۔ اقبال اس دور کا پہلا مفکر ہے جس نے بڑی شدت کے ساتھ نظریہ وطنیت کیب بنیاد رکھی یعنی مذہب اور سیاست کی دوئی کی مخالفت کی ہے اس کے نقصانات کو واضح کیا ہے اور اسکی نامعقولیت کا پردہ چاک کیاہے۔ اقبال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دوئی کا اصل نوع انسانی کے لیے ایک نہایت خطرناک ہے۔ دوئی ملک اور مذہب دونوں کی ناکامی اور نامرادی کا سبب ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ انسانوں کے قومی اور بین الاقوامی اخلاق کو بگاڑتی ہے اور دوسرے وحدت انسانیت کو پارہ پارہ کر کے تباہ کن بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنتی ہے۔ دور حاضر کی عیسائی تہذیب اگر ا س کے خطرناک نتائج سے آگاہ نہیں تو یہ اس کا اندھا پن ہے۔ نوع انسانی کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ روحانیت (جنیدی) اور سلطنت (اردشیری) آپس میں مل جائیں۔ دوئی ملک و دین کے لیے نامرادی دوئی چشم تہذیب کا نابصیری اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدی و اردشیری نظریہ وطنیت مروجہ عیسائیت کی پیداوار ہے عیسائیت کے مزاج کی وجہ سے ضروری تھا کہ مغرب کی عیسائی دنیا آکر کا مذہب کو سیاست سے الگ کر دے۔ عیسائیت نے دنیا کو ترک کرنے رہبانیت اختیار کرنے اور غاروں میںگھس کر خدا کی عبادت کرنے کی تعلیم دی ہے۔ سیاست کے لیے جو بلاشبہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے عیسائیت کے نظریہ انسان کائنات میں یا اس کے بانی کی عملی زندگی میں کوئی راہ نمائی نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ انسانکی پوری زندگی کی راہ نمائی کے لیے اپنی عملی زندگی کو ایک نمونہ کے طورپر پیش کرنے کے لیے آئے تھے بلکہ ان کی تعلیم کا مدعا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کی مذہبی زندگی میں ریاکاری اور نافرمانی کے جو عناصر پیدا ہوگئے تھے وہ ان کی بجائے اخلاص اور یقین کے اوصاف پید اکیے جائیں۔ عیسائیت کے علماء یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کا یہ مشن نہیں تھا کہ وہ اپنی تعلیمات سے کسی قوم کو یا کسی برتر قسم کی قوم کو دنیاوی اور مادی طورپر عظمت سے ہم کنار کریں۔یہی سبب ہے کہ جب لوگوں نے ان کو اپنا بادشاہ بنانا چاہا تو وہ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ سیاست اور جنگ کے سمیت انسان کی پوری عملی زندگی کی راہ نمائی کے لیے ایک مثال یا نمونہ پیش کرنا رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تھا جو آپ کے بعد آنے والے تھے۔ مصلحت در دین عیسیٰ غار و کوہ مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ سیاسی زندگی کی مذہبی قیادت کے متعلق عیسائیت کی خاموشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب جدید عیسائی ریاستیں وجود میں آئیں تو وہ اس قابل نہ تھیں کہ ایک سچی عیسائی زندگی کے مذہبی اور سیاسی پہلوئوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مدغم کر سکیں۔ کلیسا اور ریاست کے طویل اور تلخ جھگڑوں کے بعد عیسائی دنیا عیسائیت کی تعلیم اور توقع کے عین مطابق اس نتیجہ پر پہنچنے کے لیے مجبور ہوئی کہ سیاست کومذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا اور لہٰذا دونوں کو ایک دوسرے ؤسے الگ کر دیا گیا۔ اس طرح اپنی اصلی حدود کے اندر سکڑ جانے اور انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ایک ضروری شعبہ کو اپنے آپ سے الگ کر دینے سے عیسائیت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ترقی یافتہ متمدن دنیا کے لیے قابل عمل نہیں۔ سیاست سے ایک دفعہ الگ ہونے کے بعد عیسائیت اس قابل نہ ہو سکتی تھی کہ وہ قوم کی اجتماعی زندگی کے کسی شعبہ کو بھی اپنے تصرف میں رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مغر ب کی ایک عیسائی ریاست کا وہ نصب العین جو درحقیقت اس کے سارے اعمال و افعال کا محرک ہوتا ہے۔ عیسائیت کا خدا نہیں بلکہ کسی جغرافیائی‘ نسلی یا لسانی وطنیت کا تصورہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کی اخلاقی پابندیوں سے رہا ہونے کے بعد یورپ کی ہر ریاست ایک ایسا دیو مہیب بن گئی ہے جس کے پائوں میں کوئی زنجیر نہیں۔ اور جو اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے ہر طرف لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ عیسائیت کی جن خامیوں کی وجہ سے مغرب کی قومیں مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے پر مجبور ہوئی ہیں اسلام ان سے مبرا ہے۔ کیونکہ بانی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود ایک ریاست بنائی جو آپؐ کے بعد بھی موجود رہی اور متمدن دنیا پر چھا گئی لہٰذا ہمیں مغربی تہذیب کے اندھا پن سے حصہ لینے کی ضرورت نہیں۔ اقبال نے ان حقائق کو چار شعروں میں بیان کیا ہے۔ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصومت تھی سلطانی و راہبی میں کہ یہ سربلندی تھی وہ سر نبریری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری سیاست لادین کے تقاضے سیاست جب دین سے جدا ہو جائے تو وہ شیطان کی لونڈی بن جاتی ہے۔ کیونکہ پھر اس کے لیے کوئی اندرونی اخلاقی پابندی یا رکاوٹ باقی نہیںرہتی۔ پھر وہ سوچ ہی نہیںسکتی کہ تہذیب اور شرافت کے دور انسانیت کے تقاضے کیا ہیں کمینگی ا س کی فطرت بن جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے تھوڑے سے مادی فائدہ کے لیے ہر بڑے سے بڑا ظلم روا رکھتی ہے۔ اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ دوسری قوموں کو لوٹنے مارنے پر اسے ملامت نہیں کرتا۔ جب سے اہل مغرب کی سیاست کلیسا سے الگ ہوئی ہے وہ کمزور قوموں پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے کے لیے آزاد ہے۔ مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لادین کینز اہرمن و دون نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر جب وطن ایک ریاست کا نصب العین بنتا ہے تو ہر غلط سیاسی نصب العین کی طر ح وہ بھی ایک جھوٹے معبود یا بت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ جس کی پرستش خدا کی بجائے کی جاتی ہے لیکن چونکہ وطن محض خدا کا پیدا کیا ہوا مٹی اورپتھر کا بنا ایک خطہ زمین ہوتا ہے جس میں خدا کی صفات کی کوئی جھلک بھی موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا وطن پرستوں کو اسے خدا کے مقا م پر کھڑا کرنے کے لیے بڑا تکلف کرنا پڑتاہے۔ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے جھوٹے معبود کو خدا کی صفات حسن و کمال کا مصنوعی اور فرضی لباس اور اپنے ہاتھ سے پہنائیں اور پھر یہ یقین کریں کہ یہ لباس مصنوعی اور فرضی نہیںچنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ معبودان کا خالق بھی ہے اور رب ہے اورکوئی عظمت‘ کوئی زیبائی‘ اور اچھائی ایسی نہیں جو اس میں موجود نہ ہو۔ وہ اسے مادر وطن یا پدر وطن کہتے ہیں۔ اس کے مدحیے لکھتے ہیں۔ اس کے گن گاتے ہیں اس کے جھنڈے کے سامنے بڑی عاجزی اور بڑے احترام سے قیام اور رکوع کرتے ہیں۔ اس کے راہ نمائوں کی تصویروں اور مجسموں اور حنوط کی ہوئی لاشوں کو پوجتے ہیں۔ درسی کتابوں میں اس کی تعریفیں لکھتے ہیں اور سارے نظام تعلیم کی تشکیل اس طرح سے کرتے ہیں کہ طلبا بچپن ہی سے اس کی محبت میں مست و مخمورہو جائیں۔ اس معبود کے پجاری اس کو اپنی ساری زندگی کا مدار و محور بناتے ہیں ان کا ہر کام‘ ان کا چلنا ‘ پھرنا‘ اٹھان بیٹھنا اور جینا اور مرنا اسی معبود کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ان کا نظام تعلیم ہی نہیں بلکہ ان کی جماعتی زندگی کا ہر ایک پہلو اس معبود کی ضروریات کے ماتحت تشکیل پاتا ہے گو وہ خدا کو بھی مانتے ہوں اور کسی نہ کسی مذہب سے بھی اپنا تعلق ظاہر کرتے ہوں لیکن خدا یا مذہب سے ان کا تعلق برائے نام اورسطحی ہوتا ہے۔ اور ان کا اصلی معبود ان کا وطن ہی ہوتا ہے ۔ جب کبھی ایسا موقع پیدا ہوجائے کہ ان کا مذہب ان کی وطنیت کے تصور کے ساتھ مزاحمت کررہاہوتا ہے اور مذہب یا خدا اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی اقدار (مثلاً انسانیت‘ نیکی‘ عدل‘ حریت وغیرہ) کے تقاضے ان کے سیاسی تصور کے تقاضوں سے متصادم ہو رہے ہوں تو وہ ہمیشہ خدا او رمذہب اور انسانیت اور نیکی اور عدل اور حریت کے تقاضوں کو لات مارکر اپنے سیاسی تصورکا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان کے لیی اس کی فطرت کے قوانین کی رو سے ناممکن ہے کہ وہ بیک وقت د و نصب العینوں سے محبت کرے اور دونوں کو مساوی اہمیت دے۔ اگر وطنیت پرست لوگ مذہب اور اخلاق کو اہمیت دیں تو وہ قوم پرست نہیں بلکہ خدا پرست ہوں گے ارو اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ ایک وطنیت پرست کا مثلاًایک فرانسیسی عیسائی کا اصلی نصب العین عیسائیت نہیں بلکہ فرانسیسی وطنیت ہے۔ اقبا ل نے ایک تقریر سے دلچسپ راہ نمائی ملتی ہے ’’ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر ‘‘میں اقبال نے کہا تھا: ’’کسی فرانسیسی کے مذہب پر نکتہ چینی کیجیے وہ بہت ہی کم متاثر ہوگا اس لیے کہ آپ کی نکتہ چینی نے اس اصول کو مس نہیں کیا جو اس کی قومیت کی روح رواں ہے لیکن ذرا اس کے تمدن اور اس کے ملک یا پولیٹکل سرگرمیوں کے کسی شعبہ کے متعلق اس کی قوم کے مجموعی طرز عمل یا شعار پر تو خروہ گیری کر دیکھیے۔ پھر اس کی جبلی عصبیت کا شعلہ بھڑک نہ اٹھے تو ہم جانیں۔ بات یہ ہے کہ فرانسیسی کی قومیت کا انحصار اس کے معتقدات مذہبی پر نہیں ہے۔ بلکہ جغرافیائی حدود یعنی اس کے ملک پر ہے پس جب آپ اس خطہ زمین پر جسے اس نے اپنے تخیل میں اپنی قومیت کا اصلی اصول قرار دے رکھا ہے معترض ہوتے ہیں تو آپ اس کی عصبیت کو واجبی طور پر برانگیختہ کرتے ہیں‘‘۔ (مقالات اقبال صفحہ 121,122) نفرت کا بیج وطنیت کے نظریہ میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ چونکہ اس کی بنیاد ایک ایسے ملک کی والہانہ محبت پر ہوتی ہے جو خاص جغرافیائی حدود رکھتا ہے اور جس میں ایک خاص زبان بولنے والے ااور ایک خاص نسل اور رنگ اور خاص عادات و رسوم کے لوگ بستے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے اندر باقی ماندہ تمام نوع انسانی کے خلاف ایک مستقل اور خطرناک نفرت پیداکر دیتاہے اگرچہ ہر قوم نفرت کے اس شرم ناک جذبہ کو شیریں الفاظ اور دلکش تصورات اور معصومانہ پند ونصائح اور نیکی‘ عدل صداقت‘ انسانیت‘ شرافت‘آذادی‘ اخوت‘ تہذیب ایسی اخلاقی اقدار کی منافقانہ حمایت کے لباس میں چھپا کر رکھتی ہے۔ لیکن دراصل یہی جذبہ ہے کہ جو وطنیت پرست قوموں کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے اور کمزور اور پسماندہ قوموں پر اپنے حقیر مادی فوائد کے لیے طرح طرح کے ننگ انسانیت کے مظالم ڈھانے پر اکساتارہتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ یہ قومیں جھوٹ ‘ فریب ‘ عیاری ‘مکاری‘ اور بددیانتی کو سیاست کے لیے ضروری عناصر سمجھتی ہیں۔ ان کو قابل اور ہوشیار سیاست دانوں کا فن لطیف اور کمال ہنر شمار کرتی ہے اور سے ڈپلومیسی اور سٹیٹسمین شپ کے بظاہر مہذب ناموں سے تعبیر کرتی ہیں۔ چونکہ وطنیت پرست قوم دوسری قوموں کے خلاف اپنے مفادات کی حفاظت اور اعانت کے لیے ہی زندہ ہوتی ہے وہ مجبور ہوتی ہے کہ اس غرض کے لیے دوسری قوموں کے مفاد کو پامال کرتی رہے۔ وہ نظریہ جس نے کلیسا کے زوال کے بعد مغربی اقوام کو بہت زیادہ متاثر کیا یہی نظریہ وطنیت ہے پھر پہلی جنگ عظیم کے بعد اشتراکیت ؤکے خلاف اپنے آپ کو اور زیادہ محفوظ اور مضبوط کرنے کے لیے جرمنی اور اٹلی میں نازی ازم اور فاشزم ایسے انتہا پسند نظریات کا جامہ اوڑھ لیا۔ جو قوم وطنیت کے نظریہ کو اختیار کر چکی ہو وہ خدا کے عقیدہ سے سرزد ہونے والے صحیح اور عالم گیر ضابطہ اخلاق کی پابند نہیں رہ سکتی۔ اس لیے کہ نظریہ وطنیت کا اپنا ایک ضابطہ اخلاق ہے جس میں ریاست کو فروغ دینے والی ہر ایک بدا خلاقی اور بے ایمانی روا ہے۔ یورپ اس گھٹیا قسم کے ضابطہ اخلاق کا پابند ہونے کے بعد اس کے تابہ کن اثرات سے بچ نہ سکتا تھا اور یہ تباہ کن اثرات اب تک دو ایسی عالمگیر جنگوں کی صورت میں رونما ہوئے ہیں جن میں خونریزی تاریخ میں بے مثال ہے۔ اب یہی ضابطہ اخلاق اس کو تیسری ان سے بھی زیادہ تباہ کن جوہری جنگ کے شعلوں کی طرف دھکیلتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اقبال نے نظریہ وطنیت کی ان خوفناک ممکنات کو جان لیا تھا اور پہلے ہی اہل یورپ کو آنے والی خونریزی سے باخبر کر دیا تھا۔ شفق نہیں مغربی افق پر جوئے خون ہے یہ جوئے خون ہے طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ عبث توقعات افسوس ہے کہ نظریہ وطنیت کے بعض کوتاہ اندیش مشرقی مبلغین جو یورپ کی تقلید میں بڑے پر جوش ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ نظریہ وطنیت کے جن ہولناک نتائج کا سامنا یورپ کر چکا ہے اور کر رہا ہے وہ ناگریر نہیں اورایک قومی سیاست دوسری قومی ریاستوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے اور پوری انسانی کے لیے ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبات رکھنے کے باوجود ایک قومی ریاست کی حیثیت سے اپنے مفاد کی پوری نگہبانی کر سکتی ہے۔ یہ خیال قطعی طور پر غلط ہے۔ ہر نظریاتی جماعت عمل کے کچھ یقینی رجحانات رکھتی ہے جو اس کے نظریہ کی سرشت کے اندر موجود ہوتے ہیں اور جو اسے ایک خاص طریق پر اور ایک خاص سمت میں عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک خاص نظریہ حیات سے ایک خاص قسم کے عمل کا ظہور اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ یہ ضروری ہے کہ ہر درخت اپنا ہی پھل لائے۔ ایک قومی ریاست کا وجود قومیت ے نظریہ پر مبنی ہوتا ہے اور اس کا کردار اس وقت تک نہیں بدلا جا سکتا جب تک کہ اس کا نظریہ ہی بدل نہ جائے۔ ایک قومی ریاست کے وجود کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ باقی ماندہ نوع بشر سے الگ ایک جماعت ہے اور ہمیشہ اس سے الگ رہے۔ لہٰذا ایسی محبت‘ رواداری‘ ہمدردی اور خیر سگالی جو ان کی اپنی جماعت کی حدود سے نکل کر تمام نوع انسانی کو اپنے احاطہ میں لے لے اس کی سرشت میں موجود نہیں ہوتی۔ جب ایک قومی ریاست خدا کی محبت اور خدا کے خوف کی وجہ سے خود غرضٰ اور خود پروری کو ترک کر کے دوسری ریاستوں کے ساتھ ہمدردی محبت نیکی اور انصاف کا برتائو کرنا اپنا اصول بنا لے گی ۔ تو اسے بسا اوقات اپنے تنگ نظریہ قومی مفاد کو اس اصول کی خاطر قربان کرنا پڑے گا۔ گویا یہ اصول اس کے قومی نظریہ پر حکمران ہو جائے گا۔ ا س کا مطلب یہ ہو گا کہ ریاست کا نظریہ بدل گیا ہے اور وہ ایک وطن پرست ریاست کی بجائے خدا پرست ریاست بن گئی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے نظریہ قومیت کے تقاضوں کی وجہ سے یہ اصول اختیار نہ کر سکے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ بدستور ایک قومی ریاست ہے جسے خدا‘ مذہب‘ اخلاق اور انسانی ہمدردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مسلمان فرد کے لیے وطنیت کے نتائج ایک وطنی لادینی ریاست کے ماتحت کوئی مسلمان پوری طرح سے مسلمان رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتا جو مسلمان برضا و رغبت ایک لادینی قومی یا وطنی ریاست کا فرد ہو گا اور وہ مجبور ہو گا کہ اپنی انفرادی عملی زندگی میں یا تو اسلام سے مطلقاً الگ ہو جائے یا ا س سے فقط برائے نام اورنمائشی تعلق رکھے۔ اس کیو جہ یہ ہے کہ اسلام فقط ‘ نماز روزہ کلمہ حج اور زکوۃ کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر فعل میں خدا کی رضامندی کو ملحوظ رکھنے کا نام ہے۔ مسلمان کی ساری زندگی ہی عبادت ہے۔ اگر وہ اپنی عملی زندگی کے ایک حصہ میں جس پر وطنی لادینی ریاست کا کنٹرول ہے خدا کی رضاجوئی کے لیے کام میں نہیںلا سکتا اور اس حالات پر رضا مند ہے تو وہ صریحاً خدا کے ساتھ شرک کرتا ہے کیونکہ اپنی زندگی کے ایک حصہ کو دیدہ و دانستہ اور اپنی رضامندی کے ساتھ غیر اللہ کے تصر ف میں دیتا ہے اور اس حصہ کی حد تک غیر اللہ کو اللہ کا مقام دیتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ نماز روزہ‘ حج ‘ اور زکوۃ کے فرائض اپنے کس خدا کے لیے ادا کرتا ہے ۔ اور کس خدا کا کلمہ پڑھتا ہے اور کس کو لاشریک سمجھتا ہے۔ گویا ایسے ارکان اسلام کی پابندی نمائش کے سوائے کوئی فائدہ نہ دے گی۔ اسی بنا پر مسلمانوں کو قرآن حکیم کی ہدایت یہ ہے کہ خدا کی اطاعت میں پوری طرح سے داخل ہو جائو۔ یا یھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کانہ (۲۳۷:۲) یہودیوں کی اس حرکت کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ خدا کی کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہیں اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہیں افتومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض (۸۵: ۲) اسلام کفر یا لادینیت کے ساتھ سمجھوتہ کر کے خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ پیدا نہیںکرتا۔ یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یکدانہ یکرنگی و آزادی اے ہمت مردانہ حب وطن اور وطنیت میں فرق اس کھلی ہوئی حقیقت کے مقابلہ میں بعض لوگوں نے ’’وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے‘‘ حب الوطن من الایمان کا قول سامنے رک کر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وطن کی محبت ایک فطری چیز ہے لہٰذا یہ اسلام ایسے ایک فطری دین کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ خیال اپنی جگہ درست ہے لیکن جو لوگ اس رائے کو وطنیت کے سیاسی عقیدہ کی حمایت میں پیش کرتے ہیں وہ حب وطن اور وطنیت کے سیاسی نصب العین میں فرق نہیں کرتے۔ وطن سے محبت کرنا جائز ہے لیکن اس طرح سے نہیں کہ وطن کو ایک معبود یا مقصود حیات کا درجہ دے دیا جائے۔ اس سلسلہ میں اقبال لکھتا ہے: ’’ہم سب ہندی ہیں اور ہندی کہلاتے ہیں کوینکہ ہم سب کرہ ارض کے اس حصہ میں بودوباش رکھتے ہیں جو ہند کے نام سے موسوم ہے۔ علی ہذا القیاس چینی‘ عربی‘ جاپانی‘ ایرانی‘ وغیرہ۔ وطن کا لفظ جو اس قول میں مستعمل نہیں ہوتا محض ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اور اس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا۔ اس کے حدود آج کچھ ہیں اور کل کچھ ۔ کل تک اہل برما ہندوستانی تؤھے اورآج برمی ہیں۔ ان معنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھوم سے محبت رکھتاہے ارو بقدر اپنی استطاعت کے اس کے لیے قربانی دینے کو تیار رہتا ہے۔ بعض نادان لوگ اس کی تائید کرتے ہوئے (حب الوطن من الایمان) کا مقولہ حدیث سمجھ کر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وطن کی محبت انسان کا فطری جذبہ ہے جسے پرورش کے لیے اثرات کی کچھ ضرورت نہیں۔ مگر زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں وطن کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے۔ ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے چونکہ اسلام بھی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب وطن کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے‘‘۔ (مقالات اقبال صفحہ 223) قومیت کا اسلامی تصور اپنی ایک تقریر میں نظریہ قومیت کے متعلق اسلام کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال کہتا ہے: ’’مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں ایک اصولی فرق ہے کہ قومیت کااسلامی تصور دوسری اقوام سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن نہ اشتراک اغراض اقتصادی۔ بلکہ ہم لوگ اس برادری مٰں سے ہیں جو جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی اس لیے شریک ہیں کہ مطاہر کائنات (جن میں انسان بھی شامل ہے ۔ مولف) کے متعقل ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے (یعنی قرآن حکیم جس کے مطابق مظاہر قدرت کا خالق خدا ہے ارو انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے خدا کا چاہنے والا ہے مولف) اور جو تاریخٰ روایات ہم سب کو ترکہ میں پہنچتی ہیں وہ بھی ہم سب کے لیے یکساں ہیں۔ اسلام تمام مادی قیود سے بیزاری ظاہر کرتاہے اور اس کی قومیت کا دارومدار ایک خاص تہذیبی تصور پر ہے جس کی تجسیمی شکل وہ جماعت اشخاص ہے جس میں بڑھتے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے۔ اسلام زندگی کا انحصار کسی خاص قوم کے خصائل مخصوصہ اور شمال مختصہ پر نہیں ہے۔ غرض اسلام زمان و مکان کی قیود سے مبرا ہے…لہٰذا کیونکر ممکن تھا کہ وہ قومیت کو کسی خارجی یا حسی اصو ل مثلاً وطن پرستی پر مبنی قرار دینا جائز تصور کرے۔ قومیت کا ملکی تصور جس پر زمانہ حال میں بہت کچھ حاشیے چڑھائے گئے ہیں۔ اپنی آستین میں اپنی تباہی کے جراثیم خود پرورش کر رہا ہے۔ بڑی خرابی اس تصور میں یہ ہے کہ اس میں غلو اور افراط کے جراثیم خود پرورش کر رہے یں۔ بڑی خرابی اس تصور میں ٰہ ہے کہ کہ اس میں غلو اور افراط کا شاخسانہ نکل آتا ہے۔ اس نے بین الاقوامی نیتوں کے متعلق غلط فہمی پھیلا رکھی ہے۔ اس نے پولیٹکل سازشوں اور منصوبہ بازیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس نے فنون لطیفہ اور علوم عربیہ کو خاص خاص قوموں کی خصوصیات کی میراث قرار دے کر عام انسانی عنصر کو اس میں سے نکال دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وطن پرستی کا خیال جو قومیت کے تصور سے پیدا ہوتا ہے…سراسر اصول اسلام کے خلاف ہے اس لیے اسلام دنیا میں ہر طرح سے شرک خفی و جلی کا قلع قمع کرنے کے لیے نمودا ر ہوا تھا‘‘۔ مغربی قومیت کے خطرناک نتائج افسوس ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ نظریہ قومیت اسلام سے صریحاً مغائرت رکھتا ہے اور مغربی اقوام کی مادی ترقی سے مرعوب ہو کر اور ان کی کورانہ تقلید کرتے ہوئے وہ بھی نظریہ قومیت کو اپنی ریاستوں کی بنیاد بنا رہے ہیں۔ ا س وقت صورتحال یہ ہے کہ اول تو ایک پرانی مصری‘ ترکی عراقی یا شامی مسلمان یہ کہے گا کہ میں پہلے ایرانی‘ مصری‘ عراقی‘ ترکی یا شامی ہوں بعد مٰں مسلمان لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کہے تو پھر بھی عملی طور پر وہ پہلے ملکی ثابت ہوتاہے اور بعد میں مسلمان۔ اس ذہنیت کی وجہ سے دوسری نظریاتی قوموں کی طرف سے شدید قسم کے فوجی اور تبلیغی خطرات کو محسوس کرنے کے باوجود مسلمانان عالم آپس میں کوئی موثر اتحاد پیدا ہیں کر سکے۔ کیونکہ ان کے لیے اس قسم کا موثر اتحاد فقط اسلام کی بنیادوں پر ہی ممکن تھا۔ عربوںنے اپنی نسلی قومیت کو ایک نئے مذہب کی شکل دے دی ہے جسے وہ عروبہ یا عرب ازم کہتے ہیں اوراس طرح سے انہوںنے سچے مذہب اسلام کے بالمقابل غلط ازموں کی تعداد میںایک اور ازم کا اضافہ کر دیا ہے۔ عرب ازم کی رو سے عرب نسلیت وہ ’’مقدس‘‘ جوہر یا اصل ہے جس سے اسلام پیدا ہوا ہے اور اسلام کی اہمیت یہ ہے کہ وہ عرب نسلیت کا ایک ممدومعاون تصور ہے۔ بعض عرب ممالک میں اس نظریاتی تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے لوگ علی الاعلان اسلام سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور مارکسی اشتراکیت کو اسلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ عربوں کے موجودہ باہمی تفرقوں اور اسرائیل کے مقابلہ میں ان کی پیہم شکستوں اور ذلتوں کا سبب یہی ہے کہ وہ نسل کو اسلام پر مقدم سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے مقابلہ میں عربوں میں شکست اسلام کی شکست نہیں بلکہ عرب نسل پرستی کی شکست ہے اور جو خود ایک کفر ہے۔ اقبال نے اس صورت حال کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ڈرایا تھا۔ نسل مسلم کی اگر دیں پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر دشمنان اسلام کی حیلہ گیری دراصل اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی دین سے بیگانگی اور وطنیت پرستی یورپ کی استعمار پسند قوموں کی حیلہ گری کا نتیجہ ہے ۔ جنہوں نے امت مسلمہ کو ٹکڑوں میں بانٹ کر کمزور کرنے کے لیے ہر طرح سے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان کے اندر فریب کاری سے نسلی ‘ قومی‘ اور وطنی عصبیت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس کوشش میںان کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوںنے عربوں کو عرب نسلیت کے نام پر ترکوں سے لڑایا اور دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوںنے ترکوں کے ہاتھوں سے ہی ترکوں کی قبائے خلافت کو چاک کروایا۔ ترک محض اپنی سادگی کی وجہ سے ان کے دام میں آ گئے اور اس بات کو ملحوظ رنہیں رکھ سکے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی سرداری اور سرپرستی کا یہ مقام جو ان کو مفت حاصل ہے ایک ایسا مقا م ہے جسے خود یہ قومیں اپنی عیاری سے اور مسلمانوں کو فریب دے کر حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اقبال اس پر افسوس کرتا ہے۔ چاک کر دی ترک ناداںنے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ اقبال عربوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ فرنگیوں کے مکرسے ہوشیار رہیں اور نسل کو دین پر فوقیت دے کر ان کے دام میں گرفتار نہ ہوں۔ امتے بودی امم گرویدہ بزم خود را خود زہم پاشیدہ ہر کہ از بند خودی و ارست مرد ہر کہ با بیگانگاں پیوست مرد آنچہ تو باخویش کردی کس نکرد روح پاک مصطفیؐ آمد بدرد اے زا فسون فرنگی بے خبر فتنہ ہا در آستین او نگر از فریب او اگر خواہی اماں اشترانش راز حوض خود بران حکمتش ہر قوم را بے چارہ کرد وحدت اعرابیان صد پارہ کرد تا عرب در حلقہ دامش فتاد آسماں یک دم اماں او را نداد جاوید نامہ میں زندہ رود جمال افغانی سے کہتا ہے کہ مسلمانوں میں دین اور وطن کی کشمکش دیکھ رہا ہوں افغانی جواب دیتا ہے کہ مغربی حکمرانوں نے مسلمانوں کو وطنیت کی تعلیم دی ہے تاکہ ان کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے۔ مسلمان اگرنیک و بد میں تمیز کریں تو اس سنگ و خشت کے سلسلہ میں جسے وطن کا نام دیا گیا ہے دل نہ لگائیں۔ دین کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مادی علائق سے بلند کرے اور خدا سے محبت کرے تاکہ اپنے آپ کو جانے اور پہچانے جس کے دل میں خدا بس جائے اس کا فکر و عمل بھی وطن کے تنگ دائرہ میں محدود نہیںرہ سکتا بلکہ پوری کائنات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اہل وطن کو وطن سے نسبت ہوتی ہے لیکن اس نسبت کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی محبت وطن کے تنگ دائرہ کے اندر سکڑ کر رہ جائے ۔ آفتاب مشرق سے نکلتا ہے لیکن اس کی روشنی تمام دنیا پر پھیلی ہوئی ہے۔ کرو مغرب آن سراپا مکر و فن اہل دیں را داد تعلیم وطن تو اگر واری تمیز خوب و زشت دل نہ بندی در کلوخ سنگ و خشت چیت دیں برخاستن ازروئے خاک تاز خود آگاہ گردد جان پاک با وطن اہل وطن رابشتے است زانکہ از خاکش طلوع ملتے است گرچہ از مشرق برآید آفتاب با تجلی ہائے شوخ و بے حجاب برد مد از مشرق خود جلوہ مست تاہمہ آفاق را آرد بدست بت شکنی کی تجدید کی ضرورت اقبال نظریہ وطنیت کی طرف مسلمانوں کے موجود رجحان کی پوری شدت سے مخالفت ہی نہیں کرتا بلکہ ان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی بت شکنی کی روایات کو پھر زندہ کر کے اس بت کو توڑیں اور دنیا بھر میں اس کی پرستش کا خاتمہ کردیں۔ اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خدائوں میں سب سے بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے غارتگر کاشانہ دین نبوی ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس تو مصطفوی ہے نظارہ دیرینہ زمانہ کو دکھا دے اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے اقبال ایک اور مقام پر اس سے بھی زیادہ زور دار الفاظ میں اس دعوت کا اعادہ کرتا ہے۔ فکر انسان بت پرستے بت گرے ہر زمان در جستجوئے پیکرے باز طرح آذری انداخت است تازہ تر پروردگارے ساخت است کاید از خوں ریختن اندر طرب نام اور رنگ است و ہم ملک و نسب آدمیت کشتہ شد چون گوسفند پیش پائے ایں بت نا ارجمند اے کہ حور و استی ز مینائے خلیل گرمئی خونت ز صہبائے خلیل بر سر ایں باطل حق پیرہن‘ تیغ لا موجود الا ہو بزن امت مسلمہ کی بنیاد دین ہے مسلمان قوم ایک دینی یا نظریاتی قوم ہے جو مختلف ملکوں‘ رنگوں زبانوں اور نسلوں کے لوگوں سے بنی ہے۔ ان کی وحدت کا دارومدار ان کے دین پر ہے اور قرآن حکیم میں ہے کہ یہ دین ان کے باپ حضرت ابراہیم کا دین ہے جنہوںنے اس کا نام مسلمان رکھا تھا (ملتہ ابیکم ابراھیم ھوسمکم المسلمین) گویا مسلمان حضرت ابراہیم کی روحانی اولاد ہیں اور وہ ان کے روحانی باپ۔ مسلمانوں کی نسل یا وطن کا جس پر ان کی قومیت کی اساس ہے ان کا دین ہے نہ کہ کوئی جسمانی نسلی یا جغرافیائی ون۔ قوم کی اساس کسی جغرافیائی یا ارضی وطن کو قرار دینا‘ ہوا‘ پانی ‘مٹی کی پرسش کرنا ہے۔ نسل پر فخر کرنا جیسا کہ ہمارے عرب بھائی کرتے ہیں دانائی کی بات نہیں کیونکہ نسل کا تعلق جسم سے ہے اور جسم فانی ہے۔ ہماری قومیت کی اساس ہمارے دل کے اندر ہمارے مشترک بنیادی عقائد میں چھپی ہوئی ہے۔ ما مسلمانیم و اولاد خلیل ازا بیکم گیر اگر خدا ہی دلیل اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ باد و آب گل پرستیدن کہ چہ ہر نسب نازاں شدن نادانی است حکم او اندرتن و تن فانی است ملت مارا اساس دیگر است ایں اساس اندر دل ما مضمر است موجودہ زمانہ میں نظریہ وطنیت اس قدر رواج پا چکا ہے اور اس کے ماننے والے اپنے اعتقاد میں اس قدر پختہ ہیں کہ اس کا استیصال کرنا اور اس کی جگہ دین کے اعتقاد کو واپس لانا خیبر فتح کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ لہٰذا اس زمانہ میں ایک ایسے حیدر کرار کی ضرورت ہے جو دین و وطن کے اس معرکہ کو سر کر سکے۔ بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہ دین و وطن اس زمانہ میں کوئی حیدر کرار بھی ہے مسلمان کو چاہیے کہ نسل پر فخر نہ کرے بلکہ فقط اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرے۔ جس طرح حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا تھا کہ میں اسلام کی اولاد ہوں۔ فارغ از باب دام و اعمام باش ہمچو سلمان زادہ اسلام باش وہ مسلمان جو اس بات پر فخر کرتا ہے کہ وہ رومی یا افغانی ہے ابھی کیچڑ کی محبت میں گرفتارہے حالانکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اسے چاہیے تھا کہ اپنے آپ کو مادی اور ارضی رشتوں سے آزاد کر کے خدا کی محبت اپنے دل میں بساتا اور اپنی خودی کو پہچانتا۔ ہنوز از بند آب و گل نہ رستی تو گوئی رومی و افغانیم من خدا کی محبت ہی انسان بننا سکھاتی ہے۔ کوئی انسان کس رنگ‘ نسل یا وطن سے تعلق رکھتا ہے یہ سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ انسان مطلق یا آدم بے رنگ و بو بنتا ہماری پہلی ضرورت ہے جو خدا کی محبت کو فروغ دے کر درجہ کمال پر پہنچانے کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔ مسلمان کا وطن اسلام ہے اقبال نے وضاحت کی ہے کہ کیوںمسلمانوں کو چاہیے کہ اسلام ہی کو اپنا وطن سمجھیں وہ کہتا ہے: ’’اسلام کی حقیقت ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے ۔ اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیات کے ساتھ بھی چھپا ہوا ہے اورہماری قومی زندگی کا تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسب انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔ جہاں اسلامی اصول یا ہماری مقدس روایات کی اصطلاح میں خدا کی رسی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی اور ہماری جماعت کا شیرازہ بکھرا‘‘۔ (مقالات اقبال ص 124) اسی مضمون کو اقبال نے مختصر کر کے ایک شعر میں بیان کیا ہے۔ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تو بھی نہیں ربط باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں مسلمان قوم اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ نوع انسانی میں ہوس کی بجائے خدا کی محبت کو بروئے کار لائے اور ہوس نے جو نوع انسانی کے کئی ٹکڑے کر رکھے ہیں ان کو عقیدہ توحید پر جمع کر کے باہمی اخوت اور محبت کے اوصاف سے بہرور کرے۔ یہی اس کی زندگی کی منزل مقصود ہے۔ لیکن اگر وہ خود مختلف قسم کی نسلوں کے تنگ دائروں میں محدود ہو کر رہ جائے تو اپنا یہ رول کیسے ادا کر سکتی ہے اسے چاہیے کہ ہر نسلی امتیاز کے ساحل سے اچھل کر باہر آئے اور پوری انسانیت کے بحر بیکراں سے ہمکنار ہو۔ جب تک اس مرغ حرم کے پر رنگ و نسب کے غبار سے آلودہ رہیں گے وہ اپنی زندگی کی منزل مقصود کی طرف پرواز نہیں کر سکے گا‘ اسے چاہیے کہ اس غبار کو اپنے پروں سے جھاڑ دے تاکہ باسانی پرواز کر سکے۔ ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انسان کو اخوت کا بیان ہو جا محبت کی زبان ہو جا یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا اسی مضمون کو اقبال نے ایک اور مقام پر اس طرح سے دہرایا ہے۔ یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی اقبال کہتا ہے کہ اگرچہ میں خاک کا ایک پتلا ہوں۔ لیکن ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے خاکی اور مادی رشتوں سے بے تعلق ہو ں جس درویش صفت انسان کے دل میں خدا کی محبت موجود ہو جائے وہ کسی خاص مقام کو اپنا وطن نہیں سمجھ سکتا۔ اسے ہم نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی اور اس کا گھر کہیں بھی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود ہر جگہ ہوتا ہے۔ فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمرقند مسلمان قوم کا دامن وطن کے گردوغبار سے آلودہ نہیں کیا گیا۔ دنیا کا ہر ملک اس کا وطن ہے۔ وطنیت کے پرستا ر مٹ جاتے ہیں لیکن چونکہ مسلمان قوم کی ساری متاع ہی کلمہ توحید ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے مسلمان قوم کبھی فنا نہیں ہو سکتی۔ پاک ہے گرد وطن سے سر دامان تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویران تیرا غیر یک بانگ درا کچھ نہیں سامان تیرا مکیاولی کی غلط تعلیم وطنیت کے مشرکانہ نظریہ کا مبلغ اٹلی کا فلسفی مکیاولی ہے جو فلارنس کا رہنے والا تھا ارو جس نے بادشاہوں کی رہ نمائی کے لیے دی پرنس نامی کتاب لھی ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ وطنی اور قومی ریاست کی حفاظت اور ترقی انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ لہٰذا ضرور ی ہے کہ مذہب اور اخلاق کے ماتحت اس کے خدمت گزار بن کر رہیں۔ جب ریاست کے مفاد اس بات کا تقاضا کریں تو حکمران کے لیے ضرور ی ہے کہ دغا‘ مکرو ‘ فریب ‘ جھوٹ اور ظلم سے جس قدر چاہے کا م کرے۔ مکیاولی کے نزدیک مذہب کی اہمیت فقط یہ ہے کہ ریاست کے ارباب اختیار اپنے خیال خام کے مطابق ریاست کے استحکام کے لیے جو بداعمالیاں کریں ان کی جذباتی حمایت کو ان کو مذہب پر عمل کرنے کے بغیر بلکہ مذہب کی موثر مخالفت رنے کے باوجود فقط مذہب کا نام لیتے رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ میکاولی لکھتا ہے: ’’ایک عقل مند احکمران کو چاہیے کہ جب دیکھے کہ عہد کی پابندی اسے نقصان دے گی تو عہد کو توڑ دے…ضرور ی نہیںکہ حکمران میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوںجن کا ذکر میں نے پہلے اوپر کیا ہے۔ لیکن یہ نہایت ضرور ی ہے کہ دوسروں کو ایسا ہی نظر آئے کہ اس میں یہ خوبیاں موجود ہیں اور میں یہ کہوں گا کہ ان اوصاف کامالک ہونا اور انہیں ہمیشہ کام میں لانا ضرر رساںہے اور ان کی نمائش کرنا مفید ہے… جب ریاست کے مفاد کا خطرہ میں ہوں تو پھر ا س بات کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ انصاف و ظلم اور رحم اور بے رحمی اور قابل ستائش اور شرمناک کے الفاظ کیا معنی رکھتے ہیں‘‘۔ مکیاولی کے ایسے ہی مذموم خیالات کی وجہ سے اقبال اس کے متعلق لکھتا ہے : آل فلارلساوی باطل پرست سرمہ او دیدہ مردم شکست نسخہ بہر شہنشاہاں نوشت در دل مادانہ پیکار کشت فطرت او سوئے ظلمت بردہ رخت حق ز تیغ خامہ او لخت لخت بت گری مانند آذر پیشہ اش بست نقش تازہ اندیشہ اش مملکت را دین او معبود ساخت فکر او مذموم را محمود ساخت بوسہ تا برپائے این محبوب زد نقد حق را بر عیار سود زر باطن از تعلیم او بالیدہ است حیلہ اندازی فنے گرویدہ است طرح تدبیر زبون فرجام ریخت ایں خسک در جادہ ایام ریخت اقبال نے 1935ء میں سال نو کے موقعہ پر ایک بیان آل انڈیا ریڈیو پر نشر کیا تھا جس میں اس نے کہا تھا: ’’جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے امتیازات کو نہ مٹایا جائے گا۔ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے۔ اور اخوت اور حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی نہ ہوں گے‘‘۔ ٭٭٭ خودی اور سوشلزم سوشلزم کا فلسفہ دور حاضر کیسب سے زیادہ مقبول اور بااثر اور سب سے زیادہ گمراہ کر دینے والے یعنی خودی کو اپنے مقصود سے ہٹانے والے غلط اور ناپائیدار نظریات میں وطنیت کی طرح سوشلزم بھی شامل ہے جس طرح سے نظریہ وطنیت کا فلسفی اور مبلغ مکیاولی ہے اسی طرح سے نظریہ سوشلزم کا مبلغ اور فلسفی کارل مارکس ہے مختصر طورپر سوشلزم کا فلسفہ یہ ہے کہ کائنات کی آخری حقیقت مادہ ہے جو خود بخود ارتقا کرتا رہا ہے۔ اپنے ارتقا کے ایک مقام پر اس کے اجزاء کو ایک خاص کیمیاوی ترکیب اور طبیعیاتی ترتیب حاصل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر زندگی کے آثا رنمودار ہوئے پھر زندہ مادہ ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ انسان ظہور پذیر ہوا۔ پھر انسان کی مادی ضروریات کی تشفی کا اہتمام اور نظام ترقی کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ سوشلزم تک پہنچے گا۔ جہاں انسان کی مادی ضروریات کی تشفی اور تکمی کے ظم کو ایک ابتدائی کمال حاصل ہو جائے گا۔ مستقبل کے ارتقا سے سوشلزم دولت کی مساوی تقسیم کے ایک خاص کی حیثیت سے نہ صرف اندرونی طور پر اپنے پورے کمال کو پہنچے گا بلکہ بیرونی وسعت پا کر پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ دنیا کے تمام فلسفے اور مذاہب اور تمام اخلاق‘ علمی ‘ فنی‘ اور سیاسی نظریات اور معتقدات انسان کے معاشی حالات کے عارضی کرشمے ہیں جن کی اپنی کوئی قدر و قیمت نہیں کیونکہ دنیا میں نہ روح ہے ارو نہ خدا اور انسان کی زندگی کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ اپنی جسمانی ضروریات کی بہترر سے بہتر تشفی کرے۔ سوشلزم کے فلسفہ کے اس مختصر خاکہ سے ظاہر ہے کہ وہ ایک معاشی اور اقتصادی نظریہ ہی نہیں بلکہ انسان اور کائنات کا ایک مکمل فلسفہ ہے۔ جو اپنے اندر حرکت تاریخ کے مدعا اور مقصود کا ایک فلسفہ بھی رکھتا ہے اور وہ اپنی ان تینوں حیثیتوں سے اسلام کے ساتھ متصادم ہوتا ہے۔ کیونکہ اسلام بھی انسان اور کائنات کا ایک فلسفہ ہے جو اپنے اندر ایک معاشی اوراقتصادی نظریہ ہی نہیں بلکہ حرکت تاریخ کے مدعا اور مقصود کا ایک فلسفہ بھی رکھتا ہے جس کی رو سے اسلام تمام ادیان اور نظریات پر غالب ہو کر رہے گا۔ رو س کا موجودہ نظام سوشلزم ہے جس کی اگلی ترقی یافتہ صورت اشتراکیت یا کمیونزم ہو گی۔ جہاں مارکسیوں کے عقیدہ کے مطابق کسی حکومت کی وساطت کے بغیر دولت ہر شخص کی ضرورت کے مطابق خود بخود مساوی طور پر تقسیم ہوتی رہے گی۔ اگر نظریہ وطنیت خشت و سنگ کے ایک سلسلہ کو وطن کا نام دے کر خدا کا قائم معبود یا بت بناتا ہے۔ تو نظریہ سوشلزم انسان کے جسم کو اقتصادی ضرورتوں کا نام دے کر خدا کا قائم مقام معبود یا بت بناتا ہے۔ اور اصل میں انسان کی ضرورتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے بلکہ ان کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ انسان کی حقیقت اصل انسان انسان کا جسم نہیں بلکہ اس کی خودی یا روح ہے جو جسم کی موت کے بعدبھی زندہ رہتی ہے انسان کا جسم اصل انسان کے عارضی کنٹرول میں دیا ہوا ایک خدمت گزار حیوان ہے۔ جس سے اصل انسان اس دنیا میں اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کام لیتا ہے۔ جسم کی حیثیت ایسی ہے جیسے کہ کوئی مسافر اپنے گھر تک پہنچنے کے لیے ایک ٹٹو کسی سے عارضی طور پر مانگ لے اور پھر واپس کر دے۔ اور اصل انسان یا خودی کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ ہے۔ اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیںیہی وجہ ہے کہ خودیکی تمام خواہشیں اور آرزوئیں خواہ براہ راست اس سے تعلق رکھتی ہوں یا اس کے ٹٹو سے صرف اس ایک جذبہ کے ماتحت رہتی ہوں اور اس کی خاطر بروئے کار آتی ہیں اور اس کے تمام ارادے اور فیصلے او ر تمام اعمال و انفعال بیھ اسی ایک جذبہ کی تشفی کے لیی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ خودی جب بھی اپنے کسی عمل سے حرکت کرتی ہے تو جمال خداوندی سے اور قریب ہونے اور اس سے اور زیادہ مستفید اورمتمتع ہونے کے لیے ٰحرکت کرتی ہے اوریا وہ حرکت ہی نہیںکرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی اس کا خاندانی الواقع سدچا خدا ہوتا ہے اور کبھی وہ جہالت کی وجہ سے غیر خدا کو سچا سمجھ لیتی ہے اور غلط طور پر خدا کی ساری صفات اس کی طرف منسوب کر دیتی ہے۔ خدا کی محبت کے جذبہ کی تشفی خودی کی سب سے پہی اور سب سے آخری ضرورت ہے اور خودی تمام ضرورتیں فقط یہ اہمیت رکھتی ہیں کہ وہ اس ضرورت کے ماتحت اس کی خدمت گزار ہیں۔ ان ماتحت ضرورتوں میں جسم کے قیام اور بقا کی ضرورت بھی شامل ہے تاکہ یہ حیوان جو اصل انسان یا خودی کی سواری ہے زندہ اور تندرست اور توانا رہے اور ایک ضروری عرصہ کے لیے خودی کے کام آتا رہے۔ لیکن اگر کسی وقت ایک ایسی صورت حال پیش آ جائے کہ جسم کی حفاظت یا پرورش خودی کی ضرورت کے منافی ہو تو اس وقت خودی جسم کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر قربانی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ جسم کو ترک کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اگرجسم کی ضرورت انسان کے نصب العین کا ذریعہ نہ رہے بلکہ خودنصب العین بن جائے تو وہ خدا کا مقام حاصل کر لیتی ہے اور ایک بت یا جھوٹا معبود یا خدا بن جاتی ہے اور انسان کی اصل ضرورت کو بھلا دیتی ہے اور انسان ناکام اور نامراد رہ جاتا ہے۔ سوشلزم کی خرابی سوشلزم کی خرابی یہ ہے کہ وہ انسان یا خودی کی ضرورت یعنی خدا کی محبت کو نظر انداز کر کے اس کی سواری کی ضرورت یعنی جسم کے قیام اور بقا کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ٹٹو پر سوار ہر کر گھر جانے والا مسافر راستہ میں ٹٹو پر ہی مر مٹے اور سفر کے جلد از جلد گھر پہنچنے کی بجائے اسی کی خاطر مدارات کرنے اور اسی کو فربہ کرنے میں لگا رہے ارو اپنی منزل کو بھول جائے یہاں تک کہ شام ہو جائے اور پھر چور اس کاسامان لوٹ لیں اور اسے قتل کر جائیں۔ اقبال کا استاد رومی جسم کی ضرورت کے لیے خودی کی ضرورت کو نظر انداز کرنے والے ایسے ہی کوتاہ نظر انسان کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ دوسرے لوگوں کی زمین میں اپنا گھر نہ بناء وکہ وہاں سے بے دخل کیے جائو گے اور کسیی بیگانے کا کام نہ کرو بلکہ اپنا کام کرو اور یہ بیگانہ کون ہے۔ یہی تمھارا جسم خاکی جس کے غم میں دن رات گھلتے رہتے ہو۔ در زمین مرد مان خانہ مکن کار خود کن کار بیگانہ مکن کیست بیگانہ تن خاکی تو کز برائے اوست غمناکی تو قدرت کی رہنمائی اگرچہ خدا کی محبت کا جذبہ جو خودی کی فطرت ہے‘ نہایت طاقت ور ہے ۔ تاہم خودی اس کے متعلق صرف اتنا ہی جانتی ہے کہ وہ کسی ایسے محبوب کے لیے ہے جو منتہائے حسن و کمال ہے لیکن واضح طور پر نہیںضانتی کہ وہ محبوب درحقیقت کون ہے لہٰذا مکان تھاکہ خودی اس فطری جذبہ کے اصل مقصود کو حاصل سمجھنے اور اس کی تشفی کرنے میں اپنے کسی قصور کے بغیراور محض قدرت کی راہ نمائی کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے غلطیاں کرتی اور ٹھوکریں کھاتی ہے۔ لیکن قدرت کبھی اس قسم کی صورت حال پیدا ہونے نہیں دیتی۔ چنانچہ وہ کائنات میں کسی جاندار کی کوئی ضرورت ایسی پیدا نہیںکرتی جس کی تشفی کا اہتمام خود نہ دیتی۔ چنانچہ وہ کائنات میں کسی جاندار کی کوئی ضرورت ایسی پیدا ہی نہیںکرتی جس کی تشفی کا اہتمام خود نہ کرے اور خوید کا جذبہ محبت اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا تھا۔ اور پھر یہ جذبہ عبث پیدانہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کی صحیح اور پوری تشفی کائنات کے سارے بعد کے ارتقا کا ذریعہ بننے والی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ قدرت اپنے ہی پیدا کیے ہوئے اس نہایت ہی اہم جذبہ محبت کی راہ نمائی خود کرتی اور قدرت نے اس جذبہ کی راہ نمائی کا جو اہتمام کیا ہے اسی کو ہم مظہر نبوت کانام دیتے ہیںَ خودی کے حقائق کی تعلیم ہمیں سب سے پہلے نبوت ہی سے ملتی ہے۔ خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کو خودی کے جذبہ محبت کی سحیح راہ نمائی کے لیے بھیجا اور آخر کار اس نے انبیاء کے سلسلہ کو ایک رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا۔ ان پر قرآن حکیم نازل کیا اور ان کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مثال میں انبیاء کی اس راہ نمائی کو مکمل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بڑے زور سے اس بات کا مدعی ہے کہ اس کے فلسفہ خودی کا اصل منبع قرآن حکیم ہے۔ بلکہ قرآن کے سوائے اس کا کوئی اور منبع نہیں۔ اقبال جناب محمد مصظفیٰؐ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ اگر میرے الفاظ میں قرآن کی تعلیم کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہے اور اگر میرے دل میں خدا کی محبت نہیںتو روز محشر اپنے پائوں کے بوسہ سے محروم کر کے مجھے خوار و رسوا کر دیجیے۔ گر بحر فم جز بقرآن مضمر است در دلم آئینہ بے جوہر است روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پا کن مرا لہٰذ ایہ دیکھنے کے لیے سوشلزم ایسا ایک نظریہ حیات خودی کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے اور خودی پر کس طرح سے اثر انداز ہوتا ہے ہمیں اقبال کے فلسفہ خودی کے اصل منبع یعنی قرآن حکیم کی تعلیمات کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم خدا کے انبیاء نے انسان کو کہا کہ اپنے جذبہ محبت کی تشفی کے لیے ضروری ہے کہ تم قدرت کا مشاہدہ کرو اور خدا کی صفات کو مظاہر قدرت میں دیکھو اور عبادت اور ذکر کے ذریعہ سے خدا کی صفات کے حسن و کمال پر غور کرو۔ لیکن ایسا کرنا کافی نہیں۔ خدا کی محبت کے جذبہ کی مکمل تشفی اور خودی کی مکمل تربیت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تم خدا کی صفات کو اپنے اعمال میں ظاہر کرکے خدا کے اخلاق کے ساتھ متخلق ہو جائو۔ وہ رحیم ہے تم بھی لوگوں پر رحم کرو۔ وہ کریم ہے تم بھی کرم کرو۔ وہ عادل ہے تم بھی عدل کرو۔ لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ لوگوں کا حق نہ مارو۔ ان کا مال غلط طریقوں سے نہ کھائو اور مزدور کی محبت کا معاوضہ بلا توقف ادا کرو۔ وہ صادق ہے تم بھی صدق کو اپنا شعار بنائو۔ وہ غفور ہے تم بھی لوگوں کی خطائوں کو معاف کرو۔ وہ حفیظ ہے تم بھی لوگوں کی حفاظت کا ذمہ لو۔ وہ لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے تم بھی لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرو۔ وہ رزاق ہے اور ہر انسان کے جسم کو تندرست اور توانا رکھنے کے لیے اس کو رزق بہم پہنچاتا ہے۔ تم بھی اپنے رزق میں سے لوگوں کو رزو دو اور ان کے جسموں کو زندہ اور تندرست اور توانا رکھنے کی کوشش کرو۔ وہ شافی ہے اور لوگوں کی بیماریوں کو دور کرتا ہے تم بھی بیماروں کی تیمارداری اور علاج اور حفظان صحت کے اصولوں کی تعلیم اور تلقین سے بیماروں کو دور کرو۔ وہ ہادی ہے اور انسانوں کی خودی کو زندہ اور تندرست اور توانا رکھنے کے لیے انبیاء بھیج کر اپنی ہدایت ان تک پہنچاتا ہے ۔ تم بھی اسی غرض کے لیے خدا کی دی ہوئی ہدایت لوگوں تک پہنچائو‘ وغیرہ۔ تربیت خودی کے زریں مواقع مومن اپنی خودی کی تربیت اور ترقی کا کوئی موقع ضائع نہیںکرتا۔ جب گردوپیش کے حالات خدا کی صفات ربوبیت‘ رزاقیت اور عدل کے اظہار کا تقاضا کر رہے ہوں تو ایسے حالات میں مومن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ان صفا ت کا اظہار کرے۔ ورنہ تخلق باخلاق اللہ کے کئی امکانات اور خودی کی تربیت اور ترقی کے کئی زریں مواقع اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور مومن کے مقام سے گر جاتا ہے اور خدا کی اس سزا کامستحق ٹھہرتا ہے جو اس نے خودی کی ضروریات کی طرف سے غفلت کے اندر رکھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کے کھانا کھائے اور اسے معلوم ہو کہ اس کے پا س ہی اس کا ہمسایہ بھوکا ہے۔ لیس بمومن من یشبع و جارہ جائع مع ؤجنبہ : الحدیث جب مومن سے پوچھا جائے گا کہ کون سا جرم تم کو دوزخ میں لے آیا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور (یہ جاننے کے باوجو ؤد کہ بعض مساکین کھانے کے لیے محتاج ہیں) مساکین کو کھانا نہیںکھلاتے تھے۔ قالو الم انک من المصلین نطعم المسکین ( ۴۴۔۴۳:۷۴) چونکہ مومن خدا کی صفات ربوبیت اور رزاقیت سے اپنی خودی کی تربیت کی خاطر حصہ لینا چاہتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال میں سے اس شخص کا بھی حق ہے جو اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے سوال کرنے پر مجبور ہوا ہے اور اس شخص کا بھی جو حفظ و ضع کے خیال سے سوال تو نہیں کرتا لیکن ضروریات زندگی کے سامان سے محروم ہے۔ وفی اموالھم حق للسائل والمحروم (۱۹:۵۱) مومن کی اس ضرورت کی وجہ سے یہ حکم ہوا تھا کہ مے کے مال کو اس طرح سے تقسیم کرو کہ وہ تمہارے دولت مندوں ہی میں گھومتا نہ رہے بلکہ مفلسوں تک بھی پہنچے۔ کی لایکون دولہ بین الاغنیاء منکم (۷:۵۹) ایک غلط فہمی اور اس کے اسباب چونکہ نبوت کی تعلیم خدا کی محبت کے جذبہ کو مطمئن کرنے اور خدا کے اخلاق کو اپنانے کے مختلف ذرائع میں سے ایک ذریعہ کے طور پر لوگوں کو کھانا کھلانے اور لوگوںمیں مال تقسیم کرنے پر زور دیتی ہے۔ اس سے بعض مسلمانوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ نبوت کی تعلیم کا مقصد ہی یہ ہے کہ خدا کے خوف یا خدا کی محبت کا واسطہ دے کر مفلسوں کی مالی اور اقتصادی ضروریات کا اہتمام کرے تاکہ افلاس دور ہو۔ گویا ان کا خیال ہے کہ نبوت بھی وہی بات کہتی ہے کہ جو سوشلزم کہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نبوت خدا کا نام لیتی ہے اور سوشلزم خدا کامنکر ہے ۔ لیکن خدا کا نام لینے سے عملی طور پر جو فائدہ مقصود ہے یاجو مقصد زیر نظر ہے وہ یہی ہے کہ خدا کے بندوں کی معاشی ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور یہ مقصد سوشلزم نہایت عمدہ طریق سے پورا کر رہا ہے بلکہ (معاذ اللہ) جو کام نبوت نہ کر سکی تھی سوشلزم نے آ کر کر دکھایا ہے‘ لہٰذا ہمیں سوشلزم کو قبول کر لینا چاہیے تاکہ نبوت کا جو اصل مقصد ہے وہ اچھی طرح سے پورا ہو لیکن ہم چونکہ مسلمان ہیں۔ ہمیں خدا کا نام یا اسلام بھی ساتھ رکھنا چاہیے ۔ تعلیم نبوت کی اس بے سروسامانی یا جسمانی‘ مادی یا منفعتی توجیہہ کے اسباب حسب ذیل ہیں: (1) سوشلزم سے مرعوبیت۔ (2) دور حاضر کی علمی اور اخلاقی بے خدائیت۔ (3) تعلیم نبوت کے اسرار اور خودی کی فطرت کے حقائق سے ناواقفیت۔ اصل بات یہ ہے کہ نبوت جسم کی ضرورت کا نہیں بلکہ خودی یا روح کی ضرورت کا اہتمام کرتی ہے اور اگر جسم کی ضرورت کا اہتمام بھی کرتی ہے تو صرف اس خیال سے اور اس حد تک کہ جسم زندہ ر ہ کر بدستور خودی کی ضرورت کا ممد و معاون بنا رہے۔ اس کے نزدیک جسم خودی کے لیے ہے خودی جسم کے لیے نہیں۔ خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است تو معتقد کہ زیستش از بہر خوردن است نبوت کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ انسان اسے خدا کی محبت کی نشوونما کے لیے کام میں لائے نہ کہ اس دنیا کو اپنے رہنے کا ایک مستقبل مقام سمجھ کر عیش و عشرت میں لگ جائے۔ مقام پرورش آہ و نالہ ہے یہ جہاں نہ سیر گل کے لیے ہے نہ آشیان کے لیے (اقبال) خودی اور جسم کی ضرورتیں گویا نبوت کو ٹٹو کی فکر نہیں بلکہ سوار کی فکر ہے اور یہ خیال سراسر لغو ہے کہ سوار کی الگ اپنی کوئی ضرورت نہیں اور ٹٹو کی ضڑورت پوری کر دی جائے تو سوار کی ضرورت بھی اسی میںآ جاتی ہے حالانکہ سوا ر اپنی ضرورت ہی سر کائنات ہے۔ مقصد اور مدعائے تخلیق ہے۔ گزشتہ اور آئندہ کے ارتقا کا محور ہے اور اس بات کے لیے فیصلہ کن ہے کہ آیا اصل انسان بعد از مرگ پوری طرح سے زندہ اور توانا ہو گا یا موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہے گا۔ خوشحال ہو گا یا بدحال‘ مسرور ہو گا یا مغموم۔ ہمیشہ کے لیے جنت میں جائے یا ہمیشہ کے لیے دوزخ میں اور سوار کی کیا ضرورت ہے ۔ حسن کی غذا سے نشوونما پانا یعنی مظاہر قدرت میں خدا کی صفات کی جلوہ گری کے مشاہدہ سے خدا کی مخلصانہ عبادت سے اور فعل جمعیل سے یعنی اپنے عمل میں خدا کی صفات کے حسن کو آشکار کر کے اور خدا کے اخلاق کے ساتھ متخلق ہو کر اپنی اشتہائے حسن کی تشفی کرنا اور اس کے نتیجہ کے طور پر خود اپنے حسن کو ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچانا اور اس طریق سے اپنے آ پ کو پوری طرح مسرور اور مطمئن بنانا اور تادم مرگ اس حال پر قائم رہنا۔ افسوس ہے کہ جسم کی ضرورت کو خودی کی ضرورت سمجھنے والے اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ جس طرح سے جسم کی ایک زندگی ہے اسی طرح سے خودی کی بھی ایک زندگی ہے ۔ جس طرح سے جسم مر سکتا ہے خودی بھی مر سکتی ہے۔ جسم اس وقت مرتا ہے جب قوت حیات اس سے رخصت ہو جاتی ہے اور وہ مضر اور مفید میں فرق نہیںکر سکتا۔ خودی اس وقت مرتی ہے جب خدا کی محبت اس سے رخصت ہو جاتی ہے اور وہ نیک و بد میں فرق نہیں کر سکتی۔ جس طرح جسم کو غذا کی بھوک ہوتی ہے جس سے وہ نشوونما پاتاہے اسی طرح سے خودی کو بھی غذا کی اشتہا ہوتی ہے جس سے وہ نشوونما پاتا ہے تو حیاتیاتی طور پر طاقت ور ہو جاتا ہے۔ خودی جب نشوونما پاتی ہے تو نفسیاتی طور پر طاقت ور ہوجاتی ہے۔ یعنی نیکی اور صداقت کے لیے اس کی قوت ارادی مضبوط ہو جاتی ہے۔ جس طرح سے جسم کی غذا بعض وقت ناکارہ ہوتی ہے ۔ اور جسم کی پرورش نہیں کر سکتی۔ جس طرح سے ناقص غذا سے جو جسم کی ضروریات کے مطابق نہ ہو جسم کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے ایک ایسے ناقص نصب العین کی محبت سے جو اپنے اوصاف میں خودی کی ضروریات کے مطابق نہ ہو۔ خودی اخلاقی اور روحانی طور پر کمزور اور بیمار ہو جاتی ہے۔ خودی کی غذا وہ نہیںجو جسم کی غذ ا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک فرد جسم کو خوب کھلائے اور موٹا کرے اور خودی کو بھوکا اور کمزور رکھے اور بہت سے افراد ایسا ہی کرتے ہیں۔ جسم کی غذا جب عمدہ اورمکمل ہو تو ا س میں پروتین اور حیاتین اور فلزات اور نشاستہ وغیرہ عناصر پوری مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ خودی کی غذا جب عمدہ اور مکمل ہوتی ہے تو اس میں حسن کی تمام صفات بدرجہ کمال موجود ہوتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا نصب العین خدا ہوتا ہے جسم غذا کو غذا کو چبا کر اور اعضائے انہضام کی مدد سے ہضم کر کے جذب کرتا ہے اور اپنا جزو بناتا ہے۔ خودی خدا کی صفات کے حسن کو اپنے فکر و عمل یعنی عبادت اور نیکی عملی کے ذریعہ سے جذب کر ے اپنا جذو بناتی ہے۔ جسجم جب تندرست اور توانا ہو تا وہ بیماریوں کی سرایت کو قبول نہیں کرتا اور بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے یا بیمار ہونے کی حالت میں مرض کا کامیاب مقابلہ کرتا ہے۔ اسی طرح سے خودی جب توانا ہو تو اس کا یقین محکم ہوتا ہے وہ مسرور اور مطمئن ہوتی ہے۔ اس کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ وہ غلط تصورات سے متاثر نہیں ہوتی۔ اپنی سفلی خواہشات اور ہوا و ہوس سے محفوظ رہتی ہے اور ان کے ہجوم کے وقت ان کامقابلہ کرتی ہے حاصل یہ ہے کہ خودی کی ضروریات جسم کی ضروریات سے یکرسر مختلف ہیں ۔ لہٰذا جسم کی ضروریات کا اہتمام جو سوشلزم کرتا ہے وہ خودی کی ضروریات کا اہتمام ہرگز نہیں کرتا۔ اقبال کے الفاظ میں یہ سوشلزم کی غلطی ہے کہ وہ ’’شکم‘‘ کی’’سیری کوہی‘‘ ’’جان پاک ‘‘ کی تشفی سمجھتا ہے۔ جسم خودی کا ایک آلہ ہے اگر ہم اس حقیقت کو مدنظر رکھیں۔ کہ انسانی خودی وہی خدا کا قول کن یا امر اللہ ہے جو روز اول آفرینش کائنات کا سبب ہوا تھا اور بعد میں سارے ارتقا کا باعث ہے تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ انسانی جسم یا قالب انسانی خودی کا ایک آلہ جو اس نے خو د وضع کیا تھا تاکہ اس مادی دنیا میں اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کام کر سکے۔ اس خیال کی وضاحت کے لیے اقبال نے رومی کا ایک شعر نقل کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جسم ہم سے پیدا نہیںہوئے۔ پیالہ شراب سے مست ہوا ہے شراب پیالے سے مست نہیںہوئی۔ اصل چیز شراب ہے جس کے لیے پیالہ بنایا گیا ہے۔ پیالے کے لیے شراب نہیں بنائی گئی۔ قالب از ماہست شد مانے ازو ساغر از مے مست شد نے مے ازو اقبال خود اپنے شعر میں اس خیال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ جسم خودی کی قبا ہے جو خودی نے اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لیے بنائی ہے جس طرح ایک دہکتا ہوا انگارہ اپنے خاکستر سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیتا ہے۔ عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی۔ روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے میری مشکل مستی و سوز و سرور و درد و داغ! تیری مشکل مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے ارتباط حرف و معنی اختلاط جان و تن جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے جسمانی لذات کا مدعا اس کا مطلب یہ ہے کہ جسم خودی کا اپنا ہی مقرر کیا ہو ا ایک خادم ہے خودی کا حاکم نہیں۔ چونکہ اس دنیا میں خودی کی اپنی ضروریات یعنی خدا کی محبت کی تشفی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جسم جو خودی کی سواری ہے زندہ اور سلامت رہے اور جسم کی زندگی اور سلامتی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس کی ضرورتیں بقائے حیات اور قیام نسل کی حد تک پوری ہوتی رہیں اور چونکہ خودی کے جذبہ محبت کی قوت کی وجہ سے اس بات کا امکان تھا کہ خودی نے اس کی تشفی کے کام میں اس قدر منہمک ہو جائے کہ اپنی سواری کی ضرورتوں کو نظر انداز کر دے جس سے بالاخر اس کی اپنی ضرورت بھی خطرہ میں پڑ جائے۔ لہٰذا خدا نے اپنی حکمت بالغہ سے جسم کی ضرورتوں کے اندر جن کو حیوانی خواہشیں یا ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں جبلتیں کہا جاتا ہے دو خصوصیتیں پیدا کر دی ہیں جو خودی کو ان کی تشفی کی طرف بزور متوجہ کرتی ہیںَ ایک تو یہ کہ ان کے اندر ایک حیاتیاتی قسم کا دبائو یا زور پیدا کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر خودی ان کی تشفی نہ کرے یا نہ کر سکے۔ ت واس سے ایک عارضی قسم کی بے قراری یا پریشانی لاحق ہوتی ہے اور دوسری یہ کہ اگر ان کی خودی تشفی کرے تواس بے قراری یا پریشانی ہی دور نہیںہوتی بلکہ اسے ایک عارضی قسم کی لذت بھی نصیب ہوتی ہے۔ جسم اور خودی کی ضرورتوں کا باہمی تضاد خدا کا یہ انتظام خودی کے جذبہ محبت کی تشفی کا موید اور معاون ہے لیکن اس سے خودی اور جسم کی ضرورتوں کے درمیان ایک تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ چونکہ جسم کی اپنی ہی ضڑورت کی فکر ہوتی ہے اور وہ خودی کی ضڑورت سے بے خبر اور بے پرواہ ہوتا ہے وہ اس عارضی قسم کی بے قراری یا پریشانی کا خوف پیدا کر کے اور اس عارضی قسم کی لذت کا لالچ دلا کر یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ خودی اپنی ضرورت کی طرف سے توجہ ہٹا کر ہمیشہ جسم کی ضرورت کی طرف متوجہ کرے ۔ کیونکہ نہ افلاس کے خوف کا کوئی کنارہ ہے جہا ں پہنچ کر انسان یہ یقین کر لے کہ اب میں اور میری اولاد افلاس سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے ہیں اور نہ جسمانی خواہشات کی لذت کی کوئی حد ہے جہاں پہنچ کر انسان یہ سمجھے کہ اب اسے اس لذت کی مزید ضرورت نہیں لیکن چونکہ وقت جو انسان کو اس کی زندگی میںمیسر ہے محدود ہے اور تھوڑا ہے اور غیر یقینی ہے کہ معلوم نہیں کہ کس لمحہ فی الفور ختم ہوجائے اور پھر یہ وقت ایک ہی ہے اور ایک موقعہ پر صرف ایک ہی کام کے لیے صرف ہو سکتا ہے خواہ وہ کام جسم کا ہو یا خودی کا ہو۔ خواہ وہ خواہشات جسمانی کی پیروی ہو یا ضروریات کی خودی کی تشفی ۔ لہٰذا اگر ایک انسان جسم کے ان حد سے متجاوز مطالبات کو اہمیت دے گا تو ضروری بات ہے کہ وہ خودی کی ضروریات کو جسم کی خاطر نظر انداز کر دے گا۔ ایسی حالت میں بجائے اس کے کہ سوا ر ٹٹو کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے کا م میں لائے ٹٹو سوار پر سوار ہو جائے گا اور جدھر چاہے گا اس کو ہانک کر لے جائے گا۔ لہٰذا ایسا کرنا قرآن حکیم کے نزدیک برائی کا ارتکاب ہے۔ نفس کی اصلاح کا مفہوم جسم کے حد سے تجاوز مطالبات کو قرآن حکیم نے انسان کی حیوانی فطرت کی طرف منسوب کیا ہے ۔ اور اس کے لیے نفس کی اصطلاح برتی ہے اور بتایا ہے کہ نفس انسان کو برائی کا حکم دیتا ہے۔ ان النفس لامارۃ بالسوء الا مارحم ربی (۵۳:۱۲) اقبال نے بھی قرآن حکیم کی اتباع میں اس کے نفس کی اصطلاح استعمال کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ نفس کو ضبط میں رکھنا خودی کی تربیت اور قوت کے لیے ضروری ہے۔ انسان کو چاہیے کہ ہمت سے اس شتر بے مہار کی زمام کو اپنے ہاتھ میں رکھے۔ پھر وہ حزف ہے تو گوہر بن جائے گا۔ نفس تو مثل شتر خود پرور است خود پرست و خود سوار و خود سر است مرد شو آور زمام او بکف تا شوی گوہر اگر باشی خزف ہر کہ برخود نیست فرمانش روان مے شود فرمان پذیر از دیگران خودی کو نفس کے حملوں سے بچانے کے لیے مومن نفس پر اس طرح سے ٹوٹ پڑتاہے جس طرح سے چیتا ہرن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ مرد مومن زندہ و باخود بجنگ بر خود افتد ہمچو برآ ہو پلنگ اقبال جسم یا نفس کے لیے ’’خاک تیرہ‘ ’’گل’’ ’’آب و گل‘‘ ’’ماء وطین‘‘ ’’بدن‘‘ اور ’’اشتر خاکی‘‘ ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے۔ امتزاج ماء و طین تن پرور است کشتہ فحشاء ہلاک منکر است اہل قوت شو زور و با قوی تا سوار اشتر خاکی شوی آب و گل کا طواف دانائی اور دور اندیشی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان اس ناپائیدار جسم کی حد سے متجاوز خواہشات کو نظر انداز کر دے پائیدار خودی کی ضروریات کو بتمام و کمال پورا کرے اور اپنی مستقبل کی زندگی کی بہتری کے لیے ایک عارضی اور موہوم فائدہ کے لیے خطرہ میں نہ ڈالے۔ لیکن اگر انسان یہ فیصلہ کرے کہ وہ فقط جسم کی ضروریات کو ہی اہمیت دے گا تو پھر اسے ایسا دین ترک کرنا پڑے گا جس کا مقصد خودی کی تربیت اور تقویت ہو اور ایک نیا دین بنانا پڑے گا جس میں روح اور خودی اور خدا کا کوئی مقام نہ ہو اور اس کی تائید کے لیے علم بھی نیا ایجاد کرنا پڑے گا جو بے خدا ہو۔ اور فلسفہ اخلاق اور فلسفہ سیاست کو بھی اس طرح سے ڈھالنا پڑے گا کہ ان میں خدا کا عقیدہ کہیں نہ آئے اور پھر عقل کے استدلال اور دل کے جذبات کو بھی جسم ہی کی خدمت کے لیے وقف کرنا پڑے گا۔ اس وقت دنیا میں دو بڑے نظام ہائے زندگی رائج ہیں ایک سوشلزم اور دوسرا سرمایہ داری ۔ دونوں اس فیصلہ پر متفق ہیں کہ جسم ہی سب کچھ ہے اور خودی کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا دونوں میں دین اور سیاست اور علم اور فن او ر عقل اور دل جسم کا طواف کر رہے ہیں دونوں میںفرق یہ ہے کہ سوشلزم نظری اور عملی طورپر دونوں طور پر خدا کا منکر ہے اور سرمایہ داری عملی طور پر خدا کا انکار کرتی ہے کیونکہ خدا کو اپنی عملی زندگی کے کسی شعبہ میں دخل دینے نہیں دیتی اور نظری طور پر اگر اس کا انکار نہیںکرتی تو اقراربھی نہیںکرتی۔ اقبال اسی صورتحال کا ذکر ہوئے لکھتا ہے: علم و فن ‘ دین و سیاست‘ عقل و دل زوج زوج اندر طواف آب و گل خدا سے شرک خودی کا تقاضا کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کی حفاظت کی طرف سے بے پرواہ ہو جائے اور اسے قربان کر کے اپنے مفاد کی حفاظت کر ے مثلاً جہاد کے موقعہ پر۔ لیکن کبھی خودی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ جسم کی حفاظت کرے اور اسے خطرات سے بچائے تاکہ جسم زندہ رہے اور وہ ا س مدد سے اس دنیا میں خدا کی عبادت یعنی تخلق باخلاق اللہ کی مشق کر کے آئندہ زندگی کی تیاری کے طور پر اپنے آپ کو مضبوط اور مستحکم کرتی رہے۔ ایسی حالت میں زندگی کے قیام اور بقا کی حد تک جسم کے مطالبات خودی کے اپنے مطالبات بھی ہوتے ہیں فقط جسم کے مطالبات نہیںہوتے اور جب یہ مطالبات اس حد سے تجاوز کر جائیں تو پھر ان کو خاص جسم کے مطالبات قرار دیا جاتا ہے۔ ان ہی مطالبات کو نفس کے مطالبات بھی کہا جاتا ہے ۔ اگر ایک انسان اپنے جسم یا نفس کا حکم مانے تو ا س کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے خود ی کا حکم جو خدا کا حکم بھی ہے نہیںمانا اور سچے خدا کی بنائے اسے اپنے جسم یا نفس کی خواہشات کو جس کو قرآن مجید نے ہوا کا نام دیا ہے اپنا خدا بنا لیا ہے۔ ایسے شخص کی بدبختی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے پیغمبرؐ کیا تو نے ایسے شخص پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا ہے۔ اریت من اتخذ الھہ ھوا (۴۳:۳۵) اس سے زیادہ واضح صورت شرک کی اور کیا ہو گی کہ جس کو خدا خود شرک قرار دیتا ہے اور شرک وہ گناہ ہے جسے خدا معاف نہیںکرے گا حالانکہ اور سب گناہ خدا کے لیے جس کے لیی چاہے گا معاف کرے گا۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذالک لمن یشاء (۴۸:۴) اسی لیے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ شرک ظلم عظیم ہے اور شرک کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص آسمان سے گر جائے کہ اس کے ٹکڑے اڑ جاتے ہیں۔ خدا کی ناراضگی اور دوری سے ڈر کر ہوا کے تقاضو ں کو روکنا اور خودی کے تقاضوں کو پورا کرنے کا موقع دینا مومن کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کا انعام اسے جنت کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ وامان خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنہ ھی الماوی (۴۰: ۷۹) یہی تقویٰ ہے جو مومن کو خدا کے نزدیک معزز اور مکرم بناتا ہے اور خدا کے نزدیک عزت اور مکرمت کا معیار سوائے تقویٰ کے کوئی اور نہیں۔ زندگی محدود ہے۔ اس زندگی کو انسان یا خودی کی تشفی کے لیے صرف کر سکتا ہے یا شہوات نفسانی کی پیروی کے لیے دونوں کام بیک وقت ممکن نہیں۔ ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنون لیکن یاد رہے کہ وہ لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر خدا کی عبادت یا خودی کے تقاضوں سے غفلت کریںگے۔ وہ دوزخ میںڈالے جائیں گے۔ اضاعوا الصلوۃ واتبعو الشھوت فسوف یلقون غیا (۵۹:۱۹) گل جوئی اور گل خوری جسم مٹی کی بنی ہوئی چیز ہے۔ جو شخص جسم کی خواہشات کے پیچھے پڑ کر خودی کے تقاضوں کو نظر انداز کرتا ہے اس کی خودی کانور بجھ جاتا ہیے اور اس کی خودی موت کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مٹی کی تلاش کرے مٹی خریدے اور مٹی کھائے اور اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور اس کا چہرہ زرد ہو جائے گا۔ اقبال نے رومی کی زبان سے اس حقیقت کو بیان کیا ہے۔ گل محز گل رامخور گل را مجو زانکہ گل خوار است دائم زرد رو دولت مندی ایک آزمائش ہے چونکہ جسم کے حد سے متجاوز زور دار مطالبات کی تشفی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ انسان کے پاس مالی ذرائع بھی موجود ہوں۔ لہٰذا دولت مندی کی حالت میں ان مطالبات کو روکنا آسان کام نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت نے دولت کو خدا کی آز مائش قرار دیا ہے اور تنبیہہ کی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ دولت تمہیں جسمانی خواہشات اور لذات میں منہمک کردے۔ اور تم خدا سے غافل ہو جائو۔ یہاں تک کہ زندگی بیت جائے اور تم اپنے آپ کو دوزخ میںپائو۔ الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر (۲۔۱:۲۔۱) دولت مند سے کڑی باز پرس کی جائے گی کہ اس نے دولت کو ناجائز طور پر تو خرچ نہیں کیا۔ ثم لتسئلن یومئذ عن النعینم (۸:۲۔۱) دولت مندی کے ایسے ہی خطرناک نتائج کی وجہ سے اقبال لکھتا ہے: اے بسا مرد حق اندیش و خبیر مے شود از کثرت نعمت ضریر کثرت نعمت گذاز از دل برد ناز مے آرو نیاز از دل برد سالہا اندر جہاں گردیدہ ام نم بچشم منعمان کم دیدہ ام شیطان کی شرکت شیطان جو انسان کو دشمن ہے جب دیکھتا ہے کہ انسان کی خودی کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اس کے جسم کی صورت میں ایک قوت کا م کر رہی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ مل جاتا ہے اور جس خوف ناداری اور حرص لذت کو جسم نے پیش کیا تھا اسی کو وہ بھی اپنے وسوسوں سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم نادار ہو جائو جسم کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھو اور یہ نہ بھولو کہ جسم کی خواہشات کی تسکین میں بڑی لذت ہے۔ اس لذت کے موقعوں کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ وغیرہ۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے کہ شیطان تمہیں افلاس کا خوف دلاتا ہے اور تمہیں بے حیائی کی لذت کی طرف بلاتا ہے لیکن اگر تم خدا کے کہنے سے اور شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے جسم کے حدسے متجاوز مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے خودی کی ضرورتوں کو پورا کرو گے تو تم نہ صرف اپنی سابزہ فروگزاشتوں کے نقصان کی تلافی کر لو گے (مغفرۃ منہ) بلکہ اور بھی گراں قدر انعامات (فضلا) حاصل کرو گے۔ الشیطان بید کم الفقر و یامر کم بالفحشاء واللہ بعد کم مغفرۃ منہ و فضلا (۲۶۸:۲) اس لیے مومن کو سکھایا گیا ہے کہ وہ دعا کرے کہ اس کو اس کے نفس سے اور شیطان سے اور نفس کے ساتھ شیطان کی شرکت سے پناہ دی جائے۔ اللھم انی اعوذبک من شر نفسی و شر الشیطان و شرکہ۔ جسم سے خودی کی حفاظت کا اہتمام ظاہر ہے کہ اگر خودی کو جسم کی اس تربیت اور ترغیب اور شیطان کی تائید اور توثیق کے خطرناک نتائج اور عواقب کے بارہ میں پہلے سے خبردار نہ کر دیا گیا ہو تو خودی اپنی سواری یعنی جسم کی ضرورتوں کی طرف بقدر ضرورت اور کفایت نہیں بلکہ حد سے زیادہ متوجہ ہوتی رہے گی۔ یہ صور ت حال خودی کی زندگی اور ترتبیت اور ترقی کے لیے ایک بہت بڑے خطرہ کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ لہٰذا خدا کی رحمت مظہر نبوت کے ذریعہ سے اس کا مداوا کرتی ہے۔ نبوت نہ صرف اس بات کا اہتمام کرتی ہے کہ انسان کو بتائے اور خوب سمجھائے کہ اس کا صحیح نصب العین حیات خدا ہے تاکہ وہ دربدر اور کوبکو بھٹکتا نہ پھرے بلکہ اس بات پر بھی کوشش کرتی ہے کہ اس کو جسم کے غیر ضروری مطالبات کی طرف سے جو خطرہ پیش آنے والا ہے اس سے بھی پوری طرح خبردار کر دے تاکہ اپنے اصلی اور حقیقی محبوب کو جان لینے کے بعد بھی وہ عمر عزیز کو جسم کی خاطر مدارات میں صرف کر کے اپنی خودی کے تقاضوں کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائے اور ا س کا حال پھر اس شخص کی طرح نہ ہو جائے کہ جو جانتا ہی نہیں کہ اس کا اصلی محبوب کون ہے لہٰذا نبوت جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے سب سے پہلے تو انسان کو یہ بتاتی ہے کہ جسم یانفس کے ناجائز مطالبات کو پورا کرنا اپنی جان کے ساتھ ظلم کرنا اور ایک گناہ یا برائی کا ارتکاب کرنا ہے جس کی سزا اس کے اندر موجود ہے اور جس کا ریکارڈ ضائع نہیں ہوگابلکہ خودی کے اندر موجو د رہے گا ۔ اور خودی اس کو ساتھ لے کر اگلی دنیا میں جائے گی۔ جو شخص خودی کو اس گناہ یا عظیم ظلم سے پاک اور محفوظ رکھے گا وہ کامیاب ہو گا اور جو اس کو جسم خاکی پر قربان کر کے خاک میں ملا دے گا وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔ قد افلح من رکھا و قد خاب من دسھا (۹:۹۱) اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے پھر نبوت انسان کو بتاتی ہے کہ جسم جس کی پرورش کی خاطر مدارات میں تم اپنی زندگی کے قیمتی اوقات غیر ضروری طور پر صرف کرتے رہتے ہو‘ ناپائیدار ارو فانی ہے اور ا کے برعکس تم خودی کی زندگی پائیدا ر اور دائمی ہے۔ لہٰذا عقل مندی نہیں کہ ناپائیدار زندگی کی خابر پائیدار زندگی کو قربان کرو۔ تم جسم کی زندگی(حیات دنیا) کو خود ی کی زندگی(آخرت) پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ خودی کی اپنی زندگی اپنی لازوال مسرتوں کی وجہ سے بہتر اور باقی رہنے والی ہے بل توثرون الحیوۃ الدنیا والاخرۃ خیر وا بقی (۱۷۔۱۶:۷۶) پھر نبوت جسم کی زندگی یا اس دنیا کی زندگی کا تجزیہ کر کے بتاتی ہے کہ وہ کیا ہے۔ اگر اس میں خودی کی ضرورتوں کا پورا پورا اہتمام نہ کیا جائے تو اس میں انسان کے مشاغل یہ رہ جاتے ہیں۔ کسی کھیل اور تماشا میں لگ جانا اپنی غذا کو اپنے لباس کو اپنے مکان کو اور زندگی کے دوسرے سازوسامان کو زیادہ سے زیادی حسین بنانے کی کوشش کرنا ایک دوسرے کے بالمقابل فخر کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ میں دوسروں سے بہتر ہوں۔ زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کی کوشش کرتے رہنا‘ اولادکو زیادہ سے زیادہ خوشحال بنانے کی جدوجہد کرنا ان تمام مشاغل کی مثال ایسی ہے ک جیسے آسمان سے مینہ برسے اور اس سے کھیتی لہلہانے لگے اور پھر پورے جوبن پر آئے اور پک کر زرد ہو جائے اور کسان اس کو دیکھ کر خوش ہو جائے لیکن آخر کار یہی کھیتی چورا چورا ہو جائے اس طرح سے اگر دنیا کمانے والا اپنی تمام خواہشات کے مطابق سب کچھ حاصل کر لے تو پھر بھی موت اس کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتی ہے۔ اور اس کے پاس کچھ نہیںرہتا۔ بلکہ اسے آخرت میںخودی کی ضروریات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے دسخت عذاب ہوتاہے۔ لیکن اگر وہ ان مشاغل کو ضرورت اور کفایت کے دائرہ کے اندر محدود کر دے اور ان کی بجائے خودی کی زندگی یا آخرت کی زندگی ضرورتوں کی تکمیل کرے تو اسے خدا کی بخشش اور رضامندی حاصل ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ جسم کی زندگی ضرورتوں کی تکمیل کرے تو اسے خدا کی بخشش اور رضامندی حاصل ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ جسم کی زندگی دھوکے کا مال ہے جو دیکھنے میں تو اچھا ہے لیکن دراصل خراب اور نکما ہے۔ اعملوا انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو و زینہ و تفاخر بینکم و تکاثر فی الموال والا ولاد کمثل غیث اعجب الکفار رنباتہ ثم یھیج فتاہ مصفرا ثم یکون حطاماً و فی الاخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اللہ و رضوان وما الحیوۃ الدنیا المتاع الغرور (۲۰:۵۷) نبوت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ زندگی اگر کوئی ہے تو وہ فقط خودی کی زندگی ہے۔ جسم کی زندگی سے اس قدر مختصڑ اور بے ثبات ہے کہ اسے زندگی سمجھنا ہی غلط ہے ۔ انسان اگر سوسال تک بھی زندہ رہے تو موت کے وقت اسے ایسا معلمو ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کی مدت ایک دن یا ایک دن کے حصہ سے زیادہ نہیں ہوئی۔ قرآن حکیم میں ایک شخص کا قصہ بیان کیا گیا ہے جسے خدا نے ایک سو سال تک حالت موت میں رکھا اور پھر زندہ کیا۔ اور جب اسے پوچھا گیا کہ تم کتنا عرصہ پڑے رہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا دن کا ایک حصہ۔ ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان لو کانو ا یعلمون (۶۴:۲۹) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے یعنی یعنی دنیا یا جسم کی زندگی کو آخر ت یا خودی کی زندگی کے لیے رکاوٹ نہ بنائو بلکہ معاون بنائو جن لوگوں کے اعمال سب سے زیادہ لغو اور بیکار اور نقصان رساں ہیں وہی ہیں جن کی ساری کوششیں جسم کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں ضائع ہو گئیں اور اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نہایت ہی اچھا کام کر رہے ۔ قل ھل ننبکم بالا خسرین اعمالا الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا (۵۔۱:۱۸) مومن اپنی جان اوراپنا مال خدا کو دے چکاہے پھر نبوت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم جنت چاہتے ہو تو خدا پر ایمان لائو یعنی جو بات خدا نبوت کی معرفت تمہاری بھلائی کے لیے کہتا ہے اسے برحق جانو اور خدا پر ایمان لانے کی شرط یہ ہے کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں کو خدا کے حوالے کردو کہ وہ جب چاہے اور جس طرح سے چاہے ان کو خرچ اور تم خود اس بات کی ہرگز کوئی فکر نہ کرو کہ ان دونوں میں سے کوئی تمہارے پاس رہتی ہے یا نہیں۔ ان کے عوض میں تمہیں جنت حاصل ہو گی جو خودی کی کامیاب زندگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ان اللہ اشتری من المومنین انفسھیم و اموالھم بان لھم الجنہ (۱۲۲: ۹) افلاس کے خوف سے بچنے کی ضرورت پھر نبوت انسان کو بھوک اور افلاس کے خوف سے نجات دلانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ انسان ان کے خوف کو چھوڑ کر جسم کے مطالبات کی پیروی میں نہ لگ جائے۔ وہ اسے کہتی ہے کہ تمہیں حد سے زیادہ روٹی کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ خدا نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور وہ اسے ضروی مل کر رہے گا۔ ما مان دابہ فن الارض الا علی اللہ رزقھا (۶:۱۱) خدا رازق ہے اور رازق بھی ایسا جو کمزور نہیںہے کہ کبھی رزق پہنچا سکے اور کبھی نہ پہنچا سکے بلکہ وہ رزق بہم پہنچانے کی زبردست قوت کا مالک ہے۔ ھو الرزق ذوالقرۃ المتین (۵۸:۵۱) جسمانی ضرورتوں کا حیاتیاتی دبائو اور ان سے پیدا ہونے والا طلب معاش کا جذبہ جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور ان میں ذرائع سے ایکہے جو خد ا انسان کو رزق بہم پہنچانے کے لیے کام میں لاتا ہے لہٰذا معاش کی جستجو کرنا بھی ایک فرض قرار دے دیا گیا ہے۔ لیکن معاش کی جستجو مقصود بالذات نہیںبلکہ خدا کی عبادت اور اطاعت کے لیے جسم کو زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ سمجھا گیا ہے ۔ مقصود بالذات کے طور پر معاش کی جستجو انسان کو کسب معاش کے غلط طریقوں کواختیار کرنے اور خودی کی ضرورتوں کو نظر اندا زکرنے پر مجبور کرتی ہے اور خودی کی ان ضرورتوں میں سے ایک توکل یہ بھی ہے۔ پھر نبوت انسان کو براہ راست بھی اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ مفلسی کے خوف سے بے پرواہ ہو کر اپنی خودی کی ضرورتوں کو پورا کرو اور یقین رکھو کہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ چاہے تو تمہیںدولت مند بنا دے۔ وان خفتم عیلہ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء (۲۹:۹) مفلسی ایک امتحان ہے مفلسی اس لیے آتی ہے کہ انسان کو آزمایاجائے کہ آیا وہ مفلسی کی حالت میں صبر سے کام لے کر حق کے راستہ پر ثابت قدم رہتا ہے ۔ یا مفلسی کے خوف سے اس راستہ کے چھوڑ کر اپنی مفلسی کو ہر جائز یا ناجائز طریق سے دور رکھنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ افلاس انسان کو کفر کے قریب لے آتا ہے ۔ (کاد الفقران یکون کفراً…) یہی سبب ہے کہ خدا افلاس کو ایمان کی آزمائش کے لیے کام میں لاتاہے اور سچا اور پکا ایمان وہی ہے جو افلاس کی حالت میں سے بھی متزلزل نہ ہو اور جس کے ہوتے ہوئے افلاس صبر کا رد عمل پیدا کر دے اور کفر اور معصیت کا رد عمل پیدا نہ کر سکے جومومن آزمائش میں صبر سے کام لیتا ہے وہ اور خودی کی ضروریات کی تشفی کرنے میں پریشان ہونے کے بغیر مصروف رہتا ہے اس کی خودی اپنی منزل کے ایک بلند مقام پر قدم رکھتی ہے جس طرح سے ایک طالب علم جو امتحان میں کامیاب ہوتا ہے ترقی پا کر اوپر کی جماعت میں پہنچ جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ہم ضرور ہی تم کو موت کے خوف سے بھوک سے مالوں اور جانوں کے نقصان سے اور زرعی پیداوار کی کمی سے آزمائیں گے اور جو لوگ ان مصیبتوں پر صبر کریںگے ان کو خوشخبری سنائیں گے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کی وجہ سے ان کی خودی کے درجات ارتقا بلند ہو ں گے۔ نرفع درجات من نشائ۔ ۸۳:۶) جن بدبخت لوگوں پر افلاس کا خوف یہاں تک سوار ہوجاتاہے کہ وہ اپنی اولادکو قتل کر دیتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ ان کے لیے رزق پہنچانا مشکل ہو جائے۔ نبوت ان کو اس حرکت سے باز رکھنے کا حکم دیتی ہے اور ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے ان کو یقین دلاتی ہے کہ ان کا اور ان کی اولاد کا رازق خدا ہے اور وہ خود نہیں خدا کا ارشاد ہے کہ اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ تمہیںاور تمہاری اولاد دونوں کو رزق دینے والے ہم ہیں۔ لا تقتلوء ولادکم خشیہ املاق نحن نرزقکم وایاکم (۳۱: ۱۷) کفایت شعاری کی تلقین پھر خودی کے ٹٹو یعنی جسم کے حد سے متجاوز مطالبات سے خودی کو بچانے کے لیے نبوت اس بات پر زور دیتی ہے کہ جسم کی ضرورتوں پر بقدر کفایت خرچ کرو۔ جس سے جسم زندہ اور توانا رہے اور خودی کے کام آتا رہے۔ جو لو گ اس سے زیادہ خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں کیونکہ وہ شیطان کے مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ جو یہ چاہتا ہیکہ انسان خودی کی ضرورتو ں کو نظر اانداز کرے اور جسم یا نفس کی ضرورتوں کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دے یہاں تک کہ اس کی زندگی ختم ہو جائے اور وہ جہنم میں پہنچ جائے۔ ان المبذرین کاو اخوان الشیطین فالتو مال کو صدقہ میںدینے کا حکم اور پھر نبوت یہ حکم دیتی ہے کہ کفایت اور ضرورت سے جو کچھ بچ رہے وہ اپنے پاس نہ رکھو بلکہ خدا کی راہ میں دے دو ۔ ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو (۲۱۹:۲) نبوت کی تعلیم کا زور اس بات پر ہے کہ مال کو جسم کی وقت ضرورت کا مداوا سمجھا جائے اور اسے جمع نہ کیا جائے ۔ جو لوگ سونا اور چاندی کے سکوں کی صورت میں یا کسی اور صورت میں جو سونا اور چاندی کے سکوں کی شکل اختیار کر سکتی ہے مال جمع کر تے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں نہیں دیتے انہیںدردناک عذاب ہو گا۔ جب سونے اور چاندی کے سکے دوزخ کی آگ میں خوب گرم کیے جائیں گے اورپھر ان سے ان کی پیشانیاں اور اطراف اور پینھیں داغی جائیں اور کہا جائے گا کہ یہی وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ سو جو کچھ تم جمع کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔ والذین یکنزون الذھب والفضہ ثم لا ینفقو نھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم یوم یحمی علیھا فی نار جہنم فکتوی بھا جاھہم وجنوبہم و ظہورھم ھذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقو اما کنتم تکنزون (۵۳:۹) حضورؐ کی وفات کے بعد حضورؐ کے مقتدر صحابی جناب ابوذر غفار ی جب دیکھتے تھے کہ لوگ خدا کے اس حکم پر عمل نہیں کرتے جو اس آیت کے اندر موجود ہے اور مال جمع رکھتے ہیں تو ان کودکھ ہوتاتھا اور وہ لوگوں کو خدا کی ا س نافرمانی کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔ حب غیر اللہ کا استیصال مومن کا صدقہ صرف اسی صورت میں نیکی شمار ہوتا ہے کہ جب وہ ا س کی ملکیت کی ان چیزوں پر مشتمل ہو جن سے اس کو محبت ہے کیونکہ اسی صورت میں وہ غیر اللہ کی محبت کا استیصال کرتا ہے اور خدا کی محبت کو آزمائش میںکامیاب کر کے پختہ کرتا ہے۔ چنانچہ خدا کا ارشاد ہے کہ جب تم اپنی ایسی چیزیں خیرات میں نہ دے دو جن سے تمہیں محبت ہے تم ہرگز نیکی نہ پا سکو گے۔ لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون ۹۴:۸ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت طلحہؓ نے حضور سے عرض کیا کہ میرے پاس ایک ایسا باغ ہے جس سے مجھے بڑی محبت ہے خدا کی قسم میں اس حکم کی تعمیل میں اسے خیرات میں دینا چاہتا ہوں حضورؐ نے فرمایا کہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدقہ کا پہلا اور اصل مقصد صدقہ دینے والے کی خودی اور اس کی محبت کی تربیت اور ترقی ہے نہ کہ افلاس کا ازالہ اگرچہ ظاہر ہے کہ صدقہ دینے سے افلاس کا دور کرنا نیکی اس لیے ہے کہ ایک تو اس سے صدقہ دینے والے کے دل میں غیر اللہ کی محبت رخصت ہوتی ہے اور میں اس خدا کی محبت کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے اور دوسرے وہ خدا کے اخلاق ربوبیت ارو اخلاقیت سے متخلق ہوتاہے۔ جس سے اس کی خودی تربیت اور ترقی پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقدر استطاعت انفاق کا حکم مفلس کو بھی ہے اوردولت مند کو بھی اور ہر حالت میں ہے کہ تنگدستی میں بھی اور فارغ البالی میں بھی۔ الذین ینفقون فی السراء والضراء (۱۳۴:۳) حالانکہ تنگدستی کی حالت میں انسان اپنے جسم کی جائز ضرورتوں کو بھی نظر انداز کر کے ہی دوسروں کو دے سکتاہے۔ خدا کی رضا جوئی یہی وجہ ہے کہ خیرات اور صدقہ کی مقبولیت کی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس کے پیچھے خدا کی رضا جوئی کی نیت موجود ہو ورنہ صدقہ نہ دینا برابر ہو جاتا ہے بلکہ صدقہ ریاکاری یا شرک ایسی ایک معصیت شمار ہوتا ہے۔ حالانکہ صدقہ لینے والے مفلس کی جسمانی ضرورت تو پھر بھی اس سے ویسی ہی پوری ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ ایسے صدقہ سے دینے والے کی خودی کی پرورش نہیںہوتی۔ اس فعل کو بیکار اور عبث ہی نہیں بلکہ ایک گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے صدقوں کو احسان جتا کر یا بعدمیں ذہنی آزارپہنچا کر ضائع نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم بھی ا س شخص کی طر ح ہو جو خدا پرایمان نہیںرکھتا اور جو خدا کی محبت اور خوشنودی کے لیے بلکہ لوگوں کو دکھانے کی طرح ہو جو خدا پرایمان نہیں رکھتااور جو خدا کی محبت ارو خوشنودی کے لیے بلکہ لوگوں کو دکھانے ک لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ لا تطبلوا صدقاتکم بالمن والا ذی کالذی ینفق مالہ رئاء الناس ولا یومن باللہ ۲۹۴:۲ مومن کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ مفلس کو کھانا کھلائے اور لیکن اپنی نیکی کو اس توقع سے ضائع نہ کرے کہ کھانا کھانے والا کل کو اس کے کام آئے گایا س کا شکر گزار ہو گا بلکہ واشگاف یہ اعلان کر دے کہ وہ محض بوجہ اللہ اس کو کھانا کھلا رہا ہے ۔ اور اس کے عوض میں کوئی صلہ یا شکریہ نہیں چاہتا بلکہ تاکہ خدا خدا کی محبت کا جذبہ اس کے عمل میں اظہار پائے اور اس کے نتیجہ کے طور پر اس کی خودی کے درجات ارتقاء بلند ہوں ۔ انما انطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکورا ۷۶:۹ ایمان لانے کا امتیاز یہ ہے کہ وہ مسکینوں اور یتیموں کو اور اسیروں کو محض خدا کی محبت کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔ و بطعمون الفطعام علی حبہ مسکینا ویتیما و اسیرا ۷۶:۸ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خدا کی رضامندی کے لیے بغض رکھے ‘ خدا کی رضامندی کے لیے دے اور خدا کی رضامندی کے لیے دینے سے رک جائے (مثلاً دینا غیر اللہ کے لیے ہو) تو اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔ تزکیہ نفس زکوۃ کے متعلق حضور نے فرمایا تھا کہ وہ ایک صدقہ ہے جو تمہارے دولت مندوں سے وصول کر کے تمہارے مفلسوں کو دیا جاتا ہے صدقہ تو خذ من اغنیاء کم و تزدانی فقراء کم اس صدقہ کو اصلی اور بنیادی غرض بھی مومن کی خودی کی تربیت ہے لفظ زکوۃ کامفہوم بتا رہا ہے کہ اس کامقصد کسی کا تزکیہ کرنا ہے اور کسی کی خود کو خدا کی صفات ربوبیت اور رزاقیت سے حصہ دلا کر پاک کرنا ہے۔ اگرچہ ظاہر ہے کہ زکوہ سے یہ تزکیہ اسی لیے ہوتا ہے کہ اس سے کسی حاجت مند کی حاجت پوری ہوتی ہے اور ورنہ زکوۃ ادا کرنا خدا کی صفات ربوبیت اور رزاقیت سے حصہ نہ دلا سکے اور خودی کا تزکیہ نہ کر سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے مال سے صدقہ وصول کر و جو ان کے دلوں کو پاک کرے۔ خذمن اموالھم صدقہ تطھر ھم و تزکیھم بھا ۱۰۳:۲ یہ نہیں فرمایا گیا تھا کہ جو مفلسوں کی مفلسی دور کرے اگرچہ صدقہ سے ضمناً مفلسی بھی دور ہوتی ہے پھر ایسا صدقہ جو غیر اللہ کے لیے دے دیا جائے۔ ما اھل بہ لغیر اللہ ۷۳:۲ شرک ہے اور اس کا قبول کرنا بھی حرام ہے۔ حالانکہ ایساصدقہ بھی مفلسی کو دور کر سکتا ہے۔ خودی کی تربیت غرض لوگوں کو کھانا کھلانا اور مال و زر بخشنا بذات خود کوئی نیکی نہیں جب تک کہ اس کے عقب میں خدا کی رضامندی کو حاصل کرنے کی نیت موجود نہ ہو۔ ایسی نیت کے بغیر یہ نیکی ایک باعث عذاب بدی بن جاتی ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ تعلیم نبوت میں غربا کی مالی امداد کے حکم کا بنیادی مقصد وہی ہے جو خدا کی عبادت کا مقصد ہے یعنی تخلق باخلاق اللہ سے خودی کے جذبہ محبت کی تشفی اور پھر اس کی تشفی سے خودی کی تربیت اور ترقی ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں زکوۃ کا حکم صلوۃ کے ساتھ ساتھ آیا ہے اور دوزخ میں جانے والے بھی ان دو جرموں کا ذکر ایک ساتھ ہی کریں گے۔ ہم نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ کھانا کھلاتے تھے۔ سوشلزم نیکی سے بے تعلق ہے حضورؐ کی تعلیم نے اس گراں قدر حقیقت سے پرد ہ اٹحایا ہے۔ کہ ہر عمل کی حیثیت اور قدر وقیمت کا دارومدار اس نیت پر ہوتا ہے کہ جو ا س کی محرک کی ہوئی ہے۔ وہی عمل جو ایک نیت کے ساتھ صواب ہو۔ دوسری نیت کے ساتھ ناصواب ہو کر رہ جاتا ہے۔ انما الاعمال بالنیات سوشلسٹوں کی اقتصادی مساوات کی کوششوں کے پیچھے خدا کی رضا کی طلبی کی کوئی نیت ن موجود ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ سوشلزم خدا کے انکار پر مبنی ہے لہٰذا یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ انسان یا خودی کے کسی کام کی نہیں اور ان میں کوئی بھی نیکی یا خوبی موجود نہیں۔ اس کے برعکس چونکہ یہ کوششیں خودی کے اصل مقصود کو انسان کی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہیں وہ اس کے لیے موت کا پیغام ہیں۔ نبوت خودی کی مشکلات کا حل پیش کرتی ہے اوپر کی تصریحات سے ظاہر ہے کہ نبوت سب سے پہلے اور براہ راست جس مشکل کا حل پیش کرتی ہے وہ یہ نہیں کہ انسان کے عارضٰ اور ناپائیدار آلہ کار کا جسم کی پرورش کس طرح سے کی جائے بلکہ یہ ے کہ انسان کی خودی کی پائیدا ر اور مقصود بالذات زندگیکو اس کے جسم کی پرورش کے جبلتی تقاضوں کی زیادتیوں خود غرضیوں اور بے اعتدالیوں کی دست برد سے آزاد کیا جائے۔ اور کس طرح بچایا جائے تاکہ وہ تادم آخر پوری آزادی ک ساتھ خدا کی محبت کے جذبہ کی تشفی کرتی رہے اور کائنات کے ارتقا کا عمل جو خودی کے ااس عمل سے اپنی منزل مقصود پر پہنچنے والا ہے پوری قوت سے جاری رہے اور انسانی فرد کی خودی بھی بعد از مرگ خوف اور غم سے محفوظ رہے اور مسرت اور شادمانی سے ہمکنار ہو یعنی دوزخ سے بچے اور جنت میں جائے نبوت کا مقصد اصل انسان کی خیر خواہی اور راہ نمائی ہے ور ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسان کی حقیقت خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ نبوت اسی جذبہ کی تشفی کی راہ نمائی کرتی ہے نبوت براہ راست افلاس کا علاج نہیں کرتی بلکہ افلاس کے خوف کا علاج کرتی ہے تاکہ اس بے حقیقت کیچڑ کے تقاضے جس کو جسم انسانی کہا جاتا ہے غالب آ کر مستقل قدر و قیمت کے اس گوہر تابدار کو برباد نہ کریں جسے انسانی خودی کا نام دیا گیا ہے۔ سوشلزم کے نظام میں سچی نیکی ممکن نہیں بعض سوشلزم پسند مسلمان یہ کہا کرتے ہیں کہ سوشلزم نظام کے بھوک کے ختم ہونے سے بدی کی تمام قسمیں مٹ جاتی ہیں ارو نیکی کا دور دورہ ہو جاتاہے کیونکہ بھوک ہی چوری‘ ڈاکہ زنی‘ رشوت ستانی‘ دروغ گوئی‘ دھوکہ دہی‘ قتل اور تشدد اورعصمت فروشی کا سبب بنتی ہے۔ افسوس ہے کہ یہ حضرات نیکی اور بدی اور سچی نیکی اور جھوٹی نیکی اور اس کے فرق کو مدنظر نہین رکھتے جس کی وضاحت ہمیں قرآن حکیم میںملتی ہے۔ قرآن حکیم نے سچے اور اصلی فعل جمیل کو جھوٹے اور نقلی فعل جمیل سے ممیز کیا ہے ۔ یہ بات مسلم ہے کہ دنیا نیکی کی اتنی قسمیں ہیں جتنے کہ نظریات زندگی ہیں۔ ہر نظریہ حیات کی الگ نیکی الگ قسم کی ہوتی ہے ل۔ جو اس نظریہ سے مطابقت رکھتی ہے۔ سچی نیکی پھر کون سی ہے ظاہرہے کہ وہ وہی ہو گی جو سچے نظریہ سے مطابقت رکھے گی۔ قرآن حکیم کے نزدیک سچی نیکی صرف وہی ہے جو خدا کی محبت کا سرچشمہ سے پھوٹے اور جس کی غرض سے خدا کی خوشنودی ہو۔ اصلی سخاوت اور نقلی سخاوت اصلی سچ اور نقلی سچ اصلی عدل اور نقلی عدل‘ اصلی پرہیز گاری اور نقلی پرہیز گاری بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ سچی نیکی کی تعریف قرآن حکیم کے نزدیک سچی نیکی وہی ہے جس کا مقصد خدا کی ذات سے محبت کے اظہار اور خدا کی رضامندی کی طلب کے سوائے اور کچھ نہ ہو۔ ایسی نیکی خدا کی محبت کو اور فروغ بخشتی ہے لیکن جھوٹی نیکی جس کی ہزاروں قسمیں ہو سکتی ہیں خدا کے منکر یا نافرمان کی نیکی ہے جو کسی غلط نصب العین کی محبت سے پیدا ہوتی ہے اور اسی غلط محبت کو اور فروغ دیتی ہ۔ چونکہ وہ خودی کے جذبہ محبت کو غلط راستہ پر ڈالتی ہے اور وہ خﷺدی کی پرورش نہیں کرتی بلکہ اس کی پرورش کے عمل کو نقصان پہنچاتی ہے۔ قرآن حکیم کی اصطلاح میں ایسی نیکی ضائع ہو جاتی ہے۔ ایسی نیکی راکھ کے اس ڈھیر کی طرح ہے جو آندھی کے دن تیز ہوا چلے اور اسے اڑ ا کر لے جائے۔ اس طرح کافرجو کچھ کماتے ہیں اس میں سے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ والذین کفروا اعمالھم کرما دن اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف لا یقدرون مما کسبوا علی شئی (۱۸:۱۴) کافروں کے اعمال کی مثال ایسی ہے کہ جیسے میدان میں ریت کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تکہ کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔ والذین کفراو ااعمالھم کسراب بقیعہ یحسبہ اتطمان ماء حتی اذاجاء لم یجدہ شیاء (۳۹:۲۴) ان کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ اور قیامت کے دن جب اعمال کا محاسبہ ہو گا تو ان کا کوئی وزن مشار میں نہ آئے گا۔ وحبطت اعمالہم فلا نقیم لہم یوم القیمہ وزنا (۱۰۶:۱۸) حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص خدا سے اپنی سخاوت کا اجر طلب کرے گا تو خدا یہ کہے گاکہ م نے سخاوت اس لیے نہیں کی تھی کہ میں راضی ہو جائوں بلکہ اس لیے کی تھی کہ لوگتمہاری ستائش کریں اور تمہیں سخی کہیں۔ سو لگوںنے تمہیں دنیا میں سخی کر دیا۔ اب یہاں تمہارے لیے کوئی اجر نہیں ۃے۔ ۔ سوشلزم نظام کے لیے بے خدا ہونا ضروری ہے بلکہ وہ خدا پرستی کی مخالفت کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتاہے لہٰذا اس میں نیکی کا وجود ناممکن ہے۔ نیکی خدا کی محبت کا ایک پہلو ہے یا جزو ہے جو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں اس کا کل نہ ہوگا وہاں اس کا جزو بھی نہیں ہو سکتا۔ جب درخت ہی موجود نہ ہوں تو اس کا کوئی پھل یا پتہ کیسے موجود ہو سکتاہے۔ اخلاقی برائیوں کے محرکات پھر ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جن برائیوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کے اسباب اور محرکات بھوک اور افلاس کے علاوہ اور بھی ہیں اور جو خوشحالی اور فارغ البالی کی حالت میں اور بھی زیادہ موثراور فعال ہو جاتے ہیں۔ مغرب میں ان جرائم کی روز افزوں ترقی کا باعث زیادہ تر بے فکری فارغ البالی‘ تنوع پسندی اورتفریح طلبی ہے۔ اگر خدا کا خوف نہ ہو تو اعمال میں اخلاقی نظم اور ضبط پیداکرنے والی کوئی موثر قوت موجود نہیں ہوتی۔ اور ایسی حالت میں عافیت بھی انسان کے لیے بار گراں بن اتی ہے لیکن جہاں ان جرائم کا سبب بھوک اور افلا س ہو وہاں اگر بھوک اور افلاس کے دور ہونے سے ان کا ازالہ ہو جائے تو اصلی اور حقیقی نکو کاری ان کی جگہ نہیں لے گی کیونکہ بھوک اور افلاس واپس آنے پر اپھر ان کی طرف عود کرنے کی نیت موجود رہے گی اور یہ نیت ان کی نیکو کاوری کو خاک میں ملاتی رہے گی۔ لہٰذا اگر سوشلسٹ ملکوں میں بھوک اور افلاس کے دور ہونے سے کوئی نیکی رواج عام ہوئی ہے تو اصلی اور سچی نیکی نہیں۔ اصلی نیکی وہی ہے جس کا سبب دولت مندی نہ ہو بلکہ خدا کی رضامندی ہو۔ جو لوگ افلاس کی حالت میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کر کے اپنے افلاس کا ازالہ کرنے پر آمادہ ہو سکے ہوں سوشلزم کا نظام افلاس اور بھوک کا ازالہ کر کے ان کو نیک نہیں بنا سکتا۔ نفسیاتی لذات کی افیون سوشلسٹ کہا کرتے ہیں کہ مذہب جو صبر اور قناعت اور شکر گزاری اور امن پسندی اور تقدیر کے ساتھ رضامندی کی تلقین کرتا ہے۔ ایک افیون ہے جو انسان کو اس کی اصلی ضرورتوں سے غافل کر دیتی ہے ۔ مذہب پر ان کا یہ حملہ قابل معافی ہے اس لیے کہ وہ بیچارے فقط ناپائیدار ٹٹو اور اس کی ضرورتوں کو جانتے ہیں۔ اور باقی رہنے والے اور آگے جانے والے روح اور ان ارتقائے کائنات سوار کا اور اس کی ضڑورتوں کا ان کو علم ہی نہیں۔ اگر اصل انسان انسان کا جسم ہوتا اور اگر انسان کی اصل ضرورتیں اس کے جسم کی ضرورتیں ہوتیں تو سوشلسٹوں کی یہ بات درست ہو سکتی تھی۔ لیکن حقیقت حال یہ نہیں۔ اصل انسان انسان کا جسم نہیں بلکہ اس کی خودی ہے لہٰذا مرد مومن کو حق پہنچتا ہے کہ وہ سوشلسٹوں کے برعکس یہ کہے کہ جسمانی خواہشات کی لذت ایک افیون ہے جو ہر انسان کو اس کی اصل ضرورتوں سے غافل کر دیتی ہے۔ لہٰذا وہ جسمانی خواہشات کو جس قد ر نظر انداز کرے گا اور کم کرے گا اسی قدر اس کے لیے اچھا ہے کیونکہ اسی قدر وہ اپنی اصل ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آزاد ہو گا یہی وجہ ہے کہ مومن اپنے نفس کے ساتھ برسرپیکار رہتاا ہے اور اسے ابھرنے نہیں دیتا۔ مرد مومن زندہ و باخود بجنگ بر خود افتد ہمچو بر آہو پلنگ مرد مومن کے برعجس اگر ایک سوشلسٹ نادانی سے یہ سمجھتاہے کہ جسم ہی سب کچھ ہے اور خودی اور اس کے تقاضے محض توہمات ہیں تو قدرتی بات ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ وہ جس قدر خدا کا خیال دل سے نکالے گا۔ اسی قدر اچھا ہے کیونکہ اسی قدر وہ جسم کے مطالبات کو آزادی سے پورا کر سکے گا ۔ا س بے بنیاد مفروضہ کو اپنانے کے بعد اگر وہ مذہب کو ایک افیون نہ سمجھے تو اور کیا سمجھے۔ تعلیم نبوت کے ایک ورق کی چوری تاہم نوع انسانی کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی یہ دعوت اپنی عملی زندگی کوخدا کی عبادت کے لیے وقف کرو۔ انسان کی فطر ت سے عین مطابقت رکھتی ہے۔ کیونکہ انسان کی ساری زندگی حقیقت حدا کی محبت کے الیے ایک زور دار جذبہ کے لیے سوائے اور کچھ نہیں کہ لہٰذا یہ دعوت جسے مذہب کہا جاتا ہے ایک افیون نہیںبلکہ ایک روشنی ہے جس کے بغیر انسان اپنا راستہ نہیں دیکھ سکتا۔ سوشلزم نے اسی روشنی کی ایک کرن سے کام لے کر اپنے انقلاب کو کامیاب کیا ہے اور اپنے گھر کو سجایا ہے کیونکہ سوشلزم کا دعویٰ ہے کہ وہ زندگی کے معاشی حالات میں عدل اور انصاف اور دیانتداری کے اصولوں کو نافذ کرتا ہے اور عد ل اور انصاف اور دیانت داری ایسی اقدار ہیں جن کی تعلیم سب سے پہلے نبوت نے دی ہے۔ نبوت نے ہی سب سے پہلے کہاتھا کہ خدا سے محبت کرو اور خدا کی رضامندی کی جستجو کرو اور خدا کو خوش کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ عدل و انصاف سے کام لو۔ کسی کا مال ناحق نہ کھائو۔ لوٹ کھسوٹ اورچور ی اور بدیانتی سے مجنتب رہو۔ اگر نبوت کی یہ تعلیم عام نہ ہو چکی ہوتی تو سوشلزم کبھی یہ معلوم نہ کر دسکتا کہ ظلم کیا چیز ہے اور کہاں ہو رہا ہے ۔ سرمایہ دار کیا بددیانتی کر رہا ہے ۔ اور مزدر وکے ساتھ کیا نا انصافی ہو رہی ہے۔ اگر سوشلزم عدل و انصاف کا نعرہ نہ لگاتا تو ناممکن تھا ک کوئی انسان اس کی آواز سنتا اور اس کے انقلاب کو ذرہ بھر کامیابی نصیب نہ ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی خودی جو فقط خدا اور خدا کی صٖات کی محبت کا ایک جذبہ ہے فقط خدا اور خدا کی صفات کی جستجو کے لیے حرکت میں آکر کوئی نیا عمل کر سکتی ہے۔ ورنہ کوئی عمل نہیں کر سکتی۔ تاریخ کا ہر انقلاب جو کامیاب ہوا ہے اس کے پیچھے خدا کی کسی صفت کا اظہار اور اجراء کی دعوت تھی۔ اگر فرانسیسی انقلاب خدا کی صفت عدل کے مطابق سیاسی حالات کو بدنے کی دعوت تھی تو روسی انقلاب خدا کی اسی صفت کے مطابق معاشی حالات کو بدلنے کی دعوت ھتی اسی طرح سوشلزم نے خد ا کی محبت کے اس جذبہ کو اپنے قدرتی ماحول سے الگ کر کے ناجائز طور پر استعمال کرنے کا اقدام کیا ہے۔ جس سے انسا ن کی خودی عبارت ہے۔ اسنے گویا کتاب نبوت کا ایک ورق چرانے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن کتاب نبوت کا کوئی ورق چرایا نہیں جا سکتا۔ سوشلزم مجبور ہو گا کہ یا تو نبوت کی پوری کتاب کو لے لے ار یا پھر اس ورق کو بھی واپس کر دے جو اس نے چرایا ہے۔ ہم خدا کی صفت میں سے کسی ایک صفت کو لے کر اسے انسانی زندگی کے اندر کامیابی کے ساتھ موثر اور فعال نہیںبنا سکتے۔ جب تک کہ ہم خدا کی باقی صفات کو بھی ساتھ نہ رکھیں اور انہیں بھی موثر اور فعال بنانے کی کوشش نہ کریں۔ انسانی خودی یا خدا کی محبت کا انسانی جذبہ ۔ ایک وحدت ہے جس کا کوئی ٹکڑا اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ حق کو حق سے الگ کیا جائے تو وہ باطل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پھر اس کی کمی کو باطل سے پورا کرنا پڑتا ہے اور حق اور باطل کی شرکت باطل ہو جاتی ہے۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول‘ اسی لیے مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ اسلام میں پوری طرح سے داخل ہوجائو۔ ایسا نہ تم اپنی مرضی کی کچھ باتیں اسلام سے لے لو اور کچھ کفر سے ایسی حالت میں تمہارااسلام بھی کفر بن کر رہ جائے گا۔ یاایھا الذین امنوا ادخلو فی السلم کانہ (۷۔۲:۲) یہودیوں کے خلاف خدا کو ایک شکایت ہے کہ وہ حق کے ساتھ باطل کی آمیزش کر تے ہیں اور اس طرح سے حق کو بھی باطل بنا دیتے ہیں۔ اتلبسون الحق بالباطل ۷۱:۳ غیر خدا کی محبت کے ساتھ خدا کی صفات کا اظہار ممکن نہیں ممکن نہیں کہ انسان خدا کی پوری محبت کے بغیر خدا کی کوئی صفت اپنے عمل میں پوری طرح سے آشکار کر کے دکھا سکے۔ ہو نہیں سکتا کہ کسی شخص کا محبوب اور معبود تو خدا کے سوائے کوئی اور ہو اور اس کا عمل خدا کی کسی صفت کا آئینہ دار ہو جائے۔ اس کا وہ باطل اور پست اور ذلیل معبود اس صفت کے اظہار میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرے گا اور وہ ہر حالت میں اپنی پستی اور کمینگی کا رنگ اس پر چڑھائے گا اور ایسا کرنے سے اسے باطل بنا دے گا اور جب اس کا عمل باطل ہو جائے گا تو سارے باطل کی راہ سے فنا کے گھاٹ اتر جائے گا اور اسی لیے سوشلزم ایک ناپائیدار اور عارضی نظریہ حیات ہے جس کے خلاف زود یا بدیر انسان کی فطرت رد عمل کرے گی۔ اسلام کا اقتصادی نظام خدا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے بعض مسلمان اسلام کے اقتصادی نظام کا سوشلزم کے اقتصادی نظام سے مقابلہ کر کے یہ دکھاتے ہیں کہ اسلام کا اقتصادی نظام سوشلزم سے بہتر ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ایک اقتصادی نظام کی حیثیت سے اسلام بہترہے یا سوشلزم۔ سوال یہ ہے کہ آیا سوشلزم اسلام کے بغیر وہ اقتصادی مساوات جسے برپا کرنے کا دعویٰ وہ کرتی ہے قائم رکھ سکتی ہے یا نہیں ۔ اس سوال کا جواب نفی میں ہے اورسوشلزم کی سطحی اور عارضی کامیابی اس جواب کو تادیر پردہ خفامیں نہیں رکھ سکتی۔ آخر کار وہی نظریہ حیات دنیا میں کامیاب ہو گا جو پوری طرح سے انسان کی فطرت کے مطابق ہو گا اور انسان کی فطرت کی سب سے بڑی اصلی اور بنیادی ضرورت خدا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اقتصادی قوانین بظاہر اقتصادی ہیں لیکن حقیقت میں روحانی ہیں۔ کیونکہ ان کامدعا انسان کی خودی کی تربیت ہے لہٰذا تھوڑی بہت ظاہری مماثلت کے باوجود وہ سوشلزم کے اقتصادی قوانین سے بالکل مختلف ہیں اور ان کا باہمی مقابلہ بے معنی ہے۔ عقل و دل نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدہ تصورات اسلام کا اقتصادی نظام خدا کی محبت سے سرزد ہوتا ہے اور خدا کی محبت کی نشوونما کرتاہے۔ وہ خدا کی محبت سے نکلا ہے اور خداکی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ اگر اسے خدا کی محبت سے الگ کر دیں تو اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا سوشلزم ایسے ایک بے خدا اقتصادی نظام سے جو ایک بت کدہ تصورات اور بے جان قوانین کا ایک ڈھانچہ ہے اس کا کوئی مقابلہ ممکن نہیں ۔ حرکت تاریخ کی منزل اسلام ہے سوشلزم کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اس نے حرکت تاریخ اور ا س کے مدعا اور مقصد کو سمجھ لیا ہے۔ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ عمل تاریخ کی قوت محرکہ بھی ہے اور وہ قوت فقط خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔ ناممکن ہے کہ انسان کوئی عمل ایسا کر سکے جو خدا کی محبت کی تکمیل اور تشفی کے لیے نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ انسان کا خدا کبھی سچا خدا ہوتا ہے اور کبھی کوئی بت۔ لیکن اس جذبہ کی کارفرمائی سے وج جو غلط نظریات پیدا ہوتے جائیں گے وہ مٹتے جائیں گے۔ اوربالاخر دنیا بھر میں ایک ایسا نظام زندگی قائم ہو گا جو خدا کے عقیدہ پر مبنی ہو گا۔ یہی نظام رحمتہ اللعالمین کا عطا کیا ہوا اسلام ہے اور یہی حرکت تاریخ کا مقصود اور مدعا ہے کاش کہ وہ اپنے آپ کو پراگریسو ترقی پسند کہنے والے حضرات فطرت انسانی اور تاریخ انسانی کے ٹھوس حقائق کی روشنی میں اس بات پر غور کریں کہ نوع انسانی کی پراگریس یا ترقی کس سمت میں ہو رہی ہے اور اس کی منزل کیا ہے۔ بے بنیاد دعویٰ بعض سوشلزم کے حامی سوشلزم کی تائید میں یہ دلیل لایا کرتے ہیں کہ جسم کی ضرورتوں کو پورا کرنا بقائے حیات کے لے ضروری ہے۔ لہٰذا جب تک ان کو پورا نہ کیا جائے خودی کی ضرورتیں پوری نہیں کی جا سکتیں۔ کیونکہ انسان زندہ رہے گا تو ان کو پورا کرے گا۔ یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم جسم کی ضرورتوں کو خودی کے مقاصد کے لیے ذریعہ کے طور پر اوراس ذریعہ کی حد تک پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ انسان زندہ رہے اور خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا رہے یا ہم کو ان کے ایک ذریعہ کے طور پر نہیں بلکہ خود ایک مقصود حیات کے طور پر پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ دوسری بات درست ہے تو پھر یہ سوشلزم کا مقصود حیات ہے اسلام کا نہیں اور اگر پہلی بات درست ہے تو کیا ہم نے اطمینان کر لیا ہے تو لوگ واقعی اسے ایک ذریعہ سمجھیں گے کیا اسلام اور اس کے عزائم اور مقاصد کی صداقت اور اہمیت کا پختہ یقین درحقیقت لوگوں کے دلوں میں موجود ہے۔ کیا واقعی لوگ خودی کی ضرورتوں کو اس وقت اول درجہ کی اہمیت کا مقام دیتے ہیں اور پیش پیش رکھتے ہیں۔ اور بعد میں بھی اول درجہ کامقام دینے اور پیش پیش رکھنے کا عزم رکھتے ہیں کیا لوگ فی الواقع خودی کی ضرورتوں کی تکمیل اور تشفی کے کام میں اس قدر ذوق و شوق اور سرور اور انہماک رکھتے ہیں کہ یہ یقین کیا جا سکے کہ وہ جسم کی ضرورتوں کو خودی کی ضرورتوں کے ماتحت ضمناً اور مجبوراً اور بقدر کفایت و ضرورت پورا کرنا چاہتے ہیں اگر یہ صورت حال موجود نہیں تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیا ہے کہ جب تک جسم کی ضرورتوں کے ذکر کے پیچھے درحقیقت خدا پرستی کا نہیں بلکہ جسم پرستی کا کوئی جذبہ کام کر رہا ہے۔ اس صورت میں ہمیں سب سے پہلے لوگوں میں تعلیم کے ذریعہ سے اسلام کی صداقت اور خودی کی ضرورتوں کی اول درجہ کی اہمیت کا پختہ یقین پیدا کرنا چاہیے۔ ورنہ جسم کی ضرورتیں لوگوں کے نزدیک درجہ اول کی اہمیت حاصل کر لیں گی اور وہ ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا کامصداق بن کر رہ جائیں گے اور اسلام کے تقاضوں اور خودی کی ضرورتوں کا نام برائے نام ان کی زبانوں پر رہ جائے گا۔ عبرت انگیز مثالیں جن مسلمانوں نے صحیح قسم کی تعلیم کے ذریعہ سے خدا اور اسلام کی محبت کی خاطر خواہ نشوونما کرنے کے بغیر اپنے ملکوںمیں سوشلزم کا نفاذ کیا تھا۔ ان کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ وہاں صحیح قسم کی تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کی صداقت اور ضرورت پر یقین پہلے ہی مضحمل ہو چکا تھا۔ طبیعتیں اسلامی ضابطہ اخلاق کی نفس شکن پابندیوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ تھیں اور اسلام پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے حرص و ہوا کے محرکات زوروں پر تھے اور معاشرتی ناہمواریاں اور بے انصافیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ لہٰذا ایک نظریاتی خلامحسوس کیا جا رہا تھا جس کو پر کر نے کے لیے اسلام کی طرف واپس آنے کی بجائے سوشلسٹ نظام نافذ کیا گیا اور پھر سارا زور سوشلزم کے طور طریقوں کے مطابق جسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے صرف کیا جانے لگا۔ اور اسلام کا نام فقط برائے نام زبانوں پر رہ گیا۔ کیونکہ اسلام کو نہ جاننے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ فرض کر لیا گیا کہ سوشلزم نے وہی کر دیا ہے کہ جو اسلام چاہتا تھا۔ لہٰذا اب عملی طور پر اسلام اور کس کام آئے گا۔ مقصود حیات کا ذریعہ یامقصود حیات بعض سوشلزم پسند مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم روس اور چین کا سوشلزم نہیں بلکہ حضرت ابوذر غفاریؓ کا سوشلزم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا انہوںنے پہلے اپنے آپ میں اور اپنی قوم میں خدا اور رسولؐ اور آخرت کے محاسبہ اعمال پر حضرت ابوذر غفاریؓ کا ایمان پیداکر لیا۔ دراصل اکثر سوشلزم پسند مسلمان جسمانی ضروریات کی تکمیل اور تشفی کا اہتمام بزور اوربجز تکمیل خودی کے ایک ذریعہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصود حیات کے طور پر کرنا چاہتے ہیں اوران کا خیال ہے کہ سارا اسلام اسی میں آ جائے گا اور اسلام کا مقصد بھی جسم کی ضروریات کی عادلانہ تکمیل اور تشفی کے سوائے اور کچھ نہیں۔ اگر یہ بات نہ ہو تو وہ سب سے پہلے اسلامی تعلیم پر زور دیں تاکہ لوگوں کو پہلے ان کے اصلی مقصود حیات سے آگاہ کریں جس کی خاطر وہ ان کے جسم کی ضروریات کی تشفی اور تسکین چاہتے ہیں ۔ لیکن جسمانی ضروریات کی تکمیل کی خودی کی تکمیل کے ایک ذریعہ کے طور پر عوام کے نزدیک جو خوبی یا اہمیت حاصل ہے اس کے بل بوتے پر یہ لوگ اسے مقصود حیات کے ایک ذریعہ کا نہیں بلکہ خودمقصود حیات کا مقام دینا چاہتے ہیں۔ معاشرتی ناہمواریوں کاواحد علاج جب یہ کہاجاتاہے کہ اسلام کے وہ احکام بھی جو بظاہر معاشی اور اقتصادی نوعیت کے نظر آتے ہیں براہ راست اور اپنے اولین مقصد کے اعتبار سے جس چیز کی پرورش کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ انسان کا جسم نہیں بلکہ اس کی خودی ہے تو سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پھر اسلام کے پاس افلاس اور معاشی ناہمواریوں کا کوئی حل نہیںحالانکہ اگرخودی کی پرورش کے اسلامی احکام پر عمل کیا جائے تو نہ افلاس پیدا ہو سکتاہے اور نہ معاشی ناہمواریاں وجودمیں آ سکتی ہیں۔ نہ جاگیرداری باقی رہ سکتی ہے اور نہ دولت ہی خود بخود مساوی طور پر تقسیم ہونے سے رہ سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ دور حاضر کا انسان اس بات کو پے در پے نظر انداز کرتا رہتا ہے کہ معاشرہ کی تمام خرابیاں جو ہمیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ انسانی فر د کی اندرونی خرابیوں سے پیداہوتی ہیں بلکہ ان کا فقط ایک عکس ہیں اپنی کوتاہ نظری سے وہ ان کا علاج باہرسے کرتاہے اور قانون کے زیادہ تر بے اثر اور بے کار خارجی طریقوں کو کام میں لاتا ہے۔ حالانکہ اگر کسی فرد کو ایسی تعلیم دی جائے جو اس کی خودی کے تقاضوں کے مطابق ہو اور لہٰذا درست ہو تو معاشرہ کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو تو رفع ہو جاتی ہے۔ حقیقت نہ صرف یہ ہے کہ اسلام کے پاس افلاس اور معاشی ناہمواریوں کا حل موجود ہے بلکہ اسلام کے سوائے اور کسی نظریہ حیات کے پاس خواہ وہ سوشلزم ہی کیوں نہ ہو ان کا کوئی فطری کامیاب اور پائیدار حل موجود نہیں۔ پہلے تو اسلام انسان کے دل میں خدا کی محبت کا سوز و گداز‘ غیر اللہ سے بے نیازی اور بیزاری ارو جسم کی زندگی کی ناپائیداری اور بے اعتباری کا احساس اور محاسبہ اعمال کا یقین اور خوف پیداکرتا ہے‘ اور اس طرح سے انسان کو خدا کے احکام کی عاشقانہ اور عاجزانہ اور عاجزانہ تعمیل کے لیے مہیا کرتا ہے۔ پھر اسے کہتا ہے کہ محنت سے کام کرو۔ جو شخص محنت سے کام کرتا ہے وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے خدا کی ربوبیت اور رزاقیت کاسامان پیدا کرتا ہے اور اس طرح سے خدا کی ربوبیت اور رزاقیت اور رزاقیت میں شریک کار ہوتاہے۔ لہٰذا وہ تخلق باخلاق اللہ کی وجہ سے خدا کا محبوب بن جاتا ہے (الکاسب حبیب اللہ) ظاہر با ت ہے کہ جو شخص محنت سے کام کرے گا وہ بہت کمائے گا ارو ا س کے پاس خرچ کرنے کے لیے مال بہت کم ہوگا۔ لیکن اسلام دوسری بات اسے یہ کہتا ہے اگر تمہارے پاس مال ضرورت سے زیادہ ہو تو پھر بھی اسے ضرورت سے زیادہ سے زیادہ خرچ نہ کرو اور نہ اسراف کرو اور نہ تبذبر۔ پھر ظاہر ہے کہ اگر وہ کفایت اور ضرورت کے مطابق خرچ کرے گا تو مال اس کے پا س بچ رہے گا اورجمع ہوتا رہے گا۔ لیکن اسلام تیسری بات اسے یہ کہتا ہے کہ اپنے پاس فالتو مال جمع نہ کرو۔ اور اگر جمع ہو جائے تو اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دو۔ پھر جو لوگ مال جمع کرتے اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اسلام ان کو دردناک عذاب سے ڈراتا ہے۔ کہ ان کے جمع کیے ہوئے سکوں کو جہنم کی آگ میں تپا کر ان کے جسموں کو داغا جائے گا کہ اب اس کے جمع کیے ہوئے مال کا مزا چکھو۔ اگر کوئی مسلمان پہلے ہی سے جاگیردار یا صاحب جائیداد بنا ہوا ہو تو اس کے لیے حکم ہے کہ اپنی جائیدا د کو قانون وراثت کے مطابق ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ جمالیاتی ضرورتیں اسلام میں حرام نہیں ہیں لیکن ان کی بات اس وقت آتی ہے جب تمام لوگوں کی حیاتیاتی ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں اور پھر ان میں بھی دوسرے بھائیوں کو برابر کا شریک کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس فراوانی میں ہمیں اپنے سب بھائیوں کو شریک کرنا چاہیے۔ اگر کسی مسلمان کو اس کی جمالیاتی حس کھانے پہننے اور رہنے کی نفاستوں پر زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کرتی ہو تو اسلام اسے تنبیہہ کرتا ہے کہ تم اس وقت تک مومن شمارنہیں کیے جائو گے جب تک تم اپنے ہر مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ پھر تم دیکھ لو کہ آیا زائد خرچ کر کے جو چیز تم اپنے لیے حاصل کرتے ہو اس میں دوسروں کو شریک کر سکتے ہو۔ الذی نفسی بیدہ لا یومن احدکم حتی یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ (الحدیث) اب بتائیے کہ جس قوم کے افراد محنت سے کام کرنے کے باوجود ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے سے نفرت کرتے ہوں اور اپنے بچے ہوئے فالتو مال سے بیزار ہوں اور اسے جلد از جلد ضرورت مندوں کو دے دینے کے بغیر چین محسوس نہ کرتے ہوں اپنی سابقہ جائیدادوں اور جاگیروں کو پے درپے تقسیم کرتے چلے جاتے ہوں اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں قوم کے دوسرے افراد کو برابر کا شریک کرنے کے بغیر اپنے ایمان میں خلل سمجھتے ہوں۔ اس قوم میں افلاس کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور معاشی ناہمواریاں کیسے وجود میں آ سکتی ہیں۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے قارئین میری کتاب ’’قرآن اور جدید علم‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ اسلامی سوشلزم کیاہے ایسے حالات میں ضروری ہے کہ فالتو دولت پیدا ہوتے ہی خود بخود پوری قوم میں مساوی طور پر تقسیم ہو جائے اور اگر دولت کی مساوی تقسیم ہی سوشلزم کا مقصد ہے تو پھریہ ہے وہ سوشلزم جسے اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ ہے وہ سوشلزم جس پر اسلامی سوشلزم کی اصطلاح صادق آ سکتی ہے۔ یہی وہ اسلامی سوشلزم ہے جس کا ذکر اقبال نے اپنے خطوںمیں کیا ہے اور جس کا حوالہ دے کر ہم ایک اور ہی قسم کا سوشلزم لانا چاہتے ہیں جس کے خطرناک نتائج بعض ملکوںمیں آزمائے جا چکے ہیں۔ اسلامی سوشلزم کا یہ امتیاز یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے خدا کی شدید محبت سے پیدا ہوتا ہے ۔ جبریا خارجی قانون سے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا منبع انسان کا دل ہے جسے جبریا قانون سے بدلا نہیںجا سکتا۔ فقط تعلیم سے بدلا جا سکتا ہے۔ اقبال کا سوشلزم اقبال کے پورے نظام کے ساتھ ہی لایا جا سکتا ہے۔ اس سے الگ کر کے لایا نہیں جا سکتا۔ ہم اقبال کے شیدائی جو اقبال کا سوشلزم لانا چاہتے ہیں اس کے ساتھ اقبال کا نظام تعلیم جو خودی کی پرورش کرتا ہے کیوں لانا نہیں چاہتے۔ آخر اس میں حکمت کیا ہے۔ ہم کو فرد کے جسم کی فکر ہے ۔ لیکن فرد کی خودی کیوں نہیں جو اقبال کی تعلیمات کامرکزی نقطہ ہے اور جس کی پرورش کی اہمیت واضح کرنے کے لیے اقبال نے اپنی ساری عمر صرف کی ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کی ضرورت خودی کی پرورش کے لیے ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس کا امتیاز یہ ہو کہ اس میں خدا کا تصور سائنسی علوم کا مدارومرکز ہو اور وہ اقبال کے الفاظ میں ’’عشق کی تیغ جگر دار‘‘ کو علم کے ہاتھ کی خالی نیام میں واپس لائے۔ اقبال کا سوشلزم حضرت ابوذرؓ کا سوشلزم یا اسلام کا سوشلزم اب اسلامی تعلیم کی راہ ہی سے آ سکتا ہے۔ اگر ہم وہ سوشلزم لانا چاہتے ہیں جو اقبال کے الفاظ میں ’’حرف قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے تو ہمیں ایک لمحہ کے لیے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جو شخص اپنا سارا فالتو مال خدا کی راہ میں دے دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اپنے کل کی فکر نہیں کرتا خدا کی رزاقیت اور ربوبیت پر اس کے ایمان کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ خدا کے بالمقابل اسے اپنی جان سے یا دنیا سے کتنی محبت ہوتی ہے۔ آخرت کی زندگی اور خدا کی باز پرس میں اسے کس قسم کی حقیقت نظر آتی ہے۔ افلاس کے خوف سے اس کی آزادی اور بے پرواہی کا رنگ کیا ہوتا ہے۔ خدا پر اس کے توکل کے انعام کا کیامقام ہے اور خدا کی اس گارنٹی پر کہ اس نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے اس کا یقین ہم کس قسم کا ہوتا ہے۔ کیا ہم میں سے ایک بھی ایسا ہے جو اس قسم کے ایمان اور توکل کا دعویٰ کر سکے۔ ایک طرف سے ہم میں سے ایک ذرہ بھی ہل نہ جائے اور دوسری طرف سے اسلامی سوشلزم اور حضرت ابوذرؓ کے سوشلزم کی تمنا کرتے ہیں اور جب پوچھا جائے تو ہمارا جواب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سب لوگ اپنے اپنے اندوختوں کو ترک کریں گے۔ ہم بھی اپنا اندوختہ ترک کر دیں گے۔ کیا حضرت ابوذر غفاریؓ کا جواب یہی ہو سکتا تھا۔ جن کو اپنی موت کے وقت اس بات کا افسوس تھا کہ گھر میں ایک لکڑی کا پیالہ کیوں موجود ہے اور وہ اپنے خدا کے پاس ایسی حالت میں کیوں نہیں جا رہے ہیں کہ ان کے پاس کچھ بھی موجود نہ ہوتا۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اقبال اور حضرت ابوذرؓ کا سوشلزم لافذ کرنے سے پہلے ہمیں اسلامی تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے دلوں میں خدا اور رسولؐ اور آخرت پر ابوذرؓ کاایمان پیدا کر سکے۔ اور یہ کہ اس وقت ہمارا دعویٰ کہ ہم اسلامی سوشلزم لانا چاہتے ہیں اور ایک سطحی قسم کا خارجی قانون سوشلزم نافذ کر کے بعض سوشلسٹ ملکو ں کی بھونڈی نقل کرنا نہیں چاہتے سراسر خود فریبی ہے ۔ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ سے اقبال کی مراد اسلام ہے جس اسلامی سوشلزم کی طرف اقبا ل نے اپنے خطوں میں اشارہ کیا تھا۔ اس بحث کے بعد اس کے تین واضح امتیازات ہمارے سامنے آتے ہیں: (1) ’’اسلامی سوشلزم‘‘ بنیادی طور پر خدا کی شدید محبت سے پیدا ہوتا ہے اس کامنبع انسان کا دل ہے جو قانون سے بدلانہیں جا سکتا بلکہ فقط تعلیم سے بدلا جا سکتا ہے ۔ البتہ اگر وہ محبت پہلے موجود وہو تو قانون اس کی مدد کر سکتا ہے۔ (2) ’’اسلامی سوشلزم‘‘ بذات خود اسلامی معاشرہ کا مقصود اور مطلوب نہیں ہوتا بلکہ وہ خودی کے مقصود اور مطلوب یعنی خدا کی محبت کی تشفی اور تسکین کا ذریعہ اور اس کا ضمنی نتیجہ ہوتا ہے۔ (3) ’’اسلامی سوشلزم‘‘ پورے زور سے اس وقت آتاہے جب پورا اسلام نظام تعلیم پر ہی نہیں بلکہ قوم کی زندگی کے ہر شعبہ پر حکمران ہو چکا ہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی سوشلزم سے اقبال کی مراد اسلام ہی ہے اور اپنے ایک نجی خط کے سیاق و سباق میں اس مرکب توصیف کا کام میں لانے سے اس کامقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ اسلامی نظام کے ایک خاص پہلو کو جو اس زمانہ میں بعض لوگوں کے لیے کشش رکھتا ہے زمانہ حال کی زان سے استفادہ کر کے سمجھایا جا ئے تاکہ باسانی اس کے مخاطب کی سمجھ میں آ جائے۔ اقبال کی ساری نظم و نثر کی تصنیفات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اقبال جس نظام کو برپا کر نا چاہتا ہے اور جس کے دنیا پر چھا جانے سے وہ پیش گوئی کرتا ہے وہ اسلام ہی ہے اور اس کے لیے وہ ’’اسلام‘‘ ہی کی قرآنی اصطلاح کو پسند کرتا ہے۔ جب خدا کہتا ہے کہ وہ اسلام کے بغیر ہرگز کسی اور دین کو قبول نہیں کرے گا تو ظاہر ہے کہ وہ اس دین کے لیے اسلام کے سوائے کوئی اور نام بھی ہرگز قبول نہیں کرے گا ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ ۸۵:۳ بلکہ یہ کہہ کر اس نے نام کی اہمیت پر زر دیا ہے کہ یہ نام جو ہم نے تمہارے دین کے لیے پسند کیا ہے۔ تمہارے روحانی باپ ابراہیم نے تجویز کیا تھا۔ ملتہ ابیکم ابراھیم ہو سمعکم المسلمین ۷۸:۲۲ یہ بات ظاہر ہے کہ اگر اسلام کی بجائے ہمارا اسم کوئی اور ہو گا تو ہمار ا مسمی بھی کوئی اور ہو گا اور وہ اسلام نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے کہ خدا سے بلند تر نصب العین ممکن نہیںَ چونکہ اسلام خڈا کے تصور کو انسان کی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرتا ہے۔ اسلام سے بلند تر نظریہ حیات بھی ممکن نہیں پھر جوں جوں نظریات خدا کے نصب العین سے دور ہوتے جاتے ہیں وہ پست تر ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ نظریہ حیات جو خدا کے اندکار پر قاء ہو گا پست ترین مقام کا نظریہ حیات شمار ہو گا۔ ایسا نظریہ حیات سوشلزم ہے۔ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح میں ہم دنیا کے بلند ترین نظریہ حیات کو دنیا کے پست ترین نظریہ حیات کے ساتھ جوڑ کر اول الذکر کو اس کی عظمت کے بلند مقا م کے نیچے لاتے ہیں۔ جس طرح سے اسلامی عیسائیت یا اسلامی یہودیت یا اسلامی دہریت کی اصطلاح بے معنی ہے اور مضحکہ خیز ہے اسی طرح سے اسلامی سوشلزم کی اصطلاح بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔ اس اصطلاح پر اصرار کرنے والے اس بات کا جواب نہیںدے سکتے کہ اسلام اور اسلامی سوشلزم میں کیا فرق ہے ۔ اگر اسلامی سوشلزم سے مراد اسلام ہی ہے تو پھر اس مقدس نام کے ساتھ سوشلزم ایسی کافران اصطلاح جوڑنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر اس سے مراز سوشلزم ہی ہے تو پھر اس کافرانہ اصطلاح کے ساتھ اسلام کا مقدس نام جوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر وہ اسلام اور سوشلزم کا ایک نیا مرکب ہے تو یہ مردود ہے کیونکہ اس کی سند نہ دین سے ملتی ہے نہ دنیا سے۔ اقبال کی مساوات کا مطلب بعض اشتراکیت پسند مسلمان کہتے ہیں کہ اقبال نے یہ مساوات قائم کی تھی کہ اشتراکیت جمع خدا اسلام کے برابر ہے (اشتراکیت +خدا=اسلام) اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اقبال نے اشتراکیت کی حمایت کی ہے کیونکہ اشتراکیت میں اس کو صرف ایک ہی نقص نظر آتا ہے کہ اس میں خدا نہیں ہے۔ لیکن دراصل انہوں نے اقبال کی اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں گوارا کی۔ اقبال کی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ اشتراکیت میں جمع خد ا کرنے سے اشتراکیت کلیتاً اسلام بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اشتراکیت میں خدا جمع ہو جائے گا تو اشتراکیت پھر یہ نہیں کہے گی کہ حقیقت کائنات کامادہ ہے بلکہ وہ حقیقت کائنات خدا کو قرار دے گی۔ اور پھر وہ یہ بھی نہیں کہے گی کہ انسان فقط مادہ ہے بلکہ یہ کہے گی کہ اصل انسان روح یا خودی ہے اور مادہ یا جسم اس کا خدمت گزار ہے اور روح یا خودی کی آرزو فقط خدا ہے اور خدا ہی کی محبت تمام انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے لہٰذا وہی انسانی اعمال درست اور اچھے اور نتیجہ خیز ظاہر ہو سکتے ہیں جو خدا کی محبت سے سرزد ہوں۔ لہٰذا وہ اپنے نظام تعلیم ‘ نظام سیاست‘ نظام اخلاق اور نظام قانون کو خدا کی محبت کے عقیدہ پر قائم کرے گی۔ پھر وہ یہ بھی کہے گی کہ خدا کی محبت ہی وہ قوت ہے کہ جو عمل تاریخ کا سبب ہے ۔ لہٰذا تاریخ کی منزل مقصود اشتراکیت نہیں بلکہ خدا ہے اور خدا کے عقیدہ کے سوائے ہر نظریہ حیات ناپائیدار اور عارضی ہے اور خدا وہ ہے جو انبیاء کے ایک سلسلہ سے انسان کی راہ نمائی کرتاہے اور اس سلسلہ کو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرتا ہے جس کے دین کے متعلق اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تمام نظریات پر غالب آئے گا اور تا قیامت موجود رہے گا اور جس کی من و عن اطاعت انسان کے لیے باعث صد افتخار ہو گی۔ اب بتائیے کہ کیا اس صورت میں اشتراکیت کلیتاً اسلام نہیں بن جاتی ہے۔۔ اس صورت میں اگر اس کا پھر کوئی بھی نشان باقی رہ جاتاہے تو صرف ان اسلامی حکام کی شکل میں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور جن کی اطاعت سے ایک اسلامی معاشرہ میں دولت خود بخود مساوی طور پر تقسیم ہوتی ہے۔ اس مساوات کی وضاحت سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے آپ کو بیک وقت پکا سوشلسٹ اور پکا مسلمان سمجھتا ہے اس بات سے غافل ہے کہ اگروہ مسلمان ہے تو پھر پکا سوشلسٹ ہونا تو درکنار وہ کسی درجہ کا بھی سوشلسٹ نہیں رہ سکتا۔ طریق کار کہا جاتا ہے کہ دور حاضر میں بڑے پیمانہ کی صنعت نے جو حالات پیدا کیے ہیں ان میں سرمایہ دار محض اپنے سرمایہ کی وجہ سے اس موقف میں ہوتا ہے کہ وہ مزدور کو اس کی پوری محنت کا معاوضہ نہ دے اور وہ اسے پورا معاوضہ نہیں دیتا۔ اور یہ بے انصافی ہے۔ لیکن کیا اس بے انصافی کے ازالہ کے لیے اس دین کے ماننے والوں کو سوشلزم کی ضرورت ہے ۔ جس کی تعلیم یہ ہے کہ عدل کے تقاضوں کو کہیں بھی نظر انداز نہ ہونے دو۔ لوگوں کا مال نہ کھاھو نہ کھلائو اور دولت تمہارے اغنیاء میں گھومتی نہ رہے۔ کیا وہ اس مقدس تعلیم کے ہوتے ہوئے اپنی مومنانہ فراست سے خود نہیں دیکھ سکتے۔ کہ ظلم کہاں کہاں ہو رہا ہے اور اس کے ازالہ کے لیے وہ خود نئے اسلامی قوانین نہیں بنا سکتے اسی قسم کے بعض بے انصافیاں اسلام کے ظہور کے وقت بھی رائج تھیں اور اسلام نے ان کے ازالہ کے لیے قوانین وضع کیے تھے۔ ان قوانین کا مقصد یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے لیے بروقت ضرورت اسی قسم کے اور قوانین بنانے کے لیے تاقیامت ایک راستہ کھل جائے گا۔ اسی لیے اسلام کی راہ نمائی قیامت تک کے یلے کافی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ جہاں خدا اور رسولؐ کے احکام موجود نہ ہوں ہمیں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں نئے قوانین بنانے کی اجازت ہے۔ اسی کواسلام کی اصطلاح میں اجتہاد کہا جاتاہے۔ نئے حالات سے نپٹنے کے لیے ہم یقینا نہایت آزادی کے ساتھ دوسروں کی نقل کرنے کے بغیر اپنے اسلامی مصالح اور مقاصد کے مطابق نئے قوانین بنا سکتے ہیں اور ایسے قوانین بنانے کے لیے ہمیں ہمارے ایمان کی روشنی کی راہ نمائی کفایت کرتی ہے۔ سوشلزم مذہب کی خوشہ چینی کر رہاہے اور اہل مذہب بالخصوص اسلام ایسے ایک زندہ اورمکمل مذہب کے ماننے والوں کی سادگی دیکھیے کہ وہ اپنے آپ کو سوشلزم کی خوشہ چینی کامحتاج سمجھ رہے ہیں۔ ع سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ لیکن اس قسم کے قوانین اسلامی نظام کے جزو کے طور پر ہی وجود میں آ سکتے ہیں اور اس نظام سے الگ ہو کر ایک اسلامی معاشرہ میں اسن کے وجود کو کوئی وجہ جواز اور قدر و قیمت نہیں ہو سکتی اگر وہ اسلامی نظام سے الگ ہوکر وجود میں آئیں گے تو مسلمانوں کو اسلام سے ہٹا کر یہ سوشلزم کی طرف لے جائیں گے۔ ان قوانین کا جواز اس وقت پیدا ہو گا کہ جب ہم پورا اسلامی نظام نافذ کر چکے ہوں گے۔ اور اس کو شاید اپنا اثرپیداکرنے کے لیے پورا موقع دے چکے ہوں گے۔ اور اس کے باوجود یہ محسوس کریں گے کہ کچھ اور قوانین کی ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اسلامی نظام تعلیم کے سمیت پورا اسلامی نظام جس میں زکوۃ اور وراثت کے قوانین بھی شامل ہیں نافذ کرنا چاہیے پھر اس کے بعد اگر عدل کی ضرورتیں تقاضا کریں تو ہم اور قوانین (اجتہادی قوانین) مثلاً صنعت تجارت اور زراعت کے بعض اداروں کو قومیانے کے بارے میں قوانین بھی وضع کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ قوانین صرف ایسے لوگوں کے مشورے ہی سے بن سکیں گے جو متقی اورپرہیز گار ہوں گے۔ اسلام کے مقاصد کو علمی اور عقلی نقطہ نظر سے سمجھتے ہوں۔ اس کے شاندار مستقبل پر یقین رکھتے ہوں اور عہد قدیم اور عصر جدید کے علوم میں ماہر ہوں اور جدید اسلامی تعلیم کے نفاذ کے بعد ایسے لوگوں کی کوئی کمی باقی نہ رہے گی۔ ایک روشن حقیقت ہمیں اس روشن حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کہ جو سوشلسٹ قسم کی نام نہاد اقتصادی اصلاحات ہم اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی قوانین زکوۃ و میراث وغیرہ کے نفاذ سے پہلے اسلامی سوشلزم کا نام دے کر جاری کریں گے۔ وہ اسلام کی راہ سے نہیں آئیں گی بلکہ اسلامی نظام کے قائم مقام نظام کی حیثیت سے آئیں گی اور ان کا آنا اس مفروضہ پر مبنی ہو گا کہ اسلامی نظام معاذ اللہ بیکار اور فرسودہ اور قابل ترک ہو گیا ہے۔ اس صورت میں ان کے پس منظر میں سوشلزم کا پورا نظام موجود ہو گا جو ان کے ساتھ آئے گا۔ اگرچہ رفتہ رفتہ سامنے آئے گا اور اس سوشلسٹ نظام میں سوشلسٹ ضابطہ اخلاق بھی شامل ہو گا جو اسلامی ضابطہ اخلاق کے بالکل برعکس ہو گا ۔ اور جس کی رو سے سوشلزم کو لانے کے لیے قتل لوٹ مار آتش زنی اور املاک کو نقصان رسانی ایسی خدا کو ناراض کرنے والی حرکات سب جائز ہوں گی اور یہ ضابطہ اخلاق شرو ع ہی سے ان اصلاحات کو لانے کے طریق میں ظاہر ہو گا۔ غرض یہ کہ ان کو لانے کی جدوجہد کے آغاز کے دن ہی سے ان میں اور اسلامی نظام میں ایک نیا تضاد پیدا ہو جائے گا ان کے فروغ اور استحکام سے اسلامی نظام لوگوں کے سینوں میںدبتا اور مٹتا جائے گا اور اسلامی نظام کے ابھرنے کا امکان سے ان کے دبنے اور مٹنے کا اندیشہ پیدا ہوتا رہے گا۔ لہٰذا ان کی حفاظت کے لیے اور ان کے حریف اسلامی نظام کو دبانے اورمٹانے کے لیے سوشلزم کا قانون زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتا جائے گا یہاں تک کہ اسلام کا نام پہلے فقط زبانوں پر رہ جائے گا اور چند نسلوں کے بعد زبانوں پر بھی باقی نہ رہے گا۔ اسلام کی طرف پیش قدمی یا موت اگر ہم اس دین کی توہین کرنا نہیں چاہتے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اگر ہم اپنے سالار کارواں میر حجاز صلی اللہ علیہ وسلم کادامن ہاتھ سے چھوڑ کر بعض اورنام نہاد مسلمان قوموں کی طرح خدا کی رحمت سے دور اور دنیا اور آخرت میں ذلیل ہونا نہیں چاہتے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو ایک ایسے نظریہ حیات کے سپرد کرنا نہیں چاہتے جو علمی اور عقلی معیاروں پر پورانہیں اترسکتا۔ جس کا حقیقت کائنات کا تصور غلط ہے جس کا انسانی اعمال کی قوت محرکہ کا تصور درست نہیں۔ جس کا عمل تاریخ کے سبب کا نظریہ نامعقول ہے۔ جس کا فلسفہ سیاست فلسفہ تعلیم اور جس کی نفسیات فرد اور نفسیات جماعت سب غلط ہیں اور جو خود ھی ایک کل کی حیثیت سے عارضی اور ناپائیدار ہے ۔ اگر ہم دینو سار کی نسل کی طرح اور تما م غلط نظریات کے ماننے والوں کی طرح عمل ارتقا کی بے پناہ ضڑبوں سے مٹ جانا نہیں چاہتے اگر ہم رحمتہ للعالمینؐ کے دامن سے لپٹی ہوئی دنیا کی وہ آخری قوم بننا چاہتے ہیں جو اپنے ایمان کی وجہ سے اقوام عالم کی قیادت کرے گی جو روئے زمین پر پھیل جائے گی۔ اور جو نوع انسانی کو امن عالم اور اتحاد عالم کی نعمتوں سے مستقل طور پر ہمکنار کر دے گی اگر ہم نہیں چاہتے کہ خدا ہمیں مٹا کر ایک اور قوم دنیا میں لائے جو اس کی اطاعت بجا لا کر مقاصد ارتقاء کو پورا کرے اور ہماری بجائے قوموں کی امات کے شاندار منصب پر فائز ہو اور پھر اگر ہم نہیں چاہتے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بنائیں تو ہمیں اپنے معاشرہ کی اصلاح کے لیے اس اسلام کی طرف آگے بڑھنا پڑے گا۔ جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ نے عمل کیاتھا اور جس کامرکزی نکتہ خدا کی عبادت اور پہلااور آخری مقصد پوری نوع انسانی میں خدا کی محبت کی نشوونما اور خودی کی تعمیر اور تربیت ہے یہی اسلام ہے جس کے متعلق اقبال کہتا ہے کہ وہ شیطان کے نزدیک شیطان کے منصوبوں کو خاک میں ملانے والا ’’فتنہ فردا‘‘ ہے اور جس میں صلاحیت ہے کہ آخر کار روئے زمین کے کناروں تک پھیل کر رہے۔ دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم اقبال کا موقف سوشلزم کے بارہ میں اقبا ل کا موقف ان اشعار سے واضح ہو جاتا ہے کہ جن میں اس نے سوشلزم کے متعلق اشارے کیے ہیں۔ لیکن بعض لوگ ان اشعار کی تشریح غلط طور پر کرتے ہیں چونکہ اقبال کے فلسفہ خودی کا سرچشمہ اسلام ہے ۔ لہٰذا اگر قارئین سوشلزم اور اقتصادی مسئلہ کے متعلق اسلام کے اس نقطہ نظر کو جو اوپر کی تمہیدی گزارشات میں پیش کیا گیاہے اور نیز اقبال کے پورے کلام کو مدنظر رکھیں گے تو اقبال کے ایسے اشعار کو سمجھنے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ شکم میں خودی کی احمقانہ جستجو جاوید نامہ میں اقبال جب زندہ رود کی زبان سے جمال الدین افغانی کے روبرو یہ کہلواتا ہے کہ مشرق مغربی ملوکیت کے ہاتھوں ستم اٹھا رہاہے اور اشتراکیت نے دین و ملت کی آب و تاب کو ختم کر دیا ہے۔ مشرق از سلطانئے مغرب خراب اشتراک از دین و ملت بردہ تاب تو افغانی اپنے جواب میں سوشلزم کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے لھکتا ہے کہ کتاب ’’سرمایہ‘‘ کے یہودی مصنف کو بعض لوگوں نے ایک پیغمبر راہ کی طرح تسلیم کر لیا ہے۔ اگرچہ جبرئیل خدا کی وحٰ لے کر اس کے پاس نہیں آیا تھا اگر اسے پیغمبر کہا جائے تووہ پیغمبر حق ناشناس تھا۔ تاہم چونکہ ہر باطل ی طرف سے اس کے باطل میں بھی حق چھپا ہوتا ہے جو اسکی غلط تدابیر کی وجہ سے مکمل اور مستقل طور پر جامہ عمل نہیں پہن سکتا۔ لہٰذا یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کا تو ایک مومن کے دل کیی طرح حق کا طالب ہے لیکن اس کا کافرانہ دماغ یہ بات نہ سمجھ سکا کہ جو حق وہ چاہتا ہے اس کے لوازمات اور تقاضے کیا ہیں مثلاً وہ اقتصادی مساوات پر یقین رکھتاتھا اور اسے بروئے کار لانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکاکہ اقتصادی مساوات فقط بیرونی دبائو اور قانون کے ڈنڈے سے قائم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لیے فر د کے دل میں خدا کی محبت کی پرورش کرنا اور پرورش کر کے اسے جس حد تک ممکن ہو کمال تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ گمراہ انسان جو اپنے اندر حرص و ہوا اور خود غرضی اور خود پرستی کے طاقت ور میلانات رکھتا ہے صرف خدا کی خوشنودی ایسے بیش بہا اور لازوال مقصد کے لیے ہی دوسروں سے مخلصانہ محبت کر سکتا ہے اور اپنے فائدہ کو ترک کر کے سچ مچ دوسروں کی بھلائی کی آرزو کر سکتاہے۔ دوسروں کی بھلائی کی آرزو خدا کی رضامندی کی آرزو کا ایک پہلو ہے اور خدا کی رضامندی وہی چاہتاہے جو خدا پر ایمان لا چکا ہو اور خدا سے گہری محبت رکھتا ہو۔ انسان کی غیر مبدل فطرت کی روسے پوری بے غرضٰ ار پورے اخلاص کے ساتھ دوسرے انسانوں سے محبت کرنے اور ان کی بھلائی چاہنے کا کوئی اور مستقل ار قابل اعتما د محرک انسان کے لیے ممکن نہیں۔ اہل مغرب ماوراء الطبیعیات (افلاک) کی دنیا سے بے تعلق ہیں اور خدا کو بھولے ہوئے ہیں جس کی محبت میں نشوونما انسان کی خودی یا روح کی بالیدگی کے لیے ضروری ہے کہ اور سمجھتے ہیں کہ اگر وہ شکم کی ضرورتوں کو ٹھیک طرح سے پورا کر لیں تو جسم کی بالیدگی کے ساتھ ان کی خودی (جان پاک) کی بالیدگی بھی حاصل ہو جائے گی۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔ خودی کی بالیدگی کی شرطیں اور ضرورتیں بالکل مختلف ہیں مثلاً آیات اللہ کے طور پر مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ دل سے خدا کا ذکر اور خدا کی مخلصانہ عبادت نبوت کاملہ کے ضابطہ اخلاق و اعمال کی عاشقانہ پیروی۔ صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آن پیغمبرے بے جبرئیل زانکہ حق در باطل او مضمر است قلب او مومن و ما غش کافر است غریبان گم کردہ ان افلاک را در شکم جویند جان پاک را خودی کی رونق جسم پر موقوف نہیں روح یا جان جسم کی ضروریات کی تشفی سے رونق اور حسن اور کمال (رنگ و بو) حاصل نہیں کرتی لیکن سوشلزم کی ساری تگ و دو فقط جسم کی ضروریات کی تشفی تک محدود ہے۔ اس ’’پیغمبرے حق ناشناس‘‘ کے باطل دین کا دارومدار اس بات پر ہے کہ تمام انسانوں کو ایک شکم کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا سب انسان برابر ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ خیال سراسر غلط ہے ۔ اخوت کا احساس ایک روحانی یا اخلاقی قدر ہے اور لہٰذا آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کا ایک پہلو ہے اور آرزوئے حسن یا خدا کی محبت خودی یا روح (دل ) کا ایک تقاضا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخوت کے احساس کی جڑ انسان کی خودی میں ہے نہ کہ اس کے شکم میں یا اس کیچڑ میں جس سے اس کا جسم بنا ہے اور یہ احساس خودی کی پرورش کر کے اس کو طاقت ور کرنے سے ہی طاقت ور ہوسکتا ہے۔ بیشک سب انسان برابر ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں لیکن اس لیے کہ سب کا محبوب اور مقصود خدا ہے جو چاہتا ہے کہ انسان آپس میں اخوت کا احساس کریں اور محبت سے رہیں۔ شکم کی مساوات محبت اور اخوت پیدا نہیں کرتی بلکہ رقابت اور دشمنی پیدا کرتی ہے کیونکہ جو چیز ایک انسان کے شکم میں رہ جاتی ہے اور دوسرے کے شکم میں نہیں جاتی اور ہر انسان کا شکم چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر طریق پر پر کیا جائے۔ رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جز بہ تن کارے ندارد اشتراک دین آں پیغمبرے حق ناشناس بر مساوات دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ در آب و گل است ملوکیت اور سوشلزم دونوں آب و گل میں غرق ہیں اس کے بعد افغانی ملوکیت پرتنقید کرتا ہے اور پھر ان دونوں کے مشترک اور متضاد نقائص کو بیان کرتا ہے۔ دونوں نظریات ناصبور اور ناشکیب ہیں۔ کیونکہ دونوں اپنے اپنے حلقہ اثر کی توسیع کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ دونوں خدا اور اس کے پسندیدہ اصول اخلاق سے بیگانہ ہیں۔ دونوں کا شیوہ آدم کو فریب میں دینا اور بہکانا ہے ایک کے لیے زندگی بغاوت کا نام ہے اور وہ سوشلزم ہے۔ اور دوسرے کے لیے زندگی خراج وصول کرنے اور دوسری قوموں کو لوٹنے کا نام ہے اور وہ ملوکیت ہے ۔ اور آدمی ہمیشہ وہ شیشہ ہے جو ان دونوں پتھروں کے درمیان پس رہا ہے۔ سوشلزم علم اور فن اور دین کو تباہ کر رہا ہے۔ کیونکہ ان تینوں کو اپنے غلط نقطہ نظر کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے اور ملوکیت کا حال یہ ہے کہ غلامی پر رضامند کر کے جسم سے جان نکال لیتی ہے یعنی خودی کے تقاضوں کو فراموش کر دیتی ہے اور لوٹ کھسوٹ کر کے ہاتھ سے روٹی چھین لیتی ہے۔ دونوں کیچڑ میں غرق ہیں یعنی کیچڑ سے بنے ہوئے جسم کی خواہشات اور ضروریات کے غلام ہیں۔ دونوں کا تن روشن ہے اور دل تاریک یعنی جسم کی ضروریات کے لحاظ سے کامیاب اور خوشحال ہیں اور خودی کی ضروریات کے لحاظ سے ناکام اور بدحال۔ دونوں اس با ت سے بے خبر ہیں کہ زندگی کا مقصد یہ ہے کہ انسان خدا کی محبت کا سوز و گداز پیدا کرے اور بڑھائے اور اس طرح سے اپنی خودی یا شخصیت کی تعمیر کر کے اس خاکی کائنات کے اندر خدا کی محبت کا ایسا بیج بوئے جو ہمیشہ بڑھتا اور پھولتا رہے۔ افغانی کے الفاظ یہ ہیں: ہر دورا جان نا صبور و ناشکیب ہر دو یزدان ناشناس آدم فریب زندگی ایں را خروج آں راج خراج درمیاں ایں دو سنگ آدم نہ جاج ایںبہ علم و دین و فن آرد شکست آں برد جان راز تن نان راز دست غرق دیدم ہر دورا در آب و گل ہر دوراتن روشن و تاریک دل زندگانی سوختن یا ساختن درگلے تخم دلے انداختن سوشلزم نہ ہوس کا علاج ہے نہ اقتدار پرستی کا‘ خودی کی فطرت سے جو فقط خدا کی آرزو رکھتی ہے اقبال کے اس خیال کی صداقت آشکار ہے کہ روسی انقلاب کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ روس میں لوگوں نے ایک بت کو توڑا ہے اور ایک نیا بت تراش لیا ہے چونکہ وہاں اب بھی لوگوں کو خدا پر ایمان نہیں اور خدا کی مخلصانہ محبت مفقود ہے لہٰذا جمہور کے انقلاب کے باوجود وہاں ہوس اقتدار اپنے تمام برے نتائج کے سمیت موجود رہے گی اور لوگوں کی اقتدار پرستی اور اقتدار پسندی کی بیماریوں میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ جس شخص کے پاس اقتدار ہو گا وہی لوگوں کا مستبد حاکم اور بادشاہ اور آقا بن جائے گا اور جو لوگ خود اپنی رضامندی سے اس کے محکوم اور مظلوم غلام یا رعایا بن جائیں گے ۔ بت پرستی کافروں کی سرشت میں ہے کیونکہ اس کے بغیر ان کا چارہ نہیں۔ جب وہ خدا کو چھوڑ چکے ہیں تو پھر اپنے جذبہ عبادت کو مطمئن کرنے کے لیے بتوں کے سوائے کس کو پوجیں۔ جب وہ کسی پرانے بت سے بیزار ہو کر اس کو توڑنے پر مجبور ہوتے ہیں تو انہیں اسی وقت ایک نیا بت پوجنے کے لیے تراشنا پڑتا ہے۔ اقبال کا مطلب یہ ہے کہ ان بیماریوں کا علاج یہ ہے کہ حاکم اور محکوم دونوں خدا کی محبت کا سوز و گداز رکھتے ہوں پھر نہ حاکم اپنے آپ کو حاکم سمجھے گا اور نہ محکوم ہی محکوم رہے گا۔ رومی کے الفاظ میں سودائے عشق ہی ہماری تمام علتوں کا طبیب ہے۔ وہی ہمارا افلاطون ہے اور جالینوس ہے جو ہمیں ہر قسم کی روحانی اور نفسیاتی بیماریوں سے نجات دے سکتا ہے۔ شادباش اے عشق خوش سودائے ما اے طبیب جملہ علت ہائے ما اے دوائے نخوت و ناموس ما اے تو افلاطون و جالینوس ما اقبال نے روسی سوشلسٹ انقلاب کے معمار موسیولینن اور اس کے ہم عصر جرمنی کے قیصر ولیم کی ایک گفتگو نظم کی ہے۔ لینن بڑے فخر کے ساتھ قیصر ولیم سے کہت اہے ک دیکھا ہمارے مفلس اور غلام مزدور نے کس طرح سرمایہ دار کی قمیص اقتدار کو جو ہمارے خون سے رنگین تھا پھاڑ ڈالا ہے۔ عوام کے غصہ کی آگ کے شعلوں نے اس پرانے بیکار سامان کو جو پوپ کی چادر اور شہنشاہ کی قبا پر مشتمل تھا جلا کر راکھ کر دیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ اب نہ کلیسا کا اختیار باقی رہا ہے اور نہ بادشاہ کا اقتدار۔ غلام گرسنہ دیدی کہ بر درید آخر قمیص خواجہ کی رنگین ز خون مابود است شرار آتش جمہور کہنہ ساماں سوخت ردائے پیر کلیسا قبائے سلطاں سوخت قیصر ولیم اسے جواب دیتا ہے کہ بتوں کا طواف کرنا بت پرست کی شرست میں ہے اس میں بتوں کے ناز و عشوہ کا قصور نہیں۔ کافر کا کام ہی یہ ہے کہ وہ پرانے خدائوں سے اکتا کر نئے خدائوں کو بناتا رہتا ہے۔ راہزن کے ظلم میں اتنا جرم راہ زن کا نہیںجتنا خود راہرو کا ہوت اہے جو خود اپنا سامان لٹانا چاہتا ہے۔ اگر اقتدار اب جمہور کے ہاتھ میںآ گیا ہے تو پھر بھی سوسائٹی میں وہی ظالمیت اور مظلومیت کے ہنگامے ہوتے رہیں گے جن سے بیزار ہو کر لوگوںنے یہ انقلاب برپا کیا تھا۔ جیسے آتش کدہ سے آگ نہیں بجھتی آدمی کے دل سے ہوس نہیں جاتی جب تک انسان خدا کے سامنے سر نہیں جھکاتا اقتدار کی سحر فن دلہن کی زلف پر پیچ کا حسن سے اسے بدستور اپنی طرف کھینچتا رہے گا۔ شیریں کے ناز کا خریدار اگر خسرو نہ ہو گا تو کوہکن ہو گا۔ گناہ عشوہ و ناز بتان چیست طواف اندر سرشت برہمن ہست دما دم نوخداوندان تراشد کہ بیزار از خدایان کہن ہست ز جور رہزنان کم گو کہ رہرو متاع خویش را خود راہزن ہست اگر تاج کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست ہوس اندر دل آدم نہ میرد ہماں آتش میاں مرزغن ہست عروس اقتدار سحر فن را ہماں پیچاک زلف پر شکن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نماند کوہکن ہست فردا کا نظریہ زندگی اسلام ہے اپنی نظم’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں اقبال نے بڑے موثرانداز میں بیان سے ا س بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سوشلزم میں یہ صلاحیت نہیں کہ ابلیس کے کام میں رکاوٹ پیدا کر سکے اور مستقبل کا نظریہ حیات جو ابلیس میںتعمیر پانے والی دنیائے اشرار کو زیر و زبر کر دے گا۔ وہ سوشلزم نہیںبلکہ اسلام ہے ۔ سوشلزم کی ظاہری سج دھج کو دیکھ کر ابلیس کے ایک مشیر کو غلط فہمی ہوئی ہے ہ اب شاید ابلیس کا کام آگے نہیں بڑھ سکے گا لیکن ابلیس اسے جواب دیتا ہے کہ مجھے سوشلسٹوں سے کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ انسان کی صحیح راہنمائی کی استعداد سے بے بہرہ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے اصل مقصود یعنی خدا سے برگشتہ ہونے کی وجہ سے وہ ’’کوچہ گرد‘‘ یعنی آوارہ اور بے قرار ہیں اوروہ ’’پریشان روزگار‘‘ ہیں یعنی اطمینان قلب سے محروم ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیاں پریشان ہیں۔ وہ ’’آشفتہ مغز‘‘ ہیں یعنی ان کا فکر یا فلسفہ نامعقول ہے اور پریشان خیالیوں کامجموعہ ہے اور وہ ’’آشفتہ ہو‘‘ ہیںیعنی اپنی محبت کے جذبہ کو بے محل صرف کر رہے ہیں۔ کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشان روزگار آشفتہ مغز آشفتہ ہو اگر مجھے خطرہ ہے تو امت مسلمہ سے جس کی راکھ میں خدا کی محبت کا شرار اب تک چمک رہا ہے۔ اس امت میں اب بھی اسیے لوگ موجو د ہیں اگرچہ وہ بہت تھوڑی تعداد میں ہیں جن کو تہجد کی نماز میں خدا کی محبت کا جوش رلاتاہے۔ ہر وہ شخص جو ’’باطن ایام‘‘ یعنی ارتقا کی منزل مقصود کا علم رکھتا ہے اس بات کو جانتا ہے کہ کل کا انقلاب ’’فتنہ‘‘ جو ابلیس کے بنے بنائے کھیل کو بگاڑ دے گا سوشلزم نہیں بلکہ اسلام ہے۔ ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزوکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے نشر توحید کا فریضہ خدا سے محبت کرنا تعلیمات اسلام کی روح ہے۔ لیکن خدا کی محبت کا تقاضا فرد کی ذات تک محدود نہیںرہتا بلکہ اس کے اندر یہ بات بھی شامل ہے کہ خدا کے دوسرے بندوں کو بھی خدا کی محبت سے بہرہ ور کیا جائے اور جب تک خداکا ایک بندہ بھی خدا کی محبت سے بے نصیب ہو چین سے نے بیٹھا جائے۔ زانکہ در تکبیر راز بود تست حفظ و نشر لا الہ مقصود تست تانہ خیزد بانگ حق از عالمے گر مسلمانی نیا سائی دمے مومن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لیے آزادی عمل حاصل کرے اور دوسرے موافق حالات بھی جو ضروری ہوں پیدا کرے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے لازماً کئی مشکلات پیش آتی ہیں اور کئی دشمنوں سے مقابلہ کرنا پڑتاہے جو ایمان کی اس دعوت کو اپنے معبود ان باطل کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے علمبرداروں کو نیست و نابود کر دیں۔ خوگر من نیست چشم ہست و بود لرزہ بر تن خیزم از بیم نمود ایسی حالت میں مومن کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جان سے بے پرواہ ہو کر ہر مزاحمت کے ساتھ ٹکر لے اور اس پر عبور حاصل کرے اور اگر ضرورت پڑے تو اس کوشش میں اپنی جان قربان کر دے۔ توحید کا مطلب خدا کو ایک مانناہی نہیںبلکہ اپنی خودی کی ساری قوتوں کو بروئے کار لا کر ایک منوانا بھی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں توحید کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کو جو اس وقت کفر اور شرک پر قائم ہے۔ توڑ پھوڑ کرایک نئی دنیا بنائی جائے جو توحید کے عقیدہ پرمبنی ہو۔ اقبال کے نزدیک توحید کی تعریف یہی ہے۔ خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا مومنانہ کردار پھر جوں جوں خدا کے بندے خدا کی محبت کی نعمت سے بہرہ ور ہوتے جاتے ہیں۔ خدا کی شریعت بھی دنیا میںنافذ ہوتی جاتی ہے۔ کیونکہ خدا کی محبت میں خدا کی شریعت کی اطاعت بھی شامل ہے۔ اقبال توحید کی ایسی اشاعت کو ہی کردار کا نام دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمان اس کردار کو پیدا کرے۔ اسلامی کردار یہ نہیں جیسا کہ ہمارے بعض سادہ لوح دانشوروںنے سمجھا ہے کہ سوشلسٹ قسم کی اقتصادی مساوات قائم کر دو اور اسلام کا عملی اطلاق سامنے آ گیا۔ اسلام جسم کی ضروریات کو فقط زندگی قائم رکھنے کی حد تک اہمیت دیتا ہے ۔ ا س سے زیادہ نہیں۔ اس کے نزدیک ساری اہمیت اصل انسان کی ضروریات کی ہے جو بعد از مرگ بھی زندہ رہتا ہے۔ اور جس سے اس کی اصل زندگی وابستہ ہے ۔ ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان لو کانوا یعملون طریق خانقاہی تاہم اس کردار کے ظہور پذیر ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اچھے اچھے مسلمانوںنے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مسلمان کا کمال یہ ہے کہ مسلما ن ارکان اسلام کی پابندی کرے۔ زہد اور تقویٰ کو اپنا شعار بنائے اورایک مرشد کامل کی ہدایت کے مطابق ذکر اور فکر اور نوافل کے ساتھ خدا کی محبت کو فروغ دے اور قلبی کیفیات کو پیدا کرے۔ یہ سارا پروگرام اچھا اور ضروری ہے لیکن وہ اس پروگرامن میںمسلمان کا یہ فرض شامل نہیںکرتے کہ وہ خدا کی دنیا کو بدل کر خدا کی مرضی کے مطابق بنائے۔ حالانکہ قرآن حکیم کا ارشاد یہ ہے کہ مسلمان قوم دوسر ے لوگوں کی راہ نمائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرض کی ادائیگی کے لیے بارہا اپنی جان کو خطرہ میںڈالا اور حضورؐ کی وفات کے بعد صحابہ اور تابعین نے اپنی جانوں سے بے پرواہ ہو کر اس فرض کو ادا کیا۔ ایک طرز عمل یہ ہے کہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر ذکر اور فکر سے خدا کی محبت کی نشوونما کر کے درجہ کمال پر پہنچانے کی کوشش کی جائے اور اس کو کافی سمجھا جائے ۔ دوسرا طرز عمل یہ ہے کہ اس کوکافی نہ سمجھا جائے بلکہ محبت کے کمال کو زوردار کردار کا ذریعہ بنایا جائے اور اگر ضرورت ہو تو خدا کی مرضی کے مطابق دنیا کو بدلنے کے لیے جان کو خطرہ میں ڈال دیاجائے۔ پہلے طرز عمل کو اقبال طریق خانقاہی کہتا ہے اور اسے ناکافی سمجھتا ہے۔ یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی اور دوسرے طرز عمل کو مومنانہ کردار کانام دیتا ہے۔ یہ مومنانہ کردار دنیا میں ایک زلزلہ پیدا کر دیتا ہے۔ مستقبل کا نظریہ حیات اسلام کیو ں ہے مستقبل کا اسلامی انقلاب جس سے ابلیس خوفزدہ ہے مومن کے ایسے ہی کردار کے نتیجہ کے طور پر رونما ہو گا۔ اس لیے کہ ابلیس کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح سے مرد مومن کے اس کردار کے لیے آمادہ نہ ہو۔ ابلیس اپنے اس خیال کی وجوہات بیان کرتا ہے کہ کیوں کہ آخری انقلاب سوشلزم نہیںبلکہ اسلام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ا س وقت مسلمان قرآن پر عمل نہیںکرتا اور بندہ مومن کا دین دولت جمع کرنا ہے۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ مشرق کی عام گمراہی کے اس دور میں علمائے دین کی مخلصانہ محبت کے وصف سے عاری ہیں لیکن عصر حاضر بے دینی اور بے راہ روی اور ظلم اور تشدد کے جس دور سے گزر رہا ہے وہ تادیر جاری نہیںرہ سکتا۔ ضروری ہے کہ انسان کی فطرت جو نیک ہے اس کے خلا ف رد عمل کرے ایسی حالت میں اس بات کا خدشہ ہے کہ شرع پیغمبر جسے دور جدید کا انسان اب تک نہیں جانتا کہیں آشکار نہ ہو جائے۔ اور یہ شرع پیغمبر وہ چیز ہے جس سے سو بار پناہ مانگنی چاہیے۔ اس لیے کہ عورت کے ناموس کی محافظ ہے مرد کو امتحان میں ڈال کر آزمودہ اور پختہ کرتی ہے اورانسان کی ہر قسم کی غلامی کے لیے پیغام اجل ہے۔ یہ نہ تو کسی کو بادشاہ تسلیم کرتی ہے اور نہ کسی کو مفلس ہی رہنے دیتی ہے۔ دولت آفرینی کے طریقوں کو پاکیزہ اور شستہ کر کے دولت کو حرام ناجائز اور ناروا عناصر سے پاک و صاف کرتی ہے ۔ اس کی وجہ سے دولت مند اپنے آپ کو دولت کا مالک نہیں بلکہ امین سمجھتا ہے اور اس کا اصلی مالک خدا ہی کو قرار دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر فکر و عمل کے اندر صحیح تبدیلی اور کیا لائی جا سکتی ہے کہ یہ کہہ دیا جائے کہ زمین بادشاہوں کی نہیں بلکہ خدا کی ہے ایسا قانون دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہے تو اچھا ہے۔ غنیمت ہے کہ مومن کو خود یقین نہیں کہ اسے اس آئین کو نافذ کرنے کے لیے زور دار کردار یا عمل کی ضرورت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ اس ضرورت کی طرف متوجہ نہ ہو سکے اور الہیات کے مسائل میں الجھ کر اور قرآن کی تاویلات میں منہمک ہو کر یہ تسلی پاتا رہے کہ اس نے دین و ایمان کے تمام تقاضے پورے کر دیے ہیں ار اب اسے ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اور کسی عمل کی حاجت نہیں۔ جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستین عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر حافظ ناموز زن مرد آزما مرد آفرین موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقان نے فقیر رہ نشین کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امین اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئین تو خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقین ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے اقبال کے ان اشعار سے واضح ہے کہ آیا اس کے نزدیک سماجی بیماریوں کا علاج سوشلزم ہے یا شریعت۔ ابلیس کی تمنا ابلیس اپنے شاگردوں کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اس طرح سے کام کریں کہ خدا کا وہ عاشق کبھی بیدار نہ ہو سکے جس کی تکبیریں طلسم زمان و مکان کو توڑ کر ایک نئی دنیا وجودمیں لا سکتی ہیں۔ اسے کردار کی دنیا سے الگ رکھو تاکہ اسے ہر بات میں ناکامی ہو اور وہ دنیا میں عزت نہ پا سکے۔ وہ قیامت تک غلام رہے تاکہ دوسرے لوگ اس جہان بے ثبات کا نظم و نسق چلائیں۔ وہ شعر و تصوف میں ایسا ڈوبے کی اسے خبر ہی نہ رہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ میں اس امت کے بیدا ر ہونے سے ڈرتا ہوں جس کا دین کائنات کا محاسبہ کرنے والا ہے یعنی اس بات کا فیصلہ کرنے والا ہے کہ کائنات میں نیک کیا ہے اور بد کیا ہے حق کیا ہے اور باطل کیا ہے اور زشت کیا ہے اور زیبا کیا ہے کونسی چیز باقی رکھنے کے قابل ہے اور کون سی چیز فنا کرنے کے قابل۔ مومن کو ذکر و فکر میں مست رکھو اور خانقاہی طریقوں میں اسے اور پختہ کر دو تاکہ وہ دنیا میں اپنے رول کو بھول جائے اور اسے دنیا کو بدل کر خدا کی مرضی کے مطابق بنانے والے صحیح مومنانہ کردار کی ضرورت کا خیال تک نہ آئے۔ توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے تابساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات خیر اسی میں ہے رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہاں بے ثبات ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے قوموں کی باہمی کشمکش میںخدا کا راز اس سے پہلے اس کتاب میں وضاحت کر دی گئی ہے کہ کس طرح سے اقبال نے خودی کے اوصاف و خواص کی بنا پر یہ سمجھتا ہے کہ وہ نظریہ حیات جس میں دنیا پر چھا جانے والی صلاحیت ہے اور جو بالاخر دنیا پر چھا کر رہے گا فقط اسلام ہے‘ سوشلزم یا اور کوئی نظری نہیں۔ عمل تاریخ جس سے انسانی نظریات ان پر اعتقاد رکھنے والی قوموں کے سمیت ابھرتے اورمٹتے رہتے ہیں۔ دراصل نظریاتی ارتقا کا ایک عمل ہے۔ جس کی انتہا کے قریب ایک ایسے نظریہ حیات کا دنیا میں پھیل جانا ضروری ہے جو تصور کامل یعنی خدا کے صحیح اور پاکیزہ تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر جن میں سیاست‘ معاشرت اور معیشت بھی شامل ہیں چسپاں کرتا ہو اور ایسا نظریہ حیات فقط اسلام ہے۔ تاریخ کے تام پے در پے نمودار ہونے والے واقعات جن میں اقوام عالم کی باہمی پر امن یا تشدد آمیز پیکار جو ہمیشہ جاری رہتی ہے۔ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور اس عمل میں ممد و معاون ہیں اور اس کے آخری نتیجہ کو جلد از جلد آشکار کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ قوموں کی باہمی پیکار(پیکار زندگی) کا مدعا یہ ہے کہ مسلمان قوم کا ہلال ماہ کملا بن جائے اور یہ کائنات کے عمل ارتقا کا فرض ہے کہ جو روز ازل سے اس پر عائد کیاگیا ہے اور سچے مومن کی نماز کی طرح بروقت ادا ہو کر رہے گا۔ غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرض قدیم تو ہے ادا مثال نماز ہو جا قوموں کی باہمی پیکار اسلام کے عالم گیر ظہور ک لیے راستہ صاف کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ن یاپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عجیب و غریب طریقے استعمال کرتا ہے۔ جو کائنات کے اسرار میں سے ہیں ۔ اور جن کو انسان بعض وقت نہیں سمجھ سکتا اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ بسا اوقات باطل کو باطل کے ہاتھوں سے ملیامیٹ کرتا ہے تاکہ حق کے راستہ کی رکاوٹیں ایک ایک کر کے دور ہوجائیں۔ اقبال کے نزدیک دہریت انسان کی موت ہے تاہم وہ اس بات پر خوش ہے کہ روسی دہریت جدید عیسائیت کے لات و منات توڑ رہی ہے۔ یقینا کائنات کے ضمیر کے اندر خدا کا کوئی بڑا مقصد پوشیدہ ہے جو اس بات سے پورا ہو رہا ہے کہ باطل باطل کی شکست کے لیے اٹھا ہے اور وہ لوگ جو صلیب کی حفاظت کو اپنی نجات سمجھتے تھے آج صلیب شکنی کے لیے مامور ہوئے ہیں۔ اگرچہ اقبال یہاں براہ راست یہ بات نہیںکہتا لیکن اس کے پورے فکر سے یہ بات آشکار ہے کہ اس کے دل میں یہ بات ہے کہ خدا کا وہ بڑا مقصد یہی ہے کہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لیے حالات سازگار ہوں۔ اقبال ایک سوا ل کر کے اس کا جواب مخاطب پر چھوڑ کر (خبر نہیںکہ ضمیر جہان میں ہے کیا بات؟) خدا کے اس مقصد کی طرف ایک لطیف و بلیغ اشار ہ کر رہا ہے اسلام کے شاندار مستقبل کے متعلق اقبال جب بات کرنا چاہتاہے تو بعض وقت ایسے ہی اشاروں سے کام لیتا ہے مثلاًع راز خدائی ہے یہ کہ نہیں سکتی زبان یا دیکھیے اس بحر کہ تہ میں اچھلتا ہے کیا یا ع کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کامقام یا ع میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب یا ع محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی وغیرہ روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب خبر نہیںکہ ضمیر جہان میں ہے کیا بات ہوئے ہیں کسر چلیپا کے واسطے مامور وہی کہ حفظ چلیپا کہ جانتے تھے نجات یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات اشاعت اسلام کے لیے حالات کی سازگاری ظاہر ہے کہ جب ہر باطل دنیا سے مٹ جائے گا (خواہ وہ ایک اور باطل کی ضربوں سے ہی کیوں نہ مٹا ہو) تو اس وقت نوع انسانی کے لیے حق کا قبول کرنا آسان ہو جائے گا۔ موجودہ وقت میں روس کے انقلاب نے قریباً یہی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ انسان کا دل سچے معبود کو ماننے کے لے صرف اسی وقت مہیاہوتا ہے جب وہ ہر باطل معبود کی محبت سے خالی ہو جائے۔ روس نے کلیسا کی نفی کی ہے۔ بادشاہوں کی نفی کی ہے اور عیسائیت کے اس خدا کی بھی نفی کی ہے جو بیک وقت ایک بھی ہے اور تین بھی ۔ لیکن اسے بہرحال کسی مقصود کااثبات تو کرنا ہے جب تک نفی کے ساتھ کسی چیز کا اثبات نہ کیا جائے نفی حقیقت میں ممکن ہی نہیںہوتی۔ نفی اثبات کا تقاضا کرتی ہے اور اثبات سوائے سچے خداکے کسی چیز کا تسلی بخش یا دیرپا علاج نہیں لہٰذا مسلمان کے لیے وقت ہے کہ وہ سچے خدا کا اثبات کرائے۔ لیکن افسوس ہے کہ ا س وقت مسلمان خود مغرب کے بے خدا افکار سے متاثر ہو کر اسلام سے ہٹتا جا رہا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں تہذیب حاضر کی صراحی اس وقت مئے لا سے لبالب بھری ہوئی ہے لیکن شراب وحدت کی ساقی یعنی مسلمانوں کے ہاتھوں میں پیمانہ الا نہیں جس میں ڈال کر نفی کی یہ شراب پلائی جا سکے۔ یعنی اس نفی کو خدا کے اثبات کے ساتھ ملا کر ایک معنی خیز حقیقت بنایا جا سکے۔ لبالب شیشہ تہذیب حاضر سے مئے لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا اقبال نے ایک اور مقام پر روسی سوشلزم کے اس نقص کو کہ وہ لا کے مقام پر اٹکا ہوا ہے اور ابھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ روسیوں نے لا کا نعرہ لگا یا کہ ہم کسی چیز کو نہیںمانیں گے اور پھر پرانے نظام حیات کو زیر و زبر کر دیا۔ بادشاہوں کا انکار کیا۔ کلیسا کا انکار کیا اور ہر معبود کا انکار کیا ۔ لا کا نعرہ ایک تند و تیز آندھی ہے جو ہر چیز کواڑ ا لے جاتی ہے۔ روس کا فکر انکار کی اس آندھی کے اندر محدود رہا اور الا کی طرف آ کر معبود حقیقی کااقرار نہ کر سکا۔ چونکہ ہر چیز سے انکار اوربغاوت کا یہ جنون غیر فطری ہے۔ ضروری بات ہے کہ زود یا بدیر اس کا ردعمل ظاہر ہو اور جب تک یہ رد عمل خدا پر ایمان کی صورت میں اختیار نہ کرے نہ یہ تسلی بخش ہو سکتا ہے نہ کامیاب۔ انسان کو ایک جذبہ محبت دیا گیا ہے جو کسی محبوب کامل کا مثبت تقاضا کرتا ہے۔ انسان اس جذبہ کو تادیر نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اور نہ اس کو تشنہ رکھ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ زندگی انسان میں ںمودار ہو کر نفی مطلق کے مقام پر نہیں ٹھہرتی بلکہ کسی نہ کسی چیز کے اثبات اوراقرار کی طرف آگے لپکتی ہے۔ ہر ایسی چیز کا انکار کرنے کے بعد جس کا انکار ضروری ہے۔ اسے کسی ایسے محبوب کا اثبات کرنا پڑتا ہے جو درحقیقت اثبات کے قابل ہو اور وہ محبوب فقط خدا ہے۔ تمام کائنات ایک ارتقائی عمل سے خدا کی طرف حرکت کر رہی ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ روسی سوشلزم آخر کار خدا کی طرف نہ آئے۔ دنیا میں ہر قوم کی زندگی اور قوت کا دارومدار اور الا دونوں پر ہوتا ہے کہ وہ ایک تصور کو اپ؛نا نصب العین حیات یا محبوب بناتی ہے ۔ اور اس کے مقابل کے ہر تصور کا انکار کرتی ہے اگر کوئی قوم فقط لا کے اورالا نہ کہے توپھر اس کے زندہ رہنے اور عمل کرنے کے لییکوئی امکان پیدا نہیں رہتا۔ آخر وہ کس مقصد کے لیے اور کس کام کے لیے زندہ رہے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ التحیتہ والسلام نے ستارے ‘ چاند اور سورج کا انکار کرنے کے بعد سچے خدا کا اقرار کیا تھا۔ تب جا کر ان کا فطری جذبہ محبت تشفی پا سکا تھا۔ طریق خانقاہی کو ترک کرنے کی ضرورت مومن جو حجرہ میں بیٹھا ہوا فقط زہد و تقویٰ کو کافی سمجھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ طریق خانقاہی کو ترک کر کے میدان کارزار میں آئے اور دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لیے جان کی بازی لگائے۔ اس میں شک نہیںکہ دنیا پر بت پرست نمرودوں کا قبضہ ہے لیکن پھر بھی مومن کو چاہیے کہ حضرت ابراہیم کی طرح نمرود کے سامنے لا کا نعرہ لگائے نمرود اس کا بال بیکا نہ کر سکیں گے۔ نمرودوں کی یہ دنیا جو اسے نظر آتی ہے اس کی حیثیت دو جو کے برابر بھی نہیں۔ لا الہ کی جلالی قوت بے پناہ ہے جو شخص لا کی تلوار کو ہاتھ میں لے کر نکلتا ہے دنیا اس کی ہو جاتی ہے۔ روس را قلب و جگر گرویدہ خون از ضمیر بش حرف لا آمد بردن آن نظام کہنہ را برہم زد است تیز نشے بر رگ عالم زو است کردہ ام اندر مقاماتش نگہ لا سلاطین لا کلیسا لا الہ فکر او در تند باد لا بماند مرکب خود را سوائے الا نراند آیدش روزے کہ از زور جنون خویش رازیں تند باد آر بردن در مقام لا نیا ساید حیات سوئے الامے خرامد کائنات لا و الا ساز و برگ امتان نفی بے اثبات مرگ امتان در محبت پختہ کے گرد و خلیل تانگر دو لا سوئے الا دلیل نے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن نعرہ لا پیش نمرودے بزن ایں کہ مے بینی یز زو باد و جو از جلال لا الہ آگاہ شو ہر کہ اندر دست و شمشیر لاست جملہ موجودات را فرمان رو است اسلام کے عالمگیر غلبہ کا راستہ جس طرح سے اقبال اس بات پر خوش ہے کہ خدا نے دہریت پرست روسی سوشلسٹوں پر یہ وحی نازل فرمائی ہے یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں کیونکہ اس طرح سے کائنات کی ارتقائی حرکت جلد اپنی منزل مقصود یعنی اسلام کے عالمگیر ظہور تک پہنچے گی اسی طرح سے اقبال اس بات پر بھی خوش ہے کہ روسی دہریت کے ہاتھوں سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوب رہا ہے اور اب نوع انسانی رفتہ رفتہ مداری کے اس تماشا کو ترک کر دے گی جسے سرمایہ داری کہتے ہیں اور پھر اس کی طرف واپس نہیں آئے گی بلکہ اسلام کی طرف آگے بڑھے گی۔ گیا دور سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ صلیب کی شکست کی طرح سرمایہ داری کا زوال بھی خدا کے اپنے اہتمام سے ہو رہا ہے جس نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ میرے مفلس اور نادار بندوں کو سرمایہ داری کے خلاف بغاوت اور تشدد پر آمادہ کرو۔ دولت مندوں کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دو۔ غلاموں کے دلوں میں اپنے مستقبل کا پختہ یقین پیدا کرو تاکہ وہ کمزور ہونے کے باوجود طاقتوروں سے ٹکر لیں۔ اب اقتدار عوام کے ہاتھوں میں آئے گا۔ اس لئے پرانے طور طریقوں کو بدل دو۔ سرمایہ دار کسان کو اس کی محنت کا پھل نہیں دیتا۔ لہٰذا کھیت کی پیداوار کو جلا دو تاکہ سرمایہ دار بھی اس ظلم کی سزا پائے۔ پاپائے کلیسا نے خود خدا کا مقام لے کر مخلوق کو خالق سے جدا کر دیا ہے لہٰذا اس کے اقتدار کو ختم کر دو۔ لوگوں کو خدا کے سامنے ریا کاری کا ایک آخری سجدہ اور بتوں کے گرد ایک آخری طواف کر لینے دو اور پھر اس کے بعد سارے مذہب کا خاتمہ کر دو تاکہ سچے مذہب کے لئے راستہ ہموار ہو جائے۔ مسلمان نمائش اور نمود کے لئے خدا کے حرم کو مر مر کی سلوں سے آراستہ کرتا ہے لیکن خدا سے مخلصانہ محبت نہیں کرتا۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ حرم مٹی کا ہی رہنے دیتا۔ لیکن اپنے دل میں خدا کی مخلصانہ محبت کو پیدا کرتا۔ میرے لئے ایک اور حرم مٹی کا تعمیر کرو جہاں نمائش پرست لوگ نہیں بلکہ میرے ساتھ مخلصانہ محبت رکھنے والے لوگ جمع ہوں۔ کیونکہ اس ساری کارروائی سے کائنات کی ارتقائی حرکت تیز تر ہو گی اور مستقبل کا نظریہ حیات یعنی سچے اور مخلص خدا پرستوں کا اسلام جو سرمایہ داری اور ریا کاری اور نمائش کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا جلد تر دنیا پر چھائے گا۔ اقبال کی نظم ’’فرشتوں کے لئے خدا کا فرمان‘‘ اقبال کی بلیغ شاعری کا ایک نمونہ ہے جس سے وہ بتانا چاہتا ہے کہ سرمایہ داری کے خلاف مزدوروں کی بغاوت جس کے نتیجہ کے طور پر روس میں انقلاب آیا ہے بے معنی اور بے سود نہیں بلکہ خدا کی ان پر اسرار تدبیروں میں سے ایک ہے جس سے وہ کائنات کے اندر اپنے مخفی مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اس تدبیر سے خدا نے مستقبل کے مخلص ایماندار اور خدا پرست انسان کے ظہور کے راستہ میں جو رکاوٹیں تھیں وہ بہت حد تک دور کر دی ہیں۔ ان رکاوٹوں میں ایک سرمایہ پرستی اور سرمایہ داری تھی اور دوسری کلیسا کی روحانی اجارہ داری تھی جس نے خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر رکھا تھا اور تیسری مذہب کے نام لیواؤں کی ریاکاری اور ظاہر داری کے ساتھ اخلاق اور یقین سے تہی دستی اور عمل سے محرومی۔ لیکن اب ان کو بھی یہ معلوم ہو گیا ہے کہ روس کی کھلی ہوئی دہریت اور رسم لادینی کے چیلنج کا جواب مذہب اور روحانیت کی حمایت میں زور دار مخلصانہ کردار کے بغیر ممکن نہیں اور چوتھی تہذیب نوی کی ظاہری سج دھج میں چھپی ہوئی مکاری، بد اخلاقی، بے ایمانی اور سفاکی جس کا پردہ چاک کرنے کے لئے شاعر مشرق کو خدا کی سچی محبت کے آداب اور اطوار سے باخبر کیا گیا ہے۔ خدا فرشتوں سے خطاب کر کے کہتا ہے: اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرد مایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانئے جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو حق را بسجودے ضمان رابطوامے بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو خدا کی عالمی اسکیم اور خضرؑ اسی طرح سے اقبال نے ’’ خضر راہ‘‘ میں خضر کی زبان سے مزدور کو ابھارا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے۔ عیار سرمایہ دار اس کی کمائی ہوئی دولت کو ناجائز طریقوں سے کھا رہا ہے لیکن اب بزم جہاں کا انداز بدلا ہوا ہے۔ انقلاب روس کی صورت میں ایک نیا آفتاب افق پر نمودار ہوا ہے جس نے بظاہر مغرب کی سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے دنیا کے ایک حصہ میں گویا ایک ارضی جنت پیدا کر دی ہے مزدور کو چاہئے کہ ان حالات سے حوصلہ پا کر اپنے فطری حقوق کو پہچانے اور کرمک نادان کی طرح سرمایہ دار کی شمع کا طواف کر کے جل مرنے کی بجائے اس سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرے۔ اقبال کے ان اشعار کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کے خیال میں کائنات کے اندر خدا کی یہ مخفی اسکیم کام کر رہی ہے کہ مزدور کو بیدار کر کے نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب اور رنگ کے بت توڑ دئیے جائیں تاکہ اسلام کے لیے راستہ ہموار ہو اور خضر اس اسکیم کی مدد کرتا ہے۔ اگرچہ بلا وجہ تشدد روا نہیں۔ یاد رہے کہ قرآن میں یہ قصہ ہے کہ خضرؑ نے تین ایسے کام کئے تھے جو عالم تکوینی کے نقطہ نظر سے جائز تھے اور کائنات کے اندر خدا کی مخفی اسکیم کے مطابق تھے ۔ لیکن شریعت میں جائز نہیں تھے جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو سمجھنے سے قاصر تھے اور ہر بار خضر پر معترض ہوتے تھے۔ بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریں کو فردیوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات آنے والے دور کی تصویر ظاہر ہے کہ اقبال کے یہ اشعار ایک اسلوب بیان کی صورت میں ہیں اور ان سے یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ اقبال روسی انقلاب کو اس کی اپنی قدر و قیمت کی وجہ سے قابل ستائش سمجھتا تھا۔ یا اس کو اسلام کے مقابلے میں کوئی وقعت دیتا تھا یا اس کے مستقبل پر یقین رکھتا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کا پورا کلام اس نتیجہ کی تردید کرتا ہے ظاہر ہے کہ جس معاشرہ میں خدا کا نام تک نہ ہو جو خدا کی شدید مخالفت پر ادھار کھائے ہوئے ہو وہ اقبال کی نگاہ میں ایک ارضی جنت کیسے ہو سکتے ہیں۔ اقبال نے اپنے بعض اشعار کی تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ خود کہا ہے کہ ’’ اسلوب بیان کو شاعر کا حقیقی View تصور کرنا کسی طرح درست نہیں۔ ایسے اسالیب بیان کی مثالیں دنیا کے ہر لٹریچر میں موجود ہیں۔ بلکہ اگر ہم خود ’’ خضر راہ‘‘ کی پوری نظم کو بھی ایک وحدت کے طور پر زیر غور لائیں تو ان اشعار سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس نظم کے اگلے بند میں اقبال دنیائے اسلام کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مسلمان کو ملک و دولت کی نعمت نصیب ہو گی تو کسی اشتراکی انقلاب سے نہیں بلکہ فقط حفظ حرم کی طفیل۔ اسے چاہئے کہ جس طرح سے ہو سکے اسلاف کا قلب و جگر پیدا کر کے دنیا میں اسلامی خلافت کی بنیاد قائم کرے کہ اسی میں اس کے سارے عوارض کا علاج ہے اس کے بعد وہ مسلمانوں کے مخصوص وقتی اور مقامی حالات سے گذر کر ان کے عالمی رول پر پہنچتا ہے اور اسلام کے اس شاندار مستقبل کی پیش گوئی کرتا ہے جو اسلام کی فطرت میں مضمر ہے وہ مسلمانوں سے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تک تم فرقہ وارانہ اختلافات سے (مثلاً یہ کہ خلیفہ حضرت علیؓ کو ہونا چاہئے تھا کہ یا حضرت ابوبکرؓ کو) بالا ہو کر اپنے آپ کو نہ دیکھو گے۔ تم من حیث القوم اپنے شاندار مستقبل کو نگاہ میں نہ رکھ سکو گے اور خفی کو جلی سے ممیز نہ کر سکو گے یعنی یہ سمجھتے رہو گے کہ حقیقت وہی ہے جو تمہیں نظر آ رہی ہے حالانکہ خدا کے کچھ قوانین ایسے ہیں جو مسلمان قوم کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے اپنا کام مخفی طور پر کر رہے ہیں ان قوانین کے عمل سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ کوئی اور قوم دنیا میں غالب ہو رہی ہے لیکن در حقیقت ان قوانین کے عمل سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ کوئی اور قوم دنیا میں غالب ہو رہی ہے لیکن در حقیقت ان قوانین کے عمل سے خدا باطل کو باطل کے ہاتھوں برباد کر کے حق کے غلبہ کے لئے راستہ تیار کر رہا ہے یہی سبب ہے کہ اس نے نسل قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ ایسے بتوں کو توڑنے کے لئے اشتراکیت کے باطل سے کام لیا ہے لیکن اشتراکیت دنیا کا آخری انقلاب نہیں اس کے بعد اسلام کا انقلاب آنے والا ہے فریاد تو اس لئے کی گئی ہے کہ وہ عشق کا ایک تقاضا تھی ورنہ خدا کی تقدیر کے اٹل فیصلہ کی وجہ سے اسلام کا مستقبل محفوظ ہے۔ دنیا اسلام کے حق میں ضرور بدلے گی اور اس فریاد کی تاثیر حیرت انگیز طور پر ظاہر ہو گی ہم نے دشمنوں کی سطوت کے طوفان کو دیکھا ہے لیکن کچھ بے قرار لہریں ایسی بھی ہیں جو زنجیر بن کر اس طوفان کو روک لیں گی عام حریت کا خواب جو اسلام نے دیکھا تھا اور جس میں مسلمانوں کو فتح کی بشارت دی گئی تھی اس کی ایک اور تعبیر بھی ہے جو عنقریب سامنے آئے گی جس طرح آگ میں دہکنے والے جانور سمندر کے متعلق مشہور ہے کہ وہ مر کر اپنی خاکستر سے پھر زندہ ہو جاتا ہے اسی طرح سے یہ دنیا بھی کفر کی آگ میں جل کر مرنے کے بعد پھر اسلام کے ذریعہ سے زندہ ہو گی یعنی اشتراکیت ایسے باطل نظام سے اس کا مرنا اس کی عارضی موت ہے۔ عالم انسانی کا وہ دور آنے والا ہے جو اسلام کے شاندار مستقبل کا آئینہ دار ہو گا۔ میں اس دور کی حیرت انگیز تفصیلات کیا بتا سکتا ہوں صرف اپنے اشعار میں اس کی ایک دھندلی سی تصور پیش کر رہا ہوں۔ آسمان کے پاس یہ مزدکیت کا روسی انقلاب (فتنہ) ہی نہیں تھا بلکہ اس کے پاس ایک اور انقلاب بھی ہے جو پہلے آزمایا جا چکا ہے اور جو پورے عالم انسانی پر چھا جائے گا اور وہ اسلام کا انقلاب ہے تم دیکھ لو گے کہ خدا کی اٹل تقدیر کے سامنے اسلام کے کسی بڑے سے بڑے دشمن کی تدبیر بھی کام نہیں کر سکے گی۔ اگر تم مسلمان ہو تو یقین رکھو کہ تم ہی دنیا میں غالب رہو گے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے انتم الا علون ان کنتم مومنین اور خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا ان اللہ لا یخلف المیعاد‘‘ پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر اے کہ نشاسی خفی از جلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے اے مسلمان آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہاں پیر دیکھ کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس سامنے تقدیر کے رسوائیے تدبیر دیکھ! مسلم استی سینہ را از آرزد آباد دار ہر زمان پیش نظر لا یخلف المیعاد دار مومن کو اسلامی نظام حیات برپا کرنے کی دعوت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی نوعیت ایسی ہے کہ سرمایہ دار مزدور کی کمائی کا بہت سا حصہ خود کھا جاتا ہے اور اسے اس کی محنت کے مقابلہ میں بہت کم معاوضہ دیتا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جسے اب تک سرمایہ داروں کی ہوس نے چھپا کر رکھا تھا۔ اقبال کا خیال ہے کہ قوموں کی موجودہ روش جس میں سرمایہ دار کو اجازت ہے کہ وہ مزدور کو جس طرح چاہے لوٹتا رہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ روس کا انقلاب بے سود نہیں خدا چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوں کہ سرمایہ دار کس طرح سے مزدور پر ظلم کر رہا ہے۔ اس لئے اس نے اپنے بعض بندوں کو مقرر کر دیا ہے کہ وہ اپنے شوخی افکار سے اس مخفی حقیقت کو آشکار کریں اور اپنی جدت کردار سے پرانے نظام زندگی کو بدل کر ایک نیا نظام زندگی برپا کریں جس میں سرمایہ دار مزدور پر ظلم نہ کر سکے۔ ان قوموں کی روش کے خلاف روسی انقلاب ایسے ایک واقعہ کی صورت میں ایک رد عمل ہونا ضروری تھا۔ لیکن روسی انقلاب سے بہت پہلے اسلام نے دنیا کو جو نظام زندگی دیا تھا اس میں سرمایہ داری کا کوئی امکان موجود نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو نہ روسی انقلاب ایسے کسی رد عمل کی ضرورت ہے اور نہ سوشلزم کے نظام زندگی کی۔ تاہم شاید روسی انقلاب کا فائدہ یہ ہو کہ امت مسلمہ جو اقوام عالم کی قیادت پر مامور کی گئی ہے۔ اس بات کی طرف متوجہ ہو جائے کہ اس وقت دنیا کو اسلامی نظام زندگی کی ضرورت ہے جس کے مطابق نہ صرف یہ ضروری ہے کہ مسلمان محنت سے کام کرے اور کفایت سے خرچ کرے بلکہ حتی الوسع اپنے پاس کوئی اندوختہ نہ رکھے اور جو کچھ اس کی ضرورتوں سے بچ رہے اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔ جس طرح سے روسیوں نے اپنی جدت کردار سے دہریت اور معاشی عدل کے دو انمل بے جوڑ تصورات کو جوڑ کر ایک نئے مادی نظام حیات کی تشکیل کی ہے امت مسلمہ کو بھی چاہئے کہ اپنی جدت کردار سے اس قرآنی ارشاد کو جامہ عمل پہنائیں جو ’’قل العفو‘‘ کی آیت کریمہ میں پوشیدہ ہے اور ایک اسلامی نظام حیات برپا کریں جس کے مطابق مومن اپنے خالق کو راضی کرنے کے لئے اس بات پر مجبور ہے کہ اپنے پاس فالتو مال جمع نہ رکھے بلکہ اسے خدا کی راہ میں خیرات کر دے۔ قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمی گفتار اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور، فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار انسان کی ہوس نے جسے رکھا تھا چھپا کر کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید یہ حقیقت ہو نمودار اقبال کے پورے فکر کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ان تصریحات سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ سوشلزم کے متعلق اقبال کے جن اشاروں کو بعض لوگ غلطی سے سوشلزم کی حمایت پر محمول کرتے ہیں ان کی حقیقت دراصل ایک اسلوب بیان سے زیادہ نہیں۔ ان کا مقصد فقط یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس بات پر ابھارا جائے کہ وہ اپنے سینوں میں خدا کی مخلصانہ محبت پیدا کریں اور اسلام کو پیدا زور عمل سے عالم انسانی میں موثر بنائیں۔ کیونکہ اب سوشلزم نے اس کے لئے راستہ صاف کر دیا ہے۔ اگر ہم اقبال کے پورے فکر کو مد نظر رکھیں تو اقبال کے اس قسم کے اشاروں سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اقبال سوشلزم کا حامی تھا۔ بیشک اقبال سوشلزم کی ’’ گرمی گفتار‘‘ اور’’ شوخی افکار‘‘ کو بے سود نہیں سمجھتا لیکن اس لئے نہیں کہ سوشلزم کی اپنی کوئی قدر و قیمت ہے بلکہ اس بنا پر کہ روس کے سوشلسٹ انقلاب نے بڑے زور سے پوری دنیا کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کی ہے کہ موجودہ معاشی نظام میں سرمایہ دار مزدور سے بے انصافی کرتا ہے۔ لیکن اس بے انصافی کا علاج سوشلزم نہیں بلکہ وہ خدا پرستی کے نتیجہ کے طور پر ظاہر ہونے والی گہری اور سچی اخلاقیت، عدل پسندی اور حرص و ہوا سے بیزاری ہے جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے اور اس بنا پر بھی کہ سوشلزم عارضی طور پر نمودار ہونے والی ایک تخریبی قوت ہے جو غلط سیاسی، اقتصادی اور مذہبی نظریات کو جڑ سے اکھاڑ کر اور آخر کار خود فنا ہو کر اسلام کے اس غلبہ اور ظہور کے لئے راستہ ہموار کرے گی جو اسلام کی فطرت میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک کفر بہت سے کفروں کو ملیا میٹ کر دے تو اس سے آئندہ کے مرد مومن کا کام جسے اقبال ’’ سوار اشہب دوران‘‘ اور’’ فروغ دیدہ امکان‘‘ کہتا ہے بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کی نگاہ میں کل کا نظریہ حیات جو فی الواقع پوری دنیا کے اندر شیطان کے کاروبار کو تباہ کرے گا اسلام ہے، سوشلزم نہیں۔ اس سے بڑھ کر سوشلزم کی ناپائیداری کی علامت اور کیا ہو گی کہ وہ سچی اخوت اور سچی اقتصادی مساوات ایسی اخلاقی اقدار جو خدا کی سچی محبت کے اجزاء کی حیثیت رکھتی ہیں اور صرف ایک ’’ جان پاک‘‘ سے سر زد ہو سکتی ہیں ’’ شکم‘‘ کے واسطہ سے بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ حالانکہ شکم کے مطالبات ہی اخوت اور عدل اور مساوات کے روحانی تقاضوں کو پورا ہونے نہیں دیتے۔ اس کتاب کے آغاز میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ اقبال کا فکر ایک وحدت ہے جس کا ہر خیال اس کے دوسرے تمام خیالات سے عقلی اور علمی تائید حاصل کرتا ہے اور ان سب کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اقبال کی کسی بات کو اس کے پورے فکر سے الگ کر کے سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہم اس کو غلط طور پر سمجھیں گے۔ اقبال کے اشعار کا جو مطلب بھی ہم نکالیں اس کی درستی یا نادرستی کا ایک اہم معیار یہ ہو گا کہ آیا وہ اقبال کے پور ے فکر کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ سوشلزم کے متعلق اقبال کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں جو غلطیاں بعض لوگ کرتے ہیں ان کا سبب یہ ہے کہ وہ اقبال کے پورے فکر کو مد نظر نہیں رکھتے۔ غلط فہمی کا قدرتی سد باب ایک بڑے مفکر شاعر کی وفات کے بعد بعض وقت ایسا ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی فکریا ور نظریاتی اغراض کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے بعض الفاظ کو اس کے سارے فکر سے الگ کر کے اور اس کے اسلوب بیان کر کے اشاروں کو نظر انداز کر کے دیکھنے لگیں اور اس طرح ان الفاظ میں جو ظاہری اور غیر حقیقی تضاد سا نظر آتا ہو سے بہانہ بنا کر اس کی واضح تعلیمات کو اپنے خیالات کی حمایت میں پیش کرنے لگ جائیں اور پھر یہ بحث چل نکلے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق اس نے کیا کہا تھا یا جو کچھ کہا تھا اس کا مطلب کیا تھا۔ قدرتی بات ہے کہ ایسے وقت میں اس کے چاہنے والے تمنا کریں گے کہ کاش وہ زندہ ہوتا تو صاف اور قطعی الفاظ میں بتاتا کہ اس کا مطلب کیا تھا لیکن اس دنیا سے جانے کے بعد کون ہے جو پلٹ کر آتا ہے۔ تاہم اقبال اور اس کے چاہنے والوں کی خوش قسمتی ہے کہ بعض لوگ اقبال کی زندگی میں ہی اشتراکیت کے متعلق اقبال کے اشعار کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کرنے لگ گئے کہ اقبال سوشلسٹ خیالات کی طرف مائل ہے یا سوشلزم کو پسند کرتاہے اور اقبال کو موقعہ مل گیا کہ وہ خود (ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ اور ایک دفعہ وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے) اخباری بیانات کے ذریعہ سے ایسے لوگوں کی پر زور تردید کر کے اس بحث کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے۔ ان بیانات کے بعد اس بحث کو گولڈ سمتھ (Goldsmith) کے دیہاتی اسکول ماسٹر کی طرح جاری رکھنا اقبال کے ساتھ حد درجہ کی بے انصافی ہے۔ کفر کے مترادف اقبال نے ایڈیٹر زمیندار کے نام ایک خط بغرض اشاعت بھیجا تھا جو اس اخبار کے 24 جون 1923ء کے ایشو میں شامل ہوا تھا۔ وہ خط حسب ذیل ہے: ’’ مکرم بندہ جناب ایڈیٹر صاحب زمیندار۔ السلام علیکم۔ میں نے ابھی ایک اور دوست سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں ( میں نے اخبار ابھی تک نہیں دیکھا) میری طرف سے بالشویک خیالات منسوب کئے ہیں۔ چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔‘‘ میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لئے قانون میراث اور زکوۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کی نا عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط اور تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارتاً ذکر کیا ہے۔ شریعت حقہ اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بناء پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے۔ (اقبال کا یہ شعر اسی کا مفہوم کو ادا کرتا ہے کس نگر دو در جہاں محتاج کس نکتہ شرع مبین این است و بس مصنف)اور اس مدعا کے حصول کے لئے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے۔ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے۔ اور ہمارے لئے ایک ایسا نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۔ میرا اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے بھائی نہیں بن سکتے جب تک کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر بنظر غائر نظر ڈالیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔ لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریں۔ مجھے ان کے اغراض و مقاصد سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر مجھے امید ہے کہ وہ کوئی ایسا طریق عمل یا نصب العین اختیار نہ کریں گے جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو۔ محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لائ۔ لاہور یہ بات ظاہر ہے کہ اس خط میں بالشویک خیالات سے اقبال کی مراد وہی خیالات ہیں جو اقبال کے زمانہ سے لے کر اب تک روس کی سوویٹ سوشلسٹ ری پبلک میں ایک سیاسی قوت کے طور پر موجود ہیں اور جن کو سائنٹفک سوشلزم کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اب دنیا بھر میں سوشلزم سے مراد کارل مارکس کا ہی سائنٹفک سوشلزم ہوتا ہے اور کارل مارکس سے پہلے کا سوشلزم یا کسی اور قسم کا سوشلزم مراد نہیں ہوتا اور یہی سبب ہے کہ اب دنیا کے جس مملک میں بھی سوشلزم موجود ہوتا ہے وہاں اس کے پیچھے یا اس کے ساتھ کارل مارکس کا فلسفہ بھی زود یا بدیر کسی نہ کسی رنگ میں ضرور موجود ہو جاتا ہے اور اگر وہ ملک اسلامی ہو تو سوشلزم اسلام اور اس کے اقتصادی نظام کا حریف بن جاتا ہے اور اسلام کو دبانے اور مٹانے اور مارکس کے فلسفہ کو رواج دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سوشلزم اور تمام مغربی ازموں سے اقبال کی نفرت اس خط کے چودہ سال بعد اور اقبال کی وفات سے ایک سال پہلے آل احمد سرور نے اقبال سے کچھ استفسارات کئے تھے جن کے جواب میں اقبال نے ان کے نام ایک خط لکھا تھا۔ اس خط پر 14مارچ 1937ء کی تاریخ درج ہے اور یہ خط اگست1949ء کے رسالہ ’’ ماہ نو‘‘ میں چھپا تھا۔ اقبال اس خط میں لکھتا ہے: ’’ آپ کے دل میں جو باتیں پیدا ہوئی ہیں ان کا جواب بہت طویل ہے اور میں بحالت موجودہ طویل خط لکھنے سے قاصر ہوں۔ اگر میں کبھی علی گڑھ حاضر ہوا یا آپ کبھی لاہور تشریف لائے تو انشاء اللہ زبانی گفتگو ہو گی۔ سر دست میں دو چار باتیں عرض کرتا ہوں۔‘‘ 1میرے نزدیک فاشزم، کمیونزم یا زمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدہ کی رو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے ہر نقطہ نگاہ سے موجب نجات ہو سکتی ہے۔ میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اگر آپ پورے غور اور توجہ سے یہ مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ ان ہی نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچا ہوں اور اس صورت میں آپ کے شکوک تمام کے تمام رفع ہو جائیں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کاView مجھ سے مختلف ہو یا آپ خود دین اسلام کے حقائق کو ہی ناقص تصور کریں۔ اس دوسری صورت میں دوستانہ بحث ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ معلوم نہیں کیا ہے۔ 2آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کا بھی بالا ستیعاب مطالعہ نہیں کیا۔ اگر میرا یہ کہنا صحیح ہے تو میں آپ کو یہ دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس طرف توجہ کریں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خود بخود آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔ 3 آپ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے لیکچرار ہیں۔ اس واسطے مجھے یقین ہے کہ لٹریچر کے اسالیب بیان سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں۔ تیمور کی روح کو اپیل کرنے سے تیموریت کا زندہ کرنا مقصود نہیں بلکہ وسط ایشیا کے ترکوں کو بیدار کرنا مقصود ہے۔ تیمور کی طرف اشارہ محض اسلوب بیان ہے۔ اسلوب بیان کو شاعری کا حقیقی View تصور کرنا کسی طرح درست نہیں۔ ایسے اسالیب بیان کی مثالیں دنیا کے ہر لٹریچر میں موجود ہیں۔ والسلام آپ کا مخلص۔ محمد اقبال اسلام کا قانون رزق کا ضامن ہے پھر قائد اعظم کے نام اپنے 28مئی 1937ء کے خط میں اقبال لکھتا ہے: ’’ قانون اسلام کے طویلا ور پر توجہ مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو مناسب طور پر سمجھا اور برتا جائے تو کم از کم ہر شخص کے لئے رزق اور روزی کا حق حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ان تینوں خطوں سے ظاہر ہے کہ ’’ اسلامی سوشلزم‘‘ سے اقبال کی مراد وہی اسلامی اقتصادی مساوات ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کئے ہوئے ٹھیٹھ اسلام کو اور اس کے قوانین زکوۃ اور وراثت اور ممانعت سود و اکتناز اور احکام خیرات و مواسات و مساوات کو جاری کرنے سے وجود میں آتی ہے اور کسی بیرونی ازم کی نقل یا خوشہ چینی یا پیوند کاری سے اس کو دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اس اسلامی مساوات کو وہ استعارتاً اسلامی سوشلزم کہتا ہے جیسے کہ کوئی شخص کسی بہادر آدمی کو اس کی بہادری کی وجہ سے شیر کہہ دے بغیر اس کے وہ آدمی شیر کی طرح کی کھال یا دم یا شیر کی طرح کے دانت یا پنجے رکھتا ہو یا آدھا شیر اور آدھا انسان ہو۔ اقبال کو معلوم نہیں تھا کہ بعض لوگ اس کے استعارہ کو حقیقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ کسی انسان کو شیر کہے گا تو اسے نادانی سے سچ مچ شیر کی کھال اور دم اور شیر کے پنجے اور دانت پہنا کر پایہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کریں گے۔ اگر اقبال کی زندگی میں کوئی مسلمان اسے پوچھتا کہ کیا ہم اپنے نظریہ حیات کا نام اسلام کی بجائے اسلامی سوشلزم رکھ لیں تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اقبال کے غیظ و غضب کی کیفیت اور سوال پوچھنے والے کی ایمانی حالت کے متعلق اس کی رائے کیا ہوتی ہے۔ کچھ غلط فہمیاں ہمارے جو بھائی سوشلسٹ کہلاتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ روس میں جو نظام کارل مارکس کے بے خدا فلسفہ پر قائم کیا گیا ہے وہ کمیونزم ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ روس میں جو نظام اس وقت رائج ہے وہ سوشلزم ہے کمیونزم نہیں۔ کمیونزم سوشلزم کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے۔ جو ابھی تک روس میں ظہور پذیر نہیں ہو سکی۔ لیکن بعض وقت لوگ سوشلزم کو ہی اس کے عزائم اور مقاصد کے پیش نظر کمیونزم کہتے ہیں اور بعض وقت کمیونزم کو اس کی ابتدائی عملی صورت کو ذہن رکھتے ہوئے سوشلزم کا نام دیتے ہیں۔ لہٰذا دونوں میںکوئی زیادہ فرق نہیں۔ فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ کمیونزم کا مقصد یہ تھا کہ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق کام کرے لیکن جو دولت اس طرح سے پیدا ہو گی وہ سب افراد کی مشترکہ ملکیت ہو گی اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ میں نے زیادہ کام کیا تھا اس لئے میں زیادہ لوں گا بلکہ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا خواہ یہ ضرورت اس کے کام سے کم ہو یا زیادہ۔ لیکن جب روس میں دنیا کی پہلی اشتراکی ریاست وجود میں آئی تو یہ دیکھا گیا کہ یہ اصول فی الحال قابل عمل نہیں کیونکہ ابھی اخوت اور مساوات کی وہ روح موجود نہیں جو اسے قابل عمل بنا سکتی ہے اور توقع یہ کی گئی کہ یہ روح رفتہ رفتہ خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق دیا جائے اور اپنی سوسائٹی کو کمیونسٹ نہیں بلکہ سوشلسٹ سوسائٹی کہا جائے۔ یہی سبب ہے کہ روس کی حکومت کو یونین آف سوویٹ سوشلسٹ ری پبلک کہا جاتا ہے۔ روس کی اشتراکی ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے بھی کارل مارکس کو سوشلسٹ فلاسفر اور اس کے فلسفہ کو سائنٹفک سوشلزم کہا جاتا تھا اور اب بھی یہی کہا جاتا ہے۔ خود روس کے سارے لوگ اپنے ملک کے رائج الوقت نظام کو سوشلزم کہتے ہیں۔ 21 اگست 1928ء کو روس نے چیکو سلواکیہ پر جو حملہ کیا تھا اس کی مذمت کرتے ہوئے روس کے سولہ دانشوروں نے 21 اگست 1969ء کو ایک بیان جاری کیا جو 22اگست1969ء کے پاکستان ٹائمز کی ایک خبر میں شائع ہوا ہے اس میں انہوں نے اپنے ملک کے نظام کے لئے کمیونزم نہیں بلکہ سوشلزم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ذیل میں اس خبر کے ایک اقتباس کا ترجمہ درج ہے۔ ’’ ماسکو۔ 12اگست ماسکو کے دانشوروں کے ایک اختلافی گروہ کے سولہ اراکین نے کل گذشتہ اگست کے چیکو سلواکیہ کے وارسا پیکٹ والے حملہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے سوشلزم کا مستقبل خطرہ میں پڑ گیا تھا۔ ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حملہ کا مقصد چیکو سلواکیہ میں ایک بڑھتی اور پھولتی ہوئی جمہوریت کو ختم کرنا تھا۔ اس افسوسناک سالانہ تقریب پر ہم اعلان کرتے ہیں کہ پہلے کی طرح ہم پھر اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہیں جس نے سوشلزم کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔‘‘ (پاکستان ٹائمز۔22اگست1969ئ) پھر ہمارے اسلامی سوشلسٹ بھائی سمجھتے ہیں کہ اسلامی سوشلزم سے ان کی مراد اسلام ہی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر ان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ان میں سے بعض کو لفظ سوشلزم پر، سرخ جھنڈے پر اور سوشلزم کے اخلاقی ضابطہ پر (جس کی رو سے سوشلسٹ انقلاب کو برپا کرنے کے لئے ایسے اشغال اور اعمال بھی جائز بلکہ ضروری ہیں جو اسلام کے نزدیک سخت ممنوع ہیں ) اصرار کیوں ہے۔ بالخصوص جب کہ اس اصرار کی وجہ سے ان کے متعلق بدظنی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی ہر دلعزیزی میں فرق آتا ہے اور قوم کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جہاں تک نیشنلائزیشن کا تعلق ہے اسلام میں کوئی بات اس کے خلاف نہیں اور اگر تمام اسلامی تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی عدل اور عبادت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بعض صنعتی اداروں کو قومیانے کی ضرورت محسوس کی جائے تویقینا پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت اس سے سوشلزم کے ایک تقاضا کے طور پر ہرگز نہیں بلکہ اسلام کے ایک تقاضا کے طور پر اتفاق کر سکتی ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر اسلامی سوشلزم سے ان کی مراد اسلام ہی ہے تو وہ اسلام کی تعلیمات کے صرف ایک پہلو یعنی معاشی عدل پر کیوں زور دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے اسلامی معاشرے کی خرابیوں کو مثلاً فسق و فجود کو، جھوٹ اور فریب کاری کو، ترک نماد کی عادت کو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے اور معاشی عدل پر زور دیتے ہوئے بھی وہ معاشی ناہمواریوں کو دور کرنے والے اسلامی احکام مثلاً زکوۃ، ممانعت سود وغیرہ کو کیوں بروئے کار لانا نہیں چاہتے۔ ان باتوں سے اگر دوسرے مسلمانوں کو یہ شک ہو کہ اسلامی سوشلزم سے ان کی مراد اسلام نہیں بلکہ سوشلزم ہے تو اس میں ان کا کوئی زیادہ قصور نہ ہو گا۔ سوشلزم ترک مذہب اور دہریت سے الگ ہو سکتا ہے ہمارے یہ بھائی اپنی سادہ لوحی سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹوں کی بے خدا دہریت پرور فلسفہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ فقط سوشلزم کے عملی اقتصادی نظام کو اپنانا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر سوشلزم کا فلسفہ غلط ہے تو جو نظام اس فلسفہ کی روشنی میں (بلکہ کہنا چاہئے تاریکی میں) پیدا کیا گیا ہے ضروری ہے کہ وہ بھی غلط ہو اور یقینا غلط ہے۔ اس لئے کہ وہ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ دنیا میں نہ خدا ہے نہ خودی اور فرد انسانی از سر تاپا اور اپنے ظاہر اور باطن کے لحاظ سے فقط مادہ کا ایک پتلا ہے جس میں اعلیٰ اخلاق اور روحانی اقدار کی محبت کا کوئی بیج نہ موجود ہے نہ نشوونما پا سکتا ہے۔ جس کا کام فقط مادی منفعت کو جلب اور جذب کرنا ہے جو حریص پیدا ہوا ہے اور حریص ہی مرے گا۔ جو ذرائع پیداوار کی ملکیت ایسے عظیم ذمہ دارانہ منصب کے لئے نہ بنا ہے اور نہ اسے سنبھال سکتا ہے (اگرچہ بعض افراد جو اتفاق سے یا کوشش سے سوشلسٹوں کے لیڈر بن جائیں وہ مادی پتلے ہونے کے باوجود بھی اس منصب کے اہل ہوتے ہیں۔ دلیل ندارد!) حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ انسان کی اصل یہ خاکی پتلا نہیں بلکہ انسان کی خودی ہے جس کا مقصود خود اپنی تربیت اور تعمیر کی خاطر خدا کی محبت عبادت اور اطاعت کے ذریعہ سے حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کا اپنانا اور جذب کرنا ہے اور جو اس خاکی پتلے کو اپنے اس مقصد کے لئے عارضی طور پر بحیثیت ایک خادم کے استعمال کرتی ہے۔ ہمارے سوشلسٹ بھائی سوشلسٹ فلسفہ کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ سوشلسٹ نظام کی صورت میں ان کی ساری عملی زندگی کو دبا کر اور سکیڑ کر ان کے مادی پتلے کی عارضی ضروریات کے تنگ دائرہ کے اندر محدود کر دے اور ان کی اپنی یعنی ان کی خودی کی ضروریات کو بالکل نظر انداز کر دے۔ تعجب ہے کہ اس کے باوجود بھی وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سوشلسٹوں کے فلسفہ کو قبول نہیں کیا۔ جب انہوں نے اس فلسفہ کے عملی نتیجہ کو جو اس کا حاصل یا نچوڑ ہے قبول کر لیا ہے تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس فلسفہ کو ترک کر دیا ہے۔ خودی کا اقرار کرنا اور خودی کی تعمیر اور تربیت کی ضروریات کا اہتمام نہ کرنا خودی کے انکار کے برابر ہے۔ اسی حقیقت کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ خدا کا اقرار کرنا اور خدا کی عبادت اور اس کے رسول کی موبمو اطاعت کے ذریعہ سے خدا کی صفات کے حسن کو دل میں بسانے سے انکار کرنا بلکہ اپنے آپ کو بے خدا سوشلسٹ نظام کی بندشوں کے متضاد اثرات کے حسن کو دل میں بسانے سے انکار کرنا بلکہ اپنے آپ کو بے خدا سوشلسٹ نظام کی بندشوں کے متضاد اثرات کے سپرد کرنا خدا کے انکار کے مترادف ہے۔ خدا کا انکار کسی بے خدا فلسفہ کو علی الاعلان قبول کرنے پر ہی موقوف نہیں بلکہ یہ انسان کے دل میں زبان کو چھوڑ کر اور راستوں سے بھی گھس جاتا ہے۔ کارل مارکس کی عبقریت کارل مارکس کے پہلے کے سوشلزم کو خیالی (Utopian) سوشلزم کہا جاتا ہے لیکن جب سے کارل مارکس نے سوشلزم کو ایک فلسفہ کی شکل دی ہے یہ فلسفہ اس کی ناگزیر قدرتی بنیاد نظر آنے لگا ہے اور اس کو سوشلزم سے الگ کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر اسے ایک کیا جائے تو وہ علمی اور عقلی بنیادوں سے محروم ہو کر کمزور اور بے اثر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اب جہاں کہیں سوشلزم کا ذکر آتا ہے وہاں مراد وہی سوشلزم ہوتا ہے جس کا فلسفہ کارل مارکس نے دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب جب کہ مارکس کے فلسفہ کی بنیاد پر دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتیں وجود میں آ چکی ہیں کوئی سوشلسٹ سوسائٹی ان سلطنتوں سے بے تعلق نہیں رہ سکتی۔ کارل مارکس نے سوشلزم کے ساتھ دہریت کا پیوند نہیں لگایا بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس کی عبقریت نے سوشلزم اور دہریت کے اس قدرتی علمی اور عقلی پیوند کو سمجھا ہے جسے کوئی اور نہیں سمجھ سکا تھا اور یہی وجہ ہے کہ گو مارکس سے پہلے درجنوں سوشلسٹ مصنفین گزرے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سوشلزم کی تحریک کو ایک انقلابی قوت نہ بنا سکا۔ مذہب روح کی پائیدار زندگی پر زور دیتا ہے۔ وہ عیش و عشرت کی زندگی )فقط بدن کی زندگی) کا مخالف اس لئے ہے کہ جس قدر کوئی شخص بدن کی ناپائیدار زندگی میں غرق ہو گا اسی قدر خدا پرستی اور روح کی زندگی سے محروم ہو جائے گا۔ اس کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس قدر کوئی شخص روح کی زندگی اور خدا پرستی کو اہمیت دے گا اسی قدر وہ فقط بدن کی زندگی کو بے حقیقت سمجھے گا۔ لہٰذا روح کو اور خدا کو بھلانا اور کسی (نام نہاد) عقلی استدلال کے بل بوتے پر غیر موجود قرار دینا سوشلزم کی دعوت کو (ناجائز طور پر سہی) وہ ساری اہمیت دے دیتا ہے جو زندگی کے کسی مقصد وحید کو حاصل ہو سکتی ہے اس کے برعکس اگر روح اور خدا کو موجود اور موثر سمجھا جائے تو محض بدن کی زندگی کی اہمیت اور سوشلزم کی دعوت کی قوت دونوں ختم ہو جاتی ہیں۔ سوشلزم کو اپنی معقولیت ثابت کرنے کے لئے دہریت کی ضرورت ہے۔ مصلحت کے ماتحت خواہ کوئی سوشلسٹ اپنے آپ کو ایک مذہبی آدمی ظاہر کرتا رہے لیکن عملی طور پر ترک مذہب یا دہریت سوشلزم کے لئے لازم ہے۔ اس کے بغیر اور روح کی ضرورتوں کو پوری طرح مدنظر رکھتے ہوئے کوئی سوشلسٹ سوشلزم پر پورا زور دے ہی نہیں سکتا۔ روس میں مذہب کی خاموش مخالفت مذہب کے ساتھ کسی عداوت کی بنا پر نہیں بلکہ سوشلزم کی ایک شدید ضرورت کی بنا پر ہے۔ اسلام کے جن احکام کو سوشلزم کے مشابہ سمجھا جاتا ہے وہ دراصل خدا کی عبادت کے احکام ہیں اور ان کا مقصد خودی کی تربیت ہے۔ مغربی جمہوریت اسلامی تصور نہیں ہمارے اسلامی سوشلسٹ بھائیوں کا خیال ہے کہ سوشلزم ایک تہذیب ہے اور جمہوریت کی طرح ایک دانائی یا حکمت کی بات ہے اور حضورؐ کا ارشاد ہے کہ دانائی کی بات جہاں مل جائے اسے اپنا لو۔ وہ تمہاری ہی گم شدہ چیز ہے جس طرح ہم نے جمہوریت کو اپنایا ہے ہمیں چاہئے کہ ہم سوشلزم کو بھی اپنا لیں یہ خیال کئی خطرناک غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے بعض کا مغرب سے آئے ہوئے کسی عقیدہ یا عمل کو اپنا لینا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عقیدہ یا عمل اسلامی ہے خصوصاً اس زمانہ میں جب اسلام کی بصیرت مفقود ہوتی جا رہی ہے اور مغرب کی تقلید کا رحجان زوروں پر ہے دراصل اسلام مغرب کی ایجاد کی ہوئی اکاون فیصد والی غیر فطری جمہوریت کا قائل نہیں اسلام میں جمہوریت کا مطلب فقط اتنا ہی ہے کہ مشہور اور معروف دینداری اور تقویٰ کے ثقہ اور معتبر لوگ جس شخص کو خلیفہ تسلیم کر لیں اسے سب تسلیم کر لیں۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگوں کی ایک جماعت ملک میں ہر وقت موجود رہے گی اور ایسے لوگ اپنے ایمان اور تقویٰ کی وجہ سے خود بخود لوگوں کے راہ نماؤں کے مقام پر ہوں گے۔ خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد ایسے لوگوں کے مشورہ سے کام کرے لیکن اگر وہ ان کی اکثریت کی رائے سے مطمئن نہ ہو تو ضروری نہیں کہ وہ اس پر عمل کرے اس کا اختیار ہے کہ چاہے تو کسی کی رائے نہ مانے اور اپنی رائے کے مطابق کام کرے اور چاہے تو کسی اقلیت کی رائے کے ساتھ اتفاق کر کے قدم اٹھائے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ خلیفہ کی جو رائے بھی ہو سب اس کی اطاعت کریں اور اس کا حکم بجا لائیں اگر اکاون فیصد کی جمہوریت کا کوئی اسلامی تصور ہوتا تو حضرت ابوبکرؓ نے جب دیکھا کہ حضرت عمرؓ کے سمیت تمام صحابہ مانعین زکوۃ سے جنگ کرنے کے خلاف ہیں تو آپ یہ نہ فرماتے واللہ لا جاھدنھم ولو منعو انی عقالاً کہ خدا کی قسم اگر یہ لوگ زکوۃ کی ادائیگی سے رسی کا ایک ٹکڑا بھی روکیں گے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے درست تھی اور اگر وہ اکثریت کی رائے پر عمل کر کے جنگ نہ کرتے تو اسلام ہم تک نہ پہنچ سکتا۔ اس سے پہلے اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اقبال نے مغربی قسم کی جمہوریت کی مذمت اس بنا پر کی ہے کہ وہ خودی کی فطرت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی جہاں جہاں ہم نے مغربی جمہوریت کو اپنایا ہے اس کی وجہ سے اسلام سے ہماری بے خبری اور دوری اور مغرب کے تصورات سے رغبت اور الفت ہے ہمارا مغربی جمہوریت کو اپنانا ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارا مغربی لباس کو یا بیسیوں اور مغربی عادات و اطوار کو اپنانا۔ دانائی کو ترک کرنا دانائی نہیں دوسری بات یہ ہے کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے کسی ایسے عقیدہ یا عمل کو تہذیب یا دانائی نہیں کہہ سکتے جو اسلام کے واضح قوانین اور احکام کے ساتھ متصادم ہوتا ہو اور ان کی جگہ لینا چاہتا ہو مثلاً ہم زکوۃ اور وراثت ایسے قوانین کو ترک کر کے سوشلزم کے قوانین کا نافذ نہیں کر سکتے۔ جہاں اسلام کے قوانین پہلے موجود ہوں ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ خدا اور رسولؐ کے فیصلے کے بعد کسی اور کا فیصلہ طلب کرنا، سراہنا اور قبول کرنا کفر صریح ہے اس سے پہلے اس کتاب میں اس موضوع پر قرآن حکیم کے ارشادات نقل کئے جا چکے ہیں۔ پھر ان ارشادات کی عقلی اور عملی بنیادوں کی وضاحت کرتے ہوئے زندگی کی خصوصیات اور ارتقاء کی ضروریات کی روشنی میں یہ عرض کیا گیا ہے کہ خودی کی آزادانہ اور مکمل نشوونما کے لئے رسولؐ کی ہو بمو اطاعت کیوں ضروری ہے۔ ناظرین ان معروضات کو بھی ذہن میں رکھیں تاہم جہاں اسلام کے قوانین پہلے موجود نہ ہوں ہم موجود قوانین کی روشنی میں ضروری غیر موجود قوانین وضع کر سکتے ہیں مثلاً زکوۃ اور وراثت ایسے قوانین کو نافذ کرنے کے بعد اگر ضرورت ہو تو ہم معاشی عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کسی ازم کی نقل کرتے ہوئے نہیں بلکہ تعلیمات اسلام کی روشنی میں حالات کے مطابق اور قوانین بنا سکتے ہیں۔ فطرت انسانی سے لاعلمی کا نتیجہ تیسری بات یہ ہے کہ سوشلزم معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کی ایک تجویز کی حیثیت سے فطرت انسانی کی انتہائی لاعلمی پر مبنی ہے اور جس تجویز کی بنیاد ایسی لاعلمی پر ہو وہ تو کوئی دانائی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تہذیب یا شائستگی پیدا کر سکتی ہے بلکہ انسان کو شاہراہ ارتقاء سے ہٹا دینے کی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اس کو زود یا بدیر ایسی طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کر دے جن سے نجات پھر اسی شاہراہ کی طرف لوٹنے کے بغیر ممکن نہیں ہوتی جب یورپ میں مشینوں کا دور شروع ہوا اور بڑے پیمانہ کی صنعت وجود میں آئی تو کارخانہ دار یا سرمایہ دار اس موقف میں ہو گیا کہ مزدور کی محنت کی کمائی کا بہت سا حصہ خود کھا جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود روز بروز زیادہ دولت مند اور مزدور روز بروز زیادہ مفلس ہوتا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کارخانہ دار دولت مند ہونے کے باوجود مزدور پر یہ ظلم کیوں روا رکھتا تھا وہ یہ کیوں نہ سوچ سکا کہ مزدور کی محنت سے جو نفع اسے حاصل ہوتا ہے۔ وہ اس میں سے اتنا ہی لے جتنا اس کا حق بنتا ہے اور باقی مزدور کو دے دے۔ وہ حرص اور لالچ اور بخل اور ظلم کے زوائل کے ماتحت کیوں کام کرتا رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ معنی آدم سے یا اپنی فطرت یا اپنی خودی کے حقائق سے ناواقف تھا علم ہی عمل کو پیدا کرتا اور روکتا ہے جو شخص جانتا ہو کہ آگ جلا دیتی ہے وہ آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا مثلاً مغربی کارخانہ دار کو علم نہیں تھا۔ 1کہ وہ خود یا انسان کی حیثیت سے اس کی اصل اس کی خودی ہے اس کا جسم نہیں۔ 2کہ اس کا جسم فانی اور ناپائیدار ہے لیکن اس کی خودی کی زندگی یا دوسرے لفظوں میں اس کی اپنی زندگی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ 3کہ اس کی خودی صرف ایک ہی آرزو رکھتی ہے اور وہ خدا کی محبت کی آرزو ہے اور لہٰذا صرف اسی آرزو کی تشفی سے اسے مکمل اور مستقل اطمینان قلب اور مکمل خوشی اور آسودگی حاصل ہو سکتی ہے۔ 4کہ خدا وہ ذات پاک ہے جو حسن کی ابتدا او رانتہا ہے اور جس کی تمام صفات بدرجہ کمال حسین و جمیل ہیں۔ 5کہ اس کی اور تمام آرزوئیں اس کی اپنی نہیں بلکہ اس کے جسم کی آرزوئیں ہیں اور اس کا جسم اس کی خودی کا ایک آلہ کار ہے جو اسے عارضی طور پر اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اسے کام میں لا کر اپنی واحد آرزو یعنی خدا کی محبت کی تشفی کرے۔ 6 کہ اگر وہ خدا کی آرزو کی تشفی نہ کر سکے گا تو اندر سے غیر مطمئن اور ناخوش اور غمگین رہے گا اور کسی اور جسمانی آرزو کی تشفی کا سامان مثلاً دولت مندی یا عیش پرستی خدا کی آرزو کی تشنگی کی تلافی نہ کر سکے گا تاہم اس کی اندرونی غم اور باطنی ناخوشی اور بے اطمینانی کی حالت اس وقت پوری شدت پر ہو گی جب جسم کی موت واقع ہو جائے گی اور اس کی لذتیں ختم ہو جائیں گی۔ 7کہ خدا کی آرزو کی تشفی کا طریق یہ ہے کہ خدا کی صفات کے حسن کو دل میں بسایا جائے اور خدا سے جس قدر زیادہ ہو سکے محبت کی جائے اور اس کے دو بڑے ذرائع ہیں ایک خدا کی صفات پر غور و فکر جسے ذکر اور عبادت کہتے ہیں اور دوسرا خدا کی صفات کے مطابق عمل جسے نیک عملی کہتے ہیں۔ نیکی، رحم، انصاف، دوسروں کی پرورش خدا کی صفات کے مطابع عمل ہے اور حرص، لالچ، بخل، مزدور پر ظلم اور اس کی حق تلفی خدا کی صفات کے مطابق عمل نہیں۔ 8کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ اس کا ہر عمل نیک یا بد چھوٹا یا بڑا جو وہ اس دنیا میں کرتی ہے اس کے اندر لاشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے اور جسم کی موت کے بعد اس کے ساتھ رہتا ہے اور خودی نیک اعمال کا اچھا صلہ خوشی اور راحت کی صورت میں اور برے اعمال کی سزا رنج اور غم کی صورت میں پاتی ہے۔ 9کہ جسم کی طرح خودی بھی ایک طرح کی بھوک محسوس کرتی ہے اگر خودی کی بھوک ایسی اچھی غذا کھانے سے دور ہوتی ہے جس میں حیاتین اور پروٹین ایسے تمام ضروری عناصر بدرجہ اتم موجود ہوں تو خودی کی بھوک کسی ایسے عمدہ نصب العین کے حسن کو جذب کرنے سے دور ہوتی ہے جس میں تمام صفات حسن بدرجہ کمال موجود ہوں۔ یہی نصب العین خدا ہے اگر جسم غذا کو چبا کر نگل کر اورہضم کر کے جذب کرتا ہے تو خودی عبادت اور نیک عملی کے ذریعہ سے حسن کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اس سے لذت اندوز ہو کر اور اسے اپنا کر جذب کرتی ہے۔ 10کہ خودی حسن کو جذب کرنے سے ہی توانا اور قوی اور زندہ اور شادماںہوتی ہے اگر وہ اس کو جذب نہ کرے تو کمزور اور مضمحل اور قریب المرگ اور غمگین ہو جاتی ہے ایک آدمی کے لئے جو بھوک سے مر رہا ہو یہ جاننا کافی نہیں کہ اس کی الماری میں بہت سی عمدہ مٹھائی پڑی ہے اپنی جان کو بچانے کے لئے اسے تکلیف کر کے اس مٹھائی کو کھانا پڑے گا اسی طرح ایک ایسے آدمی کے لئے جس کی خودی گرسنگی حسن سے مر رہی ہو یہ جاننا کافی نہیں کہ خدا موجود ہے اور وہ حسن ہے اسے چاہئے کہ عبادت اور نیک عملی کے ذریعہ سے اس حسن کو جذب کرے۔ 11کہ خودی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر وہ انسان کی نادانی کی وجہ سچے خدا کی آرزو کی تشفی نہ کرے یا نہ کر سکے تو اس کی آرزو رکی نہیں رہتی بلکہ وہ راہ راست سے بھٹک کر کسی غلط مقصود کو جو خودی کو کمزور اور مضمحل اور غمگین اور قریب المرگ کرنے والا ہو اپنا لیتی ہے۔ کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کی حرص اور مزدوروں پر ان کا ظلم اسی وجہ سے ہے کہ ان کی فطرتی آرزوئے حسن راہ راست سے بھٹک کر خدا کی بجائے دولت اور عیش پرستی کو اپنا مقصود بنا رہی ہے اور وہ خود اپنی ضرورتوں کو ترک کر کے فقط جسم کی خواہشات کو اپنی توجہ کا مرکز بنا رہے ہیں۔ پہلا اور بنیادی علاج فطرت انسانی کے یہ حقائق ایسے ہیں کہ ان سے انکار ممکن نہیں ان حقائق کے پیش نظر سرمایہ داروں کے ظلم کا پہلا اور بنیادی علاج یہ تھا کہ جس آرزو کے بھٹکنے سے وہ ممکن ہوا ہے اسے پورے معاشرہ کی تعلیم اور تربیت کے ذریعہ سے پھر صحیح راستہ پر ڈالا جاتا اور اسے اس کے اصلی اور فطری مقصود یعنی خدا کی طرف لوٹایا جاتا اور پھر تعلیم و تربیت ہی کے ذریعے سے خدا کی محبت کی نشوونما کر کے اسے درجہ کمال پر پہنچایا جاتا تاکہ اس معاشرہ میں پھر ایسے سرمایہ دار پیدا نہ ہو سکتے بلکہ اور بھی کوئی اخلاقی خرابی پیدا نہ ہو سکتی اور پھر اگر ضرورت ہوتی تو ایسے قوانین بھی بنائے جاتے جو افراد کی کمزوریوں کے خلاف ان کی مدد کرتے اور ان کو زندگی کے اقتصادی شعبہ میں کوئی ایسا کام کرنے نہ دیتے جو ان کی تمنائے حسن کے ساتھ مزاحمت کرتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقی رذائل سے گھری ہوئی ایک پست حال قوم کو اخلاقی رفعت اور شائستگی کے کمال پر پہنچایا تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کو سب سے پہلے اور بنیادی علاج میں سے گزارا گیا تھا اگرچہ اس علاج کی مزید تقویت کے لئے زکوۃ اور وراثت ایسے قوانین بھی وضع کئے گئے تھے۔ اگر اس وقت یورپ میں سچا اسلامی معاشرہ ہوتا تو وہاں اس قسم کے سرمایہ داروں کا وجود ممکن نہ ہوتا۔ لیکن یورپ جس طرح آج فطرت انسانی کی لاعلمی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اس وقت بھی ڈوبا ہوا تھا۔ وہاں کون ہو سکتا تھا جسے معلوم ہوتا کہ سرمایہ داروں کے ظلم کا اصل سبب کیا ہے اور اس کا اصل علاج کیا ہے اور جو فطرت انسانی کے ٹھوس علم کی بنا پر اس سب سے پہلے اور بنیادی علاج کو جاری کرتا وہاں سرمایہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو عقلاء اور حکماء سمجھے جاتے تھے فطرت انسانی کی اسی لاعلمی کا شکار تھے لہٰذا وہ دوسروں کی راہ نمائی کیسے کرتے۔ آن کس کہ خود گم است گرا رہبری کند التوائے مرض علاج نہیں کچھ نام نہاد دانشوروں نے جنہیں بعد میں سوشلزم کے مفکرین اور مصنفین کہا گیا یہ سمجھا کہ سرمایہ دار فطرتاً حریص اور ظالم ہے اس کا علاج سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ اس کا کارخانہ چھین کر حکومت کو دے دیا جائے لیکن انہوں نے نہیں سمجھا کہ حکومت کے لوگ جو سب سے اوپر ہو کر پھر کارخانہ کو سرمایہ سے چلائیں گے وہ بھی تو سرمایہ دار ہی ہوں گے اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ اور سرمایہ داروں کی طرح حریص اور ظالم نہیں ہوں گے اس طرح سے انہوں نے جہاں تک ان کی تجویز کا تعلق ہے مشکل کو حل نہیں کیا بلکہ مشکل کو ایک جگہ سے اٹھا کر اپنے ہی ملک میں دوسری جگہ رکھ دیا۔ تاہم ان کی بات کو کسی نے نہیں مانا۔ بعد میں سوشلزم کا ایک فلاسفر کارل مارکس آیا اس نے اس تجویز میں یہ اضافہ کیا کہ دلفریب مستقبل کے سہانے خوابوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ مزدور کو چاہئے کہ جبر و تشدد اور قتل و غارت اورلوٹ مار اور آتش زنی اور دہشت انگیزی سے کام لے کر سرمایہ داروں کے کارخانوں پر اور پوری حکومت پر قبضہ کر لے لیکن مزدور بھی بہر حال ایک انسان ہوتا ہے جس کے اعمال کا بھی کوئی ضابطہ یا قاعدہ یا حسن و قبح کا معیار ہوتا ہے جس کا منبع فطرت انسانی کا کوئی واضح سائنسی علم نہ سہی لیکن ایک خوف سے ملا ہوا غیر واضح قسم کا مذہبی عقیدہ ضرور ہوتا ہے اس کے لئے مشکل تھا کہ محض اپنی اجرتوں کو بڑھانے کے لئے اس قسم کے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا خصوصاً جب کہ یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس سلسلہ جرائم کا نتیجہ کیا ہو گا۔ کارل مارکس نے مزدوروں اور ان کے راہ نماؤں کی ذہنی مشکلات کا علاج یہ کیا کہ سوشلزم کا ایک فلسفہ بنا دیا جس میں استدلال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دنیا میں نہ خدا ہے نہ روح نہ موت کے بعد کوئی زندگی ہے اور نہ اعمال کا محاسبہ۔ انسان فقط مادہ کی ایک ترتیب اور ترکیب کا نام ہے جو موت پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا خوف کس کو، کس خدا کا اور کون سے محاسبہ کا۔ باقی رہا یہ سوال کہ ان جرائم کا نتیجہ کیا ہو گا۔ سو ارتقا کی مادی اور میکانکی قوتیں اس طرح کام کر رہی ہیں کہ دنیا میں مزدور کا غلبہ ہو کر رہے گا اور مزدور کا تشدد ہی اس غلبہ کا ذریعہ بنے گا۔ کاش کہ مارکس کو علم ہوتا کہ ارتقا کی قوتیں مادی اور میکانکی نہیں بلکہ ایک رب العالمین کی ربوبیت کا مظہر ہیں اور آخر کار دنیا میں وہی قوم غالب رہے گی جو اس رب العالمین کو دل سے مانے گی۔ اور اس کی محبت کو انسانی معاشرہ کی تمام خرابیوں کو دور کرنے کا ایک ہی صحیح اور فطری اور مستقل ذریعہ تسلیم کرے گی اور اس ذریعہ کو کام میں لائے گی۔ مارکس کی تشدد پسندی حاصل یہ ہے کہ کارل مارکس نے سوشلزم کو ایک فلسفہ کی شکل اس لئے دی ہے کہ وہ تشدد کے لئے ایک کامیاب محرک بن جائے لہٰذا اس نے سوشلزم کے پہلے مفکرین کے طریق کار میں سوائے تشدد کے اور کسی بات کا اضافہ نہیں کیا۔ اس نے بھی اپنے پیشرو سوشل فلاسفروں کی طرح سرمایہ دار کا استیصال نہیں کیا۔ بلکہ اسے ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ کھڑا کر دیا ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعت سرمایہ کے بغیر چل نہیں سکتی اور اگر سرمایہ رہے گا تو ضروری ہے کہ اس کا کوئی مالک بھی ہو جو اس کی حفاظت کرتے اس کو تلف ہونے سے بچائے اس کے مفاد کو سوچے اور اس کو صحیح طور پر کام میں لگائے یہ کہنا درست نہیں کہ اس کا مالک مزدور ہے اس لئے کہ کسی کاغذ پر ایسا لکھا ہوا ہے۔ مزدور کو تو اپنی اجرت سے واسطہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ اجرت زیادہ سے زیادہ ہو لیکن اگر اجرت زیادہ ہو گی تو سرمایہ کم ہو جائے گا اور اگر سرمایہ کو زیادہ رکھنے کی ضرورت ہو گی تو اجرت کم کرنا پڑے گی۔ اس طرح سرمایہ اور محنت کے مفاد کبھی ایک نہیں ہو سکتے یہی وجہ ہے کہ روس میں اب بھی کچھ لوگ کام کرنے والے ہیں اور کچھ کام کروانے والے۔ کام کرنے والوں پر نگران مقرر ہیں اور پھر ان نگرانوں پر نگران اور پھر ان پر بھی اور نگران، و علی ہذا القیاس اور یہ سلسلہ کمیونسٹ پارٹی پر ختم ہوتا ہے جو روس کے اصلی سرمایہ دار ہیں۔ مارکس کے علاج میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مزدور اور اس کا نگران ہر حالت میں حرص اور بد دیانتی سے محفوظ رہیں گے اگر اندر سے نیت درست نہ ہو تو نگران سے آنکھ بچائی جا سکتی ہے اور قانون کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ اگر قانون انسان کی فطری آرزوؤں سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو انسان کچھ عرصہ کے لئے اس سے ڈر سکتا ہے لیکن اس کا احترام نہیں کر سکتا اور ایسا ڈر ایک قسم کی غلامی ہے جو غیر فطری ہے اور انسان کی خودی جس کی خاصیت آزادی ہے تادیر غلامی کو برداشت نہیں کر سکتی لہٰذا روسی نظام کی خرابی اس کی تعمیر میں مضمر ہے اور اسی لئے وہ ناپائیدار ہے اور دنیا کا وہ آخری انقلاب (فتنہ) نہیں بن سکتا جس سے شیطان ڈر رہا ہے۔ معاشرہ کی تمام خرابیوں کا پہلا بنیادی اور فطری علاج یہ ہے کہ انسان کی اس آرزو کو جو بھٹک کر یہ خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ یعنی خدا کی آرزو کو تعلیم و تربیت سے اس کے اصل مقصود کی طرف لوٹایا جائے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دانائی کی ابتداء خدا کے خوف سے ہوتی ہے۔ راس الحکمہ معانتہ اللہ مہلک راہ نمائی نوع انسانی کی سب سے بڑی بد خدمتی جو کارل مارکس سے سرزد ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی وہی آرزو جو اصل انسان ہے جس کا مقصود انسان کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے جو انسان کے لئے زندگی ہے آب حیات ہے جس کے بھٹکنے سے اور دوبارہ راہ راست پر آنے کے بغیر انسانی معاشرہ کے اندر ساری خرابیاں پیدا ہوتی ہیں انسانیت ارتقا کے راستہ سے ہٹ جاتی ہے خودی کی نشوونما رک جاتی ہے اور اس کی آئندہ کی زندگی برباد ہو جاتی ہے اس نے خدا کی اسی آرزو کو اس کے اصل مقصود سے ہٹا کر عارضی جسم کی غیر محدود خواہشات میں الجھا دیا ہے اور اس طرح سے ان لوگوں کی آخری ناکامی اور نامرادی پر مہر لگا دی ہے جو اس کے پیچھے چلیں گے۔ کیا ہم خودی کے ابدی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کارل مارکس کے برپا کئے ہوئے روسی نظام کو تہذیب یا دانائی کی بات کہہ سکتے ہیں۔ ٭٭٭ خودی اور علوم مروجہ انسان اور کائنات کے بعض حقائق جن کی وضاحت اوپر کی گئی ہے ہمیں اس ناگزیر نتیجہ تک پہنچاتے ہیں کہ کائنات کی حقیقت خدا ہے اور انسان کی خودی جو اصل انسان ہے خدا کی محبت کا ایک طاقتورجذبہ ہے جو ایک جسم میں جسے جسم انسانی کہتے ہیں نمودار ہوا ہے اور انسان اپنی تمام ظاہری اور باطنی قوتوں کو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق صحیح یا غلط طور پر اس جذبہ کی تشفی پر صرف کرنے کے لئے مجبور ہے۔ خدا اور خودی کا یہ تصور کائنات کی مرکزی حقیقت اور فلسفہ خودی کی جان ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک انسان اور کائنات کے علوم یعنی طبیعیاتی، حیاتیاتی اور انسانی علم کو کائنات کی اس مرکزی حقیقت کی روشنی میں نہ لکھا جائے ان کی تدوین اس اہم حقیقت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عقلی اور علمی اعتبار سے درست نہیں ہو سکتی اور ضروری ہے کہ اس میں کئی غلطیاں پیدا ہو جائیں اور وہ کئی پہلوؤں سے بے ربط اور خام اور ناتمام رہ جائے۔ بدقسمتی سے یہ علوم مغرب میں اس حقیقت کی روشنی میں نہیں لکھے گئے۔ لہٰذا ان کی تدوین درست طور پر نہیں ہوئی۔ وہ علم جو خدا اور خودی کے اس تصور سے جو کائنات میں اور تمام علوم میں کلیدی اور مرکزی مقام رکھتا ہے بے تعلق ہو وہ بے ربط اور بے معنی افکار کے ایک کھیل یا تماشہ خانے کے سوائے اور کیا ہو سکتا ہے۔ علم کو از عشق بر خوردار نیست جز تماشہ خانہ افکار نیست! مغربی سائنس دان کا علم مظاہر قدرت کے مشاہدات پر مبنی ہے لیکن اس کے مشاہدات اس بصیرت سے محروم ہیں کہ یہ مظاہر قدرت خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات اور دلائل ہیں۔ لہٰذا اس کی سائنس ایک طرح کی بے بصری ہے اگر وہ اس بصیرت سے محروم نہ ہوں تو اس کو ہر مظہر قدرت میں موسیٰ کلیم اللہ کی طرح خدا کا جلوہ نظر آتا اور اس طرح اس کے مشاہدات اس کی تجلیات سے ہمکنار ہو جاتے۔ وہ علم بے بصری جس میں ہمکنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم جس علم کے ساتھ خدا کی محبت شریک کار نہ ہو وہ اس سپاہی کی طرح ہے جو کار زار حق و باطل میں لڑنے کے لئے نکلا ہو لیکن اس کے ہاتھ میں بجائے تلوار کے فقط ایک خالی نیام ہو۔ ایسا علم شیطان کے خلاف کوئی کارگر حربہ نہیں بن سکتا۔ بلکہ شیطان اسے اپنے لئے ایک کارگر حربہ کے طور پر کام میں لاتا ہے۔ عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ اس کے باوجود ان علوم کی درسی کتابیں جو ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے کالجوں میں نافذ ہیں اس وقت تک سب کی سب ان علوم کی مغربی تدوین اور کائنات اور انسان اور علم کے غلط مغربی نقطہ نظر پر مبنی ہیں بلکہ یہ کتابیں بالعموم وہی ہیں جو مغرب کے علماء کے ہاتھوں سے مغرب میں لکھی گئی ہیں اور مغرب کے کالجوں اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں نافذ ہیں۔ لہٰذا یہ کتابیں ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی اور علمی نشوونما کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور ان کی وجہ سے ہماری قوم کی روح مردہ ہوتی جا رہی ہے لیکن ہم نے ان کو فقط مغرب کی کورانہ تقلید کرتے ہوئے اور ہر بات میں ان کو فوقیت کے وہم میں مبتلا ہو کر اپنے ہاں نافذ کر رکھا ہے اقبال ہماری اس غلطی پر تنبیہہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ مشو ایمن ازاں علمے کہ خوانی کہ ازوے روح قومے راتواں کشت خودی اور طبیعیاتی علوم مثلاً پہلے طبیعیاتی علوم کی درسی کتابوں کو لیجئے۔ ان علوم میں فزکس (Physics) کیمسٹری (Chemistry) اور فلکیات (Astronomy) وغیرہ شامل ہیں۔ ان علوم کی درسی کتابوں میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ان کا مواد مغرب کے حکمائے طبیعیات کے اس غلط اور بے بنیاد عقیدہ پر مبنی ہے کہ صداقت صرف وہی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکتے ہیں۔ جو چیز ہم اپنے حواس خمسہ سے دریافت نہیں کر سکتے وہ یا تو موجود ہی نہیں یا اگر موجود ہے تو معدوم کے حکم میں ہے۔ یہ عقیدہ طبیعیاتی علوم کا ہی نہیں بلکہ مغرب کے تمام حیاتیاتی اور انسانی علوم کا اور لاجیکل پازیٹوزم اور بی ہیویرزم ایسے کئی جدید مغربی فلسفیوں اور نفسیاتی نظریوں کا بھی نقطہ آغاز ہے اگر یہ عقیدہ غلط ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی علوم کی خشت اول ہی غلط ہے اور ان کی دیوار اگر ثریا تک بھی چلی جائے تو غلط ہی رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس عقیدہ میں عملی طور پر خدا کا انکار مضمر ہے اور اگر اسے ذرا اور وسعت دی جائے تو اس کی بنا پر انسانی خودی اور اس کی پسندیدہ اقدار کا بھی انکار کیا جا سکتا ہے اور ایسا کیا جا رہا ہے۔حالانکہ اپنی خودی سے زیادہ یقنی علم ہمیں ان چیزوں کا بھی نہیں ہو سکتا جن کا مشاہدہ ہم اپنے حواس سے کرتے ہیں۔ مشاہدات میں غلطی کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے لیکن مجھے اس میں ذرا شک نہیں ہو سکتا کہ میں ہوں۔ اگرچہ میں حواس خمسہ سے اپنے آپ کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ مغربی حکماء کے اس عقیدہ کے غلط ہونے کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ یہ اپنی تردید خود کرتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ عقیدہ فی الواقع صحیح ہے اور صداقت پر مبنی ہے تو ہم اسے ایک صداقت قرار نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عقیدہ کو کسی شخص نے اپنے حواس خمسہ کی مدد سے بطور ایک صداقت کے دریافت نہیں کیا بلکہ یہ عقیدہ ایک مفروضہ یا تحکم یا ادعا ہے اور حواس خمسہ سے دریافت کی ہوئی کوئی صداقت نہیں۔ لہٰذا یہ عقیدہ اپنی تردید خود کرتا ہے۔ مغرب کے حکمائے طبیعیات اس عقیدہ سے اس اصول کو بھی ایک نتیجہ کے طور پر اخذ کرتے ہیں کہ مشاہداتی یا سائنسی علم کو کسی ایسے عقیدہ سے آغاز نہیں کرنا چاہئے۔ جو سائنسی طریقوں سے اور براہ راست حواس خمسہ کے مشاہدہ سے ثابت نہ ہو۔ لیکن ان کا یہ اصول خود ایک عقیدہ ہے جو کسی اور عقیدہ سے ماخوذ ہے اور سائنس کے طریقوں سے ثابت شدہ نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا یہ اصول پہلے موجود ہوتا ہے اور سائنسی تحقیق بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کی سائنسی تحقیق اس اصول کو ثابت نہیں کرتی بلکہ یہ اصول ان کی سائنسی تحقیق کو جنم دیتا ہے۔ اس طرح جب مغربی ماہر طبیعیات اپنی سائنس کو اس عقیدہ سے شروع کرتا ہے کہ سائنسی تحقیق کو کسی عقیدہ سے شروع نہیں ہونا چاہئے تو وہ اپنی تردید خود کرتا ہے اور اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ جس عقیدہ سے وہ در حقیقت اپنی سائنسی تحقیق کو شروع کرتا ہے وہ غلط ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ادعا کے خلاف اپنی سائنس کو ایک عقیدہ سے شروع نہیں ہونا چاہئے۔ اس بات پر مجبور کیوں ہے کہ اپنی سائنس کا آغاز ایک عقیدہ سے کرے۔ اس سوال کا جواب ہمیں خودی کی فطرت سے ملتا ہے۔ انسانی خودی فقط خدا کی محبت یا خدا کی محبت کی کسی ممد و معاون محبت کا ایک جذبہ ہے اور محبت کسی مقصود یا مطلوب کے عمدہ یا حسین ہونے کے عقیدہ کا ہی دوسرا نام ہے چونکہ ناممکن ہے کہ انسان کا کوئی فعل ایسا ہو جو اس جذبہ سے سرزد نہ ہو لہٰذا ناممکن ہے کہ اس کا کوئی فعل ایسا ہو جو کسی عقیدہ پر مبنی نہ ہو۔ مثلاً ہر فعل سے پہلے اس کا فاعل یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کا یہ فعل فلاں عمدہ اور حسین مقصد کو حاصل کرے گا اور اس کو انجام دینے کا فلاں طریقہ عمدہ اور حسین ہے اور یہ عقیدہ اگرچہ معمولی سا نظر آتا ہے لیکن آخر کار کسی تصور حقیقت یا کسی نصب العین کی محبت سے ماخوذ ہوتا ہے۔ سائنسی تحقیق بھی چونکہ ایک انسانی فعل ہے وہ اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں لہٰذا ممکن نہیں کہ سائنس کسی عقیدہ سے آغاز نہ کرے۔ غیر حسی صداقتوں کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں مغربی سائنس دانوں کا یہ عقیدہ کی علمی صداقت وہی ہے جسے ہم اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکتے ہیں نہ تو سائنس کے طریقوں سے ثابت شدہ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اور علمی یا عقلی بنیاد ہے۔ اس کو اختراع کرنے کی ضرورت فقط اس لئے پیش آئی تھی کہ اس کے ذریعہ سے خدا کے تصور کو سائنس سے خارج کر کے سائنس کو ایک ناپاک، مذہب سے غیر متعلق اور دنیاوی قسم کی کدو کاوش کے طور پر پیش کیا جائے اور اس طرح سے سائنس اور سائنس دانوں کو کلیسا کے مظالم سے بچایا جائے۔ کون نہیں جانتا کہ کلیسا کی سائنس دشمنی یورپ کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر مغرب کے سائنس دان خدا کے سوائے اور کسی غیر حسی صداقت کو جو مشاہدہ میں نہ آنے کے باوجود اپنے اثرات اور نتائج کے ذریعہ سے ثابت ہو رہی ہو رد نہیں کرتے اور اپنے اس عقیدہ کو صرف خدا ہی کے تصور کے خلاف بروئے کار لاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صداقت وہی نہیں جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ کے مشاہدہ سے معلوم کریں بلکہ وہ بھی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ کے مشاہدہ سے تو معلوم نہ کر سکیں لیکن اس کے اثرات اور نتائج کو براہ راست اپنے حواص خمسہ کے مشاہدہ سے معلوم کر سکیں۔ اس کی مثال ایٹم کی ہے جس کے آج تک کے سارے علم کا دار و مدار اس کے براہ راست مشاہدہ پر نہیں بلکہ اس کے آثار و نتائج کے مشاہدہ پر ہے۔ خدا کا وجود بھی ایک ایسی ہی حقیقت ہے کیونکہ ہم خدا کا علم اس کے براہ راست مشاہدہ سے حاصل نہیں کرتے بلکہ مظاہر قدرت کی صورت میں اس کے وجود کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اگر مغرب کے سائنس دان ایٹم کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے ایٹم کو ایک سائنسی حقیقت سمجھتے ہیں تو مظاہر قدرت میں خدا کے وجود کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے خدا کو ایک سائنسی حقیقت کیوں نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ خدا کے تصور سے وہی ڈر ہے جو کلیسا کی سائنس دشمنی سے پیدا ہوا تھا اور آج تک چلا آتا ہے۔ اسی ڈر کی وجہ سے وہ اب بھی اس آشکار حقیقت کا اعتراف کرنے سے گھبراتے ہیں کہ مظاہر قدرت میں خدا کی ہستی اور صفات کا جلوہ نظر آتا ہے۔ قدرت میں وجود باری تعالیٰ کے آثار و نتائج یہ بات قابل غو رہے کہ جس چیز نے طبیعیات کے علم کو ممکن بنایا ہے وہ یہ ہے کہ طبیعیاتی مظاہر قدرت میں ایک نظم یا آرڈر ( Order) موجود ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قدرت میں نظم کی موجودگی کی دارائے علم و حکمت اور صاحب اختیار و قدرت ذہن کی تخلیقی کارروائی کا پتہ دیتی ہے۔ اگر آپ کسی ایسے جنگل میں چلے جا رہے ہوں جس کے متعلق یہ مشہور ہو کہ اس میں آج تک کسی انسان نے قدم نہیں رکھا اور آپ اچانک کسی جھونپڑی کے پاس آ نکلیں جس کے صحن میں سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں بھی ہوں تو آپ فوراً کہیں گے کہ یہ کسی ذہن یا شخصیت کا کام ہے اور یہ بات صحیح نہیں کہ اس جنگل میں کبھی کوئی انسان نہیں آیا۔ کائنات کے جنگل میں قدم قدم پر ایسی بے شمار جھونپڑیاں نظر آتی ہیں بلکہ یہ پورا جنگل ہی کسی تجویز یا پلان کے مطابق تعمیر پایا ہوا نظر آتا ہے۔ مادی مظاہر قدرت کے اندر جو نظم پایا جاتا ہے وہ اس قدر جچا تلا ہے کہ ہم اسے ریاضیاتی قوانین کی صورت میں بیان کر سکتے ہیں اور یہ ریاضیاتی قوانین کائنات میں اس وقت بھی اپنا کام کر رہے تھے جب ہنوز دنیا میں کوئی ریاضیات جاننے والا انسان بلکہ کوئی انسان اور کوئی متنفس بھی موجود نہ تھا۔ان ریاضیاتی قوانین کو کس ذہن نے نہ سوچا تھا؟ ظاہر ہے کہ طبیعیات کا محقق اپنے مشاہدہ اور مطالعہ قدرت سے نظم کی جستجو کر کے اور اسے دریافت کر کے بار بار یہ سوال پیدا کرتا رہتا ہے کہ یہ کس کا ذہن ہے اور یہ کون سی شخصیت ہے جس کی تخلیقی کارروائی اور مقصدیت مادی کائنات کے ذرہ ذرہ میں آشکار ہے۔ یہ سوال چونکہ طبیعیات کی کتاب پیدا کرتی ہے اور اس کا جواب بھی اسی کتاب کو دینا چاہئے، کسی اور کتاب کو نہیں۔ سوال کا جواب سوال کے موقعہ پر ہی ملنا چاہئے۔ اس سوال کا عقلی اور علمی جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جو تخلیق کی قدرت اور علم اور حکمت اور حسن اور کمال کی محبت کے اوصاف رکھتا ہے اور چونکہ اس کا پیدا کیا ہوا نظم ہر جگہ اور ہر وقت ایک ہی رہتا ہے وہ خالق کائنات ایک ہی ہے۔ جدید طبیعیات کی تخلیق کے مطابق مادہ فنا ہو جاتا ہے اور اگر کائنات کو برقرار رکھتے ہوئے مادہ کو رفتہ رفتہ کائنات سے نکال دی اجائے تو کائنات کے اندر فقط ریاضیاتی نسبتوں اور فارمولوں کا ایک جال باقی رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی بنیادی اور آخری حقیقت وہی ذہن ہے جس نے اس حیرت انگیز لازوال اور اٹل ریاضیاتی نظم کو سوچا ہے اور چونکہ آج تک کوئی ریاضیاتی انداز میں سوچنے والا ذہن شخصیت کی دوسری صفات مثلاً جذباتی اور جمالیاتی اوصاف سے الگ دیکھا نہیں گیا لہٰذا وہ ایک مکمل شخصیت ہے اور وہی شخصیت اس کائنات کی خالق ہے۔ بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر جہاں نا پیدداد پیداست بنگر تاہم مغرب کا ماہر طبیعیات اپنی طبیعیات کی کتاب میں نہ تو اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اسے ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے خدا پھر سائنس کے اندر آ جائے گا اور دین اور دنیا اور کلیسا اور سائنس کے درمیان پھر کوئی حد فاصل باقی نہ رہے اور اس کے نتائج پھر وہی ہوں گے جن کا تجربہ ایک بار کیا جا چکا ہے۔ علم طبیعیات کی تعریف مغرب کے حکماء اپنے اس غلط عقیدہ کی وجہ سے کہ صداقت وہی ہے جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے جان سکتے ہیں طبیعیات کی تعریف اس طرح سے کرتے ہیں۔ ’’ طبیعیات علم کا مادہ ہے‘‘ لیکن یہ تعریف تصور خودی کے مضمرات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ اس کے اندر یہ خیال مضمر ہے کہ مادہ کوئی ایسی چیز ہے جو خود بخود موجود ہے اور جس کا علم ہمیں اس کو جاننے کی خاطر حاصل کرنا چاہئے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ تعریف دہریت کے امکان کو مسترد نہیں کرتی بلکہ اس کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن فلسفہ خودی کے مطابق مادہ قطعی طور پر خدا کی خالقیت اور ربوبیت کی وجہ سے موجود ہے۔ وہ اپنا کوئی بالذات وجود نہیں رکھتا بلکہ خدا کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک نشان ہے۔ لہٰذا اس کا جو علم ہو گا وہ پہلے اس کے خالق اور رب کا علم ہو گا اور بنیادی طور پر ہمیں اس کا علم حاصل کرنے کی ضرورت اس لئے ہو گی کہ ہم اس کے خالق کی خالقیت اور ربوبیت کو جانیں اور پہچانیں۔ لہٰذا فلسفہ خودی کے مطابق طبیعیات کی صحیح تعرف یہ ہو گی ’’ طبیعیات مادہ کے اندر خدا کی تخلیقی فعلیت کا علم ہے‘‘ اور مغرب کے حکمائے طبیعیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مادہ جیسا کہ ہم اب اسے دیکھتے ہیں یکایک وجود میں نہیں آیا بلکہ تدریجی ارتقاء کی بہت سی منزلوں کو طے کر کے اپنی موجودہ حالت کو پہنچا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ مادہ کو کسی حالت میں بھی یہ صلاحیت نہ ہو سکتی تھی کہ وہ خود بخود بدل کر اگلی حالت کی صورت اختیار کر لے۔ ایک بے جان شے جس حالت میں ہو اس کو اسی حالت میں رہنا چاہئے جب تک کہ کوئی اور قوت اس پر عمل نہ کرے مثلاً آکسیجن اور ہائیڈروجن میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں تھی جس سے وہ مل کر پانی بنا دیں اور اپنی کے وجود میں آنے سے پہلے کوئی ماہر طبیعیات ان دونوں گیسوں کی خاصیات کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ نہ کر سکتا تھا کہ ان کا ایک خاص نسبت سے کیمیاوی ترکیب پانا ممکن ہے اور ان کی ترکیب کا نتیجہ پانی ایسے ایک سیال کی صورت میں رونما ہو گا۔ پھر وہ کون سی قوت تھی جو مادہ کو بار بار ایک حالت سے بدل کر اگلی بہتر اور بلند تر حالت میں لاتی رہی۔ یہاں تک کہ اس کو وہ تکمیل حاصل ہو گئی جو زندگی کے ظہور کی ایک ضروری شرط تھی۔ وہ کون سی قوت تھی جس نے اسے مختلف ارتقائی حالتوں سے گزار کر حالت کمال تک پہنچایا۔ فلسفہ خودی کا جواب یہ ہے کہ وہ خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کیق وت یعنی خود خدا ہی کی قوت تھی۔ اسی قوت کو اقبال زندگی یا خودی کا نام دیتا ہے۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مل کر پانی بن جانا بلکہ اپنے ارتقاء کے ہر قدم پر مادہ کا ایک نئی بہتر، برتر اور مقصد کائنات سے قریب تر حالت کا اختیار کر لینا خدا کے قول کن سے ممکن ہوا تھا۔ لہٰذا طبیعیات کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ مادہ کے اندر خدا کے تخلیقی عمل کا علم ہے۔ خودی اور حیاتیاتی علوم حیاتیاتی علوم میں زو آلوجی (Zoology) اور باٹنی (Batany) وغیرہ شامل ہیں۔ جب حیاتیاتی علوم فلسفہ خودی کی روشنی کے بغیر مدون کئے جائیں تو وہ بھی طبیعیاتی علوم کی طرح غلط بنیادوں پر قائم ہو جاتے ہیں اور طبیعیاتی علوم سے زیادہ غلط رخ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ مغرب میں یہی ہوا ہے۔ مغرب کے حیاتیاتی علوم کے حقائق فلسفہ خودی کی روشنی سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی حکمائے حیاتیات کے اس بے بنیاد اور غلط عقیدہ کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں کہ حقیقت وہی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکیں۔ جو چیز حیاتیاتی مظاہر قدرت کو ممکن بناتی ہے وہ زندہ اجسام کے اندر نظم، تجویز اور مقصد کی موجودگی ہے ۔ تجویز اور مقصد کی موجودگی نظم سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ کسی ذہن یا شخصیت کے تخلیقی عمل پر دلالت کرتی ہے۔ ایک زندہ جسم حیوانی تنظیم اور مقصدیت کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے۔ اور یہ تنظیم اور مقصدیت اس کے ہر خلیہ (Cell) کے اندر موجود ہوتی ہے۔ صرف آنکھ یا کان کے نہایت ہی پیچیدہ میکانیہ کی تخلیق میں علم، حکمت اور قدرت کے جو کمالات بروئے کار آئے ہیں ان پر ایک بڑی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ایک زندہ جسم حیوانی کے اندرونی حیاتیاتی وظائف جو حیوان کی توجہ یا کوشش کے بغیر خود بخود اپنا کام کرتے ہیں مثلاً عمل انہضام اور اس کی حیاتیاتی کیمیا، حیاتین اور وفاقین کی صنعت، دوران خون، تنفس ایک خاص طے شدہ جسمانی شکل کی جانب حیوان کی خود کارانہ نشوونما تناسل، حیوان کے اعضائے رئیسہ، دل، جگر، پھپھڑوں اور گردوں کا خود کارانہ عمل، زخوں کا خود بخود بھرنا اور بیماریوں کے خلاف صحت بحال کرنے والے رد عمل کا خود بخود ظہور پذیر ہونا، سب مل کر حیوان کی زندگی اور نسل کو قائم رکھتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اپنے ظاہری اختلاف کے باوجود یہ وظائف آپس میں اور حیوان کے بیرونی جبلتی اعمال و افعال کے ساتھ ایک خاص مقصد کے لئے مکمل اتفاق و اتحاد رکھتے ہیں اور وہ مقصد حیوان کی زندگی اور نوع کا قیام ہے۔ حیوان کے علم اور احساس کے بغیر اس قدر مکمل یک جہتی، یک سوئی اور موافقت کے ساتھ ان وظائف کے بامقصد عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ حیوان کی پیدائش اور نشوونما ایک ایسے ذہن کے حکیمانہ اور قادرانہ تصرف میں ہے جو حیوان کا اپنا ذہن نہیں اور اس بات میں ذرا شک باقی نہیں رہتا کہ یہ ذہن ایسا قادر مطلق ہے کہ اس کو صرف یہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کان کا پردہ یا آنکھ کا شیشہ یا دل کا عضو اس طرح سے بن جائے اور وہ بن جاتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے حکم کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ انما امرہ اذا اراد شیا ان یقول لہ کن فیکون ماحول سے جسم حیوانی کا توافق پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانات کے اجسام خود بخود اپنے ماحول کے ساتھ ایک حیرت انگیز موافقت پیدا کر لیتے ہیں۔ ایک مچھلی جس نے پانی میں تیرنا ہوتا ہے پانی کا سانس لینے کے لئے گلچھڑے رکھتی ہے اور اس کا جسم اس طرح بنا ہوتا ہے کہ تیرتے وقت پانی کی مزاحمت کم سے کم ہو۔ اس کے دونوں پہلوؤں پر چپو لگے ہوتے ہیں اور سرے پر تیرتے وقت آگے دھکیلنے والا ایک پر لگا ہوتا ہے۔ ایک پرندہ جس نے ہوا میں اڑنا ہوتا ہے ایک پیچیدہ تجویز کے مطابق تیار کیا ہوا پروں کا ایک نظام رکھتا ہے جو اسے اڑنے میں سہولت بہم پہنچاتا ہے۔ اس کے جسم کے اندر ہوا سے بھری ہوئی جھلی کی تھیلیاں ہوتی ہیں اور اس کی ہڈیاں اندر سے کھوکھلی اور گرم گیس سے بھری ہوئی ہوتی ہیں تاکہ وہ ہلکارہے اور آسانی سے پرواز کر سکے دراصل ماحول کے ساتھ اعضاء کا توافق پیدا کرنا تمام زندہ اجسام کی ایک خصوصیت ہے جو ان کی جسمانی ساخت اور جبلتی فعلیت کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں بھی آشکار نظر آتی ہے اور اس کی مثالیں ان گنت ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ حیاتیات کی درسی کتابوں کا مضمون بھی یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ وہ ذہن جس کا پیدا کیا ہوا نظم اور مقصد حیوان کے جسم کے کونے کونے میں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے کس کا ہے۔ اور اس سوال کا علمی اور عقلی جواب بھی سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ کسی قادر مطلق خالق کائنات کا۔ لیکن ماہر طبیعیات کی طرح حیاتیات کی درسی کتاب لکھنے والا مغربی ماہر حیاتیات بھی اس سوال کے جواب میں خاموش رہتا ہے۔ وہ یا تو حیاتیاتی مظاہر قدرت میں نظم اور مقصد کی موجودگی کو بالکل تسلیم ہی نہیں کرتا یا کرتا ہے تو اس کی غلط توجیہہ اس طرح سے کرتا ہے کہ خدا کا تصور اس کی کتاب میں گھسنے نہ پائے اور اس کی وجہ پھر یہی ہے کہ مغرب کی سائنس جس عقیدہ سے آغاز کرتی ہے اس کی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی اور کسی ایسے سوال کو درخور اعتنا نہیں سمجھ سکتی جس کا جواب خدا ہو۔ اس فرضی مجبوری کا ایک افسوسناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حیاتیاتی ارتقا کے عمل کو جو در حقیقت خدا کی ربوبیت کا دوسرا نام ہے۔ قدرت کی اندھا دھند بے مقصد میکانیکی قوتوں کے کھیل کا اتفاقی نتیجہ سمجھ لیا گیا ہے اور پھر ارتقاء کے اس میکانیکی مادی اور بے خدا نظریہ سے انسان اورکائنات کے بہت سے غلط مادی فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ایک مارکسزم ہے جس نے کروڑ ہا بندگان خدا کو ارتقاء کی شاہراہ سے ہٹا رکھا ہے اور غلط راستہ پر ڈالا ہوا ہے جہاں سے انہیں ٹھوکریں کھا کر اور بڑی بڑی مصیبتیں اٹھا کر واپس آنا پڑے گا۔ علم حیاتیات کی تعریف مغربی سائنس دانوں نے حیاتیات کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’ حیاتیات زندگی (یعنی زندہ اجسام )‘‘ کی سائنس ہے۔ لیکن طبیعیات کی تعریف کی طرح ان کی یہ تعریف بھی غلط ہے کیونکہ اس میں بھی اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ زندگی خود بخود موجود نہیں بلکہ خدا نے پیدا کی ہے اور خدا کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک مظہر ہے۔ لہٰذا حیاتیات کی صحیح تعریف اس طرح سے ہو گی ’’ حیاتیات خدا کے اس تخلیقی اور تربیتی عمل کی سائنس ہے جو جاندار اجسام میں ظہور پذیر ہوا ہے۔‘‘ ضروری ہے کہ حیاتیات کی اس ناگزیر تعریف کو اختیار کرنے کے بعد حیاتیات کا علم خود بخود اس طرح بدلے اور نشوونما پائے کہ حیاتیاتی مظاہر قدرت میں تجویز اور مقصد کا انکار جو مثلاً جولین بکسے اور اس کی طرح سوچنے والے اور ماہرین حیاتیات کا شیوہ ہے اور حقیقت ارتقاء کی غلط میکانکی توجیہ جس کی بنیاد ڈارون نے رکھی ہے دونوں ممکن نہ رہیں۔ خودی اور نفسیاتی علوم اوپر بارہ گھوڑوں کی ایک گاڑی کی مثال سے اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ اگرچہ انسان کے اندر کئی متضاد قسم کی جبلتی خواہشات موجود ہیں۔ تاہم انسانی شخصیت اور اس سرزد ہونے والی انسانی مشاغل میں وحدت اور تنظیم اور یکسوئی کے اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن حیوان کے شعور اور اعمال میں یہ اوصاف موجود نہیں۔ حالانکہ حیوان اور انسان کی جبلتیں مشترک ہیں۔ انسان کا یہ امتیاز اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی خواہش ہے جو اس کی تمام خواہشات کو اپنے تصرف میں رکھتی ہے اور لہٰذا بالآخر اس کے تمام اعمال و افعال کی قوت محرکہ ہے۔ مغرب میں فطرت انسانی پر غور و فکر کرنے والے تمام حکماء اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس خواہش کو معلوم کرنا نہایت ہی اہم ہے یہاں تک کہ انسان کے معمہ کو حل کر لینے کے مترادف ہے اس بات کی کوشش کی بھی ہے کہ اس کو دریافت کیا جائے۔ لیکن چونکہ ان حکماء میں سے کوئی بھی اس خواہش کا کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کر سکا جو انسان کی فطرت کے تمام حقائق سے مطابقت رکھتا ہو اور پوری طرح معقول اور تسلی بخش ہو۔ لہٰذا دنیا کے علمی حلقوں میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسان کی اس اہم خواہش کی حقیقت ابھی تک پردہ راز میں ہے اور اس کا مطلوب ایک ایسا عقدہ ہے جو کھل نہیں سکا۔ تمام انسانی افراد کی فطرت ایک جیسی ہے اور ہر فرد انسانی کے اندر اس کے اعمال کی قوت محرکہ بھی ایک ہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اعمال کا حقیقی مقصود اور مدعا بھی ایک ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ نوع انسانی مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر قوم کی راہ عمل اور منزل مقصود دوسری قوموں سے الگ ہے جس کی وجہ سے کرہ ارض قوموں کی سیاسی رقابتوں اور مسابقتوں کا اکھاڑہ اور ان کی سرد اور گرم جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ قوموں کے اختلافات کی وجہ سے عالم انسانی آج تک دو عالمگیر جنگوں کا سامنا کر چکی ہے اور تیسری عالمگیر جنگ کی تباہیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو رہی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ افراد میں بھی بعض کا عمل ایک طرح کا ہوتا ہے اور بعض کا دوسری طرح کا بعض لوگ نیکی اور شرافت کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اس پر کاربند رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض لوگ عیاشی اور جرم پسندی کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی ممالک میں بڑھی ہوئی جنسی آزادی کے رحجانات، طلبہ کی بے راہروی اور بغاوت اور توڑ پھوڑ کے میلانات جو اب مشرقی ممالک میں بھی اپنا اثر اور نفوذ پیدا کر رہے ہیں اس کی مثالیں ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے بعض قوموں کا رحجان عیاشی اور بے راہروی کی زندگی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ وہ من حیث القوم چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کیونکہ ان کو یقین ہے کہ یہ راستہ صحیح نہیں اور اس کا انجام اچھا نہ ہو گا۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں کہ اس پر اور چلنے کے لئے مجبور ہیں اور ان کو اپنے آپ پر اختیار باقی نہیں رہا۔ اس قسم کی زندگی افراد کو بھی سکون نہیں بخشتی بلکہ جوں جوں وہ اس زندگی میں غرق ہوتے جاتے ہیں ان کا سکون اور کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آگے زندگی کی راہیں مسدود ہیں پھر یا تو وہ خود کشی کر لیتے ہیں یا دماغی امراض میں مبتلا ہو کر دماغی ہسپتالوں کو آباد کرتے ہیں۔ نوع انسانی کے اختلافات کا سبب ان مشاہداتی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ تمام انسانی افرادکی وہ خواہش جو ان کے اعمال کو حرکت میں لاتی ہے ایک ہی ہے اور اس کا قدرتی اور اصلی مقصود بھی ایک ہی ہے۔ تاہم افراد اپنی عقل اور اپنے علم کے مطابق اس کے مقصود کو مختلف طرح سے سمجھتے ہیں اور اس کی مختلف توجیہات کرتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی لاعلمی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ خواہش دراصل کیا ہے کیسی ہے اور کس چیز کے لئے ہے۔ ان حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان اس طرح سے بنا ہے کہ جب وہ اپنی اس مرکزی اور حکمران خواہش کے قدرتی مقصود کو نہ جانتا ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نکما ہو کر بیٹھ نہیں رہتا بلکہ کسی قائم مقام مقصود کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لئے سر گرم عمل ہو جاتا ہے اور انسان کی ساری مصیبتوں کا باعث اس کی فطرت کا یہی پہلو ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ جب تک وہ اپنی عملی زندگی کے قدرتی اور اصلی مقصود کے متعلق پوری طرح سے مطمئن نہ ہو لیتا اس وقت تک اپنے عمل کو روک سکتا تو پھر نہ وہ غلط راستوں پر چلتا اور نہ ان کے چلنے کے لئے شدید نقصانات کو مول لیتا بلکہ خاموشی کے ساتھ علم کی روشنی اور انشراح صدر کا منتظر رہتا اور جب ان کا وقت آتا تو سلامتی کے صحیح راستہ پر چل نکلتا، لیکن افسوس کہ انسان کی فطرت اس قسم کی ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے عمل تاریخ (العصر) کے حقائق کو شہادت میں پیش کر کے فرمایا کہ نوع انسانی بڑے گھاٹے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو اپنی عملی زندگی کے اصل مقصود پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے اعمال کی تشکیل کرتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو ان کی زندگی کے اس سچے مقصود (حق) کی طرف بلاتے ہیں اور اس کے راستے پر صبر سے قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ اس راستہ سے بھٹک کر اپنے لئے مصیبتیں پیدا نہ کریں (والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنو و عملو الصلحت و تواصو بالحق و تواصو بالصبر انسانی فطرت کے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے فرشتوں نے انسان کو خلافت الٰہی کے عظم الشان منصب کے لئے نا موزوں سمجھا تھا کیونکہ اسی کی وجہ سے انسانوں میں وہ عملی اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو فساد اور خونریزی پر آمادہ کرتے ہیں۔ (اجتعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدمائ) تاہم خدا کو معلوم تھاکہ نوع انسانی کے اختلافات کا دور عارضی ہو گا اور انسان کی فطرت کا ایک اور پہلو ایسا ہے جو آخر کار اس پہلو پر غالب آئے گا اور وہ پہلو یہ ہے کہ وہ علم کا پیاسا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ اس کا علم زود یا بدیر یہاں تک نہ پہنچے کہ وہ یہ جان لے کہ اس کی عملی زندگی کا قدرتی اور اصلی مقصود جس پر تمام نوع انسانی متفق ہو سکتی ہے کیا ہے۔ انسان کی فطرت کا یہ پہلو کہ وہ اپنے مقصود حیات کو نہ جاننے کے باوجود اپنے عمل کو روک نہیں سکتا جس طرح اس کے خلاف کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی شخص کے پاس ایک قیمتی اور عمدہ موٹر کار ہو جسے وہ حکماً اور قانوناً بیکار نہ رکھ سکتا ہو۔ لیکن استعمال کرنے اور چلانے پر مجبور ہونے کے باوجود اسے ٹھیک طرح سے چلانا نہ جانتا ہو اور بار بار گڑھوں میں گر کر یا چٹانوں اور درختوں سے ٹکرا کر شدید حادثات سے دو چار ہو جاتا ہو۔ دور حاضر کے انسان کا حال بھی ایسا ہی ہے اس کو بھی قدرت کی طرف سے انسانی خودی یا انسانی شخصیت کی صورت میں ایک متاع نفیس و بے بہا ارزاں ہوئی ہے جو گویا ایک نادر اور نایاب کل ہے جس کو اگر وہ ٹھیک طرح سے اور اس کے قواعد کے مطابق استعمال کرے تو وہ اس کو اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں انتہائی مسرت اور راحت کی منزل تک پہنچا سکتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اس کل کو ٹھیک طرح سے استعمال کرنا نہ جانتا ہو تو پھر بھی وہ اسے بیکار نہیں رکھ سکتا بلکہ اس سے ہر حالت میں کام لینے پر مجبور ہے اور اس پر دوسری مشکل یہ ہے کہ وہ فی الواقع اسے ٹھیک طرح استعمال کرنا نہیں جانتا اور اس کل کے اس مرکزی پرزہ سے آشنا نہیں جو اس کو صحیح طور پر صحیح راستہ پر حرکت میں لا سکتا ہے لہٰذا وہ اسے غلط طور پر استعمال کر کے بار بار طرح طرح کی مصیبتوں کے گڑھوں میں گر کر اور قسما قسم کے حادثات کی چٹانوں سے ٹکرا کر ہلاکت سے دوچار ہوتا رہتا ہے۔ فطرت انسانی کے متعلق مغربی حکماء کی خطرناک لاعلمی مغرب کے حکماء فطرت انسانی کے متعلق اپنی لاعلمی کا پورا اعتراف کرتے ہیں اور اسے (بالخصوص طبیعیاتی علوم کی غیر معمولی ترقیوں کے پیش نظر) انسانیت اور تہذیب کے لئے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ایک نامور ماہر نفسیات اپنی کتاب ’’ سائنس اور انسانی کردار‘‘ میں لکھتا ہے: ’’ سائنس نے ایک غیر متوازن طریق سے ترقی کی ہے۔ آسان مسائل کی طرف پہلے توجہ کرنے کی وجہ سے اس نے بے جان قدرت پر ہمارے تصرف میں اضافہ کیا ہے لیکن ہمیں ان سماجی مشکلات کے لئے تیار نہیں کیا جو اس سے پیدا ہوتی ہیں۔۔۔۔ قدرت کی سائنس کو آگے بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں۔ جب تک کہ اس میں فطرت انسانی کی سائنس بھی بڑی مقدار میں شامل نہ ہو۔ کیونکہ اسی صورت میں سائسن کی ترقی کے نتائج عاقلانہ طور پر کام میں لائے جا سکیں گے۔‘‘ ایلپکس کارول جس نے نوبل کا انعام بھی لیا تھا اپنی کتاب ’’ انسان جو نامعلوم ہے‘‘ میں لکھتا ہے:ـ ’’ انسانیت کی تعمیر ایسے اداروں کی تشکیل چاہتی ہے جہاں بدن اور روح کی تربیت تعلیم کے مختلف فکری مکتبوں کے تعصبات کے مطابق نہیں بلکہ قوانین قدرت کے مطابق انجام پا سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری تہذیب نے زندگی کا ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جو زندگی کو نا ممکن بنا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس خرابی کا علاج صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں فطرت انسانی کا گہرا علم اس سے بہت زیادہ حاصل ہو جو اب تک حاصل ہے۔‘‘ مغرب کے نفسیاتی علوم کی خطرناک بے ربطی انسانی اعمال کی قوت متحرکہ کے متعلق دور حاضر کے انسان کی اس لاعلمی نے نہ صرف اس کے انفرادی اور جماعتی افعال کو غلط راستوں پر ڈال دیا ہے بلکہ اس کے ان افعال کے فلسفوں کو بھی جیسا کہ وہ ان کو مرتب کر سکا ہے، پراگندہ خیالات کے مجموعے بنا دیا ہے۔ انسانی افعال کے فلسفوں کو انسانی علوم ( Human Sciences) کا نام دیا جاتا ہے اور ان میں فلسفہ سیاست، فلسفہ اخلاق، فلسفہ تاریخ، فلسفہ قانون، فلسفہ تعلیم، فلسفہ اقتصادیات، فلسفہ علم، فلسفہ فن، نفسیات فرد اور نفسیات جماعت کو شمار کیا جاتا ہے۔ ان تمام علوم کو نفسیاتی علوم (Psychilogical Sciences) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ تمام علوم در حقیقت فطرت انسانی کے کسی نظریہ پر مبنی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے علم نفسیات یا فطرت انسانی کے علم کی شاخیں ہیں۔ انسان کی ہر فعلیت اس کی فطرت کے منبع سے نمودار ہوتی ہے۔ لہٰذا جب تک ہم انسان کی فطرت کو نہ سمجھیں ہم اس کی کسی فعلیت کی حقیقت کو اس کے مبداء اور ماخذ کو اس کے مقصد اور مدعا کو اس کی زشتی اور زیبائی کو اور اس کے سود و زیاں کو نہیں سمجھ سکتے اور فطرت انسانی کو جاننے کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اعمال کی فطری قوت محرکہ کو جانا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انسان کو کسی فعلیت کے متعلق کسی معقول مدلل اور منظم علمی نظریہ کی تدوین نہیں کر سکتے جب تک کہ ہمیں یہ علم نہ ہو کہ انسان کے اعمال کو وجود میں لانے والی انسان کی اصلی قدرتی خواہش کیا ہے اور کس طرح سے انسان جب اسے نہ جانتا ہو تو اس کی بعض غلط خواہشات سے اس خواہش کا روپ دھار کر اس کے اعمال کی حکمران بن جاتی ہیں اور بعد میں اس کے گوناگوں مصائب کا موجب بنتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے علم کے بغیر انسان کے کسی عمل کا علم مرتب کریں گے تو ہماری کوشش اس علم کی بنیاد کو نہ جاننے کی وجہ سے ناکام ہو جائے گی اور ہمارا علم محض جہالت کا ایک مظاہرہ بن کر رہ جائے گا۔ انسانی اعمال کے مغربی علوم چونکہ انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے علم کے بغیر لکھے گئے ہیں ان کی موجودہ حالت اسی قسم کی ہے۔ اس موضوع پر خود کچھ کہنے کی بجائے میں مغرب کے ایک سر بر آوردہ ماہر نفسیات میکڈوگل کی ایک کتاب سے بعض حوالے نقل کرتا ہوں۔ میکڈوگل لکھتا ہے: ’’ فطرت انسانی کے متعلق ہماری لا علمی اب تک تمام انسانی اور اجتماعی علوم کے ظہور کو روکتی رہی ہے اور اب بھی روک رہی ہے۔ یہ علوم ہمارے اس زمانہ کی ایک شدید ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر ہماری تہذیب زوال بلکہ شاید مکمل تباہی کے شدید خطرہ کا سامنا کر رہی ہے۔ ہم علم نفسیات کا، علم اقتصادیات کا، علم سیاسیات کا، علم قانون کا، علم معاشرت کا اور ان کے علاوہ اور ہمت سے فرضی علوم کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن سیدھی بات یہ ہے کہ یہ تمام دلکش نام فقط ہمارے علم کے خلاؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ فقط ان وسیع و عریض غیر آباد بیابانوں کی دھندلی سی نشاندہی کرتے ہیں جن کی سیاحت ابھی تک نہیں کی گئی۔ لیکن یہ بیابان وہ ہیں کہ اگر ہماری تہذیب نے زندہ رہنا ہے تو ہمیں ان کو کسی قاعدے کے اندر لانا ہی پڑے گا۔۔۔۔ میرا مدعا یہ ہے کہ اپنی تہذیب کے توازن کو بحال کرنے کے لئے ہمیں انسان کی فطرت اور سوسائٹی کی زندگی کا علم (یعنی منظم کیا ہوا سائنسی علم) اس سے بہت زیادہ مقدار میں درکار ہے جو ہمیں اب تک حاصل ہے۔۔۔۔ لہٰذا یہ ہے وہ ایک ہی طریق کار جس سے ہم اپنی تہذیب کی موجودہ غیر یقینی اور دن بدن زیادہ خطرناک ہونے والی حالت کا علاج کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے انسانی اور اجتماعی علوم کو پوری کوشش سے ترقی دے کر فطرت انسانی اور اس کی فعلیتوں کے سچ مچ کے علوم کی شکل دیں۔۔۔ انسانی اور اجتماعی علوم کی بنیادی حقیقت دریافت کرنے اور ان کی تدوین کے طریق کار کو مہیا کرنے کی ضرورت آج اتنی شدید ہے کہ پہلے کبھی نہ تھی۔۔۔۔ تو پھر عملی نقطہ نظر سے علاج کیا ہوا؟ میں اپنے جواب کو بالاختصار پیش کرنے کی غرض سے یہ بتاؤں گا کہ اگر میں ڈکٹیٹر ہوتا تو کیا کرتا۔۔۔۔۔ میں ہر ممکن طریق سے کوشش کرتا کہ اپنی قوم کے بہترین دماغوں کو طبیعیاتی علوم سے ہٹا کر انسانی اور اجتماعی علوم میں تحقیق کے کام پر لگا دیا جائے۔‘‘ (ورلڈ کے آس’’ World Chaos‘‘ صفحات 115,112,59,9) انسانی علوم کی صحیح تدوین کی بنیادی شرط اوپر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بعض ایسے حقائق کو پیش کیا گیا ہے جن سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فطرت انسانی کی لاعلمی نوع انسانی کے لئے کیا کیا برے نتائج پیدا کرتی ہے اور کیوں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ میکڈوگل فطرت انسانی کی لاعلمی کو اپنی تہذیب کے لئے ایک عظیم خطرہ کیوں سمجھتا ہے۔ اس کا یہ خیال درست ہے کہ فطرت انسانی کے علم کے بغیر یہ جاننا ممکن نہیں کہ انسانی اور اجتماعی علوم کی وہ’’ بنیادی حقیقت‘‘ کیا ہے جو ان کی ’’ تدوین کے طریق کار‘‘ کی طرف راہنمائی کر سکتی ہے اور جس کے مرکز کے ارد گرد ان علوم کو معقول اور مدلل سائنسی علوم کے طور پر منظم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ خارجی اور مادی کائنات کے علوم کی طرح داخلی اور غیر مادی فطرت انسانی کا علم فقط ’’قوم کے بہترین دماغوں‘‘ کی ذہنی کاوشوں اور کوششوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اندر خود نگاہ ڈال کر دیکھے کہ وہاں کیا ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ وہ خدا کی عبادت (جس میں اطاعت بھی شامل ہے) کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی پوری پوری نشوونما کرے جو نبوت کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر اس تجربہ کی کامیابی اس حقیقت کا درجہ اول کا روشن ثبوت ہو گی کہ انسان کی فطرت خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ یہ ثبوت ذاتی تجربہ پر اور ایک طرح کی چشم دید حقیقت پر مبنی ہو گا۔ تاہم اس کے عقلی اور علمی دلائل بھی موجود ہوں گے اور وہ خطا سے مبرا ہوں گے۔ گر دلیلت باید ازوے رومتاب آفتاب آمد دلیل آفتاب فطرت انسانی کا علم اور علوم کی طرح نہیں کہ اس میں خارجی تجربوں اور فکر و استدلال کی جدتوں سے قدم آگے اٹھ سکے۔ یہاں ہم علم کے اس میدان میں آ نکلتے ہیں جہاں ہمارا سابقہ حقیقت کائنات کے خارجی مادی اور حیاتیاتی مظاہر سے نہیں بلکہ براہ راست حقیقت کائنات سے پڑتا ہے۔ لہٰذا فطرت انسانی کا علم حاصل کرنے کے لئے ہمیں حقیقت کائنات کے ساتھ جو فطرت انسانی کا مقصود اور مطلوب ہے، ذاتی رابطہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی رابطہ کا نام عبادت ہے اور اسی سے فطرت انسانی کے اصلی اور قدرتی مقصود اور مطلوب کی ذاتی تصدیق ہوتی ہے۔ فطرت انسانی کے علم کی اہمیت کے باوجود اس کے علم کے راستہ کی اسی مشکل کے پیش نظر خدا نے ایک لاکھ سے بھی زیادہ انبیاء کو مبعوث فرمایا اور آخر کار تعلیم نبوت کو ایک خاتم الانبیاء کے ذریعہ سے مکمل کیا جس کا نچوڑ یہ ہے کہ اے لوگو! اس خدا کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا تاکہ تم اپنے آپ کو اور اپنے خدا کو پہچان سکو۔ (یا ایھا الناس ابعدو ربکم الذی خلقکم) ذاتی تجربہ سے خودی کے ارتقاء کی بلند ترین منزلوں تک پہنچ کر خودی کو واشگاف دیکھنے کے بغیر قوم کا بہترین دماغ بھی زیادہ سے زیادہ کچھ افکار و تصورات کو جمع کر کے ان کو فطرت انسانی کا نام دے لے گا۔ لیکن اس سے خودی کے سربستہ اسرار و رموز منکشف نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اقبال ماہر نفسیات کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ ذہنی افکار و تصورات کی دنیا سے گزر کر قلبی واردات اور احساسات کی دنیا میں آؤ۔ اگرچہ اس کام کے لئے ذرا جرات اور ہمت کی ضرورت ہے۔ تم شاید سمجھتے ہو کہ تم نے اپنی ذہنی افکار کی مدد سے انسانی خودی کو بڑی حد تک سمجھ لیا ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ خودی کے بحر بیکراں میں ابھی اسرار و رموز کے بہت سے جزیرے چھپے ہوئے ہیں۔ انسان کی خودی ایک گہرا اور خاموش سمندر ہے۔ جب تک ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ضرب عصا سے اس سمندر کو چیر کر نہ دیکھیں ہم نہیں جان سکتے کہ اس کے اندر کیا ہے۔ لیکن یہ سمندر عصائے لا الہ الا اللہ کی ضرب سے ہی چیرا جا سکتا ہے۔ جرات ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا ہیں بحر خودی میں بھی پوشیدہ جزیرے کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے عبادت کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی نشوونما کاشف اسرار خودی اس لئے ہے کہ اگر وہ جاری رہے تو بندہ مومن ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے مستقل اور مکمل اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے اور وہ یقین کر لیتا ہے کہ اس کے دل میں سوائے خدا کی محبت کے اور کسی چیز کی تمنا موجود نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا انسان کا محبوب اور انسان کی فطرت کا مقصود اور مطلوب نہ ہو تو خدا کے ذکر سے اس کو اطمینان قلب کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے انسان کو اس حقیقت کی طرف بڑے زور دار الفاظ سے متوجہ کیا ہے کہ دلوں کو خدا کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب) تاکہ انسان سمجھ لے کہ اس کا قدرتی مقصود خدا ہی ہے۔ اقبال لکھتا ہے: ’’ فلسفہ کا کام اشیاء کا علمی مطالعہ ہے اور اس حیثیت سے وہ ایسے تصور سے آگے بڑھنے کی فکر نہیں کرتا جو تجربے کی گوناگوں انواع کو ایک نظام میں منسلک کر دیتا ہے۔ گویا وہ حقیقت کا مشاہدہ دور سے کرتا ہے۔ اس کے برعکس مکاشفہ قلبی حقیقت کو قریب سے دیکھتا ہے۔ اول الذکر محض نظریہ ہے اور آخر الذکر یعنی مکاشفہ ایک زندہ تجربہ حقیقت کے ساتھ ایک رابطہ اور اس کے قرب کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ قرب حاصل کرنے کے لئے فکر کو اپنی سطح سے بلند ہونا چاہئے اور اپنی تکمیل قلب کے اس رحجان کی شکل میں کرنا چاہئے جسے مذہب کی زبان میں عبادت کہتے ہیں اور یہی لفظ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والے آخری الفاظ میں سے ایک تھا۔‘‘ ’’ خطبات‘‘ اگر آدمی علم کی حد سے گزر کر عبادت کے میدان میں قدم رکھے تو وہ محبت کی شیرینی اور محبوب کے دیدار کی نعمت دونوں خوش بختیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ علم کی حد سے پرے بندہ مومن کے لئے لذت شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے خدا کے تصور سے مغربی حکماء کا گریز لیکن مغرب کا ماہر نفسیات ایک ایسے علمی ماحول کی پیداوار ہے جہاں حسی صداقت کا غیر عقلی عقیدہ علم کی ابتداء اور انتہا ہے اور جہاں خدا کا علم سے اور علم کا خدا سے کوئی علاقہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نفسیات انسانی کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے عبادت کے ذریعہ سے خدا سے براہ راست رابطہ پیدا کرنا اور خدا کا دیدار کرنا تو درکنار وہ سرے سے خدا کا نفسیات سے کوئی تعلق ہی نہیں سمجھتا۔ بلکہ اپنے علم کو علم کی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے خدا کے تصور سے بھاگتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کے قدرتی اور بے ساختہ استدلال کا بہاؤ اور نا قابل انکار حقائق کا زور اسے کشاں کشاں خدا کے تصور کی طرف لئے جا رہا ہو تو وہ گھبرا کر رک جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ حقائق کی کوئی اور توجیہ کرے جس سے اس کا استدلال اس راستہ سے ہٹ جائے جو خدا کے تصور کی طرف جاتا ہے۔ فلسفہ خودی کا مرکزی تصور یہ ہے کہ انسان کی خودی خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے یا دوسرے لفظوں میں خدا کی محبت انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ لیکن یہ تصور ایک اور تصور سے بطور ایک نتیجہ کے اخذ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی خودی نصب العین کی محبت کا ایک جذبہ ہے یا دوسرے لفظوں میں نصب العین کی محبت انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ عملی طور پر اس دوسرے بیان کا جو مفہوم نکلتا ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے اس میں الفاظ ’’ نصب العین‘‘ کی بجائے لفظ’’ خدا‘‘ رکھنا علمی اور عقلی نقطہ نظر سے ضروری ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ایک ہی نصب العین ہے جو انسان کو مکمل اور مستقل طور پر مطمئن کر سکتا ہے لہٰذا یہ نصب العین کی محبت کا جذبہ انسان کی فطرت کی رو سے خدا ہی کے لئے ہے اگر کوئی شخص یہ مان لے کہ نصب العین کی محبت کا جذبہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے تو پھر اسے یہ ماننے سے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ خدا کی محبت کا جذبہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے حکماء فطرت انسانی میں نصب العین کو انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے طور پر تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی مثال خود انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے وہ نظریات ہیں جنہوں نے مغرب میں جنم لیا ہے اور جو فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل اور کارل مارکس اور مغرب کے دوسرے حکماء کی طرف منسوب ہیں۔ مغرب کے ان حکماء میں سے ہر ایک یہ مانتا ہے کہ انسانی افراد نصب العینوں سے محبت کرتے ہیں اور نصب العین کی محبت ہی کی وساطت سے بظاہر انسان کے تمام افعال ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس مسلمہ سے یہ نتیجہ ناگزیر تھا کہ انسان میں نصب العین کی محبت کسی جبلت سے یا جبلتوں کے کسی مجموعہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ فطرت انسانی میں اپنا مستقل وجود رکھتی ہے اور وہی انسان کے تمام اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ جبلتوں کی تشفی جس طریق سے ہوتی ہے وہ تو سب کو معلوم ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ قدرت میں ان کا مقصد فرد کی زندگی کی نشوونما ہے لیکن نصب العین کی محبت کی تشفی کا طریق کیا ہے اور قدرت میں نصب العین حسن، نیکی اور صداقت کا ایک تصور ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کی محبت کی مستقل اور مکمل تشفی ایک ایسے نصب العین سے ہی ہو سکتی ہے جس میں حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف بدرجہ کمال موجود ہوں اور ایسا تصور سوائے خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور قدرت میں نصب العین کی محبت کا مقصد فرد کی شخصیت کی نشوونما ہے جو حسن نیکی اور صداقت کی طلب گار ہے۔ لیکن ان حکماء میں سے ہر ایک نے خدا کے تصور کے نتیجہ سے بچنے کے لئے اس طرح سوچا کہ اعمال انسانی پر نصب العین کی محبت کا مقصد فرد کی شخصیت کی نشوونما ہے جو حسن نیکی اور صداقت کی طلب گار ہے۔ لیکن ان حکماء میں سے ہر ایک نے خدا کے تصور کے نتیجہ سے بچنے کے لئے اس طرح سوچا کہ اعمال انسانی پر نصب العین کی حکمرانی سے انکار ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ کسی نہ کسی جبلت کا یا جبلتوں کے کسی مجموعہ کی بگڑی ہوئی یا بدلی ہوئی شکل ہوتا ہے اسی کا خادم ہوتا ہے اور اسی کی تشفی کے لئے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس طرح ہر ایک نے نصب العین کے خاص انسانی امتیاز کی اہمیت کو ختم کر کے اس کی جگہ انسان کی جبلتی یا حیوانی سرشت کی اہمیت کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انسان ایک حیوان ثابت ہو اور یہ ظاہر ہو کہ اسے بھی حیوان کی طرح خدا کی ضرورت نہیں۔ لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کوئی شخص محض استدلال سے نہ انسان کو حیوان ثابت کر سکتا ہے اور نہ سونے کو مٹی یہی سبب ہے کہ ان حکماء میں سے ہرایک کا استدلال عقلی اور علمی لحاظ سے غلط اور ناقص اور غیر تسلی بخش ہو کر رہ گیا ہے۔ خودی اور فرائڈ ازم مثلاً فرائڈ (Freud) کا خیال ہے کہ اعمال انسانی کی اصل قوت محرکہ جبلت جنس (Sex Instinct) ہے جس کا مرکز انسان کا لاشعور ہے جو کچھ انسان کرتا ہے اس کا مقصد بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی لا محدود جنسی خواہشات کی مکمل تشفی کا سامان بہم پہنچائے۔ باقی رہا یہ سوال کہ فطرت انسانی میں نصب العین کی محبت کا مقام کیا ہے اور کیوں جبلت جنس کی بجائے نصب العین ہی انسان کے سارے اعمال پر حکمران نظر آتا ہے۔ تو فرائڈ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ صرف جبلت جنس کی بدلی ہوئی شکل ہے اور وہ اس طرح کہ جب ایک انسان سماج کی عائد کی ہوئی پابندیوں کے خوف سے اپنی جنسی خواہشات کو آزادی سے مطمئن کر سکتا تو وہ ذہنی پریشانی اور بے عزتی دونوں سے بچنے کے لئے یہ فرض کر لیتا کہ وہ جنسی خواہشات کی آسودگی کی بجائے کسی علمی، اخلاقی، مذہبی یا جمالیاتی نصب العین کو چاہتا ہے اس طرح اس کی جنسی خواہشات بدل کر نصب العین کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ چونکہ فرائڈ فطرت انسانی میں انسان کے نصب العین کے صحیح مقام کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کے نظریہ میں علمی اور عقلی نقطہ نظر سے کئی خامیاں اور کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس پر کئی معقول اعتراضات وارد ہوتے ہیں مثلاً 1اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ جبلت جنس کی ایک بدلی ہوئی صورت ہے۔ کسی دلیل کی عدم موجودگی میں یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ نصب العین کی خواہش انسان کی اصلی اور حقیقی خواہش ہے اور جنسی خواہش کی ایک بدلی ہوئی صورت نہیں۔ تعجب ہے کہ فرائڈ اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی مشکلات کا سامنا نہیں کرتا۔ تاہم وہ اپنے نظریہ کی بنیاد ہی اس پر رکھتا ہے۔ 2یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ وہ ناپاک اور شرمناک جنسی خواہشات جن کو انسان سماج کے خوف سے مطمئن نہیں کر سکتا جن کے خیال کو بھی ایک جرم سمجھ کر چھپاتا ہے وہ خواہشات کس طرح ایک پاکیزہ مذہبی یا اخلاقی نصب العین میں بدل سکتی ہیں۔ 3اگر نصب العینی خواہشات ناپاک جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی شکل ہیں تو وہ بدلنے کے عمل میں ناپاک سے پاک کیوں ہو جاتی ہیں اور کسی دوسری قسم کی ناپاک خواہشات میں کیوں نہیں بدلتیں۔ اور پھر وہ نصب العینی خواہشات سے پیدا ہونے کے باوجود ان کی مخالفت کیوں کرتی ہیں اور یہ مخالفت اس حد تک کیوں چلی جاتی ہے کہ انسان نصب العین کی خاطر بعض وقت اپنی جائز جنسی خواہشات کو بھی مطمئن کرنے سے گریز کرتا ہے۔ مثلاً جب ایک انسان کسی بلند نصب العینی مقصد کے لئے شادی کرنے سے انکار کر دے۔ 4 اگر جبلت جنس بدل کر نصب العین بن جاتی ہے تو جبلت تغذیہ، جبلت استیلائ، جبلت انقیاد، جبلت غضب، جبلت فرار اور جبلت امومت میں سے ہرایک کیوں نہیں بدلتی۔ اور پھر جب جبلت جنس انسان اور حیوان دونوں میں موجود ہے تو وہ انسان میں کیوں بدلتی ہے حیوان میں کیوں نہیں بدلتی۔ 5جبلت جنس فقط جوانی میں نمودار ہوتی ہے تو پھر اگر انسانی اعمال کی قوت محرکہ وہی ہے تو وہ اعمال جو جبلت جنس کے نمودار ہونے سے پہلے صادر ہوتے ہیں۔ وہ اس جبلت کی پیداوار کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب میں فرائڈ یہ کہتا ہے کہ یہ جبلت آغاز حیات ہی سے موجود ہوتی ہے۔ چنانچہ بچہ کا انگوٹھا چوسنا، ماں کی چھاتیوں سے دودھ چوسنا یا خوراک کا نگلنا یا فضلات اور رطوبات کا خارج کرنا یا لڑکے کا ماں سے اور لڑکی کا باپ سے بلکہ اس کے فرض کئے ہوئے مقلوب جنسی الجھاؤ کی صورت میں لڑکے کا باپ سے اور لڑکی کا ماں سے محبت کرنا سب جنسی قسم کے مشاغل ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ فرائڈ کا یہ جواب جو جبلت جنس کو مضحکہ خیز حد تک وسعت دیتا ہے، معقول نہیں۔ 6قدرت نے انسان کی فطری خواہشات کے ساتھ ایک قسم کی راحت اور مسرت وابستہ کر رکھی ہے۔ اگر انسان کی نصب العینی مذہبی اور اخلاقی خواہشات اس کی فطری خواہشات نہیں بلکہ اس کی بدلی ہوئی غیر فطری خواہشات ہیں تو ان کی تشفی سے اس کو راحت اور مسرت کیوں حاصل ہوتی ہے اور لوگ ان بگڑی ہوئی غیر فطری خواہشات کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر لوگ ان کو پسند نہ کریں تو کوئی شخص ان کی پناہ لے کر سماج میں مقبول نہیں بن سکتا۔ ان اعتراضات کا کوئی معقول جواب ایسا ممکن نہیں جو فرائڈ کے نظریہ کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہو۔ فلسفہ خودی کی رو سے نصب العین کی محبت کا جذبہ جبلت جنس کی بگڑی ہوئی یا بدلی ہوئی صورت نہیں بلکہ انسان کی فطرت کا ایک مستقل تقاضا ہے جو انسان کی تمام جبلتوں کو اپنے تصرف میں رکھتا ہے اور یہ جذبہ محبت صرف خدا کے نصب العین کی محبت سے مستقل اور مکمل طور پر تشفی پا سکتا ہے۔ خودی اور ایڈ لرزم فرائڈ کے ایک شاگرد ایڈلر (Adler) نے اپنے استاد کی خیال آرائیوں سے اختلاف کر کے انہیں غلط قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے نزدیک انسان کے اعمال کو قوت محرکہ اگر جبلت جنس نہیں تو جبلت تفوق (Self Asserton) ہے اس کا خیال یہ ہے کہ انسان کے سارے اعمال و افعال کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور برتر بنائے۔ اور دوسروں سے زیادہ قوت اور طاقت حاصل کر کے ان پر غالب آئے۔ انسانی فرد جب دنیا میں آتا ہے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اپنی ہر ضرورت اور خواہش کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اس کمتری کے مقام سے راضی نہیں ہوتا بلکہ تمنا کرتا ہے کہ جدوجہد کر کے اپنی کمتری کو دور کرے اور لوگوں کی توجہ اور ستائش کا مرجع بن جائے اور یہی تمنا اس کی زندگی کی ساری تگ و دو کا سبب بنتی ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ پھر انسان کی فطرت میں نصب العین کی محبت کا مقام کیا ہے اور کیوں جبلت تفوق کی بجائے نصب العین ہی انسان کے سارے اعمال کا حکمران نظر آتا ہے تو ایڈلر اس سوال کا جواب فرائڈ ہی کی طرح یہ دیتا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کی آرزوئے تفوق کی ایک وہمی توجیہ ہوتا ہے۔ انسان کا نصب العین وہی تصور ہوتا ہے جو اس کے خیال میں اس کی کمتری کی تلافی کر سکتا ہے اور اسے قوی اور طاقت ور بنا سکتا ہے چونکہ افراد کی اپنی کمتری کے تصورات مختلف ہوتے ہیں اس لئے ان کے وہ تصورات بھی مختلف ہوتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کی کمتری کو دور کر سکتے ہیں۔ یہی تصورات ان کے نصب العین ہوتے ہیں۔ چونکہ لوگ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کو پسند کرتے ہیں جو شخص ان اوصاف کو اپنا لیتا ہے وہ لوگوں میں پسندیدہ ہو جاتا ہے اور لہٰذا قوت اور طاقت حاصل کر لیتا ہے۔ ایڈلر کا نظریہ کئی سوالات پیدا کرتا ہے مثلاً 1اگر بچہ شروع ہی سے بڑوں میں رہنے کی وجہ سے اپنی کمتری اور دوسروں کی بڑائی کے احساس کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر اپنے اس مقام کو ضروری اور قدرتی سمجھ کر اس سے رضا مند کیوں نہیں ہو جاتا اور کیوں اس کے خلاف رد عمل کر کے اپنی کمتری کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے صاف ظاہر ہے کہ بڑائی یا عظمت کی محبت اس کے دل میں شروع سے ہی اس کی فطرت کے ایک ضروری عنصر کے طور پر موجود ہوتی ہے ۔ کیا یہ حقیقت فلسفہ خودی کی تائید مزید نہیں کرتی جس کی رو سے انسان، خدا اور اس کی صفات حسن، نیکی، صداقت، قوت اور عظمت کی محبت کا ایک جذبہ ہے۔ اگر انسان خدا کی محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو اس میں عظمت کی محبت بھی نہ ہوتی اور وہ قوت اور عظمت کے حصول کی تمنا بھی نہ کر سکتا۔ بچہ ستائش کا طالب اس لئے ہوتا ہے کہ ستائش حسن کے لئے ہوتی ہے اور وہ بحیثیت انسان کے ہمہ تن آرزوئے حسن ہے۔ ستائش کے طالب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اسے معلوم ہے کہ بعض اوصاف ستائش کے قابل ہوتے ہیں اور بعض ستائش کے قابل نہیں ہوتے۔ اس کی خودی میں ایک معیار رکھ دیا گیا ہے جس سے وہ حسن کو غیر حسن سے ممیز کرتا ہے۔ اس معیار پر صرف خدا کا تصور ہی پورا اتر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ معیار خدا کی محبت کا جذبہ نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر کیوں نہ سمجھا جائے کہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے نہ کہ جبلت تفوق۔ 2قدرت نے جبلت تفوق کا دائرہ کار بہت محدود رکھا ہے۔ یہ جبلت قدرت نے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں حیوان کو اس لئے دی تھی کہ وہ اس کی مدد سے مخالف حملہ آور حیوانات کا مقابلہ کر کے ان پر غالب آئے تاکہ اپنی زندگی اور نسل کو برقرار رکھ سکے۔ انسان میں آ کر بھی اس جبلت کا مقصد اور جبلتوں کی طرح وہی رہتا ہے جو حیوانی مرحلہ ارتقا میں تھا۔ یعنی بحیثیت حیوان کے انسان کی بدنی اور حیاتیاتی زندگی کی حفاظت۔ لیکن جس طرح فرائڈ نے جبلت جنس مضحکہ خیز تک وسعت دے کر انسان کے سیاہ و سفید کا مالک فرض کر لیا تھا۔ اسی طرح ایڈلر نے جبلت تفوق کو غیر معمولی حد تک وسعت دے کر انسان کا آمر مطلق فرض کر لیا ہے۔ تاکہ فطرت انسانی میں نصب العین کے مقام کو نظر انداز کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی مرحلہ ارتقاء میں ایسا کیوں ہوا ہے اور اس کے ہونے کا ثبوت کیا ہے کہ جبلت تفوق اپنے اصلی حیاتیاتی دائرہ کار سے عبور کر کے انسان کی تمام جبلتوں پر حکمران ہو گئی ہے۔ جب ایڈلر کا کوئی معقتدان سوالات کا ایسا معقول اور مدلل جواب دینے کی کوشش کرے گا جو انسان اور کائنات کے تمام معلومہ اور مسلمہ حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو تو اس کی توجہ لازماً ایسے حقائق کی طرف ہو گی جن کی روشنی میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ جبلت تفوق نہیں بلکہ خدا اور اس کی صفات (حسن، نیکی، صداقت، قوت، عظمت وغیرہ) کی محبت ہے اور یہی نتیجہ فلسفہ خودی کا نچوڑ ہے۔ خودی اور میکڈوگل ازم میکڈوگل (Mcdougall) کے نزدیک انسان کے اعمال کی قوت محرکہ اس کی جبلتیں ہیں وہ لکھتا ہے: ’’ جبلتیں انسان کے سارے اعمال کی حرکت میں لانے والی بنیادی قوتیں ہیں۔‘‘ میکڈوگل تسلیم کرتا ہے کہ انسان اور حیوان کی جبلتیں ایک ہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضروری ہے کہ حیوان اور انسان کے فطری رحجانات اور قدرتی اعمال و افعال بھی ایک ہی ہوں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسانی فطرت کے بعض امتیازات ایسے بھی ہیں جو حیوان میں موجود نہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کسی علمی، اخلاقی، روحانی یا جمالیاتی نصب العین کی خاطر اپنی جبلتوں کی مخالفت کر سکتا ہے لیکن حیوان جبلتوں کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نصب العین کی محبت کا جوہر حیوان میں موجود ہی نہیں لیکن یہ نصب العین کی محبت انسان میں کہاں سے آئی ہے۔ فطرت انسانی میں اس کا ماخذ مقام اور کردار کیا ہے۔کیا یہ بھی کوئی جبلت ہے۔ میکڈوگل کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک جبلت نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے جو جبلتوں کی ترکیب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس جذبہ کو وہ جذبہ ذات اندیشی کا نام دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ جذبہ جبلت تفوق کی مدد سے دوسری جبلتی خواہشات کی مخالفت کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ میکڈوگل کا یہ نظریہ بہت سے اعتراضات کی زد میں آتا ہے مثلاً 1اگر انسان کے اندر اس کی حیوانی جبلتیں مل کر اور ترکیب پا کر نصب العینی خواہش پیدا کر سکتی ہیں تو حیوان میں کیوں پیدا نہیں کرتیں۔ بالخصوص جب میکڈوگل تسلیم کرتا ہے کہ انسان اور حیوان میں جو چیز امتیاز پیدا کرتی ہے وہ فقط عقل ہے جو انسان میں ہے اور حیوان میں نہیں اور انسانی عقل انسانی جبلتوں کی اس ترکیب کا سبب نہیں جو جذبہ اندیشی کی صورت اختیار کرتی ہے۔ 2اگر نصب العینی خواہش جبلتوں کی ترکیب سے پیدا ہوئی ہے تو وہ جبلتوں کی مخالفت کیوں کرتی ہے یہاں تک اس کی خاطر ایک انسان بعض وقت نہ صرف اپنی جبلتی ضروریات کو بلکہ اپنی زندگی کو بھی (جس کی حفاظت کے لئے وہ موجود ہوئی ہیں) قربان کر دیتا ہے اور پھر یہ نصب العینی خواہش جبلتی خواہشات کو میکڈوگل کے اپنے الفاظ میں ’’ خوف‘‘ (Horror) اور ’’ حقارت‘‘ (Detertation) کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے۔ 3بعض وقت جبلت تفوق کا مقصد نصب العینی خواہش کے مقصد کے بالکل برعکس قسم کا ہوتا ہے۔ جبلت تفوق تو فقط غلبہ کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن بعض وقت ایک انسان اپنے نصب العین کی ناداری، کمزوری، بیچارگی اور ذلت بلکہ موت تک کو بخوشی قبول کر لیتا ہے ایسی حالت میں جبلت تفوق جو غلبہ چاہتی ہے۔ جذبہ ذات اندیشی یا نصب العینی خواہش کی مدد کیوں کر کرتی ہے۔ اگر نصب العینی خواہش کی تشریح کے لئے فلسفہ خودی کی اس روشنی کو قبول کر لیا جائے کہ نصب العین کی محبت انسانی فطرت کا ایک مستقل جذبہ ہے جو جبلتوں کے کسی مرکب سے پیدا نہیں ہوا تو اس تشریح پر اس قسم کے کوئی اعتراضات وارد نہیں ہو سکتے۔ خودی اور مارکسزم کارل مارکس (Karl Marx) کے نزدیک بنیادی طور پر انسان کے اعمال کی قوت محرکہ جبلت تغذیہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ حیوان خوراک حاصل کر کے اپنی زندگی برقرار رکھے۔ چونکہ خوراک کا مقصد زندگی کا قیام ہے۔ کارل مارکس خوراک کی ضرورت میں انسان کی اور ایسی ضرورتیں بھی شامل کرتا ہے جس کی تشفی بقائے حیات کے لئے ضروری ہے۔ مثلاً موسم کے مطابق کپڑا اور گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لئے رہائشی مکان وغیرہ اور ان سب کو ملا کر اقتصادی ضروریات کا نام دیتا ہے۔ کارل مارکس تسلیم کرتا ہے کہ انسان اخلاقی، مذہبی، روحانی، علمی، جمالیاتی اور سیاسی نصب العینوں سے محبت کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ انسان کے اعمال بظاہر نصب العین کی خاطر ظہور پذیر ہوتے ہیں تاہم وہ نصب العینوں کے لئے شعور (Consciousness) یا مشتملات شعور (Contents of Consciousness) کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے اعمال کی قوت محرکہ اس کی اقتصادی ضروریات ہیں تو انسان کے نصب العینوں کی حیثیت کیا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ انسان کے سارے اعمال و افعال اقتصادی ضروریات سے نہیں بلکہ نصب العینوں سے پیدا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کارل مارکس اور اس کا دوست اور فلسفہ سوشلزم کی تخلیق کا شریک کار اینجلز دونوں اس حقیقت کی ایک عجیب و غریب وجہ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل نو اقتصادی ضروریات ہی انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہیں لیکن انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی اقتصادی ضروریات کے لئے نہیں بلکہ کسی نصب العین کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ بات کچھ اس قسم کی ہے ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہو کر چلا جا رہا ہو اور دیکھنے والوں کو ساتھ ساتھ یہ کہتا جائے کہ آپ یقین کیجئے میں در حقیقت پیدل چل رہا ہوں۔ آپ کو فقط ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر جو کچھ محسوس ہوتا ہے حقیقت وہ نہیں تو س کا کوئی ثبوت بھی تو ہونا چاہئے کہ حقیقت کچھ اور ہے ورنہ جو کچھ محسوس ہوتا ہے اسی کو حقیقت سمجھا جائے گا۔ ذاتی احساس سے بڑھ کر کسی چیز کا ثبوت اور کیا ہو گا خصوصاً ایسی حالت میں جب دنیا میں ہر آدمی کا احساس وہی ہو اور اس کلیہ کا استثنیٰ ایک بھی موجود نہ ہو۔ ہر مشاہدہ بھی تو دیکھنے والے کی ذاتی احساس میں بدل کر ہی ایک حقیقت بنتا ہے۔ دراصل یہ حکماء اس قسم کا بے بنیاد دعویٰ کر کے یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ تاریخ کا ہر مذہبی، علمی یا اخلاقی انقلاب در حقیقت ایک اقتصادی انقلاب تھا۔ مارکس لکھتا ہے: ’’ جس طرح سے کوئی شخص ایک فرد کے متعلق اس بناء پر کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے اس طرح سے کوئی شخص سماجی انقلاب کے ایک دور کے متعلق اس بناء پر کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا کہ اس دور کے لوگوں کا شعور (یعنی نصب العین) کیا ہے۔‘‘ اسی طرح سے اینجلز لکھتا ہے: ’’ نصب العین کی سوچ ایک ایسا عمل ہے جسے نام نہاد سوچنے والا لاریب شعوری طور پر انجام دیتا ہے لیکن ایک کاذب شعور کے ساتھ۔ اس کے عمل کو حرکت میں لانے والی اصلی قوتیں اس کے لئے نامعلوم رہتی ہیں۔ لہٰذا وہ عمل کی کاذبہ اور ظاہری قوتوں کا ہی تصور کرتا ہے۔ چونکہ اس کا سارا عمل نصب العین کے ذریعہ سے انجام پاتا ہے اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نصب العین پر مبنی ہے۔‘‘ لیکن اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ جو شخص ایک اخلاقی یا مذہبی نصب العین کی جستجو کرتا ہے، اس کا خیال کاذب ہوتا ہے کہ وہ ایسا کر رہا ہے اور در حقیقت وہ اپنی اقتصادی ضروریات کا اہتمام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک شخص کو دماغی طور پر صحت مند ہونے کے باوجود اپنی اقتصادی ضروریات کسی اخلاقی یا مذہبی نصب العین کے ایسے تقاضے نظر آتے ہیں جن کا اقتصادی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ جن کی خاطر وہ اپنی اقتصادی ضروریات کو بلکہ اپنی زندگی کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ جب ایک شخص کو بھوک لگتی ہے تو وہ صاف کہتا ہے کہ اسے خوراک کی ضرورت ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اسے مسجد میں جانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب وہ اپنی بھوک کا علاج کرنے کے لئے موجودہ اقتصادی حالات کو بدلنا چاہتا ہے تو صاف طور پر اپنے مقصود کا ذکر کیوں نہیں کرتا اور اس کی بجائے کسی اخلاقی یا مذہبی نصب العین کا ذکر کیوں کرتا ہے اور اس کی عقل پر ایسا پردہ کیوں پڑ جاتا ہے جو اس کو بھلا دیتا ہے کہ وہ در حقیقت کیا چاہتا ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ اقتصادی تبدیلی کو برپا کرنے کے لئے ایک ٹیڑھا اور منافقانہ راستہ اختیار کر کے یہ کیوں کہتا ہے کہ وہ فلاں مذہبی یا اخلاقی نصب العین کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ مارکس اور اینجلز کے خیال کے مطابق انسان فقط ایک اقتصادی وجود ہے اور ایک مذہبی یا اخلاقی وجود نہیں۔ اور اس کے لئے سیدھا اور غیر منافقانہ راستہ اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں۔ جب انسان کی ساری خواہشات اقتصادی خواہشات ہیں تو وہ ظاہر طور پر لاشعوری طور پر یا منافقانہ بھی ایسی غیر حقیقی اور فرضی خواہشات کا بندہ کیوں بن جاتا ہے جو روحانی یا اخلاقی خواہشات کہلاتی ہیں اور جن کے مقابلہ میں وہ اقتصادی خواہشات کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا اور پھر جب کسی شخص کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے کہ اس کے عمل کے اصلی محرکات کیا ہیں تو مارکس اور اینجلز کو ان محرکات کا علم کیسے ہو گیا۔ اینجلز تسلیم کرتا ہے کہ انسان کا ’’ سارا عمل نصب العین کے ذریعہ سے انجام پاتا ہے۔‘‘ لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود وہ یہ نہیں مانتا کہ یہ عمل نصب العین پر مبنی ہے حالانکہ کسی دلیل کے بغیر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ نصب العین کے ذریعہ سے اسی لئے انجام پاتا ہے کہ وہ در حقیقت اس پر مبنی ہے۔ ایک قابل غور بات یہ بات قابل غور ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارے مشتملات شعور یا ہمارے نصب العین (خواہ مارکسی انہیں اقتصادی حالات کی پیداوار یا اقتصادی ضروریات کی کاذب اور بگڑی ہوئی شکلیں ہی کیوں نہ سمجھیں) ہمیشہ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ وہ ہر حالت میں ان ہی صفات سے حصہ لیتے ہیں اور جوں جوں اپنے آپ کے متعلق ہمارا علم ترقی کرتا جا رہا ہے وہ ان صفات سے اور قریب ہوتے جا رہے ہیں اگر ہم اقتصادی ناہمواریوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر بھی ہم انصاف، انسداد ظلم، مساوات، اخوت، آزادی، جمہوریت ایسے تصورات کا نام لیتے ہیں جو حسن نیکی اور صداقت اور خدا کی دوسری صفات سے ماخوذ ہیں اور حسن کی تمنا خدا کی آرزو کا ایک عنصر ہے۔ ان اوصاف کی تمنا ہمارے تمام انقلابات کا مشترک پس منظر ہوتی ہے۔ خواہ یہ انقلابات اقتصادی ہوں یا اخلاقی یا مذہبی یا علمی یا سیاسی کیا یہ حقیقت اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ حسن، نیکی اور صداقت کی آرزو انسان کے شعور کی ایک مستقل خاصیت ہے جس کی تشفی کے لئے ہم وقتاً فوقتاً اپنے اقتصادی، اخلاقی، علمی اور سیاسی حالات کو بدلنے کے لئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ مشتملات شعور میں کارل مارکس نے عقل اور استدلال کو بھی شمار کیا ہے چونکہ عقل بھی اقتصادی حالات کا نتیجہ ہے وہ صداقت کی جستجو کرنے کے لئے آزاد نہیں اور لہٰذا صداقت کو دریافت نہیں کر سکتی۔ یہ نقطہ نظر سراسر غیر عقلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی یہ سمجھے کہ وہ گرد و پیش کے اقتصادی حالات سے آزاد ہو کر عقلی استدلال کر رہا ہے تو یہ سمجھ لیجئے کہ وہ ایک وہم میں مبتلا ہے لیکن اگر صداقت دریافت نہیں کی جا سکتی تو مارکس کے پیرو اپنے فلسفہ کو ایک صداقت کے طور پر کیوں پیش کرتے ہیں۔ مارکس اور اینجلز نے اپنے فلسفہ کی بنیاد عقلی استدلال پر رکھی ہے اور وہ عقلی استدلال ہی سے دوسروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے اگر انسان کی عقل بھی وہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہے جو مروجہ اقتصادی حالات مقرر کریں تو پھر اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی اور نہ وہ اس قابل ہی ہو سکتی ہے کہ صداقت کی طرف راہنمائی کرے۔ اگر اشتراکیت کا فلسفہ بھی اقتصادی ضروریات کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے تو پھر نہ وہ عقل پر مبنی ہو سکتا ہے اور نہ درست۔ ایک نا قابل انکار حقیقت فلسفہ خودی کا یہ اہم تصور کہ نصب العین (جو ایک فلسفیانہ نظریہ حیات کی صورت اختیار کرتا ہے) اقتصادی حالات کو پیدا کرتا ہے اور خود اقتصادی حالات سے پیدا نہیں ہوتا۔ ایک ایسی زور دار اور نا قابل انکار حقیقت ہے کہ مارکس کے اس زمانہ کے شاگرد یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کے لئے نا ممکن ہے کہ وہ اس سے پیچھا چھڑا سکیں۔ اگرچہ وہ مجبور ہیں کہ وہ مارکس کے اس متضاد عقیدہ پر بھی ایمان رکھیں کہ نصب العین اقتصادی حالات سے پیدا ہوتا ہے اور اقتصادی حالات کو پیدا نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ بعض وقت متضاد باتیں کہنے لگ جاتے ہیں۔ مارکس صاف طور پر کہتا ہے کہ ’’ انسانی افراد اپنی بار آور قوتوں کی ترقی کے کسی خاص مرحلہ سے متعین ہوتے ہیں اور بار آور تعلقات کے ظہور میں ان کی مرضیوں کو دخل نہیں ہوتا۔‘‘ لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان کی مرضی سب کچھ ہے۔ وہی بار آور قوتوں کو پیدا کرتی ہے اور وہی بار آور تعلقات کو معرض وجود میں لاتی ہے۔ یا اگر بار آور قوتیں انسان کی مرضی کے بغیر خود بخود پیدا ہو رہی ہوں تو انسان کی مرضی ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان قوتوں کو ترقی دی جائے یا نہ دی جائے ان کو قائم رکھا جائے یا فنا کیا جائے یا کس حد تک قائم رکھا جائے اور کس حد تک فنا کیا جائے۔ لہٰذا انسان ایک بے جان چیز کی طرح بار آور قوتوں کا کھلونا نہیں کہ وہ جس طرح سے چاہیں اس کے ساتھ کھیلیں۔ انسان زندہ آرزوؤں کا ایک طوفان ہے اور وہ اپنے گرد و پیش کی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی تمنا اور قوت رکھتا ہے۔ وہ بار آور قوتوں سے معین نہیں ہوتا بلکہ خود ان کو معین کرتا ہے اور انسان کی مرضی اس کی وہی آرزوئے حسن ہے جو کسی نصب العین کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے اور خدا کی محبت سے پوری طرح مطمئن ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مارکس کے دور حاضر کے شاگردوں نے اپنے استاد کے اس بنیادی مفروضہ کو حقائق کے مطابق نہ پا کر اسے بدلنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو نہیں سوچا کہ ایسا کرنے سے اس کے فلسفہ کی ساری عمارت ہی زمین بوس ہو جائے گی۔ روس میں شائع ہونے والی ’’ مارکسی فلسفہ کی درسی کتاب‘‘ کو اشتراکی فلسفہ کے کئی نامور ماہرین نے مل کر مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مارکس کے اس مفروضہ کو بدل کر اس طرح سے لکھا ہے: ’’ انسانی افراد معاشرتی تعمیر اور اقتصادی ترقی کے کسی مرحلہ سے معین نہیں ہوتے بلکہ متاثر ہوتے ہیں۔‘‘ پھر نصب العین اور اقتصادی حالات کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’ لیکن ایک روسی جانتا ہے کہ انسان کا نصب العین (یا نظریہ) اہمیت رکھتا ہے۔ وہ استحصال اور طفیلیت کے پیچھے ایک مثبت قوت کے طور پر موجود ہوتا ہے اور اگر آپ اپنی سیاسی اور صنعتی تدبیروں کے ساتھ سرمایہ دارانہ فلسفہ کی تردید اور ایک متبادل فلسفہ کی تبلیغ نہ کریں تو آپ معاشرہ کی بیماری کو دور نہیں کر سکتے۔ روسی جس فلسفہ کی تردید کرتے ہیں۔ اس کے مغالطوں کو جانتے ہیں اور ان کے پاس ایک اپنا فلسفہ ہے جو ان کو ہر چیز کے دیکھنے کے لئے روشنی بخشتا ہے۔‘‘ ’’ اس بات سے ان لوگوں کو تعجب ہو گاجنہوں نے ہمیشہ یہ سمجھا ہے کہ اشتراکی فلسفہ کا پہلا اصول یہ ہے کہ نظریات اقتصادی حالات سے پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگرچہ کوئی نظریہ محض خیال کی پرواز سے اور معاشرہ کی ضروریات سے الگ وجود میں نہیں آتا۔ تاہم جب کوئی نظریہ ایک دفعہ جنم لے لے تو پھر وہ ایک مستقل قوت کی صورت اختیار کر لیتا ہے اگر اس پر یقین کیا جائے تو جس اقتصادی نظام کی یہ پیداوار ہوتا ہے اسے ہمیشہ قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اور اگر اسے باطل ثابت کر دیا جائے تو اس نظام کی ایک بنیاد گر جاتی ہے۔ اس لئے ایک روسی چیسٹرٹن سے اتفاق رکھتا ہے کہ انسان کی جو چیز عملی اہمیت رکھتی ہے وہ کائنات کے متعلق اس کا نظریہ ہے۔‘‘ ’’ ہم سمجھتے ہیں کہ ہوٹل کی ایک مالکہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسافر پوچھے کہ اس کی آمدنی کیا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ضرور یہ ہے کہ وہ دریافت کرے کہ اس کا نظریہ کائنات کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک سپہ سالار کے لئے جو دشمن سے جنگ کر رہا ہو یہ دریافت کرنا ضروری ہے کہ دشمن کی فوجوں کی تعداد کیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ بات ہے کہ وہ دریافت کرے کہ دشمن کا فلسفہ کیا ہے۔‘‘ (چیسٹرٹن) ’’ تاریخ عالم میں کوئی بڑی تحریک ایسی وجود میں نہیں آئی جو ایک فلسفیانہ تحریک نہ تھی۔ بڑے بڑے نظریات کے ابھرنے کا زمانہ بڑے بڑے نتائج کے رونما ہونے کا زمانہ تھا۔‘‘ ’’ درحقیقت یہ قطعاً نا ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن کو فلسفہ سے بالکل آزاد رکھے۔ وہ شخص جو کہتا ہے کہ وہ فلسفی نہیں ایک گھٹیا فلسفی ہے۔‘‘ ایک واضح اعتراف اس تحریر میں ذیل کے روشن حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ 1یہ قطعاً نا ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذہن کو فلسفہ سے بالکل آزاد رکھے۔ گویا کسی نہ کسی نظریہ یا نصب العین کو ماننا ہر انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ 2 انسان کا نظریہ استحصال کے پیچھے ایک مثبت قوت کی طرح کام کرتا ہے جب تک ایک نظریہ کو باطل ثابت کر کے اس کی جگہ دوسرے نظریہ کی تبلیغ نہ کی جائے معاشرہ کی بیماری دور نہیں ہو سکتی۔ 3انسان کی زندگی میں جو چیز عملی اہمیت رکھتی ہے وہ اس کا نظریہ ہے۔ 4بڑے بڑے نظریات بڑے بڑے واقعات کا سبب ہوتے ہیں ان کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف اور کیا ہو گا کہ نصب العین یا نظریہ ہی اقتصادی حالات کو پیدا کرتا اور قائم رکھتا ہے۔ ایسے زور دار الفاظ میں نظریات کو اقتصادی حالات پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی ایک قوت تسلیم کرنے کے بعد ’’ درسی کتاب‘‘ کے مصنفین کا یہ کہنا کہ کوئی نظریہ محض خیال کی پرواز سے اور معاشرہ کی ضروریات سے الگ وجود میں نہیں آتا۔ اس حقیقت کے خلاف جس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ کوئی بات ثابت نہیں کرتا۔ کون کہتا ہے کہ ایک نیا نظریہ محض پرواز خیال کا نتیجہ ہوتا ہے اور معاشرہ کے اقتصادی حالات سے بے تعلق ہوتا ہے؟ اقتصادی حالات اور نظریہ کا فطری اور صحیح تعلق (جسے مارکسی نہیں سمجھتے نا سمجھنا چاہتے ہیں) یہ ہے کہ ہر نظریہ ایسے اقتصادی اور اخلاقی حالات پیدا کرتا ہے جو اس کے مطابق ہوتے ہیں۔ اگر نظریہ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف سے مکمل طور پر بہرہ ور نہ ہو اور ناقص ہو تو یہ حالات بھی ناقص ہوتے ہیں اور ان کا نقص نظریہ کے نقص کی نشاندہی کرتا ہے اور ہمیں نظریہ کو تبدیل کرنے کے لئے اکساتا ہے۔ یہ حقیقت کہ ہم حالات کو بدلنے کے لئے پہلے نظریہ کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ثابت کرتی ہے کہ حالات کو پیدا کرنے والی اور قائم رکھنے والی قوت نظریہ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف خودی کی فطرت راہنمائی پیدا کرتی ہے۔ نہ ہر نظریہ کا ابطال ممکن ہے اور نہ ہر نظریہ کا اثبات، عقل اور علم کے مسلمہ معیاروں کے مطابق صرف صحیح نظریہ کا اثبات اور صرف غلط نظریہ کی تردید ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کی بیماریاں صرف ایک ایسے نظریہ کو اختیار کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ جو علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق درست نہ ہو اور صرف ایک ایسے نظریہ کو اختیار کرنے سے دور ہو سکتی ہیں جو عقلی اور علمی معیاروں کے مطابق درست ہو۔ کائنات اور انسان کے حقائق پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمی اور عقلی بنیادوں کے مطابق مارکسی فلسفہ غلط ہے اور فلسفہ خودی صحیح ہے اور فلسفہ خودی کی کامیاب تردید ممکن نہیں۔ اس صورت میں مارکسیوں کے اپنے فیصلہ کے مطابق یہی وہ فلسفہ ہے جو معاشرہ کی تمام بیماریوں کا علاج کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ مارکس کے اس عقیدہ نے کہ اقتصادی حالات نظریہ سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ نظریہ کو پیدا کرتے ہیں اسے اس بے بنیاد خطرناک اور مہلک تصور کو اپنانے پر مجبور کیا ہے کہ حقیقت کائنات مادہ ہے شعور نہیں اور اس سے مزید خرابی یہ پیدا ہوئی ہے کہ اس کا نظریہ تاریخ از سر تاپا غلط ہو کر رہ گیا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جب لوگوں نے اعتراضات شروع کئے کہ اقتصادی محرک انسان کے سارے اعمال کی تشریح نہیں کر سکتا تو مارکس کے رفیق اینجلز نے کہا کہ ہم کب کہتے ہیں کہ اقتصادی محرک انسان کے سارے اعمال کی تشریح کر سکتا ہے۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ بہت بڑا محرک ہے اور اسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اینجلز کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ تاریخ کے عمل میں دوسرے محرکات کا حصہ کیا ہے، لیکن یہ بتانا نا ممکن تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ جب عمل تاریخ کا محرک ایک نہ ہو تو تاریخ کا کوئی فلسفہ ممکن ہی نہیں۔ یہ عذر دراصل اس بات کا اعتراف ہے کہ مارکسیوں کا کوئی فلسفہ تاریخ سرے سے موجود نہیں۔ خودی اور کرداریت (Behaciourisim) یہاں تک تو بعض ایسے مغربی حکماء کا ذکر تھا جنہوں نے حسی صداقت کا مفروضہ صرف اس خیال کی حد تک اپنایا تھا کہ چونکہ خدا ایک غیر حسی تصور ہے اسے علم کے دائرہ میں نہیں آنا چاہئے لیکن وہ کسی نہ کسی رنگ میں انسانی شعور کے قائل تھے۔ تاہم جوں جوں وقت گذرتا تھا مغرب کا علم جیسا کہ توقع کی جا سکتی تھی۔ اس مفروضہ کی دلدل میں اور غرق ہوتا گیا یہاں تک کہ مغرب کی علمی دنیا میں بعض ایسے نام نہاد حکماء بھی پیدا ہوئے جنہوں نے یہ آواز بلند کی کہ انسانی شعور یا ذہن بھی ایک غیر حسی تصور ہے۔ آج تک کس نے انسانی شعور کا مشاہدہ براہ راست اپنے حواس سے نیں کیا۔ لہٰذا وہ بھی یا تو موجود ہی نہیں یا موجود ہے تو حواس کی دسترس سے باہر ہونے کی وجہ سے معدوم کے حکم میں ہے۔ ان حکماء میں سے ایک حکیم نفسیات جان براڈس واٹس (John Breadus Watson) ہے جس نے نفسیات کرداریت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کی ایک کتاب بعنوان ’’ کرداریت ‘‘ (Behaciourism)1914ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں وہ یہ بتاتے ہوئے کہ کرداریت کے نقطہ نظر سے نفسیات کا علم کیا ہے۔ لکھتا ہے: ’’ درون بینی اس کے طریق تحقیق کا کوئی ضروری عنصر نہیں۔۔۔۔ اور نہ ہی اس کے نتائج کی علمی قدر و قیمت کا دار و مدار کسی ایسی تشریح پر ہے جو شعور کی وساطت سے کی گئی ہو۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت آ گیا ہے جب نفسیات کے علم کو شعور کا ہر ذکر یا حوالہ مسترد کر دینا چاہئے جب اس کو اس بات کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ یہ خیال کر کے اپنے آپ کو مزید دھوکا دیتا رہے کہ وہ ذہنی حالتوں کو اپنے مشاہدات کا موضوع بنا رہا ہے۔۔۔۔۔ بالکل ممکن ہے کہ ہم ایک علم نفسیات کی تدوین کریں اور اس میں شعور، ذہنی حالتیں، خیال، ارادہ، تصور ایسی اطلاعات کبھی استعمال نہ کریں۔۔۔۔ اسے ہم ’’ تحریک ‘‘ اور’’ جواب‘‘ کی اصطلاحات میں اور تشکیل عادت یا الحاق عادت کی اصطلاحات کو کام میں لا کر انجام دے سکتے ہیں۔‘‘ کرداریت کا موضوع حیوانات کے وہ افعال ہیں جو معروضی طور پر مشاہدہ میں آ سکتے ہیں۔ حیوان (یا انسان) کا تصور اس طرح کیا جاتا ہے کہ بعض واقعات کے بالمقابل جو بیرونی ماحول کے تغیرات اور اندرونی حیاتیاتی اعمال وظائف سے صورت پذیر ہوتے ہیں اور جن کے لئے مجموعی طور پر ’’ تحریک‘‘ (Stimulus) کی اصطلاح برتی جاتی ہے۔ ایک رد عمل کرتا ہے جسے ’’جواب ‘‘ (Response) کا نام دیا جاتا ہے۔ نفسیات کا پہلا تصور یہ تھا کہ شعور، قلبی واردات اور ذہنی حالتوں کی سائنس ہے اور اگرچہ اس سے بدنی حرکات کے مطالعہ کو الگ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ان حرکات سے ماہر نفسیات کی دلچسپی کا دار و مدار زیادہ تر اس بات پر تھا کہ ذہنی کیفیات کے ساتھ ان کے تعلقات کیا ہیں۔ نفسیات کا مخصوص طریق تحقیق درون بینی (Introspection) ہوا کرتا تھا واٹن کا بی ہیوہیئرزم چونکہ شعور کو نظر انداز کرتا ہے لہٰذا درون بینی کو خیر باد کہتا ہے اور ادراک، جذبہ، احساس، توجہ، مقصد اور مدعا ایسے ذہنیاتی تصورات کو رد کرتا ہے اور فقط جاندار کی بیرونی مرئی حرکات کے مشاہدات کو قابل قبول سمجھتا ہے۔ واٹسن کی اس کتاب کو پچاس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس اثناء میں واٹسن کے پیش کئے ہوئے نظریہ کرداریت میں مختلف حکمائے نفسیات نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کئی تبدیلیاں اور درستیاں کی ہیں۔ یہاں تک کہ اب یہ کہنا صحیح ہے کہ موجودہ نظریہ کرداریت کسی خاص مکتب فکر کسی خاص نظریاتی موقف یا حکمائے نفسیات کے کسی خاص گروہ کی نشاندہی نہیں کرتا بلکہ نفسیات کے متعلق ایک عام نقطہ نظر کا نام ہے جسے اکثر حکمائے نفسیات نے قبول کر لیا ہے اور یہ تمام حکماء کسی نہ کسی رنگ میں واٹسن کے مرہون منت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرداریت کی اکثر اقسام میں واٹسن کی اصل کرداریت کے یہ دو عقائد مشترک ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لئے شعور کو نظر انداز کر دینا چاہئے اور دوسرا جو اس کا لازمی نتیجہ ہے یہ کہ درون بینی سے اجتناب کرنا چاہئے اور ان عقائد کی عام قبولیت کا باعث یہی حقیقت ہے کہ مغرب کے حکماء خدا اور شعور ایسی ناقابل انکار صداقتوں کو غیر حسی تصورات سمجھ کر علمی تصورات کے طور پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک غلط خیال لیکن یہ واٹسن اور اس کے ہم خیال علمائے نفسیات کی سادگی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ شعور یا درون بینی سے نجات پا سکتے ہیں۔ اپنے شعور کے احساس سے ہی وہ اپنے آپ کو زندہ سمجھتے ہیں اور شعور خودی کا دوسرا نام ہے جس طرح چمک سونے کی خاصیت ہے درون بینی خودی کی خاصیت ہے جو اس سے الگ نہیں ہو سکتی۔ خودی ہر وقت اپنے آپ پر نگاہ رکھتی ہے اور اسے خودی (Self- Consciousness) بھی اس لئے کہا جاتا ہے۔ خودی جو کچھ کرتی ہے خواہ وہ حسن کی جستجو ہو یا نیکی کی یا نفسیات کے علم کی یا کسی اور علم کی وہ اپنے لئے کرتی ہے اور وہ اپنے آپ پر نگاہ نہ رکھے تو اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتی۔ نہ وہ جان سکتی ہے کہ وہ کیا چاہتی ہے اور نہ یہ کہ اب تک اس نے کیا حاصل کیا ہے اور کیا حاصل کرنا باقی رہتا ہے۔ غرض جب تک کوئی انسان زندہ ہے اور اپنے کسی عمل سے زندہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے وہ اپنے شعور کے احساس سے اور درون بینی سے الگ نہیں ہو سکتا۔ از کہ بگریزیم از خود ایں محال از کہ روتابیم از خود ایں خیال درون بینی کے بغیر واٹسن اپنی زندگی میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ’’ میں ہوں‘‘ چہ جائیکہ کہ وہ یہ کہ سکتا کہ میں موجودہ نفسیات سے مطمئن نہیں ہوں اور نفسیات کا ایک نیا تصور پیش کر رہا ہوں اور اس طریق تحقیق کو صحیح سمجھتا ہوں اور اس کو غلط۔ اس بات پر یقین رکھتا ہوں اور اس بات پر یقین نہیں رکھتا۔ درون بینی کے بغیر اس کو کس نے بتایا تھا کہ وہ ہے۔ کس نے بتایا تھا کہ وہ موجودہ نفسیات سے مطمئن نہیں اور وہ نفسیات کا ایک نیا تصور پیش کر رہا ہے کس نے بتایا تھا کہ وہ اس طریق تحقیق کو صحیح سمجھتا ہے اور اس کو غلط فلاں بات پر یقین رکھتا ہے اور فلاں پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کا یہ مشورہ کہ حکمائے نفسیات کو انسان کی نفسیات کا علم اس کی حرکات کے معروضی مشاہدہ اور مطالعہ سے انسان کی نفسیات کے علم کی جستجو کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے اور اس کا اعلان کرتا ہے کہ اس نے کوئی علم حاصل کر لیا ہے یا کوئی حقیقت دریافت کر لی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جونہی کہ وہ کسی چیز کو علم یا حقیقت کا نام دیتا ہے وہ اپنے ایک اندرونی فیصلہ کا اعلان کرتا ہے جس کی خبر اسے درون بینی کے ذریعہ سے ملتی ہے اور پھر انسانی نفسیات کے حقائق کا علم اسے جن معروضی تجربات اور خارجی مشاہدات کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے وہ بھی اس کی اور اس کے معمول کی درون بینی کے بغیر انجام نہیں پا سکتے۔ جب اس کا معمول کہتا ہے ’’ میں سرخ رنگ دیکھ رہا ہوں‘‘ تو وہ درون بینی سے کام لے رہا ہوتا ہے کیونکہ سرخ رنگ دیکھنے کا احساس ایک اندرونی کیفیت یا ذہنی حالت ہے اور عامل اگرچہ اس کو ایک رپورٹ سمجھ کر اپنے بیرونی معروضی مشاہدہ کے طور پر درج کرتا ہے۔ لیکن یہ رپورٹ بے معنی نہیں ہوتی بلکہ اس کو یہ علم بہم پہنچاتی ہے کہ اس کے معمول نے سرخ رنگ دیکھا ہے اور یہ علم عامل کا بھی ایک ذاتی اندرونی تجربہ ہوتا ہے جو درون بینی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ درون بینی خارجی دنیا کا علم حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہمارے پاس موجود ہے اگر ہم اسے ترک کر دیں تو پھر ہم معروضی مشاہدہ اور مطالعہ سے بھی کوئی علم حاصل نہیں کر سکتے۔ اوپر میں نے واٹسن کی کتاب سے جو عبارت درج کی ہے اس کے ہر فقرہ سے واٹسن کے کسی علم یا یقین یا اندرونی تاثر کا اظہار ہوتا ہے اور یہ علم یا یقین یا تاثر ایک ذہنی حالت ہے جسے درون بینی کے بغیر نہ وہ جان سکتا تھا نہ بیان کر سکتا تھا گویا واٹسن درون بینی کے بل بوتے پر ہی یہ دعوت دے رہا ہے کہ درون بینی کو ترک کر دیا جائے۔ یا للعجب! قول اور فعل کا تضاد واٹسن علمائے نفسیات کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ مقصد اور مدعا اور مقصد کے لئے کوشش کرنا ایسے تصورات سے قطع نظر کریں کیونکہ ان تصورات کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ انسان کی حرکات شعور سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن خود ایک لمحہ کے لئے ان سے قطع نظر نہیں کر سکتا مثلاً اس کا مقصد یہ ہے کہ انسانی کردار کی ایسی تشریح کرے جس میں مقصد کا کوئی ذکر نہ ہو۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ انسانی کردار کو اس طرح سے سمجھا جائے کہ اس میں مدعا طلبی کی طرف کوئی اشارہ نہ ہو۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ انسانی کردار کو اس طرح سے پیش کرے کہ اس میں کوشش کا کوئی مقام نہ ہو۔ اگر انسان کی حرکات شعور سے پیدا نہیں ہوتیں تو اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غصہ میں آ کر کسی دوسرے شخص کو مارے اور ضرب شدید پہنچائے تو وہ کسی سزا کا حق دار نہیں۔ اسے جج کو کہنا چاہئے کہ قصور مرا نہیں بلکہ میرے بازو کے پٹھوں کا میرے اعصاب کا میری غداد کا یا میری قدرتی بے ساختہ حرکات (Reflexes) کا یا میری عادات کا ہے جن پر میرے شعور کو تصرف نہیں اور جج کو چاہئے کہ اسے درست سمجھے اور بری کر دے۔ لیکن دنیا بھر میں فوجداری قانون کی بنیاد ہی نیت جرم پر رکھی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کا فیصلہ یہ ہے کہ انسان کی تمام حرکات کا منبع اس کا شعور ہے۔ اگر مقصد انسان کی حرکات کا سبب نہیں تو پھر ہم اس بیہودہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان کے بڑے بڑے کارنامے (اہرام مصر اور دیوار چین اور عظیم الشان سیاسی، تعلیمی، قانونی، مالی، صنعتی، تجارتی، اطلاعاتی اور فوجی نظامات۔ فوجی قائدین کی شاندار فتوحات، سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ایجادات اور تعمیرات اور آخر کار چاند کی سطح پر انسان کا پہنچنا اور چلنا پھرنا) جو آج تاریخ کے اوراق کی زینت ہیں وہ سب انسان کی بے اختیار اور بے مقصد حرکات پر مشتمل تھے جن کے لئے وہ کسی اعتراف یا ستائش کا حق دار نہیں۔ خودی اور منطقی اثباتیت حکمائے مغرب کا یہ غیر عقلی عقیدہ کہ صداقت صرف وہی ہے جسے ہمارے حواس براہ راست دریافت کر سکیں جن غلط فلسفوں کو وجوہ میں لانے کا باعث ہوا ہے ان میں سے ایک منطقی اثباتیت یا لاجیکل پازیٹوزم کا فلسفہ بھی ہے۔ پروفیسر اے ار کارنپ (Ayer Carnap) رائیل (Rule) اور وذڈم (Wisdom) وغیرہ حکماء اس کے مشہور مبلغوں میں سے ہیں۔ اس فلسفہ کے مطابق ’’ سائنسی (یعنی حسی۔ مصنف) علم ہی حقائق (Factual) علم ہے اور تمام روایتی اور ما بعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھا جاتا ہے۔ علم کی آخری بنیاد ذاتی احساس پر نہیں بلکہ تجربہ اور تصدیق پر ہے۔‘‘ (انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا) اس حوالہ میں تین دعوئے کئے گئے ہیں۔ اول: حسی علم ہی حقائقی علم ہے اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی علم حقائقی علم نہیں۔ دوم: ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں سوم: علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ منطقی اثباتیت کے حکماء کو یہ علم کیسے حاصل ہوا کہ حسی علم ہی حقائقی علم ہے۔ ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں اور علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔ کیونکہ اس علم کو ان حکماء میں سے کسی نے بھی سائنسی طریق تحقیق یا تجربہ سے حاصل نہیں کیا اور نہ ہی اس کو تصدیق کے عمل میں سے گزارا ہے اور نہ ہی کوئی اس کو کسی اور بنا پر حواس کے تجربات میں سے شمار کر سکتا ہے لہٰذا ان دعوؤں میں سے ہر ایک خود ایک ما بعد الطبیعیاتی عقیدہ ہے اور ان حکماء کے اپنے قول کے مطابق بے معنی ہے۔ منطقی اثباتیت کے قائلین ما بعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ لیکن خود ایسے عقائد پر ایمان رکھتے ہیں ان کا مطلب دراصل یہ ہے کہ لوگ دوسرے مابعد الطبیعیاتی فلسفوں کو چھوڑ کر صرف ان کے پیش کئے ہوئے ما بعد الطبیعیاتی فلسفہ کو تسلیم کریں۔ ایک حسی حقیقت کا اعتراف انسائیکلو پیڈیا کے اس حوالہ میں علم کا ذکر ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اثباتیت کے حکماء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس دنیا میں ایک چیز ایسی بھی موجود ہے جسے علم کہا جاتا ہے۔ مثلاً ان حکماء کا یہ علم ہی حقائقی علم ہے یا یہ علم کہ ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں یا یہ علم کہ علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے۔ ہم بعض چیزوں کے وجود کو حواس خمسہ کے ذریعہ سے جانتے ہیں۔ لیکن ان کے علم کے وجود کو حواس خمسہ کے ذریعہ سے نہیں جان سکتے۔ میرے سامنے کرسی ایک خاص جگہ پر پڑی ہے لہٰذا اسے دیکھا جا سکتا ہے لیکن کرسی کی موجودگی کا علم جو کرسی کو دیکھنے کا نتیجہ ہے کسی خاص جگہ پڑا ہوا نہیں۔ لہٰذا اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تاہم دنیا کی دوسری حقیقتوں کی طرح وہ بھی ایک حقیقت ہے جو اپنا وجود رکھتی ہے بلکہ دنیا کی دوسری حقیقتوں کو جاننے کے لئے اس کا وجود ایک ضروری شرط ہے اس سے انکار ممکن نہیں کہ علم ایک حقیقت ہے لیکن وہ حسی حقیقت نہیں وہ حسی صداقتوں کا علم ہو تو پھر بھی ایک حسی صداقت نہیں ہوتا لہٰذا منطقی اثباتیت کے حکماء کا یہ کہنا درست نہیں کہ سارا علم حسی حقائق کا علم ہے۔ بالواسطہ علم سے انکار ممکن نہیں اثباتیت کے قائلین اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کسی چیز کا علم ہمیں حواس کے براہ راست مشاہدہ سے ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے آثار ونتائج کے براہ راست مشاہدہ سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ آگ اور دھواں الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ دونوں کے اوصاف و خواص الگ الگ ہیں اور ہم دونوں کے لئے الگ الگ الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دونوں سے الگ الگ برتاؤ کرتے ہیں اس کے باوجود اگر دور سے آگ نظر نہ آتی ہو تو ہم دھوئیں کو دیکھنے سے آگ کی موجودگی کا یقینی علم حاصل کر لیتے ہیں۔ دھوئیں کا حسی علم آگ کے غیر حسی علم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ایسی حالت میں اثباتیت کو کہنا چاہئے کہ آگ کا علم ما بعد الطبیعیاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آگ کا علم دھوئیں کے علم سے کم یقینی نہیں اگرچہ حال میں ایک خاص قسم کی خوردبین کے ذریعہ سے ایٹم کو دیکھا گیا ہے لیکن ایٹم کا جس قدر علم سائنس دانوں کو اس وقت حاصل ہے وہ ایٹم کو براہ راست دیکھنے کے بغیر اور فقط اس کے آثار و نتائج کو براہ راست دیکھنے سے حاصل ہوا ہے۔ آج کون کہہ سکتا ہے کہ ایٹم کا علم یقینی نہیں یہ علم اس قدر یقینی ہے کہ اس کی مدد سے ہیروشیما کو آن واحد میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ علم غیر حسی ہے خودی اور خدا کا علم بھی اسی طرح سے غیر حسی ہونے کے باوجود یقینی ہے کیونکہ اس کی طرف خودی اور خدا کے وجود کے حسی نتائج و اثرات راہنمائی کرتے ہیں۔ جب میں ایک کرسی کو دیکھتا ہوں تو میرے حواس کچھ حسی اثرات قبول کرتے ہیں لیکن یہ حسی اثرات کرسی نہیں پھر وہ کون سی چیز ہے جو ان کو منظم کر کے ایک معنی پہناتی ہے اور اس وحدت کی شکل دیتی ہے جسے میں کرسی کا نام دیتا ہوں یہ چیز میرا شعور یا خودی ہے اثباتیت کے قائلین حسی اثرات کو علم کی بنیاد سمجھتے ہیں لیکن اگر خودی ان اثرات کو کوئی معنی نہ پہنائے اور یہ فیصلہ صادر نہ کرے کہ یہ اثرات مل کر مثلاً کرسی بنتے ہیں تو ان سے کوئی علم پیدا نہیں ہو سکتا۔ فرض کیا کہ صرف حسی علم ہی علم ہے اور ما بعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں۔ لیکن یہ بے معنی یا با معنی ہونے کا یا علم یا غیر علم ہونے کا امتیاز کون کرتا ہے۔ اگر منطقی اثباتیت کے دعویٰ بلا دلیل کے مطابق خودی کو حسی مشمولات (Sense-Contents) کہا جائے تو کیا ان مشمولات کا کام یہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ علم کیا ہے اور کیا نہیں۔ بامعنی کیا چیز ہے اور کیا نہیں اثباتیت کے قائلین مانتے ہیں کہ خودی سابقہ ذہنی حالات کو یاد رکھتی ہے لیکن اگر یہ خودی حسی مشمولات کے سوائے اور کچھ نہیں تو کیا ان مشمولات کے لئے ممکن ہے کہ وہ سابقہ ذہنی حالات کو یاد رکھیں اور انسان کی زندگی کے سارے جذبات اور احساسات کا منبع اور اس کے بڑے بڑے منصوبوں اور ارادوں کا مرکز اور تاریخ کے سارے واقعات کا سرچشمہ بنیں۔ تعصب اور تحکم لارڈ جوڈ (Joad) اپنی کتاب ’’ منطقی اثباتیت کی تنقید‘‘ (A Critique of Logical Positivism) میں لکھتا ہے: ’’ نئے الہامی مذاہب کے مبلغوں میں دو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک تعصب اور دوسرے بے دلیل دعاوی۔ منطقی اثباتیت میں یہ دونوں خصوصیتیں موجود ہیں۔۔ نا ممکن ہے کہ ہم منطقی اثباتیت کی کتابیں پڑھیں اور یہ اثر نہ لیں کہ ان میں بار بار بے دلیل بیانات کا اعادہ کیا گیا ہے۔ مثلاً تصدیق کا اصول اور اخلاق کا جذباتی نظریہ یا منطقی تعمیرات کا نظریہ ایسے عقائد کو فقط بیان کر دینا ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے گویا کہ وہ خدا کی وحی کے اقتباسات ہیں۔‘‘ (ص12,11) بیروز ڈن ہام (Barrows Dunham) اپنی کتاب ’’ انسان فرضی کہانیوں کے بالمقابل ‘‘ (Man against Myth) میں لکھتا ہے: ’’ اگر منطقی اثباتیت کا فلسفہ درست ہے تو پھر نہ نوع انسانی موجود ہے۔ نہ نفع کی جستجو ہے نہ کوئی پارٹیاں ہیں۔ نہ فسطائیت ہے۔ نہ بھوکے اور مفلس انسان ہیں۔ نہ کافی جائے رہائش رکھنے والے لوگ ہیں اور نہ کوئی علمی مسئلہ موجود ہے اور نہ سماجی۔‘‘ (جوڈ کی محولہ بالا کتاب صفحہ147) حاصل یہ ہے کہ منطقی اثباتیت اس بات کی ایک اور عمدہ مثال ہے کہ جو علم یا نظریہ بھی خودی اور اس کے اوصاف و خواص کو نظر انداز کر کے لکھا جائے گا ضروری ہے کہ اس میں ایک بنیادی علمی تصور کے مخذوف ہو جانے کی وجہ سے طرح طرح کی استدلالی اور منطقی ناہمواریاں اور علمی خامیاں پیدا ہو جائیں۔ خودی ہر علم کی ابتداء اور انتہا ہے۔ خودی اور وجودیت وجودیت (Existentialism) کوئی فلسفہ نہیں بلکہ ایک فکری رحجان یا نقطہ نظر ہے جو انسانی شخصیت کی عملی مشکلات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان کے عملی علاج کو زیر بحث لاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے مبلغین کے خیالات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض خدا کو مانتے ہیں اور عیسائیت کی تعلیم کو قبول کر کے آگے چلتے ہیں اور بعض خدا کے منکر ہیں اور عیسائیت سے بیزار ہیں لہٰذا ظاہر ہے کہ ایک عقلی نظام کی حیثیت سے وجودیت کا فکر اپنی کسی شکل میں بھی فلسفہ خودی کا مد مقابل یا حریف نہیں۔ فلسفہ خودی ایک عقلی اور علمی نظام ہے اور عقل اور علم کی روشنی میں ہی انسانی شخصیت کی علمی مشکلات کو سمجھتا اور سمجھاتا ہے اور ان کا واحد اور صحیح اور کافی اور شافی علاج پیش کرتا ہے۔ وجودیت کے موضوع پر انسائیکلو پیڈیا بریٹا نیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے: ’’ وجودیت ایک فکری رحجان یا نقطہ نظر ہے جو پہلی عالمگیر جنگ کے چند سال بعد جرمنی میں ظہور پذیر ہوا اور بعد میں فرانس اور اٹلی میں پھیل گیا یہاں تک کہ دوسری عالمگیر جنگ کے فوراً بعد یہ نہ صرف وہاں کے علمی حلقوں میں اثر پیدا کر چکا تھا بلکہ ادبی قہوہ خانوں اور نیم مقبول اخباروں اور رسالوں میں بھی عام طور پر زیر بحث آتا تھا۔ چونکہ یہ کوئی فلسفیانہ مکتب نہیں بلکہ ایک رحجان خیال یازاویہ نگاہ کا نام ہے۔ ایسے عقائد بہت کم ہیں جو اس کے تمام مبلغین کے درمیان مشترک ہوں لیکن اس کی ایک عام خصوصیت یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ وہ کائنات کے ایسے نظریات اور کام کے ایسے طریقوں کے خلاف ایک احتجاج ہے جن میں انسانی افراد کو تاریخ کی قوتوں کے بے بس کھلونے سمجھ لیا گیا ہو یا یہ باو رکر لیا گیا ہو کہ وہ قوانین قدرت کے اعمال کا نتیجہ ہیں تمام وجود دیتی مصنفین کسی نہ کسی شکل میں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ انسانی شخصیت کی آزادی اور اہمیت کی حمایت کریں۔ اسی طرح سے وہ سب کے سب انسانی عقل کے برخلاف انسانی ارادہ یا عزم (Will) پر زور دیتے ہیں۔‘‘ کیئر کیگارڈ کا فکر دور حاضر کی وجودیت کا پیش رو پاسکل (Pascal) (1662-1613) تھا لیکن سورن آبے کیئر کیگارڈ (Saren abye Kierkegaard) (1813-1855) پہلا مفکر ہے جس نے وجود (Existence) کے لفظ کو وہ معنی پہنائے جو اسے وجودیتی فکر کی ایک اصطلاح کے طور پر اس وقت دئیے جاتے ہیں لہٰذا وہی دور حاضر کی وجودیت کا بانی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ تمام وجودیتی حکماء خواہ وہ دہریہ ہوں یا قائلین مذہب اپنے شدید اختلافات کے باوجود اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کیئر کیگارڈ کی تصنیفات کو اس کی زندگی میں تو فقط مقامی شہرت ہی حاصل ہو سکی لیکن جب 1909ء اور 1913ء کے درمیان ان کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوا تو ان کا اثر پورے یورپ میں پھیلنے لگا۔ کیئر کیگارڈ انسان کی حقیقت (Essence) اور انسان کے وجود (Existence) میں فرق کرتا ہے جس طرح اینٹ ہونا ایک اینٹ کی حقیقت ہے اسی طرح انسان ہونا ایک انسان کی حقیقت ہے لیکن انسان کا وجود وہ قلبی واردات اور کیفیات ہیں۔ وہ خواہشات اور احساسات اور جذبات ہیں۔ وہ تمنائیں آرزوئیں اور امیدیں ہیں۔ وہ پشیمانیاں اور حسرتیں ہیں اور وہ پریشانیاں اور مایوسیاں اور صدمے ہیں اور وہ رحمتیں اور خوشیاں اور مسرتیں ہیں جن میں سے انسان کی شخصیت گزرتی ہے۔ ہر انسان کا وجود ایک داخلی یا اندرونی شے ہے جس کا کسی دوسرے انسان کو علم نہیں۔ انسان کا وجود اس کی داخلیت یا موضوعیت کا نام ہے اس کی معروضی حقیقت کا نام نہیں۔ ہر انسان کا وجود بے مثل اور بے نظیر ہے اور اس کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ آزاد ہے اور اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور اپنی راہیں خود چنتا ہے انسان کا ہر فیصلہ اگر غلط ہو تو اسے تباہ و برباد کر سکتا ہے۔ لہٰذا اس پر اپنی ذات کی طرف سے بڑی بھاری ذمہ داری اس بات کی عائد ہوتی ہے کہ اس کے فیصلے صحیح ہوں۔ کیئر کیگارڈ کو اعتراض ہے کہ فلسفیوں نے حقیقت انسان پر بڑی بحثیں کی ہیں لیکن انسان کے وجود کو جو زیادہ اہم ہے نظر انداز کیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ فلسفہ خودی جو انسانی شخصیت کی عملی مشکلات کی گتھیوں کو بھی سلجھاتا ہے اس اعتراض سے بالا ہے۔ کیئر کیگارڈ کے فکر کو عیسائیت کا تصوف کہنا چاہئے۔ اس نے شخصیت انسانی کے بعض چھپے ہوئے گوشوں کو بے نقاب کر کے ایسے سوالات پیدا کئے ہیں جن کا صحیح جواب فقط فلسفہ خودی ہی دے سکتا ہے لہٰذا اس کے وجودیتی فکر نے دراصل فلسفہ خودی کی عالمگیر اشاعت کے لئے راستہ صاف کیا ہے۔ سارٹر کا فکر اس زمانہ کا سب سے زیادہ نامور وجودیتی مفکر جین پال سارتر (Jean paul sartre) ہے۔ پچھلے چند سالوں میں وجودیت کا لفظ اسی کی تصنیفات کے ذریعہ سے مشہور ہوا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے اس کے ناولوں، ڈراموں اور مقالوں کو پڑھا ہے اور لہٰذا عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وجودیت سے مراد اسی کی پیش کی ہوئی لاشیئیت ہے جس میں خدا اور مذہب اور اخلاق کا انکار شامل ہے۔ اس وقت عام انسان بہت کم جانتا ہے کہ وجودیت کی ابتداء کیئر کیگارڈ کے فکر میں عیسائیت کے ایک تصوف کی شکل میں ہوئی تھی اور وہی اس کی اصل ہے۔ چونکہ اصل وجودیت انسانی شخصیت کی آزادی پر زور دیتی ہے۔ سارتر ایسے دور حاضر کے بعض بے خدا مفکرین کو یہ بات ہاتھ آ گئی ہے کہ آزادی کے احساس کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس یقین پر پہنچ جائے کہ وہ خود مختار اور خود مکتفی ہے اور اس کا خدا پر بھروسہ کرنا ایک قسم کی غلامی ہے۔ جب تک انسان خدا اور مذہب اور اخلاق سے بھی آزاد نہ ہو وہ پوری طرح سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ ایسا وجودیتی فکر شخصیت انسانی کی مشکلات کا علاج کرنے کی بجائے اس کی مشکلات کو انتہا تک پہنچاتا ہے اور انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایک مجنونانہ جرات کے ساتھ انتہائی مایوسی، مصیبت، خلائ، تاریکی اور موت کا سامنا کر کے اپنے آپ کو فنا کر دے۔ لیکن فلسفہ خودی اس قسم کے غلط اندیش اور بے راہ رو وجودیتی مفکرین کو بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت ایسی ایک متحرک چیز کی آزادی کس سمت کو چاہتی ہے اور وہ اس کی تکمیل ہی کی سمت ہو سکتی ہے جو اس کی محبت کی کامل تشفی کرنے والے کامل تصور کی نشاندہی کرتی ہو اور یہ تصور خدا کے سوائے کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا انسان کی آزادی کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کی محبت کے لئے آزاد ہو اور خدا کی محبت سے انسانی شخصیت اس بات کی عملی تحقیق کر لیتی ہے کہ وہی اس کی مشکلات کا تسلی بخش علاج ہے۔ عیسائیت اور لادینیت کی کشمکش اس طرح وجودیت کے فکر کا مطالعہ دور حاضر میں عیسائیت اور بے خدائیت کی بنیادی کشمکش کی واضح تصویر پیش کرتاہے۔ اس تحریک میں دونوں طرف کے مفکرین حصہ لے رہے ہیں اور کچھ ایسے مفکرین بھی شامل ہیں جن کا موقف بین بین ہے۔ ایک انتہا پر جبریل مارسل (Gabriel Marcel) فرانسیسی رومن کیتھولک نکولاس برڈی ایو (Nicolas Bergyaev) روسی کٹر عیسائی مارٹن بوبر (Martin Buber) یہودی فلسفی اور کئی پروٹسٹنٹ مفکرین ہیں، جن کو وجودیت کا فکر اپنے مذہبی اعتقاد کی تصدیق اورتفہیم کا ایک موثر ذریعہ نظر آتا ہے اور دوسری انتہا پر مارٹن ہیڈیگر (Martin Heidegger) اور سارتر (Sartre) ایسے مفکرین ہیں جو پکے دہریہ ہیں۔ کارل جاسپرز (Karl Jaspers) دہریہ نہیں لیکن عیسائیت کے مرکزی عقائد پر حملے کرتا ہے۔ تاہم وجودیت اپنی تمام قسموں کے سمیت فلسفہ خودی کے ساتھ اس بات میں اشتراک رکھتی ہے کہ وہ فرد کی آزادی کی علمبردار ہے اور ان سوالات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ انسانی شخصیت کیا ہے اور کیا چاہتی ہے۔ ہم اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں اور اسے تامرگ کس طرح قائم رکھ سکتے ہیں ایساکیوں ہے کہ ہر فرد ان مسائل کو فقط اپنی ہی کوشش اور جدوجہد سے حل کر سکتا ہے اور کسی دوسرے فرد کے حل کو مستعار نہیں لے سکتا۔ لیکن ان سوالات کا صحیح اور تسلی بخش جواب فقط فلسفہ خودی سے مل سکتا ہے جس کی تشریح اس کتاب میں کی گئی ہے۔ فکر وجودیت کا انتشار وجودیت کے فکر میں اتنا انتشار ہے کہ اس کی عارضی اور مشروط تعریف کرنا بھی ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجودیتی مفکرین میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے فکر میں کوئی عقلی تنظیم یا ترتیب موجود ہو۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کا مقالہ نگار اپنے مقالہ کے آخر میں لکھتا ہے: ’’ وجودیتی فکر کے خلاف جو اعتراض اکثر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وجودیت ایک قسم کی نامعقولیت (Irrationalism) ہے۔ یہ ایک ایسی حریت پسندی ہے جو اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ انسانی معاشرہ میں قوانین قدرت کے عمل سے ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور اس بات سے نا امید ہے کہ انسان ترقی کر کے کمال پر پہنچ سکتا ہے۔‘‘ وجودیت کے برعکس فلسفہ خودی کا موقف یہ ہے کہ انسان ترقی پذیر ہے اور ایک دن اپنی ترقیوں کی انتہا پر پہنچے گا۔ کائنات کی ہر چیز کے اندر ایک نظم ایک قاعدہ اور ایک مدعا رکھا گیا ہے اور ہر چیز ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ انسانی شخصیت کائنات میں کسی بڑے نظم کے اندر اپنا مقام نہ رکھتی ہو۔ مقصد یا مدعا کے بغیر ہو اور متحرک ہونے کے باوجود کسی منزل کمال پر نہ پہنچ سکتی ہو۔ وجودیت کی یہ غلط فہمی کہ انسانی شخصیت قوانین قدرت کے عمل سے ترقی نہیں کر سکتی در حقیقت اس کے عیسائیت پسند بانیوں کے فکر میں نمودار ہو کر آگے منتقل ہوئی ہے اور اس کا سبب عیسائیت کی یہ تعلیم ہے کہ انسانی شخصیت اور قدرت کے درمیان ایک مستقل تضاد ہے جو رفع نہیں کیا جا سکتا۔ وجودیت اس مسئلہ سے الجھتی ہے کہ انسانی شخصیت ہونے کے معنی کیا ہیں لیکن فلسفہ خودی یہ بتا کر کہ انسانی شخصیت خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے جو ذکر اور فکر اور فعل جمیل کی مداومت سے مکمل تشفی حاصل کر سکتا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرتا ہے جیسا کہ اس پوری کتاب کے مطالعہ سے قارئین پر آشکار ہو گا فلسفہ خودی میں انسانی حقیقت اور انسانی وجود الگ الگ نہیں رہتے بلکہ دونوں ایک ہو جاتے ہیں اور فلسفہ خودی وجودیت کہ ہر سچائی اور روشنی سے آراستہ اور ہر غلطی اور تاریکی سے مبرا ہو کر وجودیت سے بہت دور آگے نکل جاتا ہے۔ خودی اور فلسفہ تاریخ تمام انسانی فعلیتیں خودی کے عمل کی قوت محرکہ کے مظاہر ہیں اور تاریخ کا عمل نوع انسانی کی ایک مسلسل فعلیت ہے۔ لہٰذا وہ بھی انسانی اعمال کی قوت محرکہ کا ایک مظہر ہے اور وہ اپنی اسی حیثیت سے صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسانی اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے جو اگر بھٹکی ہوئی ہو تو کسی غلط نصب العین کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے سارے واقعات جن سے افراد کی زندگیاں اور انسانی قبیلوں، گروہوں، قوموں، بادشاہوں، سلطنتوں اور ریاستوں کی سیاسی، قانونی، اخلاقی، تعلیمی، علمی، فنی اور جنگی سرگرمیاں اور قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانیں تشکیل پاتی ہیں۔ خدا کی صحیح یا غلط جستجو کے مظاہر ہیں جو کبھی سچے خدا کی جستجو کے ضمن میں رونما ہوتے ہیں اور کبھی خدا کے کسی قائم مقام غلط نصب العین کی محبت کی تشفی کی سلسلہ میں ظہور پاتے ہیں۔ ہر ریاست اور ہر تہذیب کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے اگر وہ کسی غلط نصب العین پر مبنی ہو گی تو انسان کے جذبہ محبت کو مستقل اور مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکے گی اور لہٰذا ناپائیدار ہو گی۔ لیکن اگر وہ صحیح نصب العین یعنی خدا کے نصب العین پر مبنی ہو گی تو پھر وہ جس حد تک اس پر مبنی ہو گی مستقل اور پائیدار ہو گی یہ حقیقت ایک صحیح معقول اور مدلل فلسفہ تاریخ کے مرکزی تصور کا درجہ رکھتی ہے۔ تاریخ کا کوئی فلسفہ جو اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہو۔ صحیح اور معقول اور مدلل نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس ہے کہ تاریخ کے جو فلسفے آج تک مغرب میں لکھے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس میں اس حقیقت کو مدنظر رکھا گیا ہو اور لہٰذا ان میں سے کوئی بھی صحت اور معقولیت کے معیاروں پر پورا نہیں اترتا۔ ان فلسفوں میں سب سے زیادہ مشہور سپنگلر، ٹائن بی، سوروکن، ڈینی لیوسکی اور کروبر کے فلسفے ہیں۔ اس عنوان کے ماتحت مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے۔ خودی اور فلسفہ اخلاق (Ethics) انسان کے اخلاقی افعال بھی خودی کے عمل کی قوت محرکہ یعنی خدا کی محبت کے مظاہر ہیں۔ جب خدا کی محبت کا فطری جذبہ بھٹک کر ایک غلط نصب العین کا راستہ اختیار کر لیتا ہے تو انسان کے اخلاقی افعال بھی بھٹک کر اس نصب العین کی مطابقت کرتے ہوئے اسی غلط راستہ پر پڑ جاتے ہیں اور غلط ہو جاتے ہیں۔ ہر نصب العین کا چاہنے والا، اپنے نصب العین سے محبت رکھنے کی وجہ سے جانتا ہے کہ اپنی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اپنے نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ کون سا فعل نصب العین کی محبت کی تشفی کر سکتا ہے اور کون سا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ا س نصب العین کے نقطہ نظر سے کون سا فعل صحیح ہے اور کون سا غلط کون سا نیک ہے اور کون سا بد۔ کون سا اچھا ہے اور کون سا برا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نصب العین کا ایک اپنا ضابطہ اوامر و نواہی یا ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جو اتنا ہی بلند یا پست یا اچھا یا برا اور صحیح یا غلط ہوتا ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس سے یہ صادر ہوتا ہے بلند یا پست، اچھا یا برا اور صحیح یا غلط ہوتا ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس سے یہ صادر ہوتا ہے بلند یا پست، اچھا یا برا اور صحیح یا غلط ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ بلند، اچھا اور صحیح ضابطہ اخلاق وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ بلند اچھے اور صحیح نصب العین سے پیدا ہو اور اسی کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ خودی کی فطرت کی رو سے یہ نصب العین خدا ہے۔ مغرب کے فلسفہ اخلاق کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انسان کے اخلاقی افعال کی غایت الغایات یا ان کو متعین کرنے والا آخری اصول یا سمم بونم (Summum Bonum) کیا ہے۔ اس سوال کا کوئی معقول جواب ابھی تک نہیں دیا جا سکا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا معقول جواب خدا ہے اور خدا کا تصور مغرب کے کسی علم میں جگہ نہیں پا سکتا۔ یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ دو نصب العینوں سے بیک وقت محبت نہیں کر سکتا اور نہ ہی بیک وقت دو نصب العینوں کے اخلاقی ضابطوں پر عمل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم نے فرمایا ہے ہر شخص کو ایک ہی دل دیا گیا ہے اور کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں ہوتے کہ وہ دو الگ الگ نصب العینوں اور دو الگ الگ اخلاقی ضابطوں کو جمع کر کے یہ حقیقت ان لوگوں کے لئے قابل غور ہے جو اسلام کے ساتھ سوشلزم کا جوڑ لگانا چاہتے ہیں یہ جوڑ اس لئے ممکن نہیں کہ سوشلزم اور اسلام دو مختلف نصب العین ہیں اور ان کے اخلاقی ضابطے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ا گر دونوں کو جوڑنے کی کوشش کی جائے گی تو نہ اسلام ہی موثر رہے گا اور نہ سوشلزم فلسفہ اخلاق کے عنوان کے تحت مفصل بحث پہلے گذر چکی ہے۔ خودی اور فلسفہ سیاست خودی کی فطرت ہمیں اس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتی ہے کہ انسان کی ہر فعلیت کی طرح اس کی سیاسی فعلیت بھی خدا کی جستجو اور خدا کی محبت کے جذبہ کی تشفی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب خودی کا جذبہ اپنے صحیح اور فطری مقصود اور مطلوب یعنی خدا کی طرف راستہ نہیں پا سکتا تو کسی قائم مقام غلط تصور کے راستہ سے اپنا اظہار پانے لگتا ہے۔ جب ایک ہی نصب العین کو چاہنے والے افراد اپنے مشترک نصب العین کی جستجو کے لئے ایک قائد کے ماتحت متحد اور منظم ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ریاست کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ریاست اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لئے اپنے ماتحت اپنے نصب العین کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق تعلیمی، اخلاقی، مالی، زراعتی، صنعتی، تجارتی، قانونی اور فوجی ادارے قائم کرتی ہے۔ ان اداروں کا کام ان کے مقاصد کے لحاظ سے اتنا ہی اچھا یا برا ہوتا ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس پر ریاست اور اس کے یہ ادارے قائم ہوتے ہیں۔ اگر ایک ریاست خدا کے نصب العین پر مبنی نہ ہو تو چونکہ اس کا نصب العین اس کے افراد کے جذبہ محبت کو مستقل اور مکمل طور پر مطمئن نہیں کر سکتا وہ ریاست ناپائیدار ہوتی ہے۔ کیونکہ اس ریاست کے افراد زود یا بدیر اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے نصب العین کو چھوڑ کر کسی اور زیادہ تسلی بخش نصب العین کو اختیار کریں۔ ایک پائیدار اور کامل ریاست وہی ہوتی ہے جو خدا کے نصب العین پر مبنی ہو کیونکہ یہ واحد نصب العین ہے جو کامل بھی ہے اور پائیدار بھی ایسی ریاست کے تعلیمی، اخلاقی، فنی، علمی،صنعتی، تجارتی، مالی، زرعی، اطلاعاتی، قانونی اور فوجی ادارے اس کے بلند نصب العین کے بلند مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور وہ ان کو پورا کرتے ہیں یہاں تک کہ ریاست ہر لحاظ سے اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اپنے حسی صداقت کے بے بنیاد اور غیر عقلی اعتقاد کی وجہ سے مغرب کے حکمائے سیاست خدا کے تصور کو جو فلسفہ سیاست کی بلکہ انسانی اشغال کے تمام فلسفوں کی روح ہے اپنی کتابوں میں راہ پانے نہیں دیتے۔ خودی اور فلسفہ تعلیم مغرب کے حکمائے تعلیم اس حقیقت پر متفق ہیں کہ تعلیم ایک نشوونما کا عمل ہے جس سے کوئی چیز انسان کے اندر بڑھتی اور پھولتی ہے لیکن افسوس کہ انہوں نے اس حقیقت کے علمی اور عقلی نتائج اور مضمرات پر غور نہیں کیا اور علمی تحقیق اور تجسس سے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ تعلیم سے انسان کے اندر جو چیز نشوونما پاتی ہے وہ کیا ہے۔ اس کے اوصاف و خواص کیا ہیں کون سا ماحول اس کی نشوونما کے لئے مفید ہے اور کون سا مضر۔ اس کی نشوونما کے لئے کون سی چیز غذا کا حکم رکھتی ہے اور کون سی چیزیں حیاتین اور پروتین اور قلزات کا کام دیتی ہیں اور وہ چیز آخر کیوں نشوونما پاتی ہے اور ارتقائے عالم کے ساتھ اس کی نشوونما کا کیا تعلق ہے۔ جس طرح قدرت نے انسان کے بدن کی نشوونما کے لئے انسان سے باہر سورج اور چاند اور مینہ برسانے والے بادل اور ہوا اور پانی اور زمین اور قدرتی کھاد اور انسان کے اندر خوراک کی اشتہا اور کھیتی باڑی کرنے اور غلہ اگانے کی صلاحیتیں پیدا کی ہیں۔ کیا اسی طرح سے قدرت نے اس چیز کی نشوونما کے لئے بھی کوئی اپنا اہتمام کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ تعلیم سے نشوونما پانے والی چیز انسان کا بدن نہیں بلکہ اس کی شخصیت ہے یہی شخصیت انسان کی خودی ہے اور خودی کا مرکزی وصف یہ ہے کہ اس کا مطلوب اور مقصود اور محبوب خدا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی صحیح تعلیمی نشوونما صرف ایک سمت میں ممکن ہے اور وہ خدا کے نصب العین کی سمت ہے اور یہ تعلیمی نشوونما بیک وقت خودی کی نشوونما بھی ہے اور خدا کی محبت کی نشوونما بھی خودی ایک ایسے تعلیمی ماحول میں تربیت پا سکتی ہے جو خدا کی محبت کو ترقی دینے کے لئے سازگار ہو۔ انسان کا جسم غذا کو جذب کر کے تربیت پاتا ہے لیکن انسان کی خودی حسن کو جذب کر کے تربیت پاتی ہے۔ حسن کا مبداء اور منتہا ء خدا ہے۔ خدا کی صفات حسن گویا خودی کی غذا کے اندر حیاتین اور پروتنیات کا حکم رکھتی ہیں۔ اگر کوئی نصب العین ان صفات سے عاری ہو گا ( اور خدا کے سوائے ہر نصب العین ان صفات سے عاری ہوتا ہے) تو وہ خودی کی تربیت نہ کر سکے گا لہٰذا معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کے سوائے اور کسی نصب العین کو شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی تعلیم کی بنیاد نہ بننے دے۔ خودی کی تربیت پر انسان کی تکمیل اور تخلیق اور ارتقائے کائنات کے مقصد کی کامیابی کا دار ومدار ہے۔ لہٰذا خدا نے خودی کی تربیت کے لئے اپنا اہتمام کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک طرف سے خودی کی فطرت میں آرزوئے حسن رکھی ہے جو خدا کی محبت سے اطمینان پاتی ہے اور دوسری طرف سے نبوت کے سلسلہ کو شروع کر کے ایک خاص نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں جو آخری نبی ہیں کمال پر پہنچایا ہے تاکہ ہر انسان ان کی مکمل نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مکمل مثال سے خدا کی محبت کے طور طریقوں کو سیکھ کر اپنی خودی کی تشفی اور تربیت کر سکے۔ خودی کے لئے حسن کا جذب کرنا سچے خدا کی مخلصانہ عبادت کرنے، سچے خدا کی رضا مندی کے لئے نیکی کرنے اور سچے خدا کو جاننے کے لئے علم کی جستجو کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا تعلیم کے یہ تین بڑے ستون ہیں جن میں سے کسی ایک کو بھی تعلیم کی عمارت کو شکستہ کرنے اور خودی کی نشوونما کو نقصان پہنچانے کے بغیر گرایا نہیں جا سکتا۔ مغرب کے حکمائے تعلیم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر قوم یا سوسائٹی کا نصب العین الگ ہوتا ہے اور ہر قوم یا سوسائٹی کا نظام تعلیم بھی جو ان کے نصب العین کے مطابق ہوتا ہے اور اسی کی محبت کی پرورش کے لئے وجود میں آتا ہے جدا ہوتا ہے۔ ہر سوسائٹی کے افراد کی تعلیم کے ذریعہ سے اپنی نئی نسل کو اپنے قومی نصب العین کی محبت اور اس کی تشفی کے لئے اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی قابلیتوں کا وارث بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قوم ایک خاص نصب العین کی پرستار کی حیثیت سے صدیوں تک زندہ رہتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مغرب کے حکماء ابھی تک اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کہ شخصیت انسانی کی مکمل اور آزادانہ نشوونما صرف خدا کے نصب العین کے ماتحت ممکن ہے اور اس کی وجہ پھر ان کا یہی بے بنیاد اور غیر عقلی اعتقاد ہے کہ خدا کا تصور حسی دنیا سے ماوراء ہے لہٰذا دائرہ علم میں لایا نہیں جا سکتا۔ جب کسی قوم کا نصب العین خدا نہ ہو تو اس کے فرد کی خودی قوم کے مشترک غلط اور ناقص نصب العین کی طرف نشوونما پاتی ہے۔ جو حسن نیکی اور صداقت کے اوصاف سے بہرہ ور نہیں ہوتا اور اس کی تعلیمی نشوونما اتنی ہی غلط اور ناقص ہوتی ہے جتنا کہ یہ نصب العین غلط اور ناقص ہوتا ہے وہ بھی ایک طرح کی عبادت کرتا ہے لیکن اپنی عبادت سے حسن کو جذب نہیں کرتا کیونکہ اس کی عبادت ایک ایسے معبود کے لئے ہوتی ہے جس حسن سے عاری ہوتا ہے وہ بھی اخلاقی اعمال میں مشغول ہوتا، لیکن اس کے اخلاقی اعمال صفات حسن کے مطابق نہیں ہوتے۔ وہ بھی علم کی جستجو کرتا ہے، لیکن وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے دریافت کئے ہوئے علمی حقائق اس کے غلط نصب العین سے مطابقت رکھیں گے اسی پر روشنی ڈالیں گے اور اسی کی معرفت میں اضافہ کریں گے۔ لہٰذا وہ کئی سچے علمی حقائق تک یا تو پہنچ ہی نہیں سکتا یا پہنچتا ہے تو ان کو غلط اور بیکار سمجھ کر رد کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس کی تعلیمی نشوونما غلط سمت میں ہوتی ہے اور صرف اس کے غلط اور ناقص نصب العین کی محبت میں اضافہ کرتی ہے۔ خودی اور علم الاقتصاد علم الاقتصاد انسان کی اس فعلیت کی سائنس ہے جس کے ذریعہ سے وہ دولت کو پیدا کرتا تقسیم کرتا اور صرف کرتا ہے۔ مغرب کے حکمائے اقتصاد نے جن میں کارل مارکس بھی شامل ہے۔ علم الاقتصاد کو اس طرح سے مدون کیا ہے گویا انسان فقط ایک اقتصادی روبٹ یا مشین ہے اور اس کے علاوہ اس کی اور کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی وجہ انسانی خودی کے اسرار سے ان کی ناواقفیت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی اقتصادی فعلیت جس منبع سے صادر ہوتی ہے وہ وہی ہے جس سے اس کی تمام دوسری فعلیتیں صادر ہوتی ہیں۔یعنی خودی کا جذبہ محبت جس کا فطری مقصود سوائے خدا کے اور کچھ نہیں انسان کی اقتصادی فعلیت کی فطری غرض و غایت بھی انسان کی دوسری فعلیتوں کی طرح جسم کے قیام اور بقاء کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی تسکین اور تشفی ہے اور دولت آفرینی، تقسیم دولت اور صرف دولت ایسے اعمال و افعال کی فطری اہمیت فقط یہ ہے کہ وہ اسی بڑے مقصد کی تکمیل کے ذرائع ہیں۔ اقتصادی انسان فقط اقتصادی انسان ہی نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی انسان، روحانی انسان اور سیاسی انسان بھی ہوتا ہے اس کی اقتصادی، اخلاقی، روحانی اور سیاسی فعلیتوں میں سے ہر ایک کے اندر اس کی باقی تمام فعلیتیں گم ہوتی ہیں۔ لہٰذا انسان کو فقط اقتصادی انسان اور حرص کا پتلا اور دولت کا پرستار فرض کر کے اس کا جو مطالعہ کیا جائے گا وہ درست نہیں ہو گا اور اس کی بنا پر جو نتائج مرتب کئے جائیں گے وہ صحیح نہیں ہوں گے۔ بعض وقت انسان کے نصب العین کے بلند ہونے سے اس کے بظاہر اقتصادی افعال کے محرکات اور دواعی کچھ اس طرح سے بدل جاتے ہیں کہ ان کو محض اقتصادی نقطہ نظر سے سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ جب انسان کی اقتصادی فعلیت خدا کے نصب العین کے ماتحت نہ ہو تو وہ کسی غلط ناقص اور باطل نصب العین کے ماتحت ہوتی ہے۔ اس حالت میں اس کے اندر وہ تمام خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن کو جلب منفعت، استحصال اور مزدور کی حق تلفی وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ مغرب کی بے خدا سوسائٹی کے اقتصادی مشاغل میں یہ تمام خرابیاں پیدا ہوئیں۔ اس صورت حال کے رد عمل کے طور پر ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کارل مارکس نے جو حل پیش کیا۔ اسے سائنٹفک سوشلزم کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ حل مصنوعی، غیر فطری، جبری اور خارجی ہے اور انسان کی فطرت سے مزاحم ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ زود یا بدیر خود بخود ناکام ہو جائے۔ ان خرابیوں کو دور کرنے کا فطری اور کامیاب طریق یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعہ سے سوسائٹی کو باخدا بنایا جائے۔ اور اس طرح سے ان کے نصب العین کو جو ان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے ان کی فطرت کے مطابق کر دیا جائے۔ حسی صداقتوں کا عقیدہ اور مغربی تہذیب کی ناگزیر تباہی مغربی حکماء کے اس عقیدہ نے کہ صداقت وہی ہے جسے حواس کے ذریعہ سے معلوم کیا جا سکے نہ صرف مغربی علوم کو صحیح اور معیاری علوم کے درجہ سے گرا دیا ہے اور انسان اور کائنات کے ایسے فلسفوں کو جنم دیا ہے۔ تہذیب مغرب کے بعض فریب خوردہ شاید اس بات کو باور نہ کر سکیں۔ اس لئے میں مغرب کے ایک سر بر آوردہ حکیم پروفیسر پٹی رم سوروکن کی کتاب ’’ ہمارے عہد کا بحران‘‘ (The Crisis of our age) سے کچھ حوالے نقل کرتا ہوں جن سے معلوم ہو گا کہ پروفیسر سورو کن اپنی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ مغربی تہذیب ایک ’’ المناک بحران‘‘ میں مبتلا ہے جو عنقریب اس کی ’’ تباہی‘‘ کا موجب ہو گا اور یہ تباہی ’’ دور حاضر کے انسان کے لئے ذلت اور نکبت‘‘ کا پیغام اپنے ساتھ لائے گی۔ وہ لکھتا ہے کہ مغربی تہذیب کے اس بحران کا سبب یہ ہے کہ مغربی تہذیب ’’ اس اعتقاد کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی کہ سچی صداقت اور سچی نیکی دونوں کلیتہً یا بیشتر حسی یا مادی ہیں۔ ہر وہ چیز جو حواس خمسہ کی گرفت سے بالا ہے بطور صداقت کے فرضی ہے یا تو اس کا کوئی وجود ہی نہیں یا اگر کوئی وجود ہے تو چونکہ وہ حواس خمسہ سے معلوم نہیں کیا جا سکتا تھا وہ غیر موجود کے حکم میں ہے۔ چونکہ سچی صداقت اور سچی نیکی کو مادی یا حسی قرار دے لیا گیا تھا ہر وہ چیز جو حواس کے ادراک سے ماوراء تھی خواہ وہ خدا کا تصور تھا یا انسان کا شعور۔ ہر وہ چیز جو غیر حسی اور غیر مادی تھی اور جو روز مرہ کے تجربات سے دیکھی، سنی، چکھی، چھوئی یا سونگھی نہیں جا سکتی تھی۔ ضروری تھا کہ اسے غیر حقیقی، غیر موجود اور بے سود قرار دیا جاتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اس شجرکاری کا پہلا زہر آلود پھل یہ تھا کہ سچی صداقت اور سچی نیکی کے دائرہ کو مہلک حدود تک محدود کر دیا گیا اور جب تہذیب ایک بار اس راستہ میں داخل ہو گئی تو پھر اس کو اسی راستہ پر آگے جانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صداقت اور نیکی کی دنیا ہر روز اور زیادہ حسیت اور مادیت کے تنگ سانچوں میں ڈھلتی گئی۔‘‘ سوروکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ دور حاضر کی حسیت زدہ تہذیب (Sensate Civilization) کو موت کے منہ سے بچانے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جس قدر مکمل ہو وہ اپنے حسیت نواز بنیادی مفروضہ کو بدل کر اس کی جگہ کسی روحانی مفروضہ کو اپنی بنیاد بنائے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس ’’ حسیت زدہ تہذیب کے تمام عقیدوں اور اس کی تمام قدروں کا نئے سرے سے گہرا مطالعہ کیا جائے۔ اس کی خارج از وقت کاذب اقدار کو رد کیا جائے اور ان سچی قدروں کو بحال کیا جائے جو اس نے رد کر دی ہیں۔۔۔۔ مذہب اور سائنس کا موجودہ اختلاف حد درجہ تباہ کن ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ اگر سچی صداقت اور سچی نیکی کے معقول اور تسلی بخش نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس دونوں ایک ہی ہے اور ایک ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ قادر مطلق خدا کی صفات کو اس مرئی دنیا کے اندر آشکار کی اجائے تاکہ خدا کے نام کا بول بالا ہو اور انسان کی عظمت پایہ ثبوت کو پہنچے۔‘‘ خودی کی فطرت پر نگاہ رکھنے والے لوگ محترم پروفیسر سوروکن کو پورے اعتماد کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ وہ روحانی عقیدہ جو نہایت معقولیت کے ساتھ مغرب کے حسی اور مادی عقیدہ کی جگہ لے سکتا ہے اور مغربی تہذیب کو موت کے منہ سے بچا سکتا ہے یہ ہے کہ ’’ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے جو بھٹک کر کسی غلط نصب العین کی صورت میں اپنا اظہار کرنے لگتی ہے۔‘‘ یہ بیان علمی زبان میں لا الہ الا اللہ کا ترجمہ ہے۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ لہٰذا مغربی تہذیب یا تو مٹ جائے گی یا پھر اس عقیدہ کو اپنا کر فلسفہ خودی سے جو قرآن حکیم کا بنیادی فلسفہ ہے ہمکنار ہو جائے گی اور اسلامی تہذیب کے نام سے تا قیامت زندہ رہے گی۔ (نظریات و علوم مروجہ کی علمی اور عقلی خامیوں کی مزید تفصیلات کے لئے قارئین میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر ملاحظہ فرمائیں) ٭٭٭ اشاریہ اماکن (ا) آل انڈیا، 393 اٹلی،392, 382, 364, 363 اندلس،233 انگلستان،390 (ب) بدر،310 برما،384 (ج) جاپان،364 جرمن،364 جرمنی، 390, 382, 363 (چ) چائنا،422 چیکو سلواکیہ (ح) حنین310 (خ) خیبر389, 335 (د) دلی،391, 54 (ر) روس363, 395, 422, 442, 443, 447, 450, 456, 459 (س) سمرقند54, 391 سوئٹزرلینڈ216 (ش) شام286 (ص) صفاہان54 (ع) علیگھ، 454 (ف) فرانس،363 فلسطین،255 (ک) کنعان391 (م) مصر255, 203 (ن) ناگاساکی،16 (ل) لندن557 (ہ) ہارورڈ یونیورسٹی250 ہیروشیما238 (ی) یورپ230, 232, 386, 453, 464 یونان230, 231 ٭٭٭ اشاریہ اسماء (ا) آدم ؑ 160, 173, 181, 182, 198, 193, 200, 222, 224, 243, 260 آل احمد سرور،454 ابراہیم ؑ 35, 60, 176, 242, 265, 316, 341, 389, 426, 443 ابن سکویہ 158, 159 ابوبکرؓ (حضرت) 447, 448, 460 ابوذر غفاریؓ (حضرت)412, 422, 225 ارسطو80 اسرافیل 311, 315 افغانی 390, 432 افلاطون 330 اقبال 1, 3, 9, 14, 20, 23, 28, 35, 36, 37, 38, 39, 41, 43, 44, 47, 48, 50, 51, 52, 53, 55, 56, 57, 59, 60, 63, 64, 65, 66, 67, 69, 72, 76, 77, 78, 80, 81, 82, 83, 84, 91, 99, 100, 103, 105, 106, 110, 112, 115, 118, 120, 123, 128, 133, 141, 143, 154, 161, 164, 166, 172, 174, 175, 180, 184, 186, 196, 198, 200, 201, 201, 204, 214, 215, 216, 219, 221, 225, 229, 230, 231, 234, 235, 236, 238, 241, 242, 246, 249, 256, 257, 258, 261, 266, 267, 268, 277, 279, 289, 294, 296, 299, 300, 304, 309, 311, 318, 321, 325, 326, 328, 339, 331, 333, 335, 337, 339, 340, 345, 346, 347, 351, 353, 357, 360, 361, 365, 366, 374, 376, 381, 384, 385, 386, 388, 390, 391, 396, 397, 401, 406, 424, 425, 426, 427, 430, 431, 434, 435, 437, 441, 442, 444, 445, 446, 447, 449, 450, 451, 452, 454, 455, 473, 482 البیرونی159 اللہ 100, 131, 135, 160, 223, 229, 233, 247, 267, 281, 296, 298, 311, 326, 334, 337, 389, 441 ایڈنگٹن18 ایڈلر483, 486, 487, 488, 492 ایچ جی ویلز170 الیس ھالڈین (Haldane) 18 آئن سٹائن 91, 93, 145 ایلکس کارول 478 اینجلز 490, 491, 495 اے کارنپ (پروفیسر) 500 (ب) برفال 230 برکلے 90 برگسان 60, 87, 96, 97, 233 بشب جارج برکلے 87, 89 بو علی سینا، 235 بو علی قلندر 321 بیروزڈن ہام 502 (پ) پٹی رم مسوروکن (پروفیسر) 250, 512, 513 پلانک پروفیسر 93 (ٹ) ٹائن بی 169, 507 (ج) جاحظ 158 جان براڈس والٹس 496 جبرئیل 34, 267, 315, 431, 505 جبریل مارسل 505 جمال الدین افغانی 387, 431 جولین ھکسلے 475 جوڈ93 جیولن بکسلے 167, 190 جیمز جینز 18, 93, 98, 233 جے ایس ہالڈین پروفیسر95 جنٹلے 88 (ح) حکم قانی 248 حلاج 307, 238 حیدر کرارؓ 335 (خ) خضر 446 خواجہ حسن نظامی 53 (ڈ) ڈارون 475 ڈریش 95, 96, 233 ڈیکارٹ 87 ڈینی لیوسکی 169, 507 (ر) رازی (امام فخر الدین رازیؒ ) 36, 204, 257, 271, 315 رائیل 500 رسل 91 روژے 97 روسو351 رومی (مولانا رومؒ ) 36, 99, 100, 110, 131, 159, 235, 257, 286, 294, 306, 390, 396, 406 رٹیگٹن 93 (ز) زید 331, 332 (س) سارٹر 504, 565 سو آلیو لاج 93 سقراط 230 سلیمان ندوی ؒ 53 سلیمان 11, 12, 358 سورن آہے کیئر کیگارڈ503 سوروکن 169, 507 سپائی نوزا 87 سید عبداللہ ڈاکٹر68 (ش) شاہ ولی اللہ، 50, 57, 58, 303 شپنگلر169, 507 شروڈنگر 93 شوبن ہار87 (ط) طلحہؓ 412 (ع) عرب386 عطار 36, 235, 257 عمرؓ (حضرت) 460 علیؓ (حضرت) 447, 448 عیسی ؑ 38, 378 (غ) غزالیؒ 36, 257 (ف) فان لائے (Vanlaue) 18 فرائڈ 384, 455, 484, 486, 487 فریڈرک رانزول 170 نشتے 87 فلارنس392 فیثا غورث19 فیلڈ مارشل سمٹس 250, 251 (ق) قاضی احمد میاں اختر 68 قاضی نذیر احمد77 قیصر ولیم 434 (ک) کارل جاسپرز 505 کارل مارکس 5, 55, 36, 394, 454, 456, 458, 459, 464, 465, 466, 483, 489, 490, 491, 492, 493, 495, 496, 512 کانٹ 87 کروبر507 کروچے 87, 88 کشاف 271 کیئر کیگارڈ503, 504, 505 (ل) لارڈ جوڈ502 لارڈ کیلون87 لاک 351 لا مارک 97 لیبنز 87 (م) ماسکو 456 مارٹن بوبو مارٹن ہیڈیگر 505 محمد صلی اللہ علیہ وسلم 37, 46, 128, 184, 195, 196, 197, 199, 207, 327 محی الدین ابن عربی 50, 57, 58 میکاولی 392, 394 ملکہ سباء 12 موسی ؑ 446, 467, 482 میکڈگل 479, 483, 488, 489 میوسیولینن434 (ن) نکولاس برڈی ایو505 نٹشے 87 نیوٹن 9, 19 (و) واٹسن 497, 498, 999 وائٹ ہیڈ پروفیسر 90 واہیڈ93 وزڈم 500 (ہ) ہابیز 351 ہوک 18 ہیری شمٹ92 ہیگل 38, 60, 87 (ی) یوسف ؑ 49, 204, 391 اغلاط نامہ آیات نمبر شمار غلط صحیح صفحہ نمبر سطر نمبر 1 خاساً خاسئاً 8 7 2 دمن دون 8 12 3 الھتہ آلھتہ 8 24 4 لن تجد لسنتہ فلن تجد لسنتہ 9 7 5 لن تجد لسنتہ ولن تجد لسنتہ 9 9 6 لجتہ لجۃ 11 26 7 انہ قال انہ 11 26 8 مذاد مداداً 33 21 9 ان تنفزوا ان تنفذ 33 21 10 للمومنین للمومنین 42 19 11 لاتغلبن لاغلبن 45 23 12 انتم وانتم 45 24 13 لقد ولقد 46 2 14 بعبادنا لعبادنا 46 2 15 لیظھر لیظھرہ 46 2 16 لیس وان لیس 63 8 17 لاکن لکن 70 17 18 کل یعمل قل کل یعمل 82 4 19 وربکم فربکم 82 4 20 ھوا ھو 82 4 21 یحمحو یمحوا 129 7 22 الخیر الخیرۃ 129 7 23 قطع دابر القوم الدین کذبو فقطع دابر القوم الذین ظلموا 131 9 24 ما وما 133 21 25 لایتہ لآیۃ 133 25 26 لایہ للمومنین لایۃ للمومنین 135 15 27 بیہ بہ 136 20 28 لاخذنا لاتخذنہ 137 13 29 فقنا سبحنک فقنا 138 5 30 من ربکم الحق من ربکم 139 19 31 شی شئی 144 9 32 الساعہ الساعۃ 145 12 33 ماۃ مائتہ 146 2 34 لاکن لکن 152 7 35 نطفہ نطفۃ 157 12 36 یمی یمنی 158 12 37 علقہ علقۃ 158 12 38 قادر بقادر 158 13 39 لا احب افلین لا احب الافلین 177 2 40 واتخذ من یتخذ 178 1 41 کلانمد ھو الاء وھولاء کلا نمد ھولاء وھولاء 181 5 42 امہ امتہ 181 5 43 لاکن ولکن 187 12 44 شی شئی 187 15 45 ان یطفوا ان یطفئوا 203 4 46 ویابی ویابی 203 4 47 یومنون یومنون 205 13 48 نی فی 205 13 49 ماتبعوا فاتبعوہ 206 1 50 لکم بکم 206 1 51 اتریدن اتریدون 206 2 52 مومنین مومنین 208 9 53 یکونوا لایکونوا 208 16 54 اذلہ اذلتہ 208 19 55 لومہ لومۃ 208 20 56 لیومنون یومنون 240 11 57 ینیروا یغیروا 250 13 58 عن اھویٰ عن الھویٰ 266 8 59 جنہ جنۃ 266 8 60 الماوی الماویٰ 266 8 61 فانفذ فانفذوا 298 10 62 لانتفذون لاتنفذون 298 11 63 اذا ھناک اذا سالک 323 5 64 ولیومنا ولیومنو بی 323 6 65 ولاکن ولکن 354 2 66 امہ امتہ 336 15 67 اذلہ اذلتہ 336 20 68 لومہ لومتہ 336 21 69 امہ امۃ 337 24 70 وتکون ویکون 337 24 71 للذین للدین 355 19 72 اعی اعمی 372 7 73 اضمل اضل 372 7 74 فی الآخرۃ وفی الآخرۃ 372 12 75 ممن یکفر ومن یکفر 372 14 76 کلمہ طیبہ کلمتہ طیبۃ 372 17 77 توفی توتی 372 17 78 کانہ کافتہ 384 2 79 نطعم ولم نک نطعم 398 19 80 دولہ دولۃ 398 25 81 اریت افرایت 405 11 82 الجنہ الجنۃ 405 18 83 زینہ زینۃ 408 23 84 فتاہ فتراہ 408 24 85 نتبکم نبئکم 409 13 86 مامن ومامن 410 2 87 دآبہ دآبتہ 410 2 88 الرزق الرزاق 410 4 89 ذوالقرۃ ذوالقوۃ 410 4 90 عیلہ عیلۃ 410 43 91 لرزقکم نرزقھم 411 6 92 والفضہ والفضۃ 411 25 93 صدقہ صدقۃ 413 24 94 بقیعہ بقیعۃ 416 7 95 یحسبہ اتطمان یحسبہ الضمآن 416 7 96 جاء جاء ہ 416 8 97 القیامہ القیامۃ 416 9 98 کانہ کافتہ 419 5 99 یتبغ یبتغ 426 10 100 ملہ ملۃ 426 12 101 شیا شیاً 474 8 ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End