حکمت اقبال محمد رفیع الدین اقبال اکادمی پاکستان دیباچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم عرصہ درا زتک اقبال کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اقبال کے تصورات علمی اور عقلی اعتبار سے نہایت برجستہ‘ زوردار‘ درست اور ناقابل تردید ہیں اور اگرچہ یہ تصورات اس کی نظم ونثر کی کتابوں میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں تاہم ان میںایک عقلی اور ایک علمی ربط موجود ہے ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب صرف ایک تصور سے ماخوذ ہیں جسے اقبال خودی کا تصور کہتا ہے۔ لہٰذا اقبال کی تشریح کامطلب یہ ہونا چاہیے کہ خودی کے مرکزی تصور کے ساتھ اس کے دوسرے تمام تصورات کے علمی اور عقلی ربط کو واضح کیا جائے اور اگر ایسا کرنے کے بغیر اس کی کوئی تشریح کی جائے گی تو وہ مسلمانوں کے لیے بالعموم اور غیر مسلموں کے لیے بالخصوص پوری طرح سے قابل فہم اور تسلی بخش نہیں ہو سکے گی۔ دراصل اس وقت بھی اقبال کے خیالات کے متعلق جس قدر غلط فہمیاں مسلمانوں یا غیر مسلموں میں پائی جاتی ہیں ان کا سبب یہی ہے کہ اقبال کے خیالات کی علمی اور عقلی ترتیب اور تنظیم مہیا نہیں کی گئی ۔ دوسرے الفاظ میں میرا نتیجہ یہ تھا کہ اقبال کا فلسفہ دنیا کے اور بڑے بڑے فلسفوں کی طرح بالقوہ انسان اور کائنات اکا ایک مکمل ارو مسلسل فلسفہ ہے جس کا امتیازی وصف یہ ہوتا ہے کہ اس کے تصورات میں ایک عقلی یا منطقی ترتیب اور تنظیم موجود ہوت ہے جواسے موثر اور یقین افروز بناتی ہے اور اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے تصورات کی مخفی عقلی ترتیب اور تنظیم کو آشکار کرکے اس کے فکر کو ایک مکمل نظام حکمت … Philosophical System…کی شکل دی جائے تاکہ وہ نہ صرف پاکستان کے اندر پوری طرح قابل فہم بن جائے بلکہ دنیا کے آخری باطل شکن عالمگیر فلسفہ کی حیثیت سے دنیا کے علمی حلقوں میں اپنا مقام حاصل کر سکے۔ لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہو خدا کی توفیق سے اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ نہایت ضروری تھا۔ کہ اس کام کو انجام دینے کے لیے جو کتاب لکھی جائے اس میں ذیل کے راہ نما اصولوں کو شروع ہی سے مد نظر رکھا جائے: اول: ایک فلسفہ یا نظام حکمت اشخاص کی سند یا شہادت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ علمی حقائق اور عقلی استدلال پر اپنا دارومدار رکھتا ہے اس کے کسی تصور کو اس لیے نہیںمانا جاتاکہ کوئی شخص اس کی حمایت یا سفارش کر رہاہے بلکہ اس لیے مانا جاتاہے کہ وہ ایسے علمی حقائق پر مبنی ہے جو معلوم اور مسلم ہیں یا جن کے عقب میں ایسا زوردار عقلی استدلال موجود ہے جو ان سے انکار کی گنجائش باقی نہیںرہنے دیتا۔ اگر فلسفہ میں سند یا شہادت پیش کی جائے تو وہ صرف موثر علمی اور عقلی استدلال کے بعد اس کے نتائج کی تائید مزید کے لیے ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی فلسفی کی اپنی نہیں بلکہ ایسے دوسرے اشخاص کی سند یا شہادت ہی ہو سکتی ہے جن کے فکر کی عظمت سے مسلم ہو۔ جس طرح ہیگل یا کسی اور فلسفی نے اپنے کسی حکیمانہ نکتہ کو ثابت کرنے یا لوگوں سے منوانے کے لیے کبھی اپنا ہی کوئی قول بطور دلیل پیش نہیں کیا ہم بھی اقبال کے نظام حکمت کی تدوین کرتے ہوئے اقبال کے کسی حکیمانہ نکتہ کو ثابت کرنے یا لوگوں سے منوانے کے لیے خود اقبال کا ہی کوئی قول یا دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ اور خود اقبال نے بھی اپنے تصورات کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کبھی اپنے قول کو بطور دلیل کے پیش نہیں کیا۔ بلکہ قوانین قدرت اور حقائق علمی کی طرف اشارے کیے ہیں۔ لہٰذا اقبال کے نظام حکمت کی تدوین کے لیے جو کتاب لکھی جائے گی اس میں اقبال کا حوالہ نہیں دیاجائے گا بلکہ فقط علمی حقائق اور عقلی استدلال کی مدد سے اقبال کے تصورات کی صحت اور معقولیت کو ثابت کیاجائے گا۔ دوئم: اقبال کے تصورا ت کو علمی اور عقلی اعتبار سے مرتب کرنے اور منظم کرنے اور ان کی صحت اور معقولیت کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ تمام ایسے علمی حقائق کو ان کی عقلی اور علمی بنیادوں کے سمیت کام میں لایا جائے جو آج تک دریافت ہو چکے ہیں اور اقبال کے تصورات کی تائید کرتے ہیںخواہ ان کو دریافت کرنے والا فلسفی یا سائنس دان کوئی ہو اور دنیا کے کسی خطہ سے تعلق رکھتا ہو۔ سوئم: ان تمام حکیمانہ تصورات و نظریات کو علمی اور عقلی اعتبار سے غلط ثابت کیا جائے گا جو اقبال کے فکر اور اس کے مضمرات سے ٹکراتے ہیں کیونکہ وہ درحقیقت صحیح نہیںہیں اور معقول استدلال کی روشنی میں ان کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے کے بغیر اقبال اپنے حکیمانہ تصورات کی صحت اور معقولیت کی پوری پوری وضاحت نہ ہو سکے گی اور لوگوں کو معلوم نہ ہو سکے گا کہ آیا کسی خاص فلسفیانہ مسئلہ کے متعلق صحیح نقطہ نظر اقبال کا ہے یا ان نظریات کو جو اس کے فکر کے بالمقابل ہیں اور اگر صحیح نقطہ نظر اقبا ل کا ہی ہے تو اس کی علمی اور عقلی وجوہات کیا ہیں۔ چہارم: کتاب انگریزی زبان میں ہو گی۔ تاکہ دنیاکے علمی حلقوںمیں اقبال کے فلسفہ کو پڑھا جا سکے اور پرکھا جا سکے۔ دوسرے فلسفوں کے بالمقابل اس کے علمی مقام کو معین کیا جا سکے اوراس کی معقولیت اور عظمت کو تسلیم کیا جا سکے۔ ان راہ نما اصولوں کی روشنی میں اقبال کے نظام حمت کی تدوین کے لیے جو کتاب لکھنے کی توفیق مجھے خدا نے عطا کی اس کا نام آئیڈیالوجی آف دی فیوچر (Ideology of the Future)ہے ۔ یہ کتاب جون 1942ء میں مکمل ہوئی تھی اور اگست 1946ء میں طبع ہوئی تھی۔ ا س کتاب کی اشاعت کے تقریباً بیس سال بعد میںنے ان ہی راہ نما اصولوں کی روشنی میں فلسفہ تعلیم پر اس کتاب کے ایک با ب کی مزید تشریح او ر توسیع کر کے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام تعلیم کے ابتدائی اصول (First Priciples of Education)ہے۔ دراصل میری سادہ تحریریں’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ (یعنی اقبال کے فلسفہ خودی) کے تصورات اور موضوعات کی مزید تشریح اور توسیع کے طور پر لکھی گئی ہے۔ چونکہ اقبال نے اپنے فلسفہ خودی کے ذریعے سے ہی اسلام کی فلسفیانہ تشریح کی ہے اور فلسفہ خودی اسلام ہی کا فلسفہ ہے لہٰذا اگر آپ میری کتاب ’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ اقبال کا نظام حکمت ہے تو پھر وہ معاً اسلام کا نظام حکمت بھی ہے۔ لیکن چونکہ یہ کتاب بظاہر مطلق فلسفہ کی کتاب ہے ۔ لیکن چونکہ یہ کتا ب بظاہر مطلق فلسفہ کی کتاب ہے جس میں نہ تو اقبال کا کوئی حوالہ ہے اور نہ قرآن و حدیث کا ۔ اس لیے اس کو پڑھنے والے اسے بالعموم فلسفہ اقبال یا فلسفہ اسلام کی حیثیت سے نہیںبلکہ ایک مطلق فلسفہ کی حیثیت سے پڑھتے رہے ہیں۔ لہٰذا اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی ایک طرف اقبال کے چاہنے والوں کی یہ شکایت باقی رہی کہ اقبال پر لکھنے والوں میں سے کسی نے اقبالکے فلسفہ خودی کو ایک مسلسل عقلی نظا م کے طور پر پیش نہین خیا یا اس کی مکمل تشریح نہیںکی اور دوسری طرف اسلام سے دلچسپی رکھنے والے بھی بدستور یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دور میں اسلام بے برگشتہ تعلیم یافت مسلمانوں میں اور غیر مسلموںمیں اسلام کی تبلیغ کے لیے تعلیمات اسلام کی علمی اور عقلی بنیادیں واضح کرنے اور لہٰذا اسلام کو ایک نظام حکمت کے طور پر پیش کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس صورت کی بنا پر میں نے سمجھا کہ ہماری قو م کے ذوق کے پیش نظر اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی پر دو اور کتابیں لکھی جائیں جن میں سے ایک تو ایسی ہو کہ اس میں فلسفہ خودی کو قرآن او ر حدیث کے حوالوں کے ساتھ اسلام کے ایک فسلفہ کے طور پر پیش کیا جائے اور دوسری ایسی ہوکہ اس میں فلسفہ خودی کو اقبال کے حوالوں کے ساتھ اقبال کے فلسفہ کے طورپر پیش کیا جائے خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان دونوں کتابوں کے لکھنے کی توفیق دی۔ پہلی کتاب جس کا عنوان ’’قرآن اورعلم جدید‘‘ ہے میں نے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے لیے 1951ء میں لکھی تھی۔ اور دوسری کتاب ’’حکمت اقبال‘‘ کے نام سے اب پیش کر رہا ہوں ۔ حاص یہ ہے کہ جس حد تک مجھے خدا کی توفیق حاصل ہوئی ہے میںنے یہ تینوں کتابیں اس طرح سے رکھی ہیں کہ مجھے امید ہے کہ جو احباب اقبال کے فلسفہ خودی کا یا اسلام کا مطالعہ ایک خالص اور منظم فلسفہ یا سائنس کے طور پر کرنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر کا مطالعہ مفید مطلب پائیں گے(اس کتاب کے تیسرے ایڈیشن کے ناشر شیخ محمد اشرف ‘ کشمیری بازار لاہور ہیں) اور جو فلسفہ خودی کامطالعہ اسلام کے ایک فلسفہ کے طورپر کرنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ کا مطالعہ دلچسپی کا باعث پائیں گے اور پھر جو فلسفہ خودی کا مطالعہ اقبال کے حوالوں کی روشنی میں اقبال کے فلسفہ کے طورپر کرنا چاہتے ہیں وہ زیر نظر کتاب ’’حکمت اقبال‘ کا مطالعہ مدعا کے مطابق پائیں گے۔ امید ہے کہ جو احباب ان تینو ں کتابوں کامطالعہ کریں گے وہ دیکھیں گے کہ فلسفہ خودی کی مفصل تشریح کی حیثیت سے یہ تینوں کتابیں ایک دوسرے کی کمی کو پورا کرتی ہیں۔ ٭٭٭ پیش لفظ ڈاکٹر محمد رفیع الدین (1904-1965)پاکستان کے ان مایہ ناز اہل علم میں سے ہیں جن کے علمی کاموں کے نقوش ہماری مذہبی و ثقافتی زندگی پر نہایت گہرے ہیں انہوںنے علم و فکر کے متعدد چراغ روشن کیے اور دور جدید میںاسلام کی تعبیر و تشریح کے میدان میں حکیم الامت علامہ اقبال کی فکر کو آگے بڑھانے کی سعی فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب نے متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا۔ لیکن بنیادی طور پر ان کی فکر اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر مرکو ز رہی۔ ان کی تصانیف میں اسلام کی حقانیت پر اعتماد کا رنگ نہایت گہرا ہے اور وہ اسے نہ صرف ماضی کی ایک درخشاں حقیقت سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک انسانیت کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی اسلام ہی ہے ان کی آرزو تھی کہ اسلام کی ایسی تعبیر و تشریح کی جائے جو ایک طرف اس کے اصل وجوہر سے پوری مطابقت رکھے تو دوسری طرف عصر حاضر کے سیاقمیں نوع انسانی کے لیے ایک رہنما قوت کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے میں ممد و معاون ہو۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین کے نزدیک علامہ اقبال کا فکری کام نہایت دقیع تھا۔ چنانچہ فکر اقبال کی ترویج و ترقی ان کے نزدیک اسلام کی تائید و حمایت اور باطن کی تردید کے ہم معنی تھی۔ حکمت اقبال کا پہلا ایڈیشن ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی زندگی میں ہی لاہور کے ایک ادارے نے شائع کیا ہے جو عرصہ سے نایاب تھا۔ ادارہ تحقیقات اسلامی چودھری مظفر حسین صاحب سیکرٹری‘ مسلم ایجوکیشنل کانگریس لاہو ر کا شکر گزار ہے کہ انہوںنے اقبال کے فلسفہ پر اس اہم ترین کتاب کی طباعت کے لیے اس ادارے کا انتخاب فرمایا۔ میں اس حقیقت کااظہار کیے بغیرنہیںرہ سکتا کہ ادارہ کو اس کتاب کی اشاعت کی سعادت جناب محترم ملک معراج خال صاحب ریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی وساطت سے حاصل ہوئی۔ ملک صاحب نہ صرف علامہ اقبال سے گہری عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب مرحوم کی علمی خدمات کے قدردان بھی ہیں۔ ’’حکمت اقبال‘‘ کی اشاعت میں ان کی دلچسپی جہاں ان کی علم دوستی کی مظہر ہے وہاں اس ادارے کی سرپرستی کی بھی غماز ہے۔ موجودہ ایڈیشن اردو کمپوزنگ کے ساتھ لیتھو کی بجائے آفسٹ پر طبع کیا گیا ہے‘ اور اس میں پہلے ایڈیشن کی خامیوں کو دور کرنے کا حتی المقدور اہتمام کیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ادارہ تحقیقات اسلامی کی یہ خدمت اہل علم میں بالعموم اور فکر اقبال سے دل چسپی رکھنے والوں میں بالخصوص قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ ظفر اسحاق انصاری ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی‘ اسلام آباد 28دسمبر 1995ء ٭٭٭ حکمت اقبال پر ایک عمومی نظر حکمت اقبال میں تصور خودی کا مقام اقبال کے تمام حکیمانہ افکار کر سرچشمہ صرف ایک تصور ہے جسے اقبال نے خودی کانام دیا ہے۔ اقبال کے تمام تصورات اسی ایک تصور سے ماخوذ ہیں اور اس سے علمی اور عقلی طورپر وابستہ ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے تمام تصورات خود ایک دوسرے کے ساتھ بھی ایک علمی اور عقلی رشتہ میں منسلک ہیں اور اقبال کا فکر ایک ایسے نظام حکمت کی صورت میں ہے جس کا ہر تصور دوسرے تمام تصورات علمی سے اور عقلی تائید اور توثیق حاصل کرتا ہے۔ جب تک ہم اس نظام حمت کے مرکز یعنی تصوری خودی کو ٹھیک طرح نہ سمجھیں ہم اقبال کے کسی تصور کو بھی ٹھیک سے نہیںسمجھ سکتے اور اس کے برعکس جب تک ہم اقبال کے ہر تصور کو جو اس کے نزدیک خودی کے حاصلات یا مضمرات میں سے ہے پوری طرح نہ سمجھ لیں ہم خودی کے تصور کو پوری طرح سے نہیںسمجھ سکتے اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبا ل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے افکار کو الگ الگ کر کے اپنے غور و فکر کا موضوع نہ بنائیں بلکہ ا س کے پورے فکر کا مطالعہ ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے کریں۔ ظاہر ہے کہ جب اقبا کا ہرتصور ایک پورے نظام فکر کا جزو ہے اوریہ پورا نظام فکر اس کی تشریح اور تفہیم کرتا ہے تو ہمارے لیے ضروری ہو جاتاہے کہ ہم اسے اس نظام کے جزو کی حیثیت سے ہی زیر غور لائیںَ اگر ہم ا س پورے نظام فکر سے الگ الگ کر کے یا اس کے کسی پہلو کو نظر انداز کر کے یا حذف کر کے یا غیر ضروری قرار دے کر ا س پر غور کریں گے تو اس کے صحیح مفہوم پر حاوی نہ ہو سکیں گے۔ جب تک ہم اقبال کے کسی تصور کی ماہیت کو اس کے پورے نظام فکر کی روشنی میں او ر اس کے باقی ماندہ تصورات کی مددسے معین نہ کریں گے وہ ہمارا اپنا پسندیدہ تصور ہو تو اقبال کا تصور نہیںہو سکتا۔ اقبال کا تصور تو وہی ہو سکتا ہے جس کی ماہیت اس کے پورے نظام فکر نے معین کی ہو۔ جب ہم ایک نظام حکمت کے کسی جزو کو اس سے الگ کر دیں تو وہ اسی طرح سے مردہ ہو جاتا ہے جس طرح کہ جسم حیوانی کا ایک عضو جسم سے کاٹ دیا جائے تو وہ مردہ ہو جاتا ہے۔ یہ اصول فہم اقبال کے لیے ایک کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبا ل کا مطالعہ کرنے والوں یا اقبال پر لکھنے والوں میںخواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی آج اقبال کے نظریات کے بارہ میںجس قدر غلط فہمیاںپائی جاتی ہیں جس قدر مباحثے یا اختلافات موجود ہیں جس قدر ان نظریات کو نادانستہ طور پر اپنے اپنے خیالات کی تائید میں استعمال کرنے کی غلط کوششیں کی جا رہی ہیں اور ان کے مفہوم کے اندر تضادات کے شبہات پید ا کیے جا رہے ہیں ان سب کا باعث یہی ہے کہ انہوںنے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھا۔ ایک ایسے فلسفہ کے انر جس کے تمام تصورات صرف ایک ہی مرکز ی یا بنیادی تصور سے ماخوذ ہوں حقیقی تضادات کا ہونا ناممکن ہے ایسی حالت میں تضاد پڑھنے والے کے ذہن میں ہو تو ہو لیکن فلسفی کے ذہن میں نہیںہو سکتا۔ روضہ تاج محل ایک خوبصورت کل یا وحدت ہے جس میں کہیں کوئی تضاد موجود نہیںجس کی ہر اینٹ اس کی پوری وحدت کے ساتھ ہم آہنگ ہے لیکن فرض کیا کہ کسی حادثہ کی وجہ سے اس کے بیسیوں ٹکڑے ہو جاتے ہیں جو دور دور بکھر جاتے ہیں اگر وہاں سے کوئی ایسا شخص گزرے جس نے روضہ تاج محل کو ایک مربوط اور منظم کل کے طور پر کبھی نہ دیکھا ہو تو شاید بعض ٹکڑوں کے باہمی ربط کو سمجھ جائے لیکن بہت سے ٹکڑے ایسے ہوں گے جن کو وہ بے معنی اور بے ربط سمجھنے پر مجبور ہو گا حالانکہ ان میں سے کوئی ٹکڑا بھی ایسا نہ ہو گا جو اس ٹوٹ پھوٹ جانے والی خوبصورت عمارت کے کسی نہ کسیکونہ میں اپنی جگہ نہ رکھتا ہو۔ اقبال کے فلسفہ کا حال بھی ایسا ہی ہے اس کے تمام تصورات اس کے اندر اپنا عقلی ربط اور ضبط رکھتے ہیں۔ لیکن موجودہ صورت میں بکھرے ہوئے پڑے ہیں۔ ہم اقبال کے فلسفہ میں تضاد کا شبہ صرف اسی موقعہ پر کر سکتے ہیں جہاں ہم اس کے کسی تصور کو اس حد تک نہ سمجھ سکیں کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ اس کے بنیادی یا مرکزی تصور خودی کے ساتھ ا س کا عقلی اور علمی ربط کیا ہے اور لہٰذا اس کے پورے فلسفہ میں اس کا مقام یا محل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اقبال کے اوسط درجہ کے مطالعہ کرنے والے کے پاس اقبال کا فلسفہ منظم صورت میں موجود نہ ہو گا تو دوران مطالعہ میں اس کے لیے بارہا اس قسم کے مواقع کا پیش آنا ضروری ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کے فلسفہ کو منظم اور مربوط شکل میں پیش کرنا اقبال کی تشریح اور تفہیم کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ حکمت کی نوعیت اور ضرورت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود فکر یا حکمت کی نوعیت کیا ہے اور ہمیں اس کی ضرورت کیا ہے؟ اور پھر اقبال کا فکر ایک نظام حکمت کی صورت میں کیوں ہے؟ اقبال نے ایک ہی حقیقت پر اپنے افکار کی بنیاد کیوںرکھی ہے؟ کیااقبال کا یہ طرز عمل ضروری تھا یا محض اتفاقی ہے اور خود اقبال کے فکر کی اہمیت کیا ہے کہ اس کی تنظیم اور تشریح اور تفہیم ضروری سمجھی جائے۔ ہم شاید اس سوا ل کو نظر اندا ز کر دیتے لیکن حکمت اقبال کی منظم تشریح کے لیے اس سوال کا اٹھانا اور اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جس کائنات میں وہ آ نکلا ہے اس کی حقیقت معلوم کرے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کائنات کی حقیقت معلوم نہ ہو گی وہ جان نہیں سکتا کہ خود اس کی حقیقت کیا ہے۔ اور کائنات کے ساتھ اس کا تعلق کیاہے۔ کائنات کی حقیقت سے اسے اپنی حقیقت کا سراغ ملتا ہے کیونکہ وہ خود بھی کائنات کا ایک اہم جزو ہے ۔ اور اپنی حقیقت وہ اس لے جاننا چاہتا ہے کہ تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ اسے اپنی عملی زندگی کا استعمال کس طرح کرنا چاہیے اور اس زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور وہ اپنی عملی زندگی کی تشکیل اور تعمیر کس طرح سے کرے کہ ا س سے اپنے لیے اسی دنیا میں یا اگلی دنیا میں (اگر وہ بھی ہو تو) بہترین قسم کے نتائج اور ثمرات حاصل کر سکے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے متعلق ہر قسم کے تسلی بخش سوالات کا جواب حاصل کر لے گا تو اسی جواب میں اسے اپنے متعلق ہر قسم کے ممکن سوالات کا تسلی بخش جواب بھی مل جائے گا اور پھر وہ اس جواب کی روشنی میں اپنے تمام مسائل کا صحیح حل معلوم کر سکے گا اور اپنی زندگی کا استعمال صحیح طریقے سے کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کی حقیقت کا جو تصور بھی وہ قائم کرتا ہے وہ اپنی عملی زندگی کو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کے مطابق بناتا ہے گویا اس کے لیے حقیقت تلاش کرنے نہ تو کوئی تفریح مشغلہ ہے اور نہ ہی کوئی علمی یا نظری مسئلہ بلکہ ایک شدید عملی ضرورت ہے جس کی اچھی یا بری تشفی اس کی روز مرہ زندگی کے تمام حالات اور اس کی تمام چھوٹی اور بڑی تفصیلات کو معین کرتی ہے۔ بدنی ضروریات کی تشفی کو تو ہم ایک عرصہ تک التوامیں بھی ڈال سکتے ہیں لیکن اگر ہم اس ذہنی اور عملی ضرورت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ملتوی کر دیں تو ہمارا دماغی توازن بگڑنے لگتا ہے اور ہم جنون‘ ہسٹریا ‘ خوف ‘ غم ‘ پریشانی ایسے ذہنی امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ حکمت اقبال کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ وہی حکمت ہے جو انسان کی ذہنی اور عملی ضروریات کو پورا کرتی ہے یا نہیںَ حکمت کی عمومیت یہ کہنا غلط ہے کہ حقیقت کائنات کے تصورات یا نظریات حکما یا فلاسفہ سے مخصوص ہوتے ہیں۔ دراصل انسان کی فطرت اس طرح سے بنی ہے کہ آج تک کوئی تندرست فرد عالم یا جاہل ایسا نہیںہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے جو حقیقت کا ئنات کا کوئی اچھا یا برا صحیح یا غلط مختصر یا مفصل منظم یا غیر منظم عالمانہ یا جاہلانہ تصور نہ رکھے اور اپنی ساری زندگی کو اس کے مطابق نہ بنائے۔ حکما یا فلاسفہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو اور لوگوں کی نسبت زیادہ ذہین اور زیادہ باریک بین ہوتے ہیں اور اپنے ذوق اور اپنی افتاد طبیعت کے لحاظ سے حقیقت کائنات کے مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے زیادہ موزوں اورمستعد ہوتے ہیں جس سے بعض افراد عام لوگوں کے لیے غلہ پیدا کرنے یا کپڑا بننے یا اور بدنی ضروریات کی چیزیں تیار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح سے نوع بشر کے حکما اور فلاسفہ عام لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت کی چیز یعنی حقیقت کائنات کا صحیح تصور جو ہماری ذہنی اور روحانی سطح کی ضروریات سے تعلق رکھتا ہے بہم پہنچانے میں لگے رہتے ہیں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حقیقت کائنات کے متعلق خو دان کا اور دوسرے لوگوں کا تصور زیادہ سے زیادہ صحیح ہو تاکہ وہ خود اور دوسرے لوگ اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ صحیح بنا سکیںَ لیکن حقیقت کائنات کے تصور کی ضرورت ہر انسان کے لیے اس قدر شدید اور فوری اور ناقابل التوا ہوتی ہے کہ لوگ کبھی فلسفیوں اور حکیموں کی تحقیق اور تجسس کے ایسے نتائج کا اظہار نہیںکرتے جو آئندہ کسی وقت دستیاب ہونے والے ہوں بلکہ جو نظریات پہلے ہی موجود ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ قبول کر کے اس پر عمل درآمد شروع کر دیتے ہیں اور وہی نظریہ اپنی اولادوں کو وراثت میں سونپ جاتے ہیں لیکن اگر بعد میں آنے والی نسلیں کسی اور نظریہ سے جو کسی اور حکیم یا فلسفی نے پیش کیا ہو متاثر ہو جائیں تو اپنے نظریہ کو بدل لیتی ہیں اور پھر ان کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے مطابق بدل جاتی ہے تاریخ کے بڑے بڑے انقلاات اسی طرح دانائوں فلسفیوں اور حکیموں کے نظریات سے پیدا ہوتے ہیں۔ وحدت کائنات حکما اور فلاسفہ ہر دو ر میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے جو بعد میں آتے ہیں اپنے متقدمین کے فکرکی غلطیاں نکالنے اور درست کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کے اختلافات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اگرچہ فلسفیوں اور حکیموںکا پورا گروہ ابھی تک حقیقت کائنات کا صحیح تصور پیش کرنے سے قاصر رہا ہے تاہم جب سے اس گروہ نے حقیقت کائنات پر غور و خوض کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر آج تک یہ ایک پراسرار وجدانی شہادت کی بنا پر اس بات کا پختہ یقین ان پر غالب رہا ہے کہ کائنات ایک یکساں کل یا وحدت ہے یعنی وہ فاصلہ اور وقت دونوں کے اعتبار سے ایسے منطقوں یا حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جن میںمتضاد قسم کے قوانین قدرت جاری ہوںَ کائنات کے قوانین مسلسل اور مستقل ہیں۔ وہ نہ صرف ہر جگہ پر ایک ہی رہتے ہیں بلکہ ہر زمانہ میں بھی ایک ہی رہتے ہیں۔ وحدت کا عالم یہ وجدانی اعتقاد تمام بڑے بڑے حکیموں‘ فلسفیوں اور سائنس دانوں کے فکر میں خواہ وہ تصوریت پرست ہوں یا مادیت پرست‘ ایک قدر مشترک کا حکم رکھتا ہے۔ اگرچہ کوئی بڑا فلسفی یا سائنس دان اس کی صحت کی دلیل طلب نہیںکرتا بلکہ آغاز ہی سے اسے اپنے مسلمات میں شمار کرتا ہے تاہم اس کی صحت کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ وہ آج تک غلط ثابت نہیںہو سکا۔ سائنس اور فلسفہ کی تمام ترقیات جو اب تک وجودم میں آئی ہیں ان کی بنیاد یہی حقیقت ہے کہ اور وہ سب مل کر اس کی صحت کی شہادت دیتی ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ اگر جویان حق و صداقت اور طالبان علم و حقیقت اس عقیدہ سے آغاز نہ کرتے اور یہ عقیدہ صحیح نہ ہوتا تو کائنات ایک وحدت ہے اور اس کی تعمیر کے اندر ایک تسلسل موجود ہے جو کہیں نہیں ٹوٹتا تو سائنس اور فلسفہ دونوں ممکن نہ ہوتے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو سائنس دان اور فلسفی دونوں کو اپنے اپنے دائر ہ میں علمی تحقیق کے لیے اکساتا ہے اور اسی کی تصدیق سے وہ اپنی علمی تحقیق کے نتائج پر مطمئن ہوتے اور اس کیر اہ پر قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ ظاہر ے کہ اگر فلسفی یا سائنس دان کو معلو م ہو جائے کہ جو علمی حقیقت اس نے دریافت کی ہے وہ محض وقتی اورمقامی ہے اور اس کی متبادل یا متوازی علمی حقیقتیں اس کائنات میںاور بہت سی ہیں یا آئندہ ہو سکتی ہیں(مثلاً یہ کہ پانی ایک ہی مقام پر کبھی ایک درجہ حرارت پر ابلتاہے اور کبھی دوسرے پر یا سطح سمندر سے ایک ہی بلندی پر کہیں ایک درجہ حرارت پر ابلتا ہے کہیں دوسرے پر) تو وہ اپنی تحقیق کے اس نتیجہ کو بیکار سمجھ کر چھوڑ دے گا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے ایک انسان کے لیے تو وحدت عالم کا نتیجہ ناگزیر ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے اور اس کا مقصد پوری کائنات میں کارفرما ہے۔ اسی طرح سے ایک تصوریت پرست فلسفی کا حکیمانہ زاویہ نگاہ بھی ا س عقیدہ کا تقاضا کرتا ہے لیکن یہ بات فطرت انسانی کے نہایت ہی اہم سربستہ رموز کو منکشف کرنے والی ہے جو کارل مارکس اور اس جیسے دوسرے حکمائے مارپین بھی اس عقیدہ سے پہلوتہی نہیں کر سکے۔ وحدت کائنات کے مضمرات وحدت کائنات کا مسلمہ ہمیں کئی نتائج کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ اول: کسی کثرت کے اندر وحدت کا ہونا نظم کے بغیر ممکن نہیں اور نظم ایک مرکزی اصول کے بغیر محال ہے۔ لہٰذا کوئی تصور ایسا ہونا چاہیے کہ جو کائنات کی وحدت کا اصول ہو جو ایک ایسے رشتہ کی طرح ہو جو کائنات کی کثرت کو پرو کر ایک وحدت بناتا ہو۔ دوم: کائنات کی وحدت کے اصول کو کائنات کی آخری اور بنیادی حقیقت ہوناچاہیے اور باقی تمام حقائق عالم کو اس کے مظاہر۔ کیونکہ اگر وہ اس حقیقت کے مظاہر نہ ہوں تو وہ ان میں اتحاد اور نظم پیدا نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ حقائق اپنی فطرت کے اختلافات کی وجہ سے اس قابل رہتے ہیں کہ ان میں اتحاد اورنظم پیدا کیا جا سکے۔ سوم: کائنات کی وحدت بطور وحدت کے عقلی طور پر سمجھ میں آنی چاہیے لہٰذا ضروری ہے کہ تمام حقائق عالم کائنات کی بنیادی حقیقت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ساتھ عقلی طور پر وابستہ ہوں اور اس باہمی وابستگی کے سبب سے ایک ایسی زنجیر کی صورت اختیار کریں سج کا پہلا اور آخری حلقہ کائنات کی وہی بنیادی حقیقت ہو اور جس کے تمام حلقے ایسے ہوں کہ ہر حلقہ اگلے حلقے کی طرف راہ نمائی کر رہا ہو۔ حکما حقائق عالم کی ایسی ہی رنجیر کو نظام حکمت (Philosophical System)کا نام دیتے ہیں۔ چہارم: اگر ہم حقائق عالم میں سے کسی حقیقت کی علت بیان کیں تو وہ علت اس حقیقت کی تشریح تو کر دیتی ہے لیکن خود کئی سوالات پیدا کر دیتی ہے اور پھر ان سوالات کا جواب اور سوالات پیدا کرتا ہے اور علی ہذا القیاس یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اگر کائنات کو ایک وحدت مانا جائے تو ضروری ہو گا کہ ان پے در پے پیدا ہونے والے سوالات کا آخری جواب اور ہر حقیقت کی آخری تشریح کائنات کی وہی حقیقت ہو جو حقیقت الحقائق ہے۔ پنجم: اصول وحدت کائنات یا حقیقت کائنات کے ہزاروں تصورات ممکن ہیں لیکن ان میں صحیح تصور صرف ایک ہی ہوسکتا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو کائنات کی وحدت ختم ہو جاتی ہے۔ اور ضروری ہے کہ کائنات کے تمام صحیح اور سچے حقائق صرف اسی ایک تصور کے ساتھ علمی اور عقلی مطابقت رکھتے ہوں اور کسی دوسرے غلط تصور کے ساتھ مطابقت نہ رکھتے ہوں اور جب کائنات کا صحیح نظام حکمت وجود میں آئے تو اس کا مرکزی اور بنیادی نقطہ یہی تصور حقیقت ہو۔ اگر کوئی ایک سچی حقیقت بھی ایسی ہو جو کسی نظام حکمت کے ساتھ مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ نظام حکمت کسی غلط حقیقت پر مبنی ہے اور اگر کوئی علمی حقیقت جسے علمی حقیقت سمجھا جا رہا ہے کسی صحیح نظام حکمت کے ساتھ جو صحیح تصور حقیقت پر مبنی نہ ہو مطابقت نہ رکھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ علمی حقیقت علم کے معروف اور مسلم معیاروں پر پوری نہ اتر سکے گی۔ غلط تصورات صحیح نظام حکمت کے اندر نہیں سما سکتے اور صحیح تصورات غلط نظام حکمت کے اندر داخل ہو کر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتے۔ لیکن صحیح نظام حکمت ہر دور میں تمام صحیح تصورات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اوریہی اس کی صحت کا قابل اعتماد معیار ہوتا ہے۔ ششم: وحدت کائنات کا مطلب یہ ہے کہ حقائق عالم ایک عقلی ترتیب اور تنظیم اختیار کر سکتے ہیں حقائق عالم کی عقلی ترتیب اورتنظیم ہمارے معلوم اور نامعلوم حقائق کے درمیان ایک رابطہ یا کوشش پید اکرتی ہے۔ اور ہمیں ا س قابل بناتی ہے کہ ہم معلوم حقائق کی مدد سے نامعلوم حقائق کو پیہم دریافت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ عالم کے سلسلہ کی ساری کڑیاں اپنی اصلی عقلی ترتیب کے ساتھ ہمارے احاطہ علم میں آ جائیں۔ سائنس دان اور فلسفی دونوں اس کام کو انجام دینے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی کوششوں سے معلوم حقائق کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جوں جوں ان کی تعداد زیادہ ہوتی چلی جائے گی صحیح اور سچے تصور حقیقت کے ساتھ ان کے مجموعے کی علمی اور عقلی مناسبت بڑھتی چلی جائے گی اورہر غلط تصور حقیقت سے ساتھ کم ہوتی جائے گی اور ہم اپنے وجدان کی شہادت کی بنا پر آسانی کے ساتھ بتا سکیں گے کہ حقیقت کائنات کا کون سا تصور ایسا ہے جو ان حقائق کے ساتھ مناسبت رکھتاہے اور کون سا ایسا ہے جو مناسبت نہیں رکھتا اور اس طرح سے ہم تصور حقیقت اور اس پر قائم ہونے والے صحیح نظام حکمت کے قریب آتے جائیں گے۔ ہفتم: صحیح نظام حکمت جب وجودمیں آئے گا تو ابتدا میں لازماً مختصر ہو گا اور پھر جوں جوں معلوم حقائق کی تعدادبڑھتی جائے گی اور وہ اس کے اندر سماتے جائیں گے تو وہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اوریہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ حقائق علمی کی کوئی حد نہیںنئے دریافت ہونے والے علمی حقائق کی تائید اور توثیق کی وجہ سے یہ نظام حکمت روز بروز مفصل اور منظم اور معقول ہوتا جائے گا اور ااسی نسبت سے غلط نظام ہائے حکمت دن بدن اپنی معقولیت کھوتے جائیں گے حتیٰ کہ دنیا بھر میں یہ تسلیم کر لیا جائے گا کہ یہی نظام حکمت ہے جو ہر لحاظ سے درست اور تسلی بخش ہے اس نظام حکمت کے وجود میں آنے کے بعد ہر علمی ترقی خواہ وہ کسی شعبہ تعلیم سے تعلق رکھتی ہو یا تو س کی تائید کرے گی یا پھر وہ کوئی علمی ترقی ثابت نہ ہو گی۔ وحدت کائنات کے اعتقاد کا سرچشمہ وحدت کائنات پر انسان کے غیر شعوری وجدانی اعتقاد کا سرچشمہ دراصل اس کی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ کائنات کا کوئی ایسا خالق مانے جو ایک ہی ہو اور انسان کی فطرت کا یہ تقاضا بے معنی نہیں۔ فطرتی تقاضوں کو پور ی طرح سے مطمئن کرنے کا سامان قدرت کے اندر پہلے ہی موجود ہوتا ہے چونکہ کائنات سائنس دانوں اور فلسفیوں کی آج تک کی تحقیق سے ایک وحدت ثابت ہوئی ہے لہٰذا اس کے اندر کوء یاصول کارفرما ہے جو اس کو ایک وحدت بناتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اصول خدا یہ کہ جو کائنات کا خالق ہے اور جو ایک ہی ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔ قرآن حکیم نے کائنات کی وحدت کی طرف پرزور الفاظ میں توجہ دلائی ہے اور اس کو اس بات کے ثبوت کے طورپر پیش کیا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ہی ہے۔ ما تری فی خلق الرحمن من تفوت ط فارجع البصر ھل تری من فطور ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خا ساً وھو حسیر آ پ خدا کی تخلیق میں کہیں کوئی ناہمواری نہ دیکھیں گے۔ ذرا نظر دوڑائیے(اور کائنات کا مشاہدہ کیجیے) کیا آ پ کو خدا کی اس تخلیق میں کوئی بے ربطی نظر آتی ہے۔ پھر دوبارہ نظر دوڑائیے اور دیکھیے نگاہیں اس بات سے ناکام ہو کر آپ کی طرف لوٹیں گی کہ خدا کی تخلیق میں کہیں کوئی ناہمواری پا سکیں۔ قل ارایتم ماتدعون دفن اللہ ارونی ماذا خلقوا من الارض ام لھم شرک فی السموت اے پیغمبر (ان لوگوں سے کہیے ) کہ کیاتمہیںمعلوم ہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر کس سے حاجتیں طلب کرتے ہو مجھے بتائو تو سہی انہوںنے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق میں ہی کوئی ان کا حصہ ہے؟ یعنی اگر کائنات کی تخلیق میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہوتا تو زمین و آسمان میں کہیں تو اس کی اپنی تخلیق کا نشان ملتا جہاں جدا قسم کے قوانین قدرت نافذ ہوتے۔ ظاہر ہے کہ منکرین قرآن حکیم کے اس سوال کے جواب میں اسی کائنات کا ایک حصہ پیش کر کے معقولیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ صاحب یہ ہے کائنات کا وہ حصہ جو خدا کے اس شریک نے پیدا کیا ہے جسے ہم مانتے ہیں کیونکہ جب کائنات کے اس حصہ میں بھی قوانین قدرت وہی ہوں جو باقی کائنات میں ہیں تو کس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا خالق وہی نہیں جو باقی کائنات کا ہے۔ قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ وحدت کائنات کی حقیقت کو وحدت خالق کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے: قل لو کان فیھما الہتہ الا اللہ لفسدنا اے پیغمبر (ان لوگوں سے) کہیے کہ اگر زمین میں خدا کے سوائے اور بھی خدا ہوتے تو دونوں (یعنی زمین و آسمان) میں بدنظمی رونما ہوتی۔ یعنی چونکہ زمین او ر آسما ن میں کہیں بھی دو عملی یا بدنظمی یاتضاد موجود نہیں اور تم اس بدنظمی کا تصور بھی نہیںکر سکتے بلکہ وحدت کائنات اور تسلسل قوانین کے تحت خو خود بخود اپنے مسلمات میں شمار کرت یہو تو کیایہ اس بات کی دلیل ہے اور وحدت کائنات خالق کی دلیل ہے اور چونکہ قرآن حکیم چاہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو قوانین قدرت کے مطابق بنائے لہٰذا نسان کو یقین دلانے کے لیے کہ یہ قوانین قابل اعتماد ہیںَ قرآن حکیم بار بار ان کے تسلسل اور استقلال کی طرف توجہ دلاتاہے۔ لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا (اے پیغمبر) آپ خدا کے قوانین میں کہیں اور کبھی کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ (لن تجف لسنتہ اللہ تحویلا آپ خدا کے قوانین میں کہیں اور کبھی کوئی تغیرنہ پائیں گے۔ دوسرے فلسفیوں کی طرح اقبال بھی کائنات کو اس کی رنگار رنگی اور بوقلمونی کے باوجود ایک وحدت قرار دیتا ہے۔ زمانہ ایک حیات کائنات بھی ایک کمال بے بصری قصہ قدیم و جدید یہی وجہ ہے کہ اقبال کا فلسفہ دوسرے فلسفیوں کی طرح ایک نظام حکمت ہے لیکن اقبال میں اور دوسرے فلسفیوں میں یہ فرق ہے کہ اقبال کے نزدیک جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ کائنات کی وحدت کا اصول یا حقیقت کائنات جو کائنات کی کثرت کو وحدت میں تبدیل کرتی ہے حق تعالیٰ کا وجود ہے۔ ان صفا ت کے ساتھ جو خاتم الانبیاؐ کی تعلیم میں اس کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور دوسرے فلسفیوں میں سے ہر ایک حقیقت کائنات کا جو تصور قائم کیے ہوئے ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ خدا کی فطرت وہ اصول ہے جو پوری کائنات کو متحد کرتاہے۔ لہٰذا خدا کے عاشق کے دل میںپوری کائنات سما جاتی ہے۔ انسانی انا ایک ہے لییکن اس کے خارجی اثرات بہت سے ہوتے ہیں وہ مخفی ہے لیکن اس کے افعال شکار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح سے ذات حق ایک ہے لیکن کائنات کی کثرت میں اس کا ظہور ہوا ہے پھر وہ مخفی ہے لیکن کائنات کی تخلیق نے اسے آشکار بنا دیا ہے گویا انسانی انا کی فطرت خدا کی فطرت کی طرف راہ نمائی کرنے والی ہے۔ ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پنہائی اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی (اقبال) آرزوئے حسن اور علم کا باہمی تعلق اوپر میں نے ایک اصطلاح ’’علمی حقیقت‘‘ استعمال کی ہے اس اصطلاح کا مفہوم واضح کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ علم حقیقت کیا ہے اس کے حصول کے لیے خدانے ہمین کون سی استعداد دی ہے اور وہ کس طرح سے اپنا کام کرتی ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ نہ صرف پوری کائنات ایک وحدت ہے بلہ کائنات کی ہر چیز جسے ہم جانتے ہیں یا جان سکتے ہیں ایک وحدت ہے یا کم از کم ہم اسے ایک وحدت کی حیثیت سے ہی جان سکتے ہیں اور کسی حیثیت سے نہیں جان سکتے۔ اگر وہ ایک وحدت نہ بن سکے تو ہم اسے جان ہی نہیں سکتے۔ اور وہ ہمارے لیے قطعاً بے معنی ہو جاتی ہے۔ ایک وحدت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ معنی خیز ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اسے جان سکتے ہیں۔ اگر وہ معنی خیز نہ ہو تو نہ وہ ایک وحدت بن سکتی ہے اورنہ ہی ہم اسے جان سکتے ہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وھدت بناتی ہیں اور پھر کئی بڑی بڑی وحدتیں مل کر اس سے بھی بڑی وحدتیں بناتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہم سب سے بڑی وحدت یعنی پوری کائنات پر پہنچ جاتے ہیں کہ کوئی بڑی وحدت چند چھوٹی وحدتوں کا ایک مجموعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک کل (Whole)کی صورت میں ہوتی ہے جو ہمیشہ اپنے اجزا یا عناصر سے بڑھ کر ہوتا ہے اور جس کی تشریح یا تفہیم اس کے اجزا یا عناصر سے نہیں ہو سکتی۔ جیسے ایک جسم حیوانی کو وہ فقط چند اعضا کے مجموعے کا نام ہے یا جیسا کہ ایک خوبصورت شاہکار ہنر جس کی دلکشی اس کے اجزا پر نہیں بلکہ ایک مجموعی کیفیت پر موقوف ہوتی ہے جو اجزا کی ترکیب کا ایک پراسرار نتیجہ ہوتا ہے۔ کسی وحدت کو جاننے کے لیے قدرت نے جو ہمیں استعداد بخشی ہے وہ ہماری آرزوئے حسن ہے جسے اقبال عشق بھی کہتا ہے ۔ آرزوئے حس جب جانن کے کام میں لگی ہوتی ہے تو اسے ہم عام طور پر وجدان کانام دیتے ہیں۔ کسی وحدت کے وجدان کا ایک احساس یا اعتقاد کی صورت میں ہوتا ہے ہمارا تما م علم فقط وجدانی تصورات یا اعتقادات کے ایک سلسلہ یا مجموعہ کی شکل اختیار کرتا ہے اور ہمارے علم کے درست یا غلط ہونے کا سارا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے یہ اعتقادات درست ہیں یا غلط۔ حواس اور عقل دونوں آرزوئے حسن یا وجدان کے مددگارہیں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم حواس یا عقل کے ذرائع سے بھی جانتے ہیں اور اپنی علمی جستجو میں سائنس دان کادارومدار زیادہ تر حواس پر ہوتا ہے اور فلسفی کا عقل پر‘ لیکن دراصل حوا س اور عقل دونوں ہماری آرزوئے حسن یا ہمارے وجدان کے مددگار ہیں یہ خود نہ وحدتوں کو جانتے ہیں اورنہ جان سکتے ہیں بلکہ وجدان ان کی مدد سے وحدتوں کو جانتا ہے اس میں شک نہیں کہ وجدان غلطی بھی کرتا ہے لیکن غلطی کے بغیر جانتا بھی وہی ہے اسی لیے طالبان علم و صداقت کی حیثیت سے اور معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسانوں کی حیثیت سے بھی وجدان کے بغیر ہمارا چارہ نہیں۔ اس وقت میں جس کمرہ میں ہوں وہاں کمرہ کے دوسرے سرے پر میرے سامنے دور سبز رنگ کی ایک دیوار کے ساتھ ایک کرسی پڑی ہے۔ لیکن یہ بات کہ وہ کرسی ہے میرا وجدانی نتیجہ ہے جو ایک احساس یا اعتقاد کی صورت میں ہے۔ میرا مشاہدہ ہرگز نہیں کہ میں کرسی کو نہیں دیکھ رہا بلکہ رنگ کی اس کیفیت کو دیکھ رہا ہو جو میرے وجدان یا اعتقاد کی دخل اندازی کے بغیر بے معنی ہوتی ہے اگر میں کہوں کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک کرسی ہے و یہ بات قطعاً غلط ہو گی۔ لیکن اگر میں کہوں کہ جو کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اس کی بنا پر میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ وہ ایک کرسی ہے تو یہ بات صحیح ہو گی۔ میرا یہ نتیجہ کہ وہ ایک کرسی ہے غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ایک کرسی نہ ہو بلکہ کرسی کے پیچھے والی سبز دیوار پر ایک ماہر نقاش کابنایا ہوا نقش ہو۔ اگرچہ میں نے س کل یا وھدت پر ایسے میں ایک کرسی کہہ رہا ہوں اپنے وجدان یا اپنی آرزوئے حسن کو کام میں لا کر پورا غو ر و فکر کیا ہے اور اپنی عقل سے اس کی اندر کی چھوٹی چھوٹی وحدتوں کے باہمی تعلق کا پورا جائزہ لیا ہے ور میرا وجدان اس اعتقاد پر پہنچا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر جس بڑی وحدت کو بناتی ہیں وہ ایک کرسی ہی ہو سکتی ہے۔ ایک نقش نہیں ہو سکتی۔ تاہم غلطی کا امکان موجود ہے۔ مین پوری کرسی کو نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ صرف کرسی کے اوپر کی اس سطح کودیکھ رہا ہوں جس کا رخ میری طرف ہ۔ اور دراصل میں اس سطح کو بھی نہیں دیکھ رہا بلکہ رنگ کی ایک بے معنی کیفیت کو دیکھ رہا ہوں۔ میرا یہ نتیجہ کہ رنگ کی یہ کیفیت کسی کرسی کی سطح کا ایک حصہ ہے اور پھر یہ نتیجہ کہ یہ کرسیکا ایک حصہ ہی نہیں بلکہ پوری کرسی ہے فقط ایک اندرونی احساس یا اعتقاد ہے جسے پیدا کرنے کے لیے میرے مشاہدہ کی شہادت ناکافی ہے یہی وجہ ہے کہ گو ہمارے حواس اپنا پورا کام کر رہے ہوتے ہیں ہم ار بار اپنے وجدان کی غلطیوں کا شکارو ہوتے رہتے ہیں یہی حال ہمارے تمام حسی تجربات کا ہے خواہ ان کا ذریعہ دیکھنا ہو یاسننا یا چکھنا یا سونگھنا یاچھونا‘ ان میںسے کوئی بھی میرے وجدان کے بغیر ایک اور وحدت کی صورت اختیار کیے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ قرآن حکیم نے حضرت سلیمان اورایک سورج پرست ملکہ کا قصہ بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے : قیل لھا دخلی الصرح فلماراتہ حسبتہ لجتہ و کشفت عن ساقیھا انہ صرح ممرد من قواریر قالت رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمان للرب العلمین اس (سورج پرست ملکہ) کو کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جائییھ جب اس نے محل (کے فرش) کو دیکھا تو اسے گما ن ہوا کہ وہ پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا سمیٹ لیا (تاکہ بھیگ نہ جائے) حضرت سلیمان نے کہا کہ یہ محل تو شیشہ کا بنا ہوا ہے ۔ اس پر ملکہ نے کہا ’’اے میرے پروردگارمیں اپنی جان پر ظلم کرتی رہی ہوں اور میں سلیمان کی طرح اللہ رب العلمین پر ایمان لاتی ہوں۔‘‘ رب العالمین پر ایمان لانے کے لیے تو حضرت سلیمان کا پیغام پہلے ہی پہنچ چکا تھا ملکہ نے دیکھا کہ کوئی تعجب نہیں کہ جس طرح وہ شیشہ کو پانی سمجھ رہی تھی وہ اپنے معبود حقیقے کے بارے میں بھی غلطی کا ارتکاب کر رہی ہو اور غلطی سے ہی سورج کو خدا سمجھ رہی ہو لہٰذا اس نے فوراً اپنے ایمان کا اعلان کیا ۔ اس قصہ کا ایک مقصد یہ بتانا ہے کہ نبوت انسان کی عملی زندگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھنے والے حقائق کے بارہ میں انسان کو وجدان کی غلطیوں سے بچانے کے لیے قدرت کا ایک انتظام ہے۔ عقل کا وظیفہ جسے ہم عقل کہتے ہیں اس کا کام فقط یہ ہے کہ وجدان جن وحدتوں کو قبول کر چکا ہوتا ہے وہ ان کے باہمی تعلق کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ اس تعلق کی روشنی میں وجدان ایک اور بڑی نامعلوم وحدت کو معلوم کرے جو ان معلوم وحدتوں کے مطابقت رکھتی ہو اور جس کے عناصر یا اجزا یہ وحدتیں ہوں یا ایسی ہت سی چھوٹی چھوٹی نامعلوم وحدتوں کو معلوم کرے جو ایک بڑی وھدت کے اجزا اور عناصر کے طور پر ہوں۔ اول الذکر عمل کو ترکیب (Synthesis)اور اورثانی ذکرکو تجزیہ (Analysis)کہاجاتا ہے ۔ وحدتوں کا باہمی تعلق معلوم کرنے کے لیے عقل ایک وحدت سے دوسری وحدت کی طرف اور دوسری سے تیسری وحدت کی طر ف اور تیسری سے چوتھی وحدت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور ن سب کے باہمی تعلق کو ٹٹولتی ہے۔ عقل کا کام صرف یہ ہے کہ کسی وحدت تک پہنچنے کیلیے ہمارے وجدان کو اکسائے وہ فقط کسی وحدت کے اجزا کے تعلقات پر غور کرتی ہے۔ پوری وحدت کا احسا س نہیں کر سکتی۔ وحدت کا احساس یا علم اس کا وظیفہ نہیںجب ہمارا وجدان کسی وحدت کے علم تک پہنچتا ہے تو ا س سے بہت پہلے عقل اس سے رخصت ہو چکی ہوتی ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ایسا ہوا ہے عقل وہ راستہ دکھاتی ہے کہ جو منزل کو جاتا ہے۔ لیکن خود ہمارے ساتھ منزل پر نہیں پہنچتی ۔ منزل پر پہنچنا تمنائے حسن کا کام ہے ۔ گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے ٭٭٭ خرد سے راہ رو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ رہ گزر ہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے عقل گو منزل عشق سے دور نہیں رہتی لیکن اس منزل میں داخل نہیں ہو سکتی: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی قسمت میں پر حضور نہیں اگر یہ کہا جائے کہ آرزوئے حسن یا وجدان کے بغیر وحدتوں کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینا مثلاً یہ بتانا کہ نو کا عدد چار سے بڑا ہے ممکن نہیں۔ لہٰذا کیوں نہ یہ کہا جائے کہ عقل آرزوئے حسن یا وجدان کی اس خاص حالت کا نام ہے جب وہ وحدتوں کے درمیان حرکت کر رہی ہوتی ہے تاکہ ان کی باہمی نسبتوں کو دریافت کرے تو اقبال اس سے بھی اختلاف نہیں کرتا اور مانتا ہے کہ عقل بھی عشق ہے اور ذوق حسن سے عاری نہیں لیکن وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ عقل کی فعلیت وحدتوں کے باہمی تعلقات کو ٹٹولنے کے لیے حرکت تک محدود رہتی ہے اس کی جرات نہیں کہ ایک محب یا عاشق کی طرح کسی وحدت کی وحدت یا زیبائی یا حسن کا مشاہدہ یا مطالعہ کرنے کے لیے رک جائے اور حسن کے کسی جلوہ پر فدا ہو کر اپنی حرکت کو سکون میں بدل دے۔ چنانچہ اقبال کہتا ہے: عقل ہم عشق است و از ذوق نگاہ بیگانہ نیست لیکن ایں بے چارہ را آں جرات رندانہ نیست جونہی کہ ہم وجدان کے باہمی تعلقات کا جائزہ لینے کی بجائے کسی وحدت کا احساس بطور وحدت کے کرنے لگ جائیں یا محسوس کرنے لگ جائیں کہ ہم کسی علم تک پہنچ گئے ہیں یا ہم نے کسی بات کو جان لیا ہے فوراً ہماری عقل کی فعلیت موقوف اور ہمارے وجدان کی فعلیت شروع ہو جاتی ہے۔ ایک مثال سے عقل اور وجدان کے باہمی تعلق کی وضاحت عقل اور وجدان ( یا آرزوئے حسن) کے باہمی تعلق پر غور کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کو فرض کیجیے جس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو کہ وہ ایک بڑے مکان جس سے وہ ایک حد تک آشنا ہے ٹٹولتا ہو ایک خاص کمرے کی طرف نکل جائے جب وہ اپنے ہاتھوں سے دیواروں‘ ستونوں‘ دروازوں ‘ کھڑکیوں‘ سیڑھیوں اور راستوں کو ٹٹولتا جاتا ہے تو اس بات کا صحیح اور پورا تصور اپنے ذہن میں قائم کرتا جاتا ہے اور کہ وہ مکان کے کس حصہ میں پہنچا ہے اس کے ٹٹولتے ہوئے ہاتھ سے اپنے ماحول کا صرف ایک حصہ دکھاتے ہیں وہ حصہ جس سے وہ اندھیرے میں چھوٹا ہے لیکن اسے مکمل راہ نمائی صر ف اپنے تصور ہی سے ملتی ہے جو مکان کی ہر حصہ کی جس میں وہ قدم رکھتا ہے کہ پوری تصویر اس کے سامنے پیش کر جاتا ہے۔ عقل (Reason) دراصل اس آدمی کے ٹٹولتے ہوئے ہاتھوں کی طرح ہے جو ا س کے راستہ کے بعض نشانات کا پتہ دیتے ہیں اور وجدان (Intution)اس کے تصور کی طرح ہے جو اندر سے اس کے ماحول کا پورا نقشہ اس کے سامنے پیش کر دیتا ہے جس طرح اس پٹی باندھنے والے شخص کے راہ نما تصور کا باعث مکان ہے اور اس کی سابقہ واقفیت ہے اسی طرح سے ہمارے وجدان کا باعث ہماری فطرت آرزوئے حسن ہے۔ نفسیات تشاکلی کے متعلق اقبال کی رائے جرمن ماہرین نفسیات کا ایک مکتب جسے وحدتوں کی نفسیات (Gestalt Psychology)یا نفسیات تشاکلی (Configuration Psychology)کہا جاتا ہے اس حقیقت کے ثبوت میں نہایت ہی زور دار اور یقین افروز تجرباتی شواہد بہم پہنچاتا ہے کہ خارجی دنیا کے متعلق انسان کا علم وحدتوں کی شکل اختیار کرتا ہے اس مکتب نفسیات کا کہنا یہ ہے کہ ذی شعور کردار کے گہرے مطالعہ سے یہ ات آشکار ہو جاتی ہے کہ اس میں معرفت یا پہچان حسیات کے سلسلہ سے بلند اور بالا ہو کر کام کرتی ہے۔ یہ معرفت یا پہچان اشیا ء کے مادی‘ مکانی یا علتی تعلق کے بارہ میں شعور کا علم یا اندازہ ہوتا ہے یعنی انسانی شعور مختلف اشیاء کے ایک بے ترتیب مجموعہ سے بعض اشیاء کو جو اس کے مقصد کے پیش نظر ایک وحدت بناتی ہے چن لیتا ہے اس مکتب نفسیات کے متعلق اقبال لکھتا ہے: ’’تاہم اس خیال سے کچھ اطمینان ہوتا ہے کہ شاید جرمنی کا نیا مکتب نفسیات جسے نفسیات تشاکلی کہا جاتا ہے نفسیا ت کو ایک آزاد اور مستقل علم کی شکل دینے میں کامیاب ہو جائے اور اسی طرح سے شاید ابداعی ارتقاء (Emergent Evolution)کا نظریہ بھی آخر کار حیاتیات کی آزادی اور استقلال کا باعث بن سکے‘‘۔ کرداریت (Behaviourism)اور منطقی اثباتیت (Logical Positivism)اور اس قسم کے دوسرے سطحیت پسند فلسفے جو فلسفہ کے اس عالمگیر انحطاط کے دور میں حشرات الارض کی طرح پیداہو رہے ہیں ان کی وجہ یہ ہے کہ ان کے منکرین شعور موجدوں اورمبلغوں کی نگاہ ابھی تک انسان کے حسی تجربات کی وجدانی اور مابعد الطبیعیاتی بنیاد پر نہیں پڑی۔ چونکہ ہمارے وجدان کا باعث ہماری آرزوئے حسن ہے اقبال نے وجدان کو عشق اور جنون اور نظر وغیرہ کے ناموں سے بھی تعبیر کیا ہے: زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک ٭٭٭ خرد کے پاس خبر کے سوا اور کچھ نہیں ترا علاج نظر کے سوا اور کچھ نہیں ٭٭٭ سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است ٭٭٭ زمانہ ہیچ نداند حقیقت اورا جنوں قباست کہ موزوں بقامت خرد است سائنس اور وجدان جب سائنس دان کے پاس نام نہاد ’’مشاہداتی حقائق‘‘ (Observed Facts)(جن کو درحقیقت ہمارا وجدان صورت پذیر کرتا ہے) کی کچھ تعداد فراہم ہو جاتی ہے تو وہ محسوس کرتاہے کہ ان کی تشریح کے لیے بالفاظ دیگر ان کو منظم کر کے ایک وحدت بنانے کے لیے اسے ایک مفروضہ (Hypothesis)یا نظریہ (Theory)کی یا ایک وجدانی یا اعتقادی تصور کی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ اس قس کا ایک وجدانی مفروضہ ایجاد کرتا ہے۔ اگر یہ مفروضہ جو درحقیقت مابعدالطبیعیات کی دنیا سے لایا جاتا ہے فی الواقع ان تمام حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو یعنی ان کو منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہو تو وہ مفروضہ بھی جب تک کہ ان حقائق کی معقول تشریح کرتا ہو یعنی ان کو ایک منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہو تو وہ مفروضہ بھی جب تک کہ ان حقائق کی معقول تشیرح کر رہا ہو ایک ایسی ہی ناقابل یقین حقیقت شمار کیا جا سکتا ہے جیسی کہ کوئی اور علمی حقیقت جس کو سائنس دان مشاہدہ قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت سائنس دانوں کے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کبھی مشاہدہ میں نہ آئی ہو کیونکہ اس صورت میں کوئی دوسرا مفروضہ ان حقائق کی تشریح نہیں کر سکتا اور اس مفروضہ کی جگہ نہیںلے سکتا۔ گویا سائنس دان ایک غائب چیز کی موجودگی پر اس کے نتائج و اثرات کی وجہ سے یقی کر لیتا ہے۔ یعنی ایمان بالغیب ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔ ویومنون بالغیب (وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں) وجدانی مفروضات کی ضرورت سائنس دان پر ہی موقوف نہیں ہم اپنی روز مرہ زندگی میں مفروضات ایجاد کرتے رہتے ہیں یعنی بعض تصورات پر ایمان لاتے رہتے ہیں مثلاً یہ کہ کل سورج طلوع ہو گا ۔ یا یہ کہ میرا دوست سخی ہے۔ حالانکہ سور ج کا طلوع ہونا تو یاک مشاہداتی علم ہے لیکن اس کا کل طلوع ہونا ایک مفروضہ ہے جس پر ایمان لانا اہم اپنے بہت سے کام کرتے ہیں۔ اس طرح سے میرے دوست نے آ تک سخاوت کے بہت سے کام کیے ہیں۔ لیکن میرا یہ علم سخاوت اس کی طبیعت کا ایک جزو ہے اور وہ بھی آج کے بعد بھی کوئی کام سخاوت کا کرے گا ایک مشاہداتی علم ہرگز نہیں بلکہ ایک مفروضہ ہے یا وجدانی علم ہے ہماری ساری زندگی عملی دارومدار اسی قسم کے غائب از نظر مابعد الطبیعیاتی یا وجدانی حقائق پر ہے۔ مابعد الطبیعیات ہماری عملی زدنگی کی جان ہے اور اس کے بغیر ہم اپنی زندگی کے راستہ پرایک قدم بھ نہیں چل سکتے۔ بعض لوگوں کو مابعد الطبیعیات سے خواہ مخواہ نفرت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عملی زندگی مشاہداتی یا معروضی حقائق پر مبنی ہے۔ حالانکہ اگر ان کی عملی زندگی سے مابعد الطبیعیات کو ایک لمحہ کے لیے بھی الگ کر دیا جائے تو ان کی بیشتر حرکات و سکنات یک دم موقوف ہو جائیں۔ ہر وہ حقیقت جس پر ہم یقین کرتے ہیں شروع میں ایک مفروضہ ہی ہوتی ہے پھر جوں جوں نئے نئے حقائق منکشف ہو کر اس مفروضہ کی تائید کرتے جاتے ہیں وہ مفروضہ ہمارے لیے ایک حقیقت میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ا س پر ہمارا یقین حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اگر حقائق جو آشکار ہوتے جاتے ہیں اس مفروضہ کی تائدی نہ کریں تو ہم اس مفروضہ کو غطل سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں اور اس قسم کی ناقابل انکار حقیقت کی ایک مثال جس پر سائنس دان ایمان بالغیب رکھتا ہے ’’ایٹم‘‘ ہے جس کے اندرانی نظام کو آج تک دیکھا نہیں گیا ’’ایٹم‘‘ کو ایک مفروضہ کے طور پر آج سے صدیوں پہلے پیش کیا گیا تھا لیکن ان صدیوں میں ہم نے ایتم کے نتائج و ذرات کا یعنی ان وحدتوں کا جن کو ایٹم کا وجدانی تصور جوڑ کر ایک نئی وحدت بناتا ہے جو تجربہ کیا ہے اس نے ایٹم کو آج تک ایک ناقابل علمی حقیقت بنا دیا ہے اور اس حقیقت کا علم یہاں تک موثر ہے کہ ہمیں ناگاساکی اور ہیروشیما کو آن واحد میں تباہ کرنے پر قادر بنا سکتا ہے۔ سائنس دان ایک مفروضہ کو جو اس کے مشاہداتی حقائق کی معقول تشریح کر رہا ہو اسے مشاہداتی حقائق سے کم درجہ کی علمی حقیقت نہیں سمجھ سکتا۔ وہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مشاہداتی حقائق تو سائنس ہیں لیکن یہ مفروضہ جو ان کو منظم کرتا ہے یا ان کی تشریح کرتا ہے سائنس نہیں ۔ بعض وقت الگ تھلگ مشاہداتی حقائق سے زیادہ یہ مفروضہ اس کے کام آتا ہے کیونکہ اس کو اپنی تحقیق او ر تجسس کو جاری رکھنے کے لیے اور نئے نئے مشاہداتی حقائق کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی یا راہ نما تصور کا کام دیتاہے اور اس مفروضہ کے بغیر اس کے مشاہداتی حقائق کی بھی کوئی زیادہ وقعت نہیںرکھتے۔ سائنس اور فلسفہ کا باہمی تعلق سائنس دان وجدانی مفروضات ایجاد کرنے کی جو ضرورت محسوس کرتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وحدت بناتی ہیں اور ہم کائنات کی فطرت اور اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ حقائق کو وحدتوں کی صورت میں جانیں اور سمجھیں۔ ضروری ہے کہ ہماری یہ مجبوری سائنس دان کو زود یا بدیر ایک ایسے مرحلے پر پہنچا دے جہاں اس کے دریافت کیے ہوئے حقائق کی تشریح ایک ایسے مفروضہ یا ایک ایسے وجدانی یا اعتقادی تصور ہی سے ہو سکتی ہو جو پوری کائنات کے حقائق کو متحد اور منظم کرتا ہو اور جب سائنس دان اس مفروضہ سے حقائق کائنات کی تشریح کرنے لگ جائے تو خواہ ہم اسے سائنس دان کہیں یا فلسفی دونوں صفات میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ فلسفی بھی سائنس دان کے بہم پہنچائے ہوئے حقائق کی تشریح ایک ایسے وجدانی تصور سے کرتاہے جو ا س کے خیال میں پوری کائنات کے حقائق کو اک وحدت بناتا ہے خواہ اس کا یہ تصور روحانیاتی ہو یامادیاتی ان مفروضات سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ دراصل سائنس دان اور فلسفی میں کوئی فرق نہیں دونوں کے کام ایک دائرہ ایک ہی ہے اور دونوں کی علمی تحقیق اور تجسس کا دارومدار بھی انسان کی ایک ہی استعداد پر ہے جسے ہم وجدان کہتے ہیں۔ سائنس کو اپنی ترقی کی انتہائوں پر پہنچ کر فلسفہ فننے کے بغیر چارہ نہیں رہتا کیونکہ اگر وہ اس مرحلہ پر فلسفہ نہ بن سکے تو بے معنی ہو جاتی ہے۔ اتفاقا اس بیسویں صدی میں سائنس اپنی ترقی کی ان انتہائوں پر پہنچ گئی ہے جہاں اسے فلسفہ کے بغیر چارہ نہیں۔ جہاں اس کے دریافت کیے ہوئے علمی حقائق کی تشریح ایک ایسے وجدانی یا اعتقادی تصور ہی سے ہو سکتی ہے جو پوری کائنات کے حقائق کو متحد اور منظم کرتا ہے ہم مانتے ہیں کہ تخلیق کی تین سطحیں ہیں۔ مادہ کی دنیا حیوانات کی دنیا اور انسانوں کی دنیا ان کے بالمقابل علم سے بھی تینہی بڑے شعبے ہیں طبیعیات‘ حیاتیات اور نفسیات اس صدی میں جو طبیعیاتی حقائق دریافت ہوئے ہیں انہوںنے ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تنظیم اور تشریح کے لیے یہ وجدانی تصوریا اعتقاد ایجاد کریں کہ کائنات کی آخری حقیقت شعورہے کیونکہ یہ تصور کہ کائنا ت کی حقیقت مادی ہے جسے ا ب تک سائنسدان قبو ل کر رہے ہیں۔ ان نئے طبیعیاتی حقائق کی تشریح کرنے سے قاصر ہے اس وجدانی تصور یا اعتقاد کو واضح کرنے کے لیے ایڈنگٹن (Eddington)اور جیمز جینز (James Jeans)ایسے ماہرین طبیعیات نے جو کتابیں لکھیں ہیں وہ بظاہر طبیعیات کی کتابین ۃیں لیکن کوئی نہین کہہ سکتا کہ وہ فلسفہ کی کتابیں نہیں ہیں اسی طرح سے اس صدی میں جو حیاتیاتی حقائق منکشف ہوئے ہیں انہوںنے ماہرین حیاتیات کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تشریح اس مفروضہ یا اعتقاد سے کریں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے مادہ نہیں۔ اس نظریہ کی تشریح کے لیے جے ۔ ایس ہالڈین (Haldane)نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نا م ہی حیاتیات کی فلسفیانہ بنیاد ہے (Philosophical Basis of Biology)۔ اور پھر اس وقت نفسیات کے میدان میں جو حقائق منکشف ہو رہے ہیںإ وہ بھی شعور کی حقیقت پر دلالت کرتے ہیںمجموعی طور پر یہ بات نہایت تسلی بخش ہے کہ ماہرین طبیعیات حیاتیات اور نفسیات ایسے حقائق کا انکشاف کر رہے ہیں جن کی معقول اور یقین افروز تشیرح کے لیے خدا کے تصور کے علاوہ کوئی دوسرا تصور کام نہیں دے سکتا اگرچہ اس تصور کے خلاف اہل مغرب فی الحال ایک دیرینہ علمی تعصب میں مبتلا ہیں۔ سائنسی نظریات کے تغیر کی سمت فلسفیوں اور سائنس دانوںکے نظریات کا بدلنا نہایت مفید اور اہم ہے کیونکہ وہ بدل بدل کر درستی کی طرف آتے رہتے ہیں جب نئے علمی حقائق دریافت ہوتے ہیں اور کوئی نظریہ جو پرانے علمی حقائق کی تشریح اور تنظیم کے لیے پہلے کافی سمجھا گیا تھا ان کی تشریح اور تنظیم کلیے کفایت نہیں کرتا تو فلسفی اور سائنس دان دونوں مجبور ہوتے ہیں کہ اس کی جگہ دوسرا نظریہ قائم کریں جو تمام نئے اور پرانے علمی حقائق کی تسلی بخش تنظیم او رتشریح کرتا ہو۔ اس کی مثال روشنی کا نظریہ امواج ہے جسے سب سے پہلے 1665ء میں ہوک (Hooke)نے پیش کیا تھا۔ بعد کی دو صدیوں میں یہ نظریہ ان تمام حقائق کی کامیاب تشریح کرتا رہا جو اس کے سامنے آتے رہے حتیٰ کہ 1914ء تک بھی یہ نظریہ ان حقائق کی معقول تشریح کرا رہا تھا جو فان لائے(Von Laue)نے روشنی کی ایکس (X)شعاعوں کے متعلق دریافت کیے تھے اور جن کی دریافت پر اس سائنس دان کو نوبل (Nobel)کا انعام دیا گیا تھا لیکن 1932ء میں جب اسے انعام حاصل کیے ہوئے ابھی نو سال ہی گزرے تھے یہ نئی علمی حقیقت سامنے آئی کہ ایکس (X)شعاعین منتشر ہو جات ہیں اور یہ حقیقت ایسی تھی کہ روشنی کا قدیم نظریہ امواج اس کی معقول تشریح کرنے سے قاصر تھا۔ لہٰذا روشنیکا ایک نظریہ ایجاد کیاگیا جسے نظریہ ذرات یا نظریہ کوانٹم (Quantum Theory) کہتے ہیں۔ اب یہ نظریہ قدیم اور جدید تمام حقائق علمی کی معقول تشریح کر سکتا ہے اگر ہوک کا وجدان ا س قدر تیز یا قوی ہوتا کہ اس کے ذہن میں یہ بات آ جاتی یا ہوک (Hooke)سے بہتر حقائق عالم کا وجدان رکھنے والا کوئی شخص اسے بتا دیتا کہ نور امواج کی صورت میں نہیں بلکہ ذرات کی صورت میں ہونا چاہیے تو یہ نظریہ روشنی کے متعلق نہ صرف اس وقت کے علمی حقائق کی بلکہ آج تک دریافت کیے ہوئے تمام علمی حقائق کی تشریح کے لیے کفایت کرتا ۔ تاہم اس سے یہ بات عیاںہوتی ہے کہ جوں جوں معلوم اور مسلم حقائق کی تعداد بڑھتی جاتی ہے حقیقت اشیاء کے متعلق ہمارا وجدانی تصور بھی زیادہ سے زیادہ درست ہوتاجاتا ہے اور یہ کہ حقیقت اشیا ء کا صحیح تصور ہی تمام علمی حقائق کی معقول اورمکمل تشریح کر سکتا ہے اور اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ضروری ہے کہ حقائق علمی ترقی کی وجہ سے بالاخر حقیقت اشیا کے ایسے وجدانی تصور پر پہنچ جائیں جو کامل طور پر صحیح ہو اور پوری کائنات کے ان تمام علمی حقائق کی معقول اور کامل طورپر تسلی بخش تشریح کر سکے جو قیامت تک دریافت ہوتے رہیں گے۔ وجدان اور عقلی استدلال کا تعلق عام طور پرسمجھا جاتا ہے کہ کائنات کی عقلی توجیہ کرتے ہوئے ایک فلسفی محض عقلی یا منطقی استدلال کے بل بوتے پر اپنے نتائج کو پہنچتا ہے۔ اور اپنے اس استدلال میں جذبات کو راہ پانے نہیں دیتا لیکن عقلی استدلال کا یہ نظریہ درست نہیں۔ ہر فلسفی پہلے کائنات کے ان حقائق کی روشنی میں جو اسے معلوم ہوں کائنات کی حقیقت کا ایک وجدانی تصور قائم کر لیتا ہے پھر وہ اپنے اس تصور کی علمی اور عقلی تشریح کرنے کے لیے یہ بتانے کے لیے کہ یہی تصور ہے جو کائنات کی وحدت کا اصول ہے اور سارے حقائق کو منظم اور متحد کرتا ہے عقلی استدلال سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ اس کے استدلال سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا استدلال اس کے نتیجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنا نتیجہ اسے پہلے ہی وجدانی طور پر معلوم ہوتا ہے اور اس کی طرف وہ اپنے استدلال کو اپنی پوری فکر ی قوت اور زور بیان کے ساتھ موڑتاہے۔ کوئی فلسفی چھوٹا یا بڑا اس اصول سے منحرف نہیں ہو سکتا۔ ایک فلسفی پر ہی موقوف نہیںایک سائنس دان یا ماہر ریاضیات بھی پہلے ایک حقیقت کو وجدانی طو ر پر محسوس کرتا ہے بعدمیں اسے تجربات یا استدلال سے ثابت کرتاہے۔ نیوٹن کا قانون ثقل سیب کو درخت سے نیچے گرتے ہوئے دیکھ کر پہلے وجدانی طور پر محسوس کیا گیا تھا اور بعد میں تجربات سے ثابت کیا گیا فیثا غورث کا مسئلہ بھی پہلے ایک وجدانی تصور تھا۔ جسے بعد میں ریاضیاتی طور پر ثابت کیا گیا۔ حکمت اقبال کی نوعیت کی تشریح ایک ماہر ریاضیات کی مثال ہے ایک ماہر ریاضیات جس ریاضیاتی حقیقت کو وجدانی طور پر محسوس کرتا ہے وہ اس کے نزدیک ایک حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ اسے ثابت کرے یا نہ کرے اور ثابت کر سکے یا نہ کر سکے لیکن وہ اسے ثابت اس لیے کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے وجدان میں شریک کرے۔ ہر ریاضیاتی حقیقت پہلے وجدانی طور پر ایک کل کی حیثیت سے محسوس کی جاتی ہے۔ بعد میں اسے ثابت کرنے کے لیے اس کا منطقی یا عقلی تجزیہ کیا جاتا ہے جسے ماہر ریاضیات بعض ریاضیاتی مسلمات سے شروع کرتا ہے۔ پھر ان مسلمات سے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے جو ایک مساوات کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہٰذایہ مساوات بھی ریاضیاتی مساوات میں داخل ہوجاتی ہے پھر اس نتیجہ یا مساوات سے وہ ایک اور نتیجہ اخذ کرتا ہے اور اس طرح ایک اور مساوات قائم کرتا ہے اور وہ بھی ایک ریاضیاتی مسلمہ بن جاتی ہے۔ علی ہذا القیاس وہ ی عمل جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ اسے اس ریاضیاتی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے جسے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے اس کا یہ عمل نتائج یا مساوات کی کڑیوں یا حلقوں سے بنی ہوئی ایک زنجیر پیدا کرتا ہے جسے ہم اسے ریاضیاتی حقیقت کا ثبوت کہتے ہیں۔ کیونکہ اس عمل سے وہ لوگوں کے ریاضیاتی مسلمہ طورپر ثابت یا قائم ہو جاتی ہے اور اسی کو ہم حقیقت کی تشریح یا تفسیر بھی کہتے ہیں۔ اگر ماہر ریاضیات کا ابتدائی تصور جس سے وہ آغاز کرتا ہے اور جسے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے درست ہو تو ا س کا ثبوت بھی درست ہوتا ہے اور ہم قدم بہ قدم اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں کیونکہ اس کا کوئی نتیجہ کسی قدم پر بھی غلط اور ناقابل فہم نہیں ہوتا اگر ہم ماہر ریاضیات کی وجدانی کیفیت کو درست مان کر اس کے ثبوت کے راستہ پر قدم بہ قدم واپس آئیں یعنی معنی سلسلہ ثبوت کی آخری کڑی سے آغاز کر کے پیچھے کی طرف آئیں تو پھر اس ریاضیاتی مسلمہ پر پہنچ جاتے ہیں جس سے اس نے آغاز کیا تھا۔ اس عمل سے بھی ریاضیاتی حقیقت کی درستی ثابت ہو جاتی ہے گویا ابتدائی حقیقت کے جو نتائج یا مضمرات ہوتے ہیں وہ سب کے سب اس حقیقت کے اندر اور اس کے ہر نتیجہ کے اندر بالقوہ موجود ہوتے ہیں ان کو بالفعل کرنا یا آشکار کرنا ہی اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ اس کی تشریح یا تفسیر کرنا یا اسے لوگوں کے مسلمات میں شامل کرنا ہے جو صورت اوپر بیان کی گئی ہے اس میں ثبوت مسلسل بھی ہے اور مکمل بھی۔ کیونکہ اس کی کڑیاں نہ صرف تعداد میں پوری ہیں بلکہ ایک منطقی ترتیب بھی رکھی گئی ہے۔ منظم اور مختصر ثبوت لیکن اگر ایک عالم ریاضیات کی وجدانی قوت غیر معمولی طور پر تیز اور قوی ہو اور وہ کسی ریاضیاتی حقیقت کو جو اس نے اپنے وجدان سے دریافت کی ہو اپنی یا اپنی طرح کے دوسرے عالمان ریاضیات کی تشفی کے لیے ثابت کر رہا ہو تو بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ا س کا وجدان ایک چھلانگ لگاتا ہے اور وہ اپنے سلسلہ ثبوت کی بعض درمیانی کڑیوں کو چھوڑ کر کسی اگلی کڑی پر پہنچ جاتا ہے اور درمیان میں ایک خلا (Gap)چھوڑ جاتا ہے جو اس حقیقت کے بعض نتائج یا مضمرات سے پر ہوتی ہیں اور بعض اور کڑیوں کو چھوڑ کر کسی اور اگلی کڑی پر جا نکلتا ہے اور اسی طرح کا ایک اور خلا درمیان میں چھوڑ جاتا ہے اور علی ہذا لقیاس اس قسم کا ثبوت مختصر تو ہوتا ہے لیکن غلط نہیںہوتا۔ اگرچہ ریاضیات کے ایک معمولی طلاب علم کو جو اس ماہر ریاضیات کے وجدان سے محروم ہو یہ ثبوت آاسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے تاہم یہ ثبوت مکمل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی تمام محذوف کڑیاں نہ صرف ماہر ریاضیات کے بنیادی تصور کے اندر بلکہ ان محذوف کڑیوں سے پہلے اور بعد کی مذکور کڑیوں کے اندر بھی بالقوہ موجود ہوتی ہیں۔ ایک دوسرا ماہر ریاضیات جو اس ریاضیاتی حقیقت کا پورا وجدان رکھتاہے اور اس کی مدد سے اور نیز محذوف کڑیوں سے پہلے اور بعد کی مذکور کڑیوں کی مدد سے محذوف کڑیوں و باسانی مہیا کر سکتا ہے بشرطیکہ محذوف کڑیاں اتنی اہم نہ ہوں کہ ان کی عدم موجودگی میں مذکور کڑیوں کے عقلی اور منطقی تعلق کو سمجھنا ناممکن ہو جائے۔ چنانچہ متبدیوں کو سمجھانے یعنی ماہر ریاضیات کے وجدان میں شریک کرنے کے لیے یہ محذوف کڑیاں فی الواقع مہیا کی جاتی ہیں اور اس طرح سے ثبوت خلائوں کو پر کر کے او ر اس کو ممکن حد تک طوالت اور وسعت دے کر مکمل کیا جاتا ہے۔ اور یہ سمجھاجاتا ہے کہ اب ہر شخص اسے باسانی سمجھ سکتاہے اور اس قسم کا مختصر ثبوت غیر منظم بھی نہیں ہوتا کیونکہ ثبوت کی ہر کڑی جو اس میں موجودہوتی ہے دوسری موجودہ کڑیوں کی نسبت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ا سکے اندر کھوئی ہوئی کڑیوں کو دریافت کر کے اپنی جگہ پر لے آنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اس صورت میں ماہر ریاضیات کا ثبوت منظم یا مسلسل تو ہوتا ہے لیکن مکمل نہیں ہوتا۔ غیر منظم اور مختصر ثبوت اب فرض کیجیے کہ ہمارا پہلا ماہر ریاضیات اپنی وجدانی ریاضیاتی حقیقت کے نتائج اور مضمرات درج کرتے ہوئے بعض نتائج و مضمرات کو اپنی تیز وجدانی قوت کی وجہ سے غیر ضروری سمجھ کر نہ صرف حذف کر دیتا ہے بلکہ بعض جن کو وہ درج کرتاہے ا س ترتیب کے ساتھ نہیں لکھتا کہ وہ اس حقیقت کے ایک مسلسل اورمنظم ثبوت کی کڑیاں بن جائیں گی بلکہ اس کا جو نتیجہ بھی کسی وقت اس کے وجدان کی روشنی میں آتا ہے بلا ترتیب لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کے تمام بڑے بڑے نتائج و مضمرات کو اسی طرح بے ترتیب لکھ دیتا ہے اس صورت میں ماہر ریاضیات کا ثبوت نہ صر ف غیر مکمل ہو گا بلکہ غیر مسلسل بھی ہو گا اور اس صورت میں ریاضیات کے ایک معمولی طالب علم کے لیے اس کاسمجھنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا لیکن ایک دوسرے ماہر ریاضیات کے لیے جو اس ساری حقیقت کا پورا وجدان رکھتا ہو ان بے ترتیب نتائج و مضمرات کو ایک مسلسل اورم کمل ثبوت کی شکل میں لانا اور پھر بھی آسان ہو گا کیونکہ اس کی تمام ضروری کڑیاں بے ترتیب ہونے کے باوجود اسے تمام غیر مرتب کڑیوں کو جو اس کے سامنے ہیں ان کی منطقی یا عقلی ترتیب میںرکھنا پڑے گا۔ اور دوسرے ان کی ترتیب کے درمیانی خلائوں کو ان کڑیوں سے پر کرنا پڑے گا جو ریاضیاتی حقیقت کے موجود کے ریاضیاتی وجدان کی غیر معمولی تیزی اور قوت کی وجہ سے محذوف ہو گی ہیں اور چونکہ دوسری محذوف کڑیاں بھی ترتیب کو چاہیں گی اور پہلی مذکور کڑیوں کو ترتیب کے بغیر ساری کڑیوں کی زنجیر میں انکا مقام بھی متعین نہ ہو سکے گا وہ بجا طور پر محسوس کرے گاکہ یہ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے نہیں بلکہ ان میںسے ہر ایک دوسرے کو چاہتا ہے اور دونو ں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اور لہٰذا دونوں کو ایک ساتھ ہی انجام دیا جا سکتا ہے ورنہ بالکل نہیں دیا جاسکتا۔ ایک ماہر ریاضیات اور فلسفی کا تقابل جس طرح سے ایک ریاضیاتی حقیقت کا ثبوت حقائق معلومہ و مسلمہ کے ایک سلسلہ یا نظام کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سے حقیقت کائنات کے کسی تصور کا ثبوت جو ایک فلسفی پیش کرتا ہے ۔ حقائق معلومہ و مسلمہ کے ایک سلسلہ یا نظام کی شکل میں ہوتاہے جسے ہم نظام حکمت کہتے ہیں۔ ایک فلسفی بھی حقیقت کائنات کا جو وجدانی تصور قائم کرتا ہے وہ بھی اس کے نزدیک ایک حقیقت ہی کا تصور ہوتا ہے خواہ وہ اسے ایک حقیقت کے طور پر ثابت کرے یا نہ کرے اور کر سکے یا نہ کر سکے لیکن وہ ثابت کرنے کی کوشش اس لیے کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے وجدان سے بہرہ ور کر ے اور اس کے ثابت کرنے کا طریق بھی وہی ہے جو ایک ماہر ریاضیات اختیار کرتا ہے وہ بھی ہمارے مسلمات سے آغاز کرتا ہے اور یہ مسلمات بھی بداہتوں (Self Evident Faiths)پر ا نکے عقلی اور منطقی نتائج پر معلوم اورمسلم علمی اور ریاضیاتی حقیتوں (Scientific and Mathematical Facts) پر اور ان کے نتائج اور مضمرات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ چند ایسے مسلمات کو جو اس کے بنیادی تصور کے مطابق ہوتے ہیں لے کر ایک نتیجہ نکالتا ہے گویا ان کو ایک دوسری شکل دیتا ہے اور ایک مساوات قائم کرتا ہے جو منطقی طورپر یعنی ہمارے ذہنی عمل کے قوانین کی رو سے ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے اور لہٰذا ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر اس نتیجہ سے ایک اور نتیجہ نکالتا ہے اور ایک مساوات قائم کرتا ہے جو منطقی طور پر یعنی ہمارے ذہنی عمل کے قوانین کی رو سے ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اور لہٰذا ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتیہے اور پھر ا س نتیجہ سے ایک اور نتیجہ نکلتا ہے اور ایک اور مساوات قائم کرتا ہے اور وہ بھی اگر درست ہو تو ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتی ہے وہ علی ہذ ا القیاس یہا تک کہ وہ اس عمل سے رفتہ رفتہ حقیقت کائنات کے اس وجدانی تصور تک پہنچ جاتا ہے جسے وہ درست ثابت کرنا چاہتا ہے اگر فلسفی کا تصور حقیقت درست ہو تو ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں کیونکہ پھر اس کا کوئی نتیجہ کسی قمد پر بھی غلط اور ناقابل فہم نہیںہوتا۔ اس صورت میں فلسفی کا ثبوت مسلسل بھی ہوتا ہے اورمکمل بھی ۔ کیونکہ اس کی کڑیاں نہ صرف تعداد میں پوری ہوتی ہیں بلکہ ایک منطقی یا عقلی ترتیب میں رکھی ہوی ہوتی ہیں۔ لیکن اگر فلسفی کی ذہنی یا وجدانی قوت غیر معمولی طور پر تیز ہو تو وہ اپنے وجدانی تصور حقیقت کا جو ثبوت پیش کرتا ہے اس میں بہت سے خلا ہوتے ہیں اور بہت سی کڑیاں غائب ہوتی ہیں اکثر بڑے بڑے فلسفی ایسے ہی ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ بڑے بڑے فسلفیوں کی کتابیں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں اکثر فلسفیوں کا فلسفہ مسلسل ہوتا ہے یعنی ا س میں استدلال کی کڑیاں عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ رکھی ہوتی ہیںَ لیکن ان کے درمیان کے خلائوں کی وجہ سے ان کڑیوں کا باہمی عقی یا منطقی ربط مبتدیوں اور عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا گویا مسلسل ہونے کے باوجود وہ عام لوگوں کے یے مکمل نہیں ہوتا لہٰذا ہر بڑے فلسفی کے شارحین یداہوتے ہیں جو اس کے ثبوت کے محذوف کڑیوں کو بیان کر کے اس کے فلسفہ کے خلائوں کو پر کرتے ہیں اور اس طرح سے اس کو عام لوگوں کے افہام کے قریب لے آتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑا فلسفی جو حقیقت کائنات کا ایک صحیح اور واضح تصور رکھتا ہو اس کے نتائج اور مضمرات کو ایک مسلسل اور منظم استدلال یا مساوات اور نتائج کی ایک زنجیر کی شکل میں بیان نہ کرے بلکہ اس کا جو نتیجی بھی کسی وقت اس کے وجدان کی روشنی میں نمودار ہو وہ بلا ترتیب لکھتا چلا جائے یہاں تک کہ اس کے تمام ضروری اور بڑے بڑے نتائج اور مضمرات کو اسی طرح سے بلا ترتیب لکھ د ے ا س صورت میں اس کا ثبوت نہ صرف غیر مکمل ہو گا بلکہ غیر مسلسل بھی ہو گا اور اس صورت میں عام لوگوں کے لیے اس کا سمجھنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا۔ اقبال کی حمت اسی نوعیت کی ہے لیکن ایسے شخص کے لیے جو اسیے فلسفی کے تصور حقیقت (Idea of Reality)کا پورا وجدان رکھتا ہو اس تصور کے ثبوت کو اس کے بیان کیے ہوئے نتائج اور مضمرات کی روشنی میں مسلسل اور منظم بنا کر پیش کرنا بھی آسان ہو گا۔ کیونکہ اس کی تمام ضروری کڑیاں بے ترتیب ہونے کے باوجود ا س کے پیش نظر ہوں گی اور اس کا وجدان ان کے باہمی عقلی اور علمی ربط کو اس لیے واضح کرے گا کہ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسے بھی ماہر ریائضیات کی طرح جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے دو کام ایک ساتھ کرنے پڑیں گے کیونکہ ایک تو یہ کہ اسے ان تمام غیر مرتب کڑیوں کو جو اس کے سامنے موجود ہیں ان کی منطقی اورعقلی ترتیب کے ساتھ رھنا پڑے گا اور دوسرے ان کی ترتیب کے درمیانی خلائوں کو ان کڑیوں سے پر کرنا پڑے گا جو فلسفی کی غیرمعمولی تیزی کی وجہ سے محذوف ہو گئی ہیں اس طرح سے اس کے پیش رو فلسفی کا تصور حقیقت ایک مسلسل اور مکمل نظام حکمت کی صورت میں سامنے آ جائے گا اور لوگوں کے لیے ا س کے وجدان میں شریک ہونا اور اس کے تصور حقیقت سے متفق ہونا آسان ہو جائے گا۔ حکمت اقبال کی تشریح کے لوازمات کسی حکمت کی صحت کی علامت نہ تو یہ ہے کہ اس کے تمام تصورات بالفعل اور فی الفور ایک منطقی سلسلہ کی صورت میں ہوں اور نہ یہ کہ ان کے منطقی سلسلہ کے اندر ایسے خلا موجود نہ ہوں جو ایک حد تک معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں سے پر ہو سکتے ہوں بلکہ فقط یہ ہے کہ ایک تو حقیقت کائنات کے متعلق اس کاتصور درست ہو اور دوسرے یہ کہ اس کے سارے معلوم اور مذکور تصورات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصور سے مطابقت رکھتے ہوں حکمت اقبا ل میں یہ اوصاف موجود ہیں۔ اس صور ت میں اگرچہ ی حکمت تصورات کا ایک مرتب سلسلہ نہیں بلکہ غلط تصورات کا ایک مجمودہ ہو گی تاہم صحیح اور درست ہو گی اور ایک نظام کی صورت میں ہو گی۔ تمام صحیح اور سچی علمی حقیقتیں جو اس کے ظہور کے وقت تک دریافت ہو چکی ہوں پہے ہی اس کے ساتھ مناسبت رکھیں گی بلکہ اس کے اندر بالقوہ موجود ہوں گی اگرچہ بالفعل اور آشکار طور پر اس کے ساتھ وابستہ نہ کی گئی ہوں۔ اگرچہ ان علمی حقیقتوں کی تعداد اس حکمت کو منظم کرنے کے لیے کفایت کرتی ہو اس کی معقولیت فلسفہ کے ایک معمولی طالب علم کو جو ا س کے بنیادی تصور حققیت کا پورا وجدان نہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ میں نہ آ سکے گی۔ چونکہ اس کے اندر کے تصورات ای منطقی یا عقلی سلسلہ کی صورت میں نہیں ہوں گے اس کی پہلی غلط فہمی یہ ہو گی کہ یہ تصورات آپس میں اور حکمت کے بنیادی مرکزی تصور حقیقت کے ساتھ کوئی منطقی یا عقلی ربط نہیںرکھتے اور یہ غلط فہی اسے اس حکمت کی معقولیت کا صحیح اندازہ قائم کرن سے باز رکھے گی اور اس کی دوسری غلط فہمی ی ہو گی کہ یہ تصورات ان علمی حقیقتوں کے ساتھ بھی کوئی منطقی یا عقلی ربط رکھتے ہوں جو اس حکمت سے باہر ہیں اور وہ یہ سمجھتا رہے گا کہ یہ بیرونی علمی حقیقتیں دراصل دوسرے فلسفیوں کے ساتھ (جو اتفاقاً منظم اور مسلسل بنا دیے گئے ہوں اور جن کے اندر یہ حقیقتیں توڑ موڑ کر سمو دی گئی ہوں) زیادہ مطابقت رکھتی ہیں اس طرح سے چونکہ وہ ان علمی حقیقتوں کو اس کی حکمت کی تائید کے لیے مہیا نہ کر پائے گا۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی اس کی معقولیت اس کی نگاہوںسے اوجھل رہے گی لہٰذا اگر ہم فلسفہ کے اس طالب علم کو اس حکمت کی معقولیت سے آشنا کرنا چاہیں تو ہمارے لیے اس کے سوائے کوئی چارہ نہ ہو گا کہ : اول: ہم اس حکمت کے تمام تصورات کو ان کی عقلی یا منطقی ترتیب سے آراستہ کریں جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے ساتھ اور حکمت کے بنیادی تصور حقیقت کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ دوئم: ہم اس تسلسل اور ترتیب کے درمیان خلائوں کو بحد امکان اور تصورات سے یعنی معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں سے جد قدر پر کر سکتے ہیں کریں اور اس طرح ؤسے ان خلائوں کی تعدا د اور طوالت کو جس قدر کم کر سکتے ہیں کریں اس کا سبب یہ ہے کہ اگر ایک بھی سچی علمی حقیقت ایسی ہو جسے ہم اس حکمت کے نظام سے باہر چھوڑ دیں تو ہم اس ضرورت کا حق ادا نہیںکر سکتے کم کرین اس کا سبب ی ہے کہ اگر ای بھی سچی علمی حقیقت ایسی ہو جسے ہم اس ھکمت کے نظام سے باہر چھوڑ دیں تو ہم اس ضرورت کا حق ادا نہیںکر رہے ہوں گے اور اس نظام حکمت کو اتنا معقول اور مدلل اور منظم نہیں بنا رہے ہوں گے جتنا ک وہ اپنے وقت کی معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں کی تعداد کے پیش نظر بن سکتا ہے چونکہ یہ تصورات بھی جو اس حکمت کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لائے جائیں گے ترتیب کو چاہیں گے اور پہلے اندرونی تصورات کی ترتیب کے بغیر اس پورے نظام حکمت میں ان کا صحیح مقام بھی معین نہ ہو سکے گا۔ لہٰذا یہ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے نہیں ہوں گے بلک ہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرے گا اوردوسرے کے بغیر نامکمل رہے گا۔ لہٰذا ہمیں ان دونوں کاموں کو ایک ساتھ ہی انجام دینا پڑے گا لیکن ان دونوں کو بیک وقت انجام دینے کے لیے د و شرطیں ضروری ہوں گی۔ اول: یہ کہ معلوم اور مسلم سچی حقیقتیں اپنی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے اس حد تک ترقی کر چکی ہوں کہ جب اس حکمت کے اندرونی تصورات کو عقلی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کی جائے اور اس سلسلہ میں ان علمی حقیقتوں کو اس ترتیب سے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لایا جا ئے تو خلائوں کی طوالت اور تعداد یہاں تک کم ہو جائے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل منطقی اور عقلی نظام کی شکل اختایر کر کے اور اپنی اس حیثیت کی وجہ سے باسانی ہر شخص کی سمجھ میں آ جائے۔ دوم: اس حکمت کے اندر پہلے ہی سے بعض ایسے معلوم او ر مسلم حقائق بھی سموئے ہوئے ہیں اور بالفعل اور آشکار طور پر موجودہوں جن ی وجہ سے اس حکمت کے ساتھ بیرونی علمی حقائق کی علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت واضح ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے اندرونی علمی حقائق کی موجودگی کے بغیر اس حکمت کے اندرونی تصورات کو ایک عقلی ترتیب دینا اور بیرونی علمی حقائق و کام میں لا کر اس کے خلائوں کو پر کرنا مشکل ہو گا اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نقاش فنکار ایک دلکش قدرتی منظر کا ایک وجدانی تصور مؤحسوس کرے پھر اس تصور کی انتہائی محبت کی وجہ سے اسے ایک خوبصورت رنگین تصور کے طور پر صفحہ قرطاس پر لانا چاہے اور وہ پہلے اس کا خاکہ بنانے کا فیصلہ کرے گا تاکہ بعد میں اس خاکہ کے اندر رنگ بھر کر تصویر کو مکمل کر سکے فرض کیا کہ خاکہ مکمل کرنے سے پہلے وہ اسے ایک ایسی حالت میں چھوڑ دیتا ہے کہ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ کسی وجدانی منظر کی تصویر کا خاکہ ہے لیکن ا س میں بعض درختوں پہاڑوں عمارتوں سڑکوں ‘ میدانوں‘ دریائوں اور کھیتوں کے گوشے اور زاویے بنائے اس حدک تک آشکار نہیںہوتے کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ تصویر کی کون سی چیز بنائیں گے۔ اس حالت میں ایک دوسرے ماہر فنکار کے لیے اپنی ساری مہارت کے باوجود یہ مشکل ہو گا کہ وہ تصویر کو اس کے سارے رنگین مظاہر کے سمیت مکمل کرنا تو درکنار اس کے خاکہ ہی کی تکمیل کر سکے لیکن اگرپہلا فنکار خاکہ کو مکمل تو نہیںکرتا لیکن اس کے خطوط کو یہاں تک آگے بڑھا دیتا ہے کہ ایک دوسرا فنکار اسے دیکھ کر معلوم کر لے کہ یہ خطوط آگے چل کر کس کس طرف کو بڑھنے والے ہیں اور کیا کیا شکلیں بنانے والے تھے اور خاکہ کی آخری شکل کیاہونے والی تھی تو اس صورت میں نہ وہ صرف خاکہ کو مکمل ہی کر سکے گا بلکہ اس قابل بھی ہو گا کہ تصویر کے سارے رنگوں کو خاکہ کے اندر اپنی اپنی جگہ پر بھر کر تصویر کو اس کی پوری آب و تاب اور مکمل اور مکمل دلکشی اور زیبائی کے ساتھ جلوہ گر کر سکے۔ شارح اقبال کی ضروری صلاحیتیں ان دو شرطوں کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت نوع بشر کے علمی ارتقاء کے ایک خاص مرحلہ پر پہنچ کر ایک ہی مسلسل اور مرتب علمی نظام کی صورت اختیار کر سکتی ہے اس سے پہلے نہیں ان دو شرائط کو ذہن میںرکھنے سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت کو اپنے وقت پر ایک مسلسل اور مرتب علمی نظام کی شکل دینے کی کوشش کرے گا اس کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ معلوم اور مسلم حقائق سے پوری طرح واقف ہو یعنی فلسفہ اور سائنس کی پوری وسعتوں پر اس کی نگاہ ہو اگر یہ استعداد اس میں نہ ہو گی تو اس کے پاس وہ تصورات ہی نہ ہو ں گے جن سے وہ اس سچی حکمت کو پر کر کے اس کی ترتیب اورتنظیم کو مکمل کر سکے۔ اس استعداد میں حکیمانہ بصیر ت اور اپج اور منطقیانہ ذوق اور باریک بینی کی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ ان صلاحیتوں کے بغیر وہ یہ نہیں دیکھ سکے گا کہ اس حکمت کے اندرونی تصورات کا آپس میں اور بیرونی علمی حقائق کے ساتھ اور حقیقت کائنات کے ساتھ کوئی عقلی اور علمی ربط ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا ہے؟ پھر اس کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ اس حکمت کے مرکزی تصور یعنی حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ایک ایسے وجدان سے بہرہ ور ہو جو مکمل ور پر تربیت یافتہ روشن اور طاقت ور ہو۔ اس استعداد کے بغیر وہ سائنس اور فلسفہ کی واقفیت کو غلط طور پر کام میں لائے گا ا س کا استدلال ٹھوکریں کھائے گا اور اس کی حکیمانہ اپج یا بصیرت غلط راہ پر چل نکلے گی ا س کا منطقیانہ ذوق غلط نتائج پیدا کرے گا او ر اس کی باریک بینی غلط راستہ اختیار کرے گی اس کے برعکس اگراس میں یہ استعداد ہو گی تو اپنے وجدان کے زور دار نور تجسس (Search Light)کی مدد س وہ نہ صرف دیکھ سکے گا۔ کہ کہاں تک اس حکمت کے اندر کے تصورات جو علمی حقیقتوں کے طور پر پیش کیے گئے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ حکمت کے مرکزی تصور کے ساتھ اور ان علمی حقیقتوں کے ساتھ جو اس حکمت کے باہر ہیں اور اس میں سموئی ہوئی ہیں عقلی ربط و ضبط رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لے گا کہ معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں میں سے کون سی ایسی ہیں جو حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ساتھ مطابقت رکھنے کی وجہ سے سچ مچ کی علمی حقیقتیں نہیںہیں ان کی خامیاں کیاہیں اور کس طرح سے ان خامیوں کو دور کرنے کے بعد ان کو سچ مچ علمی حقیقتیں بنایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کی مثال میں دوسرا نقاش فنکار پہلے فنکار کے نامکمل خاکہ یا اس کے نامکمل تصور کو صرف اسی صورت میں مکمل کر سکے گا کہ وہ پہلے فنکار کے وجدانی تصور حسن سے پوری طرح واقف ہو چکا ہو۔ حکمت اقبال کی خصوصیت اگر کسی حکمت کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اس قسم کی ہے جب اسے منظم کیاجائے تو تمام سچی علمی حقیقتین جو اس زمانہ تک دریافت ہو چکی ہیں سارے معلوم اور مسلم منطقی اور عقلی اصولوں کے مطابق اس کے اندر سما جاتی ہیں اور جو آئندہ دریافت ہونے والی ہوںوہ بھی اس کے اندر جذب ہو سکتی ہیں تو اس سے بڑھ کر کوئی ثبوت اس بات کا نہیں ہو سکتا کہ یہ حکمت جس وجدانی تصور حقیقت پر مبنی ہے وہ صحیح ہے اور خود یہ حکمت سچی اور پائیدار ہے اور تمام دوسری حکمتیں مٹ کر اس کی عالم گیر قبولیت کے لیے راستہ ہموار کر دیں گی۔ ظاہر ہے کہ ہم جب اس قسم کی حکمت کی بہترین تشریح کریںگے تو وہ اس کی عقلی اور علمی تنظیم اور ترتیب ہی کی صورت اختیار کرے گی اور اس کے برعکس جب ہم اس کو ایک عقلی اور علمی ترتیب اور تنظیم کے ساتھ دوبارہ لکھیں گے تو اس کی یہی ترتیب اور تنظیم ا س کی بہترین تشریح قرار پائے گی۔ اقبال کی حکمت اسی نوعیت کی ہے ایک سچی حکمت کے دو ضروری لوازمات جو اوپر بیان کیے گئے ہیں اس میں موجود ہیں وہ حقیقت کائنات کے ایک ایسے تصور پر مبنی ہے جو صحیح ہے اور اس کے سارے معلوم اور مذکور تصورات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصور سے مطابقت رکھتے ہوں حقیقت کائنات کایہ صحیح تصور جو حکمت اقبا ل کا بھی مرکز ہے اور خدا کا تصور ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ خدا انسان کو چاہتا ہے اور تخلیق اور تکمیل کائنات کا عمل دراصل تخلیق و تکمیل انسان ہی کا عمل ہے اور دوسرا یہ کہ انسان خدا کو چاہتا ہے او ر اس کی ساری زندگی تگ و دو جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی صرف یہ مقصد رکھتی ہے کہ خدا انسان کو پہنچے حقیقت کائنات کی حیثیت سے یہ تصور نہ صڑف واضح اور روشن ہے بلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتا ہے ۔ اقبال نے اپنے تصور حقیقت کے تمام ضروری نتائج و مضمرات کو بالوضاحت اور بالتکرار بیان کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ نتائج اور مضمرات ایک ہی تصور کے ساتھ عقلی اور علمی تعلق رکھنے کی وجہ سے ایک نظام حکمت کی سورت میں ہیں۔ اور ایک عقلی اور منطقی تنظیم اورترتیب پا لیناان کی فطرت میں ہے تاک ہچونکہ وہ شایدہ تر شعر کی زبان میںبیان کیے گئے ہیں وہ عقلی اور منطقی ترتیب اور تنظیم میںنہیں آ سکتے۔ ہو نہیں سکتا کہ ایک نظام تصورات شعر کی زبان میں بھی ہو اورپھر ایک منطقی اور عقلی ترتیب اور تنظیم بھی رکھتا ہو ۔ ہو نہیںسکتا کہ وہ جذبات کی گرمی اور منطق کی ٹھنڈک دونوںسے بیک وقت بہرہ ور ہو۔ اقبال کا فلسفہ اس کی غیر معمولی ذہانت اور وجدانی قوت رکھنے والے ماہر ریاضیات یا ماہر فلسفی کی طرح ہے جس کا تصور حقیقت صحیح ہے لیکن وہ اپنے تصور حقیقت کے نتائج کو جو بے اختیار اس کے قلب پر وارد ہوتے چلے جاتے ہیں ایک منطقی ترتیب اور تنظیم میںرکھنے کی فرصت یا ضرورت نہیں پاتا تاہم اس کے نتائج اس قدر مفصل ہیں کہ ہر موزو ں شخص جو اس کے تصور حقیقت کا صحیح وجدان رکھتا ہے باسانی ان کے منطقی سلسلہ کے خلائوں کو پر کر کے ا ن کو ایک مکمل منطقی ترتیب اور تنظیم کا جامہ پہنا سکتا ہے۔ اقبا ل نے اپنے فلسفہ میں حقیقت انسان و کائنات کی اصل تصویر کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ اس قدر مکمل ہے کہ مناسب قابلیت کا ہر انسان جو اقبال کے ذوق سے آشنا ہو اس خاکہ میں صحیح رنگوں کو اپنی اپنی جگہ بھر کر تصویر کو اس کی پوری زیبائی اور دلکشی کے ساتھ جلوہ گر کر سکتا ہے۔ حکمت اقبال کی تشریح کا مطلب اوپر کی بحث ہمیں جس اہم نتیجہ کی طرف راہ نمائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ کی ایک ایسی تشریح بہم پہنچائیں جو اس کے فلسفہ کو خواص اور عوام کے لیے اور غیروں اور اپنوں کے لیے موثر اور قابل فہم بنا دے اور اس کی صحیح اور تسلی بخش تشریح قرار پائے تو ضروری ہے کہ ہم اقبال کے تصور حقیقت کے نتائج اور مضمرات کو جو اس نے بلا ترتیب شعر کی زبان میں بیان کیے گئے ہیں نہ صرف یہ کہ ایک منطقی اور عقلی ترتیب کے ساتھ بیان کریںبلکہ ان کے درمیانی خلائو ں کو زیادہ سے زیادہ پر کریں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ اس عمل سے اس کے فلسفہ کی تشریح کس قدر طویل ہو جائے گی کیونکہ یہ تشریح جس قدر طویل ہو گی اسی قدر زیادہ اقبال کا فلسفہ قابل فہم اور اثر آفریںہو گا اور لوگوں کے اعتقاد اور عمل کو بدلنے والی ایک قوت ہو گا۔ غلط اور صحیح فلسفہ کے استدلال کا فرق یہ حقیقت ہے کہ ایک فلسفی کے ادراک کا آغاز اور انجام حقیقت کائنات کے ایک وجدانی تصور ہوتا ہے جو اس کے ذہن میںپہلے ہی سے موجود ہوتا ہے ۔ فلسفی کے استدلال کی سمت کو معین کر دیتی ہے اور اس کی صحت اور عدم صحت کا فیصلہ کر دیتی ہے اگر اس کا تصور حقیقت غلط ہو گا تو اس کے استدلال کی خشت اول ہی غلط رکھی جائے گی جس کے بعد ا س کا سارا استدلال خواہ اس کی دیوار ثریا تک چلی جائے غلط ہو جائے گا چونکہ اس کے استدلال کا راستہ منزل سے ٹہا ہوا ہوتا ہے۔ یہ راستہ ٹیڑھا ہی نہیںہوتا بلکہ دشوار گزار بھی ہوتا ہے اور اس راستہ پر چل کر اسے عمی حقائق کو اپنے تصورحقیقت کے مطابق ثابت کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے اور پھر بھی وہ ان کواپنے تصور کے مطابق ثابت نہیں کر سکتا اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے استدلال میں جا بجا عقلی اور منطقی خامیاں پید اہو جاتی ہیں۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے کہیں تو وہ بعض سچے علمی حقائق کو جو اس کے غلط تصور حقیقت کی غمازی کرنے کی استعداد کررکھتے ہوں نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہیں ان حقائق کو جو ا س غلط تصو ر حقیقت کی غمازی کرنے کی استعداد رکھتے ہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہیں ان حقائق کی غلط توجیہہ اور تشریح کرتا ہے اور ان کو غلط طور پر توڑ موڑ کر سمجھتا اور سمجھاتا ہے ۔ کہیں ان کی امیت کو اتنا کم کر دیتا ہے کہ وہ اس تصور حقیقت کو چیلنج نہ کر سکیں اورا سکے برعکس کہٰں وہ غلط علمی حقائق کو جنہیں اچھی طرح سے آزمایا اور پرکھا نہیں گیا اور جو اس کے غلط تصور حقیقت سے کسی مناسبت رکھتے ہیں اور اپنے استدلال میںجگہ دیتا ہے اور ان کی اہمیت کو بڑھاتا ہے کہ گویا وہی کائنات کی عقدہ کشائی کر سکتے ہیں و علی ہذ ا لقیاس۔ لیکن اگر اس کا تور حقیقت صحیح ہو اور وہ کائنات کے عمی ؤحقائق کو جو اس کے زمانہ تک دریافت ہو چکے ہیں ٹھیک طرح سمجھتا ہو تو اس کا استدلال صحیح ہوتا ہے اور یہ تمام علمی حقائق آسانی کے ساتھ اس کے نظام حکمت میں اپنی جگہ پاتے ہیں اور وہ جہاں ؤسے اسے مل سکیں تلا ش کرکے لاتا ہے اور اپنے نظام حکمت میں جگہ دیتا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کے تصور حقیقت سے مناسبت رکھتے ہیں اور اس کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے اگر اسے بعض غلط حقائق کو جنہیں علمی حقائق سمجھا جا رہا ہے توڑنا موڑنا بدلنا پڑتا ہے اور تو وہ اس طرح سے بدلتے رہتے ہیں کہ ان کی خامیاں اور کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں اور اگر بعض کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے تو وہ درحقیقت غلط اور نظر انداز کرنے کے قابل ہی ہوتے ہیں اور اگر کہیں ان کی اہمیت کو کم کرنا پڑتا ہے تو فی الواقع ان کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ اسی طرح کے اگر اسے بعض مفروضات ہی نہیں بلکہ تمام علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق فی الواقع صحیح علمی حقائق ہیں۔ گویا حقیقت کائنات کے تصور کی درستی اور درست فہمی اس کے سارے نظام حکمت کو درست کرتی ہے اور اس کے ساتھ بعض ایسے نام نہاد علمی حقائق کو بھی درست کرتی ہے جن کی نادر ستی ابھی آشکار نہ ہوئی ہو بلکہ بعض نئے درست علمی حقائق کی دریافت کی تحریک بھی کرتی ہے اور اس طرح درست تصور حقیقت کی مدد سے علم اپنے ہی تراشے ہوئے بؤتوں کوتوڑتا ہوا صڈاقت کی منزلوں کی طرف چلا جاتا ہے اقبال ہی ا بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ کہتا ہے: وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم علمی حقائق کی ترقی سے غلط فلسفے مٹتے ہیں اور صحیح فلسفہ ابھرتا ہے چونکہ حقائق معلومہ و مسلمہ جو ایک نظام حکمت کی کڑیوں کی صورت اختیار کرتے ہیں بداہتوں کے علاوہ علمی حقیقتوں پر بھی مشتمل ہوتے ہیں اور چونکہ علمی حقیقتیں ابھی تک سب کی سب دریافت نہیں ہو سکیں اور ہر فلسفہ ان کے ساتھ مطابقت بھی نہیں رکھتا اس لیے ہر فلسفہ کے اندر خلائوں کاہونا ضروری ہے۔ اور چونکہ علمی حقیقتیں سب کی سب قیامت تک بھی دریافت نہ ہوسکیں گی۔ لہٰذا اس فلسفہ کے اندر بھی جو ان حقیقتوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے یعنی صحیح فلسفہ کے اندر بھی تاقیامت خلائوں کا باقی رہنا ضروری ہے۔ بعض فلسفوں کے خلائوں کی تعداد اور طوالت زیادہ ہوتی ہے اوربعض کی کم۔ یعنی بعض فلسفوں کا استدلال زیادہ گنجان آباد ہوتا ہے اور بعض کا کم۔ جس قدر کسی فلسفہ کے منطقی تسلسل میں خلائوں کی تدداد زیادہ اور طوالت کم ہو گی یعنی جس قدر کسی فلسفہ کا استدلال زیاد ہ گنجان ہو گا اسی قدر وہ زیادہ آسان او ر قابل فہم اور معقول اور مضبوط اور مکمل اور مدلل سمجھا جائے گا چونکہ سچی علمی حقیقتیں ایک دوسرے کے ساتھ عقلی ربط یا مطابقت رکھتی ہیں لہٰذا ایک دوسرے کی تائید و توثیق کری ہیں اس کے برعکس چونکہ وہ غلط تصورات کے ساتھ کوئی عقلی ربط یا مطابقت نہیں رکھتیں اور ان کی تائید اور توثیق بھی نہیںکرتیں اس بنا پر ضروری ہے کہ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے اور علمی حقیقتوں کی تعداد بڑھتی جائے ان کی دلالت اور وضاحت بھی بڑھتی جائے اور ان کا توڑنا اور مسخ کر کے سمجھنا اور سمجھانا زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا جائے او ر اس طرح سے صحیح فلسفوں کے خلائوں کی تعداد و طوالت کم ہوتی جائے اور غلم فلسفیوں کے خلائوں کی تعداد اور طوالت بڑھتی جائے گی اور اس کے نتیجہ کے طور پر صحیح فلسفہ کی معقولیت کے ساتھ ساتھ غلط فلسفوں کی نامعقویلت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جائے ضروری ہے کہ اس نہ رکھنے والے قدرتی عمل کا نتیجہ یہ ہو کہ بالاخر دنیا میں صرف ایک ہی فلسفہ جو صحیح ہو کائنات کے صحیح تصور پر مبنی ہو اور اس بنا پر حال اور مستقبل کی تمام علمی حقیقتوں سے مطابقت اور مناسبت رکھتا ہو باقی رہ جائے اور باقی تمام فلسفے نامعقول اور بیکار سمجھ کر رد کر دیے جائیں اور اس سے یہ ناگزیر نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یہی فلسفہ ہو گا جو بالاخر انسانیت کو متحد کرے گا اور جب تک یہ فلسفہ ظہور پذیر ہو کر دنیا میںپھیل نہیںجائے گا اس وقت تک نوع بنی انسان کا امن اور اس کا اتحاد دونوں ممکن نہ ہوں‘آگے چل کر میں عرض کروں گا کہ کیوں یہ فلسفہ اقبال کا فلسفہ خودی ہی ہو سکتا ہے اور دوسرا کوئی فلسفہ نہیں ہو سکتا۔ شعر کی طرح فلسفہ بھی محبت کاترجمان ہے حقیقت نہ صڑف یہ ہے کہ فلسفی جب فلسفہ لکھتا ہے تو جذبات سے الگ ہو کر نہیںلکھتا بلکہ اس کے سارے جذبات اس تصور حقیقت پر مرتکز ہوتے ہیں جس کی تشریح وہ کر رہا ہے اسے اس تصور سے عشق ہوتا ہے اور خواہ یہ تصور مادی ہو یا روحانی اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں اوپر گزارش کر چکا ہوں حقیقت کائنات کا تصور ہر انسان کی عملی زندگی کی قوت محرکہ ہے اور فلسفی اس سے مستثنیٰ نہیں بلکہ وہ اسی قوت محرکہ کے زیر اثر اپنا سارا فلسفہ لکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کا تصور حقیقت ہر جگہ قبول کر لیا جائے اور تاکہ لوگ اپنی عملی زندگی کو اس طرح سے بنائیں جس طرح وہ خود اپنی عملی زندگی کو بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ ان فوائد سے مستفید ہوں اور ان نقائص سے بچ جائیں جنہیں وہ فوائد یا نقصانات سمجھتا ہے اور جن سے مستفید ہونا یا بچنا اس کی رائے مٰں اس کے فلسفہ کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسفہ شعر ہی کی طرح عشق کا اظہار ہے فلسفی جب اپنے عشق کو مقبول اذہان اور مرغوب خواطر بناناچاہتا ہے تو سیدھی روبروبات کہنے کی بجائے اپنے مخاطب کو بلاتا ہے کہ جس تصور کو وہ حقیقت کائنات سمجھتا ہے کیونکر تمام علمی حقائق اسی سے مطابقت اور مناسبت رکھتے ہیں اور مل کر اس کی تائید اور توثیق کرتے ہیں اور فلسفی یہ طریق گفتگو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ وہ جانتا ہ کہ وہ بے اثر نہ رہے گا۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اسے کوئی ایسا تصور حقیقت مل جائے جو فی الواقع تمام حقائق کو اپنے اردگرد منظم کر سکتا ہے اور اس تصور کے لیے وہ بے قرار رہتا ہے اقبال نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت کیا ہے حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو علمی حقائق تنہا صحیح تصور حقیقت کی طرف راہ نمائی نہیں کر سکتے لیکن فلسفی ایسے صحیح تصور حقیقت کو جو نہ صرف اس کے نظام حکمت کو معقول اور مدلل بنا سکتا ہو بلکہ تمام نادر درست علمی حقائق کو درست کر سکتا ہو اور نئے نئے درست علمی حقائق کی دریافت کے لیے راہ نمائی بہم پہنچا سکتا ہو کہاں سے لائے۔ ذہن انسانی حقیقت کائنات کے لاتعداد مادی اور وحانی تصورات قائم کر سکتا ہے کیونکہ اوصاف و خواص کی ذرا سی تبدیلی سے تصور بدل جاتا ہے۔ فلسفی یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان گوناگوں تصورات میں سے کون سا تصور حقیقت ایسا ہے جو اپنی فطفت اور اپنے اوصاف و خواص کی بنا پر حال کے علمی حقائق کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتا ہے کیونہ اسگر ایسا تصور مل جائے تو وہی مستقبل کے علمی حقائق کے ساتھ بھی مطابقت رکھے گا لیکن علمی حقائق کی تعداد ہمیشہ اس قدر کم رہتی ہے کہ فقط ان علمی حقائق کی مدد سے از خود اس تصور کا جان لینا ایک فلسفی کے لیے بہت دشوار ہے اس قدر دشوار کہ اسے ناممکن کے درجہ میں رکھنا ضروری ہے۔ تاہم ہر ایک فلسفی نے یہ کوشش کی ہے کہ اپنے زمانہ کے معلوم علمی حقائق کی بنا پر ایک تصور حقیقت قائم کرے اور پھر اس کی بنا پر ایک فلسفہ کی تعمیر کرے۔ لیکن نتیجہ یہ ہے کہ ہر فلسفی کا تصور حقیقت ادھوار اور بیکار اور اس کا استدلال غلط اور نامعقول ہو کر رہ گیا ہے ۔ آج تک کوئی فلسفی ایسا نہیں ہوا جس کے استعدلال کی صحت یا معقولیت بجا طور پر دوسرے فلسفیوں کے شدید اعتراضات کی زد میں نہ آئی ہو۔ فلسفیوں کے باہمی اختلافات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ پھر اگر کوئی فلسفی دوسرے فلسفیوں کے اعتراضات کی روشنی میں اپنے فلسفہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کی کوشش میں کبھی کامیاب نہیںہوتا کیونکہ جب وہ اپنے غلط فلسفہ کی جو ایک غلط تصور حقیقت پر مبنی ہوتا ہے ایک خامی کودور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اندر اور خامیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر ہم کسی کمرہ کے اندر ایک خوبصورت قالین جو کمرہ سے کسی قدر بڑا ہو اس طرح بچھانا چاہیں کہ وہ کمرہ میں پھیل جائے اور ساارے گوناگوں نقوش جو اس کے اندر بن گئے ہیں پیش نظر ہو جائیں تو ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ کمرے کی تنگی کی وجہ سے قالین میں جابجا شکن پڑ جائیں گے اور شکنوں کے اوپر کے نقوش کا منظر بگڑ جائے گا۔ یا نظروں سے اوجھل ہو جائے گا اور اگر ہم ان شکنوں کوا یک طرف سے ہٹانے کی کوشش کریں گے تو وہ کسی اور طرف ظاہر ہو گا اور اگر پھراسے طرف ہٹائیں گے تو ایک اور ہی طرف نمودار ہو جائیںگے یہی حال ایک ناقص اورادھورے تصور حقیقت کا ہے کہ یہ خوبصورت کائنات اپنے گوناگوں دلکش حقائق کے سمیت اس کی تنگ دامانی کے اندر سما نہیں سکتی۔ اگر ہم اس کے ناقص تصور حقیقت کی بنا پر کائنات کا کوئی نظام حکمت تیار کیں اور ا سطرح سے گویا کائنات کواس کے اوپر منطق کرنے کی کوشش کریں تو کائنات اس پر پوری طرح منطبق نہیں ہو گی اور نظام حکمت کے استدلال میں جا بجا عقلی اور منطقی الجھنیں پیدا ہو جائیں گی اور ان الجھنوں کی وجہ سے حقائق علمی جابجا مسخ ہو جائیں گے یانظر انداز ہو جائیں گے اور اگر ہم ان الجھنوں کو نظام حکمت کے ایک گوشہ سے دور کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ اس کے دوسرے گوشوں سے نمودار ہو جائیں گے۔ دو ممکن صورتیں ایک فلسفی کے لیے صحیح تصور حقیقت تک پہنچنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو اسے کائنات کے تمام حقائق علمی کی واقفیت فی الفور حاصل ہو جائے پھر وہ ان کی روشنی میں باسانی دیکھ لے گا کہ کون سا تصور حقیقت ایسا ہے جو ان حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کو منظم کرتاہے اس صورت میں اس کو تصور حقیقت کی فطرت اور اوصاف کا صحیح اندازہ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کیونکہ اگر وہ ان حقائق کے علم کے باجودحقیقت کا کوئی ایسا تصور قائم کرے گا جو کسی پہلو سے تھوڑا سا بھی غلط ہو گا تو کئی علمی حقائق اس کی تردید کرنے کے لیے موجود ہوں گے لیکن یہ امید عبث ہے دنیا بھر کے حکما اور علما اس بات پر متفق ہیں کہ نوع انسانی کا علم تاقیامت بھی کائنات کے تمام علمی حقائق کا احاطہ نہیںکر سکتا۔ خود قرآن حکیم نے اس حقیقت کی طرح اشارہ کیا ہے: قل لو کان البحر مذادً الکلمت ربی لنفدا البحر قبل ان تنفذوا کلمت ربی ولو جئنا بمثلہ مددا کہیے اے پیغمبر اگر سمندر کا پانی بھی میرے پروردگار کی قدرت کے نشانات کو لکھنے کے لیے بطور سیاہی ہو تو پانی نشانات کا ذکر ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گا خواہ ہم امداد کے طور ر ہی اتنا پانی اور شامل کر دیں۔ دوسری صور ت یہ ہے کہ فلسفی کو حقیقت کائنات کا صحیح تصور کہیں سے اتفاقاً دستیاب ہو جائے اور اس کا عشق اور وجدانی علم اسے یہاں تک حاصل ہو جائے کہ وہ اس کی روشنی میں ان تمام حقائق علمی کو صحیح طور پر دیکھ سکے اور سمجھ سکے جو آج تک دریافت ہوئے ہیں اور ان کو اس تصور کی بنیاد پر دوسرے تصورات کی دخل اندازی کے بغیر متحد اور منظم کر سکے ایسی حالت میں اگرچہ اس کے پاس حقائق علمی کم تعدا د میں ہوں گے تو تاہم حقیقت کائنات کے صحیح اور مکمل تصور کی روشنی میں اگر وہ ٹھیک طرح سے ان کو سمجھ سکے گا اور بتا سکے گا کہ کیونکر وہ فقط اس تصور سے مطابقت رکھتے ہیں اس صورت میں اس کانظام حکمت ناتمام تو ہو گا لیکن غلط نہیں ہو گا اور جوں جوں حقائق علمی دریافت ہوتے جائیں گے اس کے نظریہ کائنات میں اپنی جگہ پاتے جائیں گے اس طرح سے اس کا نظریہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اور یہ عمل تا قیامت جاری رہے گا جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اس قسم کے فلسفہ کے وجود میں آنے کے بعد فلسفہ کی تمام حقیقی ترقیوں کا دارومدار نئے فلسفوں کے ظہور پر نہیں بلکہ اس فلسفہ کی زیادہ سے زیادہ ترقی اور تکمیل پر ہو گا لیکن اگر فلسفی کو حقیقت کائنات کا صحیح تصور کہیں سے دستیاب بھی ہو جائے او روہ اس کے عشق اور وجدانی علم سے بہرہ ور بھی ہو جائے تو پھربھی اس تصور حقیقت سے استفادہ کرنے اور اس کی بنا پر ایک صحیح نظام حکمت کی تعمیر کرنے کے لیے یہ شرط ضروری ہو گی کہ اس کے زمانہ میں حقائق علمی یہاں تک ترقی کر چکے ہوں کہ وہ اتفاقی طور پر ہاتھ لگ جانے والے اس تصور حقیقت کے ساتھ ان حقائق کی مناسبت یا مطابقت باسانی دیکھ سکے ورنہ اس تصر حقیقت کے ساتھ ان کو علمی اور عقلی طور پر وابستہ کرنے کا امکان نہ پائے گا اور کسی اور تصور حقیقت کی تلاش میں بدستور سرگرداں رہے گا اور وہ یہ سمجھتا رہے گا کہ علمی حقائق اس تصور حقیقت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے اور لہٰذا یہ تصور حقیقت شاید درست نہیں یا شاید اس کی بنا پر کوئی فلسفہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس صورت میں کمی اس کے تصور حقیقت میں نہ ہو گی بلکہ ان حقائق علمی کی تعداد اور نوعیت میں ہو گی جو اس کے پیش نظر ہوں گے تاکہ فلسفی کا تصور حقیقت کائنات کے علمی حقائق سے بغل گیر ہو جائے ضروری ہو گا کہ کچھ تو اس تصور حقیقت زیادہ سے زیادہ صحیح اور کامل ہو کر ان حقائق کی طرف آگے بڑھے اور کچھ یہ حقائق ترقی کر کے اس کی طرف پیش قدمی کریں یہاں تک کہ اس کے ساتھ ان کے مجموعہ کی مناسبت آشکار ہو جائے۔ تصور حقیقت کے عشق کی ضرورت یہاں شاید یہ سوال کیا جائے گا کہ یہ بات تو سمجھ میں آ سکت ہے کہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے ایک فلسفی کو حقیقت وجود کے صحیح تصور سے واقف ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ اسے ا س تصور حقیقت کے ساتھ عشق بھی ہونا چاہیے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کا یہ خیال قطعی طور پر درست ہے کہ علم کا سرچشمہ انسان کا وجدان ہے اور وجدان کا باعث ہماری آرزوئے حسن یا عشق ہے۔ صحیح تصور حقیقت کا کامل عشق ہی اس کا کامل وجدان یا کامل علم ہے۔ اتنا کام علم جتنا کہ کسی شخص کی فطری استعداد علم اس کو کامل ہونے کی اجازت دے سکتی ہے: زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است زمانہ ہیچ نداند حقیقت او را جنوں قباست کہ موزوں بقاست خرد است بان مقام رسیدم چودر برش کر دم کہ طوف بام و در من سعادت خرد است قدرت نے ہر انسان کو عشق کی ایک خاص استعداد بخشی ہے۔ یہ استعداد بالعموم افراد کی ذہانت کی نسبت سے کم و بیش ہوتی ہے کوئی چاہے تو اسے غلط تصور حقیقت یا غلط محبوب کے لیے کام میں لائے اور کوئی چاہے تو اسے صحیح تصور حقیقت یا صحیح محبوب کے لیے استعمال کرے لیکن چونکہ استعدا د ایک ہی ہے یہ بات ہر حالت میں درست رہے گی کہ جس حد تک وہ اسے غلط تصور حقیقت کے لیے کام میں لائے گا اس حد تک وہ صحیح تصور حقیقت کے لیے میسر نہ آ سکیں گے انگریزی زبان میں ایک مثل ہے کہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کیک کھا بھی لیں اور کیک آپ کے پا س جوں کا توں موجود بھی رہے۔ اسی طرح سے ہو نہیں سکتا کہ آپ اپنی محبت کی استعداد کو کسی غلط تصور کے لیے استعمال بھی کر لیں اور پھر وہ صحیح تصور کے لیے بھی بچ رہے جس نسبت سے ایک انسان کی محبت خدا کے لیے بڑھتی جاتی ہے اسی نسبت سے باطل تصورات کی محبت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بالکل مٹ جاتی ہے اور اس مقام پر صحیح تصور حقیقت کی محبت اتنی کامل ہوجاتی ہے ک جتنی کہ انسان کی فطری استعداد اجازت دیتی ہو۔ لیکن یہ مقام ابراہیم خلیل اللہ کا ہے جن کے متعلق ارشاد قرآن میں ہے کہ وہ حنیف یعنی یک بین و یک اندیش تھے۔ اور ان کاایمان شرک کے تمام شوائب سے پاک تھا۔ غیر اللہ کی محبت کی تمام قسموں کو دل سے نکال کر اس مقام کو پا لینا بڑے مجاہدہ کے بعد ہی ممکن ہوتاہے۔ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں اگر فلسفی کی ساری استعداد محبت جو اسے فطرت کی طرف سے ارزانی ہوئی ہے ابھی حقیقت وجود کے صحیح تصور کے لیے وقف نہ ہوئی ہو اور اس استعداد کا کچھ حصہ کسی غلط تصور حقیقت کے لیے بھی کام آ رہا ہو تو وہ لازماً حقائق عالم کو کسی قدراس غلط محبت کی عینک سے دیکھے گا اور ان کی جو توجیہہ کرے گا وہ کامل طور پر درست نہ ہو گی۔ یعنی وہ ان حقائق کو صحیح تصور حقیقت کے ساتھ ٹھیک طرح سے متعلق نہ کر سکے گا اورلہٰذا وہ ایسا فلسفہ پیدا کرے گا جو اسی نسبت سے غلط اور ناقص ہو گا جس نسبت سے اس کی محبت غلط اور ناقص ہو گی۔ صحیح تصور حقیقت کامل کے طور پر تربیت یافتہ روشن اور طاقتور وجدان سے مرا د اس تصور کی ایک ایسی محبت ہے جو مجادہ اور ریاضت سے ترقی کر کے درجہ کمال پر پہنچائی گئی ہو۔ یہ محبت ایک روشنی ہے کیونکہ یہ غلط تصورات کی جہالتوں اور تاریکیوں سے پاک ہوتی ہے اور صحیح اور غلط اور نیک و بد اور زشت و زیبا میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کر سکتی ہے۔ پرھ یہ محبتر ایک طاقت ہے کیونکہ یہ غلط تصورات پر ان کی غیر معمولی قوت کے باوجود فتح پاتی ہے صحیح تصور کے کامل عشق کے بغیر فلسفی کا علم ناقص رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے نزدیک صحیح تصور حقیقت کا کامل عشق صحیح فلسفہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے اس کے بغیر عطار یا رومی یا رازی یا غزالی ایسا ایک شخص بھی علم سے محروم رہتا ہے: عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی غلط فلسفہ بھی غلط محبت سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ تصور حقیقت کا عشق صرف اس فلسفی کا ہی امتیاز نہیں ہوتا جو صحیح تصور حقیقت کو اپنے فلسفہ کی بنیاد بنا رہا ہے بلکہ استدلال کی طاہری اورعارضی قوت جو ایک فلسفہ غلط کو حاصل ہوتی ہے وہ اس کے موجد کے اس عشق کی وجہ ہوتی ہے جو اسے اپنے غلط تصور حقیقت سے ہوتا ہے۔ اس عشق کی وجہ سے وہ ان سچے حقائق سے آنکھیں بند کر لیتا ہے جو اس کے غلط تصور حقیقت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ور ان غلط حقائق کو صحیح سمجھ لیتا ہے جو اس کے غلط تصور حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوں مثلاً اگر کارل مارکس کو اپنے غلط تصور حقیقت سے عشق نہ ہوتا تو وہ ہرگز ایسا فلسفہ نہ لکھ سکتا جو قطعی طور پر غلط ہونے کے باوجود آج کروڑوں بندگا ن خدا کی زندگیوں کا مدار و محور بنا ہوا ہے۔ اب غور کیجیے ک ایک طر ف تو کائنات کا صحیح فلسفہ انسان کی شدید نظری اور عملی ضرورت میں سے ہے اور دوسری طرف سے اس کے بہم پہنچنے کی راہ میں ناقابل عبور دشواریاں ہیں لیکن قدرت کا قاعدہ ہے کہ انسان کی ہر شدید قدرتی ضرورت کی تشفی کے لیے وہ اپنا نظام کرتی ہے ۔ اور اس التزام کی بنیاد باسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر قدرت ایسا نہ کرے تو کائنات میں اس کے مقاصد کی تکمیل نہیںہو سکتی۔ جس طرح سے قدرت ہماری شدید بانی ضروریات کی تکمیل کے لیے بادل ہوا سورج چاند زمین اور آسمان ایسی قوتوںکو کارفرما کرتی ہے اسی طرح سے وہ ہماری شدید روحانی ضروریات کی تشفی کے لیے انبیاء کا سلسلہ قائم کرتی ہے۔ اس کتاب میں آگے چل کر اقبال کے نظریہ نبوت کی پوری تشریح کی جائے گی۔ یہاں صرف یہ گزارش کرنا مقصودہے کہ حضرت انسان کے لیے ہر نبی کا سب سے پہلا اور سب سے آخری اور سب سے زیادہ قیمتی تحفہ حقیقت کائنات کا صحیح تصور ہوتا ہے اسی تصور کو ہم خدا کا تصور کہتے ہیں۔ اس تصور کی پوری حقیقت ا سکے عملی اطلاق سے ہی سمجھ میں آتی ہے ۔ اور اس کا عملی اطلاعق جس کا ظہور سب سے پہلے نبی کی عملی زندگی کی مثال میں ہوتا ہے ا س وقت تک مکمل نہیںہوتا جب تک کہ بنی نو ع انسان کی سماجی زندگی کے ارتقا کر کے ایک خاص مقام تک نہ پہنچ جائے۔ جہاں سے اس کے تمام ضروری اور قدرتی پہلو مثلاً سیاست ‘ جنگ معاشیات‘ قانون‘ معاملات‘ وغیرہ پوری طرح سے نمایاں ہوں جونہی کہ انسانی سماج کا ارتقا اس مرحلہ پر پہنچتا ہے اس میں ایک ایسا نبی پیدا ہوتا ہے جو اپنی عملی زندگی ک مثال کے ذریعہ سے انسان کی عمملی زندگی کے ان تمام ضروری شعبو ں پر خدا کے تصور کا اطلاق کرتا ہے او ر اس اطلاق کے ذریعہ سے خدا کے تصور کی صٖات کے نظری اور عملی پہلوئوں کو آشکار کرتا ہے۔ وہ گویا پہلا شخص ہوتا ہے جو نوع بشر کو حقیقت کائانت کا ایسا کامل تصور عطا کرتا ہے جو ایک کامل اور صحیح فلسفہ کی بنیاد بن سکتا ہے اور بنتا ہے۔ اس بنی کے ظہور کے بعد نبوت کا اختتام ایک قدرتی بات ہے کیونکہ اس کے بعد انسان کے لیے کوئی مشکل باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنی عملی زندگی کو ہر قسم کی درستی اور ثروت کے اعتبار سے نقطہ کمال پر پہنچا سکے اور وہ خاتم الابنیاء جنہوں نے نوع انسانی کو حقیقت کائنات کا کامل تصور عطا کیا ہے جناب محبد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ فلسفی جس نے علمی حقائق کی ترقیوں کے اس دور میں سب سے پہلے اپنے فلسفہ کی بنیاد نبوت کاملہ کے عطاکیے ہوئے کامل تصور حقیقت پر رکھی ہے اقبال ہے اور وہ فلسفہ جو اس کے دور کے علمی حقائق کو نبوت کے عطا کیے ہوئے کامل تصور حقیقت کی بنیادوں پر منظم کرتا ہے فلسفہ خودی ہے۔ اقبال نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہی وہ تصور حقیقت کی بنیادوں پر منظم کرتا ہے فلسفہ خودی ہے اقبال نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہی وہ تصور حقایت ہے جو صحیح اور تمام حقائق کائنات کو منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بار بار کہتا ہے کہ وہ فلسفہ جو نبوت کاملہ کے عطا کیے ہوئے تصور حقیقت پر مبنی نہ ہو بلکہ حقیقت کے کسی ایسے تصور پر مبنی ہو جو کسی فلسفی نے حقائق عالم کی ناتمام معرفت کی بنا پر نبوت کی مدد کے بغیر خود بخود قائم کر لیا ہو بیکار اور غلط ہے اورتمام فلسفے جو آج تک وجود میں آئے ہیں ایسے ہی ہیں۔ صرف خدا کا عشق ہی صحیح فلسفہ کی بنیاد بن سکتاہے۔ اور اس عشق کا منبع رسولؐ کی اطاعت ہے۔ نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا زناری برگساں نہ ہوتا ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری دل در سخن محمدی بند اے پور علی زبو علی چند ہیگل کے فلسفہ پر اقبال نے جو تحقیر آمیز تنقید کی ہے وہ دراصل اس کے نزدیک ہر غیر قرآنی فلسفہ پر صادق آتی ہے۔ حکمتش معقول و بامحسوس در خلوت نہ رفت گرچہ فکر جکر او پیرایہ پوشد چوں عروس طائر عقل فلک پرواز او دانی کہ چیست ماکیاں کز زور مستی خایہ گیر و بے خروس سچا تصور حقیقت فقط خدا کاتصور ہے جو زندہ اور حی و قیوم ہے۔ باقی تمام تصور ات حقیقت مردہ ہیں اور مرد ہ کی تصویر کشی بھی مردہ ہی ہوتی ہے۔ اگر آج اسے زندہ سمجھا جا رہا ہو تو یوں سمجھیے کہ وہ نزع کی حالت میں گرفتار ہے اور اسے آج نہیں تو کل مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا جائے گا۔ یا مردہ ہے یا نزعع کی حالت میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے ٭٭٭ بلند اقبال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا پھرا فضائوں میں شاہیں اگرچہ کرگس وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا ٭٭٭ حکیماں مردہ را صورت نگارند ید موسیٰ دم عیسیٰ ندراند دریں حکمت دلم چیزے نہ دید است برائے حکمت دیگر تپید است ظاہر ہے کہ حکمت دیگر سے اقبال کی مراد وہ حکتم ہے جو زندہ خدا کو حقیقت کائنات مانتی ہو۔ خدا ہی وہ تصور حقیقت ہے جو سچے عشق کا منبع ہے اور جس کی فلسفی کو ضرورت ہے۔ اسی عشق سے کائنات کے راز ہائے سربستہ منکشف ہوتے ہیں۔ یہی وہ خون جگر ہے جس سے فلسفہ کو لکھا جاتاہے تو پھر نہ حالت نزع میں گرفتا ر ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے اور خدا کا عشق خدا کے رسول کے عشق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا: مے ندائی عشق و مست از کجاست ایں شعاع آفتاب مصطفی است عقل تصور حقیقت کے تابع رہتی ہے اور اس کی راہیں اتنی ہی ہیں جتنے کہ حقیقت کے تصورات موجود ہیں ۔لہٰذا اقبال نے عقل کو’’عقل ہزار حیلہ‘‘ کہا ہے سچے فلسفہ کا دارومدار محض عقل پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ خدا کا سچا عشق عقل کی راہ نمائی کرے۔ سچے عشق کا راستہ فقط ایک ہے اور وہی انسان کی صحیح منزل کی طرف جاتاہے لیکن عقل کے راستے ہزاروں میں۔ نشان رہ ز عقل ہزار حیلہ مپرس بیا کہ عشق کمالے زیک فنی دارد اسی طرح سے وہ علم شیطانی ہے جو خدا کے سچے عشق سے راہ نمائی نہیں پاتا۔ ایسا علم صحیح فلسفہ کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ لیکن وہ علم جو خدا کی محبت کے ماتحت وجود میں آئے پاکیز ہ اور صحیح ہوتا ہے اور صحیح فلسفے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ علم بے عشق است از طاغوتیاں علم باعشق است از لاہوتیاں ٭٭٭ نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خورد دل است ٭٭٭ بے محبت علم و حکمت مردہ عقل تیرے بر ہدف نا خوردہ ٭٭٭ بچشم عشق نگر تا سراغ او بینی جہاں بچشم خرد سیمیا و نیرنگ است ٭٭٭ وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم ٭٭٭ نقطہ ادوار عالم لا الہ منتہائے کار عالم لا الہ لا و الا احتساب کائنات لا و الا فتح باب کائنات ٭٭٭ حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم نگاہ چاہیے اسرار لا الہ کے لیے ٭٭٭ فلسفی را با سیاستدان بیک میزان مسخ چشم آں خورشید کورے دیدہ آں بے نے ایں تراشد قول حق را حجتے نا استوار آں بیارد قول باطل را دلیلے محکمے ہر علمی حقیت (حکمت کی بات) صرف ایک فلسفے کے ساتھ پوری مطابقت رکھتی ہے اور وہ وہی ہے جو صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور پر مبنی ہو لہٰذا جہاں سے وہ مل جائے اسے تلاش کر کے اس فلسفہ کا جزو بنا دینا چاہیے۔ گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں کیر را بینی بگیر چونکہ صحیح اور سچی حکمت جو دنیا کی آخری حکمت ہو گی خدا کی محبت یا خدا کے عشق کی بنیاد پر قائم ہو گی اور نوع بشر کو متحد کر کے انہیں دائمی امن سے ہمکنار کرے گی۔ اقبال اس بات پر زورتحریک کرتا ہے کہ خدا کہ محبت کے نظریہ کو ایک فلسفہ یا حکمت کی شکل دی جائے۔ ا س کے بغیر نہ تو خود یہ نظریہ قائم قبولیت حاصل کر سکے گا اور نہ ہی عالم انسانی غلط فلسفوں اور باہمی آویزشوں اور رقابتوں سے نجات پا سکے گا۔ اس قسم کا فلسفہ جب بھی وجود میں آئے گا ایک عالم گیر انقلاب اپنے ساتھ لاء گا اور ایک نئی دنیا پیدا کرے گا۔ عقل جس پر اہل مغرب کی زندگی کا دارومدار ہے عشق سے راہ نمائی حاصل کرتی ہے اور خدا کا عشق جو اہل مشرق کا امتیار ہے۔ عقل سے قوت حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا جب عقل اور عقل ایک دوسرے کے ہم دوش ہو کر ایک دوسرے کے ممدو معاون بن جائیں گے تو پوری دنیا کے اندر ایک انقلاب کا رونما ہو جانا ضروری ہو گا۔ غریباں را زیرکی ساز حیات شرقیاں را عشق رمز کائنات زیرکی از عشق گرد و حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہمبر بود نقش بند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بند عشق را با زیرکی آمیز وہ لیکن ان تمام علمی حقائق کو جنہیںانسان کی جستجوئے صداقت آج تک دریافت کر سکی ہے حقیقت کے صحیح تصور کے ساتھ منسلک کرنے کے بعد بھی تصور حقیقت کی تشریح اپنے کمال کو نہیںپہنچے گی کیونکہ قیامت تک نئے نئے علمی حقائق دریافت ہو کرا س حقیقت کی تشریح کے رشتہ میں منسلک ہوت یرہیں گے اور اس کو زیادہ سے زیادہ روشن اور واضح کرتے رہیں گے اسی لیے اقبال نے تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے دیباچہ میں مشورہ دیا ہے: ’’جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کی نئی نئی راہیں کھلتی جائیں گی ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیں گے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم انسان کی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے تصور حقیقت کی روشنی میں ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں‘‘۔ اسی خیال کو اقبال نے اس شعر کا جامہ پہنایا ہے: گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر لیکن اگر کوئی شخص آج حقیقت کی معرفت تامہ کا خواہس مند ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت کے ذریعہ سے حقیقت کے حسن و کمال کا ذاتی احساس یا تجربہ یا عشق پیدا کرے ورنہ نہ تو کوئی دانائے راز حقیقت کائنات کی مکمل تشریح کر سکتا ہے اورنہ ہی کس فرد بشر کے لیے ممکن ہے کہ فقط اس کی تشریح کو سن کر یا پڑھ کر کائنات کی مکمل معرفت حاصل کر سکے۔ حقیقت پہ ہے جامہ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ فروزاں ہے سینہ میں شمع نفس مگر تاب گفتار کہتی ہے بس زباں اگرچہ دلیر است و مدعا شیریں سخن ز عشق چہ گویم جزا لکہ نتواں گفت رومی نے اس خیال کو بڑے زور دار الفاظ میں ظاہر کیا ہے: ہرچہ گویم عشق را شرح و بیاں چوں بعشق آیم خجل ہاشم ازاں گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است لیک عشق بے زباں روشن ترا است چوں قلم اندر نوشتن مے شتافت چوں بعشق آمد قلم برخود شگافت چوں سخن در وصف ایں حالت رسید ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید عقل در شرجش چوخر دل گل نجفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلت باید از دے رومتاب اقبال ایک ایسا عاشق زات فلسفی اپنے عشق کی حکیمان توجیہ اس لیے کرتا ہے کہ تاکہ اس ک امطالعہ کرنے والا ان عقلی اور علمی قسم کی رکاوٹوں سے نجات پائے جو حقائق علمی کی غلط بینی غلط فہی اور غلط ترجمانی سے اس کے عشق کی راہ میں پیدا ہو گئی ہوں اور تاکہ وہ ان کی رکاوٹوں سے نجات پا کر اس کے عشق سے بہرہ اندوز ہوں اور پھر جب ا س کی محبت کا چراغ اس طرح سے روشن ہو جائے تو وہ بے اختیار عبدت اور ریاضت کی طرف متوجہ ہو اور پھر عبادت ارو ریاضت کے راستہ ہی سے اپنے عشق کو یہاں تک ترقی دے کہ اسے کم از کم اس غرض کے لیے جو خود حکمت کی بھی حاجت نہ رہے پہلے حکمت سے اس کا عشق پیدا ہو اورپھر اس کے عشق سے حکمت پھوٹتی اور بڑھتی اور پھولتی رہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر علمی حقیقت اصرف ایک ہی تصور حقیقت کے ساتھ عقلی اور علمی طور پر وابست ہے اور وہ خدا کا تصور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ک کائنات کا ہر ذرہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے ک خدا ہی کائنات کی سچی حقیقت ہے اس لیے قرآن حکیم نے کائناب ک ہر علیمی حقیقت کو ایک آیت نشان کہا ہے: وفی الارض ایت للمومنین (اور زمین میں خدا پر یقین رکھنے والوں کے لیے بہت سے نشانات ہیں) یعنی چونکہ کائنات کی علمی حقیقتیں صرف خدا کے تصور کے ساتھ جو کائنات کی صحیح اور اصلی حقیقت ہے مطابقت رکھتی ہیں اور کسی باطل تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں لہٰذ ا وہ خدا کی خدائی کے نشانات یا دلائل یا شہادتیں ہیں۔ سچا فلسفی یہی کرتا ہے کہ جس قدر حقائق تمام نوع بشر کے دائرہ علم یں داخل ہو چکے ہوں اور ان کو معروف اور مقبول علمی اور بنیادی عقلی معیاروں کے مطابق کائنات کی سچی حقیقت کے ساتھ وابستہ کر کے معلوم کائنات کے ذرہ ذرہ سے کہلواتا ہے کہ کائنات کی سچی حقیقت وہی ہے۔ وفی کل شی لہ ایتہ تدل علی انہ واحد اور اس طریق سے باطل کے تصورات حقیقت کے حق میں تمام ممکن شہادتوں کو ملیامیت کر دیتا ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ابھی نوع بشر کے احاطہ علم میں بہت کم حقائق عالم داخل ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ کم ہوں یا زیادہ سب اسی کے تصور حقیقت کی تائید کر رہے ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ غلط تصورات حقیقت کے حق میں جھوٹی شہادتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں ان کا دارومدار بھی تو ان ہی حقائق کی غلط ترجمانی پر ہوتا ہے۔ جب ہماری معلوم کائنات کا ہر ذرہ بلند آواز سے اس بات کی شہادت دینے لگ جائے کہ کائنات کی سچی حقیقت خدا ہے تو وہ ساتھ ہی اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ خدا کے سوائے تمام تصورات حقیقت باطل اور نامعقول ہیں۔ ومن یدع مع اللہ الھاً اخر لھا برھان لہ بہ اور جو شخص خدا کو چھوڑ کر کسی اور معبود کو پکارے اس کے پاس کوئی دلیل یا شہادت موجود نہیں ہو سکتی۔ اور جب پوری کائنت میں ایک بھی علمی شہادت کسی باطل تصور حقیقت کے حق میں باقی نہ رہے تو پھر باطل تصورات حقیقت کا باقی رہنا ناممکن ہو جاتاہے اور پھر حقیقت کائنات کے صحیح تصور پر قائم کیا ہوا نیا سچا فلسفہ دنیا بھر میں اشاعت پذیر ہوتا ہے اور کسی مزاحمت کے بغیر دنیا کے کناروں تک پھیل جاتا ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ تصورات حقیقت فقط علمی دلچسپی کے نظریات نہیں ہوتے بلکہ افراد اور اقوام کی علمی زندگی کی پوری عمارتیں ان بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہیںلہٰذا جب وہ علمی حیثیت سے ختم ہو جائیں تو ان تعمیرات کا ختم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو ان پر کھڑی ہوں اور جب ساری دنیا ہی باطل ہو تصورات حقیقت پر تعمیر پائے ہوئے ہو تو ایسی حالت میں اس نئے سچے فلسفے کا ظہور ہونا اور اشاعت پانا جو دونوں دنیائوںکی حقیقت کے مرغوب اور مروج تصورات کوباطل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ساری دنیا کے لیے ایک قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ باطل تصورات حقیقت کے پرستاروں میں سے کون ایسا ہو گا جو کسی فرد واحد کی ذات میں اس قیامت کو ابھرتا ہوا دیکھے اور اسے مٹانے کے درپے نہ ہو جائے۔ لہٰذا اس قسم کے زلزلہ خیز فلسفہ کو پیش کرنا بڑی جرات کی بات ہے جس کی توقع ہر شخص سے نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ وہ اپنے فکر کی تلوار سے اپنے ہم عصر لوگوں کی دونوں دنیائوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے۔ حکمت و فلسفہ ہمت مرے باید تیغ اندیشہ بروئے دو جہاں آختن است ٭٭٭ خوگر من نیست چشم ہست و بود لرزہ برتن خیزم از بیم نمود تاہم یہ قیامت آ کر رہتی ہے اور جب حقیقت کے باطل تصور ات مٹ رہے ہوتے ہیں ا ور ان کے اوپر کی عمارتیں بھی منہدم ہو رہی ہوتی ہیں تو اس عمل کے ساتھ ساتھ اس نئے سچے نظام حکمت کی بنیادوں پر ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے جسے عاشقان جمال ذات مل کر اپنی مرضی کے مطابق تعمیر کرتے ہیں اور ان کی مرضی خداہی کی مرضی ہوتی ہے گویا اس سے پہلے ان کے اور خدا کے درمیان یہ مکالمہ ہو چکا ہوتا ہے: گفتند جہان ما آیا بتومے سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برھم زن اور پھر خدا ان عاشقوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہی ہو گا اور تمہاری مزاحمت کرنے والے مٹا دیے جائیں گے: قدم بیباک تر نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست یہی وجہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ صحیح تصور حقیقت پر ایک نئے فلسفے کی تشکیل کریں: عشق چوں با زیرکی ہمبر بود نقش بند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بند عشق را با زیرکی آمیز دہ چونکہ اس وقت صحیح تصور حقیقت اپنی پوری صحت اور صفائی کے ساتھ صرف مسلمان قوم ہی کے پاس ہے جو خاتم الانبیاء کی دعوت و تعلیم کی حامل ہے ۔ ضروری ہے کہ یہ قوم اپنے نظریہ کی وجہ سے کسی جنگ و جدال کے بغیر وئے زمین پر غالب آئے: ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے جب ایسا ہو گا تو یقینا یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا حادثہ اور عظیم الشان انقلاب ہو گا لیکن یہ حادثہ اور یہ انقلاب ضمیر افلاک میں مخفی ہونے کے باوجود اقبال کی نگاہوں میں آشکار ہے: انقلابے کہ نگنجد ضمیر افلاک بینم و ہیچ ندانم کہ چسان مے بینم ٭٭٭ حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے اس حادثہ یا انقلاب کے بعد جو حیرت انگیز نئی دنیا کے وجود میں آئے گی اس وقت ہم میں سے کوئی ا س کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور کسی کو اس کا خیال بھی نہیں آ سکتا کہ مسجد میں نہ مکتب میں اور نہ مے خانہ میں: کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام مسجد و مکتب و مے خانے میں مدت سے خموش ٭٭٭ عالم تو ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کے سحر بے حجاب یہ بات حیر ت میں ڈالنے والی ہے اور اگر زبان سے کہی جائے تو اسے کون مانے گا کہ کفر اور شرک اور فسق و فجور اور جنگ و جدال کے ایک ایسے طویل دور کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں دنیا کے ایک کنار سے دوسرے کنار تک خدا پرستی اور نیکی اور امن اور صلح اور سلامتی کا دور دورہ ہو گا۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی لیکن اہل فرنگ جو اس وقت دنیا میں غالب ہیں اس بات کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ آخر کار مسلمان قوم ہی غالب رہے گی۔ سمجھنا تو درکنار وہ تو ا س با ت کو سننا بھی گوارانہیں کریں گے۔ پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب خود قرآن حکیم کے اندر عالم انسانی کے اس شاندار مستقبل کی پیش گوئی موجود ہے قرآن حکیم میں بڑی تحدی سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ ابنیاء کا نظریہ حیات ہی دنیا میں غالب رہے گا۔ اور دوسرے تمام نظریات مٹ کر فنا ہو جائیں گے۔ کتب اللہ لا تغلبن انا ورسلی (خدا نے لکھ دیا ہے کہ بے شک میں اور میرے رسول ہی دنیا میں غالب رہیں گے) انتم الا علون ان کنتم مومنین (اگر تم سچے مومن بنو گے تو تم ہی دنیا پر غالب رہو گے) لقد سبقت کلمتنا بعبادنا المرسلین انھم لھم المنصور ون وان جندنا لھم الغلبون (اور بے شک ہمارے پیغمبروں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ یقینا وہ مظفر و منصور ہو ں گے اور ہمارا لشکر ہی لازماً غالب رہے گا)۔ اور پھر جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے متعلق بالخصوص فرمایا گیا ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظہر علی الدین کلہ و کفی باللہ شھیدا منکرین نبوت فلسفیوں کو آج تک اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود بھی کائنات کی سچی حقیقت کا پورا علم نہیںہوا۔ حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم نگا چاہیے اسرار لا الہ کے لیے اگرچہ اس حقیقت کے علم کی طر ف انہوںنے کچھ پیش قدمی ضرور کی ہے دراصل فلسفہ اور نبوت دو مختلف راستو ںسے ایک ہی منزل یعنی حقیقت عالم کی نقاب کشائی کی منزل کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ نبوت خاتم النبیینؐ کے ظہور سے پہلے اپنی جگہ پر نہ پہنچ سکی تاہم اس کی رفتارکا ہر قدم صحیح راستہ پر اٹھا اور صحیح منزل کی طرف بڑھتا رہا۔ اور اس کے برعکس اگرچہ فلسفی جزوی اور محدود کامیابیاں حاصل کرتا رہا لیکن حقیقت کائنات کے صحیح تصور سے محڑوم ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر منزل سے دور ٹھوکریں کھاتا رہا۔ نبوت کاملہ کی راہ نمائی کے بغیر صحیح قسم کے وجدان سے آغاز کرنا اور لہٰذا صحیح عقلی استدلال کو پانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہر دو امیر کارواں ہر دو منزلے رواں عقل بحیلہ می کشد عشق برو کشاں کشاں نبوت کی ایک ووکوشش یہ تھی کہ انسان کو نظام عالم کی عقلی ترتیب کی تفصیلا ت میں لے جانے کی بجائے انسان کو اس کے ضروری حقائق کی واقفیت اس حد تک بہم پہنچا دی جائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے عمل پر آمادہ ہو جائے جس سے نہ صرف اس کی عملی زندگی درست اور پر امن او رخوشگوار ہو بلکہ جس سے اس کے اندر وہ صحیح وجدان حقیقت بھی پیداہو جائے جو بیک وقت حقیقت اور حقیقت کا بنیادی علم ہوتا ہے۔ اور جسکے بغیر وہ نہ تو حقائق کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکتا ہے اور نہ ان کی صحیح عقلی اور علمی ترتیب کو دریافت کر سکتا ہے۔ زندگی کو درست اور پرامن اور خوشگوار بنانا اور حقائق عالم کی عقلی ترتیب کا دریافت کرنا انسان کی یہ دونوں ضرورتیں ایسی ہیں کہ نبوت کی روشنی کے بغیر ان کی عکمیل ممکن نہیں لیکن انسان کی پہلی ضرورت فوری تکمیل کا تقاضا کرتی ہے۔ اور دوسری ضڑورت اس نوعیت کی ہے کہ اگرچہ اس کی تکمیل کے لیے انسان ہر روز قدم بڑھاتا ہے لیکن اس کی آخری اور پوری تکمیل نوع بشر کے علمی ارتقاء کے ایک خاص مقام پر ہی ہو سکتی ہے اس سے پہلے نہیں ہو سکتی یہی سبب ہے کہ نبوت اپنے کمال کو پہنچ کر بھی ہمیں نظام عالم کی عقلی منطق کی واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ صرف اس اعلیٰ قسم کے وجدان کی ترتیب کا اہتمام کرتی ہے جو آخر کار اس واقفیت کے حصول کے لیے ضروری ہے اور جس کے بغیر ہمارا عقلی استدلال کامل طور پر درست نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ نے ٹھیک سمجھا کہ نظام عالم ایک زنجیر کی طرح ہے جس کی ہر کڑی اگلی کڑی کے ساتھ ای عقلی اور عمی تعلق رکھتی ہے ۔ لہٰذا اسے یہی نظر آیا کہ وہ نہایت آسانی سے یہ سلسلہ عالم کی ساری کڑیوں کو عقل کی مدد سے دریافت کر لے گا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ہر بار اپنے غلط وجدان کو ہی ایک منطقی زنجیر کی شکل دیتا رہا اور لہٰذا ہمیشہ ناکام رہا۔ اگر فلسفہ ذرا جرات سے قدم اٹھاتا اورنبوت کاملہ کے تصور حقیقت کو جب کہ وہ دنیا کے اندر ظہور پذیر ہو کر اس کی تعلیم دے چکی تھی تو اپنا لیتا تو اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتیں اور وہ صحیح عقلی استدلال جو صدیوں سے اس کی جستجو کا محور رہا ہے اسے حاصل ہو جاتا لیکن جب تک فلسفہ اپنے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ چلتے چلتے نبوت کے تصور حقیقت کے قرب و جوار میں ایک خاص مقام پر نہ پہنچ پاتا یہ دلیرانہ قاقدام اٹھانا اس کے لیے ممکن نہ تھا خوش قسمتی سے اس بیسویں صدی میں طبیعیات‘ حیاتیات اورنفسیات کے اکتشافات کی وجہ سے فلسفہ کو یہ مقام حاصل ہو گیا ہے اور ا س کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے اقبال کی حکمت میں تعلیم نبوت کی اصل یعنی توحید یا حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ساتھ پیوست ہونے کا دلیرانہ قدم بھی اٹھا لیا ہے۔ اقبال کافلسفہ خودی نبوت کے عطا کیے ہوئے تصور حقیقت کی ایسی تشریح بہم پہنچاتا ہے جس میں آج تک کے دریافت کیے ہوئے تمام عملی حقائق سموئے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی کہ مستقبل کے عملی حقائق بھی اس کے اندر کیوں سموئے نہ جا سکیں گے۔ فلسفہ کے اس دلیرانہ قدم نے اب راہ گم کردہ عقل کو اپنی منزل مقصود پر پہنچا دیا ہے اور اب اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ وہ اس کے بعد بھی بھٹکتی رہے گی۔ اگرچہ اسے عالمگیر انسانی سطح پر سمجھنے کے لیے کچھ وقت لگے گا کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے اور اس کے آگے اب اس کی کوئی منزل نہیں: در جہان کیف و کم گردید عقل پے بہ منزل برو از توحید عقل ورنہ ایں بے چارہ را منزل کجاست کشتی ادراک را ساحل کجاست اقبال کا مقام عظیم تعلیم نبوت اور افلسفہ کا یہ اتصال انسان کے علمی ارتقا کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو نوع انسانی کو ترقی کے ایک نئے دو رمیں داخل کرتا ہے اور اقبال اس دور کا نقیب ہے اس واقعہ سے اس عالمگیر ذہنی انقلاب کا آغاز ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور جس کے نتیجہ کے طور پر مسلمان قوم دنی امیںغالب ہو گی اور عالم انسانی امن اور اتحاد کی دولت سے مالا مال ہو گا۔ اس واقعہ سے حقیقت انسان کا علم جس پر انسان کے دائمی امن اور اتحاد کا دارومدار ہے۔ پہلی دفعہ ایسی منظم صورت میں سامنے آیا ہے جو دور حاضر کے انسان کو مطمئن کر سکتی ہے اور جو اس کی عالم گیر مقبولیت کی ضامن ہے۔ اقبال مسلمانوں کو نہایت زور دار الفاظ میں ’’عشق‘‘ اور ’’زیرکی‘‘ کی جس آمیزش کی دعوت دیتا ہے وہ خود ہی اس کا آغاز کرتا ہے اور اس طرح سے خود ہی ’’عالم دیگر]‘ کی بنیاد رکھتا ہے۔ گویا اقبال آئندہ کے لی اس عالمگیرذہنی انقلا ب کا نقیب ہی نہیں بلکہ بانی بھ ہے جس کے بعد اور کوئی ذہنی انقلاب نہیں آ سکے گا لہٰذا اقبال آئندہ کی مستقل عالمگیر ریاست (World State)کا وہ ذہنی اور نظریاتی بادشاہ ہے جس کی بادشاہت کو زوال نہین ایک معمولی آدمی کیلیے جو رسول نہیں بلکہ رسولؐ کا ایک ادنیٰ غلام ہے عظمت کایہ مقام اس قدر بلند ہے کہ اس سے بلند تر مقام ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اقبال اپنے اس مقام سے آگاہ ہے یہی سبب ہے کہ وہ بار بار اپنے اشعارمیں یہ کہتا ہے کہ اسے زندگی کے راز سے آشنا کیا گیا ہے آج تک کسی شخص نے کائنات کے وہ اسرا ر ورموز بیان نہیں کیے ہیں جو اس نے بیان کیے ہیں۔ اس کی حکمت معانی اور ھقائق کے بیش قیمت موتیوں کی ایک لڑی ہے جس کی کوئی نظیر آج تک پیش نہیں کی گئی ۔ اگرچہ وہ ایک ذرہ ہے لیکن سورج کی روشنی سے ہم کنار ہے ۔ علم و حکمت کے نور کی سینکڑوں صبحیں اس کے گریبان میں روشن ہیں۔ اس کی خاک جام جم سے زیادہ منور ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے۔ اس کے فکر کی رسائی ان حقائق تک ہوتی ہے جو ابھی دوسرے لوگوں پر آشکار نہیں ہوتے۔ چشمہ حیواں براتم کردہ اند محرم راز حیاتم کردہ اند ہیچ کس رازے کہ من گوتم نگفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت ذر ام مہر میز آن من است صد سحر اندر گریبان من است خاک من روشن ترا از جام جم است محرم از نازاد ہائے عالم است فکرم آں آہو سرفتراک بست کو ہنوز از نیستی بیرون نجست ٭٭٭ برآمد روزگار ایں فقیرے دگرد انائے راز آید نہ آید ٭٭٭ عمرہا در کعبہ و بت خانے مے نالد حیات تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں ٭٭٭ وہ جانتا ہے کہ اگر چہ آج کا انسان اپنی علمی بے مائیگی اورروحانی پس ماندگی کی وجہ سے پوری طرح اس کی قدردانی نہ کر سکے گا تاہم مستقبل میں پوری نو ع بشر اس کے افکار کو اپنائے گی اور اس کی فکری قیادت کو قبو ل کرے گی وہ تنہا نہیں رہے گا بلکہ سینکڑوں کارواں اس کے ہمراہ ہوں گے‘ وہ صبح عنقریب نمودا ر ہونے والی ہے جب لوگ جہالت کی نیند سے اٹھیں گے اور محبت کی اس آگ کے گرد جو اس نے روشن کی ہے آگ کے پجاریوں کی طرح ذوق و شوق سے جمع ہوں گے وہ مستقبل کے شاعر کی آواز ہے اور ایسا نغمہ ہے جسے زخمہ در کی حاجت نہیں اور جو ہر حالت میں بلند ہو کر رہے گا۔ اس کا کلام ایک عالم گیر انقلاب اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے جب یہ انقلاب آئے گا تو لوگ ا س کے اشعار پڑھ پڑ کر جھومیں گے اور کہیں گے کہ یہ وہ مرد خود آگاہ ہے جس نے دنیا کو بدل دیا ہے: عصر من دا نندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نغمہ من از جہان دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است نغمہ ام از زخمہ بے بروا ستم من نوائے شاعر فردا ستم بچشم کم مبین تنہا میم را کہ من صد کارواں گل درکنارم قلزم یاراں چو شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفان فروش انتظار صبح خیزاں مے کشم اے خوشا زر دشتیان آتشم ٭٭٭ پس از من شعر من خوانند دمے رقضد و می گوئند جہانے راہ دگرگوں کودیک مرد خود آگاہ ہے اقبال کی خود ستائی ٹھوس علمی حقائق ہیں اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اقبال کے اس قسم کے اشعار محض خودستائی کے جذبات یا شاعرانہ تعلیات پر مشتمل نہیں بلکہ ایسے ٹھوس حقائق کو بیان کرتے ہیں کہ جو مضبوط علمی اور عقلی بنیادوں پر قائم ہیں جو اس کے فلسفہ کا جزو لاینفک ہیں اور جن کا اظہار اس کے لیے خود اپنے فلسفہ کی تشریح کے لیے ضروری تھا کہ اگر اقبال ان کا اظہار نہ کرتا تو اس کا فلسفہ ناتمام رہ جاتا اور یہ ایک ایسی فروگزاشت ہوتی جس کی وجہ سے اقبال کی قوم ایک حد تک اس کے فکر کی معقولیت اوراہمیت سے نا آشنا رہ جاتی۔ اقبال کا امتیاز اس کے جواب میں شاید یہ کہا جائے گا کہ آج تک کوئی غیر مسلم فلسفی ایسا نہیں ہوا کہ جو نبوت کاملہ کے تصور حقیقت پر اپنے فلسفہ کی بنیاد رکھتا ہو تویہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے لیکن اگر اقبال سے پہلے بھی کوئی ایک بھی مسلمان فلسفی گزرا ہے تو اس کے فلسفے کی بنیاد لازماً خدا کے اسلامی تصور پر ہو گی تو پھر اقبال کی خصوصیت کیا ہے پھر کیوں نہ اس مسلمان فلسفی کو نوع بشر کا آخری فلسفی اور آئندہ کے عالمگیر ذہنی انقلاب کا بانی قرار دیا جائے اور پھر اس سلسلہ میں شاید شاہ ولی اللہ اور محی الدین عربی ایسے اکابر اسلا م کا نام لیا جائے لیکن اس زمانے کے خاص ذہنی حالات اور خاص علمی ماحول اور مقام کی بنا پر اقبال کے فلسفہ کو جو خصوصیات حاصل ہوئی ہیں وہ آج سے پہلے کسی مسلمان فلسفی کے فلسفہ کو حاصل نہیں ہو سکتی تھیں اور نہ حاصل ہو سکی ہیں۔ اقبال کے امتیازی مقام کی وجوہات پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال کے اس زمانہ میں حکمائے مغرب کی تحقیق و تجسس کی بدولت علم کے تینوں شعبوں یعنی طبیعیات حیاتیات اور نفسیات میں علمی حقائق نے اس سرعت سے ترقی کی ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی یہ ترقی سائنس کے ایک خاص اسلوب تحقیق کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جو اشیا کے خواص و اوصاف کے مشاہدہ کی بنا پر پوری احتیاط کے ساتھ صحیح صحیح علمی نتائج مرتب کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہ اسلوب تحقیق سب سے پہلے خود مسلمانوں نے قرآن کی راہ نمائی میں ایجاد کیاتھا لیکن محققین یورپ نے اس سے متواتر کام لیا ہے اور اس کو اس کا میٹھاپھل علمی حقائق کے ایک بیش بہا ذخیرہ کی صورت میں جسے ہم سائنس کہتے ہیں دستیاب ہوا ہے۔ پھر اس دور میں علمی تحقیق و تجسس کی کامیاب تحریک انسان اور کائنات کو ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے سمجھنے کی مختلف کوششوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ہر ایک نے دریافت شدہ علمی حقیقتوں کو حقیقت عالم کے کسی تصور کے ساتھ ان کے مرکز یا محور کے طور پروابستہ کر نے کی کوشش کی ہے یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے حقیقت عالم کا غلط تصور قائم کیا ہے اور اس کے اردگرد حقائق علمی کی تنظیم بھی غلط طور پر کی ہے۔ سائنس کے خاص اسلوب تحقیق کی وجہ سے فلسفہ کی دنیا میں ایک نیا طرز استدلال وجودمیں آیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ کوئی حقائق نظر انداز نہ ہونے پائیں حقائق کا معائنہ کامل احتیاط سے کیا جائے اور نتائج وہی اخذ کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور یہ طرز استدلال علمی دنیا میں آئندہ کے لیے ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اقبال نے ایک عرصہ تک یورپ میں رہ کر تعلیم پائی ہے اور اس دوران میں جیسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ وہ یورپ کی علمی ترقیات اور حکمت مغرب کی خصوصیات سے پوری طرح متاثر ہوا ہے۔ خرد افروز مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں علمی تحقیق و تجسس کی اروپائی تحریک نے اقبال کو بھی آمادہ کیا کہ وہ انسان اور کائنات کو ایک کل کے طور پر سمجھے لیکن اقبال کی یہ آمادگی اس کے مخصوص نفسیاتی ماحول کی وجہ سے مغرب کے باطل فلسفوں میں ایک اور غلط مشرقی فلسفہ کے اضافہ کا موجب نہیںہوئی بلکہ ان باطل فلسفوں کے خلاف اور ان فلسفوں کے زہر سے انسانیت کو بچانے کے لیے مہربان قدرت کے مفید ارو کامیاب ردعمل کی صورت اختیار کر گئی ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ ایک جسم حیوانی کے اندر ایک مہلک مرض کے جراثیم کے داخل ہونے ترقی پانے اور زہر پیدا کرنے کے بعد جسم حیوانی کے نمو اور تحفظ کے لیے کارفرما ہونے والی قوت حیات ایک رد عمل کرتی ہے۔ اور ضد سرایت (Anti-Toxin) مواد پیدا کر کے جراثیم کی ہلاکت اور جسم انسانی کی صحت کا اہتمام کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کے ذریعہ سے قدرت نے ایک ایسے فلسفہ کو نمودار کیا ہے جس کی روشنی میں نہ صرف مغرب کے موجودہ غلط فلسفوں کا کافی اور شافی جواب اور ابطال بالقوہ موجود ہے لہٰذا یہی فلسفہ ہے جو آگے چل کر پوری نوع انسانی کا فلسفہ بننے والا ہے قدرت کی عادت ہے کہ جب انسانوں کی قدرتی بدنی یا روحانی ضروریات کی تشفی میں کوئی شدید رکاوٹ پرورش کے لوازمات مہیا کرنے کے لیے ایک معجزانہ قدم اٹھاتی ہے اسی عادت کی وجہ سے جسم حیوانی مرض کے خلاف رد عمل کر کے صحت مند ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جب غلط نظریات اور تصورات اشاعت پذیر ہو کر عالم انسانی کو غلط راہوں پر لیے جا رہے ہوں تو اس میں ایسے دانائوں مفکروں اور راہنمائوں کا ظہور ہوتا ہے جو ان غلط تصورات کا ابطال کر کے انسانیت کو زندگی کے صحیح راستوں پر واپس لاتے ہیں۔ اقبال کا مخصوص نفسیاتی ماحول اقبال کے مخصوص نفسیاتی ماحول نے ممکن بنا یا ہے کہ وہ اپنے فلسفہ کی بنیاد حقیقت کائنات کے صحیح تصور پر رکھے اور اس نفسیاتی ماؤحول میں اس کا مسلمان ہونا اور پھر مسلمانوں میں بھی تصوف زہد اور ریاضت کا ذوق رکھنے والے ایک خاندان کا ہونا ارباب نظر اور اہل دل بزرگوں کی سحبت سے شغف رکھنا اور اس کی جستجو کرنا حتیٰ کہ اس کے حصول کے لیے کسی موقع کو نظر انداز نہ کرنا اس سے متواتر مستفید ہوتے رہنا عربی اور فارسی کے علوم اور اسلام کے علماء اور حکماء اور صوفیا کی کتابوں کا مطالعہ کا ذوق رکھنا اسے عناصر شامل ہیں جو اس ماحول نے اسے نبوت کے عطا کیے ہوئے صحیح تصور کائنات کے وجدان سے آشناسی نہیںکیا بلکہ اس تصور کے حسن و جمال کے ایک طاقت ور قلبی احساس یا عشق کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ خرد افروز مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے: مے نہ روید نحم دل از آب و گل بے نگاہے از خداوندان دل اقبال بنیادی طور پر ایک صوفی یا درویش ہے شاعر یا فلسفی نہیں افسو س ہے کہ اقبال کے غیر مبہم الفاظ میں بار بار کہنے کے باوجود ہم بالعموم اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ گویا اقبال ایک شاعر بھی ہے اور ایک فلسفی بھی تاہم بنیادی طور پر وہ نہ فلسفی ہے اور نہ شاعر بلکہ ایک درویش یا صوفی ہے اس کا شاعرانہ کمال اور اس کا حکیمانہ جوہر دونوں اس کے وجدان یا عشق کے خدمت گزار ہیں۔ اس کی ساری ذہنی کاوشوں کا حاصل یہ ہے کہ اس نے فلسفہ کی معروف اور دور حاضر کے انسان کے لیے قابل فہم زبان میں اپنے روحانی تجربہ یا عشق کی ترجمانی کی ہے اور اس عمل کے دوران میں جو فلسفیانہ افکار و تصورات اس کے ہاتھ لگے ہیں ان کو شعر کے زوردار اور پرا ثر طرز بیان کا جامہ پہنایا ہے۔ دوسرے شاعروں کی طرح محبت مجاز کی داستانوں اور غزلوں سے سننے والوں کا دل لبھانا اس کا مدعا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شاعر کے لقب کو جو بعض وقت اس کے نادان دوست اس پر چسپاں کرتے ہیں بڑے زور سے رد کرتاہے: نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثال شاعراں افسانہ بستم ٭٭٭ مدار امیدز ان مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست ٭٭٭ نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہاز ایست سوئے قطارے کشم ناقہ بے زمام را ٭٭٭ او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن کم نظر بے تانبے جانم ندید آشکارم دید و پنہانم نہ دید اقبال مولانا سلیمان ندوی کو اپنے ایک خط میں مورخہ 14 اگست 1913ء میں لکھتے ہیں: ’’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیںسمجھا ۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات اور روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے: نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست‘‘ اسی طرح اپنے ایک خط مورخہ 27 ستمبر 1913ء میں خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں: ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کوشاعر تصور نہیں کرتا اور نہ کبھی بحیثیت فن کے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ پھر میرا کیا حق ہے کہ میں صف شعرا میں بیٹھوں‘‘۔ اوپر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح سے اقبال اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ تمام ایسے فلسفے جو خدا کیمحبت یا بالفاظ دیگر حقیقت کائنات کے صحیح تصور سے عاری ہوں اور لہٰذا حقیقت کے غلط یا ناقص تصورات پر مبنی ہوں بے ہودہ اور بیکار ہیں اگر اقبال خود خدا کی محبت سے بہرہ ور نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی اس قیمتی حکیمانہ نتیجے پر پہنچ سکتا۔ اور یہ ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ خود اقبال کا دعویٰ بھی ہے کہ اسے روحانیت کا ایک درجہ اور معرفت حق تعالیٰ کا ایک مقام عطا کیا گیا ہے اس درجہ معرفت اور مقام محبت کو وہ افروزش سینہ سو دروں‘ ذو ق نگاہ‘ بادہ ناب وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتاہے اور اپنے لیے درویش فقیر ‘ قلندر ایسے القاب استعمال کرتا ہے جو صوفیا کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں: خرد افزد و مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخٹ مرا صحبت صاحب نظراں ٭٭٭ درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمرقند ٭٭٭ سر آمد روزگار ایں فقیرے دگرد انائے راز آید نہ آید ٭٭٭ قلندر جزو حرف لالہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے مجازی کا ٭٭٭ اے پسر ذوق نگاہ از من بگیر سوختن در لا الہ از من بگیر ٭٭٭ مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے ٭٭٭ از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد من ناید چومن مرد فقیر ٭٭٭ عصر حاضر را خرد زنجیر پاست جان بیتابے کہ من دارم کجاست ٭٭٭ اعجمی مردے چہ خوش شعرے سرود سوز و از تاثیر او جان در وجود ٭٭٭ جوہر انسانی کے اوصاف و خواص جہاں اقبال کے نفسیاتی ماحول نے اسے خدا کی محبت سے بہرہ ور کیا ہے وہاں اس کے جدید علمی ماحو ل نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی افعال و اعمال کے متعلق اپنے ان نظریات اور معتقدات کی علمی اور عقلی بنیادوں کو معلوم کر سکے جو اسے قرآن سے دستیاب ہوئے ہیں۔ اس علمی ماحول کی وجہ سے اس پر یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ یہ نظریات اور معتقدات جوہر انسانی کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہیں۔ وہ جوہرانسانی کو خودی کی حکیمانی اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور ایک سائنس دان کی طرح روز مرہ کے مشاہدات کی روشنی میں اس کے عملی اثرات و نتائج کا جائزہ لیتاہے اور ان کی روشنی میں اس کے قدرتی و ازلی اور ابدی اوصاف و خواص کی تشریح کرتا ہے۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے اور یہ اتفاق علمی اور عقلی نقطہ نظر سے قرآن حکیم کی صداقت کی دلیل ہے کہ یہ اوصاف و خواص قرآن کی تعلیمات کے عین مطابق ہیںیہی وجہہے کہ اقبال کا فلسفہ خود ی ایک طرف انسان کی سائنس ہے اور دوسری طرف سے قرآن حکیم کی تفسیر ہے جس طرح سے ہم کارل مارکس کے فلسفہ کو اس تصور سے الگ نہیں کر سکتے کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے۔ خدا کی ان صفات کے ساتھ جو نبوت کاملہ کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں اقبال کی حکمت میں خدا کا اسلامی تصور جو اسے اس مخصوص نفسیاتی ماحول سے ما تھا محض ایک عقیدہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسی علمی حقیقت کے طور پر پیش ہو اہے جو انسانی جوہر کے اوصاف و خواص سے ایک ناگریز نتیجہ کے طور پر اخذ ہوتی ہے اور اجس کے ڈانڈے تمام دوسرے علمی اور عقلی تصورات یعنی طبیعتیات ‘ حیاتیات اور نفسیات کے حقائق سے جا ملتے ہیں نتیجہ یہ ہو ا ہے کہ اقبال کے ہاں حقیقت انسان کا مسئلہ فقط وحی کی روشنی میں ہی نہیں بلکہ جدید علمی حقائق کی روشنی میں اور جدید طرز استدلال کی مدد سے حل ہوا ہے۔ اقبال کی حکمت میں یہ بات پہلی دفعہ آشکار ہوئی ہے کہ خدا کا تصور تمام علمی حقائق کے ساتھ انسان کی زندگی کے تمام ضروری شعبوں کے ساتھ کیا علمی او ر عقلی مناسبت رکھتا ہے اوراس تصور کی یہ مخفی استعداد کہ صرف وہی کائنات کے تمام موجودہ اور آئندہ حقائق کی معقول تشریح اور مکمل تنظیم کر سکتا ہے۔ علمی تحقیق و تجسس کے دائرہ میں آگئی ہے اور یہ مذہب اور علم دونوں کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ مذہب ایک سائنس کب بنتا ہے مذہب انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات کو ضروری سمجھتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ معتقدان کون سے ہیں اور کیوں ضروری ہیں اور کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں۔ مذہبی معتقدات کے لیے جس حد تک کہ وہ صرف مذہبی معتقدات ہیں یہ ضروری نہیںکہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت بھی رکھیں یا علمی اور عقلی معیاروں کی رو سے درست بھی ثابت ہو سکیں۔ سائنس بھی حقیقت انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات پیش کر تی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ یہ معتقدات ہماری زندگی کے مقاصد کے پیش نظر کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں لیکن سائنس کے معتقدات اشیا کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہوتے ہیں اور تجربات ومشاہدات سے معلوم کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق درست تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ اگر کسی وقت اشیاء کے اوصاف اور خواص کے علم کی ترقی کی وجہ سے کسی مذہب پر ایک دور ایسا آ جائے گا کہ اس کے معتقدات بھی اشیا کے قدرتی اوصاف اور خواص پر مبنی ہو جائیں تو پھر وہ مذہب سائنس بن جاتا ہے اور اس میں اور سائنس میں کوئی فرق باقی نہیںرہتا ۔ اقبال پہلا مسلمان فلسفی ہے جس نے بتایا کہ مذہب اسلام کے معتقدات ایک خاص چیز کے قدرتی اوصاف وخواص پر مبنی ہیں جن کے علم کی طرف انسانی زندگی کے وہ حقائق جو مشاہدات پر مبنی ہیں راہ نماء کرتے ہیں اور وہ چیز انسانی انا یا خودی ہے لہٰذا اقبال کے فلسفہ میں مذہب اسلام ایک سائنس کی صورت اختیار کر گیاہے اور یہی اقبال کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ اسلا م کا یہ قدم جو آگے کو اٹھ چکا ہے اب واپس نہیں آ سکتا بلکہ اسی سمت میں اس سے بھی اگلے قد موں کی طرف راہ نمائی کرے گا۔ اب آئندہ جو بھی حقائق علمی دریافت ہو تے جائیںگے۔ اسلام کی سائنس کے عناصر بنتے جائیں گے۔ ا ب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ اسلام کو ایک نظام افکار کی شکل دینے کے لیے تصوف کے ان مفروضات کا سہارا لیا جائے جو قرون وسطیٰ کے صوفیوں نے ایجاد کیے تھے اور جنہیں اب تک حکمت اسلام کے عناصر خیال کیا جاتا رہا ہے اقبال خود لکھتے ہیں: ’’اب اسلام قرون وسطیٰ کے اس تصوف کی تجدید کو روانہ رکھے گا جس نے اس کے پیروئوں کے صحیح رجحانات کو کچل کر ایک مبہم تفکر ی طرف اس کا رخ پھیر دیا ہے اس تصوف نے گزشتہ چند صدیوں میںمسلمانوںکے بہترین دماغوں کو اپنے اندر جذب کر کے سلطنت کو معمولی آدمیوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھا۔ جدید اسلام اس تجربہ کو دہرا نہیں سکتا۔ اسلام جدید تفکر اور تجربہ کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور اب کوئی ولی یا پیغمبر اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکیوں کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا‘‘۔ اصلاح خودی کی برکتیں جوہر انسانی کے لیے خودی حکیمانہ اصطلاح کو کام میں لانے سے فطرت انسانی کے صحیح اسلامی تصور کے ساتھ علمی حقائق کی مطابقت علمی تحقیق اور عقلی محاکمہ کے دائرہ میں آ گئی ہے اوراقبال کے فلسفہ میںیہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ حال اور مستقبل کے تمام صحیح علمی حقائق کو اپنے اندر جذب کر سکے چونکہ خودی کا تصور صحیح ہے اور سائنسی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن حقائق کو سائنس دان تجربات اور مشاہدات کے ایک طویل عمل کے بعد دریافت کرتا ہے اقبال ان کو بلا دقت اور نہایت آسانی کے ساتھ خودی کی فطرت سے اخذ کرتاہے اس قسم کے تصورات میں سے ایک ارتقا کا تصور ہے جس کا سبب (Cause)اقبال کے ہاں خودی کی فطرت سے ماخوذ ہے اور جس کا طریقہ بھی ہم نہایت آسانی سے خودی کی فطرت سے اخذ کر سکتے ہیں۔ اس بیسویں صدی میں علم کے ہر شعبہ میں سچی علمی حقیقتوں کی تعداد یہاں تک ترقی کر گئی ہے کہ جب ہم حکمت اقبال کے اندرونی تصورات کو ایک عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں ان حقیقتوں کو اس ترتیب کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لانا چاہین تو علمی حقیقتوں کی کوئی ایسی کمی محسوس نہیں کرتے جو ہماری کوششوں کو کامیابی سے باز رکھ سکے۔ بلکہ ہماری کوششیں یہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور خلائوں کی تعداد اور طوالت یہاں تک کم ہوتی ہے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل عقلی یا منطقی نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر یہ کام اس بنا پر اور آسان ہو جاتا ہے کہ سچی علمی حقیقتوں کے موجودہ ترقی یافتہ مواد ہی سے بعض ضروری علمی حقیقتیں اقبال کی حکمت کے اندر خود اقبال کے ہاتھوں سے پہلے ہی داخل کر دی گئی ہیں۔ ان اندرونی حقیقتوں کی وجہ سے اقبال کی حکمت کے ساتھ بیرونی علمی حقیقتوں کی علمی اور عقلی مناسبت اور مطابقت نہایت آسانی کے ساتھ واضح ہو گئی ہے جس سے اس حکمت کے اندرونی حصوں کو بیرونی حصوں کے ساتھ جوڑنے کا کام آسان ہو گیا ہے۔ فلسفہ خودی کائنات کا آخری فلسفہ ہے حکمت اقبال کی یہی خصوصیات ہیں جو اسے کائنات کا وہ آخری فلسفہ بنا دیتی ہیں جو ہر دور کے باطل فلسفوں کا مسکت اور تسلی بخش جواب ہو۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی کے زمانہ میں اس قسم کے فلسفہ کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔ آج اگر مسلمان یاکوئی اور قوم جدلی مادیت (Dialectiacal Materialism)کا معقول علمی جواب دینا چاہے جسے دور حاضر کا انسان سمجھ سکے تو وہ صرف اقبال کے نظام حکمت سے ہی پیداکیا جا سکتا ہے۔ کسی اور فلسفہ سے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ انسان اور کائنات کی سچی حقیقت کو سمجھنے کے لیے جس قسم کی ذہنی رکاوٹیں کسی زمانہ میںپیدا ہوتی ہیں قدرت ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے علاج بھی ویسا ہی کرتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی اپنے مزاج کے لحاظ سے اپنے دور کے فلسفوں کی تمام ظاہری خصوصیات سے حصہ لیتا ہے تاکہ ان کا تسلی بخش جواب بن سکے۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابن عربی ایسے اکابر کے فلسفے اپنے زمانہ میں باطل فلسفوں کا جواب تھے۔ لیکن اس زمانہ کے یا آنے والے زمانہ کے باطل فلسفوں کا جواب نہیںاورنہ بتائے جاسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے اسلامی تصور پر مبنی ہونے کے باوجود وہ جدید علمی حقائق کی عقلی او رمنطقی حدود کے کسی نکتہ پر بھی نہ ان سے اتصال پیدا کرتے ہیں اورنہ ٹکراتے ہیں لہٰذا ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایک ایسے جدید نظام حکمت کی سورت اختیار کر سکیںجو عقلی اور منطقی طور پر مسلسل ہو اور جس میں حال اور مستقبل کے تمام علمی حقائق سموئے جا سکیں۔ اقبال کے علاوہ دوسرے تمام مسلمان فسلفیوں کے فلسفے فلسفہ اسلام کے ارتقاء کے وہ مراحل ہیںجو گزر چکے ہیں اقبال کا فلسفہ ان تمام مراحل سے آگے کافلسفہ ہے جو گزشتہ مراحل کے تمام حاصلات کو بھی اپنے اندر جمع کرتا ہے لیکن اب گزشتہ مرحلوں میں سے کوئی مرحلہ اس کو ہٹا کر اس کی جگہ نہیں لے سکتاکیونکہ ان میںکوئی فلسفہ ایسا نہیں جو اپنے اندرونی استدلال کو وسعت دے کر ایک جدید انسانی اور اجتماعی فلسفہ بن سکے اور آئندہ عالمگیر ریاست کو اپنے سیاسی یا اقتصادی یا اخلاقییا تعلیمی یا قانونی یا معاشرتی یا اطلاعاتی نظام کے لیے قابل فہم علمی تصورات بہم پہنچا سکے۔ یہ نکتہ نہایت ہی اہم ہے اور جس قدر جلد اس پر ہم حاوی ہو جائیں ہمارے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا کیونکہ اتنا ہی ہم اپنی قوتوں کو اور فلسفوں کی جستجو یا نشر و اشاعت پر صرف کرنے کے بجائے اس فلسفہ کی تفہیم اور نشر و اشاعت کے لیے آزاد کرسکیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں قدیم اسلامی فلسفوں کا بھی مکمل مطالعہ کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے دیکھا جائے کہ ان کے اندر کون سے تصورات ایسے ہیں جن کے مضمرات یا نتائج جدید فلسفہ اسلام یعنی فلسفہ خودی کی تنظیم اور ترتیب کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے عمدہ اور دل نشین طرزبیان مہیا کر سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ہم ان قدیم فلسفوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مستقبل میں پوری نوع انسانی کو اپنے دامن میں لینے والا اور زندگی کے نظری اور عملی پہلوئوں کے لیے پوری روشنی پہنچانے والا فلسفہ اسلام صرف ایک ہی ہے اور وہ فلسفہ خودی ہے یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر اقبال کو یہ کہنا زیب دیتا ہے : ہیچ کس رازے کہ می گوئم نہ گفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت اقبال کے افکار حکمت مغرب سے ماخوذ نہیں بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اقبال نے اپنے تصورات حکمائے مغرب سے مستعار لیے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کی نگاہ میں اقبال پر لکھنے یا ریسرچ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے ماخذ کو حکمت مغرب میں تلاش کیا جائے اور اسے وہ ایک نہایت ہی ضروری اور بڑا عظیم الشان کام سمجھتے ہوں جو لوگوں کو اقبال پر کرنا چاہیے دراصل یہ لوگ مادی علوم میں مغرب کے تفوق سے مرعوب ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان انسانی علوم میں بھی جس کو اقبال نے اپنے غور و فکر کا موضو ع بنایا ہے۔ کہاں کوئی مشرق کا آدمی مغرب سے الگ راہیں پیدا کر سکتا ہے۔ حالانکہ حکمائے مغرب کو خود اعتراف ہے کہ وہ انسانی علوم میں کوئی ترقی نہیں کر سکے یہ لوگ اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ تما م حکیمانہ افکار کسی نہ کسی تصور حقیقت کے اجزاء و عناصر کے ہوتے ہیں اس کی تشریح اور تفسیر کرتے ہیں اور اس کے اردگرد ایک نظام حکمت بناتے ہیں اقبال کا تصور حقیقت اسلام کا خدا ہے جس کے لیے وہ خودی عالم کی فلسفیانہ اصطلاح کام میں لاتا ہے اور مغرب میں ایک بھی فلسفی ایسا نہیں ہے جس کا تصور حقیقت اسلام کا خدا ہو لہٰذا ممکن ہی نہیں کہ کسی مغربی حکیم کا کوئی تصور اپنی اصلی حالت میں اقبال کے کام آ سکے اس میں شک نہیں کہ خودی (Self)کی فلسفیانہ اصطلاح بعض حکمائے مغرب میں بھی استعمال کی ہے لیکن ان میں کسی کے ہاں اس اصطلاح کے معنی وہ نہیںلیے گئے ہیں جو اقبال نے لیے ہیں اور جس کے منطقی یا عقلی مضمرات یا نتائج اسلام کے خدا کی صفات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں اگر اقبال کے فلسفہ کا مرکزی تصور خودی کا اپنا تصورہے جو کسی اور فلسفی کے ہاں موجود نہیں تو پھر ضروری ہے کہ اقبال کے اس مرکزی تصور کے مضمرات اورمتضات بھی اس کے اپنے تصورات ہوں اگرچہ ان میں سے بعض ایسے ہوں جو کچھ مغربی فلسفیوں کے تصورات سے مشابہت رکھتے ہوں اور بظاہر ان سے مستعار نظر آتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایک فلسفی جب اپنے تصور حقیقت کی تشریح یا ترجمانی کرے گا اور اس کے نتائج اور مضمرات پر بحث کرے گا تو اس غرض کے لیے ان ہی حقائق کو کام میں لائے گا جو اس کی تعلیم و تربیت اور مطالعہ اور مشاہدہ نے اس کے دائرہ علم میں داخل کر رکھے ہوں گے لیکن یہ حقائق ا س کے تصور حقیقت کے رشتہ میںمنسلک ہوتے وقت اس تصور کے رنگ میں اس طرح سے رنگے جائیں گے کہ وہ عقلی اور منطقی طورپر اسی کے مضمرات بن جائیں گے اقبال کے معلوم حقائق اسے اپنے تصور حقیقت کے نتائج کے استخراج اور استباط میں اس کی مدد کرتے ہیں اس کے لیے ایک اکساہٹ کا کام دیتے ہیں اس کی توجہ ضروری سمتوں کی طرف مبذول کرتے ہیں لیکن خو د ہی اپنی اصلی حالت میں اس کے تصور حقیقت کے نتائج نہیں بن سکتے ۔ بظاہر نظر آئے گا کہ وہ ان حقائق کو پوری طرح سے استعمال کر رہا ہے لیکن درحقیقت وہ ان کو صرف اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک کہ وہ اس کے تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور اس کی تشریح اور تفسیر کا درجہ اختیار کر سکتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اقبال کا تصور اترقا برگسان سے اس کا تصور خودی فشتے اور نیتشے سے اس کا تصور وجدان جیمز وارڈ سے اور اس کا تصور ریاست ہیگل سے ماخوذ ہے لیکن درحقیقت ظاہری مشابہت کے باوجود اقبال کے یہ تصورات ان فلسفیوں کے متوازی نظریات سے یکسر مختلف ہیں اور اقبا ل اور مغرب پر لکھنے والوں کے لیے بڑ اعظیم الشان کام دراصل یہی ہے کہ کس طرح سے اقبال کے تصورا ت ان فلسفیوں کے تصورات سے مختلف ہیں اور ان سے زیادہ معقول اور مدلل ہی نہیںبلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے پورے غور و فکر کے ساتھ مغربی فلسفہ کا مطالعہ کیا ہے ۔ یہاں تک کہ اقبال اس کی رگ رگ سے باخبر ہو گیا ہے اور وہ اس کے آب و گل میں سرایت کر گیا ہے۔ ہے فلسفہ مرے آب و گل میں پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں اقبال اگرچہ بے ہنر ہے اس کی رگ رگ سے باخبر ہے لیکن مغربی فلسفہ نے اقبال پر کوئی اثر نہیںکیا اس لیے کہ وہ حقیقت کے غلط تصورات پر قائم ہے۔ اسی فلسفہ کے متعلق وہ کہتا ہے: انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا! زناری برگساں نہ ہوتا! ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی حکمائے مغرب کے تصورات سے متاثر اور مرعوب ہونا تو درکنار اقبال ان تصورات کو اپنے وجدان حقیقت کی روشنی میں پرکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کہاں تک درستہے اور کہاں تک غلط جس حد تک کوئی تصوردرست ہوتا ہے وہ اسے اپنے حکیمانہ موقوف کی تشریح اور تفسیر کے لیے کام میں لاتا ہے اور جس حد تک وہ غلط ہوتا ہے وہ اسے نظر انداز کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف تنبیہ کرتا ہے۔ حکمت مغرب کا طلسم اس پر کام نہیںکرتا۔ وہ جانتا ہے کہ حکمت مغرب میں دانہ بھی ہے اور دام بھی اور وہ دانہ کو لے لیتا ہے اور دم کو توڑ دیتا ہے اس طرح سے حکمت مغرب کی آگ اس کے لیے گلزار ابراہیم بن جاتی ہے: طلسم عصر حاضر را شکستم ربودم دانہ و دامش گستم خدا داندکہ مانند ابراہیم بنار اوچہ بے پروا نشستم فلسفہ خودی کی آسان اور مختصر تشریح کا مطالبہ درست نہیں پھر بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ اقبال کے فلسفہ خودی کی تشریح کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے لیکن اس مطالبہ جو دراصل فلسفہ خودی کی نوعیت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے ‘ درست نہیں فلسفہ خودی کوئی قصہ یا داستان نہیںکہ ہم چاہیں تو اسے مختصر بھی کر سکیں اور آسان بھی یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ علم طلب کویا طبیعیات کو یا حیاتیات کویا نفسیات کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے ظاہر ہے کہ ان علوم میں سے کوئی بھی اپنی قدرتی حدود سے زیادہ نہ آسان ہو سکتا ہے اور نہ مختصر ان میں سے ہر ایک اشیاء کے اوصاف و خواص کا علم ہے اور اشیاء کے اوصاف و خواص تو وہی ہو سکتے ہیں جو قدرت نے ان کو دیے ہیں۔ ہم ان کو تعداد میں کم نہیںکر سکتے۔ لہٰذاان کے علم کو آسان یا مختصر کیسے بنا سکتے ہیں۔ فلسفہ خودی بھی روح انسانی کے اوصاف و خواص کا علم ہے چونکہ روح انسانی کے اوصاف و خواص وہی ہیں جو قدرت نے اسے دیے ہیں لہٰذ ا ہم روح انسانی کے علم کو بھی اس کی قدرتی حدود سے زیادہ آسان یا مختصر نہیںبنا سکتے۔ اگر ہم ریاضیات یا طبیعیات کے علم میں سے بی اے یا بی اے کے اوپر کے معیار کے مسائل یا حقائق کو حذف کر کے صرف انٹرمیڈیٹ کے معیار کی ایک کتاب لکھ دیں تو ہمارا یہ دعویٰ غلط ہو گا کہ ہم نے ریاضیات یا طبیعیات کو آسان اور مختصر کر دیا ہے درآں حالیکہ دوسروں نے اسے خواہ مخواہ طویل اور مشکل بنا دیا تھا اور پھر علم کے متعلق انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے ۔ کہ وہ علم کو برابر وسعت دیتا رہے اور اس غرض کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ اور کسی خطرے کو زیادہ نہ سمجھے کہ علمی ریسرچ جس پر کروڑوں روپیہ دنیا بھر میں صرف ہو رہا ہے اور ہزاروں فضلا اور حکماء کام کر رہے ہیں انسان کی فطرت کے اسی پہلو کو مطمئن کرتاہے اور پھر روح انسانی کے اوصاف و خواص کا علم تو تمام علوم سے زیادہ ضروری اور مفید ہے بلکہ یہ علم تو انسان کی زندگی اور موت کا سوا ل ہے۔ اس کے بغیر اس وقت انسانیت ہلاکت کے دروازے پر کھڑی ہے۔ کیا ایسے مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کے متعلق کم جانے اور زیادہ تر تاریکی میں رہے تاکہ اس کے اعمال میں راہ وانی کا عنصر کم ہو اور بے راہ روی کا عنصر زیادہ ہو جس طرح سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جسمانی اعمال اور وظائف کو زیادہ سے زیادہ سمجھیں تاکہ جسمانی بیماریوں کے عوامل اور معالجات کو زیاد ہ سے زیادہ جانیں اور صحت اور تندرسی سے زندگی بسر کر سکیں اسی طرح سے ہمارے لیے یہ ضرور ہے کہ ہم اپنی خودی کے اعمال اور وظائف کو زیادہ سے زیادہ سمجھیں تاکہ خودی کی بیماریوں کے عوامل اورمعالجات کو زیادہ سے زیادہ جانیں اور اپنی ساری زندگی کو خوشگوار بنا سکیں۔ دور حاضر میں انسانی سوسائٹی کی تمام خرابیوں اور بدحالیوں(جب میں جنگ‘ مفلسی‘ بداخلاقی‘ بے اطمینانی‘ ظلم اور تشدد شامل ہیں) اور انسانی علوم کے اندرونی انتشار اور بے ربطی کا باعث خودی کے علم کی کمی ہے۔ ہر علم ترقی کرتاہے یہ علم کی ایک خصوصیت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے انسا ن علم کا پیاسا ہے اور دوسری طرف سے اشیا کے خواص کی ایک خصوصیت ہے و اوصاف کے علم کی کوئی حد نہیں اور پھر علم جب وسیع ہو گا اور ترقی کرے گا تو اسی نسبت سے اس کو حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جائے گا تو پھر کیا ایک علم ایسا ہونا چاہیے کہ جسے ہم بہ تکلف آسان اور مختصر رکھیں اور وہ علم بھی جوہر انسانی کا علم ہو جو سب سے زیادہ ضروری ہے ہم اپنے کسی عزیز کو جو پھیپھڑے کی بیماری میں مبتلا ہو کسی ایسے ڈاکٹر ک پاس نہیںلے جا سکتے جس کا علم انسانی پھیپھڑوں کے متعلق آج سے پچاس سال پہلے کی تحقیقات تک محدود ہو یا جس کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ پھیپھڑوں کے متعلق جو علم انسان کو آج تک حا؟صل ہو سکا ہے وہ اس کا نصف ہی جانتا ہے تو پھر جوہر انسانی کے متعلق محدود واقفیت کی خواہش کرنے میں کون سی حکمت ہے ہاں یہ درست ہے کہ خودی کا علم تو زیادہ سے زیادہ مبسوط اور مفصل بنایا جائے لیکن مبتدیوں کے لیے آسان اور مختصر کتابیں بھی ہوں پھر جو لوگ علم خودی کے ماہرین بننا چاہیں وہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جو علم خودی کی ان انتہائی تفصیلات پر مشتمل ہوں جو آج تک انسان کے دائرہ علم میں آ چکی ہیں تاکہ وہ ان تفصیلات کی گہرائیوں میں اورجائیں اور ان میں اضافہ کریں اور اس طرح سے خودی کا علم ترقی کرتا رہے اور پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ مشکل اور آسان کے اوصاف محض اضافی ہیں جو علم ایک شخص کے لیے مشکل ہے وہ دوسرے کے لیے آسان ہو جاتاہے جو اسے محنت سے حاصل کرتا ہے مشکل علوم میں سے کون سا علم ایسا ہے جس کے ماہرین ضروری تعداد میں موجود نہ ہوں اگر علم حاصل کرنے کی خواہش نہ ہو توکوئی علم آسان نہیں ہوتا۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ آسان ہے لیکن خود عربی دانوںمیں ایسے ایسے لوگوں کی تعداد کم نہ ہو گی جن کے لیے بغیر کوشش اور محنت کے قرآن کا سمجھنا مشکل ہے دراصل قرآن کے اس دعویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن صداقت ہے اور صداقت چونکہ پہلے ہی انسان کے دل کے اندر موجود ہوتی ہے لہٰذا جو شخص اپنے آ کو یا اپنے دل کو جانتا ہو اس کے لیے اس کا سمجھنا اور باور کرنا آسان ہوتا ہے۔ بل ہو ایت بینات فی صدور الذین اوتو العلم (بلکہ وہ روشن یعنی واضح اور قابل فہم آیات ہیں جو پہلے ہی ان لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں جن کو اپنے آپ کا علم دیا گیا ہے) فلسفہ خودی بھی چونکہ سچا فلسفہ ہے اور انسان کادل اس کے نکات کی صحت کی شہادت دیتا ہے لہٰذا وہ آسان ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مطالعہ یا کوشش یا محنت کے بغیر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ قدرت کا قانون ہے کہ انسان کوشش کے بغیر کوئی چھوٹی یابڑی کامیابی حاصل نہیںکر سکتا۔ لیس للانسان الا ماسعی انسان وہی کچھ حاصل کر سکتا ہے جس کے لیے کوشش کرے۔ کیا اقبال پر مزید لکھنے کا دور ختم ہو چکا ہے پھر بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اقبا ل پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے کیونکہ اس پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے لکھا جا چکاہے اقبال کی تحریروں کو اور نچوڑنے سے کیانکلے گا۔ آخر اقبال پر کہاں تک کوئی لکھ سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ بھی فلسفہ خودی کی نوعیت پر اور اس کی توسیع پر اور تنظیم پر ممکنات پر اور ان تصورات کی کمیت اورکیفیت پر غور نہیںکرتے جو اس میں مضمر ہیں۔ اقبال نے خودی پر لکھا ہے لہٰذا اقبال پر لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے افکار کی روشنی میں خود کے موضوع پر لکھا جائے اور خودی کے موضوع کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ خودی حقیقت کائنات ہے۔ ساری کائنات خودی کا کرشمہ ہے اور کائنات کی ہر چیز کا باعث خودی ہے۔ پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ بینی ز اسرار خودی است لہٰذا جو کچھ آج تک مادی کائنات میں یا حیوانات کی دنیا میں یا انسانوں کی دنیا پر ہوتا رہا ہے یا آئندہ ہو گا وہ خودی کے اعمال و افعال اور تصرفات و اثرات کا ہی نتیجہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام قوانین قدرت خودی کے اوصاف و خواص کے مظاہر ہیں سارا علم خودی کاعلم ہے خودی کا تصور علم کی ابتدا اورانتہا ہے اور حال اور مستقبل کے تمام حقائق علمی تصور خودی کے مضمرات ہیں اور اس کے اندر بالقوہ موجود ہیں لہٰذا جوں جوں علم اپنے تینوں شعبوںمیں یعنی مادہ حیوان اور انسان کے شعبوں میں ترقی کرے گا تصور خودی کی تشریح کانت نیا سامان پیدا ہوتا رہے گا اور ظاہر ہے کہ یہ عمل تا قیامت جاری رہے گا۔ اقبال پر لکھنے کا پہلا اہم قدم یہ ہے کہ ہم اقبال کے افکار کو ایک منطقی یا عقلی سلسلہ کی شکل دے کر یہ بتائیں کہ کس طرح سے طبیعیات حیاتیات اور نفسیات کے تمام سچے حقائق جو آج تک دریافت ہو سک ہیں۔ تصور خودی کے اجزاو عناصر ہیں۔یہ اقبال کے فلسفہ خودی کی پہلی تشریح اور تفسیر ہو گی جسے فلسفہ خودی کے ماہرین ہی نہیں بلکہ تمام تعلیم یافتہ لوگ بھی آسانی سے سمجھ لیں گے۔ جب اقبال کی اس قسم کی تشریح وجود میں آئے گی تواس وقت صاف طور پر نظر آجائے گا کہ اقبال کے کئی تصورات دور حاضر کے تمام انسانی اور نفسیاتی علوم یعنی عمومی فلسفہ انسان و کائنات فلسفہ سیاست فلسفہ اخلاق‘ فلسفہ تعلیم‘ فلسفہ قانون‘ فلسفہ اقتصادیات‘ فلسفہ تاریخ ‘ فلسفہ ہنر ‘ فلسفہ نفسیات‘ انفرادی اور اجتماعی فلسفہ وغیرہ وغیرہ کے ساتھ کئی نقطوں سے ٹکرائے ہیں۔ لہٰذا ان علوم میں سے کسی پر قلم اٹھانے والا اقبال کے ان تصورات کی تردید یا توثیق کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اور اقبا ل کے تصورات کی بنیاد اس قدر مضبوط ہے اور وہ تصورات اس قدر صحیح ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ان کی معقول تردید ممکن نہیں اور ان کی توثیق کے بغیر چارہ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال پر لکھنے کا دوسرا اہم قد م یہ ہو گا کہ تصور خودی کی بنیادوں پر ان تمام علوم کی تدوین اور تعمیر نئے سرے سے کی جائے گی جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور ان علوم کی تعمیر نو کے سلسلہ میں بتایا جائے گا کہ کس طرح سے ان علوم کی موجودہ تدوین عقلی اور علمی نقطہ نظر سے غلط ہے اور اس طرح سے ان تمام علوم کو فلسفہ خودی کی شاخوں کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ گویا اقبال پر لکھنا اور اس زمانہ میں بھی اس وقت تک ختم نہیںہو سکتا جب تک کہ ہم انسانی‘ حیاتیاتی اور طبیعیاتی علوم کو نئے سرے سے اس طرح مدون نہ کر لیں کہ تصور خودی ان علوم کی روح کے طور پر نظر آنے لگے پھر اس ابتدائی کام کے بعد جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا فلسفہ خودی کی مزید تشریح اور توسیع ہوتی رہے گی۔ فلسفہ خودی کی تشریح ہمیشہ ترقی کرتی رہے گی شارحین اقبال کا کام لوگو ں کو یہ سمجھانا ہے کہ اقبال نے یہ کہا ہے لیکن جب تک وہ یہ نہ بتائیں گے کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ معلوم اور مسلم عقلی اور علمی معیاروں کے مطابق صحیح اور درست ہے وہ اس کام کو پوری طرح انجام نہیںدے سکتے۔ اگر ہمارے نزدیک اقبال کے افکار قابل قدر یا قابل قبول ہیں تو اس لیے ہیں کہ وہ علم او رعقل کے پیمانوں کے مطابق معیاری اور درست ہیں اور معیاری اور درست ثابت کیے جا سکتے ہیں اور درست ثابت ہو کر رہیں گے۔ اقبال کسی الہام کا مدعی نہیں اس کا دعویٰ فقط یہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ علمی اور عقلی طور پر صحیح ہے اور کسی تصور کا عقلی طور پر درست ہونا اس کے سوائے اور کوئی معنی نہیںرکھتا کہ وہ ان تصورات کے ساتھ مناسبت و مطابقت رکھتا ہے جو عقلی و علمی طور پر درست مانے جا سکتے ہیں۔ صحیح تصورات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ عقلی نقطہ نظر سے ایک دوسرے کے موید ہوتے ہیں لہٰذا وہ تصورات کا ایک ایسا مجموعہ بناتے ہیں جس کے اندر کوئی تصور داخل نہیں ہو سکتا ہم اس مجموعہ سے کوئی تصور نکال کراس کی جگہ کسی غلط تصور کو نہیںرکھ سکتے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو وہ تصور اس مجموعہ سے غیر متعلق اور الگ تھلگ نظر آئے گا اور اس ی وجہ سے مجموعہ کے منطقی تسلسل میں دراڑ پیدا ہو جائے گا جو آشکار طور پرنظر آئے گا لہٰذا کسی تصور کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ ہم بتا سکیں کہ وہ فی الواقع دوسرے تمام درست تصورات کے ساتھ علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت رکھتا ہے اور اس کی جگہ لینے والا کوئی دوسرا تصور ان کے ساتھ اس قسم کی کوئی مطابقت یا مناسبت نہیںرکھتا۔ اقبال کے تصورات‘ صحت اور معقولیت کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسانی حیاتیاتی اور طبیعیاتی علو م آخر کار اقبال کے تصور خود ی پر مبنی ہو جائیں اور خودی کی تشریح اور تفسیر قرا ر پائیں تصور خودی کی یہ تشریح اور تفسیر علم کی آج تک ٹھوکروں کا مداوا اور آج تک کی بے راہ روی کا علاج ہو گی جس کے لیے نوع انسانی ہمیشہ کے لیے اقبال کی شکر گزا ر ہو گی بعدمیں حقیقت انسان وکائنات کے متعلق ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا جائے گا وہ خواہ اس کا تعلق علم کے کسی شعبہ سے ہو خود بخود اس نظام افکار کا جزو بنتا چلا جائے گا یہی مطلب اقبال کا ہے جب وہ لکھتا ہے: ’’تاہم یہ یاد رہے کہ تحقیق علم و حکمت کی کوئی انتہا نہیں ہو سکتی۔ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کے نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیںگے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم انسانی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے نظریہ حیات پر قائم رہتے ہوئے ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں‘‘۔ ان معروضات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صر ف اقبال پر لکھنا ابھی ختم نہیںہوا بلکہ ابھی تک پوری طرح سے اس پر لکھنے کا آغاز بھی نہیںہوا۔ اور جب اس پر لکھنے کا آغاز ہوگا تو پھر اس پر لکھنا صڑف اس وقت ختم ہو جائے گا جب ہم انسان اور کائنات کے متعلق کسی پہلو سے بھی اور کچھ جاننے سے مجبور ہوجائیں گے اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان اس کرہ ارض پر موجود ہے یہ وقت کبھی نہیں آسکتا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزرتاجائے گا اقبال کے فلسفہ خودی کی معقولیت اور جاذبیت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جائے گی۔ لہٰذا مستقبل کا انسان جس قدر اقبال کی عظمت کا معترف ہو گا آج کا انسان نہیںہو سکتا۔ ایک سچے تصور حقیقت پر قائم ہونے والے نظام حکمت کی ہر ترقی ا س کی اگلی ترقی کو آسان کرتی ہے اور اس طرح سے اس کی غیر متناہی ترقیوں کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ جب اقبال کے فلسفہ خودی کی ایک اور ترقی یافتہ صورت اس کی منظم تشریح کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گی تو پھر وہ اور ترقی کرے گا اور لوگ تاقیامت ا س پر لکھتے رہیں گے اور اس کی ترقیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا کیونکہ علم کے تینوں شعبوں میں دریافت ہونے والے تمام حقائق صرف اسی کے اجزا و عناصر شمار ہوں گے۔ فلسفہ خودی کے مقابل تمام فلسفے مٹ جائیں گے فلسفہ خودی کی پہلی منظم تشریح کے ظہور سے کچھ عرصہ کیبعد اس کی تشریح کی اور توسیع کی ضرورت پیش آئے گی اور پھر کچھ مدت کے بعد اس کی دوسری مزید توسیع کی ضرورت لاحق ہو گی۔ علی ہذ القیاس اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح ایک سچا فلسفہ ترقی کرتا رہتا ہے اور اس کی ترقیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں اس کے برعکس چونکہ علمی حقائق ایک غلط فلسفہ کے ساتھ جو غلط تصور حقیقت پر مبنی ہوتا ہے مطابقت نہیں رکھتے لہٰذا ان حقائق کی ترقی کی وجہ سے زود یا بدیر ایک ایسا وقت خود بخود آ جاتا ہے جب غلط فلسفہ کی فرضی معقولیت کا پردہ چاک ہوتا ہے اور وہ اپنا دم توڑ دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ فکر اقبال کی اس قسم کی منظم تشریح ایک اسے دور کو قریب لائے گی جب دنیامیں صرف ایک ہی فلسفہ باقی رہ جائے گا اور وہ اقبال کا فلسفہ خودیہو گا اور دوسرے تمام فلسفے یا تو کلیتاً مٹ جائیں گے یا پھر نوع انسانی کے ادوار جہالت کی یادگار کے طور پر باقی رہیں گے یہی سبب ہے کہ اقبال دور حاضر کے انسان سے نہیں بلکہ مستقبل کے انسان سے امید رکھتا ہے کہ وہ پوری طرح سے اس کی عظمت کا اعتراف کرے گا اور اس کے فکر کو اپنی عملی زندگی کی بنیاد بنائے گا یہی وجہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اس کے فکر نے وہ آہوئے تاتار فتراک میں باندھا ہے جو ابھی عام سے وجود میں نہیں آیا اس کے باغ کی زینت وہ سبزہ ہے جو ابھی اگا نہیں اور اس کا دامن پھولوں سے بھرا ہوا ہے جو ابھی شاخ ہی میں پوشیدہ ہیں۔ فکرم آں آہو سر فتراک بست کو ہنوز از نیستی بیروں نجست سبزہ نا روئیدہ زیب گلستم گل شاخ اندر نہاں درواہنم اور یہی وہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شاعر فردا کہتا ہے اور اپنے آپ کو ایسا نغمہ سمجھتاہے جسے زخمہ ور کی حاجت نہیں ہے اور جو ساز کائنات سے خود بخود بلند ہونے والا ہے وہ کسی آنے والے زمانہ میں اپنی روشن کی ہوئی آگ’’نار عشق‘‘ کے ان پجاریوں کا منتظر ہے جو ابھی سو رہے ہیں اور نیند سے اس وقت اٹھیں گے جب جہالت کی تاریکیوں کی رات کٹ جائے گی اور سچی حکمت کی صبح کا نور پھیلنے لگے گا چونکہ اقبال کو معلوم ہے کہ اس کا فلسفہ خودی نوع بشر کی علمی ترقیوں کے ایک خاص دور میں ہی پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ پوری قبولیت حاصل کر سکتا ہے اور اپنی پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہو سکتا ہے لہٰذا وہ اپنے تمام ہم عصروں سے یہ امید نہیںرکھتا ک وہ اس کی قدر کر سکیں گے چونکہ اس کی نے کی سر نرالی ہے۔ اس کا ہم عصر اس کا نغمہ کو سمجھ نہیں سکتا اس کے زمانہ کے لوگ رموز حیات سے ناواقف ہیں لہٰذا دور حاضر وہ بازور ہی نہیں جہاں اس کے یوسف کے خریدار پائے جا سکیں اس کا نغمہ کسی اور جہان سے تعلق رکھتا ہے جو ابھی پید انہیں ہوا اور اس کی جرس کسی اور ہی کاروان کو حرکت میں لانے والی ہے۔ بسکہ عود فطرتم نادر نواست ہم نشین از نغمہ ام نا آشنا است نغمہ ام ز زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم انتظار صبح خیزاں مے کشم اے خوشا زروشتیان آشتم عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نا امیدستم زیاران قدیم طورے سوزو کہ مے آید کلیم نغمہ من از جہاں دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است ٭٭٭ فلسفہ خودی کی اہمیت اور عظمت کا دعویٰ صحیح ہے اپنے فکر کی اہمیت اور عظمت کا یہ دعویٰ اقبال نے بار بار اپنے اس قسم کے اشعار میں کیا ہے درحقیقت خودی یا جوہر انسانی کے اوصاف کا ایک علمی اور عقلی نتیجہ ہے جس سے گریز کرنا ممکن ہے اقبال جوہر انسانی کے اوصاف کو معنی آدم کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح سے جب وہ ارتقا کی قوتوں کے نہ رکنے والے عمل سے انسان کی عملی زندگی میں آشکار ہوں گے تو انسان کی زندگی جس کی موجودہ غیر متوازن حالت دل میں کھٹکتی ہے ہر لحاظ سے موزوں اور تسلی بخش ہو جائے گی‘ یہاں تک کہ نوع انسانی اپنے حسن و جمال کی اس انتہا پر پہنچ جائے گی کہ جس کا ہم اس وقت تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اقبال سے کیا پوچھیں خود فطرت انسانی کے دعویٰ کی صداقت پر گواہ ہے۔ یکے در معنی آدم نگر از ماچہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے لہٰذااقبال کا یہ دعویٰ اس کے فلسفہ یا جزو لا ینفک ہے اگر اقبال اپنے فلسفہ کے اس جزو کے متعلق اس لیے خاموش رہتا کہ اس کے اظہار سے اس کی ستائش کا پہلو نکلتا ہے تو وہ گویا اپنے تصور خودی کی حقیقت کو بہ تمام و کمال بیان کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے جو اسے کسی قیمت پر قابل قبول نہ ہو سکتا تھا لہٰذا جو لوگ اقبال کے اس دعویٰ کو بے کار اور بے معنی نہیں سمجھتے وہ حق بجانب ہیں لیکن آج تک جو کچھ اقبال پر لکھا گیا ہے اس سے اقبال کے اس دعویٰ کی عقلی اور عملی بنیادیں آشکار نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ موجودہ اقبالی ادب کے حاصلات سے مطمئن نہیںَ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی اپنی کتاب ’’اقبالیات کا تنقیدہ جائزہ‘‘ میں جو 1955 ء میں چھپی تھی لکھتے ہیں: ’’فلسفہ خودی پر اب تک کوئی جامع اور مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی۔ اقبال کی وفا ت کو آج 17 سال ہوئے ہیں مگر اب تک ان پر جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیںہوا‘‘۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا تھا: ’’گو کلام اقبال کے متعلق مضامین کی فہرست بظاہر طویل ہے لیکن اس کی عظمت اور بلندی کی نسبت سے اب بھی بہت تشنہ اورمختصر ہے۔‘‘ اس پر قاضی احمد میاں اختر لکھتے ہیں: ’’ہر وہ شخص جس نے اقبالیات کی تعداد کے ساتھ ہی ان کی نوعیت اور قدر و قیمت کا اندازہ کر لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ اتفاق کرے گا کہ اب تک اقبالیات کے نام سے جو ذخیرہ ادب تیار ہو چکا ہے وہ اس پایہ کا نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے اور جس سے اقبال کے مطالعہ میں کافی مدد مل سکے اکثر تحریرات ایک دوسرے کی نقل ہیں یہی وجہ ہے کہ ناقدین اقبال کو ان پر اعتراض کرنے کا موقع مل گی اہے اب ضرورت اس بات کی مقتضی ہے کہ مطالعہ اقبال کے سلسلہ میں کوئی عملی اور ٹھوس کام کیا جائے اور ا س میں ایسے اصحاب فکر و نظر حصہ لیں جو اقبال شناسی میں امتیازی درجہ رکھتے ہوں‘‘۔ لیکن اگر اقبال کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو ان لوگوں کے اقوال اقبال نافہمی کے ایک مضحکہ خیز مظاہرہ سے کم نہیں جو کہتے ہیں ک اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ اقبال کے افکار میں سے کون سے مر گئے ہیں اور کون سے زندہ ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ اقبال پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے۔ فلسفہ خودی کی منظم اور مکمل تشریح کی خصوصیات ان حقائق کی روشنی میں ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ضروری ہے کہ فلسفہ اقبال کی منظم اور مکمل تشریح خصوصیات ذیل کی حامل ہوں: اول: ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے مسلسل اور مربوط نظام حکمت کی شکل میں ہو جس میں اقبال کے تمام تصورات جو اس وقت اس کی نظم یا نثر کی کتابوں میںبکھرے پڑے ہیں خواہ وہ کسی موضوع یا مطالعہ سے تعلق رکھتے ہوں ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اور اقبال کے مرکزی تصور خودی کے ساتھ عقلی اور عملی رشتہ میں منسلک ہوں۔ دوئم: ضروری ہے کہ ان کے اندر طبیعیات‘ حیاتیات اورنفسیات کے تمام ایسے حقائق جن کو آج تک سائنس دانوںاور فلسفیوں نے دریافت کیا ہے اور جو اقبال کے تصورات کے ساتھ مناسبت اور مطابقت رکھتے ہیں اپنے مناسب نتائج اور مضمرات کے سمیت اقبال کے تصورات کی تائید اور توثیق اور تشریح اور توسیع کے لیے سموئے ہوئے موجود ہوں۔ سوئم: ضروری ہے کہ اس کا مرکزی اور بنیادی تصور اقبا ل کا تصور خودی ہو جس کی اصل خدا کا وہ تصور ہے جو نبوت کاملہ کی تعلیمات نے پیش کیا ہے اوراس کے بعد دوسرے تمام تصورات خدا کے اسلامی تصور کی تشریح اور تفسیر کے طور پر ہوں لہٰذا س میں جا بجا قرآن کی آیات اور احادیث کو اقبال کے تصورات کی تائید اور توضیح کے لیے پیش کیا گیا ہو۔ چہارم: ضروری ہے کہ وہ تمام متداول اور رائج الوقت غلط قسم کے طبیعیاتی‘ حیاتیاتی اور نفسیاتی فلسفوں کی ایسی تردید پر مشتمل ہو جو صحیح حقائق کو غلط حقائق سے الگ کر کے اور غلط حقائق کو درست حقائق بنا کر اقبال کے فلسفہ خودی کے اندر سموتی ہو گویا وہ فلسفہ طبیعیات فلسفہ حیاتیات اور فلسفہ نفسیات کی تعمیر جدید کی شکل میں ہو۔ اقبال کا فلسفہ عالم انسانی کے عالم گیر نظریاتی مرض کا صحت بخش رد عمل ہے جب ایک جسم حیوانی میں کسی مرض کے جراثیم داخل ہو کر بڑھتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں یہاں تک کہ اس میںمرض کی حالت پید اکر دیتے ہیں تو زندگی کے رو رو حیوان کے اندر بہہ رہی ہوتی ہے(جو درحقیقت اسے پیدا کرتی ہے اور نشوونما کے سارے مرحلوں سے گزار کر جسمانی یا حیاتیاتی کمال تک پہنچاتی ہے) فوراً ان جراثیم کے خلاف ایک رد عمل کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیوان کے جسم کے اندر جراثیم کے زہر کا تریاق یا فاد زہر پیداہونا شروع ہوتا ہے جسے ماہرین علم الابدان انٹی ٹاکسنز (Anti-Toxins)یا اینتی باڈیز (Anti Bodies) کہتے ہیں ٰہ فادر زہر متواتر پیدا ہوتا اور ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جراثیم ختم ہو جاتے ہیں اور ان کا زہر بھی باقی نہیں رہتا اور ان کی بجائے یہ تریاق جسم میں باقی رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے مرض کا دوسرا فوری حملہ ممکن نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ا ب یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی مرض کے خلاف کوئی حفاظتی یا مدافعتی تدبیر اس سے زیادہ کارگر اور موثر نہیںہو سکتی کہ بدن میں مرض کی حالت مصنوعی طورپر پیدا کر کے قدرت کو اس کے خلاف رد عمل کرنے اور اس کا تریاق پیدا کرنے کا موقع دیا جائے بعض امر اض کے حفاظتی ٹیکے اسی اصول پر ایجاد کیے گئے ہیں پوری نوع انسانی کی صورت میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے۔ زندگی کی رو جس نے حضرت انسان کو ایک جونک کی حالت سے ترقی دے کر جسماتی اور حیاتیاتی کمال تک پہنچایا ہے اور اس کی نسل کو لاتعداد خطرات سے بچا کر اور ترقی اور فروغ دے کر دنیا کے کناروں تک پھیلایا ہے وہی اس کو نفیساتی اور نظریاتی کمال کے اس مقام تک پہنچانے کی ذمہ دار ہے جو درحقیقت ا س کی ساری کاوشوں اور محنتوں کامدعا اور مقصود ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے انبیاء کے ایک طویل سلسلہ کے ذریعے نوع بشر کی روحانی اور نظریاتی حفاظت و تربیت کا ایک نہایت ہی معقول اور تسلی بخش انتظام کیاتھا جس کے اثرات چاروں طرف کرہ ارض پر پھیل گئے تھے۔ لیکن اب جب کہ نبوت ختم ہوئے ایک زمانہ گزر گیا ہے ‘ مغرب کے غلط حکیمانہ تصورات تعلیم نبوت کے اثر کو جو اب تک نوع انسانی کی نظریاتی اور روحانی صحت کا ضامن تھا ختم کر رہے ہیں۔ ان غلط تصورات نے خطرناک نفسیاتی جراثیم کی طرح نو ع انسانی کے شعور میں گھس کر ایک عالمگیر جسمانی وبائی مرض کی طرح ایک نفسیاتی یا نظریاتی وبائی مرض پیداکر دیا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب نوع انسانی اس مرض کی وجہ سے نظریاتی طورپر ہمیشہ کے لیے مردہ ہو جائے گی لیکن ایسا ہرگز نہیںہو سکتا اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ زندگی کے رو جو درحقیقت خدا کے ارادہ کے عمل کا نام ہے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہے اور انہیں ضرور پا کر رہتی ہے۔ واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون (خدا اپنے مقصد پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیںجانتے) ارتقا کی پوری سرگزشت بتاتی ہے کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی زندگی کے مقاصد میں حائل نہیں ہو سکتی ۔ ذرا ن بے شمار خطرناک آسمانی حادثات اور ہولناک زمینی تباہیوں کو ذہن میں لائے جن کا سامنا زندگی کو سب سے پہلے ایک خلیہ کے حیوان سے لے کر آج تک کے مہذب انسان کے ظہور تک کرنا پڑاہے ۔ ہر آن یہ گمان رہتا ہے کہ زندگی ہمیشہ کے لیی کرہ ارض سے نیست و نابودہوجائے گی لیکن ایسا نہیںہوا خود غاروں کے اندر اور درختوں کے اوپر پناہ لینے والے کمزور نہتے اور بے بس انسان کی نسل کا جنگلی درندوں کے لشکر سے بچ نکلنا قدرت کا ایک معجزہ ہے جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ زندگی اپنے مقاصد کے حصول میںسے کسی سے شکست نہیں کھا سکتی۔ چونکہ نوع انسانی نے نہ صرف کرہ ارض پر زندہ رہنا ہے بلکہ اپنے روحانی کمال کو بھی پہنچنا ہے لہٰذا ممکن نہیںتھا کہ زندگی کی رو عالم انسانی کے اس ہمہ گیر نظریاتی مرض کے خلاف کاممیاب رد عمل نہ کرتی جو مغرب کے غلط تصورات نے پیدا کردیا ہے زندگی کا یہ رد عمل حکمت اقبال کی صورت میں نمودار ہوا ہے ۔ ضروری ہے کہ جسم حیوانی کے صحت بخش ردعمل کی طرح یہ رد عمل بھی برابر ترقی کرتا رہے یہاں تک کہ کرہ ارض سے غلط تصورات کا زہر نیست و نابود ہو جائے اورنوع انسانی اپنی نظریاتی صحت کی طرف پوری طرح سے لوٹ آئے ۔ زندگی کا روکا نہ ٹلنے والا تقاضا یہ ہے کہ عالم انسانی نظریاتی موت سے بچ جائے اور صحت یاب ہو کر پھر ارتقا کی راہوں پر چل نکلے اس وقت آدم خاکی زوال میں ہے کیونکہ وہ غلط نظریات کے زیر اثر ارتقا کی راہوں سے ہٹ گیا ہے اور نہایت سرعت کے ساتھ پستی کی طرف لڑھکتا چلا جا رہا ہے ۔ اسے فوری علاج کی ضرور ت تھی۔ جو زندگی نے خود اپنے صحت بخش رد عمل کے ذریعہ سے اقبال کے فلسفہ خودی کی صورت میں پیدا کر لیا ہے ضروری ہے کہ یہ رد عمل باربار بڑھتا او ر ترقی کرتا چلا جائے اور اس سے پیدا ہونے والے صحت بخش مواد (Anti Bodies)جو اقبال کے سچے معقول اوریقین افروز تصورات کی شکل میں ہیں یہاں تک ترقی کریں کہ انسانی سوسائٹی کے جہنم کے کونے کونے میںپھیل جائیں اور مضر اورمہلک تصورات کے اثر کو ناکام بنا دیں لہٰذا نہ صرف یہ ضرور ی ہے کہ خود قدرت کے اپنے اہتمام کے ساتھ فلسفہ اقبال کی پہلی مکمل اور منظم تشریح وجود میں آئے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تشریح متواتر ترقی اور توسیع پاتی رہے یہاں تککہ تمام نفسیاتی حیاتیاتی اور طبیعیاتی حقائق علمی کو اپنے اندر جذب کر لے اور اپنی معقولیت کی کشش کی وجہ سے آخر کار پورا علم انسانی کے شعور پر حاوی ہو جائے۔ اقبال کو بجا طور پر اس بات کا یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے: پس از من شر من خوانند دمے رقصند دمے گویند جہانے را دگرگوں کردیک مرد خود آگاہے ٭٭٭ خودی کی حقیقت خودی کیا ہے اقبال کی حکمت میں خودی سے مراد وہ شعور ہے جو خود شناس اور خود آگا ہ ہو اور اپنی ذات اور اپنے مقاصد کا احساس یا شعور رکھتا ہو لیکن یہاں شعور کا مطلب ہو ش یا تمیز نہیں بلکہ وہ چیز ہے جس کا خاصہ ہو ش یا تمیز رکھنا ہے جس کی وجہ سے ایک انسان تمیز یا ہوش رکھتا ہے انسان میں یہی چیز ہے جو خود شناس یا خود آگاہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’میں‘ کہتی ہے اس لیے اقبال کو ’’انا‘‘ یا ’’ایغو‘‘ یا ’’من‘‘ بھی کہتا ہے اور پھر یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ ہے اور جب مرتا ہے تو یہی وہ چیز ہے جو اس کے جسم سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اقبال کے لیے ’’روح‘‘اور ’’جان‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے اور اس کو ’’زندگی‘‘ اور ’’حیات‘‘ کے ناموں سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے ٭٭٭ ارتباط حرف و معنی اختلاف جان و تن جس طرح اخگر قبا پوش اپنے خاکستر سے ہے ٭٭٭ زندگی بغیر شعور کے نہیں ہوتی لہٰذا ان معنوں میں کہ شعور زندگی ہے ایک خاص سطح کا شعورحیوان میں بھی موجود ہے ۔ لیکن حیوان کا شعور آزاد نہیںبلکہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ناقابل تغیر جبلتوں کے ماتحت کام کرتا ہے اس کے برعکس انسان کا شعور جبلتوں سے آزاد ہو کر اور ان کی مخالفت میں بھی عمل کرتا ہے اس لیے وہ خو د شناس اور خود شعور ہے اور اپنے مقاصد کو جانتا ہے۔ حیوان اپنے شعور کی وجہ سے فقط سوچتا جانتا اور محسوس کرتا ہے لیکن انسان اپنے شعور کی وجہ سے نہ صرف جانتا ہے سوچتااور محسوس کرتا ہے بلکہ جب وہ ایسا کرتا ہے تو وہ جانتا بھی ہے کہ وہ جانتا سوچتا ور محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ہم انسان کے شعور کو خود شناس اور خو دآگاہ کہتے ہیں۔ اسے شعور نہیں بلکہ خود شناسی خود شعوری یا خود آگاہی کہنا چاہیے اقبال اسی کو خودی کہتا ہے۔ خودی کے اوصاف و خواص…خود آگاہی خود آگاہی خودی کا ایک حیر ت انگیز خاصہ ہے اسی خاصہ کی وجہ سے کائنات برپا ہے او ر انسان ساری تگ و دو اور جدوجہد اسی خاصہ کی وجہ سے ہے اسی کی وجہ سے خودی اپنے آپ کو بغیر آنکھوں کے دیکھتی ہے اور بغیر کانوںسے سنتی ہے بلکہ اپنے آپ کو کسی حس کی مدد سے بغیر براہ راست پوری طرح سے جانتی ہے میں جانتا ہوں کہ میں ہوں کیونکہ میں سو چ رہا ہوں جان رہا ہوں اور خوشی یا غم محسوس کر رہا ہوں لیکن میری کوئی حس مجھے اپنے آپ کو جاننے میں مدد نہیں دے رہی اگرچہ میں اپنی خودی کو ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا لیکن اس کے باوجود بغیر ان آنکھوں کے ا س طرح سے دیکھ رہا ہوں کہ میرے لیے اپنے آپ کا علم ان چیزوں کے علم سے بدرجہا زیادہ یقینی ہے جن کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتا ہو ںان کا جاننا میرے لیے اسی وجہ سے ممکن ہے کہ میں اپنی خودی کو جانتاہوں کیونکہ ان کا علم وہی ہے جس کو میری خودی جانتی ہے اور میری خودی سے باہر ان کا کوئی علم نہیں لہٰذا اگر میں اپنی خودی کو نہ جانوں تودنیاکی کسی چیز کو دیکھنے کے باوجود نہیں جان سکتا اگر دنیا بھر میں کسی چیز کا یقینی علم ہمیں حاصل ہے تو وہ فقط اپنی خودی کا علم ہے ہم اپنی خودی کے علم سے ہی اپنے دوسرے غیر خودی کے علم کو پرکھتے ہیں۔ خودی کا وجود فریب یا وہم نہیں خارج کی دنیا کے متعلق ہمارا علم قیاسی ہے اور ہمارا قیاس حواس پر مبنی ہوتا ہے۔ حواس کے تاثرات کے بدلنے سے خواہ اس کا کوئی سبب خارج میں ہو یا نہ ہو ہمارا علم بد ل جاتا ہے ۔ اس لیے کوئی شخص کائنات کے متعلق تو کہہ سکتاہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور زمین اور آسمان درحقیقت موجود نہیںہیں یا ان کی حیثیت ایک ایسے خواب یا وہم سے زیادہ نہیں جو خالق کائنات کی ہستی کے لیے ایک پردہ کا کام دے رہا ہے لیکن کوئی شخص خود ی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک وہم ہے خودی کا وجود محسوس دنیا خارجی دنیا یا مادی دنیا کی چیز نہیں یہی سبب ہے کہ ہمارے حواس او رہمارے قیاسات اس کو جاننے کاوسیلہ نہیں بنتے۔ فروغ دانش ما از قیاس است قیاس ماز تقدیر حواس است چو حس دیگر شد ایں عالم دگر شد سکون و دیر و کیف و کم دگر شد توان گفتن جہان رنگ و بو نیست زمین و آسمان و کاخ و کو نیست خودی از کائنات رنگ و کو نیست حواس ماجہان ماو او نیست اگر کوئی کہے کہ میں اپنی خودی کے وجود کا دھوکا یا وہم ہو رہا ہے اور درحقیقت ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کہہ سکتی ہو تو اس سے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ اس دھوکے یا وہم کا علم یا احساس کس کو ہو رہا ہے۔ اگر اس دھوکے یا وہم کا علم یا احساس ایک حقیقت ہے اور خو د ایک دھوکا اور وہم نہیں وہ چیز کیونکر ایک دھوکا یا وہم ہو سکتی ہے جس کو یہ علم یا احسا س ہو رہا ہے اور یہی چیز خودی ہے جو اپنے آپ کو ’’من ‘‘ کہتی ہے۔ اگر گوئی کہ ’’من‘‘ وہم و گمان است نمودش چوں نمود ایں و آن است بگو با من کہ دارائے گمان کیست یکے در خود نگر آں بے نشان کیست یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ خارج کی دنیا تو آشکار موجود ہو لیکن اس کے باوجود اس کا وجود مشکوک اور دلیل اور ثبوت چاہتا ہو اور اس کے اسرار ورموز پر کوئی جبریل بھی حاوی نہ ہو سکے اور خودی نظروں سے اوجھل ہو اور اس کے باوجود اس کا ہونا یقینی ہو اور ثبوت یا دلیل سے بے نیاز ہو بلکہ تمام دعاوی اور مسائل اور تمام براہین اور دلائل اس کے ہونے پر مبنی ہوں۔ اس سے زیادہ خودی کے حقیقی ہونے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے لہٰذا خود ی حق ہے اور باطل نہیں وہ موجود ہے اور غیر موجود نہیں اور اس کا وجود بے مقصد اور بے سود نہیں۔ جہاں پیدا و محتاج دلیلے نمی آید بفکر جبرئیلے خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است یکے اندیش و وریاب ایں چہ راز است خودی را حق بداں باطل پندار خودی را کشت بے حاصل پندار زمان و مکان سے بے نیازی اس کے باوجود کہ خودی انسان کے جسد عنصری میں جاگزین ہے جو سلسلہ لیل و نہارکی پابندیوں سے گھرا ہوا ہے وہ خود زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہے کیونکہ وہ اپنے خیال کے ذریعہ سے ادھر ماضی اور مستقبل کی انتہائی تک اور ادھر کائنات کے دور دراز گوشوں تک جہاں روشنی بھی کروڑوں برس میں آتی ہے آن واحد میں جا پہنچتی ہے۔ بخاک آلود و پاک از مکان است بہ بند روز و شب پاک از زمان است خیال اند کف خاکے چنان است کہ سیرش بے مکان و بے زمان است چونکہ ہم خود ی کو کسی حالت میں بھی نہ ان آنکھو ں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہاتھو ں سے چھو سکتے ہیں اور غیر کی خودی اپنی خودی نہیں ہوتی کہ ہم حواس کی مدد کے بغیر براہ راست اسے دیکھ سکیں ہم غیر کی خودی کا علم خواہ وہ خودی ہو یا انسان کی فقط اس کے مظاہر اور اثرات اور اعمال اور افعال کے مطالعہ سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ خودی ایک نورانی قوت یا قوت نور ہے خودی ایک نور ہے لیکن مادی روشنیوں میں سے کوئی روشنی ایسی نہیں جو اس کی مماثل ہو اور پھر خودی ایک قوت ہے لیکن مادی قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہیں جس کے ساتھ ا س کو مشابہت دی جا سکے یہی وہ نورانی قوت یا قوت نور ہے جس کا انسان میں اور دنیا کی ہر چیز میں ظہور ہے ۔ یہی زندگی ہے۔ وا نمودن خویش را خوئے خودیست خفتہ ور ہر ذرہ تیروئے خودیست نکتہ نورے کہ نام او خودیست در وجود ما شرار زندگی است اقبال کے الفاظ میں خودی ’’شعور کا وہ روشن نکتہ ہے جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات و تمینات مستیز ہوتے ہیں وہ یہ ایک لازوال حقیقت ہے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرز بند ہے‘‘اور اس کا خاصا یہ ہے کہ وہ عمل اور خو د نمائی کے لے بے تاب رہتی ہے۔ قوت خاموش و بیتاب عمل از عمل پابند اسباب و علل مشکلات پر غالب آنے کی خواہش خودی کا خاصہ ہے لفظ خودی کی اس تشریح سے ظاہر ہے کہ اقبال نے اس لفظ کو استعمال انگریزی لفظ (Self or Self-Conscousness) کا جو مدت سے فلسفہ کی ایک اصطلاح کے طور پراستعمال ہو رہا ہے۔ فارسی یا اردو ترجمہ کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ خودی کی اس سادہ اورمعروف فلسفیانہ اصطلاح کو سمجھنے میں بالعموم اقبال کے ایسے معتقدین کو بھی دقت پیش آئی ہے جو اس کے بہت قریب رہے ہیں اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ خودی کا لفظ اب تک فارسی اور اردو می ایک اور معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے یعنی خود پرستی ‘ خود مختاری ‘ خود سری‘ خود آرائی‘ خود غرضی غرور نخوت اور تکبر کے معنوں میں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود اقبال نے بھی اپنی قوم کی موجودہ حالت کے پیش نظر خودی کی گوناگوں فطری صفات سے ہے اس صفت پر خاص زور دیا ہے جس کا ایک پہلو خود نمائی یا حب استیلا یا حب تفوق (Self-Assertion)ہے۔ زندگانی قوت پیداستے اصل او از ذوق استیلاستے اس صفت کی رو سے خودی کا ایک مقصد کا تصور کرتی ہے پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری قوت سعی و عمل صرف کرتی ہے اور اس عمل سے اسے اپنے مقصد میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کا یعنی اپنی قوتوں کا اظہار کرتی ہے اور اس خودی اظہاری یا وانمودن خویش سے اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے اس بنا پر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ خودی کی فلسفیانہ اصطلاح روزمرہ کی زبگان میں استعمال ہونے والی لفظ خودی کے ساتھ معنی اشتراک کا رکھتی ہے ان کا خیال ہے کہ اقبال کے نزدیک جذبہ خود نمائی یا ذوق استیلا کے جائز اور ناجائز استعمال میں کوئی خاص خوبی ہے اور اقبال کی تعلیم یہی ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو اس جذبہ کا اظہار کیا ائے یہ بات قطعاً غلط ہے ک اس کی وجہ پوری تفصیل کے ساتھ آگے تو چل کر بیان کی جائے گی لیکن یہاں اس غلط فہی کو رفع کرنے کے لیے دو گزارشات ضروری ہیں ایک تو یہ کہ خودی کے مقاصد اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی اور صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی جدوجہد یا عمل سے خودی کو مستقل اور مکمل اطمینان (جو اس کی پیہم ترقی اور ترفع کا ضامن ہے) اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے کہ جب ا سکا مقصد اس کی فطرت کے مطابق ہو۔ غلط مقصد کی پیروی سے خودی کو عارضی تسلی ہو تو لیکن آخر کار اسے بے اطمینانی اور ناکامی کا احساس ہوتا ہے ایسی صورت میں اس کی جدوجہد آخر کار خود اس کے اندر رونی فطرتی مقصد کو شکست دے دیتی ہے اور دوسری گزارش یہ ہے کہ عمل یا جدوجہد احساس کا مدعا لازمی نتیجہ ہے۔ اور خودی ہر آن کوئی نہ کوئی مدعا افچھا یا برا صحیح یا غلط رکھنے پر مجبور ہے اور لہٰذا ہر وقت عمل یا جدوجہد کرنے پر بھی مجبورہے۔ غلط مدعا غلط عمل پیدا کرتا ہے اور صحیح مدعا صحیح عمل پیدا کرتا ہے ۔ اقبال صرف اسی عمل کی تلقین کرتا ہے جو خودی کی فطرت کے مطابقت رکھتا ہو اور لہٰذا صحیح ہو اور اس کے نزدیک صحیح مدعا اور لہٰذا صحیح عمل مومن کا امتیاز ہے۔ گویا اقبال نے جو عملی جدوجہد اور خودنمائی پر زور دیا ہے اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد یا مدعا کو درست کریں اور اسی کو وہ یقین محکم یا ایمان کہتا ہے اگر مدعا نقائص سے پاک اور شکوک و شبہات سے آزاد ہوکر درست ہو جائے تو وہ ایک طاقتور عزم یا ارادہ عمل بن جاتا ہے۔ اقبال کی وضاحت اقبال نے خود اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ خودی سے اس کی مراد غرو ر یا تکبر نہیں چنانچہ اسرار خودی کے دیباچہ میں اس نے لکھا ہے : ’’ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میںبمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیاہے کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا یقین ذات ہے‘‘۔ قاضی نذیر احمد کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے: ’’اسرار خودی اور رموز بے خودی دونوں کا موضوع یہی مسئلہ خودی ہے ان کتابوں کے پڑھنے سے آ پ کو اطمینان ہو جائے گا کہ اگر ان دونوں میں یا کسی اور کتاب میں آپ کو کوئی ایسا شعر ملے جس میں خودی کامفہوم تکبر یا نخوت لیا گیا ہو تو اس سے مجھے آگا ہ کیجیے‘‘۔ مطلب یہ تھا کہ میں نے اپنی کسی کتاب میں بھی لفظ خودی کو تکبر یا نخوت کے معنوں میں استعمال نہیںکیا۔ نیٹشے (Nietzche)پر اقبال کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نوٹ اقبال اکادمی کے پاس محفوظ ہے اس نوٹ میں لفظ خودی کی تشریح کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے: ’’لفظ خودی کو بڑی مشکل سے اور بادل نخواستہ چنا گیا ہے ادبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے اندر بہت سی خامیاں ہیں اور اخلاقی نقطہ نظر سے اسے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہمیشہ برے معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور دوسرے الفاظ میں جو ’’میں‘‘ کی مابعدالطبیعیاتی حقیقت کوبیان کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اتنے ہی ناموزوں ہیں مثلاً انا‘ شخص‘ نفسانیت‘ انانیت۔ ضرورت درٓصل اس بات کی ہے کہ میں یا ’’اخو‘‘ کے لیے ایک ایسا لفظ مل جائے جو بے رنگ ہو اور کسی اخلاقی مفہوم کے بغیر ہو۔ جہاں تک مجھے معلمو ہے فارسی یا اردو میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں فارسی لفظ ’’من‘‘ بھی اتنا ہی اموزوں ہے تاہم شعر کی ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے بھی میں نے یہ سمجھا ہے کہ لفظ خودی سب سے زیادہ موزوں ہے۔ فارسی زبان میں کسی قدر اس بات کی شہادت بھی موجود ہے کہ لفظ خودی ایغو کے سادہ مفہوم یعنی ’’من‘‘ کے بے رنگ معنوں میں استعمال کیا گیا ہے گویا مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے خودی کا لفظ ’’من‘‘ کے اس ناقابل بیان احسا س کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو ہرفرد انسانی کی بے مثل انفرادیت کی بنیاد ہوتا ہے‘ مابعد الطبیعیاتی طور پر اس لفظ کا کوئی مفہوم ایسے لوگوں کے لیے نہیں جو اس کے اخلاقی مفہوم سے نجات نہیں پا سکتے میں زبور عجم میں پہلے کہ چکا ہوں : گرفتم ایں کہ شراب خودی بسے تلخ است بد رو خویش نگر زہر ما بدر مان کش ترجمہ: خود ی کی شراب بے شک تلخ ہے لیکن اپنے مرض پر نگاہ رکھو اور اپنی صحت کی خاطر میرے زہر کو پی لو۔ جب میں نفی خودی کی مذمت کرتا ہوں ت ومیرا مطلب اس سے اخلاقی معنوںمیں ایثاریا نفس کشی کی مذمت نہیں ہوتا۔ نفی خودی کی مذمت میں ایسے افعال کی مذمت کرتا ہوں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ’’میں‘‘ کو ایک مابعد الطبیعیاتی قوت کی حیثیت سے مٹا دیا جائے کیونکہ اسے مٹانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اجزا بکھر جائیں وہ حیات بعد ممات کے قابل نہ رہے جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں اسلامی تصوف کا نصب العین خودی کا مٹانا نہیں۔ اسلامی تصوف میں فنا سے مراد انسانی ایغو کا مٹانا نہیں بلکہ اس کا مکمل طور پر خدا کی ذات کے سپر د کر دینا ہے اسلامی تصوف کا نصب العین ایک ایسا مقام ہے جو فنا کے مقام سے بھی آگے ہے یعنی مقام بقا جو میرے نقطہ نظر سے اثبات خودی کا بلند ترین مقام ہے جب میں کہتا ہوں کہ لعل کی طرح سخت ہو جائو تو میری مراد نیتشے کی طرح یہ نہیں ہوتی کہ بے رحم ارو بے درد ہو جائے بلکہ یہ ہوتی ہے کہ خودی کے عناصر کو مجتمع کرو تاکہ وہ بعد از مرگ زندہ رہنے کے لیے فنا کا مقابلہ کر سکے۔ اخلاقی نقطہ نظر سے لفظ خودی(جیسا کہ اسے میں نے استعمال کیا ہے) کا مطلب ہے خود اعتمادی خودداری اپنی ذات پر بھروسہ حفاظت ذات بلکہ اپنے آ پ کو غالب کرنے کی کوشش جبکہ ایسا کرنا زندگی کے مقاصد کے لیے اور صداقت انصاف اور فرض کے تقاضوں کو پورا کرنے کی قوت کے لیے ضروری ہو اس قسم کا کردار میرے اخلاق میں اخلاقی ہے کیونکہ وہ خود ی کو اپنے قویٰ کے مجتمع کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ اور ا س طرح تخیل اور انتشار کی قوتوں کے خلاف خودی کو سخت کر دیتا ہے عملی طور پر مابعد الطبیعیاتی ایغو دو بڑے حقوق کا علم بردار ہے اول زندہ رہنے کا حق او ر دوئم آزا د رہنے کا حق جیساکہ خداوندی قانون نے مقرر کیا ہو‘‘۔ خودی ذہنی کیفیتوں کو منظم کرتی ہے خودی کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ ہے کہ وہ ہماری ذہنی حالتوں میں وحدت پیدا کرتی ہے اقبال نے لکھا ہے: ’’خودی ذہنی حالتوں کی ایک وحدت کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے ذہنی حالتیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتیں وہ ایک دورے کو شامل ہوتی ہیں اور حقیقتاً ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں وہ ایک مرکب کل کی جسے ہم ذہن کہتے ہیں بدلی ہوئی کیفیتوں کے طور پر ہوتی ہیں آپس میں تعلق رکھنے والی ان حالتو ں کی وحدت یا یوں کہیے کہ واقعات کی عضویاتی وحدت ایک مخصوص طرز کی وحدت ہوتی ہے یہ ایک مادی شے کی وحدت سے بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایک مادی چیز کے اجزا ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں ذہنی وحدت قطعی طور پر بے مثال ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ میرا فلاں اعتقاد میرے دوسرے اعتقاد کے دائیں یا بائیں طرف پڑا ہے اورنہ ہی یہ کہنا ممکن ہے کہ روضہ تاج محل کے حسن کا احساس جو میرے دل میں ہے آگرہ سے میری دوری کی نسبت سے بدلتا رہتا ہے‘ میرا گنجائش کا تصور گنجائش کی دنیا میں گنجائش سے متعلق نہیں ہوتا۔ درحقیقت خودی گنجائش کی ایک سے زیادہ دنیائوں کا تصور پیداکر سکتی ہے۔ بیدار شعور کی گنجائش اور عالم خواب کی گنجائش آپس میں کوئی تعلق نہیں رکھتیں وہ نہ ایک دوسرے سے مزاحمت کرتی ہیں ارو نہ ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہیں۔ جسم کے لیے صرف ایک ہی قسم کی گنجائش ہو سکتی ہے لہٰذا خودی جسم کی طرح گنجائش کی پابند نہیں‘‘۔ خودی کی تنہائی اور انفرادیت خودی کا ایک وصف اس کی تنہائی ہے جس کی وجہ سے ہر خودی بے چگوں اور بے نظیر ہوتی ہے اقبال خودی کے اس وصف کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’’ایک خاص نتیجہ پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک منطقی قضیہ کے تمام بنیادی مفروضات ایک ہی خودی کے اعتقادات میں شامل ہوں اگر میں اس مسئلہ پر یقین رکھوں کہ تمام انسان فانی ہیں اور ایک اور خودی اس مسئل پر یقین رکھتی ہے کہ ارسطو ایک انسان ہے تو اس حالت میں کوئی نتیجہ ممکن نہیں ہوتا۔ نتیجہ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ دونوں مسئلوں پر میں خود یقین کروں پھر کسی چیز کے لیے میری خواہش بنیادی طور پر میری ہی ہوتی ہے اس کی تشفی سے میری ذاتی تسکین ہوتی ہے اگر اتفاقاً تمام بنی نو ع انسان اییک ہی چیز کی خواہش مند ہے تو ان سب کی خواہش کی تسکین سے بھی میر ذاتی تسکین ہوتی ہے۔ اگر اتفاقاً تمام نو ع انسانی ایک ہی چیز کی خواہش مند ہو تو ان سب کی خواہش کی تسکین سیبھی میری خواہش کی تسکین نہ ہو گی جب تک کہ وہ چیز خود مجھے میسر نہ آئے دندان ساز میرے دانت کے درد کے لیے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن میرے درد کو محسوس نہیں کر سکتا۔ میری راحتیں میری کلفتیں اورمیر ی خواہشیں فقط میری ہی ہوتی ہیں اور میر ی ہی مخصوص خود ی کے اجزا و عناصر شمار کی جا سکتی ہیں جب میرے اس عمل کی ایک سے زیادہ راہیں کھلی ہوئی ہیں تو ان میں سے ایک راہ کو اختیار کرنے کے لیے مجھے ہی محسوس کرنافیصلہ کرنا یا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ خود خدا بھی ظاہری طور پر اور براہ راست میرے لیے یہ کام نہیںکرتا۔ اسی طرح سے آپ کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ میں ماضی میں آپ سے متعارف ہو چکا ہوں میرا کسی مقام یا شخص کو پہچان لینا میرے ماضی کے کسی جربہ کی بنا پر ہی ہو سکتا ہے اور کسی دوسری خودی کے ماضی کے تجربہ کی بنا پر نہیں ہو سکتا اپنی ذہنی حالتوں کے اس عجیب و غریب و باہمی تعلق کو ہم فقط ’’میں‘‘ کے لفظ سے ظاہر کرتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں نفسیات کا سب سے بڑا عقدہ ہمارے سامنے نمودار ہونے لگتا ہے۔ اس’’میں‘‘ کی حقیقت کیا ہے‘‘۔ خودی کے اوصاف خودی کوئی ایسی چیز نہیں جو مکان (Space)میں کہیں پڑی ہوئی ہو بلکہ اس کی اصل ایک فعلیت ہے وہ انسان کے فکر و عمل کی ایک قوت ہے جو ایک مقصد اختیار کرتی ہے ۔ اور جس کا مقصد انسان کے افعال کو مربوط کرنا ہے اور ان کے اندر ایک وحدت پیدا کرنا ہے یہ انسان کی وہی اندرونی قوت ہے جو فیصے کرتی ہے اندازے قائم کرتی ہے اور معلومات حاصل کرتی ہے۔ انسان کے رجحانات فکر و عمل طے کرتی ہے اور اس کی آرزوئوں اور امیدوں کا اور اس کے عزائم اور مقاصد کا اور اس کے اندرونی احساسات و جذبات کا سرچشمہ ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’جہاں اندرونی احساس موجود ہو وہاں خودی گویا اپنا کام کر رہی ہے خود خودی کو ہما س وقت جانتے ہیں جب وہ کچھ معلوم کر رہی ہو‘ فیصلہ کر رہی ہو یا عزم کر رہی ہو‘ خودی یا روح کی زندگی ایک قسم کا تنائو ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خودی اپنے ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہو اور ماحول خودی پر اثر انداز ہو رہاہو خودی باہمی اثر اندازی کے اس میدان سے باہر کھڑی نہیں رہتی بلکہ اس کے اندر ایک حکمران قوت کی حیثیت سے موجود رہتی ہے اور اپنے تجربات کے ذریعہ سے اپنی تعمیر اور تربیت کرتی ہے۔ اور اس موضوع پر قرآن کا ارشاد واضح ہے: یسئلوک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاً (یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں کہیے روح خدا کے حکم کی پیداوار ہے اور تم لوگ کم ہی علم دیے گئے ہو)۔ لفظ امر کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن نے خلق اور امر کے درمیان جو فرق کیا ہے ہم اس کی طرف رجو ع کریں خلق کے معنی ہیں پیدا کرنا اور امر کے معنی ہیں حکم کرنا جیسا کہ قرآن میں ہے الخلاق والامر (اسی کے لیے پیدا کرنا اور حکم کرنا بھی) اوپرنقل کی ہوئی آیت کا مطلب یہ ہے کہ روح بنیادی فطرت حکم ہے کیونکہ وہ خدا کی حکمران قوت سے پیدا ہوتا ہے اگرچہ ہم یہ نہیں جانتے کہ کس طرح سے خدا کا حکم ان وحدتوں کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک ایک خودی ہے۔ ضمیر متکلم جو لفظ ربی میں ہے خودی کی فطرت اور اس کے کردار پر مزید روشنی ڈالتی ہے اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ روح کو ایک ایسی چیز سمجھا جائے کہ جو منفرد اور معین ہو اور تمام اختلافات کے سمیت جو اس کی وسعت میں اس کے توازن میں اور اس کی وحدت کی اثر اندازی میں پائے جاتے ہیں۔ کل یمعل علی شاکلتہ وربکم اعلم بمن ھوا اھلی سبیلا (ہر شخص اپنے طریق کار پر کام کرتا ہے اور تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہے جس کی راہ سب سے زیادہ صحیح ہے) اس طرح سے میری اصل شخصیت ایک چیز نہیں کہ بلکہ ایک فعل قرار پاتی ہے میرا تجربہ ایسے افعال کاایک سلسلہ ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ایک حکمران مقصد کی وحدت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے میری ساری حقیقت میرے حکمران جذبہ فکر و عمل کے اندر موجود ہے آپ میرا تصور اس طرح سے نہیں کر سکتے کہ گویا میں کوئی چیز ہوں جو فاصلہ کے اندر کہیں پری ہے یا گویا میں مادی دنیا کے اندر موجود تجربات کا ایک سلسلہ ہوں بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ میری تشریح تفہیم یا تعریف میرے اندازوں اور فیصلوں کی بنا پر میرے رجحانات فکر و عمل کی بنا پر میرے عزائم اور مقاصد اور میری آرزوئوں اور امیدوں کی بنا پر کریں‘‘(ضمناً اس اقتباس سے یہ بات بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ جس چیز کے لیے قرآن نے روح کا لفظ استعمال کیا ہے اسی کو اقبال خودی کہتا ہے)۔ خودی مادہ سے پیدا نہیں ہوئی مغرب کے بعض حقیقت ناشناس حکمانے یہ سمجھا ہے کہ انسان کا شعور یا اس کی خودی فقط مادہ کی ایک ترقی یافتہ حالت کا وسٖ ہے جب مادہ کے ذرات ترق کر کے حیوان کے دماغ کی صورت میں ایک خاص قسم کی طبیعیاتی اور کیمیائی ترکیب حاصل کر لیتا ہے تو اس میں شعور کا جوہر پیدا ہو جتا ہے اور جب یہ ترتیب اور ترکیب ختم ہو جاتی ہے تو یہ جوہر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اقبال ایسے حکماء مادیین سے یکسر اختلاف کرتا ہے جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہو سکتی ہے لہٰذا ہمیشہ موت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں وہ جب تک وہ مر نہیں جاتے ممکن نہیں کہ وہ موت کے غم سے نجات پا سکیں‘ چنانچہ اقبال مادہ پرست حکیم کے پیرو سے خطاب کر کے کہتا ہے : تیری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی اقبال کے نزدیک خودی مادہ کی کسی ترقی یافتہ حالت کا نام نہیںبلکہ مادہ کی ہر حالت کا وجو د اس کا مرہون منتہے وہ مادہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس نے مادہ کو پید اکیا ہے روح کی خاصیت یہ ہے کہ وہ خدا کی محبت کی شراب سے مست ہوتی ہے گویا روح سے محبت ہے اور انسانی جسم جو مادہیا خاک سے بنا ہے اس مے کا ساغر ہے۔ اقبال ان لوگوں سے جو مدت سے جسم اور جان کے باہمی تعلق کے متعلق الجھن میںپڑے ہیں اور نہیںجانتے کہ آیا روح جسم (خاک تیرہ) سے ہے یا جسم رو سے خطاب کر کے کہتا ہے کہ اصل مشکل یہ نہیں کہ مے ساغر سے ہے یا ساغر مے سے یعنی جسم روح سے ہے یا روح جسم سے بلکہ یہ سار مے سے کیسے بھرا جائے یعنی محبت کاکممال جو روح کی بالیدگی کے لیے ضروری ہے کیسے حاصل کیا جائے تاہم یو سمجھ لینا چاہیے کہ جان کا تعلق بدن سے ایسا ہی ہے جیسا کہ معنی کا حرف سے جان یا روح معنی ہے اور جسم حرف جان تن کا جامہ اس طرح سے اوڑھ لیتی ہے جس طرح سے انگارہ نے بھی اپنا قبائے خاکستر خود تیار کیاہے جس طرح حرف معنی سے پیدا ہوتا ہے معنی حرف سے پیدا نہیں ہوتا اور خاکستر انگارہ سے بنتا ہے انگارہ خاکستر سے پیدا نہیں ہوتا اسی طرح سے انسانی جسم اپنی جبلتوں یا حیوان قسم کی خواہشوں کے سمیت خودی سے پیدا ہوتا ہے اور خودی جسم سے پیدا نہیں ہوتی۔ : عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی روح کس جوہر سے خاک تیرہ کس جوہر سے ہے میری مشکل مستی و سوز و سرور و درد داغ تیری مشکل مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے ارتباط حرف و معنی اختلاط جان و تن جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے خودی حقیقت کائنات ہے یہ کہنا کہ انسانی خودی نے انسانی جسم اور انسانی جسم کی خواہشات کو خود پیدا کیاہے اوروہ جسم کے پیدا نہیں ہوئی اس لیے درستہے کہ کائنات کی آخری حقیقت بھی ایک خودی ہے جس کو اقبال فلسہ کی زبان میں کائناتی خودی کہتا ہے اور جس کو مذہب کی زبان میں خدا کہا جاتا ہے کائناتی خودی کے مقصد نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے اور یہی اس کا مقصد شعور کی صورت میں اس کائنات کے اندر نمودار ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کائناتی خودی کا یہی مقصد ہے کہ جو انسان کے جسم کو پیدا کر کے اس کے اندر انسانی خودی یا انا کی صورت میں آشکار ہوا ہے ان معنوں میں یہ کہنا بجا ہے کہ انسان کی خودی نے ہی انسان کے جسم کو پیدا کیا ہے: قالب از ماست شد مانے ازو ساغر از مے مست شد نے مے ازو اگر پوچھا جائے کہ ایک کرسی کی حقیقت کیا ہے تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ لکڑی لیکن لکڑی کی حقیقت کیا ہے؟ سائسن کا طالب علم بجا طور پر اس کا جواب دے گا کاربن لیکن کاربن کی حقیقت بھی کچھ ہے اور وہ ایک خاص قسم کے غیر مرئی ذرات ہیں جن کو جواہر (Atoms) کہ اجاتا ہے پھر ان سالمات کی حقیقت برقی توانائی ہے لیکن کیا برقی توانائی کائنات کی آخری حقیقت ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور حقیقت ایسی نہیں کہ جس کی پھر کوئی حقیقت نہ ہو۔ اقبال اپنی انگریزی کتاب (Reconstruction of Religious Thoughts in Islam)میں ایک طویل بحث کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے: The Ultimate Nature of Reality is Spiritual and must be considered as in Ego. (ترجمہ) کائنات کی آخری حقیقت فطرت روحانی ہے اور ضروری ہے کہ اسے ایک خودی یا ایغو تصور کیا جائے ) اس کا مطلب یہ ہے کہ قدرت کے تمام مظاہر کا اور پوری کائنات کے وجود کا باعث خودی ہے۔ یہ عالم یہ بت خانہ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سومنات چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے اسی کے بیاباں اسی کے ببول اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ہیں پھول ٭٭٭ پیکر ہستی ز آثار خودیست ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد یونانی حکما کے قیاسات جب سے حضرت انسان نے کائنات پر غور و فکر کا آغاز کیا ہے اس حقیقت کا ایک غیر متزلزل اور سکون پرور وجدانی احساس اس کا شریک کار رہا ہے کہ گویہ کائنات ایک بے حد و حساب کثرت کی صورت میں ہے تاہم یہ کثرت کسی ایک ہی چیز کے ایسے مختلف مظاہر پر مشتمل ہے جو بالاخر پھر اسی کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور اس میں مل جاتے ہیں لیکن وہ ایک ہی چیز فی الواقع کون سی ہے یہ مسئلہ ہمیشہ اس کی ذہنی کاوشوں کا موضوع بنا رہا ہے۔ سب سے پہلے چھٹی صدی قبل مسیح میں یونانی فلسفیوں نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں کیں۔ یونانی فلسفی تھیلز (Thales) کا خیال تھا کہ دنیا پانی سے بنی ہے اور تماما شیاء پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں، انیکسی مینز (Anaxemeanes) نے پانی کی بجائے ہوا کو تمام اشیاء کا ہیولیٰ قرار دیا۔ انیکسی مینڈر (Anaxemander) کا یہ خیال تھا کہ پانی، ہوا، آگ، مٹی ایسے عناصر دراصل کسی اور ہی چیز سے الگ ہو کر صورت پذیر ہوئے ہیں جو غیر محدود اور غیر متشکل ہے۔ دیماکر یطس (Demacritus) نے جسے موجودہ علم طبیعات کا بانی کہا جاتا ہے یہ نظریہ قائم کیا کہ دنیا کی آخری حقیقت جواہر (Atoms) ہیں جو حجم اور صورت میں مختلف ہوتے ہیں۔ تمام مرکب اجسام ان ہی سے بنے ہیں اور مرکب اجسام کے اندر جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کا باعث کچھ تو یہ ہے کہ جن جواہر سے وہ بنتے ہیں وہ حجم اور صورت میں مختلف ہوتے ہیں اور کچھ یہ کہ ان کے جواہر کی ترتیب الگ الگ ہوتی ہے۔ حقیقت کائنات کے متعلق قدیم حکمائے یونان کے ان نظریات میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ اس حقیقت کی نوعیت مادی ہے اس لحاظ سے یہ نظریات دور حاضر کے حکمائے مادیین کے نظریات سے مختلف نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مادہ کے اوصاف و خواص کے متعلق آج کے حکمائے ماویین کے تصورات زیادہ واضح ہیں تاہم ہمارے ان جدید حکماء کے نظریات اس بات کی تسلی بخش وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ مادہ کے اندر زندگی اور شعور کے اوصاف کیونکر نمودار ہو گئے ہیں۔ شعور اور مادہ کا فرق بظاہر شعور اور مادہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، مادہ بے حس اور بے جان ہے آپ ایک کرسی کو آگے یا پیچھے یا دائیں یا بائیں دھکیل سکتے ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں، اگر چاہیں تو اس کے اجزاء کو الگ الگ کر سکتے ہیں اور پھر جوڑ سکتے ہیں کرسی آپ سے کوئی مزاحمت نہیں کرے گی۔ اس کا اپنا کوئی مقصد یا مدعا نہیں، تمام بے جان مادی اشیاء کی حالت ایسی ہی ہے لیکن شعور کی کیفیت مادہ سے بالکل جدا ہے عام معنوں کے لحاظ سے جب مادہ کے اندر شعور موجود ہو تو وہ ایک اندرونی مقصد یا مدعا کے مطابق حرکت کا اظہار کر سکتا ہے اگر آپ ایک حیوان کی حرکات کو اپنی خواہش کے مطابق ضبط میں لانا چاہیں تو آپ کو ایک نہایت ہی پیچیدہ عمل کرنا پڑے گا جو اس بات کے گہرے مطالعہ پر موقوف ہو گا کہ ایک حیوان کا کردار خارجی اثرات سے کیونکر متاثر ہوتا ہے اور پھر بھی اس میں آپ کو پوری کامیابی حاصل نہ ہو سکے گی اور وہ اس لئے کہ ہر حیوان کی حرکات اس کے اپنے اندرونی مقصد یا مدعا کے مطابق سرزد ہوتی ہیں اس بنا پر مدعا کے مطابق عمل کرنا شعور کا ایک خاصہ قرار دیا گیا ہے جو مادہ میں قطعاً موجود نہیں۔ مادہ اور شعور کی اصل ایک ہے لیکن مادہ اور شعور کے اس نہایت ہی وسیع ظاہری اختلاف کے باوجود فلسفیوں اور سائنس دانوں نے اپنے اس لاشعوری وجدانی اعتقاد کی وجہ سے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ کائنات کی آخری حقیقت ایک ہی ہونی چاہئے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ مادہ اور شعور دونوں کو ایک ہی چیز ثابت کیا جائے اس لئے یا تو وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ شعور دراصل مادہ ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے اور یا یہ کہ مادہ در حقیقت شعور ہی کی صفات کا ایک مظہر ہے۔ سائنس دانوں کا وہ طبقہ جو انیسویں صدی سے تعلق رکھتا ہے، بالعموم اول الذکر نظریہ پیش کرتا رہا ہے اور اس کے برعکس فلسفیوں میں سے اکثر موخر الذکر نظریہ کے حامی رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ مادہ ایک غیر فانی حقیقت ہے اس لئے کسی چیز کی کوئی اصلیت نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے اوصاف و خواص مادہ کی طرح نہ ہوں۔ یعنی جب تک کہ اسے مادہ کی طرح دیکھا اور چھوا نہ جا سکے یا وہ اس قابل نہ ہو کہ معمل میں اس پر مادہ کی طرح تجربات کئے جا سکیں۔ چنانچہ یہ قدرتی بات تھی کہ وہ شعور کو ذی حیات مادہ کی ایک خاصیت قرار دیں یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ شعور کی مانند کوئی چیز تخلیق کائنات کا سبب ہو سکتی ہے یا مظاہر قدرت کے ساتھ اس کا کوئی سروکار یا علاقہ ہو سکتا ہے ان کا خیال تھا کہ شعور مادہ کی ہی ایک خاص حالت کا وصف ہے جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب مادہ ایک خاص کیمیائی ترکیب پا لیتا ہے یا طبیعیات کے خاص قوانین کے تحت میں آ جاتا ہے۔ قدیم سائنس دانوں میں سے بائل (Boyle) 1672-1691ء نے کہا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ’’ جب متحرک مادہ کو اپنی جگہ پر چھوڑ دیا جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس سے انسانوں اور حیوانوں کے مکمل اجسام ایسی حیرت انگیز موجودات یا اس سے بھی زیادہ محیر العقول وہ اجزائے مادہ جو زندہ حیوانات کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں خود بخود وجود میں آ جائیں‘‘ چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے وہ قدرت کے اندر ایک تعمیر کنندہ روح یا قوت شعور کا ہونا ضروری قرار دیتا تھا لیکن انیسویں صدی میں صرف لارڈ کیلون (Kalvin) 1824-1907ء ہی ایک ایسا سائنس دان ہے جس کی ذہانت نے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ قدرت شعور کے اوصاف سے بے بہرہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ کائنات کے اندر ایک تخلیقی اور رہنما قوت بھی کار فرما ہے تاہم فلسفہ جو سائنس کی طرح حقیقت کی کسی جزوی یا محدود واقفیت پر کبھی قانع نہیں ہو ااور جو تلاش حقائق میں وجدان کی راہ نمائی سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، ہمیشہ اس بات پر اسرار کرتا رہا ہے کہ عقدہ کائنات کا معقول اور مکمل حل جس کے لئے انسان فطری طور پر بیتاب ہے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نظام عالم میں شعور کو ایک مرکزی حیثیت نہ دی جائے۔ قرون وسطیٰ کی اروپائی حکمت کا مقصد تو عیسائیت کی عقلی توجیہہ کے سوائے اور کچھ نہ تھا لیکن شعور جیسا کہ وہ انسان اور کائنات کے اندر موجود ہے نہ صرف قرون وسطیٰ کے فلسفہ کا بلکہ عصر جدید کے ان بڑے بڑے فلسفیانہ نظریات کا بھی واحد موضوع رہا ہے جو ڈیکارٹ، لیبنر، شوپن ہار، نینٹے، کانت، سپائی نوزا، ہیگل، فشٹے، کروچے اور برگسان ایسے مقتدر فلسفیوں نے پیش کئے ہیں اور جن میں وہ خدا، روح کائنات، حقیقت مطلقہ، تصور مطلق، قوت، ارادہ کائنات، شعور ابدی، افراد حیات، خودی شعوری قوت حیات وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سائنس کی مادیات کو پہلا چیلنج سائنس کی مادیات پر سب سے پہلے جس فلسفی نے شدید اعتراضات کئے وہ انگلستان کا بشپ جارج برکلے تھا جس نے کہا کہ مادی دنیا اپنی کوئی جدا ہستی نہیں رکھتی کیونکہ ہم فقط حواس کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہ جاننا شعور کے بغیر ممکن نہیں چونکہ ہمارے شعور سے باہر مادہ کی کائنات کا اپنا کوئی وجود نہیں ہو سکتا اس لئے جو چیز حقیقتاً موجود ہے وہ شعور ہے نہ کہ مادہ، حواس کے ذریعہ سے ہمیں جس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے وہ مادہ نہیں بلکہ فقط رنگ، صورت، شکل، آواز، نرمی اور سختی وغیرہ مختلف اوصاف ہیں اور ان اوصاف کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ شعور ان کا احساس کرے اور شعور کے بغیر ان میں سے کوئی چیز بھی موجود نہ ہو سکے گی پس مادہ کی حقیقت فقط شعور ہے۔ برکلے اپنے نظریہ کی روشنی میں ایک غیر فانی ابدی شعور کی ہستی کو ثابت کرنے کے لئے جو دلیل قائم کرتا ہے وہ اسی طرح کی ہے۔ ’’ آسمان کے تمام ستارے اور زمین کی تمام چیزیں مختصر یہ کہ وہ تمام اشیاء جو اس کائنات کی ترکیب میں حصہ لیتی ہیں شعور کے بغیر کوئی وجود نہیں رکھتیں اگر میں ان کا احساس نہ کروں یا اگر وہ میرے یا کسی اور مخلوق ہستی کے شعور کے اندر موجود نہ ہوں تو پھر یا تو ان کا کوئی وجود ہی نہیں یا ان کا وجود کسی ابدی شعور کے علم میں ہے۔‘‘ نو تصوریت برکلے کی اس تصوریت کو اس زمانے میں ایک جدید فلسفہ جسے نو تصوریت کہنا چاہئے اور جس کے شارحین اٹلی کے دو فلسفی کروچے اور جینٹلے ہیں بہت مضبوط سہارا مل گیا ہے یہ دونوں فلسفی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کائنات روح اور شعور کے سوا اور کچھ نہیں ان کا فلسفہ نہ صرف زمانہ کے لحاظ سے جدید ترین ہے بلکہ بہت سے حکماء کے خیال کے مطابق موجودہ زمانہ کے فلسفوں میں سے ایک نہایت ہی اچھوتا اور اثر انگیز فلسفہ ہے یہ فلسفہ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہمارے شعور کا احساس ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت کے بارہ میں ہمیں یقین ہو سکتاہے اس مفروضہ سے استدلال کرتے ہوئے ہم اس فلسفیانہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر کائنات کی حقیقت کوئی ایسی چیز ہے جسے ہم جان سکتے ہیں تو وہ لامحالہ ہمارے شعوری تجربہ یا احساس کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور چونکہ خود شعوری ہمارا واضح ترین احساس ہے اس لئے مادی کائنات کی حقیقت بھی لازماً ایک اعلیٰ قسم کی خوشنودی ہے۔ اقبال کی تنقید جیسا کہ پہلے بیان کیاجا چکا ہے انیسویں صدی کے ماہرین طبیعات کے لئے اس قسم کے خیالات کو قبول کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ ایسا کرنے سے قائم بالذات ازلی اور ابدی میکانکی قوی کے طور پر ان کے مادی قوانین کی بنیادیں اکھڑ جاتی تھیں اور ان قوانین کی بنیاد یہ عقیدہ تھا کہ مادہ کا اپنا خارجی وجود ہے جو شعور کے افعال و خواص پر ہر گز موقوف نہیں، اقبال لکھتے ہیں: ’’ طبیعات ایک تجرباتی علم ہے جو ہمارے حسی تجربات سے بحث کرتا ہے ماہر طبیعات کی تحقیق و تجسس کا آغاز و انجام محسوس مظاہر قدرت سے تعلق رکھتا ہے جن کے بغیر وہ اپنے دریافت کئے ہوئے حقائق کی صداقت کا امتحان نہیں کر سکتا یہ صحیح ہے کہ وہ غیر مرئی اشیاء مثلاً جواہر کو بھی اپنے مفروضات میں داخل کرتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بغیر وہ اپنے حسی تجربات کی تشریح نہیں کر سکتا گویا طبیعیات کا علم فقط مادی دنیا کا مطالعہ کرتا ہے جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے جان سکتے ہیں یہ مطالعہ جن ذہنی اعمال و افعال پر یا جن روحانی یا جمالیاتی احساسات و تجربات پر موقوف ہے، اگرچہ وہ سب مل کر ہمارے تجربہ کی پوری وسعت کا ایک عنصر ہیں تاہم وہ طبیعات کے دائرہ تحقیق سے خارج تصور کئے جاتے ہیں اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ طبیعات کا مطالعہ مادی کائنات تک یعنی کائنات کے اس حصہ تک جس کا مشاہدہ ہم اپنے حواس سے کرتے ہیں محدود ہے لیکن جب میں آپ سے پوچھوں کہ آپ مادی دنیا کی کون سی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ اپنے ارد گرد کی معروف اشیاء کا ذکر کریں گے مثلاً زمین، آسمان، پہاڑ، کرسیاں، میز وغیرہ جب میں آپ سے مزید یہ سوال کروں کہ ان اشیاء میں سے آپ خاص کر کس چیز کا مشاہدہ کرتے ہے تو آپ کا جواب فوراً یہ ہو گا کہ ان کی صفات و خصوصیات کا ظاہر ہے کہ اس قسم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ہم اپنے حواس کی شہادت کی حقیقت کا ایک تصور قائم کرتے ہیں اس تصور کا حاصل یہ ہے کہ اشیاء اور ان کے اوصاف الگ الگ چیزیں ہیں یہ دراصل حقیقت مادہ کا ایک نظریہ ہے یعنی محسوسات کی حقیقت اور ادراک کرنے والے شعور کے ساتھ ان کے تعلق اور ان کے بنیادی اسباب کا نظریہ مختصر طور پر یہ نظریہ حسب ذیل ہے۔‘‘ محسوسات (رنگ آواز) ادراک کرنے والے ذہن کی حالتیں ہیں اور لہٰذا اگر قدرت کو خارج میں وجود رکھنے والی کوئی چیز قرار دیا جائے تو یہ قدرت کے دائرے میں نہیں آتیں اس بنا پر وہ کسی معقول معنوں میں مادی اشیاء کی صفات نہیں ہو سکتیں جب میں یہ کہوں کہ آسمان نیلا ہے تو میرا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ آسمان میرے ذہن میں نیلاہٹ کا ایک احساس پیدا کرتاہے یہ نہیں کہ نیلاہٹ ایک صفت ہے جو آسمان میں پائی جاتی ہے ذہنی حالتون کی حیثیت سے وہ تاثرات ہیں یعنی کچھ ایسے نتائج جو ہماری ذات میں نمودار ہوئے ہیں ان نتائج کا سبب مادہ ہے یا مادی چیزیں ہیں جو ہمارے حسی اعصاب اور دماغ کے ذریعہ سے ہمارے شعو رپر اثر انداز ہوتی ہیں یہ مادی سبب چھونے یا ٹکرانے سے عمل کرتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس میں صورت حجم، ٹھوس پن اور مزاحمت کی صفات موجود ہوں۔ پہلا فلسفی جس نے اس نظریہ کی تردید کا کام اپنے ذمہ لیا کہ مادہ ہمارے حسی تجربات کا ایک نا معلوم سبب ہے برکلے (Barkaley) تھا ہمارے زمانے میں وائٹ ہیڈ نے جو ایک ممتاز ماہر ریاضیات اور سائنس دان ہے قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ مادیت کا مروج نظریہ بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس نظریہ کی رو سے رنگ و آواز وغیرہ فقط ذہنی حالتیں ہیں اور قدرت کا کوئی جزو نہیں، آنکھ یا کان میں جو چیز داخل ہوتی ہے وہ رنگ یا آواز نہیں بلکہ وہ ایتھر (Eather) کی نا ابل دید امواج یا ہوا کی نا قابل شنید لہریں ہیں قدرت وہ نہیں جو ہم اسے سمجھتے ہیں ہمارے ادراکات سراب کی طرح ہیں اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ قدرت کی صحیح بے نقابی کرتے ہیں۔ قدرت خود اس نظریہ کے مطابق دو حصوں میں بٹ جاتی ہے ایک ہمارے ذہنی تاثرات اور دوسرے وہ خارجی ناقابل فہم اور نا قابل امتحان موجودات جو ان تاثرات کو پیدا کرتے ہیں، اگر طبیعات فی الواقع مدرک اور معلوم اشیاء کا کوئی مربوط اور صحیح علم ہے تو مادہ کا مروج نظریہ ترک کر دینا ضروری ہے اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ یہ ہمارے حواس کی شہادتوں کو جن پر ایک ماہر طبیعات جو تجربات و مشاہدات سے سروکار رکھتا ہے کلی انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ مشاہدہ کرنے والے کے ذہنی تاثرات سے زیادہ حقیقت نہیں دیتا۔ یہ نظریہ قدرت اور قدرت کا مشاہدہ کرنے والے کے درمیان ایسی خلیج حائل کر دیتا ہے جسے پاٹنے کے لئے اسے اس مشکوک مفروضہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی نامعلوم چیز موجود ہے جو گویا بسیط فضا کے ایک برتن میں پڑی ہے اور کسی خاص قسم کے ٹکراؤ کے نتیجہ کے طور پر ہمارے احساسات کو پیدا کرتی رہتی ہے۔ پروفیسر کے وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں یہ نظریہ قدرت کے ایک حصہ کو محض ایک ’’ خواب‘‘ اور دوسرے حصہ کو محض ایک ’’ انکل‘‘ بنا کر رکھ دیتا ہے اس طرح سے طبیعات اپنی بنیادوں پر تنقید کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بالاخر اس بات کی معقول وجہ پاتی ہے کہ اپنے ہی تراشے ہوئے بت کو آپ ہی توڑ ڈالے اس طرح سے تجرباتی نقطہ نظر جو شروع میں گویا حکمیاتی مادیات کو ضروری قرار دے رہا تھا۔ آخر کار مادہ کے خلاف بغاوت پر ختم ہو جاتا ہے حاصل یہ کہ چونکہ اشیاء ایسی ذہنی حالتیں نہیں جو کسی نامعلوم چیز سے جسے ہم مادہ کا نام دیتے ہیں پیدا ہو رہی ہیں لہٰذا وہ سچ مچ کے مظاہر قدرت ہیں جو قدرت کی حقیقت ہیں اور جن کو ہم بالکل اسی طرح سے جانتے ہیں جیسا کہ وہ فی الواقع قدرت کے اندر موجود ہیں۔ سائنس دانوں کے نئے تصورات جب برکلے نے نیوٹن (Newton) کے طبیعات ی قوانین پر سب سے پہلے اعتراض اٹھایا تو سائنس دانوں نے ایک نفرت آمیز طعن و تشنیع کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ کسے خبر تھی کہ اس بحث میں کہ آیا مادہ حقیقی ہے یا شعور۔ فلسفی جلد ہی سائنس دانوں پر غالب آ جائیں گے اور وہ بھی سائنس دانوں کی اپنی ہی تحقیقات و انکشافات کی بدولت فلسفی تو مدت سے کائنات کی ایک ایسی تشریح پر مصر تھے جو حقیقت شعور پر مبنی تھی اگر ان کا نقطہ نظر عام قبولیت حاصل نہ کر سکا تھا تو اس کی وجہ فقط سائنس ہی کی رکاوٹ تھی لیکن اب بیسویں صدی کی سائنس کے انکشافات سے جن میں نظریہ اضافیت، نظریہ کوانٹم اور عالم حیات کے بعض حقائق شامل ہیں یہ رکاوٹ دور کر دی ہے طبیعات جدید کی تحقیقات نے مادہ کو (جو کسی وقت ٹھوس سادہ اور روشن حقیقت کا درجہ رکھتا تھا) اور اس کے ساتھ قوت، حرکت، فاصلہ، وقت اور ایتھر کو محض لاشے میں بدل دیا ہے ڈاکٹر جوڈ (Joad) کے الفاظ میں: ’’ جدید مادہ ایک ایسی بے حقیقت چیز ہے جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ یہ فاصلہ اور وقت کے مرکب کا ایک ابھار برقی رو کا ایک جال یا امکان کی ایک لہر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے اندر کھو جاتی ہے۔ اکثر اوقات اسے مادہ کی بجائے دیکھنے والے کے شعور کا ہی ایک پھیلاؤ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں: ’’ لیکن مادہ کے تصور کو جس شخص نے سب سے بڑی ضرب لگائی ہے وہ ایک اور ممتاز ماہر طبیعات حکیم آئن سٹائن (Einstien) ہے جس کے انکشافات نے نوع بشر کی علمی دنیا کے اندر ایک دورس انقلاب کی داغ بیل ڈالی ہے۔ رسل (Russel) کہتا ہے ’’ نظریہ اضافیت نے ’’ وقت‘‘ کو ’’ فاصلہ وقت‘‘ میں مدغم کر کے مادہ کے قدیم تصور کو فلسفیوں کے تمام دلائل سے بڑھ کر شکستہ کیا ہے۔ عقل عامہ کے نقطہ نظر سے مادہ ایک ایسی چیز ہے جو مرور وقت سے نہیں بدلتا اور فضا میں حرکت کرتا ہے لیکن اضافیت کی جدید طبیعات کی رو سے یہ نظریہ بے بنیاد ہو گیا ہے اب مادہ کا کوئی جزو ایک ایسی قائم بالذات شے نہیں جس کی فقط حالتیں بدلتی رہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے متعدد واقعات کا ایک نظام ہے۔‘‘ مادہ کا وہ پرانا ٹھوس پن جاتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام خاصیات بھی جاتی رہی ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک فلسفی کو گریز پا خیالات سے زیادہ حقیقی نظر آتا تھا۔‘‘ پروفیسر روژے (Roughier) نظریہ اضافیت سے پیدا ہونے والے نتائج پر بحث کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ فلسفہ اور طبیعات جدید‘‘ میں لکھتا ہے: ’’ اس طرح مادہ الکترانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے جو خود لطیف لہروں کی صورت اختیار کرتے ہوئے فنا ہو جاتے ہیں۔ گویا مادہ کا مستقل نقصان اور قوت کا ناقابل تلافی انتشار عمل میں آتا ہے۔ دوام مادہ کے اس ہمہ گیر اصول کی بجائے جو سائنس دانوں نے سائنس کی بنیاد قرار دیا تھا اور جو اسے قابل فہم بناتا تھا یعنی ’’ نہ تو کوئی چیز وجود میں آتی ہے اور نہ فنا ہوتی ہے۔‘‘ اب ہمیں یہ متضاد اصول وضع کرنا چاہئے کہ ’’ کوئی چیز وجود میں نہیں آتی، ہر چیز فنا ہو جاتی ہے۔‘‘ دنیا ایک آخری بربادی کی طرف بڑھی چلی جا رہی ہے اور ایتھر جس کے بارہ میں ناحق یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ کائنات کا سہارا ہے۔ کائنات کی آخری قبر ثابت ہوتی ہے۔‘‘ ڈاکٹری ہیری شمٹ (Harry Schmidt) نے اپنی کتاب ’’ اضافیت اور کائنات‘‘ میں یہ بتاتے ہوئے کہ نظام عالم میں نظریہ اضافیت کے داخل ہونے کے بعد کائنات کی کیفیت کیا ہوئی ہے بڑے مایوسانہ انداز میں لکھا ہے: ’’ فاصلہ اور وقت بے حقیقت ہو کر رہ گئے ہیں خود حرکت بے معنی ہو گئی ہے اجسام کی شکل و صورت ہمارے نقطہ نظر پر موقوف ہو گئی ہے اور کائنات کی ایتھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی ہے۔ افسوس کہ تم نے خوبصورت دنیا کو ایک شدید ضرب کے ساتھ برباد کر دیا ہے اب یہ ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور اس کے ٹکڑے منتشر کر دئیے گئے ہیں اب ہم ان ٹکڑوں کو فنا کے سپرد کرتے ہیں اور بڑے درد کے ساتھ اس حسن کا ماتم کرتے ہیں جو تباہ ہو گیا ہے۔‘‘ مادہ کی اصل لیکن اگر مادہ حقیقی اور پائیدار نہیں تو پھر مادہ کی عدم موجودگی میں ہم مخلوقات کی اس بو قلمونی اور رنگا رنگی کی وجہ کیا بتا سکتے ہیں جس میں جا بجا حسن کار، ہنر، مدعا، تناسب، ہم آہنگی اور بے خطا ریاضیاتی ذہن کے اوصاف کار فرما نظر آتے ہیں۔ یقینا یہ سب شعور ہی کے اوصاف ہیں لہٰذا شعور ہی کائنات کی آخری حقیقت ہے جس سے دنیا جگمگا رہی ہے مادہ کے فانی ہونے کے بعد اب اس نظریہ کے لئے کائنات کی آخری حقیقت شعور ہے نہ صرف راستہ صاف ہو گیا ہے بلکہ اب اس نظریہ کے تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ آج شعور کو کائنات کی حقیقت قرار دینا عقلی طور پر اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انیسویں صدی میں یہ ماننا ضروری تھا کہ کائنات فقط مادہ سے بنی ہے۔ فلسفہ تو اپنی ساری تاریخ میں سائنس کی تائید کے بغیر بلکہ سائنس کی مخالفت کے باوجود کائنات کی روحانی توجیہہ پر اصرار کرتا رہا ہے اور فلسفہ کا یہ نظریہ قدیم سائنس کے مادیاتی نظریہ سے کسی طرح کم معقول یا کم قابل قبول نہیں تھا لیکن اب سائنس بھی اس کی تائید میں وزن دار شہادت پیش کر رہی ہے۔ چونکہ مادہ بے حقیقت اور فانی ثابت ہوا ہے۔ لہٰذا طبیعات کے ماہرین محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب وہ مادہ کی دنیا کے اندر محدود رہ کر طبیعات کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے اور مجبور ہیں کہ مادہ کی دنیا سے آگے نکل کر صداقت کی جستجو کریں کیونکہ اب مادہ کی حقیقت مادہ سے پرے کی دنیا میں ہی معلوم کی جا سکتی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان اور یورپ کے بہت سے ماہرین طبیعات مثلاً ریڈنگٹن، جینز، وائٹ ہیڈ، آئن سٹائن، شروڈ نگر اور پلانک مادی دنیا کی حقیقت کی وضاحت روحانی نقطہ نظر سے پیش کر رہے ہیں اب وہ ماہرین طبیعات ہی نہیں بلکہ ماہرین ماوراء طبیعات بھی ہیں ان سب سائنس دانوں کے دلائل اس مفروضہ کی تائید کرتی ہیں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے مادہ نہیں۔ جوڈ (Joad) لکھتا ہے: ’’ سر بر آوردہ سائنس دانوں کی نگاہ میں علم طبیعات کی ترقی کی موجودہ منزل ایسے نتائج کی طرف راہ نمائی کر رہی ہے جو قدیم مادیات کے نتائج کے بالکل برعکس ہیں اور جو کائنات کی روحانی توجیہہ کی اتنی ہی پر زور تاکید کرتے ہیں جتنی کہ آج سے پچاس سال پہلے سائنس کائنات کی مادی توجیہہ کی تائید کرتی تھی۔‘‘ نظریہ کو انٹم کے موجد پروفیسر پلانک کے ساتھ مسٹر جے ڈبلیو این سیلون کی ایک گفتگو 26جنوری 1931ء کے رسالہ آبزرور میں شائع ہوئی تھی اس میں پروفیسر پلانک کہتا ہے: ’’ میں شعور کو ایک بنیادی حقیقت سمجھتا ہوں اور مادہ کو شعور کا نتیجہ سمجھتا ہوں ہم شعور سے آگے نہیں جا سکتے ہر چیز جس کا ہم ذکر کرتے ہیں ای جس چیز کو موجود تصور کرتے ہیں اس کی ہستی شعور پر مبنی ہے۔‘‘ سر آلیور لاج (Oliver Lodge) لکھتا ہے: ’’ کائنات پر شعور کی حکومت ہے خواہ یہ شعور کسی ماہر ریاضیات کا سمجھا جائے یا کسی مصور کا یا کسی شاعر کا یا ان سب کا یا ان کے علاوہ اوروں کا یہی وہ حقیقت ہے جو ہستی کو معنی خیز بناتی ہے ہماری روز مرہ کی زندگی میں رونق پیدا کرتی ہے۔ ہماری امید کو بڑھاتی ہے اور جب علم ناکام رہ جاتا ہے تو یقین کے ساتھ ہمیں قوت بخشتی ہے اور تمام کائنات کو ایک لازوال محبت سے پر نور بناتی ہے۔‘‘ جیمز جینز کا معقول استدلال سر جیمز جینز کا استدلال یہ ہے کہ مادہ سب کا سب ریاضیاتی نسبتوں کی صورت میں ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ریاضیات کا دخل جس طرح ایک جوہر کی ہیئت ترکیبی میں نظر آتا ہے اسی طرح فلک کے نظامات میں بھی موجود ہے۔ ریاضیات کے قوانین جس طرح قریب ترین مادی اشیاء پر حاوی ہیں اسی طرح کائنات کے دور دراز حصوں پر بھی حکمران ہے لیکن ریاضیات کا علم جو ہمیں اس وقت حاصل ہے وہ کائنات کے مطالعہ سے حاصل نہیں ہوا بلکہ ہمارے اپنے منطقی یا عقلی استدلال سے حاصل ہوا ہے جس کو کائنات کے مطالعہ سے کوئی تعلق نہیں اپنی قوت استدلال کی راہنمائی میں اپنے ہی ذہن کی پیداوار کے طور پر قوانین ریاضیات کو مرتب کرنے کے بعد جب ہم کارخانہ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ نہ صرف کائنات کی تعمیر ان قواعد کے مطابق ہوئی ہے بلکہ یہی قوانین اس کائنات کی آخری صورت ہیں چونکہ مادہ غیر حقیقی ہے اس لئے کائنات آخر کار قوانین ریاضیات کے ایک مجموعہ کے بغیر کچھ ثابت نہیں ہوتی ہم نے ان قوانین کو جو ہمارے شعور سے باہر کی دنیا میں جاری و ساری ہیں، خود بخود کیونکر دریافت کر لیا اور پھر یہ قوانین مادی دنیا کی تعمیر میں خود بخود کیونکر کام آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ہماری طرح کے ایک شعور کی تخلیق ہے یہ شعور ہماری طرح ٹھیک ٹھیک ریاضیاتی یا منطقی انداز کے ساتھ سوچ سمجھ سکتا ہے پس ضروری ہے کہ خارج کی دنیا اور ہمارا اپنا شعور دونوں اسی شعور عالم نے پیدا کئے ہوں سر جیمز جینز اپنی کتاب ’’ پر اسرار کائنات‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ کائنات کسی مادی تشریح کی متحمل نہیں ہو سکتی اور میری رائے میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اپنی حقیقت ایک خیال سے زیادہ نہیں آج سے تیس سال پہلے ہم سمجھتے تھے یا فرض کرتے تھے کہ ہم ایک آخری میکانکی حقیقت کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں آج دنیا بڑی حد تک اس بات پر متفق ہے (اور جہاں تک علم طبیعات کے ماہرین کا تعلق ہے اس رائے سے اختلاف تقریباً مفقود ہے) کہ علم کا دریا ایک غیر میکانکی حقیقت کی طرف بہہ رہا ہے کائنات ایک بڑی مشین یا کل کی بجائے ایک بڑے تصور کی صورت میں نظر آنے لگی ہے اب شعور کوئی ایسی چیز نہیں جو مادہ کی دنیا میں اتفاقاً داخل ہو گئی ہو بلکہ اس کی بجائے ہم یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ ہمیں شعور ہی کو مادہ کی دنیا کا خالق اور حکمران قرار دینا چاہئے ہمارے اپنے شعور کو نہیں بلکہ اس شعور کو جس کے اندر وہ جواہر جن سے ہمارا شعور صورت پذیر ہوا ہے خیالات کی حیثیت رکھتے ہیں تازہ علم ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے پہلے جلد بازی سے قائم کئے ہوئے تاثرات پر کہ ہم ایک ایسی دنیا میں آ پہنچے ہیں جو زندگی سے کچھ سروکار نہیں رکھتی یا زندگی سے عملاً عداوت رکھتی ہے نظر ثانی کریں اغلب ہے کہ مادہ اور شعور کی قدیم دوئی جو اس فرضی عداوت کی ذمہ دار تھی بالکل ناپید ہو جائے گی نہ اس لئے کہ مادہ اور بے حقیقت ثابت ہو جائے گا یا شعور مادہ ہی کی ایک خصوصیت بن جائے گا بلکہ اس لئے کہ ٹھوس اور حقیقی مادہ آخر کار شعور ہی کی ایک مخلوق یا شعور ہی کا ایک ظہور مانا جائے گا ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ایک منظم اور مدبر ہستی کا پتہ دیتی ہے جو ہمارے شعور کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت رکھتی ہے جس حد تک ہمیں علم ہو سکا ہے جذبات اخلاق اور احساس کے اوصاف کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایک ایسے انداز فکر کے لحاظ جسے ہم کسی بہتر لفظ سے تعبیر نہ کر سکنے کی وجہ سے ریاضیاتی انداز فکر کہتے ہیں۔‘‘ حیاتیات کے حقائق کی شہادت برگسان اور ڈریش تصوری اور نو تصوری فلاسفہ کے نظریات اور طبیعات جدید کی شہادت کے علاوہ جن میں سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہر ایک کے اندر اس خیال کی پر زور تائید موجود ہے کہ کائنات کی حقیقت شعور یا روح ہے، حیاتیات کے بعض حقائق بھی اس نتیجہ کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔ ان حقائق کی بنا پر بعض منظم فلسفے قائم کئے گئے ہیں جن میں سے ایک ارتقائے تخلیقی کا فلسفہ ہے جسے برگسان نے مدون کیا ہے اور دوسرا اینٹی لیچی کا فلسفہ ہے جسے ڈریش نے پیش کیا ہے مادیت کے حامیوں کا خیال ہے کہ زندگی مادہ کی ایک خاص حالت کے وصف کے سوا کچھ نہیں جب مادہ ایک خاص کیمیاوی ترکیب کو پا لیتا ہے تو اس میں زندگی کی خاصیت نمودار ہو جاتی ہے حیوان جو اس طرح سے وجود میں آتا ہے ایک حساس مشین یا کل کی طرح ماحول کی کیفیات سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کی جسمانی بناوٹ میں ایک تبدیلی ظاہر ہوتی ہے جوں جوں ادوار گزرتے جاتے ہیں ماحول کی ان نوبہ نو کیفیات کے باعث جن سے حیوان کا سابقہ پڑتا رہتا ہے اس تبدیلی میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس طرح حیوانات کی نئی نئی اقسام وجود میں آتی رہتی ہیں۔ لیکن حیاتیات کی تازہ تحقیقات اس نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتیں۔ پروفیسر جے ایس ہالڈین کا خیال ہے کہ وہ حکماء جو حیاتیات کا مطالعہ سنجیدگی سے کرتے ہیں اب اس بات کے قائل نہیں رہے کہ زندگی فقط مادہ کی کسی خاص کیمیاوی ترکیب کا نتیجہ ہے جرمنی کے ماہر حیاتیات ڈریش (Driesh) کے تجربات بالخصوص اس نتیجہ پر مجبور کرتے ہیں کہ ماحول کی خارجی کیفیات سے متاثر ہونے کے باعث جو حرکات ایک زندہ انسان سے سرزد ہوتی ہیں وہ ایک کل یا مشین کی حرکات سے یکسر مختلف ہیں۔ کل ایک بیرونی طاقت سے حرکت میں لائی جاتی ہے اور خود چند اجزا کے مجموعہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی اس کے برعکس حیوان جسم کی ایک خاص شکل و صورت حاصل کرنے اور قائم رکھنے کے لئے ایک اندرونی میلان کا اظہار کرتا ہے یہ ایک مجموعہ اجزا کی طرح نہیں بلکہ ایک ناقابل تقسیم وحدت کی طرح عمل کرتا ہے جس کے اندر ایک رحجان طبیعت ایسا ہے جو اس وحدت کی ضروریات کی خبر رکھتا ہے اگر ہم ایک کیکڑے کی ٹانگ کاٹ دیں تو اس کی جگہ دوسری ٹانگ پیدا ہو جاتی ہے کوئی کل یا مشین اپنے ٹوٹے ہوئے پرزہ کو خود بخود مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ڈریش نے ایک جنین کو اس کی نشوونما کے شروع میں تجربہ کے لئے دو حصوں میں کاٹا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا کا ایک حصہ بھی نشوونما پا کر مکمل حیوان بن جاتا ہے خواہ جنین کو کہیں سے کاٹا جائے اور خواہ اس کے اس ایک حصہ کی نسبت کل کے ساتھ کچھ ہو۔ تجربہ کے نتائج میں کوئی فرق نہیں آتا اس کا مطلب یہ ہو اکہ وہ خلیات (Cells) جو ایک مکمل جنین میں نشوونما پا کر سر بننے والے ہوں نا مکمل جنین میں ٹانگ بن سکتے ہیں۔ دراصل جنین کا کوئی حصہ بڑھتے ہوئے حیوان کی ضرورت کے مطابق کسی عضو کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ڈریش لکھتا ہے ’’ یہ عجیب کل ہے جس کا ہر حصہ ایک ہی جیسا ہے‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک حصہ کل کی حیثیت کیونکر پیدا کر لیتا ہے، جنین کے اعضاء کی نشوونما میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے اگر ایک نیوٹ (Newt) کی دم کاٹ دی جائے تو اس کی جگہ دوسری دم پیدا ہو جاتی ہے اور اگر دم ابتدا ہی میں کاٹ دی جائے اور ایک تازہ کٹی ہوئی ٹانگ کے بقیہ کے ساتھ جوڑ دی جائے تو دم دم کی شکل میں نہیں بلکہ ٹانگ کی شکل میں نشوونما پانے لگ جاتی ہے۔ کائنات کے مادی اجزا کا ذکر کر کے ہم اس قسم کے حقائق کی کوئی تشریح نہیں کر سکتے اس لئے ڈریش نے جنین کی نشوونما کی تشریح کرنے کے لئے اس مفروضہ کو بیکار سمجھ کر ترک کر دیا کہ زندگی طبیعات یا کیمیا کے خاص خاص قوانین کے عمل کا نتیجہ ہے وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم حیاتیاتی رد عمل کو کسی میکانکی نقطہ نظر سے نہیں سمجھ سکتے اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک سوال کا معقول جواب یا ایک گفتگو کا کوئی ایسا حصہ جو کسی دوسرے حصہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو حیاتیاتی رد عمل مکمل حیوان کا رد عمل ہوتا ہے اس کے کسی جزو کا رد عمل نہیں ہوتا۔ ضروری تھا کہ عمل حیات کی تشریح کے لئے کائنات کا ایک اور روحانی یا غیر مادی عنصر تصور کیا جائے چنانچہ ڈریش نے طبیعاتی کیمیائی نظریہ کو رد کر کے اینٹی لیچی (Entelechy) کا ایک نظریہ پیش کیا۔ا ینٹی لیچی گویا ایک سوچی سمجھی ہوئی تجویز ہے جو کسی نہ کسی طرح حیوان کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کی قوت حیوان کی نشوونما کے دوران میں اس کے ہر ایک حیاتیاتی رد عمل میں نمودار ہوتی ہے۔ حیوان کے اندر ایک مدعا یا مقصد کام کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک مناسب شکل و صورت اختیار کرتا ہے۔ مقصد یا مدعا ایک ایسی خود اختیار تدبیری اور انتظامی قوت شعور ہے جو حیوان کے مجموعی مفاد کے لئے اس کو ڈھالتی اور بناتی ہے اور جو خود اختیار تدبیری اور انتظامی قوت شعور ہے جو حیوان کے مجموعی مفاد کے لئے اس کو ڈھالتی اور بناتی ہے اور خود اپنے ارادہ کو بھی اس مفاد کے اقتضا کے مطابق بدلتی ہے ضروری ہے کہ یہ قوت کائنات کے اندر زندگی کی ساری نشوونما اور ارتقا سے دلچسپی رکھتی ہو۔ برگسان اسی قوت کو قوت حیات (Vital Impestus) کا نام دیتا ہے اس کے نزدیک اس قوت میں اور شعور میں کوئی فرق نہیں۔ ڈریش نے بھی اینٹی لیچی کا تصور شعور اور نفسیات کے مطالعہ کے لئے استعمال کیا ہے اس کے نزدیک جہاں حیاتیات جسم حیوانی کی شعوری نشوونما کا مطالعہ ہے حیوان کا کردار جس میں انسان کا کردار بھی شامل ہے حیوان کی نشوونما سے ملتا جلتا ہے دونوں ایک ہی مقصد یا مدعا کی طرف بڑھتے ہیں جس طرح سے حیوان کی نشوونما کی سمت ایک اینٹی لیچی سے متعین ہوتی ہے اس طرح اس کا کردار ایک مماثل نفسیاتی میلان سے مطمئن ہوتا ہے یہ میلان تازہ جنم لینے والے حیوان کی ان مفید حیات حرکات میں نمودار ہوتا ہے جنہیں وہ کسی تجربہ سے نہیں سیکھتا۔ زندگی کے مطالعہ سے اس طرح کے بعض اور حقائق کا بھی پتہ چلتا ہے جو ڈریش کے نتائج کی تائید کرتے ہیں۔ برگسان نے ان حقائق کو اپنی کتاب ارتقائے تخلیقی (Creative Evolution) میں اس بات کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ زندگی کا مخفی محرک یا مدعا ہی روئے زمین پر حیوانات کی اولین پیدائش اور پھر رفتہ رفتہ ان کی بلند تر اقسام کے ظہور اور ارتقا کا باعث ہوا ہے۔ برگستان کا استدلال لا مارک ( Lamarck) نے حیوانات کے ارتقاء کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ضروری ہے کہ ایک زندہ حیوان کی جسمانی بناوٹ ماحول کی کیفیات سے مطابقت پیدا کرے۔ جب یہ مطابقت پیدا ہو جاتی ہے تو حیوان کے جسم میں ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جو اگلی نسلیں وراثتاً حاصل کرتی ہیں اور چونکہ یہ نسلیں خود بھی مجبور ہوتی ہیں کہ ماحول کے ساتھ جسمانی مطابقت پیدا کریں اس لئے موروثی تغیر میں اور اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حیوان کی ایک اور نئی قسم وجود میں آ جاتی ہے۔ اول تو یہ نظریہ ان حقائق کے خلاف ہے جو اب اچھی طرح سے ثابت ہو چکے ہیں کہ حیوان کے جسم میں ایک نمایاں تبدیلی آہستہ آہستہ جمع ہونے والی چھوٹی تبدیلیوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ فوری طور پر بھی ظاہر ہو جاتی ہے یہ اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک کہ حیوان کے اندر کوئی شعوری یا غیر شعوری میلان ایسا موجود نہ ہو جس سے وہ ایک فوری تبدیلی اور اصلاح اختیار کر سکے۔ دوئم۔ ماحول کے ساتھ جسمانی بناوٹ کو مطابق کرنے کی ضرورت ارتقاء کے رک جانے کی وجہ بن سکتی ہے لیکن اس کے جاری رہنے کی وجہ نہیں بنس کتی۔ جونہی کہ ایک حیوان کی جسمانی ساخت ماحول کے ساتھ اتنی مطابقت حاصل کر لے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو قائم رکھ سکے تو اس کے مزید بدلنے یا ترقی کرنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر مطابقت ماحول فی الواقع زندگی کی حفاظت کے لئے عمل میں آتی ہے تو زندگی کی حفاظت کا انتظام ہو جانے کے بعد حیوان کو زیادہ منظم اور ترقی یافتہ اجسام کی طرف ارتقاء نہیں کرنا چاہئے۔ برگسان لکھتا ہے: ’’ ایک چھوٹا سا جانور زندگی کے حالات کے ساتھ اتنی ہی مطابقت رکھتا ہے جتنا کہ ہمارا جسم کیونکہ وہ اپنی زندگی کو قائم رکھنے پر قادر ہے تو پھر زندگی ایک ایسے جانور کے مرحلے پر پہنچ جانے کے بعد فنا کے خطرات سے بے پرواہ ہو کر مزید ترقی کے راستے پر گامزن کیوں رہتی ہے زندہ حیوانات کے بعض اجسام جو ہم آج دیکھتے ہیں دور دراز زمانوں سے جوں کے توں چلے آئے ہیں اور ادوار کے گزرنے سے ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو پھر زندگی کو آج سے پہلے کسی خاص جسم حیوانی پر جا کر ٹھہر جانا چاہئے تھا لیکن جہاں جہاں ممکن تھا یہ رک کیوں نہ گئی؟ اگر خود اس کے اندر کوئی ایسی قوت محرکہ نہ تھی جو اسے خطرات کے باوجود زیادہ سے زیادہ تنظیم اور ترقی کی منزل کی طرف لے جانا چاہتی تھی تو پھر یہ آگے کس طرح بڑھتی گئی؟‘‘ یہ حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ شعور مادہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ خود بخود موجود ہے شعور خود ایک بنیادی حقیقت ہے اور مادہ کی خاصیات کا مظہر نہیں اگر شعور اپنی جدا حقیقت رکھتا ہے تو مادہ کے بے حقیقت ثابت ہونے کے بعد ہم آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کائنات کی ساری حقیقت بھی یہی ہے اور مادہ اسی سے ظہور پذیر ہوا ہے جس طرح سے حیوانات کی مختلف قسمیں عمل ارتقاء سے وجود میں آئی ہیں اس طرح سے مادہ کی موجودہ حالت بھی عمل ارتقاء کا نتیجہ ہے جو قوت حیوانات کے ارتقاء کا سبب ہے وہی مادہ کے ارتقاء کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا مادہ کی حقیقت بھی شعور ہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ طبیعات جدید اس نتیجہ کی پر زور تائید کرتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ شعور کی صفات کیا ہیں؟ کائناتی شعور کی صفات سر جیمز جینز شعور کی صرف ایک صفت یعنی کامل ذہانت یا کامل ریاضیاتی فکر تسلیم کرتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب ہم شعور عالم کی ایک صفت ریاضیاتی کے قائل ہو جائیں تو ہم اس نتیجہ کو روک نہیں سکتے کہ اس کے اندر وہ تمام صفات موجود ہیں جو ہمارے علم کے مطابق شعور کا خاصہ ہیں اور بغیر کسی استثنا کے ریاضیاتی ذہانت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ سر جیمز جینز نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ شعور عالم ریاضیاتی فکر کے اعتبار سے ہمارے ہی شعور کی طرح ہے لیکن کوئی وجہ نہیں کہ وہ شعور کی دوسری صفات کے اعتبار سے بھی ہمارے ہی شعور کی طرح نہ ہو۔ جہاں تک ہمارے تجربہ کا تعلق ہے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ شعور کے اندر ریاضیاتی فکر تو موجود ہو لیکن شعور کی دوسری صفات مثلاً محبت، اخلاق، جذبات، طلب مدعا وغیرہ موجود نہ ہوں جس طرح دھواں تنہا نہیں ہوتا بلکہ آگ اور اس کی حرارت کے ساتھ پایا جاتا ہے اسی طرح سے ریاضیاتی ذہانت تنہا نہیں ہوتی بلکہ شعور کی باقی صفات کے ساتھ ان کے ایک پہلو کے طور پر پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ کے متعلق جہاں سے دھواں نکل رہا ہو یہ کہئے کہ ہم دھوئیں کی حد تک تو جانتے ہیں کہ وہاں ضرور موجود ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہاں آگ بھی ہے تو یہ موقف علمی اور عقلی طور پر درست نہیں ہو گا جہاں ذہانت اور ریاضیاتی فکر کے اوصاف بدرجہ کمال ہوں گے وہاں شعور کی باقی صفات کا بحالت کمال ہونا بھی ضروری ہے کامل ترین ذہانت کامل ترین شعور کا ہی ایک وصف ہو سکتی ہے اور کامل ترین شعور وہ ہے جو کامل طور پر اپنے آپ سے آگاہ اور خود شناس اور خود شعور ہو اس لئے ایک ریاضیاتی فکر ہی نہیں بلکہ اپنے آپ سے بدرجہ کمال آگاہ ہونے کی وجہ سے ایک کامل شخصیت یا انا یا ایغو ہے اسی کائناتی خودی یا ایغو کو مذہب کی زبان میں خدا کہا جاتا ہے اسی کے مقصد نے کائنات اور جسم انسانی کو پیدا کیا ہے۔ اسی کے مقصد کا دوسرا نام انسانی خودی ہے۔ انسانی خودی کا مرکزی وصف خدا کی محبت ہے انسانی خودی کا سب سے بڑا اور مرکزی وصف یہ ہے کہ اس کے اندر خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ عمل اپنا اظہار پانے کے لئے ہر وقت بیتاب رہتا ہے یہ جذبہ اس قدر طاقتور ہے کہ اگر یہ بھٹک کر انسان کی کسی اور خواہش کو اپنا مقصود نہ بنا لے تو انسان کی تمام انسانی اور حیوانی قسم کی خواہشات کو اپنے تابع رکھتا ہے اور اس کو اپنی غرض کے لئے استعمال کرتا ہے لہٰذا انسان فقط خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر یہ جذبہ ختم ہو جائے تو انسان بھی باقی نہ رہے۔ نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی اقبال نے مرید ہندی اور پیر رومی کی ایک گفتگو نظم کی ہے اس میں جب مرید ہندی پیر رومی سے پوچھتا ہے کہ آدمی کی حقیقت کیا ہے خبر یا نظر تو پیر رومی جواب دیتا ہے: آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است (آدمی کی حقیقت دیدار ہے، اور دیدار سے مراد دوست یعنی خدا کا دیدار ہے، اس کے علاوہ آدمی جو کچھ ہے وہ اس کا چھلکا ہے) خدا کی خواہش خودی کی اپنی خواہش ہے اور انسان کی حیوانی خواہشات خودی کی اپنی خواہشات نہیں بلکہ انسان کے جسم کی خواہشات ہیں جسم خودی کا خدمت گزار ہے اس کا حاکم نہیں اس کی وجہ جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ خودی انسان کے جسم سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خودی نے اپنی غرض کے لئے انسان کے جسم کو اس کی تمام حیوانی قسم کی خواہشات کے سمیت جو اس کی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے کام کرتی ہیں پیدا کیا ہے تاکہ خودی اپنے کئے ہوئے زندہ جسم میں موجود رہ کر خدا کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ خودی کی حقیقت کا راز یہ ہے کہ وہ خدا کو چاہتی ہے اور اس کے سوائے اور کچھ نہیں چاہتی اور خدا کی محبت اسے تیغ برآں بنا دیتی ہے۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ وہ شخص جو اپنے جسم کو ہی اپنا مقصد حیات قرار دے لیتا ہے وہ اپنی خودی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرے اور نشوونما پا کر مکمل ہو جائے۔ لہٰذا وہ اپنی اس غیر دانشمندانہ روش کے شدید نقصانات کو اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں بھی جھیلتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دوسروں کی زمین میں گھر بنا لے اور بعد میں لوگ اسے گرا دیں یا دوسروں کا کام کرنے میں اپنی زندگی صرف کر دے اور اپنا کوئی کام نہ کرے اور بعد میں کف افسوس ملتا رہے۔ مولانا روم ایسے شخص کو تنبیہہ کرتے ہیں: در زمین مرد مان خانہ مکن کار خود کن کار بے گانہ مکن کیست بیگانہ تن خاکئے تو کز برائے ادست غمنا گئے تو شاید یہاں یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا کوئی عقلی اور علمی شواہد ایسے ہیں جو اقبال کے اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ انسان کا مرکزی وصف خدا کی محبت ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں سب سے پہلے انسان اور حیوان کے فرق پر غور کرنا چاہئے۔ ایک مثال سے انسان اور حیوان کے فرق کی وضاحت اس میں شک نہیں، جبلتی یا حیوانی خواہشات مثلاً جبلت تغدیہ، جبلت غضب، جبلت فرار، جبلت جنس، جبلت امومت، جبلت تفوق، جبلت اختیار وغیرہ انسان اور حیوان دونوں میں مساوی طور پر موجود ہیں اس کے باوجود حیوان اور انسان میں کم و بیش کا فرق نہیں بلکہ مخلوقات کی قسم کا فرق ہے یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان ایک برتر اور بہتر قسم کا حیوان ہے یا حیوان ایک کمتر یا پست تر درجہ کا انسان ہے بلکہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انسان مخلوقات کی ایک قسم ہے جو حیوانات سے بالکل جدا اور ممتاز اور ممیز ہے۔ ایک ایسی گھوڑا گاڑی کا تصور کیجئے جس میں بارہ گھوڑے اس سے جتے ہوئے ہیں کہ ہر گھوڑا جدھر چاہے جا سکتا ہے اس قسم کی ایک گاڑی میں اگر گھوڑوں کو ضبط رکھنے والا کوچوان نہ ہو گا تو گاڑی کبھی دائیں طرف حرکت کرے گی اور کبھی بائیں طرف اور کبھی ٹھہر جائے گی اور پھر کبھی ایک رخ پر اور کبھی دوسرے رخ پر چلنے لگے گی لیکن اگر ہم دیکھیں کہ گاڑی نہایت تیزی اور آسانی کے ساتھ ایک خاص سمت میں حرکت کر رہی ہے اور نہایت عمدگی اور صفائی کے ساتھ جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے راستوں کے موڑ کاٹتی چلی جاتی ہے تو ہم فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ گاڑی کے اندر کوئی ہوشیار کوچوان موجود ہے جو گھوڑوں پر پورا ضبط اور کنٹرول رکھتا ہے اور ہر ایک کو روک کر ایک خاص سمت میں چلا جا رہا ہے جو اس نے معین کی ہے۔ حیوان ایک ایسی گھوڑا گاڑی کی طرح ہے جو کوچوان کے بغیر ہو۔ اس کی فطری خواہشات یا جبلتوں میں سے ہر ایک تمام دوسری خواہشات سے قطع نظر کر کے اپنی تشفی کرتی ہے۔ حیوان کی ہر جبلت کے اندر ایک زبردست حیاتیاتی زور یا دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے حیوان اس کی تشفی پر مجبور ہوتا ہے ہر جبلت کی فعلیت بعض خاص اندرونی اور بیرونی حالات اور کوائف کے موجود ہونے پر آغاز کرتی ہے جن کے مجموعہ کو جبلت کی تحریک ( Stimulus) کہا جاتا ہے۔ جبلت کی تحریک اس وقت نمودار ہوتی ہے جب حیوان کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اور نسل کی بقا کے لئے ایک خاص قسم کا عمل کرے جب تحریک موجود ہو جائے تو حیوان جبلت کی فعلیت کو شروع ہونے اور انتہا تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا حیوان اس قابل نہیں ہوتا کہ کسی بہتر اور بلند تر مقصد کے لئے اپنی کسی جبلت کی تشفی کو روک سکے، محدود کر سکے یا ترک کر سکے۔ دراصل حیوان جبلتوں کی تشفی سے بالاتر کوئی مقصد رکھتا ہی نہیں جب بھی حیوان کسی جبلت کی مخالفت پر مجبور ہوتا ہے تو اس کی ایک جبلت کسی دوسری جبلت کی مخالفت کرتی ہے جس کے بعد طاقتور جبلت کمزور جبلت کی جگہ لے لیتی ہے اور کمزور جبلت طاقتور جبلت کی تشفی کے لئے راستہ چھوڑ دیتی ہے۔ انسان کے معاملہ میں صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے انسان کی شخصیت ایک ایسی گھوڑا گاڑی کی طرح ہے جس میں ایک ہوشیار کوچوان موجود ہو۔ انسان میں بھی وہی جبلتیں ہیں جو حیوان میں ہیں اور انسان میں بھی ان کا حیاتیاتی زور یا دباؤ ویسا ہی ہے جیسا کہ حیوان میں ہے۔ تاہم انسان حیوان کے برعکس اپنی ہر جبلت کی تشفی کو جس حد تک چاہے روک سکتا ہے یا کم کر سکتا ہے یا بالکل ترک کر سکتا ہے تاکہ اپنی تمام جبلتوں کو اپنے کسی خاص مقصد کے ماتحت متحد اور منظم کرے اور کسی مطلوبہ سمت کی طرف ان کے اظہار کی راہ نمائی کرے انسان جب اپنی کسی جبلت کی مخالفت کرتا ہے تو اس کی مخالفت حیوان کی طرح بے اختیار اور خود بخود نہیں ہوتی بلکہ ایک اختیاری فیصلہ کے ماتحت ہوتی ہے بالعموم وہ اپنی جبلتوں کی مخالفت اس طرح سے کرتا ہے کہ اس مخالفت کے دوران کسی جبلت کی تشفی ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام جبلتی خواہشات کو روک دیت اہے بلکہ اپنی جان کو جس کی حفاظت کے لئے جبلتیں اپنا کام کرتی ہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تاکہ ہر مزاحمت کے بغیر کسی خاص مقصد کو جو اسے پسند ہے حاصل کر سکے۔ حیوان کی زندگی عمل کے الگ الگ خانوں پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے ہر خانہ پر کسی جبلت کا تسلط ہوتا ہے اور کسی خانہ کا اس سے پہلے اور بعد کے خانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کے برعکس ایک فرد انسانی کی زندگی ایک منظم کل یا وحدت کی صورت اختیار کرتی ہے اور ہر جبلت کے فعل کو (جس حد تک اس کو اپنی تشفی کی اجازت دی گئی ہو) اس طرح سے نظم و ضبط میں لاتی ہے کہ وہ اس وحدت یا کل کا ایک جزو بن جاتا ہے انسان کی جبلتی خواہشات کی یہ تنظیم یا وحدت یا راہ نمائی یا تجدید جو انسان کی اس استعداد سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ جبلتوں کی مخالفت کر سکتا ہے ہر گز ممکن نہ ہوتی، اگر انسان کے اندر ایک ایسی خواہش موجود نہ ہوتی جو جبلتوں پر حکمرانی کر سکتی۔ انسان کی یہی پر اسرار خواہش ہے جو اس کی شخصیت کی گھوڑا گاڑی کے ہوشیار کوچوان کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی شخصیت کے اندر وحدت اور تنظیم پیدا کرتی ہے اس خواہش کی خدمت اور اعانت کے لئے ہی انسان کی تمام دوسری خواہشات موجود ہیں۔ پر اسرار حکمران انسانی خواہش کون سی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پر اسرار خواہش جو انسان کی شخصیت کی گاڑی کے ڈرائیور کا مقام رکھتی ہے اور اس کے تمام اعمال اور افعال کی قوت محرکہ ہے، کون سی ہے اس سوال کے جواب میں ایک حقیقت بالکل واضح ہے کہ وہ کوئی ایسی خواہش ہی ہو سکتی ہے جس سے حیوان محروم ہے اور جو انسان ہی کا خاص امتیاز ہے۔ دور حاضر کے تمام حکماء جنہوں نے فطرت انسانی کے رموز و اسرار پر قلم اٹھایا ہے اس بات پر متفق ہیں کہ انسان میں خواہش موجود ہے کہ وہ کسی نصب العین سے محبت کرے اور یہ خواہش انسان سے نچلے درجہ کے حیوانات میں قطعاً موجود نہیں بظاہر نصب العین سے محبت کرے اور یہ خواہش انسان سے نچلے درجہ کے حیوانات میں قطعاً موجود نہیں بظاہر نصب العین کی محبت کے علاوہ انسان میں اور خواہشات ایسی ہیں جوانسان سے خاص ہیں اور حیوان میں قطعاً موجود نہیں مثلاً نیک عملی کی خواہش، جستجوئے صداقت یا علم کی خواہش تخلیق حسن یا آرٹ کی خواہش لیکن یہ تینوں خواہشات نصب العین کی خواہش کے ماتحت رہ کر اپنا اظہار اپتی ہیں، دراصل یہ تینوں خواہشات نصب العین کی محبت کے تین پہلو ہیں اور نصب العین کی محبت سے الگ اپنا وجود نہیں رکھتیں۔ نصب العین ایک ایسا تصور ہوتا ہے جسے انسان اپنے علم کے مطابق حسن اور کمال کی انتہا سمجھتا ہے انسان سارا حسن جس کی وہ تمنا کرتا ہے اپنے نصب العین کی طرف منسوب کرتا ہے نیکی صداقت اور آرٹ کی خواہشات کا منبع حسن کی یہی آرزو ہے جس کو انسان کا نصب العین اس کے خیال کے مطابق مکمل طور پر مطمئن کرتاہے۔ حسن کی تمنا خواہ کوئی صورت اختیار کرے وہ دراصل انسان کے پسندیدہ نصب العین ہی کی تمنا ہوتی ہے۔ جب ہم اپنے اخلاق میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے نیکی کا نام دیتے ہیں لیکن ہم اسی عمل کو نیک اور حسین سمجھتے ہیں جو ہمارے اپنے ںصب العین سے مطابقت رکھتا ہے اسی طرح سے جب ہم اپنی معلومات میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے علم یا صداقت کی جستجو کہتے ہیں لیکن ہم صرف ان ہی حقائق کو صحیح اور سچا سمجھتے ہیں جو ہمارے نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں یا اس کے خلاف نہ ہوں پھر اسی طرح سے جب ہم اپنی تخلیقات میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے آرٹ کا نام دیتے ہیں لیکن کسی ایسی تخلیق کو حسین نہیں سمجھتے اور نہ اس کی تمنا کرتے ہیں جو ہمارے نصب العین سے مناسبت نہ رکھتی ہو۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ انسان کی تمام خواہشات میں سے صرف ایک خواہش ایسی ہے جو صرف انسان میں ہے اور حیوان میں نہیں اور یہ مخصوص انسانی خواہش نصب العین کی محبت ہے۔ پھر کیا وہ پر اسرار خواہش جو انسان کی جبلتوں پر حکمران ہے جو اس کی شخصیت کی گاڑی کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہتی ہے چلاتی ہے اور جو اس کے تمام اعمال و افعال کا منبع اور سرچشمہ ہے یہی نصب العین کی محبت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب اثبات میں ہو سکتا ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا نصب العین ہی اس کی تمام جبلتی خواہشوں کو کم کرتا یا ترک کرتا ہے بلکہ نصب العین کی محبت ہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ خود اپنی جان عزیز کو بھی جس کی حفاظت کے لئے جبلتی خواہشات پیدا کی گئی ہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے مسلسل واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ انسان دار پر چڑھ جاتا ہے، سینے پر گولی کھا لیتا ہے،ز ہر کا پیالہ پی لیتا ہے لیکن نصب العین کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے باز نہیں آتا۔ خودی اور نصب العین کا باہمی تعلق اقبال نے خودی اور اس کے نصب العین کے باہمی تعلق کا ذکر اس طرح سے کیا ہے کہ گویا خودی نصب العین کی محبت ہے اور نصب العین کی محبت خودی ہے نصب العین کو اقبال کبھی مدعا کبھی مقصد، کبھی مقصود، کبھی آرزو اور کبھی تمنا کا نام دیتا ہے۔ خودی کی بقا کا دار و مدار نصب العین کی محبت پر ہے اس لئے کہ خودی کی زندگی خودی کی حرکت کا ہی دوسرا نام ہے اگر وہ حرکت نہ کرے تو مردہ ہے دریا کی ایک لہر کی طرح کہ جب تک وہ چلتی رہے لہر ہے، تھم جائے تو کچھ بھی نہیں۔ ساحل افتادہ گفت بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موج از خود رفتہ تیز خر امید و گفت بستم اگر بردم اگر نر دم نیستم زندگی یا خودی فقط حرکت یا ذوق پرواز یا ذوق سفر ہے۔ سمجھتا ہے تو راز زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی ٭٭٭ ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں لیکن خودی کی حرکات یا پرواز اس کا سفر نصب العین کی محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ نصب العین کی محبت ہی خودی کو حرکت پر اکساتی ہے اس کی حرکت کی سمت کو معین کرتی ہے اور اس کے کارواں کے لئے درا کا کام دیتی ہے۔ زندگانی را بقا از مدعاست کاروانش را درا از مدعاست خودی کے تمام اعمال و افعال اس کے نصب العین کے حصول کے لئے سر زد ہوتے ہیں۔ خودی اپنے آپ کو کلیتاً نصب العین کے تابع کر دیتی ہے اور اسی کو نیک و بد، خوب و زشت اور حق و باطل کا معیار بناتی ہے اور لہٰذا ہر فعل اور عمل کو اسی کی وجہ سے قبول کرتی یا رد کرتی ہے۔ نصب العین ہمارے عمل کی جان ہے اور جن ہی کی طرح ہمارے عمل کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارا نصب العین ہی ہے جو ہمارے ہر عمل کا کیف و کم معین کرتا ہے۔ چوں حیات از مقصدے محرم شود ضابط اسباب ایں عالم شود خوشتن را تابع مقصد کند بہر او چنید گزیند روکند ہمچو جان مقصود پنہاں در عمل کیف و گم ازدے پذیر و ہر عمل نصب العین ہی اعمال انسانی کی قوت محرکہ ہے نصب العین ہی وہ قوت ہے جو خودی کے عمل کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے اس کی حرکت کو تیز کرتی ہے۔ اسی کی ایڑ سے خودی کے عمل کا گھوڑا باد صر صر کی طرح چلنے لگتا ہے۔ زندگی کی قوتیں سیماب کی طرح ہیں اگر ان کی کوئی سمت معین نہ ہو تو وہ کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لڑھک جاتی ہیں۔ نصب العین ان قوتوں کے بہاؤ کی سمت متعین کرتا ہے۔ لہٰذا ان سب کو ایک مرکز پر لا کر مجتمع اور متحد اور منظم کر دیتا ہے۔ نصب العین فرد کی زندگی کا ایک ایسا مرکز ہے جس کی طرف اس کی تمام قوتیں سمٹ کر آ جاتی ہیں نصب العین کی محبت ہی خودی کے لئے ممکن بناتی ہے کہ اس دنیا کے تمام اسباب و ذرائع کو اپنے کام میں لائے کیونکہ نصب العین ہی ان کے استعمال کی ضرورت محسوس کراتا ہے اگر ہماری رگوں میں خون بڑی تیزی سے گردش کر رہا ہو یعنی اگر ہم اپنی پوری قوت سے سرگرم عمل ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ کسی نصب العین کی شدت محبت ہی ہمیں ایسا کرنے پر اکسا رہی ہے۔ نصب العین کی محبت کے بغیر ہم اپنی کسی اندرونی یا بیرونی قوت کو استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا کوئی مصرف ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا لہٰذا ہماری ہمت بیکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ نصب العین ایک ایسی قوت ہے جس کے اثر سے ایک پوری قوم کے ہاتھ پاؤں متحرک ہو جاتے ہیں اور سینکڑوں گاہیں بیک وقت اپنا زاویہ بدل لیتی ہیں گویا یہی وہ قوت ہے جو ایک قوم کے تمام افراد کو آپس میں متحد و منظم کر کے ایک قوم بناتی ہے نصب العین ہی خودی کی تمام ہنگامہ آرائیوں کے سبب ہے وہی اس کے خاموش اور پر سکون سمندر میں تلاطم پیدا کرتا ہے اب اقبال کے الفاظ میں سنئے: مدعا گرد و اگر مہمیز ما ہمچو صر صر مے رود شبدیز ما مدعا راز بقائے زندگی جمع سیماب قوائے زندگی گردش خونے کہ درد گہائے ماست تیز از سعی حصول مدعاست مدعا مضراب ساز ہمت است مرکزے کو جاذب ہر قوت است دست و پائے قوم راجنبا نداد یک نظر صد چشم را گرداند او آرزو ہنگامہ آرائے خودی موج بیتابے زوریائے خودی ہمارے تمام چھوٹے چھوٹے مقاصد (Ends) نصب العین کے ذیلی اور ضمنی مقاصد ہوتے ہیں جو اس کے ماتحت اس کی اعانت کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور ہم ان کو نصب العین کی اہمیت اور کشش ہی کی وجہ سے اہمیت دینے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نصب العین کی محبت ہمارے تمام اعمال کی قوت محرکہ ہے وہی ان کو پیدا کر کے ان کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ آرزو صید مقاصد را کمند دفتر اعمال را شیرازہ بند نصب العین کی محبت ہی وہ پر اسرار انسانی خواہش ہے جو انسانی شخصیت کی گاڑی کے زبردست کوچوان کی حیثیت رکھتی ہے لیکن شخصیت انسانی کی اس پر اسرار مرکزی اور حکمران خواہش کے متعلق صرف یہ معلوم کر لینا کہ وہ کسی نصب العین کی خواہش ہوتی ہے کافی نہیں جب تک یہ معلوم نہ کیا جائے کہ وہ کون سے نصب العین کی خواہش ہے کیونکہ نصب العین سینکڑوں ہو سکتے ہیں اور ان میں سے بعض مختلف درجوں پر اچھے او ربلند بھی ہو سکتے ہیں اور بعض برے اور پست بھی، ان میں سے کون سا نصب العین ہے جو در حقیقت اس خواہش کا مقصود ہے اور لہٰذا صحیح اور سچا نصب العین ہے چونکہ نصب العین حسن و کمال کا ایک تصور ہوتا ہے اور نصب العین کی خواہش حسن کی خواہش کا دوسرا نام ہے لہٰذا ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ خواہش ایک ایسے نصب العین کے لئے ہے جو منتہائے حسن و کمال ہو یعنی جس کے اندر وہ تمام صفات حسن بدرجہ کمال موجود ہوں جن کا ہم تصور کر سکتے ہیں جو ان تمام نقائص سے کلیتاً پاک ہو جو ہمارے ذہن میں آ سکتے ہیں حسن میں کمال کی خواہش اس لئے شامل ہے کہ جو چیز ناقص ہو وہ حسین نہیں ہو سکتی۔ نقص حسین کا نقیض ہے لہٰذا محبت کا دشمن ہے یہ صحیح ہے کہ بسا اوقات ہم ایک ناقص تصور سے بھی محبت کرتے ہیں لیکن یہ اسی وقت تک ممکن ہوتا ہے جب تک کہ اس کا نقص ہماری نظروں سے اوجھل رہے جوں ہی کہ ہم اس کے کسی نقص کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ہمارے لئے ناممکن ہو جاتا ہے کہ ہم اس کی محبت کو پھر کسی درجہ میں بھی قائم رکھ سکیں یہی وجہ ہے کہ اقبال کہتا ہے کہ ہمارا نصب العین ایسا ہونا چاہئے جس کا حسن مکمل طور پر دلربا ہو جس کے حسن کا احساس یا عشق یہاں تک ترقی کر سکے کہ اس کی شدت اور گہرائی کے اندر کوئی کمی یا کسر باقی نہ رہے یہاں تک کہ انسان کی خودی اس کے عشق کی شراب سے مست اور مخمور ہو جائے۔ اقبال کے نزدیک یہ نکتہ اس قدر اہم ہے کہ اسے جان لینا گویا زندگی کے راز سے واقف ہو جانا ہے اور اسے نہ جاننا راز زندگی سے بیگانگی ہے۔ اے راز از زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز مقصدے از آسمان بالاترے دلربائے دلستانے دلبرے کوئی نصب العین پوری طرح سے دلربا، دلستان اور دلبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دل یا خودی کے تقاضائے حسن و کمال کو پوری طرح سے مطمئن نہ کرے یعنی جب تک کہ وہ حسن کی ان صفات سے بدرجہ کمال بہرہ ور نہ ہو جن سے ہماری خودی محبت کر سکتی ہے اور ان نقائص سے بدرجہ اتم پاک ہو جن کو ہماری خودی نقائص سمجھ کر ناپسند کر سکتی ہے۔ کامل نصب العین کی صفات۔ غیر محدود اور لازوال حسن انسان کے نصب العین کی ان عمومی اور مجمل صفات کی روشنی میں ہم اس کی مخصوص اور مفصل صفات بآسانی معلوم کر سکتے ہیں، مثلاً ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ضروری ہے کہ انسان کے نصب العین کا حسن غیر محدود اور لازوال ہو کیونکہ اگر ایک انسان یہ سمجھتا ہو کہ اس کے نصب العین کے حسن و کمال کی ایک حد ہے جس سے آگے وہ نہیں جا سکتا تو وہ سمجھے گا کہ اس کا ایک حصہ یا ایک پہلو حسن اور زیبائی کے اوصاف سے محروم ہے اور جہاں اس کا حسن ختم ہوتا ہے وہیں سے یہ محرومی شروع ہو جاتی ہے اور پھر اگر وہ یہ جانتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اس کے نصب العین کاحسن ختم ہو جائے گا تو وہ یہ سمجھے گا کہ وہ اب بھی حسین نہیں کیونکہ اس کے حسن کو ختم کرنے والی کل کا دن آج بھی آنے والے دنوں میں شمار ہو رہا ہے۔ ازلی اور ابدی زندگی پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا نصب العین زندہ ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر کسی ایسی چیز کے تصور کو اپنا نصب العین نہیں بنا سکتا جو اس کے نزدیک مردہ اور بے جان ہو وہ خود زندہ ہے۔ لہٰذا کسی ایسی چیز کے لئے جو مردہ ہونے کی وجہ سے اس سے پست تر درجہ کی ہو وہ محبت کا جذبہ محسوس نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی ستائش کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی خدمت کے لئے طرح طرح کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے حسن کی طرح اس کی زندگی غیر فانی ہو کیونکہ اگر اسے یقین ہو جائے کہ اس کا نصب العین کل کو اپنی زندگی سے محروم ہونے والا ہے تو وہ یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو گا کہ وہ آج بھی دائمی زندگی سے محروم ہے یہی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے نصب العین کے اندر زندگی کے وہ تمام اوصاف جن سے وہ آشنا ہے موجود ہوں مثلاً یہ کہ وہ سنے، دیکھے، سمجھے، محسوس کرے اور اس کی محبت کا جواب محبت سے دے۔ محبت اور عدم محبت کے جذبات انسانی دنیا میں اس کا کوئی مقصد یا مدعا ہو اور اسے اس بات کی قدرت حاصل ہو کہ وہ حصول مدعا کے لئے عمل کرے اور اپنے عمل کو کامیاب بنائے دوسرے الفاظ میں اسے اس قابل ہونا چاہئے کہ بعض اعمال کو پسند کرے اور بعض کو نا پسند اور جن اعمال کو پسند کرتا ہو ان کی اعانت اور امداد کرے اور جن کو ناپسند کرتا ہو ان کی مخالفت کرے اور بالآخر روک دے، اپنے مددگاروں اور چاہنے والوں کی حوصلہ افزائی کر سکے اور مخالفوں اور دشمنوں کو سزا دے سکے، مختصر یہ کہ ضروری ہے کہ اس میں محبت اور عدم محبت کے تمام جذبات موجود ہوں اور وہ اپنے مدعا کی پیش برو کے لئے ان کا اظہار کرے اگر کسی انسان کے نصب العین میں یہ اوصاف موجود نہ ہوں یا ان میں سے کوئی ایک صفت بھی موجود نہ ہو اور وہ اس بات سے آگاہ ہو جائے تو اس کے لئے نصب العین سے محبت کرنا اس کی ستائش کرنا یا اس کی خدمت یا اعانت کر نا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ محبت کرنے والے سے عمل کا مطالبہ محبت ہمیشہ محبوب کی خاطر عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی خوشنودی حاصل کی جائے اور وہ رضا مند اور مہربان ہو اور وہ چاہنے والے سے قریب تر آ جائے کوئی نصب العین رکھنے یا کسی نصب العین سے محبت کرنے کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ عمل کے ذریعہ سے اس کی جستجو کی جائے اس کی خدمت اور اعانت کی جائے اور اس طرح سے اس کا قرب ڈھونڈا جائے لیکن اگر ایک نصب العین جس سے انسان محبت کرتا ہے نہ کوئی عمل پسند کرتا ہے اور نہ ناپسند کرتاہے نہ اس کے نزدیک کوئی بات اچھی ہے اور نہ بری، دوسرے الفاظ میں انسانی دنیا میں اس کا کوئی مدعا ایسا نہیں جس کے حصول کے لئے وہ متمنی ہو تو اس کا چاہنے والا کیونکر جان سکتا ہے کہ اس کی خدمت اور اعانت کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے انسان اپنے نصب العین کی اعانت کے لئے عمل کرنا چاہتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ یہ عمل کیا ہو وہ ایسی محبت سے مطمئن نہیں ہو سکتا جو اس سے کسی عمل کا مطالبہ نہ کرے اور جو خود عمل کی صورت اختیار نہ کر سکے اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اس کا نصب العین نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ جانتا ہے، نہ محسوس کرتا ہے نہ اس کی محبت کا جواب دے سکتا ہے نہ اس کی قدر دانی کر سکتا ہے تو وہ اپنے کسی عمل سے کوئی تسلی نہیں پا سکتا اور اس کے دل میں اپنے عمل کو جاری رکھنے کے لئے کوئی جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا جسے ہم نیکی کہتے ہیں وہ انگریزی کی مشہور مثل کے باوجود کبھی آپ اپنا انعام نہیں ہوتی بلکہ آخر کار یہ دل نواز یقین ہمیشہ اس کا انعام ہوتا ہے کہ وہ اس کے نصب العین کے نزدیک ہے جسے وہ ایک شخصیت سمجھتا ہے پسندیدہ ہے۔ قوت اور قدرت پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایک انسان کا نصب العین پوری طرح سے طاقتور اور قوی ہو کیونکہ اگر وہ سمجھے کہ اس کا نصب العین اتنی قوت نہیں رکھتاکہ اپنے مددگاروں کو جو اس کے مدعا کی پیش برو کے لئے کام کرتے ہیں نوازے یا اپنے دشمنوں کو جو اس کے مدعا کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں سزا دے تو وہ محسوس کرنے لگے گا کہ ایسے نصب العین کی محبت یا اعانت ایک بے سود مشغلہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی وہ دنیا کو اپنے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کی پوری سعی کرے گا اس کے دشمن اس کی کوششوں کو ناکام بنا دیں گے اور جو کچھ اس نے بنایا ہے آسانی سے بگاڑ دیں گے لہٰذا وہ سمجھے گا کہ اس کا نصب العین کمزور اور ناتواں ہے اور اس کی محبت یا اعانت کا حقدار نہیں۔ نیکی پھر ضروری ہے کہ اس کے نصب العین کے اندر نیکی کی تمام صفات بدرجہ کمال موجود ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات حسن کی صفات ہیں کیونکہ ہم انہیں چاہتے اور پسند کرتے ہیں اگر وہ محسوس کرنے لگ جائے کہ اس کے نصب العین کے اندر ان میں سے بعض صفات موجود نہیں یا موجود تو ہیں لیکن بدرجہ کمال موجود نہیں تو وہ اس کو ایک نقص تصور کرے گا اور اس سے محبت ترک کر دے گا۔ بے مثلی اور بے چگونی پھر اس کے نصب العین کو اپنی صفات میں بے مثل اور بے نظیر ہونا چاہئے کیونکہ اگر اسے معلوم ہو کہ دنیا میں کوئی اور تصور ایسا ہے جس کے اندر یہ صفات اسی درجہ کمال میں موجود ہیں تو وہ بیک وقت دو نصب العینوں سے محبت کرنے کے لئے مجبور ہو گا اور ایسا کرنا اس کی فطرت کے قوانین کی وجہ سے اس کے لئے نا ممکن ہو گا کوئی شخص بیک وقت دو نصب العینوں سے محبت نہیں کر سکتا اور حسن کی صفات بھی ایسی ہیں کہ وہ ایک سے زیادہ نصب العینوں میں موجود نہیں ہو سکتیں۔ خالقیت آخر کار یہ بھی ضروری ہے کہ پوری کائنات کی تخلیق اس کے نصب العین کے مدعا کے ماتحت اور اس کی خدمت اور اعانت کے لئے ہو اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کا نصب العین خود کائنات کا خالق اور حکمران نہ ہو اور ان تمام صفات کا مالک نہ ہو جو ان دو صفتوں کے اندر مضمر ہیں اگر ایسا نہ ہو تو وہ قوانین قدرت جو کائنات کی مادری حیاتیاتی اور انسانی سطح پر کام کر رہے ہیں اس وجود کی تخلیق نہ ہوں گے جو اس کا نصب العین ہے لہٰذا اس کے اور اس کے نصب العین کے مشترک مدعا کے ساتھ متصادم ہوں گے اور وہ اور اس کا نصب العین اس قابل نہ ہوں گے کہ اس مدعا کو حاصل کر سکیں اور پھر اگر وہ جانتا ہو کہ کائنات جس میں اس کا اپنا وجود بھی شامل ہے خود بخود وجود میں آ گئی ہے اور اس کے نصب العین کی حکمرانی کے دائرہ سے باہر ہے تو وہ محسوس کرے گا کہ اس کا نصب العین اس سے پست تر درجہ کا یا زیادہ سے زیادہ اس سے مساوی درجہ کا کوئی وجود ہے لہٰذا اس سے محبت کرنے یا اس کی خدمت و اعانت کرنے یا اس کے لئے اپنی زندگی کو وقف کرنے کا کوئی جذبہ اپنے دل کے اندر محسوس نہیں کرے گا۔ یہ وہ صفات ہیں جو قرآن حکیم نے خدا کی صفات بتائی ہیں، یہی سبب ہے کہ اقبال رومی کی زبان میں ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی حقیقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کو دیکھنے کی ایک آرزو ہے۔ آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است خودی کی فطرت سے باہر قدم رکھنا ممکن نہیں انسان کسی مذہب یا ملت میں چلا جائے وہ اپنی فطرت سے بھاگ نہیں سکتا اور مجبور ہوتا ہے کہ ہر حالت میں اپنی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرے اگر وہ خدا کی صفات کے حسن و کمال سے آشنا نہ ہو سکے اور لہٰذا خدا سے محبت نہ کر سکے تو اس کا جذبہ محبت کسی غلط نصب العین کے ذریعہ سے اپنے آپ کو مطمئن کرنے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کا نصب العین خواہ کچھ ہو وہ کوئی بے جان چیز مثلا! ایک پتھر یا درخت یا دریا یا پہاڑ ہو یا کوئی بت یا قوم یا ملک یا نسل ہو یا کوئی زندہ حیوان مثلاً گائے یا بندر یا سانپ ہو یا کوئی ایسا تصور ہو جو کسی نظریہ یا ازم کا مرکز ہو۔ انسان ہر حالت میں خدا کی محولہ بالا صفات کو اپنے ںصب العین کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور پر منسوب کرتا ہے مثلاً اگر اس کا نصب العین کسی ایسی چیز کا تصور ہو جو مردہ اور بے جان ہے تو پھر بھی وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ ایک زندہ شخصیت ہے جس کے اندر محبت اور نفرت اور قدرت اور قوت اور حسن اور نیکی اور صداقت کے اوصاف بدرجہ کمال موجود ہیں یہی سبب ہے کہ اس کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ اپنے تمام اعمال کو اس کے تابع کرے اور دل ہی دل میں اس سے دعائیں مانگے اور برکتیں چاہے۔ مرا از خود بروں رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم اسرار حیات کی کلید چونکہ انسان کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ خدا کی آرزو یا محبت ہے اقبال بجا طور پر سمجھتا ہے زندگی کے سر بستہ رموز کی کلید انسان کا اپنا دل ہے اور زندگی کے مقصد کو سمجھنے کے لئے اسے اپنے دل ہی کی آرزو کو سمجھنا چاہئے۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن اپنی اسی آرزو یا محبت کی وجہ سے انسان خدا کے ذکر سے دلجمعی اور اطمینان قلب حاصل کرتا ہے۔ دل ما آتش و تن موج دودش تپیدن دم بدم ساز و جودش بذکر نیم شب جمعیت او چو سیمابے کہ بند و چوب عووش الذین امنو و تطمئن ولبہم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل خدا کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، خبردار دلوں کو اطمینان خدا کے ذکر سے ہی حاصل ہوتا ہے) قرآن حکیم میں ہے کہ ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے ولقد کرمنا بنی آدم( اور بیشک ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے) انسان کی اس عزت اور عظمت کا باعث یہی ہے کہ خدا نے اس کے دل میں اپنی محبت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت انسان کی سب سے بڑی ضرورت خدا ہے اور اس کی باقی تمام ضرورتیں اس سب سے بڑی ضرورت کے ماتحت اس کی خدمت گزار ہیں۔ انسان کی اس ضرورت کا پورا کرنا، اس کو خدا کی معرفت بہم پہنچانا اور اس کو یہ بتایا کہ کون سا عمل خدا کی محبت کی نشوونما کرنے والا ہے اور کون سا اس کے منافی ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خدمت ہے انسان کی ساری رگ و دو کا مقصود انسان کی اس ضرورت کی تکمیل ہونا چاہئے۔ ہم انسانیت کے لئے اور جو کچھ بھی کریں وہ اس ضرورت کی تکمیل کی کوشش کے بالمقابل ہیچ ہے۔ کیونکہ انسان کی اسی ضرورت کا نام انسان یا آدم ہے۔ یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ انسان کی انسانیت کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اسے خدا کی محبت کا جذبہ عطا کیا گیا ہے چونکہ انسان کی اصل خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔ خدا کا منکر ہونے سے جو بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس سے انسان کو اپنا منکر ہونا لازم آتا ہے اگر انسان اپنے آپ پر ایمان لے آئے تو یہ کافی ہے کیونکہ پھر اس ایمان میں خدا پر ایمان لانا خود بخود شامل ہو جاتا ہے انسان کو خود اپنی ذات کی تکمیل اور شخصیت کی نشوونما کے لئے خدا کے تصورکی ضرورت ہے جو شخص خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا ہے وہ در حقیقت اپنی تکمیل کا خواہش مند ہے۔ لہٰذا یہ آخر کار خدا پرستی نہیں بلکہ خود پرستی ہے ہم خودی سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے ہماری خودی ہی سب کچھ ہے اسی کو جاننا، پہچاننا اور اس کی تربیت اور تکمیل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے لیکن اس کا کیا علاج ہے کہ یہ مقصد خدا کی مخلصانہ عبادت اور اطاعت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ مرا از خود برون رفتن محال است بہر رنگے کی ہستم خود پرستم خدا کی محبت کے لئے اقبال کی اصطلاحات انسان سرا سر آرزوئے جمال ہے اور یہ آرزوئے جمال کمزور بھی نہیں بلکہ نہایت طاقتور ہے انسان کیا ہے تمنائے حسن کا ایک زبردست طوفان ہے جو موجزن ہے اگر یہ طوفان تمنا نہ رہے تو انسان بھی باقی نہیں رہتا۔ نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی اسی آرزوئے جمال یا خدا کی محبت کو اقبال نے اپنے کلام میں کبھی آرزو، کبھی تمنا، کبھی دل، کبھی نظر، کبھی نگاہ، کبھی درد، کبھی داغ، کبھی سرور، کبھی سوز، کبھی بادہ، کبھی نشہ، کبھی مشتاقی، کبھی مستی، کبھی شوق، کبھی خون دل، کبھی خون جگر، کبھی آہ سحر، کبھی جان، کبھی غم، کبھی تب و تاب، کبھی جذب اندروں، کبھی جذب مسلمانی، کبھی جذب قلندرانہ، کبھی فقر، کبھی درویشی، کبھی ذوق تجلی، کبھی عشق اور کبھی محبت کے ناموں سے تعبیر کیا ہے اور چونکہ یہ آرزوئے جمال مخالفانہ آرزوؤں سے آزاد ہونے کے بعد نہایت ہی زور دار عمل میں ظاہر ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ تسخیر کائنات ہوتا ہے لہٰذا اقبال اسے کبھی ذوق تسخیر کا نام بھی دیتا ہے۔ چیست جاں جذب و سرود و سوز و درد ذوق تسخیر سپہر گرد گرد خدا کی محبت کے بغیر انسان مردہ ہے جب انسان کی اصل فقط خدا کی محبت ہے اور اس کے علاوہ انسان اور کچھ بھی نہیں یا زیادہ سے زیادہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ یا گوشت کا ایک ڈھیر ہے تو پھر یوں کہنا چاہئے کہ جو شخص ہمہ تن خدا کی محبت نہیں وہ بحیثیت ایک انسان کے موجود ہی نہیں کیونکہ جس حد تک ایک انسان اپنی زندگی کے تقاضوں کی تشفی اور تکمیل کرتا ہے اسی حد تک وہ زندہ اور موجود سمجھا جا سکتا ہے۔ زندگی یا خودی اس وقت آشکار ہوتی ہے جب خدا کی محبت آشکار ہوتی ہے اور اپنی تکمیل اور تشفی کے مدارج سے گزرتی ہے یہی خودی کی نمود یا زندگی کی نمود ہے خدا کی محبت کی تربیت خودی کی نمود ہے اور خودی کی نمود کا ہی دوسرا نام زندگی یا وجود ہے۔ زندگی فقط خدا کی محبت کی آشکارائی ہے۔ اگر خدا کی محبت نہیں تو زندگی بھی نہیں۔ تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا جو شخص اس بات کا قائل نہیں کہ اس کے اندر خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ موجود ہے جس کی تسکینا ور تشفی اسے خدا کا مقرب بنا سکتی ہے وہ شخص اپنے آپ کو ایک انسان کی حیثیت سے نہال سدرہ کی مقدس شاخ یا دوسرے لفظوں میں بالقوہ خدا کا مقرب نہیں سمجھتا بلکہ چمن کائنات کا کوڑا کرکٹ سمجھتا ہے وہ خدا کا ہی منکر نہیں بلکہ اپنا بھی منکر ہے۔ لیکن اگر انسان خدا سے الگ ہو کر خدا کا منکر بنتا ہے توتو اپنے آپ سے الگ ہو کر اپنا منکر تو نہ بنے اگر وہ اپنا منکر نہیں تو پھر اسے خدا کے اقرار سے گریز کیسے ہو سکتا ہے۔ شاخ نہال سدرہ خار و خس چمن مشو منکر او اگر شدی منکر خویشتن مشو خدا کا انکار اپنا انکار ہے خدا کے اقرار کا مقصد یہ ہے کہ خدا سے ایسی محبت کی جائے جس سے انسان کی اپنی شخصیت کی ترقی اور تکمیل ہو۔ جو شخص خدا کا اقرار کرتا ہے لیکن خدا سے محبت نہیں کرتا وہ خدا کے اقرار سے اپنی شخصیت کی تربیت کا فائدہ حاصل نہیں کرتا وہ خدا کا منکر تو نہیں لیکن اپنا منکر ہے جب وہ خدا کے اقرار کے مقصود سے بے خبر ہے تو اس کا اقرار انکار سے بہتر نہیں بلکہ بدتر ہے کہ یہ خدا کو جاننے کے بعد خدا کی ناقدری ہے۔ منکر حق نزو ملا کافر است منکر خود نزو من کافر تر است خدا پر ایمان لانے اور خدا سے محبت کرنے کا فائدہ خود انسان کو ہے کہ اس کے بغیر انسان کا اپنا وجود متحقق نہیں ہو سکتا۔ خودی کی زندگی یہ ہے کہ وہ بڑھے اور پھولے اور تربیت اور ترقی پا کر اپنے مخفی کمالات کو آشکار کرے نشوونما زندگی کا خاصہ ہے۔ زندگی اگر نشوونما نہ پائے تو زندگی نہیں، بیج اگر نشوونما پا رہا ہے تو زندہ ہے اگر نشوونما پانے سے رہ گیا ہے تو مردہ ہے اگر ایک جسم حیوانی نشونما پا رہا ہے تو زندہ ہے ورنہ مردہ ہے یا جان بلبل، اور آشکارائی وجودیا زندگی سے الگ نہیں کئے جا سکتے۔ گفت موجود آنکہ مے خواہد نمود آشکارائی تقاضائے وجود خودی کی زندگی اور ترقی کیلئے خدا کی محبت کی ضرورت لیکن خودی کی تربیت اور ترقی اور نشوونما اور بالیدگی کا مقصد خدا کی محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ خودی فقط خدا ہی کی سمت میں کامل نشوونما پا سکتی ہے۔ لہٰذا خدا کے منکر کو چاہئے کہ اپنی زندگی کی فکر کرے یعنی خدا پر ایمان لائے اور خدا کی محبت کا حق ادا کر کے زندگی پائے۔ وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا جو شخص خدا کے بغیر جی رہا ہے وہ مردار ہے۔ اگرچہ لوگ اس کا ماتم نہیں کرتے۔ آنکہ بے حق زیست جز مردار نیست گرچہ کس در ماتم او زار نیست خدا کی محبت سے دل کی کلی شگفتہ ہوتی ہے جس طرح سے پھول کی کلی نسیم سحر کے بغیر کھل نہیں سکتی۔ انسان کے دل (یعنی خودی) کی کلی خدا کی محبت کے بغیر کھل نہیں سکتی جس طرح سے صبح کی ہوا کے زندگی بخشنے والے اثر سے پھول کی کلی شگفتہ ہو جاتی ہے اسی طرح سے خدا کی محبت کی زندگی اور راحت بخشنے والے اثر سے انسان کا دل مسرت سے بھر جاتا ہے مومن کے دل کی ساری داستان کا حاصل اور ا سکی زندگی کی ساری تگ و دو کا باعث یہ ہے کہ جس طرح کلی نسیم سحر کے لئے تشنہ ہوتی ہے۔ مومن کا دل خدا کی محبت کے لئے تشنہ ہوتا ہے۔ کلی کو دیکھ کہ ہے تشنہ نسیم سحر اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ انسان کا خدا سے بھاگنا اپنی تربیت اور تکمیل کو روک دینا ہے۔ حالانکہ خدا وہ ذات پاک ہے جو انسان کو پیدا کرتی ہے اور پھر اسے جسمانی نشوونما کے کمال پر پہنچاتی ہے۔ یہی ذات پاک اس کی روحانی اور نفسیاتی نشوونما کی ضامن بھی ہے۔ اگر لالہ کی کلی جو کھل کر ایک دلہن کی طرح رنگین لباس میں ملبوس ہو جاتی ہے۔ نسیم سحر سے گریز کرے تو وہ اپنے حسن کے کمال کو کیسے پہنچ سکتی ہے۔ عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں خدا کی محبت خودی کے ارتقا کی شرط ہے انسان کا خدا سے گریز کرنا اپنے آپ سے گریز کرنا ہے کیونکہ خدا کی محبت کے بغیر انسان اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اور اگر انسان خدا سے بھاگے تو زود یا بدیر پھر اس کو خدا ہی کی طرف واپس لوٹنا پڑے گا۔ از کہ بگریزیم از خود ایں محال از کہ رو تابیم از خود ایں خیال مومن اسی حقیقت کا اعتراف کرت اہے جب وہ کہتا ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ منجا من اللہ الا الیہ (کفر اور ہر بری چیز سے بچنا اور ایمان ہر اچھی چیز پر قدرت پانا خدا کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور خدا سے بھاگنے کے بعد اگر کوئی راستہ نجات کا ہے تو خدا ہی کی طرف ہے)جس طرح سے خدا نے انسان کی جسمانی نشوونما اپنے ذمہ لے رکھی ہے اسی طرح سے اس نے انسان کی روحانی یا نفسیاتی نشوونما بھی اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ لیکن چونکہ انسان اپنے فکر و عمل میں آزاد ہے وہ اپنی نشوونما کی روحانی یا نفسیاتی سطح پر اپنے اختیارات کو غلط طور پر کام میں لاتا ہے اور اس طرح سے خدا کے مقاصد میں حائل ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کا روحانی یا نفسیاتی ارتقا جو دراصل اس کی خودی کا ارتقا ہے۔ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے اختیارات کو تمام و کمال خدا کے تابع نہ کر دے اور اپنے آپ کو کلیتاً خدا کے سپرد نہ کر دے۔ اقبال اس خیال کو یوں ظاہر کرتاہے: خویش را در باز و خود را باز گیر دام گستر از نیاز و ناز گیر (اپنے آپ کو ہار دے اور اس کے نتیجہ کے طور پر اپنی خودی کو پالے، اطاعت اور فرمانبرداری کا دام پھیلا اور خود داری کو اپنی گرفت میں لا) یک بینی اور یک اندیشی کے بغیر خودی اپنے آپ کو نہیں پا سکتی چونکہ خدا کی محبت خودی کی مرکزی خواہش ہے اور باقی خواہشات اس کے تابع ہیں جو خواہش اس خواہش کی حریف ہوتی ہے وہ خودی کی اپنی خواہش نہیں ہوتی بلکہ خودی کی خواہش کے راستہ میں ایک ناگوار بلکہ خطرناک رکاوٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر ایسی خواہش کو مٹانا خودی کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ خودی اپنے آپ کو پا سکے اور اپنی فطرت کے مخفی کمالات کو آشکار کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں ماسویٰ اللہ سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہونا خودی کی فطرت ہے۔ جب تک کہ خودی غیر اللہ کے ساتھ وابستہ رہے وہ اپنے آپ کی طرف آنے کے لئے یعنی اپنی فطری محبت کی تشفی اور تکمیل کے لئے آزاد نہیں ہوتی اس کے برعکس جب وہ غیر اللہ سے کٹ جائے تو اپنے آپ کی طرف لوٹنے کے لئے آزاد ہو جاتی ہے اور غیر اللہ کو اپنے نصب العین کے تابع کر دیتی ہے جب تک انسان خدا کی محبت میں پختہ نہ ہو یا ماسویٰ اللہ سے پوری طرح نہیں کٹ سکتا۔ تانہ رمز لا الہ آدمی بدست بند غیر اللہ را نتواں شکست اگر ہم غیر اللہ کی محبت سے کنارہ کش ہو کر خودی کے جذبہ محبت کو آزادی کے ساتھ اپنا اظہار کرنے دیں تو خدا ملتا ہے اور اگر ہم آزادی کے ساتھ خدا کی جستجو کریں تو ہماری خودی اپنے کمال کو پہنچتی ہے گویا ہمیں اپنی خودی سے خدا ملتا ہے اور خدا سے اپنی خودی ملتی ہے اور دونوں انعامات کی حقیقت ایک ہی ہے۔ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم از خودی خدا طلب اس شعر کا پہلا مصرع گویا قرآن حکیم کی اس ایت کا ترجمہ ہے وتتبل الیہ تبتیلا(ہر ایک سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہو جائیے) خدا کی نمود خودی کی نمود ہے انسانی خودی کی زندگی یا اس کے وجود کی علامت یہ ہے کہ وہ برابر نشوونما کرتی رہے اور اس کے مخفی کمالات کی نمود یا آشکارائی ہوتی رہے۔ لیکن یہ بات خدا کی محبت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور جب انسانی خودی کی نمود ہوتی ہے یعنی اس کے مخفی علمی، اخلاقی، روحانی اور جمالیاتی کمالات آشکار ہوتے ہیں تو ا س دنیا میں خدا کی صفات کے کمالات و محاسن کی آشکارائی یا نمود بھی ساتھ ہی عمل میں آتی ہے۔ خدا کی نمود خودی کی نمود کی صورت اختیار کرتی ہے۔ خودی را از وجود حق وجودے خودی را از نمود حق نمودے ٭٭٭ خودی اور تخلیق تخلیق کائنات کا سبب تخلیق کائنات کا باعث خودی کا مرکزی وصف محبت ہے جس کی طرف اقبال بار بار زور دار الفاظ میں توجہ دلاتا ہے۔ خودی ہمہ تن محبت ہے اور اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک نصؓ العینی حسن کے محبوب کی محبت کا جذبہ محسوس کرتی ہے۔ اس سے شدید محبت کرتی ہے اور ہر قسم کی ممکن رکاوٹوں اور مزاحمتوں کو راستہ سے ہٹاتے ہوئے اس کی سمت میں اپنے عمل کو جاری رکھتی ہے یہاں تک کہ اسے پا لیتی ہے۔ نصب العین کی محبت کا یہ وصف جس طرح سے انسانی خودی میں موجود ہے اسی طرح سے کائناتی خودی میں بھی موجود ہے اور دونوں صورتوں میں وہ خود بخود اپنا اظہار پاتا ہے اقبال نے اپنے خطبات میں لکھا ہے: ’’ حقیقت کائنات کوئی ایسی قوت حیات نہیں جو کسی نصب العین سے بے نیاز ہو بلکہ اس کی فطرت سراسر نصب العین کی جستجو ہے۔‘‘ انسان کا نصب العین خدا ہے اور خدا کا نصب العین انسان کی وہ حالت کمال ہے جو اس کے جسمانی کمال کے علاوہ جسے مدت ہوئی وہ حاصل کر چکا ہے اور تمام کمالات یعنی علمی، اخلاقی، روحانی اور جمالیاتی کمالات کی آئینہ دار ہو گی اور جو حالت کمال ہونے کی وجہ سے تمام تعارضات اور تضادات سے مبرا ایک وحدت ہو گی۔ کمال حسن کی اس حالت پر پہنچی ہوئی نوع انسانی کے لئے بطور ایک نصب العین کے خدا نے محبت کا احساس کیا لہٰذا جوش محبت سے اسے وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور اسے لفظ’’ کن‘‘ (ہو جا) کہا تاکہ وہ وجود میں آئے۔ کیونکہ قرآن حکیم میں ہے کہ خدا جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ اس قول کن کا نتیجہ یہ ہے کہ اب وہ بتدریج عالم وجود میں آ رہی ہے یعنی ایک ابتدائی حالت سے آغاز کر کے اپنی حالت کمال کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ کائنات کی اس تدریجی ترقی کا مقصد انسان کی تکمیل ہے کیونکہ صرف انسان ہی خدا کے قول کن کا مدعا اور مخاطب اور اس کے تخلیقی عمل کا نشان یا مقصود ہے۔ ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست انسان خدا کا محبوب اور مقصود ہے جب خدا کی محبت کائنات کی تخلیق اور تدریجی ترقی کی صورت میں اپنے مطلوب کی جستجو کرنے لگی تو اس کا نتیجہ انسان تھا۔ یہی سبب ہے کہ خدا کی محبت کا جلوہ پوری کائنات اور کائنات کی ہر چیز کی تدریجی ترقی اور تربیت کی صورت میں اس کائنات کے مادی پردہ کے پیچھے صاف طور پر نظر آ رہا ہے۔ عشق اندر جستجو افتاد و انسان حاصل است جلوہ او آشکار از پردہ آب و گل است اپنی حالت کمال پر پہنچی ہوئی نوع انسانی خدا کا وہ محبوب ہے جو اس سے کھو گیا ہے اور اب خدا کائنات کے طویل ارتقائی عمل کے ذریعہ سے اس کی جستجو کر رہا ہے۔ خدا بھی ہماری طرح ایک آرزو رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے پیکر خاکی کا دیدار کرے جس کا حسن درجہ کمال پر ہو اس کے دیدار کے لئے اس نے یہ ہنگامہ عالم برپا کیا ہے رنگ و بو کا یہ تماشا خانہ محبوب کے نظارہ کے لئے ایک بہانہ ہے ورنہ اس کا مدعا اور کچھ نہیں: ما از خدائے گم شدہ ایم و جستجوست چوں ما نیاز مند و گرفتار آرزوست ہنگامہ بست از پے دیدار خاکئے نظارہ را بہانہ تماشائے رنگ و بوست کائنات خدا کی ایک آیت یا نشان ہے لیکن آیت کا مطلب بہت دیر کے بعد کھلنے والا ہے کیونکہ اس کا مطلب وہ انسان ہے جو کائنات کے ایک طویل تدریجی ارتقاء کے نتیجہ کے طور پر آئندہ اپنے کمال کو پہنچے گا۔ کائنات کی مادی، حیاتیاتی اور نفسیاتی یا انسانی سطحوں پر خدا کی رنگا رنگ مخلوقات کے قافلے جو ارتقائے کائنات کے مقامات اور مدارج ہیں اسی انسان کی تخلیق اور تکمیل کے سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو وقت کی رفتار یا گردش روزگار جو کائنات کے تدریجی ارتقاء کو اپنے ساتھ لاتی ہے اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ انسان کی خودی اپنے کمال کو پہنچے اور پوری طرح سے آشکار ہو جائے: یہ ہے مقصد گردش روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار اقبال کو بجا طور پر اس بات کی شکایت ہے کہ ہمارے علماء دین جو اس بات کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ خدا انسان کا محبوب ہے اور انسان کو چاہئے کہ خدا کی عبادت اور اطاعت کرے بہت کم اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ انسان بھی خدا کا محبوب ہے اور خدا کے لئے وہ سب کچھ کر رہا ہے جو اسے ایک محبوب کے لئے جسے وہ ترقی دے کر حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانا چاہتا ہے کرنا چاہئے۔ یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ ظاہر ہے کہ یہاں حرم خدا سے اور چراغ امت مسلمہ سے (جو نوع انسانی کے لئے خدا کی روشن کی ہوئی ایک شمع ہے) استعارہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں میں اپنے مستقبل کے متعلق ایک گہری مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ افسوس کہ خدا کا نور جن نگاہوں کے نظاروں کی تمنا خود کر رہا تھا وہی نگاہیں خدا کے نور کے دیدار سے مایوس ہو گئی ہیں۔ خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہو گئیں عمل تخلیق ایک دوسرے کیلئے خدا اور انسان کی جستجو ہے چونکہ انسان کا محبوب خدا ہے اور خدا کا محبوب انسان ہے خدا اور انسان دونوں کائنات کے ارتقائی عمل کے ذریعے سے ایک دوسرے کی جستجو کر رہے ہیں جب انسان اپنی حالت کمال کو پہنچے گا تو اس وقت ایک طرف سے خدا انسان کو پائے گا اور دوسری طرف سے انسان خدا کو پائے گا۔ تلاش اوکنی جز خود نہ یابی تلاش خود کنی جز او نہ بینی اس طرح سے جب خدا کو پانے سے انسان کی اپنی خودی کا مخفی حسن بے حجاب ہو گا تو یہی وقت ہو گا جب انسان کے لئے خدا کا حسن بھی پوری طرح سے بے حجاب ہو گا خدا کی نمود انسان کی نمود ہے اور انسان کی نمود خدا کی نمود ہے۔ نمود اس کی نمود تیری نمود تیری نمود اس کی خدا کو تو بے حجاب کر دے خدا تجھے بے حجاب کر دے خدا اور انسان دونوں کی ایک دوسرے کے لئے جستجو کا عمل ایک ہی ہے یہاں تک کہ یہ کہنا کہ اس عمل کے ذریعہ سے خدا انسان کی جستجو کر رہا ہے یا یہ کہنا کہ انسان خدا کی جستجو کر رہا ہے ایک ہی بات ہے:ـ در خاکدان ما گہر زندگی گم است ایں گوہرے کہ گم شدہ ما ایم یا کہ اوست ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ہر لمحہ بدل کر ایک نئی حالت اختیار کرتی ہے۔ ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود تغیرات کے اس غیر متناہی سلسلہ سے خود ثابت ہوتا ہے کہ کائنات ابھی نامکمل ہے اور اس سے پہلے کہ یہ اپنی حالت کمال کو پہنچے جہاں انسانیت کاملہ کا ظہور ہو اسے ابھی بہت سی منزلوں سے گزرنا ہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون ان تغیرات کی وجہ یہ ہے کہ کائنات بہتر سے بہتر حالتوں کو اختیار کرنا چاہتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خود شہید آرزو ہے اور ہر آن ایک زیادہ خوبصورت اور پھر اس سے بھی زیادہ خوبصورت پیکر کی تمنا اسے دامن گیر رہتی ہے اس کی جستجو اس وقت ختم ہو گی جب نوع انسانی اپنی حالت کمال کو پہنچے گی۔ فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو خوب تر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو ’’ رہتی نہ ہو‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ کہنے والے کو شک ہے کہ شاید فطرت ہستی شہید آرزو نہ بھی رہتی ہو بلکہ مخاطب پر اس سوال کا جواب چھوڑنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک بلیغ اور موثر طرز بیان سے بتایا جائے کہ وہ در حقیقت شہید آرزو رہتی ہے۔ یعنی مخاطب خود بھی غور کر کے دیکھ لے کیا کائنات کے حقائق صاف طور پر بتا نہیں رہے کہ کائنات کے اندر بھی ایک آرزوئے حسن موجود ہے جس کی وجہ سے وہ ایک ایسے پیکر سے آراستہ ہونا چاہتی ہے جو منتہائے حسن و کمال ہو اور یہ پیکر حسن اسے اس وقت نصیب ہو گا جب ایک طرف سے انسانیت کاملہ خدا کو پائے گی اور دوسری طرف سے خدا انسانیت کاملہ کو پائے گا۔ تخلیق کی حقیقت خدا کی تخلیق اگر کسی کھوئے ہوئے محبوب کی جستجو کی صورت اختیار کر رہی ہے اور تخلیق کے دوران خدا کی صفات حسن و کمال اپنا اظہار پا رہی ہیں تو اس میں تعجب کی بات کون سی ہے۔ تخلیق کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی محبوب کی جستجو کرنا جس سے محبوب کے سامنے اپنی صفات اور ممکنات کا اظہار ہو۔ آفریدن جستجوئے دلبرے وا نمودن خویش را بر دیگرے وجود یا خودی یا زندگی کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تخلیق میں اپنے آپ کا یعنی اپنی صفات کا اظہار کرتی ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ خودی یا زندگی یا وجود ہی نہ ہو۔ خودی کے لئے تخلیق یا جستجوئے محبوب ضروری ہے۔ گفت موجود آنکہ مے خواہد نمود آشکارائی تقاضائے وجود کائنات کا ہر ذرہ اس بات کا گواہ ہے کہ تخلیق میں اپنے آپ کا اظہار کرنا خودی کی فطرت ہے کیونکہ خودی کا زور عمل یا خودی کی قوت تخلیق کائنات کے ہر ذرہ میں پوشیدہ ہے۔ وا نمودن خویش را خوئے خودیست خفتہ در ہر ذرہ نیروئے خودیست آج انشقاق جوہر سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کائنات کے ہر ذرہ میں کتنی قوت چھپی ہوئی ہے۔ ارتقاء تخلیق کے کئی اور لوازمات میں سے ایک ہے اگر پوچھا جائے کہ کائنات خدا کے قول کن سے فی الفور کیوں پیدا نہ ہو گئی اور کیوں اس کی بجائے ایک طویل ارتقائی عمل سے وجود میں آ رہی ہے تو اقبال اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ خودی کی فطرت کا ایک تقاضا ہے کہ اس کی تخلیق ہمیشہ ایک ایسے ارتقائی عمل کی صورت اختیار کرتی ہے جس پر ایک مدت صرف آتی ہو۔ چو فطرت مے تراشد پیکرے را تماش مے کندور روزگارے دراصل تدریجی تکمیل یا تدریجی ارتقاء ہی نہیں بلکہ عمل تخلیق کے اور بہت سے لوازمات ہیں جو خودی کی فطرت سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً تخلیق کا پہلے ایک ذہنی یا شعوری حالت میں موجود ہونا اور بعد میں ایک عزم سے یا قول کن سے شروع ہونا کسی محبوب یا مقصود کی محبت اور جستجو کی شکل اختیار کرنا مقصود یا محبوب کے غلط اور ناقص متبادلات یا اقبال کے الفاظ میں پیکر اغیار کا ظہور اور ان کا ترک یا استیصال، وحدت خالق سے کثرت کا ظہور، زمان و مکان کا ظہور، عناصر تخلیق کے اندر جذب یا کشش کا ظہور، خوب و نا خوب، نیک و بد اور حق و باطل کے امتیاز کا ظہور، خودی کی صفات جلال و جمال کی آشکارائی وغیرہ، تخلیق خدا کی ہو یا انسان کی اس کے لوازمات میں کوئی فرق نہیں آتا یہی سبب ہے کہ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جو شخص آفرینش کائنات کے اسرار و رموز معلوم کرنا چاہے اسے اپنے آپ پر نگاہ ڈالنی چاہئے خدا واحد ہے اور مخفی ہے لیکن اپنی تخلیق کی وجہ سے کثیر بھی ہے اور آشکار بھی ہے، ضروری ہے کہ کثرت اور آشکارائی کی طرح خدا اور انسان کی تخلیق کے اور لوازمات بھی مشترک ہوں اور انسان کی تخلیق خدا کی تخلیق کی طرف راہ نمائی کرتی ہو۔ اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی اس مضمون کو سمجھانے کے لئے اقبال نے تصویر اور مصور کا ایک مکالمہ لکھا ہے۔ تصویر اپنے مصور کو دیکھنا چاہتی ہے تو مصور کچھ گفتگو کے بعد اسے کہتا ہے: مرے دیدار کی ہے ایک یہی شرط کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے ظاہر ہے کہ یہاں مصور خدا سے اور تصویر انسان سے استعارہ ہے۔ قرآن حکیم میں ہے صورکم فاحسن صورکم (اس نے تمہاری تصویریں بنائیں اور تمہاری تصویریں عمدہ بنائیں) اقبال کا یہ نظریہ کہ اگر انسان اپنے آپ پر نگاہ ڈالے تو وہ خدا اور کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھ سکتا ہے دراصل قرآن حکیم ہی سے ماخوذ ہے جس کا ارشاد ہے: وفی انفسکم افلا تبصرلن (اور خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات تمہاری اپنی جانوں میں موجود ہیں کیا تم نہیں دیکھتے) اسی لئے کہا گیا ہے من عرف نفسہ فقد عرف ربہ(جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا) ایک خط کی تخلیق کا عمل جب کوئی شخص ایک خط لکھنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دل میں کہتا ہے کہ اس مضمون کا لکھا ہو ایک خط سپرد ڈاک ہو جائے۔ اس کا یہی عزم اس کے خط کے لئے اس کا قول کن ہے اس قول کے وقت اس کے خط کا ایک ایک لفظ اس کے شعور کے اندر موجود ہوتاہے اور وہ خط کی اسی ذہنی یا شعوری صورت کو ہی خارجی طور پر ظہور پذیر کرنے کے لئے قول کن سے خطاب کرتا ہے۔ تاہم جب تک خط اس کے ذہن میں ہی ہوتا ہے، عملی طور پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ اس کے الفاظ در حقیقت کیا ہیں۔ قول کن کے بعد تخلیق کی صورت میں زمان و مکان کے اندر خط کا بیرونی ظہور فوری نہیں ہوتا بلکہ تدریجی تکمیل یا تدریجی ارتقا کے ایک عمل کی صورت اختیار کرت اہے جب تک خط اس کے شعور میں ہوتا ہے اس وقت تک اگرچہ خط کے وہ الفاظ جن کا ارادہ وہ کر چکا ہوتا ہے اس کے سامنے نہیں آتے تاہم اس کے شعور میں موجود ہوتے ہیں اور پھر قول کن سے اس کے شعور میں وہ الفاظ ہی وجود میں نہیں آتے جو در حقیقت اس کے مقصد سے مطابقت رکھتے ہیں اور لہٰذا درست اور زیبا اور اچھے ہوتے ہیں بلکہ وہ تمام الفاظ بھی جو اس کے مقصد سے نزدیک یا دور کی مطابقت کا کوئی امکان رکھ سکتے ہیں وجود میں آتے ہیں لیکن مقصود الفاظ کو غیر مقصود الفاظ سے ممیز کرنے کا موقع اس وقت آتا ہے جب وہ خط لکھنے لگتا ہے کیونکہ اس وقت وہ ان الفاظ کو جو اس کے مقصد سے در حقیقت مطابقت نہیں رکھتے عملی طور پر جان لیتا ہے لہٰذا یا تو لکھ کر کاٹ دیتا ہے یا بغیر لکھنے کے اپنے ذہن میں منسوخ کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے مقصد کے اعتبار سے غلط اور ناخوب اور برے ہوتے ہیں۔ ترک و اختیار اور تنسیخ و تثبیت کے اس عمل سے وہ در حقیقت اس صحیح مطلوب اور مقصود خط کی جستجو کرتا ہے جس کو اس نے قول کن کہا تھا اور جو اس کے شعور میں شروع سے ہی موجود ہو گیا تھا۔ اس طرح سے خط کی تخلیق میں لکھنے والے کی تمام صفات جلال و جمال اپنا اظہار پاتی ہیں اگر درست الفاظ کی ترتیب اور تنظیم میں لکھنے والے کی صفات جمال کام کرتی ہیں تو غلط الفاظ کی تردید اور تنسیخ میں اس کی صفات جلال بروئے کار آتی ہیں۔ الغرض اس کا خط لکھنا کسی مقصود یا مطلوب کی ایسی جستجو کی صورت اختیار کرتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے آپ کا اظہار کرتا ہے اور اسی بنا پر وہ تخلیق یا آفریدن کا ایک عمل ہوتا ہے جس پر اقبال کی یہ تعریف صادق آتی ہے: آفریدن جستجوئے دلبرے وا نمودن خویش را بر دیگرے پھر جب تک خط اس کے ذہن میں ہوتا ہے خط زمان و مکان کی دنیا میں نہیں ہوتا او رنہ ہی یہ بتایا جا سکتا ہے کہ خط کے مقصد کے اعتبار سے کون سے الفاظ درست ہیں اور کون سے نادرست، کون سے زیبا ہیں اور کون سے نازیبا اور کون سے اچھے ہیں اور کون سے برے، لیکن جونہی کہ وہ خط لکھنے لگتا ہے خط کا مضمون ایک ابتدا سے ایک انتہا کی طرف حرکت کرنے یا بتدریج ارتقا کرنے یا تکمیل پانے لگتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے کاغذ پر کچھ فاصلہ طے کرتا ہے اور کچھ وقت صرف کرتا ہے اس طرح خط کی تخلیق سے حرکت اور خط کے زمان و مکان وجود میں آتے ہیں پھر خط لکھنے والا اپنے مقصد سے جو کشش رکھتا ہے وہ خط کے تمام الفاظ کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور ان کی باہمی کشش کی صورت اختیار کرتی ہے ان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہے اور ان کے اندر ایک خاص ترتیب اور تنظیم اور تسلسل پیدا کرتی جاتی ہے گویا خط جب خارج میں تخلیق کی صورت اختیار کرتاہے تو کسی مطلوب یا مقصود کی محبت اور جستجو، مقصود کے غلط اور ناقص متبادلات، حرکت، تدریجی ارتقائ، خط کے زمان و مکان، الفاظ کی باہمی کشش، درست و نا درست اور خوب و نا خوب کا امتیاز اور لکھنے والے کی صفات جلال و جمال کا اظہار خط کی تخلیق کے لوازمات کے طور پر نمودار ہوتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق کا عمل کائنات کی تخلیق کی صورت میں بھی تخلیق کے یہی لوازمات اظہار پاتے ہیں۔ خدا کے قول کن کے وقت کائنات اپنی پوری تفصیلات کے ساتھ خدا کے شعور میں موجود ہو گئی تھی۔ کائنات کی اس ذہنی یا شعوری حالت کو ہی خدا نے کن کا حکم دیا تھا۔ کائنات کی ایسی حالت کو ہی قرآن حکیم نے لوح محفوظ یا ام الکتاب کہا ہے تاہم تخلیق کی صورت میں کائنات کا خارجی ظہور فی الفور نہیں ہوا بلکہ اس نے تدریجی ارتقاء کے ایک عمل کی صورت اختیار کی ہے اور یہ عمل عرصہ دراز سے جاری ہے اور جب تک نوع انسانی اپنی تکمیل کی انتہا کو نہیں پہنچ جاتی برابر جاری رہے گا۔ تخلیق حسن کی جانب خودی کے ارادہ کی حرکت کا نام ہے۔ حرکت تخلیق کی اصل ہے جس کے بغیر تخلیق ممکن ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کی بنیاد حرکت ہے اور پوری کائنات متحرک ہے: فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود خودی یا زندگی کا راز اگر کوئی ہے تو یہی ہے کہ وہ اپنے مقصود کی طرف اڑنے یعنی نہایت سرعت کے ساتھ حرکت کانے کا ایک ذوق ہے۔ سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی جب تک کائنات فقط خدا کے شعور میں تھی وہ زمان و مکان میں نہیں تھی لیکن جب اس نے خارج میں تخلیق کی صورت اختیار کی اور اس کی حرکت وجود میں آئی تو اس حرکت کے ساتھ ہی زمان و مکان بھی وجود میں آ گئے کیونکہ حرکت کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز حرکت کر ہی ہے وہ ایک ابتدا سے ایک انتہا کی طرف آگے بڑھ رہی ہے اور لہٰذا ایسا کرتے ہوئے کچھ وقت صرف کر رہی ہے اور کچھ فاصلہ طے کر رہی ہے یعنی اس کی حرکت زمان و مکان میں ہے۔ پھر تخلیق کائنات کی ابتدا کے ساتھ ہی خوب و نا خوب اور زشت و زیبا اور حق و باطل کا امتیاز بھی نمودار ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ وہ حسن کو ضد حسن سے ممیز کرتی ہے اور جب حسن کے کسی تصور سے محبت کرتی ہے تو اس کی ضد سے بیزار ہوتی ہے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ محبوب سے قرب تلاش کیا جائے اور بیزاری کا تقاضا یہ ہے کہ محبت کی خاطر مرجع بیزاری کو دور کیا جائے اور برباد کیا جائے چونکہ خودی سراسر محبت ہے اس کی تمام صفات فقط اس کی محبت کی خدمت اور اعانت کے لئے اور محبت کے مقاصد کی تحصیل اور تکمیل کے لئے اظہار پاتی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خودی کی جملہ صفات اس کی مرکزی صفت محبت کے تقاضے یا شوؤں یا کوائف ہیں اور ان صفات کی شکل میں خود محبت ہی اپنی مختلف حالتوں اور موقعوں کا اظہار کرتی ہے۔ خدا کی تخلیق میں صفات جمال و جلال کی کار فرمائی تاہم کائناتی خودی کی بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ براہ راست اور بلا واسطہ محبت کی خدمت اور اعانت کرتی ہیں۔ مثلاً رب، حافظ، حفیظ، وکیل، رحمن، رحیم، مومن، مہیمن، غفار، وہاب، رزاق، باسط، رافع، رقیت، معز، فتاح وغیرہ ایسی صفات کو صفات جمال کہا جاتا ہے اور بعض صفات ایسی ہیں کہ وہ بالواسطہ یعنی محبت کے راستہ کی رکاوٹوں کو دور کر کے محبت کی خدمت اور اعانت کرتی ہیں مثلاً قہار، مذل، منتقم، مانع، ضار وغیرہ ایسی صفات کو صفات جلال کہا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ اگر اس کی صفات جمال اپنے اظہار کے لئے کسی ایسے تصور حسن کا تقاضا کرتی ہیں جس کی تحصیل اور تکمیل کے لئے وہ اپنی تخلیقی اور تربیتی کارروائی کرے تو اس کی صفات جلال اپنے اظہار کے لئے ایسے ضد حسن تصورات کا تقاضا کرتی ہیں جنہیں وہ اپنے آپ کا مخالف اور غیر سمجھے اور اپنے تصور حسن کی تخلیق اور تکمیل کی خاطر اپنے راستہ سے ہٹائے اور برباد کرے۔ لہٰذا وہ حسن کے ساتھ ضد حسن بھی پیدا کرتی ہے اور ضد حسن سے اس کی بیزاری محبت حسن کے تابع رہتی ہے۔ کائنات کی تخلیق کے اندر قدم قدم پر جدوجہد اور کش مکش اور پیکار کا باعث یہی حقیقت ہے اقبال اس حقیقت کا ذکر اس طرح سے کرتا ہے: ساز داز خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را مے شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل انسان کی تخلیق میں صفات جلال و جمال کا عمل اگر ہم اپنے آپ پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے جب ہم کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے بہت سے امکانات ہمارے ذہن میں آتے ہیں لیکن جب ہم فی الواقع وہ کام کرنے لگتے ہیں تو ہم صرف ایک امکان کو جو ہمارے مقصود سے در حقیقت مطابقت رکھتا ہے خوب اور حق اور زیبا سمجھ کر چن لیتے ہیں اور باقی تمام امکانات کو جو دراصل خوب اور ناخوب اور حق اور باطل اور زشت اور زیبا کا ممزوح یا مرکب ہوتے ہیں نا خوب اور باطل اور زشت سمجھ کر رد کردیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مقصود سے پوری پوری مطابقت نہیں رکھتے جو امکان حق اور خوب اور زیبا ہوتا ہے وہ صرف ایک ہی ہوتا ہے لیکن باطل اور ناخوب اور زشت امکانات جو حق و باطل کی شرکت سے بنتے ہیں بہت سے ہوتے ہیں۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول عمل ارتقاء میں تخریب اور تبذیر کی حکمت خد اکی تخلیق کی صورت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خدا کا کسی امکان کو سوچنا اس کو پیدا کر دینا ہے۔ خدا پہلے اپنے پسندیدہ تخلیق کے تمام امکانات کو عمل میں لاتا ہے اور پھر اس ایک امکان کو چن لیتا ہے جو تخلیق کی صورت اختیار کرنے کے بعد یعنی عملی طور پر اس مقصد کے مطابق اور لہٰذا خوب اور حق دار زیبا ثابت ہوتا ہے اور باقی امکانات کو یا تو وہ صفحہ ہستی سے بالکل مٹا دیتا ہے یا نظر انداز کر دیتا ہے جس کے نتیجہ کے طور پر وہ جس حالت کو پہنچ جاتے ہیں اسی پر قائم رہتے ہیں اور مزید ترقی نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ کائنات کے ارتقاء کے دوران مادی حیاتیاتی اور انسانی سطح ارتقاء پر ایسی مخلوقات بھی وجود میں آتی رہی ہیں جو خدا کے نصب العین یعنی انسانیت کاملہ کی تخلیق سے براہ راست کوئی تعلق نہ رکھتی تھیں اور فقط تخلیق کے اصل مرکزی سلسلہ کی ضمنی یا اتفاقی پیداوار تھیں اور یہی وجہ ہے کہ خودی ایسی مخلوقات کو یا تو مٹا دیتی رہی یا ایک ہی حالت پر موجود رہنے کے لئے چھوڑ دیتی رہی۔ مثلاً خودی نے لاکھوں نظام ہائے شمسی پیدا کئے لیکن بظاہر صرف ایک نظام شمسی اس کے مقصد کے مطابق تھا۔ یعنی وہ جس کے ایک زمین نامی سیارہ میں زندگی نمودار ہو کر نشوونما پا رہی ہے اس نے لاکھوں گلشنوں کو پیدا کیا ہو گا لیکن اس کا مقصود صرف چند خوبصورت پھول تھے جن کی اقسام نباتاتی عمل ارتقاء میں باقی رہ گئی ہیں۔ اس نے قدرت میں سینکڑوں ناخوشگوار آوازیں پیدا کی ہوں گی۔ تب جا کر اسے چند خوش گلو پرندوں کے دل آویز نغمے میسر آئے ہیں، اس نے ہزاروں انبیاء پیدا کئے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہی کو تعلیم نبوت کے کمال پر پہنچایا اور موثر حالت میں باقی رکھا اس طرح سے یہ بات اس کی فطرت میں ہے کہ وہ اقبال کے الفاظ میں گویا اپنے آپ کو فریب دے دے کر اپنے مقصود کو حاصل کرتی ہے۔ بعض لوگ اسے قدرت کا قہر یا اسراف سمجھتے ہیں۔ لیکن در حقیقت خودی کا یہ کام اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اگر خودی ایسا نہ کرے تو وہ خودی نہ ہو۔ خودی جو چیز پیدا کرنا چاہتی ہے وہ فی الفور پیدا نہیں کرتی بلکہ قدرت اور اختیار کے باوجود اپنے آپ پر لازم کرتی ہے کہ پہلے بہت سے ناکام تجربات کرتی اور نا مکمل تخلیقات کا خون کرتی رہے لیکن آخر کار اس کی تخلیق اس کمال کو پہنچتی ہے جو اس کا مقصود ہوتا ہے۔ اس ظاہری قہر اور اسراف کے بغیر جمال معنوی کی تخلیق اور تکمیل ممکن نہیں ہوتی۔ خودی کی صفات کے مطابق حسن کی تخلیق اور تکمیل کے لئے غیر حسن کی تخلیق اور تباہی ضروری ہے۔ علامہ اقبال اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خود فریبی ہائے او عین حیات ہمچو گل در خون وضو عین حیات بہریک گل خون صد گلشن کند از پئے یک نغمہ صد شیون کند شعلہ ہائے اور صد ابراہیم سوخت تا چراغ ایک محمد بر فروخت عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی خلق و تکمیل جمال معنوی صد نیستاں کاشت تا یک نالہ رست صد چمن خون کرد تا یک لالہ رست نقشبا آورد و افگند و شکست تا بلوح زندگی نقش و توبست نالہ ہا در کشت جاں کاریدہ است تا نوائے یک اذاں بالیدہ است مدتے پیکار با اصرار واشت با خداوندان باطل کار داشت تخم ایماں آخر اندر گل نشاند باز بانت کلمہ توحید خواند ترک و اختیار تخلیق کے لوازمات ہیں ترک اور اختیار کے اسی عمل کی وجہ سے جو تخلیق کو لازم ہے اور جس کا دارومدار محبت پر ہے۔ اقبال تخلیق کو کسی محبوب کی جستجو سے تعبیر کرتا ہے۔ آفریدن جستجوئے دلبرے دا نمودن خویش را بر دیگرے تخلیق و تکمیل کائنات کی غرض سے ترک و اختیار کے اس عمل کا ذکر قرآں حکیم میں ہے: یحمحو اللہ ما یشاء یثبت و عندہ ام الکتاب (41) (خدا اپنی تخلیق میں جس چیز کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب یا لوح محفوظ ہے۔ جس میں یہ بات طے شدہ موجود ہے کہ کیا چیز مٹائی جائے گی اور کیا چیز باقی رکھی جائے گی) وربک یخلق ما یشاء و یختا وما کان لھم الخیر۔ سبحن اللہ و تعالیٰ عما یشرکون (68) (اور تمہارا رب جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور پھر اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے جس چیز کو چاہتا ہے مزید ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچانے کے لئے چن لیتا ہے لیکن ایسا چناؤ ان لوگوں کے بس میں نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو معاذ اللہ انسان خدا کا شریک ٹھہرتا لیکن خدا پاک ہے اور بلند ہے ہر اس چیز سے جسے یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں) قبول حق کیلئے ترک باطل ضروری ہے خودی جب اپنے نصب العین کی آزردگی عمل تشفی اور تسکین کرنے لگتی ہے تو اسے معاً معلوم ہونے لگ جاتا ہے کہ کون کون سی چیزیں ہیں جو اس کے نصب العین کی نقیض ہیں اور جن کی آرزو وہ نہیں کر رہی اور جن کا وجود اس کی آرزو کے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ باطل باہر سے نہیں آتا بکہ حق کے ساتھ ہی اس کے نقیض کے طور پر خود بخود نمودار ہو جاتاہے یہ ایسا ہی ہے کہ جب ہم ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہوں تو ضروری ہوتا ہے کہ ہم اس کی مخالف سمت کو پیچھے چھوڑتے جائیں حرکت کی فطرت میں ہے کہ اس سے بیک وقت دو سمتیں نمودار ہوتیں ہیں ایک موافق اور دوسری مخالف۔ تخلیق بھی ایک قسم کی حرکت ہے اور اس سے بھی دو سمتیں پیدا ہوتی ہیں ایک موافق اور دوسری مخالف، خودی کے لئے نصب العین کی سمت حق ہے اور نصب العین کے خلاف کی سمت باطل ہے۔ جب خودی نصب العین کی طرف ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو غیر نصب العین کو (جو اس کے نقیض کے طور پر پاس ہی موجود ہوتا ہے) ایک قدم پیچھے چھوڑ جاتی ہے حق کے قبول کو باطل کا ترک لازم آتا ہے اور جس حد تک ہم حق کو قبول نہیں کرتے ہم باطل کو قبول کرتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم حق کو قبول کریں اور باطل کو معاً ترک نہ کریں یا باطل کو قبول کریں اور حق کو معاً ترک نہ کریں۔ روشنی کا تصور تاریکی کے بغیر سچ کا جھوٹ کے بغیر انصاف کا ظلم کے بغیر اور حق کا باطل کے بغیر ممکن نہیں جو شخص سچ انصاف اور حق سے محبت کرتا ہے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ، ظلم اور باطل سے نفرت کرے۔ اسی طرح سے سچائی، انصاف اور حق کی اعانت جھوٹ، ظلم اور باطل کی مخالفت کے بغیر ممکن نہیں۔ خودی کے تخلیقی عمل کے ہر قدم پر جس طرح سے حق یا حسن ایک نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے اسی طرح سے باطل بھی ایک نئی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے اور حق یا حسن کی اس شان سے ہمکنار ہونے کے لئے باطل کی اس نئی صورت کو فنا کرنا خودی کے لئے ضروری ہوتا ہے ابلیس باطل کی قوتوں پر مسلط ہے۔ خودی کے لئے ضروری ہے کہ ان قوتوں سے کسی حالت میں بھی صلح نہ کرے بلکہ ان کے بالمقابل اپنی جلالی صفات کا مظاہرہ کرے اور ان کے ساتھ پوری قوت سے نبرد آزما ہو کر ان کو راستہ سے ہٹا دے ورنہ اس کی ترقی اور تکمیل خطرہ میں پڑ جائے گی: بزم یا دیواست آدم را وبال رزم یا دیواست آدم را کمال جلال کی تائید کے بغیر جمال بے اثر اور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ وہ غیر محفوظ اور غیر مکمل سمجھا جاتا ہے۔ جمال کا کمال یہی ہے کہ وہ جلال کے ساتھ ہو ورنہ وہ ناقص ہے اور نقص حسن کا نقیض ہے۔ نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر ترا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بیباک تخریب تعمیر کیلئے ناگزیر ہے چونکہ کائنات کی تخلیق میں خدا کی صفات جلال و جمال دونوں اپنا کام کر رہی ہیں کائنات میں ربوبیت یا تعمیر اور استیصال یا تخریب بھی دونوں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو کار فرما ہیں۔ تخریب تعمیر کی اغراض کے ماتحت اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے عمل میں آتی ہے لہٰذا کائنات کی تعمیر کی طرح تخریب بھی خدا کی محبت اور رحمت اور ربوبیت کی مظہر ہے اور خدا کی صفات جلالی بھی ویسی ہی قابل ستائش ہیں جیسی کہ صفات جمالی، قرآن حکیم میں ایک مقام پر ارشاد ہے کہ جو قوم خدا کے نشانات کو جھٹلایا کرتی تھی۔ خدا نے اسے تباہ کر دیا اور جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا اور پھر اس کے بعد آیت کا تتمہ ہے کہ سب ستائش اللہ کے لئے ہے جو اہل جہاں کا رب ہے اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس قوم کی ہلاکت بھی خدا کی محبت اور رحمت اور ربوبیت کا مظہر تھی اور یہ وہ صفات ہیں جن کی وجہ سے خدا ستائش کے لائق ہے اس لئے کہ اگر یہ قوم تباہ نہ ہوتی تو تخلیق حسن کے راستہ میں بدستور ایک رکاوٹ بنی رہتی اور پھر کائنات کی ربوبیت اپنے کمال کو نہ پہنچ سکتی۔ قطع دابر القوم الذین کذبوبا بایات الدوا الحمد للہ رب العلمین۔ (اور ان لوگوں کی جڑ کٹ گئی جنہوں نے خدا کے نشانات کو جھٹلایا تھا اور سب ستائش اللہ کے لئے ہے جو اہل جہان کا رب ہے) ایک باغبان اپنے باغ کے حسن کو قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہے کہ درختوں کے نیچے اور کیاریوں میں سے ایسے پودوں کو اکھاڑ کر باہر پھینک دے جو اس کے مقصد کے مطابق نہیں اور غیر ضروری ہونے کے علاوہ ان پودوں اور درختوں کی کھاد اور نمی کو جذب کر لیتے ہیں جن پر باغ کے حسن کا دار و مدار ہے اس کے لئے درانتی کو استعمال کرنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ پودوں کو کھاد اور پانی مہیا کرنا اس کے تخریبی کام کے بغیر اس کا تعمیری کام بار آور نہیں ہو سکتا لہٰذ ا اس کا تخریبی کام بھی قابل ستائش ہے اس نکتہ کو سمجھانے کے لئے مولانا روم ایک درزی کی مثال دیتے ہیں۔ جب ایک درزی کوٹ تیار کرنے لگتا ہے تو کپڑے کو بہت سے ٹکڑوں میں کاٹ دیتا ہے اور پھر بعض ٹکڑوں کو چن لیتا ہے اور بعض کو بیکار سمجھ کر رد کر دیتا ہے اسے بجا طور پر کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے کپڑے کے ایک حصے کو کیوں ضائع کر دیا ہے۔ عمل تخلیق میں حق کے ساتھ باطل نیکی کے ساتھ بدی اور زیبائی کے ساتھ زشتی کا ظہور ضروری رہے الغرض خودی کی فطرت کی بنا پر جس میں جمال اور جلالی دونوں قسم کی صفات موجود ہیں یہ ضروری ہے کہ جب خودی ایک حسین اور کامل نصب العینی مخلوق کو بتدریجی وجود میں لانے کا عمل شروع کرے تو اس عمل کی ابتدا کے ساتھ ہی حسن کے بالمقابل قبح زیبائی کے بالمقابل زشتی، حق کے بالمقابل باطل اور نیکی کے بالمقابل بدی فوراً موجود ہو جائیں جب تک تخلیق کا آغاز نہ ہو اس وقت تک عملی طور پر معلوم نہیں ہو سکتا کہ کون سی چیز مقصد تخلیق کے مطابق ہے اور کون سی غیر مطابق لہٰذا حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ حسن کیا ہے اور قبح کیا ہے زیبائی کیا ہے، اور زشتی کیا ہے، نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے، خیر کیا ہے اور شر کیا ہے، جب تک شاخ نہ پھوٹتی نہ گل ہوتا ہے اور نہ خار اور جب پھوٹتی ہے تو دونوں نکل آتے ہیں اسی طرح سے جب تک خودی تخلیق کا آغاز نہیں کرتی زشت اور نکو دونوں کا وجود نہیں ہوتا لیکن جب آغاز کرتی ہے تو دونوں خود بخود بیک وقت نمودار ہو جاتے ہیں۔ ورنہ تخلیق جاری ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ تخلیق ترک زشت اور اختیار نکو کا ہی نام ہے: چہ گویم نکتہ زشت و نکو چیست زبان لرزو کہ معنی پیچ دار است برون از شاخ بینی خار و گل را درون او نہ گل پیدا نہ خار است تخلیق سے روگردانی کفر ہے انسان جب بھی نیکی اختیار کرتا ہے اور بدی ترک کرتا ہے تو خدا کے مقصد کی تائید کرتا ہے اور خدا کی تخلیق میں شریک ہوتا ہے اگر وہ خدا کی تخلیق میں شریک نہ ہو ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بدی کو اختیار کر لیاہے اور نیکی کو ترک کر دیا ہے اور وہ خدا کے تصور حسن اور مقصد تخلیق کا مخالف ہے ایسے شخص کو اگر کافر یا زندیق کہا جائے تو بالکل بجا ہے: ہر کہ اورا لذت تخلیق نیست پیش ماجز کافر و زندیق نیست لوح محفوظ اور تقدیر جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کائنات کی شعوری یا ذہنی حالت میں جسے قرآن حکیم نے لوح محفوظ یا ام الکتاب یا کتاب مبین یا کتاب محفوظ کہا ہے تخلیق کے امکانات کے تمام سلسلے موجود ہوتے ہیں اور ہر سلسلہ امکانات آزادانہ طور پر ظہور پذیر ہو کر رد یا قبول کئے جانے کے لئے مہیا ہوتا ہے۔ تاہم ان میں سے صرف ایک سلسلہ امکانات ایسا ہوتا ہے جو خدا کے مقصد سے پوری پوری مطابقت رکھتا ہے اور قبول ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی حقیقت کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیق کے آزاد ہونے کے باوجود کیوں قرآن نے فرمایا ہے کہ کوئی خشک یا تر چیز لوح محفوظ سے باہر نہیں ’’ ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین 59‘‘ او رایک حدیث میں ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ لکھا گیا ہے اور اسے لکھنے کے بعد قلم خشک ہو گیا ہے کہ اس سے اور کچھ لکھا نہیں جا سکتا (جف القلم بما ھو کائن)کائنات کی اسی شعوری حالت کو اقبال زمان خالص کہتا ہے اسی زمان خالص کو قرآن حکیم نے تقدیر کا نام بھی دیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ زمان خالص جیسا کہ ہمارے شعوری تجربہ کے گہرے تجزیہ سے آشکار ہے الگ الگ رجعت پذیر واقعات کی ایک لڑی نہیں بلکہ ایک عضوی کل ہے جس میں ماضی پیچھے نہیں رہ جاتا بلکہ حال کے ساتھ رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ مستقبل زمان خالص کے لئے ایک طے شدہ حقیقت کے طور پر موجود ہوتا ہے لیکن ان معنوں میں نہیں کہ وہ سامنے پڑا ہوا ہے اور اسے فقط عبور کرنا باقی ہے بلکہ ان معنوں میں کہ وہ اس کی فطرت میں ایک ایسے امکان کی حیثیت سے موجود ہوتا ہے جسے آزادانہ طور پر رد یا قبول کیا جا سکتا ہے۔ جب زمان کو اس طرح سے ایک عضوی کل کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اسی کو قرآن حکیم نے تقدیر کا نام دیا ہے اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے عالم اسلامی کے اندر اور باہر نہایت ہی غلط طور پر سمجھا گیا ہے۔ تقدیر زمان کی وہ حالت ہے جس میں اس کے ممکنات ابھی پردہ خفا سے باہر آئے ہوئے نہیں ہوتے۔‘‘ قرآن حکیم کا نظریہ تخلیق اور خودی تخلیق کائنات کے متعلق اقبال کا یہ نظریہ کہ اس کا بنیادی سبب خدا کی صفت محبت کا اظہار ہے قرآن حکیم کے ارشادات کے مطابق ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے۔ ایک کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ 1 ما خلقنا السموات والارض وما بینھما لا عبین ما خلقنا ھما الا بالحق ولا کن اکثر بہم لا یعلمون (ہم نے کائنات کو کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ہم نے اسے بالحق پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے) 2خلق السموات والارض بالحق ان فی ذالک لا یتہ للمومنین (خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے بے شک اس حقیقت کے اندر اس پر ایمان لانے والوں کے لئے خد اکا ایک نشان ہے) 3وخلق اللہ السموات والارض بالحق، لتجزی کل نفس بما کسبت وہم لا یظلمون (اور خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے تاکہ ہر جان کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے اور ان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا) بعض قدیم و جدید مفسرین نے بالحق سے مراد یہ لی ہے کہ کائنات کی تخلیق بے مقصد نہیں بلکہ یہ کسی ’’ نظام اور قانون‘‘ کسی’’ ضبط اور ترتیب‘‘ اور کسی’’ حکمت اور مصلحت‘‘ کے مطابق ہے لیکن جب ہم اوپر کی آیات میں سے آیت نمبر ایک کی روشنی میں اس بات پر غور کرتے ہیں کہ قرآن حکیم کے نزدیک بالحق کا جو مفہوم بھی ہے وہ کھیل یا لعب کے برعکس ہے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے تو بالحق کی یہ تفسیر قرآن حکیم کے مفہوم کو پوری طرح سے ادا نہیں کرتی۔ لعب اور تخلیق میں فرق کیونکہ اگر ہم کسی کھیل پر مثلاً فٹ بال، کرکٹ یا شطرنج وغیرہ پر غور کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہر کھیل کا بھی ایک مقصد یا نصب العین ہوتاہے مثلاً فٹ بال کھیلنے والی ٹیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ رکاوٹوں کے باوجود زیادہ سے زیادہ گول سے جیتے و علی ہذا القیاس اور پھر ہر کھیل کے عمل کے لئے کھیل کے مقصد کے ماتحت اور اس کے تنگ دائرہ کے اندر بھی ایک ’’ نظام اور قانون‘‘ ایک’’ ضبط اور ترتیب‘‘ اور ایک ’’ حکمت اور مصلحت‘‘ کا وجود ہوتا ہے۔ دراصل ایک کھیل اور سنجیدہ عمل میں فرق یہ نہیں کہ ایک کا مقصد نہیں ہوتا اور دوسرے کا مقصد ہوتا ہے۔ بلکہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ کھیل کا مقصد نقلی اور فرضی اور بناؤٹی ہوتا ہے جس کا خودی کی فطرت کے سچے تقاضوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کے برعکس سنجیدہ عمل کا مقصد خودی کی غیر مبدل فطرت اور اس کے نصب العین کی محبت سے پیدا ہوتا ہے اور خودی کی آرزوئے حسن کی تشفی کرتا ہے حق خدا کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے۔ خدا حق ہے کیونکہ قائم بالذات لازوال اور ثابت اور انمٹ ہے۔ فذالکم اللہ ربکم الحق (یہ تمہارا پروردگار ہے جو حق ہے) فتعالی اللہ الملک الحق (پس بلند ہے اللہ جو بادشاہ ہے برحق) خدا کی ذات کی مرکزی صفت محبت بھی حق ہے اور اس کے سلسلہ میں اس کے شوؤں اور کوائف کے طور پر اظہار پانے والی جملہ صفات جلال و جمال بھی حق ہیں اسی طرح سے خدا کی محبت اور جملہ صفات جمال و جلال کا مقصود اور مطلوب یعنی خدا کا نصب العین (یا آئندہ زمانہ میں حالت کمال کو پہنچنے والی کائنات یا نوع انسانی) بھی حق ہے کیونکہ وہ خدا کی صفات حقہ سے پیدا ہوتا ہے اور ان کا مرجع اور مظہر ہے۔ اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں باقی ہے فقط نمود سیمیائی تخلیق بالحق کا مطلب لہٰذا تخلیق بالحق کا مطلب ہے ایسی تخلیق جو خدا کی صفات حقہ کے اظہار کے لئے عمل میں آئی ہو اور جس میں خدا کی صفات حقہ کا اظہار ہو رہا ہو۔ کائنات کی تخلیق تخلیق بالحق ہے کیونکہ یہ خدا کی صفات کے اظہار کے لئے عمل میں آئی ہے اور اس میں خدا کی صفات جلوہ گر ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے کائنات کی تخلیق بالحق کو خدا کی ہستی اور صفات کاا ور نیز اس بات کا کہ خدا پر ایمان لانا ضروری ہے ایک نشان یا ثبوت کہا ہے۔ خلق السموات والارض بالحق ان فی ذالک لایہ للمومنین۔ (خدا نے کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے بے شک اس حقیقت پر ایمان لانے والوں کے لئے اس کے اندر خدا کا ایک نشان یا ثبوت موجود ہے) تخلیق بالحق میں نشان راہ کائنات کی تخلیق بالحق ایک نشان اس لئے ہے کہ اول جو اس پر ایمان لائے گا اسے یہ بات سمجھ میں آ جائے گی کہ اسے حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت کرنا ہے ورنہ وہ باطل کے ساتھ خود بھی پس جائے گا۔ دوئم: چونکہ کائنات کی تخلیق تخلیق بالحق ہے وہ خدا کی صفات کی جلوہ گاہ ہے اور لہٰذا خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ اگر کائنات کی تخلیق بالحق نہ ہوتی تو اس میں خدا کی مرکزی صفت محبت کا اظہار نہ ہوتا یعنی اس کا مقصد خدا کا کوئی سچا اور محبوب نصب العین نہ ہوتا اور اگر ا س میں صفت محب کا اظہار نہ ہوتا تو اس میں ربوبیت یعنی تدریجی تربیت اور تکمیل بھی نہ ہوتی اور چونکہ خدا کی تمام صفات ربوبیت کے عمل میں اظہار پاتی ہیں لہٰذا اس صورت میں کائنات کے اندر خدا کی صفات جمال و جلال کا اظہار نہ ہو سکتا۔ پھر اس تخلیق کا مشاہدہ اور مطالعہ ہمارے لئے معرفت حق کا سبب نہ بن سکتا لیکن چونکہ کائنات کی تخلیق بالحق ہے کائنات خدا کی ہستی اور صفات کا نشان اور خدا پر ایمان لانے کی ضرورت کا ثبوت اور خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کائنات کی تخلیق بالحق نہ ہوتی تو ہم ایمان لانے کے لئے مکلف اور جزا اور سزا کے مستحق نہ ٹھہرتے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے ارشاد فرمایا ہے: وخلق اللہ السموات والارض بالحق لتجزی کل نفس بما کسبت وہم لا یظلمون (اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بالحق پیدا کیا ہے تاکہ ہر جان کو اس کے عمل کی جزا یا سزا ملے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا) فرضی نصب العین اور غلط نصب العین میں فرق نہیں کھیل کے نقلی بناوٹی اور فرضی نصب العین سے جو عمل سر زد ہوتا ہے وہ انسان کو اس کے فطری مقصود حیات کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں لے جاتا چونکہ غلط نصب العین بھی فرضی نصب العین کی طرح انسان کو اس کے فطری مقصود کی طرف بڑھنے نہیں دیتا لہٰذا غلط نصب العین کا معتقد بھی فرضی نصب العین کے پرستار کی طرح ایک بیکار مشغلہ یا کھیل میں مصروف رہتا ہے اگر ایسے شخص کو اس دنیا کی زندگی میں سفلی خواہشات کی بے لگام تشفی کی وجہ سے ایک گونہ عارضی مسرت یا راحت نصیب ہو جائے تو اس پر اترانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ اس کا انجام خدا کا وہ عذاب ہے جو انسان کو اپنے فطری تقاضوں کو روکنے، دبانے یا نظر انداز کرنے کی وجہ سے جھیلنا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ غلط نصب العینوں کی پیروی کرنے والوں کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد یہ ہے کہ ان کا دین لہو و لعب ہے کیونکہ ان کا نصب العین دنیاوی زندگی کا تعیش ہے خدا نہیں۔ وذر الذین اتخذو دینھم لعبا وغرتھم الحیوۃ الدنیا وذکربیہ ان تبسل نفس بما کسبت(6:70) (اور جن لوگوں نے کھیل اور تماشا کو اپنا دین بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال دیا ہے۔ ان سے کوئی سروکار نہ رکھئے اور قرآن سے ان کو ڈراتے رہئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی جان اپنے کئے کی وجہ سے ہلاک ہو) لعب اور تخلیق میں دوسرا فرق کھیل اور سنجیدہ عمل میں دوسرا فرق یہ ہے کہ کھیل کے نتیجہ کے طور پر فریقین میں سے کوئی بھی ہار سکتا ہے اور پھر اس میں نہ ہارنے کی کوئی اصلی اور حقیقی سزا ہے اور نہ جیتنے کا کوئی اصلی اور حقیقی انعام ہے۔ اگر کوئی سزا یا انعام ہے تو وہ بھی نقلی اور بناوٹی ہے اور کھیل ہی کا ایک حصہ ہے اس کے برعکس سنجیدہ عمل کے نتیجہ کے طور پر ہمیشہ ایک فریق کی فتح ہوتی ہے اور وہ اہل حق کا گروہ ہوتا ہے اور ہمیشہ دوسرے فریق کی ناکامی اور رسوائی ہوتی ہے اور وہ اہل باطل کا گروہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر خدا نے کوئی کھیل کھیلنا ہوتا تو وہ اس کائنات کی صورت میں نہ ہوتا جو حق و باطل کی رزم گاہ ہے اور جس میں حق ہمیشہ باطل کا سر کچل دیتا ہے باطل ہمیشہ حق سے مار کھاتا ہے اور جو اس بناء پر کھیل کے ہر وصف سے خالی ہے بلکہ خدا کا کھیل کہیں اس کی اپنی فرشتوں کی مجلس میں قائم ہوتا جہاں باطل نہ موجود ہوتا نہ کچلا جاتا۔ لیکن اس کائنات میں باطل کا جو انجام ہونے والا ہے اس کے پیش نظر انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس سے علاقہ نہ رکھے۔ اس مضمون کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا ہے: وما خلقنا السماء والارض وما بینہما لا عبین لو اردنا ان تتخذلھوا لا خذنا من لدنا ان کنا فعلین بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ھوا زاھن ولکم الویل مما تصفون (21:16) (اور ہم نے آسمان اور زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات کو بطور ایک کھیل کے نہیں بنایا اور اگر ہم کوئی کھیل قائم کرنا چاہتے تو اپنے قریب کی فرشتوں کی مجلس میں قائم کر لیتے بشرطیکہ ہم یہ چاہتے بلکہ یہ کائنات حق و باطل کا میدان کار زار ہے جہاں ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں اور حق باطل کو سر کچل دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مٹ جاتا ہے جو کچھ تم کہتے ہو اس کے لئے تم پر افسوس ہے) تخلیق بالحق کے مضمرات اگر کائنات ایک کھیل کے طور پر بنتی ہے تو اس کے لاتعداد نصب العین ممکن تھے کیونکہ فرضی اور بناوٹی نصب العینوں کی کوئی حد نہیں ہو سکتی لیکن سچا نصب العین جس کا تقاضا خودی کی فطرت کی مضمر ہے فقط ایک ہی ہو سکتا ہے جب نصب العین خودی کی فطرت کے مطابق ہو یعنی حق ہو تو جو وجود نصب العین بنتا ہے وہ بھی حق ہوتا ہے اور حق کی خوبیوں اور قوتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے لہٰذا اس وجود کو جہاں تک ممکن ہو خود بھی اپنی نصب العینی صورت کی جانب بدلنا اور ڈھلنا پڑتا ہے اور اس غرض کے لئے ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلوں کا سامنا کر کے ان کو راستہ سے ہٹانا پڑتا ہے اگر وہ وجود اپنی نصب العینی صورت میں نہ ڈھل سکے اور کاوٹوں اور مشکلوں کے ساتھ تعاون کرے تو خدا کا جلال اس کو ان رکاوٹوں اور مشکلوں کے سمیت برباد کر کے خدا کے سچے نصب العین کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے اسی بنا پر قرآن حکیم نے بھی یہ دعا سکھائی ہے: ربنا ما خلقت ھذا باطلافقنا عذاب النار ترجمہ: اے ہمارے پروردگار تو نے یہ کائنات (بالحق پیدا کی) بالباطل پیدا نہیں کی لہٰذا (اگر ہم کائنات کے سچے نصب العین کے مطابق خود ڈھل نہ سکیں تو ہماری مدد فرمائیے اور) ہمیں آگ کے عذاب سے بچائیے۔ مختصر یہ کہ ہر وہ چیز جو خدا کی صفات جمال و جلال کے عمل اور اظہار کی (یا دوسرے لفظوں میں خدا کے نصب العین کی) ممد و معاون ہے حق ہے اور ہر وہ چیز جو خدا کی صفات جمال و جلال کے عمل و اظہار کی (یا خدا کے نصب العین کی) ممد و معاون نہیں باطل ہے۔ قائما بالقسط کا مطلب خدا کا نصب العین جو برحق ہے خدا کی صفات برحق کا تقاضا ہے اور خدا کی صفات کے اظہار سے ہی عالم وجود میں آ سکتاہے۔ لہٰذا اس کی تخلیق اور تکمیل ان خاص قوانین اور ضوابط کے ماتحت ہوتی ہے جو خدا کی صفات کے اندر بالقوہ موجود ہیں اور اس کے نصب العین کے مطابق ہیں۔ کائنات اپنی سطح پر خواہ وہ مادی ہوں یا حیوانی یا انسانی خدا کے حکم سے ان قوانین و ضوابط پر چلنے کے لئے مجبور ہے ان ہی قوانین و ضوابط کو قرآن مجید نے قسط (عدل) کہا ہے جس کو خدا نے اپنی کائنات میں قائم کر رکھا ہے کہ وہ ایک خاص نصب العین کی سمت میں جو حق ہے اور جس کا پا لینا اس کے لئے ضروری ہے آگے بڑھ رہی ہے۔ بسا اوقات انسان چاہتا ہے کہ حق کے مقتضیات سے بے پرواہ ہو کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرے اور اس کی خواہشات حق کے تابع نہ ہوں بلکہ حق اس کی خواہشات کے تابع ہو جائے لیکن ایسا نہ ہو سکتا ۔ حق تابع نہیں بلکہ متوع ہے اگر ایسا ہو سکتا ہے تو کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جات اکیونکہ یہ نظام اپنے مقصد یا نصب العین پر قائم ہے اور اس صوت میں کائنات کا کوئی مقصد یا نصب العین باقی نہ رہ سکتا ۔ لواتبع الحق ھوا ہم لفست السموات ولارض ومن فیھن۔ اگر حق ان کے تابع ہو جائے تو آسمان اور زمین میں اور جو مخلوقات ان کے درمیان بس رہی ہے ان میں فساد برپا ہو جائے۔ یہی مطلب قرآن حکیم کے اس ارشاد کا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات خدا کے تابع فرمان ہیں۔ لہ اسلم من فی السموات والارض آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات خدا کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ تمام قوتیں جو کائنات کے نصب العین کی مخالف ہیں اور لہٰذا حق نہیں بلکہ باطل ہیں ان قوتوں کے سامنے ٹھہر نہیں سکتیں جو کائنات کے نصب العین کی معاون ہیں اور لہٰذا باطل نہیں بلکہ حق ہیں قرآن حکیم کی تعلیم وہ قوت ہے جو حق ہے اس کے ظہور کے بعد آخر کار تمام باطل تعلیمات کا مٹ جانا ضروری ہے۔ قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (کہہ دیجئے کہ وہ تعلیم جو حق تھی آ گئی اور وہ تعلیمات جو باطل تھیں مٹ گئیں بیشک باطل اپنی فطرت کی وجہ سے مٹ جانے والا ہے) انسان کی آرزوئے حسن حق کی محبت انسان کے اندر نمودار کر دی گئی ہے تاکہ انسان بھی خدا کے نصب العین کی تکمیل کے لئے اس کا شریک کار بن جائے اس نصب العین کی تکمیل انسان کی اپنی ہی تکمیل ہے اس طرح خدا اور انسان کا نصب العین بالاخر ایک ہی ہے گویا اگر انسان حق کا اتباع کرے تو کسی پر احسان نہیں کرے گا بلکہ اس میں اس کا اپنا ہی فائدہ ہو گا اور اس سے اسے اپنی ہی فطری محبت کی تشفی حاصل ہو گی۔ یایھا الناس قد جاء کم من ربکم فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ اے لوگو تمہارے پاس وہ تعلیم جو (حق کا عمل اور اظہار ہے اور لہٰذا) حق ہے پہنچ گئی ہے جو شخص اس سے مستفید ہو کر راستہ پائے گا اس کی ہدایت اپنی ہی جان کے لئے ہو گی۔ تخلیق کی اولین صورت جب خداوند تعاولیٰ نے اپنے تصور حسن یعنی انسانیت کاملہ کے تصور کو قول کن کہا تو خارج میں انسانیت کاملہ کی اولین صورت جو وجود میں آئی وہ ایک قسم کے نور کی شکل میں تھی جو ایک خاص قسم کی برقی لہروں پر مشتمل تھی جنہیں اب سائنس دان کاسمک شعاعوں یا کائناتی شعاعوں کا نام دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نور ہے نور خدا کے اسماء حسنی میں ایک ہے اور نور سے جو چیز سر زد ہو وہ نوری ہو سکتی ہے۔ لیکن خدا کے نور میں اور اس نور میں فرق یہ ہے کہ خدا کا نور روحانی اور غیر مادی اور غیر مخلوق اور بے مثل ہے وہ زندہ ہے بلکہ خود زندگی یا خودی یا حیات یا روح ہے اور اسے ہم ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے اور یہ نور مادی اور مخلوق ہے اور اس کا خالق اس کی مماثل صفات رکھنے والا کوئی اور نور بھی پیدا کر سکتا ہے۔ چونکہ نور سب سے پہلی مادی چیز ہے جو خدا نے پیدا کی لہٰذا نور مادی اشیاء میں سب سے زیادہ خدا کے قریب ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ان اشیاء میں سب سے زیادہ لطیف ہے یہاں تک کہ کوئی مادی چیز نہیں جو اپنی حرکت میں نور سے بڑھ کر رفتار حاصل کر سکے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’ جدید طبیعیات کی تعلیم یہ ہے کہ نور کی رفتار سے زیادہ رفتار کسی چیز کی نہیں ہو سکتی اور یہ رفتار تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لئے یکساں رہتی ہے اس بات سے قطع نظر کہ ان کی اپنی حرکت کس نظام سے تعلق رکھتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نور مادی تغیرات کی اس دنیا میں ہستی مطلق سے قریب ترین چیز ہے۔‘‘ پھر جوں جوں یہ ابتدائی نور مادی طور پر پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہوتا گیا وہ اپنے مصدر حقیقی سے دور ہوتا گیا اور ا س میںکثافت آتی گئی یہاں تک کہ وہ مٹٰ بن گیا اور مٹی کی حالت میں آ کر وہ زندگی یا روح جو اس کے اندر مخفی تھی آشکار ہونے لگی لہٰذا وہ حیوان کی صورت میں آیااور پھر اپنی حیوانی ترقی کی انتہا پر انسان کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے نیچے کے تمام حیوانات (جن میں خودی اتنی آزاد یا ترقی یافتہ نہیں کہ وہ خدا کے زندہ مقدس فوق الطبیعاتی یا روحانی نور کو سمجھ کر اس کے لئے کشش محسوس کر سکیں اور جن کے شعور میں کائنات کی ہر چیز کی طرح خدا کی محبت چھپی ہوئی ہے) مادی نور کے لئے ایک نہ ایک رنگ میں کشش محسوس کرتے ہیں اگر پروانہ شمع کے نور پر فدا ہے تو چکور چاند کے نور پر جان چھڑکتی ہے پرندے سمندروں میں روشنی کے میناروں کے ارد گرد رات بھر چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ زندگی خدا کے نور کو مادی نور سے اس وقت ممیز کرنے لگتی ہے جب وہ انسان کی صورت میں خود شعر اور خود نگر ہو جاتی ہے اس مادی نور میں جو انسانیت کاملہ کی اولین صورت تھی خدا کا نور خدا کی محبت کی صور میں بطور جان کے چھپا ہوا موجود تھا اس لئے خدا نے اپنے آپ کو کائنات کا نور کہا ہے: اللہ نور السموات ولارض (اللہ کائنات کا نور ہے) تخلیق اور حرکت خدا کے قول کن میں خدا کی محبت ہی نہیں بلکہ اس کے ارادہ تخلیق کی قوت اور اس کے حکم کا زور بلکہ اس کی تمام صفات جمال و جلال پوشیدہ تھیں خدا کی اسی ارادہ یا حکم کے زور کی وجہ سے یہ مادی نور برقی لہروں کی صورت میں اپنے ارتقاء کی منزل مقصود یعنی تکمیل انسانیت کی منزل کی طرف متحرک ہوا۔ اس مخلوق نور میں حرکت اس لئے تھی کہ وہ خدا کے ارادہ تخلیق کا مظہر تھا اور خدا کے ارادہ تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ تخلیق کی ابتدائی حالت کو حرکت دے کر اس کی انتہائی حالت یا حالت کمال تک جو اس ارادہ نے اس کے لئے معین کر رکھی تھی پہنچائے لہٰذا حرکت شروع سے ہی عمل تخلیق کی ضروری علامت کے طور پر رونما ہوئی طبیعات کا ایک مسلم اصول ہے کہ حرکت بغیر قوت کے نہیں ہوتی اس ابتدائی مادی نور کی حرکت کا باعث خدا کے قول کن کی بے پناہ قوت تھی جو مادی نہیں بلکہ ارادی قوت تھی۔ اب بھی یہی قوت اپنی مختلف حالتوں سے گزرتی ہوئی کائنات کی تخلیق اور نشو و ارتقاء کے لئے کار پرداز ہے چونکہ یہ قوت خدا کی تمام صفات جمال و جلال کی حامل ہے اور خدا کی تمام صفات اس کے اندر کار فرما ہیں لہٰذا یہ قوت زندگی اور خودی سے الگ ہونے کے باوجود خود زندگی اور خودی ہے اگر اس قوت کی صفات جمال براہ راست اور بلا واسطہ تخلیق و ارتقاء کے مقاصد کے لئے کام کرتی ہیں تو اس کی صفات جلال تخلیق و ارتقاء کی رکاوٹوں کو دور کر کے بالواسطہ ان ہی مقاصد کی پیش برو کے لئے کام کرتی ہیں۔ انسانی خودی سے مراد جب اقبال کہتا ہے کہ خودی انسان میں رونماہوئی ہے تو وہ خودی اسی قول کن کی قوت کو کہتا ہے جو خودی یا زندگی کی تمام صفات جمال و جلال کی حامل ہے۔ یہی قوت روح انسانی ہے جس کے متعلق قرآن کا ارشاد ہے کہ وہ خدا کا امر یا حکم ہے۔ اقبال کے اس خیال کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے کہ اقبال حلول کا قائل ہے لیکن دراصل جس طرح سے ایک مصور کی خودی یا شخصیت تصویر میں حلول نہیں کرتی اور اپنی تمام صفات کمال کے ساتھ تصویر میں جلوہ گر ہونے کے باوجود اس سے الگ تھلگ رہتی ہے اس طرح سے خدا کی ذات یا خودی اس کی مخلوق کائنات میں حلول نہیں کرتی بلکہ اپنی تمام صفات کمال کے ساتھ مادی حیوانی اور انسانی کائنات میں جلوہ ریز ہونے کے باوجود اس سے جدا رہتی ہے۔ تخلیقی کائنات کے مراحل یہاں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح سے قول کن کی تخلیقی قوت نے برقی لہروں کی حرکت سے کام لیا اور ان کو گرہوں کی شکل دے کر ایسی برقی اکائیاں بنا دیں جو یا تو بے بار تھیں یا مثبت اور منفی باروں (Charges) کی حامل تھیں اور جن کو ہم نیوتران، پروتان اور الکتران کہتے ہیں اور پھر کس طرح سے ان برقی اکاؤں کی باہمی کشش سے کام لے کر اس قوت نے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر جواہر (Atoms) کی شکل دے دی اور پھر کس طرح سے اس نے جواہر کی باہمی کشش کے ذریعہ سے ان کو عناصر کے سالمات (Maecules) کی شکل میں جوڑ دیا اور پھر کس طرح سے مادہ کے دھوئیں یا گیس کا ایک بہت بڑا بادل وجود میں آیا جو اور چھوٹے چھوٹے بادلوں میں بٹ گیا اور پھر کس طرح سے ان بادلوں سے تاروں کے جمگٹھے بن گئے اور سیاروں کے نظام وجود میں آئے جن میں سے ہمارا نظام شمسی ایک ہے۔ طبیعیات کی کتابوں میں اس مادی ارتقاء کی تفصیلات موجود ہیں اگرچہ زمانہ حال کی لادینی طبیعیات کے حکماء اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اصل قوت جو مادی ارتقاء کے پیچھے کام کر رہی تھی وہ خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کی قوت تھی حاصل یہ ہے کہ خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی بے پناہ قوت مادی نور کو ربوبیت یا ارتقاء کی منزلوں کی طرف برابر آگے دھکیلتی رہی اور وہ برابر ارتقاء کرتا رہا۔ اور اس کا مادی ارتقاء ہمارے کرہ ارض پر اس وقت مکمل ہوا جب مادہ اس قابل ہو گیا کہ زندگی کو جنم دے سکے اور جب وہ اس قابل ہوا تو پہلوا حیوان جو وجود میں آیا وہ ایک خلیہ کا حیوان تھا جسے امیبا کہتے ہیں جس طرح سے کائناتی نور انسان کی اولین مادی صورت تھی امیبا انسان کی اولین حیوانی شکل تھی پھر امیبا خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی قوت سے برابر ارتقاء کرتا رہا۔ یہاں تک کہ مکمل جسم انسانی نمودار ہوا۔ جسم انسانی کے ظہور پذیر ہونے کے بعد انسان کی ساری ترقی اس کی نفسیاتی یا نظریاتی ترقی ہے جو اس کے روحانی اور نظریاتی کمال کا باعث ہو گی۔ خدا کے حسن کی کشش ہر چیز میں ہے چونکہ خدا کے قول کن اصل خدا کی محبت ہے جو کشش اور جذب ہی کا دوسرا نام ہے لہٰذا ربوبیت کے کام کو جاری رکھنے کے لئے خدا کے قول کن یا ارادہ تخلیق کی قوت نے ہمیشہ کشش یا جذب کی صورت میں اپنا اظہار کیا ہے۔ طبیعیاتی مرحلہ ارتقاء میں اس کشش نے برقی قوت کے مثبت اور منفی باروں کی باہمی کشش اور تمام مادی قوانین کی شکل اختیار کی حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں ممد حیات اعمال و افعال کی کشش اور تمام حیاتیاتی قوانین کی صورت میں اپنا اظہار کیا اور انسانی مرحلہ ارتقاء میں نصب العین کی محبت کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جا بجا اس کا ذکر کیا ہے کہ آرزوئے حسن یا عشق ایک جذب یا کشش کی صورت میں دنیا کی ہر چیز کے اندر موجود ہے عشق ہی کی قوت سے مادی، حیاتیاتی اور انسانی سطح ارتقاء پر کائنات کے تمام تخلیقی اور ارتقائی اعمال جاری ہوتے ہیں یہ خدا ہی کی محبت یا آرزوئے حسن ہے یعنی خدا کی وہی آرزوئے حسن جس کا مقصد خدا کا اپنا نصب العین ہے جو انسان میں نمودار ہوئی ہے اور نمودار ہو کر منتہائے حسن یعنی خدا کی طلب گار ہوئی ہے اسی طلب حسن کے ذریعہ سے انسان اپنے حسن کے کمال کو پہنچے گا اور وہ نصب العینی انسان بنے گا جسے خدا پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر خدا کی یہ محبت جس کا حامل خدا کا قول کن ہے کائنات کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہر چیز کے باطن میں نہاں ہو کر آگے نہ جاتی تو انسان میں کیسے نمودار ہو سکتی تھی۔ خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے، اس کی کہیں سامان مسرت کہیں ساز غم ہے کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے سورج اور چاند کی گردش جس کا بنیادی سبب برق کے مثبت اور منفی باروں کی باہمی کشش ہے لا الہ یعنی خدا کی محبت کے اس سوز ہی سے ممکن ہوئی ہے جو بعد میں انسان کے اندر نمودار ہوا ہے بلکہ یہ سوز پہاڑوں میں اور گھاس کے تنکوں میں اور ہر چیز میں موجود ہے۔ مہر و ماہ گر دوز سوز لا الہ دیدہ ام ایں سوز را در کوہ و کاہ خدا کی محبت کے اس سوز اور زور سے ہی جو بعد میں انسان کے اندر نمودار ہوا ہے آسمان گردش کرتا ہے اور کائنات کا تمام کاروبار چلتا ہے یہی سوز محبت آفرینش کائنات کی غرض و غایت ہے۔ نقطہ ادوار عالم لا الہ انتہائے کار عالم لا الہ چرخ را از زور او گردنگی مہر را پائندگی رخشندگی بحر گوہر آفرید از تاب او موج در دریا تپید از تاب او خاک از موج نشیمن گل شود مشت پر از سوز او بلبل شود شعلہ در رگہائے تاگ از سوز او خاک مینا تابناک از سوز او نغمہ ہایس خفتہ ور ساز وجود جودیت اے زخمہ ور ساز وجود قرآن حکیم میں ہے کہ دنیا کی ہر چیز خدا کے حسن کی ستائش کرتی ہے۔ وان من شی الا یسبح بحمدہ (اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی پاکیزگی کی ستائش نہ کرتی ہو) اس آیت میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ہر چیز میں خدا کی محبت ہے۔ خدا اپنے محبوب کی جستجو میں ہے کائنات کی ہر چیز بتا رہی ہے کہ خدا کا ایک محبوب ہے جو اس سے بچھڑا ہوا ہے اور جسے وہ اپنی مسلسل تخلیقی فعلیت کے ذریعہ سے تلاش کر رہا ہے خدا کی محبت کبھی لالہ کی خوبصورت پتیوں پر اپنا پیغام لکھتی ہے کبھی پرندوں کے سینوں سے نکلنے والی درد ناک ہاؤ ہو میں ظاہر ہوتی ہے کبھی نرگس کے پھول میں آ نکلتی ہے گویا کہ چاہتی ہے کہ نرگس کی آنکھ سے اپنے محبوب یعنی مستقبل کی کامل نوع بشر کا مشاہدہ کرے اور حسینوں کے کرشمے کیا ہیں گویا خدا ان کی حسین آنکھوں سے اپنی محبت کا پیغام سنا رہا ہے۔ زمان و مکان کیا ہیں گویا ہمارے فراق میں خدا کی ایک محبت بھری آہ ہے جس نے زمان و مکان کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک حسین و جمیل پیکر خاکی کے حسن کا دیدار کرنے کے لئے خدا نے پوری کائنات کا ہنگامہ برپا کیا ہے یہ تماشائے رنگ و محبوب کے نظارہ کے لئے ایک بہانہ ہے خدا اپنی محبت کی وجہ سے کائنات کے ذرہ ذرہ میں پوشیدہ ہے اور لہٰذا ہم سے نا آشنا ہے اس کے باوجود وہ ماہتاب کی طرح آشکار ہے اور اسی طرح کاخ و کو کی آغوش میں چمک رہا ہے۔ عرض زندگی کا ایک گوہر تابدار ہماری اس خاکی کائنات میں گم ہے کیا وہ خدا ہے جسے ہم تلاش کر رہے ہیں یا ہم ہیں جنہیں خدا تلاش کر رہا ہے بات ایک ہی ہے۔ یہ گوہر تابدار ہم ہوں یا خدا جب ایک ملے گا تو دوسرا بھی ساتھ ہی مل جائے گا۔ ماز از خدائے گم شدہ ایم و بحستجوست چوں ما نیاز مند و گرفتار آرز است گاہے بہ برگ لالہ نوسید پیام خویش گاہے درون سینہ مرغان بہ ہاؤ ہوست و نرگس آرمید کہ بیند جمال ما چنداں کرشمہ دان کہ نگاہش بہ گفتگوست آہے سحر گہی کہ زند در فراق ما بیرون و اندروں زبر و زیر چار سو ست ہنگامہ بست از پئے دیدار خاکئے نظارہ اور بہانہ تماشائے رنگ و بوست پنہاں ہر ذرہ ذرہ و نا آشنا ہنوز پیدا چوں ماہتاب و باغوش کاخ و کوست در خاکدان ما گہر زندگی گم است ایں گوہرے کہ گم شدہ ما ایم یا کہ اوست کروڑوں برس کا عمل ارتقا خدا کے ایک لمحہ میں سما جاتاہے ارتقاء کا یہ عمل ہمارے پیمانہ وقت کے مطابق کروڑوں برس کی مدت میں پھیلا ہوا ہے لیکن خدا کے نزدیک ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ کا جھپکنا گویا ادھر خدا نے قول کن کہا اور ادھر کائنات کی وہ حالت کمال وجود میں آ گئی جس کے بعد قیامت کا زمانہ آنا مقدر ہے۔ واما امر السا عما لا کملح البصر اوھو قرب (اور قیامت کا آنا ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھ کا جھپکنا بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے) انما امر اذا اراد شیا ان بقول لہ کن فیکون (اس کے حکم کی یہ کیفیت ہے کہ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے) لیکن اگر ہم وقت کے اپنے پیمانہ کے مطابق کائنات کی تخلیق کے عمل کا جائزہ لے رہے ہوں اور اس کی تفصیلات اور جزئیات کا مطالعہ کر رہے ہیں جیسا کہ ہم کرنے پر مجبور ہیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ آنکھ جھپکنے کی یہ مدت اس قدر طویل ہے کہ کروڑ ہا برس کا عمل ربوبیت یا عمل ارتقاء جس کا ایک حصہ گزر چکا ہے اور ایک ابھی باقی ہے اس کے اندر سمایا ہوا ہے اور جب سے نسل انسانی پیدا ہوئی ہے نسلاً بعد نسلاً اس عمل ربوبیت کا مشاہدہ کرتی جا رہی ہے آئن سٹائن کے نظریہ نے اب اس حقیقت کو ریاضیاتی طور پر منکشف کیا ہے کہ وقت ایک اضافی چیز ہے۔ شعور کی ہر سطح کے لئے وقت کا پیمانہ الگ ہوتا ہے ہمارے بعض خوابوں سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ ہماری بیداری کی حالت کا ایک لمحہ ہماری نیند کی حالت کے ئی گھنٹوں بلکہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ اسی طرح سو سال کا عرصہ موت کی حالت میں صرف ایک دن یا ایک دن کے حصہ کے برابر ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے: فاماتہ اللہ ماۃ عام ثم بعثہ قالم کم لبثت قال لبثت یوماً او بعض یوم (اور خدا نے اسے ایک سو سال تک حالت موت میں رکھا اور پھر اسے زندہ کیا۔ لوگوں نے پوچھا تم کتنا عرصہ حالت موت میں رہے تو اس نے جواب دیا ایک دن یا اس کا کچھ حصہ) پھر قرآن میں ہے کہ خدا کا ایک دن ہماری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ فی یوم کان مقدار الف سنہ مما تعدون (ایک ایسے دن جس کی طوالت تمہارے حسابات کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوتی ہے) اقبال لکھتے ہیں: ’’ اگر ہم اس حرکت کا جس کانام تخلیقی ہے خارج سے مشاہدہ کریں دوسرے الفاظ میں اگر ہم اسے ذہنی طور پر سمجھیں تو یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہزاروں سال کی مدت میں پھیلا ہوا ہے کیونکہ قرآن کی مصطفحات کے مطابق اور تورات کی مصطفحات کے مطابق بھی خدا کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے لیکن ایک اور نقطہ نظر سے یہ ہزاروں سال کا عمل تخلیق ایک واحد ناقابل تقسیم فعل ہے جو ایسا سریع الحرکت ہے جیسے کہ آنکھ کا جھپکنا۔‘‘ قول کن کی ممکنات تخلیق ایک آزادانہ فعل ہے تاہم اپنے مقاصد کا پابند ہے۔ تخلیق کا ارادہ ایک آزادانہ جمالیاتی وجدان (Aesthetic Judgement) کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن اس ارادہ کی ممکنات اس کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ ارادہ کی ممکنات کا پہلے سے موجود ہونا ارادہ کی آزادی میں فرق پیدا نہیں کرتا۔ خدا کے قول کن کے اندر خدا کی تمام صفات اور ربوبیت کی تمام قدرتیں اور قوتیں اور تخلیق کی تمام ممکنات جمع تھیں۔ اس لئے تمام تخلیق قول کن کی ممکنات کا ظہور ہے جو قول کن کے اندر مخفی قوتوں کے عمل سے ممکن ہوا ہے۔ تمام مادی قوانین یعنی مادی اشیاء کی تمام کیفیات اور خاصیات خدا کے قول کن کی ممکنات تھیں جو ظہور پذیر ہو گئی ہیں اگر ان قوانین کی تخلیق کے پیچھے خدا کا ارادہ تخلیق یا خدا کا جذبہ محبت یا خدا کی ربوبیت کی قوت کام نہ کرتی تو یہ کبھی وجود میں نہ آ سکتے یہی سبب ہے کہ ارتقاء کا عمل ایسا ہے جیسے کہ ایک بیج کا اپنی ممکنات کو ظہور پذیر کرنا اور اسی اظہار سے بالآخر ایک مکمل درخت بن جانا۔ مکمل درخت بیج کے اندر بالقوہ موجود ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ باہر آتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارتقا کے ہر مرحلہ پر خواہ وہ مادی ہو یا حیاتیاتی یا نفسیاتی زندگی کو جو قوتیں بھی کسی وقت حاصل ہو جاتی ہیں ان ہی قوتوں اور صلاحیتوں کے عمل سے نئی قوتیں اور صلاحیتیں جنم لیتی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ نئی قوتیں اور صلاحیتیں پرانی قوتوں اور صلاحیتوں کے اندر بالقوہ موجود تھیں۔ مثلاً اگر برقی کائناتی شعاعوں کے اندر جذب اور دفع کے عمل کی وجہ سے حرکت نہ ہوتی تو ان سے الکتران اور پروتان کی برقی گھکڑیاں پیدا نہ ہو سکتیں اور اگر ان گھکڑیوں کے اندر باہمی کشش نہ ہوتی تو ان سے سالمات تیار نہ ہو سکتے اور اگر سالمات کے اندر باہمی کشش نہ ہوتی تو ان سے ایک بڑا بنولا تیار نہ ہوتا اور اس کے اندر محوری حرکت پیدا نہ ہو سکتی اور اس حرکت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بنولے نہ بنتے اور ہمارا نظام شمسی اور ہماری زمین وجود میں نہ آ سکتے۔ اسی طرح سے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں ہر حیوان اپنی قوتوں کے عمل سے اور قوتیں پیدا کرت اہے اور پھر ان نئی قوتوں کے عمل سے اور نئی قوتیں پیدا کرتا ہے یہاں تک کہ انسان ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ تاہم تخلیق کا عمل اپنے کسی مرحلہ میں بھی خداوندی قول کن کے حکم اور زور کے بغیر ایک قسم کے بعد دوسرا قدم نہیں اٹھا سکتا اور تخلیق کی کسی حالت کو بھی اگلی حالت میں نہیں بدل سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیق میکانکی اور مادی نہیں بلکہ ارادی اور روحانی ہے اور اپنے ہر قدم پر خدا کے حکم اور آزادانہ ارادہ تخلیق کا نتیجہ ہے جسے ہم سلسلہ اسلوب کہتے ہیں وہ در حقیقت قول کن کی ممکنات کا سلسلہ ہے اور خالق کے نصب العین کے ماتحت اور خالق کی آزادنہ تخلیق سے ظہور پذیر ہوتاہے۔ ارتقاء کیلئے حیوان کی جدوجہد حیوان کی وہ قوتیں جن کو ہم جبلتوں کا نام دیتے ہیں جذب اور دفع کی صورت میں ہوتی ہیں اور ان قوتوں کا عمل حیوان کی جدوجہد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اس جدوجہد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حیوان ان چیزوں کو قریب لائے اور حاصل کرے جو اس کی بقا اور نشوونما کے لئے ممد و معاون ہوں او ران چیزوں سے گریز کرے یا راستہ سے ہٹائے جو اس کی بقا اور نشوونما کے لئے مضر اور مخالف ہوں۔ حیوانی مرحلہ ارتقاء میں ایسا ہوتا رہا ہیکہ جب حیوانات اپنے ان مقاصد کے حصول کے لئے جو ان جبلتوں سے پیدا ہوتے تھے کوشش کرتے تھے تو ان کی جدوجہد خودی کائنات کے ارادہ کی قوت کا آلہ کار بن کر اسے زیادہ سے زیادہ کار فرما ہونے کا موقع دیتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان حیوانات کے اندر ایسی نئی قوتیں اور جسمانی کفیتیں رونما ہو جاتی تھیں جو ان کے مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہوتی تھیں اور اس طرح سے ان کی جدوجہد زندگی کی مخفی صلاحیتوں کو کسی قدر اور آشکار کر دیتی تھی اور حیوانات کو ارتقاء کی آخری منزل یعنی مکمل جسم انسانی سے اس کی تمام معروف قوتوں اور صلاحیتوں کے سمیت قریب تر لے آتی تھی اسی جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ پرندوں نے پر پیدا کر لئے اور اڑنا یا چلنا یا چہچہانا سیکھ گئے اور ہم نے بھی آنکھ، کان، ہاتھ، دانت اور دماغ ایسے پیچیدہ اعضاء یا فکر، تخیل، یاد اور ہوش ایسے مفید قویٰ پیدا کر لئے دیکھنے کی خواہش نے جو جدوجہد ہم سے کرائی وہی ہماری آنکھ بن گئی اگر کبک میں شوخی رفتار کی تمنا نہ ہوتی تو اسے پاؤں میسر نہ آتے، بلبل گانے کی آرزو نہ کرتا تو منقار نہ پا سکتا۔ ہمارے تمام قویٰ ہماری خواہش اور خواہش کے مطابق جدوجہد کے نتیجہ کے طور پر ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ چیست اصل دیدہ بیدار ما بست صورت لذت دیدار ما کبک پا از شوخنے رفتار یافت بلبل از سعی نوا منقار یافت زندگی مرکب چو درجنگاہ تاخت بہر حفظ خویش ایں آلات ساخت جذب اور دفع کے مظاہر کا سبب چونکہ عمل ارتقاء کی قوت محرکہ وہی محبت ہے جو روز ازل سے خدا کے ارادہ تخلیق یا خدا کے قول کن میں مضمر تھی۔ لہٰذا اس قوت کا ایک پہلو محبت ہے اور دوسرا بیزاری۔ کیونکہ خدا کو ہر وہ چیز پسند ہے جو اس کے عمل تخلیق کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور ہر وہ چیز ناپسند ہے جو اس کے عمل تخلیق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن میں جا بجا اس کا ذکر ہے کہ کون سے انسانی اعمال خدا کو پسند نہیں اور کون سے پسند ہیں۔ خدا کے قول کن کی قوت کے یہ دونوں پہلو مادی مرحلہ ارتقاء میں مقناطیسی یا برقی جذب اور دفع کی قوتوں میں اور حیوانی مرحلہ ارتقاء میں میلان اور فرار کی جبلتوں میں نمودار ہوئے تھے اور اب انسانی مرحلہ ارتقاء میں نظریہ کی محبت اور ضد نظریہ کی نفرت کے جذبات کی صورت میں نمودار ہوئے ہیں۔ انسان ہر اس چیز سے محبت کرتا ہے اور اس کو قریب لانے یا اس کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے نصب العین کے لئے ممد و معاون ہو اور ہر اس چیز سے نفرت یا گریز کرتا ہے اور اس کو دور کرنے یا اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے نصب العین کی مخالف ہو۔ کوشش یا جدوجہد جس طرح سے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں حیاتیاتی ترقی کی کلید تھی۔ اسی طرح سے اب انسانی مرحلہ ارتقا میں نظریاتی یا نفسیاتی ترقی کی کلید ہے۔ مزاحمت کے خلاف خودی کی جدوجہد انسان جب اپنے نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو وہ خدا کی عطا کی ہوئی قوت کا اظہار کرتا ہے لیکن یہ قوت فقط ایک ہے اور وہ خدا کے قول کن کی قوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے عمل سے خدا کے ارادہ یا قول کن کی قوت کو جو حرکت ارتقاء میں کار فرما ہے زیادہ سے زیادہ بروئے کار آنے کا موقعہ دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قول کن کی ان ممکنات کو جو اب اس کی تمنائے حسن یعنی خد اکی محبت کی صورت میں اس کی خودی کے اندر آ نکلی ہیں ظہور پذیر کرتا ہے وہ جس قدر زیادہ خدا کی جستجو کرتا ہے اسی قدر زیادہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کو بالفعل یا آشکار کرتا ہے اور اسی قدر زیادہ وہ ذات باری تعالیٰ کی صفات حسن کو جو قول کن کے اندر مضمر ہیں اپنے اندر ظہور پذیر کرتا ہے گویا وہ اپنی جدوجہد سے اگر خد اکی تلاش کرتاہے تو اپنے آپ کو پاتا ہے اور اگر اپنے آپ کو تلاش کرتا ہے تو خدا کو پاتا ہے۔ تلاش او کنی جز خود نہ بینی تلاش خود کنی جزو او نہ یابی خودی کی مزاحمت کا منبع کوشش یا جدوجہد کا مطلب یہ ہے کہ خودی یا زندگی ہر قدم پر مزاحمت سے دو چار ہوتی ہے جسے مٹانے کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ مزاحمت خود زندگی کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ماضی سے متشکل ہوتی ہے۔ زندگی کا ایک وصف یہ ہے کہ جب وہ ترقی کر کے ایک حالت کو پا لیتی ہے تو اس حالت کا ایک پہلو جہاں اگلی حالت کے نمودار کرنے کے لئے ممد و معاون ہوتا ہے وہاں اس کا دوسرا پہلو اس کے نمودار ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی یا زندگی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف نت نئی ترقیاں حاصل کرنا چاہتی ہے بلکہ اس غرض کے لئے ان ترقیوں کا بھی محفوظ کرنا چاہتی ہے جنہیں وہ ایک دفعہ حاصل کر لیتی ہے۔ اگر وہ ماضی کی ترقیوں کو محفوظ نہ کرے تو مستقبل کی ترقیوں کو حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ زندگی کا مستقبل اس کے ماضی کے بنیادوں پر تعمیر پاتا ہے۔ زندگی اپنی تخلیقی قوت کے عمل سے نئی نئی خاصیتیں اور کیفیتیں نمودار کرتی ہے۔ لیکن جونہی کہ زندگی ایک کامیابی حاصل کر لیتی ہے وہ کامیابی مستقل اور خود کار اور غیر مبدل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے زندگی اس کی طرف بے پرواہ ہو کر اگلی کامیابیوں کی طرف توجہ کرتی ہے لیکن جب وہ ایسا کرنے لگتی ہے تو جو کامیابیاں وہ حاصل کر چکی ہوتی ہے وہی زندگی کو پست تر سطح سے متعلق ہونے کے باعث اس کی اگلی منزل کے راستہ کی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ حیوانی مرحلہ ارتقا میں خودی کی مزاحمت مثلاً مادی مرحلہ ارتقاء میں زندگی کی کامیابیاں مادی قوانین کی صورت میں نمودار ہوتی تھیں۔ یہ قوانین مستقل اور خود کار اور غیر مبدل ہیں اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ ایسے ہی تھے بلکہ اس لئے کہ اب ان کو بدلنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ ماضی میں عرصہ دراز تک بدل بدل کر اغراض ارتقاء کے لئے بہتر اور بلند تر ہوتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے ایک ایسی شکل اختیار کر لی جو حیونای زندگی کے نمودار ہونے کے لئے موزوں تھی تو وہ مستقل اور غیر مبدل بن گئے۔ اورتغیر ان سے اوپر کی سطح زندگی پر نمودار ہو گیا۔ حیوانی مرحلہ ارتقاء میں زندگی کو ان ہی مادی قوانین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو اس نے خود ایک مقصد کے ماتحت ظہور پذیر کئے تھے۔ حیوانات مجبور تھے کہ ان قوانین کے خلاف جدوجہد کر کے اپنے آپ کو ان کے مخالفانہ عمل کی زد سے محفوظ کریں اور ان کی مزاحمت کے باوجود اپنے لئے خوراک مہیا کریں تاکہ اس طرہ سے اپنی اور اپنی نسل کی زندگی کو برقرار رکھ سکیں۔ ان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ حیوانات کی جبلتیں مختلف سمتوں میں جو زندگی کی فطرت یا نصب العین کے مطابق یا دوسرے لفظوں میں قول کن کی ممکنات کے مطابق تھیں ارتقاء کرتی رہیں اور اس عمل کے دوران میں بے شمار انواع حیوانات وجود میں آئیں۔ مادی قوانین کی مزاحمت پر فتح پانے کے لئے زندگی نے جو جدوجہد کی اس نے ممکن بنایا کہ زندگی جبلتوں کی صورت میں نئی کامیابیاں حاصل کر سکے یہ جبلتیں مادی قوانین ہی کی طرح ساتھ ساتھ مستقل اور غیر مبدل او خود کار ہوتی گئیں۔ اس طرح سے حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء کے ہر قدم پر زندگی کا ماضی جو اس کی مزاحمت کا موجب بنا۔ مادی قوانین کے علاوہ ان جبلتوں پر بھی مشتمل تھا جو مختلف انواع حیوانات کے اندر وجود میں آ کر مستقل اور غیر مبدل اور خود کار ہو گئی تھیں۔ گویا ہر حیوان اپنی جدوجہد میں نہ صرف مادی قوانین کی مزاحمت کا بلکہ اپنے اور دوسرے انواع حیوانات کے غیر مبدل جبلتی مقاصد کی مزاحمت کا بھی سامنا کرنے پر مجبور تھا۔ اس طرح سے وہ انواع حیوانات کی ایک باہمی عالمگیر اور مسلسل جنگ میں شریک تھا۔ ہر نوع حیوانات کی جدوجہد ایک ایسے کردار کے مطابق سر زد ہوتی تھی جو اس کی جبلتوں کے مقاصد سے معین ہوتا تھا۔ نظریاتی مرحلہ ارتقا میں خودی کی مزاحمت نظریاتی یا نفسیاتی مرحلہ ارتقاء میں جو اب جاری ہے زندگی نہ صرف مادی قوانین کی مزاحمت کا بلکہ جبلتوں کی مزاحمت کا بھی سامنا کر رہی ہے حالانکہ جبلتیں مادی قوانین کی طرح زندگی نے اپنی حفاظت بقا اور ترقی کے لئے پیدا کی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی افراد نہ تو مادی قوانین مثلاً موسمی حالات اور کشش ثقل وغیرہ کی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے بغیر اپنی جبلتی اور حیاتیاتی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی جبلتی لذتوں کے حد سے بڑھے ہوئے مطالبات کا مقابلہ کرنے کے بغیر اپنی آرزوئے حسن کی (جو ان کی تمام فطری خواہشات میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے) تشفی کر سکتے ہیں ان کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے نظریات جس حد تک کہ وہ قول کن کی ممکنات اور زندگی کی مخفی تمناؤں کے مطابق ہیں۔ مختلف سمتوں میں ارتقا کر رہے ہیں اور اس عمل کے دوران میں بے شمار نظریاتی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ نظریاتی ارتقاء کے ہر بین مرحلہ پر زندگی کے ماضی میں نہ صرف مادی قوانین اور حیوانی جبلتیں شامل ہیں۔ بلکہ نظریاتی جماعتوں کے وہ نظریات بھی شامل ہیں جو اس مرحلہ سے پہلے وجود میں آ چکے تھے۔ لہٰذا اس مرحلہ ارتقاء پر ہر نظریاتی جماعت نہ صرف مادی قوانین اور جبلتوں کی مزاحمت کا سامنا کرتی ہے بلکہ اپنی تمام ہم عصر نظریاتی جماعتوں کے گوناگوں مقاصد کی مزاحمت کا بھی سامنا کرتی ہے۔ ہر نظریاتی جماعت کی جدوجہد ایک ایسے کردار کے مطابق سرزد ہوتی ہے جو اس کے نظریہ کے مقاصد سے متعین ہوتا ہے۔ یہ مقاصد ہر نظریاتی جماعت کے نصب العین حیات میں بالقوہ موجود ہوتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس کی زندگی میں آشکار ہوتے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ کردار مستقل اور غیر مبدل اور خود کار بن جاتا ہے اور اسی کو ہم نظریاتی جماعت کے قانون یا رسم و رواج کا نام دیتے ہیں۔ اس موقعہ پر اگر نظریاتی جماعت کے بعض افراد کسی اور نظریہ حیات کی محبت میں گرفتار ہو جائے تو ان کو اس قانون یا رسم و رواج کی قوت کے خلاف جدوجہد کرنا پڑتی ہے تاکہ اس کی مزاحمت کا خاتمہ کر دیں اگر وہ اس جدوجہد میں کامیاب ہو جائیں تو اس واقعہ کو ایک بابرکت انقلاب کا نام دی اجاتا ہے اور اگر کامیاب نہ ہوں تو اسے ایک خطرناک بغاوت کہا جاتا ہے جسے بر وقت دبا دیا گیا ہو۔ رکاوٹ خودی کی کوشش کو زور دار بناتی ہے زندگی اپنے ماضی کی طرف سے جس مزاحمت کا سامنا کرتی ہے وہ اس کی ترقی یا منزل مقصود کی طرف ا سکی رفتار کو کم نہیں کرتی۔ اس کے برعکس چونکہ یہ مزاحمت اس کی کوششوں کو تیز تر کر دیتی ہے وہ اس کی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرتی ہے۔ جس طرح سے ایک جوئے کہستان کو جب پہاڑوں کے ایک تنگ درہ میں سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ بڑے زور سے بہنے لگتی ہے یہاں تک کہ ان چٹانوں کو جو اس کے راستہ کو دشوار بنا رہی ہوتی ہیں کاٹ کر بہار دیتی ہے۔ اس طرح سے جب زندگی کی رو کسی مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد اسے فنا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہو تو اس کی قوت اپنی انتہا پر ہوتی ہے زندگی کسی تھوڑی سی مزاحمت کو بھی خواہ وہ کسی شکل و صورت میں ہو برداشت نہیں کرتی اور اس سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔اس کے برعکس جب بھی اسے کوئی مزاحمت در پیش آتی ہے۔ خواہ وہ ایک پہاڑ کے برابر ہو تو وہ اپنی ساری قوت کو جمع کر کے اسے نیست و نابود کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کوشش میں کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ خواہ مزاحمت کیسی ہی شدید کیوں نہ ہو۔ زندگی اسے فنا کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ رکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ قرآن حکیم نے اس حقیقت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون (اور خدا اپنے مقصد پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں) اگر زندگی کو ایک راہ سے اپنے مقصد میں کامیاب ہونے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے کا موقعہ نہ ملے تو یہ کسی رکاوٹ کا سامنا کرنے والی ندی ہی کی طرح اپنی منزل کی طرف ایک اور کامیاب راستہ نکال لیتی ہے۔ اس کی جدوجہد کا نتیجہ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف مزاحمت ہو جاتی ہے بلکہ اپنے آئندہ جدوجہد کو جاری رکھنے کے لئے وہ خود بھی نئی صلاحیتوں اور قوتوں سے آراستہ ہو جاتی ہے جن کی وجہ سے وہ ارتقاء کی بلند تر سطحوں پر قدم رکھتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنی ہی پیدا کی ہوئی مزاحمت کے خلاف جدوجہد کر کے اس پر غالب آنا زندگی کی فطرت کا ایک تقاضا ہے جسے زندگی مطمئن کرنا چاہتی ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ اپنے اندر سے خود اپنی مزاحمت پیدا کرتی ہے اقبال بڑی وضاحت کے ساتھ خودی کی اس خصوصیت کا ذکر کرتا ہے۔ در جہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پیداشت است ساز و از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را اوپر کے حقائق کی روشنی میں یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں اقبال اپنی نظم میں جس کا عنوان ’’ ارتقائ‘‘ ہے ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح سے مشکل پسندی مشکل کشی اور جفاطلبی زندگی کی خصوصیات ہیں کس طرح سے زندگی اپنے راستہ کی رکاوٹوں کو للکارتی ہے اور پھر نہایت دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کر کے ان کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔ کس طرح سے جدوجہد ہی وہ عمل ہے جس کی مدد سے زندگی ارتقاء کے مادی حیاتیاتی اور نظریاتی مرحلوں میں آگے بڑھتی ہے۔ کس طرح سے قوموں کی زندگی اور ترقی کا راز ان کی جدوجہد میں مضمر ہے اور کس طرح بے چینی اور اضطراب کے اس عالم میں مسلمان قوم کی موجودہ جدوجہد کا راز بھی یہی ہے کہ وہ زندہ رہنا اور ترقی کرنا چاہتی ہے۔ حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز سرشت اس کی ہے مشکل کشی جفا طلبی سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی ہزار مرحلہ ہائے فغان نیم شبی کشاکش زم و گرما تپ و تراش و خراش ز خاک تیرہ دروں تابہ شیشہ حلبی مقام بست و کشاد و فشار و سوز و کشید میان قطرہ نیساں و آتش غبی اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی خودی کی تکمیل کے مرحلے چونکہ ارتقاء کا مقصد فقط انسان کی تکمیل ہے اور انسان کی اصل ایک خودی ہے جو ایک مکمل جسم حیوانی میں مقیم ہوئی ہے اور یہ مکمل جسم حیوانی ایک مکمل مادہ سے بنا ہے ضروری تھا کہ کائناتی خودی کی تخلیقی فعلیت کی تین منزلیں قرار پاتیں۔ جن میں سے پہلی منزل تکمیل مادہ دوسری منزل تکمیل جسم حیوانی اور تیسری منزل تکمیل خودی ہوتی۔ ضروری تھا کہ پہلے اس کیچڑ یا مٹی کی تکمیل کی جاتی جس سے انسان کا جسم بنا ہے۔ مادی ارتقاء کے کروڑوں برس اس مٹی کی تکمیل میں صرف ہوئے اس مرحلہ ارتقاء میں جوئے حیات کی تیز روان دیرپا اور کار آمد مادی ذرات یا جواہر کی تعمیر کی سمت میں بہتی رہی جو انسانی جسم کی ساخت اور نشوونما اور اس کے قیام اور ارتقا کے ساز و سامان کی تیاری کے لئے ضروری تھے۔ ان جواہر کی تعمیر کے دوران میں اور قسم کے بھاری اور پیچیدہ جواہر بھی وجود میں آتے رہے لیکن چونکہ وہ ارتقا کے مقاصد سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا وہ دیرپا نہ تھے اور ماضی میں ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوتے رہے اور آج تک فنا ہو رہے ہیں۔ کیچڑ یا مٹی کے مکمل ہونے کے بعد جب اس سے جسم انسانی کی ابتدائی حالت وجود میں لائی گئی تو ضروری تھا کہ اس کی اور تکمیل کی جاتی یہاں تک کہ وہ اس قابل ہو جاتاکہ اس کے اندر انسان کا جوہر جسے آزاد اور خود مختاری کہا جاتا ہے نمودار ہو جاتا۔ لہٰذا حیاتیاتی ارتقا کے کروڑوں سال انسان کے جسم کی تکمیل میں صروف ہوئے اس مرحلہ ارتقا میں جوئے حیات کی تیز رو انسان کے جسم کی ان ترقی پذیر شکلوں کی تعمیر کی سمت بہتی رہی جو متواتر کامل سے کامل تر بنتی رہیں۔ یہاں تک کہ بالآخر انسان کے مکمل جسم پر ختم ہوئیں اس مرحلہ میں اور قسم کی حیوانی شکلیں بھی انواع حیوانات کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی رہیں لیکن چونکہ وہ ارتقا کے مقاصد کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی تھیں لہٰذا وہ اس قابل نہ تھیں کہ زندہ رہ سکتیں۔ وہ ماضی میں فنا ہوتی رہیں اور ان کے فنا ہونے کا عمل اب تک جاری ہے۔ جسم انسانی کی تکمیل کے بعد جب اس میں خودی کا جوہر نمودار ہوا تو ضروری تھا کہ اس جوہر کی تکمیل کر کے اسے مکمل کر دیا جاتا تاکہ تخلیق اور ارتقا کا مقصد پورا ہو۔ لہٰذا نظریاتی ارتقا کے لاکھوں برس آج تک تکمیل خودی پر صرف ہو چکے ہیں اور معلوم نہیں کہ اور کتنی مدت اس پر صرف ہو گی۔ اس نظریاتی ارتقاء کے دوران ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف قسم کی نظریاتی اشکال نظریاتی جماعتوں کی صورت میں پیدا ہو رہی ہیں۔ جن میں سے اکثر ساتھ ساتھ مٹی جا رہی ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ ارتقاء کے آخری مقصد یعنی تکمیل انسان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں اس طرح سے اگرچہ ارتقا کے ان تینوں مرحلوں میں شاخ زندگی سے ہر آن پھول جھڑتے رہے ہیں۔ لیکن نئے پھول نکلتے بھی رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ شاخ متواتر اپنے کمال کی طرف نشوونما پاتی رہی ہے مجموعی طور پر زندگی کے حاصلات نہ کبھی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں او رنہ بے ثبات۔ علامہ اقبال کی زندگی کی ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے اور اس شاخ سے پھوٹتے بھی رہے سمجھتے ہیں نادان اسے بے ثبات ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات ایک پہاڑی ندی سے خودی کی مماثلت ارتقاء کے مختلف مراحل میں سے زندگی (یعنی قول کن کی قوت) کی نہ رکنے والی مسلسل پیش قدمی کو اقبال ایسی تیز رو ندی سے تشبیہہ دیتا ہے جسے پہاڑوں کے درمیان بہتے ہوئے چٹانوں کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں اور وہ دائیں یا بائیں مڑ کر ان سے بچتی ہوئی اور یا پھر انہیں اپنے تیز اور تند بہاؤ کے پھاوڑے سے کاٹتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔ وہ جوئے کوہستان اچکتی ہوئی اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے جب توسل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ دیکھ دیکھ اے ساقی لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام ٭٭٭ دمادم رواں ہے یم زندگی ہر ایک شے سے پیدارم زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمو کہ شعلہ میں پوشیدہ ہے موج دود گراں اگرچہ ہے محنت آب و گل خوش آئی اسے صحبت آب و گل اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ببول اسی کے بیاباں اسی کے ہیں پھول کہیں اس کی طاقت سے کہسار چور کہیں اس کے پھندے میں جبریل و حور کہیں پر ہے شاہین سیماب رنگ لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ ٭٭٭ ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شان وجود سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی، فقط ذوق پرواز ہے زندگی، بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے ہوا جب اسے سامنا موت کا کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا اتر کر جہان مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں مذاق دوئی سے بنی زوج زوج اٹھی دشت و کہسار سے موج موج ٭٭٭ زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی تجسس کی ہیں بدلتی ہوئی دمادم نگاہیں بدلتی ہوئی سبک اس کے ہاتھوں میں سنگ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگ رواں سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے خودی جو روز ازل سے اس طرح اپنی پیدا کی ہوئی رکاوٹوں کے ساتھ کشمکش میں مصروف تھی اور مادی اور حیاتیاتی ارتقاء کے طویل اور دشوار گزار راستہ پر آہستہ آہستہ مگر پورے استقلال کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی۔ آخر کار جسم انسانی میں نمودار ہوئی اور اب اس کے ذریعہ سے اپنی ترقی کی آئندہ منزلوں کو طے کر رہی ہے۔ ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر انسانی خودی کا یعنی خدا کی محبت کے جذبہ کا ظہور اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان پہلا اور آخری حیوان ہے جو خود شعور ہے۔ یعنی جس کا شعور اپنے آپ سے آگاہ ہے۔ انسان اپنی خود شعوری کی وجہ سے یہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی محبوب ہے جو اس سے بچھڑا ہوا ہے اور جس کے بغیر اس کی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے وہ تصورات حسن قائم کرتا ہے اور ان سے محبت کرتا ہے اور اپنی عملی زندگی کو ان کی پیروی کے لئے وقف کرتا ہے لیکن صرف ایک ہی تصور حسن ایسا ہے جو اپنی صفات اور خصوصیات کی وجہ سے اس کی خودی کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے اور انہیں پوری طرح سے مطمئن کر سکتا ہے اور وہ خدا کا تصور ہے۔ انسان میں خودی کا اور اس کے ساتھ خدا کی محبت کے جذبہ کا ظہور نوع انسانی کی تکمیل کے اصلی عمل کا نقطہ آغاز ہے۔ اس سے پہلے مادہ کی تکمیل اور اس کے بعد جسم حیوانی کی تکمیل اس عمل کی تیاری کے مرحلے تھے اب خدا کی محبت کا عملی اظہار کرنے سے نوع انسانی اپنے اس حسن یا کمال کو پہنچے گی ۔ جو خدا کے قول کن کا مقصود ہے۔ خدا نے جس کے حسن و کمال کی کوئی حد نہیں۔ انسان کو اپنے حسن اور کمال کی آرزو کے ساتھ اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ انسان اس آرزو کی تشفی کر کے خدا کے رنگ میں رنگا جائے اور اس طرح سے اپنے حسن و کمال کو انتہا کو پہنچے۔ ارتقائے کائنات کے جس نقطہ پر انسان میں خودی کا ظہور ہوا وہاں کائناتی خودی نے گویا اپنا راز جو آفرینش کائنات میں مضمر تھا۔ آشکار کر دیا انسان کے اندر جوہر خودی کے نمودار ہونے کے عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ یہ گویا کائنات کا اپنے ارتقاء کے ایسے نقطہ پر پہنچ جانا ہے جہاں وہ اپنی راہ نمائی خود کر سکتی ہے اور جہاں حقیقت مطلقہ گویا اپنے راز کو آشکار کر دیتی ہے اور اپنی اصل حقیقت کا سراغ بہم پہنچاتی ہے۔‘‘ انسان میں خودی کے ظہور کا مطلب یہ تھا کہ ایک مشت خاک میں خدا کی محبت زندہ ہو گئی ہے اور دنیا میں پہلی دفعہ حسن کا قدر دان اور چاہنے والا پیدا ہوا ہے جو اپنی محبت کی وجہ سے خدا کا راز دار بن سکتا ہے۔ او رکائنات کے راز ہائے سربستہ کی پردہ دری کر سکتا ہے۔ سنگ و خشت کی دنیا تو بے اختیار اور مجبور تھی۔ لیکن اب ایک ایسا وجود ظہور پذیر ہو گیا ہے جو آزاد ہے اور آزادی عمل سے اپنی اصلاح کرکے اپنی شخصیت کی نئی تعمیر کر سکتا ہے۔ خدا کی آرزو یا محبت اپنی حیرت انگیز قوتوں سے بے خبر زندگی کے آغوش میں سوئی پڑی تھی لیکن اب اس نے اپنی آنکھیں کھول لی ہیں اور اب گویا اس کے لئے ایک ایسا دروازہ کھل گیا ہے جہاں سے وہ خدا کے حسن کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ خدا کی آرزو کی اس بیداری سے جہاں دگرگوں ہو گیا ہے اور پوری دنیا ہی بدل گئی ہے۔ نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد خبر سے رفت ز گردوں بہ شبستان ازل حذر اے پروگیاں پردہ درے پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہاں مجبور خود گرے خود شکنے خود نگرے پیدا شد آرزو بے خبر از خویش باغوش حیات چشم دا کر دو جہان دگرے پیدا شد زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ہمہ عمر تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد کہاں انسان خاک کا پتلا اور کہاں خالق کائنات خدا جو منتہائے حسن و کمال ہے۔ انسان میں خودی اور خودی کے ساتھ خدا کی محبت کے ظہور کا مدعا کیا ہے۔ عقل اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے ربوبیت قرآن حکیم کی رو سے کائنات کے اندر تدریجی تخلیقی کے عمل کا وجود ایک حقیقت ہے اور اس کا باعث خدا کی ربوبیت ہے قرآن کی سب سے پہلی آیت الحمد للہ رب العلمین اس حقیقت کا اعلان کرتی ہے۔ امام راغب نے اپنی کتاب’’ المفردات‘‘ میں ربوبیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ھو انشاء الشی حالاً فحالاً الی حد التمام (وہ کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت تک نشوونما دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی حالت کمال کو پہنچ جائے) قرآن کی رو سے خدا رب السموات والارض آسمانوں اور زمین کا رب ہے اس لئے کہ وہ کائنات کا ایک کل کی حیثیت سے تدریجی ترقی دے رہا ہے اور پھر حدیث کے الفاظ میں خدا رب کل شی ہر چیز کا رب ہے۔ کیونکہ وہ کائنات کی عمومی تربیت اور تکمیل کے سلسلہ میں کائنات کی ہر چیز کی تربیت اور تکمیل کرتا ہے۔ مغرب کے حکماء بھی اپنے مشاہدات کی بنا پر اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ کائنات میں تدریجی تکمیل کا عمل ہوتا رہا ہے اور وہ اس عمل کو ارتقا یا ایوولیوشن کا نام دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات کو آج تک نہیں سمجھا کہ اس کا بنیادی سبب ایک قادر مطلق خدا کی تخلیق فعلیت یا ربوبیت ہے اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ نوع انسانی اپنے حسن و کمال کی اس انتہا تک پہنچے جو اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ایوولیوشن کی حقیقت اور اس کو سمجھنے کی اہمیت کو ایک شعر میں بیان کیا ہے۔ ہے ایوولیوشن بس اک تفسیر رب العالمین! کاش اس نکتے سے واقف ہوں مسلمان اندنون ارتقاء اقبال نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن حکیم اس نظریہ کی تائید کرتا ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے۔ اقبال لکھتاہے: ’’ قرآن کی تعلیم اس بات کی موید ہے کہ کوئنات ارتقاء کر رہی ہے اور بدی پر انسان کی آخری فتح کی امید سے پر ہے۔ قرآن کی رو سے انسان کو اختیار ہے کہ چاہے تو کائنات کے مقصد کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر حیات جاوداں سے بہرہ ور ہو جائے۔ ایحسب الانسان ان یترک سلی الم یک نطفہ من منی یمی ثم کان علقہ فخلق فسوی فجعل منہ الزوجین الذکر والانئی الیس ذالک قادر علی ان یحیٰ الموتی (کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ بے کار سمجھ کر چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا وہ پیٹ میں پڑے ہوئے منی کے ایک قطرہ سے بنا ہوا نطفہ نہیں تھا پھر وہ جما ہوا خون بن گیا۔ پھر خدا نے اسے بنایا اور درست کیا اور اس سے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔ کیا یہ خدا مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں) یہ نہایت ہی غیر اغلب ہے کہ ایک وجود جس کے ارتقاء پر لاکھوں برس صرف آئے ہوں بے کار سمجھ کر پھینک دیا جائے۔ لیکن انسان فقط ایک ارتقاء کرتی ہوئی شخصیت کی حیثیت سے ہی کائنات کے مقصد کے ساتھ مطابقت پیدا کرتا ہے۔ انسان کا اولین ظہور آگے چل کر اقبال لکھتا ہے: ’’ انسان کا اولین ظہور کس طرح سے ہوا۔ سب سے پہلے جاحظ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ حیوان کی زندگی کی نقل مکان اور ماحول سے تغیر پیدا ہوتا ہے۔ اخوان الصفا نے جاحظ کے خیالات کی مزید توضیح اور تشریح کی۔ تاہم ابن مسکویہ پہلا اسلامی مفکر گزرا ہے جس نے انسان کے اولین ظہور کا واضح اور بعض پہلوؤں سے کلیتاً جدید نظریہ پیش کیا۔ یہ بالکل قدرتی بات تھی اور روح قرآن کے بالکل مطابق تھی کہ رومی حیات بعد الممات کے مسئلہ کو زندگی کے ارتقاء کا مسئلہ سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں تھا۔ جسے ہم خالص مابعد الطبیعاتی قسم کے دلائل سے حل کر سکتے ہوں جیسا کہ بعض حکمائے اسلام نے سمجھا تھا۔ تاہما رتقاء کا نظریہ دور حاضر کے لئے امید اور ولولہ نہیں بلکہ مایوسی اور پریشانی کو ساتھ لے کر آیا ہے اور اس کا سبب دور حاضر کے اس بے بنیاد مفروضہ کے اندر پایا جا سکتاہے کہ انسان کی موجودہ حیاتیاتی اور نفسیاتی کیفیت یا حالت ارتقائے حیات کی آخری منزل ہے اور موت زندگی کی ایک واردات کی حیثیت سے کوئی تعمیری اہمیت نہیں رکھتی۔ اس دور کے انسان کو ایک رومی کی ضرورت ہے جو اس کے دل میں امید پیدا کر سکے اور زندگی کے لئے جوش اور ولولہ کی آگ بھڑکا سکے۔‘‘ ’’ ریاضیات کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں ارتقاء کا تصور بھی آہستہ آہستہ تعمیر پاتا رہا ہے۔ جاحظ پہلا شخص ہے جس نے اس بات کی طرف توجہ کی کہ ایک مقام سے دوسرے مقام کو سفر کر جانے سے پرندوں کے اندر جسمانی تغیرات رونما ہو جاتے ہیں اس کے بعد ابن مسکویہ نے جو البیرونی کا ہم عصر تھا اس خیال کو ایک واضح نظریہ کی شکل دی اور اپنی مذہبی کتاب ’’ الفوز الاصغر‘‘ میں اسے استعمال کیا۔ میں یہاں اس کے ارتقائی نظریہ کا اختصار پیش کرتا ہوں۔ اس کی علمی حیثیت کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا فکر کس سمت میں حرکت کر رہا تھا۔ ابن مسکویہ کا خیال ہے کہ ارتقاء کے سب سے نچلے درجہ میں پودوں کو پیدا ہونے اور نشوونما پانے کے لئے کسی بیج کی حاجت نہیں ہوتی او رنہ ہی وہ نوع کو بیج کے ذریعہ سے قائم رکھتے ہیں۔ اس قسم کے پودے جمادات سے صرف اس لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں کہ ان میں کس قدر حرکت کی قوت ہوتی ہے جو بلند درجہ کی نباتات میں اور ترقی کر جاتی ہے اور اپنا مزید اظہار اس طرح سے کرتی ہے کہ پودا اپنی شاخیں پھیلا دیتا ہے اور اپنی نوع کو بیج کے ذریعہ سے قائم رکھتا ہے۔ پھرحرکت کی قوت رفتہ رفتہ کرتی ہے یہاں تک کہ ہم ایسے درختوں تک پہنچ جاتے ہیں جن کا تنا اور پتے اور پھل ہوتے ہیں۔ ارتقاء کے ایک بلند تر درجہ پر نباتاتی زندگی کی اشکال اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو اپنی نشوونما کے لئے بہتر زمین اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارتقاء کے آخری درجہ میں انگو رکی بیل اور کھجو رکا درخت آتے ہیں جو گویا حیوانی زندگی کے دروازہ پر کھڑے ہیں۔ کھجور کے درخت میں جنسی امتیاز واضح طور پر نمودار ہو جاتاہے۔ جڑوں اور ریشوں کے علاوہ اس میں ایک ایسی چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو حیوان کے دماغ کی طرح کام کرتی ہے اور جس کی سلامتی پر کھجور کے درخت کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے یہ نباتاتی زندگی کے ارتقاء کا بلند ترین مقام ہے جس کے بعد حیوانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ حیوانی زندگی کی طرف پہلا قدم زمین میں گڑ جانے سے آزادی ہے۔ جو آزادی حرکت کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حیوانی زندگی کا اولین درجہ ہے۔ جس میں چھونے کی حس سب سے پہلے اور دیکھنے کی قوت سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔ حسوں کے ارتقاء سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے۔ جیسا کہ کیڑوں مکوڑوں رینگنے والے جانوروں چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ چوپایوں کی حیوانی زندگی گھوڑے میں اور پرندوں کی حیوانی زندگی باز میں اپنے کمال پر پہنچتی ہے اور آخر کار بندر میں جو ارتقاء کی سیڑھی پر حضرت انسان سے صرف ایک قدم پیچھے ہے۔ انسانیت کی سرحدوں تک جا پہنچتی ہے۔ بعد کا ارتقاء ایسے حیاتیاتی تغیرات پیدا کرتاہے جس کے نتیجہ کے طور پر عقلی اور روحانی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں یہاں تک کہ انسانیت بربریت سے نکل کر تہذیب کے میدان میں قدم رکھ لیتی ہے۔‘‘ ’’ اس طرح سے اسلامی فکر کے تمام خطوط کائنات کے حرکی یا ارتقائی تصور پر مرتکز ہو جاتے ہیں۔ اس نظریہ کو ابن مسکویہ کے اس تصور سے کہ زندگی ایک ارتقائی حرکت ہے اور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے اور تقویت ملتی ہے۔‘‘ قصہ آدم کی تشریح قرآن حکیم میں آدم کا قصہ لفظاً جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ آدم کو خدا نے مٹی سے بنایا اور فرشتوںکو کہا کہ جب میں اسے بنا سنوار کر مکمل کر لوں اور اپنی روح اس میں پھونک دوں۔ تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ آدم کو جنت میں آزادی سے رہنے کی اجازت دی گئی۔ لیکن ایک خاص درخت کا پھل کھانے سے منع کر دیا گیا آخر کار جنت میں آدم نے خدا کی نافرمانی کی اور شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کی بیوی حوا کو سزا کے طور پر جنت سے نکال کر زمین پر ڈال دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر زمین پر انسان کا ظہور ایک نہایت ہی طویل تدریجی اور تربیت عمل سے ہوا ہے جیسا کہ نظریہ ارتقاء کی رو سے تسلیم کرنا ضروری ہے تو پھر قرآنی قصہ آدم کی جو بظاہر زمین رپ انسان کے اولین ظہور سے تعلق رکھتا ہے توجیہہ کیا ہے لہٰذا اقبال قصہ آدم کے متعلق لکھتا ہے: ’’ اس قصہ میں قرآن پرانے استعارات کو کسی حد تک قائم رکھتا ہے۔ لیکن قصہ کے معتدبہ حصہ کو بدل دیاگیا ہے تاکہ اس کو بالکل نئے معنی پہنا دئیے جائیں۔ قصوں کو نئے معنی پہنانے اور ان کو زمانہ کی ترقی یافتہ روح کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے کلی یا جزوی طور پر بدلنے کا قرآنی دستور ایک نہایت ہی اہم نکتہ ہے جسے اسلام کا مطالعہ کرنے والے مسلموں اور غیر مسلموں نے ہمیشہ ہی نظر انداز کیا ہے۔ ان قصوں کو بیان کرنے سے قرآن کا مقصد شاذ ہی تاریخی ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد قریباً ہمیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک ہمہ گیر اخلاقیاتی یا حکیماتی مطلب پہنایا جائے اور قرآن اس مقصد کو اس طرح سے حاصل کرتا ہے کہ ایسے افراد یا مقامات کا نام حذف کر دیتا ہے جو کہانی کو ایک مخصوص تاریخی واقعہ کا رنگ دے کر اس کے معنی کو محدود کر دینے کا امکان رکھتے ہوں اور نیز ان تفصیلات کو بھی حذف کر دیتا ہے جو بظاہر احساسات کی ایک مختلف سطح سے تعلق رکھتے ہوں۔ قصوں کا اس قسم کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔ غیر مذہبی لٹریچر میں یہ عام ہے اس کی مثال فاؤسٹ (Faust)کی کہانی ہے جسے گیٹے (Gaette)کی عبقریت نے بالکل ہی نیا مطلب پہنا دیا ہے۔‘‘ اس کے بعد اقبال ہبوط آدم کے قصہ پر مفصل بحث کرتا ہے اور بحث کے بعد ذیل کے نتیجہ پر پہنچتا ہے: ’’ اس طرح سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ ہبوط آدم کا قرآنی قصہ اس کرہ ارض پر انسان کے اولین ظہور سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس اس کا مطلب یہ بتانا ہے کہ کس طرح سے انسان ایک ابتدائی حالت سے جو جبلتی خواہشات کے زیر فرمان ہوتی ہے ترقی کر کے اس حالت میں قدم رکھتا ہے جہاں اسے ایک ایسی آزاد شخصیت کی شعوری ملکیت حاصل ہوتی ہے جو شک اور نافرمانی بھی کر سکتی ہے۔ ہبوط آدم کا مطلب کوئی اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ وہ انسان کا معمولی شعور کی حالت سے گزرنے کے بعد خود شعوری کی اولین جھلک کا دیکھنا ہے اور پابند قدرت اور مجبور زندگی کے خواب سے بیدار ہونے کے بعد خود اپنی ذات کے اندر افعال اور واقعات کا علل و اسباب کی دھڑکن کو محسوس کرنا ہے۔‘‘ انسانی تخلیق کی خصوصیات جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں اقبال کا خیال یہ ہے کہ اگر انسان اپنی خودی اوصاف و خواص پر نگاہ ڈالے تو وہ ’’ اسرار ازل‘‘ یعنی تخلیق کائنات کے اسرار و رموز کو جان سکتا ہے۔ ع اسرار ازل جوئی بر خود نظرے واکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم انسانی تخلیق کی خصوصیات کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں تو ان کی روشنی میں ہم خدا کی تخلیق اور کائنات کے عمل ارتقا کی خصوصیات کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ جب کوئی کمہار پانی میں گوندھی ہوئی چکنی مٹی کی چکوندی کو اپنے گھومتے ہوئے چاک پر رکھ کر ہمارے سامنے اپنے ہاتھوں سے مٹی کا ایک برتن بناتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی تخلیقی فعلیت کے خواص کو ظاہر کرتی ہے۔ 1برتن کی تخلیق کی ایک ابتدا ہے اور ایک انتہا 2برتن اپنی ابتدا سے لے کر اپنی انتہا تک متواتر اپنے کمال کی طرف آگے بڑھتا ہے اور ابتدا اور انتہا کے درمیان بہت سے ضمنی مرحلوں میں سے گزرتا ہے۔ 3اپنی ابتدا سے لے کر انتہا تک برتن کی پیہم ترقی کا باعث کمہار کا ایک واحد مقصد یا نصب العین ہے جس کی وجہ سے اس کی تخلیق ایک واحد غیر منقسم اور مسلسل فعل بن جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ برتن کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت کی ارتقائی تبدیلی سے رونما ہوتی ہے۔ 4برتن کی تخلیق کا مدعا کمہار کے اس نصب العین کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ایک مکمل اور خوبصورت برتن بنایا جائے۔ لہٰذا اس کا مدعا حسن و کمال کی جستجو ہے۔ 5برتن کے ارتقا کے ہر مرحلہ پر کمہار کی فعلیت کا مقصد یہ ہے کہ اس کے سارے ماضی کا جو حاصل اس کے سامنے ہے اسے ایک خاص سمت میں بدل دیا جائے تاکہ وہ اس کے نصب العین کے قریب آ جائے برتن کے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر بھی کمہار کے تخلیقی فعلیت کا مقصد یہ نہیں کہ وہ کوئی چیز پیدا کر دے جو اس کی گزشتہ فعلیت کے نتیجہ کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھتی ہو بلکہ اسے کالعدم کر کے یا نظر انداز کر کے اپنی جگہ بناتی ہو۔ 6اگر برتن اپنے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر وہ صورت اختیار نہ کرے جو اس نے کی ہے تو وہ اپنے ارتقا کے اگلے مرحلہ میں داخل نہیں ہو سکتا اس کے ارتقا کا ہر مرحلہ پچھلے مرحلہ سے پیدا ہوتاہے اور اس کے ماضی کا ارتقا اس کے مستقبل کے ارتقاء کی بنیاد بنتا ہے اس کے باوجود اس کا مستقبل اس کے ماضی سے پیدا نہیں ہوتابلکہ کمہار کی قوت ارادی سے پیدا ہوتاہے۔ 7کمہار کا مخفی اندرونی مقصد اس کی تخلیق کی آشکار خارجی صورت میں ظہور پاتا ہے اور جوں جوں اس کی تخلیقی فعلیت آگے بڑھتی جاتی ہے اس کا یہ مخفی اندرونی مقصد بھی زیادہ واضح اور آشکار ہوتا جاتا ہے اور کسی نکتہ رس دیکھنے والے کے لئے یہ بتانا زیادہ آسان ہوتا جاتا ہے کہ وہ در حقیقت کیا ہے اور آخر کار خارج میں کس طرح ظہور پذیر ہو گا۔ خدا کی تخلیق کی خصوصیات ضروری ہے کہ کائنات کی تخلیق بھی یہی خصوصیات رکھتی ہو لہٰذا کائنات کے بارہ میں ہمارے ذیل کے نتائج درست ہوں گے۔ 1کائنات کی ایک ابتدا تھی اور بالاخر اس کی ایک انتہا ہو گی۔ 2کائنات اپنی ابتدا سے اپنی انتہا کی طرف متواتر آگے بڑھ رہی ہے اور اپنی ابتدا اور انتہا کے درمیان بہت سے درمیانی مرحلوں سے گزر رہی ہے۔ 3ابتدا سے لے کر انتہا تک کائنات کے ارتقا کا باعث کائناتی خودی کا ایک واحد مقصد یا نصب العین ہے جس کی وجہ سے اس کی تخلیق ابتدا سے لے کر انتہا تک ایک واحد غیر منقسم اور مسلسل فعل بن جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت کی ارتقائی تبدیلی سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ 4کائنات کی تخلیق کا مدعا کائناتی خودی کے اس نصب العین کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ایک مکمل اور خوبصورت کائنات (یعنی حسن و کمال کی انتہا پر پہنچی ہوئی نوع انسانی) وجود میں آئے گویا اس کا مدعا منتہائے کمال کی تخلیق ہے۔ 5کائنات کے ارتقا کے ہر مرحلہ پر کائناتی خودی کی فعلیت کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اس کے سارے ماضی کا جو حال اس کے سامنے ہے اسے ایک خاص سمت میں بدل دیاجائے تاکہ وہ اس کے نصب العین اور اپنے کمال کے اور قریب آ جائے۔ کائنات کے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر بھی کائناتی خودی کا مقصد یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی نئی چیز پیدا کرے جو اس کی گزشتہ تخلیقی فعلیت کے نتیجہ کے ساتھ کوئی علاقہ نہ رکھتی ہو اور اسے کالعدم یا نظر انداز کر کے اپنی جگہ بناتی ہو۔ 6اگر کائنات اپنے ارتقاء کے کسی مرحلہ پر وہ صورت اختیار نہ کرے جو اس نے کی ہے تو وہ اپنے ارتقاء کے اگلے مرحلہ میں داخل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے ارتقاء کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے ماضی کا ارتقاء اس کے مستقبل کے ارتقاء کی بنیاد بنتا ہے اس کے باوجود اس کا مستقبل اس کے ماضی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ کائناتی خودی کی قوت ارادی سے پیدا ہوتا ہے۔ 7کائناتی خودی کا مخفی اندرونی مقصد اس کی تخلیق کی آشکار خارجی صورت میں ظہور پذیر ہو رہا ہے اور جوں جوں اس کی تخلیقی فعلیت آگے بڑھتی جا رہی ہے اس کا یہ مخفی اندرونی مقصد بھی زیادہ واضح اور زیادہ آشکار ہوتا جا رہا ہے اور کسی نکتہ رس دیکھنے والے کے لئے یہ بتانا زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے کہ وہ مقصد در حقیقت کیا ہے اور آخر کار خارج میں کس طرح سے ظہور پذیر ہو گا۔ اقبال نے خالق اور مخلوق کی حیثیت سے خدا اور انسان کے باہمی تعلق کو سمجھانے کے لئے ایک انسانی مصور اور تصویر کی مثال دی ہے۔ تصویر مصور سے کہتی ہے کہ میرے وجود کا دار و مدار تیرے ہنر پر ہے لیکن یہ انصاف نہیں کہ تو میری نظروں سے اوجھل رہے۔ کہا تصویر نے تصویر گر سے نمائش ہے میری تیرے ہنر سے و لیکن کس قدر نا منصفی ہے کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے مصور جواب دیتا ہے کہ تیرے لئے تو یہی اچھا ہے کہ تو خبر پر قناعت کرے۔ نظر (یعنی حسن کا ذاتی مشاہدہ اور احساس جسے محبت یا عشق کہتے ہیں) درد غم کا باعث ہوتی ہے۔ جب تک عشق پیدا نہ ہو قلب روشن نہیں ہوتا اور جہاں بینی کی استعداد حاصل نہیں ہوتی۔ جب تک جگر خون نہ ہو جائے چشم دل میں نظر پیدا نہیں ہوتی۔ لہٰذا نظر کا نتیجہ ہے محبوب کے عشق میں جلنا اور جل کر مر جانا۔ شرر کو دیکھو کہ وہ محبت کے سوز سے روشن ہوتا ہے اور اپنے نور سے جہاں کو دیکھتا ہے لیکن اسی جہاں بینی کی وجہ سے ایک لمحہ میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر نظر درد و غم و سوز و تب و تاب تو اے نادان قناعت کر خبر پر لیکن تصویر خبر پر قناعت نہیں کرتی اور مصور کو جواب دیتی ہے کہ خبر عقل و خرد کی بے چارگی کے سوائے اور کچھ نہیں۔ نظر دل کے لئے حیات جاوداں ہے۔ اس زمانہ کی تگ و دو نے ہر مشکل کو آسان کر دیا ہے۔ لہٰذا اس زمانہ میں یہ کہنا کہ میں تجھے دیکھ نہیں سکتی ایک ایسا عذر ہے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ خبر عقل و خرد کی ناتوانی نظر دل کی حیات جاودانی نہیں ہے اس زمانہ کی تگ و تاز سر دار حدیث لن ترانی پھر مصور یہ جواب دے کر اس گفتگو کو ختم کر دیتا ہے کہ میرے دیدار کی شرط یہ ہے کہ تو اپنی نظر سے پنہاں نہ ہو چونکہ تو میرے کمالات ہنر میں سے ہے۔ تیرا اپنے آپ کو دیکھ لینا ہی مجھے دیکھ لینا ہے۔ لہٰذا مجھ سے نا امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ تو ہے میرے کمالات ہنر سے نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے میرے دیدار کی ہے ایک یہی شرط کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے ظاہر ہے کہ اس نظم میں مصور خدا سے اور تصویر انسان سے استعارہ ہے۔ اقبال کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو پہچان لے تو وہ خدا کو پہچان لیتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو اقبال نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔ اگر خواہی خدا را فاش بینی خودی را فاش تر دیدن بیا موز تخلیق کائنات کا ہر قدم خدا کے قول کن کا نتیجہ ہے یہ حقیقت کہ کائناتی خودی ہماری نظروں سے مخفی ہے کائنات کی ارتقائی حرکت یا کائناتی خودی کی تخلیقی فعلیت کے لئے کوئی فرق پیدا نہیں کرتی۔ خودی انسان کی ہو یا خدا کی وہ اپنی تخلیق میں ہمیشہ ایک پر اسرار مخفی اور غیر مرئی قوت کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ کائناتی خودی کے مخفی ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت کا نتیجہ اور آئندہ حالت کا سبب ہے حالانکہ گزشتہ حالت آئندہ حالت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ صرف وقت میں اس سے پہلے آتی ہے اور اس کے ساتھ پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بغیر اس کے کہ اس پر ذرہ بھر اثر انداز ہو رہی ہو۔ دراصل کائنات کی کسی حالت کے بدلنے والی قوت کا نظارہ ان آنکھوں سے نہیں کر سکتے اور چونکہ کائنات کی ہر حالت کے اندر نئی حالت کو پیدا کرنے کے اسباب مخفی ہوتے ہیں۔ یعنی اس کے اندر ایسی خاصیتیں اور صلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ اگر کسی قادر مطلق کا حکم موجود ہو تو وہ اس نئی حالت میں بدل جائے جس میں وہ فی الواقع بدل جاتی ہے۔ ہم غلطی سے خود اس حالت کو ہی بدلنے والی قوت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی کوئی حالت اپنی خاصیتوں اور صلاحیتوں کے باوجود اس وقت تک کسی نئی حالت میں نہیں بدل سکتی جب تک کہ خدا کا حکم یا قول کن صادر نہ ہو اور اس کی تخلیقی قوت اور قدرت اس کو بدلنے کے لئے بروئے کار نہ آئے۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست خفتہ در ہر ذرہ یزوئے خودی یست اقبال کا نظریہ ارتقا خودی کی فطرت سے ماخوذ ہے ان حقائق کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اگرچہ سائنس کا فیصلہ یہ ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور یہ فیصلہ دنیا کے علمی حلقوں میں قبول کر لیا گیا ہے۔ تاہم اقبال سائنس کے اس فیصلہ کی بنا پر یا رائج الوقت تصورات کی کشش کی وجہ سے ارتقا کا قائل نہیں۔ اقبال کا نظریہ ارتقا نہ تو مستجحرات (Fossils) کی دریافت پر موقوف ہے اور نہ ہی کسی سائنس دان کے نظریہ ارتقا کی غیر معلوم کڑیوں کی کامیاب جستجو پر مبنی ہے بلکہ اس کا نظریہ ارتقاء خودی کی فطرت اور اس کے اوصاف و خواص کے علم سے ماخوذ ہے۔ یہ حقیقت کہ سائنس بھی اس نظریہ کی تائید کر رہی ہے اس کی صحت اور صداقت کا مزید ثبوت ہے کیونکہ ضروری ہے کہ ہر سچی فلسفیانہ حقیقت بشرطیکہ وہ فی الواقع سچی ہو زود یا بدیر سائنس سے بھی تائید مزید حاصل کرے۔ اگر بالفرض سائنس دان کل کو ایسے جدید حقائق سے آشنا ہو جائیں جن کی بنا پر وہ نظریہ ارتقاء سے انکار کرنے پر مجبور ہوں تو پھر بھی اقبال کا یہ نتیجہ کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور اس کا سبب خالق کائنات کی ربوبیت ہے اپنی جگہ پر قائم رہے اور زود یا بدیر سائنس دانوں کو یہ مان کر اس کی طرف لوٹنا پڑے گا کہ انہوں نے جدید حقائق کا مطلب غلط سمجھا تھا پھر اقبال کے نظریہ ارتقا میں یہ بات بھی داخل نہیں جیسا کہ ڈارون اور کئی حکمائے ارتقا نے سمجھا ہے کہ آدمی بندر یا کسی اور نچلے درجہ کے غیر انسانی حیوان کی اولاد ہے جو اب زندہ ہے یا پہلے زندہ رہ چکا ہے اقبال کے نظریہ ارتقاء کے اندر یہ بات مضمر ہے کہ انسان اپنے ارتقاء کی ہر منزل پر انسان ہی سے پیدا ہوا ہے یعنی انسان کی ہر بلند تر حالت انسان ہی کی پست تر حالت سے پیدا ہوئی ہے اور کسی غیر انسانی حیوان سے پیدا نہیں ہوئی اس کی مثال انسانی جنین کی نشوونما ہے۔ ایک فرد کی حیثیت سے انسان ہی کی حالت ہوتی ہے۔ ایک نوع کی حیثیت سے بھی اگرچہ انسان اپنی ترقی کی مختلف حالتوں میں سے گزرتا ہے۔ تاہم انسانی جنین کی ہر حالت کی طرف ان حالتوں میں سے بھی کسی حالت میں وہ سوائے انسان کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ماہرین حیاتیات کا اعتراف آج دنیا بھر میں چوٹی کے ماہرین حیات(جن میں ایک جولین ہکسلے (Julian Huxley)ہے اگرچہ عمل ارتقاء کی مادی اور لادینی توجیہہ کرتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے ماہرانہ مشاہدات کی بنا پر اس نتیجہ سے گریز نہیں کر سکے کہ عمل ارتقا کا حاصل انسان ہے اور آئندہ کا ارتقا بھی انسان ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ نظریات اور اقدار کی محبت انسان کا ایسا امتیاز ہے جو کسی حیوان میں موجود نہیں لہٰذا آئندہ کا ارتقا نظریاتی ہو گا اور ا س بات پر موقوف ہو گا کہ انسان اپنی محبت نظریات و اقدار کو کس حد تک مطمئن کرتا ہے علمی ارتقا کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نتیجہ ترقی یافتہ انسانی شخصیت ہے۔ انسانی ارتقا نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ ان گہرے معنوں میں بے مثال ہے کہ وہ ایک ہی راستہ ہے جو انسان کی ضروری خصوصیات کو پیدا کر سکتا تھا۔ حیاتیاتی نقطہ نظر سے یہ نا ممکن ہے کہ ارتقائے حیوانات کا کوئی اور راستہ آگے جا کر کسی ایسے حیوان وک پیدا کر سکے جو انسان سے بہتر اور بلند تر ہو۔ جولین ہکسلے (Julian Huxley)اپنی کتاب انسان ’’ دنیائے جدید میں ‘‘ (Man in the modern World)میں لکھتا ہے: ’’ عمل تخلیق کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نتیجہ ترقی یافتہ انسانی شخصیت ہے۔‘‘ ’’ انسان کے وجود میں آنے کے بعد ارتقا کی نوعیت یکایک بدل جاتی ہے۔ انسانی شعور کے ساتھ اقدار و نظریات پہلی دفعہ زمین پر ظہور پذیر ہوئے۔ لہٰذا مزید ارتقاء کا معیار یہ ہے کہ یہ نظریاتی اقدار کس حد تک مطمئن ہوتی ہیں‘‘ ’’ بظاہر حیاتیاتی نقطہ نظر سے یہ بات نا ممکن ہے کہ ارتقائے حیوانات کا کوئی اور راستہ آگے جا کر ایک نئے اعلیٰ اور ارفع جسم حیوانی تک جا پہنچے۔‘‘ انسانی ارتقاء کا راستہ بھی ایسا ہی بے مثال تھا جیسا کہ اس کا نتیجہ یہ ان معمولی معنوں میں بے مثال نہیں تھا کہ وہ دوسرے تمام حیوانات کے راستوں سے مختلف تھا۔ بلکہ ان عمیق معنوں میں بے مثال تھا کہ وہ ایک ہی ایسا راستہ تھا جو انسان کی ضروری خصوصیات کو پیدا کر سکتا تھا۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ ارتقاء کا مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو پیدا کر کے اس کی شخصیت کو نقطہ کمال پر پہنچایا جائے۔ گویا ماہرین حیاتیات کے ان نتائج سے بھی حضرت انسان کے بارے میں اقبال کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست ٭٭٭ خودی اور فلسفہ تاریخ تاریخ کے ناقص فلسفے انسانی افراد اور جماعتوں کے افعال کے سلسلہ کو انسانی تاریخ کہتے ہیں لیکن کیا انسانی اعمال جن سے تاریخ کا تار و پود بنتا ہے کسی قاعدے یا قانون کے پابند ہیں۔ کیا ان کا کوئی مقصد ہے۔ کیا ان کی کوئی سمت یا منزل مقصود ہے اگر ہے تو وہ کیا ہے۔ قومیں اور تہذیبیں کیوں ابھرتی ہیں ۔ کیوں مٹتی ہیں۔ کیا ان کے عروج و زوال کا کوئی اصول ہے۔ کیا کوئی قوم یا کوئی تہذیب ایسی بھی ہو سکتی ہے جو قوموں اور تہذیبوں کو مٹانے والے عوامل کی زد سے محفوظ رہ سکتی ہو ۔ اور ارتقائے عالم کی منزل مقصود ہو۔ اس قوم کے اوصاف اور امتیازات کیا ہوں گے۔ کیا ہم ایسی قوم کو وجود میں لا سکتے ہیں۔ کیا ہم اپنے آپ کو ایسی قوم بنا سکتے ہیں و علیٰ ہذا القیاس۔ بہت سے فلسفیوں نے جن میں ڈینی لیوسکی (Denilevsky) شپنگلر(Spengler) ٹائن بی (Toynbee) اور سوروکن (Sorokin) زیادہ مشہور ہیں اپنی بالعموم غیر معمولی اور غیر ضروری طوالت کی تصنیفات میں اس قسم کے بعض سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے جوابات مبہم اور غیر واضح اور الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ انسان کے اعمال انسان کی فطرت سے سر زد ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب تک پہلے انسان کی فطرت کا ایک معقول اور صحیح نظریہ پیدا نہ کیا جائے۔ تاریخ کے واقعات کے پیچھے جو قوانین قدرت کام کر رہے ہیں ان کو سمجھنا ممکن نہیں۔ تاریخ سب سے پہلے فرد انسانی کی فطرت کے اندر جنم لیتی ہے، فرد انسانی کے اعمال قوموں اور تہذیبوں کی تاریخ کی اکائی (Unit) کی حیثیت رکھتے ہیں جب تک اس اکائی کو نہ سمجھا جائے ممکن نہیں کہ ہم ان بڑے بڑے مجموعوں کو سمجھ سکیں جو اس اکائی سے صورت پذیر ہوتے ہیں اور فرد انسانی کی فطرت کو سمجھنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی شخصیت کی گاڑی کے ڈرائیور کو یعنی اس کے افعال کو اندرونی قوت محرکہ کو سمجھا جائے۔ جب تک ہمیں اس قوت کا علم نہ ہو ممکن نہیں کہ ہم معلوم کر سکیں کہ وہ کون سا قانون قدرت ہے جو انسان کے اعمال کو ضبط میں رکھتا ہے اور ان کی سمت اور منزل معین کرتاہے اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر حاوی ہے۔ فلسفہ خودی کی رو سے انسان کے اعمال کی قوت محرکہ سچے خدا کی محبت ہے اور یہی وہ قوت ہے جو افرد کو متحد کر کے ایک قوم کی شکل دیتی ہے۔ جب کوئی قوم سچے خدا سے محبت نہ کر سکے تو وہ اس کی بجائے کسی اور تصور کو جس کی طرف وہ حسن و کمال کے اوصاف منسوب کر سکتی ہو اپنا نصب العین بنا لیتی ہے اور پھر اسی سے محبت کرتی ہے اور اپنے سارے اعمال کو اس کی محبت کے تابع کر دیتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب وہ محسوس کرتی ہے کہ اس میں حسن و کمال کے اوصاف در حقیقت موجود نہیں وہ مجبور ہوتی ہے کہ اس کی محبت سے رجوع کرے یہاں تک کہ اسے بالکل ترک کر دے اور جب یہ نوبت آتی ہے تو قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ تاریخ عالم کے چار ادوار تاریخ کے ان فلسفیوں کی ایک اور غلطی یہ ہے کہ انہوں نے انسانی تاریخ کو کائنات کی باقی تاریخ سے الگ کر کے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ انسانی تاریخ مجموعی تاریخ کا ایک دور ہے جو اس کے پہلے ادوار سے بے تعلق نہیں ہو سکتا بلکہ ضروری ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگ اور مسلسل ہو۔ ایچ جی ویلز (H.G. Wells) نے اپنی عالمی تاریخ کی کتاب ’’ تاریخ کا خاکہ‘‘ (Outline of History) کو بجا طور پر آفرینش سے شروع کیا ہے اور اس نے اپنے اس موقف کی تائید کے لئے فریڈرک راٹزیل (Fredrich Ratzel)کا یہ نہایت ہی گہرا اور دانشمندانہ قول اپنی کتاب کے شروع میں نقل کیا ہے کہ ’’ نوع انسانی کی تاریخ کا فلسفہ جو فی الواقع اس نام کا مستحق ہو اس یقین سے پر ہونا چاہئے کہ ہستی تمام کی تمام ایک وحد تہے وہ ایک ہی تصور ہے جو شروع سے آخر تک یکساں رہنے والے ایک ہی قانون پر قائم چلا آتا ہے۔‘‘ فلسفہ تاریخ کے متعلق یہ نقطہ نظر بالکل درست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقائے عالم ایک واحد اور مسلسل عمل ہے جو شروع سے آخر تک ایک ہی مقصد رکھتا ہہے اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اور جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں اس عمل کو حرکت دینے والی قوت بھی ایک ہی ہے اور وہ خدا کا ارادہ تخلیق یعنی خود خدا ہے۔ اس عمل کا آغاز کائناتی شعاعوں سے ہوا تھا او راس کے پہلے بڑے دور میں مادی کائنات ترقی پا کر تکمیل کو پہنچی تھی۔ کائنات کی مادی تکمیل کا مقصد یہ تھا کہ مادہ اس حالت کو پا لے جو زندگی کے ظہور کے لئے سازگار ہو چنانچہ مادہ کی تکمیل کے ساتھ ہی زندگی کا نمایاں ظہور سب سے پہلے ایک خلیہ کے حیوان میں ہوا اور اس واقعہ سے تاریخ عالم کا دوسرا بڑا دور شروع ہوا جس کے اختتام پر کائنات کی حیاتیاتی تکمیل عمل میں آئی۔ کائنات کی حیاتیاتی تکمیل کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا جسم حیوانی وجود میں آئے جس میں خدا کی محبت کا جذبہ اس کے سارے اعمال کی قوت محرکہ کے طور پر نمودار ہو چنانچہ زندگی کے کروڑوں برس کے ارتقاء کے بعد یہ جسم حیوانی وجود میں آیا اور یہی انسان ہے پہلے انسان کے ظہور سے تاریخ عالم کا تیسرا بڑا دور شروع ہوتا ہے جسے انسانی تاریخ کا پہلا دور کہنا چاہئے۔ اس دور میں ارتقاء کی قوتیں زمین کے گوشہ گوشہ میں ان گنت انبیاء پیدا کر کے انسان کی نظریاتی تکمیل کے لئے کار فرما رہیں۔ اس دور کا مقصد یہ تھا کہ آخر کار ایک نبی کامل یا رحمتہ للعالمین ؐ کا ظہور ہو جس کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مثال میں خدا کی محبت کا جذبہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو جائے اور جو اس طرح سے نوع انسانی کو ایک ایسا کامل نظریہ حیات بہم پہنچائے جو انسان کی اخلاقی، سیاسی، روحانی، تعلیمی، قانونی، اقتصادی، علمی اور فنی ترقیوں کو نقطہ کمال پر پہنچا سکے۔ نبی کامل یا رحمتہ للعالمینؐ کے ظہور سے انسانی تاریخ کا دوسرا دور اور تاریخ عالم کا چوتھا اور آخری دور شروع ہوتا ہے اور وہ اس وقت ختم ہو گا جب نوع انسانی اپنے کمالات کو پہنچے گی امت مسلمہ یا نبی کاملؐ کی امت تاریخ عالم کے تیسرے اور چوتھے ادوار یعنی تاریخ انسانی کے پہلے اور دوسرے ادوار کے وسط میں نمودار ہوئی ہے تاکہ وہ نوع انسانی کی قیادت کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو سکے تاکہ ایک طرف سے وہ نبی کاملؐ کی وساطت سے تمام گذشتہ انبیاء کی تعلیمات کے کمال کی حامل بن جائے اور دوسری طرف سے اپنے اس امتیاز کی وجہ سے نوع انسانی کی آنے والی نسلوں کے لئے اسی طرح سے کامیاب راہ نما بنے۔ لتکونوا شہداء علی الناس جس طرح سے نبی کامل اس کے کامیاب راہ نما بنے ہیں ویکون الرسول علیکم شہیدا اسی لئے قرآن حکیم نے امت مسلمہ کو امتہ وسطاً کہا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ تاریخ عالم کے چار واقعات نہایت عظیم الشان ہیں۔ا یک تو وہ جب تخلیق عالم کا آغاز ہوا اور کائناتی شعاعیں یکایک ’’ فاصلہ۔ وقت‘‘ کے ایک بحر نا پیدا کنار کے اندر دوڑنے لگیں۔ دوسرا وہ جب سمندروں کے کنارے کیچڑ میں کہیں پہلا ایک خلیہ کا جاندار نمودار ہوا۔ تیسرا وہ جب پہلا مکمل جسم انسانی اپنے پہلو میں خدا کی محبت کا ایک طوفان لے کر ظہور پذیر ہوا اور چوتھا وہ جب ایک رحمتہ للعالمینؐ کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کے نمونہ میں وہ مکمل نظریہ زندگی نمودار ہوا جو اپنے اندر انسان کو اس کی ہر نوع کی ترقی کے نقطہ کمال تک پہنچانے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان میں سے ہر واقعہ ایک دور کا آغاز کرتا ہے جو اگلے دور کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور ا سکی آمد کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے یہاں تک کہ آخری دور آ جاتا ہے۔ لہٰذا انسانی ادوار کی تاریخ حیاتیاتی اور مادی ادوار سے بے تعلق نہیں۔ کارل مارکس (Karl Marx) نے بھی ایک فلسفہ تاریخ دیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس کا فلسفہ تاریخ فطرت انسانی کے غلط نظریہ پر مبنی ہے اور ارتقائے عالم کے بنیادی سبب کو بھی نظر انداز کرتا ہے لہٰذا وہ از سر تاپا غلط ہو کر رہ گیا ہے۔ خودی کی تکمیل اور انسان کا شاندار مستقبل کیا انسان فی الواقع اپنے حسن و کمال کی انتہا کو پہنچے گا؟ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ اقبال کہتا ہے کہ یہ سوال ہم سے نہ پوچھو بلکہ معنی آدم یعنی انسان کی فطرت پر نگاہ ڈالو۔ جس میں حسن و کمال خداوندی کے محبت کا ایک بے پناہ ناقابل التوا اور نا قابل مزاحمت جذبہ رکھ دیا گیا۔ یہ جذبہ ہر حالت میں اپنی تشفی پا کر رہے گا اور جب تشفی پائے گا تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ انسان خد اکی محبت یعنی تفکر فی الصفات (عبادت) اور حسن عمل کے ذریعہ سے صفات خداوندی کے حسن کو جذب کر کے اپنے حسن کی انتہا تک پہنچے گا۔ اس وقت انسان جو اب اپنے گوناگوں نقائص کی وجہ سے مصرع ناموزوں کی طرح دلوں میں کھٹک رہا ہے۔ ان نقائص سے پاک ہو کر مصرعہ موزوں کی طرح حسین اور دل کش ہو جائے گا۔ اس وقت اس کی مشت خاکہ فرشتوں سے بھی زیادہ مقدس اور منور ہو جائے گی اور اس کی تقدیر کا کوکب سعادت زمین کو اخلاقی، علمی جمالیاتی اور روحانی طور پر بلند اور روشن کر کے گویا آسمان کا مقام دے گا۔ فروغ مشت خاک نوریاں از افزوں شود روزے زمین از کوکب تقدیر او گردوں شود روزے یکے در معنی آدم نگر از ماچہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے غلط نظریا کا منبع بھی خودی ہے اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ کسی فرد انسانی یا گروہ کا نصب العین حیات یا تصور حسن اس کے تمام اعمال و افعال کو پیدا کر کے ان کو اپنے گرد منظم کرتا ہے۔ آرزو صید مقاصد را کمند دفتر اعمال را شیرازہ بند جب کوئی فرد یا گروہ اپنے نصب العین کواپنی قدرتی عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر چسپاں کرتا ہے اور ان کو اپنے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بناتا ہے تو ایک خاص نظریہ زندگی وجود میں آتا ہے جو اس نصب العین پر مبنی ہوتا ہے اس وقت نوع انسانی کی حالت یہ ہے کہ ان کے نصب العین یا تصورات حقیقت یا تصورات حسن بہت سے ہیں اور ان کی کثرت کی وجہ سے وہ بہت سی نظریاتی جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں صرف امت مسلمہ ایسی ہے جس کا نظریہ خدا کے عقیدہ پر مبنی ہے لیکن بظاہر اس کی حالت ایسی نہیں جس سے ایک عام انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکے کہ وہ نظریاتی ارتقاء کا مقصود ہو گی باقی نظریاتی جماعتیں جو نہایت طاقتور ہیں خدا کے عقیدہ سے محض بے تعلق ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ہی انسان کی منزل مقصود ہے اور تمام نظریاتی جماعتوں پر غالب آ کر دنیا میں پھیل جانے والی نظریاتی جماعت خدا پرستوں کی ہی جماعت ہو گی تو یہ بے خدا نظریاتی جماعتیں کہاں سے وجود میں آ گئی ہیں اور نظریاتی ارتقاء یا عمل تاریخ میں ان کا کردار کیا ہے۔ نظریاتی ارتقاء یا عمل تاریخ جو انسان کو اس کے حسن و کمال کی انتہا تک پہنچائے گا۔ ان جماعتوں کی موجودگی میں فی الواقع کیا صورت اختیار کرے گا اور کس طرح سے انجام پائے گا۔ اقبال کے نزدیک ان سوالات کا جواب بھی معنی آدم یا انسان کی فطرت یا (اقبال کی زیادہ پسندیدہ اصطلاح کو کام میں لاتے ہوئے) انسانی خودی کی فطرت سے پیدا ہوتاہے۔ تاریخ انسان کے اعمال و افعال سے بنتی ہے اور تمام انسانی اعمال و افعال انسان کی فطرت یا اس کی خودی کے منبع سے سرزد ہوتے ہیں لیکن انسانی خودی کے اندر خدا کی محبت کے سوائے اور کچھ نہیں اور انسان کے اعمال و افعال کی صور ت میں جو کچھ اس سے باہر آتا ہے بمصداق از کوزہ ہماں ترادد کہ در اوست وہ خدا ہی کی محبت کا شعوری یا غیر شعوری اظہار ہوتاہے اور خدا ہی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ محبت کی ایک صحیح یا غلط عملی شکل ہوتی ہے۔ مر از خود برون رفتن محال است بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم خودی کی فطرت کے تقاضے کبھی بہک جاتے ہیں او رکبھی اپنی سیدھی راہ پر ہوتے ہیں لیکن انسان کی عملی زندگی میں جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے وہ بے خدا نظریات ہوں یا با خدا نظریات وہ سب خودی کی فطرت سے پیدا ہوتے ہیں اور خودی کے مدارج اور مقامات ہوتے ہیں۔ زندگی خودی کے اشاروں پر چلتی ہے اور اس کی فطرت کی ترجمانی اور تشریح کرتی ہے۔ نصب العین صحیح ہو یا غلط وہ ہر حالت میں خودی کا ہی نصب العین ہوتا ہے اور خودی کے ہی کسی مقام کا پتہ دیتا ہے جو شخص خدا کا منکر ہے اور کسی غلط نصب العین سے اپنا دل لگائے ہوئے ہے وہ خودی کے ایک مقام پر ہے اگرچہ اس کا یہ مقام نہایت ہی پست ہے اور جو شخص خدا کو مانتا ہے اور خدا کو اپنا نصب العین قرار دئیے ہوئے ہے۔ وہ خودی کے دوسرے مقام پر ہے اگرچہ اس کا یہ مقام نہایت بلند اور بالا ہے۔ لہٰذا انسانی خودی کے اشارات بامطالبات کی عملی تشریح یا تصنیف کے سوائے اور کچھ نہیں۔ زندگی شرح اشارات خودی است لا و الا از مقامات خودی است یہاں لا سے مراد خدا کا انکار اور غیر اللہ کا اثبات یعنی غلط نظریات اور الا سے مراد ہے خدا کا اثبات اور غیر اللہ کا انکار (یعنی صحیح نظریہ حیات) خودی کے جذبہ محبت کی ایک خصوصیت خودی براہ راست اور شعوری طور پر خدا سے محبت کرنا چاہتی ہے لیکن خدا کی ایسی محبت فقط کسی شخص سے یہ بات سن لینے اور یاد رکھ لینے سے پیدا نہیں ہوتی کہ خدا تمام صفات حسن کا مالک ہے اور صحبت کے قابل ہے۔ بلکہ خدا کے حسن کا ذاتی احساس کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خدا کی محبت خدا کے ذاتی حسن کے احساس کا ہی نام ہے اور احساس کے بغیر خدا کی محبت کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اقبال کے الفاظ میں خدا کی محبت شنید نہیں بلکہ دید ہے۔ یعنی وہی شخص خدا سے محبت کر سکتا ہے جو خدا کے حسن کا ذاتی احساس رکھتا ہو۔ اقبال شنید کے لئے خبر اور دید کے لئے نظر کی اصطلاحات کام میں لاتا ہے۔ عقل فقط خبر مہیا کرتی ہے لیکن باخدا لوگوں کی محبت سے اور صحیح قسم کے نظریاتی ماحول سے نظر حاصل ہوتی ہے۔ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں اگربدقسمتی سے خودی کا نظریاتی یا تعلیمی ماحول ایسا ہو کہ وہ خدا کی صفات حسن کے مشاہدہ میں رکاوٹ پیدا کرے اور خدا کے حسن کے احساس کی نشوونما نہ کر سکے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خودی کا جذبہ محبت رک جائے گا اور پھر خودی کسی نصب العین کی محبت کے بغیر ہی رہے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ خودی کا جذبہ محبت رک نہیں سکتا بلکہ کسی اور ناقص نصب العین کو جو فرد کے علم اور احساس کی پستیوں سے مناسبت رکھتا ہو خدا سمجھ کر اپنا لیتا ہے۔ خودی کا جذبہ محبت ایک تیز رفتار دریا کی طرح ہے کہ جب وہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے اپنی اصلی گزر گاہ پر نہ چل سکے تو پھر رکتا نہیں۔ بلکہ اپنی راہ سے ہٹ کر اس راستہ پر بہنے لگتا ہے جو آسان یا پست ہونے کی وجہ سے اسے بہنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح سے ایک غلط سمت کی طرف چل نکلتا ہے اور راستہ میں آبادیوں کو تباہ کرتا چلا جاتا ہے۔ خودی کی محبت کا سیل رواں بھی جب کسی نظریاتی یا جذباتی رکاوٹ کی وجہ سے اپنے صحیح نصب العین یعنی خدا کی طرف جو منتہائے حسن و کمال ہے راہ نہیں پاتا تو کسی دوسرے نصب العین کی طرف بہ نکلتا ہے جس کی طرف وہ راہ پا سکتا ہے جب کوئی انسان خدا کے حسن کا احساس نہ کر سکے تو پھر جس قدر تصورات اس کے دائرہ علم میں ہوتے ہیں ان میں سے جس تصور کو بھی وہ اپنی سمجھ کے مطابق سب سے زیادہ حسین سمجھتا ہے اسی کو اپنے جذبہ محبت کو مطمئن کرنے کی ضرورت سے مجبور ہو کر اپنا نصب العین بنا لیتا ہے۔ اگرچہ ضروری ہے کہ خدا کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے وہ نصب العین حسن و کمال کی صفات سے عاری ہو۔ تاہم اس طرح سے وہ اپنی محبت کے بہاؤ کو راستہ دیتا ہے اس حقیقت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے جو خودی یا زندگی کو ایک تیز رفتار ندی سے تشبیہہ دی ہے وہ کس قدر موزوں ہے۔ وہ جوئے کہستان اچکتی ہوئی لرزتی سرکتی چھلکتی ہوئی ذرا دیکھ اسے ساقی لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام اعصابی امراض کی جڑ اگر کوئی شخص خدا کے حسن کے احساس سے محروم ہو اور اس کا جذبہ محبت کسی اور غلط نصب العین کی محبت میں بھی اظہار نہ پا سکے یعنی اس کے دائرہ علم میں کوئی ایسا تصور موجود نہ ہو جو اس کے لئے اتنی کشش یا جاذبیت رکھتا ہو کہ وہ اس کی طرف تمام صفات حسن کو شعوری یا غیر شعوری طور پر منسوب کر سکے تو وہ ہسٹریا، جنون، ذہنی مجادلہ اور ایسے ہی دوسرے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتا ہے اور جب تک وہ کوئی ایسا تصور نہ پائے جس سے وہ صحیح طور پر یا غلط طور پر مطمئن ہو اور جو اس بنا پر اس کے جذبہ محبت کو راستہ دے سکے۔ وہ بدستور ان تکالیف میں مبتلا رہتا ہے اس لحاظ سے انسان میں خدا کی محبت کا جذبہ اس کی بھوک یا غذا کی خواہش سے مشابہت رکھتا ہے اگر کسی شخص کو شدت کی بھوک لگی ہو اور اس کو عمدہ، صحت بخش اور خوش ذائقہ غذا میسر نہ آ سکے تو وہ مجبور ہوتا ہے کہ اسے جو غذا بھی مل سکے اسی سے اپنا پیٹ بھرے۔ سخت قحط کے زمانہ میں اچھے بھلے باذوق انسان درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جب کوئی انسان خدا کی معرفت سے محروم ہو تو وہ کسی ایسے نصب العین کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو غلط اور ناقص ہونے کے باوجود اس کی کم علمی اور نادانی کی وجہ سے اس کے لئے کشش کا باعث ہوتا ہے کیونکہ ا س حالت میں اسے اپنی ایک شدید نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی نہ کسی تصور کی طرف حسن منسوب کرنا پڑتا ہے خواہ اس میں حسن کی کوئی صفت موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر انسان کو اچھی خوراک کبھی نصیب نہ ہوئی تو وہ گھٹیا خوراک ہی میں لذت محسوس کرتا ہے۔ غلط نصب العین کی ناپائیداری کا سبب جب ایک انسان خدا کے علاوہ کسی اور تصور کو اپنا نصب العین بناتا ہے تو وقتی طور پر اسے حسن و کمال کی انتہا سمجھتا ہے لیکن اس کی خدمت اور اطاعت کے دوران جب وہ اسے قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ پاتا ہے یا جب اس کا دائرہ علم وسیع تر ہو جاتا ہے اور اس سے بہتر اور خوب تر تصورات اس میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ اس کے نقائص سے باخبر ہو کر اسے ترک کر دیتاہے اور پھر کسی نئے غلط تصور کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب اسے بھی ناقص پاتا ہے تو اسے بھی ترک کر دیتا ہے وہ کسی ناقص محبوب سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی فطرت کا جذبہ محبت ایک ایسے محبوب کے لئے بنایا گیا ہے جس کا حسن کامل بے عیب اور لازوال ہے اقبال انسانی خودی کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ہر نگارے کہ مرا پیش نظر مے آید خوش نگاریست دے خوشتر ازاں مے بایست ٭٭٭ چو نظر قرار گیرو بنگار خوبروئے تپیداں زمان دل من پے خوبتر نگارے طلم نہایت آں کہ نہایتے ندارد بنگاہ نا شکیے بدل امیدوارے قرآن کی روشنی قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک قصہ میں فطرت انسانی کے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق قرآن حکیم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے انہیں شروع سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور وہ شروع سے ہی موحد تھے۔ ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل و کنا بہ عالمین (ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اس بات کو خوب جانتے تھے) وہ چاہتے تھے کہ اپنی ستارہ پرست مشرک قوم پر یہ بات واضح کریں کہ ان کے معبود سب ناقص ہیں اور انسان کی محبت کے لائق نہیں۔ انسان کی محبت کے لائق صرف ایک ایسی ہستی ہی ہو سکتی ہے جس کے حسن کی کوئی حد نہ ہو۔ جو ہر نقص سے مبرا اور ہر عیب سے پاک ہو ایسا معبود سوائے خالق ارض و سما کے اور کوئی نہیں ہو سکتا لہٰذا انہوں نے اپنی قوم کو موثر طریق سے وعظ و نصیحت کرنے کے لئے یہ ڈھنگ اختیار کیا کہ جب ایک ستارہ کو افق پر چمکتے ہوئے دیکھا تو لوگوں کو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ یہ روشن اور بلند ہے اور اس میں حسن ہے لیکن جب وہ ڈوب گیا اور اس کے حسن کی ناپائیداری آشکار ہو گئی تو کہا میں کسی ڈوبنے والے سے محبت نہیں کر سکتا۔ نقص اور محبت جمع نہیں ہو سکتے (لااحب افلین میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں کرتا) پھر جب چاند نکلا تو اسے اپنا خدا بتایا کہ اس کا حسن ہر ستارے سے بڑھ چڑھ کر ہے لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اسے بھی ناقص قرار دے کر ترک کر دیا اس کے بعد جب سورج طلوع ہوا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ وہ بڑا ہے اور اس کا حسن ستارے چاند دونوں سے بڑھ کر رہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ میں ایسی ہستی کو اپنا محبوب اور معبود بناتا ہوں جو سورج، چاند اور ستاروں کا خالق ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا حسن ان سب سے فائق ہو کہ خالق ہے اور یہ سب اس کی مخلوق ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ایک انسانی فرد کے لئے کامل سے کامل تر نصب العین کے اختیار کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ۔۔ یہاں تک کہ وہ اس سوسائٹی کے نصب العین تک پہنچ جاتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے اور جس کا وہ ایک فرد ہوتا ہے یہ سوسائٹی اس کے لئے ایک ایسا تعلیمی ماحول پیدا کر چکی ہوتی ہے کہ اس کا نصب العین اس سوسائٹی کے نصب العین سے آگے نہیں جا سکتااور بہتر اور بلند تر نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کا نصب العین اسی صورت میں بدلتا ہے جب پوری سوسائٹی کا نصب العین بدل جائے یا جب وہ سوسائٹی سے بغاوت کر کے خود ایک نیا نصب العین پیش کرے اور لوگوں کو انقلاب کی دعوت دے۔ حقیقت کفر کا تجزیہ ظاہر ہے کہ چونکہ خودی صرف ایک ایسے محبوب سے محبت کر سکتی ہے جو خدا کی صفات رکھتا ہو لہٰذا اس انسان کے ساتھ جو خدا کی بجائے کسی اور کو اپنا محبوب بنانے پر مجبور ہوتا ہے جو ماجرا پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے غلط اور ناقص محبوب کے اندر اسے غلطی سے خدا کی بعض صفات کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے اور وہ ان صفات کو شعوری طور پر اور سوچ سمجھ کر اس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور ایسا کرنے کے بعد وہ فرض کر لیتا ہے کہ اس میں وہ تمام صفات موجود ہیں جن کا وہ متمنی ہے اور وہ جو خداکی صفات ہیں تاکہ اپنی غلطی کو مکمل کر کے اپنے ناقابل التواء اور نا قابل انسداد جذبہ محبت کو مطمئن کرے۔ گویا وہ خدا کی باقی ماندہ صفات کو جن کو وہ اس محبوب کی طرف شعوری طور پر منسوب نہیں کر سکتا۔ غیر شعوری طور پر منسوب کر دیتا ہے لہٰذا وہ اسے ایک خدا بنا لیتا ہے جس کے ساتھ وہ اسی طرح سے محبت کرتا ہے جس طرح سچے خدا کے ساتھ محبت کی جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے انسان کی فطرت کے اس پہلو کا ذکر فرمایا ہے۔ واتخذا من دین اللہ نداد یحبونھم کحب اللہ والذین امنو اشد جاللہ (اور انہوں نے خدا کو چھوڑ کر مقابل کے معبود بنا لئے ہیں جن سے وہ ایسی ہی محبت کرتے ہیں جو انسان کی فطرت کی رو سے خدا کے لئے ہونی چاہئے اور وہ لوگ جو دولت ایمان سے بانصب ہیں۔ خدا سے شدید محبت کرتے ہیں) خدا کو چھوڑ کر کسی غلط اور ناقص محبوب کو اختیار کرنا ایسی غلطی نہیں ہوتی جس سے بآسانی نجات مل جائے بلکہ انسان اس غلطی پر جما رہتا ہے اس کی خودی اپنے نصب العین کے ساتھ اس طرح سے پیوست ہو جاتی ہے کہ گویا وہ اور اس کا نصب العین ایک ہی ہیں لہٰذا وہ اپنے نصب العین کے خلاف آسانی سے کوئی دلیل نہ سن سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے۔ غلط نظریاتی جماعت کی توسیع، تنظیم اور موت پھر غلط نصب العین کا ماننے والا اپنے غلط نصب العین کی محبت کو اپنی اولاد میں ایک قسم کے نظریاتی توالد کے ذریعہ سے براہ راست منتقل کرتا ہے اور پھر اس کی اولاد اپنی اولاد اور اس طرح سے ایک نوع حیوانی کی طرح جو حیاتیاتی اور جسمانی توالد کے ذریعہ سے بڑھتی اور پھیلتی ہے ایک ہی نصب العین کو ماننے والے افراد نفسیاتی یا نظریاتی توالد کے ذریعہ سے ایک عرصہ تک بڑھتے اور پھیلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک بہت بڑی جماعت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر اس جماعت کے اندر ایک تنظیم پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک ریاست کی شکل میں آ جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں جتنی ریاستیں ہیں ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی نصب العین حیات کو ماننے اور چاہنے والوں کی ایک جماعت ہے جو سیاسی طور پر منظم ہو گئی ہے۔ جب کسی ریاست کا نصب العین حیات غلط ہو تو اس کا وجود اس نصب العین کی پرستار ریاست کی حیثیت سے پائیدار نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک اسی نصب العین پر قائم رہے لیکن آخر کار ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اسے اس نصب العین کو ترک کرنا پڑتا ہے جب یہ وقت آتا ہے تو وہ ریاست مٹ جاتی ہے اور اس کی جگہ دوسری ریاست وجود میں آجاتی ہے۔ غلط نظریاتی جماعت کی موت کے اسباب اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی ریاست کا نصب العین غلط ہو تو وہ غلط قسم کے اخلاقی، اقتصادی، قانونی، تعلیمی، علمی، فوجی، مذہبی، جمالیاتی اور اطلاعاتی حالات پیدا کرتا ہے جو ہماری آرزوئے حسن کے مطابق نہیں ہوتے اور جن کو ہم آخر کار ناپسند رکتے ہیں وہ ہمیں نصب العین کے ناقص ہونے کا پتہ دیتے ہیں اور اس طرح سے ہمیں نصب العین سے نفرت کرنے اور بالآخر اسے ترک کرنے پر مجبور کرتے ہیں ایک ریاست کے تمام اعمال و افعال اس کے نصب العین سے سرزد ہوتے ہیں۔ ایک نصب العین کی محبت فقط ایک قلبی یا ذہنی کیفیت نہیں ہوتی بلکہ ایک بے پناہ قوت عمل ہوتی ہے جو فرد اور جماعت کے تمام افعال کو معین کرتی ہے اور اس کی زندگی کے تمام حالات کو پیدا کرتی ہے یا ان کو بدل کر نصب العین کے مطابق کرتی ہے۔ آرزو صید مقاصد را کمند دفتر اعمال را شیرازہ بند لہٰذا ایک منظم جماعت یا ریاست کا نصب العین اس کی زندگی کے حالات کے اندر اس طرح سے منعکس ہو جاتاہے۔ جس طرح سے ایک آئینہ کے اندر اس کے سامنے کی دنیا، اس کی عملی زندگی جو اس کی سیاسی، تعلیمی، فوجی، اخلاقی، مذہبی، علمی، جمالیاتی، قانونی، اقتصادی اور اطلاعاتی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کے نصب العین کی ہو بہو تصویر ہوتی ہے جو اتنی ہی زیبا یا زشت ہوتی ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس سے وہ پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ایک قوم کا غلط نصب العین اس کی عملی زندگی کی بدنما تصویر کی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے تو وہ اس کے نقائص سے واقف ہو جاتی ہے اور اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ ایک فرد کی طرح غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ایک نظریاتی جماعت بھی اپنے نصب العین کی طرف حسن کی چند صفات شعوری طور پر اور باقی صفات غیر شعوری طور پر منسوب کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فرد ہی کی طرح اپنی تمام جدوجہد کو حسن کی ان صفات کے عملی اور خارجی اظہار پر صرف کرتی ہے جن کو وہ اپنے نصب العین کی طرف شعوری طور پر منسوب کرتی ہے اور باقی تمام صفات حسن کو نظر انداز کرتی ہے لیکن یہی بات کہ وہ حسن صداقت اور نیکی کی بعض صفات کو نظر انداز کرتی ہے اس کے لئے نا ممکن بنا دیتی ہے کہ وہ ان صفات حسن کو اپنی عملی اور خارجی زندگی میں کامیابی کے ساتھ اجاگر کر سکے جن کی موجودگی وہ اپنے نصب العین میں شعوری طور پر محسوس کرتی ہے اور جن کو وہ عملی طور پر نظر اندا زکرنا نہیں چاہتی چونکہ وہ حسن کے بہت سے تقاضوں کی طرف سے عملاً بے پرواہ رہتی ہے وہ حسن کے ان چند تقاضوں کو بھی جن کی وہ پرواہ کرتی ہے آزادی اور عمدگی اور کامیابی کے ساتھ پور نہیں کر سکتی۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایک غلط نصب العین کی فطرت اس قسم کی ہوتی ہے کہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ جو قوم بھی اسے اپنائے اس کے حالات ایک خاص مدت کے بعد قوم کی ساری کوششوں کے باوجود دن بدن بگڑتے چلے جائیں یہاں تک کہ وہ بالکل تباہ و برباد ہو جائے۔ غلط نصب العین کی پرستار ریاست کی بربادی کا سامان اس کے نصب العین کی فطرت کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی ریاست کا آشیانہ شاخ نازک پر ہوتا ہے اور وہ اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرتی ہے۔ اسی بنا پر اقبال عصر جدید کی لادینی تہذیب کے علمبرداروں کو خطاب کر کے کہتا ہے۔ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا ایسی ریاست کی ناپائیداری کی وجہ یہ ہے کہ ہر غلط نصب العین یہ چاہتا ہے کہ حسن نیکی اور صداقت کے صرف چند تقاضوں کو پورا کر کے باقی تقاضوں کو نظر انداز کر دے۔ حالانکہ حسن نیکی اور صداقت کا کوئی تقاضا ان کے دوسرے تقاضوں کی مدد اور اعانت کے بغیر پور انہیں کی اجا سکتا۔ سارا حسن خدا کی ذات ہے اور حسن میں نیکی اور صداقت اور خداوند تعالیٰ کی تمام صفات جلال و جمال شامل ہیں۔ چونکہ حسن ایک وحدت ہے اور اس کا اکتساب یا تتبع ایک وحدت ہی کے طور پر کیا جا سکتا ہے ورنہ بالکل نہیں کیا جا سکتا مثلاً سیاسی مساوات جسے جمہوریت کہتے ہیں یا اقتصادی مساوات جسے اشتراکیت کہتے ہیں دونوں خدا کی صفت عدل کے مظاہر ہیں۔ لہٰذا دونوں میں سے کوئی مساوات بھی ایسی نہیں جسے کوئی انسانی جماعت خدا کی محبت کی تربیت اور ترقی کے بغیر یا خدا کی محبت سے بے نیاز ہو کر عمل اور مستقل طور پر حاصل کر سکے۔ غلط نظریاتی جماعتی کے عروج و زوال کا عمل تاہم قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ کے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ غلط نصب العین کی پیروی کا وہ عمل جس کے نتیجہ کے طور پر بالاخر ایک قوم جس کا کاروبار زندگی اس غلط نصب العین پر قائم ہو چکا ہو۔ اپنے نصب العین کی خامیوں او ربرائیوں سے آگاہ ہو کر اسے چھوڑ دیتی ہے اتنا طویل ہوتا ہے کہ آٹھ دس صدیوں کے عرصۃ میں پھیل جاتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے چاہنے والوں کی امیدیں بلند ہوتی ہیں ان کی محبت تازہ اور شگفتہ اور پر خلوص اور دلیر ہوتی ہے اور وہ ہر ممکن جدوجہد کرتے ہیں کہ جو حسن وہ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اسے جہان رنگ و بو میں آشکار کر کے دکھائیں اس سے ان کی محبت اور بھی ترقی پاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نصب العین کی ہر قسم کی فتوحات بڑھتی چلی جاتی ہیں اور اس کا دائرہا ثر و نفوذ پھیلتا چلا جاتا ہے اور نصب العین کی قوت اور شوکت ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے عروج کے اس انتہائی نکتہ پر پہنچ جاتاہے جہاں وہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کی وجہ سے پہنچ سکتا ہے۔ قدرت کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ ہر قوم کو خواہ اس کا نصب العین صحیح ہو یا غلط اپنی صلاحیتوں کی حد تک بڑھنے اور پھولنے کے تمام مواقع بہم پہنچاتی ہے اور ہر قوم زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سمت میں جس قدر اس کے نصب العین کی فطرت اسے ترقی کا موقعہ دے سکتی ہے ترقی کرتی ہے۔ غلط نصب العینوں کی عارضی ترقی کا سبب یہی ہے۔ قرآن حکیم نے اس قانون قدرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ کلا نمدھوا الا وھولا ئمن عطاء ربک وما کان عطاء ربک محظورا (ہم سب کی مدد کرتے ہیں ان کی بھی یہ آپ کے پروردگار کی مہربانی ہے اور آپ کے پروردگار کی مہربانی محدود نہیں) لیکن رفتہ رفتہ جب ان کے غلط نصب العینوں کے نقائص آشکار ہونے لگتے ہیں تو ان کی محبت میں بھی زوال آنے لگتا ہے۔ وہ اب بھی اس کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں لیکن اب اس کے لئے ان کی ستائش کا جذبہ کمزور اور ان کے عمل کا جوش سرد ہونے لگتا ہے لہٰذا نصب العین کی قوت اور شوکت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور اس کے مداحوں اور عاشقوں کی محبت بھی اسی نسبت سے گھٹتی جاتی ہے زاور پھر وہ اپنی زندگی میں نصب العین کی محبت کے خلاء کو پر کرنے کے لئے عیش و عشرت اور تماشہ اور تفریح کی طرف رجوع کرتے ہیں جس نسبت سے نصب العین کے ساتھ ان کی محبت کم ہوتی جاتی ہے اسی نسبت سے عیش و عشرت کی طرف ان کی رغبت بڑھتی جاتی ہے اور یہ رغبت ان کی محبت کو اور کمزور کرتی جاتی ہے۔ عیش و عشرت سے قوم کی رغبت اس کے زوال کا سبب نہیں بلکہ اس کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لہٰذا جب یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب قوم کا زوال اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور اس کی اجل قریب ہے۔ غلط نصب العینوں پر قائم ہونے والی نظریاتی جماعتوں کی تقدیر یہی ہوتی ہے۔ میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر قرآن حکیم نے ایسی ہر جماعت کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔ لکل امہ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستا خرئن ماعہ ولا یستقدمون ۔ (خدا نے ہر کافر قوم کے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو پھر ان کی موت ایک لمحہ کے لئے بھی آگے یا پیچھے نہیں ہوتی) ایسے موقعہ پر کسی بیرونی دشمن کا کچل دینے والا حملہ یا کسی اندرونی دشمن کی کامیاب بغاوت اس کے ختم ہونے کا ظاہری سبب بن جاتی ہے اور جب وہ ختم ہو جاتی ہے تو ایک نئے نصب العین کو چاہنے والی ایک نئی قوم اس کی جگہ لے لیتی ہے اگر اس نئی قوم کا نصب العین بھی غلط ہو تو آخر کار اس کا حشر بھی وہی ہوتا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے قومیں اور تہذیبیں جن میں سے ہر ایک کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے انسانی تاریخ کے اسٹیج پر نمودار ہوتی ہیں۔ ترقی کرتی ہیں اپنی شان و شوکت کی انتہا تک پہنچتی ہیں اور پھر روبہ زوال ہو کر آخر کار مٹ جاتی ہیں اور نئی قومیں اور تہذیبیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں جو اپنی باری پر پھر تاریخ کے اسی عمل کو دہراتی ہیں۔ قوموں کے عروج و زوال کے عمل کی آخری منزل جب کوئی قوم اپنے غلط نصب العین کو اس کے نقائص کی وجہ سے ترک کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو کوشش کرتی ہے کہ نیا نصب العین جو وہ اختیار کرے پہلے نصب العین کے نقائص سے پاک ہو لیکن چونکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح نصب العین کیا ہے۔ اس لئے اس نئے نصب العین کے اندر اور نقائص موجود ہو جاتے ہیں جو پہلے نصب العین میں نہیں تھے اگرچہ ہر نصب العین حق و باطل اور حسن و غیر حسن کے امتزاج سے بنتا ہے لیکن ہر نیا نصب العین حسن کے بعض عناصر میں پہلینصب العین سے بلند تر ہوتا ہے۔ تاہم پرانے نصب العین کا ترک کرنا اور نئے نصب العین کا اختیار کرنا بڑے بڑے آلام و مصائب کا سامنا کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح سے نوع انسانی کا تصور حسن اس موتی کی طرح جو پے بہ پے آنے والے طوفانوںمیں پرورش پا کر اپنے کمال کو پہنچتا ہے بڑے تلخ تجربات اور صبر آزما حوادث کے سیلاب سے تربیت پا کر رفتہ رفتہ بلند سے بلند تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لہٰذ اایک دن ایسا ضرور آئے گا جب نوع انسانی کا تصور حسن بلندی میں آسمان سے بھی گزر جائے گا اور کرسی اور عرش تک پہنچے گا اور نوع انسانی حالات سے مجبور ہو کر اپنا تصور حسن خود خدا ہی کو قرار دے گا اور اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ خود انسان کی فطرت اس بات کی ضامن ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا اور نوع انسانی حسن نیکی اور صداقت کے اوصاف کو اپنے آپ میں آشکار کر کے خدا کے پسندیدہ نصب العینی انسان کے اس قدر قریب آ جائے گی کہ خدا کا دل اس کی محبت سے بھر جائے گا۔ خیال اوکر از سیل حوادث پرورش گیرد ز گرداب سپر نیلگوں بیرون شود روزے یکے در معنی آدم نگر از ما چہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں را دل ز تاثیر اوپر خون شود روزے اور جب انسان خدا کے نصب العین کو پوری طرح سمجھ بوجھ کر اپنائے گا تو پھر وہ اس نصب العین کو ترک نہیں کر سکے گا۔عمل تاریخ کے ان اسباب سے ہی جن کی تشریح اوپر کی گئی ہے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ وہ نظریاتی جماعت جو خدا کے ایسے صحیح اور کامل تصور پر جو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو قائم ہوتی ہے وہ عمل تاریخ کے ملیا میٹ کرنے والے اثرات سے محفوظ رہتی ہے چونکہ خدا کا ایسا تصور تمام نقائص اور عیوب سے پاک ہوتاہے جو قوم اسے اپناتی ہے اور اس پر قائم رہتی ہے اور اس سے محبت کرتی ہے وہ اپنی محبت میں کبھی مایوسیوں سے دوچار نہیں ہوتی اور اس کی محبت کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس قوم پر بھی نصب العینوں کی باہمی رقابت اور جنگ و جدال کی وجہ سے ضعف اور قوت کے ادوارکا آنا جانا ضروری ہوتا ہے لیکن اس بات کے باوجود یہ قوم اور اس کا نصب العین تا قیامت موجود رہتے ہیں۔ اب میں عرض کروں گا کہ یہ کس طرح وجود میں آتی ہے اور تاریخ کے قدرتی عمل میں اس کا رول کیا ہوتا ہے۔ ٭٭٭ خودی اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ایک رحمتہ للعالمینؐ کی ضرورت چونکہ غلط تصورات حسن حق و باطل اور حسن و غیر حسن کے امتزاجات اور مرکبات پر مشتمل ہوتے ہیں او ران کی کثرت کی کوئی حد نہیں ہو سکتی سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں نوع انسانی کو کس طرح سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کا صحیح اور سچا نصب العین کیا ہے۔ اقبال کا جواب یہ ہے کہ خدا خود نوع انسانی کی رہنمائی کا اہتمام کرتا ہے اور اس اہتمام کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کا ایک سلسلہ پیدا کرتا ہے جو کامل نبی یا رحمتہ للعالمین پر ختم ہوتا ہے یہ کامل نبی یا رحمتہ للعالمین پہلے انبیاء کی طرح نوع انسانی کو نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ ان کا سچا نصب العین خدا ہے بلکہ تعلیم نبوت کو درجہ کمال پر پہنچا کر انبیاء کے سلسلہ کو ختم کر دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی نظری تعلیم اور اپنی عملی زندگی کے نمونہ سے خدا کے تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرنے کی وجہ سے ایک کامل نظریہ حیات وجود میں لاتا ہے جو نوع انسانی کے ارتقاء کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کو زندگی کے تمام شعبوں میں حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے بعد کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ رحمتہ للعالمین جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن پر قرآن حکیم نازل ہوا ہے اور جن کا عطا کیا ہوا کامل نظریہ حیات اسلام کہلاتاہے۔ تخلیق عالم کے تین مرحلے اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی ہنگامہ عالم برپا کرتاہے یا جہان رنگ و بو پیدا کرتا ہے تو خدا کی ازلی اور ابدی صفات کے تقاضوں کی وجہ سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کی خاک سے خدا کی آرزو یا محبت کا جذبہ نمودار ہو یعنی اس کا مدعا انسان کی طرح کی کسی ایسی مخلوق کی تخلیق یا تکمیل ہوتا ہے۔ جو ہمہ تن خدا کی آرزو یا محبت ہو۔ لہٰذا اس ہنگامہ عالم یا جہان رنگ و بو کے لئے آخر کار ایک رحمتہ للعالمین یا کامل نبی کا وجود ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ وہ اپنی تعلیم اور اپنی عملی زندگی کے نمونہ کے اثر سے خدا کی محبت کی تربیت کر کے اس کو درجہ کمال پر پہنچائے چونکہ ضروری ہوتا ہے کہ یہ مخلوق آخر کار ایک ایسی خودی یا شخصیت کی صورت اختیار کرے جو ایک مکمل مادہ سے تعمیر پائے ہوئے مکمل جسم حیوانی میں جاگزیں ہو اور جس کا حسن اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ لہٰذا اس مخلوق کی تکمیل تین مرحلوں میں انجام پاتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کی تکمیل کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس مادہ یا مٹی کو جس سے اس کا جسم تیار ہونا ہے، مکمل کر لیا جائے لہٰذا اس جہان رنگ و بو کی تخلیق کے پہلے مرحلہ یا پہلے دور ارتقا کا مقصد مادہ اور اس کے قوانین کی تکمیل ہوتا ہے اور اس دور کی تخلیقی کارروائی کو قرآن حکیم نے تقدیر یعنی اندازوں کے تقر رکا نام دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مادہ اور اس کے قوانین کی تکمیل کے ہر مرحلہ پر ریاضیاتی اندازوں اور حسابوں کا تعین عمل میں لایا جاتاہے۔ مادہ کی تکمیل کے بعد اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو جسم حیوانی اس مادہ سے تیار ہونا ہے اسے مکمل کیا جائے اور اسے بروقت ضرورت خود بخود عمل کرنے کے ایسے طریقے سکھا دئیے جائیں جو جبلتوں کی صورت میں جسم حیوانی میں راسخ ہو جائیں تاکہ حیوان خود بخود اپنی زندگی اور نسل کو قائم رکھ کر ترقی کے مدارج طے کرے اور پھر اس قدر مکمل ہو جائے کہ خودی کا مقام اور مسکن بن سکے۔ چونکہ اس دور کی تخلیقی کارروائی کا مقصد حیوان کے اندر جبلتی تقاضوں کو راسخ کرنا ہے لہٰذا خدا نے قرآن حکیم میں اس کو ’’ ہدایت‘‘ یعنی بدنی اور حیاتیاتی ضرورتوں کی تشفی کے طریقوں کی ’’ راہ نمائی‘‘ کا نام دیا ہے پھر جب خودی جسم حیوانی میں پیدا ہوتی ہے تو اس مخلوق کی تکمیل کا آخری دور شروع ہوتا ہے اور اس دور میں خودی ایک رحمتہ للعالمین یا مصطفیؐ کا ظہور ہو سکتا ہے اور یا پھر اس میں کوئی رحمتہ للعالمین ظہور پا چکا ہو گا۔ اور وہ اس کے نورسے منور ہو رہا ہو گا۔ اقبال نے اس مضمون کو چار شعروں میں اس طرح بیان کیا ہے۔ ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہ للعالمینے ہم بود خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمتہ للعالمینے انتہا است ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آنکہ از خاکش بر دید آرزو یا ز نور مصطفی اورا بہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفیٰ است نبوت کیوں ختم ہو جاتی ہے بعض لوگوں نے ابھی تک نہیں سمجھا کہ نبوت جس کا مقصد نوع انسانی کی ہدایت ہے۔ آخر کار کسی ایک نبی پر کیوں ختم ہو جاتی ہے اور کیوں جب تک نوع انسانی باقی ہے اور راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتی ہے یعنی تا قیامت جاری نہیں رہتی لیکن اگر ہم نبوت کی حقیقت کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیں تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ نبوت کی حقیقت نبوت اور وحی کی حیقیقت کے مطلق علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ نبی روحانی تجربہ رکھنے والا ایک ایسا انسان ہوتا ہے جس کی ذات میں خدا سے ملاپ کا احساس اپنی حد سے گزر کر بہ نکلنے پر مائل ہوتا ہے اور جماعتی زندگی کے محرکات کی نئی تشکیل اور راہنمائی کے مواقع تلاش کرتا ہے۔ اس کی شخصیت میں زندگی کا محدود مرکز اپنی غیر محدود گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے تاکہ پھر نئی قوت کے ساتھ ابھرے اور زندگی کی فرسودہ راہوں کی بیخ کنی اور اس کی نئی راہوں کی نشاندہی کرے اپنے وجود کی اصل کے ساتھ اس قسم کا رابطہ انسان کے ساتھ خاص نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وحی کا لفظ جس طرح سے قرآن حکیم میں استعمال ہو اہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کے نزدیک وحی زندگی کی ایک ہمہ گیر خاصیت ہے۔ اگرچہ ارتقائے حیات کے مختلف مرحلوں میں اس کی ماہیت یا کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ ایک پودا جو اپنی نوع کی موروثی شکل یا بناوٹ سے آزاد ہو کر فضا میں اگتا ہے۔ ایک جسم حیوانی جو ایک نئے ماحول کی رعایت سے ایک ایسا نیا عضو پیدا کر لیتا ہے جو اس کے باپ دادا کو حاصل نہیں تھا یا ایک انسان جو خودی کی اندرونی گہرائیوں سے علم کی روشنی حاصل کرتا ہے یہ سب وحی کی مختلف صورتیں ہیں جن کی ماہیت وحی پانے والے فرد کی ضرورت کے مطابق یا اس نوع کی ضرورت کے مطابق جس کا وہ فرد ہوتاہے بدل جاتی ہے۔‘‘ مظہر تقلیب ایک پودے یا جسم حیوانی کا اس طرح سے نشوونما پانا کہ اس کی موروثی شکل و صورت بدل جائے اور وہ ایک نئی نوع کا جد اول بن جائے ایک حیاتیاتی مظہر قدرت ہے جسے حیاتیات کی زبان میں تقلیب یا نوع کا فوری تغیر کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی کی خاصیات کا ایک تقاضا تھا کہ حیاتیاتی مرحلہ ارتقا میں تقلیبات بار بار اور نہایت کثرت کے ساتھ رونما ہوتی رہیں۔ حیوانات اور نباتات کی رنگا رنگی اور بو قلمونی جو آج اس کثرت کے ساتھ دیکھنے میں آ رہی ہے ان ہی تقلیبات کا نتیجہ ہے اقبال کے اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اقبال کے نزدیک نبوت کا نظریاتی مظہر اسی حیاتیاتی مظہر کی ہی ایک مختلف اور انسانی مرحلہ ارتقا سے مناسبت رکھنے والی شکل ہے جسے ماہرین حیاتیات نے تقلیبات یا انواع کے فوری تغیرات کا نام دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم قدرت کے مظہر تقلیبات کے اسباب اور اس کی کیفیات کا تجزیہ کر کے اس کے سارے علمی مضمرات اور متضمنات پر حاوی ہو جائیں تو ہم سمجھ سکیں گے کہ اقبال نے تخلیق اور ارتقائے عالم میں رحمتہ للعالمین کے مقام کے متعلق اوپر کے چار شعروں میں جس خیال کا اظہار کیا ہے اس کی علمی اور عقلی بنیادیں کیا ہیں۔ تقلیبات کا سبب خودی کا زبردست جذبہ تکمیل ہے تقلیبات حیاتیاتی ہوں یا نظریاتی ان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خودی کی قوت تخلیق (یعنی خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کی قوت) کائنات کو حالت کمال پر پہنچانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات ہر وقت ایک پیکر خوب تر کی جستجو میں رہتی ہے۔ یہ قوت نہایت ہی زبردست اور بے پناہ ہے اور اپنے ہر کام پر ہر حالت میں غالب آنے والی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے۔ واللہ غالب علی امرہ ولا کن اکثر الناس لا یعلمون (خدا اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے) پھر قرآن حکیم میں ہے ما کان اللہ لیعجزہ شی فی السموات والارض انہ کان علیما قدیرا۔ (اور خدا ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز اس کو عاجز کر سکے وہ علم والا اور قدرت والا ہے) لہٰذا جب بھی اس قوت کو اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں کسی مزاحمت یا رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اپنی پوری طاقت جمع کر کے اس کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے توڑ کر اپنی منزل مقصود کی طرف آگے نکل جاتی ہے۔ زندگی کے اسی وصف کی وجہ سے اقبال نے اسے جوئے کہستان سے تشبیہہ دی ہے کہ وہ بھی جب رکتی ہے تو پہاڑوں کی چٹانوں کو چیر کر آگے نکل جاتی ہے۔ رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ حیوان کامل حیاتیاتی ارتقا کا مقصود حیاتیاتی مرحلہ ارتقا ایک نہایت ہی چھوٹے سے حیوان امیبا سے شروع ہوا تھا جو مادی طور پر مکمل ہو جانے کی وجہ سے اس قابل ہو گیا تھا کہ زندہ ہو جائے اور زندگی کا جوہر پا لینے کی وجہ سے کشش ثقل اور ایسے ہی دوسرے مادی قوانین کی مزاحمت کا مقابلہ کر سکے جو تمام جامد اور بے حرکت مادی اشیاء کو اپنے ضبط کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ پہلا حیوان اپنی ساخت میں اتنا سادہ تھا کہ صرف ایک ہی خلیہ پر مشتمل تھا لیکن زندگی کی رو یا خدا کے قول کن کی قوت جو اس حیوان کے ا ندر کام کر رہی تھی اس کو برابر ترقی دیتی رہی یہاں تک کہ اس سے نئی انواع حیوانات پیدا ہوتی گئیں۔ جن کی جسمانی ساخت بتدریج زیادہ سے زیادہ پیچیدہ ہوتی گئی اور جن کے مراکز دماغی اور نظام ہائے عصبی متواتر زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نت نئی وجود میں آنے والی انواع حیوانات کسی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں ظاہر ہے کہ حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں خودی کی منزل مقصود یہ تھی کہ ایک ایسا کامل جسم حیوانی پیدا کیا جائے جو اپنی مکمل جسمانی اور دماغی ساخت کی وجہ سے اس قابل ہو کہ اس میں جوہر خودی نمودار ہو جائے تاکہ وہ آئندہ کے ارتقاء کا جو نظریاتی ارتقاء ہونے والا تھا ذریعہ بن سکے اور پھر اس کی اولاد کو ترقی دے کر روئے زمین پر پھیلا دیا جائے اور تمام حیوانات پر غالب کر دیا جائے۔ تاکہ وہ دوسرے حیوانات کی مزاحمت کے بغیر آزادی سے عمل ارتقاء کو جاری رکھ سکے۔ یہی حیوان کامل انسان ہے۔ حیاتیاتی ارتقا کی رکاوٹیں زندگی کو حیاتیاتی مرحلہ ارتقا میں اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں ایک رکاوٹ حیاتیاتی وراثت کے قانون سے پیدا ہوئی۔ اس قانون کی وجہ سے ایک ہی نوع حیوانات کے افراد اپنے آباؤ اجداد کی جسمانی ساخت کا اعادہ کرتے ہیں خواہ وہ اچھی ہو یا بری پست ہو یا بلند اور اس سے سر مو انحراف نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ اس قانون سے قدرت کی غرض یہ تھی کہ جب حیوان کامل یا انسان وجود میں آئے اور اس کی نسل ترقی پانے لگے تو اس کی اولاد اپنی اس ابتدائی جسمانی ساخت کو جب سب سے پہلے انسان کو عطا ہوئی ہو اور جو کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقاء کا نہایت ہی قیمتی ثمر قرار پا چکی ہو۔ نسلاً بعد نسلاً ایک اندرونی حیاتیاتی دباؤ کی وجہ سے اپنی اصلی صورت میں ہمیشہ قائم رکھ سکے۔ تاکہ انسان اپنی اس پائیدار حیاتیاتی تکمیل اور برتری کی وجہ سے نہ صرف قائم رہے اور دنیا میں پھیل جائے بلکہ اپنے قائم رہنے اور پھیل جانے کی وجہ سے اپنے نظریاتی ارتقاء کو کسی ناقابل عبور مزاحمت کے بغیر جاری رکھ سکے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جب تک حیاتیاتی سطح ارتقاء پر ہر نچلے درجہ کی نوع حیوانات میں سے کم از کم ایک فرد حیاتیاتی وراثت کے قانون کو توڑ کر کسی بہتر اور بلند تر قسم کی جسمانی ساخت کا مالک نہ بنے جو اس کی اولاد میں بھی منتقل ہو اس وقت تک ایک نوع سے دوسری بلند تر نوع پیدا نہ ہو سکتی تھی اور حیوان کامل یا انسان کے ظہور تک نوبت ہی نہ پہنچ سکتی تھی۔ حیاتیاتی تقلیبات کا سلسلہ لہٰذا حیاتیاتی مرحلہ ارتقاء میں ایسا ہوتا رہا کہ ہر بار جب خودی نے محسوس کیا کہ اس کی منزل مقصود کی طرف اس کی ارتقائی حرکت بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حد سے زیادہ سست ہو رہی ہے تو اس نے ایک غیرمعمولی کوشش کی اور یکایک گویا ایک جست سے اپنی رکاوٹوں کو عبور کر گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسا جسم حیوانی فوری اور معجزانہ طور پر وجود میں آ گیا جو اپنی نوع سے یکسر مختلف تھا اور اپنی ترقی یافتہ جسمانی ساخت کی وجہ سے کامل جسم حیوانی سے قریب تر تھا۔ پھر اس ترقی یافتہ جسم حیوانی کی اولاد سے ایک نئی اور بہتر اور بلند تر نوع حیوانات عالم وجود میں آئی۔ حیاتیاتی تقلیبات کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا یعنی جب تک کہ وہ کامل جسم حیوانی نمودار نہیں ہوا جو حیاتیاتی ارتقاء کی منزل مقصود تھا اور جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو تقلیبات کے ظہور کا سبب (یعنی منزل سے دور مزاحمت رکاوٹ اور سست رفتاری کا سامنا) زائل ہو جانے کی وجہ سے ان کا سلسلہ خود بخود منقطع ہو گیا اور یہ کامل جسم حیوانی آخری نوع حیوانی قرار پایا۔ یہی آخری اور کامل جسم حیوانی انسان ہے۔ حیاتیاتی ارتقاء کی شاہراہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت انسان کی اولاد ترقی پا کر تمام انواع حیوانات پر غالب آ چکی ہے اور اس کے ذریعہ سے کائنات کا آئندہ کا ارتقا جو نظریاتی قسم کا ہے جاری ہے۔ حیاتیاتی ارتقا کا وہ راستہ جو امیبا سے انسان تک جاتا ہے حیاتیاتی ارتقا کا سیدھا راستہ یا اس کی شاہراہ ہے جس پر ارتقا براہ راست خالق کائنات کے مقصد کے مطابق ہوتا رہا۔ اس شاہراہ کی ہر منزل پر جسم انسانی کی ایک نئی ترقی یافتہ صورت ایک جدید نوع حیوانی کی شکل میں ایک تقلیب کے ذریعہ سے وجود میں آتی رہی۔ تاہم اس شاہراہ کی مختلف منزلوں سے ارتقا کے غلط راستے بھی نکلتے رہے جن پر ارتقا جاری رہا لیکن تھوڑی دور آگے جا کر ختم ہو گیا کیونکہ ارتقاء کی شاہراہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ارتقا کی منزل مقصود پر پہنچ سکے۔ ارتقا کی ان گمراہیوں کی وجہ یہ تھی کہ شاہراہ ارتقا کی ہر منزل پر انسان کی پست تر اشکال کو ابھی حیوانی سطح پر ہی تھیں غلط قسم کا حیاتیاتی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے زندگی یا حیاتیاتی تکمیل کی قوت جو ان کے اندر کام کر رہی تھی اور جو کسی اور راستہ پر کامیاب ہو رہی تھی۔ موافق حالات نہ پانے کی وجہ سے ایسی سمتوں میں کام کرنے اور ایسی تقلیبات پیدا کرنے لگی جو جسم انسانی کی تکمیل کی طرف آگے نہ جاتی تھیں اور جو لہٰذا براہ راست اس کا مقصود نہ تھیں۔ زندگی کا قاعدہ ہے کہ وہ ناموافق حالات میں بھی اپنی جس قدر ممکنات کو جس قدر زیادہ ظاہر کر سکتی ہے، ظاہر کرتی ہے۔ موجودہ دور میں بعض غلط نظریاتی جماعتوں کی عارضی طاقت اور شان و شوکت زندگی کے اسی قاعدہ کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ایک تقلیب صحیح راستہ سے ہٹ جائے تو ضروری ہے کہ بعد کی تقلیبات اور بھی صحیح راستہ سے ہٹتی چلی جائیں کسی ریلوے کی برانچ لائن کی طرح کہ وہ مین لائن سے الگ ہوتی ہے تو پھر جس قدر آگے جاتی ہے اس قدر اس سے اور دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ آئندہ کے ارتقا کی نوعیت زندگی کا ایک اور قاعدہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقی کارروائیوں میں کفایت سے کام لیتی ہے اور اپنے کار آمد حاصلات کو کبھی ضائع نہیں کرتی بلکہ ان سے پورا کام لیتی ہے۔ اس قاعدہ کی وجہ سے زندگی ارتقا کے عمل میں اپنی جس مخفی استعداد کو ایک بار نمودار کر لیتی ہے اسی کو آئندہ کے ارتقا کے لئے کام میں لاتی ہے اور در حقیقت وہ اس کو نمدار ہی اسی لئے کرتی ہے کہ اسے آئندہ کے ارتقا کی اسکیم میں اس سے کام لینا ہوتا ہے۔ کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقا کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ حیوان کامل یا انسان وجود میں آ گیا ہے جو نہ صرف حیاتیاتی نقطہ نظر سے کامل ہے بلکہ جس کے اندر حیاتیاتی تکمیل کی وجہ سے ایک نئی استعداد یعنی خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ پیدا ہو گیا ہے لہٰذا زندگی کے اس قاعدہ کے مطابق ضروری ہے کہ انسان کے بعد کا سارا ارتقا انسان ہی کے راستہ سے ہوا اور اس کا دار و مدار انسان کی اس استعداد کے اظہار پر ہو۔ دوسرے لفظوں میں اب کائنات کے ارتقا کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ انسان اپنی عملی زندگی میں خدا کی محبت کے جذبہ کو کس حد تک مطمئن کرتا ہے چوں کہ جولین بکسلے (Julian Huxley) خدا کے عقیدہ سے نا آشنا ہے اور فطرت انسانی میں نظریات اور اقدار کے منبع کو نہیں جانتا وہ اس حقیقت کا اظہار اس طرح سے کرتا ہے۔ ’’ انسان کے وجود میں آنے کے بعد ارتقا کی نوعیت یکایک بدل جاتی ہے۔ انسانی شعور کے ساتھ اقدار اور نظریات پہلی دفعہ زمین پر ظہور پذیر ہوئے۔ لہٰذا مزید ارتقا کا معیار یہ ہے کہ یہ نظریاتی اقدار کس حد تک مطمئن ہوتی ہیں۔‘‘ چونکہ خدا کی محبت کا جذبہ جو صحیح نظریہ حیات کی بنیاد بنتا ہے وہی بہک کر غلط نظریات بھی پیدا کرتا ہے ظاہر ہے کہ نوع انسانی کے تمام نظریات اسی جذبہ کی پیداوار ہیں اور اسی کو مطمئن کرنے کی کامیاب یا ناکام کوششیں ہیں۔ زندگی شرح اشارات خودی است لا و الا از مقامات خودی است حیاتیاتی اور نظریاتی ارتقا کی مماثلت چونکہ زندگی ایک ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے لہٰذا خواہ وہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر سرگرم عمل ہو یا نظریاتی سطح ارتقاء پر۔ اس کے بڑے بڑے اوصاف و خواص کے اظہار میں کوئی بنیادی فرق نہیں آتا۔ مثلاً اگر زندگی حیاتیاتی سطح پر نشوونما کرتی ہے تو نظریاتی سطح پر بھی نشوونما کرتی ہے۔ اگرچہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر جسم حیوانی کی صورت میں ایک کل یا وحدت کی تشکیل کرتی ہے تو نظریاتی سطح ارتقا پر بھی انسانی شخصیت کی صورت میں ایک کل یا وحدت کی تشکیل کرتی ہے۔ا گر حیاتیاتی سطح پر ایک جسم حیوانی ایک خاص مادی شکل رکھتا ہے جو اس کے اعضا و جوارح کی ساخت سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ تو نظریاتی سطح پر انسانی شخصیت بھی ایک خاص نظریاتی شکل رکھتی ہے جو اس کے نصب العین کی صفات سے پیدا ہونے والے اعتقادات و تصورات، اخلاق و اعمال، عادات و شمامل اور افکار و آراء سے صورت پذیر ہوتی ہے۔ اگر جسم حیوانی حیاتین، پروتین اور فلزات کی صورت میں مادی غذا جذب کر کے نشوونما پاتا ہے تو شخصیت انسانی بھی نصب العین کی صفات کے حسن کی صورت میں نفسیاتی غذا جذب کر کے نشوونما پاتی ہے۔ اگر جسم حیوانی نشوونما پا کر فرد کے والدین کے جسمانی نمونہ کے مطابق بن جاتا ہے تو شخصیت انسانی بھی نشوونما پا کر فرد کے والدین کے نظریاتی نمونہ کے مطابق بن جاتی ہے۔ اگر حیاتیاتی سطح پر ایک جسم حیوانی عمل توالد کے ذریعہ سے اپنی شکل کے اور بہت سے حیوانات پیدا کر کے اپنی مخصوص نوع حیوانی کو وجود میں لاتا ہے تو نظریاتی سطح پر ایک انسانی شخصیت بھی ایک قسم کے نظریاتی توالد کے ذریعہ سے اپنی ہی نظریاتی شکل کی اور بہت سی شخصیتیں پیدا کر کے اپنی مخصوص نظریاتی جماعت کو وجود میں لاتی ہے۔ اگر زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ضروری تھا۔ کہ انواع حیوانات ایک ایسی نوع حیوانات کی سمت میں ارتقا کرتی رہیں حیاتیاتی طور پر کامل ہو۔ یعنی نوع انسانی کی سمت میں تو ان ہی خصوصیات کی وجہ سے یہ بھی ضروری تھا کہ نظریاتی جماعتیں بھی ایک ایسی نظریاتی جماعت کی طرف ارتقا کرتی رہیں جو نظریاتی طور پر کامل ہو۔ یہ نظریاتی جماعت رحمتہ للعالمین کی امت ہے جس طرح سے ضروری تھا کہ پہلے انسان کے ظہور کے بعد جنگلوں کے دوسرے خونخوار حیوانات کے بالمقابل انسان کی ظاہری توانائی کے باوجود انسان کی نسل دنیا میں پھیل جائے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ رحمتہ للعالمین کے ظہور کے بعد ان کی روحانی اولاد یعنی مسلمان قوم دوسری قوموں کے بالمقابل اپنی موجودہ ظاہری کمزوری کے باوجود آخر کار دنیا میں پھیل جائے۔ جس طرح سے نوع انسانی کے ظہور کے بعد بھی حیاتیاتی ارتقا غلط راستوں پر جاری رہا اور دیر تک انسان سے کمتر درجہ کی انواع حیوانات وجود میں آتی رہیں۔ اسی طرح سے رحمتہ للعالمین کی امت کے ظہور کے بعد نظریاتی ارتقا بھی غلط راستوں پر جاری ہے اور نظریاتی اعتبار سے امت مسلمہ سے کمتر درجہ کی نظریاتی جماعتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ لیکن جس طرح سے ضروری تھا کہ نوع انسانی دوسری تما انواع حیوانات پر جو انسان کے ظہور سے پہلے اور بعد نمودار ہوئی تھیں مکمل طور پر غالب آئے۔ اسی طرح سے ضروری ہے کہ رحمتہ للعالمین کی امت بھی تمام نظریاتی جماعتوں پر جو رحمتہ للعالمین کے ظہور سے پہلے اور بعد نمودار ہوئی ہیں مکمل طور پر غالب آئے۔ قرآن حکیم نے زور دار الفاظ میں اس غلبہ کی پیش گوئی کی ہے۔ ھو الذی ارسل رسولہ با لھدی و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکفرون (خدا وہ ذات پاک ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے نظریہ حیات کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دوسرے نظریات پر غالب کر دے خواہ منکرین اس بات کو ناپسند ہی کیوں نہ کریں) نظریاتی ارتقا کا نقطہ آغاز نظریاتی مرحلہ ارتقا پہلے مکمل جسم حیوانی یا پہلے انسان سے شروع ہوا تھا جو حیاتیاتی طور پر مکمل ہو جانے کی وجہ سے اس قابل ہو گیا تھا کہ اس میں خدا کی محبت کا ایک طاقت ور جذبہ اس کی تمام جبلتی خواہشات کی حکمران قوت کی حیثیت سے پیدا ہو۔ جس طرح سب سے پہلے جاندار یعنی ایک خلیہ کے حیوان امیبا کے ظہور کے بعد ضروری تھا کہ ارتقا کلیتاً حیاتیاتی ہوتا۔ اسی طرح سب سے پہلے انسان کے ظہور کے بعد ضروری تھا کہ ارتقا کلیتاً نظریاتی ہوتا۔ سب سے پہلے انسان کو نہ صرف خدا نے حسن کی محبت کا جذبہ عطا کیا بلکہ اس کی نبوت بھی عطاکی۔ یعنی اپنی خاص رحمت سے وحی کے ذریعہ سے اس کو اور اس کی اولاد کو اس جذبہ محبت کی تسکین اور تشفی کی راہ نمائی بھی عطا کی اور بتایا کہ وہ خدا کی محبت اور عبادت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہو سکتا ہے۔ قدرت کوئی ضرورت پیدا نہیں کرتی جس کی تکمیل کا اہتمام خود نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ہر ضرورت ارتقا کے کسی مقصد کو پورا کرتی ہے اور اگر قدرت اس ضرورت کی تکمیل کا اہتمام نہ کرے تو اس ضرورت کو پیدا کرنے کا کوئی فائدہ یا مقصد ہی نہ ہو اور اگر ارتقا کا دار و مدار اس ضرورت کی تکمیل پر رکھا گیا ہو تو ارتقا بھی جاری نہ رہ سکے۔ یہی سبب ہے کہ سب سے پہلے انسان جن کو حضرت آدم کہا جاتا ہے خدا کے نبی تھے۔ چونکہ انسان از خود اپنے جذبہ محبت کے مقصود کو نہیں جان سکتا اور جذبہ محبت نہایت آسانی سے بہک جاتا ہے لہٰذا اگر وہ نبی نہ ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ خدا نے سب سے پہلے انسان کے دل میں اپنی محبت کا جذبہ تو پیدا کیا لیکن اس کی راہنمائی نہیں کی۔ بلکہ اس کو سرگرداں اور بے راہرو ہونے کے لئے چھوڑ دیا۔ ایسا ہونا خدا کی رحمت اور ربوبیت کے ان تقاضوں سے ہی بعید ہوتا جن کے ماتحت اس نے انسان کو اپنی محبت کا جذبہ عطا کیا تھا۔ نبی کی تعریف ہی یہ ہے کہ نبی وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی جدوجہد اور کوششیں نہیں بلکہ خدا کی خاص رحمت سے اور براہ راست خدا سے وحی پا کر اس بات کا علم حاصل کرتا ہے کہ انسان کی محبت کا مقصود فقط خدا ہے اور انسان خدا کی محبت کے فطری جذبہ کو عملی طور پر خدا کی عبادت اور اطاعت سے مطمئن کر سکتا ہے اور اپنی قوم کے دوسرے افراد کو اس علم سے مستفید کرتا ہے۔ نبی کامل ۔ نظریاتی ارتقا کا مقصود یہ بات آشکار ہے کہ حضرت آدم اور ان کی امت کا نظریہ حیات (اور ظاہر ہے کہ ان کی امت ان کی اولاد کے ایک حصہ پر ہی مشتمل ہو گی) نہایت سادہ ہو گا۔ اس وقت ہمیں معلوم ہے کہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ضروری تقاضوں میں سیاست، عبادت، اخلاق، تعلیم، قانون، صنعت و حرفت، تجارت، سماجی اور خاندانی تعلقات اور جنگ وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن حضرت آدم کے زمانہ میں جب انسان کی زندگی کی کاروبار کا دارومدار زیادہ تر سیر و شکار ہو گا۔ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ضروری تقاضے ابھرتے گئے ان پر خدا کی محبت کے اصول کا اطلاق کرنے کے لئے نئے نئے انبیاء پیدا ہوتے رہے اور ان کی روحانی اولاد سے نئی نئی امتیں وجود میں آتی رہیں اور ان کی عملی اور نظری تعلیم سے خدا کے عقیدہ پر مبنی نئے نئے نظریات پیدا ہوتے رہے جو انسان کے تمدنی ارتقا کے ساتھ ساتھ اپنی وسعت اور تفصیل میں بتدریج ترقی کرتے رہے ایک روایت کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ترقی پذیر انواع حیوانات کی طرح یہ نت نئی پیدا ہونے والی ترقی پذیر امتیں بھی اپنے نظریات کے سمیت کسی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ نظریاتی مرحلہ ارتقا میں خودی کی منزل مقصود یہ تھی کہ وہ ایک کامل نبی پیدا کرے جو اپنی عملی زندگی کی مثال سے ایسا نظریہ حیات وجو دمیں لائے جو خدا کی محبت کے اصول کو انسان کی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں مثلاً سیاست، عبادت، اخلاق، تعلیم، قانون، صںعت و حرفت، تجارت، سماجی اور خاندانی تعلقات اور جنگ وغیرہ پر چسپاں کرے اور لہٰذا ایک کامل نظریہ حیات ہو اور پھر ا س کامل نبی کی روحانی اولاد یا امت کو ترقی دے کر روئے زمین پر پھیلائے اور تمام نظریاتی جماعتوں پر غالب کر دے تاکہ وہ دوسری نظریاتی جماعتوں کی مزاحمت کے بغیر آزادی سے نوع انسانی کے ارتقا کو جاری رکھ سکے اور ان کو حسن و کمال کی انتہا تک پہنچا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نبی کا نظریہ حیات یا قانون شریعت وہی ہوتاہے جو لوگوں کو اس کی اپنی عملی زندگی کی مثال میں پوری طرح سے سمویا ہوا نظر آئے۔ جو کام ایک نبی اپنی عملی زندگی میں خود نہ کر سکا ہو اور وہ اس کے ماننے والے فقط اس کی زبانی نصیحت کی بنا پر کر لینے کا داعیہ نہیں پاتے اور وہ کام بجا طور پر اس کی تعلیمات سے عملاً خارج سمجھ لیا جاتا ہے۔ نظریاتی ارتقا کی رکاوٹیں حیاتیاتی سطح ارتقا پر زندگی کی جو خصوصیات ہمارے مشاہدہ میں آتی ہیں ہم ان کی بنا پر حیاتیاتی تقلیبات کی نہایت ہی معقول وجوہات قائم کر سکتے ہیں۔ ان وجوہات کی روشنی میں یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو نظریاتی مرحلہ ارتقا میں بھی اپنی منزل مقصود کی طرف آگے بڑھنے میں اپنی پیدا کی ہوئی جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے ایک رکاوٹ پھر ایک قسم کے قانون وراثت سے پیدا ہوئی جس کو نظریاتی وراثت کا قانون کہنا چاہئے۔ اس قانون کے عمل سے ایک ہی نظریاتی جماعت کے افراد ہمیشہ اپنے آباد واجداد کے نظریہ حیات کو اختیار کرتے ہیں۔ خواہ وہ نظریہ حیات اچھا ہو یا برا۔ زیبا ہو یا زشت اور اس سے سر مو انحراف نہیں کرتے اس قانون سے قدرت کی غرض یہ تھی کہ جب بھی نبی کامل یا رحمتہ للعالمین ظہور پذیر ہوں اور ان کی روحانی اولاد بڑھنے اور ترقی پانے لگے تو وہ اپنے نبی کے کامل نظریہ حیات کو جو کہ ظاہر ہے کہ لاکھوں برس کے نظریاتی ارتقا کا نہایت ہی قیمتی ثمر قرار پا چکا ہو گا۔ نسلاً بعد نسلاً ایک اندرونی نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے ہمیشہ اسی اصلی صورت میں قائم رکھ سکیں۔ جس میں ان کے نبی نے اسے چھوڑا ہو تاکہ نبی کامل کی امت اپنی پائیدار نظریاتی تکمیل اور برتری کی وجہ سے نہ صرف قائم رہے اور دنیا میں پھیل جائے بلکہ اپنے قائم رہنے اور پھیل جانے کی وجہ سے نوع انسانی کو کسی ناقابل عبور مزاحمت کے بغیر حسن و کمال کی انتہا تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ لیکن ہر نبی کی صورت میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ اس کی قوم ایک عرصہ تک تو اپنی عملی زندگی کو نہایت سختی کے ساتھ اس کے عطا کئے ہوئے نظریہ حیات کے تابع رکھتی تھی۔ لیکن پھ رایک وقت ایسا بھی آ جاتا تھا جب اس کے تمدنی حالات ترقی کر کے ان کی قدرتی عمل زندگی کے بعض ایسے اہم نئے گوشوں کو بے نقاب کر دیتے تھے جن کے متعلق نبی کی عملی زندگی کی مثال میں یہ راہنمائی موجود نہ تھی کہ ان پر خدا کے تصور کا اطلاق کس طرح سے ہو لہٰذا اس مرحلہ پر پہنچ کر نظریاتی ارتقاء کو جاری رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ اس نبی کی امت میں سے کم از کم ایک فرد ایسا پیدا ہو جو پہلے نبی ہی کی طرح خدا کی وحی سے علم اور اطمینان پا کر اور نظریاتی وراثت کے قانون کو برطرف رکھ کر اپنی عملی زندگی کی مثال کی صورت میں ایک نیا نبوتی نظریہ حیات پیش کرے جو خدا کے تصور کو قوم کے نئے حالات پر چسپاں کرے اور خدا کی وحی کے نام پر ہی دوسروں کو دعوت دے کہ وہ اس نظریہ کو قبول کریں۔ چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک نبوتی نظریہ حیات کے بعد دوسرا بہتر اور بلند تر نبوتی نظریاتی حیات پیدا نہ ہو سکتا اور ایک ایسے نبی کے ظہور کی نوبت نہ آ سکتی جو خدائے واحد کے عقیدہ کو اپنی نظریاتی تعلیم اور عملی زندگی کی مثال سے انسان کی ترقی یافتہ قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کر کے ایک کامل نبی قرار پائے۔ نظریاتی تقلیبات کا سلسلہ لہٰذا نظریاتی مرحلہ ارتقا میں زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ایسا ہوتا رہا کہ ہر بار جب زندگی نے محسوس کیا کہ اس کی منزل مقصود یعنی رحمتہ للعالمین کے ظہور کی طرف اس کی ارتقائی حرکت بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حد سے زیادہ سست ہو رہی ہے۔ تو اس نے ایک غیر معمولی کوشش کی اور یکایک گویا ایک جست سے اپنی رکاوٹوں کو عبور کر گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نیا نبی معجزانہ طور پر ظہور پذیر ہو گیا جس کا نظریہ حیات زندگی کے نئے حالات پر بھی حاوی تھا اور جس کی روحانی اولاد سے ایک نئی امت پیدا ہوئی۔ اس طرح سے ایک نبوتی نظریہ حیات سے دوسرا بعض وجوہ سے بہتر اور بلند تر نظریہ حیات پیدا ہوتا رہا۔ نظریاتی تقلیبات کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا یعنی جب تک کامل نبی کا ظہور نہیں ہوا اور جب یہ مقصد حاصل ہو گیا تو نظریاتی تقلیبات کے ظہور کا سبب زائل ہو جانے کی وجہ سے ان کا سلسلہ خود بخود اسی طرح سے منطقع ہو گیا جس طرح سے حیاتیاتی تقلیبات کا سلسلہ ان کا مقصد حاصل ہونے اور ان کے ظہور کا سبب زائل ہونے کے بعد یعنی ایک مکمل جسم حیوانی یا انسان کے ظہور کے بعد خود بخود منقطع ہو گیا تھا۔ لہٰذا کامل نبی خاتم النبین یا آخیر نبی بھی قرار پائے۔ یہی کامل اور آخری نبی جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو قرآن حکیم نے رحمتہ للعالمین کا لقب دیا ہے۔ اس لئے کہ ان کی عملی زندگی کی مثال میں خدا کا عقیدہ انسان کی قدرتی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں ہو گیا ہے اور نبوتی راہنمائی کی تکمیل ہو گئی ہے اور نوع بشر جو حاصل عالم ہے تا قیامت کسی اور نبی کی قیادت سے بے نیاز ہو گئی ہے اور اب صرف ان کے ذریعہ سے اپنے حسن و کمال کی انتہا تک پہنچ کر خداکی انتہائی رحمتوں سے ہمکنا رہو گی۔ ارتقائے نبوت کے ان حقائق کی طرف ہی اشارہ کرتے ہوئے اقبال کہتا ہے کہ خودی سو انبیاء کو پیدا کر کے ختم کرنے کے بعد ہی ایک کامل نبی پیدا کرتی ہے۔ شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت تا چراغ یک محمد بر فروخت رحمتہ للعالمینؐ کی تعلیم کے امتیازات ہر گزشتہ نبی کی تعلیم (اور ایک نبی کی تعلیم دراصل کلیتاً اس کی اپنی عملی زندگی کی مثال کے اندر ہوتی ہے اور ا س کے نظریات یا اقوال میں نہیں ہوتی) صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور پر مبنی تھی لیکن رحمتہ للعالمین کے علاوہ کسی نبی کو ایسے تمدنی حالات پیش نہیں آئے کہ وہ اپنی زندگی کی مثال سے یہ بتائے کہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں میں خدا کے عقیدہ کے لوازمات اور تقاضے کیا ہیں اور کس طرح سے خدا کا عقیدہ ان شعبوں پر چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے ہر نبی کو جن سماجی حالات میں رہنا یا جن واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہ اس قسم کے تھے کہ ان کے پیش نظر ایک نبی ہونے کی وجہ سے اسے جو معرفت حق تعالیٰ عطا ہوئی اس کا بہت تھوڑا حصہ اس کی عملی زندگی کے نمونہ میں اپنا اظہار پا سکا۔ ہر نبی اپنی عملی زندگی کی مثال کی روشنی سے انسان کی قدرتی عملی زندگی کے ان پہلوؤں کا رشتہ خدا کے عقیدہ سے واضح کر سکتا تھا جو اس کی قوم کے تمدنی اور اخلاقی حالات کی بنا پر ا سکی توجہ چاہتے تھے اور وہ مجبور تھا کہ انسانی زندگی کے ان پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتا جو ابھی اس کی قوم کے حالات میں رونما نہیں ہوئے تھے اور جن کے بارہ میں ان کو فی الحال خدا کی راہ نمائی کی ضرورت نہ تھی۔ اس طرح سے ہر گزشتہ نبی کے تصور کو انسان کی قدرتی عملی زندگی کے صرف ایک حصہ پر ہی چسپاں کر سکا۔ یہی سبب ہے کہ ماضی کے ہر نبی کے نظریہ حیات نے صرف اس کی قوم کو یا اس کے عہد کو ہی مستفید کیا اور ان کے بعد زیادہ دیر تک اپنی اصلی حالت پر قائم نہ رہ سکا بلکہ ان کتابوں کے اندر بھی جو ان انبیاء پر نازل ہوئی تھیں کچھ عرصہ کے بعد ایسا مواد داخل کر دیا گیا جو نہ تو خدا کا قول تھا نہ نبی کا۔ ان نظریات کی وقتی یا جزوی حیثیت نہ صرف ان کی سرشت سے آشکار ہے بلکہ خود ان کے بانیوں کے ارشادات سے بھی واضح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ ایک ناتمام نبوتی نظریہ حیات ایک مستقل اور عالمگیر نظریہ حیات نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس غرض کے لئے وجود میں آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص قوم کو ارتقائے انسانیت کے ایک خاص مرحلہ کے اندر کام دے سکے اور آئندہ کے نظریاتی ارتقا کی ایک منزل قرار پائے۔ اس کا غیر مکمل ہونا اس کے لئے نا ممکن بنا دیتا ہے کہ ایک محدود عرصہ کے بعد اپنی زندگی قائم رکھ سکے۔ نبی کامل رحمتہ للعالمین جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں یہ بات درست نہیں کیونکہ ان کو فرستادہ حق کی حیثیت سے جن اخلاقی، ثقافتی، اقتصادی، سماجی، قانونی، سیاسی، جنگی اور جغرافیائی حالات کا سامنا کرنا پڑا ان کی وجہ سے وہ اپنی عملی زندگی کی مثال سے یہ بات واضح کر سکے کہ فرد اور جماعت کی قدرتی عملی زندگی کے اہم شعبوں پر خدا کا عقیدہ کیونکر چسپاں کیا جا سکتا ہے بالخصوص رحمتہ للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی نبی کی عملی زندگی کے نمونہ میں ہمیں انسانی زندگی کے جنگی، قانونی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی پہلوؤں کے متعلق (جو یقینا انسان کی زندگی کے نہایت ہی اہم پہلو ہیں) ضروری راہنمائی نہیں ملتی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے متاہل زندگی بسر کی۔ اپنے ساتھیوں کو تیار کیا کہ ان لوگوں کی مخالفت کا مقابلہ کریں جو ان کے پیغام کو مٹا دینے پر تلے ہوئے تھے۔ خدا پرستوں کی ایک ریاست قائم کی۔ اس کا انتظام کیا اور فوجی کارروائیاں کر کے دشمنوں سے اس کی حفاظت کی اس کے اندرونی اور بیرونی مسائل کو حل کیا اور اس کے سیاسی، قانونی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی، اطلاعاتی اور تبلیغی نظامات قائم کئے اور اس کی ایک خارجہ پالیسی وضع کی ہر نظریاتی جماعت کو اپنے نصب العین کی جستجو کے عمل میں اپنی ترقی اور توسیع کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور وہ نظریاتی جماعت جو خدا کے صحیح اور مکمل تصور پر مبنی ہو اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی نے اپنی عملی زندگی کی مثال سے اس قدرتی جدوجہد کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ جس میں سے مستقبل کی نوع انسانی کو خدا کے تصور پر مبنی ایک ریاست کی صورت میں منظم ہونے، قائم رہنے اور ترقی کرنے اور اس طرح سے عالم انسانی کے ارتقاء کو جاری رکھنے کے لئے لازماً گزرنا ہے اس جدوجہد کا نہایت ہی قیمتی اور روشنی اور ہدایت بخشنے والا نمونہ پہلی دفعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی نے مہیا کیا ہے اور یہی سبب ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین ہیں۔ اجتہاد کی حقیقت جب کوئی نظریہ حیات اسلام کی طرح خدا کے کامل اور صحیح تصور پر مبنی ہو اور خدا کے ایسے تصور کو انسانی قدرتی زندگی کے تمام اہم شعبوں (مثلاً اخلاق، سیاست، معاشیات، قانون، جنگ وغیرہ) پر چسپاں کرتا ہو تو اس کی زندگی یا ترقی کے امکانات کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ گو بعض وقت یہ محسوس کیا جائے کہ اس نظریہ حیات میں انسانی زندگی کے ان شعبوں کے متعلق جو ہدایت ملتی ہے وہ ضروری حد تک مفصل نہیں پھر بھی اس کی زندگی قائم رہتی ہے اور ایک تندرست جسم حیوانی کی طرح جو اپنے جسم کے نسبتاً غیر ضروری حصوں میں کٹے ہوئے گوشت کو اپنے اعضائے رئیسہ کی صحت اور درستی عمل کی وجہ سے دوبارہ پیدا کر لیتا ہے۔ ایسا نظریہ حیات بھی ہدایت کی مطلوبہ تفصیلات کو اپنے اندر سے پیدا کر لیتا ہے اسلام کی اصطلاح میں مطلوبہ تصورات کی اس تخلیق کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ اسلام کی پائیداری کا سبب چونکہ رحمتہ للعالمین اک عطا کیا ہوا نظریہ حیات خدا کے صحیح اور کامل تصور کو انسانی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرتا ہے اور لہٰذا نہ صرف اندرونی روح کے لحاظ سے بلکہ بیرونی صورت کے لحاظ سے بھی مکمل ہے اس لئے اسلام نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ تمام نظریات پر غالب آئے گا اور دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وقت بعض مخالف حالات اس کو مسلمانوں کی عملی زندگی کے کسی پہلو سے خارج کر دیں تو یہ جبراً پھر ان کی زندگی کے اس پہلو میں داخل ہو کر اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس طرح سے ایک مکمل طور پر صحت مند جسم حیوانی مرض کے خلاف رد عمل کرتا ہے اور اپنی گرتی ہوئی صحت کو بحال کر لیتا ہے اس طرح سے اسلام ہر اس غیر اسلامی تحریک کے خلاف جو اس کے اندر نمودار ہو کر اس کو مغلوب کرنا چاہتی ہے نہایت ہی قوت اور کامیابی کے ساتھ رد عمل کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تحریک مٹ جاتی ہے اور اسلام اپنی اصلی حالت پر باقی رہ جاتا ہے کئی صدیوں کے اندر پے بہ پے آنے والے شدید قسم کے حادثات کے باوجود اسلام اور مسولمانوں کا موجود رہنا بے معنی نہیں بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مٹنے کے لئے بلکہ زندہ رہنے کے لئے وجود میں آیا ہے اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا نظریاتی ارتقا کی شاہراہ نظریاتی ارتقا کا وہ راستہ جو پہلے نبی یعنی حضرت آدم سے براہ راست رحمتہ للعالمین تک جاتا ہے نظریاتی ارتقا کی شاہراہ ہے جس پر ارتقا براہ راست خالق کائنات کے مقصد کے مطابق ہوتا رہا ہے اس شاہراہ کی ہر منزل پر نبوتی نظریہ حیات کی ایک نئی ترقی یافتہ صورت اس کو ماننے والی ایک امت کے سمیت ایک نظریاتی تقلیب کے ذریعہ سے نمودار ہوتی رہی تاہم اس شاہراہ کی مختلف منزلوں سے نظریاتی ارتقاء کے غلط راستے بھی نکلتے رہے۔ جن پر غلط نظریات حیات اور ان کو ماننے والی غلط قسم کی نظریاتی جماعتیں پیدا ہوتی رہیں ان راستوں پر ایک غلط نظریہ سے دوسرا بہتر لیکن غلط نظریہ نکلتا رہا اور اس طرح سے ان پر بھی ارتقا جاری رہا لیکن تھوڑی دور آگے جا کر ختم ہو گیا۔ ارتقا کی شاہراہ سے ہٹ جانے کی وجہ سے اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ ان راستوں میں سے کوئی راستہ بھی ارتقا کی منزل مقصود تک پہنچ سکے گا بلکہ ان راستوں پر ہر منزل نظریاتی ارتقا کی منزل مقصود سے اور دور ہوتی گئی نظریاتی ارتقا کی ان گمراہیوں کی وجہ یہ تھی کہ انبیاء کی امتوں میں بعض ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جن کو غلط قسم کا تعلیمی ماحول میسر آیا جس کی وجہ سے نظریاتی تکمیل کے دباؤ نے جو ان کے اندر کام کر رہا تھا ان کی نظریاتی نشوونما کو غلط راستہ پر ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر غلط نظریہ حیات کو پیش کرنے والا انسان اپنے غلط نظریہ کے کچھ عناصر صحیح نبوتی نظریہ سے لیتا ہے اور اس میں کچھ غلط عناصر کی ملاوٹ کر کے ایک نیا نظریہ پیش کرتا ہے جو حق و باطل کی آمیزش کی وجہ سے کلیتاً باطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہر غلط نظریہ حیات تعلیم نبوت کا خوشہ چین ہے اور اپنی کامیابی کے لئے اس کے اجزاء عناصر کا مرہون منت ہے۔ اگر وہ باطل کے ساتھ حق کی آمیزش نہ کرے تو اس کے اندر کوئی کشش باقی نہ رہے۔ لیکن حق و باطل کی آمیزش کی وجہ سے وہ کلیتاً باطل ہو کر رہ جاتا ہے لہٰذا ناقبول ہوتا ہے۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول امت مسلمہ کا عالمگیر غلبہ ارتقا کی ایک ضرورت ہے ارتقا کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ جب ایک مکمل جسم حیوانی یا انسان ظہور پذیر ہو جائے تو اس کی اولاد متواتر ترقی کرتی اور بڑھتی رہے یہاں تک کہ زمین کو بھر دے اور اس کے بعد تاقیامت موجود رہے۔ اسی طرح سے ارتقا کے مقاصد کے لئے ضروری ہے کہ جب ایک مکمل نبی یا رحمتہ للعالمینؐ ظہور پذیر ہو جائے تو اس کی روحانی اولاد یا امت متواتر بڑھتی اور پھیلتی رہے۔ یہاں تک کہ زمین کو بھر دے اور اس کے بعد تاقیامت موجود رہے۔ یہی سبب ہے کہ اقبال بار بار اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ تکمیل انسانیت کے قدرتی عمل میں رحمتہ للعالمین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ انسانیت کی تکمیل حضور کے نمونہ کے مطابق اور حضور کی امت کے ذریعہ سے ہو گی۔ عالمی ارتقا کے ناقابل مزاحمت اور ناقابل انسداد عمل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حضور کی امت دنیا میں پھیل جائے گی اور باقی رہے گی اور اس کے علاوہ دوسری تمام قومیں مٹ کر اس کی دائمی زندگی اور عظمت کے لئے راستہ ہموار کریں گی۔ یہ بات کبھی کبھی وہ دبی زبان سے اور لطیف اور بلیغ اشاروں میں کہتا ہے جس سے اس کی بات بہت زیادہ موثر اور زور دار ہو جاتی ہے۔ مثلاً آئندہ زمانہ میں اسلام کی عالمگیر اشاعت اور قبولیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتاہے کہ اس واقعہ کا علم کسی کو نہیں لیکن وہ اسے صاف طور پر دیکھ رہا ہے۔ حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے ٭٭٭ کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام مسجد و مکتب و میخانے ہیں مدت سے خموش کچھ بات ہے کہ ہستی مٹی نہیں ہماری صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا ٭٭٭ عروج آدم خاکی کے منظر ہیں تمام یہ کہکشاں یہ ستارے یہ نیلگوں افلاک ٭٭٭ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے ٭٭٭ آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ٭٭٭ تاریخ کے مختلف انقلابات اور ان کی پیش رو علامات کا ذکر کرنے کے بعد اقبال مستقبل کے عالمی اسلامی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ روح مسلمان میں ہے آج وی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہ نہیں سکتی زبان دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا آب رواں کبیر ترے کنارے کوئی، دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب پھر اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ مستقبل کا انسان جو بندہ مومن اور رحمتہ للعالمین ؐ کا امتی ہو گا رات اور دن سے صورت پذیر ہونے والے وقت کے سیاہ اور سفید گھوڑے پر سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ وقت ہی کی طرح ا س کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ خدا کرے کہ وہ جلد آئے اور ہماری آنکھوں میں آباد ہو۔ کیونکہ وہی ہے جو آ کر اقوام عالم کو امن و اتحاد کی نعمتوں سے ہمکنار کرے گا۔ اس کی آمد سے پہلے مکمل اور مستقل عالمی امن اور اتحاد کا ظہور ناممکن ہے۔ وہی دیدہ امکان کا نور ہے کیونکہ وہی تخلیق کائنات کا اصل مقصود ہے۔ نوع انسان بے خدائیت کی خزاں سے چمن کائنات اجڑ گیا ہے۔ وہ آئے گا تو اس چمن میں بہار آئے گی۔ اے سوار اشب دوران بیا اے فروغ دیدہ امکان بیا رونق ہنگامہ ایجاد شو، در سواد دید ہا آباد شو، شورش اقوام را خاموش کن نغمہ خود را بہشت گوش کن ریخت از جور خزاں برگ شجر چوں بہاراں بر ریاض ما گذر، نوع انسان مزرع و تو حاصلی کاروان زندگی را منزلی جب مستقبل کا یہ انسان آئے گا تو اقبال بھی اپنے مقام کو پائے گا کیونکہ پھر دنیا میں ایسے لوگ موجود ہو جائیں گے جو ا س کی عظمت کے مقام کو پہچان سکیں گے اور اس کی قدر دانی کر سکیں گے۔ اقبال اس انسان کا منتظر ہے۔ انتظار صبح خیزاں مے کشم اے خوش زردشتیان را آتشم نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرواستم عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نا امید ستم زیاران قدیم طور مے سوزد کہ مے آید کلیم، نغمہ من از جہان دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است قرآن حکیم کی شہادت اگر ہم امام رازی کے طریق تفسیر یعنی منطقی تجزیہ اور استدلال سے الگ ہو کر قرآن حکیم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ قرآن حکیم سچے خدا کی محبت اور اطاعت کی براہ راست اور بلاواسطہ دعوت ہے جو منطقی تجزیہ اور استدلال سے بے نیاز ہے اور جس میں قوموں کی تقدیر کا یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہی قوم دنیا میں ہمیشہ زندہ اور سلامت اور خوشحال فارغ البال رہے گی جو سچے خدا کی محبت اور اطاعت کو اپنا شعار بنائے گی یہ قوم امت مسلمہ ہے اور دوسری ہر قوم زود یا بدیر خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: چوں سرمہ رازی راز دیدہ فروشتم تقدیر امم دیدم پنہاں بکتاب اندر یہی قوم تاریخ کے عمل کا مقصود اور مطلوب ہے اور تاریخ کا عمل اور قوموں کو رفتہ رفتہ مٹا کر اسی قوم کے استحکام اور استقلال کے لئے راستہ صاف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس کے مٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا غلط نظریات وہ بت ہیں جو خدا کی جگہ لیتے ہیں۔ وہ زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتے جاتے ہیں۔ پرانے ترک کر دئیے جاتے ہیں اور ان کی بجائے نئے گھڑ لئے جاتے ہیں۔ لیکن سچا نظریہ حیات یعنی اسلام جس کی بنیاد خدا کے اس صحیح اور کامل تصور پر ہے جو رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہے لازوال اور پائیدار ہے اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست من از حرم نگنشتم کہ پختہ بنیاد است یہاں بت غلط نصب العین سے اور حرم اسلام سے استعارہ ہے۔ زور دار پیش گوئی تاہم کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اقبال اشاروں پر قناعت نہیں کرتا بلکہ نہایت ہی کھلے اور زوردار الفاظ میں اسلام کے عروج اور امت مسلمہ کے عالمگیر غلبہ کی پیش گوئی کرتا ہے اور مسلمانوں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کے سوائے دنیا میں کوئی دوسری قوم موجود نہیں اور اگر ہے تو مٹ جانے کے لئے ہے اور اس کا وجود عارضی ہے۔ حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا تو ہے تجھے جو کچھ نظر آتا ہے نہیں ہے ٭٭٭ قدم بیباک تر نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست ٭٭٭ رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ ٭٭٭ کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ٭٭٭ وہ علی الاعلان کہتا ہے کہ امت مسلمہ عمل تاریخ کے اس قاعدہ کی زد میں نہیں آتی جو قوموں کو اجل سے ہمکنار کرتا ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ صرف ان قوموں پر اثر انداز ہوتا ہے جو غلط اور ناقص تصورات حقیقت پر مبنی ہوں مسلمان قوم کے ساتھ خدا نے وعدہ کر رکھا ہے۔ انا نحن نزلنا الذکرو انا لہ لحافظون (ہم نے ہی ذکریا قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں) ذکر کی حفاظت ذکر کرنے والے کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا قرآن کی حفاظت کے وعدہ کے اندر مسلمان قوم کی حفاظت کا وعدہ بھی موجود ہے جو قرآن کی حامل ہے پھر اس سے زیادہ واضح الفاظ میں قرآن حکیم کا وعدہ ان آیات میں ہے۔ یریدون ان یطفوا نور اللہ بافواہم ویابی اللہ الا ان یتم نور ولو کرہ الکفرون۔ ہو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق یظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔ ’’ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے پھونک مار کر بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام ادیان اور نظریات زندگی پر غالب کر دے اگرچہ کافر ناخوش ہوں)‘‘ یہی سبب ہے کہ زمانہ کے بڑے بڑے حادثات مسلمان قوم کو مٹا نہیں سکے۔ ہر بڑا حادثہ جو اس قوم کو نیست و نابود کرنے کے لئے کافی تھا اس کے لئے زندگی کا سامان بن گیا۔ ہر آگ جو کسی نمرود نے اس کے لئے روشن کی وہ ایک گلزار بن گئی۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے خدا کا عشق وہ قانون ہے جس پر کائنات کے وجود کا دار و مدار ہے لیکن خدا کا عشق کلمہ توحید کی صورت میں ایک امانت کے طور پر مسلمان قوم کے پاس ہے۔ اگر یہ قوم مٹ جائے تو خود کائنات باقی نہیں رہتی۔ اقبال ان آیات کا حوالہ دے کر کہتا ہے: از اجل ایں قوم بے پرواستے، استوار از نحن نزلناستے ذکر قائم از قیام ذاکر است از دوام او دوام ذاکر است تا خدا ان یطفو فرمودہ است از فسردن ایں چراغ آسودہ است زانکہ مارا فطرت ابراہیمی است ہم بہ مولیٰ نسبت ابراہیم است از تہ آتش بر اندازیم گل، نار ہر نمرود را سازیم گل، شعلہ ہائے انقلاب روزگار چوں بباغ مارسد گرد و بہار آتش تا تادیاں گلزار کیست شعلہ ہائے او گل دستار کیست رومیاں را گرم بازاری نماند، آن جہاں گیری جہاں داری نماند، شیشہ سا سانیاں در خوں نشست رونق خمخانہ یوناں شکست مصر ہم در امتحان ناکام ماند، استخوان ادتہ اہرام ماند، در جہاں بانگ اذاں بودوست و ہست ملت اسلامیان بود است و ہست عشق آئین حیات عالم است امتزاج سالمات عالم است گرچہ مثل غنچہ دیگریم ما، گلستان میرو اگر میریم ما خودی کی ایک اہم خصوصیت اطاعت رسولؐ اور اقتدائے رفتگاں پر زور دینے کی وجہ سے اقبال کے بعض نادان نکتہ چین اسے ملائیت اور تحجر اور جمود کا طعنہ دیتے ہیں دراصل ایسے لوگ اقبال کی حکیمانہ بصیرت سے بے خبر اور اس کے فکر کی گہرائیوں سے نا آشنا ہیں۔ خودی یا زندگی کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اپنی ترقی کے کسی مرحلہ کے آغاز میں ج وبھی نئی شکل وہ اختیار کرتی ہے خواہ وہ ظاہری اسباب اور حالات جنہوں نے اس شکل کا اختیار کرنا اس کے لئے ممکن بنایا ہو۔ کچھ ہوں وہ شکل ہمیشہ کے لئے طے پا جاتی ہے اور آئندہ کے لئے اس میں کسی قسم کا رد و بدل ممکن نہیں ہوتا اور زندگی خواہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر کار پرداز ہو یا نظریاتی سطح ارتقا پر یہ بات ہر حالت میں درست رہتی ہے۔ مثلاً ایک نومولود بچہ کی شکل و صورت اور خد و خال کی جو تفصیلات آغاز حیات میں مقرر ہو جاتی ہیں وہی زندگی کے آخری لمحہ تک چلی جاتی ہیں اور نشوونما سے حجم اور وضاحت کے سوائے ان میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے جب کسی حیاتیاتی تقلیب کے نتیجہ کے طور پر ایک نئی نوع حیوانات کا جد اول یا پہلا فرد وجود میں آتا ہے تو اس کی شکل و صورت اور اعضاء و جوارع کی جو خصوصیات اس کے جسم میں ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ اس کی نوع میں نسلاً بعد نسلاً جب تک کہ نوع باقی رہے ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔ زندگی کے عمل کی ان خصوصیات کی وجہ سے ایک نوع حیوانی یا تو اپنی ابتدائی اور اصلی صورت پر ہمیشہ قائم رہتی ہے اور یا پھر کلیتاً مٹ جاتی ہے لیکن بدلتی نہیں۔ اسی طرح سے جب کسی نظریاتی تقلیب کے نتیجہ کے طور پر ایک نئی قدرتی (یعنی نبوتی) نظریاتی جماعت کا جد اول یا پہلا فرد ظہور پذیر ہوتا ہے تو عمل کے وہ قواعد اور رسوم اور قوانین اور طریقے جو اس کے نظریہ کے خصائص ہوتے ہیں اور جن کو مجموعی طور پر اس کا قانون شریعت کہا جاتاہے۔ اس کی نظریاتی جماعت یا امت میں نسلاً بعد نسلاً جب تک کہ وہ امت باقی رہے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ایک نوع حیوانی کی طرح ایک نبی کی نظریاتی جماعت بھی یا تو اپنی ابتدائی اور اصلی صورت پر ہمیشہ باقی رہتی ہے یا اگر اس میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہ ہو تو کلیتاً مٹ جاتی ہے لیکن بدلتی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ایک مذہب زندہ رہتا ہے اس کے پیرو اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنے اندر الحاد اور بدعت کے نمودار ہوئے کو روکتے رہتے ہیں۔ جس طرح سے حیاتیاتی وراثت کا قانون ایک نوع حیوانی کی اصلی شکل و صورت کی حفاظت ایک ایسے انتظام سے کرتا جو جسم حیوانی کے اندر موجود ہوتی ہے۔ا سی طرح سے نظریاتی وراثت کا قانون بھی ایک نبوتی نظریاتی جماعت کی شریعت کی حفاظت ایک ایسے انتظام سے کرتا ہے جو انسان کی فطرت کے اندر موجود ہوتا ہے۔ جسم حیوانی کے اندر کام کرنے والے وہی حیاتیاتی قوانین جو اس کے لئے توالد کو ممکن بناتے ہیں۔ حیوان کی آئندہ نسلوں کو ان کے جد اول کی شکل و صورت سے ذرہ بھر انحراف کرنے نہیں دیتے۔ اسی طرح سے فطرت انسانی کے وہی نفسیاتی قوانین جو کسی انسان کے لئے ممکن بناتے ہیں کہ وہ کسی نبی پر ایمان لائے اور اس کی روحانی اولاد قرار پائے۔ نبی پر ایمان لانے والوں کی آئندہ نسلوں کو اس کی شریعت سے سر مو انحراف کرنے نہیں دیتے۔ قرآن حکیم نے ذیل کی آیات مبارکہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (4:64) (اور ہم نے جو بھی پیغمبربھیجا اسی لئے بھیجا کہ خدا کے حکم کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے) فلا وریک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوانی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما (تمہارے پروردگار کی قسم جب تک یہ لوگ اپنے تنازعات میں تمہیں حکم نہ بنائیں اور حکم بنانے کے بعد آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ خوشی سے سر تسلیم خم کر دیں۔ اس وقت تک ایمان دار شمار نہیں ہوں گے) خودی کی اس خصوصیت کا نتیجہ زندگی کی اس خصوصیت کی وجہ سے انسان کی نظریاتی زندگی سے قریب کا تعلق رکھنے والا کوئی قول یا فعل جو نبی سے سر زد ہوتا ہے خواہ وہ کسی اتفاق کا یا سلسلہ اتفاقات کا نتیجہ ہو یا اس کے فوری اسباب اور حالات کچھ ہوں۔ وہ اس کی امت کے لئے تا قیامت شریعت کا ایک قانون بن جاتا ہے۔ جس کی دیدہ و دانستہ نافرمانی انسان کو ارتقا کی شاہراہ سے ہٹا دیتی ہے اور اس شاہراہ سے ہٹے ہوئے غلط راستوں پر پڑی ہوئی نظریاتی جماعتوں میں شامل کر دیتی ہے جن کے لئے مٹ جانا مقدر ہے۔ قرآن حکیم نے اس شاہراہ ارتقا کو جو صرف ایک ہی ہے صراط مستقیم کہا ہے اور اس سے ہٹے ہوئے غلط راستوں کو جو بہت سے ہیں سبل کہا ہے۔ ان ھذا صراطی مستقیما ماتبعو۔ ولا تتبعو السبل فتفرق لکم عن سبیلہ (بے شک یہ میرا راستہ سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو اور چھوٹے چھوٹے بہت سے راستوں کی پیروی نہ کرو جو تمہیں خدا کے راستہ سے ہٹا دیں) یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے صحابہ کو منع فرمایا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کی امت کی طرح اپنے رسولؐ سے زیادہ سوالات کر کے اپنے دین کو پیچیدہ اور مشکل نہ بنائیں۔ اتریدن ان تسئلو ارسولکم کما سئل موسی من قبل (کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے بے ضرورت ایسے سوالات کرو جیسے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کئے تھے) اور یہی سبب ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایسے اقوال اور افعال سے احتیاط فرماتے تھے جو امت کے لئے دین کو مشکل بنا دیں کیونکہ ضروری تھا کہ ان کو نظر انداز کرنے سے رسول کی نافرمانی لازم آئے۔ خودی کی اس خصوصیت کے بغیر ارتقا ممکن نہ ہوتا زندگی کی اس بنیادی خصوصیت کی روشنی میں یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ کیوں رحمتہ للعالمین کے عطا کئے ہوئے نظریہ حیات کے اندر اس بات کی ایک طاقتور اور ناقابل انسداد صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہمیشہ اسی حالت پر باقی رہے جس پر اس کے بانیؐ نے اسے چھوڑا تھا۔ زندگی کی یہ خصوصیت دراصل ارتقا کی ضروریات کے تابع وجود میں آئی ہے۔ اگر زندگی میں یہ خصوصیت نہ ہوتی تو جب اس کی انتھک کوششوں سے کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقا کے بعد انسان کی صورت میں جسمانی اور دماغی لحاظ سے ایک حیرت انگیز طور پر مکمل جسم حیوانی وجود میں آیا تھا۔ تو اس بات کی کوئی ضمانت نہ ہوتی کہ وہ آئندہ کے لئے نہایت ہی مشکل اور بدلتے ہوئے حالات کے باوجود اپنے حیاتیاتی کمالات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قائم رکھ سکے گا اور اس طرح سے آئندہ کے پورے ارتقا کا ایک قابل اعتماد راستہ بن سکے گا۔ پھر اسی طرح سے اگر زندگی میں یہ خصوصیت نہ ہوتی تو جب لاکھوں برس کے نظریاتی ارتقا کے بعد ایک رحمتہ للعالمین کی مقدس زندگی کی صورت میں ایک حیرت انگیز طور پر مکمل نظریہ حیات وجود میں آیا تھا تو اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہ ہوتی کہ وہ نظریہ حیات آئندہ کے نہایت ہی مشکلا ور بدلتے ہوئے حالات کے باوجود اپنے نظریاتی محاسن اور کمالات کو تاقیامت قائم رکھ سکے گا اور اس طرح سے بعد کے پورے ارتقائے انسانیت کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بن سکے گا قدرت کا قانون وراثت خواہ حیاتیاتی ہو یا نظریاتی وہ نہ صرف ارتقا کے منافی نہیں بلکہ ارتقا کے لئے از بس ضروری ہے اس کے بغیر زندگی نہ تو اپنی گزشتہ حاصلات کو محفوظ کر سکتی تھی اور نہ ہی ان کی بنیادوں پر آئندہ کے حاصلات کی تعمیر کر سکتی تھی یہ قانون اس بات کا ضامن ہے کہ کوئی تغیر یا تو مقاصد ارتقا کے لئے مفید ہو گا اور اس راستہ پر ظہور پذیر ہو گا جو صحیح ہے اور ارتقا کی بلند تر منزلوں کی طرف جاتا ہے اور یا پھر اس کو فنا کی قوتوں کے سپرد کر دیا جائے گا تاکہ وہ اسے زود یا بدیر مٹا کر رہیں۔ ہمارے فکر و عمل میں آئندہ کا ارتقائی تغیر انسانی شاہراہ ارتقا کی منزل مقصود مغرب کے غلط نظریات نہیں بلکہ نظریہ حیات کی وہ صورت ہے جو رحمتہ للعالمین کی عملی زندگی میں آشکار ہوئی تھی۔ لہٰذا مسلمان قوم کے اندر مستقبل میں جو تغیر رونما ہونے والا ہے وہ یہ نہیں کہ وہ مغرب کے کسی غلط نظریہ حیات کے پیرو بن جائیں گے بلکہ قرائن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلمان قوم میں ارتقا کی منزل مقصود کی طرف آئندہ کا تغیر یہ ہونے والا ہے کہ وہ اپنے لئے ایک جدید اسلامی نظام تعلیم نافذ کرے گی جس کے ذریعہ سے وہ طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی یا انسانی علوم میں سائنسی حقائق کو عقیدہ توحید کی روشنی میں منظم کر کے عقیدہ توحید کو ایک ایسی زبردست علمی اور عقلی قوت بنائے گی جو مخالفوں کے دلوں کو بھی مسخر کرے گی اور جس کی وجہ سے عالم انسانی امن اور اتحاد کی نعمتوں سے ہمکنار ہو گا اور ایسا نظر آتا ہے کہ اس پر امن عالمگیر علمی انقلاب کا آغاز پاکستان سے ہو گا۔ آخری قوم کے اعزاز کی شرط زندگی کے ان حقائق سے ظاہر ہے کہ اگر ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہم فی الواقع دنیا کی وہ آخری قوم ہونے کا اعزاز حاصل کریں جو کائنات کی حرکت ارتقا کا مقصود اور مدعا ہے اور جو اقوام عالم کی راہ نما اور زمین کی وارث ہونے والی ہے تو ہم کو چاہئے کہ رحمتہ للعالمین کے ہر قول اور فعل کو جو تاریخ کے معیاروں کے مطابق حضور کا قول اور فعل ثابت ہو چکا ہے یا تواتر اور توارث سے ہم تک پہنچا ہے۔ نہایت ہی گہرے عاشقانہ احترام کے ساتھ اپنی نظریاتی زندگی کا راہ نما بنائیں۔ اسی لئے اقبال کا یہ شعر کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں کسی بے بنیاد خوش فہمی پر مبنی نہیں بلکہ خودی کی لازوال فطرت کے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ اگر ہم رحمتہ للعالمین کی مکمل اطاعت بجا نہ لا سکیں تو پھر ایسا تو نہیں ہو سکتاکہ ارتقائے انسانیت اپنی منزل مقصود کی طرف آگے نہ بڑھے۔ زندگی کی غیر مبدل خصوصیات کی وجہ سے اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو گا کہ ارتقا کی قوتیں ہمیں مٹا کر ایک اور قوم کو ہماری جگہ پر لائیں گی۔ جو ہماری طرح نہیں ہو گی بلکہ رحمتہ للعالمین کی سچی اور عاشقانہ اطاعت کی وجہ سے در حقیقت اس قابل ہو گی کہ حرکت ارتقا کا مقصود اور مدعا اور اقوام عالم کی راہ نما اور زمین کی وارث قرار پائے۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں ہوا ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحبکم (اے پیغمبران لوگوں سے کہئے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو۔ پھر خدا بھی تم سے محبت کرے گا) انتم الاعلون ان کنتم مومنین (اگر تم ایمان دار ثابت ہوئے تو تم ہی غالب رہو گے) اقبال نے گویا اس آیت کریمہ کا ترجمہ کر دیا ہے۔ رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ اگرچہ یہ حقیقت زندگی کی خصوصیات اور ارتقائے عالم کی ضروریات سے صاف ظاہر ہے تاہم قرآن حکیم نے خود بھی اس کا اعلان فرمایا ہے۔ وان تتولو یستبدل قوماً غیر کم ثم یکونوا امثالکم (47:38) (اگر تم خدا سے منہ نہ پھیر لو گے تو وہ تمہاری جگہ اور قوم لے آئے گا اور پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے) یاایھا الذین امنو من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ ذلہ علی المومنین اعزۃ علی الکفرین یجاھدون فی سبے اللہ ولا یخافون لامہ لائم ذالک فضل اللہ یوتیہ میں یشاء واللہ واسع علیم (5:57) (اے ایمان والو۔ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو پیدا کر دے گا جو خدا سے محبت کرے گی اور جس سے خدا محبت کرے گا۔ وہ مومنوں کے لئے نرم اور کافروں کے لئے سخت ہوں گے۔ وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ تمہارا ایمان اور عمل خدا پر تمہارا احسان نہیں بلکہ تم پر خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل عطا کرتا ہے اور خدا کا علم وسیع ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس فضل کا حقدار ہے) اسلام کے غلط اندیش، مصلحین اس زمانہ میں مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا پیدا ہو گیا ہے جن کی رغبت اسلام سے کم اور مغرب کے ناقص، غلط اور غیر اسلامی نظریات سے زیادہ ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے کالجوں کی تعلیم و تربیت لادینی اور بے خدا ہے اور انسانی زندگی کے متعلق لادینی اور بے خدا نقطہ نظر پیدا کرتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مغرب کے غیر اسلامی نظریات غلط اور نامعقول ہونے کے باوجود ایک ظاہری شان و شوکت اور چمک دمک رکھتے ہیں۔ ایسے غلط نظریات کے پرستار اور اسلام سے بیزار مسلمانوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسلام کی ایسی توجیہہ کریں جو اسلام کو ان کے غلط مگر پسندیدہ نظریات کے مطابق بنا دے یا قریب لے آئے۔ لہٰذا وہ کسی استاد کی راہ نمائی کے بغیر اسلام سے سطحی اور جزوی واقفیت پیدا کرنے کے بعد اسلام کے مصلحین اور ریفارمز کے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں اور اجتہاد کے نام پر اسلام میں رد و بدل کرتے ہیں او رامید رکھتے ہیں کہ عام مسلمان ان کی مذہبی قیادت کو قبول کریں گے۔ اپنے آپ کو یوں بلاوجہ غیر معمولی سمجھ بوجھ کا مالک قرار دے لینے کے بعد وہ ایک طرف سے تو دیندار اور پرہیز گار مسلمانوں کو کوستے ہیں کہ وہ ملا اور متحجر اور جامد ہیں اور زمانہ کے ساتھ نہیں بدلتے اور دوسری طرف اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ قرآن حکیم پر ان کے تشریحی اور تفسیری نقاط نہایت ہی جدید اور اچھوتے ہیں۔ اسلام مٹ چکا تھا لیکن ان کے قلم کی جدت طرازیوں نے اسے پھر زندہ کر دیا ہے۔ اجتہاد کی شرائط حالانکہ اجتہاد صرف ایسے مسائل میں ہو سکتا ہے جن کے بارہ میں خدا اور رسول کے ارشادات کے اندر پہلے کوئی راہ نمائی موجود نہ ہو اور بعض نئے غیر متوقع حالات کے اندر اسلام کے مطابق عمل کرنے کے لئے خود اسلام ہی کی تعلیمات کی روشنی میں اور اس کی روح کے مطابق نئے اصول اور قواعد وضع کرنے کی ضرورت پیش آئے ظاہر ہے کہ صحیح اور بے خطا اجتہاد کے لئے ضروری ہے کہ اجتہاد کرنے والا نہ صرف اسلام کی پوری تعلیمات سے اور اس کے احکام کی ساری علتوں اور حکمتوں سے باخبر اور اس کی روح سے آشنا ہو بلکہ اس کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اسلام کی محبت بھی درجہ کمال پر ہو۔ اگر اس کی محبت کامل نہ ہو گی تو جس حد تک وہ کامل نہ ہو گی اس حد تک اس کے دل میں غلط اور غیر اسلامی نظریات اور تصورات کی محبت سمائی ہوئی ہو گی جو اس کی بصیرت اسلامی کو خطا سے ملوث کرے گی اور اس کے اجتہاد کو غلط اور ناقص بنائیگی۔ لیکن خدا کی محبت کو وہی شخص درجہ کمال پر پہنچا سکتا اور قائم رکھ سکتا ہے جو عبادت اور ریاضت اور تقویٰ اور پرہیز گاری اور استغفار اور توبہ کو اپنا شعار بنائے۔ اجتہاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنی کو ذوقی کو مطمئن کرنے کے لئے ہم ان احکام کو ہی بدل ڈالیں جو بارگاہ ایزدی یا دربار رسالت سے صادر ہو چکے ہوں۔ ایسا کرنا اجتہاد کی اجازت کا نہایت ہی غلط استعمال ہے جو انکار نبوت یا دعویٰ نبوت سے کم مذموم نہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک خوبصورت شہر کے رہنے والے کسی شخص کو اجازت دے دی گئی ہو کہ جہاں کہیں کھلی زمین پائے عمارتیں بنائے لیکن وہ اس اجازت کا استعمال یوں کرے کہ کھلی زمین میں تعمیر کرنے کی بجائے شہر کی ایسی خوبصورت عمارتوں کو جو اس کے بگڑے ہوئے ذوق کے مطابق نہ ہوں گرا کر نئی بدصورت عمارتیں بنانے لگے ایسے اشخاص کے متعلق ہی اقبال نے کہا ہے۔ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق ٭٭٭ احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند ٭٭٭ حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز زمانہ باتو نسازو تو با زمانہ ستیز ٭٭٭ قرآن کے ارشاد کو تاویل سے بدلنا اور قرآن کے ارشادات کی گہرائیوں میں جا کر ان کی معقولیت اور صداقت کے نئے دلائل اور براہین کو دریافت کرنا ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ ہماری تحقیق اور تفسیر کا مدعا اول الذکر نہیں بلکہ ثانی الذکر ہونا چاہئے۔ جمودخودی کی ایک خصوصیت ہے کاش کہ مسلمانوں کو اتباع شریعت کا مشورہ دینے کی وجہ سے اقبال کو جمود کا طعنہ دینے والے یہ جانتے کہ جمود بھی زندگی کی ایک خصوصیت ہے جو کمال کی جانب زندگی کی حرکت کے لئے ضروری ہے اسی لئے جمود کی وجہ سے زندگی طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی قوانین قدرت کو غیر مبدل اور لازوال بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اور ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ ان پر بھروسہ کر سکیں اور ان سے کام لے سکیں۔ اپنی ہر کامیابی کو جمود سے محفوظ کرنے کے بغیر زندگی اپنی اگلی منزل کی طرف قدم اٹھانے کے لئے آزاد نہ ہو سکتی اور نہ ہی منزل بہ منزل چل کر یہاں تک پہنچ سکتی اور نہ ہی اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ جمود سے کام لینے کے بغیر وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے گی۔ کاش کہ جدت پر فخر کرنے والوں کو یہ علم ہوتا کہ زندگی حیاتیاتی سطح پر مصروف عمل ہو یا نظریاتی سطح پر اس کا قاعدہ ہی یہ ہے کہ جب وہ مکمل اور مستقل قدر و قیمت کا ایک نمونہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بار بار اس کا اعادہ کرتی ہے اور اسے موت سے محفوظ رکھتی ہے تاکہ وہ قائم اور موجود رہ کر زندگی کے ارتقائی مقاصد کے لئے کام آ سکے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مکمل اور مستقل قدر و قیمت رکھنے کی وجہ سے وہ اس میں ایسی صلاحیتیں اور خوبیاں پیدا کر دیتی ہے کہ وہ زندہ اور قائم رہتا ہے اور زندگی کے ارتقائی مقاصد کے لئے کام آتا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں زندگی موت کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اپنی کامیابیوں کو ان کی اصلی حالت پر قائم رکھ کر موت کا شکار کرتی ہے۔ اتر کر جہان مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں ہوا جب اسے سامنا موت کا کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا سچا اسلام محفوظ ہے سچا اسلام وہی ہے جو رحمتہ للعالمین ؐ نے اپنے ساتھیوں کو دیا تھا اور جب آپؐ کی وفات سے پہلے ان کے اعتقاد اور عمل میں محفوظ ہو گیا تھا اور جو اب کسی تبدیلی کے بغیر تواتر اور توارث سے ہم تک پہنچا ہے اگر تاریخ کے کسی نکتہ پر وہ اسلام مٹ گیا تھا اور اس پر کاربند ہونے والا کوئی انسان بھی باقی نہیں رہا تھا تو اب کوئی بڑے سے بڑا ہوشیار اور ماہر نظریات مفسر اور مجتہد بھی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا کیوں کہ زندگی ہمیشہ زندگی سے پیدا ہوتی ہے موت سے کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ تسلسل جس طرح سے ایک نوع حیوانی کی بقا کے لئے ضروری ہے اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت کی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی نوع حیوانی مثلاً گھوڑے یا اونٹ کی نسل جب مٹ جائے تو کوئی بڑے سے بڑا ماہر حیاتیات بھی اسے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا اسلام کسی وقت مٹ گیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ بار بار رونما ہونے والے سخت مشکل حالات کے باوجود مسلمانوں پر ایسا وقت کبھی نہیں آیا جب انہیں ایسے لوگوں کی کمی رہی ہو۔ جو حضور اور آپ ؐ کے ساتھیوں کے نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوں۔ رحمتہ للعالمین ؐ کی امت کے ایک گروہ کے اعتقاد و عمل کا اپنی اصلی حالت پر تا قیامت موجود رہنا۔ زندگی کی خصوصیات کی بنا پر بھی یقینی اور ضروری تھا لیکن اس کی تائید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور پیش گوئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک فرقہ تا قیامت حق پر موجود رہے گا اور وہ وہی ہو گا جو میرے اور میرے صحابہ کے اعتقادات اور اعمال کے نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ شریعت کی پوری پابندی خودی کی ضرورت ہے غرض خودی کی فطرت کے تمام حقائق ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتے ہیں کہ اگر مسلمان اس کائنات میں اپنا وہ مقام پانا چاہتے ہیں جو خدا نے ان کے نظریہ حیات کی کاملیت کی بنا پر ان کے لئے مقدر کیا ہے تو ان کو چاہئے کہ اپنے بزرگوں کی طرح خدا کی محبت کو اپنے تمام اعمال کا سرچشمہ بنائیں اور اس غرض کے لئے رسولؐ کی عملی زندگی کے نمونہ کو اپنا راہ نما قرار دیں۔ مقام خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہ مصطفی رو زندگی کی خصوصیات کی بنا پر رحمتہ للعالمین کی مکمل عاشقانہ اشاعت کی جو اہمیت ثابت ہوتی ہے اسی کے پیش نظر اقبال، ورد کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ایسے ارکان اسلام کی پابندی پر زور دیتا ہے۔ لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشاد یعنی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخوں زند خیبر تن پروری را بشکند مومناں را خلوت افروز است حج ہجرت آموز و وطن سوز است حج طاعتے سرمایہ جمعیتے ربط اوراق کتاب ملتے، حب دولت را فنا سازد زکوۃ ہم مساوات آشنا سازو زکوۃ دل زحتی تنفقو محکم کند زر فزاید الفت زر کم کند ایں ہمہ اسباب استحکام تست پختہ محکم اگر اسلام تست صالحین سلف کے مسلک کی تقلید کا فائدہ یہ ہو گاکہ مسلمانوں کے اعتقاد و عمل کا اضمحلال دور ہو گا او ران میں خیالات کی ہم آہنگی اور عمل کی یک جہتی پیدا ہو گی۔ مضمحل گردو چو تقویم حیات ملت از تقلید مے گیرد ثبات راہہ آباروکہ ایں جمعیت است معنی تقلید ضبط ملت است ٭٭٭ اے پریشان محفل دیرینہ اش مرد شمع زندگی در سینہ اش نقش بر دل معنی توحید کن چارہ کار خود از تقلید کن عالمان کم نظر کا خطرناک اجتہاد اعتقاد و عمل کے انحطاط کے زمانہ میں بے بصیرت اور کم نظر عالمان دین کا اجتہاد غلط نظریات و تصورات کو تقویت پہنچاتاہے۔ اور قوم کے اعتقاد اور عمل کو اور مضمحل کرتا ہے اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کے لئے اس اجتہاد سے تو یہ بہتر ہے کہ ان بزرگوں کی پیروی کی جائے جو رحلت کر چکے ہیں۔ اجتہاد اندر زمان انحطاط قوم را برہم ہمے پچد بساط ز اجتہاد عالمان کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر عقل آبایت ہوس فرسودہ نیست کار پاکاں از غرض آلودہ نیست فکر شاں ریسہ ہمے باریک تر درع شان از مصطفی نزدیک تر اس زمانہ میں جو مسلمان اجتہاد کے طلب گار ہیں ان کا مقصد دراصل یہ ہے کہ قرآن کی تاویل سے اسلام کو بدل کر ان جدید مغربی غیر اسلامی نظریات یا اصنام فرنگی کے مطابق کر دیں جو ان کو اپنی نادانی کی وجہ سے پسند ہیں اور اس طرح سے گویا ایک نئی شریعت وجود میں لائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ دوسرے مسلمان اس خطرناک ہمت آزمائی میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ البتہ اس قسم کا اجتہاد کر کے وہ خود ہی اس پر بلا روک ٹوک عمل کریں۔ حریت افکار کے اس زمانہ میں یہ ان کا پیدائشی اور خدا داد حق ہے جس سے ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ہے کس کو یہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد چاہے تو کرے کعبہ کو آتشکدہ پارس چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد ایسے مصلحین اسلام کے متعلق اقبال لکھتا ہے۔ ’’ ہمارے مذہبی اور سیاسی مصلحین سے خطرہ ہے کہ اگر ان کے نوجوانانہ جوش تجدد پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تو وہ اصلاح کی صحیح حدود سے تجاوز کر جائیں گے۔‘‘ ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔ ’’ میں قدامت پسند ہندوؤں کے اس مطالبہ کو بنظر استحسان دیکھتا ہوں کہ انہوں نے نئے دستور میں مذہبی مصلحین کے خلاف تحفظات مانگے ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ یہ مطالبہ سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے پیش ہونا چاہئے تھا۔‘‘ ’’ اقبال کی تقریریں اور بیانات‘‘ شملہ (1948ئ) صفحہ98 ’’ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ میں اقبال لکھتا ہے۔ ’’ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اسلام میں تجدد کا ظہور تاریخ اسلام کا نازک ترین دور ہے۔ تجدد کے اندر اس بات کا رحجان موجود ہے کہ وہ ایک طرح کا اضمحلال ثابت ہو۔‘‘ مصطفی کمال پر نکتہ چینی اقبال کو مصطفی کمال کی نام نہاد اصلاحات بجا طور پر سخت ناپسند تھیں۔ کہتے ہیں کہ جب ایک سر بر آوردہ ہندی مسلمان نے مصطفی کمال سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے کہ خلافت کے اعزاز کو خود بخود چھوڑ دیا ہے۔ اپنی ریاست کو لادینی بنا دیا ہے۔ عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط اختیار کر لیا ہے اور پردہ ہٹا دیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ’’ ہم یورپ کی عیسائی قوموں کے قریب رہتے ہیں۔ وہ ہمارے دشمن اسی لئے تھے کہ ہماری ریاست اسلامی ہے اور ہم قبائے خلافت پہن کر دنیائے اسلام کی قیادت کر رہے تھے۔ ہم نے مذہبی ریاست کی علامات کو دور کر دیا ہے اور یورپین اقوام کے طور طریقوں کو اختیار کر لیا ہے تاکہ یہ لوگ ہمیں ترقی یافتہ سمجھیں اور ہماری مخالفت سے درگزر کریں۔‘‘ اقبال نے اس پر بڑے افسوس سے لکھا کہ تعجب ہے کہ وہ ترک قوم جن کا مقام مسلمان ہونے کی وجہ سے بلندی میں ستاروں سے بھی زیادہ ہے اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ وہ پستی میں ڈوبی ہوئی راہ گم کردہ عیسائی قوموں کے ہمسائے ہیں۔ سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترک عثمانی سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب ٭٭٭ زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر وہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور مصطفی کمال نے لادینی اور لاطینی کو اپنی قوم کی حفاظت کے لئے ضروری سمجھا۔ افسوس۔ کیسی الجھن میں پڑ گیا اسے معلوم نہیں کہ ناتوانوں کا علاج خدا پر بھروسہ کرنا اور خدا سے مدد مانگنا ہے جس کی طرف خدا ہو گا وہی غالب رہے گا کیونکہ خدا سب پر غالب ہے۔ لادینی و لاطینی کس پیچ میں الجھا تو دارو ہے غریبوں کا لا غالب الا ہو ’’ جاوید نامہ‘‘ میں اقبال مصطفی کمال پر اور بھی چبھتا ہوا اعتراض کرتا ہے۔ مصطفی کو از تجدد مے سرود گفت نقش کہنہ را باید زودد نونہ گردو کعبہ رارخت حیات گرز افرنگ آیدش لات و منات ترک را آہنگ نو درچنگ نیست تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست خلافت سے دستبردار ہو جانا مصطفی کمال کی دور اندیشی نہیں تھی اور قومیں تو اپنی عیاری سے بلا استحقاق مسلمانوں کی قیادت اور سرپرستی کا دعویٰ کرتی ہیں اور اپنی سیاسی اغراض کی بنا پر چاہتی ہیں کہ مسلمان ان کا یہ دعویٰ قبول کر لیں۔ ادھر ترکوں کا یہ حال ہے کہ مسلمان ان کو اپنی سیاست اور قیادت باصرار سونپتے ہیں اور وہ انکار کرتے ہیں۔ چاک کر دی ترک نادان نے خلافت کی قبا سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ پنڈت نہرو کے جواب میں اقبال نے لکھا۔ ’’ سوئذر لینڈ کے قانون کو جس میں وراثت کا قانون بھی شامل ہے اختیار کرنا یقینا ایک شدید غلطی ہے جو نوجوانوں کے اصلاحی جوش و خروش سے پیدا ہوئی ہے۔‘‘ (تقاریر و بیانات صفحہ136) اسی طرح سے ترکیہ کے اس قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کی رو سے اذان اور قرآن کا ترکی زبان میں پڑھنا ضروری ہے۔ اقبال لکھتا ہے: ’’ ذاتی طور پر میں اس فیصلہ کو ایک شدید غلطی قرار دیتا ہوں۔‘‘ (تقاریر و بیانات صفحہ135) ضرب کلیم میں اقبال صاف طور پر بتاتا ہے کہ مصطفی کمال کی اصلاحات اہل مشر ق کے لئے کوئی قابل تقلید مثال نہیں ہیں۔ اسی طرح سے رضا شاہ پہلوی کی مثال بھی اہل مشرق کی آرزوؤں کی تشفی نہیں کر سکتی۔ میری نوا سے گریباں لالہ چاک ہوا نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی ٭٭٭ خودی اور عقل حقیقت عقل کا صحیح نظریہ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ خودی کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسان خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے جسے سوچنے کے لئے ایک دماغ اور کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں دے دئیے گئے ہیں۔ چونکہ خدا کی محبت ہی انسانی خودی کے تمام افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے۔ ظاہر ہے کہ عقل انسانی زندگی میں محض ایک ثانوی کردار ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے وجود کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ محبت کی خدمت اور اعانت کرے اور وہ اسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔ زندگی یا خودی کا اصل سرمایہ خدا کی آرزو ہے۔ عقل اس آرزو کی پیداوار ہے۔ زندگی سرمایہ دار از آرزوست عقل از زائیدگان بطن اوست خدا کا عشق خودی کا امام ہے اور عقل خودی کی غلام ہے۔ من بندہ آزادم عشق است امام من عشق است امام من عقل است غلام من عقل محض ایک قوت ممیزہ ہے۔ جو خودی کو اس کے نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے میں مدد دیتی ہے۔ نصب العین کسی تصور کے حسن کا ایک اندازہ ہوتا ہے جو خودی کو براہ راست اپنے وجدان کی مدد سے کرنا پڑتا ہے۔ وجدان در حقیقت آرزوئے حسن کا ہی دوسرا نام ہے جو بالعموم اس وقت برتا جاتا ہے۔ جب آرزوئے حسن کسی چیز کے خوب و زشت حق و باطل یا نیک و بد کے متعلق فیصلہ صادر کر رہی ہو اور اپنے لئے علم بہم پہنچانے کا وظیفہ ادا کر رہی ہو۔ ہر تصور حسن ایک وحدت ہوتا ہے جس کے حسن کو براہ راست محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آرزوئے حسن اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ وہ عقل یا کسی اور قوت کے فیصلے قبول نہیں کرتی اور دراصل انسان کے پاس آرزوئے حسن کے علاوہ کوئی اور قوت ایسی ہے ہی نہیں جو حسن و قبح کے متعلق کوئی فیصلے صادر کر سکے۔ البتہ عقل آرزوئے حسن کو اپنے فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ احساس حسن عقل کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل حسن کی وحدت کو نہیں دیکھ سکتی۔ فقط اس کے اجزا کو دیکھ سکتی ہے اور حسن اجزا میں نہیں ہوتا بلکہ وحدت میں ہوتا ہے۔ عقل حسن کی نئی نئی وحدتوں کے اجزا کی طرف آرزوئے حسن کی راہنمائی کرتی ہے جس کی وجہ سے اس کی توجہ ان وحدتوں کی طرف ہو جاتی ہے جس کے اندر یہ اجزا موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقل خودی کی مدد دو طرح سے کرتی ہے ایک تو یہ کہ اسے بتاتی ہے کہ اسے اپنے موجودہ نصب العین کیلئے جدوجہد کس طرح سے کرنی چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ اسے نئے نئے بلند تر نصب العینوں یا تصورات حسن کے نظارہ یا مشاہدہ کے لئے اکساتی ہے۔ عقل نہ محبت کی قلمرو میں داخل ہو سکتی ہے اور نہ حسن کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ یہ امتیاز فقط آرزوئے حسن کو ہی حاصل ہے۔ چونکہ عقل ہمارے ساتھ کچھ راستہ طے کرتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہم حسن کی منزل پر پہنچتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ مدت ہوتی عقل ہم سے الگ ہو چکی تھی۔ خرد سے راہ رو روشن بصر سے خرد کیا ہے چراغ رہگزر ہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے انسانی اور معاشرتی علوم کی بنیاد محبت ہے نہ کہ عقل عقل کا یہ نظریہ نفسیات انسانی کے حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور عقل کے دوسرے تمام نظریات کی نسبت زیادہ معقول اور زیادہ یقین افروز ہے۔ اس نظریہ کی رو سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ انسانی اعمال و افعال کے تمام فلسفے دوسرے لفظوں میں ہمارے تمام انسانی اور معاشرتی علوم مثلاً فلسفہ سیاست، فلسفہ اخلاق، فلسفہ تاریخ، فلسفہ اقتصاد، فلسفہ تعلیم، فلسفہ قانون انفرادی نفسیات، اجتماعی نفسیات وغیرہ عقل سے نہیں بلکہ محبت کی راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ عقل صرف محبت کی راہ نمائی میں ان کو ترتیب دیتی ہے۔ اگر وہ نصب العین جس کی محبت ان کو وجود میں لاتی ہے صحیح ہو گا تو ان کو ترتیب دینے والی عقل بھی صحیح ہو گی ۔ لہٰذا جس انسانی یا معاشرتی علم کا بنیادی تصور خدا نہ ہو وہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اعمال انسانی کا حقیقی سرچشمہ خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔ مقام عقل کے متعلق دور حاضر کی غلط فہمی افسوس ہے کہ اب تک انسان کے امتیازی اوصاف میں سے ایک وصف کو جسے ادراک یا عقل کہا جاتا ہے حد سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا وصف جس کی وجہ سے اسے حیوانات پر فضیلت حاصل ہے یہی ہے۔ حالانکہ دراصل انسان کا امتیازی وصف جس کی وجہ سے وہ انسان بنتا ہے اور حیوانات سے برتر ٹھہرتا ہے اس کی آرزوئے حسن ہے جو صرف خدا کے تصور سے مستقل او رمکمل طور پر مطمئن ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی درجہ کی عقل تو اعلیٰ سطح کے حیوانات میں بھی موجود ہے۔ لیکن تصورات کے حسن و کمال کی محبت کم از کم حیاتیاتی زندگی سے اوپر کی سطح کے تصورات کی محبت سوائے انسان کے اور کسی حیوان میں موجود نہیں۔ انسان کی عقل کی اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ فقط اس قدر ہے کہ وہ انسان کی آرزوئے حسن کی خدمت گزار ہے لہٰذا اس کی اہمیت ذاتی اور اصلی نہیں۔ بلکہ آرزوئے حسن سے ماخوذ اور مستعار ہے۔ اگر انسان کی عقل آرزوئے حسن کی غلام اور خدمت گزار نہ ہو تو وہ اسے حیوانات سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ حسن کی تمنا میں ہی انسان کی تمام آرزوئیں جنم لیتی ہیں اور اپنی جستجو کی راہیں معین کرتی ہیں۔ حسن کی تمنا ہی انسان کے تمام اعمال کی خالق اور راہبر ہے۔ عقل کو یہ مقام حاصل نہیں۔ حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست ہرچہ باشد خوب و زیبا و جمیل، در بیابان طلب مارا دلیل نقش او محکم نشنید دردلت آرزوہا آفریند دردلت اقبال دور حاضر کے انسان کو جو اپنی نادانی سے عقل ہی کو انسان کا سب سے بڑا امتیازی وصف سمجھا ہوا ہے۔ خوب جھنجھوڑ کر جذبہ حسن کی اہمیت بتاتا ہے۔ ہے ذوق تجلی بھی اس خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک تجلی کی اہمیت ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی محبت کو تفکر فی الخلق (مشاہدہ قدرت) تفکر فی الصفات (عبادت) اور تخلق باخلاق اللہ(حسن عمل) کے ذرائع سے فروغ دے کر درجہ کمال پر پہنچائے۔ اس طریق سے اس کے دل کے اندر خدا کی معرفت کا وہ نور پیدا ہو گا جسے اقبال ’’ تجلی‘‘ یا’’ جلوہ‘‘ کا نام دیتا ہے اور چونکہ اس طریق سے اس کا جذبہ محبت پوری پوری تشفی حاصل کر لے گا۔ اور اس جذبہ کے علاوہ تشفی کا تقاضا کرنے والا کوئی اور جذبہ انسان کے اندر ہے ہی نہیں لہٰذا اس کے لئے بے اطمینانی اور پریشانی کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی اور عقل کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ اس کے دل میں کوئی اعتراضات یا شکوک یا شبہات پیدا کر سکے۔ اس کے برعکس اگر انسان کے دل میں خدا کی محبت اس کی استعداد کے مطابق اپنے کمال کو نہ پہنچے گی تو چونکہ اس کے جذبہ محبت کا ایک حصہ غیر مطمئن رہے گا۔ اس کا سکون قلب مکمل نہ ہو سکے گا اور عقل کے لئے موقع باقی رہے گا کہ اس کو شکوک و شبہات میں ڈالتی رہے۔ اگر انسان کا دل خدا کی معرفت کے نور سے پوری طرح منور نہ ہو تو اس کی عقل جو فقط اس نور سے ہی راہنمائی پا سکتی ہے بھٹکتی رہتی ہے اور اسے مسرور اور مطمئن ہونے نہیں دیتی۔ حکمت کے بیابانوں میں مدتوں خاک چھاننے کے بعد اگر عقل کو کہیں پناہ ملتی ہے تو توحید میں۔ در جہان کیف و گم گردید عقل پے بمنزل برداز توحید عقل اس کے علاوہ چونکہ شریعت کی پابندی اور نیک عملی کی زندگی خدا کی محبت کا نہ رکنے والا تقاضا ہے لہٰذا جب خدا کی محبت اپنے کمال پر ہو گی تو انسان شریعت کی پابندی یا نیک عملی کی زندگی کو کسی مجبوری سے اختیار نہیں کرے گا بلکہ ایک ایسی خواہش سے اختیار کرے گا جسے روکنا اس کے بس کی بات نہ ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان اپنی عقل کو مطمئن کرنا چاہتا ہے اگر وہ اس کے اعتراضات کا ایسا جواب مہیا کرنا چاہتا ہے جو اس کے لئے مکمل طور پر کافی اور شافی ہو۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ دین اور شریعت کے راستوں پر مجبوری سے نہیں بلکہ پورے ذوق و شوق سے گامزن رہے اور نہیں چاہتا کہ مختلف نظریات اور تصورات کے درمیان بھٹکتا پھرے تو اسے اپنے دل کو خدا کی محبت اور معرفت کے نور (تجلی) سے منور کرنا چاہئے ورنہ اس کی روح ا سکے فاسد خیالات کی دو لتیوں کی مار کھا کھا کر مردہ ہو جائے گی۔ دلوں میں خدا کے نور کا جلوہ فرد اور قوم دونوں کے لئے پیغام حیات ہے اور ہماری فطرت کا ایک زبردست تقاضا یہ ہے کہ ہم اس نور کو اپنے دلوں کے اندر بسائیں۔ بے تجلی مرد دانار رہ نہ برد از لکد کوب خیال خویش مرد بے تجلی زندگی رنجوری است عقل مہجوری و دین مجبوری است ٭٭٭ نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا ٭٭٭ ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے ٭٭٭ بے تجلی نیست آدم را ثبات جلوہ ما فرد و ملت را حیات ٭٭٭ تجلی سے یہاں اقبال کی مراد خدا کی معرفت یا خدا کی محبت کا نور ہے۔ ٭٭٭ خودی اور مشاہدہ قدرت خودی کی ایک اہم ضرورت مشاہدہ قدرت ہے خودی خدا کی محبت کے جذبہ کی مکمل تشفی چاہتی ہے جو اظہار محبت سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا خودی اپنے جذبہ محبت کی کامل تشفی کے لئے اظہار محبت کے تمام ممکن ذرائع کو کام میں لاتی ہے۔ ان میں سے ایک ذریعہ مظاہر قدرت کے اندر خدا کی صفات کے حسن و جمال کا مشاہدہ اور مطالعہ ہے۔ خدا مخفی ہونے کے باوجود کائنات میں آشکار ہے وہ زندگی ہے وجود ہے اور وجود کا خاصہ آشکارائی ہے۔ لہٰذا خدا نے اپنی صفات کو اپنی تخلیق میں پوری طرح سے آشکار کر رکھا ہے۔ گفتہ موجود آنکہ مے خواہد نمود، آشکارائی تقاضائے وجود، کائنات کی حقیقت سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی صفات کے حسن کی جلوہ گا ہے یوں سمجھنا چاہئے کہ کائنات گویا ہے ہی نہیں۔ فقط خدا ہی خدا ہے جس کا حسن کائنات کی صورت میں بے حجاب ہو گیا ہے۔ یا ہم ہیں جو اس حسن کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ گفت آدم! گفت از اسرار اوست گفت عالم! گفت او خود روبروست ٭٭٭ بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر جہان ناپید داد پیداست بنگر ٭٭٭ در و دیوار و شہر و کاخ و کو نیست کہ ایں جا ہیچ کس جز ما داد نیست ٭٭٭ زمین و آسماں و چار سو نیست دریں عالم بجز اللہ ہو نیست کائنات کا یہ مادی پیکر خودی عالم کی ہستی اور قدرت اور قوت کے نشانات میں سے ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز جو ہم دیکھتے ہیں اپنے وجود کے لئے خودی عالم کی صفات کی پر اسرار تخلیقی کارروائی کی مرہون منت ہے۔ پیکر ہستی و آثار خودیست ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست لہٰذا خودی کو خدا کے حسن کے مشاہدہ سے لذت اندوز ہو کر اپنے جذبہ محبت کی تشفی کرنے کے لئے کسی وقت کا سامنا نہیں ہو سکتا۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم قدت کے آئینہ پر نگاہ ڈال کر خدا کے حسن کا جلوہ مفت میں دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن حسن حقیقی کے اس نظارہ کے لئے شرط یہ ہے کہ ہمارا فطری ذوق حسن یا خدا کی محبت کا جذبہ مردہ نہ ہو چکا ہو اور ہماری نگاہ سلامت رہے۔ اندھیری رات میں یہ چشمگیں ستاروں کی یہ بحر یہ فلک نیلگوں کی پہنائی، سفر عروس قمر کا عماری شب میں طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی، نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی، ٭٭٭ صبح و ستار و شفق و ماہ و آفتاب بے پردہ جلوۂ ہائے نگاہ مے توان خرید فطرت کے مطالعہ سے خدا کی جو معرفت حاصل ہو سکتی ہے وہ کتابوں کے مطالعہ سے نہیں ہو سکتی۔ چمن کا ہر آتشیں رنگ گل لالہ انسان کے دل میں اپنی کشش پیدا کر کے انسانی خودی کی اس مخفی حقیقت کو آشکار کر رہا ہے کہ وہ سراپا آرزوئے حسن ہے۔ کھلا جب چمن میں کتب خانہ گل نہ کام آیا ملا کو علم کتابی، کہا لالہ آتشیں پیرہن نے، کہ اسرار جان کی ہوں میں بے حجابی قدرت کا حسن خدا کے حسن کا آئینہ ہے قدرت کا حسن خدا کا آئینہ ہے۔ جس میں خدا کا جمال منعکس ہوتا ہے اورقدرت کے حسن کا آئینہ جس میں قدرت کا حسن منعکس ہوتا ہے انسان کا دل ہے لیکن اچھے شاعر کا اچھا کلام انسان کے دل کا آئینہ ہے جس میں انسان کی آرزوئے حسن کا عکس نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جو کچھ سوچتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے حسن کی جستجو کے لئے کرتا ہے۔ حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن دل انسان کو ترا حسن کلام آئینہ، حسن خداوندی نے اپنے ارد گرد فطرت کا حجاب بنا ہوا ہے لیکن یہ حجاب اتنا باریک ہے کہ اس میں سے ان فرشتوں کے تبسم ہائے پنہاں جو اس حجاب کو بنتے ہوئے اس بات پر ایک رکی ہوئی ہنسی سے ہنس رہے ہیں کہ یہ حجاب ہے بھی اور نہیں بھی، آشکار نظر آتے ہیں۔ یہ کائنات انسان کو حق تعالیٰ کے دیدار کی دعوت دے رہی ہے اور یہ عجیب بات نہیں اس لئے کہ ہر حسین جس کا حسن چھپا ہوا ہو اپنے حسن کو بے حجاب کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ خدا کے حسن کو آشکار ہونا ہی تھا۔ کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہائی یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی خودی کی تربیت اور ترقی کا ذریعہ خودی کے جذبہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خدا کے حسن کا مشاہدہ کرے اور اس مشاہدے سے اطمینان اور سرور حاصل کرے تاکہ اپنے جذبہ محبت کو اور تیز کرے اور حسن کی نامعلوم گہرائیوں اور وسعتوں سے پوری طرح آشنا اور پوری طرح سے لذت اندوز ہو۔ فطرت کا حسن خودی کی اس کوشش کو آسان بناتا ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، زمین اور آسمان، سمندر، جھیلیں، بادل، ندیاں، ہوائیں، سحر کانور، شام کی شفق، باغ و راغ، رات اور دن کا تغیر، موسموں کا انقلاب، حیوانات اور نباتات کی زندگی اپنی تمام رنگا رنگی اور ثروت اور شوکت کے سمیت مختصراً قدرت کے تمام مظاہر جو قدرت کے مسلسل عمل تخلیق اور تربیت اور تعمیر اور ترتیب اور تنظیم اور تجویز اور تحفظ اور تحسن اور تجمیل اور تزئین کے آئینہ دار ہیں خالق کائنات کے حسن و کمال کا عکس ایسی ہی وضاحت اور صفائی سے پیش کرتے ہیں جیسے کہ کسی پاکمال فنکار کا شاہکاراس کے ذہنی، جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی کمالات کا عکس پیش کرتا ہے اور خودی جس قدر کارخانہ قدرت پر خدا کی صفات کے مظہر کے طور پر غور و فکر کرتی ہے۔ جس قدر مظاہر قدرت کی باریکیوں میں جاتی ہے۔ اور ان کے عوامل اور اسباب کا ان کی تفصیلات اور جزئیات کا اور ان کے نتائج اور حاصلات کا جائزہ لیتی ہے۔ اسی قدر زیادہ وہ خدا کی صفات کے حسن سے آشنا ہوتی ہے اور اس قدر زیادہ اپنی آرزوئے حسن کی تشفی پا کر مسرت اور اطمینان حاصل کرتی ہے اور اسی قدر خدا کی محبت کو اس کے درجہ کمال کے قریب لاتی ہے اور اسی قدر اپنی تربیت اور ترقی کا اہتمام کرتی ہے۔ قدرت گویا انسان کو خدا کی معرفت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تختی کا کام دیتی ہے۔ کوہ و صحرا دشت و دریا بحر و بر تختہ تعلیم ارباب نظر، قرآن حکیم میں مشاہدہ حسن کی اس شکل کو تفکر فی الخلق کہا گیا ہے اور مومن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے مظاہر قدرت پر غور و فکر کرے اقبال شاید قرآن حکیم کے اسی ارشاد کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ مومن قدرت کے مشاہدہ اور مطالعہ میں غرق رہتا ہے۔ علم ترساں از جلال کائنات عشق غرق اندر جمال کائنات مشاہدہ قدرت سے اقبال کا شغف جہاں موقعہ ملتا ہے اقبال خود مزے لے لے کر مظاہر قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں خدا کے حسن کو بے حجاب دیکھتا ہے۔ جو بڑی بے پرواہی کے ساتھ دشت و راغ میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔ پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح اور اس موتی کو چمکاتی ہے سورج کی کرن حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لئے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن مومن کے دل کی آنکھ کائنات کے مشاہدہ سے روشن ہوتی ہے کیونکہ وہ کائنات میں جو فقط خدا کی صفات کی مظہر ہے۔ خدا کی قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ چشم او روشن شود از کائنات تابہ بیز ذات را اندر صفات قدرت کا حسن قلب و نظر کی زندگی ہے کیونکہ وہ حسن ازل کی نمود ہے اور اس میں خود حقیقت وجود بے پردہ نظر آتی ہے۔ قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں، حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے بے پردہ وجود دل کے لئے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلسان ہمیں زندگی کا راستہ اندھوں کی طرح سر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے ارد گرد کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اپنی معرفت کے نور کو چمکانا چاہئے اور قرآن حکیم کا ارشاد بھی جو ہمیں انظر کہہ کر خطاب کرتا ہے یہی ہے۔ تو کہ مقصود خطاب انظری پس چرا ایں را چوں کوراں میری خدا نے ہمیں آنکھیں اس لئے دی ہیں کہ ہم ان کے نور سے قدرت کا مشاہدہ کریں اور اس مشاہدہ کے ذریعہ سے خالق قدرت کی محبت (نگاہ) پیدا کریں۔ بیا با شاہد فطرت نظر باز چرا ور گوشہ خلوت نشینی ترا حق داد چشمے پاک بینے، کہ از نورش نگاہے آفرینی، کائنات کے حسن کا احساس کائنات کا حسن ہمارے جذبہ حسن کا راہنما ہے۔ اسے اکساتا اور تیز کرتا ہے۔ اگر کائنات میں حسن نہ ہوتا تو ہماری خودی کی آرزوئے حسن نہ بیدار ہوتی نہ اپنے مقصود کو پا سکتی۔ حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست لیکن اس کے برعکس یہ بھی درست ہے کہ اگر ہمارے دل میں حسن کی آرزو نہ ہوتی تو کائنات کا حسن حسن نہ ہوتا کیونکہ ہمارے پاس کوئی معیار ہی نہ ہوتا۔ جس پر پرکھ کر ہم اسے حسن قرار دے سکتے پھر نہ ہم کائنات کے حسن کی ستائش کر سکتے نہ اس کے مشاہدہ اور مطالعہ سے اس کے خالق کا کوئی تصور قائم کر سکتے۔ حقیقت کا سارا علم ہمارے اندر ہے ہم سے باہر نہیں۔ قدرت کا مشاہدہ فقط اسے بیدار کرتا ہے اور ا سکی حفاظت کرتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ خدا کا عرفان اپنا عرفان ہے اور خدا پر ایمان لانا اپنے آپ پر ایمان لانا ہے اگر قدرت حسن فروش ہے تو خودی خریدار حسن ہے اور ایک کے بغیر دوسرا اپنا مدعا نہیں پا سکتا۔ ایک طرف سے خدا کا حسن کائنات میں پیدا اور ظاہر ہے اور دوسری طرف سے انسان کی آنکھوں میں مخفی اور مستور بھی ہے اگر خدا کا حسن ظہور پائے اور انسان کے دل کی آنکھوں میں مستور نہ ہو یعنی انسان کے دل میں اپنا وہ اثر یا احساس پیدا نہ کر سکے جو وہ انسان کی مخفی آرزوئے حسن کی وجہ سے پیدا کرتا ہے تو اس کا ظہور بھی بے معنی رہے لہٰذا حسن کا اصل مقام انسان کے دل کے اندر ہے اور یہ انسان کا دل ہی ہے جو حسن کامل کا صحیح محک و معیار ہے اور خارجی اشیاء میں سے کوئی شے بھی ایسی نہیں جو مکمل طور پر اس کے معیار کے مطابق ہو۔ حسن را از خود بروں جتن خطاست آنچہ مے بایست پیش ما کجا است اس سے ظاہر ہے کہ تجلی یا معرفت کاملہ کادار ومدار اسی حسن کے کامل احساس پر ہے جو انسان کے دل کے اندر مخفی ہے۔ وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی میری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری ٭٭٭ حکیم و صوفی و عارف تمام مست ظہور، کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری، خارجی کائنات کے مشاہدہ کا کام فقط یہ ہے کہ وہ اس احساس حسن کو بیدار کرتا ہے جو انسان کے دل کے اندر ہے اور مشاہدہ کائنات کا یہ کام نہایت ہی اہم ہے کیونکہ انسان کی معرفت کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔ ہر خودی نظروں سے مخفی رہتی ہے، کائنات کے مشاہدہ اور مطالعہ سے خدا کو جاننا بالکل ایساہی ہے جیسے کہ مثلاً میں اپنے کسی بہترین دوست کو اس کے بیرونی اعمال و افعال کو دیکھ کر جان لوں بیشک خودی عالم ہماری جسمانی یا مادی نظروں سے اوجھل ہے۔ لیکن یوں اوجھل ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے لئے کسی دوسری خودی کی نسبت جسے ہم جانتے ہوں، کم قابل فہم نہیں۔ نظروں سے اوجھل ہونا کائناتی خودی کی خصوصیت نہیں۔ ہر خودی ہماری جسمانی آنکھوں سے جو دراصل مادی اشیاء کو دیکھنے کے لئے بنی ہیں اوجھل ہوتی ہیں اور خودی عالم اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں۔ انسان کا مادی جسم اس کی خودی کا ایک مظہر یا آلہ ہے۔ میں اپنے بہترین دوست کے بارہ میں جو کچھ جانتا ہوں ا سکی وجہ یہ نہیں کہ میں نے اس کی خودی یا شخصیت کو ان آنکھوں سے دیکھا ہے جو ایک نا ممکن بات ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کی شخصیت یا خودی کے بیرونی آثار اور نتائج کو دیکھتا ہوں اور ان کی بنا پر اس حقیقت کا (کوئی معروف معنوں میں منطقی یا علمی یا عقلی یا ریاضیاتی تصور نہیں بلکہ) ایک وجدانی تصور قائم کرتا ہوں یا براہ راست اور بلا واسطہ یہ احساس پیدا کر لیتا ہوں کہ وہ میری طرح کی ایک زندہ شخصیت یا خودی ہے کوئی روبوٹ یا مشین نہیں۔ ہر خودی مخفی بھی ہے اور آشکار بھی واحد بھی ہے اور کثیر بھی گویا میرا دوست میرے لئے ایک پہلو سے مخفی ہے اور دوسرے پہلو سے آشکار ہے وہ ایک ہے تاہم اس لحاظ سے کثیر ہے کہ بہت سے اعمال و افعال میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ میں اس کو جو ایک ہے اور مخفی ہے اس لئے جانتا ہوں کہ وہ آشکار بھی ہے اور کثیر بھی۔ اس طرح سے خدا ایک ہے اور مخفی ہے لیکن کائنات کے اندر اپنے تخلیقی اعمال و افعال کی وجہ سے کثیر بھی ہے اور آشکار بھی۔ اقبال نے اس سارے مضمون کو صرف دو شعروں میں خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ خدا یک ہے اور مخفی ہے اس کے باوجود وہ کائنات کی کثرت میں آشکار ہے اور خدا کا عاشق کائنات کو دیکھ کر خدا کو پہچانتا ہے۔ یہ کائنات اپنی بے اندازہ وسعت کے باوجود عاشق کے دل میں سما جاتی ہے کیونکہ وہ اس کے محبوب کے حسن کا مرقع ہے اگر تو تخلیق عالم کے اسرار کو جاننا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو دیکھ تو ایک بھی ہے اور مخفی بھی ہے۔ لیکن اپنے تخلیقی اعمال و افعال کی کثرت سے جانا جاتا ہے۔ ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پہنائی، اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی اقبال لکھتا ہے: ’’ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قدرت خالص مادیت کا ایک ڈھیر نہیں جو کسی خلا میں پڑا ہوا ہو یہ واقعات کی ایک تعمیر ہے اور کردار کی ایک منظم صورت ہے اور اس لحاظ سے وجود مطلق کے ساتھ ایک عضویاتی تعلق رکھتی ہے۔ قدرت خدا کی شخصیت کے ساتھ وہی تعلق رکھتی ہے جو کریکٹر انسانی شخصیت کے ساتھ رکھتا ہے۔ قرآن کے خوبصورت الفاظ میں یہ اللہ کی عادت ہے۔ انسانی نقطہ نظر سے یہ وجود مطلق کی تخلیق فعلیت کی ایک توجیہہ ہے جو ہم اپنے موجودہ حالات میں اس پر عائد کرتے ہیں۔۔۔ قدرت کا علم خدا کے کردار کا علم ہے۔ جب ہم قدرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دراصل خودی مطلق سے ایک طرح کی واقفیت پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور یہ عبادت ہی کی ایک اور شکل ہے۔‘‘ (صفحہ 57-56 تشکیل الہیات جدید) ٭٭٭ خودی اور سائنس سائنسی تحقیق کا اصل ماخذ مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ تمام سائنسی علوم کی بنیاد ہے۔ مشاہدہ قدرت کے لئے دنیا میں سب سے پہلی موثر آواز جو بلند ہوئی وہ قرآن حکیم کی آواز تھی جس کا ارشاد یہ تھا کہ مظاہر قدرت خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات ہیں۔ کیونکہ ان میں خدا کی صفات جلوہ گر ہیں۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اپنے خالق کو پہچانے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے سائنس دان جنہوں نے سائنسی طریق تحقیق ایجاد کیا تھا اور سائنسی علوم کی بنیاد رکھی تھی۔ مسلمان تھے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ قدرت خدا کی معرفت کے لئے تھا۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ ان کی سائنس کا مدار اور محور تھا۔ علم و حکمت کے میدان میں قدیم اہل یونان کے کمالات مسلم ہیں لیکن یونانی حکماء مشاہدہ قدرت کو نظر انداز کر کے اپنا سارا زور فقط خیالات اور تصورات پر صرف کرتے تھے۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سائنسی طریق تحقیق کے موجود بن سکتے۔ اس سلسلہ میں اقبال لکھتا ہے: ’’ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ تجرباتی طریق تحقیق یورپ کی ایجاد ہے۔۔۔۔ یورپ نے اس بات کا اعتراف کرنے میں بڑی دیر کی ہے کہ اس کے ہاں کے مروج سائنسی طریق تحقیق کا اصل ماخذ اسلام ہے۔ تاہم اس بات کا مکمل اعتراف ہو کر رہا ہے۔‘‘ اس کے بعد اقبال برفال (Briffoult) کی کتاب ’’ تعمیر انسانیت‘‘ (The Making of Humanity) سے کچھ عبارتیں اس بات کے ثبوت میں نقل کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یونانی فلسفہ کے اثر سے مسلمان عرصہ دراز تک روح قرآن سے غافل رہے۔ لیکن بالاخر انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کی۔ اقبال لکھتا ہے: ’’ سقراط کے صحیح شاگرد کی حیثیت سے افلاطون حسی تجربات سے جو اس کے خیال میں سچے علم کی طرف نہیں بلکہ فقط کسی رائے کی طرف راہنمائی کرتے تھے، نفرت کرتا تھا۔ کسی قدر مختلف ہے۔ یہ نقطہ نظر قرآن سے جو سننے اور دیکھنے کی قوتوں کو خدا کے نہایت ہی قیمتی انعامات سمجھتا ہے اور ان کو اس دنیا میں اپنی اپنی کارکردگی کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ قرار دیتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے قرآن کا مطالعہ کرنے والے مسلمانوں نے یونانی فلسفہ کے اثر کی وجہ سے شروع میں بالکل نہیں سمجھا۔ وہ قرآن کو یونانی فکر کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ انہیں یہ حقیقت سمجھنے کے لئے (اور وہ بھی پوری وضاحت سے نہیں) کہ قرآن کی روح دراصل یونانی فلسفہ سے متعارض ہے، دو سو سال سے بھی اوپر لگ گئے اور پھر اس حقیقت سے روشناس ہونے کا نتیجہ ایک قسم کی ذہنی اور علمی بغاوت میں رونما ہوا جس کی پوری اہمیت آج تک نہیں سمجھی گئی۔‘‘ ’’ لیکن قلبی واردات انسانی علم کا فقط ایک ذریعہ ہے قرآن کے نقطہ نظر سے علم کے دواور ذرائع بھی ہیں یعنی قدرت اور تاریخ (آگے چل کر اقبال تاریخ کو بھی قدرت میں شمار کر لیتے ہیں کیونکہ تاریخی واقعات بھی انسانی دنیا میں قدرت کے مظاہر ہیں۔ مصنف) اور جب قرآن علم کے ان سرچشموں سے کام لیتا ہے تو اس کی حقیقی روح پوری شان و شوکت سے بے نقاب ہوتی ہے۔ قرآن سورج اور چاند میں، سایوں کے دراز ہونے میں، رات اور دن کے تغیرات میں، انسان کے الوان اور السنہ کے اختلافات میں، دولت مندی اور مفلسی کے ایام کی گردش میں، غرضیکہ قدرت کے ان تمام مظاہر میں جو انسان کے حواس کے روبرو جلوہ افروز ہیں۔ حقیقت مطلقہ کے نشانات کا مشاہدہ کرتا ہے اور مسلمان کا یہ فرض ہے کہ ان نشانات پر غور و فکر کرے اور ان سے اس طرح سے نہ گزر جائے کہ گویا وہ بہرا اور اندھا ہے کیونکہ جو شخص اس دنیا میں ان چیزوں کو نہیں دیکھتا وہ اگلی زندگی کے حقائق کی طرف سے بھی اندھا رہے گا۔ مطالعہ قدرت کی یہ دعوت اس حقیقت کے تدریجی انکشافات کے ساتھ مل کر کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق کائنات اپنی اصل کے اعتبار سے متحرک اور محدود اور ترقی پذیر ہے۔ آخر کار یونانی فلسفہ کے ساتھ (جس کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے دور کی ابتدائی منزلوں میں نہایت ذوق و شوق سے کیا تھا) مسلمان مفکرین کے تصادم کے باعث ہوئی۔ یہ نہ جاننے کی وجہ سے کہ قرآن کی روح دراصل فلسفہ یونان سے متصادم ہوتی ہے اور یونانی فلسفہ پر اعتماد کرنے کی وجہ سے ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ وہ فلسفہ یونان کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں۔ روح قرآن کی حقائق پسندی کے پیش نظر اور یونانی فلسفہ کی خیال پرستی کی وجہ سے جو تصورات سے شغف رکھتا تھااور حقائق کو نظر انداز کرتا تھا۔ اس قسم کی کوشش کا نتیجہ ناکامی کے سوائے اور کیا ہو سکتا تھا۔ اس ناکامی کے بعد جو کچھ ہوا وہی ہے جس نے اسلامی تہذیب کی حقیقی روح کو آشکار کیا اور تہذیب حاضر کے بعض نہایت اہم عناصر کی بنیاد قائم کی۔‘‘ مسلمان سائنس کے موجد اس لئے بنے تھے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم کا یہ ارشاد تھا کہ خدا کی معرفت کے لئے قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ ان کی سائنس کا مرکزی یا بنیادی تصور تھا۔ عیسائیت کا نقطہ نظر جب اندلسی مسلمانوں کے سیاسی حالات نے پلٹا کھایا اور وہ اندلس سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو سائنس یورپ کے ان لوگوں کے ہاتھ آئی جو۔۔۔۔ جدید عیسائیت کے پیروکار تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے نادانی سے فرض کر لیا تھا کہ دین او ردنیا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک پاک اور مقدس اور دوسری ناپاک اور غیر مقدس۔ لہٰذا انہوں نے سمجھا کہ کائنات کے مشاہداتی علم کو جسے سائنس کہا جاتا ہے، خدا سے کوئی تعلق نہیں۔ سائنس اور سائنس دانوں سے کلیسا کی گہری اور آشکار دشمنی نے اس فرضی عقیدہ کے لئے مزید ثبوت بہم پہنچایا اور کلیسا اور ریاست کے افتراق نے جو دونوں کے شدید اور طویل جھگڑوں کے بعد ایک اٹل حقیقت کے طور پر رونما ہوا تھا۔ اس عقیدہ کو مزید تقویت پہنچائی اور اس کے لئے راستہ صاف کیا۔ لہٰذا اس عقیدہ نے جامہ عمل پہنا اور سائنس سے خدا کا نام خارج کر دیا گیا یہ کلیت وجود میں تفریق پیدا کرنے اور حقیقت کائنات کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی ایک نا معقول اور افسوسناک جسارت تھی جس کے پیچھے کوئی عقلی، علمی یا سائنسی دلیل یا شہادت موجود نہ تھی۔ تاہم سائنس کی بے خدائیت کا عقیدہ جو اس طرح عیسائیت کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ عیسائی مغرب کی دنیا میں جڑ پکڑ گیا۔ ظاہر بات ہے کہ سائنس میں اس عقیدہ کے جاگزیں ہونے کے بعد کوئی ایسے سائنسی نظریات پیدا نہ ہو سکتے تھے جو اس سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ لہٰذا ایسے سائنسی نظریات وجود میں آنے لگے۔ جو دراصل اسی کی پیداوار تھے لیکن جن کو آسانی سے اس کا ثبوت سمجھا جا سکتا تھا۔ ایسے سائنسی نظریات میں ہم انیسویں صدی کی طبقاتی مادیت اور میکانیت اور ڈارون کے مادی اور میکانکی نظریہ ارتقا کو شمار کر سکتے ہیں جنہوں نے اس خیال کو بظاہر ایک سائنسی حقیقت کا درجہ دیا کہ قدرت میں کوئی تخلیق یا راہ نما قوت کار فرما نہیں اور خدا کا عقیدہ مظاہر قدرت کی تشریح کے لئے غیر ضروری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ لوگ رفتہ رفتہ بھول گئے کہ سائنس کی بے خدائیت در حقیقت ایک مذہبی عقیدہ ہے جس کو عیسائیت نے جنم دیا تھا اور یہ سمجھنے لگے کہ یہ خود سائنس ہی کی ایک ضرورت ہے۔ اب بھی عیسائی مغرب کے سائنس دان یہ کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ اپنی سائنس کو ہر حالت میں اس راستہ سے بچائیں جو خدا کے عقیدہ کی طرف جاتا ہے۔ اور خواہ کچھ ہو جائے اس کو سختی کے ساتھ اس چار دیواری میں بند رکھیں۔ جو سائنس کی بے خدائیت کی نامعقول عقیدہ نے اس کے ارد گرد بنا رکھی ہے۔ مظاہر قدرت آیات اللہ ہیں ان کی روشن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے خدا اور مذہب کے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ایسے حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں جو قدرت میں کسی ذہنی یا تخلیقیق وت کے عمل کا ثبوت بہم پہنچاتے ہوں۔ خواہ وہ ثبوت کیسا ہی بین اور آشکار کیوں نہ ہو مثلاً وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ قدرت میں وہ سب چیزیں موجود ہیں جو کسی ذہن کی تخلیقی کارروائی کا پتہ دیتی ہیں مثلاً ترتیب، تنظیم، تجویز، تعمیر، تکمیل، وحدت، یکسانیت، تسلسل، مقصدیت، تطابق، توافق، ریاضیاتی فکر، زندہ حیوانات کی خود کارانہ نشوونما جو ان کو برتر اور بلند تر مدارج حیات کی طرف خود بے خود لے جاتی ہے۔ اگر یہ اوصاف قدرت کے اندر موجود نہ ہوتے تو قدرت میں کسی چیز کا وجود ہی نہ ہوتا اور طبیعیاتی اور حیاتیاتی علوم ممکن نہ ہوتے۔ اس کے باوجود مغرب کے سائنس دان ان کے وجود سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور ان کی کوئی تشریح کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ بعض وقت ان میں سے بعض حقائق کی تشریح کے لئے سخت مجبور ہو جائیں تو پھر بھی ان کی تشریح کے لئے خدا کے تصور کو کسی حالت میں بھی استعمال نہیں کرتے بلکہ کچھ من گھڑت فرضی مابعد الطبیعیاتی تصورات کو کام میں لاتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے کچھ حقائق کی تشریح کے لیے جیمز جینز کسی ریاضیاتی ذہن کو فرض کرتا ہے۔ برگساں کسی قوت حیات کا نام لیتا ہے۔ اور ڈویش کسی عالمی اسکیم یا انٹی لیچی کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام فرضی ہونے کے علاوہ ناکافی اور نا تسلی بخش ہیں۔ مثلاً کیا یہ ممکن ہے کہ کائنات میں کوئی اعلیٰ درجہ کا ریاضیاتی ذہن تو کار فرما ہو لیکن اس میں شخصیت کے اور اوصاف جو جذبات اور اخلاق سے تعلق رکھتے ہوں موجود نہ ہوں یا قدرت میں کوئی ایسی قوت اجسام حیوانات کی تخلیق اور تکمیل کے کاموں میں مصروف ہو جو سوچتی سمجھتی ہو۔ اپنے مقاصد سے آگاہ ہو اور ان کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتی ہو۔ لیکن ایک کامل شخصیت نہ ہو۔ ہمارا تجربہ اس قسم کے ادھورے تصورات کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاضیاتی فکر یا مقصدیت کے اوصاف جس وجود میں پائے جاتے ہوں وہ شخصیت کے باقی ماندہ جذباتی اور اخلاقی اوصاف سے بے بہرہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا معقولیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ قدرت میں جو ریاضیاتی ذہن یا قوت حیات کار فرما ہے وہ خودی عالم یا خدا ہی ہے لیکن سائنس کی بے خدائیت کا غیر عقلی عقیدہ مغرب کے سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے سے مانع ہے۔ علم کی نیام بے شمشیر سائنس کی بے خدائیت پر اقبال بڑے افسوس کا اظہار کرتا ہے اور پر درد الفاظ میں کہتا ہے: عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی اس شعر میں اور اس قسم کے دوسرے اشعار میں علم سے اقبال کی مراد سائنس ہے اور دوسرا کوئی علم نہیں۔ چنانچہ وہ خود اپنے ایک خط میں لکھتا ہے: ’’ علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دار و مدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے۔ جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو شیطنت ہے یہ علم۔ علم حق کی ابتداء ہے۔‘‘ اقبال کے اس شعر سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عشق الٰہی کی تیغ جگر دار سائنس کی نیام کے اندر اپنی جگہ پر موجود تھی اور بعد میں یہ افسوسناک حادثہ پیش آیا کہ کسی نے اس تلوار کو جو دنیا بھر کے تمام باطل تصورات اور نظریات کاٹ کر رکھ سکتی تھی اس نیام سے اڑا لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ نیام اب تک خالی پڑی ہے۔ یہ تیغ جگر دار کیسے اڑ گئی اور کس نے اڑائی؟ اقبال اس سوال کا جواب اپنے اشارہ کو بلیغ اور موثر بنانے کے لئے سننے والوں پر چھوڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں اقبال سائنس کی بے خدائیت کے اس تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس کی تشریح اوپر کی گئی ہے۔ اس تیغ جگر دار کو اڑانے کی ساری ذمہ داری مغرب کی کوتاہ اندیشی اور مسلمان سائنس دانوں کی کورانہ تقلید پر عائد ہوتی ہے۔ علم حق کا پہلا مرحلہ اگرچہ بے خدا سائنس الفاظ میں نہیں کہتی کہ خدا موجود نہیں۔ لیکن انسان اور کائنات کے متعلق اس کا نکتہ نگاہ اور اس کا طریق فکر و عمل ایسا ہے کہ گویا خدا موجود نہیں۔ وہ تمام طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا ان کا کوئی خالق نہیں اور اگر ہے تو ان کے ساتھ اب اس کا کوئی تعلق نہیں اور اس کی صفات کا کوئی نشان ان کے اندر موجود نہیں۔ اس طرح سے مغربی سائنس اس ایک ہی دروازہ کو بند کر دیتی ہے۔ جس کی راہ سے خدا کی معرفت کا نور سب سے پہلے حضرت انسان تک پہنچتا ہے۔ اقبال کا یہ خیال قرآن حکیم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے کہ خدا کی معرفت اور محبت کو بیدار کرنے کا پہلا ذریعہ انسان کے حواس ہیں جن کی مدد سے وہ مظاہر قدرت میں خدا کی صفات کا مشاہدہ کرتا جو قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بغیر ہم خالق، رب، رحیم، کریم، عادل، حفیظ، علیم، سمیع اور بصیر، مومن، مہیمن ایسے الفاظ کے معنی نہیں سمجھ سکتے جو اوصاف باری تعالیٰ کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کو سمجھنے کے بغیر خدا کی معرفت یا محبت یا اطاعت یا عبادت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سے قرآن حکیم کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان لانے کے لئے مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرے۔ حواس کے بعد خدا کی معرفت کا دوسرا ذریعہ ذکر ہے جس کی مدد سے ہر انسان قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بغیر اور مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر بھی خدا کی صفات پر غور و فکر کر سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ قدرت کے مشاہدہ سے ان الفاظ کے معنی سمجھ چکا ہوتا ہے جو خدا کی صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ اس ذکر کی کثرت سے خدا کے حضور یا قرب کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس قلب کی ایک کیفیت ہے جو عشق یا محبت سے تعلق رکھتی ہے اور شعور اور ادراک سے بالا ہے اقبال نے اس مطلب کو ایک شعر میں ادا کیا ہے۔ علم حق اول حواس آخر حضور آخر اوے نگنجد در شعور ایک اور جگہ اقبال ذکر اور فکر کی حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے۔ یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسما مقام ذکر کمالات رومی و عطار مقام فکر مقالات بو علی سیناء مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکان مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ علم بے عشق کے خطرناک نتائج بے خدا سائنس خدا کا انکار کرنے کے بغیر خدا کو نظر انداز کرتی ہے وہ دوسرے انسانوں کو بھی اس طرح سے سوچنے اور کام کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ گویا خدا موجود نہیں اور یہ نقطہ نظر خدا کے انکار سے بدتر ہے۔ بے خدا سائنس نے ہی اس نامعقول اور بے بنیاد عقیدہ کو رواج دیا ہے کہ معیاری فلسفہ وہی ہے جس میں خدا ایک حقیقت کے طور پر مذکور نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بے خدا سائنس کے اس زمانہ میں کائنات کے جس قدر فلسفے پیدا ہوئے ہیں مثلاً ڈارونزم، مارکسزم، میکڈوگلزم، فرائڈزم، ایڈلرازم، بی ہیویرازم، لاجیکل پازیٹوزم، ہیومنزم وغیرہ۔ وہ سب بے خدا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بے خدا سائنس کے اس زمانہ میں انسانی فطرت اور انسانی افعال و اعمال کے جس قدر نظریات وجود میں آئے ہیں۔ وہ بھی سب کے سب بے خدا ہیں۔ مثلاً بے خدا فلسفہ سیاست، بے خدا فلسفہ اخلاق، بے اخدا اقتصادیات، بے خدا قانون، بے خدا فلسفہ تعلیم، بے خدا فلسفہ تاریخ، بے خدا نفسیات فرد، اور بے خدا نفسیات جماعت، لہٰذا سائنس کا بے خدا ہونا کوئی معمولی سا، معصوم سا اور بے ضرر سا حادثہ نہیں۔ جو صرف کتابوں میں ہی رونما ہوا ہو۔ اس نے انسان کی کتابوں کو ہی نہیں بدلا۔ بلکہ اس کے مقصدوں، قدروں، منصوبوں، امیدوں، آرزوؤں اور حق و باطل خوب و زشت اور نیک و بد کے پیمانوں اور معیاروں کو بدل کر اس کے اعمال و افعال کو بھی بدل ڈالا ہے۔ انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ جو کچھ سوچتا ہے وہی کرتا ہے۔ اگر اس کے افکار و آراء اور تصورات اور نظریات بے خدا ہوں تو پھر اس کے اعمال و افعال کا بے خدا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا سائنس کا بے خدا ہو جانا عالم انسان کا بہت بڑا حادثہ ہے جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے۔ اسی کی وجہ سے اب دنیا میں کوئی ایسی ہمہ گیر اخلاقی اور روحانی قوت باقی نہیں رہی جو اندر سے انسانی اعمال کو ضبط میں لا کر صحیح راستہ پر ڈال سکے۔ یہی حقیقت ہے جو دور حاضر کے انسان کی تمام بد قسمتیوں اور پریشانیوں کا موجب ہے۔ مثلاً آزاد جنسیت کی وجہ سے اہلی زندگی کا بگاڑ، طفولیتی بے راہ روی، علم اور استاد کے احترام کا زوال اور علمی درسگاہوں کے ضبط و نظم کا فقدان، اقتصادی خوشحالی کے باوجود اطمینان قلب سے محرومی، ذہنی بیماریوں، خود کشیوں اور جرموں کی روز افزوں تعداد، سیاست دانوں کے جھوٹ اور فریب، سیاسی سازشیں اور ان سے پیدا ہونے والے سیاسی قتل اور سیاسی انقلابات، قومی اور بین الاقوامی معیار اخلاق کی پستی، میزائلوں اور ایٹم بموں کے چڑھتے ہوئے انبار، عالمگیر جنگوں کا ایک سلسلہ جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اگر سائنس باخدا ہو جائے تو یہ سب مقاصد اور مصائب ختم ہو جائیں اور آسمان کے نیچے ایک ارضی جنت وجود میں آ جائے۔ سائنس اور عشق کی گفتگو اقبال نے اس مضمون کو سائنس اور عشق کی ایک گفتگو کی صورت میں بیان کیا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ میری نگاہ پوری کائنات کی راز دار ہے اور زمانہ میری کمند میں گرفتار ہے۔ میری آنکھیں اس مادی کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ مجھے آسمان سے اس طرف کی دنیا یعنی عالم مابعد الطبیعیات سے کوئی سروکار نہیں ۔ میرے ساز سے سینکڑوں نغمے بلند ہوتے ہیں اور میں اپنے دریافت کئے ہوئے راز ہائے سربستہ کو سر بازار لے آتی ہوں تاکہ ہر شخص ان کو پرکھ سکے اور ان سے مستفید ہو سکے۔ نگاہم راز دار ہفت و چار است گرفتار کمندم روزگار است جہاں بینم بایں سز باز کردند مرابا آنسوئے گردوں چہ کار است چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم ببا زار افگنم رازے کہ دارم عشق جواب دیتا ہے کہ تمہاری افسوں گری سے سمندر شعلہ زار بنے ہوئے ہیں (مراد بحری جہازوں کی گولہ باری سے ہے) ہوا آگ برساتی ہے (مراد ہوئی جہازوں کی بم باری سے ہے) اور زہر آلود ہے (زہریلی گیس کی طرف اشارہ ہے) جب تک میرے ساتھ تیری دوستی تھی تو ایک ونر تھی۔ مجھ سے الگ ہونے کی دیر تھی کہ تیرا نور آگ بن گیا تو روحانیت کے خلوت خانہ میں پیدا ہوئی تھی (مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے تجھے خدا کی معرفت کی جستجو میں ایجاد کیا تھا) لیکن تو شیطان کے جال میں پھنس گئی (یعنی خداکے تصور کو ترک کرنے اور باطل تصورات حقیقت کو اپنانے کی وجہ سے) آ ہم دونوں مل کر اس خاکی کائنات کو گلستان بنائیں آسمان کے نیچے ایک ایسا بہشت بنائیں جو ہمیشہ قائم رہے۔ آ میرے درد دل سے ایک ذرہ لے لے (یعنی خدا کے عقیدہ کو قبول کر لے) اور اس جہان پیر کو پھر جوان بنا دے۔ ہم روز ازل سے ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اور ایک ہی نغمہ (یعنی خدا کی محبت کے نغمہ) کے زیرو بم ہیں۔ زا فسوں تو دریا شعلہ زار است ہوا آتش گذار و زہر دارست جو با من یار بودی نور بودی، بریدی از من و نور تو ناراست خلوت خانہ لاہوت زادی و لیکن درنخ شیطان فتادی بیا ایں خاکدان را گلستان ساز، تہ گردوں بہشت جادواں ساز زروز آفریش ہمدم استیم ہماں یک نغمہ را زیرو بم استیم جب انسان کے تمام اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا جو کام بھی خدا کی محبت کی تسکین اور تشفی کے لئے نہ ہو گا محض بے سود ہو گا۔ سائنس اگر خدا سے بے تعلق ہو گی تو وہ بیکار خیالات کا تماشہ خانہ ہو گی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ علم کو از عشق برخوردار نیست جز تماشہ خانہ افکار نیست بلکہ ایسی سائنس چونکہ سچے تصور حقیقت سے کٹ جاتی ہے وہ لازماً کسی جھوٹے تصور حقیقت پر مبنی ہو جاتی ہے۔ اس سے شیطانی قوتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور انسان کے اصلی مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ علم بے عشق از طاغوتیاں علم با عشق از لاہوتیاں خدا ہستی غائب نہیں ایک نظم میں اقبال کہتا ہے کہ فلسفہ مغرب کے قائلین کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی جستجو کرنا نادانی ہے اور ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ خدا ہستی غائب ہے اور جدید سائنسی علوم کی بنیاد ان حقائق پر ہے۔ جو محسوس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی حواس خمسہ کے ذریعہ سے معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا خدا کو ماننا علم اور عقل کی کوئی بات نہیں۔ اس زمانہ میں محض عقائد کو کوئی علمی حیثیت حاصل نہیں۔ مذہب ایک جنون ہے جس سے آدمی کے تخیل پر ناحق ایک لرزہ سا طاری رہتا ہے۔ لیکن اگر ہم فلسفہ زندگی پر غور کریں تو کچھ اور ہی قسم کے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب کے فلسفیوں کا یہ خیال درست نہیں کہ خدا ہستی غائب ہے اور خدا کو جاننے کا پہلا ذریعہ حواس خمسہ کے سوائے کوئی اور بھی ہے۔ خدا کو جاننے کا بنیادی ذریعہ حواس خمسہ ہی ہیں۔ کیونکہ خدا کی ہستی اور اس کی صفات مظاہر قدرت میں آشکار ہیں اور مظاہر قدر ت کا علم حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ اقبال نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ وہ علم جس کا دارومدار حواس پر ہے۔ ’’علم حق کی ابتداء ہے۔‘‘ علم حق اول حواس آخر حضور چونکہ خدا کی صفات محسوس کائنات میں آشکار ہیں لہٰذا خدا محسوس کائنات سے الگ نہیں اور خدا کا علم بھی محسوس کائنات ہی کا علم ہے۔ یہ بات کہ خد اہماری جسمانی آنکھوں سے مخفی ہے۔ اس صداقت میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتی۔ بعض وقت ہم کسی چیز کی ہستی کو اس کے محسوس آثار اور نتائج سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور پھر اس چیز کا علم بھی ایسا ہی معتبر اور یقینی ہوتا ہے جیسا کہ کسی اور محسوس چیز کا علم مثلاً ہم دور سے دھواں دیکھیں تو اس سے آگ کی موجودگی کا یقین کرتے ہیں حالانکہ آگ ہمیں نظر نہیں آتی۔ اسی طرح سے ہم اپنے کسی دوست کی شخصیت یا خودی کو اس کے آثار و نتائج سے جو اس کے اعمال، افعال اور اقوال کی صورت اختیار کرتے ہیں اچھی طرح سے جان لیتے ہیں حالانکہ اس کی شخصیت یا خودی سے بھی ہیروشیما کے دھماکہ کے بعد ہی دیکھا ہے اس کے باوجود اس دھماکہ کے وقت سائنس دانوں کو اس کے محسوس آثار و نتائج کی بنا پر اس کا پورا علم تھا۔ جو یہاں تک یقینی اور موثر تھا کہ اس کی مدد سے ہیروشیما ایسے ایک بڑے شہر کو لمحہ بھر میں تباہ کر دیا گیا۔ ایٹم کی طرح ہم خدا کو بھی اس کے آثار و نتائج یا اعمال و افعال کے ذریعہ سے جو مظاہر قدرت کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اوپر کی مثالوں میں اگر اپنے آثار و نتائج کے ذریعہ سے جانی ہوئی چیزوں یعنی آگ اور دوست کی شخصیت اور ایٹم میں سے کوئی چیز بھی کسی شخص کے نزدیک ہستی غائب یا مافوق الفطرت ( Super-Natural) نہیں تو خدا بھی ہستی غائب یا مافوق الفطرت نہیں۔ تمام طبیعاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت میں جو چیز ہمیں واضح طور پر نظر آتی ہے وہ نظم یا آرڈر (Order) کی موجودگی ہے جو سانس دان کو کشش کرتا ہے اور جسے سائنس دان اپنے مشاہدات اور تجربات کے ذریعہ سے دریافت کر کے ضبط تحریر میں لاتا ہے جہاں نظم دریافت نہ ہو سکے۔ وہاں سائنس کی تحقیق ناکام رہتی ہے اور رک جاتی ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نظم ایک جوہر میں، ایک سالمہ میں، ایک قلم یا کرسٹل میں، ایک نظام شمسی میں، برف کے ایک گالہ میں، ایک خلیہ میں، ایک جسم حیوانی میں اور ایک انسانی شخصیت میں موجود ہے۔ اور پھر جہاں تک ہمیں علم ہے یہ نظم جب سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ آج تک ہر زمانہ میں اور جہاں تک کائنات پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ہر جگہ ایک ہی رہتا ہے اور اس کی یکسانیت کبھی او رکہیں نہیں ٹوٹتی۔ اب یہ بات بالکل ظاہر ہے اور اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ کہ نظم ہمیشہ کسی ذہن کی کارفرمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم گندم کے کچھ دانے ایک فٹ پاتھ پر بکھرے ہوئے دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اتفاقاً گر گئے ہوں گے لیکن اگر وہی دانے ایک باقاعدہ ہشت پہلو ریاضیاتی شکل میں آراستہ ہوں تو ہم سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکیں گے کہ کسی زندہ باشعور ہستی نے ان کو یہ شکل دی ہے۔ طبیعاتی مظاہر قدرت کے اندر جو نظم پایا جاتا ہے وہ اس قدر جچا تلا ہے کہ ہم اسے ریاضیاتی اصطلاحات یا ریاضیاتی اصولوں میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایک بلند عمارت کی چھت سے نیچے گرائی ہوئی چھوٹی سی کنکری کی بڑھتی ہوئی رفتار یا حرارت سے پھیلنے والی لوہے کی ایک سلاخ کی بڑھتی ہوئی طوالت بھی ریاضیاتی قوانین کی پابند ہے۔ جو کائنات میں اس وقت بھی جاری تھے جب اس میں انسان جوان قوانین کو سمجھنے کی ذہنی استعداد رکھ سکتا ہے۔ موجود نہیں تھا۔ا گرچہ نظم خود ایک مقصد کا مظہر ہوتا ہے۔ تاہم جب ہم طبیعیاتی مظاہر قدرت سے ذرا اوپر آ کر حیاتیاتی مظاہر قدرت پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ہر چھوٹے یا بڑے جاندار کے جسمانی نظم کے اندر کسی مقصد کی کارفرمائی براہ راست نظر آتی ہے۔ حالانکہ کسی جاندار نے اپنے آپ کو خود نہیں بنایا اور نہ وہ مقصد جو اس کے جسمانہ کارخانہ کے کونے کونے میں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے، اس کا اپنا مقصد ہوتا ہے۔ لہٰذا جدید سائنسی علوم مظاہر قدرت کے اندر نظم اور مقصد کی جستجو اور دریافت کی کٹھن منزلیں طے کر کے یہ سوال بار بار پیدا کرتے رہتے ہیں کہ جب نظم اور مقصد ذہن کی کارفرمائی کے بغیر ممکن نہیں تو پھر یہ کس کا ذہن ہے جو قدرت کے ذرہ ذرہ میں کار فرما ہے۔ اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ اس کا ذہن ہے جس نے قدرت کے ذرہ ذرہ کو پیدا کیا ہے اور جسے خالق کائنات یا خدا کہا جاتا ہے۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ جدید سائنسی علوم کا ایک قدرتی جزو اور جزو لانیفک ہے۔ اگر مغرب کے علماء نے علوم جدیدہ سے خدا کے عقیدہ کو الگ کر دیا ہے۔ تو ایسا کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی علمی اور عقلی وجہ جواز موجود نہیں اور نہ ان کا ایسا کرنا اس کا ثبوت بن سکتا ہے کہ خدا ایک علمی تصور نہیں یا ہمیں خدا کو ایک غیر محسوس ہستی سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہئے۔ خدا کی ہستی ہستی غائب یا ماورائے علم ہستی نہیں بلکہ وہ ہستی ہے جس کی شہادت خود علوم جدیدہ بہم پہنچا رہے ہیں۔ اگر خدا غائب ہے تو ان معنوں میں کہ آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات ہماری جسمانی آنکھوں سے مخفی ہے۔ لیکن ان معنوں میں دنیا کی ہر وہ چیز بھی جسے ہم ان آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، غائب ہے۔ کیونکہ ہم دنیا کی کسی چیز کو بھی جسے ہم مرئی کہتے ہیں پوری طرح سے نہیں جان سکتے۔ ان ہی معنوں میں قرآن حکیم نے خدا کو ظاہر بھی کہا ہے اور باطن بھی۔ قرآن کی آیت لیومنون بالغیب میں لفظ غیب میں خدا کو شامل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا ہم سے کلیتاً مخفی ہے۔ بلکہ فقط یہ ہے کہ ظاہر اور آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات ہماری آنکھوں سے نہاں ہے۔ خدا مظاہر قدرت میں اپنی صفات کی آشکارائی کی وجہ سے آشکار ہے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ مظاہر قدرت خدا کی آیات یا خدا کے نشانات ہیں۔ اور خدا کو جاننے کے لئے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ کچھ مظاہر قدرت کا ذکر کرنے کے بعد قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔ ذالکم اللہ ربکم فانی توفکون (یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار۔ تم کہاں بھٹکتے پھر رہے ہو) یہ اشارہ صرف ایک ایسی ہستی کی طرف ہی کیا جا سکتا ہے جو صاف طور پر سامنے نظر آ رہی ہو۔ اسلام میں مشاہدہ و مطالعہ قدرت ایمان باللہ کے لئے ضروری ہے۔ مغرب کی موجودہ عیسائیت میں مشاہدہ و مطالعہ قدرت ایمان باللہ کے منافی یا کم از کم اس سے بے تعلق ہے۔ لہٰذا جس طرح سے فلسفہ مغرب میں نامشہور (Unseen) اور فوق الفطرت (Super Natural) کے الفاظ خدا کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اسلام میں جو فلسفہ زندگی ہے استعمال نہیں کئے جا سکتے اگر فلسفہ مغرب کے قائلین نے علوم جدیدہ سے خدا کے عقیدہ کو الگ کر دیا ہے تو ہمارے لئے ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور پھر خودی کی فطرت اس بات کی گواہ ہے کہ انسان آرزوئے حسن کے سوائے اور کچھ نہیں اور انسان کی یہ آرزوئے حسن خدا کے سوائے اور کسی نصب العین سے مطمئن نہیں ہوتی۔ اگر خدا کی جستجو کو نادانی سمجھا جائے تو انسان اپنی اس ایک ہی آرزو کی تشفی کیسے کرے گا۔ جس پر اس کی پوری فطرت مشتمل ہے۔ انسان کو عقل ہی کی نہیں بلکہ جنون یعنی خدا کی محبت کی بھی ضرورت ہے۔ اگر وہ عقل کل ہو جائے تو پھر بھی خدا کی محبت کے جنون سے بے نیاز اور بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ سچے خدا سے بے نیاز ہو گا تو اسے زندہ رہنے کے لئے کسی جھوٹے اور ناحقدار خدا کی محبت اور اطاعت کا پھندا اپنے گلے میں ڈالنا پڑے گا۔ لہٰذا اقبال فلسفہ مغرب کے قائلین پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے: تعلیم پیر فلسفہ مغربی ہے یہ، نادان ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش مذہب ہے جس کا نام، وہ ہے اک جنون خام ہے جس سے آدمی کے تخیل کو ارتعاش کہتا ہے مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش باہر کمال اند کے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدہ رای بے جنوں مباش سائنس محبت کی خانہ زاد ہے اوپر ہم نے دیکھا ہے کہ اقبال کا خیال یہ ہے کہ نصب العین کی محبت انسان کے تمام اعمال کو پیدا کرتی ہے اور ان کو اپنی غرض کے لئے کام میں لاتی ہے۔ ہمارا نصب العین ہی ہمارے لئے درست و نا درست صحیح اور غلط، نیک او ربد اور زشت و زیبا میں فرق پیدا کرتا ہے۔ مشاہدہ قدرت اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا عمل جس سے سائنس کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ خواہ ہمارا نصب العین صحیح ہو یا غلط، کامل ہو یا ناقص ہر حالت میں ہمارے مشاہدات کے نتائج ہمارے نصب العین کی روشنی میں ہی مرتب ہوتے ہیں اور اس کے تائیدی اور تشریحی حقائق کے طور پر بر وقت ضرورت کام آنے کے لئے ہمارے پاس محفوظ رہتے ہیں اگر ہمارا نصب العین غلط اور ناقص ہو گا تو ہمیں قدرت ایک خاص رنگ میں دکھائی دے گی۔ جو ا س نصب العین کا رنگ ہو گا اور ہمارے سائنسی مشاہدات اور سائنسی نتائج ایک خاص نقطہ نظر کے حامل ہوں گے جو اس نصب العین کے مطابق ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس حالت میں ہم قدرت کے مشاہدہ سے صحیح نتائج اخذ نہ کر سکیں گے اور وہ اسی نسبت سے غلط ہوں گے جس نسبت سے ہمارا نصب العین غلط ہو گا اور ہمارا نصب العین صحیح ہو گا تو ہم قدرت کا مشاہدہ اس حقیقت کی روشنی میں کریں گے کہ قدرت خدا کی تخلیق اور خدا کے حسن کا مظہر ہے۔ پھر قدرت بھی اور طرح سے نظر آئے گی اور اس کے مشاہدہ سے ہمارے نتائج بھی اور طرح سے مرتب ہوں گے۔ کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی اگر سائنس خدا کے تصور پر قائم ہو تو جوں جوں وہ ترقی کرتی ہے اپنے غلط نتائج کو خود بخود درست کرتی چلی جاتی ہے۔ بے خدا سائنس میں یہ خاصیت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حقیقت الحقائق یعنی خدا کے تصور کی روشنی اور راہ نمائی سے محروم ہوتی ہے۔ وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم وہ علم بے بصری جس میں ہمکنار نہیں تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم خد اکے عقیدہ کی روشنی میں کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے سے جو سائنس تعمیر ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف اغلاط سے پاک ہوتی ہے اور علم رنگ و بود کی صحیح تشریح اور تفسیر ہوتی ہے۔ بلکہ وہ ہمارے ذوق حسن (دیدہ) کی پرورش اور ہماری محبت (دل) کی تربیت کرتی ہے یہاں تک کہ ہمیں جذب و شوق یعنی معرفت حق تعالیٰ کی انتہائی منزلوں تک پہنچا دیتی ہے اور خود جبرائیل کی طرح خدا کا راز دار بنا دیتی ہے۔ علم تفسیر جہان رنگ و بو دیدہ و دل پرورش گیر دازو بر مقام جذب و شوق آرد ترا باز جوں جبریلؑ بگذارد ترا اقبال کے اس خط کے مطابق جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے لفظ’’ علم‘‘ سے یہاں اقبال کی مراد پھر سائنس ہے۔ اقبال نے سائنسی تحقیق و تعلیم پر بڑا زور دیا ہے اور اس کی وجہ سے اس کا یہ خیال ہے کہ سائنس کے ذریعہ سے مسلمان نظام عالم کی قوتوں کو مسخر کرنے کے لئے جدوجہد کر کے اپنی ممکنات کو آشکار کر سکتا ہے اور اپنی قوتوں کی توسیع کرسکتا ہے اور ہر لحاظ سے طاقتو رہو کر اپنے مقصد زندگی یعنی کلمہ توحید کی نشر و اشاعت کو زیادہ آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ یہ کائنات پیدا ہی اس لئے کی گئی ہے کہ مومن کی خودی اس کی تسخیر کر کے ترقی پائے اور اپنے کمال کو پہنچے۔ ماسوا از بہر تسخیر است و بس سینہ او عمرضہ تیراست و بس از کن حق ماسوا شد آشکار تا شود پیکان تو سنداں گداز ٭٭٭ خیزد دا کن دیدہ مخمورا دون مخوان ایں عالم مجبور را غامتیش توسیع ذات مسلم است امتحان ممکنات مسلم است جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن تو کہ مقصود خطاب انظری پس چرا ایں راہ چوں کوران بری چوں صبا بر صورت گلہا متن، غوطہ اندر معنی گلزار زن، آنکہ بر اشیا کمندا مذاخت است مرکب از برق و حرارت ساخت است علم اسما اعتبار آدم است حکمت اشیا حصار آدم است مظاہر قدرت کے علم کی اہمیت یہ جہان رنگ و بو کوئی راز نہیں بلکہ اس کی آفرینش کی غرض و غایت آشکار ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اسے مسخر کر کے خدا کے ایک سپاہی یا خادم کی حیثیت سے اپنی قوتوں میں اضافہ کرے اور خدا کی صفات حسن و کمال کو آشکار کرے۔ گویا کائنات ایک ساز ہے جس سے ایک دلکش نغمہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے تاروں کو جنبش دینے والا مرد مومن ہو۔ ذرا مرد مومن اس کے تاروں کو ہلا کر تو دیکھے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ جہاں رنگ و بو پیدا تو مے گوئی کہ راز است ایں یکے خود را بتارش زن کہ تو مضراب و ساز است ایں قرآن حکیم نے مظاہر قدرت کو آیات اللہ یا خدا کے نشانات اس لئے قرار دیا ہے کہ ان میں خدا کی صفات کا جلوہ اور اس کی قدرتوں اور حکمتوں کا نور روشن ہے۔ لہٰذا اشیاء کے خواص و اوصاف یا سائنسی حقائق خدا کے اسرار میں سے ہیں۔ ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنھار لایت لا ولی الالباب (بے شک آسمانوں اور زمین کے اندر جو کچھ پیدا کیا گیا ہے اور رات اور دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں) لہٰذا جو شخص خدا کی آیت کا مشاہدہ اور مطالعہ خدا کی آیات سمجھ کر کرتا ہے وہ مومن ہے۔ سائنس کی بنیاد ہی خدا کا یہ حکم ہے کہ نظام فطرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ قرآن میں ہے۔ انظروا ما ذا فی السموات والارض (جو کچھ زمین اور آسمان میں پیدا کیا گیا ہے اسے دیکھو) اقبال لکھتا ہے: ہر چہ مے بینی ز انوار حق است حکمت اشیا از اسرار حق است ہر کہ آیات خدا بیند حراست اصل ایں حکمت ز حکم انظر است بندہ مومن پر حکمت اشیاء یا سائنس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی حالت دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بہتر ہو جاتی ہے اور خدا کی محبت اور معرفت کے ترقی پا جانے سے دوسرے انسانوں کے لئے اس کی محبت اور ہمدردی اور دلسوزی بڑھ جاتی ہے۔ جب خدا کی تخلیق کا علم اس کے آب و گل کو روشن کرتا ہے تو اس کا دل خدا سے اور زیادہ ڈرنے لگتا ہے۔ بندہ مومن ازو بہروز تر ہم بہ حال دیگراں دل سوز تر، علم چوں روشن کند آب و گلشن از خدا شرمندہ تر گردو دلس ظاہر ہے کہ ایسی سائنس ہماری خاک کے لئے کیمیا کا حکم رکھتی ہے کہ اس کو کندن بنا دیتی ہے لیکن خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے سے جو سائنس تعمیر ہوتی ہے چونکہ وہ خوب و زشت کے صحیح معیار سے عاری ہوتی ہے اور ظلم اور انصاف کے درمیان فرق نہیں کر سکتی۔ اس کی تاثیر دہریت پرستی، مادیت پرستی، قومی خود غرضی، کمزور اقوام پر ظلم اور سفاکی اور ان کو غلام بنانے اور لوٹنے کی کوشش بد اخلاقی اور بے حیائی، بین الاقوامی مناقشات اور ہولناک عالمگیر لڑائیوں اور ان کے دوران میں ہیروشیما اور ناگاساکی ایسے پر امن شہروں کی تباہی کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم مغرب میں بے خدا سائنس کی اس تاثیر کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ افرنگیوں کی سائنس ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے نوع انسانی کی ہلاکت کے در پے ہے۔ یورپ کا گرا ہوا قانون اخلاق اور اس کی بے خدا سائنس افسوسناک ہیں۔ عقل جب خدا کی محبت کے تابع رہے تو ایک بلند پایہ روحانی فعلیت ہوتی ہے اور جب خدا کی محبت سے آزاد ہو جائے تو شطنیت بن جاتی ہے۔ مسلمان جو روح اور جسم کی ضرورتوں میں امتیاز کر سکتا ہے اس کا فرض ہے کہ مغرب کی اس بے خدا تہذیب کے طلسم کو توڑ ڈالے۔ علم اشیاء خاک ما را کیمیا است آہ در افرنگ تاثیرش جداست عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت چشم او بے نم دل او سنگ و خشت دانش افرنگیاں تیغے بدوش، در ہلاک نوع انسان سخت کوش، آہ از افرنگ و از آئین او! آہ از اندیشہ لا دین او! اے کہ جان را باز مے وانی ز تن سحر ایں تہذیب لا دینی شکن عقل اندر حکم دل یزدانی است چوں زول آزاد شد شیطانی است اہل مغرب نے مادی علوم میں یہاں تک ترقی کی ہے کہ اب وہ ماہ و پروین پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور وہ وقت بھی آ پہنچا ہے جب انسان چاند کی سطح پر نازل ہو گیا ہے لیکن جب تک انسان کی یہ ترقی یافتہ عقل خد اکی محبت کے ولولہ کے ساتھ شریک کار نہیں بنتی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ عقل جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار شریک شوزش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں صحرا نشینوں کی دانہ کاری سائنس فرنگیوں کے گھر پیدا نہیں ہوئی اس کیا صل کائنات کے متعلق نئے نئے حقائق کو دریافت کرنے کا ذوق ہے جوہر انسان کی فطرت میں ہے۔ جو شخص بھی مشاہدہ اور مطالعہ قدرت سے اس ذوق کی تشفی کا اہتمام کرے گا وہی سائنس دان بن جائے گا خواہ وہ مغرب کا رہنے والا ہو یا مشرق کا۔ اور پھر تاریخ کے حقائق بتا رہے ہیں کہ سائنس تو ایجاد ہی مسلمانوں کی ہے۔ جن کے ذوق دریافت کو قرآن نے معرفت حق تعالیٰ کے ایک ذریعہ کے طور پر اکسایا اور یہ کہہ کر اس کی راہ نمائی کی کہ اس کے نتیجہ کے طور پر تمہیں خدا کا عرفان حاصل ہو گا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم پھر اپنی ایجاد کے ساتھ شغف پیدا کریں لیکن اس کو خدا کے عقیدہ سے الگ رکھنے کا جرم کر کے مغرب کی لادینی تہذیب کے فروغ کا سبب نہ بنیں کیونکہ یہی لادینی تہذیب ہے جس نے مسلمانوں کے لئے بحیثیت مسلمان کے زندہ رہنا محال کر دیا ہے۔ اس نے کئی فتنے پیدا کئے ہیں اور مسلمانوں کو خدا سے بیگانہ کر کے پھر نیشنل ازم، عرب ازم، کمیونزم اور ایسے ہی دوسرے نو تراشیدہ بتوں کی پرستش پر مائل کر دیا ہے۔ گویا حرم کعبہ میں پھر لات اور عزی کو لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اس تہذیب کی بے خدا سائنس نے دلوں کی آنکھوں سے نور زائل کر دیا ہے۔ اور روحوں کو خدا کی محبت کے آب حیات سے محروم کر کے تشنگی سے مار ڈالا ہے۔ اس نے دلوں سے خدا کی محبت کا سوز ہی رخصت نہیں کیا۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ خود دلوں کو ہی جن میں خدا اور انسان کی محبت رہتی ہے۔ پیکران گل سے غائب کر دیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ دور حاضر کا انسان محض حیوانات کی سطح پر آ گیا ہے اور نیک و بد اور زشت و زیبا میں فرق نہیں کر سکتا۔ حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصل او جز لذت ایجاد نیست چوں عرب اندر اروپا پر کشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آن صحرا نشیناں کاشتند حاصلش افرنگیاں برداشتند ایں پری از شیشہ اسلاف ماست باز صیدش کن کہ اواز قاف ماست لیکن از تہذیب لادینی گریز، زانہ او با اہل حق و ارد ستیز فتنہ ہا ایں فتنہ پرداز آورد، لات و عزی در حرم باز آورد از فسونش دیدہ دل نا بصیر روح از بے آبیے او تشنہ میر لذت بے تابی از دل مے برد بلکہ دل از پیکر گل مے برد، مقصود مکتب اس دور میں مسلمانوں نے بھی اپنی تاریخ اور روایات اور قرآن کے ارشادات کو فراموش کر کے عیسائی مغرب کی کورانہ تقلید میں مغرب کی بے خدا سائنس کو جسے اقبال ’’ اندیشہ لادین‘‘ کہتا ہے اپنا لیا ہے اس وقت تمام عالم اسلامی میں مسلمانوں کے مدرسے اور کالج اور یونیورسٹیاں بے خدا سائنس کی درس و تدریس میں مصروف ہیں۔جس کی وجہ سے پورے عالم اسلامی میں نوجوان تعلیم یافتہ افراد اسلام سے دور اور دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال اس صورت حال پر بار بار اظہار افسوس کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں مدرسہ اور کالج میں خدا کا عقیدہ پھر اپنے مقام پر واپس لانا چاہئے۔ تعلیم کا تو مدعا ہی یہ تھا کہ خودی کو اپنی زندگی کے ایک ہی مقصد کی تکمیل کے لئے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور یہ مقصد علم اور عمل کے ذریعہ سے خدا کی محبت کے جذبہ کی آزادانہ نشوونما اور تسکین اور تشفی ہے۔ اقبال کو افسوس ہے کہ مکتب کو اپنے مقصود کا ہی علم نہیں۔ جبھی تو وہ خدا کی محبت (جذب اندروں) کی پرورش کا راستہ اختیار نہیں کرتا۔ مکتب از مقصود خویش آگاہ نیست نا بجذب اندردنش راہ نیست خدا کی محبت کی شراب (مے یقین) ہی زندگی میں سوز یا گرمئی عمل پیدا کر سکتی ہے۔ خدا کرے کہ توحید کاعقیدہ نظام تعلیم کی بنیاد بنے تاکہ یہ گرمی پیدا کرنے والا آگ کی طرح کا پانی مدرسہ کو بھی نصیب ہو۔ مے یقین سے ضمیر حیات ہے پر سوز نصیب مدرسہ یا رب یہ آب آتشناک دور حاضر کے مکتب کا بے خدا نظام تعلیم طالب علم کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ عمر بھر خدا کا نام لے سکے۔ یہ ایسا ہی جیسے کہ کسی کا گلا گھونٹ دیا جائے کہ پھر اس سے لا الہ الا اللہ کی صدا نہ نکل سکے۔ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ مغربی نظام تعلیم جو اب مشرق میں بھی رائج ہے۔ اس اصول پر مبنی ہے کہ طالب علم کو کسی عقیدہ کی تعلیم نہیں دینی چاہئے تاکہ اس کی عقل آزاد رہے اور اس میں خود ہر بات پر غور و فکر کر کے اسے رد یا قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ اگر استاد کی طرف سے اس پر کوئی عقیدہ ٹھونسا گیا تو پھر اس کی سوچ بچار ایک تنگ دائرہ کے اندر مقید ہو جائے گی لیکن اس اصول پر عمل کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ طالب علم کی عقل تو آزاد ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ اس کے خیالات کا کوئی مرکز یا محور نہیں بنتا وہ بغیر کسی ضبط یا نظم کے رہ جاتے ہیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ طالب علم کے اندر اس عقیدہ کو پیدا کیا جاتا اور پختہ کیا جاتا جو اس کی فطرت کے عین مطابق ہے اور جس کے لئے اس کی فطرت پیاسی ہے۔ یعنی خدا کا عقیدہ ایسی حالت میں اس کے ذہن پر کوئی خارجی اور مصنوعی دباؤ نہ پڑتا بلکہ وہ اپنی فطری آزادی کو حاصل کر لیتا اور اس کو غلام بنانے والے یا اس کی فطرت سے ہٹانے والے تمام تصورات خارج از بحث ہو جانے اور اس کے ساتھ ہی اس کے خیالات ک اندر ایک ربط یا نظم بھی پیدا ہو جاتا۔ کیونکہ پھر یہ عقیدہ اس کے تمام خیالات کا مرکز یا مدار بن جاتا اور وہ ان کو اپنے اس عقیدہ کو روشنی میں دیکھ سکتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں ایسے نظام تعلیم کے پیدا کئے ہوئے تعلیم یافتہ افراد کے دلوں میں خدا کی محبت مردہ ہوتی ہے اور اگر مشرق میں ایسے نظام تعلیم کے باوجود خدا کی محبت پھر بھی زندہ رہتی ہے تو مکتب کی راہ نمائی نہ ہونے کی وجہ سے مکتب جو خیالات اور افکار طالب علم کے ذہن میں پیدا کرتا وہ خدا کے عقیدہ کے ساتھ ملحق نہیں ہوتے اور ان میں کوئی فطری ربط نہیں ہوتا اور وہ مغرب کے گوناگوں غیر فطری عقائد کے تصرف میں آ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں عقل مغرب کی غلامی کی وجہ سے غلط طریق پر کام کرتی ہے اور غلط سمت میں سوچتی ہے۔ مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر، چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطے افکار سے مشرق میں غلام اگرچہ خدا کا عقیدہ انسان کی فطرت ہے۔ تاہم یہ مشت خاک انسان اس طرح سے بنا ہے کہ اگر اس کی مناسب قسم کی تعلیم و تربیت نہ ہو تو وہ اپنی فطرت کو سمجھنے میں ٹھوکریں کھاتاہے اورغلط اور ناقص تصورات کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ اگر ہمارا خیال یہ ہو کہ اگر ہم طالب علم کو آزاد رہنے دیں تواس کے دل میں خدا کی محبت خود بخود پیدا ہو جائے گی اس لئے کہ یہ اس کی فطرت ہے تو یہ خیال درست نہیں۔ خدا کے عشق کی آتش ہمہ سوز خودی کی مناسب پرورش اور تربیت کے بغیر روشن نہیں ہوتی۔ صوفیا کا قول ہے کہ خدا کی محبت ایک آگ ہے جو ماسویٰ اللہ کو جلا دیتی ہے۔ خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز خدا کے عقیدہ کو کالج کے سائنسی علوم سے نکال دینا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص اپنا گھر روشن دیکھنا چاہتا ہو لیکن ایک بڑی سی دیوار بنا کر سورج کی روشنی کو مسدود کر دے۔ پروفیسر ایک عمارت گیر ہے اور جو عمارت وہ تعمیر کر رہا ہے وہ روح انسانی ہے، حکیم قا آنی نے ایک عمدہ بات کہی ہے۔ جو پروفیسر کو مدنظر رکھنی چاہئے کہ اگر اپنے گھر کے صحن کو روشن رکھنا چاہتے تو صحیح عمارت گری یہ ہے کہ سورج کے سامنے دیوار کھڑی نہ کرو۔ شیخ مکتب ہے اک عمارت گر جس کی صنعت ہے روح انسانی نکتہ دلپذیر تیرے لئے کہہ گیا ہے حکیم قا آنی، پیش خورشید برمکش دیوار خواہی از صحن خانہ نورانی متاع دین و دانش کازیاں پھر بھی ہم یہ تمنا رکھتے ہیں کہ ہماری نئی نسلیں صحیح طور پر مسلمان ہوں۔ گویا ہم بے خدا سائنس کے روح فرسا نتائج اور اثرات سے بالکل بے خبر ہیں۔ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بلند ترین کتابوں کے ذریعہ سے یہ بتائیں کہ علم اخلاق، علم سیاست، علم اقتصادیات، علم تعلیم، علم قانون وغیرہ میں خدا کہیں نہ آتا ہے اور نہ آ سکتا ہے اور پھر یہ توقع رکھیں کہ ان نوجوانوں کی اخلاقی، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور قانونی سرگرمیاں باخدا ہوں گی لہٰذا اقبال تنبیہہ کرتا ہے کہ اس بے خدا سائنس کی تعلیم کو بے خطر نہ سمجھو۔ اس سے تمہاری پوری قوم کی روح فنا ہو رہی ہے۔ مشو ایمن ازران علمے کہ خوانی، کہ ازوے روح قومے راتواں کشت ہمارے کالجوں کی بے خدا سائنس کی تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم مغربیت اور جدیدیت کے کافر ادا معشوق کے خونریز غمزوں پر ایسے مرمٹے ہیں کہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اس طرح سے ہم نے دین کی متاع کو ہی نہیں بلکہ دانش (یعنی سچی باخدا سائنس) کی متاع کو بھی لٹا دیا ہے۔ حالانکہ اللہ والوں کی حیثیت سے دین اور دانش کی دونوں نعمتیں ہمارے لئے ہی مخصوص تھیں۔ متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی یہ کس کافر ادا کا غمزہ خونریز ہے ساقی غیروں کی تربیت دی ہوئی اور غیروں کے نظریہ کائنات میں رنگی ہوئی بے خدا سائنس کا پڑھنا اور پڑھانا ایسا ہی ہے جیسے اپنے منہ کو غیروں کے تیار کئے ہوئے غازہ کے استعمال سے خوبصورت بنانے کی کوشش کرنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنی قدر و قیمت کو دوسروں کے شعار کی نقل پر موقوف سمجھتے ہیں یہاں تک کہ ہم اپنے قومی امتیازات کو بالکل کھو چکے ہیں۔ ہماری عقل دوسروں کے خیالات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور خود آزادی سے کچھ نہیں سوچ سکتی۔ ہماری ذہنی اور ثقافتی زندگی کا ہر سانس دوسروں کا محتاج ہو گیا ہے۔ ہماری زبانوں پر ایسی گفتگو ہے جو دوسروں سے مانگی ہوئی ہوتی ہے اور ہمارے دلوں میں ایسی آرزوئیں ہیں جو دوسروں سے مستعار لی ہوئی ہیں۔ اقبال اس صورت حال پر افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے: علم غیر آموفتی اندوختی روئے خویش از غازہ اش افروختی ارجمندی از شعارش مے پری من ندانم تو توئی یا دیگری، عقل تو زنجیری افکار غیر در گلوئے تو نفس از تار غیر بر زبانت گفتگو ہا مستعار در دل تو آرزوہا مستعار تا کجا طوف چراغ محفلے ز آتش خود سوز اگر داری دلے عالم نو کی نقشبندی توحید کا عقیدہ جب مظاہر قدرت کے علم کے ساتھ یعنی سائنس کے طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی حقائق کے ساتھ مل جاتا ہے تو اس کے اندر جاذبیت اور کشش کی ایک ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس کا حملہ ہمارے بدترین دشمنوں کو بھی بے بس کر سکتا ہے یہ قوت ایک ایسا آلہ حرب و ضرب بن جاتی ہے جس کا مقابلہ دور حاضر کے بہترین سامان حرب سے بھی ممکن نہیں ہو سکتا کیونکہ اس قوت کا حملہ دشمنوں کے دلوں کو مسخر کر کے ان کو دوست بنا دیتا ہے اور پھر ان میں مقابلہ کی ہمت ہی باقی نہیں رہتی۔ بلکہ وہ اپنا سارا سامان حرب بخوشی حملہ آوروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ گویا اگر عقیدہ توحید سائنس کے ساتھ مل جائے تو وہ ایک ایسا سامان جنگ بن جاتا ہے جس سے ہم دوسروں کو تیغ و تفنگ کے بغیر مغلوب کر سکتے ہیں۔ ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ سامان بھی ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ سائنس کو عقیدہ توحید کے ساتھ ملحق کر کے ایک پر امن عالمگیر انقلاب پیدا کریں۔ اہل مغرب کے لئے سائنس (زیر کی) زندگی کا سامان ہے۔ اہل مشرق کے لئے خدا کی محبت کائنات کا راز ہے۔ سائنس خدا کی محبت کے ساتھ مل کر حق شناس بن جاتی ہے۔ ورنہ وہ غلطیاں کرتی اور ٹھوکریں کھاتی رہتی ہے۔ دوسری طرف سے دنیا میں خدا کی محبت کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے کا کام یعنی نشر و اشاعت کلمہ توحید جس میں خدا کا سچا عاشق لگا رہتا ہے۔ سائنس کی مدد سے پختہ بنیادوں پر قائم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ جب خدا کی محبت اور سائنس ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں گے تو ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہمت کر کے اٹھے اور سائنس کو خدا کے عقیدہ کے ساتھ بہم کر کے ایک نیا عالمگیر انقلاب پیدا کرے۔ غریباں را زیر کی ساز حیات شرقیاں را عشق رمز کائنات زیر کی از عشق گرد و حق شناس کار عشق از زیر کی محکم اساس عشق چوں بازیر کی ہمبر بود، نقشبند عالم دیگر شود، خیز و نقش عالم دیگر بند عشق را با زیر کی آمیزدہ قرآن حکیم میں کئی آیات ایسی ہیں جن میں اسلام کے آخری عالمگیر غلبہ کی زور دار پیشگوئیاں کی گئی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اگر اسلام کا غلبہ ہونا ہے تو اس کا ذریعہ خود مسلمان قوم ہی بنے گی۔ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی ینیر واما بانفسھم (بیشک خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے حالات کو نہ بدلیں) بے خدا سائنس کی مخالفت یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اب مغرب کا فکر بھی بے خدا سائنس کے خلاف رد عمل کر رہا ہے۔ پٹی رمی سوروکن (Pitirim Sorokin) جو ہارورڈ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کا پروفیسر رہا ہے۔ اپنی کتاب ’’ ہمارے دور کا بحران‘‘ (The Crisis of our Age) میں لکھتا ہے: ’’ مذہب اور سائنس کی موجودہ مناقشت خطرناک ہی نہیں غیر ضروری بھی ہے۔ اگر حقیقت کے صحیح اور مکمل نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر وہ دونوں ایک ہی ہیں اور ایک ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ خدا کی صفات کو عملی دنیا میں بے نقاب کیا جائے تاکہ انسان کی شرافت اور خدا کی عظمت دونوں آشکار ہوں۔‘‘ اسی طرح سے فیلڈ مارشل سمٹس (Field Marshall Smuts) جو فلسفہ کی ایک نہایت ہی عمدہ اور اونچی کتاب ’’ کلیت‘‘ (Holim) کا مصنف ہے، لکھتاہے: ’’ سچائی کی بے لوث جستجو میں اور نظم اور حسن کے مشاہدہ کے ذوق کے اعتبار سے سائنس آرٹ اور مذہب کے بعض اوصاف و خواص سے حصہ لیتی ہے۔ یہ کہنا قرین انصاف ہو گا کہ شاید سائنس دور حاضر کے لئے خدا کی ہستی کا واضح ترین انکشاف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مستقبل میں نوع انسانی جو بڑے بڑے کام انجام دے گی۔ ان میں ایک یہ ہو گا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرہ کو دور کرے گی جو اس وقت ہمارے مستقبل کو در پیش ہے۔‘‘ لیکن حقیقت کا صحیح اور مکمل نظریہ جس کی روشنی میں سوروکن کے خیال میںمذہب اور سائنس ایک نظر آتے ہیں فقط مسلمان قوم کے پاس ہے۔ کیونکہ خدا کا اسلامی تصور خالص اور شرک کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ دنیا میں اسلام کے سوائے کوئی اور مذہب ایسا نہیں جو خدا کے تصور کی پاکیزگی پر اتنا زور دیتا ہو۔ پھر خدا کے اسلامی تصور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مظاہر قدرت جن کا مشاہدہ اور مطالعہ سائنس دان کا کام ہے۔ خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات ہیں اور خدا کی صفات ان کے اندر آشکار ہیں۔ مظاہر قدرت کا علم جسے سائنس کہتے ہیں خدا کے اسلامی تصور سے الگ نہیں ہو سکتا۔ یہ حقائق اس بات پر دلالت کر رہے ہیں کہ خدا اور خدا کے تصور سے پیدا ہونے والی اخلاقی اقدار کو سائنس کے ساتھ ملحق کرنے کا عظیم الشان کام جو فیلڈ مارشل سمٹس کے خیال کے مطابق نوع انسانی آئندہ انجام دینے والی ہے۔ صرف مسلمانوں کے ہاتھ سے ہی انجام پا سکتا ہے۔ نقش ناتمام اگر ہم مسلمانوں کے دینی، علمی، اخلاقی اور سیاسی انحطاط کے اسباب کا تجزیہ کریں تو ان میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بنیادی سبب یہی نکلے گا کہ انہوں نے اپنی تعلیم کے لئے بے خدا سائنس کو اپنا لیا ہے۔ لہٰذا اس سبب کے ازالہ سے ان کا انحطاط زائل ہو سکتا ہے اور قرآن کی پیشگوئیوں کے مطابق ان کے عالمگیر غلبہ کے لئے راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان قوم کا یہ رول مقدر ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں میں سائنسی علوم کی نصابی کتابوں میں خدا اور سائنس کا الحاق کر کے اپنے دینی جذبہ کے احیاء اور عقیدہ توحید کے نشر و اشاعت کا سامان پیدا کریں گے۔ دراصل ہمارے نظریہ حیات کی ممکنات کے اندر ہی اس بات کی شہادت موجود ہے کہ ہم مستقبل کے اس عالمگیر انقلاب کا باعث بنیں گے جس کی تمنا اقبال نے کی ہے۔ تاہم جب تک کہ نوع انسانی سائنس کو خدا کے عقیدہ کے ساتھ ملحق نہیں کرے گی اس وقت تک وہ اپنے کمال کی جانب جو اس کی منزل مقصود ہے قدم نہ اٹھا سکے گی اور نقاش ازل کا نقش یعنی انسان جس کی تکمیل کے لئے اسے یہ ہنگامہ عالم برپا کیا ہے نامکمل رہے گا کیونکہ عقل اور عشق دونوں مل کر ہی انسان کی تکمیل کر سکتے ہیں۔ جب دونوں مل جائیں گے تو نہ عقل بے زمام رہے گی اور نہ عشق اپنے مقام سے محروم رہے گا اور جب تک دونوں الگ الگ رہیں گے اس وقت تک نہ عقل اپنا صحیح راستہ پا سکے گی اور نہ ہی عشق اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے گا۔ عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی ٭٭٭ خودی اور ذکر ذکر۔ خودی کی ایک بنیادی ضرورت خودی حق تعالیٰ کی صفات کے حسن و کمال پر غور و فکر کر کے اپنے جذبہ حسن کو مطمئن کرنے کے لئے مظاہر قدرت کو ہی نہیں بلکہ لغت کو ان الفاظ کو بھی خدا کی صفات کی علامات کے طور پر کام میں لاتی ہے جو خدا کی صفات کے لئے مستعمل ہیں۔ قرآن حکیم نے ان الفاظ کو اسماء حسنیٰ یعنی حسین نام کہا ہے۔ بندہ مومن ان الفاظ کے مفہوم کو ذہن میں رکھ کر زبان اور دل سے بار بار ان کا اعادہ کرتا ہے اور اس عمل کے دوران اپنی توجہ اس حسن و کمال پر مرتکز کرتا ہے۔ جس کا یہ مفہوم آئینہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس طریق سے حسن کے باطنی مشاہدہ اور مطالعہ سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کی ثروت اور گہرائی سے آشنا ہوتاہے۔ جستجوئے حسن کی اس شکل کو ذکریا عبادت کہا جاتا ہے، اگرچہ لفظ عبادت کا مفہوم وسیع ہے اور انسان کی زندگی کے تمام اعمال کو عبادت میں شمار کیا جاتا ہے لیکن محدود معنوں میں عبادت کی اصطلاح ذکر کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بھی برتی جاتی ہے۔ ذکر انسان میں محبت کا سوز بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اس سوز سے وہ شعلہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک ایسے مرد خدا کی ضرورت ہے جس کے دل میں کثرت ذکر سے خدا کی محبت کا شعلہ روشن ہو گیا ہو اور جس کا ذہن فکر کی سرعت میں بجلی سے بھی زیادہ تیز ہو۔ پھر وہ دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے ایک قیامت برپا کر سکتا ہے۔ اے حلقہ درویشان وہ مرد خدا کیسا ہو جس کے گریبان میں ہنگامہ رستا خیز جو ذکر کی گرمی سے شعلہ کی طرح روشن جو فکر کی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز آدھی رات کے بعد سے لے کر صبح تک ذکر میں مشغول ہونا جس کی تحسین قرآن حکیم نے تنجا فی جنوبھم عن المضا کے الفاظ سے کی ہے خودی کے مقصد کے لئے زیادہ مفید اور موثر ہوتا ہے کیونکہ اس وقت خاموشی اور تنہائی اور خدا کی خاص رحمت کے نزول کی وجہ سے خودی ذکر پر اپنی توجہ زیادہ آسانی سے مرکوز کر سکتی ہے۔ جذبہ محبت خودی کو پارہ کی طرح بے قرار رکھتا ہے۔ لیکن ذکر نیم شبی اس کو اس طرح سے قرار اور جمعیت خاطر بخشتا ہے جس طرح چوب عود پارہ کو ساکن کر دیتی ہے۔ بذکر نیم شب جمعیت او چون سیمابے کہ بند و چوب عودش گویا ذکر یا عبادت کوئی لسانی یا صوتی مشق نہیں بلکہ خودی یا روح کی ایک داخلی جدوجہد ہے جو حسن کے احساس سے پیدا ہوتی ہے اور جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حسن کا قریبی مشاہدہ کر کے اس احساس کو او رگہرا کیا جائے۔ یہاں تک کہ انسان کی محبت اپنے کمال کو پہنچے وہی ذکر محبت کی پوری نشوونما کر سکتا ہے جو حسن کے سچے احساس سے پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں بار بار ذکر اور عبادت کے اخلاص پر بڑا زور دیا ہے۔ لالہ گوئی بگو از روئے جان ناز اندام تو آید بوئے جان تو عرب ہو یا عجم ہو ترا الا الہ الا لغت غریب جب تک تیرا دل نہ دے گواہی صدف ایمان کا گوہر چونکہ مخلصانہ ذکر سے رفتہ رفتہ غیر اللہ کی محبت گھٹتی اور اللہ کی محبت بڑھتی جاتی ہے اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن کے لئے بے حیائی اور نافرمانی کا ارتکاب غیر ممکن ہو جاتا ہے اس لئے اسلام نے ذکر کی ایک خاص اقل قلیل صورت جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور عمل سے معین ہوتی ہے اور جسے صلاۃ یا نماز کہا جاتا ہے۔ ہر مسلمان پر لازم قرار دی جاتی ہے۔ نماز وہ گوہر ہے جو ایمان کے صدف میں پرورش پاتا ہے اور اس لحاظ سے مومن کا گویا چھوٹا حج ہے کہ اس میں مومن قلبی اور ذہبی طور پر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے نماز مسلمان کے ہاتھ میں ایک خنجر کی طرح ہے جو بے حیائی، بد اخلاقی اور نافرمانی کا قلع قمع کرتی ہے۔ لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشاء و یخی و منکر است لیکن نماز مومن کے لئے صرف اتنے ہی ذکر کا اہتمام کرتی ہے جو ذکر سے اس کی محبت پیدا کرنے اور مخلصانہ ذکر کی عادت کو راسخ کرنے کے لئے کم از کم درکار ہے۔ اس کے ذریعہ سے مومن کی خودی کو ذکر کی وہ تمام غذا میسر نہیں آتی جو اس کی اشتہائے حسن کو پوری طرح مطمئن کر کے اس کی پوری پوری نشوونما کر سکتی ہو۔ لہٰذا قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ مومن نماز کے بعد بھی کثرت سے خدا کا ذکر کرتا رہے۔ نماز میں بھی احساس حسن (جسے اقبال جذب اندروں کہتا ہے) نہ ہو تو نماز کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا اقبال کا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان میں یہی احساس حسن یا خدا کی مخلصانہ محبت کا جذبہ باقی نہیں رہا آج اگر ہم ان کی نماز کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نہ تو صفیں ذوق و شوق کے ساتھ درست کی ہوئی ہیں۔ نہ دل نماز پر جما ہوا ہے اور نہ ہی سجدہ میں کوئی لذت محسوس کی جا رہی ہے اس لئے کہ دلوں میں خدا کی محبت باقی نہیں رہی۔ صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے ٭٭٭ وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ جاتی تھی اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب سنی نہ مصر و فلسطین میں وہ اذان میں نے دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ سیماب ٭٭٭ تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ ٭٭٭ اقبال کو شکایت ہے کہ خدا کی سچی محبت کی طرف بلانے والے اب نہ مسجدوں میں ہیں نہ خانقاہوں میں اور نہ مدرسوں میں اور اب تنہا وہی ہے جو اس کی طرف سب کو دعوت دے رہا ہے۔ صوفیوں اور معلموں کے کدو خدا کی محبت کی خالص شراب سے خالی ہیں۔ اب اگر یہ شراب ناب کہیں ملتی ہے تو اقبال کے سبو چہ میں۔ میرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانہ میں کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو ٭٭٭ مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے ٭٭٭ جلوتیاں مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیاں میکدہ کم طلب و تہی کدو احساس حسن یا جذب اندرون یا خدا کی محبت ہی ایمان ہے۔ یہی دل کے مسلمان ہونے کی علامت ہے کوئی مسلمان ہو۔ یہ با ت کہنے والا ہو یا سننے والا ہو جب تک اس کا دل مسلمان نہ ہو گا۔ اس وقت تک اس کی نماز بے فائدہ رہے گی۔ آج مسلمان کا دل مسلمان نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی نماز بے نتیجہ ہے۔ میں بھی نمازی تو بھی نمازی دل ہے مسلمان میرا نہ تیرا، جذب مسلمانی اس احساس حسن کو اقبال جذب مسلمانی بھی کہتا ہے کیونکہ یہ مسلمان کا خاص امتیاز ہے اور اسے شرع مسلمانی سے ممیز کرتا ہے۔ شرع مسلمانی تو یہ ہے کہ مسلمان نماز کو اس کے ظاہری آداب کے ساتھ ادا کر دے اور جذب مسلمانی یہ ہے کہ مسلمان جب نماز ادا کرے تو خدا کے حسن و کمال کا سچا احساس یا عشق اس کی نماز کا رفیق ہو۔ یہی احساس حسن یا جذب مسلمانی اقبال کے نزدیک سر کائنات ہے کیونکہ اسی کی خاطر کائنات پیدا کی گئی ہے اور یہی انسان اور کائنات کو معراج کمال پر پہنچانے کا ذریعہ بننے والا ہے۔ یہی مومن کے تمام اعمال و افعال کی قوت محرکہ ہے جس کے بغیر مومن کے لئے صحیح قسم کے عمل کی راہ پیدا نہیں ہوتی۔ یہی وہ چیز ہے جو یقین یا ایمان کی شاخ کو زندہ سبز یا نمناک رکھتی ہے۔ اک شرع مسلمانی اک جذب مسلمانی ہے جذب مسلمانی سر فلک الافلاک بے جذب مسلمانی اے رہرو فرزانہ نے راہ عمل پیدا نے شاخ یقین نمناک شریعت اسی احساس حسن یا عشق یا خدا کی محبت کے اظہار کے معین طریقوں کا نام ہے۔ اگر احساس حسن یا عشق مفقود ہو تو نماز ہی نہیں بلکہ ساری شریعت ایسے تصورات کا ایک مجموعہ بن جاتی ہے جن کا مقصد خدا طلبی یا خدا شناسی نہیں ہوتا بلکہ جو خدا کی بجائے خود مطلوب اور معبود بن جاتے ہیں اور لہٰذا بتوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ عقل و دل نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات اقبال ذکر کو کبھی آہ سحر گاہی کہتا ہے اور کبھی فغاں صبحگاہی او رکبھی آداب سحر خیزی کا نام دیتا ہے۔ جب تک انسان غیر اللہ کی محبت میں گرفتار رہتا ہے وہ اپنی آرزوئے حسن کی مکمل تشفی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ آرزو سوائے خدا کے اور کسی چیز سے مطمئن نہیں ہوتی اس وقت تک نہ تو اس کی شخصیت اپنے کمال کو پاتی ہے اور نہ ہی وہ مکمل طور پر اطمینان قلب سے بہرہ ور ہو سکتا ہے لیکن انسان ذکر کے بغیر خدا کی محبت کا وہ مقام حاصل نہیں کر سکتا جہاں وہ غیر اللہ کی محبت سے بے نیاز ہو جائے۔ نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں خرد کھوئی ہوئی ہے چار سو میں نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی امان شاید ملے اللہ ہو میں ٭٭٭ عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی یہی وجہ ہے کہ اقبال نے خود بھی ذکر نیم شبی کو اپنا شعار بنایا جس کو لندن کے جاڑے کی نہایت سرد ہوا بھی ترک نہ کروا سکی۔ زمستانی ہوا میں گو کہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹا مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی ذکر کے بغیر فکر نہ کامل ہوتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پا سکتا ہے ذکر اور فکر کو ساتھ ساتھ رہنا چاہئے۔ فقر قرآن اختلاط ذکر و فکر فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر خودی کے خواص کا علم ذکر اور نماز اور اسلام کی ایسی ہی دوسری تعلیمات پر اقبال کا ذور جیسا کہ اقبال کو ملا کہنے والے بعض ناقدر دانوں نے سمجھا ہے اس وجہ سے نہیں کہ وہ اسلام کا واعظ یا مبلغ بن کر اسلام کی ان تعلیمات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ فطرت انسانی یا انسانی خودی کے خواص کے جن ناقابل انکار حقائق کو وہ اپنی جستجو سے دریافت کر چکا ہے وہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں اور اقبال نے جس طریق سے ان حقائق کی جستجو کی ہے۔ وہ سائنس دان کے طریق جستجو سے چنداں مختلف نہیں۔ سائنس دان کا کام یہ ہے کہ وہ مشاہدات کے ذریعہ سے ہر چیز کے خواص معلوم کرنا چاہتا ہے لیکن بعض چیزیں دنیا میں ایسی بھی ہیں جو براہ راست کسی کے مشاہدہ میں نہیں آ سکتیں اور صرف ان کے خارجی اثرات ہی مشاہدہ میں آ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی چیزوں کے خواص کا علم سائنس دانوں کو ان کے اثرات کے مشاہدہ اور مطالعہ ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور سائنس دان ان کا علم حاصل کرنے کے لئے بالکل یہی طریقہ اختیار کرتا ہے۔ ان چیزوں میں سے جیسا کہ میں پہلے گذارش کر چکا ہوں ایک ایٹم ہے۔ شاید آج سے دس بارہ سال پہلے ایک امریکی سائنس دان نے الیکٹرانک خورد بین سے ایٹموں کو دیکھا تھا۔ لیکن ایٹم کے خواص کے متعلق جس قدر معلومات اس وقت سائنس دانوں کو حاصل ہیں وہ قریباً سب کی سب ایٹم کو دیکھنے سے پہلے اور اسے دیکھنے کے بغیر اس کے اثرات کے مشاہدہ سے حاصل ہوئی تھیں۔ اسی قسم کی ایک اور چیز انسانی خودی ہے جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ تاہم اس کے اثرات سے اس کے خواص معلوم کر سکتے ہیں۔ خودی کے خواص کا علم انسان کے لئے حد درجہ ضروری ہے کیونکہ خودی ہی انسان کی اصل ہے۔ انسان کے تمام اعمال و افعال جن سے دنیا کے اندر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ خودی کے ہی اعمال و افعال ہیں۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ خودی کیا ہے اور اس کے خواص کیا ہیں۔ اس کے افعال و اعمال کا منبع کیا ہے اور یہ کیا چاہتی ہے اور کیوں چاہتی ہے یہ جاننے کے بغیر ہم انسان کے اعمال و افعال کو ضبط میں نہیں لا سکتے اور نہ حسب منشاء ان سے کام لے سکتے ہیں مثلاً انسان کی باہمی جنگوں اور رقابتوں کو روک نہیں سکتے اور انسانی دنیا میں امن اور صلح اور ترقی اور خوشحالی کی مکمل فضا پیدا نہیں کر سکتے اور یہ نہیں بتا سکتے کہ انسان اپنے سیاسی، قانونی، تعلیمی، اخلاقی، علمی اور فنی، جنگی، سفارتی اور اقتصادی نظامات کو کیسے قائم کرے کہ وہ پائیدار ہوں درست ہوں اور اس کے لئے مفید ہوں اور پریشانیوں کا باعث نہ ہوں۔ اقبال نے خودی کے اثرات کو جو انسانی اعمال و افعال کی صورت میں ہیں سامنے رکھ کر خودی کے خواص کے متعلق کچھ نتائج اخذ کئے ہیں۔ اقبال کا فلسفہ ان ہی نتائج پر مشتمل ہے۔ اقبال سے پہلے بعض اور لوگوں نے بھی خودی کے اثرات سے خودی کے خواص معلوم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبال کے سوائے کسی کے نتائج خودی کے اثرات کی (جو افراد اور اقوام کے ماضی اور حال کی تاریخ کے آئینہ میں آشکار نظر آ رہے ہیں) تسلی بخش تشریح نہیں کر سکتے۔ یہ نتائج نہ تو ان اثرا ت کے ساتھ پوری پوری مطابق ترکھتے ہیں او رنہ ہی آپس میں اور دوسرے علمی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ لہٰذا معقولیت اور یقین افروزی کے درجہ سے گرے ہوئے ہیں۔ اگر اقبال نے خودی کے اثرات کے مشاہدہ سے یہ بات معلوم کی ہے کہ خودی فقط خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اور خودی کے تمام اثرات اور اعمال و افعال خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط اس کے اس جذبہ محبت سے پیدا ہوتے ہیں اور خودی کا جذبہ محبت ذکر و فکر سے تشفی پاتا ہے۔ تو وہ یہ بات کہنے پر مجبور ہے خواہ کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ یہ وعظ نہیں بلکہ مشاہدات کے ناگزیر نتائج کا اظہار ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان نتائج کو صحیح طور پر اخذ کرنے میں اقبال کو اسلامی تعلیمات نے بڑی مدد دی ہے اور نہ ہی اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات سے ان نتائج کی تائید مزید ہوتی ہے اگر کوئی شخص پانی کے خواص کا مشاہدہ کر کے یہ کہے کہ وہ صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر برف بن جاتا ہے تو خواہ وہ شخص جو برف سے نفرت کرتا ہو یا برف کے اخلاف ایلرجک (Allergic) ہو، اس بیان کو ناپسند کرے اس میں پھر بھی کوئی نقص نہیں ہو گا او رکہنے والے کو پھر بھی یہی کہنا چاہئے۔ عبادت کی اہمیت انسان کا وہ عمل جسے خدا کا نام دیا جاتا ہے اور جس کا بڑا عنصر ذکر ہے۔ انسان کے تجربات میں سب سے زیادہ قیمتی اور اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اس کے ذریعہ سے انسان اپنی زندگی کا سب سے بڑی اور سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی آرزو کو اپنا صحیح اور قدرتی اظہار پانے کا موقعہ دیتا ہے اور اس طریق سے اس کی مکمل اور مستقل تشفی کر کے اپنی شخصیت کے ارتقا کو نکتہ کمال پہنچانے کا اہتمام کرتا ہے یہ گویا انسانی خودی کا اپنے مبداء کی طرف عود اور اپنی منزل مقصود کی طرف رجوع ہے۔ یہ دو بچھڑے ہوئے عاشقوں کی ملاقات ہے جو کروڑ ہا برس کے ارتقائی عمل کی صورت اختیار کرنے والی ایک دوسرے کی طویل جستجو کے بعد ان کو میسر آتی ہے۔ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ عبادت ایک فطری عمل ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے سائنس دانوں کی جستجوئے صداقت کا ہی ایک تتمہ ہے۔ ’’ عبادت کا منبع انسان کی فطرت میں ہے۔ فکر کے ذریعہ سے شعور حقیقت کے عمل کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ ذکر کے دوران یہ سست رفتاری سے منکشف ہونے والے عالمگیر اصولوں کی جستجو کی قوت کی حیثیت سے اپنا کام ترک کر دیتاہے اور فکر سے بالا ہو کر براہ راست حقیقت کو اپنی گرفت میں لینا چاہتا ہے۔ تاکہ اس کے کام میں ارادی طور پر شرکت کر سکے۔ اس میں کوئی مخفی یا ناقابل فہم بات نہیں۔ عبادت حصول تجلی کے ایک ذریعہ کے طور پر ایک قدرتی حیاتیاتی فعل ہے جس سے ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اچانک ہی زندگی کی بڑی وحدت میں اپنا مقام دریافت کر لیتا ہے۔۔۔ دراصل عبادت کو قدرت کا مشاہدہ کرنے والے انسان کی جستجوئے علم کا ایک ضروری تتمہ سمجھنا چاہئے۔ قدرت کا سائنسی مشاہدہ حقیقت کے کردار کے ساتھ ہماری گہری وابستگی قائم کرتا ہے اور اس طرح سے اس کے زیادہ گہرے مطالعہ کیلئے ہمارے وجدان کو تیز تر کرتا ہے۔۔۔ سچ بات یہ ہے کہ علم کی ساری جستجو ہی دراصل ایک قسم کی عبادت ہے اور قدرت کا مشاہدہ کرنیوالا سائنسدان ایک قسم کا جویائے حق صوفی ہے جو عبادت کر رہا ہے۔‘‘ اگر مومن در حقیقت سچا مومن ہے تو ذکر اور تسبیح اور عبادت سے جو قوت اسے حاصل ہوتی ہے وہ اسے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر ضائع نہیں کرتابلکہ دنیا کو اپنے محبوب کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے کام میں لاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ دنیا کی کوئی چیز نہیں جو خدا کی تسبیح بیان نہیں کرتی۔ اگر انسان ذکر و تسبیح پر ہی اکتفا کرے تو اس کا درجہ جمادات اور نبادات سے بلند نہیں ہو گا جو بے شعور ہیں یا نیم شعور۔ لیکن انسان چونکہ خود شناس اور خود شعور ہے۔ کائنات میں اس کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ کائنات کی تعمیر اور تکمیل خدا کا شریک کار بنے اور اس غرض کے لئے فقط زبان سے نہیں بلکہ اپنی مسلسل عملی جدوجہد سے نعرہ تکبیر بلند کرے۔ زبان سے ذکر اور تسبیح کرنا اس کردار کی تیاری کے ذرائع ہیں۔ کیونکہ ان سے وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو اس کردار کو موثر طریق پر انجام دینے کے لئے کام آتی ہے۔ افسوس کہ اکثر علماء دین ذکر اور تسبیح پر زور دیتے ہیں لیکن خدا کی مرضی کے مطابق دنیا کو بدلنے پر زور نہیں دیتے۔ حالانکہ قرآن حکیم کے ارشادات کی رو سے خدا مومنین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی دنیا کو اس کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے جدوجہد کریں اور ان سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کی مدد ان کے ساتھ ہو گی۔ (اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہیں نصرت دے گا) خد اکی مدد یہی ہے کہ خدا کائنات کو ترقی دے کر جس کمال پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کا چاہنے والا مرد مومن بھی یہ کوشش کرے کہ کائنات اس کمال پر پہنچے۔ اقبال نے ان حقائق کو تین زور دار شعروں میں بیان کیا ہے۔ ان تنصر واللہ ینصر کم انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل، یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست یہ مذہب ملا و نباتات و جمادات ٭٭٭ خودی اور فلسفہ اخلاق فعل جمیل۔ خودی کی ایک اور ہم ضرورت انسانی خودی ہر ممکن طریق سے خدا کی محبت کے جذبہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ اس جذبہ کی تشفی کے لئے مظاہر قدرت کے مشاہدہ اور اسمائے حسنیٰ کے ذکر ایسے ذرائع سے خدا کی صفات کے حسن وکمال پر غور و فکر ہی نہیں کرتی۔ بلکہ اپنے عمل میں بھی خدا کی صفات کے حسن کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی آرزوئے حسن اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے ہر فعل کو معنوی طور پر یعنی فعل کے مقصد اور مدعا کے اعتبار سے خد اکی صفات حسن و کمال کے تقاجوں کے مطابق بنائے یہ ہو نہیں سکتا کہ خودی صفات خداوندی کے حسن سے متاثر ہو اس سے گہری محبت رکھتی ہو اور جہاں ممکن ہو اس کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے سرور اور لذت حاصل کرے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اس حسن کے اثر سے آزاد اور اس کی محبت سے فارغ اور اس کے سرور سے بے نیاز ہو۔ بلکہ غیر حسن کو حسن سمجھ کر اپنے عمل کو اس کے مطابق بنائے خودی ہمہ تن خدا کے حسن کی محبت ہے وہ خدا کے حسن کے قریب آنے اس کے حسن کو قریب لانے اور ہر رنگ میںاس کے حسن کا مشاہدہ اور مظاہرہ کرنے کا کوئی موقعہ ترک کرنا نہیں چاہتی خواہ اس کا تعلق اس کے فکر سے ہو یا اس کے عمل سے لہٰذا خودی چاہتی ہے کہ خدا کی صفات جس حسن یا کمال کی آئینہ دار ہیں وہ اس کو اپنے کردار کی اصل یا روح یا مقصد یا مدعا میں بھی نمودار کرے۔ لیکن خودی کے کردار میں اس حسن کا اظہار بعض وقت کم ہوتا ہے اور بعض وقت زیادہ۔ ظاہر ہے کہ حسن کے لئے خودی کی محبت جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر زیادہ وضاحت اور صفائی کے ساتھ وہ جان سکے گی کہ حسین عمل کیا ہے اور کیا نہیں اور اسی قدر زیادہ حسن اس کا عمل حسن سے عاری ہو گا۔ اقبال نے ایسے عمل کے لئے جس میں حسن موجود ہو۔ فعل جمیل، عمل خوب، عمل محمود اور عمل محبوب ایسی اصطلاحیں برتی ہیں اور ایسے عمل کو جس میں حسن موجود نہ ہو یعنی جس کا مقصد اور مدعا خدا کی صفات حسن کا آئینہ دار نہ ہو، فعل قبیح یا فعل نامحبوب یا فعل ناخوب یا فعل زشت یا فعل مذموم کہا ہے۔ جہان خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب یہاں بھی معرکہ آراء ہے خوب سے ناخوب نمود جس کی فراز خودی سے ہو وہ جمیل جو ہو نشیب میں پیدا قبیح و نا محبوب فراز خودی فعل جمیل کا مصدر اقبال کے یہ دو شعر ایک جدید فلسفہ اخلاق کی کلید ہیں۔ ان میں اقبال نے فعل جمیل کی تعریف ہی نہیں کی بلکہ اس کے منبع اور مصدر کو بھی بیان کیا ہے اور اس کے علل و اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کی مزاحمتوں اور رکاوٹوں کی بھی توضیح کی ہے اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ فعل قبیح یا فعل نا محبوب کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں خودی سے مراد انسانی خودی ہے۔ انسانی خودی کے جہاں میں خدا کی محبت کے سوائے اور کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا جہان خودی کا مطلب خدا کی محبت کی دنیا ہے۔ جو انسانی خودی میں آباد ہوتی ہے۔ مومن کی خودی کو فراز یا بلندی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب مومن کے دل میں خدا کی محبت ترقی پا کر اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ مومن کی خودی کا نشیب اس کی وہ حالت ہے جب اس کے دل میں خدا کی محبت ابھی اپنے ارتقا کی ابتدائی منزلوں میں ہوتی ہے اور کمزور ہوتی ہے۔ جہان خودی میں خوب و ناخوب کے معرکہ کا باعث یہ ہے کہ مومن جب ایمان لاتا ہے تو اس کی ساری فطری استعداد محبت خدا کے تصور کے لئے فوراً نہیں بلکہ رفتہ رفتہ ترقی پا کر مہیا ہوتی ہے۔ خدا کی محبت جو اس کے دل میں ایمان لانے کے بعد پیدا ہوتی ہے شروع میں غلط تصورات کی محبت سے گھری ہوئی ہوتی ہے۔ غلط تصورات مومن کی فطری استعداد محبت کا بہت سا حصہ اپنے تصرف میں لئے ہوئے ہوتے ہیں اور مومن کی محبت ان تصورات کو سخت مقابلہ کے بعد بتدریج بے اثر کرتی ہے اور محبت کا جو حصہ ان کے تصرف میں آ چکا ہوتاہے اس کو رہا کر کے اور اپنے ساتھ ملا کر اپنے آپ کو ترقی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ آخر کار اس کے دل میں خدا کے سوائے ہر تصور کی محبت مٹ جاتی ہے۔ خودی کے صحیح تصورات جو خدا کے تصور سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اس کے غلط تصورات پر جو غیر اللہ سے متعلق ہوتے ہیں غلبہ پانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا دونوں میں کشمکش ہوتی ہے جو تصور خودی کی محبت کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے وہی مقابل کے تصورات پر غالب آ جاتا ہے اور وہی خودی کی قوت عمل کا مالک بن جاتاہے اور خودی مقابل کے تصورات کو پس پشت ڈال کر اسی کے مطابق عمل کرتی ہے صحیح اور غلط تصورات کی یہ باہمی آویزش خودی کی محبت کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے اور جب تک کہ خودی کی محبت کا سارا ذخیرہ جو فطرت نے اسے دے رکھا ہے خدا کے تصور کے تصرف میں نہیں آتا جب تک خدا کا تصور غلط تصورات پر پوری طرح سے غالب نہیں آ جاتا ۔ دوسرے لفظوں میں جب تک مومن کے دل میں خدا کی محبت اپنے کمال کو نہیں پہنچتی۔ اس وقت تک صحیح اور غلط تصورات کی باہمی کشمکش جاری رہتی ہے کیونکہ اس وقت تک غلط تصورات خودی کی محبت کو خدا کے تصور سے ہٹا کر اپنے استعمال میں لاتے رہتے ہیں۔ غلط تصورات جو اس طرح سے خد اکے تصور کے ساتھ الجھ جاتے ہیں۔ بالعموم انسان کی جبلتی یا حیوانی خواہشات اور ان کے ماتحت پرورش پانے والی عادات سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان خواہشات میں خدا نے دو اہم خصوصیتیں رکھی ہیں جن کی وجہ سے وہ خدا کی محبت کی حریف بن جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے اندر ایک حیاتیاتی زور یا دباؤ ہوتا ہے جو خودی کو ان کی تشفی کے لئے مجبور کرتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ان کی تشفی کے اندر ایک حیاتیاتی قسم کی لذت ہے۔ قدرت میں ان دونوں خصوصیتوں کا مقصد یہ ہے کہ حیوان کو مجبور کیاجائے کہ وہ اپنی زندگی اور نسل کو قائم رکھنے کے لئے بر وقت ضروری اقدامات کرتا رہے۔ جب تک ایک مومن کے دل میں خدا کی محبت کمزور ہوتی ہے اس وقت تک وہ اپنی محبت کے عملی تقاضوں کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتا۔ جب تک ہماری محبت بیدار نہیں ہوتی ہم اپنی حیوانی جبلتی خواہشات کی قوت اور لذت کی وجہ سے ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے دباؤ سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں اوران کی لذت سے اس قدر مسحور ہو جاتے ہیں کہ ہم ان کے اصلی فطری مقصد اور مدعا کو بھول کر ان کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم بعض وقت ان کو تصورات حقیقت یا انسان و کائنات کے نظریات کی شکل دے لیتے ہیں چنانچہ مارکسنرم، فرائڈزم، ایڈلرزم اسی قسم کے نظریات ہیں جو بالترتیب جبلت تغذیہ جبلت جنس اور جبلت تفوق پر مبنی ہیں۔ جبلتی خواہشات سے مغلوب اور مسحور ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری خواہشات ہماری محبت کی اس فطری استعداد کو استعمال کر لیتی ہیں جو نصب العین کے لئے مخصوص ہے اور اس طرح سے ان کی قوت اس حد سے بڑھ جاتی ہے جو قدرت نے ان کے مقصد یعنی بقائے حیات کی ضرورت کے پیش نظر مقرر کی ہے۔ گویا ہماری خواہشات ہمارے نصب العین یا معبود کی جگہ لے کر خود ہمارا نصب العین یا معبود بن جاتی ہیں۔ خودی کے محرکات عمل انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس کی ساری عملی زندگی محبت اور خوف کے دو محرکات سے طے پاتی ہے۔ طرح تعمیر تو از گل ریختند با محبت خوف را آیختند لیکن انسان کے یہ دونوں محرکات عمل اس کے نصب العین زندگی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس کا نصب العین ان حیوانی خواہشات پر مشتمل ہو گا جو جسم سے تعلق رکھتی ہیں اور ماء وطین کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہیں اور لہٰذا غلط ہو گا تو اس کی محبت اور اس کا خوف دونوں غلط ہوں گے وہ غلط چیزوں سے محبت کرے گا اور غلط چیزوں کا خوف رکھے گا اور اس کا ہر عمل غلط اور قبیح اور نا خوب او رنا محمود ہو گا۔ خوف دنیا، خوف عقبیٰ، خوف جان خوف آلام زمین و آسمان، حب مال و دولت و حب وطن حب خویش و اقربا و حب زن امتزاج ماء وطین تن پرور است کشتہ فحشاء ہلاک منکر است اگر ایک ایسے غلط نصب العین سے پیدا ہونے والا عمل جو خواہشات حیوانی پر مشتمل ہو، بار بار ہوتا رہے تو تکرار کی وجہ سے وہ ایک عادت بن جاتا ہے جس سے اس کی قوت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جب ایک انسان خدا پر ایمان لاتا ہے اور اس کی فطری محبت آشکار ہوتی ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی جبلتی خواہشات اور ان کے ماتحت پیدا ہونے والی عادات کی محبت کے عملی تقاضوں کے ساتھ مزاحمت کر رہی ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مزاحمت کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دے۔ یہ مقابلہ نہایت مشکل ہوتا ہے لیکن مومن اپنی محبت کی حفاظت کی خاطر اس سے ہمت نہیں ہارتا اور اپنے آپ کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے سے دریغ نہیں کرتا یہاں تک کہ ایک چیتے کی طرح اپنے آپ پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ مرد مومن زندہ و باخود بجنگ برخود افند ہمچو بر آہو پلنگ شریعت۔ غلط عادات کا علاج غلط خواہشات کو روکنے اور غلط عادات کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مرد مومن اپنے اعمال کو زیادہ سے زیادہ سچے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بنائے اور ان کو بار بار کرے اور دہرائے اور ان پر مداومت اور مواظبت کرے یہاں تک کہ وہ عادات راسخہ میں تبدیل ہو جائیں۔ اس صورت میں غلط خواہشات اور عادات اظہار کا موقعہ نہ پانے کی وجہ سے کمزور ہو کر خود بخود مٹ جاتی ہیں اور مومن کے اپنے صحیح نصب العین سے سرزد ہونے والے صحیح عمل کے لئے راستہ ہموار ہو جاتا ہے جبلتی خواہشات اور ان کی پیروی میں پیدا ہونے والی غلط عادات کا مقابلہ اگرچہ آسان نہیں ہوتا۔ تاہم خدا کی محبت جو شریعت کی پابندی میں اظہار پاتی ہے اور جس ا دوسرا پہلوا خدا خوف ہے مومن کے لئے اس کام کو آسان بنا دیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی محبت اور خدا کا خوف ہر غلط محبت اور غلط خوف کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔ جو شخص لا الہ کا عصا ہاتھ میں لے لیتا ہے یعنی دل سے یقین کر لیتا ہے کہ خدا کے سوائے اس کا کوئی مطلوب اور محبوب نہیں وہ ہر خوف کے طلسم کو توڑ دیتا ہے اور کسی ناچیز سے نہیں ڈرتا جس شخص کے تن میں خدا کی محبت جان کی طرح ہو اس کی گردن کسی باطل کے سامنے جھک نہیں سکتی۔ خوف اس کے سینہ میں راہ نہیں پاتا اور وہ غیر اللہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اقلیم لا میں آباد ہو جائے یعنی یہ سمجھ لے کہ خدا کے سوائے کوئی چیز اس کا مقصود نہیں وہ بیوی بچوں کی فکر سے بھی آزاد ہو جاتا ہے اور غیر اللہ کو یہاں تک نظر انداز کر دیتاہے کہ خدا کی محبت کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دیتا ہے۔ تا عصائے لا الہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست ہر کہ حق باشد چو جاں اندرتنش خم نگر دو پیش باطل گردنش خوف را در سینہ او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد مے کند از ماسوا قطع نظر می نہد سا طور بر حلق پسر شریعت کی پابندی غلط خواہشات اور عادات کا علاج اس لئے کرتی ہے کہ وہ ہر وقت مومن کی محبت کا امتحان کرتی رہتی ہے اور اس طرح سے اس کی محبت کی حفاظت اور ترقی کا باعث بنتی ہے لیکن وہ ان کا علاج اس لئے بھی کرتی ہے کہ وہ ان کی بجائے صحیح خواہشات اور عادات مہیا کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ لہٰذا مومن شریعت کا پابند رہتا ہے اس کے لئے اگر کلمہ توحید ایک صدف ہے تو نماز وہ گوہر ہے جس کے بغیر یہ صدف خالی رہتا ہے نماز مسلمان کا حج اصغر ہے اور وہ خنجر ہے جس سے وہ خدا کی نافرمانی اور بے حیائی اور برے کاموں کی خواہشات کو ہلاک کرتا رہتا ہے روزہ اس کی بھوک پیاس پر پابندی عائد کرتا ہے اور اسے تن پروری سے بچاتا ہے حج سے وہ یہ سیکھتا ہے کہ اگر اسے خدا کی محبت کی خاطر وطن چھوڑٹتا پڑے تو چھوڑ دے۔ زکوۃ کا حکم اسے بتاتا ہے کہ دولت سے محبت نہ کرے اور اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی شریک سمجھے۔ لا الہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشاء و بغی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخون زند خیبر تن پروری را بشکند، مومناں را فطرت آموز است حج حجرت آموز و وطن سوز است حج حب دولت را فنا ساز و زکوۃ ہم مساوات آشنا ساز و زکوۃ شیطان کی اہمیت قرآن حکیم نے جبلتی خواہشات کے حد سے متجاوز مطالبات کو ہوی (بری خواہشات) کا نام دیا ہے اور مومن کو بتایا ہے کہ ہوی کو روکنے سے ہی وہ خدا کی محبت کے اس بلند مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ جہاں وہ جنت کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن اھوی فان الجنہ ھی الماوی (جو شخص اس بات سے ڈر جائے کہ اس نے خدا کے روبرو کھڑے ہو کر ہر نافرمانی کا جواب دینا ہے اور نفس کو بری خواہشات سے روک لے اس کا ٹھکانہ جنت ہے) شیطان ہوی کے مطالبات کو طرح طرح سے حسین اور دلکش بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اس کی یہ سب کارروائیاں فریب محض ہوتی ہیں۔ لہٰذا شیطان کی مخالفت خودی کی تربیت ترقی اور تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کے برعکس شیطان کی موافقت خودی کی ترقی کے لئے وبال ہے۔ رزم یا دیواست آدم را کمال بزم باد بو است آدم را وبال قرآن بار بار شیطان کے فریب کا ذکر کرتا ہے اور اس سے بچنے او رشیطان کی مخالفت کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ وزین لھم الشیطان اعمالھم (اور شیطان نے ان کے لئے ان کے برے اعمال کو حسین بنا کر پیش کیا ہے) یعلھم ویمھیھم وما یعدھم الشیطان الاغرورا (وہ ان سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو امیدیں دلاتا ہے لیکن شیطان جو وعدے بھی ان سے کرتا ہے محض فریب ہوتے ہیں) خد اکی حکمت نے شیطان اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مومن کی خودی کی مزاحمت کرے تاکہ مومن اپنی محبت سے مجبور ہو کر اس مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے نیکی کی تمام اندرونی قوتوں کو جمع کرے اور ان کے زور سے شیطان کی مزاحمت کو توڑ کر آگے نکل جائے۔ ایسا کرنے سے مومن کی خودی اپنے ارتقاء کے ایک بلند تر مقام پر قدم رکھتی ہے اور ایک بے نظیر راحت اور لذت محسوس کرتی ہے۔ خدا کے سچے عاشق کو ایسی دنیا کے اندر رہنے میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا جس میں اسے اپنے اور اپنے محبوب یعنی خدا کے دشمن کے ساتھ مقابلہ کر کے فتح یاب ہونے کا کوئی موقعہ نہ ملتا۔ مزی در آن جہانے کور ذوقے کہ یزداں وارد و شیطان ندارد جنت میں شہداء جنت کی ہر نعمت سے سرفرازہونے کے باوجود یہ تمنا کریں گے کہ خدا انہیں پھر دنیا میں بھیجے تاکہ وہ اس راحت اور لذت سے پھر بہرہ ور ہوں جو شیطانی قوتوں کو تباہ کرنے کے لئے جان تک کی بازی لگانے میں انہیں حاصل ہوئی تھی۔ گویا خدا کے عاشق کے لئے یہ وہ نعمت ہے جو جنت میں بھی موجود نہیں۔ اقبال کی نظم ’’ جبریل و ابلیس‘‘ میں ابلیس جن باتوں پر جبریل کے سامنے فخر کرتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر میں جرات کر کے خدا کی نافرمانی نہ کرتا تو میں انسان کو تاقیامت گمراہ کرتے رہنے کی اجازت بھی نہ مانگتا اور اگر مجھے یہ اجازت نہ ملتی تو خدا کی جستجو کے راستہ میں انسان کے لئے رکاوٹیں کون پیدا کرتا اور اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوتیں تو انسان جو محض ایک مشت خاک ہے اس کی خودی اپنے ارتقا کی ان بلند ترین منزلوں پر کیسے پہنچ سکتی جو ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے اور ان پر عبور پانے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔ لہٰذا اگرچہ میں خدا کے حضور سے راندا گیا ہوں جو میری موت سے کم نہیں۔ لیکن میرا لہو قصہ آدم کو رنگین کر گیا ہے۔ باغ آدم کی بہار کا دار ومدار میری اپنی تباہی پر ہے۔ عقل و خرد کا لباس جو دور حاضر میں اکثر گمراہ انسانوں نے پہن رکھا ہے اور جس پر ان کو فخر ہے اس کا تار و پود میرے پیدا کئے ہوئے فتنوں سے بنایا گیا ہے سب سے پہلے میں نے ہی عقل و خرد کی بنا پر خدا کے اس حکم کو محل اعتراض ٹھہرایا تھا کہ میں آدم کو سجدہ کروں۔ ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگین کر گیا کس کا لہو سچا مومن اپنی مخلصانہ محبت کی وجہ سے خدا کے خوف سے خدا کی ناراضگی کا خوف مراد لیتا ہے۔ وہ جسمانی تکلیفوں کی شکل میں خدا کے عذاب سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا خدا کی ناراضگی سے ڈرتا ہے۔ اس کے نزدیک اس سے بڑھ کر خدا کا عذاب اور کوئی نہیں ہوتا کہ خدا اس سے ناراض ہو۔ اسی طرح سے اس کے نزدیک خدا کی محبت جسمانی لذتوں کی صورت میں کسی انعام کی محبت نہیں ہوتی۔ بلکہ خدا کی رضا مندی کی محبت ہوتی ہے۔ مومن کے نزدیک خدا کی رضا مندی سے بڑھ کر کوئی اور انعام نہیں ہوتا۔ اگرچہ ہر فعل کی بدنی سزا یا بدنی جزا فعل کے اندر موجود ہوتی ہے اور اس سے الگ نہیں ہو سکتی تاہم جب کوئی شخص بدنی سزا کے خوف سے یا کسی بدنی راحت یا لذت کے طمع سے ایک برے کام کو ترک کر کے ایک اچھا کام کرتا ہے تو اس اچھے کام کی اچھائی ناقص رہ جاتی ہے۔ ایسے شخص کے نزدیک جو چیز ترک کے قابل ہوتی ہے وہ فعل کی برائی نہیں ہوتی بلکہ وہ بدنی تکلیف ہوتی ہے جو وہ سمجھتا ہے کہ فعل کی سزا ہو گی اور جو چیز قبول کرنے کے قابل ہوتی ہے وہ فعل کی اچھائی نہیں بلکہ وہ بدنی راحت یا لذت ہوتی ہے۔ جو اس کے خیال میں فعل کا انعام ہو گی۔ اچھا کام وہی ہے جو خدا کی محبت کے مقام کمال سے صادر ہو۔ محبت کے اس مقام پر یہ کام مومن کو اس لئے کشش کرتا ہے کہ وہ خود اسے زیبا نظر آتا ہے اور اس کی زیبائی کی محبت اور اس کے نقیض کی زشتی کی نفرت بے اختیار اس کے دل سے پیدا ہوتی ہے۔ صرف اس قسم کا اچھا کام ہی و ہ اصلی فعل جمیل ہوتا ہے جس کی جزا مومن کو خدا کی پوری رضا مندی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ اقبال اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے۔ جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گذر مینا و جام سے گذر یہ ہے مختصر الفاظ میں روئداد اور علمی اور نفسیاتی بنیاد اس معرکہ ’’ خوب ناخوب‘‘ کی جو جہان خودی میں برپا ہوتا ہے۔ محبت کی تشفی کا عمل محبت ہمیشہ اپنے اظہار اور اپنی تسکین اور تشفی سے ترقی پاتی ہے جس طرح سے ذکر خدا کی محبت سے پیدا ہوتاہی اور خدا کی محبت کی تشفی کا ایک عمل ہے اور خدا کی محبت کو ترقی دیتا ہے۔ اسی طرح سے فعل جمیل بھی خدا کی محبت کی تشفی کا ایک عمل ہے اور خدا کی محبت کو ترقی دیتا ہے دراصل ذکر اور فعل جمیل دونوں خودی کو ترقی دے کر نکتہ کمال تک پہنچانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کیونکہ دونوں خدا کی محبت کے اظہار اور اس کی تسکین اور تشفی کے طریقے ہیں اگر کوئی شخص اچھے عمل سے بے پرواہ ہو جائے اور فقط ذکر ہی سے اپنی محبت کو ترقی دینا چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں اسے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کا ذکر اخلاص سے عاری ہو گا۔ اس کے برعکس وہ محبت کی منزل کمال سے ہر روز اور دور ہوتا جائے گا۔ اس کی مثال اس مسافر کی طرح ہو گی جو د وگھنٹہ کے لئے تو اپنی منزل کی طرف چلے اور پھر سارا دن اس سے عین مخالف سمت چلتا رہے ایسا شخص منزل پر کیسے پہنچ سکتا ہے محبت کی ابتداء میں فعل جمیل ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محبت کمزور ہوتی ہے اور غلط جبلی خواہشات اور ان کے ماتحت راسخ شدہ عادات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن جب ذکر سے محبت کچھ ترقی کر جاتی ہے تو مومن اپنی محبت کی قوت سے اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کی خاطر اپنی غلط خواہشات کو کسی قدر روک کر صحیح قسم کے عمل کی طرف مائل ہو اور پھر اس صحیح عمل سے اس کی محبت اور ترقی کرتی ہے جس کی وجہ سے اسے ذکر کے اندر زیادہ گہری توجہ اور زیادہ لذت نصیب ہوتی ہے اور ذکر محبت کو ترقی دینے کے لئے اور بھی مفید اور موثر ہو جاتا ہے اور پھر یہ ترقی یافتہ محبت فعل جمیل کو اور آسان کرتی ہے اور ذکر اور فعل جمیل کا یہ تعاون جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ خودی کی محبت اپنی بلندیوں کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ جہاں وہ فعل جمیل کا اکتساب کسی مجبوری سے یا کسی مشکل جدوجہد سے نہیں کرتی بلکہ اس لئے کرتی ہے کہ یہ اس کی محبت کا ایک تقاضا بن جاتا ہے۔ جو اس کے دل کی گہرائیوں سے خود بخود ابھرتا ہے اور جسے روکنا اس کے بس کی بات نہیں رہتی محبت کے درجہ کمال پر پہنچ کر خودی کے لئے فعل جمیل سے رکنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ محبت کی ابتدائی منزل میں فعل قبیح سے رکنا۔ اس حالت میں مومن دین کے اوامر اور نواہی کو فقط دوسروں کی سند کی بنا پر ہی نہیں جانتا بلکہ ان کو اپنے دل کی گہرائیوں کے اندر محسوس کرتا ہے۔ اب وہ ان پر کسی مجبوری سے نہیں بلکہ ایک ایسی خواہش سے عمل کرتا ہے جس سے رکنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ فاش مے خواہی اگر اسرار دین جز بہ اعماق ضمیر خود مبین گر نہ بینی دین تو مجبوری است ایں چنیں دیں از خدا مہجوری است ظاہر ہے کہ اس مقام پر مومن کو کسی راہ نما کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ راہ نما کی عین مرضی کے مطابق وہ خود اپنی راہ نمائی کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کہے نہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو یہ بات راہ رو نکتہ داں سے دور نہیں ایک مشکل کا حل اب یہ بات غور طلب ہے کہ ایک طرف سے تو جب تک انسان کچھ عرصہ کے لئے متواتر فعل قبیح سے اجتناب اور فصل جمیل کا اکتساب نہ کرتا رہے اس کی محبت ذکر و فکر میں مشغول رہنے کے باوجود ترقی کر کے درجہ کمال پر نہیں پہنچ سکتی اور دوسری طرف سے جب تک اس کی محبت درجہ کمال پر نہ ہو اس وقت تک فعل قبیح سے متواتر اجتناب اور فعل جمیل سے متواتر اکتساب تو درکنار وہ اپنے دل سے اور اپنے پورے احساس اور یقین سے یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکتا کہ فعل جمیل کیا ہے اور فعل قبیح کیا ہے۔ اور کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی محبت جب تک کمزور رہتی ہے۔ متضاد قسم کے تصورات میں بٹی رہتی ہے اور یہ تصورات خودی کے صحیح اخلاقی فیصلوں کو غلط کرتے رہتے ہیں۔ پھر اس مشکل کا حل کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کے لئے ارتقا کرنا اور محبت کے درجہ کمال پر پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی یا نفسیاتی زندگی پر ارتقا ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ۔ خدا نے انسان کو ارتقا کر کے اپنی حالت کمال پر پہنچنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ہو نہیں سکتا کہ اس مشکل کا حل کارخانہ قدرت میں موجود نہ ہو۔ دراصل یہ مشکل انسانی اور نفسیاتی مرحلہ ارتقا کے ساتھ خاص نہیں۔ زندگی کو اس سے پہلے حیاتیاتی سطح ارتقا پر بھی ایسی ہی مشکل پیش آ چکی ہے اور زندگی نے وہاں اس کا حل پیدا کر لیا تھا یہ مشکل ایسی ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ ایک طرف سے جب تک ایک جسم حیوانی مکمل طور پر تندرست اور توانا نہ ہو وہ امراض کے جراثیم کی کامیاب مزاحمت نہیں کر سکتا اور جب تک وہ کچھ عرصہ کے لئے امراض کے جراثیم کی کامیاب مزاحمت نہ کرتا رہے وہ تندرست اور توانا نہیں ہو سکتا۔ اس حیاتیاتی مشکل کا حل زندگی نے عمدہ اور صحت بخش قدرتی خوراک مہیا کر کے خود پیدا کیا ہے۔ا گر جسم عمدہ غذا جس میں مناسب مقدار میں حیاتین اور فلزات موجود ہوں کچھ عرصہ کے لئے استعمال کرتا رہے تو یہ ایک طرف سے صحت اور توانائی اور دوسری طرف سے امراض کے جراثیم سے حفاظت دونوں کی ضمانت ہے۔ اسی طرح سے انسانی اور نفسیاتی سطح ارتقا کی مشکل کا حل کرنے کے لئے زندگی ’’ نبوت‘‘ کی صورت میں روحانی غذا کے طور پر ایک ایسی قدرتی تعلیم مہیا کرتی ہے جسے قبول کرنے کے لئے انسانی خودی فعل قبیح اور فعل جمیل میں فرق معلوم کر کے فعل قبیح سے اجتناب اور فعل جمیل کا اکتساب کر سکتی ہے اور اس طرح سے اپنی محبت کو فروغ دے سکتی ہے۔ نبوت زندگی کا اپنا انتظام ہے کیونکہ وہ انسان کے اختیار سے باہر ایک مظہر قدرت ہے۔ جس سے زندگی اپنے اسرار کو خود منکشف کرتی ہے اور عمل خوب و ناخوب کی گرہ کھولتی ہے۔ خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیوں کر گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات کامل طور پر توانا اور تندرست خودی وہی ہے جس کی محبت درجہ کمال پر ہو۔ ایسی خودی فعل ناخوب کے مرض پرور جراثیم سے محفوظ رہتی ہے اور اس کی توانائی کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ نبوت کے علم سے جو نبی کی شریعت کی صورت میں اسے میسر آتا ہو بالالتزام صحت بخش روحانی غذا حاصل کرتی رہتی ہے۔ خودی کی غذا حسن ہے۔ اگر نبی کامل ہو تو اس کی تعلیم کامل ہوتی ہے اور جس طرح سے کامل غذا کے اندر تمام حیاتین اور فلزات جن کی جسم کو ضرورت ہے موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے کامل نبی کی تعلیم ایسے تصور حسن کی نشاندہی کرتی ہے جس میں حسن و کمال کی وہ تمام صفات جن کی آرزو خودی کر سکتی ہے موجود ہوتی ہے اور پھر اس کی تعلیم خوب و ناخوب اعمال میں فرق کر کے اس روحانی غذا کے استعمال کے طریقے اور مواقع بھی بتاتی ہے۔ انکشاف حقیقت کا مقام شروع میں مومن نبی کی شریعت کو سمجھنے کے بغیر اور اپنے آپ کو مجبور کر کے اور بڑی جدوجہد کے بعد عمل میں لاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ شریعت کے احکام کی عقلی توجیہہ کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرتا ہے لیکن چونکہ نبی کی شریعت خودی کی فطرت پر مبنی ہوتی ہے اور زندگی کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے۔ شرع مے خیزد ز اعماق حیات روشن از نورش ظلام کائنات جوں جوں شریعت کی پابندی کی وجہ سے مومن کی محبت ترقی کرتی جاتی ہے۔ اس پر یہ حقیقت کھلتی جاتی ہے کہ یہ شریعت کوئی ایسی چیز نہیں جو اس سے غیر ہو یا اس کی فطرت سے بیگانہ ہو۔ اور آخر کار ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کی محبت درجہ کمال پر پہنچ جاتی ہے۔ یہاں وہ شریعت کے احکام کو ایک طاقتور اندرونی جذبہ کے ناقابل مزاحمت تقاضوں کے طور پر محسوس کرنے لگتا ہے۔ ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ اپنی محبت کو فروغ دے کر اس مقام کو پائے جب تک وہ اس مقام کو نہیں پاتا وہ خدا سے دور رہتا ہے۔ فاش مے کواہی اگر اسرار دیں جز باعماق ضمیر خود مبین، گر نہ بینی دین تو مجبوری است ایں چنیں دین از خدا مہجوری است جب مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن خود اس کی ذات پر نازل ہوا ہے۔ پھر وہ کتاب خوان نہیں رہتا بلکہ صاحب کتاب بن جاتا ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ وہ خود ہی قرآن بن جاتا ہے۔ جب تک مومن اس مقام کو نہیں پاتا کوئی بڑے سے بڑا مفسر بھی اسے قرآن کے رموز و اسرار سے آشنا نہیں کر سکتا۔ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف ٭٭٭ تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خوان ہے مگر صاحب کتاب نہیں ٭٭٭ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اس مفہوم کو اقبال نے اپنی نثر میں اور وضاحت سے بیان کیاہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’ مذہبی زندگی بالعموم تین ادوار میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ ان کو ’’ایمان‘‘ ۔ ’’ عقل‘‘ اور ’’ عرفان‘‘ کے ادوار کہا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں مذہبی زندگی ایک نظم کی صورت میں نظر آتی ہے۔ جسے ایک فرد یا ایک پوری قوم کو ایک مشروط حکم کے طور پر قبول کر لینا چاہئے۔ بغیر اس بات کے کہ انہوں نے اس حکم کی بنیادی حکمت یا مصلحت کو عقلی طور پر سمجھا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نقطہ نظر کسی قوم کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت پیدا کرے۔ لیکن جہاں تک فرد کی باطنی ترقی اور توسیع کا سوال ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ نظم کی مکمل اطاعت کے بعد نظم اور اس کے جواز کے اصل منبع کی عقلی تفہیم کا دور آتا ہے۔ اس دور میں مذہبی زندگی اپنی بنیادیں ایک طرح کے مابعد الطبیعیات میں تلاش کرتی ہے۔ یعنی کائنات کے ایک ایسے نظریہ میں جو عقلی نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہو اور جس میں خدا کا تصور بھی شامل ہو تیسرے دور میں ما بعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات لے لیتی ہے اور مذہبی زندگی کی حقیقت وجود کے ساتھ براہ راست تعلیق پیدا کرنے کی تمنا کرنے لگتی ہے۔ یہ ہے وہ مرحلہ جہاں مذہب زندگی اور قوت کو جذب کرنے کا ذاتی معاملہ نظر آتا ہے اور فرد ایک آزاد شخصیت کا مالک بن جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے آپ کو قانون شریعت کی بندشوں سے آزاد کر لیتا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ وہ معلوم کر لیتا ہے کہ قانون شریعت کا اصل منبع اس کے اپنے شعور کی گہرائیوں میں ہے جیسا کہ ایک مسلمان صوفی نے کہا ہے خدا کی کتاب کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ مومن کے دل پر اس طرح سے نازل نہ ہو جس طرح سے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔‘‘ (صفحہ181’’ تشکیل الہٰیات جدید‘‘ ) ٭٭٭ خودی اور آرٹ ثقافت اور تہذیب کا فرق فعل جمیل سے اقبال کا مطلب ایسا فعل ہے جو اپنے مقصد کے لحاظ سے حسین ہو یعنی جس کا مقصد خودی کے کامل نصب العین یا صحیح تصور حقیقت سے ماخوذ ہو اور لہٰذا صفات حسن کے مطابق ہو۔ لیکن خودی چونکہ ہمہ تن خدا کی آرزو ہے جو حسن کا مبداء اور منتہا ہے اور دوسری کوئی آرزو نہیں رکھتی ۔ وہ اپنی اس آرزو کو مطمئن کرنے کا کوئی طریقہ یا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور ہر وقت اپنی اس آرزو کی تشفی میں مصروف رہتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ہر فعل کو نہ صرف معنوی طور پر یعنی اس کے مقصد کے اعتبار سے حسین بنانے کی کوشش کرتی ہے بلکہ ہر فعل کی ظاہری صورت کو بھی خوبصورت بناتی ہے۔ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ انسان کوئی کام ایسا نہیں کرتا جس کو وہ معنوی طور پر ہی نہیں بلکہ ظاہری طور پر بھی خوبصورت بنانے کی کوشش نہ کرے۔ انسان کی روز افزوں ضروریات زندگی کا بہت تھوڑا حصہ ایسا ہے جو بقائے حیات کے لئے ضروری ہے۔ ان کا بیشتر حصہ انسان کی آرزوئے حسن کی تسکین کا سامان ہے جس سے انسان زندگی کے ماحول کی تحسین اور تزئین کا کام لیتا ہے۔ انسان کی تمنائے حسن کی کوئی انتہا نہیں اس لئے اس کی حسن آفرینی کی بھی کوئی حد نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جوں جوں تہذیب ترقی کرتی جاتی ہے۔ ہماری ضروریات بڑھتی جاتی ہیں۔ ہم زمانہ حال کے انسان کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لباس کی ساخت میں اور اپنے مکان کی تعمیر اور شکل و صورت میں اپنے میزوں، کرسیوں، صوفوں، قالینوں، تصویروں اور گھر کے دوسرے سامان کی ترتیب اور ترکیب میں بلکہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، بولنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھیلنے اور سفر کرنے کے طور طریقوں میں بھی حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ حسن آفرینی کی کوششوں سے تھکتا ہے اور نہ حسن سے سیر ہوتا ہے۔ ثقافت یا کلچر نصب العین کی معنویت کو یا اس کے باطنی حسن کو علم، اخلاق، سیاست، تعلیم، قانون اور حصول نصب العین کے لئے ایسے ہی دوسرے اعمال و افعال میں آشکار کرنے کا نام ہے۔ لیکن تہذیب جسے کہتے ہیں وہ زندگی کے ظاہری ماحول میں حسن طلبی اور حسن آفرینی ہے۔ خدا کی دوسری صفات کی طرح حسن آفرینی کی صفت میں بھی انسانی خودی خدا کے وجود کا عکس ہے کیونکہ خدا کی تخلیقی فعلیت بھی جس کا نتیجہ یہ کائنات ہے اپنے معنی اور مقصد اور مدعا کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اپنے نتائج کی ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے بھی حسین ہے۔ کائنات حسن سے لبریز ہے۔ ضیائے حسن اس کے ہر ذرہ میں چمک رہی ہے خدا نے کوئی چیز ایسی نہیں بنائی جو حسین نہ ہو۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم بعض چیزوں کے حسن کی پہچان سے قاصر رہ جائیں۔ محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایاں حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرہ میں ہے طوفان حسن حسن کوہستان کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہر کی ضو گستری شب کی سیاہ پوشی میں ہے آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت شفق کی گل فروشی میں ہے یہ ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے ٭٭٭ حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا، واں چاندی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے انداز گفتگو نے دھوکے دئیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چمک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے ہنر یا آرٹ کی تعریف ایسا عمل جس میں کسی محسوس اور مرئی چیز کو ذریعہ یا واسطہ (Medium) بنا کر حسن کا اظہار کیا گیا ہو۔ ہنر یا فن یا آرٹ کہلاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انسان کا ہر کام اظہار حسن کا واسطہ بن سکتا ہے اور بنتا ہے لیکن جب حسن کے اظہار کے لئے اینٹ یا پتھر یا صوت یا صدا یا رنگ یا لفظ یا حرکت کو واسطہ بنا کر اس میں حسن کا اظہار کیا جائے تو جو فن اس سے پیدا ہوتا ہے اسے اسی ترتیب کے ساتھ تعمیر، مجسمہ سازی، سرود، موسیقی، مصوری، شاعری اور رقص کا نام دیا جاتا ہے۔ ہنر کی ان اقسام کے اندر تخلیق حسن یا مشاہدہ حسن سے لطف اندوز ہونا ایک خاص قسم کی تربیت چاہتا ہے اس لئے ہر انسان کو تخلیق حسن یا مشاہدہ حسن کے ذرائع کے طور پر کام میں نہیں لا سکتا۔ لہٰذا ہنر یا فن کی حیثیت سے زندگی کے عام کاموں کی تحسین اور تجمیل کے مقابلہ میں ان کی افادیت بہت محدود ہو جاتی ہے۔ تاہم ان میں سے ہر ایک، ایک خاص گروہ کو جو اس سے مستفید ہونے کی مہارت رکھتا ہے، متاثر کر سکتا ہے۔ حسن کے دو پہلو صداقت اور نیکی ہنر کی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ایک اہم بات یہ ہے کہ صداقت، نیکی اور حسن خدا کی صفات ہیں۔ ان میں سے ہر ایک حسن بھی ہے نیکی بھی ہے اور صداقت بھی۔ گویا صداقت اور نیکی حسن ہی کے دو پہلو ہیں۔ لہٰذا اگر حسن صداقت سے یا نیکی سے عاری ہو تو وہ حسن نہیں رہتا۔ ہر عمل جو کچھ وہ ہوتا ہے اپنے اندرونی مدعا یا مقصد اور اپنی ظاہری صورت دونوں سے مل کر بنتا ہے۔ اس لئے اگر کسی عمل کی ظاہری صورت حسین ہو لیکن اس کے پیچھے مدعا حسین نہ ہو تو اس کا حسن داغدار ہو جاتا ہے اور وہ اپنی کلی یا مجموعی حیثیت سے حسین نہیں رہتا۔ حسن کلی طور پر حسن ہوتا ہے اور زشتی کی ملاوٹ کو گوارا نہیں کرتا۔ اگر زشتی اس میں شامل ہو جائے تو وہ جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک کل کی حیثیت سے حسین نہیں رہتا۔ حسن ایک ناقابل تقسیم کل ہوتا ہے اور اسے اجزاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ کہ ہم کہہ سکیں کہ کوئی چیز آدھی زیبا ہے اور آدھی زشت۔ زشتی ہمیشہ زیبائی اور زشتی کے امتزاج سے بنتی ہے۔ کوئی چیز جس کے متعلق ہمارا فیصلہ ہو کہ وہ زشت ہے مکمل طور پر زشت نہیں ہوتی۔ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول گھٹیا آرٹ چونکہ آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کا ایک پہلو ہے ضروری ہے کہ یہ آرزوئے حسن کے اصل مقصود یعنی طلب جمال حقیقی کے ساتھ اور آرزوئے حسن کے دوسرے ممد و معاون پہلوؤں یعنی طلب خیز اور طلب صداقت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ لہٰذا جو آرٹ (خواہ وہ شعر ہو یا رقص یا مصوری یا موسیقی یا کوئی اور) بد اخلاقی کی طرف ایما کرتا ہو۔ وہ اخلاقی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ مطلق آرٹ کی حیثیت سے بھی پست اور گھٹیا ہوتا ہے۔ ایسا آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کا خالص اظہار نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں خودی کی آرزو کا اظہار جبلتی خواہشات کے اظہار کے ساتھ ملوث ہوتا ہے۔ وہ خالص خودی کا عمل یا انسانی عمل نہیں ہوتا بلکہ انسانی اور حیوانی اعمال کا امتزا ج ہوتا ہے ایسے آرٹ کا دیکھنا یا تخلیق کرنا وہ خاص قسم کا سرور پیدا نہیں کرتا جو سچے آرٹ کا امتیاز ہے اور اس سرور سے بالکل مختلف ہے جو جبلتوں کی تشفی سے حاصل ہوتا ہے۔ سچا آرٹ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں آرٹ کو بتکلف نیکی یا اخلاق کی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہئے۔ سچا آرٹ جستجوئے حسن کے سوائے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا۔ خودی کی ہر فعلیت کی طرح آرٹ بھی خودی کی آرزوئے حسن کا آزادانہ اظہار ہوتا ہے جو خود بخود اور بغیر کسی پابندی یا تکلف یا غرض کے فقط اپنی ہی خاطر عمل میں آتا ہے۔ لیکن سچا آرٹ چونکہ حسن کی سچی جستجو کرتا ہے وہ خود بخود خیر اور صداقت اور حسن حقیقی کی جستجو سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے تاکہ اپنے آپ کو آرٹ کی حیثیت درست اور مکمل بنا لے۔ اگر وہ خیر اور صداقت کو نظر انداز کر دے تو پھر نہ وہ حسن کا اظہار ہی رہ سکتا ہے اور نہ آرٹ۔ جب تک آرٹ جبلتوں کے دباؤ سے اور بدی اور بد اخلاقی کے اثر سے آزاد نہ ہو اور نیکی اور صداقت کو پوری طرح سے ملحوظ نہ رکھے۔ وہ نہ تو خودی کی آزادانہ فعلیت ہی ہو سکتا اور نہ ہی آرٹ کہلا سکتا ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک اعلیٰ درجہ کا فعل جمیل جو نیکی کے بلند ترین معیار پر پورا اتر سکے۔ صرف خدا کی محبت کے درجہ کمال پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سچے آرٹ کی توقع صرف اس شخص سے کر سکتے ہیں جس کا تصور حقیقت فی الواقع حسین ہو یعنی سچا خدا ہو اور جس کی خودی خدا کی محبت کے کمال کو پا چکی ہو۔ جس شخص کا تصور حقیقت حسین نہیں ہو گا۔ یعنی خدا کے سوائے کوئی اور ہو گا جیسا کہ مثلاً ایک کافر یا منکر خدا کا تصور تو اس کا آرٹ بھی خود بخود اس کے نازیبا اور ناقص تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت پیدا کر کے پایہ حسن سے گر جائے گا۔ یہی صورت حال کم و بیش اس شخص کے ساتھ پیش آئے گی جس کا تصور حقیقت تو صحیح اور حسین ہے لیکن جس کو اپنے تصور حقیقت کے ساتھ ایسی کامل اور خالص محبت نہیں جو غلط تصورات کی محبت کے ساتھ ذرا بھی ملوث نہ ہو۔ چونکہ آرٹ ہمیشہ فنکار کے تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت پیدا کر لیتا ہے اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ سچا آرٹ ایک مکمل طور پر آزاد فعلیت ہونے اور آرٹ برائے آرٹ ہونے کے باوجود ہمیشہ خود بخود مقاصد زندگی کا ترجمان اور خدمت گزار ہوتا ہے۔ سچا علم اور سچا آرٹ دونوں حسن حقیقی یعنی خدا کی محبت کے دو پہلو ہیں جو اسی کی خدمت اور اعانت کے لئے اپنا وجود رکھتے ہیں۔ علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات اس شعر میں حیات سے اقبال کی مراد آرزوئے حسن یا خدا کی محبت ہے۔ کیونکہ اقبال اپنے کلام میں جس چیز کو حیات کہتا ہے وہی ارتقا انسانی سطح پر آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ خدا کی آرزو اور آرٹ کا تعلق فن کی ہر قسم خواہ وہ مصوری (رنگ) ہو یا تعمیر (خشت) ہو یا مجسمہ سازی (سنگ) ہو یا موسیقی (چنگ) ہو یا شاعری (حرف) ہو یا گانا (صوت) ہو انسان کی آرزوئے حسن سے پیدا ہوتی ہے جس کا اصل مقصود خدا اور صرف خدا ہے۔ اقبال اسی آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کو کبھی خون جگر کبھی خون دل اور کبھی جنون کہتا ہے۔ آرزوئے حسن پتھر کی سل کو ایک مجسمہ کی صورت میں تبدیل کر کے دل (یعنی جذبات محبت کا مرکز) بنا دیتی ہے۔ یہی آرزوئے حسن صدا کو پرسوز اور پر سرور بنا کر ایک گانے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ فن کے تمام نقوش جو آرزوئے حسن کے اصل مقصود یعنی خدا کی سچی محبت سے بے تعلق ہوں، ناقص اور ناتمام رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے وہ نغمہ بھی جو آرزوئے حسن کے اصل مقصود سے بیگانہ ہو بے اثر اور بے سود ہے اور سودائے خام سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ وہ مردہ اور بے معنی ہے اور ایک ایسی آگ کی طرح ہے جو بجھ کر راکھ بن چکی ہو۔ ایسی آگ میں سوز کہاں ہوتا ہے لیکن وہ نغمہ جو خدا کی محبت کے سوز میں ڈوبا ہوا ہو اس کے اثر کی وجہ سے اسے خون دل میں حل کی ہوئی آتش سوزان کہنا چاہئے۔ رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صورت معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود، قطرہ خون جگر سل کو بناتا ہے دل خون جگر سے صدا، سوز و سرور و سرود نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر ٭٭٭ نغمہ مے باید جنون پروردہ آتشے در خون دل حل کردہ، نغمہ گر معنی ندارد مردہ ایست سوز آواز آتش افسردہ ایست صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور میں وہ سارا حسن موجود ہے جس کی خودی کو آرزو ہے۔ لہٰذا خدا کے ذکر اور فعل جمیل کے ذریعہ سے خودی اس قابل ہو جاتی ہے کہ اپنی آرزوئے حسن کو پوری طرح سے مطمئن کرے اور اس طرح سے اپنی محبت کو درجہ کمال پر پہنچا دے۔ اس مقام پر پہنچ کر خودی کو ذکر اور فکر اور فعل جمیل سے ایسا سرور حاصل ہوتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ لہٰذا جو شخص اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے وہ سرور ہیچ نظر آتا ہے۔ جو اکثر اشخاص آرٹ یا فن سے حاصل کرتے ہیں اور ایسا شخص اگر فنکار ہو تو وہ اپنے فن سے خود ایسا سرور حاصل کرتا ہے اور اس کو دوسروں کے لئے بھی ایسے سرور سے بھر دیتا ہے جو کسی ایسے فنکار کے لئے ممکن نہیں ہوتا جو خدا کو نہ مانتا ہو یا خدا کو ماننے کے باوجود اپنی محبت کی پوری پوری نشوونما کرنے سے محروم رہ گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص کا فن اس کے لئے مشاہدہ حسن کی اس لذت کو پھر زندہ کر دیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کا فن محض فن کی حیثیت سے درجہ کمال پر ہوتا ہے۔ بعض اشخاص زندگی کی پریشانیوں سے عارضی طور پر نجات پانے اور تفریح حاصل کرنے کے لئے فن کی پناہ لیتے ہیں۔ ایسے لوگ اس لذت سے نا آشنا ہوتے ہیں جو خدا کی مخلصانہ عبادت میں انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ تمنائے حسن یا خدا کی محبت کے اظہار سے خودی کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اس کی نوعیت میں اظہار تمنا کے طریق کے بدل جانے سے کوئی فرق نہیں آتا تاہم تمنائے حسن کے اظہار کے بعض طریقے اس تمنا کی تسکین اور تشفی کے لئے دوسرے طریقوں سے زیادہ موثر ہیں۔ مثلاً خدا کے ذکر کے ذریعہ سے خودی جس قدر اپنی تمنائے حسن کی تشفی یا تسکین کر سکتی ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو آرٹ کے ذریعہ سے ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا ذکر کے ذریعہ سے اس تشفی اور تسکین کے عمل کے دوران خودی کو جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ بھی اس سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے جو آرٹ کے ذریعہ سے اسے حاصل ہو سکتا ہے۔ آرٹ کی دو خطرناک قسمیں آرٹ چونکہ خودی کی آرزوئے حسن کی تشفی کا عمل ہے اس سے بھی خودی کی محبت ترقی کرتی ہے۔ لیکن آرٹ کی بعض قسمیں ایسی ہیں مثلاً سرود، رقص، مصوری اور مجسمہ سازی جو آسانی سے جنسی تلذذ کا سامان بن جاتی ہیں۔ اس قسم کے آرٹ کو پاکیزہ بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن اگر مکمل طور پر ایسا کرنا مشکل ہو تو خودی کی حفاظت اور تربیت کے لئے اس سے احتراز ضروری ہے کیونکہ پھر یہ آرٹ کے مقام سے گر کر فقط جنسی اپیل کا ایک ڈھنگ بن کر رہ جاتا ہے۔ جب بھی ہم اس قسم کے آرٹ کا مشاہدہ کریں ہمیں دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ یہ آرٹ ہے۔ اس قسم کا آرٹ خودی کے لئے موت کا پیغام ہے۔ وہ مغنی جس کا دل پاک نہیں اپنے سانس سے نغمہ کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں مرجع عقیدت انسانوں کی تصویر کشی اور مجسمہ سازی بالخصوص آرٹ کی ایسی قسمیں ہیں جو ایک حد تک انسان کے مخلصانہ ذوق عبادت اور جذبہ یک بینی و یک پرستی کو چرانے اور ایک غیر محسوس طریق پر خدا سے ہٹانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے آرٹ سے بھی احتراز خودی کی پوری پوری نشوونما کیلئے ضروری ہے۔ سینما اس وقت سینما کی جو حالت ہے اس کا جو تاجرانہ مقصد اور مدعا ہے اور اس کے پیچھے زندگی کا جو سفلی اور حیوانی نقطہ نظر کام کر رہا ہے اس کے پیش نظر ہمیں سینما کو بھی آرٹ کی ایسی ہی اقسام میں شمار کرنا چاہئے۔ اقبال کی نگاہ میں یہ عہد قدیم کی بت فروشی اور بت گری کی ایک صورت ہے۔ وہ بت گری کوئی آرٹ(صنعت) نہ تھی بلکہ کافری کا ایک تقاضا تھا۔ یہ بھی کوئی آرٹ نہیں بلکہ ایک قسم کی ساحری ہے اور تہذیب نو کی پیدا کی ہوئی ایک تجارت ہے جس کا مقصد جلب زر کے سوائے اور کچھ نہیں۔ اقبال اسے بت سازی اور بت پرستی اس لئے کہتا ہے کہ یہ انسان کی آرزوئے حسن کو خدا سے ہٹا کر غلط راستہ پر ڈالتا ہے اور بت پرستی بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ انسان کی تفریح کا سارا سامان آرزوئے حسن کی صحیح تشفی سے پیدا ہونا چاہئے۔ ورنہ اس کی تفریح اس کی خودی کی نشوونما کے لئے مضر ہوتی ہے۔ اور اس کا انجام مسرت نہیں بلکہ حزن و ملال کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔ وہی بت فروشی وہی بت گری ہے سینما ہے یا صنعت آذری ہے وہ صنعت نہ تھی شیوہ کافری تھا یہ صنعت نہیں شیوہ ساحری ہے وہ مذہب تھا اقوام عہد کہن کا یہ تہذیب حاضر کی سوداگری ہے تمثیل اسی طرح سے تیاتر یا تمثیل بھی خودی کی تربیت کے لئے خطرناک ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کمال اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اداکار اپنے آپ کو بالکل مٹا دے اور اپنی جگہ اس شخص کی خودی کو پوری طرح سے کار فرما کر دے جس کا کردار وہ ادا کر رہا ہے۔ ایک انسا ن اپنی شخصیت اور اس کے اندر جاگزیں ہونے والی آرزوئے حسن کا اس سے زیادہ برا استعمال اور کیا کر سکتا ہے کہ وہ اپنے دل میں جو خدا کا گھر ہے خدا کے سوائے اوروں کی خودی کو بساتا ہے۔ جس طرح سے اسلام سے پہلے کافروں نے خانہ کعبہ میں لات و منات ایسے بت پوجا کے لئے کھڑے کر دئیے تھے۔ ایسے کفر سے خد اکی پناہ، انسان کی زندگی اس کی خودی پر منحصر ہے۔ اس کی مسرت اس کی محبت، اس کی ذات کا تسلسل اور ثبات اور اس کی صفات سب کا دار و مدار اس کی خودی پر ہے۔ اگر وہ اپنی خودی کو ہی مٹا دے تو پھر اس کے پاس اور کیا چیز رہ جاتی ہے جس کی بنا پر اسے زندہ سمجھا جائے۔ چونکہ انسان کی خودی خدا کی طلب گار ہے اس کا مقام مہ و پردین سے بھی اونچا ہے۔ انسان اسی کی وجہ سے معزز اور مکرم ہے۔ اسے غیر اللہ کے لئے وقف کرنا اپنی تذلیل ہے۔ تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود حیات کیا ہے؟ اسی کا سرور و سوز و ثبات بلند تر مہ پروین سے ہے مقام اس کا اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات ظاہر ہے کہ جن حقائق کی بنا پر تیاتر یا تمثیل خودی کی تربیت کے لئے مضر ہے وہ اداکاری کی تمام قسموں پر صادق آتے ہیں۔ ہنروران ہند کا آرٹ ہنروران ہند کا آرٹ جنسیت میں ڈوبا ہوا ہے لہٰذا گھٹیا اور پست ہے۔ ان کا تخیل اس قسم کا ہے کہ انسان کے دل سے عشق و مستی یعنی خدا کی محبت رخصت کر دیتا ہے۔ ان کا تاریک فکر قوموں کے لئے ہلاکت ہے۔ یہ ہنر ور خدا پرست نہیں بلکہ برہمنوں کی طرح بت پرست ہیں اور ان کے صنم خانوں میں موت کی تصویریں بنا کر رکھی گئی ہیں۔ یعنی ان کے ہنر کی مخلوقات افراد اور اقوام کے لئے موت کا حکم رکھتی ہیں۔ ان کا ہنر انسانوں کو یہ جاننے سے باز رکھتا ہے کہ ان کی خودی ترقی کر کے بلند مقامات تک پہنچ سکتی ہے۔ وہ اپنے ہنر سے بدن کی خواہشات کو تو بیدار کرتے ہیں لیکن روح یا خودی کی خواہشات کو سلاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خواہ وہ شاعر ہے یا مصور ہے یا افسانہ نویس عورت کی کشش کے فریب میں مبتلا ہے۔ عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا، ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کا مزار موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار عجم کا شعر شعر کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ خدا کی محبت کی پرورش کرے اور اسے یہاں تک ترقی دے کہ انسان کی خودی باطل کو فنا کرنے کے لئے تلوار کی طرح تیز ہو جائے جس کی وجہ سے انسان دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے پرجوش زور دار اور انقلاب آفریں عمل پر آمادہ بن سکے۔ اگر مرغ سحر خیز کا نغمہ گلستان میں رونق نہیں لاتا بلکہ اسے اور بے رونق کر دیتا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ وہ خاموش ہی رہے۔ کائنات کی رونق یہ ہے کہ اس میں حسن اور نیکی اور صداقت کا دور دورہ ہو۔ اگر شاعر کا شعر خدا کی اس کائنات میں بدی اور زشتی کو دور کر کے نیکی اور حسن اور صداقت کے اوصاف کو جو خدا کی محبت کے مقام کمال ہی سے صادر ہو سکتے ہیں، پھیلانے اور عملی طور پر موثر کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو شعر کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مانا کہ عجم کاشعر بڑا دلکش اور دل آویز اور بڑا زور دار اور موثر ہے یہاں تک کہ پہاڑ کے ٹکڑے اڑا دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ شمشیر خودی کو تیز نہیں کرتا اور اگر ایک پرویز کی سلطنت یعنی باطل کی قوت اس سے شکستہ نہیں ہوتی تو اس کا اثر کس کام کا ہے۔ ہے شعر عجم گرچہ طربناک و دل آویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستان بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز وہ ضرب اگر کوہ شکن کبھی ہو تو کیا ہے جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز سرود حرام فقیہوں میں یہ بحث چلی آتی ہے کہ سرود حلال ہے یا حرام لیکن اگر ہم اسرار حیات یا خودی کے اوصاف و خواص کی روشنی میں دیکھیں تو اس بحث کا فیصلہ آسان ہے۔ وہ سرود جو خدا کی محبت سے بیگانہ کرنے والا ہو حرام ہے کیونکہ وہ خودی کے لئے موت کا پیغام ہے اور ظاہر ہے کہ زندگی موت پر مقدم ہے اور ہم زندگی دے کر موت کو خرید نہیں سکتے۔ اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں نالے و چنگ و رباب خودی کے اوصاف و خواص کے پیش نظر خدا کی محبت سے محرومی انسان کے لئے موت ہے۔ ان کہ بے حق زیست جز مردار نیست گرچہ کس در ماتم او زار نیست بے شک گانے والے کی لے کی بلندی اور پستی سے جو گانے میں دلکشی پیدا ہوتی ہے اس سے دل کو بڑی مسرت حاصل ہوتی ہے اور اگر دل میں غم یا خوف کی کیفیت موجود ہو تو جاتی رہتی ہے۔ لیکن اگر مغنی کا سرود خدا کی محبت کے جذبہ کو کچلنے والا ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سننے والے کا دل مر جائے گا اور زندہ اور پائندہ نہ رہے گا۔ اگر دل خود ہی مر گیا تو دل کی کشود کس کام آئے گی اگر نوا ایسے دل سے نکلے جس میں خدا کی سچی محبت کا سوز در حقیقت موجود ہو تو اس نوا کے اثر سے ستاروں کا وجود بھی جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کی قسمتوں پر حکمران ہیں پگھل سکتا ہے اور پوری دنیا مغنی کی مرضی کے مطابق بدل سکتی ہے۔ اگرچہ ایسی نوا کائنات میں بالقوہ موجود ہے اور کائنات کی ممکنات میں پوشیدہ ہے۔ تاہم ابھی بافعل اور آشکار نہیں ہوئی۔ ایسا سرود جس کی تاثیر سے آدم مستقل طور پر غم اور خوف سے نجات پا کر لاخوف علیھم ولا ہم یحزنون کا مصداق بن جائے اور ایازی یعنی غلامی اور شخص پرستی کا مقام محمود غزنوی یعنی بادشاہت اور بت شکنی کے مقام میں بدل جائے اور یہ پوری کائنات جو مہ و انجم کا ایک حیرت خانہ ہے لا موجود میں شمار ہونے لگے اور صرف تو باقی رہ جائے یا تیرا یہ اعلان کہ سوائے خدا کے اور کوئی موجود نہیں۔ یعنی یہ پرانی کائنات مٹ جائے اور ایک نئی کائنات وجود میں آئے جو تیری اور تیرے محبوب خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ دوسرے لفظوں میں ایسا سرود جسے عارفان خودی جائز اور مشروع سمجھتے ہیں۔ ابھی کسی مطرب کا منتظر ہے۔ مراد یہ ہے کہ کائنات خدا کی مرضی کے مطابق ضرور بدل کر رہے گی۔ لیکن اس تبدیلی کا ذریعہ ایک ایسا نغمہ ہی ہو سکتا ہے جس کی تاثیر سے لوگوں کے دل خدا کی محبت کے سوز سے پگھل جائیں۔ کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود، ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا، جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے، تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود، جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہاں خودی منظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود منکر خدا کا آرٹ جو شخص اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کے لئے خدا کے تصور سے کام نہیں لے سکتا اس لئے کہ وہ خدا کا منکر یا کافر ہے یا خدا کے تصور سے آشنا نہیں اس کا آرٹ اسی گھٹیا قسم کا آرٹ ہو سکتا ہے اگرچہ وہ دیکھنے والوں کے لئے فردوس نظر ہو اور وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ اس آرٹ نے ان پر جنت کا ایک دروازہ کھول دیاہے اور خدا کی قدرت کے راز ہائے سربستہ ان پر آشکار کر دئیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خودی کی تگ و دو سے مادی طور پر ترقی یافتہ بن جانا یا اس جہان سحر و شام کے ادوار میں سے دور جدید کا انسان بن جانا ایسے کارہائے نمایاں بھی حق و باطل اور زشت و زیبا کی اس حریفانہ کشمکش سے جو انسانی زندگی کی ایک خصوصیت کے طور پر انسان کے ضمیر کے اندر اور باہر جاری ہے، انسان کو نجات نہیں دلا سکتے۔ اس سے نجات پانے کا طریق صرف یہ ہے کہ انسان خدا پر ایمان لائے اور خدا کی محبت کو ترقی دے کر کمال پر پہنچائے۔ اس زمانہ کے کافر نے ایک نئی قسم کی بت پرستی کو جس میں لات و منات کی بجائے وطن اور قوم اور رنگ اور نسل کو اصنام بنایا جاتا ہے اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ خدا سے بیگانگی کے اس زمانہ میں اس کافر سے ہم اس سچے آرٹ کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جو صرف عشق حقیقی سے زندگی پانے والوں کا ہی امتیاز ہے، وہ مر چکا ہے اور یہی اس کا آرٹ جو غیر حسن کو حسن، موت کو حیات اور قبر کی تاریک رات کو زندگی کی روشنی سمجھتا ہے اس کا جنازہ پڑھا رہا ہے۔ ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر فاش ہے چشم تماشا پہ نہانخانہ ذات نہ خودی ہے نہ جہان سحر و شام کے دور زندگی کی حریفانہ کشاکش سے نجات آہ وہ کافر بے چارہ کہ ہیں اس کے صنم عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات تو ہے میت! یہ ہنر تیرے جنازے کا امام نظر آئی جسے مرقد کے شبستان میں حیات انسان کی تمام اعلیٰ سرگرمیوں کا مقصد خودی کی حفاظت اور تربیت ہے سرود اور شعر اور ہنر کی دوسری قسمیں ہی نہیں بلکہ ادب اور دین اور سیاست بھی انسان کے ایسے اعمال ہیں جن کا منبع بندہ خاکی کا دل یا اس کی آرزوئے حسن ہے۔ یہ اعلیٰ قسم کے اعمال انسان کا خاص امتیاز ہیں اور حیوان کے حصہ میں نہیں آئے۔ ان کا مقصد خدا کی محبت کے اسی جذبہ کی تشفی اور خدا اور اعانت ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات اور خدا کا خلیفہ اور ہمراز اور ہم کار بناتا ہے۔ ان اعمال کے نتائج اور فوائد میں سے ہ رایک اپنی قدر و قیمت میں ایک نا یاب اور قیمتی موتی کی طرح ہے۔ لہٰذا اس میں ذرا شک نہیں کہ ان اعمال کا مقام ستاروں سے بھی بلند تر ہے۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی خودی کی (یعنی خودی کی محبت کی جو فقط خدا کے لئے ہوتی ہے) حفاظت اور تربیت نہ کر سکے تو محض بے سود اور بیکار ہے کیونکہ اس سے زندگی کے مقصد کو اور اس عمل کے اپنے مقصد کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور اگر وہ عمل خودی کی حفاظت اور تربیت کرنے والا ہے تو عین زندگی ہے۔ اس دنیا میں جن قوموں نے اپنے دین اور اپنے ادب کو خودی کی تربیت اور ترقی کے مقصد سے بے تعلق کر لیا تھا وہ ذلیل ہو کر رہی ہیں۔ سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یکدانہ، ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسوں و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی، خودی سے جب ادب و دین ہوئے ہیں بیگانہ اگر آرٹ میں خودی کی تعمیر یعنی خدا کی محبت کی نشوونما کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو خواہ وہ مصوری ہو یا شاعری ہو یا موسیقی ہو یا گانا وہ افسوسناک ہے۔ انسان کے لئے زندگی خدا کی محبت ہے اور موت خدا سے دوری لیکن افسوس کہ مکتب ہویا مے کدہ (یعنی آرٹ جو حسن کی نمائش سے مست کرتا ہے) اس وقت دونوں بے خدا ہونے کی وجہ سے موت کا درس دے رہے ہیں۔ ہمیں جینا سیکھنا چاہئے اور اصل جینا خودی کا جینا ہے۔ اگر ہماری خودی زندہ ہو جائے تو ہم اس دنیا میں بھی زندہ رہیں گے اور اگلی دنیا میں بھی بدن کی زندگی جو شرر کی طرح ایک لمحہ سے زیادہ نہیں ہوتی ہماری اصل زندگی نہیں۔ انسان کی اصل بدن سے نہیں بلکہ روح سے ہے۔ بدن روح سے ہے، روح بدن سے نہیں۔ زندہ رہنے کے لئے ہمیں وجود یا زندگی کے لوازمات اور مقدمات اور مدارج کو سمجھنا چاہئے۔ اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر، وائے صورت گری و شاعری و نالے و سرود مکتب و میکدہ جز درس بنوں دن نہ دبند بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود، آرٹ کی تاثیر کا منبع آرٹ یا ہنر کی ساری مشکلوں اور کوتاہیوں کا سبب سمجھنے کے لئے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ جب ایک نے نواز اپنی سے اثر مے ڈوبی ہوئی مست کرنے والی سریں نکالتا ہے تو نے کی آواز میں شراب کا سرور کہاں سے آ جاتا ہے۔ یقینا اس کا منبع نے کی سوکھی ہوئی لکڑی نہیں بلکہ نے نواز کا دل ہے تو پھر یہ دل کیا چیز ہے۔ اس میں مست کرنے کی خاصیت اور اثر پیدا کرنے کی طاقت کہاں سے آئی ہے۔ یہی دل انسان کی خودی ہے جو اصل انسان ہے اور اس دل میں فقط ایک ہی آرزو ہے اور وہ آرزوئے حسن ہے جو صرف خدا کی محبت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہوتی ہے۔ عبادت، علم، اخلاق اور ہنر ایسے اعمال انسان کی اسی آرزوئے حسن کے پہلو ہیں اور اسی کی اعانت کے لئے وجود میں آتے ہیں۔ غلط اور ناقص اور نازیبا تصورات زیبائی کا لباس اوڑھ کر خدا کی محبت کے جذبہ کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں لیکن اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ غیر اللہ سے کٹ کر بالکل خدا کے لئے ہو جائے او رجب یہ کلیتاً خدا کے لئے ہو جاتا ہے تو انسان کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور وہ سچ مچ صاحب دل بن جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صاحب دل ایک نگاہ سے شہنشاہ ایران کا تختہ الٹ سکتا ہے اور اس کی نگاہ میں روم اور شام اور اس کی سلطنتوں کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ جب دل خدا کی محبت سے زندہ ہوں تو قوم بھی زندہ ہوتی ہے اور جب دلوں سے خدا کی محبت رخصت ہو جائے اور دل مردہ ہو جائے تو قوم بھی مر جاتی ہے۔ دل کی واردات پے بہ پے بدلتی رہتی ہیں کیونکہ اس میں جلال بھی ہے اور جمال بھی اس کی محبت کو رکاوٹوں کا سامنا ہونے لگے تو یہ جلالی صفات کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے محبت کی رکاوٹوں کو فنا کر دیتا ہے اور جب اس کی محبت کو موافق حالات پیش آئیں تو یہ حریر و پرنیاں کی طرح نرم ہو جاتا ہے اور سرا سر محبت نظر آنے لگتا ہے۔ اگر ایک فنکار کی ناقص ناتمام اور راہ گم کردہ محبت بھی اس کی نے کے نالوں میں کچھ اثر پیدا کر سکتی ہے تو پھر خود ہی سمجھ لیجئے کہ اگر اس کی محبت اپنے حقیقی محبوب کے لئے ہو گی اور درجہ کمال پر ہو گی تو اس کے نالہ نے میں تاثیر اور مستی کس درجہ کی ہو گی اور اس کا فن عمدگی کے کس مقام پر ہو گا۔ اگر فنکار یہ راز پا جائے تو اس کو فن کی تمام مشکلات کا حل یہیں سے ملے گا۔ اقبال اسی مضمون کو شعر میں بیان کرتا ہے۔ آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے دل کیا ہے اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے کیوں اس کی اک نگاہ الٹی ہے تخت کے کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں، مچتی نہیں سلطنت روم و شام و رے جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے، ہنر کے کمال کا معیار ایک فن کار کے متعلق بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اہل نظر ہوتا ہے، حسن کا ذوق رکھتا ہے اور حسن کو غیر حسن سے ممیز کر سکتا ہے۔ لیکن اگر ایک فنکار خود فن کی حقیقت اور اس کے مقصد سے نا آشنا ہو تو ہم اسے اہل نظر کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہنر کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کی سچی محبت کا ایسا سوز پیدا ہو جو اس کو زندہ جاوید بنا دے۔ یہ مقصد اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ ہنر کی تخلیق اس قسم کی ہو کہ وہ خدا کی محبت کی نشوونما کر سکے۔ اگر فنکار غیر حسن کو حسن بنا کر پیش کرے تو اس کا فن بدن کی اس زندگی میں جو شرر کی طرح ایک دو لمحہ کے لئے ہی ہوتی ہے۔ کسی قدر لذت یا سرور کا باعث ہو تو ہو لیکن نہ تو وہ خدا کی محبت کی تربیت کر سکے گا اور نہ ہی روح کی ابدی زندگی اور اس کی محبت کے ابدی سوز کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکے گا۔ لیکن بدن کی اس نفس یا دو نفس کی زندگی کی حقیقت کیا ہے کہ فنکار اپنے فن کو اس کا غلام بنا دے۔ ابرنیساں کا قطرہ اگر کسی صدف میں جا پڑے تو وہ گہر بن جاتا ہے فن کار کا جو ہر وہ قطرہ نیساں ہی سہی جو اس کے شاہکار کے صدف کو حسن کے گوہر تابدار سے پر کرتا ہے لیکن وہ صدف یا وہ گوہر جو قطرہ نیساں کے کمالات کی تخلیق ہونے کے باوجود دریا میں تلاطم پیدا نہ کر سکے دریا کے لئے بے حقیقت ہے۔ اسی طرح سے فن کار وہ شاہکار اور فن کا وہ حسن جو قوم کے اندر کوئی حرکت پیدا نہ کر سکے قوم کے لئے بے معنی اور بے کار ہے۔ باد سحر سے چمن میں پھول کھلتے ہیں اور یہ صحیح ہے کہ شاعر کی شاعری اور گانے والے کا گانا دونوں چمن قوم کے لئے باد سحر کا کام دے سکتے ہیں۔ لیکن وہ باد سحر بے کار ہے جس سے قوم کا گلستان شگفتہ ہونے کی بجائے مرجھا جائے۔ ایک ایسی قوم جو حالت جمود میں ہو جب تک اس کے لئے کسی معجزہ سے فکر و عمل کی نئی راہیں نہ کھل جائیں وہ انسانیت کی منزل مقصود کی طرف حرکت نہیں کر سکتی۔ ہنر ایسا ہونا چاہئے جو عصائے کلیمی کی طرح ہو جس کی ایک ضرب سے بے آب و گیاہ بیابان میں پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے تھے جو ایک معجزہ کا حکم رکھتا ہو اور ایک حیرت انگیز فکری انقلاب سے قوم کو ارتقا کے کھوئے ہوئے راستوں پر ڈال سکتا ہو۔ اقبال کہتا ہے: اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نو ہو کہ مغنی کا نفس ہو، جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا خطرناک شاعری اگر شعر خودی کی آرزوئے حسن کے اصل مقصود کو پیش نظر نہ رکھ سکے تو یہ انسانیت کے لئے نہایت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ فن کی اور قسموں کی نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے تھوڑے خرچ پر اور بار بار استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ اظہار مطلب کے لئے زیادہ موزوں اور موثر ہے۔ انسانی جذبات کو زیادہ آسانی کے ساتھ اپنے ضبط میں لا سکتا ہے اور ہماری روز مرہ کی زندگی سے بآسانی تعلق پیدا کر سکتا ہے اگر شاعر مقصود حیات سے نا آشنا ہو تو پھر وہ زشتی اور نازیبائی کو حسن بنا کر پیش کرتا ہے انسان کے ارتقا کی راہ میں ایک رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے۔ موت کی زندگی اور زندگی کو موت کا رنگ دے کر سامنے لاتا ہے۔ ایسا زہر تقسیم کرتا ہے جو شہد میں حل کیا گیا ہو۔ بعض اوقات ا س کا نقصان حساب باہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ لاتعداد انسانوں کی آرزوئے حسن کی غلط راہوں اور غلط منزلوں کی طرف راہ نمائی کر کے ان کو بڑی بڑی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جن سے وہ مر کر ہی نجات پاتے ہیں۔ ایسے شاعر کا کلام پھول کو تازگی سے اور بلبل کو ذوق پرواز سے محروم کر دیتا ہے۔ گویا اس کے اثر سے نہ حسن میں شوخی باقی رہتی ہے اور نہ عشق میں گرمی۔ انسان خیالات کے بحر بیکراں میں غرق ہو جاتا ہے اور عمل سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اس کا کام شراب کی سی مستی ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ہر انسان کو اپنی خودی کی سلامتی کے لئے اس کی چمکتی ہوئی شراب سے بچنا چاہئے۔ جس بدقسمت قوم میں ایسا شاعر پیدا ہو وہ اجل سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ وائے قومے کز اجل گیرد برات شاعرش دابوسد از ذوق حیات خوش نماید زشت را آئینہ اش در جگر صد نشتر از نوشینہ اش بوسہ او تازگی از گل برد، ذوق پرواز از دل بلبل برد دریم اندیشہ اندازد ترا، از عمل بیگانی مے سازد ترا از غم و مینا و جامش الحذر از مے آئینہ فامش الحذر مقدس شاعری اس کے برعکس اگر شعر خودی کی آرزوئے حسن کے مقصود سے آگاہ ہو تو عالم انسانی کے ارتقا کا ایک مفید اور موثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسا شعر کہنے والے شاعر کے متعلق اقبال لکھتا ہے کہ اس کا سینہ حسن کی جلوہ گاہ ہوتا ہے جس سے حسن کا نور پھیلتا ہے ۔ وہ اپنے شعر سے جس چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کے حسن میں اضافہ کر دیتاہے۔ قدرت کا حسن بھی اس کے کلام کے جادو سے اور زیادہ دلکش اور محبوب ہو جاتا ہے۔ اس کا فکر بلندی میں چاند اور ستاروں تک پہنچتا ہے وہ زشتی کو جانتا ہی نہیں اور حسن کو پیدا کرتا رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قافلے اس کی بانگ درا سے اس کے پیچھے اپنی منزلوں کی طرف چل پڑے ہیں۔ سینہ شاعر تجلی راز حسن خیزد از پہنائے او انوار حسن از نگاہش خوب گرد و خوب تر فطرت از افسوں اور محبوب تر فکر ادبا ماہ و انجم ہم نشین، زشت را نا آشنا خوب آفریں کارد انہا از درایش گام زن درپئے آواز نائیش گام زن جس طرح سے دل جسم کے اندر احساسات کا مرکز ہوتا ہے۔ شاعر ایک قوم کے لئے جذبات اور احساسات کا مرکز ہوتا ہے۔ وہ اپنی محبت کے سوز سے جو شاعری کی جان ہے۔ ایک نئی دنیا پیدا کرتاہے۔ خدا کی محبت کا سوز کائنات کے ہر ذرہ میں ہے اسی سے پوری کائنات کی تعمیر ہوئی ہے۔ وہ شاعری جو اس سے خالی ہے ایک طرح کا ماتم ہے۔ اگر شعر کا مقصود خدا کی محبت کی بنیاد پر انسانیت کی تعمیر ہو تو وہ نبوت کا وارث ہے۔ شاعر اندر سینہ ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبار گل سوز و مستی نقشبند عالمے است شاعری بے سوز و مستی ماتمے است شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارث پیغمبری است لہٰذا اقبال شاعر کو دعوت دیتا ہے کہ وہ زندگی کے مقصد کو اپنے ہنر کا معیار قرار دے اگر اس کی شاعری خدا کی محبت کو فروغ دینے کے کام آ رہی ہے تو قابل قدر ہے ورنہ نہیں۔ اے میان کیسرات نقد سخن بر عیار زندگی او را بزن، اگر ہنر کار کا ہنر خدا کی محبت کے جذبہ کی عملی تسکین اور تشفی کے لئے کام نہیں آ رہا تو وہ یقینا قوموں کی بربادی کا سبب بنے گا۔ ایسے ہنر سے گریز واجب ہے۔ نہ جدا رہے تو اگر تب و تاب زندگی سے کہ ہلاکئے امم ہے یہ طریق نے نوازی غلام اور کافر کا آرٹ چونکہ آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کی آزادانہ اظہار پر موقوف ہوتا ہے ایک غلام یا ایک ایسا آدمی جس کا تصور حقیقت صحیح نہ ہو، اعلیٰ قسم کا آرٹ پیدا نہیں کر سکتا۔ اکثر اوقات اس کے آرٹ کا مقصد یا فطرت کی نقل ہوتا ہے یا ان افراد کے ذوق کی ترجمانی اور خدمت گزاری جن کو یہ آرٹ محظوظ کرنا چاہتا ہے۔ ایک غلام اپنی پوری آرزوئے حسن کے مطابق ایجاد و تخلیق کی اہلیت سے محروم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی خودی اپنے صحیح تصور حقیقت کے لئے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کے غلط تصور حقیقت کے لئے سوچنے اور کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی ایجاد و تخلیق کی قوتیں اپنا آزادانہ اور مکمل اظہار نہیں پا سکتیں۔ اس کا آرٹ جدت کے وصف سے عاری ہوتا ہے۔ آرٹ حسن کے آزادانہ اظہار کا نام ہے چونکہ غلام کا آرٹ حسن کا آزادانہ اظہار نہیں ہوتا لہٰذا وہ سچا آرٹ بھی نہیں ہوتا۔ ایک فن کار اپنے آرٹ میں اپنے آپ کا مکمل آزادانہ اظہار اسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس کی خودی ہر قسم کے زشت اور ناقص تصورات حقیقت کے اثر سے آزاد ہو۔ ناقص تصورات حقیقت چونکہ خودی کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتے وہ اس کی آزادی کو سلب کر کے اسے اپنا غلام بنا لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں خودی آزادانہ تخلیق کے قابل نہیں رہتی۔ لہٰذا خدا سے کفر اور غلامی دونوں حالتیں اعلیٰ قسم کے آرٹ کے لئے سازگار نہیں۔ بلند ترین سطح کا آرٹ صرف اسی حالت میں ممکن ہے جب فن کار کی خودی ہر قسم کے غلط تصورات حقیقت کے اثر سے مکمل طور پر آزاد ہو۔ خواہ یہ اثر کفر سے پیدا ہو رہا ہو یا غلامی سے۔ غلامی کی حالت میں پیدا ہونے والے فنون لطیفہ کے اندر کئی قسم کی ہلاکتیں مخفی ہوتی ہیں۔ غلامی کے ساحرانہ اثرات کا ذکر کیا جائے۔ غلام کی فنی مخلوقات اس کے دل کی طرح بے نور ہوتی ہیں۔ اس کی سریں اس کے دبے ہوئے دل و دماغ کی طرح پست ہوتی ہیں۔ اس کی نے کی آواز ہی سے پتہ چل جاتاہے کہ وہ غلام ہے اس کا ساز انسانوں کی ایک پوری بستی کے لئے موت کا پیغام ہوتا ہے۔ مرگ ہا اندر فنون بندگی، من چہ گویم از فسون بندگی چوں دل او تیرہ سیمائے غلام پست چوں طبعش نوا ہائے غلام از نئے او آشکارا راز اد مرگ یک شہر است اندر ساز او ٭٭٭ خودی کا انقلاب خودی کی تربیت کے لوازمات۔ خلوت خدا کا ذکر، آیات اللہ کے طور پر مظاہر قدرت پر غور و فکر، فعل جمیل اور خدا کی محبت کے سوز و سرور سے ابھرنے والا آرٹ، خودی کی یہ چاروں فعلیتیں خدا کی محبت کو ترقی دے کر درجہ کمال پر پہنچاتی ہیں تاہم ان میں سے خودی کی ترقی اور تربیت کا زیادہ دار ومدار آخر کار مواظبت ذکر، قدرت پر غور و فکر اور فعل جمیل پر ہوتا ہے۔ ذکر اور فکر پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرنے کے لئے خودی کی خلوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر وہ ذکر اور فکر سے پورا فائدہ حاصل نہیں کر سکتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) خود غار حرا میں خلوت گزیں ہوئے تھے۔ اعتکاف کے اسلامی شعائر کی غرض و غایت بھی خلوت گزینی ہے۔ خودی را مردم آمیزی دلیل نارسائیا تو اے درد آشنا بیگانہ شواز آشنائی ہا ٭٭٭ از کم آمیزی تخیل زندہ تر زندہ و جوئندہ پابندہ تر ٭٭٭ وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی ٭٭٭ مصطفیٰ اندر حرا خلوت گزید مدتے جز خویشتن کس را ندید خودی کے مقام کمال کی کیفیتیں لہٰذا مومن شروع میں خلوت اختیار کرتا ہے۔ جب مومن خلوت کے ذکر اور فکر کو اور فعل جمیل کو کچھ عرصہ کے لئے بڑی احتیاط اور بڑے ذوق و شوق سے جاری رکھتا ہے تو وہ جلد ہی ایک عظیم الشان انکشاف حقیقت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس مقام پر خودی بے حد سرور اور اطمینان محسوس کرتی ہے اور اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ اس دنیا میں حاصل کرنا چاہتی تھی اس نے وہ سب کچھ پا لیا ہے اور اسے اور کسی چیز کی حاجت نہیں سوائے اس کے کہ جو کچھ اس نے پایا ہے اس کے پاس ہمیشہ موجود رہے اور اس میں ہمیشہ اور اضافہ ہوتا رہے۔ یہی خودی کا مقام کمال ہے۔ انسان کی محبت جو ذکر اور فعل جمیل سے رفتہ رفتہ ترقی پاتی رہتی ہے۔ بالآخر اس قدر طاقت ور ہوجاتی ہے کہ انسان کی پوری عملی زندگی پر حکمران ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ مزاحمت کرنے والے غلط تصورات یا اپنی کشش کھو کر بالکل مٹ جاتے ہیں یا اگر ان میں یہ صلاحیت موجود ہو تو خدا کی محبت کے ماتحت اس کے خدمت گزار بن جاتے ہیں۔ بہرحال ان میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ خودی کو مسلسل عبادت اور اطاعت اور عمل کے ذریعہ سے خدا کی معرفیت اور محبت میں ترقی پانے اور معرفت اور محبت کے مقام کمال پر پہنچ کر خدا کا دیدار کرنے سے باز رکھ سکیں۔ خدا کا دیدار حضورؐ کے ارشادات میں خدا کے دیدار کے مقام کو احسان کا نام دیا گیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم خدا کی عبادت اس طرح سے کرو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو (الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ) شاید بعض لوگوں کو شبہ ہو کہ خدا کو دیکھنا ممکن نہیں۔ لیکن اگر ہم دیکھنے کے عمل کا تجزیہ کریں تو یہ شبہ رفع ہو جاتا ہے۔ جب ہم کسی مادی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس چیز پر نظر ڈالنے اور روئت کا احساس کرنے تک جو عمل معرض وجود میں آتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ اس چیز سے جو روشنی کی شعاعیں بکھر رہی ہوتی ہیں وہ ہماری آنکھوں پر پڑتی ہیں۔ ہماری آنکھوں کا محدب شیشہ انہیں سمیٹ کر چیز کا ایک عکس بناتا ہے جس کی اطلاع عصب روئت کے ذریعہ سے دماغ تک پہنچتی ہے اور دماغ کی معرفت ہمارے شعور کو اس چیز کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ گویا جو چیز خارج میں موجود کسی جسم کو دیکھتی ہے وہ دراصل ہمارا شعور ہی ہوتا ہے اور ہمارا شعور بھی جو چیز دیکھتا ہے وہ خود وہ جسم نہیں ہوتا بلکہ اس جسم کے چند اوصاف ہوتے ہیں جن کے مجموعہ کو ہی ہم وہ جسم قرار دیتے ہیں۔ دماغ، عصب، روئت، آنکھ اور روشنی فقط ان اوصاف کا علم حاصل کرنے کے آلات یا ذرائع ہیں جن کو ہمارا شعور اپنے کام میں لاتا ہے۔ جب شعور کو ان اوصاف کا واضح علم ہو جاتا ہے تو خواہ وہ جسم آنکھوں کے سامنے رہے یا نہ رہے۔ شعور اگر چاہے تو اس کو پھر دیکھ سکتا ہے اور جس قدر شعور کا علم واضح ہو گا۔ اس قدر اس کی بلا واسطہ روئت جسم بھی واضح ہو گی۔ جب مومن کے دل میں مطالعہ جمال اور فعل جمیل سے حق تعالیٰ کے اوصاف کی محبت درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے تو شدت محبت کی وجہ سے ذکر اور فکر کے دوران میں مومن کی ساری توجہ ان اوصاف پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ اوصاف اس کے شعور پر چھا جاتے ہیں اور ان کا علم اس کے شعور پر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے۔ اس وقت مومن کا شعور حق تعالیٰ کو بالکل اس طرح سے دیکھتا ہے جس طرح سے اس دنیا کی کسی اور چیز کو دیکھنا اس کے لئے ممکن ہوتا ہے۔ چونکہ یہ روئت ان آنکھوں سے نہیں ہوتی جو مادی اجسام کے دیکھنے کے لئے ایک ذریعہ کے طور پر بنائی گئی ہیں۔ اس لئے حدیث کے الفاظ ہیں کہ خدا کی عبادت اس طرح سے کر ’’ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہے‘‘ (کانک تراہ) یعنی مومن خدا کو دیکھتا تو ہے لیکن اس کا دیکھنا ان آنکھوں کے ذریعہ سے عمل میں نہیں آتا۔ یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک ہم خدا کو روبرو نہ دیکھیں ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے حالانکہ ایمان لانا خدا کو دیکھنے کی پہلی شرط تھی۔ اس کٹ حجتی کیلئے ان کو سزا دی گئی۔ ایک زور دار کشش اپنے مقام کمال کے قریب پہنچ کر خودی خدا کی ذات کے لئے ایسی زور دار کشش محسوس کرتی ہے کہ اس کا اختیار اپنے آپ پر باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا وہ نہایت ہی بے بس ہو کر اپنے محبوب کی طرف کھنچ جاتی ہے۔ اور کچھ عرصہ کے لئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ اپنے محبوب کی آغوش میں چلی گئی ہے اور محبوب کے ساتھ پیوست ہو کر ایک ہو گئی ہے۔ جیسے ایک لوہے کی سوئی جب آہستہ آہستہ مقناطیس کے نزدیک لائی جا رہی ہو تو مقناطیس کے قریب پہنچ کر ایک مقام ایسا آ جاتا ہے جہاں مقناطیس اسے خود بخود فی الفور اٹھا لیتا ہے۔ یہ خودی کے ارتقاء کی وہ حالت ہے جو اسے خلوت میں عبادت سے حاصل ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ تاہم اس کی ترقی کے اور مقامات جو جلوت میں محبوب کے مقاصد کی تکمیل کے لئے پر زور اور دلیرانہ عمل سے حاصل ہو سکتے ہیں بعد میں آتے ہیں۔ جب تک خودی اس حالت میں ہوتی ہے (اور اس حالت میں وہ بالعموم بہت تھوڑی مدت کے لئے رہتی ہے) وہ خود فراموشی کے عالم میں ہوتی ہے اور اس کا اپنے الگ وجود کا احساس اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ گویا بالکل ہی مفقود ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہی خدا ہے اور وہ نہیں۔ اس حالت میں خودی زمان و مکان کی قیود میں نہیں ہوتی کیونکہ وہ دونوں کے خالق کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب انسان اس حالت سے اپنے آپ کو لوٹتا ہے تو دوسروں کے لئے اس کی کیفیت کو پوری طرح سے بیان نہیں کر سکتا اور اظہار مطلب کی بہترین کوششوں کے باوجود اپنے الفاظ کو ناکافی پاتا ہے بلکہ الفاظ اس کے مطلب کا حجاب بن جاتے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس حالت کی پوری کیفیت کو جاننا چاہے اسے خود ہی اس میں سے گزرنا چاہئے۔ ہر معنی پیچیدہ در حرف نمی گنجد یک لحظہ بدل در شو شائد کہ تو دریابی ٭٭٭ حقیقت پہ ہر جامہ حرف تنگ حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ مولانا روم فرماتے ہیں کہ عشق کی کیفیت عشق ہی بیان کر سکتا ہے۔ کوئی آفتاب کو جاننا چاہے تو اسے آفتاب ہی کو دیکھنا چاہئے۔ ہرچہ گویم عشق را شرح و بیان، چوں عشق آیم خجل باشم ازان گرچہ تفسیرو بیان روشنگر است یک عشق بے زبان روشن تر است چوں قلم در وصف ایں حالت رسید ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید عقل در شرحش جو خر ورگل نجفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلت باید ازوے رومتاب ایک نئی قسم کی ولادت چونکہ خودی کی یہ حالت جب گزر جاتی ہے۔ تو انسان کی ایک ایسی نئی زور دار اور حیرت انگیز طور پر فعال زندگی کا سبب بنتی ہے جسے انسان کی نئی زندگی کہنا چاہئے۔ اس لئے اسے ایک اقبال ایک قسم کی پیدائش قرار دیتا ہے اور اسے بچے کی پیدائش سے ممیز کرنے کے لئے انسان کی پیدائش کا نام دیتا ہے۔ اس انسانی قسم کی پیدائش کے موقع پر انسان کائنات کی حدود زمان و مکان کو توڑ کر باہر نکل آتا ہے۔ جس طرح سے انسان اپنی حیوانی قسم کی پیدائش کے وقت ایک بچہ کی صورت میں اپنی ماں کے پیٹ کی حدود سے باہر نکل آتا ہے۔ اس پیدائش کے بعد وہ کائنات کے اندر نہیں ہوتا بلکہ کائنات اس کے اندر ہوتی ہے۔ ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پہنائی انسان کی حیوانی پیدائش (جسے بچہ کی پیدائش کہا جاتا ہے) شکست شکم سے ہوتی ہے اور انسانی پیدائش عالم زماں و مکان کی شکست ہے۔ زاون طفل از شکست اشکم است زاون مرد از شکست عالم است اس انسانی قسم کی پیدائش سے بہرہ ور ہونا انسان کی بڑی خوش نصیبی ہے کیونکہ جس طرح بچے کو پیدائش کے بعد شباب حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو اس نئی قسم کی پیدائش کے بعد ایک نئی قسم کا شباب حاصل ہوتا ہے۔ زاون اندر عالم دیگر خوش است تا شباب دیگرے آید بدست زمان و مکان کی بندشوں سے رہائی کا یہ مقام مومن کی ترقی کے راستہ کی ایک ضروری قدرتی منزل ہے جسے مومن ضرور پا کر رہتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی نظریاتی یا نفسیاتی نشوونما میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور وہ صحیح قدرتی طریق سے جاری ہے لہٰذا خود مومن کو بھی اس بات کے لئے کوشاں ہونا چاہئے کہ اس کی محبت کی قدرتی نشوونما جاری رہے اور اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو تاکہ وہ اس مقام کو پائے جب تک وہ اس مقام کو نہیں پاتا اس کا ایمان ناقص رہتا ہے۔ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ٭٭٭ مشو در چار سوئے ایں جہاں گم بخود باز او بشکن چار سو را مومن کا یہی وہ مقام ہے جس کی وجہ سے مومن چرخ نیلی فام اور سورج اور چاند اور ستاروں کی بلندیوں سے مرعوب نہیں ہوتا بلکہ ان کو بحر وجود کے گرداب اور اپنے راستہ کی رکاوٹیں سمجھتا ہے اور اپنی منزل مقصود کو ان سے بہت آگے دیکھتا ہے۔ فضا تری مہ و پروین سے ہے ذرا آگے قدم اٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں ٭٭٭ دل اگر اس خاکدان میں زندہ و بیدار ہو تیری نگاہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ! ٭٭٭ دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب ٭٭٭ پرے ہے چرخ نیلی فام ہے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد را ہوں وہ کارواں تو ہے اس مقام کو پانے والے خود شناس لوگ وہی ہیں جو اس عالم خاکی کی حدود سے باہر کود جاتے ہیں اور جنہوں نے آسمان سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ ڈالا ہے۔ خود آگہان کہ ازیں خاکدان برون جستند طلسم مہر و سپہر و ستارہ بشکستند انسان کو جولا نگاہ یا مقصود عمل یہ مادی دنیا نہیں جو زیر آسماں آب و گل کا ایک کھیل سا بنا ہوا ہے بلکہ اس مادی دنیا سے پرے اسے خدا کے عرش تک پہنچنا ہے اور خدا کی محبت کو حاصل کرنا ہے انسان کی منزل مقصود خدا ہے، یہ مادی دنیا نہیں۔ شعلہ ور گیر زد در خس و خاشاک من مرشد رومی کہ گفت منزل ما کبریاست انسان کا آسمان یہ روائے نیلگوں نہیں جسے لوگ آسمان سمجھتے ہیں بلکہ اس کا آسمان اس سے پرے ہے۔ یہ آسمان تو نگاہوں کا ایک طلسم تھا جو خدا کے بے حجاب ہونے سے ٹوٹا اور ٹوٹ کر فقط ایک روائے نیلگوں ثابت ہوا۔ خدا کے دیدار سے یہ مسئلہ حل ہوا کہ میرا آسمان یعنی میری بلند ترین امیدوں اور آرزوؤں کی حد کیا ہے۔ میں اپنی تمناؤں کی فضا میں ایک ایسے قافلہ کے ساتھ پرواز کر رہا تھا جس میں مہرو ماہ و مشتری بھی شامل تھے اور میں یہ سمجھتا کہ یہ میرے ہم عنان ہیں۔ لیکن ان کا قافلہ تھک کر رہ گیا اور میری پرواز پھر بھی جاری تھی۔ یعنی میری منزل مقصود مہر و ماہ و مشتری سے پرے ایسی جگہ پر ہے جہاں اس قدر بلند ہونے کے باوجود ان کی رسائی نہیں۔ عشق کی ایک ہی جست سے میں نے اس زمین و آسمان کی حدود کو پار کر لیا اور میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ یہ کائنات بے کراں ہے۔ اقبال نے ایک غزل کے چند اشعار میں اس مضمون کو ادا کیا ہے۔ اپنی جولانگاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تیری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک روائے نیلگوں کو آسمان سمجھا تھا میں کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ مشتری کو ہم عنان سمجھا تھا میں عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں ایمان کامل کا نشان جو مومن زمان و مکان کی بندشوں سے آزاد نہیں ہوا وہ بھی ماسویٰ اللہ کے طلسم میں گرفتار ہے اور پوری طرح سے موحد نہیں بن سکا۔ کسے از دو جہان خویش رو بردن نہ شتافت فریب خوردہ ایں نقش باطل است ہنوز جاوید نامہ میں جب شاعر رومی سے پوچھتاہے کہ معراج انسانی کیا ہے تو رومی جواب دیتا ہے کہ وہ خدا کے روبرو ہو کر انسان اک اپنا امتحان کرنا ہے کہ آیا وہ خدا کے سامنے ٹھہر سکتا ہے یا نہیں اور اس کے ہوش و حواس قائم رہتے ہیں یا نہیں اگر وہ ٹھہر سکے اور اس کے حواس مخنل نہ ہوں تو وہ پختہ اور قوی اور کامل عیار ہے ورنہ مجذوب ہو کر بے کار ثابت ہو جائے گا۔ اپنی روشنی کو بڑھانا اچھا ہے لیکن سورج کے سامنے لا کر اسے آزمانا چاہئے کہ وہ اتنی کم تو نہیں کہ ماند پڑ جائے۔ طیست معراج آرزوئے شاہدے امتحانے روبروئے شاہدے تاب خود را برفرودن خوشتر است پیش خورشید آزمودن خوشتر است پھر شاعر رومی سے پوچھتا ہے کہ خدا کے سامنے آنا ہم خاک و آب سے بنے ہوئے انسانوں کے لئے کس طرح ممکن ہے۔ خدا امرا ور خلق (یعنی زمان و مکان کی کائنات) کا مالک امر اور خلق سے باہر ہے اور ہم زمان و مکان کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ رومی جواب دیتا ہے کہ ’’ سلطان تمہارے ہاتھ آ جائے تو تم زمان و مکان کی اس تعمیر کو جو زمین و آسمان کی صورت میں نظر آتی ہے۔ توڑ سکتے ہو۔ جو شخص نکتہ سلطان سے استفادہ کر کے زمان و مکان کے طلسم کو نہیں توڑتا وہ جہالت کی موت مرتا ہے اور مر کر مورو ملخ کی طرح مٹی میں مل جاتا ہے۔ تم اس زمان و مکان کی دنیا میں ایک ولادت سے پہنچے تھے۔ اب ایک اور ولادت سے ہی اس سے باہر جا سکتے ہو اور ا س کی بندشوں سے آزاد ہو سکتے ہو۔‘‘ باز گفتم پیش حق رفتن چساں کوہ خاک و آب را گفتن چساں آمر و خالق برون از امر و خلق مازشت روزگاراں خستہ خلق گفت اگر سلطان ترا آید بدست مے تواں افلاک را از ہم شکست نکتہ الا بسلطان یاد گیر، ورنہ چوں مور ملخ در گل یمیر، از طریق زاون اے مرد نکوے آمدی اندر جہاں چار سوے ہم برون جستن بزاون مے توان بند ہا از خود کشاون مے توان یہاں قرآن کے اس اشارہ کی طرف تلمیح ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں سے خطاب کر کے فرمایا ہے کہ اے جنو اور انسانو اگر تم سے ہو سکے تو کائنات کی حدود سے باہر نکل جاؤ۔ لیکن بغیر سلطان (یعنی غالب کرنے والی حجت یا قوت) کے تم ایسا نہیں کر سکو گے۔ یمعشر الجن والانس ان استطعنم ان تنفذوا من اقطار السموات والارض فانفذ والافتفرون الا بسلطان اقبال کے نزدیک سلطان سے مراد روح کا وہ مقام ہے جہاں وہ عبادات اور نوافل کی کثرت سے اس قابل ہو جاتی ہے کہ زمان و مکان کی حدود سے نکل کر خدا سے ملاقی ہو جائے۔ جسمانی اور روحانی ولادت کا فرق اقبال رومی کی زبان سے بتاتا ہے کہ یہ ولادت آب و گل سے تعلق نہیں رکھتی۔ آب و گل کی ولادت کے بعد انسان ہنستا ہے۔ وہ ولادت جستجو کرنے والے کی ہے اور یہ جستجو میں کامیاب ہونے والے کی ہے۔ وہ زمان کی حدود کے اندر سیر و سکون کا موقعہ دیتی ہے اور یہ زمان و مکان کی حدود سے باہر نکل کر اسرار حقیقت کی سیر کا۔ وہ روز و شب کی محتاجی ہے اور یہ روز و شب کی سواری۔ دونوں کے لئے اذان ہوتی ہے۔ اس کے لئے وہ اذان جو فقط زبان سے بلند ہو اور اس کے لئے ایسی اذان جو دل و جان سے ادا ہو۔ جب کسی انسان کے بدن کے اندر ایک جان بیدار ولادت پاتی ہے تو اس کے کارناموں سے دنیا لرزنے لگتی ہے۔ لیکن ایں زاون نہ از آب و گل است داند آں مردے کہ او صاحبدل است آں یکے با گریہ ایں باخندہ ایست یعنی آں جویندہ ایں یا بندہ ایست آں سکون و سیر اندر کائنات ایں سراپا سیر بیرون از جہات آں یکے محتاجی روز و شب است واں دگر روز و شب اور امر کب است ہر دوز ادن را دلیل آمد اذاں آن بلب گویند و ایں از عین جہان جان بیدارے چو زاید در بدن لرزہ ہا افند درین دیر کہن اقبال خود تمنا کرتا ہے کہ خدا اسے طلسم زمان و مکان کو توڑنے کے قابل بنا دے۔ زیر گردوں خویش را یابم غریب ز آنسوے گردوں بگو انی قریب تا مثال مہر و ماہ گرد و غروب ایں جہات و ایں شمال و ایں جنوب از طلسم دوش و فردا بگذ دیم، از مہ و مہر و ثریا بگذ دیم، ایک ہی مقام کی مختلف تعبیرات خودی کی یہی حالت ہے جو اقبال کے نزدیک کاشف اسرار حیات ہے اور جس کو اقبال کبھی اپنے ’’ من میں ڈوبنا‘‘ کبھی ’’ خودی میں ڈوبنا‘‘ اور کبھی’’ تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوبنا‘‘ کہتا ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن، ٭٭٭ عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف، ٭٭٭ خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ ہمت مردان ہیچ کارہ نہیں، ٭٭٭ ہزار چشمہ تیرے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر، ٭٭٭ ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا پھر اس حالت کو وہ کبھی اپنے آپ میں گم ہو جانے کا اور کبھی اپنے آپ کو گم کر دینے کا نام بھی دیتا ہے۔ بخود گم بہر تحقیق خودی شو، انا الحق گود صدیق خودی شو، ٭٭٭ یکے گم مے کنم خود را یکے گم مے کنم اورا زمانے ہر دورا یابم چہ راز است ایں چہ راز است ایں پھر اس کو اقبال کبھی حرائے دل میں بیٹھنے سے کبھی خود کو ترک کرنے سے اور کبھی خدا کے پاس خلوت گزیں ہونے سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ اند کے اندر حرائے دل نشین ترک خود کن سوئے حق خلوت گزیں اور پھر اس کو وہ کبھی جہان دل کے اندر جھانکنے کا اور کبھی اعماق ضمیر کے اندر نگاہ ڈالنے کا نام بھی دیتا ہے۔ اند کے اندر جہان دل نگر تاز نور خود شوی روشن بصر ٭٭٭ فاش مے خواہی اگر اسرار دیں جز باعماق ضمیر خود مبین لذت مجذوبیت سے خطرہ خودی کو اس حالت میں ایک ایسی گہری اور دل کشا مسرت نصیب ہوتی ہے کہ دنیا کی ہر بڑی سے بڑی مسرت بھی اس کے سامنے ہیچ اور بے حقیقت رہ جاتی ہے۔ اس مسرت کی لذت خودی کو مست اور مخمور کر دیتی ہے۔ اسی نوعیت کی لیکن اس سے کم درجہ کی ایک مسرت جو بتدریج بڑھ رہی تھی خودی کو اس کے ارتقا کے گزشتہ مقامات اور مدارج میں بھی محسوس ہو رہی تھی اور اسے اپنی ہمت آزما جدوجہد کے دوران تسلیوں اور امیدوں کے سہارے دے رہی تھی۔ اب یہ عالم خود فراموشی کی مسرت اسی مسرت کے عروج کا نقطہ کمال ہے۔ یہ مسرت اس قدر جاذب ہوتی ہے کہ اسے ترک کر کے بیداری اور ہوشیاری کی حالت کی طرف لوٹنا بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے اور بعض وقت در حقیقت عاشق اسے ترک کر کے اپنی حالت صحو کی طرف واپس آنا نہیں چاہتا۔ لیکن اس خواہش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عاشق کے ذہنی قویٰ (جو اسے نہ صرف اس لئے دئیے گئے ہیں کہ وہ ان کی مدد سے محبوب کی پیدا کی ہوئی کائنات پر غور و فکر کر کے محبوب کے حسن و کمال کی معرفت حاصل کرے۔ بلکہ اس لئے بھی کہ وہ ان کی مدد سے اس دنیا کو محبوب کے مقاصد کے مطابق بدلنے کے لئے سر گرم عمل رہے) معطل ہو جانے کی وجہ سے بیکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرت کا یہ قاعدہ ہے کہ جن قویٰ سے کام نہ لیا جائے وہ ان کو کام کی استعداد سے محروم کر دیتی ہے۔ عاشق عالم زمان و مکان سے اپنا تعلق کھو دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس تعلق کو قائم رکھنا نہیں چاہتا۔ مستقل مجذوبیت کی یہ کیفیت اس عاشق کی قسمت میں ہوتی ہے جو نبوت کی تعلیم سے پوری طرح مستفید نہیں ہوتا اور جو اپنی کم علمی کی وجہ سے خودی کے محبوب اور مقصود کے متعلق غلط نقطہ نظر رکھتا ہے اور خودی کی فطرت سے یعنی خودی کی آرزوئے حسن کے فطری تقاضوں سے بے خبر ہوتا ہے۔ ان تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ خودی دنیائے عمل میں شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے محبوب کی خدمت اور اطاعت کے لئے موجود رہے اور محبوب کے حسین و جمیل مقاصد کی پیش برو کے لئے کام کر کے اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کا سامان مسلسل طور پر پیدا کرتی رہے۔ جب تک کہ کائنات میں خدا کی جستجوئے حسن ختم نہیں ہوتی یعنی جب تک کائنات اپنے کمال کو نہیں پہنچتی۔ اس وقت تک مومن کی جستجوئے حسن بھی ختم نہیں ہوتی تو مومن خدا کا دوست ہونے کی وجہ سے کائنات میں خدا کے مقاصد کا ممد و معاون ہوتا ہے۔ لذت مجذوبیت پر مر مٹنے والا عاشق یا وہ عاشق جو مجذوب تو نہیں لیکن دنیا میں محبوب کے مقاصد کی تکمیل کے لئے پوری پوری جدوجہد کر کے اپنی محبت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ محبوب کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک پست تر مقام سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا وہ لذت ذکر و فکر سے جو خلوت میں اسے محبوب کے قرب کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے، واقف ہوتا ہے۔ لیکن لذت کردار سے جو اسے جلوت میں عالم انسانی کے گوشہ گوشہ میں باطل کو فنا کر کے حکم حق کو جاری کرنے کی عملی جدوجہد سے نصیب ہوتی ہے آشنا نہیں ہوتا۔ ایسے عاشق کے متعلق اقبال بڑے افسوس سے لکھتا ہے: وائے درویشے کہ ہوئے آفرید باز لب بربست ودم در خود کشید حکم حق را در جہان جاری نہ کرو نانے از جو خورد و کراری نہ کرد خودی میں ڈوب کر ابھرنا لیکن ایک ایسا عاشق جو نظری اور عملی طور پر نبوت کے علم سے پوری طرح مستفید ہو رہا ہو۔ نہ صرف یہ جانتا ہے کہ محبوب کے ساتھ اس کا تعلق ایک اطاعت گزار بندہ کا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی محسوس کرتا ہے کہ اس کا فطری جذبہ محبت فقط اطاعت ہی سے پوری تشفی پا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی پوری زندگی کو اور اپنی زندگی کی ہر چیز کو اپنے فکر و عمل کی قوتوں کے سمیت اپنے محبوب کی اطاعت اور خدمت کے لئے وقف کر دیتا ہے۔ اس لئے محبوب کے ساتھ پیوست ہو کر خود فراموش ہونے کی حالت میں بھی وہ اپنی خودی کو محبوب کی اطاعت کے لئے بیدار اور برقرار رکھنے کی کوششیں کرتا ہے اور اگرچہ کہ اس کی یہ کوشش خود فراموشی اور مست و مخمور کرنے والی مسرت کی وجہ سے نہایت ہی مشکل ہوتی ہے تاہم وہ اپنی محبت ہی کی وجہ سے اس میں کامیاب ہوتا ہے اور اپنی حالت بیداری و ہوشیاری کی طرف لوٹ آتا ہے۔ اب اسے جو کچھ محسوس ہوتا ہے وہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ محبوب کے آغوش میں چلا گیا ہے اور فقط خدا ہی خدا ہے اور وہ نہیں بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ محبوب خود اس کی آغوش میں آ گیا ہے اور اب وہی وہ ہے اور خدا نہیں یعنی وہ خود ہی خدا ہے گویا وہ اپنی ز بان حال سے اپنے احساسات کی بنا پر انا الحق کا نعرہ لگاتا ہے۔ یہ خودی میں ڈوب کر پھر ابھر آنے کا وہ نہایت ہی مشکل کام ہے جسے مردان بلا کش کی ہمت آسان بناتی ہے۔ خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ ہمت مردان ہیچ کارہ نہیں یہی ہے خودی کا اپنی تکمیل کے مقام پر پہنچنا یا خدا کی ذات کو بے پردہ دیکھنا یا عین خود ہو جانا یا زندہ ہو جانا اور یہی خودی کی نمودار اور آشکارائی ہے۔ یہی خودی کا کمال ہے۔ یہی اس کی بلندی ہے۔ یہی اس کی تعمیر ہے اور یہی اس کی تربیت ہے۔ بر مقام خود رسیدن زندگی است، ذات را بے پردہ دیدن زندگی است ٭٭٭ چشم بر حق باز گردن زندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است ٭٭٭ بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی، ٭٭٭ خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عین خود بودن کمال است ٭٭٭ چناں با ذات حق خلوت گزینی، کہ او بیند ترا اورا تو بینی، نعرہ انا الحق کا مطلب خودی کا اپنے آپ میں ڈوبنا اور پھر ابھر کر اپنے خدا ہونے کا احساس کرنا خودی کا وہ تجربہ ہے جس سے وہ اپنی تحقیق اور تصدیق کرتی ہے کیونکہ اسے یہ تجربہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ماسویٰ اللہ سے ہٹا کر پوری طرح اپنی گرفت میں دے دیتی ہے یعنی پوری طرح سے خود گیر اور خود دار ہو جاتی ہے اور اس کا کوئی غیر اس پر اپنی گرفت یا حکومت نہیں رکھتا۔ بخود گم بہر تحقیق خودی شو انا الحق گود صدیق خودی شو ٭٭٭ خودی گیری و خود داری و گلبانگ انا الحق آزاد ہو سالک تو ہیں یہ اس کے مقامات خودی کے انا الحق کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ خودی فی الواقع خدا ہو جاتی ہے یا خدا ہو سکتی ہے بلکہ اس کا مطلب فقط اتنا ہی ہے کہ خودی خدا کی شدید محبت کی وجہ سے عارضی طور پر یہ احساس پیدا کر لیتی ہے کہ وہ خدا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو جب آگ میں رکھ دیا جائے تو وہ ا س قدر سرخ ہو جاتا ہے کہ آگ سے اس کا امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم لوہے کا ٹکڑا لوہے کا ٹکڑا ہی رہتا ہے اور وہ آگ نہیں بنتا جو اس کو گرم کر کے سرخ کر دیتی ہے۔ اسی طرح عبادت گزار مومن پر اس کی شدید محبت کی وجہ سے ایک حالت ایسی وارد ہوتی ہے کہ اس کی خودی اپنے جداگانہ وجود کو قائم رکھتے ہوئے بھی خدا کی محبت میں اس طرح جذب ہو جاتی ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو خدا سے امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ایک سچا عاشق اپنے دل کی گہرائیوں میں یہ جانتا ہے کہ اس کا یہ احساس کہ وہ خدا ہے ایک غلطی ہے جو کثرت عبادت اور شدت محبت سے پیدا ہوئی ہے لہٰذا رفتہ رفتہ اس کا یہ احساس کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتا ہے اور عاشق پھر محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اور اس کا محبوب الگ الگ ہیں اور ان کا باہمی تعلق فقط معبود اور عبد اور خالق اور مخلوق کا ہے۔ محبوب اس کا خالق اور معبود ہے اور وہ محبوب کا مخلوق اور عبد ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور کئی اور اولیاء اللہ نے اپنے اس تجربہ کا ذکر فرمایا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک عاشق پر جو اپنی آرزوئے حسن کو مطمئن کرنے کے لئے جی بھر کر خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا ہے، یہ تینوں حالتیں گزرتی ہیں۔ کبھی اس کے شعور کی دنیا میں خدا ہی خدا ہوتا ہے اور وہ خود نہیں ہوتا کبھی وہ خود ہی خود ہوتا ہے اور خدا نہیں ہوتا اور کبھی خدا بھی ہوتا ہے اور وہ خود بھی ہوتا ہے اور یہ خودی کی فطرت کا ایک راز ہے۔ یکے گم مے کنم خود را یکے گم مے کنم اورا، زمانے ہر دورا یابم چہ راز است ایں چہ راز است ایں اس تیسری حالت کو نہ ہجران کہہ سکتے ہیں اور نہ وصال۔ اس کے باوجود وہ ہجران بھی ہے اور وصال بھی۔ لہٰذا یہ بات نہ عقل سمجھ سکتی ہے اور نہ عشق۔ ہم باخود وہم با او ہجراں کہ وصال است ایں اے عقل چہ مے گوئی اے عشق چہ فرمائی خودی کا مکمل ہونا یا اپنے خدا ہونے کا احساس پیدا کرنا ایک ہی بات ہے خودی نے ذکر اور فکر اور حسن عمل کے مشاغل کیوں اختیار کئے تھے۔ اگر ہمیں کہیں کہ وہ اپنی آرزوئے حسن کی تکمیل چاہتی تھی یعنی اس کا مقصد اپنی جستجو تھا تو یہ بالکل درست ہے۔ اس جستجو سے اسے جو کچھ حاصل ہواتھا وہ خدا تھا یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ گئی تھی۔ لہٰذا اگر ہم کہیں کہ ان مشاغل سے خودی کا مقصد یہ تھا کہ وہ خدا (یعنی خدا کی محبت اور دوستی) کو حاصل کرے اور یا خدائی کی جستجو کرے تو یہ بھی بالکل درست ہے۔ لیکن خدا کی اس جستجو سے اسے جو کچھ حاصل ہوا تھا وہ اس کی اپنی ہی مکمل خودی تھی۔ گویا خودی اگر خدا کی جستجو کرے تو اپنے آپ کو پاتی ہے اور اگر اپنے آپ کی جستجو کرے تو خدا کو پاتی ہے۔ تلاش او کنی جز خود نہ بینی تلاش خود کنی جز اونیابی، انسان کی عقل اور دل اور نظر سب خدا کے کوچے میں گم ہیں۔ جب تک انسان خدا کو نہ پائے نہ اس کی عقل صحیح ہوتی ہے نہ اس کا دل اطمینان پاتا ہے اور نہ اس کی نظر کو حسن کا وہ سامان مل سکتا ہے جس کی آرزو اس کو بے تاب رکھتی ہے لہٰذا انسان کا خدا کی جستجو کرنا در حقیقت اپنی ہی جستجو کرنا ہے۔ من بہ تلاش تو روم یا بہ تلاش خود روم عقل و دل و نظر ہمہ گم شدگان کوئے تو، خدا کو پانا اپنے آپ کو پانا ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال کے ہاں خدا کو تلاش کرنا یا اپنی خودی کو تلاش کرنا، خدا کی خودی میں گم ہونا یا اپنی خودی میں گم ہونا خداکی خودی کو گم کرنا یا اپنی خودی کو گم کرنا خدا کی خودی میں ڈوبنا یا اپنی خودی میں ڈوبنا‘ خدا کی نمود ہونا یا انسان کی نمود ہونا‘ خداکا انسان کو بے حجاب کرنا یا انسان کا خدا کو بے حجاب کرنا خدا کو فاش دیکھنا یا خودی کو فاش دیکھنا‘ خدا کو دیکھنا یا اپنے آپ کو دیکھنا‘ خدا سے خودی کو طلب کرنا یا خودی سے خدا کو طلب کرنا خدا کے ساتھ خلوت گزین ہونا یا اپنے آپ کے ساتھ خلوت گزین ہونا ۔ خدا کے نور سے اپنے آ پ کو منور کرنا یا اپنے نور سے اپنے آ پ کومنور کرنا‘ خدا کی طرف گامزن ہونا یا اپنی طرف گامزن ہونا‘ خد ا سے پیوستہ ہونا یا اپنے آپ سے پیوستہ ہونا۔ ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کے مختلف پیرائے ہیں اور ایک ہی عمل کی مختلف تعبیرات ہیں۔ نمود تیری نمود اس کی نمود اس کی نمود تیری خدا کو تو بے حجاب کر دے خدا تجھے بے حجاب کر دے ٭٭٭ اگر خواہی خدا را فاش بینی خودی را فاش تر دیدن بیا موز ٭٭٭ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب ٭٭٭ محکم از حق شو سوئے خود گام زن لات و عزی ہوس را سر شکن ٭٭٭ چناں با ذات حق خلوت گزینی کہ او بیند ترا‘ اورا تو بینی ٭٭٭ تو ہم بدذوق خودی رس کہ صاحبان طریق بریدہ از ہمہ عالم بخویش پیوستند ٭٭٭ اگرچہ خدا ہونے کا احسا س خودی کا ایک عارضی تجربہ ہوتا ہے ۔ تاہم وہ ان معنوںمیں عارضی نہیںہوتا کہ اس تجربہ کے منقطع ہونے اور اپنی معمولی حالت کی طرف عود کرنے کے بعد خودی کا یہ تغیر صاف طور پر نظر آتا ہے کہ خودی اس تجربہ کی وجہ سے مستقل طور پر خدا کی صفات کے رنگ سے رنگین ہو جاتی ہے اور خدا کے اخلاق سے متخلق ہو گئی ہے اور خدا کی دنیا کو بھی اسی طرح سے بدلنا چاہتی ہے جس طرح سے خدا خود اسے بدلنا چاہتا ہے۔ گویا مستقل طور پر خدا کی معاون بن گئی ہے۔ اہل مغرب سے تو یہ توقع ہی نہیں کہ وہ فطرت انسانی کے اسرار و رموز کو سمجھ سکیں گے۔ لیکن مشرق میں بھی اس حقیقت کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ ہر انسان کی خودی وہ مقام حاصل کر سکتی ہے جو ایک وقت میں منصور حلاج نے پایا تھا اور جسے پانے کے بعد اس نے انا الحق کہا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر انسان کی خودی اپنی قدرتی نشوونما کے نتیجہ کے طور پر بالاخر ایک ایسے مقام پر پہنچتی ہے جہاں وہ خدا کے ہونے کا احساس کرتی ہے۔ اور اس کے بعد وہ خدا کی دنیا کو بھی اسی طرح سے بدلنا چاہتی ہے جس طرح خدا اسے بدلنا چاہتا ہے ۔ اگر اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا جاتا تو آج یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی کہ بعض لوگ تو خدا سے بیزار ہیں اور بعض لوگ خدا کے عرفان کے مدعی ہیں اپ؛نی خودی کی نفی کرتے ہیں اور اپنے عرفان کو اپنی خودی کے استحکام اور اثبات کے لیے خدا کی نیابت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اور دنیا کو بدلنے کے لیے ایک زبردست قوت کے طورپر کام میں لاتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انسان اب تک اس دنیا میں مشرق کے زیر قیادت نوع بشر کی تکمیل کا وہ کردار ادا نہیں کر سکا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اقبال حلاج کی زبان سے ہمیں بتاتاہے کہ اب مشرق میں ایک مرد قلندر نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور وہ خود اقبال ہے اقبال کا پیغام یہ ہ کہ انسان اپنی خودی کو بیکار نہ کرے۔ اخدا کے حضور میں محکم اور استوار رہے اور اس بحر نور میں ناپید نہ ہو جائے تاکہ دنیا میں خدا کی مرضی کو پورا کر سکے۔ بخود محکم گزر اندر حضورش مشو ناپید اندر بحر نورش ٭٭٭ شاہد ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن بنور ذات حق پیش ایں نورا ربانی استوار حی و قائم چوں خدا خود را شمار ٭٭٭ بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی اقبال نے سنائی اور رومی کی ایک گفتگو کے پیرایہ میں اپنے اس پیغام کی اہمیت کا خود ذکر کیا ہے۔ اس پیغام کا چرچا فردوس میں بھی ہے چنانچہ وہاں سنائی۔ رومی سے کہتا ہے کہ مشرق میں ابھی تک تو وہی ہے بیکار فلسفہ زندگی رائم ہے جو پہلے تھا لیکن حلاج (جس نے انا الحق کا نعرہ لگایا تھا اور جو اس بنا پر خوب سمجھتا ہے کہ انا الحق کے کیا معنی ہیں) یہ روایت کرتاہے کہ مشرق میں ایک قلندر نے خودی کایہ راز فاش کر دیا ہے کہ تعمیر خودی میں خدائی ہے یعنی تعمیر خودی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا کے اوصاف اور اخلاق اختیار کرتا ہے او ر خدا ہی کی طرح دنیا کو بدلنا چاہتا ہے۔ فردوس میں رومی سے یہ کہتا ہے سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آتش حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش خودی کا یہ احساس کہ وہ خدا ہے‘ عارضی ہونے کے باوجود خودی کے اندر ایک عظیم الشان مستقل انقلاب پیدا کر جاتا ہے جس کے بعد خودی کے لیے ایک بالکل ہی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ خودی کے اس انقلاب کے مختلف پہلو حسب ذیل ہیں۔ غیر اللہ سے مکمل کنارہ کشی خودی کی قوت کا راز چونکہ خودی میں خداکے سوائے اور کسی چیز کی خواہش باقی نہیں رہتی خودی کا عمل غلط خواہشات اور تصورات کے اثرسے پوری طرح آزاد ہو جاتا ہے اور خودی خدا کی محبت کے لیے نہایت آسانی کے ساتھ ہر قسم کی تکلیفیں اٹھا سکتی ہے۔ بلکہ اس قسم کی تکلیفوں کا کوئی احساس اس میں باقی نہیںرہتا۔ اقبال کی اصطلاح میں فقر خودی کی اس حالت کا نام ہے جب وہ غیر اللہ سے پوری طرح بے تعلق ہو کر خڈا سے اپنا تعلق جوڑ لیتی ہے۔ جب تک خودی فقر کے اس مقام کو نہیں پاتی یعنی جب تک اس کی ساری محبت باطل تصورات سے (جن میں انسان کی اپنی سفلی خواہشیں اور الفتیں بھی شامل ہوتی ہیں) کٹ کر خدا کے لیے نہیں ہو جاتی۔ خودی خدا سے پورا قرب حاصل نہیں کر سکتی اوراس پر خود فراموشی اور مستی اور سرور کی وہ کیفیت وارد نہیں ہو جاتی جسے اقبال خودی میں ڈوبنے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کیفیت کا وارد ہونا ہی اس با ت کی دلیل ہے کہ اب خودی کی ساری محبت غیر اللہ سے کٹ کر اللہ کے لیے ہو گئی ہے۔ لہٰذا خودی جب اس حالت سے عود کرتی ہے تو اپنی محبت کا سارا خلوص اور اپنی ساری یک بینی‘ یک اندیشی اور یک باشی جن کی وجہ سے وہ اس حالت تک پہنچتی ہے۔ اپنے ساتھ لاتی ہے۔ پھر ہو کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی کہ جو خدا نہ چاہتا ہو اور بڑے سے بڑا خطرہ کے باوجود کسی ایسے کام سے رک نہیں سکتی جو خدا چاہتا ہو۔ وہ چاہتی ہے کہ دنیا کی تمام قوتوں کو مسخر کر کے باطل کو فنا کرنے اور حکم حق کو جاری کرنے کے لیے کام میں لائے اور وہ اس غرض کے لے ہر خطرہ کو مول لینے پر آمادہ ہو جاتی ہے شک اور خوف کی تمام قسمیں اس سے رخصت ہو جاتی ہیں اور وہ ایک بے پناہ قوت عمل کی مالک بن جاتی ہے یوں سمجھیے کہ وہ ایک تیز تلوار بن جاتی ہے جو باطل کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اس تلوار کو تیز کرنے کے لیے لا الہ الااللہ کا پختہ یقین یا فقر یا عشق اسے پہلے فسان کا کام دے چکا ہوتاہے۔ خودی کا سر نہاں یہ ہے کہ وہ خدا سے محبت کرتی ہے اور خدا کے سوائے کسی اور محبوب کو قبول نہیںکرتی۔ خودی کی اصل حقیقت کیا ہے لا الہ الا اللہ یعنی خدا اور صرف خدا کی محبت کا ایک جذبہ۔ خودی ایک تلوار ہے جو لا الہ الا اللہ کی فساں پر تیز کی جاتی ہے۔ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ تیغ خودی کا کردار جب خودی کی تلوار فقر کی سان پر تیز کی جاتی ہے تو اس میں ایک زبردست قوت پیدا ہو جاتی ہے پھر ایک سپاہی کی ضر ب بھی وہ کام کرتی ہے جو پوری فوج سے بن آتا ہے۔ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر تیغ خودی اک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ بعض لوگ لا الہ الا اللہ کو چند الفاظ سمجھتے ہیں لیکن خودی کے لیے اس کلمہ کی حیرت انگیز تاثیر کو دیکھا جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کلمہ الفاظ کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ ایک شمشیر برہنہ ہے جو باطل کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ ایں دو حرف لا الہ گفتار نیست لا الہ جز تیغ بے زنہار نیست جب خودی کے اندر ایسا انقلاب پیدا ہوجائے توپھر یہ بات کوئی تعجب انگیز نہیںہوتی بلکہ معمولی نظر آتی ہے کہ خود ی اپنی قوت عمل سے باطل کو نیست و نابود کر کے حق پرستوں کی ایک نئی دنیا وجود میں لے آئے۔ تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے جس انسان کے اندر خودی کا یہ انقلاب پیدا ہو جاتاہے وہ خدا کا عبد (یعنی بندہ) بن جاتا ہے۔ عبدہ کائنات کی تخلیق کا مخفی راز ہے۔ کیونکہ کائنات اسی کو وجود میں لانے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لاالہ اگر تیغ زنہار ہے تو عبدہ اس تلوار کی دھار ہے۔ عبدہ حاصل کائنات اور حاصل تخلیق ہے۔ مارمیت اذرمیت ولا کن اللہ رمی(جب تم نے اپنے ہاتھ سے ریت پھینکی تھی تو تم نے نہیںپھینکی تھی بلکہ خدا نے پھینکی تھی) کی آیت کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدہ خدا کا ہاتھ بلکہ خود خدا بن جاتا ہے۔ لا الہ تیغ و دم او عبدہ فاش تر خواہی بگو ہو عبدہ عدہ چند و چگون کائنات عبدہ راز درون کائنات مدعا پیدا نہ گردد زیں و زیست تانہ بینی از مقام مارمیت خودی کا یہ انقلاب مومن کی اپنی ترقی کے نقطہ کمال پر اسلیے حاصل ہوتا ہے کہ وہ ماسویٰ اللہ کی محبت سے مکمل طورپر کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ خود ی کا کمال خدا کی مخلصانہ محبت سے حاصل ہوتا ہے اور خدا کی مخلصانہ محبت خودی کے کمال سے ۔ مومن کے یہ دونوں اوصاف درحقیقت ایک ہی وصف کے دو پہلو ہیں۔ از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب دنیا کی ہر چیز سے کٹ جانا خدا کو پانے کی اور اپنے آ پ کو پانے کی ابتدائی شرط ہے۔ تو ہم بدذوق خودی رس کہ صاحبان طریق بریدہ از ہمہ عالم بخویش پیوستند مقام فقر توحید کامل کے اسی مقام کو اقبال فقر کا نام دیتا ہے کیونکہ اس مقام پر مومن فقط خدا کی رضاکا طالب ہوتا ہے اور دنیا سے بالکل بے نیاز ہو جاتا ہے۔ لیکن مومن کا فقر کافر کے فقر سے مختلف ہوتاہے۔ کافر دنیا کو چھوڑ کر دشت و در میں خلوت گزین ہو جاتا ہے اور پھر دنیا سے کوئی سروکارنہیں رکھتا۔ لیکن مومن دنیا کو صرف ایک مقصود اور محبوب کی حیثیت سے ترک کرتاہے لیکن خدا کی محبت کی تکمیل یعنی اپنے اصل محبوب اور مقصود کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر کام میں لاتا ہے۔ پھر دنیا اس کی حاکم یا آقانہیں رہتی بلکہ محکوم یا غلام بن جاتی ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز قسم کی مادی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ اخلاقی اور روحانی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے قبضہ قدرت میں لائے تاکہ ان کی مدد سے محبوب کے مقاصد کو زیادہ آسانی سے پورا کر سکے۔ اس طرح سے مومن کے ترک کانتیجہ تسخیر اور تعمیر کائنات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری مومن کے فقر کا اصل مقصد دنیا کو ترک کرنا نہیں بلکہ دنیا کو بزور بازو بدل کر درست کرنا ہوتاہے اسی لیے اقبال کو مومن کے فقر کو فقر غیور بھی کہتا ہے۔ یعنی ایسا فقر جو باطل کو برداشت نہیں کرتا۔ لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر غیور ترک جہاں کا ذکر کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ اسلام میں ترک جہاں کا مطلب تسخیر جہاں ہے۔ اے کہ از ترک جہاں گوئی مگو ترک ایں دیر کہن تسخیر او بعض غیر مسلموں کا یہ کہنا قرآن پر اتہام ہے کہ وہ ترک جہاں کی تعلیم دیتا ہے۔ کیا قرآن کی اسی تعلیم نے مومن کو دنیا کا حکمران اور مہ و پروین کا غلام نہیں بنا دیا تھا۔ اسی قران میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پروین کو غلام قرآن کا فقر بعض لوگ چنگ ورباب کی موسیقی یا بھنگ اور شراب کی مستی یا رقص اور سرود کی لذت کو فقر سمجھتے ہیں ۔ لیکن قرآن کا فقریہ نہیں۔ قرآن جس فقر کی تعلیم دیتاہے وہ ہر چیز کامحاسبہ کرتا ہے تاکہ یہ دیکھے کہ نیک کیا ہے اور بد کیا۔ زیبا کیاہے اور زشت کیا ہے۔ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ کونسی چیز رکھنے کے قابل ہے اور کونسی فنا کر نے کے لائق مومن کے فقر کا نتیجہ کائنات کی قوتوں کی تسخیر ہے۔ اس کے ذریعہ سے مومن خدا کی صفات کے رنگ میں رنگا جاتاہے۔ کافر کا فقر یہ ہے کہ بدنی خواہشات کو ترک کر کے خدا کی جستجو میں لگ جائے۔ مومن کا فقر یہ ہے کہ خودی کی تلوا رکو لا الہ الا اللہ کی فسان پر تیز کیاجائے۔ وہ خودی کو مارنا اور سوختہ کرنا ہے اور یہ خودی کو چراغ کی طرح روشن کرنا ہے۔ جب فقر آشکار ہوتا ہے تو چاند او ر سورج بھی اس کے خوف سے لرزہ براندام ہوتے ہیں۔ بدروحنین کے معرکے اور میدان کربلا میں حسین کی تکبیر فقر آشکارکے مظاہر ہیں۔ جب سے فقر آشکارائی کے ذوق سے عاری ہوا ہے مسلمان قوم کا وہ جلال باقی نہیں رہا۔ فقر قرآن احتساب ہست بود بے رباب و مستی و رقص و سرود فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیر او مالا صفات آن خدا را جستن از ترک بدن ایں خودی را بر فسان حق زدن آن خودی را کشتن دوا سوختن ایں خودی را چون چراغ افروختن فقر چوں عریاں شود زیر سپہر از نیست اوبلر زد ماہ و مہر فقر عریاں گرمی بدر و حنین فقر عریاں بانگ تکبیر حسین فقر را تا ذوق عریانی نماند‘ آں جلال اندر مسلمانی نہ نماند فقر کے معجزات جب صاحب فقر مومن اپنے محبوب کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے میدان میں آنے کا عزم کرتاہے تو چونکہ وہ خدا کی مرضی کے عین مطابق اور کائنات کے ارتقا کی سمت میں اور قول کن کی مخفی قوتوں کو آشکار کرنے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس کو خدا کے ایک مخفی انتظام سے اس کی پراسرار حکمت سے اور اس کے کام کو آسان بنانے کے لیے اس کے مناسب حال کچھ غیر معمولی قوتیں دی جاتی ہیں جن کے اصل سبب کو عا م لوگ نہیں جانتے کیونکہ وہ دراصل فقر کی کرامات یا فقر کے معجزات کے طور پرہوتی ہیں مثلاً کسی صاحب فقر مومن کو غیر معمولی علم دے دیا جاتاہے۔ کسی کو دین کی حکمت سمجھا دی جاتی ہے ۔ کسی کو غیر معمولی دانائی اور بصیرت عطا ہو جاتی ہے۔ کسی کو دلکش تقریر یا تحریر کا جوہر دے دیا جاتاہے۔ کسی کو جاذب قلوب شعر کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کسی کو قیادت اور لیڈر شپ کی غیر معمولی اہلیت دے دی جاتی ہے۔ کسی کے لیے لوگوںکے دلوں میں کشش پیدا کر کے مرجع خلائق بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کو سپہ سالار بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کوسلطنت‘ کسی کو اختیار اور اقتدار اور کسی کو بادشاہت اور تخت و تاج کے انعامات دے دیے جاتے ہیں ۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: فقر کے ہیں معجزات تاج و سر پر و سپاہ فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کاشاہ ٭٭٭ خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے جس کو سلطانی ٭٭٭ خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل چونکہ فقر کے مقامات اور درجات ہزاروں ہیں۔ اس کے انعامات بھی ہزاروں ہیں۔ کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے پردہ روح قرآنی تاہم اس کامطلب یہ نہیں کہ جس شخص کو ان نعمتوںمیں سے کوئی مل جائے تو وہ اس کے مقام فقر کی دلیل یا علامت ہو گی۔ کیونکہ بعض وقت یہ نعمتیں ایسے انسانوں کو جو فقر کے مقام پر نہ ہوں۔ ان کی آزمائش کے لیے بھی دی جاتی ہیں تاکہ دیکھا جائے کہ نعمت پانے والا خدا کا شکر بجا لاتا ہے یا نہیں۔ صبغۃ اللہ جب خدا کا عاشق خودی میں ڈوب کر ابھرتا ہے تو اس کی خودی خدا کی صفات حسن کے رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ جس طرح سے ایک سفید کپڑا جب کسی رنگ میں ڈبویا جائے تو اسی رنگ کو اختیار کر لیتا ہے ۔ پھر وہ خدا کے حسن سے ایک نیا حسن‘ خدا کے نور سے ایک نیا نور‘ خدا کے علم سے ایک نیا علم‘ خدا کی زندگی سے ایک نئی زندگی‘ اس کی قوت سے ایک نئی قوت اور اس کی محبت سے ایک نئی محبت لے کر آتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کی خودی خدا کی صفات کو جذب کر کے خدا کے اخلاق سے مستخلق ہو جاتی ہے۔ اور وہ خدا کے جمال کاایک عکس بن جاتا ہے ۔ اس کے نیک و بد‘ زت و زیبا‘ خوب و ناخوب اور محمود و نامحمود کے امتیاز کا معیار وہی ہوتا ہے جو خدا کا ہے۔ اس کا عدل وہ معمولی عام آدمیوں کا عدل نہیں رہتا۔ جو ہمیشہ ان کی اپنی سفلی اغراض سے ملوث اور ناقص تصورات کی ناپاک محبت سے آلودہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا عدل وہ اعلیٰ درجہ کا خالص اور صحیح عدل ہوتا ہے جو صرف خد اکی محبت کے منبع سے صادر ہوتا ہے اسی طرح سے اس کا صدق‘ اس کا کرم‘ اس کا حیا‘ اس کی عفت اور پاکیزگی اس کا رحم اور اس کی تمام اخلاقی صفات چونکہ خدا کی کامل اور خالص محبت سے سرزد ہوتی ہیں بلند ترین درجہ کی ہوتی ہے۔ رنگ او برکن مثال او شوی در جہان عکس جمال او شوی یہی خدا کا وہ رنگ ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں ہے کہ خدا کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہے اور یہ رنگ خدا کی عبادت سے انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ (صبغتہ اللہ ومن احسن من اللہ صبغتہ و نحن لہ عابدون) ہر اخلاقی قدر اتنی ہی قسموں یا درجوںکی ہوتی ہے ۔ جتنے انسانوں کے تصورات حسن یا نظریات زندگی ہوتے ہیں اگر کسی شخص کا تصور ح سن پست ہو گا تو اس کا عدل یا صدق بھی اسی نسبت سے پست ہو گا ۔ سچا عدل یا سچا صدق صرف خدا کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور ایک خدا شناس مومن ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ خودی پر خدا کا رنگ خدا کی گہری اور مخلصانہ عبادت اور محبت سے چڑھتا ہے۔ اس محبت کی وجہ سے خودی خدا کی صفات کے حسن کو جذب کرتی ہے اور ہوس کے بتوں کو توڑ کر تمام رزائل سے پاک اور تمام فضائل سے آراستہ ہو جاتی ہے۔ محکم از حق سوئے خود گام زن لات و عزائے ہوس را سر شکن خدا کی عبادت اورمحبت سے انسان کی خودی خدا کی صفات کو کس طرح سے جذب کر لیتی ہے؟ ارو کس طرح سے مستخلق باخلاق اللہ ہو جاتی ہے؟ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جذب کرنا زندگی کا خاصہ ہے اگر زندگی حیاتیاتی سطح پر غذا سے اپنی ضروریات کے مادی ذرات کو جذب کر کے نشوو نما پاتی ہے تو نفسیاتی یا نظریاتی سطح پر صفات حسن کو جذب کر کے نشونما پاتی ہے۔ حسن خودی سے وہی نسبت رکھتا ہے جو غذا جسم سے رکھتی ہے۔ جاوید نامہ میں جہاں دوست نے جو کام نو باتیں کہیںہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے گلاب کے پھول سے پوچھا کہ تم بادوخاک سے یہ خوشنما رنگ اور یہ دل نواز خوشبو کیسے حاصل کرتے ہو تو گلاب کے پھول نے جواب دیا کہ تم بجی کی رو سے و خاموش ہوتی ہے کسیکا پیغام کیسے سن لیتے ہو۔ جس طرح تم برق سے پیغام حاصل کر لیتے ہو جس میں بظاہر کلام کااوصف نہیں ہوتا میں باد و خاک سے جن میں رنگ و بو نہیں رنگ و بو حاصل کر لیتا ہوںَ دونوں کا انحصار زندگی کی اس خاصیت پر ہے کہ اپنی فطرت سے مناسبت رکھنے والی چیزوں کو جہاں سے مل جائیں جذب کر لیتی ہے اگر زندگی کے اندر یہ خاصیت نہ ہوتی تو وہ اپنے آپ کو قائم نہ رکھ سکتی۔ انسان کا جذبت ظاہر ہے کیونکہ وہ حسن سے حسن کو جذب کرتاہے لیکن میرا جذب ظاہر نہیں کیونکہ میں بظاہر غیر حسن سے حسن کو جذبت کر تا ہوں۔ من بگل گفتم بگو اے سینہ فچاک چوں بگیری رنگ و بو از باد و خاک گفت گل اے ہوشمند رفتہ ہوش چوں پیامے گیری از برق خموش جان بتن مار از جذب ایں و آن جذت تو پیدا و جذب ما نہاں خودی غیر محدود اور غیر فانی ہے چونکہ انسان کی خودی خدا کے ساتھ پیوست ہو کر خدا کی صفات سے حصہ لیتی ہے۔ وہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کے اعتبار سے خدا کی طرح غیر محدود ہے اگرچہ وہ ایک چھوٹی سی آب جو نظر آتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا تو کوئی چارہ نہیں خودی اپنی ممکنات کے اعتبار سے محیط بیکراں اس لیے ہے کہ وہ ہمہ تن خدا کی آرزو ہے اور خدا غیر محدود اور بیکراں ہے۔ چونکہ خدا غیر محدود اور ضروری ہے کہ غیر محدود ہونے کی آرزو خدا کی آرزو کے اندر موجود ہو۔ غیر محدود خدا کے لیے خودی کی آرزو اس بات کا ثبوت ہے کہ خودی کو غیر محدود ہونے کی آرزو بھی ہے اقبال اس آرزو کی ترجمانی کرتاہے۔ تو ہے محیط بے کراں میں ذرا سی آبجو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر اور پھر یہ آرزو ایسی ہے جو تشفی پانے کے لیے پیدا کی گئی ہے کیونک اس کی تشفی پانے سے ہی کائنات اپنی تکمیل کے مرحلے طے کر سکتی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی ضمانت ہے کہ خودی بے کنار ہو کر رہتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ خودی اپنی فطرت اپنی ممکنات اور اپنی بالقوہ صلاحیتوں کی وجہ سے بے کنار ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کے شعر میں ہم کنار ہونے کی آرز و بھی درحقیقت بے کنار ہونے کی آرزو ہی ہے پھر چونکہ خودی خدا کی صفات سے حصہ لیتی ہے اوروہ اپنی ممکنات کے اعتبار سے غیر محدود ہی نہیں بلکہ غیر فانی بھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابدیت میں بھی خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ زاہد کا یہ مقولہ کہ خودی فانی ہے اس بات کو نظر انداز کر جاتا ہے کہ خودی غیر محدود ہے ۔اگرچہ وہ بظاہر ایک حباب کی طرح محدود نظر آتی ہے۔ لیکن اس حباب میں ایک دریائے ناپیداکنار چھپاہوا ہے۔ اگر خودی اس بنا پر غیر محدود ہے کہ وہ خدا کی صفات میں حصہ لیتی ہے تو اس بنا پر غیر فانی کیوںنہیںہو سکتی۔ اگر زاہد ظاہر بین کو خودی کا غیر محدود ہونا سامنے نظر آ رہا ہے تو وہ اس سے یہ نتیجہ کیوںنہیں نکالتا کہ وہ غیر فانی بھی ہے۔ اے زاہد ظاہر بین گیرم کہ خودی فانی است آیا تو نمے بینی دریا بحباب اندر دل کی شہادت چونکہ اس مقام پر مومن خداکی ذات کو بے پردہ دیکھ لیتاہے۔ اور اس کی آرزوئے حسن جو اس کو بے قرار رکھتی تھی پوری طرح سے تشفی حاصل کر لیتی ہے۔ یعنی اتنی تشفی جتنی کہ ا س کی خودی کی استعداد کے پیش نظر اس دنیا میں ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ خدا کی ہستی کا جسے وہ پہلے اعتقادی طورپر اور بعد میں عملی طور پر مانتا تھا۔ اب ذاتی گواہ بن جاتا ہے اور اس کا دل کو ایک مکمل اور مستقل اطمینان نصیب ہوتا ہ ۔ کیونکہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے کائنات کے راز اورانسانی زندگی کا مدعا معلوم کرلیا ہے۔ اب خبر نہیں بلکہ نظر (یعنی مشاہدہ ) اس کے یقین و ایمان کا سامان بنتی ہے۔ اس حالت سے پہلے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو عربی زبان کو جاننے کے باوجود اس طرح سے جیسے کوئی شخص کسی اجنبی زبان کے الفاظ کو مطلب سمجھے بغیر دہرا رہا ہو۔ لیکن قلب کی اس شہادت اور دل کی اس تصدیق کے بعد وہ لا الہ الا اللہ کے معنی کی تہہ تک پہنچ جاتاہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ جب تک دل گواہی نہ دے کلمہ توحید کا مطلب پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا اللہ لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی لیکن دل کی گواہی یا تصدیق کی نعمت انسا ن کو خدا کی محبت کی انتہائی منزل پر ہی نصیب ہو سکتی ہے۔ یہی دل کی گواہی یا تصدیق خودی کے زندہ ہو نے کی شرط ہے۔ لا الہ کوئی بگو از روئے جان تاز اندام تو آید بوئے جان‘ عشق اور عمل سے خودی کا استحکام اگر مومن کا نمایاں وصف علم ہو تو خودی کے انقلاب اوراستحکام کے بعد اس کا علم کمال پر پہنچ جاتا ہے اور انسان اور کائنات کے اسرار و رموز اس پر اس طرح سے آشکار ہوتے ہیں کہ گویا جبریل بھی اس استحکام کے بعد ا س کا عشق محرک عمل کی حیثیت سے کمال پر پہنچ جاتاہے اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عمل کی قوت سے ایک قیامت برپا کر دیتا ہے۔ خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل اس حالت کمال کو پانے کے بعدجب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اس کی آیات کے مطالب اور معانی کو اورطرح سے سمجھتا ہے کیونکہ پھر اسے ایسا نظر آتا ہے کہ یہ معانی اور مطالب خود اس کے دل کے اندر پہلے ہی سے موجود تھے۔ ایسے ہی مومن کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو پا لیتا ہے تو اسے ایک علم حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کی آیات بینات پہلے ہی اس کے دل کے اندر موجود تھیں بل ھو ایات بینات فی صدور الذین اوتو العلم (بلکہ قرآن ایسی آیات بینات پر مشتمل ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم دیا جاتا ہے پہلے ہی سے موجود ہیں) گویا وہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن خود اس کے ضمیر پر نازل ہوا ہے اور جب یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے توآیات قرآنی کے معانی او رمطالب کی گرہیں اس پر کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اور جب تک یہ صورت حال پیدا نہ ہو رازی اور صاحب کشاف بھی اس کے لیے یہ گرہیں کھول نہیںسکتے۔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف جب تک کہ وہ اس حالت کو نہیںپہنچتا یعنی ان معنوںمیںخود صاحب قرآن نہیں بن جاتا وہ بار بار قرآن کی تلاوت کرنے کے باوجود قرآن کے مطالب پر حاوی نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا وہ قرآن پڑھنے میں ہی لگا رہتا ہے اور قرآن پر عمل کرکے خدا کی دنیا کو بدلنے کا وقت اس پر نہیں آتا۔ نہیں کتاب سے ممکن تجھے فراغ کہ تو کتاب خوان ہے مگر صاحب کتاب نہیں لیکن جب وہ اس حالت کمال کو پہنچ جاتاہے تو اس کے اپنے ضمیر کی روشنی دین کے اسرار و رموز اس پر منکشف کرتی ہے ۔ اس کے بغیر وہ کسی طریق سے ان اسرار و رموز کو کبھی نہیںجان سکتا۔ جب تک وہ اس حالت کو نہ پہنچے کہ وہ دین پر مجبوری سے عمل کرتا ہے رغبت سے عمل نہیںکرتا اور ظاہر ہے کہ جو شخص خدا کے احکام کی تعمیل مجبوری سے کرتا ہے وہ اس شخص کی نسبت خداسے بہت دورہے جو رغبت اور محبت سے ان کی تعمیل کرتاہے۔ فاش مے خواہی اگر اسرار دیں جز با عماق ضمیر خود مبیں گر نہ بینی دیں تو مجبوری است ایں چنیں دیں از خدا مہجوری است گویا ایسی حالت میں مومن فقط قاری نہیں رہتا بلکہ خود قرآن بن جاتاہے۔ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن علم عشق سے راہ نمائی پاتا ہے پھر جب وہ انسانوں کے پید اکیے ہوئے علوم پر نگا ہ ڈالتا ہے تو اسے یہ معلوم کرنے میںکوء دقت نہیںہوتی کہ کسی فلسفی یا حکیم یا سائنس دان یا عالم دین یا مفتی یا مجتہد یا مفسر یا فقیہ کی کونسی بات درست ہے اور کون سی غلط۔ اس کا علم خود اس کو بتاتا ہے کہ ان لوگوں کے علم نے جو خدا کی محبت کے کما ل سے محروم ہیں جو غلط حقائق کے بت کھڑے کر لیے ہیں ان کو کس طرح سے توڑا جا سکتا ہے اور ان