اقبال کا تصور بقائے دوام ڈاکٹر نعیم احمد اقبال اکادمی پاکستان فرزند اقبال جناب جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے نام! سر ورق دائرہ لا متناہیت ،کمال مطلق اور دوام کی علامت ہے جب کہ پرندہ روح انسانی کی علامت ہے۔ عمل: ظفرؔ ابتدائیہ یہ امر اصحاب فکر ودانش سے پوشیدہ نہیں کہ اقبال پر اگر چہ کافی کام ہو چکا ہے۔تاہم ایسی تحقیقات کی تعداد بہت کم ہے۔جو کہ خالص فلسفیانہ نکتہ نظر سے کی گئی ہو۔اردو یا فارسی شاعری کے حوالے سے اقبال کے سیاسی ،سماجی، اور مذہبی افکار پر ہمیں متعدد کتابیں اور تحقیقی مقالے مل جاتے ہیں۔ لیکن اس کے فلسفیانہ افکار کو فنی نقطہ نظر سے اجاگر کرنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ اقبال کی کتاب’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ ہی ایک ایسی کتاب ہے۔ جو اس کی بین الاقوامی شہرت کا باعث بنی ہے۔ اور اسے عالمی فلسفیانہ روایت سے منسلک کرتی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ بات میں محض رسمی تعریف وتوصیف کے طور پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔بیرون ملک میں نے جس استاد فلسفہ کو یہ کتاب پڑھنے کے لئے دی، اس نے مجموعی طور پر اسے پسند کیا۔ غیر ملکی مسلمان طلبہ اور اساتذہ نے تواس میں خصوصی دل چسپی لی ہے۔ اور میں نے اپنے طور پر انہیں کچھ کاپیاں منگوا کر پیش کیں۔چنانچہ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ بحیثیت پاکستانی اقبال کے انگریزی خطبات کو بیرون ملک متعارف کرانے میں مجھے فخر محسوس ہوا۔ فکر اقبال سے میری دل چسپی زمانہ طالب علمی سے ہی ہے۔ قدرتی طور پر میرا رجحان اقبال کی شاعری کی بجائے اس کے فلسفے کی طرف رہا۔ شاید یہی وجہ رہی کہ میں نے کوئی اور کیریئر اپنانے کی بجائے فلسفے کی متعلمی اور معلمی کو ترجیح دی۔فلسفہ اقبال کے مختلف پہلوؤں پر میرے مقالے تحقیقی جرائد میں چھپتے رہتے ہیں۔ چند سال پہلے جریدہ اقبال میں میرا ایک مقالہ بعنوان ’’اقبال کا تصور بقائے دوام‘‘ چھپا۔جو مختلف حلقوں میں پسند کیا گیا، یہ مضمون لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اقبال اس مسئلے میں گہری دل چسپی رکھتا تھا۔ اور اپنے خطبات میں اس کے بارے میں جو اس نے مختصر حوالے دیئے ہیں،ان کی کما حقہ تشریح وتوضیع ایک مختصر سے مقالے میں نا ممکن ہے۔چنانچہ اس موضوع پر میں نے باقاعدہ تحقیق شروع کر دی۔ جو کہ اب ایک کتاب کی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ فلسفیانہ مضوعات پر لکھنا انگریزی زبان میں نسبتا سہل ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انگریزی زبان میں تحقیقی مواد وافر مقدار میں مل جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انگریزی زبان میں لکھتے ہوئے فلسفے کے فنی اور تحقیقی اسلوب کا معیار قائم رہتا ہے۔ اس کے بر عکس اگر فلسفیانہ موضوعات پر کسی ایسی زبان میں لکھا جائے،جس کا دامن اتنا وسیع نہ ہو تو تحقیق وتصنیف کاکام ایک صبر آزما مہم بن جاتا ہے۔چنانچہ اردو میں لکھتے ہوئیمجھے بار بار رکاوٹیں اور مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔کبھی ترجمے کی مشکل ،کبھی اصطلاح کی غیر موزونی اور کبھی اردو زبان کی تنگی دامان کا احساس۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میرے لئے انگریزی زبان میں یہ کتاب لکھنا آسان تھا، تو میں نے اردو زبان میں یہ مقالہ کیوں لکھا؟۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اپنے طور پر اردو زبان میں فلسفیانہ مسائل پر لکھنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ اردو زبان ایک ایسی فنی شکل اختیار کر لے، جس میں فلسفیانہ اور سائنسی موضوعات پر اظہار خیال ہو سکے۔یہ کام محض تراجم سے حاصل نہیں ہو سکتا،اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اصحاب جنہوں نے مختلف سائنسی اور فنی علوم کی تحصیل انگریزی زبان میں حاصل کی ہے۔ وہ آزادانہ اپنی زبان میں اظہار خیال کریں۔۔۔۔شروع شروع میں مشکلات پیش آئیں گی لیکن بتدریج ایک ایسی فنی زبان کی شکل سامنے چلی آتی جائے گی،جو سائنسی موضوعات پر اظہار خیال کے لیے ہر طرح سے معیاری اور مستند ہو۔ آج اردو زبان کا وہی حال ہے،جو سترھویں اور اٹھارویں صدی میں انگریزی زبان کا تھا۔اس زمانے میں یورپ کی مسیحی دنیا پر لاطینی زبان کا غلبہ واستیلاء تھا۔مختلف زبان کے پادری اور متکلمین لاطینی زبان میں مذہبی تعلیم حاصل کرتے،اور لاطینی زبان ہی کو اظہار خیال کا ذریعہ بناتے،ازمنہ سطی کا تمام لٹریچر بھی لاطینی زبان میں تھا۔ چنانچہ کسی بھی یورپی ممالک کے طالب علم کے لئے ضروری تھا کہ وہ لاطینی زبان میں تعلیم حاصل کرے۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ مفکرین جو لاطینی زبان میںتحصیل علم کرتے تھے، اپنی ملکی زبانوں میں بھی لکھنے لگے۔ برطانوی مفکر مثلا (لاک، برکلے، اور ہیوم) نے بھی لاطینی زبان میں علم حاصل کیا تھا، لیکن انہوں نے اپنے فلسفہ کو لکھاانگریزی زبان میں،اسی طرح رفتہ رفتہ صدیوں کا علمی ورثہ انگریزی زبان میں منتقل ہو گیا۔اور لاطینی زبان کی جگہ انگریزی زبان نے لے لی۔ کم وبیش ویسی ہی صورت حال ہماری زبان کی ہے، ہم انگریزی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔ انگریزی کے بارے میں معتصبانہ رویہ اختیار کرنا نہ صرف نا جائز ہے،بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی اپنایا جائے۔بالخصوص علم وفنون میں مہارت رکھنے والے اصحاب،جنہوں نے انگریزی زبان میں تحصیل علم کی ہو، اپنی زبان کو اتنا ہی معیاری اور ثقہ بنانے کی کوشش کریں،جتنا کہ انگریزی زبان ہے۔ اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام علمی ورثہ جو کہ انگریزی زبان میں موجود ہے۔ پہلے ہمارے اصحاب فکر ودانش کے اذہان میں جذب ہو۔اور پھر جب یہ اردو زبان میں منتقل ہو تو کوشش کی جائے کہ یہ ہر اعتبار سے اتنا ہی معیاری اور ثقہ ہو،جتنا کہ انگریزی زبان میں ہے، تراجم کی اہمیت سے ہم انکار نہیں کر سکتے،لیکن یہ کام صرف ترجمے سے حاصل نہیں ہو سکتا، یہ ہے وہ مقصد جس کے تحت میں نے زیر نظر کاوش کو اردو زبان میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا،بعض جگہوں پرانگریزی حوالے دینے ضروری تھے، میں نے ان حوالوں کا ترجمہ دیا ہے۔ اور نوٹس میں ان کا اصلی متن بھی دے دیا ہے۔ قارئین کی سہولت کے لئے جہاں کہیں ضروری محسوس ہوا ہے ،اردو اصطلاحات کے انگریزی مترادفات بھی دے دیئے ہیں۔تاکہ دوران مطالعہ اگر کوئی اصطلاح غیر مانوس ہو تو انگریزی اصطلاح اس کا مفہوم ادا کرے۔اس کے علاوہ آخر میں ایک فرہنگ اصطلاحات دے دی گئی ہے۔ تاکہ یہ پتا چل سکے کہ فلسفیانہ اور انگریزی مباحث میں ہم انگریزی اصطلاحات کی جگہ کون سی اردو اصطلاحات استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک بات جس کی طرف میں اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ بقائے دوام کا مسئلہ میرے نزدیک صرف ایک مابعد الطبیعاتی مسئلہ تھا،لیکن تحقیق کے دوران مجھے پتا چلا کہ اس کے اثرات نہ صرف فرد کی زندگی پر بلکہ قوموں کی اجتماعی زندگی پر بھی بہت گہرے مرتب ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال مصر کی قدیم تہذیب ہے۔ جس میں اہرام مصر تعمیر کیے گئے۔اگر مسلمانوں کی فتوحات کے اسباب وعلل کا تجزیہ کیا جائے،تو آخرت کی زندگی پر ایمان ایک قوت محرکہ کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔اس کتاب کے آخری صفحات سے پتا چلے گا کہ بقائے دوام کا نظریہ دور رس سماجی ومعاشرتی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔ آخر میں مجھے شکریہ ادا کرنا ہے جناب جسٹس ڈاکٹر جاویدا قبال کا جنہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر نہایت غور سے مسودے کو پڑھا اور بعض جگہوں پر ترامیم اور اضافے تجویز کیے۔ ان کے مشوروں سے تحقیق کے بعض ایسے گوشے نمایاں ہوئے،جن سے میں قبل ازیں بے خبر تھا۔ اقبال اکادمی کے سر براہ مرزا محمد منور صاحب نے خاص توجہ سے مسودہ کو پڑھا اور اس کی طباعت واشاعت کا اہتمام کیا۔ میں اس کے لیے ان کا شکر گزار ہوں۔ سہیل عمر صاحب اور ڈاکٹر وحید عشرت صاحب میرے خاص شکریے کے مستحق ہیں،کیونکہ ان ہی کی کوششوں سے یہ کتاب ممکنہ حد تک مختصر عرصے میں طباعت واشاعت کے مرحلوں سے گزر سکی۔ رسم سپاس گزاری اس وقت تک نا مکمل رہے گی جب تک میں شعبہ فلسفہ کے چئیر مین اور پروفیسر ڈاکٹر عبد الخالق صاحب کا شکریہ ادا نہ کروں۔اکثر مقامات پر ان کے مشورے نہایت خیال افروز ثابت ہوئے۔ نعیم احمد ۱۱ مارچ ۱۹۸۹ئ؁ قائد اعظم کیمپس (نیو کیمپس لاہور) پہلا باب موت کا مسئلہ اور اس کی فلسفیانہ اہمیت اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہر بڑے فلسفی نے اپنے نظام فکر میں موت کے مسلے سے ضمنا تعرض ضرور کیا ہے، لیکن یہ جان کر تعجب ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کو باقاعدہ اور مفصل فلسفیانہ بحث وتمحیص کا مرکز ومحور بہت کم فلسفیوں نے بنایا ہے۔قدیم یونانی فلاسفہ کے ہاں ہمیں موت اور حیات بعد الموت کے بارے میں متعدد اشارات مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اکثر جدید فلاسفہ نے بھی اپنے فلسفیانہ افکار کی تشریح کرتے ہوئے موت اور بقائے دوام کے مسئلے پر اپنی آرا کا اظہار ضرور کیا ہے۔تاہم اس مسئلے کو زیادہ اہمیت نہیں دی، فلسفہ جدید میں شوپنہار (Schopenhauer) وہ پہلا فلسفی ہے جس نے موت کے مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے۔اور موت کو ایسا منبع ومصدر قرار دیا ہے،جس سے فلسفیانہ تفکر اور تامل کے سوتے پھوٹتے ہیں۔اس کا خیال ہے کہ لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں،فلسفیانہ سوچ وبچار کی قوت متحرکہ موت ہی ہے (۱) شوپنہار کے اس موقف کا اثر وجودی مفکرین پر اتنا شدید ہوا کہ کیگارڈ سے لے کر آج تک تمام وجودی فلسفہ نے اپنے افکار وخیالات میں اس مسئلے کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ اس کے بر عکس اینگلو امریکن دنیا کے متعدد لسانی فلسفی اس مسئلے کا تجزیہ ایسے کرتے ہیں کہ یہ ایک مابعد الطبیعاتی مسئلہ بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ اور اس طرح وہ اسے نہایت آسانی کے ساتھ فلسفیانہ دائرہ بحث سے خارج کر دیتے ہیں،ان کے خیال میں یہ نفسیات یا عمرانیات کا مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عہد حاضر میں ماہرین نفسیات و عمرانیات نے اس مسئلہ کو بہت اہمیت دی ہے۔’’ موت اور عینیت ‘‘ (Death and Idenity) کا مولف رابرٹ فلٹن (Robert Fulton) لکھتا ہے کہ: گزشتہ دس سالوں میں اور بالخصوص ۱۹۵۹ئ؁ میں ہر مین فیفل (Herman Feifil)کی کتاب (The Meaning of Death) کی اشاعت کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں موت کے پیدا کردہ مسائل پر تحقیق کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر چہ فیفل نے چھ برس پہلے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہمارا موت کے بارے میں مختلف رویوں کا علم بہت کم اور غیر مربوط ہے۔اور یہ کہ اس ملک میں موت کے مفہوم اور اس کے مضمرات پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔۔۔۔تاہم صورت حال اب بہت بدل چکی ہے۔ پس ماندگی کے غم، موت کے بارے میں مختلف رویوں اور موت اور مرنے کے بارے میں لوگوں کے طرز علم پر تحقیقات عمرانی اور طبی لٹریچر میں بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔۲؎ عہد حاضر میں طب، عمرانیات اور نفسیات کے ماہرین نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر سے موت اور اس کے پیدا کردہ مسائل پر تحقیقات کی ہیں۔ امریکی ماہرین نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے شہروں میں جا کر اٹیم بم کی تباہ کاریوں سے بچ جانے والوں سے سوالات کیے،اور ان کے موت اور مرنے کے عمل میں(Death And Dying) کے بارے میں رد عمل کا جائزہ لیا،اور اپنی تحقیقات کو باقاعدہ میں مربوط رپورٹوں کی صورت میں شائع کیا۳؎ ۱۹۵۶ء میں امریکن سائیکلو جیکل ایسوسی ایشن کنوینش میں ’’موت کی نفسیات‘‘ (Psychology Of Death) پر ایک سمپوزیم بھی منعقد ہوا تھا ۴؎ چونکہ یہ تحقیقات طب، عمرانیات،اور نفسیات کے دائرہ ہائے کار میں ہوئی ہیں، اس لیے ہم ان سے تفصیلی بحث نہیں کر سکتے۔ہم اس مسئلہ کا فلسفیانہ تناظر میں جائزہ لیں گے۔البتہ جہاں کہیں ضروری محسوس ہوا،دیگر علوم کی تحقیقات سے استفادہ ضرور کریں گے۔ماورائی نفسیات (parasychology) کی تحقیقات خاص طور پر ہمارے لیے مفید ثابت ہوں گی۔ ۲ موت کا خوف تمام بنی نوع انسان میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ اس خوف کی بنیاد یہ نہیں کہ انسانی عضویہ طوالت کے باعث بتدریج انحطاط پذیر ہو جاتا ہے، اور بالاخر ختم ہو جاتا ہے۔ آج کے متمدن دور میں انسان کا رویہ موت کے بارے میں قدیم انسانوں کے رویے سے مختلف ہے۔ آج ہم یہ کہتے ہیں: ’’جو بھی ذی روح اس دنیا میں آتا ہے، اسے مرنا ضرور ہے،اور اسے ہر حال میں مرنا ہے۔ یعنی ہم نے موت کو ایک ناقابل تردید حقیقت کی حیثیت سے قبول کیا ہوا ہے۔ لیکن زمانہ قدیم کے انسان نے موت کو ’’ناگزیر حقیقت‘‘ کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کے نزدیک جسمانی ضعف ،پیرانہ سالی،اور اعضا وجوارح کا انحطاط لازمی طور پر موت کے اسباب نہ تھے۔ وہ اکثر ایسے اشخاص کو دیکھتا تھا جو کہنہ سالی اور شکستہ بدنی کے باوجود رشتہ زیست میں منسلک ہوتے تھے۔اس کے بر عکس اس کے مشاہدے میں یہ بات بھی آتی رہتی تھی کہ جوان یابچے بھی بعض حالات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ چنانچہ زمانہء قدیم کا انسان موت کے کرب اور اذیت سے اتنا خوف زدہ نہ تھا،جتنا موت کے پر اسرار طور پر غیر یقینی ہونے اور پس ماندگان سے اس کے تمام روابط ٹوٹ جانے اور ان کے غم واندوہ سے تھا۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے موت کوئی پر اسرار اور نادیدہ قوت ہے جو گھات لگائے بیٹھی رہتی ہے۔اور موقع آنے پر اپنے شکار کو اچک لے جاتی ہے۔اس نے اپنے طور پر ایک نتیجہ اخذ کر رکھا تھا کہ موت کیوں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ موت کیسے وقوع پذیر ہوتی ہے،اس کے لئے چنداں اہمیت کا حامل نہ تھا۔اس علم تھا کہ سخت سے سخت بیماری سے لوگ جانبر ہو جاتے ہیں،خوف ناک ترین حوادث سے بچ نکلتے ہیں۔اور بعض لوگ تمام اعضا وجوارح کے ناکارہ ہوجانے کے باوجود سانس کی ڈور سے بندھے رہتے ہیں۔الغرض اس کے لیے موت کے اسباب وعوامل خاص اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ وہ موت کو ایک کینہ پرور اور ظالم ہستی کی دشمنی کا فعل سمجھتا تھا۔یہ ہستی اس کے نزدیک نادیدہ اور مافوق الفطرت بھی ہو سکتی ہے۔اور انسانی بھی جو جادو ٹونے کے ذریعے مہلک امراض مسلط کر سکتی تھی۔ ماہرین عمرانیات نے زمانہ ماقبل تاریخ کے قصوں اور کہانیوں سے جو نتائج اخذ کیے ہیں۔ان کی رو سے زمانہ قدیم کے لوگوں کے لئے موت انسانی وجود کی ایک لازمی شرط نہ تھی، کسی شخص کی موت خواہ وہ کتنی ہی یقینی اور فطری کیوں نہ ہوتی،وہ اسے کسی مافوق الفطرت قوت کی دشمنی اور عناد کا نتیجہ سمجھتے تھے۔موت کو کسی نادیدہ اور مافوق الفطرت قوت کی کارستانی سمجھنے کے رجحان نے ہی ان کے اندر یہ نامعقول عقیدہ راسخ کر دیا،کہ موت انسانی وجود کی لازمی شرط نہیں ہے۔چنانچہ وہ موت سے بچنے کی کوشش کرتے،ان کوششوں کے نتائج بعض اوقات نہایت بھیانک ہوتے۔مثلا معصوم بچوں اور خوب صورت دوشیزاؤں کو دیوی دیوتاؤں کے قدموں میں ذبح کر دیا جاتا۔۔۔۔ تاکہ نادیدہ قوتوں کی خوشنودی حاصل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ زمانہ قدیم کے لوگوں کا خیال تھا کہ انسان پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی، وہ پیدائشی طور پر موت کی لعنت سے آزاد ہے۔ موت دنیا میں اس وجہ سے آئی کہ جو ہرکارہ آسمانوں سے بقائے دوام کا تحفہ لے کر انسانوں کی طرف آرہا تھا، یا تو وہ پیغام بھول گیا۔ یا اس پیغام میں تحریف کر دی گئی۔ ناماہو ٹنٹاٹس (Nama Hoten totes) کا قصہ اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ’’ایک دفعہ چاند نے چوہے کو انسان کی طرف اس لئے بھیجا کہ وہ اسے بقائے دوام کی یقین دہانی کرائے۔چاند کا پیغام یوں تھا،،،، جیسے میں مرتا ہوں اور مرتے ہوئے زندہ رہتا ہوں،اسی طرح تم بھی مرو گے اور مرتے ہوئے زندہ رہو گے۔ لیکن وہ اصل پیغام کو بھول گیا،اور انسان کو اس نے یوں پیغام دیا کہ جیسے میں مرتا ہوں اور مرتے ہوئے فنا ہو جاتا ہوں، ویسے ہی تم مرو گے اور مرتے ہوئے فنا ہو جاؤ گے۔ چاند کو جب اس غلط پیغام رسانی کا پتا چلا۔ تو وہ بہت ناراض ہوا اور اس نے خرگوش کے منہ پر ایک طمانچہ مارا،جس کے نتیجے میں خرگوش کا منہ آج تک چرا ہوا ہے‘‘۔۶؎ بعد ازاں اس عہد نامہ عتیق میں ایسا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ جس میں خدا کی نافرمانی کے سبب انسانوں پر جو کہ’’ موت کے بغیر ‘‘ پیدا ہوئے تھے، موت نازل کر دی گئی۔انسان کو ایک مخصوص شجر ممنوعہ کا پھل کھانے سے روکا گیا تھا،لیکن انسان نے نافرمانی کی ،جس کے نتیجے میں اسے ’’موت‘‘ کی صورت میں سزا دی گئی۔ نیو ساؤتھ ویلز کی اطراف میں بسنے والے قبائل میں بھی اسی طرح کا قصہ عام ہے کہ: ’’انسان پیدائشی طور پر موت کے بغیر پیدا ہوا تھا۔لیکن اسے منع کیا گیا تھا کہ ایک خاص کھوکھلے درخت کے قریب نہ جائیں،اس درخت پر شہد کی مکھیوں نے چھتا لگایا ہوا تھا۔ ایک دن لوگوں کی سرزنش کے باوجود ایک عورت نے کلہاڑے سے ضرب لگائی۔اس درخت پر شہد کی مکھیوں نے چھتا لگایا ہوا تھا۔ایک دن لوگوں کی سرزنش کے باوجود ایک عورت نے کلہاڑے سے درخت پر ضرب لگائی ،تاکہ شہد حاصل کر سکے۔درخت میں سے ایک عظیم الشان چمگاڈر اڑی۔یہ چمگاڈر موت تھی، جس نے اس دن سے انسانوں کو شکار کرنا شروع کر دیا۔۷؎‘‘ یہ اور اس طرح کے تمام قصے تقریبا تمام اقوام عالم میں پائے جاتے ہیں۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ ازمنہ قدیم کے لوگ موت کو وجود انسانی کی لازمی شرط نہیں سمجھتے تھے۔اور موت کے واقعات کو غیر فطری اور مافوق الفطرت قرار دیتے تھے۔۸؎ بعض محقیقین بچے میں موت کی آگاہی کے عمل اور بنی نوع انسان کے ابتدائی دور میں تصور موت کے ارتقا میں ایک قسم کی مماثلت پاتے ہیں۔ اگر چہ ہم بچے کی ذہنی نشو ونما میں اور انسان کی ابتدائی زندگی میں مختلف تعقلات کی تشکیل کے ارتقائی عمل میں کوئی ٹھیک ٹھیک مطابقت نہیں ڈھونڈ سکتے،بلکہ بعض حالات میں ایسی مماثلت گمراہ کن بھی ثابت ہو سکتی ہے۔تاہم بعض معاملات میں ایسی مماثلت قائم کرنا مفید ہو سکتا ہے۔ مثلا اگر ہم بچے کے شعوری ارتقا کا جائزہ لیں اور یہ معین کریں کہ وہ کب اور کیسے موت کا شعور حاصل کرتا ہے،تو اس سے بنی نوع انسان کی عہد طفولیت میں حقیقت موت کے شعور کے حصول کے عمل پر کچھ روشنی پڑ سکتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پانچ برس کے بچے کے لئے موت کا تصور ناقابل فہم ہوتا ہے۔ اس کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ ’’زندہ نہ رہنے‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟۔بعض حالات میں بچوں کو موت کا کچھ کچھ علم معلوم ہونا شروع ہوتا ہے۔ تاہم وہ اسے ایک مطلق فعل نہیں سمجھتے۔بلکہ اسے ایک قابل واپسی فعل سمجھتے ہیں۔(Reversible) یعنی ان کے نزدیک جیسے بیماری کے بعد انسان دوبارہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ویسے ہی مرنے کے بعد جینے کی کیفیت میں آسکتا ہے۔چھ برس کی عمر میں بچہ موت کے بارے میں اپنے جذباتی رد عمل کو ظاہر کرنے لگتا ہے۔اسے اپنے ماں یا باپ کی موت کا اندیشہ محسوس ہونے لگتا ہے۔اسی طرح وہ بڑھتی ہوئی عمر اور موت کے مابین تعلق قائم کرنے لگتا ہے۔لیکن وہ اس عمر میں تشدد اور مار پیٹ کو عموما موت کا پیش خیمہ سمجھتا ہے۔ سات برس کی عمر میں اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ خود بھی موت کا شکار ہو سکتا ہے۔آٹھ نو سال کی عمر میں موت کے بارے میں اس کا یہ منطقی شعور پختہ ہو جاتا ہے۔کہ صرف چند لوگ ہی بیماری،پیرانہ سالی یا قتل وغارت سے نہیں مرتے۔ بلکہ تمام لوگ کو بالاخر موت کا شکار ہونا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیئے کہ موت کو لازمی امر سمجھنے میں اس کا معاشرہ بھی پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔۹؎ بعض ماہرین کے خیال میں نسل انسانی کا بھی ایک عہد طفولیت تھا،جس میں وہ موت کو ایک ناگزیر حقیقت نہیں سمجھتا تھا، لیکن جوں جوں یہ ’’عہد طفولیت‘‘ گزرتا گیا۔انسان کے شعور میں پختگی آتی گئی۔اور جب انسان نے ابتدائی دور (Primitive)کو خیر باد کہہ کر ارتقاء کے اگلے دور میں قدم رکھا،تو اس کا منطقی شعور اتنی ترقی کر چکا تھا کہ وہ تجربات وشواہد کی بنا پر نتائج اخذ کر سکے۔ چنانچہ تمام ’’انسان فانی ہیں‘‘ کا نتیجہ ویسے ہی اس کے فکری سرمایہ کا حصہ بن گیا ،جیسے کہ دیگر تعمیمات (General izations) مثلا ’’آگ ہمیشہ جلاتی ہے‘‘ پانی نشیب کی طرف بہتا ہے وغیرہ۔ اس نقطہ نظر پر کچھ جدید مفکرین اعتراض کرتے ہیں ۔شیلر(Scheler) کا خیال ہے کہ موت سے آگہی ایک داخلی وجدان کی صورت میں انسانی شخصیت کی گہرائیوں میں شروع ہی سے موجود ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس لینڈز برگ(Landsberg) کا خیال ہے کہموت سے آگہی کسی مخصوص تجربے سے ابھرتی ہے۔ شیلر لکھتا ہے: ’’موت صرف ہمارے تجربے کا جزو ہی نہیں،بلکہ یہ دیگر لوگوں کی زندگی اور خود ہماری اپنی زندگی کے تجربے کی ماہیئت سے تعلق رکھتی ہے۔زندگی کے اندر موت کا احساس پوشیدہ ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا فریم نہیں ہے کہ جو حادثاتی طور پر مختلف جسمانی اور نفسیاتی اعمال کی تصویر پر جڑ دیا گیا ہو،بلکہ یہ ایک ایسا فریم ہے کہ جو خود تصویر کا حصہ ہو۔ ۱۰؎‘‘ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر موت کا تصور انسان کے اندر ایک داخلی وجدان کی صورت میں شروع سے موجود ہے، تو قدیم انسانوں میں یہ مفقود کیوں تھا؟۔ شیلر اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ انسان نے شروع ہی سے اسے لاشعوری طور پر دبانے کی (Repression) کوشش کی ہے۔تاکہ اس کے خوف سے بچ سکے،ورنہ جیسے شعور حیات کا حصہ ہے۔ ویسے ہی موت کا احساس بھی حیات کا جزو لانیفک ہے۔۱۱؎ شیلر کے برعکس لینڈز برگ اس بات پر شدید اصرار کرتا ہے کہ انسان کے تصورات کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ وہ موت کے کسی مخصوص تجربے کا مشاہدہ کرے۔جب تک انسان کسی کی موت کا مشاہدہ نہیں کرتا ،اسے حقیقت موت کا عرفان حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے نزدیک اپنے فانی ہونے کا یقین موت کے کسی مخصوص تجربے اور مشاہدے سے مشروط ہے۔تاہم یہ موت کا مشاہدہ اور تجربہ کسی عام فرد کا نہیں ،بلکہ کسی انتہائی قریبی اور محبوب ہستی کا ہوتا ہے۔ اس طرح انسان کو جو جذباتی دھچکا لگتا ہے۔ وہ موت کے تجربے کی تمام سمتیں اس پر واضع کر دیتا ہے۔بچھڑنے والے عزیز سے اس کے اتنے گہرے مراسم ہوتے ہیں کہ دوئی اور ثنویت کے باوجود دونوں نے ایک مشترک’’ہم‘‘ بنایا ہوتا ہے۔ یہ مشترک’’ہم‘‘ دو علیحدہ شخصیتوں کے مابین اتنا راسخ ہو چکا ہوتا ہے کہ جب ایک بچھڑتا ہے،تو اس کے بچھڑنے کا غم دوسرے کی شخصیت کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ اور اسی تجربے سے اسے اپنی موت کا عرفان ہوتا ہے۔ ۱۲؎ شیلر اور لینڈز برگ دونوں کے نظریے درست ہو سکتے ہیں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موت کا تصور قبل تجربی(Apriori) طور پر انسانی ذہن میں موجود ہو۔اور کوئی مخصوص واقعہ اس کو شعور کی سطح پر پوری طرح واضع کردے۔حقیقت یہ ہے کہ موت کا ایقان انسان کئی انداز میں حاصل کر سکتا ہے۔ایک طرف بے جان مادہ ہے تو دوسری طرف زندہ عضویہ،بے جان مادہ اپنی شکل وصورت برقرار رکھتا ہے۔لیکن عضویہ بڑھتا ہے اور ارتقا پذیر رہتا ہے۔ ارتقا ء کے عمل کے ساتھ ہی عمر کے گزرنے کا احساس انسان کو ہر لمحہ ہوتا ہے۔چنانچہ اپنی موت کا احساس بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ خود بخود ہوتا جاتا ہے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ انسان نے موت کو ایک ناقابل تردید حقیقت کی حیثیت سے ایک لمبے عرصے کے بعد قبول کیا۔ ۳ مندرجہ بالا بحث سے ایک نہایت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو فلسفے کی زبان میں یوں پیش کیا جاتا ہے:۔ ’’کیا میں اپنے جنازے کو دیکھ سکتا ہوں۔‘‘۱۳؎ اس موضوع پر فلسفیوں کے علاوہ ماہرین نفسیات نے بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ ایک امر مسلمہ ہے کہ انسان جتناخود اپنی موت کے بارے میں تشویش کا شکار ہوتا ہے۔اتنا کسی اور کی موت کے بارے میں نہیں ہوتا،بالخصوص ان لوگوں کی موت سے جن سے ان کا جذباتی رشتہ کوئی نہیں ہوتا۔اس کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ دوسروں کی موت انسان کے لئے قابل تصور ہوتی ہے۔وہ سوچ سکتا ہے کہ دوسروں کی موت کیسے ہوتی ہے۔ لیکن وہ اپنی موت کے تصور کو قائم نہیں کر سکتا۔انسان کا شعور پیدائش سے لے کر موت تک تجربات ومشاہدات کے عمل پیہم سے عبارت ہوتا ہے۔ وہ ان دیکھی حقیقتوں اور نا قابل فہم اور ماورائے ادراک قوتوں کا جو بھی تصور قائم کرتا ہے۔ اسے اپنے تجزبی احساسات کی شبہیہ پر ہی کرتا ہے۔مشہور تجربیت پسند فلسفی جان لاک (Joha Locke) کے الفاظ ہیں۔ ’’وہ بلند ترین تصورات جو بادلوں سے بھی اونچے ہیں۔اور جن کی رسائی عرش تک ہے۔ یہیں سے( حسی ارتسامات) اپنی پرواز شروع کرتے ہیں۔ ان عظیم وسعتوں میں جہاں انسانی ذہن بھٹکتا ہے۔ اور قیاس وگمان کی رفعتوں میں ، جن کی بدولت کہ اسے سربلندی حاصل ہے۔ یہ تحسس (SENSASTION) اور تفکر (Reflection) کے فراہم کردہ تصورات سے ایک قدم بھی آگے نہیں جاتا ۱۴؎‘‘ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو حیات کا انقطاع دراصل تجربی تسلسل کا انقطاع ہے۔اب یہیں سے ساری مشکل پیدا ہوتی ہے۔ انسان کتنی ذہنی مشقت کیوں نہ کرے،وہ اپنی موت یعنی اپنے تجربی تسلسل کے انقطاع کا تصور قائم نہیں کر سکتا۔اس کے افکار وخیالات کا سارا تار وپود حسی ادراک کے ارتسامات سے ہی تیار ہوتا ہے۔ وہ بلند سے بلند ہستی اور مجرد سے مجرد قوت کی ذہنی شبیہ بنانے کے لئے کسی نہ کسی طرح حسی ارتسامات سے مدد حاصل کر لیتا ہے۔لیکن خود حسی ارتسامات کی نفی کس طرح کی ہوتی ہے۔؟ اس کی کوئی ذہنی شبیہ تیار نہیں ہو سکتی،اور نہ ہی اس کا کوئی تصور قائم کیا جا سکتا ہے۔فرائڈ کہتا ہے:۔ ’’ہم جب بھی اپنی موت کا تصور قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں،تو غور کرنے پر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم اپنے جنازے کا تماشا کرنے کے لئے دیگر لوگوں کے ساتھ ارد گرد ہی موجود ہیں۔۱۵؎ چنانچہ اپنی موت کا تصور قائم کرنا یا اپنے جنازے کا نظارہ کرنا،عقلا محال ہے۔ کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم اپنے جنازے کا نظارہ کرنے کے لئے کسی نہ کسی طرح موجود رہیں گے۔اور معدوم وجود کیسے ہو سکتا ہے؟۔ فرائڈ نے لفظ تماشائی (Spectator) کو جس مفہوم میں لیا ہے۔اس میں یقینا اپنی موت کا تصور کرنا عقلا محال ہے ،لیکن اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ فرائڈ کی دلیل سقیم ہے۔ ’’تما شائی ‘‘ ہونے کے بھی دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک مفہوم میں اس کا زندہ اور ذی شعور ہستی کی حیثیت سے موجود ہونا ضروری ہے۔ جب کہ دوسرے مفہوم میں ضروری نہیں:۔ فرض کیجئے میں اگلے مہینے تاج محل آگرہ کی سیر کا پروگرام بناتا ہوں۔ اور یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ میں دنیا کے اس عجوبے کے حسن تعمیر کو ہر پہلو سے دیکھوں گا۔اب میں ذہنی طور پر جب تاج محل کا مشاہدہ کرتا ہوں تو دیگر لوگوں کی طرح خود کو بھی ایک تماشائی کی حیثیت دیتا ہوں۔بعض حالات کے تحت میرا تاج محل دیکھنے کا پروگرام منسوخ ہو جاتا ہے۔اب میں دوبارہ تاج محل اور ان لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں ،جو اس کی سیر اور مشاہدے کے لئے آئے ہوں گے۔لیکن اس دفعہ میں اپنے آپ کو ان تماشائیوں میں شامل نہیں کرتا۔اس طرح تماشائی ہونے کے دو مفہوم ہو گئے۔ ایک میں میرا وجود لازمی شرط ہے۔جب کہ دوسرے میں نہیں۔ اس دوسرے مفہوم میں میں عملا اپنی زات کو دیگر تماشائیوں سے الگ کر دیتا ہوں۔اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم ذہن کیایک ایسے زاویے سے بھی سوچ سکتے ہیں،جس میں ہم اپنی ذات کو منہا کر سکتے ہیں۔مزید برآں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے کا وقت اس کے لیے ناقابل تصور نہیں، یعنی وہ پیدائش سے پہلے اپنے عدم وجود کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ تو پھر موت کے بعد اپنے عدم وجود کے بارے میں کیوں نہیں سوچ سکتا، فرائڈ کے بر عکس کچھ وجودی فلاسفہ ایسے ہیں جو کہ اپنی موت کو،اپنی ذات کی نفی کے باوجود،قابل تصور مانتے ہیں۔ مارٹن ہائیڈ یگر (Martin Heideggar) اپنی مشہور کتاب (Being and time) کے دوسرے حصے کے پہلے سیکشن میں موت اور دہشت(Dread) سے بحث کرتا ہے۔وہ ہستی (Being) کے مطالعے کو فلسفے کا صحیح موضوع بحث اور اصل مسئلہ سمجھتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں ہستی کی۔۔۔ جس خاص قسم یا پہلو سے بحث کرتا ہے۔ وہ ہے Dasein ڈی سائن۔اور ڈی سائن سے مراد انسانی ہستی (Human Being) ہے۔ انسانی ہستی بھی انفرادی اور مخصوص نہیں،بلکہ تمام نسل انسانی کی ہستی ہے۔ صرف انسان(Being) ہی ہستی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ڈاسائن کا تجزیہ اور مطالعہ خود حقیقت یا ہستی کے مطالعے کے لئے اہم اور بنیادی شرط ہے۔ انسان خود کو پہلے سے موجود ایک دنیا کے اندر پاتا ہے۔ یہ دنیا اس کی اپنی مرضی کی دنیا نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا وجود اس کے اندر مصدق(Authentic) نہیں ہوتا۔اس کو اپنی دنیا خود بنانا پڑتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے خارجی علمی زندگی سے کٹ کر خود اپنی صورت حال پر غور کرے۔اپنی شعوری زندگی پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے، کہ یہ مختلف کیفیات(Moods) سے عبارت ہے۔ ان میں سے ایک کیفیت یا موڈ ’’ڈاسائن‘‘ کو خارجی ماحول سے خود اس پر مرتکز کر دیتا ہے۔ یہ موڈ دہشت (Dread) کا ہے۔دیگر کیفیات یا موڈ خارجی دنیا کے کسی نہ کسی پہلو سے متعلق ہوتے ہیں ۔مگر دہشت کسی خارجی شے کا حوالہ نہیں رکھتی،بلکہ یہ اشیاء کے کھو جانے کا احساس ہے۔۔۔۔ دنیا میں رہتے ہوئے شیئیت (Nothingness) کا احساس ہے۔ ہمیں اپنی حیات کا مکمل شعور اور اپنی موضوعی دنیا کی تشکیل کے لئے موت کو خاص اہمیت دینا پڑتی ہے۔ ہم موت کو دنیا میں اپنے وجود (Being in the world) کی ایک لازمی شرط تسلیم کرتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم موت (Being to Death) تک ہیں۔ ۔۔یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ سفر حیات کی انتہا موت ہے۔دہشت یا ہائیڈیگر کی اصطلاح میں (Augest) , ہی ہمیں اپنی آزادی کا احساس دلاتی ہے۔اور تصدیق (ٓAuthenticity) کا شعور پیدا کرتی ہے۔ ہائیڈیگر کے افکار مبہم اور نا مانوس اصطلاحات میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اس کی ا پنی تحریروں سے موت کے خد وخال کو اجاگر کرنا ایک مشکل کام ہے۔ تاہم اس کے ایک مقلد کوئسٹن بام (Koestenbavm) اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ: ’’ہماری موت دوسروں کی موت سے بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہے۔یہاں ہمیں ایک نہایت شدید اور بنیادی ذو معنویت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو کہ لفظ ’’موت‘‘ کے بارے میں ہے۔مظہریاتی (pheno Menological Analysis) تجربہ سے پتا چلتا ہے کہ جب ہم کسی دوسرے کی موت کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم دنیا سے ایک شے کو کم کر دیتے ہیں۔۔۔ جب کہ مشاہد کرنے والی ’’انا‘‘ یا موضوع کو منہا نہیں کرتے۔ اگر آدمی اس پر سنجیدگی سے غور کرے کہ دوسرے کی موت سے وہ کیا مراد لیتا ہے۔ تو اسے پتا چلے گا کہ وہ خود منظر میں موجود ہے۔جو کہ منظر پر غور کر رہا ہے۔خواہ وہ منظر اس کے پردہ تخیل پر ہی کیوں نہ ہو۔ موت (دوسرے کی) اس دنیا کے اندر ہی ایک واقعہ ہے۔ جب کہ دنیا کی زندگی اور انسانی تجربات کی دنیا باقی اور قائم رہتی ہے۔۱۶؎‘‘ کوئسٹن بام کے نزدیک دوسروں کی موت کا مشاہدہ کرنے میں اپنی انا مسلسل موجود رہتی ہے۔مگر جب کوئی اپنی موت کا تصور قائم کرتا ہے تو یہ ’’انا‘‘ معدوم ہو جاتی ہے۔اپنی انا کے معدوم ہو جانے پر اپنی موت انسان کو یوں لگتی ہے کہ جیسے وہ لامنتہا گہرائیوں میں گرتا چلا جا رہا ہو۔دوسرے کی موت کا مشاہدہ کرنے سے یہ دنیا ختم نہیں ہو جاتی۔ لیکن اپنی موت کا تصور کرتے ہوئے اسے ساری دنیا معدوم ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ اگر میں یہ سمجھوں کہ میں اپنے جنازے کو دیکھ سکتا ہوں تو میں بالواسطہ طور پر اپنے وجود کی بقا پر یقین رکھوں گا۔لیکن موت عدم محض ہے۔ اس لئے جب میں اپنی موت کے بارے میں سوچتا ہوں،تو سارا منظر غائب اور معدوم ہونے لگتا ہے۔درحقیقت میری موت میرے لئے تمام دنیا کی موت ہے۔ میں جب اپنی موت کا تصور کرتا ہوں تو مجھے لاشئیت خلا، یا عدم محض کا احساس ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنی موت میں میں اسی لاشئیت(Nothingness) یا خلا (Encounter) کا سامنا کرتا ہوں۔لیکن دوسروں کی موت پر غور کرتے ہوئے مجھے اس لاشئیت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کیونکہ وہاں اس دنیا کے کئی حوالے موجود ہوتے ہیں۔یہ حوالے اور روابط میری موت کی صورت میں معدوم ہو جاتے ہیں۔چنانچہ میری موت کا تصور دراصل تمام حوالوں،تمام روابط اور تمام دنیاکی نفی ہے۔ کوئسٹن بام کے نظریے پر بھی وہی اعتراض کیا جا سکتا ہے۔جو ہم نے فرائڈ کے نظریے پر کیا تھا۔یعنی اپنے جنازے کے مشاہدے کے لئے ضروری نہیں کہ ہم اپنی انا کی بقا کو تسلیم کریں۔ذہن کے کسی ایسے زاویے سے اپنے جنازے کے متعلق غور کیا جا سکتا ہے۔جس میں اپنی ذات یا وجود کو منہا کر دیا جائے۔مزید براں ہائیڈیگر اور کوئسٹن بام جب یہ کہتے ہیں کہ میری موت ساری دنیا کے اختتام کے مترادف ہے۔تو اس میں مبالغہ نظر آتا ہے۔ اسے یہ کہنا چاہیئے کہ میری موت میری موضوعی دنیا کا اختتام ہے۔ اس طرح یہ لازم نہیں آتا کہ ساری دنیا ختم ہو گئی ہے۔مرنے سے پہلے لوگ وصیتیں لکھتے ہیں ،تو انہیں یقین ہوتا ہے کہ دنیا ان کی موت کے بعد ویسے ہی چلتی رہے گی۔خود ہائیڈیگر اور کوئسٹن بام نے اپنی اولاد اور پس ماندگان کی بہتری کے لئے کئی اقدامات کیے ہوں گے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ انسان اپنی موت کو اپنی موضوعی دنیا (وہ دنیا جو اس نے خود بنائی ہے۔)کا خاتمہ سمجھتا ہے ۔نہ کہ خارجی اور موضوعی دنیا کا۔ ۴ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظر ان تحقیقات۹؎ پر ڈال لی جائے۔جو فرائڈ نے موت اور جبلت مرگ(Death Instinct) کے بارے میں کی تھیں۔ پچھلے صفحات میں ہم یہ ذکر کر آئے ہیں کہ بعض مفکرین کے نزدیک موت کا شعور وجدانی طور پر انسان کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔جس طرح زندہ رہنے کا عمل بدیہی حقیقت کے طور پر انسان پر آشکار ہوتا ہے۔ویسے یہ آگہی کہ اس کا سفر زیست موت پر منتج ہو گا۔انسانی فطرت کی گہری تہوں میں پنہاں ہوتی ہے۔فرائڈ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔بلکہ اس کو نہایت مربوط اور سائنسی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ فرائڈ کی ابتدائی تحقیقات جن میں لاشعور، خوابوں کی تعبیر اور مختلف نفسی عوارض کی تفصیلات شامل ہیں۔بہت مشہور ہوئیں ،لیکن اس کے آخری دور کے نظریات کو لوگ اتنی اہمیت نہیں دیتے جبلت حیات (eros, of, life Instinct) اور جبلت مرگ (Thanatos of, Death Instinct) کا نظریہ اس نے اپنے آخری دور میں ہی وضع کیا تھا۔ اس کی ساری عمر کی علمی کاوش کا ماحصل یہ تھا کہ لائیڈو () کی دو بنیادی جبلات ہیں۔ ۱۔ تحفظ ذات (Self Preservation) ۲۔ اشاعت ذات (Self Propagation) یہ دونوں جبلتیں دراصل حیات کی ایک ہی تحریک سے تعلق رکھتی ہیں،کہ ارتقاء کی اگلی منزل تک پہنچا جائے۔تمام انواع اور افراد کے اندر جتنی بھی جبلات اور محرکات ہیں۔ وہ اس اعتبار سے یکساں ہیں کہ ان کا مقصد حیات کی نشو نما ہے۔ان تمام جبلات کو ایک جبلت کے تحت لایا جا سکتا ہے۔ اسے ہم Eros یا جبلت کہتے ہیں۔یہاں تک معاملہ ٹھیک ہے،لیکن جبلت حیات کے بر عکس کیا چیز ہے؟۔ اسے فرائڈ جبلت مرگ کہتاہے۔ اس کے نزدیک یہ شروع ہی سے عضویہ کے اندر مضمر ہوتی ہے۔ تمام حیات کا عمل موت کی طرف ہی رواں دواں ہے۔ لیکن ارتقاء کے راستے عضویہ کو پھر اسی مقام پر لے آتے ہیں۔جہاں سے اس نے آغاز سفر کیا تھا۔یعنی بے جان مادہ: فرائڈ کے الفاظ ہیں؛ ’’ حیات کی صفات شروع شروع میں کسی ایسی قوت کے ہاتھوں غیر نامیاتی مادے کے اندر پیدا ہوئیں،جس کا ہم کوئی تصور حاصل نہیں کر سکتے، ممکن ہے یہ عمل اس عمل سے مشابہ رہا ہو۔ جس سے بعد ازاںمادے کی کسی مخصوص شکل میں ’’شعور‘‘ پیدا ہوا۔ تب جو اطناب یا کچھاؤ پیدا ہوا ،وہ یہ تھا۔کہ جو اب تک بے جان مادہ تھا۔ اس نے (حیات پذیر) ہونے کے بعداپنی حالت اولیٰ کی طرف واپسی کی کوشش شروع کر دی۔اور خود کو منسوخ کرنا چاہا۔ اس طرح پہلے جبلت معرض وجود میں آئی۔یعنی غیر نامیاتی مادے کی طرف پلٹ جانے کی جبلت، اس وقت ایک زندہ شے کے لئے اپنی اصل کی طرف لوٹ جانا بہت آسان تھا۔زندگی کی اولین شکلوں میں غالبا زندہ چیزوں کا عرصہ حیات بھی نہایت مختصر ہوتا تھا۔ شاید ایک لمبے عرصے تک زندہ جو ہر مسلسل پیدا ہوتا اور مرتا رہا۔ تا آنکہ فیصلہ کن خارجی اثرات اس طرح تبدیل ہوئے کہ جو زندہ تھا۔اسے پرانی ڈگر سے بٹ جانے کا موقع مل گیا۔اور اس نے موت کی منزل تک پہنچنے سے پہلے کئی پیچیدہ موڑ پیدا کر لیے۔یہ تمام راستے جو کہ دائروں کے گرد گھومتے ہوئے موت تک پہنچتے ہیں،اور جبلات نے جنہیں اپنائے رکھا۔۔۔آج ہمیں زندگی کے مظہر کی صورت میں نظر آتے ہیں۔۲۰؎‘‘ اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ فرائڈ نے تصور موت کی تحقیق کا دائرہ آفرینش حیات کے زمانے تک پھیلا دیا ہے۔ جبلت مرگ کی اصطللاح بھی اس نے پہلی مرتبہ ۱۹۲۰ء میںمذکورہ بالا کتاب میں استعمال کی تھی۔اس ضمن میں اس کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ عضویہ کے اندر بھی ایک مکمل عمل مرگ جاری رہتا ہے۔۔۔۔جسے وہ غیر نامیاتی مادے کی طرف مراجعت کا میلان کہتا ہے۔ وہ زمانہ قدیم کے وحشی انسان کے رویوں کے حوالے سے موت کے تصور کی تشریح ضرور کرتا ہے۔لیکن اس تشریح کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا،کیونکہ اس میں موت کے عمل کو کسی پر اسرار اور غیر مرئی قوت کی کرشمہ سازی سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم کا وحشی انسان طبعی موت (Natural Death) کا قائل نہ تھا۔بلکہ موت کوخارج سے نازل ہونے والی آفت یا سزا سمجھتا تھا۔ اس کے برعکس فرائڈ جس قسم کا تصور مرگ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔وہ ایک طبعی موت کا ہے۔ وہ جبلات جو جنسی اور تخلیقی ہیں۔۔۔جن کا فریضہ تحفظ حیات اور استدام حیات ہے۔ وہی جبلات موت کی دست بستہ کنزیں ہیں۔۲۱؎ ۔ یہ جبلات عضویہ کو طبعی عمر کا سفر طے کروا کر منزل موت سے ہم کنار کرنا چاہتی ہیں۔لیکن جب خارجی آفات وحوادث سے عضویہ کو خطرہ لا حق ہوتا ہے۔ تو یہ عضویہ کی مخالفت بھی کرتی ہیں۔اپنے اس نظریے کی تصدیق کے لئے وہ حیاتیات کے نتائج کا سہارا لیتا ہے۔ پہلے وہ ولہلم فلائیز(Willhelm Flies) کا ذکر کرتا ہے۔ جس نے یہ نظریہ دیا تھا کہ ہرعضویہ کا اپنا ایک مخصوص اور متعین عر صہء حیات ہوتا ہے۔جسے پورا کرنے کے بعد وہ ختم ہو جاتا ہے۔فرائڈ اس پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ خارجی حالات عضویہ پر اثر انداز ہو کر اس کے عرصہ حیات کو کم یا زیادہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ وائز مین (Weis mann) ۱۸۸۲ئ۔۱۸۸۴ئ۔۔۱۸۹۲ء کا ذکر کرتا ہے۔ جس نے یہ نظریہ دیا تھا کہ عضویہ کے دو حصے ہوتے ہیں۔ (۱) ۔ اس کا جسم جسے وہ اصطلاح میں سوما۔۔۔۔ کہتا ہے۔ (۲) مادہء تولید (Germ plasm) سوما وہ حصہ ہوتا ہے جو فنا ہو جاتا ہے۔لیکن مادہ تولید کو بقا حاصل ہے۔ایک ہی عضویہ سے کچھ خلیے جدا ہو کر علیحدہ افراد بن جانے کے اہل ہوتے ہیں۔ فرائڈ کو وائز مین کے اس نظریے میں اپنے نظریات کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے۔ عضویہ کے دو حصوں ’’سوما‘‘ اور ’’مادہ تولید‘‘ کے مابین اس نے جو تمیز کی ہے۔ وہ فرائڈ کے لئے بہت گہرے معنی لیے ہوئے ہے۔ عضویہ کا ایک حصہ فانی اور دوسرا غیر فانی ہے۔کیونکہ یہ نوع (Species) کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔لیکن فرائڈ کا موضوع بحث ’’جوہر زندہ‘‘ نہیں،بلکہ وہ زندہ اعمال ہیں،جو ہر زندہ کے اندر کار فرما ہیں۔اس لیے وائز مین بحث کو آگے نہیں بڑھاتا،بلکہ اس سے اپنے نظریہ کی توثیق کرکے وہ جبلات کا تصور قائم کرتا ہے۔ایک جبلت حیات(Eros) ہے۔ اور دوسری جبلت مرگ(Thanatos) ہے۔ ’’ان دو جبلتوں کی وضاحت کے لئے فرائڈ ایک اور حوالہ دیتا ہے۔: ’’ہم ایک لمحہ رک کر جبلی زندگی کے اس دوگانہ نظریہ پر غور کر سکتے ہیں۔ای ہیرنگ (E-Hering) کے نظریہ کی رو سے جوہر زندہ کے اندر ہر دم دو متخالف قسم کے اعمال جاری وساری ہیں۔ ایک تعمیری یا انجذابی (Constructive or Assimitatory) اور دوسرا تخریبی یا انتشاری (Destructive) کیا ہم ان دونوں سمتوں میں جو کہ حیاتی عمل نے اختیار کر رکھی ہیں۔ہم اپنی دو جبلات (موت اور حیات) کو نہیں پہچان سکتے۔؟ یہاں کوئی ایسی حقیقت ضرور ہے جسے ہم صرف نظر نہیں کر سکتے۔ ہم اپنا راستہ بناتے ہوئے بلا ارادہ فلسفہ شوپنہار کی بندرگاہ میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس (شوپنہار) کے نزدیک موت زندگی کا حقیقی نتیجہ اور اسی اعتبار سے زندگی کا مقصد ہے۔ جب کہ جنسی جبلت مادہء حیات کی مظہر ہے! ۲۲؎‘‘ فرائڈ کو جبلت مرگ کے اس مفروضے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ جنگ عظیم دوم کے بعد بہت سے مریض اس کے پاس لائے جاتے تھے۔جنہیں جنگی عصبانیت(War ncurosis) ہو جاتا تھا۔ ایسے مریضوں کو خواب میں جنگ کے ایسے مناظر نظر آتے ہیں جس میں ہر طرف موت رقصا ں ہوتی ہے۔سوتے ہوئے بموں کے خوفناک دھماکے سنائی دیتے جو ان کے عصابی نظام کو مفلوج کر دیتے۔اس کے علاوہ فرائڈ کو یہ محسوس ہوا کہ جنگوں میں الجھی ہوئی اقوام کو قتل وغارت گری سے کچھ نہ کچھ لاشعوری تسکین ضرور ملتی ہے۔پھر فرائڈ کو ایسے مریضوں سے بھی سابقہ پڑتا جو لاشعوری طور پر بیماری سے چمٹے رہنے کے خواہاں ہوتے تھے۔ ان تمام حالات میں فرائڈ کا پرانا مفروضہ کہ لاشعور پر صرف اصول لذت حکمرانی کرتا ہے۔اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔لاشعور زیادہ سے زیادہ لذت چاہتا ہے۔اور تکلیف کو کم سے کم کرنا چاہتا ہے۔یہ اصول کشت وخون اور قتل وغارت میں افراد کی انفرادی اور اقوام کی اجمتماعی تسکین کی تشریح نہیں کر پاتا۔اس لیے فرائڈ نے اصول لذت سے پرے ’’ نامی مقالہ (۱۹۲۰ئ) میں تحریر کیا جس میں باقاعدہ طور پر جبلت مرگ کی اصطلاح استعمال کی۔جنسی اور ایغو کی جبلات کو اس نے ’’جبلت حیات‘‘ کا نام دے دیا۔’’ جبلت مرگ‘‘ ہر زندہ شے میں پائی جاتی ہے۔ یہ ایک رجحان ہے کہ جوہر ذی روح واپس غیر نامیاتی مادے کی طرف لوٹ جائے۔بے جان مادے کی طرف مراجعت موت نہیں تو اور کیا ہے؟۔ جبلت مرگ جو کہ عضویہ کے اندر ایک ایسا رجحان ہے جو کہ عضویہ کو منزل موت کی طرف کھینچتا ہے۔کبھی کبھی قاتلانہ اور متشددانہ روپ بھی اختیار کر لیتا ہے۔’’جبلت مرگ‘‘ مارنے کی خواہش میں بھی ڈھل جاتی ہے۔ چنانچہ دوسروں کو مارنے کا عمل فرائڈ کے نزدیک خود جبلت مرگ ہی کا اظہار ہے۔اسی مفروضے پر وہ اذیت کوشی (Masochism) اور اذیت پسندی (Sadism) کی بھی تشریح کرتا ہے۔ جبلت مرگ سے فرائڈ کے عمرانی فلسفے کا تار وپود تیار ہوا اور اس کی بنیاد پر اس نے کئی ایسے سوالوں کے جواب دیئے جو ’’اصول لذت‘‘ کے حوالے سے حل نہیں ہو سکتے تھے۔جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا ہے کہ اس نے جبلت مرگ اور ’’جبلت حیات‘‘ وضع کرنے کے لئے حیاتیات کا سہارا لیا ہے۔بعض لوگ اس کی اس کاوش کو کئی اعتبار سے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایک مفروضے کی حیثیت سے اس میں کئی اسقام تلاش کیے جا سکتے ہیں،لیکن یہ بات نا قابل تردید ہے کہ فرائڈ نے یہ نظریہ دے کر موت کے مسلے کو ایک یکسر نئے انداز سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ فرائڈ جبلت مرگ اور جبلت حیات کی تشریح کرتے ہوئے جدلیاتی مادیت کے بہت قریب آگیا ہے۔جدلیاتی مادیت(۲۵؎) یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اولیت مادے کی ہے۔ اور مادہ اپنی باطنی جدلیات کے سبب ارتقا ء کی منازل طے کر رہا ہے۔ جدلیاتی مادیت کا مشہور قانون ’’وحدت اضداد‘‘ (Unity.of Opposites ) کا قانون ہے۔ارسطو کا خیال تھا کہ دو متناقض پہلو بیک وقت یکجا نہیں ہو سکتے،ایک لمحے میں ایک ہوگا تو دوسرے لمحے میں دوسرا ہو گا۔ ایک شے ایک ہی وقت میں سفید اور غیر سفید نہیں ہو سکتی۔البتہ یہ ممکن ہے کہ ایک وقت میں ایک شے سفید ہو اور دوسرے وقت میں وہ غیر سفید ہو جائے۔ اس قانون کا قانون مانع نقیضین (Law of non Contradtction) کہا جاتا ہے۔ یہ قانون ارسطو کی منطقی کی روح رواں ہے۔ لیکن ارسطو کی منطقی سائنسی اور منطقی فکر کی حد تک تو درست ہے۔ لیکن جہاں ذہن کے غیر منطقی اعمال کا معاملہ سامنے آتا ہے۔وہاں یہ قانون کام نہیں دیتا۔ خواب دیکھتے ہوئے یا کسی شدید جذبے کی حالت میں انسان کی سوچ منطقی نہیں رہتی۔بعض اوقات دو متناقض جذبے،شدید محبت اور شدید نفرت ایک ہی وقت میں انسان محسوس کرتا ہے۔انسان کی داخلی، جذباتی، اور روحانی زندگی کی پیمائش ارسطو کے قانون مانع نقیضین سے نہیں ہو سکتی۔اسی طرح خارجی فطرت کے اندر بھی کئی ایسے مظاہر ہیں،جن کے اندر متضاد اور متناقض اعمال متحد ہو جاتے ہیں۔ایٹم کو لیجیئے ،اس کے اندر مثبت اور منفی برقیے متناقض کے باوجود متحد ہیں۔ جدلیاتی مادیین یہ کہتے ہیں کہ تضادات بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ۱۔ منطقی تضادات ۔(Logical Contradictions) ۲۔۔ جدلیاتی تضادات (Dralcetrcal Contratiction) جہاں تک منطقی تضادات کا تعلق ہے۔ وہ ارسطو کے ہم خیال ہیں کہ منطقی فکر کے میدان میںوھدت اضداد کا اصول تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔لیکن جہاں تک معاملہ جدلیاتی تضادات کا درپیش ہو، وہاں ارسطو کی منطق ناکافی ثابت ہوتی ہے۔لہذا جدلیاتی تضادات کی (جن میں خارجی فطرت کے اور خود انسان کی داخلی زندگی کے تضادات شامل ہیں۔) تشریح وتوضیح کے لئے ہمیں ایک اور منطق کی ضرورت ہے۔ اس منطق کو ارسطو کی منطق کا متبادل نہیں سمجھنا چاہیئے۔ یہ اس کی منطق کا تتمہ (Complementary) ہے۔ یہ ان مظاہر کو زیر بحث لاتی ہے۔ جن کی تشریح ارسطو کی منطق نہیں کر سکتی۔ جدلیاتی تضاد میں ایک تضاد موت وحیات کا بھی ہے۔ جس طرح محبت اور نفرت کے رویے کوئی شخص بیک وقت محسوس کر سکتا ہے۔جس طرح کوئی ذہنی مریض بیک وقت اذیت کوش (Masochist) اور اذیت پسند (Sadist)ہو سکتا ہے۔ یا جس طرح ایٹم کی غیر تقسیم پذیر وحدت کے اندر دو متضاد اعمال مثبت اور منفی برقیوں کی صورت میں سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ویسے ہی عضویہ کے اندر دو مختلف اور متضاد اعمال موت وحیات کی صورت میں جاری وساری رہتے ہیں۔ہر لمحے کئی خلیے مر جاتے ہیں ۔اور اسی لمحے کئی نئے خلیے معرض وجود میں آجاتے ہیں۔خلیوں کی شکست وریخت اور آفرینیش اور افزائش کا یہ وہی عمل ہے جسے ماہرین حیاتیات انجذاب (Assimilation) اور انتشار (Dissimilation) کا نام دیتے ہیں۔ فرا ئڈنے بھی جبلتحیات اور جبلت مرگ کے اصول عضویہ کے انہی دو اعمال کی بنیاد پر وضع کیے تھے۔خلیوں کی شکست وریخت اور خلیوں کی آفرینش وافزائش یا حیات اور موت دو متناقض اعمال ہیں۔ جو کہ ایک ہی عضویہ کے اندر جاری وساری ہیں۔ جدلیاتی مادیت کے حامی مفکرین بھی موت کو ایک ایسا واقعہ نہیں سمجھتے جو راہ زیست پر چلتے چلتے یک لخت پیش آجاتا ہے۔ اگر خارجی حادثہ رونما نہ ہو تو موت ہمیں ایک ایسا عمل نظر آئے گی۔جو خود عضویہ کے اندر شروع سے آخر تک موجود رہتا ہے۔شباب کی پختگی تک حیات کا عمل غالب رہتا ہے۔ لیکن بڑھاپے کے شروع ہوتے ہی موت کا عمل عضویہ پر استلاء حاصل کرنے لگتا ہے۔ حیات وموت کی کشاکش اور ایک دوسرے پر غلبہ واستلا حاصل کرنے کی سعی وجد وجہد سے عضویہ کا وجود برقرار رہتا ہے۔اس طرح جدلیاتی مادیت کے حامی مفکرین بھی فرائڈ کی طرح موت کو ایک داخلی اور باطنی عمل سمجھتے ہیں۔جو کہ عضویہ کے اندر جاری وساری ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ جبلت مرگ خودعضویہ کو منزل مرگ کی طرف دھکیلتی ہے۔۔۔۔ لیکن جب خارج سے اس پر کوئی آفت یا حادثہ نازل ہونے لگے تو یہ لائیبیڈو (Libido) کی جبلت تحفظ ذات (Self prescrvation) کا روپ دھار کر عضویہ کا دفاع کرتی ہے۔ اس تصور میں جدلیاتی مادیت کے مخصوص نظریہ اختلاف میں عینیت (Identity in Difference) کی صدائے باز گشت محسوس ہوتی ہے۔ ۵ تاریخ فلسفہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح کے یونان اور دوسری اور تیسری صدی قبل مسیح کے روم میں موت کا فلسفیانہ تحقیق میں بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے۔لیکن عیسائیت کی آمد اور اس کے عقائد کے فروغ کے ساتھ ہی مفکرین نے اس مسلہ میں دل چسپی لینا چھوڑ دی ۔کیونکہ عیسائیت نے روح کے بقائے دوام کا عقیدہ پیش کرکے موت اور حیات بعد الموت کے مسئلہ کو حل کر دیا تھا۔ قرون وسطیٰ میں جب کہ فلسفہ مذہب کا غلام بن کر رہ گیا تھا۔ اس مسئلہ پر بحث اگر کی بھی جاتی تو الہیاتی یا متکلمانہ انداز میں جنت،دوزخ اور حیات بعد الموت کے مذہبی عقائد کو پہلے سے تسلیم کرکے ان پر فلسفیانہ انداز پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد دور جدید میں جب آزاد فکر اور بے لاگ تنقید وجرح کی فضا پیدا ہوئی توفلسفیوں نے اس مسئلہ سے بے اعتنائی برتنا شروع کر دی۔ فلسفیوں کا زیادہ تر رجحان بقائے دوام اور روح کی مستقل بالذات حیثیت سے انکار کرنے کا تھا۔تاہم اس مسئلہ نے نئی جہت اختیار کر لی۔فلسفی اس بات پر سوچ وبچار کرنے لگے کہ موت کے خوف پر قابو کیسے پایا جاتا ہے۔تاہم کئی فلسفی ایسے بھی تھے ۔جنہوں نے روح اور اس کے بقائے دوام کو بطور خاص موضوع بحث بنایا۔اس طرح فلسفہ جدید میں فلسفیوں کے دو گروہ بن گئے۔ اولا وہ جنہوں نے کسی نہ کسی طرح سے اس مسئلہ کو اپنے فلسفے کا بنیادی تصور بنایا۔ ان فلسفیوں میں شوپنہار،کیر کیگارڈ،ہائیڈیگر ، اور کامو (Camv)وغیرہ شامل ہیں۔دوسرے وہ جنہوں نے بقائے دوام کا انکار کیا،اور موت کے مسئلہ کو اتنی اہمیت نہ دی۔ان میں بعض منطقی اثباتی اور بر ٹرینڈ رسل شامل ہیں۔منطقی اثباتیوں کا رویہ جو عام مابعد الطبیعاتی مسائل کے بارے میں تھا۔ وہی موت ،روح اور روح کے بقائے دوام کے بارے میں تھا۔ برٹرینڈ سل بھی نظام عصبی سے بالا تر کسی رو حانی جوہر کا قائل نہیں۔اس لیے روح کے بقائے دوام کا مسئلہ اس کے لیے سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔۲۵؎ ۔ انیسویں صدی کے وسط میں سائنس نے اتنی ترقی کر لی کہ موت اور حیات بعد الموت کے مسائل ہی سائنس دانوں کو بے معنی نظر آنے لگے۔ لیکن اس کے بر عکس جدید فلسفے میں ایک روایت ایسی ضرور موجود رہی ہے۔ جو تمام مخالفتوں کے باوجود مسئلہ موت کو بہت اہم قرار دیتی رہی ہے۔ ولیم جیمز اور ہینری برگساں (شوپنہار اور ہائیڈیگر) کے علاوہ اس روایت کے علم بردار ہیں۔ مسئلہ موت کی تحقیق پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ ایک سعی لا حاصل ہے۔ سائنس دانوں کو چاہیئے کہ وہ انسانی صورت حال سے متعلقہ مسائل،یعنی سماجی، نفسیاتی،اقتصادی مسائل سے بحث کریں۔ موت اور حیات بعد الموت کے مسئلوں پر تحقیق وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ موت انسانی صورت حال سے متعلق ایک مسئلہ ہے۔موت کے بارے میں انسان کا رویہ اس کی شخصیت کی تعمیر میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔انسان کی بنیادی زندگی میں تشویش (Basic Condition) کا ایک عنصر پایا جاتا ہے۔ اس کا مطالعہ وجودی مفکرین بھی کرتے ہیں اور ماہرین نفسیات بھی، کچھ فلسفی موت کے خوف کو اس بنیادی تشویش کی علت سمجھتے ہیں۔ اس اعتبار سے اس مسئلہ کی تحقیقی وقت ضائع کرنے کی بجائے انسانی صورت حال کی ایک عظیم سچائی کی دریافت کے مترادف ہے۔علاوہ بریں انسانی شخصیت کا مطالعہ غمائی(Telcological) انداز میں کرنا چاہیئے۔طبیعی علوم کے اندر ایک واقعے کی تشریح کے لئے میکانکی علتوں کا حوالہ کافی ہے۔ لیکن انسانی شخصیت کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں اس کے مستقبل میں جھانکنا پڑتا ہے۔ہمیں یہ معلوم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے نصب العین، اس کی آرزوئیں اور اس کی آورش کیا ہیں؟۔ موت مستقبل کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ وجودی فلاسفہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ موت کا سامنا (Encounter) کرکے اور پھر سے ناقابل تردید حقیقت کی حیثیت سے قبول کرکے ہی انسان وجود مصدقہ (Authentic Existence) کا اہل ہو سکتا ہے۔ یہ بات نہ صرف افراد کے بارے میں درست ہے، بلکہ اقوام کے مزاج کا اندازہ کرنے کے لئے بھی یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ موت اور حیات بعد الموت کے بارے میں ان کا کیا رویہ ہے۔ کیفنیوشس(Confucivs) نے جب یہ کہا تھا کہ:۔ ــ’’مجھے زندگی کے بارے میں پتا ہی نہ چل سکا کہ یہ کیا ہے ،تو مجھے موت کے بارے میں کیا پتا چل سکتا ہے؟۔‘‘ تو یہ کہنا دراصل زندگی کے ایک اہم مسلے سے پہلو تہی کرنے کے مترادف تھا۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا صحیح مفہوم موت پر غور کیے بغیر حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ موت کا مسئلہ فلسفے کا مسئلہ نہیں۔’’عضویہ کی ہلاکت‘‘ حیاتیات کے دائرہ کار میں ہے۔اور موت کا خوف نفیسات کا مسئلہ ہے۔۲۷؎ سطحی طور پر دیکھا جائے تو یہ بات درست نظر آتی ہے۔لیکن غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ موت کے خوف،موت کی نوعیت اور بقائے دوام کے مسئلہ کی کئی ایسی جہتیں ہیں۔جو حیاتیات اور نفسیات کے دائرہ کار سے متجاوز ہو جاتی ہیں۔ ’’ یک خلویہ نامیہ (Thicellulan Organism) مثلا ایمیبا کی اگر مثال لی جائے،تو اس کی نسل کشی کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اور ہر ٹکڑا مستقل بالذات ’’یک خلوی نامیہ‘‘ بن جاتا ہے۔ فرائڈ نے ووڈرف (Woodruff) کے تجربہ کا ذکر کیا ہے۔ کہ اس نے ایک قسم کے یک خلوی نامیہ کے ہر ٹکڑے کو جو کہ بذریعہ انشقاق۔۔۔ علیحدہ ہوتے جاتے ہیں۔پانی کے برتن میں ڈالنا شروع کیا۔اس طرح نامیہ کی دو افراد میں تقسیم کا سلسلہ تین ہزار انتیسویں(3029)نسل تک جاری رہا۔۔۔۔ اور یہ آخر میں آنے والا عضویہ اپنے مورث اعلیٰ کی طرح ہی ترو تازہ تھا۔اور اس کی کسی حرکت سے طوالت عمر یا انحطاط پذیری کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔۲۸؎ اس مثال سے پتا چلتا ہے کہ موت یا عضویہ کی ہلاکت،نسل کشی، اور بقائے دوام کے مسائل حیاتیات کے دائرہ کار سے متجاوز ہو کر فلسفیانہ تفکر اور نظری بحث (Theoretical Discussion) کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔اسی طرح موت کا خوف صرف نفسیات کا مسئلہ ہی نہیں رہتا ،بلکہ نفسیات تو اس امر واقعہ کا مشاہدہ کرے گی۔لیکن اس خوف کے سماجی اور اخلاقی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہ فیصلہ کرنا فلسفے کا کام ہے۔ روایتی طور پر موت،موت کے خوف اور حیات بعد الموت کے مسائل مذہب کا حصہ تھے۔دنیا کے تقریبا تمام مذاہب میں حیات بعد الموت اور روح کے بقائے دوام کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ان عقاید میں یقینا اختلافات موجود رہے ہیں۔ ہر مذہب نے اپنے مخصوص انداز میں موت اور بقائے دوام کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس بات پر تقریبا تمام مذاہب متفق ہیں۔کہ موت کے ساتھ انسان ہلاکت محض کا شکار نہیں ہو جاتا ،بلکہ اس کی روح قائم ودائم رہتی ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مذہب کے عقائد سائنسی شواہد اور تجربات سے متصادم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان مسائل کے کسی ایسے حل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے،جو عقل وخرد کے معیار پر پورا اتر سکے۔ اس کے علاوہ دور جدید میں مذہبی تشریحات سے بالعموم اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے یہ مسائل فلسفی کے لیے جتنے اہم آج کے دور میں ہیں،پہلے کبھی نہیں رہے۔ ’’مشہور تصنیف ’’موت کے معانی‘‘ کا مولف ہرمین فیفل ۲۹؎ کہتا ہے کہ موت کے بارے میں مفکرین کے رویے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں،تین نکات پر سب کا اتفاق ہے۔ ۱۔ اکثر مفکرین با لخصوص( امریکی مفکرین) موت کا سامنا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ حالانکہ زندگی کے مفہوم کو دیانت داری کے ساتھ متعین کرنے کے لئے موت کے تصور کی توضیع وتشریح بہت ضروری ہے۔موت کے تصور کے اثرات نہ صرف فرد پر بلکہ معاشرے پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ب۔ یہ بات طے ہے کہ ہماری تہذیب جس کا جھکاؤ سائنس اور زمان ومکان کی قیود میں کیے جانے والے تجربات کی طرف ہے۔ ہمیں موت پر تحقیق اور اس کے فہم میں مدد نہیں دیتی۔ ج۔ تحقیق کے مروجہ پیمانوں سے بالا تر کسی ایسے طریقے مطالعہ کی ضرورت ہے،جو اس مسئلے کی مناسبت سے قابل اعتبار اور نتیجہ خیز ہو۔ موت اور مرنے کے عمل پر اگر صحیح طرح سے تحقیق کی جائے تو تہذیب کے تجزیاتی مطالعہ میں بہت مدد ملے گی۔۳۰؎ فیفل کے اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ وہ مروجہ سائنسی طریقہ ہائے کار کو حقیقت موت کے فہم کے لئے کار آمد خیال نہیں کرتا۔یہاں اس نے بالواسطہ طور پر ماورائی نفسیات کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن ہم اس وقت ماورائی نفسیات کے نتائج کو زیر بحث نہیں لا سکتے۔ ماورائی نفسیات سے تعرض ہم اگلے باب میں کریں گے۔فی الحال ہم چند ایک ایسے تجربات کا ذکر کرتے ہیں،جو زمان ومکان کی قیود میں کیے گئے ہیں۔ ماہرین نفسیات وعمرانیات نے بہت سی ایسی رپورٹیں تیار کی ہیں،جو قریب المرگ لوگوں کے موضوعی تاثرات اور مشاہدات پر مبنی ہیں۔ کئی لوگ مختلف حادثات میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے ہوئے،پانی میں ڈوب کر یا کسی اور حادثے کا شکار ہونے والے کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں۔جنہیں معالجین مردہ قرار دیتے ہیں۔لیکن ان میں سے کچھ کو از خود تھوڑی دیر کے لیے ہوش آجاتا ہے۔ یا بعض مقاصد کے لئے مصنوعی تنفس کے ذریعے انہیں تھوڑی دیر کے لیے ہوش میں لایا جاتا ہے۔ ماہرین نے ایسے لوگوں کے مشاہدات اور تاثرات کی بنیاد پر کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔ مشہور مصنف وھیلر (Wheeler) نے اپنی کتاب ’’حیات بعد الموت‘‘ (Life after Death) میں بہت سی ایسی رپورٹیں درج کی ہیں ۔جو قریب المرگ لوگوں کے تاثرات پر مبنی ہیں۔ وھیلر اور متعدد ایسے مصنفین جن کا حوالہ اس نے اپنی کتاب میں دیا ہے۔اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ قریب المرگ لوگوں کے تاثرات پر مبنی معلومات اس امر کی شہادت فراہم کرتی ہیں کہ حیات بعد الموت ایک حقیقت ہے۔۳۱؎ یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ وھیلر نے جو معلومات اکٹھی کی ہیں۔وہ بہر حال زندہ انسانوں کے تاثرات پر مبنی ہیں۔ یعنی ان لوگوں نے جو ابھی موت کی سرحد کے اس پار کھڑے ہیں،جو تاثرات پیش کیے ،وہ ہر حال میں زندہ انسانوں کے تاثرات ہی سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ ان تا ثرات کو یہ کہنا کہ یہ موت کی نوعیت اور ماہیئت پر روشنی ڈالتے ہیں،درست نہیں۔ اس اعتراض کا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ ان موضوعی تاثرات کو منطق سے ترازو میں تولنا ٹھیک نہیں۔ ان مشاہدات کو ہم موت کا انتہائی قریبی تجربہ کہہ سکتے ہیں۔ یا ایسی صورت حال کہہ سکتے ہیں،جب زندگی کی شمع بس بجھنے ہی والی ہوتی ہے۔ علاوہ بریں سائنسی اور منطقی اعتبار سے حیات اور موت کے مابین کوئی حد فاضل نہیں کھینچی جا سکتی۔ بعض مریض ایسے ہوتے ہیں۔جو شعوری اور ذہنی اعتبار سے مر چکے ہوتے ہیں۔لیکن زندگی سے ان کا رشتہ باقی ہوتا ہے۔ یعنی سانس کا آنا جانا اور دل کا دھڑکنا باقی رہتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے واقعات بھی مشاہدے میں آتے رہتے ہیں ،کہ کسی کو سکتہ ہو جاتا ہے۔ یعنی موت کی تمام علامات اس پر طاری ہو جاتی ہیں۔ لیکن کفن دفن کے وقت اس کو ہوش آجاتا ہے۔ ماہرین حیاتیات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مرنے کے ساتھ ہی تمام نظام ہائے جسم معطل نہیں ہو جاتے،بلکہ عضویہ کا انحطاط ایک تدریجی عمل ہے۔ مرنے کے بعد بھی کئی ہفتوں تک مردے کے ناخن اور بال بڑھتے رہتے ہیں۔جیسے افزائش کا عمل مرنے کے کچھ عرصے بعد تک جاری رہتا ہے۔ ویسے ہی موت کا عمل زندہ انسان کے اندر طبی طور پر مردہ قرار دیے جانے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ حالت نزع میں گرفتار جو شخص اپنے تجربات ومشاہدات بتائے گا۔ وہ دراصل اس کے موت کے بارے میں موضوعی تاثرات ہی ہو ں گے۔چنانچہ ایسے تجربات کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ سائنسی طور پر غیر مفید ہیں ،درست نہیں: ’’ایسی رپورٹوں کی جو کہ مرتے ہوئے لوگوں کے مشاہدات کی بنا پر تیار کی گئی ہیں۔پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنی تجرباتی نوعیت کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ مرنے کا عمل ایک نا قابل بیان رو حانی مسرت کا تجربہ محسوس ہوتا ہے۔ جس میں زندگی سے نجات پا جانے کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی بھی استشناء نہیں کہ کوئی بھی زندگی کی طرف پلٹنا نہیں چاہتا۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سماجی زندگی میں مرنے والا کون آدمی تھا؟۔مختلف قسم کے لوگوں نے تجربہء موت کو ایک ایسے تجربے کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ جس میں خوف کی بجائے خوشی کا احساس پایا جاتا ہے۔ان میں کوہ پیما شامل ہیں،جو پہاڑیاں چڑھتے ہوئے گر پڑے۔ نچلے طبقے کے مرد ہیں جو کچی آبادیوں میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے،اونچے طبقے کی خواتین ہیں،جو کسی ہسپتال میں حالت زچگی میں قریب المرگ ہو گئیں۔درمیانے طبقے کے مرد ہیں ،جنہیں دل کا دورہ پڑا۔ان کے علاوہ بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں۔ ان رپورٹوں سے متفقہ طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ تجربہ موت اگر روحانی مسرت کا نہیں تو کم از کم خوشگوار ضرور ہے۔ یہ رپورٹیں اس لحاظ سے اہم ہیں کہ مختلف معاشروں میں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے حاصل کی گئی ہیں۔۴۲؎ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ماہرین عمرانیات نے جس خوشگوار احساس یا ’’رو حانی مسرت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ وہ وجودی مفکرین کی دہشت سے کیوں کر مختلف ہے۔ یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ وجودی مفکرین کے لئے دہشت اس وقت پیدا ہوتی ہے۔ جب وہ موت یعنی اپنے وجود کی نفی پر غور کرتے ہیں۔ لاشئیت کا احساس ایک فکری اور ذہنی عمل سے پیدا ہوتا ہے۔جب کہ مندرجہ بالا تجربات جو ماہرین عمرانیات نے مختلف لوگوں سے حاصل کیے ہیں،حالت نزاع کے حقیقی تجربات ہیں۔ ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ موت کی تین جہتیں یا تین پہلو ہوتے ہیں۔ان تین پہلوؤں کا اندازہ انہوں نے قریب المرگ لوگوں کے نزاعی بیانات سے لگایا۔یہ تین پہلو بعض حالات میں مرنے سے پہلے یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔بعض حالات میں ان کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ یا بعض حالات میں ان میں سے ایک پہلو کم ہو جاتا ہے۔ یہ تین پہلو یہ ہیں: ا۔ مزاحمت (Resistence) ب۔ گزشتہ زندگی کا طائرانہ جائزہ (Panoramic View of life) ج۔ ماورائیت (Transcndence) مرنے سے پہلے جو فوری رد عمل ہوتا ہے۔وہ زندگی کو برقرار رکھنے کا ہوتا ہے۔اس میں جسم اور ذہن دونوں اپنی بھر پور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اور بعض اوقات اسی کوشش میں انسان محیر العقول ذہنی اور جسمانی کار نامے دکھا جاتا ہے۔ اس کو ماہرین نفسیات عضویہ کا موت کے خلاف حیاتیاتی رد عمل بھی قرار دیتے ہیں۔ دوسرا پہلو جو بعض حالات میں پہلا رد عمل بھی ہو سکتا ہے۔گزشتہ ساری زندگی کا انتہائی سرعت اور وضاھت کے ساتھ طائرانہ جائزہ ہے۔ گزرے ہوئے واقعات بڑی تیزی کے ساتھ نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔لیکن اس طائرانہ جائزے میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تکلیف دہ واقعات حافظہ کی سطح پر ابھریں۔بالعموم گزشتہ زندگی کے وہ مناظر سامنے آتے ہیں،جو خوش گوار ہوں یا عام نوعیت کے ہوں۔ مشہور ماہرین نفسیات نوئس (Noyes) اور کلیٹی ۳۳؎ کہتے ہیں کہ یہ طائرانہ جائزہ ایک طرف تو مرنے کے عمل کو آسان بناتا ہے۔ اور دوسری طرف شخصیت کو منتشر ومنہدم ہونے سے بچاتا ہے۔ تیسرا ماوارئیت کا احساس ایک قسم کا مذہبی اور روحانی احساس ہے۔ کئی لوگوں کو کچھ اس طرح کے احساس ہوئے،جیسے لمبے تاریک سرنگ سے نکل کر کسی پر فضا جگہ پر پہنچ گئے ہوں۔یا جیسے ہر طرف تیز روشنی پھیل گئی ہو۔۔۔۔ وغیرہ ایسے احساسات ہیں جو قابل ذکر بات ہے۔ وہ بحیثیت ایک شخصیت کے قائم رہنے کا ایقان ہے۔ ماہرین عمرانیات ایک اور تجربے کا ذکر کرتے ہیں۔جسے وہ (OObe) کا نام دیتے ہیں۔OObe سے مراد ہے کہ( of body experience Out) بعض مریضوں کو ہسپتال میں مردہ قرار دے دیا جاتا ہے۔لیکن وہ بعد میں پھر زندہ ہو جاتے ہیں۔ایسے مریضوں نے یہ بیان کیا ہے کہ مرنے کے بعد انہیں یہ محسوس ہوا ہے کہ جیسے وہ ’’چھت کے اوپر تیر رہے ہوں۔‘‘اور ڈاکٹروں کو ان کے جسم کے بچانے کی کوششوں میں مصروف دیکھ رہے ہوں۔ایسے لوگوں نے جو تاثر بلا استشناء دیا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے تھے۔بلکہ ان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہسپتال کا عملہ اپنی کوششیں ترک کر دے اور انہیں مرنے دے۔ ان میں سے اکثر نے یہ اطلاع دی کہ وہ ہسپتال کے تمام عملے کی باتیں سن رہے تھے۔ا س سے یہ پتا چلتا ہے کہ آخری حس جو موت تک قائم رہتی ہے۔ وہ سماعت کی حس ہے ۔۳۴؎ ان تمام واقعات سے جو امور ثابت ہوتے ہیں وہ یہ ہیں: ۱۔ موت ایک مسرت انگیز آزادی ہے۔ ب۔ یہ آزادی۔۔۔ سماجی بندھنوں سے آزادی تو ہے ہی۔۔۔ لیکن اصل آزادی یہ اس غیر یقینی صورت حال سے ہے۔ جو انسان کو موت سے پہلے اپنے بقایا عدم بقا کے معاملے میں درپیش ہوتی ہے۔ ج۔تمام لوگوں کو یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ایک ذی شعور ہستی کی حیثیت سے اپنا تشخص قائم رکھیں گے۔ د۔۔ موت کا قریبی تجربہ کرنے والوں کی باتوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ وہ عام زبان میں ان تجربات کو بیان نہیں کر سکتے۔کیونکہ یہ کسی اور دنیا سے متعلق ہوتے ہیں۔۳۴؎ پہلا باب: حواشی (۱۷) اصل انگریزی متن یوں ہے our death is generically different from the death of others We encounter here avery Serious and altogather fundamental ambiguity in the word , death A phenomenological analysis discloses that when we think of the death of another ; we eliminating the observing ego or the subject.if aman examines closely ,what he means by death of the an other person.he recognizes that he himself is still in the picture he is the observer contemplating the scue,even of the seanmay be only in his imagination,Death is an event witehn the world the world of human experience perdures. vitality of Death , Journal of Existentialism , vol , 5 , 1964 , p 141 . ۱۸۔ یہاں ہم فرائڈ کے ان خیالات سے بحث کریں گے۔جو اس نے ۱۹۱۵ ء میں (Reflection on war and Death) کے مضمون میں پیش کیے تھے۔اس مضمون میں اس نے موت کے رویے کو احساس خطا(Suilt) کے ساتھ مشروط کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ زمانہ قدیم کا انسان موت کے بارے میں متناقض رویہ رکھتا تھا۔ وہ اپنے دشمن کی موت کو وہ مکمل نفی(Annihilation) سمجھتا تھا۔لیکن اپنے اعزہ واقارب اور محبوب ہستیوں کی موت کو مکمل نفی نہیں سمجھتا تھا۔بلکہ کسی نہ کسی انداز میں بعد از موت ان کی بقاء کا قائل تھا۔یہ متناقض رویہ() انسان کے اندر پائی جانے والی متناقض اور غیر منطقی خواہشات کا مظہر ہے۔ قدیم انسان لاشعوری طور پر اپنے دشمن کو نیست ونابود کر دینا چاہتا تھا۔ لیکن ان ہستیوں کی موت کو جن کے ساتھ اس نے اپنی ذات کو منسوب ومشروط کیا ہوتا تھا۔ وہ مکمل نفی کی صورت میں تسلیم نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ اس کا لاشعور اپنی ذات کے بقا پر یقین رکھتا تھا۔۔۔۔چنانچہ وہ اپنی محبوب ہستیوں کو اپنی ذات ہی کی طرح لا فانی سمجھتا تھا۔ وحشی انسان کا یہی رویہ ہمیں بچوں کی بے ساختگی کے اندر نظر آتا ہے۔بچے جس سے ناراض ہوں۔۔۔۔ یا جنہیں دشمن سمجھیں۔۔۔۔ ان کی موت چاہنے میں ہچکچاتے نہیں۔ جب کہ مہذب انسان اپنے دشمن کی موت کے بارے میں سوچتا ہوا گھبراتا ہے۔ یہ ایک احساس خطا ہے۔ جو کہ مہذب انسان کے اندر پیدا ہو چکا ہے۔۔۔فرائڈ کے نزدیک اقوام کی باہمی آویزش اور جنگوں کے پیچھے بھی یہی لاشعور محرکات کار فرما ہیں۔ جس طرح زمانہ قدیم کا وحشی انسان اپنے قبیلے میں آنے والے اجنبی یا خود اپنے ہی قبیلے کے کسی دشمن کو جان سے مارنے سے کم پر راضی نہیں ہوتا،ویسے ہی آج کے مہذب دور میں بھی جنگوں کے پیچھے بھی وہی لاشعوری محرکات ہیں۔جنہوں نے نسلی امتیاز اورا قتصادی مصلحتوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ یہ فرائڈ کے وہ نظریات ہیں،جو اس نے ۱۹۱۵ء میں قلم بند کیے تھے۔ لیکن ۱۹۲۰ء میں اس نے مسئلہ موت کو ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھا تھا۔اور حیاتیات کے مشاہدات سے استفادہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ عضویہ کے اندر ایک ’’رجحان مرگ‘‘ موجود ہوتا ہے۔ اس کو اس نے ’’جبلت مرگ‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ نظریات اس نے ’’اصول لذت سے پرے‘‘ نامی مقالے میں پیش کیے: 29.۔۔ہر مین () کا ذکر اس باب کے آغاز میں ہو چکا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں’’امریکن سائیکلوجی ایسوسی ایشن کنونشن کے‘‘ تحت ’’موت کی نفسیات‘‘ () پر جو سمپوزیم منعقد ہوا تھا۔ اس کا منتظم ہر مین فیفل تھا۔اس سمپوزیم میں پیش کیے جانے والے مضامین کے علاوہ اس نے کئی اور مفکرین سے مسئلہ موت کے مختلف پہلوؤں پر مضامین لکھوائے،ان میں کارل جی ژنگ (Karl ,G,jung) پال ٹلچ(Paul Tillich) والٹر کاف مین (Walter Kauf mann) فریڈرک۔جے ہوفمین۔۔(Fredrick j, Hoff man) گورڈنر مرفی(Gardener Murphy) ہر برٹ مارکوس(Herbert Marcuse) کے علاوہ کئی اور مفکرین شامل ہیں۔اس کتاب کو ہرمین فیفل نے چار حصوں میں منقسم کیا ہے۔ پہلے حصے میں مسئلہ موت پر نظریاتی بحثیں شامل کی گئی ہیں۔دوسرے میں تصور موت کے حصول کا تدریجی عمل کا ذکر کیا گیا ہے۔تیسر ے میں مذاہب اور تہذیبوں میں موت کے تصور کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اور چوتھا حصہ کلینکی اور تجرباتی مطالعوں پر مشتمل ہے۔ہر مین فیفل کی اس کوشش کو ہر جگہ بنظر استحسان دیکھا گیا ہے۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد مغربی دنیا میں مسئلہ موت کو نہایت اہم حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ اور اس کے مختلف زاویوں پر مختلف کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھ ے گئے ہیں۔زیر بحث کتاب کا حوالہ درج ذیل ہے۔ دوسرا باب بقائے دوام کا مسئلہ اور اس کے نظریات بقائے دوام کا مسئلہ(IMMORTALITY) اگر چہ تاریخ فلسفہ کے ابتدائی دور میں کئی مفکرین کے زیر بحث آیا۔لیکن اس سے باقاعدہ تعرض افلاطون نے اپنے مکالمہ فیڈو (Phaedo) میں کیا ہے۔ تاریخ فلسفہ کے آغاز سے بہت پہلے یہ مسئلہ کئی بڑے مذاہب میں بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ گزشتہ باب میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ موت کے بارے میں کوئی مخصوص رویہ نہ صرف فرد کی انفرادی زندگی پر بلکہ اقوام کی اجتماعی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔موت کے بارے میں کسی کا رویہ دراصل ایک دوسرے مسئلے کو پیدا کرتا ہے۔ یہ مسئلہ بقائے دوام کا ہے۔اگر کوئی موت کو زندگی کا کلی خاتمہ سمجھے تو وہ بقائے دوام کا منکر ہے۔اور اگر وہ یہ سمجھے کہ موت کے بعد حیات کا تسلسل کسی نہ کسی طرح جاری رہتا ہے۔تو وہ بقائے دوام کا حامی ہے۔یہ بات بالکل واضع ہے۔اور تاریخ اس کی شاہد ہے کہ بقائے دوام کے اقرار یا انکار کی بناء پر بعض نظام ہائے حیات کی پوری عمارت استوار ہوتی ہے۔ بقائے دوام کا انگریزی مترادف (Immortality) لا طینی میں (Mortalis)سے مشتق ہے۔اس کا مفہوم ہے۔ وہ جس کو موت لاحق ہو۔۔۔۔ Mortal کا الٹ Immortal ہے۔ جس کے معنی یہ ہوا ’’وہ جسے موت لاحق نہ ہو۔‘‘ ایک ایسا نظریہ ہے۔ جس سے انسانی شخصیت موت کے صدمے سے متاثر نہیں ہوتی۔اس کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ا ۔ زمانی بقائے دوام (Tenporal Immortality) جس سے مراد یہ ہے کہ موت کے بعد منفرد ذہن لا متناہی طور پر قائم ودائم رہے گا۔ ب۔۔ ابدیت (Eternity) جس کا مطلب ہے کہ موت کے بعد روح ’’لا زمان‘‘(Time less)رفعتوں کی طرف مسعود کرتی ہے۔اور حقیقت مطلقہ کی وحدت میں گم ہو جاتی ہے۔ بقائے دوام کا اصل حوالہ موت کے بعد زندگی کی طرف ہے۔ تاہم بعض حالات میں یہ اصطلاح قبل از پیدائش زمانے پر بھی حاوی ہو تی ہے۔ قبل از پیدائش زندگی کا تصور خصوصی طور پر ’’تناسخ ارواح‘‘ کے (Transmigration of sovls) عقیدے میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔۱؎ بقائے دوام کی اصطلاح جس طرح فلسفیانہ بحثوں میں استعمال ہوتی آئی ہے۔ اس سے اس نے ایک مخصوص مفہوم حاصل کر لیا ہے۔ اس مفہوم کا کانٹ (Kant)یوں بیان کرتا ہے کہ : ’’روح کے بقائے دوام سے مراد ایک ہی ذی عقل ہستی کی شخصیت اور وجود کی لامتناہی مداومت ہے۔‘ ۲؎ کانٹ کی اس تعریف سے پتا چلتا ہے کہ بقائے دوام کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں:۔ اولا یہ کہ شخصیت ایک ذی شعور اور عاقل ہستی کی حیثیت اپنی مینیت (Identity) بر قرار رکھے اور ثانیا یہ کہ موت کے بعد یہ لا متناہی طور پر قائم رہے۔ اب ہمیں بقائے دوام کا مفہوم متعین کرنے کے لیے یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ہم شخصی بقا کی بجائے بنی نوع انسان کے اجتماعی بقائے دوام کی بات نہ کریں۔اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ موت کے بعد کی شخصیت حقیقت مطلقہ () کی وھدت میں گم ہو کر ابدیت حاصل کر لیتی ہے۔ ان دونوں حالتوں میں شخصیت کی نفی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ شخصیت کو برقرار رکھنے یا اس کی عینیت کے قائم رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔جب کہ بقائے دوام کے مفہوم میں انفرادی شخصیت کا بعد از مرگ قائم رہنا شامل ہے۔ دیو مالائی اور عالمی ادب میں ہمیں ایسے کردار مل جاتے ہیں۔جنہیں مندرجہ بالا مفہوم میں بقائے دوام حاصل تھا۔ آب حیات کی تلاش کا افسانہ بقائے دوام کی حصول کی آرزو ہی کا غماز ہے۔ رائیڈر ہیگرڈ کے مشہور ناولSheکا مرکزی کردار ایک ایسی عورت ہے جو اس راز سے واقف ہو جاتی ہے ۔کہ زمین کے اندر کسی گہری غار میں آگ کا ایک ایسا ستون ہے، جو مسلسل ادھر ادھر حرکت کرتا رہتا ہے۔ اس آگ کی صفت یہ ہے کہ جو بھی ذی روح اپنے آپ کو اس کے اندر لے جائے وہ خاکستر ہونے کی بجائے امر ہو جاتا ہے۔چنانچہ وہ عورت کسی طرح اس غار تک پہنچ کر آتشی غسل کر لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور صدیوں تک زندہ رہتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قدیم مصری تہذیب کی اساس ہی روح کے بقائے دوام کا نظریہ تھا ،تو بے جا نہ ہوگا۔مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد روح تحت الثریٰ میں چلی جاتی ہے۔ جہاں اوسرس (Osiris)دیوتا اسے اس کے دنیاوی اعمال کی سزا یا جزا دیتا ہے۔ لیکن روح کو بالاخر واپس اپنے جسم کی طرف لوٹنا ہوتا ہے۔ اس عقیدے کی وجہ سے قدیم مصری اپنے اعزہ واقارب کی لاشوں حنوط کر دیا کرتے تھے،۳؎ تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ بادشاہوں نے بڑے بڑے اہرام تعمیر کیے۔ مضبوط تابوتوں میں مردہ شاہوں کی حنوط شدہ لاشوں کو زر وجواہر اور دیگر ساز وسامان کے ساتھ محفوظ رکھنے کا محرک بھی یہی تھا۔کہ روح جب اپنے جسم میں واپس آئے تو اسے محفوظ پائے اور زرو جواہر کی موجودگی میں اسے مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ روح اور اس کے بقائے دوام کے بارے میں مختلف نظریات خود انسان کے ابتدائی تجربے سے ابھرے۔پلیسنز (Pleassness) کے خیال میں قدیم انسان دائروں کے اندر یا ایک ابدی حال ( present Eternal)کے اندر زندہ رہتا تھا۔ اس کے لیے موت کا تصور بطور مکمل معدومیت(Total Annihitation) محال تھا۔چونکہ کائنات کی ہر شے اس کے نزدیک حرکت دوری(Cyclic Movement) میں گردش کر رہی تھی۔اس لیے وہ موت کو صرف عضویہ کی ہلاکت سمجھتا تھا۔روح اس کے نزدیک ہلاکت سے ماورا تھی۔زمان کا دوری تصور اس امر کا متقاضی تھا،کہ کوئی شے ختم نہ ہو۔ بلکہ قانون مراجعت(Law of return) کے ساتھ قائم دائم رہے۔ شاید اسی لیے دائرے اور طواف کو تکمیل(Prefection) کی علامت سمجھا جاتا تھا۔پلیسنز کا خیال ہے کہ موت کا تصور بطور ہلاکت کلی اس وقت قائم ہوا۔ جب انسان نے زمان کادائرے کی بجائے اس کا مستقیم یا خطی تصور (Lixeal concept of Time)حاصل کیا ۴؎ اس کے علاوہ قدیم انسان کے لیے خواب کا تجربہ بھی انتہائی ناقابل فہم اور پر اسرار تھا۔اس کو خواب کے تجربے میں دوطرح کے تاثرات حاصل ہوتے تھے۔اولا اس کے اپنے شعور کی ایک ایسی حالت جس میں ماضی اور مستقبل دونوں حال میں سمٹ آتے تھے۔اور وہ خود کو بحر ابدیت میں غوطہ زن محسوس کرتا تھا۔عالم بیداری کے معیار،تخصیصات اور حدود وقیود خواب کے عالم میں معدوم ہو جاتی تھیں۔ وہ ابھی اپنے آپ کو ایک جگہ پاتا تو اگلے ہی لمحے خود کو کرۂ ارض کے کسی اور خطے میں موجود پاتا ۔ وہ عالم بیداری کے تمام تقاضوں اور مادی زندگی کے تمام بندھنوں سے خود کو آزاد محسوس کرتا تھا۔ حدیہ کہ وہ خود اپنی ہی تجہیز و تکفین کے منظر کا مشاہدہ بھی کر سکتا تھا۔ جب وہ عالم بیداری میں اپنے خوابوں پر غور کرتا تو اسے یہ احساس ہوتا کہ اس کے وجود کی ایک اور سطح بھی ہے۔ یعنی عالم خواب میں وہ اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر دور دراز کے علاقوں کی سیر کر سکتا ہے۔ یہیں سے اس کے ذہن میں غیر جسمی وجود (Disembodies Existence) اور اپنے ہمزاد کا تصورپیدا ہوا۔ ثانیاً اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کے بچھڑے ہوئے اعزہ و اقارب موت کے بعد نیست و نابود نہیں ہو گئے بلکہ وہ بھی غیر جسمی وجود رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ خواب میں اس سے ملاقات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دوسروں کی موت کا مشاہدہ بھی کر تا تھا۔ مردوں کو دیکھ کر اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے جسم سے کوئی شے خارج ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ کوئی ایسی شے جس کی موجودگی سے انسان چلتا پھرتا، سوچتا سمجھتا اور مختلف کام کرتا ہے۔ اس شے کو اس نے روح کا نام دیا جو مرنے کے بعد بھی قائم و دائم رہتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں بقائے دوام کے تقریباً تمام تصورات زمانہ قدیم کے انسان کے مظاہر پرستانہ (Animistic) رحجانات کے پیدا کردہ ہیں۔ چنانچہ وہ تصورات جو زمانہ قدیم کے اوہام و خرافات کی یادگار ہیں، درست کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس اعتراض کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ کسی تصور کی صحت اور عدم صحت ایک مسئلہ ہے اور اس کے تدریجی ارتقاء یا اس کے ماخذ کا سوال یکسر دوسرا مسئلہ ہے۔ چنانچہ کسی تصور کو یہ کہہ کے رد کر دینا کہ یہ از منہ قدیم کی سوچ کی یادگار ہے، درست نہیں ہے۔ زمانہ قدیم میں جن وجوہ و علل نے بقائے دوام کا نظریہ پیدا کیا، وہ یقینا ان وجوہ و علل سے مختلف تھیں جن کے تحت یہ نظریہ تاریخ کے تمام ادوار سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا۔ چنانچہ یہ امر کہ یہ زمانہ قدیم کے انسان کی سوچ سے پیدا ہوا، کسی طرح بھی اس کی اہمیت کو کم نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس یہ امر کہ یہ ہر دور اور ہر عہد میں ایک عقیدہ کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے، اس کی اہمیت کو دو چند کر دیتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب اور فلسفے کے اکثر بڑے بڑے مکاتب روح انسان کے بقائے دوام کے قائل رہے ہیں۔ چنانچہ مختلف خطوں، مختلف مذاہب اور مختلف ادوار کے مفکرین کی اتنی بڑی تعداد کے اس متفقہ نظریہ کو اتنی آسانی سے جھٹلایا نہیں جا سکتا لیکن کچھ لوگ اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بقائے دوام کا نظریہ اتنا آسان اور مقبول عام اس لیے ہے کہ اس میں لوگوں کی خواہشات کی تکمیل (Wishful filment) ہوتی ہے۔ مثلاً دکھوں بھری زندگی گذار دینے والا شخص یہ چاہے گا کہ موت کے بعد بھی زندہ رہے تاکہ خوشیوں سے ہمکنار ہو سکے۔ اپنے مرحوم اعزہ و اقارب سے محبت کرنے والا یہ خواہش کرے گا کہ مرنے کے بعد وہ ایسی دنیا میں چلا جائے جہاں اس کے چاہنے والے اور اس کی محبوب ہستیاں موجود ہوں۔ اسی طرح وہ ذہن جو علم کی ایسی پیاس رکھتے ہوں جو کبھی بجھنے والی نہ ہو اور وہ فنکار جو اپنی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار چاہتے ہوں، ان کو یہ عرصہ حیات بہت محدود محسوس ہوتا ہے۔ وہ ایک اور زندگی کے خواہاں ہوتے ہیں جس میں انہیں تخلیق اور ارتقاء کے لامحدود مواقع میسر ہو سکیں6؎ اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ بقائے دوام پر یقین رکھنا انسان کا طبعی میلان بھی ہے اور اس کی خواہشات کی تکمیل بھی لیکن اس سے اس نظریہ کی صحت پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ قبل اس کے اگر ہم بقائے دوام کے حق میں دلائل کا جائزہ لیں۔ یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم مختصراً ان دلائل اور نقطہ ہائے نظر کا جائزہ لیتے چلیں جو بقائے دوام کے خلاف ہیں۔ 2 دور حاضر کے کئی فلسفیوں کے نزدیک روح کے بقائے دوام یا حیات بعد الموت کے تصورات لغو اور بے معنی ہیں۔ وہ بقائے دوام کے بارے میں شہادتیں جمع کر کے انہیں تنقید کا نشانہ بنانے کے قائل نہیں۔ اس کے برعکس وہ لسانی تجزیہ کی بنیاد پر ’’ حیات بعد الموت‘‘ یا ’’ بقائے دوام‘‘ کو بے معنی الفاظ قرار دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے مربع دائرہ بنایا ہے تو ہم اس کی تصدیق کیے بغیر اسے غلط قرار دے دیں گے کیونکہ ہمیں مربع اور دائرہ کی تعریفوں کا علم ہے اور ہمیں پتہ ہے کہ کوئی شکل بیک وقت مربع اور مدور نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح لسانی فلسفیوں کا خیال ہے، اگر ہم شخصیت اور شخصی عینیت کے زبان میں صحیح استعمال کی طرف توجہ دیں تو ’’ حیات بعد الموت‘‘ کی اصطلاح لغوی طور پر بے معنی معلوم ہو گی۔ اینٹی فلیو (Antony Flew) اس موقف کا زبردست حامی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ: ’’ لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں آپ ملتے ہیں 7؎‘‘ (People are whar you meet!) ہم جنہیں ملتے ہیں وہ گوشت پوست کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں دیکھا جا سکتا ہے، چھوا جا سکتا ہے وغیرہ ان شخصیتوں کے اظہار کے لیے ہم نے مختلف صیغے مثلاً تم، ہم ، وہ وغیرہ وضع کئے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ موت کے بعد بھی قائم رہیں گے، درست نہیں۔ کیونکہ ہم مرے ہوئے لوگوں سے ویسے نہیں مل سکتے جیسے زندہ لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اینٹنی فلیو نے انگریزی لفظ Surviveپر بھی بہت نکتہ چینی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس لفظ کا مطلب ہے ’’ بچ نکلنا‘‘ مثلاً کسی فضائی حادثے کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں اتنے لوگ مر گئے اور اتنے لوگ بچ نکلے۔۔۔۔ یعنی Surviveکر گئے، چنانچہ Surviveکرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی خطرناک صورتحال سے کوئی بچ نکلے اب اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص مارا بھی گیا ہے لیکن Surviveبھی کر گیا ہے تو یہ صریحاً لسانی مغالطہ ہو گا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر آکسفورڈ ڈکشنری میں Death Survive Lifeاور Person جیسے الفاظ کے معنی دیکھے جائیں تو ہم انہیں موت کے بعد شخصیت کے تسلسل اور حیات کے استمرار کے بارے میں کبھی استعمال نہیں کر سکتے۔ ’’ مرنے‘‘ کا معنی ہے ’’ ختم ہونا‘‘ حیاتی قوت کا خاتمہ یا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا۔ اب مرنے کے بعد زندگی یا حیاتی قوت کو جاری سمجھنا یقینا منطقی طور پر غلط ہے اور لسانی طور پر بھی لغو ہے۔ 8؎ لسانی فلسفیوں کا امام ونگسٹاٹن ’’ حیات بعد الموت‘‘ کو ایک بے معنی اصطلاح قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم جس مفہوم میں مردہ اورزندہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اس کی رو سے دیکھا جائے تو موت کے بعد زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک پودا یا درخت یا عضو یہ جب مر جاتا ہے تو وہ قوت حیات اور قوت نمو کھو بیٹھتا ہے، چنانچہ حیات موت سے ہم مراد لیتے ہیں کسی زندہ شے کے حیاتی تسلسل کا انقطاع! اب اس حیاتی تسلسل کو موت کے بعد بھی ہماری سمجھنا بقول ونگسٹائن تبھی ممکن ہے جب زبان چھٹی پر چلی گئی ہو ’’ When Language goes on holiday‘‘ اس کے علاوہ ونگسٹائن یہ بھی کہتا ہے: ’’ موت زندگی کا ایک واقعہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہم موت کا تجربہ کرنے کے لیے زندہ ہی نہیں رہتے 10؎‘‘ اس لیے ہم موت کو اپنے تجربات و حوادث کے زمرے میں شمار نہیں کر سکتے میں جب یہ کہتا ہوں ’’ میں درد محسوس کرتا ہوں‘‘ تو میں اپنی زندگی کے ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہوں میں دوسروں کی موت کے بارے میں بھی بات کر سکتا ہوں لیکن میں اپنی موت کو اپنی زندگی کا ایک تجربہ نہیں کہہ سکتا۔ بعض فلاسفہ نے لسانی تجزیہ کے علاوہ کچھ اور ایسے دلائل فراہم کئے ہیں جن کی بنیاد پر بقائے دوام اور حیات بعد الموت کے امکانات صفر کے برابر ہو جاتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ذہن اور شعور کا رابطہ نظام عصبی (Nervous System) کے ساتھ اتنا گہرا ہے کہ نظام عصبی کی معدومیت (Dissolution) کے بعد ذہن کا بقا اور تسلسل ناممکن ہو جاتا ہے۔ شعور جہاں کہیں ہمیں نظر آتا ہے کسی زندہ اور فعال جسم کی معیت میں نظر آتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سر پر گہری چوٹ کے نتیجے میں نظام عصبی کو جو صدمہ پہنچتا ہے، اس سے شعور کی تمام ظاہری علامات مستقلاً یا وقتی طور پر معدوم ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح منشیات اور ندر (Anesthetic) ادویہ شعور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مختلف قسم کے نشے ذہن پر مختلف قسم کے اثرات ڈالتے ہیں۔ بعض نشوں کا مسلسل استعمال شعوری رویوں کو اتنا بدل دیتا ہے کہ انسان اپنا تشخص اور اپنی عینیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ ورم دماغی (Encephalitus Lethargica) کی وجہ سے ایک نیکو کار شخص بدکار بن سکتا ہے اور آیوڈین (Iodine) کی کمی سے ایک ہونہار بچہ غبی اور کند ذہن بن سکتا ہے۔ 11؎ اگر ادویہ اور منشیات کی مثال نہ بھی دی جائے تو بھی یہ بات ثابت ہے کہ جہاں انسانی جسم کے اندر تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں، وہیں انسان کے ذہنی رویے اور شعوری کیفیات بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ انسان کے جسم کے اندر خلیوں کے تعمیر اور ان کی تخریب کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا جسم جس طرح کا آج ہے، یہ چند ہفتے پہلے بالکل ایسا ہی تھا۔ اسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ذہنی طور پر ہم جو شخص کچھ عرصہ قبل تھے وہ آج بھی ہیں۔ بر ٹرینڈرسل کے الفاظ میں: ’’ ہم سوچتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں لیکن ان افکار، احساسات اور اعمال سے اور کوئی ایسی ذات، ذہن یا روح موجود نہیں جس سے یہ افعال سر زد ہوتے ہوں۔ کسی شخص کے ذہن کا تسلسل دراصل عادت اور حافظے کا تسلسل ہے۔ کل ایک شخص ایسا تھا جس کے احساسات مجھے یاد ہیں اور اس شخص کو میں کل کا’’ میں ‘‘ سمجھتا تھا۔ لیکن در حقیقت کل کا ’’ میں ‘‘ بعض ذہنی اعمال پر مشتمل تھا جنہیں میں اب یاد کرتا ہوں اور انہیں ایک ایسے شخص کا حصہ سمجھتا ہوں جو انہیں دہرا رہا ہے۔ جو شے کسی ’’ شخص ‘‘ کو وضع کرتی ہے وہ تجربات کا ایک سلسلہ ہے جو حافظے اور عادت کی وجہ سے مربوط ہے۔ چنانچہ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ کوئی شخص موت کا صدمہ سہہ سکتا ہے (یعنی موت کے بعد بھی زندہ رہ سکتا ہے یا بقائے دوام کا اہل ہے) تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ عادتیں اور یادیں جو اس شخص کی تعمیر کرتی ہیں، وہ ایک نئے انداز میں مربوط و منظم ہو کر ظاہر ہوں گی۔ 12؎‘‘ رسل، حیات بعد الموت کو نا ممکنات میں سے سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں ہر انسان کی ایک ذہنی شخصیت ہوتی ہے۔ جس میں اس کے ماضی کی روایات، اسلاف کا علمی ورثہ اور موروثی رحجانات کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی ذہنی شخصیت میں اکتسابی کردار بھی نمایاں حیثیت رکھتا ہے لیکن اس کی ذہنی شخصیت کے دونوں عوامل اس کی جسمانی ساخت کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں 13؎ چنانچہ جونہی جسمانی ساخت منتشر ہوتی ہے۔ ذہنی شخصیت کا بھی شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس کے خیال میں حیات بعد الموت کے عقیدے کا بڑا محرک موت کا خوف اور انسان کا خود ستانی کا جذبہ ہے۔ موت کے خوف پر قابو پانے کے لیے انسان نے حیات بعد الموت کا تصور قائم کیا ہے جبکہ اپنے جذبہ خود ستائی کی تسکین کے لیے وہ موت کو فنائے محض سمجھنے پر تیار نہیں بلکہ ایک دوسری زندگی کا پیش خیمہ سمجھتا ہے ۔ 14؎ اس نظریے کی کہ ذہن نظام عصبی کا جزو لانیفک ہے، مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ مختلف النوع (Species) کے ارتقائی مراحل میں ’’ ذہانت‘‘ (Intelligence) کا ارتقاء ان کے دماغ (Brain) کی ترقی کے ساتھ مشروط ہے۔ یعنی جن انواع میں دماغ زیادہ زیادہ ترقی یافتہ ہو گا وہ ذہانت کے اعتبار سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہوں گی۔ دماغ کی عضویاتی اور عصبی ترقی اور ذہانت کی ترقی کے مابین جو مساوات پائی جاتی ہے اس کا مشاہدہ ہم انسانی شخصیت کے تدریجی نشوونما میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ پیدائش سے لے کر جوانی تک جس طرح نظام عصبی ارتقاء پذیر ہوتا ہے، اسی اعتبار سے ذہانت میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ انسان جوانی سے لے کر جیسے جیسے بڑھاپے اور ارذل العمر کی طرف بڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے اس کی ذہانت بھی انحطاط پذیر ہوتی جاتی ہے۔ ذہن یا روح کے بقائے دوام پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ذہن کا مابہ الامتیاز فکر ہے۔ انسانی شعور اور فکر کو گویائی (Speech) کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گویائی یا تقریر کچھ اور چیز ہے اور فکر کچھ اور چیز! تقریر یا تکلم جس چیز کا ایک خارجی اور متعین اظہار ہوتی ہے وہ انسان کا شعور یا ذہن ہی ہے۔ چنانچہ تکلم خواہ بلند بانگ ہو یا سرگوشی میں، دراصل خود فکرہی ہے۔ ایک لفظ یا جملہ دراصل فکر یا سوچ کی ہی زمان و مکاں میں تعین (Determination) ہے۔ اب جب یہ تقریر کی قوت اور تکلم کی صلاحیت ہی مفقود ہو جائے تو ہمارے پاس یہ جاننے کا کیا ذریعہ رہ جاتا ہے کہ ذہن و شعور پھر بھی قائم و دائم رہے گا؟ سی ڈی براڈ (C.D. Broad) نے دو مشکلات 15؎ کا ذکر کیا ہے جو بقائے دوام کے مفروضے کو تسلیم کرنے کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ پہلی مشکل اس وقت ہمارے سامنے آتی ہے جب ہم ان افراد پر غور کرتے ہیں جو بے قاعدہ اور غیر فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں یا مرتے ہیں۔ مجرمانہ حملے (rape) کی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ پیدائش کے کچھ دن بعد لاپرواہی کے باعث مر جاتا ہے یا عمداً مار دیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں ہم کیا کہیں گے کہ وہ بھی خیات بعد الموت اور بقائے دوام کا اہل ہے یا نہیں؟ عقل سلیم اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اس کے علاوہ براڈ کے خیال میں انسانوں اور حیوانوں کے درمیان ایک قسم کا تسلسل پایا جاتا ہے۔ اکثر فطری قوانین جو انسانوں کے بارے میں درست ہیں ان کا ا طلاق حیوانوں پر بھی ہوتا ہے۔ اگر انسانوں کی ارواح اور اذہان موت کے صدمے کو سہہ کر بقائے دوام کے اہل ہو سکتے ہیں تو حیوانوں کی ارواح اور اذہان اس کے اہل کیوں نہیں ہو سکتے؟ا گر زید، بکر یا عمر، مر کے دوبارہ جی اٹھیں گے تو مکھیاں، مچھر، بلیاں، کتے، جوئیں اور کھٹمل کیوں نہیں دوبارہ زندہ ہوں گے؟ اس کے علاوہ بقائے دوام کے مفروضے پر میرے نقطہ نظر سے کچھ اعتراض اور بھی وارد ہوتے ہیں جو کہ حسب ذیل ہیں: 1۔ جب ہم کسی شخص کی حیات بعد الموت کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے تشخص اور عینیت کے تسلسل اور مد اومت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ایک شخص کی عینیت کا انحصار اس کے سماجی رشتوں اور ماحولیاتی (Euviran mental) روابط پر ہوتا ہے شہر ماسکو میں مرنے والا اگر ایک شخص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گا تو اس کی عینیت اور تشخص کے تسلسل کے لیے یہ ضروری ہو گا۔ اس کے مادی اور سماجی پس منظر کو بھی از سر نو تخلیق کیا جائے تاکہ وہ خود کو ایک اشتراکی معاشرے کا ایک ایسا شخص سمجھے جو کسی مخصوص جگہ پر مخصوص حالات و ظروف میں زندگی بسر کر چکا ہے۔ 2اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ کوئی شخص اپنے پورے سماجی اور ماحولیاتی پس منظر کے ساتھ اٹھایا جائے گا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت نوح ؑ سقراط، چنگیز خاں، ہٹلر اور آئن سٹائن کو جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو کس طرح مختلف زمانوں کے مختلف ماحولیاتی اور سماجی تناظرات کو ایک ہی جگہ وقت میں از سر نو تخلیق کیا جائے گا؟ 3۔ اگر ہم یہ کہیں کہ مرنے کے بعد اجسام کو زندہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ارواح اور اذہان کو زندہ کیا جائے گا تو پھر وہی پرانا سوال پیدا ہوتا ہے کہ روح اور ذہن سکی مادی پیکر کے بغیر قائم رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ یعنی غیر جسمی وجود (Disembodies Existence) ممکن ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو پھر وہ تشخص کیسے قائم رہے گا جو کسی مخصوص مادی پیکر سے مشروط ہے؟ 3 اوپر ہم نے یہ دیکھا کہ بقائے دوام کے مفروضے کے خلاف کونسے ممکنہ دلائل دئیے جا سکتے ہیں۔ بادی النظر میں یہ دلائل بڑے مضبوط اور مسکت نظر آتے ہیں تاہم ایسی بات بھی نہیں کہ ان دلائل کو بقائے دوام کے خلاف حرف آخر سمجھ کر اس کا انکار کر دیا جائے اگر ہم ان دلائل کا گہری نظر سے جائزہ لیں اور انہیں سخت منطقی تجزیے کے عمل سے گزاریں تو ان کا کھوکھلا پن ظاہر ہو جائے گا۔ سب سے پہلے ہم لسانی فلسفیوں کے اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں۔ ونگسٹائن کے زیر اثر فلسفے نے ایک نیا موڑ لیا تھا۔ اس موڑ کو لسانی موڑ (Lingvistic torn) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ فلسفے کو قدیم نہج سے ہٹا کر لسانی تجزیہ کی ڈگر پر لگا دیا گیا۔ لسانی فلسفی کائنات کی ماہیت کے بارے میں استفسار نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک زبان ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کائنات منعکس ہوتی ہے۔ چنانچہ بجائے کائنات کا مشاہدہ کرنے کے اس کے انعکاس کو دیکھنا چاہئے جس طرح ڈاکٹر مریض کا سینہ چاک کر کے اس کے پھیپھڑوں میں پیدا ہونے والے کسی نقص کو بذات خود نہیں دیکھتا بلکہ اس کے سینے کے ایکسرے پر انحصار کرتا ہے ایسے ہی فلسفی کو چاہیے کہ وہ کائنات کی بجائے زبان پر اپنی توجہ مرکوز کرے کیونکہ کائنات کی جھلک زبان کے اندر موجود ہے۔ مثلاً درخت ایک ’’ تجربی حقیقت‘‘ (Empirical Reality) ہے جو کہ زمین میں اگا ہوا ہے اور جس کا ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں اور جسے ہم چھو سکتے ہیں لیکن اس تجربی حقیقت کی نمائندگی زبان کا ایک لفظ ’’درخت‘‘ کرتا ہے جب بھی ہم یہ لفظ پڑھتے یا سنتے ہیں تو ہمارے سامنے وہ تجربی حقیقت آ جاتی ہے جس کا قائم مقام یہ لفظ ہے۔ اسی طرح فلسفی اگر زبان کے الفاظ اور اس کے قوانین کا مشاہدہ و مطالعہ کرے تو وہ دراصل کائنات ہی کا مطالعہ و مشاہدہ کر رہا ہو گا۔ چنانچہ لسانی فلسفیوں کے سامنے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کن شرائط کے تحت ایک جملہ با معنی (Meaningful) ہے۔ بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ معنویت (Meaningfulness) کا معیار مقرر کرنا چاہتے ہیں لسانی فلسفی زبان کے تمام جملوں کو تین زمروں میں تقسیم کر دیتے ہیں: 1تجربی جملے (Empirical Sentences) 2 منطقی و ریاضیاتی جملے (Logico-Mathematical Sentences) 3 مابعد الطبیعیاتی جملے (Metaphysical Sentences) لسانی فلسفی تجربی جملوں کو اس لیے بامعنی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی تجربے اور حسی ادراک پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ریاضیاتی اور منطقی جملوں کی معنویت کی بنیاد ان کا تکراری (Tavio Logical) ہونا ہے۔ ان کے علاوہ جملوں کی تمام قسموں کو مابعد الطبیعاتی اور وقوفی اہمیت (Cognitive Significance) سے عاری قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی ایک مقصد ہے کہ وہ جملوں کے اندر مضمر تضادات کو اجاگر کر کے ان کا بے معنی ہونا ثابت کریں۔ اگر ارسطو کی منطق کے حوالے سے دیکھا جائے تو اجتماعی نقیضین نا ممکن ہے۔ اس لیے اگر زبان کے اندر کوئی ایسا جملہ ہو جو خود تردید کرتا ہو تو وہ بے معنی کہلائے گا۔ ہماری زبان کی ساخت ہمارے منطقی فکر کی غماز ہے۔ اس لیے زبان کے اندر متناقص الفاظ کا استعمال مفہوم کو خبط کر دیتا ہے۔ تاہم منطقی فکر ہی ہمارا سارا شعور نہیں۔ شعور اور ذہن کے کئی افق ایسے ہیں جن کا احاطہ منطقی فکر کے لیے ممکن نہیں۔ ایک شاعر متناقص جذبات و احساسات کا ایک ایسا شعور رکھتا ہے جو منطقی زبان و بیان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ تشبیہات و استعارات کے سہارے شاعرانہ پیرائے میں اپنا مافی الضمیر ادا کرتا ہے۔ فرائڈ کو خوابوں کی علامات کے اندر معانی کے خردینے نظر آتے ہیں اس کے علاوہ اگر کوئی زبان استعمال نہ بھی کی جائے۔۔۔ تو بعض اشارے اور بعض تاثرات ایسے ہوتے ہیں جو مفاہیم و معانی کے سمندر اپنے اندر سموئے ہوتے ہیں۔ زبان انسانوں کی اکثر نفسی اور جذباتی کیفیات کی غمازی نہیں کر سکتی۔ اسی طرح وہ حقائق جو بعد از مرگ دنیا سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے اظہار کی تو قطعاً متحمل نہیں ہو سکتی۔ بعد از مرگ کیفیات کے بارے میں جو زبان استعمال کی جائے گی وہ زندہ انسانوں کی عام زبان سے انتہائی مختلف ہو گی۔ چنانچہ حیات بعد الموت اور بقائے دوام کے مسئلہ کو لسانی تجزیہ کے ترازو پر تولنا بذات خود غلط ہے۔ اب ہم ان لوگوں کے نقطہ نظر کا جائزہ لیتے ہیں جو فکر اور شعور کو کلام کے مترادف سمجھتے ہیں یا اسے خارجی قابل مشاہدہ کردار (Observative Behaviour) قرار دیتے ہیں یا اسے دماغ کی نسیجوں (Tissues) کے سالماتی (Molecular) اعمال کہتے ہیں۔ پالسن 12؎ (Paulsen) اور دیگر مفکرین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ نظریہ غلط ہے کیونکہ اس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ فکر، شعور، احساس، خواہش اور تجسس وغیرہ جیسے الفاظ کو عام فہم معنی سے ہٹا کر یکسر مختلف مفاہیم کے اظہار کے لیے استعمال کیاجائے۔ پالسن کہتا ہے کہ یہ کہنا کہ یہ الفاظ دماغ کے کیمیائی اعمال اور کردار کے ظاہری پہلوؤں کے دوسرے نام ہیں، بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم کہیں ’’ لکڑی‘‘ ،’’ شیشے‘‘ کا دوسرا نام ہے یا ٹماٹر، گوبھی کا دوسرا نام ہے۔ خواہش ارادے، احساس اور شعور کا مفہوم کیا ہے؟ ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ اس کا داخلی تجربہ ہم دروں بینی یا خود نگری (Introspection) میں کر سکتے ہیں۔ داخلی تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ذہنی اعمال کسی طور بھی غدودی رطوبت (Glandular Secretion) عصبی کھنچاؤ (Muscular Contraction) یا کیمیائی تغیرات (Chemical Change) کے مترداف نہیں۔ زبان کو ہم جیسے بھی توڑیں مروڑیں اور الفاظ کی جیسی بھی تاویل کریں ہم افکار کو کلام کے مترادف قرار نہیں دے سکتے۔ افکار اس وقت بھی جاری و ساری ہوتے ہیں جب کوئی خاموش ہوتا ہے۔ الفاظ یا کلام تو محض افکار کے اظہار کا ایک ذریعہ ہیں۔ کوئی بھی سرجن کھوپڑی کھول کر کسی شخص کی امنگیں، ارادے اور آدرش نہیں دیکھ سکتا۔ اس کو جوشے نظر آئے گی وہ دماغ کی نسیجیں وغیرہ ہوں گی۔ اسی طرح جب کوئی شخص غصہ میں آتا ہے تو یہ اس کا ایک ذہنی اور باطنی تجربہ ہے جس کی گہرائی اور شدت کو محض خارجی جسمانی علامات سے نہیں ناپا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ذہنی اعمال کی مناسبت سے بعض جسمانی علامات و تغیرات بھی رونما ہوتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ وہ ذہنی اعمال و دراصل جسمانی اور غدودی تغیرات ہیں، غلط ہے۔ کئی لوگ غصے کو ضبط کر جاتے ہیں اور اس کی معیت میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کو پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اسی طرح کوئی اداکار مصنوعی غصہ طاری کر سکتا ہے، اگرچہ وہ ذہنی طور پر غصے کا تجربہ نہیں کرتا۔ تاہم ظاہری اور جسمانی علامات سے وہ پورا پورا تاثر دیتا ہے کہ وہ غصے میں پاگل ہوا جا رہا ہے۔ یہ اور اس طرح کی کئی شہادتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ذہنی اعمال اگرچہ بعض جسمانی تغیرات کی معیت میں اپنا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کو ان جسمانی تبدیلیوں کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ برٹرینڈرسل کا یہ خیال کہ انسان کی ذہنی شخصیت دراصل اس کے نظام عصبی کی رہین منت ہوتی ہے، غلط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عذر اور منشی ادویات ذہنی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن یہ کہنا کہ انسان کے تمام ذہنی رویے دراصل غدودی رطوبتوں اور عصبی تنظیم کے پیدا کردہ ہوتے ہیں، غلط ہے۔ ایک پاگل شخص کی ذہنی شخصیت مسخ ہو چکی ہوتی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کا تمام نظام عصبی صحیح کام کر رہا ہو یعنی اس کا پاگل پن سراسر نفسی (Psychic) نوعیت کا ہو۔ ایسے مریضوں کا علاج جو کسی صدمے یا نفسیاتی دباؤ سے بنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ تحلیل نفسی سے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کسی ایسے ہی ذہنی مریض کے بارے میں یہ ممکن ہے کہ اس کا تمام عصبی نظام اور غدودی رطوبتیں نارمل ہوں لیکن وہ اپنی ذہنی شخصیت کھو چکا ہو۔ اس کی ’’ انا‘‘ یا ’’ خودی‘‘ اس کے جسم کے صحت مند ہونے کے باوصف ٹوٹ پھوٹ چکی ہوتی ہے۔ مزید برآن رسل کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ روح کے بقائے دوام کا نظریہ موت کے خوف سے پیدا ہوا ہے۔ گذشتہ باب میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ زمانہ قدیم کا انسان موت سے نہیں ڈرتا تھا۔۔۔۔ بلکہ کسی ایسی نادیدہ ہستی سے ڈرتا تھا جو موت، بیماری، آفات سماوی یا کسی اور انداز میں اپنے غصے کا اظہار کرتی تھی۔ اس کے علاوہ رسل کا یہ کہنا کہ یہ عقیدہ موت کا خوف ہے، کوئی مبنی برشاہد نظریہ نہیں بلکہ ایک نفسیاتی مفروضہ ہے۔ اسی طرح خود ستائی کے جذبے کے تحت اس عقیدے کی تشریح کرنا بھی درست نہیں کیونکہ خودستائی کے جذبے کی بجائے ہمیں انسان کا خواب کا تجزیہ زیادہ اہم محسوس ہوتا ہے جس میں بچھڑے ہوئے اعزہ و اقارب سے ملاقات اسے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ موت کے بعد بھی کسی نہ کسی انداز میں زندہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض جسمانی ملتیں ذہن اور شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں لیکن ذہنی اعمال کو جسمانی اور عصبی عوامل کے مترادف قرار دینا صحیح نہیں۔ بعض محذرات یا منشیات یا سر پر لگنے والی چوٹیں وقتی طور پر شعور کی شمع گل کر دیتی ہیں۔ ایسی حالت میں ایسے تمام جسمانی رد عمل معدوم ہو جاتے ہیں جو شعور کو مستلزم ہوتے ہیں لیکن یہ رد عمل تو عالم خواب میں بھی معدوم ہو جاتے ہیں۔ عالم خواب سے بیدار ہونے والا شخص اپنے خوابوں کو یاد کر سکتا ہے۔ یعنی وہ شعور کے ایک ایسے تجربے کو یاد کر سکتا ہے جو اسے عام شعوری تجربے کی سطح پر نہیں ہوتا لیکن کسی حادثے میں بے ہوش ہو جانے والے شخص کو ہوش میں آنے کے بعد دوران بے ہوشی کے بارے میں کچھ یاد نہیں رہتا بلکہ حادثے سے کچھ گھنٹے قبل کے واقعات بھی اس کے ذہن کی سطح سے محو ہو جاتے ہیں جبکہ اس کی(قبل از حادثہ) شعوری زندگی کی شہادت دوسرے لوگ دیتے ہیں اسی طرح بچپن کے چند ابتدائی سالوں کے واقعات اکثر انسانوں کو یاد نہیں رہتے۔ اگر کسی کو کچھ واقعات یاد بھی ہوں تو وہ چند ایک ایسے دھندے سے واقعات ہوں گے کہ ان سے ان کی شخصیت کے خدو خال کی وضاحت نہیں ہو سکتی مگر دوسرے لوگ مثلاً والدین اور خاندان کے بزرگ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس دور میں کوئی شخص کس طرح کی شخصیت کا حامل تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حافظہ۔۔۔ جسے برٹرینڈرسل تشخص اور عینیت کے تسلسل کا وسیلہ سمجھا ہے۔ اکثر حالات میں غیر فعال ہو جاتا ہے۔ بچپن کے علاوہ ہماری زندگی کے دوسرے ادوار کا بھی اکثر حصہ ہمارے حافظے کی سطح سے محو ہو جاتا ہے۔ بچپن کے علاوہ ہماری زندگی کے دوسرے ادوار کا بھی اکثر حصہ ہمارے حافظے کی سطح سے محو ہو جاتا ہے لیکن اس سے ہمارے تشخص اور عینیت کے ایقان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ذہنی اعمال صرف عصبی اور غدودی تغیرات کا نام ہی نہیں جو کہ حافظہ کی ڈور سے بندھے ہوتے ہیں بلکہ ذہن کی ایک بالاتر قوت بھی ہوتی ہے جس تک عصبی اور جسمانی تغیرات کے اثرات کی رسائی نہیں ہوتی۔ اس بالاتر قوت کو کانٹ (Kant) نے ادراک کی ترکیبی وحدت (Synthetic unity of apper Ception) کی اصطلاح سے موسوم کیا تھا جو کہ حافظہ اور ادراک کے متفرق ارتسامات کو مربوط علم کی شکل دیتی ہے۔ مختلف انواع میں عصبی نظام کی ترقی اور ذہانت کی ترقی کے مابین جو ایک مساوات سمجھی جاتی ہے۔ اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے کہ ذہانت کی ترقی نظام عصبی کی ترقی سے مشروط اور اس پر منحصر ہے بعض اوقات ’’ ارادہ‘‘ جو ایک ذہنی فعل ہے نظام عصبی کی بہتر اور بلند تر تنظیم کا باعث بنتا ہے۔ ایک موسیقار اپنے شعوری ارادے کے تحت بار بار مشق کر کے اور سادھو برسوں کی محنت شاقہ اور مسلسل ریاضتوں سے (جو کہ ان کے شعوری ارادے کے تحت ہوتی ہیں) اپنے نظام عصبی میں نہایت اعلیٰ درجے کی تبدیلیاں پیدا کر لیتے ہیں اور اپنے جسم سے وہ کام لے سکتے ہیں جو عام آدمی نہیں لے سکتا۔ مادیت کے حامی عموماً یہ کہتے ہیں کہ شعور مادی اعمال کا پس مظہر (Epiphenomenon) ہے۔ اگر کسی خاص جسمانی عضو کے اندر خرابی پیدا ہو جائے تو اس سے متعلقہ ذہنی عمل بھی متاثر ہو گا۔ اگر قص جبہی کو کاٹ دیا جائے تو اس سے قوت فیصلہ کی تنسیخ ہو جاتی ہے۔ آیوڈین کی کمی سے ہونہار بچہ کند ذہن ہو جاتا ہے وغیرہ۔ مادی اعمال کے حق میں یہ جتنی مضبوط دلیل ہے اتنی ہی مضبوط دلیل شعوری اعمال کے حق میں دی جا سکتی ہے۔ اگر جسم ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے تو ذہن بھی جسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نفسیاتی عوامل کے تحت کوئی شخص نامردی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بعض ذہنی بیماریوں کی وجہ سے لوگ گونگے یا اندھے ہو جاتے ہیں۔ یہ امر بھی ہر کسی کو معلوم ہے کہ خوش گوار یا ناگوار ذہنی کیفیات کا ایام حمل یا ایام رضاعت میں عورت کے نظام ہائے جسم پر واضح اور نمایاں اثر پڑتا ہے۔ مخدرات یا منشیات یا سر پر چوٹ کے نتیجے میں شعوری علامات معدوم ہو جاتی ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جسمانی نظام مثلاً تنفس اور دوران خون وغیرہ بدستور کام کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ جسمانی نظاموں کے تعطل کے بعد شعور بھی کسی نہ کسی طرح قائم رہ سکتا ہے ۔ شعور یا ذہن انسان کو ساری زندگی اپنے خود مختار اور حاکم اعلیٰ ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔ ہمیں یہ درست ماننے میں کونسی شے مانع ہے کہ مرنے کے بعد شعور خود اپنی حیثیت سے قائم رہے گا؟ محض یہ امر کہ ہم اس کیفیت کو جان نہیں سکتے اس کی تردید کے لیے کافی نہیں۔ کچھ مفکرین کے نزدیک ذہن کی کوئی ایسی خواہش یا ضرورت کسی جسمانی عضو کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ اگر ارتقائی عمل کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو جانوروں، پرندوں اور دیگر ذی حیات مخلوقات کے اندر ہمیں یہ بات نظر آئے گی۔ کچھ ضروریات وہ عرصے تک محسوس کرتے رہتے ہیں، بالآخر کسی کمی کو پورا کرنے کا رحجان کسی عضو مثلاً پر، آنکھ، پنجہ، چونچ وغیرہ کی تخلیق پر منتج ہوتا ہے۔۔۔ اس نظریہ کو ’’ تحت مظہریت‘‘ (Hypo phenomunalism) کا نام دیا جا سکتا ہے۔۔۔ اور یہی نظریہ شو پنہار کا تھا اس نظریہ کے تحت وہ آلات (یا اعضا) جو جسم کی میکانیات وضع کرتی ہے، دراصل ان کے متوازی قوتوں کی مبہم اور غیر واضح ’’ جوع‘‘ یا ’’ طلب‘‘ کی معروضی پیداوار ہوتے ہیں۔ خاص طور پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ عصبی نظام کی ترتیب و تنظیم دراصل ان متنوع ذہنی وظائف کی مادی تشکیل یا تجسیم ہوتی ہے جو کہ حیوانی یا انسانی وجود کی کسی مخصوص سطح پر جاری و ساری رہے ہوتے ہیں17؎ یہاں اگر جدلیاتی مادیت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انسانی شعور ہمیں جدلیاتی ارتقاء کی ایک ایسی منزل نظر آتا ہے جس میں کمیت (Quantity) کی تبدیلیاں کیفیت (Quality) کی تبدیلیوں میں ڈھل گئی ہیں۔ یعنی انسانی شعور اگرچہ مادی ارتقاء کی ہی ایک منزل ہے۔ تاہم یہ اپنی کیفیت کے اعتبار سے مادے سے اتنا مختلف ہو گیا ہے کہ جہاں مادی علتیں اس پر اثر انداز ہوتی ہیں وہاں یہ بھی مادی ماحول پر گہرے اثر ڈالتا ہے اور اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں کہ یہ کیفیت کی تبدیلی خود مکتفی ہو گئی ہے یعنی مادی واسطے کے بغیر بھی وجود رکھ سکتی ہے، تو بعید از عقل نہیں۔ سی ڈی براڈ نے بقائے دوام کے خلاف جن دو اعتراضات کا ذکر کیا ہے، ان کا اس نے خود ہی جواب بھی دیا ہے۔ بعض بچوں کی بے ہنگم پیدائش اور ان کی غیر فطری موت کے بارے میں وہ یہ کہتا ہے کہ اس میں کوئی منطقی لزوم نہیں کہ ہم اس طرح سوچیں کہ: ’’ یہ (ذہن یا بچہ) کسی شخص کی لاپرواہی یا اس کے مجرمانہ حملے کا نتیجہ ہے، اس لیے یہ عارضی اور وقتی وجود رکھتا ہے۔‘‘ اسی طرح وہ دوسرے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان جن صفات کی بنا پر کھٹملوں، مکھیوں اور مچھروں سے مختلف ہیں انہی کی بنا پر ہم جائز طور پر اول الذکر کو بقائے دوام کا اہل اور موخر الذکر کو نا اہل سمجھ سکتے ہیں 18؎ بقائے دوام کے تصور میں جو مشکلات، عینیت، تشخص، ماحولیاتی روابط، مختلف ادوار کے لوگوں کے ایک ہی وقت میں حشر نشر اور جسمی و غیر جسمی وجود کے حوالے سے پیدا ہوتی ہیں، وہ سب کی سب ہماری اس غلط کوشش کی پیدا کردہ ہیں کہ ہم اپنے زمان و مکان کے پیمانوں سے بعد از مرگ حقائق کو ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواب کا تجربہ ہر شخص کو حاصل ہے اس میں شعور ایک ایسی سطح پر سر گرم عمل ہوتا ہے جو ہمارے روز مرہ کے زمان و مکان کی سطح سے یکسر مختلف ہوتی ہے عالم خواب میں مختلف ادوار کے لوگ، مختلف تہذیبوں کا اختلاط اور بچھڑے ہوئے لوگوں سے ملاقات کچھ عجیب نہیں لگتا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا شعور اگر ہر رات ایک غیر زمانی و غیر مکانی کیفیت میں سر گرم کار رہتا ہے تو بعد از مرگ اس سے ملتی جلتی حالت میں کیوں نہیں قائم رہ سکتا؟ جب زمان و مکان کے پیمانے ہی بدل جائیں تو ان اعتراضات کی کیا حیثیت رہتی ہے جو مختلف ادوار، غیر یکسان سماجی تناظرات اور عینیت وغیرہ کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں؟ مندرجہ بالا اعتراضات اور ان کے انتقاد سے پتہ چلتا ہے کہ حیات بعد الموت یا روح کے بقائے دوام کے بارے میں جتنے بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ سقیم اور کمزور ہیں۔۔۔۔۔۔ بقائے دوام کے حق میں جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں وہ اس کے مخالف دلائل سے زیادہ وزنی محسوس ہوتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ انسانی سوچ کا فطری جھکاؤ مخالف دلائل کی طرف رہا ہے؟ قدیم عرب جب مردوں کی کھوپڑیوں اور ہڈیوں کو دیکھتے تو کہتے ان کا دوبارہ زندہ ہونا نا ممکنات میں سے ہے۔ چنانچہ حیات بعد الموت ان کے نزدیک ایک فضول بات تھی۔ یہ صرف قدیم عربوں کی بات نہیں بلکہ اکثر لوگ ہی یہ سوچتے ہیں کہ مر کر دوبارہ زندہ ہونا نا ممکن ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان فطری طور پر اسی شے کو حقیقی سمجھتا ہے جو مادی طور پر اس کے سامنے موجود ہو، جسے وہ دیکھ سکتا ہو، چھو سکتا ہو یا جس کا حسی ادراک کر سکتا ہو۔ انیسویں صدی کی سائنس نے اس فطری رحجان کو مزید تقویت دی۔ ہر مظہر فطرت کی تشریح و تعبیر میکانکی انداز میں کرنے کی کوشش کی جاتی۔ میکانکی تشریح کا دارومدار گذشتہ علتوں پر ہوتا ہے۔ نہ صرف خارجی مظاہر فطرت بلکہ خود انسانی عضویہ، ارتقائے حیات اور وظائف شعور کی تشریح بھی علت و معمول کے حوالے سے کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ اس زمانے کی نفسیاتی تحقیقات کا زیادہ تر دار و مدار عضویات (Psysioligy) کی تشریحات پر رہا لیکن عضویاتی نفسیات شعور اور ذہن کی تسلی بخش تشریح پیش نہ کر سکی۔ میکانکی تشریح کا اسلوب جب ذہن کی تشریح کے لیے اپنایا گیا تو کئی دقیتیں پیدا ہوئیں۔ کیونکہ ذہن کی نوعیت غائی (Teleological) ہے۔ یعنی شعور اور ذہن کے وظائف کو سمجھنے کے لیے مستقبل کے مقاصد اور نصب العینوں کو سمجھنا بھی نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ عضویات نے جسم اور ذہن کے درمیان ایک ایسی حد فاضل کھینچ دی جس سے اس علم کے دائرۂ کار کی تخصیص جسمانی وظائف تک کر دی گئی: ’’ اور جب کوئی خصوصی علم اپنے آپ کو اشیاء کے حقیقی اور اہم پہلوؤں کے مطالعے تک محدود کر دیتا ہے تو اس علم کے مقاصد کی حد تک یہ حقیقی اور اہم پہلو ہی بنیادی حیثیت کا حامل ہو جاتا ہے 19؎‘‘ اس طرح انسان کے اس فطری رحجان کو سائنس کی طرف سے بھی تائید ہو گئی کہ حقیقی وہ ہے جو مادی اور قابل مشاہدہ ہے۔ اگر تاریخ فلسفہ کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو مادہ ویسا نہیں جیسے ہمیں نظر آتا ہے۔ افلاطون، ہیگل اور دیگر تصوریت پسند جب تصوریت پسندانہ (Idealistic) نقطہ نظر سے مادی دنیا کی تشریح کرتے ہیں تو مادے کے عام تصور میں پائے جانے والے منطقی تضادات کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ برکلے کو مادی شے ایک تصور نظر آتی ہے کیونکہ یہ موضوعی صفات (Subjective Qualities) کا مجموعہ ہے جس کی تہ میں کوٹی مادی محل (Material Substratum) نہیں۔ برگساں کائنات کو دو متخالف حرکتوں کا تصادم سمجھتا ہے ان میں سے مادہ حرکت نزولی (Down ward Motion) ہے اور حیات حرکت صعودی (Upward Motion) جبکہ شعور اور حیات اپنے ارتقائی سفر میں مادہ جسم یا مختلف اعضا کو بطور آلہ کار استعمال کرتے ہیں۔ الغزالی پہلے حسی ادراک کو حقیقی سمجھتا ہے لیکن اس کی عقل اسے یہ بتاتی ہے کہ حسی ادراک غلط وہ سکتا ہے۔ چنانچہ وہ عقل کو راہنما بناتا ہے لیکن جس جواز کے تحت وہ عقل کو حواس سے بالاتر قوت سمجھتا ہے، اسی جواز کے تحت عقل سے بھی بالاتر قوت وجدان اور وحی تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک عام آدمی مادی کائنات کو جیسے دیکھتا ہے وہ اس کائنات سے بہت مختلف ہے جو آئن سٹائن کے ذہن میں موجود ہے۔ الغرض ہم اپنے ارد گرد کی مادی دنیا کے عام نظریے کو ہی حقیقی قرار نہیں دے سکتے۔ مادی مظاہر پر فکر و تامل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اشیا کے بارے میں ہمارا عام رویہ درست نہیں۔ کئی ایسے حقائق بھی کائنات میں موجود ہیں جن کا ہم مادی اشیا کی طرح ادراک نہیں کر سکتے۔ ان ھقائق میں سے ایک حقیقت انسانی روح یا شعور ہے جس کا ہمیں داخلی تجربہ تو حاصل ہے لیکن میکانکی تشریحات کے سہارے ہم اس کی وسعتوں کی ناپ نہیں سکتے۔ اگر منفی دلیل کا انداز اپنایا جائے تو یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ایسی کونسی دلیل ہے جس سے روح یا ذہن کے بقائے دوام کا مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے؟ اور اگر ایسی کوئی دلیل پیش کی بھی جائے تو ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ بادی النظر میں یہ بہت مضبوط محسوس ہو سکتی ہے، تاہم یہ تنقیدی اور منطقی تجزیہ کی متحمل نہیں ہو سکتی! 4 بقائے دوام کے حق میں عموماً تین نظریات پیش کیے جاتے ہیں: اولاً مابعد الطیعیاتی ثانیاً اخلاقیاتی اور ثالثاً تجربی مابعد الطبیعاتی دلائل میں بقائے دوام کو روح کے مادہ، مفرد، غیر تغیم پذیر اور غیر فنا پذیر ہونے سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اخلاقیاتی دلائل میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ خیر و شر کی جزا و سزا کے لیے حیات اخروی ضروری ہے۔ تجربی دلائل ان لوگوں کے بیانات پر مشتمل میں جو ارواح سے رابطہ قائم کرنے اور ان سے گفتگو کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ’’ ادراک بالائے حسن‘‘ (Extra sensory Perception) کی تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔ سی ڈی براڈ نے تین کی بجائے پانچ 20؎ ذرائع کا ذکر کیا ہے جن سے بقائے دوام کا عقیدہ جنم لیتا ہے۔۔۔۔ ان میں سے تین کا اوپر ذکر ہو چکا ہے لیکن دو زاید ہیں: پہلا ذریعہ وہ لوگ ہیں جو بقائے دوام پر اس لیے یقین رکھتے ہیں کہ ان کو براہ راست وحی کے ذریعے اس کی تعلیم دی گئی۔ اس میں انبیا اور صوفیاء شامل ہیں۔ دوسرا ذریعہ وہ لوگ ہیں جو استناد (Authoiry) کے تحت اس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم مختصراً وحی اور استناد کے حوالے سے پیدا ہونے والے عقیدہ کا جائزہ لیتے ہیں اس کے بعد ہم قدرے تفصیل سے پہلے تین دلائل یعنی مابعد الطبیعاتی، اخلاقیات اور تجربی دلائل کا جائزہ لیں گے۔ تاریخ میں ہمیں گنے چنے افراد ایسے ملتے ہیں۔ جنہوں نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ انہیں وحی یا الہام کے ذریعے سے بقائے دوام یا حیات بعد الموت کا ایقان حاصل ہوا ہے۔ عوام الناس کے لیے حیات بعد الموت کا تصور بدیہی (Self-evident) نہیں۔ جبکہ انبیاء کے لئے یہ بدیہی ہے۔ لوگوں کی اکثریت استناد کے حوالے سے بقائے دوام پر یقین رکھتی ہے۔ یعنی لوگ اس ہستی کو مستند مانتے ہوئے اس کی تقلید کرتے ہیں جس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وحی اور الہام ہی استناد کا معیار ہوں۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں چونکہ خود عقل و فکر کے بلند درجے پر فائز نہیں اس لیے بقائے دوام کے بارے میں جو باتیں افلاطون نے کی تھیں وہ میرے لیے قابل قبول ہیں۔ اسی طرح میں زمان و مکان کو مطلق نہیں بلکہ اضافی سمجھتا ہوں، اس لیے کہ آئن سٹائن نے اسے ثابت کیا تھا۔ میرے لیے نا ممکن ہے کہ میں سائنسی فکر کے اس بلند مقام تک پہنچ کر زمان و مکان کے اضافی ہونے کا یقین کروں۔ جس پر کہ آئن سٹائن فائز تھا۔ اس طرح بے شمار ایسے قضایا ہیں جن پر لوگ کسی مستند شخصیت کے حوالے سے یقین رکھتے ہیں۔ عام آدمی زمین کو مسطح سمجھتا ہے لیکن سائنسدانوں کی تحقیقات کے پیش نظر اسے اس کو ممدر سمجھنا پڑتا ہے۔ چنانچہ بقائے دوام کے بارے میں اگر بڑے بڑے فلاسفہ کے نظریات کو مستند مان لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس امر پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ بقائے دوام کے نظریہ پر دیگر سائنسی امور کی طرح اتفاق رائے نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی افلاطون کو مستند مان کر اس پر یقین رکھے تو کانٹ جیسا فلسفی یہ کہے گا کہ اس کے افکار میں کئی منطق مغالطے موجود ہیں یا اسپنوزا اس کو بالکل ہی رد کر دے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کو مستند مانا جائے اور کس کو نہ مانا جائے۔ مزید برآں سائنسی نتائج کے بارے میں ایسی کوئی قدغن موجود نہیں کہ کوئی اپنی محنت اور مطالعے سے ان تک نہ پہنچ سکے۔ کوئی بھی شخص بطور خود تعلیم و تجربے کے مختلف مراحل سے گذرتا ہوا ان سائنسی نظریات تک پہنچ سکتا ہے۔ جنہیں عام لوگ سائنسدانوں کو مستند مانتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن بقائے دوام کے بارے میں ہم یہ طریق کار نہیں اپنا سکتے۔ بقائے دوام اور حیات بعد الموت کو ایک مذہبی عقیدے کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے جس کے لیے یہ جائز نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی اس کا ویسا ہی تیقن حاصل کرنے کے لیے کوشش کرے جیسا کہ اس کی مستند شخصیت کو حاصل ہے۔ اس طرح کا استناد مذہب کی حد تک تو درست ہو سکتا ہے لیکن سائنس اور فلسفے میں یہ نہیں اپنایا جا سکتا۔ 5 بقائے دوام کے ما بعد الطبیعیاتی نظریہ کے ضمن میں ہم تین فلسفیوں کا ذکر کریں گے۔ افلاطون ارسطو اور میکٹیگرٹ یہاں یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہیے کہ یہی تین فلسفی ما بعد الطبیعیاتی نظریہ کے علمبردار ہیں ہم ان کا انتخاب اس لیے کر رہے ہیں کہ افلاطون اور ارسطو زمانہ قدیم سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈاکٹر میکٹیگرٹ زمانہ حال سے تعلق رکھتا ہے۔ پروفیسر جان ہک (Prof. John Hick) کے بقول افلاطون وہ پہلا مفکر ہے جس نے سائنسی اور منظم طریقے سے مسئلہ بقائے دوام سے تعریض کیا ہے اور اس کے اثرات مغربی فکر پر نہایت گہرے اور دیر پا ثابت ہوئے ہیں21؎ تاریخ فلسفہ میں افلاطون کو ایک تصوریت پسند کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اس کے نزدیک حقیقت مطلقہ تصورات یا اعیان کا ایک ایسا نظام ہے جو زمان مکاں سے ماورا ہے۔ سقراط کے نزدیک حقیقت مطلقہ (Concepts) محض علمیاتی اصول تھے لیکن افلاطون نے ان علمیاتی اصولوں کو حقیقی اور معروضی اصولوں کا درجہ دے دیا۔ اس کی مشہور ’’ غار کے قیدیوں‘‘ کی مثال اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ دنیائے حقیقت کے تصورات ہمارے احاطہ ادراک سے ماوراء ہیں ہمارے اپنے ذہن میں جو موضوعی تصورات پائے جاتے ہیں وہ دنیائے حقیقت کے تصورات کے ہی مدھم نقوش یا پرچھائیاں ہیں۔ افلاطون کے نظام فکر میں ثنویت کا پہلو نمایاں ہے۔ ایک طرف دنیائے حقیقت ہے جس میں ابدیت اور کمال مطلق جیسی صفات پائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف مادی دنیا ہے جس میں تکوین (Becoming) حرکت و ارتقاء اور زبان و مکاں موجود ہیں۔ یہ دنیا جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، یکسر باطل اور غیر حقیقی نہیں کیونکہ ا س میں دنیائے حقیقت یا ابدی اعیان کے اثرات کی آمیزش بھی ہے۔ چنانچہ مادی دنیا کو ہم حقیقت اور غیر حقیقت کی آمیزش قرار دیں گے۔ مادہ بذات خود غیر حقیقی ہے۔ تاہم اس پر اعیان ثابتہ یا دنیائے حقیقت کے تصورات کی چھاپ لگتی ہے اور متعدد اشیاء وجود میں آتی ہیں۔ چنانچہ اس دنیا میں موجود ہر شے کے دو پہلو ہیں۔۔۔۔ایک مادی یا غیر حقیقی اور دوسرا عقلی یا حقیقی دیگر اشیاء اور موجودات کی طرح انسانی شخصیت بھی دو پہلوؤں پر مشتمل ہے: 1مادی اور 2روحانی انسانی روح کا تعلق دنیائے حقیقت سے ہے اس لیے اس میں ازلی و ابدی اور غیر فنا پذیر ہونے کی وہ بنیادی صفت موجود ہے جو کہ اعیان تابتہ کا مابہ الامتیاز ہے۔ انسانی روح کو کسی طرح مادے کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے یا اسے جسم کے زندان میں مقید کر دیا گیا ہے۔ روح خود ایک ایسا جوہر ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی خارجی حوالے کا رہین منت نہیں۔ چنانچہ جسمانی موت یا اعضاء کے منتشر ہو جانے سے روح فنا نہیں ہو جاتی بلکہ زمان و مکاں کے حصار سے نکل کر مستقلاً ابدیت اور دوام میں زندہ رہتی ہے۔ افلاطون اسی لیے بعض لوگوں کی اس تشریح سے متفق نہیں کہ روح کسی ساز کے سروں سے پیدا ہونے والے نغمے کی طرح ہے 22؎ ساز و آہنگ کی تشبیہہ جسم و روح کے سلسلے میں اس لیے نہیں دی جا سکتی کہ نغمہ و آہنگ اپنے وجود کے لیے ساز کی رہین منت ہیں جبکہ روح اپنا مستقل بالذات وجود رکھتی ہے اور جسمانی موت اسے متاثر نہیں کرتی لیکن نغمہ و آہنگ ساز کے تاروں کے ٹوٹنے پر یکسر مفقود اور معدوم ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں نغمہ ساز کے تاروں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا جبکہ روح اکثر حالات میں جسم پر پورا پورا تصرف رکھتی ہے۔ روح کے بقائے دوام کے بارے میں افلاطون کے اکثر نظریات اس کے مکالمے فیڈو (Phaedo) میں پائے جاتے ہیں اس مکالمے میں سقراط کے آخری لمحات کا منظر پیش کیا گیا ہے اور اس ضمن میں افلاطون نے روح اور ا س کے بقائے دوام پر اظہار خیال کیا ہے لیکن اس کے علاوہ بعض دوسرے مکالمات مثلاً جمہوریہ (Republic) فاڈرس (Pheadrus) اور قوانین Lawsمیں بھی اس موضوع پر اس کے نظریات ملتے ہیں افلاطون انسانی روح اور عقل کوایک ہی چیز سمجھتا ہے۔ روح یا عقل کا تعلق چونکہ دنیائے امثال سے ہے اس لیے یہ غیر فنا پذیر ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ تمام علم بازیافت (Recollection) کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان جو کچھ سیکھتا ہے وہ شروع سے ہی اس کے حافظے میں موجود ہوتا ہے۔ انسان فیثا غورث یا اقلیدس کی ہندسی تعریفیں نہیں سیکھتا بلکہ یہ اس کے ذہن میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ذہن میں انسان، عدل اور خط مستقیم وغیرہ جیسے کلی اور مجرد تصورات پائے جاتے ہیں جن کا مصداق کوئی خارجی شے نہیں قرار دی جا سکتی۔ خارجی دنیا میں جس شخص کو ہم دیکھیں گے وہ کوئی مخصوص انسان ہو گا اسی طرح عدل اور خط مستقیم کی مخصوص مثالیں ہمارے سامنے آ سکتی ہیں۔ ہم ان مجرد تصورات کے بعینہ کوئی چیز نہیں دیکھ سکتے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ روح پیدائش سے پہلے بھی موجود تھی اور کالبد خاکی میں آنے کے بعد اس کا علم دھندلا گیا تھا۔ حصول علم کی تمام کوششیں دراصل پہلے ہی سے موجود تصورات کی بازیافت اور ان کی تشریح و توضیح ہے۔ ہمارے ذہن میں جو تعقلمات پائے جاتے ہیں ان کی حیثیت غیر فنا پذیر اور غیر تغیر پذیر ہے۔ مثلث کی تعریف صدیوں سے غیر مبدل ہے اور اسی طرح غیر مبدل رہے گی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی روح لافانی ہے۔ افلاطون کے نزدیک ہر شے کی کوئی اصلیت یا ماہیت (Essence) ہوتی ہے۔ آگ کی ماہیت جلانا ہے۔ اگر اس میں سے اس کی یہ بنیادی صفت ہی نکال دی جائے تو آگ، آگ نہیں رہے گی۔ کسی شے کو اس کی عینیت اس کی ماہیت ہی دیتی ہے۔ انسانی روح کی ماہیت زندہ رہنا ہے جب تک کسی جسم کے اندر روح موجود رہتی ہے، وہ زندہ رہتا ہے۔ جب یہ قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے تو باقی مٹی کا ڈھیر رہ جاتا ہے۔ فنا یا موت جسم کو لازم ہے، روح کو نہیں۔ روح کا بنیادی وصف ہی زندہ رہنا ہے اور جس طرح آگ اپنی ماہیت کو ترک نہیں کر سکتی، اسی طرح روح بھی اپنی ماہیت کو ترک نہیں کر سکتی۔ زندہ رہنے کا مطلب موت یا فنا کا فقدان ہے پس روح اپنی نوعیت اور ماہیت کے اعتبار سے موت یا فنا کے الٹ ہے۔ ان دلائل کے علاوہ افلاطون نے مکالمہ ’’ فاڈرس‘‘ میں روح کے بقائے دوام کو ایک اور طرح سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس دلیل کو بعد ازاں مکالمہ ’’ قوانین‘‘ میں تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ افلاطون تمام حرکتوں کو دو قسموں میں تقسیم کر دیتا ہے: پہلی قسم کی حرکت وہ ہے جو کسی خارجی واسطے سے جسم کے اندر نفوذ کرتی ہے یہ اس جسم کی اپنی حرکت نہیں ہوتی۔ مثلاً آپ گیند کو ٹھوکر ماریں تو وہ متحرک ہو جائے گا لیکن گیند کی حرکت خود اس کے اندر سے نہیں ابھرے گی بلکہ مستعار ہو گی۔ دوسری قسم کی حرکت وہ ہے جو کسی خارجی واسطے کی مرہون منت نہ ہو بلکہ خود جسم کے اندر سے پیدا ہو گئی ہو۔ پہلی قسم کی حرکت کا منبع و مصدر دوسری قسم کی حرکت ہے۔ دوسری قسم کی حرکت صرف روح کے اندر پائی جاتی ہے۔ چنانچہ جو بھی جسم از خود متحرک ہو ہم اسے ذی روح سمجھتے ہیں۔ روح کے از خود متحرک ہونے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ غیر مخلوق (Uncreated) ہے کیونکہ اس کی حرکت خارج سے مستعار نہیں لی گئی۔ غیر مخلوق ہونے کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ یہ غیر فانی بھی ہو۔ زندہ رہنے کی طرح متحرک رہنا بھی روح کی نوعیت و ماہیت میں داخل ہے چنانچہ روح ہمیشہ متحرک رہتی ہے اور اسی لیے غیر فنا پذیر ہے۔ افلاطون کے بعد ارسطو نے جو ما بعد الطبیعیات پیش کی اس میں اگرچہ شخصی بقائے دوام کی گنجائش موجود نہ تھی، تاہم اس نے بعض جگہوں پر ایسے اشارات ضرور دئیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مجرد عقل (Abstract Intellect) کی بقا کا قائل تھا۔ ارسطو نے افلاطون کی طرح بقائے دوام کو باقاعدہ موضوع بحث نہیں بنایا۔ اس لیے اس موضوع پر اس کی حتمی رائے کا پتہ چلانا دشوار ہے۔ اس کی مشہور کتاب ڈی اینما (De Anima) میں زندگی اور اس کے ارتقاء پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ارسطو کہتا ہے: ’’ اس کا نصب العین یہ ہے کہ زندگی کے ایک اصول کی حیثیت سے روح کی نوعیت و ماہیت کے بارے میں تحقیق کی جائے۔23؎‘‘ اس کے بعد وہ مختلف تجربات و مشاہدات کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ روح کسی زندہ جسم کی ’’صورت‘‘ (Form) ہوتی ہے۔ ارسطو بھی افلاطون کی طرح صورتوں کو اشیاء کی اصلیت قرار دیتا ہے۔ تاہم یہ صورتیں مادی اشیاء سے ماوراء کسی دنیائے امثال میں موجود نہیں بلکہ اشیاء کے اندر موجود ہیں۔ا فلاطون اور ارسطو کے فلسفوں کا بنیادی فرق یہی ہے، افلاطون نے اعیان یا صورتوں اور موجودات یا مادی اشیاء کی دو علیحدہ علیحدہ دنیائیں بنائی تھیں۔ ایک میں کمال مطلق، ابدیت اور سکون و ثبات جیسی صفات پائی جاتی تھیں اور دوسری میں ارتقاء حرکت اور منتاہیت پائی جاتی تھیں۔ دنیائے موجودات کو اس نے دنیائے حقیقت کا پر تو یا نا مکمل نقش قرار دیا تھا دونوں دنیاؤں کی واضح ثنویت ختم کرنے کی جو اس نے کوشش کی، ارسطو اس سے مطمئن نہ تھا، اس لیے ارسطو نے کہا کہ دنیائے حقیقت کی صورتیں مادی دنیا کے موجودات کے اندر ہیں۔ افلاطون کے تصورات اگر اشیاء کی ماہیت ہیں تو اس ماہیت کو اشیا کے اندر ہونا چاہیے نہ کہ باہر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ارسطو فلسفے کو آسمان سے زمین پر لے آیا۔ یہ صورتیں اشیاء کے اندر موجود ہیں اور ان کو ہم ان سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ مادہ اور صورت چونکہ متضاد اصول ہیں اس لیے فکری طور پر ان کا انفعال ممکن ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ ہم امر واقعہ میں بھی صورت کو مادے سے جدا کر سکتے ہیں۔ صورت فی نفسہ جوہر کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ جوہر صورت اور مادہ کی ترکیب سے وجود میں آتا ہے۔ کائنات کو ارسطو جواہر کا ایک تدریجی نظام سمجھتا ہے جس میں اوپر کی طرف جاتے ہوئے صورت فزوں تر ہوتی جاتی ہے اور مادہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ حرکت مادہ کے اندر پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ اپنی صورت کو حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف کھنچتا ہے۔ بیچ کے اندر درخت کی صورت ایک منطقی اصول کی حیثیت سے مضمر ہوتی ہے۔ بیج اس کے حصول کے لیے متحرک ہوتا ہے اور بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا ہوا بالآخر اپنی صورت حاصل کر لیتا ہے یعنی مکمل درخت بن جاتا ہے۔ ارتقاء کے اس سارے عمل میں صورت بذات خود غیر متحرک اور غیر متغیر رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بیج اپنے نشوو ارتقاء کے دوران میں عین اسی صورت کے مطابق پھلتا پھولتا ہے جو اس کے اندر غیر تغیر پذیر طور پر مضمر ہوتی ہے۔ ارسطو کے مشہور نظریہ ’’ محرک غیر متحرک‘‘ (Unmoved mover) کی بنیاد اسی اصول پر ہے کہ صورت خود حرکت نہیں کرتی۔ اب جو شے حرکت و تغیر سے معریٰ ہو وہ ناقابل فنا ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ارسطو صورت کی ابدیت کا قائل ہے لیکن اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ صورت یا روح ایک منطقی اصول ہے، اس لئے غیر زمانی ہونے کی وجہ سے ابدی ہے، مثلاً مثلث کی تعریف کہ یہ تین اضلاع سے گھری ہوئی سطح ہوتی ہے، غیر زمانی ہے، اس لیے ابدی ہے۔ اگر ارسطو کے ما بعد الطبیعیاتی نظریات کی تشریح اس طرح کی جائے تو اس میں شخصی بقا کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ بعض شارحین نے عقل کی ابدیت کے نظریے کو ارسطو کی طرف منسوب کرتے ہوئے شخصی بقاکی گنجائش نکال لی ہے سکندر افردویسی (Alexander of Ahrodisias) اور ابن رشد (Averroes) کے نزدیک ارسطو شخصی بقا کا قائل تھا۔ 24؎ ارسطو کے حسن الفاظ سے یہ شارحین اس کے شخصی بقا کے قائل ہونے کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں، حسب ذیل ہیں: ’’ ذہن جب اپنی موجودہ حالت اور کیفیت سے آزاد ہو جاتا ہے تو یہ محض وہی رہتا ہے جو کہ یہ ہے، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں بن جاتا۔ صرف یہی بقائے دوام اور ابدیت کا حامل ہے اور اس کے بغیر کوئی شے باشعور نہیں ہو سکتی۔‘‘ 25؎ ماضی قریب میں صرف ایک ہی فلسفی ایسا ہے جس نے ما بعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے انسانی روح کے بقائے دوام کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ فلسفی ڈاکٹر میکٹییگرٹ (Mc Taggart) ہے۔ میکٹیگرٹ کے خیال میں تمام ما بعد الطبیعیاتی دلائل کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک قبل تجربی۔۔ اور دوسرا تجربی26؎ قبل تجربی پہلو میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ جو شے بعض صفات کی حامل ہوتی ہے وہ لا محالہ قائم و دائم ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر قبل تجربی پہلو میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کچھ ایسے ثبوت فراہم کئے جائیں جن کی رو سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ چونکہ فلاں شے ان ان صفات کی حامل ہے اس لیے اس پر زمان کا اطلاق نہیں ہو سکتا یعنی کہ یہ غیر زمانی (Time less) ہے اس طرح ان غیر زمانی صفات کے حوالے سے اس شے کے دوام کو ثابت کیا جاتا ہے یہاں اس بات کا ذکر کر دینا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اکثر مسلم فلاسفہ نے اسی طرز استدلال کو اپنایا ہے۔ میٹیگرٹ کے نزدیک بقائے دوام کے بارے میں ما بعد الطبیعیاتی دلیل کا دوسرا پہلو تجربی ہے جس میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ چونکہ انسانی ذہن ایسی صفات کا حامل ہے جو کسی شے کو غیر زمانی حقیقت عطا کرتی ہیں اس لیے ذہن انسانی لافانی اور ارتقائے دوام کا حامل ہے۔ اس طرح کے دلائل کا کسی فلسفی کے عمومی مابعد الطبیعیاتی یا مذہبی مسلک سے اتنا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ انہیں اس کے فکری پس منظر سے ہٹا کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس لیے ان دلائل کی صحت کو پرکھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ قبل تجربی اور تجربی، دونوں حصے درست ہیں یا نہیں اور یہ کہ ان دلائل کا عمومی ما بعد الطبیعیاتی پس منظر کس حد تک درست ہے ! ان تمام باتوں کے علاوہ کوئی دوسرا فلسفی اس ما بعد الطبیعیات کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر سکتا ہے جس پر کہ ایسے دلائل کا انحصار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانٹ نے اپنی تصنیف ’’ انتقاد عقل محض‘‘ کے ابتدائیہ میں ہر قسم کے ما بعد الطبیعیاتی دلائل کو بقائے دوام کے ثبوت کے لیے ناکافی قرار دیا ہے۔ 6 اب ہم بقائے دوام کے بارے میں اخلاقیاتی دلیل کا جائزہ لیتے ہیں۔ اخلاقیاتی تصدیق (ethical Judgement) ایک قدری تصدیق (Judgement of value) ہوتی ہے۔ اس کی رو سے چاہیے (Ought) کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ بعض تصدیقات باطنی قدر (Intrinsic value) کی حامل ہوتی ہیں اور بعض خارجی قدر (Extrinsic value) کی اول الذکر تصدیقات کچھ اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ X is good‘‘ جبکہ موخر الذکر کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ’’ X is right‘‘ یہ دونوں تصدیقات طبعی ’’ Naturalistic‘‘ یا وجودی ’’ Existential‘‘ تصدیقات سے مختلف ہیں۔ کیونکہ ان تصدیقات میں کوئی امر واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ یا کسی چیز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وجود رکھتی ہے۔ اکثر فلاسفہ کا یہ خیال ہے کہ قدری تصدیقات کو امر واقعہ کے بارے میں تصدیقات سے مستنبط نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی چاہیے کو ہے سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اگر مندرجہ بالا استدلال کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو روح کے بقائے دوام کی اخلاقیاتی دلیل میں کوئی وزن نہیں رہ جاتا۔ کانٹ کا یہ کہنا کہ بقائے دوام کا مفروضہ عقل عملی اس لیے وضع کرتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ یعنی ہم اس دنیا میں یہ اصول صحیح تسلیم کرتے ہیں کہ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا ہونی چاہیے۔ اب اس ’’ چاہیے‘‘ سے ہم ایک امر واقعہ کیسے اخذ کر سکتے ہیں؟ یہاں پہ اس کا ذکر کرنا یقینا دلچسپی کا باعث ہو گا کہ کچھ فلسفی ایسے بھی ہیں جو اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ قدری تصدیقات کی بنا پر امر واقعہ سے متعلق تصدیقات وضع کی جا سکتی ہیں۔ اے ای ٹیلر (A.E. Taylor) نے اپنی مشہور کتاب (The faith of a Moralist) میں بھی نقطہ نظر کی توضیح و تشریح کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک قدری تصدیق ایک ایسے استدلال کا قضیہ بن سکتی ہے جس میں ایک امر واقعہ کو ثابت کیا جائے۔ ایسے دلائل کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں: الف۔کوئی ایسی دلیل جو خالصتہً اخلاقیاتی قضیوں پر مشتمل ہو۔۔۔۔ یعنی صرف قدری تصدیقات پر مشتمل ہو۔۔۔ واقعاتی نتیجہ (Factual Conclusion) نہیں پیس کر سکتی۔ ب۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک قدری تصدیق خالصتہً قدری تصدیق ہو یہ ایک مرکب تصدیق بھی ہو سکتی ہے جس میں اخلاقیاتی صفات اور غیر اخلاقیاتی صفات کے مابین ایک ترکیبی اضافت (Sunthetic Relation) قائم کی جاتی ہے۔ مرکب یا مخلوط قدری تصدیقات کی مثالیں یہ دی جا سکتی ہیں۔ 1۔ کوئی فعل فرض کا درجہ نہیں رکھ سکتا جب تک کہ یہ طبعی طور پر ممکن نہ ہو۔ 2۔ کوئی صورت حال اچھی یا بری نہیں کہلا سکتی جب تک کہ اس میں کوئی شعوری کیفیت شامل نہ ہو۔ 3۔ کسی شے کی اچھائی کا دارومدار اس مقدار لذت پر ہے جو کہ یہ پیدا کرے۔ پہلی مثال میں اس ترکیبی اضافت کو بیان کیا گیا ہے جو کہ فرض اور اس کے ممکن العمل ہونے کے مابین ہے۔ دوسری مثال میں قدر اور شعور اور۔۔۔ تیسری مثال میں قدر اور لذت کے مابین ترکیبی اضافت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلی درست ہے دوسرا احتمالی (Probable) ہے اور۔۔۔۔ تیسری غلط ہے: اصل نکتہ یہ ہے کہ ایک مخلوط مرکب اخلاقیاتی دلیل درست ہو سکتی ہے اگر اس کے قضا یا درست ہوں اگر ہم اس اصول کا اطلاق کانٹ کے مشہور استدلال برائے آزادی پر کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دو قضیوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ یہ استدلال یوں ہو گا: الف۔ ہر انسان کو اپنا فرض ضرور سر انجام دینا چاہیے۔ ب۔ کوئی انسان اس وقت تک اپنا فرض انجام نہیں دے سکتا جب تک کہ وہ آزادی سے بہرہ ور نہ ہو۔ ج۔ اس لیے انسان آزاد ہے اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کانٹ نے مخلوط اخلاقیاتی قضا یا (Mixed Ethical Premisses) سے جو واقعاتی تصدیق (Factual judgement) مستنبط کی ہے وہ درست ہے! اب ہم اس اصول کا اطلاق انسانی روح کے بقائے دوام کے بارے میں اخلاقیاتی دلیل پر کرتے ہیں۔ ایسے دلائل دو ہیں: پہلی دلیل کی بنیاد فرض ہے۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اگر نوع انسانی بالآخر معدوم ہو جائے گی اور اگر خود انسانی شخصیت فانی ہے تو بہت سے ایسے اعمال جو بصورت دیگر فرائض میں شمار ہوتے ہیں، فرائض نہیں رہیں گے۔ اسی طرح وہ اعمال جو انسان کے لافانی ہونے کے ناتے ناجائز سمجھتے جاتے ہیں، جائز ہو جائیں گے۔ اگر بقائے دوام کو تسلیم کر لیا جائے تو انسان کے لیے وہ اخلاقی ضابطہ درست ہو گا جس کی تبلیغ دنیا کے تقریباً تمام بڑے مذاہب کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر یہ سمجھا جائے کہ انسان کی زندگی کا فسانہ اس کی موت پر تمام ہو جائے گا تو پھر بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست والا مقولہ بہترین لائحہ عمل قرار پائے گا۔ اب چونکہ ’’ بابر بہ عیش کوش‘‘ والا لائحہ عمل غیر معقول اور عقل سلیم کے لیے ناقابل قبول ہے اس لیے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان لافانی ہے۔ مندرجہ بالا نتیجہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اگر ہم بقائے دوام کے مفروضے کا انکار بھی کر دیں تو پتہ نہیں چلتا کہ کونسے اعمال فرائض ہیں اور کونسے فرائض نہیں کسی آدمی کو راست بازی اختیار کرنے کے لیے یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا یا نہیں۔ اسی طرح انسان کو ظلم اور معصیت سے اپنا دامن بچانا چاہیے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ زندگی دائمی ہو یا عارضی! بابر بہ عیش کوش والا ایبقوری ( Epicurean) اصول ناقص اور غیر موثر ہے جبکہ عالمی مذاہب کی دی ہوئی اخلاقی تعلیمات قابل ستائش ہیں۔ کیونکہ یہ فی نفسہ خیر ہیں۔ وقت اور مدت کا سوال غیر متعلق ہے۔ خیر خیر ہے، خواہ زندگی فانی ہو یا ابدی! انسان کا فانی ہونا اس کے اخلاقی لائحہ عمل پر اثر انداز نہیں ہوتا، میرا یہ عقیدہ کہ میں ہمیشہ زندہ نہیں رہوں گا، اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا کہ بعض ذہنی کیفیات بعض دوسری ذہنی کیفیات سے بہتر ہوتی ہیں۔ مثلاً موسیقی سے لطف اندوز ہونا، کسی دوسرے کو اذیت میں دیکھ کر خوش ہونے سے بہتر ہے۔ انسان کا فانی ہونا یا بقائے دوام کا اہل ہونا، پیمانہ اقدار کو تبدیل نہیں کرتا۔ دوسری دلیل یہ ہے بقائے دوام کے مفروضے کو اخلاقیاتی بنیادوں پر ثابت کرنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ اگرچہ فنا یا بقا کا سوال اس پیمانہ اقدار پر اثر انداز نہیں ہوتا، جسے ہم نے اپنایا ہوا ہے، تاہم ایک عارضی زندگی میں مقدار قدر (Amount of Value) بمقابلہ حیات جاوداں کی مقدار قدر کے انتہائی قلیل ہو گی بالفاظ دیگر اگر بقائے دوام کا مفروضہ درست نہیں تو یہ دنیا انتہائی پست اور کمتر درجے کی ہو گی مگر یہ دلیل بھی تسلی بخش نہیں۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ بقائے دوام کے بغیر یہ دنیا کمتر اور ادھوری رہے گی تو یہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انسان لازماً بقائے دوام کا اہل ہے کیونکہ اس استدلال میں ایک اضافہ قضیہ کی ضرورت ہو گی۔۔۔۔۔ یعنی کہ ’’ یہ دنیا بہت بری جگہ نہیں ہے‘‘ اس قضیہ کو آزادانہ طور پر قائم کرنا پڑے گا تاکہ بقائے دوام کی دلیل جس کا اس پر انحصار ہے۔ درست ثابت ہو۔ یہ دعویٰ کہ دنیا بری جگہ نہیں ہے عقل کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ عقلی طور پر اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ بنی نوع انسان کے ماضی کے تجربات، حال کے تجربات اور مستقبل کے تمام تجربات کو بنیاد بنایا جائے جو کہ ایک نا ممکن امر ہے۔ اس لیے عقل کی بنیاد پر یہ طے نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں ایک اچھی جگہ ہے یا بری جگہ ہے! عقل کی نارسائی کے باعث بنی نوع انسان کی بھاری اکثریت مذہبی راہنمائی کی طرف رجوع کرتی ہے۔ چند ایک مذاہب کو چھوڑ کر دنیا کے تقریباً تمام بڑے مذاہب میں روح کے بقائے دوام کا نظریہ پایا جاتا ہے لیکن مذہبی عقیدہ فلسفی کے ذہن کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ فلسفی کا ذہن ہمیشہ دلیل اور شہادت کا طالب رہتا ہے۔ خوش قسمتی سے ماورائی نفسیات نے تجربہ گاہ کے اندر اور تجربہ گاہ کے باہر بہت سے تجربات پیش کیے ہیں جن سے روح کے بقائے دوام کے بارے میں شہادتیں فراہم کرتی ہیں۔ 27؎ 7 بقائے دوام کے مسئلہ سے تعرض کرتے ہوئے ڈیوڈ ہیوم نے اپنی مشہور تصنیف ’’ روح کے بقائے دوام پر مقالہ‘‘ لکھا ہے۔ ’’ صرف عقل کی روشنی سے بقائے دوام کو ثابت کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے اس کے بارے میں جو دلائل دئیے جاتے ہیں وہ عموماً ما بعد الطبیعیاتی یا اخلاقیاتی یا طبعی موضوعات سے اخذ کئے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن حیات اور بقائے دوام پر صرف اور صرف انجیل ہی (اس لیے کوئی بھی آسمانی کتاب) روشنی ڈال سکتی ہے۔ 28؎‘‘ لیکن جیسے کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں فلسفی کا ذہن مذہبی عقیدہ سے مطمئن نہیں ہوتا۔ وہ ثبوت اور شہادت کی تلاش جاری رکھتا ہے۔ اکثر فلسفی ما بعد الطبیعیاتی یا اخلاقیاتی دلائل کو ناکافی قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے سی ڈی براڈ اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ صرف تجربی دلائل کو ہی بقائے دوام اور حیات بعد الموت کے بارے میں در خور اعتنا سمجھتا ہے 29؎ علوم روحانی کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ مردہ لوگوں کی ارواح سے زندہ لوگ رابطہ قائم کر سکتے ہیں اور اس امر کی تصدیق کئی طرح سے کی جا سکتی ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ماہرین روحانیت کے اس دعویٰ کی باقاعدہ سائنسی جانچ پڑتال کی گئی۔ 1882ء میں لندن میں ’’ نفسی تحقیق کی سوسائٹی ‘‘ (Society for physical Research) کا قیام عمل میں آیا۔ اس سوسائٹی کی صدارت کے فرائض کئی مشہور مفکرین سر انجام دیتے رہے۔ ان میں ہنری برگساں، ولیم جیمزز ہنری سجو، ایف سی ایس شبلر سی ڈی براڈ ایچ ایچ پرائس، ولیم میکڈوگل، گارڈ نر مرفی، سر ولیم کروکس، سر ولیم بیروٹ اور لارڈ ریلے کا نام قابل ذکر ہیں۔ ان ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ اس سوسائٹی کی سربراہی نہ صرف فلسفیوں بلکہ ماہرین نفسیات اور ماہرین طبیعات کے ہاتھوں میں بھی رہی ہے۔ روحانی اور نفسی تحقیقات سوسائٹی کے نام ’’ ساٹیکیکل ریسرچ‘‘ کے حوالے سے پیش کی جاتی ہیں جبکہ امریکہ میں ایسی تحقیقات کو ماروائی نفسیات (Parapsychology) کے نام کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ 30؎ ہر برٹ بی گرین ہاؤس (Herbert B. green house) کے بقول بقائے دوام اور حیات بعد الموت کی شہادتیں بذریعہ معمول (Mediun) مورتوں اور روحوں سے ملاقات، مردہ لوگوں کی ارواح کی طلبی یا ظہور (Apparition) آسمانی موسیقی، غیر جسمی آوازوں، قریب المرگ مشاہدات، روح کے جسم سے پرواز کرنے کے منظر کو دیکھنے، بیرون جسمی تجربہ (Out of body experiance) غیر ارادی تحریر (Automatic Writing) جس میں رفتگاں کے پیغامات ہوتے ہیں او رمختلف اشخاص کے اندر بد روحوں کو حلوں کر جانے سے حاصل کی گئی ہیں۔ 31؎ ماورائی نفسیات کے دائرۂ عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک ورائے حس ادراک (Extra sensory pereceptionیا ESP) اور دوسرے روحی حرکت یا حرکت بہ عمل روح (Psycho Kinesisیا PK) ’’ Espسے انسان اپنے ارد گرد کی دنیا کے واقعات کا علم بغیر کسی مادی واسطے کے حاصل کر سکتا ہے جبکہ pkکی بدولت وہ اپنے طبعی ماحول پر اپنے جسمانی حرکی نظام اور دیگر اعضا کے بغیر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہ نفسی تجربے کی دو نمایاں اقسام ہیں جو کہ ماورائی نفسیات کے تمام دائرۂ کار کی تشکیل کرتی ہیں۔ 32؎‘‘ ورائے حس ادراک میں اشراق یا خیال رسانی (Telepathy) غیب بینی یا روشن ضمیری (clarivayance) اور قبل وقوف (Prevognithion) وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے حرکت بہ عمل روحpkکے ذریعے سے نہ صرف مادی ماحول پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے بلکہ ارواح کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ماورائی نفسیات کی تحقیقات بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر حیات بعد الموت کا اثبات کرتی ہیں: ’’ اگر ٹیلی پیتھی اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہے کہ ا فکار ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک بغیر کسی مادی رابطے کے پہنچ سکتے ہیں تو اس سے اس بات کا امکان بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ زندہ لوگوں اور رفتگان کے مابین رابطہ قائم ہو جائے، کیونکہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مرنے کے بعد شعور کسی نہ کسی صورت میں موجود رہتا ہے تو اس کا رابطہ ا س دنیا کے لوگوں سے صرف ٹیلی پیتھی کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ 32؎‘‘ یہ بات بھی مختلف تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مرنے کے بعد کسی شخص کا شعور اپنی تمامتر خصوصیات کے ساتھ قائم رہتا ہے 34؎ اور یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ مرنے کے بعد بعض لوگوں نے اپنے پسماندگان کو ایسی معلومات فراہم کیں جن کا علم صرف انہی کو تھا۔ 35؎ یہاں ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ہم espیا pk کے مختلف واقعات کو قلمبند کر کے ان کا تجزیہ پیش کر سکیں۔ تاہم چند ایک واقعات کا مختصراً ذکر یقینا دلچسپی کا باعث ہو گا اور زیر بحث موضوع کی بھی کسی حد تک وضاحت ہو جائے گی۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر جو اب وفات پا چکے ہیں، ایک مرتبہ امریکہ گئے۔ چونکہ وہ خود ایک سائنسدان تھے اس لیے ان کے اندر مختلف حقائق کو جاننے اور پرکھنے کا رحجان فطری طور پر موجود تھا۔ اسی رحجان کے تحت وہ ایک ماہر ماورائی نفسیات کی مجلس حاضرات میں گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے کہا کہ انہیں ان کے اعزہ و اقارب کی خیریت سے مطلع کیا جائے جنہیں کہ وہ لاہور میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ چنانچہ ایک معمول کے توسط سے ان کے عزیزوں کے ساتھ خیال رسانی کا رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ معمول نے فوراً رپورٹ دی کہ ان کی ماں کی روح رابطہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ وائس چانسلر مذکور نے جب یہ سنا تو وہ مضطرب ہو گئے کیونکہ وہ اپنی والدہ کو گھر بخیریت چھوڑ کر آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے معمول کو کہا کہ وہ غلط رپورٹ دے رہا ہے کیونکہ وہ اپنی والدہ کو زندہ و سلامت چھوڑ کر آئے تھے۔ ان کی (والدہ کی) روح یہاں رابطے کے لیے کیونکر آ سکتی ہے مگر معمول کا یہ پر زور اصرار تھا کہ ان کی والدہ کی روح ہی رابطے کے لیے حاضر ہوئی ہے۔ وائس چانسلر نے معمول سے کہا کہ وہ روح سے رابطہ قائم کر کے انہیں صحیح صورتحال سے آگاہ کرے۔ چنانچہ جب معمول نے روح سے رابطہ قائم کر کے وائس چانسلر کے حوالے سے استفسار کیا تو روح نے کہا کہ وائس چانسلر سے پوچھا جائے کہ کیا ان کی کوئی خالہ بھی تھیں جنہیں وہ محبت و عقیدت سے ’’ ماں‘‘ کہہ کے پکارتے تھے اور جن کی روح کو ایصال ثواب کے لیے چھ ماہ قبل انہوں نے فاتحہ خوانی کروائی تھی؟ وائس چانسلر نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ ان کی ایک خالہ تھیں جنہیں وہ ماں کا درجہ دیتے تھے اور جن کی روح کے ایصال ثواب کے لیے وہ اکثر فاتحہ خوانی کروایا کرتے تھے ۔ 36؎ ’’ سوسائٹی آف ساٹیکیکل ریسرچ‘‘ نے ورائے احساس ادراک، خیال رسانی حرکت بہ عمل روح اور طلبی ارواح پر متعدد و تحقیقات اور رپورٹوں کو باقاعدہ مدون کر کے شائع کیا ہے۔ ان میں سے ایک پادری کی رپورٹ (Proceding of S.P.R) vol vi page 33 درج ذیل ہے: جولائی 1838ء میں ایڈن برگ سے روانہ ہو کر میں پرتھ شائر پہنچا تاکہ وہاں کے چرچ کا چارج لے سکوں وہاں میرے پاس پریسبیٹرین ’’ Presbyterain‘‘ فرقہ مسیحیت سے تعلق رکھنے والی ایک عورت این سمپسن آئی۔ یہ عورت آٹھ دس روز سے کسی پادری سے ملنے کے لیے انتہائی مضطرب تھی۔ا س عورت نے بتایا کہ ایک مالوائے نامی عورت جس سے اس کی تھوڑی سے شناسائی تھی اور جو کچھ دیر پہلے وفات پا چکی تھی کئی راتوں سے اسے خواب میں مل رہی ہے اور اسے کسی پادری سے ملنے کی درخواست کر رہی ہے تاکہ پادری اس کی طرف سے تین پونڈ دس پنس کی رقم کسی ایسے شخص کو ادا کر دے جس کی وضاحت خواب میں نہیں ہو سکی۔ میں نے پوچھ گچھ شروع کی تو پتہ چلا کہ ایک عورت مالوائے نامی بطور دھوبن قصبے میں کام کرتی تھی، کچھ عرصہ پہلے وفات پا چکی ہے مالوائے کا ایک پنساری سے لین دین تھا۔ پنساری سے جب پوچھا گیا کہ آیا وہ مالوائے نامی کسی عورت سے واقف ہے جو کہ اس کی مقروض ہو تو اس نے اثبات میں جواب دیا اور اپنے بہی کھاتے دیکھنے کے بعد کہا کہ مالوائے نے اس کے تین پونڈ دس پنس دینے تھے۔ میں نے وہ رقم ادا کر دی۔ بعد ازاں این سپمسن میرے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ اب خواب میں مالوائے اس سے نہیں ملتی۔ 37؎ خیال رسانی یا ٹیلی پیتھی کی کئی قسمیں ہیں مردہ آدمی کسی زندہ انسان کو خواب میں مل کر کچھ کہہ سکتا ہے یا اس کی شبیہہ کا ظہور (Apparition) ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے معمول کے توسط سے اس کی آواز سنائی دے۔ 38؎ بعض حالات میں ٹیلی پیتھی کے لیے دو افراد کے مابین قریبی ذہنی اور جذباتی رشتہ ہونا ضروری ہے لیکن بعض حالات میں یہ ضروری نہیں۔۔۔۔ بلکہ بعض اوقات مستقبل میں ہونے والا واقعہ خواب یا تخیل کی صورت میں کوئی قطعی غیر متعلق شخص دیکھ سکتا ہے۔ ایک عورت کی مثال عموماً خیال رسانی اور قبل وقوف کی بحث میں دی جاتی ہے۔ اس عورت نے جھیل کے کنارے بیٹھے ہوئے ایک آدمی کی شبیہہ دیکھی جو جھیل کی طرف اندھا دھند بھاگتا آ رہا تھا حتیٰ کہ وہ اس میں کود گیا۔ چند ہی دن میں ایک آدمی نے اسی جھیل میں بعینہ اسی طرح کود کر خود کشی کر لی۔ اس واقعے کی تشریح یوں کی جا سکتی ہے کہ جس وقت وہ شخص خود کشی کے ممکنہ طریقوں پر غور کر رہا ہو گا، اس کی ذہنی لہریں اس عورت کے ذہن سے ٹکرا گئی ہوں گی ٹیلی پیتھی کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں کے ذہن ایک دوسرے سے جدا اور منفعل ہیں۔ لیکن یہ جدائی اور انفعال صرف شعوری اور تخت الشعوری سطح تک ہے لیکن لاشعور کی گہرائیوں میں تماما ذہان ایک دوسرے پر اثر انداز اور ایک دوسرے سے اثر پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔ ٹیلی پیتھی لاشعور کے اعماق میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ایک دوسرے نظریے کی رو سے ٹیلی پیتھی میں یہ نہیں ہوتا کہ کوئی خیال کسی شخص کے ذہن سے خارج ہو کر دوسرے کے ذہن تک پہنچتا ہے بلکہ ہر خیال اپنی ایک لاشعوری باز گشت پیدا کرتا ہے جو کہ دوسرے شخص کے ذہن سے ٹکراتی ہے۔ 40؎ ماورائی نفسیات یا سائیکیکل ریسرچ سوسائٹی کی تحقیقات کے بارے میں اگرچہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہیں سائنسی حقائق کا درجہ حاصل ہے، تاہم ابھی یہ اس قابل نہیں ہوئیں کہ دوسری دنیا کی اطلاعات پورے یقین، وثوق اور ثبوت کے ساتھ فراہم کر سکیں۔ مستقبل میں ورائے حس ادراک کونسے نئے آفاق دریافت کرتا ہے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔۔۔۔ مافوق الفطرت واقعات دنیا کے تمام مذہبوں میں پائے جاتے ہیں۔ اگر ورائے حس ادراک کی تحقیقات سائنسی درجہ حاصل کر بھی لیں تو اس سے یہی ہو گا کہ پہلے سے موجود مذہبی عقائد کی تصدیق ہو جائے گی۔ اسی صورت حال میں ہیوم کی بات ہی درست ہو گی کہ روح کے بقائے دوام پر صرف مذہبی عقیدہ ہی روشنی ڈال سکتا ہے۔ ٭٭٭ دوسرا باب حواشی 1. Dictionary of Philosophy ed. Dagobart Runes, 4thed. Philisophical Library, New York 1942p.142 2. Kant, Critique of pure reason, bk 22 ch. 4 (cf. john watson, selections from kant glasgow 1897.p.204 اصل متن یوں ہے: ’’ The immortality of the soul means the Infinety prolonged existence and personality of one and the same rational being.‘‘ 3. Bertrand Ressell History of western Philosophy p.36 قدیم مصر میں حیات بعد الموت کے نظریے پر تفصیلی مطالعہ کے لیے مندرجہ ذیل کتاب دیکھیے: religion and the future life by sneath p. 27 chapter ancient egyption ideas of the life hereafter. 4۔ پلسز کا یہ حوالہ جیک کورون کی کتاب سے دیا گیا ہے۔ دیکھیے: Death and weastern thought p.35 5۔ دیکھئے Encyclopedia Religion & Ethics vol. v p. 172 6۔مزید تشریح کے لیے دیکھیے: C.J.Ducasse, nature, mind & Death p.447 7۔ اینٹنی فیلو نے یہ بات اپنی کتاب Body, mind & Death macmillan 1964کے صفحہ12 پر لکھی ہے اور اس کا حوالہ مندرجہ ذیل کتاب سے لیا گیا ہے: Paul and Linda badham, Innortality or Extinction? p.2 8۔ ایضاً ص3 9۔ ایضاً ص4 10. Wittgenstein, tractutus logico Philosophicus p. 32 11. Russel, why i am not a christian p.72 12۔ ایضاً ص71-70اصل متن یوں ہے: ’’ We think and teel and act, but there is not, in addition to thoughts and feelings and actions, a bare entity, the mind or the soul, which does of suffers these occerrances. the mental continuty of a person is a continuty of habit and memory. there was yesterday one person whose feelings i can remember, and that person i regard as my self as yesterday but in fact, my self of yesterday was only certain mental occurances which are now remembered, and are regarded as part of the person who now recollects them. all that constitites a person is a series of experciences concerted by memory and certain similarities of the sort we call habit. if terefore, we are to belive that the memories and habit which conctude the person will continue to be expihited in a new set of occerances.‘‘ 13۔ ایضاً ص72-71 14۔ ایضاً ص74-73 15. c.d. Brod, the Mind and its Plave in nature, p. 526, 527 16 پالسن کا یہ حوالہ مندرجہ ذیل کتاب سے لیا گیا ہے: C.j. decasse nature mind and death. p.453 17۔ ایضاً ص457اصل متن یوں ہے: The converse theory which might be called hypophenomentism and which is pretty well that of schopenhauer, is that the instruments which the various mechanism of the body constitude are the objective products of obscure cravings for corresponding powers and in particular, that the orginazition of the nervous system is the effect and material isomoprh of the variety of mental functions exercised at a given level of animal or human existence. 18. C.D. broad, the mind and its place in nature p.527 19۔ نفسیات اور عضویات شعور کی ماہیت کو میکانکی اسلوب پر سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: Encyclopaedia of religion and ethics vol. vi immortality p.176 اصل متن یوں ہے: And when a special science limits itself to the exclusive study of a real and important feature things, then for the purposes of that special science this feature of things is puntamental. 20. C.D. board, mind and as place in nature p. 481 21. john hick, philosophy of religion p. 97 22. R.s Bluck, Plato phaedo (Eng. trans) e 85. C91. 23۔ ارسطو، ڈی اینما (De anima) اے 402 24. Encyclopedia of philosphy vol iv p. 144 25. Aristole De. Anima A 430 26. C.D Broad the mind and its place in nature p. 485 27۔ انسانی روح کے بقائے دوام کے بارے میں اخلاقیاتی دلیل کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے دیکھئے: 1. C.D broad the mind its place in nature ch. xi p. 487 2. A. E tlaylor. the faith of a moralist in two volumes. 28. hume essay on the immonatality of the soul. اصل متن یوں ہے: By the mere light of reason, it seems difficult to prove the Imontality of the soul. the agruments for it are commonly derived. from metaphysical topics, or moral, or physcial but. in reality it is the Gospel and the gospel alone that has brought life and immortality to light. 29. C.D Broad, mind and its Place in nature P. 486 30. john hick philosphy of religion p.p. 102-3 31. H.B. Greenhouse the book of psychic knowledge gorgi books a division of transworld publishers limited. 1975 p.198 32. encyclopedia of the unexplained P. 178 33. Paul and Linda Bandham, Extinction or Immortality p.92 34ایضاً 35 ایضاً ص93 36. prof . dr. c. a. qadir. we are born to die and we die to be born this article was published in the daily pakistan times huly 10, 1983 37۔ ساٹیکیکل ریسرچ سوسائٹی کی کارروائیوں میں سے یہ رپورٹ مندرجہ ذیل کتاب میں سے لی گئی ہے۔ اس کتاب میں اس طرح کی متعدد رپورٹیں اور تجزیے شامل ہیں۔ Geraldine cummins mind in life and death p. 69 38. john hick, Phillosophy of religion p. 105 39ایضاً ص106 40. ایضاً ص104 ٭٭٭ تیسرا باب فکر اقبال کی عمومی ساخت ہر بڑے فلسفی کا ایک اپنا مخصوص طریق کار ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنے نظام فکر کا تانا بانا بنتا ہے۔ سقراط کا اپنا ایک طریق کار تھا جس کی بنا پر تحصیل علم کے بارے میں اس نے گراں قدر تحقیقات کیں اور پھر اس کے علمیاتی اصول اس کی اخلاقیات کی اساس بن گئے۔ افلاطون نے استخراجی طریق کار کو اہمیت دی جبکہ ارسطو نے استخراج کے ساتھ ساتھ استقراء کو بھی پوری اہمیت دی۔۔۔۔ ڈیکارٹ نے تشکیک کا طریق کار اپنایا۔۔۔۔۔ اسپنوزرا نے اپنے طریق کار کو علم ہندسہ کے اصول پر وضع کیا۔۔۔۔۔ لاک اور دیگر تجربیت پسندوں نے تجربی طریق کار کی بنیاد رکھی۔۔۔۔ کانٹ نے اپنا ایک مخصوص ماورائی طریق کا روضع کیا۔۔۔۔۔ اسی طرح ہیکل نے جدلیاتی طریق کار کو دنیائے فکر میں متعارف کرایا۔ ان تمام فلسفیوں میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ ان طریقہ ہائے کار میں عقل و فکر کو کسی نہ کسی طرح اپنایا گیا ہے تاہم کچھ فلسفی ایسے بھی ہیں جو حقیقت مطلقہ کی کنہ تک پہنچنے کے لیے عقل اور منطقی فکر کا سہارا نہیں لیتے۔۔۔۔۔ بلکہ ایک یکسر غیر عقلی اور غیر منطقانہ ذریعہ علم کو اپناتے ہیں۔ یہ ذریعہ علم وجدان ہے۔ چنانچہ ان کا طریق کار وجدانی طریق کار کہلاتا ہے۔ ایسے فلسفیوں میں برگساں (Bergson) کا نام سرفہرست ہے۔ اقبال اگرچہ اس روایت سے تعلق رکھتا ہے تاہم اس کا خیال ہے کہ عقل کسی حد تک ہماری راہنمائی کر سکتی ہے حواس اور عقل دونوں وجدان کے مددگار ہیں لیکن حقیقت مطلقہ تک رسائی صرف وجدان کی ہے۔ فلسفہ جدید میں کانٹ (Kant) وہ فلسفی ہے جس نے قطعیت کے ساتھ یہ کہا کہ عقل انسانی حقیقت مطلقہ تک کبھی رسائی حاصل نہیں کر سکتی۔ منطقی فکر جن معقولات اور تصورات سے تشکیل پاتا ہے وہ سرا سر موضوعی ہوتے ہیں۔ خارجی دنیا سے اٹھنے والے تحسسات ذہن کے ماورائی سانچے میں ڈھل کر جس علم کا تانا بانا بنتے ہیں وہ قطعی طور پر موضوعی ہوتا ہے؟ چنانچہ تمام عقلی علوم ذہن انسانی کے ماورائی اور قبل تجربی ڈھانچوں سے مشروط ہیں۔ حقیقت فی نفسہ کیا ہے؟ اس کا علم حاصل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جہاں کہیں اور جب کبھی ذہن کے معقولات کو بروئے کار لایا جائے گا۔ اس سے موضوعی علم ہی حاصل ہو گا۔ موضوعیت کے اس حصار سے نکل کر یہ نہیں جانا جا سکتا کہ خود حقیقت کی ماہیت کیا ہے۔ چنانچہ کانٹ نے قطعی اور حتمی طور پر اس بات کا انکار کر دیا کہ عقل انسانی حقیقت مطلقہ تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ کانٹ سے صدیوں پہلے الغزالیؒ بھی تشکیک و تذ بدت کے صحرا کی طویل آبلہ پائی کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے تھے کہ عقل، حقیقت تک راہنمائی نہیں کر سکتی لیکن الغزالیؒ کانٹ کی طرح عقل کی نارسائی کا نتیجہ اخذ کر کے مطمئن نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کے لیے عقل سے بالاتر کسی ذریعہ علم کو تلاش کیا او ربالآخر وجدان یا صوفیانہ واردات میں اپنے مسئلے کا حل تلاش کیا۔ اقبال کانٹ اور الغزالی کا موازنہ یوں کرتا ہے: ’’ ۔۔۔۔ غزالی کی دعوت میں ایک پیغمبرانہ شان پائی جاتی تھی۔ چکھ یہی حیثیت اٹھارہویں صدی میں کانٹ کو جرمنی میں حاصل ہوئی۔ جرمنی میں بھی اس وقت عقلیت کو مذہب کا حلیف تصور کیا جاتا تھا لیکن پھر تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ عقائد کا اثبات از روئے عقل نا ممکن ہے تو اہل جرمنی کے لیے بجز اس کے کوئی چارہ کار نہ رہا کہ عقائد کے حصے کو مذہب سے خارج کر دیں مگر عقائد کے ترک سے اخلاق نے افادیت پسندی کا رنگ اختیار کیا اور اس طرح عقلیت ہی کے زیر اثر بے دینی کا دور دورہ عام ہو گیا۔ یہ حالت تھی مذہبی غور و فکر کی جب کانٹ کا ظہور جرمنی میں ہوا اور جب اس کی ’’ تنقید عقل محض‘‘ سے عقل انسنای کی حدود واضح ہو گئیں تو حامیان عقلیت کا وہ ساختہ پرواختہ طومار جو انہوں نے مذہب کے حق میں تیار کر رکھا تھا، ایک مجموعہ باطل ہو کر رہ گیا۔ لہٰذا ٹھیک کہا گیا ہے کہ کانٹ ہی کی ذات وہ سب سے بڑا عطیہ ہے جو خدا نے جرمنی کو عطا کیا۔ تقریباً یہی نتیجہ غزالی کے فلسفیانہ تشکک سے دنیائے اسلام میں مرتب ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ امام موصوف اپنے اس تشکک میں کسی قدر آگے بڑھ گئے تھے۔ غزالی نے بھی اس بلند بانگ مگر بے روح عقلیت کا زور ہمیشہ کے لیے توڑ دیا تھا جس کا رحجان ٹھیک اسی جانب تھا جس طرح کانٹ سے پہلے جرمنی میں لیکن کانٹ اور غزالی کے درمیان ایک بڑا اہم فرق یہ ہے کہ کانٹ نے اپنے اصول و کلیات کا ساتھ دیتے ہوئے یہ تسلیم نہیں کیا کہ ذات الٰہی کا ادراک ممکن ہے برعکس اس کے غزالی نے فکر تحلیلی سے مایوس ہو کر صوفیانہ واردات کا رخ کیا اور یہ رائے قائم کی کہ ان کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے لیکن جس کا مطلب گویا یہ تھا کہ مذہب کو سائنس اور ما بعد الطبیعیات سے الگ رہتے ہوئے بھی اپنا آزاد اور مستقل وجود برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ امام موصوف نے ’’ مجموعی لامتناہی‘‘ (یا حقیقت من حیث الکل) کا مشاہدہ چونکہ صوفیانہ واردات میں کیا تھا، اس لیے انہیں یقین ہو گیا تھا کہ فکر متناہی بھی ہے اور نارسا بھی! لہٰذا انہیں فکر اور وجدان کے درمیان ایک خط فاضل کھینچنا پڑا1؎‘‘ اقبال، غزالی اور کانٹ کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتا ہے اور بقول رابرٹ و ہٹمور اقبال کے فلسفہ کی تہ میں یہ ’’ وجودی ایقان‘‘ کار فرما ہے کہ حقیقت مطلقہ کا اظہار سائنساور عقل کے ذریعے نا ممکن ہے 2؎ یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اقبال علوم عقلی کی مخالفت کرتا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ عقل اپنی مخصوص ساخت کے حوالے سے اس قابل نہیں کہ وہ حقیقت کا ادراک کر سکے۔ کانٹ کی وہ اس حد تک تو تائید کرتا ہے کہ زمان و مکاں کی حیثیت موضوعی ہے اور عام تجربے کے ذریعے سے ہم حقیقت مطلقہ تک نہیں پہنچ سکتے لیکن کانٹ جس لا اوریت (Agnosticism) کا شکار ہے اسے اقبال تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک تجربے کے عام درجے سے بالاتر اور درجے بھی ہیں اور مراتب ہستی کے تغیرات کے ساتھ ساتھ زمان و مکاں کی نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے، حتیٰ کہ ایک ایسا درجہ بھی آ سکتا ہے جہاں نہ زمان ہو نہ مکان3؎ اس کی مثال اس طرح ہے کہ آپ کسی شخص کو ایک ایسے مکان کے اندر اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جائیں جس سے وہ کسی حد تک آشنا ہو اب اس سے کہیں کہ وہ خارجی دروازے سے باہر نکلے۔ وہ مختلف کمروں اور راہداریوں سے ٹٹولتا ہوا دروازہ تلاش کرنے کی کوشش کرے گا۔ ٹٹولنے سے اگرچہ اس کی راہنمائی ہو گی لیکن اصل راہنمائی اس کا وہ تصور کرے گا جو اس مکان کے بارے میں اس کے ذہن میں ہے۔ یہ تصور وجدان کی طرح ہے اور ٹٹولنا حسی ادراک یا عقلی تجزیہ کی طرح ہے۔ چنانچہ عقل و تجربہ وجدان کی مدد تو ضرور کرتے ہیں لیکن حقیقت مطلقہ کی بارگاہ تک ان کی رسائی نہیں، وہاں صرف وجدان پہنچ سکتا ہے۔ عراقی نے مسئلہ مکان سے جس طرح تعرض کیا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کہتا ہے کہ مکاں کے تین مراتب ہوتے ہیں: اولاً مادی اجسام کا مکان ثانیاً غیر مادی اجسام کا مکان اور ثالثاً خدا کا مکان اور روشنی یا نور کا مکان! بڑے بڑے اجسام جگہ گھیرتے ہیں اور ان کے مکان کی نوعیت لطیف اجسام کے مکان کی نوعیت سے مختلف ہے۔ بڑے بڑے اجسام کے مکان میں ہم وسعت اور پہنائی کا اثبات کرتے ہیں اور اس میں حرکت کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مکان میں ہر جسم کی اپنی ایک جگہ ہوتی ہے جسے اگر کسی دوسری جگہ منتقل کیا جائے تو بمزاحمت ہی ہو گا۔ اس کے بعد لطیف اجسام کا مکان ہے مثلاً ہوا اور آواز کا جس میں پھر اجسام ایک دوسرے کے مزاحم تو ہوتے ہیں اور ان کی حرکت کا حساب بھی وقت سے ہی کیا جاتا ہے لیکن ان میں اور ٹھوس اجسام کے وقت میں فرق ہے۔ جب تک ہم کسی ملکی سے اس کے اندر کی ہوا نکال نہیں لیتے، اس میں دوسری ہوا داخل نہیں ہو سکتی۔ امواج صوت کو دیکھیے تو مادی اجسام کے وقت کے مقابلے میں ان کے وقت کی عملاً کوئی حقیقت نہیں۔ آخر الامر نور یا روشنی کا مکان ہے۔ سورج کی روشنی تو دیکھتے ہی دیکھتے ربع مسکون میں پھیل جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ نور اور صورت کی رفتار میں وقت کی مقدار صفر سے آگے نہیں بڑھتی۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نور کا مکان ہوا اور صورت کے مکان سے مختلف ہے، جس کا ایک دوسرا اور بڑا واضح ثبوت یہ ہے کہ چراغ کی روشنی باوجود ہوا کی موجودگی کے سارے کمرے میں پھیل جاتی ہے۔ یعنی نور کا ماکن ہوا کے مکان سے کہیں زیادہ لطیف ہے کیونکہ اس مکان کا داخلہ نور کے مکان میں ممکن نہیں4؎ مادی اجسام کے بعد غیر مادی ہستیوں مثلاً ارواح او رملائکہ وغیرہ کا مکان ہوتا ہے ان ہستیوں کے لیے اگرچہ یہ ممکن ہے کہ سنگ وخشت سے گذر جائیں۔ تاہم ان کی حرکت وقت یا زمان کی پابند ہوتی ہے۔ ان تمام مراتب سے گذر کر عراقی کے خیال میں مکان الٰہیہ کی نوبت آتی ہے: ’’ وہ ہر قسم کے ابعاد سے پاک ہے اور اس میں سب لا متنا ہستیں آپس میں مل جاتی ہیں۔‘‘ 5؎ اقبال عراقی کے اس تصور مکان کی تعریف کرتا ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جب ریاضی اور طبیعیات کے جدید تصورات کا ابھی کسی کو علم نہیں تھا، ایک روشن خیال صوفی نے اپنے باطنی مشاہدات کی ترجمانی کس خوبی سے کی۔ تاہم اقبا ل عراقی کے تصور سے اتفاق نہیں کرتا۔ کیونکہ: ’’ اس کا ذہن بھی ارسطو کے اس نظریے کی طرف مائل تھا کہ کائنات ایک ساکن و جامد وجود ہے‘‘ 6؎ اقبال کے نزدیک مکان ایک معروضی حقیقت نہیں۔ بعض جانداروں کا مکان یک بعدی (One dimensional) ہوتا ہے اور بعض کا دو بعدی انسانوں کا مکان ابعاد ثلاثہ پر مشتمل ہے۔ جس طرح ایک سے دو ابعاد بن جاتی ہیں اور دو سے تین اسی طرح ہم تین سے زائد ابعاد کے امکان کا انکار نہیں کر سکتے۔ عراقی کے تصور مکان کے بعد اقبال اس کے تصور زمان کا ذکر کرتا ہے۔ عراقی کے نزدیک زمان کے بھی کئی مدارج ہیں۔ مادی اجسام اور ٹھوس اشیاء کا زمان سلسلہ روز و شب سے مشروط ہے۔ جب تک ایک دن نہیں گذر جاتا اگلے دن کا آغاز نہیں ہوتا لیکن غیر مادی ہستیوں کا زمان مادی اشیا سے مختلف ہے۔ مادی اجسام کا ایک پورا سال ایک غیر مادی ہستی کے لیے ایک دن سے زائد نہیں۔ اسی طرح ذات الٰہیہ کا زمان مرور اور تسلسل سے پاک ہے خدا ادراک کے ایک غیر تسیم پذیر عمل میں تمام کائنات کے واقعات کو دیکھ اور سن سکتا ہے اس طرح ذات الٰہیہ کا زمان جس میں ماضی اور مستقبل نہیں۔۔۔۔ ایک فوق الابدا ’’ اب‘‘ ہے چنانچہ عراقی کے نزدیک مکان کی طرح زمان بھی مختلف مدارج ہستی کے حوالے سے مختلف نوعیتوں کا حامل ہے۔ ادراک کی سطح پر زمان ہمارے لیے خالصتہً مکانی ہوتا ہے۔ ہم اپنی حرکات و سکنات کو اب اور غیر اب کے حوالے سے دیکھتے ہیں ان دو اصطلاحوں کا مطلب وہی ہے جو یہاں اور غیر یہاں کا ہے۔ یعنی ہم زمان کو ایک خط مستقیم کی مثل سمجھتے ہیں جس کا کچھ حصہ ہم طے کر آئے ہیں (ماضی) اور جس کا کچھ حصہ ہمیں طے کرنا ہے (مستقبل) بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ’’ حال‘‘ کا کوئی وجود نہیں تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ حال وہ لمحہ ہے جو یا ماضی قریب میں موجود ہے یا مستقبل قریب میں لیکن اگر زمان کا داخلی اور باطنی مشاہدہ کیا جائے تو یہ ہمیں بالکل مختلف نوعیت کا محسوس ہو گا۔ اس میں ماضی کٹ کر پیچھے نہیں رہ جاتا بلکہ حال کے لمحہ میں جمع ہو کر اسے فزوں تر کرتا جاتا ہے اور مستقبل ایک پہلے سے کشیدہ خط کی مانند نہیں جس پر کہ ہمیں گامزن ہونا ہے، بلکہ یہ ایک کھلا امکان ہے اس طرح ماضی، مستقبل اور حال ایک ہی نقطے میں سمٹ آتے ہیں۔ برگساں کے الفاظ میں یہ دوران خالص ہے جس میں حرکت کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں تسلسل نہیں۔۔۔۔۔ یعنی کیفیات و تغیرات یکے بعد دیگرے نہیں آتے بلکہ ایک ہی غیر تقسیم پذیر بہاؤ کے زیرو بم کی مانند ہیں۔ اقبال نے اپنے نظریہ زمان و مکان میں آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے بہت کچھ اکتساب کیا ہے تاہم وہ اسے تسلی بخش قرار نہیں دیتا۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کے الفاظ میں: زمان اور مکان دونوں اضافی اور حقیقی ہیں لیکن ان دونوں میں سے زمان زیادہ اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ اگرچہ تمام اشیاء میں زمان و مکان دونوں موجود ہیں لیکن ان کا باہمی تعلق ایسا ہے جیسا جسم اور ذہن کا یعنی زمان ذہن ہے مکان کا۔ اس کے ساتھ ہی اقبال یہ بھی کہتے ہیں کہ آئن سٹائن کا نظریہ بحیثیت ایک سائنسی نظریے کے صرف اشیاء کی ساخت سے بحث کرتا ہے لیکن اشیاء کی ماہیت پر کوئی روشنی نہیں ڈالتا اس بات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ نظریہ اضافیت زمان کی بعض ایسی خصوصیات کو نظر انداز کر دیتا ہے جو ہم پر گذرتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ زمان کی ساری ماہیت صرف ان خصوصیات پر مشتمل ہوتی ہے جو نظریہ اضافیت میں بیان کی جاتی ہیں کیونکہ یہ نظریہ قدرت کے صرف ان پہلوؤں پر غور کرتا ہے جن پر ریاضیاتی نقطہ نظر سے بحث کی جا سکتی ہے۔ 7؎ اقبال کا خیال ہے کہ ہم عام تجربے سے ایک بالاتر تجربہ حاصل کر سکتے ہیں جسے صرف داخلی اور باطنی طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، عقل و منطق کے ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور عدیم المثال تجربہ ہے یہ نہ تو ادراک کہلا سکتا ہے اور نہ ہی تفکر یہ داخلی اور باطنی تجربہ ہے جسے وجدان کا نام دیا جاتا ہے اور جس میں تجسس اور تفکر دونوں کے نقائص کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ وجدان، حقیقت مطلقہ کا فوری تجربہ ہے۔ اس لحاظ سے وجدان کوئی پر اسرار یا مافوق الفطرت شے نہیں بلکہ جیسے تمام تجربہ فوری اور حضوری (Immediate) نوعیت کا ہوتا ہے ویسے ہی وجدان بھی فوری اور حضوری ہے تجربے کے عام درجے مثلاً حسی ادراک کا تعلق خارجی دنیا اور اس کی اشیاء سے ہے جبکہ صوفیانہ واردات یا وجدان کا تعلق خدا کی ذات سے ہوتا ہے لیکن ذات الٰہیہ کوئی ریاضیاتی نظام نہیں جس کا تجربہ سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ 2۔ وجدان کی دوسری بڑی خصوصیت اس کا ’’ غیر تجزیہ پذیر کلیت‘‘ ہونا ہے۔ عام حسی تجربہ میں انسان کو بے شمار حسی ارتسامات حاصل ہوتے ہیں لیکن ان میں سے وہ اپنی دلچسپی اور زمانی و مکانی ترتیب کے حوالے سے چند ایک کا انتخاب کرتاہے چنانچہ عقلی اور منطقی فکر جب تحسسات کے منتشر اور غیر مربوط شیرازے کو مرتب و منظم کرتا ہے تو ذہن کے مخصوص ڈھانچے اور اپنے موضوعی معقولات علم کے حوالے سے اسے مرتب و منظم کرتا ہے جب کوئی صوفی عقل کے برعکس ’’ قلب ‘‘ کا راستہ اپناتا ہے تو اس کی وجدانی واردات میں عقلی اور منطقی فکر بہت حد تک دب جاتا ہے لہٰذا تجزیہ و انتخاب کا عمل ممکن نہیں رہتا صوفیانہ تجربہ کتنا ہی گہرا اور وسیع کیوں نہ ہو صوفی اپنی مرضی اور دلچسپی کی بنا پر اس کا تجزیہ و انتخاب نہیں کر سکتا تاہم یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صوفیانہ تجزیہ کسی اور حقیقت سے متعلق ہے اور منطقی فکر کسی اور حقیقت کا مطالعہ کرتا ہے۔ حقیقت دراصل ایک ہی ہے فکر اپنی ساخت اور نوعیت کے اعتبار سے اس کو حصوں بخروں میں تقسیم کر کے اس کا جزئی، سائنسی اور منطقی انداز میں مطالعہ کرتا ہے جبکہ یہی حقیقت جب صوفیانہ واردات میں منکشف ہوتی ہے تو ایک غیر تجزیہ پذیر اکائی محسوس ہوتی ہے جس میں موضوع اور معروض کی تخصیص مٹ جاتی ہے۔ 3تیسری خصوصیت یہ ہے کہ صوفیانہ واردات میں ایک عدیم المثال ’’ وجود دیگر‘‘ (Other self) کے قرب اور معیت کا احساس ہوتا ہے عقل جو کہ موضوع اور معروض کے حوالے سے تحصیل علم کرتی ہے، ایک ایسی کیفیت کا ادراک نہیں کر سکتی جس میں صوفی انائے مطلق کا قرب حاصل کرتا ہے جس میں کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک دوسری ذات اس کی ذات پر محیط ہو گئی ہے اور اس کی اپنی ذاتی شخصیت وقتی طور پر دب گئی ہے۔ یہ کوئی موضوعیت کا سراب نہیں۔ کئی حقائق ایسے ہیں جنہیں ہم عقل کے ترازو میں نہیں تول سکتے۔ مثلاً خود ہمارا اپنا ذہن یا دوسرے لوگوں کے ذہن دوسرے لوگوں کے ذہنوں کا ہمیں براہ راست علم حاصل نہیں ہوتا بلکہ ان کا قیاس ہم اپنے ذہن پر کرتے ہیں۔ دوسرے کے ذہن کو اپنے ذہن کے حوالے سے ثابت کرنا ’’ استدلال بالتمثیل‘‘ کہلاتا ہے اقبال استدلال بالتمثیل کے حوالے سے وجود مطلق کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ کیونکہ استدلال بالتمثیل بالآخر استنباطی نوعیت کا بن جاتا۔ وجود مطلق کو جب وہ ’’ اذہان دیگراں‘‘ کے حوالے سے ثابت کرتا ہے، تو اس سے اس کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ صوفیانہ واردات عام تجربے کی طرح ہے اور اس کے متوازی ایک دوسرے وجود کا احساس ہوتا ہے، یعنی یہ موضوعی تخیل کی کرشمہ سازی نہیں۔ 4 وجدان کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ابلاغ نا ممکن ہے ۔ صوفیانہ تجربہ چونکہ ایک غیر متعین احساس سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اسے من و عن دوسروں تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ صوفی یا پیغمبر اس تجربے کی جو تشریح و تعبیر پیش کرتا ہے اسے تو قضایا کی شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے، تاہم خود اس احساس اور تجربے کا ابلاغ قطعی نا ممکن ہے۔ اگرچہ صوفیانہ تجربہ ایک احساس کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم اس کا ایک وقوفی پہلو بھی ہوتا ہے اور اقبال کے خیال میں اسی وقوفی پہلو کی وجہ سے یہ تجربہ تصور کی شکل اختیار کرتا ہے پروفیسر ہاکنگ کا حوالہ دیتے ہوئے اقبال احساس کی نوعیت پر بحث کرتا ہے کہ احساس غیر متعین اور غیر متشکل ہوتا ہے لیکن کوئی احساس بھی اندھا نہیں ہوتا اس کی ایک سمت یا رخ ضرور ہوتا ہے، سمت کے ہونے کا مطلب ہے کہ اس کا کوئی مطلوب و مقصود ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں احساس کا رخ فکر کی طرف ہوتا ہے اور فکر میں ہی یہ اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ اس لیے احساس اور فکر کے مابین وہ ایک نامی اور عضویاتی رشتہ کو تسلیم کرتا ہے۔۔۔۔ غیر واضح احساس کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنا اظہار فکر کے پیرائے میں کرے۔ رہا فکر سو وہ خود اپنے وجود میں اپنا مرئی پیکر تلاش کر لیتا ہے، لہٰذا یہ کہنا کوئی استعارہ نہیں کہ تصور اور لفظ بیک وقت احساس کے بطن سے نمودار ہوتے ہیں8؎ تصور اور لفظ کی یہی تخصیص اقبال کے بعد البطیعی فکر میں ’’ عقل اور وجدان‘‘ فکر اور قلب یا نفس فعال اور نفس بصیر کی صورت میں پیش کی گئی ہے اور اس کی شاعری میں خرد اور جنوں، عقل اور عشق، پیچ و تاب رازی اور سوز و ساز رومی جیسے استعارات کی صورت میں بیان کی گئی ہے۔ 5۔ صوفیانہ واردات میں اگرچہ صوفی کا رشتہ وقتی اور عارضی طور پر دنیا سے کٹ جاتا ہے اور اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ زمان متسلسل غیر حقیقی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ عام تجربے اور زمان متسلسل کی دنیا سے قطعی طور پر اپنا رشتہ منقطع کر لیتا ہے۔ صوفیانہ واردات کا دورانیہ نہایت مختصر ہوتا ہے، تاہم یہ معدوم ہوتے ہوئے اپنے مستند و مصدق ہونے کا نہایت گہرا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ صوفی اور پیغمبر دونوں مستقلاً حالت وجدان میں نہیں رہتے بلکہ دوران خالص یا حقیقت مطلقہ کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر دوبارہ تجربے کی عام سطح پر ابھر آتے ہیں۔ البتہ یہ واردات صوفی کا منتہائے مقصود ہے جبکہ پیغمبر کے طول طویل سفر میں یہ محض نقطہ آغاز کی حیثیت رکھتی ہے 9؎ وجدان، اقبال کا مخصوص طریق کار ہے جس سے وہ اپنے مذہبی اور فلسفیانہ افکار کی تشریح کرتا ہے وہ مذہب جو محض عقائد اور اخلاقی نظریات کا روکھا پھیکا نظام ہو، روح سے تہی بدن کی طرح ہے۔ عقل محض یا صرف اخلاقی قوانین کا مجموعہ انسان کی روح کی تسکین کا باعث نہیں بن سکتا۔ لیکن صرف داخلی واردات بھی حقیقت مطلقہ کے صحیح فہم کے لئے ناکافی ہے۔ ’’ ۔۔۔۔۔ عقل محض کی رسائی حقیقت مطلقہ تک نا ممکن ہے۔ برعکس اس کے مذہب کا جوہر ہے ایمان اور ایمان کی مثال یہ ہے کہ بے منت عقل جسے اسلام کے ایک بہت بڑے صوفی شاعر نے ’’ راہزن‘‘ کہا ہے اور جو انسان کے دل زندہ سے اس کی مخفی دولت چھین لیتی ہے، ایک پرند کی طرح اپنا ’’ بے نشان‘‘ راستہ دیکھ لیتا ہے۔۔۔۔ بایں ہمہ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذہب کی حیثیت محض احساس کی نہیں، اس میں تعقل کا ایک عنصر بھی شامل رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کی تاریخ صوفیاء اور متکلمین ایسی دو حریف جماعتوں کی موجودگی سے کبھی خالی نہیں رہی، جس سے پھر اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ مذہب کے لیے فکر کا وجود ناگزیر ہے۔۔۔ دراصل مذہب کا منصب اور مقام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس کی بنیادی اصولوں کے لیے معتقدات سائنس سے بھی کہیں بڑھ کر کسی عقلی اساس کی ضرورت ہے۔۔۔۔ اگر مذہب کو عقلی رنگ میں پیش کیا جائے تو اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ فلسفہ کو مذہب پر فوقیت حاصل ہے۔۔۔۔ اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ فکر اور وجدان بالطبع ایک دوسرے کی ضد ہیں، دونوں کا سرچشمہ ایک ہے اور دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کا سبب بنتے ہیں ایک جزواً جزواً حقیقت مطلقہ پر دسترس حاصل کرتا ہے، دوسرا من حیث الکل ایک کے سامنے حقیقت کا دوامی پہلو ہے، دوسرے کے سامنے زمانی گویا وجدان اگر بیک وقت تمام حقیقت سے لطف اندوز ہونے کا طلب گار ہے تو فکر اس راستے پر رک رک کر قدم اٹھاتا اور اس کے مختلف اجزاء کی تخصیص و تحدید کرتا چلا جاتا ہے، تاکہ فرداً فرداً ان کا مشاہدہ کر سکے۔ دونوں اپنی تازگی اور تقویت کے لیے ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور دونوں اس حقیقت کے بقا کے آرزو مند جو باعتبار اس منصب کے جو انہیں زندگی میں حاصل ہے، ان پر منکشف ہوتی رہتی ہے۔ دراصل وجدان جیسا کہ برگساں نے کہا ہے کہ فکر کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے 10؎‘‘ مندرجہ بالا بیان سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال وجدان کو عقل سے منفعل نہیں سمجھتا وجدان محض ایک بے نام غیر متعین اور غیر واضح احساس ہے جس کا رخ فکر یا تصور کی جانب ہے اور فکر یا تصور اپنے اظہار کے لیے الفاظ، قضا یا اور منطقی ساخت کا پیکر تراشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے نزدیک ’’ قرآن مجید کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ انسان کے اپنے اندر ان گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔11؎‘‘ 2 اقبال نے دوسرے خطبے ’’ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ کے شروع میں قرون وسطیٰ کی مدرسیت کے پیش کردہ تین دلائل کو جو کہ ذات باری کے وجود کے بارے میں ہیں، ہدف تنقید بنایا ہے۔ وجودیاتی دلیل جو کہ علت و معلول کے رشتے پر مبنی ہے اور جس میں خدا کو علت اولیٰ یا علت غائی کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے تاکہ رجعت لا متناہی سے بچا جا سکے، اقبال کے نزدیک اس لیے درست نہیں کہ علل و معلولات کے سلسلہ کو یک بیک کسی جگہ ختم کر دینا خود قانون تعلیل کی نفی کر دینے کے مترادف ہے یہی حال غائی دلیل کا ہے غائی دلیل میں یہ کہا جاتا ہے کہ معلول یعنی کائنات کی صنعت میں کسی ذہین و فطین اور شاعر بالذات ہستی کے وجود کا علم ہوتا ہے۔ اس دلیل میں معلول کی نوعیت و ماہیت سے علت کی نوعیت و ماہیت کو اخذ کیا جاتا ہے۔ سیاروں کی گردش، یکسانی فطرت اور دیگر قوانین قدرت سب اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کا صانع کوئی علیم و حکیم ذات ہے۔ اس دلیل کو اقبال اس لیے در خور اعتنا نہیں سمجھتا کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ کائنات پہلے سے قائم یعنی سابق الوجود بے حس اور متراجم ہیولی ہے جس کے اجزاء میں بجائے خود نظم و ترتیب کی کوئی صلاحیت نہیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح صانع کا ہونا لازم آتا ہے، خالق کا ماننا لازم نہیں آتا۔ 12؎ اقبال کے خیال میں: ’’ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ ہیولیٰ کائنات کو اسی نے خلق کیا جب بھی یہ اس کی حکمت و دانائی کا کوئی اچھا ثبوت نہیں کہ اول تو ایک بے حس اور متراجم ہیولی کی تخلیق سے اپنے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا کر لے اور پھر ان پر غالب آنے کے لیے ان طریقوں سے کام لے جو اس کی فطرت اصلیہ کے منافی ہیں۔ 13؎‘‘ اقبال کے خیال میں کونیاتی دلیل ہی فلسفیانہ لحاظ سے کسی قدر اہمیت کی حامل ہے۔ اس دلیل کی رو سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کا تصور اس کے وجود کو مستلزم ہے خدا کا تصور ہمارے ذہن میں ایک کامل و اکمل، عالم کل، قادر مطلق، ہستی کی صورت میں آتا ہے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ ایسی ہستی کا تصور جس میں علم، قدرت، کمال وغیرہ جیسی صفات تو موجود ہوں لیکن وجود کی صفت نہ ہو۔ اگر خدا کے ذہنی تصور کو دیکھا جائے تو یہ اس کے موجود ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے خدا موجود ہے ڈیکارٹ نے اس دلیل میں ایک اور دلیل شامل کر دی تھی یعنی کہ خدا کے تصور کا مصنف نہ تو کوئی متناہی ہستی ہو سکتی ہے (کیونکہ متناہی ہستی لا انتہا کا تصور نہیں کر سکتی) اور نہ ہی خارجی فطرت ہو سکتی ہے (کیونکہ خارجی فطرت ہر آن متغیر رہتی ہے اور متغیر شے کسی کامل و اکمل ہستی کا تصور پیش نہیں کر سکتی) چنانچہ اس تصور کا سرچشمہ خود ذات باری ہے اقبال کے نزدیک یہ دلیل بھی تسلی بخش نہیں کیونکہ اس کے اندر مصاورہ مطلوب کا مغالطہ پایا جاتا ہے: ’’ اس دلیل سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ ایک ہستی کامل کے تصور میں اس کے وجود کا تصور بھی شامل ہے لیکن اس ہستی کے تصور اور اس کے وجود فی الخارج میں جو فعل رہ جاتا ہے اسے دور کرنے کی یہ صورت نہیں کہ فکر اپنے حدود سے تجاوز کر جائے۔ 14؎‘‘ اوپر ہم دیکھ آئے ہیں کہ اقبال ’’ وجدان‘‘ کو اپنے طریق کار کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے لیکن وجدان کی اہمیت پر زور دینے سے عقل کا استعمال متروک نہیں ہو جاتا بلکہ وجدان ایک غیر متعین اور غیر واضح احساس کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم اس کا ایک وقوفی پہلو بھی ہوتا ہے جو منطقی فکر کے مقولات اور قضا یا میں اس غیر واضح احساس کو ڈھال دیتا ہے۔ چنانچہ حقیقت مطلقہ سے آگہی دو سطحوں پر ہوتی ہے یعنی وجدان اور عقل کی سطحوں پر جس حقیقت مطلقہ کا ادراک صوفی بذریعہ واردات قلب کرتا ہے اسی حقیقت کا مشاہدہ اور مطالعہ عالم فکر کی سطح پر کرتا ہے۔ چنانچہ واردات قلب اگر حقیقت مطلقہ کی بارگاہ تک رسائی کا ایک ذریعہ ہے تو فکر اس تک پہنچنے کا دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے جس میں بار بار منطقی تضادات میں الجھ کر رہ جاتا ہے لیکن اقبال کے خیال میں فکر اپنی عمیق ترین حالت میں وجدان کی طرح ہی ہو جاتا ہے۔ اس لیے فکری اور نظری سطح پر حقیقت کا مطالعہ کرنا عبث اور بے کار نہیں۔ اوپر جو دلائل وجود باری کے ضمن میں دئیے گئے ہیں، وہ اقبال کی نظر میں تسلی بخش نہیں۔ وہ وجود باری کے اثبات کے لیے ایک اور راستہ اپناتا ہے جسے بال شبہ عقل ہی ہموار کرتی ہے۔ ڈیکارٹ نے اپنے مشہور مقولے ’’ اندیشم پس ہستم ‘‘ 15؎ میں فلسفے کی دنیا میں ایک نئی روایت کا آغاز کیا تھا۔ یعنی اپنے شعوری تجربے کو فلسفیانہ تحقیق کا نقطہ آغاز بنایا۔ اپنا شعوری تجربہ ایک ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے جس پر کسی بھی صورت میں تشکیک و ارتیاب کے سائے نہیں پڑ سکتے۔ بعد میں آنے والے فلاسفہ مثلا لاٹینز لاک اور دیگر تربیت پسندوں او ربالخصوص برگساں نے اس روایت کو برقرار رکھا اقبال بھی اسی روایت کے اتباع میں شعوری تجربے کے تجزیہ اور اس کی تعبیر کو اپنا نقطہ آغاز بناتا ہے۔ اس کے نزدیک دور مدرسیت کے پیش کردہ وجود باری کے دلائل سقیم اور غیر منطقی ہیں۔ وجود باری کے اثبات کیلئے خود اپنی واردات شعور کی نوعیت و ماہیت پر غور کرنا چاہیے۔ اس تجزیہ و تعبیر سے جو نتائج مرتب ہوں گے وہ اپنے ہی یقینی اور حتمی ہوں گے جتنی کہ انسان کی خود اپنی واردات شعور! ’’ زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے محسوسات و مدرکات (شعوری تجربہ) کے تین مراتب ہیں:‘‘ 1مادہ 2حیات اور 3ذہن اور شعور جو کہ علی الترتیب طبیعات، حیاتیات اور نفسیات کے موضوع بحث ہیں۔16؎ انسانی تجربہ جب زمان کے اندر اپنا اظہار کرتا ہے یعنی عقل اور منطقی فکر کے اعتبار سے جب حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے تین دائرہ ہائے کار یا مدارج اظہار سامنے آتے ہیں: اولاً بے جان مادہ جس کا مطالعہ طبیعیات میں کیا جاتا ہے ثانیاً حیات جو کہ حیاتیات کا موضوع بحث ہے اور ثالثاً ذہن و شعور جو کہ نفسیات کا دائرہ کار ہے اقبال ان تینوں علوم عقلی کے نتائج کو اکٹھا کر کے ان کی تشریح و تعبیر کرے گا اور انہی نتائج کے رنگوں سے حقیقت مطلقہ کی تصویر کشی کرے گا۔ پہلے ہم طبیعیات کا جائزہ لیتے ہیں: طبیعیات ایک تجربی علم ہے لہٰذا اس کا رابطہ انہی مظاہر سے ہے جو محسوس ہو سکتے ہیں اور ناپے اور تولے جا سکتے ہیں۔ اس کا موضوع مادی کائنات ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات طبیعیات میں ایسے مفروضے استعمال کئے جاتے ہیں جو کہ محسوسات سے تعلق نہیں رکھتے مثلاً مادے کو ماہرین طبیعیات غیر مرئی جواہر پر مشتمل سمجھتے ہیں لیکن ایسا بھی اس مجبوری سے کیا جاتا ہے کہ ان کے بغیر محسوسات کی توجیہ نہیں ہو سکتی، وگرنہ طبیعیات کے لیے حرف اول اور حرف آخر حسی تجربہ کی اطلاعات ہی ہیں۔ مذہبی اور جمالیاتی وجدان اگرچہ زندگی کے اہم اور ناقابل تردید پہلو ہیں تاہم یہ طبیعیات کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ مادے کے روایتی تصور کے لحاظ سے اسے جامد اور غیر متحرک شے سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اشیاء کی طرف ’’ ٹھوس پن‘‘ اور ’’ اساس مادی‘‘ منسوب کرتے ہیں۔ عام زندگی میں تو مادے کا یہ روایتی تصور قابل قبول ہے لیکن جب فکری سطح پر ہم ان تحسسات پر غور کرتے ہیں جن کے توسط سے ہم عالم مادی کو جانتے ہیں تو اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے۔ ارسطو کے زمانے سے جو عالم مادی کا تصور چلا آ رہا ہے یہ تھا کہ یہ تکمیل شدہ مصنوع (Finished product) ہے جو کہ ایک خلائے محض کے اندر واقع ہے۔ سب سے پہلے برکلے نے مادے کے عام تصور پر تنقید کی، لاک نے ابتدائی اور ثانوی صفات کی تخصیص قائم کر رکھی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ صلابت، وزن، حجم، امتداد وغیرہ ایسی صفات ہیں جو کہ شے کے اندر موجود ہوتی ہیں لیکن آواز، رنگ، ذائقہ بو وغیرہ ایسی صفات ہیں جو کہ ذہن مدرک سے مشروط ہوتی ہیں، یعنی ان کا اپنا معروضی وجود نہیں ہوتا بلکہ وہ ادراک کرنے والے ذہن کے مو ضوعی احساسات ہوتے ہیں برکلے نے لاک کے اس نظریے پر ضرب کاری لگائی اور یہ ثابت کیا کہ ایک شے دراصل صرف موضوعی تصورات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ عالم مادی اور اس سے حاصل ہونے والے تحسسات کے بارے میں برکلے کے نقطہ نظر نے ایک بنیادی تبدیلی پیدا کی اور فلاسفہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ مادہ ویسے ٹھوس، مکمل اور قائم بالذات شے نہیں جیسے ہم اسے عام طور پر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح کائنات ایک متعین، تکمیل شدہ اور ٹھوس وجود بن کر رہ جاتی ہے جس میں نہ حرکت ہے اور نہ ارتقا! لیکن دور حاضر میں آئن سٹائن کی طبیعیاتی تحقیقات نے بھی اس تصور کائنات کو باطل قرار دیا ہے۔ نظریہ اضافیت نے زمان و مکان کو مطلق کی بجائے اضافی بنا دیا ہے۔ مکان یا خلا دراصل دو اجسام کے مابین ایک اضافت ہے۔ چاند اور زمین دو کرہ ہائے فلکی ہیں۔ ان دونوں کے وجود سے ان کے درمیانی خلا کا وجود پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ دونوں اجرام سماوی معدوم ہو جائیں تو ان کے مابین خلا بھی معدوم ہو جائے گا: ’’ مکان کو اضافی اور غیر حقیقی ثابت کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کے اندر موجود اشیاء کا ٹھوس اور قائم بالذات وجود بھی غیر حقیقی بن جائے۔17؎‘‘ اس طرح عالم مادی کا روایتی تصور ختم ثابت ہو جاتا ہے۔ آئن سٹائن کی طبیعیات کی رو سے عالم مادی دراصل باہمدم گرم بوط حوادث کا نظام ہے 18؎ یا پھر پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے نقطہ نظر سے یہ ایک عضویہ کی مانند ہے جو کہ ایک مسلسل اور تخلیقی حرکت ہے 19؎ اگر مادے کا قدیم تصور تسلیم کر لیا جائے تو اس سے بقول وہائٹ ہیڈ آدھا عالم مادی ایک خواب بن جائے گا اور آدھا محض ایک مفروضہ 20؎ ہم نے دیکھا کہ عالم مادی کے بارے میں نیوٹن نے جو تصورات دیے تھے وہ صحیح نہ تھے: ’’ زمان و مکان کے سانچے بھی فہم انسانی، اشیا و حوادث کو سمجھنے کے لیے بناتا ہے۔ طبعی سائنس کے مادی، زمانی اور مکانی تصورات نیوٹن کے نظریات سے استوار ہوئے تھے۔ کچھ دور تک تو طبیعیات نے ان سے فائدہ اٹھایا لیکن آخر میں خود سائنس اپنی مشکلات کی وجہ سے مجبور ہو گئی کہ نفس اور مادے کی مصنوعی تقسیم کو رد کردے اور تمام نظریہ کائنات پر از سر نو غور کرے کہ کیا مکان ایک لامتناہی خلا ہے جس کے اندر اشیا حرکت کرتی ہیں۔ اس تصور کو باطل ثابت کرنے کے لیے یونانی حکیم زینو (Zeno) نے ایسا منطقی استدلال پیش کیا کہ آج تک اس سے لوگوں کی عقل چکر میں ہے۔21؎‘‘ زینو کے پیش کردہ معضلات دراصل زمان و مکان کے بارے میں ہمارے عام تصور میں مضمر منطقی مغالطوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تیر کانہ اڑسکنا یا الکیز کا کچوسے کو نہ پکڑ سکنا۔۔۔۔ دراصل اس وجہ سے ہے کہ ہم زمان کو مختلف لمحات و آفات پر مشتمل سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مکان کو بھی ہم بے شمار نقاط پر مشتمل سمجھتے ہیں یہ فیثا غورت کا نقطہ نظر تھا جس کے پس منظر میں زینو نے استدلال کیا تھا۔ 22؎ ’’ کسی چیز کو نقل و حرکت کر کے کسی دوسرے مقام تک پہنچنے کے لیے فضا کے لامتناہی نقطے عبور کرنے پڑیں گے جن کے لیے وقت کے لامتناہی لمحے درکار ہوں گے لیکن لامتناہی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کوئی شے حرکت کر ہی نہیں سکتی۔‘‘ 23؎ اس مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں اپنے تصور زمان و مکان میں بنیادی تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔ مکان کے بارے میں نظریہ اضافیت نے قدیم نظریہ مکان کو بیک و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے اور زمان کے بارے میں برگساں کے نظریہ نے انقلاب عظیم پیدا کیا ہے۔ اقبال اگرچہ آئن سٹائن اور برگساں دونوں سے متاثر ہے، تاہم وہ ان دونوں کی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے: ’’ بایں ہمہ جب میں اس نقطہ نظر کا خیال کرتا ہوں جو ان خطبات میں ہمارے پیش نظر ہے تو آئن سٹائن کی اضافیت سے ایک زبردست مشکل رونما ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اگر اس کا نظریہ صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ زمانے کا وجود بھی غیر حقیقی ہے۔‘‘ 23؎ اقبال کے اس موضوع پر نظریات کا خلاصہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے الفاظ میں درج ذیل ہے: ’’ علامہ فرماتے ہیں کہ ان خطبات میں میں نے جو نظریہ اختیار کیا ہے اس کے لحاظ سے آئن سٹائن کی اضافیت سے یہ خیال مترشح ہوتا ہے کہ زمان یا وقت غیر حقیقی ہے، اس نے زمان کو مکان کا ایک عنصر بنا دیا ہے جس کی وجہ سے مستقبل بھی معین اور نا قابل تغیر ہو جاتا ہے، جس طرح کہ ماضی کے حوادث بحیثیت افعال گذشتہ متعین ہو چکے ہیں۔ علامہ اقبال کے نزدیک وقت یا زمانہ ایک آزاد تخلیقی حرکت ہے جس کے سامنے کوئی ازل سے معین لائحہ عمل نہیں۔۔۔ آئن سٹائن نے وقت کی پوری ماہیت پر غور نہیں کیا۔ انسانی نفس کے اندر وقت کے اور پہلوؤں کا ادراک بھی ہے جسے آئن سٹائن نے ریاضیات میں محدود ہو کر نظر انداز کر دیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ جو اعلیٰ ریاضی سے واقف نہیں ہیں۔۔۔۔۔ آئن سٹائن کے نظریہ زمان کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکتے اور اچھی طرح سمجھنے کے بغیر بیان اور تنقید غیر موثر ہی رہتے ہیں۔ آئن سٹائن کا وقت اور ہے اور برگساں جسے زمان خالص کہتا ہے وہ اور چیز ہے۔ آئن سٹائن کا وقت تسلسلی زمان بھی نہیں جس میں علت و معلول زماناً ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور جب تک علت کا ظہور نہ ہو چکے، معلوم بھی نہیں آ سکتا۔ اگر ریاضیاتی زمان تسلسل وقت ہو تو آئن سٹائن کے نظریہ حیات کے مطابق تو ناظر اور منظور کی سرعت سیر کے تغیر میں یہ عجیب بات بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ معلول علت سے پہلے ظہور میں آ جائے۔ میرے نزدیک آئن سٹائن کا زمان، زمان ہی نہیں اس نے تو اسے مکان کا ایک عنصر بنا دیا ہے۔ اس کے بعد علامہ نے روسی مفکر اوس پنسکی کے اس نظریے کا ذکر کیا ہے جو زمان کو ابعاد ثلاثہ سے الگ چیز سمجھتا ہے لیکن اس زمان کی ماہیت بھی ایک طرح سے مکانی ہی ہے۔ اس کے نزدیک بھی زمان کوئی تخلیقی حرکت نہیں جو مکان سے جداگانہ اور مکان سے پوری طرح الگ نہیں کر سکا۔ وہ بھی زمان کو ایک دھندلا سا احساس مکان ہی تصویر کرتا ہے۔‘‘ 24؎ برگساں اس کے برعکس زمان متسلسل اور دوران حقیقی کے مابین ایک خط امتیاز کھینچتا ہے یہ تخصیص ڈاکٹر میکٹیگرٹ قائم نہیں کر سکا تھا، اس لیے اس نے زمان کو غیر حقیقی قرار دے دیا تھا۔ اگرچہ اقبال مکان و زمان کے سلسلہ تصور کو تسلیم کرتا ہے تاہم وہ زمان کو ادبیت دیتا ہے۔ اس ضمن میں اس پر برگساں کا کافی اثر ہے۔ تاہم وہ بعض بنیادی امور میں اس سے اختلاف کرتا ہے۔ اس نکتہ سے بحث ہم آگے چل کر کریں گے۔ اب ہم تجربے کے دوسرے مدارج اور شعور کا جائزہ لیتے ہیں حیات کی اہمیت اور اولیت کا دعویٰ کرنے کے سلسلے میں برگساں کا نام تاریخ فلسفہ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی حرکت و ارتقاء کو نقص اور ادھورے پن کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ افلاطون کے اعیان ثابتہ کی سکیم میں نہ تو تغیر کی کوئی جگہ تھی اور نہ ارتقاء کی۔ یہی حال ارسطو کے محرک غیر متحرک کا ہے صورت خالص دیگر افراد کے اندر تو حرکت و تغیر پیدا کرتی ہے لیکن خود حرکت و تغیر اور نشو و ارتقاء سے معریٰ ہے۔ حقیقت مطلقہ کو ساکن اس لیے سمجھا جاتا تھا کہ قدماء کے نزدیک کمال مطلق کے لیے حرکت و ارتقاء بہت بڑا خطرہ تھے۔ زمانہ قدیم کی اس روایت کے کئی علمبردار ہمیں جدید فلسفے میں بھی نظر آتے ہیں۔ مثلاً اسپنوزا اپنے لامتناہی جوہر میں کسی قسم کے حرکی یا ارتقائی اصول کی گنجائش پیدا نہیں کرتا۔ حرکت و تغیر کو اکثر فلاسفر التباسی اور غیر حقیقی حیثیت دیتے آئے۔ ایک دوسرا امر جو قابل غور ہے، یہ ہے کہ فلسفہ کی اکثریت نے حیات کی اہمیت اور اس کے تقدم پر کبھی غور نہیں کیا اکثر تصوریت پسندوں نے حقیقت مطلقہ کی ایسی جامد اور غیر حرکی تصویر پیش کی جس میں حیات اپنی ارتقائی اور حرکی جہتوں کے ساتھ کوئی جگہ حاصل نہ کر سکی۔ مادیت پسندوں نے بھی حیات و شعور کو مادی ارتقائی عمل میں ثانوی اور ضمنی حیثیت دی۔ جدید فلسفیوں میں برگساں ایسا فلسفی ہے جس نے بجا طور پر حیات کی اہمیت پر زور دیا اور حقیقت مطلقہ کو ساکن و ثابت بنانے کے بجائے اسے حرکت محض قرار دیا۔ برگساں کہتا ہے کہ کائنات دو متضاد حرکتوں سے وجود میں آئی ہے: ایک حرکت صعودی ہے اور دوسری حرکت نزولی حرکت صعودی حیات ہے اور حرکت نزولی مادہ۔ یہاں برگساں کا مدعا سمجھنے کے لیے یہ نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ وہ خالص حرکت کو مادہ اور حیات قرار دے رہا ہے۔ ہم متحرک اشیاء دیکھنے کے عادی ہیں مثلاً کوئی گاڑی یا جانور دیکھتے ہیں جو کہ متحرک ہوتا ہے حرکت محض کا تصور قائم کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ برگساں مادہ کو حرکت اس لیے کہتا ہے کہ جدید طبیعیات نے تمام مادی اشیا کی تشریح ایٹم کے مثبت اور منفی برقیوں کے تصورات کے ذریعے کی ہے۔ مادہ کی حیثیت مختلف قسم کی رفتاروں (Velocities) کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس لحاظ سے برگساں کہتا ہے کہ مادہ حرکت ہے اور یہ حرکت نزولی ہے کیونکہ طبیعیات میں ہمیں مزید بتاتی ہے کہ کینٹر (Cantor) کے Law of degragation of energy کی رو سے مادہ بتدریج منتشر ہو کر معدوم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کرہ ارض کے معروض وجود میں آنے کی داستان کے مطابق جب زمین کسی بہت بڑے ستارے سے علیحدہ ہوئی تھی تو ایک دہکتا ہوا گولہ تھی جو بتدریج ٹھنڈا ہوتا چلا گیا زمین کا ٹھنڈا ہونا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ کائنات میں ایٹموں یا سالموں کا اشعاع (Redation) کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس امر کی شہادت فلکیات کے ماہرین بھی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ قانون انتشار‘‘ (Law of entropy) کی رو سے ہماری کائنات آہستہ آہستہ معدوم یا منتشر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ پانی کے بھرے ہوئے گلاس کے وسط میں آپ سیاہی کا ایک قطرہ ڈالیں۔ یہ قطرہ آہستہ آہستہ مرکز سے باہر کی جانب پھیلنا شروع ہو جائے گا۔مرکز میں سیاہی زیادہ ہو گی جبکہ اطراف و جوانب میں پھیلتے ہوئے پھیکی اور مدھم ہوتی چلی جائے گی۔ کچھ اسی طرح کائنات کے مرکز میں بڑے بڑے سالمے یا ایٹم تھے جو ٹوٹ کر ہلکے اور چھوٹے ایٹموں میں بدل گئے۔ کائناتی شعاع بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا جب سورج سرد ہو جائے گا۔ برگساں جدید سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ مادہ بھی دراصل خالص حرکت ہے کیونکہ سالمہ بذات خود حرکت ہے۔ سالمہ کوئی چیز نہیں جس کے اندر، برق موجود ہو، بلکہ سالمے کا وجود ہی برقیوں سے عبارت ہے۔ مثبت برقیوں کے گرد منفی برقیے پیہم گردش کر رہے ہیں۔ اشیاء کا تنوع سالموں کے اندر موجود برقیوں کی تعداد کی وجہ سے ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر مادی شے کی تشریح رفتاروں (Velocities) کے حوالے سے کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ہر مادی شے کی بنیادی حقیقت حرکت ہوئی جو کہ منتشر اور انحطاط پذیر ہونے کے اعتبار سے حرکت نزولی کہلاتی ہے۔ اب آئیے حیات کی طرف! برگساں حیات کو حرکت صعودی کہتا ہے۔ وہ توانائی جو مادے کی صورت میں بتدریج منتشر اور ضائع ہوتی جا رہی ہے ایک دوسرے عمل میں محفوظ ہوتی جاتی ہے۔ حیات ایک ایسا عمل ہے جو توانائی کا ذخیرہ کر کے ارتقاء کی نت نئی شکلیں پیش کرتا ہے۔ ایک پودا جب اگتا ہے تو اس کی جڑیں زمین سے پانی، کاربن، فارسفورس اور دیگر معدنیات کو چوستی ہیں۔ اسی طرح اس کے پتے سورج کی شعاعوں سے حرارت جذب کرتے ہیں۔ توانائی کی یہ صوتیں ضائع نہیں ہوتیں بلکہ پورا انہیں اپنے تنے اور ٹہنیوں میں ذخیرہ کر کے ارتقائی منازل طے کرتا جاتا ہے۔ حیات کی نوعیت کا علم ہمیں اپنے داخلی تجربے میں ہوتا ہے کیونکہ کائنات کی کسی شے کا اتنا قریبی اور حتمی علم ہمیں حاصل نہیں ہو سکتا جتنا کہ خود اپنی ذات اور شخصیت کا ہوتا ہے۔ برگساں حیات کی نوعیت و ماہیت کی مزید تشریح کے لیے سوال اٹھاتا ہے کہ ایک عضو یہ یا زندہ فرد کی حیثیت کیا ہے؟ کیا کسی فرد کا کوئی آغاز اور انجام ہوتا ہے؟ اگر یہ کہا جائے کہ پیدائش اور موت فرد کی دو ایسی انتہائیں ہیں جنہیں آغاز و انجام کا نام دیا جا سکتا ہے تو برگساں پھر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ آیا یہ آغاز و انجام مطلق ہیں یا محض اضافی و عارضی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حیاتیاتی نقطہ نظر سے فردیت یا شخصیت میں پیدائش اور موت عارضی اور اضافی حیثیت رکھتی ہیں، مطلق نہیں یعنی وکئی فرد یک لخت عدم سے وجود میں نہیں آ جاتا اور نہ ہی موت کے ساتھ نسیاً منیاً بن جاتا ہے بلکہ وہ اپنی پیدائش سے پہلے بھی اپنے آباؤ اجداد کے جنین (genes) کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ پیدائش کی صورت میں وہ محض ایک علیحدہ اور مخصوص فرد کی شکل میں ایک نئی صورت حال میں پروان چڑھنا شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح موت اس کی زندگی مطلقاً ختم نہیں کر دیتی بلکہ وہ اپنی شخصیت سے اپنی پوری ایک نسل کو معرض وجود میں لے آتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حیات کی وہی لہر جسے ایک فرد اپنے آباؤ اجداد سے وصول کرتا ہے، بعد ازاں اپنی نسل کو منتقل کر کے خود معدوم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عضو یہ محض ایک شاہراہ کی حیثیت رکھتا ہے جس پر حیاتیاتی لہر گامزن ہوتی ہے، یا یہ محض ایک آلہ کار ہے جو اس حیاتی لہر کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے۔ اس طرح یہ حیاتی لہر ایک غیر تقسیم پذیر روانی ہے جو مختلف افراد و انواع میں اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ تمام افراد و انواع اس حیاتی لہر سے یوں منسلک و مربوط ہیں جیسے بہتے ہوئے دریا کی لہریں قطرے اور بلبلے وغیرہ۔ اس حیاتی لہر کو برگساں اپنی اصطلاح میںElan vital کہتا ہے یہ لہر بذات خود زمان غیر متسلسل دوران خالص ایک تمنا یا ایک ارادہ ہے جو ہر دم ارتقاء کی نت نئی شکلیں پیش کرنے کے لیے سر گرم ہے۔ ریاضیاتی زمان مختلف نقاط زمان سے تشکیل پاتا ہے اور ان نقاط زمان میں ہم ایسے وقفے تسلیم کرتے ہیں جو غیر زمانی ہوتے ہیں۔ دو نقاط زمان کو ایک غیر زمانی وقفے سے علیحدہ کرنا حقیقت کی غلط تصویر پیش کرنے کے مترادف ہے لیکن عقل نے اپنی سہولت کے لیے آنات و لمحات روز و شب ماہ و سال اور صدیوں اور قرنوں میں تغیرغیر تقسیم پذیر کو منقسم کر رکھا ہے۔ عقل حقیقت مطلقہ کی صحیح تصویر پیش نہیں کرتی۔ اس حقیقت سے آگہی کے لیے ہمیں اپنے ادراک خالص کے ذریعے سے حیاتی لہر کے اندر اتر کر تغیر و ارتقاء کو محسوس کرنا پڑتا ہے اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ماضی کٹ کر پیچھے نہیں رہ گیا اور نہ ہی مستقبل پہلے سے کشیدہ خط کی مانند ہے جس پر حیات اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے۔ برگساں ارتقاء کے نہ تو میکانکی تصور کو مانتا ہے اور نہ ہی غایتی تصور کو کیونکہ ان دونوں سے جبریت لازم آتی ہے جس سے ارتقائے حیات کی تخلیقی اور غیر تعین پذیر نوعیت و ماہیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے برگساں تخلیقی ارتقاء کو بے مقصد اور غایت و منتہا سے عاری سمجھتا ہے ۔ 25؎ اٹھارہویں صدی کے آغاز سے لے کر بیسویں صدی کے دوسرے عشرے تک کے دور میں مغربی فلسفے کا زیادہ تر رحجان رومانوی اور روحیتی رہا 2؎ اکثر فلاسفر قدیم فلسفے کے برعکس حیات اور ارادے کو کائنات کا اساسی اصول تسلیم کرنے لگے: ’’ ارادیت پسندی (Voluntarism) ایک ایسا نظریہ ہے جس کی رو سسے ارادے یا اس سے ملتی جلتی کوئی قوت کائنات کا بنیادی عنصر ترکیبی ہے۔ ‘‘ 27؎ ارادیت پسندی بھی چار قسم کی ہے: 1نفسیاتی ارادیت پسندی 2 اخلاقیاتی ارادیت پسندی 3 الٰہیاتی ارادیت پسندی 4مابعد الطبیعیاتی ارادیت پسندی نفسیاتی ارادیت پسندی میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ انسانی شخصیت میں ارادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے اور عقل، ذہانت اور ہیجانات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس نظریے کے حامیوں میں ہابس اور ہیوم نمایاں ہیں۔ اخلاقیاتی ارادیت پسندی کی رو سے انسانی ارادہ تمام اخلاقی مسائل میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ انسانی عقل اور ضمیر سے بھی فائق ہے۔ وہ انتخاب جو ارادے کی بنا پر کیا جائے، خیر و صواب کا تعین کرتا ہے۔ اخلاقیاتی ارادیت پسندی کا پہلا اظہار پروٹا گورس کے مقولے انسان ہر شے کا پیمانہ ہے کی صورت میں ہوا۔ اسے بعد ازاں ولیم جیمز نے اپنایا اور بلا شبہہ نتائجیت کا سنگ بنیاد بھی یہی ہے۔ الہٰیانی ارادیت پسندی میں یہ کہا جاتا ہے کہ کائنات کی ہر شے پر ارادہ الٰہی فائق ہے اور اگر خدا چاہے تو متناقص اور سقیم استدلال کو بھی معقول اور منطقی بنا سکتا ہے۔ لہٰذا الہیاتی مسائل میں فلسفیانہ استدلال کی بجائے رضائے الٰہی کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے یہ نظریہ آگسٹائن (43-353) ولیم اوکہام ’’ William ockhom‘‘ (1247-1280) اور کانٹ (1804-1724) نے اپنایا جن کے خیال میں تمام اخلاقی احکام کا منبع و مصدر ارادۂ الٰہی ہے۔ مابعد الطبیعیاتی ارادیت پسندی کا نظریہ ہے کہ ارادہ ہی کائنات کا اساسی اور بنیادی اصول ہے۔ اس نظریے کا سب سے بڑا علمبردار شوپنہارہے جس کے نزدیک کائنات کی ہر شے کا انتھک خالق ’’ اندھا ارادہ‘‘ Blind will ہے جو کہ افراد کی نہیں بلکہ انواع کی حفاظت کرتا ہے۔ کائنات اور اس کائنات کی ہر شے اسی ’’ اندھے ارادے‘‘ کی تحسیم ہے یہ اندھا اس لیے ہے کہ اس میں عقل و استدلال اور مقصد و غایت کا فقدان ہے 28؎ فشٹے، نٹشے اور برگساں مابعد الطبیعیاتی ارادیت پسندی کے حامی ہیں جبکہ اقبال بھی ان سے بہت متاثر ہے۔ ’’ اقبال نے یورپ سے وطن واپسی پر جو پہلی کتاب لکھی وہ اسرار خودی تھی جس میں فشٹے، برگساں اور نٹشے کا اثر صاف طور پر نظر آتا ہے۔۔۔ لیکن ان میں سے کسی کا نام لے کر ذکر نہیں کیا گیا۔‘‘ 29؎ لیکن اقبال رومی کا نام لے کر یہ اقرار کرتا ہے کہ اس نے ان کا اثر قبول کیاہے۔ چنانچہ بی اے ڈار کے الفاظ میں: ’’ اقبال کے فکر کے ارتقاء کے بارے میں جو موجودہ علم ہمارے پاس ہے اس کی بنا پر ہم یہ طے نہیں کر سکتے کہ آیا اس نے مغربی مفکرین کی ارادیت پسندی کے مطالعے سے رومی کو دریافت کیا تھا یا رومی کے زیر اثر اس نے مغربی مفکرین کا مطالعہ کیا۔‘‘ 30؎ اسرار خودی کی حد تک تو یہ بات درست ہے کہ اس نے نام لیے بغیر مغربی مفکرین کے خیالات کو اپنے الفاظ میں سمویا ہے لیکن خطبات میں اس نے ان مفکرین کے نظریات کا جا بجا حوالہ دیا ہے اور ان کے افکار سے خوشہ چینی کے ساتھ ساتھ ان پر تنقید بھی کی ہے۔ تجربے کا تیسرا درجہ شعور ہے: ’’ شعور کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ یہ حیات ہی کا ایک انحراف (یا ایک سمت) ہے او راس کا وظیفہ یہ ہے کہ زندگی کے لگاتار آگے اور آگے ہی بڑھتے ہوئے سفر میں ایک نقطہ نور مہیا کرے۔ وہ اطناب کی ایک حالت ہے، ارتکاز بالذات کی ایک کیفیت جس کی بدولت زندگی ہر ایسی وابستگی اور یاد کا راستہ روک لیتی ہے جس کا ہر اس عمل سے جو کسی خاص موقع پر سر زد ہوتا ہے، کوئی تعلق نہ ہو۔ اس کے حدود بھی متعین نہیں کیونکہ وہ حسب اقتضاء کبھی سمٹ اور کبھی پھیل جاتا ہے لیکن یہ کہنا کہ شعور اعمال مادی ہی کا ایک پس مظہر ہے، اس کی آزادانہ فعالیت کا انکار کرتا ہے۔‘‘ 31؎ اقبال یہ کہتا ہے کہ اگر شعور کو بجائے ایک مستقبل حیثیت دینے کے محض ایک فروعی اور ضمنی نتیجے کی حیثیت دے دی جائے تو اس سے تمام علم کی عمارت منہدم ہو جاتی ہے۔ شعور حیات کی روحانی اصل کی ہی ایک فرع ہے۔ یہ کوئی شے یا جوہر نہیں بلکہ ایک تنظیمی قوت ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مادہ کے میکانکی اعمال سے یکسر مختلف ہے لیکن چونکہ شعور کی اس روحانی قوت کا اظہار محسوسات کے پس منظر میں ہوتا ہے اس لیے ہم محسوسات کو ہی اصل سمجھ لیتے ہیں۔ اقبال، حیات و شعور کے اساسی اور مقدم ہونے کے سلسلے میں قرآن سے مختلف آیات پیش کر کے برگساں کے اس نظریے کی تصدیق کرتا ہے کہ حقیقت مطلقہ کا سراغ خود اپنی واردات شعور میں لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارے شعوری تجربے کی مماثلت سے کائنات ایک آزاد تخلیقی حرکت ہے۔ یہ حرکت کسی شے میں نہیں بلکہ حرکت فی نفسہ یا خالص حرکت ہے۔ کائنات کوئی شے نہیں بلکہ ایک عمل مسلسل ہے جسے فکر حصے بخروں میں تقسیم کر دیتا ہے لیکن وجد ان اسے ایک غیر تقسیم پذیر کل کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔ یہ ایک آزاد تخلیقی میدان اور ایک دائمی حیاتی لہر ہے جس میں ماضی جمع ہو کر اسے فزوں تر کرتا جاتا ہے اور مستقبل ایک کھلے امکان کی صورت رکھتا ہے اس حیاتی لہر کی نوعیت ’’ ارادہ‘‘ کی سی ہے جو وفور تخلیق میں وجود و مشہود آفرینی کرتا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے یہاں تک تو اقبال برگساں کا ساتھ دیتا ہے لیکن برگساں نے حیاتی لہر اور فکر میں جو تفریق کر دی ہے۔ اقبال اس کے حق میں نہیں: ’’ حاصل کلام یہ ہے کہ برگساں کے نزدیک حقیقت مطلقہ ایک آاد، ناقابل تعیین، تخلیقی اور حیاتی محرک ہے اور اپنی کنہ میں سر تاسر مشیت (ارادہ) جس کو فکر قید مکانی میں لے آتا ہے اور پھر اس کا مشاہدہ اشیاء کی ایک کثرت کی شکل میں کرتا ہے یہاں یہ تو ممکن نہیں کہ برگساں کے اس نظریے کی پوری پوری تنقید کی جائے لیکن اتنا ضرور کہنا پڑتا ہے کہ اس کی حیاتیت کی انتہا فکر اور مشیت کی ایک ایسی ثنویت میں ہوتی ہے جس میں کوئی مفاہمت ممکن نہیں اور جس کی ہمارے نزدیک وجہ یہ ہے فکر کے متعلق اس کا جزئی نظریہ کیونکہ فکر کا منصب برگساں کی رائے میں صرف یہ ہے کہ ہر شے کو قید مکانی میں لے آئے۔ اس کی ساخت مادے کے رنگ میں ہوئی، لہٰذا اس کے جتنے بھی مقولات ہیں، میکانیاتی ہیں لیکن جیسا کہ ہم نے اپنے پہلے خطبے میں عرض کر دیا تھا، فکر کی ایک عمیق تر حرکت بھی ہے، گو بظاہر یونہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے حقیقت مطلقہ کی تقسیم ساکن اجزا میں کر رکھی ہے، بایں ہمہ اس کا حقیقی وظیفہ یہ ہے کہ محسوسات و مدرکات کی شیرازہ بندی کرتے ہوئے ان میں ترکیب و اختلاف کا رنگ پیدا کرے۔ گویا جیسا جیسا محسوسات اور مدرکات کے مختلف مراتب کا تقاضا ہو گا ویسے ہی مقولات فکر آپ کے سامنے ہوں گے۔ لہٰذا فکر کو بھی زندگی کی طرح نامی ٹھہرانا چاہیے‘‘ 32؎ برگساں ارتقائے حیات کو دیگر ارادیت پسندوں کی طرح اندھا اور بے بصر سمجھتا ہے۔ عقل اس کے نزدیک محض ایک آلہ کار ہے جسے مادی ماحول کو سمجھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے حیاتی لہر نے تخلیق کیا ہے۔ اس سے حقیقت مطلقہ کے فہم میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ بلکہ یہ زمان محض کی غیر تقسیم پذیر وحدت کو آفات و لمحات کے سلسلے میں منقسم کر دیتی ہے۔ اقبال، برگساں کے اس نقطہ نظر کا حامی نہیں۔ وہ فکر کو حقیقت مطلقہ کا لازمی جزو قرار دیتا ہے۔ اب یہ فطری امر ہے کہ عقل، مقاصد و غایات کے بغیر سرگرم عمل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ حقیقت مطلقہ مقاصد و غایات سے تہی نہیں۔۔۔۔ ’’ لہٰذا ثابت ہوا کہ اغراض و مقاصد ہی، خواہ ان کی حیثیت شعوری ہو یا غیر شعوری، ہماری واردات شعور کا تار و پود ہیں۔‘‘ چونکہ مقاصد و غایات کا تعلق یا ان کا رخ مستقبل کی طرف ہے: ’’ اس لیے ہماری کیفیات شعور میں ماضی اور مستقبل دونوں کار فرما رہتے ہیں:‘‘ اقبال مستقبل کو برگساں کی طرح یکسر غیر متعین نہیں سمجھتا۔ برگساں کو خطرہ تھا کہ مقاصد و غایات سے جبریت لازم آتی ہے۔ اقبال غایت کو دور کا نصب العین نہیں سمجھتا جو کہ حیات کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ ’’ ہم اپنی حیات ذہنی کو غائی قرار دیتے ہیں تو ان معنوں میں کہ اگرچہ ہمیں بہت دور کی منزل کا عزم نہیں لیکن جوں جوں زندگی کا عمل آگے بڑھتا اور پھولتا ہے، اسی اعتبار سے نئے نئے مقاصد وضع ہوتے ہیں۔‘‘ 33؎ ہم نے دیکھا کہ تجربے کے تین مدارج کے بارے میں ہماری تحقیق نے مندرجہ ذیل امور ثابت کیے: الف۔ مادہ ٹھوس اور جامد شے نہیں بلکہ باہمد گرمربوط حوادث کا نظام ہے۔ ب۔ حیات دراصل ایک ارادہ ہے جو حرکت محض یا دوران خالص کی صورت میں آزادانہ طور پر ارتقاء پذیر ہے۔ ج۔ شعور اصل حیات ہی کی ایک روحانی فرع ہے۔ یہاں تک تو برگساں اور اقبال میں اتفاق ہے مگر اقبال ایک نکتے کا اضافہ کرتا ہے۔ د۔ ارتقائے حیات اندھا اور بے بصر نہیں بلکہ غایات و مقاصد بھی اس کے اندر موجود ہیں۔ اب حقیقت مطلقہ کی صورت یوں بنتی ہے: ’’ حاصل کلام یہ کہ جب ہم اپنے محسوسات و مدرکات کے جملہ حقائق پر نفس فعال اور نفس بصیر دونوں پہلوؤں سے جامع اور گہری نظر ڈالتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ حقیقت مطلقہ ایک بابصر اور خلاق مشیت ہے۔‘‘ 34؎ اس بابصر اور خلاق مشیت کو اقبال انائے مطلق کہتا ہے کیونکہ ہم مجبور ہیں کہ اسے بھی اپنے نفس کے حوالے سے سمجھیں: ’’ انسان عالم کو اور خدا کو اپنے اوپر ہی قیاس کرتا ہے اور اس سے گریز محال معلوم ہوتا ہے۔‘‘ 35؎ 3 اپنے شعوری تجربے کی مثال پر حقیقت مطلقہ کو سمجھنا ایک ایسی مجبوری ہے جس سے کوئی مضر نہیں۔ ہم جب بھی حقیقت مطلقہ کا تصور کریں گے، اپنی ہی صورت پر کریں گے۔ اوپر ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ استدلال بالتمثیل کی رو سے حقیقت مطلقہ ایک ایسی مشیت یا ارادہ ہے جو آزاد و خلاق ہے لیکن شوپنہار اور برگساں کے نظریات کی طرح اندھا اور بے بصر نہیں۔ اس کے اندر غایات موجود ہیں لیکن باطنی طور پر! غایت سے مراد دور کا نصب العین نہیں بلکہ باطنی لزوم ہے۔ چونکہ یہ ارادہ آزاد اور خلاق ہے اس لیے نہ تو اس کے پیچھے کوئی اسباب و علل کا سلسلہ ہے اور نہ ہی اس کے آگے متعین مقاصد ہیں جن کی طرف یہ حرکت کر رہا ہے مقاصد و غایات اس کے اندر سے ہی ابھرتے ہیں اور اس کی آزاد خلاقی میں قطعاً خارج نہیں ہوتے۔ یہی ارادہ ہے جو اپنی تکمیل ذات کے لئے کائنات اور کائنات کے موجودات کا تانا بانا بنتا ہے: ’’ خارجی دنیا اپنے تمام تر ذخیرہ محسوسات اور زمان متسلسل اور مکان کے ساتھ اور احساسات، تصورات اور مقاصد کی دنیا، دونوں نفس کی پیداوار ہیں۔ اقبال، فشٹے اور وارڈ کی تقلید میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نفس اپنی تکمیل کے لیے اپنے اندر سے غیر نفس پیدا کرتا ہے۔ دنیائے محسوسات نفس کی اپنی تخلیق ہے۔ فطرت کی تمام رعنائیاں دراصل ہمارے اپنے ارادوں کی مخلوقات ہیں۔ خواہشات ان کی تخلیق کرتی ہیں، وہ خواہشات کی نہیں۔‘‘ 36؎ اقبال اپنی فکری زندگی کے آغاز میں حسن ازلی کو خدا سمجھتا تھا۔ اس رحجان کا زیادہ تر اظہار اس کے ابتدائی دور کی شاعری میں ہوا لیکن جب اس نے باقاعدہ فلسفیانہ سطح پر ذات باری پر غور و تامل شروع کیا تو فشٹے، نٹشے، برگساں، جیمز وارڈ اور مولانا روم کے افکار سے متاثر ہو کر ذات باری کو ایک آزاد، خلاق اور با مقصد مشیت قرار دیا۔ جس میں حسن محض ایک صفت بن کر رہ گیا اور ذات باری کے اس تصور میں جس صفت کو اس نے انتہائی اہم اور بنیادی قرار دیا وہ یکتائی یا توحید کی صفت ہے۔ عقیدہ توحید ہی اقبال کے نزدیک افراد اور اقوام کو وحدت غایت اور قوت عمل عطا کرتا ہے: ’’ پھر جب ہم اپنے محسوسات و مدرکات کے نسبتاً زیادہ اہم عوام پر اس خیال سے نظر ڈالتے ہیں کہ ان کا سلسلہ ایک دوسرے سے جوڑ دیں تو اس اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے محسوسات اور مدرکات کی اساس کوئی بابصر اور تخلیقی مشیت ہے جس کو بوجودہ ایک ’’ انا‘‘ ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ چنانچہ یہی مطلق ’’ انا‘‘ ہے جس کی انفرادیت کے پیش نظر قرآن پاک نے اس کے لیے اللہ کا اسم معرفہ استعمال کیا‘‘ 37؎ اقبال کے خیال میں اللہ کو سورۂ اخلاص میں جو تو الدوتناسل سے پاک قرار دیا تو اس سے مقصود بھی اس کی یکتائی اور توحید پر زور دینا ہے۔ اقبال لکھتا ہے: ’’ انفرادیت کا کمال ہی یہ ہے کہ کسی جسم زندہ کا کوئی حصہ الگ تھلگ اپنی ہستی برقرار نہ رکھ سکے! لیکن اس صورت میں توالد تناسل کا عمل ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تو الدوتناسل کا مطلب یہ ہے کہ جسم سابق کے کسی ٹکڑے کا اس طرح منفعل ہونا کہ اس سے ایک نیا جسم وجود میں آ سکے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انفرادیت نے خود اپنے گھر میں دشمن پال رکھا ہے۔ سطور بالا کے پیش نظر یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ فرد کامل کی ذات میں بھی جو بحیثیت ایک انا کے اپنے آپ میں محدود اس لیے دوسروں سے الگ تھلگ، بے مثل اور یکتا ہے، خود اس کا دشمن موجود ہے۔ لہٰذا ہم اس کا تصور کریں گے تو یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کی ذات توالد و تناسل کے رحجان سے بالاتر ہے۔ انیت کاملہ کی یہی خصوصیت ذات الٰہیہ کے اس تصور کا بنیادی جزو ہے جو قرآن پاک نے اس باب میں قائم کیا ہے اور پھر جس پر بار بار زور دیا ہے تو اس لیے نہیں کہ قرآن پاک کو اس وقت کے مروجہ مسیحی عقیدے کی تردید منظور تھی، بلکہ اس لیے کہ فرد کامل کے ٹھیک ٹھیک تصور میں شک و شبہ باقی نہ رہے۔ ‘‘ حقیقت مطلقہ کو اقبال، افلاطون اور ارسطو کی طرح ساکن و ثابت نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک انائے مطلق ایک ایسا ارادہ یا حیاتی توانائی ہے جو پیہم حرکت میں ہے۔ اس مشیت ایزدی میں ماضی کٹ کر پیچھے نہیں رہ جاتا بلکہ حال میں جمع ہو کر اس کی افزودگی کا باعث بنتا ہے۔ مستقبل پہلے سے کشیدہ خط کی مانند نہیں جس پر کہ یہ گامزن ہو۔ مقاصد و غایات اس کی داخلی فطرت سے ابھرتے ہیں اور ان کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ چنانچہ انائے مطلق کے باہر کوئی ہستی کوئی حد حتیٰ کہ خلائے محض بھی موجود نہیں۔ مکان یا خلا کے بارے میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ اس کا وجود اضافی اور دو اشیاء کی موجودگی سے مشروط ہے۔ انائے مطلق کے باہر کوئی شے موجود نہیں جو کہ اس کے لیے ’’حد‘‘ وضع کر سکے چنانچہ انائے مطلق لامتناہی ہے لیکن اس کی لامتناہیت بہ اعتبار امتداد نہیں بلکہ یہ داخلی یا عمیق (Intensive) لامتناہیت ہے۔ مکان یا امتداد کے اعتبار سے لامتناہیت کبھی مطلق نہیں ہو سکتی لیکن خدا کی لامتناہیت عمیقی ہونے کے اعتبار سے مطلق ہے اور عمل تخلیق کے لا محدود اور لامتناہی امکانات پر مبنی ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ خدا آزاد اور خلاق مشیت ہے اور اس کے تخلیقی امکانات لامحدود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ خداقادر مطلق (Omnipotent) ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ انائے مطلق کوئی الگ شے ہے اور اس کے اندر حرکت پائی جاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک حرکت کا عام تصور جو کہ نقص سے کمال کی طرف ہے، انائے مطلق کی طرف منسوب کیا جا سکتا۔ انائے مطلق کی حرکت ایسی نہیں کہ یہ ایک کیفیت سے دوسری کیفیت تک منتقلی کا مفہوم رکھتی ہو۔ یہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ زمان متسلسل تجربے کی عام سطح یا عقل کا پیدا کردہ ہے۔ زمان غیر متسلسل یا دوران خالص حقیقت مطلقہ کا زمان جس میں تغیر کی حیثیت تخلیق کے عمل پیہم یا توانائی کے دائمی بہاؤ کی سی ہے، زمان کا مسئلہ اسلامی الٰہیات میں ہمیشہ ذات باری کی بحث کے ساتھ ساتھ زیر غور آتا رہا ہے۔ اقبال کے نزدیک دو وجوہ ہیں: الف۔ دن اور رات کی گردش کو قرآن حکیم میں اللہ کی نمایاں نشانیاں قرار دیا ہے۔ ب۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’ دھر‘‘ (زمان) کو خدا کے مترادف قرار دیا ہے لیکن جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں خدا کا زمان دوران خالص ہے۔ ذات باری کے صحیح تصور کے قائم کرنے میں جو بنیادی دشواری پیش آتی ہے وہ زمان کے اس تصور کی وجہ سے ہے جو شاعرہ اور نیوٹن نے پیش کیا تھا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا یا انائے مطلق جو کہ قادر مطلق، آزاد اور خلاق مشیت ہے آیا شوپنہار کے اندھے ارادے کی طرح تمام شر ہے یا جیسا کہ براؤننگ کا خیال تھا کہ یہ تمام خیر ہے۔ اقبال اس مسئلہ پر کوئی حتمی رائے نہیں قائم کرتا۔ تاہم اس کا خیال ہے کہ شر کو کائنات کی سکیم سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ خیر اور شر دونوں ایک ہی کل کے اندر موجود ہیں۔ تاہم عقیدے کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فتح بالآخر ’’ خیر‘‘ کی ہوتی ہے۔ خدا عالم کل ہے لیکن خدا کا علم ہمارے علم جیسا نہیں۔ ہمارا علم موضوع اور معروض کی ثنویت کی بنا پر تشکیل پاتا ہے۔ اقبال جلال الدین دوانی، عراقی اور راٹس (Royce) کے اس نقطہ نظر کی بھی حمایت نہیں کرتا جس کی رو سے خدا کا علم تمام خطہ تاریخ کا جو کہ واقعات کے ایک سلسلے کی حیثیت رکھتا ہے، ایک ہی غیر تقسیم پذیر فعل ادراک ہے۔ اس سے علم کی حیثیت ایک قسم کی منفعل آگہی کی سی بن جاتی ہے۔ یعنی اس نظریے سے یہ لازم آتا ہے کہ کائنات میں رونما ہونے والے واقعات پہلے سے متعین ہیں اور خدا صرف ان سے آگہی حاصل کرتا ہے۔ خدا کا علم اس کی ذات سے باہر کسی شے کا نہیں۔ اس کے برعکس یہ ایک زندہ جاوید اور تخلیقی عمل ہے۔ خدا کا عمل اس کی تخلیقی فعلیت کے مترادف ہے۔ وہ جب جانتا ہے تو تخلیق کرتا ہے اور جب تخلیق کرتا ہے تو جانتا ہے بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ ہم اس کے علم کی نوعیت کو جو کہ عمل تخلیق بھی ہے، کماحقہ بیان کر سکیں۔ انائے مطلق کی ایک اور نمایاں صفت ’’ ابدیت‘‘ ہے۔ ریاضیاتی زمان کے اعتبار سے ہم ہر شے کو ’’ آغاز‘‘ و انجام کے حوالے سے دیکھتے ہیں لیکن انائے مطلق میں تغیرات متسلسل نہیں بلکہ باحمد گریوں مدغم ہیں کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں حالت یہاں سے شروع ہوتی ہے اور یہاں ختم ہوتی ہے۔ اس لیے دوران خالص میں آغاز و انجام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خود کائنات حیات الٰہیہ میں ایک گذرتے ہوئے لمحے کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ زمان و مکان کے وہ پیمانے جو ہمارے عام تجربے کا تار و پود بناتے ہیں حقیقت مطلقہ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ حقیقت مطلقہ کے پیچھے نہ ماضی ہے اور نہ اس کے آگے مستقبل ہے اس کی ایک یکتائی ایک جرثومے کی نامی وحدت کا درجہ رکھتی ہے جس میں کہ ماضی کا تمام ورثہ اور مستقبل کے تمام امکانات غیر تقسیم پذیر طور پر موجود ہوتے ہیں۔ عام تعریف کی رو سے ابدیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں آغاز و انجام نہیں ہوتا اگر اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو انائے مطلق ابدی ہے۔ 4 اب ایک بنیادی اہمیت کا سوال ابھرتا ہے کہ اگر حقیقت مطلقہ تو الد و تناسل سے بالاتر وحدت ہے تو پھر ایک متناہی خودی کا اس سے کیا تعلق ہے 41؎ یہ سوال دراصل مسئلہ تخلیق سے تعلق رکھتا ہے کائنات، انسان اور خدا کا تعلق شروع ہی سے فلاسفہ اور متکلمین کے لیے وجہ نزاع بنا رہا ہے فلاسفہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ کائنات کا ایک ایسا منظم اور مربوط تصور پیش کیا جائے جس میں خالق اور مخلوق، روح اور مادہ ذہن اور جسم دو ایسے انتہائی اصول نہ بن جائیں کہ ایک کو دوسرے سے اخذ ہی نہ کیا جا سکے۔ افلاطون کے نظام فکر میں یہی کوشش کی گئی اور دنیائے موجودات کو دنیائے تصورات کے ناتمام عکس کہا گیا لیکن یہ مسئلہ تشبیہات اور استعارات سے حل نہ ہو سکا۔ ارسطو کو بھی خالص صورت کے بالمقابل ایک اصول اولیٰ یعنی ازلیٰ مادے کو ماننا پڑا۔ اس مسئلہ کا حل فلاطینوس نے یہ نکالا کہ تخلیق عن العدم یا خالق اور مخلوق کی ثنویت کا انکار کر دیا اور کہا کہ مخلوقات دراصل ذات احد کے صدورات ’’ Emanations‘‘ ہیں اس طرح اس کا نظریہ وحدت الوجود کی ہی ایک شکل بن گیا۔ اسپنوزا نے مسئلہ تخلیق کے حل کے لیے اپنا ہندسی طریق کار پیش کیا۔ جس طرح علم ہندسہ کی کسی تعریف سے بعض قضا یا نتائج کی صورت میں منطقی لزوم کے ساتھ اخذ ہوتے ہیں، اسی طرح جوہر واحد یعنی خدا کی مجرد وحدت سے فکر اور امتداد کی لامتناہی صفات اخذ ہوتی ہیں اور ان دو صفات سے بعد ازاں شنون (Modes) منطقی طور پر اخذ ہوتے ہیں مثلاً تکون کی تعریف ہے: ’’ ہر وہ سطح جو تین خطوط مستقیم سے گھری ہو، تکون ہے‘‘ اس تعریف سے یہ نتیجہ منطقی لزوم کے ساتھ نکلتا ہے کہ تکون کے اندرونی تینوں زاویوں کا مجموعہ دو قائمہ زاویوں کے برابر ہے۔ اسپنوزا کا خیال تھا کہ کائنات کی مادی اشیاء اور افراد جو ہر مجرد کی نوعیت و ماہیت سے یوں اخذ ہوتے ہیں جیسے قیاس کے مقدمات میں سے نتیجہ لائنز نے بھی اس مسئلہ سے تعرض کیا اور کہا کہ بر ترین موناد (Supreme Monad) یا خدا سے مونادوں کا لمعان (Fulguration) ہوتا ہے۔ اقبال بھی کم و بیش اسی مفہوم میں خود یوں یا اناؤں کے عالم ظہور میں آنے کا ذکر کرتا ہے: ’’ بہر کیف میری رائے میں حقیقت مطلقہ کا تصور بطور ایک اناہی کے کرنا چاہیے اور اس لیے میرے نزدیک انیت مطلقہ سے انیتیں (یعنی خودیاں) ہی ظہور پذیر ہو سکتی ہیں یا پھر دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ انیت مطلقہ کی تخلیقی قدرت کا اظہار جس میں فکر کو عمل کے مترادف سمجھنا چاہیے، ان وحدتوں کی ہی شکل میں ہوتا ہے جن کو ہم انا سے تعبیر کرتے ہیں۔ گویا کائنات کا ہر عمل، خواہ اس کا تعلق مادی جواہر کی میکانیاتی حرکت سے ہو یا ذات انسانی میں فکر کی آزادانہ کار فرمائی سے۔ سب کی حقیقت ایک عظیم اوربرتر انا کے انکشاف ذات کے سوا اور کچھ نہیں۔ لہٰذا قدرت الٰہیہ کا ہر جوہر خواہ اس کا درجہ پست ہو یا بلند، اپنی ماہیت میں ایک انا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انیت یا خودی کا بھی اپنا ایک درجہ ہے، بڑا اور چھوٹا! بایں ہمہ بزم ہستی میں ہر کہیں خودی ہی کا نغمہ لحظہ بہ لحظہ تیز ہو رہا ہے اور ذات انسانی میں اپنے معراج کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی تو اس لیے حقیقت مطلقہ کو انسان کی رگ جاں سے بھی قریب تر ٹھہرایا ہے کیونکہ یہ حیات الٰہیہ کا ہی سیل رواں ہے جو ہمارے وجود کا سرچشمہ ہے اور جس میں ہم موتیوں کی طرح پیدا ہوتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔‘‘ یہاں اقبال نے متناہی خودیوں کے عالم وجود میں آنے کے لیے ’’ صدور‘‘ یا ’’ لمعان‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی بلکہ (Proceed) استعمال کیا ہے اس لفظ کا مفہوم بھی کم و بیش صور کا ہی ہے۔ تاہم اقبال کا وحدت الوجود کے بارے میں رویہ مثبت نہ تھا۔ شاید اسی لیے اس نے صدور کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ متناہی خودی اگرچہ ذات الٰہیہ سے ہی ظہور پذیر ہوتی ہے تاہم ایک دفعہ عالم وجود میں آ جانے کے بعد اس کی ذات الٰہیہ سے غیریت قائم رہتی ہے۔ اسی لیے اقبال نے موتیوں کی مثال دی ہے۔ موتی پانی کی بوند سے ہی عالم وجود میں آتا ہے لیکن وجود میں آنے کے بعد پانی اور موتی کی ووٹی برقرار رہتی ہے۔ اگرچہ موتی پانی کے اندر اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ تاہم اپنی انفرادیت نہیں کھوتا وحدت الوجود کے نقطہ نظر سے متناہی خودی پانی کی بوند ہے جو ذات احد کے بیکراں سمندر میں گم ہو جاتی ہے اور اپنا تشخص کھو بیٹھتی ہے۔ اقبال مولانا روم کا اتباع کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ خودی وصال الٰہی میں اپنی انفرادیت نہیں کھو بیٹھتی جس طرح لوہا تپ کر آگ کے ساتھ آگ بن جاتا ہے لیکن اپنی انفرادیت نہیں کھوتا ویسے ہی انسان صبغۃ اللہ اختیار کر کے ذات الٰہیہ کا عکاس تو ضرور بن جاتا ہے لیکن اپنا تشخص اور عینیت نہیں کھوتا چنانچہ حیات الٰہیہ کا سیل رواں متناہی خود یوں کو اپنے اندر لیے ارتقاء پذیر رہتا ہے۔۔۔۔ اور متناہی خودیوں کے تشخص کو مٹاتا نہیں۔ پروفیسر وھیٹمور فکر اقبال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ الغرض اقبال کے تصور کو وحدت الوجود نہیں بلکہ وحدت الشہود کہا جا سکتا ہے۔ اس موخر الذکر کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات اور خدا ایک نہیں (وحدت الوجود) نہ ہی الہ پرستی (Deism) کی طرح خدا کو کائنات سے علیحدہ سمجھا جا سکتا ہے بلکہ کائنات کو خدا کے اندر سمجھا جاتا ہے (الہٰیت Theism) جو کہ اپنی الوہی نوعیت کے اعتبار سے اس سے ماورا بھی ہے۔‘‘ اقبال کے اکثر شارح اسے وحدت الوجود کے الزام سے بچانے کے لیے کہتے ہیں کہ اس کا زیادہ زور خدا کی سریانیت (Immanece) کی بجائے اس کی ماورائیت (Transcendence) پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال وحدت الوجود سے حتی الوسع اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب وہ خودی کے استحکام کا ذکر کرتا ہے تو خدا کی سریانیت پر ہی زور دیتا ہے لیکن واضح رہے کہ یہ سریانیت قطرے کے بحر میں گم ہو جانے یا انسان کے خدا میں جذب ہو جانے والی نہیں۔ اقبال بحر کو قطرے میں سمونے اور خدا کے انسان کے اندر جذب ہونے کی بات کرتا ہے۔ یعنی وہ کسی طور پر خودی کی انفرادیت کالعدم کرنے پر تیار نہیں۔۔۔۔ انفرادیت فرد کامل یعنی خدا کی صفت ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتاہے کہ حیات الہٰیہ کے سیل رواں سے وجود پذیر ہونے والی خودیاں اپنے اندر نفی خودی کا رحجان رکھیں؟ اناؤں کا عالم کثرت حیات الٰہیہ سے ہی وجود پذیر ہوتا ہے لیکن ایک دفعہ وجود میں آ جانے کے بعد یہ اس سے مختلف اور علیحدہ ہو جاتا ہے۔ مخلوق انائیں اپنی اپنی انفرادیت قائم کر لیتی ہیں۔ وہ انائیں جو اپنا اظہار ذات بھرپور انداز میں نہیں کر سکتیں کمتر درجوں کی انائیں ہیں۔ انسانی انا چونکہ بڑی شدت کے ساتھ اپنا اظہار ذات کرتی ہے اس لیے یہ بلند تر درجے پر فائز ہے۔ خدا مراتب ہستی میں عظیم ترین انا ہے کیوں کہ تمام کائنات اس کا اظہار ذات ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی خودی کی نوعیت کیا ہے؟ اقبال اپنے نظریہ خودی کی تشریح سے پہلے مسلمان متکلمین کے نظریہ کا ذکر کرتا ہے جس کی رو سے روح مادے کی یا تو نہایت ہی لطیف شکل ہے یا محض عرض (Accident) اس لیے مادے کے ساتھ فنا ہو جاتی ہے۔ قیامت کے دن جب حشر اجساد ہو گا تو ان کی از سر نو تخلیق ہو گی۔ اقبال کے خیال میں حکمائے اسلام پر یونانی فلسفے کے اثرات بہت گہرے تھے۔ لہٰذا انہوں نے یونانی فلسفے کی نہج سے ہٹ کر روح کی ماہیت پر غور نہیں کیا اور نہ ہی شعور انسانی جیسے اہم مسئلے پر تحقیق کی۔ اس کے بعد وہ منصور کے نعرہ انا الحق کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہتا ہے: ’’ حلاج کا گذر جن احوال سے ہوا ان میں ابتداء تو اگرچہ کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جسے غیر طبعی کہا جائے لیکن جب یہی احوال پختگی کو پہنچ جائیں تو خیال ہونے لگتا ہے کہ ہمارے شعور کے بعض مراتب ایسے بھی ہیں جن سے ہم قطعی بے خبر ہیں۔‘‘ ابن خلدون وہ پہلا مفکر ہے جس نے ان احوال کی اہمیت کو سمجھا اور ان پر باقاعدہ تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔ جدید نفسیات میں بھی اس مسئلے کو صحیح طرح زیر بحث نہیں لایا گیا۔ تاہم بریڈلے (Bradley) نے عصر حاضر میں اس مسئلے کی اہمیت کو صحیح طرح سمجھا اور اپنی کتاب Apperance and reality میں خودی کی نوعیت و ماہیت سے تفصیلاً بحث کی ہے۔ اسے خودی کی حقیقت کی نفی کے تمام تر استدلال کے باوجود کسی نہ کسی طرح خودی کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ اقبال کے نزدیک انسان کی دم بدم متغیر ذہنی کیفیات کا کوئی مرکز و محور ہونا چاہیے۔ اس مرکز و محور کو وہ انا یا خودی سے تعبیر کرت اہے: ’’ لہٰذا محسوسات و مدرکات کا مرکز متناہی ایک حقیقت ہے۔ گو اس حد تک نازک اور عمیق کہ یہ حقیقت عقل کی گرفت میں نہیں آتی۔۔۔۔ اندریں صورت یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی سب سے بڑی خصوصیت کیا ہے۔‘‘ سب سے پہلے تو یہ کہ خودی کا اظہار اس وحدت میں ہوتا ہے جسے ہم کیفیات نفسی کی وحدت سے تعبیر کرتے ہیں لیکن کیفیات نفسی کا وجود ایک دوسرے سے الگ تھلگ یعنی باہمدگر منفعل تو ہے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے کچھ معنوں کا حامل اور باہم متعلق ایک نفسی کیفیت دوسری نفسی کیفیت سے مشروط ہے اور اس کے بغیر اس کے معانی متعین نہیں کیے جا سکتے۔ اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ انا مختلف کیفیات ذہنی کا مرکز و محور ہے جس کا براہ راست علم ہمیں داخلی ادراک یا وجدان میں ہوتا ہے۔ اپنی خودی کے ایقان سے بڑھ کر ہمیں کسی شے کا یقین نہیں ہوتا کیونکہ اس کا تصور استنباطی نتیجہ کے طور پر اخذ نہیں ہوتا بلکہ خودی کو ہم اپنے داخلی تجربے میں براہ راست محسوس کرتے ہیں۔ ذہنی و نفسی کیفیات کی یہ وحدت مادی اشیا کی وحدت سے مختلف ہے۔ افکار و خیالات اور عقاید و نظریات کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ایک دوسرے کے دائیں بائیں واقع ہیں اسی طرح مادی اشیا کے اجزائے ترکیبی اس شے کی وحدت سے پیدا ہو کر بھی اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں جبکہ ذہنی کیفیات خودی کی وحدت سے جدا نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔ ہم زمان و مکان کے ان پیمانوں کا اطلاق خودی پر نہیں کر سکتے جن کا اطلاق عام مادی اشیاء پر ہوتا ہے۔ خودی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ کئی نظامات زمان و مکان وضع کر سکے۔ عالم خواب میں زمان و مکان کے پیمانے یکسر بدل جاتے ہیں۔ خودی کی داخلی زندگی زمان محض سے عبارت ہے اور جب خارجی طور پر یہ اپنا اظہار جسم میں کرتی ہے تو اس کا زمان ریاضیاتی بن جاتا ہے۔ یعنی غیر تقسیم پذیر تغیر آنات و لمحات میں منقسم ہو جاتا ہے۔ خودی کی دوسری نمایاں خصوصیت بطور ایک وحدت کے اس کے خفا یا خلوت کا پہلو ہے۔ اگر آپ دو مقدمات میں سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ یہ دونوں مقدمات ایک ہی ذہن کے اندر موجود ہوں۔ اگر زید یہ مقدمہ پیش کرے: ’’ تمام انسان فانی ہیں‘‘ ! اور بکریہ یہ مقدمہ پیش کرتے: ’’ سقراط انسان ہے‘‘ تو اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ’’ سقراط فانی ہے۔‘‘ نہ صرف منطقی فکر میں بلکہ عام جذباتی کیفیات میں بھی کسی ’’ انا‘‘ یا ’’ خودی‘‘ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دندان ساز میرے دانت کے درد کو محسوس نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جب میں کسی فرد یا مقام کو پہچان لیتا ہوں تو میرے ہی حافظے میں اس کے متعلق یادیں ابھرتی ہیں۔ میرا کرب میرا کرب ہے اور میری مسرت میری مسرت ہے۔ انا کا یہ تصور اتنا بنیادی اور اتنا اہم ہے کہ محسوسات اور مدرکات کے مقابلے میں کوئی دوسرا میری نیابت نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ دو مختلف راستوں کے انتخاب کے معاملے میں خدا بھی میری جگہ انتخاب و اختیارکا عمل انجام نہیں دے سکتا ہے۔ کیفیات ذہنی کا یہی بے مثل ربط باہمی ہے جو عینیت کی بنیاد ہے اور جسے ہم لفظ میں (I) یا ’’ انا‘‘ (ego) میں ظاہر کرتے ہیں۔ اقبال اس نظریے کے حق میں نہیں جس کی رو سے روح یا نفس کو ایک ایسا جوہر سمجھا جاتا ہے جو خود غیر تغیر پذیر ہو اور تمام تغیرات کا محل ہو۔ کسی عام مادی شے کے بارے میں ہمارا یہ تصور ہے کہ اس کی کچھ صفات مثلاً وزن، رنگ، امتداد وغیرہ ہوتی ہیں جبکہ وہ خود ان سے علیحدہ مستقل بالذات وجود رکھتی ہے۔ نفسی کیفیات کو بھی اسی نظریہ کی روشنی میں دیکھا جاتا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ روح ایک مستقل بالذات اور غیر تغیرپذیر جوہر ہے اور مختلف نفسی کیفیات اس کی صفات ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اقبال کے خیال میں: ’’ بالفرض ہم تسلیم بھی کر لیں کہ محسوسات و مدرکات کی ماہیت فی الواقع صفات کی ہے، جب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ روح میں یہ صفات کیسے پیدا ہوئیں؟ علیٰ ہذا یہ کہ ہمارے پاس اس میں ان کی موجودگی کا ثبوت کیا ہے؟ ہم اس کی توجیہہ کریں گے تو کیونکر؟ اس لیے کہ واردات شعور سے تو یہ ہرگز مترشح نہیں ہوتا کہ خودی ایک جوہر روحانی ہے۔‘‘ اقبال خودی کی نوعیت و ماہیت کے تعین کے لیے عصر حاضر کی نفسیات سے رجوع کرتا ہے۔ اس ضمن میں وہ ولیم جیمز کے خیالات اور ندرت کا اعتراف کرتا ہے۔ ولیم جیمز کا خیال تھا کہ انسانی شعور ایک سیل رواں کی طرح ہے اور اس میں مختلف کیفیات کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ہر شعوری کیفیت ایک مستقل بالذات اور غیر تقسیم پذیر اکائی ہے جس میں علم اور حافظہ دونوں کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس طرح ہر نئی آنے والی کیفیت ہر گذرنے والی کیفیت سے منسلک اور مربوط ہوتی جاتی ہے۔ اقبال اگرچہ ولیم جیمز کی ذہانت و فطانت کا قائل ہے تاہم اس کے نزدیک ولیم جیمز کا نظریہ شعور کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ شعور الگ الگ اجزا کا مجموعہ نہیں جو ایک دوسرے کو اپنی خبر دیتے رہتے ہیں۔ مزید برآں شعور کے اس نظریے سے خودی کی نوعیت و ماہیت پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ اقبال کے نزدیک خودی احساسات اور نفسی کیفیات سے بالاتر کوئی جوہر نہیں جو شعور کی مختلف حالتوں کو ایک سلسلے میں پرو کر انہیں وحدت و تنظیم عطا کرتا ہے: ’’ یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہمارے نزدیک خودی محسوسات اور مدرکات کی اس کثرت سے جو باہم دگر پیوست رہتی ہے۔ کوئی الگ تھلگ اور بالاتر شے ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ہمارے محسوسات و مدرکات کا مطلب ہی یہ ہے کہ خودی کا عمل دخل جاری ہے۔ جب ہم کسی کا ادراک کرتے ہیں یا اس پر حکم لگاتے ہیں یا کوئی ارادہ کرتے ہیں تو ایسا کرنے میں خودی ہی سے آشنا ہوتے ہیں۔خودی کی زندگی اطناب کی ایک حالت ہے جس کو ا س نے اپنے ماحول پر اثر آفرینی یا اس سے اثر پذیری کی خاطر پیدا کر رکھا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہو گا کہ اثر آفرینی اور اثر پذیری کی اس کش مکش میں خودی کا وجود اس سے باہر رہتا ہے۔ ہرگز نہیں، برعکس اس کے وہ ایک راہ نما توانائی (Directive Energy) کی طرح اس میں شامل رہے گی لہٰذا اس کے یہی تجربات اور واردات ہیں جن سے اس کی تشکیل اور اس کے نظم و ضبط کا راستہ کھلتا ہے۔‘‘ اقبال خودی کو ایک راہ نما (Directive) اصول کی حیثیت دیتا ہے اس ضمن میں وہ خلق اور امر کے مابین قائم کردہ قرآن کی تخصیص کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ خودی کو کوئی شے سمجھنے کی بجائے ایک عمل سمجھنا چاہیے۔ ہمارے محصوصات و مدرکات کا سلسلہ جس سے ہماری ذہنی زندگی عبارت ہے ایک امر آفریں رویے یا راہ نما مقصد کا رہین منت ہے۔ کسی شخص کی ذات یا اس کی انا کو جاننے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ اس کی تمنائیں کیا ہیں او رجب وہ کسی شے پر حکم لگاتا ہے یا کوئی ارادہ کرتا ہے تو کیونکر کرتا ہے۔ اقبال جسم اور ذہن کی تخصیص اور امتیاز کو قبول نہیں کرتا۔ ڈیکارٹ کی ثنویت اس کے نزدیک فروعی ہے۔ کوئی فعل وقوع پذیر ہوتا ہے تو ذہن اور جسم ایک ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص اگر میز سے کتاب اٹھاتا ہے تو یہ ایک ایسا غیر تقسیم پذیر فعل ہے جس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں اتنا حصہ جسم کا ہے اور اتنا ذہن کا! ہم یہ پہلے دیکھ آئے ہیں کہ مادہ باہمدگر مربوط حوادث کا نظام ہے۔ اس اعتبار سے جسم کو ذہن یا روح کے اعمال کا ماحصل کہنا چاہیے یا اسے اس کی (یعنی ذہن یا روح کی) عادت کہنا چاہیے۔ اس نظریے کی رو سے خودی آزاد اور خود مختار فعالیت بن جاتی ہے۔ جس میں ہدایت (Direction) اور مقصدیت کے عناصر کار فرما ہیں۔ خودی کے دو درجے ہیں: نفس فعال (Efficient Self) نفس بصیر (Appreciative Self) نفس فعال کی تشکیل زمان و مکان کے عام پیمانوں سے ہوتی ہے جبکہ نفس بصیر دوران خالص سے رابطہ رکھتا ہے اور حیات الٰہیہ سے براہ راست فیضیاب ہوتا ہے یہ تخصیص کم و بیش وہی ہے جو برگساں نے انفرادی نفس (Individual Self) اور سماجی نفس Social Self کے مابین قائم کی تھی۔ اقبال کا خیال ہے کہ انسان کے سامنے دو راستے کھلے ہیں۔ وہ انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد سے خودی کو مستحکم بنا سکتا ہے یا بے عملی اور بے حسی کی راہ اپنا کر اسے کمزور کر سکتا ہے خودی کا استحکام اسے بقائے دوام عطا کرتا ہے جب کہ اس کی کمزوری اسے مرگ ابد کے سوا کچھ نہیں دیتی۔ اقبال نے اپنے فلسفے کے ’’ اجمالی خاکے‘‘ میں جو اس نے پروفیسر نکلسن کی فرمائش پر خود تحریر کیا تھا، خودی کے اس پہلو پر یوں روشنی ڈالی ہے: ’’ حیات جب انسانیت کا جامہ اختیار کر لیتی ہے تو اس کا نام ایغو (Ego) یا شخص یا خودی ہو جات اہے اور شخصیت جدوجہد کی مسلسل حالت سے عبارت ہے۔ شخصیت کا قیام اسی حالت کے تسلسل پر منحصر ہے۔ اگر یہ حالت قائم نہ رہے تو لا محالہ تعطل یا ضعف کی حالت طاری ہو جائے گی اور یہ بات خودی کے حق میں سم قاتل ہے۔ شخصیت (Personality) چونکہ انسان کا سب سے بڑا کمال ہے اس لیے اس کا فرض اولیں یہ ہے کہ وہ اس جوہر بے بہا کو مسلسل سرگرم عمل رکھے اور وہ عمل ایسا ہو کہ خودی کی ترقی کا باعث ہو۔ اسی کو مذہب کی اصطلاح میں ’’عمل صالح ‘‘ کہتے ہیں۔ اسی لیے قرآن میں بار بار اس کی تاکید آئی ہے۔ مسلسل جدوجہد ہی نئی زندگی ہے۔‘‘ اقبال کا خیال ہے کہ خودی کی حیات کے لیے ایک پیہم حالت کاوش بہت ضروری ہے۔ اسی وجہ سے وہ ان فلسفوں پر سخت تنقید کرتا ہے۔ جو فنا کو انسان کا نصب العین قرار دیتے ہیں۔۔۔ افلاطون، بدھ مت اور ایرانی تصوف بالخصوص اس کا ہدف تنقید بنتے ہیں وہ نفی خودی کی بجائے اسے اس قدر مضبوط بنانا چاہتا ہے کہ یہ موت کے صدمہ عظیم سے بھی متاثر نہ ہو سکے: ’’ اگر خودی کی حالت کاوش برقرار رہے گی تو گمان غالب یہ ہے کہ موت کا صدمہ ہماری خودی کو متاثر نہیں کر سکتا۔ ممکن ہے کہ موت موجودہ زندگی اور آئندہ زندگی کے درمیان ایک وقفہ سکون ہو جسے قرآن شریف عالم برزخ سے تعبیر کرتا ہے۔ موت کا صدمہ صرف وہ افراد برداشت کر سکیں گے جنہوں نے اس زندگی میں اپنی خودی کو پختہ کر لیا ہو گا۔‘‘ استحکام خودی کے عوامل میں عشق انتہائی اہمیت کا حامل ہے: ’’ خودی میں عشق سے پختگی پیدا ہوتی ہے۔ عشق کے معنی ہیں کسی چیز کو اپنے اندر جذب کرنا یا جزو ذات بنانا۔ عشق کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ ایک نصب العین اپنے سامنے رکھا جائے۔ عشق کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عاشق اور معشوق دونوں میں شان انفرادیت پیدا کرتا ہے۔ جس طرح عشق سے خودی میں پختگی اور توانائی آتی ہے، سوال سے ضعف اور نقص پیدا ہوتاہے جو بات تمہیں ذاتی کوشش کے بغیر حاصل ہو جائے وہ سوال کے ذیل میں آتی ہے۔‘‘ اس عشق کی بہترین مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ ہے جو ایک عظیم ترین مقصد کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اقبال تربیت خودی کے تین مراحل کا ذکر کرتا ہے: 1۔ دستور الٰہی کی اطاعت 2۔ ضبط نفس 3۔ نیابت الٰہی جب انسان دستور الٰہی کی پابندی اور ضبط نفس میں اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو وہ انسانی ارتقاء کی آخری منزل یعنی نیابت الٰہی پر پہنچ جاتا ہے: ’’ جو شخص اس منزل پر پہنچ جاتا ہے وہ اس دنیا میں خلیفۃ اللہ ہوتا ہے۔ وہ کامل خودی کا مالک اور انسانیت کا منتہائے مقصود ہوتا ہے یعنی اس کی زندگی میں آ کر حیات اپنے مرتبہ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ کائنات کے پیچیدہ مسائل اس کی نظر میں سہل معلوم ہوتے ہیں اور اعلیٰ ترین قوت اور بر ترین علم دونوں کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں فکر اور عمل، جبلت اور ادراک سب ایک ہو جاتے ہیں۔ چونکہ وہ سب کے آخر میں ظاہر ہو گا، اس لیے وہ تمام صعوبتیں جو انسانیت کو ارتقائی منازل طے کرنے میں لاحق ہوتی ہیں، برمحل ہیں۔ اس کے ظہور کی پہلی شرط یہ ہے کہ بنی نوع آدم جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے ترقی یافتہ ہو جائے۔ فی الحال اس کا وجود خارج میں موجود نہیں لیکن ا نسانیت کی تدریجی ترقی اس امر کی دلیل ہے کہ زمانہ آئندہ میں افراد کاملہ کی ایسی نسل پیدا ہو جائے گی جو حقیقی معنوں میں نیابت الٰہی کی اہل ہو گی زمین پر خدا کی بادشاہت کے یہ معنی ہیں کہ یکتا افراد کی جماعت جمہوری رنگ میں قائم ہو جائے۔ ان کا صدر اعلیٰ وہ شخص ہو گا جو ان سب پر فائق ہو گا اور اس کا نظریہ دنیا میں نہ مل سکے گا۔ نیٹسے نے بھی اپنے تخیل میں افراد یکتا کی ایسی جماعت کی ایک ایسی جھلک دیکھی تھی لیکن اس کے نسلی تعصب نے اس تصویر کو بھونڈا کر دیا۔‘‘ ٭٭٭ تیسرا باب حواشی 1 علامہ اقبال تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ (ترجمہ نذیر نیازی) بزم اقبال لاہور 1983 ص807 2. Dr. waheed Qureshi (ed.) Selections from the iqbal review academy, Lahore 1983, p. 258 3تشکیل جدید: ص208 4 ایضاً ص209-208 5ایضاً 6ایضاً 7 ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین: مجلس ترقی ادب لاہور 1973۔ ص121 8تشکیل جدید: ص33 9وجدان اور صوفیانہ واردات پر اقبال کے نظریات کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ کیجئے: Ishrat Hussain enver the Petaphysics of Iqbal Sh. M. Ashraf, Lahore 1963. PP. 10-33 10تشکیل جدید: ص4,3,2 11ایضاً ص13 12ایضاً ص43 13ایضاً ص43-44 14ایضاً ص45-46 15 Cagito ergo sum میں سوچتا ہوں اس لیے ہوں 16 تشکیل جدید: ص48 17. Ishrat H. Enver Metaphysics of iqbal, p.60 18تشکیل جدید: ص52 19ایضاً ص51 20ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ص623 21 زینو کے حرکت و کثرت کے خلاف دلائل کا مطالعہ کرنے کے لیے دیکھیے: نعیم احمد: تاریخ فلسفہ یونان: ص25 22ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم فکر اقبال ص263-624 23 تشکیل جدید: ص56 24 ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال ص625-626 25 برگساں کے فلسفہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے دیکھئے: 1. Henery Bergson, Creative Evolution. 2. C.E.M. Joad. Guide to Modern Thought (Chop Bergson) 3. W.K. Wright. A History of Modern Philosophy (Chap. Bergson) 26. B.A. Dar Iqbal and post kantin Voluntarism p (ii) 27. A Dagobert D. Runes (ed) the Dictionary of Philisophy p. 333 28مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: ’’ انسائیکلو پیڈیا فلاسفی‘‘ جلد ص270 تا 272 29. B.A. Dar, Iqbal and Post. Kantian Voluntarism P. 7 30ایضاً 31 تشکیل جدید: ص26 32 ایضاً ص80 33 ایضاً ص84 34 ایضاً ص90 35 خلیفہ عبدالحکیم: فکر اقبال: ص64 36. M.M Sharif Iqbal,s Conception of God in iqbal as thinker pp. 104-106 Original text is as follows: The so called external world with all its sensuous wealth including serial time and space and the so called world of feelings, ideas and ideals, are both creations of self, following fichle and ward, iqbal tells is that the self pasits from itself the not-self for its own wills. desires create them not the desires. 37تشکیل جدید: ص96 38. M.M. Sharif Iqbals Concept of God in Iqbal as a thinker p 109 40 اقبال کے نظریہ ابدیت کے لیے ملاحظہ کیجئے: i. Ishrat enver petaphysics of iqbal pp. 91-92 ii. Naeem ahmad Iqbal, s Concept of Eternity Iqbal Review, Lahore, April 1977. 41خدا اور انسان کے تعلق پر مزید مطالعے کے لیے دیکھیے: نعیم احمد: انائے انسانی اور انائے کبیر کا تعلق۔۔۔ اقبال کی نظر میں: مجلہ ادراق لاہور ستمبر، اکتوبر1975 ص188 42 تشکیل جدید: ص109-110 43. Whittemore Iqbal,s Pantheism in Selections from the iqbal review p.265 44 تشکیل جدید: ص144 45 ایضاً ص148 46 ایضاً ص152 47 ایضاً ص154 48 پروفیسر محمد یوسف خاں سلیم چشتی: شرح اسرار بہ خودی ص10 49 ایضاً ص13 50 ایضاً ص14 51 ایضاً ص15-16 چوتھا باب اقبال کے تصور بقائے دوام کا فکری پس منظر اس باب میں ہم ان مغربی مفکرین کے تصورات بقائے دوام کو زیر بحث لائیں گے جن پر اقبال نے اپنے چوتھے خطبے میں تنقید کی ہے۔ اس کے علاوہ ان مغربی فلسفیوں کا تذکرہ بھی آئے گا جن کا اثر اقبال نے بالواسطہ طور پر قبول کیا ہے۔ مغربی فلسفیوں پر تنقید کے علاوہ اقبال نے ہندوؤں کے تناسخ ارواح کے عقیدے کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔ چنانچہ ہم اس عقیدے کے بھی خدو خال واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ چونکہ اقبال نے کانٹ، ولیم جیمز اور نٹشے کے تصورات بقائے دوام کو مختصراً بیان کر کے ان پر تنقید کی ہے اس لیے ہم ان فلسفیوں کے بقائے دوام کے بارے میں نظریات سے قدرے تفصیلی بحث کریں گے اور اس کے علاوہ جیمز وارڈ، ڈاکٹر میکٹیگرٹ اور شوپنہار کے تصورات بقائے دوام سے بھی مختصراً تعرض کریں گے۔ 1 کانٹ (1804-1724) کے بقائے دوام کے بارے میں فلاسفر کے پیش کردہ مابعد الطبیعیاتی دلائل سے مطمئن نہ تھا۔ چنانچہ انتقاد عقل محض میں اس نے موزمینڈ لسان (Moses Mendelssohn) اور ہرڈر (Herder) کے ان مابعد الطبیعیاتی دلائل کا ذکر کیا ہے جن کی رو سے روح کو ’’ سادہ جوہر‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ موت کے صدمے سے متاثر نہیں ہوتا یا یہ کہ روح کے بقائے دوام کا تصور انسان کے لیے فطری بلکہ لازمی ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ: ’’ یہ دونوں براہین منطقی طور پر سقیم ہیں۔ کیونکہ روح کی سادگی سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہمیشہ قائم رہے گی۔ روح کے اندر اگرچہ کوئی ’’ امتدادی صفت‘‘ (Estensive Quality) نہیں۔ تاہم اس کے اندر عمقی صفت (Intensive Quality) ضرور ہے جو کہ بتدریج کم ہوتے ہوتے معدوم ہو سکتی ہے۔‘‘ کانٹ کے نزدیک ہر ڈر کا یہ نقطہ نظر بھی قابل قبول نہیں کہ مرنے کے بعد انسانی روح کو اس لیے قائم و دائم رہنا چاہئے تاکہ یہ زیادہ مکمل اور بہتر درجہ حیات حاصل کر سکے۔ ہم کائنات میں دیکھتے ہیں کہ فرد تو تباہ ہو جاتا ہے لیکن صرف نوع باقی رہتی ہے۔ اس مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ انفرادی روح بقائے دوام کی اہل ہے۔ 1؎ انتقاد عقل محض میں کانٹ نے انسانی عقل کی حد بندی کر کے دنیائے مظاہر اور دنیائے حقیقت کی تخصیص قائم کی تھی۔ ’’ خالص عقل‘‘ یا’’ عقل محض‘‘ صرف دنیائے مظاہر کے اندر ہی سرگرم کار رہ سکتی ہے۔ دنیائے حقیقت اس کی رسائی سے باہر ہے خدا، آزادی اور بقائے دوام جیسے مسائل کا تعلق دنیائے حقیقت سے ہے اس لیے یہاں عقل علمی (Practical Reason) کام دیتی ہے جس کا تعلق اخلاقی امور سے ہے۔ انسان بلکہ ساری کائنات کی قدر و قیمت کا تعین صرف اخلاقی بنیادوں پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر حقیقت مطلقہ کے ادراک کی صلاحیت خالص عقل میں ودیعت کی گئی ہوتی تو ’’ خدا اور ابدیت کا ہولناک نظارہ مستقلاً ہمارے سامنے رہتا۔۔۔ قانون شکنی کی کوئی جرأت نہ کرتا۔۔۔۔ اکثر اعمال کی قانون سے مطابقت محض خوف کی وجہ سے ہوتی اور اخلاقی اعمال کا کوئی وجود نہ رہتا جن پر کہ عقل اعلیٰ کی نگاہ میں نہ صرف فرد کی بلکہ کائنات کی قدر و قیمت کا انحصار ہے۔‘‘ 2؎ ’’ انتقاد عقل عملی‘‘ کے آخر میں کانٹ بڑے واضح الفاظ میں کہتا ہے: ’’ جتنا زیادہ اور مستقل مزاجی سے ہم غور کرتے ہیں، دو چیزیں ہمارے ذہن کو ہمیشہ بڑھتے ہوئے جذبہ ستائش اور رعب سے معمور کر دیتی ہیں:‘‘ ایک تو اوپر تاروں بھرا آسمان اور دوسرا اندر کا اخلاقی قانون۔۔۔۔ میں ان دونوں کو اپنے سامنے پاتا ہوں اور انہیں اپنے وجود کے شعور سے براہ راست مربوط کر دیتا ہوں۔۔ کانٹ کے نزدیک تاروں بھرے آسمان کا مطالعہ سائنس اور عقل محض کا دائرہ کار ہے جبکہ داخلی زندگی کا تعلق اخلاقی شعور سے ہے اور یہی اخلاقی شعور فرد کی انفرادی اور کائنات کو مجموعی قدر و قیمت عطا کرتا ہے۔ جب میں کائنات اور اس کی بے پناہ وسعت پر غور کرتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میری انفرادیت حیثیت اس کے اندر معدوم ہو گئی ہے لیکن۔ ’’ جب میں دوبارہ غور کرتا ہوں تو میری اہمیت ایک ذہین ہستی کی حیثیت سے میری شخصیت کے توسط سے لامتناہی طور پر بلند ہو جاتی ہے۔ کیونکہ تب اخلاقی قانون مجھ پر یہ منکشف کرتا ہے کہ حیوانی فطرت اور تمام تر دنیائے حسیات سے ماوراء میری ایک قائم بالذات زندگی ہے۔۔۔۔ میری ہستی کی تشکیل ہی اس طرح ہوئی ہے کہ یہ اس اخلاقی قانون کا اتباع کرے جو اس زندگی کی شرائط اور کوائف سے محدود نہیں بلکہ لا انتہا کی طرف پھیلا ہوا ہے۔‘‘ 3؎ ’’ انتقاد عقل محض‘‘ میں کانٹ نے اپنے نظریہ بقائے دوام کی اولیں شکل پیش کی۔ اس کی رو سے بقائے دوام عقل عملی کا ایک مفروضہ ہے۔ اس دنیا میں مسرت اور فضیلت ایک دوسرے کے متوازی نہیں چلتے۔ بہت سے برے لوگ ایسے ہیں جنہیں ان کے اعمال بد کی اس دنیا میں سزا نہیں ملتی اور بہت سے نیک لوگ ایسے ہیں جن کی اچھائیوں کی جزا اس دنیا میں انہیں نہیں ملتی لیکن عقل اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اچھے کاموں کی جزا اور برے کاموں کی سزا ہونی چاہیے۔ چنانچہ ایک دوسری دنیا ہونی چاہیے جس میں عدل کے تقاضے پورے ہو سکیں لیکن ’’ انتقاد عقل عملی‘‘ میں کانٹ ذرا مختلف انداز استدلال اپناتا ہے۔ اس استدلال میں جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا، زیادہ زور اخلاقی اصول پر ہے۔ اخلاقی قانون یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم مکمل ہوں اور کانٹ کے نزدیک وہ فرض، فرض ہی نہیں جس کی کہ تکمیل نہ ہو سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک فانی اور متناہی ہستی (انسان) اخلاقی قانون کے تقاضے کو کیسے پورا کر سکتا ہے؟ یہ ضروری ہے کہ اخلاقی ارتقاء نچلے درجوں سے شروع ہو اور تکمیل کی غیر مختتم بلندیوں کی طرف اپنا سفر جاری رکھے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ انسان کی زندگی کو موت کے بعد بھی ابدالآ باد تک پھیلا دیا جائے۔ کانٹ اپنے بقائے دوام کے نظریہ کو نہ تو مذہبی مشاہدے سے اخذ کرتا ہے او رنہ ہی اسے ’’اندھے عقیدے‘‘ پر مبنی قرار دیتا ہے وہ ایک طرف تو عقلیت کا حامی تھا اور دوسری طرف تصوف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لیے اس نے اخلاقی قانون کو مذہب سے بھی بلند درجہ دے دیا۔ یہ ہمارے اندر کا اخلاقی قانون ہی ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کائنات ایک علیم و حکیم خدا کی رضا کے مطابق چل رہی ہے اور ہم مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ آئندہ زندگی کیسی ہو گی؟ اس کے بارے میں کانٹ کہتا ہے کہ: ’’ ہم صرف وہی کچھ جان سکتے ہیں جو کچھ اخلاقی قانون سے عقلی طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ نہ ہم جان سکتے ہیں اور نہ اس کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ زندگی میں اخلاقی انحطاط اور اس کی پاداش میں ملنے والی سزاؤں اور اخلاقی ترقی اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی خوشحالی کا عمل ہمیشہ جاری رہے گا۔‘‘ 4؎ بعد میں چھپنے والے ایک مضمون ’’ The end of all things‘‘ میںکانٹ نے کہا کہ: ’’ بقائے دوام کا مفہوم زمان کا لامتناہی پھیلاؤ نہیں بلکہ خود زمان پر حاوی ہونا ہے۔5؎‘‘ یہاں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کانٹ کے نزدیک روح کے بقائے دوام کا معاملہ ضمنی ہے اس کے نزدیک اصل اہمیت اخلاقی قانون کی ہے۔ بقائے دوام یا کانٹ کے الفاظ میں آئندہ زندگی (Future Life) کے بارے میں اس کے نقطہ نظر کا دارو مدار اس کے اس نظریہ پر ہے کہ کائنات پر ایک ایسی ہستی حکومت کر رہی ہے جو انسانی اقدار سے غافل نہیں اور یہ کہ اخلاقی قانون ہی انسان اور کائنات کو قدر و قیمت عطا کرتا ہے۔6؎ اقبال، کانٹ کی پیش کردہ دلیل کو رد تو نہیں کرتا لیکن اسے ناکافی قرار دیتا ہے کانٹ کی اخلاقی دلیل پر اقبال کے اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں: الف۔’’ بقائے دوام‘‘ عقلی عمل کا ایک مسلمہ ہے اور ہم اس پر یقین رکھنے کے لیے اس لیے مجبور ہیں کہ اخلاقی فضائل او رمسرت و سعادت کے متبائن تصورات میں ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔۔۔ لیکن جو بات غیر واضح رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ فضائل اخلاق اور مسرت و سعادت کی تکمیل کے اس عمل کو اتنے لامتناہی زمانے کی ضرورت کیوں ہے؟ 7؎ ب۔ عقل عملی کا دوسرا مسلمہ خدا ہے جو کہ فضائل اخلاق اور مسرت و سعادت کے فضائل کو ہم آہنگ کرتا ہے۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ وہ یہ ہم آہنگی کیونکر پیدا کرتا ہے؟ ج۔ وہ لوگ جو اس استدلال سے مطمئن نہیں وہ جدید مادیت کی رو سے کہہ سکتے ہیں کہ شعور اور اس کی تمام کیفیات مادی عمل ہی سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اس طرح اخلاقی شعور بھی دماغ کی پیداوار ہے اور دماغ کی ہلاکت و فنا کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائے گا۔ بقائے دوام کے بارے میں کانٹ اور اقبال کے نقطہ ہائے نظر کے فرق کی وضاحت مظفر حسین نے اس طرح کی ہے: ’’ ان سوالات کا باریک بینی سے جائزہ لیے بغیر علامہ اقبال کا موقف پوری طرح سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ یہ سوالات دراصل کائنات کی ساخت کے بارے میں ہیں، جس کے متعلق مذہب و فلسفہ کے مختلف دبستان مختلف نقطہ ہائے نظر رکھتے ہیں اور ہر نقطہ حیات بعد الموت کے بارے میں مختلف تصورات پر منتج ہوتا ہے۔ مثلاً عئسائیت کی رو سے انسان پیدائشی طور پر ہی گنہ گار ہے اور چونکہ اسے اولیں گناہ کی پاداش میں جنت سے نکال کر اس دنیا میں سزا کے طور پر بھیجا گیا ہے، اس لیے یہ دنیا اس کی آرزوؤں اور تمناؤں کے لیے سازگار ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا اسے اس دنیا سے کٹ کر اپنی تمام آرزوؤں کی تکمیل کو آخرت پر اٹھا رکھنا چاہیے۔ اس کے برعکس اسلام کا تصور کائنات ایسی مایوسی پر مبنی نہیں او روہ اس دنیا کو انسان کے اعلیٰ مقاصد کے لیے ناسازگار نہیں سمجھتا ۔ بقول اقبال اسلام اس دنیا کے بارے میں اصلاحیہ (Melioristic) نقطہ نظر رکھتا ہے جس کے مطابق اس کی اصلاح ممکن ہے اور انسان کی جدوجہد اس کی اصلاح کے لیے موثر ہے۔ لہٰذا یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ انسان کی کاوش خیر اس دنیا میں نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی اور خیر کی تمام آرزوؤں کی تکمیل کو آخرت پر اٹھا رکھنا چاہیے۔ بلکہ اسلامی نقطہ نظر کی رو سے تو انسان کے مقاصد خیر آخرت میں تکمیل پذیر ہوں گے ہی اس کی اس کاوش خیر کے صلے میں کہ غلبہ خیر کے لیے اس نے اس دنیا میں کیا جدوجہد کی، اس لیے وہ عیسائیت کی طرح ترک دنیا کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس دنیا کو اخلاقی سانچے میں ڈھالنے کے لیے سخت جدوجہد کی تلقین کرتا ہے اور انسان کی نصب العینی آرزوؤں کو محض حسنات آخرت تک محدود نہیں رکھتا بلکہ حسنات دنیا تک و سعت دیتا ہے۔ وہ انسان کو اس دنیا میں بھی اتمام نور کی بشارت دیتا ہے اور آخرت میں بھی، اس لیے اس دنیا میں سخت جدوجہد شرط ہے بقائے دوام کی کیونکہ جدوجہد ہی سے خودی کا وہ اطناب قائم رہتاہے جس کے قائم رہنے سے ہی شعور ذات قوی تر اور شدید تر ہوتا چلا جاتا ہے جو اسے بقائے دوام کا سزاوار بنا دیتا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے۔ وہ انسان کو اس کائنات کی گہری آرزوؤں میں اپنا شریک بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ اعلیٰ کائناتی مقاصد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے اور جان سے گذر جانے والوں کو تو فوراً نئی زندگی عطا کر دیتا ہے لیکن ’’ تن بے روح‘‘ سے بیزار ہے جو مقاصد کائنات میں اس کے شریک کار نہ بن سکے۔ اخلاق اور مسرت کے متبائن تصورات میں اتصال پیدا کرنے کے لیے وہ انسانی جدوجہد کو ضروری شرط قرار دیتا ہے۔‘‘ اقبال نے اگرچہ کانٹ کی اخلاقی دلیل کو ناکافی قرار دیا ہے لیکن اس نے کانٹ کے اس نظریہ سے لاشعوری طور پر اثر قبول کر لیا کہ مرنے کے بعد بھی اخلاقی ارتقاء کے مدارج لا انتہا کی طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ وہ خودی کی حیات بعد الموت کو بے عملی اور راحت ابدی کی زندگی نہیں سمجھتا بلکہ اسے آخرت میں بھی سخت جدوجہد اور اطناب کی زندگی قرار دیتا ہے۔ اقبال کو ’’ اخلاقی قانون‘‘ کے اثبات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ کانٹ کی طرح ’’اخلاقی قانون‘‘ کو انسانی شخصیت سے بالاتر حیثیت نہیں دیتا بلکہ اس کے نزدیک ’’ اخلاقی قانون‘‘ حیات خودی کی باطنی ضروریات کے تحت وجود پذیر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے قدر و قیمت اور خیر و شر کا تعین بھی خودی کی ضروریات کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جو اعمال خودی کو تقویت بخشتے ہیں احسن ہیں اور جو اسے کمزور بناتے ہیں وہ برے ہیں۔ 2 اب ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال ولیم جیمز کے تصور بقائے دوام کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ ولیم جیمز (1910-1842ئ) کے نزدیک کائنات کی مرکزی حقیقت ایک لا محدود قوت اور قوت حیات ہے جس سے ہر شے کا ظہور ہے۔ تمام موجودات کی اس باطنی روح کو وہ خدا کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ جو شخص اس حقیقت مطلقہ سے آگہی حاصل کر لیتا ہے وہ اسے کسی بھی نام سے یاد کر سکتا ہے۔ وہ اسے نور رحمانی کہہ سکتا ہے۔ رب روح کلی یا قدرت مطلقہ کا نام دے سکتا ہے۔ اگر انسان حقیقت تک پہنچ اجئے تو اسے پتہ چلے گا کہ وہی اول ہے اور وہی آخر۔ ہر شے اسی سے ہے اور اسی میں ہے اور اس سے خارج میں کسی شے کا وجود نہیں۔ وہ ہماری جان جان ہے۔ ہم اس کی حیات سے بہرہ اندوز ہیں۔ ہم میں اور اس میں فرق یہ ہے کہ ہم انفرادی ارواح ہیں اور وہ لامحدود روح کلی ہے جس کے اندر ہم اور دیگر تمام ارواح اور موجودات بھی داخل ہیں لیکن جو ہر وجود کے لحاظ سے حیات الٰہی اور حیات انسانی ایک ہی ہیں۔ ان میں جوہر کا فرق نہیں بلکہ درجے اور مکیت کا فرق ہے۔ 9؎ انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد حیات الٰہیہ کے ساتھ ربط ہے اور اس راستے میں پیش آنے والی تمام مشکلات پر اسے قابو پانا چاہیے۔ حیات الٰہیہ کے ساتھ انسان کا ربط جتنا گہرا ہو گا اتنی ہی زیادہ الوہی قوتیں اس کے اندر پیدا ہو جائیں گی: ’’ ایسی حالت میں ہم عقل الٰہی سے چیزوں کو سمجھیں گے اور قوت الٰہی سے عمل کریں گے۔ بیماری اور کمزوری کی جگہ ہمیں قوت اور صحت حاصل ہو گی اور بے آہنگی، ہم آہنگی سے بدل جائے گی۔ اپنے اندر الوہیت کا احساس پیدا کرنے اور حیات کلی کے ساتھ باطنی ربط قائم کرنے سے ہماری زندگی اس سرچشمہ فیض سے سیراب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جہنم میں ہم تبھی تک رہ سکتے ہیں جب تک ہم خود چاہیں۔ تکلیف اور مصیبت میں بسر کرنا انسان کے لیے ضروری نہیں۔ ہم جس طرح کی جنت کی طرف صعود کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔ جب ہم بلند مقامات کی طرف عروج کرنے کی کوشش کریں تو کائنات کی تمام اعلیٰ قوتیں ہماری معاون ہو جاتی ہیں۔‘‘ 10؎ اقبال اور ولیم جیمز اپنے اپنے فلسفیانہ موقف میں قطع نظر فروعی اختلافات کے مندرجہ ذیل امور پر ایک دوسرے سے اتفاق رکھتے ہیں: الف۔ دونوں ایک ایسے کائنات نظریہ کے حامی ہیں جس میں حرکت اور کثر پائی جاتی ہے اور انسانی آزادی، ارتقا اور انسانیت کا اثبات کیا جاتا ہے۔ ب۔ دونوں ارادیت پسندی کے حامی ہیں اور ارادے کو بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ذہنی زندگی بے مقصد نہیں بلکہ اپنے اندر غایات و مقاصد رکھتی ہے۔ ج۔ دونوں حیات اور کائنات کے ارتقاء پذیر رہنے کے قائل ہیں۔ د۔ دونوں حقائق کی تحقیق کے لیے تجربے پر پورا زور دیتے ہیں۔ ہ۔ دونوں جبریت کے مخالف اور انسانی آزادی کے حامی ہیں۔11؎ اقبال کی ذاتی لائبریری میں ولیم جیمز کا کتابچہ(Human Immortality) موجود تھا اس کتابچے میں ولیم جیمز نے اپنے عمومی فلسفیانہ موقف کی روشنی میں دو اعتراضات کا جواب دیا تھا: پہلا اعتراض سائنسی نقطہ نظر کے تحت پیدا ہونے والے اس مفروضے کے بارے میں ہے کہ انسانی ذہن، دماغ کا پیدواری وظیفہ (Productive function) ہے ڈارون کے زیر اثر پیدا ہونے والی مادیت نے تمام روحانی اور ذہنی اعمال کی تشریح مادی حوالوں سے ہی کرنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ ذہن یا ذہنی اعمال کو دماغ کے اعمال کا ہی ضمنی نتیجہ قرار دیا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے مرنے کے ساتھ ہی ذہن بھی معدوم ہو جائے گا۔ ولیم جیمز یہ کہتا ہے کہ شعور یا روح کو انسانی دماغ کا پیداواری وظیفہ سمجھنا ایسے ہی ہے جیسے کہ یہ خیال کرنا کہ ’’ بھاپ چائے دانی کا وظیفہ ہے‘‘ یا ’’ روشنی برقی رو کا وظیفہ ہے‘‘ یا ’’ برقی قوت آبشار کا وظیفہ ہے‘‘ جس طرح روشنی کی کرن جب ایک منشور (Prism) میں سے گذرتی ہے تو وہ قوس و قزح کے سات رنگوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہ سات رنگ منشور کا پیداواری وظیفہ متصور نہیں کیے جا سکتے۔ بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ منشور کا ترسیلی وظیفہ (Transmissive function) یا ترخیصی وظیفہ (Permissive function) ہے جس نے سفید روشنی کو سات رنگوں میں پھاڑ دیا ہے۔ بعینہ اسی طرح شعور کو بھی دماغ کا ترسیلی یا ترخیصی وظیفہ سمجھنا چاہیے جس میں شعور وقتی طور پر دماغ کو کام میں لاتا یا اس سے کام لیتا ہے۔ اس لیے دماغ کے مر مٹنے سے شعور فنا نہیں ہوتا۔ 12؎ ولیم جیمز کے اس نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے اقبال کہتا ہے کہ اس سے فقط یہ ثابت ہوتا ہے کہ: ’’ یہ شعور کی کوئی وراء الجسم میکانکی ترکیب ہے جو محض دل بہلاوے کے لیے کسی جسمانی معمول سے عارضی طور پر تو کام لے لیتا ہے لیکن پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ 13؎ اس سے ثابت نہیںکیا جا سکتا کہ ہمارے محسوسات و مدرکات کا حقیقی مشمول بھی علی التسلسل قائم رہے گا: اس لیے یہ موقف ابن رشد کے نظریہ سے مختلف نہیں۔ کیونکہ انفرادی تشخص کے ساتھ خودی کے بقاے دوام کی اس میں بھی کوئی صورت نہیں ملتی۔ یہ بھی ایک ما بعد الطبیعیاتی دلیل ہے جسے سائنسی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ 14؎ 3 ولیم جیمز کے تذکرے کے بعد اقبال نٹشے کے ’’ تکرار ابدی‘‘ کے نظریہ پر تنقید کرتا ہے اقبال کی تنقید سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نٹشے کا یہ نظریہ کیا ہے: فریڈرک نٹشے (1900-1844) ایک ایسے دور میں پیدا ہوا جب یورپ میں سیاسی اور معاشی ترقیوں کا دور دورہ تھا۔ افریقہ اور ایشیا کے کئی ممالک میں یورپ والوں کی نو آبادیاں قائم تھیں۔ اس طرح مختلف خطوں سے دولت سمٹ کر یورپ میں آ رہی تھی۔ صنعتی انقلاب اور دولت کی فراوانی سے یورپ کی زندگی میں بہت تیز رفتاری آ گئی اور کئی ایسے مسائل پیدا ہوئے جو اخلاقیات اور مذہب کے مسلمات سے براہ راست متصادم تھے۔ نٹشے کی تحریروں میں بار بار اس عدم توازن اور عدم مطابقت کا ذکر ملتا ہے جو اخلاقی اور سماجی معاملات اور اقتصادی اور سیاسی ارتقاء کے مابین پیدا ہو گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نٹشے قدیم اقدار سے بیزار ہو کر اپنے خوابوں کی تعبیر، مستقبل کے امکانات میں ڈھونڈنے لگا۔ نٹشے کے افکار پر شوپنہار اور ڈارون کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ وہ شوپنہار کی طرح یہ سمجھتا ہے کہ کائنات کا اساسی اصول ’’ ارادہ‘‘ ہے لیکن وہ اس کی قنوطیت کو پسند نہیں کرتا اس طرح وہ ڈارون کی طرح ارتقائی عمل کو ایک نا قابل انکار حقیقت سمجھتا ہے لیکن وہ اس کے اس نظریہ سے اتفاق نہیں کرتا کہ ارتقاء کا عمل ماحول کے ساتھ میکانکی مطابقت کی وجہ سے جاری و ساری رہتا ہے۔ نٹشے کے نزدیک جبلت حیات (Vital Instinct) سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔ علم کی جبلت حیات کی ماتحت ہے۔ جبلت علم زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے دیو مالا، مذہب اور اخلاقیات کا فریب تخلیق کرتی ہے۔ نٹشے کا اصل مقصد یہ ہے کہ شوپنہار کی پیدا کردہ قنوطیت پر غلبہ حاصل کرے۔ گوناگوں جسمانی عوارض، قدیم اقدار سے بیزاری، تیز رفتار سماجی زندگی کے مسائل نے نٹشے کے لیے زندگی کو ایک بہت بڑا بوجھ بنا رکھا تھا۔ اس نے تین مرتبہ خود کشی کی کوشش کی تھی بعد ازاں اس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ فن ایک خوبصورت فریب ہے۔ جو زندگی خود کو قائم رکھنے کے لیے وضع کرتی ہے۔ چنانچہ نٹشے ’’یونانی المیہ‘‘ میں اپنی بے چین روح کی تسکین کا سامان ڈھونڈتا ہے المیہ اس کے نزدیک بے رحم فطرت کی سنگین حقیقتوں کو ایک خوبصورت فریب کے پردے میں سہ جانے کا نام ہے۔ سائنس کو بھی نٹشے ایک ’’ دلچسپ التباس‘‘ قرار دیتا ہے علم اور صداقت کی جستجو بھی محض زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے ہے یا زندگی کے بوجھ کوبرداشت کرنے کے لیے ہے۔ پہلے فن کا خوبصورت فریب تھا۔ ۔۔۔۔۔ اب علم کی جبلت نے سائنس کا دلچسپ فریب اس لیے وضع کیا کہ زندگی کا ارتقاء جاری رہ سکے۔ بعد ازاں نٹشے علم سے بھی بیزار ہو گیا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ علم کی بلندیاں ’’ برف پوش چوٹیاں ہیں جہاں وہ سانس نہیں لے سکتا‘‘ اب زندگی کو وہ محض ارادہ حیات نہیں سمجھتا، بلکہ ’’ ارادہ اقتدار‘‘ سمجھتا ہے ارادہ اقتدار جو کائنات کی وہ فعال قوت ہے جو اپنے ارتقائی سفر میں کئی صورتیں اور شکلیں تخلیق کرتی ہے۔ تغذیہ (Nutrition) اور تناسل (Procreation) وہ اعمال ہیں جن سے ارادہ اقتدار اپنے آپ کو قائم رکھتا ہے اور مشکلات پر غالب آتا ہے۔ ارادہ اقتدار زندگی کی کمتر ترین شکلوں اور ارتقاء کے ادنیٰ درجوں سے سفر کرتا ہوا انسان کے مقام پر پہنچتا ہے اور یہ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں زندگی کی موجودہ شکل سے بھی اعلیٰ و ارفع شکل سامنے آئے گی۔ چنانچہ نٹشے اب مستقبل کی طرف دیکھتا ہے جہاں اسے ’’ فوق البشر‘‘ کا امکان نظر آتا ہے نٹشے کا آدم ماضی کا حصہ نہیں ہے۔۔۔ بلکہ اسے ابھی پیدا ہونا ہے۔ ارتقاء کا سارا عمل ہی اس لیے جاری و ساری ہے کہ ’’ فوق البشر‘‘ پیدا ہو سکے۔ نٹشے انسان کے تصور کو اتنی بلندی بخشتا ہے کہ کسی خدا یا ماوفق الفطرت ہستی کی گنجائش نہیں۔ اسی لیے نٹشے کو بہت بڑا انسان دوست (Humanist) کہا جاتا ہے۔ نٹشے تین مدارج کا ذکر کرتا ہے جنہیں روح انسانی اپنے ارتقائی سفر میں طے کرتی ہے۔ سب سے پہلے یہ اونٹ بنتی ہے! اس کے بعد شیر بنتی ہے! اور بعد ازاں ’’ انسانی بچے‘‘ کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے! اونٹ کی سطح پر روح اوامرو نواہی اور فرائض کا بوجھ صبر و استقلال سے برداشت کرتی ہے: مجبوری و محکومی سے نجات پا کر انسانی روح شیر کا درجہ حاصل کرتی ہے جہاں اسے اختیار اور آزادی نصیب ہوتی ہے اور اس کا قانون خود اس کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ شیر کی سطح پر روح کو اگرچہ آزادی ملتی ہے۔ تاہم یہ اپنے لیے نئی اقدار وضع نہیں کر سکتی۔ چنانچہ یہ ’’ بچے‘‘ کی صورت اختیار کرتی ہے۔ بچہ معصومیت اور فراموشی کا مرکب ہوتا ہے۔ بچے کی سطح پر روح اپنے پرانے درجوں کو فراموش کر دیتی ہے اور اپنی معصومیت میں نئی زندگی اور نئی اقدار کا اثبات کرتی ہے۔ چنانچہ نٹشے کہتا ہے کہ انسان اپنی حیوانی جبلات پر غلبہ حاصل کر کے اعلیٰ درجے کی تخلیقی صلاحیتیں حاصل کر سکتا ہے۔ یہ اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں اور منفرد و با وقار مقام انسان کا پیدائشی حق نہیں بلکہ اسے سخت تگ و دو سے حاصل کرنا پڑتا ہے اور جو اس سطح پر پہنچ جائے وہ فوق البشر بن جائے گا۔ نٹشے کا خیال تھاکہ ماضی میں ایسے فوق البشر مختلف ادوار میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک ہی فوق البشر یا مرد کامل تاریخ میں وقفے وقفے سے پیدا ہوتا چلا آیا ہے اور مستقبل میں بھی اسی طرح مختلف ادوار میں منصہ شہود پر آتا رہے گا نٹشے کے اس نظریہ کو تکرایہ ابدی کہتے ہیں۔ نٹشے کے نزدیک کائنات کے اجزائے ترکیبی توانائی کے انتہائی چھوٹے ذرات یا سالمات ہیں۔ ان سالمات کی تعداد متعین و یکساں رہتی ہے چونکہ یہ سالمات نا معلوم اور لامتناہی زمانوں سے چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے یہ لازمی امر ہے کہ وہ چند مخصوص تناسبات میں ہی متشکل ہو سکیں۔ کائنات کی آفرینش سے لے کر اب تک لا محدود مدت گذر چکی ہے اس لیے تمام ممکنہ تناسبات و امتزاجات میں یہ سالمات صورت پذیر ہو چکے ہیں۔ جب ان سالمات کا کوئی مثالی امتزاج وقوف پذیر ہوتا ہے تو فوق البشر یا مرد کامل پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ فوق البشر ماضی میں لاتعداد دفعہ وجود پذیر ہو چکا ہے اور مستقبل میں بھی منصہ شہود پر آتا رہے گا۔ یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ فوق البشر کا اس طرح بار بار آنا اس کی زندگی کو ایک ناقابل برداشت بوجھ بنا دے گا۔ نٹشے اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ فوق البشر کی زندگی اتنی تخلیقی، بھر پور اور پر مسرت ہوتی ہے کہ وہ بار بار وجود پذیر ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نٹشے کے نزدیک فوق البشر اور تکرار ابدی لازم و ملزوم ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ کیونکہ وہی اپنی بار بار مراجعت کی امید کر سکتا ہے جو ارتقاء کی بلند ترین منزل پر ہو۔ وہ جن کی زندگیاں بد بختی اور نامرادی کی نہ ختم ہونے والی داستان ہوں، یہ آرزو نہیں کر سکتے کہ وہ دوبارہ ذلت و مسکنت کی زندگی گذارنے کے لیے وجود پذیر ہوں، یہ آرزو نہیں کر سکتے کہ وہ دوبارہ ذلت و مسکنت کی زندگی گذارنے کے لیے وجود پذیر ہوں۔ وہ تکرار ابدی کی بجائے ایک ایسی زندگی کے منتظر رہتے ہیں جو موت کے بعد شروع ہوتی ہو اور جس میں ان کی محرومیوں اور نامرادیوں کا ازالہ ہو سکتا ہو۔ نٹشے کے نزدیک صرف فوق البشر ہی زندگی کا بوجھ صحیح معنوں میں اٹھا سکتا ہے۔ لہٰذا فوق البشر نہ صرف اس کا آئیڈیل ہے بلکہ وہ اسے ایک ضرورت ہی سمجھتا ہے۔ فوق البشر کے تصور میں ہی وہ شوپنہار کی قنوطیت سے نجات محسوس کرتا ہے۔ حیات کا مقصود حیات سے باہر نہیں بلکہ خود حیات ہی اپنا نصب العین ہے اور اس کا بھرپور اثبات کرنا چاہیے۔ نٹشے خود کو ’’ تکرار ابدی‘‘ کے نظریہ کا خالق نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک ہر اقلیتوس (Heraclitus) اور رواقیہ (The stoies) کے افکار میں اس کے ارشادات موجود تھے۔ اس کے علاوہ وہ انیسویں صدی کے بعض مفکرین مثلاً ہائین (Heine) ہولڈرلین (Hoelderlin) بلینکوئی (Blangui) اور گویاؤ ( Guyau) وغیرہ کے نظریات میں بھی ’’تکرار ابدی‘‘ سے ملتے جلتے تصورات کی نشاندہی کرتا ہے۔ 18؎ لیکن یہ امر کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ نٹشے وہ پہلا مفکر ہے جس نے فوق البشر کی تکرار ابدی کو باقاعدہ ایک کائناتی اصول کی صورت میں پیش کیا اور اسے سائنسی طور پر ثابت کرنے کے لیے فلکیات، طبیعیات، ریاضیات اور حیاتیات کا بالاہتمام مطالعہ کیا۔ لیکن ان علوم کے مطالعے سے اس کے نظریہ تکرار ابدی کی تائید و توثیق نہ ہو سکی۔ اس کے باوجود اس نے اس نظریہ کو ترک نہ کیا بلکہ اس نظریہ کا سحر بتدریج اس کی تمام شخصیت پر چھاتا چلا گیا اور بالآخر اس کے فلسفے کی بنیاد بن گیا۔ اس کی علت پر ہم تھوڑی دیر بعد روشنی ڈالیں گے۔ تکرار ابدی کے بارے میں نٹشے کہتا ہے: ’’ ہر شے چلی جاتی ہے۔ ۔ ہر شے پلٹتی ہے، وجود کا پہیہ ابدی طور پر گھومتا رہتا ہے، ہر شے مر جاتی ہے۔ ہر شے پھر نمو پذیر ہوتی ہے۔ وجود کا سال ابداً جاری رہتا ہے۔۔۔۔ تمام اشیاء ابدی طور پر مراجعت کرتی ہیں اور ہم خود بے شمار دفعہ پیدا ہو چکے ہیں اور ہمارے ساتھ تمام اشیاء بھی وجود پذیر ہو چکی ہیں۔‘‘ 19؎ نٹشے ارادہ اقتدار کو کائنات کی اساس سمجھتا ہے جو کہ ابدی طور پر گردش کر رہا ہے چنانچہ اس کے ارادہ اقتدار اور تکرار ابدی کے تصورات باہمدگر متصادم نہیں ہوتے۔ یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ نٹشے اس دور میں پیدا ہوا جب صنعتی انقلاب اور دولت کی فراوانی کی وجہ سے اخلاقی و مذہبی اقدار اور سیاسی و سماجی حالات کے مابین عدم توازن پیدا ہو چکا تھا۔۔۔ عقاید و نظریات کی پرانی عمارت منہدم ہو رہی تھی اور اس بحران میں زندگی معنویت کھو چکی تھی۔ اس عدمیت (Nigilism) کی فضا میں نٹشے کا تکرار ابدی کا نظریہ ایک طرف اثبات حیات کی ایک بھرپور کوشش ہے تو دوسری طرف خدا سے عاری کائناتی نظام میں موت کے سوال کا ایک جواب فراہم کرتا ہے۔ نٹشے روایتی فلسفیوں کی طرح باقاعدہ اور مربوط انداز فکر کا مالک نہ تھا۔ اس کے فکر کے کئی پہلو باہمدگر مطابقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح موت اور بقائے دوام کے بارے میں اس کے افکار تناقض کا شکار ہیں۔ وہ تغیرات کے سیل بے پناہ میں اپنی ہستی او راپنے وجود کا اثبات چاہتا ہے۔ چنانچہ تکرار ابدی ایک لحاظ سے اس کے نزدیک تغیرات کے سیل بے پناہ میں اک مقام سکون ہے۔ موت کی آغوش کبھی تو اس کو بڑی مہربان پناہ گاہ نظر آئی ہے۔۔۔ یعنی وجود کا بوجھ اور ہستی کے کرب سے اسے موت میں نجات ملتی نظر آتی ہے لیکن کبھی وہ اسے ایک دشمن کی صورت میں دیکھتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے۔ چنانچہ اس سے بچنے کے لیے وہ تکرار ابدی کے نظریہ کا سہارا لیتا ہے۔ موت اسے اس لیے قابل برداشت محسوس ہوتی ہے کہ تکرار ابدی کے نظریہ کا سہارا لیتا ہے۔ موت اسے اس لیے قابل برداشت محسوس ہوتی ہے کہ تکرار ابدی کا نظریہ اس لیے حیات نو کا پیغامبر ہے: ’’ تمہارے شعور کے آخری لمحے اور تمہاری حیات نو کی صبح کی پہلی کرن کے مابین کوئی وقت نہیں گزرے گا۔ یہ فاصلہ بجلی کے کوندے کی طرح گزر جائے گی۔ اگرچہ یہ زندہ لوگوں کے لیے ہزاروں سالوں کا زمانہ ہو گا بلکہ وہ اسے شمار بھی نہ کر سکیں گے۔ اگر ہم عقل کا ساتھ چھوڑ دیں تو ’’ لازمانیت‘‘ اور ’’ پیدائش نو‘‘ ہمیں غیر مطابقت پذیر نہیں محسوس ہوں گے۔‘‘ 20؎ پہلے باب میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ زمانہ قدیم کے انسان کا زمان مسنند یر یا دوری (Cyclic) تھا ۔ مرنا اور مرنے کے بعد پھر بھی اٹھنا قدیم انسان کے لیے مستعد نہ تھا لیکن زمان کے خطی یا مستقیمی تصور نے حیات بعد الموت کو ایک اسبعاد بنا دیا۔ مغربی ذہن میں زمان کی مستقیمی تصور رواج پا چکا تھا اسی لیے مفکرین نے نظریہ تکرار ابدی کی پذیرائی نہ کی بلکہ الٹا الزام لگایا کہ یہ از منہ قدیم کی طرف مراجعت ہے۔ بعض ناقدین نے (جیسا کہ ہم تھوڑی دیر بعد دیکھیں گے) یہ کہا کہ نٹشے نے ہندوؤں کے تناسخ ارواح کے نظریہ کو ہی دوسرے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ اقبال کانٹ اور ولیم جیمز کے نظریات پر بحث کرنے کے بعد نٹشے کا تکرایہ ابدی کے نظریہ کا جائزہ لیتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ نٹشے کو اس کے خیال کے اندرونی قوت نے متاثر کیا تھا اور اس خیال نے کئی مفکرین کے ذہنوں کو ایک ہی وقت میں متاثر کیا۔ چنانچہ اس کے کچھ مبادیات ہربرٹ اسپنسر میں بھی پائے جاتے ہیں ( یا ان مفکرین میں جن کا حوالہ پیچھے دیا جا چکا ہے) تکرار ابدی کا تصور ایک وجدان کی صورت میں نٹشے پر نازل ہوا تھا۔ نٹشے خود یہ دعویٰ کرتا ہے کہ: ’’ تکرار ابدی کا نظریہ اس کے ذہن پر اگست 1881ء میں ایک روز وحی کی صورت میں القا ہوا جبکہ وہ سلوا پلانا جھیل کے جنگل کی سیر کرتے کرتے ایک بہت بڑی چٹان کے نیچے رک گیا تھا۔‘‘ 21؎ چنانچہ اقبال کہتا ہے: ’’ یہ اس خیال کی اندرونی قوت تھی نہ کہ اس کی منطقی صحت جس سے نٹشے کا ذہن متاثر ہوا اور جو پھر اس امر کا ثبوت ہے کہ حقائق کی کہنہ اور ماہیت کے بارے میں ہم جو نظریات قائم کرتے ہیں وہ فیضان باطن کی بنا پر کرتے ہیں، مابعد الطبیعیاتی غور و فکر کے زور پر نہیں کرتے۔(یہی وجہ ہے جیسے ہم پہلے کہہ چکے ہیں، نٹشے اپنے تکرار ابدی کے نظریے کو ناکافی سمجھنے کے باوجود اس سے چمٹا رہا) بایں ہمہ نٹشے نے یہ خیال چونکہ ایک باقاعدہ اور مدلل نظریے کی شکل میں پیش کیا ہے اس لیے ہم اس کی تحقیق میں حق بجانب ٹھہریں گے‘‘ 22؎ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ میں نٹشے کے تکرار ابدی پر جو بحث ہمیں ملتی ہے وہ زیادہ تر ٹسناف (R.A. Tsanoff) کی کتاب The problem of Immortility کے اس باب سے ماخوذ ہے جس میں نٹشے کے تکرار ابدی کے نظریہ سے تعرض کیا گیا ہے اقبال کی نجی لائبریری میں اس کتاب کا جو نسخہ ملا ہے اس پر اس نے جا بجا پنسل سے نشانات لگا کر حواشی لکھے ہیں باب مذکور کے آخر میں صفحہ178پر اپنے ہاتھ سے مندرجہ ذیل تبصرے کیے ہیں: 1توانائی کا غلط تصور 2 زمان کا غلط تصور دوری یا مستقیم 3لامتناہیت کا غلط تصور لامتناہی کو دوری ہونا چاہیے 4 نٹشے کا تضاد آرزوئے دوام اور تکرار دوام کا تضاد 5بدترین قسم کی تقدیر پرستی اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اقبال نے اپنے خطبات میں نٹشے کے تکرار ابدی کے تصور پر جو تنقید کی ہے وہ انہی نکات کی تشریح و توجیح ہے۔ نٹشے کے تکرار ابدی کے تصور کو اقبال ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ’’ رجعت ابدی (تکرار ابدی) کے مفروضے کی بنیاد یہ ہے کہ کائنات میں توانائی کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ لہٰذا ہم اسے متناہی ٹھہرائیں گے مکاں صرف ایک صورت باطنی ہے (یعنی وہ محض ہمارے ذہن کی تخلیق ہے اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں) اور اس لیے کائنات کے وقوع فی المکان کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی خلائے محض میں واقع ہے۔ ایسا کہنا ایک بے معنی سی بات ہو گی۔ رہا زمانے کا تصور سو اس میں نٹشے نے کانٹ اور شوپنہار دونوں کے خلاف یہ رائے قائم کی کہ اس کا تعلق محض ہمارے داخل سے نہیں (یعنی اس کا وجود خارجی اور حقیقی ہے) وہ ایک حقیقی اور لامتناہی عمل ہے جسے دوری ہی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا مکان کے لامتناہی خلا میں توانائی کے زوال اور فسانہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ یوں بھی اس توانائی کے مراکز چونکہ باعتبار تعداد محدود ہیں اس لیے ہم ان کے امتزاجات کا بھی بآسانی تخمینہ کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس دواما فعال توانائی کا کوئی آغاز ہے نہ انجام نہ اس میں توازن کا سوال پیدا ہوتا ہے، نہ کسی پہلے اور آخری تغیر کا۔ زمانہ لامتناہی ہے اور اس لیے توانائی کے جتنے بھی ممکن امتزاجات ہیں سب کے سب ظہور میں آ چکے ہیں کائنات کا کوئی حادثہ نیا حادثہ نہیں جو کچھ ہو رہا ہے پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ایک نہیں، کئی بار اور آئندہ بھی ہوتا رہیگا۔‘‘ آگے چل کر وہ اس نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ یہ ہے نٹشے کا عقیدہ رجعت ابدی جسے گویا ایک نہایت کڑی مہکانیت سے تعبیر کرنا چاہیے (یعنی علت و معلول کے ایک ایسے سلسلے سے جس میں انسان مجبور محض ہے) اور جس کی بنا کسی ثابت شدہ حقیقت کی بجائے سائنس کے ایک ایسے مفروضے پر ہے جس سے محض کام لینا درکار تھا۔ زمانے کے مسئلہ پر بھی نٹشے نے کماحقہ غور نہیں کیا وہ اس کو خارجی قرار دیتا اور یہ سمجھتا ہے کہ زمانہ عبارت ہے حوادث کے اس لامتناہی سلسلے سے جس کا تکرار ہمشیہ جاری رہے گا۔ حالانکہ زمانہ کی حرکت کو دوری ٹھہرایا جائے تو بقائے دوام کا تصور ناقابل برداشت ہو جاتا ہے جس کا خود نٹشے کو بھی احساس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حیات بعد الموت کے اس نظریہ کو حیات بعد الموت کی بجائے ایک ایسے نظریے سے تعبیر کرتا ہے جس کی بدولت حیات بعد الموت کا تصور نا قابل برداشت ہو جاتا ہے مگر پھر سوال یہ ہے کہ حیات بعد الموت قابل برداشت ہو گی تو کیسے؟ محض اس توقع کی بنا پر کہ مراکز توانائی کا وہ امتزاج جس سے ہماری ذات کی ترکیب ہوئی، اس مثالی امتزاج کی تشکیل کا جزو لازمی ہے جس کو ہم نے فوق البشر کہا ہے لیکن فوق البشر کا ظہور تو اس سے پہلے بھی بارہا ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس کی پیدائش یقینی ہے۔ اندریں صورت ہماری یہ توقع کسی آرزو اور تمنا کا سبب تو نہیں بن سکتی۔ انسان کو تمنا ہوتی ہے تو کسی ایسی ہی شے کی جو نادر اور اچھوتی ہو لیکن نٹشے جس طریقے کی تلقین کر رہا ہے اس کے پیش نظر تو اس امر کا کوئی امکان ہی نہیں ( کہ ہم کسی ایسی شے کی آرزو کریں جو بالکل نئی ہو) لہٰذا یہ نظریہ اس تقدیر پرستی سے بھی بدتر ہے جس کو لفظ قسمت سے ادا کیا جاتا ہے۔ پھر اس کی بجائے کہ یوں ہمارے رگ و ریشہ میں مصاف حیات کے لیے طاقت اور ہمت پیدا ہو، یہ وہ عقیدہ ہے جس سے رحجانات عمل فنا ہو جاتے اور خودی اپنا اطناب کھو بیٹھتی ہے۔‘‘ 24؎ تیسرے باب میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ حقیقت مطلقہ اقبال کے نزدیک آزاد اور اخلاق مشیت ہے زمان کے بارے میں بھی اس کا ایک مخصوص نظریہ ہے جو نٹشے کے تصور زماں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح وہ کوئی ایسا اصول تسلیم کرنے پر تیار نہیں جس سے حیات کی آزاد خلاقیت میں فرق پڑتا ہو۔ چنانچہ تکرار ابدی کا نظریہ اقبال کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ 4 چونکہ نٹشے کا نظریہ تکرار ابدی اپنی ماہیت کے اعتبار سے عقیدہ تناسخ ارواح سے بہت مشابہت رکھتا ہے اور چونکہ اقبال نے نٹشے سے بعض معاملات میں متاثر ہونے کے باوجود اس کے نظریہ پر کڑی تنقید کی ہے، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ تناسخ ارواح کا بھی مختصر جائزہ لے لیا جائے۔ اس طرح مسئلہ زیر بحث کی کچھ اور جہتیں نمایاں ہو جائیں گی۔ تناسخ ارواح کے عقیدے کو انگریزی میں کئی نامد یے جاتے ہیں، Metempsychosis, Transmigration of Souls, Rebirth, Palingenesis, Renicarnation,سب ایسی اصطلاحات ہیں جو تناسخ ارواح یا اواگون کے عقیدے کے لیے مستعمل ہیں۔ 25؎ یہ نظریہ ماضی میں ہی نہیں بلکہ اب بھی دنیا کے کئی علاقوں میں رائج ہے۔ مندرجہ بالا اصطلاحات عموماً ایک ایسے عقیدے کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جس کی رو سے لافانی روح ایک جسم سے دوسرے جسم تک منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح یہ عقیدہ نہ صرف حیات بعد الموت بلکہ حیات قبل از پیدائش کا بھی اثبات کرتاہے۔ بعض مذاہب میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ روح مرنے کے بعد ایک خاص مدت تک اپنا وجود قائم رکھتی ہے پھر معدوم ہو جاتی ہے۔ مثلاً بدھ مت میں اگرچہ تناسخ کو تسلیم کیا جاتا ہے تاہم روح کے بقائے دوام کا انکار کیا جاتا ہے۔ تناسخ کا عقیدہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے کئی مذاہب کا حصہ رہا ہے۔ مثلاً یونان کے آرفیسی مذہب، افلاطون کے نظریات، بعض مسیحی مفکروں اور افریقہ کے بعض مذاہب میں اس کے آثار ملتے ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی واضح اور مفصل صورتیں ہمیں ہندو مت، جین مت، سکھ مت اور بدھ مت میں ملتی ہیں ان مذاہب میں اگرچہ تناسخ کے بعض پہلوؤں کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں تاہم یہ اختلافات فروعی نوعیت کے ہیں مرکزی نقطہ نظر ان سب مذاہب کا ایک ہی ہے۔ 26؎ اس نظریہ کا ان مذاہب میں آغاز کیسے ہوا؟ اس کے بارے میں ہمیں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔تاہم کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں یہ نظریہ زمانہ ما قبل تاریخ سے چلا آ رہا ہے۔ بعد میں اس نے اپنشدوں میں ایک مخصوص مقام حاصل کر لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تناسخ ارواح کے عقیدے نے مغربی ذہن کو بہت متاثر کیا تھا۔ مشہور ناول نگار رائیڈر ہیگرڈ کی بعض کہانیوں کا مرکزی خیال ہی تناسخ ارواح کا عقیدہ ہے۔ اسی طرح شوپنہار، نٹشے اور میکٹیگرٹ نے اپنے مابعد الطبیعیات افکار میں اس نظریہ کو بڑی خوبصورتی سے سمویا ہے۔ 27؎ ہندو ویدانت کے فلسفے میں کرما اور تناسخ کا جو نظریہ ہمیں ملتا ہے، ہندوستان کے اکثر مذاہب میں پائے جانے والے بقائے دوام کے نظریات اسی کی کم و بیش مختلف شکلیں ہیں ادویتا و یدانتا کے مطابق حقیقت مطلقہ ایک یکساں غیر متفرق، غیر متعین اور غیر شخصی شعور ہے جس کے اندر کسی قسم کی صفت نہیں پائی جاتی۔ اسے اصطلاح میں براہما کہا جاتا ہے براہما کی قوت تخلیق کا اظہار ’’ مایا‘‘ میں ہوتا ہے چونکہ مایا قائم بالذات اور خود مکتفی نہیں۔۔۔ یعنی اپنے وجود کے لیے یہ براہما کی رہین منت ہے، اس لیے یہ غیر حقیقی ہے۔ براہما یا شعور مطلق جب مایا کی صورت میں ڈھلتا ہے تو لاتعداد متناہی اور فانی شعوری اکائیوں میں منقسم ہو جاتا ہے جنہیں ہندو دیدانت میں اس لیے ان کا وجود ہی ایک قسم کا التباس یا فریب ہے کیونکہ یہ اپنی اصل یعنی براہما سے جدا ہو جاتی ہیں۔ ویدانت کے فلسفے میں براہما اور جیو آتما کے فرق کو واضح کرنے کے لیے عموماً ایک مرتبان کی مثال دی جاتی ہے۔ مرتبان سے باہر لامتناہی خلا یا مکان موجود ہے لیکن مکان یا خلا کا کچھ حصہ مرتبان کے اندر محدود و متعین ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ محدود و متعین مکان جیو آتما ہے جو خارجی مکان لا محدود سے متغائر و منفعل ہو کر بظاہر اپنی ایک علیحدہ حیثیت اختیار کر لیتی ہے لیکن اگر اس مرتبان کو توڑ دیا جائے تو محدود و مقید مکان، مکان مطلق میں مدغم ہو جائے گا۔ حقیقت مطلقہ شعور کل ہے۔۔۔۔ لیکن مایا اسے لاتعداد ’’ مرتبانوں‘‘ یعنی جہالت کی چار دیواریوں میں مقید و محدود کر کے جیو آتماؤں میں منقسم کرتی جاتی ہے۔ جہالت کی جب یہ دیواریں نروان کی بدولت گرتی ہیں تو جیو آتما براہما میں مدغم ہو جاتی ہیں۔ مایا کی وجہ سے انفرادی ارواح یا آتماؤں کا ایک عالم کثرت وجود میں آتا ہے بظاہر ہر آتما دوسری آتما سے مختلف اور تمبائن نظر آتی ہے لیکن در حقیقت تمام آتماؤں کی انفرادیت اور تشخص ایک فریب ہے۔ براہما یا حقیقت مطلقہ کی وحدت کے اعتبار سے آتماؤں کی کثرت ایک ہی لا محدود شعور مطلق میں گم ہو جاتی ہے۔ براہما کی سطح پر تمام تخصیصات و تحدیدات ختم ہو جاتی ہے۔ آتماؤں کی کثرت رشموں یا کرنوں کی کثرت کی طرح ہے جو بظاہر منفرد منفعل اور متعین نظر آتی ہیں لیکن ان کے منبع نور کے حوالے سے دیکھا جائے تو تمام ایک غیر منقسم پذیر وحدت نظر آتی ہے یہ نظریہ یونان کی نو فلاطونیت اور پال ٹلچ (Paul tulich) کے تصوف سے بہت مشابہت رکھتا ہے 28؎ لیکن کرما اور تناسخ کے حوالے سے اس کا ایک مخصوص پہلو بھی ہے۔ وہ آتمائیں جو مایا کے فریب میں الجھ کر اپنی اصل سے کٹ گئی ہیں۔ مختلف جنموں کے اندر اپنا سفر اس لیے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اس فریب اور جدائی سے نجات پا کر براہما کی وحدت میں گم ہو جائیں۔ اب روح یا آتما کی جو صورت ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ براہما سے جدا ہونے کے بعد یہ ایک متغائر وحدت یا ایغو کی حیثیت سے جنم جنم بھٹکتی پھرتی ہے تاکہ یہ مایا کے فریب سے نجات پا کر شعور مطلق یا براہما میں گم ہو جائے۔ آتما فی نفسہ نہ مذکر ہے نہ مونث لیکن اس کے اندر تذکیر و تانیث دونوں کے غم موجود ہوتے ہیں اور جب یہ تخم مختلف تناسبات اور امتزاجات میں ظہور پذیر ہوتے ہیں تو اسی اعتبار سے نر اور مادہ یا مذکر و مونث وجود میں آتے ہیں۔ 29؎ آتما جب مختلف جنموں میں مختلف اشخاص کی صورت میں اپنا سفر کرتی ہے تو عموماً اس کے اندر اپنے گذشتہ جنموں کی کوئی یادداشت نہیں ہوتی۔ تاہم آتما کی گہری تہوں میں اس کا ماضی کا تمام ورثہ محفوظ ہوتا ہے۔ ایک جنم کے وجود کو آتما محض آلہ کار کی حیثیت سے استعمال کرتی ہے۔ مختلف جنموں کے جسمانی وجود نیام کے ایسے غلافوں یا خولوں کی طرح ہیں جس میں تلوار ملفوف دستور ہوتی ہے۔ ہندو و یدانت میں ایسے تین خوبوں یا جسموں کا ذکر کیا جاتا ہے: اولاً: جسم کثیف (Gross Body) یا ستھولا سریرا ثانیاً: جسم لطیف (Subtle body) یا سکسما سریرا یا لنگا سریر ثالثاً: وجود علی (Caesal Body) یا کارانہ سریرا جہاں تک جنم جنم کے پھیروں کو سمجھنے کا تعلق ہے سکسما یا لنگا سریراور کارانہ سریر کو ضم کر کے ’’جسم لطیف‘‘ یا لنگا سریر کا ایک ہی تصور وضع کر لینا چاہیے اور اس جسم لطیف کا جسم کثیف یا ستھولا سے تقابل کرنا چاہیے۔ جسم کثیف مادی نامیہ ہے جو کہ استقرار حمل کے ساتھ ہی بڑھنا، پھولنا شروع کر دیتا ہے اور موت کے بعد یہ منتشر و معدوم ہونا شروع ہو جاتا ہے لیکن لنگا سریر کی حیثیت سے اس کے استمرار اور بقا کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اور جسم کثیف کی ہلاکت کے بعد یہ کسی دوسرے جسم کثیف کے اندر منتقل ہو کر نئے جنم کا سفر شروع کر دیتا ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ جسم لطیف سے مراد مادے ہی کی کوئی لطیف شکل ہے۔ جسم لطیف یا لنگا سریر نہ تو جگہ گھیرتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی شکل و صورت ہے۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مادے کی عام تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ اسے سریر اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہندو ویدانت میں براہما اور مایا کی جو بنیادی تخصیص ہے اس کی رو سے اس کا تعلق مایا یا طبعی کائنات سے ہے دیدانت میں ہر وہ شے جو براہما نہ ہو، مایا ہے۔ چنانچہ یہ مادے کا ایک مخصوص مفہوم ہے اگر فلسفے کی عام مروجہ روایت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو لنگا سریر صرف ایک ذہنی وحدت ہے۔ لنگا سریر ان تمام ذہنی رویوں کا محل ہے جو انسان اپنی زندگی میں اپناتا ہے۔ بار بار نیک کام کرنے سے نیکی کی عادت بن جاتی ہے۔ اسی طرح برے کاموں میں بار بار ملوث ہونے سے بد فطرت ایک ذہنی رویے کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ ذہنی طور پر جتنی بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں وہ لنگا سریر کے اندر ہوتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لنگا سریر ان تمام اخلاقی، روحانی اور جمالیاتی تغیرات کا مرکز و محور ہے جوکسی شخص کی ذہنی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ چنانچہ خاص قسم کے کام یا کرم خاص قسم کے ذہنی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں جب جسم کثیف تباہ ہو جاتا ہے تو یہ ذہنی رویے اس تباہی سے متاثر نہیں ہوتے۔ ان ذہنی رویوں یا تغیرات کی دیدانت کی اصطلاح میں ’’ سامسکارے‘‘ (Samskaras) کہا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپ ثابت ہو گا کہ پروفیسر سی ڈی براڈ جو کہ روح کے بقائے دوام کے بارے میں تجربی نظریہ رکھتا ہے، یہ کہتا ہے کہ ہر شخص کی سیرت و کردار میں ایک ’’ نفسی عامل‘‘ (Psychic Factor) ہوتا ہے کسی شخص کے مرنے کے بعد یہ نفسی عامل یا ذہنی کردار اس خوشبو کی مانند کچھ عرصے تک اپنا تشخص برقرار رکھتا ہے جو کہ پھول کے مرجھا جانے کے بعد بھی کچھ دیر قائم رہتی ہے۔ چنانچہ جب کسی معمول کے توسط سے روح کو طلب کیا جائے تو دراصل اسی ’’نفسی عامل‘‘ سے رابطہ قائم ہوتا ہے لیکن سی ڈی براڈ کا خیال ہے کہ یہ ’’ نفسی عامل‘‘ یا ذہنی کردار ابدلآباد تک قائم و دائم نہیں رہتا بلکہ کچھ عرصے کے بعد پھول کی باقی رہ جانے والی خوشبو ہی کی طرح معدوم ہو جاتا ہے۔ تناسخ ارواح کا عقیدہ سی ڈی براڈ کے نظریہ سے وسیع تر ہے۔ اس کی رو سے سامسکارا یا ذہنی کردار کسی جسم کثیف کی ہلاکت کے بعد اس سے الگ ہو کر کسی ایسے رحم مادر میں دخول کر جاتا ہے، جہاں کسی اور جسم کثیف کی شروعات ہو رہی ہوں۔ اس طرح یہ نیا عضویہ اپنے موروثی اور ماحولیاتی عناصر کے ساتھ ساتھ اس لنگا سریر کا بھی غماز ہو گا جس نے کہ اس کے اندر نیا جنم لیا ہے۔ نٹشے کے نظریہ تکرار ابدی اور عقیدہ تناسخ ارواح دونوں میں ایک ہی فرد کی عینیت اور تشخص کو برقرار رکھا گیا ہے لیکن نٹشے کے نظریہ کی رو سے کائنات کا پورا نظام۔۔۔ ذرہ خاک سے لے کر رفعت افلاک تک۔۔۔۔ دائمی گردش میں گھوم رہا ہے۔ جو گذر جاتا ہے، اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ پھر پلٹ آتا ہے۔۔۔۔۔ اور ہمیشہ پلٹتا رہتا ہے۔ تاہم تناسخ ارواح کے عقیدے کی رو سے کائنات وہی رہتی ہے۔ ماحولیاتی پس منظر وہی رہتا ہے۔۔۔۔۔ صرف جنموں کی گردش جاری رہتی ہے ایک جنم میں اگر کوئی شخص ذلت و مسکنت کا شکار ہو تو وہ اپنے کرموں کے ذریعے یہ توقع کر سکتا ہے کہ اگلے جنم میں کامرانیاں اور شادمانیاں اس کے قدم چومیں لیکن نٹشے کی ابدی گردش میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ اقبال کے نظریہ سے کرم اور لنگا سریر کی تشکیل کسی قدر اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی خودی کے استحکام کے لیے عمل پیہم کو شرط قرار دیتا ہے۔ لیکن تناسخ ارواح کا مجموعی نظریہ اس کے فلسفہ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اقبال کے نزدیک خودی کا سفر ہمیشہ بلندیوں کی طرف جاری رہتا ہے اس کے مقاصد و نصب العین خود اس کے اندر سے ابھرتے ہیں، خودی ماضی و مستقبل کی گردش میں میانکی طور پر نہیں گھوم رہی بلکہ اس کی حرکت آزادانہ اور تخلیقی حرکت ہے۔ ماضی اس کے پیچھے نہیں رہ جاتا، بلکہ اس کے لمحہ حال میں جمع ہوتا جاتا ہے اور مستقبل ہمیشہ ایک کھلے امکان کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ اس کے ارتقا میں موت محض ایک مرحلہ ہے۔ مرنے کے بعد وہی خودی اپنے تمام تر تشخص اور عینیت کے ساتھ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے گی اور یہ کبھی نہیں ہو گا کہ یہ حقیقت مطلقہ کی وحدت میں گم ہو جائے انسانی خودی حقیقت مطلقہ کی تابانیوں کو بیش از بیش منعکس تو ضرور کرتی جائے گی لیکن اس کا اس میں انضمام و اوخام کبھی نہیں ہو گا۔ اسی طرح اقبال کے نظریہ خودی میں قبل از پیدائش زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ خودی زمان کے اندر اپنا ایک حتمی نقطہ آغاز رکھتی ہے لیکن ایک دفعہ وجود میں آ جانے کے بعد یہ بقائے دوام حاصل کر لیتی ہے۔ تناسخ ارواح میں انسان کی روح پیدائش، موت اور پیدائش نو کے چکر میں گھومتی رہتی ہے اور جب اس چکر سے وہ نجات حاصل کرتی ہے تو آتما پر ماتما میں یوں گم ہو جاتی ہے جیسے بحر بیکراں میں قطرۂ آب تناسخ ارواح کا عقیدہ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں، زمان کے دوری تصور پر مبنی ہے جو کہ زمانہ قدیم کے انسان کی سوچ کا ایک انداز تھا۔ 5 ڈاکٹر میکٹیگرٹ (1925-1866ئ) کا فلسفہ ہیگل کی تصوریت پسندی کی ہی ایک مخصوص تعبیر و تشریح ہے۔ اس کے نزدیک حقیقت مطلقہ روحانی ہے اور تمام کی تمام انفرادی اذہان پر مشتمل ہے۔ حقیقت مطلقہ کی جو تصویر میکٹیگرٹ نے پیش کی اس میں زمان، مکان اور مادی اشیاء کی کوئی گنجائش نہیں۔ میکٹیگرٹ برکلے کے انداز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو کچھ ہم محسوس کرتے ہیں اور جن اشیاء کا ہم ادراک کرتے ہیں وہ دراصل اذہان اور اذہان کے مشمولات ہیں۔ لیکن ہم ان کا نہایت منظم طریق سے غلط ادراک کرتے ہیں اور اسی ادراک غلط سے کائنات کے بارے میں ہمارا عام تصور پیدا ہوتا ہے۔ میکٹیگرٹ کا خیال ہے کہ اگرچہ زمان غیر حقیقی ہے۔ تاہم انسانی بقائے دوام کے بارے میں ایک مخصوص مفہوم میں بات کی جا سکتی ہے۔ میکٹیگرٹ نے ایک کتاب خاص طور پر ان لوگوں کے لیے لکھی تھی جو فلسفہ کی فنی اصطلاحات اور پیچیدہ طرز استدلال اور نا بلد ہوں۔ اس کتاب کا نام ہے Some Dogmas of religion اس میں متعدد ایسے مسائل پر نہایت آسان اور دلچسپ انداز میں بحث کی گئی ہے جو کہ ایک پڑھے لکھے آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہی میں ایک مسئلہ ’’ بقائے دوام‘‘ کا ہے جس کے لیے ایک پورا باب بعنوان Human Immortality and pre Existence مختص کیا گیا ہے۔ یہی باب بقول سی ڈی براڈ ساری کتاب میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ 3؎ میکٹیگرٹ نے اس باب کو علیحدہ چھپوا کر اس کی متعدد کاپیاں تیار کروائی تھیں اور کئی ایسے لوگوں کو بھجوائی تھیں جن کے اعزہ و اقارب 1914اور 1918ء کے درمیان جنگ میں یا تو مارے گئے تھے یا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس سے اس کا مقصد مرحومین کی تعزیت اور لواحقین کی دلوئی تھا۔ بقائے دوام کے بارے میں اس نے اپنے نظریات کو بعد ازاں فلسفیانہ انداز میں اپنی مشہور کتاب Nature of Existance میں پیش کیا وہ لکھتا ہے: ’’ ایک موجود ہستی کو بقائے دوام کا اہل اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نفس ہے جو کہ آئندہ زمان میں غیر مختتم وجود رکھتا ہے۔ بقائے دوام کو اگر اس مفہوم میں لیا جائے تو در حقیقت کوئی نفس بھی بقائے دوام کا حامل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ نفوس اگرچہ غیر زمانی ہیں تاہم یوں محسوس ہوتے ہیں جیسے وہ زمان کے اندر ہوں۔ چونکہ وہ آئندہ وقت میں غیر مختتم وجود کے حامل نظر آتے ہیں اس لیے ہم بجا طور پر انہیں قائم و دائم کہہ سکتے ہیں۔ لفظ بقائے دوام کا تعین عملی ضروریات کے تحت ہوا ہے جیسے میں کہوں کہ میں گذشتہ چوبیس گھنٹوں سے زندہ ہوں، ویسے ہی یہ بھی درست ہو گا کہ میری آئندہ زندگی غیر مختتم ہو گی اس مفہوم میں بقائے دوام کا حامل ہوں اور یہ مفہوم عام استعمال کے عین مطابق ہو گا۔‘‘ 32؎ میکٹیگرٹ کے نزدیک آئندہ زندگی کا آنا اتنا فطری ہے جتنا کہ ’’ جرم‘‘ کے بعد پچھتاوے کا آنا32؎ اس کی تعریف کی رو سے نفوس یا اذہان دراصل بقائے دوام کے حامل نہیں بلکہ انہیں ابدی (Eternal) کہنا چاہیے۔ وہ اسپنوزا کی طرح زمان کے مقولے کو ان کی طرف منسوب نہیں کرتا حقیقت اس کے نزدیک زمان سے عاری ہے۔ چنانچہ نفوس یا اذہان بھی اپنا وجود لا متناہی طور پر برقرار رکھیں گے۔ اس لحاظ سے یہ دراصل ابدی ہیں: ’’ بقائے دوام جیسا کہ ہم اس کی تعریف کر چکے ہیں ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا اطلاق صرف وقت یا زمان پر ہوتا ہے۔ چنانچہ نفوس در حقیقت قائم و دائم Immartal نہیں کیونکہ وہ زمان کے اندر نہیں در حقیقت یہ ابدی Eternalہیں لیکن یہ کہنا اتنا ہی درست ہے کہ میں مستقبل میں لامتناہی طور پر اپنا وجود قائم رکھوں گا جتنا کہ یہ کہنا کہ میں ایک منٹ پہلے اس پیراگراف کے شروع کرنے سے موجود ہوں اور یہی ’’بقائے دوام ‘‘ کا عام فہم مفہوم ہے۔‘‘ 34؎ میکٹیگرٹ نے انسان کے بقائے دوام کو ثابت کرنے کے لئے ساٹیکیکل ریسرچ پر ماورائی نفسیات کی تحقیقات میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس مسئلہ کو اس نے خالصتہً ما بعد الطبیعیاتی استدلال سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے خیال میں ماورائی نفسیات حیات بعد الموت کو ثابت کر بھی دے تو یہ محض ایک مفروضہ ہی ہو گا اور اس کے خلاف قوی تر مفروضوں کو پیش کرنے کا امکان بد ستور رہے گا۔ میکٹیگرٹ نے اپنی مندرجہ بالا کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بقائے دوام کے خلاف جتنے بھی استدلات فہم عامہ (Common sense) یا سائنس کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں سب سقیم ہیں وہ برکلے کی طرح مادے کو غیر حقیقی کہتا ہے اور زمان بھی اس کے نزدیک غیر حقیقی ہے۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو نفوس یا اذہان موجود ہیں وہ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ مستقبل کی غیر مختتم زندگی سے ہی وہ حیات قبل از پیدائش کا اندازہ لگاتا ہے۔ اگر آئندہ زندگی غیر مختتم اور لامتناہی ہے تو یہ سلسلہ ماضی سے چلتا آنا چاہیے۔ چنانچہ Nature of Existence میں بقائے دوام کے فوراً بعد جو باب آتا ہے اس کا عنوان ہے: Pre-Existence and post existence اس باب میں اس نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ایک ہی نفس کئی جنموں (Incarnations) میں گردش کرتا رہتا ہے۔ ہر جنم میں گزشتہ جنم کی یاد ذہن سے محو ہو جاتی ہے لیکن امکان ہے کہ موت کے بعد تمام جنموں کی یاد پھر تازہ ہو جاتی ہے لیکن اگلے جنم کے سفر میں حافظہ پھر ضائع ہو جاتا ہے۔ تاہم حافظے کا ضیاع زندگی کو بے معنی نہیں بناتا۔ کیونکہ ہم ایک ہی جنم کے اندر دیکھیں تو ماضی کے کئی تجربات و واقعات ہم قطعاً فراموش کر بیٹھے ہیں لیکن اس سے ہماری اس زندگی کی قدر و قیمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میکٹیگرٹ اس ضمن میں کئی مفروضے وضع کرتا ہے اور عام زندگی کے بعض حقائق سے وہ مختلف جنموں کے نظریہ کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ پہلی نظر میں جب دو اشخاص اسیر محبت ہو جاتے ہیں تو دراصل یہ اس امر کی شہادت ہے کہ وہ پچھلے جنم میں ایک دوسرے کے ساتھیر ہ چکے ہیں اس کے علاوہ کچھ لوگ بعض کاموں کو سر انجام دینے کی ایک فطری اور پیدائشی صلاحیت رکھتے ہیں مثلاً بعض بچے ایسے ہیں جو بچپن سے شعر گوئی، مصوری یا دست کاری کا رحجان رکھتے ہیں اور جلد ہی اس رحجان کو مہارت میں بدل لیتے ہیں جبکہ کئی دوسرے اشخاص ایسے ہیں جو سالہا سال کی مشق اور محنت کے باوجود وہ کام نہیں سیکھ پاتے۔ 35؎ اقبال کیمبرج میں میکٹیگرٹ کا شاگرد تھا۔ اس لیے اس نے میکٹیگرٹ کے فلسفے کا بنظر نائر مطالعہ کیا لیکن وہ کبھی بھی اس کے اس نظریہ سے متفق نہ ہو سکا کہ زمان غیر حقیقی ہے۔ زمان کے غیر حقیقی ہونے کی دلیل کا اس نے دوسرے خطبے میں جائزہ لیا ہے۔ میکٹیگرٹ کا خیال ہے کہ کسی بھی حادثے کو ماضی، حال یا مستقبل کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ ملکہ این کی وفات اگر ہمارے لیے ماضی کا حادثہ ہے تو اس کے معاصرین کے لیے حال کا واقعہ ہے اور ولیم سوم کے لیے مستقبل کا۔ اقبال کے خیال میں یہ زمان کا غلط تصور ہے اس سے یہ لازم آتا ہے کہ زمان خط مستقیم ہے جس کا کچھ حصہ طے ہو چکا ہے، کچھ طے ہو رہا ہے اور کچھ طے ہونا باقی ہے اس طرح زمانے کی زندہ اور تخلیقی حرکت ختم ہو جائے گی اور یہ پر سکون مطلق بن جائے گا جس میں: ’’ ڈھلے ڈھلائے حوادث پہلے سے جمع ہیں اور اب یکے بعد دیگرے ویسے ہی ہمارے سامنے آ رہے ہیں جیسے خارج میں بیٹھے ہم کسی فلم کا تماشہ کر رہے ہوں۔ اس لحاظ سے ملکہ این کا حادثہ وفات ولیم سوم کے لیے فی الواقع مستقبل کا حکم رکھتا ہے، بشرطیکہ یہ حادثہ پہلے سے متشکل ہو چکا اور مستقبل میں کہیں پڑا اپنے ظہور کا منتظر تھا لیکن جیسا کہ پروفیسر براڈ نے صحیح کہا ہے کہ ہم مستقبل کے کسی حادثے کو حادثے سے تعبیر ہی نہیں کر سکتے کیونکہ ملکہ این کی وفات سے پہلے اس حادثے کا وجود ہی نہیں تھا۔‘‘ 36؎ اقبال، میکٹیگرٹ کے استدلال کو رد کرتا ہے کیونکہ اگر واقعہ Iحال میں رونما ہوتا ہے تو اس کا فوراً ایک رشتہ ما قبل واقعات سے قائم ہو جاتا ہے۔ ان رشتوں کے بارے میں جو قضایا بن چکے ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو صحیح رہیں گے اور اگر غلط ہیں تو غلط رہیں گے، اقبال اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ زمان کی حقیقت ایک سر بستہ راز ہے اور اس کے سمجھنے میں جو اشکال پیدا ہوتے ہیں وہ آسانی سے حل نہیں ہو سکتے۔ اقبال کا زمان کے بارے میں ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ زمان ہستی مطلق کا ایک اساسی عنصر ہے لیکن زمان خالص کے اندر حال، ماضی اور مستقبل کا امتیاز نہیں یہ محض مرور اور تغیر ہے جس کے اندر یکے بعد دیگرے آنا نہیں۔ اگر اقبال کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو زمان حقیقی ہے جبکہ میکٹیگرٹ اسے غیر حقیقی اور اقتباسی قرار دیتا ہے۔ اب چونکہ میکٹیگرٹ کے نزدیک انسان کے بقائے دوام کا انحصار زمان کے غیر حقیقی ہونے پر ہے اس لیے اقبال اس نظریہ کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ قبل از پیدائش زندگی اور جنموں کی گردش کے تصورات بھی اس کے بقائے دوام کے نظریہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ میکٹیگرٹ کے نظام فکر میں خدا کی کوئی گنجائش نہیں۔ نفوس یا اذہان سے بالاتر کسی ایسے ذہن مطلق کی اس کے نزدیک نہ تو ضرورت ہے اور نہ گنجائش، جو کہ متناہی ذہنوں کو محیط ہو اس کے علاوہ میکٹیگرٹ بالآخر جبریت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے نزدیک جبریت اخلاقی ذمہ داری کے متعلق صحیح تصدیقات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس اقبال کے نظام فکر میں ایک طرف تو ذہن مطلق یا انا سے کبیر جو کہ تمام متناہی اناؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو دوسری طرف اس کے نظام فکر میں جبریت نہیں پائی جاتی۔ 6 جیمز وارڈ (1923-1843ئ) کے فلسفے کو روحانی کثرتیت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس کا فلسفہ دراصل لائینز کے فلسفے کی ہی ایک نئی تعبیر ہے۔ جیمز وارڈ لائینز کی ’’ پیش معینہ ہم آہنگی‘‘ کے اصول کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی مونادوں کو ’’ بے در‘‘ (Windowless) مانتا ہے۔ لائینز کی طرح جیمز وارڈ ایک سائنسدان تھا اور اس لیے وہ فکری دنیا میں سائنسی رحجانات کے تقاضوں سے بخوبی واقف تھا۔ چنانچہ اس کے فلسفے میں بھی سائنسی انداز فکر ملتا ہے۔ جیمز وارڈ کا فلسفہ Naturalism & Agnosticism اور Realm of Ends میں ملتا ہے۔ یہ دراصل خطبات کے سلسلے تھے جو اس نے بالترتیب ابرڈین یونیورسٹی اور سینٹ اینڈریو یونیورسٹی میں دئیے پہلے سلسلہ خطبات میں انیسویں صدی کے اس فلسفہ سائنس پر کڑی تنقید کی گئی ہے جو کمبلے (Huxley) اور سپنسر (Spencer) نے پیش کیا تھا۔ خطبات کے دوسرے سلسلے میں اس نے اپنا ایجابی نظام فکر وضع کیا ہے جسے ایک ایسی الہٰیت (Teleoligical theism) کہا جا سکتا ہے جو لائینز کی طرح کی ہمہ نضمی (panpsychic) کثریت کی بنیاد پر استوار ہوئی ہو۔ تاہم جیمز، لائینز کی طرح مونادوں کے مابین تعامل کا انکار نہیں کرتا۔ جیمز وارڈ کا فلسفہ دراصل روبہ زوال فطریتی اور روحانیاتی فلسفے کو سہارا دینے کی ناکام کوشش تھا۔ تاہم اس نے ایک نادر نظریہ پیش کیا جس وجہ سے اسے تاریخ فلسفہ میں قابل احترام مقام حاصل ہے۔ یہ اس کا اپنا ایک خالص اور ذاتی تجزیہ ذہن ہے جو ایک طرح کی جنینی نفسیات (Genetic Psychology) ہے۔ لیکن اس کی نفسیاتی تخلیقات بھی جلد ہی تحلیلی نفسیات، سائنسی اور تجرباتی نفسیات کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہ گئیں اور قصہ پارینہ بن گئیں۔ جیمز وارڈ کے خیال میں حیات بعد الموت دراصل موجودہ زندگی کے شعور کے بقا کا نام ہے۔ ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ آئندہ زندگی یکسر نئی زندگی ہو گی۔ ہم سب اس بات کے خواہاں ہیں کہ موت کے بعد اسی زندگی کا تسلسل برقرار رہے۔ اگر دوبارہ ملنے والی زندگی کا اس زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو تو اس میں کوئی کشش نہ ہو گی۔ اس امر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا حافظہ بھی برقرار رہے اور اسے یہ یقین ہو کہ اس کا تشخص اور عینیت برقرار رہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روح جسم کے بغیر کیوں کر قائم رہ سکتی ہے؟ اس کے خیال میں اس امر کے لیے رحم مادر میں جنین یا مصنفہ (Embryo) کی نمو پذیری کی مثال بہترین ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ روح جو جرثومے کی صورت میں ظاہر ہو کر ارتقا پذیر ہوتی ہے اور اتنا کچھ کر گزرتی ہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ بدن سے جدا ہو کر زیادہ فعال ثابت ہو گی۔ وارڈ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد روح کس طرح کے عضویے میں اپنی تجسیم کرے گی اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ روح کی موجودہ تجسیم ہی واحد ممکن تجسیم نہیں بلکہ جو اصل ضروری چیز ہے۔ وہ روح اور دنیاکا آپس میں رابطہ (Rapporty) ہے جو کسی اور انداز میں بھی ہو سکتا ہے۔ مرنے کے بعد روح ایک نئی ابدی اور غیر مرئی دنیا میں داخل ہو جاتی ہے۔ تاہم درمیان میں ایک اجزا (Rumination) یا تفکر (Reflection) کا ایک وقفہ آئے گا۔ یہ وقفہ عمل یا سرگرمی کا نہیں بلکہ خالصتہً تفکر و تامل اور باطنی ارتکاز فکر کا وقفہ ہو گا۔ جیمز وارڈ کی کتاب کا نام Realm of Ends ہے اور وہ اس دنیا کو بھی مملکت مقاصد سمجھتا ہے جو خدا نے محض اپنے کمال مطلق کے اظہار کے لیے ہی تخلیق نہیں کی بلکہ اس میں موجود ارواح و نفوس اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں اور ہر نفس بذات خود ایک مقصد ہے۔ خدا محبت ہے اور یہ کائنات بھی محبت ہے۔ اقبال اور جیمز وارڈ کے مابین کئی نظریات مشترک ہیں۔ دونوں کے نزدیک حقیقت مطلقہ روحانی ہے اور انفرادی اذہان اس کے اندر اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں۔ دونوں لائینز کے نظریہ بے در مونادیت کی مخالفت کرتے اور اذہان و نفوس کے مابین تعامل کے قائل ہیں۔ دونوں فرد کی تخلیقی آزادی اور بقائے دوام پر یقین رکھتے ہیں۔ دونوں کا خیال ہے کہ خدا سے محبت ہی کی بنیاد پر انسان خدا سے ربط قائم کر سکتا ہے اور بقائے دوام حاصل کر سکتا ہے 37؎ وارڈ کے فلسفے میں مرنے اور دوبارہ زندہ ہونے کے مابین جو اجترائی (Ruminative) وقفہ ہے وہ بھی اقبال کے تصور بقائے دوام میں ہمیں ایک اہم اصول کی حیثیت سے نظر آتا ہے جسے وہ قرآن کی اصطلاح میں ’’برزخ‘‘ میں تعبیر کرتا ہے اس پر سیر حاصل بحث آگے چل کر کی جائے گی۔ ٭٭٭ اقبال چونکہ فلاسفہ کے اس گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو ارادے کو حقیقت مطلقہ تسلیم کرتے ہیں اس لیے یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس کے تصور بقائے دوام کے فکری پس منظر میں شوپنہار کا ذکر بھی کیا جائے۔ آرتھر شوپنہار (1860-1788ئ) کی کتاب The world as will and idea اپنے عنوان سے ہی اس کے مخصوص فلسفہ کی نوعیت واضح کرتی ہے۔ شوپنہار اس کے آغاز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کائنات میرا تصور ہے۔ کائنات شعوری تجربے کی ابتدائی شرط ہے اور اس میں موضوع اور معروض کی تخصیص نہیں۔ وہ موضوعیت پسندی اور مادیت پسندی دونوں کا ابطال کرتا ہے۔ حقیقت مطلقہ اس کے نزدیک ایک اندھی اور سرکش مشیت ہے۔ مشیت یا ارادہ (Will) کے لفظ کو اس نے عام ڈکشنری کے مفہوم سے بہت زیادہ وسعت دی ہے۔ یہ ارادہ یا مشیت مختلف صورتوں میں اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے۔ اس کا آغاز فطرت کی قوتوں (مثلاً کشش ثقل وغیرہ) کی صورت میں ہوتا ہے اور بالآخر اس کا ارتقائی سفر ’’ ارادہ حیات‘‘ (Will to live) پر منتج ہوتا ہے۔ ارادہ حیات فی نفسہ واحد ہے لیکن اپنے ظاہری پہلوؤں میں اس کے اندر تعدد و کثرت ہے شوپنہار پر کانٹ کا بہت زیادہ اثر تھا۔ اس لیے اس نے زمان و مکاں کے اصولوں کو دنیائے مظاہر کا حصہ قرار دیا لیکن ان کے نیچے حقیقت مطلقہ واحد ارادہ کائنات کی صورت میں کار فرما ہے۔ شوپنہار کہتا ہے کہ نفسیاتی طور پر ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ موت کے بعد بقائے دوام حاصل کرے گا۔ یعنی ہر آدمی کو اس امر کا وجدان حاصل ہے کہ اس کی ذات میں کوئی غیر فانی جوہر ہے لیکن یہ غیر فانی جوہر کیا ہے؟ شوپنہار ’’ شعور‘‘ کو ایسا جوہر تسلیم نہیں کرتا کیونکہ شعور اس کے نزدیک محض ایک آلہ کار ہے جسے ارادۂ حیات نے اپنے دوران سفر بعض تقاضوں کے تحت خود تخلیق کیا ہے۔ موت پر شعور ختم ہو جاتا ہے۔ تاہم ایک زندگی ختم ہو جانے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ قوت محرکہ جس نے کہ اس زندگی کو جنم دیا اور قائم رکھا تھا خود بھی فنا ہو گئی ہے۔ پہیے کی گردش ختم ہو جانے سے پہیے کو گردش دینے والا ختم نہیں ہو جاتا۔ 38؎ شوپنہار کے بقائے دوام کے نظریہ کی اساس یہ ہے کہ ’’ تخلیق عن العدم‘‘ درست نہیں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ عدم سے وجود میں نہیں آتا بلکہ اس کا وجود پہلے بھی کسی نہ کسی طور پر ضرور ہوتا ہے۔ اگر ایک شے عدم سے وجود پذیر نہیں ہو سکتی تو پھر معدوم کیسے ہو سکتی ہے؟ شوپنہار کے فلسفے میں ہمیں بقائے دوام کو ثابت کرنے کے لیے قانون بقائے ادہ (Law of Preservation of Matter) کا استعمال بھی ملتا ہے: ’’ مادہ اپنی مطلق غیر فنا پذیری سے ہمیں یہ یقین دہانی کراتا کہ ہم بھی غیر فنا پذیر ہیں۔‘‘ 39؎ لیکن یہاں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ شوپنہار انفرادی اور شخصی بقائے دوام کا قائل نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میں یہ سمجھوں کہ مرنے کے بعد میں اپنے تمام تر تشخص کے ساتھ دوبارہ زندہ ہوں گا تو پھر یہ احمقانہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ مرنے کے بعد کتے، بندر اور ہاتھی وغیرہ بھی دوبارہ زندہ ہوں گے۔ کیونکہ اگر شخصی بقائے دوام کا اصول درست ہے تو یہ صرف انسانوں کا ہی استحقاق نہیں ہونا چاہیے بلکہ جانوروں کو بھی اس کا اہل ہونا چاہیے۔ شوپنہار کے نزدیک حیاتی تسلسل اگر برقرار رہے گا تو یہ ’’ نوع‘‘ یا ’’ صورت‘‘ کا تسلسل ہو گا، افراد و اشخاص کا نہیں حقیقت مطلقہ ایک بے بصر مشیت ہے جو کہ واحد ہے لیکن جب یہی پنا اظہار دنیائے مظاہر میں کرتی ہے تو انواع یا صورتوں کی کثرت میں منقسم ہو جاتی ہے ۔ یہ صورتیں افلاطون کے اعیان ثابتہ کی طرح ہیں جن میں حرکت و ارتقا نہیں۔ ارادہ حیات انواع یا تصورات (افلاطون کے مفہوم میں) کی صورت میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ افراد و اشخاص کی اسے پرواہ نہیں، یہ صرف انواع و تصورات کو برقرار رکھتا ہے اور ان کی پرواہ کرتا ہے۔ افراد و اشخاص یوں ہیں جیسے کسی بلندی سے گرتی ہوئی آبشار کے لا تعداد قطرے! یہ قطرے ہر لحظہ وجود میں آتے اور گم ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے اندر پیہم حرکت و تغیر ہے لیکن وہ قوس قزح جو ان کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے حرکت و تغیر سے بے نیاز ایک پر شکوہ انداز میں قائم و دائم رہتی ہے اسی طرح ہر نوع اپنے افراد کے آنے جانے، پیدا ہونے اور مر جانے سے قطعاً بے نیاز اور غیر متاثر رہتی ہے وہ انسان جو پیدا ہوتے اور مر جاتے ہیں، پانی کے قطروں کی طرح ہیں لیکن بنی نوع انسان یعنی انسان کا تصور قوس قزح کی طرح ہے۔ فرد کا کوئی آغاز مطلق یا انجام مطلق نہیں ہوتا۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی فرد پیدائش پر عدم محض سے وجود میں آتا ہے اور موت پر عدم محض میں چلا جاتا ہے۔ ایک فرد وہی عادات اور خصائل اور وہی ورثہ حیات جو اس نے اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کیا ہوتا ہے، اپنی اولاد کو دے جاتا ہے۔ اس لحاظ سے شوپنہار یہ کہتا ہے کہ وہ بلی جو ٹھیک اس وقت باہر صحن میں کھیل رہی ہے وہی ہے جو تین سو سال پہلے یہاں کھیل رہی تھی۔ اگر یہ سمجھنا حماقت ہے کہ یہ بالکل ویسی ہی بلی ہے تو یہ سمجھنا اس سے بڑی حماقت ہو گی کہ یہ موجودہ بلی اپنی ماہیت و اصلیت اور دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے تین سو سال پہلے کی بلی سے یکسر مختلف ہے۔ موجودہ بلی اگر تین سو سال پہلے والی بلی ہے تو باعتبار نو، وگرنہ یہ آبشار میں وقتی طور پر پیدا ہونے والے قطرے کی طرح فانی ہے۔ یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ شوپنہار کانٹ سے بہت متاثر تھا۔ کانٹ نے دنیائے حقیقت اور دنیائے مظاہر کی تخصیص قائم کی تھی۔ دنیائے حقیقت اس کے نزدیک احاطہ علم سے ماوراء تھی لیکن شوپنہار کے خیال میں اس کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اسے ارادہ حیات سے تعبیر کرتا ہے زمان کو وہ کانٹ ہی کی طرح ملکہ حس پذیری (Sensibility) کی ایک صورت یا مقولہ سمجھتا ہے اس لیے زمان کا اطلاق شے فی نفسہ یا حقیقت مطلقہ پر نہیں ہو سکتا۔ موت کا تصور، زمان سے مشروط ہے کیونکہ موت ایک وجود کا خاتمہ فی الزمان (End in time) ہے۔ حقیقت مطلقہ چونکہ زمان سے ماوراء ہے اس لیے اس میں موت کا کوئی تصور نہیں۔ چنانچہ صرف ارادۂ حیات ہی کی صورتیں یا انواع بقائے دوام رکھتی ہیں۔ اقبال شوپنہار کے اس نظریے سے اتفاق کرتا ہے کہ حقیقت مطلقہ ارادہ حیات ہے اور یہ کہ اس کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم وہ اسے بے بصر اور اندھا ارادہ نہیں سمجھتا۔ اقبال کے خیال میں افراد اس ارادۂ حیات سے ہی وجود پذیر ہوتے ہیں لیکن وجودمیں آ جانے کے بعد یہ اپنا منفرد اور مخصوص مقام بنا لیتے ہیں اور شخصی بقائے دوام کے حصول کے اہل بن جاتے ہیں۔ شوپنہار کا بقائے دوام کا نظریہ مہاتما بدھ کے نظریہ نروان کی طرح ہے کہ فرد حقیقت کل میں گم ہو کر معدوم ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ چوتھا باب حواشی 1. Kant, Critique of pure reason p. 372 2. Vide Choron Jacques, Death and western Thought p. 143 God and eternity in their awful magisty would stand uneceasingly before our eyes... the transtression of the law would indeed be shunned.... but this would mean that most actions conforming the law would be done from fear. the moral worth of actions on which alone the worth of a person and even of the world depends in the eyes of supreme wisdom would not esixt at all. 3. Vide B.A. Dar, Iqbal and post kantion Voluntarism, p. 39-40 اصل متن یوں ہے: Two things fill the mind with ever new and increasing admiration and ser. the oftner and more steadily we reflect on them the starry heavens above and the moral law within..... i see them before me and connect them directly with the consciousness of my experience..... But when in consider agaion, my worth as an intelligent being is raised to inginity through my personality. For then the moral law reveals to me of my animal nature and all the world of the sensed, so far at least as follows from the fact that my being is designed to folloe this law, which is not limited by the condition and limits of the life but reaches to intinity. 4ایضاً ص174 5ایضاً ص178 6 ایضاً ص179 7 تشکیل جدید ص169-170 8 سید عبداللہ (مرتب) متعلقات خطبات اقبال۔ دیکھئے ’’ اقبال کا تصور بقائے دوام‘‘ از مظفر حسین ص199-200 9 ولیم جیمز، نفسیات واردات روحانی: مترجم خلیفہ عبدالحکیم ص148 10ایضاً ص149 11 مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: B.A Dar, Iqbal and Post-Kantian Voluntarism P.486 12ولیم جیمز کے محولہ بالا کتابچے کا یہ حوالہ سید عبداللہ کی مرتبہ ’’ متعلقات خطبات اقبال‘‘ سے دیا گیا ہے۔ ص197 13 تشکیل جدید ص170 14 سید عبداللہ: متعلقات خطبات اقبال ص197 15.Ja,que Choron, Death and western thought p. 202 16ایضاً ص201 17. B.A. Dar. Iqbal and Post-kantian Voluntarism pp. 341-217 18. Jacque Choron, Death and Western thought p. 202 19ایضاً ص202 20ایضاً 21 بحوالہ ’’ متعلقات خطبات اقبال ‘‘ ص201 22 تشکیل جدید ص173 23 ایضاً ص175 24 انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی جلد 8 ص123 25. John hick Philosophy of Religion p. 112 26. Encyclopedia Philosophy Vol. Viii p. 123 27. John Hick, Philisophy of Religion P. 112 28ایضاً ص112 29 مزید تفصیل کے لیے مندرجہ بالا کتاب ص114 کے علاوہ پروفیسر سی ڈی براڈ کی کتاب The Mind and its place in Nature p.536 ص536دیکھیے C.D. Broad, Ethics and the History of Philosophy p.81 31. Mc taggart, Nature of Existence p. 372 اصل متن یوں ہے: An existent being was to be called immortal if it was a self which had an endless existence in future time. taking immortality strictly in the sense, no self could be really immoral, since no self is really in time. but selves thought not in time, appear as in time, for the use of the word immortality has been determined largely by practical considerations, and if it as true to say that my future existence will be endless as it is to say that i have lived through the last twenty foue hours, it would i think be in addordance with the general usage to say that i am immortal. 32 ایضاً ص373 33 ایضاً ص376 35.C.D. Broad, ethics and the history of philosophy p. 81 میکٹیگرٹ کے فلسفے کے تفصیلی مطالعہ کے لیے مندرجہ بالا کتابوں کے علاوہ دیکھیے: C.D. Broad, Examination of Mc Taggarts Philosophy (vol. I,II) 35تشکیل جدید ص88 36 مزید تشریح کے لیے ملاحظہ کیجئے: B.A. Dar Post-Kantian Voluntarism P. 407 37شوپنہار کے اس حوالہ کے لیے ملاحظہ کیجئے: Jacque Choron, Death and western thought p.175 38 ایضاً ص176 حوالہ کا متن یہ ہے: Matter through its absolute indestrecibility quarenlees us of our indestructibility. پانچواں باب اقبال کے تصور بقائے دوام کا فکری پس منظر (گذشتہ سے پیوستہ) گذشتہ باب میں ہم نے اقبال کے تصور بقائے دوام کے اس فکری پس منظر کا جائزہ لیا جو بعض مغربی فلسفیوں کے حوالے سے تیار ہوا تھا۔ اس باب میں ہم ان اثرات کا جائزہ لیں گے جو خالصتاً مشرقی ماخذ سے اس کے فکر پر مترتب ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال برگسان، ولیم جیمز اور مٹشے وغیرہ سے بہت حد تک متاثر ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے افکار کی تشکیل میں اسلامی تعلیمات اور مسلمان فلاسفر بالخصوص رومی کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ چنانچہ زیر نظر باب میں ہم بقائے دوام کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کی تشریح و توجیح کریں گے اور اس کے علاوہ ابن رشد اور رومی کے بھی نظریات بقائے دوام کا جائزہ لیں گے ابن رشد اور رومی کے بقائے دوام کے بارے میں نظریوں کا اقبال نے بالخصوص ذکر کیا ہے۔ اس لیے یہ ضروری محسوس ہوا کہ جہاں مغربی فلسفہ کے افکار سے ہم نے تفصیلی تعرض کیا ہے وہاں اسلامی نظریہ بقائے دوام، ابن رشد اور رومی کے نظریات بقائے دوام سے بھی تفصیل سے بحث کی جائے تاکہ اقبال کے اپنے نظریہ بقائے دوام کی تشریح میں سہولت پیدا ہو۔ ٭٭٭ روح کے بقائے دوام کے مسئلہ سے جس طرح ہم اب تک تعرض کرتے آئے ہیں اسلامی دینیات میں ہم اسی طرح اسے زیر بحث نہیں لا سکتے۔ حیات بعد الموت کا تصور یوم عدل، ملائکہ اور جنت و دوزخ ایسے معاملات ہیں جو متشابہات کے تحت آتے ہیں۔ قرآن میں مطالب کی توضیح و تشریح کے لیے آیات کی دو بنیادی قسموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک محکمات اور دوسرے متشابہات! محکمات وہ ہیں جن کا مطلب براہ راست انسان کو سمجھ آ جاتا ہے اور یہ انسان کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ متشابہات وہ ہیں جن کی تشریح ایک سے زائد طریقوں سے کی جا سکے اور جن کی کنہہ تک پہنچنا انسان کے بس سے باہر ہو۔۔۔۔ اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو کہ ایک خاص حد تک جا کر سکوت اختیار کر لیا جائے او ربے نتیجہ باریک بینیوں اور شگافیوں سے پرہیز کیا جائے۔ قرآن کی رو سے تمام مابعد الطبیعیاتی حقائق متشابہات کی ضمن میں آتے ہیں۔ وہ حقائق جو حواس سے ماوراء ہوں اور عقل انسانی ان تک پہنچنے سے عاجز ہو، ان کے اظہار کے لیے جو بیانات قرآن میں آئے ہیں ان میں اشتباہ اور اجتمال کا پایا جانا قطعاً فطری امر ہے۔ قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں ان کا دھندلا سا تصور قائم ہو جائے تاکہ اس کی عملی زندگی قرآن کی اخلاقی و سیاسی تعلیم کے علاوہ قرآن کی مابعد الطبیعی تشریحات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ روح کی نوعیت و ماہیت پر ما بعد الطبیعیاتی کی بجائے قرآن میں اس سے تعرض بطور ایک اخلاقی مسئلہ کے کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کے نقطہ نظر سے روح کی ماہیت پر فکری و نظری بحث سے زیادہ ضروری مسئلہ اس کی نجات کا ہے۔ روح اور اس کا بقائے دوام ایک نظریہ یا تصور نیں جس کی توضیح و تشریح کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں اسے ایک بنیادی حقیقت کا درجہ حاصل ہے جسے صرف تسلیم کر لینا چاہیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ایک مشتبہ اور غیر واضح حقیقت پر کیونکر ایمان لایا جائے؟ قرآن کا موقف یہ ہے کہ ایسی حقیقتوں پر ایمان لانے کے لیے محکمات کی بنیاد کافی ہے جو محکمات پر یقین رکھتا ہے تو ماورائے ادراک حقائق کے فہم کے لئے وہ بس وہیں تک جاتا ہے جہاں تک قرآن اسے لے جاتا ہے۔ عربوں کے نزدیک حکمت و دانش روز مرہ کے معموں اور ان کے حل پرانے لوگوں کے نصیحت آمیز قصوں اور معاشی و سماجی معاملات میں عقل و فہم کے استعمال تک محدود تھی اور جس معاملے میں عقل عاجز آ جاتی تھی اسے رضائے الٰہی کی طرف منسوب کر دیا جاتا تھا۔ 1؎ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روح اور اس کے بقائے دوام یا حیات بعد الموت کے تصورات قرآن مجید میں ہمیں اس طرح نہیں ملتے جیسے کہ افلاطون نٹشے یا مشہور پنہار کے فلسفوں میں ملتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم روح اور اس کے بقائے دوام کے اسلامی نظریہ کو ایک علیحدہ اور مستقل عنوان کی حیثیت سے پیش نہیں کر سکتے۔ قرآنی تعلیمات کے پورے مجموعے میں موت اور حیات بعد الموت کے بار ے میں ہمیں کوئی مربوط اور جامع بیان نہیں ملتا۔ ان حقائق کو مختلف سیاق و سباق میں مختلف مواقع پر مختلف طرز استدلال کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہاں پھر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ما بعد الطبیعیاتی ہونے کی بناء پر ان ان دیکھی حقیقتوں کی کوئی واضح تصویر نہیں پیش کی گئی البتہ جس امر پر زور دیا گیا وہ یہ ہے کہ انہیں تسلیم کر لیا جائے یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگ ’’ تفویض‘‘ کا مسلک اختیار کرتے تھے: ’’ تفویض کے مسلک سے مقصود یہ ہے کہ جو حقائق ہمارے دائرہ علم و ادراک سے باہر ہیں ان میں ردوکد اور باریک بینی نہ کرنا اور اپنے عجز و نارسائی کا اعتراف کر لینا۔‘‘ 2 انسان کی تخلیق، اس کی دنیاوی زندگی، موت اور اس کی بعثت ثانیہ کے سلسلے میں قرآن دواصطلاحات استعمال کرتا ہے روح اور نفس، لیکن ان اصطلاحات کو متعدد مفاہیم میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسانی شخصیت کے حوالے سے اس کے ایک مخصوص مفہوم کی تعین کر لی جائے ۔ روح کی اصطلاح جن مفاہیم میں قرآن نے استعمال کیا ہے وہ درج ذیل ہیں: 1۔ پھونکنے کے مفہوم میں ’’ اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداء گارے سے کی، پھر اس کی نسل ایک ایسے سست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے، پھر اس کو برابر کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دئیے، آنکھیں دیں اور دل دئیے تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘ (8:22) ’’ اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے ارشادات اور اس ی کتابوں کی تصدیق کر دی اور وہ اطاعت گزار لوگوں میں سے تھی۔‘‘ (12:66) امام راغب اصفہائی لکھتے ہیں: ’’ روح اور روح اصل میں ایک ہیں اور روح کو نفس یعنی سانس کا نام قرار دیا گیا ہے شاعر آگ کے بارے میں کہتا ہے۔‘‘ فقلت لہ، ارفھا الیک واحیھا روحک اجعلھا لھاقیتہ قدر (میں نے اس سے کہا اس آگ کو اپنی طرف سے اٹھا کر اپنے سانس سے اس کو زندہ کر دے اور اس کی مقررہ غزا سے اسے بہم پہنچا دے) یہ اس بناء پر ہے کہ سانس بھی روح کا ایک جزو ہے۔ یہ تسمیعہ ایسا ہی ہے جس طرح پر کہ نوع کو اسم جنس سے موسوم کر دینا جیسے انسان کو حیوان کہہ دینا نیز روح کو اس جزو کا بھی نام قرار دیا گیا ہے جس کے ذریعے زندگی، حرکت، منفعتوں کا حصول اور مضرتوں کا دفاع حاصل ہوتا ہے۔ 2؎ 2۔ روح وحی کے مفہوم میں ’’ وہ بلند درجوں والا مالک عرش ہے۔ اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح نازل کر دیتا ہے (یعنی نبوت عطا کر دیتا ہے) تاکہ وہ ملاقات کے دن سے خبردار کرے‘‘ (40:15) ’’ کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ کے روبرو بات کرے۔ اس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے۔ (انقاء کر دی جاتی ہے، یعنی دل میں ڈال دی جاتی ہے) یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ کوئی پیغامبر (فرشتہ) بھیجتا ہے او روہ اس کے حکم سے جو کچھ چاہتا ہے وحی کرتا ہے۔ وہ برتر اور حکیم ہے اور اسی طرح (اے محمدؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمہاری طرف وحی کی ہے۔‘‘ (83:42) 3۔ نیند کی حالت میں روح قبض کرنا ’’ وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے (یعنی سویا ہوا حالت مرگ میں ہوتا ہے) پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذکر دیتا ہے، اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔‘‘ (42:39) 4۔ روح بمعنی جبریل ’’ ملائکہ اور روح (جبریل) اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے‘‘ (4:70) ’’ جس روز روح (جبریل) اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے‘‘ (38:78) ’’ فرشتے اور روح (جبریل) اس (رات میں) اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں‘‘ (4:97) 5۔ روح بمعنی فرشتہ ’’ پس ہم نے اس کی طرف (مریم کی طرف) اپنا فرشتہ (روح) بھیجا اور وہ ایک بھلے چنگے آدمی کے روپ میں نمایاں ہو گیا‘‘ (17:19) 6۔ روح القدس ’’ اور آخر عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی‘‘ (253:2) روح پاک سے مراد مسلمان عموماً حضرت مسیح ؑ ہی لیتے ہیں لیکن عیسائیوں 4؎ کے نزدیک خدا اور مسیح ؑ کے علاوہ روح القدس (Holy Ghost) یعنی اقانیم ثلاثہ میں سے تیسرا اقنوم بھی ہے۔ ’’ مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان (کلمہ) تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے رحم مریم میں بچہ کی شکل اختیار کی)‘‘ (171:4) 7۔ روح بمعنی نبوت ’’ وہ اس روح کو اپنے جس بندے پر چاہتا ہے اپنے حکم سے ملائکہ کے ذریعے نازل فرماتا ہے‘‘ (2:16) اس آیت میں روح کو نبوت کی اسپرٹ کے مفہوم میں لیا گیا ہے جو کہ اخلاقی زندگی میں وہی درجہ رکھتی ہے جو کہ طبعی زندگی میں عام روح 5؎ 8۔ روح بطور روح انسانی ’’ پھر یاد کرو اس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔ جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر جانا ‘‘ (29:15) اس مفہوم میں روح صفات الٰہیہ کا ایک پرتو ہے جو کہ کالبد خاکی پر ڈال دیا گیا ہے اور اسی رعایت سے انسان مسجود ملائک ٹھہرا اور خلیفہ فی الارض بنا۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ صرف ایک پرتو ہے۔ روح انسانی میں الوہیت کا کوئی حصہ نہیں آ جاتا۔ 6؎ لیکن بعض مفسرین اسے نور یزدانی (Divine Spark) سے تعبیر کرتے ہیں جو اس کے تمام روحانی کمالات کا سرچشمہ ہے اور اسی واسطے سے وہ خدا سے جڑتا ہے بشرطیکہ وہ اس کی پوری پوری حفاظت کرے اور اگر وہ اس کو ضائع کر دے تو وہ ایک بے چراغ گھر ہے جس کے اندر صرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ 7؎ دوسری اصطلاح جسے قرآن میں موت، نجات اور بقائے دوام کے ضمن میں استعمال کیا گیا ہے۔ نفس ہے جس کے کئی مفہوم ہیں، نفس، سانس، جھونکا اس کی جمع انفاس ہے۔ انفس کا معنی ہے خواہش کرنا تنفس، سانس لینا متنفس، سانس لینے والا متنفس، سانس لینے کا راستہ تنفس فی لانائ، ایک ہی سانس میں پانی پینا تنفس الصعدائ، ٹھنڈا سانس بھرنا تنافس فی، بہت چاہنا نفس نفوس و انفس، روح جان، خون، بدنظری، وجود، فرو، شخص، ارادہ، خواہش، تکبر، رائے، عیب، بھوک، معدہ ان کی مثالیں یہ ہیں: قتل نفسہ، اس نے خود کشی کی لعبت نفسہ، اس نے متلی محسوس کی غثت نفسہ، اس کا معدہ اچھلا جاء فی ھو نفسہ و بنفسہ، وہ خود آیا جاء معہ ثلاتہ انفس، وہ تین کے ساتھ آیا لفس لام، اصلیت نفس الشی، وہی چیز لیس لی لفس للا علی، مجھے بھوک نہیں نفسہ کبیرۃ، وہ متکبر ہے عطیف الفس، بے غرض صالت نفسہ، اس کا خون بہ گیا قال نفسہ، اس نے اپنے آپ کو کہا (اپنے جی میں کہا) فی لفسی ان افعل کفرا، میرے قصد میں ایسا کرنا ہے فلا یوم نفسیہ ویشاورھما، فلاں آدمی پس و پیش کرتا ہے یا متردو ہے 8؎ قرآن میں جہاں کہیں انسان کے لیے نفس کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس سے اس کا روحانی پہلو مراد نہیں بلکہ اس نفس کی طرف اشارہ ہے جو خواہش کرتا ہے اور اپنے اندر اشتہا رکھتا ہے۔ اگر ہم ارسطو کی اصطلاح استعمال کریں تو اسے اشتہائی روح (Appetitive Soul) کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کے مطالعہ سے نفس کے بارے میں مندرجہ ذیل امور ثابت ہو سکتے ہیں: 1نفس کے اندر نیکی بدی دونوں کے رحجانات ہیں ’’ اور قسم ہے انسان کے نفس کی جس نے استوار کیا، پھر اس کا تقویٰ اور اس کا فجور دونوں اس پر الہام کیے‘‘ ّ(807:91) 2نفس کے اندر بری خواہشات ہوتی ہے۔ ’’ اور ہم اس کے اپنے نفس کے اندر بھرنے والے وسوسوں کو جانتے ہیں ‘‘ (16:50) ’’ ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی اپنے نفس کی شرارتوں سے‘‘ (خطبہ مسنونہ) 3۔ نفس سرکش ہوتا ہے اس کی تہذیب کرنی چاہیے۔ ’’ حقیقت رات کا اٹھان‘‘ نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر ہے(4:73) ’’ جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا، جنت اس کا ٹھکانا ہو گی‘‘ (41,40-79) 4۔ قرآن نفس کی تین قسموں کا ذکر کرتا ہے: الف۔ نفس لوائمہ۔ ملامت کرنے والا نفس ’’ نہیں میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ‘‘ اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی، کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟ کیوں نہیں ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں (4-2:75) ب۔ نفس امارہ۔ برائی پر اکسانے والا برے کاموں کا حکم دینے والا نفس عزیز مصر کی عورت کے حوالے سے یہ بات قرآن میں آئی ہے: ’’ نفس امارہ تو بدی پر اکساتا ہے۔الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو۔ بے شک میر ارب بڑا غفور و رحیم ہے‘‘ (12) ج۔ نفس مطمئنہ۔ سیدھے راستے پر چلنے والا نفس: ’’ اے نفس مطمئن چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں‘‘ (30,27:89) مندرجہ بالا حوالوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں روح اور نفس کا تذکرہ مختلف سیاق و سباق میں مختلف انداز میں کیا گیا ہے۔ یہاں پھر اس بات کا اعادہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں عقیدہ برائے روح کوئی فلسفیانہ نظریہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے جس کا براہ راست تعلق نجات سے ہے۔ چنانچہ اصل مقدمہ روح انسانی کی حقیقت کو تسلیم کرنا اور اس کی حیات بعد الموت کا اقرار ہے تو کیاروح اور نفس دو علیحدہ اور مختلف چیزیں ہیں؟ اکثر آئمہ کی رائے یہ ہے کہ روح اور نفس میں کوئی فرق نہیں۔ روح اور فرق کے نفس کو ذاتی نہیں بلکہ صفاتی سمجھا جاتا ہے۔ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں: ’’ میں کہتا ہوں جو روح قبض کی جاتی ہے وہ ایک ہی ہے اور اس کو نفس کہتے ہیں اور جس روح سے حق تعالیٰ اپنے دوستوں کی تائید فرماتا ہے وہ اور روح ہے، انسانی روح نہیں‘‘ 9؎ روح اور نفس کے درمیان جو فرق محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نفس میں ترغیب، اشتہا اور تحریص وغیرہ کے رحجانات ہیں اور وسوسہ شیطانی سے متاثر ہونے کے امکانات بھی ہیں جبکہ روح کو خدائی صفات کا انعکاس سمجھا جاتا ہے جسے کہ ان آلائشوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اس لئے بعض مفکروں نے روح کو نفس سے علیحدہ سمجھا اور بعض نے نفس کو روح کی سواری قرار دیا۔ اس مسئلہ پر متکلمین نے بہت لمبی چوڑی بحثیں کی ہیں جو ہماری موجودہ بحث میں قطعاً غیر اہم ہیں۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں روح اور نفس کو انسانی انا (Human Ego) اسی کے مفہوم میں لیا گیا ہے۔ نفس اور روح کی تخصیص ایسے ہی ہے جیسے ارسطو کے ہاں روح کے دو حصوں کی تخصیص ہے۔ ارسطو کے نزدیک روح کے دو حصے ہیں۔ ایک عقلی اور دوسرا غیر عقلی۔ غیر عقلی حصہ جس میں اشتہائی اور حیوانی تقاضے پائے جاتے ہیں او رکسی حد تک شعور بھی ہوتا ہے۔ روح کے بالائی عقلی حصے میں صرف تفکر پایا جاتا ہے۔ عملی زندگی میں روح کے دونوں حصے مل کر کام کرتے ہیں۔ قرآن چونکہ فلسفے کی کوئی کتاب نہیں اس لیے میں اس طرح تناقضات نہیں ڈھونڈنے چاہئیں جس طرح نظری و فکری بحثوں میں ڈھونڈے جاتے ہیں قرآن کے مختلف بیانات سے جو تاثر ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ روح اور نفس ایک ہے۔ قرآن میں روح اور مادے کی تخصیص نہیں چنانچہ موت حشر اور بقائے دوام کے بارے میں جتنے بھی بیانات ہیں سب کے سب مادی اشتعاروں اور تشبیہات پر مشتمل ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے۔ ادراک انسانی وہاں تک رسائی نہیں پا سکتا۔ روح یا نفس کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے اندر خیر و شر کے رحجانات موجود ہیں لیکن اس کا ایک بلند حصہ بھی ہے جو کہ صفات الٰہیہ کا انعکاس یا نور یزدانی ہے اور یہی اخلاقی شعور کا منبع ہے جو کہ نفس کے اشتہائی اور حیوانی تقاضوں کی تہذیب و تربیت کرتا ہے ’’ نفس امارہ روح یعنی نفس ناطقہ کو ہی کہتے ہیں لیکن خاص اس حالت میں کہ جب متصف باخلاق ذمیمہ اور شہوات کے تابع ہو جائے اور جس وقت نفس ناطقہ کو معارضہ شہوات سے اضطراب زائل اور حکم الٰہی کے ماتحت حصول اطمینان ہو نفس مطمئنہ کہتے ہیں اور جب اضطراب اس کا بالکل زائل نہ ہو لیکن نفس شہوانیہ یعنی نفس امارہ کے مدافع ہو، نفس توامہ بدلتے ہیں غرضیکہ روح ہی کو بلحاظ حالات مذکورہ نفس مطمئنہ لوامہ اور امارہ کہا کرتے ہیں‘‘ 10؎ قرآن کی رو سے ہر ذی روح (نفس) موت کا ذائقہ چکھے گا۔ یعنی اس دنیا کی زندگی عارضی اور فانی ہے۔ ہر شخص کی زندگی کا خاتمہ ہو گا لیکن موت اسے عدم محض سے ہم کنار نہیں کرے گی۔ مرنے کے بعد تمام لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے حیات بعد الموت کا عقیدہ عرب میں اجنبی نہ تھا۔ مشہور مستشرق ڈنکن بلیک میکڈونلڈ کہتا ہے کہ: ’’ عرب بھی قدئم عبرائیوں کی طرح مردوں کو دفن کر کے یہ سمجھتے تھے کہ یہ وہاں نئی زندگی گزاریں گے لیکن اسلام نے جس چیز پر زور دیا وہ بعثت ثانیہ اور فیصلے کا دن (یوم الحساب) ہے۔ اس دن کی سزا و جزا کا دار و مدار حیات الدنیا کے اعمال پر ہے۔ اس طرح حیات بعد الموت اور بعثت ثانیہ کی ساری نوعیت اخلاقی بن جاتی ہے۔ اسلام کی یہی چیز عربوں کو ناگوار گزرتی تھی کہ آخرت کو سنوارنے کے لیے دنیاوی زندگی پر اخلاقی بندشیں لگائی جائیں۔‘‘ 11؎ قرآن کی تعلیمات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ روح انسانی بقائے دوام کی حامل ہے۔ مرنے کے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ بعث ثانیہ تک کسی اور انداز میں اپنا وجود برقرار رکھتی ہے مضبوط آدم کے عظیم ڈرامے کو دیکھا جائے تو روح انسانی جو خدا کے ساتھ نسبت خصوصی رکھتی ہے، ابدی نظر آتی ہے۔ لیکن نجات کے اس سارے نظام میں کئی اور ابدی ارواح بھی ہیں۔ ملائکہ جنات اور گروہ شیاطین جس کا سرغنہ ابلیس ہے۔ سب ابدی ارواح ہیں لیکن ان میں سے ملائکہ اور بعض جنات غیر کی نمائندگی کرتے ہیں اور شیاطین شر کی۔ انسانی روح جہاں نفس امارہ کی ترغیبات و تحریصات کا شکار ہوتی ہے شیطان و خناس کے وسواس سے بھی متاثر ہوتی ہے۔ موت کے بعد جو دور شروع ہوتا ہے اور بعثت ثانیہ تک رہتا ہے اسے برزخ سے موسوم کیا گیا ہے۔ برزخ کا معنی ہے حد، آڑ، روک، وہ درمیانی شے جو دو چیزوں کی وسعت کے مابین حائل ہوتی ہے۔ 12؎ اس مفہوم میں قرآن کی دو جگہ برزخ کا ذکر کیا ہے: 1 ’’ اس نے دو دریا رواں کیے جو آپس میں ملتے ہیں۔ دونوں میں ایک آڑ ہے کہ تجاوز نہیں کر سکتے‘‘ (20:55) اور جب مرنے کے بعد کفار کے دل میں پچھتاوا آئے گا اور وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ دنیا میں دوبارہ بھیج دئیے جائیں تاکہ وہ اپنی نیکی کا ثبوت مہیا کر سکیں تو اس کے جواب میں اللہ نے کہا ہے: ’’ اور ان سب (مرنے والوں کے) پیچھے برزخ حائل ہے۔ جہاں وہ اس دن تک کہ دوبارہ اٹھائیں جائیں گے رہیں گے‘‘ (100:23) یعنی ان کا اس دنیا میں واپس آنا نا ممکن ہے۔ برزخ ایک ایسا پردہ ہے یا آڑ ہے جو کوئی اس کے پیچھے چلا جاتا ہے واپس اس دنیا میں نہیں آ سکتا۔ برزخ میں انسان بعثت ثانیہ تک رہیں گے۔ قرآن نے اس درمیانی عرصے کو قبر کا نام بھی دیا ہے: ’’ پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا وہ اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کرے گا‘‘ (321:80) اسی طر ح یوم حشر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: ’’ جو قبروں میں ہیں انہیں اٹھایا جائے گا‘‘ (9-100) اور (7-22) اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن موت اور بعثت ثانیہ کے درمیانی عرصہ کو برزخ کے نام سے بھی تعبیر کرتا ہے اور قبر سے بھی۔ برزخ کے بارے میں محولہ بالا آیات (23) سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ برزخ میں قیام کے دوران کسی نہ کسی نوعیت کے تجربات روحانی اور شعور کی کچھ علامات قائم رہیں گی۔ مرنے کے بعد کفار یہ تمنا کریں گے کہ کاش نہیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو وہ ایسااس وجہ سے کریں گے کہ انہیں برزخ میں ہی اپنا انجام نظر آنا شروع ہو جائے گا اور وہ یہ محسوس کریں گے کہ وہ ناکام زندگی گزار کے آئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ مرنے کے فوراً بعد آدمی کو اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے اور اس سے یہ ثابت ہوت اہے کہ سزا و جزا کا عمل برزخ سے ہی شروع ہو جاتا ہے: ’’ معلوم ہوا کہ عذاب و ثواب برزخ آخرت کا ابتدائی عذاب و ثواب ہے جیسا کہ بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ نیک صاحب کے لیے جنت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کے پاس جنت کی راحتیں اور نعمتیں آنے لگتی ہیں اور فاجر کے لیے جہنم کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور اس کی گرمی اور لپٹیں آنے لگتی ہیں۔‘‘ 13؎ یہاں بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جو آگ میں جل جائیں، پانی میں غرق ہو جائیں یا جن کی لاشیں جنگلی جانور وغیرہ کھا جائیں یعنی جن کی قبر نہ بنے انہیں برزخ میں اپنے حصے کا ثواب و عذاب ضرور ملے گا۔ اصل قبر برزخ ہے۔ برزخ میں روح و بدن دونوں پر عذاب و ثواب ہوتا ہے۔ قرآن میں بھی برزخ کے عذاب کا ذکر ملتا ہے: ’’ پھر اللہ نے انہیں ان کے دھوکوں کی برائیوں سے بچا لیا اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا یہ صبح و شام اگ پر پیش کیے جاتے ہیں اور قیامت کے دن کہا جائے گا کہ اے آل فرعون سخت ترین عذاب میں داخل ہو جاؤ ‘‘ (46-45:40) ا س آیت میں صراحت سے برزخ اور آخرت کے عذاب کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شہداء کو یعنی جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ قرار نہیں دیا گیا۔ ان کے ایک ایسے انداز حیات کا ذکر کیا گیا ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکتے، ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی طرف روزی پاتے ہیں (دیکھئے آیت....) یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ برزخ کا دورانیہ کتنا ہو گا؟ قرآن آخرت کے بارے میں تمام امور کو ایسے اسرار قرار دیتا ہے جو مرنے کے بعد ہی ظاہر کیے جائیں گے۔ ان کا علم موجود حواس سے نہیں ہو سکتا (دیکھیے القرآن 17:32) چونکہ آخرت کے زمان و مکان کے پیمانے ہی مختلف ہوں گے۔اس لیے اس دنیا کے زمانی و مکانی پیمانوں سے ان حقائق کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے برزخ کے دورانیے کا پتہ چل سکے۔ یوم حشر میں انسان کو مکمل شعور و حواس کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس لحاظ سے برزخ کو نیم ہوشی کا عالم کہا جا سکتا ہے: ’’ ان کے آگے برزخ ہے جس میں وہ اس دن تک کہ دوبارہ اٹھائیں جائیں رہیں گے‘‘ (3:23) اس آیت کے لحاظ سے تمام لوگ یوم حشر تک برزخ میں رہیں گے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں زیادہ وقت گزرنے یا کم وقت گزرنے کا شعور نہیں ہو گا۔ چنانچہ برزخ کے طویل دورانیے یا مختصر دورانیے کا سوال ہی غیر اہم ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں دورانیے کے سوال کے بارے میں ہے: ’’ اور جب وہ ساعت برپا ہو گی (یعنی یوم حشر آ پہنچے گا) تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے ہم ایک گھڑی بھر سے بھی زیادہ نہیں ٹھہریں ہیں (خواہ انہیں مرے ہوئے ہزاروں صدیاں بیت گئی ہوں ) ‘‘ (55:30) دوسری جگہ اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا: ’’ پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔ گھبرا کے کہیں گے ارے یہ کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھا کھڑا کیا۔‘‘ یعنی انہیں یوں محسوس ہو گا جیسے وہ سو رہے تھے اور کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے ان کا سلسلہ خواب غفلت ٹوٹ گیا ہے۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کیفیت کافروں کی ہو گی۔ وہ جنہوں نے اعمال صالح سے دنیا ہی میں بہتر روحانی مقام حاصل کر لیا ہو۔ برزخ میں بھی شعور کی بہتر کیفیت کے حامل ہوں گے۔ ایسی متعدد احادیث ہیں جن میں مومنین کی روحوں کے آزادانہ پھرنے، اللہ کے پاس رہنے۔ چالیس دن بعدقبر سے کسی مقام بلند کی طرف لے جائے جانے کا ذکر ملتا ہے۔13؎اس سے پتہ چلتا ہے کہ ارواح صالحہ کی کیفیت برزخ میں کفار سے مختلف ہو گی۔ جس روز سب لوگ اٹھائیں جائیں گے۔ اس کے بارے میں قرآن نے متعدد نام استعمال کیے ہیں۔ ان میں سب سے عام ’’ یوم القیامہ‘‘ ہے جس کا معنی ہے ’’ اٹھائے جانے کا دن‘‘ قرآن میں اسے ستر بار استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ’’ الساعہ‘‘ ہے جس کا معنی ہے ’’ گھڑی‘‘ یا گھنٹہ اسے چالیس مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ ’’ یوم لآخر‘‘ یعنی ’’ آخری دن‘‘ چھبیس بار استعمال ہوا ہے ’’الاخر‘‘ بمعنی ’’ آئندہ زندگی‘‘ سو بار سے زائد دفعہ آیا ہے۔ ’’ یوم الدین‘‘ یعنی مکافات: (Requital) کا دن دوسرا اہم نام ہے ’’ یوم الفعل‘‘ یعنی فیصلے کا دن چھ مرتبہ اور ’’ یوم الحساب‘‘ یعنی شمار کرنے کا دن پانچ مرتبہ آیا ہے۔ کچھ نام ایسے ہیں جو کہ محض ایک یا دو دفعہ آئے ہیں مثلاً ’’ یوم الفتح‘‘ فیصلے کا دن ’’ یوم التلاق‘‘ ملاقات کا دن’’ یوم الجمع‘‘ اکٹحے ہونے کا دن ’’ یوم الخلا‘‘ ہمیشہ کا دن ’’ یوم الخروج‘‘ باہر نکلنے کا دن’’ یوم العبث‘‘ دوبارہ زندہ اٹھانے کا دن ’’ یوم الحسرۃ‘‘ پچھتانے کا دن ’’ یوم التناد‘‘ پکارنے کا دن’’ یوم لازفہ‘‘ قریب آ جانے کا دن ’’ یوم التغابن‘‘ جیت کا دن یا خرابیاں ظاہر کرنے والا دن۔ کچھ دوسرے الفاظ میں جو بغیر الیوم کے ایک یا دو مرتبہ آئے ہیں جیسے : الغاشیہ (چھا جانے والی آفت) ’’ الصاختہ‘‘ بہرہ کر دینے والی آفت۔ ’’ الطامہ‘‘ (بڑی مصیبت) ’’ الحقہ‘‘ عظیم سچائی اور ’’ الواقعہ‘‘ عظیم واقعہ ’’ القارعۃ‘‘ یہاں ان ناموں کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اس امر پر روشنی ڈالی جا سکے۔ ان میں سے اکثر نام ایک عظیم تباہی کو ظاہر کرتے ہیں یا ایک نئی زندگی کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ایک پرانا نظام منہدم و معدوم ہو جائے گا اور ایک ہزار نظام منصہ شہود پر آئے گا۔ مندرجہ ذیل چند آیات سے اس صورت حال کا دھندلا سا تصور قائم ہو سکتا ہے: ’’ پوچھتا ہے (انسان) آخر کب آنا ہے وہ قیامت کا دن؟ پھر جب دیدے پتھر ا جائیں گے اور چاند بے نور ہو جائے گا اور چاند سورج ملا کر ایک کر دئیے جائیں گے، اس وقت یہی انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں ہرگز نہیں وہاں کوئی جائے پناہ نہیں ہو گی۔ اس دن تیرے رب ہی کے سامنے جا کر ٹھہرتا ہو گا۔ اس روز انسان کو اس کا سب سے اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گیا بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے‘‘ (15-75) ’’ پھر جب ستارے ماند پڑ جائیں گے اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا، اور پہاڑ دھنک ڈالے جائیں گے اور رسولوں کی حاضری کا وقت آ پہنچے گا (اس روز وہ چیز واقع ہو جائے گی) کس روز کے لیے یہ کام اٹھا رکھا ہے؟ فیصلے کے روز کے لیے اور تمہیں کیا خبر کہ وہ فیصلے کا دن کیا ہے۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے‘‘ (15:77) ’’ بے شک فیصلے کا دن ایک مقررہ وقت ہے جس روز صورمیں پھونک مار دی جائے گی۔ تم فوج در فوج نکل آؤ گے اور آسمان کھول دیا جائے گا حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا اور پہاڑ چلائے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے‘‘ (20-78) ’’ یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ گھڑی کب آ کر ٹھہرے گی؟ تمہارا کیا کام کہ، اس کا وقت بتاؤ۔ اس کا علم تو اللہ پر ختم ہے‘‘ (44:79) ’’ جب یہ اپنی قبروں سے یوں دوڑے جا رہے ہوں گے جیسے مقررہ نشانوں کی طرف دوڑ لگا رہے ہوں ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی، ذلت ان پر چھا رہی ہو گی۔ وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔‘‘ (44-43:70) ’’ اور جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ اس روز وہ (اپنے اوپر گزرنے والے) حالات بیان کرے گی، کیونکہ تیرے رب نے اسے (ایسا کرنے کا) حکم دیا ہو گا۔ اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھا دئیے جائیں۔‘‘ (6:99) ’’ پھر جب ایک دفعہ صور میں پھونک مار دی جائے گی‘‘ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا، اس روز وہ ہونے والا واقعہ پیش آئے گا، اس دن آسمان پھٹے گا اور اس کی بندش ڈھیلی پڑ جائے گی۔ فرشتے اس کے اطراف و جوانب میں ہوں گے اور آٹھ فرشتے اس روز تیرے رب کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے۔ وہ دن ہو گا جب تم لوگ پیش کیے جاؤ گے۔ تمہارا کوئی راز بھی چھپا نہ رہ جائے گا۔ (69) قیامت کے دن اٹھائے جانے کا عمل صور پھونکنے کے ذریعے سے ہو گا۔ صور پھونکنے سے مراد سنکھ یا بگل جانا۔ سنکھ یا بگل بجا کر فوج کے دستوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اس طرف قیامت کے روز: ’’ ایک فرشتہ اسرافیل ہو گا جو منہ پر سنکھ رکھے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہو گا اور منتظر ہو گا۔ کب پھونک مارنے کا حکم ہوتا ہے۔ یہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہال نفختہ انفرع جو زمین و آسمان کی ساری مخلوق کو سہما دے گا۔ دوسرا نفختہ العصق جسے سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے۔ پھر جب اللہ واحد صمد کے سوا کوئی باقی نہ رہے گا تو زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی اور اسے عکاظی بساط کی طرح ایسا سپاٹ کر دیا جائے گا کہ اس میں کوئی ذرا سی سلوٹ تک نہ رہے گی۔ پھر اللہ اپنی خلق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ مر کر گرا تھا اسی جگہ وہ اس بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا۔ یہی نفختہ القیام لرب العلمین ہے۔‘‘ 15؎ حیات بعد الموت کی دو صورتیں ہوں گی۔ جنت کی زندگی یا دوزخ کی زندگی۔ جنت اعمال صالحہ کی جزا ہو گی 11؎ اور دوزخ اعمال سینہ کی سزا۔ جنہ ایسی شے کو کہتے ہیں جو نظروں سے اوجھل ہو۔ باغ کو جنت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی زمین درختوں اور پودوں سے چھپی ہوتی ہے۔ اسی رعایت سے کہا جا سکتا ہے کہ جنت کی جن نعمتوں اور آسائشوں کا قرآن میں ذکر ہوا ہے وہ طبعی آنکھ سے اوجھل ہیں۔ یعنی ہم ان کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ یہاں ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ہم جنت کے احوال پر تفصیلی روشنی ڈال سکیں۔ مختصراً مندرجہ ذیل پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تاکہ جنت کا ہلکا سا خاکہ ذہن میں بھر سکے: 1یہ ہمیشگی کا باغ جنت الخلا ہے (15:25) 2یہ ایمان لانے والوں اور اعمال صالحہ کرنے والوں کے لیے ہے (8:21) 3 جتنی بلند و بالا عمارت میں اطمینان سے رہیں گے (27:34) ’’ یہ (جنت) بہت بڑا افضل ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا۔ وہاں ان کا لباس ریشم کا ہو گا اور وہ کہیں گے شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا۔ یقینا ہمارا رب معاف کرنے والا اور قدر فرمانے والا ہے۔ جس نے ہمیں اپنے فضل سے ابدی قیام کی جگہ ٹھہرا دیا۔ اب یہاں ہمیں نہ کوئی مشقت پیش آتی ہے اور نہ تکان لاحق ہوتی ہے۔‘‘ (32تا35 35:) 4وہاں انسان جو چاہے گا اسے ملے گا (31:41) 5 جنت کی نعمتوں کی لذات ذہنی نوعیت کی ہو گی ’’ مگر اللہ کے چیدہ بندے (دوزخ سے) محفوظ رہیں گے ان کے لیے جانا بوجھا رزق ہے۔ ہر طرح کی لذیذ چیزیں اور نعمت بھری جنتیں جن میں وہ عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے۔ شراب کے چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے۔ چمکتی ہوئی شراب جو پینے والوں کے لئے لذت ہو گی۔۔۔ نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضرر ہو گا اور نہ ان کی عقل اس سے خراب ہو گی اور ان کے پاس نگاہیں بچھانے والی خوبصورت آنکھوں والی عورتیں ہوں گی۔ ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی‘‘ (40:27تا49) 6 اہل جنت نہ صرف آپس میں گفتگو کریں گے بلکہ اہل دوزخ سے بھی بات چیت کر سکیں گے (53,52:37) 7بعض اعمال صالحہ کسی کو جنت کا استحقاق نہیں دیتے۔ اللہ کے فضل کے بغیر کوئی جنت حاصل نہیں کر سکتا۔ (57:44) 8وہاں صالح لوگوں کو ان کے صالح والدین، صالح اولاد اور صالح بیویوں کے ساتھ یکجا کر دیا جائے گا (52:28) اور (8:40) اور (73:43) 9 جنت میں بھی بلند سے بلند تر مقامات ہوں گے (20:39) 10 جنت کی طرف سفر کرتے ہوئے تاریکیوں میں ایک نور مومنین کے دائیں طرف اور آگے آگے دوڑ رہا ہو گا۔۔۔۔۔ اور ا س نور کی تکمیل کی وہ دعا کریں گے (8:66) اب قرآن کی آیت پر مبنی جنت کا جو تصور قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے صالح بندوں کا ایک ایسا گھر ہے جس میں ان کی ہر خواہش پوری ہو گی۔ اس لیے تکمیل ذات اور آگے بڑھنے کی فطری خواہش کا پورا ہونا بھی لازم آتا ہے۔ یعنی جنت عیش و طرب اور تعطل و بے عملی کی جگہ نہیں ہو گی بلکہ روحانی سفر میں نقطہ آغاز ہو گا۔ تاہم اس روحانی سفر میں، درماندگی تھکاوٹ اور سستی پیدا نہیں ہو گی بلکہ ایک روحانی مسرت محسوس ہو گی۔ اس سفر کا مقصد و محرک بقائے الٰہی ہو گا۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنت کا ابدی گھر روحانی سعادتوں اور مسرتوں سے معمور ہو گا۔ یہ ایسی پاکیزہ جگہ ہو گی جس میں کینہ، بغض، حسد، رشک اور لغویات کا گزر تک نہ ہو گا۔ وہ امن و سلامتی کا گھر ہو گا مقام رحمت ہو گا، مقام نور ہو گا اور مقام رضوان، مقام طیب و طاہر، مقام تسبیح و تہلیل، مقام قرب خداوندی اور مقام نعمت دیدار ایزدی ہو گا (دائر معارف اسلامیہ جلد 7 ص 474) دوزخ کا ذکر قرآن میں سات مختلف ناموں سے آیا ہے (جہنم) کا لفظ متعدد بار استعمال ہوا ہے اور اس وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ قرآن کی رو سے دوزخ کا اسم معرفہ ہے جہنم ’’ بہت گہرے‘‘ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ بئرجھنم کا مطلب ہے بہت گہرا کنواں16؎ سیاق و سباق کے اختلاف کے ساتھ یہ لفظ قرآن میں کوئی ستتر (77) مرتبہ آیا ہے 17؎ جہنم کے اس مفہوم سے ملتا جلتا لفظ ’’ الھاویہ‘‘ بھی قرآن میں آیا ہے لیکن صرف ایک مرتبہ (9:101) ’’ ھاویہ‘‘ کا معنی ہے ’’ اس قدر گہری جگہ جس کی تہہ تک نہ پہنچا جا سکے۔ دوزخ کے درجہ آگ کے اعتبار سے رکھے گئے ہیں:‘‘ 1 ’’ جھیم‘‘ فہم سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے آگ کی لپیٹ یا آگ کا جلانا 2 ’’ سعیہ‘‘ سعر سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے آگ جلانا 3’’ سقر‘‘ کے اشتقاق کا پتہ نہیں اسے جھلانے یا جھلسانے کے مفہوم میں لیا جاتا ہے۔ یہ عربی محاورہ سقرتہ الشم (اسے دھوپ نے قلیل کر دیا) یعنی (اسے لو لگ گئی) سے ماخوذ ہے 18؎ (10:27) 4’’ نطیٰ‘‘ (70)کا مطلب ہے آگ کا خالص شعلہ، ساتواں لفظ حطی ہے جو دو مرتبہ آیا ہے اور جس کا مطلب ہے شدید آگ (45:104) اسی لفظ کو ایک جگہ (20:57) ٹوٹ کر سوکھ گئے ہوئے پودوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا اور دلوں پر چھا جانے والی آتش غم سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ دوزخ کے سات نام دراصل اس کے سات طبقوں کو ظاہر کرتے ہیں جس میں مختلف مجرموں اور کافروں کو رکھا جائے گا بعض کے نزدیک ان الفاظ سے سزا کی مختلف کیفیات کا اظہار مقصود ہے 19؎ بحیثیت مجموعی دوزخ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حیات بعد الموت کی یہ دوسری صورت ہے جس میں کفر شرک اور عصیان کے مجرموں کو آگ کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ اس درالعذاب کی ماہیت روحانی ہے یا جسمانی اس سے تفصیلی بحث اگلے باب میں آئے گی فی الحال ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام میں اصل اہمیت سزا و جزا کے عقیدے کو تسلیم کر لینے کی ہے۔ مولانا حنیف ندوی لکھتے ہیں: ’’ یہ نزاع محض لفظی ہے۔ جب یہ طے ہے کہ ہمیں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ عالم آخرت میں انصاف و عدل کی ترازو میں ہمارا ایک ایک عمل تلے گا اور ہمارے لیے اپنے عقیدہ و عمل کے مطابق سزا یا جزا کا تعین ہو گا اور یہ بھی طے ہے کہ اس جزا و سزا کی دو متعین صورتیں ہوں گی مقام رضا جہاں اللہ تعالیٰ کے اکرام و فضل کی ارزانیاں ہوں گی۔ یہ جنت ہے اور مقام سخت و عقوبت، جہاں مجرموں کو پوری پوری سزا دی جائے گی یہ جہنم ہے۔ اتنا جان لینے کے بعد یہ سوال زیادہ اہم نہیں رہتا کہ جنت و دوخ کا نیچر کیا ہو گا۔ خوشی بہرحال خوشی ہے اور عقوبت بہرحال عقبوت‘‘ 20؎ بعثت کے اول دور میں ناول ہونے والی صورت (32:78) کے مطابق عذاب کا محدود ہونا ثابت شدہ معلوم ہوتا ہے اس آیت میں طاغیوں کے تابقدر ’’ احقاب‘‘ جہنم میں رہنے کا ذکر ہے (لبثین فیھا احقابق) اور ’’ حقب‘‘ جس کی جمع احقاب ہے اس کے معنی ’’ اسی سال کی مدت‘‘ یا بہت سے ’’ سالوں کی مدت‘‘ ہے۔ لغات القرآن میں اس کی تشریح یوں ہے: ’’ احقاباً بے شمار قرن، بے انتہا زمانے، حقب کی جمع، حقاب بضم قاف زمانے کو کہتے ہیں اور حقب بسکون قاف زمانے کی ایک مقررہ مدت کا نام ہے مگر اس زمانے کی تعین میں اہل لغت کا اختلاف ہے بعض اسی برس کی مدت کو بعض ستر برس کے زمانے کو بعض تین سو برس، بعض چالیس سال، بعض تیس ہزار سال بتاتے ہیں۔ مفسرین سلف میں سے امام قتادہ نے صرف تصریح کر دی ہے کہ احقاب سے غیر منقطع زمانہ مراد ہے۔‘‘ 21؎ معتزلہ اور خوارج بھی اس کے قائل ہیں کہ جہنم میں داخل ہونے والے پھر باہر نہیں نکلیں گے مگر ان کے سوا تماما شعریہ اور کئی دوسرے فرقوں کے علمائا ور اکابر سلف کا اس پر اتفاق ہے (دیکھیے ابن قیم الجوزی: ہاوی لارواح 127:2 تا 235مطبوعہ مصرع کہ صاحب ایمان لوگ جہنم میں ہرگز نہیں رہیں گے بلکہ یہ بھی کہ جنہیں اللہ چاہے وہ وہاں رہے بغیر ہی نجات پا جائیں گے۔ ایک مدنی صورت (116:4) ’’ اللہ بخشنے والا نہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جتنے گناہ ہیں وہ جسے چاہے بخش دے۔‘‘ میں یہ واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ صرف شرک قابل معافی نہیں اس کے علاوہ دیگر گناہ (بقول مولانا آزاد بغیر تو بہ کے بھی ) معاف کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کئی اکابر سلف اس بات کے قائل نہیں کہ عذاب جہنم بالاخر ٹل جائے گا۔ مثلاً محی الدین ابن العربی (م 238ھ) نے پوری قوت سے اس عقیدے کی مدافعت کی ہے (دیکھیے فتوحات مکیہ (395:1) (مطبوعہ مصر) لیکن کچھ اکابر ایسے بھی ہیں جو اس عقیدے کے حامی ہیں کہ عذاب جہنم ایک نہ ایک دن ہر شخص پر سے ٹل جائے گا اس ضمن میں حضرت عمرؓ بن الخطاب، حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن العاص اور ابن مسعودؓ جیسی بلند پایہ شخصیتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس خیال کے حامی تھے۔ اس کے علاوہ بعض احادیث کے حوالے سے بھی اس کی تائید کی جاتی ہے۔ عبداللہ بن عمروؓ بن العاص اور ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ: ’’ جہنم پر ایک وقت ایسا آئے گا جب اس میں کوئی نہ ہو گا اور اس کے خالی دروازے کھڑکھڑائیں گے (طبرانی احمد: مسند نیز دیکھیے مسلم: صحیح (51:8) استانبول ابن قمیح، الجوزیۃ شفا العلیل مطبوعہ مصر ص292 اور اسی مصنف کی جاری لارداح171:2 77 مطبوعہ مصر‘‘ ایک رائے یہ ہے کہ جہنم قید خانہ نہیں بلکہ شفاخانہ ہے اور بقول سید سلمان ندوی: ’’ اس کا منشا یہ ہے کہ روح انسانی اپنی غلط کاریوں کے نتائج کو دور کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہو گی اور جونہی وہ ان سے عہدہ برآ ہو گی۔ خدا کی رحمت سے سرفرازی پا کر اس عذاب سے نکل کر اپنی موروثی بہشت میں داخل ہو گی (سلمان ندوی، سیرۃ النبی ؐ 770:4)‘‘ چنانچہ بخاری کی حدیث ہے: ’’ یہاں تک کہ جب دو زخمیوں کو گناہوں سے خالص کر دیا جائے گا اور وہ پاک صاف ہو جائیں گے تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی‘‘ 22؎ جہنم کے بارے میں یہ نقطہ نظر اقبال نے بھی اختیار کیا ہے۔ اگلے باب میں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح جہنم کو اس نے ’’ اصلاحی عمل‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ حیات بعد الموت میں جنت اور دوزخ ہی دو مقام نہیں قرآن میں ہمیں تیسرے مقام کا بھی پتہ چلتا ہے جسے اعراب کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ عرف کا معنی ہے اونچی جگہ، گھوڑے کی پیشانی کو ’’ عرف الفردوس اور مرغ کی کلفی کو:‘‘ حرف الدیک کہتے ہیں۔ اسی اعتبار سے اس کا اطلاق مقام بلند یا کسی مکان مرتفع پر ہوتا ہے سورہ اعراف میں اصحاب النار اور اصحاب الجنت کی باہمی گفتگو کے درمیان ایک تیسرے گروہ اصحاب الاعراف کا ذکر آتا ہے: ’’ ان دونوں گروہوں کے مابین ایک اوٹ (حجاب) حائل ہو گی جس کا بلندیوں پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار آرزو مند ہوں گے‘‘ (46:7) اس آیت کی تفسیر کئی طرح سے کی گئی ہے بل (Bell) نے قیاساً اعراف (بہ کسرہ اول) پڑھا ہے جو محل نظر ہے اور وہ ترجمہ یوں کرتا ہے:ـ ’’ کچھ لوگ پہچاننے پر (صدر نگران) ہیں و پہچانتے ہیں‘‘ 23\ آندرے A. Andre اصحاب الاعراف کو اصحاب الجنت ہی قرار دیتا ہے جو کہ جنت کے بلند ترین مقامات پر فائز ہوں گے 24؎ لسان العرب میں ایک قول درج ہے جس میں اصحاب الاعراف کو انبیا اور رسل کا ایک گروہ کہا گیا ہے 25؎ ابن حریدؒ نے اصحاب الاعراف کے بارے میں چار قول نقل کیے ہیں 26؎ ایک یہ کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں دونوں تول میں برابر اتری ہونگی اور اس وجہ سے ان کا فیصلہ ابھی معلق ہو گا کہ دوزخ میں بھیجے جائیں کہ جنت میں۔ دوسرا یہ کہ یہ علماء اور فقہا کا گروہ ہو گا جنہیں اعراف کی بلندیوں سے جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کروایا جائے گا تاکہ وہ حق و باطل کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ تیسرا یہ کہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں حصہ لیا ہو گا۔ چوتھا یہ کہ یہ ملائکہ ہوں گے۔ آخری دو قول تو سرے سے ہی بعید از قول محسوس ہوتے ہیں البتہ پہلے دو کو درخوارعتنا سمجھا جا سکتا ہے مولانا مین احسن اصلاحی کے نزدیک دوسرا قول درست ہے 27؎ جبکہ مولانا مودودی کے نزدیک: ’’ اصحاب الاعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کا نہ تو مثبت پہلو ہی اتنا قوی ہو گا کہ جنت میں داخل ہو سکیں اور نہ ہی منفی پہلو اتنا خراب ہو گا کہ دوزخ میں جھونک دئیے جائیں۔ اس لیے وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک سرحد پر رہیں گے‘‘ 28؎ اگر قرآن کے عام اصولوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہی تشریح صحیح معلوم ہوتی ہے۔ ایک میزان کا ایک پلڑا جھکے تو دوزخ اور دوسرا جھکے تو جنت مقدر بنتی ہے تو یہ بھی ہونا چاہیے کہ اگر دونوں پلڑے برابر ہوں تو اعراف مقدر بنے۔ اقبال کا خیال ہے کہ وہ فرد مند جو ایمان سے محروم رہے ہیں مقام اعراف میں ٹھہریں گے بال جبریل کا یہ شعر اس طرف اشارہ کرتا ہے: تڑپ رہا ہے فلاعیان غیب و حضور ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف اس کے علاوہ اگر ہم جہنم کو دار الاصلاح سمجھتے ہیں تو یہ بھی لازم آتا ہے کہ ان دو زخمیوں کو جن کی عقوبت پوری ہو جائے جہنم سے نکال کر ایک درمیانی جگہ (Midway house) میں رکھا جائے۔ بعد میں آنے والا بیان کہ: ’’ وہ وہاں جنت کے امیدوار ہوں گے‘‘ یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ یہاں عبوری دور کے لیے رکھے جائیں گے۔ اسی بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علما و فقہا یا انبیاء کا گروہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ انہیں یہاں جنت کے مقدار نہیں بلکہ امیدوار کی حیثیت سے ٹھہرایا گیا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ شرک سے اجتناب کرنے والے عاصمین کو خدا معانی کے بعد وقتی طور پر اعراف میں رکھے۔ انسانی روح کے بقائے دوام کے اسلامی نظریہ کے آخر میں ایک نہایت اہم پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ حیات بعد الموت پر اسلام نے بہت زیادہ زور دیا ہے بلکہ آخرت کی زندگی پر یقین رکھنا ارکان ایمان میں سے ایک ہے۔ قرآن سے نہ صرف حیات بعد از موت ثابت ہوتی ہے بلکہ حیات قبل از پیدائش کا بھی پتہ چلتا ہے: ’’ اور اے نبی ان لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے نبی آدم کو پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کو اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور، آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم ان کی نسل سے پیدا ہوئے۔ پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا۔‘‘ (173,172,172:7) اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کے وقت تمام ذریت آدم کو عقل و شعور اور جسم و روح بخش کر اپنے سامنے کھڑا کیا او راپنی ربوبیت کے بارے میں عہد لیا۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان ایک دفعہ پہلے بھی وجود پذیر ہو چکے ہیں اور خدا کی ربوبیت کی شہادت دینے کے بعد پھر معدوم ہو چکے ہیں۔ 2 اقبال نے چوتھے خطبے میں حیات بعد الموت یا خودی کے بقائے دوام کے مسئلہ سے بحث کی ہے۔ اپنے نقطہ نظر کی تشریح و توجیح سے قبل اس نے سب سے پہلے ابن رشد کے نظریہ بقائے دوام سے مختصراً تعرض کیا ہے اور اس کی تشریح کو سعی رائگاں قرار دیا ہے۔ ذیل میں ہم ابن رشد کے نظریہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ابن رشد (1198-1126) قرطبہ میں پیدا ہوا۔ اس کے بزرگ فقہا اور قاضیان شہر تھے ابن رشد خود بھی اثبیلہ کا قاضی رہا۔ ابتدائی تعلیم اس نے مالکی مسلک پر حاصل کی۔ اس کے اساتذہ میں ابن باجہ اور ابن طفیل جیسے فلسفیوں کے نام شامل ہیں۔ ابن طفیل کے توسط سے ہی اسے خلیفہ یوسف کے دربار میں رسائی حاصل ہوئی اور خلیفہ یوسف نے ہی اسے فلسفہ ارسطو کے ترجمے کے کام پر مامور کیا۔ بعد ازاں خلیفہ المنصور باللہ یعقوب ابن یوسف بن عبدالمومن نے ابن رشد کی کسی بات سے ناراض ہو کر اسے جلا وطن کر دیا۔ تاہم ان کی موت سے ایک برس پہلے اسے معاف کر دیا گیا۔ ابن رشد کو ارسطو کا مستند شارح تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کی کتابیں صدیوں تک یورپ کی درسگاہوں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہیں۔ فلسفہ یونان پر الغزالی نے اپنی مشہور تصنیف ’’ تہافتہ الفلاسفہ‘‘ کے ذریعے کاری ضرب لگائی تھی لیکن ابن رشد نے ’’ تہافتہ التہافہ‘‘ میں الغزالی کے عائد کردہ ان تمام الزامات کی ایک ایک کر کے تردید کی ہے۔ جو اس نے فلاسفہ پر لگائے تھے۔ تہافتہ التہافہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اسلوب خالص فلسفیانہ ہے۔ ابن رشد کے افکار کو جن مفکروں نے مغرب میں ترویج دی ہے ان میں برطانیہ کے راجر بیکن، سکاٹ لینڈ کے مائیکل سکاٹ، اٹلی کے فلسفی پادری تھامس ایکوناس اور مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون کے نام سر فہرست ہیں۔ تہافتہ الفلاسفہ کے آخر میں الغزالی نے تین ایسے مسئلوں کا ذکر کیا ہے جن سے تکفیر لازم آتی ہے: الف۔ قدیم عالم، یعنی یہ ماننا کہ تمام جواہر قدیم ہیں۔ ب۔ اللہ تعالیٰ کے علم و ادراک کو کلیات تک ہی محدود رکھنا ار اس بات کا انکار کرنا کہ وہ اشخاص اور ان کے اعمال و افکار کو فرداً فرداً جانتا ہے۔ ج۔ حشر اجساد کو تسلیم نہ کرنا۔ الغزالی کے نزدیک یہ تین مسئلے ایسے ہے جو اسلام کے ساتھ قطعی ہم آہنگ نہیں اور ان کو ماننے والا انبیاء کا مکتب ہے۔ کیونکہ تاویل و تعبیر کے اس اصول کو جس کو حکماء نے ان تین مسائل کو ثبوت کرنے کے لیے استعمال کیا یہ معنی ہیں کہ انبیاء علیہ السلام نے مصلحتاً حقائق دین کو عوام کی نظر سے اوجھل رکھا اور کتمان حق کا ارتکاب کیا، ظاہر ہے کہ یہ واضح اور کھلا ہوا کفر ہے 30؎ ان مسائل کے ابرے میں تو الغزالی نے سراحتاً کہ دیا ہے کہ ان کو تسلیم کرنا کفر ہے لیکن صفات وغیرہ کے بارے میں بھی حکماء نے جو تاویل اور تعمق کا لہجہ اختیار کیا ہے اسے بھی الغزالی نے بدعت قرار دیا ہے۔ 31؎ اس کے برعکس ابن رشد کا خیال ہے کہ قرآن در حقیقت فلسفے کا حامی ہے۔ قرآن نے انسان کو جو یہ حکم دیا ہے کہ وہ خدا کی صنعت اور کاریگری کے آچار پر غور و فکر کرے، تو یہ دراصل فلسفیانہ طرز فکر اپنانے کی ہی تلقین ہے۔ فلسفیانہ فکر کا بہترین نمونہ فلسفہ یونان میں ملتا ہے۔ اس طرح ابن رشد یہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن نے دراصل انسان کو قدیم یونانی روایت میں فلسفہ پڑھنے کی ہدایت کی ہے۔ فلسفیانہ نظریات اور قرآن کے بیانات میں اگر کہیں عدم مطابقت پائی بھی جائے تو یہ ظاہری اور سطحی نوعیت کی ہو گی۔ قرآن کے دو معانی ہیں ایک ظاہر کی اور دوسرے باطنی۔ قرآن کے باطنی مطالب اور فلسفیانہ نظریات میں عدم مطابقت اور تضاد ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر کوئی فلسفیانہ نظریہ قرآن کے کسی بیان سے متعارض ہوتا ہو تو اس صورت میں قرآن کے ظاہری مطالب سے ہٹ کر اس کے باطنی مطالب تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے، جہاں فلسفے اور وحی میں مکمل آہنگی نظر آتی ہے فلسفے اور مذہب کے ظاہری تضاد کو ختم کرنا اور قرآن کے باطنی مطالب تک پہنچنا تاویل (Allegorical Interprtation) کہلاتا ہے اور فلسفی کو تاویل کا استحقاق دلانا ہی ابن رشد کا بنیادی مقصد ہے جس کے حصول کے لیے اس نے فضل المقال 32؎ میں مدلل اور مبسوط بحث کی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ الغزالی کے نزدیک بعض معاملات میں تاویل کفر کا درجہ رکھتی ہے اور بعض میں بدعت کا لیکن ابن رشد کے نزدیک تاویل ہی مذہب کی اصل روح ہے اور اسی کے ذریعے سے قرآن اور نظریات ارسطو میں ہم آہنگی اور موافقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسی لیے ’’فصل المقال‘‘ کا معتد بہ حصہ قرآن کی تاویل سے متعلق ہے۔ ابن رشد تاویل کی تعریف یوں کرتا ہے: ’’ تاویل کا مطلب کسی بیان کے معانی کو اس کے اصل مطالب سے استعاراتی مطالب تک اس طرح پھیلانا ہے کہ عربی زبان میں تشبیہات و استعارات کو جو معیار قائم کیا گیا ہے وہ قائم رہے۔‘‘ 33؎ ابن رشد کا خیال ہے کہ نفس جسم کے ساتھ اسی طرح وابستہ ہے جیسے صورت مادے کے ساتھ وہ نفوس کی کثرت اور ان کے انفرادی بقائے دوام کا قائل نہیں۔ ڈی اولیری لکھتا ہے: ’’ ابن رشد اپنے متقدمین سے عقل ہیولائی کے بارے میں اختلاف کرتا ہے جو ان مخفی اور بالقوۃ مستعدادوں کا مرکز ہے جس پر عقل فعال (Active Intellect) عمل کرتی ہے۔ تمام قدیم تر نظاموں میں اس عقل ہیولانی کو خالص انفرادی و عقل فعال کی تنویر کے عمل کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے لیکن ابن رشد عقل ہیولانی کو بھی روح کل کا ایک جزو قرار دیتا ہے اور اسے انفرادی صرف اس حیثیت سے کہتا ہے کہ یہ عارضی طور پر جسم کے اندر متمکن ہوتی ہے انفعالی قوتیں تک بھی اس کلی قوت کا جزو ہوتی ہیں جو کل فطرت میں ساری ہے۔ یہ نظریہ ہمہ روفیت (Panpsychism) ہے جس سے قرون وسطیٰ کے اکثر متکلمین کو دلچسپی رہی ہے اور زمانہ حال میں بھی اس کے متبع پائے جاتے ہیں مثلاً ولیم جیمس ‘‘ 34؎ ابن رشد اس امر کو تسلیم نہیں کرتا کہ روح ایک مخصوص جوہر ہے جو کہ جسم کی ہلاکت کے بعد بھی انفرادی طور پر قائم رہتا ہے۔ ’’ ابن رشد کے خیال کے بموجب اسکندر افردویسی نے یہ فرض کر کے غلطی کی ہے کہ عقل متاثر محض رحجان ہے یہ ہم میں ہوتی ہے لیکن اس کا تعلق خارج میں کسی شے سے ہوتا ہے۔ یہ پیدا نہیں ہوتی اور نہ اس میں کسی قسم کی خرابی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے ایک معنی میں یہ عقل فعال سے مشابہہ ہے۔ یہ نظریہ اس نظریہ کے بالکل برعکس ہے جسے عام طور پر مادیت کہا جاتا ہے جس کی رو سے ذہن محض توانائی کی ایک صورت ہے جو عصبی وظائف کی فعلیت سے پیدا ہوتی ہے۔ ابن رشد کے خیال کے بموجب دماغ اور اعصاب کی فعلیت ایک خارجی قوت کے وجود کا نتیجہ ہوتی ہے اور یہ جیسا کہ ارسطو کی تعلیم ہے یا کم از کم اسکندر افردویسی کی تعلیم کے موجب عقل کی بلند ترین استعداد ہوتی ہے جو عقل فعال کے خارجی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن وہ عقل متاثر جس پر یہ عقل فعال عمل کرتی ہے خود ایک بڑی عام روح کا جزو ہے جو تمام زندگی کا مرکز اور وہ خزانہ ہے جس میں روح اپنے اس آئی تجربے کے بعد جسے ہم زندگی ختم ہو جانا کہتے ہیں لوٹ جاتی ہے‘‘ 35؎ ابن رشد کی تہافتہ التہافہ کے بعض مقامات پر انفرادی ارواح کے بقائے دوام کا ذکر بھی ملتا ہے جو کہ مرنے والوں کے اجسام کو چھوڑ کر ’’ روحانی یا ہوائی ‘‘ (Preumatic) جسام اختیار کر لیتی ہے اور حلقہ قمر میں کہیں قیام پذیر ہوتی ہیں۔ 36؎ اسی طرح وہ جنات کے وجود کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ تاہم یہ سب امکانی امور ہیں اور فلسفیانہ طور حل پذیر نہیں لیکن جس چیز کی وہ سختی سے تردید کرتا ہے وہ ’’ حشر اجہاد ‘‘ ہے۔ یہاں جو امر توجہ طلب ہے یہ ہے کہ ابن رشد نے ’’ ارواح کے بقائے دوام یا ان کے نئے روحانی اجسام میں منتقل ہونے کی بات کی ہے لیکن قرون وسطیٰ کے اکثر شارحین کے خیال میں وہ انفرادی نفوس کے خلود اور سرعیت کا قائل نہ تھا بلکہ وحدت النفوس کا قائل تھا۔ وحدت النفوس سے ابن رشد کی مراد یہ ہے کہ:‘‘ ’’ انسانیت کو بقائے دوام حاصل ہے اور عقل فعال کا خلود گویا انسانیت کی حیات ابدی اور مدنیت کا اسمترار ہے۔ ابن رشد وحدت النفوس کے نظریے پر ہمیشہ زور دیتا رہا۔ وہ کہتا ہے کہ عقل ایک مستقل وجود رکھتی ہے اور افراد انسانی سے بالکل علیحدہ اور مستقل طور پر پائی جاتی ہے گویا کہ وہ کائنات کا ایک جزو ہے انسانیت سے (جو اس عقل کا ایک فعل ہے) ایک ایسی ہستی مراد ہے جو ازلی و لازم الوجود ہے۔ اسی بنا پر وہ فلسفے کو ضروری قرار دیتا ہے تاکہ اس کے ذریعے فلسفی عقل مطلق سے واقف ہو سکے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اور فلسفی نظام کائنات کے لازمی جزو ہیں۔‘‘ 27؎ ابن رشد ارسطو سے بہت متاثر تھا چنانچہ اس کے زیر اثر وہ انسانی وجود کو نفس اور روح سے عبارت سمجھتا ہے۔ نفس کو وہ انسان کا حتی اور اشتہائی حصہ قرار دیتا ہے اور عقل کو روح سے تعبیر کرتا ہے۔ حسی وجود کو وہ عقل انفرادی کہتا ہے ایک ہی ہم جنس حقیقت جب حسیات کی قید میں آتی ہے تو منفرد عقل بن جاتی ہے چنانچہ تفرید حسیات کا خاصہ ہے۔ انفرادی عقل فنا پذیر ہے کیونکہ یہ ان حسیات کی رہین منت ہے جو کہ موت اور ہلاک کا شکار ہو سکتی ہے۔ چنانچہ جسم کی ہلاکت کے ساتھ ہی عقل انفرادی کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے لیکن عقل کلی جسم کی ہلاکت کے بعد بھی قائم و دائم رہتی ہے اور جسم سے الگ وجود رکھنے کی بنا پر خلود و سرمدیت کی حامل ہے۔ اس کا تعلق کسی ایسے درجہ وجود سے ہے کہ ابدی اور سرمدی ہونے کے علاوہ مفرد اور عمومی ہے۔ چنانچہ کسی مخصوص جسم کی ہلاکت سے عقل کلی جو کہ اس کے اندر موجود تھی متاثر نہیں ہوتی۔ ’’ اس لیے نوع انسانی ازلی و ابدی ہے اور یوں قدرت الٰہیہ نے قابل فنا ہستی کو اپنی نوع پھیلانے کی قابلیت سے بہرہ ور کیا ہے تاکہ اسے تسلی رہے اور صفت ابدیت نوعی اسے حاصل رہے۔‘‘ 38؎ نفس اور روح کے الفاظ کا ہم نے گذشتہ صفحہ میں تفصیلی جائزہ لے لیا ہے قرآن میں سیاق و سباق کے اختلاف کے ساتھ یہ الفاظ کئی جگہ پر آئے ہیں۔ لیکن قرآن کا منشاء یہ نہیں کہ روح اور نفس کی ثنویت قائم کی جائے لیکن یہیں سے اکثر مفکرین اسلام غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ اقبال کے الفاظ میں: ’’ ابن رشد نے اول تو حواص اور عقل میں ایک امتیاز قائم کیا اور اس کی بنا شاید قرآن مجید کے الفاظ، نفس اور روح پر رکھی۔ لیکن یہ دونوں اصطلاحیں جن سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر دو متضاد اصول کام کر رہے ہیں۔ مفکرین اسلام کے لیے اکثر غلط فہمی کا باعث ہوتی رہیں۔ بہرکیف اگر ابن رشد کی اس ثنویت کی بنا قرآن مجید پر ہے، تو اس میں اس نے بڑی ٹھوکر کھائی ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے لفظ نفس کو جیسا کہ علمائے اسلام کا خیال تھا کسی مخصوص معنوں میں استعمال نہیں کیا۔ ابن رشد کہتا ہے کہ عقل جسم کی کسی حالت کا نام تو ہے نہیں۔ اس کی ہستی جسم سے بالاتر ہے۔ وہ مفرد ہے، عالمگیر اور دوامی لہٰذا اس کا تعلق کسی اور ہی مرتبہ وجود سے ہے۔‘‘ 29؎ اقبال کے خیال میں ابن رشد نفس اور روح کی ثنویت قائم کرنے میں حق بجانب نہیں۔ کیونکہ قرآن کی رو سے انسان کی ہستی واحد اور غیر تقسیم پذیر ہے۔ اسی غیر تقسیم پذیر وحدت کے جیسے ہم پیچھے دیکھ آئے ہیں، مختلف احوال و کوائف ہیں جنہیں نفس لوامہ، نفس مطمئنہ اور نفس امارہ جیسی اصطلاحوں سے تعبیر کیا گیا۔ اقبال کا ابن رشد پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ابن رشد کے نظریے سے انفرادی بقائے دوام ثابت نہیں ہوتا صرف نوع انسانی یا مدنیت کے استمرار کا پتہ چلتا ہے۔ ابن رشد کے نظریہ کو: ’’ اگر مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب بجز اس کے کیا ہو گا کہ واردات اتحاد میں چونکہ انفرادیت مرے سے کالعدم ہو جاتی ہے، لہٰذا انسانوں کی کثرت میں بطور ایک وحدت اس کا ظہور محض فریب ہے مگر پھر جیسا کہ ریناں (Renan) کا قول ہے کہ اس سے کچھ ثابت ہوتا ہے تو صرف یہ کہ بنی نوع انسان اور تہذیب و تمدن کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ نہیں ثابت ہوتا تو یہ کہ فرد کو بقائے دوام حاصل ہے۔‘‘ 40؎ اقبال کا ابن رشد پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اس کا نظریہ ولیم جیمز کے نظریہ سے بہت قریب آ جاتاہے جس کی رو سے: ’’ یہ شعور کی کوئی دراء الجسم میکانکی ترکیب ہے جو محض دل بہلاوے کے لیے کسی جسمانی معمول سے عارضی طور پر تو کام لے لیتا ہے، لیکن پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ 41؎ یعنی روح کلی وقتی طور پر کسی جسم کو بطور آلہ کا راستعمال کرتی ہے پھر اسے پرے پھینک دیتی ہے۔ 3 جلال الدین رومی (1273-1307ئ) نہ صرف دنیائے اسلام کے عظیم ترین صوفی شاعر تھے بلکہ ساری دنیا کے متصوفانہ لٹریچر میں ان کا نام فکر کی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے سر فہرست ہے۔ رومی بلخ کے شہر میں پیدا ہوئے اور بلخی ہونے کے ناطے انہوں نے فارسی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا۔ چنانچہ اہل ایران ان کو اپنا مفکر قرار دیتے ہیں۔ بعد ازاں رومی کا کرتبہ اناطوبیر میں آباد ہو گیا۔ اس لیے ترک نہیں ترکی سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ رومی کا سلسلہ نسب چونکہ حصر سے ابوبکر صدیق سے جا ملتا ہے اس لیے عرب بھی انہیں عربی النسل قرار دینے میں حق بجانب ہیں۔ رومی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ بہاء الدین سے حاصل کی۔ بعد ازاں شیخ بہاء الدین کے ایک مرید برہان الدین محق کے زیر تربیت رہے۔ اس زمانے میں بلخ اگرچہ علوم و فنون کا مرکز تھا لیکن تاتاریوں کی یلغار سے خوارزم شاہ کی حکومت خطرے میں پڑ گئی تھی اور لوگوں نے تاتاری حملہ آوروں کے خوف سے محفوظ علاقوں کی طرف ہجرت شروع کر دی تھی۔ شیخ بہاء الدین 1320ء میں فریضہ حج ادا کرنے کے بعد روم کے شہر ملاطیہ میں چلے گئے، ہاں چار سال رہے پھر لارندہ پہنچے بالآخر ارض روم کے سلجوقی فرماں روا علاء الدین کے قباد اول (1236-1219ئ) کی دعوت پر اس کے دار الحکومت قونیہ میں مستقلاً آباد ہو گئے۔ 1230ء میں بہاء الدین کی وفات کے بعد درس و تدریس کی ذمہ داری رومی کے کندھوں پر آ پڑی۔ وہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ فتوے بھی دیا کرتے تھے اور لوگ انہیں فقیہہ شہر کا درجہ دیتے تھے۔ رومی کے استاد برہان الدین نے اگرچہ نو سال تک انہیں تصوف اور سلوک کی تعلیم دی تاہم اس تعلیم سے ان کی ذہنی ساخت پر کچھ زیادہ اثر نہیں کیا۔ لیکن 1245ء میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے رومی کی زندگی میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ یہ واقعہ شمس تبریز سے ملاقات سے متعلق ہے۔ ایک دن ایک پریشان حال آدمی جس کا لباس گرد آلود اور بال بکھرے ہوئے تھے رومی کے حلقہ درس میں آ گیا اور چپ چاپ دیر تک رومی کی فصیح و بلیغ مذہبی تقریر سنتا رہا۔ درس کے اختتام پر ا سنے قریب پڑی ہوئی چند کتابوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ’’ ایں چیست؟‘‘ ’’ رومی نے کہا‘‘ چیزے است کہ تونمی دانی اس نے کتابیں اٹھا کر حوض میں پھینک دیں۔ رومی نے اس شخص کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا کچھ دیر بعد اس شخص نے حوض میں ہاتھ ڈال کر کتابیں باہر نکال کر رکھ دیں۔ رومی نے دیکھا تو کتابیں بالکل خشک تھیں۔ وہ سخت حیران پوچھا ’’ ایں چیست؟‘‘ اس شخص نے جواب دیا’’ چیزے است کہ تونمی دانی‘‘ رومی وفور عقیدت سے اٹھ کر اس شخص سے لپٹ گئے۔ یہ شخص شمس الدین بن علی بن ملک داد تبریزی تھے بعض مورخین کے نزدیک رومی اور شمس تبریز کی ملاقات عام حالات میں ہوئی تھی لیکن بعد ازاں اس میں خواہ مخواہ رنگ آمیزی کی گئی۔ بقول شبلی، رومی کا مستند مورخ اور مقلد سپاہ سالار جس نے چالیس سال رومی کی معیت میں بسر کیے کسی ایسے مافوق العقل واقعے کا ذکر نہیں کرتا۔ 42؎ شمس تبریز سے رومی کی ملاقات کا انداز جیسا بھی رہا ہو۔ یہ امر واقعہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد رومی کی کایا پلٹ گئی اور وہ درس و تدریس چھوڑ کر گوشہ نشین بن گئے اور عبادت و ریاضت کی منازل طے کرنے لگے۔ شمس تبریز کے ساتھ رومی کی عقیدت عشق کی حد تک پہنچ گئی۔ رومی کے اہل خانہ شمس تبریزے حسد کرنے لگے۔ چنانچہ بعض ناشائستہ حرکات کی وجہ سے شمس تبریز روٹھ کر چلے گئے۔ لیکن رومی اور ان کے اہل خانہ انہیں منا کر پھر واپس لے آئے اور رومی نے ان کی شادی اپنی ایک کنیز’’ کیمیا‘‘ سے کر دی۔ لیکن دوسری مرتبہ رنجش بہت بڑھ گئی۔ بعض روایات کے مطابق رومی کے بیٹے نے انہیں قتل کروا دیا اور بعض روایات کے مطابق وہ ایسے غائب ہوئے کہ تلاش بسیار کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ رومی نے شمس تبریز کی مفارقت کا گہرا اثر لیا۔ لیکن اس خلا کو کسی حد تک صلاح الدین زر کوب اور ان کی وفات کے بعد حسام الدین کی رفاقت نے پر کر دیا۔ حسام الدین کی ترغیب پر ہی انہوں نے مثنوی کا آغاز کیا جس کی تکمیل پر چھ سات سال لگے۔ تواریخ میں ہے کہ رومی پر جس وقت شعر وارد ہونا شروع ہوتے تو بلا تکان اور بلا توقف لکھواتے جاتے اور بعض اوقات یہ سلسلہ شب بھر جاری رہتا۔ 43؎ بعد میں حسام الدین یہ اشعار انہیں پڑھ کر سناتے اور تصحیح کرواتے جاتے۔ رومی کی تصانیف تین ہیں: 1 مثنوی 2دیوان شمس تبریز (جو کہ پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے) اور 3 فیہ مافیہ فیہ مافیہ نثر میں ہے جس میں رومی نے اپنے شاگرد معین الدین پرواز کو معرفت کے اسرار و رموز سمجھائے ہیں۔ رومی اپنے دور کے بہت بڑے صاحب علم اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ان جیسے شخص کا شمس تبریز کی شخصیت سے مسحور ہو جانا، اس امر کی شہادت فراہم کرتا ہے۔ شمس تبریز غیر معمولی ذہنی و روحانی قوتوں کے مالک تھے، اس کے علاوہ شمس سے ملاقات کے بعد رومی کے قلب و ذہن میں جو انقلاب پیدا ہوا اس سے پتہ چلتا ہے کہ رومی شمس کے توسط سے جس عظیم روحانی تجربے سے دو چار ہوئے وہ انہیں فکر کی تنگنائے سے نکال کر داخلی واردات کے بہر بے کراں میں لے گیا۔ رومی کی عظمت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انہوں نے روحانی تجربے سے فیض یاب ہونے کے باوجود عقل و خرد کی نفی نہیں کی بلکہ ان کے ہاں ہمیں فکر اور واردات قلب کا نہایت حسین امتزاج ملتا ہے۔ اپنے شہرہ آفاق شعری مجموعے ’’ مثنوی‘‘ میں انہوں نے صرف عقل و عشق میں ہم آہنگی پیدا کی ہے بلکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے متعدد تضادات کو تخلیقی وحدت میں سمو دیا ہے۔ انفس و آفاق کے حقائق ان کے لیے اجنبی نہیں۔ رومی تنگ نظر مذہب پرست نہیں بلکہ تمام مذاہب کی سچائیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور وحدت ادیان کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک خدا الاطائل اور بے جان منطقی بحثوں کا موضوع نہیں بلکہ ایک ایسی زندہ حقیقت ہے جس کا ذاتی تجربہ کرنا چاہیے۔ رومی نے اپنے اشعار اور نثر میں جہاں کہیں منطقی استدلال کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سقراط اور افلاطون کے ہم پلہ ہیں۔ تاہم وہ صرف منطقی استدلال کو حقیقت مطلقہ کی کنہ تک پہنچنے کے لیے کافی نہیں سمجھتے بلکہ عشق کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ بقول خلیفہ عبدالحکیم رومی کے فکر کی آبیاری تمام ہیلانیاتی فلسفے نے کی۔ لیکن اس کے باوصف وہ پکے مسلمان تھے اور ان کی سوچ پر بنی اسرائیل کے انبیاء کی اخلاقی تعلیمات اسلام کے حرکی تصورات اور حضرت مسیح ؑ کے مسلک محبت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ 43؎ رومی کو مولوی معنوی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے معانی کا ماہر (Dector of Meaning) اسی مناسبت سے ان کے مقلدین نے فرقہ مولویہ یا جلالیہ تشکیل کیا۔ رومی سماع اور حالت جذب میں رقص کے قائل تھے۔ چنانچہ فرقہ مولویہ میں رقص کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مخصوص دستور العمل کی پابندی بعد ارکان کو محفل سماع میں جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس محفل میں بنسری او طبلے یا ڈھولک کی تھاپ پر رقص کیا جاتا ہے یہ رقص جسم کے آگے پیچھے جنبشوں پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں سینے پر ہاتھ رکھ کر گول گول گھوما جاتا ہے۔ ایک مخصوص عبا اور پگڑی اس فرقے کا لباس ہے لیکن رومی نے جس تنگ نظری، اندھی تقلید اور تعصب کے خلاف ساری عمر تبلیغ کی، وہی عناصر اس فرقے میں در آئے جو فرقہ مولویہ یا جلالیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ رومی کو ہم مذہبی فلسفہ کہہ سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے رومی مسلم حکماء میں سب سے قد آور شخصیت ہیں۔ انہوں نے اخلاقیات یا فلسفہ والہیات پر باقاعدہ کوئی کتاب یا رسالہ تحریر نہیں کیا اور نہ ہی کسی قسم کی نظری یا صوفیانہ ما بعد الطبیعیات کی تشکیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ جب کوئی ان کے اشعار میں اس طرح فلسفے کو ڈھونڈنا شروع کرتا ہے جیسے وہ فارابی یا سینا کے فلسفے کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے ناکامی ہوتی ہے۔ رومی کے فکر پر اگرچہ اسلام کے گہرے اثرات ہیں تاہم وہ ہیلانیاتی روایت سے بھی بے خبر نہیں بلکہ ہیلانیاتی اثرات ان کے ذہن میں قرآن کی تعلیمات سے مل کر مثنوی کے اشعار میں ظہور پذیر ہوتے ہیں رومی اپنے ما قبل کی فکری روایتوں کی میکانکی انداز میں جوڑ میل نہیں دیتا بلکہ یہ ان کا خلاق و طباع ذہن کی چھلنی میں ہے گزر کر یکسر نئے انداز میں سامنے آتی ہے۔ رومی کے نزدیک کائنات کا اساسی جوہر یا حقیقت مطلقہ روحانی ہے ’’ انائے مطلقہ‘‘ سے لاتعداد اناؤں کا ایک عالم کثرت وجود میں آتا ہے۔ انائے مطلقہ روح کل ہے اور اس سے لا تعداد روحیں وجود پذیر ہوتی ہیں۔ یہی انائے مطلقہ یا روح کل رومی کے نزدیک خدا ہے۔ ذات الٰہیہ واحد ہے اور کثرت ارواح اس کی وحدت کو متاثر نہیں کرتی۔ لائینز سے صدیوں پہلے انہوں نے ہمہ روحیت (Panpsychism) کا نظریہ دیا تھا۔ رومی نے قرآن کی پیش کردہ عالم امر اور عالم خلق کی تخصیص کی تشریح اس طرح کی ہے۔ ارواح کا تعلق عالم امر ہے جب یہ عالم مظہر میں ظہور پذیر ہوتی ہیں تو یہ عالم خلق کے تعینات میں آ جاتی ہے۔ روح انسانی کے مظاہرہ پہلو کو اگر الگ کر دیا جائے تو روح قدیم ہے بالکل اسی طرح جیسے روح مطلقہ قدیم ہے: ’’ ذات الٰہی اور ارواح میں تقدم و تاخر نہیں۔ یہ تقدم و تاخر اصل و فرع کا تقدم و تاخر ہے۔ جس طرح مثلث اور اس کے زاویوں کی باہمی نسبت ہے اسی طرح ارواح روح مطلق ہے بطور فرع سر زد ہوتی ہیں لیکن زمانے کے لحاظ سے اصل کے بعد ظہور میں نہیں آتیں۔‘‘ 45؎ عالم امر میں ارواح کی کثرت وحدت الٰہیہ کے اندر یوں سمائی ہوتی ہے جیسے متعدد چراغوں کی روشنی ہر چراغ اپنی شکل و صورت کے لحاظ سے منفرد اور دوسروں سے منفعل ہے تاہم اس سے خارج ہونے والی روشنی ایک ہی غیر منقسم روشنی ہوتی ہے۔ اسی طرح عالم امر میں تمام ارواح ذات الٰہیہ کی وحدت کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ لیکن عالم خلق یا دنیائے مظاہر میں آ جانے کے بعد یہ اپنی اصل سے کٹ جاتی ہیں۔ چنانچہ رومی روح انسانی کو بنسری سے تشبیہہ دیتے ہیں جس کے فگار سینے سے فغاں فراق نکلتی ہے۔ مثنوی کا آغاز ہی نالہ و فراق سے ہوتا ہے۔ کرینستاں تا مرا ببریدہ اند از نفیرم مرد وزن نالیدہ اند کسی لا محدود نیستان ازل سے جدا ہونے کے بعد ارواح انسانی عالم مظہر میں نالہ و شیون کرتی پھرتی ہیں اور ہر لحظہ اپنے مسکن ابدی کی یاد انہیں بے چین رکھتی ہے۔ اپنی اصل کی طرف مراجعت کی شدید خواہش اور مسکن ابدی کی کشش کو رومی اپنی اصطلاح میں عشق کہتے ہیں۔ یہی عشق نہ صرف انسان کے بلکہ ساری کائنات کے حرکت و ارتقاء کا محرک ہے۔ رومی کے نظریہ حیات کا لب لباب یہ ہے کہ: ’’ روحوں کا اصلی ماخذ اور مقام ذات الٰہی ہے۔ کسی نا قابل فہم حکمت اور نا قابل اور اک مشیت سے یہ ارواح اپنی اصل سے الگ ہو گئیں۔ فراق کی وجہ سے ہر روح بے تاب ہے اور واصل الی لاصل ہونا چاہتی ہے۔ پھر روح اپنی اصل کی جانب کشش محسوس کرتی ہے۔ اس کشش کا نام عشق ہے تمام حیات و کائنات اسی جذب و کشش کا مظہر ہے۔ جو کچھ ظہور میں آیا اور جو کچھ ظہور میں آتا ہے۔ اس کا محرک یہی عشق ہے ظلمت عدم سے وجود کا ظہور اسی کی بدولت ہے۔‘‘ 36؎ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صورت کے بعد روح انسانی کی کیا حیثیت ہو گی؟ کیا واصل الی لاصل ہونے کے بعد یہ خدا کی وحدت میں گم ہو جائے گی یا کسی نہ کسی طرح اپنا تشخص قائم رکھے گی؟ بقائے دوام کا مسئلہ فلسفہ و مذہب میں بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے اور اس کے حل میں کئی مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔ تصوف میں یہ مسئلہ کئی گنا زیادہ پیچیدہ بن جاتا ہے۔ تصوف میں حق اور ظاہر کو ایک ہی حقیقت کے دو رخ تسلیم کیا جاتا ہے۔ حقیقت فی نفسہ واحد اور غیر تقسیم پذیر ہے۔ لیکن دنیائے مظاہریں ہمیں کثرت و تعدد و نظر آتا ہے۔ ایک منفرد شے کی انفرادیت دراصل ان تحدیدات اور تخصیصات سے وجود میں آتی ہیں جو حقیقت کے غیر حقیقت اور حق کے ظاہر کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ عالم مظاہر میں جو کچھ ہے وہ فنا پذیر ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح خدا کی وحدت میں یوں گم ہو جائے گی جیسے قطرۂ آب بحر بے کرآں میں گرنے کے بعد معدوم ہو جاتا ہے تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب شخصی بقائے دوام کا سوال اٹھایا جاتا ہے۔ قرآن میں واضح طور پر انسان کے شخصی بقا کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انفرادی اور شخصی بقائے دوام کو حقیقت کے وحدت الوجود نظریہ کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے! رومی اس مسئلہ کو یوں بیان کرتے ہیں: کل شے حالک الا وجھ چوں نہ در وجہ او ہستی محبو ہر کہ اندروجہ ما باشد فنا کل شئی ھالک نبود درا زانکہ در الا است داز لاگذشت ہر کہ در الآ است او فانی نہ گشت ’’ تمام اشیاء سوائے ذات باری کے فنا پذیر ہیں۔ جب تم اس کے اندر موجود نہیں ہوتے۔ اس وقت زندہ رہنے کی توقع مت رکھو۔ وہ جو ہمارے (یعنی خدا کے) وجود میں اپنے آپ کو گم کر دیتا ہے۔ اس پر ہر شے کے فنا پذیر ہونے کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہ فنا سے بقا کی طرف جا چکا ہے اور وہ جو کہ اس (مسکن ابدی) میں رہتا ہے، فانی نہیں۔‘‘ اگر یک طرف انفرادیت کو نقص عیب سمجھا جائے اور دوسری طرف شخصی بقائے دوام پر یقین رکھا جائے تو اس سے اشکال پیدا ہوتا ہے۔ رومی کا خیال ہے کہ نفس محدود و متناعی اپنی انفرادیتی کی نفی کیے بغیر ذات الٰہیہ کے اندر ترقی و کمال کی منازل طے کر سکتا ہے۔ متناہی نفس جب ذات الٰہیہ سے وصال پاتا ہے تو اس کی صفات معدوم ہو جاتی ہیں۔ عالم امر اور عالم خلق کے مابین ایک پردہ حائل ہے۔ دنیائے مظاہر یا عالم خلق میں وجود متناہیت اور محدودیت سے مشروط ہے یعنی جو بھی اشیاء اور نفوس عالم خلق میں ہوں گے وہ محدود و متناعی ہوں گے۔ چنانچہ محدودیت اور متناہیت ایک حصار ہے جسے توڑ کر ہی عالم امر کی طرف مراجعت ممکن ہے۔ چنانچہ دنیائے مظاہر کی تحدیدات کا خاتمہ (فنا) ذات الٰہی کی زندگی میں شامل ہونے (بقا) کے لیے بہت ضروری ہے: قرب نے بالا نہ پستی رفتن است قرب حق از جنس ہستی رستن است نیست راچہ جائے بالا پست و زیر نیست رائے زود دنے دور است و دیر ’’ قرب خداوندی کے لیے اوپر نیچے جانا ضروری نہیں قرب خداوندی کا مطلب یہ ہے کہ قفس ہستی سے نجات حاصل کر لی جائے پھر نیستی کے لیے بالا دلپست کیا ہے۔ نیستی (عدم وجود) کے لیے جلدی دوری، یا دیر نہیں ہے۔‘‘ رومی ایک اور جگہ کہتے ہیں:ـ چوں بد و زندہ شدی آں خود دے است وحدت محض است آں شرکت کے است شرح ایں در آئینہ اعمال جو کہ نیابی فہم آں از گفتگو! ’’ جب تم اس کے (خدا کے) ذریعے زندہ ہوتے ہو تو (جو کچھ تم بن گئے ہو) دراصل وہ (خدا) ہے۔ وحدت مطلقہ ہے۔ یہ شراکت کیسی؟ اس کی تشریح (رضائے الٰہی سے مطابقت رکھنے والے) اعمال کے آئینہ میں دیکھو کیونکہ تم اس کا فہم کلام گفتگو حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘ یہاں تک تو کوئی اشکال پیش نہیں آتا۔ اگر صرف یہ سمجھ لیا جائے کہ انسانی روح، روح خداوندی میں حلول کر کے ابدی ہو جاتی ہے تو اس سے صوفیاء کی اکثریت متفق ہو گی اور عام آدمی کے لیے بھی اس نظریہ کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ اصل مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب ارواح کی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے انہیں ذات الٰہی میں مدغم کیا جاتا ہے۔ رومی کے نزدیک عالم امر ایک غیر تقسیم پذیر مشیت محض ہے۔ جبکہ حروف کاف و نون (کن) عالم خلق کا تعدد و کثرت تخلیق کرتے ہیں۔ امر کن یک فعل بو در نون کاف در سخن افتاہ و معنی بود صاف عالم خلق سے روح جب عالم امر یا ذات الٰہی کے ساتھ وصال پاتی ہے تو کیا وحدت میں اپنا تشخص کھو بیٹھتی ہے؟ رومی اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں اور عالم صوفیاء کی ڈگر سے ہٹ کر یہ کہتے ہیں کہ ارواح ذات الٰہیہ کے اندر بھی اپنا تشخص اور انفرادیت برقرار رکھتی ہیں یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جو رومی کو جدت و ندرت فکر میں تمام صوفیاء اور مفکرین مذہب سے ممتاز و منفرد بتاتا ہے۔ اقبال پر بھی اس نظریہ کے گہرے اثرات مترتب ہیں۔ مسلمان صوفیا کے وہاں سکر اور صحود و ایسی کیفیات کا ذکر ملتا ہے جو وصال الٰہی سے متعلق ہیں۔ صوفی مقامات تصوف سے گزر کر جب خدا کا وصال حاصل کرتا ہے تو دو طرح کی کیفیات اس پر وارد ہو سکتی ہیں۔ صحو کی یا سکر کی۔ بعض صوفیاء سکر کی حالت کو پسند کرتے ہیں۔ اس گروہ کے پیشوا ابو یزید طیفوربن عیسیٰ بن سرد شان بسطائیؒ ہیں۔ ان کا طریقہ غلبہ اور سکر (بے ہوشی) کا تھا۔ یعنی خداوند تعالیٰ کے شوق کا اس قدر غلبہ ہو کہ اس میں آدمی بے ہوشی کی حالت تک کھو جائے۔ 47؎ کچھ صوفیاء ایسے ہیں جو سکر کو پسند نہیں کرتے: جنیدی فرقے کے پیشوا حضرت ابو القاسم جنید بن محمد بن جنید بغدادؒ ہیں۔ اس فرقہ کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کا فرقہ طیفوری گروہ کے برعکس صحویعنی ہوش پر مبنی ہے۔ ص48 منصور حلاجؒ سکر اور صحو دونوں کو بقائے الٰہی کی راہ میں حجاب سمجھتے تھے۔ وہ نظریہ فنا کے بانی ہیں جس کی رو سے صحو اور سکر دونوں انسانی ذہن کی کیفیات ہیں۔ اس لئے خدا اور بندے کے درمیان رکاوٹ کا درجہ رکھتی ہیں۔ انسان اس وقت تک وصال الٰہی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ خود کو کلیۃ ذات الٰہی میں مدغم نہ کر دے۔ یعنی اپنی متناہی ہستی کو وحدت الٰہیہ میں فنا نہ کر دے۔ اس نظریہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بدھ مت کے نظریہ نروان کے زیر اثر ہوا ۔ 49؎ اس کو جنیدؒ اور علی ہجویریؒ سخت ناپسند کرتے تھے۔ فنا کا یہی تصور ہمیں رومی کے ہاں نظر آتا ہے۔ لیکن رومی نے اتنی حکیمانہ چابکدستی اور عارفانہ بصیرت کے ساتھ اسے پیش کیا ہے کہ اصحاب صحواس پر معرض نہیں ہو سکتے۔ فنا کو رومی، معدومیت (Annihilation) یا نفی عنوات کے مفہوم میں نہیں لیتے بلکہ اس سے ان کی مراد ایک قسم کی اخلاقی قلب ماہیت (Moral Transformation) ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق کی آگ جب بھڑکتی ہے تو وہ ایک قسم کی صفات کو معدوم کر دیتی ہے اور یکسر نئی صفات کو منصہ شہود پر لے آتی ہے۔ رومی کے اس نکتے کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے نظریہ ارتقاء کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ رومی کے نزدیک کائنات کی آفرنیش اور اس کے انجام ان دونوں کے بارے میں ہم کوئی علم حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ یہ خدا کا سر بستہ راز ہے: ماز آغاز و انجام جہاں بے خبریم اول و آخر ایں کہنہ کتاب افتاد است آفرینش کائنات سے پہلے عالم امر کے اندر تمام ارواح غیر تقسیم پذیر وحدت الٰہیہ میں موجود تھیں ’’ خلقم من نفس وحدۃ‘‘ منبسط بودیم دیک گوہر ہمہ بے دبے پایم آں سرہمہ یک گوہر بودیم کمچوں آفتاب بے گرہ بودیم و صافی ہمچو آب چوں بصورت آمد آں نور سرہ شد عد و چوں سایہ ہائے کنگرہ کنگرہ ویراں کند از منجنیق تار ود فرق از عیان ایں فریق پہلے تمام ارواح میں پھیلا ہوا ایک ہی بسیط جوہر تھا۔ اس حالت میں روحوں کے نہ قالب تھے نہ اعضائ، نہ مردوزن کی تخصیص جو طرح آفتاب کے منسبط ہونے اور کرنوں کی کثرت کے باوجود اس کی روشنی ایک ہوتی ہے، جس طرح پانی میں لاتعداد قطرے بے گرہ متحد ہوتے ہیں۔ ارواح کے انوار ازلی جب عالم خلق یا عالم صورت میں آئے تو حجاب صورت کی وجہ سے ان میں تعدد دکھائی دینے لگا جیسے دیوار یا برج کے کنگروں پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو نور اور سایہ کا اختلاط کثرت کا دھوکا پیدا کرتا ہے۔ صورت کے حجابوں کو رفع کرنے کی کوشش کرو اس کے بعد تم ارواح میں تفریق محسوس نہ کرو گے۔ اپنی اصل سے جدا ہونے کے بعد تمام ارواح عالم شہادت میں بے چین و ناصبور پھرتی ہیں۔ اس بے چینی اور ناصبوری اور واصل الی الاصل ہونے کے رحجان کو رومی عشق کہتے ہیں۔ یہ فکری رحجان کائنات کے ہر ذرے میں جاری و ساری ہے۔ وہ ذرات علم جنہیں لوگ بے جان اور جامد سمجھتے ہیں۔ زندگی سے محروم نہیں۔ خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ، باحق زندہ اند رومی کے نزدیک قرآن میں جب یہ کہا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے تسبیح کر رہا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ عشق نہ صرف ارواح انسانی کا مایہ الامتیاز ہے بلکہ کائنات کی ہر جہت اور ہر سمت میں یہ عشق یا جذب و انجذاب (بصورت قوانین فطرت) نظر آتا ہے۔ جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش جفت جفت و عاشقان جفت خویش ہست ہر جزدے بعالم جفت خواہ راست ہمچو کہر باو برگ کاہ آسماں گوید زمین را مرحبا باتواں چو آہن و آہن ربا اجرام فلکی اور زمین میں جذب و کشش ہے بلکہ ہر ذرہ دوسرے ذرے کی طرف کھینچ رہا ہے۔ تمام کائنات میں کاہ اور کہربا اور آہن و مقناطیسی کی قسم کا تجاذب ہے۔ دنیا میں جو چیز بھی قائم ہے وہ باہمی کشش سے قائم ہے۔ گفت وسائل چوں یماند ایں خاکداں درمیان ایں محیط آسماں ہمچو قندیلے معلق در ہوا نے برا سفل می رودلے برعلا آں حکیمش گفت کز جذب سما از جہات شش بماند اند ہوا چوں ز مقناطیس قبہ ریختہ درمیاں ماند آہنے آریختہ کسی سائل نے سوال کیا یہ زمین اس محیط آسمان کے درمیان کیونکر ایک قندیل کی طرح ہوا میں لٹک رہی ہے کہ نہ نیچے گرتی ہے نہ اوپر جاتی ہے۔ اس فلسفی نے اس کا جواب دیا کہ چونکہ آسمان زمین کو چھ طرفوں سے کھینچ رہا ہے اس لیے وہ ہوا میں (لٹکتی) رہ گئی۔ جیسے ایک قبہ مقناطیس سے ڈھلا ہوا (ہو اس کے ) وسط میں ایک لوہے کا گوالا (رکھیں) جو ہر طرف سے مقناطیس نے کشش کرنے کے سبب سے لٹکتا رہ جائے۔ رومی کے نزدیک عشق ایک عالمگیر قوت ہے ایک حرکی اصول ہے جو ارتقاء کے نہایت ادنیٰ درجوں سے حرکت پذیر ہوتا ہے اور ہمیشہ ترقی و کمال کے بلند سے بلند تر منازل کی طرف سر گرم سفر رہتا ہے۔ جب بیچ کو زمین میں بویا جاتا ہے تو: ’’ وہ اپنے گرد و پیش کے تمام جمادی مادے کے لیے نقطہ جاذب بن جاتا ہے۔ زمین میں جتنے مادے ہیں بے تاب عاشقوں کی طرح اپنی ہستی کو اس کے اندر محو کرتے چلے جاتے ہیں۔ اگر اس تخم اور جمادی عناصر میں باہمی تجاذب نہ ہوتا تو بیج یونہی پڑا رہتا۔ جمادات جب اس طرح عشق نباتات یا ذوق نشوونما میں اپنے آپ کو نمو کر دیتے ہیں تو یہ فنا ان کے ارتقاء کا باعث بن جاتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ کے عشق میں فنا ہونا فنا نہیں بلکہ ذریعہ ارتقاء ہے۔ عاشق فنا ہو کر معشوق کے اعلیٰ صفات کو جذب کر لیتا ہے۔ اسی طرح نباتات روح حیوانی میں داخل ہو کر اپنا درجہ بلند کر لیتے ہیں۔ اسی جذبہ عشق کی بدولت کائنات میں ارتقاء ہو رہا ہے اور یہ ارتقاء جعف الیٰ اللہ ہے اور چونکہ کوئی ہستی خدائے مطلق نہیں بن سکتی اس لیے یہ ارتقاء بھی لامتناہی ہو گا۔‘‘ 50؎ رومی کے نزدیک پوری کائنات ایک زندہ عضویہ ہے جس میں اعضاء جوارح اور عضلات کی کثرت ہے لیکن یہ کثرت و تعدد ایک قابل تقسیم وحدت میں سمویا ہوا ہے۔ نچلے درجے کے موجودات اپنے سے اعلیٰ کے اندر فنا ہونے کے لیے بے چین و مضطر رہتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں حیات ابدی کے اندر زندہ رہنے کا موقع مل جاتا ہے: نان مردہ چوں حریف جاں شد زندہ گردو نان و عین آں شود ہیزم تیر حریف نار شد تیرگی رفت و ہمہ انوار شد ’’ دیکھیں بے جان روئی جب (روٹی کھانے والی) جان کے ساتھ مصاحب ہو جاتی ہے تو وہ زندہ (جسم کاجز) بن جاتی ہے اور اس کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے۔ (ایک) بے نور لکڑی جب آگ کی مصاحب ہوئی تو اس کی ظلمت جاتی رہی اور وہ سرا سر شعراء آتش بن گئی۔‘‘ رومی مہاتما بدھ کی طرح اس بات کے قائل نہیں کہ روح حقیقت مطلقہ میں مدغم ہو کر اپنا تشخص اور غنیمت فنا کر لیتی ہے۔ تاہم اس کی عینیت کو فنا نہیں کرتی۔ آفتاب طلوع ہوتا ہے اور اس کی تابانیوں سے شمع کی لو بہت مدہم پڑ جاتی ہے لیکن بالکل ختم نہیں ہوتی۔ اگر اس پر کپڑا رکھ دیا جائے تو یہ اسے جلا دے گی 51؎ رومی کی اسی تشبیہہ کو اقبال نے صوفیانہ واردات کی خصوصیات گنواتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’ تیسری قابل ذکر بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ صوفی کا حال، ایک لمحہ ہے کسی ایسی فرید و حمید اور یکتا ہستی سے گہرے اتحاد کا جو اس کی ذات سے ماوراء مگر اس کے باوجود اس پر محیط ہو گی۔‘‘ (تشکیل جدید ص28) رومی یہ کہتے ہیں روح کل یا خدا کے ساتھ اتحاد سے انسان کے وجود مطاری کی صفات معدوم ہو جاتی ہیں لیکن اس کی روح بغیر اپنی انفرادیت کھوئے روح برتر کے اندر ایک نئے انداز میں زندگی کرنے پڑتی ہے۔ کیمیائی عمل سے لوہے کی تبدیلی ماہیت کر دی جاتی ہے اسی طرح انسان کی ہستی، ہستی نواز (یعنی) خدا کے اندر موجود ہے: ہستی ات در ہست آں ہستی نواز ہم چو مس در کیمیا اندر گداز اسی مضمون کو تفصیل سے ایک اور جگہ یوں بیان کیا گیا ہیـ: رنگ آہن محو رنگ آتش است رنگ آتش وارد و آتش دش است چوں بسر فی گشت ہمچو زرکاں پس انا نارست لا فشق بے زباں شدز رنگ و طبع آتش محتشم گویہ ادمن آتشم من آتشم آتشم من گر ترا شک است وظن آز موکن دست رابر من بزن آتشم من برتو گرشد مشتبہہ روئے خود بروئے من یکدم بز آدمی چوں نور گیرد از خدا ہست مسجود ملائک زا جبا آتشی چہ آہنی چہ لب بہ بند ریش تشبیہہ و مشتبہ بر مخند ’’ لوہے کا(سیاہ و تاریک) رنگ آگ کے رنگ میں فنا ہو گیا ہے لوہے نے آگ کا رنگ اختیار کر لیا ہے اور آگ ہی کی مانند ہو گیا ہے۔ جب وہ لوہا سرخی سے کان کے سونے کی طرح (لال) ہو گیا تو زبان (قال) کے بغیر (زبان حال سے) یہ دعا کرنے لگا کہ میں آگ ہوں، لوہا آگ کے رنگ اور طبیعت سے شاندار بن گیا (اس لیے) وہ (زبان حال سے) کہہ رہا ہے ’’ میں آگ ہوں‘‘ میں آگ ہوں میں آگ ہوں اگر تم کو (میرے آگ ہونے میں) شک و ظن ہے تو آزما لو (اور) مجھ پر (اپنا) ہاتھ رکھ (کر دیکھ) لو میں آگ ہوں اور اگر یہ بات تیرے نزدیک مشکوک ہے تو تھوڑی دیر کے لیے اپنا منہ مجھ پر رکھ کر دیکھ لو۔ آدمی جب اللہ تعالیٰ سے نور حاصل کر لیتا ہے تو (خدا کا) برگزیدہ ہو جانے کی وجہ سے (اس کا یہ رتبہ ہوتا ہے کہ) فرشتے اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں کونسی آگ اور کہاں کا لوہا؟ (ذات حق کے بارے میں تشبیہہ دینے کی گستاخی نہ کرو) خاموش رہو (جب تم خود تشبیہہ کا ارتکاب کر رہے ہو تو پھر آئندہ) تشبیہہ اور تشبیہہ دینے والی کی ہنسی نہ اڑانا۔ ‘‘ عشق و قوت محرکہ ہے جو ادنیٰ کو اعلیٰ کے اندر مدغم کر کے اسے ایک بلند تر درجہ وجود بخشتی ہے۔ کائنات کے اندر یہی قوت جاری و ساری ہے اور ارتقاء کا باعث ہے۔ رومی ارتقاء کی گزشتہ منازل کے بارے میں کہتے ہیں: آمدہ اول بہ اقلیم جماد وز جمادی در نباتی او فتاد سالہا اندر نباتی عمر کرد وز جمادی یا دنا درد از نبرد وز نباتی چوں بہ حیواں لرفتار نامدش حال نباتی ہیچ یاد جز ہما میلے کہ دارد سوئے آں خاصہ در وقت بہار ضمیراں ہمچو میل کو دکال با مادراں سر میل خود ندانہ در لباں ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت تاشد اکنوں عاقل و دانا و زفت ’’ پہلے وہ جماد کی اقلیم میں آیا اور جمادی (اقلیم) سے نباتی (اقلیم) میں آیا۔ سالہا نباتی اقلیم میں عمر بسر کی ار سرکشی کی وجہ سے اپنی جمادی (زندگی کو بھلا دیا اور نباتی ) اقلیم جب حیوانی (اقلیم) میں آئی اس کا نباتاتی (اقلیم) کا حال کبھی یاد نہ آیا۔ سوائے اس میدان کے جو اس کی جانب ہے۔ خصوصاً بہار اور ضمران کے موسم میں جیسا کہ بچوں کا ماؤں کی طرف میلان کہ وہ دودھ پینے میں اپنے میلان کا خود راز نہیں جانتے ہیں، وہ اسی طرح ایک اقلیم سے دوسری اقلیم تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اب وہ عقل مند دانا اور قوی ہو گیا۔‘‘ رومی کے ما بعد الطبیعیاتی فکر کو سمجھنے کے لیے ان کا فنا (عدم) اور بقا کا نظریہ سمجھنا بہت ضروری ہے ایک مرتبہ وجود پر فائز ہو عشق کی قوت محرکہ سے اگلے مرتبہ وجود کی طرف دھکیل دیتی ہے جب نیستان ازل سے روح جدا ہوئی تو احسن تقویم والی روح اسفل السافلین تک جا گری۔ مدارج حیات میں جماد السفل السافلین ہے گویا جمادی حالت میں آ گئی۔ پھر اس حالت سے اسے نکلتے ہوئے بڑا عرصہ لگا: صد ہزاراں سال بودم در مطار ہمچو ذرات ہوابے اختیار ’’ اس جمادی حالت میں میری روح کی کیفیت ہوا کی تھی جو بے اختیار ادھر ادھر اڑتے پھرتے ہیں اس کے بعد میں اس اعلیٰ تنظیم میں آیا جو نباتی حالت ہے جس میں ذرات ایک مقصد نشوونما کے ماتحت منظم ہو جاتے ہیں۔ اس سے ترقی کی، تو حیوانیت میں آیا جس میں نشوونما کے علاوہ حرکت ارادی بھی ہے اور نقل مکاں کی صلاحیت بھی۔ حواینیت کے درجے کو عبور کر کے انسانیت کی طرف بڑھا۔ اگر ادنیٰ درجہ کی موت وارد نہ ہوتی تو اوپر والے درجے میں عروج نا ممکن تھا۔ جب مجھے فنا سے بقا کے حصول کا قانون معلوم ہو گیا ہے اور میرے تجربے میں آ چکا ہے تو پھر میں انسانی جسم و نفس کی موت سے کیوں ڈروں۔ کسی پہلی موت سے میں کم تو نہیں ہوا، زیادہ ہی ہوتا کیا۔ جسم کثیف سے آزاد ہو کر میرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور میں کثافت سے لطافت کی طرف ترقی کروں گا۔ اب لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرے گی تو ملائکہ کے انداز کی پرواز اور آلائشوں سے تنزیہہ ہو گی لیکن زندگی ارتقائے مسلسل ہے۔ اس حالت میں بھی ٹھہرونگا نہیں اس سے برتر حالت ماوراء ملکیت کیا ہے وہ وہم و گماں میں بھی نہیں آتی لیکن اس کے ہونے میں شک نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ایسی حالت میں پہنچوں گا جس پر زمانی و مکانی اور عقل وجودی کی کسی حیثیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وجود کے مقابلے میں عدم ہی کا لفظ انسان کی زبان میں ہے۔ لہٰذا اس کو عدم ہی کہہ لیتا ہوں۔‘‘ 52؎ حقیقت مطلقہ کو وہ عدم کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ انسانی فکر اور معقولات منطق اس تک رسائی نہیں پا سکتے۔ یہ عالم امر ہے جہاں تمام ارواح ایک وحدت کی صورت میں موجود تھیں۔ وحدت الٰہیہ کے اندر ارواح کی کثرت کویوں بیان کرتے ہیں: وہ چراغ ار حاضر آرے در مکاں ہریکے باشد بصورت غیر آں فرق نتواں کرد نور ہریکے چوں بنورش روئے آرے بے شکے ’’ اگر تم مکان میں دس چراغ رکھو اور ہر چراغ الگ الگ شکل کا ہو، لیکن ان کی روشنی جو کمرے میں پھیل رہی ہے اس کو تم الگ الگ نہیں کر سکتے۔ ان تمام چراغوں کا نور ایک غیر منقسم وحدت بن جاتا ہے۔‘‘ لیکن عالم امر سے عالم خلق میں آنے کے بعد وحدت پارہ پارہ ہو کر افراد و اشخاص اور اشیاء و اجناس کی کثرت میں بٹ جاتی ہے۔ عالم خلق کے عرصہ جدائی کی کٹھن منزلیں طے کرنے کے بعد ارواح مقام بشریت تک پہنچتی ہیں اور ذات الٰہیہ میں فنا اور پھر بقا کی امیدوار بنتی ہیں۔ رومی دعا کرتے ہیں: اے خدا جاں را تو بنما آں مقام کاندروبے حرف مے روید کلام تاکہ ساز جان پاک از سر قدم سوئے عرصہ دور پنہائے عدم ’’ اے خدا روح کی رہنمائی اس مقام کی طرف کر جہاں کلام بے حرف پھیلتا پھولتا ہے تاکہ یہ عدم کی پہنائی طے کر کے حقیقت مطلقہ تک باریاب ہو سکے۔‘‘ رومی ارادیت پسند ہیں ان کے نزدیک حقیقت مطلقہ ارادہ یا مشیت (عالم امر) ہے وہ تمام عالم وجود کو اسی مشیت کی تجسیم سمجھتے ہیں: بادہ در جوشش گدائے جوش ماست چرخ در گردش اسیر ہوش ماست بادہ از ماست شدنے ما ازو قالب از ماہست شدنے ما ازو ’’ نشہ شراب کے اندر نہیں بلکہ ہماری اپنی حالت وجد کے اندر ہے اور کرہ ہائے فلک کی گردش کا دارومدار ہمارے شعور پر ہے۔ جسم اپنے وجود کے لیے ہمارا مرہون منت ہے۔ ہم اپنے وجود کے لیے جسم کے مرہون منت نہیں۔‘‘ سطور بالا میں ہم نے یہ تفصیل سے دیکھا کہ رومی موت کے مسئلے اور بقائے دوام کے مسئلے کو اپنے نظریہ ارتقاء اور نظریہ عشق کے حوالے سے حل کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک فنا بقائے دوام کی پیغامبر ہے اور موت حیات نو کی نوید ہے۔ انہوں نے عام تصوف کے نظریہ حلول و فنانی اللہ سے ہٹ کر منفرد روح کے تشخص اور عینیت کو برقرار رکھا ہے۔ اقبال پر رومی کے ان افکار کے گہرے اثرات مترتب ہوئے۔ انسانی خودی اور اس کے بقائے دوام پر اقبال نے جو کچھ لکھا ہے اس میں ہمیں رومی کے نظریہ فنا و بقا کی صدائے باز گشت سنائی دیتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شروع سے ہی اقبال کا فطری رحجان ارادیت پسندی کی طرف تھا۔ کانٹ، نٹشے، شوپنہار، برگساں اور ولیم جیمز وغیرہ کے نظریات اس کی رہنمائی کرتے ہیں فکر رومی کے بحر ذخار کے ساحل تک لے آئے اور اس سے آگے پیر رومی اس کا ہاتھ پکڑ کر معرفت و حقیقت کے گہرے پانیوں میں لے گئے۔ ٭٭٭ پانچواں باب حواشی 1 D.Boer, History of Philosophy in Islam, P.6 2 ابو الکلام آزاد: ترجمان القرآن۔ جلد اول ص173 3مولانا عبدالرشید نعمانی: لغات القرآن۔ جلد سوم ص109 4ابو الاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن: جلد ص 5ایضاً 6 ایضاً جلد دوم ص505 7مولانا امین احسن اصلاحی: تدبر قرآن۔جلد سوم ص604 8 مولانا محمد حی و چودھری غلام محمد: تسمیل العربیہ۔ ص868 9حافظ ابن قیم: کتاب الروح (ترجمہ: مولانا راغب رحمانی) ص337 10الغزالی: حقیقت روح انسانی: ص11-12 11 E.H, Sneath, Religion and future Life, Chap. XI by mac Donald Imortality in Mahommadanism p.295 12مولانا حنیف ندوی: لسان القرآن۔ ص170 13 ابن قیم: کتاب الروح میں99 14 ایسی احادیث و روایات کے مطالعہ کے لیے دیکھئے: کتاب الروح: باب14 ص114 15یہ حدیث رسول ؐ، حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے جو ہم نے یہاں تفہیم القرآن۔ جلد چہارم ص265کے حوالے سے نقل کی ہے۔ 16 Mohammad Ali, Religion of Islam p.303 17 مولانا حنیف ندوی: لسان القرآن ص386 18عبدالرشید نعمانی: لغات القرآن: حصہ سوم ص269 19دائرۂ معارف اسلامیہ: جلد 7ص561 20مولانا حنیف ندوی: لسان القرآن۔ تشریح لفظ ’’ جہنم‘‘ ص388-387 21عبدالرشید نعمانی: لغات القرآن حصہ اول ص37 22دائرۂ معارف اسلامیہ جلد 7ص563 23ایضاً۔ جلد2۔ ص879 24ایضاً 25 ایضاً 26 امین احسن اصلاحی: تدبر قرآن جلد2۔ ص643 27ایضاً 28 ابو الاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن: جلد2، ص33، حاشیہ 34 29 اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھئے، تفہیم القرآن: جلد2۔ ص95تا97 30مولانا حنیف ندوی(مترجم) تہافتہ الفلاسفہ ص219 31ایضاً 32’’ فصل المقال‘‘ کے دلائل کا ملخص مندرجہ ذیل مقالے میں ملاحظہ کیجئے George F. Haurani Ibn Rushd,s Defence of Philosophy. in The World of Islam P.145 23ایضاً ص146 فصل المقال کے انگریزی ملخص کا اصل متن یوں ہے: Extension of the significance of an expression from the real significance to metaphorical significance, without thereby going beyond the standard meraphorical practice of Arabic. 34ڈی اویری: فلسفہ اسلام مترجم احسان احمد بی اے علیگ ص214 35ایضاً ص215-214 36 Averroes Tahafut Al-Tahafut, Vol.Ip.358 37 محمد لطفی جمعہ: تاریخ فلاسفتہ الاسلام: ترجمہ ڈاکٹر میر ولی الدین ۔ ص173 38سید محمد عبداللہ: متعلقات خطبات اقبالص195 39تشکیل جدید۔ ص169 40ایضاً ص170-169 41ایضاً۔ ص170 42 M.M. Sharif History of Muslim Philosophy, Vol. II p. 824 43دائرہ معارف اسلامیہ جلد ص325 44 M.M Sharif, History of Muslim Philosophy Vol. II P.820 45خلیفہ عبدالحکیم: حکمت رومی ص9 46 ایضاً ص34 47 علی ہجویریؒ: کشف المحجوب ص246 48 ایضاً ص247 49 Khalifa Abdul Hakeem, Metaphysics of Rumi p.116 50 خلیفہ عبدالحکیم: حکمت رومی ص32 51 Khalifa Abdul Hakeem, Metaphysics of Rumi p.119 52 خلیفہ عبدالحکیم: حکمت رومی۔ ص36 چھٹا باب اقبال کا تصور بقائے دوام حیات بعد الموت یا روح کے بقائے دوام کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں ڈیوڈ ہیوم جیسے عظیم فلسفی کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ اسے عقل و خرد کی بنا پر نہیں بلکہ صرف عقیدہ و ایمان کی بنیاد پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ 1؎ اقبال کی ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ آخرت کی زندگی کا ایقان فلسفیانہ نظریات سے جنم نہیں لیتا بلکہ اس کا مصدور و منبع ایمان ہے: ’’ میری جذباتی زندگی ایسے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے کہ شعور انسانی کے بقائے دوام میں ایمان محکم کے بغیر میں ایک لمحہ بھر کی زندگی بھی نہیں گزار سکتا۔ یہ ایمان مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ ہے جن کی ذات اقدسؐ کے لیے میرا ذرہ ذرہ چھلک رہا ہے۔ ‘‘ 2؎ ایک اور جگہ اقبال نے لکھا ہے: ’’ اس ضمن میں بہت سے امور عقل انسانی سے باہر ہیں۔ ان سے متعلق بصیرت اور ایمان اور ذرائع سے پیدا ہوتا ہے۔ ان ذرائع کا تعلق فلسفہ سے نہیں۔‘‘ 3؎ بایں ہمہ اقبال اس امر کی مخالفت نہیں کرتا کہ عقلی اور نظری سطح پر اس مسئلے سے تعرض کیا جائے۔ ہم تیسرے باب میں یہ دیکھ آئے ہیں کہ عقل اور وجدان کے بارے میں اس کا اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر ہے۔ وہ عام وجدانیت پسندوں کی طرح عقل کو یکسر رد نہیں کرتا بلکہ اسے مفید اور ضروری سمجھتا ہے لیکن ایک حد تک! عقل ان حقائق کا جنہیں وجدان دریافت کر چکا ہوتا ہے، جائزہ لیتی ہے اور ان وجدانی حقائق یا وحدتوں کے مابین اضافات و روابط کا تعین کرتی ہے: ’’ (وجدان کی) وحدتوں کا باہمی تعلق معلوم کرنے کے لیے عقل ایک وحدت سے دوسری وحدت کی طرف اور دوسری سے تیسری کی طرف اور تیسری سے چوتھی کی طرف جاتی ہے اور ان سب کے باہمی تعلق کو ٹٹولتی ہے۔ عقل کا کام صرف یہ ہے کہ کسی وحدت تک پہنچنے کے لیے فکر کو اکسائے۔ وہ فقط کسی وحدت کے اجزا کے تعلقات پر غور کرتی ہے، پوری وحدت کا احساس نہیں کر سکتی۔ وحدت کا احساس یا علم اس کا وظیفہ نہیں۔ جب ہمارا وجدان کسی وحدت کے علم تک پہنچتا ہے تو اس سے بہت پہلے عقل اس سے رخصت ہو چکی ہوتی ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ایسا ہوا ہے۔ عقل وہ راستہ دکھاتی ہے جو منزل کو جاتا ہے لیکن خود ہمارے ساتھ منزل پر نہیں پہنچتی۔‘‘ 4؎ اوپر ہم نے اقبال کے جو حوالے دیکھے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ ایک وجدانی حقیقت کے طور پر روح انسانی کے بقائے دوام کا عقیدہ شروع سے ہی اقبال کی جذباتی اور روحانی زندگی کا حصہ رہا ہے لیکن یہ عقیدہ صرف ایک جذباتی اور روحانی عقیدہ ہی نہیں رہا بلکہ اقبال کا ذہن حیات بعد الموت اور اس سے متعلقہ مسائل کے بارے میں عرصے تک الجھا رہا اور وہ مختلف ’’ وجدانی وحدتوں‘‘ کے مابین منطقی اضافات و روابط قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ شذرات فکر اقبال میں ہمیں ایک طویل شذرہ بعنوان ’’ شخصیت کی بقا‘‘ ملتا ہے۔ یہ شذرہ غالباً اقبال نے اس دور میں لکھا جبکہ اس کے فلسفے کے خدو خال ابھی پوری طرح اجاگر نہیں ہوئے تھے۔ اس شذرہ کو اگر ہم اس کے فلسفے کا خاکہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا جو کہ اس نے مثنوی اسرار خودی اور خطبات سے کچھ عرصہ پہلے تیار کیا تھا۔ مثنوی، خطبات اور اس کی دیگر تحریریں اسی خاکے کی تفصیلات ہیں۔ ذیل میں ہم اس شذرہ میں سے شخصیت کے بقائے دوام سے متعلقہ حصہ نقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اس دور کی تحریر ہے جب اقبال نے ’’ خودی‘‘ کی اصطلاح وضع نہ کی تھی بلکہ اس کے لیے شخصیت کا لفظ استعمال کرتا تھا: ’’ شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے لہٰذا اسی کو خیر مطلق قرار دینا چاہیے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبانے اور بالآخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو۔ اگر ہم وہ طرز زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ موت، جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پس شخصیت کی بقا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ یہ خیال جو یہاں پیش کیا گیا، دور رس نتائج کا حامل ہے۔ کاش اس نقطہ نظر سے اسلام، بدھ مت اور عیسائیت کی تقابلی حیثیت پر بحث کرنے کا مجھے موقع میسر آتا لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی مجھے فرصت نہیں۔‘‘ 5؎ بعد ازاں جب اقبال کو یہ فرصت ملی اور اس نے مثنوی اسرار خودی اور خطبات لکھے تو اس مسئلے سے فکری اور نظری سطح پر بھی تعرض کیا۔ گذشتہ دو ابواب میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ اس کے بقائے دوام کے فکری پس منظر میں کن کن مفکرین کے نظریات کا تانا بانا بنا ہوا ہے۔ کچھ مفکرین پر اس نے شدید تنقید کی ہے۔ کچھ اسے خوشہ چینی کی ہے اور کچھ افکار و نظریات سے غیر شعوری طور پر متاثر ہوا ہے۔ اقبال کا تمام تر رد و قبول بالآخر اس کے فکر کے مرکزی دھارے سے آ ملتا ہے۔ جس میں حقیقت مطلقہ ایک بابصر مشیت ہے اور جس میں عقل منزل تک لے جا نہیں سکتی لیکن منزل تک پہنچنے والی راہوں کو روشن ضرور کر دیتی ہے۔ چوتھا خطبہ ’’ انسانی انا‘‘ کی نوعیت آزادی اور اس کے بقائے دوام کے بارے میں ہے۔ اس خبطے میں اقبال خودی کی نوعیت اور آزادی پر بحث کے بعد اس کے بقائے دوام کے مسئلہ سے تعرض کرتا ہے اور اپنے ایجابی نظریہ کو پیش کرنے سے پہلے کچھ نظریات بقائے دوام پر فلسفیانہ انداز میں تنقید کرتا ہے (یہ ہم گذشتہ دو ابواب میں دیکھ آئے ہیں) اس کے بعد وہ اپنے مخصوص نظریہ کا ذکر کرتا ہے۔ ذیل میں اقبال کے اپنے نظریہ بقائے دوام کا مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس خاکے کی تفصیلات اور جزئیات پیش کی جائیں گی اور یہ کوشش کی جائے گی کہ اقبال کے تصور بقائے دوام کو اس کے تمام تر خدو خال کے ساتھ اجاگر کیا جائے۔ 1 چوتھے خطبے کے آخری حصہ میں اقبال نے اپنے تصور بقائے دوام کو پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں وہ قرآنی تعلیمات کی طرف رجوع کرتا ہے۔ قرآن کا حیات بعد الموت کا نظریہ کچھ اخلاقی ہے اور کچھ حیاتیاتی! اخلاقی نقطہ نظر سے اس دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کا ایک ہی منتہائے مقصود ہے یعنی فلاح و نجات لیکن: ’’ قرآن پاک نے اس ضمن میں بعض ایسے اشارات کیے ہیں جن سے ہماری توجہ مظاہر حیات کی طرف منعطف ہو جاتی ہے اور جن کا فہم جب ہی ممکن ہے کہ ہم اس کہ کنہہ اور ماہیت کے بارے میں بڑی دقت نظر اور بصیرت سے کام لیں۔‘‘ 6؎ یعنی قرآن میں انسان کے مراحل آفرینش اور بعد الموت صورت حال کے بارے میں اس طرح کے بیانات آئے ہیں کہ جیسے حیاتیات میں گفتگو کی جاتی ہے۔ حیات بعد الموت: ’’ ایک عالمگیر مظہر ہے جس کا اطلاق ایک حد تک وحوش و طیور پر بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 7؎ 38:6 اقبال آگے چلنے سے پہلے یہ ضروری سمجھتا ہے کہ ان امور کی صراحت کہہ دے جو از روئے قرآن ثابت شدہ اور واضح ہیں۔ یہ تین امور مندرجہ ذیل ہیں: 1۔ خودی زمانے میں اپنا آغاز رکھتی ہے اور اس عالم زمان و مکان میں ظہور پذیر ہونے سے قبل اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ 2 انسان کی کرہ ارض پر مراجعت کا کوئی امکان نہیں۔ 3 انسانی خودی متناہی ہے اور اس کی متناہیت بجائے بدبختی کے اس کے لیے باعث عز و افتخار ہے کیونکہ یہ استحکام و تربیت کے ان مراحل تک پہنچ سکتی ہے جن میں وہ حق تعالیٰ کی تجلیات کا بغیر اپنی سدھ بدھ کھوئے اور بغیر اپنا تشخص فنا کیے پر مسرت نظارہ کر سکتی ہے۔ قرآن میں یہ واضح طور پر آیا ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص بحیثیت فرد واحد، خدا کے سامنے پیش ہو گا اور نہ صرف وہ اپنی انفرادیت برقرار رکھے گا بلکہ ارضی زندگی کے افعال و اعمال کی ذمہ داری بھی اٹھائے گا۔ قیامت کی عظیم تباہی میں سب کچھ تباہ ہو جائے گا لیکن جن لوگوں کی خودی ایمان و عمل صالح سے مستحکم ہو چکی ہو، ان پر کوئی اثر نہ ہو گا۔ ’’ ماز اغ البصر و ما طغیٰ‘‘ سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق تعالیٰ کی بے پردہ تجلیات میں بھی بغیر کسی اضطراب اور تشویش کے بحیثیت فرد ومنفرد قائم و استوار رہے۔ مندرجہ ذیل شعر اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ موسیٰ زہوش رفت بیک جلوۂ صفات تو عین ذات می نگری در تبسمی وجدت الوجودی تصوف میں یہ تصور محال ہے۔ اس نظریہ کے حامی یہ کہتے ہیں کہ جب محدود لا محدود کے سامنے آتا ہے تو وہ اپنا تشخص اور اپنی انفرادیت قائم نہیں رکھ سکتا۔ اقبال کا خیال ہے کہـ: ’’ یہ مشکلات جب ہی پیدا ہوتی ہیں جب ہم لامتناہی کی ماہیت کا ایک غلط تصور قائم کرتے ہیں۔ حقیقی لامتناہیت کا مطلب لامتناہی امتداد نہیں جس کا تصور یونہی ممکن ہے کہ جملہ متناہی امتدادت پر حاوی ہو۔ برعکس اس کے وہ عبادت ہے اپنے توسع اور افزوئی سے، نہ کہ امتداد اور وسعت سے ۔ لہٰذا ہم جونہی اس کے توسع اور افزوئی پر نظر رکھتے ہے، ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ متناہی خودی گو لا متناہی سے متمیز تو ہے لیکن منفعل نہیں۔‘‘ 8؎ اقبال کے نزدیک متناہی خودی لامتناہی خودی (خدا) سے متمیز بھی ہے اور وابستہ بھی اور اسی پر اس کی بقا کا دارومدار ہے۔ قرآن کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے ان تین نکات کو صحیح طرح سے ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے: ’’ قرآن پاک کی رو سے یہ عین ممکن ہے کہ ہم انسان کائنات کے مقصود و مدعا میں حصہ لیتے ہوئے غیر فانی ہو جائیں۔‘‘ 9؎ جس خدا نے انسان کو حقیر نطفے سے ’’ احسن تقویم‘‘ کا درجہ دیا اس سے یہ بہت بعید ہے کہ وہ اب اسے بیکار اور فضول شے سمجھ کر چھوڑ دے اور موت اس ’’ احسن تقویم‘‘ کو عدم محض سے ہم کنار کر دے۔ ’’ یوں بھی جس ہستی کے ارتقاء میں لاکھوں کروڑوں برس صرف ہوئے ہیں اس کے متعلق یہ کہنا کچھ غیر اغلب سا نظر آتا ہے کہ وہ عبث اور لاحاصل سی شے کی طرح ضائع ہو جائے گی۔‘‘ 10؎ جس طرح انسان ایک نطقے سے ارتقا پذیر ہوتا ہوا پوری شخصیت بنتا ہے (40:75) عین ممکن ہے کہ اسی طرح موت کے بعد بھی اس کا ارتقا جاری رہے۔ حیات الدنیا دراصل ایک مہلت ہے کہ خودی عمل صالح سے اپنے آپ کو مستحکم بنا لے۔ مبارک ہے وہ جس نے اپنے نفس کو صالح بنایا اور طعون و مردود ہے وہ جس نے اسے خراب کیا (7-10:91) حیات استحکام خودی کے لیے مہلت ہے اور موت استحکام خودی کی اولین آزمائش ہے۔ اقبال اعمال کے الم خیز یا مسرت خیز ہونے کا قائل نہیں۔ اس کے نزدیک اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو خودی کو مستحکم کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسے ضعیف بناتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے شخصی بقائے دوام انسان کا استحقاق نہیں، وہ صرف اس کا امیدوار بن سکتا ہے یعنی وہ اس کا حصول مسلسل عمل اور محنت شاقہ سے ہی کر سکتا ہے۔ مادیت پسندی کا یہ دعویٰ ایک افسوس ناک غلطی ہے کہ متناہی ذہن حقیقت مطلقہ کا کلی احاطہ کر سکتا ہے، فلسفہ اور سائنس حقیقت تک پہنچنے کا ایک راستہ اختیار کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس اس تک رسائی کے دیگر ذرائع بھی ہیں۔ اگر اس دنیا میں خودی خود کو اچھی طرح مستحکم کر لے تو یہ موت کے صدمے سے متاثر نہیں ہو گی بلکہ موت برزخ تک پہنچنے کا ایک راستہ ثابت ہو گی جہاں یہ ایک نئے عالم زمان و مکان سے خود کو مطابقت پذیر کرنے میں مشغول ہو جائے گی۔ اقبال کے نزدیک خودی جسم مادی سے مشروط نہیں۔ مادی جسم اس کے لیے محض ایک آلہ کار ہے۔ ہلم ہاز (Heimholiz) نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اعصابی ہیجانات کو شعور تک پہنچنے میں کچھ وقت صرف ہوتا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شعور مادی اعمال سے ماوراء اپنی ایک مستقل بالذات حیثیت رکھتا ہے اور زمان و مکان کے متعلق جو ہم نے نظریہ وضع کر رکھا ہے وہ ہمارے عضویاتی نظام یعنی مادی اعمال سے مشروط ہے: ’’ لہٰذا اس نظام کی ہلاکت کے باوجود اگر خودی کی ہستی برقرار رہتی ہے تو یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ زمان و مکان کے بارے میں ہماری موجودہ روش بدل جائے۔‘‘ 11؎ اقبال کا خیال ہے اس طرح کی تبدیلیاں (یعنی زمان و مکان کی نوعیت کے اعتبار سے تغیرات) ہمارے لیے یکسر اجنبی اور غیر مانوس نہیں۔ عالم خواب میں تاثرات ذہنی کا ارتکاز غیر معمولی ہوتا ہے اور خواب دیکھتے ہوئے زمان و مکان کے عام پیمانے یکسر بدل جاتے ہیں۔ اسی طرح موت کے قریب حافظے میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اقبال حیات بعد الموت کو خارج سے وارد شدہ کوئی واقعہ نہیں سمجھتا بلکہ یہ ارتقائے نفس کی ہی ایک منزل ہے۔ قرآن کا استدلال بھی یہی ہے کہ جو خدا تم کو لم یکن شیئا مذکورا سے عالم وجود میں لایا اور جس نے تم کو ترقی کی کئی منزلیں طے کروائیں، کیا اس بات پر قادر نہیں کہ تمہیں تمہاری نشاۃ الاولیٰ کی طرح پھر جوں کا توں اٹھا کھڑا کرے یا کسی ایسی صورت میں لے آئے جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے: بحوالہ 42-60:56:67-66:9 نشاۃ الاولیٰ کے حوالے سے اقبال کی توجیہ حیاتیاتی ارتقاء کی طرف مبذول ہوتی ہے اور وہ اسے قرآنی تعلیمات کے عین مطابق سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ قرآن کے دیے ہوئے اشارات کی وجہ سے ہی ’’ فلاسفہ اسلام کی آنکھوں میں حقیقت کی ایک نئی جھلک پھر گئی‘‘ 12؎ جاحظ (م 255-) وہ پہلا مفکر اسلام ہے جس نے ’’ ان تغیرات کی طرف اشارہ کیا جو نقل مکانی، علیٰ ہذا ماحول کے زیر اثر حیوانات کی زندگی میں بالعموم رونما ہو جاتے ہیں 13؎ ‘‘ جاحظ کے پیش نظر نظریات کی بعد ازاں ’’ اخوان الصفا‘‘ نے مزید توسیع و توضیح کی۔ اسی طرح ابن مسکویہ (م 421ھ) نے انسان کے مبدا دو مصدر کے بارے میں ایک واضح اور متعدد پہلوؤں سے جدید نظریہ پیش کیا:14؎ عصر حاضر میں نظریہ ارتقا نے بجائے جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لوگوں میں قنوطیت اور افسردگی کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بغیر دلیل کے یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ انسان ہزاروں لاکھوں سال کے ارتقائی سفر کے بعد جس منزل پر اب پہنچا ہے یہ اس کی آخری منزل ہے اور بحیثیت حادثہ موت میں کوئی تعمیری پہلو مضمر نہیں15؎ اقبال مولانا روم کے نظریہ ارتقا کا ذکر کرتا ہے۔ مولانا روم نے ڈارون سے سینکڑوں برس پہلے حیاتیاتی ارتقاء کی مختلف منازل جمادات، نباتات، حیوانات اور انسانوں کا ذکر کیا تھا لیکن ان کے نظریہ کی خوبی یہ ہے کہ یہ انسانیت کی موجودہ سطح کو منزل آخر قرار نہیں دیتا بلکہ ارتقائی عمل پیہم آگے بڑھتا رہتا ہے حتیٰ کہ ’’ فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر‘‘ اقبال جدید مادیت کے یاس انگیز اثرات کو ختم کرنے کے لیے سمجھتا ہے کہ: ’’ عصر حاضر کو آج ایک رومی کی ضرورت ہے جو دلوں کو زندگی، امید اور ذوق و شوق کے جذبات سے معمور کر دے‘‘ 16؎ ایک اور مسئلہ جو مسلمانوں میں متنازع فیہ رہا ہے۔ یہ ہے کہ انسان کی بعثت ثانیہ جسمانی ہو گی یا محض روحانی۔ شاہ ولی اللہ حیات اخروی کے لیے کسی قسم کا جسد ضروری سمجھتے ہیں جسے روح یا نفس اپنا مستقر بنا سکے، خواہ یہ کثیف مادے کا نہ ہو: اقبال اس بحث کو غیر ضروری سمجھتا ہے کیونکہ بربنائے استدلال ہم جسم کا جو بھی تصور قائم کریں گے، ممکن ہے کہ دوسرے عوالم میں اس کا سرے سے اطلاق ہی نہ ہو سکے۔ بعثت ثانیہ کے بارے میں ہم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے اور ازروئے قرآن جو بات ہمیں تسلیم کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ بعثت ثانیہ ایک حقیقت ہے۔ اس کی نوعیت کے بارے میں نہ ہم کچھ جان سکتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں استدلال مفید ہے۔ ایمان اور امید اور کے لیے یہی کافی ہے کہ موت کو حیات نو کا آغاز سمجھا جائے۔ اقبال کا خیال ہے کہ جنت و دوزخ مقامات نہیں بلکہ نفس کے احوال کے نام ہیں۔ قرآن کی رو سے دوزخ کسی خارجی ایندھن سے نہیں دہکتی بلکہ اس کے شعلے قلوب میں سے اٹھتے ہیں (6:604) چنانچہ دوزخ کی آگ دراصل: ’’ انسان کی اندر بحیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے اور بہشت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت‘‘ 17؎ جنت کاہلوں اور بیکاروں کی عشرت گاہ نہیں جہاں وہ طویل تعطیل مناتے رہیں گے بلکہ یہ بی ایک دار العمل ہو گی جس میں قرب الٰہی کا مقصود اور حصول تجلیات کی نہ ختم ہونے والی خواہشیں ہمیشہ انسان کو سر گرم عمل رکھیں گی۔ یہ ہے ابال کے تصور بقائے دوام کا اجمالی خاکہ جس کا اب ہم تفصیلی جائزہ لیتے ہیں! 2 اقبال کے بقائے دوام کے تصور کی تفصیلات کا جائزہ لینے کے لیے یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ابدیت (Eternity) اور بقائے دوام (Immortailty) کی اصطلاحات کی مفہوم متعین کر لیا جائے۔ ابدیت (Eternity) کو لاطینی زبان میں Aeternarکہا جاتا ہے جو کہ Asiternas سے ماخوذ ہے جو کہ پھرAevum سے مشقق ہے جو کہ انگریزی لفظ Ever اور Hye کا ہم معنی ہے۔ یونانی زبان میں اس کے ہم معنی صفات کو واضح طور پر وجود کے ساتھ ملا کر استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً وجود جاوداں (Everlasting Existence) یہ Eternal کا اولین مفہوم ہے اور زبان کے عام استعمال میں آج تک اسی طرح مروج چلا آ رہا ہے۔ لیکن بعض فلسفیانہ مباحث میں وجود جاوداں (Everlasting Existence) کے لیے ایک نئی اصطلاح، سرحدی (Sepmiternal) وضع کی گئی اور ابدی (Eternal) کی اصطلاح کو غیر زمانیت (Timelessness) کے لیے وقت کر دیا گیا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابدی (Eternal) وہ ہے جس پر زمان کے مقولے کا اطلاق نہ ہو سکے 18؎ ریاضیات اور منطق میں بعض تصدیقات ایسی ہوتی ہیں جو غیر زمانی ہوتی ہیں مثلاً دو جمع دو چار کے برابر ہوتے ہیں یا ’’مثلث تین خطوط مستقیم سے گھری ہوئی سطح ہوتی ہے۔‘‘ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’ دو جمع دو چار کے برابر تھے‘‘ یا ’’ مثلث ایسی سطح ثابت ہو گی جو کہ تین خطوط مستقیم سے گھری ہو۔‘‘ اب ہمیشگی جاودانیت کے مفہوم میں ہمارے پاس دو اصطلاحیں آ گئی ہیں: 1ابدی (Eternal) 2سرمدی (Sempiternal) ابدی وہ ہے جس پر زمان کا اطلاق نہ ہو سکے، یعنی ایک ایسی حقیقت جس کا نہ کوئی آغاز ہو اور نہ کوئی انجام! اس مفہوم میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ افلاطون کے ’’ اعیان ثابتہ‘‘ ابدی ہیں یا ارسطو کی ’’صورت خالص‘‘ ابدی ہے۔ ہم تیسرے باب میں یہ دیکھ آئے ہیں کہ اقبال کے نزدیک حقیقت مطلقہ ایک بابصر مشیت ہے جس کے خارج میں کوئی دوسرا وجود نہیں ہے۔ اس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ کوئی انجام! آغاز و انجام ایسے مقولات فکری ہیں جو کہ زمان و مکاں سے مشروط ہیں جبکہ حقیقت مطلقہ یا ذات الٰہیہ ان سے ماوراء ہے۔ زمان و مکاں اضافی حیثیت رکھتے ہیں اور باہمدگر مربوط حوادث (جن سے کہ ہمارا عالم طبعی عبارت ہے) کی باہمی ترکیب اور نسبتوں سے ابھرتے ہیں۔ 19؎ اقبال حقیقت مطلقہ کو ابدی قرار دیتا ہے۔ زمان کے وہ پیمانے جن سے ہم روز مرہ کے واقعات کو شمار کرتے ہیں، عارضی اور اضافی ہیں حقیقی زمان نہ تو آفات و لمحات سے عبارت ہے اور نہ ہی آغاز و انجام رکھتا ہے: ’’ مادی اجسام کا زمان گردش افلاک سے پیدا ہوتا ہے اور ہم اسے ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ لیکن اس زمانے کی ماہیت ہی کچھ ایسی ہے کہ جب تک پہلا دن نہ گذر جائے، دوسرا دن نہیں آ سکتا۔ پھر غیر مادی اجسام کا زمانہ بھی سلسلہ در سلسلہ ہے مگر ان کا ایک ایک دن مادی اجسام کے ایک ایک سال کے برابر ہو گا۔ اب غیر مادی اجسام کے زمانے سے اگر آگے بڑھا جائے تو بالآخر زمان الٰہیہ کی نوبت آئے گی جس میں مرور کا مطلقاً دخل نہیں۔ لہٰذا اس کے تجزیے کا سوال پیدا ہوتا ہے نہ اس میں تواتر اور تغیر کا۔ یہ زمانہ دیمومت (Eternity) سے بھی بالاتر ہے کیونکہ اس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔ خدا کی آنکھ جملہ مرئیات کو دیکھتی اور اس کے کان جملہ مسموعات کو سنتے ہیں مگر ایک واحد اور ناقابل تجزیہ عمل ادراک کی صورت میں ۔ لہٰذا ذات الٰہیہ کی اولیت زمانے کی اولیت کا نتیجہ نہیں بلکہ زمانے کی اولیت ذات الٰہیہ کی اولیت کا نتیجہ ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے زمان الٰہیہ کو ’’ ام الکتاب ‘‘ ٹھہرایا ہے جس میں عالم تاریخ علت و معلول کی قید تواتر سے آزاد ہو کر ایک ’’ واحد اور فوق الدیمومت آن (A Single suprer etrenal noe)‘‘ میں جمع ہو گیا ہے۔‘‘ 20؎ اقبال کے نزدیک ابدیت کی اصطلاح صرف حقیقت مطلقہ یا ذات الٰہیہ کے لیے ستعمال ہو سکتی ہے۔ دور مدرسیت میں ہمیشگی کے مفہوم کے لیے جو دوسری اصطلاح وضع کی گئی تھی وہ ہے سرمدی۔۔۔۔! سرمدی سے مراد یہ ہے کہ کسی شے کا آغاز تو ہے لیکن انجام نہیں۔ اقبال کا خیال ہے کہ حیات الٰہیہ کے سیل رواں میں ہم اپنا ایک مخصوص نقطہ آغاز یعنی آفرینش رکھتے ہیں: ’’ حیات الٰہیہ کا ہی سیل رواں ہے ہمارے وجود کا سرچشمہ ہے اور جس میں ہم موتیوں کی طرح پیدا ہوتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔‘‘ 21؎ حیات الٰہیہ کا سیل رواں ابدی ہے اور اس میں موتی کی طرح پیدا ہونے والی خودی اگرچہ موت کے صدمے سے متاثر نہیں ہوتی لیکن اپنا نقطہ آغاز رکھتی ہے۔ زمانی و مکانی تعینات کی وجہ سے اس کے خارجی زندگی (یعنی نفس فعال) زمان متسلسل سے عبارت ہے لیکن اپنی باطنی زندگی (نفس بصیر) کے اعتبار سے یہ ابدیت میں رہتی ہے: ’’ ۔۔۔۔ مطلق انا کا زمانہ ایک ایسا تغیر ہے جس میں تواتر کو سر مو دخل نہیں یعنی وہ دراصل ایک وحدت نامیہ ہے۔ جس میں اگر جوہریت (یعنی آنات و لمحات کی تمیز) نظر آتی ہے تو محض اس کی تخلیقی حرکت کے باعث اور اس لیے میری رائے میں جب میر داماد اور ملا باقریہ کہتے ہیں کہ زمانہ عمل تخلیق کے ساتھ ہی وجود میں آ جاتا ہے تو ان کا مطلب بھی وہی سمجھنا چاہیے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ کیونکہ یونہی حقیقی انا اپنی ذات کے لا انتہا اور غیر متعین امکانات کو وقوع میں لاتا اور ان کا احصاء کرتا ہے۔ لہٰذا انا کی زندگی اگر ایک طرف یمودیت ابدیت کی زندگی ہے، یعنی تغیر بلا تسلسل تو دوسری طرف زمان متسلسل کی جو کہ میرے خیال میں ابدیت سے نامی طور پر وابستہ ہے کیونکہ یہ ایک پیمانہ ہے بے تغیر تواتر کا۔ قرآن مجید کے اس ارشاد ’’ لہ اختلاف اللیل والنھار‘‘ کا مطلب بھی صرف اسی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘ 22؎ مندرجہ بالا اقتباس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ابدیت اقبال کے نزدیک حیات الٰہیہ کو حاصل ہے جسے نہ تو آفات و لمحات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی طرف آغاز و انجام کو منسوب کیا جا سکتا ہے۔ 23؎ متناہی خودی چونکہ اپنا ایک نقطہ آغاز رکھتی ہے اس لیے حیات جاوداں کے باوجود اسے ابدی۔۔۔۔ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اسے سرمدی (Sempiternal) یا اقبال کے الفاظ میں (Immortal) کہا جائے گا۔ خودی کے بارے میں اقبال یہ کہتا ہے کہ زمانے میں یہ اپنا آغاز رکھتی ہے اور اس عالم زمان و مکاں میں ظہور پذیر ہونے سے قبل اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ امر اس کے نزدیک ازروئے قرآن ثابت شدہ ہے لیکن اقبال کا یہ خیال درست نہیں۔ قرآن اس دنیا میں ظہور سے پہلے انسانوں کی آفرینش اولین کا ذکر بھی کرتا ہے۔ گذشتہ باب میں ہم قرآن کے نظریہ بقائے دوام کے آخر میں یہ دیکھ آئے ہیں کہ قرآن حیات قبل از پیدائش کی نفی نہیں کرتا: ’’ اور اے نبیؐ ! ان لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے اس کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بنا کر پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے‘‘ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟‘‘ 173-172:7 ازروئے قرآن جو امور ثابت ہوتے ہیں وہ یہ ہیں: 1تمام انسان اس عالم زمان و مکاں میں آنے سے پہلے ایک دفعہ وجود پذیر ہو چکے ہیں۔ 2روز الست تمام ذریت آدم کا عظیم اجتماع ایک ہی دفعہ ہوا ہو گا۔ یعنی مختلف ادوار کی نسلوں کو بہ یک ظرف و زمان معرض وجود میں لا کر میثاق عبودیت لیا گیا ہو گا۔ 3 اس استشہادکے بعد تمام ذریت آدم کتم عدم میں چلی گئی ہو گی تاکہ کرۂ ارض پر ایک مخصوص عالم زمان و مکاں میں نسلاً بعد نسل ظہور پذیر ہوتی رہے۔ 4 اس میثاق ازل کی دھندلی سی یاد ہر شخص کے ذہن میں ہوتی ہے۔ اگر کوئی چاہے تو روحانی اور اخلاقی ترقی کی منازل طے کر کے اس یاد کے نقوش کو اجاگر کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو اسے مکمل فراموشی کے اندھیروں میں پھینک سکتا ہے۔ چنانچہ اسی بناء پر قیامت کے روز ان کے اس سے بے خبری کے عذر کو در خور اعتنا نہیں سمجھا جائے گا۔ قرآن کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ اس عالم زمان و مکاں میں آدم کی نسل کو وجود بخشنے سے پہلے ایک دفعہ تمام انسان پیدا کیے جا چکے ہیں۔ تاہم یہ آفرینش لمحاتی یا عارضی رہی ہو گی۔ انسانوں کو علام وجود میں لانے کا مقصد صرف ایک تھا۔ یعنی توثیق و تصدیق ربوبیت! اس مقصد کے علاوہ کسی کو فرصت عمل عطا نہیں ہوئی بلکہ سب انسان عالم امر یا مولانا روم کے الفاظ میں ’’ نیستان ازل‘‘ میں مدغم ہو گئے ہوں گے ’’ امر ربی‘‘ یعنی روح جب عالم خلق میں آتی ہے تو ایک فرد وحید کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ عالم امر کی کار فرمائی ہمیشہ وحدتوں کی صورت میں ہوتی ہے۔۔۔۔ ’’ جسے ہم خودی کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور ہر خودی توسع (Range) توازن (Balance) اور اثر آفرینی (Effectiveness) کے اعتبار سے اپنا اپنا جداگانہ مرتبہ و مقام رکھتی ہے روح یا خودی کے بارے میں اس قسم کا تصور، ابن رشد کے نظریہ ابدیت مجملہ اور وحدت الوجودی انداز فکر کی مکمل نفی ہے۔‘‘ 24؎ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اقبال کی نظر قرآن کے بیان کردہ میثاق ازلی پر نہ تھی۔ دراصل اقبال جو بات کہنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس عالم زمان و مکاں میں وجود پذیر ہونے سے پہلے خودی کسی اور جنم میں موجود نہ تھی۔ ہماری اس توجیہ کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ بعض لوگوں نے بانگ درا کی ایک نظم ’’ فلسفہ غم‘‘ سے عقیدہ تناسخ کو ثابت کرنے کی کوشش کی تھی جس کی اقبال نے سختی سے تردید کی تھی 25؎ قرآن نے جس انداز میں میثاق ازلی کا ذکر کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ روز ازل تمام انسانوں کو زندہ کر کے صرف ان سے عہد بندگی لیا گیا تھا، انہیں باقاعدہ ایک زندگی اور فرصت عمل عطا نہیں کی گئی تھی چنانچہ اس طرح دیکھا جائے تو انسانوں کو جیسی زندگی اب عطا ہوئی ہے۔ ویسی پہلے عطا نہیں ہوئی تھی۔ بایں ہمہ اقبال کا یہ کہنا درست نہیں کہ ازروئے قرآن خودی کی حیات قبل از پیدائش ثابت نہیں ہوتی۔ 3 اقبال کا یہ کہنا قرآن کے عین مطابق ہے کہ انسان کسی طور بھی اس کرۂ ارض پر واپس نہ آ سکے گا: ’’ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آ کھڑی ہو گی، وہ کہے گا اے میرے پروردگار! مجھے لوٹا دے (دنیا میں) تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں (مال و دولت) اس میں جا کر نیک کام کروں۔ ہرگز نہیں! (یعنی وہ ہرگز دنیا میں لوٹائے نہ جائیں گے) یہ اس کی زبانی باتیں ہیں (یعنی نہ تو اب ان کی تمنا پوری ہو گی اور نہ یہ اپنے وعدے میں سچے ہیں) ان کے پیچھے ایک پردہ ہو گا(یعنی ایک آڑ ہو گی جسے نہ وہ پار کر سکیں گے اور نہ اس دنیا میں واپس آ سکیں گے)‘‘ 100-99:33 قرآن میں کئی مقامات پر قیامت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ محشر میں یہ زمانی و مکانی ترتیب یکسر ختم ہو جائے گی اور لوگ کسی اور عالم نہن و مکاں میں خود کو پائیں گے۔ ’’ ۔۔۔۔۔۔ (انسان) پوچھتا ہے کہ روز قیامت کب آئے گا! لیکن جب نگاہ خیرہ ہو جائے گی اور چاند گہنا جائے گا او رچاند سورج یکجا ہوں گے! تب آدمی کہے گا۔ کہاں بھاگوں؟ کچھ نہیں، کہیں بچاؤ نہیں۔ تیرے خداوند کے یہاں ٹھکانا ہے۔ اس دن آدمی کو جو اس نے آگے بھیجا ہے اور پیچھے چھوڑا ہے، بتایا جائے گا!‘‘ 13-6:75 ’’ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا اور جب تارے بے نور ہو جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے اور جب دریا آگ ہو جائیں گے۔ جب روحوں کی گروہ بندی کی جائے گی اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گی کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی؟ اور جب (عملوں کے) دفتر کھولے جائیں گے اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی اور جب دوزخ ( کی آگ) بھڑکائی جائے گی اور جب جنت قریب لائی جائے گی، تب ہر شخص کے معلوم کر لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے؟‘‘ 14-1:81 ’’ جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تارے جھڑ پڑیں گے اور جب دریا بہ کر ایک دوسرے میں مل جائیں گے اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی تب ہر شخص کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا۔ اے انسان تجھ کو رب کریم کے بارے میں کس چیز نے دھوکا دیا؟‘‘ 6-1:82 جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال ڈالے گی اور انسان کہے گا اس کو کیا ہوا ہے؟ اس روز وہ اپنے حالات بیان کرے گی۔ کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کو حکم بھیجا ہو گا۔ اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دئیے جائیں، جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ 8-1:99 ’’ کھڑکھڑانے والی، کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ اور تم کیا جانو کہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے؟ وہ (قیامت ہے) جس دن لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے: اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگ کی اون، تو جس کے اعمال کے وزن بھاری نکلیں گے وہ دل پسند عیش میں ہو گا او رجس کے وزن ہلکے نکلیں گے اس کا مرجع ہاویہ ہے اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا ہے؟ (وہ) دہکتی ہوئی آگ ہے!‘‘ 11-1:101 ’’ جس دن یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی! اور مخلوق واحد زبردست خدا کے آگے نکل کھڑی ہو گی!‘‘ 48:14 ٭٭٭ محولہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کرۂ ارض یعنی اس عالم زمان و مکاں کی طرف انسان کی واپسی نہ تو عالم برزخ سے ممکن ہے اور نہ ہی آخرت سے۔ قیامت دراصل اس زمانی و مکانی ترتیب کے الٹ جانے کا نام ہے اور اس عظیم تبدیلی کے اظہار کے لیے مختلف ناموں اور مختلف واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کھڑکھڑانے والی آفت، بہرہ کر دینے والی آفت یا چھا جانے والی آفت، قیامت کے مختلف نام ہیں اور پہاڑوں کو دھنکی ہوئی اون بنا دینا، سمندروں کے پانیوں کو ملا دینا، تاروں کا ٹوٹ کر بکھر جانا، دریاؤں میں آگ کا بہنا، آسمان کی کھال کھینچ لینا اور اسے دروازے دروازے کر دینا، نگاہوں کا خیرہ ہو جانا، چاند سورج کا یکجا ہو جانا اور لوگوں کا یوں اکٹھے ہونا جیسے برسات میں پتنگے اکٹھے ہوتے ہیں دراصل اس نظام شمسی کی تباہی اور ایک نئے نظام زمان و مکاں کی تشکیل کو ظاہر کرتے ہیں ہمارے زمان و مکاں کے موجودہ پیمانے اس گردش افلاک کے آفریدہ ہیں جسے ہم شب و روز دیکھتے ہیں جب گردش افلاک اور تریب سیارگان ہی الٹ پلٹ جائے گی تو پھر نہ اس کرۂ ارض کا سوال پیدا ہو گا اور نہ اس کے شب و روز کا! یہ زمین و آسمان بدل دیے جائیں اور ان کی جگہ نئے زمین و آسمان بنائے جائیں گے۔ قرآن میں حیات بعد الموت کے یے جو لفظ بالعموم استعمال ہوا ہے وہ ہے ’’ الآخر‘‘ ! آخر اول کا الٹ ہے۔ اول وہ ہے جو پہلے آئے اور آخر وہ ہے جو بعد میں آئے۔ قرآن کی تعلیمات کی رو سے موت انسان کی زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ زندگی کی ایک اعلیٰ او ربرتر شکل میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے: ’’ کیا تم نے (حقیر) نطقہ حیات پر غور کیا ہے؟ کیا تم (اس سے) انسنا بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟ ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کر دی ہے۔ اور اس سے ہم عاجز نہیں کہ تمہاری صفات بدل دیں اور تمہاری نشوونما ایک ایسے عالم میں کر دیں جسے تم نہیں جانتے!‘‘ 61-58:56 ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح معمولی نطفے سے انسان کی پوری شخصیت کی تعمیر کی جاتی ہے (اور باجوود نموئی تغیرات کے اس کی انفرادی متاثر نہیں ہوتی) اسی طرح اس انسان سے موت کے بعد ایک اعلیٰ و ارفع انسان تعمیر کیا جائے گا، یعنی اس انسان کی صفات میں ایسی تبدیلیاں پیدا کی جائیں گی کہ وہ بغیر اپنا تشخص کھوئے ارتقا اور بلندی کی وہ صورت حاصل کر لے گا جس کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے۔ آخرت کی یہ اعلیٰ زندگی اسی زندگی کی ترقی یافتہ صورت ہوگی: ’’ دیکھو ہم نے کس طرح بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اور آخرت درجوں میں (دنیا سے) بہت برتر اور برتری میں کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘ 21:17 اس وجود برتر یا نفس اعلیٰ کی تشکیل کا دارومدار اعمال پر ہے (اس سے ہم آگے چل کر بحث کریں گے) قرآن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخرت کی زندگی اسی زندگی کی ہی ایک شکل ہو گی۔۔ عہد شباب میں پہنچ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے بچپن کی طرف مراجعت کر سکتا ہے۔ زندگی کی جو منزل گزر چکی ہو اس کی طرف پلٹنا محال ہے۔ بچہ جوان اور بوڑھا ہو سکتا ہے لیکن بوڑھا نہ جوان ہو سکتا ہے اور نہ ہی بچہ! حیات کا قافلہ ہمیشہ آگے بڑھتا رہتا ہے جس طرح عہد رفتہ کا جسمانی اعادہ نا ممکن ہے ویسے ان حالات و ظرف اور اس ماحولیاتی پس منظر کی تجدید بھی نا ممکن ہے، جو انسان پیچھے چھوڑ آیا ہو۔ اب یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان نہ تو اس کرۂ ارض پر واپس آ سکے گا او رنہ ہی اپنی موجودہ نفسی ہیئت برقرار رکھ سکے گا۔ 4 اقبال کے نزدیک خودی متناہی ہے اور اس کی متناہیت بدبختی نہیں۔ وہ کائنات کو بھی متناہی سمجھتا ہے لیکن کائنات متناہی ہونے کے ساتھ ساتھ لا محدود (Unbounded) بھی ہے۔ متناہیت اور لا محدودیت کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ہم مندرجہ ذیل مثال پر غور کرتے ہیں: فرض کیجئے ایک حشرہ (Bug) کو ایک خط مستقیم پر اس طرح محدود کر دیا گیا ہے کہ نہ تو وہ دائیں بائیں حرکت کر سکتا ہے اور نہ ہی اوپر نیچے۔ اس کی حرکت یا تو آگے ہو سکتی ہے یا پیچھے۔ اب اس حشر سے کی حرکت اس خط مستقیم تک محدود ہے۔ جو کہ ایک مخصوص پیمائش رکھتا ہے۔ چنانچہ اس حشر سے کی کائنات متناہی ہو گی اور چونکہ وہ حشرہ اس محدود خط مستقیم کے سروں سے باہر نہیں جا سکتا اس لیے اس کی کائنات جہاں متناہی (Finite) ہو گی وہیں محدود (Bounded) بھی ہو گی۔ اب فرض کیجئے کہ حشرے کو بجائے خط مستقیم کے ایک دائرے کے محیط (Perimeter) پر قید کر دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ حسب سابق آگے پیچھے حرکت کر سکے گا اور اوپر نیچے یا دائیں بائیں حرکت نہ کر سکے گا۔ لیکن اس صورت میں اس کی آگے پیچھے کی حرکت سروں سے منقطع نہیں ہو گی اور حشرہ بغیر کسی مزاحمت اور انقطاع کے محیط دائرہ پر ہمیشہ متحرک رہ سکتا ہے۔ لہٰذا حشرے کی کائنات لامحدود ہو جائے گی، مگر چونکہ محیط دائرہ اپنی مخصوص پیمائش رکھتا ہے لہٰذا یہ حسب سابق متناہی رہے گی۔ ان مثالوں سے کائنات کے یک بعدی (One-elimensional) ہونے کا پتہ چلتا ہے اگر ہم دو بعدی (Two-dimensional) کائنات کا نقشہ کھینچنا چاہیں تو حشرے کو ایک مربع یا مدور سطح پر چھوڑ دیں تاکہ یہ آگے پیچھے اور دائیں بائیں بھی حرکت کر سکے لیکن اس صورت میں بھی حشرہ سطح کو چھوڑ کر اپنی حرکت جاری نہیں رکھ سکتا اور یہ سطح چونکہ قابل پیمائش ہے اس لیے یہ متناہی ہے۔ مزید برآں چونکہ حشرہ اطراف و اکناف یعنی مربع یادائرہ کی سرحدوں کے اندر محدود ہے اور ایک خط مستقیم میں بغیر خارجی حد بندی سے ٹکرائے سفر نہیں جاری رکھ سکتا، اس لیے اس کی کائنات متناہی بھی ہو گی اور محدود (Bounded) بھی۔ ہم سہ بعدی (Three-Dimensional) کائنات کا مفہوم سمجھنے کے لیے یہ فرض کر سکتے ہیں کہ حشرے کو ایک ایسے گیند کے اندر بند کر دیا گیا ہے جو کہ اندر سے خالی ہے۔ اب یہ حشرہ جہاں آگے پیچھے اور دائیں بائیں حرکت کر سکتا ہے وہیں اوپر نیچے بھی حرکت کر سکتا ہے چونکہ گیند کے رقبے کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ اس لیے حشرے کی یہ کائنات متناہی ہو گی۔ حشرہ خط مستقیم میں سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ وہ ہر طرف سے گیند کی خارجی دیوار سے گھرا ہوا ہے اس لیے اس کی کائنات متناہی ہونے کے ساتھ ساتھ محدود ہو گی۔ اب ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسی سہ بعدی کائنات کا تصور قائم کریں جو متناہی تو ہو لیکن لا محدود ہو تو ہمیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ متذکرہ حشرہ، حشرات کے پورے خاندان کے ساتھ ایک ایسے خلا میں رہتا ہے جس کی طبعی سرحدیں (Physical Boundaries) نہیں ہیں۔ اب مزید فرض کیجئے کہ ہر حشرہ نہایت عظیم الجثہ اور ٹھوس ہے۔ یہ تمام حشرے باہمی تجاذب و کشش کی بنا پر ایک دوسرے کو چھوڑ کر منتشر نہیں ہو سکے۔ اس طرح ان کی خاندانی وحدت برقرار رہتی ہے۔ مزید برآں اس خاندان حشرت کی کشش ثقل اس قدر قوی ہے کہ روشنی کی شعاعیں بھی حشرات کے تودے (Mass) کو چھوڑ کر ادھر ادھر نہیں جا سکتیں۔ جو حشرہ بھی اپنے گروہ سے ماوراء دیکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس کی بصارت پلٹ کر اپنے گروہ حشرات پر ہی آ جائے گی۔۔۔۔ اور ا سکی آنکھوں کے سامنے ہمیشہ حشرات ہی رہیں گے۔ اب چونکہ ان حشرات کو کسی خارجی حد کا علم نہیں ہو سکے گا جو کہ ان کے خاندان کو گھیرے ہوئے ہو، اس لیے ان کی کائنات متناہی تو ہو گی لیکن لامحدود (Unbounded) ہو گی۔ متناہی اس لیے ہو گی کہ اس خاندان حشرات کا مجموعی حجم قابل پیمائش ہے اور لا محدود اس لیے کہ اس خاندان کے باہر کوئی خلائے بسیط موجود نہ ہو گی جو ان کی تحدید کر سکے۔ 26؎ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی آئن سٹائن کے تصوور زمان و مکاں کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔ تجربے، مشاہدے اور نظریے سب اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ طبعی فضا (یعنی زمان مکان) اس قسم کی چپٹی نہیں ہے جس کو اقلیدس کی جیومیٹری میں مان لیا گیا ہے بلکہ طبعی فضا کی جیومیٹری ’’ نا اقلیدس‘‘ قسم کی ہے جس میں فیثا غورث کا مشہور مسئلہ صحیح نہیں رہتا۔ چونکہ اقلیدس فضا کو جس کی جیومیٹری ایک مستوری سطح کی جیومیٹری کے مماثل ہے۔ ’’ چپٹی فضا‘‘ کہتے ہیں، اس لیے نئی اقلیدسی فضا کو جس کی جیومیٹری ایک گول کرے کی سطح کی جیومیٹری کے مماثل ہے، پیچ و خم والی یا مڑی ہوئی فضا کہتے ہیں۔ فضا کا یہ پیچ و خم اب ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے۔ اقبال اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے اور اپنے اشعار میں بعض جگہ انہوں نے مڑی ہوئی فضا کے اس مفہوم کو باندھا ہے۔‘‘ کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ لیکن نظریہ اضافیت کی بنا پر آئن سٹائن نے نہ صرف یہ ثابت کیا کہ کائنات بے انتہا نہیں ہے بلکہ یہ بھی بتایا کہ اس متناہی کائنات کا تصور کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ اگر فضا کی انتہا مان لی جاتی تو دیوار یا کنارے کا سوال ہمارے ذہن میں اس لیے آتا ہے کہ ہم نے فضا کو ایک کمرے کی طرح چپٹی (اقلیدسی) سمجھ رکھا ہے۔ ایک کرے مثلاً گولے کو لیجئے۔ اس گولے کی سطح پر انتہا نہیں۔ اس پر کئی دو نقطوں کے درمیان کا فاصلہ معین ہے لیکن کیا اس گولے کی سطح پر کوئی حد یا کنارہ ہے؟ اگر زمین کی سطح پر ہم چلنے لگیں تو کیا کسی مقام پر پہنچ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے آگے نہیں جا سکتے۔ ایک کرے کی سطح کے لیے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ انتہا رکھتی ہے لیکن اس کے کسی مقام پر کوئی حد یا کنارہ نہیں ہے۔ فضا کے متعلق تو ہم دیکھ آئے ہیں کہ وہ چپٹی (اقلیدسی) نہیں بلکہ پیچدار اور خمیدہ (نا اقلیدسی) ہے۔ اس لیے ایک گول فضا کی بھی انتہا ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کوئی حد اور کنارہ نہ ہو۔ ایسی فضا کو ریاضی دان متناہی لیکن غیر محدود کہتے ہیں۔ اس اصطلاح سے صرف اس حقیقت کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ فضا کے کسی دو نقطوں کے درمیان کا فاصلہ بے انتہا بڑا نہیں بلکہ متعین ہے۔ اگرچہ اس فضا میں جب تک ہم چاہیں، چل سکتے ہیں، کوئی حد یا کنارہ ایسا نہیں جہاں پہنچ کر ہمارا سفر ختم ہو جائے۔ علم جغرافیہ میں زمین کے گول ہونے کا ثبوت دیتے وقت بتایا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص کسی مقام سے روانہ ہو اور سیدھے ایک ہی سمت میں چلتا رہے تو آخر وہ اسی مقام پر پہنچ جائے گا جہاں سے روانہ ہوا تھا اور اگر اسی طرح چلتا رہے تو جتنی دیر چاہے چل سکتا ہے۔ کائنات کے متناہی لیکن غیر محدود ہونے کو بھی اسی طرح تصور کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 27؎ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی بنا پر پیش کی جانے والی کائنات کی تشریح و تعبیر کو اصطلاح میں اضافیتی کی نیات (Relativistic Cosmology) کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کی رو سے یہ ثابت ہو گیا ہے۔ روشنی کی شعاعیں خط مستقیم میں سفر کرتے ہوئے کائنات سے ماوراء نہیں جا سکتیں۔ اگر کوئی شعاع کسی سمت میں اپنا سفر جاری رکھے تو وہ ٹھوس سیار و ثوابت کی کشش کی وجہ سے مڑتی چلی جائے گی۔ جس طرح کرۂ ارض پر سفر کرنے والا دوبارہ اسی جگہ آ پہنچتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ اسی طرح ایک روشنی کی شعاع اگر اپنا سفر جاری رکھ سکے تو کائنات کے حجم کے ساتھ خمیدہ ہوتی ہوئی پھر اپنے نقطہ آغاز پر پہنچے گی۔ آئن سٹائن کا خیال تھا کہ کائنات کا حجم قابل پیمائش ہے۔ چنانچہ اس کے اپنے اعداد و شمار کی رو سے کائنات کا قطر (Randius)۔۔۔۔۔۔ (200میل ہے)28؎ اقبال نے آئن سٹائن کے پیش کردہ تصور کائنات کو قبول کیا ہے جس کی رو سے: ’’ کائنات کسی لا محدود خلا میں ایک جزیرہ نہیں ہے بلکہ وہ غیر محدود اور متناہی ہے جس کے آگے کوئی خالی فضا نہیں‘‘ 29؎ کائنات کو اقبال ذات الٰہیہ سے نامی طور پر وابستہ سمجھتا ہے جس طرح سیرت اور کردار ذات انسانی سے وابستہ ہے۔ ویسے ہی کائنات ’’ سنت اللہ‘‘ ہے اور حیات الٰہیہ میں ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے: ’’ لیکن وہ ہستی جس سے اس کو جبر و کل کا سا تعلق ہے چونکہ خلاق ہے لہٰذا اس میں اضافہ ممکن ہے، لہٰذا ہم اس کو غیر محدود کہتے ہیں تو ان معنوں میں کہ اس کی وسعت پر کوئی حد قائم نہیں کی جا سکتی، یعنی وہ غیر محدود ہے تو بالقوۃ بالفعل نہیں۔ اس لیے فطرت کا تصور بھی ایک زندہ اور ہر لحظہ بڑھتی اور پھیلتی ہوئی وحدت نامیہ کی حیثیت سے کرنا چاہیے جس کے نشوونما پر ہم خارج سے کوئی حد قائم نہیں کر سکتے۔ اس کی کوئی حد ہے تو داخلی، یعنی وہ ذات مشہود جو اس میں جاری و ساری ہے اور جس نے اس کو سہارا دے رکھا ہے۔ قرآن پاک کا ارشاد بھی یہی ہے:‘‘ وان ربک المنتھی 14:73 اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو علوم طبعیہ میں بھی روحانی اعتبار سے نئے معنی پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ فطرت کا علم سنن الٰہیہ کا علم ہے جس کے مشاہدے میں ذات مطلقہ ہی سے قرب و اتصال کی سعی کرتے ہیں اور اس لیے یہ بھی گویا عبادت کی ہی ایک دوسری شکل ہے۔ 30؎ اقبال کہتا ہے کہ حیات الٰہیہ کے خارج میں کوئی نہیں جو اسے محدود کر سکے۔ اس کا پھیلاؤ اور ارتقا کسی خارجی نصب العین کی جانب نہیں بلکہ مقاصد و غایات اس کے اندر سے ہی ابھرتے ہیں۔ اس طرح انائے مطلق کی حرکت میکانکی نہیں بلکہ سراسر تخلیقی رہتی ہے۔ حیات الٰہیہ کے اندر انسانی انائیں موتیوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں اور اپنی زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کا زمانے میں ایک نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ اس طرح انسانی انا متناہی بھی ہے اور محدود بھی۔ انائے مطلق کے اندر اگرچہ یہ زندگی بسر کرتی ہے تاہم اس سے علیحدہ اور متبائن وجود رکھتی ہے۔ قدیم تصوف کی روایت سے ہٹ کر اقبال یہ کہتا ہے کہ خودی کو انائے مطلق میں گم کرنے کی بجائے انائے مطلق کی صفات کو اس کے اندر جذب کرنا چاہیے۔ مولانا رومؒ کے فکر سے بحث کرتے ہوئے ہم نے دیکھا تھا کہ وہ آتش و آہن کی مثال دیتے ہیں۔ زنگ خوردہ بد شکل لوہا جب آگ میں ڈالا جاتا ہے تو اس کی سیاہی اور بدشکل ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے آگ کے اندر وہ اس حد تک تپ جاتا ہے کہ آگ ہی کی طرح لپٹیں دیتا ہے اور روشنی بکھیرتا ہے لیکن رہتا وہ لوہا ہی ہے اسی طرح رومی شمع اور آفتاب کی مثال دیتے ہیں۔ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے نور عالمتاب کے سامنے شمع کی روشنی اس حد تک ماند پڑ جاتی ہے کہ نظر ہی نہیں آتی لیکن اس کا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ اس پر اگر کپڑا رکھا جائے تو وہ جل جاتا ہے۔ ذات الٰہیہ کی صفات کو اپنے اندر جذب کر لینے کے باوجود روح انسانی اپنا تشخص برقرار رکھتی ہے۔ اقبال نے رومی کے تصور فنا اور تصور بقا کو اپنایا ہے۔ وہ فرد کو انائے مطلق میں گم ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ انائے مطلق کی صفات کو اپنے اندر جذب کر کے اپنی انفرادیت اور خودی کو مستحکم کرنے پر زور دیتا ہے، اسی وجہ سے وہ وحدت الوجودی تصوف کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ اس کی رو سے فرد خدا میں یوں گم ہو جاتا ہے جیسے سمندر میں قطرہ! لامتناہیت اس کے نزدیک لامتناہی امتداد نہیں بلکہ یہ اپنے توسع اور افزونی سے عبارت ہے۔ اس طرح متناہی خودی خدا سے وابستہ بھی ہے۔ اور متمیز بھی خودی اگرچہ متناہی ہے مگر نشو و ارتقا کے لا محدود امکانات رکھتی ہے۔ اس تصور کی صدائے باز گشت ہمیں اقبال کے شاعرانہ کلام میں کئی جگہ سنائی دیتی ہے۔ پنجہ او پنجہ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود در حضومات جہاں گردد حکم تابع فرمان او دارا و جم اسرار خودی:25 دگراز شنکر و منصور کم گوئے خدارا ہم براہ خویشتن جوئے ازاں مرگے کہ می آید چہ باک است! خودی چوں پختہ شد از مرگ پاک است یہ بحرش گم شدن انجام ما نیست اگر او را تو در گیری، فنا نیست ٭٭٭ خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و عرش و کرسی خودی کی زد میں ہے ساری خدائی ٭٭٭ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ٭٭٭ تو نہ شناسی ہنوز، شوق بمیرد ز وصل چیست حیات دوام، سوختن ناتمام ٭٭٭ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ ٭٭٭ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کار کشا، کار ساز خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز ٭٭٭ کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی! بال جبریل:55 ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ہمسایہ جبریل امیں بندۂ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن! قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن ضرب کلیم:60 ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟ خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟ عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟ ارمغان حجاز:32 فلک کو کیا خبر یہ خاکداں کس کا نشیمن ہے غرض انجم سے ہے کس کے شبستاں کی نگہبانی اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے؟ مرے ہنگامہ ہائے نو بہ نو کی انتہا کیا ہے؟ ارمغان حجاز:50 دارم اندر سینہ نور لا الہ در شراب من سرور لا الہ فکر من گردوں بسیر از فیض اوست جوئے ساحل نا پذیر از فیض اوست مثنوی مسافر:44 اقبال وحدت الوجودی تصوف کی اس وجہ سے مخالفت کرتا ہے کہ اس میں نفی خودی لازم آتی ہے وہ کسی قیمت پر بھی خودی کی عینیت اور تشخص مٹانے پر تیار نہیں۔ البتہ وہ ایک طرح کی ’’ اخلاقی قلب ماہیت‘‘ کا قائل ہے جو صفات الٰہیہ سے متصف ہونے کے ضمن میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ لیکن یہ مرحلہ بڑا نازک ہے۔ صوفیانہ تجربے میں ایک ایسا مقام بھی آ جاتا ہے جہاں منصور حلاج پہنچ گیا تھا۔ اس مقام پر من و تو کی تخصیص مٹ جاتی ہے: اس قرب و معیت اور فنا فی اللہ بقا باللہ کے صوفیانہ تجربے میں بعض اوقات صوفیہ کے تجربے اور اس کا بیان ایسا ہے کہ اس سے حلول اور تناسخ کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ یہ مرحلہ بڑا نازک ہے اور ظاہر ہے کہ عام آدمی جن کے سامنے یہ تجربہ بیان ہو، وہ اس کی صوفیانہ حقیقت اور توجیہ و تشریح تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اس لیے وہ صرف اس کے ظاہری اور سطحی معنی سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے کے طور پر راسخ الاعتقادی کو صدمہ پہنچتا ہے اور اس طرح کے خیالات افراد اور اقوام میں مذہب کی اہمیت اور عبادت کی ضرورت کے نقطہ نظر کو کمزور بنا دیتے ہیں۔ 31؎ اقبال اس طرح کے تصوف کی سخت مخالفت کرتا ہے جس سے فرد کی شخصیت کی نفی لازم آئے۔ اسی لیے اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن (1914ئ) میں حافظ شیرازی کے خلاف کئی شعر ملتے ہیں مثلاً: ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار بے نیاز از محفل حافظ گذر الحذر از گو سفنداں الحذر اقبال وحدت الوجودی تصوف کی مخالفت کرتا ہے لیکن صفات الٰہیہ سے متصف ہونے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’ ہمہ اوست مذہبی مسئلہ نہیں۔ یہ فلسفہ کا مسئلہ نہیں۔ وحدت اور کثرت کی بحث سے اسلام کوکوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔ انا الحق کے معنی یہ نہیں کہ میں خدا ہوں بلکہ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ انا ہی اصل چیز ہے۔ بندہ اگر خدا میں گم ہو گیا تو اس نے اپنی ہستی دی‘‘ 31؎ اقبال کی شاعری اور اس کے فلسفے کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ انسانی انا اپنا ایک مستقل بالذات وجود رکھتی ہے۔ اس کی متناہیت بدبختی نہیں بلکہ یہ انائے مطلق کی صفات کو اپنے اندر جذب کرنے اور ارتقا و تکمیل کے لامحدود امکانات اپنے اندر رکھتی ہے۔ وہ اگر نٹشے سے متاثر ہوا ہے تو اسی لیے کہ نٹشے انسانی عظمت کا مبلغ ہے اور اس نے اگر رومی کو اپنا مرشد بنایا ہے تو بھی اسی لیے کہ رومی انسان کی آزادی اور مجدد شرف، اس کے بقائے دوام اور مسلسل ارتقائے روحانی کے قائل ہیں: خود آگہاں کہ ازیں خاک داں بروں جستند طلسم مہرو سپہرو ستارہ بفکستند ارمغان حجاز:26 5 اقبال کے تصور بقائے دوام کے فہم کے لیے متذکرہ بالا تین نکات کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے نظریہ بقا اور قرآن کے نظریہ بقا میں کوئی فرق نہیں۔ قرآن میں بار بار انسان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ وہ مادہ حیات کی حقیر بوند سے معرض وجود میں آیا ہے لیکن ارتقا کی بلندیوں تک جا پہنچتا ہے۔ کائنات کے مجموعی نظام کے پس منظر میں دیکھا جائے تو جس انسان کی تخلیق کے لیے ارتقائی عمل لاکھوں کروڑوں سال سے جاری رہا ہے اس انسان کا اب موت کی صورت میں ضائع ہو جانا نا ممکن نظر آتا ہے۔ جس طرح وہ ارتقا کی منزلیں طے کرتا آیا ہے اس سے تو یہ مترشح ہوتا ہے کہ موت کے بعد بھی اس کا ارتقا فی عمل جاری رہے گا۔ تاہم اس کا دارو مدار اس دنیا کے اعمال پر ہے۔ اس سے تفصیلی بحث ہم آگے چل کر کریں گے۔ اقبال بنیادی طور پر تصوریت پسند ہے لیکن اس کی تصوریت منطق فکر کی آفریدہ نہیں۔ اس کا نظام فکر ہیگل کے نظام فکر کی طرح تجریدات ذہنی سے عبارت نہیں۔ وہ ایسے فلسفے کو بے کار سمجھتا ہے جو ’’ خون جگر‘‘ سے نہ لکھا گیا ہو: ہیگل کا صف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی ضرب کلیم :18 اقبال کے نزدیک حقیقت مطلقہ زندہ و خلاق مشیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ راہنمائی کے لیے روی کی طرف رجوع کرتا ہے: باز بر خوانم ز فیض پیر روم دفتر سر بستہ اسرار علوم جان او از شعلہ ہا سرمایہ دار من فروغ یک نفس مثل شرار مثنوی اسرار خودی:8 تیسرے باب فکر اقبال کی عمومی ساخت میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ جدید علوم کے تجزیہ کی بینا و پر اقبال نے حقیقت مطلقہ کا جو تصور قائم کیا ہے وہ ایک بابصر اور خلاق مشیت کا کیا ہے جس کو وہ انا سے تعبیر کرتا ہے۔ اسے پیر رومی سے بھی یہی درس ملتا ہے کہ عالم امر۔۔۔۔۔ ایسی مشیت الٰہیہ ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکتے۔ یہی مشیت جب عالم تخلیق میں آتی ہے تو ک اور ن (کن) کی ثنویت اختیار کر لیتی ہے۔ چنانچہ تخلیق کا عالم کثرت مشیت الٰہیہ ہی کا اظہار ہے (اس کی تفصیل ہم اقبال کے تصور بقائے دوام کے فکری پس منظر باب 5میں دیکھ آئے ہیں) اقبال رومی کی طرح ارادیت پسند ہے۔ اس کی تصوریت افلاطون اور ہیگل کی طرح بے روح اور تجریدی نہیں کہ حقیقت اس کے نزدیک زندہ، فعال اور خلاق ہے۔ عالم تخلیق میں روح انسانی ایک منفرد وحدت کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ اس کی تمام ارتقائی منازل اور حیاتیاتی تبدیلیوں کا ایک ہی نصب العین ہے کہ وہ عالم امر کی بلندیوں تک جا پہنچے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے ایک مخصوص جسمانی ساخت تراشی۔ مزید برآں عقل بھی اس نے ایک آلہ کار کی حیثیت سے وضع کی ہے تاکہ اس کے ہمیشہ بلندیوں تک جاری رہنے والے سفر میں یہ ممد و معاون ثابت ہو۔ عقل ایک حد تک تو لے جاتی ہے لیکن ’’ حریم ذات‘‘ تک اس کی رسائی نہیں۔ عقل کی سرحدوں سے پرے روحانی راہنمائی عشق کرتا ہے۔ عقل، جسم اور جسمانی وظائف خودی کے لیے آلہ کار کی حیثیت رکھتے ہیں: قالب از ما شدما نے ازو ساغر از مے شدنے مے ازو ٭٭٭ یہ عالم یہ بت خانہ شش جہات اسی نے تراشا ہے یہ سومنات چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے اسی کے بیاباں، اسی کے ہول اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ہیں پھول ٭٭٭ پیکر ہستی ز آثار خودیست ہرچہ مے بینی ز اسرار خودیست خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد اسرار خودی:13-12 شعور اور حیات کو مادے پر متقدم سمجھنا صرف اقبال ہی کا حصہ نہیں بلکہ تاریخ فلسفہ میں ہمیں کئی ایسے فلاسفر ملتے ہیں جو مختلف دلائل سے شعور کی اولیت اور اساسیت کو ثابت کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو باب نمبر4) فلاسفہ کے علاوہ ہمیں بعض سائنسدان بھی ملتے ہیں جو اپنی تحقیقات کی رو سے کائنات کی اصل کو روحانی نوعیت کا سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: قدیم سائنسدانوں میں سے بائل (Boyle) 1627-1691ء نے کہا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب محرک مادہ کو اپنی جگہ پر چھوڑ دیا جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس سے انسانوں اور حیوانوں کے مکمل اجسام ایسے حیرت انگیز موجودات یا اس سے بھی زیادہ محیرا العقول وہ اجزائے مادہ جو زندہ حیوانات کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں خود بخود وجود میں آ جائیں۔ چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے وہ قدرت کے اندر ایک تعمیر کنندہ روح یا قوت شعور کا ہونا ضروری قرار دیتا تھا لیکن انیسویں صدی میں صرف لارڈ کیلون (Kalvin) (1824-1905ئ) ہی ایک ایسا سائنسدان ہے جس کی ذہانت نے اسے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ قدرت شعور کے اوصاف سے بے بہرہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ کائنات کے اندر ایک تخلیقی اور راہنما قوت بھی کار فرما ہے۔ تاہم فلسفہ جو سائنس کی طرح جزوری یا محدود واقفیت پر کبھی قانع نہیں ہوا اور جو تلاش حق میں وجدان کی راہنمائی سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتا رہا ہے کہ عقدہ کائنات کا معقول اور مکمل حل جس کے لیے انسان فطری طور پر بے تاب ہے، اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نظام عالم میں شعور کو ایک مرکزی حیثیت نہ دی جائے۔ قرون وسطیٰ کی اور پائی حکمت کا مقصد تو عیسائیت کی عقلی توجیہ کے سوا اور کچھ نہ تھا لیکن شعور جیسا کہ وہ انسان اور کائنات کے اندر موجود ہے نہ صرف قرون وسطیٰ کے فلسفے کا بلکہ عصر جدید کے ان بڑے بڑے فلسفیانہ نظریات کا بھی واحد موضوع رہا ہے جو ڈیکارٹ الائینبز، شوپن ہار، نٹشے، کانٹ، اسپنوزا، ہیگل، فٹشے، کروچے اور برگساں ایسے مقتدار فلسفیوں نے پیش کیے ہیں اور جن میں وہ خدا، روح، کائنات، حقیقت مطلقہ، تصور مطلق، قوت ارادہ کائنات، شعور ابدی، افراد حیات، خود شعوری، قوت حیات وغیرہ کی اصطلاحات سے تعبیر کیا ہے۔ 33؎ تیسرے باب میں ہم یہ تفصیل سے دیکھ آئے ہیں کہ اقبال کس طرح جدید علم کے تجزیہ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ حقیقت مطلقہ بابصر اور خلاق مشیت ہے اپنی اس تصوریت پسندی کا اعادہ وہ خودی کے بقائے دوام کی بحث میں بھی کرتا ہے۔ وہ ہلم ہاز (Helmholtz) کا حوالہ بھی اسی لیے دیتا ہے کہ شعور کی مستقل بالذات حیثیت کو ثابت کر سکے۔ ہلم ہاز نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ اعصابی ہیجانات کو شعور تک پہنچنے میں کچھ وقت صرف ہوتا ہے۔ نظام عصبی میں دو طرح کے اعصاب ہوتے ہیں۔ 1حسی اعصاب (Sensory Nerves) 2حرکی اعصاب (Motor Nerves) حسی اعصاب کوئی اطلاع لے کر ذہن تک جاتے ہیں اور حرکی اعصاب ذہن کا جاری کردہ حکم متعلقہ عضو تک لے جاتے ہیں۔ چونکہ ایک حسی اطلاع کے ذہن تک پہنچنے میں کچھ وقت صرف ہوتا ہے اس لیے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ذہن یا شعور محض احساسات سے عبارت نہیں بلکہ ان سے بالاتر اپنی ایک مستقل بالذات اور حکمران حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے باب میں ہم نے رسل کے نقطہ نظر سے تفصیلی بحث کی ہے۔ رسل کا یہ خیال تھا کہ ذہن نظام عصبی کے مختلف وظائف کا ہی نام ہے۔ جونہی نظام عصبی معدوم ہوتا ہے، ذہن بھی معدوم ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے سب سے بڑا اعتراض یہ کیا تھا کہ بعض نفسی بیماریوں میں ذہن صحت مند نہیں رہتا، حالانکہ جسمانی اور عصبی نظام میں کوئی فرق نہیں آتا۔ یعنی اگر ذہن کا انحصار عصبی نظام پر ہے تو ہم ان بیماریوں کی تشریح کیسے کریں گے جو خالصتہً ذہنی ہیں اور بغیر کسی جسمانی اور عصبی سقم کے کسی نفسی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں؟ ہلم ہاز کے نظریہ سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ عصبی ہیجانات اور ذہن ایک حقیقت نہیں بلکہ ذہن ان سے ماورا اور مستقل بالذات حیثیت کا حامل ہے 34؎ زمان و مکان کے بارے میں جو نظریہ ہم نے وضع کر رکھا ہے وہ اسی عصبی نظام پر منحصر ہے۔ چنانچہ جب یہ نظام عصبی بے کار اور معطل ہو جائے گا یعنی عضویہ ہلاکت کا شکار ہو جائے گا تو شعور یا خودی کسی اور عالم زمان و مکان میں سرگرم عمل ہو گی۔ اقبال کے خیال میں یہ ضروری نہیں کہ موت کے بعد یعنی موجودہ عضویاتی اور عصبی نظام کی ہلاکت کے بعد ہی خودی کی زمان و مکان کے بارے میں روش بدلے۔ اس کے نزدیک صوفیانہ واردات خودی کے کسی اور عالم زمان و مکان کے تجربات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس میں عضویہ اپنے تمام تر نظام عصبی کے ساتھ برقرار رہتا ہے۔ اقبال معراج نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اسی طرح کی شعوری تبدیلی سمجھتا ہے: از شعور است ایں، کہ گوئی نزد و دور چیست معراج انقلاب اندر شعور جاوید نامہ:24 صوفیانہ واردات اور حق تعالیٰ سے ملاقات تو صوفیاء اور انبیاء کا حصہ ہے۔ عام آدمی اسی طرح کی شعوری تبدیلی کا اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن عام آدمی ہر رات بحالت خواب اپنے شعور کے اندر نوعی تبدیلیوں کا بذات خود تجربہ کرتا ہے، خواب کی حالت میں زمان و مکان کے پیمانے بدل جاتے ہیں اسی عصبی نظام کے ہوتے ہوئے جس سے عالم بیداری کے پیمانہ ہائے زمان و مکان مشروط ہیں، انسان کسی اور عالم میں زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ 34؎ موت کے قریب انسانی حافظہ میں حیرت انگیز اضافہ ہو جاتا ہے۔ پہلے باب کے آخر میں ہم نے قریب المرگ لوگوں کے تجربات بیان کیے ہیں جنہیں موت کے تھوڑی دیر بعد مصنوعی تنفس سے کچھ دیر کے لیے زندہ کر دیا گیا تھا۔ یہ سب تجربات اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ شعور نظام عصبی یا اعمال مادی کا رہین منت نہیں بلکہ اپنی مستقل بالذات حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کے خیال میںانسان کی بعث ثانیہ خارج سے وارد ہونے والا کوئی واقعہ نہیں بلکہ حیاتیاتی ارتقا کی ہی ایک منزل ہے۔ اس خیال کا محرک قرآن کی متعدد ایسی آیات ہیں جن سے انسان کے ارتقائی مراحل کے بارے میں اشارات ملتے ہیں مثلاً: ’’ اور انسان یوں کہتا ہے کہ جب میں مر جاؤں گا تو کیا پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا۔ کیا انسان اس بات کو نہیں سمجھتا کہ ہم اس کو اس سے قبل وجود میں لا چکے ہیں اور وہ (جبکہ) کچھ بھی نہ تھا۔‘‘ 67-66:19 ’’ ہم نے تم کو پیدا کیا ہے تو پھر تم تصدیق کیوں نہیں کرتے۔ اچھا پھر یہ بتلاؤ جو منی تم پہنچاتے ہو، اس کو تم آدمی بناتے ہو یا ہم بنانے والے ہیں ہم نے تمہارے درمیان موت کو ٹھہرا رکھا ہے اور اس سے ہم عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری جگہ تو اور تم جیسے پیدا کر دیں اور تم کو ایسی صورت میں بنا دیں جن کو تم جانتے بھی نہیں۔ اور تم کو اول پیدائش کا علم حاصل ہے۔ پھر تم کیوں نہیں سمجھتے؟‘‘ 62-57:56 مندرجہ بالا آیات کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات قرآن میں مل جاتی ہیں جن سے انسان کی توجہ حقائق ارتقا کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے مختلف علوم کی تدوین کا کام شروع کیا تو تاریخ موجودات یا تاریخ طبعی (Natural History) سے غافل نہ رہے۔ سید حسین نصر نے مسلمانوں کی حیاتیاتی تحقیقات کا آغاز کیا تو ان کے پیش نظر جدید حیاتیاتی علوم کی طرح فطرت کا تحلیلی اور قدرتی مطالعہ (Analytic & Qualitative Study) نہ تھا بلکہ وہ مظاہر قدرت کے پردۂ کثرت کے پیچھے وحدت مطلقہ تک پہنچنا چاہتے تھے 36؎ وہ مظاہر قدرت کا مطالعہ اس لیے کرتے تھے کہ انہیں ان میں حکمت الٰہیہ کے آثار ملتے تھے۔ اس طرح مسلمان مفکرین کو ایک طرف خود قرآن سے مطالعہ قدرت کے اشارات ملے تو دوسری طرف انہیں اس کی ضرورت الٰہیاتی بحثوں میں بھی محسوس ہوئی۔ 6 تاریخ طبعی اور حیاتیات کے بارے میں مسلمانوں کی تحقیقات کا مقصد محض علمی اور نظری نہ تھا انہوں نے موجودات فطرت کے مطالعہ کے لیے تحریک اور حوصلہ افزائی خود قرآن سے حاصل کی لیکن ان کی تحقیقات علمی اور فکری لحاظ سے اتنی اہم ثابت ہوئیں کہ ان کے اثرات صدیوں تک پھیل گئے۔ اقبال نے صرف ایک جملے میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے اگر وہ خطبات کی بجائے باقاعدہ ایک کتاب لکھتا تو شاید اس موضوع پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالتا۔ پھر بھی اس نے مختصراً جاحظ، اخوان الصفا، ابن مسکویہ اور رومی کے نظریات ارتقاء کا ذکر کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ حیاتیاتی تحقیقات کو نہ صرف علمی لحاظ سے بلکہ مذہبی اور روحانی لحاظ سے بھی نہایت ضروری خیال کرتا ہے۔ مسلمانوں نے اس میدان میں کیا کیا تحقیقات کیں؟ اور ان کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچے؟ یہ سوالات بجائے خود مستقل اور جداگانہ تحقیق کے متقاضی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں اقبال کے مختصر بیان کا ہم قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں: تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی تاریخ طبعی کی تحقیقی روایت کا آغاز پہلی صدی ہجری سے ہی ہو جات اہے اور ساتویں صدی ہجری (تیرھویں صدی عیسوی) تک یہ مسلسل پھیلتی پھولتی ہے۔ ساتویں صدی ہجری کے بعد اس کے اثرات لاطینی مسیحی دنیا پر پھیل گئے اور کوئی بھی اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ البرٹس میگنس (Albertus Magnus) روجز بیکن (Roger Bacon) پیراسلس (Paracelsus) اور ایگریپا (Agrippa) کے نظریات کی آبیاری اسی فکری روایت نے کی! اس سارے دور میں مسلمانوں نے حیاتیات کے میدان میں ہندوستان اور ایران کی علمی کاوشوں سے بھرپور استفادہ کیا اور حیاتیات کا ایک ایسا باقاعدہ اور مربوط علم مدون کیا جو (بالا ستثنا ارسطو کی حیاتیات) ماضی کی تمام حیاتیاتی تحقیقات سے اعلیٰ و ارفع تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا ہے، مسلمان مفکرین کی کوشش یہ تھی کہ قرآن نے جن حقائق کی طرف سرسری لیکن بلیغ اشارے کیے ہیں ان کی کنہ کا پتہ چلایا جائے، انفس و آفاق میں خدا کی ’’نشانیوں‘‘ کو ڈھونڈا جائے اور مظاہر قدرت کے تعدد و تکثر کے پیچھے حکمت الٰہیہ اور وحدت مطلقہ کا سراغ لگایا جائے۔ اس طرح ایک خالصتہً روحانی اور مذہبی محرک نے انہیں سائنسی تحقیق کے راستے پر گامزن کر دیا۔ اسلام میں طبعی تاریخ پر لکھی جانے والی کتب کو کئی زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں پہلی قسم ان کتب کی ہے جو تاریخی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں۔ مثلاً الطبری اور ابن مسکویہ کی تصانیف! دوسری قسم وہ ہے جس میں تاریخ اور سائنس کو لما دیا گیا ہے مثلاً سیوطی اور البرونی کی کتب۔ ایک قسم وہ ہے جو بنیادی طور پر جغرافیہ کی کتب ہیں لیکن ان میں حیاتیاتی مسائل سے بھی بحث کی گئی ہے مثلا! الارویسی کی تصانیف! ان کے علاوہ ہمیں حیاتیاتی مسائل کا تذکرہ ایسی کتابوں میں بھی ملتا ہے جنہیں ہم ’’ قسمو غزافیہ‘‘ یا کائنات نامہ (Cosmopraphy) کہہ سکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال ابو یحیٰی قزوینی کی کتاب ’’ عجائب المخلوقات‘‘ ہے۔ اس میں اگرچہ دیو مالائی زبان استعمال کی گئی ہے تاہم بعض امور اور حقائق کی وضاحت براہ راست مشاہدے اور تجربے سے کی گئی ہے۔ 38؎ مزید برآں ’’ کلیلہ و منہ‘‘ سعدی کی ’’ گلستان بوستان‘‘ فردوسی کے ’’ شاہنامے‘‘ اور فرید الدین عطار کی ’’ منطق الطیر‘‘ بھی قابل ذکر ہیں جن میں اخلاقی اور روحانی معاملات پر روشنی ڈالنے کے لئے نباتات و حیوانات کی حکایات کا سہارا لیا گیا ہے۔ ایسی کتابوں کے علاوہ بعض ایسے رسائل ملتے ہیں جو خاص طور پر حیاتیاتی تحقیق اور تاریخ طبعی کے نقطہ نظر سے لکھے گئے۔ ان میں ابن وحشیہ کی ’’ نباتی زراعت‘‘ ابن عوام کی ’’ کتاب الزراعت‘‘ الحاحظ کی ’’ کتاب الحیوان‘‘ اس لیے خصوصیت کی حامل ہیں کہ ان میں مذہبی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ سائنسی طریقہ کار کو بھی اپنایا گیا ہے۔ الجاحظ مشہور معتزلی تھا اور اس نے تیسری صدی ہجری (نویں صدی عیسوی) میں اپنی مشہور کتاب ’’ کتاب الحیوان‘‘ لکھی تھی یہ کتاب نہ صرف عربی ادب میں منظر مقام رکھتی ہے بلکہ اس میں حیوانات کی زندگی اور ان کی انواع کی تشریح قصوں، کہانیوں اور مذہبی بحثوں کے حوالے سے کی گئی ہے اور جا بجا عربی شاعری کی مثالیں دی گئی ہیں۔ اس طرح اس کتاب کے مآخذ قرآن، حدیث اور عربی شاعری (بالخصوص ما قبل اسلام عربی شاعری) ہیں۔ دور جاہلیت کی شاعری میں جاحظ کو جانوروں کے بارے میں کئی ایسے حقائق اور معلومات ملتی ہیں جن کو بنیاد بنا کر وہ یونانی فلاسفہ کے نظریات کے خلاف استدلال کرتا ہے لیکن جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، الجاحظ کی حیاتیاتی تحقیقات کا محرک خالصتہ فکری اور علمی نہ تھا وہ حیوانات کے تذکرے سے اخلاقی نتائج اخذ کرتا تھا لیکن اس نے حیوانات کے بارے میں اخلاقی اور مذہبی بحثوں کے دوران ضمناً ان تغیرات کی طرف بھی اشارہ کیا جو جانوروں کے اندر نقل مکانی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ 29؎ الجاحظ کے بعد ہمیں متعدد ایسے مفکرین مل جاتے ہیں جنہوں نے حیاتیات میں قابل قدر تحقیقات کیں لیکن قدیم اسلامی لٹریچر میں حیوانات پر مکمل ترین کتاب کمال الدین دامیری کی ’’حیات الحیوان ‘‘ ہے یہ کتاب الجاحظ کی ’’ کتاب الحیوان‘‘ سے تقریباً پانچ سو سال بعد لکھی گئی ۔ اس میں جانوروں کی جبلات اور ان کی نفسیات پر بحث کی گئی ہے اور ان کے انسان کے لیے طبی و روحانی فوائد پر روشنی ڈالی گئی ہے دامیری نے علمی لحاظ سے جو بہت اہم کام کیا وہ حیوانات کی حروف تہجی کے اعتبار سے جماعت بندی اور ارسطو کی تعلیمات کی روشنی میں ان کی تشریح ہے۔ اس ضمن میں وہ الجاحظ کی طرح اپنی تشریحات کی توثیق قرآن، حدیث اور عربی شاعری سے بھی کرتا ہے۔ الجاحظ کی کتاب الحیوان میں پائے جانے والے بعض اشارات کو ’’ اخوان الصفا‘‘ نے اپنی تحقیقات کی بنیاد بنایا۔ اخوان الصفا کے نزدیک ہماری دنیا تین اقالیم سے تشکیل پاتی ہے۔ اقلیم جمادات۔۔۔۔ اقلیم نباتات اور اقلیم حیوانات! ان تینوں اقالیم میں ارتقاء کا اصول کار فرما ہے۔ نچلی اقلیم کی انتہا سے اوپر والی اقلیم کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس طرح یہ پتہ چلتا ہے کہ اقلیم جمادات، نباتی اور حیوانی زندگی سے بہت پہلے وجود میں آ چکی تھی اور حیوانات کے شہود پذیر ہونے سے بہت پہلے نباتات وجود پذیر ہو چکے تھے۔ خشکی کے جانوروں سے پہلے سمندری جانور معرض وجود میں آ چکے تھے اور انسان کی منزل تک پہنچنے سے بہت پہلے تمام انواع حیات کرہ ارض پر پھیل چکی تھیں۔ اخوان الصفا کے رسائل میں انسانوں اور ترقی یافتہ حیوانوں کے مابین بندریا بن مانس (Ape) کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اخوان الصفا نہ صرف حیوانی ارتقا کی بات کرتے ہیں بلکہ وہ روحانی ارتقا پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ روحانی ارتقا میں بچے کی روح ارتقا کی منازل طے کرتی ہوئی فرشتے کی روح بن جاتی ہے۔ پچاس برس کی عمر میں انسان اتنی ذہنی اور روحانی بلوغت حاصل کر لیتا ہے کہ اس کا تعلق عقل فعال سے قائم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ قوانین او رنظریات کو وضع کرنے کا اہل بن جاتا ہے۔ اس کا یہ مقام نیابت الٰہی کا مقام ہے۔ 40؎ ابن مسکویہ کا نظریہ ارتقا اخوان الصاف کے نظریہ ارتقا کی ہی ایک شکل ہے؟ ’’ ہستی کے ابتدائی آثار جمادات میں نمودار ہوتے ہیں جو بنیادی عناصر سے مرکب ہیں۔ یہ آثار لاشعوری ہوتے ہیں۔ اس سے بالاتر سطح نباتات کی ہے جن میں نشوونما، افزائش اور مختلف مہیجات مثلاً روشنی، ہوا اور پانی وغیرہ کے رد عمل کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جھاڑیاں، خود رو گھاس پہلی سیڑھی ہیں جبکہ پودے جو پتے، شاخیں اور تنے اور پھل پھول رکھتے ہیں، دوسری سیڑھی ہیں۔ بعد میں پودے ایسی شکل اختیار کر لیتے ہیں جن کے لیے نہ صرف یہ کہ بیجوں کے تحفظ اور کاشت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے بلکہ ان کی مکمل نگہداشت کرنا پڑتی ہے۔۔۔۔ نباتات کا آخری درجہ کھجور سے ظاہر ہوتا ہے جس میں جنس کا امتیاز پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ حیوانی سطح سے ملحق درجہ ہے۔ مادہ کھجور اس وقت تک پھل نہیں دیتی جب تک نر کھجور کے ساتھ باقاعدہ اختلاط نہ ہو۔ یہاں سے ایک اور بالاتر سطح کا آغاز ہوتا ہے اور وہ ہے حوانی سطح، جہاں پہنچ کر حسی علم، اشتہا اور حرکت کے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ رینگنے والے کیڑے مکوڑے حیوانی سطح کا اولین مرحلہ ہیں۔ وہ پودوں سے قریب تر ہوتے ہیں۔ ذرا سی بھی رکاوٹ آئے تو فوراً زمین سے چمٹ جاتے ہیں۔ (زمین گیری) Earthrootedness پودوں کا مابہ الامتیاز ہے) دوسرے مرحلے پر حیوانی زندگی میں زیادہ آزادی اور لمس کی تیز تر قوت ظاہر ہو جاتی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ دوسرے حواس اجاگر ہونے لگتے ہیں۔ حیوانوں میں افزانش نسل اور تحفظ ذات کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تحفظ ذات کے ہتھیاروں کے طور پر سینگ، ناخن اور دانت وغیرہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ جن کے ہاں یہ ہتھیار نہ ہوں ان میں چھپ جانے، تیز دوڑنے یا چالبازی کے ساتھ اپنے آپ کو بچا لینے کے رحجانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ کچھ جانور آموزش کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ بندروں میں حیوانی زندگی بہت زیادہ ترقی یافتہ شکل میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ وہ انسانوں سے بہت زیادہ مشابہتیں رکھتے ہیں۔‘‘ 41؎ ابن مسکویہ بھی اخوان الصفا کی طرح یہ کہتا ہے کہ ایک جمادات کی اقلیم ہے جس کا اعلیٰ ترین درجہ مرجان (Coral) ہے۔ دوسری اقلیم نباتات ہے جس کی انتہائی منزل کھجور ہے۔ تیسری اقلیم حیوانات ہے جس کی برترین صورت بندر ہے چوتھی اقلیم انسانوں کی ہے۔ انسانوں میں ارتقا کی آخری منزل پیغمبر کی ذات ہوتی ہے جس میں دائرہ ہستی مکمل ہو جاتا ہے کیونکہ پیغمبر کی ذات مجسم رضائے الٰہی ہوتی ہے۔ قدیم مسلمان حکما کے حیاتیاتی نظریات اگرچہ مذہبی اور روحانی نوعیت کے تھے لیکن ان کے بعض پہلو سائنسی اور تجربی بھی تھے۔ جہاں ان کی حیاتیاتی تحقیقات کی اخلاقی و روحانی اہمیت ثابت شدہ ہے۔ وہیں ان کے تجربات و مشاہدات کی علمی و سائنسی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ البیرونی، اخوان الصفا اور دیگر کئی مسلمان محققین متحجر آثار (Fossils) کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اور اس امر سے بھی وہ واقفیت رکھتے تھے کہ کرۂ ارض پر مختلف ادوار گذرے ہیں ان میں ایک مختلف قسم کا نباتیہ و حیوانیہ (Flora and Funna) کا دور بھی گذر چکا ہے۔ 42؎ ارتقائی عمل کے مختلف درجات کے بارے میں مختلف حکماء اور صوفیاء کے مختلف نظریات ہیں۔ مشائی فلاسفہ (Peripatetics) ارسطو کی طرح متعین کروں (Fixed Spheres) کی درجہ بندی کے قائل ہیں۔ اشراقی حکماء ان درجات کائنات کا تعلق افلاطون کی طرح اعیان ثابتہ سے استوار کرتے ہیں۔ ابن عربی اور ان کے مقلدین کے نزدیک کائنات الوہی صداقت (الحق) کی تجلی (Theophany) ہے۔ جس کے تجدد کا عمل ہر لحظہ جاری ہے۔ یعنی کائنات ہر لمحہ معدوم ہو جاتی ہے اور پھر اس کی تخلیق نو ہوتی ہے۔ لیکن ایک مکتب فکر ایسا بھی ہے جو ہستی کے مسلسل اور بتدریج ارتقاء کا علمبردار ہے 42؎ الجاحظ، اخوان الصفا، ابن سکویہ اور مولانا جلال الدین رومی (قطع نظر دیگر نظریات کے اختلافات کے) سب اس بات کے قائل ہیں کہ ارتقا کا عمل کائنات کے ادنیٰ درجوں سے شروع ہوتا ہے اور بتدریج اعلیٰ سے اعلیٰ منازل کی طرف مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہ مکتب فکر جدید نظریہ ارتقا سے قریب تر ہے۔ اقبال بھی اسی مکتب فکر کا نمائندہ ہے۔ گذشتہ باب میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ رومی نے اسی نقطہ نظر کا اظہار ارتقا کے متعلق اپنے خوبصورت اشعار میں کیا ہے۔ کائنات کو مذہب میں ایک کارگاہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ متکلمین یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے اعمال کے لیے یہ ایک پس منظر کا کام دیتی ہے۔ فلسفی اسے حقیقت کے ایک وسیع تر نظام کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن تصوف میں کائنات کو ایک ایسی حقیقت سمجھا جاتا ہے جو کہ متعدد علامات پر مشتمل ہے اور ان علامات کا فہم خدا کی جانب جاری و ساری ارتقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ کائنات کی داخلی ماہیت کو سمجھنا جادہ طریقت پر چلنے والے کے لیے روحانی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مثنوی مولانا روم میں حیوانات اور نباتات کے تذکرے سے روحانی اور اخلاقی نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔ اقبال بھی اسی روایت کا اتباع کرتا ہے اور ارتقا کے عمل کو بلند سے بلند تر منازل کی طرف پیہم رواں دواں سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی شاعری میں جا بجا پودوں اور جانوروں کے تذکرے سے اخلاقی اور روحانی نتائج اخذ کرتا ہے۔ 44؎ 7 اب یہ بات وضاحت سے سامنے آ جاتی ہے کہ اقبال اپنے پیش رو مفکرین، جاحظ، ابن مسکویہ رومی وغیرہ کی طرح ایک مسلسل اور بتدریج عمل ارتقاء کا قائل ہے۔ مادہ کو وہ ’’ ادنیٰ خودیوں کی بستی‘‘ قرار دیتا ہے اور جب ان ادنیٰ خودیوں کا ’’ عمل و تعامل ایک خاص نسق پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے ایک اعلیٰ تر خودی کا ظہور ہوتا ہے وبالفاظ دیگر انسان کی آفرینش ایک طویل مادی ارتقاء کے بعد ہوتی ہے۔‘‘ ’’ اور رہی یہ بات کہ اعلیٰ کا صدور ادنیٰ سے ہوتا ہے (تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں) کیونکہ اس سے اعلیٰ کے مرتبے اور قدر و قیمت میں تو کوئی فرق نہیں آتا، کیونکہ یہاں اہم یہ بات نہیں کہ کسی چیز کی ابتدا کیونکر ہوئی، اہم بات یہ ہے کہ جس چیز کا ظہور ہوا اس کی صلاحیتیں کیا ہیں؟ معنی و مطلب کیا ہے؟ اور اس کی انتہا یعنی رسائی کہاں تک ہے؟‘‘ 45؎ اسی بات کا اظہار مندرجہ ذیل اشعار میں بھی ہوتا ہے: ولم بدوش و نگاہم بہ عبرت امروز شہید جلوۂ فردا و تازہ آئینم زتیرہ خاک دمیدم قبائے گل بستم وگرنہ اختر داماندہ ز پر دینم! پیام مشرق:83 ’’ میرا دل ماضی میں ہے اور میری نظر آج سے عبرت حاصل کرتی ہے۔ میں مستقبل کودیکھنے والا اور نئی رسم و روش رکھتا ہوں۔ میں تاریک مٹی سے نکلا ہوں (اسی لیے) پھول کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے وگرنہ میں تو ثریا سے پیچھے رہ جانے والا(بچھڑا ہوا) ستارہ ہوں‘‘ پیام مشرق ہی کی ایک رباعی ہے: ز آب و گل خدا خوش پیکرے ساخت جہانے از ارم زیباتر سے ساخت ولے ساقی بآہ آتش کہ دارد ز خاک من جہانے دیگرے ساخت پیام مشرق: رباعی15 ’’ پانی اور مٹی سے خدا نے کیا خوبصورت پیکر تراشا ہے۔ جنت سے زیادہ خوشنما دنیا بنائی لیکن ساقی نے اس آتش سے جو کہ وہ رکھتا ہے، میری خاک سے ایک اور ہی جہاں پیدا کر دیا۔‘‘ اقبال کا خیال ہے کہ حیات اگرچہ مادے سے پیدا ہوتی ہے تاہم یہ پھر اس میں واپس آ کر اپنی حیثیت نہیں کھو دے گی: ’’ لہٰذا اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حیات ذی روح کی اساس خالصتہً طبعی ہے، جب بھی یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کا ظہور ہوا ہے وہ پھر اسی چیز میں تحلیل ہو جائے گی۔ اس کے ظہور اور نشوونما کی شرط ٹھہری۔‘‘ 46؎ اگر مادی ارتقاء پر نظر ڈالی جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ آگے بڑھنے کا عمل مسلسل رواں دواں رہتا ہے۔ ایک درجہ ہستی کے بعد دوسرا درجہ ہستی آتا ہے۔ ساری کائنات مختلف درجوں کی اناؤں سے عبارت ہے جو ’’ انا‘‘ اپنے وجود اور اپنی ہستی کا جتنا وجدان رکھتی ہے، اسی اعتبار سے اس کا درجہ پست یا بلند ہوتا ہے۔ ایک ہی نغمہ خودی ہے جس کا آہنگ بتدریج بلند ہوتا جائے۔ ’’ یوں بھی ارتقائے حیات پر نظر رکھی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ شروع شروع میں تو اگرچہ طبعی کا نفسی پر غلبہ ہوتا ہے لیکن پھر جیسے جیسے نفس طاقت حاصل کرتا جاتا ہے طبعی پر چھاتا جاتا ہے اور اس لیے عین ممکن ہے کہ آخر الامر اس سے بالکل آزاد ہو جائے۔‘‘ 47؎ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ حیاتیاتی ارتقا کی منزل آخر انسان ہے اور اس کی موت کے ساتھ ہی قافلہ حیات جو ہزاروں لاکھوں سال سے اقلیم تا اقلیم سفر کرتا ہوا موجودہ سطح تک پہنچا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائے گا تو اس سے لازماً نا امیدی اور قنوطیت پیدا ہوتی ہے۔ جدید مادیت اور نظریات ارتقائے حیات بعد الموت کو خارج از مکان قرار دے کر بنی نوع انسان کے آگے ایک ایسی دیوار سیاہ کھڑی کر دی ہے جس کے پار دیکھنا نا ممکن ہے اور جس کی سیاہی نے لوگوں کے دلوں میں پھیل کران کی آرزوؤں، امنگوں اور حوصلوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موت کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا جائے اس سے ایک مخصوص طرز زندگی ابھرتا ہے۔ موت کے بارے میں کوئی عقیدہ یا نظریہ نہ صرف فرد کی انفرادی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ قوم کی اجتماعی زندگی کا رخ بھی اسی سے متعین ہوتا ہے۔ وہ شخص جویہ سمجھتا ہے کہ زندگی کے بلند آدرشوں، طوفان خیز جذبوں، کوہ صفت ارادوں اور ہزاروں لاکھوں برس کی انتھک سعی و جدوجہد کا موت پر کلی خاتمہ ہو جائے گا۔ لازماً قنوطیت کا شکار ہو جائے گا۔ چنانچہ اقبال کہتا ہے: ’’ عصر حاضر میں تو اس نظریے سے، زندگی کے بارے میں امید و وثوق اور ذوق و شوق کی بجائے مایوسی اور افسردگی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور نے بغیر کسی دلیل کے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہم انسان ارتقا کی جس منزل پر ہیں اسے نفسیاتی یا عضویاتی جس لحاظ سے بھی دیکھا جائے ہمارے ارتقا کی آخری منزل ہے۔ لہٰذا بحیثیت ایک حادثہ حیات کے موت میں کوئی تعمیری پہلو مضمر نہیں۔‘‘ 48؎ جدید مغربی تہذیب میں شوپنہار وہ فلسفی ہے جو قنوطیت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ چوتھے باب جز7میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ شوپنہار فرد کے شخصی بقائے دوام کا قائل نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ صرف نوع قائم رہتی ہے اور فرد مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جاتا ہے اس نظریہ کا لازمی نتیجہ قنوطیت پسندی ہے۔ا گر فرد کی اہمیت ہی نہیں اور مرنے کے بعد فرد صرف یاد ماضی بن کر رہ جاتا ہے تو پھر زندگی کے اندر کسی ولولے اور سرگرمی عمل کا جواز نہیں رہتا۔ نٹشے نے اس قنوطیت سے دامن بچانے کی کوشش کی اور مرد کامل کے انتظار میں امید کا دیا جلائے رکھا لیکن تکرار ابدی کی میکانگی گردش نے مرد کامل کو بھی ایک بوجھ بنا دیا۔ ایک ہی مرد کامل کے بار بار آتے رہنے سے زندگی کا سارا حسن اور تخلیقی ندرت ختم ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مرد کامل کا تصور بھی نٹشے کو سکون قلبی نہ دے سکا اور اس نے تین مرتبہ خود کشی کی ناکام کوشش کی لیکن اس کے باوجود اس کا رویہ تمام عمر رجائیت پسندانہ رہا اور وہ نا امیدی اور بے عملی کے خلاف جہاد فکری کرتا رہا۔ اقبال کو شوپنہار کے مقابلے میں اس کا یہی رویہ پسند ہے۔ چنانچہ وہ پیام مشرق: ص194میں ان دونوں کا تقابل اپنی نظم ’’ شوپنہار اور نٹشا‘‘ میں کرتا ہیـ: ’’ ایک پرندہ جو سیر چمن کے لیے اپنے آشیاں سے اڑتا ہے۔ اس کے سینے میں ایک نوکیلا کانٹا چبھ جات اہے۔ اپنے درد و کرب میں اسے لالے پر خون کے داغ نظر آتے ہیں۔ طلسم غنچہ میں فریب بہار نظر آتا ہے۔ اس کی فغاں سن کر ایک ہد ہد کو اس پر رحم آ جاتا ہے۔ اور وہ اپنی چونچ سے یہ کانٹا نکال دیتا ہے اور اسے نصیحت کرتا ہے کہ نقصان میں سے نفع پیدا ہوتا ہے اور شگاف گل سے زر ناب نکلتا ہے۔ یعنی راحت، رنج کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے مصائب اور آلام کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘ پرندے کا رویہ شوپنہار کا رویہ ہے اور ہد ہد کا رویہ نٹشے کا رویہ ہے۔ شوپن ہار کو دنیا میں مصائب اور آلام ہی نظر آتے ہیں اور وہ اپنی قنوطیت میں رنگ گل کو خون کے چھینٹے سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس نٹشے سخت کوشی اور آگے بڑھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اقبال نٹشے کی تعریف کرتا ہے اور اس کے خیالات سے کافی حد تک متاثر بھی ہے۔ تاہم وہ اس کے فلسفے سے مطمئن نہیں۔ اسی لیے وہ اس کے دماغ کو کافر اور دل کو مومن قرار دیتا ہے۔ نٹشے کی مثال اس شخص جیسی ہے جو پیاس سے بے تاب سفر کرتا ہوا دریا کے کنارے تک تو پہنچ گیا لیکن اس کی آنکھیں آب رواں کا نظارہ نہ کر سکیں اور وہ اپنی پیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کر ختم ہو گیا۔ اسی لیے اقبال نے یہ کہا کہ اگر وہ مجذوب فرنگی اس کے دور میں ہوتا تو وہ اسے ’’ کبریائی‘‘ کے اسرار سمجھاتا۔ نٹشے کے فلسفے پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے کے بعد وہ رومی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ رومی اقبال کو حیات کے مسلسل ارتقا کا درس دیتے ہیں اور شخصی بقائے دوام کا نکتہ سمجھاتے ہیں۔ موت اس زندگی کا ثمر ہے۔ 49؎ اور زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز موت سے ہی ہوتا ہے جس میں انسان کا سفر روحانی انوار الٰہی کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے ارتقائی عمل مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی رومی کے نظریہ بقائے روح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ بہرحال جب یہ ثابت ہوا کہ انسان پہلے جماد تھا۔جمادیت کے فنا ہونے کے بعد نبات ہوا۔ نبائیت کے فنا ہونے کے بعد حیوان، تو اس میں کوئی استبعاد نہیں معلوم ہوتا کہ یہ حالت بھی فنا ہو کر کوئی اور عمدہ حالت پیدا ہو اور اسی کا نام دوسری زندگی یا معاد یا قیامت ہے۔ کسی چیز کے فنا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ وہ سرے سے معدوم ہو جائے بلکہ ایکا دنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف ترقی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ صورت فنا ہو جائے۔ مولانا نے نہایت تفصیل اور بسط سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے کہ ترقی کے عجیب و غریب مدارج کے لیے فنا اور نیستی ضروری ہے۔‘‘ 50؎ اس ضمن میں رومی کے استدلال کو ہم شبلی کے ترجمے کے ساتھ ہی ذیل میں پیش کرتے ہیں: تو ازاں روزے کہ ہست آمدی تم جس دن سے کہ وجود میں آئے آتشی یا خاک یا بادی بدی پہلے آگ یا خاک یا ہوا تھے گر بداں حالت ترا بودے بقا اگر تمہاری وہی حالت قائم رہتی کے ترا رسیدے مر ترا ایں ارتقا تو یہ ترقی کیوں کر نصیب ہو سکتی از مبدل ہستی اول نماند بدلنے والے نے پہلی ہستی بدل دی ہستی دیگر بجائے او نشاند اور اس کی جگہ دوسری ہستی قائم کر دی ہمچنیں تاصد ہزاراں ہست ہا اسی طرح ہزاروں ہستیاں بدلتی چلی جائینگی بعد یک دیگر، دوم بہ زابتدا یکے بعد دیگرے اور پچھلی پہلی سے بہتر ہو گی ایں بقاع از فناع یافتے یہ بقا تم نے فنا کے بعد حاصل کی ہے از فنا پس رو چرا بر تافتے پھر فنا سے جی کیوں چراتے ہو؟ زیں فناع چہ زیاں بودت کہ تا ان فناؤں سے تم کو کیا نقصان پہنچا بر بقا چپیدۂ اے بے نوا جو اب بقا سے چمٹے جاتے ہو چوں دوم از اولیت بہتر است جب دوسری ہستی پہلی ہستی سے بہتر ہے پس فنا جوئے مبذل را پرست تو فنا کو ڈھونڈو اور انقلاب کنندہ کو پوجو صد ہزاراں حشر دیدی اسے غنود تم سینکڑوں قسم کے حشر دیکھ چکے تاکنوں ہر لحظہ از بدو وجود ابتدائے وجود سے اس وقت تک از جمادی بے خبر سوئے نما پہلے تم جماد تھے پھر تم میں قوت نمو پیدا ہوئی وز نما سوئے حیات و ابتلا پھر تم میں جان آئی باز سوئے عقل و تمیزات خویش پھر عقل و تمیز باز سوئے خارج ایں پنج و شش پھر حواس خمسہ کے علاوہ اور حواص حاصل ہوئے در فناع ایں بقاع دیدۂ جب فناؤں میں تم نے یہ بقائیں دیکھیں بر بقائے جسم چوں چنیدہ تو جسم کے بقا پر کیوں جان دیتے ہو؟ تازہ می گیرد کہن رامے سپار نیا لو اور پرانا چھوڑ دو کہ ہر امسالت فزونست از سہ پار کیونکہ تمہارا ہر سال پار سال سے اچھا ہے 51؎ فنا و بقا کے بارے میں رومی کا یہ نظریہ ایک طرف حیاتیاتی ارتقا کے گہرے مشاہدے پر مبنی ہے تو دوسری طرف مشہور صوفیانہ ضرب المثل موتو قبل ان تموتوا (اپنی موت سے پہلے مر جاؤ) کی نہایت موثر تشریح و توضیح ہے۔ اس میں فنا یا موت ایک طرح کی قلب ماہیت (Metamorphosis) کی حیثیت رکھتی ہے۔ موت یا فنا کو وہ دور کا واقعہ نہیں سمجھتے بلکہ ان کے خیال میں یہ ہر آن وقوع پذیر ہو رہی ہے اور ہر آن تخلیق نو ہو رہی ہے رومی کے اس نظریہ کو تجدد امثال کہا جاتا ہے۔ شبلی اس کی تشریح یوں کرتے ہیں: ’’ تحقیقات جدیدہ سے ثابت ہوا ہے کہ جسم کے اجزاء نہایت جلد فنا ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے اجزا آ جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک مدت کے بعد انسان کے جسم میں سابق کا ایک ذرہ بھی باقی نہیں رہتا، بلکہ بالکل ایک نیا جسم پیدا ہوتا ہے لیکن چونکہ فوراً پرانے اجزاء کی جگہ نئے اجزاء قائم ہو جاتے ہیں، اس لیے کسی جسم کا فنا ہونا محسوس نہیں ہوتا53؎‘‘ رومی کہتے ہیں: پس ترا ہر لحظہ مرگ و رجعتے است مصطفیٰ فرمود دنیا ساعتے است ہر نفس نومے شود دنیا وما بے خبر از نوشدن اندر بقا عمر ہمچوں جوئے نو نومی رسد مستمرے می نماید در جسد شاخ آتش رابہ جنبانی بساز در نظر آتش نماید بس دراز ’’ ہر لحظہ تیری موت اور واپسی ہے۔ اسی لیے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا ایک ساعت ہے۔ ہر سانس میں نئی دنیا بن رہی ہے۔ ہم اس کے نئے بننے سے بے خبر ہیں۔ زندگی نہر کے پانی کی طرح نئی نئی آتی رہتی ہے۔ بدن میں مسلسل نظر آتی ہے۔ جلتی لکڑی کو تیزی سے گھماؤ تو دیکھنے میں ایک لمبی لکیر نظر آئے گی۔‘‘ حیات انسانی کی بھی یہی ایک صورت ہے۔ ہر لحظہ فنا و بقا، مرگ و رجعت کا عمل جاری ہے 54؎ لیکن یہ تبدل و تجدد اس قدر سرعت کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے کہ حیات مستقل و مستمر محسوس ہوتی ہے نہر کے پانی کی سطح مستقل نظر آتی ہے لیکن دراصل یہ ہر لحظہ بدل رہی ہے۔ جلتی ہوئی لکڑی کو اگر تیزی سے گھمایا جائے تو شعلہ ایک دائرے کی شکل میں نظر آئے گا در آنحالیکہ وہ شعلہ دائرے میں ہر لحظہ اپنی جگہ بدل رہا ہے مگر ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے۔ رومی کے نظریہ ارتقا و تجدد امثال سے وہ خوف ختم ہو جاتا ہے جو کہ موت کو فنائے محض اور خاتمہ کلی سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ عالمی جنگوں کی ہولناکیوں نے مغربی ذہن کو موت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ فکری تحریک جو وجودیت کے نام سے مشہور ہوئی، موت کے بارے میں ایک مخصوص رویہ کی بنا پر وجود میں آئی۔ وجودیت میں موت کو ایک نا قابل انکار اور ناگزیر حقیقت تسلیم کیا جاتا ہے جو کہ حیات و وجود کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع کر دیتی ہے موت کو اس حیثیت میں قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی حیات اور وجود کو جس حد تک ہو سکے مصدق (Authentic) بنانے کی کوشش کی جائے لیکن موت کو کلی خاتمہ سمجھنے کا لازمی نتیجہ مایوسی اور نا امیدی ہے۔ چنانچہ وجودیت کا تمام تر جھکاؤ قنوطیت کی طرف ہے۔ 55؎ یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا آخرت کی زندگی میں بھی ارتقا کے جاری رہنے کا جواز قرآن سے ملتا ہے یا نہیں؟ پانچویں باب: جز نمبر1میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ قرآن کی بعض آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جنت میں ارتقاک نہیں جائے گا بلکہ وہاں بھی بلند تر مقامات ہوں گے (30:39) جن کے حصول کی ساکنان جنت خواہش کریں گے۔ مزید براں آخرت کی زندگی میں جنت کی طرف جاتے ہوئے ایک نور مومنین کے دائیں طرف اور آگے آگے دوڑ رہا ہو گا۔۔۔۔۔ اور وہ اس نور کی تکمیل کی دعا کریں گے۔ (8:66) مزید براں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنت میں مومنین کی ہر خواہش پوری ہو گی۔ اب تکمیل ذات اور آگے بڑھنے کی بھی ایک فطری خواہش انسان کے اندر موجود ہے۔ اگر دیگر خواہشات موجود رہیں گی تو یہ خواہش بھی قائم رہے گی۔ چنانچہ اس کی تکمیل کے بھی پورے مواقع میسر ہوں گے۔ البتہ اس ارتقائی سعی و جدوجہد میں تھکاوٹ اور در ماندگی نہیں ہو گی۔ بلکہ روحانی مسرت شامل ہو گی۔ اگر موت کے بارے میں ایسا نقطہ نظر اپنایا جائے تو دلوں میں پژ مردگی اور قنوطیت کی بجائے امید اور عزم کی شمع روشن ہوتی ہے یہ وہ کام ہے جو رومی کے افکار کی تجدید و تشریح سے بدرجہ احسن ہو سکتا ہے رومی کے خیالات کے دوبارہ تذکرے سے ہمارا مقصد بھی یہی ہے کہ رومی کا پیغام وضاحت کے ساتھ سامنے آ جائے۔ اقبال عصر حاضر کی روحانی بیماریوں کا علاج رومی کے اسی پیغام میں پاتا ہے۔ اب اس کے ان الفاظ پر غور کیا جائے تو ان کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے: ’’ دراصل عصر حاضر کو آج ایک رومی کی ضرورت ہے جو دلوں کی زندگی، امید اور ذوق و شوق کے جذبات سے معمور کر دے‘‘ 56؎ رومی کے افکار نے اقبال کی فکری ساخت پر نہایت گہرے اثرات چھوڑے چنانچہ ہمیں ان کی صدائے باز گشت اقبال کے اشعار میں سنائی دیتی ہے: ازاں مرگ کہ می آید چہ باک است خودی چوں پختہ شد از مرگ پاک است گلشن راز جدید: سول6 کھول کے کیا کروں بیاں سر مقام مرگ و عشق عشق ہے مرگ با شرف، مرگ حیات بے شرف بال جبریل:39 فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے ضرب کلیم:65 دل من راز دان جسم و جان است نہ پنداری اجل برمن گران است چہ غم گریک جہاں گم شدن چشمم ہنوز اندر ضمیرم صد جہان است پیام مشرق:62 دلت می لرزد از اندیشہ مرگ زبیمش زرد مانند وزیری بخود باز آخودی را پختہ تر گیر اگر گیری پس از مردن نمیری پیام مشرق:41 زندگانی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خودی وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے ضرب کلیم:31 یہ نکتہ سیکھا میں نے بو الحسن سے کہ جاں مرتی نہیں مرگ بدن سے چمک سورج میں کیا باقی رہے گی؟ اگر بیزار ہو اپنی کرن سے بال جبریل:379 موت تجدید مذاق زندگیکا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا ایک پیغام ہے جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں بانگ درا:236-235 جنت ملا مے و حور و غلام جنت آزادگاں سیر دوام جنت ملا خود و خواب و سرود جنت عاشق تماشائے وجود حشر ملا شق قبر و بانگ صور عشق شور انگیز خود صبح نشور جاوید نامہ:120 یہ اور اس طرح کے متعدد اشعار اس کے کلام میں جا بجا مل جاتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال رومی کی طرح موت، برزخ اور بعث کو حیاتیاتی ارتقا کے ہی مختلف مراحل سمجھتا ہے اور یہ ارتقائی عمل آخرت میں ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ بانگ درا کی ایک طویل نظم ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے اندر اقبال نے نہایت موثر انداز میں موت اور حیات بعد الموت کے بارے میں اپنے رویے کا اظہار کیا ہے۔ 8 اب اقبال ایک دوسرے نہایت اہم سوال کی طرف اپنی توجہ مبذول کرتا ہے۔ کیا انسان کی بعثت ثانیہ پر اس کا سابق پیکر طبعی بھی دوبارہ زندہ ہو جائے گا؟ یہ مسئلہ مسلمان فلاسفہ اور متکلمین کے درمیان متنازعہ فیہ رہا ہے! انسان اپنی شخصیت کو اپنے جسم طبعی کے حوالے سے ہی دیکھتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جو چیز سامنے نظر آئے اور جس کا ادراک بالحواس ہو سکے، انسان اسی کو حقیقی تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ مر جانے کے بعد جسم کا دوبارہ زندہ ہونا انتہائی مستعد محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ شاخ جس پر سے کوئی پھو مرجھا گیا ہو۔ متعدد نئے شگوفوں کو تو جنم دے سکتی ہے لیکن اس مرجھائے ہوئے پھول کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح ایک عضو یہ اپنے تخم ہائے حیات سے بے شمار افراد کو تو پیدا کر سکتا ہے لیکن اپنے مردہ جسم کو از سر نو حیات نہیں بخش سکتا۔ جو پتے سوکھ کر گر جائیں، جن پودوں کے رگ و ریشے جذب آب کی صلاحیت کھو بیٹھیں اور جو عضویے خون کی گردش اور دل کی دھڑکن سے محروم ہو جائیں ان کی سوئے حیات باز آمد نا ممکن ہے۔ یہ ہے وہ سبق جو صدیوں کے تجربے سے انسان نے حاصل کیا ہے: اسی استعار کو ایام جاہلیت کا شاعر یوں ظاہر کرتا ہے: اموت ثم بعث ثم حشر حدیث خرافتہ یا امدعم ’’ کیا موت ہے؟ پھر دوبارہ زندہ ہونا؟ پھر اکٹھے ہونا، اے ام عمر! (شاعر کی محبوبہ) سب فضول باتیں ہیں۔‘‘ قرآن میں ان لوگوں کے اقوال جگہ جگہ آتے ہیں جو جسم طبعی کی ’’ نشاۃ الاخری‘‘ کے منکر ہیں: ’’ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے، یہ لوٹنا بہت دور ہے۔‘‘ 1:50 ’’ کیا ہم دوبارہ الٹے پاؤں لوٹائے جائیں گے۔ کیا جب ہم سڑی ہوئی ہڈیاں ہو جائیں گے۔ کیا جب ہم ہڈی اور چورا ہو جائیں گے تو ہم نئے بنا کر پھر اٹھائے جانے والے ہیں۔‘‘ 10-5:17 ان سڑی گلی ہڈیوں کو کون اٹھائے گا؟ 78:36 ’’ انہوں نے کہا یہی ہماری موجودہ زندگی ہے، دوسری نہیں! مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور صرف زمانہ ہی ہم کو مارتا ہے۔‘‘ 24:45 ’’ انہوں نے کہا کہ یہی ہماری موجودہ زندگی ہے۔ ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے۔‘‘ 3:6 یہ وہ رویہ ہے جو ایک عام انسان کا زندگی اور موت کے بارے میں بنتا ہے۔ زندگی اسے عجیب نظر نہیں آتی کیونکہ وہ خود زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔ مر کر دوبارہ زندہ ہونا اسے عجیب لگتا ہے کیونکہ اسے اپنے روز مرہ کے تجربے میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ جسم مردہ از سر نو زندہ ہو گیا ہو چنانچہ دور جاہلیت کے عرب یہی سمجھتے تھے کہ ’’ بعث‘‘ اور’’ حشر‘‘ نا ممکنات میں سے ہیں۔ اسلام نے جن عقائد کو پوری قوت سے پیش کیا ان میں سے ایک حیات بعد الموت بھی ہے۔ قرآن میں حیات بعد الموت کے بارے میں جو بنیادی استدلال ہے وہ یہ ہے کہ: ’’ کیا انہوں نے اپنے اوپر کے آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کیسا بنایا اور کس طرح اسے سمایا ہے کہ اس میں کہیں سوراخ نہیں اور مین کو پھیلایا ہے اور اس میں پہاڑ کے لنگر بنائے اور اس میں قسم قسم کی رونق کی چیزیں اگائیں کہ ہر رجوع ہونے والے بندے کو اس سے سوجھ ہو اور یاد آئے اور آسمان سے برکت کا پانی برسایا اور پھر اس سے باغ اور کٹتے کھیت کے اناج اگائے اور کھجوروں کے لمبے درخت جن کے خوشے اوپر تلے ہیں۔ یہ بندوں کو روزی پہنچانے کے لیے ہے اور اس پانی سے مردہ آبادی کو ہم زندہ کرتے ہیں۔ اسی طرح (قبروں سے) نکلنا ہو گا۔ پہلے نوح کی قوم پھر رس والوں اور ثمود اور عاد اور فرعون اور لوط کے بھائیوں نے اور جنگل والوں نے اور تبع کی قوم نے اس کو جھٹلایا تو میری دھمکی پوری اتری۔ کیا ہم پہلے پیدا کر کے تھک گئے(جو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے) بات یہ ہے کہ ان کافروں کو از سر نو پیدائش میں شک ہے!‘‘ 15-6:50 ’’ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ ان لوگوں کے مثل کو (دوبارہ بھی) بنا سکتا ہے۔‘‘ 99:17 ’’ اور وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ خلق کرے گا اور یہ دوبارہ خلق کرنا اس کے لیے آسان ہے۔‘‘ 3:30 ’’ لوگو! اگر تم کو دوبارہ زندگی میں شک ہے تو ہم تو (پہلے) تم کو (اسی مردہ) مٹی سے پیدا کر چکے ہیں (پھر دوبارہ کیوں نہیں پیدا کر سکتے)‘‘ 1:22 ’’ وہ بولا، کون ان سڑی کھوکھلی ہڈیوں کو جلائے گا۔ کہہ دے، وہی جس نے پہلی دفعہ انہیں بنایا‘‘ 5:36 ان آیات سے تاثر یہ ملتا ہے کہ گلی سڑی ہڈیوں میں دوبارہ حیات پیدا ہو جائے گی اور لوگ اپنے پرانے جسموں کے ساتھ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ تاثر اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ حیات کا کوئی ایسا تصور جس میں پیکر طبعی شامل نہ ہو، ذہن میں نہیں آ سکتا۔ لوگ اسی بات پر حیران ہوتے تھے کہ جب ہڈیاں گل سڑ چکی ہوں گی اور لاشوں کے نام و نشاں گم ہو چکے ہوں گے تو مرنے والے کیسے زندہ ہو جائیں گے؟ ایک لحاظ سے ان کا تعجب بھی بجا تھا، کیونکہ ان کا تجربہ اس بات کی قوی شہادت فراہم کرتا تھا کہ عضویہ ارتقاء کی اگلی منزل پر پہنچ کر پچھلی سٹیج پر واپس نہیں آ سکتا یعنی جوان، بچہ اور بوڑھا، جوان نہیں ہو سکتا۔ تو جب ارتقا کا عمل ہی رک جائے تو اس کی تجدید کیوں کر ہو سکتی ہے۔ قرآن نے ان کی حیرانی کو یہ کہہ کر رفع نہیں کیا کہ ’’ بعث و حشر‘‘ روحانی طور پر ہو گا کیونکہ وہ تو پیکر طبعی کی خلق نو کو سمجھنے سے قاصر تھے تو خالصتہً روحانی بعث و حشر کو کیسے سمجھ سکتے تھے۔ چنانچہ قرآن نے بعث طبعی یا بعث روحانی کی بحث سے ہٹ کر اصل بات کی ہے: ’’ اور انہوں نے کہا جب ہم زمین میں کھو جائیں گے، کیا نئی پیدائش میں پھر ہوں گے؟ (خدا فرماتا ہے یہ کچھ نہیں) بلکہ یہ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں!‘‘ 10:32 اس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے جس بات پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ حیات بعد الموت کو بطور ایک حقیقت کے تسلیم کر یا جائے اور اس جھگڑے میں نہ پڑا جائے کہ بعث و حشر جسمانی ہو گا یا روحانی۔ اصل چیز یہ ہے کہ خدا کی طرف لوٹائے جانے پر یقین رکھا جائے۔ ’’ کہہ دیجئے کہ ملک الموت جو کہ تم پر متعین ہے تم کو موت دے گا۔ پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا دیے جاؤ گے۔‘‘ 10:32 قرآن میں کسی جگہ اس بات کی صراحت نہیں کی گئی کہ مرنے کے بعد جب انسان کو اٹھایا جائے گا تو وہ پرانے جسم کے ساتھ ہی اٹھایا جائے گا۔ اس کے برعکس کئی مقامات پر ہمیں بڑے واضح بیانات ملتے ہیں کہ یہ یکسر نئی تخلیق ہو گی: ’’ جس دن یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور مخلوق اکیلے زبردست خدا کے سامنے کھڑی ہو گی‘‘ 48:14 اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ پرانی زمین اور پرانا آسمان معدوم ہو جائے گا اور ان کی جگہ نئی زمین اور نیا آسمان بنا دیے جائیں گے۔ بالفاظ دیگر یہ نظام زمان و مکان یکسر بدل دیا جائے گا اور اس کی جگہ کوئی اور نظام زمان و مکاں لایا جائے گا۔ اب موجودہ جسم موجودہ نظام زمان و مکاں سے مشروط ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی دوسرے نظام زمان و مکاں کے لیے قطعاً غیر موزوں اور غیر مطابقت پذیر ہو گا۔ ایک دوسری جگہ اس امر کی مزید تفریح کی گئی ہے: ’’ کیا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ جس نے زمین و آسمان کو تخلیق کیا ہے وہ ان کے جیسوں کو تخلیق کر سکتا ہے۔‘‘ 81:36 ان کے جیسوں کے لیے ’’ مثلھم‘‘ استعمال ہوا ہے جو زمین و آسمان کی طرف نہیں بلکہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پرانا جسم زندہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک نیا جسم خلق کی اجائے گا جس میں پرانی روح ہی قیام کرے گی اور جو کسی نئے زمان و مکاں سے ہم آہنگ ہو گا: ’’ بات یہ ہے کہ ہم ان ہی باتوں کو سمجھ بوجھ سکتے ہیں جن کی مثالیں اور نظیریں اس مادی دنیا میں ہماری نگاہوں سے گزرتی رہتی ہیں اور وہ عالم جو نگاہوں سے مستور ہے بلکہ تصور سے بھی دور ہے اس کی باتوں کو اس طرح سمجھنا کہ ہر سوال اور تکرار سوال سے ہم بے نیاز ہو جائیں تقریباً نا ممکن ہے ان کے متعلق جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ دیدہ شہر ستان وجود یعنی دنیا کے قیاس پر اس نادیدہ شہرستان بقا کا ہر نقشہ اور خاکہ بتایا اور سمجھایا جائے اور یہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم نے کیا ہے۔‘‘ 57؎ یہ ہم گذشتہ باب: جز نمبر1میں دیکھ آئے ہیں کہ قرآن کی مابعد الطبیعیات میں جسم ا ور روح دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ روح اصل مکلف ہے۔ جسمانی اعضاء و جوارح تو محض آلات ہیں۔ ان کو جس طرح ایک بالاتر ارادہ (روح انسانی) چاہے استعمال کرے۔ چنانچہ ’’ اعمال کی ذمہ داری روح پر ہے جسم پر نہیں۔ اسی طرح جزا و سزا کی راحت اور تکلیف کا اصل مورد روح ہے جسم نہیں، تو پھر اب وہ کسی قالب میں بھی ہو اور کسی رنگ میں بھی ہو، روح پر مواخذہ اور ثواب و عذاب کی لذت و الم کا احساس یکساں ہو گا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جو جسم ہم کو دوسری دنیا میں ملے گا اس کی خصوصیات و لوازم اس خاکی جسم کے خصوصیات و لوازم سے بالکل الگ ہوں۔ چنانچہ خود ہمارے تخیل اور تصور اور نیز خواب و رویا میں جو جسم ہم کو نظر آتے ہیں وہ جس ہو کر نظر آنے کے باوجود ہماری جسمانیت سے سراسر پاک ہوتا ہے اس لیے لفظ جسم کے بولنے سے ان ہی خصوصیات کا جسم سمجھ لینا ضروری نہیں ہے اور نہ اس جسم پر قیاس کر کے اس جسم پر اشکالات وارد کیے جا سکتے ہیں‘‘ 58؎ قرآن پاک کی کئی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ یوم الحشر انسان کو جو جسم عطا کیا جائے گا وہ یکسر نیا ہو گا: ’’ بلکہ یہ لوگ نئی آفرینش سے شک میں ہیں‘‘ 15:50 ’’ کیا ہم در حقیقت نئی آفرینش کر کے اٹھائے جائیں گے۔‘‘ 49:17 ’’ جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا ذکر کیا ہے اسی طرح ہم اسے دوبارہ بنائیں گے۔‘‘ 104:21 یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ انسان کو جو پیکر نو ملے گا وہ تو پیکر قدیم سے مختلف ہو گا اور قرآن پاک میں یہی کہا گیا ہے کہ انسان کے اعضاء اس کے اعمال کی شہادت دیں گے، تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ پیکر جدید کے اعضاء پیکر قدیم کے اعضاء کی نمائندگی کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا میں بھی جسم یا عضو یہ میں خلیوں کا بننے اور فنا ہونے کا عمل متواتر جاری رہتا ہے۔ ماہرین عضویات ہمیں بتاتے ہیں کہ سات سال کے عرصے میں انسان کا جسم بالکل تبدیل ہو جاتا ہے 59؎ دنیوی جسم تبدیلی کے عمل سے گذرتے رہتے ہیں۔ اب ’’ اگر کوئی مجرم بھاگ گیا ہو اور چند سال کے بعد جب پکڑا جائے تو وہ یہ عذر نہیں کر سکتا کہ وہ ہاتھ جس سے اس نے چوری کی تھی اور وہ پاؤں جس سے وہ مال لے کر بھاگا تھا،ا س عرصہ دراز میں بدل گئے ہیں اس لیے اب وہ لائق تعزیر نہیں، کیونکہ وہ روح جس نے اسے اپنے ارادہ و نیت سے اس کام کو اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے ذریعے کروایا تھا، جس طرح کل تھی بعینہ آج بھی ہے اور جو تکلیف اس کو پہلے جسم کے ذریعے کل پہنچ سکتی تھی، بعینہ آج بھی پہنچ سکتی ہے۔ اور جسمانی تغیر سے اس میں اصلاً کوئی فرق پیدا نہیں ہوا۔‘‘ 60؎ مزید برآں ایک بیماری جو جسم کو لاحق ہو اور عرصہ دراز تک قائم رہے جسم کی تبدیلی کے باوجود قائم رہتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نئے بننے والے خلیے اپنے ماقبل خلیوں سے وراثت میں اس بیماری کو حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح عین ممکن ہے کہ پیکر نو کے اعضا، و جوارح بھی پیکر قدیم کے اعمال و افعال کے اثرات لیے ہوں یعنی پیکر نو پیکر قدیم کا وارث ہو۔ قرآن اور بعض احادیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مرنے کے بعد روح کو عذاب یا ثواب کے پیشگی اثرات پہنچنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں جبکہ جسم خاکی مٹی میں مل چکا ہو، ثواب و عذاب کے اثرات کے پہنچنے کا مطلب یہ ہے کہ روح نے پیکر نو تراشنا شروع کر دیا ہے۔ یہی وہ امر ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے کہ خودی برزخ میں ایک نئے نظام زمان و مکاں کے مطابق خود ڈھالنا شروع کر دیتی ہے۔ بعثت ثانیہ پر انسان کو جو ’’ خلق جدید‘‘ عطا ہو گی، وہ عرصہ برزخ میں تیار ہونے والی پیکر نو کی ہی تکمیل ہو گی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس پیکر نو کی تشکیل میں ’’ عمل‘‘ نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے قرآن میں اعمال کی اہمیت پر غیر معمولی زور دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ تمہارے اوپر کراماً کاتبین مقرر کئے گئے ہیں جو کہ تمہارے کئے دھرے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ (بحوالہ 12-9:82) اسی طرح (11:12میں) ان محافظ فرشتوں کا ذکر ہے جو انسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور اسی بنا پر انسان جو دن کی روشنی میں کرتا ہے اور جو رات کی تاریکی میں کرتا ہے، جو چھپاتا ہے اور جو ظاہر کرتا ہے، سب اللہ پر ظاہر و عیاں ہے۔ اگر ’’ محافظ فرشتوں‘‘ اور’’ لکھنے والے فرشتوں‘‘ کے مفہوم پر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک داخلی وجود کی تشکیل کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ یہی داخلی وجود یا باطنی جسم برزخ میں عذاب و ثواب کے پیشگی اثرات کا محل ہے اور یہی قیامت کے دن اپنی تکمیل شدہ حیثیت میں اسی طرح اٹھایا جائے گا کہ قرآں کی زبان میں نئی زمین اور نئے آسمان سے مکمل طور پر مطابقت پذیر ہو گا۔ قرآن میں ہے کہ روز قیامت لوگوں کے نامہ ہائے اعمال ان کی گردنوں میں لٹکے ہوں گے (بحولہ 13:17) اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے برے اعمال کے اثرات ان کے چہروں سے عیاں ہوں گے مولانا شبلی نعمانی اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: روحوں کو آخرت میں جو جسم ملیں گے وہ حقیقت میں ان کے اعمال ہی کے ظل و عکس ہوں گے۔ یعنی جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی ان کو جسم عنایت ہوں گے۔ چنانچہ اس دنیا کے جسمانی رنگ کے لحاظ سے خواہ کوئی کالا ہو یا گورا مگر اس دنیا میں اس کا یہ کالا پن اور گورا پن اعمال کی سیاہی و سفیدی کی صورت میں بدل جائے گا۔ خدا نے فرمایا: ’’ کتنے چہرے اس دن روشن، ہنستے اور شادماں ہوں گے اور کتنے چہروں پر اس دن کدورت ہو گی اور ان پر سیاہی چھائی ہو گی۔‘‘ 41-39:80 ’’ جس دن کتنے چہرے سپید ہوں گے اور کتنے کالے لیکن جن کے چہرے کالے ہوئے کیا تم وہ ہو جو ایمان کے بعد پھر کافر ہو گئے تھے، تو پھر اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔ اور جن کے چہرے سپید ہوئے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، اسی میں سدا رہیں گے۔‘‘ 61؎ 107-106:3 یہ مسئلہ کہ حشر جسمانی ہو گا کہ نہیں قدیم مسلمان مفکرین کے لیے وجہ نزاع رہا ہے۔ مسلمان فلاسفہ بالخصوص فارابی اور سینا نے ’’ بعث و حشر‘‘ کو جسمانی نہیں بلکہ روحانی قرار دیا۔ اس سلسلے میں غزالی نے ان پر شدید نکتہ چینی کی اور دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بعث و حشر جسمانی طور پر ممکن ہے۔ غزالی کے نزدیک حشر اجساد کا انکار ان مسائل میں سے ایک ہے جن سے تکفیر لازم آتی ہے۔62؎ سارا مسئلہ اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ بعث و حشر کا معاملہ ایک ایسے عالم سے تعلق رکھتا ہے جو ہمارے حواس اور عقل سے ماوراء ہے۔ البتہ متشابہات ہونے کے ناطے ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم حقائق ماقبل اور دیگر شواہد کی روشنی میں اس کی تاویلات پیش کر سکیں اور اگر شاہ ولی اللہ کی طرح یہ تسلیم کر لیا جائے کہ روح قیامت کے دن کوئی نہ کوئی پیکر ضرور رکھے گی تو پھر نہ غزالی کی طرف سے تکفیر لازم آتی ہے اور نہ ہی فکری اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اس مسئلہ میں اقبال کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ 1ہزاروں لاکھوں سال کا ارتقاء اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ موت انسان کی منزل آخر نہیں۔ انسان کے ماضی پر غور کیجئے تو یہ امر غیر اغلب سا نظر آتا ہے کہ اس کی ہستی کا سلسلہ جسم کی ہلاکت کے ساتھ بالکل ختم ہو جائے۔ 62؎ 2خودی کو بحیثیت ایک فرد کے ممتاز رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے کسی جگہ یا تجربی پس منظر سے نسبت دی جائے۔ اس لیے مقامات و اجساد کے حوالے سے سوچنا غلط نہیں۔ 3 موت کے بعد خودی ایک اور پیکر تراشے گی اور اس کے استحکام و عدم استحکام کا دارومدار اس دنیا میں کیے ہوئے اعمال پر ہو گا۔ 4 انسان کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ وہ سمجھ لے کہ مرنے کے بعد خودی ارتقاء کے کسی اگلے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔ بعث و حشر کے جسمانی یا روحانی ہونے پر زیادہ مغز ماری نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ انسان کا معاد کسی نہ کسی جسد عنصری سے وابستہ ہے، خواہ اس جسد عنصری کی حقیقت کچھ بھی ہو اور سر دست ہم اسے سمجھ بھی نہ سکیں، جب بھی بعثت ثانیہ کے باب میں ہمیں کوئی بصیرت حاصل نہیں ہوتی۔64؎ 9 مرنے کے بعد جزا اور سزا کا عقیدہ دنیا کے اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حیات بعد الموت اورسزا و جزا کا تصور سب سے پہلے قدیم مصری تہذیب میں پیدا ہوا۔ مصریوں کا خیا ل تھا کہ مرنے کے بعد روح تحت الثریٰ میں چلی جاتی ہے ۔جہاں اوسرس (Ositis) دیوتا اس کے اچھے یا برے کاموں کی جزا و سزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ چنانچہ ’’ ہمیں قدرتی طور پر توقع ہو سکتی ہے کہ بنی اسرائیل نے ایک مدت مدید تک مصر میں قیام کرنے کی بدولت مصریوں سے حیات بعد الممات کا تصور اور اس کی تلازمہ یعنی جزا و سزا کا عقیدہ اکتساب کیا ہو گا۔‘‘ 65؎ مصریوں کے علاوہ یہ عقیدہ قوم بابل اور زرتشتی مذہب میں بھی پایا جاتا ہے۔ حضرت مسیح ؑ کی تعلیمات و ارشادات میں اگرچہ بڑی حد تک تحریف ہو چکی ہے تاہم اگر ہم ان پر ناقدانہ نگاہ ڈالیں تو یہ پتہ چلے گا کہ ’’ خدا کی بادشاہت‘‘ کے قریب آ جانے اور حیات بعد الموت کے بارے میں بیانات اس قدر تو اترے آتے ہیں کہ اس عقیدہ کے بارے میں یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ یہ تحریف شدہ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق جب خدا کی بادشاہت قائم ہو جائے گی تو حضرت مسیح ؑ کرسی عدالت پر رونق افروز ہوں گے۔ فرشتے ان کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے پر مامور ہوں گے۔ وہ صالح اور نیک لوگوں کو نہایت عمدہ مسکن میں جو کہ ابتدائے آفرینش سے تیار کر کے رکھا گیا ہے، بھیجیں گے اور بدکار لوگوں کو دائمی آگ میں جھونک دیں گے جو کہ شیطان اور اس کے ساتھیوں کے لیے تیار رکھی گئی ہے۔ 66؎ ہندوستان کے مذاہب میں یہ عقیدہ ہمیں تناسخ ارواح اور دوسرے جنم کی صورت میں ملتا ہے۔ اس عقیدے کی رو سے مرنے کے بعد آدمی کی آتما کو اس کے کرموں کی بنا پر کوئی قالب ملتا ہے۔ وہ آتما جس کے پاپ بہت زیادہ ہوں اسے ’’ یم لوک‘‘ میں جانا پڑتا ہے جہاں نرک (دوزخ) ہے۔ وہ وہاں ہر قسم کی سزا جھیلتی ہے اور اس کے بعد اس کے کھاتے میں جو اچھے کرم ہوتے ہیں ان کی جزا پانے کے لیے چندر لوک (چاند کی دنیا) میں بھیج دی جاتی ہے جس روح سے اس دنیا میں کچھ کام لینا ہو اسے بارش، ہوا اور بادل کے ذریعے سے پھر اس دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں مختلف جانوروں یا درختوں کے قالب میں اس کی روح بھٹکتی رہتی ہے اور سزا کا بوجھ کم کرتی رہتی ہے تاآنکہ وہ جنموں کی گردش سے نجات پا کر چندر لوک یا سورج لوک جیسے آسمانی دنیاؤں میں جا کر ابدی سکون حاصل کر لیتی ہے۔ 67؎ آخرت کے دار العذاب اور دار الجزا یعنی جہنم اور جنت کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ صرف نفسی اور ذہنی کوائف ہیں یا یہ فی الواقع معروضی مقامات ہیں؟ اس بارے میں مسلمان مفکرین نے مختلف توجیہات و تشریحات پیش کی ہیں۔ بعض کے نزدیک جنت دوزخ مقامات ہیں اور ان میں جزا و سزا جسمانی ہو گی اور تا ابد جاری رہے گی۔ کچھ حکما خاص طور پر ابن سینا اور فارابی یہ سمجھتے ہیں کہ جنت اور دوخ جسمانی کوائف نہیں بلکہ جنت کی مسرتوں اور دوزخ کی تکلیفوں کو مادی استعاروں میں اس لیے بیان کیا گیا ہے تاکہ جسمانی مثالوں سے روحانی کیفیات کو سمجھایا جا سکے۔ ’’ مثلاً ایک بچے یاغین کو جو شباب و مردی کے لذائذ سے بے بہرہ ہے جنسی لذت کے متعلق کیفیات کو سمجھانے کے لئے ہم مٹھائی کا نام لے دیتے ہیں یا کھیل کا ذکر کر دیتے ہیں۔‘‘ 68؎ شاہ ولی اللہ کا خیال ہے کہ جنت اور دوزخ دونوں کیفیتیں عالم مثال سے تعلق رکھتی ہیں: ’’ عالم مثال ان کے نزدیک وہ مقام ہے جہاں عقیدہ و عمل کی ہر ہر جنبش جسمانی روپ دھار لیتی ہے یعنی جہاں اجساد معانی کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں اور معانی اجساد کا پہناوا اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں شاہ صاحب کے ہاں نیکی شجر سایہ دار، دودھ کی نہر اور کوثر و تسنیم میں بدل جاتی ہے اور برائی آگ کا شعلہ جوالا، تپش، حرارت اور عذاب بن کر ظاہر ہوتی ہے۔ گویا جنت و دوزخ کے تمام مظاہر عالم مثال سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ 69؎ آخرت میں بعث و حشر کا تمام تر انداز ایسا ہو گا جو ہمارے احاطہ ادراک میں نہیں آ سکتا، کیونکہ موجودہ نظام زمان و مکان یکسر ختم کر کے نئی زمین اور آسمان بنائے جائیں گے۔ اس نئے عالم زمان و مکاں میں نئے قوانین نافذ کئے جائیں گے۔ بنی نوع انسان ’’ خلق جدید‘‘ میں اٹھائی جائے گی۔ ان کے حساب کتاب اور سزا و جزا کا نظام بھی مختلف ہو گا لیکن اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے ترازو، نامہ اعمال، شجر سایہ دار، دودھ اور شہد کی نہریں، آگ کی لپٹیں اور جلنے کی تکلیف وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے کیونکہ یہ انسان کے روز مرہ کے تجربے اور مشاہدے کی چیزیں ہیں۔ ان الفاظ سے ایک عام آدمی بھی آخرت کی زندگی کا نقشہ قائم کر سکتا ہے اور ایک فلسفی بھی انہیں مجازی اور تمثیلی سمجھ کر ایک نئے عالم زمان و مکاں کی نوعیت کا کسی حد تک اندازہ لگا سکتا ہے۔۔۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے سخن چند اعلیٰ فکر و خیال رکھنے والے لوگ نہ تھے بلکہ ان کے پیغام کا تعلق عوام الناس سے تھا جن کے لیے تجربہ اور مشاہدہ اور حسی ادراک ہی سب کچھ تھا۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ آخرت کا جو نقشہ کھینچا جائے وہ ان کے ادراک کے قریب تر ہو۔ تاہم متشابہات ہونے کے ناطے آخرت سے متعلق آیات میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ ان کی تشریح و تاویل غیر حسی انداز میں بھی کی جا سکے۔ اگر ہم قرآن کی ان آیات پر غور کریں جن میں جنت دوزخ کا نقشہ کھینچا گیا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کے ذہن کو حسی اور جسمانی سزا و جزا سے بتدریج غیر حسی اور روحانی سزا و جزا کے تصور کی طرف لے جایا گیا ہے۔ سید امیر علی اس کی تشریح یوں کرتے ہیںـ: ’’ قرآن کی جن سورتوں میں جنت کے مرصع نقشے کھینچے گئے ہیں، عام اس سے کہ وہ نقشے مجازی تھے یا معنوی، وہ سب سور سے کلی یا جزئی طور پر مکے میں نازل ہوئے۔ اس موضوع پر جو روائتیں اس زمانے میں عام تھیں، ممکن ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وا ٓلہ وسلم اپنے شعور مذہبی کے اوائل میں ان میں سے چند ایک کو مانتے ہوں لیکن جب ان کی روح میں کامل بیداری آ گئی اور خالق کائنات کے ساتھ ان کا رابطہ زیادہ گہرا ہو گیا تو ان کے وہ خیالات جو پہلے مادیت کا پہلو لیے ہوئے تھے، سراسر روحانی ہو گئے۔ ان کی ذہنی نشوونما نہ صرف مرور زمانہ اور ان کے شعور مذہبی کے ارتقا کے دوش بدوش بلکہ ان کے متبعین نے روحانی تصورات کے سمجھنے میں جو ترقی کی، اس کے قدم بقدم بھی ہوئی۔ چنانچہ بعد کے سوروں میں روحانی پہلو، مادی پہلو پر اور روح جسم پر غالب نظر آتی ہے۔ سر سبز و شاداب باغ جنہیں نہریں سیراب کرتی ہیں، دائمی چھاؤں، آسودہ حالی اور امن و امان، یہ سب چیزیں جو ایک بے آب و گیاہ اور بے سایہ ریگستان کے سدا بھوکے پیاسے رہنے والوں کے لیے جن کی زندگی اپنے ساتھ اور اپنے ماحول کے ساتھ ایک مسلسل جنگ تھی، غیر مترقبہ نعمتیں تھیں، اب بھی مرقع کے بنیادی نقش و نگار ہیں لیکن اہل جنت کو جو اصل خوشی نصیب ہو گی، وہ خدا کی بارگاہ میں سکون و اطمینان اور باہمی الفت و مودت کی صورت میں دکھائی گئی ہے۔‘‘ 70؎ ’’ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کے لیے آنکھوں کی کیسی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔‘‘ 17:32 اس کے علاوہ یہ کہا گیا ہے کہ جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر جو نعمت ہو گی وہ دیدار الٰہی ہے۔ حدیث ہے کہ: ’’ خدا کا سب سے مقبول بندہ وہ ہو گا جو صبح و شام خدا کا چہرہ (یعنی اس کا جلوہ) دیکھے گا۔ یہ ایک ایسی راحت ہو گی جو تمام لذات جسمانی سے اسی طرح بڑی ہو گی جس طرح سمندر پسینے کی ایک بوند سے بڑا ہے۔‘‘ مشکوۃ کتاب 23باب 8فصل1 اسی طرح دوزخ کی آگ کا قیاس بھی ہم دنیاوی آگ پر نہیں کر سکتے۔ اس کے اندر بعض درخت ہوں گے جو نہیں جلیں گے۔ وہ صرف مجرموں کو جھلسائے گی۔ کسی کے پاؤں کو چھوئے گی کسی کی کمر تک آئے گی اور کسی کے گلے تک پہنچے گی۔ قرآن میں متعدد جگہوں پر دوزخیوں کی ذہنی کیفیت کا ذکر آیا ہے۔ آگ کے عذاب کے علاوہ ان کے غم، حسرت اور پشیمانی کا ذکر ملتا ہے اور دوزخ میں جو سب سے بڑا عذاب انہیں ستائے گا وہ بقائے الٰہی سے محرومی ہے۔ مندرجہ ذیل آیات سے یہ امور واضح ہو جاتے ہیں: ’’ سلگائی ہوئی اللہ کی آگ جو دلوں کو جھانکے گی‘‘ 1:104 ’’ اور جب عذاب دیکھیں گے تو اپنی پشیمانی کو چھپائیں گے۔‘‘ 6:10 ’’ وہ جب دوزخ سے غم کی وجہ سے نکلنا چاہیں گے‘‘ 2:22 ’’ تو آج ذلت کے عذاب کا بدلہ دیے جاؤ گے‘‘ 2:46 ’’ آج معذرت پیش نہ کرو‘‘ 6:66 ’’ ذلیل ہو اس دوزخ میں اور مجھ سے بات نہ کر(یعنی اللہ سے بات نہ کر) ‘‘ 6:23 ’’ ہرگز نہیں وہ اس دن اپنے رب سے پردے میں ہوں گے۔‘‘ 15:83 ’’ نہ قیامت میں خدا ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو سنوارے گا، ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘ 8:3 ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ خدا لوگوں کو آخرت کے بارے میں جو باتیں بتانا چاہتا ہے وہ ان کے احاطہ ادراک سے ماوراء ہیں۔ اس لیے مادی اور حسی پیرائے میں جنت اور دوزخ کا نقشہ کھینچا گیا لیکن اصل لذات جو جنت میں لوگوں کو حاصل ہوں گی وہ مادی لذات سے بہت بلند ہیں۔۔۔۔ اسی طرح دوزخ میں جسمانی سزاؤں سے کہیں بڑھ کر جو تکلیف دہ اور درد ناک بات ہو گی وہ دنیوی زندگی کی ناکامیوں کا غم، ان پر حسرت و پشیمانی اور قرب الٰہی سے محرومی ہو گی۔ اسی لیے اقبال جنت و دوزخ کو مقامات نہیں بلکہ نفسی احوال قرار دیتا ہے۔ دوزخ انسان کا یہ المناک احساس ہے کہ وہ دینوی زندگی میں ناکام رہا ہے اور جنت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت۔ 71؎ یعنی یہ احساس کہ میں بحیثیت انسان کامیاب رہا ہوں اوراب بقائے الٰہی کا اہل قرار پایا ہوں۔ اقبال کا خیال ہے کہ دوزخ ابدی لعنت کی جگہ نہیں۔ ایک عرصہ معینہ تک عالم کرب و اذیت میں رہنے کے بعد دوزخیوں کو معافی مل جائے گی اور وہ جنت میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ اس ضمن میں قرآن میں جو لفظ ’’ خلود‘‘ آیا ہے اس سے اقبال ایک معینہ مدت مراد لیتا ہے۔ قرآن میں اہل جنت اور اہل دوزخ دونوں کے لیے ’’ خلود‘‘ اور’’ دوام‘‘ کے الفاظ آئے ہیں لیکن اہل جنت کے بارے میں ’’ ابداً‘‘ کی صراحت کی گئی ہے اور ان کے بارے میں مشیت الٰہیہ ظاہر کر دی گئی ہے کہ ایک دفعہ وہ جنت کے حقدار قرار دئیے جانے کے بعد اس سے محروم نہیں کئے جائیں گے۔ جبکہ اہل دوزخ کے بارے میں متعدد مقامات پر خلود کے ساتھ ابداً کی تصریح نہیں کی گئی بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ:ـ ’’ دوزخ ہے تمہارا ٹھکانہ اور اس میں تمس دا رہنے والے ہو لیکن یہ کہ اللہ جو چاہے بے شک تیرا رب علم و حکیم ہے۔‘‘ 15:6 اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اہل دوزخ کے لیے یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر اللہ چاہے تو اپنی حکمت و مصلحت کے تحت ان کی مغفرت کر سکتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی لفظ خلود کی تشریح یوں کرتے ہیں: ’’ یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ خلود کے دو معنی ہیں، ایک حقیقی دوام اور دوسرے قیام طویل، ان دو میں سے کسی ایک معنی کی تخصیص قرینے سے ہو گی۔ اسی دوسرے معنی کے اعتبار سے عربی اشعار میں پہاڑوں اور بدویانہ چولہوں کے پتھروں کے لیے خوالد اور خالدات کے لفظ صفت میں آتے ہیں کیونکہ وہ تا دیر اور زمانہ دراز تک باقی رہنے والے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ تنہا خلدین کا لفظ ابدیت کے مفہوم میں صریح نہیں، جب تک اس کے ساتھ کوئی اور قرینہ قائم نہ ہو جو دوام کے معنی کی تخصیص کر دے جیسا کہ یہ قرینہ ان آیتوں میں ہے جہاں اہل جنت کو خالدین کہا گیا ہے۔ تقریباً بیس آیتوں میں اس خلود کے معنی دوام اور عدم انقطاع کے بتائے گئے ہیں۔ اس لیے جنت کے سلسلے میں جہاں صرف خالدین بھی ہے وہاں ہمیشگی اور دوام کے ہی معنی لیے جائیں گے۔ برخلاف اس کے جہاں دوزخ کے ساتھ لفظ خالدین آیا ہے وہاں دوام کے مفہوم کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں۔ اس لیے دوزخ والی آیتوں میں ’’خلود‘‘ سے مقصود یہ ہے کہ گناہگار زمانہ دراز تک دوزخ میں رہیں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ گناہگار اہل ایمان کی سزا میں کہیں ’’ خالدین کے ساتھ ابداً‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ گناہگار اہل ایمان میں سب سے بڑی دھمکی اس کو دی گئی ہے جس نے کسی مسلمان کا خون بے سبب بہایا ہو مگر اس کے لیے بھی خالدین کے ساتھ ابداً کا لفظ نہیں استعمال کیا گیا، فرمایا:‘‘ ’’ اور جو کوئی کسی با ایمان کو قصداً قتل کرے گا تو اس کا بدلہ دوزخ ہے۔ جس میں وہ خالداً (یعنی مدت دراز تک) پڑا رہے گا۔‘‘ 13:14 اقبال کے نزدیک دوزخ ایک اصلاحی اور تادیبی عمل ہے تاکہ جو خودی پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہے وہ پھر رحمت خداوندی کی نسیم جانفزا کا اثر قبول کر سکے۔ 72؎ اہل دوزخ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ صد ہا سال اس میں پڑے رہیں گے۔ لفظ حقب یا احقاب کی تشریح ہم گذشتہ باب میں دیکھ آئے ہیں کہ یہ مدت معینہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح صد ہا سال سے بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک دن وہ ختم ہو جائیں گے۔ اس طرح دوزخ کا تصور ایک دائمی دار العذاب کا نہیں رہتا بلکہ شفاخانہ کا بن جاتا ہے۔ شبلی نعمانی اس تصور کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’ انسان جب عدم حفظ صحت کی غلط کاریوں کے سبب سے بیمار ہو جاتا ہے تو اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ فطرت نے اس کو ان کے معاوضہ میں بیماری کی تکالیف کی سزائیں دی ہیں مگر واقعہ یہ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان غلط کاریوں کے برے نتائج جو انسان کے جسم کے اندر پیدا ہو گئے ہیں، ان کو دور کرنے کے لیے جسم جدوجہد کرتا ہے۔ اس لڑائی کا نام بیماری اور اس لڑائی کی کش مکش کا نام بیماری کی تکالیف و آلام ہے جن کو ہم درد سر، درد شکم، اعضاء شکنی اور بے خوابی وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی روحانی بیماریوں کا حال ہے جن کو ہم اصطلاح شرعی میں ’’گناہ‘‘ کہتے ہیں۔ اور جن کے نتائج بد کو ’’ عذاب‘‘ کہتے ہیں۔ یہ نتائج آتش دوزخ اور اس کے شدائد و آلام کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور جن کا منشاء یہ ہو گا کہ روح انسانی اپنی غلط کاریوں کے نتائج بد کو دور کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہو گی اور جونہی وہ ان سے عہدہ برآ ہو گی، خدا کی رحمت سے سرفرازی پا کے اس عذاب سے نکل کر اپنی موروثی بہشت میں داخل ہو جائے گی۔‘‘ ’’ اس تمہید سے یہ ظاہر ہے کہ دوزخ کی مثال یہ نہیں ہے کہ وہ مجرموں کے لیے قید خانہ ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ بیماروں کے لیے شفاخانہ ہے۔ بیمار کو شفاخانہ کے اندر بھی ہر قسم کی تکلیفیں محسوس ہوتی ہیں۔ درد، اعضا شکنی، شدت تشنگی، سوزش جسم! وہاں اس کو کڑوی سے کڑوی دوا پلائی جاتی ہے۔ بدمزہ سے بدمزہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔ ضرورت ہو تو اس کو نشتر دیا جاتا ہے۔ اس کا کوئی عضو کاٹا جاتا ہے۔ داغا جاتا ہے اور ان سب کی تکلیفیں اس کو اٹھانی پڑتی ہیں مگر یہ ساری ’’ ایذا رسانی‘‘ کسی انتقام اور تکلیف دہی کی غرض سے نہیں ہوتی بلکہ عدم صحت کی غلط کاریوں کے برے نتائج سے اس کے جسم کو محفوظ رکھنے کی غرض سے کی جاتی ہے۔ اس کو جو تکلیفیں وہاں محسوس ہوتی ہیں، وہ گو شفاخانہ کے اندر ہی ہوتی ہیں مگر ان سب کا سبب شفاخانہ نہیں بلکہ خود اس بیمار کا اصول صحت سے دانستہ یا نادانستہ انحراف کرنا اور اس کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہونا ہے۔‘‘ 74؎ قرآن کی ایک آیت، تم پاک صاف ہو چکے تو جنت میں صدا کے لیے آ جاؤ (8:39) بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جنت میں داخلہ کے لیے ضروری ہے کہ گناہگاروں کے گناہ چھٹ چکے ہوں یعنی ان کی اصلاح ہو چکی ہو یا اقبال کے الفاظ میں جو خودیاں بے حس اور پتھر کی مانند سخت ہو چکی ہیں وہ اس قابل ہو جائیں کہ ’’ رحمت خداوندی کی نسیم جانفزا کا اثر قبول کر سکیں۔‘‘ اس امر کا اظہار ایک حدیث میں بھی ہوتا ہے: ’’ یہاں تک کہ گناہ گار چھٹ جائیں گے اور پاک و صاف ہو جائیں گے، تب ان کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔‘‘ صحیح بخاری، باب القصاص یوم القیامیہ ص967 اقبال خدا کو ’’ خدائے منتقم‘‘ نہیں تسلیم کرتا۔ وہ لکھتا ہے: ’’ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جہنم میں بھی کوئی ھاویہ نہیں جسے کسی منتقم خدا نے اس لیے تیار کر رکھا ہے کہ گناہ گار اس میں ہمیشہ گرفتار عذاب رہیں۔‘‘ 75؎ یہودیت اور عیسائیت میں خدا کا تصور ایک منتقم خدا کا تصور ہے جو گناہ گاروں کو اس لیے سزا دے گا کہ انہوں نے نافرمانی کی۔ اس کے برعکس اسلام میں خدا کا تصور خدائے رحمان کا ہے۔ وہ گناہ گاروں کو اس لیے عذاب سے دو چار نہیں کرے گا کہ اس سے اس کے جذبہ خود پسندی اور انانیت کی تسکین ہو گی۔ گناہ گاروں کا عذاب جہنم جھیلنا خود ان کے اپنے اعمال کا منطقی نتیجہ ہو گا۔ مولانا حنیف ندوی اس امر کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’ نیکی کر کے نہ صرف ہم روحانی مسرت محسوس کرتے ہیں اور برائی کے ارتکاب سے نہ صرف ذہنی اذیت سے دو چار ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں کا اثر ہمارے خون پر، خلیوں پر اور پوری زندگی پر مرتب ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر نیکی اپنے پہلو میں ایک طرح کی جنت لیے ہوئے ہے جس میں جسم اور روح کی شادمانیاں مضمر ہیں اور ہر برائی اس جہنم کو جنم دینے والی ہے جو جسم و روح کے کرب و عذاب کا باعث بنتی ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ نیکی اور برائی کے اس عمل کو برابر آگے بڑھنا ہے اور بالآخر اس نقطہ عروج پر پہنچنا ہے، جہاں ہماری شخصیت اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ تکمیل پذیر ہوتی اور مکافات و جزا کے اس موڑ پر پہنچتی ہے، جہاں سے باقاعدہ ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ نئی زندگی یا تو جنت اور شادمانی کے ان کوائف و نتائج پر مشتمل ہو گی، جن کا تعلق ہماری سابقہ زندگی سے ہے یا کرب و اذیت اور جہنم کے ان احوال اور نتائج پر مشتمل ہو گی جس کی تعمیر و تخلیق میں خود ہم بھی حصہ دار ہیں۔ اس صورت میں جس جنت میں ہم رہیں گے یا جس دوزخ میں ہمیں جھونکا جائے گا وہ سراسر ہمارے اپنے ہی اعمال و عقائد کا نتیجہ ہی تو ہو گا جو اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے بیک وقت معروضی و مکانی بھی ہو سکتا ہے اور نفسیاتی و باطنی بھی!‘‘ 76؎ اس بات کی توثیق قرآن کی متعدد آیات سے ہوتی ہے کہ دوزخ خدا نے لوگوں کو اپنے انتقام اور غضب کا نشانہ بنانے کے لیے نہیں بنایا بلکہ یہ ان کے اپنے ہی اعمال کا فطری نتیجہ ہے۔ ’’ خدا کو تمہارے عذاب سے کیا کام۔ اگر تم شکر کرو اور ایمان لاؤ اور خدا تمہاری شکر گزاری کو قبول کرنے والا اور تمہارے دلوں کے حال جاننے والا ہے۔‘‘ 21:4 ’’ جنہوں نے ناشکری کی اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تو وہی لوگ دوزخ والے ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ 4:2 ’’ اللہ نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ اپنی جانوں پر آپ ظلم کرتے ہیں۔‘‘ 29:40 ’’ اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ 40:31 ’’ ہر جان کو اپنے کیے کا ہی بدلہ دیا جائے گا‘‘ 20:15 ’’ اس (خدا) نے (مخلوقات پر) رحمت کو اپنے اوپر واجب کر لیا ہے۔‘‘ 2:6 ’’ تمہارے اوپر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر فرض ٹھہرا لیا ہے۔‘‘ 6:6 ’’ میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر لیا ہے۔‘‘ 7:56 ’’ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی‘‘ (صحیح بخاری) اس قسم کی متعدد آیات قرآنی اور احادیث نبویؐ ہمیں مل جاتی ہیں جن سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کا خدا منتقم نہیں بلکہ رحمان ہے۔ اس دنیا میں برائیوں اور گناہوں کے عوض جو عذاب گناہ گاروں کو آخرت میں ملے گا۔ وہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہو گا۔ جب قیامت کے دن لوگوں کو اٹھایا جائے گا تو جو گناہ گار ہوں گے ان کی آنکھوں کے سامنے اعمال گزشتہ کے تمام مناظر گھوم جائیں گے اور ان کے دل سے حسرت و یاس کی آہیں بلند ہوں گی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے سے تمام پردے ہٹ جائیں گے ان کی بصارت تیز ہو جائے گی (21:50) اور وہ اپنے نامہ اعمال کو اپنے گلے میں لٹکا ہوا پائیں گے (23:17) یہی نامہ اعمال ان کی شناخت ہو گی اور ان کی تقدیر کا فیصلہ ہو گا۔ چنانچہ خدا کے انتقام یا اس کے غضب سے ڈرنے کی بجائے وہ خود اپنی تیار کردہ تقدیر کا طوق اپنے گلے میں پہنیں گے اور خود اپنے کیے پر رہ رہ کر نادم و پشیماں ہو گے۔ وہ اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ داغہائے ندامت دھو سکیں۔ لیکن انہیں بتایا جائے گا کہ اب ایسا ممکن نہیں۔ ارتقا کا عمل آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس میں منزل رفتہ کی طرف رجعت محال ہے۔ اس صورت حال میں کہ وہ خودیاں جنہوں نے خود کو پتھر کی طرح سخت کر لیا ہے، خود کو اس کا اہل نہیں پائیں گی کہ حیات اخروی کے ایک نئے عالم زمان و مکاں میں اپنا ارتقائی سفر جاری رکھ سکیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن نے کہا ہے: ’’ ایسے ایسے واقعات کے بعد تمہارے دل پھر بھی سخت ہی رہے تو ان کی مثال پتھر کی سی ہے یا سختی میں ان سے زیادہ! بعض پتھر تو ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹ کر چلتی ہیں اور انہی پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جو شفق ہو جاتے ہیں پھر ان سے پانی نکل آتا ہے اور انہی پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جو حق تعالیٰ کے خوف سے اوپر سے نیچے لڑھک آتے ہیں۔‘‘ 74:2 اس آیت میں پتھروں کے اندر جمود و تعطل کے علی الرغم حرکت پذیری اور قوت نمو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن انسان کے دل کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنی ’’ قسادت‘‘ میں پتھروں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ ایسی ’’ پتھریلی انائیں‘‘ آخرت کی ’’ نئی زمین اور نئے آسمان‘‘ میں خود کو اجنبی، ناکارہ اور نا اہل پائیں گی۔ چنانچہ ایسے لوگوں میں شدید غم، تاسف اور حسرت کے احساسات پیدا ہوں گے اور انہی احساسات کی جھلسا دینے والی آگ ان کے دلوں کو جھانکے گی یہ وہ لوگ ہوں گے جو حریم ذات کی طرف بڑھتے ہوئے عظیم الشان سفر میں پیچھے رہ جائیں گے۔ کیونکہ اپنی ’’ قسادت قلب‘‘ اور اعمال حسنہ سے تہی دامنی کی بنا پر قوت نمو اور تحریک ارتقا سے محروم ہو چکے ہوں گے۔ خدا ایسے لوگوں کو جہنم میں اس لیے نہیں ڈالے گا کہ اس سے اس کے انتقام کے تقاضے پورے ہوں گے بلکہ وہ بر بنائے تقاضائے رحمانیت و ربوبیت انہیں ایک ایسے عمل (جہنم) سے گزارے گا جس سے کہ ان کی قساوت ختم ہو جائے اور یہ دوبارہ ارتقائی سفر کے اہل بن سکیں اس طرح دیکھا جائے تو جہنم ارتقائی سفر سے کٹ جانے کا الم ناک احساس ہے اور اسی احساس کی تپش سہ سہ کر بالآخر گناہ گار دوبارہ اس قابل ہو سکیں گے کہ ارتقائی سفر شروع کر سکیں۔ مولانا شبلی کے الفاظ میں: ’’اگر یہ کہا جائے کہ قیامت اور دوزخ کی ہولناکیاں اورسزائیں بھی گناہ گاروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی اسی طرح نعمت ہیں جس طرح اس دنیا میں شفاخانوں کا وجود بیماروں کے لیے نعمت ہے۔ اگر دوزخ نہ ہوتی تو گناہ گاروں کی پاکیزگی اور پاکوں کی جنت میں ان کے داخل ہونے کی کوئی صورت نہ تھی۔ اس رحمن و رحیم کی رحمت و کرم نے گوارا نہ کیا کہ ان بدبختوں کو ان کی نافرمانیوں کے باوجود ہمیشہ کے لیے محروم رکھا جائے ۔ اس لیے کہ ان کی صفائی کے لیے پہلے برزخ کا حمام مقرر کیا اور اس سے بھی پاک نہ ہو سکیں تو ان کے لیے دوزخ کی آگ مقرر کی کہ وہ اپنی ہر قسم کی بداعمالیوں کی میل کچیل کو جلا کر نکھر کر پاک ہو جائیں اور کندن بن کر بالآخر اپنی آبائی اور فطری وراثت (جنت) پائیں‘‘۔ ۷۷؎ جہنم کو اقبال اور مولانا شبلی نعمانی نے شفاخانہ یا اصلاحی اور زناریبی عمل قرار دیا ہے۔ اس نقطہ نظر کی توثیق قرآن کی ان آیات سے ہوتی ہے: ’’تم پر آگ کے صاف اور دھواں ملے شعلے چھوڑے جائیں گے۔ پھر کوئی تمہاری مدد نہ کر سکے گا۔ تو اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو تم جھٹلائو گے۔ پھر جب آسمان پھٹ کر تلچھٹ کی طرح گلابی ہو جائے گا پھر اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو تم جھٹلائو گے ،۔ پھر اس دن کسی جن و انس سے اس کے گناہ کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا تو تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ گناہ گار اپنی نشانیوں (یا حیلہ) سے پہچان لیے جائیں گے۔ پھر وہ اپنی پیشانیوں کے بال اور پائوں سے پکڑے جائیںگے۔ تو اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو تم جھٹلائو گے۔ یہ وہ دوزخ ہے جس کو گناہ گار جھٹلاتے تھے وہ اس دوزخ اور گرم پانی کے بیچ میں گشت کریں گے تو تم اپنے پروردگار کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے‘‘۔ (۵۵: ۳۵ تا ۴۵) قرآن کی ان آیات کی ہم صرف ایک طریقے سے ہی تفسیر و تشریح کر سکتے ہیں کہ جہنم کو خدائے منتقم کا دارالعذاب نہ سمجھیں بلکہ خدائے رحمان کا دارالعلاج سمجھیں۔ جب اس شفاخانے سے مریض صحت یاب ہو کر نکلیں گے یعنی جب گناہ گار وں کے گناہ جھڑ جائیں گے اور وہ پاک و صاف ہو جائیں گے تو انہیں مقام اعراف میں ٹھہرایا جائے گا۔ جہاں وہ کچھ عرصہ جنت میں داخلے کے امیدوار رہیں گے اور اس کے بعد انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اقبال جنت کو ایک ایسی عشرت گاہ نہیں سمجھتا جس میں حرکت ع عمل ختم ہو جائے۔ زندگی ایک ہے ار مسلسل ہے 78؎ ایک دفعہ منصہ شہود پر آ جانے کے بعد یہ دنیوی دور میں سے گزرتی ہے۔ پھر برزخ کا وقفہ آ جاتا ہے۔ اور اس کے بعد آخر کا دور دائمی شروع ہوتا ہے۔ آخرت کے دور میں بھی زندگی تعطل اور جمود کا شکار نہیں ہو گی۔ اگر جہنم میں ہو گی تو اہلیت ارتقاء کے حصول میں کوشاں رہے گی اور اگر جنت میں ہو گی تو ذات لامتناہی کی نوبہ نہ تخلیقات کے لیی جس کی ہر لحظہ ایک نئی شان ہے ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتی رہے گی۔ 79؎ اقبال کہتا ہے کہ جنت کی حیات سرمدی ایک انعام ہے جسے مسلسل تگ و دو کے بعد حاصل کیا جاتا ہے اور جب یہ انعام حاصل ہو جاتا ہے یعنی انسان جب انوار الٰہیہ کا مہبط بن جاتا ہے یا اسے قرب الٰہی کی سعادت مل جاتی ہے تو وہ ایک منفعل جامد و غیر متحرک شاہد نہیں ہوتا بلکہ یہ سعادت اس کے اختیار و آزادی اور حرکت و ارتقاء کے لیے ایک لامحدود جولان گاہ ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسی جنت کا تصور جس میں کاہلی‘ بے کاری اور جمود ہو اقبال کے لیے ناقابل قبول ہے (باب ۵: جز ۱) میں ہم یہدیکھ آئے ہیں کہ قرآن نے جنت کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس میں بھی ایسے اشارات موجود ہیں جن سے آخرت کی زندگی میں ارتقائے مسلسل کا پتہ چلتا ہے چنانچہ حرکت و عمل کا وہ رجائیت پسندانہ رویہ جو روح انسانی کے بقائے دوام کے عقیدے سے ابھرتا ہے جنت کی زندگی میں ختم نہیں ہو جاتا۔ لذت پرواز اقبال کے نزدیک فی نفسہ ایک بڑی سعادت ہے لیکن دنیوی زندگی میں یہ لذت پرواز‘ درماندگی‘ تھکاوٹ اور حدود و قیود سے مشروط ہے۔ جبکہ جنت میں انوار الٰہیہ کے ناظر و شاہد کی حیثیت سے یہ لذت پرواز لا محدود امکانات اور مسرت و شادمانی سے عبارت ہو گی۔ ’’اسی طرح خودی کا ہر عمل ایک نیا موقع پید اکرتا ہے اور یوں اپنی اخلاقی اور ایجاد و طباعی کے نئے نئے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ ‘‘ 80؎ ٭٭٭ چھٹا باب حواشی 1۔ دیکھیے دوسرا باب : حوالہ نمبر 28 2۔ مکتوب بنام سر اکبر حیدری مورخہ 13جون 1937 درضیا بار اقبال نمبر (ج ۹ ۱ ص ۵۰) گورنمنٹ کالج سرگودھا۔ اس حوالے کا انگریزی متن یہ ہے: "The Cast of My emotional life is such that I could not have lived a single moment without a strong faith in the immortality of human consciousness, This faith has come to me from the Holy Prophet of Islam. Every atom of me is brimming with gratitude to him...." نوٹ : یہ حوالہ متعلقات خطبات اقبال سے ماخوذ ہے۔ 3۔ سید نذیر بٹالوی‘ مکتوبات اقبال۔ اقبال اکادمی لاہور ص 74 4۔ محمد رفیع الدین : حکمت اقبال ص 11 5۔ ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال (مرتب) شذرات فکر اقبال (مترجم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی) : ص 77-78 6۔ علامہ محمد اقبال: تشکیل جدید: ص 175 7۔ ایضاً: ص 176 8۔ ایضاً : ص 179 9۔ ایضاً 10۔ ایضاً 11۔ ایضاً : ص 181 12۔ ایضا : ص 182 13۔ ایضاً ص 182-183 14۔ ایضاً: ص 183 15۔ ایضاً 16۔ ایضاً 17۔ ایضاً ص 185 18۔ انسائیکلو پیڈیا فلاسفی۔ جلد سوم: ص 64-65 19۔ تشکیل جدید: ص 98 20۔ ایضاً: ص 114-115 21۔ ایضاً ص10 1 22۔ ایضاً ص 116-117 23۔ اقبال کے تصور ابدیت کے تفصیلی مطالعے کے لیے ملاحظہ ہو: Naeem Ahmad, Iqbal's Concept of Eternity, Iqbal Review, Lahore. April 1977 24۔ سید محمد عبداللہ : متعلقات خطبات اقبال : ص 204 25۔ پنڈت پیار سے کشن داتل کی طرف اشارہ ہے؛دیکھیے ایضاً ص 192 26۔ اس موضوع پر مزید مطالعہ کے لیے ملاحظہ ہو: Naeem Ahmad, Op Cit. pp. 11-13 27۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی: اقبال کا تصورزمان و مکاں اور دوسرے مضامین : ص 115-117 28۔ Naeem Ahmad op.Cit.,p.13 29۔ تشکیل جدیدیہ: ص 77 30۔ ایضاً ص 86-87 31۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی: اقبال او ر مسلک تصوف : اقبال اکادمی لاہور۔ ص 228 32۔ ایضاً 33۔ محمد رفیع الدین حکمت اقبال: ص 82-83 34۔ ہرمین وان ہلم ہاز (Herman von Helmholtz) (1821-1894) ایک جرمن فوجی آفیسر کا بیٹا تھا اور اسے اس مقصد کے تحت تعلیم دلوائی گئی کہ وہ ایک فوجی ڈاکٹر بنے گا۔ تاہم ہلم ہاز کو یہ علم الادویہ اور طبابت سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ اس کے برعکس اسے طبیعیات سے گہرا شغف تھا۔ چنانچہ اس نے محض اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر ان علوم کا مطالعہ شروع کر دیا طبیعیات ‘ عضویات‘ اور نفسیات کے دائرہ کار میں اس نے متعدد تجربے کیے اور زمان رد عمل (Reaction time)سماعت (Audition) اور رویت (Vision)کے بارے میں قابل قدر تحقیقات کیں۔ عضویاتی نفسیات (Physiological Psychology) میں یہ مسئلہ نہات اہمیت کا حامل تھا کہ مہیج (Stimulus) اور ا س کے رد عمل (Response) کے مابین کتنا وقت صرف ہوتا ہے ۔ ہلم ہاز کی پہلی قابل ذکر تحقیق عصبی ہیجانات (Nerve Impulsed)کے ایصال… کی رفتار کے متعلق تھی۔ اس سے پہلے اس میدان میں کوئی تحقیق نہیںہوئی تھی۔ البتہ ملر… نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مہیج کے ذہن تک پہنچنے کا عمل برق کے کوندے کی طرح ہے لیکن ہلم ہا ز نے مینڈکوں پر تجربات کر کے یہ ثابت کیا کہ مہیج اور عصبی حرکت کے مابین وقفہ ۳۰ میٹر فی سیکنڈ کی رفتار ظاہر کرتا ہے۔ بعد ازاں اس نے انسانوں پر تجربات شروع کیے لیکن اب اسے انسانوں میں عصبی ہیجان نے ایصال کے صحیح رفتار کے تعین میں بہت دشواریاں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہلم ہاز کے تجربات کو بعد ازاں ڈچ ماہر عضویات ڈونڈرر (Donders) نے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور مختلف حسیات کے مختلف زمانایصال کو متعین کیا۔ ہلم ہاز نے رویت (Vision) کے بارے میں جو تحقیقات کیں ان مٰں اس نے قطعیت کے ساتھ یہ تعین کیا کہ کون سا طول موج (Wave Length)کتنا زمان ایصال (Condution Time)لیتا ہے دیکھیے: Garderner Musphy, Historical Introduction to Modern Psychology pp. 137-143 ہلم ہاز کی تحقیق سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عصبی ہیجان اور حرکی رد عمل میں چونکہ کچھ وقت صرف ہوتا ہے اس لیے ذہن کا اس سے ماورا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اقبال کا یہ جملہ اگر ایسا ہے تو پھر ہمارے موجودہ تصور زمان کی بنیاد ہماری عضویاتی ساخت ہے۔ بڑا معنی خیز ہے اور مزید عضویاتی تحقیقات کے امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ عضویاتی اور حیاتیاتی زمان پر کئی زاویوں سے تحقیقات شروع ہو چکی ہیں دیکھیے: Prof. Sh. Saeed(ed) The Reconstruction or Religious thought in Islam, Ref: 58p. 177. 35۔ خواب میں زمان و مکان کی نوعیت کیسے بدلتی ہے اس کی کسی حد تک تشریح درج ذیل اقتبا س سے ہو سکتی ہے: How long does a dream last? Obviously not at long as the time covered by the dream experience for the dreamer can live through a span of time such longer than the length of a night, even assuming that he dreamus all the time has been asleep. We can pack many months into a few minutes of dreaming. One early researcher Alfred Maury (1817-92) recorded a lengthy dream in which a vast panorama of the events of the French Revolution was witnessed by him in vivid and slaborate detail. He saw some of the horrors, spoke to the protagonsists and was himself finally accused of crimes against the people was tried found guilty and led to the place of execution. He felt the drop of the guillotin at the same moment that the bed tester slipped from his frame and fell on the nape of his neck. He concluded that between one time of the post struct him and the time he awoke the whole preceeding dream sequence of the French Revolution had flashed through his mind in a sudden burst to rationalize and account for the falling bed post". مزید مطالعہ کے لیے ملاحظہ فرمائیے: Enpsychopaedia of the Unexplained pp. 76-8(Dreams) also see "Astral body, Astral Plane, p. 37. 36۔ Seyyed Hassein Nar "Natural History" Chap. LXVI in History of muslim Philosophy edited by MM. Sharif. p 1316. 37۔ ایضا: ص 1331 38۔ Seyyed Hossein Nasr, "Science and Civilazation in Islam" p. 107. 39 ۔ جارج مارٹن نے الجاحظ کی کتاب الحیوان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس میں ماحول سے مطابقت حیوانی نفسیات اور متعدد جدید ارتقائی نظریات کے تخم موجود میں دیکھیے: Grorge Sarton Introdution to the History of Science I, 597. 40۔ Seyyed Hosein Nasr, "Natural History" in M.M.Sharif's History of Muslim Philosophy" Vol II p. 3043 41۔ ڈاکٹرعبدالخالق پروفیسر یوسف شیدائی مسلم فلسفہ۔ ص 170 42۔ Seyyed Hossein Nasr, op. cit. p.1331 43۔ ایضاً 44۔ مثلاً مثنوی اسرار خودی میں حکایت الماس و زغال ص 56 حکایت طائر سے کہ از تشنگی بیتاب بود ‘‘ ص 54۔ پیام مشرق کی نظم شوپن ہار اور نٹشا میں ایک پرندے اور ہد ہد کے حوالے سے شوپن ہار ارو نٹشے کے زہنی رویوں یعنی قنوطیت اور رجائیت کی تشریح کی گئی ہے۔ پیام مشرق ۔ ص194 45۔ تشکیل جدید: ص 160 46۔ ایضاً 47۔ ایضاً : ص 161 48۔ ایضاً : ص 183 49۔ یہ نظریہ کہ موت زندگی کا ثمر ہے۔ مغرب میں بھی اجنبی نہیں۔ جرمن شعرا میں سے روکوٹ اور پھر رلکے نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ اس ضمن میں مشہور اطالوی ماہر اقبال این یری شمل لکھتی ہے: "....... Ruckert and later onf Rilke have expressed in Jerman Poetry that death is the most personal act which man bears in himself from the very begining of the life, and which he repens and forms according to the his faculties: an idea which has been elaborated in Europe excellently by Swedenborg who considered judgement the unveiling of the form which the inner self has taken during life-time, and according to which it would develop continuously in eternity." Anne Marie Schimmel, Gibrael,s wing, p. 276 50۔ مولانا شبلی نعمانی : سوانح مولانا روم: ص 137 51۔ ایضاً : ص 138-140 52۔ ایضاً ص 176 تجدد امثال کی تشریح رومی نے ایک اور جگہ ان الفاظ میں کی ہے: ’’بیان است مرمسئلہ تجدد امثال راوآں ایں اسست کہ صور ہمہ کائنات ور ہر آں تبدل می شود کہ درہرآں صور تے معدوم می شود و صورت اخری در آں موجود می شود‘ باوحدت و ایں نیست کہ یک صورت باقی باشدد رودآں لیکن چونکہ صورت زائلہ شبیہ صورت حادثہ است پس ایں متبدل را نمی یا بدوگماں بردہ می شود کہ ہماری صورت مستمرہ است‘‘۔ (شبلی : سوانح مولان روم ص 177)۔ یعنی …تجدد امثال یہ ہے کہ کائنات کی صورتیں ہر لحظہ تبدیل ہو رہی ہیں۔ ایک صورت زائل ہوتی ہے تو دوسری اس کی جگہ لے لیتی ہے اور ذات اسی طرح باقی رہتی ہے۔ چونکہ مٹنے والی صورت آنے والی صورت جیسی ہے اس وجہ سے اس تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلی صورت علی حالحھا باقی ہے۔ 53۔ بعض لوگ رومی کے اس بیان کہ مرگ اور رجعت کا عمل جاری ہے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ تناسخ کے قائل تھے۔ رومی کے تجدد امثال کے نظریہ میں تناسخ کا نظریہ کسی طور بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ تناسخ میں جنم جنم کی گردش کا تصور زمان کے دوری تصور کا پیدا کردہ ہے۔ جبکہ رومی کے نزدیک روح انسانی کے ایک دائرے میں گردشن نہیں کر رہی بلکہ مسلسل ارتقا پذیر ہے ۔ تناسخ میں یہ عین ممکن ہے کہ کسی کو اگلا جنم نہایت کمتردرجے کا ملے ۔ رومی جب انسان کی طبعی و روحانی تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر روح کا ادنیٰ درجوں سے اعلیٰ درجوں کی طرف صعود ہے ۔ مزید برآں مرگ و رجعت سے ان کی مراد وہی ہے جو جدید عضویات میں عمل جذب (Assimilation) اور عمل تفریق (Dissimilation) ہے۔ پرانے خلیے ہر آن مرتے رہتے ہیں اورنئے خلیے ان کی جگہ وجود میں آتے رہتے ہیں۔ تبادلہ اجزاء کا عمل چونکہ نہایت سرعت کے ساتھ ہو رہا ہے اس لیے ہم ایک عضو یہ کو مستقل و مستمر سمجھتے ہیں مرگ و رجعت کی ایک زیادہ واضح مثال ہم سرد خون (Coldblooded) جانوروں سے لے سکتے ہیں جو کہ سرمائی نیند (بلکہ سرمائی بے حسی جو کہ موت سے مشابہ ہے) کے لیے شتویت (Hibernation) کا عمل اختیار کرتے ہیں۔ اور موسم سرما کی شدت سے بچنے کے لیے کسی بند جگہ پر تقریباً حالت مرگ میں پڑے رہتے ہیں۔ لیکن موسمی کیفیات بدلتے ہی ان میں بھرپور زندگی کے آثار ازسرنو پیدا ہو جاتے ہیں۔ سانپ اپنی کھال (کینچلی) جو کہ حالت شتویت میں ناکارہ ہو چکی ہوتی ہے‘ بدلتاہے۔ کیونکہ پرانی کھال کی جگہ نئی کھال پیداہو چکی ہے ۔ آج کل سائنسدان انسانی شتویت (Human Hibernation) کے امکان کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ خلائی سفر کا طویل عرصہ گزار کر انسان کسی دوسرے سیارے پر پہنچ جائے اگر ایسا ہو گیا تو اس کا سار اخلائی سفر ایک قسم کی حالت مرگ میں گزرے گا اور منزل پر پہنچ کر ایک لحاظ سے اس کی تخلیق نو ہو گی۔ اس طرح حیات و موت اور فنا و بقا کے مروجہ مفاہیم کافی حد تک بدل جائیں گے ۔ انسانی شتویت کوئی اتنی بعید از قیاس نہیں ۔ جنوبی ایشیا کے باشندوں کے لیے ایسے لوگ اجنبی نہیں جو حبس دم کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بعض اوقات عجیب و غریب کرتب دکھاتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی زندہ قبر کے اندر لیٹ جاتا ہے اور قبر کو بالکل اسی طرح بند کر دیا جاتا ہے جیسے مردے کو دفن کیا جاتا ہے۔ لیکن کئی دنوں کے بعد بھی جب اسے قبر سے نکالا جاتا ہے تو وہ زندہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی انسانی شتویت ہی ہے۔ 54۔ دور جدید کے کچھ ایسے مفکرین بھی ہیںجو وجودیت کی تحریک کو اس کی قنوطیت پسندی کی وجہ سے ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان مفکرین میں فریڈرک اوٹوبالنو (Friedrich Otto Ballnow) بھی ہے بالنو نے وجودی مفکرین کے تشویش اضطراب اور مایوسی جیسے تصورات کی جگہ ’’فراخدلی‘‘ اور ’’عالی ظرفی‘‘ جیسے تصورات کو متعارف کرایا۔ اسی وجہ سے وجودیت کے خلاف ایک رد عمل ابھرا جس میں مایوسی اور قنوطیت کے بجائے رجائیت اور ولولہ ہے۔ اس کو Philosophy of the Living Spiritکا نام دیا گیا ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: Fritz-Joachim Von Rintelen "Contemporary German Philosophy and its Background p. 121, An Advance Beyond Existentialism, and Chap. VI 'The Philosophy of the Living Spirit p. 123. 55۔ تشکیل جدید : ص 182 56۔ مولانا شبلی نعمانی سیرت النبیؐ جلد 4 ۔ ص 665 57۔ ایضاً: ص 666 58۔ "It has been estimated that a human being has a new body every seven years, the time it take for the old cells of the body to be replaced by newones." Carl p. Swanson, the cell, p. 108 59 ۔ مولانا شبلی نعمانی : سیرت النبیؐ : جلد 4 ص 669 60۔ ایضاً: ص 670 61۔ مولانا حنیف ندوی: تہافتہ الفلاسفہ: ص 209 62۔ تشکیل جدید: ص 185 63۔ ایضاً : ص 184-185 64۔ سید امیر علی: روح اسلام ص 314-315 65۔ ایضاً : ص 323-324 66۔ مولانا شبلی نعمانی: سیرت النبیؐ ۔ جلد 4ص 672 67۔ مولانا حنیف ندوی: تہافتہ الفلاسفہ : ص 210 68۔ مولانا حنیف ندوی: لسان القرآن جلد 1ص 388 69۔ سید امیر علی : روح اسلام: ص 330-331 70۔ تشکیل جدید۔ ص 185 71۔ شبلی نعمانی: سیرت النبیؐ : جلد 4ص 739 72۔ تشکیل جدید: ص 186 73۔ شبلی نعمانی : سیرت النبیؐ: جلد 4 ص721-722 74۔ تشکیل جدید : ص 186 75۔ مولانا حنیف ندوی: لسان القرآن۔ جلد 1 ص 387 76۔ شبلی نعمانی۔ سیرت النبیؐ۔ جلد 4ص 274 77۔ تشکیل جدید: ص 186 78۔ ایضاً 79۔ ایضاً : ص 187 ٭٭٭ اختتامیہ ٭٭٭ اقبال نے جن فلسفیوں کے تصور موت و بقا پر تنقید کی ہے ان کے خصوصی مطالعہ سے اور تاریخ فلسفہ کے عمومی مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ مو ت اور موت کے خوف پر قابو پانے کے مسئلہ کا تمام تر انحصار فرد کے اس انفرادی رویے پر ہوتا ہے جو کہ وہ زندگی کے متعلق اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ موت کے خوف پر قابو پانے کے لیے ہر شخص اپنا مخصوص طریق کار وضع کر سکتا ہے۔ لیکن موت کے بارے میں کسی شخص کا رویہ اس کی زندگی کے ہر دور کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تصور موت میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی جاتی ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موت کے بارے میں کسی شخص کا رویہ محض ذہنی اور فکری ہی نہیںہوتا بلکہ یہ اس کا داخلی اور وجودی مسئلہ بھی بن جاتا ہے ۔ مختلف ادوار اور حالات و ظروف کے تحت اس میں تبدیلیوںکا پیدا ہونا قطعی امر ہے ۔ مختلف ادوار اور حالات و ظروف کے تحت اس میں تبدیلیوں کا پیدا ہونا قطعی فطری امر ہے اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسئلہ موت کا فکری سطح پر کوئی ایسا حل پیش نہیں کیا جا سکتا جو کہ عالمگیر طورپر صحیح اور قابل قبول ہو۔ پہلی اور دوسری صدی قبل مسیح میں روم کے اندر اور چوتھی اور پانچویںصدی قبل مسیح میں یونان کے اندر موت کا مسئلہ انتہائی فلسفیانہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ان صدیوں میں فلسفیانہ سوچ کا مرکز و محور ہی یہ مسئلہ رہا ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔ ۱؎ لیکن عیسائیت کی آمد اور اس کے غلبہ و استیلاء سے اس مسئلہ کی اہمیت یکسر ختم ہو گئی ۔ عیسائیت کے تصور آخرت نے دوام حیات کا بھرپور اثبات کر دیا ۔ چنانچہ اب یہ مسئلہ سر سے مسئلہ ہی نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ از منہ وسطیٰ کے پورے دور میں ہمیں روح کی نوعیت و ماہیت اجزا و سزا اور جنت اور دوزخ کی الٰہیاتی بحثیں ملتی ہیں۔ جن میں انسان کے بقائے دوام کو ایک مسلمہ کی حیثیت حاصل ہے مسئلہ کی نہیں۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد دور مدرسیت کے خلاف شدید رد عمل رونما ہوا۔ چنانچہ دور جدید کے فلسفیوں میں ہمیں یہ رجحانمایاں طور پر نظر آتاہے کہ بقائے دوام اور حیات بعد الموت کی تردید کر دی جائے۔ تاہم دور جدید میںمسئلہ موت نے ایک نئی جہت اختیار کر لی ۔ اکثر فلسفی اس کوشش میںمصروف ہو گئے کہ موت کے خوف پر قابو پایا جائے تاکہ زندگی بہتر طریقے سے بسر ہو سکے۔ بعض مورخین فلسفہ کہتے ہیں کہ میں فلسفہ جدید میں مسئلہ موت سے لاتعلقی کا رجحان اسپنوزا کے فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنا شروع ہوا او ر انیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے ہوئے جبکہ ہر طرف سائنسی تحقیقات اور اثباتیت کا دور دورہ تھا ‘ اس رجحان نے مسئلہ موت سے مکمل انکار کی صورت اختیار کر لی۔ چنانچہ یہ کہا جا تا ہے بیسویں صدی میںموت مر گئی فورنیر Fournier کہتا ہے: ’’بیسویںصدی اتنی مصروف ہے کہ یہ موت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل میں نہیںالجھ سکتی… موت مر چکی ہے چنانچہ اسے نہ اپنے اوپر مسلط بدبختی سمجھنا چاہیے اور نہ ہی لابختوں کا موضوع‘‘۔ 2؎ بعض لسانی فلسفی جو مسئلہ موت و بقا سے تعرض کرتے ہیں وہ اس مسئلے کا ایسا لا تعلقلاتی تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ صرف منطقی اور لسانی تحلیل کی ریاضت بن کر رہ جاتا ہے اور اس سے عملی زندگی میں کوئی مخصوص رویہ وضع کرنے میں مدد نہیںملتی۔ 3؎ دور جدید میں سائنسی اور اثباتی رویے کے تحت اگرچہ اس مسئلہ سے لاتعلقی یا اس سے انکار کا رجحان نمایاں رہا ہے تاہم بقائے دوام کے بارے میں بعض فلاسفہ نے مثبت رویہ بھی اختیار کیا ہے۔ خاص طورپر انیسویں صدی کے اواخر میں اور بیسویں صدی کے شروع میں بعض فلاسفہ (مثلاً برگساں اور ولیم جیمز) نے سائنسی مادیت پسندی کے علی الرغم اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس طرح موجودہ صدی میں اس مسئلہ پر بہت کچھ لکھاگیا ہے اور بقول اقبال بقائے دوام کے مسئلے میں جتنی دلچسپی دور حاضر میں لی گئی ہے‘ کسی اور دورمیںنہیں لی گئی ۔ 4؎ بعض فلسفیوںنے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ مسئلہ موت انسانی صورت حال (Human Condition) سے متعلق نہیں۔ اس لیے کہ اسے زیر بحث نہیںلانا چاہیے‘ (مثلاً دیکھیے برٹرینڈرسل کی کتاب My Mental Development ) اس نقطہ نظر کی شدید مخالفت وجودی مفکرین کرتے ہیں۔ جن کے نزدیک موت انسانی صورت حال کی لازمی شرط ہے۔ ڈیوڈ ہیوم نے ٹھیک کہا تھا کہ بقائے دوام کا یقین صرف مذہب ہی سے حاصل ہو سکتا ہے ۔ تاریخی اور روایتی طور پر بھی یہ مسئلہ مذہب کے متعلق ہے۔ تقریباً تمام مذاہب عالم میں حیات انسانی کے بقائے دوام کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ بقائے دوام جسمی ہو یاغیر جسمی! یہ مسئلہ فلسفیانہ فکر کی حدود میں اس وقت داخل ہوتا ہے جب علمی اکتشافات اور سائنسی تحقیقات سے مذہبی عقیدے پر ضرب لگتی ہے یا سب روز مرہ کے مشاہدات سے کچھ ایسے سوالات اٹھتے ہیں کہ جو مذہبی عقیدے کی صحت کو مشکوک کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میںفلسفیانہ فکر دو راستے اختیار کر سکتا ہے پہلا راستہ بقائے دوام کے انکار یا عدمیت (Nihilise)کا راستہ ہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ فلسفیانہ استدلال سے کچھ ایسے جواز پیش کیے جائیں‘ جو بقائے دوام کے مذہبی عقیدے کی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دے سکیں۔ ان دونوں راستوںمیں سے کسی ایک کے انتخاب کا انحصار کسی فلسفی کی زندگی کے بارے میں اس کے عمومی رویے پر ہوتا ہے۔ بعض طبائع فطرتاً قنوطیت پسند اور غم آگیں ہوتی ہیں اور بعض طبائع کا رجحا ن امید ‘ حوصلے اور عزم کی طر ف ہوتا ہے۔ ان طبائع کی تشکیل میں کون سے عناصر کارفرما رہتے ہیں یہ امر ہماری موجودہ بحث کے دائرہ اثر سے باہر ہے ہم یہاں صرف یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بقائے دوام کے اقرار یا انکار کا واحد دارومدار فرد کے ذاتی رویے پر ہے اور یہ کہ بقائے دوام کا مسئلہ صرف مذہب ہی کا نہیں بلکہ فلسفے کا مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ گزشتہ باب کے آغاز میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ اقبال نے سر اکبر حیدر آبادی کے نا م اپنے خط میں اعتراف کیا ہے کہ اس کے عقیدہ بقائے دوام کی اساس مذہبی ہے لیکن وہ اسی پر قناعت نہیںکرتا۔ اسے اس عقیدے کے پیدا کردہ فکری اشکالات اور منطقی تضادات سے بخوبی آگاہی ہے۔ اسی لیے اس نے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میںاس مسئلہ کو خالصتاً فلسفیانہ اندازمیںموضوع بحث بنایا ہے اس کا خیا ل ہے کہ مذہبی معتقدات نے مسلمانوں کے سامنے فکر و تحقیق کی کئی راہیں کھول دی ہیں۔ رحم مادر میں تخلیق انسان کے مختلف عضویاتی مراحل کا قرآن میںذکر آتا ہے۔ اقبال کا خیا ل ہے کہ ا س تذکرے سے ابتدائی دورکے مسلمان مفکرین اور فلاسفہ کو علم الحیاتیات کے مطالعے کی تحریک ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان فلاسفہ نے صدیوں پہلے حیاتیاتی ارتقا اور ا س کے مختلف مراحل کا نظریہ پیش کیا تھا۔ جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے روح انسانی تک کے ارتقاء کا سارا عمل اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ انسان کی موت پر ارتقاء کا یہ عمل رک نہیں جائے گا۔ بلکہ اس کے بعد بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہیگا۔ اقبال جن دنوں انگلینڈ میںپڑھنے کے لیے گیا ہوا تھا تو جدید علوم کے مادہ پرستانہ اثرات کے تحت ہی اس کا ذہنی جھکائو ہریت کی طرف ہو گیا لیکن بقول خود اس کے اسے ورڈز ورتھ کے مطالعہ نے دہریت سے بچا لیا۔ اگر وہ دہریت کا شکار ہو جاتا تو وہ لازماً بقائے دوام کا منکر ہو جاتا۔ بعد ازاں اسے رومی کے افکار نے بڑی تقویت دی اور اس نے قرآن کے معانی و مطالب پر ایک نئے نقطہ نظر سے غور کیا تو اسے محسوس ہوا کہ قرآن کا نظریہ بقائے دوام اخلاقی بھی ہے اور حیاتیاتی بھی یعنی موت کی منزل آخر نہیں بلکہ اس کے سفر کا ایک مرحلہ ہے۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیںکرنی چاہیے کہ بنیادی طور پر یہ انسان کا طبعی رویہ ہی ہوتا ہے جو کہ اگر قنوطیت پسندانہ ہو تو وہ بقائے دوام کا انکار کر دے گا اور اگر یہ رجائیت پسندانہ ہو تو اسے اپنی مرضی کے ایسے شواہد مل جائیں گے کہ جو اسے بقائے دوام کے اثبات کی طرف لے جائیں گے۔ اقبال موت کے بارے میں ان دو متضاد رویوں کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھا۔ چنانچہ پیام مشرق کی نظم شوپنہار اور نٹشا نہ صرف اپنی فنی خوبصورتی کی وجہ سے بہت بلند مقام رکھتی ہے بلکہ دو رویوں کا بھی بہترین غماز ہے۔ شوپن ہار کے ذہنی پس منظر میں دائرو کی جنگ کی تباہ کاریوں نے حیات و کائنات کی تصویر مسخ کر رکھی تھی۔ چنانچہ بقول جگن ناتھ آزاد: ’’اس نے خدا کو بے بصور اور دنیا کو برا کہا۔ دلگیری‘ حزن‘ خشک مزاجی چڑچڑا پن اور نوع انسانی کی نیکیوں سے انکار اس کا مقدر ہو گیا۔ اس کے دل و دماغ پر عجیب قسم کے خوف اور وہم مسلط ہو گئے۔ وہ اپنا پائپ ہمیشہ مقفل رکھتا تھا۔ اس اندیشے سے کہ کہیں نائی اس کے گلے پر استرا نہ چلا دے۔ اس نے کبھی نائی سے حجامت نہیںبنوائی تھی۔ ہر رات وہ ایک بھرا ہوا پستول‘ اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوتا… اس نے موت کی بڑی بھیانک تصویر کھینچی ہے اوراسے زندگی کے جرم کے لیے پھانسی کا نام دیاہے ۔ 5؎ اس کے برعکس نٹشے کا فلسفہ شوپن ہار کی قنوطیت سے بچنے کی ایک بھرپور کوشش ہے۔ چنانچہ نٹشے کسی صورت بھی بقائے دوام کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کی رجائیت پسندی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ مستقبل کا مرد کامل کی آمد کا منتظر رہے۔ اقبال کے ذہنی ارتقاء میںہمیں واضح طور پر یہ بات نظر آتی ہے کہ اس کا فطری رجحان رجائیت پسندی کی طرف ہے۔ اسی مناسبت سے وہ بعض مفکرین سے متاثر ہوتا ہے۔ اور بعض کو حرف تنقید بناتاہے۔ دور جدید کی افسردگی مایوسی اور بے حسی کے خاتمے کے لیے وہ ایک رومی کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جو دلوں کی زندگی امیدوار ذوق و شوق کے جذبات سے معمور کر دے ۔ 6؎ اسی طرح وہ اسلام کو ایک ایسا مذہب سمجھتا ہے جو انسان کو امید ‘ حوصلہ اور عزم کا پیغام دیتا ہے اور ہمیشہ سرگرم عمل رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک بات جو ہمیں اقبال کے تصور دوام میں اور اکثر مذاہب عالم میں مشترک نظر آتی ہے‘ یہ ہے کہ بقائے دوام کو اعمال کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ قدیم مصری مذہب ہو یا ہندومت زرتشتی مذہب ہو یا یہودتی‘ عیسائیت ہو یا اسلام‘ سب مذاہب میں روحانی اور بقائے دوام کو اعمال پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ 7؎ ہندوئوں کے فلسفے کے بارے میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ اس میں ایک جسم لطیف کا نظریہ دیا گیا ہے۔ جس کا دارومدار اعمال یا کرموں پر ہوتا ہے ۔ سی ڈی براڈ یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے کسی شخص کا نفسی عامل یوں برقرار رہتا ہے جیسے مرجھا جانے کے بعد کسی پھول کی خوشبو کچھ دیر تک قائم رہتی ہے۔ اس نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی کہ یہ نفسی عامل کس طرح کے اعمال سے تشکیل پاتا ہے۔ لیکن یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اس نفسی عامل کی تشکیل اعمال سے ہوتی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ وہ مرنے کے بعد کتے عرصے کے لیے برقرار رہے گا تو ہم اس کا حتمی طور پر تعین نہیں کر سکتے۔ سی ۔ ڈی ۔ براڈ چونکہ خوشبو اور پھول کی مثال سے نفسی عامل (روح) اوربدن کا تعلق واضح کر رہا ہے اس لیے وہ یہ کہتا ہے کہ مرنے کے کچھ عرصہ بعد یہ نفسی عامل پھول کی خوشبو کی طرح ہی معدوم ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ براڈ کے پاس اس نظریہ کی کہ یہ نسفی عامل کچھ عرصہ بعد معدوم ہو جائے گا اور مستقلاً قائم نہیںرہے گا کوئی معقول وجہ نہیں ۔ بقائے دوام کے اسلامی نظریہ میں ہم یہ دیکھ آئے ہیں کہ اعمال صالحہ ایک ایسے وجود معنوی کی تشکیل کرتے ہیں جو موت کے صدمے سے متاثر نہیںہوتا۔ بار بار اعمال اور حیات بعد الموت پر مرتبت ہونے والے ان کے اثرات کا ذکر آتا ہے بعض مفسرین کے نزدیک آخرت میں لوگوں کو جو اجسام عطا ہوں گے ان کی تشکیل اس دنیا میں کیے گئے اعمال ہی کریں گے۔ اقبال کا بھی یہی خیال ہے کہ بقائے دوام انسان کا پیدائشی حق نہیں۔ بلکہ اس کے حصول کے لیے اسے سخت تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ اقبال لکھتا ہے : ’’گویا زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لا انتہا مواقع میسر آتے ہیں اور جس میں موت اس کا پہلا امتحانہے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ اسے اپنے افعال و اعمال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کہ خودی فنا ہوجائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے۔ عمل پر موقوف ہے اور اس لیے خودی کو برقرار رکھیں گے۔ تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیاز من و تو خودی کا احترام کریں۔ لہٰذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں‘ اس کے حصول کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔ بالفاظ دیگر ہم اس کے امیدوار ہیں‘‘۔ 9؎ یہاں ایک فکری اشکال پیدا ہوتا ہے۔ اقبال نے شروع میں خودی کے بارے میں کہا ہے کہ اس کا آغاز زمان کے اندر ہے لیکن اختتام کوئی نہیں۔ اس لحاظ سے یہ سرمدی ہے لیکن اب اس کو اس نے مشروط کر دیا ہے۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ وہ جو بھی خودی وجود میں آ جائے وہ بقائے دوام کی اہل ہو جاتی ہے۔ اور اچھے یا برے اعمال کا اس کے دوام کے ساتھ کوئی تعلق نہیںہوتا ؟ جہنم تو ایک شفاخانہ ہے اور جو بیمار ارواح ہوں گی یعنی جو خودیاں برے اعمال کی وجہ سے کمزور رہ گئی ہوں گی انہیں جہنم کے اصلاحی عمل سے گزار کر دوبارہ کامیاب و کامران خود یوں کے گروہ میں شامل کر دیا جائے گا۔ جہنم اقبال کے الفاظ میں انسان کے اند ر بحیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے۔ 10؎ مزید برآں ’’جہنم کوئی ہاویہ نہیں جسے کسی منتقم خدا نے اس لیے تیار کر رکھا ہے کہ گناہ گار اس میں ہمیشہ گرفتار عذاب رہیں گے۔ وہ درحقیقت تادیب کا ایک عمل ہے جو خودی پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہے وہ پھر رحمت خداوندی کی نسیم جانفزا کا اثر قبول کر سکے ‘‘۔ 11؎ کیا یہ اقبال کے فکر میں تناقص نہیں؟ ایک طرف وہ یہ کہہ رہا ہے کہ دوام انسان کا حق نہیں وہ صرف اس کا امیدوار ہے اور دوسری طرف وہ یہ کہہ رہا ہے کہ جہنم کے اصلاحی عمل سے گزرنے کے بعد گناہ گار بھی جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اگر یہی بات ہے تو جو گناہ گار ہیں یعنی جو استحکام خودی نہیںکرتے وہ بھی قائم و دائم رہیں گے خواہ وہ کسی تکلیف دہ اور کرب انگیز تجربے سے ہی کیوں نہ گزریں۔ اس طرح بقائے دوام مشروط نہیں رہتا بلکہ تمام انسانوں کا بلا تخصیص نیک و بد‘ استحقاق بن جاتا ہے۔ اگر ہم اقبال کے مجموعی فطر کو سامنے رکھیں تو پھر یہ اشکال پیدا نہیںہوتا اور نہ ہی اقبال میں ہمیں کسی قسم کا تناقص نظر آتا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی انسان کا جوہر ہے ۔ خودی کا اظہار انسان کے ذہنی رویوں اس کے آدرشوں اور اس کے فیصلوں میں ہوتا ہے ہم اسی انسان کو کامیاب اور عظیم سمجھتے ہیں جس کی پوری زندگی کسی مقصد کے حصول میں تگ و تاز کرتے گزری ہو۔ تاریخ میں ہمیں کئی ایسے بڑے آدمی مل جاتے ہیں۔ جو جسمانی طور پر لاغر تھے یا ظاہری طور پر بدصورت اور نحیف و نزار تھے… لیکن اپنے علم‘ فن یا کسی کارنامے کی بنا پر لوگ انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی اکثر ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں جو جسمانی طور پر تنومند اور ظاہری طور پر حسن سے مالا مال ہونے کے باوجود نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی زندگیاں سفلی سطح پر بسر ہو رہی ہوتی ہیں‘ ان میں اور حیوانوں میںکوئی فرق نہیںہوتا۔ ایسے لوگ جب بھی اپنی حیوانی تسکین کے لیے حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو انہیں بیڑیاں پہنا کر قیدخانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حیات اجتماعی ان کا وجود برداشت نہیں کر سکتی۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جسمانی طورپر تندرست و توانا ہونے کے باوجود فاتر العقل ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میںان کا وجود بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ ان سے نفرت نہیں کی جاتی تاہم انہیںترحم کے جذبے کے تحت معاشرے سے علیحدہ دماغی شفاخانوں میں رکھا جاتا ہے۔ ایک ایسا پاگل جو ناقابل اصلاح ہو‘ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے معاشرتی زندگی میں کوئی فرق نہیںپڑتا ایک یا ایک مستقل پاگل کے بارے میں ہمارا رویہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ جسمانی طور پر زندہ ہونے کے باوجود اس کا وجود معنوی اس کی سیرت ذہنی‘ اس کی خودی یا اس کی انا منتشر و پراگندہ ہوتی ہے ۔ چنانچہ وہ شخص زندہ ہوتے ہوئے بھی مردوں سے بدتر ہوتا ہے اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کا اصل جوہر اس کی ذہنی سیرت یا خودی ہے۔ یہ جوہر اگر تباہ ہوجائے تو پھر سانس لیتے ہوئے انسان اور ایک پتھر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے مقام گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد ارمغان حجاز: 20 اگر اس نقطہ سے دیکھا جائے تو ہمیں اقبال کے نظریہ بقائے دوام میں کوئی تضاد نہیں نظر آتا۔ اگرچہ جہنم کو اصلاحی عمل قرار دیا گیا ہے ۔ مگر بقائے دوام مشروط ہی رہتا ہے۔ جہنم کی زندگی دراصل زندگی نہیںہو گی بلکہ ہلاکت و فنا کے اثرات کو زائل کرنے کا ایک درد انگیز عمل ہو گا جس کی تکمیل کا انحصار فرد کی مساعی پر نہیں بلکہ رحمت خداوندی پر ہو گا۔ جنت کے بارے میں تو یہ وضاحت قرآن میں موجود ہے کہ جو کوئی اس میں داخل ہو گا‘ اس میںسے نکالا نہیں جائے گا لیکن جہنم کے بارے میں ایسی کوئی واضح باتر نہیںکی گئی۔ کہ ارتفاع عذاب کے بعد سب لو گ نکال دیے جائیںگے۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ جہنم کے عدم خلود کی یقین دہانی سے یہ ممکن تھا کہ لوگ رہ حق پر چلنے کی زحمت ہی نہ کرتے تاہم بعض ایسے اشارات دے دیے گئے ہیں کہ جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ جہنم کا عذاب النار ان قلوب کی اصلاح کے لیے ہے جو قساوت میں پتھروںسے بھی بڑھ گئے ہوں ۔ بقول رومی: نار ازاں آمد عذاب کافراں کہ حجر را نار باشد امتحاں ایں دل چوں سنگ را تا چند چند پند گفتیم و نمے پذ رفت پند …مثنوی دفتر اول حصہ چہارم (سنگدل ) کفار کے لیے آ گ کا عذاب اس لیے تجویز کیا گیا کہ پتھر کا ابتلا آگ سے ہوتا ہے۔ (گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اس پتھر کے دل کو ہم کتنا ہی (نرمی) سے سمجھاتے رہے مگر ایک بھی نصیحت نہ مانی (انجام کا رعذاب کا مستوجب ہوا)۔ مولانا احمد حسن مرحوم کے خیال میں اس سے کفار کے عدم خلو و فی النار کی دلیل استناد ہوتیہے ۔ یعنی ان کو آگ میں اس لیے ڈالا جائے گا کہ ان کا زنگ قلب دور ہو جائے۔ جب یہ رنگ زائل ہو جائے گا تو عذاب بھی مرتفع ہو جائے گا۔ 12؎ گزشتہ باب میں ہم یہ بالتفصیل دیکھ آئے ہیں کہ اقبال کے نزدیک جہنم عذاب ابدی کی جگہ نہیں جیسا کہ یہودیوں کا خیال ہے۔ یہ ایک شفاخانہ یا دارالاصلاح ہے۔ یہ بھی ہم نے دیکھ لیا ہے کہ جہنم کی اس تشریح و تعبیر سے بقائے دوام کے مشروط ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اب اس نقطہ نظر کا اثر اس دنیا کے نظام تعزیرات پر بھی پڑنا چاہیے۔ خدا لوگوں کو آتش جہنم میںاس لیے نہیں جھونکتا کہ اس کے جذبہ انتقام کی تسکین ہو سکے اور نہ ہی وہ جہنم کی ہولناکیوں کو ابد الآباد کے لیے گناہ گاروں کا مقدر قرار دیتا ہے۔ وہ تو گناہ گاروں کو صرف اس لیے جہنم میں ڈالے گا کہ ان کی اصلاح ہو سکے ۔ کیا اس سے یہ امر نہیں ہوتا کہ اسلامی سزائوں کی نوعیت بھی اصلاحیہ ہونی چاہیے؟ یعنی اسلامی تعزیرات کا محرک چند مخصوص حالات کو چھوڑ کر بنیادی طور پر اصلاح ہونا چاہیے نہ کہ امتناع یا انتقام و مکافات! آخر میںیہ ضروری محسوس ہے کہ اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ بقائے دوام محض ایک ما بعد الطبیعیاتی نظریہ اور مذہبی عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک سا تصور ہے جس کے سماجی اور سیاسی زندگی پر بھی نہایت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گزشتہ صفحات کے مطالعے سے جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ بقائے دوام کے حق میں یا اس کی مخالفت میں ہر طرح کے دلائل دیے جا سکتے ہیں۔ یہ کسی شخص کا ذاتی رویہ ہی ہوتا ہے جو اسے بقائے دوام کے اقرار یا انکار پر مجبور کرتا ہے۔ بنیادی طور پر بقائے دوام کا ایقان مذہبی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب بعض حالات و ظروف کے تحت یہ ایقان متزلزل ہوتا ہے تو فلسفیانہ تفکر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بقائے دوام کے انکار سے قنوطیت‘ حسرت و یاس اور بے معنویت کا پیدا ہونا لازمی ہے جبکہ بقائے دوام کا اقرار بھرپور اثبات حیات کرتا ہے اور رجائیت پسندانہ طرز فکر کے تحت فرد کو آمادہ عمل رکھتا ہے۔ اب یہ فرد پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ پسند کرتا ہے۔ کشودم پردہ را راز روئے تقدیر مشو نومیدو راہ مصطفیٰ گیر اگر باور نہ داری آنچہ گفتم زدیں بگریز و مرگ کافر سے میر … ارمغان حجاز : 67 اختتامیہ حواشی 1۔ Jacques Choron, Death and Western Thought p. 265 2۔ ایضاً ص 269 3۔ Jay F. Rosenberg, Thinking Clearly About Death p. 215 4۔ تشکیل جدید: ص 168 5۔ جگن ناتھ آزاد : اقبال اور مغربی مفکرین: ص 56 6۔ تشکیل جدید : ص 183 7۔ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کے بارے میں تو ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ان میں نجات کا دارومدار اعمال صالحہ پر ہے۔ زرتشتی مذہب بھی اسی نظریہ کا حامی ہے۔ ہندومت میں بھی تناسخ کے نظام اور آتما کی نجات کے لیے کرما کا قانون بہت اہمیت کا حامل ہے (چوتھے باب میں اس کا تفصیلی ذکر آ چکا ہے)۔ قدیم مصری مذہب میں اس نظریہ کا مطالعہ کرنے کے لیے ملاحظہ کیجیے: Sneath, Religion and Future LIfe, Chap. II اور قدیم ایران کے زرتشتی مذہب میں اس نظریے کا مطالعہ کرنے کے لیے ملاحظہ کیجیے: ’’علامہ محمد اقبال : فلسفہ عجم (مترجمہ میر حسین الدین) : ص 12-14 8۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجتہ اللہ البلاغہ کہتے ہیں کہ عالم مثال میں لوگوں کے لیے خاص مناسبات موجود ہیں ۔ قیامت کے دن لوگ خاص شکلوں میں مجسم ہو کرا ٹھیں گے ۔ جو شخص اشاعت علم کی ضرورت کے باوجود اپنے علم کو چھپا کر رکھتا ہے اس کے منہ میں قیامت کے روز آ کی لگام دی جائے گی (لگام بندش کی علامت ہے) اسی طرح جو جائز اور ناجائز ذرائع سے دولت کماتا ہے اور حب مال ہی میں مگن رہتا ہے اس کے گلے میں گنجے سانپ کو بصورت طوق ڈال دیا جائے گا۔ اس سے ملتا جلتانظریہ رومی نے بھی دیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ نفس انسانی ایک ایسے جنگل کی طرح ہے جس میں بے شمار سور‘ بھیڑیے ‘ نیکو کار و بدکار اچھے اور برے سب موجود ہیں یعنی نفس انسانی خصائل رذیلہ و بہیمیہ اور اخلاق عالیہ و حمیدہ دونوں کا جامع ہے: بیشہ آمد وجود آدمی پر حذ شوزیں وجود از آدمی در وجود ماہزاراں گرگ و خوک صالح و ناصالح و خوب و خسوک وہ لوگ جن کے اعمال بد اور خصائل رذیلہ کا مخفی تعفن اس دنیا میں ان کے دلوں تک محدود تھا‘ قیامت کے روز محسوس اور ظاہر ہو جائے گا۔ گند مخفی کاں بدلہا میر سید گشت اندر حشر محسوس و پدید اسی طرح حاسدوں کو بھیڑیوں کی صورت میں اور حریص کمینے اور مرد خور آدمیوں کے روز محشر سوروں کی شکل میں اٹھایا جائے گا: زانکہ حشر حاسداں روز گزند بیگماں بر صورت گرگاں کنند حشر پر حرص خسی مردار خوار صورت خو کے بود روز شمار مثنوی دفتر 2حصہ ششم 9۔ تشکیل جدید: ص 180 10۔ ایضاً: ص 185 11۔ ایضا: ص 186 12۔ مولانا محمد نذیر عرشی: مفتاح العلوم : دفتر اول حصہ چہارم : ص 202 ٭٭٭ فرہنگ اصطلاحات ٭٭٭ ا ابدیت۔ دیمومت Eternity ابدی Eternal استمرارContinuation آدرش (نصب العین) مثالیIdeal ادراکPerception ادراکApperception اول الذکرFormer انتقادCritique اخلاقیاتEthics اخلاقیاتی دلیلEthical (Argument) استنباطIngerence استنباطیInferential استناد (مستند) Authority (Authoritative) اسقرائInducion استمزاجDeduction اضافیRelative اضافیت (نظریہ) Relativity (Theory of) اشعاع Radiation اشاعت ذاتSelf-Propagation انجذابAssimilation انتشارDissimilation اصول لذتPleasure Principle اصول حقیقتReality Principle اعیان ثابتہFixed Forms اخلاقیاتیEthical احتمال‘ احتمالیت Probability احتمالیProbable انجیلGospel امواج صوف Sound Waves استدلال بالتمثیلArgument by Analogy احساسFeeling اعتباسIllusion التباسیIllusionry ارتقائEvolution ارادہ مشیتWill, Volition ارادہ اقتدائWill to Power ارادہ حیاتWill to Life ارادیت پسندیVoluntarism الٰہیات علم کلام Theology الٰہیاتیTheological الٰہیات(ماہر) یا متکلمTheologian اندھا ارادہBlind Will انحراف Deflection ارتکاز بالذاتSelf-Centrelization الٰہ پرستی Deism الٰہیتTheism اطنابTension آزاد تخلیقی میلانFree Creative Impulse ائتلافAssociation اندھا ‘ بے بصر ‘ کورBlind اصلRoot ازلی مادہPrimeval Matter انکشاف ذاتSelf-Expression استحکام خودیIntegratior of ego آن ‘ لمحہMoment اجزائے ترکیبیConstituents انتخابSelection انتخابیSelective امتداد ‘ وسعت Extension ممتد Extended امر ‘ ہدایتDirection امر ‘ حکمCommand الوہیت‘ لاہوت‘ التالوث ‘ القدس God-head الٰہ ‘ خداGod -Theos اتمامFulfilment انتہائی اصولUltimate Principle اندیشم پس ہستم Cocito Ergo Sum اندھا عقیدہ Blind Fatith آئندہ زندگی Future Life اصلاحی ‘ اصلاحیہMelioristic اسطوریات‘ خرافات‘ دیومالاMythology امتزاجات ‘ تناسبابCombinations آرفیسی مذہبOrphic Sect آتما‘ روح Soul انا‘ خودی Ego انائے کبیر Supreme Ego اجترا Rumination اجترائی Ruminative اشتہائی روح Appetitive Soul اخلاقی قلب ماہیت Moral Transfermation ایجابی۔ اثباتی Positive ایجابیت۔ اثابیت Positivism الم خیز۔ درد انگیزPainful اثر آفرینی Effectiveness اقلیدسی ہندسہDuclidea Geometry (نا) اقلیدسی ہندسہ Now Euclidean Geometry انشقاق‘ پارگی Fission ب بقائے دوام Immortality بقائے مادہ (قانون) Preservation of Matter (Law) بیہنگم بے قاعدہHaphazard بروں جسی تجربہ Out-of-body Experience (OOBE) بدیہیSelf Evident بازیافت(یاور آوری )Recollection باطنیIntrinsic بعد ‘ جہتDimension یک بعدیOne Dimensional ابعاد ثلاثہ Three Dimensions برقیہ( مثبت) Proton مرقیہ (منفی) Electron باہمہ گر مربوط نظام حوادث System of Interrelated events باطنی لزوم Inner Necessity براہما Brahman باہمد گرمر بوط حوادثInterrelated Events بالقوہPotential بالفعلActual پ پس مظہر Epiheromenon پسیبیٹرین (ایک مسیحی فرقہ) Presbyterian پیس معینہ ہم آہنگی Pre-established Harmony پیداواری وظیفہ Productive Function پوپوشی حوینSlipper animalcule ت تفکرReflection- Contemplation تجزیہ ۔ تحلیلAnalysis تناسخ ارواحTransmigration of Souls تخیل آرزوی Wishfulthinking تکمیل آرزو(آرزو بر آوری) Wishfulfilment تخلیقCreation تسلسلContinuity Succession تناظر Perspective تجربہ Experience تجربی حقیقتEmpirical Reality تکراری جملہInulology تناقضContradiction تحسسSensation تحت مظہریتHypophenomenalism تحت الشعورPre-Conscious, Sub -Conscious تنوع (متنوع)Variety(Various) یتقنCertainty تجربیت۔ تجربیت پسندیEmpiricism تجربیت پسند Empiricist تحفظ ذات Self-Preservation تشویش Anxeity تکمیل ۔ کمال Perfection معنویت Meaning fulness تعقلConcept تکوینBecoming تصدیق (قدری)Judgement (Value) ترکیب Synthesis ترکیبی اضافتSynthetic Relation تشکیک۔ ارتبابیت Scepticism تغیر غیر متسلسل Non-Successional Change تکمیل شدہ مصنوعFinished Product تیعین Determination تجسیم Anthropomorphism تکمیل ذاتSelf-realization توالدوتناسلProcreation Reprodution تخلیق Creative تخلیقی ارتقاء Creative evolution تخلیقی عن العدم Creatio ex nihilo (Cheation out of Nothing) خلاق مشیت Creative Will تشخص (عینیت) Identity تنظیم Organizaion تشکیل Formation تفرد Individuation تجلی باری تعالیٰ Theophany تکرار ابدی Eternal تناسخ اواگون Recurrence (Metempsychosis Reincarnation Transmigration of Souls) ترسیلی وظیفہ Transmassive Function ترخیصی وظیفہ Permissive Function تناسل Procreation تغذیہ Nutrition انسان دوستی Humanism انسان دوستHumanist تقدیر پرستی Fatalism تہافتہ الفلاسفہ (الغزالی) Refutation of Philopherts تہافتہ التہافہ (ابن رشد ) Refutation of Refutation تاویل Allergorical Interpretation توازن Balance توسعRange تجلی الٰہی Theophany ٹ ٹھوس اجسام Gross Bodies ث ثنویت (دوئی) Dualism ج جوع طلب Craving جدلیات Dialectic جدلیاتی مادیتDialectical Materialism جسمی وجود Embodied Existence جبلت Instinct جبلت حیات Life Instinct (Eros) جبلت مرگDeath Instinct (Thanatos) جوہر زندہ Living Substance جنگی عصبانیتWar Nevrosis جنس Sex جنسی Sexual …اذیت پسندیSadism …اذیت پسندSadist …اذیت کوشیMasochism …اذیت کوشMasochist جمالیات Aesthetic intution جنین Genes جبریت Determinism جامدStatic جرثومہ Germ جیو آتماJivatmans جیوا Jive جنم Incarnation چ ح حیات بعد الموت Life after death, herafter حقیقیReal حقیقت مطلقہ Ultimate Reality حنوط شدہStuffed Embalmed حرکت دوری Cycitic Movement حشر اجسادResurrection حسی ادراک Sense-Perception حسSense حسیSensory حس پذیری Sensibility حقیقی Real حرکت بہ عمل روح ۔ روحی حرکت Psychokinesis(PK) حضور ی أفوری Immetiate حیاتیات Biology حادثہ (حوادث)Accident (s) حرکت ۔ تحریک Movement حرکت نزولی Downward movement حرکت صعودی Upward Movement حیات Life حیاتی Vital حیاتی لہرElan Vital (Vital Flow) توانائی Vital Energy حالت حال (احوال)State (s) حکومت الٰہیہ Theocracy حسن ازلی Eternal reality حسی اعصاب Sensory Nerves حرکی اعصاب Motor Nerves حیاتیاتی زمان Biological Time حیات الٰہیہ Divine Live خ خود مکتفی Self-Sufficient خارجی Extrimsic خیال رسانی Telepathy خلا Space خلائے محضEmpty Space خیر Good خالص صورتPure Form خم فضا۔ انحنائے فضاCurvature of Space د دہشت Dread دورانیہ ۔ دوران Duration دوران خالص Pure Duration ڈ ذ ذہن دیگر Other mind ذہن مدرک Perceiving Mind ذات احدThe One ر رفتار Velocity روح Spirit, Soul روحانیت Spiritualism روحیتی Spiritualistic راہ نماDirective راہ نمائی Direction راہ نما توانائی Directive Energy رجعت لامتناہی Infinite regress رواقیہ Stoics ربط باہمی Rapport رجائیت پسندی Optimism راسخ الاعتقادی Onthodoxy رویت Vision رد عمل Reaction س سالمہ Atom سریان۔ سریانیتImmanence ستھولا سریر (جسم ٹھوس) Sthula Sarira سکسما سریر (جسم لطیف ) Suksama Sarira or یا لنگا سریر (Linga Sarira) سکر Intoxication سامسکارا Samskara سرمدیSempiternal سماعتAudition سرخونCold Blood ز زمان Time زمانی (متعلق بہ زمان) Temporal زمان کا مستقیم یا خطی تصور Lineal Concept of Time زمان خالص Pure Time زمان متسلسل Serial Time زمان ایصال Condution Time زمان رد عمل Reaction Time ش شعور Consiousness شاعر بالذات خود آگاہ Self Conscious شان (شئون) Mode(s) شخصیت Personality شتویت Hibernation شذرات فکر اقبال Stray Reflections or Iqbal ص صوفی Mystic. Sufi صوفیانہ واردات Mystical Experience (Religious Experience) صلابت ٹھوس پنSolidity صواب Right صدور Emanation صدور ۔ نظریہ Emanationism صحو Sobriety صفت Quality …عمقی Intensive Quality …امتدادی Extensive Quality …ابتدائی Primary Quality … ثانوی Secondary Quality ض ضمنی نتیجہ By Product ط طبعی فطرت Natural طبیعیات Physics ظ ظہور Appearance, Emergence ظہور روح ۔ بھوت کا سایہ Apparition ع عینیت Identity عمرانیات Sociology عقل سلیم(فہم عامہ)Common Sense عصبی کھنچائوMuscular Tention علتCause علیCasual عضویاتPhysiology عضویہ (نامیہ)Organism عضویاتی (نامیاتی) Organic عدیم المثالUnique عدیم التداخلImpenetrable عدیم تداخلImpenetrability عمیقIntesive عمیقیIntensive عکاسیMirroring, Reflecting عرض Acident عقل محضPure Reason عقل عملی Practical Reason عقل فعال Active Intellect عدمNothing عدمیت Nihilism عنین عنایتImportance غ غیر جسمی وجود Disembodied Existence غددودی رطوبتGlandular Secretion غائی (دلیل) Teleological (Agument) غائیتTeleology غیر مبدل(Immutable, Unchangeable) غیر ارادی تحریرAutomatic Writing غیب بینی۔ روشن ضمیریClairvoyance غیر تجزیہ پذیرUnanalysable غیر تقسیم پذیر Indivisible غیر زمانیتTimelessness ف فہم Understanding فرد Individual فردیت۔ انفرادیت Individuality انفرادی نفسIndividual Self فرع Branch فرد کاملPerfect Individual فضیلت (فضائل) Virtue (s) فوق البشر مرد کاملSuperman ق قبل از پیدائشPre-Birth قص جہبیFrontal lobe قبل تجربی A prior قانون مراجعت Law of Return قضیہ (مقدمہ) Premises قریب المرگ تجربات Near Death Experiences قبل وقوف Precognition قانون تعلیلLaw of Causation قائم بالذات Self-subsistent قانون انتشار Law of Entropy قادر مطلق Omnipotent قدرت کاملہ (مطلقہ)Omnipotence قیاس Syllogism قنوطیت پسندی Pessimism قطر Radius قلب ماہیتTransformation, Metamorphosis ک کیمیائی تغیرات Chemical Changes کردارBehavious کند ذہن غبی Idiot کیفیت Quality کمیت Quantity کلیUniversal کلیات Universals کھلا امکان Open Possibilty کونیاتی دلیلDosmological Argument کونیات Cosmology کامل ۔ کمال Perfect (Perfection) کارانا سریر (وجود علی) Karana Sarira کائنات Universe. Cosmos کائنات نامہ Cosmographry گ ل لسانی فلسفہ Linguistic Philosophy لسانی تجزیہ linguistic Analysis لسانی موڑLinguistic turn لاشیئت Nothingness لافانی Immortal لذتPleasure لذتیتHedonism لاشعور Unconcious لاادریتAgnoticism لطیف اجسام Subtle Bodies لامتناہیInfinite لامتناہیت Infinity لعان Fulguration لعنت ابدی Eternal Damnation م ماہیت Essence مابعد الطبیعیات Metaphysics مایاMaya مداومتPerpetuity معدومیت Annihilation مربع Square مدور Circular معدومیت (تحلیل)Dissolution مخدرAnesthetic منشیات Norcotics مبہم ۔ غیر واضحObscure متوازی۔ ہم شکلIsomorph مکان (مکانی) Space (Spatial) مظہر (یت) Phenomenon( Ology) مظاہر پرستی Animism میکانکی میکانیاتیMechanical میکانیت Mechanism متخالف Opposite متخاصم Antagomistic مخاصمت Antagonism موضوعی Subjective موضوعیت Subjectivity مادی حلMaterial Substratum مادی جوہرSubstance معروضیObjective معروضیتObjectivity منطقی (تجزیہ) Logical (Analysis) مصدق ۔ مصدقہ Authentic مزاحمت Resistence ماورائی (طریق کار)Transcendental (Method) ماورائیت Teanscendence ماورائی نفسیات Para. Psychology مجردAbstact مجردیت۔ تجرید Abstactism محرکMotive محرک غیر متحرک Unmoved Mover معمولMedium مجلس حاضراتSeance مقولہ Category مقولاتی Categrial مرور Passage مجموعی لامتناہیInfinite Whole معیت Association مدرسیت Scholasticism معلولEffect متناہی (خودی) Finite (Ego) متناہیت Finitude مصادرہ مطلوب (مغالطہ) Petition Principle (Fallacy of) منطقی تضاد Logical Contradictionمعضلہ استبعاد Paradox مغالطہ Fallacy مقصد غایت Objective End Purpose منطقی لزوم Logical Necessity مونادMonad مونادیت (نظریہ موناد) Monadology موناد برتریں (اعلیٰ) Supreme Monad مراتب (یا مدارج ) ہستی Grades of Being مرکز ۔ محورCentre متوازیت Parallelism نفسی طبیعی متوازیت Pshchophysical Parallelism محمول Predicate محمولاتPredicables مسلمہPostulate, Axiom محرک اولیٰ Prime Cover مرض نفسی Psychosis مقصدیت Purposiveness معطیہ حسSense Datum ہمدردی۔ مشارکتSympathy منشورPrism میکانکیMechanical میکانیت Mechanism مراکز توانائیCentres of Force مضفہ Embryo مولوی معنوی Doctor of Meaning مسرت خیزPleasant مثلث تکون Triangle محدود Limited Bounded محیط دائرہ Perimeter مرجانCoral مشائینPreipatetics متعین کرےFixec Spheres متحجر آثار Fossils مکافاتRequital مودار۔ روئیں دار۔ مژگاں دارCiliate ن نظام عصبی Nervous System نسیجTissue نفسSelf Ego نفسیات Psychology نفسی تحقیق کی سوسائٹی Society for Psychical Research نفس فعال Efficient Self نفس بصیرAppreciative Self فقصImperfection Defect ناقص Imperfect Defective نائب خلیفہ Vicegerent نیابت۔ خلافت Vicegerency نامیOrganic نامی وحدتOrganic Unity نامی وحدتOrganic Unity نفسی عامل Psychic Factor نوع Species نروانNirvan نجاتSalvation نشاۃ الاولیٰ First Creation نباتیہ و حیوانیہFlora and Fauna نفوعیات۔ نمرویاں Infusoria و ورم دماغی Encephalitus Lethargica وظیفہ (وضائف) Function (s) وحیRevelation وجود (موجود)Existence (Exsistent) وجودیت Exsitentalism وجودیExistentalist وہبی۔ خلقی Innatc واقعہ (حقیقت)Fact واقعاتی Factual ورائے حس ادراک Extra Sensory Perception (ESP) وجود دیگر۔ نفس غیرOther Self وقوف Cognition وقوفیCognitive وجودیاتی دلیل Ontological Argument وحدتUnity, Oneness وحدت الوجود‘ ہمہ اوستPantheism وحدت الشہود‘ ہمہ از وست Panentheism ورائی تقدیر اقدار Transvaluation of Values وراوردی Transpathy ویدانتVendanta ہ ہمزاد (نقش ثانی ۔ نقل عین) Double Riplica ہستی Being ہیجانEmotion ہیجانیEmotional ہندسہ علم Geometry ہندسی طریق کار Geometrical Method ماہر اقلیتوس Heraclitus ہمہ نصیت ہمہ روحیت Pan-psychism ہوائی ‘ روخانیPneumatic ٭٭٭ کتابیات ٭٭٭ 1۔ آزاد جگن ناتھ ‘ اقبال اور مغربی مفکرین لاہور مکتبہ عالیہ۔ تاریخ ندارد ۔ 2۔ آزاد مولانا عبدالکلام۔ ترجمان القرآن۔ 2جلدیں لاہور۔ شیخ مبارک علی 1936ء 3۔ ابن قیم علامہ حافظ‘ کتاب الروح‘ مترجم راغب رحمانی ۔ کراچی ۔ نفیس اکیڈمی 1965ء 4۔ ابن ندیم وراق ‘ محمد بن اسحق ۔ الفہرست ۔ مترجم مولانا محمد اسحق بھٹی۔ لاہور ۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ ۔ 1939ء 5۔ ابو الحسن علی ندوی‘ مولانا سید‘ نقوش اقبال۔ کراچی مجلس نشریات اسلام ۔ 1973ء 6 ۔ ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر۔ اقبال اور مسلک تصوف لاہور۔ اقبال اکادمی 1977 7۔ اشرف علی تھانوی مولانا۔ القرآن الحکیم مع ترجمہ و تفسیر ۔ 2 جلدیں ۔ لاہور تاج کمپنی ۔ 1953 8۔ اصطلاحات اطلاعی نفسیات ۔ لاہور۔ پنجاب یونیورسٹی ‘ ادارہ تالیف و ترجمہ۔ 1972 9۔ اصطلاحات نفسیات ۔ لاہور پنجاب یونیورسٹی ‘ ادارہ تالیف و ترجمہ۔ 1971ء 10۔ اقبال‘ علامہ محمد۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ مترجم سید نذیر نیازی ۔ لاہور ۔ بزم اقبال 1983ء 11۔ اقبال ‘ علامہ محمد۔ فلسفہ عجم ۔ مترجم میر حسن الدین۔ حیدر آباد دکن۔ انجمن اشاعت اردو۔ 1939ء 12۔ اقبال علامہ محمد۔ کلیات اقبال ‘ اردو‘ لاہور۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز۔ 1973ء 13۔ اقبال ‘ علامہ محمد۔ کلیات اقبال۔ فارسی ۔ لاہور۔ 1973ء 14۔ امیر علی‘ سید۔ روح اسلام۔ مترجم محمد ہادی حسن لاہور۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ 1984ء 15۔ اولیری ڈی فلسفہ اسلام۔ مترجم احسان احمد ۔ کراچی نفیس اکیڈمی۔ تاریخ ندارد 16۔ برٹ ایڈون اے فلسفہ مذہب مترجم بشیر احمد ڈار لاہور۔ مجلس ترقی ادب 1977ء 17۔ برق ڈاکٹر غلامی جیلانی ۔ فلسفیان اسلام ‘ لاہور۔ شیخ غلام علی۔ 1968ء 18۔ جاوید اقبال ڈاکٹر۔ زندہ رود 3 جلدیں لاہور شیخ غلام علی ۔ 1981ء 19۔ جاوید اقبال ‘ ڈاکٹر۔ شذرات فکر اقبال مترجم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی۔ لاہور مجلس ترقی ادب 1973ء 20۔ جمعہ محمد لطفی‘ تاریخ فلساسفۃ الاسلام ۔ مترجم ڈاکٹر میر ولی الدین۔ کراچی مسعود پبلشنگ ہائوس 1964ء 21۔ حمید احمد خان۔ اقبال کی شخصیت اور شاعری ۔ لاہور بزم اقبال 1974ء 22۔ حنیف ندوی مولانا محمد تہافتہ الفلاسفہ لاہور‘ ادارہ ثقافت اسلامیہ‘ 1974ء 23۔ ڈار ‘ بشیر احمد۔ انوار اقبال ۔ کراچی اقبال اکادمی۔ 1974ء 24۔ رضی الدین صدیقی ڈاکٹر۔ اقبال کا تصور زمان و مکان اور دوسرے مضامین لاہور‘ مجلس ترقی ادب‘ 1973ء 25۔ رفیع الدین ڈاکٹر محمد ‘ حکمت اقبال لاہور‘ علمی کتاب خانہ‘ تاریخ ندارد 26۔ رفیع الدین ڈاکٹر محمد ‘ قرآن اور علم جدید۔ لاہور ‘ ادارہ ثقافت اسلامیہ 1959ء 27 ۔ رومی مولانا جلال الدین ۔ مثنوی مولوی معنوی ۔ مترجم قاضی سجاد حسین۔ 3جلدیں ۔ لاہور‘ الفیصل ناشران۔ 1974ء 28۔ سید عبد اللہ ڈاکٹر‘ متعلقات خطبات اقبال‘ لاہور اقبال اکادمی 1977ء 29۔ شبلی نعمانی مولانا۔ علم الکلام حصہ اول اور دوم۔ کراچی مسعود پبلشنگ ہائوس۔ 1967ء 30۔ شبلی نعمانی ‘ مولانا ‘ الغزالی ‘ لاہور۔ انجمن حمایت اسلام ۔ تاریخ ندارد 31۔ شبلی نعمانی مولانا۔ اور سید سلیمان ندوی ۔ سیرۃ النبیؐ ۔ 6 جلدیں ۔ کراچی محمد سعید 1973ء 32۔ شمل این میری شہپر جبریل ۔ مترجم ڈاکٹر محمد ریاض۔ لاہور۔ گلوب پبلشرز 1985ء 33۔ عبدالرشید نعمانی۔ مولانا محمد۔ لغات القرآن۔ دہلی۔ انڈیا آفسٹ پریس 1949ء 34۔ عبدالباقی۔ محمد فواد۔ العجم الفہرس۔ (الفاظ القرآن الکریم) لاہور سہیل اکیڈمی 1983ء 35۔ عبدالحق مولوی دانائے راز اقبال کراچی۔ انجمن ترقی اردو۔ 1977ء 36۔ عبدالحکیم‘ خلیفہ۔ اسلام کانظریہ حیات۔ مترجم قطب الدین احمد ۔ لاہور۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ۔ 1957ء 37۔ عبدالحکیم خلیفہ ۔ فکر اقبال لاہور۔ بزم اقبال۔ 1983ء 38۔ عبدالخالق ڈاکٹر اور یوسف شیدائی۔ مسلم فلسفہ لاہور ۔ عزیز پبلشرز 1984ء 39۔ عبدالواحد معینی‘ سید۔ مرتب مقالات اقبال لاہور۔ شیخ محمد اشرف 1963ء 40۔ علی عباس جلال پوری اقبال کا علم کلام لاہور۔ مکتبہ فنون۔ 1972 41۔ علی ہجویریؒ‘ حضرت شیخ۔ کشف المحجوب۔ مترجم میاں طفیل محمد۔ لاہور۔ اسلامک پبلشرز ۔ 1985ء 42۔ غزالی‘ امام محمد۔ حقیقت روح انسانی۔ مترجم مفتی شاہ دین لاہور سنگ میل پبلی کیشنز تاریخ ندارد 43۔ غلام مصطفی خان ڈاکٹر۔ اقبال اور قرآن لاہور ۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ۔ 1977ء 44۔ غلام رسول چوہدری۔ مذہب عالم کا تقابلی مطالعہ۔ لاہور۔ انجمن حمایت اسلام 45۔ فرہنگ اصطلاحات فلسفہ ۔ کراچی یونیورسٹی شعبہ تالیف۔ ترجمہ 1962ء 46۔ فریزر ‘ سر جیمس جارج ۔ شاخ زریں ۔ مترجم سید ذاکر اعجاز۔ 2 جلدیں لاہور مجلس ترقی ادب۔ 1965ء 47۔ محمد جی مولانا اور غلام محمد چوہدری۔ تسہیل العربیہ۔ قادیان اللہ بخش سلیم۔ 1933ء 48۔ محمد عثمان پروفیسر۔ اسرار و رموز پر ایک نظر لاہور اقبال اکادمی 49۔ محمد علی‘ شیخ نظریات و افکار اقبال۔ اسلام آباد۔ نیشنل بک فائونڈیشن ۔1948ء 50۔ محمد فرمان‘ پروفیسر‘ اقبال اور تصوف ‘ لاہور بزم اقبال۔ 1958ء 51۔ مناظر احسن گیلانی علامہ۔ الدین القیم ۔ کراچی نفیس اکیڈمی۔ 1968ء 52۔ محمد منور‘ پروفیسر۔ مرتب‘ مقالات جشن اقبال صدی۔ لاہور‘ جامعہ پنجاب ۔ 1982ء 53۔ محمد مینب ‘ شیخ۔ مصباح القرآن۔ لاہور۔ دارالبلاغ۔ 1942ء 54۔ مظہر الدین صدیقی‘ محمد۔ اسلام اور مذاہب عالم۔ لاہور‘ ادارہ ثقافت اسلامیہ۔ 1956ء 55۔ منہاج الدین‘ پروفیسر شیخ۔ قاموس اصطلاحات۔ لاہور‘ مغربی پاکستان اردو اکیڈمی‘ 1965ء 56۔ نذیر عرشی مولانا محمد۔ مفتاح العلوم۔ لاہور‘ قریشی بک ایجنسی‘ 1948ء 57۔ نذیر نیازی سید۔ اقبال کے حضور کراچی‘ اقبال اکادمی۔ 1971ء 58۔ نذیر نیازی سید۔ مکتوب اقبال۔ کراچی۔ اقبال اکادمی 1957ء 59۔ نصیر شاہ سید۔ اور رفیع اللہ مجموعہ تفاسیر ابومسلم اصفہانی۔ اردو ترجمہ۔ لاہور۔ ادارہ ثقافت اسلامیہ۔ 1964ء 60۔ نعیم احمد ۔ تاریخ فلسفہ یونان۔ لاہور علمی کتاب خانہ ۔ 1986ء 61۔ نعیم احمد۔ تاریخ فلسفہ یونان۔ لاہور علمی کتاب خانہ ۔ 1986ء 61۔ وزیر آغا ڈاکٹر۔ تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں۔ لاہور اقبال اکادمی 1977ء 62۔ وزیر الحسن عابدی‘ سید۔ اقبال کے شعری ماخذ۔ مثنوی رومی میں۔ لاہور ۔ مجلس ترقی ادب ۔ 1977ء 63۔ وقار عظیم۔ پروفیسر سید ۔ اقبال معاصرین کی نظر میں۔ لاہور‘ مجلس ترقی ادب 1973ء 64۔ یوسف حسین خان ڈاکٹر ‘ روح اقبال۔ لاہور ‘ آئینہ ادب۔ 1949ء 65۔ یوسف سلیم چشتی ‘ شرح ارمغان حجاز ‘ لاہور۔ عشرت پبلشنگ ہائوس 66۔ یوسف سلیم چشتی اسرار خودی۔ لاہور اقبال اکادمی۔ تاریخ ندارد 67۔ یوسف سلیم چشتی۔ شرح جاوید نامہ۔ لاہور۔ عشرت پبلشنگ ہائوس۔ 1956ء 68۔ یوسف سلیم چشتی۔ شرح مثنوی۔ پس چہ باید کرد مع مسافر۔ لاہور عشرت پبلشنگ ہائوس۔ 1957ء ٭٭٭ BIBLIOGRAPHY 1. Abdul Hakim, Kalifa, Ideology. Lahore: Institute of Islamic Culture, 1953. 2. Abdul Hakim, Khlifa, Metaphysics of Rume, Lahore: Institute of Islamic Culture, 1959. 3. Abdul Vahid, Syed. Iqbal: His Art and Thought. London John Murry, 1959. 4. Abdul Vahid, Syed. Studies in Iqbal. Lahore: Sh: M. Ashraf. 1967. 5. Abennethy, George, and Longford Thomas A., eds philosiphy of religioun, New York: Macmillan, 1962. 6. Afzal Iqbal. The Life and works of Jalal-ud-Din Muhammad Rumi, Lahore: Institute of Islamic Culture. 7. Anwar A. Beig. The poet of the East. Lahore: Khawar Publishing Cooperative Society, 1961. 8. Arberry A.J. Aspects of Islam Civilization London: George Allen and Unwin 1964. 9. Barnes Hazel E. An Existentialist Ethics. New York: Alfred A. Knoff 1967. 10. Baum, Martha and Rainerc Baum. Growing Old: A Societal Perspective. New Jersy: Prantic Hall, 1980. 11. Board C.D. Ethics and the History of Philosophy London: Routledge and Kewgan Paul. 1952. 12. Board, C.D Examination of Mactaggart's Philosophy. 2 Vol: Combridge: University Press 1933. 13. Board, C.D. Lectures on Psychical Research, London: Routledge & Kewgan Paul 1962 14. Board C.D. The Mind and its place in Nature. London. Roultedge & Kewgan Paul, 1962. 15. Budham, Paul and Linda Budham, Immortality or Extinction ? London: Mac Millan 1982. 16. Choron Jacques Death and the Western Thought New York Collier Books 1963. 17. C.J.A where are the Dead London: Cassell & Company, 1928. 18. Cummins Geraldine, Mind in Life and Death London Acquarian Press 1965. 19. Dar, B.A Iqal and post Kantian Voluntarism 2nd ed Lahore. Bazm-e-Iqbal 1965. 20. Dar. B.A A study in iqbal's philosophy : Lahore. Sh: M. Ashraf 1944. 21. Ducasse, D.J. Nature. Mind and Death. Illusions: Open Court Publishing Co. 1951. 22. Encychlopedia of philosophy London. Mac Millan & Free Press 1967. 23. Encychlopedia of Religion and Ethics New York : T&T Clark, 1908. 24. Encyclopedia of Social Sciences London: Mac Millan 1931. 25. Encyclopedia of the Unexplained London. Roulted & Regan Paul, 1974. 26. Enver Ishrat Hassan Metaphysics of Iqbal Lahore: Sheikh M. Ashraf 1963. 27. Fakhary Majid A History of Islamic Philosophy 2nd e. London. Longman. 1983. 28. Fallon S.W English Urdu Dictionary Lahore. Central Urdu Mcgraw Hill 1965. 30. Ferm, Vergilus ed. A history of philosophical Systems New Jersy Little Field Adams 1961. 31. Ferre Nels F.S. Reason in Religion. London: Thomas Nelson 1963 32. Forsyth T.P. This life and the next. Boston Pilgrim Press, 1948. 33. Freud Sigmund Beyond the Pleasure Principle Trans James Strachey London Hogarth Press 1961. 34. Fulton Robert, Death adn Identity New York John Wiley 1965. 35. Cragg, Kenneth The Events of the Quran London. George Allen and Unwin 1971. 36. Hick, John, Philosophy or Religion 2nd Ed. New Jersy Prentic Hall, 1973. 37. Hopfe, Lewis M. Religion of the world London: Mac Millan 1976. 38. Hume, David. Essays: Moral, Political and Literary Oxford: University Press 1963. 39. Hudson W.D New Studies in Ethics Vol. II London: Mac Millan 1974. 40. Ibn e Rushd Tahafat -ul-Tahafa Trans Simon von Den Bergh 2 Vols Oxford University Press. 1954. 41. Iqbal. Allama Muhamma Gulshan-i-Raz-i-Jadeed (Eng) Trans B.A Dar. Lahore. Institute of Islamic Culture 1964. 42. Iqbal Allama Muhammad, Javed Nama Trans Arbery Arther J. London George Allen & Unwin 1966. 43. Iqbal Allama Muhammad, The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Lahore. Sh. M. Ashraf 1977 44. James. William, Pragmatism New York. Marigian Books 1960. 45. James, William. The principles or psychology. USA: Dover Publications, 1950. 46. James, William, Psychology briefer Course New York Collier Books 1962. 47. James William The Varieties of Religious Experience London: Fonntana Library 1962. 48. Jamila Khatoon The Place of God Man and Universe in philosophical System of Iqbal Karachi. Iqbal Academy, 1963 49. Joad C.E.M Guide to Modern Philosophy Oxford: Clarendon Press. 1964. 50. Joad C.E.M Guide to Modern Thought London: Faber & Faber 1948. 51. Khayal Taj Muhammad Iqbal as sy Thinker Lahore Sh: Muhammad Ashraf 1944. 52. Kritzeck Jamoes and Winder R. Bavly. Eds. The world of Islam Studies in Honour of Philip K Hitti London. Mac Millan 1969. 53. Levy Brahi. Primitive Mentality Trans Lillon Clare London Allen & Unwin 1923. 54. Locke. John. An Essay Concerning Human Understanding New York dover Publication 1959. 55. Longloh Parker k. The Euahlayi Tribe London 1905. 56. MacdonaldDuncan Black. The Developement of Muslim Theology Jurisprudence and Constitutional Theory Beyrouth Kheyat 1965. 57. MacDonald Duncan Black, The Religious Attitude and Life in Islam Beyrouth Kheyat 1965. 58. Maclntyre Alasdair A Short History of Ethics New York Mac Millan 1978. 59. Maruf Dr. Muhammad Iqbal's Philosophy of Religion Lahore. Islamic Books Service. 1877. 60. McTaggart John. E.M. The Nature of Existence 2 Vols Cambridge University Press 1921. 61. Murphy Carolner Historical Introduction to modern psychology London Roultedgee and Kegan Paul 1960. 62. Nasir Habib ed. Versatile Iqbal. Lahore. Bazme Iqbal 1985. 63. Nazeer Qaiser The impact of Rumi on the Religious Thought of Iqbal Lahore Iqbal Academy 1989. 64. Nicholson Reynold A Rumi Poet and Mystic London: George Allen and Uniwan . 1970. 65. Passmore John Hundred years of philosophy Middlesex Penguin Books 1972. 66. Patemen Trevor Counter Course. Middlesex Penguin Books 1972. 67. Pattison E. Manseel The Experience of Dying. New Jersy Prentice Hall 1977. 68. Peters R. S. ed. Bretts History of Psychology Cambridge Mass M.I.T gress 1965. 69. Philips. D.Z. Death and Immortality Glasgow Mac Millan. 1970. 70. Plato's Phaedo Trans R.S. Bluck London: Roultedge & Kegan Paul 1955. 72. Rachels, James, and Frank A. Triliman Philosophical Issue a Contemporary Introduction New York Harper and Rown 1972. 73. Rascid M.S. Iqbal's Concept of God London Kegan Paul 1981. 74. Riffat Hassan An Iqbal Primer Lahore Aziz Publishers 1979. 75. Rintelen Frity-Joachum Von. Contemporary German philosophy and its Background . Veraly Bonn H. Bouvier 1970. 76. Robert Bockock Sigmound Freud London: Tavistock 1983. 77. Rosenberg, Jay F. Thinking Clearly about Death. Prentice Hall 1983. 78. Royce S.J. Man and His Nature New York; McGraw Hill, 1961. 79. Runes dogobert D,. ed Dictionary of philosophy New York: New philosophical Library, 1942. 80. Russel, Bertrand Why I am not a Cristian. London: George Allen and Unwin 1964 81. Schimmel, Anne Mairie Garial's wing Leiden: Brill, 1963. 82. Russel, Bertrand A critical History of Western Philosophy London: George Allan & Unwin 1961 83. Sharif M.M ed, A History of Muslim Philosophy 2. Vols. Wiesbaden: Otto Harrassowitz 1966. 84. Sheikh M. Saeed Iqbal's Thought and Art. Lahore: Bazm-e.-Iqbal 1972 85. Sheikh M. Saeed. The Reconstruction of Religious Thought in Islam. Lahore. Institute of Islamic Culture 1986 86. Sheikh M. Saeed A Dictionary of Muslim philosophy Lahore: Institute of Islamic Culture 1986. 87. Shorter Encychlopedia of Islam Leiden : Brill 1961. 88. Sneath Hershey E. ed. Religious and the future Life. London George Allen and Unwin 1921. 89. Sylvia, Anthony . The Child's Discovery of Death. London K. Paul. Trench Trubner 1940. 90. Waheed K.A. A Bibliography of Iqbal Lahore: Iqbal Academy, 1965. 91. Waheed Qureshi Dr. ed. Selection from the Iqbal Review Lahore. Iqbal Academy 1983. 92. Wait. W, Montgermery, Islamic Revelation in the Modern World Edingberg University Press 1969. 93. Wood Worth Roberts S. Contemporary Schools of Psychology Londn: Methew 1963. 94. Yakhot. A. Spirkin O. The basic principle of Electrical Materialism Moscow Progress Publishers 1971. ٭٭٭ اشاریہ ٭٭٭ اسماء الرجال آدم 165, 206, 218, 257, 258 آگسٹائن 124 آندرے 216 آئن سٹائن 56, 67, 69, 103, 104, 115, 116, 118, 266, 267, 268 ابن باجہ 219 ابن حریر 216 ابن خلدون 138 ابن سرشان بسطامی 231 ابن رشد 76, 163, 197, 218, 219, 220, 221, 223, 259, 359 ابن طفیل 219 ابن عربی محی الدین 215, 286 ابن عوام 283 ابن قیم جوزی 205, 215, 239 ابن مسعودؓ 215 ابن مسکویہ 252, 281, 282, 284, 285, 286, 287, 328 ابن یوسف عبدالمومن219 ابوالاعلیٰ مودودی (مولانا) 217, 239, 240 ابوالقاسم جنید محمد بن جنید بغدادیؒ 231 ابوالکلام آزاد (مولانا): 215, 239 ابوللیث صدیقی : 326 ابوبکر (صدیق ) حضرت : 224 ابوہریرہؓ (حضرت) : 239 ابو یحییٰ قزوینی: 282 ابو یزید طیفور بن عیسیٰ: 231 احسان احمد بی ۔ اے : 241 احمد حسن (مولانا) : 344 خوان الصفا: 252, 281, 284, 285, 286 ارسطو : 22, 23, 59, 70, 74, 75, 76, 92, 102, 118, 131, 134, 219, 220, 222, 255, 283, 286 اسپینوزا: 69, 97, 119, 34, 135, 81, 278, 336 افتخار احمد صدیقی: 324 افلاطون : 45, 66, 69, 70, 71, 72, 73, 74, 75, 92, 97, 118, 131, 144, اقبال ‘ علامہ : 95, 98, 100, 101, 102, 103, 104, 106, 107, 108, 110, 111, 112, 113, 116, 117, 118, 124, 125, 126, 127, 128, 129, 130, 131, 132, 133, 135, 136, 137, 138, 160, 141, 142, 143, 144, 145, 147, 148, 149, 150, 151, 153, 157, 158, 159, 160, 161, 162, 163, 164, 169, 170, 171, 173, 178, 179,182, 183, 184, 186, 188, 195, 197, 216, 218, 223, 231, 234, 238, 243, 245, 246, 247, 250, 251, 252, 253, 254, 255, 256, 257, 259, 266, 258, 269, 270, 272, 273, 274, 275, 276, 278, 279, 280, 281, 286, 287, 288, 289, 290, 291, 294, 297, 298, 299, 306, 307, 313, 314, 315, 317, 321, 322, 324, 325, 327, 335, 337, 338, 339, 340, 341, 342, 344 اکبر حیدری : 338 الادریسی: 28 البرٹس میگنس: 281 البیرونی : 282, 286 الجاحظ: 252, 281, 283, 284, 286, 287, 328 الطبری: 282 الغزالی: 67, 98,99, 219, 220, 239, 307, 359 المنصور باللہ: 219 ام عمر: 300 امیر علی سید : 311, 332 امین احسن اصلاحی: 217, 239, 240 ایگریپیا: 280 این ملکہ: 183 ابن اوس نیلی : 118 این سمپسن: 86-87 این میری شمل: 329 اینٹی فلیو: 80, 91 ب بابر : 80, 81 باقر (ملا) : 256 بائل: 277 بدھ : 190, 234 براڈ سی ڈی : 55, 56, 64, 28, 83, 91, 92, 177, 178, 180, 183, 193, 194, 340 برائوننگ : 132 برٹرینڈرسل: 25, 26, 53, 54, 61, 62, 89, 90, 278, 337 برکلے: 67, 114, 179, 181 برہان الدین محق: 224 برگساں‘ہنری: 26, 67, 83, 98, 103, 109, 112, 116, 117, 118, 119, 120, 121, 122, 1244, 125, 127, 128, 129, 130, 143, 148, 197, 238, 278, 337 بریڈلے: 138 بل: 216 بلک ۔ آر ۔ ایس: 92 بلینکوئی: 168 بہائو الدین شیخ : 224 پ پال بادھام: 90, 93 پال ٹلچ: 40, 176 پالسن: 59, 60, 91 پرائس۔ ایچ ایچ: 83 پروٹاگورس: 123 پلسنسنر: 48, 89 پیارے لال کشن داس و اتل پنڈت: 328 پیراسلس: 280 ت تبع: 301 ٹ ٹسناف: 170 ٹیلر اے ای : 78, 92 ث ثمود: 301 ج جارج مارٹن : 328 جارج لاک: 12, 97,112 جان ہک: 70, 92, 93, 193 جاوید اقبال : 324 جگن ناتھ آزاد: 339 جلال الدین دوانی: 133 جم : 270 جیرالڈ کیومن: 93 جیک کورون: 89 جیمز وارڈ: 129, 130, 153, 184, 185, 186 چ چنگیز خان: 56 ح حافظ شیرازی: 225 حسام الدین: 225 حسن الدین میر : 346 حسین نصر سید: 280 حلاج منصور: 138, 231, 270, 273 حنیف ندوی (مولانا): 214, 239, 240, 317, 332 خ خوارزم شاہ: 224 د دارا: 270 داماد (میر) : 256 ڈ ڈار بی ۔ اے : 124, 191, 192, 194 ڈارون : 162, 164, 252 ڈاگوبارٹ بیون: 89 ڈنکن بلیک میکڈونالڈ: 206 ڈوکاس سی ۔ جے: 89, 91 ڈونڈروڈ: 327 ڈیکارٹ: 97, 111, 112, 142, 238, 278 ڈیوڈ ہیوم: دیکھیے ہیوم ر رابرٹ فلٹن: 4 رابرٹ وہٹمور: 100, 137 رازی: 107 راغب اصفہانی : 199 راغب رحمانی: 239 رائیڈر ہیگرڈ : 47, 174 رائس : 133 رائے گیٹی: 42 رضی الدین صدیقی: 103, 147, 266, 325 روجر بیکن: 219, 280 رومیؒ : 107, 124, 130, 137, 190, 224, 225, 226, 227, 228, 229, 230, 231, 232, 233, 236, 238, 252, 253, 258, 269, 274, 275 ,281, 286, 287, 291, 282, 294, 295, 296, 297, 299, 329, 330, 338, 339, 347 ریلے (لارڈ): 82 ریناں: 223 رنئیر سی بوم: 41, 42 ز زینو: 116, 148 س سعدیؒ: 282 سقراط : 56, 71, 72, 97, 140, 226 سکندر افروویسی: 76, 221 سلیمان ندوی (سید) : 215, 216 سینتھ: 89 سینا: 227, 307, 310 سیوطی (علامہ) : 282 ش شبلی نعمانی: 225, 291,292, 294, 306, 314, 315, 321, 329, 331, 332 شلر ایف ۔ سی: 83 شمس تبریز : 224, 225, 226 شنکر: 270 شوہب ہار: 2, 3, 21, 25, 64, 91, 124, 125, 132, 147, 171, 174, 182 ,187, 188, 189, 190, 198, 278, 328, 290, 291, 339 شیلر میکس : 9, 10, 11, 36 ص صلاح الدین زررکوب : 225 ط طبرانی احمد: 215 ع عبدالحکیم خلیفہ (ڈاکٹر) : 117, 148, 149, 192, 226, 241 عبدالخالق (ڈاکٹر): 328 عبدالرشید نعمانی: 239, 240 عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ (حضرت) : 215 عبداللہ (سید) : 192, 241,325 عراقی: 101, 102, 103, 133 علاو الدین کیقباد (اول) : 224 علی ہجویری سید: 231, 241 عمر بن خطاب (حضرت ) : 215 عمران : 199 غ غلام محمد چودھری: 239 ف فارابی: 227, 307, 310 فرائڈ : 12, 13, 14, 16, 17, 19, 20, 21, 22, 24, 25, 27, 37, 58, 59 فردوسی: 282 فرعون: 208, 301 فرید الدین عطار: 282 فشٹے: 124, 129, 130, 278 فریڈرک جے ہوفمین : 40 فلاطینوس : 134 فورنئیر: 336 فیثا غورث: 72, 116, 266 ق قادر۔ سی ۔ اے : 93 قتادہ (امام) : 215 ک کارل چی ینگ: 40 کامو: 25 کانٹ: 46, 62, 69, 77, 78, 80, 89, 97, 98, 124, 153, 154, 156, 157, 158, 159, 160, 169, 171, 187, 189 191, 238, 278 کرکیگارٹ: 3, 25 کروچے: 277, 278 کلیٹی: 33 کمال الدین وامیری: 283 کنفیوشس: 27 کوئسٹن بام: 15, 16, 17 کیلون لارڈ: 277 کیمیا: 225 کنئیر: 120 گ گارڈز مرفی: 40 گویائو: 168 ل لاری لیری ڈی او: 220, 240 لائبزڈی ۔ او: 112, 135, 184, 185 186, 227, 278 لنڈابادھام: 9, 93 لینڈز برگ : 9, 10, 11 م مارٹن ٹائیڈگر: 14, 15, 16, 17, 25, 26 مارتھا بوم: 41, 42 مالوائے: 86, 87 مائیکل سکاٹ: 219 حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: 132, 145, 200, 239, 249, 257, 295, 304, 311, 345 محمد حئی(مولانا) : 239 محمد رفیع الدین : 277, 324, 326 محمد لطفی جمعہ : 241 محمد نذیر عرشی: 348 محمد یوسف خاں سلیم چشتی: 150 حضرت مسیح عیسیٰؑ: 25, 48, 134, 174, 198, 201, 226, 255, 275, 309, 335 مریم : 199, 202 مظفر حسین: 158, 192 معین الدین پروانہ: 226 ملر: 326 منصور حلاج: 138, 231, 270 ,273 موزمینڈولستان: 153 حضرت موسیٰؑ: 249 موسیٰ بن میمون: 219 میکٹیگرٹ: 70, 76, 77, 118, 153, 174, 179, 180, 181, 182, 183 ن ناماہوٹنٹاس: 7 نٹشے: 124, 130, 146, 153, 164, 165, 166, 167, 168, 169, 170, 171, 172, 173, 174, 177, 178, 198, 238, 274, 290, 291, 328, 339 نذیر نیازی: 147, 324 نعیم احمد: 148, 150 نکلسن: 143 نوحؑ (حضرت ) : 56, 301 نوئیس: 33, 42 نیوٹن: 115, 132 و والٹر کاف مین: 40 واٹس جان: 89 وائڈ کورون جیکوئیس: 191, 192, 194 وائز مین: 20 وڈرف (پروفیسر) : 27 ورڈز ورتھ: 338 ولہلم فلاٹز: 19 ولی الدین (میر) : 241 ولی اللہ (شاہ ) : 253, 307, 310, 346 ولیم (سوئم) : 183 ولیم اوکہام: 124 ولیم بیرٹ : 83 ولیم جیمز : 16, 25, 83, 123, 141, 153, 160, 161, 162, 163, 164, 169, 192, 197, 222, 223, 327, 328 ولیم کروکس: 83 ولیم میکڈوگل: 83 ونگسٹائن: 52, 57, 90 وھائٹ ہیڈ : 115 وھٹمور : دیکھیے رابرٹ وھٹمور وھیلر: 30 ہ ہابس : 123 ہالنگ: 107 ہائین: 167 ہٹلر: 56 ہربرٹ بی گرین ہائوس : 92, 83 ہربرٹ سپنسر: 170, 184 ہربرٹ مارکوس : 40 ہرڈر: 153 ہرمن فیفل: 4, 28, 29, 40, 41 ہکسلے: 184 ہلم ہاز: 251, 278, 279, 326 ہنری سجوک: 83 ہوفمین فریڈرک۔ جے: 40 ہولڈر مین: 167 ہیرنگ ای: 20 ہیگل: 66, 97 ہیوم ڈیوڈ: 82, 88, 92, 123, 245, 337 ی یوسف خلیفہ : 219 یوسف شیدائی: 328 تھ تھامس ایکوناس: 219 اماکن ا آفتاب: 101, 120, 210, 232, 234, 260, 262, 269 آگرہ: 13 اٹلی: 219, 310 ارض : دیکھیے زمین استانبول: 215 اشبیلیہ: 219 افریقہ: 167, 174 اقبال اکادمی لاہور: 324, 326 امریکہ: 4, 83, 85 اناطولیہ: 224 اناطولیہ: 224 انگلینڈ: 219, 308 اہرام: 48 ایبرڈین یونیورسٹی: 184 ایڈن برگ: 86 ایران: 224, 282, 346 ایشیا: 124, 174, 331 ب بخارا: 271 بدخشاں: 271 برطانیہ: دیکھیے انگلینڈ بلخ: 224 پ پرتھ: 86 پنجاب یونیورسٹی لاہور: 85 ت تاج محل: 13 ج جرمنی: 98, 99 چ چندرلوک ۔ چاند ۔ قمر۔ ماہتاب: 7, 115, 210, 221, 260, 262, 270, 309, 310, ر روم: 25, 224, 335 ز زمین ارض: 115, 146, 210, 211, 233, 259, 261, 261, 262, 301, 303 س سرگودھا : 324 سکاٹ لینڈ: 219 سلواپلانا (جھیل): 170 سورج: دیکھیے آفتاب سومنات: 276 سینٹ اینڈریو یونیورسٹی: 184 ق قمر: دیکھیے چاند قونیہ: 224 ک کیمبرج: 182 گ گورنمنٹ کالج سرگودھا: 324 ل لارندہ: 224 لاہور: 85, 147, 150, 324 لندن: 83 م ماسکو: 56 ماہتاب: دیکھیے چاند مصر: 89, 204, 215 مکہ معظمہ: 311 ملاطیہ: 224 ن ناگا ساکی: 4 نیو سائوتھ ویلز: 8 نیویارک: 89 و واٹر پولو: 339 ہ ہندوستان : 282, 309 ہیروشیما: 4 ی یورپ : 124, 164, 219 یونان: 25, 138, 174, 175,335 کتابیات ا اپنشد: 174 ادویتا و دانتا: 175 ارمغان حجاز: 272, 274, 343, 345 اسرار خودی: 124, 247, 270, 273, 274, 276, 328, 344 اقبال اور مسلک تصوف: 366 اقبال کا تصور بقائے دوام: 192 اقبال کا تصور زمان و مکان: 147 انتقاد عمل محض: 77, 153 انجیل: 82, 352 اوراق : 150 ب بال جبریل : 217, 271, 297, 298 بانگ درا: 259, 298, 299 بخاری (صحیح) : دیکھیے صحیح بخاری پ پیام مشرق: 280, 290, 297, 328, 339 ت تاریخ فلسفہ اسلام: 241 تاریخ فلسفہ یونان: 148 تدبر قرآن: 239, 240 ترجمان القرآن: 239 تسہیل العربیہ: 239 تشکیل جدید الہیات اسلامیہ: 147, 148, 149, 150, 170, 192, 193, 234, 241, 324, 325, 326, 329, 331, 332 تفہیم القرآن: 239, 240 تنقید عقل محض: 99 تہافتہ التہافہ: 219, 359 تہافتہ الفلاسفہ: 219, 221, 240, 332, 359 جاوید نامہ: 272, 299 ح حجۃ البلالغہ: 346 حقیقت روح انسانی: 237 حکمت اقبال: 324, 326 حکمت رومی: 241 حیات بعد الموت: 30 حیات الحیوان: 283 خ خطبات : 125, 171, 184 د دائرہ معارف اسلامیہ: 213, 240, 241 دیوان شمس تبریز : 225 ر روح اسلام: 332 س سیرۃ النبیؐ: 215, 330, 332 سوانح مولانا روم: 329 ش شاہنامہ: 282 شذرات فکر اقبال: 246, 247, 324, 365 شرح اسرار خودی: 150 شفاء العلیل: 215 ص صحیح بخاری: 216, 317, 319 ض ضرب کلیم: 272, 275, 297, 298 ع عجائب المخوقات : 282 عمرانی فلسفہ : 22 عہد نامہ عتیق : 7 ف فتوحات مکیہ: 215 فصل المقال: 220, 240, 241 فکر اقبال: 148, 149 فلسفہ اقبال: 219 فلسفہ اسلام: 241 فلسفہ عجم: 346 فیہ مافیہ: 225, 226 ق قرآن مجید: 110, 125, 130, 132, 136, 144, 197, 198, 199, 202, 203,204, 205, 206, 207, 208, 209, 211, 213, 217, 218, 220, 222, 223, 227, 228, 229, 232, 248, 249, 250, 252, 253, 255, 257, 258, 259, 260, 262, 263, 274, 280, 281, 282, 283, 296, 300, 301, 303, 302, 304, 306, 311, 313, 314, 317, 318, 319, 320, 321, 322, 338, 343 ک کتاب الحیوان: 283, 284, 328 کتاب الروح : 239 کتاب الزراعت: 283 کشف المحجوب: 241 کلیلہ و منہ: 282 گ گلستان بوستان: 282 گلشن راز جدید: 297 ل لغات القرآن: 239, 240 لسان العرب: 216 لسان القرآن: 214, 239, 240, 332 م متعلقات خطبات اقبال: 192, 193, 241, 325 مثنوی اسرار خودی: 247, 270, 273, 274, 276, 328, 344 مثنوی مسافر: 272 مثنوی معنوی مولوی: 225, 226, 228, 287, 348, 374 مسلم: 215 مسلم فلسفہ: 328 مسند: 215 مشکوۃ: 312 مفتاح العلوم: 348 مکتوبات اقبال: 324 منطق الطیر: 282 موت کے معنی: 28 مادی الارواح: 215 ن نباتاتی زراعت: 283 نفسیات واردات روحانی: 192 Books Being And Time. 14 Body, Mind and Death - 90 Critique of pure Reason - 191 D Anima - 74.92 Death and Western Thought 89.191.192.194 Dictionary of Philosophy 89 Essays On the Immortality of Soul - 92 Encyclopedia of Unexplained - 92 Encyclopedia of Religion and Ethics - 89,91 (Vol-2_ 172 Ethics and History of Philosophy - 193,194 Examination of Mc. Taggarts Philosophy - 194 Growing Old - 41.42 History of Western Philosophy - 89 Immortality or Extinction - 90,93 Iqbal and Post Kantian Volutarism - 191.192.194 Kant - Critique of Pure Reason. 89 Life After Death. 4.41 Mind, Life and Death. 89.91 Nature of Existence - 180.193 Philosophny of Religion - 92.93.193 Religion and Future Life - 89 She - 47 The Book of Psychic Knowledge - 92 The Daily Pakistan Times - 93 The Faith of a Moralist - 78.92 The Mind And Its Place In Nature - 91.92.93 Tractus And Future LIfe. 89 Why I Am not a Cristian - 90 ٭٭٭ مکالمات جمہوریہ : 72 فارڈس: 72, 73 فیدو: 45, 72, 92 قوانین: 72, 73 ٭٭٭ نظریات و فلسفہ نظریہ ابدیت : دیکھیے نظریہ بقائے دوام نظریہ ارتقائ: 238, 281, 284, 286, 295 نظریہ اضافیت (تصور زمان و مکاں): 103, 104, 105, 116, 117, 173, 266, 267, 325, 350 نظریہ بقائے دوام: 149, 151, 190, 263, 274, 325, 338, 340 نظریہ بقائے روح: 291 نظریہ تحت مظہریت : 64 نظریہ تکرار ابدی(رجعت ابدی): 164, 166, 167, 168, 169, 170, 171, 172, 178, 358 نظریہ خودی: 138, 149 نظریہ عشق : 238 نظریہ فنا: 231 نظریہ محرک غیر متحرک: 75, 118 نظریہ نروان: 190 نظریہ وحدت الشہود : 137, 376 نظریہ وحدت النفوس: 222 نظریہ وحدت الوجود: 134, 136, 229, 249, 272, 273, 374 نظریہ ہمہ روحیت: 221, 222 فلسفہ شوپنہار: 21 فلسفہ ویدانت: 174, 176, 177 فلسفہ ہلانیاتی (ہیلانیاتی روایت) : 226, 227 فلسفہ یونان: 138 متشابہات ۔ ا آسمان : 210, 233, 260, 261, 262, 270, 301, 303, 313, 314 اعراف: 216, 217, 322 الھاویہ: دیکھیے جہنم ب برزخ: 144, 186, 207, 206, 208, 209, 216, 251, 262, 299, 306, 321, 322 ت تحت الثریٰ: 309 ج جنت فردوس: 25, 158, 161, 204, 207, 211, 212, 213, 214, 216, 217, 218, 253, 260, 296, 297, 298, 310, 311, 312, 313, 314, 315, 316, 317, 318, 321, 322, 336, 342, 343 جہنم‘ دوزخ ‘ الھاویہ‘ جھیم‘ سقر‘ لظیٰ حطمہ‘ دارالعذاب: 25, 161, 207, 211, 212, 213, 214, 215, 216, 217, 218, 240, 253, 260, 261, 309, 310, 311, 312, 314,315,316, 317, 318, 320, 321, 332, 336, 341, 342, 344 ع عالم آخرت: 214 عرش: 211, 270 ک کرسی: 270 متشابہات ابلیس ‘ شیطان: 206, 309 اسرافیل (فرشتہ) : 211, 343 اوسرس (دیوتا) (Osirus): 47, 309 جبریل (فرشتہ) روح القدس: 200, 201, 271 اصطلاحات : ا آرفیسی مذہب: 174, 354 آزادی: 248, 274, 284, 322 آواگون: دیکھیے تناسخ ارواح ابدیت: دیکیے بقائے دوام اثباتیت: دیکھیے ایجابیت احتمالیت: 352 ارادیت: 123, 124, 127, 162, 238, 275, 352 ارتبائیت: 357 ارتقائ: 8, 9, 11, 18, 22, 49, 64, 67, 74, 75, 100, 118, 122, 124, 127, 128, 137, 145,160, 161, 164, 165, 167, 178, 179, 205, 228, 231 ,233, 234, 238, 250, 252, 263, 269, 274, 280, 281, 284, 287, 289, 290, 291, 292, 294, 295, 294, 299, 302, 308, 312, 319, 320, 322, 323, 338, 339, 352, 358 اساسیت: 277 اسلام ۔ ایمان: 99, 108, 138, 158,159, 198, 199, 206, 214, 217, 218, 219, 223, 224, 226, 277, 245, 247, 249, 252, 253, 273, 282, 283, 301, 317, 318, 319, 340, 346 اضافیت: 117 الٰہیات 132 ,227, 353 الوہیت: 161, 202, 354 الٰہیت: 137, 185, 353 انا ‘ ایغو ‘ خودی‘ شخصیت ‘ انیت: 15, 16, 22, 61, 130, 131, 134, 135, 136, 137, 138, 139, 140, 141, 142, 143, 144, 145, 150, 159, 160, 163, 173, 176, 218, 238, 247, 248, 249, 250, 251, 256, 257, 258, 259, 263, 269, 270, 271, 272, 274, 275, 276, 278, 279, 287, 289, 297, 298, 308, 315, 317, 323, 341, 342, 343, 353, 354 انسانیت: 143, 145, 162, 222, 237, 252 انفرادیت: 121, 130, 131, 136, 137, 143, 144, 175, 226, 228, 229, 230, 250, 269, 367 اولیت: 277 ,293 ایجابیت: 355 ب باطل : 99, 217 بدعت: 219, 220 بدی: دیکھیے شر بدھ مت: 144, 174, 231, 247 بقائ: 16, 76, 81, 177, 185, 229, 236, 237, 238, 246, 247, 269, 273, 274, 292, 294, 295, 304, 335, 336 بقائے دوام حیات بعد الممات ابدیت سرمدیت دیمومت : 30, 25, 26, 27, 28, 45, 46, 47, 48, 49, 50, 51, 52, 54, 55, 56, 57, 59, 61, 64, 65, 67, 68, 69, 70, 71, 72, 73, 74, 75, 76, 77, 87, 80, 81, 82, 83, 84, 88, 89, 92, 133, 163, 150, 151, 153, 154, 156, 157, 158, 159, 160, 163, 172, 174, 177, 179, 180, 181 ,182, 183, 185, 186, 187, 188, 189, 190, 195, 196, 197, 198, 202, 205, 206, 211, 214, 219, 218, 218, 220, 221, 22, 223, 228, 229, 238, 243, 245, 246, 247, 248, 249, 250, 251, 252, 253, 254, 255, 256, 257,259,262, 269, 271, 274, 275, 278, 289, 290, 291, 295, 301, 302, 308, 309, 336, 337, 338, 339, 340, 341, 342, 343, 344, 345, 350, 355, 360 بے معنویت: 345 پ پریسبٹیرین: 86, 356 ت تجربیت: 12, 97, 112, 355 تصوریت: 66, 70, 119, 179, 274, 278 تصوف: 144, 156, 228, 231, 269, 272, 273 تناسخ ارواح آواگون: 46, 153, 169, 173, 174, 176, 179, 259, 273, 330, 346, 356, 358 توحید: 130, 131 ث ثنویت: 10, 75, 126, 133, 142, 222, 223,275, 359 ج جاودانیت: 254 جاہلیت: 283, 300, 301 جبریت: 122, 127, 162,184, 360 جبلت جنسی: 21.359 جبلت حیات: 17, 18, 20, 22, 24, 164, 359 جبلت علم: 165 جبلت مرگ: 17, 18, 19, 20, 21, 22, 24, 38, 359 جمادیت: 291 جین مت: 174 ح حیات بعد الممات: دیکھیے بقائے دوام حیاتیت: 126 حق: 217, 219, 229, 232, 277, 286 حیوانیت : 237 خ خلاقیت: 173 خیر ۔ نیکی: 68, 133, 159, 160, 203, 205, 206, 310, 317, 362 د دہریت: 336 دیمومت: دیکھیے بقائے دوام ذ ذو معنویت: 15 ر ربوبیت: 218, 256, 320 رجائیت: 290, 323, 331, 339, 345, 363 روحانیت: 363 روحیت (ہمہ) : 221, 227, 376 ز زرتشتی مذہب: 340, 346 س سرمدیت: دیکھیے بقائے دوام سریانیت: 137, 363 سکھ مت: 174 ش شتویت: 330, 331, 365 شر ۔ بدی:68, 133, 160, 160, 203, 205, 206, 310 شرک: 214, 215, 218 ع عبودیت: 256 عدل: 72 عدمیت: دیکھیے فنا عصبانیت (جنگی) : 21, 360 عقلیت: 99 عیسائیت مسیحیت: 25, 156, 158, 159, 247, 277, 317, 336, 340, 346 عینیت : 4. 25. 67. 51, 53, 56, 62,65, 73, 137, 140, 178, 179, 185, 234,238,272, 358, 366 غ غیریت: 136 ف فردیت: 121 فعالیت: 125, 143 فعلیت: 133, 221 فنا۔ معدومیت ۔ نیستی: 48, 81, 144, 187, 222, 228, 229, 231, 234, 235, 236, 237, 238, 249, 253, 269, 270, 273, 291, 292, 293, 294, 313, 341, 343, 370 ق قطعیت: 98, 327 قنوطیت: 76, 164, 167, 252, 289, 290, 291, 296, 328, 331, 337, 339, 345,368 ک کثرتیت: 184 کفر: 219, 220, 370 کلیت: 105 ل لااردیت: 100, 370 لازمانیت: 168, 254, 367 لا شئییت: 14, 16, 32,369 لامتناہیت لا محدودیت: 131, 132, 171, 250, 264, 269, 370, 371 لذتیت: 370 م مابعد الطبیعیات: 77, 227 مادیت: 22, 24, 25, 63, 64, 158, 162, 187, 221, 251, 252, 249, 311, 359 ماورائیت: 32, 33, 137, 371 متناہیت: 75, 229, 249, 263, 264, 274, 372 متوازیت: 373 مجردیت: 320 محدودیت: دیکھیے فنا مدرسیت: 110, 113, 156, 256, 336, 372 مدنیت: 222, 223 مساوات: 55, 62 مسیحیت: دیکھیے عیسائیت مصری مذہب: 340, 346 مظہریت: 375 معدومیت: دیکھیے فنا معروضیت : 31 معنویت: 58, 168, 375 مقصدیت: 373 موضوعیت: 187 مونادیت : 373 میکانیت: 172, 371, 372 ن نتابیئت:123 نوفلاطونیت:175 نیستی: دیکھے فنا و واجدان:10-67-97-98-100-101-104-105-106 -107-108-109-110-112-147-170-187-246-277- وجدانیت:246 وجودیت :296-331-373 ویدانت:376 ہ ہندومت:174-340-346 ی یہودیت:317-340-346 اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End