تصوراتِ عشق و خرد اقبال کی نظر میں ڈاکٹر وزیر آغا اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-209-2 طبع اوّل:۱۹۷۷ئ طبع دوم: ۱۹۸۷ء طبع سوم:۱۹۹۴ئ طبع چہارم:۲۰۰۰ء طبع پنجم:۲۰۰۸ء طبع ششم ( نستعلیق کمپوزنگ): ۲۰۱۰ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۔؍۱۵۰ روپے مطبع : شرکت پریس، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۳۷۳۵۷۲۱۴ شمس آغا کے نام ایسے بڑھے کہ منزلیںرستے میں بچھ گئیں ایسے گئے کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا ترتیب عرض ناشر ۷ پیش لفظ ۹ ۱- تصوراتِ اقبال کا پس منظر ۱۳ ا- تصورات اقبال کا یورپی پس منظر ۱۳ ب- تصورات اقبال کا اسلامی پس منظر ۵۰ ۲- اقبال کے تصوراتِ عشق و خرد ۸۳ ا- فکر اقبال میں خرد کی اہمیت ۸۳ ب- فکر اقبال میں عشق کا مقام ۱۳۵ ۳- اختتامیہ ۱۹۷ l کتابیات(اردو ؍ انگریزی) ۲۰۶ عرض ناشر عقل اور عشق ، اقبال کے تصور انسان میں قطبین کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی مقلوب ہم آہنگی سے حقائق انسانی اور ان کی تمام نسبتوں کا احاطہ ہوتا ہے۔ انسان کی مابعد الطبیعی جہت ہو یا دنیاوی کردار، انھی دو منتہائوں کے درمیان ہے جن سے نہ صرف یہ کہ اس کے وجودی حدود متعین ہوتے ہیں بلکہ وہ نظام الحقائق بھی ایک زندہ معنویت اور موجودگی کے ساتھ مشہود ہوتا ہے جس کا یہ کائنات محض ایک مظہر ہے۔ اقبال کے تصور عقل و عشق پر گو کہ خاصا کام ہو چکا ہے لیکن اس کا بڑا حصہ مایوس کن ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا جو ایک دبستان گر نقاد اور ایک رجحان ساز شاعر ہونے کے علاوہ بشریات اور سری فلسفے کے ماہر بھی ہیں، اقبال سے فقط ادبی تعلق ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کی فکری اور وجدانی گہرائیوں کے غواص بھی ہیں۔ انھوں نے علامہ کو حوالہ بنا کر عشق اور عقل کے تصور کو ایک نسبتہً نئی سطح پر رکھ کر دیکھا ہے۔ یہ سطح مستندمعنوں میں روایتی اور مابعد الطبیعی نہیں ہے تاہم انسان کے بنیادی حقائق اور ملکات کے طور پر عشق و خرد کا ایک وسیع اور پیچیدہ تناظر ضرور فراہم کرتی ہے جو سری اور تشبیہی (Anthropological) ہونے کی وجہ سے ایک فضاکا احساس پیدا کر دیتا ہے جو مابعد الطبیعیات سے خاص ہے۔ ہر صاحب نظر یہ نقاد کی طرح ڈاکٹر وزیر آغا بھی چیزوں کو ان کے طے شدہ معنی میں نہیں دیکھتے ، بلکہ ان مستقل تعینات کو توڑنے کا میلان رکھتے ہیں جن سے نکل کر ، روایتی و مابعد الطبیعی تصور کے مطابق ، چیزیں اپنی حقیقت سے دور ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سریت اور تاریخ کو باہم آمیز کر کے حقائق کے ایسے پیکر تراشنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو مابعد الطبیعی اور اخلاقی سے زیادہ اساطیری اور جمالیاتی ہوں۔تصوراتِ عشق و خرد کا شمار یقینا اس طرز فکر کے بہترین نمونوں میں ہونا چاہیے۔ ناشر پیش لفظ اقبال کے تصوراتِ عشق وخرد ان کے فکری نظام میں ایک اساسی حیثیت رکھتے ہیں، مگر عجیب بات ہے کہ انھی تصورات نے بہت سے مغالطوں کو جنم بھی دیا ہے۔ شایداس کی وجہ یہ ہو کہ جہاں شاعر اور فلاسفر ایک ہی شخصیت کے بطون میں سرگرم عمل ہوں تو ترسیل کا المیہ جنم لیتا ہے۔۔۔ اس لیے کہ شاعر جس اشاراتی اور تمثیلی زبان میں بات کرتا ہے، وہ فلاسفر کی منطقی اور دو ٹوک قسم کی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ان دونوں زبانوں کو لسانیات کی ایک ہی کنجی سے کھولنے کی کوشش کی جائے تو بہت سے فکری مغالطے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ شعری زبان تصورات کی زبان ہے جب کہ فلسفے کی زبان منطق سے مملو ہے۔ تصورات گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلتے ہیں۔۔۔ کبھی وہ اتنے شوخ ہوتے ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، کبھی اتنے مدھم ہوتے ہیں کہ محض خاکے بن جاتے ہیں۔ پھر ان کے رنگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اگر ان سے منسلک کوئی شے تبدیل نہیں ہوتی تو وہ شعری شخصیت ہے جو سدا ان کے پس پشت موجود رہتی ہے۔ اس شعری شخصیت کے سلسلے میں بھی یہ بات نہیںبھولنا چاہیے کہ نظریات کے جزر و مد کے باوجود اس کا بنیادی پیٹرن تبدیل نہیں ہوتا۔ چنانچہ بظاہر شاعر اپنے طویل تخلیقی سفر میں متضاد رویوں کا بھی مظاہرہ کرتا ہے مگر بباطن ایک ہی مستقل نہج پر گامزن رہتا ہے۔ جب شاعر کے نظریات کو کسی منضبط فکری نظام کی میزان پر تولنے کی کوشش ہو، تو تضادات نظروں میں کھٹکتے ہیں اور اس پر بعض لوگ خوشی سے تالیاں بھی بجاتے ہیں لیکن اگر ان تضادات کو شاعر کی شعری شخصیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو پھر وہ ارتقائی عمل کے مظہر دکھائی دیتے ہیں اور تالیاں بجانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اقبال کے سلسلے میں بعض اصحاب نے جن تضادات کی طرف بار بار اشارے کیے ہیں وہ اقبال کی شاعری اور اس سے اُبھرنے والی زر خیز علامتوں کا تجزیہ کرنے کی صورت میں باقی نہیں رہتے۔ لہٰذا اقبال کا مطالعہ بطور فلاسفر کرنے کے بجائے اس طور کرنا چاہیے کہ ان کے نظریات کے عقب میں پھیلے ہوئے ان کے شعری باطن کو گرفت میں لیا جا سکے۔ مثل مشہور ہے کہ سمندر اپنی طوفانی لہروں کے بہت نیچے ہمیشہ ایک بے پایاں سکوت سے ہم آہنگ رہتا ہے۔ یہ مثل اقبال کے سلسلے میں بالکل سچ نظر آتی ہے کیونکہ اقبال کے ہاں سطحی نظریات کی تبدیلیاں وجود میں آتی رہیں لیکن زیرِ سطح ایک مستقل زاویۂ نگاہ ہمیشہ باقی رہا۔ مثلاً عشق و خرد کے تصورات ہی کو لیجیے۔ عام خیال یہ ہے کہ اقبال نے اپنے ’’خطبات‘‘ میں عقلی اور منطقی رویے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے مگر شاعری میں عشق کو خرد کے مقابلے میں ایک اعلیٰ و ارفع مقام بخشا ہے، بلکہ عشق کی تعریف کے ساتھ ساتھ عقل کی مذمت بھی کی ہے۔ بے شک یہ تضاد ’’خطبات‘‘ میں پیش کیے گئے نظریات اور کلامِ اقبال سے اُبھرنے والی علامات کو ایک ہی زاویے سے دیکھنے کی کوشش میں عام طور سے نظر آ جاتا ہے، مگر جب اقبال کے شعری باطن کا جائزہ لیا جائے اور علامات کی زیریں سطح سے شناسائی حاصل کی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نے جو کچھ ’’خطبات‘‘میں کہا ہے اور پھر جو کچھ شاعری میں کہا ہے، بنیادی اور اساسی طور پر ایک ہی خیال ہے جو نہ تو محض وہبی سوچ کے حوالے سے عشق کا علم بردار ہے اور نہ محض منطقی سوچ کے حوالے سے عقل کا ، بلکہ ایک بالکل جداگانہ حیثیت رکھتا ہے جس میں عقل اور عشق دونوں صرف ہوئے ہیں اور نتیجہ ایک ایسے عمل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو سراسر تخلیقی ہے۔ اقبال اگر محض عشق کی زد پر رہتے تو ایک صوفی کی حیثیت میں ابھرتے اور اگر محض عقل کو بروے کار لانے پر بضد رہتے تو ایک فلاسفر بن جاتے، مگر انھوں نے تو عشق اور عقل دونوں کی قوت کو استعمال کیا اور ایک تخلیق کار کی حیثیت میں اُبھر آئے۔ گویا ان کا بنیادی میلان نہ تو صوفیانہ ہے اور نہ فلسفیانہ ، بلکہ تخلیقی اور جمالیاتی ہے۔ زیرِ نظر کتا ب میں یہی موقف اختیار کیا گیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب تصوراتِ اقبال کے پس منظر سے متعلق ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اقبال کے افکار کی بنت میں فکر کے کون کون سے دھاگے شامل ہوئے ہیں، نیز اس بات کا بھی اندازہ ہو سکے کہ اقبال نے کس حد تک اپنے فکری پس منظر سے الگ ہو کر بات کہی ہے۔ تاہم پس منظر کے سلسلے میں بھی یورپی اثرات کا الگ طور پر جائزہ لیا گیا ہے اور اسلامی اثرات کو جُدا زیر بحث لایا گیا ہے۔ دوسرے باب میں اقبال کے تصورات عشق و خرد سے بحث کی گئی ہے۔ اس باب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ فکرِ اقبال میں خرد کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے مختص ہے تاکہ اقبال پر خرد دشمنی کا جو الزام عائد ہوا تھا، اس کی تردید ہو سکے۔ دوسرے حصے میں اقبال کے ہاں ’’عشق ‘‘ کے تصور کا جائزہ لیا گیا ہے اور تصوف کے ’’عشق‘‘ سے اس کی مماثلت اور فرق کو زیر بحث لانے کی کوشش ہوئی ہے۔ آخری باب ’’اختتامیہ‘‘ ہے جس میں سابقہ ابواب کے نتائج کی روشنی میں نہ صرف اقبال کے تخلیقی اور جمالیاتی میلان کو منظرِ عام میں لایا گیا ہے بلکہ اقبال کی بعض علامتوں کی مدد سے اس میلان کی نشو و نما کو اُجاگر کرنے کی کوشش بھی ہوئی ہے تاکہ عشق و خرد کے بارے میں اقبال کا اصل موقف اپنے صحیح تناظر میں سامنے آ سکے۔ اس کتاب کے سلسلے میں بعض دوستوں مثلاً انور سدید اور رفیع الدین ہاشمی کا بطور خاص شکر گزار ہوں کیونکہ انھوں نے میری طلب کو دیکھتے ہوئے میرے سامنے ’’مضامینِ نو‘‘ کے انبار لگا دیے یعنی بازار میں بکنے والی کتابوں سے لے کر نادر و نایاب کتب تک فراہم کر دیں۔ اسی طرح میں محترم ڈاکٹر سید عبداللہ کے علاوہ خورشید رضوی اور سجاد نقوی کا بھی ممنون ہوں کہ انھوں نے کتب کی فراہمی کے علاوہ اصطلاحات کے تراجم کے سلسلے میں بھی مجھے نہایت قیمتی مشورے دیے۔ مجھے اپنے بیٹے سلیم آغا کا شکریہ بھی ادا کرناہے جس نے مسودے کی نوک پلک سنوارنے میں میری مدد کی۔ فقط وزیر کوٹ ، ۳۰؍نومبر ۱۹۷۶ئ وزیر آغا ۱ تصوراتِ اقبال کا پس منظر ا- تصوراتِ اقبال کا یورپی پس منظر بعض علمی حلقوں نے اقبال پر خرد دشمنی کا الزام لگایا ہے، مگر فکرِ اقبال کا مطالعہ کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ الزام محض ان چند نظموں کے خلاف ایک ردِ عمل ہے جن میں اقبال نے عقل اور عشق کا موازنہ کرتے ہوئے عقل پر عشق کی برتری کا ذکر کیا ہے۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان نظموں میں بھی اقبال نے عقل کو گردن زدنی قرار نہیں دیا، بلکہ ادر اک حقیقت کے عمل میںاسے ثانوی حیثیت دی ہے۔ بعد ازاں جب ’’خطبات‘‘ میں اقبال نے اپنے فکر کے متعدد گوشوں پر روشنی ڈالی ہے تو خرد دشمنی کا الزام بالکل بے بنیاد نظر آتا ہے، مثلاً اپنے ان خطبات میں اقبال نے ایک جگہ مولانا روم کے یہ اشعار نقل کیے ہیں: ۱؎ دفتر صوفی سوا دو حرف نیست جُز دلِ اسپید مثلِ برف نیست ہمچو صیادے سوئے اشکار شد گامِ آہو دید و بر آثار شد چند گامش گامِ آہو در خور است بعدازاں خود نافِ آہو رہبر است راہ فتن یک نفس بر بوئے ناف خوشتر از صد منزلِ گام و طواف مفہوم ان اشعار کا یہ ہے کہ صوفی کی کتاب حرف اور روشنائی سے عبارت نہیں؛یہ تو سفید برف ایسے دل کے مانند ہے ۔ صوفی ایک شکاری کی طرح ہرن کا پیچھا کرتا ہے۔ کچھ دور تک ہرن کے نقوشِ پا اس کی رہنمائی کرتے ہیں، مگر اس کے بعد ہرن کے نافے کی خوشبو اس کی رہبر بن جاتی ہے۔ مولانا روم کہتے ہیں کہ صد ہا منازل تک ہرن کے نقوشِ پا کی رہنمائی میں سفر کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ ایک منزل تک نافۂ آہو کی رہنمائی میں سفر کیا جائے۔ اس خیال کی توضیح کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں کہ سائنسی انداز میں فطرت کا مشاہدہ کرنے والا شخص اُس شکاری کی طرح ہے جو نقوشِ پا کے تعاقب میں بڑھ رہا ہو، لیکن عرفان کے حصول کے لیے اس شخص کی یہی پیاس اُس مقام تک اُسے ضرور لے جائے گی جہاں نقوشِ پا کے بجائے نافۂ آہو کی خوشبو اس کی رہبر بن جائے گی۔ غورکیجیے کہ حصولِ عرفان کے لیے اقبال نے ’’نقوشِ پا‘‘ اور ’’نافۂ آہو‘‘کو دو متبادل ذریعے متصور نہیں کیا، بلکہ انھیں ایک ہی سفر کے دو مدارج قرار دیا ہے۔ عشق و خرد کے بارے میں اقبال کے مؤقف کو سمجھنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ اقبال کی مندرجہ بالا توضیح کو سدا پیشِ نظر رکھا جائے۔ (۲) عشق اور خرد کے فرق کو اقبال ہی نہیں ، دوسرے لا تعداد مفکرین نے بھی موضوع گفتگو بنایا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جب سے انسان نے تہذیب کے دائرے میں قدم رکھا ہے، یہ موضوع کسی نہ کسی صورت میں انسانی سوچ بچارکی زد پر ضرور رہا ہے۔ ابتداًجب انسان ابھی جنگل کی زندگی گزار رہا تھا تو یہ موضوع شعور کی گرفت میں آنے سے گریزاں رہا۔ تاہم اس دور میں بھی انسانی فکر نے دو متبادل راستے ضرور تلاش کیے۔ ایک راستہ شعوری اقدامات سے خارج کی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کی وہ کاوش تھی جو جادو کی رسوم میں ظاہر ہوئی۔ جادوگر دراصل قدیم زمانے کا ایک سائنس دان تھا اور سائنس ہی کی طرح جادو کے علم کی بھی ایک باقاعدہ تھیوری اور اصول تھے۔ پھر جس طرح سائنس مظاہرِ فطرت کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے بالکل اسی طرح جادو بھی اس بات کا دعوے دار تھا کہ وہ فطرت کو تبدیل کرنے پر قادر ہے۔ بعدازاں جب توہمات کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور جادو کا عمل دخل گھٹتا چلا گیا تو بھی انسان کی ذات میں فروغ پانے والا سوچ کا سائنسی اور عقلی انداز اور خارج کو حسب منشا تبدیل کرنے کی خواہش مدھم نہ پڑی۔ چنانچہ کیمیاگری کو فروغ حاصل ہوا اور کیمیا گری کے تجربات ہی سے بعدازاں سائنس نے جنم لیا۔ کہنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ عقل جس نے ایک طرف منطقی اندازِ فکر اور دوسری طرف تجزیاتی عمل اور استقرائی انداز کی مدد سے تعقلات قائم کرنے کی روش میں خود کو اُجاگر کیا، انسانی تہذیب کی ترقی کے ساتھ ساتھ دائرہ در دائرہ اُلجھتی اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی چلی گئی ۔ اس کے برعکس عشق جو وجدانی سوچ کے عمل میں منکشف ہوا، پھیلائو اور تجزیاتی مطالعہ کے بجائے ارتکاز کا جویا اور استخراجی عمل کا موئد تھا اور اس نے انسان کو یہ درس دیا کہ وہ مکانی طور پر بکھرنے کے بجائے ایک نقطے پر مرتکز ہو کر پوری کائنات کو دریافت کرے۔ ابتداً جنگل کی زندگی کے دوران میں مانا(Mana) کے تصور کے پس پشت مجتمع ہونے کی یہی انسانی خواہش کار فرما تھی۔ بعدازاں مذاہب اور عارفانہ تصورات نے بھی کثرت کے بجائے وحدت کے تصور کو اُبھارا اور انسان کی وجدانی سوچ کے لیے میدان ہموار کر دیا۔ گویا انسان کی ذات کے اندر دو فکری میلانات از منۂ قدیم ہی سے موجود رہے ہیں۔ ان میں سے ایک میلان فکر کی جولانیوں کے تابع ہے اور کسی اسپِ تازی کی طرح صفحۂ ہستی پر آگے ہی آگے بڑھے چلے جانے کا آرزو مند ہے، جب کہ دوسرا میلان آگے بڑھنے اور پھیلنے کے بجائے ایک نقطے پر مرتکز ہونے پر زور دیتا ہے۔اور قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کو دریافت کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ تصوف میں فکر کے ان میلانات کے لیے کثرت اور وحدت کے الفاظ مستعمل رہے ہیں جب کہ فلسفے میں ’’وجود‘‘ اور ’’موجود‘‘ کے الفاظ کے تحت اس موضوع پر مباحث کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا ہے۔ چینی فلسفے میں ین اور یانگ کے الفاظ ملتے ہیں۔ ’’ین اس کیفیت کا نام ہے جس میں ہر شے جامد اور ساکن ہو جاتی ہے اور یانگ وہ کیفیت جس میں ہر شے مضطرب اور بے قرار ہو جاتی ہے‘‘۲؎ ۔۔۔۔اسی طرح کپل کے سانکھ شاستر میں دو ابدی حقیقتوں کا ذکر ہوا ہے۔۔۔۔ پر کرتی (فطرت) اور پُرش (روح) جو ایک ابدی تصادم میں مبتلا ستوگن، تموگن اور رجوگن کے مختلف ادوار سے گزرتے ہیں۔ پُرش کو اس وقت فتح حاصل ہوتی ہے جب وہ مادے سے آزادی حاصل کر لیتا ہے اور بندھنوں (یعنی پر کرتی) سے یکسر آزاد ہو کر نروان حاصل کر لیتا ہے۔ نروان حاصل کرنا در اصل ایک نقطے پر مجتمع ہو کر پوری کائنات کا احاطہ کر لینے کے مترادف ہے اور عشق کے ارفع مدارج کی غمازی کرتا ہے،جب کہ پر کرتی کی دُنیا مادے کی وہ طویل و عریض دنیا ہے جس میں انسان معروضی نقطۂ نظر کو اپناتا ہے اور گام بہ گام ایک شکاری کی طرح ہرن کا پیچھا کرتا چلا جاتا ہے۔ یہی وہ دیار ہے جس میں اسے خرد کی رہنمائی درکار ہے کیونکہ خرد وہ مشعل ہے جس کی مدد کے بغیر وہ اندھیری کائنات میں آگے بڑھ نہیں سکتا۔ اس کے مقابلے میں عشق پھیلائو اور سفر کے بجائے ایک نقطے کے گرد طواف کرنے اور پھر دائرے کو توڑ کر اس مرکزی نقطے سے ہم کنار ہو جانے کا داعی ہے۔ عقل کی تگ و دو حواس خمسہ کے تابع ہے عقل کا طریق کار یہ ہے کہ وہ سامعہ ، باصرہ ، لامسہ ذائقہ اور شامہ کی مدد سے حقیقت کا ادراک کرتی ہے۔ ان میں سے بنیادی حس لامسہ ہے جو انسان کی ابتدائی اور بنیادی حس تھی۔ بعدازاں اس حس میں متعدد ابعاد پیدا ہوتے چلے گئے اور جسمانی لمس نے بصارت ، سماعت اور شامہ کے ذریعے دور کی اشیا کو چھونے کا آغاز کر دیا۔ غور کیجیے کہ آنکھیں جب ماحول کو دیکھتی ہیں یا کان باہر کی آوازوں کو سنتے ہیں یا پھر ناک خارجی زندگی کی بو سے اس کی پہچان کرتی ہے، تو یہ تمام اعضا دراصل خارج کو چھو رہے ہوتے ہیں اور اس لیے بنیادی طور پر لامسہ ہی کے تابع ہیں۔ بہرحال عقل کا کام یہ ہے کہ وہ حواسِ خمسہ کے ذریعے خارجی اشیا کو پہچانتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اندھیرے کمرے میں لالٹین جلا دی جائے اور پھر اس کی لو کو بتدریج اُونچا کیا جائے حتیٰ کہ کمرہ منور ہو جائے ۔ بلکہ اس سے بہتر تمثیل یہ ہے کہ عقل اس مسافر کی طرح ہے جو ایک مشعل ہاتھ میں لیے ابدی تاریکیوں میں اُترتا ہے اور مشعل کے نورانی دائرے میں آنے والی ہر شے کا جائزہ لیتاچلا جاتا ہے۔ عقل کے برعکس عشق حواس کے تابع نہیں، ان سے ماورا ہے ۔ عشق کا سفر اندر سے باہر کی طرف نہیں ، باہر سے اندر کی طرف ہے، اور وہ حواس کی مشعلوں سے نہیں بلکہ ذات کی چکا چوند سے ماحول کو منور کرتا ہے۔ پھر چونکہ حواس کی کارکردگی کا دائرہ محدود ہے، اس لیے عقل بقول اقبال تماشائے لب بام کا منظر پیش کرتی ہے، جب کہ عشق اپنی ہی ذات سے پیدا ہونے والی آتش نمرود میں کود کر خود مجسم روشنی بن جاتا ہے۔ عشق کی روشنی حواس کے بجائے ذات کے آتش کدے کی مرہون منت ہے اور اسی لیے بتدریج راستے کو منور نہیں کرتی بلکہ آنِ واحد میں پوری کائنات کو بقعۂ نور بنا دیتی ہے۔ گویا عقل کی روشنی مزاجاً خارجی لیکن عشق کی روشنی مزاجاً داخلی ہے۔ مقدم الذکر کا کام کائنات کے تہ در تہ جہان کا ادراک بلکہ عرفان ہے اور یہ عرفان ایک لمحۂ بیداری کا ثمر ہے گو اس لمحۂ بیداری کے پس منظر میں محرکات کا ایک پُر اسرار سلسلہ سدا موجود رہتا ہے۔ عقل کا ایک اور وصف یہ ہے کہ وہ سیدھی سڑک پر سفر کرتی ہے۔ گویا اس کی ایک جہت ہے اور اسی لیے اس کے سامنے امکانات کا ایک پورا جہان طلوع ہوتا چلا جاتا ہے۔ اقبال نے مستقبل کو ایک کھُلے امکان کا درجہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مستقبل اللہ تعالیٰ کی تخلیقی حیات کے نامیاتی کل میں یقینا پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ مگر ایک کھُلے امکان کی صورت میں، واقعات کے مقرر شدہ تسلسل اور حد بندیوں کے ساتھ نہیں۔۳؎ اسی بات کی توضیح کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں کہ بعض اوقات ایک ’’مضمون‘‘ غیب سے آتا ہے (گویا صریرخامہ نوائے سروش ہے) مگر اپنے تمام تر امکانات کے ساتھ اور اس لیے کبھی کبھی تو ایک پوری نسل کے مفکرین امکانات کے اس سلسلے کو منکشف کرنے میں اپنی عمریں بتا دئیے ہیں۔مراد یہ کہ امکانات ہی سے کائنات کا سارا تنوع عبارت ہے اور وہ ایک بنی بنائی ٹھوس حقیقت کے بجائے ہر دم تغیر آشنا اور تکمیل طلب حقیقت کے طور پر اُبھری ہے: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں اقبال کے اس موقف کی روشنی میں عقل کی کارکردگی(جو دراصل نئے سے نئے امکانات کو سامنے لانے کا عمل ہے) ایک خاص اہمیت کی حامل قرار پاتی ہے، مگر عشق کا وصف یہ ہے کہ وہ عقل کی طرح سیدھی سڑک پر سفر نہیں کرتا بلکہ ایک دائرے کی صورت میں مرکزی نقطے کا طواف کرتا ہے۔ پھر جب وہ دائرے کی لکیر کو توڑتا ہے تو ایک جست سی لگا کر مرکزی نقطے سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شاعری میں پروانہ عشق کی علامت ہے اور پروانے کا کام یہ ہے کہ وہ شمع کے گرد طواف کرتے ہوئے شمع کی آگ میں جل کر خود بھی آگ بن جاتاہے۔ مذاہب کی دنیا میں بھی طواف ہی بنیادی شے ہے۔ چنانچہ طوافِ کعبہ کی مثال اس سلسلے میں دی جا سکتی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حاجی کو طوافِ کعبہ کی سعادت اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے جب وہ پہلے اپنے گھر سے چل کر ایک طویل سفر کے بعد بالآخر کعبہ تک پہنچتا ہے۔ گویا سیدھی سڑک کا سفر اور طواف دو متضاد عمل نہیں بلکہ ایک ہی عمل کے دو مدارج ہیں۔ ہندو مذہب میں تو شادی کی رسوم تک دائرے کے عمل کے تابع ہیں۔ بعض فلاسفروں نے کائنات کے آغاز و انجام تک کو دائرے کی صفت و دیعت کر دی ہے۔ نیطشے (Nietzsche) کا نظریۂ کائنات میں کوئی نئی شے ظہور پذیر نہیں ہوتی، بلکہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اس سے پہلے لاکھوں بار ہو چکا ہے، بنیادی طور پر انسانی سوچ کے اس خاص انداز ہی سے ماخوذ ہے جو زندگی اور کائنات کو دوّار قرار دیتاہے۔ نیطشے کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ہر شے واپس آتی ہے۔ اس لمحے تیرے خیالات اور تیرا یہ آخری خیال بھی کہ ہر شے واپس آئے گی۔ اے آدم زاد ! تیری ساری زندگی ریت کے گلاس کی طرح ہر بار لبالب بھر جاتی ہے اور پھر خالی بھی ہو جاتی ہے۔ نیطشے کے اس ’’ابدی واپسی‘‘ کے تصور کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے‘‘ ۴؎ کہ یہ نظریہ بھی تو اصلاً میکانکی ہے اور ’’وقت‘‘ کے عنصر سے بے نیاز ہے۔ نیطشے وقت کا معروضی انداز میں جائزہ لیتا ہے اور اسے واقعات کے ان لامتناہی سلسلوں کے مترادف قرار دیتا ہے جو سدا واپس آتے رہتے ہیں۔ تاہم وقت کی جہت کو اگر دائرہ میں اسیر کر دیا جائے تو لافانی ہونے کا احساس ناقابل برداشت ہو جائے۔ گویا اقبال حرکت کے ساتھ جہت کے بھی قائل ہیں اور جہت کو عمل کی صورت قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ دوسری طرف : نیطشے کے علاوہ فیثا غورث (Pythagoras) اور افلاطون (Plato) کے پیروکاروں نیز رواقی فلسفیوں کے ہاں بھی یہ نظریہ بہت مقبول تھا کہ سارا کائناتی نظام ایک دائرے میں گھومتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے کہ ہر دور میں پچھلے واقعات کی تجدید ہوتی ہے اور کوئی نیا یا انوکھا واقعہ کبھی ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ اسی طرح قدیم زمانے کے ہندوئوں نے وقت کو من و نتر ، کلپ اور مہایگ میں اور پھر مہایگ کو ست یگ، ترتیایگ، دواپریگ اور کل یگ میں تقسیم کر کے ان میں سے ہر ایک کے سال بھی مقرر کر دیے تھے اور اپنے اس عقیدے کا برملا اظہار کیا تھا کہ ہرمہا ونتر کے بعد دوسرا مہا ونتر آتا ہے اور کائناتی وقت کا دائرہ ازلی و ابدی ہے۔۵؎ مراد یہ کہ ازمنۂ قدیم ہی سے دائرے کے تصور کو ازلی و ابدی قرار دیا گیا ہے اور چونکہ عشق عرفان ذات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے لہٰذا اسے بھی دائرے کی صفت ہی و دیعت کی گئی ہے۔ اقبال نے بھی ابتداً پروانے کی علامت کے ذریعے عشق کی اس خاص صفت کو اُجاگر کیا مگر آخر آخرمیں کلامِ اقبال میں پروانے کے مقابلے میں جگنو کو زیادہ اہمیت تفویض ہوتی چلی گئی۔ گویا جہت اور حرکت کے عناصر نے اقبال کے تصورِ عشق میںنئے سے نئے ابعاد پیدا کر دیے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے یہ کہنا ممکن ہے کہ عقل اور عشق کے فرق کو کئی زاویوں سے بیان کیا جا سکتا ہے، مثلاًیہ کہ عقل مستقیم انداز میں سفر کرتی ہے جب کہ عشق طواف کرتا ہے؛ عقل حواس کے تابع ہے جب کہ عشق حواس سے ماورا ہے، عقل میںپھیلائو اور تجزیاتی عمل ہے اور وہ استقرائی انداز کی خُو گر ہے جب کہ عشق میںارتکاز ہے اور وہ استخراجی اندازِ فکر کا داعی ہے۔ آخر میں یہ کہ عقل تقسیم کرتی ہے، تضادات دریافت کرتی اور پھر تعقلات قائم کرتی ہے، جب کہ عشق مجتمع کرتا ، مشابہتوں کو بروئے کار لاتا اور ایک نقطے میں پوری کائنات کو دریافت کرنے کا دعوے دار ہے۔ بیشتر مفکرین نے عشق اور خرد کو مزاجاً دو بالکل مختلف روّیے قرار دیا ہے یوں دنیائے فلسفہ میں اُس دنگل کا آغاز ہوا ہے جس میں خرد اور عشق کے نام لیوائوں نے اپنے اپنے کمالات دکھائے ہیں۔ چنانچہ اب یہ تفریق کچھ ایسی مستقل نوعیت کی ہو چکی ہے کہ جب اقبال نے اپنے کلام نیز مضامین میں عشق اور خرد کا موازنہ کیا تو بعض لوگوں نے اقبال کو عشق پسندوں کے زمرے میں شامل کر کے ان پر خرد دشمنی کا الزام لگا دیا۔ چونکہ یہ الزام عشق و خرد کے بارے میں فلسفیانہ مباحث سے صرف نظر کر کے عائد کیا گیا تھا، اس لیے مناسب یہی ہے کہ پہلے دنیائے فلسفہ میں عشق اور خرد کے روّیوں کو زیر بحث لایا جائے تاکہ اقبال کے مؤقف کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ (۳) دنیائے فلسفہ میں عقلی میلان کو کئی ناموں سے پیش کیا گیا ہے ، مثلاً اسے منطقی ، سائنسی استقرائی ، علمی یا حقیقت پسندانہ وغیرہ کہا گیا ہے اور عشقیہ روّیے کو وجدانی ، عارفانہ، مذہبی اور ماورائی وغیرہ متعدد ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ قدیم یونان میں یہ دونوں میلانات بیک وقت موجود تھے۔ سائنسی میلان کا اوّلین علم بردار تھیلز(Thales) تھا۔ جس نے سورج اور ستاروں کو دیوتا قرار دینے کے بجائے کہا کہ یہ محض آگ کے گولے ہیں۔ تھیلز کے بعد اینکسی مینڈر(Anaximander) آیا جس نے کہا کہ کائنات کو کسی بڑے دیوتا یا خدا نے خلق نہیں کیا بلکہ یہ تو بے ہیئت مادے سے پیدا ہوئی ہے۔ دنیائیں ان گنت ہیں جو پیدا ہوتی اور پھر نابود ہوتی رہتی ہیں۔ زندگی کی ابتدا سمندر سے ہوئی، اس کے بعد وہ خشکی پر پہنچی۔ انسان ابتدائً آج کے انسان سے بالکل مختلف تھا،وغیرہ۔ این ایکسی مینڈر کے بعد اینکسی منیز (Anaximanes) نے کہا کہ ابتدا میںایک بے حد لطیف مادہ تھا جو پہلے گیس بنا، پھر مائع اور آخر میں ٹھوس ہو گیا۔مگر سائنسی روّیے کا سب سے بڑا علم بردار ہرے کلیٹس (Heraclitus) تھا جس نے کہا کہ ساری کائنات دائروں میں گھومتی ہے اور ہر دائرہ آگ پر ختم ہوتا ہے۔ تصادم ہی اصل حقیقت ہے؛ تصادم ہی سے اشیا وجود میں آتی ہیں۔ تصادم نہ ہو تو وجود گلنے سٹرنے لگتا ہے۔ برٹرینڈرسل (Bertrand Russell) نے ہرے کلیٹس کے نظریات کو یوں پیش کیا ہے۔۶؎ ۱- اس کائنات کو کسی دیوتا یا انسان نے نہیں بنایا بلکہ وہ پہلے بھی آگ تھی ، اب بھی آگ ہے اور آیندہ بھی آگ ہی کی صورت میں رہے گی۔ ۲- ایسی کائنات میں تغیر کو ثبات ہے۔ ۳- متضاد قوتیں آپس میں ٹکراتی ہی نہیں ، ایک دوسری میں ضم بھی ہوتی ہیں اور اس انضمام سے ایک ایسا تحرک پیدا ہوتا ہے جو مجسم ہارمنی (Harmony) ہے۔کائنات ہی وحدت ہے مگر یہ وحدت کثرت ہی سے پیدا ہوئی ہے۔ ۴- تم ایک ہی دریا میں دوسری بار کود نہیں سکتے کیونکہ ہر لمحہ دریا میں پانی کا ایک نیا ریلا آ رہا ہے۔ ۵- ’’ہر روز ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے۔‘‘ ہرے کلیٹس کے بعد ایمپیڈو کلینر (Empedocles) آیا جس نے ارتقا کے نظریے کومزید آگے بڑھایا ۔ اس نے کہا کہ جسمانی اعضا کی نمود ماحول کی ضروریات کے تابع ہے۔ جس عضو کی ضرورت ہو وہ پیدا ہو کر باقی رہتا ہے۔ جس عضو کی ضرورت نہ رہے وہ غائب ہو جاتا ہے۔ آخر میں لیوسی پس (Leuveippus) اور ڈیموکرائٹس (Democritus)آئے جن میں سے لیوسی پس نے کہا کہ ہر شے احتیاج کے تابع ہے اور ڈیموکرائٹس نے اس بات کا اظہار کیا کہ کائنات میں ایٹم اور خلا کے سوا کچھ نہیں۔ دُنیائیں ان گنت ہیں،ہمیشہ سے رہی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ ہر لمحہ سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں، مر رہے ہیں اور نئی دنیائیں نراج سے عالمِ وجود میں آ رہی ہیں، گویا ساری کائنات ایک مشین کی طرح ہے۔۷؎ منطقی روّیے کے ساتھ ساتھ وجدانی اندازِ فکر کو بھی یونان میں بڑا فروغ حاصل ہوا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ منطقی اندازِ فکر سے کہیں پہلے وجدانی سوچ پروان چڑھی۔ یونان میں وجدانی سوچ کی ابتدا کو ڈائیونائسس کلٹ (Dionysus Cult)سے منسلک کیا جاتا ہے اور یہ درست ہے۔ ڈائیونائسس دراصل زر خیزی کا دیوتا تھا اور اس لیے اس کا نہایت گہرا تعلق دھرتی سے تھا نہ کہ اولمپس کی ان بلندیوں سے جہاں سر زمین یونان کے بیشتر آسمانی دیوتا اقامت پذیر تھے۔ ڈائیونائسس کی ایک صورت بیل کی بھی تھی اور بیل کو زراعت کے سلسلے میں ازمنۂ قدیم ہی سے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈائیونائسس کا انگور، انگور کی شراب اور پھر شراب پینے کے بعد کھُل کھیلنے اور تمام پردوں کو چاک کرنے کے عمل سے بھی گہرا تعلق تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے یونانی سماج میں تہذیب اور اس کی بندشوں نے جذبات پر جو بند باندھے تھے، ڈائیونائسس کے پیروکاروں نے انھیں توڑا، کیونکہ وہ اخلاقی نظم و ضبط کو ایک بارِ گراں کے طور پر محسوس کرتے تھے۔ مذہب کی سطح پر ڈائیونائسس پو جانے عشق کے نشے کی صورت اختیار کی۔ چنانچہ انتہائی جذب کی حالت میں اس مذہب کے پیروکاروں کو یوں محسوس ہوتا جیسے دیوتا خود پجاری کے جسم وجاں میںداخل ہو گیا ہے۔ ہندوئوں کے ہاں کرشن بھگتی کے سلسلے میں بھی یہی کچھ نظر آتا ہے اور بھگتوں کے گیتوں میں تو بالخصوص دیوتا اور پجاری کا ایک نہایت قریبی رشتہ اُبھرا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے لکھا ہے کہ یونانی فلاسفروں میں سے کچھ تو سائنسی اندازِ فکر کے داعی تھے اور کچھ مذہبی اندازِ فکر کے موئد تھے۔ مؤخر الذکر نے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ڈائیونائسس مذہب ہی سے کسبِ فیض کیا۔ یہ بات بالخصوص افلاطون اور اس کے واسطے سے مسیحی فکر میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔۸؎ مگر فلاسفروں نے ڈائیونائسس پوجا سے براہ راست نہیں بلکہ آرفیس (Orpheus)کی وساطت سے اثرات قبول کیے۔یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ آرفیس نامی کوئی شخص واقعتا گزرا ہے یا نہیں، بعینہٖ جس طرح کنفیوشس ، بدھ اور زرتشت کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھیں واقعی تاریخی حیثیت بھی حاصل ہے، تاہم آرفیس مت یقینا موجود تھا اور اس مت پر مشرقی فلسفیوں کے نہایت گہرے اثرات مرتسم تھے، مثلاً آرفیس مت میں آواگون کا عقیدہ بھی شامل تھا اور یہ خیال بھی کہ آیندہ زندگی میں ہر روح کو اس کے اعمال کے مطابق ہی سزایا جزا ملتی ہے۔ آرفیس مت کے پیروکار تزکیۂ نفس پر زور دیتے تھے، ماس کھانے سے اجتناب کرتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ انسان زمین اور آسمان کا آمیزہ ہے۔ پاکیزہ زندگی بسر کرنے سے زمینی عناصر کم ہوتے اور آسمانی عناصر بڑھ جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ آخر کار پجاری اپنے دیوتا میں پوری طرح ضم ہو جاتا ہے یہ گویا عشق کی انتہا ہے۔ آرفیس مت کے پیروکار میٔ اور میٔ نوشی کا ذکر تو کرتے تھے لیکن ان کے ہاں شراب محض علامتی حیثیت رکھتی تھی اور نشے سے ان کی مراد جذب کی وہ حالت تھی جو عاشق پر سپردگی کے عالم میں طاری ہو جاتی ہے۔ یونان میں آرفیس مت کے عارفانہ خیالات فیثا غورث (Pythagoras)کے فلسفے میں ظاہر ہوئے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ جس طرح آرفیس نے ڈائیونائسس مت کو آگے بڑھایا اسی طرح فیثا غورث نے آرفیس مت کو اپنے فلسفے میں جذب کیا۔ فیثا غورث سے افلاطون نے یہ روحانی ورثہ حاصل کیا اور پھرتقریباًدو ہزار سال تک یورپی فلسفہ پر اس کی چھاپ لگی رہی تاآنکہ ’’احیاء العلوم‘‘ کی مہیا کردہ ذہنی چکا چوند میں ڈیکارٹ (Descartes) نے وہ روّش اختیار کی جو مزاجاً منطقی اور سائنسی تھی۔ مگر ذکر یونان کا تھا جہاں فکر کے دو دھارے ازمنۂ قدیم ہی سے جاری رہے ہیں۔ فی الواقعہ فکر کے ان دھاروں کا نہایت گہرا تعلق تہذیب کے ان دو دھاروں سے ہے جن میں سے ایک تو قدیم منوان (Minoan)تہذیب نے مہیا کیا اور جو مزاجاً ارضی تھا اور دوسرا جسے آریائوں کے ان قافلوں نے مہیا کیا جو یونان میں داخل ہو کر قدیم منوان تہذیب کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہوئے۔ بعینہٖ جس طرح ان کے بھائی بندوں نے ہندوستان میں داخل ہو کر قدیم دراوڑی تہذیب کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر جس طرح دراوڑی تہذیب ختم نہ ہوئی بلکہ آخر آخر میں آریائی تہذیب پر حاوی ہو گئی، بالکل اُسی طرح یونان میں آریائی تہذیب کے دیوتا تو اولمپس کی بلندیوں تک محدود ہو کر رہ گئے اور منوان تہذیب کے دھرتی کے دیوتا اور دیویاں یونانیوں کے افکار پر مسلط ہوتی چلی گئیں۔ فیثا غورث مزاجاً اس فکری روّش ہی سے منسلک تھا جسے منوان تہذیب کے باقیات میں شمار کرنا چاہیے اور جس سے اوّلاً ڈائیونائسس مت اور ثانیاً آرفیس مت نے جنم لیا تھا۔ مگر فیثا غورث نے منوان تہذیب کی وابستگی کے تصور کے بجائے اس کا مذہبی یا عارفانہ روّیہ ہی مستعار لیا، مثلاً فیثا غورث کو خدا کے ان دیکھے وجود کا اقرار تھا اور وہ نظر آنے والی دنیا کو باطل اور سرابی تصور کرتا تھا اور اس کا یہ عقیدہ تھا کہ نظر آنے والی دنیا کی تیرگی میں آسمانی روشنی کی کرنیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔۹؎ فیثاغورث ہی نے تغیر آشنا کائنات کے پس پشت ایک ایسے ازلی و ابدی جہان کا ذکر کیا جس کا ، بقول اس کے ، ادراک ممکن ہے۔ دیکھا جائے تو افلاطون کا بنیادی نظریہ بھی ایک بڑی حد تک فیثا غورث ہی سے ماخوذ تھا۔ کولن ولسن (Collin Wilson)نے لکھا ہے ۱۰؎ کہ انسان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ رہا ہے کہ اس کی داخلی دُنیا اور باہر کی مادی دُنیا کے تصادم میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ یونانیوں نے اس مسئلے کو یوں حل کیا کہ مادی دُنیا ہی کی نفی کر دی ۔ انھوں نے کہا کہ جسے حقیقی دُنیا سمجھا جاتا ہے وہ محض ایک سراب ہے۔ جب کوئی کاریگر کُرسی بنانے لگتا ہے تو اس کے ذہن میں کُرسی کا ایک ہیولا ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ لہٰذا اصل کرسی سے کُرسی کا خیال اہم ہے۔ کُرسی ختم ہو سکتی ہے اور اس کی جگہ ایک اور کُرسی لے سکتی ہے، لیکن اگر کُرسی کا خیال باقی نہ رہے تو پھر کُرسی کیسے بن سکتی ہے؟ خیال اس سانچے کی طرح ہے جس کے مطابق تمام حقیقی اشیا بنائی گئی ہیں۔ چنانچہ افلاطون کے مطابق حقیقت کی دنیا کے پس پشت ایک اور دنیا بھی ہے جس میں یہ سانچے موجود ہیں۔ اگر ریاضت کی جائے تو روز مرہ کی زندگی کے پسِ پشت حقیقی زندگی کی جھلک پائی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں کولن ولسن نے ایک نہایت ہی خوبصورت مثال سے بات کو واضح کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی اس جنگلے کی طرح ہے جس میں ہر سلاخ کے بعد ایک درز ہوتی ہے۔ اگر آپ درز کے ساتھ آنکھ لگا کر دیکھیں تو آپ کو جنگلے کے دوسری طرف کا ایک محدود سا حصہ ہی نظر آئے گالیکن اگر آپ سائیکل پر سوار ہو کر برق رفتاری سے جنگلے کے ساتھ سے گزریں تو تمام درزیں یکجا ہو جائیں گی اور آپ کو جنگلے کے پارکا پورا منظر دکھائی دے جائے گا، مگر رفتار ضروری ہے۔ یہی حال انسان کا ہے اگر اس کی ادراکی قوت زیادہ ہے اور تجسس توانا، تو وہ ہر دم تغیر پذیر دُنیا کے عقب میں ازلی و ابدی حقیقت کا نظارہ بآسانی کر سکتا ہے۔ اقبال کے سلسلے میں بھی یم زندگی کی دمادم روانی دراصل عرفانِ ذات ہی کے سلسلے کا ایک اہم قدم ہے۔ مشرقی فلسفے نے عرفانِ ذات کو حرکت کی نفی پر منتج کیا۔ چنانچہ نروان کا تصور خواہش (جو تغیر اور تحرک کا باعث ہے) کے استیصال ہی کا نتیجہ قرار پایا۔ مگر اقبال نے عرفانِ ذات کا ایک حرکی تصور پیش کیا جو مشرقی فلسفے کے مروج روّیے سے مختلف ہے۔ مگر ذکر یونانی فلسفے کے اس وہبی رُخ کا تھا جس کے علم برداروںمیں فیثا غورث کے بعد افلاطون کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فیثا غورث نے کائنات کے سلسلے میں ایک صوتی ہارمنی کا نظریہ پیش کیا تھا جس میں موسیقی زندگی سے اور عدد فطرت سے الگ نہیں تھا،مگر افلاطون کے ہاں روح کی الوہی عنائیت اور گوشت پوست کی مادی زندگی میں ایک واضح خلیج نمودار ہوئی۔۱۱؎ تاہم ارسطو (Aristotle)نے لکھا ہے کہ عدد سے فیثا غورث نے جو کچھ مراد لیا تھا وہی افلاطون نے ’’خیال‘‘سے مراد لیا ہے، مثلاً فیثا غورث کا خیال تھا کہ کائنات ریاضی کے ازلی و ابدی اصولوں کے تابع ہے اور افلاطون نے کہا کہ اعیان بھی ازلی و ابدی ہیں، جب کہ مادے کی ہر دم تغیر پذیر دنیا فریب محض ہے۔ تعلیم کا مدعا یہ ہے کہ اعیان کی تلاش کی جائے، مظاہر کے عقب میں ان کا معنی دریافت کیا جائے، اس قانون کی تلاش کی جائے جس کے تحت یہ مظاہر کار فرما ہوئے ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ کہنا چاہیے کہ افلاطون تغیرات کے ادراک کا حامی نہیں، بلکہ باقاعدگی ، قانون اور ٹھہرائو کا والہ وشیدا ہے۔ ول ڈورنٹ(Will Durant) ۱۲؎ کے مطابق اس روّیے کے عقب میں وہ خوف صاف نظر آتا ہے جو افلاطون کو ایتھنز کے جمہوری انتشار میں دکھائی دیا تھا اور جسے وہ نظم و ضبط میں تبدیل کر دینے کا خواہاں تھا۔ برٹرینڈرسل نے افلاطون کے ہاں مختلف اثرات کاجو آمیزہ دریافت کیا ہے اس میں فیثاغورث، پارمینڈیز، ہرے کلیٹس اور سقراط کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ فیثا غورث سے افلاطون نے آرفیس مت کے اثرات قبول کیے تھے۔ یہ مذہبی روّیہ تھا جو ابدیت پر ایمان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ فیثاغورث ہی سے افلاطون نے ریاضی کی اہمیت اور عقل و عشق کے امتزاج کا میلان قبول کیا۔ پارمینڈینر سے اس نے یہ نظریہ اخذ کیا کہ حقیقت ازلی و ابدی ہے اور تمام تغیرات غیر حقیقی ہیں۔ ہرے کلیٹس سے اس نے یہ نکتہ اخذ کیا کہ تغیرات کو ثبات ہے لیکن اسے ذرا سا موڑ کر یہ مؤقف اختیار کیا کہ مادے کی دنیا میں کوئی شے بھی پائیدار نہیں۔ پھر پارمینڈینر اور ہرے کلیٹس سے اخذ کردہ نظریات کو ملا کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ علم حواس سے حاصل نہیں ہوتا۔۱۳؎ اسی طرح اس نے سقراط سے اخلاقیات سے شغف رکھنے کا میلان قبول کیا۔ مگر موجودہ بحث کے سلسلے میں اس میلان کا ذکر ضروری نہیں ہے۔ آب و گلِ کی دُنیا کو مسترد کر دینے کا یہ یونانی رویہ آیندہ دو ہزار برس تک یورپی ذہن پر پوری طرح مسلط رہا چونکہ اس تمام عرصے میں کلیسائی قوت بہت زیادہ تھی اور دنیا کو مسترد کر دینے کا رجحان کلیسا کو بہت عزیز تھا، اس لیے قدرتی طور پر یونانی فلسفے کا یہ خاص رویہ بہت مقبول ہوا۔۱۴؎ بے شک افلاطون کے مقابلے میں ارسطو کا انداز سائنسی اور حقیقت پسندانہ تھا، لیکن اپنی تمام تر حقیقت پسندی اور سائنسی اندازِ فکر کے باوجود ارسطو بھی مادے کی زندگی کو باوقار نہیں سمجھتا تھا۔ مزید برآں افلاطون نے تو ایک عالم امثال کا ذکر کیا تھا جو مادی عالم کے پس پشت موجود ہے، جب کہ ارسطو نے اس موقف کا اظہار کیا کہ دنیا کی ہر شے کے بطن میں جوہر یا خیال موجود ہے۔ گویا جوہر، قانون یا خیال کی بالا دستی کا نظریہ دونوں میں ایک قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا ارسطو کو بھی یونانی فکر کی بڑی موج ہی کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے۔ (۴) اقبال کے تصورات عشق و خرد کو سمجھنے کے لیے یونانی فکر کے ان دونوں دھاروں پر ایک نظر ڈالنے کی اشد ضرورت تھی۔ ان میں سے ایک سائنسی یا منطقی میلان تھاجو یونانی فکر میں زیادہ نمایاں نہ ہو سکا اور اگرچہ افلاطون اور ارسطو نے منطق کو خاصی اہمیت بخشی تاہم مجموعی اعتبار سے ان کے افکار کی بنیادی جہت گوشت پوست کی مادی زندگی کی نفی ہی پر منتج ہوئی۔ افلاطون کا تو یہ بھی خیال تھا کہ حقیقت کو حواس کے ذریعے جانا ہی نہیں جا سکتا۔ سقراط نے ’’خود کو پہچان‘‘ کے نظریے پر زور دیا تھااور یہ دونوں فکری روّیے بنیادی طور پر مشرقی تھے۔ افلاطون کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ خود فلسطین گیا تھا اور وہاں سوشلسٹ فلاسفروں کی روایات سے متاثر ہوا تھا اور دوسری طرف یہ کہ وہ سفر کرتا ہوا گنگا کے کنارے تک جا پہنچا تھا اور وہاں سے اس نے فلسفہ اپنشد کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ ممکن ہے دونوں روایتیں درست ہوں کیونکہ افلاطون کے ہاں ایک خدا کا تصور فلسطینی تہذیب کا تحفہ دکھائی دیتا ہے اور مادے کی عام زندگی (مایا+ پرکرتی) کے پس پشت ایک ازلی و ابدی قانون (برہم) کا احساس اپنشد کے فلسفے سے ماخوذ نظر آتا ہے۔ ہر چند افلاطون نے ’’عشق‘‘ کا ذکر نہیں کیا اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ افلاطون کا رویہ اکتسابی تھا نہ کہ وارداتی، تاہم عشق کی منزل کا تصور اس کے ہاں بہت نمایاں ہے۔ ویسے یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ خود یونان میں عشق کی قوت کا ادراک افلاطون سے بہت پہلے ہو چکا تھا اور ڈائیونائسس مت نیز آرفیس مت میں مشرقی عشق کے تصور سے ملتا جلتا ذات باری میں فنا ہو جانے کا رویہ بھی موجود تھا مگر افلاطون نے کہ بنیادی طور پر فلاسفر تھا، بوجوہ اس رویے سے استفادہ نہ کیا۔ اقبال کی عطا یہ ہے کہ انھوں نے عشق کی اس منزل کو توہمہ وقت ملحوظ رکھا جو مشرقی فکر میں ایک روایت کی حیثیت رکھتی تھی مگر ساتھ ہی مادے کے وجود کی نفی نہ کی۔ دوسرے عشق کو ایک حرکی قوت (Motor force)کا درجہ دے کر اس کے وارداتی پہلوئوں کو سامنے لانے کی کوشش کی، نیز عشق کا ایک ایسا حرکی تصور عطا کیا جس سے مشرق کا تصورِ عشق یکسر تہی تھا۔ مگر ان تمام باتوں کا تفصیلی ذکر کتاب کے دوسرے حصے میں ہوگا۔ فی الحال یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ یونان میں جو مغربی فلسفے کا منبعِ اعظم ہے، عقل اور عشق کو بروئے کار لانے کے دونوں میلانات یعنی منطقی فکر اور وجدانی فکر موجود تھے اور وجدانی فکر کو منطقی فکر پر سبقت حاصل تھی۔ مگر مغرب میں وجدانی فکر کی سبقت مستقل نوعیت کی نہیں تھی۔ چنانچہ سولھویں صدی کے یورپ میں فرانسس بیکن (Francis Bacon)سے ردِ عمل کا آغاز ہو گیا اور عقلی تحریک نے اپنے پائوں پوری طرح جمالیے۔ بیکن نے علم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ علم انسان کو خوفِ مرگ سے نجات دلاتا ہے۔ وہ انسان خوش قسمت ہے جو ہر بات کی وجہ جواز تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بیکن اتفاقات کا قائل نہیں اور اتفاق کے لفظ کو سائنس کی لغت سے خارج کر دینے کا آرزو مند ہے۔ بیکن نے سقراط پر یہ اعتراض کیا کہ وہ اور اس کے شاگرد تھیوری کی بھول بھلیاں میں اُلجھے رہے اور مشاہدے کو انھوں نے بہت کم توجہ دی ،جب کہ سقراط سے پہلے کے بعض یونانی فلاسفروں نے حقائق اور ان کے مشاہدے پر توجہ صرف کی تھی جو ایک صحیح راستہ تھا۔ بیکن سائنسی اور منطقی اندازِ فکر کا مؤید تھا۔ آگے چل کر اسی اندازِ فکر نے ہابز (Hobbes)کی مادہ پرستی اور لاک (Locke)کے استقرائی عمل کے لیے راستہ پوری طرح ہموار کر دیا۔ مگر اس سلسلہ کا سب سے اہم فلاسفر ڈیکارٹ تھا۔ ڈیکارٹ کا فلسفہ ایک ایسے کُرسی نشین کا فلسفہ ہے جو پوری کائنات کو ناظر اور منظور میں تقسیم کر کے منظور کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ جب میں ہر شے کو غیر حقیقی سمجھتا ہوں تو میں خود جو اس بات کو سوچ رہا ہوں یقینا حقیقی ہوں۔ لہٰذا ڈیکارٹ نے اپنے پورے فلسفے کو ایک ضرب المثل میں ڈھال دیا کہ ’’میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں‘‘ Cogito ergo Sum۔ اس کے نتیجے میںمغربی فلسفہ ’’ثنویت‘‘ کے دام میں ایسا الجھا کہ مدت مدید تک اس سے چھٹکارا نہ پا سکا۔ دراصل ڈیکارٹ کا فلسفہ ہر شے کو عقلی سطح پر لانے پر بضد تھا۔ اس فلسفے کے مطابق ذہن براہِ راست صرف اپنا ہی سچا مطالعہ کرنے پر قادر ہے۔ وہ باہر کی اشیا کے بارے میں بھی محض ان حسی تصورات ہی کے ذریعہ جانتا ہے جو ذہن پر خارجی زندگی کے عمل سے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ذہن ہی اصل شے ہے۔ یوں ڈیکارٹ نے فلسفے میں سائنسی اور عقلی اندازِ فکر کو پوری طرح رائج کر دیا۔ ڈیکارٹ کے بعد لاک نے کہا کہ پیدائش کے وقت انسانی ذہن ایک صاف تختی کی طرح ہوتا ہے اور حسی تجربات ہزاروں صورتوں میں اس پر لکھے جاتے ہیںحتیٰ کہ محسوسات سے یاد داشت اور یاد داشت سے خیال جنم لیتا ہے۔ یوں وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ چونکہ صرف مادی اشیا ہی ہماری حسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں، اسی لیے بجز مادہ اور کوئی شے نہیں۱۵؎ ۔غور کیجیے کہ افلاطون نے تو ’’خیال‘‘ کو سب کچھ سمجھا تھا اور کہا تھا کہ سارا علم انسان کے اندر ہوتا ہے، عقل اور تخیل علم کے ہتھیار ہیں اور ایک ایسا شخص بھی جس نے اپنی ساری زندگی ایک تاریک کمرے میں گزاری ہو اصولاً باہر کی زندگی کے بارے میں سب کچھ جان سکتا ہے، مگر لاک نے اس وہبی ’’خیال‘‘ کو پوری طرح مسترد کر دیا۔ ۱۶؎ فرانسس بیکن نے عقل کو ہر شے کی میزان قرار دیا تھا۔ اب لاک نے ذہن انسانی کو ایک محدب شیشے کے نیچے رکھ کر اس کا جائزہ لیا۔ گویا عقل و خرد عقل کا تجزیہ کرنے لگی۔ لاک نے کہا کہ سارا علم تجربات کا رہین منت ہے۔ یوں اس نے مابعد الطبیعات کے ساتھ ساتھ وجدان کو بھی مسترد کر دیا اور علم کے حصول کے سلسلے میں حسی تصورات اور مشاہدات کو پوری اہمیت بخش دی۔ جواباً برکلے (Berkeley)نے یہ موقف اختیار کیا کہ لاک کے مطابق تو ہم خارج کی مادی زندگی کو صرف ذہن ہی کے ذریعے جان سکتے ہیں، اس لیے یہ فرض کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ باہر کی دنیا واقعتا کوئی وجود بھی رکھتی ہے؟ اس سے برکلے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اشیا صرف اس وقت موجود ہوتی ہیں جب ہم انھیں دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ ڈیوڈ ہیوم (David Hume)نے ڈیکارٹ ، لاک اور برکلے کے ان خیالات کا اعادہ کیا کہ تمام علم تجربے کا رہین منت ہے اور آخر میں کہا کہ ذہن انسانی اپنا کوئی الگ وجود نہیں رکھتا۔ محسوسات ، یادداشتیں اور مشاہدات ہی انسانی ذہن ہیں۔ گویا برکلے نے تو مادے کی نفی کر دی تھی مگر ہیوم نے ذہن ہی کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ کانٹ (Kant)نے کہا کہ ہیوم نے رُوح اور سائنس دونوں کی نفی تو کر دی ہے مگر اس کا نظریہ اس اساس ہی پر استوار ہے کہ تمام علم حسیات اور مشاہدات سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر کیا واقعی ؟ کیونکہ ایسا علم بھی تو ہے جو حسی تجربات سے ماورا ہے اور جس کی سچائی کا ہمیںتجربے سے پہلے ہی احساس ہو جاتا ہے۔ کانٹ کے مطابق انسانی ذہن اس موم کی طرح نہیں جس پر تجربات اور محسوسات خود کو رقم کرتے ہیں، بلکہ یہ ایک ایسی فعال شے ہے جو محسوسات کو خیالات میں مرتب کرتی ہے۔۔۔ یوں کہ پہلے محسوسات کو تصورات کے سانچوں میں ڈھالتی ہے (یعنی زمان و مکان کے تابع کرتی ہے)، پھر تصورات کو تعقلات کے سانچوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ میکانکی انداز میں انجام پاتا ہے۔ لاک اور ہیوم کا خیال تھا کہ یہ میکانکی ہے ، مگر کانٹ نے کہا کہ یہ میکانکی نہیں، کیونکہ کسی ایک وقت لا تعداد تصورات اور مشاہدات ذہن کو اپنے پیغامات پہنچا رہے ہوتے ہیں اور ذہن میدان جنگ میں کھڑے جرنیل کی طرح ان پیغامات میں سے بعض کو قبول ، بعض کو مسترد اور بعض کو آپس میں ملا کر نتائج اخذ کرتا ہے۔ لہٰذا ذہن انسانی کوئی منفعل شے نہیں ۔ پھر اس کا ایک واضح مقصد بھی ہے اور وہ محسوسات اور تجربات کے غدر سے تنظیم اور نظم و ضبط کا تصور کشید کرنے پر قادر بھی ہے۔ لہٰذا اگر کائنات میں کوئی تنظیم ہے تو محض اس لیے کہ وہ خیال جو اس کائنات کا ادراک کرتا ہے، بجائے خود اس تنظیم کا محرک ہے، مگر چونکہ تجربات کے دوران میں اصل حقیقت ہمارے محسوسات اور خیالات کے رنگین پردوں میں سے ہو کر ہم تک پہنچتی ہے لہٰذا ہم قیامت تک اسے جان نہیں سکتے۔ اصل شے ، جسے کانٹ نے Thing-in-itself کہا ہے، ہمارے علم کے احاطے میں نہیں آ سکتی۔ گویااقبال کی طرح کانٹ نے عقل کی نارسائی کو تسلیم کیا، مگر جہاں کانٹ نے ’’اصل حقیقت‘‘ کے ادراک کے سلسلے میں پوری طرح ہتھیار ڈال دیے اور اپنی شکست تسلیم کر لی وہاں اقبال اپنے مشرقی اندازِ فکر کی مدد سے زیادہ کامیاب ہوئے اور انھوں نے عشق کی مدد سے حقیقت عظمیٰ کو جاننے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عقل کی پرواز ’’پردۂ غیب‘‘ کی حد تک ہی ہے۔ اس کے بعد عقل کے پر جلنے لگتے ہیں اور عشق ہی اس مقام سے آگے جا سکتا ہے۔ یوں کانٹ نے اصل حقیقت کے وجود کا اقرار تو کیا مگر عشق کے تصور سے نابلد ہونے کے باعث عقل کی آخری منزل سے آگے نہ جا سکا۔ کانٹ کے بعد فشٹے(Fichte)نے اس کی یہ بات تسلیم کر لی کہ ذہن انسانی ہی فطرت ، عقل اور منطق کے تمام قوانین بناتا ہے مگر یہ نتیجہ بجائے خود ایک ایسا سنگِ گراں تھا جسے فلسفے کے لیے عبور کرنا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا کسی اور راستے کی تلاش ضروری تھی۔ یہ راستہ فشٹے نے دریافت کیا اور کہا کہ دنیا کو محض ناظر اور منظور کی ثنویت کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ بے شک ناظر کی ’’میں‘‘ جسے ڈیکارٹ نے اسی قدر اہمیت دی تھی، اپنی جگہ ایک مسلمہ حیثیت رکھتی ہے، لیکن بقول فشٹے اس ’’میں‘‘ کے پیچھے ایک اور ’’میں‘‘ بھی ہے۔ کولن ولسن نے فشٹے کی اس بات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک ’’میں‘‘ تو ڈیکارٹ والی ’’میں‘‘ ہے جو کُرسی پر بیٹھی ہے اور دوسری ’’میں‘‘ وہ ہے جو اس کُرسی کے پیچھے کھڑی کُرسی کی ’’میں‘‘ کو دیکھ رہی ہے،بعینہٖ جس طرح فلم چلانے والا فلم اور فلم کے ناظر دونوں کے پیچھے کھڑا انھیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔گویا کانٹ نے تو ڈیکارٹ کی ثنویت کو یہ کہہ کر ختم کیا تھا کہ ذہن انسانی ہی اصل وحدت ہے، لیکن فشٹے نے ثنویت کی جگہ تثلیث کو دے دی اور یوں بقول کولن ولسن انیسویں صدی کی سب سے اہم نظرِ عمیق کا کرشمہ دکھایا۔۱۷؎ حیرت ہے کہ مغربی فلسفے نے انیسویں صدی میں جس ’’نظر عمیق‘‘ کا کرشمہ دکھایا وہ مشرق میں ازمنۂ قدیم ہی سے اس قدر برتی گئی ہے کہ اب بالکل سامنے کی بات نظر آتی ہے۔ ویسے تو کانٹ کا اعلان بھی کہThing-in-itself کو جانا نہیں جا سکتا،ایک بہت قدیم نظریہ ہے جسے پلاٹینس(Plotinus)کے ان الفاظ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ناقابل بیان ہے اگر تم اس کے بارے میں کچھ کہو گے تو اس کی تجسیم کرو گے، جو ظاہر ہے کہ لا محدود کی نفی کے مترادف ہے، مگر پلاٹینس سے سینکڑوں برس پہلے نہ جان سکنے کی یہ بات یجن والکیہ(Yajna Valkya)سے بھی منسوب ہے جس نے اپنی بیوی کے استفسار پر اسے بتایا تھا کہ ’’اس‘‘ کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جانِ من ! جاننے والے کو کیسے جانا جا سکتا ہے؟‘‘۱۸؎ اب جہاں تک فشٹے کے خیال کا تعلق ہے تو یہ بھی اپنشد کے قدیم فلسفے نیز تصوف کے نظریات میں پہلے سے موجود ہے۔ سوامی رام تیرتھ نے اپنے ان ’’خطبات‘‘ میں جو In Woods of God Realization نامی سلسلہ ہائے کتب میں جمع کر دیے گئے ہیں، ویدانت کے اس نظریے کو بڑی صراحت سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح خواب دیکھتے ہوئے ہر انسان ناظر اور منظور میں بٹ جاتا ہے، بالکل اسی طرح جاگرت کے عالم میں بھی وہ حقیقتاً ایک بٹی ہوئی شخصیت ہے، مگر اس بات کا احساس اسے ہر گز نہیں ہے۔ سوامی رام تیرتھ کے خیال کے مطابق خواب دیکھنے والاایک ’’کرتا بھوگتا جیو‘‘کی حیثیت میں خواب کے سارے مراحل سے گزرتا ہے اور اسے بالکل سچ جانتا ہے مگر کوئی اسے جھنجھوڑ کر جگا دے تو وہ اپنی اصلی حیثیت میں جاگے گا جہاں نہ تو خواب کاناظر موجود ہو گا اور نہ منظور ! اسی طرح اگر کوئی عام زندگی بسر کرتے ہوئے انسان کو جھنجھوڑ کر جگا دے تو جاگنے والے کو محسوس ہوگا کہ جاگرت کے ناظر اور منظور بھی خواب کے ناظر اور منظور کی طرح بے حقیقت ہیں۔ اصل حقیقت انسان کی یہی وہ تیسری شان ہے جو ازلی و ابدی ہے، رُوح کُل ہے اور جس میں تفریق اور انتشارکی کوئی صورت موجود نہیں۔ کانٹ نے یہ کیا کہ جاگرت کے ناظر کو اصل ہستی سمجھ لیا، مگر فشٹے نے اس ہستی کے پس پشت ایک اور ہستی کو دریافت کرلیا جو ویدانت کے ’’خواب بین‘‘ کے مماثل تھی۔ اقبال نے اس تیسری حیثیت کے ادراک کو خودی کا نام دیا ہے، مگر تصوف کے برعکس جاگرت کے ناظر اور منظور کو غیر حقیقی تصور نہیں کیا۔ گویا مایا یا سُراب کا وہ تصور جس نے مشرقی فلسفے کو مادی دنیا کی نفی پر مائل کیا تھا، اقبال کے مثبت اندازِ نظر کو متاثر نہ کر سکا اور انھوں نے زندگی کو حقیقی تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ خودی کو بلند کرنے، اس کی تکمیل کرنے اور یوں سراغِ زندگی پانے پر زور دیا ۔ مگر فشٹے کے برعکس ، اقبال نے خودی کی تکمیل محض منطق اور عقل کے ذریعے نہیں بلکہ ایک ایسی تخلیقی جست کے ذریعے کرنے کی کوشش کی جسے عشق ہی حرکی قوت مہیا کرتا ہے اور جو ان کی دانست میں عقل کے بعد کا ایک مرحلہ ہے۔ (۵) احیاء العلوم کے بعد عقلی اور منطقی اندازِ فکر کا آغاز فرانسس بیکن سے ہوا تھا۔۔۔ اس کے بعد ڈیکارٹ نے اپنے ہم عصر سائنس دان گلیلیو(Galileo)کے اس موقف کو کہ ہر شے کی تصدیق کرنا چاہیے، فلسفے کے ضمن میں رائج کیا اور یوں سائنسی اندازِ فکر کا بہت بڑا مؤید قرار پایا۔ ڈیکارٹ کے بعد لاک ، برکلے اور ہیوم نے ذہن انسانی ہی کا تجزیہ کر ڈالا اور ایک ایسی فضا پیدا کر دی جس میں No matter, never mind ایسا طنزیہ فقرہ زبان زد خاص و عام ہو گیا۔مگر کانٹ نے اس مخدوش صورت حال سے فلسفے کو نجات دلائی اور ذہن کو اس کا کھویا ہوا منصب ہی واپس نہ دلایا بلکہ اس کی قوت میں مزید اضافہ بھی کر دیا۔ البتہ فشٹے نے عقل کو بروئے کار لانے والی ’’میں‘‘ کو محدود اوراکہری ’’میں‘‘ تصور کرتے ہوئے فلسفے میں ایک نیا بُعد پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر وہ اپنے اس خیال کی تکمیل نہ کر سکا۔ اسی دوران میں عقلی اور سائنسی طریق کار کو کچھ اور علم بردار بھی میسر آ گئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام سپائی نوزا (Spinoza) تھا۔ سپائی نوزا نے کہا کہ تمام مظاہر اور واقعات ازلی و ابدی قوانین کے میکانکی عمل کے تابع ہیں نہ کہ کسی ایسے آمر (دیوتا) کے احکامات کے پابند جو ستاروں میں رہ رہا ہو۔ بات کی مزیدتوضیح کرتے ہوئے سپائی نوزا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور فطرت کا قانون ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ بقول ول ڈورنٹ: ڈیکارٹ نے جس میکانکی انداز کو مادے اور جسم میں کار فرما دیکھا تھا، سپائی نوزا نے اسے خدا اور ذہن انسانی میں کار فرما دیکھا۔ سپائی نوزا کے مطابق یہ دنیا جبر کے تابع ہے۔ چونکہ ہم شعوری مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے لا محالہ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ تمام اقدامات کی منزل انسان ہے اور ان سب کا مقصد انسانی ضروریات کو پورا کرنا ہے، لیکن یہ فریب نظر کے سوا اور کچھ نہیں۔۱۹؎ سپائی نوزا ایک طرف تو اشیا اور واقعات کے جہان کو ازلی و ابدی قوانین کے جہان سے الگ کرتا ہے، دوسری طرف جو ہر روحانی (Substance)اور شکل (Mode)میں فرق قائم کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ شکل سے مراد کسی شے یا واقعہ کی ہیئت ترکیبی ہے لیکن اشیا کی جملہ ہیئتوں کے پس پشت ایک ازلی و ابدی حقیقت بھی موجود ہے جو کائنات کا جوہر ہے۔ اسی جوہر کو سپائی نوزا نے فطرت اور خدا کے مترادف قرار دیا ہے۔ فطرت کو اس نے دو حیثیتیں ودیعت کی ہیں۔ اس کی ایک حیثیت تو مادی ہے اور اسے سپائی نوزا منفعل حیثیت قرار دیتا ہے۔ دوسری فعال حیثیت ہے جو برگساں (Bergson) کے ’’جوشِ حیات‘‘ سے مشابہ ہے۔ موخرالذکر حیثیت میں سپائی نوزا نے فطرت ، خدا اور جوہر کو ایک ہی شے قرار دیا ہے۔سپائی نوزا کے مطابق ہر شے خدا کے اندر ہے، وہیں رہتی اور متحرک ہوتی ہے۔ جو نسبت دائرے کے قانون کو دائرے سے ہے وہی نسبت خدا کو اس کی کائنات سے ہے۔ مظاہر اور واقعات کو ازلی و ابدی قوانین کے تابع قرار دینے کے باعث سپائی نوزا کو عقلی اور منطقی رویے کا حامی سمجھا گیا ہے، مگر سپائی نوزا کی ایک اور حیثیت بھی ہے۔۔۔ سپائی نوزا نے Natura, Naturans کے الفاظ سے فطرت کی ایک انتہائی فعال اور متحرک قوت کی نشان دہی بھی کی ہے۔ یہ زرخیز خیال بعد میں آنے والے ان فلاسفروں نے بہت پسند کیا جو عقلی رویے کے مقابلے میں ایک داخلی قوت کے والاو شیداتھے۔چنانچہ فشٹے کی(ICH)اور شوپنہاور (Schopenhauer)کی ’’زندہ رہنے کی خواہش‘‘(Will-to-Live)اور نیطشے(Nietzsche)کی غالب آنے والی قوت (Will-to-Power)اور برگساں کی ’’جوش حیات‘‘ (Elan Vital)وغیرہ کسی نہ کسی حد تک اس قوت ہی کے مختلف رُوپ تھے جسے سپائی نوزا نے Natura Naturans کے الفاظ میں بیان کیا تھا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ جیکوبی(Jacobi)نے گوئٹے (Goethe)کو سپائی نوزا کے افکار کی طرف متوجہ کیا اور یوں اس کی شاعری نے سپائی نوزا سے گہرے اثرات قبول کیے، مگر اقبال نے گوئٹے کے بارے میں لکھا ہے۲۰؎ کہ ’’کلامِ حافظ کی صوفی تعبیر سے اسے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ مولانا رُوم کے فلسفیانہ حقائق و معارف اس کے نزدیک مبہم تھے‘‘ اور یوں حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ’’جو شخص سپائی نوزا (ہالینڈ کا ایک فلسفی جو مسئلہ وحدت الوجود کا قائل تھا)کا مداح ہو اور جس نے برونو (اٹلی کا ایک وجودی فلسفی) کی حمایت میں قدم اٹھایا ہو اس سے ممکن نہیں کہ رُومی کا معترف نہ ہو‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گوئٹے اپنے زمانے کے یورپ کی ہنگامہ آرائیوں سے بیزار تھا اور اسے ایک ایسے فلسفے کی ضرورت تھی جو روح کے اضطراب کو دور کرے۔ ظاہر ہے کہ یہ فلسفہ اسے سپائی نوزا سے ملا۔ اگر رومی کے افکار تک اسے پوری طرح رسائی حاصل ہو جاتی تو وہ یقینا اُس سے بھی اثرات قبول کرتا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ گوئٹے نے سپائی نوزا کے فکر کی اس جہت ہی کو اپنے لیے پسند کیا جس کی اسے ضرورت تھی اور بے قرار اور مضطرب قوت کے اس تصور سے کوئی سروکار نہ رکھا جسے شوپنہاور، نیطشے ، برگساں اور پھر اقبال نے حرزِ جاں بنایا۔ لیکن ذکر اس عقلی تحریک کا تھا جسے فرانسس بیکن نے شروع کیا اور جسے اٹھارہویں صدی میں پوری طرح فروغ حاصل ہوا۔ اس صدی میں عقلی تحریک کا سب سے بڑا علم بردار والیٹئر (Volitaire)تھا لیکن اس سلسلے میں والیٹئر اکیلا نہ تھا بلکہ اس کے معاصرین میں عقل کو کسوٹی قرار دینے والوں کا ایک پورا گروہ بھی موجود تھا جس نے عظیم انسائیکلوپیڈیا کے ذریعے عقل و خرد کی بالادستی کے تصور کو عام کیا۔ان لوگوں کا خیال تھا کہ جہالت اور خوف نے دیوتائوں کو تخلیق کیا۔ زمین کے معاملات اسی صورت میں سنوریں گے جب آسمان کے تصور کو مسترد کر دیا جائے گا۔ عقل کو اگر توہمات سے چھٹکارا مل جائے تو انسان چند ہی نسلوں کی تگ و دو کے بعد یوٹوپیا قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ان انسائیکلوپیڈیا والوں نے والیٹئر کو اپنا لیڈر تسلیم کر لیا کہ والیٹئر عقل و خرد کی قوت اور امکانات کا سب سے زیادہ قائل تھا ۔ والیٹئر کا یہ خیال تھا کہ جیسے جیسے میں سوچ بچار کرتا ہوں مجھے اس بات کایقین ہوتا جاتا ہے کہ فلاسفروں کے لیے مابعد الطبیعیاتی نظریات ایسے ہی ہیں جیسے ناول عورتوں کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ جاننا بے حد مشکل ہے کہ خدا نے اس کائنات کو کیوں پیدا کیا۔ میں نے مادے کو دیکھا ہے، سائرس ستارے کے روپ میں بھی اور اس مختصر ترین ذرے کی صورت میں بھی جسے خورد بین کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے، مگر مجھے پھر بھی معلوم نہیں کہ مادہ کیا ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں سائنسی سوچ کو دو بڑے معاون ملے جن میں ایک کا نام ا گسٹ کومٹے (Auguste Comte)اور دوسرے کا چارلس ڈارون(Charles Darwin)تھا۔ کومٹے نے کہا کہ انسانی علم کی ہر شاخ تین حالتوں سے گزرتی ہے۔ ۔۔ مذہبی ، مابعدالطبیعیاتی اور سائنسی!۲۱؎ لہٰذا فلسفے کی تین شاخیں یا صورتیں ہیں۔ مذہبی سطح پر انسانی ذہن کائنات کے وجود اور مظاہر کو بعض محیرالعقول قوتوں کی تخلیق قرار دیتا ہے ۔ آخر آخر میں وہ کثرت کے بجائے وحدت کے نظریے کا قائل ہو کر اس بات پر ایمان لے آتا ہے کہ ایک ہی محیرالعقول قوت کائنات کے جملہ مظاہر کی محرک اوّل ہے۔ دوسری سطح مابعدالطبیعیاتی ہے جو مذہبی سطح کے بعد نمودار ہوئی۔ اس سطح پر انسانی ذہن نے محیرالعقول ہستیوں کی جگہ تجریدی قوتوں کو دے دی۔ آخر آخر میں یہ سطح متعدد تجریدی قوتوں کے بجائے صرف ایک تجریدی قوت مثلاً فطرت یا جوہر یا روح کل کو سامنے لے آئی۔ تیسری سطح سائنسی ہے جو تاریخی اعتبار سے مابعد الطبیعیاتی سطح کے بعد نمودار ہوئی اور جس پر انسانی ذہن محیرالعقول ہستیوں یا تجریدی قوتوں کے تصور کو ترک کر کے قوانین کے مطالعہ کی طرف راغب ہوا اور تجزیہ، تعقل اور مشاہدے کے ذریعے نتائج مرتب کرنے لگا۔ گویا اب فہم و خرد کی روشنی میں علم کو منطق اور مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگا۔ کومٹے اسی آخری طریق کار کا مؤید تھا جسے فلسفے کی زبان میں اثباتیت (Positivism)کا نام ملا ہے۔ تجزیے اور مشاہدے کے ذریعے نتائج مرتب کرنے کی اہم ترین مثال چارلس ڈارون نے مہیا کی جب اس نے نوعSpecieکی ابتدا اور تدریجی ارتقا کو سائنسی نقطۂ نظر سے بیان کیا۔ چارلس ڈارون کے نظریات نے مروج مذہبی نظریات پر ایک کاری ضرب لگائی اور یورپ کے علمی حلقوں میں ایسے ہنگامہ خیز مباحث کا آغاز ہوا جن کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔ دراصل انگلستان میں فلسفے کے ایک مکتب نے جسے برٹرینڈ رسل نے Philosophical Radicals کا نا م دیا ہے،۲۲؎ دو مکاتبِ فکر کو تحریک دی تھی جن میں سے ایک سوشلزم تھا اور دوسرا ڈارون ازم۔ ڈارون کا نظریہ مالتھس(Malthus)کے نظریے کو حیوانی اور نباتاتی زندگی پر پھیلانے کی ایک صورت تھی۔ بنتھم(Bentham)کی اقتصادیات ساری دنیا میں ایک ایسے آزاد مقابلے کی فضا پیدا کرنے پر مصر تھی جس میں سب سے طاقت ور اور عقل مند سرمایہ دار ہی فاتح تھا۔ ڈارون نے نباتاتی اور حیوانی زندگی میں طاقتور سرمایہ دار کی جگہ طاقت ور جانور یا پودے کو عطا کر دی۔ بقائے بہترین کے نظریے کا یہ معاشی پس منظر قابلِ غور ہے۔ دوسرا مکتب سوشلزم تھا جس نے یہ موقف اختیار کیا کہ کسی شے کی قوت مبادلہ(Exchange Value) اس محنت کے باعث ہے جو اس کی تیاری میں صرف ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اوون (Owen)کو سوشلزم کا پہلا فلاسفر کہنا چاہیے۔ بعد ازاں کارل مارکس(Karl Marx)نے ہیگل(Hegel)کے جدلیات کے تصور کو طبقات پر منطبق کر کے ایک ایسا نظریہ پیش کر دیا جو مزاجاً مادی تھا اور عقلی اندازِ فکر کے عین مطابق! عقل و خرد کو میزان مقرر کرنے کی اس ہمہ جہت تحریک کا ذکر اقبال کے مسائل عشق و خرد کو سمجھنے ، نیز اقبال کے اس شعری ردِّ عمل کا احاطہ کرنے کے لیے ضروری تھا جس میں بظاہر یوں لگتا ہے جیسے عقل کے مقابلے میں عشق ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے ۔چونکہ شاعری تجزیے اور تحلیل کے عمل کو بروئے کار نہیں لاتی اور صرف اشارے کنائے تک ہی خود کو محدود رکھتی ہے، اس لیے جب اپنے کلام میں اقبال نے عقل و خرد کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور ان کے بارے میںاپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے، تو ایک ایسا قاری جو عقل و خرد کے مسائل کے فلسفیانہ پس منظر سے آگاہ نہ ہو اس سلسلے میں بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اپنی زندگی کا ایک خاص دور یورپ میں گزارا تھا اور ان کا خاص مضمون فلسفہ تھا۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ اقبال نے نہ صرف عقل اور عشق ، موجود اور جوہر کی اس ثنویت کا بغور مطالعہ کیا جو مغربی فلسفے میں ہمیشہ سے کار فرما رہی ہے بلکہ اس سلسلے میں مشرقی افکار کی روشنی میں بھی ان سارے مسائل کا جائزہ لے کر اپنے طور پر نتائج مرتب کیے ۔ مگر دلچسپ بات محض یہ نہیں کہ اقبال نے عشق و خرد کے مسائل کے بارے میں سوچا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال نے ان مسائل کو اپنی ذات کا جزو بنایا اور یوں ایک واضح داخلی رد عمل کا مظاہرہ کیا، مثلاً مذہب سے شغف ، اور مشرقی اندازِ فکر کو اپنے اندر جذب کرنے کے باعث اقبال نے عقل اور عشق کے مسائل کے بارے میں ایک جذباتی رویہ بھی اختیار کر لیا تھا جو مغربی افکار کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے بہت کام آیا۔ اس پر مستزاد یہ بات کہ اقبال اس زمانے میں یورپ گئے جب مغربی کلچر کی وہ عالی شان عمارت جو محض عقل و خرد کے ستونوں پر کھڑی تھی خود مغرب والوں کے بطون سے ظاہر ہونے والے عفریت کے ہاتھوں چکنا چور ہو رہی تھی اور مغرب والوں کا تیقن بڑی تیزی سے رخصت ہو رہا تھا۔ چنانچہ مغرب میں ایسے تاریخ دان پیدا ہو گئے تھے جنھیں Philosophers of Doomکہا جاتا تھا اور جو اب مغربی تہذیب کے زوال پر نوحہ کناں تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے قیام یورپ کے دوران میں اقبال بھی مغرب کے مفکرین کے اس بخار میں مبتلا ہوئے اور انھوں نے بھی مغربی تہذیب کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی، لیکن غور کیجیے کہ اقبال کا ردِّ عمل سطحی ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ اُس خون کا ابال تھا جس میں مشرق کی وہ روح پوری طرح جذب ہو چکی تھی جو عرفان ذات کے عمل میں عقل کی کار فرمائی کی اہمیت کو مانتی تو ہے لیکن نظام عالم کو محض عقل کے محدب شیشے کے نیچے رکھ کر دیکھنے کے عمل کو خندئہ استہزا میں اُڑا دیتی ہے۔ لہٰذا اپنے کلام میں جب اقبال عقل و خرد کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا اشارہ اس منطقی اور عقلی اندازِ فکر کی طرف ہوتا ہے جو مغربی افکار پر کئی سو برس سے مسلط ہے مگر جو اب کائنات کی بڑھتی ہوئی پُر اسراریت کے سامنے بے دست و پا ہو کر رہ گیاہے۔ یہ نہیں کہ خود مغرب والوں کو عقل کی نارسائی کا احساس نہیں تھا،وہاں بھی متعدد مفکرین عقل کے مقابلے میں دل کو اہمیت بخش رہے تھے۔ روسو (Russeau) سے لے کر برگساں تک ایسے مفکرین کا ایک پورا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ جب اقبال نے مغربی فکر کا مطالعہ کیا تو اپنے فطری جھکائو کے باعث انھوں نے مغرب کے ان مفکرین کو بطور خاص پڑھا جو عقل کی بالا دستی کے خلاف تھے اور کبھی جبلت ، کبھی زندہ رہنے کی خواہش ، کبھی غالب آنے کی قوت اور کبھی جوش حیات کا برملا ذکر کرتے تھے۔ مگر شاید ان میں سے کوئی مفکر بھی ایسا نہیں تھا جو منطقی سطح سے نیچے اتر کر وارداتی سطح کو اپنانے میں کامیاب ہوا ہو۔ لہٰذا انھوں نے عقل کے مقابلے میں ایک انوکھی قوت تو دریافت کر لی لیکن عشق کے اس تصور سے آشنا نہ ہو سکے جو اس قوت میں ایک نئے بُعد کے اضافہ کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ اقبال نے ان مفکرین سے جوشِ حیات اور فوق البشر ایسے تصورات تو لے لیے مگر ان میں مشرقی روح کو شامل کر کے انھیں کچھ سے کچھ بنا دیا۔ بہرکیف جہاں اقبال کے تصورِخرد کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس سلسلہ ہائے فکر کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں جو سائنسی اور منطقی اساس پر استوار تھا ، وہاں اقبال کے تصورِ عشق کا احاطہ کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس اندازِ فکر کا مطالعہ کیا جائے جو عقل کے مقابلے میں ایک اور ہی قوت کو اہمیت بخش رہا تھا۔ احیاء العلوم کے بعد کے مغربی فلسفے میں اس اندازِ فکر کا آغاز روسو سے ہوا۔ روسو نے کہا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر وہ ہر جگہ پابندِ سلاسل ہے۔ آزادی ہی روسو کے فکر کی منزل ہے، گو وہ مساوات کو آزادی سے بھی زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ روسو کے مطابق شہری زندگی کی پیچیدگیوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے عقل کا ہتھیار کار آمد سہی، مگر زندگی کے کسی بھی بڑے بحران میں مبتلا ہونے پر عقل بے کارِ محض ہو کر رہ جاتی ہے۔ایسے موقعوں پر جذبہ ہی انسان کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے کا اہل ہے۔ دراصل روسو عقل و خر دکے اس دور کے خلاف ایک بڑی توانا آواز کی صورت میں ابھرا جس میں الحاد فیشن کے طور پر مقبول ہو چکا تھا۔ روسو نے کلچر کی مذمت کی کیونکہ اس کے خیال میں کلچراور اس کے اثمار ہی نے بنی نوع انسان کے کرب میں اضافہ کیا تھا بلکہ اس نے تو فلسفہ اورفلسفہ کے مقبول ترین، ہتھیاروں یعنی عقل اور منطق کو بھی فطرت کے خلاف ایک عمل قرار دیا اور کہا کہ ہمیں دماغ کی صلاحیتوں کو توانا کرنے کے بجائے دل کی دنیا اور محسوسات کے عالم پر توجہ صرف کرنی چاہیے کیونکہ جبلت ، عقل کے مقابلے میں، زیادہ قابلِ اعتبار شے ہے۔ برٹرینڈ رسل نے جذبہ کو اہمیت دینے کے اس رویے پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہٹلر(Hitler)روسو کی پیداوار ہے، جب کہ روز ولٹ (Rosevelet)اور چرچل Churchill لاک کی ’’معنوی اولاد‘‘ ہیں۔۲۳؎ فلسفے کی داستان لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ جب کانٹ نے روسو کامضمونEmile پڑھا تو اسے اپنی روز مرہ کی سیر کا بھی خیال نہ رہا،کیونکہ کانٹ کے نزدیک مذہب کو عقل و خرد سے بچانے کے لیے روسو نے ایک نئے راستے کی نشان دہی کر دی تھی۔ یہ نہیں کہ کانٹ عقل اور منطق کے خلاف تھا، کیونکہ آخر آخر میں اس نے مجرد عقل کو اس گدلے علم سے برتر قرار دیا جسے انسان حسیات کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ یوں اس نے عقل کے امکانات کو اُجاگر کیا۔ تاہم اُس نے ایک ایسی حقیقت کا بھی ذکر کیا جسے جانا نہیں جا سکتا اور جسے اس نے Noumenon کا نام دیا۔ مگر کانٹ کے بعد شوپنہاور نے خواہش (Will)کو نہ صرف انسان بلکہ زندگی اور مادے کا بھی جوہر قرار دے ڈالا۔ چنانچہ ول ڈورنٹ نے استفسار کیا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جسے کانٹ نے Noumenon کہہ کر اور بھاری پتھر جان کر چھوڑ دیا تھا، شوپن ہاور نے اسے ’’تمنا‘‘ کے رُوپ میں دیکھا اور ’’تمنا‘‘ ہی کو تمام اشیا کے مخفی جوہر کے طور پر تسلیم کیا؟۲۴؎ مگر اس میں قیاس آرائی کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ خود شوپن ہاور نے کانٹ کی Thing-in-itself کے بارے میں جسے اس نے Ding-an-sichکہا ہے، اپنی کتاب میں بہت کچھ لکھا ہے۔ کانٹ نے کہا تھا کہ اصل حقیقت کو جانانہیں جا سکتا۔ شوپنہاور نے کہا کہ اصل حقیقت مکمل طور پر انسانی پہنچ سے دور اور تجربے سے بالانہیں ہے اور ہم خود شناسی کے مراحل سے گزرتے ہوئے اس کا ادراک کر سکتے ہیں۔ وہ حقیقت جس تک باہر کی طرف سے پہنچنا ممکن نہیں اس تک اندر کی طرف سے رسائی پانا ممکن ہے۔ یہ وہ خفیہ راستہ ہے جس سے ہم اس قلعے کے اندر جا پہنچتے ہیں جسے باہر کی طرف سے فتح کرنا ممکن نہیں۔۲۵؎ جس طرح طبیعیات نے ایک طویل تحقیق کے بعد مادہ کے پس پشت ’’قوت‘‘ کو دریافت کیا ہے اسی طرح فلسفے نے (شوپنہاور تک پہنچتے پہنچتے) خیال کے بطون میں ’’تمنایا خواہش‘‘ دریافت کر لی تھی۔ شوپنہاور نے خیال کی تجریدیت پر کاری ضرب لگاتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ خیال (یا ذہن) انسانی تمنا ہی کا ایک ہتھیار ہے۔ تمنا مزاجاً غیر شعوری ہے اور ایک زبر دست قوت کا درجہ رکھتی ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ تمنا کے تند و تیز گھوڑوں کی باگ عقل کے ہاتھ میں ہے اور عقل جس طرح چاہے ان گھوڑوں کو راہ راست پر آگے بڑھا سکتی ہے۔ مگر درحقیقت یہ محض ایک خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔ بقول شوپنہاور: تمنا اس قوی الجثہ اندھے آدمی کی طرح ہے جس نے اپنے شانوں پر آنکھوں والے ایک لنگڑے شخص کو اٹھا رکھا ہو۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ فرد کو سامنے سے کوئی شے کھینچتی ہے۔ درحقیقت اسے پیچھے سے دھکیلا جا رہا ہوتا ہے۔ فطرت نے عقل کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ فرد کی ’’تمنا‘‘ کو پورا کر سکے۔ انسان میں تمنا ہی مستقل نوعیت کی شے ہے اور یہ خواہش ہی تو ہے جو انسان کے تمام خیالات کو یک جا کرتی ہے اور ایک مسلسل نغمے کی طرح ان کا ساتھ دیتی ہے۔ شوپنہاور کے مطابق عقل کی پہنچ محدود اور غوّاصی سطحی ہے۔ خود جسم کے اندر جو کچھ ہوتا ہے کسی عقلی منصوبے سے نہیں بلکہ اس غیر شعوری قوت سے انجام پاتا ہے جو ’’زندہ رہنے کی خواہش‘‘ کے رُوپ میں اُبھرتی ہے۔ بظاہر ہر انسان پیٹ بھرنے ، جنسی رشتے استوار کرنے یا بچے حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے حالانکہ وہ مجبورِ محض ہے ۔ خواہش اس سے یہ سب کچھ کرا رہی ہے۔ شوپنہاور کے مطابق خواہش اور جسم میں حد فاصل قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ جسم کے اعضا متعلقہ خواہشات ہی کے علم بردار ہوتے ہیں جیسے مثلاً عضوِ تناسل جنسی خواہش کی تجسیم کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ذہن تھک جاتا ہے لیکن خواہش کو قرار کہاں، کیونکہ یہ خواہش ایک بھوکی خواہش ہے جو کبھی سیراب نہیں ہو سکتی۔ جب انسان سو جاتا ہے تو باقاعدہ سوچ بچار کا عمل رک جاتا ہے، مگر خواہش کبھی نہیں سوتی بلکہ بڑے سے بڑے مفکر کو بھی نیند کے دوران میں ایک کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلتی ہے اور یہ مفکر اس قدر بے دست و پا ہوتا ہے کہ خواہش کی موجوں پر ایک تنکے کی طرح بہتا چلا جاتا ہے۔ مگر شوپنہاور نے اسی خواہش کو سارے دُکھوں کا باعث بھی قرار دیا ہے۔ اس اعتبار سے شوپنہاور بدُھ مت کا مقلد بھی ہے کیونکہ بدُھ مت میں بھی ’’دُکھ‘‘ ہی بنیادی تنازعہ ہے اور یہ ’’دکھ‘‘ خواہشات کے کہرام کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ نروان کامطلب ہی یہ ہے کہ شخصیت سے خواہشات کو منہا کر دیا جائے تاکہ ذات (جُزو) ۔۔۔ ذات (کل) میں ضم ہو جائے۔۲۶؎ یہ خیال کہ نروان سے مراد سانس کے رشتے کو منقطع کرنا ہے،بدُھ مت کے سلسلے میں بالکل غلط ثابت ہوا ہے، کیونکہ بدُھ مت کے مطابق نروان میں زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ خواہشات اور وابستگیوںکا قلع قمع ہوتاہے۔ نروان نہ تو وجود ہے اور نہ عدم وجود، بلکہ ان کی درمیانی حالت کا نام ہے۔۔۔ چنانچہ جب شوپنہاور خواہش(Will)کی نفی کرتا ہے تو بدُھ مت کے تصورِ نروان ہی سے اپنے نظریے کو ہم رشتہ کر دیتا ہے۔۲۷؎ شوپنہاور کا خیال ہے کہ آگہی ’’خواہش‘‘ کے بطون سے پیدا ہونے کے باوجود خواہش کو زیرِ پا لا سکتی ہے۔ علم یا فلسفہ ’’خواہش‘‘ کو شر کے بوجھ سے نجات دلاتا ہے۔ خواہشات کے لامتناہی سلسلے سے نجات جبھی ممکن ہے کہ انسان زندگی کی آگہی حاصل کرے۔ غور کیجیے کیا یہ بات بھی بدھ مت کے نروان کے تصور ہی سے منسلک نہیں؟ کیونکہ گوتم نے بھی خواہشات سے منہ موڑا تھا حتیٰ کہ مارا کی بیٹیوں کے دام میں بھی نہ آیا تھا اور پھر بڑ کے درخت کے نیچے ایک طویل تپسیا (جو خواہش سے بھر پور جنگ کی ایک صورت تھی) کے بعد ’’گیان‘‘ یا علم حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا اور جب اسے گیان حاصل ہوا تھا تو اس کی ’’روشنی‘‘ میں خواہش کے تاریک سایے کا فو رہو گئے تھے۔ شوپنہاور نے ’’نابغۂ روز گار‘‘ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس کے مطابق فطرت صرف چند افراد ہی کو یہ مقام عطا کرتی ہے۔ اگر یہ عطیہ عام ہو تو پھر زندگی کی روانی میں رکاوٹیں پیدا ہو جائیں کیونکہ عام زندگی بسر کرنے کے لیے موجود پر تمام تر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہوتا ہے جو ایسی صورت میں ممکن نہیں۔ شوپنہاور نے اہلِ ہند کو یورپ والوں کے مقابلے میں زیادہ گہری سوچ کا حامل قرار دیا اور لکھا کہ اہل ہند نے زندگی کی جو تفسیر کی ہے وہ داخلی اور وجدانی ہے اور فرد کی ’’میں‘‘ کے بجائے ذاتِ لامحدود کی ’’میں‘‘ کو اصل حقیقت قرار دیتی ہے۔ شوپنہاور کے نظریات کا تفصیلی ذکر ناگزیر تھا۔ وجہ یہ کہ مغربی فلسفے میں شوپنہاور کے ہاں دو ایسے تصورات پہلی بار اُبھرے جو بعد ازاں نیطشے اور برگساں کے تصورات میں منقلب ہو کر اقبال کے افکار کا حصہ بن گئے، مثلاً شوپنہاور نے ’’خواہش‘‘ کو ایک قوت کے رُوپ میں دیکھا اور گو اس نے خواہش کے منفی پہلوئوں کا بطورِ خاص ذکر کیا تاہم یہ لکھ کر کہ خواہش بطور ایک قوت انسان ہی نہیں بلکہ زندگی اور مادے کا بھی جوہر ہے، اس سلسلے میں ایک باقاعدہ رویے کو جنم دے ڈالا۔ چنانچہ جب نیطشے نے غالب آنے کی قوت کا ذکر کیا، برگساں نے جوشِ حیات، فرائیڈ نے لبیدو(Libido)، اقبال نے عشق اور ژنگ(Jung)نے اجتماعی لاشعور کو اہمیت بخشی تو دراصل یہ سب مفکرین ، اس پُر اسرار اور مخفی قوت ہی کا نام لے رہے تھے جسے اوّل اوّل کانٹ نے ناقابلِ فہم قرار دے ڈالا تھا۔ دوسرا تصور ’’نابغہ ‘‘کے بارے میں ہے۔ شوپنہاور نے لکھا کہ نابغہ اس علم کا نام ہے جس سے خواہش منہا ہو گئی ہو۔ زندگی کی سب سے نچلی سطح پر صرف خواہش کار فرما ہوتی ہے اور علم مفقود ہوتا ہے جیسے مثلاً نباتات اور حیوانات میں۔ انسان بھی چونکہ بنیادی طور پر حیوان ہے اس لیے اس کے ہاں بھی خواہش بہت توانا ہے۔ تاہم اس نے علم کے پھل کو بھی چکھ رکھا ہے اور اس بات نے اسے حیوانوں سے ممتاز کر دیا ہے۔ نابغہ کے ہاں صورت یہ ہے کہ علم خواہش پر پوری طرح غالب آ جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو شوپنہاور کا ہیرو ایک بھکشو کے رُوپ میں دکھائی دے گا۔ اس کے مقابلے میں نیطشے کا فوق البشر(Superman) غالب آنے کی خواہش کی مکمل تفسیر ہے اور اس میں ایک عجیب سا تشدد آمیز احساس برتری ہے، جب کہ اقبال کا مردِ مومن ان دونوں کے امتزاج کی صورت ہے، یعنی وہ دنیا اور اس کے مظاہر سے وابستہ بھی رہتا ہے اور بے نیاز بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا اور اس کے مظاہر سے منہ موڑے بغیر عرفان کی منازل کو چھولینا اقبال کے مردِ مومن کی شان ہے۔ شوپنہاور نے لکھا تھا کہ نابغہ ہر شخص نہیں ہو سکتا۔ فطرت یہ عطیہ اپنے خاص بندوں ہی کو دیتی ہے۔ اقبال اس سلسلے میں شوپنہاور سے متفق ہیں۔ چنانچہ اقبال کا ایک شعر ہے: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا (۶) عشق و خرد کے بارے میں اقبال کے فکری رویے کو سمجھنے کے لیے شوپنہاور سے بھی زیادہ نیطشے کے افکار کا مطالعہ ضروری ہے۔ بالخصوص نیطشے کے فوق البشر کا تجزیہ ناگزیر ہے تاکہ اقبال کے مردِ مومن کو اس سے جدا کیا جاسکے۔ فوق البشر کی پرچھائیں شوپنہاور کے ’’نابغہ‘‘ اور کارلائل کے ہیرو اور ویگنر(Wagner)کے سگفرڈ (Sigfreid)میں بھی ملتی ہے، مگر جو شے نیطشے کے فوق البشرکو ان سب سے جدا کرتی ہے وہ اس کا ایک خاص رویہ ہے جسے اس نے اپنے فوق البشر کو ودیعت کر دیا ہے۔ یہ رویہ خیال پر جبلت کی فوقیت کا داعی ہے اور فرد کو معاشرے پر ترجیح دینے کا مؤید ہے اور قدیم یونان کے فکری تصادم کو پیشِ نظر رکھیں تو اپالو(Apollo) پر ڈائیونائسس(Dionysus)کی فتح کا اعلامیہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے نیطشے نے شوپنہاور کے نابغہ کو معاشرتی بندشوں سے پوری طرح آزاد کر دیا ہے اور اسے اتنی قوت بخش دی ہے کہ وہ ساری انسانی اقدار سے ٹکر لینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اقبال کا مردِ مومن انفعالیت سے منہ موڑ کر ایک توانا اور مثبت رویے کا اظہار کرنے کے باوصف فقر کی دولت سے مالا مال بھی رہتا ہے۔ یوں وہ نیطشے کے فوق البشر کے مقابلے میں ایک نئی مخلوق نظر آتا ہے۔ نیطشے کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ کہیں بدھ مت یورپ کو تسخیر نہ کر لے کیونکہ اس کے نزدیک خود شوپنہاور اور ویگنر بھی بدھ مت کے پیروکار نظر آتے ہیں اور یورپ کی اخلاقیات ان اقدار کی اساس پر استوار ہو رہی ہے جو بنیادی طور پر ایک گلّے کی اخلاقیات ہے نہ کہ گلہ بان کی۔ فوق البشر کے تصور میں انفرادیت کے عنصر کو اہمیت دینے، ’’عمل‘‘ کو سُست روی پر ترجیح دینے ، نیز انفعالیت کے مقابلے میں فعالیت کو تمام تر توجہ تفویض کرنے کے عمل تک تو اقبال کا مردِ مومن نیطشے کے فوق البشر سے متاثر ہے لیکن اس کے بعد جب نیطشے فوق البشر کو تمام اقدار سے بالا متصور کرتا ہے تو اقبال کا راستہ جدا ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی اقبال کا مردِ مومن عشق کی قوت سے لیس ہے جب کہ نیطشے کا فوق البشر جبلت کی قوت سے، اور یہ کوئی ایسا فرق نہیں جسے بآسانی نظر انداز کیا جا سکے۔ نیطشے کے نظریے کے مطابق غالب آنے کی قوت ہی ہمارے سارے فکری نظام کے پس پشت غیر شعوری طور پر کار فرما رہتی ہے۔ یہ قوت جبلت میں اپنا اظہار کرتی ہے اور اس لیے بقول نیطشے جبلت ہی دراصل عقلِ کل ہے اور جبلت کا بے محابا اظہار ہی فوق البشر کا وصفِ خاص ہے۔ عام لوگ جبلت اور فہم کے تصادم میں جبلت کو ثانوی حیثیت دے ڈالتے ہیں اور معاشرتی اقدار کی طرف جھُک کر اسے دبا دیتے ہیں مگر جبلت ایک حد تک دبائی تو جا سکتی ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ یہ لوگ منافقت کی زد پر آ جاتے ہیں یعنی باہر سے کچھ اور اندر سے کچھ ۔ نیطشے کا فوق البشر مجسم جبلت ہے۔ وہ غالب آنے کی قوت کا دوسرا نام ہے اور اس لیے اندر اور باہر سے ایک ہے۔ عام لوگوں کے ہاں شکار کرنے ، لڑنے، حکومت کرنے یا پھر فتح حاصل کرنے کی جبلت اظہار کا کوئی راستہ نہ پا کر ضمیر کی آواز بن جاتی ہے، مگر فوق البشر میں وہ اپنا براہ راست اظہار کرتی ہے۔ نیطشے نے تشدد، جنگ اور خطرے کی تعریف بھی کی ہے، کیونکہ اس کے نزدیک بحرانی حالات ہی سے فوق البشر جنم لیتا ہے، بلکہ وہ تو کئی بار ماحول کو معاشرتی کردار کا سب سے بڑا محرک قرار دے ڈالتا ہے، جیسے مثلاً یہ خیال کہ چاول کھانے کی عادت نے بدُھ مت کو جنم دیا اور بیئر(Beer)کا رواج جرمنوں کی مابعد الطبیعیات کا باعث ثابت ہوا۔ یوں دیکھیے تو قدیم ہندوستان میں سوم رس کا وافر استعمال بھی ویدانت کے نظریوں کا محرک قرار پا سکتا ہے۔ویسے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جرمن لوگ بھی آریا تھے۔ چنانچہ قدیم ہندوستان اور جدید جرمنی میں مابعد الطبیعیات کی طرف جھکائو ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا اس قدرِ مشترک کا باعث سوم رس اور بیئر کی عادت ہے یا یہ بات کہ آریا ہزار ہا برس کی خانہ بدوشی کے بعد ایک ایسے نظریے کے مؤید ہو گئے تھے جو زمین کے تنوع سے دامن چھڑا کر آسمان کی یک رنگی سے رشتہ استوار کرتا ہے اور یوں بُت پرستی کے بجائے انوار پرستی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ نیطشے کے فکری رویے کو ملحوظ رکھیں تو پھر سوم رس اور بیئر ہی کو اصل وجہ ماننا پڑے گا، مگر تاریخِ تہذیب کا تجزیہ کچھ اور سمجھائے گا۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ نیطشے کے مطابق اخلاقیات کا جوہر رحم یا ہمدردی نہیں بلکہ قوت ہے۔ اس لیے انسانی مساعی کی منزل یہ ہونی چاہیے کہ توانا اور برتر شخصیتوں کے حامل افراد پیدا ہوں ، نہ محض یہ کہ عامتہ الناس کی سطح بلند ہو۔ کیا نیطشے کے ان الفاظ میں آریائوں کے دیوتا اِندر کا لہجہ صاف سنائی نہیں دیتا؟ وہی طاقت آزمائی ، وہی آن بان اور وہی نخوت! نیطشے بنی نوع انسان کو محض ایک تجرید قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک معاشرہ افراد کے اجتماع کا نام ہے۔ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ نوع کا معیار بلند ہو، نہ کہ معاشرے کی مسرت کا اہتمام ہو۔ ڈارون اور سپنسر(Spencer)نے بقائے بہترین کا تصور پیش کیا تھا جو جہد للبقا کا ایک قدرتی نتیجہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے نیطشے نے بقائے بہترین کے تصور ہی سے فوق البشر کا تصور کشید کیا اور ڈارون ہی سے متاثر ہو کر فوق البشر کے وجود میں آنے کے لیے جہد للبقا کو ضروری قرار دیا۔ تاہم اس نے قدرتی انتخاب(Natural Selection)کے تصور کو بہترین افراد کے جنم کا باعث قرار دینے کے بجائے اس سلسلے میں شعوری اقدامات کو زیادہ توجہ دی اور کہا کہ فطرت ’’غیر معمولی افراد‘‘ کی مخالف ہے۔ وہ تو صرف اوسط درجے کے افراد (بھیڑوں) ہی کی حامی ہے۔ علم الحیات کی جدید تحقیقات سے نیطشے کا یہ نظریہ باطل قرار پایا ہے کیونکہ اب یہ بات دریافت ہوئی ہے کہMutationسے زندگی کے غیر معمولی نمونے وجود میں آتے ہیں جو آیندہ نسلوں کو ایک بہتر اور بلند تر سطح عطا کر دیتے ہیں۔ تاہم چونکہ نیطشے چاہتا تھا کہ تعلیم اور تربیت سے فوق البشر کو جنم دیا جائے اس لیے اس نے اس سلسلے میں فطرت کے طریقِ کار پر انحصار کرنا مناسب نہ سمجھا۔ نیطشے کی اخلاقیات کا لب لباب یہ ہے کہ فوق البشر گناہ اور ثواب سے بالا ہے۔ ہروہ شے جو قوت کا سرچشمہ ہے، یا بجائے خود قوت ہے، اچھی ہے اور ہر وہ شے بُری ہے جو کمزوری کا مظاہرہ کرتی ہے یا رحم ، ہمدردی اور ملائمت سے عبارت ہے۔ مگر نیطشے کا یہ بھی خیال ہے کہ جب تک جبلت کی قوت اور جذبے کا اُبھار کسی عظیم مقصد کے تابع نہ ہو، فوق البشر وجود میں نہیں آ سکتا۔ فوق البشر کے بارے میں نیطشے کے اپنے الفاظ کچھ یوں ہیں:۲۸؎ ’’زرتشت نے لوگوں پر ایک نظر ڈالی اور کہا: انسان تو ایک رسّی ہے جو حیوان اور سُپر مین کے درمیان کھینچی ہوئی ہے اور یہ رسّی ایک گہرائو کے اُوپر ہے۔ اور یہ ایک نہایت خطرناک پُل ہے جس پر چلنا بھی دشوار ہے ، عقب کی طرف دیکھنا بھی مشکل ہے، کانپنا اور رُکنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔۔۔۔۔ مجھے ان سب سے پیار ہے جو سیاہ بادل سے موٹے موٹے قطروں کی طرح ٹپکتے ہیں۔ سیاہ بادل جو انسان پر جھکا ہوا ہے۔ وہ برق افگنی کے مظاہرے کے پیش رو ہیں۔ لو دیکھو میں خود برق کا پیش رو ہوں اور بادل سے ٹوٹا ہوا ایک بھاری سا قطرہ ہوں … البتہ برق سپرمین ہے ۔۔۔۔ میں تمھیں سُپرمین کا سبق دیتا ہوں۔ انسان کو عبور کرنے کی ضرورت تھی۔ تُم نے اسے عبور کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟ ہر ذی رُوح نے خود کو عبور کر لیا ہے اور تم ہو کہ حیوان کی سطح پر اُترنا تمھیں قبول ہے مگر انسان کو عبور کرنا قبول نہیں۔ انسان کے لیے ایک بو زینہ کیا ہے؟ … ایک قابلِ تمسخر شے! اور انسان بھی سُپر مین کے آگے ایک مضحکہ خیز شے قرار پائے گا۔ تم نے ایک کیڑے سے انسان تک سفر کیا ہے مگرتمھارے بطون میں کیڑا بدستور موجود ہے۔ کبھی تم بھی بندر تھے مگر آج انسان بندر سے بڑھ کر بندر ہے۔ سُپر مین اس دھرتی کا معنی ہے۔ کہو کہ سپر مین ہی اس دھرتی کا معنی ہے۔ بھائیو! میں تم سے استدعا کرتا ہوں کہ دھرتی کے وفادار رہو اور اُن لوگوں پر مت اعتبار کرو جو تمھیں غیر ارضی اُمیدیں دلاتے ہیں۔ وہ سب زہر پلانے والے لوگ ہیں، چاہے وہ اس بات کو جانتے ہوں یا نہیں! کہاں ہے وہ برق جو اپنی زبان سے تمھیں چاٹے؟ میں تمھیں سُپرمین کا درس دیتا ہوں کہ وہی تو برق ہے!۔۔۔۔۔ وہ جو خلق کرنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ پہلے منہدم کرے۔ اقدار کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے انسان کی بڑائی اس میں ہے کہ وہ ایک پُل ہے، منزل نہیں! مجھے ان لوگوں سے محبت ہے جو مانتے ہیں کہ مٹنے ہی میں زندگی ہے۔ میں ان لوگوں سے محبت کرتاہوں جو مٹنے کے لیے آسمانی وجہ کو تلاش نہیں کرتے ۔ جیسے قربانی دے رہے ہوں بلکہ وہ جو اپنی قربانی اس خیال سے دیتے ہیں کہ شاید اس طرح یہ دھرتی کسی روز سُپرمین کی ہو سکے۔ اپنے ہمسائے سے محبت کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اس شخص سے محبت کی جائے جو ابھی آنے والا ہے۔ لہٰذا نیطشے کو اپنے اردگرد سُپرمین دکھائی نہیں دیا۔ ماضی میںنپولین ایک سُپرمین تھا مگر اصل سُپرمین مستقبل کی امانت ہے۔ اگر نیطشے مزید پینتالیس برس زندہ رہتا اور اپنی آنکھوں سے ہٹلر کے عروج و زوال کے منظر کو دیکھ سکتا تو ممکن ہے اپنی فصل کو کاٹتے ہوئے اسے ندامت محسوس ہوتی مگر نیطشے تو پاگل پن میں مبتلا ہو کر ۱۹۰۵ء میں فوت ہو گیا اور اس کی معنوی اولاد میں سے ہٹلر ایسا سُپرمین بہت بعد میں منظرِ عام پر آیا۔ اقبال کا مرد مومن صرف ایک حد تک ہی نیطشے کے سُپرمین سے مشابہ ہے، مثلاًاقبال نے مرد مومن کے لیے انفعالیت کی زندگی کے بجائے تگ و دو اور تصادم کو پسند کیا اور خطر پسندی کو اس کا ایک وصف قرار دیا: خطرپسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ خ خ خ بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سال خورد اے تیرے شہپر پہ آساں رفعت چرخِ بریں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر! وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں مگر اقبال نے خطر پسندی کا یہ سبق اور انفعالیت کی زندگی سے منقطع ہو کر آگے بڑھنے اور عملِ پیہم سے ملت کو اُوپر اٹھانے کا یہ درس اس لیے بار بار دیا کہ ہندی مسلمان ایک طویل عرصے سے خواب خرگوش میں مبتلا تھے جب کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا تھا اور ہندو اہل وطن اس سلسلے میں بہت آگے نکل گئے تھے۔ مگر اقبال نے خطر پسندی کو مردِ مومن کا وصف خاص قرار دے کر اسے حرص و آز، بہیمیت اور ظلم کی علامت نہیں بنایا بلکہ اسے خودی کی تکمیل پر اُکسایا۔ گویااقبال نے صحیح معنوں میں فوق البشر کا تصور پیش کیا جو زندگی میں پوری طرح مبتلا ہونے کے باوجود فقر کی دولت سے مالا مال تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اقبال نے مردِ مومن کے ایک خفیہ ہتھیار یعنی عشق کا ذکر بار بار کیا کیونکہ اقبال کے نزدیک یہی وہ حرکی قوت (Motor Force)تھی جو مادی زندگی کی کشش ثقل پر غالب آ کر فرد کو رفعت آشنا کر سکتی تھی: بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی کیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز حدیثِ بے خبراں ہے تو بازمانہ بساز زمانہ با تو نہ سازد تو بازمانہ ستیز ضمیر پاک و نگاہِ بلند و مستی شوق نہ مال و دولت قاروں نہ فکرِ افلاطوں خ خ خ یہ ہے خلاصۂ علم قلندری کہ حیات خدنگِ جستہ ہے لیکن کماں سے دور نہیں خ خ خ کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی پسند روح و بدن کی ہے وانمود اس کو کہ ہے نہایتِ مومن خودی کی عریانی مشرق نے ازمنۂ قدیم ہی سے سنیاس، مردم بیزاری اور رہبانیت کو حصول منزل کا ایک ذریعہ تصور کیا ہے، مگر اقبال نے اصل فقیرا سے کہا ہے جس کا سفینہ ہمیشہ طوفانی ہو اور جو زندگی سے متصادم ہو کر اپنے لیے ایک ایسی راہ تراشے جو بالآخر خودی کی عریانی پر منتج ہو۔ مگر اس سفر کے لیے قوت درکار ہے اور اقبال کے نزدیک عشق ہی وہ فعال اور متحرک قوت ہے جو اسے منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ اقبال نے تغیر اور تحرک کا یہ فلسفہ کچھ تو اپنی شخصیت کے داخلی تحرک سے حاصل کیا، کچھ اسلامی فلسفے کی روایات اور کچھ برگساں کے افکار کے مطالعہ سے کہ اس وقت مغربی فلسفے میں برگساں ہی ’’جوشِ حیات‘‘ کا سب سے بڑا علم بردار تھا۔ (۷) برگساں اقبال سے سترہ برس پہلے پیدا ہوا اور اقبال کی وفات کے تین برس بعد تک بھی زندہ رہا۔ اس اعتبار سے وہ اقبال کا ہم عصر تھا۔ پھر ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ برگساں کی مشہور کتاب Creative Evolution ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی اور شائع ہوتے ہی اس نے سارے یورپ کو اپنے جادو میں اسیر کر لیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال یورپ میں موجود تھے۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ بھی برگساں کے جادو میں اسیر ہوئے اور برگساں کے فلسفے نے ان کی شاعری پر گہرے اثرات مرتسم کیے ، مثلاً ۱۹۰۸ء اور اس کے فوراً بعد اقبال نے جو نظمیں لکھیں ان میں سے ایک کا عنوان ’’ستارہ‘‘ ہے اور یہی وہ نظم ہے جس میں اقبال کا یہ مشہور شعر شامل ہے: سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں بعد ازاں ’’جواب خضر ‘‘ میں اقبال لکھتے ہیں: تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ، پیہم دواں ، ہر دم جواں ہے زندگی بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوتِ تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی پھر ساقی نامہ میں کُھل کر لکھا: دما دم رواں ہے یم زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود پسند اس کو تکرار کی خُو نہیں کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں خ خ خ فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات خ خ خ ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی خ خ خ ہوا جب اُسے سامنا موت کا کٹھن تھا بڑا سامنا موت کا اُتر کر جہانِ مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں خ خ خ مذاقِ دوئی سے بنی زوج زوج اٹھی دشتِ کُہسار سے فوج فوج خ خ خ گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے خ خ خ سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات اُبھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حیات خ خ خ بڑی تیز جولاں بڑی زود رس ازل سے ابد تک رمِ یک نفس خ خ خ زمانہ کہ زنجیر ایام ہے دموں کے اُلٹ پھیر کا نام ہے اور اس کے بعد بھی ان کی شاعری میں تڑپتی ، تلملاتی رکاوٹوں کو نوکِ پا سے ٹھکراتی ہوئی زندگی اور اس کے علم برداروں یعنی مومن اور شاہین کا تصور قدم قدم پر ملتا ہے اور زندگی کی تڑپ اور تلملاہٹ کا یہ نظریہ برگساں ہی کا فیض ہے۔ مگر اقبال برگساں کے مقلد نہیں ہیں کیونکہ جہاں برگساں رُکتا ہے اقبال وہیں سے ایک ایسے سفر کا آغاز کرتے ہیں جو مشرقی طبائع ہی کے لیے ممکن ہے۔ فلسفے میں سوچ کی دو لہریں بہت نمایاں رہی ہیں۔ ان میں سے ایک لہر تو مظاہر کے پس پشت ایک لازوال قوت کی دریافت پر منتج ہوتی ہے اور دوسری اس قوت کی تجسیم میں دلچسپی لیتی ہے۔ مقدم الذکر اسلوبِ فکر کی نمایندگی افلاطون کے Idea، سپائی نوزا کے Substance ، کانٹ کےDing-an-Sich ہیگل کےWeltgeist،مارکس کےKlassen Kamph،شوپنہاور کیWill-to-live ، نیطشے کی Will-to-power، فرائڈ کےLibido،ژنگ کی Psychic Energy اور برگساں کے Elan Vital سے ہوئی ہے جب کہ قوت کی تجسیم کے سلسلے میں شوپنہاور کے ’’نابغہ‘‘ نیطشے کے سُپر مین، کارلائل کے ہیرو، ویگنر کے سگفرڈ اور اقبال کے مردِ مومن کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام فلاسفروں نے مادی زندگی اور اس کے مظاہر کے پسِ پشت اس قوت کو دیکھا اور یوں (چند مستثنیات سے قطع نظر) ان کے ہاں روح اور مادے کی ثنویت سی اُبھر آئی۔ البتہ مردِ کامل کے تصور میں ان دونوں کے امتزاج کا نظریہ پیش ہوا ہے یعنی جب مظاہر کے پسِ پشت یا ان کے بطون میں چھپی ہوئی قوت کسی نہ کسی مردِ کامل یا فوق البشر میں اپنی تجسیم کرتی ہے تو گویا ثنویت ختم ہوتی اور وحدت کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بہترین مثال اقبال کے مردِ مومن کی ہے جس میں ’’جوشِ حیات‘‘ کی مکمل تجسیم ہوئی ہے۔ گویا مردِ مومن تڑپتی، تلملاتی اور ہر دم رواں دواں ’’زندگی‘‘ کی ایک قاش ہے۔ مگر برگساں کے ہاں تجسیم کی یہ صورت پیدا نہ ہو سکی اور اس نے زیادہ توجہ مظاہر کے عقب میں رواں اس قوت پر صرف کی جسے اس نے ’’جوش حیات‘‘ کا نام دیا۔ اسی لیے یہ گزارش کی گئی ہے کہ جہاں برگساں کا آخری قدم رُکا ہے وہیں سے اقبال نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔ برگساں کی لفظی ترکیب Elan vital کا لغوی مفہوم ہے’’حقیقت کی روانی‘‘ یا ’’تجربے کی جوئے رواں‘‘ ۔ اس کی تمام کتابوں میں تغیر کے اس تسلسل کا ذکر ہے جس سے ارتقا کے جملہ مراحل عبارت ہیں اور ارتقا کی صورت یہ ہے کہ وہ بجائے خودکبھی نہ ختم ہونے والی ایک تخلیق ہے اور آزادی اس کی آخری منزل ہے۔۲۹؎ خود برگساں نے بھی لکھا ہے کہ زندگی تبدیلی کا نام ہے اور تبدیلی پختگی فکر کی ضامن ہے اور پختگی فکر سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر دم اپنی تخلیق نو کرتا چلا جائے۔۳۰؎ مگر برگساںنے تبدیلی اور روانی کی اس صفت کو صرف انسان تک محدود نہیں کیا بلکہ پوری ’’زندگی‘‘ کو یہ اوصاف ودیعت کر دیے ہیں ۔ چنانچہ اس نے زندگی کی یلغار کو اس فوج سے تشبیہ دی ہے جو برق رفتاری سے آگے بڑھتی ہے اور ہر قسم کی رکاوٹوں کو پائوں تلے روندتی چلی جاتی ہے۔ زندگی کی اس بے پناہ روانی کا تصور برگساں کو بہت مرغوب ہے اور اس نے اسے لا تعداد تمثیلوں میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ برٹرینڈرسل ایسے خُشک مزاج فلسفی کو طنزاً یہ کہنا پڑا کہ (برگساں ہے تو فلاسفر) مگر اس کے ہاں زندگی کی یلغار کو اتنی تشبیہوںکے ذریعے بیان کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں کوئی شاعر بھی اس کی ہم سری نہیں کر سکتا۔۳۱؎ مثلاًایک اور تمثیل لیجیے: برگساں لکھتا ہے کہ زندگی ایک بہت بڑی موج کی طرح ہے جو ایک مرکز سے شروع ہو کر باہر کی طرف پھیلتی ہے اور جملہ رکاوٹوں کو عبور کرتی چلی جاتی ہے۔ زندگی انجماد کی نفی ہے اور حادثے کا اُلٹ ہے۔ مادہ اس کی گاڑی ہے جس میں یہ سفر کرتی ہے لیکن ہر ہر قدم پر اسے گاڑی کے بھاری پہیوں کے رک جانے کے عمل سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ گویا برگساں یہ کہنا چاہتا ہے کہ مہا بھارت کی اس جنگ میں جو پوری کائنات میں جاری ہے ، زندگی اور مادہ دو دشمنوں کی طرح آمنے سامنے آگئے ہیں۔ مہا بھارت کی تمثیل میں ارجن اپنے بندھنوں اور رشتہ داریوں کے بوجھ تلے رُکا ’’بے عملی ‘‘ کو اپنا شعار بنانا چاہتا ہے لیکن تیز رفتار رتھ کارتھ بان کرشن جو بجائے خود زندگی ہے ارجن کو اُپدیش دیتا ہے کہ عمل ہی ’’خیر‘‘ ہے۔ نیز یہ کہ اسے اپنی رشتہ داریوں کے بوجھ کو تج کر میدان میں آگے کو بڑھنا ہوگا۔ برگساں کا موقف بھی یہی ہے کہ زندگی مادے کو خاطر میں نہیں لاتی بلکہ اس کے بندھنوں کو توڑ کر آگے نکلتی رہتی ہے، مثلاً آغازِ کار میں زندگی مادے ہی کی طرح بے حس تھی جیسے مثلاً پودوں میں، مگر چونکہ زندگی ہمیشہ ہی سے آزادی اور آوارہ خرامی کی آرزو مند رہی ہے اس لیے اس نے پودوں کے بعد شہد کی مکھیوں اور کیڑوں مکوڑوں ایسی مخلوق کی جبلت میں خود کو ظاہر کیا تاہم حیوانوں اور انسانوں تک آتے آتے اس نے جبلت کو ثانوی حیثیت دے کر آزادی کا پرچم اُٹھا لیا۔ برگساں کے مطابق ہم لوگ اس لیے مادہ پرستی کی طرف راغب ہیں کہ ہم زماں کے بجائے مکاں کی زبان میں سوچتے ہیں حالانکہ زماں ہی زندگی کا جوہر ہے مگر زماں سے برگساں کی مراد زمانِ مسلسل (Duration)ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ’’ماضی کی مسلسل روانی جو مستقبل سے پنجہ آزما ہے اور جس کا انداز یہ ہے کہ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے پھولتی چلی جاتی ہے۔۔ یہی تو زمانِ مسلسل ہے۔‘‘ مراد یہ کہ پورے کا پورا ماضی حال سے منسلک ہو کر اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے اور ہمہ وقت زندہ ہے۔ بے شک ہم سوچ بچار کے دوران میں ماضی کے صرف ایک قلیل حصے کو بروئے کار لاتے ہیں۔ لیکن ہماری خواہشیں ، ارادے اور اعمال پورے ماضی کے غماز ہیں۔۔۔ چونکہ ہر لمحہ وقت جمع ہوتا ہے اس لیے مستقبل کبھی بھی ماضی ایسا نہیں ہوتا۔ ہر لمحہ نیا ہے اور اس کے بارے میں وثوق سے یہ کہنا ناممکن ہے کہ اس کی ماہیت کیا ہوگی۔ برگساں نے تعقل کو ایک ایسا عملی وصف قرار دیا ہے جو انسان نے جہد للبقا کے دوران میں حاصل کیا ہے لیکن وجدان ایک داخلی کیفیت ہے جو انسان کو ابتدا ہی سے حاصل ہے۔ برٹرینڈرسل نے برگساں کے اس نظریے پر سخت تنقید کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ’’وجدانی قوت ، تہذیب کی ترقی کے ساتھ ، روبہ زوال ہوتی چلی جاتی ہے۔ بڑوں کے مقابلے میں بچے اس قوت سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ شاید کتوں میں یہ قوت انسانوں سے بھی زیادہ ہے۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیںکہ اس وجدانی کیفیت کی طرف پلٹ جائیں، انھیں چاہیے کہ جنگل کو لوٹ جائیں۔‘‘۳۲؎ (مراد یہ کہ جانور بن جائیں)۔ یوں لگتا ہے جیسے برٹرینڈرسل نے ’’چھٹی حس‘‘ کو وجدان سمجھ لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود برگساں کے ہاں ’’زندگی ‘‘ کے جوہر کو سمجھنے کے سلسلے میں جس وجدانی کیفیت کا ذکر ہوا ہے وہ مشرق کے کشف اور عرفان سے ذرا ورے ہی رہتی ہے۔ تاہم یہ برٹرینڈ رسل کی ’’چھٹی حس‘‘ سے یقینا کہیںزیادہ ارفع اور لطیف کیفیت ہے۔ برگساں کا خیال ہے کہ شے کو جاننے کے دو طریق ہیں۔ ایک تو یہ کہ شے کے گرد گھوم پھر کر اسے پہچانا جائے، مگر اس کا زیادہ تر انحصار اس زاویۂ نگاہ پر ہے جو ایک خاص مقام پر کھڑے ہونے سے ہمیں حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ شے کے بطون میں داخل ہوا جائے اور شے کے اندر کے انوکھے اور ناقابل بیان جوہر سے ہم آہنگ ہوا جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ شے کے جوہر کو تلاش کرنے کی یہ کاوش چھٹی حس سے ایک بالکل مختلف شے ہے۔ مگر کشف یا عرفان اس سے بھی مختلف ہے کہ اس کے تحت انسان شے کے بطون میں داخل ہونے کے بجائے اپنی ہی ذات سے تعارف حاصل کرتا ہے اور موجود کی بیکرانی کو ذات کامظہر گردانتا ہے، مگر یہ جبھی ممکن ہے کہ انسان ارتکاز کی کیفیت سے بہرہ ور ہو اور خود فراموشی کے عالم میں چلا جائے جس سے پہچان کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ خود فراموشی کی یہ کیفیت جس میں انسان ذاتِ باری کے دھیان کے سوا اور سب کچھ اپنے ذہن سے خارج کر دیتا ہے، عشق کی ارتقائی منازل میں سے ایک ہے چنانچہ عشق میں زندگی کی مسلسل روانی اور جہت سمٹ کر سوزِ دوام اور تپشِ پیہم کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور محبوب کے خیال کے گرد پروانہ وار طواف کرتے ہوئے ایک نقطے میں پوری کائنات کو دریافت کر لیتی ہے۔ البتہ اقبال کے عشق کا تصور کچھ یوں اُبھرا ہے کہ اس میں برگساں کے ’’جوش حیات‘‘ کا سارا جوہر مرتکز ہو گیا ہے۔ مگر اس کا نتیجہ محض جوہر کا ادراک نہیں بلکہ خود ی کی تکمیل ہے۔ (اس کا ذکر آگے آئے گا)۔ برگساں سے اقبال کے تعلق خاطر کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام مصطفی خاںنے لکھا ہے:۳۳؎ ’’حقیقت وقت و زمان اور استمرارِ حیات کا فلسفہ جو برگساں کے رنگ میں اسرار خودی، میں موجود ہے وہ اسی طرح تو ہے کہ : ایں و آں پیداست از رفتارِ وقت زندگی سربست از اسرارِ وقت اصلِ وقت از گردشِ خورشید نیست وقت جاوید است و خود جاوید نیست لیکن برگساں نے دہر کو اصل حقیقت اور زمان قرار دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ زمان یقینا مکان سے الگ ہے کیونکہ زمان ایک لامکانی چیز ہے جس میں مکان کے برعکس ہمہ وقت استمرار ہے یعنی برگساں اس تغیر و ارتقا والے زمان کے علاوہ کسی دوسری حقیقت کا قائل نہیں اور وہ حقیقت میں دہر یہ ہے ، لیکن اقبال نے اس کی دہریت کو چھوڑ کر لا تسبّوالدھر والی حدیث کو کئی جگہ پیش کیا ہے اور دہریت کے بجائے توحید کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ زمان کو مکان سے بے نیاز سمجھتے ہوئے کہتے ہیں: وقت را مثلِ مکاں گستردئہ امتیازِ دوش و فردا کردئہ وقت ما کو اوّل و آخر نہ دید از خیابانِ ضمیرِما دمید اور اس کے ساتھ انھوں نے اس حدیث کو بھی یاد کیا ہے کہ : زندگی دہر است و دہر از زندگی است لا تسبّو الدھر فرمانِ نبیؐ است حقیقت یہ ہے کہ برگساں نے زندگی کو اس کے مسلسل تخلیقی انداز میں خدا ہی کا مرتبہ دیا ہے مگر برگساں کا یہ خدا محدود ہے اور قدم بہ قدم علم، آگہی اور روشنی کی طرف سفر کر رہا ہے۔ اقبال نے ’’زندگی‘‘کے اس خاص تخلیقی رُخ کا اقرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ : یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کُن فیکوں مگر کائنات اور زندگی کو بہرحال ایک لازوال اور برتر قوت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت ہی دی ہے۔ یوں اقبال نے برگساں کے تصورِ زندگی میں ایک نئے بُعد کا اضافہ کر دیا ہے۔ ب- تصوراتِ اقبال کا اسلامی پس منظر عشق اور خرد کا بنیادی فرق وجدانی سوچ اور منطقی سوچ کا فرق ہے۔ لہٰذا اقبال کے تصوراتِ عشق و خرد کے مطالعے کے لیے سوچ کے ان دو بظاہر متضاد رویوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ گزشتہ سطور میںیہ کوشش کی گئی ہے کہ مغربی فلسفے میں سوچ کے اس جزر و مد کا احاطہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اقبال کے تصورات کی تشکیل میں اس جزر و مد نے کس حد تک حصہ لیا ہے، مگر اقبال کے سلسلے میں صرف مغربی افکار کا مطالعہ ہی کافی نہیں۔ وجہ یہ کہ اقبال نے مغربی فلسفے کے علاوہ مسلمان مفکرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ بلکہ اقبال کے ضمن میں مسلمان مفکرین کے افکار کا مطالعہ اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ مشرق کی سر زمین کا باسی ہونے کے ناتے اقبال کا فطری جھکائومشرق کی طرف نسبتاً زیادہ تھا۔ مگر خود مشرق میں بھی فکر کے وہ دونوں دھارے موجود رہے ہیں جن کی ابتدا یونان میں ہوئی تھی۔ لہٰذا دیکھنا چاہیے کہ اقبال نے مشرقی افکار سے اپنے فطری لگائو کے باوصف ان میں سے کس ایک نظریے کو مقدم جانا، نیز کیا اقبال کا رویہ محض تقلیدی تھا یا انھوں نے اپنی تخلیقی اُپج سے اپنے لیے کوئی نئی راہ بھی تراشی؟ (۲) فکرِ اقبال کے ماخذات کے سلسلے میں جب اسلامی دور کا جائزہ لیں تو وجدانی مذہبی سوچ اور سائنسی سوچ کی ثنویت سے قدم قدم پر نبرد آزما ہونا پڑتا ہے بلکہ اسلامی فلسفہ تو کسی نہ کسی طرح سوچ کے ان دو بظاہر متضاد فکری رویوں ہی سے عبارت دکھائی دیتا ہے۔ اس تصادم کی ابتدا اس وقت ہوئی جب منصور اور اس کے بعد مامون کے دورِ حکومت میں یونانیوں کے سائنسی لٹریچر کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا۔ یونانی اثرات سے قبل عرب مسلمانوں کے ہاں ضرب الامثال کے ذریعے فکری جواہر کو پیش کرنے کا انداز عام تھا۔ عرب ذہن حقیقت پسند اور ایمان کی روشنی سے منور تھا۔ انسان کی زندگی اور اس کے مقدر کے سلسلے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ اللہ کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم کرنا ہر مسلمان کا فرض تھا۔ توحید کے نظریے نے ثنویت اور دوئی کے تمام نظریوں کو باطل قرار دے دیا تھا اور اللہ کی کتاب کی روشنی میں صراط مستقیم پر چلنا ہر مسلمان کے لیے ضروری تھا۔ زندگی سادہ ، منور اور ذہن نظریاتی انتشار سے محفوظ تھا، مگر منصور اور ہارون الرشید کے زمانے میں ایک طرف تو ہندوئوں کا فلسفہ سنسکرت اور پہلوی سے عربی میں ترجمہ ہوا ۳۴؎ اور دوسری طرف یونانی افکار عربی زبان میں منتقل ہوئے اور یوں اذہان میں وہ فکری کہرام برپا ہوا جو مسلمان فلسفیوں کے ہاں آج تک باقی ہے۔ ہند آریائی فلسفے کے مطابق علم محض ایک ذریعہ ہے جس کا مقصد فرد کو موجود کے بوجھ سے نجات دلانا ہے۔ ہند آریائی فلسفے میں اس بات کو نروان کا نام ملا ہے۔ چنانچہ ویدانت وغیرہ میں جو ہر کو اس کی یکتائی کی حیثیت میں اہمیت ملی اور یہ بات یونانیوں کے ان اقدامات سے قطعاً مختلف تھی جن کے تحت انھوں نے فطرت کو متعدد علوم کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔عربوں کا مزاج بھی ہندآریائی مزاج سے مختلف تھا کہ وہ موجود کی نفی کرنے پر مائل نہیں تھا بلکہ زمین اور اس کے اثمار کو ایک خاص اہمیت تفویض کرتا تھا چنانچہ سائنس کی مختلف شاخوں کو یونانیوں نے جو اہمیت دی تھی اس کی توثیق عربوں نے اس طور کی کہ سائنس کے موضوع پر لکھی گئی یونانی کتب کو بڑی فراخ دلی سے عربی میں منتقل کر لیا۔ ان تراجم کے باعث ارسطو کا فلسفہ پہلی بار اسلامی دنیا میں رائج ہوا اور ایک خاصے بڑے طبقے نے نہ صرف اس کے مضمرات کو قبول کیا بلکہ عقل کی میزان پر اعتقادات کو پرکھنے کا رویہ بھی اپنا لیا۔ یہ لوگ معتزلین کہلائے جنھوں نے قرآن کے حادث یا قدیم ہونے کے مسئلے پر نیز جبر اور قدر کے سوال پر ایک ایسے ’’اجتہاد‘‘ کا مظاہرہ کیا جو عام مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا، مثلاً معتزلین کی پہلی نسل کے مفکر واصل بن عطا نے کہا کہ جو کوئی خدا کے علاوہ کسی ازلی و ابدی صفت کا اقرار کرتا ہے وہ دراصل دو خدائوں کو مانتا ہے۔ معتزلین کی دوسری نسل کے مفکر ابوالہذیل نے خدا کے اوصاف کا اقرار توکیااور ان اوصاف کو ازلی و ابدی بھی مانا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ خدا ان اوصاف کا حامل نہیں بلکہ یہ الوہی جوہر کی مختلف صورتیں ہیں۔۳۵؎ انسان کے بارے میں اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ داخلی طور پر آزاد ہے لیکن خارجی طور پر پابند ہے۔معتزلین کی تحریک کے ایک اور فلاسفر نظام نے یہ موقف اختیار کیا کہ خدا اور انسان دونوں مختار ہیں جب کہ دوسری تمام چیزیں مجبور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کو کُن سے تخلیق کیا لیکن انھیں اخفا میں رکھا اور پھر وقفے وقفے سے انھیں متحرک وجود کی صورت میں ظاہر کرتا رہا۔ اسی طرح معمر نے کہا کہ خدا نے جواہر تو پیدا کیے لیکن حادثات نہیں۔ مراد یہ کہ خدا نے ایک طرح کا عالم گیر مادہ پیدا کیا جس میں حادثات شامل ہوتے گئے۔ ان حادثات میں سے کچھ تو خود جوہر کے بطون میں چھپی ہوئی قوت کا کرشمہ تھے اور کچھ خلق شدہ چیزوں کی ’’آزاد قوتِ ارادی‘‘ کا نتیجہ تھے۔ چنانچہ ارسطو کے افلاطونی شارحین کی تقلید کرتے ہوئے اس نے خدا کے اوصاف کو مخفی قرار دیا اور کہا کہ انسان کبھی خدا کو جان نہیں سکتا۔۳۶؎ (یہ وہی روّیہ تھا جسے بعدازاں کانٹ نے Noumenon کے سلسلے میں برتا) الاشرص نے معمر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ کائنات خدا کی تخلیق تو ہے لیکن اسے فطرت کے قانون کے مطابق خلق کیا گیا ہے۔ نتیجۃً یہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں مستور قوت کی مظہر ہے نہ کہ کسی فرمان یا حکم کا نتیجہ ہے ۔ الاشرص ،ارسطو کی طرح مادہ کے قدیم ہونے کا قائل تھا۔ معتزلین کی تیسری نسل دو مکاتبِ فکر میں تقسیم ہو گئی۔ ان میں سے ایک مکتبِ فکر نے تو تمام تر بحث خدا کے اوصاف پر کی جب کہ دوسرے نے شے کی ماہیت کو اپنا موضوع بنایا۔ مؤخرالذکر کے مطابق موجود ہونا ایک وصف ہے جس کی جوہر میں آمیزش ہو تو جوہر ’’موجود‘‘ میں مبدل ہوتا ہے۔ اس کے بغیر وہ ’’معدوم‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عملِ تخلیق اس بات میں ہے کہ وہ موجود کے وصف کو جوہر میں شامل کرتا ہے اور بس! (۳) معتزلین کا فکری نظام ارسطو کے افکار سے اخذ و اکتساب کے نتیجے میں مرتب ہوا تھا اور پہلی بار اعتقادات کو عقل کی میزان پر تولنے کا داعی تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا نہایت شدید ردِ عمل ہوا اور اشاعرہ نے بالخصوص اس سلسلے میں ایک متوازی نظامِ فکر کی بنیاد رکھ دی ۔ معتزلین کے فکری نظام کا ایک اور بلا واسطہ اثر یہ ہوا کہ ایسے ’’فلاسفر‘‘ وجود میں آگئے جنھوں نے اپنے افکار کو یونانی کتب کے براہِ راست مطالعہ سے تشکیل دیا۔ ان میں الکندی اور فارابی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ معتزلین نے جو راستہ ہموار کیا تھا اس کا تیسرا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ صوفیا کی ایک ایسی باقاعدہ تحریک نے جنم لیا جس میں افلاطونی ، ایرانی اور ہندی افکار کی آمیزش وجود میں آئی۔ ان میں سے پہلے اشاعرہ کا ذکر ہونا چاہیے۔ معتزلین کے افکار کے خلاف جن لوگوں نے سخت ردِّ عمل کیا انھیں متکلمین کا نام ملا ہے اور متکلمین کے دو مکاتب فکر میں سے ایک کا رہبر اشعری اور دوسرے کا الماتریدی تھا۔ معتزلین کے بنیادی نظریات تین تھے: (الف) قرآن حادث ہے۔ (ب) حُسنِ ازلی کا نظارہ نا ممکن ہے۔ (ج) انسان با اختیار ہے۔ ان مسائل کے سلسلے میں اشاعرہ نے کہا کہ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ قدیم ہے لیکن اس کی لفظ اور حرف میں منتقلی بعدازاں ہوئی(پختہ ایمان والے مسلمان اشاعرہ کی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے) ۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ ’’قیام بالنفس‘‘ ہے اور اس کا علم حاضر اشیا کی ماہیت سے مشروط نہیں۔ جبرو اختیار کے مسئلے کے بارے میں کہا کہ اللہ تعالیٰ انسان کے اندر قوت پیدا کرتا ہے اور انتخاب کی آزادی دیتا ہے(اور جو کچھ اس انتخاب کے واسطے سے ہوتا ہے اس پر فرد کو سزا یا جزا ملتی ہے)۔ الماتریدی بہت سی باتوں کے سلسلے میں اشاعرہ سے متفق ہے، مثلاً یہ کہ کائنات اور اس کی تمام اشیا کو اللہ تعالیٰ نے عدم سے پیدا کیا ۔ اوصاف کا کوئی الگ وجود نہیں بلکہ وہ اپنے وجود کے لیے اجسام یا جواہر پر انحصار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی جسم ، جوہر یا وصف نہیں اور نہ محدود یا شکل و صورت کا حامل ہے۔ وہ زمان و مکان میں مقید بھی نہیں ، وغیرہ۔ اشاعرہ کے بارے میں اقبال نے خاصی بحث کی ہے۔ ابتداً اپنی کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقامیں اقبال نے لکھا: اشاعرہ کے نظریۂ علم نے ان کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ مختلف اشیا کے انفرادی جواہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور انتہائی علت یا خدا ان کو مستحسن کرتا ہے۔ انھوں نے ایسے ابتدائی مادے کے وجود سے انکار کر دیا جو ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور تمام اشیا میں مشترک ہے۔۳۷؎ بعدازاں اپنے خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں کھُل کر کہا: اشاعرہ کے نزدیک کائنات کی ترکیب جواہر یعنی ان لا انتہا چھوٹے چھوٹے ذروں سے ہوئی جن کا مزید تجزیہ ناممکن ہے۔ لیکن خالقِ کائنات کی تخلیقی فعالیت کا سلسلہ چونکہ برابر جاری ہے اس لیے جواہر کی تعداد بھی لامتناہی ہے کیونکہ ہر لحظہ نئے نئے جواہر پیدا کیے جا رہے ہیں اور اس لیے کائنات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ قرآن مجید کا یہی ارشاد ہے: یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَائُ۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے جواہر کی حقیقت کا دارو مدار ان کی ہستی پر نہیں۔ ہستی تو وہ صفت ہے جو اللہ تعالیٰ جواہر کو عطا کرتا ہے۔ جب تک یہ صفت عطا نہیں ہوتی، جواہر گویا قُدرتِ الٰہیہ کے پردے میں مخفی رہتے ہیں۔ وہ ہستی میں آتے ہیں تو اس وقت جب یہ قدرت مرئی شکل اختیار کر لیتی ہے۔لہٰذا بہ اعتبار ماہیت جوہر قدر سے عاری ہے، گویا یوں کہیے کہ اس کا ایک محل بھی ہے لیکن مکان سے بے نیاز ۔ کیونکہ یہ صرف جواہر کا اجتماع ہے جس سے ان میں امتداد کی صفت پیدا ہوتی اور مکان کا ظہور ہو جاتا ہے۔۔۔۔لیکن اشاعرہ کے نزدیک مکان چونکہ بجائے خود نتیجہ ہے جواہر کے اجتماع کا ، لہٰذا وہ حرکت کی توجیہ یوں تو کر نہیں سکتے تھے کہ اس کا مطلب ہے کسی جسم کا ان سب نقطہ ہائے مکانی سے گزر کرنا جو کسی مقام کی ابتدا سے انتہا تک واقع ہوںاور جس سے بالآخر یہ ماننا لازم آتا ہے کہ خلا ایک قائم بالذات حقیقت ہے۔ یہ مشکل تھی جس کے حل میں نظام نے طفرہ یعنی زقندیا جست کا تصور قائم کیا۔ نظام کا کہنا یہ تھا کہ جب کوئی جسم حرکت کرتا ہے تو ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک نقطۂ مکانی سے دوسرے نقطۂ مکانی تک، جو ظاہر ہے اس سے متصل ہوگا، گزر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے وہ اس سے کود جاتا ہے۔ گویا حرکت کی رفتار خواہ تیز ہو یا سُست ، ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر نقاطِ سکون زیادہ ہیں تو حرکت بھی سُست رہے گی۔۳۸؎ اس سے اگلی چند سطروں میں اقبال نے طبیعیات کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ الیکٹرون بھی مسلسل سفر نہیں کرتی بلکہ وہ مختلف جگہوں پر وقفے وقفے سے دکھائی دیتی ہے، گویا الیکٹرون کا سفر جستوں کے ذریعے طے پاتا ہے نہ کہ قدموں کے ایک تسلسل کے ذریعے ۔ جس زمانے میں اقبال نے یہ بات لکھی ڈارون اور سپنسر کے مسلسل ارتقا کے نظریے کی چھاپ ابھی تازہ تھی مگر بعد ازاں جب علم الحیات کے نظریۂ تقلیب کو فروغ ملا تو’’جست‘‘ کی کار کردگی پوری طرح واضح ہو گئی۔ اب یہ کھلا کہ کسی بھی نوع میں ایک معین عرصے کے بعد ایک ایسی تقلیب ظاہر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ نوع جست بھر کرارتقا کی ایک بلند تر سطح پر آ جاتی ہے۔ لہٰذا ارتقا مسلسل نہیں بلکہ جستوں سے عبارت ہے۔ کیسی حیرت کی بات ہے کہ آج سے تقریباً بارہ سو سال پہلے مسلمان مفکرین نے تخلیق کائنات کے سلسلے میں جست کا وہ تصور پیش کیا جس کی توثیق اب ہونے لگی ہے! اشاعرہ کے بارے میں اقبال مزید لکھتے ہیں:۳۹؎ اشاعرہ کے نظریۂ تخلیق کا دوسرا اہم پہلو وہ ہے جس میں اعراض کا مسئلہ زیرِ بحث آ جاتا ہے۔ اشاعرہ کا خیال تھا کہ جوہر کی ہستی قائم رہتی ہے تو اعراض کی مسلسل تخلیق سے۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالیٰ اعراض کا سلسلہ، تخلیق روک لے تو جوہر کی ہستی بطور جوہر ختم ہو جائے گی۔ اب ہر جوہر کو اپنی جگہ کچھ صفات مستلزم ہیں، خواہ یہ صفات مثبت ہوں یا منفی جن کا اظہار ہمیشہ دو دو کے مجموعوں اور اضداد کی شکل میں ہوتا ہے، مثلاً موت و حیات یا حرکت اور سکون کی شکل میں، مگر جن کو عملاً کوئی ثبات حاصل نہیں۔ یوں دو قضیے ہمارے سامنے آتے ہیں: (ا) بہ اعتبار ماہیت کسی شے کو قرار نہیں۔ (۲) جوہر کا صرف ایک نظام ہے۔ ’’لہٰذا روح بھی مادے ہی کی ایک لطیف شکل ہے یا محض عرض۔ اقبال نے مؤخرالذکر بات کو مادہ پرستی قرار دیا اور کہا کہ اشاعرہ کا یہ خیال کہ نفس ایک حادثہ ہے خود ان کی اپنی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ البتہ مقدم الذکر بات میں امکانات کا ایک پورا جہان پوشیدہ ہے، اور یہ بات ارسطو کے نظریے یعنی ’’کائنات حدود میں پابند ہے‘‘ کے برعکس اقبال کے اس نظریے کے مطابق ہے کہ ’’صدائے کُن فیکوں‘‘ دم بدم سنائی دے رہی ہے۔ اقبال نے اشاعرہ مکتبۂ فکر کے تصورِ زماں پر بھی بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ اس سلسلے میں اشاعرہ نقطۂ نظر غالباً مسلمانوں کے ہاںدہر کو سمجھنے کی پہلی کوشش ہے۔ اشاعرہ کے مطابق وقت ’’اَب‘‘ کی اکائیوں کے تسلسل کا نام ہے۔ اقبال نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ اگر اس نظریے کو مان لیا جائے تو پھر دو لمحوں کے درمیان ایک ایسے لمحے کے وجود کو بھی ماننا پڑے گا جو وقت کے عنصر سے خالی ہے۔ یوں وقت کا سارا تصور ہی باطل ہو کر رہ جائے گا۔ اقبال لکھتے ہیں کہ اشاعرہ مکتبۂ فکر نے مادی ذرے اور وقت کے ذرّے کو الگ الگ رکھا اور ان میں کوئی رشتہ دریافت نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں اقبال نے زمان کے بارے میں صوفی شاعر عراقی کا نظریہ بھی پیش کیا ہے ۔ عراقی کے مطابق زمان کی کئی اقسام ہیں۔ مادی اجسام کا ایک وقت ہے جسے ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ غیر مادی اشیا کا وقت بھی اسی نوعیت کا ہے ، اس فرق کے ساتھ کہ بعض اوقات مادی جسم کا ایک پورا سال غیر مادی اشیا کے محض ایک دن کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے بعد الوہی وقت ہے جو تغیر اور تقسیم سے ماورا ہے، جس کا نہ آغاز ہے اور نہ انجام ۔ لہٰذا الوہی وقت میں ساری تاریخ اپنے تاریخی ارتقا کو تج کر ایک ہی لازوال ’’اَب‘‘ میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اقبال اسی نظریے کے مؤید ہیں اور اس سلسلے میں برگساں کے زمانِ مسلسل کے نظریے سے بھی انھوں نے تاثرات قبول کیے ہیں۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اقبال علم اور عشق یا عقل اور عشق کا موازنہ کرتے ہیں تو اس کے پس پشت ان کے ہاں اُبھرنے والے ’’مرورِ زماں (Serial Time) اور زمانِ ابدی (Eternal Time)کے فرق کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے، ورنہ اگر یہ بات مد نظر رہے تو پھر اقبال کے تصورِ عشق کے بارے میں کوئی غلط فہمی باقی نہیں رہ سکتی۔ اقبال کا ’’عشق‘‘ مزاجاً ایک ایسی نفسی کیفیت ہے جو زمانِ ابدی کا احساس دلا سکتی ہے جب کہ عقل اپنے تجزیاتی عمل اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے باعث وقت کے صرف اس رُوپ ہی کو جان سکتی ہے جو تین زمانوں یعنی ماضی ، حال اور مستقبل میں منقسم ہے۔ مزاجاً بھی عقل اجزا کو جوڑ کر تعقلات قائم کرتی ہے، لیکن عشق جست کے ذریعے ’’اکائی‘‘ کا ادراک کرتا ہے کہ خود عشق کے اندر محسوسات کی تفریق موجود نہیں اور وہ بجائے خود ایک ’’اکائی‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اشاعرہ مکتبۂ فکر کی سب سے بڑی فتح اس بات میں ہے کہ اس نے الغزالی ایسا مفکر پیدا کیا جو ابتدائً صوفی مسلک رکھتا تھا لیکن بعدازاں صوفی اثرات سے آزاد ہو کر اشاعرہ مکتبۂ فکر میں شامل ہو گیا۔ الغزالی کا مرکزی نظریہ یہ تھا کہ فلسفے کو مذہبی فکر کی اساس قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سچائی تک صرف عرفان ہی کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ فلسفے کے بارے میں اس کا یہ موقف تھا کہ اسے مذہب کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، مگر جہاں تک عرفان کا تعلق ہے وہ مذہبی فکر ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس سلسلے میںالغزالی نے یہ بھی کہا کہ معرفت کے لیے ’’وجد‘‘ ضروری ہے ورنہ کوئی بھی شخص روحانی تجربے تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ الغزالی کے مطابق انسان کے جسم میں اللہ نے رُوح پھونکی ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے سورج اپنی شعاعیں باہر کی طرف پھینکے اور ان اشیا کو حرارت ملے جن پر یہ شعاعیں پڑیں۔ روح کا کوئی حجم یا شکل صورت نہیں مگر وہ جسم پر اسی طرح حکومت کرتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ دنیاپر۔ اس روح کا امتیازی وصف اس کا ’’ارادہ ‘‘ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ’’کُن‘‘ ہی سے کائنات کو تخلیق کیا تھا، لہٰذا خدا کائنات میں جاری و ساری نہیں بلکہ اس کے حکم سے کائنات معرضِ وجود میں آئی ہے۔ الغزالی کے مطابق وجود کی تین سطحیں ہیں: ۴۰؎ ۱۔ عالم الملک : جس میں حواس کے ذریعے کائنات کا ادراک ہوتا ہے۔۔۔ اس کائنات کا جو ہر دم تغیر پذیر ہے۔ ۲۔ عالم الملکوت: تغیر نا آشنا اور لازوال حقیقت کی وہ دنیا جو خدا کے حکم سے عالمِ وجود میں آئی۔ مادے کی دنیا دراصل اسی لازوال حقیقت کا محض ایک عکس ہے۔ ۳۔ عالم الجبروت : یعنی وہ درمیانی صورت جو ہے تو عالم الملکوت کے دائرے میں مگر نظر عالم الملک کے دائرے میں آتی ہے۔ انسانی روح اس درمیانی منطقے کی شے ہے جو درحقیقت تغیر نا آشنا اور لازوال حقیقت سے منسلک ہے مگر بظاہر عالم الملک کی گرفت میں ہے۔ تاہم آخر میں وہ(یعنی روح) لازوال حقیقت کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ مختصراً یوں کہنا چاہیے کہ الغزالی اُس عارفانہ کیفیت کا مؤید ہے جو وجد کے دوران میںحاصل ہوتی ہے اور جس کے نتیجے میں انسانی روح مادی سطح سے اُوپر اٹھ کر لازوال حقیقت کی سطح پر آ جاتی ہے۔الغزالی نے مذہب کے دائرے میں صوفیانہ تصورات کو سمیٹ کر عقل اور وجدان میں جو مفاہمت قائم کی ، اس کے نہایت دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ خود اقبال کے ہاں عشق کے ساتھ عقل کو تسلیم کرنے کا رویہ مذہب اور فلسفے کو ایک دوسرے کے قریب لانے ہی کی ایک مستحسن کاوش ہے۔ (۴) معتزلین کے فکری نظام نے ایک طرف تو اشاعرہ مکتب فکر کو تحریک دی اور دوسری طرف ایسے مفکرین کے لیے راستہ ہموار کر دیا جنھیں عرب دنیا نے ’’فلاسفہ‘‘ کا نام دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوںنے اپنے افکار کی بنیاد یونانی فکر پر استوار کی اور یونانی کتب کا براہ راست مطالعہ کر کے اپنے نتائج کو نو افلاطونی مفکرین کے افکار کی نہج پر لے آئے۔ بحیثیت مجموعی ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے وجدانی انداز فکر کے مقابلے میں منطقی اور سائنسی اندازِ فکر کو اہمیت دی اور اس سلسلے میں ارسطو کے افکار سے بطور خاص فیض پایا۔ ان فلاسفروں کی سب سے بڑی عطا یہ ہے کہ انھوں نے بے دلیل اندھے وشواس کی فضا میں ایک ایسے بُعد کا اضافہ کیا جو ان کے اپنے زمانے کے لیے بالکل نیا تھا۔ انھوں نے فلسفے کو استخراج نتائج کے سلسلے ہی میں نہ برتا بلکہ ایک فکری رُو کو وجود میں لا کر ذہن کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ اقبال کے رگ وپے میں مذہبی سوچ اس قدر رچی بسی ہوئی تھی کہ اگر انھوں نے مغرب اور مشرق کے فلاسفروں کا مطالعہ کر کے تجزیاتی اور استقرائی اندازِ فکر کو نہ اپنایا ہوتا تو ان کا فکری نظام بھی شاید اکہرا ہی رہ جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وجدانی سوچ ہی اصل حقیقت کا ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر خود وجدانی سوچ کی بہتر کارکردگی کے لیے منطقی سوچ کار آمد ہے۔ اقبال اس حقیقت سے آگاہ تھے۔ علاوہ ازیں انھوں نے فلسفے کا غائر نظر سے مطالعہ بھی کر رکھا تھا لہٰذا وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عقل ، وجدان کی حریف نہیں بلکہ ایک خاص مقام تک وجدان کا ساتھ دینے پر مامور ہے۔ اس کے بعد اس کے پَرجلنے لگتے ہیں۔ مگر جن مسلمان فلاسفروں کا اُوپر ذکر ہوا ان میں سے بیشتر عقل کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے، مثلاً الکندی کہتا ہے کہ ہمارا علم یا تو حسیات کا مرہون منت ہے یا عقل کا۔ حس اور عقل کے درمیانی منطقے میں تخیل کی حکم رانی ہے۔ حسیات اشیا کی مادی صورت کو گرفت میں لیتی ہیں لیکن عقل ان کے عمومی یا روحانی پہلو کا ادراک کرتی ہے۔ حس اور عقل کی دونوںدُنیائیں ایک دوسری سے منسلک ہیں۔۔۔ ایسے ہی جیسے کوئی ناتراشیدہ سل کسی تراشیدہ سل کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ الکندی نے روح کی چار صورتوں کی نشان دہی کی ہے۔۴۱؎ پہلی وہ جو اصل حقیقت ہے، علتِ اولیٰ اور جوہرِ اعظم ہے۔ دوسری صورت تعقل کی وہ قوت ہے جو انسانی روح کو ارزانی ہوئی ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جو جوہر کو نئے امکانات کی خاطر استعمال کرتی ہے اور چوتھی قسم اس عمل کی صورت ہے جس کی مدد سے روح کے بطون میں چھپی ہوئی حقیقت کو اس حیثیت تک منتقل کیا جاتا ہے جو باہر ہے۔ چنانچہ الکندی کے مطابق ’’عقلِ مستفاد‘‘ کا لبِ لباب یہ ہے کہ اشیا کے بارے میں سارا علم باہر سے آتا ہے۔ الکندی کے مطابق روحِ کُل اور مادی زندگی کے عین درمیان روح کا دیار ہے۔ روح کے اس دیار سے انسانی روح برآمد ہوتی ہے اور ہر چند کہ وہ جسم سے بندھی ہوتی ہے مگر اپنے روحانی جوہر کے اعتبار سے دیکھیے تو جسم سے آزاد بھی ہے۔ الکندی کہتا ہے کہ ہماری روح ایک لازوال شے ہے جو عقل کے دیار سے حسیات کے دیار کو منتقل ہوئی ہے۔ یہ نیا مادی گھر اسے ناپسند ہے کہ یہ دراصل دُکھوں کا گھر ہے اور اس لیے وہ اپنے اصل کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ حسیات کی مادی زندگی ہر دم تغیر پذیر ہے مگر عقل کی دنیا پائیدار ہے اور ہمیں اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ الکندی کے بعد فارابی کا ذکر ہونا چاہیے۔ فارابی کے مطابق اصل حقیقت روحِ کل ہے جس کے کئی مدارج ہیں۔ اللہ تعالیٰ روح کی خالص ترین صورت ہے جب کہ وہ روحیں جو اس سے برآمد ہوتی ہیں کثرت کامظاہرہ کرتی ہیں۔ ان میں سے جو روح خالص روح سے جتنی دُور ہو جاتی ہے، وہ اسی نسبت سے روحِ کل سے بیگانہ ہونے لگتی ہے۔ روحِ کل ہی سے انسان اپنی فطرت اخذ کرتا ہے جو تعقل کے سوا اور کچھ نہیں۔ فارابی کے مطابق عرفان کے لمحات یا تجلی کے کوندے یہ سب اس درمیانی منطقے کی چیزیں ہیں جو حسیات کی دنیاکو خالص تعقل کی دنیا سے جدا کرتا ہے۔ یوں لگتاہے جیسے فارابی نے نظامِ شمسی کی تمثیل پر اپنے فطری نظام کی بنیاد رکھی ہے۔ سورج عقلِ کل ہے جس سے شعاعیں نکلتی ہیں۔ جو سیارہ سُورج کے زیادہ قریب ہے وہ سورج کی روشنی سے نسبتاً زیادہ فیض پاتا ہے، مگر جو سیارہ زیادہ فاصلے پر ہے وہ اسی نسبت سے سورج کی روشنی سے محروم رہتا ہے۔ فارابی نے اپنے نظامِ فکر میں عقلی رویے کو بڑی اہمیت تفویض کی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ فارابی خالص تعقل کی تجرید میں پوری طرح گم ہے۔ فارابی کے بعد آنے والوں میں سے ابنِ سینا اور ابنِ رُشد کے ہاں جو کچھ ہے وہ فارابی کے ہاں پہلے سے موجود دکھائی دیتا ہے۔۴۲؎ البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ ابنِ سینا اور ابنِ رُشد کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ ارسطو کا فکر قدیم مذہبی رویے سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مفاہمت کی تمام مساعی کوتج کر ان فلاسفروں نے اپنے افکار کو نسبتہً زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ ان میں سے ابنِ سینا نے نو افلاطونی فکر سے متاثر ہو کر کہا کہ جس طرح کاریگر کے ذہن میں اُس شے کا ہیولیٰ یا تصویر پہلے سے موجود ہوتی ہے جسے وہ بعد ازاں بناتا ہے، بالکل اسی طرح آدمی کی تخلیق سے پہلے اس کی نوع کا تصور خالقِ باری کے ذہن میں موجود تھا۔ گویا تعمیم پہلے ہے اور تجسیم بعد میں۔ خیال کو مادی جسم اسی وقت عطا ہوتا ہے جب وہ حادثے کے ساتھ منسلک ہو کر سامنے آتا ہے۔ ورنہ حادثاتی مرحلے سے گزرنے سے پہلے وہ محض ایک تجرید تھا۔ نیز یہ کہ تجریدی خیالات کا کوئی معروضی وجود نہیں ہوتا۔ ابن سینا کے نام کے ساتھ ’’معقولات ‘‘ کا لفظ چپک کر رہ گیا ہے۔ معقولات سے ابن سینا کی مراد وہ سب کچھ تھا جسے عقل گرفت میں لے سکتی ہے۔ اس کے مطابق منطق کا سفر جلی سے خفی کی طرف ہے۔ نیز ایک سے جو نا قابلِ تقسیم ہے صرف ایک ہی خلق ہو سکتا ہے۔۴۳؎ تاہم ابن سینا کی اصل عطا روح کے بارے میں اس کے تصورات ہیں۔رُوح کی سادہ ترین صورت نباتات میں ظاہر ہوتی ہے جہاں صرف قوت نمو کے کرشمے ملتے ہیں۔ حیوان میں نباتاتی روح بھی موجود ہوتی ہے، مگر وہ اس میں ایک اور عنصر کا اضافہ کر لیتا ہے۔ انسانی روح میں کچھ اور چیزوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور یوں انسانی روح شعور سے متصف ہو جاتی ہے۔ روح کے دو اوصاف ہیں، مشاہدہ اور عمل ! مشاہدے کے خارجی اوصاف میں حسیات کے ذریعے شے کے بارے میں علم حاصل کر کے ’’روح‘‘ کو منتقل کرنا شامل ہے جب کہ مشاہدہ کے خارجی اوصاف میں ایک تو ’’المصورہ‘‘ کا عمل ہے جس کی مدد سے روح ، حسیات کے وسیلے کے بغیر، تخیلی طور پر شے کا ادراک کرتی ہے۔ دوسرا ’’المفکرہ‘‘ کا عمل ہے جس کی مدد سے روح منسلک اوصاف میں سے کسی ایک کو دوسروں سے الگ کرنے پر قادر ہے یا جو اوصاف منسلک دکھائی نہیں دیتے، انھیں مربوط کرتی ہے۔ تیسرا ’’الوھم‘‘ کا عمل جس کی مدد سے ایسے متعدد خیالات سے جو مجتمع کیے گئے ہوں نتائج کا استخراج ہوتاہے اور چوتھا ’’الحافظہ‘‘ جو ان نتائج کو محفوظ رکھتا ہے۔ انسان اور جانور اشیا کا ادراک حسیات کی مدد سے کرتے ہیں لیکن پھر انسان کو یہ سعادت حاصل جاتی ہے کہ وہ عقل سے کلیات کا ادراک کرے۔ عقل انسانی کو اپنی صلاحیت کا شعور ہوتا ہے یہ ایک بالکل منفرد شے ہے درآں حالیکہ یہ جسم کے ساتھ وابستہ بھی ہے۔ یہ امکان کہ اسے علم براہ راست حاصل ہو سکتا ہے، یعنی حسیات کی مدد کے بغیر ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی بقا کا دارومدار جسم پر نہیں، یعنی یہ روح لازوال ہے۔ ہر ذی روح اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ اس کے پاس صرف ایک ہی روح ہے مگر یہ رُوح جسم کے خلق ہونے سے پہلے موجود نہیں تھی بلکہ جب جسم کو بنایا گیا تو یہ روح بھی عقل کل سے پہلی بار برآمد ہوئی۔۴۴؎ فارابی کے افکار کی ترویج کے سلسلے میں ابن باجہ کے نام کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس نے نو افلاطونی نظریات کو تعمیری انداز میں مرتب کرتے ہوئے حیوانی اور انسانی پہلوئوں کے ما بہ الامتیاز کو اس طور بیان کیا کہ حیوانی پہلو جذبات سے عبارت ہوتا ہے جب کہ انسانی پہلو تعقل کی رہنمائی میںنکھرتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ انسانی عقل عقل کل ہی سے ماخوذ ہے اور انسانی زندگی کی خوبصورتی اس بات میں ہے کہ ان دونوں کا اتصال ہو۔۔ کشف کے بارے میں ابن باجہ کا یہ خیال ہے کہ کشف سے سچائی کی تصویر سامنے نہیں آتی۔ سچائیوں سے تعارف حاصل کرنا ہو تو ارسطو کے افکار کو رہنما بنایا جائے، گویا ابن باجہ صحیح معنوں میںنو افلاطونی افکار کا مؤید ہے اور تعقل کو عرفان پر ترجیح دینے میں پیش پیش ہے، حالانکہ خود عقلی سطح کی سچائیاں بھی اس لمحۂ خود فراموشی ہی کی پیداوار ہیں جس میں تعقل کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔ آرتھر کوئسلر (Arthur Koestler)نے اپنی دلچسپ کتابThe Sleep-Walkersمیں کپلر اور بعض دوسرے سائنس دانوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کس طرح ان کے ہاں سائنس کے بعض انکشافات الہامی سطح پر ہوئے نہ کہ عقل کے تجزیاتی عمل کے ذریعے۔ مگر مسلمان فلاسفر ارسطو کے افکار سے اس درجہ متاثر تھے کہ انھوں نے تعقل کی کارکردگی کے مقابلے میں کشف و وجدان کی صورتوں کو پس پشت ڈال دیا۔ تاہم مسلمان صوفیہ نے اس کمی کی پوری طرح تلافی کر دی مگر اس کا ذکر آگے آئے گا۔ مسلمان فلاسفروں میں آخری اہم نام ابن رُشد کا ہے۔ ابن رُشد صحیح معنوں میں ارسطو کا شاگرد ہے اور اس کا یہ خیال ہے کہ ارسطو کو وہ مقام حاصل ہو چکا ہے جس تک کوئی اور پہنچ نہیں سکتا۔ پھر جس طرح ارسطو نے اپنے استاد افلاطون کو ہدف تنقید بنایا تھا، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ ابن رُشد نے ابن سینا پر تنقید کی ہے اور کہیں کہیں تو وہ فارابی اور ابن باجہ سے بھی منحرف ہو گیا ہے۔ا بن رُشد کے مطابق صورتیں(Forms)بھوتوں کی طرح مادے کی دنیا میں آوارہ خرام نہیں ہیں بلکہ وہ مادہ میں اسی طرح موجود ہیں جیسے جرثومے۔۴۵؎ یہ خیال ارسطو کے اس نظریے ہی کے مطابق ہے کہ ہر شے کے بطن میں جو ہر یا خیال موجود ہے اور سارا تغیر اس خیال کے کھلنے اور تکمیل پانے ہی کا ایک خارجی مظہر ہے۔ گویا اشیا محض پرچھائیں نہیں بلکہ امثال کی حامل ہیں۔ ابن رُشد کے مطابق مسلسل وجود میں آنے کا ایک ازلی و ابدی سلسلہ جاری ہے۔ مراد یہ کہ ایک لازوال حرکت کا عمل ہر جگہ موجود ہے۔ مگر حرکت محرک کے بغیر ممکن نہیں اور ابن رُشد کو محرک اوّل کا جوہر عقل کے بطون میںصاف نظر آتا ہے۔ محرک اوّل ایک اصول ہے، ابتدائی صورت ہے اور تمام اشیا کی منزل ہے۔ ابنِ رُشد کے مطابق انسانی روح جسم کے ساتھ اسی طرح ہم رشتہ ہے جیسے صورت مادے کے ساتھ! انسان میں عقل بالفعل اور عقل ہیولانی دونوں موجود ہیں۔ عقل بالفعل کو عقل فعال متحرک کرتی ہے اور متحرک ہونے کے بعد وہ عقلِ مستفاد بن جاتی ہے۔ عقل کے انفرادی رُوپ ہزار ہیں مگر عقل فعال کا روپ صرف ایک ہے، مگر یہ روپ ہر شے میں موجود ہے بالکل جیسے سورج ایک ہونے کے باوصف لاکھوں اشیا میں منعکس ہو کر لاکھوں سورجوں میں بٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں نے عقل ہیولانی کو انفرادیت کا حامل قرار دیا تھا۔ ابن رُشد نے اسے عقل فعال ہی قرار دیا اور کہا کہ اس کی انفرادیت صرف اس بات میں ہے کہ اس نے ایک خاص جسم میں بسیرا کر رکھا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ کہنا چاہیے کہ ابنِ رُشد کے تین کلماتِ کفر نے اسے مذاہب کی نظروں میں گردن زدنی قرار دیا، اس حد تک کہ ، بقول محمد لطفی جمعہ، تبراک نے اسے گالیاں دیں اور دانتے نے تو اسے ایک خاص عزت دی یعنی اسے ایک ایسا روحانی پیشوا قرار دیا جس نے اپنے کفر و اعتزال کی بنا پر دوزخ میں جگہ محفوظ کر لی ہے۔۴۶؎ ابن رُشد کا پہلا کلمۂ کفر یہ تھا کہ مادے کی دنیا بھی لازوال ہے۔ دوسرا یہ کہ انسانی روح لازوال نہیں بلکہ روح کل میں ضم ہو جاتی ہے۔تیسرا یہ کہ ہر واقعے کی ایک علت ہوتی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ ابن رُشد کی دنیا میں معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو کوئی اہمیت حاصل نہیں تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ اس قسم کے خیالات کو کٹر مذہب پرستوں بالخصوص عیسائیوں کے شدید ردِّ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ابنِ رُشد نے جذب کی حالت کی نفی کرکے اور عقلی رویے کو اہمیت دے کر ایک ایسے نظامِ فکر کو فروغ دیا جسے احیاء العلوم کے ذریعے یورپ والوں نے قبول کر لیا جب کہ مسلمان مفکرین کئی سو برس کے نو افلاطونی افکار کی ترویج اور تجزیے کے بعد کشف اور عرفان کی طرف مڑ گئے ۔ چنانچہ پروفیسر نصر نے لکھا ہے کہ عین اس وقت جب ابن سینا اور ابن رُشد کے ذریعے مغرب کو ارسطو مت سے تعارف حاصل ہو رہا تھا اسلامی دنیا میں اسے ایک عقلی نظام کہہ کر مسترد کیا جا رہا تھا۔۴۷؎ (۵) معتزلین نے جو راستہ ہموار کیا تھا اس کا تیسرا نتیجہ صوفیہ کی ایک باقاعدہ تحریک کے سلسلے میں برآمد ہوا اور اقبال کے تصوراتِ عشق سے متعارف ہونے کے لیے اس تحریک کا جائزہ بھی ضروری ہے۔۔ اس لیے بھی کہ اقبال پیر رومی کے مرید ہیں اور رومی کو صوفیا کی صف میں ایک مقامِ امتیاز حاصل ہے۔ تاہم اس پیری مریدی کا مطلب یہ نہیں کہ خود اقبال بھی ایک صوفی ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ انھوں نے اپنے مسلک کی تعمیر میں صوفیانہ تصورات کو بھی اسی طرح برتا ہے جیسے اشاعرہ مکتب یا خالص مسلمان فلاسفروں کے افکار کو۔ حقیقت عظمیٰ کو جاننے کے لیے آج تک دو اہم راستے اختیار کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک راستہ تو عقل اور منطق سے روشن ہے، دوسرا وجدان اور مذہبی سوچ سے منور ہے۔ مگر مذہبی سوچ کے سلسلے میں بھی دو رویے نظر آتے ہیں۔ ایک تواندھے وشواس کا رویہ ہے جو دل سے مانتا ہے دلیل سے نہیں ، جب کہ دوسرے رویے کے مطابق جاننے اور محسوس کرنے کا عمل وجدانی اور وہبی ہے، لیکن اس عمل سے جو راز منکشف ہوتے ہیں انھیں عقل اور اس کے حربے یعنی زبان اور منطق ہی گرفت میں لینے پر قادر ہیں۔ بلکہ اصل بات شاید یہ ہے کہ عقل زمین ہموار کرتی ہے اور سالک کو بتدریج ارتکاز کے اس مرکزی نقطہ پر لے جاتی ہے جہاں وہ عقل کے طریق کار کو چھوڑ کر عشق کے طریقِ کار کو اپنا لیتا ہے۔ صورت کوئی بھی ہو مذہب کا یہ پہلو عقل اور عشق میں ایک ہم آہنگی سی ضرور پیدا کرتا ہے۔ اقبال مذہب کے اسی رویے کے مؤید ہیں۔ چنانچہ جہاں وہ اُن مفکرین کو ہدف تنقید بناتے ہیں جنھوں نے محض عقل کی مدد سے حقیقت کو پالینے کی کوشش کی، وہاں وہ ان لوگوں کو بھی ناپسند کرتے ہیں جو اس دنیا اور اس کی حقیقتوں کی نفی کر کے رہبانیت کو حرزِ جاں بنا لینے پر سدا مستعد دکھائی دیتے ہیں۔ تصوف کے سلسلے میں بھی اقبال کا رویہ یہ ہے کہ موجود کی نفی انھیں قبول نہیں ، مگر حقیقت کے ادراک کا وہ صوفیانہ عمل جس میںوجدان اور فکر گویا ہم آہنگ ہو جاتے ہیں انھیں پسند ہے۔ رومی سے اقبال کے تعلق خاطر کا یہی سبب ہے۔ اقبال نے عشق اور خرد کے مسائل کے سلسلے میں جو رویہ اختیار کیا اس کی تعمیر میں صوفیانہ مسلک کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ لہٰذا مناسب ہو گا کہ آگے بڑھنے سے قبل صوفیانہ تصورات کا ایک اجمالی جائزہ لے لیا جائے۔ تصوف کی کہانی مصر کے ذوالنون سے لے کر ایران کے جلال الدین رومی تک پھیلی ہوئی ہے۔ دراصل تصوف فلسفے اور مذہب کا آمیزہ ہے ۔ فلسفے سے اس نے نہ صرف یہ رویہ اخذ کیا کہ معرفت کے مقامات کا تجزیہ اور تعین کیا جائے بلکہ حقیقت عظمیٰ اور اس کی مخلوق کے رشتے کی نوعیت پر بھی غور کیا جائے۔ مذہب سے اس نے یہ بات اخذ کی کہ ’’حقیقت عظمیٰ‘‘ کو عقل و خرد کے ذریعے نہیں بلکہ وجدانی اور وہبی طریق ہی سے جانا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اکثر صوفیا کے ہاں نہ صرف ’’ذکر‘‘ پر زور دیا گیا ہے اور ’’طریق‘‘ اور اس کے ’’مقامات‘‘ اور ’’احوال‘‘ پر کھل کر باتیں کی گئی ہیں بلکہ وجد اور جذب کے ان تجربات سے گزرنے کامظاہرہ بھی ہوا ہے جنھیں بیان کرنا ناممکن ہے۔ شمس تبریز وجد اور جذب کی علامت ہے۔ وہ ان پڑھ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے تجربات کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ دوسری طرف جلال الدین رومی ہے جو شاعر ہے اور نہ صرف ان تجربات کی نشان دہی کرنے پر قادر ہے بلکہ تصوف کے مقامات اور مدارج کا تجزیہ کرنے کا بھی اہل ہے۔ گویا اگر شمس تبریز اور جلال الدین رومی کی روحوں کو ایک ہی جسم میںبند کر دیا جائے تو تصوف کا صحیح مزاج اُبھر آئے گا۔ ایک ایسا مزاج جس کی بالائی سطح فلسفے اور منطق سے اور زیریں سطح جذب و کیف سے عبارت ہے۔ تصوف کے ماخذات میں سے ایک اہم ماخذ قرآن حکیم ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بہت سے صوفیا نے قرآن سے یقینا روشنی حاصل کی ہے، مثلاً قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرضِط اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے(۲۴:۲۵) ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ۔ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْم۔ وہ اوّل بھی ہے اور آخر بھی ظاہر بھی اور باطن بھی اور اسے ہر شے کا علم ہے(۵۷:۳) وَلَقَدْ َخَلقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبلِ الْوَرِیْدِ۰ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا نفس اس سے کیا کہتا ہے۔ ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔(۵۰:۱۶) یہ سب ارشادات تصوف کے اس مرکزی اور بنیادی نظریے ہی کی اساس ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر محیط ہے، لازوال ہے اور کوئی شے بھی اس کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں۔ اسلامی تصوف میں اوّل اوّل پاکیزگی نفس پر بہت زور دیا گیا مگر پاکیزگی نفس کا یہ درس رہبانیت کی وہ صورت نہیں تھا جو اُن ایام کے عیسائیوں میں ایک باقاعدہ سلسلہ کی حیثیت رکھتی تھی۔اسلام نے رہبانیت کے میلان کو کبھی قبول نہیں کیا مگر اس نے سادگی اور توکل اور رضا اور محبت کا یقینا درس دیاچنانچہ ابتدائی دور میں مسلمان صوفیا کے ہاں پاکیزگی نفس کا مفہوم اس درس کے مطابق زندگی گزارنے ہی میں مضمر تھا۔ اسلامی تصوف کے دوسرے مآخذات کے سلسلے میں نو افلاطونی ، ایرانی ، بدھ مت اور ویدانت کے تصورات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔برائون ۴۸؎نے تصوف کی ابتدا کے بارے میں چار اہم نظریوں کا حوالہ دیا ہے۔ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ تصوف دراصل رسول اکرم ﷺ کے ارشادات سے ماخوذ ہے۔ دوسرا یہ کہ تصوف سامی مذہب کے خلاف ایک آریائی ردِّ عمل ہے۔ تیسرا یہ کہ اس پر نو افلاطونیت کے اثرات مرتسم ہیں اور آخری یہ کہ تصوف نے ایران کی سرزمین سے جنم لیا ہے۔ دوسری طرف نکلسن کا موقف یہ ہے کہ ان میں سے ہر مکتبہ فکر میں سچائی کی رمق موجود ہے۔۴۹؎ ویسے اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں تصوف کی نمود دراصل اس کا احیا ہے، آغاز نہیں۔ اس کی ابتدائی کڑیاں تو آٹھویں صدی قبل از مسیح کے لگ بھگ وجود میں آئی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انسان کی روحانی بنیادیں قائم ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ہندوستان میں یہ اُپنشدوں اور بدھ مت اور جین مت کا زمانہ تھا، ایران میں زرتشت اور متھرامت کا، یونان میں یونانی مفکرین اور فلسطین میں ایلجا، جرمیاہ، اشعیا وغیرہ پیغمبروں کا۔۔۔ بعدازاں جب تیسری صدی عیسوی میں اسکندریا کے پلاٹینس Plotinusنے نو افلاطونیت کا پرچار کیا اور آٹھویں نویں صدی عیسوی میں شنکر اچاریہ نے ہندوستان میں وحدت الوجود کے احیا کی کوشش کی اور ایران میں تصوف نے قدیم آریائی تحرک کو تقویت بخشی تو دراصل یہ سب کچھ روح اور جسم، آریا اور غیر آریا کے اس تصادم ہی کا نتیجہ تھا جس کی اوّلین لہر کئی سو برس پہلے پیدا ہوئی تھی۔ ۵۰؎ باایں ہمہ اسلامی تصوف پر جن قریبی مسالک نے اثرات مرتسم کیے ان میں شاید اہم ترین مسلک نو افلاطونیت کا تھا۔ دراصل اسلامی دور سے پہلے ہی نو افلاطونی اثرات شام اور ایران پر ثبت ہو چکے تھے۔ اس سلسلے میں پلاٹینس کی Ensکی آخری تین کتابوں کی جو تلخیص Theology of Aristotle کے نام سے مرتب ہوئی (اور جسے اس زمانے کے مسلمان مفکرین میں سے بیشتر نے غلطی سے ارسطو کی تصنیف سمجھ لیا)اس سلسلے میں سب سے اہم محرک ثابت ہوئی۔ ویسے یہ بات فراموش نہیں کرتا چاہیے کہ پلاٹینس کے ذریعے تصوف کا جو طریق سامنے آیا وہ نوعیت کے اعتبار سے فلسفیانہ تھا، نہ کہ مذہبی ۔ تصوف میں مذہبی سوچ کی آمیزش ایک خالص مشرقی رویہ ہے اور یہ رویہ کچھ تو اسلام سے براہ راست آیا، کچھ قدیم ایرانی مذاہب سے، کچھ بدھ مت اور کچھ ویدانت سے ! اس زمانے کے بلخ میں تو بدھوں کے مندر تک موجود تھے اور خود ابراہیم بن ادہم جو بلخ کے شہزادوں میں سے ایک تھا گوتم کی تقلید ہی میں تخت و تاج سے دست بردار ہو گیا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بدھ مت کے اثرات محض سطح کی بات تھی اور تصوف کے نظریۂ فنا کی مماثلت بدھ مت کے ’’نروان‘‘ سے اس قدر نہیں تھی جتنی ویدانت کے نظریۂ فنا سے۔۵۱؎ ایران کے بایزید بسطامی کے بارے میں تو عام خیال ہی یہ ہے کہ اس نے فنا کا جو تصور پیش کیا اور بعدازاں اس کے متوازی ’’بقا‘‘ کے جس تصور کی ترویج کی ، وہ براہ راست ہندوستانی تصوف کا اثر تھا۔ فنا کا مطلب تھا ذات یا خود کی نفی اور بقا کا مطلب تھا ذات واحد میں ضم ہو جانا۔بایزید بسطامی اپنے بعد آنے والے صوفیا کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی شطحیات کا بار بار ذکر ہوا ہے۔ فنا اور بقا کا یہ تصور ایک بڑی حد تک وارداتی تھا۔ دراصل تصوف میں وجد کا جو سلسلہ مصر کے ذوالنون سے شروع ہوا تھا اس کے علم برداروں میں بایزید بسطامی، منصور الحلاج اور شمس تبریز اور بعض دوسرے صوفیا کے نام شامل ہیں۔ یہ لوگ ایک ایسے صوفیانہ مسلک کے علم بردار دکھائی دیتے ہیں جس کی اساس مذہبی سوچ پر استوار ہے۔ ان میں سے حلاج کا یہ نظریہ تھا کہ خدا نے ، جو دراصل ’’محبت‘‘ کا دوسرا نام ہے ، انسان کو اپنی شکل و صورت دے کر پیدا کیا اس مقصد کے ساتھ کہ اس کی یہ مخلوق اس سے محبت کرے اور یوں اپنی قلبِ ماہیت کر کے خدا کی ذات کو اپنے وجود میں منعکس دیکھے۔ حلاج کا نظریہ سریانی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس نے ’’حلول‘‘ کا نظریہ پیش کیا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ خدا کی روح انسانی روح میں اسی طرح داخل ہوتی ہے جیسے پیدایش کے وقت انسان کی روح اس کے جسم میں داخل ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ قبل از اسلام کے ایرانی مذاہب اورنو افلاطونی تصورات کی آمیزش کی ایک صورت ہے۔ اس کے مقابلے میں بایزید بسطامی کا نظریہ سریانی ہے اور اس کے مطابق خدا ایک بحرِ بے کنار ہے۔ وہ جنھیں معرفت حاصل ہوتی ہے خدا کے وجود میں جذب ہو جاتے ہیں۔ گویا قطرہ سمندر میں مل کر سمندر بن جاتا ہے حلاج کے سلسلے میں ایک اور بات کا ذکر بھی ضروری ہے، وہ یہ کہ حلاج نے ’’انسان کامل‘‘ کا تصور پیش کیا جو بعدازاں ابن العربی کی تحریروں اور ایران کی صوفیانہ شاعری کا جزو اعظم بن گیا۔۵۲؎ ہر چند اقبال کے مرد مومن کی تعمیر میں ایک حد تک نیطشے کے فوق البشر کے عناصر بھی صرف ہوئے ہیں لیکن قیاس غالب یہی ہے کہ چونکہ اقبال مشرقی تصورات سے بہت زیادہ قریب تھے، اس لیے مردِ مومن کی تعمیر میں ایک بڑی حد تک اس تصور ہی کا ہاتھ ہو گا جس کی ابتدا حلاج سے ہوئی تھی۔ مگر تصوف میں مذہبی تجربے کی آمیزش کی سب سے درخشاں مثال الغزالی نے مہیا کی۔ ابتداً الغزالی الحاد کی طرف مائل تھا مگر ایک روحانی تجربے نے اسے الحاد سے نجات دلائی اور وہ سچائی کی تلاش میں سرگرم عمل ہو گیا۔ الغزالی کے ’’احیا‘‘نے صوفیانہ تصورات کو مذہب کے دائرے میں ایک مستقل مقام تفویض کر دیا، ورنہ الغزالی سے قبل مذہب اور تصوف میں خاصی بڑی خلیج اس لیے حائل ہونے لگی تھی کہ بعض صوفی منش افراد نے مذہب کے احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور وہ ایک ایسی زندگی بسر کرنے لگے تھے جو مذہبی اعتقادات ہی نہیں مذہبی اخلاقیات کی بھی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ مگر چونکہ الغزالی خود روحانی تجربے سے گزر چکا تھا اور تصوف کی ماہیت نیز اس میں سچائی کے عناصر سے اسے براہ راست تعارف حاصل ہوا تھا، اس لیے جب اس نے تصوف اور مذہب کی خلیج کو پاٹ دیا تو ایک معتدل اور متوازن فضا پیدا ہو گئی۔ الغزالی کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ انسانی روح میں اپنے جواہر اور اوصاف کو منعکس کرتا ہے بعینہٖ جس طرح آئینے میں صورت نظر آتی ہے۔ اللہ آفتاب ہے، اللہ خالق ہے اور اس نے کُن سے عالمِ ہست کو پیدا کیا ہے۔ الغزالی نے اسلام میں تصوف کو ذرا سا بدل کر یوں شامل کیا کہ دونوں میں مغائرت باقی نہ رہی۔ اب تک صوفیا نے خدا اور انسانی روح میں ایک گہرے شخصی سطح کے رشتے کو پیش کیا تھا جو عبادت کے اس انداز سے مختلف تھاجس کی اساس احکامات اور روایات پر استوار تھی۔ تاہم ان صوفیا کے مسلک میں نو افلاطونی افکار کی آمیزش کے باوصف تجربے کی چاشنی شامل تھی مگر جیسے جیسے مذہب کی گرفت ڈھیلی پڑتی گئی، احکامات اور روایات سے لگائو بھی کمزور نظر آنے لگا اور باہر کے اثرات زیادہ طاقت ور ہونے لگے تاآنکہ خلافت کے زوال کے بعد سریانی تصور حیات پوری طرح چھا گیا۵۳؎ اور تصوف کے ایک بالکل نئے دور کا آغاز ہو گیا جس کے علم برداروں میں ابن عربی، حافظ ، جلال الدین رومی اور دوسرے صوفیا شامل تھے۔ ان میں سے ابنِ عربی نے ’’وحدت الوجود‘‘ کا نظریہ پیش کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ تمام اشیا بطور تصورات اللہ تعالیٰ کے ’’علم‘‘ میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں جہاںسے وہ برآمد ہوتی ہیں اور جہاں وہ بالآخر واپس چلی جاتی ہیں۔ ساری کائنات اس حقیقتِ عظمیٰ کا خارجی اظہار ہے جس کا داخلی روپ اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان ہی ہے جس میں تمام الوہی اوصاف یک جا ہو جاتے ہیں اور انسان ہی میں خدا ’’اپنے ہونے‘‘ سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے۔۵۴؎ ابن عربی کا نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ اسی فضا میں پروان چڑھا جس میں ارسطو کے خیالات تیزی سے پھیل رہے تھے۔لہٰذا اس میں عقلی اور فلسفیانہ پہلو مذہبی پہلو کے مقابلے میں بہت توانا ہے۔ تاہم ابنِ عربی نے ’’انسان کامل‘‘ کے تصور کو بڑی اہمیت بخشی ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذات ہی کو انسان کامل کے روپ میں دیکھا ہے۔ اس معاملے میں اقبال کا موقف بھی وہی ہے جو ابن عربی کا تھا۔ بے شک ’’انسان کامل‘‘ کے تصور کی حد تک اقبال نے حلاج اور ابن عربی سے اثرات قبول کیے ہیں لیکن جہاںتک رسولِ اکرم ؐ کو ’’انسان کامل‘‘ کے روپ میں دیکھنے کا سوال ہے، یہ بات اقبال کے ایمان کا بھی اسی طرح حصہ تھی جیسے ابن عربی کے ایمان کا۔ لہٰذا گو دونوں نے ایک ہی مسلک کا اظہار کیا ہے تاہم دونوں کو اس سلسلے میں ساری روشنی ’’اندر‘‘ ہی سے مہیا ہوئی ہے۔ ابن عربی۱۲۴۸ء میں فوت ہوا اور ۱۲۵۸ء میں سقوط بغداد کا واقعہ پیش آیا۔ جس سے نہ صرف دورِ خلافت ختم ہو گیا بلکہ سارا قدیم معاشرتی نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔ سقوطِ بغداد کے بعد یہ کھُلا کہ کسی شے کو بھی ثبات نہیں۔ عالم آب و گل کی ہر شے فانی ہے۔ اشیا اور اشخاص ہی نہیں قدریں اور اصول بھی فنا ہو سکتے ہیں۔ تو پھر حقیقی زندگی کون سی ہے جسے دوام ہے، فنا نہیں! جس سے ہم کنار ہو کر خود انسان بھی لازوال ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ تصوف کے فروغ کے لیے یہ ایک نہایت سازگار فضا تھی۔ چنانچہ سقوطِ بغداد کے کچھ ہی عرصہ بعد مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی منظرِ عام پر آئی جس نے ایران میں قریب قریب وہی مقام حاصل کر لیا جو صحیفہ آسمانی کو حاصل ہوتا ہے۔ مگر اب تصوف نے ایک نئی بنیاد پر خود کو مستحکم کرنا شروع کر دیا۔ ابتداً تصوف میںمذہبی تجربے کی آمیزش سے اسے بڑی تقویت ملی تھی مگر پھر نو افلاطونی اثرات کے تحت تصوف سے مذہب کا پہلو منہا ہوتا چلا گیا تاآنکہ ابن عربی تک پہنچتے پہنچتے تصوف ایک بڑی حد تک فلسفے کی صورت اختیار کر گیا۔ تصوف کی بقا کے لیے یہ صورتِ حال کچھ زیادہ سود مند نہ تھی کیونکہ تجربے کی آمیزش کے بغیر اس کا وجدانی پہلو نمایاں نہیں ہو سکتا تھا۔ اسی دوران میں سقوط بغداد اور پھر انتشار اور بدنظمی اور مذہب کی گرفت کم زور پڑنے کے باعث خود تصوف کے لیے یہ بے حد مشکل ہو گیا کہ وہ ایک بار پھر مذہبی تجربے کے اس پہلو سے اخذ و اکتساب کی طرف مائل ہو جو محبت کی اساس پر استوار ہوتا ہے یا رضائے الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کو سب سے بڑی عبادت گردانتا ہے۔ اس کی تلافی یوں ہوئی کہ اب تصوف میں مذہبی تجربے کا وہ پہلو اُبھر آیا جو بنیادی طور پر تخلیق فن کی ایک صورت ہے اور جمالیاتی حظ کی تحصیل کا ذریعہ ہے۔ مراد یہ کہ اب ایسے صوفیا منظر عام پر آگئے جو صوفی کے علاوہ فن کار بھی تھے اور تصوف میںفن کے تخلیقی عمل کی آمیزش سے ایک نیا خون دوڑانے لگے تھے۔ ان صوفیا میں فارسی زبان کے شاعر مولانا جلال الدین رومی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ تصوف میں حصول معرفت کی ایک صورت تو ’’حال‘‘ اور ’’مقام‘‘ اور ’’ورد‘‘اور ’’عبادت‘‘ کے مراحل سے گزرنے کا عمل ہے جو بالآخر جھوٹی خودی کو ’’فنا‘‘ کے سپرد کر کے انسان کو ’’بقا‘‘ کے ان مراحل تک پہنچاتا ہے جہاں وہ ذاتِ باری میں قطعاً گم ہو جاتا ہے مگر اس سارے عمل کو حرکی قوت (Motor Force)عشق ہی بہم پہنچاتا ہے۔ دوسری صورت فنونِ لطیفہ بالخصوص رقص اور شاعری کی سحرانگیز فضا کے تحت بندھنوں کو توڑنے یعنی جھوٹی خودی کی حد بندیوں کو عبور کر کے ’’کل‘‘ میں ضم ہونے کا وہ سلسلہ ہے جو فارسی زبان کے صوفی شعرا کو بہت مرغوب رہا ہے،مثلاً جلال الدین رومی جنھوں نے نہ صرف رقص کو ایک وسیلہ قرار دیا اور اس ضمن میں رقاص درویشوں کے ایک پورے سلسلے کی ابتدا کی، بلکہ شاعری کی وساطت سے ان بہت سے مراحل کو طے بھی کیا جو بصورت دیگر مراقبہ یا ورد سے طے ہوتے ہیں۔ فارسی کی صوفیانہ شاعری کی اصل اہمیت اس بات میں ہے کہ اس نے تصوف کو خالص مذہبی تجربے کے بجائے ایک ایسے جمالیاتی تجربے سے آشنا کیا جو اصلاً تو ایک مذہبی تجربے کی حیثیت رکھتا ہے کہ موجود کو عبور کرکے ماورا سے ہم رشتہ ہوتا ہے، مگر عملاً ایک ایسی صورت ہے جس میں عشقِ مجازی کو عشق حقیقی کے لیے ایک زینے کی حیثیت عطا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک بہت اہم فرق ہے۔ صوفیہ کے مسلک کے مطابق خواہشات ، بالخصوص نفسانی خواہشات ، آئینۂ دل کو گد لا کر دیتی ہیں… اس قدر کہ اس میں ذاتِ واحد منعکس ہو ہی نہیں سکتی، لیکن جب صوفی فنا کے مراحل سے گزرتا ہے یعنی خواہشوں کے اژدہام سے چھٹکارا پا لیتا ہے تو از خود نورِ ازلی کے لیے ایک آئینہ بن جاتا ہے۔ مگر فن کا طریق کار اس سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ صوفی شعراکے ہاں خواہشات کی تکذیب نہیں ہوتی بلکہ ان کی تہذیب ہوتی ہے اور یہی فن کا مسلک بھی ہے۔ چنانچہ شراب اور محبوب اور اس کے سراپا کے تمام لوازم جنھیں پہلے صوفیا نے خوف اور نفرت کی نظر سے دیکھا تھا، صوفی شعرا کے ہاں علامتی روپ اختیار کر گئے، حتیٰ کہ نفسانی سطح کی محبت بھی ایک ارفع جذبۂ عشق میں مبدل ہو گئی ۔ یہ بات شیریں فرہاد اور لیلیٰ مجنوں کی تمثیلوں میں بآسانی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ جلال الدین رومی اور دوسرے صوفی شعرا کے ہاں قلب ماہیت کا یہ عمل شاعری کے ذریعے ہی انجام پایا۔ خود اقبال کے ہاں بھی عشق کا جو تصور اُبھرا وہ نفی ذات کا نہیں بلکہ اثبات ذات کا وہ سلسلہ تھا جسے انھوں نے خودی اور اس کی تکمیل میں صرف کیا۔ مگر غور کیجیے کہ یہ عمل اس لیے مثبت تھا کہ اقبال نے ایک تو مکمل ’’فنا‘‘ کے مراحل سے خود کو بچایا، دوسرے تجرید سے عشق کرنے کے بجائے شاعری کی علامتوں کا سہارا لے کر ایک محبوب ازلی اور اس کے پیغام بر یعنی ایک ’’انسان کامل‘‘ سے محبت کی۔ اقبال کو شاید اسی لیے مولانا جلال الدین رومی سے اس قدر عقیدت تھی کہ ہر چند مولانا نے تصوف ہی کی ترویج کی مگر ان کا سارا طریق مثبت ، شخصی اور جمالیاتی تھا، نہ کہ منفی ، غیر شخصی یا ماورائی! مولانا جلال الدین رومی اور ان کے بعد اقبال کے ہاں عارفانہ تجربہ دراصل ایک جمالیاتی تجربے کی حیثیت رکھتا ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کے ہاں عارفانہ تجربے کی اساس جمالیاتی تجربے پر استوار ہے۔ اس کا ثبوت عارفانہ تجربے کے بارے میں اقبال کا وہ تجزیہ ہے جو ان کی تصنیف تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے پہلے باب میں کیا گیا ہے۔ اس باب میں عارفانہ تجربے کے بارے میں اقبال نے پانچ اہم نکات پیش کیے ہیں: (۱) عارفانہ تجربے میں پہلی بات اشیا اور مظاہر سے قُربت کا احساس ہے۔ تمام تجربات ’’قربت‘‘ سے عبارت ہوتے ہیں، لیکن عارفانہ تجربے میںقرب سے مراد یہ ہے کہ خدا کو بھی اتنے ہی قریب سے جانا جائے جتنا دوسری اشیا کو… مراد یہ کہ عارفانہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ خدا کوئی ریاضی کی اکائی یا مربوط تعقلات کا سلسلہ نہیں جس کا تجربے سے کوئی تعلق نہ ہو۔ عارفانہ تجربے کے بارے میں اقبال کا یہ تصور مذہبی سوچ کا عطر ہے کیونکہ فلسفے کے برعکس مذہب خدا کے وجود کو محسوس کرنے پر قادر ہے اور یہ ایک وارداتی بات ہے، نہ کہ فلسفیانہ ؛ کولن ولسن نے لکھا ہے کہ مذہب کا کوئی بدل نہیں ہے کیونکہ یہ فرد کو ایک انوکھے طریقے سے اس قابل بناتا ہے کہ وہ کائنات کے مفہوم کو گرفت میں لے سکے۔ سائنس ، دُعا یا عبادت کے متبادل کوئی ویسا ہی عمل پیش کرنے سے یکسر قاصر ہے،۵۵؎ اور دعا یا عبادت قُربت کے احساس کے بغیر ممکن نہیں۔ مگر اقبال نے جب’’تجربے کی حضوری‘‘کے الفاظ استعمال کیے تو ان سے اقبال کا اشارہ ان عام تجربات کی طرف نہیں تھا جن سے ہر شخص ہر روز گزرتا ہے، کیونکہ یہ تجربات ایک میکانکی عمل کی حیثیت رکھتے ہیں اور انسان کے علاوہ جانور بھی ان سے ملتے جلتے تجربات سے دوچار ہوتا رہتا ہے۔ اقبال جب تجربے کی قُربت کا ذکر کرتے ہیں تو دراصل اس تجربے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو معنی کشید کرنے پر قادر ہے۔ وائٹ ہیڈ(Whitehead)نے اس سلسلے میں تجربے کی دو صورتوں کی نشان دہی کی ہے…ایک وہ جسے اس نےPresentational Immediacyکہا ہے اور دوسرا جسے اس نےCausal Efficacyکا نام دیا ہے۔ مقدم الذکرسے مراد وہ تجربہ ہے جو شے کے مشاہدہ سے عبارت ہے اور موخر الذکر سے مراد وہ تجربہ ہے جو شے کے مفہوم یامعنی کو گرفت میں لیتا ہے۔ کولن ولسن لکھتا ہے کہ اگر ایک نابینا شخص اور ایک آنکھوں والے شخص کو ایک کمرے میں لایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ دس منٹ کے بعد انھیں کمرے سے باہر لے جا کر یہ پوچھا جائے گا کہ انھوں نے کمرے میں کیا کچھ دیکھا تو ایسی صورت میں نابینا شخص تو کمرے کی ہر چھوٹی شے کی بھی نشان دہی کر سکے گا کیونکہ وہ محض باصرہ پر انحصار نہیں کرے گا بلکہ چل کر ، چھو کر اور پیمائش کر کے کمرے کے بارے میں تمام تر معلومات حاصل کرے گا، مگر آنکھوں والا شخص محض ایک اُچٹتی سی نظر ڈال کر کمرے کے بارے میں ایک تصویر سی ذہن میں محفوظ کر لے گا۔ اس تصویر میں تفاصیل بہت کم ہوں گی مگر یہ کمرے کے’’معنی‘‘کو ضرور پیش کرے گا جب کہ نابینا شخص کے پاس کمرے کے تمام کوائف ہوں گے لیکن پورے کمرے کی تصویر موجود نہیں ہو گی۔۵۶؎ کولن ولسن لکھتا ہے کہ مغرب کا انسان اس نابینا شخص کی طرح ہے جس کی معنی کو گرفت میں لینے کی حِس بہت کمزور ہے جب کہ مشرق کے انسان کی یہ حس بہت تیز ہے، لہٰذا وہ تعقل ، جزو بینی اور تجزیاتی عمل کے بجائے وجدان پر انحصار کرتا ہے اور مشاہدات کے غدر کے پس پشت معنی کی اکائی کو دریافت کر لیتا ہے۔ لہٰذا جب اقبال تجربے کی حضوری کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ عارفانہ تجربے میں خدا یا کائنات کا ادراک ہوتا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی جان دار یا مادی شے کا، مگر یہ اصلاً معنی کو گرفت میں لینے کی ایک صورت ہے، نہ کہ محض قُرب مکانی کے احساس کی ایک صورت ! معنی تک رسائی پانے کے عمل کے لیے وائٹ ہیڈ نے ایک لفظ Prehension بھی استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ معنی کو اسی طرح گرفت میں لیا جائے جیسے مُٹھی کسی شے کو گرفت میں لیتی ہے۔ گویا جب اقبال خدا یا کائنات کو جاننے کے عمل کی بات کرتے ہیں اور اسے عارفانہ تجربے کا ثمر قرار دیتے ہیں تو قُرب مکانی اور قُرب زمانی کی ضرورت پر زور دینے کے علاوہ ایک مخفی مفہوم کو گرفت میں لینے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ یہی بات تخلیق فن کے سلسلے میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے، کیونکہ فنی تجربہ نہ صرف اردگرد کی اشیا سے ایک قریبی تعلق قائم کرتا ہے اور یہ تعلق تشبیہات اور استعارات کے علاوہ حِسی تلازمات کی صورت میں بھی جنم لیتا ہے(نیز خارج کی فارم یا ہیئت کو رنگ، سُریا لفظ کے ذریعے ایک نئی فارم میں منتقل کرتا ہے)، بلکہ جسمانی یا حِسی تجربے کے دوران میں ایک مخفی مفہوم یا معنی کا بھی ادراک کرتا ہے جو اسے عام مشاہدے یعنی ادراک حضوری (Immediacy Perception)سے اوپر اٹھا کر ادراک معنی (Meaning Perception)کی سطح پر لے آتا ہے۔ گویا فن میں معراج بیک وقت جسمانی بھی ہوتی ہے اور روحانی بھی۔ چنانچہ اسی لیے فن کو جسم کے روحانی ارتقا کی ایک صورت قرار دیا گیا ہے۔ یہی کچھ اقبال کے عارفانہ تجربے میں بھی دکھائی دیتا ہے کہ وہاں لا مکان تک ’’مکان ‘‘ کے وسیلے سے رسائی حاصل ہوتی ہے،نہ کہ مکان کی نفی سے۔ لہٰذا اقبال کا عارفانہ تجربہ بنیادی طور پر ایک جمالیاتی تجربہ ہے۔ (۲) اقبال کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عارفانہ تجربہ ایک’’کل‘‘کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب میں اپنے سامنے پڑی ہوئی میز کے وجود سے واقف ہوتا ہوں تو لاتعداد چھوٹی چھوٹی معلومات میز کے تجربے میں صرف ہونے کے لیے مستعد ہو جاتی ہیں۔ مگر میں ان معلومات میں سے صرف وہی انتخاب کرتا ہوں جو کسی زمانی یا مکانی حیثیت میںمیز سے متعلق ہوتی ہیں۔ دوسری طرف عارفانہ کیفیت سے ’’خیال‘‘ کی تخفیف ہو جاتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان عارفانہ تجربے کے دوران میںعام شعور سے بالکل ہی منقطع ہو جاتاہے۔ عام شعور تو گویا ’’حقیقت‘‘ کو ٹکڑوں میں وصول کرتا ہے مگرعارفانہ تجربہ’’ حقیقت‘‘ کے کُل کا ادراک کرتا ہے۔ یوں عام شعور کے تحت ناظر اور منظور کی جو تقسیم معرض وجود میںآتی ہے، عارفانہ تجربے میں باقی نہیں رہتی۔ مراد یہ کہ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کی کیفیت کا تسلط قائم ہو جاتا ہے۔ اقبال کا پیش کردہ یہ نکتہ بھی نہایت خیال انگیز ہے۔ اس میں ایک تو اقبال نے تخفیف کا ذکر کیاہے، دوسرے تجربے کے کُل کا اور تیسرے ’’بے خودی‘‘ کے عالم میں ’’خودی‘‘ کی کارکردگی کا ۔ عارفانہ تجربے کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے ان تینوں باتوں کا تجزیہ ضروری ہے۔ خیال کی تخفیف دراصل ارتکاز کی طرف ایک اہم قدم ہے اور ارتکاز عشق کی وہ منزل ہے جہاں سے آگہی کے لشکارے صاف دکھائی دینے لگتے ہیں۔ عام حالات میں تو انسان ایک نقطے پر خود کو اس لیے مرتکز نہیں کر سکتا کہ اس کے ذہن میں خیالات کا ایک ایسا طوفان موجود ہوتاہے جو کسی ایک مقام پر ٹھہرنے سے انکار کر دیتا ہے۔اس لیے عشق یا عبادت کا سب سے بڑا مفہوم ہی یہ ہے کہ خیالات کے بکھرائو سے نجات پا کر خود کو ایک نقطے پر مرتکز کیا جائے۔ چونکہ خیال دراصل مخفی یا برہنہ خواہشات ہی سے برانگیخت ہوتا ہے اس لیے تصوف میں خواہشات کی نفی پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ خیال کو پا بہ زنجیر کیا جا سکے۔ اقبال نے خیال کی جس تخفیف کی طرف اشارہ کیا ہے اسے موجودی نفسیات میں Intentionality کا نام ملا ہے۔ ابتداً فرینز برنٹانو(Franz Brentano)نے یہ نظریہ پیش کیا۔بعدازاں ہسرل(Husserl)نے اسے برتا۔ نظریہ یہ ہے کہ جب ہم کسی شے کی طرف بطور خاص متوجہ ہوتے ہیںتو ہمارا شعور روشنی کی ایک سرچ لائٹ کی طرح اس شے پر مرکوز ہو جاتا ہے اور اسے یوں گرفت میں لے لیتا ہے جیسے پھل اپنی گٹھلی کو! اس عمل میں چونکہ توجہ باقی تمام اشیا سے منقطع ہو چکی ہوتی ہے اس لیے صرف وہی شے باقی رہتی ہے جس کی طرف شعور کی سرچ لائٹ کا رُخ تھا، باقی اشیا کی طرف توجہ (خیال) کی یہ تخفیف ہی Intentionality ہے۔ ہسرل نے لکھا ہے : ’’میری توجہ اس کاغذ کی طرف ہوگئی ہے۔ اس کاغذ کے اردگرد اور بھی بہت سی اشیا ہیں، جیسے پنسل ، دوات وغیرہ مگر میری تمام تر توجہ کاغذ پر مرکوز ہے۔ اس لیے میں ارتکاز کے اس لمحے میں کاغذ کے سوا باقی سب چیزوں سے بے نیاز ہوں۔‘‘۵۷؎ عارفانہ تجربے میں ارتکاز ’’محبوب ازلی‘‘کی ذات پر ہے۔ اس لیے اس ذات کے سوا ہر شے پس منظر میں جا کر شعور کی گرفت سے نکل جاتی ہے۔ ایک پہنچے ہوئے صوفی یادرویش کے عارفانہ تجربے میں تو شعور ہی کی نفی ہو جاتی ہے(اس حالت کو تصوف نے ’’فنا‘‘ کا نام دیا ہے) ، مگر فن کے تخلیقی عمل میں خود فراموشی کی حالت مکمل نہیں ہوتی، کیونکہ اگر یہ مکمل ہوتی تو صوفی کی طرح فن کار بھی گم ہو جاتا اور واپس نہ آ سکتا ۔ صوفی پر پیغمبر کو یہ سبقت حاصل ہے کہ وہ ’’وصل‘‘ کے بعد واپس آتا ہے اور بنی نوعِ انسان کے لیے رُشد و ہدایت کے تحائف لاتا ہے، ہاں اگر صوفی فن کار بھی ہے تو وہ اپنے عارفانہ تجربے کو ایک حد تک کسی نہ کسی فنِ لطیف کے ذریعے پیش کرنے پر قادر بھی ہو جاتا ہے۔تاہم پیغمبر کی واپسی کے عمل سے صوفی فن کار کی واپسی کا عمل ایک کم تر درجے کی شے ہے کہ اس کا دائرہ عمل اتنا وسیع نہیں۔ اقبال نے خیال کی ’’تخفیف‘‘ کے بعد تجربے کے ’’کُل‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ بات بجائے خود بنیادی نوعیت کی ہے کیونکہ انسان کی فطرت کو یہ بات ودیعت ہوئی ہے کہ وہ ’’کل‘‘ بناتا ہے یایوں کہہ لیجیے کہ اپنی پہلی نگاہ میں’’کُل‘‘کا ادراک کر لیتا ہے۔ اس سلسلے میںگشٹالٹ (Gestalt)نفسیات نے جو روشنی ڈالی ہے اس کے تفصیلی ذکر سے بات بہت پھیل جائے گی۔ لہٰذا اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مجھے یہ کہنا ہے کہ انسان جب تجزیاتی عمل کو بروئے کار لاتا ہے تو اپنی اُس صلاحیت کو کُند کرتا ہے جو شے کو اس کے ’’کُل‘‘ کی حیثیت میں دیکھتی ہے۔ عارفانہ تجربے کا طرئہ امتیاز اس بات میں ہے کہ وہ تاریکی میں ڈوبے ہوئے کمرے کی اشیا کو ٹٹول ٹٹول کر کمرے کی شکل وصورت کا تعین نہیں کرتا بلکہ کمرے میں روشنی کرکے اس کے ’’کُل‘‘ کا ادراک کر لیتا ہے۔ لہٰذا عارفانہ تجربہ بنیادی طور پر روشنی کا ایک کوندا ہے۔ روشنی کا یہی کوندا فن کے تخلیقی عمل میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، بلکہ تخلیق کائنات کے سلسلے میں بھی اس کوندے ہی کو اولیت ملی ہے۔ پرانے عہدنامے میں صاف لکھا ہے: ’’اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے۔‘‘ ’’کل‘‘ کے تصور کے علاوہ اقبال نے بے خودی کے عالم میں ’’خودی‘‘ کی تکمیل کی طرف جو اشارہ کیا ہے وہ عارفانہ تجربے میں ایک نئے بُعد کا اضافہ ہے۔ صوفی کی عزیز ترین منزل ’’بے خودی‘‘ ہے جہاں خواہشات اور خیالات کا سارا طوفان ختم ہو جاتا ہے اور صرف ایک سہانی کیفیت ہی باقی رہ جاتی ہے۔ مگر فن کار صوفی اس عالم بے خودی میں بھی جاگ رہا ہوتا ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو وہ اپنے عارفانہ تجربے کی کبھی تجسیم نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ تجربے کو فنی تخلیق کا لباس پہناتے ہوئے وہ نیند کی آغوش میں نہیں ہوتا بلکہ ’’سونے جاگنے‘‘کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ بے خودی کے ساتھ ساتھ خودی بھی پروان چڑھ رہی ہوتی ہے۔ یہ ’’خودی‘‘ ایک تو فنی تخلیق کو اس کے بوجھ سے نجات دلاتی ہے اور اسے ایک انوکھے تنقیدی شعور کے ذریعے بناتی اور سنوارتی ہے اور دوسری طرف ’’آگہی‘‘ کے رُوپ میں نظر آتی ہے جو بے خودی کی کیفیت کا حسین ترین ثمر ہے۔ اقبال نے بے خودی کے ساتھ خودی کو اہمیت دے کر خود کو آگہی سے آشنا کیا اور عارفانہ تجربے میں جمالیاتی تجربے کی چاشنی ملا دی۔۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ (۳) اقبال کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ عارف کے لیے معرفت کا لمحہ ایک ایسی انوکھی ’’ذات‘‘ سے گہرے انسلاک کا لمحہ ہوتا ہے جو ارفع اور محیط ہے اور لمحاتی طور پر عارف کی شخصیت کو دبا دیتا ہے۔ مراد یہ کہ عارفانہ تجربے کے دوران میں انسان خود کو ایک ’’دوسری ہستی‘‘ کے روبرو پاتا ہے اور یہ دوسری ہستی اتنی بے کراں اور توانا ہوتی ہے کہ اس کے سامنے انسان بالکل بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ یوں ’’خود فراموشی‘‘کی وہ کیفیت جنم لیتی ہے جس کا اوپر ذکر ہو اہے۔ اب صورت کچھ یوں نظر آئے گی کہ شمع کی روشنی کو دیکھتے ہی پروانے کو محسوس ہوا کہ ایک نورانی صورت اس کے روبرو طلوع ہو گئی ہے۔ پھر اسے یوں لگا جیسے اس نورانی صورت کے جادو نے اسے بے بس کر دیا ہے۔ اس کے بعد وہ بے اختیار شمع کے گرد طواف کرنے لگا اور طواف کرتے ہوئے ایک عالم خود فراموشی کی زد پر آ کر بتدریج اپنی شخصیت کی قربانی پیش کرتاچلا گیا۔ آخری کہ وہ شمع کی لو سے ٹکرا کر خود بھی روشنی کا ایک حصہ بن گیا۔ اس تمثیل میں روشنی کی نمود ، شمع کا طواف اور پھر قربانی ’’عشق‘‘ کے مدارج ہی کی داستان ہے۔ آخر آخر میں اپنی ذات کو محبوب (شمع) کی ذات میں پوری طرح ’’فنا‘‘ کرنا بھی عشق ہی کا منصب ہے۔ البتہ اقبال کے تصورِ عشق میںیہ تبدیلی آئی ہے کہ عاشق اب انتہائی جذب کی حالت میںبھی خود کو فراموش نہیں کرتا۔ نیز عشق کے آخری مراحل میں داخل ہونے پر وہ خود کو شمع کی روشنی میں جلا نہیں ڈالتا بلکہ اس کی روشنی سے اپنی مشعل کو جلاتا ہے اور پھر ایک سیل انوار سے پوری کائنات کو منور کرتا ہے۔ اقبال کے ہاں ’’خودی‘‘ کی تعمیر اور آگاہی کے ظہور کا مقصد یہی ہے۔ گویا اقبال کے نزدیک عارفانہ تجربہ ’’محبوب‘‘ کی ذات میں مستقل طور پر گم ہونے کا لمحہ نہیں۔ اسی لیے اقبال نے ’’لمحاتی طور پر ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہی کچھ فنی تخلیق میں بھی ہوتا ہے کہ فن کار لمحاتی طور پر اپنی ذات کے اس رُخ کی زد پر آ جاتا ہے جو شخصی نہیں بلکہ اجتماعی یا آفاقی ہے۔ اس رُخ کی کوئی واضح صورت بھی نہیں لہٰذا اکثر و بیشتر اسے ’’نور‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور روشنی کا کوندا کہا گیا ہے، گو روشنی کا یہ لفظ کہیں تو لغوی اور کہیں تمثیلی معنوں میں آیا ہے۔ مثلاً کوہِ طور پر روشنی کا جو کوندا نمودار ہوا اس کی واقعیت مسلم ہے، لیکن گو تم کو جو روشنی دکھائی دی وہ قلب کے اندر ظاہر ہوئی اور گیان یا عرفان کے لیے ایک علامت کی حیثیت اختیار کر گئی۔ نفسیات نے اس روشنی کو اجتماعی لاشعور کے پیغامبر کا نام دیاہے اور مرد دانا(Wise old man) کہہ کر پکاراہے۔مگر ایک بات طے ہے کہ یہ ہستی عرفان کے لمحے ہی کا دوسرا نام ہے۔ تاہم جب انسان عارفانہ تجربے سے گزرتا ہے تو یہ دوسری ہستی محض ’’تجرید‘‘ یا کیفیت کے طور پر نہیں بلکہ ایک حسی تجربے کے طور پر نمودار ہوتی ہے۔ یہی خالص فلسفے اور عارفانہ تجربے کا فرق بھی ہے کہ فلسفی تجرید کی بات کرتاہے مگر عارف اپنے تجربے کے حوالے سے حق الیقین کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ چنانچہ اسی لیے اس نکتے کی توضیح کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے کہ عارفانہ کیفیت اپنے مواد کے اعتبارسے معروضی ہوتی ہے اور اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خالص داخلیت کی دُھند میں ڈوب جانے کے مترادف ہے۔ (۴) عارفانہ تجربے کی توضیح کرتے ہوئے اقبال نے جو چوتھا نکتہ پیش کیا ہے بے حد اہم اور خیال انگیز ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ چونکہ عارفانہ تجربے کا یہ وصف ہے کہ وہ بلاواسطہ ہوتا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ اس کی ترسیل نہیں ہو سکتی۔ فی الواقعہ عارفانہ کیفیات محسوسات کے زمرے میں شامل ہیں، نہ کہ تعقلات کے ۔ بے شک عارف ان عارفانہ کیفیات کے بارے میں اپنی توضیحات کو دوسروں تک منتقل کرنے پر قادر ہوتا ہے، مگر وہ عارفانہ کیفیت کے اصل مواد کی ترسیل نہیں کر سکتا اور ترسیل کے اس المیے کی اصل وجہ یہ ہے کہ عارفانہ تجربہ بجائے خود ایسے ناقابلِ ترسیل محسوسات پر مشتمل ہوتا ہے جنھیں تعقل نے چھوا تک نہیں ہوتا، مگر ساتھ ہی اقبال یہ بھی کہتے ہیں کہ احساس کی فطرت میں یہ بات ودیعت ہے کہ وہ ’’خیال‘‘ کے ذریعے اپنا اظہار کرے۔ یوں لگتا ہے جیسے احساس اور خیال ایک ہی داخلی تجربے کے دو رُخ ہیں۔ بقول پروفیسر ہاکنگ (Hocking)، کوئی بھی احساس اتنا اندھا نہیں ہوتا کہ اسے اپنے منتہائے نظر یا منزل کا تصور تک حاصل نہ ہو۔ جب کوئی احساس ذہن پر قبضہ جمالیتا ہے تو اس لمحے اس شے کا خیال بھی ذہن پر مسلط ہو جاتا ہے۔ جہت یا سمت کے بغیر احساس کا وجود ناممکن ہے اور سمت کا نمودار ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ دوسری طرف کوئی شے ایسی ضرور موجود ہے جسے احساس نے اپنی منزل قرار دے لیا ہے، بلکہ احساس تو سمت نما ہے جو ذات کو شے تک پہنچا کر از خود بجھ جاتا ہے یعنی اس کی تمام تر بے قراری ختم ہو جاتی ہے۔ پروفیسر ہاکنگ کے ان خیالات کو آگے بڑھاتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں کہ گونگے احساس کا نوشتہ تقدیر ہی یہ ہے کہ وہ خود کو ’’خیال‘‘ میںمنتقل کرے اور خیال کا یہ وصف ہے کہ وہ اپنا ظاہری لباس اپنے بطون سے مہیا کرتا ہے(بالکل جیسے ریشم کا کیٹرا اپنے اندر سے دھاگا برآمد کرتا ہے)۔ اس بات میں غلو کا شائبہ تک نہیں کہ احساس کی کوکھ سے خیال اور لفظ بیک وقت جنم لیتے ہیں، گو منطقی اندازِ فکر ان دونوں کو ایک دوسرے سے مختلف قرار دیتا ہے۔ عارفانہ تجربے کے بارے میں اقبال کا یہ نکتہ اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ ان کے ہاں عارفانہ تجربہ بنیادی طور پر ایک جمالیاتی تجربہ ہے۔ عارفانہ تجربہ کا عام سا مفہوم تو یہ ہے کہ صوفی کے بطون میں جو احساس پیدا ہوا تھا اس نے اپنی منزل بھی متعین کر لی اور اب وہ اندر سے باہر تک یعنی صوفی کے قلب سے حُسنِ ازل کے کوندے تک ایک پورا سفر طے کرے گا اور اس سفر کے احساس کو بطور ایندھن استعمال کرے گا۔ تصوف میں منزل (محبوب ازلی) تک احساس (عشق) ہی سفر کا ایندھن ہے۔ مگر عشق محبوب کے تصور کے بغیر برانگیختہ ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا عارفانہ تجربہ محض ’’تجرید‘‘ کے ادراک کا نام ہر گز نہیں۔ اس کا جزو اعظم ایک ایسا مذہبی تجربہ ہے جو ’’حضوری‘‘ کے لمس ہی سے وجود میں آتا ہے۔ ایک عارف کامل جب اپنے احساس کو پھیلا کر ایک وسیع دائرے کے مرکز تک پہنچاتا ہے تو مذہبی تجربے سے (جو عشق سے عبارت ہے) ضرور کام لیتا ہے۔ ورنہ اس کا تجربہ ایک ذہنی ورزش تو بن جائے گا، واردات نہ بن پائے گا۔ اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ عارفانہ تجربے کی ترسیل ہو۔ عام حالات میں تو، جیسا کہ خود اقبال نے بھی کہا ہے ، عارفانہ تجربہ ناقابلِ ترسیل ہے اور ایک صوفی زیادہ سے زیادہ اس کی توضیح ہی کر سکتا ہے، اسے منتقل نہیں کر سکتا۔ مگر جب عارف کامل فن کار بھی ہو تو صورت حال بدل جاتی ہے، کیونکہ فن کا تخلیقی عمل عارفانہ تجربے کی توضیح سے کوئی سروکار نہیں رکھتا، بلکہ اصل تجربے کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کوشش سوفیصد تو کامیاب نہیں ہوتی مگرایک بڑی حد تک ضرور کامیاب ہوتی ہے۔ بلکہ اسے تو عارفانہ تجربے کی تصدیق کے سلسلے میں ایک میزان بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ یوں کہ کہنے کو تو ہر صوفی یہ کہے گا کہ اس کا عارفانہ تجربہ سچا ہے مگر وہ اس کی صداقت کا ثبوت فراہم نہ کر سکے گا، جب کہ ایک فن کار صوفی اس کا ثبوت بھی بہم پہنچائے گا۔ چنانچہ جب رومی نے اپنے اشعار میں عارفانہ تجربے کا پر تو دکھایا ہے تو اس کی شاعری کا اعلا معیار بجائے خود اس تجربے کی صداقت کا ایک اہم ثبوت بن کر سامنے آ گیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ صوفی جب تعقل کی مذمت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ حصول علم کے سلسلے میں کار آمد نہیںہے تو مذہت کی تاریخ میں اس کی اس بات کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا۔۵۸؎ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے اقبال پر خرد دشمنی کا الزام بار بار لگایا ہے یہ بات ایک لمحۂ فکریہ مہیا کرتی ہے کہ اقبال نے اپنے ’’خطبات‘‘ میں عقل کی اہمیت کو تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ صوفیا کے اس رویے کی مذمت بھی کی ہے جو عقل کی تکذیب پر منتج ہوا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اقبال نے محض اضطراری طور پر یہ بات نہیں کی بلکہ عارفانہ تجربے کے تجزیاتی عمل سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں ، مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ احساس کی کوکھ سے خیال اور لفظ بیک وقت پیدا ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ احساس اور خیال کو متضاد قرار نہیںدیتے بلکہ انھیں ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں متصور کرتے ہیں۔ مگر بات اس سے کچھ آگے بھی ہے، کیونکہ خیال اور لفظ احساس کے بطن سے پیدا ہو کر بجائے خود ایک ایسا نازک حربہ بن جاتے ہیں جو پلٹ کر احساس کی تہوں تک اُترتا اور اس بے نام تخلیقی مواد کو چھوتا ہے جسے صوفیا نے ناقابلِ ترسیل قرار دیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا:۵۹؎ ذہن کا طرئہ امتیاز اس کا منطقی رویہ ہے۔ لیکن کیا ذہن محض منطق کے اس رویے ہی کا نام ہے؟ اور کیا محسوسات کی بے نام اور غیر منطقی صورت ذہنی عمل سے ماورا کوئی شے ہے؟کرٹین (Creighton)کے حوالے سے سوسن کے۔ لینگر(Susanne K. Langer)لکھتی ہیں۔۶۰؎ کہ محسوسات بھی فہم اور سوچ کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ محسوسات کی بھی ایک واضح صورت ہوتی ہے جو بتدریج ’گویا‘ ہوتی چلی جاتی ہے۔ مگر وہ اعتراف کرتی ہے کہ محسوسات کی اس واضح ’صورت گویائی‘کی نشان دہی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ وہ زبان کی اس کوتاہی کو مانتی ہے کہ وہ محسوسات کے اظہار کے لیے ناکافی بلکہ کمزور حربہ ہے۔ زبان تو زیادہ سے زیادہ بعض داخلی واردات کو نام عطا کرتی ہے لیکن ان واردات کے سدا بدلتے رنگوں اور داخلی دنیا کی پیچیدہ اور مبہم صورتوں نیز جذبے اور فہم کے ربط باہم سے پیدا ہونے والی لہروں کو گرفت میں لینے یا ان کی جھلک دکھانے میں قطعاً ناکام رہتی ہے۔ مگر واضح رہے کہ جب سوسن کے ۔ لینگر زبان کی ناکامی کا ذکر کرتی ہے تو اس کا اشارہ زبان کے منطقی اور کاروباری پہلو کی طرف ہوتا ہے جو علمی اور صحافتی زبان کے لیے تو مفید ہے لیکن داخلی دنیا کی تصویر کشی کے لیے قطعاً بے کار ہے۔ ہر انسان ایک جزیرے کا باسی ہے مگر بیشتر اوقات وہ یا تو جزیرے میں مقید رہتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ جزیرے کے چاروں طرف پھیلے ہوئے ساحل کی اُن پایاب موجوں تک آنے میں کامیاب ہوتا ہے جہاں سمندر اور جزیرے کا ایک ازلی و ابدی تصادم جاری ہے، مگر وہ اس سے آگے نہیںجا سکتا۔ صرف فن کار ہی اس سے آگے محسوسات کے سمندر میں غوطہ زن ہونے میںکامیاب ہوتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے وہ جزیرے کی گرائمر میں جکڑی ہوئی زبان کو خیرباد کہ دیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جب اقبال ’’لفظ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں تو زبان کے کاروباری رُخ کے بجائے اس کے تخلیقی رُخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یوں عارفانہ تجربے کے سلسلے میں ایک جمالیاتی اساس مہیا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ اسی جمالیاتی اساس کا نتیجہ ہے کہ لفظ اپنی قلبِ ماہیت کر کے اُس اَن چھوئے جہان کی تصویر کشی میں کامیاب ہوتا ہے جسے ناقابل ترسیل قرار دیا گیا ہے۔ یہی اقبال کی عطا ہے کہ انھوں نے عارفانہ تجربے کو جمالیاتی اساس مہیا کر کے کچھ سے کچھ کر دیا ہے۔ زبان کے اس تخلیقی رُخ کی کارکردگی کے سلسلے میں میںنے متذکرہ بالا مضمون کے آخر میں لکھا تھا: ایک اچھے ادیب کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے تخلیقی عمل میں پہلے تو لفظ کو اس کے مروّجہ مفہوم سے نجات دلاتا ہے اور پھر ایک جادوگر کی طرح ایک نئے ، تازہ اور زرخیز مفہوم سے منسلک کر دیتا ہے۔ مگر یہ مفہوم کوئی پہلے سے طے شدہ نظریہ یا منطقی خیال نہیں ہوتا بلکہ ایک پرچھائیں کے مانند ہوتا ہے جو لحظہ بہ لحظہ بڑی ہوتی چلی جاتی ہے اور ان دیکھے ان چھوئے جہانوں کو صورت پذیر کرتی ہے۔ سطح پر انسانی شعور کا کام اشیاکو نام زد کرنا اور تعقلات قائم کرنا ہے۔ چنانچہ اسے ایسے الفاظ کی ضرورت ہے جن میں کوئی ابہام نہ ہو، جن کے معانی متعین اور جہت واضح ہو تاکہ ابلاغ اور ترسیل کا وہ مقصد پورا ہو سکے جو نارمل شریفانہ زندگی بسر کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ مگر شعور کی اس کاروباری سطح کے نیچے ایک اور جہان بھی ہے جس کی اشیا کو آپ ایک عمومی سا نام تو دے سکتے ہیں مگر جنھیں آپ تعقلات میں ڈھال نہیں سکتے، مثلاً خوشی، غم، برہمی ایسے مجرد محسوسات جن کی نشان دہی کے لیے آپ ان کے گرد بس موہوم سے خطوط ہی کھینچ سکتے ہیں۔ مگر آگاہی کی اس سطح کے نیچے ایک اور دیار بھی ہے جس کو آپ پہچان تک نہیں سکتے۔ یعنی یہ ایک ایسا دیار ہے جس میں خوشی، غم یا برہمی وغیرہ کی کوئی الگ صورت موجود نہیں بلکہ ایک انجانے نامانوس ، ان دیکھے اور بے نام ’احساس‘ کا وجود ہے۔ فن کار کا کام یہ ہے کہ وہ شعور کی سطح سے نیچے اُتر کر آگاہی کی اس زیریں سطح تک رسائی حاصل کرے جس میں پوری کائنات کا تخلیقی لاوا موج زن ہے۔ ظاہر ہے کہ ’’احساس‘‘ کی اس صورت تک کاروباری الفاظ پہنچ نہیں سکتے کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کریں تو ان کے پرجل اُٹھیں۔ اس بے نام اور بے نہایت احساس تک لفظ کی بے نام اور بے نہایت صورت ہی رسائی پا سکتی ہے۔ چنانچہ اسی لیے اعلا فن کار کاروباری لفظ کے چھلکے کو توڑ کر اس کے اندر کے مغز کو گرفت میں لیتا ہے اور پھر اسے یوں منقلب کرتا ہے کہ وہ ذات کی تہوں میں چھپے ہوئے احساس تک پہنچنے اور اسے منظرِ عام پر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ذات کی تہوں تک پہنچنے اور احساس کو چھونے کا یہ عمل عارفانہ تجربے ہی کی صورت ہے، مگر جمالیاتی تجربے کے بغیر نہ تو اس کی تصدیق ہو سکتی ہے اور نہ تکمیل ۔ اقبال نے زیادہ زور عارفانہ تجربے کے اس خاص پہلو پر ہی دیا ہے۔ اسی لیے اقبال کے ہاں عشق کے تصور کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ (۵) عارفانہ تجربے کے سلسلے میں اقبال نے آخری نکتہ یہ پیش کیا ہے کہ جب عارف کامل دوام(Eternal)کے ساتھ ہم رشتہ ہوتا ہے اور یوں مرورِ زماں(Serial Time)کے غیر حقیقی ہونے کا ادراک کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ خود کومرورِ زماں سے یکسر منقطع کرلیتا ہے۔ عارفانہ کیفیت کسی نہ کسی طرح زندگی کے عام تجربے سے منسلک رہتی ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ عارف اور پیغمبر (عارفانہ تجربے سے گزرنے کے بعد) عام انسانی تجربات کی سطح پر آ جاتے ہیں۔۔۔ اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر کی واپسی بنی نوع انسان کے لیے گہرے معانی سے عبارت ہوتی ہے۔ صوفیا کے ہاں عشق کا آخری درجہ وہ ہے جب عارف ’’لازوال‘‘ میں فنا ہو جاتا ہے بعینہٖ جیسے موج دریا میںمل کر دریا بن جاتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عارف کے لیے عام وقت (جو دُکھوں اور آرزوئوں سے عبارت ہے) ختم ہو جاتا ہے اور وہ ’’وصل‘‘ یا ’’نروان‘‘ حاصل کر لیتا ہے۔ اقبا ل نے اپنے ’’خطبات‘‘ میں ایک جگہ آگہی کے تجربے پر روشنی ڈالتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے۶۱؎ کہ اس تجربے کے دوران ’’ذات‘‘ اندر کے مرکزی نقطے سے باہر کو لپکتی ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ وہ باہر کی دنیا سے ہم رشتہ ہو جاتی ہے، یعنی روز مرہ کی اُس زندگی سے جس میں وقت ایک سیدھی لکیر کی طرح ہے جس پر لمحے اس طرح نصب ہوتے ہیں جیسے شاہ راہ کے کنارے پر سنگ ہائے میل! مگر یہ اصلی وقت نہیں کیونکہ خارجی اشیا کا تعاقب کرتے ہوئے جو دُھند پیدا ہوتی ہے وہ ذات کے رُخ پر پردہ سا ڈال دیتی ہے۔ یہ تو گہرے انہماک یا جذب کے لمحات ہیں جن میں مقدم الذکر پہلو ماند پڑتا ہے اور موخرالذکر پہلو نظروں کے سامنے داخلی تجربے کی مرکزیت کو لے آتا ہے۔ اس داخلی تجربے کے دوران میں وقت کے مختلف مراحل کا تصور باقی نہیں رہتا۔ بے شک تغیرختم نہیں ہوتا لیکن ایک حالت سے دوسری حالت تک کا سفر ناقابلِ تقسیم ہوتا ہے۔ یہ حالتیں ایک دوسری میں جذب ہو چکی ہوتی ہیں، گو ذات کا موخرالذکر روپ ایک ’’اب‘‘ ہے جس میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تفریق موجود نہیں۔ اقبال کی یہ توضیح عارفانہ تجربے کی غایت اور مزاج کو بڑی خوبی سے پیش کرتی ہے مگر دوسرے صوفیا کے برعکس اقبال نے ’’مرورِ زماں‘‘ کو غیر حقیقی نہیں کہا بلکہ ایسی حالت تصور کیا ہے جس میں رہتے ہوئے ایک باکمال عارف پا بہ گل بھی ہوتا ہے اور آزاد بھی ، یا بھگوت گیتا کے اس کنول کی طرح ہوتا ہے جو پانی میں رہتے ہوئے بھی پانی سے تر نہیں ہوتا۔۔۔۔ اقبال کا شعر ہے: صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے گویا عشق کے اُن لمحات میں بھی جب بظاہر خارجی دنیا سے صوفی فنکار کے سب رشتے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں، ایک رشتہ پھر بھی باقی رہتاہے۔ یہ رشتہ شعورِ ذات یا خودی کا رشتہ ہے اور عاشق کے وجود ، اس کی انفرادیت کا ضامن ہے۔ اگر یہ رشتہ نہ ہو تو عاشق ، عشق کی آگ میں جلتا ہوا، شمع پر نثار ہو جائے، یعنی فنا ہو جائے ۔ چونکہ اقبال کا رویہ بنیادی طور پر جمالیاتی اور مذہبی ہے اور چونکہ بقول برگساں سائنس ٹھوس(Concrete)چیزوں کو تجرید میں ڈھالتی ہے جب کہ فن تجریدی کیفیات کی ’’ٹھوس‘‘ میں تجسیم کرتا ہے، اس لیے کچھ عجب نہیں کہ اقبال نے صوفیانہ تصورات کی ماورائی کیفیات کے پہلو بہ پہلو زندگی سے جڑنے اور رشتہ قائم کرنے کی روش کو اپنایا ہے اور خیال کی تجسیم کر کے اسے ایک موہنی صورت عطا کر دی ہے۔ حواشی 1- Iqbal,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.86. ۲- وزیر آغا ، اردو شاعری کا مزاج ، ص ۳۵۔ 3- Iqbal,The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.75. ۴- ایضاً ، ص ۱۰۹۔ ۵- وزیر آغا ، تخلیقی عمل، ص ۳۹۔ 6- Bertrand Russell, A History of Western Philosophy,P. 62. 7- Will Durant, The Story of Philosophy, P.74 ۸- برٹرینڈ رسل، کتاب مذکور ، ص ۳۴۔ 9- Cornford, From Religion to Philosophy, P. 201. 10- Collin Wilson, Beyond the Outsider, P. 52. 11- Lancelot Law White, The Next Development in Man, P.159. ۱۲- ول ڈورنٹ، کتاب مذکور، ص ۱۵۹۔ ۱۳- برٹرینڈ رسل، کتاب مذکور، ص ۱۲۶۔ ۱۴- کولن ولسن ، کتاب مذکور، ص ۵۲۔ ۱۵- ول ڈورنٹ ، کتاب مذکور، ص ۲۲۹۔ ۱۶- کولن ولسن ، کتاب مذکور، ص ۵۵۔ ۱۷- ایضاً ، ص ۶۱۔ 18- A. C. Bouquet, Comparative Religion, P. 162. ۱۹- ول ڈورنٹ ، کتاب مذکور، ۱۵۶۔ ۲۰- اقبال، دیباچہ ، پیام مشرق، (طبع پنجم) ، ص (ذ)۔ 21- Sax Commins and Robert N. Linscott, The Philosophers of Science, P.223. ۲۲- برٹرینڈ رسل، کتاب مذکور ، ص ۸۰۸۔ ۲۳- ایضاً ، ص ۷۱۱۔ ۲۴- ول ڈورنٹ، کتاب مذکور، ص ۲۷۷۔ 25- Patrick Gardiner, Schopenhauer, P. 61. ۲۶- اے ۔ سی ۔ بو کے، کتاب مذکور، ص ۱۶۱۔ 27- Lewis and Robert Lawson Slater, The Study of Religions, P. 73. 28- George Clive, The Philosophy of Nietxsche,PP.427-97. ۲۹- کومنزولن سکاٹ، کتاب مذکور ، ص ۲۷۸۔ 30- Henri Bergson, The Evolution of Life, From the Philosophers of Science, P. 284. ۳۱- برٹرینڈ رسل، کتاب مذکور، ص ۸۶۷۔ 32- Bertand Russell, Mysticism and Logic, P. 19. ۳۳- ڈاکٹر غلام مصطفی خاں، ’’اقبال اور برگساں‘‘ ، از منشورات اقبال ، ص ۳۲۔ 34- T. J. De Boer, The History of Philosophy in Islam, P. 9. 35- De Lacy O'Leary, Arabic Thought and its Place in History, PP. 124-25. ۳۶- ایضاً ، ص ۱۲۸۔ 37- Iqbal The Development of Metaphysics in Persia, P. 65. ۳۸- اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، ترجمہ : سید نذیر نیازی، ص ۱۰۴۔۱۰۶۔ ۳۹- ایضاً ، ص ۱۰۶۔ ۱۰۷۔ ۴۰- اولیاری ، کتاب مذکور ، ص ۲۲۲۔ ۴۱- ڈی بوئر، کتاب مذکور، ص ۱۰۳۔ ۴۲- اولیاری ، کتاب مذکور ، ص ۱۵۵۔ 43- Sir Thomas Arnold and Alfred Guillaumme, The Legecy of Islam, P. 258. ۴۴- ابنِ سینا، نجات، (بحوالہ اولیاری، کتاب مذکور)، ص ۵۱۔ ۴۵- ڈی بوئر، کتاب مذکور، ص ۱۹۱۔ ۴۶- محمدلطفی جمعہ ، تاریخ فلاسفۃ الاسلام ، ص ۲۲۳۔ 47- Seyyed Hossein Nasr, Three Muslim Sages, P. 63. 48- E.G. Browne, A Literary History of Persia, PP. 419-21. 49- R.A. Nicholson, A Literary History of the Arabs, P. 384. ۵۰- وزیر آغا ، اردو شاعری کا مزاج، ص ۲۵۳۔ ۵۱- اولیاری ، کتاب مذکور، ص ۱۹۳۔ 52- R.A. Nicholson, 'Mysticism': The Legacy of Islam, P. 219. ۵۳- ایضاً ، ص ۲۲۳۔ ۵۴- ایضاً ، ص ۲۲۴۔ ۵۵- کولن ولسن ، کتاب مذکور، ص ۱۷۵۔ ۵۶- ایضاً ، ص ۸۰۔ 57- Edmund Husserl, Ideas, P. 117. 58- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam, P.21. ۵۹- وزیر آغا، ’ علمی زبان اور ادبی زبان‘ ، (مطبوعہ ماہنامہ تخلیق ، اگست ۱۹۷۶ئ) 60- Susanne K. Langer, Philosophy in a New Key, P. 92. 61- Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam.PP.45-46 ۲ اقبال کے تصوراتِ عشق و خرد ا- فکر اقبال میں خرد کی اہمیت تصوف کے خالص مذہبی پہلو کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے کہ یہ ابتدائی اسلامی مفکرین کے منطقی رویے کے خلاف ایک ردِّ عمل کی حیثیت رکھتا تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرا تصوف کا مذہبی پہلو ماند پڑتا چلا گیا اور اس نے منطقی اندازِ فکر سے ایک طرح کا سمجھوتہ کر لیا۔ آخر آخر میں تصوف نے ’’ظاہر‘‘ اور ’’باطن‘‘کے جس فرق پر زور دیا، اس سے ’’ظاہر‘‘ کے سلسلے میں بے اعتنائی کا رویہ پیدا ہوا اور ’’باطن‘‘ کو اصل اور واحد حقیقت قرار دینے کا مسلک منظر عام پر آ گیا۔ چنانچہ تصوف کے رہبانیت سے مملو رجحان پر افسوس کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں کہ یہ اسلام کی اصل روح کے منافی تھا۔ ۱؎ اسی طرح اپنے ’’خطبات‘‘ میں ایک اور جگہ اقبال نے لکھا ہے کہ سریانی تصوف کے لیے یہ بات ناقابلِ فہم تھی کہ کل (لامحدود خودی) اور جزو (محدود خودی)بیک وقت کیسے موجود رہ سکتے ہیں۔ مگر اقبال نے وضاحت کرتے ہوئے کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ محدود خودی لا محدود خودی سے جدانہ ہوتے ہوئے بھی الگ ہوتی ہے۔ کائنات کے پھیلائو کو پیش نظر رکھوں تو میں اس میں تحلیل ہو جاتا ہوں۔ اندر کی طرف جھانکوں تو مجھے یہی کائنات ’’دوسری ہستی‘‘ کے رُوپ میں اپنے رُو برو دکھائی دیتی ہے اور میرے لیے بالکل اجنبی ہے۔ میری زندگی کا تمام دارومدار اس ہستی پر ہے اور اسی لیے میں اس سے ہم رشتہ بھی ہوں مگر ساتھ ہی اس سے الگ ’’اکائی‘‘ کی حیثیت بھی رکھتا ہوں۔۲؎ ان دو اقتباسات سے تصوف کے بارے میں اقبال کا ردِّ عمل بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ اقبال کے لیے تصوف کے رہبانیت اور دنیا بیزاری کے مسلک کو قبول کرنا بہت مشکل تھا۔ دوسرے ، اقبال نے تصوف کے تصورِ فنا کو بھی قبول نہ کیا جس کے مطابق جزو خود کو کل میں اس طور ضم کر دیتا ہے کہ اس کا اپنا وجود ہی باقی نہیںرہتا۔اس کے مقابلے میں اقبال نے ’’خودی‘‘ کی نشو و نما کو انسان کے روحانی ارتقا کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ عارفانہ تجربے کے دوران میں ’’جزو‘‘ کل سے ہم رشتہ ہونے کے باوصف اپنے وجود سے دست کش نہیں ہوتا بلکہ اپنی خودی کو برقرار رکھتا ہے۔ گویا ایک طرف تو اقبال نے زندگی اور اس کے مظاہر کو حقیقی سمجھتے ہوئے ایک مثبت رویے کا مظاہرہ کیا اور دوسری طرف متناہی انا(Finite Ego)کے وجود کا جواز مہیا کر دیا۔ دونوں باتیں تصوف کے خالص وجدانی اندازِ فکر سے انحراف کا درجہ رکھتی ہیں۔ دیکھنا چاہیے کہ خود اقبال نے اس سائنسی اور استقرائی اندازِ نظر کو اپناتے ہوئے کن بنیادی باتوں کو پیش نظر رکھا۔ (۲) مگر اس سے پہلے کہ ایسا کیا جائے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کے کلام میں عقل کے سلسلے میں جو موقف اختیار کیا گیا ، اس کی نوعیت کیا تھی۔ نیز اس رجحان کی تعمیر میں کس حد تک تصوف کے مخصوص عناصر کا اور کس حد تک ان کے اپنے زمانے میں مسلمانوں کی انفعالیت پسندی یا اندھی تقلید کے خلاف اقبال کے ’’ردِّ عمل‘‘ کا ہاتھ تھا۔ کلام اقبال میں عقل کی کارفرمائی کا ذکر زیادہ تر عشق سے تقابل کے موقعوں پر ہوا ہے۔ تاہم کہیں کہیں عقل کی ماہیت اور کارکردگی کا الگ طور پر ذکر بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر اسرار خودی میں ایک جگہ لکھتے ہیں: زندگی سرمایہ دار از آرزوست عقل از زائیدگانِ بطن اوست خ خ خ دست و دندان و دماغ و چشم و گوش فکر و تخیل و شعور و یاد و ہوش زندگی مرکبِ چو در جنگاہ باخت بہرِ حفظِ خویش ایں آلات ساخت آگہی از علم و فن مقصود نیست غنچہ و گل از چمن مقصود نیست علم از سامانِ حفظِ زندگی است علم از اسبابِ تقویمِ خودی است علم و فن از پیش خیزانِ حیات علم و فن از خانہ زادانِ حیات عقل کے بارے میںیہ اقبال کا ایک خاص رویہ ہے، یعنی وہ عقل کی تگ و تاز کو محدود تصور کرتے ہوئے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ نہ صرف عقل حیات کے تحفظ کے لیے ایک آلہ کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ خودی دست و دندان و دماغ و چشم و گوش ایسے آلات کی دست نگر ہے چونکہ حواسِ خمسہ کی زد محدود ہے لہٰذا عقل کا میدانِ عمل بھی وسیع نہیں۔ تاہم اقبال نے عقل کی اہمیت کو نظر انداز ہرگز نہیں کیا بلکہ اسے زندگی کا ایک خادم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ زندگی کی بقا، تو سیع اور ارتقا کے لیے ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اس بات کی بھی صراحت کر دی ہے کہ عقل کا مقصود یہ ہرگز نہیں کہ حقیقت کی آگہی حاصل کرے اور عرفان کے انتہائی مدارج سے آشنا ہو۔ اُس کا کام فقط یہ ہے کہ زندگی کے معاملات میں انسان کی دست گیری کرے۔ خود رُومی نے بھی عقل کے اس خاص مسلک کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور اسے حوائج خانہ داری میں مشغول اور مصروف دیکھا ہے بالکل جیسے عورت گھر کی تزئین و آرایش میں مصروف رہتی ہے: زن ہمی خواہد ، حوائج خانہ گاہ یعنی آبِ رود و نان و خوان و جاہ عقل کے بارے میں رُومی کے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر میر ولی الدین لکھتے ہیں کہ رُومی کی دانست میں: ۳؎ اس عقل کا مقصود بالذات دنیاے ذلت ہے۔ اس کی آرایش و زیبایش ہے، لذت و آرام ہے۔ یہ لذت کی طالب ہے اور لذت و نفع ہی اس کی اعلیٰ ترین غایت ہے۔ جس شخص کی حاکم یہ عقل ہے وہ محروم ہے، بدنصیب ہے،دراصل عاقل نہیں جاہل ہے، حقیقی اقدار سے بے خبر ہے۔۔۔ یہ عقل پائوں کی زنجیر ہے، سانپ بچھو کے مانند ہے، کام بین ہے دام بین نہیں، بود و نبود میں فرق نہیں کرتی۔ حقیقی اقدار سے غافل ، محض امورِ دنیوی میں مشغول ہے۔ البتہ اقبال اور رُومی کے ردِّ عمل میں کچھ فرق بھی ہے جو عقل کے بارے میں ان کے تاثرات کے مطالعے سے بآسانی واضح ہو سکتا ہے۔ رُومی تصوف میں ڈوبا ہوا ہے اور چونکہ تصوف نے ہمیشہ عقل کو عرفان کے راستے میں ایک سنگ گراں سمجھا ہے اس لیے رُومی نے بھی اپنی پہلی فرصت میں عقل کو گردن زدنی قرار دے دیا ۔ مگر اقبال کے ہاں متشدد رویہ موجود نہیں۔ وہ عقل کی پرواز کی کوتاہی کو مانتے ہیں اور کہیں کہیں اس کی کارکردگی کو عرفان کے راستے میں رکاوٹ بھی قرار دیتے ہیں، جیسے مثلاً خرد بر چہرئہ تو پردہ ہا بافت نگاہِ تشنہ دیدار دارم مگر یہ اقبال کا بنیادی میلان نہیں۔ چنانچہ وہ عقل کو کہ جس حد تک وہ پرواز کرنے پر قادر ہے نہ صرف زندگی کے معاملات کے لیے بلکہ عرفان کے آخری مدارج کے لیے بھی ممدو معاون ہی سمجھتے ہیں۔ اقبال لکھتے ہیں: خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے؟ چراغِ رہ گزر ہے بال جبریل جس کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے بغیر رہ گزرِ حیات بالکل تاریک رہتی ہے اور مسافر کے لیے سر گرم سفر رہنا بہت مشکل ہے، مگر جیسے ہی وہ ’’گھر‘‘ کے دروازے پر پہنچتا ہے تو ’’چراغ رہ گزر‘‘ کی روشنی سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ضرب کلیم میں تو عقل کو عشق کے لیے ایک رہبر کا مرتبہ بھی عطا کر دیا گیا ہے: عشق اب پیرویِ عقل خداداد کرے آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے کُہنہ پیکر میں نئی رُوح کو آباد کرے یا کہن رُوح کو تقلید سے آزاد کرے اگر اس شعری ٹکڑے کا عنوان ’’ادبیات‘‘ نہ ہوتا تو اس سے اقبال کے موقف کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہو جانے کا امکان تھا ۔کیونکہ اقبال نے اپنی شاعری میں بار بار عقل کو عشق کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دی ہے۔ مندرجہ بالا اشعار میں عقل سے مراد ’’عقلِ کُل‘‘ یا ’’علم اللہ‘‘ بھی نہیں ورنہ اسے مفہوم کا ایک اور دائرہ مہیا ہو جاتا ہے۔ غالباً اقبال ادبیات کے سلسلے میں اس تنوع اور تازگی کا ذکر کر رہے ہیں جو عقل کی تگ و تاز کا ثمر ہے، مگر غور کیجیے کہ بالواسطہ انداز میں سہی انھوں نے عقل کی اہمیت کو اُجاگر تو کر دیا ۔ ان کا یہ اندازِ فکر اس صوفیانہ رویہ سے قطعاً مختلف ہے جو عقل کو جہالت کے مترادف قرار دیتاہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی عقل کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اقبال نے اسے ایک نسبتاً کمزور اور نارسا شے ہی قرار دیا ہے۔ (۳) اقبال کی شاعری میں ’’عقل ‘‘ کو براہ راست بہت کم موضوع بنایا گیا ہے۔ زیادہ تر عقل اور عشق کا موازنہ کرکے ان کی اہمیت اور کارکردگی کے فرق ہی کو واضح کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔عام طور سے شے کی پہچان اس کی ضدسے ہوتی ہے، مثلاً روشنی کی پہچان تاریکی سے اور خیر کی پہچان شر سے۔ اگر تاریکی موجود نہ ہو تو روشنی کے خدوخال کو پہچاننا مشکل ہو جائے اور اگر شر نہ ہو تو خیر کا ادراک ناممکن ہو، مگر عقل اور عشق کا رشتہ ’’ضدین‘‘ کا رشتہ نہیں جیسا کہ اکثر لوگوں بالخصوص صوفیا کا خیال ہے۔ یہی اقبال کا موقف بھی ہے کہ عقل اور عشق عرفان کے رُومۃ الکبریٰ تک پہنچنے کے دو راستے ہیں، مگر اقبال نے انھیں متبادل یا متوازی راستے قرار نہیں دیا۔ ان کا موقف اس وقت واضح ہوتا ہے جب ہم عقل کو پگڈنڈیوں سے تشبیہ دیں جو پورے خطے میںپھیلی ہوتی ہیںاور عشق کو اس شاہ راہ کے مماثل قرار دیں جس میں ہر ہر قدم پر یہ پگڈنڈیاں شامل ہو رہی ہیں۔ پگڈنڈیوں کا وجود شاہ راہ میں ضم ہونے کی حد تک ہے۔ اس لیے مسافر جب پگڈنڈی اختیار کرتا ہے تو شاہ راہ کی طرف ہی بڑھتا ہے۔ اس سے آگے یہ شاہ راہ کا کام ہے کہ وہ اسے عرفان کے رومۃ الکبریٰ تک لے جائے۔ اقبال نے عقل اور عشق کے اسی رشتے کا ذکر کیا ہے جو پگڈنڈی اور شاہ راہ کا رشتہ ہے، مگر چونکہ بیسویں صدی میں استقرائی اندازِ فکر کی ترویج کے باعث یہ نظریہ عام ہونے لگا تھا کہ عقل براہ راست حقیقت کا ادراک کرنے پر قادر ہے، اس لیے اقبال نے قدم قدم پر عقل کی نارسائی اور عشق کی ہمہ گیری کا ذکر کیا ۔ ایک بات اور بھی تھی۔ وہ یہ کہ اقبال نے فارسی شاعری کی وساطت سے تصوف کے بعض بنیادی میلانات سے بھی اثرات قبول کیے تھے۔ ان میں ایک عام میلان عقل پرعشق کو ترجیح دینے کا تھا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض مسلمان فلاسفروں نے جب نو افلاطونیت کے تحت عقل و خرد کو ہر شے کی میزان مقرر کیا اور عقل ہی کے ذریعے حقیقت کو پالینے کا دعویٰ کیا تو صوفیا نے اس دعویٰ کا بطلان ضروری سمجھا۔ ضروری اس لیے سمجھا کہ فلاسفروں کے نتائج محض ذہنی پرواز کا ثمر تھے جب کہ صوفی نے عارفانہ تجربے سے گزر کر نتائج کا استخراج کیا تھا اور وہ شخصی سطح پر ’’حقیقت‘‘ سے متعارف ہو چکا تھا۔ چنانچہ فارسی شاعری میں عقل کے مقابلے میں جنوں یا عشق کو اہمیت ملی بلکہ اکثر صوفی شعرا نے تو عقل کا مذاق بھی اڑایا۔ اقبال اس سطح پر تو شاید نہیں اُترے تاہم انھوں نے عقل کو عشق کے مقابلے میں کم تر درجے کی شے قرار دینے کا میلان مروج صوفیانہ تصورات سے یقینا اخذ کیا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ اقبال کی شاعری میں عقل کے مقابلے میں عشق کو برتر ثابت کرنے کی جو کوشش ہوئی ہے اس کے محرکات میں ایک تو روایتی اور تقلیدی انداز شامل ہے، یعنی فارسی کی روایت سے اثر قبول کرنے کا میلان اور دوسرا وقت کے تقاضوں کے احترام میں مغرب کے خالص عقلی رویے کو اس کے صحیح تناظر میں پیش کرنے کا میلان موجود ہے تاکہ اہل مشرق بلاوجہ ایک احساس کمتری کی زد پر نہ آئیں، نیز اس رُوحانی ورثے سے محروم نہ ہوں جو ایک طویل وجدانی اور وہبی اندازِ نظر کا ثمر ہے۔ عقل اور دل یعنی استقرائی اندازِ فکر اور استخراجی اندازِ فکر کے فرق کو اقبال نے اوّل اوّل اپنی اُس نظم میں اُجاگر کیا جو ’’عقل و دل‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی اور بانگ درا میں شامل ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں کام دُنیا میں رہبری ہے مرا مثلِ خضرِ خجستہ پا ہوں میں ہوں مفسر کتابِ ہستی کی مظہر شانِ کبریا ہوں میں بوند اک خون کی ہے تو لیکن غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں راز ہستی کو تُو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے تُو خدا جُو، خُدا نما ہوں میں علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں شمع تُو محفلِ صداقت کی حُسن کی بزم کا دیا ہوں میں تُو زمان و مکاں سے رشتہ بپا طائرِ سدرہ آشنا ہوں میں کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش ربِ جلیل کا ہوں میں اقبال نے اپنے کلام میں عقل اور عشق میں جو رشتہ دریافت کیا ہے اسے سمجھنے کے لیے یہ نظم ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میںنہ صرف عقل اور دل کے امتیازی اوصاف پر روشنی ڈالی گئی بلکہ ان دونوں کے ربطِ باہم کو بھی اُجاگر کر دیا گیا ہے۔ عقل کی لاف زنی دراصل مغرب کے اس انسان کی لاف زنی کے مترادف ہے جس نے عقلی اندازِ فکر کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے اندازہ ترقی کی اور اس وہم میں مبتلا ہوا کہ وہ عقل کے ذریعے اس کائنات کے جملہ راز ہائے سر بستہ کو فاش کر سکے گا۔ اس لاف زنی کا اظہار متعدد دعاوی سے ہوا ، مثلاً عقل نے کہا کہ وہ رہنماہے، پھر یہ کہ عقل ہی پر بھروسہ کر کے آدم خاکی نے آسمانی پہنائیوں میں جھانکا اور بہت سے راز معلوم کر لیے۔ علاوہ ازیں یہ بات کہ عقل مفسرِ ہستی ہے، یعنی زندگی کے بیشتر مادی علوم عقل ہی کے رہین منت ہیں، بالخصوص مغرب میں طبیعیات، علم الحیات، علم الانسان، نفسیات ، طب اور دوسرے شعبوں میںجو حیرت انگیز ترقی ہوئی وہ عقل کے استقرائی اور سائنسی انداز ہی کے باعث تھی۔ چنانچہ اقبال نے اپنی اس نظم میںعقل کو ایک کردار بنا کر پیش کیا تو یہ کردار دراصل مغرب کے اس انسان کے لیے ایک علامت تھا جس نے عقل و خرد کو واحد رہنما اصول کے طور پر تسلیم کر کے مادی دُنیا پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ مگر اقبال کو اس بات کا بڑی شدت سے احساس تھا کہ مغرب کے انسان نے عقل کی کِشت کو سیراب کرنے میں تو بڑی مستعدی دکھائی ہے مگر اس نے اپنے گھر کے پائیں باغ کو فراموش کر دیا ہے۔۔۔ اس قدر کہ اب اسے یاد بھی نہیں کہ اس کا کوئی پائیں باغ تھا بھی کہ نہیں۔ اقبال کافی عرصہ یورپ میں رہے اور اپنے سامنے عقل کی اساس پر استوار ہونے والی تہذیب کو زوال آمادہ ہوتے اور اُس تہذیب کے کارکنوں کو ایک عجیب سے نفسیاتی اور ذہنی خلفشار میں مبتلا دیکھتے رہے اور ہمہ وقت ان کے ذہن میں یہ خیال جڑیں پکڑتا رہا کہ مغرب کے انسان کے ذہنی عوارض کا علاج مغربی طب یا مغربی نفسیات کے بس کا روگ نہیں بلکہ اس کا علاج فقط یہ ہے کہ مغرب والوں کو ان کے ’’پائیں باغ‘‘ کے وجود کا احساس دلایا جائے اور بتایا جائے کہ انھوں نے اپنی استقرائی یلغار میںذات کے پورے منطقے سے صرف نظر کر لیا ہے۔ یہ نہیں کہ مغرب کے مفکرین اس بات سے آگاہ ہی نہیں تھے، ان میں برگساںاور ژنگ ایسے لوگ بھی تھے جو مادی ترقی کو روحانی بنجرپن کا باعث قرار دیتے تھے۔ برگساں عقل کے مقابلے میں وجدان کو اور ژنگ اجتماعی لاشعور کے حوالے سے ’’ذات‘‘ کو مجتمع کرنے پر زور دیتا رہا ، لیکن بحیثیت مجموعی مغرب کا انسان دل کی دُنیا سے منقطع ہو چکا تھا۔ چنانچہ اقبال نے عقل کے مقابلے میں دل کو بطور ایک کردار پیش کیا اور پھر عقلی رویے کے مقابلے میں وہبی رویے کی یوں توضیح کی کہ جہاں عقل کا کام سمجھنا اور پرکھنا ، تجزیہ کرنا اور تعقلات قائم کرنا ہے، وہاں دل کا کام دیکھنا ہے یعنی سنی سنائی باتوں پر ایمان لانا نہیں بلکہ تجربے یا واردات سے گزرنا ہے۔ اس بات کو ایک تشبیہ کے ذریعے کمال خوب صورتی سے بیان بھی کیا کہ عقل محفلِ صداقت کی شمع ہے، یعنی سچائی کی دریافت کے لیے وہ گہرے اندھیروں میں شمع بہ دست نکلتی ہے۔ دوسری طرف دل حُسن کی بزم کا دیا ہے اور حُسن ہمیشہ نورانی متصور ہوا ہے۔ گویا دل کا دیا حُسن کی روشنی کے ہالے میں اسی طرح جگمگاتا ہے جیسے ماہِ دو ہفتہ کے ہالے میں کوئی ستارہ ! مراد یہ کہ ستارے کی روشنی چاند کی بے کراں روشنی میں ضم ہونے کے باوجود اپنے وجود کو باقی رکھتی ہے۔ اسی طرح دل حُسن کا نظارہ کرنے پر قادر ہے، مگر یہ جرأتِ رندانہ عقل کے بس کا روگ نہیں۔ اسی طرح علم کی انتہا بے تابی ہے اور بے تابی اس دُکھ کا باعث ہے جو خواہشوں کے ازدحام سے پیدا ہوتا ہے۔ مگر وہبی سوچ یکتائی کی اُن منازل تک لے جاتی ہے جہاں خواہشات کی بے قراری باقی نہیں رہتی۔ آخری بات یہ کہ عقل زمان و مکاں میں مقید ہے اور اس لیے وقت کے سلاسل میں جکڑی ہوئی ہے جب کہ دل زمان و مکاں سے ماورا ہے بلکہ وہ تو ربِ جلیل کا عرش ہے۔ مختصراً یہ کہ عقل کی تگ و تاز صرف ایک خاص حد تک ہے۔ اس مقام سے آگے عقل کے پر جلنے لگتے ہیں، مگر عشق کی جست بے کراں ہے اور آن واحد میں ہر شے پر محیط ہو جاتا ہے: عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں بال جبریل بظاہر اقبال نے اپنی نظم ’’عقل اور دل‘‘ میں عشق کا ذکر نہیں کیا مگر دل مزاجاً عشق کے جذبے ہی سے لیس ہوتا ہے۔ دل کا کام یہ ہے کہ وہ ’’حُسن‘‘ کا ادراک کرے مگر حُسن تک رسائی پانے کے لیے خود دل کو ایک حرکی قوت بھی تو درکار ہے۔ عشق ہی وہ قوت ہے جس سے لیس ہو کر دل آزادی حاصل کرتا ہے، یعنی زمان و مکاں کی حد بندیوں سے اُوپر اُٹھ کر حقیقت کی جھلک پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔اقبال نے دل اور عشق کے ربط باہم کو اپنی نظم ’’دل‘‘ میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے: یا رب! اس ساغرِ لبریز کی مے کیا ہوگی! جادئہ مُلکِ بقا ہے خطِ پیمانۂ دل ابرِ رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب! جل گئی مزرعِ ہستی تو اُگا دانۂ دل حُسن کا گنجِ گراں مایہ تجھے مل جاتا، تُونے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل عرش کا ہے کبھی کعبہ کا ہے دھوکا اس پر کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانۂ دل تو سمجھتا نہیں اے زاہدِ ناداں! اس کو رشکِ صد سجدہ ہے اک لغزشِ مستانۂ دل خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے وہ اثر رکھتی ہے خاکسترِ پروانۂ دل عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے صورت یہ ہے کہ دل اپنی عام حالت میں تو محض جبلت یا جذبے کا دوسرا نام ہے اور اس لیے اسے عقل پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ اقبال لکھتے ہیں کہ جب دل عشق کی زد پر آتا ہے تو پہلے خاکستر میں تبدیل ہوتا ہے اور خاکستر میں تبدیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اُس سابقہ جہان کے انہدام کا منظر دیکھتا ہے جس میں وہ آکاس بیل کی طرح ہستی کے دروازوں سے چمٹا ہوا تھا تب اس کی قلبِ ماہیت ہو جاتی ہے۔ قلب ماہیت کے بعد دل محض ایک ’’ساغرِ لبریز‘‘ نہیں رہ جاتا بلکہ ’’جادئہ ملکِ بقا‘‘ بن جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عشق کی برق جب تک نہ گرے دل کی کایا نہیں پلٹتی۔ تخلیقی عمل میں یہ ایک نہایت اہم منزل ہے کیونکہ نراج(Chaos)کی زد پر آئے بغیر تخلیق کاری ممکن نہیں ہوتی۔ اب کھُلا کہ دل جب تک عشق سے لیس نہ ہو عقل پر سبقت حاصل نہیں کر سکتا، مگر جب عشق کی برقی رو دل کی شریانوں میں دوڑنے لگے تو اس میں وہی چکا چوند پیدا ہو جاتی ہے جو حُسنِ ازل میں ہے۔ تُلسی داس نے کہا تھا: مایا کو مایا ملے کر کر لانبے ہات اس کے بجائے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حُسنِ ازل کی روشنی کو ایک ایسا دل ہی دیکھ سکتا ہے جوخود عشق کی برقی رو سے قوت حاصل کرنے کے بعد منور ہو چکا ہو۔ اقبال نے اپنی اس نظم میں عقل اور دل کے رشتے کی تفہیم کے سلسلے میں ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور دل کی قلبِ ماہیت کے لیے عشق کو ناگزیر قرار دے دیا ہے۔ بے شک اس کے بعد بھی وہ کہیں کہیں دل کا ذکر کرتے ہیں، جیسے مثلاً ’’عقل ودل‘‘ ضرب کلیم میں: ہر خاکی و نوری پر حکومت ہے خرد کی باہر نہیں کچھ عقلِ خداداد کی زد سے عالم ہے غلام اس کے جلالِ ازلی کا اک دل ہے کہ ہر لحظہ اُلجھتا ہے خرد سے مگر اب ان کی ساری توجہ دراصل دل کے بجائے عشق پر مرتکز نظر آتی ہے۔ لہٰذا وہ عقل کا ’’دل‘‘ سے نہیں بلکہ عشق سے موازنہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی بات مستحسن بھی ہے کیونکہ منطق کی قوت کا وہبی قوت ہی سے موازنہ ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں کلامِ اقبال سے یہ چند نمونے قابلِ توجہ ہیں: نشان راہ ز عقلِ ہزار حیلہ مپرس بیا کہ عشق کمالے زیک فنی دارد -------- بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی -------- عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم -------- بگزر از عقل و در آویز بموج یم عشق کہ دراں جوئے تنک مایہ گہر پیدا نیست -------- زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل بیا کہ عشق مسلمان و عقل زُناری است -------- وہ پُرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سیتا ہے انھیں بے سوزن و تارِ رفو -------- عقل در پیچاک اسباب و علل عشق چوگاں باز میدانِ عمل! -------- عقل را سرمایہ از بیم و شک است عشق را عزم و یقیں لاینفک است -------- من بندئہ آزادم عشق است امامِ من عشق است امامِ من عقل است غلامِ من -------- عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں -------- زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک -------- تیرے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا کہ سکھا سکے خرد کو رہ و رسمِ کارسازی -------- حکیم میری نوائوں کا راز کیا جانے ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تدبیریں -------- خرد نے مجھ کو عطا کی نظرِ حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ -------- عقلِ آدم برجہاں شب خوں زند عشق او بر لامکاں شب خوں زند ان اشعار کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں عقل کو اسباب و علل کے تابع قرار دینے کے علاوہ ایک خوف زدہ، پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی ہستی کے روپ میں دیکھا ہے۔۔۔ ایک ایسی ہستی جس کے ہاں جرأت رندانہ کی کمی ہے، اور چونکہ ’’حضوری‘‘ کے لیے ضروری ہے کہ آتشِ نمرود میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے چھلانگ لگا دی جائے اور چونکہ عقل ’’لب بام‘‘ سے آگے نہیںجاتی، لہٰذا ’’حقیقت‘‘ کو جاننے کے عمل میں عقل بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ اقبال کے ہاں عقل کو کم تر حیثیت تفویض کرنے کا یہ رویہ ایک بڑی حد تک فارسی کی صوفیانہ شاعری سے مستعار ہے۔ اس سلسلے میںایک تو یہ بات قابل غور ہے کہ بقول سر عبدالقادر ۴؎ ’’فارسی میں شعر کہنے کی رغبت اقبال کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہوگی اور میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے اپنی کتاب حالاتِ تصوف کے متعلق لکھنے کے لیے جو کتب بینی کی اس کو بھی ضرور اس تغیرِ مذاق میں دخل ہوگا‘‘۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ تصوف کے طویل اور گہرے مطالعہ سے تصوف کے بعض بنیادی رجحانات بھی اقبال نے غیر شعوری طور پر ضرور قبول کیے ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اُردو غزل میں بھی (جو فارسی کی خوشہ چیں ہے) عقل کے مقابلے میں عشق کو برتر قوت قرار دینے کامسلک ہمیشہ سے بہت توانا ہے اور اقبال یقینا اُردو غزل کی روایت سے بھی متاثر ہوئے ہوں گے۔ تاہم جیسا کہ اس سے قبل ذکر ہوا، اقبال جب مغربی تہذیب اور فکر سے آشنا ہوئے اور انھیں محسوس ہوا کہ محض عقل کی بنیاد پر قائم ہونے والا نظام روحانی اعتبار سے مفلس ہوتا ہے تو اس بات نے بھی انھیں عقل کو کم تر قرار دینے اور عشق کو(جو مشرق کے وہبی اندازِ فکر کا ایک زاویہ ہے) عقل پر فوقیت دینے کے مسلک کو اختیار کرنے پر ضرور اکسایا ہوگا ۔ بہر کیف وجوہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں، یہ بات طے ہے کہ شاعری کی بالائی سطح پر اقبال نے اپنی ترجیحات کا بلا تکلف اظہار کیا اور عشق کے مقابلے میں عقل کی مفلسی اور اکہرے پن کو منظر عام پر لائے، مگر تصوف کے اس خاص رجحان کے علاوہ اقبال نے ایک اور سلسلے میں بھی صوفیانہ شاعری کی پیروی کی۔ ابنِ رشد نے عقلِ بالفعل اور عقلِ ہیولانی میں فرق قائم کرتے ہوئے لکھا تھا کہ عقلِ بالفعل کو عقل فعال متحرک کرتی ہے اور متحرک ہونے کے بعد وہ عقل مستفاد بن جاتی ہے۔ عام عقل کے رُوپ ہزار ہیں، مگر عقل فعال کا صرف ایک ہی رُوپ ہے۔ یوں گویا ابن رُشد نے حقیقت عظمیٰ کو عقل فعال کہہ کر پکارا اور سورج سے اسے تشبیہ دے کر ’’روشنی‘‘ کا نام بھی دیا۔ صوفیا نے اس کے بجائے عقل اور عشق کے فرق کو واضح کیا اور ان دونوں میں سے عقل کی تگ و تاز کو محدود اور عشق کی جست کو بے کراں قرار دیا اور کہا کہ عقل کا استقرائی اندازِ فکر حقیقت کی جھلک پانے کے قابل نہیں، مگر پھر غالباً مسلمان فلاسفروں سے متاثر ہو کر بعض صوفیا بالخصوص رومی نے عقل اور عشق کے فرق کو عقلِ جزوی اور عقل کلی کا فرق قرار دے لیا۔ یوں بہت سی ذہنی الجھنوں نے جنم لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل اور عشق کے الفاظ سے دو مختلف رویوں کا پتہ چلتا ہے جو عقلِ جزوی اور عقلِ کلی کے الفاظ سے گدلاہٹ کی زد پر آ جاتے ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں زیادہ تر عقل کو عشق ہی کے مقابل پیش کیا اور اسی لیے اقبال کا مسلک گنجلک نہیں ہے۔ البتہ کہیں کہیں وہ اس ضمن میں فارسی روایت سے متاثر بھی ہو گئے تھے، مثلاً پیام مشرق میں لکھتے ہیں: عقل خود بیں دگر و عقل جہاں بیں دگر است بالِ بلبل دگر و بازوئے شاہیں دگر است دگر است آں کہ برد دانۂ افتادہ زخاک آں کہ گیرد خورش از دانۂ پرویں دگر است دگر است آں کہ زند سیر چمن مثلِ نسیم آں کہ در شد بہ ضمیرِ گل و نسریں دگر است دگر است آنسوئے نہ پردہ کشادن نظرے ایں سوئے پردہ گمان وظن و تخمیں دگر است اے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم با اوست نورِ افرشتہ و سوزِ دلِ آدم با اوست اپنے ان خوبصورت اشعار میں اقبال نے دراصل عقل کی نارسائی کے مقابلے میں عشق کی بے کرانی ہی کا ذکر کیا ہے مگر ’’عقلِ خود بیں‘‘اور ’’عقلِ جہاں بیں‘‘کی تراکیب کے ذریعے اپنے مسلک کو سامنے لائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ اقدام رومی ہی کے تتبع میں ہے، مگر سوچنے کی بات ہے کہ اصل منزل تو ’’آگہی‘‘ ہے جس کے حصول کے لیے عقل اور عشق دونوں محض ’’ذریعے‘‘ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عقل کی رسائی آگہی کی اُس سطح تک ہوتی ہے جو زمان و مکاں کے حوالے سے متشکل ہوتی ہے،جب کہ عشق آگہی کی اس سطح تک پہنچتا ہے جو زمان و مکاں سے ماورا ہے اور جس کی کوئی نہایت نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ موخرالذکر سطح دراصل کوئی ہموار سطح نہیں بلکہ تہ در تہ اور پردہ در پردہ ہے، اور صوفی جب عشق کی قوت سے لیس ہو کر آگے بڑھتا ہے تو گویا آگہی کے بے نہایت سمندر میں غواصی کرنے لگتا ہے۔ شاید اسی لیے زین بُدھ مت میں آگہی کا یہ روپ جسے ساتوری (Satori)کہہ کر پکارا گیا ہے محض ایک کیفیت نہیں بلکہ ان گنت نورانی پردوں کو یکے بعد دیگرے اُٹھائے چلے جانے کا نام ہے۔ لہٰذا جب ایک بار یہ بات واضح ہو گئی کہ اصل منزل آگہی ہے، نیز یہ کہ عقل آگہی کی محض بالائی سطح تک رسائی پانے کی اہل ہے جب کہ عشق آگہی کی زیریں لہروں تک پہنچ سکتا ہے، تو پھر عقل اور عشق کے بجائے عقلِ جزوی اور عقلِ کلی کی تراکیب سے غلط فہمیوں ہی کو تحریک مل سکتی ہے۔ (۴) اقبال نے اپنے کلام میں جہاں عقل اور عشق کے متضاد اوصاف کی نشان دہی کی ہے وہاں ان کے امتزاج اور ربطِ باہم کا بھی ذکر کیا ہے۔مراد یہ ہے کہ ہر چند عقل کا سنبھلا ہوا انداز عشق کی بے محابا جست سے ایک مختلف شے ہے لیکن دونوں کا رُخ ایک ہی منزل کی طرف ہے۔ لہٰذا اس کٹھن راستے کے مُسافر کے لیے ابتدا ہی میں اس بات کا فیصلہ کرنا ضروری نہیں کہ وہ اپنے سفر کے لیے کون سی سواری کا انتخاب کرے۔۔۔ وہ جس کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہو یا وہ جس سے منسلک ہو کر اُسے ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ایسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑے۔ اصل صورت یہ ہے کہ اس مسافر کو پہلے تو پگڈنڈیوں پر سفر کرنا ہے جہاں عقل پیدل چلنے کے عمل سے مشابہ ہے اور پھر اسے شاہ راہ پر سفر کرنا ہے جہاں پیدل چلنا بے کارِ محض ہے کہ یوں اُس رفتار کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو عشق کا اسپ ِصبا رفتّار مہیاکرتا ہے۔ لہٰذا عقل اور عشق کا رشتہ یوں متعین ہوتا ہے کہ ایک خاص مقام تک تو انسان عقل کے قدموں سے سفر کرتا ہے مگر اس کے بعد عشق کے اسپ تازی کو بروئے کار لاتا ہے۔ اقبال اس حقیقت سے آشنا ہیں، لہٰذا انھوں نے اپنے کلام میں عقل اور عشق کے امتزاج کا بار بار ذکر کیا ہے۔ مگر امتزاج کی صورت یوں پیدا نہیں ہوئی کہ زندگی کی گاڑی میں عقل اور عشق دو پہیوں کی حیثیت رکھتے ہوں بلکہ یہ کہ ایک خاص مقام پر پہنچنے کے بعد جب اسے عشق کی قوت عطا ہوتی ہے تو عقل کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے۔ اس قلب ماہیت کے بعد عقل کا منصب اور کار کردگی بالکل تبدیل ہو جاتی ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ نوع کے اعتبار سے بھی یہ ایک مختلف شے بن جاتی ہے۔ لہٰذا اسے محض ایک آدھ لاحقہ یا سابقہ لگا کر عقل ہی کے زمرے میں شمار کرتے چلے جانا ، اُلجھنیں پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یوسف حسین لکھتے ہیں:۵؎ اقبال عقل کو انسان کی خدمت کا وسیلہ سمجھتا ہے۔ وہ اس کا مخالف نہیں۔ وہ صرف اس کی کوتاہیوں کو سمجھنا اور دوسروں کو سمجھانا چاہتا ہے۔ جدید تمدن و تہذیب کا زیادہ تر رجحان عقل پرستی کی طرف ہے جو زندگی کو ایک روکھی پھیکی ، بے رنگ و بے لطف میکانکی چیز سمجھتی ہے۔ جدید عقلیت اس قدر برخود غلط ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی کو خاطر میں نہیں لاتی اور چونکہ اصولِ موضوعہ پرعمل پیرا ہونے سے دنیاوی مفاد کے حصول میں سہولتیں ہوتی ہیں، اس لیے ہر شخص اس کا سہارا چاہتا ہے اور زندگی کی دوسری قوتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اقبال نے اس زمانے کے اور دوسرے بڑے مفکروں کی طرح اس حقیقت کو محسوس کیا کہ اگر انسان کے وجدانی سرچشمے خشک ہوگئے تو اس سے زندگی کو بڑا نقصان ہوگا۔ عقل ہم ربطی تو پیدا کر سکتی ہے لیکن تخلیقِ وحدت اس کے بس کی بات نہیں۔ ایک ایسا تمدن جو عقلیت کے نشے میں سرشار ہو بہت جلد غیر تخلیقی ہو جائے گاجو دراصل اس کے زوال سے عبارت ہے۔ اسی لیے اقبال نے عشق و وجدان کو عقل و علم کے مقابلے میں اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیکن زندگی کی اصل حیثیت عشق و عقل کے امتزاج سے عبارت ہے ۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: عقلے کہ جہاں سوز و یک جلوئہ بے باکش از عشق بیاموزد آئینِ جہاں تابی اقبال عقل کو اپنی شورشِ پنہاں کا شریک ودم ساز بنا لیتا ہے: یہ عقل جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار شریکِ شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں دوسری جگہ کہتاہے کہ پہلے میں نے دل کو عقل کے نور سے منور کیااور پھر عقل کو دل کی کسوٹی پر پرکھا، تب کہیں جا کر زندگی کی مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے آئی۔ عقل اور عشق کا امتزاج زندگی اور تمدن کے لیے ایک نیا پیغام ہے جو اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے پیش کیا: نوا مستانہ در محفل زدم من شرارِ زندگی برگل زدم من دل از نورِ خرد کردم ضیا گیر خرد را بر عیارِ دل زدم من دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے کہ عقل عشق کی مدد سے حق شناس بنتی ہے اور عشق عقل کی بصیرت سے قوت اور استقلال حاصل کرتا ہے۔ اگر یہ دونوں قوتیں مل جائیں تو انسانی زندگی کی کایا پلٹ جائے۔ اقبال کے اس پیغام میں حقیقی اصلاحی روح کی جلوہ گری نظر آتی ہے: زیرکی از عشق گر در حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہم برشود نقش بندِ عالم دیگر شود عقل خارجی حقائق کو اپنی گرفت میں لاتی ہے اور عشق ان کی تسخیر کرتا ہے۔ اقبال کی عارفانہ بصیرت عقل اور جنوں کے تضاد کو رفع کرتی اور قامتِ عقل پر جنوں کی قبا کو چُست کر دیتی ہے۔ خرد جب ذوق تپش سے آشنا ہو جائے تو وہی دل بن جاتی ہے اور دل اگر بے سوز ہو جائے تو وہ خاک سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا: چہ می پرسی میان سینہ دل چیست خرد چوں سوز پیدا کرد دل شد دل از ذوق تپش دل بود لیکن چو یک دم از تپش افتاد گلِ شد ڈاکٹر یوسف حسین کے مضمون ’’عشق اور عقل‘‘ سے یہ طویل اقتباس اقبال کے ہاں عقل اور عشق کے امتزاج پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اقبال کے ہاں اس سلسلے میں دواہم رویے موجود تھے۔ ایک یہ کہ عقل اور عشق دو متصادم چیزیں نہیں بلکہ زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں۔ عقل عشق سے آئینِ جہاں تابی سیکھتی ہے اور حق شناسی کے مراحل سے آشنا ہوتی ہے اور خرد سے عشق کی اساس محکم ہوتی ہے اور دل نورِ خرد سے استفادہ کرتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ اقبال زندگی کے معاملات میں ایسی صورتِ حال دیکھنے کے متمنی ہیںکہ عقل اور عشق دونوں کو بروئے کارلایا جائے۔ اقبال کا دوسرا رویہ یہ ہے کہ جب خرد کے اندر سوز پیدا ہوتا ہے تو وہ دل بن جاتی ہے اور دل سے اگر ذوقِ تپش منہا ہو جائے تو وہ مٹی کا ایک تودہ ہے۔ میری رائے میں عقل اورعشق کے امتزاج کے سلسلے میں اقبال کا مقدم الذکر رویہ نہ صرف ایک مثالی معاشرے کے حصول کے لیے بلکہ ہندی مسلمانوں کے دو مختلف الخیال طبقوں کی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے اختیار کیا گیا تھا جب کہ موخر الذکر رویہ اقبال کا بنیادی رویہ تھا جس کے مطابق عقل کی تگ و تاز ایک خاص حد تک ہے ۔ اس کے بعد وہ منقلب ہو کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر یوسف حسین لکھتے ہیں۶؎ کہ اقبال کے ہاں : اپنی خالص نکھری ہوئی شکل میں عشق و عقل دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ اقبال نے جس عقل کی کوتاہیاں ظاہر کی ہیں وہ عقل جُزوی ہے جو مادے کی حقیقت کو سمجھتی ہے لیکن زندگی کو نہیں سمجھ سکتی۔ جب وہ زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کومسخ کر ڈالتی ہے۔ وہ تجزیہ اور ادراک کر سکتی ہے لیکن زندگی کو جو ایک تسلسل کی زمانی حقیقت ہے اپنی گرفت میں نہیںلا سکتی۔ تجزیہ مکانی اشیا کا ممکن ہے لیکن جب عقل جُزوی کوزندگی جیسی حقیقت سے سابقہ پڑتا ہے جس کے سب اجزا آپس میں ایسے گتھے ہوئے ہیں کہ انھیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا تو وہ اسے سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ وہ ہر حقیقت کا نقشہ بنانا چاہتی ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھر انھیں جوڑتی ہے تاکہ مکمل حقیقت کا علم ہو سکے حالانکہ ہر انسانی جذبہ سیکڑوں کیفیات کے عناصر پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے میں اس طرح سرایت کیے ہوتے ہیں کہ ان کے معین خطوط کو ایک دوسرے سے علیحدہ مقرر کرنا ناممکن ہے۔ اقبال کے نزدیک عقلِ کلی میں ادراک کی صلاحیت کے علاوہ ذوقِ تجلی بھی موجود ہے۔ اس واسطے اس میں اور وجدان میں فرق باقی نہیں رہتا اور ان کا تناقص دور ہو جاتا ہے۔ تو پھر بات کیا ہوئی؟ اگر عقل کلی وہی شے ہے جسے وجدان کہا گیا ہے اور وجدان عقل سے مختلف شے ہے تو پھر وجدان کے لیے عقلِ کلی کی ترکیب استعمال کرنا اور پھر اسے عقلِ جزوی سے متمیّز کرنا ایک ذہنی ورزش کے سوا اور کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل کا ایک خاص استقرائی مزاج ہے۔ وہ تجزیے کے عمل سے آگے بڑھتی اور تعقلات قائم کرتی ہے۔ جب اس کی قلبِ ماہیت ہوتی ہے تو وہ عقلی اوصاف کو ترک کرکے آگہی کی ایک خاص سطح میں منتقل ہوتی اور پھر اپنے اس خاص روپ میں ’’وجدان‘‘ کا جزو بدن بن جاتی ہے۔ مگر یہ تو تخلیقی عمل کی بات ہے جس میں ٹھوس اور جامد اشیا تک ’’نراج‘‘ کے عالم میں آنے اور اپنی سابقہ صورتوں سے دست کش ہونے کے بعد ایک تخلیقی مواد کی صورت ’’تخلیق‘‘ میں صرف ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب تخلیق سامنے آتی ہے تو ان صرف ہونے والی اشیا کے ناموں سے بھی بے نیاز ہو جاتی ہے۔ یہی حال ’’آگہی‘‘ کی نمود کا ہے کہ اس میں عقل کے عناصر جذب تو ہوتے ہیں مگر ایسی صورت میں کہ انھیں پہچاننا تک ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اقبال کا اصل موقف یہ ہے کہ عشق کی قوت میں عقل کی قوت جذب ہو جاتی اور آگہی میں شعور کے عناصر شامل ہو جاتے ہیں مگر مزاجاً عقل اور عشق دو مختلف چیزیں ہی رہتی ہیں اور انھیں آپس میں خلط ملط کرنا مناسب نہیں۔ رہا یہ سوال کہ اقبال نے اپنے اس رویے کا اظہار کیوں کیا کہ عقل اور عشق متصادم چیزیں نہیں بلکہ زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہیں تو اس سلسلے میں اس ساری معاشرتی اور تہذیبی صورتِ حال کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگاجس میں اقبال نے اس رویے کو اپنایا۔ قصّہ یہ ہے کہ جن دنوں اقبال شعر کہہ رہے تھے، ہندی مسلمان دو مختلف الخیال طبقوں میںبٹے ہوئے تھے۔ ایک طرف وہ طبقہ تھا جو مسلمانوں سے حکومت چھن جانے کے بعد حجروں، خانقاہوں اور ذہنی قلعہ بندیوں میں خود کو محصور کر چکا تھا۔ اس طبقے نے انگریز اور اس کی ساری تہذیب اور علوم کو بنظرِ تحقیر دیکھا تھا اور چونکہ انگریز کی تہذیب عقلی انداز نظر کی اساس پر استوار تھی لہٰذا اس طبقے نے سائنسی اور عقلی رویے کی تکذیب کو بھی اپنا منتہائے نظر قرار دے لیا تھا۔ ممکن ہے اس کی نفسیاتی وجہ یہ ہو کہ جو چیز انسانی پہنچ سے بالا ہو، اس کے بارے میں انسانی رویہ بھی متشدد ہو جاتا ہے، مگر اصل وجہ یہ تھی کہ انگریز سے شکست کھانے کے بعد ہندی مسلمان اپنی تہذیب کی جڑوں سے قوت کشید کرنے کا خواہش مند تھا تاکہ وہ بیرونی تہذیبی یلغار کا مقابلہ کر سکے اور چونکہ ہندی مسلمان کی کئی سو سالہ تہذیبی میراث میں وجدانی میلان کو بڑی اہمیت حاصل رہی تھی لہٰذا قدرتی طور پر اس نے سو چا کہ مغرب کے عقلی رویے کا علاج مشرق کے وجدانی اندازِ نظر ہی کے پاس ہے۔ اقبال کو اس طبقے کی اس مراجعت میں شکست خوردگی ، پدرم سُلطان بود اور انفعالیت کے عناصر صاف دکھائی دیے اور انھیں محسوس ہوا کہ اگر مسلمان اسی طرح حجروں اور خانقاہوں میں سمٹتے چلے گئے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی اُس دنیا سے انھوں نے کوئی علاقہ نہ رکھاجس میں علوم کی سرحدیں پھیلی رہی تھیں اور مادی دنیا کو زیرپا لایا جا رہا تھا تو وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ اس بات کا احساس اوّل اوّل سید احمد خاں اور مولانا حالی کو بھی ہوا تھا اور انھوں نے ’’پیرویِ مغربی‘‘ کے اعلان سے ہندی مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کی سعی بلیغ بھی کی تھی۔ مگر اقبال نے مغربی تہذیب کے ظواہر کے بجائے اس کے حرکی عناصر کو پہچانا اور ہندی مسلمانوں کو خرد دشمنی کے انتہائی جذباتی اندازِ نظر سے دست کش ہونے کی تلقین کی۔ اقبال کی شاعری میں اوّل اوّل عقل کی نارسائی کا ذکر ہوا مگر پھر عقل و عشق کے موازنے میں عقل کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا اور آخر آخر میں عقل کے منقلب ہونے کی داستان سنائی گئی اور اس سب کا مقصد یہ تھا کہ ہندی مسلمانوں کے دلوں سے اس تعصب کو خارج کیا جائے جو تصوف کے بعض مکاتب کی تعلیم کے تحت عام ہو گیا تھا اور جسے تقدیر پرستی کے رجحان نے اور بھی توانا کر دیا تھا۔ اقبال کے زمانے میں دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے واقعتا ’’پیروی مغربی‘‘کو اپنا مسلک بنا لیا تھا اور مغربی تہذیب کو بڑی فراخ دلی سے اپنانے لگا تھا۔ اس طبقے نے سر زمین وطن سے اپنی جڑیں کاٹ لی تھیں اور لباس ، بول چال ، حتیٰ کہ تہذیب کے جملہ دوسرے مظاہر کے سلسلے میں بھی، اپنے آقائوں کی تقلید کرنے لگا تھا۔۔۔ اس قدر کہ اس نے مغرب کے عقلی اور سائنسی اندازِ نظر کو بھی دل و جان سے قبول کر لیاتھا اور اسی نسبت سے مذہبی اور وجدانی اندازِ نظر سے محروم ہو رہا تھا۔ اقبال کچھ عرصہ یورپ میں بھی رہے تھے اور وہاں انھوں نے اس مغربی تہذیب کے ٹوٹنے اور زوال آمادہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا جس کی اساس عقلی اور منطقی اندازِ فکر پر استوار کی گئی تھی: تمھاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا لہٰذا وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو بتانا چاہتے تھے کہ محض عقلی نظام پر انحصار روحانی افلاس کا پیش خیمہ ہے۔ جب تک عقلی رویے کے ساتھ وجدانی اندازِ نظر بھی پیدا نہ ہو کوئی تہذیب مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں رہ سکتی اور نہ کوئی قوم ارتقا کی دوڑ ہی میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ اُدھر خود مغرب میں بھی صورتِ حال تبدیل ہو رہی تھی اور عقل و خرد کا دامن سمٹ رہا تھا: انیسویں صدی کی سائنس نے کائنات کو ایک مشین کی صورت دے دی تھی اور ’’سبب اور نتیجے‘‘ کے نظریے نے اس قدر کامیابی حاصل کر لی تھی کہ عام لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ سائنس جلد ہی مذہب کا بدل ثابت ہو جائے گی اور اس کی مدد سے کائنات کا عقدہ بھی جلدہی حل ہو جائے گا۔ مگر بیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی تیقّن کی یہ ساری فضا پارہ پارہ ہو گئی ۔ کوانٹم تھیوری اور نظریۂ اضافت نے میکانکی توضیح کے بجائے ریاضیاتی تجریدسے روشنی حاصل کی اور جوہر سے اس کا مادی وجود ہی چھن گیا۔ اسی طرح برگساں نے وقت کو لمحات میں تقسیم کرنے کے مروج میکانکی نظریے کے مقابلے میں متسلسل کا نظریہ پیش کیا جسے وجدان ہی گرفت میں لے سکتا ہے۔ مارگن (Morgan) اور الیگزینڈر (Alexander)نے مسلسل ارتقا کا نظریہ پیش کیا اور ساری فضا میں انیسویں صدی کے مادی نظریات کے خلاف تشکک کا ایک بھرپور میلان وجود میں آ گیا۔۔۔ اسی دوران میں اقبال نے کچھ عرصہ مغرب میں بسر کیااور اپنی آنکھوں سے ان بنیادوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا جن پر مغرب نے اپنے تمام قصر اُٹھا رکھے تھے۔ چنانچہ اقبال نے ’’پیروی مغرب‘‘ کی تلقین کے بجائے یہ کہنا شروع کیا کہ مغربی تہذیب کی حیثیت تو شاخِ نازک پہ بنے ہوئے آشیانے سے مختلف نہیں اور اس لیے اس کا پایدار ہونا ناممکن ہے۔۷؎ مختصراً یوں کہہ لیجیے کہ اقبال اپنے زمانے کے دونوں انتہا پسندانہ رویوں کا استیصال چاہتے تھے۔ وہ اس اندازِ نظر کے بھی مخالف تھے جو عقل کو گردن زدنی قرار دیتا تھا اور اس کے بھی جو محض عقل کو سب کچھ قرار دینے پر مُصر تھا۔ لہٰذا اقبال کے ہاں عقل اور عشق کے امتزاج کا جو مسلک اُبھرا وہ ہندی مسلمانوں کے دونوں طبقوں کو ایک نئے مرکز پر اکٹھا کرنے کی ایک کاوش تھی۔ تاہم ان کی شاعری کی بالائی سطح پر جس عمومی خیال کا اظہار ہوا وہ یہی تھا کہ عقل کے مخصوص استقرائی اور سائنسی اندازِ فکر کے مقابلے میں وجدان کے استخراجی اندازِ فکر کا دامن کہیں زیادہ وسیع ہے۔ (۵) اقبال کے ہاں عقل اور عشق کا جو امتزاج ظاہر ہوا اسے ایک اور طرح سے دیکھنا بھی شاید خیال انگیز ثابت ہو۔ اقبال کی سائکی میں تیرہ سو برس کی اسلامی تہذیب اور ہزار ہا برس کی مشرقی تہذیب کے بنیادی عناصر موجود تھے جو ایک دوسرے میں جذب ہو کر اس جوہر کی صورت میں اُبھر آئے تھے جو اصلاً اور مزاجاً مشرقی تھا۔ اس جوہر کے اجزائے ترکیبی میں یوں تو لاتعداد عناصر شامل تھے لیکن مذہبی صوفیانہ اور جمالیاتی عناصر بالخصوص بہت زیادہ نمایاں تھے۔ بے شک یہ عناصر ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن ان تینوں کا رُخ ایک ہی طرف تھا یعنی وراء الورا سے ہم رشتہ ہونا ان کا بنیادی مسلک تھا اور تینوں منزل تک پہنچنے کے لیے ’’وجدان‘‘ کو ایک بڑا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اقبال کے ہاں عشق کو اہمیت دینے اور عقل کے مقابلے میں وجدان کو حقیقت کی تفہیم میں سب سے اہم حربہ قرار دینے کا میلان خون اور نسل اور تہذیب کی راہ سے آیا تھا اور اس کی جڑیں سر زمین مشرق میں بہت دور تک اُتری ہوئی تھیں۔ چنانچہ اقبال کی شاعری میں مغربی تہذیب کو ہدف طنز بنانے کی روش اور عقلی اندازِ فکر کو وجدانی اندازِ فکر کے مقابلے میں کم تر قرار دینے کا رویہ بنیادی طور پر اس مشرقی تہذیب کا ہی عطیہ تھا جس نے مادی مقاصد پر روحانی مقاصد کو ہمیشہ ترجیح دی تھی بلکہ مادے کی ٹھوس دنیا کو فنا آشنا اور غیر حقیقی اور اس کے پس منظر میں پھیلی ہوئی غیر مادی فضا کو لافانی سمجھا تھا۔ اقبال کے زمانے میں مغربی تہذیب اور اس کے سائنسی اندازِ نظر اور مادہ پرستی کے رجحان نے جس شدو مد کے ساتھ مشرقی تہذیبوں پر یلغار کی تھی اس سے اقبال کے ذہن میں یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں مادہ پرستی کی آندھی روحانیت کی اس شمع ہی کو گل نہ کر دے جسے مشرق نے ہزار ہا برس سے بجھنے نہ دیا تھا۔ اقبال کا یہ احساس کس قدر صادق اور بروقت تھا، اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ آج مغرب میں اس بات کا کھلے بندوں اظہار ہونے لگا ہے کہ روحانیت کا سرچشمہ مشرق میں ہے اور اگر مغربی تہذیب کو اپنے روحانی بنجرپن سے نجات پانا ہے تو اسے لامحالہ مشرق ہی کی طرف دیکھنا ہوگا۔ یہ احساس مغرب کے مفکرین ہی نہیں، وہاں کے ادبا اور شعرا کے ہاں بھی ایک سی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ سمرسٹ ماہم(Somerset Maugham)نے Razor's Edge میں سرزمین ہند سے اُبھرنے والے فلسفہ ویدانت میں روح کی تسکین کا سامان پایا اور Painted Veil میں چینی اندازِ فکر کو مثبت اور بامعنی قرار دیا اور ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ (T.S.Eliot) نے مغربی تہذیب کے روحانی افلاس کی تصویر کھینچنے کے بعد ’’شانتی‘‘ کی خواہش کی جو ایک خالص مشرقی تصور تھا۔ اسی طرح بیسویں صدی کے مغرب میں صلیبی جنگوں کے اُس تعصب کے باوجود جو ابھی تک مغربی انسان کی سائکی میں موجود ہے، اسلامی تہذیب اور فلسفے کی طرف توجہ ہوئی اور مغرب کے بہت سے حکما نے مذہبِ اسلام کو روحانی تسکین کے حصول کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔ اسی طرح بدھ مت اور اس کے افکار کو مغرب والوں نے جس شیفتگی کے ساتھ اپنایا، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ مگر مغرب کے رویے میں اس واضح تبدیلی سے بہت پہلے اقبال کو یہ احساس تھا کہ محض عقل پر انحصار اور وجدان سے قطع تعلق کرکے مغرب کے انسان نے خود کو روحانی طور پر قطعاً مفلس کر لیا ہے۔ اسی طرح اقبال کو یہ بھی احساس تھا کہ اہلِ وطن مغرب کی تقلید میں اپنے روحانی ورثے سے دست کش ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اقبال نے اپنی شاعری میں مغربی تہذیب کی مادہ پرستی اور عقل کی نارسائی کا ذکر بار بار کیا اور کلامِ اقبال کے سر سری سے مطالعہ سے بھی ان کے اس خاص میلان کے شواہد بآسانی مل جاتے ہیں۔ اپنی دوسری تحریروں میں بھی اقبال نے مغرب سے آنے والی لہروں کو مُضر قرار دیا ہے مثلاً سید محمد سعید الدین جعفری کے نام اپنے ایک خط میں رقم طرازہیں: ۸؎ چونکہ اس وقت مُلکی اور نسلی قومیت کی لہر یورپ سے ایشیا میں آرہی ہے اور میرے نزدیک انسان کے لیے ایک بہت بڑی لعنت ہے، اس واسطے بنی نوع انسان کے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس وقت اسلام کے اصلی حقائق اور اس کے حقیقی پیش نہاد پر زور دینا بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خالص اسلامی نقطۂ خیال کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتا ہوں۔ اسی طرح پیام مشرق کے دیباچے میں یورپی تہذیب کے انہدام کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:۹؎ یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے جس کا ایک دُھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن شٹائن(Einstein) اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے۔ یورپ نے اپنے علمی ، اخلاقی اور اقتصادی نصب العین کے خوفناک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں اور سائرینٹی (سابق وزیر اعظم اطالیہ) سے ’’انحطاطِ فرنگ‘‘کی دل خراش داستان بھی سُن لی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اس کے نکتہ رس مگر قدامت پرست مدبرین اس حیرت انگیز انقلاب کا صحیح اندازہ نہیں کر سکے جو انسانی ضمیر میں اس وقت واقع ہو رہا ہے۔ خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگ عظیم کی کوفت کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کی نشو و نما کے لیے نامساعد ہے۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کی طبائع پر وہ فرسودہ سست رو اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آ جائے جو جذبات قلب کو افکار دماغ سے متمیّز نہیں کر سکتی۔ اس اقتباس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔۔۔ ایک تو یہ کہ اقبال نے بھی ’’زوالِ مغرب‘‘ کا وہ منظر دیکھ لیا تھا جسے بیسویں صدی میں شپنگلر(Spengler)، ٹائن بی(Toynbee)اور سوروکن(Sorokin)نے بار بار دیکھا اور وہ محسوس کر رہے تھے کہ اس زوال کا باعث عقل و منطق پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور مذہب اور وجدان سے ضرورت سے زیادہ بے گانگی تھی۔دوسری بات یہ کہ اقبال کو زوال مغرب میں فرسودگی اور اضمحلال کا میلان ایک اہم عنصر کے طور پر نظر آیا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے اُس صحت مند میلان کو پسند کرتے تھے جو احیاء العلوم کے بعد یورپ میںپھیلا تھا اور جس کے باعث مغرب کے انسان نے بے پناہ ترقی کی تھی۔ چنانچہ جب بیسویں صدی میں مغربی تہذیب روبہ زوال ہونے لگی تو اقبال نے دیکھا کہ ذہنی اضمحلال بھی اس کا ایک اہم سبب تھا۔ بہرکیف اقبال نے اپنی شاعری اور بعض مکاتیب میں مشرق کے وجدانی رویے کو سراہا اور اس بات کا اظہار کیا کہ مغربی تہذیب ایک روحانی نشاۃ ثانیہ کے بغیر پھل پھول نہیں سکتی۔ گویا اقبال کی تحریروں میں عقل کی نارسائی اور کوتاہی کو منظرِ عام پر لانے اور اس کے مقابلے میں عشق اور وجدان کی ہمہ گیری اور ہمہ دانی کا احساس دلانے کا مقصد مغربی تہذیب کو (جس کا سارا نظام عقلی بنیادوں پر استوار تھا) اُس جوہر کے حصول پر آمادہ کرنا تھا جو مشرق کی تحویل میں تھا۔ دوسری طرف اقبال ابنائے وطن بالخصوص ہندی مسلمانوں کی انفعالیت پسندی سے نالاں بھی تھے۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد ہندی مسلمان بتدریج ’’طائوس و رباب‘‘ کے سحر میںاسیر ہوتے چلے گئے تھے۔ ان کی اس روش کے پس پشت تقدیر پرستی کا میلان خاصا توانا تھا۔ وہ اس دنیا اور اس کے لوازم کو چند روز، فنا آشنا اور اکثر و بیشتر غیر حقیقی سمجھنے پر مائل تھے۔ ان کے نزدیک موت محض ماندگی کا وقفہ تھا جس کے اُس طرف حیاتِ جاوداںاور اِس طرف حیات دو روزہ کا منظر دکھائی دیتا تھا۔ حیات دو روزہ سے بے اعتنائی کے میلان نے انھیں متحرک ہونے، زندگی کی دوڑ میں سنجیدگی سے قدم اُٹھانے اور ہر چیلنج کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے سے متنفر کر دیا تھا۔ راضی برضا ہونے اور قناعت پسندی اور عزلت نشینی کو ایک اہم قدر کے طور پر تسلیم کرنے کا رویہ پورے معاشرے پر مسلط ہو گیا تھا۔ فکری سطح پر تصوف نے مخصوص رجحانات میں اذہان کو ایک نغمۂ سرمدی کی تلاش پر اس درجہ مائل کر دیا تھا اور رہبانیت کی فضا اس تیزی سے مسلط ہو رہی تھی کہ زندگی کے عزائم اور مقاصد بالکل ثانوی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ غالباً اس کی وجہ وہ ہزیمت بھی تھی جس کا سامنا ہندی مسلمانوں کو غدر کے دوران کرنا پڑا تھا، مگر چونکہ ہزیمت کے سلاسل دراز ہو گئے تھے اور ایک اجنبی حکومت نے اذہان پر یاسیت مسلط کر دی تھی، اس لیے تقدیر پرستی کا چلن عام ہوا اور حالات کامقابلہ کرنے کی آرزو مدھم پڑ گئی۔ اقبال کو ہندی مسلمانوں کی اس انفعالیت ، ناکردگی اور زندگی کی ہر دم رواں، ہر دم دواں موج سے منقطع ہونے کا شدید احساس تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے ہاں بھی جذبۂ حریت اور ذہنی برانگیختگی موجود ہو جو مغربی اقوام کے حصے میں آئی تھی۔ اسی سلسلے میں اقبال نے ایرانی تصوف کے بعض ارضی میلانات کی سب سے پہلے مذمت کی ، مثلاً خواجہ حسن نظامی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:۱۰؎ حضرت امام ربانی نے مکتوبات میں ایک جگہ بحث کی ہے کہ ’’گسستن‘‘ اچھا ہے یا ’’پیوستن‘‘۔ میرے نزدیک گسستن عین اسلام ہے اور پیوستن رہبانیت یا ایرانی تصوف ہے اور اسی کے خلاف میں صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔ گزشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب آپ نے مجھے سرّالوصال، کا خطاب دیا تھا تو میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے ’’سرالفراق‘‘ کہا جائے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو مجدد الف ثانی نے کیا ہے۔ آپ کے تصوف کی اصطلاح میں اگر میں اپنے مذہب کو بیان کروں تو یہ ہو گا کہ شانِ عبودیت انتہائی کمال روح انسانی کا ہے۔ اس سے آگے کوئی مرتبہ یا مقام نہیں یا محی الدین ابن عربی کے الفاظ میں عدم محض ہے یا بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ ’حالتِ سُکر‘ منتہائے اسلام اور قوانین حیات کے مخالف ہے اور ’حالتِ صحو‘ جس کا دوسرا نام اسلام ہے قوانین حیات کے عین مطابق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامنشا تھا کہ ایسے آدمی پیدا ہوں جن کی مستقل حالت کیفیت ’صحو‘ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریمؐ کے صحابہ میں صدیقؓ و عمرؓ تو بکثرت ملے مگر حافظ شیرازی کوئی نظر نہیں آتا۔ اصل بات یہ ہے کہ صوفیا کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں سخت غلطی ہوئی ہے۔ یہ دونوں اصطلاحیں مرادف نہیں بلکہ مقدم الذکر کا مفہوم خالص مذہبی ہے اور موخر الذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔ توحید کے مقابلے میں اس کی ضد لفظ ’کثرت‘ نہیں جیسا کہ صوفیا نے تصور کیا ہے بلکہ اس کی ضد شرک ہے۔ وحدت الوجود کی ضد ’کثرت‘ ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجود یا زمانۂ حال کے فلسفۂ یورپ کی اصطلاح میں توحید کو ثابت کیا، وہ موحد تصور کیے گئے، حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلے کا تعلق مذہب سے نہ تھا ، بلکہ نظام عالم کی حقیقت سے تھا۔ اسلام کی تعلیم نہایت صاف اور روشن ہے ، یعنی یہ کہ عبادت کے قابل صرف ایک ذات ہے۔ باقی جو کچھ کثرت نظامِ عالم میں نظر آتی ہے ، وہ سب کی سب مخلوق ہے گو علمی اور فلسفیانہ اعتبار سے اس کی کُنہ اور حقیقت ایک ہی ہو۔ اقبال کی نظروں میں اہل وطن کی انفعالیت اور عزلت نشینی ترقی کے راستے کا سنگِ گراں تھا۔ اسی لیے انھوں نے عجمی تصوف کی افیونیت سے ہندی مسلمانوں کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔ چونکہ تحرک پسندی ، انفرادیت ، آگے بڑھنے کی خواہش اور زندگی کو واقعی متصور کرنے کا میلان مغربی اقوام کا طرۂ امتیاز رہا تھا، اس لیے جب اقبال نے ان باتوں کی تلقین کی تو قطعاً غیر شعوری طور پر مغرب کے اندازِ فکر سے خود کو ہم آہنگ کرلیا۔ ویسے آگے چل کر اس بات کا تجزیہ بھی کیا جائے گا کہ کیا اقبال کا یہ مخصوص رجحان مغربی فکر کی تقلید میں تھا یا اس نے اسلامی تعلیمات سے روشنی حاصل کی تھی۔ فی الحال یہ جان لینا ہی کافی ہے کہ اقبال اہلِ وطن کو خوابِ خرگوش سے جگانا چاہتے تھے اور چونکہ اس خوابِ خرگوش کی اصل وجہ ’’پیوستن‘‘ کے عمل میں تھی یعنی اہل وطن اپنے ماضی میں گم ہو رہے تھے، اسی لیے اقبال نے اُنھیں ماضی اور اس کی زنجیروں اور فرسودہ روایات سے منقطع ہونے کی تعلیم دی۔ اس سلسلے میں ابتداً تو اقبال نے کچھ اس قسم کے اشعار کہے: وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں؟ یہ خاموشی کہاں تک ؟ لذتِ فریاد پیدا کر زمیں پر تو ہو، اور تیری صدا ہو آسمانوں میں! نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو! تمھاری داستاںتک بھی نہ ہو گی داستانوں میں یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گام زن ، محبوب فطرت ہے (تصویر درد) خخخخ مگر پھر کھل کر لکھا: اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اُجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں اہلِ محفل کو دکھا دیں اثرِ صیقلِ عشق سنگِ امروز کو آئینۂ فردا کر دیں جلوئہ یوسفؑ گم گشتہ دکھا کر اُن کو تپش آمادہ تر از خونِ زلیخا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرئہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں رخت جاں بت کدہ چیں سے اٹھالیں اپنا سب کو محوِ رخ سعدی و سلیمٰی کر دیں دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلیٰ بے کار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز جگرِ شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقفِ تماشا کر دیں شمع کی طرح جیئیں بزم گہِ عالم میں خود جلیں، دیدئہ اغیار کو بینا کر دیں ’’ہر چہ در دل گذرد وقفِ زباں دارد شمع سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع‘‘ (عبدالقادر کے نام) آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر منزلِ ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر محفلِ قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت چہچہاتے ہیں پرندے پا کے پیغامِ حیات باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرامِ حیات مسلم خوابیدہ اُٹھ ہنگامہ آرا تو بھی ہو وہ چمک اُٹھا اُفق، گرم تقاضا تو بھی ہو وسعتِ عالم میں رہ پیما ہو مثلِ آفتاب دامنِ گردوں سے ناپیدا ہوں یہ داغِ سحاب کھینچ کر خنجر کرن کا، پھر ہو سر گرمِ ستیز پھر سکھا تاریکی باطل کو آدابِ گریز تو سراپا نور ہے خوشتر ہے عریانی تجھے اور عریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے ہاں! نمایاں ہو کے برقِ دیدئہ خفّاش ہو اے دلِ کون ومکاں کے رازِ مضمر! فاش ہو (نوید صبح) اقبال کا رویہ مغربی اندازِ فکر سے متصادم نہیںبلکہ ہم آہنگ تھا۔ مشرق کے معاشروںمیں جز ہمیشہ سے کل کا تابع مہمل قرار پایا تھا اور یہ مشرق کے ’’سماجی ہمہ اوست‘‘ کے تصور کے عین مطابق تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرد(Individual)کی آمد کا سلسلہ ہی رُک گیا۔ ہندوستان میں تو یہ صورت تھی کہ پورا سماج چار طبقوں میں منقسم تھا اور ہر فرد اپنے طبقے میں اس حد تک ضم ہو چکا تھا کہ اس کی حیثیت کردار (Character)کی نہیں رہی تھی، محض ایک مثالی نمونے(Type) کی ہو کر رہ گئی تھی۔ معاشرے سے فرد کے منہا ہو جانے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ہندوستان کی بیشتر اہم تصانیف کسی ایک مصنف کے بجائے ان گنت بے نام مصنفین سے منسوب ہوتی چلی گئیں، مثلاً خود رِگ وید کے اشلوک بھی لوک گیتوں کی طرح اپنے مصنفین کے ناموں تک سے ناآشنا تھے۔ اس کے مقابلے میں عرب ممالک فرد اور اس کے پورے شجرئہ نسب کو اہمیت دیتے تھے اور مغرب میں فرد نے معاشرے کے مقابلے میں اپنی حیثیت کا بھرپور احساس دلایا تھا۔ چنانچہ اقبال نے فرد کو اپنی شخصیت یا انفرادیت کے حصول کی تلقین کی۔ یہ تشخص شخصی سطح پر بھی تھا اور قومی سطح پر بھی! شخصی سطح پر اقبال نے ’’مرد مومن‘‘ کا تصور پیش کیا جو فرد کی انفرادیت کا نقطۂ عروج تھا اور قومی سطح پر ’’ملّت‘‘ کا تصور پیش کیا تاکہ ہندی مسلمان بحیثیت قوم اپنا تشخص کر سکیں۔ اقبال کی یہ ایک بہت بڑی عطا ہے کہ انھوں نے ہندی مسلمانوں کو ہندوستانی معاشرے میں ضم ہو جانے کے عمل سے خبردار کیا اور ان کی ملی حیثیت کو اُجاگر کر کے اُنھیں قومیت کا بھرپور تصور بخشا۔ مگر غور کیجیے کیا فرد کی انفرادیت کا تحفظ اور مِلت کے تشخص کا عمل بجائے خود مغربی اندازِ فکر کے عین مطابق نہیں تھا؟ مقصود کہنے کا یہ ہے کہ ایک طرف تو اقبال نے وجدان پر زور دیا اور استخراجی اور وجدانی اندازِ فکر کو سراہا اور دوسری طرف قطعاً غیر شعوری طور پر مغرب کے استقرائی اندازِ فکر کی اہمیت کو اُجاگر کیا، فرد کو معاشرے سے بچایا اور ملت کو اقوام کے ذخیرے سے الگ کر کے دکھایا۔ دراصل اقبال ایک عجیب سے دوراہے پر کھڑے تھے۔ ایک طرف وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندی مسلمان مغرب کی تقلید اور تتبع کی رو میں مشرق کی روح سے بے گانہ ہو جائیں اور دوسری طرف وہ یہ بھی نہیںچاہتے تھے کہ وہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جائیں اور ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے سے انکار کر دیں۔ لہٰذا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو وہ راستہ دکھایا جو تلوار کی دھار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک تھا اور جس پر چلنا بے حد مشکل اور کٹھن کام تھا۔ راستہ یہ تھا کہ وجدانی اندازِ نظر بھی باقی رہے اور سائنسی اندازِ فکر کو بھی اپنایا جائے ، یعنی صنوبر باغ میں آزاد بھی ہو اور پا بہ ِگل بھی۔ اپنی شاعری میں اوّل اوّل اقبال نے عقل کو ایک نسبتاً ناقص اندازِ فکر کے طور پر پیش کیا تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرا اور ان کا اپنا شعور پختہ ، مطالعہ وسیع اور نظر گہری ہوئی وہ بتدریج عقل کو اپنے فکری نظام میں ایک باعزت مرتبہ دینے پر مائل ہوتے چلے گئے۔ پھر عشق اور خرد کے موازنے میں خرد کی نفی کر دینے کا رویہ باقی نہ رہا۔ جابجا اقبال اسے بھی راستے کی مشعل قرار دینے لگے مگر آخر آخر میں اقبال نے عشق اور عقل کے امتزاج کا نظریہ پیش کیا اور عقل کی اہمیت کو ایک بڑی حد تک تسلیم کرلیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاعری میں تو اقبال کے نظریے کا جزر و مد بار بار نمودار ہوا لیکن اپنے ’’خطبات‘‘ میں انھوں نے بڑے تیقن اور دو ٹوک انداز میں وہ بات کہی جس تک ایک طویل سوچ بچار کے بعد وہ پہنچے تھے۔ یہ بات زندگی کو قبول کرنے، فرد کی خودی کو اُبھارنے ، ملت کو ایک امتیازی حیثیت عطا کرنے، تحرک پسندی کے موقف کو اختیار کرنے، وراء الورا سے شخصی رشتہ استوار کرنے اور تجزیاتی اور استقرائی عمل کو اہمیت تفویض کرنے کے عمل سے عبارت اور رہبانیت، نفی حیات اور تجرید پسندی کے اس عمل سے مختلف تھی جس نے مشرق کو ایک عرصہ دراز سے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ دیکھنا چاہیے کہ اپنے ’’خطبات‘‘ میں اقبال نے اس خاص مسلک کے خدوخال کو کس طرح اُجاگر کیا۔ (۶) اقبال نے اپنے خطبات میں ایک جگہ لکھا ہے:۱۱؎ تاریخ حاضرہ کا سب سے زیادہ توجہ طلب مظہر یہ ہے کہ ذہنی اعتبار سے عالمِ اسلام نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں کیونکہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے، مغرب کی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوئوں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی ظاہری آب و تاب کہیں اس تحریک میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس کے حقیقی جوہر، ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں۔ بات یہ ہے کہ پچھلی متعدد صدیوں میں جب عالمِ اسلام پر ذہنی غفلت اور بے ہوشی کی نیند طاری تھی، یورپ نے ان مسائل میں نہایت گہرے غور و فکر سے کام لیا جن سے کبھی مسلمان صوفیوں اور سائنس دانوں کو دلی شغف رہا ہے۔قرون وسطیٰ سے لے کر اب تک جب اسلامی مذاہبِ الٰہیات کی تکمیل ہوئی انسانی فکر اور تجربے کی دُنیا میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی ہے۔فطرت کی تسخیر اور اس پر غلبے نے انسان کے اندر ایک تازہ یقین اور ان قوتوں پر جن سے اس کے ماحول نے ترکیب پائی، فضیلت کا ایک نیا احساس پیدا کر دیا ہے۔ نئے نئے نقطہ ہائے نظر ہمارے سامنے آ رہے ہیں، قدیم مسائل کو جدید تجربات کی روشنی میں حل کیا جا رہا ہے، نیز کئی ایک اور نئے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عقلِ انسانی زمان و مکاں اور علمیت ایسے بنیادی معقولات کی دنیا سے بھی آگے نکل جائے گی۔ پھر جوں جوں افکارِ سائنس ترقی کر رہے ہیں، انسانی علم و ادراک کے متعلق بھی ہمارے تصورات بدل رہے ہیں۔ آئین اشٹائن کے نظریے نے کائنات کو ایک نئے رُوپ میں پیش کر دیا ہے اور ہم محسوس کر رہے ہیں کہ اس طرح ان مسائل پر بھی جو فلسفہ اور مذہب میں مشترک ہیں نئے نئے زاویوں کے ماتحت غور کرنا ممکن ہو گیا ہے۔لہٰذا اگر اسلامی ایشیا اور افریقہ کی نئی پود کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے دین کی تعلیمات پھر سے اُجاگر کریں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن مسلمانوں کی اس تازہ بیداری کے ساتھ اس امر کی آزادانہ تحقیق نہایت ضروری ہے کہ مغربی فلسفہ ہے کیا۔ علیٰ ہذا یہ کہ الٰہیاتِ اسلامیہ کی نظرثانی بلکہ ممکن ہو تو تشکیل جدید میں ان نتائج سے کہاں تک مدد مل سکتی ہے جو اس سے مرتب ہوئے۔ واضح رہے کہ اقبال کے ’’خطبات‘‘ کا زمانہ ۱۹۲۹ء ہے، یعنی اپنی وفات سے تقریباً ایک دہائی قبل اقبال نے مغربی تہذیب اور علوم کے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا جو اس سے پہلے ان کی شاعری میں نمودار ہونے والے رویے کے بالکل برعکس تھے، مثلاً اپنی شاعری میں مغربی تہذیب کے بارے میں اقبال نے کچھ اس طرح کے خیالات کا برملا اظہار کیا تھا: تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پایدار ہوگا خخخخ فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب کہ رُوح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف خخخخ اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر خخخخ یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات بے کاری و عریانی ومے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات خخخخ مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر خخخخ علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں اس کے علاوہ اکبر الہ آبادی کے تتبع میںانھوں نے مغربی تہذیب کے بعض مظاہر کا کھلے بندوں مذاق بھی اڑایا تھا۔(گو ان کا یہ خاص ردِّ عمل عارضی نوعیت کا تھا) حد یہ کہ وہی اقبال جنھوں نے سید فصیح اللہ کاظمی کو اپنے مکتوب ۱۴؍جولائی ۱۹۱۶ء میںلکھا کہ: تصوف کے متعلق میں خود لکھ رہا ہوں۔ میرے نزدیک حافظ کی شاعری نے بالخصوص اور عجمی شاعری نے بالعموم مسلمانوں کی سیرت اور عام زندگی پر نہایت مذموم اثر کیا ہے۔ اسی واسطے میں نے ان کے خلاف لکھا ہے۔ اس سے بہت پہلے بقول عطیہ فیضی یہ بھی کہہ چکے تھے کہ ’’جب میں حافظ کے رنگ میں ہوتا ہوں تو ان کی اسپرٹ مجھ میں آ جاتی ہے۔(۱۹۰۷ئ)، جس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے فکری نظام میں بتدریج مشرق سے مغرب کی طرف پیش قدمی جاری رہی تھی جس کے نتیجے میں انھوں نے اس استقرائی اندازِ فکر کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا جس پر مغربی تہذیب اور اس کے علوم کی اساس استوار تھی بلکہ اپنے ’’خطبات‘‘ میں تو انھوں نے یہ موقف بھی اختیار کر لیا کہ مغربی کلچر ذہنی اور علمی اعتبار سے اسلامی کلچر کے چند اہم ترین ادوار ہی کا مزید ارتقا ہے۔ گویا اقبال نے مغربی کلچر اور مشرقِ وسطیٰ کے کلچر میں ایک قدرِ مشترک دریافت کی اور عقل و وجدان کی صدیوں پرانی آویزش کا حل پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر اقبال سے قبل شپنگلر نے ان دونوں ثقافتوں کے بُعد کو سامنے لانے کی کوشش کی تھی اور اقبال نے شپنگلر کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا تھا۔ لہٰذا دیکھنا چاہیے کہ اقبال نے مشرق وسطیٰ کے کلچر بالخصوص اسلامی کلچرمیں وہ کون سے عناصر دیکھے جو مغربی کلچر میں بھی موجود تھے مگر جن کو شپنگلرنے بوجوہ نظر انداز کر دیا تھا یا ان کی مختلف انداز میں توضیح پیش کی تھی۔ شپنگلر نے اپنی کتاب زوال مغرب۱۲؎ میں تین ثقافتوں کے خد و خال کو واضح کیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے انھیں ایک دوسری سے متمیّز بھی کر دیا ہے۔ ان میں ایک ثقافت تو قدیم ہے جس کے نمایندوں میں قدیم یونان اور ہندستان شامل ہیں اور جسے شپنگلر نے کلاسیکی کلچر کا نام دیا ہے؛ دوسری ثقافت یورپی ہے جس کا نمائندہ فائوسٹ (Faust) ایسا بے قرار فرد ہے ۔۔۔لہٰذا شپنگلر نے اسے Faustian cultureکا نام دیا ہے، تیسری ثقافت مشرق وسطیٰ اور اس کے مذاہب سے منسلک ہے اور اس کو شپنگلر نے Magian culture کہہ کر پکارا ہے۔ کلاسیکی کلچر مزاجاً تاریخ سے بے بہرہ اور ’’یاد داشت‘‘ سے محروم ہوتا ہے۔ گویا کلاسیکی آدمی کی زندگی میں ماضی اور مستقبل کے بجائے صرف زمانہ حال موجود ہوتا ہے۔ کلاسیکی کلچر میں زندگی کی بے ثباتی کا تصور اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے سحر میں جکڑے ہوئے لوگ اپنے مُردوں کو بھی زمین میں دفن نہیں کرتے، گویا زندگی بعد از موت کے قائل نہیں۔ چنانچہ قدیم ہندوستان اور ہومر(Homer)کے یونان میں مُردوں کو جلانے کی رسم کو فروغ ملا۔ جب کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بالخصوص مصر میں موت کی نفی کا رویہ اہرامِ مصرکی صورت میں سامنے آیا۔ اسی طرح کلاسیکی ریاضی میں اشیا کو وقت سے ماورا حاضر و ناظر جاننے کا رجحان اُبھرا جو بالآخر اقلیدس کے فروغ پر منتج ہوا، جب کہ جدید دور والوں کی ساری توجہ اشیا کی غیر متغیر حالت کے بجائے ان کے متغیر ہونے کے عمل پرمرتکز ہوئی ہے۔ لہٰذا تجزیاتی جیومیٹری وغیرہ کو فروغ ملا ہے۔ کلاسیکی دنیا، بقول شپنگلر ، فطرت سے یکسر ہم آہنگ ہونے کی صورت ہے بعینہٖ جیسے پودا زمین سے چمٹا ہوتا ہے۔ کلاسیکی عبادت گاہیں مثلاً مندر ’’کھڑکی‘‘ سے نا آشنا ہر قدم پر دائرے کے انداز میں مُڑی ہوئی عمارتیں ہیں۔ گویا ہر شے ایک ’’مرکز‘‘ کے گرد طواف کر رہی ہے۔ یوں سمت اور اس کی گہرائی کی یکسر نفی ہو گئی ہے۔ شپنگلر نے کلاسیکی کلچر کی روح کو مزاجاً اپالو (Apollo)کے اوصاف کا حامل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کلاسیکی انسان باہر کے بجائے اندر کی طرف جھانکتا ہے۔ کلاسیکی کلچر پس منظر کو محض ایک تصویر قرار دے کر مسترد کر دیتا ہے۔ اور کلاسیکی بت ایسے ہی ہے جیسے موجود فطرت کی ایک قاش ہو۔ وہ سرتا پا ایک اقلیدسی جسم ہے جو نہ دیکھتا ہے اور نہ بولتا ہے اور ناظر کے وجود سے تو وہ قطعاً بے نیاز ہے۔ کلاسیکی کلچر میں کولمبس (Columbus)کی طرح سیاحت کرنے کے میلان کا فقدان ہے۔ وہاں تو سمادھی لگا کر چُپ چاپ بیٹھنا اور غور و فکر کرنا ہی اصل حیات ہے۔ شپنگلر نے کلاسیکی کلچر کے جو اوصاف گنائے ہیں ان سے معایہ بات آئینہ ہو جاتی ہے کہ اس کلچر کے تحت تصوف کو کیوں فروغ ملا۔ قدیم ہندوستان اپنشد کا فلسفہ، یونان میں عینیت پسندی اور ایران میں صوفیانہ تصورات ۔۔۔ یہ سب دراصل ایک ہی زاویۂ نگاہ کے مختلف مظاہر تھے۔ ویسے یہ عجیب بات ہے کہ ان تینوں ممالک میں آریائوں کی یلغاربہت زیادہ تھی اور اس لیے کچھ عجب نہیں کہ آریائوں کے مخصوص اندازِ فکر نے سریانی تصورات کے لیے مہمیز کا کام دیا ہو۔ بہرکیف کلاسیکی کلچر بنیادی طور پر تغیر میں ثبات کا جویا اور کثرت میں وحدت کا متلاشی تھا اور اسی لیے حرکت اور تغیر کو غیر حقیقی قرار دے کر اُس حقیقت کی طرف راغب تھا جو ہر شے میں جاری و ساری تھی۔ اقبال ذہنی اور جذباتی طور پر کلاسیکی کلچر اور اس کے سریانی تصورات کو ناپسند کرتے تھے، اس لیے بھی کہ ان کے نزدیک اسلامی کلچر کلاسیکی کلچر سے مزاجاً ایک مختلف شے تھا۔چنانچہ اپنے ’’خطبات‘‘میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ قرآن کی رُوح بنیادی طور پر کلاسیکی اندازِ فکر کی ضد ہے۔۱۳؎ کلاسیکی کلچر کے بعد مشرق وسطیٰ کے کلچر کا ذکر ہونا چاہیے جسے شپنگلر نے مجوسی کلچر Magian Culture کا نام دیا ہے۔ شپنگلر کے مطابق مجوسی کلچر کے ممالک کی فضا پُر اسرار ہے۔ جس طرح صحرا میں رات اور دن کی حدود بہت واضح ہوتی ہیں، اسی طرح وہاں خیر اور شر بھی بالکل الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ بد ر وحیں انسان کو زک پہنچاتی ہیں مگر پریاں اور فرشتے اسے خطرات سے بچاتے ہیں۔ اس فضا میں پُراسرار علاقے ، شہر اور عمارات ہیں۔ تعویذ ہیں، آب حیات اور سلیمانؑ کی انگشتری ہے اور پھر کارواں کی وہ لرزتی ٹمٹماتی ہوئی روشنی ہے جسے بے پایاں تاریکی نگل جانے کے لیے ہمہ وقت مستعد نظر آتی ہے۔ اس کلچر میں روشنی تاریکی کے خلاف اور خیر شر کے خلاف جہادِ اکبر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ تمام کائنات کے پس پشت صرف ایک ہی علت اولیٰ ہے اور یہ علتِ اولیٰ کسی اور سبب کے تابع نہیں۔ شپنگلر کے مطابق مجوسی سوسائٹی میں اجتماع تو ہے مگر فرد کی خودی موجود نہیں۔ تمام افراد زندوں کے علاوہ مردوں سے بھی ہم رشتہ اور منسلک ہیں۔ اس کلچر کا فرد رات کی گہری تاریکی سے نبرد آزما ہے اور چاہتا ہے کہ روشنی آئے تاکہ تاریکی کا عفریت کچل دیا جائے۔ چنانچہ تاریکی کو روشنی میں اور پارے کو سونے میں تبدیل کرنے کی خواہش پروان چڑھتی ہے۔ چاندنی رات پارے کی طرح سیمیں اور تغیر آشنا ہے جب کہ دن سونے کی طرح چمکیلا، زردی مائل اور ثابت و سالم ہے۔ جب اس کلچر کا فرد کیمیا گری کے فن کو اختیار کرتا ہے اور پارے کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دراصل رات کو دن بنا دینے اور شر کی تاریکی کو خیر کی روشنی سے دور کرنے کی سعی کرتاہے۔ اس کلچر میں تقدیر کا عمل دخل بہت زیادہ اور تقدیر کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کا میلان قوی ہے۔ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو اس کے برگزیدہ بندوں کے ذریعے خلقِ خدا تک پہنچتا ہے ۔ شے کے مخفی اوصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لہٰذا مجوسی کلچر کیمیاگری کے پُراسرار علم کا محافظ اور اسی لیے خود بھی پُر اسرار ہے۔ بقول شپنگلر یہ کلچر ایک ایسی روح کا کلچر ہے جو بڑی جلدی میں ہے، جسے اپنے اندر جو ان ہونے سے پہلے ہی عہدپیری کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی مجوسی کلچر کے بارے میں یہ تصویر اُبھرتی ہے کہ اس کا فرد نہ صرف پوری کائنات میں متصادم قوتوں (مثلاً خیر اور شر، روشنی اور تاریکی ، اہرمن اور اہرمز) کے ڈراما کو ہردم دیکھتا ہے بلکہ ایک اسم اعظم کے ذریعے خیر اور روشنی کو غالب آنے میں مدد بھی دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ دیوتائوں کی کثرت کے تصور کو مسترد کرکے ایک ہی الوہی قوت پر ایمان لاتا ہے اور اجماع کے ذریعے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ تیسرا کلچر جس کا ذکر شپنگلر نے کیا ہے ’’یورپی کلچر‘‘ ہے جس کے لیے اس نے فائوسٹ کے حوالے سے Faustian Culture کا نام تجویز کیا ہے۔ فائوسٹ ایک بے قرار روح ہے جو ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے اور ایک خاص منزل کی طرف رواںدواں ہے اور یہی شپنگلر کی نظروں میں یورپی کلچر کے بنیادی اوصاف ہیں۔ مجوسی کلچر میں ’’کیوں اور کب‘‘ کو اہمیت حاصل تھی مگر فائوسٹن کلچر میں ’’کیا اور کیسے‘‘ کو اہمیت ملی ہے اور یہ بنیادی طور پر ایک استقرائی اور سائنسی اندازِ نظر ہے۔ یونانی ڈراما اصلاً واقعات کا ڈراما تھا لیکن یورپی ڈراما کردار کا ڈراما ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کی انفرادیت کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ ہندوستان اور یونان میں کردار کے بجائے مثالی نمو نے اُبھرے لیکن یورپ کرداروں کا ذخیرہ ہے اور ان میں سے ہر کردار کولمبس کی طرح اپنی دھرتی سے منقطع ہو کر سفر کرتا اور نئی نئی دُنیائوں کو دریافت کرتا ہے۔ گویا یورپی کلچر کے فرد میں ایک بے قرار روح موجود ہے جو خواہش کی بے قراری کے لیے ایک علامت ہے۔ مثالی نمونے اُس کلچر میں نمودار ہوتے ہیں جو فرد کو معاشرے کا تابع بنا دیتا ہے۔ جب کہ کردار اپنے معاشرے سے ہردم متصادم رہتا ہے۔ ہندوستانی فضا میں لنگ کی پوجا کا تصور عام تھا اور انسان خود کو فطرت سے منسلک محسوس کرتا تھا، بعینہٖ جیسے پودا دھرتی سے جُڑا ہوتا ہے۔ لیکن یورپی کلچر میں ’’ماں اور بچے‘‘ کا رشتہ اُبھرا جو دراصل کلچر میں ’’مستقبل‘‘ کے عنصر کی پیدایش پر دال ہے۔ بقول شپنگلریورپی کلچر کی روح ایک بے پایاں احساس تنہائی میں مبتلا ہے۔ فرد اور معاشرے کے درمیان ہی نہیں، فرد اور فرد بلکہ فرد کی داخلی اور خارجی دنیا کے درمیان بھی بڑا فاصلہ ہے۔ اس کلچر میں ’’کھڑکی‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ کھڑکی تجربے کی گہرائی کی علامت ہے اور انسان کی اس خواہش کا اعلامیہ ہے کہ وہ زندان سے باہر نکل کر لامحدود کا نظارہ کرے ۔ یورپی کلچر کا ایک اور وصف اس کا تحرک اور جہت ہے۔ یہ بات مغربی موسیقی میں بہت نمایاں ہے جہاں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک پوری فوج بینڈ کی آواز سے ہم آہنگ ہو کر کسی منزل کی طرف ایک ساتھ قدم بڑھا رہی ہو۔ اسی طرح مصوری میں تناظر کا شدید احساس نمایاں ہے جو فاصلے کے عنصر کو اور بھی گہرا کر دیتا ہے۔ ادب میں صورت یہ ہے کہ یورپی کلچر میں پیدا ہونے والا ’’المیہ‘‘ بنیادی طور پر ایک فرد کی داستانِ عروج و زوال ہے جب کہ کلاسیکی ’’المیہ‘‘ واقعات کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ یورپی ڈراما حرکت ہی حرکت ہے، جب کہ کلاسیکی ڈراما انفعالیت ہی انفعالیت ! ایک گہرا احساس تنہائی اور فاصلے کا شعور کلاسیکی کلچر سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے، کیونکہ وہاں ہر شے قریب ہے اور درخت زمین کا اور فرد معاشرے کا سہارا لیتا ہے جب کہ یورپی کلچر میں ایک داخلی تشنّج ہے ، فاصلہ ہے، ایک گہرا احساسِ تنہائی ہے، تحرک کا احساس اور سمت کا شعور ہے اور یہ یقین بھی ہے کہ مراجعت ممکن نہیں۔ بحیثیت مجموعی یورپی کلچر کا فرد سوچ کے آشوب میں مبتلا اور تغیر اور حرکت کو سمجھ نہیں پاتا۔ وہ بجائے خود قوت کی ایک قاش ہے، خواہش کا ایک ٹکڑا ہے اور یہ قوت، یہ خواہش، کسی مقصد کی ڈور سے بندھی ہوئی ایک خاص سمت میں اسے لے جا رہی ہے۔ فائوسٹن کلچر کا فرد’’میں‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک بے قرار، متحرک ، خواہشات کی زد پر آئی ہوئی ’’میں‘‘ اور جس بڑی ’’میں‘‘ سے اس کا سامنا ہے وہ بھی منفعل نہیں بلکہ فرد ہی کی طرح فعال ہے! لہٰذا یہ فرد اپنے طور پر لا محدود کے بارے میں نتائج کا استخراج کرتا ہے اور اپنی ’’خودی‘‘ پر انحصار کر کے پوری کائنات کے روبرو سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ (۷) شپنگلر نے متذکرہ بالا تین ثقافتوں کا تجزیہ کر کے ان کے امتیازی اوصاف کا تعین کیا مگر اقبال کے ہاں صورت یہ پیدا ہوئی کہ انھوں نے اپنے ’’خطبات‘‘ میںکلاسیکی اندازِ فکر کو تو مسترد کر دیا مگر اسلامی کلچر کو یوں پیش کیا کہ اس میں یورپی یا فائوسٹن کلچر کے بنیادی اوصاف صاف اُبھرے ہوئے نظر آئے۔ ممکن ہے بعض لوگ اقبال پر یہ اعتراض کریں کہ چونکہ وہ مغربی کلچر کی روح سے متاثر تھے، اسی لیے انھوں نے اسلامی کلچر میں بھی اس کا پرتو دیکھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے اسلامی کلچر کی پوری تاریخ کا مطالعہ کر رکھا تھا اور مغربی کلچر پر اسلامی کلچر کے اثرات کی داستان بھی ان کے سامنے جلی حروف میں لکھی ہوئی تھی۔ لہٰذا اپنے اس مطالعے کی روشنی میں اقبال نے اس بات کا اظہار کیا کہ جوامتیازی اوصاف مغربی کلچر کے ہیں، کسی زمانے میں یہی اسلامی کلچر کے بھی اوصاف تھے۔ نیز یہ کہ مغرب والوں نے نہ صرف اسلامی کلچر کے چراغ سے اپنا چراغ جلایا بلکہ جلائے ہوئے اس چراغ کو صدیوں تک ہوائوں سے بچائے بھی رکھا، لیکن مشرقِ وسطیٰ میں کچھ تو عجمی اور ہندی نیز یونانی اثرات کے تحت اور کچھ سقوطِ بغداد کے حادثے کے باعث اسلامی کلچر کے بنیادی اور اصل اوصاف نظروں سے اوجھل ہو گئے اور اسلامی کلچر کی ایک ایسی تصویر نظروں کے سامنے اُبھر آئی جو اس کے اصل مزاج سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی تھی۔ اس ضمن میں اقبال کا رویہ سر سید احمد خاں کے موقف سے قدرے مختلف تھا۔ بے شک مقصود دونوں کا ایک ہی تھا، یعنی ہندی مسلمانوں کو انجماد کی فضا سے باہر نکال کر ایک متحرک جذبے سے لیس کرنا تاکہ وہ آگے بڑھ کر مغرب کی ترقی یافتہ اقوام کے قدموں سے اپنے قدم ملا سکیں۔ مگر اس مقصد کے حصول کے سلسلے میں دونوں کی سوچ کا انداز مختلف تھا۔ سر سید احمد خان ’’پیرویِ غربی‘‘ کے قائل تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ مغربی اقوام کی تقلید ہی میں نجات کی صورت ہے مگر ہندی مسلمانوں کا ایک فعال طبقہ مغربی اقوام کی تہذیب کو الحاد اور کفر کی تہذیب سمجھتا تھا اور کسی قیمت پر بھی اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ چنانچہ سر سید احمد خاں کو ایک طویل تگ و دو کرنا پڑی تاکہ ہندی مسلمانوں پر یہ بات آئینہ ہو سکے کہ مغربی تہذیب اور اس کے علوم اسلام کی بنیادی تعلیم اور عقائد کے منافی ہرگز نہیں تھے۔ سر سید کے اس اقدام کو ان کے اپنے زمانے کے علما نے بالکل پسند نہ کیا اور بعض لوگوں نے تو اسے ہدف طنز بھی بنایا، مثلاً اکبر الٰہ آبادی نے لکھا: برگد کے مولوی کو کیا پوچھتے ہو کیا ہے انگلش کی پالسی کا عربی میں ترجمہ ہے ’’برگد کا مولوی‘‘سے مراد سر سید احمد خاں تھے جو برگد ہی کی طرح سر برآوردہ تھے۔بہرحال تقلید مغرب کے سلسلے میں سرسید احمد خاں کا موقف قومی اعتبار سے صائب مگر بنیادی طور پر سطحی تھا اور اگر اسے اندھا دھند قبول کر لیا جاتا تو’’ممی ڈیڈی‘‘ تہذیب،اسلامی تہذیب پر پوری طرح غالب آ جاتی۔سر سید کے برعکس اقبال نے مغربی تہذیب کے خارج اور باطن میں حدِ فاصل قائم کی۔ ان میں سے خارج کو تو انھوں نے مسترد کر دیا مگر باطن کے سلسلے میں یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے امتیازی اوصاف وہی ہیں جو ابتداًاسلامی کلچر کے تھے۔ نیز یہ کہ خود مغرب نے ان اوصاف کے سلسلے میں اسلامی تہذیب ہی کی خوشہ چینی کی تھی۔ گویا سر سید احمد خاں کا بنیادی موقف تو یہ تھا کہ مغربی علوم اور تہذیب کے اثمار کو قبول کر لیا جائے کیونکہ یہ اسلامی تعلیم کے منافی نہیں تھے۔ لیکن اقبال کا موقف یہ تھا کہ یہی تو اسلامی تہذیب کے اصل اوصاف ہیں۔ چونکہ زندگی کے بارے میں اسلام کا رویہ مثبت تھا اور استقرائی اندازِ فکر کو اس نے مسترد نہیں کیا تھا، نیز فرد کی نجات کے مسئلے کو فرد کے اپنے اعمال کے تابع قرار دے کر اس کی انفرادیت یا خودی کو معاشرے میں ایک اہم مقام تفویض کیا تھا اور یہ تمام اوصاف مغربی کلچر میں بھی موجود تھے۔ لہٰذا اقبال نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسلامی کلچر کے لیے عقلی اور منطقی رویہ شجر ممنوعہ نہیں بلکہ اس کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ اقبال مغرب کی ’’مادہ پرستی ‘‘ کے مخالف تھے۔ جوانی میں جب انھوں نے اپنی آنکھوں سے مغربی تہذیب کے کاروباری اور مادی پہلوئوں کو دیکھا اور ان عناصر کا تجزیہ کیا جو اس تہذیب کی تعمیر میں صرف ہوئے تھے تو ان کے دل میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ لہٰذا انھوں نے اس عقلی اور استقرائی اندازِ فکر کو بھی شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جس پر اس تہذیب کی اساس استوار تھی۔ لیکن اس کے بعد جب انھوں نے مغربی تہذیب کے بطون سے پھوٹنے والے ایک ایسے نئے اندازِ نظر کی جھلک دیکھی جو برگساں کے نظریۂ زماں اور آئین اشٹائن کے نظریۂ اضافیت کی صورت میں سامنے آیا تھا تو انھیں محسوس ہوا کہ مغربی تہذیب کی فکری اساس میں تبدیلی آرہی ہے۔ قیاس غالب ہے کہ فکر و نظر کی اس تبدیلی کے احساس ہی نے اقبال کے ان تعصبات کی نفی کی ہو گی جو ابتدائی دور میں مغربی تہذیب کے سرسری مطالعے ، نیز مشرقی اندازِ نظر سے گہری وابستگی کے باعث ان کے ہاں پیدا ہو گئے تھے اور مغربی تہذیب اور فکر کا ہمدردانہ انداز میں جائزہ لینے کے راستے میں مزاحم تھے ۔ اپنے ’’خطبات‘‘ کے پیش لفظ میں اقبال نے لکھا ہے:۱۴؎ کلاسیکی طبیعیات نے اپنی بنیادوں پر اعتراض کرنا سیکھ لیا ہے اور اس تنقید کے باعث مادیت کا وہ رجحان جو ابتداً پیدا ہوا تھا اب تیزی سے غائب ہو رہا ہے اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب سائنس اور مذہب ایک ایسا ربط باہم دریافت کر لیں گے جس کے وجود کا آج سے پہلے گمان تک نہیں تھا۔ ’’خطبات‘‘ میں اقبال کے رویے کی یہی وہ بنیادی تبدیلی ہے جس کے تحت انھوں نے اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کی اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے جو ایک طویل فکری بُعد القطبین کے نتیجے میں خاصی کشادہ ہو چکی تھی۔ چنانچہ اپنے پہلے ہی خطبہ میں اقبال نے اس چونکا دینے والی بات سے اپنے موقف کو پیش کیا کہ ’’مذہب کو اپنے بنیادی اصولوں کے لیے سائنس سے بھی زیادہ ایک عقلی اساس کی ضرورت ہے۔‘‘۱۵؎پھر برگساں کے حوالے سے وجدان کے بارے میں کہا کہ یہ بھی تو عقل ہی کی ارتقائی صورت ہے۔ اس کے مقابلے میں ابنِ رُشد کا نظریہ دیکھیے کہ عقلِ فعال عقلِ بالفعل کو متحرک کرتی ہے اور وہ متحرک ہونے کے بعد عقلِ مستفاد بن جاتی ہے۔ گویا جو ہرِ اعظم عقلِ فعال ہے جس سے فیض کا چشمہ نیچے کی طرف آتا ہے اور عقلِ مستفاد بن کر زندگی کی آبیاری کرتاہے۔ یہ استخراجی فکر کا ایک خاص انداز ہے، مگر اقبال نے جب برگساں سے اتفاق کرتے ہوئے عقل کو مائل بہ ارتقا دکھایا اور کہا کہ وہ ایک مقام کے بعد وجدان بن جاتی ہے تو نیچے سے اُوپر کی طرف سفر کیا جو استقرائی اندازِ فکر ہی کی ایک صورت تھی ۔۔۔ وجدان اور عقل کا موازنہ کرتے ہوئے اقبال نے لکھا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ان کا منبع ایک ہی ہے اور وہ ایک دوسرے کو کروٹ بھی دیتے ہیں۔ ان میں سے عقل ’’حقیقت ‘‘ کو قطرہ قطرہ سمیٹتی ہے، جب کہ وجدان ایک ہی بار اس کا احاطہ کر لیتا ہے۔ عقل ہر دم تغیر پذیر حقائق پر لیکن وجدان حقیقت لازوال پر اپنی نظریں مرکوز رکھتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی حیاتِ نو کے لیے ضروری ہیں۔ دونوں اپنے اپنے طور پر ایک ہی حقیقت عظمیٰ کا نظارہ کرتے ہیں۔ اپنے ’’خطبات‘‘ میں اقبال نے عقل و وجدان کے ربطِ باہم کے بارے میں یہ چند جملے محض روا روی میں لکھ دیے ہیں اور اپنے خیال کو مزید وسعت عطا نہیں کی۔ اگر اقبال اس خیال کو آگے بڑھاتے تو انھیں محسوس ہوتا کہ وہبی سوچ (Mythical thought) اور منطقی سوچ (verbal thought)ایک دوسرے کو کروٹ دینے پر مامور نہیں بلکہ وہبی سوچ وہ حرکی قوت ہے جس سے منطقی سوچ آگے کو بڑھتی ہے۔ پھر جب وہ اس کی مہیا کردہ قوت کو صرف کر لیتی ہے، تو از خود رُک جاتی ہے اور اسے اس بات کی ضرورت پڑتی ہے کہ دوبارہ وہبی سوچ میں غواصی کرکے وہاں سے قوت حاصل کرے اور اس مقام سے ایک قدم آگے بڑھائے جس تک وہ اپنی پہلی یلغار میں پہنچی تھی۔ یوں پوری کائنات آہستہ آہستہ منور ہو رہی ہے، یعنی اسے اپنی ہی آگہی حاصل ہو رہی ہے۔ چونکہ آگہی ہی تخلیق ہے، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ تخلیق کاری کا عمل جاری ہے۔ اس نتیجے پر اقبال بھی پہنچے تھے جب انھوں نے کہا تھا: یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکوں مگر بوجوہ انھوں نے وجدانی سوچ اور منطقی سوچ کے اس خاص رشتے کا تعین نہ کیا جس میں وجدان ایسے ہی ہے جیسے شاخِ ثمرو ارکا جھکائو اور عقل جیسے خوشہ چینی کا ایک عمل ! مگر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ ذکر اقبال کے اس موقف کا تھا کہ وجدان اور عقل ایک دوسرے کی ضد نہیں۔ اس سلسلے میں اقبال نے اسلام کے حوالے سے لکھا کہ اس کی عقلی بنیادوں کی تلاش تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے شروع ہو گئی تھی۔۱۶؎ محمد رفیع الدین لکھتے ہیں: ۱۷؎ قرآن حکیم نے مظاہر قدرت کو آیات اللہ یا خدا کے نشانات اس لیے قرار دیا ہے کہ ان میں خدا کی صفات کا جلوہ اور اس کی قدرتوں اور حکمتوں کا نُور روشن ہے۔ لہٰذا اشیا کے خواص و اوصاف یا سائنسی حقائق خدا کے اسرار میں سے ہیں: اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ اخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لّاُوْلِی الْاَلْبَابِ۔۳:۱۹۰ (بے شک آسمانوں اور زمینوں کے اندر جو کچھ پیدا کیا گیا ہے اور رات اور دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں) لہٰذا جو شخص خدا کی آیات کا مشاہدہ اور مطالعہ خُدا کی آیات سمجھ کر کرتا ہے وہ مومن ہے۔ سائنس کی بنیاد میں خدا کا یہ حکم ہے کہ نظامِ فطرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ قرآن میں ہے : ’’انظروا ماذا فی السمٰوات والارض‘‘(جو کچھ زمین اور آسمان میں پیدا کیا گیا ہے اسے دیکھو) محمدرفیع الدین نے یہ الفاظ اقبال کے حوالے سے لکھے ہیں کہ ان کے نزدیک قرآنِ حکیم نے زندگی اور اس کے مظاہر کی کبھی نفی نہیں کی جیسا کہ کلاسیکی کلچر میں عام تھا۔ اقبال اس بات کو مانتے ہیں کہ ابتداً مسلمان مفکرین یونانی فلسفے سے متاثر ہوئے اور اس عمل سے ان کا ذہنی اُفق بھی وسیع ہوا لیکن جب انھوں نے یونانی سوچ کی روشنی میں قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے کی ایک مستقل روش اختیار کر لی تو وہ اسلام کے اصل مزاج ہی سے نا آشنا ہو گئے جو زندگی کے مظاہر کے سلسلے میں ایک مثبت رویہ اختیار کرنے کا داعی ہے۔ سقراط نے لکھا تھا کہ انسان کے لیے مناسب ہے کہ صرف انسان ہی کا مطالعہ کرے اور نباتات ، حیوانات اور اجرامِ فلکی کی اُس دُنیا سے کوئی سروکار نہ رکھے جو انسان کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بات اُس قرآنی روّیے سے بالکل مختلف ہے جو شہد کی مکھی کو بھی قابلِ مطالعہ سمجھتا ہے اور قاری کو سدا اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ وہ ہوائوں کے مستقل تغیر، دن اور رات ، بادل ، ستاروں بھرے آسمان اور لامحدود خلا میں تیرتے ہوئے سیّاروں کا مشاہدہ کرے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے: اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ اخْتِلاَفِ الَّیْٖلِ وَ النَّھَار وَ الفُلْکِ الّتَیْ تَجْرِیْ فِی الْبِحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاَ انْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھاَ وَبَثَّ فِیْھاَ مِن کُلِّ دَآبَّۃٍ وَ تَصْرِیْفِ الّرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ المُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لّقِوْمٍ یَعْقِلُوْنَ(۲: ۱۶۴) (بے شک زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کے آنے جانے اور سمندری کشتیوں کے چلنے میں جو مالِ تجارت لے کر چلتی ہیں اور آسمانی بارش میں کہ اللہ نے اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ کیا اور ہر قسم کے جانور بکھیر دیے، ہوائوں کے چلنے اور معلق بادلوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے واسطے۔) اَللّٰہْ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَآئً فَاَ خْرِجَ بہٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ وَ سَخَّرَ لَکُمْ اْلفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ وَ سَخّرَ لَکُمْ اْلاَنْھَارَ وَ سَخّرَ لَکُم الشَّمْسَ وَ اْلقَمَرَ دَآئِبَیْنِ وَ سَخَّرَ لَکُمْ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَ اٰتٰکُمْ مِنَّ کُلِّ مَا سَألْتُمْوہُ وَ اِنْ تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحُصْوھَآ اِنَّ الِاْنسَانَ لَظُلُوُمُٗ کَفَّارُٗ۔(۱۴:۳۲-۳۴) (اللہ جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، آسمان سے پانی اُتارا اور اس سے پھل پیدا کیے جو تمھارے لیے رزق ہیں اور تمھارے لیے کشتیاں مسخرکیں اپنے حکم سے اور مسخر کیے دریا اور سورج ، چاند جو ایک خاص راہ پر چلتے ہیں اور رات دن کو مسخر کیا اور دیا جو تم نے مانگا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرو تو شمار نہ کر سکوگے۔ بے شک انسان سخت ظالم اور کافر ہے) قرآن کریم نے اسلامی نظامِ فکر کو زمین اور اس کے اثمار اور مظاہر سے جس طرح آشنا کیا ہے اس کے بارے میں سید جعفر طاہر رقم طراز ہیں:۱۸؎ قرآن پاک میں ایک دانے کے پھوٹنے اور گٹھلی کے شگافتہ ہونے سے لے کر لہلہاتے ہوئے باغوں ، ہری بھری فصلوں ، سر سبز شاداب کھیتوں ، زمردیں سبزہ زاروں، ٹھنڈے چشموں، گنگناتی ہوئی ندیوں، محوِ خرام نشیلے خنک دریائوں ، عظیم الشان دہاڑتے اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندروں کا ذکر ہے۔ بیان معاشرت ہے تو چڑیوں، کبوتروں ، مرغانِ خوش الحان اور طائرانِ زمزمہ خواں کے ساتھ ساتھ ان بستیوں کے اردگر منڈلاتے ہوئے جنگلی درندوں کی ہیبت ناک صدائوں ، چیخوں اور چنگھاڑوں کا اس قوتِ بیان اور زور شور کے ساتھ تذکرہ ہے کہ رات کا سناٹا، جنگل کی خاموشی، سینۂ دشت پر لگے ہوئے مٹیالے مٹیالے خیموں اور کچی کچی بستیوں کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ ہم ان بادہ نوشانِ صحرا کے ساتھ زندگی کی ہولناکیاں اور صبر آزمائیاں مل کر گزارنے لگتے ہیں۔ سینوں میں دل دھڑکتے ہیں اور آنکھیں ڈبڈبانے لگتی ہیں کہ پھر صبح مسرت طلوع ہوتی ہے اور ہم زندگی کی رنگینیوں اور مناظرِ فطرت کی بوقلمونیوں اور دنیائے فانی کی عشرت سامانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ ہمارے ممالک و امصار، ولایات و اقلیم اور شعوب و قبائل اور رسم و راہِ منزلہا ایسی جاندار داستانیں شاید ہی کہیں اور یا کسی اور صحیفے میںہوں۔ پھر یہاں صاعقہ ، برق و باد، ابرو باراں اور سیل و طوفاں ہیں، زلزلے آتے ہیں، زمین دھنس جاتی ہے، چھتیں ڈھے جاتی ہیں۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں، اونٹنیاں معطل اورہری بھری کھیتیاں اُجڑ جاتی ہیں۔ اب یہاں مٹی کے ڈھیر اور ٹوٹے ہوئے مکانوں کے کھنڈر رہ جاتے ہیں۔ یہ سب کے سب اور ایسے کتنے ہی موضوعات ہیں جو عرشی نہیں بلکہ فرشی ہیں جو اپنے عناصر میں سراسر خاک کی پاکیزگی اور ہماری دھرتی کے جسم کی خوشبو اور اچھوتی سوگند رکھتے ہیں۔ یہ فکری رویہ تصوف کے اُس نظامِ فکر سے قطعاً مختلف ہے جو اعیان کی بات کرتا ہے اور ہست اور اس کے سارے نظام کی نفی کر کے محض جوہر اور تجرید پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ اس کے مظاہر سے رشتہ منقطع نہیں کرتا بلکہ ارض پر اپنا قدم رکھ کر آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلا دیتا ہے۔ اسلام میں یہی رویہ ایک انوکھی شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اسلام ارض اور اس کی اشیا اور مظاہر کو حقیقی سمجھ کر ان میں پوری دلچسپی لینے پر اصرار کرتا ہے۔بقول اقبال اسلام نے موجود اور ماورا کے رشتے کا ادراک کرتے ہوئے مادے کی دُنیا کا اثبات کیا ہے اور اس کی تسخیر کے سلسلے میں انسان کی راہ نمائی کی ہے۔۱۹؎ گویا اقبال آسمان کے ساتھ زمین کے اثمار کو اہمیت دینے کے اسلامی رویے کو بڑی اہمیت تفویض کرتے ہیں اور اسے رہبانیت کی ضد قرار دیتے ہیں۔ افلاطون نے حسیات کی کارکردگی کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا تھا اور کہا تھا کہ ان سے سچا علم حاصل نہیں ہوتا۔ اقبال لکھتے ہیںکہ یہ بات قرآنی تعلیم کے بالکل منافی ہے جو سامعہ اور باصرہ کو اللہ تعالیٰ کے انعامات میں شمار کرتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں زمین کی حقیقت اور جسم کی کارکردگی کو مسترد نہیں کیا گیا۔ یہ بات اسلام سے پہلے کے ان مسالک سے بالکل مختلف ہے جن کے تحت ارض کو گناہوں کی سرزمین اور اکثر و بیشتر غیر حقیقی تصور کیا گیا تھا۔ (۸) اقبال نے اسلامی فکرکے اسی خاص پہلو کوبڑی اہمیت دی ہے جس کے مطابق ارض اور اس کے مظاہر ایک واقعی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ پہلو مزاجاً سائنسی اور استقرائی اندازِ فکر کامؤید ہے۔ اس سلسلے میں اشاعرہ کا حوالہ دیتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے:۲۰؎ اشاعرہ کے نزدیک کائنات کی ترکیب جواہر یعنی ان لا انتہا چھوٹے چھوٹے ذروں سے ہوئی جس کامزید تجزیہ (تقسیم) ناممکن ہے۔ لیکن خالقِ کائنات کی تخلیقی فعالیت کا سلسلہ چونکہ برابر جاری ہے اس لیے جواہر کی تعداد بھی لا متناہی ہے کیونکہ ہر لحظہ نئے نئے جواہر پیدا کیے جا رہے ہیں اور اس لیے کائنات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ قرآن مجید کا بھی یہی ارشاد ہے: ’’ یزید فی الخلق ما یشآئ‘‘لیکن یاد رکھنا چاہیے جواہر کی حقیقت کا دارومدار ان کی ہستی پر نہیں۔ ہستی تو وہ صفت ہے جو اللہ تعالیٰ جواہر کو عطا کرتا ہے۔جب تک یہ صفت عطا نہیں ہوتی، جواہر گویا قدرت الٰہیہ کے پردے میں مخفی رہتے ہیں۔ وہ ہستی میں آتے ہیںتو اس وقت جب یہ قدرت مرئی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ لہٰذا باعتبار ماہیت جوہر قدر سے عاری ہے۔ گویا یوں کہیے کہ اس کا ایک محل بھی ہے لیکن مکان سے بے نیاز۔ کیونکہ یہ صرف جواہر کا اجتماع ہے جس سے ان میں امتداد کی صفت پیدا ہوتی اور مکان کاظہور ہو جاتا ہے۔ اقبال نے اشاعرہ کے حوالے سے نہ صرف جواہر کے وجود کو تسلیم کیا بلکہ یونانیوں کی ’’بند کائنات‘‘ کے مقابلے میں ہر دم خلق ہوتی ہوئی کائنات کے تصور کو سراہا اور کہا کہ یہ تصور قرآن حکیم سے ماخوذ ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ آج جدید طبیعیات بھی اس تصور ہی کی توثیق کر رہی ہے۔ بہر کیف اقبال کا موقف یہ ہے کہ اسلامی فکر نے عقلی اور سائنسی رویہ مغرب سے مستعار نہیں لیا بلکہ خود مغرب نے بعض باتوں میں اسلامی فکر سے استفادہ کیا اور اپنے سائنسی رویے کی بنیادیں مستحکم کیں لیکن خوشہ چینی کے اس عمل کا اعتراف کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ مسلمان مفکرین نے کس طرح سائنسی بنیادیں مہیا کیں، تین چار نکات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، مثلاً پہلا یہ کہ مسلمان مفکر نظام نے ’’جست‘‘ کا تصور پیش کیا اور کہا کہ متحرک جسم مکان کے تمام نقطوں سے نہیں گزرتا بلکہ جست سی لگا کر خلا کو عبور کر جاتا ہے اور اس لیے کبھی یہاں اور کبھی وہاں نظر آتا ہے۔ جدید طبیعیات نے ایٹم کی توضیح میں الیکٹرون کی کارکردگی کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیال کا اظہار کیا ہے اور جدید علم الانسان نے تقلیب (Mutation) کا تصور پیش کیا ہے جو جست لگانے کے عمل ہی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح بقول اقبال اشاعرہ نے ’’نقطہ لمحہ‘‘ (Point-instant)کے جدید تصور کی داغ بیل رکھی تھی جب انھوں نے کہا تھا کہ جوہر کے تسلسل کا ذمہ دار ’’حادثہ‘‘ ہے ۔ اقبال لکھتے ہیں ۲۱؎ کہ آن اور نقطہ میں سے ’’آن‘‘ زیادہ بنیادی عنصر ہے، تاہم نقطہ ’’آن‘‘ سے جدا نہیں بلکہ اسی کا مظہر ہے دراصل نقطہ کسی شے کا نام نہیں۔ یہ تو ’’آن‘‘ کو دیکھنے کا ایک زاویہ ہے۔ اس اعتبار سے رومی ، الغزالی کے مقابلے میں، اسلامی نقطۂ نظر کا زیادہ قائل ہے: پیکر از ماست شد نے ما ازو بادہ از ماست شد نے ما ازو اشاعرہ کے مطابق وقت ’’اب‘‘ کی اکائیوں کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔ گویا ’’آب‘‘ کی دو قاشوں کے درمیان فاصلہ سدا موجود رہتا ہے۔ وقت کے دو لفظوں کے درمیان فاصلے کامطلب یہ ہے کہ مادے کا تسلسل جابجا ٹوٹ جاتا ہے۔ جدید سائنس کا نقطۂ نظر بھی یہی ہے۔ تاہم اشاعرہ نے وقت کو داخلی زاویۂ نگاہ کے بجائے معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا اور یوں گویا کنارے پر بیٹھ کر اسی طرح وقت کی ندی کو رواں دواں دیکھتے رہے جیسے یونانیوں نے کیا تھا۔ مگر عربی ذہن یونانیوں کی طرح وقت کو غیر حقیقی یا غیر ارضی قرار دینے پر کبھی مائل نہ ہوا۔ یوں بھی بقول اقبال اگر وقت کومحض معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو خدا کی ہستی کو ’’جوہری وقت ‘‘ کے ساتھ منسلک کرناہوگا جو ایک بالکل غلط بات ہے۔ اقبال نے اس کے بجائے مرورِ زماں کے تصور کو قبول کیا جس کے اندر واقعات کا تسلسل ایک چلتے ہوئے کارواں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ تاہم جہاں تک خدا کی ذات کا تعلق ہے ، وہاں تمام واقعات مشاہدہ کے ایک ہی کوندے کے اندر موجود ہوتے ہیں۔بے شک ہندوئوں کے ہاں بھی وقت کو ادوار میں تقسیم کرنے کا تصور ملتا ہے، لیکن مسلمان مفکرین کی جیت اس بات میں ہے کہ انھوں نے وقت کے موضوع پر فلسفیانہ بحث کی ہے، وقت کی مختلف صورتوں کی نشان دہی کی ہے اور پھر متسلسل کا تصور پیش کیا ہے جس میں وقت کی تقسیم کے بجائے اس کی اکائی نمودار ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ بنیادی طورپر ایک سائنسی رویہ ہے اور مغرب میں ’’زماں‘‘ کے سلسلے میں اسی رویے کو فروغ ملا ہے۔ تاحال مغرب کے مفکرین نے اس سلسلے میں مسلمان مفکرین کی عطا کا اعتراف نہیں کیا تھا لیکن اب صورت کچھ کچھ بدل رہی ہے مثلاً بری فولٹ (Briffault) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:۲۲؎ قدیم دنیا سائنسی اندازِ فکر سے قبل کی دنیا تھی۔ یونانیوں کے ریاضی اور فلکیات ایسے علوم باہر سے درآمد کیے گئے تھے اور یونانی کلچر میں پوری طرح جذب نہ ہو سکے تھے جسے ہم سائنس کانام دیتے ہیں، یورپ میں اس کا ظہور تحقیق کی اس نئی روح سے ہوا جو تحقیق کے نئے نئے منہاجات، نئے تجربات، پیمائش ، مشاہدے اور ریاضی کی ایک ایسی ارتقائی صورت کا نتیجہ تھی جس سے یونانی نا آشنا رہے تھے۔ یورپی دنیا کو اس نئی روح اور نئے منہاجات سے عربوں ہی نے آشنا کیا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ زمان کے علاوہ ’’مکان‘‘ کے تصور کے سلسلے میں بھی مسلمان مفکرین نے بنیادی کام کیا ہے، مثلاً اقبال نے لکھا ہے کہ عراقی کے مطابق خدا کے حوالے سے کسی نہ کسی قسم کے ’’مکان‘‘ کا وجود قرآن حکیم کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے: نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ تاہم قریب، ربط یا فراق کے جو الفاظ مادی اشیا کے سلسلے میں موزوں ہیں، خدا کی ذات پر منطبق نہیںہو سکتے۔ دراصل روح نہ تو جسم کے اندر ہوتی ہے اور نہ باہر، نہ قریب ہوتی ہے اور نہ دور! لیکن ہر ذرے کے ساتھ اس کا ربط اور انسلاک ایک حقیقت ہے۔ لہٰذا خدا کے حوالے سے ’’مکان‘‘ کے وجود کی نفی نہیں کی جا سکتی۔۔۔ڈاکٹر رضی الدین صدیقی لکھتے ہیں:۲۳؎ اقبال نے بتایا ہے کہ کس طرح مسلم مفکرین نے یونانیوں کے سکونی تصور کائنات کے خلاف بغاوت کی ہے۔ اسلامی تخیل یونانیوں کے اس تخیل کے بالکل مخالف تھا۔ اسلام نے انسانوں کو موجودہ حقیقت کی طرف متوجہ کیا اور بتلایا کہ دنیا جیسی کچھ بھی ہے اس سے سابقہ رکھو اور یہ فکر چھوڑ دو کہ دنیا کو ایسا ہونا یا ویسا ہونا چاہیے ۔ قرآن حکیم کی تعلیم کے مطابق ہماری کائنات ایک ارتقا پذیر متحرک کائنات ہے اور چونکہ حرکت اس کا اساسی جزو ہے اس لیے کائنات کے ہر نظام میں اس کو ملحوظ رکھنا چاہیے: فریبِ نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرئہ کائنات ملاّ جلال الدین اور صوفی شاعر عراقی نے وقت کا ایک اضافی تصور لیا ہے۔ مختلف ہستیوں کے لیے جو خالص مادیت سے لے کر خالص روحانیت تک مختلف مدارج رکھتی ہیں، زماں کی نوعیت مختلف ہے۔۔۔ عراقی نے اسی قسم کی طبقہ بندی مکان یا فضا کے لیے بھی کی ہے۔ اس کاخیال ہے کہ فضا کے تین طبقے ہیں: پہلا طبقہ مادی اشیا کی فضا کاہے جس کے پھر تین درجے ہیں۔۔ پہلے درجے میں وزن دار اشیا کی فضا ہے۔۔ دوسرے درجے میں ہوا اور اسی نوعیت کی ہلکی چیزوں کی فضا ہے اور تیسرے درجے میں نور یا روشنی کی فضا ہے۔ یہ تینوں فضائیں ایک دوسرے کے اس قدر قریب واقع ہیں کہ ان میں سوائے ذہنی تحلیل اور روحانی واردات کے اور کسی ذریعے سے امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پہلے طبقے کی فضا میں ہم دو نقطوں کے درمیان ایک فاصلے کی تعریف کر سکتے ہیں۔ دوسرا طبقہ غیر مادی ہستیوں یعنی ملائکہ وغیرہ کی فضا کا ہے۔ اس فضا میںبھی فاصلے کا ایک مفہوم موجودہے۔ کیونکہ اگرچہ غیر مادی ہستیاں پتھر کی دیواروں میں سے گزر سکتی ہیں، تاہم وہ حرکت سے بالکل بے نیاز نہیںہیں اور حرکت کے ساتھ فاصلے کا مفہوم لازماً پایا جاتا ہے۔ فضا سے آزادی اور بے نیازی کا بلند ترین درجہ انسانی روح کو عطا ہواہے۔ تیسرا طبقہ ربانی یا الٰہی فضا کا ہے جس تک ہم فضا کی لا محدود اقسام سے گزر کر پہنچتے ہیں۔ یہ فضا ابعاد اور فاصلوں کی تمام قیدوں اور بندشوں سے آزاد ہے اور اس پر لامتناہیاں آ کر مرتکز ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح عراقی نے مکان کے جدید تصور تک یعنی اس تصور تک پہنچنے کی ناتمام کوشش کی ہے کہ فضا ایک لا محدود سلسلہ ہے اور حرکیاتی خواص رکھتی ہے۔ اس طویل اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ زماں کی طرح مکاں کے سلسلے میں بھی مسلمان مفکرین نے بنیادی کام کیا اور یہ کام نہ صرف مغربی اندازِفکر کے مطابق تھا بلکہ اپنے تجزیاتی اور تحلیلی انداز اور ’’موجود‘‘کو حقیقی سمجھنے کے رویے کے باعث اہل مغرب کے عام مزاج کے قریب بھی تھا۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ریاضی کے میدان میں بھی مسلمان ریاضی دانوں ہی نے سب سے پہلے اجتہاد کا مظاہرہ کیا، مثلاً طوسی نے ہزار سالہ ریاضیاتی انجماد کو توڑ ا اور مرئی مکاں کے تصور کو ترک کر کے وقت کی کثیر الابعاد حرکت کی طرف اشارہ کیا۔ پھر البیرونی نے کائنات کے تصور کو تشنہ قرار دیا۔ بقول اقبال یہ بات یونانی نظریے سے انحراف کا درجہ رکھتی تھی۔ یوں ثابت کے بجائے’’تغیر پذیر ہونے‘‘ کے تصور نے فروغ پایا، زماں کے بُعد کا اضافہ ہوا اور کائنات کو وجود (Being) کے بجائے تکوین (Becoming) کی علامت قرار دے دیا گیا۔۲۴؎ شپنگلر نے ریاضی کے اس پہلو کو خالصتاً مغرب کی علامت قرار دیا ہے جب کہ اقبال اس بات کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ عدد کی خالص ’’قدر‘‘ سے خالص ’’نسبت‘‘ میں منتقلی دراصل خوارزمی کی مرہون منت ہے جس نے ریاضی سے الجبرا کی طرف سفر کیا ہے۔۲۵؎جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ، شپنگلر نے فائوسٹن اورمجوسی کلچر میں حدِفاصل قائم کی تھی، مگر اقبال نے یہ ثابت کیا کہ شپنگلر نے فائوسٹن کلچر کے جو امتیازی اوصاف پیش کیے تھے ان میں سے بیشتر مجوسی کلچر ہی کی عطا تھے۔ ریاضی کے سلسلے میں شپنگلر سے اختلاف کر کے اقبال نے اپنے اسی موقف کو ایک مضبوط بنیاد مہیا کی ہے۔ چوتھا نکتہ نظریۂ ارتقا کے بارے میںہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ ابن مسکویہ کے مطابق ارتقا کی دوڑ میں وہ پودے سب سے نچلے درجے پر ہیں جو پیدا ہونے اور پھلنے پھولنے کے لیے بیج کے دست نگر نہیں۔ اس قسم کے پودے دھات سے ذرا ہی مختلف ہوتے ہیں۔ دوسرے درجے پر وہ پودے ہیں جو تنوں اور شاخوں میں ڈھلتے ہیں اور بیج کے ذریعے اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔ آخری درجہ وہ ہے جس پر پودے مثلاً کھجور یا انگور کی بیل وغیرہ تقریباً حیوانی زندگی کے مظہر بن جاتے ہیں۔ کھجور میں نر اور مادہ کی تخصیص بھی ہوتی ہے۔ اس کے بعد خالص حیوانی سطح ہے جو گویا زمین کے بندھنوں سے آزاد ہونے کی صورت ہے۔ پھر حسیات کی نمود اور ان کا ارتقا ہے۔ حیوانیت ، گھوڑے وغیرہ میں اپنے عروج پر پہنچتی ہے اور پھر بندر کے ذریعہ انسانیت کی دہلیز تک جا پہنچتی ہے۔ بندر ارتقا کے سلسلے میں انسان سے صرف ایک قدم ہی ورے ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ابن مسکویہ نے یہ سب کچھ اس وقت لکھا جب ابھی ڈارون اور سپنسر کے نظریات کی بنیادیں بھی استوار نہیں ہوئی تھیں۔ لہٰذا اقبال کا یہ موقف قابلِ توجہ ہے کہ سائنسی رویہ یعنی تحلیل اور تجزیے کا انداز اور استقرائی اندازِ فکر کا آغاز مسلمان مفکرین کے ہاں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ آخری نکتہ تاریخ کے اس حرکی تصور کے بارے میں ہے جو بقول اقبال مسلمانوں کے ہاں ہی پیدا ہو سکتا تھا کیونکہ مسلمان تاریخ کو ایک مسلسل اجتماعی حرکت مانتے تھے اور یوں اسے زماں ہی کی توسیع قرار دیتے تھے۔ کلاسیکی کلچر ایک مستقل ’’اَب‘‘ کا قائل تھا، لہٰذا اس میں ماضی اور مستقبل دونوں سے بے اعتنائی عام تھی۔۔۔ اس حد تک کہ اس کلچر سے وابستہ لوگ اپنے مُردوں کو بھی جلا دیتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’آیندہ زندگی‘‘ سے خود کو منقطع کر لیتے تھے اور اپنی تاریخ کو بھی محفوظ نہیں کرتے تھے جو اس بات کے مترادف ہے کہ ماضی سے بھی انھیں دلچسپی نہیں تھی۔ ہندو معاشرے میں ماضی کو فراموش کرنے کا رجحان خاص طور پر بہت توانا تھا۔ اس کے مقابلے میں عرب ممالک میں مردوں کو دفن کرنے کی روایت مضبوط تھی۔ مصر میں تومردے کے ساتھ اس کا ساز وسامان بھی دفن کر دیا جاتا تھا تاکہ آیندہ زندگی میں اس کے کام آئے۔ اسی طرح تاریخ کو محفوظ کرنے کی روش بھی عام تھی جو عربوں کے ہاں شجرئہ نسب کی روایت کی صورت میں سامنے آئی۔ ماضی سے ان کا تعلق اتنا قوی تھا کہ ہر شخص کے نام میں اس کی ولدیت بھی شامل تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ جب مسلمانوں تک عرب دنیا کا یہ ثقافتی ورثہ پہنچا تو ان کے ہاں تاریخ سے وابستگی کے ساتھ ساتھ تاریخ کا ایک حرکی تصور بھی پیدا ہوا۔ اس سلسلے میں اقبال نے ابن خلدون کا بطور خاص ذکر کیا ہے کہ اس کے نزدیک تاریخ زماں کے بطون میں جاری ایک مسلسل تخلیقی حرکت کا دوسرا نام ہے۲۶؎ اور اس اعتبار سے اسے برگساں کا پیش رو کہنا چاہیے نہ کہ نیطشے کا جس نے ہرے کلیٹس کی تقلید میں ’’مستقل واپسی‘‘ کا تصور پیش کیا تھا۔ ابن خلدون تک اسلامی مابعد الطبیعیات میں زماں کو معروضی قرار دینے کی روش ، ابن مسکویہ کانظریۂ ارتقا اور البیرونی کا نیچر کو تکوین کا مظہر قرار دینے کا تصور ۔۔۔ یہ سب باتیںبطور علمی ورثہ پہنچی تھیں مگر ابنِ خلدون نے ان سب تصورات کے آمیزہ سے پورے معاشرے اور اس کی تاریخ کے ایک ایسے حرکی تصور کو پیش کیا جو اصلاً تخلیقی تھا۔ فلسفۂ تاریخ کے باب میں آگسٹائن، موری البنیادی اور جو چم کے نظریات کی اہمیت تسلیم مگر فلسفہ تاریخ کو وجود میں لانے کا سہرا ان مفکرین کے بجائے مشرق وسطیٰ کے مسلمان مفکر ابن خلدون کے سر ہے جس نے چودھویں صدی عیسوی میں تاریخ اور عمرانیات کے بارے میں اپنے اجتہادی خیالات کا اظہار مقدمہ میںکیا ہے۔ ابن خلدون رقم طراز ہے:۲۷؎ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ۔ اس حقیقت کے پیش نظر ہم نے کہا کہ ایک پشت یا ایک قرن چالیس سال کے مساوی ہے اور اس امر کو سامنے رکھ کر بنی اسرائیل کا چالیس سال تک میدانِ رتیہ میں بھٹکتے پھرنے کا راز بھی حل ہو جاتا ہے۔۔ ماحصل یہی نکلا کہ ایک پُشت و قرن کا زمانہ چالیس برس کا ہے اور ہم نے جویہ کہا ہے کہ سلطنت کی زندگی زیادہ تر تین قرنوں سے متجاوز نہیںہوتی، یہ اس لیے کہ پہلی پشت میں لوگ بدوی عادات اور وحشت و جفا کشی پر باقی رہتے ہیں۔ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں کو جھیلتے ہیں۔ مزاج میں وِرشت و خوں خوار ہوتے ہیں۔ مجدو بزرگی میں سب آپس میں شریک ہوتے ہیںاس بنا پر عصبیت ان میں جوں کی توں موجود رہتی ہے۔ بخلاف اس کے دوسری پشت کے افراد کہ سلطنت و تعیش کے باعث وہ بدویت سے نکل کر شہریت میں آتے ہیں اور جفاکشی کو چھوڑ کر آرام طلبی اور تن آسانی اختیار کرتے ہیں۔ مجد اشتراکیت سے ہٹ کر ایک شخصِ واحد میں سمٹ آتے ہیںاور باقی افراد جدوجہد کے مادے کو کھو بیٹھتے ہیں، پیش قدمی کی عادت سے محروم ہو کر پس پائی کی ذلت کے خوگر ہوتے ہیںلہٰذا عصبیت کا بہت کچھ زور ٹوٹ جاتا ہے۔ تیسرے قرن میںتو لوگ بدوی جفاکشی کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں اور حکومت کے قہر و غضب میں دبے دبے عزت و عصبیت کی لذت سے نابلد ہو جاتے ہیں اور ناز و نعمت اور عیش و عشرت میں پڑ کر امیرانہ ٹھاٹھ کو معراج ترقی پر پہنچاتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کی طرح مدافعت کے وقت سلطنت کے دست نگر ہوتے ہیں۔ اسی طرح گویاتین قرنیں ہیں جن میں سلطنت اپنے زور شور کو چھوڑ کر کمزور و ضعیف ہو جاتی ہے۔۔۔ پس سلطنت کی عمر آدمی کی طرح بڑھتی ہے۔ پہلے سنِ وقوف تک پہنچتی ہے پھر سنِ رجوع تک۔ گویا مقدمہ میں ابن خلدون نے آج سے تقریباً چھ سوبرس قبل ایسے خیالات کا اظہار کیا جو بہت عرصہ بعد یعنی بیسویں صدی کی ابتدا میں شپنگلر اور ٹائن بی سے منسوب ہوئے، مثلاً اس نے تہذیب کے بارے میں بدویت سے تعیش پسندی تک کے مراحل کی نشاندہی کی جو ٹائن بی کے ہاں تہذیبی عروج و زوال کی داستان بن کر نمودار ہوئی۔ اسی طرح وہ سلطنت کی عمر کو آدمی کی عمر سے تشبیہ دے کر شپنگلر کاپیش رو بھی ثابت ہوا۔۲۸؎ (۹) ان تمام نکات کو ملحوظ رکھیں تو اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ مسلمان مفکرین ہی نے دراصل مغرب کی سائنس اور علوم کے لیے بنیادی کام کیا تھا۔ اقبال نے اپنے ’’خطبات‘‘ میں یہی موقف اختیار کیا ہے اور یہ موقف ان لوگوں کے لیے جو اقبال پر خرد دشمنی کا الزام لگاتے ہیں ایک لمحۂ فکریہ مہیا کرتا ہے۔ اپنے ’’خطبات‘‘ میں اقبال نے شپنگلر کے اس نظریے کو مان لیا کہ مغربی کلچر اصلاً کلاسیکی کلچر کی ضد تھا تاہم انھوں نے شپنگلر کی اس بات کو نہیں مانا کہ ہر کلچر ایک جزیرے کی طرح باقی کلچروں سے کٹا ہوتا ہے۔ اس سے اقبال کا مقصود فقط اس بات کا اظہار تھا کہ اسلامی کلچر ہی نے مغربی کلچر کو کروٹ دی ہے اور اگر شپنگلر کو مغربی کلچر کلاسیکی کی ضد نظر آتا ہے تو مغربی کلچر کا یہ وصف بھی دراصل اس بغاوت ہی کا نتیجہ ہے جو مسلمانوں نے یونانی افکار کے خلاف کی تھی۔ مراد یہ کہ مغربی تہذیب اور اس کی جست ، مغربی علوم اور اُن کا پھیلتا ہوا اُفق ، مغربی اندازِ فکر اور اس کا استقرائی اور تجزیاتی انداز۔۔۔ یہ سب کچھ مغربی تہذیب کے فروغ سے پہلے اسلامی تہذیب میں موجود تھا اور وہیں سے سلطنت کی طرح دست بدست ہوتا ہوا مغرب کے ہاتھوں میں آیا۔ اقبال کہتے ہیں کہ یہ بات شپنگلر کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اگروہ اس بات کو مان لیتا تو اُس کا وہ سارا نظریہ ہی باطل قرار پاتا جو نہ صرف مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مستقل خلیج قائم رکھنے کا داعی ہے بلکہ ثقافتوں کے ایک دوسری پر اثرات مرتسم کرنے کی حقیقت کو بھی نہیں مانتا۔ مگر اقبال اصولی طور پر اس بات کے حق میں تھے اور یہی حقیقت پسندانہ رویہ بھی ہے۔ بے شک اقبال نے دبی زبان سے اسلام پر مجوسی کلچر کے چھلکے کا وجود تسلیم کیامگر وہ کہتے تھے کہ یہ چھلکا اس اسلامی کلچر سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا جو اس کے نیچے ہمیشہ سے موجود رہا ہے ۔ یوں دیکھیے تو اقبال نے مجوسی کلچر اور یورپی کلچر کے فرق کو تسلیم کیا مگر اسلامی کلچر اور یورپی کلچر کو ایک ہی تہذیبی تسلسل کی مختلف کروٹیں قرار دیا مگر کیا واقعی مجوسی کلچر، یورپی کلچر سے کوئی مختلف شے تھا اور کیا یہ بات واقعتا درست ہے کہ اسلامی کلچر نے اس مجوسی کلچر کو جھٹک کر اپنے اوپر سے الگ کیا تو وہ اپنے اصل روپ میں دکھائی دیا؟ قیاس غالب یہ ہے کہ اقبال نے شپنگلر کی اس بات کو ایک حد تک تسلیم کر لیا تھا جو اس نے مجوسی کلچر کے سلسلے میں کہی تھی۔ واضح رہے کہ مجوسی کلچر سے شپنگلر کی مراد وہ مشترکہ کلچر تھا جو مشرق وسطیٰ کے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت، زرتشتی مذہب اور اسلام سے منسلک تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مجوسی کلچر کا علاقہ ایران ، شام، فلسطین اور جزیرہ نما عرب سے لے کر مصر تک پھیلا ہوا تھا۔ مگر جب اس سارے علاقے کے کلچر کے خد و خال کو دیکھا جائے تو اس کے اوصاف قریب قریب وہی نظر آتے ہیں جو اسلامی کلچر سے خاص تھے اور جو بعد ازاں اسلامی کلچر کی وساطت سے مغربی کلچر میں نمودار ہوئے۔ لہٰذا مغربی کلچر مجوسی کلچر کی ضد نہیں بلکہ اس کی توسیع ہے۔ اقبال نے یہ کیا کہ ایک طرف تو مجوسی کلچر اور اسلامی کلچر میں حدِ فاصل قائم کی، دوسری طرف اسلامی کلچر اور مغربی کلچر میں مماثلت دریافت کی۔ زیر نظر مطالعہ کے لیے اقبال کا یہ نظریہ کہ اسلامی کلچر کے اثمار ہی مغربی کلچر تک پہنچے ہیں اور اس لیے مغرب کے تجزیاتی ، استقرائی اور عقلی رویے اسلامی تہذیب کی روح سے متصادم نہیں، بے حد خیال انگیز ہے کہ اس سے اقبال پر خرد دشمنی کا الزام باطل ہو جاتاہے۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسلامی کلچر نے مجوسی کلچر کی بعض رسوم اور ظواہر کو تو مسترد کیا مگر اس کی ذہنی اور فکری جہات سے قطع تعلق نہ کیا۔ وجہ یہ کہ مجوسی روح اپنے مرزبوم کاثمر تھی اور یہی مرزبوم اسلامی کلچر کو بھی ورثے میں ملا تھا۔ مرزبوم کا ذکرآیا ہے تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مجوسی کلچر کو ان علاقوں میں فروغ ملا جن میں زیادہ تر صحرا تھے یا پھر سطح مرتفع تھی جو ایک بے سنگ میل منطقے کی صورت میںچاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔بے شک اس خطۂ ارضی میں’’زرخیز ہلال‘‘ (Fertile Crescent) کا علاقہ بھی تھا،مگرپورے علاقے کے تناظر کو ملحوظ رکھیں تو یہ ’’زرخیز ہلال‘‘ محض ایک نخلستان ہی کی صورت میں نظر آئے گا صحرا کی صورت یہ ہے کہ اس میں تمام سمتیں یکسر ناپید ہو جاتی ہیں اور صحرا میں سفر کرنے والے کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا کہ وہ اپنے مقام کا تعین آسمان کے حوالے سے کرے۔اسی لیے مجوسی کلچر میںآسمانی ڈرامے ، نیز آسمانی مظاہر کو اس قدر اہمیت ملی ہے۔ صحرا بھی سمندر ہی کی طرح ہوتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ سمندر میں پانی کی لہریں ہوتی ہیں اور صحرا میں ریت کی موجیں ۔ ورنہ جس طرح سمندر میں سمت باقی نہیں رہتی اور مسافر کو قطب ستارے کی مدد سے اپنے مقام کا تعین کرنا پڑتاہے بالکل اسی طرح صحرا کا باسی بھی زمینی نشانات سے اپنے مقام کا تعین نہیں کر سکتا اور آسمانی مظاہر مثلاً سورج اور چاند کے طلوع و غروب یا ستاروں کے حوالے سے سمت دریافت کرتا ہے۔ پھر جس طرح سمندر میں کشتی یا جہاز کے سوا سفرممکن نہیں اسی طرح صحرا میں اُونٹ کے بغیر سفر محال ہے۔ چنانچہ اسی لیے اُونٹ کو ’’سفینۃ الصحرا‘‘ کالقب ملا ہے کہ اونٹ بھی کشتی ہی کی ایک صورت ہے۔ مجوسی کلچر کے باشندوں کو ایک تو پانی کے سمندر تک رسائی حاصل تھی، دوسرے وہ ریت کے سمندر میں مصروف خرام رہتے تھے اور بقول غالب بحر اگر بحر نہ ہو تو بیاباں ہے۔ لہٰذا انھوں نے ایک طرف بادبانی کشتی اور دوسری طرف صحرائی اونٹنی کا سہارا لیا اور ایک مسلسل سفر یا سیاحت کی عادت ڈال لی۔ یہی سیاحت پسندی اسلامی کلچر کا بھی امتیازی وصف ہے اور یورپی کلچر کا بھی۔ لہٰذا جہاں یورپ والوں نے کئی امریکہ دریافت کیے وہاں مجوسی کلچر اور پھر اسلامی کلچر سے وابستہ لوگوں نے بھی ایک مستقل سفر ہمیشہ اختیار کیا ۔ عرب جہازران کہاں کہاںنہیں گئے۔ فونیشیا والوں نے پورے بحیرئہ روم کو تختۂ مشق بنایا۔ مصر کے ڈیلٹا والوں نے مینز (Menes) کے زمانے ہی میں سمندر کو عبور کرکے کرٹین یا منوان تہذیب کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس طرح سمیریا کے باشندوں نے مصر سے لے کر ہندوستان تک کے سارے علاقے میں تجارت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی کلچر زمین سے پوری طرح وابستہ ہوتا ہے تو اس سے متعلق لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کے ہاں زرعی کلچر کا پورا نظام اُبھر آتا ہے، لیکن جب کوئی کلچر اپنے اندر تحرک اور جہت پیدا کرتا ہے تو تجارت کو فروغ ملتا ہے۔ تجارت کے لیے ذہن کی چمک دمک ، نفع نقصان کا شعور، انفرادیت کا احساس اور موجود کو واقعی سمجھنے کا رجحان بہت ضروری ہے ورنہ سفرمحض سنیاس کی صورت اختیار کرلے گا۔ چنانچہ مجوسی کلچر اور اس کے بعد اسلامی کلچر میں زمین کے اثمار کو اہمیت ملی ہے۔ موجود کو واقعی متصور کیا گیا ہے اور سمت کا تعین اس لیے کیاگیا ہے کہ شخصی اورقومی سطحوں پر ذات کا تشخص ہو سکے۔ زرعی معاشرے میں رہنے والا شخص اپنے معاشرے سے پوری طرح وابستہ ہوتاہے۔ ذات پات ، پیشہ ، مذہب اور دنیاوی مقام کے اعتبار سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے ، لیکن صحرا کے متحرک معاشرے میں اس شخص کے لیے معاشرے کا تابع مہمل ہونا ممکن نہیںہوتا۔ لہٰذا وہاں ’’فرد‘‘ جنم لیتا ہے۔ فرد اس لیے بھی جنم لیتا ہے کہ سفر کرنے والے گروہ کو ایک رہبر یا لیڈر کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی ہے، بعینہٖ جیسے آسمان پر اُسے سورج یا قطب ستارہ ایسے رہبروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ صحرا کے تناظر میں اپنے ’’مقام‘‘ کا تعین کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مجوسی کلچر اور اس کے بعد اسلامی کلچر میں ’’فرد‘‘ پیدا ہوا جو معاشرے سے وابستہ بھی تھا اور اس سے آزاد بھی! غزل کے اس شعر کی طرح جو غزل سے وابستہ ہونے کے باوصف اپنی منفرد حیثیت میں ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی آئینہ ہو جاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں غزل ایسی صنف شعر کو کیوں فروغ ملا۔ بہرکیف فردکی انفرادیت کی نمود مجوسی کلچر اور پھر اسلامی کلچر کا طرئہ امتیاز ہے(عرب کا باشندہ بنیادی طور پر انفرادیت پسند تھا اور ہے)۲۹؎ اور یہی وصف مغربی کلچر کو بھی حاصل ہے کہ وہاں بھی فرد نے ہمیشہ اپنی انفرادیت کا تحفظ کیا ہے۔ مجوسی کلچر میں آسمان ایک مستقل حیثیت رکھتا تھا اور اس میں جابجا ’’نشانیاں‘‘ تھیں مگرزمین پر ریت کے ٹیلوں کا لامتناہی سلسلہ سدا اپنی صورت بدلتا رہتا تھا۔۔۔ تاہم زمین پر وہ ’’نشانیاں‘‘ مستقل نوعیت کی بھی تھیں۔۔۔ ایک کھجور، دوسرا اونٹ!اور ان دونوں نے مجوسی کلچر کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا، مثلا کھجور کی ہیئت کو میناروںنیز عربوں کے لباس کی مخصوص تراش خراش میں بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اونٹوں کی پوری قطار گزرتے ہوئے لمحات کے تسلسل کو سامنے لاتی ہے۔ چنانچہ مجوسی کلچر میں اگر زماں کاایک حرکی تصور پیدا ہوا ہے تو اس کا نہایت گہرا تعلق کارواں کے سفر سے بھی ہے کلاسیکی کلچر میں زماں کا تصور ’’اب‘‘ کے مرکزی نقطے کو عبور کرنے پر قادر نہیں تھا، لیکن مجوسی کلچر میں پورے قبیلے کے مسلسل سفر نے زماں کے تینوں منطقوں کا احساس دلایا۔ چنانچہ حال کے علاوہ ماضی اور مستقبل سے بھی وابستگی پیدا ہوئی اور ان تینوں کے ازلی و ابدی تسلسل کا ادراک کیاگیا۔ جیسا کہ سب کو علم ہے، مجوسی کلچر میں شجرئہ نسب کی روایت نے جنم لیا جو ماضی سے رشتہ استوار کرنے ہی کی ایک کاوش تھی۔ اسی طرح اس کلچر کے تحت ’’قیامت‘‘ کے تصور کو رواج ملا جو تاریخ کی مستقبل بعید تک توسیع کا اعلامیہ تھا۔ واضح رہے کہ خود مجوسی کلچر اس قدیم ارضی تہذیب سے پھوٹا تھا جو کسی زمانے میں پورے افریشیا کی تہذیب تھی، مگر پھر جب موسمی تبدیلیوں کے باعث بڑے بڑے صحرا وجود میں آگئے تو اس کے اثرات ’’زرخیز ہلال‘‘ کی تہذیبوں مثلاً سمیریا اور مصر وغیرہ میں تو برقرار رہے مگر باقی سارے خطے پر آوارہ خرام قبائل کا کلچر مسلط ہوتا چلا گیا۔ یہ نیاکلچر مجوسی تاریخ کے حرکی تصور سے فیض یاب اور فرد کی انفرادیت کے ظہور سے عبارت تھا۔ یہ جبلت پر فہم و شعور کی فتح بھی تھی اور وقت کے تسلسل کا وجود میں آنا بھی! اسے فرد کی انفرادیت کے وجود میںآنے کانام بھی دیا جا سکتا ہے کہ اب اس نے قدیم سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کی اور ایک خط مستقیم پر چلنے لگا۔ قدیم انسان نے بار بار وقت اور تاریخ کی نفی کی تھی۔ نئے فرد نے وقت اور تاریخ کو جنم دینے کی ابتدا کی اور ایک ایسی نئی ذہنی سطح پر سانس لینے لگا جو انفرادیت کی خوشبو سے معطر تھی۔ فرد کے ہاں اس نئے رجحان کی وجوہ کا سراغ لگانا بے حد مشکل ہے، تاہم ایک بات واضح ہے کہ جب تک انسان محض زمین سے وابستہ رہے اس پر ایک جامد نظریۂ حیات مسلط رہتا ہے لیکن جب کسی وجہ سے ایک مستقل سفر درپیش ہو(یہ سفر ذہنی اور روحانی بھی ہو سکتا ہے) تو زمین سے اس کے بندھن ٹوٹنے لگتے ہیں اور خط مستقیم کی جہت اور آزاد روی اس کے احساسات میں بھی ایک انقلابی تبدیلی کا باعث بن جاتی ہے۔ چنانچہ اب اس پر زندگی کے زیرو بم کا دوّار نظریہ اس قدر مسلط نہیں رہتا جتنا زیروبم کا وہ نظریہ جو فہم و شعورسے مرتب ہوتا ہے اور جس کے مطابق ساری کائنات معاشرے کی طرح ایک دائرے میں نہیں گھومتی بلکہ فرد کی زندگی کی طرح ایک خاص مقام سے چل کر ایک خاص مقام پر ختم ہو جاتی ہے اور فرد کی زندگی ہی کی طرح نئے سے نئے واقعات سے آشنا ہوتی ہے۔ یہ نظریہ فرد کی انفرادیت کا علم بردار ہے اور کائنات کی تخلیق کو بھی ایک منفرد تخلیقی عمل کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اس کے مطابق فرد کی زندگی کی طرح کائنات بھی زمان و مکاں کے تابع ہے اور اس کا بھی ایک آغاز اور انجام ہے۔ بالخصوص انجام کے بارے میں مشرقِ وسطیٰ (یعنی مجوسی کلچر کا علاقہ) کے اعتقادات خاصے واضح اور زور دار ہیں، مثلاً مرسیا ایلیاڈ (Mercea Eliade) نے اپنی تصنیف Cosmos and History میں قدیم ایران کے اس اعتقاد کا ذکر کیا ہے کہ دُنیا ایک روز آگ سے تباہ ہو گی جس سے صرف خیر زندہ بچے گا، مگر یہ عقیدہ صرف ایران تک محدود نہیں رہا، مشرقِ وسطیٰ کے تقریباً تمام مذاہب میں کائنات کے انجام کے بارے میں یہ عقیدہ بہت مقبول ہوا ہے۔ ’انجام‘کے اس اعتقاد کا ایک غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ ہر چند یہ تاریخ کی نفی کر دیتا ہے لیکن ’اب‘ کی فضا میں نہیں بلکہ صرف ’آیندہ‘ کے کسی نقطے پر! دراصل قدیم سوسائٹی ایک مستقل’اب‘ کے لمحے میں رہتی تھی اور ہر اس عنصر کی نفی کر دیتی تھی جو زندگی میں ’آیندہ‘ کا اضافہ کرنے کی جسارت کرتا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مذاہب کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ ان کے باعث حال کی ازلی و ابدی، جامد اور بُت پرستی سے مملو فضا پارہ پارہ ہوئی اور فرد نے خود کو مستقبل سے وابستہ کر لیا اور یوں فردکی انفرادیت اور قدیم معاشرے کے دائرے سے اس کی بغاوت پوری طرح روشن ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مذاہب نے فرد کی آزادی کا علم بلند کیا، ہر چند کہ اسے ساتھ ہی ذات واحد کی عبادت اور اطاعت کا سبق بھی دیا ۔ بہرکیف قدیم سوسائٹی کے زندان سے باہر نکلنے اور بت پرستی کے قدیم تصور کو ترک کرنے کی تلقین کرکے ان مذاہب نے انسانی تہذیب کے سلسلے میں ایک ایسی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے کہ اس کی اہمیت اور افادیت سے کوئی مادہ پرست بھی انکار نہیں کر سکتا۔۳۰؎ بحیثیت مجموعی مجوسی کلچر کی سطح تخلیقی تھی ۔ وہ اس طرح کہ جو کلچر پوری طرح زمین سے وابستہ ہو جائے اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور ایک مادی نقطۂ نظر اس قدر غالب آ جاتا ہے کہ وہ تخلیقی طور پر فعال نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہر وہ کلچر جو زمین سے خود کو پوری طرح منقطع کر لیتا ہے محض ہوا میں معلق ہونے کے باعث تخلیقی طور پر بانجھ ہو جاتا ہے۔ مجوسی کلچر کا امتیازی وصف یہ تھا کہ اس نے زمین اور جسم کی تطہیر پر زور دیا، یعنی ارض کو آسمان سے ہم رشتہ کر دیا۔ یہی فن کا طریق بھی ہے کہ وہ جسم کو اس کے بوجھ سے آزاد کر کے ارفع اور سُبک اندام بنا دیتا ہے۔ مجوسی کلچر میں سے دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کی نمود اس کے تخلیقی رُخ ہی کا کرشمہ تھا اور یہی تخلیقی رُخ اسلامی کلچر میںبھی نمودار ہوا کیونکہ دونوں کی مرزبوم ایک ہی تھی۔ شپنگلر نے مجوسی کلچر کی اصل روح کو پیش نہیں کیا۔ یہ کام اقبال نے انجام دیا۔ جب انھوں نے مجوسی کلچر کے چھلکے کو تو مسترد کر دیا مگر اس کے مغز کو قبول کر لیا اور پھر دیکھا کہ یہی مغز اسلامی کلچر میں بھی موجود تھا تب انھوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ یورپی کلچر نے جس رُوح اور اس کی جہت کامظاہرہ کیا تھا وہ اصلاً اسلامی کلچر ہی کی روح تھی۔ اس حوالے سے اقبال نے عقلی اور استقرائی رویے کو بھی اسلامی کلچر ہی کا ثمرہ قرار دیا اور کہا کہ یہی ثمر مسلمان مفکرین کے ذریعے یورپ تک پہنچا تھا اور پھر نشاۃ ثانیہ کے سلسلے میں ایک بہت بڑا محرک بن گیا تھا۔ ب-فکر اقبال میں عشق کا مقام اقبال نے اپنے خطبات میں استقرائی اندازِ نظر اورعقلی اور تجزیاتی رویے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے نہ صرف یہ کہا کہ اسلام میں منطقی بنیادوں کی تلاش کاسلسلہ رسول اکرمؐ ہی سے شروع ہو گیا تھا، بلکہ اسلامی کلچر کے امتیازی محاسن کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ تک بھی کہ دیا کہ انسانی علم کے ماخذات میں سے ایک تو داخلی تجربہ ہے، مگر دوسرے دو ’’فطرت‘‘ اور ’’تاریخ‘‘ ہیں اور اسلامی کلچر کی اصل رُوح اس وقت دکھائی دیتی ہے جب علم کے ان تینوں سرچشموں سے فیض یاب ہوا جائے۔۳۱؎ ظاہر ہے کہ ’’فطرت‘‘ کی تسخیر اور ’’تاریخ‘‘ کا شعور سائنسی اور عقلی رویے کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا اقبال نے اپنے نظامِ فکر میں اسے بے حد اہمیت دی۔ اس قدر کہ ایک جگہ یہ تک لکھا کہ ’’اسلام کی پیدائش دراصل استقرائی فکر کی پیدائش ہے۔۳۲؎ مگر یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اقبال محض مغربی اندازِ فکر اور سائنسی رویے کے علم بردار نہیں تھے۔ ان کا داخلی تجربے کی سچائی پر بھی ایمان تھا، مگر یہ داخلی تجربہ بنیادی طور پر مذہبی اور جمالیاتی تجربہ تھا۔ بے شک انھوں نے عارفانہ تجربے کے ساتوں رنگوں کا تجزیہ بھی کیا ہے اور اُن کے داخلی تجربے کی بنت میں عارفانہ تجربے کے عناصر بھی شامل ہیں، مگر بنیادی طور پر ان کے داخلی تجربے کا مزاج مذہبی اور جمالیاتی ہے۔ یوں انھوں نے عقلی میلان کی حمد و ثنا تو کی لیکن ’’اندر‘‘ کے جہان کی سیاحت کے عمل کو ترک نہ کیا بلکہ اس بات کا اظہار بھی کیا کہ عقلی اور منطقی اندازِ فکر آگہی کے اس خاص منطقے سے آشنا ہونے کے ناقابل ہے جو عام انسانی شعور کے عقب میںموجود ہے۔ اقبال کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔۳۳؎ تمام تاریخی ادوار اور تمام ممالک کے مذہبی ماہرین اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ عام انسانی شعور کے قریب ہی آگہی کی بعض اور اقسام بھی ہیں۔ اگر ان اقسام سے حیات بخش اور علم افروز تجربے کے امکانات پیدا ہو جائیں تو ایسی صورت میں اس بات کا امکان کہ مذہب ایک ارفع تجربہ ہے ، بالکل جائز اور قابلِ توجہ ہے۔ آگے چل کر اقبال نے اس بات کااظہار کیا کہ خود مغرب میںذہن کے بعض انجانے مظاہر میں بھی دلچسپی لی گئی ہے، مثلاً سرولیم ہملٹن (Sir William Hamlton) نے انگلستان میں اور لیبنز (Leibniz)نے جرمنی میں! اس سلسلے میں اقبال نے ژنگ کا بطور خاص ذکر کیا اس کے ان الفاظ سے وہ متفق ہیں کہ تجزیاتی نفسیات مذہب کے بنیادی مزاج کا احاطہ کر نے سے قاصر ہے۔ ژنگ نے لکھا ہے کہ جس طرح آرٹ کا بنیادی مزاج نفسیاتی تجزیے سے ماورا ہے بالکل اسی طرح مذہب کے بعض جذباتی اور علامتی مظاہر کا تجزیہ تو کیا جا سکتا ہے مگر اس کے بنیادی مزاج کو گرفت میں لینا ممکن نہیں ---- اقبال کہتے ہیں: سائنس کے میدان میں ہم تجزیے کو حقیقت کے خارجی رویے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور مذہب کے میدان میں ہم اسے ایک قسم کی حقیقت کی علامت قرار دیتے ہیں اور حقیقت کے داخلی مزاج کے حوالے سے اس کے معنی کو دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۳۴؎ بظاہر اقبال نے اپنے خطبات میں مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے کے متوازی قرار دے کر ایک ہی منزل کی طرف نگراں پایا ہے،مگر اس فرق کو بہرحال ملحوظ رکھا ہے کہ سائنس کے برعکس مذہب ’’حقیقت‘‘ کے بطون میں جھانکتا ہے اور جہاں سائنس میں حقیقت کا ٹکڑوں اور قاشوں میں جائزہ لیا جاتا ہے وہاں مذہب میں ایک ایسا اجتماعی رویہ جنم لیتا ہے جو تمام تجربات کو یک جان کر دیتا ہے۔ مذہب کا یہ اجتماعی رویہ جس کے باعث انسان ایک پل میں زماں کی ساری پر توں کو دیکھ لیتا ہے اور حقیقت کے ’’کل‘‘کا ادراک کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، بنیادی طور پر وجدانی سوچ کا کرشمہ ہے نہ کہ استقرائی سوچ کا۔ اقبال نے اپنے خطبات میں سائنسی اور عقلی اندازِ فکر کو تو اہمیت بخشی ہے مگر ساتھ ہی وجدانی سوچ کے ارفع مقام کو بھی ہمہ وقت ملحوظ رکھا ہے۔ اسی طرح اپنی شاعری میں اقبال نے بظاہر تو وجدانی سوچ کی وکالت کی ہے اور عشق کو عقل کے مقابلے میں برتر قرار دیا ہے مگر وہ بتدریج عقل کو اپنے نظامِ فکر میں بحال کرتے چلے گئے ہیںحتیٰ کہ انھوں نے عقل اور عشق کے امتزاج کا نظریہ بھی پیش کر دیا ہے۔ عقل کو بحال کرنے کا یہ عمل عشق کے بارے میں اقبال کے اس خاص رویے سے عیاں ہے اور اس بات کو ثابت کرتاہے کہ اقبال نے عشق کے اس روایتی تصور کو ، جس میں عقل کے لیے کوئی گنجایش نہ تھی، ایک ایسے تصور میں بدل دیا ہے جو انتہائی جذب کی حالت میںبھی شعورِ ذات کے وصف سے بیگانہ نہیں رہتا۔ مگر اقبال کے اس تصورِ عشق کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے عشق کے اس تصور کا جائزہ لیا جائے جو صوفیانہ نظامِ فکر میں اُبھرا اور پھر دیکھا جائے کہ اقبال نے کس حد تک اس سے انحراف کیا ہے۔ (۲) ابتداً مسلمان صوفیا نے اس بات پر زور دیا تھا کہ نفس کی تطہیر ہو تاکہ روح گناہوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر صراطِ مستقیم پر سفر کر سکے۔ اس سفر کے کئی مدارج تھے اورصوفیاکا یہ خیال تھا کہ ان میں سے ہر مقام کی تسخیر کے بعد روح کو ایک نیا وصف حاصل ہو جاتا ہے اور وہ ارفع منازل کی طرف پرواز کرنے لگتی ہے۔ ان مقامات میں توبہ ، صبر ،شکر، رجا، خوف ، فقر، زہد، توحید، توکل، شوق، اُنس اور رضا قابلِ ذکرہیں۔ ان مقامات کو طے کرنے کے بعد معرفت حاصل ہوتی ہے اور صوفی ’’فنا‘‘ سے گزر کر بقائے دوام حاصل کر لیتا ہے۔ ہر چند اس ابتدائی دور میں زیادہ تر نفس امارہ ہی پرزور دیا گیا اور یہ امر تصوف پر مذہبی احکامات کی چھاپ کو بھی ثابت کرتا ہے۔ تاہم تصوف کے اہم ترین مقام یعنی عشق کو اس ابتدائی دور میں بھی اہمیت ملنا شروع ہو گئی تھی، مثلاً مارگریٹ سمتھ نے لکھا ہے:۳۵؎ عشق کے بارے میںصوفیا کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے: یہ (عشق) شراب حیات ہے۔ یہ وجد کی اس حالت تک لے جاتا ہے جو خدا کے قرب میںموجود ہوتی ہے۔ یہ سچا عشق ہے جو تمام خود غرضانہ مقاصد سے مبرا ہے۔ ان عاشقوں میں سے ایک سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں کے ارادے ہیں، تو اس نے جواب دیا کہ وہ اپنے محبوب کے پاس سے آیا ہے اور محبوب کی طرف جا رہا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ اسے کس کی تلاش ہے تو جواب ملا کہ اسے اپنے محبوب کی تلاش ہے۔ جب اس سے استفسار کیا گیا کہ اس نے کیا پہن رکھا ہے تو اس نے جواباً کہا کہ محبوب کے برقع سے اس نے خود کو ڈھاپنا ہوا ہے اور اس کا چہرہ اس لیے زرد ہے کیونکہ وہ اپنے محبوب سے جدا ہے۔پھر جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کب تک محبوب ! محبوب! کی رٹ لگاتا رہے گاتو اس نے کہا کہ جب تک وہ اپنے محبوب کا چہرہ دیکھ نہیں لیتا وہ اس کے نام کا ورد کرتا چلا جائے گا۔ نویں صدی عیسوی کے رُبعِ آخر میں سریانی تصورات تصوف میں شامل ہونا شروع ہوئے اور اب صوفیا نے یہ کہنا شروع کیا کہ حقیقت اولیٰ نے جو مجسم حُسن ہے اس بات کی خواہش کی کہ اپنے حُسن کا جلوہ دکھائے اور یوں وہ کائنات کے آئینے میں منعکس ہوئی ۔ مراد یہ کہ خدا جو بے مثال ہے ہر جگہ اور ہر شے میں جاری و ساری ہے۔ خدا حُسن کا کمال ہے اور عشق کی منزل ہے۔ یہ عشق اصلاً حقیقی ہے مگر مجازی عشق سے مشابہ ہے ۔ لہٰذا علامتی انداز میں مجازی عشق ہی کے مراحل سے گزرتا ہے۔ صوفیا کے نزدیک عشق مذہب کا جوہر بھی ہے اور عبادت اس عشق ہی کی ایک صورت ہے۔ یوںدیکھیے تو اس تمثیل میںتین کردار دکھائی دیں گے۔۔۔ ایک عاشق، دوسرا عشق، تیسرا حُسن! ان میں سے حُسن اس شمع کی طرح ہے جس کے بارے میںگیتا میں لکھا ہے کہ اس کی روشنی سدا ایک سی رہتی ہے کیونکہ وہ ایک ایسی جگہ روشن ہے جہاں ہوا کا گزر نہیں ہے۔ عاشق کی حیثیت اس پروانے کی سی ہے جو شمع کو دیکھتے ہی اس پر نثار ہو جاتا ہے اور اپنے اس اقدام کو سبک سارانِ ساحل کی نام نہاد’’دانش مندی‘‘ سے مجروح نہیں کرتا ۔ فریدالدین عطار لکھتے ہیں۔۳۶؎ ایک شب پروانے ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔۔۔ اپنے دلوں میں شمع سے ہم کنار ہونے کی آرزو لیے۔۔۔ ان سب نے یک زبان ہو کر کہا ، ہمیں کسی ایسے ساتھی کی تلاش کرنی چاہیے جو ہمیں اس کی خبر لا کر دے جس کے لیے ہم اس قدر بے قرار ہیں، تب ان میں سے ایک پروانہ ایک دور افتادہ قلعے کی طرف اُڑا اور اس نے قلعے کے اندر ایک شمع کی روشنی دیکھی۔ وہ واپس آیا اور اس نے دوسروں کو بتایا۔ پھر شمع کے بارے میں بڑی دانشمندی سے باتیں کرنے لگا۔ مگر پروانوں میں سب سے عقل مند پروانے نے کہا: ’’یہ پروانہ ہمیں شمع کے بارے میں کوئی معتبر خبر نہیں دے سکتا‘‘۔ایک اور پروانہ شمع کے پاس گیا۔ وہ شمع کے اس قدر قریب چلا گیا کہ اس کے پروں نے شمع کے شعلے کو چھو لیا۔ مگر تپش اتنی زیادہ تھی کہ اسے واپس آنا پڑا۔ واپس آ کر اس نے بھی روشنی کے اسرار پر سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ شمع سے وصال کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ مگر عقل مند پروانے نے کہا: ’’تم جو توضیح پیش کر رہے ہو وہ اتنی ہی بے کار ہے جتنی تمہارے ساتھی کی‘‘۔ تب تیسرا پروانہ اُڑا اور یہ پروانہ عشق کے نشے میں سرشار تھا۔ وہ گیا اور اس نے جاتے ہی خود کو شمع کے حوالے کر دیا۔ پھر جب وہ شعلے سے ہم کنار ہو گیا تو شمع ہی کی طرح لو دینے لگا۔ جب عقل مند پروانے نے دور سے دیکھا کہ شمع نے پروانے کو خود میں جذب کر لیا ہے اور پروانے کو اپنی روشنی عطا کر دی ہے تو اس نے کہا : اس پروانے نے اپنے عشق کی تکمیل کر دی ہے۔ لیکن اس تجربے کو صرف وہی جانتا ہے کوئی اور نہیں جان سکتا‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ صرف وہی جو اپنے وجود کو یکسر بھول جاتا ہے محبوب کاعلم حاصل کرتا ہے۔ جب تک تم اپنے جسم اور روح کو نظر انداز نہیں کرو گے تم اسے کیسے جان سکتے ہو جس سے تمھیں عشق ہے؟ تیسرا کردار عشق ہے۔مگر اس کی حیثیت زیادہ تر ایک ’’ذریعے‘‘ کی ہے۔ عشق دراصل وہ حرکی قوت ہے جس کے بغیر عاشق ایک قدم بھی نہیں چل سکتا۔ پروانے کے سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا سوزِ دروں عشق ہی کی ایک صورت ہے۔ عشق سیدھی سٹرک پر نہیں چل سکتا بلکہ مرکز آرزو کے گرد طواف کرتا ہے(پروانہ بھی توشمع کے گردطواف ہی کرتاہے) اس کی حیثیت اس آبی طوفان کی سی ہے جو کسی مرکزی نقطے کے گرد ایک طوفانی دائرے کی صورت میں گھومتا ہے۔یہ مرکزی نقطہ طوفان کی ’’آنکھ‘‘کہلاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ’’آنکھ‘‘ کے اندر مکمل سکون ہوتا ہے۔ تصوف کا عشق بھی جس حُسن ازل کے گرد طواف کرتا ہے وہ خواہشات کے ازدحام سے ماورا ایک انوکھی شانتی اور اطمینان قلب کا گہوارہ ہے۔ مگر اس ’’حسنِ ازل‘‘ کی جھلک پانا بے حد مشکل ہے، کیونکہ اس کے گرد خواہشات کا ایک گول سا سلاخ دار جنگلہ ہے جس میں سے حُسن کا جلوہ پوری طرح دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ اگر طواف کی رفتار تیز ہو جائے تو جنگلے کی سلاخیں غائب ہو جاتی ہیں اور جنگلے میں گھرا ہوا وہ مقام نظر کی گرفت میں آ جاتا ہے جو حُسن ازل کامسکن ہے، مگر رفتار شرط ہے۔ جیسے ہی عشق کی رفتار کم ہو گی ، جنگلے کی سلاخیں زیادہ جگہ گھیر لیں گی اور حُسن نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔ تصوف میں بار بار اس بات کا اظہار ہوا ہے کہ ’’حُسنِ ازل‘‘ پردے کے پیچھے ہے اور جب عاشق اس پردے کو چاک کرتا ہے تو اسے حُسن کا جلوہ دکھائی دیتا ہے مگر اسی بات کو دوسرے لفظوں میںیوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ حسن ازل اوراس کے عاشق کے درمیان خود عاشق کی خواہش نے ایک پردہ ساتان رکھا ہے، جب تک اس خواہش کا استیصال نہ ہو، نظروں کے سامنے کی وہ دُھند دور نہیں ہو سکتی جس کے پیچھے حُسن کا آفتاب چمک رہا ہے۔ خواہش کو مارنے کا ایک طریق تو زُہد و اتقا ہے جسے ابتدائی دور کے صوفیا نے اختیار کیا تھا، دوسرا طریق عشق ہے جو زیادہ فعال اور مثبت ہے۔۔۔ وجہ یہ کہ عشق سے ایک ایسا انہماک جنم لیتا ہے جس کی موجودگی میں دوسری اشیا کی طرف انسان کی توجہ از خود ختم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب ایک مرکز پر تمام تر توجہ مرکوز ہو جائے تو خواہشات کی کثرت کیسے باقی رہ سکتی ہے؟ تصوف نے ابتداً تو زہدو اتقا کو اہمیت دی تھی، اس لیے خواہشات کی نفی کا نظریہ مستقل طور پر تصوف کے ساتھ چپک گیا، مگر اپنے دورِ عروج میں تزکیۂ باطن کے لیے زُہدو اتقا سے کہیں زیادہ عشق کی سپردگی سے کام لیا گیا۔ عشق کا امتیازی وصف اس کی رفتار ہے۔ پھر عجیب بات یہ بھی ہے کہ عشق دائرے میں سفر کرتا ہے جس سے رفتار میں انتہائی تیزی پیدا ہو جاتی ہے۔رفتار کی تیزی سے وجد کا عالم طاری ہو جاتا ہے اور وجد کے عالم کا مطلب یہ ہے کہ بڑی خواہش نے سب چھوٹی خواہشات کو کھالیا ہے بعینہٖ جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔ سریانی تصوف نے خواہشات کی تہذیب کرنے کے لیے انھیں ’’عشق‘‘ میں ضم کر دیا جو ایک مثبت طریق تھا۔ جدید نفسیات نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ خواہش کو دبا یا تو جا سکتا ہے مگر اسے مارا نہیں جا سکتا اور جب اسے دبا دیا جائے تو اخراج کا ایک راستہ بند ہونے پر وہ اخراج کے سو راستے دریافت کر لیتی ہے۔ لہٰذا ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے ضروری ہے کہ خواہشات کو دبانے کے بجائے ان کی تہذیب کی جائے۔ تصوف بھی یہی کچھ کرتا ہے کہ ’’حسن ازل‘‘ کو مرکز نگاہ بنا لیتا ہے اور پھر جملہ خواہشات کی قوت عشق کی قوت میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی چیز فن کے تخلیقی عمل میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے، کیونکہ وہاں بھی خواہش کی تہذیب ہوتی ہے نہ کہ تکذیب ۔ فرق یہ ہے کہ آرٹ خواہش کے ساتھ جسم کو بھی سبک سارکرتا ہے اور نتیجہ تخلیق کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے، جب کہ تصوف میںصوفی’’حُسن ازل‘‘ میں خود کو پوری طرح جذب کر دیتا ہے۔ وہ صوفی جو اس مقام سے لوٹتے ہیں اس روحانی تجربے کی عظمت کے بارے میں تو بہت کچھ بتاتے ہیں لیکن خود تجربے کو بیان نہیں کر پاتے۔ وجہ یہ کہ عام زبان اس تجربے کو خود میں سمونے سے قاصر ہے۔ یہ تو فن کار ہی ہے جو روحانی تجربے کی تجسیم پر قادر ہے اور اس خاص میدان میں اسے صوفی پر سبقت بھی حاصل ہے، مگر یہ ایک الگ بحث ہے۔ عشق جب حسن ازل کے گرد پروانہ وار طواف کرتاہے تو ’’پردہ‘‘ اٹھنے لگتا ہے۔ چاہے آپ اس پردے کے بارے میں یہ کہیں کہ خود حُسن ازل نے اسے آویزاں کر رکھا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے جلوے کے دیکھنے کی کسی کو تاب نہ ہو گی اور چاہے یہ کہیں کہ خود عاشق کی خواہش ایک پردہ سا بن کر اس کے اور حسن ازل کے درمیان حائل ہے، یہ بات طے ہے کہ عشق جب اپنے عروج پر پہنچتا ہے اور اس کی رفتار میں بے پناہ تیزی آ جاتی ہے تو خواہش کا پردہ از خود اُٹھنے لگتا ہے۔ ابن عربی لکھتا ہے:۳۷؎ وجد کا آغاز پردہ اُٹھنے کا آغاز بھی ہے۔۔ ۔ وجد اللہ کے خاص بندوں کا پہلا ’’مقام‘‘ ہے اور وہ لوگ جو اس تجربے سے گزرے ہیں ان کے لیے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ جب دنیاوی مقاصد کو تج دیا جائے اور خدا سے محبت کو خود غرضانہ جذبات سے پاک کر دیا جائے اور جب دل خدا کی عبادت کرے اور اس کے نزدیک ہو کر دعائوں میں اس سے ہم کلام ہو اور خدا اُسے مخاطب کرے اور اس سے بات کرے تو دل کو وجد حاصل ہوتا ہے۔۔۔ مگر جب صوفی اس جلوے سے بیدار ہوتا ہے تو اس سے وہ توچھن جاتا ہے جو اس جلوے کے دوران میں اسے حاصل ہوا تھا لیکن خدا کی ذات کا علم اس کے پاس موجود رہتا ہے اور وہ تادیر اس سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں سوامی رام تیرتھ نے لکھا ہے:۳۸؎ لوگ باگ سیاروں کی طرح انتہائی شدت کے ساتھ سورج کی طرف سفر کرتے ہیں لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد روحانی طور پر سُست پڑنے کے بعد دائرے میں گھومنے لگتے ہیں اور اس لیے کبھی سورج تک پہنچ نہیں پاتے۔ کچھ مرکزی سچائی کے گرد ایک مدار میں گھومنے لگتے ہیں لیکن ذرا فاصلے پر۔ دوسرے اپنے مدار کو تنگ کرتے جاتے ہیں۔ رام (یعنی سوامی رام تیرتھ) اس مذہبی نظامِ شمسی سے ہمیشہ محظوظ ہوا ہے، لیکن پوچھتا ہے کہ کون ہے جو پروانے کا کردار ادا کرے کہ روشنی کے گرد گھومتے ہوئے اس کے قریب ہوتاجائے اور پھر اپنی محدود خودی کو روشنی میںجلا کر (خود روشنی بن جائے) تت توام آسی (وہ تم ہو)۔ اب صورت یوںاُبھرتی ہے کہ عشق دائرے میں گھومتے ہوئے اتنی زیادہ رفتار جمع کر لیتا ہے کہ بالآخر دائرے کے مدار کو عبور کر کے دائرے کے مرکز یعنی حُسن ازل میں ضم ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ تخلیقی عمل میںبھی ہوتا ہے کیونکہ : تخلیقی عمل اصلاً وہ عمل ہے جس کی مدد سے انسان اپنے ہی وجود کی با مشقت قید سے رہائی پاتا ہے۔۔ بالکل جیسے کوئی شے کسی مدار میں مسلسل گھومتے چلے جانے کے بعد معاً لپک کر ایک نئے مدار میں چلی جائے۔۳۹؎ اس مقام پر عقل اور عشق کا فرق کچھ اور بھی واضح ہوتا ہے۔ عقل سیدھی لکیر پر چلتی ہے اور قدم قدم پر اسے رکنا اور تجزیے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن عشق گردباد کی طرح دائرے میں گھومتا ہے اور قدم قدم پر اس کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ مگر رفتار عشق کی منزل نہیں، رفتار تو عاشق کو حالتِ وجد میں لانے اور پھر اسے دائرے کی لکیر سے آزاد کرانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ قدیم کلاسیکی تہذیب ایک دائرے میں گھومتی تھی اور تصوف میں عشق کے طواف کا عمل اس تہذیب کے مزاج سے ہم آہنگ تھا۔ مگر تصوف میں عشق کا تصور دائرے سے نجات پا کر مرکز سے ہم رشتہ ہونے کا عمل بھی ہے اور اس لحاظ سے سراسر تخلیقی ہے۔ مگر دائرے کے زندان سے عشق کی جست سیدھی لکیر اختیار کرنے کا ایک بالکل عارضی منظر ہے، کیونکہ اس کے فوراً ہی بعد عاشق ’’مرکزہ‘‘ میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب عشق دائرے کے ’’محیط‘‘ کو توڑتا ہے تو مرکزہ پھیل کر ہر شے پر محیط ہو جاتا ہے، مگر’’مرکزہ‘‘ تو پہلے ایک لامحدود حقیقت اولیٰ تھا۔ اس کا مرکزہ ہونا محض اس لیے تھا کہ عاشق نے اس کے گرد اپنے ہی شوق کا دائرہ کھینچ لیا تھا۔ چنانچہ جب عاشق نے اس دائرے کو عبور کیا تو دیکھا کہ حقیقت اولیٰ تو دائم و قائم ، وسیع اور لامحدود تھی ، فقط دائرے کے پردے نے عاشق کو اس کی لا محدودیت سے غافل کر رکھا تھا ۔ یوں دیکھیے تو تصوف بنیادی طور پر کلاسیکی تہذیب ہی کا ثمر ہے مگر اس کی تخلیقی حیثیت اسے کلاسیکی وضع کی مستقل تکرار سے جدا بھی کرتی ہے۔ اس سلسلے میں سوامی رام تیرتھ نے ایک مزے دار بات لکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب حضرت موسٰی ؑنے ایک اژدہے کو اپنے سامنے پایا تو وہ ڈر گئے مگر غیب سے آواز آئی کہ موسٰیؑ اس اژدہا کو پکڑ لو! حضرت موسٰیؑ نے آگے بڑھ کر اژدہے کو پکڑ لیا تو وہ عصا بن گیا۔ اس کے علامتی مفہوم کا تجزیہ کرتے ہوئے سوامی رام تیرتھ لکھتا ہے کہ اژدہا سچ کی علامت ہے، اور ہندوئوں کے ہاں تو حقیقت اولیٰ کو شیش کہا گیا ہے۔ اژدہا دائرہ در دائرہ سمٹتا ہے اور پھر اپنی دُم کو اپنے منہ میں لے کر خود بھی ایک دائرہ سا بن جاتا ہے (ژنگ نے اس منڈل رُوپ کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے)۔ اژدہے کو پکڑ لینا مایا کی دائرہ صفت حقیقت کو زیر پا لانے کے مترادف ہے۔ گویا سوامی رام تیرتھ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اژدہے کی اصل کو جاننے ہی سے اس کا سحر ٹوٹتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب عرفان یا گیان حاصل ہوتا ہے تو ویدانتی یا صوفی دیکھتا ہے کہ وہ شے جسے وہ اژدہا سمجھ رہا تھا دراصل عصا تھی۔ اژدہے کے دائرہ کا عصا کے صراط مستقیم میں بدل جانا اُس جست ہی کی طرف اشارہ ہے جو عاشق حالتِ وجد میں لگاتا ہے اور یوں دائرے کے مرکز میں ضم ہو کر دائرے کے زندان کو توڑ ڈالتا ہے۔ (۳) موجودہ بحث کے لیے تصوف کے مختلف مکاتب کے فرق کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اقبال نے تو آغازِ کار میں یہ کہا تھا کہ ’’تصوف نو افلاطونیت سے متاثر ہے اور ابنِ عربی اور شنکر متحد الخیال ہیں‘‘۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ وحدت الوجود کے سلسلے میں ان تینوں مکاتب کو متحدالخیال سمجھتے تھے، مگر بعد ازاں جب انھیں محسوس ہوا کہ شنکر کا فلسفہ نفیِ خود پر منتج ہوتا ہے جبکہ شیخ محی الدین ابن العربی عالم کو فریب نظر نہیں سمجھتا بلکہ اسے مظہر حق قرار دیتا ہے۴۰؎ تو وحدت الوجود کے خلاف ان کے رد عمل میں تبدیلی آ گئی۔ مگر سید عابد علی عابد لکھتے ہیں۔۴۱؎ شنکر اچاریہ کی مایا اور ابن العربی کے فریبِ شہود میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔۔۔ ویدانت میںبھی وجودِ حقیقی ایک ہی ہے۔ اس کے سوا تمام مظاہر و اشیا وہی ہیں لیکن ذاتِ حق میں علماً متحقق ہونے کی وجہ سے وہ حقیقت کبریٰ کا جزوِ لازم ہیں۔۔۔ اس حقیقت کو استعارے میں بیان کرنے کے لیے صوفیوں نے ذرّہ اور خورشید کا ، قطرہ اور دریا کا سہارا لیا ہے۔ دریا قطروں کی کلیت کا نام ہے۔ ذرّات خود مستنیر نہیں، نورِ خورشید سے روشن ہیں۔ علامہ مرحوم کے خیال میں ابن العربی کے اس نظریے نے تصوف کو بہت متاثر کیا ہے اور اسی نظریے کی بدولت طامات کا وہ انبار تیار ہوا ہے جس کے متعلق صوفیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تو اجد و حال کے اقوال پر مبنی ہے۔ وحدتِ وجود کے نظریے کے مطابق مخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں رہتا ۔ اس نظریے کے خلاف ردِ عمل کے طور پر وحدت شہود کا نظریہ پیش کیا گیاا ور یہ دعویٰ کیا گیا کہ مخلوقات غیر اللہ ہیں۔ خالق اور ہے مخلوق اور ہے۔دونوں کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔ مصور کی ذات اپنی تخلیقات ہنر سے یا اپنے نقوش سے بالکل علیحدہ اور ماورا ہے۔ علامہ نے ایران کے مابعد الطبیعیات اور اپنے خطبات میں ابن العربی سے استفادہ بھی کیا ہے اور اس کے خیالات کی تردید بھی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تصوف کے بہت سے مکاتب اس عالم کو شر یا فریب یا فریب نظر قرار دے کر اس کی نفی کرتے ہیں اور رہبانیت کے قائل ہیں جب کہ اسلام عالم کو خیر قرار دیتا ہے اور اسی لیے رہبانیت کے خلاف ہے۔ اقبال نے وحدتِ وجود کے اس پہلو کو تو تسلیم نہ کیا کہ یہ عالم فریب محض ہے مگر اس بات کا اقرار یقینا کیا کہ موجودات چاہے وہ خارج میں ہوں یا باطن میں، زمانی ہوں یا مکانی ، ان سب کی حقیقت اللہ ہی ہے اور یہ بات قرآن حکیم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ مسلم لیگ کے اجلاس ۱۹۳۰ء میں انھوں نے جو خطبۂ صدارت پڑھا اس میں بڑے واضح الفاظ میں درج تھا کہ ’’مذہب اسلام کی رو سے خدا اور کائنات ، کلیسا اور ریاست اور روح اور مادہ ایک ہی کل کے مختلف اجزا ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے:۴۲؎ ایک زمانہ تھا جب اقبال بھی صوفیوں کے تصورِ وحدت الوجود سے متاثر تھے اور انسانی روح کے فراق زدہ ہونے پر اعتقادات رکھتے تھے مگر بعد میں رفتہ رفتہ ان کا یہ عقیدہ جاتا رہا اور خودی کی تنظیم میںمادیت کے مستقل وجود کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگ گئے۔ تاہم بعد میں ان کے اشعار میں صوفیوں کے ’’احساسِ جدائی‘‘کا تصور کہیں کہیں نظر آ جاتا ہے۔ جہاں تک عشق کے موضوع کا تعلق ہے مختلف مکاتب میں کچھ نہ کچھ فرق موجود ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ہم خیالی کا عنصر زیادہ ہے۔ ہندوئوں کے ہاں’’بھگتی‘‘ کا تصور تو اسلامی تصوف کے عشق سے گہری مماثلت بھی رکھتا ہے اور رابعہ اور میرا بائی کے اظہارِ عشق میں کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ لہٰذا موجودہ مطالعے کے لیے عشق کے تجزیے میں مختلف مکاتب کے اختلافات کے بجائے ان کی ہم آہنگی کو پیش نظر رکھا جائے گا تاکہ عشق کے مختلف مدارج کی وہ عمومی تصویر سامنے آ جائے جو ایک قدرِ مشترک کے طور پر اُبھری ہے۔ تصوف میں عشق کے مدارج مندرجہ ذیل ہیں: (الف) حُسن (د) قُربانی (ب) طواف (ر) جَست (ج) ارتکاز (س) وصال تصوف میں پہلا درجہ حُسن کے ظہور سے متعلق ہے۔ عام زندگی میں بھی بقائے نسل کا سلسلہ اس جذبے کا مرہون منت ہے جو محبوب کے سراپا کو دیکھ کر عاشق کے دل میں کروٹ لیتا ہے اور پھر اسے بے دست و پا کرکے رکھ دیتا ہے۔ محبوب کی یہ کشش محض جسم کی سطح تک رہے تو جنسی کشش کہلائے گی اور اس کی تہذیب ہو جائے تو محبت کی لطافت میں تبدیل ہو جائے گی اور اگر اس محبت میں اتنی شدت پیدا ہو جائے کہ عاشق کے لیے محبوب کی ذات کے سوا اور کچھ باقی نہ رہے تو اسے عشق کا نام ملے گا۔ تصوف کا عشق کسی مادی محبوب کے سراپا سے منسلک نہیں، لیکن اپنے مزاج اور کارکردگی کے اعتبار سے وہ مادی عشق ہی سے مشابہ ہے۔۔۔ حُسن ازل کے بارے میں علم حاصل کرنا ذہنی سطح کی کشادگی پر یقینا منتج ہوتا ہے اور بیشتر فلاسفروں نے پوری مابعدالطبیعیات اس علم کی اساس پر ہی استوار کی ہے لیکن حُسن ازل سے ایک شخصی رشتہ استوار کرنا ایک بالکل مختلف بات ہے جو فلاسفر کے بجائے صوفی کو ارزانی ہوتی ہے یا پھر مذہبی تجربے سے گزرنے والے شخص کو۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ خود تصوف کے بھی متعدد پہلو ہیں ، مثلاًایک وہ جو حقیقت اولیٰ کے بارے میں علم حاصل کرتاہے اور یہ علم جذبے سے تہی ہوتا ہے۔دوسرا وہ جو حقیقت اولیٰ کو حُسن ازل کے رُوپ میں دیکھتا ہے اور جس طرح مادی دُنیا کا عاشق اپنے محبوب کے حُسن پر نثار ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح وہ ’’حسنِ ازل‘‘کی ڈور سے بندھا جذب اور وجد کے مدارج سے گزرتا ہے۔ صوفی خدا اور کائنات کے بارے میں جو علم حاصل کرتا ہے، اُسے وہ بآسانی دوسروں تک منتقل کر سکتا ہے اور تصوف کا فلسفیانہ پہلو اس انتقال علم ہی کا مظہر ہے، لیکن جب صوفی حسن ازل کی تجلیات سے آشنا ہوتا ہے تو اس کے اس شخصی نوعیت کے انتہائی لطیف اور پُر اسرار تجربے کو صرف فن ہی گرفت میں لے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ تصوف میں عشق کا سارا تصور ایک انتہائی وارداتی عمل سے منسلک ہے اور اپنے مزاج اور کارکردگی کے اعتبار سے مادی سطح کے عشق سے نہ صرف مشابہ ہے بلکہ جب ’’فن‘‘ کے ذریعے خود کو منکشف کرتا ہے تو اس خاص زبان کو بھی بڑی فراخ دلی سے استعمال کرتا ہے جو مادی سطح کی محبت کے سلسلے میں مستعمل ہے۔ چنانچہ فارسی اور اردو شاعری کے صوفی شعرا کے ہاں جنسی تلازمات کے ذریعے ہی عشق کی ساری داستان بیان ہوئی ہے۔ اس حد تک کہ اس شاعری کا بیک وقت جنسی پہلوئوں کے اعتبار سے بھی تجزیہ ہو سکتا ہے اور عارفانہ پہلوئوں کے اعتبار سے بھی۔ اصل بات جذبہ ہے۔۔۔۔ صرف اس کی سمت میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ چنانچہ خدا اور کائنات کے سلسلے میں دلیل اور تجزیے کی مدد سے نتائج کا استخراج نوعیت کے اعتبار سے اس روحانی کیفیت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا جو حُسن ازل کے جلوے سے صوفی کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اُسے ہر شے سے قطعاً بے نیاز کر دیتی ہے۔ الغزالی کچھ یوں رقم طراز ہے:۴۳؎ حُسن سے صرف وہی شخص محبت کر سکتا ہے جو اسے دیکھنے پر قادر ہو کیونکہ حُسن کا نظارہ کرنا بجائے خود مسرت ہے ۔۔۔۔ بے شک خوبصورت چیزوں کو ان کے حُسن کی بنا پر پیار کرناچاہیے نہ کہ اس مقصد کے لیے جو ان سے حاصل ہو سکتا ہے، مثلاً جب ہم سبزہ زاروں اور بہتی ندیوں سے محبت کرتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ سبز پتوں کو کھائیں یا (ندیوں کے) پانی کو پییں۔ اسی طرح خوبصورت ترشے ہوئے پرندوں اور شاداب پھولوں کو دیکھنا بجائے خود تحصیل مسرت کی ایک صورت ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔ جب حُسن کا جلوہ نظر آتا ہے تو قدرتی طور پر اس سے محبت جاگ اُٹھتی ہے۔ خدا حُسن ہے اور اسی لیے جس پر اللہ تعالیٰ کا حُسن منکشف ہوتا ہے وہ مجبور ہے کہ اس سے عشق کرے۔۔۔۔ انسان خدا سے اس لیے بھی محبت کرتا ہے کیونکہ انسانی روح اور اس کے منبع (یعنی روح کُل) میں ایک خاص ربط ہے، کیونکہ وہ (یعنی روح) الوہی اوصاف میں شریک ہے، اور علم اور محبت کے ذریعے وہ بقائے دوام حاصل کر کے خدا ایسی بن سکتی ہے۔ ایسی محبت جب توانا اور محیط ہو جائے تو عشق کہلاتی ہے جس کا مطلب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ اب مضبوط بنیادوں پر استوار اور بے نہایت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دُنیا کی ہر اچھی اور خوبصورت اور محبوب شے ذاتِ باری کی بے پایاں محبت ہی کا عطیہ ہے کیونکہ دُنیا میں جو بھی اچھی اور خوبصورت شے ہے ، جس کا ذہن اور کان اور آنکھ مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ دراصل خدا کے خزانے کا محض ایک ذرّہ ہے اور اس کی تجلی کی محض ایک شعاع ہے۔ الغزالی کے اس بیان سے حُسن ازل کے بارے میں دو باتیں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ حُسن ازل روشنی کا ایک کوندا اور تجلی کی ایک لپک ہے۔ گویا یہ حُسن آواز اور صورت کے بجائے روشنی سے عبارت ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تو کوہِ طور پر انھیں روشنی کا ایک کوندا ہی دکھائی دیا تھا جو حسنِ ازل کی ایک شعاع تھی اور جسے دیکھ کر حضرت موسیٰؑ کی نگاہیں خیرہ ہو گئی تھیں۔ دوسری یہ کہ دنیا میں جہاں کہیں حُسن ہے، چاہے وہ اشیا، پرندوں، سبزہ زاروں اورندیوں ہی کا حُسن کیوں نہ ہو، دراصل حُسن ازل ہی کا عطیہ ہے۔ دوسرے مسالک میں مادے کی دُنیا کو فریب محض یا مایا کہہ کر مسترد کر دیا گیا تھا مگر الغزالی نے اسے خدا کا مظہر قرار دے کر ایک مثبت رویے کا اظہار کیا۔ یہ رویہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے عین مطابق تھا: اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضجمَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْھَا مِصْبَاح۔(۲۴:۳۵) اللہ زمین و آسمان کا نور ہے۔ اُس کے نور کی مثال اس چراغ دان کی ہے جس میں چراغ ہو۔ خود اقبال نے بھی اپنی نظم ’’جگنو‘‘ میںحُسنِ ازل کو مظاہرِحیات میں جلوہ گر دیکھا ہے: ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی رنگیں نوا بنایا مُرغانِ بے زباں کو گل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی نظارئہ شفق کی خوبی زوال میں تھی چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی رنگیں کیا سحر کو، بانکی دُلہن کی صُورت پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہوا کو پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری حُسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میںجھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے اندازِ گفت گو نے دھوکے دیے ہیں، ورنہ نغمہ ہے بوئے بُلبُل، بُو پھُول کی چہک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے اسی طرح ’’بچہ اور شمع‘‘ میں لکھا: محفلِ قدرت ہے اک دریائے بے پایانِ حُسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن حسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہر کی ضوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے آسمانِ صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت، شفق کی گل فروشی میں ہے یہ عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں طفلک نا آشنا کی کوشش گفتار میں ساکنانِ صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے چشمۂ کہسار میں، دریا کی آزادی میں حُسن شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میںحسن روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے زندگی اس کی مثالِ ماہیِ بے آب ہے یہ نظم اقبال کی ابتدائی نظموں میں سے ہے۔ تاہم ابتدائی دور ہی میں اقبال کو اس حسن کی فراوانی کا احساس ہو گیا تھا جو دراصل حُسن ازل کا کرشمہ ہے۔ مگر چونکہ اُس وقت ’’اقبال بھی اقبال سے آگاہ‘‘ نہیں تھے اس لیے وہ نہ جان سکے کہ حُسن کے عام جلوے کو دیکھ کر ان کے دل میں دراصل ’’حسن ازل‘‘ سے سیراب ہونے کی آرزو ہی موجزن ہوئی تھی ۔ اقبال کی بعد کی شاعری اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بات غلط نہیں تھی کیونکہ بعد کی شاعری میں عشق کا ایک نہایت توانا تصور ملتا ہے اور یہ عشق ایک طرف تو اُس ’’حسن لازوال‘‘ کے لیے ہے جو ذاتِ باری کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور دوسری طرف اُس مردِ کامل کے لیے ہے جو منتخب بھی ہے اور بے مثال بھی، رہبر بھی اور منزل بھی! حُسن ازل کے بارے میں اقبال کے یہ چند اشعار قابلِ غور ہیں: ’’کوشش ناتمام‘‘ (بانگ درا) حُسن ازل کہ پردئہ لالہ و گل میں ہے نہاں کہتے ہیں بے قرار ہے جلوئہ عام کے لیے ’’ذوق و شوق‘‘ (بال جبریل) قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں! حُسن ازل کی ہے نمود ، چاک ہے پردئہ وجود دل کے لیے ہزار سوز ایک نگاہ کا زیاں! سُرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب کوہِ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں اس سلسلے میں مولانا صلاح الدین احمد نے لکھا ہے:۴۴؎ تلاش کی بے تابی، ظاہر ہے کہ جویائے جمال کو پایان کار اپنی ذات ہی کی طرف مائل کرتی ہے اور اگر اس کی جستجو میں خلوص، اس کی نگاہ میں گہرائی اور اس کے عزم میں صلابت ہے تو وہ بالآخر اپنے آپ کو پالیتا اور حُسن مطلق سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔ یافت کی یہ کیفیت مرشدِ اقبال، رومی کے ہاں بھی بدرجہ کمال موجود ہے اور اگر فکر کے اس خاص پہلو میں اقبال نے کوئی اکتساب کیا ہے تو رُومی ہی سے کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ مولانا صلاح الدین احمد نے رومی کے حوالے سے عشق کے جس تصور کو پیش کیا ہے وہ اقبال کے تصور عشق کے بہت قریب ہے۔۴۵؎ مولانا رُوم نے عشق کے جس تصور کو اپنے افکار، اپنے جذبات ، اپنے عقیدے اور اپنے عمل کا محور بنایا، وہ علوِ انسانیت کا ایک ہمہ گیر اور دل پذیر تصور ہے۔ رومی کی اصطلاح میں عشق کسی محبوبہ پری تمثال کی ہوس آمیز محبت نہیں بلکہ وہ ایک ایسا لافانی جذبہ ہے جو کائنات کے حُسن کو اپنی گرفت میں لیتا اور اس خیر مطلق سے فروغ حاصل کرتا ہے جو خود خالقِ کائنات کا جمال ہے۔ تصوف کے مطابق عشق مجازی عشق حقیقی کے لیے ایک زینے کا کام دیتا ہے۔ یہی بات حُسن کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ مادی حُسن وہ ’’کھڑکی‘‘ ہے جس سے صوفی کو حسن ازل کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ وہی صورت ہے جو فرید الدین عطار کی پیش کردہ تمثیل میں پروانے کے پیش نظر تھی کہ دور سے شمع کی جھلک پاتے ہی وہ بے تاب ہو گیا تھا۔ چنانچہ عشق میں پہلا درجہ یہ ہے کہ عام آدمی کے برعکس صوفی کو اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی کائنات کے مظاہر میںحسن منعکس دکھائی دینے لگتا ہے اور وہ اس حُسن کی ڈور سے بندھا ہوا اُس دیار میں جا نکلتا ہے جو حُسنِ ازل کی ضیاپاشیوںسے منور ہے۔ مگر اقبال کے سلسلے میں ایم ایم شریف کو حسن اور عشق کا ربطِ باہم ایک اور ہی انداز میں دکھائی دیا ہے۔ ایک عام صوفی کے ہاں تو یہ صورت ہے کہ حُسنِ ازل کی جھلک پاتے ہی وہ بے تاب ہونے لگتا ہے اور پھر پروانہ وار اس سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔ مگر بقول ایم ایم شریف اقبال کے ہاں ابتدائی ادوار میںحُسن، عشق کا خالق ہے جب کہ آخری ادوار میں خود عشق نے حُسن کو تخلیق کیا ہے۔ ایم ایم شریف کے الفاظ ہیں:۴۶؎ فکر اقبال کے پہلے اور دوسرے دور میںحُسن خالق عشق تھا۔ لیکن اب جو دور آتا ہے۔(یعنی ۱۹۲۰ء سے وفات تک) اس میں اس کے برعکس عشق خالقِ حُسن بن جاتا ہے اب ارادہ حصولِ قوت یا ایغو توانائی حسن کی تخلیق کرتی ہے۔ حسن اب اصل حقیقت نہیں رہتا بلکہ اس کی جگہ عشق یا ارادہ ایغو حاصل کر لیتا ہے۔ خدا جو اعلیٰ ترین ایغو اور ارادہ محض ہے اصل حقیقت ہے۔ وہ خالق کائنات ہے۔ انسان بھی اک ارادئہ مختار ہے اور خدا کی طرح خالقِ اشیا ہے۔خدا نے فطرت کی تخلیق کی تھی کہ اسے حسین بنانا اس کے خلیفہ فی الارض انسان ہی کا کام ہے۔ اس حیثیت سے انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ خالق کا سامنا کر سکے اور بصد افتخار کہے: تو شب آفریدی، چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گل زار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگِ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم فطرت کا تمام حُسن ارادہ ہی کی تخلیق ہے۔ اسے آرزو و جود بخشتی ہے۔ وہ آرزو پیدا کرنے کا موجب نہیں… نو افلاطونی اقبال کے لیے حُسن خالقِ عشق اور اس کا منتہائے مقصود تھا۔ جب اقبال نے روحیت کو اپنانا شروع کیا تو اس کے نزدیک حُسن خالقِ عشق تو تھا لیکن عشق کی منزل آخریں نہ رہا تھا۔ لیکن اب رجال پرست روحیتی اقبال کے لیے عشق ہی سب کچھ تھا۔۔۔ بحرِ بیکراں بھی، سفینہ بھی اور ساحل بھی۔ ایم ۔ ایم۔ شریف کا یہ کہنا کہ اقبال کے ہاں ابتداً حُسن خالقِ عشق ہے مگر آخر آخر میں عشق خالقِ حُسن کے رُوپ میں نمودار ہوتا ہے، محلِ نظر ہے۔ اوّل تو ’’خالق‘‘ کا لفظ ہی موزوں نہیں، کیونکہ حُسن عشق کا محرک تو ہے، خالق نہیں۔ ’’خالق‘‘ کا مطلب تو یہ ہو گا کہ سالک کے دل میں عشق کا جذبہ موجود ہی نہیں تھا۔ حُسن نے اس جذبے کو پیدا کیا۔ حالانکہ صورت یہ ہے کہ محبت چاہے وہ جنسی خواہش کی صورت میں ہو یا ماورائی عشق کی صورت میں، انسان کے بطون میں سوئی پڑی ہوتی ہے۔ حُسن کو دیکھ کر یہ محبت متحرک ہو جاتی ہے اور پھر اپنی منزل تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی طرح ایم۔ ایم ۔ شریف کا یہ خیال کہ اقبال کے ہاں ایک دور ایسا بھی آیا جب ان کے ہاں حُسن عشق کے خالق کے بجائے اس کی مخلوق بن گیا، بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اقبال کے نظامِ فکر میں ’’عشق‘‘ کو بڑی اہمیت ملی اور حُسن کا جس شدو مد سے انھوں نے آغاز کار میں ذکر کیا تھا باقی نہ رہا، بلکہ کہیں کہیں تو انھوں نے حُسن کے فانی ہونے کا بھی ذکر کیا، گو فانی ہونے کا ذکر حُسنِ ازل کے سلسلے میں نہیں ہے۔ دوسرے اقبال کے ہاں حُسن ازل جو گویا ’’تکمیل‘‘ کا دوسرا نام ہے، ایک چھپی ہوئی منزل کی طرح شروع سے آخر تک موجود رہا ہے اور عشق کا کام اس حُسن کی ایک جھلک پاناقرار پایا ہے۔ اس حُسن کے بھی دو روپ ہیں۔۔۔ ایک جمالی، دوسرا جلالی۔ یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنی شاعری کے آخری دور میں اقبال حُسن کے جلالی رُوپ کے والہ و شیدا ہو گئے تھے مگر یہ کہنا کہ اب عشق خالقِ حُسن بن گیا درست نہ ہو گا۔دراصل اقبال کے ہاں عقل اور عشق دونوں مقصود بالذات نہیں بعض اوقات ایسا ضرور لگتا ہے کہ وہ عشق کو مقصود بالذات کہہ رہے ہیں، مگر دراصل یہ عشق کے لفظ کو اس کے اصل مفہوم سے منقطع کر کے ایک وسیع تر مفہوم سے منسلک کرنے کے موقعوں پر ہی محسوس ہوتا ہے، مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ خودی عشق کے مترادف ہے(بال جبریل، ص ۱۷۴)، تو اس سے عشق اور خودی کا وہ فرق ، جو مسافر اور منزل کا فرق ہے، گڈمڈ ہو جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اقبال کے ہاں عشق ذوقِ تسخیر کا نام ہے اور خودی سے مراد آگہی یا خود آگاہی ہے۔ رہا حُسن تو وہ اپنی حیثیت سے کہیں بھی دست کش نہیں ہوتا، حتیٰ کہ جاوید نامہ میں بھی جو پہلی بار ۱۹۳۲ء میں چھپی، اقبال نے ’’ندائے جمال‘‘ اور پھر ’’تجلی جلال‘‘ کا بطور خاص ذکر کیا ہے اور یہ دونوں حُسن ہی کے پہلو ہیں۔ بالخصوص ’’تجلی‘‘ کا لفظ تو دنیائے تصوف میں ’’حُسن ازل‘‘ ہی کے سلسلے میں مستعمل رہا ہے۔ ’’ندائے جمال‘‘ کے زیر عنوان بارگاہِ ایزدی سے ’’زندہ رود‘‘ کو یہ جواب ملتا ہے: چیست بودن دانی اے مردِ نجیب از جمالِ ذاتِ حق بردن نصیب آفریدن؟ جستجوئے دلبرے وانمودن خویش را بر دیگرے ایں ہمہ ہنگامہ ہائے ہست و بود بے جمالِ ما نیاید در وجود (اے زندہ رود! تجھے معلوم ہے کہ موجود ہونے سے کیا مراد ہے۔ اس کا مطلب ہے ذاتِ حق کے جمال سے حصہ پانا، یوں اپنے اندر شانِ جمال کا پیدا کرنا۔ پیدا کرنے کامطلب کیا ہے؟ محبوب کی تلاش ، دوسرے پر اپنی ذات کو منکشف کرنا۔ ہست و بود کا یہ سارا ہنگامہ ۔۔ یہ ساری کائنات۔۔۔ ہماری شانِ جمال ہی کی تخلیق ہے) اتنے واضح الفاظ کی موجودگی میں ایم ۔ایم۔ شریف صاحب کا کہنا کہ ۱۹۲۰ء کے بعد اقبال کے نظامِ فکر میں عشق خالقِ حُسن بن جاتا ہے درست نہیں ہے۔ (۴) تصوف میں دوسرا درجہ وہ ہے جہاں عاشق محبوب کے گرد ایک پروانے کی طرح طواف کرنے لگتا ہے۔ گویا براہِ راست شمع کی لو کو مس کرنے کے بجائے اس کے گرد چکر لگانے کی ایک رسم(Ritual)سے گزرتا ہے۔ اس رسم کو قدیم زمانے کی قربانی کی اُس رسم کے مترادف بھی قرار دیا جا سکتا ہے جس کے تحت وہ شے جس کی قربانی دینا مقصود ہوتی ، اس شے کے گرد جس کے لیے قربانی درکار ہوتی ایک دائرے کی صورت میں بار بار گھمائی جاتی۔ خود تاریخ میں بابر کا قصہ کسے یاد نہیں جس نے اپنی عزیز ترین متاع ہمایوں کے گرد تین چکر لگا کر اپنی قربانی پیش کر دی تھی۔ گویا طواف بجائے خود قربانی نہیں لیکن قربانی کی تیاری ضرور ہے۔اگر کسی مرکز کے گرد بار بار انتہائی تیزی سے گھوما جائے تو ایک عجیب سی خود فراموشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس میں سوچ بچار کی قوتیں مدھم پڑ جاتی ہیں اور ذات کے اندر سویا ہوا جذبہ بیدار ہو کر انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور پھر وہ بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے مستعد ہو جاتا ہے۔ تصوف کے بہت سے مسالک میں رقص کو اسی لیے اہمیت ملی ہے کہ رقص جب اپنے عروج پر پہنچتا ہے تو انسان عقل و خرد کی قربانی پیش کرتا ہے تا کہ اسے باریابی یا حضوری کی سعادت حاصل ہو سکے۔ ہندو دیو مالا کے مطابق رقص ہی سے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے، اس لیے کہ رقص سے خود فراموشی کا تسلط قائم ہوتا ہے اور خود فراموشی سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ چونکہ یہ کائنات ایک عظیم تخلیقِ مسلسل ہے، لہٰذا کچھ عجب نہیں کہ ایک بے پایاں خود فراموشی ہی اس تخلیق کا منبع ہو اور اس نے پایاں خود فراموشی کو قائم رکھنے کے لیے پوری کائنات رقص کر رہی ہو۔ اقبال نے جس تغیر کے ثبات کا اقرار کیا ہے وہ کائنات کی مسلسل گردش ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس گردش کو آپ رقص بھی کہہ سکتے ہیں، تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ محض گردش بے معنی بات ہے، کیونکہ جب تک گردش کسی ’’مرکز‘‘ کے گرد نہ ہو خود فراموشی یا جذب کی حالت ارزانی نہیں ہو سکتی(اس کا ذکر آگے آئے گا) سردست عشق کی اُس رفتار کا ذکر مقصود ہے جو دائرے میں گھومنے کے باعث پیدا ہوتی ہے اور عاشق کو ایک گرد باد میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ویسے بھی عشق کی زد پر آیا ہوا شخص ایک جذباتی گردباد ہی کی صورت میں سامنے آتا ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی تمام تر رفتار یا تیزی کے باوصف اس کے دل میں اپنے محبوب کاسراپا اسی طور محفوظ ہوتا ہے جیسے طوفان کے بطون میں طوفان کی آنکھ چھپی ہوتی ہے۔ گویا عشق خود تو اندھا ہے مگر اس نے اپنے بطون میں محبوب کو ایک بیدار آنکھ کی طرح چھپایا ہوتا ہے۔ چونکہ نابینا کو آنکھ درکار ہوتی ہے تاکہ وہ حقیقت کو دیکھ سکے، لہٰذا عشق اپنے محبوب (یعنی آنکھ) کے حصول کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے وہ دیدئہ بیدار مل سکے جس کے بغیر ساری کائنات ایک گھٹا ٹوپ اندھیرے(یعنی جہالت) کے سوا اور کچھ نہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری میں کائنات کے رقص کا بار بار ذکر کیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر ذرّہ کائنات تڑپ رہاہے، ہر شے متغیرہو رہی ہے، ہر دم صدائے کن فیکوں آرہی ہے اور ایک مسلسل سفر کی کیفیت ہر شے پر طاری ہے: ’’جوابِ خضر‘‘ (بانگ درا) برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی تو اُسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی ’’والدئہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ (بانگ درا) تخم گل کی آنکھ زیرِ خاک بھی بے خواب ہے کس قدر نشو و نما کے واسطے بے تاب ہے زندگی کا شعلہ اس دانے میں جو مستور ہے خود نمائی، خود فزائی کے لیے مجبور ہے ’’مسجد قرطبہ‘‘ (بال جبریل) سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات سلسلۂ روز و شب تارِ حریرِ دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلۂ روز و شب سازِ ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر وبم ممکنات ’’ساقی نامہ‘‘(بال جبریل) دمادم رواں ہے یم زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شعلے میں پوشیدہ ہے موجِ دود گراں گرچہ ہے صحبتِ آب و گِل خوش آئی اسے محنت آب و گِل یہ ثابت بھی ہے اور سیّار بھی عناصر کے پھندوں سے بیزار بھی یہ وحدت ہے کثرت میں ہر دم اسیر مگر ہر کہیں بے چگوں، بے نظیر یہ عالم یہ بُت خانۂ شش جہات! اسی نے تراشا ہے یہ سومنات! پسند اس کو تکرار کی خو نہیں! کہ تو میں نہیں اور میں تو نہیں! خ خ خ فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود سمجھتا ہے تُو راز ہے زندگی فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت حضر ہے مجاز اُلجھ کر سلجھنے میں لذت اسے تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے سوال یہ ہے کہ اگر کائنات کا ہر ذرّہ تڑپ رہا ہے تو کس کے لیے؟ اور اگر زندگی ایک سفرِ مسلسل ہے تو اس کی منزل کون سی ہے؟۔۔۔ مانا کہ بسمل کی تڑپ دراصل موت کا رقص ہے لیکن دل کی دھڑکن تو کسی محبوب ہی کی نشان دہی کرتی ہے۔ اسی طرح اگر سفر محض ایک سیدھی لکیر کا سفر ہے تو نہ صرف زود یا بدیر ’’توانائی‘‘ کے کم ہونے کے باعث اس کی رفتار سُست پڑ جائے گی بلکہ اس میں وہ انہماک اور ارتکاز بھی پیدا نہ ہو سکے گا جو کسی واضح منزل کو سامنے پا کر وجود میں آتا ہے۔ دوسری طرف دائرہ در دائرہ سفر میں ہر قدم پر توانائی میں اضافہ ہوتا ہے اور جب دائرے کے اس سفر کا مرکز ’’محبوب‘‘ ہو تو اس میں انہماک اور ارتکاز کی کیفیت دو چند ہو جاتی ہے۔ اقبال نے مغربی فلاسفروں کی سوچ سے ایک قدم آگے بڑھایا جب انھوں نے عقل کی مدد سے طے ہونے والے سیدھی لکیر کے سفر میں عشق کے بُعد کا اضافہ کیا۔ عشق دائرے میں گھومتا ہے اور ’’محبوب‘‘ کے گرد پروانہ وار طواف کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے ہاں ایک طرف تو پوری کائنات ’’مرکز عظمیٰ‘‘ کے گرد بے پناہ رفتار کے ساتھ طواف کرتی ہوئی نظر آتی ہے، دوسری طرف مردِ مومن کائنات کی اس رفتار سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ تو پوری کائنات کی جہدِ مسلسل کا اعلامیہ بن گیاہے: ’’قلندر کی پہچان‘‘ (ضرب کلیم) مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر ’’مسجد قرطبہ‘‘ (بال جبریل) اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصررواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام! خ خ خ احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر خ خ خ عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِدم بدم خ خ خ سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی پسند روح و بدن کی ہے وانمود اس کو کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی فقرِ مومن چیست؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیرِ او مولا صفات ان اشعار سے اقبال کا موقف بالکل واضح ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک عشق سوز و تب و تب جاودانہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ نیز عشق کا یہ سوز اور تڑپ ’’مردِ مومن‘‘ ہی میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے گویا مردِ مومن ہی کائنات کی تڑپ کا نمایندہ ہے۔ اقبال نے مردِ مومن، قلندر، فقیر، درویش، خلیفۃ اللہ فی الارض وغیرہ ناموں سے دراصل ایک ہی ’’مردِ کامل‘‘ کی شخصیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک ایسا مردِ کامل جو افیونیت اور سنیاس کے مسلک کا گرویدہ نہیں بلکہ کائنات کی تب و تاب کا محرم ہے۔ یوسف حسین لکھتے ہیں:۴۷؎ اقبال کے نزدیک ’انسان کامل‘ کا نصب العین یہ ہے کہ اس کی ذات میں جلالی اور جمالی صفات کی موزوں ترکیب موجود ہو اور وہ سوز و سازِ زندگی کا رمز شناس ہو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے مردِ مومن میں نہ صرف پوری کائنات کا جلال موجود ہے، اور اس اعتبار سے وہ نیطشے کے فوق البشر کی طرح قوت اور جبروت کا نمائندہ ہے بلکہ اس کا ایک جمالی پہلو بھی ہے جس سے نیطشے کا فوق البشر نا آشنا ہے۔۔۔ اقبال کا مردِ مومن انفعالیت میں مبتلا نہیں بلکہ منزل کوش ہے اور منزل تک پہنچنے کے لیے مسلسل تگ و دو کرتا ہے، مگر ساتھ ہی وہ عاشق صادق بھی ہے اور حُسنِ لازوال کی تاب نہ لا کر پروانہ وار اُس کے گرد گردش کرنے لگتا ہے۔ یوں اقبال کے مردِ مومن میں وہ اخلاقی قوت بھی پیدا ہو گئی ہے جس سے نیطشے کا فوق البشر آشنا نہیں تھا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں:۴۸؎ (اقبال نے) نیطشے کے فوق البشر قوت کی جو قدر تھی اسے خیر کے معیاروں کا سختی سے پابند بنا کے قبول کیا ہے اور اگر نیطشے کے فوق البشر کی سب سے بڑی خصوصیت ماورائے خیر و شر قوت ہے اور (عبدالکریم)جیلی کے انسان کامل کی اہم ترین خصوصیت جوہر یا وجودِ مطلق سے اتحاد ہے تو اقبال کا انسانِ کامل یا مرد مومن ان سب سے الگ اپنا راستہ طے کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت حصول و تربیت خودی ہے۔ خود تک وہ عشق یا عقلِ اوّل یا عقلِ جہاں بیں کے راستے سفر کرتا ہے مگر خودی کی ابتدائی تربیت سے پہلے ہی اقبال کے انسانِ کامل کو بہت سے اخلاقی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ۔۔۔۔ انسانِ کامل بننے سے بہت پہلے انسان کو بحیثیت انسان اپنی طاقتِ تسخیر اور اپنی پہنچ کے لا محدود امکانات کا احساس ہوتا ہے۔ کائنات کی قوت ایسی نہیں جس کو وہ زیر نہیں کر سکتا۔ کوئی بلندی ایسی نہیں جس تک وہ پرواز نہیں کر سکتا۔ مردِ مومن کے بارے میں مولانا صلاح الدین احمد لکھتے ہیں:۴۹؎ یہ سعادت ساڑھے چھ سو برس کے بعد شاعرِ مشرق اقبال ہی کے حصے میں آئی کہ اس نے رومی کے فکرِ فلک رس اور اس کی سیرتِ باصفا کے امتزاج سے ایک پیکر بے مثال تیار کیا، پھر اس کے سوزِ عشق سے اسے حرارت بہم پہنچائی، اس کے حُسن نظر سے اسے جلا بخشی اور اس کے نفسِ آتشیں سے اس میں رُوح پھونکی۔۔۔ اسی پیکر کا نام مرد مومن ہے جس کی فطرت مہر نبوت سے مستنیر اور جس کی نگاہ فرمودئہ تقدیر ہے۔ وہ قلبِ گداز جو سوزِ خفی سے پگھل جاتا ہے اور وہ پنجۂ فولاد جو دستِ قضا سے قوت آزما ہے اسی کے حصے میں آیا ہے اور وہ عشق جس کے فروغ سے کائنات روشن ہے اور وہ عمل جس کا تسلسل گردشِ ایام پر خندہ زن ہے اسی کو ارزانی ہوا ہے: ’’ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن خ خ خ کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن‘‘ اقبال کے مردِ مومن کے جن اوصاف کی طرف مولانا صلاح الدین احمد نے اشارہ کیا ہے، ان میں اہم ترین عشق ہے۔ باقی جملہ اوصاف عشق ہی سے مستنیر ہیں، مثلاً حُسن نظر عشق ہی کا عطیہ ہے۔ اس کے علاوہ مردِ مومن کا پنجۂ فولاد بھی عشق کی قوت کا کرشمہ ہے۔پھر حرکت و حرارت کے اوصاف ہیں جو عشق سے خاص ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مردِ مومن مجسم عشق ہے، مگر یہ عشق جنسی محبت کا دوسرا نام نہیں، بلکہ اس کا ارتفاع ہے ۔ یوں کہ عشق دائرہ در دائرہ پھیلتا ہوا پوری کائنات پر محیط ہو گیا ہے۔ عشق کا سفر سیدھی سڑک کا سفر نہیں، دائروں کا سفر ہے۔ مراد یہ نہیں کہ عشق محض ایک مستقل دائرے کاپابند ہے بلکہ یہ کہ وہ دائرہ در دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دائرہ در دائرہ سمٹتا چلا جاتا ہے تاآنکہ اپنے ’’مرکز‘‘ سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔ مگر عشق بجائے خود ’’شعور‘‘ سے متصف نہیں۔ اس کا شعور تو ’’مردِ مومن‘‘ ہے۔ عشق اگر اسپِ تیز گام ہے تو مرد مومن اس کا راکب ہے جس کے ہاتھ میں اس گھوڑے کی باگ ہے۔ مردِ مومن کی ساری قوت اسپِ تیز گام میں ہے بعینہٖ جیسے اساطیر میں دیو کی جان ’’طوطے‘‘ میں مقید تھی۔ چنانچہ مردِ مومن کو اس اسپِ تیز گام سے محروم کر دیجیے تو وہ ایک عام انسان کے رُوپ میںنظر آئے گا۔ صوفیا کے ہاں صورت یہ ہے کہ صوفی کے ہاتھ میں باگ نہیں ہوتی اور اس لیے وہ مجبورہے کہ عشق کی بے پناہ قوت کے سیلِ رواں کی زد پر گھومتا چلا جائے۔ مگر اقبال کے مردِ مومن کو شعورِ ذات بھی ہے، اس لیے وہ باگ کی مدد سے اپنی جہت کے تعین پر قادر بھی ہے۔ تاہم اصل بات وہ حرکی قوت ہے جسے عشق کا نام ملا ہے۔ دوسری بات وہ خاص رفتار ہے جس کے بغیر جنگلے کی سلاخوں کا ’’پردہ‘‘ چاک نہیں ہو سکتا۔ اگر عشق اس ’’خاص رفتار‘‘ تک نہ پہنچ سکے تو بے کار ہے۔ اسی طرح اگر عشق اس ’’خاص رفتار‘‘ کو قائم نہ رکھ سکے اور سُست پڑ جائے تو صوفی کی نظروںکے سامنے دوبارہ پردے معلق ہو جائیں گے اور وہ ’’جلوئہ حق‘‘ سے محروم ہو جائے گا۔ عشق کی یہ قوت فرائیڈ کے لبیدو ، شوپن ہاور کی خواہش ، نیطشے کی ’’غالب آنے کی قوت‘‘ اور برگساں کے ’’جوشِ حیات‘‘ سے مشابہ بھی ہے اور منسلک بھی، لیکن ان سے مختلف بھی ہے کہ اس میں ’’معرفت ‘‘ کا بُعد شامل ہے اور اس کی حیثیت سراسر تخلیقی ہے۔ اسی طرح اقبال کا مردِ مومن جو اس عشق کا راکب ہے۔ شوپنہاور کے نابغہ، نیطشے کے فوق البشر ، کار لائل کے ’’ہیرو‘‘ اور ویگنر کے ’’ سیگفرڈ‘‘ سے بھی مشابہ ہے لیکن ان سے جدا بھی ہے اور یہ اضافی خوبی وہ دولت فقر ہے جس سے دوسرے محروم ہیں۔ عشق کائنات کی وہ ’’روحِ رواں‘‘ ہے جو ایک شخص (مرد مومن) میں مرتکزہو جاتی ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مردِ مومن عشق کی قوت کا نقطۂ اظہار ہے ، بعینہٖ جیسے ’’زبان‘‘ سارے جسم کے لیے ایک نقطۂ اظہار ہوتی ہے۔ اظہار یا اعلان ذات ہی دراصل اثباتِ ذات کی صورت بھی ہے۔ اس لیے جس طرح ’’میں ہوں‘‘ کہنے سے زبان ان قوتوں اور صلاحیتوں کی حامل ہستی بن جاتی ہے جو انسانی جسم میں موجود ہوتی ہیں بالکل اسی طرح مردِ مومن عشق کی اُس قوت کا اعلامیہ بن جاتا ہے جو اپنی مختلف حالتوں میں پوری کائنات کی ’’شریانوں‘‘ میں دوڑ رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا جب عشق کی انتہائی حالت میں سالک کی زبان سے ’’اناالحق‘‘ کا نعرہ نکلتا ہے تو اس کامطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے گوشت پوست کے جسم اور شخصیت کو ’’حق ‘‘ کہہ رہا ہے بلکہ یہ کہ وہ پوری کائنات کی آواز بن کر سامنے آ گیا ہے: ہرگز مجھے نظر نہیں آتا وجودِ غیر عالم تمام ایک بدن ہے میں دیدہ ہوں (درد) عشق جب مرد مومن کی تحویل میں آتا ہے یا یوں کہیے کہ جب مردِ مومن عشق کی گرفت میں آ جاتا ہے ، تو وہ زندگی کی عام سطح سے اُوپر اُٹھ کر تخلیق کی سطح کو چھونے لگتاہے، نہ کہ اضطراب کی سطح کو۔ اس لحاظ سے بھی اقبال کے مردِ مومن کو نیطشے کے فوق البشر پر سبقت حاصل ہے کہ مؤخر الذکر ایک اضطرابِ مسلسل کی زد پر آیا ہوا شخص ہے جب کہ مقدم الذکر ایک ایسے تخلیقی کرب سے گزرتا ہے۔۔۔ جو اسے متحرک کرتا ہے نہ کہ مضطرب! اضطراب میں بکھرائو ہے۔ مضطرب انسان ہزاروں دُکھوں کی زد پر آ کر منتشر ہونے لگتا ہے۔ وہ کثرت کی علامت ہے۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے جب کہ تخلیقی سطح کو چھونے والے مردِ مومن کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اندر سے مجتمع ہو رہا ہے بلکہ یہ کہ اس کی ذات کے مختلف حصے آپس میں جڑ کر لو دینے لگے ہیں ۔ پس اندر کی یہی روشنی عشق کا ثمر ہے، لیکن اس روشنی کا حصول مکمل ارتکاز اور انہماک کے بغیر ناممکن ہے اور یہی عشق کا تیسرا درجہ بھی ہے۔ (۵) عشق میں ’’طواف‘‘ ارتکاز کی طرف پہلا قدم ہے، مگر طواف محض گردش کا نام نہیں۔ گردش تو طواف کا وہ ابتدائی دور ہے جب اس کی رفتار ابھی تیز نہیں ہوتی۔ رفتار تیز نہ ہو تو ذہن سوچتا ہے اور خواہشات کا بکھرائو باقی رہتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان سبک سارانِ ساحل کی طرح دور ہی سے موج و گرداب کا نظارہ کرتا ہے اور اسی لیے بیم موج کی زد پر بھی ہوتا ہے۔ مگر جب اس کی رفتار اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ وہ خود طوفان بن جاتا ہے تو پھر اسے ذہن کے بکھرائو اور خواہشات کے تلاطم سے از خود نجات مل جاتی ہے۔ ہوتا شاید یوں ہے کہ اس کے جسم اور ذہن میں رفتار کا جو فرق تھا وہ گردش کی انتہائی حالت میں باقی نہیں رہتا اور انسان دوبارہ گویا جڑ سا جاتا ہے۔ بات کی توضیح کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جسم اور اس کی خواہشات کی ایک خاص رفتار ہے جو ذہن کی رفتار سے مختلف ہے۔ بچپن میں جسم اور ذہن کی رفتار میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا مگر جیسے جیسے ذہن کی صلاحیتوں کو جلا ملتی ہے اور ان کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے تو جسم سے اس کی رفتار مختلف ہونے لگتی ہے اور شخصیت میں وہ تنائو پیدا ہوتا ہے جو نہ صرف بہت سی نفسیاتی الجھنوں کا پیش خیمہ ہے بلکہ رُوحانی سفر کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ آرڈس ویٹ مین نے لکھا ہے:۵۰؎ بچے کے لیے اس کا بدن ہی اس کا اپنا آپ ہے۔ مگر کسی نہ کسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن اور جسم تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ طواف کا کام یہ ہے کہ وہ ارتکاز کے لیے زمین ہموار کرتا ہے اور ارتکاز ذہن اور جسم کی رفتار کے فرق کو مٹا کر انھیں ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ یوں نہ صرف شخصیت جُڑ جاتی ہے بلکہ خواہشات کا وہ بکھرائو اور ذہن کی وہ بے قراری بھی ختم ہو جاتی ہے جو ’’جلوئہ حق‘‘ کے راستے میں ایک رکاوٹ تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ عشق میں ارتکاز کی یہ کیفیت کیسے قائم ہوتی ہے، نیز اس کی نوعیت کیا ہے؟ مذہب، تصوف اور فن۔۔۔ ان تینوںمیں ارتکاز کی کیفیت کے بغیر روشنی کے کوندے تک رسائی ممکن نہیں۔ مذہب میں عبادت اور دعا سے یہ کیفیت قائم ہوتی ہے، تصوف میں حالتِ وجد سے اور فن میں حالت خود فراموشی سے! عبادت اور دُعاکے فرق کو رابرٹ ایچ۔ تھائولیس نے یوں بیان کیا ہے۵۱؎ کہ عبادت تو ایک اجتماعی عمل ہے جب کہ دعا ایک انفرادی عمل ہے۔ عبادت میں افراد کا ایک پورا گروہ مل کر عبادت کرتا ہے اور یوں احساس رفاقت سے لیس ہو کر روحانی تجربے کی گہرائیوں تک اتر جاتا ہے، جب کہ ایک اکیلا شخص ا س تجربے سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتا۔ خود اقبال نے بھی لکھا ہے۵۲؎ کہ عبادت اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے جب یہ باجماعت ہوتی ہے۔ سچی عبادت کی روح (بنیادی طور پر) معاشرتی ہے، حتیٰ کہ ایک تارک الدنیا شخص بھی جب تنہائی کی آغوش میں جاتا ہے تو اس توقع کے ساتھ کہ وہاں اسے اللہ تعالیٰ کی رفاقت نصیب ہو گی۔ اجماع نام ہے افراد کی اس تنظیم کا جو ایک ہی جذبے سے سرشار ہو کر ایک شے پر اپنی تمام تر توجہ مرتکز کر دیتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ اجماع ایک عام انسان کی قوت مشاہدہ کو تیز کر دیتا ہے، اس کے جذبے کو گہرا اور ارادے کو توانائی بخش دیتا ہے۔ مگر اقبال کے اس بیان کا مقصد یہ نہیں کہ شخصی سطح پر عبادت نتیجہ خیز ثابت نہیںہوتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے اجتماعی اور شخصی دونوں پہلو اہم ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اجتماعی پہلومذہب میں اور شخصی پہلو فن اور تصوف میں خود کو زیادہ اُجاگر کرتا ہے۔ تاہم دونوں کا مقصد وہ شدید ارتکاز اور انہماک ہے جو عبادت گذار کو ذہن کے انتشار اور بکھرائو سے نجات دلا کر ایک ہی ’’خیال‘‘ کے تابع کر دیتا ہے۔ جدید نفسیات نے ارتکاز کے اس عمل کو خود ایمائی (Auto-Suggestion) کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ خود ایمائی کے بارے میں بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے ذہنی عمل رک جاتاہے، گویا ذہن اندر سے خالی ہو جاتا ہے۔ اس حالت کو ’’ہونے اور نہ ہونے ‘‘کا نام بھی دیا جا سکتا ہے یا پھر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ خواب سے جاگے تو ہیں لیکن ہنوز خواب میں ہیں۔ مشہور ماہر نفسیات بادائوں (Baudouin)کے حوالے سے تھائولیس نے لکھا ہے۔۵۳؎ کہ اس حالت میں ذہن لفظوں کے ذریعے سوچنے کے عمل سے دست کش ہو جاتا ہے اور ان مبہم تصورات میں کھو جاتا ہے جو دراصل لاشعور کے دبے ہوئے مواد کی سطح کے نقوش ہیں۔مگر واضح رہے کہ ذہن کو خالی رکھنا بے حد مشکل ہے کیونکہ وہ ہمہ وقت تصورات کی زد پر ہوتا ہے۔ خیال بنیادی طور پر ایک آوارہ گرد ہے اور ذہن کے صحرا میں سدا محوِ خرام رہتا ہے۔ اس کی آوارہ گردی کو روکنے کے لیے نام کا ’’ورد‘‘ یا عبادت کے الفاظ مثلاً آیات یا اشلوک یا دعا کے بول انتہائی ضروری ہیں تاکہ توجہ بٹ نہ جائے اور خیال بھٹکنے نہ لگے۔ بعض ماہرین نفسیات نے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ عبادت کے الفاظ کی تکرار میکانکی ہو اور ذہن اس خیال کی طرف منتقل نہ ہو جو ان الفاظ سے پھوٹتا ہے تو ارتکاز زیادہ شدید ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر توجہ تمام تر ’’خیال‘‘ پر ہو تو ارتکاز میں زیادہ گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ ارتکاز کی اس حالت کو جس میں توجہ کسی خارجی شے پر نہیں بلکہ خیال پر ہوتی ہے La Concentration کا نام ملا ہے۔ یوگیوں کے ہاں دھیان، دھرنا اور سمادھی کا مقصد خیال کے بکھرائو یعنی خیالات کی نمود کو روک کر ایک نقطے پر پوری توجہ مرتکز کرنا قرار پایا ہے۔ ویدانت والوں نے خیال کی آوارہ گردی کو روکنے کے لیے یہ مشورہ دیا ہے کہ خیال کو چونکہ نہ تو مارا جا سکتا ہے اور نہ شعوری طور پر اسے روکا جا سکتا ہے، لہٰذا اس کی آوارگی کو جاری رہنے دیا جائے ، البتہ جس شے تک خیال پہنچے اس شے میں گیانی کو ذاتِ لا محدود ہی کا عکس نظر آئے تو خیال کی آوارگی زمان و مکان کے ابعاد سے محروم ہو کر از خود رک جائے گی۔ اقبال نے عبادت کو خود ایمائی کا نتیجہ قرار دینے کے نظریے سے اختلاف کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انسانی خودی کے بطون میں زندگی کا جو منبع ہے اسے خود ایمائی کبھی کھول نہیں سکتی اور نہ یہ اپنے پیچھے کوئی مستقل اثرات ہی چھوڑ سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں رُوحانی تجلیات سے انسانی شخصیت کو توانائی ملتی ہے۔ سوچ کے دوران میں انسان ’’حقیقت‘‘ کے طریق کار کا مشاہدہ کرتا ہے۔ لیکن عبادت کے دوران میں وہ اس سُست رفتار طریق کو تج کر اور سوچ سے اُوپر اٹھ کر ’’حقیقت‘‘ کا ادراک کرتا ہے، لہٰذا عبادت کا خود ایمائی سے کوئی علاقہ نہیں۔ عبادت بنیادی طور پر ایک اجتماعی فعل ہے۔ اس کے ابتدائی نقوش قبائلی زندگی کے رقص میں ملتے ہیں جو پورے قبیلے کو فطرت کی رفتار سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کاوش ہے۔ ترقی یافتہ مذاہب میں عبادت کا دائرہ در دائرہ پھیلائو پورے معاشرے کو ذات باری کے روبرو لا کھڑا کرتا ہے۔ اسلام میں بالخصوص یہ تدریجی پھیلائو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری طرف تصوف میں شخصی نجات کا مسئلہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ تصوف کے بارے میں تو یہ تک کہا گیا ہے کہ یہ صرف خواص کے لیے ہے، عوام کے لیے نہیں۔ اصلاً تصوف فرد کے اس گہرے کرب کا ردِ عمل ہے جو اتنی بڑی کائنات اور عناصر کی یورشوں، نیز موت کی فراوانی کو سامنے پا کر فرد کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ موجودیت نے جس یاسیت اور پھر متلی کی کیفیت (Nausea)کا اس شدو مد سے ذکر کیا ہے، بنیادی طور پر اس دُکھ یا کرب ہی کے مماثل ہے جو انسان اپنی شدید تنہائی،بے مایگی اور بے بسی کے کارن ازمنۂ قدیم ہی سے محسوس کرتا آیا ہے۔ لہٰذا تصوف میں شخصی سطح پر ارتکاز کا عمل وجود میں آتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سالک عشق کی آگ میں جلتا ہوا روشنی کے گرد پروانہ وار طواف کرتے کرتے ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے اپنی ہی نہیں، اپنے گرد و پیش کی بھی سُدھ بدھ نہیں رہتی۔ مگر یہ تو مراقبے کی حالت ہے جو وجد اور حال کے مقام سے ذرا ورے ہے۔ مراقبے کا مطلب یہ ہے کہ خیال کا انتشار اور بکھرائو باقی نہ رہے تاکہ وہ تشنج ختم ہو جائے جو مکروہاتِ زمانہ کے باعث فرد کے اعصاب پر بُری طرح مسلّط ہو گیا تھا۔ ان دنوں امریکہ میں مہارشی مہیش یوگی کی ایک باقاعدہ تحریک کے باعث مراقبے (یوگ) کے طریق کو بڑی اہمیت مل رہی ہے۔ اس عمل کے بنیادی مدارج صرف تین چار ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک بالکل خاموش جگہ تلاش کرکے بیس منٹ تک مراقبہ کی حالت طاری کی جائے۔ پہلے آنکھیں بند کر لی جائیں۔ پھر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تاکہ اعصابی تنائو باقی نہ رہے۔ اس کام کو پائوں سے شروع کرکے چہرے تک لایا جائے، حتیٰ کہ پورا جسم پھول کی طرح ہلکا ہو جائے۔ پھر تمام تر توجہ سانس کی آمد و رفت پر مرتکز کی جائے۔ چونکہ ایسا کرنے سے کچھ ہی عرصے کے بعد خیال بھٹکنے لگے گا، اس لیے مہارشی نے سنسکرت کے کسی نہ کسی بول کی سفارش کی ہے جو سانس کھینچنے یا اسے خارج کرنے کے موقع پر پڑھا جائے۔ اس سے خیال کا بکھرائو رک جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مراقبے کا یہ طریق کوئی نئی بات نہیں بلکہ ازمنۂ قدیم ہی سے یوگیوں اور صوفیوں کے ہاں بہت مقبول رہا ہے۔ مگر محض مراقبے سے اعصابی تشنج دور ہو کر طمانیت اور شانتی تو حاصل ہو سکتی ہے، جلوہ نظر نہیں آسکتا۔ جلوہ تو اس وقت دکھائی دے گاجب توجہ ایک نقطہ یا خیال پر مرتکز ہو جائے گی، بعینہٖ جیسے پروانے کی ساری توجہ شمع پر مرتکز ہو جاتی ہے۔ تصوف میں یہ نقطہ حقیقت عظمیٰ کا وہ تصور ہے جس کے سوا صوفی کو قطعاً کچھ اور یاد نہیں رہتا اور اس کا جسم اور روح دونوں ایک ایسی کیفیت میں مبدل ہو کر جس کا نام عشق ہے اس پر نثار ہونے لگتے ہیں۔ ارتکاز کی یہ شدید ترین صورت ہے جو اصلاً اجتماعی نہیں بلکہ شخصی ہے۔ الغزالی لکھتا ہے:۵۴؎ بیداری کی ساعتوں میں اس عارف کے لیے ’’غائب‘‘ کی کھڑکی کھل جاتی ہے جس نے کوشش کرکے خود کو پاک صاف کر لیا ہے اور خواہشات کی قوت سے چھٹکارا پا لیا ہے۔ ایسا عارف جو کنجِ تنہائی میں بیٹھ کر اور اپنی حسیات کو سر بہ مہر کر کے ، اپنی روح کی آنکھوں اور کانوں کو کھول دیتا ہے اور الوہی دیار سے اپنی روح کو ہم رشتہ کر کے دل میں ’’اللہ‘‘ کا ورد کرتا ہے(زبان سے نہیں) وہ اپنے وجود اور دنیائے موجود سے بے نیاز ہو جاتاہے اور صرف ربِ جلیل کو دیکھتا ہے۔ وہ (عارف) ہر شے سے منقطع ہو جاتا ہے اور ہر شے اس سے منقطع ہو جاتی ہے۔ وہ پہلے اللہ کی طرف سفر کرتا ہے اور آخر میں اللہ کی ذات کے اندر سفر کرتا ہے لیکن اگر اس مقام پر اس کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ وہ اپنے آپ سے مکمل طور پر باہر آگیا ہے تو یہ عیب کی بات ہے۔ مکمل ارتکاز اور انہماک کامطلب یہ ہے کہ وہ خود سے ہی نہیں بلکہ اپنے انہماک اور ارتکاز سے بھی غافل ہو۔ تصوف میں ارتکاز کا یہ لمحہ مستقل نوعیت کا نہیں ہوتا کیونکہ صوفی کو ہر دم خیال کی آوارہ خرامی سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لمحے ہی میں غائب کی جانب کی کھڑکی کھلتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انتہائی رفتار ہی سے ارتکاز مکمل ہوتا ہے مگر جب یہ مکمل ہوتا ہے تو رفتار اپنے ’’ہونے‘‘‘ کے باوجود ’’نہ ہونے‘‘ کی حالت میں ہوتی ہے۔ کیونکہ انتہائی رفتار اور انتہائی سکون ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ ارتکاز کی مستقل کیفیت کا تصور ویدانت میں بھی ملتا ہے اور اسے ’’جیون مکت‘‘ کہا گیا ہے مراد یہ کہ انسان زمان و مکاں کے بندھنوں سے گزرتے ہوئے بھی اللہ کی ذات کے اندر بے حس و حرکت کھڑا ہو۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے ایک ویدانتی کا قصہ بہت مشہور ہے کہ مادی زندگی میں اس کا منصب ایک راجا کا تھا اور وہ دن رات ملک کے مسائل میں کھویا رہتا تھا مگر بباطن ایک صوفی تھا جس نے تمام فاصلے طے کر لیے تھے اور ارتکاز کی ایک مکمل کیفیت میں ڈوب گیا تھا۔ اس راجا سے ایک شخص نے سوال کیا کہ یہ کیونکر ہوا کہ آپ بیک وقت دنیا دار بھی ہیں اور گیانی بھی؟راجا نے حکم دیا کہ پانی سے بھرا ہوا ایک پیالہ اس شخص کے ہاتھ میں تھما دیا جائے اور پھر اسے حکم دیا کہ وہ سارے بازار کا ایک چکر لگانے اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کر دی کہ اگر پیالہ سے ایک قطرہ بھی چھلکا تو اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ اب یہ شخص پانی کے پیالے پر اپنی نظریں ہی نہیں اپنا پورا جسم بلکہ اپنی روح تک کو مرکوز کیے جب سارے بازار میں گھوم پھر کر واپس راجا کے پاس آیا تو راجا نے پوچھا، ’’اے شخص! تونے بازار میں کیاکچھ دیکھا؟‘‘ اس کے جواب میں اُس شخص نے کہا: ’’اے راجا! میں تو پیالے میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ مجھے کچھ خبر نہیں کہ میرے چاروں طرف کیا تھا اور کیا ہو رہا تھا‘‘۔راجا نے کہا: یہی حال میرا ہے! میں اس حُسن ازل کے پر تو سے اس قدر مبہوت ہوں کہ میرے لیے یہ سب کچھ کوئی وجود نہیں رکھتا۔ اقبال نے عارفانہ تجربے میں ارتکاز کے لمحے کو بیک وقت فنا اوربقا کا لمحہ قرار دیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں۵۵؎ کہ عبادت ، چاہے وہ انفرادی نوعیت کی ہو یا اجتماعی ، کائنات کی مہیب خاموشی میں ایک صدائے بازگشت کو سننے کی شدید داخلی آرزو ہی پر دال ہے۔ یہ دریافت کا ایک انوکھا طریق ہے جس کے ذریعے متلاشی جب نفیِ ذات کا مرتکب ہوتا ہے تو ساتھ ہی ذات کا اثبات بھی کرتا ہے اور یوں پوری کائنات کی زندگی میں خود کو ایک حرکی عنصر کی حیثیت میں پاتا ہے ۔ عارف کے ہاں معرفت کا لمحہ ایک ایسی انوکھی’’ذات‘‘ سے گہرے انسلاک کالمحہ ہے جو ارفع اور محیط ہے اور عارضی طور پر شخصیت کو دبا دیتی ہے۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ اقبال نے ایک تو عارضی طور پر کے الفاظ لکھے ہیں، دوسرے یہ بھی کہا ہے کہ عارفانہ تجربہ اپنے مواد کے اعتبار سے معروضیت کا حامل ہوتا ہے اور اسے مجرد داخلیت کی دُھند میں کھو جانے کے مترادف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بے شک تصوف میں ارتکاز اور انہماک مکمل ہوتا ہے مگر اقبال نے اس خاص کیفیت کے دوران میں ’’ذات‘‘ کو اپنے مقابل ایک دوسری ہستی کے طور پر محسوس کرنے پر زور دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خود سالک کی شخصیت کلیتاً منہدم نہیں ہو جاتی بلکہ انتہائی جذب کی حالت میں بھی اثباتِ ذات کا مظاہرہ کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو اقبال کا یہ رویہ مذہبی ہے، صوفیانہ نہیں، کیونکہ تصوف میں ’’وصال‘‘ کا مطلب اوّلاً یہ ہے کہ سالک خود کو حقیقت عظمیٰ میں ضم کر دے اور ثانیاً یہ کہ وہ خود حقیقت عظمیٰ کا مظہر بن جائے(انا الحق)۔ مگر اقبال کے ہاں ارتکاز کی شدید ترین حالت میں بھی سالک کی ذات خود کو حقیقت عظمیٰ کے روبرو ہی محسوس کرتی ہے۔ جس طرح شمع کی ایک جھلک پاتے ہی پروانے کی حالت غیر ہو جاتی ہے اور وہ شمع کے گرد طواف کرنے لگتا ہے، بالکل اسی طرح جب صوفی مرکزکے گرد ایک تیز گردش میں مبتلا ہوتا ہے تو اس پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ قدیم قبائل میں رقص کی تکرار سے ایک ایسے ہی وجد کا تسلط قائم ہو جاتا تھا اور پورا قبیلہ اپنے تن من سے بے نیاز ہو کر ڈھول کی تال پر رقص کرتا چلا جاتا تھا۔ رُومی کے ’’رقاص درویشوں‘‘ کے ہاں بھی رقص کی مدد سے خودپروجد طاری کرنے کی روایت ملتی ہے۔ دراصل تکرار ہی سے وجد کی کیفیت طاری ہوتی ہے، چاہے یہ تکرار رقص سے ہو یا وِرد سے۔ پھر جب وجد کا عالم پوری طرح طاری ہو جاتا ہے تو گویا ارتکاز مکمل ہو جاتا ہے۔ جہاں تصوف میں حالت وجد کے ذریعے ارتکاز اور انہماک کی کیفیت طاری ہوتی ہے وہاں فن میں خود فراموشی کے عالم سے ارتکاز مکمل ہوتا ہے۔ فن کار بیک وقت جادو گر بھی ہوتا ہے اور مذہبی تجربے سے آشنا بھی ! مقدم الذکر حیثیت میں وہ ’’حکم‘‘یا ارادے سے ’’نراج‘‘ میں سے ایک نئی تخلیق کو اُبھارتا ہے اور مذہبی تجربے سے آشنا ہونے کے اعتبار سے وہ موجود سے اُوپر اُٹھ کر وراء الورا سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ درحقیقت یہ متضاد اوصاف نہیں ہیں بلکہ ایک ہی عمل کے دو مدارج ہیں۔ جب فن کار تخلیقی عمل میں مبتلا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اُس بوجھ سے دست کش ہوتا ہے جس نے اس کے ہاں خواہشات کے بہت سے حجابات آویزاں کر رکھے ہیں۔ مگر وہ کسی اخلاقی عمل کی مدد سے گناہوں کے بوجھ سے نجات نہیں پاتا بلکہ اپنی مادی حیثیت سے اُوپر اُٹھ کر ایک رُوحانی کیفیت تک رسائی پاتے ہوئے از خود اپنے ’’بوجھ‘‘ سے دست کش ہو جاتا ہے۔ یہی دعایا عبادت کا منصب بھی ہے کہ وہ عبادت کرنے والے کو ایک روحانی عالم سے ہم رشتہ کر دیتی ہے۔ ویسے نظم بھی دعا ہی کی صورت ہے، اس فرق کے ساتھ کہ ہر دعا کی منزل ایک ہی ہوتی ہے، جب کہ فنی تخلیق ہر بار ایک حسی منزل کی طرف رواں ہوتی ہے، مگر دونوں ’’موجود‘‘ کو عبور کر کے وراء الورا کو مَس ضرور کرتی ہیں اور اس لیے اصلاً ایک ہی ہیں۔ تاہم موجود کو عبور کرنے کا عمل ایک شدید عالم خود فراموشی کے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ جب تک زندگی کا مادی ’’رُخ‘‘، خود فن کار اور تجلیات کا عالم ، یہ تینوں ایک نہ ہو جائیں، فنی تخلیق ممکن نہیں ہوتی۔ فن کار کی یہ خود فراموشی عشق کے ارتکاز سے مشابہ ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اس خود فراموشی کے عالم میں جب فن کار روشنی کے کوندے کو دیکھتا ہے تو اس کو لفظ ، سنگ یا سُر میں گرفتار کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ گویا انتہائی جذب اور ارتکاز کی حالت میں بھی فن کار شعورِ ذات سے بے گانہ نہیں ہوتا۔ یہی اقبال کا رویہ بھی ہے۔ اس لیے اقبال جس عارفانہ تجربے کا ذکر کرتے ہیں وہ بنیای طور پر ایک جمالیاتی تجربہ ہے۔ (۶) عشق میں چوتھا درجہ ’’قربانی‘‘ ہے۔ قربانی کا عام مفہوم وہی ہے جو قدیم انسانی زندگی میںبہت مقبول تھا، یعنی راہِ خدا میں اپنی عزیز تریں شے کو قربان کر دینا اور جو آج بھی مذاہب کی دُنیا میں ایک اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے پس پشت فلسفہ یہ ہے کہ انسان اپنی عام زندگی میں بہت زیادہ ’’وابستہ‘‘ ہونے کے باعث دُکھی ہے۔ اس کے اندر خواہشات کا ایک کہرام بپا ہے اور یہ انھی خواہشات کا نتیجہ ہے کہ وہ بعض اوقات قانون اور اخلاق تک کی حدود کو عبور کر جاتا ہے۔ اگر اس کا یہ گناہ معاشرے کی نظر میں آجائے، تو اُسے اس کی قرار واقعی سزا ملتی ہے، لیکن اگریہ دُنیا جہان کی نظروں سے اوجھل رہے تو انسان اپنے ہی بطون میں چھپی ہوئی اس معاشرتی نظر احتساب کی زد پر آجاتا ہے جسے انسانی ضمیر کا نام ملا ہے۔ صورت کوئی بھی کیوں نہ ہو، فرد جب گناہوں کے بارِ گراں کو محسوس کر رہا ہو تو اس کی رفتار (روحانی رفتار) مدھم پڑ جاتی ہے اور یوں اس کی نظروں کے آگے اُس کے اپنے گناہوں کے حجابات تن جاتے ہیں اور تجلیات کا پورا سلسلہ اُس سے دامن کش ہو جاتا ہے۔ ایسے میں قربانی نہ صرف کفارے کے رُوپ میں سامنے آتی ہے بلکہ انسان کو اپنی عزیز ترین متاع سے دست کش ہونے اور یوں ان بندھنوں کو توڑنے پر مائل کرتی ہے جو جسم کی کشش ثقل میں اضافے کا موجب ہیں اور اس کی رُوحانی پرواز کو روکے ہوئے ہیں۔اس زاویے سے دیکھیں تو قربانی تزکیۂ باطن کی ایک صورت ہے۔ قربانی ہی سے مشابہ انسان کا وہ نظام اخلاقیات بھی ہے جو اسے ہر قدم پر قدروں کی بقا اور فروغ کے لیے پست خواہشات کی قربانی پیش کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ تصوف کے ابتدائی مدارج میں توبہ، صبر شکر، رجا ، خوف، فقر ، توکل ایسے مدارج خواہشات کی تندی سے فرد کو نجات دلانے ہی کے ذریعے ہیں۔ یہ بات مذہب میں عام ہے مگر تصوف میں تو آخر آخر میں ترکِ دُنیا اور رہبانیت کی اُس صورت میں سامنے آئی ہے جس کی اقبال نے بار بار مذمت کی ہے۔ ابو طالب المکی نے لکھا ہے:۵۶؎ صبر کے تین مدارج ہیں: اوّلاً کہ نوکر شکایت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ پشیمانی کا درجہ ہے۔ ثانیاً وہ تقدیر پر شاکر ہو جاتا ہے۔ ثالثاً وہ اس سلوک سے پیار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اس سے کرتا ہے۔ زہد کی ابتدا یہ ہے کہ انسان عقبیٰ کا فکر کرے۔۔۔ اور عقبیٰ کا فکر اس وقت تک (روح میں) داخل نہیں ہوتا جب تک کہ دُنیا کا فکر اس سے خارج نہ ہو جائے اور نہ امید کی شیرینی ہی ارزانی ہوتی ہے جب تک کہ خواہش کی شیرینی رخصت نہ ہو جائے۔ سچے زہد کا مطلب یہ ہے کہ دل سے دُنیاوی شے کے لیے وابستگی کے خیالات پوری طرح خارج کر دیے جائیں اور انھیں نخوت قرار دیا جائے۔ صرف ایسی صورت ہی میں زہد مکمل ہو سکتا ہے۔ ابن سینا لکھتا ہے:۵۷؎ عارف کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو بروئے کار لاکر رُوح کی تربیت کرے اور اس کا رُخ اللہ تعالیٰ کی طرف کر دے تاکہ وہ وصال کی مسرت سے ہم کنار ہو سکے۔ دوسرا مرحلہ تربیت ذات ہے جس کا رُخ تین چیزوں کی طرف ہوتا ہے: ۔۔۔۔ عارف کے ذہن سے خدا کے سوا تمام خیالات کو خارج کرنا، اس کی شہوانیت کو رُوح کے عقلی پہلو کے تابع کرنا تاکہ اس کے خیالات اور تصورات ارفع چیزوں کی طرف منتقل ہوں۔ تیسرے مرحلے کا مطلب یہ ہے کہ اب روح حیوانی خواہشات سے آزاد ہو کر اچھے خیالات سے لبریز ہو گئی ہے اور روحانی محبت سے سرشار ہو کر محبوب ازلی کے اوصاف حمیدہ کے تابع ہونے کی کوشش میں ہے۔ مگر قربانی کی ایک اور سطح بھی ہے جو کسی شعوری اقدام کا نتیجہ نہیں بلکہ از خود عشق کی گرداب آساروانی سے وجود میں آتی ہے۔ دراصل کسی ایک مرکز کے گرد انتہائی شدت سے اگر کوئی شے گھومے تو از خود اپنے فاضل بوجھ سے دست کش ہونے لگتی ہے۔ گویا اصل چیز بوجھ سے نجات پانا ہے۔ فنونِ لطیفہ کے سلسلے میں دیکھیے کہ بُت تراش پتھر میں سے بُت کو برآمد کرتے وقت پتھر کے فاضل حصوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرتا ہے۔ شاعری میں لفظوں کا بوجھ تخلیق شعر کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تکرار اور کثرت استعمال کے باعث لفظ کلیشےCliche بن جاتا ہے تو گویا بوجھل ہو جاتا ہے۔ شاعر جب اسی لفظ کو ایک نئے انداز میں استعمال کرتا ہے تو اس کی کایا کلپ ہو جاتی ہے اور وہ پھول کی طرح گداز اور ہلکا ہو جاتا ہے۔ عشق میںقربانی کی صورت یوں سامنے آتی ہے کہ سالک اوّلاً خواہشات اور ثانیاً عقل و دانش کے بوجھ سے نجات پاتا ہے۔ ہر چند کہ خواہشات سے نجات کو مذاہب نیز تصوف کے ابتدائی مدارج میں بڑی اہمیت تفویض کی گئی ہے، تاہم ’’مرکز‘‘ کے گرد پروانہ وار گھومنے سے صوفی کو دراصل عقلی اور منطقی رویے ہی سے نجات ملتی ہے۔ کرکے گار (Kierkegard) نے سچے فرد (True individual)کے بارے میں لکھا ہے۵۸؎ کہ وہ اپنی ہی ذات سے ایک گہرا رشتہ استوار کرتا ہے اور اسے اپنے آپ سے نیز اپنی تقدیر سے بڑی دلچسپی ہوتی ہے۔دوسرے یہ شخص خودکو ایک مستقل حالت تغیر میں محسوس کرتا ہے اور اس کے سامنے کوئی نہ کوئی تکمیل طلب کام ہمیشہ ہوتاہے۔ تیسرے ، یہ شخص ایک انتہائی جذباتی خیال کی زد پر ہوتا ہے۔ اس جذبے کو جو اس شخص کے سراپا میں جاری و ساری ہوتا ہے، کر کے گار نے ’’آزادی کا جذبہ‘‘ قرار دیا ہے۔اب یہی شخص جو ایک داخلی شوق کی زد پرتھا، اپنی عقل و دانش کی قربانی پیش کرتا ہے اور یوں خدا سے ہم رشتہ ہو جاتا ہے گویا وہ ہمہ وقت خود کو خدا کے روبرو پاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اقبال کے عام علمی رویے نیز مردِ مومن کے سلسلے میں ان کے خیالات کے ذکر میں نیطشے اور برگساں اور عبدالکریم جیلی اور رُومی کا تذکرہ تو بار بار ہوا ہے مگر کرکے گار کا حوالہ کسی نے نہیں دیا حالانکہ اقبال اور کرکے گار کے خیالات میں حیرت انگیز مماثلت موجود ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ خود اقبال نے اپنی تحریروں میں کرکے گار کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ اس صدی کے آغاز میں فرانس اور جرمنی کے بعض مصنفین کی مساعی سے کرکے گار کے بارے میں اہل علم کو بہت کچھ معلوم ہو چکا تھا۔ قیاس غالب یہی ہے کہ اقبال کرکے گار سے متعارف نہ ہو سکے۔ اس لیے اگر ان دونوں کے فکر اور رویے میں مماثلت کے شواہد ملتے ہیں تو اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ اقبال کرکے گار سے متاثر بھی ہوئے تھے جیسا کہ نیطشے اور برگساں سے ۔ البتہ متاثر ہونے کی صورت بالواسطہ طور پر یوں موجود ہے کہ نیطشے کے ہاں کرکے گار کے اثرات موجود تھے اور اقبال نے نیطشے سے استفادہ کیا تھا ۔ نیطشے سے بھی زیادہ کرکے گار کے اثرات ہائیڈگر (Heidegger) اور جیسپرز (Jaspers)کے خیالات پر ثبت ہوئے تھے، مگر اقبال کے قیام یورپ کے دوران میں ابھی یہ لوگ سامنے نہیں آئے تھے اس لیے ان سے اقبال کا متاثر ہونا بعید از قیاس ہے۔ کرکے گار اور اقبال میں پہلی قدرِ مشترک تو یہ ہے کہ دونوں کا رویہ مذہبی ہے۔ ان کے برعکس نیطشے الحاد کا علم بردار ہے اور اسی لیے اُس کا فوق البشر مذہبی اخلاقیات سے بے نیاز دکھائی دیتا ہے۔ دوسری مشترک بات یہ ہے کہ کرکے گار خودی کا اثبات کرتا ہے اور انسان کو اپنے باطن سے متعارف ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ مگر یہ تعارف خارجی سطح سے کہیں زیادہ داخلی سطح کا ہے۔ اس اعتبار سے بھی اقبال کا رویہ کرکے گار سے مختلف نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ کرکے گار کا ’’سچا فرد‘‘ خود کو ہمہ وقت ایک حالتِ تغیر سے نبرد آزما محسوس کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی ’’شاعری‘‘ اور ’’خطبات‘‘ میں اس تغیر کے ثبات کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے۔ پھر کرکے گار کا ’’فرد‘‘ خود کو ہمہ وقت خدا کے روبرو محسوس کرتا ہے۔ یہ بات نیطشے کے فوق البشر کو حاصل نہیں، لیکن اقبال کے مردِ مومن کا یہ امتیازی وصف ہے۔ صوفی کے برعکس جس کا مسلک حقیقتِ عظمیٰ میں سالک کا فنا ہو جانا متصور ہوا ہے، اقبال کا مردِ مومن اپنی انفرادیت سے دست کش نہیں ہوتا، گویا ’’موجود‘‘ رہتا ہے۔ یہی کرکے گار کے فرد کا امتیازی وصف ہے ۔ پھر ایک یہ بات بھی ہے کہ کرکے گار کے ہاں فرد ’’وابستہ‘‘ ہے اور ابلاغ پر اس کا ایقان ہے اور قریب قریب یہی بات اقبال کے ہاں بھی موجود ہے کہ ایک عظیم مقصد مردِ مومن کا نوشتۂ تقدیر ہے اور وہ صوفی کی اس حالتِ جذب کے برعکس (جسے گونگی حالت کہنا چاہیے) اپنے اظہار اور ابلاغ پر قادر ہے۔ یہ خاص رویہ بنیادی طور پر ایک جمالیاتی رویہ ہے۔ ویسے بھی کرکے گار نے انسان کے دو داخلی منطقوں میں فرق قائم کیا ہے۔ ان میںسے ایک تو جمالیاتی منطقہ ہے جس میں رہتے ہوئے فرد احساسی اور تصوراتی سطح پر گویا امکانات کے ساتھ رہتا ہے،دوسرا ذہنی منطقہ ہے جس میں فردیہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حادثات اور تغیرات کی دنیا سے اوپر اُٹھ کر صرف ابدیت کے نقطۂ نظر سے ہر شے کا جائزہ لیتا ہے۔ کرکے گار ان دونوں منطقوں کے ملاپ کا قائل ہے۔۵۹؎ یہی رویہ اقبال کابھی ہے (فن کی تخلیق میں بھی سوچ اور احساس کا ربط باہم ہی اصل بات ہے)۔ آخری بات یہ ہے کہ کرکے گار نے ہیگل کے ’’مجرد خیال‘‘ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اسے محسوس ہوا تھا کہ ایک طرف تو فرد کو ہیگل کا نظامِ فلسفہ (مکمل ’’کل‘‘ کا فلسفہ) نگل رہا تھا اور دوسری طرف’’فرد‘‘ ایک نئے معاشی اور صنعتی نظام میں مشین کا ایک پُرزہ بن گیا تھا۔۶۰؎ کرکے گار کا خیال تھا کہ ’’فرد‘‘ کو محض ’’کل‘‘ کا ایک جز قرار دینے سے اس کی نفی ہو جائے گی۔ اس نے لکھا میں انفرادیت کا لمحہ ہوں لیکن میں کسی سسٹم کا تتمہ بننے سے انکار کرتا ہوں۔۶۱؎انسان کو زندہ رہنے کا وقوف ہی نہیں رہا اور وہ تابع مہمل ہو کر رہ گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ وہ اپنی حالت سے باہر آئے۔ فیصلے کا وقت آ گیا ہے اور انسان کے لیے انتخاب اور فیصلے کے بغیر چارہ نہیں۔ ’’عمل‘‘ پر یہ زور اقبال کی تعلیمات کے عین مطابق ہے کہ ان کا مردِ مومن بھی تابع مہمل نہیں اور نہ وہ ایک منفعل ہستی ہے، بلکہ اپنی داخلی توانائی کے بل بوتے پر پوری کائنات کے روبرو ایک منفرد مرد کامل کے روپ میں کھڑے ہو کر اپنی خودی کا اعلان کرتا ہے: خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں خُدا کے سامنے گویا نہ تھا میں! نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر جلوئہ دوست قیامت میں تماشا بن گیا میں کرکے گار نے ’’سوچ‘‘ کی بالا دستی کے خلاف احتجاج کر کے احساس کو مشعلِ راہ کادرجہ تفویض کیا تھا اور اقبال نے اپنی شاعری میں جب ’’عقل و خرد‘‘ کے خلاف ردِ عمل کااظہار کیا تو یہ بھی دراصل ’’مجرد خیال‘‘ کی بالا دستی کی مخالفت ہی میں تھا۔ کرکے گار کی طرح اقبا ل بھی سوچ کے عمل کے مخالف نہیں تھے۔ چنانچہ جس طرح کرکے گار نے احساس اور سوچ کے انضمام پر زور دیا، اسی طرح اقبال نے بھی ان دونوں کے ربطِ باہم کواہمیت بخشی۔ بالخصوص ’’خطبات‘‘ میں ان کا رویہ کھل کر سامنے آیا۔ کرکے گار کا ’’جذبۂ حریت‘‘ اقبال کے تصورِعشق کے مماثل تو نہیں البتہ قریب ضرور ہے۔ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے، یعنی تکرار اور انفعالیت کے دائرے کو عبور کیا جائے۔ چونکہ عقل و منطق کے سلاسل ’’فرد‘‘ کو ایک مستقل دائرے میں مقید رکھتے ہیں۔ لہٰذا عشق کے اس مرحلے کی توثیق اقبال نے بھی کی ہے جہاں عشق کی رفتار عقل و خرد کے فاضل بوجھ کی قربانی پیش کرتی ہے تاکہ وہ سبک اندام ہو کر پرواز کے قابل بن سکے: اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی (۷) عشق کے سفر میں پانچواں مرحلہ وہ ہے جسے جست یا تقلیب کا نام ملنا چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ ’’فرد خارج سے یکایک منقطع ہو کر خود فراموشی کے عالم میں چلا جاتا ہے، اور پھر جب اس کیفیت سے بیدار ہوتا ہے تو خود کو ایک نئی روحانی سطح پر فائز پاتا ہے۔۶۲؎ ایک عالم میں ’’سونے‘‘ اور دوسرے میں ’’بیدار‘‘ ہونے کا یہ عمل ذات کے بکھرنے اور پھر از سرِ نو وجود میں آنے کے عمل کے مماثل ہے۔ چونکہ ذات کی ان دونوں صورتوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے اور ان میں سبب اور مسبب کا کوئی رشتہ بھی موجود نہیں، اس لیے جست یا تقلیب کے تصور ہی سے اس فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عشق جب ایک خاص رفتار سے ’’حُسن‘‘ کے گرد ایک دائرے میںطواف کرتا ہے تو دراصل ان گہری لکیروں کے اندر سفر کرتا ہے جو فطرت انسانی کا عطیہ ہیں اور جن پر انسان ابتدا ہی سے سفر کرتا رہا ہے۔ ان لکیروں کے اندر ایک گوشۂ عافیت ہے اور دائرہ کا محیط ایک نگہبان کی طرح فرد کی حفاظت کرتا اور اسے بکھر جانے سے باز رکھتا ہے۔ یہ دائرہ ایک ایسے ازلی و ابدی ’’طواف‘‘ کی صورت ہے جو کہکشائوں سے لے کر ہمارے نظامِ شمسی تک اور پھر فطرت سے لے کر انسانی معاشرے تک ہر جگہ کار فرما ہے۔ مراد یہ کہ جس طرح کہکشاں ایک خاص رفتار کے ساتھ کسی فرضی نقطے کے گرد گھومتی ہے اور ہمارے نظامِ شمسی کے سیارے اپنی اپنی خاص رفتار کے ساتھ آفتاب کے گرد طواف کرتے ہیں اور فطرت موسموں کی دائرہ صفت گردش اور نسلوں کے دائرہ نما تسلسل میں اور فرد معاشرے اور اس کے قوانین اور روایات کے مرکزی نقطے کے گرد سفر کرتا ہے، بالکل اسی طرح جب عشق ایک خاص رفتار سے ’’حُسن‘‘ کو مرکز مان کر دائرے میں گھومتا ہے تو کائنات کے عظیم الشان طواف ہی میں شریک ہوتا ہے۔ مگر عشق کی جیت اس میں ہے کہ وہ دوسرے مظاہر کے برعکس دائرے کے محیط کو توڑ بھی دیتا ہے۔ اگر عشق اس ’’سائونڈ بیریر‘‘(Sound Barrier)کو توڑ نہ سکے تو مُرجھا کر ختم ہو جائے۔ مگر دائرے کے ’’سائونڈ بیریر‘‘ کو توڑنے کے لیے بے پناہ رفتار درکار ہے۔ جب عشق اس بے پناہ رفتار سے آشنا ہوتا ہے تو ایک دھماکے کے ساتھ دائرے کے زندان کو توڑ کر کائنات کی اس بے پناہ تخلیقی رفتار سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے جو مختلف مظاہر کی رفتاروں سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ یہ اسی تیز رفتاری کا کرشمہ ہے کہ کائنات ہر لمحے ایک تخلیقی عمل میں مبتلا ہے۔ جب فرد عشق سے لیس ہو کر دائرے کو توڑتا ہے اور کائنات کی رفتار سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو وہ بھی زندگی کی عام سطح سے اُوپر اٹھ کر تخلیقی سطح پر آ جاتا ہے۔ اس جست کے فکری پس منظر کا جائزہ لیں تو اقبال کے حوالے سے اشاعرہ کے اس تصور کا ذکر ناگزیر ہے جسے ’’طفرہ‘‘ یعنی جست کا تصور کہا گیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:۶۳؎ اشاعرہ کے نزدیک مکان چونکہ بجائے خود نتیجہ ہے جواہر کے اجتماع کا، لہٰذا وہ حرکت کی توجیہ یوں تو کر نہیں سکتے تھے کہ اس کامطلب ہے کسی جسم کا ان سب نقطہ ہائے مکانی سے گزر کرنا جو کسی مقام کی ابتدا سے انتہا تک واقع ہوں اور جس سے بالآخر یہ ماننا لازم آتا ہے کہ خلا ایک قائم بالذات حقیقت ہے۔ یہ مشکل تھی جس کے حل میں نظام نے طفرہ یعنی زقند یا جست کا تصور قائم کیا۔ نظام کا کہنا یہ تھا کہ جب کوئی جسم حرکت کرتا ہے تو ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک نقطۂ مکانی سے دوسرے نقطۂ مکانی تک ، جو ظاہر ہے اس سے متصل ہوگا، گزر کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ ہمیں یہ کہنا چاہیے وہ اس سے کود جاتا ہے۔ گویا حرکت کی رفتار خواہ تیز ہو خواہ سُست ہو، ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر نقاطِ سکون زیادہ ہوں تو حرکت بھی سُست رہے گی۔ اسی طرح حیاتیات میں جست کی اہمیت کے سلسلے میں محمد رفیع الدین نے لکھا ہے: ۶۴؎ حیاتیاتی مرحلۂ ارتقا میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ ہر بار جب خودی نے محسوس کیا کہ منزل مقصود کی طرف اس کی ارتقائی حرکت بعض رکاوٹوں کی وجہ سے حد سے زیادہ سُست ہو رہی ہے تو اس نے ایک غیر معمولی کوشش کی اور یکایک گویا ایک جست سے اپنی رکاوٹوں کو عبور کرگئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسا جسمِ حیوانی فوری اور معجزانہ طور پروجود میں آ گیا جو اپنی نوع سے یکسر مختلف تھا اور اپنی ترقی یافتہ جسمانی ساخت کی وجہ سے کامل جسمِ حیوانی سے قریب تر تھا۔ یہی جست جو حیاتیاتی ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے تخلیق فن کے سلسلے میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے، بلکہ کائنات کی تخلیق کے سلسلے میں بھی اچانک ظہور پذیر ہونے کا نظریہ خاصا مقبول رہا ہے جس کے مطابق ’’کائنات کا آغاز ایک ایسے چھوٹے سے بے حد گنجان ذرے سے ہوا جس میں ساری کائنات کا مواد یک جاتھا۔ یہ ذرا جب پھٹا تو اس کے اجزا لاکھوں کہکشائوں کی صورت فضا میں منتشر ہو گئے اور باہر کی طرف تیزی سے اُڑنے لگے۔ یہ اجزا آج تک باہر کی طرف رواں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق کا عمل ابھی جاری ہے۔‘‘۶۵؎یہ نظریہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر ہے کہ دمادم صدائے کن فیکون آ رہی ہے اور کائنات ہر لمحہ خلق ہوتی چلی جاتی ہے۔ مگر اس سائنسی نظریے میں ’’بے حد گنجان ذرے‘‘ سے کائنات کی ابتدا کا تصور بھی وابستہ ہے جو کائنات کی تخلیق کو ایک باقاعدہ ابتدا اور انتہا تفویض کر دیتا ہے۔ لہٰذا اگر یوں سوچا جائے کہ ذرّے کے پھٹنے سے کائنات کی ابتدا نہیں ہوتی بلکہ تجدید ہوتی ہے تو پھر کائنات کے تدریجی پھیلائو اور ارتقا میں ’’دھماکا ‘‘ ایک جست ہی کی صورت میں دکھائی دے گا۔ اقبال کے ہاں عشق کا سارا تصور فن کے تخلیقی عمل سے مشابہ ہے۔ چنانچہ عشق جب خود فراموشی کی حالت میں آ کر لمحہ بھر کے لیے رکتا ہے تو دراصل اپنی تمام تر قوت کو مجتمع کرتا ہے تاکہ ایک ایسی جست لگا سکے جس کے بغیر ’’موجود‘‘ کی لکیر کو عبور کرکے وراء الورا سے ہم رشتہ ہونا ممکن نہیں۔تاہم جب وہ جست لگاتا ہے تو تجلیات کا ایک پورا سلسلہ اس کے سامنے اُبھر آتا ہے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ عشق کے سفر کے مراحل میں سے اہم ترین ’’رفتار‘‘ کا مرحلہ ہے ۔ جب یہ رفتار اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو طوفان کی طرح ایک لمحہ سکوت سے بھی آشنا ہوتی ہے جو رفتار ہی کی انتہائی صورت ہے۔ فن کی تخلیق میں اس لمحے کو ’’نراج‘‘ کہا گیا ہے جس میں صورتیں باقی نہیں رہتیں۔ گویا بُت شکنی کا عمل اپنی انتہا کو جا پہنچتاہے۔ چونکہ بُت یا صورت ہی جَست کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، لہٰذا جب اس کی شکست و ریخت سامنے آتی ہے تو جَست کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر جذبہ کسی نہ کسی شے کی کھونٹی سے ٹنگا ہوتا ہے۔ جب یہ کھونٹی باقی نہ رہے تو وہ جَست لگاتا ہے تا کہ کسی اور کھونٹی سے وابستہ ہو جائے۔ ورنہ اس کا وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ عشق میںصورت یہ ہے کہ جب وہ ’’موجود‘‘ کی کھونٹی سے منقطع ہوتا ہے تو گویا زندگی اور موت ہی کے مرحلے سے گزرتا ہے اور اپنی بقا کے لیے ایک جَست سی لگا کر ’’حُسن ازل‘‘ سے وابستہ ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ عشق کے سلسلے میں اقبال نے اس جست کے بارے میں لکھا ہے: عشق کی اک جَست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں خ خ خ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی اقبال نے جاوید نامہ میں اس جست ہی کی کارفرمائی کا منظر دکھایا ہے۔ اقبال کی یہ کتاب ایک ایسے روحانی سفر کا حال بیان کرتی ہے جو اصلاً پیغمبروں ہی کو نصیب ہوتا ہے، مگر صوفیا اور فن کار بھی اس سے ایک حد تک آشنا ہونے پر قادر ہیں۔ اس سلسلے میں دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ، نیز بایزید بسطامی اور محی الدین ابن العربی کے روحانی سفر کی داستانوں سے کون واقف نہیں؟۔۔۔ اقبال نے جاوید نامہ میں اپنے رُوحانی سفر کے متعدد مراحل کا ذکر کیا ہے۔ دراصل یہ سفر شاعر کے اس جذبۂ شوق کا سفر ہے جسے تصوف میں عشق کا نام ملا ہے اور جو تجلی ذات کے مشاہدے کے لیے سرگرم عمل ہوتا ہے۔ اقبال اپنے اس سفر کے دوران میں فلک قمر، فلک عطارد ، فلک زہرہ، فلک مریخ، فلکِ مشتری اور فلک زحل سے گزرتے ہیں۔ تاہم اس تسخیر سماوی میں بالآخر وہ ایک عالمِ بے جہات میں پہلا قدم رکھتے ہیں: در گزشتم از حدِ ایں کائنات پا نہادم در جہانِ بے جہات بے یمین و بے یسار است ایں جہاں فارغ از لیل و نہار است ایں جہاں پیش او قندیلِ ادراکم فسرد حرفِ من از ہیبتِ معنی بمرد خ خ خ اندراں عالم جہانے دیگرے اصل او از کُن فکانے دیگرے لازوال و ہر زماں نوعِ دگر! ناہد اندر و ہم و آید در نظر ہر زماں او را کمالے دیگرے ہر زماں او را جمالے دیگرے عشق کے سفر میں یہ مقام وہی ہے جسے No-Man's Land کا نام ملنا چاہیے۔یہ مقام جہات سے ماورا ، لیل و نہار سے فارغ ، قندیلِ ادراک سے آزاد اور حرف کے لبادے سے ناآشنا ہے۔ گویا جہت، رنگ ، روشنی اور حرف سے بننے والی تمام صورتیں ختم ہو چکی ہیں اور نراج یا خود فراموشی کی ایک ایسی کیفیت قائم ہو گئی ہے جس میں تخلیق کا بے صورت لاوا موجزن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جسے عبور کرنے کے لیے جست لگانا ضروری تھا اور اقبال نے جاوید نامہ میں یہی جست لگائی ہے۔عشق میں یہ وہ مقام ہے جہاں تجلی ذات نمودار ہوتی ہے اور پروانہ طواف کی گردش کو ترک کرکے دیوانہ وار اس تجلی ذات کی طرف لپکتا ہے۔ اقبال نے جاوید نامہ میں ’’افتادن تجلی جلال‘‘کے زیر عنوان اس جست ہی کا منظر دکھایا ہے: ناگہاں دیدم جہانِ خویش را آں زمین و آسمان خویش را غرق در نورِ شفق گوں دیدمش سُرخ مانند طبر خوں دیدمش زاں تجلی ہا کہ در جانم شکست چوں کلیم اللہ فتادم جلوہ مست نورِ او ہر پردگی را وا نمود تابِ گفتار از زبانِ من ربود از ضمیرِ عالمِ بے چند و چوں یک نوائے سوزناک آمد بروں دلچسپ بات یہ ہے کہ صوفیا کے ہاں تجلی ذات کے مشاہدے پر تو زبان گنگ ، نگاہ خیرہ اور عقل بے ہوش ہو جاتی ہے، مگر اقبال کے ہاں تجلی ذات صفتِ گویائی سے لیس ہے اور ایک نوائے سوزناک کے ذریعے شاعر سے ہم کلام ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال مشاہدئہ تجلی ذات کے بعد کلیم اللہ کی طرح جلوہ مست نہیں ہوتے یعنی اپنی انفرادیت سے دست کش نہیں ہوتے بلکہ ذاتِ لا محدود کے روبرو کھڑے ہو کر اپنی ذات یا خودی کا اثبات کرتے ہیں۔ چنانچہ اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ تجلی ذات ایک نوائے سوزناک میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مراد یہ کہ طالب حُسن نے خود کو حُسن لازوال میں جلا کر راکھ نہیں کر دیا بلکہ وہ اس حُسن کا ناظر یا سامع بن کر اُبھرا ہے۔ بنیادی طور پر یہ رویہ جمالیاتی ہے صوفیانہ نہیں، کیونکہ صوفی تو عالمِ حیرت میںچلا جاتا ہے جب کہ فن کار ’’تجلی ذات‘‘ کا تحفہ وصول کرتے ہوئے ہوش و حواس سے دست کش نہیں ہوتا۔ دوسرے ، وہ ذات کے بطون میں چھپے ہوئے اس جوہر کو جو صورت سے نا آشنا ہے اپنے فن کی مدد سے صورت پذیر کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے ایک گہری تنقیدی بصیرت کا ثبوت بھی دیتا ہے۔ (۸) تگ و تازِ عشق میں چھٹا مرحلہ ’’وصال‘‘ کا ہے ۔ تصوف کے ابتدائی دور میں یہ خیال بہت توانا رہا کہ ’’وصال‘‘ ترکِ خود کے بغیر ممکن نہیں۔ مراد یہ کہ جب تک ’’خواہشات ‘‘ کو زیر پا نہ لایا جائے آئینۂ دل کی گدلاہٹ دور نہیں ہوتی اور جب تک یہ گدلاہٹ دور نہ ہو تجلی ذات کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ مگر تصوف میں ترک خود اور بے خودی دو بالکل مختلف مراحل ہیں جنھیں اکثر لوگوں نے ایک ہی کیفیت سمجھ لیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے پروفیسر ہو یا کے حوالے سے لکھا ہے:۶۶؎ انھوں نے ’سفرِ صعودی‘ کے کئی مدارج شمار کیے ہیں۔ ابتدا میں خدمت خلق اور اطاعتِ شیخ پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ بعد میں شیخ ر ذائلِ نفسانی کی تطہیر کی کوشش کرتا ہے پھر محبت کل اور مراقبے کے طریقے بتاتا ہے۔ اس کے بعد ذکر و فکر ، اس کے بعد تعطل احساس کی منزل آتی ہے۔ اس حالت میں وجد و حال ، مگر اس میں پھر حیرت ، قبض اور بعض اوقات رجعت کی تکلیف پیش آ جاتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تا آنکہ عارف برأی العین خدا کا دیدار کر لیتا ہے جو دراصل تمہید ہوتی ہے اُس وصال روحانی کی جس کے لیے تصوف کا کل نظام قائم شدہ سمجھا گیا ہے۔ گویا وصالِ روحانی اور چیز ہے اور خدمتِ خلق ، اطاعتِ شیخ، تطہیر اور مراقبے وغیرہ سے مرتب نظامِ اخلاق جو دراصل نفیِ خود کی راہ پر لے جاتا ہے ایک بالکل دوسری چیز ہے۔ وصال روحانی بے خودی کا مرحلہ ہے ، یعنی وہ مقام جہاں سالک ’’خود‘‘ کو عبور کرتا ہے اورذاتِ واحد میں ضم ہو جا تا ہے، جب کہ نفیِ خود اس مقام تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ ہندوئوں کے ہاں یوگ ’’نفی خود‘‘ میں مددگارہے۔ اسی طرح تربیتِ نفس کے مراحل جو بدھ مت اور جین مت کا طرئہ امتیاز ہیں خواہشات کے خاتمے پر ہی منتج ہوتے ہیں۔ یوگ کے برعکس ’’بھگتی‘‘ کا مزاج قریب قریب وہی ہے جو اسلامی تصوف میں تصورِ عشق کا ہے اور بعض اہلِ نظر کا تو یہ بھی خیال ہے کہ بھگتی کے اس خاص مزاج پر جو دسویں صدی کے بعد اُبھرا اسلامی تصوف کے گہرے اثرات بھی ثبت ہیں۔ بہرکیف بھگتی کا عشق تصوف کے عشق کے مماثل ہے۔ ابتداً اسلامی تصوف نے بھی تربیت نفس پر زور دیا تھا، مگر بعد ازاں جب سریانی تصورات کا دور دورہ ہوا تو عشق کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ دراصل تصوف کے بھی متعدد حصے ہیں۔ ایک وہ جو فلسفیانہ مزاج رکھتا ہے اور کائنات کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ویدانت نے بالخصوص اس مزاج ہی کا مظاہرہ کیا ہے اور اندھیرے کو دور کرنے کے لیے محض روشنی پر انحصار کیا ہے، کیونکہ ویدانت کے مطابق تاریکی صرف روشنی ہی سے دور ہو سکتی ہے۔ اسلامی تصوف میں بھی وجود اور عدم پر جو دقیق مباحث ملتے ہیں وہ تصوف کے فلسفیانہ رُخ کے غماز ہیں۔ مگر تصوف کا دوسرا پہلو عشق ہے جو اس نے براہِ راست مذہب سے حاصل کیا ہے۔ عشق جذبے سے لیس ہو کر ایک خاص منزل کی طرف بڑھتا ہے اور سالک کے ہاں وجد اور خود فراموشی کی کیفیات پیدا کر دیتا ہے۔ گویا یہ ایک وارداتی شے ہے نہ کہ تجزیاتی عمل! تصوف میں ترکِ خود یا نفیِ خود بے خودی کی حالت تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لہٰذا نفیِ خود اور بے خودی کو ایک ہی شے سمجھنا درست نہیں۔ نفیِ خود میں صوفی کا ارادہ شامل ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایک پورا تربیتی نظام ہوتا ہے جس کے تابع ہو کر وہ آہستہ آہستہ اپنے جسم کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈالتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کا ایقان ہے کہ وصال کے راستے میں انسانی جسم اور اس کی خواہشات ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ تاہم یہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ تربیتِ نفس کے ذریعے ترکِ خود تصوف کا ایک ابتدائی مرحلہ ہے۔ ارتقائی منازل میں صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اسی لیے بعض صوفیا نے تو اخلاقیات تک کی تکذیب کر دی ہے۔ ویدانت میں بھی اخلاقیات کے بندھنوں سے اوپر اُٹھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ مہابھارت کی جنگ میں کرشن نے ارجن کو جو اپدیش دیا اس کا مقصد بھی اخلاقی قدروں سے اُوپر اٹھ کر ’’عمل‘‘ کامظاہرہ کرنا تھا۔ ویدانتیوں کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ بُرا ئیاں اگر لوہے کی بیڑیاں (زنجیریں)ہیں تو نیکیاں سونے کی بیڑیاں ہیں۔ فارسی زبان کی ساری صوفیانہ شاعری نام نہاد اخلاقیات کا منہ چڑاتی دکھائی دیتی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تصوف نے اپنے ارتقائی مدارج میں ’’وصال‘‘ کے لیے عشق کا راستہ اختیار کیا ہے نہ کہ اخلاقیات کا! البتہ ایک اعتبار سے ’’ترکِ خود‘‘ تمام صوفیا کے ہاں ملتا بھی ہے۔ وہ یوں کہ جب صوفی عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی تمام تر توجہ ایک ہی نقطے پر مرتکز ہوگئی ہے۔ ایک نقطہ پر توجہ کے مرتکز ہونے سے خیالات کا بکھرائو از خود رُک جاتا ہے۔ چونکہ خیال ہی خواہش کو تحریک دیتا ہے، اس لیے خیالات کے انتشار سے پیچھا چھڑا کر صوفی ایک مثبت طریق سے ’’ترکِ خود‘‘ کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ تاہم اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عشق کا یہ مرحلہ، جو ’’ترکِ خود‘‘ پر منتج ہوتا ہے، بے خودی کے عالم سے مختلف ہے۔ صوفی کے ہاں بے خودی کا عالم اس وقت نمودار ہوتا ہے جب وہ تجلیِ ذات کا مشاہدہ کر لیتا ہے اور اس کا سارا وجود پروانے کی طرح شعلے میں بھسم ہو جاتا ہے۔ اُس وقت صوفی کو ’’ترکِ خود‘‘ کی ہوش کہاں رہتی ہے؟ لہٰذا فرق یوں سامنے آتا ہے کہ ’’ترکِ خود‘‘ کا عمل عشق کے ابتدائی مراحل کا مظہر ہے مگر جب عشق اپنے انتہائی مراحل میں داخل ہوتا ہے تو صوفی کو بے خودی حاصل ہوتی ہے جو خود کی نفی کی صورت نہیں، خود سے اُوپر اُٹھ آنے کا ثمر ہے اور اسی لیے اصلاً مثبت ہے! اس ’’بے خودی‘‘کے بارے میں سُلطان الطاف علی نے لکھا ہے:۶۷؎ تصوف کی اصطلاح میں اس مقامِ توحید کو توحیدِ حقیقت کا مرتبۂ تنزیہی کہا جاتا ہے جب کہ اس مقام پر جملہ کائنات کی ہستی انوارِ الٰہی کے پرتو میں ایسی فنا ہو جاتی ہے کہ سالک کی نظر میں (کسی چیز کا وجود سوائے ذاتِ ربانی نہیں رہتا)۔ جب اس دریائے ناپیدا کنار کا شناور صفات موجودات کی تجلیات سے فناے کلی حاصل کر لیتا ہے اور حدوث و مکان کی آلایش سے مجرد ہو جاتا ہے، تو ایک موج دریائے ذات کی گہرائی سے سرِخفی پر وارد ہوتی ہے جو عارف کو ورطۂ عدم میں ڈال دیتی ہے۔ محو در محو اور فنا در فنا ہو جاتا ہے۔ اس مقام میں نہ وجود ، نہ شہود ، اسم نہ مسمّٰی ، نہ قدم نہ عدم ، نہ عرش نہ فرش، نہ اثر نہ خبر، نہ علم خود، نہ علم حق۔ غرضیکہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔ گویا بے خودی کے عالم میں صوفی فنا فی الذات ہو جاتا ہے یعنی ایک ایسا مقام جہاں نہ جسم ہے نہ روح ، نہ عشق و محبت، نہ کون و مکان ۔ یہ وصال کا لمحہ ہے جو قطرے کو دریا میں ضم کرکے قطرے کی خودی کو ختم کر دیتا ہے۔ واضح رہے کہ تصوف میں اصل نکتہ یہ ہے کہ قطرے کا کوئی وجود نہیں۔ صرف دریا ہی اصل حقیقت ہے، لیکن ایک عالمِ خواب یا فریب نظر میں مبتلا ہونے کے باعث سالک نے خود کو قطرہ سمجھ لیا ہے اور اب وہ دریا سے ملنے کے لیے بے تاب ہے، حالانکہ وہ پہلے بھی دریا تھا، اب بھی دریا ہے ۔۔۔ قطرہ تو وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ اسی بات کو ’’رسی میں سانپ ‘‘ کی تمثیل میں بھی بیان کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ناظر کو اگر رسی سانپ کے روپ میں نظر آتی ہے تو یہ سب ناظر کی اپنی نظر کا فریب ہے، حقیقتاً رسی تو ہمیشہ سے رسی ہے۔ البتہ سانپ ایک واہمہ ہے۔ و ۔ ع ۔ خ لکھتے ہیں:۶۸؎ تجھے رسّی میںسانپ دکھائی دیتا ہے لیکن سانپ تو موجود ہے ہی نہیں اور اگر وہ تجھے نظر آیا تو یہ تیری آنکھ کا قصور تھا۔ سانپ کا وجود رسّی سے کبھی الگ نہ تھا۔ یہ تیری آنکھ کی غلطی ہے کہ وہ تجھے رسّی سے الگ نظر آیا۔ اللہ کے سوا دوسری کوئی چیز نہیں۔ یہ آنکھ کا قصور ہے کہ اسے اللہ کے سوا بھی کچھ دکھائی دیتا ہے۔ مٹی کے برتنوں میں بجز مٹی اور کوئی چیز نہیں۔ یہ سمجھ کی غلطی ہے کہ کہا جائے ’یہ بُت ہے‘ یہ گھڑا ہے اور یہ دیوار۔ اس جہان کا علتِ مادہ خدا ہے ۔ یہ جہان اس سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتا ۔ یہ تیری آنکھ کا قصور ہے کہ تونے اُسے اللہ سے الگ کوئی چیز قرار دیا۔ بے خودی کی اس کیفیت تک پہنچنے کے لیے بعض صوفیا نے تزکیۂ باطن کے ایک پورے سلسلے کی ضرورت کو محسوس کیا۔ مگر بعض مسالک کے مطابق یہ ایک طویل راستہ ہے۔ نزدیک ترین راستہ یہ ہے کہ علم اور عرفان کی روشنی سے اندھیرے کو دور کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک نہایت دلچسپ بات کی طرف اشارہ شاید نامناسب نہیں۔ جہاں تک اسلامی تصوف کا تعلق ہے اس کے مندرجہ ذیل تین پہلو نمایاں ہیں: (الف) تزکیۂ باطن (ب) عشق (ج) علم یا عرفان ان میں سے تزکیۂ باطن کا تصور اصلاً معاشرتی اخلاقیات سے ماخوذ ہے، یعنی امر و نہی کے ایک پورے نظام کے تابع ہے، مگر آخر آخر میں نفیِ خود پر منتج ہوا ہے جس سے مراد جسم اور اس کی خواہشات ، موجود اور اس کے مظاہر کی نفی ہے۔ اس کے پسِ پشت فلسفہ یہ ہے کہ فرد کے راستے میں جبلت اور مادہ دو بڑی رکاوٹیں ہیں جنھیں عبور کرنا ضروری ہے۔ دوسرا پہلو عشق کا ہے جو مذہب سے براہ راست ماخوذ ہے اور کسی شخصیت ، ذات یا مرکزی نقطے کے گرد طواف کرتے ہوئے ایک جست سی لگا کر اس تک پہنچنے کی کوشش میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے پس پشت فلسفہ یہ ہے کہ محبت کے مسلک کو اختیار کیے بغیر ذاتِ باری کے حضور پہنچنا ممکن نہیں۔ تیسرا پہلو علم یا عرفان کا ہے جو اصلاً فلسفے سے ماخوذ ہے اور وجود اور تکوین، ہمہ اوست اور ہمہ از اوست ، ایسے مسائل کے تجزیے سے روشنی کی تحصیل کرتا ہے۔ مگر خیال افروز بات یہ ہے کہ اسلامی تصوف میں یہ تینوں پہلو لخت لخت حالت میں نہیں ملتے، بلکہ مدارج کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ چنانچہ سالک تزکیۂ باطن سے ’’اندر کی کوٹھی‘‘ کو پاک صاف کرتا ہے، عشق کی قوت سے لیس ہو کر آگے بڑھتا ہے اور جب آگہی کے مقام سے آشنا ہوتا ہے تو اپنے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے ماہیتِ کائنات کے بارے میں فلسفیانہ مباحث کو تحریک دیتا ہے۔ گویا اسلامی تصوف ایک اکائی کی صورت میںاُبھرا ہے اور اس کے تمام تر پہلو دراصل ایک ہی سفر کے سنگ ہائے میل ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان میں یہ صورت پیدا ہوئی کہ تصوف کے مختلف پہلو محض پہلو نہ رہے تھے بلکہ باقاعدہ مکاتبِ فکر کی صورت اختیار کر گئے تھے، مثلاً اسلامی تصوف کا تصور تزکیۂ باطن’’یوگ‘‘ میں، عشق کا پہلو’’بھگتی‘‘ میں اور علم و عرفان کا پہلو ’’ویدانت‘‘ میں پہلے سے موجود تھا۔۔ اس طور کہ اسلامی تصوف کے برعکس ان تینوں پہلوئوں نے مل کر ایک ہی عارفانہ کیفیت کے حصول میں حصہ نہ لیا بلکہ اپنے اپنے طور پر بالکل مختلف اور نئے راستوں سے منزل تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں و۔ ع ۔ خ رقم طراز ہیں: ۶۹؎ یوگی سے بیر کیوں؟ وہ بھی تو تیرا ہی رُوپ ہے۔ لیکن بھگت کی طرح یوگی بھی ایک لمبا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ویدانتی ، یوگی اور بھگت۔۔ ان تینوں کی منزل ایک ہی ہے لیکن تینوں کے راستے جدا ہیں۔ یوگ نفس کو طاقت سے مارنا چاہتا ہے، لیکن نفس کبھی مرتا نہیں۔ ہاں یوگی چند لحظوں کے لیے اس پر حکومت ضرور کر لیتا ہے۔ مگر یوگی تو پل صراط پر بیٹھا ہے اور اس کے ہر دے میں یہ خطرہ پھڑکتا رہتا ہے کہ کہیں وہ دوسرے ہی لمحے نیچے نہ گر جائے۔ گیانی نفس کو مارنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ وہ تو اسے پہچاننے کی سعی کرتاہے۔ یوگی اپنے مقام سے نیچے بھی گر سکتا ہے۔ لیکن ویدانتی جس مقام پر پہنچتا ہے اسے اپنی ذات میں سمو لیتا ہے۔ گیانی کہتا ہے: خیال آوارہ گرد ہے، اسے بھٹکنے کی عادت ہے۔ یہ سدا کا پاپی ہے۔ مگر تم اسے روکنے کی کوشش نہ کرو کہ یہ بلاوجہ چڑ جائے گا ۔ تم صرف اس کا تعاقب کرو۔ جہاں خیال جائے تم بھی وہاں پہنچ جائو اور ہر چیز میں اپنے ہی روپ کی زیارت کرو۔ خیال خود بخود رک جائے گا۔ خیال کو بھٹکنے کے لیے جگہ ہی نہیں ملے گی۔ اور تمھیں گیان حاصل ہو جائے گا۔ تب تُم معجزوں کی خواہش سے بلند ہو جائو گے۔ تب معجزہ ممکن ہی نہیں رہے گا۔ بھلا خود کو حیرت میں لانا یا ساکن ہونا بھی کوئی معجزہ ہے؟ با ما سخن از کشف و کرامات مگوئید چوں ما ز سرِ کشف و کرامات گزشتیم اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خودی اور بے خودی میںکیا فرق ہے۔ واضح رہے کہ تصوف میں خودی کا مفہوم وہ قطعاً نہیں جو اقبال کے پیش نظر ہے۔ اوّل تو یہی دیکھیے کہ تصوف میں ’’خودی‘‘ کا لفظ بہت کم استعمال ہوا ہے اور کہیں استعمال ہوا بھی ہے تو اس کا اشارہ خود، وجود، انا یا شخصیت کی طرف ہے جو ’’وصال‘‘ کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ حافظ کا ایک شعر ہے: میانِ عاشق و معشوق ہیچ حائل نیست تو خود حجابِ خودی حافظ از میاں بر خیز مگر اقبال کے ہاں خودی کا مفہوم اثباتِ ذات ہی نہیں ، بیداریِ کائنات بھی ہے۔ (آگے اس کا ذکر آئے گا)۔ دوسری طرف بے خودی کے ضمن میں اقبال کا تصور ایک حد تک صوفیا کے تصورِ بے خودی کے مماثل ہے، مگر ان دونوں میں فرق بھی ہے، مثلاً اس فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:۷۰؎ صوفی وجود اور خود کو تسلیم کر لینے کے بعد فنائے خود میں اپنی نجات سمجھتا ہے کہ یہ عارضی خود اس کو اس کی اصل سے جدا کر رہا ہے۔ اس لیے اس کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس خود کو بے خودی میں بدل دے تاکہ اپنی اصل سے مل جائے یعنی پھر اُس کمال تک پہنچ جائے جو اس کا ورثہ بھی ہے اور حق بھی۔ اس چیز کو صوفیوں نے ترکِ خود یا نفیِ خود کے نام سے یاد کیا ہے۔ اقبال اس عارضی خودکی ناگزیر اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے اس سے پیچھا چھڑانے کے بجائے بے خودی کی منزل تک پہنچنے کے لیے خود کو ہی ذریعہ استعمال اور وسیلۂ ترقی بناتے ہیں۔ اقبال بے خودی کے لیے خود ہی کو وسیلہ بناتے ہیں۔ صوفی خود کا اثبات اس میں دیکھتا ہے کہ خود کے احساس ہی کو مٹا ڈالاجائے۔ ایک کی نظر اس پر ہے کہ ازل میں، ہم میں، خدا میں، کوئی بُعد نہ تھا بلکہ ہم شے واحد تھے۔ دوسرے کی نگاہ اس پر ہے کہ ازل کی بحث سے کیا فائدہ ؟ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب خدا ہم میں جذب ہو کر رہ جائے گا اور اب ہم اس کی جستجو میں نہیں ہیں بلکہ وہ ہماری جستجو میں ہے۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ صوفی جزو کو کل میں فنا کر دینا چاہتا ہے جب کہ اقبال کا یہ خیال ہے کہ کُل جز ، کو اپنے اندر سمیٹ لے گا، تو یہ بات صوفی کے تصور بے خودی اور اقبال کے نظریۂ بے خودی کے فرق کا اعلامیہ نہیں بلکہ ان کی مماثلت کو اُجاگر کرتی ہے۔ آخر پتھر شیشے پر گرے یا شیشہ پتھر پر، دونوں صورتوں میں نتیجہ تو ایک ہی برامد ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں سید عبداللہ صاحب کی توضیح کی روشنی میںیہ کہا جا سکتا ہے کہ صوفی اور اقبال دونوں بے خودی کے رسیا ہیں، یعنی جز اور کل کے وصال کے خواہاں ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ صوفی کے ہاں جزو عاشق ہے اور کل محبوب ، جب کہ اقبال کے ہاں جزو محبوب ہے اور کل عاشق۔ مگر کیا واقعتا اقبال اس قسم کی بے خودی کے قائل ہیں جس میں ’’جز‘‘ اور ’’کل‘‘ میں کوئی امتیاز باقی نہیںرہتا؟ غالباً نہیں! خود سید صاحب نے جب کہا کہ صوفی تو خود کو بے خودی میں بدلتا ہے تاکہ اپنی اصل سے مل جائے، مگر اقبال خود کو بے خودی کی منزل تک رسائی پانے کا وسیلہ بناتے ہیں، تو ایک ایسے اہم فرق کی نشان دہی کی جو اصلاً کل میں جذب ہونے اور کل کے روبرو ایستادہ ہونے کا فرق ہے۔ ویسے اقبال کا یہ رویہ نوعیت کے اعتبار سے مذہبی ہے اور جمالیاتی بھی۔ جب فرد خود کو ذات باری کے روبرو پیش کرتا ہے تو قُرب کے باوجود فاصلے کو قائم رکھتا ہے۔ اسی طرح جب فن کار ذات میں غوّاصی کرتا ہے تو خود کو پوری طرح اجتماعی لاشعور کے حوالے نہیں کر دیتا بلکہ شعور اور لا شعور کے نقطۂ انضمام پر کھڑے ہو کر خوشہ چینی کے عمل میں مبتلا ہوتا ہے، یعنی اندر کی روشنی کو لفظ، سنگ یا سُر میں مقید کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انتہائی جذب کی حالت میں بھی عبادت گزار شخص یا فن کار اپنے ’’خود‘‘ کی نفی کرکے ’’کُل‘‘ میں گم نہیں ہو جاتا ۔ اس کے بعد ان دونوں کا فرق سامنے آتا ہے یعنی عبادت کرنے والا تو اپنے باطن کو روشن کرنے تک ہی اکتفا کرتا ہے مگر فن کار ’’روشنی‘‘ کی ترسیل بھی کرتا ہے اور اس ترسیل میں وہ ایک معجزانہ طریق سے سنگ،رنگ اور لفظ ایسی مادی اشیا میں نورِ ازل کے پرتو کو گرفتار کر لیتا ہے۔ اقبال کی بے خودی ایک فن کار کی بے خودی ہے جو اصلاً روبرو کھڑے ہونے اور روشنی کو قبول کرنے کا عمل ہے۔ گویا اس میں جذب کا عالم تو قریب قریب وہی ہے جو صوفی کے عالمِ بے خودی کا ہے، مگر صوفی کے برعکس فن کار انہماک اور ارتکاز کے باوصف ’’با ادب با ملاحظہ ہوشیار‘‘ بھی رہتا ہے اور پھر خود تخلیق کے عمل میں مبتلا ہو کر ذاتِ باری کی تخلیق کاری کے عمل کی تقلید بھی کرتا ہے۔ چنانچہ اسی لیے شاعر کو تلمیذالرحمن کا لقب بھی ملا ہے۔ مگر اقبال کی بے خودی کا ایک پہلو اور بھی ہے جو انھیں بے حد عزیز ہے۔اقبال جب رموزِ بے خودی کا آغاز اس شعر سے کرتے ہیںکہ : فرد را ربطِ جماعت رحمت است جوہر او را کمال از ملت است اور پھر اپنے موقف، کو اس وضع کے اشعار میں بیان کرتے ہیں کہ: فرد و قوم آئینۂ یک دیگر اند سلک و گوہر ، کہکشاں و اختر اند فرد می گیرد ز ملت احترام ملت از افراد می یابد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرئہ وسعت طلب قلزم شود خ خ خ وصل استقبال و ماضی ذاتِ او چوں ابد لا انتہا اوقاتِ او در دلش ذوقِ نمو از ملت است احتسابِ کارِ او از ملت است پیکرش از قوم و ہم جانش ز قوم ظاہرش از قوم و پنہانش ز قوم در زبانِ قوم گویا مے شود بر رہِ اسلاف پویا مے شود پختہ تر از گرمیِ صحبت شود تا بمعنی فرد ہم ملت شود خ خ خ تُو خودی از بے خودی نشناختی خویش را اندر گماں انداختی جوہرِ نوریست اندر خاکِ تُو یک شعاعش جلوئہ ادراکِ تُو خ خ خ در جماعت خود شکن گردد خودی تا ز گلبرگے چمن گردد خودی تو ’’خود‘‘ اور ’’بے خودی‘‘ کو فرد اور قوم کے ربطِ باہم ہی کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ صوفیا کے ہاں خود کو بے خود بنانے یعنی جز کو کل میں ضم کر دینے کا رویہ موجود تھا جسے اقبال نے اس لیے ناپسند کیا کہ ان کی نظروں میں اس رویے نے مسلمانوں کو ’’کارِجہاں‘‘ سے منقطع کرکے حجروں اور خانقاہوں میں قید کر دیا تھا اور وہ دُنیا کے قدموں کے ساتھ قدم ملا نے کے ناقابل ہو گئے تھے، مگر ساتھ ہی اقبال کا یہ خیال بھی تھا کہ فرد اگر کل سے منقطع ہو کر زندہ رہنے کی کوشش کرے تو ایسا کرنا خود فرد کی بقا اور ترقی کے لیے مُضر ہے، کیونکہ ایسی صورت میں فرد میں انانیت اور تکبر تو پیدا ہو سکے گا لیکن وہ حیات کے منبع سے منقطع ہو کر زود یا بدیر اس پودے کی طرح سوکھ جائے گا جسے پانی سے محروم کر دیا گیا ہو۔ اقبال کے اپنے زمانے میں نہ صرف ہندی مسلمان بلکہ ساری دنیا کے مسلمان صدیوں پر پھیلے ہوئے صوفیا نہ تصورات اور تقدیر پرستی کے رجحانات کے تحت انفعالیت اور بے عملی کی زد پرآئے ہوئے تھے اور اگر ان کے ہاں کچھ بیداری پیدا بھی ہوئی تھی تو وہ مغرب کی انفرادیت پسندی کے باعث تھی جو قوم اور ملت کی بقا کے لیے کچھ زیادہ مفید نہیں تھی۔ چنانچہ اقبال نے تصوف کی ’’بے خودی‘‘ کی تو مذمت کی مگر اسی ’’بے خودی‘‘ کے مفہوم کو ذرا سا تبدیل کر کے اسے فرد کی اس بے خودی کا رُوپ دے دیا جو ملت میں ضم ہونے کے دوران میں اسے حاصل ہو سکتی تھی۔رموزِ بے خودی میں اقبال نے فرد اور ملت کے ربطِ باہم پر روشنی ڈالی ہے مگر زیادہ زور اس بات پر دیا ہے کہ فرد کی اپنی بقا اور ترقی کا راز اس میں ہے کہ وہ ’’ربط جماعت‘‘ کو اپنے لیے رحمت قرار دے اور قطرئہ وسعت طلب کی طرح ایک روز خود سمندر بن جائے۔قطرہ اور سمندر کی یہ تمثیل وہی ہے جو تصوف میں ازمنہ قدیم ہی سے رائج رہی ہے۔ لہٰذا یہ بات غلط نہیں کہ اقبال تصوف کے تصورِ بے خودی سے متاثر تھے، مگر ایک تو انھوں نے اس تصور کو فرد اور جماعت کے سلسلے میں برت کر مسلمان کو ملت سے ہم رشتہ کرنے کی کوشش کی،دوسرے انھوں نے ’’بے خودی‘‘ میں خودی کو پوری طرح ضم نہ ہونے دیا بلکہ بار بار کہا کہ فرد جماعت سے قوت تو حاصل کرے مگر ساتھ ہی اپنے وجود کو برقرار بھی رکھے۔ چنانچہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ : ز خود گزشتۂ اے قطرئہ محال اندیش شدن بہ بحر و گہر بر نخاستن ننگ است یعنی یہ کہ قطرہ اگر دریا میں جا کر موتی بن جائے تو یہی اصل بات ہے، ورنہ اگر وہ دریا میں جذب ہو کر فنا ہو گیا تو اس سے قطرے کے لیے نقصان ہی نقصان ہے۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ جب اقبال نے قطرے کو موتی بننے کی تلقین کی تو دراصل ایک جمالیاتی رویے ہی کا اظہار کیا۔ صوفی کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ ’’بے فیض‘‘ ہوتا ہے یعنی تجلیات کے سلسلے سے آشنا تو ہوتا ہے مگر اس کی ترسیل نہیں کرپاتا۔ مراد یہ کہ صوفی اگر اپنے روحانی تجربے کو محض ’’بیان‘‘ کرنے پر اکتفا کرے تو تجربہ کی ترسیل نہ ہو سکے گی،کیونکہ اس تجربے کے ساتھ بہت سا احساسی مواد بھی ہوتا ہے جو فن کے سانچوں میں ڈھل کر ہی متشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا وہی صوفیا، جو بیک وقت صوفی بھی ہوتے ہیں اور فن کار بھی ، اپنے روحانی تجربے کی ترسیل پر قادر ہوتے ہیں۔ اقبال جب کہتے ہیں کہ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے ا ور پابہ گل بھی، یعنی فرد ملت سے وابستہ بھی ہو اور اس سے آزاد بھی، تو فن کے نازک مقام ہی کی نشان دہی کرتے ہیں اور بالواسطہ طور پر فرد کو تخلیقی سطح پر زندہ رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبال کا رویہ صوفیہ کے ’’فنا فی الذات‘‘ ہونے کے مسلک سے یقینا بہت مختلف ہے، کیونکہ یہ اصلاً چراغ سے چراغ جلانے کا وہ رویہ ہے جو فن کا طرئہ امتیاز ہے: نقش او گر سنگ گیرد، دل شود دل گر از یادش نسوزد، گل شود خ خ خ چوں دل از سوزِ غمش افروختیم خرمنِ امکاں ز آہے سوختیم خ خ خ آب دل ہا درمیانِ سینہ ہا سوزِ او بگداخت ایں آئینہ را خ خ خ شعلہ اش چوں لالہ در رگ ہائے ما نیست غیر از داغ او کا لائے ما اقبال کے ان اشعار سے ’’روبرو‘‘ ہونے کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک طرف نقش ہے، سوز ہے، شعلہ ہے اور دوسری طرف دل ہے جو ان سے اکتساب کرتا ہے اور نقش کو سنگ میں اُتارتا اور آئینے کو پگھلاتا ہے۔ یہ تجربہ بیک وقت مذہبی بھی ہے اور جمالیاتی بھی اور صوفی کے نفیِ خود کے تجربے سے ایک الگ ذائقہ رکھتا ہے۔ اقبال کے تصورِ بے خودی کے سلسلے میں دو اور نکتے بھی قابلِ غور ہیں۔ ایک یہ کہ جب اقبال فرد کو ملت سے ہم رشتہ ہونے کی تلقین کرتے ہیں تو دراصل اُسے وقت کے تینوں ابعاد کے تسلسل کا احساس بھی دلاتے ہیں اور یہ بات زمانی طور پر بے خود ہونے ہی کی ایک صورت ہے۔ ملت بنیادی طور پر تسلسلِ زماں کا دوسرا نام ہے کیونکہ ملت میں ماضی ، حال اور مستقبل باہم مربوط ہوتے ہیں۔ جب فرد اپنی انفرادیت کا اظہار کرتا ہے تو گویا زماں کے اس تسلسل کو توڑ کر ایسا کرتا ہے۔ اقبال نے فرد کو ’’بے خود‘‘ ہونے کی تلقین کی تو اسے ملت کی اس روح سے ہم آہنگ ہونے کی تحریک دی جو تسلسلِ زمان کا اعلامیہ ہے: دوش را پیوند با امروز کن زندگی را مُرغِ دست آموز کن خ خ خ رشتہ ایام را آور بدست ورنہ گردی روز کوروشب پرست خ خ خ سرزند از ماضیِ تو حال تو خیزد از حالِ تو استقبالِ تو خ خ خ مشکن از خواہی حیات لا زوال! رشتۂ ماضی ز استقبال وحال! موجِ ادراکِ تسلسل زندگی است! مے کشاں را شورِ قلقل زندگی است! اقبال کے نزدیک ’’تسلسل‘‘ دراصل ملت ہی کا دوسرا نام ہے۔ جب فرد اس تسلسل کی موج نہیں رہتا تو اس کا وجود معرضِ خطر میں پڑ جاتا ہے، گویا رشتۂ ماضی و استقبال و حال کی زنجیر کا ایک حلقہ بن جانا بے خودی کی وہ صورت ہے جس پر اقبال نے بار بار زور دیا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جہاں اقبال ایک طرف فرد کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ بے خودی کی گم آندھی سے اپنی خودی کی قندیل کو بچا کر رکھے تاکہ اس کی انفرادیت بر قرار رہے، وہاں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : کمالِ حیات ملیہ ایں است کہ ملّت مثلِ فرد احساسِ خودی پیدا کند۔ تولیدو تکمیل ایں احساس از ضبطِ روایات ملیہ ممکن گردد۔ مراد یہ ہے کہ خود ملت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی ’’بے خودی‘‘ سے ایک قدم باہر آ کر اپنی خودی کا اظہار کرے۔ صوفیا کے نزدیک بے خودی کا عالم آخر میں سالک کو اس ’’عظیم بے خودی ‘‘ سے ہم آہنگ کر دیتا ہے جو کائنات کے پسِ پشت موجود ہے۔ اور یوں گویافرد کی بے قراری اور موجود کا بکھرائو از خود ختم ہو جاتا ہے، یعنی کائنات کی کثرت ایک عظیم اور بے نام اور بے صورت’’وحدت‘‘ میںضم ہو جاتی ہے۔ مگر دیکھا جائے تو صوفیا کی یہ ’’وحدت‘‘ نام اور رنگ اور آواز اور روشنی سے ماورا ہونے کے باعث تخلیقی طور پر فعال نہیں۔ یہ لا محدود اور لازوال تو ہے مگر ساتھ ہی بے حرکت بھی، جب کہ اقبال نے کائنات کو ناتمام کہا ہے اور اس بات کا پورے تیقن کے ساتھ اظہار کیا ہے کہ دما دم صدائے کن فیکون آ رہی ہے اور کائنات ہر دم خلق ہوتی چلی جا رہی ہے۔ گویا اقبال کی ’’وحدت‘‘ یا ’’عظیم بے خودی‘‘ صوفیا کے تصورِ کائنات سے مختلف ہے کیونکہ فعالیت اس کا طرئہ امتیاز ہے نہ کہ انفعالیت۔ لہٰذا اگر اسے بے خودی کے بجائے ’’خودی‘‘ اور’’نفی ذات‘‘ کے بجائے ’’اثباتِ ذات‘‘ کا نام دیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ اقبال جب کہتے ہیں کہ کمالِ حیات ملّیہ یہ ہے کہ وہ احساسِ خودی سے بہرہ ور ہو تو دراصل ملت کو پوری کائنات کی خودی سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں۔ اس مقام پر ذہن میںیہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اقبال کے ہاں خودی اور بے خودی دراصل ایک ہی شے کے دو نام ہیں یا ایک ہی سکے کے دورخ ہوں۔ دیکھنا چاہیے کہ اصل بات کیا ہے! (۹) اقبال نے اپنے فارسی اور اردو اشعار میں خودی کو مختلف مفاہیم عطا کیے ہیں، مثلاً بعض اشعار میں انھوں نے خودی کو ذوقِ طلب ، ذوقِ تسخیر بلکہ عشق تک کہہ دیا ہے۔ دوسرے اشعار میں اسے خود آگاہی ، سرچشمۂ جدت و ندرت، سوزِ حیات کا سرچشمہ، ذوقِ تخلیق کا ماخذ اور بیداریِ کائنات قرار دیا ہے۔ اسی طرح بعض اشعار میں خودی کو یقین کی گہرائی سے عبارت اور ایمان کی روشنی سے منور پایا ہے۔ چنانچہ ان مختلف توضیحات کی روشنی میں اقبال کا تصورِ خودی خاصا گنجلک نظر آتا ہے، حالانکہ غائر نظر سے دیکھنے پر محسوس ہوگا کہ اقبال اپنے مسلک کے بارے میں کسی گومگو کے عالم میں نہیں ہیں۔ اقبال نے خودی کو جو مختلف مفاہیم عطا کیے ہیں، ان کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ خودی وہ ثمر ہے جو مسافر کو ایک طویل تگ و دو کے بعد حاصل ہوتا ہے اور جس کے حصول کے بعد اس کا ایمان تازہ اور یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ گویا ذوقِ تسخیر اور ذوقِ طلب ، جو عشق کے اوصاف ہیں، بجائے خود’’خودی‘‘ نہیں ہیں بلکہ خودی کی تکمیل یا حصول میں صرف ہوتے ہیں۔ چنانچہ صوفیا کے نزدیک جب ’’وصال‘‘ کا لمحہ وارد ہوتا ہے تو عشق کا جذبہ بھی معدوم ہو جاتاہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ عشق ذریعہ ہے، منزل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خودی کی یافت یا تکمیل کے بعد انسان جس یقین اور اعتماد سے بہرہ ور ہوتا ہے وہ بھی خودی کے مترادف نہیں بلکہ خودی کے معرض وجود میں آنے کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ صوفیہ نے اس مرحلہ کو ’’حق الیقین‘‘ کا مرحلہ کہا ہے، مگر حقیقی شے خودی ہے جو اصلاً سرچشمۂ جدت و ندرت اور ذوقِ تخلیق کا دوسرا نام ہے۔ اسے بیداریِ ذات کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے خودی کے اسی تخلیقی پہلو پر زور دیا ہے۔ صوفیا کے نزدیک عشق کی تگ و تاز میں ’’وصال‘‘ کا لمحہ ’’بے خودی‘‘ کا وہ لمحہ ہے جس میں سالک کی فراق زدہ روح اپنے ’’خود‘‘ یا وجود سے نجات پا کر ذاتِ لازوال میں اس طور ضم ہو جاتی ہے جیسے قطرہ سمندر میں اور پروانہ شمع میں گم ہو جاتا ہے یا بعض صوفیانہ مسالک کے مطابق وصال کا لمحہ دراصل ’’پہچان‘‘ کا لمحہ ہے۔ جب صوفی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ قطرہ کبھی تھا ہی نہیں، محض ایک فریبِ نظر میں مبتلا ہو کر خود کو قطرہ سمجھ بیٹھا تھا تو معاً اس کو اپنے سمندر ہونے کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے اور اس کی تلاش کا سلسلہ از خود ختم ہو جاتا ہے۔ گویا صوفی قطرے سے سمندر تک سفر نہیں کرتا بلکہ اپنی اُس حیثیت کی بازیابی کرتا ہے جو دراصل سمندر کی حیثیت تھی۔ لہٰذا سارا قضیہ ’’فریبِ نظر‘‘ کا ہے اور بس! بہرکیف صورت کوئی بھی کیوں نہ ہو صوفی کے ہاں وصال کی حالت ’’بے خودی‘‘ یا جذب کا وہ عالم ہے جس میں وہ یا تو روحِ ابد سے ہم کنار ہوتا ہے یا روح ابد کی بازیابی کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں کثرت اوربکھرائو کی صورت باقی نہیں رہتی اور صوفی کو اپنی وحدت پر حق الیقین ہو جاتا ہے۔ پروانے اور شمع کی تمثیل کو دوبار بروئے کار لائیں تو یہ کہنا ممکن ہے کہ اب واپسی کی کوئی صورت باقی نہیں رہی کیونکہ پروانے نے خود کو شمع میں جلا کر اپنی واپسی کے امکانات خود ہی ختم کر دیے ہیں مگر اقبال کے ہاں بے خودی کا یہ عالم نظر نہیں آتا۔ وہ بے خودی کے قائل ضرور ہیں کیونکہ حُسنِ لازوال کے پرتو سے آشنا ہونے پر ’’بے خودی‘‘ کے عالم کا طاری ہو جانا ایک بالکل قدرتی بات ہے۔ یا اس بات کو یوں کہہ لیجیے کہ بے خودی کا عالم خود سے اُوپر اٹھ کر لا محدود و لازوال کائنات سے ہم آہنگ ہونے کے مترادف ہے اور اقبال اسے روحانی بیداری کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں، مگر ساتھ ہی وہ اس ’’بے خودی‘‘ کے عالم میں ’’خودی‘‘ کی پرورش کرنے کے بھی قائل ہیں، بلکہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ بے خودی کے عالم کو مَس کرنے ہی سے خودی کی تکمیل ممکن ہے۔ یہ چراغ سے چراغ جلانے کا وہ عمل ہے جو اصلاً ایک جمالیاتی تجربہ ہے نہ کہ صوفیانہ! اب صورت کچھ یوں اُبھرتی ہے کہ اقبال کے ہاں بے خودی وہ زمین ہے جس میں سے خودی کا تخم پودے کی صورت میں برآمد ہو کر برگ و بار لاتا ہے۔ اس کے برعکس صوفیا کے ہاں بے خودی وہ سمندر ہے جس میں قطرہ جذب ہو کر خود سمندر بن جاتاہے۔ فرق بہت واضح ہے۔ تصوف میں بے خودی منزل ہے، جبکہ اقبال کے ہاں خودی کی یافت اور تکمیل ہی اصل شے ہے یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ تصوف ایک ایسا سکہ ہے جس کے دونوں اطراف پر لفظ ’’بے خودی‘‘ کھُدا ہے جب کہ اقبال کے ہاں اس سکے پر ایک طرف ’’بے خودی‘‘ اور دوسری طرف ’’خودی‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں۔ بے خودی وہ قعرِ عمیق، وہ وسعتِ بے کنار یا ژنگ کے الفاظ میں وہ اجتماعی لاشعور ہے جس میں امکانات ہی امکانات موجود ہیں، جب کہ خودی وہ بہاریں لمحہ ہے جو بے خودی سے قوت حاصل کرتا ہے۔ بے خودی اجتماعیت کا اعلامیہ ہے، خودی انفرادیت کا چہرہ ہے۔ صوفی جب بے خودی کے عالم میں جاتا ہے تو اپنی انفرادیت کوتج کر اجتماعیت میں ضم ہو جاتا ہے۔ اقبال جب بے خودی کو مَس کرتے ہیں تو اس سے قوت حاصل کرکے خودی کو نکھارتے اور سنوارتے ہیں۔ بے خودی ایک ایسی نفسی کیفیت ہے جس میں کوئی تغیر یا دوئی موجود نہیں، لیکن اقبال بے خودی کے مقابل خودی کو قائم کرکے خوشہ چینی کے عمل کا منظر دکھاتے ہیں بلکہ بے خودی کے لمس سے صورتوں کو تشکیل دیتے ہیں اور یوں ایک ایسے تخلیقی عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جو کائنات کے تخلیقی عمل سے مشابہ ہے۔ قومی سطح پر اقبال کے اس تصورِ خودی کا ایک خاص مفہوم بھی ہے۔ اقبال محسوس کررہے تھے کہ مسلمان کی زبوں حالی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ اپنے ماضی سے منقطع ہو گیا تھا۔ ماضی سے ان کی مراد اسلام کا وہ دورِ زرّیں تھا جس میں ملتِ اسلامیہ فعال حیثیت رکھتی تھی گویا ملت اسلامیہ کے تصور سے نا آشنا ہونا ’’بے خودی‘‘ کے عالم سے نا آشنا ہونے کے مترادف تھا۔ مسلمان اس لیے پیچھے رہ گیا تھا کہ وہ اس قوت سے فیض یاب نہیں ہو رہا تھا جو اجتماع کی قوت تھی۔ اور یہ اس لیے کہ اپنے ماضی سے کٹ کر مسلمان نے خود کو تنہا، خود غرض بلکہ خود پرست بنا لیا تھا اور یوں فیض کے سرچشموں سے محروم ہو گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مسلمان تنہا ہونے کے باوصف تخلیقی طور پر فعال نہیں رہا تھا، یعنی یہ کہ وہ اپنی انفرادیت سے دست کش ہو کر محض ایک بے نام سی اکائی میں تبدیل ہو گیا تھا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی تھی کہ اُسے ملت سے دوبارہ منسلک کیا جائے تاکہ وہ ملت سے قوت حاصل کرکے اپنی خودی کو بیدار کرے اور ایک فعال اکائی کے رُوپ میں سامنے آ سکے۔ چنانچہ ایک طرف تو اقبال نے بے خودی کا تصور دیا جو قومی سطح پر ملت سے ہم رشتہ ہونے کا تصور تھا نیز تخلیقی سطح پر کائنات کے بے نام اور بے صورت تخلیقی مواد سے آشنا ہونے کا اقدام تھا۔ دوسری طرف ’’خودی‘‘ کا تصور بخشا جو مسلمان کو قومی سطح پر فعال بنانے نیز اسے ایک تخلیق کار کی سطح پر فائز کرنے کی ایک کاوش تھی۔ اقبال نے تخلیق کار کی اس حیثیت کو اختیار کرنے والے شخص کو مختلف ناموں سے پکارا ، جیسے بندئہ مومن، مردِ آفاقی، قلندر وغیرہ۔ فن کے تخلیقی عمل میں یہ وہی مقام ہے جس پر فن کار فائز ہوتا ہے۔ اقبال کی ’’خودی‘‘ دراصل تخلیق کا ایک لمحہ ہے، تحلیل یا تجزیے کا نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کھڑے ہو کر انسان ایک نئی دنیا کو خلق کرتا ہے۔ جس طرح فن میں تخلیق کا لمحہ ایک داخلی بیداری سے عبارت اور امکانات سے لبریز ہوتا ہے بالکل اسی طرح خودی بھی شگفتنِ کائنات کا دوسرا نام ہے اور اپنے حرکی عناصر کے باعث تخلیق کاری پر پوری طرح قادر ہے۔ اقبال نے اس کے بارے میں لکھا ہے: یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے؟ بیداریِ کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند اندھیرے اُجالے میں ہے تابناک من و تُو میں پیدا من و تُو سے پاک ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی! ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی تجسس کی راہیں بدلتی ہوئی دمادم نگاہیں بدلتی ہوئی سُبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے کرن چاند میں ہے، شرر سنگ میں یہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ میں اسے واسطہ کیا کم و بیش سے نشیب و فراز و پس و پیش سے ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے خ خ خ خودی کی ہے یہ منزل اوّلیں مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر خ خ خ ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخیِ فکر و کردار کا یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار اقبال کی خودی جس قوت سے لیس ہے اسے برگساں کے الفاظ میں ’’جوشِ حیات‘‘ اور تصوف کی اصطلاح میں ’’عشق‘‘ کا نام ملنا چاہیے۔ عشق سالک کو بے خودی کے اس دیار میں لے جاتا ہے جس سے آشنا ہو نے پر وہ خود بھی خودی کی صفت سے لیس ہو جاتا ہے۔ گویا وہ ایک ایسے لمحے سے متعارف ہوتا ہے جو ’’ہونے اور نہ ہونے ‘‘ کے درمیان ہے، ازل اور ابد کے بیچ اور نشیب و فراز سے ماورا ہے اور جس کا کام یہ ہے کہ وہ خودی کو خاکِ آدم میں صورت پذیرکرے یعنی نئے نقش و نگار بنا کر کائنات کی بوقلمونی اور تنوع میں اضافہ کرے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس سفر میں پہلا مرحلہ تو وجود اور اس کی تمام تر رنگا رنگی کو عبور کرنے کا ہے، مگر آخری مرحلہ پھر سے ایک دنیائے رنگ و نور کو وجود میں لانے کا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب وجود اور اس کے مظاہر گھس پٹ کر بیضویت کے حامل ہو جاتے ہیں اور ان پر جمود مسلط ہو جاتا ہے تو انسان کے تخلیقی باطن میں اس کوہِ گراں کو توڑنے اور پھر سے ایک نئی دنیا کو خلق کرنے کی آرزو کروٹیں لینے لگتی ہے یہ آرزو عشق کی صورت میں بے پناہ رفتار کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے اُس بے نام اور بے صورت جہان میں پہنچ جاتی ہے جو ’’بے خودی‘‘ کا مرحلہ ہے اور کائنات کے بے صورت تخلیقی مواد سے مشابہ ہے۔ اس بے خودی کے لمس سے یہی آرزو ایک تخلیق کار (یعنی مردِ مومن ، قلندر) کے رُوپ میں ایک ایسے نئے جہاں کو خلق کرنے لگتی ہے جو سابقہ جہاں سے مختلف ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل کی یہ ساری صورت حال اقبال کے مندرجہ بالا اشعار سے مترشح ہے۔ اقبال کے تصورِ خودی کے سلسلے میں آخری نکتہ یہ ہے کہ اس کی یافت اور تکمیل میں عقل اور عشق دونوں حصہ لے سکتے ہیں۔ مگر عقل کو بروئے کار لانے سے خودی کا جو پیکر اُبھرتا ہے وہ عشق سے متشکل ہونے والی ’’خودی‘‘ سے مختلف ہوتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نوعیت کے اعتبار سے وہ خودی زیادہ مکمل اور تخلیقی اعتبار سے زیادہ فعال ہوتی ہے جو عشق کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتی ہے۔ علم سے حاصل ہونے والی خودی میں ہمہ دانی اور ہمہ بینی اور قدرے پست سطح پر نخوت اور تکبر پیدا ہوتا ہے، مگر عشق سے حاصل ہونے والی خودی فقر کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے، نیز صورِ اسرافیل بن کر ایک نئے جہان کو وجود میں لانے کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ بات اصلاً ایک تخلیقی عمل کے سوا اور کیا ہے؟ خود اقبال عشق سے حاصل ہونے والی خودی ہی کے قائل ہیں: جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہر عشق ہے خودی آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی! (۱۰) اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تصوف میں عشق کا سفر پروانے کے سفر کے مماثل ہے جو شمع کی روشنی کی ایک جھلک پانے پر شروع ہوتا اور اُس لمحے انجام کو پہنچتا ہے جب پروانہ خود کو شمع کی آگ میں جلا کر روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ درمیانی مدارج میں سے ایک طواف ہے جس سے مراد یہ ہے کہ پروانے کا سفر دائرے میں طے ہوتا ہے اور جیسے جیسے طواف کی رفتار تیز ہوتی ہے عاشق اپنے وجود کے فاضل بوجھ سے دست کش ہوتا جاتا ہے۔ عشق میں اس مرحلے کو ’’قربانی‘‘ کا مرحلہ کہنا چاہیے۔ پھر جب طواف کی رفتار زندگی کی عام رفتار سے تجاوز کر جاتی ہے تو عاشق ایک دھماکے کے ساتھ طواف کی لکیر کو توڑ کر شمع کی طرف لپکتا ہے۔ یہ جَست کا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد وہ خود کو روشنی میں مدغم کرکے قطرے کی طرح سمندر میںمل جاتا ہے اور یوں ابدیت حاصل کر لیتا ہے۔ اس حالت کو نروان یا بے خودی کا نام ملا ہے۔ مگر اقبال کے سفرِ عشق کی کہانی اس سے قدرے مختلف ہے۔ اقبال کا ’’عاشق‘‘ بھی پروانے ہی کی طرح شمع کو دیکھ کر اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے، پروانے ہی کی طرح شمع کے گرد طواف کرتا ہے اور پھر اپنے فاضل بوجھ سے دست کش ہو کر پروانے ہی کی طرح دائرے کی ’’ازلی و ابدی ‘‘ لکیر کو توڑتا ہے مگر اس کے بعد وہ شمع کے شعلے میں بھسم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے روبرو کھڑے ہو کر نہ صرف اس سے اکتساب نور کرتا ہے بلکہ اس نور کو صورت پذیر کرکے ایک تخلیقی عمل کامظاہرہ بھی کرتا ہے۔ گویا اقبال کا ’’عاشق‘‘ بے خودی کے عالم کو مَس تو کرتا ہے مگر اس میں جذب نہیں ہوتا۔ چنانچہ ’’روبرو‘‘ کھڑے ہونے کے عالم میں وہ نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھتا ہے بلکہ ہوش و حواس کو بھی قائم رکھتا ہے۔ وہ شعور اور لاشعور کے سنگم پر کھڑے ہو کر ایک فن کار کی طرح نورِ ازل کی روشنی سے آب و گل کی دنیا کو ایک نئے سانچے میں ڈھالتا ہے اور ایک نئی صورت میںدوبارہ خلق کرتا ہے۔ چونکہ اس حالت میں عاشق کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے اس لیے اقبال نے اسے مردِ قلندر اور بندئہ مومن کا نام دیا ہے جس کی تحویل میں لاشعور بھی ہے اور شعور بھی، عشق بھی اور عقل بھی اور جو ایک فن کار کی طرح بے خودی کے عالم سے مَس ہونے کے باوجود اپنی ذات ، اپنی خودی سے دست کش نہیں ہوتا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وہ لامحدود یت کے ذائقے کو چکھ کر اپنی محدود شخصیت میںکشادگی ، وسعت اور توانائی پیدا کر لیتا ہے۔ اقبال کے نزدیک جب تک فرد دائرے کی لکیر کو توڑ کر تخلیقی سطح کو چھونے میںکامیاب نہیں ہوتا، اس کی حیثیت کنویں کے بیل سے مختلف نہیں۔ کل اور جز باہم مربوط ہیں۔ کُل سے مَس کیے بغیر جُز تخلیقی طور پر فعال نہیں ہو سکتا اور جُز کو آزادی سے محروم کرکے ’’کل‘‘ صدائے کن فیکون سے محروم رہتا ہے: صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے حواشی 1- Iqbal, Reconstruction, P, 143 ۲- ایضا ً ، ص ۱۱۳۔ ۳- ڈاکٹر میر ولی الدین، ’’اقبال کا نظریہ عشق و عقل‘‘از اقبالِ باکمال، ص۳۶۰۔ ۴- سر عبدالقادر، دیباچہ، بانگ درا از کلیات اقبال اردو، ص ۱۵۔ ۵- ڈاکٹر یوسف حسین ، عشق اور عقل بحوالہ اقبالِ باکمال، ص ۳۶۷۔ ۶- ایضاً ، ص ۳۸۵۔ ۷- وزیر آغا، نئے مقالات، ص ۷۶۔ ۸- رفیع الدین ہاشمی، خطوط اقبال، ص ۱۶۵۔ ۹- اقبال، پیام مشرق ، (ایڈیشن ۱۹۴۴ئ) دیباچہ ، ص ک۔ ۱۰- خطوط اقبال، ص ۱۱۷۔ ۱۱- اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ: ترجمہ ، سید نذیر نیازی، ص ۱۱۔۱۳۔ 12- Spengler, Decline of the West, PP.183-86. 13- Iqbal, Reconstruction, P. 4. ۱۴- ایضاً ، دیباچہ۔ ۱۵- ایضاً ، ص ۲۔ ۱۶- ایضاً ، ص ۳۔ ۱۷- محمد رفیع الدین ، حکمت اقبال ، ص ۲۳۰۔ ۱۸- سید جعفر طاہر، ’’زمین اور اہل زمین کی اہمیت قرآن میں‘‘ مطبوعہ اوراق، سال نامہ ۱۹۶۷ئ، ص ۱۲۱۔ 19- Iqbal, Reconstruction, P. 9. ۲۰- تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، ترجمہ: سید نذیر نیازی ، ص ۱۰۴۔ 21- Iqbal, Reconstruction, P. 67. 22- Briffault, Making of Hummanity, P. 190 (Ref. Iqbal. Reconstruction, P.124) ۲۳- ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، اقبال کا تصور زمان و مکان، ص ۹۵، ۹۶۔ 24- Iqbal, Reconstruction, P. 126. ۲۵- ایضاً ، ص ۱۳۴۔ ۲۶- ایضاً، ص ۱۳۴۔ ۲۷- ابن خلدون ، مقدمہ ، ترجمہ: مولانا سعد حسن خان یوسفی، ص ۱۹۷۔ ۲۸- وزیر آغا ، تخلیقی عمل ، ص ۱۱۴۔ 29- Alfred Guillaumine, Islam, P. 6. ۳۰- وزیر آغا ، تخلیقی عمل، ص ۴۱۔۴۲۔ 31- Iqbal, Reconstruction, P. 121. ۳۲- ایضاً ، ص ۱۲۰۔ ۳۳- ایضاً، ص ۱۷۵۔ ۳۴- ایضاً ، ص ۱۸۵۔ 35- Margarat Smith, Readings from the Mystics of Islam, P. 4. ۳۶- ایضاً، ص ۴۔ ۳۷- ایضاً، ص ۲۰۔۲۱۔ 38- Sawami Rama Tirtha, In Woods of God Realization, 1,59-60. ۳۹- وزیر آغا ، تخلیقی عمل، ص ۹۔ ۴۰- میکش اکبر آبادی ،نقدِ اقبال، ص ۷۸۔ ۴۱- سید عابد علی عابد، تلمیحات اقبال، ص ۱۵۰۔۱۵۱۔ ۴۲- ڈاکٹر سید عبداللہ، مسائل اقبال، ص ۱۳۳۔ ۴۳- مارگریٹ سمتھ ، کتاب مذکور، ص ۶۶-۶۷۔ ۴۴- مولانا صلاح الدین احمد، تصوراتِ اقبال، ص ۲۲۴۔ ۴۵- ایضاً ، ص ۳۳۵-۳۳۶۔ ۴۶- ایم ۔ ایم شریف، ’’جمالیاتِ اقبال کی تشکیل‘‘،(ترجمہ سجاد رضوی) از فلسفہ اقبال، مرتب بزم اقبال، ص۲۶۔ ۴۷- یوسف حسین، ’انسان کامل‘ از اقبال باکمال، ص ۵۲۲۔ ۴۸- عزیز احمد ، اقبال ۔۔۔ نئی تشکیل، ص ۳۰۳۔ ۴۹- مولانا صلاح الدین احمد، کتاب مذکور، ص ۳۴۲۔۳۴۳۔ 50- Ardis Whitman, The Art of Meditation,The Reader's Digest, October 1973, P.76. 51- Robert H. Thouless, The Psychology of Religion, P. 159. 52- Iqbal, Reconstruction, P. 87. ۵۳- تھائولیس، کتاب مذکور، ص ۱۱۵۔ ۵۴- مارگریٹ سمتھ، کتاب مذکور ، ص ۶۵۔۶۹۔ 55- Iqbal, Reconstruction, P. 87. ۵۶- مارگریٹ سمتھ، کتاب مذکور، ص ۴۵۔ ۵۷- ایضاً ، ص ۴۸۔ 58- Jean Wahi, A Short History of Existentialism, P. 4-6. 59- H. J. Blackham, Six Existentialist Thinkers, P. 11. 60- Rolo May and others, Existence, P. 25. ۶۱- جین وہل، کتاب مذکور، ص ۴۔ ۶۲- وزیر آغا، تخلیقی عمل، ص ۱۸۹۔ ۶۳- اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، (ترجمہ: سید نذیر نیازی)، ص ۱۰۵۔ ۶۴- محمد رفیع الدین ، حکمت اقبال، ص ۱۷۸۔ ۶۵- وزیر آغا، اردو شاعری کا مزاج، ص ۱۲۔ ۶۶- ڈاکٹر سید عبداللہ، کتاب مذکور، ص ۱۳۷۔ ۶۷- سلطان الطاف علی، ابیات باہو، ص ۷۱۔ ۶۸- و۔ ع ۔ خ۔ رادھے شیام کے نام، ص ۴۷۔ ۶۹- ایضاً ، ص ۳۲۔ ۷۰- ڈاکٹر سید عبداللہ ، کتاب مذکور، ص ۱۳۵-۱۳۶۔ خ خ خ ۳ اختتامیہ بنیادی طور پر معاشرتی نظام دو طرح کے ہیں۔۔۔ ایک وہ جس میں افراد ایک دوسرے کے شانوں سے شانے جوڑ کر کھڑے ہوتے ہیں، یعنی فرد اور فرد کے مابین فاصلہ موجود نہیں ہوتا۔ چنانچہ ’’مقابلے‘‘ کی فضا از خود منہا ہو جاتی ہے اور تمام افراد کو ایسے مواقع اور سہولیات میسر آ جاتی ہیں جن کے نتیجے میں مساوات کا نظام قائم ہو جاتا ہے، لیکن چونکہ معاشرے کا ارتقا ’’فرد‘‘ کو بروئے کارلائے بغیر ممکن نہیں لہٰذا جب ’’فرد‘‘ کی حیثیت قطعاً ثانوی ہو جائے تو کچھ عرصے کے بعد اس قسم کے معاشرے میں زوال اور کہولت کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں۔ پہلے افراد کا ذہنی اور جسمانی معیار متاثر ہوتا ہے، پھر وہ معاشرہ جو ان افراد کے مجموعے کا نام ہے بحیثیت مجموعی حرکی قوت سے محروم ہونے لگتا ہے، تا آنکہ محض شہد کا ایک چھتّہ بن کر فطرت کے دائرے کے اندر محبوس ہو جاتا ہے۔ معاشرے کی دوسری قسم وہ ہے جس میں فرد اور فرد کے درمیان نمایاں فاصلہ موجود ہوتا ہے، یعنی فرد کو پورے مواقع میسر آتے ہیں جن میں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے دوسرے افراد پر سبقت حاصل کرتا ہے۔ ایسے معاشرے میں مساوات کے بجائے طبقات اور افراد کا فرق سامنے آتا ہے۔ جب اس قسم کے معاشرے میں رہنے والے افراد کا درمیانی فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے(اور فی زمانہ یہ فاصلہ دولت کی غیر مساوی تقسیم کے باعث زیادہ ہو رہا ہے) تو فرد کے ہاں تنہائی اور بے بسی اور زندگی کے سیل رواں سے کٹ جانے کا احساس بڑی شدت سے اُبھرتا ہے اور وہ نیو راتی کیفیت جنم لیتی ہے جو ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نتیجتاً پہلے فرد اور اس کے بعد پورا معاشرہ ذہنی انجماد کی نذر ہو جاتا ہے اور استحصال کی روایت بالآخر خون چوسنے والی ایک ایسی مخلوق کو سامنے لے آتی ہے جو معاشرے کے بجائے صرف اپنے طبقے کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ زراعت کے نظام میںبھی کاشت کاری کے دو طریق مروّج ہیں۔ ایک طریق یہ ہے کہ کھیت میں زیادہ سے زیادہ پودے لگائے جائیں، اس طور پر کہ پودوں کا درمیانی فاصلہ بہت کم ہو اور وہ زمین سے ایک جیسی خوراک حاصل کر سکیں۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ کھیت میں پودوں کی تعداد نسبتاً کم ہو، پودے اور پودے کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو تاکہ ان میں سے ہر پودا اپنی صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ خوراک حاصل کر کے اپنی نشو ونما کر سکے، گویا مقابلے کی فضا میں نشو ونما کی تحریک ملے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اشتراکی ممالک میں زراعت مقدم الذکر طریق اور سرمایہ دار ممالک میں زراعت کا مؤخرالذکر طریق زیادہ مقبول ہے۔ یہ تقسیم ان دونوں معاشروں کے مزاج کی تقسیم کے عین مطابق بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک خاص طرح کی آب و ہوا، آبادی میں اضافہ اور دیگر عوامل کے تحت مشرقی ممالک میں ازمنۂ قدیم ہی سے فرد اور فرد کا درمیانی فاصلہ بہت کم تھا۔ ایک منضبط معاشرتی نظام نے کردار (Character)کو قریب قریب منہا کر دیا تھا اور اس کے بجائے مثالی نمونے (Type)کو اُبھار دیا تھا۔مشترکہ خاندانی نظام نے شخصی جائداد کے تصور کو زیادہ اُبھرنے نہیں دیا تھا اور افراد گویا ایک عظیم الشان مشین کے پُرزے بن کر رہ گئے تھے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سمیریا اور موہنجو ڈرو، ہڑپہ کی تہذیبیں ایک مشینی نظام کار ہی سے مشابہ تھیں۔ پھر ایران اور ہندوستان میں ذات پات کا تصور، دیہات کاخود کفیل نظام اور مشترکہ خاندان کی روایت ۔۔۔ ان سب نے بھی افراد کے درمیانی فاصلے کو کم کر دیا تھا۔ لہٰذا اگر دور جدید میں سوشلزم اور مساوات کا تصور مشرقی ممالک کو زیادہ مرغوب ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کا قدیم معاشرتی نظام اسے بآسانی قبول کر سکتا ہے۔دوسری طرف مغربی ممالک میں فرد اور فرد کے درمیان فاصلہ ہمیشہ قائم رہا۔ فرد اور معاشرے کا تصادم بھی جاری رہا اور معاشرتی ہمہ اوست کے بجائے فوق ا لبشر کو وجود میں لانے کی خواہش ہمیشہ جوان رہی اور یہ سب کچھ مغربی ممالک کے اُس مزاج کے عین مطابق تھا جس کی تشکیل میں وہاں کی آب و ہوا اور نان ونمک نے بھرپور حصہ لیا تھا چنانچہ ان ممالک میں سرمایہ داری کا نظام مقبول ہوا جو فرد کی صلاحیتوں کا اثبات کرتا اور مقابلے کی فضا کو جنم دیتا ہے۔ اقبال نے ان دونوں نظاموں کا بنظرِ غائرمطالعہ کیا تھا۔ ان کے سامنے ان دونوں کی خوبیاں بھی تھیں اور نقائص بھی۔ انھیں علم تھا کہ جب فرد اور فرد کا درمیانی فاصلہ باقی نہ رہے تو معاشرہ ایک خود کار مشین میں ڈھل کر ارتقا کے پورے سلسلہ سے منقطع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب فرد اور فرد کا فاصلہ بہت زیادہ ہو جائے تو بکھرنے اور لخت لخت ہونے کا عمل وجود میں آتا ہے اور ایک ایسا استحصالی نظام جنم لیتا ہے جس میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہے۔ اقبال اس صورت حال کے بھی خلاف تھے۔ پھر انھیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ مشرقی ممالک کا اندازِ فکر بحیثیت مجموعی استخراجی ہے، یعنی ان ممالک میں پروان چڑھنے والے معاشروں کا فرد ہمیشہ نہ صرف مطیع ہونے میں عافیت محسوس کرتا ہے بلکہ ’’خوشہ چینی‘‘ کے عمل میں بھی مبتلا رہتا ہے۔ عشق کا رویہ بھی ایسے معاشروں ہی میں ایک روایت بنتا ہے جن میں رہنے والا فرد خود کو ’’کل(معاشرہ، جوہر وغیرہ) کا دست نگر محسوس کر رہا ہو اور اس کے سامنے دستِ سوال پھیلانے کو اپنے لیے سعادت قرار دے، مگر دوسری طرف مغربی ممالک کا انداز فکر استقرائی ہے، یعنی فرد کسی ’’کل‘‘ سے اخذ و اکتساب کی طرف مائل ہونے کے بجائے اپنی مخفی صلاحیتوں اور اوصاف کے بل بوتے پر پوری کائنات سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اس معرکے میں بیشتر اوقات عقل و خرد پر بھروسہ کرتا ہے۔ اقبال دیکھ رہے تھے کہ یہ دونوں نظام اور رویے انتہا پسندی کے مظہر تھے۔ لہٰذا انھوں نے ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھا جس میں دونوں کے مزاج یک جا ہوں، یعنی استخراجی اندازِ فکر کے ساتھ استقرائی اندازِ فکر اور عشق کے ساتھ عقل مل جُل کر ارتقا کی طرف گامزن دکھائی دیں۔ اقبال کے نزدیک یہی اسلامی تہذیب کا لبِ لباب بھی تھا جسے مسلمانوں نے بہت سے بیرونی اثرات کے تحت بھُلا دیا تھا مگر جس کی باریابی ہندی مسلمانوں کی ترقی کا واحد علاج تھا۔ لہٰذا اقبال کے نظامِ فکر میں عشق اور خرد کی کہانی کچھ یوں مرتب ہوئی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سفر کے دو مراحل ہیں۔ ابتداً عقل کا تحلیلی اور تجزیاتی عمل ہے جو عشق کے وجدانی عمل میںضم ہو جاتا ہے۔ عشق دائرے میں حرکت کرتاہے اور اس کی رفتار لمحہ بہ لمحہ تیز سے تیز ہوتی چلی جاتی ہے تا آنکہ نراج یا بے ہیئتی کی وہ صورت وجود میں آتی ہے جسے خود فراموشی کا نام ملنا چاہیے۔ اسی عالم میں دائرے کی لکیر ٹوٹتی ہے اور عشق کی رفتار کائنات کی رفتار سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ یہ لمحہ تخلیق کا لمحہ ہے جس میں انسان بے ہیئتی کے عالم سے ایک نئی ہیئت کو جنم دیتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اپنے شعور اور بصیرت کو بھی بروئے کار لاتا ہے۔ گویا ابتدائی مراحل میں عقل اور شعور کے جو عناصر اس کی ذات میں جذب ہوئے تھے وہ انتہائی مراحل میں آگہی کی بُنت میں اس طور شامل ہو گئے کہ بے خودی کے باوصف خودی وجود میں آگئی اور انسان کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ اپنی ذات کو نہ صرف ’’بے خودی‘‘ میں کھو جانے سے باز رکھے بلکہ اسے کائنات کی تخلیقی قوت کے سامنے ایک متوازی قوت کے طور پر اُبھار دے۔ غور کیجیے تو یہ ساری کہانی فن کے تخلیقی عمل کی کہانی ہی سے مشابہ ہے۔ تخلیقی عمل اصلاً تین مراحل پر مشتمل ہے۔ طوفان کا مرحلہ جب ذات کے اندر تصادم کا آغاز ہوتا ہے، نراج کا مرحلہ جب بے ہیئتی کا تسلط قائم ہو جاتا ہے اور جست کا مرحلہ جب فن کار وژن ، آہنگ اور میڈیم (Medium)کو بیک وقت بروئے کار لا کر بے ہیئتی کو ہیئت مہیا کرتا ہے اور ایسا کرکے خود کو سانس رُکنے کی کرب ناک کیفیت سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔۱؎ عشق میں طوفان کا مرحلہ وہ ہے جب اس کے طواف کی رفتار یک لخت تیز ہو کر کائنات کے مظاہر کی عام رفتار سے تجاوز کر جاتی ہے۔ غور کیجیے کہ کائنات کے جملہ مظاہر ایک ازلی و ابدی طواف میں مشغول ہیں۔ انسانی زندگی بچپن سے عہدِ پیری تک ایک دائرے ہی میں سفر کرتی ہے۔ پھر نطفے سے انسان جنم لیتا ہے اور نطفے ہی میں ڈھل جاتا ہے۔ اسی طرح بیج اور درخت کا دائرہ بھی ازلی و ابدی ہے۔ موسموں کو لیجیے کہ پورا سال چار موسموں کا ایک دائرہ بناتا ہے۔ اس کے بعد نظامِ شمسی کو دیکھیے کہ سورج کے گرد سیاروں کا طواف جاری ہے۔ خود سورج کہکشاں کا طواف کر رہا ہے اور کہکشاں اپنے محور پر گھوم رہی ہے۔ اسی طرح ان گنت کہکشائیں کسی ایسے نقطے کے گرد رقص کناں ہیں جس کی کوئی نہایت نہیں ہے۔ گویا کائنات کے سب مظاہر اپنی اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ دائرہ در دائرہ طواف کرتے چلے جا رہے ہیں، یعنی کسی کے عشق میں مبتلا ہیں۔ انسانی زندگی کی رفتار سیاروں کی رفتار سے مختلف اور سیاروں کی رفتار سورجوں اور پھر کہکشائوں کی رفتار سے مختلف ہے۔ تاہم یہ سب مظاہر اپنی اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ طواف کرنے پر مجبور ہیں کہ یہی ان کا نوشتہ تقدیر ہے۔ مگر کیا دائرے کا یہ سفر قید و بند کی صورت نہیں؟۔۔۔ بات یہ ہے کہ دائرے کا یہ سفر اس وقت تک قید و بند ہے جب تک اس کی رفتارکم ہے ، لیکن اگر اس کی رفتار تیز ہو جائے تو ایک مقام پر یہ دائرے کی لکیر کو توڑ کر آزاد ہو جاتا ہے۔ کائنات میں سب سے زیادہ رفتار روشنی کی ہے، یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ! جب کوئی وجود اس رفتار سے سرگرمِ عمل ہوتا ہے تو اس کی ’’موجودیت‘‘ از خود ختم ہو جاتی ہے اور وہ خود نور یعنی قوت بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب رفتار نُور کی رفتار سے کم ہوتی ہے تو قوت (نُور) از خود وجود میں ڈھلنے اور نظر آنے لگتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو نظر آنے والی کائنات تخلیقی سطح کا منظر پیش نہیں کرتی کیونکہ اس کی رفتار نُور کی رفتار سے کم تر ہے۔ کائنات کی تخلیقی سطح وہ ہے جہاں اس نے نُور کی رفتار کو اختیار کرکے وجود کے دائرے کو توڑ دیا ہے۔ جب رفتار اتنی زیادہ ہو جائے کہ وجود کا دائرہ ہی ٹوٹ جائے تو پھر دائرے کا مرکز اس کے محیط سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے اور ایک ایسا عالم وجود میں آ جاتا ہے جو کائنات کے اس بے نام اور بے صورت تخلیقی مواد پر مشتمل ہے جسے سائنس میں Ambiplasma کا نام ملا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا انتہائی رفتار اور انتہائی سکون ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ لہٰذا پوری کائنات اپنی تخلیقی سطح پر بیک وقت انتہائی تیز رفتار بھی ہے اور انتہائی پُر سکون بھی۔ اس پس منظر میں صوفی کا عارفانہ تجربہ اپنے صحیح خدو خال کے ساتھ نظر آئے گا کہ جب صوفی کا عشق اُسے وجود کی قید سے رہائی بخشتا ہے تو وہ نُور کے اس عالم سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے جو بیک وقت رفتار بھی ہے اور ٹھہرائو بھی۔ مگر اقبال کا رویہ صوفیانہ نہیں، جمالیاتی ہے۔ اقبال بھی صوفی کی طرح عشق کی بے پناہ رفتار کے قائل ہیں تاکہ وہ ’’نُور‘‘ کی جھلک پا سکیں، لیکن اس کے بعد وہ اس نُور میں جذب نہیں ہوتے بلکہ اس سے اکتساب کرکے اپنے اندر کی شمع کو روشن کرتے ہیں اور ایک ویسے ہی تخلیقی عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسا کہ کائنات کی تخلیقی سطح پر ہمہ وقت جاری ہے اور جسے خود اقبال نے ’’صدائے کن فیکوں‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ گویا اقبال کے ہاں جب عشق کی رفتار کائنات کی تخلیقی سطح کی رفتار سے ہم آہنگ ہو تی ہے تو اقبال مردِ مومن (فن کار) کے ذریعے اس ’’نُور‘‘کی تجسیم کرتے ہیں، یعنی اسے صورتوں میں ڈھالتے ہیں اور یہ عمل اصلاً تخلیقِ فن ہی کی ایک صورت ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اقبال کے ہاں عقل اور عشق دونوں ذریعے ہیں جو بالآخر خودی یا بیداریِ ذات پر منتج ہوتے ہیں۔ ان میں سے عقل وہ مواد مہیا کرتی ہے جو صورتوں کی بوقلمونی اور رنگینی میں صرف ہوتا ہے اور عشق وہ رفتار مہیا کرتا ہے جس کے بغیر وجود کے دائرے کی لکیر کو توڑ کر کائنات کے تخلیقی باطن تک رسائی ممکن نہیں۔ پھر جب بیداریٔ ذات کا مرحلہ آتا ہے تو فنی تخلیق اپنی ہیئت کی تشکیل کے لیے فن کار کے شعور اور بصیرت سے اور اپنی روح کے نکھار کے لیے فن کار کی وہبی اور جمالیاتی صلاحیت سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اقبال کے ہاں عشق کے مراحل سے آگے خودی کی قندیل کو روشن کرنے کا جو مرحلہ آیا ہے وہ ان کی شاعری کی دو اہم علامتوں یعنی پروانہ اور جگنو کے مختصر سے تجزیے سے آئینہ ہو سکتا ہے۔ ابتداً اپنی شاعری میں اقبال نے پروانے سے اپنے تعلقِ خاطر کا بار بار ذکر کیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ اقبال عشق کے دائرے میں اسیر ہوئے اور پروانے کی طرح شمع کا طواف کرنے لگے۔ اپنی نظم ’’شمع اور پروانہ‘‘ میں اقبال نے پروانے کے ذوقِ تماشائے روشنی میں بڑی کشش محسوس کی اور یہ کشش ان کی اپنی ذات کے ذوقِ تماشا کی آئینہ دار تھی۔ پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع ! پیار کیوں؟ یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں؟ سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے آدابِ عشق تُونے سکھائے ہیں کیا اسے؟ کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا پھونکا ہوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا؟ آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا؟ شعلے میں تیرے زندگیِ جاوداں ہے کیا؟ غم خانۂ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے ننھے سے دل میں لذت سوز و گداز ہے کچھ اس میں جوشِ عاشقِ حُسنِ قدیم ہے چھوٹا سا طُور تُو، یہ ذرا سا کلیم ہے! پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی! کیڑا ذرا سا اور تمنائے روشنی! غالباً اس کشش کی وجہ یہ تھی کہ خود اقبال کو کائنات کے مظاہر میں حُسنِ ازل شمع ہی کی طرح روشن دکھائی دیا تھا اور وہ بے اختیار اس کی طرف کھنچتے چلے گئے تھے۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں حُسنِ ازل کے ذکر کی فراوانی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے انھیں پوری کائنات میں حسنِ ازل جاری و ساری نظر آیا ہے۔۔۔ حُسن جس کی صفت روشنی (تپش) ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جس میں غسل کرنا باطن کی طہارت اور پاکیزگی پر منتج ہوتا ہے۔ چنانچہ شروع شروع میں حُسن ازل ہی اقبال کی عزیزترین منزل ہے اور وہ اس تک رسائی پانے کے لیے پروانے کی تب و تاب جاودانہ کو بروئے کار لانے پر مستعد دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ہاں پروانے کی کارکردگی کو اہمیت ہی اس لیے ملی کہ پروانہ مجسم عشق اور تجسّس ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب وہ بچے کو متجسّس دیکھتے ہیں تو اسے طفلکِ پروانہ خُو کا لقب عطا کر دیتے ہیں: کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلک پروانہ خُو شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے توُ مختصراً یوں کہہ لیجیے کہ اقبال کے نزدیک شمع روشنی کا منبع ہے اور روشنی حُسنِ ازل ہے۔ دوسری طرف شاعر ایک طفلک پروانہ خو ہے اور پروانہ عشق اور تجسّس کی علامت ہے۔۲؎ مگر اقبال کے ہاں پروانے سے تعلقِ خاطر آخر تک قائم نہیں رہ سکا بلکہ جلد ہی ان کے ہاں ایک اور کیڑے سے تعلقِ خاطر پیدا ہوا جسے انھوں نے ’’کرمکِ شب تاب‘‘ کہہ کر پکارا۔ اس سے اقبال کے روحانی ارتقا کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔ پروانہ جسے اقبال نے کرمکِ ناداں کالقب عطا کیا ہے عشق کی علامت ہے۔ اس کا کام شمع کے گرد طواف کرنا ہے، مگر کرمک شب تاب یعنی جگنو شمع کا متوالا نہیں، کیونکہ روشنی اسے ذات کے بطون سے مہیا کر دی گئی ہے۔اقبال کے ہاں جب پروانے سے جگنو کی طرف سفر کا آغاز ہوا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ عشق کی سرحد کو عبور کر کے آگہی کے مراحل میں داخل ہو رہے تھے۔ چنانچہ اسی لیے انھوں نے پروانے کی تعریف میںرطب اللسان رہنے کے بجائے اب اس کے طریق کار اور رویے پر نقد و نظر سے بھی کام لینا شروع کیا۔ مثلاً اقبال کا ایک شعر ہے: کرمکِ ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک خاص اور متعین رفتار سے طے ہونے والے طواف کو قید و بند کی حالت قرار دینے لگے تھے اور ان کے ہاں یہ خیال اب پختہ ہونے لگا تھا کہ روشنی کہیں باہر نہیں بلکہ ذات کے تجلی زار میں مستور ہے۔ یہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا جو یقینا سوچ بچار کا نہیں بلکہ کشف اور روحانی تجربے کا ثمر تھا۔ یوں لگتا ہے جیسے اقبال کو یکایک طوافِ شمع کسی پابہ جولاں قیدی یا کنویں کے بیل کے طواف کی صورت میں نظر آیاا ور انھوں نے طواف کے اس دائرے کو ایک جست کی مدد سے عبور کیا۔ مگر یہ جست باہر کی طرف نہیں بلکہ اندرکی طرف تھی۔ اب اقبال ’’روشنی‘‘ کے کسی خارجی نقطے کی طرف لپکنے کے بجائے اپنی ہی ذات کے مرکزی نقطے میں آباد ہو گئے تھے ۔ اس مرکزی نقطے کو اقبال نے ’’تجلی زار‘‘ کا نام دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے جو روشنی انھوں نے باہر کی دنیا میں دیکھی تھی وہ اب ان کے اندر نمودار ہو رہی تھی۔۳؎ چنانچہ اب انھوں نے خود کو ’’کرمکِ ناداں‘‘ کے بجائے ’’کرمکِ شب تاب‘‘ کے رُوپ میں پیش کیا۔ اب وہ شمع کے متلاشی نہیں بلکہ خود شمع بردار تھے اور جہان تاریک میں جہاں سے گزرتے ہرشے ان کے وجود کے دائرے میں آ کر روشن ہو جاتی۔ اس سلسلے میں ’’کرمک شب تاب‘‘ کے زیر عنوان اقبال کے یہ اشعار قابلِ غور ہیں: شنیدم کرمکِ شب تاب می گفت نہ آں مورم کہ کس نالد ز نیشم تواں بے منتِ بیگانگاں سوخت نہ پنداری کہ من پروانہ کیشم اگر شب تیرہ تر از چشم آہوست خود افروزم چراغ راہ خویشم جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا جب عشق کی رفتار عام رفتار سے تجاوز کرتی ہے تو دائرے کی لکیر کا حصار ٹوٹتا ہے۔ پھر سارا دائرہ ایک ایسا منور نقطہ بن جاتا ہے جس کی کوئی نہایت نہیں ہے۔ چنانچہ اقبال کے ہاں اصل صورت یہ پیدا ہوئی کہ عشق کی بے پناہ رفتار نے کرمکِ ناداں کو کرمک شب تاب کا درجہ عطا کر دیا یعنی اقبال کا باطن تجسّس کے ادوار کو عبور کرکے ایک ایسی انوکھی چکا چوند سے بہرہ مند ہو گیا جس کے لیے مناسب ترین لفظ ’’آگہی‘‘ ہے، اور آگہی نہ تو عشق ہے اور نہ عقل ، گو اس میں عشق کا مہیا کردہ جلوہ بھی موجود ہے اور عقل کامہیا کردہ شعور بھی۔ آگہی بیداری ذات یا شعورِ ذات کا دوسرا نام ہے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں عشق اور عقل کی تفریق ختم ہو جاتی ہے اور انسان کائنات کی تخلیقی سطح پر سانس لینے لگتا ہے ۔ اقبال نے آگہی کے اس روپ کے لیے ’’خودی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جوہر اعتبار سے مستحسن ہے۔ واضح رہے کہ بے خودی کی منزل پر پہنچنے کی حد تک صوفی اور شاعر ہم قدم رہتے ہیں مگر اس کے بعد ان کے ہاں بُعد القطبین پیدا ہو جاتا ہے۔جہاں تک صوفی کا تعلق ہے، اوّل تو وہ جذب اور بے خودی کی کیفیت سے شاذ ہی باہر آتا ہے اور جب کبھی آتا ہے تو اپنے عارفانہ تجربے کو دوسروں تک منتقل کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ اس تجربے کے دوران حاصل کیے گئے علم کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ صوفیا کے ’’ سلسلوں ‘‘ نے یہی خدمت انجام دی ہے اور یوں فلسفیانہ مباحث پیدا کر کے خلقِ خدا کو مابعد الطبیعیاتی مسائل پر سوچنے کی طرف راغب کیا ہے۔ مگر وہ عارفانہ تجربے کو منتقل نہیں کرپائے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے بڑے پیار سے انھیں’’بے فیض‘‘ بھی کہا ہے۔ صوفی کے مقابلے ایک فن کار (بالخصوص شاعر) قاری کو وراالوراء کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتا اور نہ اسے فلسفیانہ مباحث میں الجھاتا ہے، بلکہ اسے ایک متوازی ’’عارفانہ تجربے‘‘ سے شناسائی کے مواقع فراہم کرتا ہے(اقبال نے یہی کچھ کیا ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ سچے شاعر کی ذات کا ایک رُخ کائنات کے اس تخلیقی باطن کی طرف ہوتا ہے جہاں سے وہ پرومیتھیس کی طرح روشنی چُراتا ہے اور دوسرا رُخ آب و گل کی اُس کائنات کی طرف جو اس سے مستنیر ہوتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ چاند سورج سے روشنی لے کر زمین کو عطا کرتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے سورج کی تیز اور چندھیا دینے والی روشنی کو لطیف، ملائم اور پُر اسرار بنا دیتا ہے۔ یہی حال شاعر کا ہے کہ وہ نُورِ ازل سے اکتساب کرتا ہے اور پھر اس نُور کی قلبِ ماہیت کرکے (جو تجسیم کی ایک صورت ہے) اسے خلقِ خدا تک منتقل کر دیتا ہے اور اپنے اس تخلیقی عمل میں شعور (عقل) کو بھی اسی طرح بروئے کار لاتا ہے جیسے لاشعور (عشق کو) ، مگر صوفی (اگر وہ بیک وقت صوفی اور فن کار نہیں ہے) ایسا ہرگز نہیں کر سکتا ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صوفی اپنی پوروں کے لمس یا نگاہ کی قدرت سے سالک کے ہاں ایک متوازی عارفانہ کیفیت کو جنم دینے پر قادر ہے، وہ محض اپنی خوش اعتمادی کا اظہار کرتے ہیں اور بس! حواشی ۱- وزیر آغا، تخلیقی عمل، ص۲۰۳۔ ۲- وزیر آغا، تنقید اور مجلسی تنقید، ص ۱۹۔ ۳- ایضاً، ص ۲۲۔ خ خ خ کتابیات (اردو) - ابن خلدون: مقدمہ۔ - اقبال: پیام مشرق (دیباچہ) (طبع اوّل)۔ - اقبال: تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (مترجم: سید نذیر نیازی) - ایم ۔ ایم ۔ شریف: جمالیاتِ اقبال کی تشکیل از فلسفہ اقبال(طبع ۱۹۵۷ئ) - جعفر طاہر (سید): ’’زمین اور اہل زمین کی اہمیت قرآن میں‘‘از سالنامہ اوراق، (۱۹۶۷ئ) - رضی الدین صدیقی (ڈاکٹر): اقبال کا تصورِ زمان و مکان، (طبع ۱۹۷۳ئ) - رفیع الدین ہاشمی : خطوط اقبال،(طبع ۱۹۷۶ئ) - سلطان الطاف علی : ابیات باہو، (طبع ۱۹۷۵ئ) - سید عبداللہ (ڈاکٹر): مسائل اقبال، (طبع ۱۹۷۴ئ) - صلاح الدین احمد (مولانا): تصوراتِ اقبال ، (طبع ۱۹۶۶ئ) - عابد علی عابد (سید): تلمیحاتِ اقبال (طبع ۱۹۵۹ئ) - عبدالقادر (سر): دیباچہ بانگ درا، (کلیات اقبال اردو‘‘، فروری ۱۹۷۳ئ) - عزیز احمد : اقبال: نئی تشکیل (طبع ۱۹۶۸ئ) - غلام حسین مصطفی خاں (ڈاکٹر): اقبال اور برگساں از ’’منشورات اقبال‘‘ - محمد رفیع الدین :’’حکمت اقبال‘‘ (علمی کتاب خانہ ، لاہور) - محمد لطفی جمعہ : تاریخ فلاسفۃ الاسلام - میر ولی الدین (ڈاکٹر): اقبال کا نظریۂ عشق و عقل از اقبال باکمال (طبع ۱۹۶۸ئ) - میکش اکبر آبادی: نقد اقبال (طبع ۱۹۷۰ئ) - وزیر آغا : نئے مقالات (طبع ۱۹۷۶ئ) - وزیر آغا : تخلیقی عمل (ایڈیشن ۱۹۷۰ئ) - وزیر آغا : اردو شاعری کا مزاج (دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۴ء ،مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہائوس ، علی گڑھ) - وزیر آغا : تنقید اور مجلسی تنقید (طبع ۱۹۷۶ئ) - وزیر آغا : ’’علمی زبان اور ادبی زبان‘‘ از ماہ نامہ تخلیق (اگست ۱۹۷۶ئ) - و۔ ع۔ خ: رادھے شیام کے نام (طبع ۱۹۶۷ئ) - یوسف حسین (ڈاکٹر): انسان کامل از ’’اقبال باکمال‘‘ - یوسف حسین (ڈاکٹر) : عشق اور عقل از ’’اقبال باکمال‘‘ Bibliography (انگریزی) A.C. Bouquet, Comparative Religion (Fifth Eedn., 1964) Alfred Guillaume, Islam (1956 Edn.) Ardis Whitman, "The Art of Meditation", Reader's Digest, October 1973. Bertrand Russell, Mysticism and Logic (1963 end.) Bertrand Russell, A History of Western Philosophy (1948 Edn.) R. Briffault, Making of History. E. G. Browne, A Literary Hostory of Persia. Collin Wilson, Beyond the Outsider (Pan Edn., 1966) Cornford, From Relgions to Philosophy. De Lacy O' Leary, Arabic Thought & Its Place in History (1964 Edn.) Edmund Husserl, Ideas (1969 Edn.) George Clive, The philosphy of Nietzsche (1965 Edn.) H.J. Blackham, Six Existentialist Thinkers (1961 Edn.) Iqbal, Reconstruction of Religious Thought in Islam (London, Oxford University Press, 1934) Jean Whal, A Short History of Existentialism (1949 end.) Lancelot Law White, The Next Development in Man (Mentor Edn.) Lewis & Robert Lawson Slater, The Study of Religions (1969 Edn.) Margaret Smith, Readings from the Msytics of Islam (1950 Edn.) R.A. Nicholson, A Literary Hostory of the Arabs Patric Gardiner, Schopenhauer (1963 Edn.) Robert H. Thouless, The Psychology of Religion (1961 Edn.) Rollo May & Others, Existence (1967 Edn.) Sax Commins & Robert N. Linscott, The Philosphers of Science (Pocket Edn., 1954) Seyyed Hossein Nasr, Three Muslim Sages (Camb., Mass., 1964) O. Spengler, The Decline of the West (1932 Edn.) Susanne K. Langer, Philosophy in a New Key (1961 Edn.) Swami Rama Tirtha, In Woods of God Realization (1931 Edn.) Thomas Arnold & Alfred Guillaume, The Legacy of Islam (1931 Edn.) T. J. De Boer, The History of Philosophy in Islam (1961 Edn.) Will Durant, The Story of Philosophy (1948 Edn.) آ آدم : ۱۰۴ آرفک : ۱۱،۱۴،۱۶ آرفس : ۱۱ آریا :۳۵،۴۷،۶۰ آرگسٹائن :۱۴۵ آئن اشٹائن: ۱۱۴،۱۲۲،۱۳۲ الف ابراہیم بن ادہم :۶۸ ابنِ باجہ:۶۲،۶۳ ابن خلدون : ۱۴۴،۱۴۵،۱۴۶ ابن رشد: ۶۰،۶۳،۶۴،۱۰۳،۱۳۲ ابن سینا: ۶۰،۶۳،۶۴،۱۹۵ ابن العربی: ۶۹،۷۱، ۷۲، ۱۱۶، ۱۶۱، ۱۶۳، ۱۶۵، ۲۰۴ ابن مسکویہ: ۱۴۳، ۱۴۵ ابوطالب مکی : ۱۹۵ احمد خان ، سر سید : ۱۰۹، ۱۳۰، ۱۳۱ ارجن: ۴۵، ۲۰۷ ارسطو : ۳، ۱۴، ۱۵، ۵۱، ۵۶، ۵۸، ۶۱، ۶۲، ۶۸ اسرافیل:۲۲۴ سرافیل : ۱۸۳ اسرائیل : ۱۴۵ اشاعرہ : ۵۲۔ ۵۸، ۶۵، ۱۳۸، ۲۰۴، ۲۰۷ الاشرص : ۵۶ اشعری : ۵۳ افلاطون : ۷،۱۱۔۱۶، ۱۸، ۲۰، ۴۳، ۴۸، ۶۳، ۱۳۷ اکبر الٰہ آبادی: ۱۲۴، ۱۳۱ الطاف علی، سلطان : ۲۰۸ الیگزنڈر : ۱۱۱ امام ربانی، مجدد الف ثانی: ۱۱۵۔۱۱۶ اندر: ۳۶ اِن ایکسی مینڈر : ۹ اولمپس : ۱۰۔۱۲ ادون : ۲۶ اہرمنتر : ۱۳۸ اہرمن : ۱۳۷ ایلٹ، ٹی، ایس: ۱۱۲ ایمپیڈو کلینر : ۹ این ایکسی منیز : ۸۔۹ ایلیاڈ ، مرسیا : ۱۵۲ ب بابر : ۱۷۷ بادائوں : ۱۸۹ بایزید بسطامی : ۱۱ ۔ ۶۱۔ ۲۰۳ بُدھ، گوتم : ۱۱، ۳۰، ۳۲، ۶۹، ۸۰ برائون : ۶۷۔۶۹ برکلے : ۱۸، ۲۲ برگساں: ۲۳، ۲۴، ۲۸، ۳۳، ۴۰، ۴۱۔ ۴۸،۵۶، ۵۷، ۸۷، ۹۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۱، ۱۳۲، ۱۴۴، ۱۸۴، ۱۹۸، ۲۲۵ برنٹانو، فرینز: ۷۷ برونو : ۲۴ بنتھم : ۲۶ بھگوت گیتا : ۸۷ البیرونی : ۱۴۲۔۱۴۵ بیکن فرانسس : ۱۶۔ ۱۸، ۲۲۔۲۴ پ پارمینڈینر : ۱۴۔۱۵ پروینر : ۳۹ پلاٹینس : ۲۰، ۶۸ ت تبراک : ۶۴ تلسی داس : ۹۹ تھائولیس، رابرسٹ ایچ : ۱۸۸۔۱۸۹ تھیلز : ۹ ٹ ٹائن بی : ۱۱۴، ۱۴۶ ج جعفر طاہر، سید : ۱۳۶ جعفری ، سید محمد سعد الدین : ۱۱۳ جمعہ ، محمد لطفی : ۱۶۴ جوچم : ۱۴۵ جیسپرز : ۱۹۸ جیکوبی : ۲۴ جیلی، عبدالکریم : ۱۸۳، ۱۹۸ چ چرچل : ۲۹ ح حافظ شیرازی : ۲۴، ۱۱۶، ۱۲۴، ۲۱۳ حالی، مولانا الطاف حسین : ۱۰۹ حسن نظامی : ۱۱۵ حلاج، منصور : ۵۰، ۶۹۔۷۰ خ خضر : ۹۴ خورازمی : ۱۴۳ د دانتے : ۶۴، ۲۰۴ ڈ ڈارون ، چارلس : ۲۵، ۲۶، ۳۶، ۵۵ ڈاٹو نائسس : ۱۰، ۱۱، ۱۶، ۳۴ ڈیکارٹ : ۱۲، ۱۷، ۱۸، ۲۰، ۲۲ ڈیموکرائٹس : ۱۰ ر رام تیرتھ ، سوامی : ۲۱، ۱۶۳، ۱۶۵ رسل، برٹرینڈ : ۹۔۱۰، ۱۴، ۲۶، ۲۹، ۴۴، ۴۶ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) ۶۷،۷۱، ۱۱۶،۱۳۴، ۱۵۴ روز ولٹ : ۲۹ روسو : ۲۹ رومی : ۱، ۲، ۲۴، ۶۵، ۶۵، ۶۸، ۷۱، ۷۲، ۷۴، ۸۳، ۹۲، ۱۰۳، ۱۰۴، ۱۱۶، ۱۲۴، ۱۳۹، ۱۷۳، ۱۷۴، ۱۸۴، ۱۹۴ ز زرتشت : ۱۱، ۳۷، ۶۸ زلیخا : ۱۱۹ ژ ژنگ : ۳۳، ۴۳، ۹۷، ۱۵۶ س ساتوری : ۱۰۳ سائرس : ۲۵ سائنرینی : ۱۱۴ سائکی : ۱۱۱ سپائی نواز : ۲۲،۲۳، ۲۴، ۴۳ سپنسر : ۳۶، ۵۵، ۱۴۴ سرافیل : دیکھیں اسرافیل سعدی : ۱۱۸ سقراط : ۱۴۔ ۱۷، ۱۳۵ سگفرڈ : سلیمان (علیہ السلام) حضرت: ۱۲۴ سلیمٰی : سمیریا : ۱۴۸، ۱۵۱، ۲۳۰ سوروگن : ۱۱۴ ش شپنگلر : ۱۱۴، ۱۲۴۔۱۲۹، ۱۴۳، ۱۴۶،۱۴۷، ۱۵۴ شریف ، ایم ایم: ۱۷۴۔۱۷۵، ۱۷۷ شنکر اچاریہ : ۱۶۵، ۱۶۶ شمس تبریز : ۶۶، ۶۹ شوپن ہاور : ۲۳۔ ۲۴، ۲۹۔ ۳۴، ۴۶، ۱۸۵ ص صدیق (رضی اللہ عنہ)، ابوبکر : ۱۱۶ صدیقی ، ڈاکٹر رضی الدین: ۱۴۱ صلاح الدین احمد، مولانا : ۱۷۲، ۱۸۳۔۱۸۴ ع عابد علی عابد ، سید: ۱۶۶ عبدالقادر : ۱۰۳، ۱۱۸ عبداللہ ، ڈاکٹر سید : ۱۱۷، ۲۰۳، ۲۰۷ عراقی : ۵۶، ۱۴۰، ۱۴۱، ۱۴۲ عزیز احمد : ۱۸۳ عطار، فرید الدین : ۱۵۹، ۱۷۳، ۱۸۳ عمر (رضی اللہ عنہ)حضرت : ۱۱۶ غ غزالی (الغزالی): ۵۷، ۵۸، ۷۰، ۱۳۹ غلام مصطفی خان، ڈاکٹر : ۴۷ ف فارابی : ۵۲، ۶۰،۶۲، ۶۳ فائوسٹ : ۱۲۵، ۱۲۸ فرائڈ : ۳۳، ۴۳، ۱۸۵ فرنگ : ۱۱۴ فرہاد : ۷۴ فشٹے : ۲۰۔ ۲۳ فیثا غورث : ۷، ۱۱۔۱۲، ۱۴ ق قارون : ۳۹ ک کارلائل، تھامس : ۳۴، ۴۳، ۱۴۸، ۱۸۵ کاظمی، سید فصیح اللہ : ۱۲۴ کانٹ : ۱۸۔۲۲، ۳۰، ۳۳، ۳۹، ۴۳، ۵۲ کیلر : ۳۹، ۶۹ کرشن : ۱۱، ۲۰۴ کرکے گار: ۱۹۷۔۳۰۰ کریٹن: ۸۴، ۱۴۹ کندی (الکندی):۵۲۔۵۴، ۶۰ کفیوشس : ۱۱ کولمبس : ۱۲۵،۱۲۸ کومٹے، اگسٹ: ۲۵۔۲۶ کوئسلر آرتھر: ۶۳ گ گشٹالٹ: ۷۹ گلیلو : ۲۲ گوتم : ۶۸، ۷۸ بدھ : ۱۱، ۳۱،۳۲ گوئٹے : ۲۴ ل لاک : ۱۷۔۱۹، ۲۲، ۲۹ لنگ : ۱۲۸ لمیبنز : ۱۵۶ لینگر، کے ۔ سوسن : ۸۴ لیوسی پس : ۱۰ م مائری(الماتری) : ۵۳ مارا: ۳۲ مارکس، کارل : ۲۶، ۴۳ مارگن : ۱۱۱ مالتھس : ۲۹ ماہم ، سمرسٹ : ۱۱۱ محمد رفیع الدین: ۱۳۴، ۲۰۲ مسلم لیگ : ۱۶۷ معمر : ۵۱۔۵۲ مغل : ۱۱۵ ملائکہ : ۱۴۲ مورالبنیادی : ۱۴۵ موسیٰ (علیہ السلام) ۱۶۵ کلیم :۲۳۲ کلیم اللہ : ۲۰۶ مہارشی : ۱۸۱ میری فولٹ : ۱۴۰ مینینر: ۱۴۹ معتزلین : ۵۱۔۵۲، ۵۸، ۶۸ ن نصر، پروفیسر :۶۴ نظام : ۵۱، ۱۳۹، ۲۰۱ نکسن : ۶۷ نمرود : ۱۰۰۔۱۰۱، ۱۹۹ نیطشے : ۲، ۲۱،۲۳۔۲۴،۳۳۔۳۷، ۴۳، ۷۰، ۱۰۵، ۱۴۴، ۱۸۳، ۱۸۵، ۱۹۶۔۱۹۸ و واصل بن عطا :۵۱ والٹیئر : ۲۴۔۲۵ وائٹ ہیڈ : ۷۵۔۷۶ و ۔ ع ۔ خ : ۲۱۰، ۲۱۲ ول ڈورنٹ : ۱۴، ۲۲، ۲۴، ۳۰ ولسن کولن : ۱۲۔ ۱۳، ۲۰، ۷۴۔۷۶ ولی الدین ، ڈاکٹر میر: ۹۳ ویٹ ، آرڈس : ۱۸۷ ویگنر : ۳۴، ۴۲، ۱۸۴ ہ ہابنر : ہارون الرشید ، خلیفہ : ۵۰ ہاکنگ : ۸۱۔۸۲ ہائیڈگر : ۱۹۸ ہٹلر : ۲۹، ۳۸ ہریکلیٹس : ۹۔ ۱۰، ۱۴۔۱۵، ۱۴۴ ہسرل : ۷۸، ۸۰ ہمایوں : ۱۷۳ ہملٹن ، سر ولیم :۱۵۴ ہوبا : ۲۰۳ ہومر : ۱۲۶ ہیگل : ۲۶، ۴۳، ۱۹۷، ۱۹۹ ی یجن والکیہ : ۲۰۔۲۱ یوسف حسین ، ڈاکٹر : ۱۰۵۔۱۰۶، ۱۸۱ اماکن الف اٹلی : ۲۴ اسکندریہ : ۶۸ اطالیہ: افریشیا : ۱۵۱ افریقہ : ۱۲۲ امریکہ : ۱۴۹، ۱۹۱ انگلستان : ۲۱، ۱۵۶ ایتھنز :۱۴۰ ایران : ۴۹، ۵۵، ۶۸، ۶۹، ۷۲، ۱۲۶، ۱۴۷، ۱۵۲، ۱۶۶، ۲۳۰ ایشیا : ۱۱۳ ب بغداد: بلخ : ۶۸ بھارت : ۴۴ بھارتیہ : پ پُل صراط : ۲۰۵ ج جرمن : ۳۵ جرمنی : ۱۹۸ ر روم : ۱۴۸ رومتہ الکبریٰ : ز زر خیز ہلال : س سدرہ : سومنات : ۱۴۵ ش شام : ۶۸، ۱۴۷ ط طور، کوہ : ۸۰، ۱۶۹، ۲۳۶ ع عالم الجبروت : عالم الملکوت: عرب : عرش: ف فرانس : ۱۹۸ فرنگ : فلسطین : ۱۶، ۶۸، ۱۴۷ فونیشیا : ۱۴۹ ق قرطبہ : ۱۷۳ قلزم : ک کپل : کعبہ: ۶، ۹۷ م متھرا : مشرق : ۲۸، ۴۸۔۴۹، ۵۹، ۷۶، ۱۰۲، ۱۰۹، ۱۱۲، ۱۱۵، ۱۱۸، ۱۲۴ مشرق وسطیٰ : ۱۲۴۔۱۲۵، ۱۵۱۔۱۵۲ مصر : ۶۹، ۱۴۳، ۱۴۷، ۱۴۹ مغرب : ۱۶، ۲۷، ۵۹، ۶۴، ۷۶، ۹۵، ۹۷، ۱۰۹، ۱۱۱، ۱۱۳، ۱۱۷، ۱۲۰، ۱۲۴، ۱۳۰، ۱۳۱، ۱۳۶، ۱۴۰، ۱۴۲، ۱۴۶، ۱۴۷، ۱۵۶ ہ ہالینڈ : ۲۴ ہڑپہ: ۲۳۰ ہند: ہندوستان : ۱۲، ۳۵، ۶۸، ۱۲۵، ۱۲۶، ۱۲۸، ۱۴۹، ۲۱۱، ۲۳۰ بھارت بھی دیکھیں۔ ی یوٹوپیا : ۲۵ یورپ : ۱۶، ۲۴، ۲۶، ۲۷،۳۲، ۳۴، ۴۱،۶۴، ۹۶، ۱۱۰، ۱۱۳، ۱۱۴، ۱۴۰، ۱۴۹،۱۹۷ یونان : ۹۔۱۲، ۱۶، ۴۹، ۶۸، ۱۲۵۔۱۲۶، ۱۲۸ موضوع آ آرٹ: ۱۵۴ آگ :۱۵۱ آگہی: ۱۰۳،۱۰۸، ۱۵۵، ۲۳۴ آن : ۱۳۹ آواگون : ۱۱ الف اب: ۱۳۹، ۱۴۴، ۱۵۰ اثبائیت : ۲۶ اجتہاد :۵۱ اختیار :۵۴ اخلاقیات : ۱۵، ۳۶، ۲۱۲ ادراک : ۶۴، ۷۸ ارتقا : ۳، ۱۰، ۲۶، ۳۹، ۵۴، ۵۶، ۱۴۱، ۲۰۳،۲۳۱ ارتکاز : ۱۳، ۴۵، ۷۷، ۷۸، ۱۶۷، ۱۸۱،۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱، ۱۹۲، ۱۹۳، ۲۱۵ استرداد، نظریہ : ۱۵ اسلام : ۱۱۳ اسمِ اعظم : ۱۲۷ اضافت : ۱۱۰، ۱۳۲ اعتزال: اقتصادیات : ۲۲ الجبرا : ۱۴۱ الحاد : ۲۹، ۷۰ المیہ : ۱۲۷ الہامی : ۶۳ الٰہیات : ۱۲۲ الیکٹرون : ۵۵، ۱۳۸ اُنس : ۱۵۵ انا، متناہی :۹۰ ایٹم : ۱۰، ۱۳۷ ایقان : ۲۰۲ ایمان : ۴۹ ب بدھ مت: ۳۴، ۳۵، ۷۱، ۱۰۴،۱۱۳ برق : ۳۷ بقا : ۶۹، ۷۳، ۱۹۳ بھگتی : ۲۰۷، ۲۱۲ ت تاریخ : ۱۴۱، ۱۵۲ تثلیث : ۲۰ تجسیم : ۲۰، ۴۳، ۴۴، ۴۸، ۲۳۵ تخلیق : ۱۰۷ ترتیایگ: ۷ تشکک :۱۰۰ یگ:۷، ۱۵ تصورات : ۱۷، ۱۸۸ تصوف : ۶۶، ۶۷، ۷۰، ۷۱، ۷۳، ۷۷ اسلامی : ۷۸، ۱۱۱، ۱۱۵، ۱۳۷، ۱۵۸، ۲۰۷، ۲۰۸ تعقلات : ۶۹ تغیرات : فلسفہ : ۱۴ تقلید : ۱۳۷ تکوین : ۱۴۵ توجہ : ۵۰، ۱۵۶ توحید : ۵۰، ۱۵۶ توکل : ۱۹۱ تہذیب : ۱۱۱، ۱۱۲ ، اسلامی : ۱۱۳ ٹ ٹیکنالوجی :۹۶، ۱۰۸ ث ثقافت ، اسلامی : ۲۳۲ ثنویت :۱۷، ۲۰، ۲۷، ۵۰، ۵۲ ج جادو : ۳ سحر : ۱۶۱، ۱۶۷ جاگرت : ۲۱ جبر : ۵۰، ۵۴ جبلت : ۲۴، ۳۵، ۳۶، ۱۵۱ جدلیات : ۲۶ جز : ۲۱۴ جسم : ۶۸، ۲۱۰ جنگِ عظیم : ۱۱۳ جوہرِ روحانی : ۲۳ جہت : ۷، ۸، ۲۴، ۵۴، ۸۲، ۱۳۹، ۲۰۱، ۲۰۳، ۲۳۲ جن مت : ۶۶، ۲۰۷ جیومیٹری : ۱۲۵ ح حادث: ۵۱، ۵۴، ۷۳ حال : ۷۴ حرکت : ۷۔۸ حرکی قوت : ۷۳ حس : ۴۵: ۵۹ حسن : ۱۶۸ حقیقت: ۹۵، ۱۵۵، ۱۸۲ ادراک : ۱، ۹،۲۱، ۱۳۳، ۱۹۱، ۱۹۳ ارق :۱۶۲، ۱۶۵ عظمٰی : ۶۶، ۷۱، ۱۰۳،۱۳۳، ۱۸۲، ۱۹۳، ۱۹۸ حلول : ۶۹ حواس خمسہ : ۶۲، ۹۰ حیوان : ۳۷ خ خلا : ۱۰، ۱۹۷ خواب: ۲۱ خواہش : ۳۰، ۳۶، ۳۳ خود ایمانی : ۱۸۴ خودی : ۲۱، ۲۲، ۷۸ خوف : ۱۵۶، ۱۹۵ خیال : ۱۷ د دہر : ۴ ، ۴۷ ڈ ڈارون ازم : ۲۶ ذ ذات : ۳۱، ۸۶، ۱۹۳، ۲۳۲ تربیت :۱۹۷ تجلی : ۲۰۶ شعور : ۱۸۵ فنافی الذات:۲۱۸ نفی ذات: ۱۹۳ ذہن : ۱۷، ۲۰، ۲۲ ر رجا : ۱۵۵، ۱۹۲ رجوگن: رضا : ۱۵۴ رفتار : ۲۰۳ رقص : ۱۷۲، ۱۹۰، ۱۹۴ روح : ۶، ۱۱، ۱۶، ۱۸، ۲۱، ۲۵، ۳۷، ۴۴، ۵۱، ۵۷، ۵۹، ۵۹، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۶، ۱۱۲، ۱۲۴، ۱۵۷، ۱۵۸، ۲۱۰ رہبانیت : ۴۰، ۴۷ ریاست : ۱۶۲ ریاض : ۱۴۰، ۱۴۲ ز زرتشتی مذہب : ۱۴۷ زمان : ۱۹، ۴۵، ۴۷، ۵۶، ۱۳۱، ۱۴۰، ۱۴۴ زمان ومکان : ۱۹، ۱۰۳، ۱۲۱، ۱۸۵، ۲۳۰ زہد: ۱۵۶ س سائنس : ۲، ۳، ۱۸، ۱۹، ۵۱، ۶۳، ۸۷، ۱۰۹، ۱۱۱، ۱۲۲، ۱۳۸، ۱۵۶، ۱۵۷، ۲۲۱، ۲۳۴ سحر : ۱۶۱، ۱۶۷،۔ جادو : ۳ سترالفراق : ۱۱۶ سترالوصال : ۱۲۶ سرمایہ داری : ۲۲۴ سنیاس : ۱۴۹، ۱۸۲ سوشلزم : ۲۶، ۲۳۰ سوشلسٹ : سوم رس: ۳۵، ۳۶ ش شاعری: شانتی: شرک : ۱۱۶ شطحیات : ۶۹ شعور: ۶۱، ۷۸، ۸۶، ۱۵۵، ۲۲۷، ۲۳۸ لا شعور : ۳۳، ۲۲۷ شکر: ۱۵۶، ۱۹۶ شوق : ۱۵۶ شہود : ۲۱۰ فریب ۱۶۶ وحدت ۱۷۰ ص صبر : ۱۵۷، ۱۹۵ صلیبی جنگیں : ۱۱۲ صوفیہ : ۵۳، ۶۴، ۶۶، ۷۳ ط طبیعیات : ۱۸، ۳۰، ۵۵، ۹۵، ۱۳۸، ۱۳۹ مابعد : ۱۸، ۳۵، ۱۴۴، ۱۶۸ مابعد اطبیعیاتی: طواف : ۲۰۱ ع عرفان: ۲، ۵، ۲۸، ۳۳، ۴۶، ۵۷، ۶۰، ۶۴، ۸۱، ۹۱، ۹۲، ۹۴، ۹۵،۱۶۵، ۲۱۱، ۲۲۲ عقل : ۴، ۶، ۸، ۱۰، ۱۶، ۲۲، ۲۴، ۸۴ علم الحیات : ۳۶، ۹۶ عمرانیات : ۱۴۵ عمل : ۳۴، ۲۰۰ عیسائیت : ۱۴۵ ف فرد : ۲۰۰، ۲۲۹ فریب شہود : ۱۶۶ فطرت : ۲، ۳، ۶، ۱۶، ۲۰، ۲۲، ۲۳، ۳۰، ۳۳، ۵۲، ۱۲۵ فقر : ۱۹۶ فلکیات : ۱۴۰ فن: ۱۶۸ فنا : ۶۸، ۶۹، ۷۳، ۷۸، ۹۰ ق قدر: قدیم: قرآن: قربانی : ۱۹۵ قوتِ مبادلہ : ۲۶ قیامت : ۱۵۰ ک کائنات : ۳، ۴، ۶، ۱۷، ۱۹، ۲۳، ۲۵، ۴۶، ۴۷، ۵۲، ۵۳، ۵۶، ۵۷، ۷۱، ۷۵، ۷۶، ۸۰، ۸۵، ۸۹، ۹۷، ۱۱۱، ۱۲۷،۱۳۴، ۱۳۸، ۱۵۴، ۱۶۷، ۱۶۸، کثرت : ۳، ۲۵، ۱۱۷ کرامات : ۲۱۳ کشش ثقل : ۳۹ کشف : ۴۶، ۶۲، ۶۳ کل : ۷۹، ۲۱۴، ۲۲۱ کلچر : ۲۹ کلچر مجوسی: کلیسا : ۱۶۵ کل یگ : ۷ کوانٹم تھیوری : ۱۱۰ کیمیا گری : ۳، ۱۲۷ گ گیان : ۳۲، ۸۱، ۱۶۵ ل لاشعور : ۳۳، ۲۲۸ لنگ پوجا : ۱۲۷ م مادہ : ۳۵، ۴۴، ۶۲، ۱۶۳، ۲۰۴ ماورائیت: مایا : ۲۱، ۹۹ محدود : ۳۰، ۴۸ محسوسات : ۱۷، ۱۸ محیط : ۱۶۴ مذہب : ۶۶ سامی: ۶۷ مرکز : ۱۲۵ ، ۱۶۳ مرکز عظمٰی : ۱۷۶ مساوات : ۲۹ مشاہدات : ۱۸ مشاہدہ : ۱۷ معاشرہ : ۲۳۰ معجزہ : ۶۴، ۲۰۷ معدوم : ۵۲ معقولات : ۶۰ مظاہرہ : ۴۳ مکان : ۱۹، ۴۵، ۵۳، ۵۶، ۷۶ منطق : ۱۵، ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۵، ۲۶، ۶۵،۶۸ استقرائی : ۳ موجود : ۳، ۴۴، ۵۱، ۵۲، ۱۹۵، ۲۰۴ ن نسبت : ۱۴۳ نراج : ۹۶، ۱۰۸، ۲۰۳، ۲۰۴، ۲۲۴ نروان : ۴، ۱۳، ۳۱، ۳۲، ۵۰، ۶۸، ۸۶ نفس امارہ : ۱۵۸ نفسیات : ۷۷، ۷۹، ۹۶،۱۵۵، ۱۶۱، ۱۸۹ نقطۂ لمحہ : ۱۳۹ نوع : ۲۶، ۳۶ نیچرا : ۲۳، ۲۴ و وجد: ۵۸، ۶۰ وجدان : ۱۸، ۴۶، ۵۴، ۵۹، ۶۳، ۷۶، ۹۷، ۱۰۶، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۲، ۱۱۴، ۱۲۰، ۱۳۲، ۱۳۳، ۱۳۴ وحدت : ۳، ۲۵، ۱۰۶، ۱۲۵، ۱۸۰، ۲۲۰ وحدت شہود: ۱۶۶ شہود بھی دیکھیں وحدت الوجود : ۲۴،۷۰، ۷۱، ۱۶۵، ۱۶۶ وراء الورا : ۱۱۲، ۱۲۱، ۲۳۸ وصال : ۱۶۷، ۱۹۳، ۲۰۸، ۲۰۹، ۲۱۰، ۲۱۳، ۲۲۱،۲۲۲ وقت : ۷، ۴۷، ۵۸ ویدانت : ۲۱، ۳۵، ۵۰، ۶۷، ۶۸، ۶۹،۱۸۹، ۱۹۲، ۲۱۲ ہ ہمہ اوست : ۱۱۹، ۲۲۵ ی یاد داشت : ۱۸ یانگ : ۳، ۴ یگ : ۷، ۱۵ ین : ۳ یہودیت : ۱۴۵ یوگ : ۹۱، ۲۱۲ x