اقبال کی اردو نثر ایک مطالعہ زیب النساء اقبال اکادمی پاکستان نگارشات علامہ اقبال کے افکار و نظریات سے مجھے ابتدا ہی سے دلچسپی تھی، مگر یہ دلچسپی زیادہ تر شاعری کے حوالے سے تھی اور ایم اے میں اقبال کا خصوصی مطالعہ بھی زیادہ تر اسی حوالے سے کیا جاتا ہے۔ جب مجھے ایم اے کے سال آخر میں تحقیقی مقالے کے لئے ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ پر کام کرنے کے لئے کہا گیا تو مجھے قدرے پریشانی ہوئی کیونکہ میں اقبال کی اردو نثر سے کچھ زیادہ آگاہی نہ رکھتی تھی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ میں اقبال کی نثری تحریروں کی ’’ الف ب‘‘ سے بھی واقف نہ تھی تو بجا ہے تاہم اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ پر کام شروع کر دیا۔ جوں جوں اقبال کی نثری تحریریں نظر سے گزرتی گئیں، اس موضوع سے میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس سے قبل، اقبال کی اردو نثر پر ایم اے کا ایک مقالہ بہ عنوان ’’ اقبال کی اردو نثر کا تنقیدی جائزہ ‘‘ (غفور احمد سلیمی) 1973ء میں لکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کی کتاب ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ بھی 1977ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ اس کے باوجود میں نے محسوس کہا کہ اس موضوع پر کام کرنے کی گنجائش موجود ہے، چنانچہ میں نے اس موضوع پر کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔۔۔ میرا زیر نظر مقالہ مکمل ہوا تو اس کے بعد کچھ مزید نثری کتابیں منظر عام پر آئیں، مثلاً ’’ کلیات مکاتیب جلد دوم اور سوم‘‘ مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی اور ’’ نگارشات اقبال‘‘ چنانچہ انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنے ایم اے کے مقالے میں متعدد اضافے اور ترامیم کیں۔ بایں ہمہ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتی کہ میری یہ کتاب اپنے موضوع پر ہر لحاظ سے جامع و مانع ہے لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ میں نے اسے جامع بنانے کی مقدور بھر کوشش کی ہے تاکہ اقبال کی اردو نثر سے متعلق جملہ مباحث سامنے آ سکیں اور اقبال کی نثر کی اہمیت اجاگر ہو سکے۔ اسی اثنا میں عبدالجبار شاکر صاحب نے ’’ اقبال کی غیر مدون نثر‘‘ (1995ئ) کے زیر عنوان ایم فل کا مقالہ تحریر کیا۔۔۔۔ حواشی اور تعلیقات کی وجہ سے یہ مقالہ خاصے کی چیز ہے۔۔۔۔ علاوہ ازیں اقبال کے نثری سرمائے کا اشاریہ مرتب کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ کمی منصف خاں سحاب کے مرتب کردہ اشاریہ ’’ اقبال کی اردو نثر کا اشاریہ‘‘ سے کافی حد تک پوری ہو جاتی ہے۔ یہ کتاب میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کے نام معنون کر رہی ہوں۔ آپ نہ صرف میرے استاد مکرم ہیں بلکہ عملی زندگی کی پر خار اور پر پیچ راہوں میں صورت خضر ؑ بھی ہیں۔ ہاشمی صاحب کا شکریہ ایک اور حوالے سے بھی مجھ پر واجب الاد ہے کہ انہوں نے ’’ نگارشات اقبال‘‘ کی ترتیب و تدوین اور دیگر مراحل میں جس طرح خلوص و بے غرضی سے تعاون کیا، وہ اس مادہ پرستانہ اور افراتفری کے دور میں کہ جہاں ہر شخص وقت کی تنگی شکوہ کناں ہے، قابل ستائش اور حیرت افزا ہے۔ اپنے محترم والدین اور خصوصاًہ والدہ محترمہ کا شکریہ تو شاید میں کسی طور بھی ادا نہ کر سکوں کیونکہ ان کی دعاؤں، محبتوں اور شفقتوں کے سامنے الفاظ عاجز اور ہیچ ہیں چند دیگر احباب خاص طور پر چھوٹٰ بہن (قمر النسائ) بھی شکریہ کی حقدار ہے کیونکہ انہوں نے متن خوانی کی ذیل میں خاصی معاونت کی ہے۔ زیب النساء 15مئی 1995ء ٭٭٭ (ا) علم الاقتصاد شعر گوئی ایک وہبی صلاحیت ہے۔ اگرچہ مطالعہ کتب اور علم عروض پر عبور حاصل کرنے کے بعد انسان کسی حد تک قافیہ اور ردیف کے جوڑ توڑ سے شعر کہنا سیکھ جاتا ہے مگر یہ اکتسابی ہنر، وہبی صلاحیت کی جگہ نہیں لے سکتا۔۔۔۔ علامہ اقبال ایک فطری شاعر تھے۔ وہ اتنے پر گو شاعر تھے کہ ایک روایت کے مطابق وہ ایک وقت میں تین سو شعر کہہ لیتے تھے اور پھر حافظہ بھی غیر معمولی تھا، جس ترتیب سے شعر حافظے میں محفوظ ہو جاتے، اسی ترتیب سے وہ بعد ازاں قلم بند کر دیتے۔۔۔ گویا شعر گوئی کے معاملے میں ان کی طبیعت میں سیل ہمہ گیر کی سی روانی اور بے قراری ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ زبان بھی اس راہ میں رکاوٹ نہ بن پاتی اور وہ اردو، فارسی دونوں زبانوں میں یکساں روانی اور سہولت سے شعر کہتے چلے جاتے۔۔۔۔۔ چنانچہ اقبال کی شہرت ایک شاعر کی حیثیت سے مسلم ہو گئی۔۔۔۔۔ ان کے اس حیثیت کو تحریر و تقریر کے ذریعے مزید نمایاں کیا گیا مگر وہ نامور شاعر کے ساتھ ساتھ مفکر، معلم، محقق اور نثر نگار بھی ہیں۔۔۔۔ نثر نگار کی حیثیت سے انہیں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی کیونکہ نثر لکھنا ایک اکتسابی فعل ہے جسے علامہ نے بہ امر مجبوری انجام دیا۔۔۔ علامہ ذاتی طور پر بھی نثر نگاری کی طرف سے بے نیاز رہے، اس لئے نثر میں جو کچھ تحریر کیا اسے یا تو درخور اعتنا نہ جانا یا پھر ضائع کر دیا۔ نثر میں اظہار خیال کے لئے دلائل و براہین اور تفاصیل کی ضرورت ہوتی ہے اور شعر کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا، علاوہ ازیں تفاصیل کی فراہمی کے لئے کامل یکسوئی اور وقت کی فراوانی اشد ضروری ہے۔ علامہ اقبال اس کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ ان کے پاس وقت کم ہوتا اور وہ دیگر مصروفیات کی نذر ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے دل کی لگن یا خوشی سے نثر نگاری کی طرف توجہ نہیں دی۔ جو کچھ تحریر کیا وہ کسی نہ کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت لکھا۔۔ باوجودیکہ علامہ اقبال نثر میں اظہار خیال سے کتراتے رہے تاہم انہوں نے جو لکھا وہ مدلل، جامع اور مفصل ہے۔ ان کی نثر کا مطالعہ کرتے ہوئے کہیں ادھورے پن اور تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ زیر بحث موضوع کو مقدور بھر دلائل سے واضح کرتے ہیں اور قارئین کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔۔۔۔ان کی شاعری کے سامنے ان کی دیگر تمام حیثیتیں دب گئی ہیں۔ یا پھر شاعری کے تابع اور ضمنی بن کر رہ گئی ہیں۔ ہم ان کی ان حیثیتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔۔۔۔ بطور نثر نگار وہ ایک ضمنی حیثیت رکھتے ہیں یہ حیثیت بھی اس لائق ہے کہ شاعری کی طرح اسے بھی وقعت و اہمیت کی نظر سے دیکھا جائے۔۔۔۔ انہوں نے بہت سے ایسے موضوعات پر نثر میں قلم اٹھایا، جو قبل ازیں وہ شعر میں بیان کر چکے تھے۔ ان کی نثر، شعر کی تفہیم میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے اور ان کے افکار اور شخصیت کے مخفی گوشوں کو جانچنے اور پرکھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ کی اس ضمنی حیثیت پر بھی بھرپور توجہ دی جائے تاکہ اقبال شناسی کا حق بہتر طور پر ادا ہو سکے۔۔۔۔۔ نثر نگار کی حیثیت سے علامہ اقبال نے جو کچھ لکھا وہ ہماری اس کتاب کا موضوع ہے۔۔۔۔ نثر میں علامہ کا اولین کارنامہ اقتصادیات کے موضوع پر ایک مستقل علمی کتاب ہے، جو ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ایم اے کرنے کے بعد13مئی 1899ء کو اقبال اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عربک ریڈر مقرر ہوئے۔ ریڈر شپ کے فرائض منصبی میں تاریخ اور اقتصادیات کی تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون کی بعض کتابوں کی تالیف اور ان کا ترجمہ شامل تھا۔ اورینٹل کالج کی سالانہ رپورٹ بابت 1901, 1902ء (8جون1902ئ) کے مطابق شیخ محمد اقبا ایم اے نے مندرجہ ذیل تراجم اور تالیفات مرتب کیں: (1) تاریخ کے موضوع پر Stubbs کی تصنیف Early Plantagenets کی اردو میں تلخیص اور اس کا ترجمہ۔ (2) علم الاقتصاد کے موضوع پر Walker تصنیف Political Economy کی اردو میں تلخیص اور اس کا ترجمہ۔ (3) علم الاقتصاد پر ایک نئی تصنیف (زیر ترتیب) 1؎ اس طرح علامہ اقبال نہ صرف اقتصادیات کا درس دیتے رہے بلکہ انہیں واکر کی کتاب کا ترجمہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش آج تک ایک متنازع مسئلہ بنی ہوئی ہے، اگرچہ حکومت پاکستان نے سرکاری طور پر9نومبر1877ء کو ان کا سنہ پیدائش قرار دے دیا ہے اور اب پاکستان اور بیرون ملک میں بھی عام طور پر اسے ہی اقبال کا یوم ولادت مانا جاتا ہے، اس کے باوجود ہمارے بہت سے محققین اس سے متفق نہیں ہیں 2؎ اور اقبال کی تاریخ پیدائش پر آج تک کاملاً اتفاق نہیں ہو سکا۔۔۔۔ اسی طرح ان کی پہلی علمی کتاب ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے سال اشاعت پر بھی آج تک حتمی طور پر اتفاق نہیں ہو سکا۔۔۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اولین ایڈیشن پر اس کا سنہ اشاعت درج نہیں ہے، اور نہ علامہ اقبال نے بذات خود اس کتاب کے سنہ اشاعت کے بارے میں کہیں وضاحت کی ہے۔ اقبال کے مختلف سوانح نگاروں کے ہاں اس کے سال اشاعت کے سلسلے میں متضاد بیانات ملتے ہیں، مثلاً (1) 1901ئ: قاضی احمد میاں جونا گڑھی (2) 1903ء : ڈاکٹر عبادت بریلوی (3) 1904ء : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’ علام الاقتصاد‘‘ کا سال اشاعت1903ء اس لئے قرار دیا جاتا ہے کہ ممتاز حسن نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ (طبع دوم، 1961ئ) کے دیباچہ میں سال اشاعت1903ء بتایا ہے اور عام طور پر یہی سنہ کتاب کا سال تصنیف قرار دیا گیا ہے لیکن اب نئی تحقیق کی رو سے کچھ نئے شواہد سامنے آئے ہیں، مثلاً: محمد حمزہ فاروقی اور مشفق خواجہ نے سال تصنیف1904ء قرار دیا ہے۔ محمد حمزہ فاروقی یہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب دسمبر1904ء میں شائع ہوئی تھی 3؎ جبکہ مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ یہ کتاب دسمبر1904ء 4؎ تک شائع ہو چکی تھی۔ بظاہر ان دونوں بیانات میں معمولی سا فرق ہے کہ کتاب دسمبر1904ء میں شائع ہوئی اور دسمبر1904ء تک شائع ہو چکی تھی لیکن زیادہ مستند بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کتاب دسمبر1904ء ’’ تک‘‘ شائع ہو چکی تھی کیونکہ ’’ مخزن‘‘ دسمبر1904ء کے شمارے میں کتاب کی اشاعت کا اعلان چھپا تھا۔ اگر دسمبر’’ میں‘‘ شائع ہوتی تو اسی دسمبر کے شمارے میں اعلان کیسے چھپتا؟ اعلان تو بعد میں مثلاً جنوری کے شمارے میں چھپنا چاہئے تھا۔۔۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے مہینے کا تعین کئے بنا محض1904ء کو کتاب کا سنہ اشاعت قرار دیا ہے 5؎ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے تعین سنہ کے لئے مختلف حقائق یکجا کئے ہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ کتاب دسمبر1904ء تک شائع ہو چکی تھی۔۔۔۔ ہاشمی صاحب کے فراہم کردہ حقائق اور دلائل کے مطابق ’’ مخزن‘‘ لاہور میں’’ علم الاقتصاد‘‘ کے کچھ حصے اشاعت سے قبل شائع ہوتے رہے۔ ’’ مخزن‘‘ کے شمارے اپریل1904ء میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا آخری حصہ بہ عنوان ’’آبادی‘‘ اس نوٹ کے ساتھ چھپا:’’ کتاب زیر طبع ہے‘‘ (ص ا) گویا کتاب 1904ء کے اوائل میں مکمل ہوئی اور کتابت کے لئے دے دی گئی۔ اس سے یہ تو واضح ہے کہ اس کا سنہ اشاعت 1901ء یا 1903ء غلط ہے، غالب قیاس یہ ہے کہ فروری کے آخری یا مارچ کے ابتدائی ایام میں تکمیل ہوئی کیونکہ اسی صورت میں آخری باب کی ’’ مخزن‘‘ کے شمارے اپریل میں شمولیت ممکن ہوئی۔ گویا ’’ مخزن‘‘ اپریل 1904ء سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی طباعت و کتابت کا اعلان کیا گیا اور دسمبر1904ء کے مخزن میں کتاب شائع ہونے کا اعلان اس طرح چھپا’’ ہم ناظرین کو بڑی خوشی سے یہ اطلاع دیتے ہیں کہ یہ قابل قدر کتاب جس کا ایک باب ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہو چکا ہے، چھپ کر تیار ہو گئی ہے۔‘‘ 6؎ درج بالا حقائق کی رو سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے سال اشاعت کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے، جو ممتاز حسن کے دیباچہ سے پیدا ہوئی تھی، جس میں ممتاز حسن نے کتاب کا سنہ اشاعت1903ء لکھا تھا۔۔۔۔ ہم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب کے سنہ اشاعت کی ذیل میں کی گئی تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کتاب دسمبر1904ء تک شائع ہو چکی تھی۔ پس منظر: سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کیوں لکھی؟ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں، اور شاعر ہونے کے ناطے، انہیں ایک غیر شاعرانہ (خشک) موضوع پر نثر میں کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں مثلاً: ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ واکر (Walker) کی Political Economy نصاب میں شامل تھی، اور اقبال ہر ہفتے گورنمنٹ کالج میں بی اے اور ایم اے کے طلباء کو اس پر درس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے درس دینے کے لئے اقتصادیات کا مطالعہ کیا کیونکہ وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے، گویا اقتصادیات پر کتاب لکھنا منصبی ضرورت تھی۔ انہوں نے واکر (Walker) کی Political Economy کا ملحض ترجمہ کرنے کا بھی موقع ملا، اس طرح ان کے مطالعے میں مزید وسعت پیدا ہوئی۔۔۔۔ اسی اثناء میں پروفیسر آرنلڈ جو کہ 1905ء میں اورینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل بنے، انہوں نے علامہ اقبال کو کتاب لکھنے کی تحریک دی۔ اس بات کا ذکر اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے دیباچے میں کیا ہے اور کتاب کو ان کی ’’ صحبت کا فیضان‘‘ قرار دیا ہے غرض اولاً:ـ علم الاقتصادیات کا مطالعہ، دوم: آرنلڈ کی تحریک، سوم: منصبی ضرورت، ان تین محرکات نے انہیں کتاب لکھنے پر آمادہ کیا۔۔۔۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کسی منصبی ضرورت کے تحت لکھی گئی، وہ لکھتے ہیں: ’’ بنا بریں ہمارا خیال ہے کہ علم الاقصاد، کا سبب تالیف فرض منصبی نہ تھا، البتہ یہ ممکن ہے کہ اس طرح کا تالیفی کام معلمانہ کارکردگی کے طور پر بہ نظر استحسان دیکھا جاتا ہو اور اقبال کے ذہن میں یہ بات موجود ہو۔ علم الاقتصاد، کے تالیفی محرکات میں یہ امر اس لئے بھی قرین قیاس ہے کہ اورینٹل کالج کی سالانہ رپورٹ1901ئ، 1902ء میں زیر تصنیف علم الاقتصاد کو بایں الفاظ: A New work of political Economy in Preparation ان کی سالانہ کارکردگی میں شمار کیا گیا ہے۔‘‘ 7؎ مشفق خواجہ کے نزدیک علامہ اقبال نے اپنے طور پر اقتصادیات کا مطالعہ شروع کر دیا تھا اوراس مضمون میں استعداد بہم پہنچائی تھی۔ 8؎ ڈاکٹر ملک حسن اختر، مشفق خواجہ کی اس بات سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ ان (مشفق خواجہ) کا یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ علامہ اقبال نے از خود معاشیات کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اورینٹل کالج میں پنجاب میکلوڈ عربک ریڈر کی اسامی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ بعض کتابوں کے تراجم کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے واکر کی پولیٹیکل اکانومی اور سٹبز کی تاریخ کی کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور عین ممکن ہے کہ ان کتابوں کے انتخاب میں انہیں دخل نہ ہو۔‘‘ 9؎ ڈاکٹر صدیق جاوید لکھتے ہیں کہ علامہ نے اس تصنیف کی تیاری میں مالتھس اور واکر کے علاوہ جن علمائے معاشیات کے خیالات سے استفادہ کیا ہے ان میں مارکس بھی شامل ہے۔۔۔ اگرچہ علامہ نے مارکس اور اس کی کسی کتاب کا نام نہیں لیا مگر ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں لگان پر باب کے ذیل میں مارکس کا غیر طبقاتی ریاست (Classless Society) کا تصور ان کے پیش نظر رہا ہو گا، ڈاکٹر صدیق جاوید لکھتے ہیں: ’’ کارل مارکس اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ کے علاوہ علم عمرانیات کی تاریخ کے عظیم عمرانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے عمرانیات کے ایک دبستان سیاسی عمرانیات (Political Sociology) سے متعلق خیال کیا جاتا ہے۔ ان دنوں یورپ اور امریکہ میں سماجی علوم اور ادب و فن کے حوالے سے شائع ہونے والا تقریباً ہر مطالعہ مارکس کے خیالات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر نظر آتا ہے یا اس کے بعض تصورات کے خصوصی پہلوؤں کے مطالعے پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی تعلیمی، علمی تصنیفی اور سیاسی شعبوں میں مارکس کا حوالہ آتا ہے۔ مطالعہ اقبال کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں مارکس کے افکار اور اس پر اقبال کی تنقید کا تذکرہ رہتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اقبال 1902ء کے لگ بھگ مارکس اور اس کے فلسفیانہ افکار سے متعارف ہو چکے تھے۔‘‘10؎ بہرحال اس بات سے سبھی متفق ہیں کہ اقبال کو کتاب لکھنے کی تحریک پروفیسر آرنلڈ نے کی۔ علامہ نے اپنے طور پر معاشیات کا مطالعہ نہ بھی کیا ہو، پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں شروع ہی سے اقتصادیات کے موضوع سے دلچسپی تھی، اور یہ دلچسپی بعد تک قائم رہی۔ انہوں نے اپنی شاعری، خطوط اور مضامین میں معاشی و اقتصادی مسائل کا تذکرہ وقتاً فوقتاً کیا ہے، البتہ انہوں نے بعد میں اس موضوع پر کوئی مفصل کتاب نہ لکھی لیکن علم معاشیات سے دلچسپی اور اس کا مطالعہ تمام عمر جاری رہا۔۔۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی یہ دلیل زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ علامہ نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ فرض منصبی کے طور پر نہ لکھی تھی بلکہ منصبی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے لکھی تھی۔ تعارف: ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا پہلا ایڈیشن پیسہ اخبار کے خادم التعلیم سٹیم پریس لاہور میں طبع ہوا۔ یہ خط نستعلیق میں ہے اور اس پر سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ سر ورق پر مصنف کا نام اس طرح درج ہے: ’’ شیخ محمد اقبال ایم اے اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ انتساب ص اپر ’’ عالی جناب ڈبلیو بل اسکوئر ڈائریکٹر محکمہ تعلیم پنجاب‘‘ کے نام ہے۔۔۔۔ مضامین کی فہرست ص2پر ہے اور ص3خالی ہے۔ دیباچہ مصنف ص4 سے ص7تک ہے۔ دیباچے میں اقبال نے جن شخصیات کا شکریہ ادا کیا ہے، ان میں پروفیسر آرنلڈ، لالہ جیا رام صاحب، اپنے دوست اور ہم جماعت مسٹر فضل حسین بی اے کینٹب اور جناب شبلی نعمانی شامل ہیں۔ کتاب کا اصل متن ص8سے شروع ہو کر ص216پر ختم ہو جاتا ہے۔۔۔ علامہ نے آرنلڈ کی تحریک پر یہ کتاب لکھی اور مولانا شبلی نے کتاب کے بعض حصوں میں زبان کی اصلاح و درستی کی گویا زبان کے معاملے میں کتاب کو شبلی جیسے عالم فاضل شخص کی سند حاصل ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ پانچ حصص اور بیس ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں علم الاقتصاد کی ماہیت اور دولت کی تعریف کی گئی ہے اور باقی چار حصوں میں معاشیات کے چار بنیادی شعبوں سے تفصیلاً بحث کی گئی ہے۔ اقبال نے ان موضوعات پر نہ صرف افکار و نظریات کو پیش کیا ہے، بلکہ ان پر تنقید بھی کی ہے اور اپنی ذاتی رائے بھی دی ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ 1904ء میں شائع ہوئی اور تقریباً مئی 1908ء تک بازار میں فروخت کے لئے موجود رہی، کیونکہ اسی ماہ ’’ مخزن‘‘ میں اس کا اشتہار چھپا تھا۔ ابتداً کتاب کتنی تعداد میں شائع ہوئی؟ شاید ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی ہو۔ عموماً اس زمانے میں کتابیں اتنی تعداد ہی میں شائع ہوتی تھیں۔۔۔۔ اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں اقبال نے دلچسپی ظاہر نہ کی۔ ممکن ہے دوست احباب نے انہیں اس طرف متوجہ کیا ہو، لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کا دوسر اایڈیشن علامہ اقبال کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ اولین ایڈیشن بھی کم یاب ہے۔ ایک نسخہ پنجاب یونیورسٹی لائبریری اور ایک اقبال میوزیم لاہور میں ہے۔ علامہ اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو اپنی علمی کوششوں کا پہلا ثمر قرار دیا ہے مگر یہ بات باعث حیرت ہے کہ اقبال نے اپنی اس کتاب کا ذکر صرف دو جگہ کیا ہے، اور وہ بھی نجی خطوط میں۔۔۔ حالانکہ یہ ان کا پہلا باقاعدہ علمی کارنامہ تھا اور پھر جیسا کہ وہ اسے اپنی علمی کوششوں کا ثمر قرار دیتے ہیں، اس کا زیادہ ذکر نہ کرنا اور اس کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں دلچسپی نہ لینا کچھ تعجب انگیز امر معلوم ہوتا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اقبال کی جوانی کا ثمر ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں ارتقا ہوتا چلا گیا، چنانچہ فکر و نظر کی بلوغت نے اس اولین تخلیقی کام کو قابل اعتنا نہ جانا۔ اہم بات یہ ہے کہ علم معاشیات اقبال کا بنیادی موضوع نہ تھا، اگرچہ اس موضوع سے انہیں تا حیات دلچسپی ضرور رہی مگر انہوں نے کوئی کتاب نہ لکھی اور نہ ہی انہوں نے اپنی کتاب کو دوبارہ شائع کرایا۔ وہ نثر کے بجائے شاعری کی طرف زیادہ مائل تھے۔ اپنی زندگی میں شاعری کے مجموعوں کو متعدد بار شائع کرایا، لیکن ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی دوبارہ اشاعت کی نوبت ان کی زندگی میں نہ آ سکی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال طبعاً بے نیاز اور منکسر المزاج تھے، اپنے تخلیقی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرتے تھے، چنانچہ اس کتاب کا ذکر عطیہ فیضی اور کرشن پرشاد شاد کے نام خطوط ہی میں نظر آتا ہے۔ عطیہ فیضی کینام مکتوب (از کیمبرج) مورخہ 24اپریل1907ء میں لکھا ہے: I am thinking of sending you a copy of my political Economy in Urdu. But I am sorry I have not got one here. thought it would not be difficult to get it from india. I shall write it for the mail . 11 ’’ علم الاقتصاد‘‘ زیادہ مقبول نہ ہو سکی۔ایک وجہ تو یہی ہے کہ اقبال نے اسے دوبارہ شائع نہ کیا، اس بنا پر اقبال کے دور کے بعد کی نسل اس کتاب سے تقریبا ً نا واقف رہی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ کتاب شائع ہوئی، اس وقت اردو دان طبقے کو علم معاشیات سے کچھ دلچسپی نہ تھی۔ مزید برآں اس کتاب کی اشاعت کے بعد اقبال کی جو کتابیں شائع ہوئیں وہ علمی و فکری اعتبار سے اس قدر بلند تھیں کہ ان کے مقابلے پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا قبولیت عام کی سند حاصل کرنا مشکل تھا۔ 12 عام طور پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو معاشیات پر اردو میں پہلی کتاب قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اشاعت سے قبل تقریباً چھ کتابیں شائع ہو چکی تھیں، مثلاً Wayland کی کتاب Elements of Political Economy (مترجم: پنڈت دھرم نرائن) رسالہ علم انتظام مدن(مولفین: محمد منصور شاہ اور مسعود شاہ خان )1865ء میں Nassan William Senior کی کتاب Political Economy کا ترجمہ ’’ رسالہ علم انتظام مدن‘‘ (مترجمین: بابو رام کالی چودھری اور رائے شنکر داس) 1869ء میں ’’ مل‘‘ کی کتاب کے ابتدائی تیرہ ابواب کا ترجمہ ’’ اصول سیاست مدن‘‘ کے نام سے شائع ہوا (مترجم: رائے بہادر پنڈت دھرم نرائن دہلوی)’’ دستور المعاش‘‘ جان یارکس لیڈلی کی کتاب ’’ پرائمر پولیٹیکل اکانومی‘‘ کا ترجمہ ہے (مترجم: شمس العلماء مولوی محمد ذکاء اللہ) ان چھ کتابوں کے علاوہ 1900ء تک اور بھی کئی مختصر رسالے لکھے گئے، لیکن ان کی حیثیت زیادہ تر نصابی ہے۔ ان چھ کتابوں میں صرف ایک یعنی ’’ رسالہ علم انتظام مدن‘‘ کس حد تک آزادانہ غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ باقی تمام کتابیں انگریزی کتابوں کا براہ راست ترجمہ ہیں۔۔۔۔۔۔ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اشاعت سے پہلے اتنی کتابوں کی موجودگی اس امر کا ثبوت ہے کہ اہل اردو اقتصادیات کے علم سے بالکل نا آشنا نہ تھے۔ 13؎ البتہ یہ بات درست ہے کہ علم المعیشت پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ پہلی معیار کتاب ہے۔ اس خیال کا اظہارعلامہ اقبال نے بھی ایک جگہ کیا ہے: ’’ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی ایک عرصہ سے جاری ہے۔ علم الاقتصاد پر اردو میں سب سے پہلے مستند کتاب میں نے لکھی۔ ‘‘ 14؎ اس طرح ’’ علم الاقتصاد‘‘ سے قبل علم معاشیات پر کافی حد تک کام ہو چکا تھا، اقبال چونکہ ایک کثیر المطالعہ شخص تھے، ممکن ہے کہ محولہ بالا کتب ان کی نظر سے گزری ہوں، اس لئے ان کتابوں کی موجودگی میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو معاشیات پر اردو میں پہلی کتاب قرار نہیں دے سکتے، لیکن اس سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت میں کمی نہیں آتی، کیونکہ پہلی کتب ترجمہ ہیں۔ ’’ رسالہ علم انتظام مدن‘‘ کے جو آزادانہ غور و فکر کی بنا پر طبع زاد تالیف کے قریب ہو جاتا ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ اولیت کی حامل نہ ہونے کے باوجود اپنی ایک علیحدہ اور نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ علامہ اقبال نے اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں دلچسپی نہ لی، نتیجتہً کتاب ساڑھے تین یا چار سال کے بعد نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ دوسرے ایڈیشن کی اشاعت میں نہ علامہ نے دلچسپی ظاہر کی اور نہ کسی ادارے کی طرف سے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی میں کسی ادارے کی طرف سے اس کی اشاعت کی تحریک نہیں ہوئی۔ ستاون سال 15؎ یا اٹھادن سال 16؎ بعد اقبال اکادمی کراچی کے زیر اہتمام اس کی دوسری اشاعت عمل میں آئی۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اولین ایڈیشن کی طرح دوسرے ایڈیشن پر بھی سال اشاعت درج نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ممتاز حسن کے ’’ پیش لفظ‘‘ کو پڑھ کر حل ہو جاتا ہے، کیونکہ ’’ پیش لفظ‘‘ کے اختتام پر 10جون 1921ء درج کر دیا گیا ہے۔ پہلا ایڈیشن خط نستعلیق میں تھا، جبکہ دوسرا ایڈیشن خط نسخ میں ہے۔ کتاب کتنی تعداد میں شائع ہوئی اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ سر ورق اور اس کی پشت کا صفحہ شمار میں نہیں لایا گیا۔ مضامین کی فہرست ا، ب اور ج پر ہے، ص د خالی ہے۔ ’’ پیش لفظ‘‘ از ممتاز حسن ص1سے 10تک ہے اور مقدمہ (از: انور اقبال قریشی ص11سے 19تک ہے پیش کش: از مصنف (اقبال) ص21پر ہے۔ ص22خالی ہے۔ دیباچہ از مصنف ص23سے 26 تک ہے، اور متن کتاب سے از سر نو کتاب کے صفحات کا شمار ہوتا ہے۔ اقبال اکادمی کراچی کی یہ مستحسن کوشش ہے کہ اس نے کتاب کی دوسری اشاعت میں دلچسپی ظاہر کی اور طبع اول کے متن کی تصحیح کی ۔ کتاب کے سر ورق پر مرتب کا نام درج نہیں ہے۔ ممتاز حسن نے پیش لفظ میں اس کی وضاحت کر دی ہے، لکھتے ہیں: ’’ موجودہ نسخے کے متن کی تصحیح مجلہ اقبال ریویو کے مدیر معاون جناب خورشید احمد صاحب کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے متن پر حواشی بھی لکھے ہیں اور کتابت کی غلطیوں کو بھی درست کر دیا ہے۔ انگریزی اصطلاحات حاشئے میں دی گئی ہیں۔ جہاں کسی لفظ یا اصلاح کی توضیح ضروری تھی وہاں حاشئے میں تشریح کر دی گئی ہے۔‘‘ 17؎ تیسری مرتبہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ تقریباً سولہ سال بعد اقبال اکادمی لاہور کے زیر اہتمام 1977ء میں شائع ہوئی۔سنہ اشاعت کے ساتھ غلطی سے ’’ بار اول‘‘ لکھ دیا گیا ہے۔ اقبال اکادمی ہی نے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا تھا، اور تیسرا ایڈیشن بھی اسی کے زیر اہتمام شائع ہوا، اتنی واضح بات کے باوجود کتاب پر’’ بار اول‘‘ لکھا گیا ہے۔ سر ورق کے لئے دو صفحے رکھے گئے ہیں، پہلے صفحے پر صرف ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھا گیا ہے، اور اس کی پشت کا صفحہ مکمل طور پر خالی نہیں ہے، بلکہ اس قسم کے الفاظ درج ہیں:’’ اچھی کتاب کا نکھار ہمیشہ قائم رہتا ہے‘‘ گویا یہ ایک قسم کا اشتہار ہے سر ورق کے دوسرے صفحے پر مصنف کے مکمل تعارف میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ یعنی: ’’شیخ محمد اقبال ایم اے اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ کے بجائے صرف’’ شیخ محمد اقبال‘‘ درج ہے۔ اس ترمیم کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ علامہ نے با اہتمام اپنے نام کے ساتھ ’’ اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور‘‘ لکھا تھا اس تعارف کا درج کرنا ضرور تھا، کیونکہ ا سی تعارف کی کی بنا پر ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے سنہ اشاعت کا تعین کیا جاتا رہا ہے۔ اس سر ورق کی پشت کے صفحہ پر سال اشاعت، تعداد، قیمت، اہتمام وغیرہ کی تفصیل درج ہے۔ فہرست مضامین پر ص نمبر درج نہیں ہے، لیکن پیش لفظ از ممتاز حسن ص7سے شروع ہوتا ہے، جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ فہرست مضامین ص5اور 6پر ہے۔ پیش لفظ (از: ممتاز حسن) ص7تا17مقدمہ (از انور اقبال قریشی) ص18تا28) پیش کش (از: مصنف) ص29، دیباچہ (از: مصنف) ص30تا 34 اور متن کتاب ص35 سے شروع ہو کر 264 پر ختم ہو جاتا ہے۔ کتاب کے آخر میں دوسرے ایڈیشن کی طرح ضمیمہ درج ہے۔ اس طرح اس (تیسرے) ایڈیشن کے صفحات کے نمبر شمار میں تبدیلی کی گئی ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ چوتھی مرتبہ 1991ء میں آئینہ ادب لاہور سے شائع ہوئی۔ کتاب پر ناشر کے طور پر آئینہ ادب لاہور درج ہے، اور بار چہارم کے بجائے بار دوم لکھا ہے۔ اصل میں1991ء کا یہ نسخہ اقبال اکادمی لاہور1977ء کے نسخہ کی نقل ہے، جس پہ غلطی سے بار دوم کے بجائے بار اول لکھا گیا تھا۔ اس نسخے کے ناشر اقبال اکادمی لاہور اہتمام آئینہ ادب لاہور کا تھا۔۔۔۔ 1991ء کے نسخے میں سابقہ غلطی کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب پر بار دوم لکھا ہے اور ناشر اور اہتمام آئینہ ادب لاہور کا ہے حالانکہ مذکورہ اشاعت1977ء ہی کی نقل ہے اور اس میں متن، حواشی اور تعلیقات کی ذیل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔۔۔۔ البتہ اتنی تبدیلی ضرور کر دی گئی ہے کہ ناشر کے طور پر اقبال اکادمی پاکستان لاہور کے بجائے آئینہ ادب لاہور کا نام درج کر دیا گیا ہے۔ آئینہ ادب لاہور نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو چونکہ نئے سرے سے نہیں چھاپا لہٰذا متن کے جائزے میں اس کا موازنہ نہیں کیا گیا۔ کیونکہ جو تصرفات اور اغلاط اقبال اکادمی لاہور1977ء کے نسخے میں ہیں، وہ 1991ء کے نسخے میں جوں کی توں موجود ہیں۔ متن کا مطالعہ: اب ہم اقبال اکادمی کے دو نسخوں (1961-1977ء ) کا موازنہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اولیں نسخے سے کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اقبال اکادمی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو بہتر طور پر شائع کرنے میں کس حد تک کامیاب رہی ہے: پہلے ایڈیشن کی کتابت کی اغلاط نظر آتی ہیں۔ کچھ اغلاط کی تو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی 18؎ نے نشان دہی کر دی ہے لیکن ان کے علاوہ بھی پہلے ایڈیشن میں بہت سی اغلاط نظر آتی ہیں، مثلا: نمبرشمار صفحہ غلط صحیح 1 12 چس جس 2 19 بیج بیچ 3 30 آب ہوا آب و ہوا 4 65 آساشن آسائش 5 190, 98, 65 مضرت رسان مضرت رساں 6 89 رسید رسد 7 91 فروحت فروخت 8 79 تھون تہوں 9 93 اشاء اشیاء 10 156, 109, 102, 100, 98 موزون موزوں 11 141, 106 ہنڈیوں منڈیوں 12 120 گو کو 13 121 چاندے چاندی 14 141 فلان فلاں 15 141 روپیے روپے 16 166, 143 سو دو زیان سود و زیاں 17 152 زمیداروں زمینداروں 18 157 ہوا ہوا 19 163 کاروان کارواں 20 167 احرت اجرت 21 168 یتجہ نتیجہ 22 171 ہوئی ہوتی 23 178 جہان جہاں 24 188 کبھی بھی 25 189 بے درمان بے درماں 26 194 قاتحین فاتحین 27 195 پڑی بڑی 28 196 تیز تر 29 203 ناتوان ناتواں 30 204 مصارف ہستی مصاف ہستی 31 206 بیچھے پیچھے 32 214 سیل روان سیل رواں 33 156 موزون موزوں اقبال اکادمی کی اشاعتوں میں طبع اول کی یہ اغلاط درست کر دی گئی ہیں، مگر اس کی وضاحت نہیں کی گئی، لیکن دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں بھی کتابت کی بعض نئی اغلاط راہ پا گئی ہیں۔ ان کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے: نمبرشمار صفحہ طبع دوم1961ء صفحہ طبع سوم1977ء صحیح 1 86 روئی 129 روٹی روٹی 2 91 بین المالک 134 بین المالک بین الممالک 3 135 ہنڈیاں 184 ہنڈیاں منڈیاں 4 137 سود و زیان 186 سود و زیاں سود و زیاں 5 159 کاروان 209 کاروان کارواں 6 162 سود و زیان 212 سود و زیاں سود و زیاں 7 182 سوال 234 سوال حال 8 182 دفعہ 235 دقعہ دفعہ 9 182 بے ورمان 235 بے درمان بے درماں 10 202 نوح انسان 256 نوع انسان نوع انسان طبع اول میں نمبر7, 6, 2 اور9 کی کتابت درست ہے۔ طبع اول میں بہت سے الفاظ قدیم یا متروک املا کے مطابق ہیں۔ اقبال اکادمی کے دونوں نسخوں میں ان کو جدید املا کے مطابق لکھا گیا ہے، جیسے جاوے جائے بعض جگہ طبع اول میں بھی جائے (ص:29لکھا ہے پگہلا ’’ پگھلا‘‘ ،مجہہ ’’ مجھ‘‘ ،نہو’’ نہ ہو‘‘ طبع اول کے ص35پر نہ ہو چھپا ہے مجہے’’ مجھے‘‘ چائ’’ چائے‘‘ سمجہنے’’ سمجھنے‘‘ سمجہو’’ سمجھو‘‘ بڑہتی’’ بڑھتی‘‘ کھلاتا’’ کہلاتا‘‘ جاویں ’’جائیں‘‘ معنے’’ معنی‘‘ جنپر’’ جن پر‘‘ ماہیگیری’’ ماہی گیری‘‘ طبع دوم اور سوم میں بیسیوں مقامات پر اصل متن میں تصحیح اور تصرفات کئے گئے ہیں لیکن ان اصلاحات و ترامیم کی صرف چند مقامات پر وضاحت کی گئی ہے۔ اصل متن کے کئی الفاظ محذوف کر دئیے گئے ہیں، بعض جگہ متعدد الفاظ کا اضافہ ہے، کئی مقامات پر دو، ایک یا پھر آدھ جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت نہ حاشئے میں ملتی ہے اور نہ قلابین میں محذوف جملے دئیے گئے ہیں مثلاً: (1) طبع سوم کے ص39پر تقریباً دو جملے محذوف ہیں، یہ دونوں جملے طبع اول (ص:10) اور طبع دوم (ص:5) میں موجود ہیں۔ محذوف جملہ اس طرح ہے :’’ مثلاً ہر شخص یہ خواہش کرتا ہے کہ اس کے دوست اس کے ساتھ محبت کا برتاؤ کریں، مگر یہ دولت نہیں ہے۔‘‘ (2) طبع سوم کے ص71پر ایک جملے میں بے جا تصرف کیا گیا ہے۔ اصل جملہ طبع اول (ص:38) طبع دوم (ص:34) میں اس طرح ہے:’’ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصالح پیدا کرنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔‘‘ طبع سوم میں یہ جملہ کچھ یوں چھپا ہے:’’ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصالح پیدا کرنے والوں کو باہمی خرید و فروخت کرنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔‘‘ (3) طبع سوم کے ص99 پر ایک جملہ حذف کر دیا گیا ہے، جبکہ طبع اول (ص:64) طبع دوم (ص:59) میں یہ جملہ محذوف نہیں ہے۔ اصل عبارت یوں ہے:’’ کمیت کے علاوہ مختلف ممالک کے دستکاروں کی محنت کی کیفیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ بعض ممالک کے دستکاروں کی عادات جبلی طور پر قوانین صحت کے خلاف ہوتی ہیں۔‘‘ یہی عبارت طبع سوم میں اس طرح چھپی ہے:’’ کمیت کے علاوہ مختلف ممالک کے دستکاروں کی عادات جبلی طور پر قوانین صحت کے خلاف ہوتی ہیں۔‘‘ (4) طبع سوم ص101پر آدھا جملہ محذوف ہے۔ محذوف جملہ طبع اول (ص:66) اور طبع دوم (ص:62) پر درج ہے۔ اصل متن اس طرح ہے:’’ یہ اسباب اختلاف مختلف ممالک ہیں یا تو حقیقتاً موجود ہیں اور اپنا عمل کر رہے ہیں۔ یا حقیقتاً موجود تو ہیں۔۔۔۔‘‘ طبع سوم میں یہ جملہ اس طرح شائع ہوا ہے:’’ یہ اسباب اختلاف ممالک میں حقیقتاً موجود تو ہیں۔‘‘ نہ معلوم طبع سوم میں محولہ محذوفات و تصرفات سے مرتب کی کیا غایت ہے؟ اگر ان جملوں کو محذوف کرنا ضروری تھا تو طبع دوم میں بھی اس کا اہتمام کیا جاتا، اور حاشیئے میں یا قلابین میں اس کی وضاحت کر دی جاتی تاکہ الجھن پیدا ہونے کا احتمال نہ رہتا۔ اقبال اکادمی کے دونوں نسخوں میں حواشی میں جن تصرفات و اصلاحات کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں کچھ تو مناسب ہیں لیکن ترامیم کی بعض نوعیتیں غور طلب ہیں۔ ان کی طرف ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اشارہ کیا ہے۔ 19؎ ہم یہاں ان مزید ترمیمات و تصرفات کا جائزہ لیں گے جو ہمارے خیال میںنامناسب ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ طبع اول صفحہ طبع دوم 1 17 آیا عقل۔ ہنر اور فطری قویٰ جن کو انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے قدر کہتے ہیں 13 آیا عقل، ہنر اور فطری قویٰ کو جنہیں انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے حاصل قدر کہا جا سکتا ہے 2 22 تو ظاہر ہے کہ تمام استدلالات جو اس اصول پر مبنی سمجھے جائیں گے غلط ہوں گے 17 تو ظاہر ہے کہ وہ تمام استدلالات جو اس اصول پر مبنی ہوں گے غلط سمجھے جائیں گے 3 57 پیدائش دولت سے کسی قوم کی قابلیت 53 کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے 4 57 خواہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل نہ پہنچی ہو۔۔۔۔۔۔ 53 خواہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل تک نہ پہنچی ہو 5 77 نیز مشکل سے ہاتھ آنا ان کی قدر کا 74 نیز مشکل سے ہاتھ آنا اس کی قدر کا۔۔۔۔۔ نمبر(1) کے بارے میں مرتب نے لکھا ہے کہ اس نے جملے کو رواں اور واضح کرنے کے لئے ادنیٰ تصرف کیا ہے۔ مصنف (اقبال) نے جملے کے آخر میں سوالیہ نشان لگایا ہے، اگر اس جملے کو سوالیہ انداز میں پڑھا جائے تو مفہوم میں کوئی د قت پیش نہیں آتی، اس لئے یہ ترمیم بے جا ہے۔ میری دانست میں مرتب نے جملے میں تصرف تو کر دیا لیکن جملے کے آخر میں سوالیہ نشان ختم کر دینے سے وہ بات پیدا نہ ہو سکی جو اصل متن میں نظر آتی ہے۔ نمبر (2) طبع اول کا جملہ بالکل واضح ہے۔ اس میں لفظ ’’استدلالات‘‘ کتابت یا طباعت کی غلطی ہے، مگر ا س سے جملے کے مفہوم میں فرق نہیں آتا۔ مرتب کی یہ ترمیم و اضافہ بھی نا مناسب ہ۔ نمبر (3) یہ ترمیم بھی بالکل غیر ضروری ہے، کیونکہ لکھنے والے کے موڈ پر منحصر ہے کہ وہ کون سے الفاظ جملے کے آغاز میں لاتا ہے اور کون سے آخر میں، اگر یہ ادنیٰ تصرف نہ بھی کیا جاتا تو جملے کے مفہوم میں کوئی فرق نہ آتا۔ نمبر (4) یہاں مرتب نے صرف لفظ ’’ تک‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ یہ کوئی ایسی بڑی خامی بھی نہیں ہے کہ جو جملے کے مفہوم پر اثر انداز ہو۔ بالعموم کتابت یا طباعت میں کچھ الفاظ چھوٹ جاتے ہیں۔ مرتب نے اس جملے میں تو لفظ’’ تک‘‘ کی وضاحت کر دی، لیکن اصل متن میں ایسے کوئی الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے، مگر ان کی وضاحت صرف چند ایک مقامات پر ہی کی گئی ہے۔ نمبر (5) مرتب نے حاشئے میں وضاحت کی ہے کہ اصل متن میں لفظ ’’ اس‘‘ تھا، جبکہ اصل متن میں لفظ’’ ان ‘‘ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بہ قول مرتب اصل متن ہی میں لفظ’’ اس ‘‘ موجود تھا تو پھر حاشئے میں اس کی وضاحت کی کیا ضرورت تھی؟ ان اصلاحات و تصرفات کا ذکر مرتب نے حواشی میں کر دیا ہے، مگر اصل متن میںایسی بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں، جن کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ ترامیم و اصلاحات مرتب کی ہیں یا کسی اور کی۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اول و دوم اور سوم میں مختلف طرح کا متن ملتا ہے، مثلاً: نمبر شمار صفحہ طبع اول صفحہ طبع دوم صفحہ طبع سوم 1 13 اس گھڑی کی وساطت سے 8 اس گھڑی کی وساطت سے۔۔۔ 44 اس گھڑی کی وساطت سے 2 14 جو انسان کے لئے مفید ہیں۔۔ 10 جو انسان کے لئے مفید ہیں۔۔۔۔ 45 جو انسان کے لئے مفید ہوں۔۔۔ 3 16 کسی قدر آسائش کو بھی چاہتا ہے 13 کسی قدر آسائش کو بھی چاہتا ہے۔۔ 49 کسی قدر آسائش بھی چاہتا ہے۔۔ 4 49 اسی طرح دولت کی مقدار بعض دفعہ کچھ عرصے کے لئے۔۔ 14 اسی طرح دولت کی مقدار کا مسئلہ بعض دفعہ کچھ عرصے کے لیے 51 اسی طرح دولت کی مسئلہ ہے بعض دفعہ کچھ عرصہ کے لئے۔۔۔۔ 5 20 علم الاقتصاد کے اصول ابتدائی کیا کیا ہیں۔ 15 علم الاقتصاد کے اصول ابتدائی کیا کیا ہیں۔ 52 علم الاقتصاد کے ابتدائی اصول کیا کیا ہیں 6 24 یہ تسلیم کرنے میں ہمیں عذر نہیں ہے 20 یہ تسلیم کرنے میں عذر نہیں ہے 57 یہ تسلیم کرنے میں عذر نہیں ہے جس کے فوائد کا ذکر باب سوم میں آئیگا 31 جس کے فوائد کا ذکر باب چہارم میں آئیگا 66 جس کے فوائد کا ذکر باب چہارم میں آئے گا 8 34 جہاں سے کہ وہ اپنے 33 جہاں سے وہ اپنے 70 جہاں سے وہ اپنے 9 34 ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقلیل حاصل کے عمل 33 ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقلیل حاصل کے عمل 70 ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقابل حاصل کے عمل 10 40 قومی دولت کو یکساں 37 قومی دولت کے لئے یکساں 75 قومی دولت کے لئے یکساں 11 40 قومی دولت کے پیدا ہونے کی۔۔۔ مزید دولت کے پیدا ہونے کی۔۔۔۔ 75 مزید دولت پیدا ہونے کی۔۔۔ 12 41 جو چیز اس سے سو سال پہلے۔۔۔ 38 جو چیز سو سال پہلے۔۔۔ 75 جو چیز سو سال پہلے۔۔۔ 13 41 اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آ گئے 39 اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آئیں 76 اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آئیں 14 43 تخصیص و تنظیم کرنی۔۔ 40 تخصیص و تنظیم کرنی۔۔۔ 78 تخصیص و تنظیم کرنا۔۔۔ 15 44 ہمراہیوں پر فوق لیجانے کی 41 ہمراہیوں پر فوقیت لے جانی۔۔۔ 79 ہمراہیوں پر فوقیت لے جانے کی 16 49, 50 باب اول میں تمہیں۔۔۔ 36 باب دوم میں تمہیں۔۔ 84 باب دوئم میں تمہیں 17 50 مگر باب دوم میں ہم نے۔۔۔۔ 46 مگر باب سوم میں ہم نے۔۔۔ 84 مگر باب سوم میں ہم نے۔۔۔ 18 63 دیگر ممالک انہیں اشیاء کو۔۔۔ 58 دیگر ممالک انہی اشیاء کو۔۔۔ 98 دیگر ممالک انہی اشیاء کو۔۔۔ 20 64 دستکاروں کے ہنر سمجھنا اور دور اندیشی میں۔۔۔ 59 دستکاروں کی ہنر مندی، سمجھ اور دور اندیشی میں۔۔۔ 99 دستکاروں کی ہنر مندی، سمجھ اور دور اندیشی میں۔ 21 65 علم ادب اور دیگر علمی مشاغل۔۔۔ 60 علم و ادب اور دیگر علمی مشاغل 100 علم و ادب اور دیگر علمی مشاغل 22 71 جنکے رو سے ایسی اشیاء کا 69 جن کے رو سے اشیاء کا۔۔۔ 109 جن کی رو سے اشیاء کا 23 72 جنکی وساطت سے تجارت عالم کی 70 جن کی وساطت سے تجارت کی۔۔ 110 جن کی وساطت سے تجارت کی 24 78 جس شخص کو مہینے دن کی محنت 76 جس شخص کو ایک مہینے کی محنت۔۔۔۔ 116 جس شخص کو ایک مہینے کی محنت۔۔۔ 25 81 زر نقد کی قوت خرید اور۔۔۔ 79 زر نقد کی قیمت خرید اور۔۔۔ 121 زر نقد کی قیمت خرید اور۔۔۔ 26 82 زیادہ قیمت ادا کرنے کی متحمل 80 زیادہ قیمت کے متحمل۔۔۔ 121 زیادہ قیمت کے متحمل۔۔۔ 27 87 اس حصے کی افادیت انتہائی کا۔۔۔ 85 اس حصے کی افادیت انتہائی کا۔۔۔ 127 اس حصے کی افادیت انتہائی کا۔۔۔ 28 88 مصارف پیدائش کے قریب آ جائیگی۔۔۔ 85 مصارف پیدائش کے قریب آ جائیگی 128 مصارف پیدائش کے قریب آ جائیں گے۔۔۔ 29 97 کہ تجارت بیرونی سے۔۔۔ 94 کہ بیرونی تجارت سے 137 کہ بیرونی تجارت سے 30 98 گریز نہیں کی جا سکتی 95 گریز نہیں کی جاسکتی 138 گریز نہیں کیا جا سکتا 31 102 پیدا کرنے میں صرف ہوتی رہے۔۔۔ 98 پیدا کرنے میں صرف ہوتے رہیں 144, 143 پیدا کرنے میں صرف ہوتے رہیں 32 107 دن بدن زیادہ زیادہ۔۔۔ 104 دن بدن زیادہ سے زیادہ۔۔۔ 149 دن بدن زیادہ سے زیادہ 33 110 غور کرنے پر معلوم ہو گا۔۔۔ 106 غور کرنے سے معلوم ہو گا۔۔۔ 152 غور کرنے سے معلوم ہو گا 35 111 واجب الاداء ہوتے۔۔۔ 107 واجب الادا ہوتی۔۔۔ 153 واجب الادا ہوتی۔۔ 36 114 اس شے کی قدر سے ہے۔۔۔ 110 اس شے کی قدر سے ہے۔۔۔ 156 اس شے سے ہے۔ 37 117 مقدار پر انحصار رکھتا ہے۔ 113 مقدار پر ہے۔۔۔ 159 مقدار پر ہے۔۔۔ 38 137 سکوں کا وزن قانونی وزن سے۔۔۔ 122 سکوں کا وزن قانونی وزن سے 169 سکوں کا وزن قانونی ہے۔۔۔ 39 130 اس کی قدر16آنے برابر ہوتی 125 اس کی قدر16 آنے کے برابر مقرر کرنی۔۔۔ 173 اس کی قدر 16آنے کے برابر ہیمقرر کرنی۔ 40 142 یعنی اعتبارات فرضی اور حقوق نالشی 137 یعنی اعتبارات، قرضے اور حقوق نالشی۔۔۔ 185 یعنی اعتبارات، قرضے اور حقوق نالشی 41 146 تو میں یہ حق ہرگز نہ خرید کرتا۔۔۔ 140 تو میں ہرگز نہ خرید کرتا 190 تو میں ہر گز نہ خرید کرتا 42 136 میری غرض یہی ہوتی ہے کہ مجھے منافع ہو۔ اگر مجھے کمپنی 140 میری غرض یہی ہوتی ہے کہ مجھے منافع ہو۔۔۔ اگر مجھے کمپنی۔۔۔ 190 میری غرض یہی ہوتی ہے کہ مجھے کمپنی۔۔۔ 43 155 اس کے مزارع۔۔۔ 151 اس کا مزارع۔۔۔ 200 اس کا مزارع 44 156 نہ زمینداروں کا۔۔۔ 153 نہ کہ زمینداروں کا 202 نہ کہ زمینداروں کا 45 159 سرمایہ منتقل ہو گا وہاں۔۔۔ 156 سرمایہ منتقل ہو وہاں۔۔۔ 205 سرمایہ منتقل ہو وہاں 46 160 باب گذشتہ میں بیان کر آئے ہیں 157 باب گذشتہ میں کہہ آئے ہیں۔ 206 باب گذشتہ میں کہہ آئے ہیں۔ 47 161 ایک ہی وقت پر ایک ہی قسم کی۔۔۔ 157 ایک ہی وقت پر ایک ہی قسم کی۔۔۔ 206 ایک ہی وقت ایک ہی قسم کی۔ 48 170 وہ منافع حاصل کرینگے۔۔ 165 وہ منافع حاصل کرینگے 216 زیادہ منافع حاصل کریں گے۔۔۔ 49 178 مجبوراً تجارت کی اس شاخ کو۔۔۔ 173 مجبوراً تجارت کی اس شاخ کو۔۔۔ 224 مجبوراً اس شاخ کو۔۔۔ 50 180 پیداوار محنت میں سے۔۔۔ 175 پیداوار محنت میں سے۔۔۔ 227 پیداوار محنت سے 51 185 مقابلہ ناکامل دستکاروں کی۔ 171 مقابلہ درستکاروں کی 231 مقابلہ درستکاروں کی 52 193 پل تیا کرواتی دیگر رفاہ عام کی۔۔۔ 186 پل تیار کرواتی ہے اور دیگر رفاء رام کی۔۔۔ 239 پل تیار کراتی ہے اور دیگر رفاء عام کی۔۔ 53 199 آبادی۔۔۔وجہ معیشت 195 آبادی 247 آبادی طبع اول میں کئی مقامات پر متعدد عبارات اور جملوں کو نمایاں کرنے کے لئے ان کے نیچے خط کھینچا ہے۔ مختلف الفاظ یا جملوں کے نیچے خط کھینچنے سے مقصود قارئین کو متعلقہ بات کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اس کا اہتمام کیا ہے، لیکن اقبال اکادمی کے دو نسخوں میں طبع اول کے خط کشیدہ حصوں کو خط کشیدہ نہیں بنایا گیا، اور نہ دیگر محذوفات و تصرفات کی مانند اس کی کہیں وضاحت کی گئی ہے۔ طبع اول میں ’’ دیباچہ مصنف ‘‘ (ص4) ہے، اور یہ صحیح ہے۔ یہ فارسی لفظ ’’ دیباچہ‘‘ کا معرب ہے۔ اقبال بالعموم ’’ دیباچہ‘‘ ہی لکھتے ہیں۔ طبع اول ص6اور7پر بھی انہوں نے ’’ دیباچے‘‘ لکھا ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ میں منقول جامی کے ایک شعر میں بھی ’’ دیباچہ‘‘ ہے۔ (ص21) طبع دوم اور سوم میں اس لفظ کو ’’ دیباچہ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ (20) شاید مرتب کے پیش نظر یہ بات ہو کہ عام قارئین لفظ ’’ دیباچہ‘‘ سے مانوس نہیں ہیں، اس لئے اس لفظ کو مانوس بنانے کے لئے ’’ دیباجہ‘‘ سے ’’ دیباچہ‘‘ کر دیا۔ اگرچہ لفظ’’ دیباچہ‘‘ بھی صحیح ہے اور عام طور پر یہی لفظ زیادہ مستعمل ہے، لیکن چونکہ یہاں اصل متن کا مسئلہ ہے اور علامہ اقبال نے بھی با اہتمام لفظ’’ دیباجہ‘‘ لکھا ہے، اس لئے اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا اور بے جا تصرف سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ طبع اول کے اکثر الفاظ جو واحدہیں، انہیں جمع اور جو جمع ہیں انہیں واحد بنا دیا گیا ہے، اور اس کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، مثلاً: طبع اول (ص20) طبع دوم (ص15)، طبع سوم (ص52) میں لفظ ’’ معانی‘‘ جمع ہے، مگر اسے واحد بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح پہلے نسخے کے ص33 پر لفظ ’’ سمندر‘‘ واحد کے طور پر استعمال ہوا ہے، لیکن طبع دوم (ص31) طبع سوم (ص68) میں’’ سمندروں‘‘ کر دیا گیا ہے، اگرچہ اصل متن کے مطالعے سے لفظ’’ سمندر‘‘ کو سمندروں لکھنے کی توجیہہ سمجھ میں آ جاتی ہے، کہ اس لفظ سے پہلے کے جملے میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ جمع ہیں، مثلاً: چراگاہوں، جنگلوں، گویا یہ اصلاح صحیح ہے، لیکن اس کی وضاحت کر دی جاتی تو بہتر تھا۔ اسی طرح بہت سے الفاظ مثلاً’’ ضرورت‘‘ ،’’ ہے‘‘ وغیرہ کو جمع بنا دیا گیا ہے۔ طبع اول کے ص154، ص178وغیرہ پر اپنے موقف میں اقبال نے نیا پیراگراف شروع نہیں کیا۔ جبکہ طبع دوم کے ص151، ص173اور طبع سوم ص199، ص225پر الگ سے پیراگراف بنا کر بات شروع کی گئی ہے۔ طبع اول کے متن میں بعض جگہ نئے پیراگراف کی ضرورت تھی، چونکہ اقبال نے ایسا نہیں کیا، اس لئے اس کا بھی خیال رکھنا ضروری تھا۔ طبع اول میں اضافت کا خاص خیال رکھا گیا ہے، سوائے چند مقامات کے، کہ جہاں اضافت نہیں ہے۔ طبع دوم اور سوم میں محض چند ایک مقامات کے، اضافت کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا گیا، جس سے عبارت کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ مزید برآں طبع اول کے ص81پر کچھ جملوں کو واوین نہیں لکھا گیا، جبکہ طبع دوم ص79، طبع سوم121 پر واوین کا اہتمام کیا گیا ہے، اس کی خاص ضرورت نہ تھی۔ اس مفصل جائزے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں، کہ مرتب نے ’’ حرمت متن‘‘ کا ادراک نہیں کیا۔ مرتب کی ترامیم و اصلاحات سے اگرچہ عبارات میں روانی پیدا ہو گئی ہے، اور جملے بھی چست ہو گئے ہیں لیکن اس سے اصل متن بہت حد تک مشکوک ہو گیا ہے۔ مرتب کی یہ کوشش اپنی جگہ بہت اہم ہے، البتہ یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ اصل متن میں جو الفاظ سہوراً رہ گئے تھے، یا جن کا املا موجودہ قواعد کے مطابق نہیں تھا، یا جن جملوں میں ترامیم و اضافے کی ضرورت تھی، ان تمام امور کی حواشی میں وضاحت کر دی جاتی۔ بعض ترامیم و اصلاحات کی وضاحت حاشئے میں کی گئی ہے، مگر وہ ناکافی ہے۔ اگر بار بار حواشی درج کرنا نا مناسب تھا تو قلابین میں اضافہ شدہ، محذوف شدہ، ترمیم و وضاحت شدہ الفاظ و جملے درج کر دیے جاتے، اس عمل سے اصل متن مجروح نہ ہوتا اور عبارت کی روانی میں بھی فرق نہ آتا۔ مختصر یہ کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو دوبارہ زیادہ بہتر طریقے سے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’بہتر اشاعت‘‘ میں موجودہ اور صحیح تر املا کا اہتمام کیا جائے اور اس کی وضاحت حواشی، قلابین یا قوسین میں ضرور کر دی جائے۔ ترجمہ یا طبع زاد؟ علامہ اقبال کثرت سے مطالعہ کیا کرتے تھے۔ مطالعے کا یہ سلسلہ آخر عمر تک جاری رہا۔ وہ علمی و ادبی مجلسیں ہوں یا نجی صحبت، ہر قسم کے موضوع پر باسانی عالمانہ گفتگو کر سکتے تھے، یہ ان کی وسعت مطالعہ کی دلیل ہے۔ خیال ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ (1904ئ) کی تالیف سے قبل انہوں نے علم معاشیات سے متعلق اہم کتابوں کا مطالعہ کیا ہو گا۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اشاعت سے پہلے وہ واکر (Walker) کی پولیٹیکل اکانومی کا ملخص ترجمہ کر چکے تھے۔ جب ہم ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس پر مختلف یورپی مصنفین کی تصانیف کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ترجمہ ہے یا طبع زاد؟علامہ اقبال نے طبع اول کے دیباچہ میں لکھا ہے: ’’ یہ واضح کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کئے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے اپنی ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔‘‘ 21؎ اس وضاحت سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ مختلف کتب سے استفادہ تو کیا گیا ہے، مگر اپنی آراء کا بھی اظہار کیا گیا ہے، گویا آزادانہ پیرائے میں اقتصادیات کے موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ جب ’’ علم الاقتصاد‘‘ ایک طبع زاد کتاب تھی، تو علامہ کو دیباچے میں اس بات کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، ڈاکٹر ملک حسن اختر لکھتے ہیں: ’’ علامہ اقبال نے اپنی کتاب میں ان مشہور اور مستند کتب کا حوالہ نہیں دیا اور نہ کہیں ان کا نام لیا ہے جن سے انہوں نے استفادہ کیا تھا۔ اس سے اور بھی تعجب ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کی یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے حالانکہ کسی بھی طبع زاد تصنیف کے دیباچے میں اس بات کا اعلان ضروری نہیں ہوتا۔ دراصل علامہ اقبال اس سے پہلے فرانسس اے واکر کی کتاب پولیٹیکل اکانومی کا ترجمہ کر چکے تھے چنانچہ اس سے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ بھی ترجمہ ہو۔ واکر کی کتاب کا جو ترجمہ انہوں نے کیاتھا، وہ اب نہیں ملتا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ علم الاقتصا دکی بنیاد یہی ترجمہ ہے۔‘‘ 22؎ ہماری رائے میں علامہ نے یہ وضاحت اس لئے ضروری محسوس کی کہ انہوں نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی تصنیف سے قبل واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا ترجمہ کیا تھا۔ اس خیال کو رفع کرنے کے لئے کہ کہیں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو واکر کی کتاب کا ترجمہ نہ سمجھا جائے، انہوں نے طبع زاد کتاب کے دیباچے میں اس کی نشان دہی کر دی۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر اس اقتباس میں خود ہی علامہ کے اس اعلان پر اعتراض کر رہے ہیں، اور خود ہی اپنے اس اعتراض کا جواب بھی دے رہے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ سے قبل چونکہ وہ واکر کی کتاب کا ترجمہ اخذ کر چکے تھے۔ اس لئے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ بھی ترجمہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ علامہ نے اسی شبہ کو رفع کرنے کی غرض سے دیباچے میں وضاحت ضروری سمجھی، اس بات سے ڈاکٹر ملک حسن اختر بھی بخوبی واقف ہیں، ایسی صورت میں ان کے اس اعتراض کا کیا جوا زہے؟ محمد حمزہ فاروقی بھی اس بات سے متفق ہیں کہ جہاں تک مواد کا تعلق ہے، یہ کسی ایک کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس میں اس دور کے مقبول و متدوال نظریات آ گئے ہیں علامہ نے الفریڈ مارشل (Alfred Marshal) واکر (Walker) ایڈم اسمتھ (Adam Smith) اور جے ایس مل (J.S. Mill) کی تصانیف سے استفادہ کیا تھا۔ مالتھس (Malthus) اور پروفیسر ٹاوسگ (Taussig) کے نظریات سے بھی آپ متاثر نظر آتے ہیں۔ محمد حمزہ فاروقی مزید کہتے ہیں کہ علامہ نے ان انگریزی مصنفین کا حوالہ نہیں دیا، اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک درسی کتاب تھی، اس لئے درسی کتاب میں بھاری بھر کم ناموں کے حوالے دینا ضروری نہیں تھا23؎ اگر محمد حمزہ فاروقی مندرجہ انگریزی مصنفین کی کتب کا بھی حوالہ دے دیتے، اور’’ علم الاقتصاد‘‘ کے ان حصوں کی بھی نشاندہی کر دیتے جو محولہ بالا مصنفین کے خیالات سے متاثر نظر آتے ہیں، تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قدرے آسان ہو جاتا کہ اقبال ان مصنفین سے کس حد تک متاثر ہوئے۔ ان کا کہنا صحیح نہیں ہے کہ علامہ اقبال نے حوالوں کی طرف توجہ نہیں کی کیونکہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں ایڈم سمتھ، مالتھس اور جے ایس مل کا ذکر ایک دو مقامات پر ضرور آیا ہے۔ اس پر تو اکثر نقاد متفق ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کسی ایک کتاب کا ترجمہ نہیں ہے، بلکہ اس میں مختلف انگریز مصنفین کے نظریات آ گئے ہیں، لیکن مشفق خواجہ اور ڈاکٹر ملک حسن اختر نے دو خاص انگریز مصنفین کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ مشفق خواجہ نے الفریڈ مارشل کے اثرات کا اور ڈاکٹر ملک حسن اختر نے واکر کے اثرات کا حوالہ دیا ہے، مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال نے سب سے زیادہ فائدہ جس کتاب سے اٹھایا، وہ الفریڈ مارشل کی کتاب Principle of Economics ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب علم معاشیات پر پہلی باضابطہ کتاب ہے۔ یہ کتاب پہلی بار1890ء میں شائع ہوئی اور علمی دنیا میں اس حد تک مقبول ہوئی کہ 1898ء تک اس کے چار ایڈیشن شائع ہوئی اور علمی دنیا میں اس حد تک مقبول ہوئی کہ 1898ء تک اس کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔ اس کی اس مقبولیت سے مشفق خواجہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ممکن ہے اس کتاب کی مقبولیت دیکھ کر ہی اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھنے کا ارادہ کیا ہو۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ یہ بتاتے ہیں کہ Principles of Economics کے اثرات ’’ علم الاقتصاد‘‘ پر بہت زیادہ ہیں۔ اقبال نے اگرچہ مارشل کی کتاب کا لفظ بہ لفظ ترجمہ نہیں کیا لیکن مواد اسی کتاب سے لیا ہے۔ بعض جگہ اقبال نے مارشل کی کئی عبارتوں کا لفظی ترجمہ بھی کیا ہے۔ آگے چل کر مشفق خواجہ لکھتے ہیں: ’’ اقبال کا مارشل کی عہد آفرین کتاب سے اس حد تک متاثر ہونا ضروری تھا۔ اس کتاب سے استفادہ کئے بغیر وہ علم الاقتصاد کو بہتر نہیں بنا سکتے تھے۔ لیکن مارشل کا حوالہ نہ دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ 24؎ لیکن ملک حسن اختر، مشفق خواجہ کی اس بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ پر سب سے زیادہ اثر مارشل کی کتاب کا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ سب سے زیادہ واکر کی پولیٹیکل اکانومی سے متاثر نظر آتی ہے۔ ا س سلسلے میں انہوں نے تفصیلاً تحریر کیا ہے کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں ابواب کی تقسیم، عنوانات، حتیٰ کہ کتاب کا ذیلی عنوان ’’ علم سیاست مدن‘‘ بھی واکر کی کتاب پولیٹیکل اکانومی کا ترجمہ ہے، نہ کہ مارشل کی ’’ اصول معاشیات‘‘ کا جو Principles of Economics کا ترجمہ ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں انہوں نے پولیٹیکل اکانومی کے کچھ اقتباسات نقل کئے ہیں، اور ان کے ساتھ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے اقتباسات پیش کئے ہیں۔ 25؎ ان اقتباسات میں بعض تو واکر کی کتاب کے اقتباسات کا لفظی ترجمہ ہیں، اور بعض آزاد ترجمے کی ذیل میں آتے ہیں۔ مشفق خواجہ نے مارشل کی کتاب کو علم معاشیات پر پہلی باضابطہ کتاب قرار دیا ہے، جبکہ ڈاکٹر ملک حسن اختر کا کہنا ہے کہ مارشل کی کتاب سے سات برس پہلے واکر کی پولیٹیکل اکانومی شائع ہو چکی تھی، اور1888ء تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے تھے اور 1892ء میں تیسرے ایڈیشن کی تلخیص شائع ہوئی۔ اس طرح نو سال میں چار ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان تمام حقائق اور تفاصل کے بعد وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ واکر کی کتاب سے متاثر ہے، علامہ نے واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا جو ترجمہ تلخیص کی صورت میں کیا تھا، بعد میں اس میں تھوڑی ترامیم اور کچھ اضافہ کر کے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے اپنی کتاب شائع کر دی۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر نے واکر کی پولیٹیکل اکانومی اور علامہ اقبال کی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا تفصیلی تقابلی جائزہ پیش کئے بغیر یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ علامہ نے جو ترجمہ کیا تھا، اسی میں ترمیم و اضافہ کرنے کے بعد اپنے نام سے شائع کر دیا فاضل مصنف نے اپنے مضمون کا عنوان ’’ علم الاقتصاد‘‘ متعین کیا ہے، لیکن اس مضمون میں’’ علم الاقتصاد‘‘ کے تمام پہلو زیر بحث نہیں لائے گئے اور جس پہلو پر بحث کی گئی ہے وہ بھی تشنہ ہے۔ محض چند اقتباسات کی بنیاد پر جناب ملک حسن اختر کی رائے کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ علامہ اقبال کا واکر کی کتاب سے متاثر ہونا ایک یقینی امر ہے، کیونکہ یہ نصاب میں شامل تھی اور اقبال اس پر درس دیا کرتے تھے۔ مزید برآں انہوں نے اس کا ملخص ترجمہ بھی کیا تھا، اس طرح لاشعوری طور پر واکر کی پولیٹیکل اکانومی کے اثرا ت ان کے ذہن پر مرقسم ہو گئے ہوں گے، اور جب انہوں نے خود اس موضوع پر کتاب لکھی تو یہ اثرات الفاظ میں ڈھل گئے۔ ایک مترجم جب اسی موضوع پر کچھ لکھتا ہے، جس سے اس کا براہ راست واسطہ رہا ہو تو لا محالہ ا س موضوع کے اثرات اس کی تحریر میں در آتے ہیں۔ یہی کچھ علامہ اقبال کے ساتھ بھی پیش آیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض مقامات پر انہوں نے مارشل اور واکر کی تحریروں کا لفظی یا آزاد ترجمہ پیش کیا ہے۔ مگر یہ بات واقعی تعجب انگیز ہے کہ انہوں نے اس اثر پذیری کے باوجود کتاب میں دونوں مصنفین کا حوالہ نہیں دیا، حالانکہ یہ ضروری تھا کم از کم واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا تذکرہ کرنا ضروری تھا، کہ یہ کتاب نصاب میں شامل تھی اور علامہ اس کا ترجمہ بھی کر چکے تھے۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ایک طبع زاد کتاب ہے۔ اگرچہ بعض انگریز مصنفین کی کتب کے اثرات اس میں موجود ہیں، لیکن پوری کتاب کو ترجمے کی ذیل میں نہیں رکھ سکتے، اگر اقبال چاہتے تو واکر کی پولیٹیکل اکانومی کے ملخص ترجمے کو شائع کروا دیتے اور علیحدہ سے ’’ علم الاقتصاد‘‘ نہ لکھتے، مگر انہوں نے ایسا نہ کیا کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتے تھے اور سادہ و آسان انداز میں ان تجاویز کو پیش کرنا چاہتے تھے جو انہوں نے اقتصادی حالت کی بہتری کے لئے متعین کی تھیں۔ ہم سید افتخار حسین شاہ کی اس رائے سے متفق ہیں: ’’ علم الاقتصاد، میں اخذ و ترجمہ کے علاوہ انفرادی غور و فکر کی بھی ایسی راہیں ملتی ہیں کہ جن پر علامہ ا گر بعد کی زندگی میں بھی گامزن رہتے تو یقینا ایک ماہر اقتصادیات کی حیثیت سے شہرت حاصل کرتے۔‘‘ 26 علم الاقتصاد کی اہمیت: اردو نثر میں علامہ اقبال کا پہلا علمی کارنامہ علم معاشیات پر ایک باضابطہ کتاب ہے۔ علامہ نے جس دور میں یہ کتاب لکھی، اس وقت اردو میں اس موضوع پر کوئی باقاعدہ تصنیف موجود نہیں تھی، البتہ بعض انگریزی کتب کے اردو میں تراجم کئے گئے لیکن یہ تراجم طبع زاد کی ذیل میں نہیں آتے۔ معاشیات جیسے خشک موضوع پر ایک باقاعدہ کتاب لکھ دینا اس دور میں قدرے مشکل تھا، جبکہ اقبال ایک شاعر تھے اور شاعر فطرتاً حساس، جذباتی اور پرجوش ہوتے ہیں، علم الاقتصادیات خالصتاً ایک خشک موضوع ہے، اس میں جذبات کی رنگ آمیزی ممکن نہیں ہوتی۔ اقبال نے ایک شاعر ہونے کے باوجود اپنے نثری کارنامے کا آغاز علمی موضوع سے کیا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں: ’’ علم الاقتصاد کے دور (بیسویں صدی کے آغاز) میں، ایک علمی زبان کی حیثیت سے، اردو کچھ ایسی ترقی یافتہ نہ تھی، اور معاشیات جیسے سائنسی فن پر اردو میں کچھ لکھنا خاصا مشکل تھا، پھر بھی اقبال نے یہ کتاب اردو میں لکھی۔‘‘ 27؎ علامہ نے معاشیات کے اہم شعبوں سے بحث کی ہے، مثلاً: پیائش دولت، تبادلہ دولت، پیداوار دولت کے حصہ دار وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس بحث کے دوران میں بہت سے ضمنی موضوعات بھی آتے ہیں۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ علامہ کی نوجوانی کی تصنیف ہے، مگر نوجوان اقبال اپنے دور کے معاشی حالات سے بخوبی واقف تھا۔ یورپ کے بڑھتے ہوئے سامراج اور ایشیا و افریقہ کی معاشی پسماندگی سے اچھی طرح واقف تھے۔ پیدائش دولت کے باب میں علامہ اقبال نے ضمنی طور پر زمین، محنت، سرمایہ اور کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے، پر بحث کی ہے۔ وہ دولت اور تنظیم دولت کو افراد کے بلند اخلاقی و روحانی نصب العین کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ 28؎ باب پنجم میں آبادی کا ذکر کیا ہے کہ وہ کسی ملک کی معیشت پر کسی طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے جدید اشیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جدید اشیاء کی پیداوار اور صرف دولت کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ مسئلہ ملکیت زمین سے علامہ کو ہمیشہ دلچسپی رہی، ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں وہ زرعی لگان کے باب میں بعض فلسفیوں کے حوالے سے اس خیال کو پیش کرتے ہیں کہ زمین چونکہ کسی خاص فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ قدرت کا مشترکہ عطیہ ہے، اس لئے اس پر قوم کے ہر فرد کو مساوی حق ملکیت حاصل ہے۔ اقبال دل سے اس بات کے آرزو مند تھے کہ ملک کو مفلسی اور غربت کے چنگل سے آزاد کر دیا جائے۔ یہ مسائل ایسے ہیں جو آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی ایک پیچیدہ مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بقا کے لئے ان تمام اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے، جو ایک صحت مند معاشرے میں ہونی چاہئیں۔ آبادی کی زیادتی ملک کے صنعتی وسائل پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ روزگار کے مواقع مہیا نہ ہونے کے باعث ملک میں غربت عام ہوتی جا رہی ہے۔ نتیجتہً بیروزگاری کے باعث ملک میں جرائم کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے، ذہن پراگندہ ہیں، جسمانی صحت قابل رحم ہے اور اخلاقی قدریں ناپید ہو گئی ہیں۔ علامہ اقبال نے آج سے تقریباً نواسی سال پہلے آبادی کو کنٹرول کرنے کی تجاویز پیش کر دی تھیں۔ گویا اقبال کے وجدان نے انہیں بہت پہلے اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کر دیا تھا، اگر آج ہم اقبال کی پیش کردہ تجاویز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی مثبت لائحہ عمل اختیار کریں تو ممکن ہے کہ صورت حال مختلف ہو۔ علامہ اقبال کے نزدیک معیشت اور اخلاق ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں، اگر اخلاق اور معیشت متحد نہ ہوں تو معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، چودھری مظفر حسین لکھتے ہیں کہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ تنظیم دولت کے لئے آئینی، قانونی اور تنظیمی طریقے اختیار کرے تاکہ معاشرے کے اندر تقلیل و کثرت دولت کے اخلاقی مفاسد جنم نہ لینے پائیں ۔ 29؎ ہمارے ہاں امیر طبقہ امیر سے امیر تر ہے۔ دور غلامی کی طرح آج بھی غریبوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں ان کی محنت کے مطابق اجرت نہیں دی جاتی، نتیجتہً وہ جدید سہولتوں سے محروم ہیں۔ امیر طبقہ بے تحاشا فضول خرچی کرتا ہے۔ اہل محنت سے علامہ اقبال کو دلی ہمدردی ہے، وہ ان کی زبوں حالی پر نالاں ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ انہیں آسودگی اور خوشحالی نصیب ہو، معاشرہ انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے جس میں غریب کا معیار زندگی بلند کر کے اسے درمیانہ طبقہ تک پہنچنے کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور امیر کے ذرائع آمدنی کو محدود کر کے اسے درمیانہ طبقہ سے تجاوز کرنے سے روکا جائے۔ 30؎ علامہ اقبال جاگیردارانہ نظام کے شدت سے مخالف تھے۔ انہیں ساہوکار، زمیندار اور کارخانہ دار کے مقابلے میں مزدور اور کاشتکار سے ہمیشہ ہمدردی رہی ہے۔ اس ہمدردی کا اظہار اقبال نے اپنے بعد کے کلام (خضر راہ، پیام مشرق، جاوید نامہ) میں بھی کیا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ دولت مزدور پیدا کرتا ہے لیکن مالک انہیں معاوضہ زکوٰۃ کی طرح دیتا ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں کئی دیگر معاشی مسائل پر بھی مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے، اگرچہ موجودہ دور میں علم معاشیات نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے، لیکن بہت سے بنیادی مسائل آج بھی وہی ہیں، جن کی نشان دہی اقبال نے کی ہے۔ یہ کتاب اقبال کے اقتصادی تصورات سمجھنے میں بہت ممد ثابت ہو سکتی ہے۔ بالخصوص وہ اقتصادی تصورات جو ایک حد کے بعد ملکی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں (اور ہوتے ہیں۔ 31؎ علامہ اقبال کے نزدیک معاشی ترقی کا راز قومی تعلیم میں مضمر ہے، تعلیم ہی سے دست کار کا ہنر اور فن، اس کی محنت اور کارکردگی اور ذہانت ترقی کرتی ہے، اس کے اخلاق سنورتے ہیں۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں بہت سی ایسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں، جو آج بھی مستعمل ہیں، اگرچہ ان میں سے بہت سی اصطلاحات متروک ہو گئی ہیں، تاہم معاشیات کا طالب علم ان سے ناواقف نہیں ہے۔ ایسی بہت سی اصطلاحات کے مترادفات مشفق خواجہ نے اپنے مضمون میں پیش کئے ہیں۔ 32؎ دیباچے میں علامہ اقبال اصطلاحات کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ نئی علمی اصطلاحات کے وضع کرنے (کی) دقت کو ہر با مذاق آدمی جانتا ہے، میں نے بعض اصطلاحات خود وضع کی ہیں اور بعض مصر کی عربی اخباروں سے لی ہیں جو زمانہ حال کی عربی زبان میں آج کل متد اول ہیں، جہاں جہاں کسی اردو لفظ کو اپنی طرف سے کوئی نیا مفہوم دیا ہے ساتھ ہی اس کی تصریح بھی کر دی ہے۔‘‘ 33؎ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی ’’ علم الاقتصاد‘‘ موجودہ قواعد زبان اور جدید اسلوب کے قریب ترین ہے، اگرچہ کہیں کہیں املا قدیم قاعدے کے مطابق ہے، اس میںاقبال کا قصور نہیں ہے۔ جس دور میں اقبال نے یہ کتاب لکھی، اس وقت اردو زبان علمی اعتبار سے اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ اس میں مستند علمی کتاب لکھی جا سکے۔ اس وقت کے باوجود اقبال نے معاشی مسائل نہایت آسان اور سلیس زبان میں بیان کئے ہیں۔ اپنی بات کی وضاحت میں سادہ اور آسان اور عام فہم مثالیں دی ہیں۔ اس قسم کی مثالیں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے تقریباً ہر باب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں، سید نذیر نیازی لکھتے ہیں’’ علم الاقتصاد‘‘ کا انداز بیان بڑا سلجھا ہوا ، صاف اور سلیس ہے، زبان سر تا سر علمی 34؎ اقبال نے دیباچے میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میں اہل زبان نہیں ہوں لکھتے ہیں: ’’ زبان اور طرز عبارت کے متعلق صرف اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ میں اہل زبان نہیں ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا ہے میں نے اقتصادی اصولوں (کے) حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اردو زبان میں اس متین طرز عبارت کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جو انگریزی علمی کتابوں میں عام ہے۔‘‘ 35؎ یہ محض علامہ اقبال کا احساس تھا کہ وہ اہل زبان نہیں ہیں، ورنہ اقبال سے زیادہ اہل زبان کون ہو سکتا ہے، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اگر’’ اہل زبان‘‘ کو یہاں ایک بطور اصطلاح کے لیا جائے تو اقبال کا اہل زبان نہ ہونا اس تالیف کے لئے بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اگر وہ’’ اہل زبان‘‘ ہوتے تو محاورے اور روز مرے کے چٹخارے سے بچنا ان کے لئے مشکل ہوتا اور وہ علمی لحاظ سے متین طرز عبارت اس خوبی سے اختیار نہ کر سکتے۔ 36؎ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی زبان کے سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اصلاح کا کام مولانا شبلی نعمانی نے انجام دیا ہے۔ دیباچے میں علامہ اقبال نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے، گویا زبان کے معاملے میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ کو شبلی کی سند حاصل ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا اسلوب کہیں کہیں مدرسانہ اور فلسفیانہ ہے۔ 37؎ ’’ علم الاقتصاد‘‘ چونکہ درسی تقاضوں کے تحت لکھی گئی تھی، اس لئے اس میں اکثر مقامات پر سمجھانے کا انداز نظر آتا ہے، مثلاً اس قسم کے فقرے نظر آتے ہیں’’ بہ الفاظ دیگریوں کہو کہ‘‘ ’’ مگر یاد رکھنا چاہئے‘‘ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تم جانتے ہو کہ ’’ تم شاید یہ کہو گے کہ‘‘ ’’ فرض کرو‘‘ کہیں اس غلطی میں نہ پڑ جانا ’’ دولت ہی کو لے لو‘‘ پھر اس کا کیا فائدہ وغیرہ اس طرز بیان سے بات بھی واضح ہو جاتی ہے اور عبارت میں پھیکا پن بھی نہیں آنے پاتا، ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں: ’’ یہ کتاب اپنے اندر نہ صرف معلومات کے اعتبار سے وسعت اور ہمہ گیری رکھتی ہے بلکہ زبان و بیان اور اسلوب کے اعتبار سے بھی منفرد نظر آتی ہے کیونکہ جس زمانے میں یہ لکھی گئی، اس زمانے میں اس انداز کی نثر لکھنے کا رواج عام نہیں تھا۔‘‘ 38؎ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت آج بھی مسلم ہے، وجہ یہ ہے کہ اقبال نے معاشیات کے جن مباحث پر گفتگو کی ہے، وہ آج بھی موجود ہیں، البتہ جدید ماحول کے تحت ان مسائل میں کافی حد تک تبدیلی بھی آئی ہے، مگر بنیادی مسائل وہی ہیں، جو ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں زیر بحث آئے ہیں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں: ’’ آج علم الاقتصاد، کی اہمیت اقبال کی اولیں تصنیف اور ایک یادگار کے طور پر ہے، نہ کہ معاشیات کی ایک کتاب کی حیثیت سے۔ معاشی نظریات اور اصولوںمیں اتنی پیش رفت ہو چکی ہے کہ علم الاقتصاد کا علمی مرتبہ لائق اعتنا نہیں، اور نہ یہ کتاب جدید معاشیات کے طلبہ کے لئے چنداں سود مند ہو سکتی ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا، اس کی یہ حیثیت گھٹتی چلی جائے گی، مگر اقبال کی تصنیف کے طور پر اس کی اہمیت بدستور قائم رہے گی۔‘‘ 39؎ انور اقبال قریشی ایک ماہر معاشیات ہیں، اور انہوں نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی طبع دوم کا مقدمہ بھی لکھا ہے، ان سے جب کسی دوست نے پوچھا کہ’’ علم الاقتصاد‘‘ موجودہ دور میں کیا اہمیت رکھتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ’’ علم الاقتصاد‘‘ کا مقابلہ موجودہ دور کے علم معاشیات سے کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ 1930ء کے ڈکوٹا ہوئی جہاز کا 1960ء کے بوئنگ جہاز سے کیا جائے۔ 1930ء میں بوئنگ جہاز کا تصور بھی موجود نہ تھا، لیکن ڈکوٹا آج بھی خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں فاصلے کم اور ہوائی اڈے معمولی درجے کے ہیں، ایک مقام رکھتا ہے۔ یہی کیفیت زیر تبصرہ کتاب کی ہے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک نہایت قابل قدر علمی کارنامہ تھا، اور اس وقت علم المعیشت کی تعلیم انگریزی زبان میں بھی بہت معمولی درجہ رکھتی تھی اور اس مضمون کے جاننے والوں کی تعداد نہایت محدود تھی۔ اردو میں ایک ایسی کتاب لکھنا جو اس مشکل مضمون کو عام فہم الفاظ میں بیان کرے، عوام کے لئے ایک نہایت علمی ذخیرہ مہیا کر دے، ایک انتہائی قابل قدر کوشش تھی، جس کی اہمیت اور افادیت آج بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ 40؎ سید نذیر نیازی ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اہمیت پر اس طرح تبصرہ کرتے ہیں: ’’ معاشیات میں اس وقت سے لے کر اب تک جو گراں قدر اضافے ہوئے، انداز بحث اور نقطہ نظر جس طرح بدلا اور بدلتا چلا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے علم الاقتصاد کی موجودہ اہمیت اگرچہ کہنے کو صرف تاریخی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود محمد اقبال کی صحت فکر اور مضمون پر گرفت کے ساتھ ساتھ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معاشیات کی حقیقی اہمیت اور بنیادی نوعیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کی صحت آج بھی مسلم ہے، تو اس کی قدر و قیمت کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔‘‘ 41؎ مندرجہ بالا آراء سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اگرچہ علم معاشیات میں خاصی پیش رفت ہو چکی ہے آج بھی علم اقتصاد کی پہلی علمی تصنیف کے طور پر اور ایک معاشی کتاب کے طور پر بھی دلچسپی سے پڑھی جا سکتی ہے۔ معاشی اصول و نظریات میں تبدیلی ایک فطری امر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ماحول و معاشرے میں تبدیلی آتی ہے اور پرانے نظریات اور اصول بھی بڑی حد تک بدل جاتے ہیں۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ایک ایسے شاعر کے قلم سے نکلی ہے جو نثر کو مقصود بالذات نہیں بلکہ انسانی خیالات کے اظہار کا محض ایک ذریعہ خیال کرتا تھا۔ ٭٭٭ حواشی 1اقبال ایک مطالعہ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ص27 2خالد نظیر صوفی (اقبال درون، ص163) ڈاکٹر وحید قریشی، (نقوش، اقبال نمبر، حصہ دوم، دسمبر1977ء ، ص30) اور ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کے نزدیک 29دسمبر1973ء صحیح ہے۔۔۔ سعید اختر درانی (اقبال یورپ میں، ص15) کے خیال میں جنوری، فروری 1976ء درست ہے۔ 3اقبال ریویو، جنوری 1976ء ص69 4رسالہ اردو، جولائی، اکتوبر1921 5زندہ رود (حیات اقبال کا تشکیلی دور) ص87 6تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص292, 291 7تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص289 8رسالہ ’’ اردو‘‘ جولائی اکتوبر1961ء 9اقبال ایک تحقیقی مطالعہ ص187 10مجلہ ’’ اقبال‘‘ بزم اقبال لاہور، اکتوبر1989ء ص:95-94 11’’ اقبال از: عطیہ فیضی، مطبوعہ اقبال اکادمی کراچی، ص18‘‘ 12اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔۔۔ علم الاقتصاد، مشمولہ: رسالہ ’’ اردو‘‘ جولائی اکتوبر1961ء 13اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔۔ علم الاقتصاد، از : مشفق خواجہ، مشمولہ: رسالہ ’’ اردو‘‘ جولائی، اکتوبر1961 14مکتوب بنام سر کشن پرشاد شاد، مشمولہ: شاد اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ص45 15تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص296 16پیش لفظ ’’ علم الاقتصاد‘‘ ازـ: ممتاز حسن ص2 17پیش لفظ’’ علم الاقتصاد‘‘ از: ممتاز حسن ص9 18تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص295 19تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص298 20تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص300 21’’ دیباچہ مصنف‘‘ علم الاقتصاد طبع اول، ص6 22اقبال ایک تحقیقی مطالعہ ص: 192, 191, 190 23علم الاقتصاد، از محمد حمزہ فاروقی، مشمولہ: اقبال ریویو، مجلہ اقبال اکادمی کراچی،جنوری 1976ء ص:74 24اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔ علم الاقتصاد، از مشفق خواجہ، مشمولہ : رسالہ اردو، جولائی اکتوبر1960ء 25اقبال ایک تحقیقی مطالعہ، ص192تا205 26 اقبال اور پیروی شبلی، از: سید افتخار حسین شاہ، ص140 27 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص284 28 اقبال کی علم الاقتصاد، از پروفیسر محمد عثمان، مشمولہ: حیات اقبال کا ایک جذباتی دور، ص80 29 اقبال کے زرعی افکار، از: چودھری مظفر حسین، ص:11 30 مئے لالہ فام، از ڈاکٹر جاوید اقبال، ص299 31اقبال کی نثر کا مزاج، از سلیم اختر، مشمولہ: مجلہ سہ ماہی اقبال، اپریل تا جولائی 1977ء ص87 32اقبال کا پہلا علمی کارنامہ۔۔۔۔ علم الاقتصاد، از مشفق خواجہ، مشمولہ: رسالہ اردو، جولائی تا اکتوبر1961 33دیباچہ مصنف، طبع اول، ص6 34دانائے راز، از : سید نذیر نیازی، 1979ء ص143 35دیباچہ مصنف، طبع اول، ص6 36 اقبال کا اسلوب نگارش، از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ص14 37نثر اقبال، از ڈاکٹر اسلم فرخی، مشمولہ: دانائے راز اقبال، مرتبہ: بابائے اردو مولوی عبدالحق 38اقبال کی اردو نثر، ص80 39تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص300 40مقدمہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ از انور اقبال قریشی، طبع دوم، ص13 41دانائے راز، از سید نذیر نیازی، 1979ئ، ص143 ٭٭٭ (2) تاریخ تصوف ’’ تصوف‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ ابو ریحان البیرونی اپنی تصنیف’’ کتاب الہند‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ تصوف‘‘ کا لفظ اصل میں سین اور اس کا مادہ مسوف تھا، جس کے معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں۔ دوسری صدی ہجری میں جب یونانی کتابوں کا ترجمہ ہوا تو یہ لفظ عربی زبان میں آیا۔ چونکہ حضرات صوفیا میں اشراقی حکماء کا انداز پایا جاتا ہے، اس لئے لوگوں نے ان کو سوفی یعنی حکیم کہنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ، سوفی سے صوفی ہو گیا۔1؎ ’’ تصوف‘‘ ایک ایسا مسلک ہے، جس کی آج تک جامع تعریف نہیں ہو سکی، اس لئے کہ یہ ایک ذاتی، تجرباتی، ذوقی اور وجدانی شے ہے۔ اس حالت میں تمام اصحاب رائے کا ایک ہی بات پر متفق ہونا محال ہے۔ ہر ایک کا ذوق و وجدان جداگانہ ہے۔ جس کا ذوق جتنا زیادہ ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ حقیقت الامر کو سمجھ سکتا ہے۔ 2؎ علامہ اقبال کو تصوف کے موضوع سے ابتداء ہی سے دلچسپی تھی، ان کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے تصوف کے سلسلہ قادریہ میں بیعت بھی کر رکھی تھی۔۔۔۔ علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ وہ صوفی ادب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔۔۔ علامہ کی والدہ محترمہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھیں مگر ان کا رحجان مذہبی تھا، چنانچہ اس مذہبی اور دیندارانہ فضا کا علامہ کے مزاج پر گہرا اثر ہوا، علاوہ ازیں علامہ کی شخصیت اور ذہنی نشوونما میں ان کے استاد مولوی میر حسن کا بھی نمایاں ہاتھ تھا۔ مولوی صاحب سے علامہ اقبال نے عربی، فارسی، اردو اور اسلامیات کی تعلیم حاصل کی اور اس طرح مولوی صاحب کی صحبت نے ان کے فطری جوہر کو نکھار دیا۔ 3؎ لاہور میں انہیں سر ٹامس آرنلڈ جیسے استاد سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ آرنلڈ کی تعلیم و تربیت کا علامہ اقبال کے دل و دماغ پر گہرا اثر پڑا۔ ڈاکٹر ابو سعید نور الدین لکھتے ہیں:ـ ’’ علامہ اقبال کے والد اور مولوی میر حسن کی خالص مشرقی تعلیم و تربیت کی بنا پر ان پر مذہبی رنگ غالب تھا۔ پروفیسر آرنلڈ کی صحبت میں رہ کر وہ فلسفہ کے ساتھ مذہب سے بھی دلچسپی لیتے رہے۔‘‘ 4؎ علامہ جب اعلیٰ تعلیم کے لئے یورپ تشریف لے گئے تو انہوں نے ایک تحقیقی مقالہ The Development of Metaphysics in Persia (فلسفہ عجم) لکھا۔ اس سلسلے میں انہیں وسیع پیمانے پر فارسی ادبیات کا مطالعہ کرنا پڑا، ایرانی متصوفین کے افکار سے بھی سابقہ پڑا۔ا نہوں نے ایران کے مشہور صوفی شعراء اور نثر نگاروں کے تفصیلی حالات زندگی اور ان کی تصنیفات کا محققانہ جائزہ لیا، جس نے ان کی علمی اور عملی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا 5؎ چنانچہ ان کے اردو و فارسی کلام نیز نثر میں اس موضوع پر خاصا مواد ملتا ہے۔ پروفیسر محمد فرمان لکھتے ہیں: ’’ اقبال ظاہری طور پر جبہ و دستار سے مزین نہیں تھے، لیکن ان کی قلبی واردات جس طرح منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں، انکی رو سے انہیں صوفی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس امر کا انہوں نے خود یوں اظہار کیا ہے: بیابہ مجلس اقبال و یک دو ساغر کش اگرچہ سر نتر اشد قلندری داند‘‘ 6؎ علامہ اقبال نے فارسی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کے ذریعے نظریہ ’’ خودی‘‘ پیش کیا تو بعض لوگوں نے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا۔ در حقیقت ایسا نہیں تھا، بلکہ اقبال کی مثنوی، تصوف کے صرف ان غیر اسلامی عناصر کے خلاف ایک احتجاج تھی، جو امتداد زمانہ سے اس میں داخل ہو گئے تھے۔۔۔ اقبال کا نظریہ خودی تصوف اسلام کے نظام تربیت کا ایک جزو ہے۔ یہ اس سے متصادم نہیں، دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں اور ممد و معاون ہیں۔ خودی کے استحکام اور استواری کیلئے اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کا جاننا اور ان پر سختی سے کاربند رہنا ضروری ہے۔ علامہ اقبال نے اس مخالفت کے پیش نظر عزم کر لیا تھا کہ ’’ اسلامی تصوف‘‘ کی ایک مبسوط تاریخ لکھ کر اپنے نظریے کی صحت کو ثابت کریں۔ ان کے مکاتیب سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے اس کام کا آغاز بھی کر دیا تھا مگر بہ وجوہ وہ اپنے اس عزم کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور ایک دو باب لکھ کر اس کام کو ادھورا چھوڑ دیا مثلاً: خان محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیںـ: ’’ تصوف کی تاریخ لکھ رہا ہوں۔ دو باب لکھ چکا ہوں یعنی منصور حلاج تک پانچ چار باب اور ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی علامہ ابن جوزی کی کتاب کا وہ حصہ بھی شائع کر دوں گا، جو انہوں نے تصوف پر لکھا ہے۔ گو ان کی ہر بات میرے نزدیک قابل تسلیم نہیں مگر اس سے اتنا تو ضرور معلوم ہو گا کہ علمائے محدثین اس کی نسبت کیا خیال رکھتے ہیں۔‘‘ 7؎ اسی طرح سید فصیح اللہ کاظمی کے نام14جولائی 16ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ تصوف کے متعلق میں خود لکھ رہا ہوں میرے نزدیک حافظ کی شاعری نے بالخصوص اور عجمی شاعری نے بالعموم مسلمانوں کی سیرت اور عام زندگی پر نہایت مذموم اثر کیا ہے۔ اسی واسطے میں نے ان کے خلاف لکھا ہے۔ مجھے امید تھی کہ لوگ مخالفت کریں گے اور گالیں دیں گے لیکن میرا ایمان گوارا نہیں کرتا کہ حق بات نہ کہوں، شاعری میرے لئے ذریعہ معاش نہیں کہ میں لوگوں کے اعتراضات سے ڈروں۔‘‘ 8؎ لیکن علامہ اقبال اپنے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اور محض دو باب ہی مکمل کر سکے، ایک خط بنام اسلم جیراجپوری، محررہ 17مئی 1919ء میں لکھتے ہیں: ’’ میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا۔ پروفیسر نکلسن اسلامی شاعری اور تصوف کے نام پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہو گی۔ ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام کر دے جو میں کرنا چاہتا تھا۔‘‘9؎ علامہ اپنی اس تحریر کو مکمل نہ کر سکے۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ غالباً انہوں نے اسے ایک غیر اہم کام سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی تحریر سے غیر مطمئن ہوں۔ علامہ کے لئے اپنی مخصوص افتاد طبع کے سبب منظم طریقے سے کسی منصوبے پر کام کرنا مشکل تھا۔۔۔۔۔ ’’تاریخ تصوف‘‘ کی تکمیل دلجمعی سے کام کیے بغیر ممکن نہ تھی، چنانچہ یہ کام ادھورا رہ گیا۔ کچھ معلوم نہ تھا کہ متذکرہ ’’ ایک دو ابواب‘‘ کہاں گئے اور ان کا انجام کیا ہوا۔ عام خیال یہ تھا کہ امتداد زمانہ کی نذر ہو گئے۔ در حقیقت یہ ابواب، علامہ اقبال کے کاغذات میں محفوظ رہے۔ 1977ء میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے اقبال کے بیشتر کاغذات اقبال میوزیم کو دے دیے۔۔۔ تصوف سے متعلق ’’ ایک دو ابواب‘‘ بھی انہی کاغذات میں شامل تھے 1983ء میں پروفیسر صابر کلوروی، کو اپنی تحقیق کے سلسلے میں میوزیم کے کاغذات تک جناب عبدالجبار شاکر کے توسط سے رسائی ہوئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ مذکورہ بالا’’ ایک دو ابواب‘‘ تا حال محفوظ ہیں۔ کلوروی صاحب نے انہیں مرتب کر کے، حواشی کے ساتھ ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے نام سے شائع کرا دیا۔ تعارف: ’’ تاریخ تصوف‘‘ 1985ء میں مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور سے چھپی، سر ورق اور انتساب پر صفحات نمبر درج نہیں کئے گئے۔ ص4پہ علامہ اقبال کے تین خطوط کے اقتباسات درج کئے گئے ہیں فہرست مندرجات ص5پہ، اور ص6پر علامہ اقبال کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال کے خط کا عکس ہے، جو انہوں نے صابر کلوروی کو لاہور ہائی کورٹ سے 30جنوری 1985ء میں لکھا۔ عرض مرتب ص7اور دیباچہ (بہ عنوان: پیش گفتار)ص9تا 11یہ ڈاکٹر محمد ریاض کا تحریر کردہ ہے۔ مرتب نے اصل متن سے پہلے اس کا پس منظر (ص12تا26)تفصیل سے پیش کیا ہے۔ پس منظر میں مرتب نے وضاحت کی ہے کہ علامہ کو’’ تاریخ تصوف‘‘ لکھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ متن کتاب ص27سے شروع ہوتا ہے، ہر باب کے اختتام پر مرتب نے حواشی کا اہتمام کیا ہے۔ صفحات82تا88حسین بن منصور حلاج کے حالات و افکار پر مشتمل ہیں۔ کتاب کے آخر میں ضمیمہ (ص119) شامل کیا گیا ہے، جو ان انگریزی اشارات پر مشتمل ہے، جو تاریخ تصوف کی تیاری میں علامہ اقبال نے زیر مطالعہ انگریزی زبان میں لکھی گئی کتب پر تحریر کئے تھے۔ تاریخ تصوف کی تدوین میں علامہ اقبال نے جن کتب سے استفادہ کیا تھا، ان کی فہرست صفحات 120اور 121پہ دی گئی ہے۔ اس کتاب کے حواشی کے ضمن میں مرتب نے جن کتب سے مدد لی ہے ان کی فہرست صفحات122اور123پر درج ہے۔ آخر میں مرتب نے ایک اشاریہ (ص124 تا 128) بھی ترتیب دیا ہے، اشاریے میں صرف اصل متن کے حوالے شامل کئے گئے ہیں، حواشی شامل نہیں ہیں۔ اشاریے کے عنوانات یہ ہیں: (الف) موضوعات، (ب) اسماء (اشخاص، کتب) علامہ اقبال نے یہ کتاب1916ء میں لکھنا شروع کی تھی ، مگر اس کو مکمل نہ کر سکے۔ صرف دو ابواب لکھے جا سکے تھے، تیسرے باب کا لوازمہ جمع کر لیا تھا، اس کے علاوہ اگلے ابواب کے لئے متفرق اشارات لکھ لئے تھے۔ بعض اشارات ان کتابوں میں درج ہیں جو اس کتاب کی تدوین میں علامہ کے زیر مطالعہ تھیں۔ کچھ اشارات انگریزی زبان میں لکھے گئے، بعض مقامات پر انہوں نے کسی حدیث، آیت یا کتاب کی طرف صرف اشارہ کر دیا تھا۔ مرتب (صابر کلوروی) نے ان تمام اشارات کو پانچ ابواب میں تقسیم کر دیا ہے، اور جن امور کی طرف علامہ نے صرف اشارہ کیا ہے انہیں حواشی میںذرا تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ تاریخ تصوف کی تدوین میں علامہ کی زیادہ تر توجہ تصوف میں ’’ غیر اسلامی عناصر‘‘ پر مرکوز رہی تھی، اس مقصد کے لئے انہوں نے صوفی شعرا کے ہاں اس عنصر کا کھوج لگانے کے لئے فارسی اشعار کا انتخاب بھی کیا تھا، مرتب نے ان اشعار کا ترجمہ حواشی میں افادہ عام کے لئے شامل کر دیا ہے۔ پس منظر: عام طور پر یہ خیال کیا گیا کہ علامہ تصوف کے خلاف ہیں، اس خیال کی بنیاد ان کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ (1915) بنی، اس مثنوی میں انہوں نے عجمی تصوف کے دو اہم نمائندوں افلاطون یونانی اور حافظ شیرازی پر برملا تنقید کی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علامہ غیر اسلامی تصوف یعنی عجمی تصوف کے خلاف تھے، اور افلاطون اور حافظ پر بھی تنقید اس لئے کی کہ یہ دونوں نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ کے قائل تھے علامہ کے نزدیک یہ نظریہ جامد و ساکن ہے۔ اس نظریے کے رد عمل کے طور پر انہوں نے ’’ خودی‘‘ کا ایک حرکی اور علمی نظریہ پیش کیا، ڈاکٹر ابو سعید نور الدین لکھتے ہیں: ’’ شیخ محی الدین ابن عربی اور ان کے پیروؤں کی بدولت نظریہ وحدت الوجود، اسلامی دنیا میں اس قدر عام ہو گیا ہے کہ مسلمان اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکے۔ وہ بے عملی، ناتوانی، کاہلی، سستی اور سب سے بڑھ کر نفی خودی کو نہایت دلکش اور دلفریب شے تصور کرنے لگے، اور ترک دنیا اور کشمکش حیات سے گریز کو اپنے لئے موجب تسکین و باعث فوز و فلاح سمجھنے لگے۔ علامہ اقبال عالم اسلام میں ایک غیر معمولی دل و دماغ لے کر آئے تھے، انہوں نے تاریخ تمدن اسلام کا بغور مطالعہ کیا، تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے موجودہ زوال کا واحد سبب نفی خودی اور دیگر سلبی تعلیمات ہیں۔ علامہ اقبال نے ایک عرصہ دراز کے غور و خوض کے بعد اس مرض کی صحیح تشخیص کر کے یہ نسخہ شفا تجویز کیا کہ مسلمان خودی کا صحیح احساس کر کے اور اس کی باضابطہ تربیت کرنے کے بعد نیابت الٰہی کا وہ درجہ حاصل کرے، جس کے لئے وہ دنیا میں بھیجا گیا ہے۔‘‘ 10؎ ’’ اسرار خودی‘‘ کے دیباچے میں علامہ اقبال نے غیر اسلامی تصوف کو ہدف ملامت بنایا اور خودی کے استحکام پر زور دیا، اس کے علاوہ انہوں نے مثنوی میں34اشعار کا ایک بند شامل کیا، جس میں حافظ کی شاعری کے زہریلے اثرات سے خبردار کیا اور اس کے مسلک کو’’ گو سفندی مسلک‘‘ قرار دیا، خواجہ حافظ نے سب سے پہلے ان اشعار کا نوٹس لیا اور اپنے ایک مرید ذوقی شاہ سے ایک مضمون لکھوایا جو 30نومبر1915ء کے رسالہ ’’ خطیب‘‘ میں شائع ہوا۔ 11؎ صاحب مضمون نے تصوف کو عین اسلام ثابت کرنے کی کوشش کی اور لکھا کہ علامہ کی مثنوی کا مقصد نظام عالم کی تسخیر ہے، جب کہ اسلام کا اصل نصب العین صرف اللہ کی رضا کا حصول ہے۔ اس مضمون کے جواب میں اقبال کے ایک حامی ’’ کشاف‘‘ کا مضمون22دسمبر1915ء کے اخبار’’ وکیل‘‘ میں چھپا۔12؎ صاحب مضمون نے ذوقی شاہ کے پردے میں خواجہ حسن نظامی کے کردار کی نقاب کشائی کی۔ خواجہ حسن نظامی نے 19دسمبر1915ء کے ’’ وکیل‘‘ میں ’’ کشاف خودی‘‘ کے نام سے مضمون لکھا اور بتایا کہ حافظ کی شاعری مسلمانوں کی کم ہمتی کا باعث نہیں بنی اور یہ کہ علامہ نے خواجہ حافظ شیرازی کی بے عزتی کی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کا دوسرا مضمون 30جنوری 1916ء کے خطیب میں شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ علامہ کی نجی خط و کتابت اور ان کے احباب کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صوفی تحریک کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ خودی سے مراد ان کی مغربی طرز کی خود غرضی کے علاوہ کچھ نہیں، انہوں نے اپنے مضمون میں مسئلہ وحدت الوجود کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن اکبر الہ آبادی اور شاہ سلیمان پھلواری نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ پیرزادہ مظفر احمد فضلی اور ملک محمد ٹھیکیدار (جہلم) نے تو علامہ کی مثنوی کا باقاعدہ جواب لکھا، جس میں علامہ اقبال کے خیالات کی تکذیب کی گئی تھی۔ حکیم فیروز الدین احمد طغرائی نے رسالہ ’’لسان الغیب‘‘ میں حافظ کی زبردست حمایت کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ حافظ کی شاعری میں ایسے کئی اشعار مل جاتے ہیں، جو جوش عمل پیدا کرتے ہیں۔ مولوی محمود علی نے علامہ کی مثنوی کی حمایت میں ایک مضمون لکھا جو ’’ خطیب‘‘ 7فروری1916ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ 13؎ انہوں نے لکھا: ’’ اقبال نے ایسا کون سا خیال پیش کیا ہے جسے مسلک وحدت الوجود کو تسلیم کرتے ہوئے بھی غلط کہا جا سکتا ہے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے دیباچہ جیسے تنگ میدان اور قلم کی خیالی فضا میں وحدت الوجود کے ذکر سے ناحق بحث و تکرار کا دروازہ کھولا، اگر انہوں نے جذبہ عمل کو تحریک دینا تھا تو جذبہ عمل ہی کے ذکر سے شروع کیا جاتا، وحدت الوجود کا ذکر کرنا تھا تو نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب کی شکل میں پیش کرتے۔‘‘ حافظ اسلم جیراجپوری نے اپنے مضمون میں لکھا: ’’ حافظ کے متعلق ایسی آرا کا اظہار پہلے بھی ہوتا رہا ہے، بلکہ ایک جماعت نے تو ان کا جنازہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اورنگ زیب نے دیوان حافظ پڑھنے پر قدغن لگا رکھی تھی، جہاں تک تصوف کا تعلق ہے۔ قرآن و حدیث اس لفظ سے نا آشنا ہیں۔ یہ دوسری صدی ہجری میں عربی زبان میں داخل ہوا۔ ایسی صورت میں اسلام کا عین تصوف ہونا یا تصوف کا عین اسلام ہونا کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 14؎ علامہ اقبال نے اپنے مضامین اور بعض خطوط میں اپنے موقف کی وضاحت کے ساتھ معترضین کا مدلل جواب دیا۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ کے عنوان سے وکیل 15جنوری 1916ء میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ تصوف کے خلاف نہیں ہیں اور صرف ان صوفیا کے خلاف ہیں، جنہوں نے آنحضور ؐ کے نام پر بیعت کر کے دانستہ یا نا دانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی جو دین اسلام سے متصادم تھے، حافظ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’ مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ میں ایک عرصے تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا ہو جو بعض صوفیا کے ساتھ خاص ہیں، اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے، مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح کملا، مثلاً وحدت الوجود یا مسئلہ تنزلات ستہ یا دگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب انسان کامل میں ہے۔ مذکورہ بالا تینوں مسائل میرے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے گو میں ان کے ماننے والوں کو کافر نہیں کہہ سکتا کیونکہ انہوں نے نیک نیتی سے ان مسائل کا استنباط قرآن شریف سے کیا ہے۔ مسئلہ قدم ارواح افلاطونی ہے۔ بو علی سینا ار ابو نصر فارابی دونوں اس کے قائل تھے، چنانچہ امام غزالیؒ نے اس وجہ سے دونوں بزرگوں کی تکفیر کی ہے۔ تنزلات ستہ افلاطونیت جدیدہ کے بانی پلوٹانیس کا تجویز کردہ ہے۔ میرا مذہب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نظام عالم میں جاری و ساری نہیں بلکہ نظام عالم کا خالق ہے اور اس کی ربوبیت کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے۔ جب وہ چاہے گا اس کا خاتمہ ہو جائے گا، حکماء کا مذہب تو جو کچھ ہے اس سے بحث نہیں، رونا اس بات کا ہے کہ یہ مسئلہ اسلامی لٹریچر کا ایک غیر منفک عنصر بن گیا ہے اور اس کے ذمہ دار زیادہ تر صوفی شاعر ہیں جو پست اخلاق اس فلسفیانہ اصول سے بطور نتیجہ کے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا بہترین گواہ فارسی زبان کا لٹریچر ہے۔۔۔ فلسفیانہ اور مورخانہ اعتبار سے مجھے بعض ایسے مسائل سے اختلاف ہے جو حقیقت میں فلسفے کے مسائل ہیں، مگر جن کو عام طور پر تصوف کے مسائل سمجھا جاتا ہے۔ تصوف کے مقاصد سے مجھے کیونکر اختلاف ہو سکتا ہے کوئی مسلمان ہے جو ان لوگوں کو برا سمجھنے جن کا نصب العین محبت رسول اللہ ہے اور جو اس ذریعہ سے ذات باری سے تعلق پیدا کر کے اپنے اور دوسروں کے ایمان کی پختگی کا باعث ہوتے ہیں، اگر میں تمام صوفیاء کا مخالف ہوتا تو مثنوی میں ان کی حکایات و مقولات سے استدلال نہ کرتا۔۔ شاعرانہ اعتبار سے میں حافظ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں۔ جہاں تک فن کا تعلق ہے یعنی جو مقصد اور شعراء پوری غزل میں بھی حاصل نہیں کر سکتے خواجہ حافظ اسے ایک لفظ میں حاصل کرتے ہیں، اس واسطے کہ وہ انسانی قلب کے راز کو پورے طور پر سمجھتے ہیں، لیکن فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی معیار ہونا چاہئے، میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں ا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں (یعنی بحیثیت صوفی ہونے کے) وہ حالت افراد و اقوام کے لئے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطرناک ہے۔‘‘ 15؎ خان محمد نیاز الدین خان کے نام19جنوری1916ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ افلاطونیت جدیدہ۔۔۔ فلسفہ افلاطون کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے، مسلمانوں میں یہ مذہب حراں کے عیسائیوں کے تراجم کے ذریعہ سے پھیلا اور رفتہ رفتہ مذہب اسلام کا ایک جزو بن گیا۔ میرے نزدیک یہ تعلیم قطعاً غیر اسلامی ہے اور قرآن کریم کے فلسفے سے اسے کوئی تعلق نہیں۔ تصوف کی عمارت اسی بیہودگی پر تعمیر کی گئی ہے۔‘‘ 16؎ خواجہ حسن نظامی علامہ اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے مگر انہوں نے علامہ کے نظریہ تصوف کی اصل روح کو نہ سمجھتے ہوئے ان کی نیت پر حملے شروع کر دیے تو علامہ کو ایک اور مضمون لکھنا پڑا جو 9 فروری 1916ء کے ’’ وکیل‘‘ میں شائع ہوا، اس میں علامہ نے لکھا: ’’ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ فلسفہ حقہ اسلامیہ ہے نہ کہ مغربی فلسفہ خواجہ حسن نظامی کو معلوم نہیں کہ یورپ کا علمی مذہب وحدت الوجود ہے، جس کے خواجہ حسن نظامی حامی ہیں، لیکن اقبال تو اس مذہب سے جو ان کے نزدیک ایک قسم کی زندیقیت ہے، تائب ہو کر خدا کے فضل و کرم سے مسلمان ہو چکا ہے۔‘‘ 17؎ ان مضامین کے علاوہ علامہ اقبال نے اپنے متعدد خطوط میں بھی اس علمی بحث کا تذکرہ کیا ہے، مثلاً: خان محمد نیاز الدین خان کے نام13 فروری 1916ء کے خط میں لکھتے ہیں:ـ ’’ آج کل زمانے کا اقتضا یہ ہے کہ علم دین حاصل کیا جائے اور اسلام کے علمی پہلو کو نہایت وضاحت سے پیش کیا جائے۔ حضرات صوفیاء خود کہتے ہیں کہ شریعت ظاہر ہے اور تصوف باطن، لیکن اس پر آشوب زمانے میں وہ ظاہر جس کا باطن تصوف ہے، معرض خطر میں ہے، اگر ظاہر قائم نہ رہا تو اس کا باطن کس طرح قائم رہ کستا ہے۔‘‘ 18؎ سرکشن پرشاد شاد کے نام 3اپریل16ء کے خط میں لکھتے ہیںـ: ’’ خواجہ حسن نظامی صاحب نے تنقید حافظ کی وجہ سے اس مثنوی کو مخالف تصوف کہا ہے اور اسی مفروضے پر ان کے مضامین کا دار و مدار ہے، جن میں مجھے انہوں نے دشمن تصوف کہہ کر بدنام کیا ہے۔ ان کو تصوف کے لٹریچر کی واقفیت نہیں اور جس تصوف پر وہ قائم ہیں، اس کا میں قائل نہیں۔۔۔ خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔۔۔ لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور وناتواں کرنے والی ہے۔‘‘ 19؎ سر کشن پرشاد کے نام ہی علامہ کے دو اور خطوط بھی ملتے ہیں، جن میں انہوں نے تصوف کے موضوع کا تذکرہ کیا ہے اور حافظ کی شاعری کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ ایک خط 10مئی 1916ء اور دوسرا خط24جون 1916ء کا تحریر کردہ ہے۔ خان نیاز الدین خان کے نام 8جولائی 1916ء (مکتوبات بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص22) سراج الدین پال کے نام خط10جولائی 1916ء اور19جولائی1916ء (مشمولہ: اقبالنامہ، حصہ اول، صفحات:53 اور58) میں انہوں نے تصوف کے بارے میں اپنے نظریات کا ذکر کیا ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال اسلامی تصوف کے خلاف نہیں تھے، اس ضمن میں سید عبدالواحد معینی لکھتے ہیں: ’’ اس میں شبہ نہیں کہ علامہ اقبال بھی ایک عظیم المرتبت صوفی تھے اور ان کی مذہبی خدمات کے جذبہ کی اصل بنا تصوف سے تعلق اور لگاؤ ہی تھا، یہ بات ضرور ہے کہ علامہ نے تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف ضرور کیا تھا اور ا س اختلاف کی بنا پر انہوں نے حضرت محی الدین عربی اور حافظ شیرازی پر کڑی تنقید کی تھی اور اس تنقید کی بنا پر بعض لوگوں کا خیال ہو گیا تھا کہ علامہ تصوف ہی کے مخالف ہیں۔‘‘ 20؎ ان خطوط کے علاوہ علامہ نے تین اور مضامین بھی شائع کئے پہلا مضمون12دسمبر1916 ء کے وکیل امرتسر میں’’ تصوف وجودیہ‘‘ کے عنوان سے دوسرا مضمون’’ اسلام اور تصوف‘‘ کے عنوان سے ’’ نیو ایرا‘‘ کی اشاعت28جولائی 1917ء میں اور تیسرا مضمون ’’ علم ظاہر و باطن‘‘ کے عنوان سے ’’ وکیل‘‘ 28جون 1918ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ یہ مضامین سید عبدالواحد معینی اور محمد عبداللہ قریشی کی مرتبہ کتاب ’’ مقالات اقبال‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان تمام مضامین اور بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ علامہ نے مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ سے حافظ کے متعلق قابل اعتراض اشعار نکال کر بعض نئے اشعار کا اضافہ کر دیا، اس تبدیلی میں اکبر الہ آبادی اور علامہ کے والد کے مشوروں اور نصیحتوں کو بھی دخل ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کا دیباچہ جو مختصر ہونے کی وجہ سے بڑے مغالطوں کا سبب بن رہا تھا، وہ بھی خارج کر دیا گیا۔ حضرت علامہ نے حافظ کے خلاف اشعار حذف کر کے ادب اسلامی کے اصول پر مبنی دوسرے اشعار لکھ دیے، اس تبدیلی کا ذکر حافظ محمد اسلیم جیراجپوری کے نام خط محررہ17مئی 1919ء میں ملتا ہے: ’’ خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی، اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر تو خواجہ دنیا کے بہتر شعراء میں سے ہیں۔ بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہو۔۔۔۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا۔۔۔ پیرزادہ مظفر الدین صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا، تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرنا ہے تو میری روح ا سکے خلاف بغاوت کرتی ہے۔‘‘ 21؎ خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال کے درمیان اس قلمی جنگ کا اختتام اکبر الہ آبادی کی مصالحتی کوششوں سے ہوا اور علامہ نے پوری یکسوئی سے مثنوی کا دوسرا حصہ لکھنا شروع کر دیا، جو اپریل 1918ء میں ’’ رموز بیخودی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ غرض یہ وہ پس منظر تھا جس میں علامہ نے ’’ تاریخ تصوف‘‘ لکھنا شروع کی، اس کے دو محرکات ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اس وسیع پیمانے پر اور اس شدت کے ساتھ ’’ اسرار خودی‘‘ کی مخالفت سے علامہ اقبال کو اندازہ ہوا کہ تصوف کے مسئلے پر لوگ بہت حساس ہیں، اور اس بارے میں ذہنوں میں متعدد غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان کے خیال میں تصوف کا، ہماری تہذیبی، علمی اور دینی زندگی سے گہرا تعلق تھا، اس لئے انہوں نے اس مسئلے پر اپنے خیالات نسبتاً زیادہ وضاحت کے ساتھ اور علمی اندازہ میں پیش کرنے کا ارادہ کیا’’ تاریخ تصوف‘‘ کی تصنیف کا دوسرا محرک مولوی محمود علی کا وہ مضمون ہے جو7فروری 1916ء میں شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے علامہ کو مشورہ دیا تھا کہ انہیں وحدت الوجود کا ذکر کرنا تھا تو نثر میں کسی مستقل مضمون یا کتاب کی شکل میں پیش کرتے، چنانچہ اس زمانے میں انہوں نے تصوف کی تاریخ پر نثر میں’’ ایک دو ابواب‘‘ قلم بند کئے۔ علامہ اقبال نے سب سے پہلے اپنے مضمون بہ عنوان’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں اس کتاب کے متعلق اظہار خیال کیا یہ مضمون اب’’ مقالات اقبال‘‘ میں شامل ہے، اس مضمون میں علامہ لکھتے ہیں: ’’ اگر وقت نے مساعدت کی تو میں تحریک تصوف کی ایک مفصل تاریخ لکھوں گا۔ انشاء اللہ ایسا کرنا تصوف پر حملہ نہیں بلکہ تصوف کی خیر خواہی ہے، کیونکہ میرا مقصد یہ دکھانا ہو گا کہ اس تحریک میں غیر اسلامی عناصر کون کون سے ہیں اور اسلامی عناصر کون کون سے۔۔۔۔‘‘ 22؎ اکبر الہ آبادی کے نام27جنوری1916ء کے خط میں اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ بہرحال وہ (خواجہ حسن نظامی) معذور ہیں اور صوفی ضرور ہیں، مگر تصوف کی تاریخ و ادبیات و علوم القرآن سے مطلق واقفیت نہیں رکھتے۔ اس واسطے مجھے ان کے مضامین کا مطلق اندیشہ نہیں ہے۔ علامہ ابن جوزیؒ نے جو کچھ تصوف پر لکھا ہے اس کو شائع کر دینے کا قصد ہے۔ اس کے ساتھ تصوف کی تاریخ پر ایک مفصل دیباچہ لکھوں گا۔ انشاء اللہ اس کا مصالحہ جمع کر لیا ہے۔ منصور حلاج کا رسالہ ’’ کتاب الطواسین‘‘ فرانس میں مع نہایت مفید حواشی کے شائع ہو گیا ہے۔ دیباچے میں اس کتاب کو استعمال کروں گا۔ فرانسیسی مستشرق نے نہایت عمدہ حواشی دیے ہیں۔‘‘ 23؎ اکبر الہ آبادی کے نام خط محررہ2فروری 16ء میں لکھتے ہیں: ’’ میں تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھ رہا ہوں جو ممکن ہے ایک کتاب بن جائے چونکہ خواجہ نے عام طور پر اخباروں میں میری نسبت یہ مشہور کر دیا ہے کہ میں صوفیائے کرام سے بدظن ہوں۔ اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف اور واضح کرنی ضروری ہے، ورنہ اس طویل مضمون کے لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ چونکہ میں نے خواجہ حافظ پر اعتراض کیا ہے۔ اس واسطے ان کا خیال ہے، میں تحریک تصوف کو دنیا سے مٹانا چاہتا ہوں۔ سر اسرار خودی کے عنوان سے انہوں نے ایک مضمون خطیب میں لکھا ہے جو آپ کی نظر سے گزرا ہو گا، جو پانچ وجوہ انہوں نے مثنوی سے اختلاف کرنے کے لکھے ہیں، انہیں ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ تاریخ تصوف سے فارغ ہوں تو تقویۃ الایمان کی طرف توجہ کروں۔ فی الحال جو فرصت ملتی ہے وہ اسی مضمون کی نذر ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ ضروری کتب لاہور کے کتب خانوں میں نہیں ملتیں، جہاں تک ہو سکا، میں نے تلاش کی ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس مضمون کو پڑھ کر خوش ہوں گے۔۔۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین نام فرانس میں شائع ہو گیا ہے، وہ بھی منگوایا ہے۔‘‘ 24؎ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے 1916ء کے اوائل میں’’ تاریخ تصوف‘‘ لکھنی شروع کر دی تھی۔ متن کا جائزہ: علامہ اقبال’’ تاریخ تصوف‘‘ کی تکمیل نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو نکات اور حواشی یکجا کئے وہ صابر کلوروی صاحب نے مرتب کر کے چھاپ دیے تاکہ تصوف کے بارے میں علامہ کے تصورات کا انداہ ہو سکے۔۔۔ اس ضمن میں علامہ پر جو الزامات عائد کئے گئے کہ وہ تصوف کے خلاف ہیں اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کے درپے ہیں، ان کی نفی’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ادھورے لوازمے سے ہو جاتی ہے۔۔ صابر کلوروی صاحب نے نہایت محنت اور جان فشانی سے ان صفحات کو مرتب کیا ہے۔۔۔۔ تاہم کتابت کی چند اغلاط اور متن کی اغلاط کھٹکتی ہیں۔ کتابت بھی خوب صورت نہیں ہے، جس کا احساس صاحب مرتب کو بھی ہے۔۔۔۔ ذیل میں ہم متن (بہ خط اقبال) کے چند صفحات کا موازنہ پیش کرتے ہیں، جس سے متن کی اغلاط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نمبر شمار سطر متن (بہ خط اقبال) صفحہ سطر تاریخ تصوف، مرتب: صابر کلوروی 1 1 اسی 28 2 اس 2 17 پروفیسر گولزیر سے اس خیال میں 14 پروفیسر گولزیر کے اس خیال سے 3 7 صورت بھی دی 29 20 صورت دی 4 8 افلاطونی 29 21 فلاطونی 5 10 ہندو قوم کے عظمت و جلال کی آخری شہادت چندر گپت کی عظیم الشان حکومت تھی مگر اس کی اولاد میں مہاراجہ اشوک نے جس کے عہد میں یہ حکومت اپنی عظمت و جلال 29 24, 25 ہندو قوم کی عظمت و جلال کے انتہائی نکتہ تک 6 1 یہ تعلیم نہیں دی کہ 30 22 یہ تعلیم (ہے کہ) 7 2 بلکہ ہر قوت۔۔ 30 24 بلکہ قوت 8 4 ہر ایک مسلمان۔۔ 31 2 ہر ایک مسلمان۔۔۔۔ 9 8 الحاد و زندقہ 31 9 الحاد اور زندقہ نے 10 12 شریعت حقہ محمدیہ 31 13 شریعت حصہ محمدیہ 11 15 غرضکہ 31 18 غرض یہ کہ۔۔ 12 19 شریعت حقہ محمدیہ 31 24 شریعت محمدیہ 13 22 عام مماثلث سب میں پائی جاتی ہے 32 3 عام مماثلت پائی جاتی ہے۔۔۔ 14 23 جیسا کہ۔۔۔ 32 5 جب کہ 15 36 زہد و عبادات کے ساتھ فلسفیانہ ۔۔۔ 33 10, 9 زہد و عبادات کی فلسفیانہ 16 14 ابن حزم نے ایک اور زرتشتی 33 3 ابن حزم نے ایک زر شتی 17 14 نور ازلی ہے کے ایک حصے 33 4 نور ازلی اس کے ایک حصے 18 14 زرتشتی مذہب 33 4 زرتشت مذہب 19 23 مانی کے نزدیک خلق عالم کی 33 16 مانی کے نزدیک خالق عالم کی 20 30 مع جرمن ترجمے کے علیحدہ بھی شائع کرا دیا ہے۔ 33 25 مع جرمن ترجمے کے درج بالا جن چند صفحات کا اصل متن سے موازنہ کیا گیا ہے، ان میں بعض مقامات پر مرتب ایک آدھ لفظ بڑھا دیا ہے، اگرچہ یہ اضافہ درست بھی ہے مگر حاشئیے میں ان کی وضاحت ضروری کر دینی چاہئے تھی تاکہ صحت متن سے متعلق شبے کی گنجائش باقی نہ رہتی، مثلاً: (1)’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ص28پر باب اول کا جو عنوان قائم کیا ہے، وہ مرتب کی طرف سے ہے، مگر اصل متن میں جو لفظ’’ تمہید‘‘ لکھا ہے اسے بھی شامل کرنا چاہئے تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکتا کہ مصنف اس کا کیا عنوان قائم کرنا چاہتے تھے۔۔۔ (2) ص28کے حاشئیے کی دوسری سطر میں لفظ’’ کے‘‘ (تصوف کے) کا اضافہ کیا ہے، جو اصل متن میں نہیں ہے۔۔۔ یہ اضافہ درست ہے مگر وضاحت کا ہونا بھی ضروری تھا۔۔۔۔ (3) ص:32کی سطر22میں لفظ’’ قوم‘‘ (ایرانی قوم) زاید ہے، مگر اس کی نشان دہی نہیں کی گئی۔ (4) ص:27سطر7پر علامت حاشیہ (2) نہیں بنائی گئی۔ علاوہ ازیں کتابت کی اغلاط متن خوانی میں رکاؤٹ کا باعث بنتی ہیں۔ درج ذیل گوشوارے سے ان اغلاط کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے: نمبرشمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 9 5 تحقیق مقالے تحقیقی مقالے 2 9 5 جزو ہے اور اور جزو ہے اور 3 9 10 کام کرتے نظر کام کرتا نظر 4 9 11 تصور نے عجمی تصوف نے عجمی 5 10 20 منصرف منحرف 6 32 6 لعیش تعیش 7 33 10 مسئلہ نردان مسئلہ نروان 8 33 10 ہمدانی لاصل ہمدانی الاصل اہمیت علامہ اقبال نے ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ’’ ایک دو ابواب‘‘ تحریر کیے اور بہ وجوہ اس کتاب کو مکمل نہ کر سکے۔۔۔ یہ ’’ ایک دو ابواب‘‘ زیادہ تفصیلی نہیں ہیں، مگر ان سے تصوف کے متعلق علامہ کے نظریات سمجھے جا سکتے ہیں۔ پہلا باب13 صفحات پر مشتمل ہے، اس باب میں علامہ نے تصوف کا مفہوم، اس کی ابتدائ، مختلف اقوام پر اس کے اثرات سے بحث کی ہے۔ تصوف کے مفہوم اور مسلمانوں میں تحریک تصوف کی ابتدا کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ علم باطن جس کو اسلامی اصطلاح میں تصوف بھی کہتے ہیں ایک نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب چیز ہے۔ اس کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس کے غرائب نے اقوام عالم کے بعض بہترین دل و دماغ رکھنے والے آدمیوں کو اپنی طرف کھینچا ہے اور عوام کے تخیلات پر ایک گہرا اثر ڈالا ہے، کیونکہ اگر ان تمام علوم کو جن کا مجموعی نام علم باطن ہے۔ ایک کرہ سے مثال دی جائے تو اس کا قطب شمالی اعلیٰ درجہ کی فلسفیانہ موشگافی ہے اور اس کا قطب جنوبی ذلیل ترین توہم پرستی ہے۔۔۔۔‘‘ 25؎ ’’ صیح منطقی پہلو سے اسلامی تصوف کے منصہ شہود پر آنے کے اسباب معلوم کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم آٹھویں اور نویں صدی عیسوی کی اسلامی دنیا پر ایک نگاہ ڈالیں جب صوفی نصب العین مسلمانوں میں پیدا ہوا۔۔۔۔۔‘‘ 36؎ ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد علامہ پر شدید اعتراضات کئے گئے، یہ اعتراضات مختلف نوعیت کے تھے۔ بعض علماء نے یہ کہا کہ وہ صوفی تحریک کو مٹانا چاہتے ہیں، علامہ نے مدلل انداز میں ان اعتراضات کے جوابات تحریر کئے، چنانچہ ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے باب اول میں بھی علامہ نے وضاحت کی کہ وہ کس قسم کے تصوف کے خلاف ہیں، نیز یہ کہ صحیح اسلامی تصوف ان کے نزدیک کیا ہے، مثلاً لکھتے ہیں: ’’ عام طور پر متصوفین کے دو گروہ ہیں۔ اول وہ گروہ جو شریعت حقہ محمدیہ پر قائم ہے اور اسی پر مخلصانہ استقامت کرنے کو انتہائے کمال انسانی تصور کرتا ہے یہ وہ گروہ ہے جس نے قرآن شریف کا مفہوم وہی سمجھا جو صحابہ کرام نے سمجھا تھا۔ جس نے اس راہ پر کوئی اضافہ نہیں کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھائی تھی۔ جس کی زندگی صحابہ کرام کی زندگی کا نمونہ ہے جو سونے کے وقت سوتا ہے جاگنے کے وقت جاگتا ہے۔ جنگ کے وقت میدان جنگ میں جاتا ہے۔ کام کے وقت کام کرتا ہے۔ آرام کے وقت آرام کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اپنے اعمال و افعال میں اس عظیم الشان انسان اور سادہ زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے جو نوع انسان کی نجات کا باعث ہوئی۔ اس گروہ کے دم قدم کی بدولت اسلام زندہ رہا زندہ ہے اور رہے گا اور یہی مقدس گروہ اصل میں صوفی کہلانے کا مستحق ہے۔ راقم الحروف اپنے آپ کو ان مخلص بندوں کی خاک پا تصور کرتا ہے۔ اپنی جان و مال و عزت و آبرو ان کے قدموں پر نثار کرنے کے لئے ہر وقت حاضر ہے اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو ہر قسم کے آرام و آسائش پر ترجیح دیتا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو شریعت محمدیہ کو خواہ وہ اس پر قائم بھی ہو محض ایک علم ظاہری تصور کرتا ہے ایک طریق تحقیق کو جس کو وہ اپنی اصطلاح میں عرفان کہتا ہے۔ علم پر ترجیح دیتا ہے اور اس عرفان کی وساطت سے مسلمانوں میں وحدت الوجودی فلسفے اور ایک ایسے عملی نصب العین کی بنیاد ڈالتا ہے۔ جس کا ہمارے نزدیک مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ 27؎ اس اقتباس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ تحریک تصوف کے خلاف نہ تھے۔ ’’ تاریخ تصوف‘‘ کا دوسرا باب بہ عنوان:’’ تصوف کے ارتقا پر ایک تاریخی تبصرہ‘‘ 6صفحات پر مشتمل ہے، اس میں علامہ نے ابتداء میں لفظ صوفی اور تصوف کی وضاحت کی ہے اور پھر تصوف کے ارتقاء کا ذکر کیا ہے۔ اس باب کی تیاری میں علامہ نے عربی کتب سے استفادہ کیا ہے، چنانچہ ہمیں اس باب میں عربی اشعار اور عربی کتب کے اقتباسات نظر آتے ہیں۔ علامہ نے جہاں عربی اشعار اور اقتباسات درج کئے ہیں، وہاں ان کا مفہوم بھی تحریر کر دیا ہے، اس طرح عربی اشعار اور اقتباسات کو دیکھ کر الجھن نہیں ہوتی۔ تیسرا باب نوٹس کی شکل میں موجود ہے، ان اشارات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ تیسرے باب میں منصور حلاج کے عقائد کو زیر بحث لانا چاہتے تھے، اس مقصد کے لئے انہوں نے ’’ کتاب الطواسین‘‘ سے متعدد حوالے نقل کئے تھے، اس کے علاوہ منصور کے حالات اور عقائد کے ضمن میں بعض معاصرانہ شہادتیں بھی بہم پہنچائی گئی ہیں۔ ابن الجوزی اور پروفیسر براؤن کی تحقیقات سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھایا گیا تھا۔ ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے ان’’ ایک دو ابواب‘‘ کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ عبادت کو ثقیل، گنجلک اور بھاری بھر کم صوفیانہ اصطلاحات سے بوجھل نہیں بنایا۔ خیالات میں ایک بہاؤ اور روانی ہے۔ انداز بیان مختلف مقامات پہ وضاحتی اور تشریحی نوعیت کا ہے۔ اپنی بات کے ثبوت میں مختلف طرح کی تاریخی مثالیں پیش کی ہیں، یہ مثالیں قاری کی دلچسپی میں اضافہ کرتی ہیں۔ افسوس کہ علامہ اقبال اپنے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ موا دکی کمی اور کتابوں کی عدم فراہمی، دوسرے علامہ کی مخصوص افتاد طبع بھی اس کام کی تکمیل میں حارج تھی، تیسرے پروفیسر نکلسن کی کتاب ’’ اسلامی شاعری اور تصوف‘‘ کی اشاعت سے علامہ نے محسوس کیا کہ یہ کتاب وہی کام انجام دے سکتی ہے، جو میں انجام دینا چاہتا تھا نتیجتہً ان وجوہ سے ’’ تاریخ تصوف‘‘ کی تکمیل نہ ہو سکی۔ صابر کلووری اس ضمن میں تحریر کرتے ہیں کہ دو اور امو ربھی اس کی تکمیل میں مانع رہے ہوں گے اول:’’ رموز بیخودی‘‘ کی تصنیف اور دوم: ’’اسرار خودی‘‘ کے قلمی ہنگامے کا سرد ہو جانا۔ علامہ اس ٹھنڈی آگ کو دوبارہ سلگانا نہیں چاہتے ہوں گے، یہ کتاب بھڑوں کے چھتے میں دوسرا پتھر ہو سکتی تھی۔ 28؎ اگرچہ یہ کتاب مکمل نہ ہو سکی، تاہم دو ابواب اور اشارات سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ علامہ کس نوعیت کی کتاب لکھنا چاہتے تھے، اگر یہ کتاب مکمل ہو جاتی تو تصوف کی تاریخ میں یقینا ایک اہم اور قابل قدر اضافہ ثابت ہوتی۔ ٭٭٭ حواشی 1کتاب الہند، بحوالہ: اسلامی تصوف اور اقبال، از ڈاکٹر ابو سعید نور الدین، 1977ء ص4 2اسلامی تصوف اور اقبال، ص:12 3عروج اقبال، پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ص14تا23 4اسلامی تصوف اور اقبال، ص195 5ایضاً، ص:217 6اقبال اور تصوف ص:35 7مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص:20 8خطوط اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، طبع اول 1976ء ص128 9اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص54 10اسلامی تصوف اور اقبال، ص:264-263 11تاریخ تصوف، ص13 12ایضاً، ص13 13تاریخ تصوف، ص:14 14ایضاً، ص:14 15مقالات اقبال، مرتبہ: سید عبدالواحد معینی، طبع اول، مئی 1963ء 16مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص19 17مقالات اقبال، ص173, 172 18 مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، ص20 19اقبال بنام شاد، مرتبہ محمد عبداللہ قریشی، ص160, 159 20نقش اقبال، از سید عبدالواحد معینی، ص41 21اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص54, 53 22 مقالات اقبال، ص161 23 اقبالنامہ، حصہ دوم، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ص:51, 50 24 اقبالنامہ، حصہ دوم، ص52, 51 25 تاریخ تصوف، ص28 26تاریخ تصوف،ص32 27تاریخ تصوف، ص31, 32 28 تاریخ تصوف، ص24 ٭٭٭ (3) اردو مضامین تحریری طور پر اظہار خیال کے دو طریقے ہیں:1شاعری 2نثر علامہ اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، اور ان کے خیالات کا اظہار زیادہ تر شاعری ہی میں ہوا۔ شعر و شاعری کی بہرحال کچھ حدود ہیں اور بعض تقاضے بھی۔ شعر میں دو اور دو چار کی طرح بات حسابی طریقے سے اور دو ٹوک انداز میں بیان نہیں کی جا سکتی کہ ایہام اور اختصار ایک درجے میں شاعری کا فنی تقاضا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شاعری میں بعض اہم مسائل مثلاً قومی و معاشی مسائل زیادہ وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے برعکس اعلیٰ درجے کی نثر میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اس میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی جا سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے شاعر کو بھی ایک سطح پر نثر میں اظہار خیال کی ضرورت پیش آتی ہے، چنانچہ علامہ اقبال کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا اور انہوں نے اکثر و بیشتر موضوعات پر نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھا۔ علامہ اقبال کی اردو نثر کی مختلف صورتیں ہیں، ان کے نثری ذخیرے میں خاصا تنوع ہے۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ اور ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے علاوہ بہت سے مقالات و مضامین، سینکڑوں مکاتیب اور متعدد دیگر نثر پارے (دیباچے، تقاریظ اور آراء وغیرہ) یہ تمام نثری سرمایہ ان کے افکار کو سمجھنے میں ممد و معاون ہے۔ اقبال کا مطالعہ زیادہ تر ان کے شعری سرمائے کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ ان پر لکھی جانے والی ہزاروں کتابوں اور مضامین کا تعلق زیادہ تر ان کی شاعری سے ہے۔ اور عقیدت مندان اقبال نے ان کی نثری سرمائے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی، حالانکہ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لئے بھی ان کے نثری سرمائے کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔ اقبال نے جن موضوعات پر اپنی شاعری میں اظہار خیال کیا ہے، ان پر عموماً نثر میں بھی قلم اٹھایا ہے۔ شعر کی تفہیم ایک ذوقی مسئلہ ہے، جبکہ نثر کو تھوڑی سی کوشش کے بعد آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور مصنف کے مدعا تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ جس زمانے میں علامہ اقبال نے اپنی پہلی باقاعدہ نثری تصنیف’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھنے کا آغاز کیا (1901-02ئ) عین اسی زمانے میں انہوں نے مضمون نویسی بھی شروع کر دی تھی۔ ان کا پہلا مضمون’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ مخزن کے شمارہ جنوری1902ء میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ 1902ء سے 1938ء تک وقفے وقفے کے ساتھ جاری رہا۔ اس دوران میں انہوں نے متعدد موضوعات پر مضامین تحریر کئے۔ اقبال کی نثری تخلیقات پر زیادہ کام شاید اس وجہ سے نہ ہو سکا کہ علامہ اقبال نے بذات خود اپنے نثری سرمائے کو کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ ان کے شب و روز شاعری کی تخلیق میں گزرے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں شاعری کے متعدد مجموعے شائع کئے، لیکن اپنے نثری سرمائے کی جمع و ترتیب کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ یہ بات تو ہم جانتے ہیں کہ اقبال کو نثر نگاری سے ویسی رغبت نہ تھی، جیسی انہیں شعر گوئی سے تھی، پھر چونکہ وہ ایک مصروف انسان تھے، اس لئے اتنی فرصت بھی نہ ملی کہ وہ مضمون نویسی کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوتے یا اپنے نثری سرمائے کو جمع کر کے چھاپ دیتے۔ انہوں نے بیشتر مضامین فرمائشوں پر تحریر کئے یا پھر بعض اعتراضات کا جواب دینے کے لئے تحریر کئے۔ بہرحال علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں کوئی نثری مجموعہ شائع نہیںکرایا، اور نہ عقیدت مندان اقبال میں سے کسی کو اس کا خیال آیا، نتیجتہً اقبال کی وفات تک ان کا کوئی نثری مجموعہ منظر عام پر نہ آیا۔ اس طرح قارئین اقبال ایک مدت تک علامہ اقبال کی اردو نثر سے تقریباً نا آشنا رہے۔ اقبال کے نثری مجموعوں کی اشاعت کا خیال سب سے پہلے احمدیہ پریس حیدر آباد دکن کے تصدق حسین تاج کو آیا، انہوں نے ’’ مضامین اقبال‘‘ کے نام سے 1944ء میں اقبال کا پہلا نثری مجموعہ مرتب کر کے چھاپا اور اس طرح یہ سلسلہ چل نکلا، آئندہ صفحات میں ہم اقبال کے نثری مجموعوں کا تفصیلی تعارف پیش کریں گے۔ مضامین اقبال (طبع اول) علامہ اقبال کے نثر پارے ایک عرصہ تک یکجا صورت میں نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد پہلی مرتبہ 1944ء میں ’’ مضامین اقبال‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔ ’’ مضامین اقبال‘‘ کی ترتیب و اشاعت کا سہرا احمدیہ پریس کے تصدق حسین تاج کے سر ہے۔ انہیں علامہ اقبا کی شعری و نثری تخلیقات سے شروع شغف رہا، اس سے قبل بھی وہ علامہ اقبال کی بعض تخلیقات شائع کر چکے تھے۔ یہ مجموعہ مضامین، اقبال کے شعری مجموعوں کی تقطیع پر شائع ہوا مسطر انیس سطری ہے۔ سرورق اور فہرست کے دو اوراق شمار نہیں کئے گئے۔ دیباچہ (از: غلام دستگیر رشید، بہ عنوان :’’ صبح امید‘‘ ) کے دس صفحات کا شمار الف ب ج د۔۔۔۔ سے ہے۔ متن مضامین صفحات: 1تا204پر محیط ہے۔ غلام دستگیر رشید نے اپنے دیباچے میں اقبال کے اسلوب پر شاعرانہ انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ کتابت خوبصورت ہے، قلم درمیانہ استعمال کیا ہے۔ اکثر مضامین پر تمہیدی نوٹ باریک قلم سے درج کئے گئے ہیں ۔ جن سے اصل مضامین اور تمہید میں فرق واضح ہو گیا ہے۔ اکثر جگہ قدیم املا اختیار کیا گیا ہے۔ ’’ مضامین اقبال‘‘ میں اقبال کے چودہ نثر پارے شامل ہیں، ان میں سے نصف انگریزی مضامین کے اردو تراجم ہیں اور نصف اردو مضامین ہیں، تفصیل اس طرح ہے: 1زبان اردو: یہ مضمون ڈاکٹر وائٹ برجنٹ صاحب کے انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے، جو علامہ اقبال نے ’’ مخزن‘‘ کی درخواست پر تحریر کیا تھا۔ 2 اردو زبان پنجاب میں: یہ مضمون علامہا قبال نے کسی صاحب کے اعتراض کے جواب میں تحریر کیا تھا۔ 3 قومی زندگی: یہ ایک فکری مضمون ہے اور ’’ مخزن‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ 4دیباچہ مثنوی اسرارخودی: یہ علامہ اقبال کی فارسی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کا دیباچہ ہے۔ 5دیباچہ مثنوی رموز بیخودی: یہ بھی فارسی مثنوی کا دیباچہ ہے، یہ مثنوی 1918ء میں شائع ہوئی تھی، لیکن ’’ مضامین اقبال‘‘ میں اس کا سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ 6 دیباچہ پیام مشرق: یہ کتاب1923ء میں شائع ہوئی تھی، لیکن اس کا سنہ اشاعت بھی درج نہیں۔ 7 فلسفہ سخت کوشی: ڈاکٹر نکلسن کے نام اقبال کے ایک طویل مکتوب مورخہ 24جنوری 1921ء کا اردو ترجمہ ہے (ترجمہ: از چراغ حسن حسرت )1؎ یہی ترجمہ ’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ اول (ص:474-457) میں بھی شامل ہے۔ مرتب نے اس کا سنہ اشاعت بھی درج نہیں کیا، حالانکہ یہ معلوم کیا جا سکتا تھا۔ 8 جناب رسالت مابؐ کا ادبی تبصرہ: یہ Our Prophet's Criticism of Contemporary Arabian Poetry کا اردو ترجمہ ہے۔ اصل مضمون پہلی بار لکھنو کے New Era(28جولائی1917ئ) میں شائع ہوا۔ بعد میں اس کا اردو ترجمہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فن شعر کے مبصر کی حیثیت میں‘‘ ستارۂ صبح لاہور (18اگست1917ئ) میں چھپا۔2؎ 9ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر: یہ The Muslim Community کا اردو ترجمہ ہے۔ مترجم مولانا ظفر علی خان ہیں۔ 10 خطبہ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ منعقدہ الہ آباد، دسمبر1930ئ: اصل خطبہ انگریزی میں ہے سید نذیر نیازی نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔ 11ختم نبوت: Islam and Ahmadism کا اردو ترجمہ ہے، مترجم میر حسن الدین ہیں۔ 12جغرافیائی حدود اور مسلمان: علامہ اقبال نے یہ مضمون مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں تحریر کیا تھا۔ 13 دیباچہ مرقع چغتائی: اصل تحریر انگریزی میں ہے، اس کا ترجمہ جناب غلام دستگیر رشید نے کیا تھا۔ 14 تقریر انجمن ادبی، کابل: جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے یہ علامہ اقبال کی کابل (افغانستان) میں کی گئی ایک تقریر ہے۔ اس طرح ’’ مضامین اقبال‘‘ میں نثر پاروں کی کل تعداد چودہ بنتی ہے، مگر اردو نثر پارے تعداد میں صرف آٹھ ہیں، جن میں سے تین دیباچے (اسرار خودی، رموز بیخودی اور پیام مشرق) اور ایک تقریر ہے، جو ہمارے مقالہ کے اس باب کی حدود میں نہیں آتے، اس طرح اردو مضامین (زبان اردو، اردو زبان پنجاب میں، قومی زندگی، جغرافیائی حدود اور مسلمان) کی تعداد صرف چار رہ جاتی ہے، جبکہ اصل تعداد خاصی زیادہ ہے (جیسا کہ بعد میں ’’ مقالات اقبال‘‘ کی اشاعت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے) چونکہ مرتب کو کل چودہ نثری تحریریں دستیاب ہو سکیں، اس لئے انہوں نے وہی پیش کر دیں، حالانکہ ذرا اسی تگ و دو سے وہ علامہ کے مزید مضامین دستیاب کر سکتے تھے، کیونکہ 1944ء میں ایسا کرنا زیادہ آسان تھا۔ا س زمانے میں شائقین اقبال کی بھاری تعداد بقید حیات تھی اور علامہ اقبال کے قریبی دوست احباب سے استفادہ کیا جا سکتا تھا، لیکن افسوس ہے کہ مرتب نے اس سہولت سے استفادہ نہ کیا، جس کی وجہ سے وہ نہ تو اقبال کے مضامین زیادہ تعداد میں حاصل کر سکے اور نہ حاصل شدہ مضامین اور نثر پاروں کے ماخذ اور سنین کا تعین کر سکے۔ ایسا کرنا بے حد ضروری تھا کہ یہ علامہ اقبال کے مضامین کا پہلا مجموعہ تھا۔ بہرحال مجموعی طور پر تصدق حسین تاج کی یہ کاوش قابل تحسین ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال کے مضامین ایک مجموعے کی صورت میں چھاپنے میں پہل کی۔ نقل متن میں انہوں نے خاصی احتیاط سے کام لیا ہے، لیکن کہیں کہیں تصرفات بھی کئے ہیں، ان تصرفات کا جائزہ ہم آئندہ صفحات میں لیں گے۔ ’’ مضامین اقبال‘‘ (طبع دوم): ’’ مضامین اقبال‘‘ کا دوسرا ایڈیشن1985ء میں تصدق حسین تاج کے صاحبزادے اقبال حسین کی دلچسپی سے شائع ہوا۔ اس ایڈیشن میں پہلے ایڈیشن کے چودہ مضامین اور تین نئے نثر پاروں کا اضافہ کیا گیا۔ اس ایڈیشن کی ترتیب کچھ یوں ہے: سر ورق اور فہرست مضامین کے دو صفحے اور تیسرا صفحہ جس پر علامہ کی تصویر اور ان کی فارسی رباعی (سرور رفتہ باز آید کہ ناید) ہے، شمار میں نہیں لایا گیا۔ پیش لفظ (از: تصدق حسین تاج) اور علامہ اقبال کی حالات زندگی (ماخوذ از: اردو انسائیکلو پیڈیا، فیروز سنز لاہور، دوسرا ایڈیشن 1968ئ) کے تقریباً دو صفحات بھی شمار میں نہیں لائے گئے۔ غلام دستگیر رشید کا دیباچہ بہ عنوان:’’ صبح امید‘‘ صفحات الف ب ج د پر درج ہے۔ مضامین کا متن ص:1تا281پر محیط ہے۔ ’’ مضامین اقبال‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں چونکہ چودہ مضامین شامل تھے، اس لئے متن ص:204تک ختم ہو جاتا تھا۔ دوسرا ایڈیشن تین نثر پاروں کے اضافوں کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس لئے متن ص:281پر ختم ہوتا ہے۔ مرتب نے اس کی وضاحت کر دی کہ ص: پر ’’ ختم شد‘‘ کے الفاظ حذف کئے جاتے ہیں۔ ’’ پیش لفظ‘‘ میں مرتب نے مختلف لوگوں کے تعاون اور دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے جناب غلام دستگیر رشید کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے ’’ مضامین اقبال‘‘ کے اولیں ایڈیشن کا دیباچہ لکھا تھا اور تصدق حسین تاج سہواً ان کا شکریہ ادا نہ کر سکے تھے۔ اس ایڈیشن میں علامہ اقبال کی حالات زندگی کے سلسلے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں او رماخذ’’ اردو انسائیکلو پیڈیا‘‘ بتایا گیا ہے، اس کی وجہ مرتب نے یہ بیان کی ہے کہ علامہ اقبال کے سنہ پیدائش کے بارے میں مختلف آراء ملتی ہیں، لیکن انہوں نے انسائیکلوپیڈیا کو ترجیح دی۔ مرتب نے ابتداء میں علامہ اقبال کی جو فارسی رباعی درج کی ہے، اس سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ عام طور پر اقبال کے شعر میں سرود رفتہ لکھا گیا ہے، مگر میری تحقیق سرود رفتہ ہے۔‘‘ 3؎ اس ایڈیشن میں اضافہ شدہ نثر پاروں کا تعارف کچھ یوں ہے۔ 1اقبال کے ایک غیر مطبوعہ انگریزی خطبہ کا اردو ترجمہ: یہ انگریزی خطبہ علامہ اقبال نے اورینٹل کانفرنس منعقدہ لاہور1928ء کے شعبہ عربی و فارسی میں پڑھا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ محمد داؤد رہبر، بی اے (آنرز) نے کیا۔ 2خطبہ صدارت: آل انڈیا مسلم کانفرنس اجلاس منعقدہ لاہور21مارچ1931ء میں یہ خطبہ دیا گیا۔ 3حیات بعد موت کا اسلامی نظریہ: علامہ اقبال کا یہ مضمون The Muslim Revival بابت ماہ ستمبر1932ء میں شائع ہوا۔ اس کا ترجمہ ڈاکٹر صادق حسن نے کیا ہے۔ اس طرح ’’ مضامین اقبال‘‘ کی دوسری اشاعت میں نثر پاروں کی کل تعداد سترہ ہو جاتی ہے، لیکن اردو نثر پاروں کی تعداد میں اضافہ خاطر خواہ نہیں ہوا، کیونکہ نئی تحریروں میں سے دو انگریزی نثر پاروں کے تراجم ہیں۔ صرف ایک تحریر (خطبہ صدارت) اردو کی ہے۔ ہمارے مقالے کے اس باب کا موضوع’’ اقبال کے اردو مضامین‘‘ ہے اور اس میں ترجمہ شدہ مضامین، دیباچے اور تقاریر وغیرہ شامل نہیں ہیں۔ اس طرح اردو مضامین کے حوالے سے ’’ مضامین اقبال طبع اول و دوم‘‘ میں اردو مضامین کی تعداد پانچ بنتی ہے، یعنی1زبان اردو، 2اردو زبان پنجاب میں، 3قومی زندگی، 4 جغرافیائی حدود اور مسلمان، 5خطبہ صدارت مقالات اقبال (طبع اول): ’’ مضامین اقبال‘‘ کی اشاعت کے بیس برس بعد1963ء میں سید عبدالواحد معینی نے ’’مقالات اقبال‘‘ کے نام سے اقبال کے مضامین شائع کیے۔ سر ورق ص: اپر، انتساب (بہ نام: جاوید اور منیرہ) ص:3 پر اور ص:4خالی ہے۔ فہرست مضامین ص:5 اور 6مقدمہ (بہ عنوان: جسارت، از : ڈاکٹر سید عبداللہ) ص7تا18پیش لفظ (از: سید عبدالواحد معینی) ص: الف ب ج د۔۔۔۔۔۔ پر ہے، اور متن کتاب از سر نو ص: 1سے 247تک ہے، آخر میں تین صفحات کا صحت نامہ درج ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے مقدمہ میں علامہ کی نثر نگاری کی مختلف خصوصیات بتائی ہیں، اور یہ بھی بتایا ہے کہ علامہ کے مضامین کا آغاز1902ء سے ہوا، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پہلا مضمون کون سا لکھا گیا۔ مرتب نے پیش لفظ میں علامہ کی شخصیت اور فکر میں ان کے نثری مضامین کی اہمیت پر بحث کی ہے، اور ’’ مقالات اقبال‘‘ میں شامل مقالات کے ماخذ کا ذکر کیا ہے۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ کی ترتیب و تدوین کے وقت مرتب کے پیش نظر جو مقصد تھا،ا سے وہ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’ اس مجموعے کی ترتیب شروع کرتے وقت مقصد یہ تھا کہ اس میں علامہ کے صرف اردو مضامین کو شامل کیا جائے تاکہ علامہ کے بیش بہا خیالات کے ساتھ ان کے اردو انشاء پردازی کے جوہر بھی عیاں ہوں اور اس باکمال شخصیت کی اردو نثر نگاری کا کمال بھی آشکار ہو۔ انگریزی مضامین کا مجموعہ زیر ترتیب ہے اور تائید ایزدی شامل حال رہی تو علیحدہ شائع کیا جائے گا۔ مگر علامہ کے دو انگریزی کے مضامین فی الحال صرف اردو ترجمہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں اور یہ ترجمے علامہ نے خود نہیں کئے تھے۔ پھر بھی ان مضامین میں علامہ نے کچھ ایسی اہم اور حکیمانہ باتیں بیان کی ہیں کہ ہم ان بزرگوں کے شکر گزار ہیں جن کی کوششوں سے یہ مضامین کم از کم ترجمہ کی شکل میں محفوظ ہیں۔۔۔۔۔4؎‘‘ ان مضامین کے سلسلے میں مرتب آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ ان دونوں مضامین (ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، اسلام میں خلافت) کے اس مجموعہ میں شامل کرنے سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ قارئین کرام کا اصل انگریزی مضامین کے تجسس کا ذوق برقرار رہے گا۔ اصل مضامین کے مل جانے پر ان ترجموں کو اس مجموعے سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 5؎ اب ہم ’’ مقالات اقبال‘‘ طبع اول میں شامل مضامین کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ اس مجموعہ مضامین میں شامل بیشتر تحریریں قبل ازیں ’’ مضامین اقبال‘‘ میں شائع ہو کر سامنے آ چکی ہیں۔ اس لئے ہم یہاں ان کا ذکر نہیں کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ مرتب نے ’’ مضامین اقبال‘‘ میں سے صرف اردو مضامین اس مجموعہ مضامین میں شامل کئے ہیں (سوائے دو مضامین کے جن کے اردو تراجم شامل کئے گئے ہیں) ’’ مقالات اقبال‘‘ میں اضافہ شدہ مضامین کا تعارف کچھ یوںہے: 1بچوں کی تعلیم و تربیت: یہ علامہ اقبال کا پہلا مضمون ہے، جو اردو میں لکھا گیا اور ’’ مخزن‘‘ جنوری 1902ء میں شائع ہوا۔ 2اقبال کے دو خطوط ایڈیٹر ’’ وطن‘‘ کے نام،1905ئ: اگرچہ یہ خطوط ہیں، جو ایڈیٹر’’ وطن‘‘ کو عدن اور کیمرج سے لکھے گئے اور ان کا شمار نثر پاروں کی ذیل میں نہیں ہوتا، لیکن مرتب نے اس کی شمولیت کی وجہ اس طرح بیان کی ہے: ’’ علامہ کے دو خطوط جو علامہ نے 1905ء میں ایڈیٹر صاحب ’’وطن‘‘ لاہور کو عدن اور کیمرج سے لکھے تھے دراصل خطوط نہیں ہیں، وہ اردو انشاء پردازی کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں اور اس زمانہ کے سفر انگلستان کے حالات ہیں۔ ان دونوں خطوں میں علامہ کی دلچسپ شخصیت کے سمجھنے میں اتنی مدد ملتی ہے کہ یہ ہی مناسب سمجھا گیا کہ ان کو اس مجموعہ میں شامل کر لیا جائے۔ دوسری وجہ ان کے شامل کرنے کی یہ بھی ہے کہ فی الحال یہ خطوط کسی شائع شدہ مجموعہ میں شامل بھی نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کی اشاعت صرف جریدۂ اقبال لاہور میں ہوئی ہے۔‘‘ 6؎ مرتب نے ان خطوط کو شامل کرنے کی جو پہلی وجہ بتائی ہے وہ کچھ زیادہ معقول نہیں، کیونکہ علامہ اقبال کی شخصیت تو ان کے تقریباً ہر خط میں جھلکتی ہے، ان دو خطوط کو مجموعہ مضامین میں شامل کرنے سے تو باقی خطوط کی شمولیت کے سلسلے میں بھی اسی قسم کا جواز پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری وجہ محض اس حد تک صحیح ہے کہ یہ مکتوب، خطوط کے کسی مجموعے میں اب تک شامل نہ تھے، اس لئے انہوں نے اس مجموعہ مضامین میں شامل کر لیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مکتوب ایک بار ’’جریدۂ اقبال‘‘ میں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکے تھے تو پھر انہیں اس مجموعے میں شامل کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ بنیادی طور پر ’’ مقالات اقبال‘‘ مکاتیب کا مجموعہ نہیں، بلکہ مضامین کا مجموعہ ہے اور مضامین کے مجموعے کو صرف مضامین تک ہی محدود رکھا جاتا تو بہتر تھا۔ 3خلافت اسلامیہ 1908ئ: اصل مضمون انگریزی میں تھا، اس کا ترجمہ چودھری محمد حسین نے کیا ہے۔ اس مضمون کے سلسلے میں مرتب نے ’’ پیش لفظ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ انگلستان کے قیام کے دوران علامہ نے ایک مضمون اسلام میں خلافت، کے موضوع پر سپرد قلم کیا تھا اور یہ مضمون لندن کے مشہور سائیکلوجیکل ریویو، میں1908ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا ترجمہ اخبار وکیل، امرتسر میں شائع ہوا تھا۔ مگر یہ ترجمہ اقبال کو پسند نہیں تھا۔ لہٰذا غالباً علامہ کے اشارہ سے چودھری محمد حسین نے دوبارہ اس کا ترجمہ کیا، یہ ترجمہ علامہ نے بہت پسند کیا۔‘‘ 7؎ لیکن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں کہ ’’ خلافت اسلامیہ‘‘ Political Thought in Islam کا ترجمہ ہے، جو لندن کے رسالہ Sociological Review میں شائع ہوا۔ بعد ازاں The Hindustan Review (الہ آباد، دسمبر1910ء اور جنوری 1911ئ) اور پھر Muslim Outlook(1922ئ) میں چھپا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ سید عبدالواحد معینی نے اس کا عنوان ’’ اسلام میں خلافت Islam and Khilafat بتایا ہے، جو درست نہیں۔ در حقیقت یہ ایک ہی مضمون ہے جو تین بار مختلف رسائل میں طبع ہوا۔ اس کا اردو ترجمہ (از: چودھری محمد حسین) ’’ خلافت اسلامیہ‘‘ کتابچے کی شکل میں لاہور سے شائع ہوا۔ 8؎ اس طرح ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ خلافت اسلامیہ Political Thought in Islam کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی 9؎نے بھی بلا تحقیق اس نثر پارے کے سلسلے میں ’’ مقالات اقبال‘‘ کے مرتب کی غلطی کو دہرایا ہے۔‘‘ 4ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر1910ئ: اگرچہ یہ مضمون ’’ مضامین اقبال‘‘ میں چھپ کر سامنے آ چکا ہے، لیکن اس مضمون کے سلسلے میں مرتب کی غلطی قابل اصلاح ہے، وہ ’’ پیش لفظ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ علامہ نے 1910ء میں جو لیکچر علی گڑھ میں Islam as a Social and Political Ideal پر دیا تھا اس کا ترجمہ مولانا ظفر علی خاں جیسے عالم بے بدل اور ادیب بے مثل نے کیا تھا، اور مولانا نے علامہ کی موجودگی میں یہ ترجمہ اسلامیہ کالج لاہور کے برکت علی ہال میں پڑھ کر سنایا۔ لہٰذا ایک طرح سے اس ترجمہ کی صحت کی دو گونہ ضمانت ہمارے پاس موجود ہے، لہٰذا یہ ہی مناسب خیال کیا گیا کہ اس ترجمہ کو اس مجموعہ میں شامل کر لیا جائے۔‘‘ 10؎ مرتب نے ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کو انگریزی مضمون Islam as a Social and Political Ideal کا اردو ترجمہ بتایا ہے، جبکہ علی گڑھ لیکچر کا عنوان The Muslim Community تھا، جس کا اردو ترجمہ (از: مولانا ظفر علی خاں) ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے کئی جگہ چھپ چکا ہے۔ 5پین اسلام ازم :1911ء کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں سجاد حیدر یلدرم کی تحریک پر مولانا شبلی نعمانی نے علامہ اقبال کو پھول پہنائے اور تقریر بھی کی۔ا س کے جواب میں علامہ اقبال نے بھی جو چند کلمات فرمائے وہ اس عنوان سے شائع ہوئے۔ 6 ایک دلچسپ مکالمہ 1914ء : یہ تصوف کے موضوع پر ایک دلچسپ مکالمہ ہے، جو محمد دین فوق نے علامہ اقبال سے مختلف سوالات کے ذریعے کیا تھا۔ 7اسرار خودی اور تصوف: اکثر لوگوں نے اس امر کی شکایت کی تھی کہ علامہ اقبال نے تصوف کی مخالفت کی ہے، لیکن علامہ نے اس مضمون میں تفصیل سے خودی اور تصوف پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون ’’ وکیل‘‘ امرتسر15جنوری1916ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ 8 سر اسرار خودی 1916ئ: یہ مضمون علامہ اقبال نے خواجہ حسن نظامی کے مضمون کے جواب میں تحریر کیا ہے۔ 9تصوف وجودیہ: یہ مضمون’’ وکیل‘‘ امرتسر12دسمبر1916ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ علامہ نے چند مضامین میں نبی کریمؐ کی اس پیشین گوئی پر بحث کی تھی کہ تین فرقوں کے بعد میری امت میں سمن کا ظہور ہو گا۔ یہ مضمون اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔ 10جناب رسالتمابؐ کا ادبی تبصرہ 1917ئ:’’ مضامین اقبال‘‘ میں بھی شامل ہے اور اس میں اسے انگریزی مضمون بتایا گیا ہے، لیکن ’’ مقالات اقبال‘‘ کے مرتب نے’’ پیش لفظ‘‘ میں اس مضمون کے ضمن میں اس قسم کے جملے تحریر کئے ہیں: ’’ اکثر احباب کا خیال تھا کہ ستارۂ صبح، میں جو مضمون مولانا ظفر علی خاں نے شائع کیا تھا وہ شاید انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے مگر اغلب یہ ہے کہ اردو کا مضمون علامہ نے مولانا ظفر علی خاں کی درخواست پر ستارۂ صبح کے لئے اردو میں لکھا۔‘‘ 11؎ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مرتب کے اس بیان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس مضمون کے اردو اور انگریزی متون کا موازنہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ مضامین نہیں، بلکہ اردو متن انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے۔ 12؎ یہ بات درست ہے کہ ’’ جناب رسالتمابؐ کا ادبی تبصرہ‘‘ در حقیقت انگریزی مضمون Our Prophet's Criticism of Contemporary Arabian Poetry ہی کا ترجمہ ہے۔ یہ امر یقینا غور طلب ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے فوراً بعد علامہ اقبال نے اسی موضوع پر اردو زبان میں مضمون لکھ دینے کی درخواست پر عمل کس طرح کر لیا، جبکہ مضمون نویسی ان کا میدان خاص نہ تھا، بلکہ وہ کسی نہ کسی مجبوری کے تحت مضمون لکھنے پر آمادہ ہوتے تھے۔ چنانچہ مرتب کی اس مضمون کے سلسلے میں قیاس آرائی بعید از قیاس ہے۔ 11محفل میلاد النبیؐ: یہ ایک تقریر ہے، جو علامہ اقبال نے میلاد النبیؐ کی کسی محفل میں کی تھی۔ اس تقریر کی رپورٹ’’ زمیندار‘‘ لاہور میں شائع ہوئی تھی۔ جناب دستگیر رشید نے یہ تقریر’’ زمیندار‘‘ کے صفحات سے لے کر اپنے مجموعہ’’ آثار اقبال‘‘ میں شائع کی تھی۔’’ آثار اقبال‘‘ سے نقل کر کے، مرتب نے’’ مقالات اقبال‘‘ میں اسے شامل کر لیا۔ 12تقاریظ رب تصانیف جناب فوق مرحوم: یہ محمد دین فوق کی تین تصانیف:’’ امتحان میں پاس ہونے کا گر‘‘ حریت اسلام اور’’ سوانح علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ پر علامہ اقبال کی مختصر تقاریظ ہیں۔’’ مقالات اقبال‘‘ میں ان تقاریظ کے آخر میں3دسمبر1924ء درج ہے۔ 13 اراکین انجمن حمایت اسلام کے نام: یہ بھی ایک تقریر ہے۔ اس تقریر کا ماخذ اور سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ 14اسلام اور علوم جدیدہ: علامہ اقبال کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس منعقدہ 1911ء کے تیسرے جلسے کی صدارت فرمائی تھی، اس جلسے میں خواجہ کمال صاحب نے ’’ اسلام اور علوم جدیدہ‘‘ کے موضوع پر تقریر کی تھی۔ اس تقریر کے اختتام پر علامہ نے چند مختصر اور جامع کلمات ارشاد فرمائے، جس سے اسلام کا تعلق علوم جدیدہ کے ساتھ واضح ہوتا ہے۔ 15خطبہ عیدالفطر: اقبال کا یہ خطبہ1932ء کی عید الفطر کے موقع پر انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور نے فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور سے پمفلٹ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ اس طرح ’’ مقالات اقبال‘‘ کے اولین ایڈیشن میں’’ مضامین اقبال‘‘ کی نسبت نئے نثر پاروں کی تعداد خاصی زیادہ ہے، اگرچہ ان اضافہ شدہ نثر پاروں میں سے باقاعدہ اردو مضامین زیادہ نہیں ہیں، کیونکہ ان میں بیشتر انگریزی مضامین کے تراجم، تقاریر اور خطبات ہیں۔ ہمارے مقالے کے اس باب کا تعلق چونکہ تراجم، خطبات اور تقاریظ سے نہیں بلکہ اردو مضامین سے ہے، اس لئے اب ہم متذکرہ بالا نثر پاروں میں سے صرف اردو مضامین کا تعین کرتے ہیں، مثلاً: بچوں کی تعلیم و تربیت، اسرار خودی اور تصوف، سر اسرار خودی، تصوف وجودیہ، اسلام اور علوم جدیدہ، خطبہ عیدالفطر، گویا اضافہ شدہ تیرہ نثر پاروں میں سے اردو مضامین کی تعداد چھ ہے۔ مقالات اقبال (طبع دوم): ’’ مقالات اقبال‘‘ دوسری مرتبہ 1988ء میں شائع ہوئی۔ اس اشاعت پر مرتبین کی حیثیت سے سید عبدالواحد اور محمد عبداللہ قریشی کے نام درج ہیں۔ سر ورق کے لئے دو صفحات استعمال کئے گئے ہیں۔ انتساب، حسب سابق جاوید اور منیرہ کے نام ہے۔ اس اشاعت میں صفحات کے شمار نمبر میں تبدیلی کی گئی ہے کہ سر ورق کے پہلے صفحے کو ص: 1قرار دیا گیا ہے اور باقی صفحات اسی طرح مسلسل شمار کئے گئے ہیں۔ متن کتاب ص33تا 376پر مشتمل ہے۔ آخر میں تین صفحات کے ’’صحت نامہ‘‘ کو حذف کر دیا گیا ہے۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ کی دوسری اشاعت میں تقریباً نو نثر پاروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن مرتبین نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ عبداللہ قریشی نے ’’ مقالات اقبال‘‘ کی اس اشاعت میں کس حد تک معاونت کی ہے۔ بہرحال ہم اضافہ شدہ مضامین کا تعارف پیش کرتے ہیں: 1علم ظاہر و علم باطن: علامہ کا یہ مضمون اخبار’’ وکیل‘‘ (امرتسر) کے 28جون1916ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ یہ ان مضامین کی ایک کڑی ہے جو ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد معترضین کے جواب میں انہوں نے تحریر کئے تھے۔ یہ مضمون’’ انوار اقبال‘‘ (مرتبہ: بشیر احمد ڈار) میں بھی شامل ہے۔ 2اسلام اور تصوف: یہ مضمون انگریزی میں ہے اور ہفتہ وارNew Era میں28جولائی 1917ء کو شائع ہوا۔ 3اسلام ایک اخلاقی تصور کی حیثیت میں: مرتب نے اس مضمون کو انگریزی مضمون کی تلخیص بتایا ہے، لیکن انگریزی مضمون کا عنوان اور سنہ اشاعت نہیں بتایا۔ 4شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ: دسمبر1928ء میں علامہ اقبال مدراس تشریف لے گئے تو مدراس میں اپنے تین روزہ قیام میں اراکین سوسائٹی گورنمنٹ محمڈن کالج اور انجمن خواتین اسلام مدراس نے آپ کی خدمت میں سپاسنامے پیش کئے۔ انجمن خواتین اسلام نے دو شنبہ 7جنوری 1929ء مطابق29رجب1347ء کو ٹاکرس گارڈن مدراس میں جو سپاسنامہ پیش کیا اس کے جواب میں حضرت اقبال نے یہ تقریر کی۔ 13؎ یہ تقریر ’’ گفتار اقبال‘‘ (ص:75) میں بھی شامل ہے۔ 5حکمائے اسلام کے عمیق مطالعے کی دعوت: یہ انگریزی میں صدارتی خطبہ ہے، جو علامہ اقبال نے اورینٹل کانفرنس لاہور کے شعبہ عربی و فارسی کے اجلاس منعقدہ 1928ء میں دیا تھا۔ 6حکمرانی کا خدا داد حق: یہ علامہ اقبال کے اس انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ہے Devine Right to Rule کے عنوان سے لاہور کے انگریزی ہفتہ وار Light کے رسول نمبر میں30 اگست1928ء کو شائع ہوا تھا۔ اس کا ترجمہ پروفیسر ابوبکر صدیقی (گورنمنٹ کالج جھنگ) نے کیا ہے۔ 14؎ 7لسان العصر اکبر کے کلام میں ہیگل کا رنگ: یہ انگریزی مضمون Touch of Hegalianism in Lisanul Asar Akbar کا اردو ترجمہ ہے۔ 8 افغانستان جدید: یہ پیش لفظ ہے، اور انگریزی میں ہے۔ محمد عبداللہ قریشی کی فرمائش پر پروفیسر ابوبکر صدیقی نے اس کا ترجمہ کیا۔ 9 اسلام کا مطالعہ زمانہ حال کی روشنی میں: یہ ایک خط ہے، جو علامہ اقبال نے 14نومبر1923ء کو سید محمد سعید الدین جعفری کے نام لکھا تھا۔ اس طرح ’’ مقالات اقبال‘‘ کی دوسری اشاعت میں اضافہ شدہ نو نثر پاروں میں سے اصلاً اردو مضمون صرف ایک (علم ظاہر و علم باطن) ہے۔ باقی تمام کے تمام نثر پارے یا تو تقاریر، پیش لفظ یا خط کی صورت میں ہیںیا پھرکسی انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ یا تلخیص ہیں۔ اس جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ مقالات اقبال‘‘ (طبع اول و دوم) میں اصلاً اردو مضامین کی تعداد سات بنتی ہے۔ سید عبدالواحد معینی نے طبع اول کے ’’ پیش لفظ‘‘ میں تحریر کیا تھا کہ یہ مجموعہ مضامین، علامہ کی نثری تخلیقات پر مشتمل ہے، لیکن اس میں دو انگریزی مضامین کے تراجم او رخط کو شامل کیا گیا تھا، جس کی وضاحت کر دی گئی تھی اور یہ تحریر کیا گیا تھا کہ ان مضامین کے اصل متن مل جانے پر ان تراجم کو متن سے خارج کر دیا جائے گا۔ 15؎ مگر یہ امر باعث تعجب ہے کہ ’’ مقالات اقبال‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں سات انگریزی مضامین کے تراجم اور ایک خط شامل ہے، لیکن اس تراجم کی شمولیت کی وجوہ کہیں تحریر نہیں کی گئیں، حالانکہ یہ بے حد ضروری تھا۔ محمد عبداللہ قریشی نے ’’ حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت‘‘ اور’’ علم ظاہر و باطن‘‘ وغیرہ مضامین’’ انوار اقبال‘‘ سے نقل کئے ہیں، کیونکہ بشیر احمد ڈار نے ان مضامین پر جو تمہیدی نوٹ لکھے ہیں، محمد عبداللہ قریشی نے انہیں جوں کا توں نقل کر لیا ہے، مگر قوسین میں’’ انوار اقبال‘‘ کے بجائے مرتب نے اپنا حوالہ دیا ہے۔ یہ علمی دیانت کے منافی ہے، جس کا ازالہ ہونا چاہئے۔ محمد عبداللہ قریشی نے اس اشاعت میں اضافہ شدہ نثر پاروں کے ماخذ کا تذکرہ نہیں کیا، جبکہ یہ آسانی سے معلوم کیا جا سکتا تھا کہ یہ نثر پارے ابتدا کہاں کہاں چھپے اور مرتب نے کن ذرائع سے استفادہ کیا۔ متن میں بہت سے تصرفات کئے گئے ہیں۔ضروری حواشی اور توضیحات کا اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مرتب نے کسی مقام پر بھی اس کی وضاحت نہیں کی۔ انوار اقبال: یہ بنیادی طور پر مضامین کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ اس میں علامہ اقبال کی متفرق تحریریں شامل ہیں، مثلاً: خطوط، تقاریظ، مضامین، تقاریر، بیانات وغیرہ۔ اس مجموعہ نثر میں خطوط کی تعداد زیادہ ہے ، جس کا جائزہ ہم خطوط کے باب میں لیں گے۔ یہاں ہم صرف اس مجموعہ نثر میں شامل مضامین کا ذکر کریں گے، یہ مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصے اہم ہیں۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے: 1سودیشی تحریک اور مسلمان:ـ’’ زمانہ‘‘ کانپور کے ایڈیٹر نے 1906ء کے آغاز میں سودیشی تحریک کے متعلق چند سوالات مرتب کئے اور ان کو مختلف مفکرین، ادیب اور سیاسی رہنماؤں کے پاس بھیجا۔ یہ سوالات1906ء کے شمارے میں شامل کئے گئے۔ علامہ اقبال کا جواب، جو انہوں نے کیمرج سے بھیجا تھا۔ مئی 1906ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ 2اقبال سے مجید ملک کی ملاقات کا حال: اس میں مجید ملک نے علامہ اقبال سے اپنی ایک ملاقات کا حال بیان کیا ہے، یہ چونکہ اقبال کا تحریری نثر پارہ نہیں ہے، اس لئے اس کا شمار مضامین کی ذیل میں نہیں کیا جا سکتا۔ 3مذہب اور سیاست کا تعلق: اقبال جب لیکچروں کے سلسلے میںمدراس گئے تو 7جنوری 1929ء کو مدراس کے ایک اخبار’’ سوراجیہ‘‘ کے نمائندے نے آپ سے مذہب اور سیاست کے تعلق پر سوال کیا۔ اقبال نے اس سوال کا تفصیل سے جواب دیا۔ اس جواب کا متن تو نہیں مل سکا، البتہ اس کا جو حصہ محمد دین فوق کی کتاب’’ مشاہیر کشمیر‘‘ (29جولائی1930ئ) میں طبع ہوا وہ ’’انوار اقبال‘‘ میں شامل کیا گیا۔ چونکہ یہ بھی ایک باقاعدہ مضمون نہیں ہے اور اس کا متن بھی دستیاب نہیں ہے، اس لئے اسے بھی ہم مضامین کی ذیل میں نہیں لا سکتے۔ 4اقبال کی تقریر: یہ چونکہ تقریر ہے، اس لئے ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ 5نبوت پر نوٹ: مسئلہ نبوت پر اقبال کی یہ دونوں تحریریں جناب سید نذیر نیازی کو بھیجی گئی تھیں۔ جب اقبال نے قادیانی تحریک کے خلاف بیان دیا تو ا س بیان پر مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراضات شائع ہوئے۔ ان اعتراضات کی روشنی میں اقبال نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی اور یہ دونوں تحریریں اسی سلسلے میں ہیں۔ 6حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت: یہ اصل میں انگریزی زبان میں ایک صدارتی خطبہ تھا۔ اس کا ترجمہ ماہنامہ ’’ صوفی‘‘ کے مارچ1931ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ دوسرا ترجمہ داؤد رہبر نے کیا جو اورینٹل کالج میگزین اگست1947ء میں طبع ہوا۔ یہ ترجمہ بھی ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ 7علم ظاہر و علم باطن: یہ مضمون علامہ اقبال نے ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد معترضین کے جواب میں تحریر کیا، اور یہ مضمون اخبار’’ وکیل‘‘ (امرتسر) کے 28جون 1916ء کے پرچے میں شائع ہوا تھا۔ 8مسلمانوں کا امتحان: محمد دین فوق نے ایک دن اقبال سے اسلامی تصوف سے متعلق چند سوالات کئے۔ اقبال کے جوابات کو انہوں نے مختصراً اپنے ہفتہ وار اخبار کشمیری (14جنوری 1913ئ) میں عنوان بالا سے شائع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال’’ اسرار خودی‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے۔ ’’ تربیت خودی‘‘ کے دوسرے مرحلے ضبط نفس کے عنوان کے تحت اقبال نے ان ہی شعائر اسلام کی افادیت ایک دوسرے رنگ میں بیان کی۔ 16؎ اسی طرح ’’ انوار اقبال‘‘ میں اردو مضامین کی تعداد چار ہے، یعنی 1سودیشی تحریک، 2 نبوت پر نوٹ ، 3 علم ظاہر و علم باطن اور4مسلمانوں کا امتحان۔ اقبال کے نثری افکار: عبدالغفار شکیل نے علامہ اقبال کے نایاب کلام کو کتابی صورت میں’’ نو اور اقبال‘‘ کے نام سے علی گڑھ سے شائع کیا۔ اس کتاب کی تحقیق کے دوران میں انہیں علامہ اقبال کے کچھ مضامین مختلف رسائل سے ملے، جو انہوں نے نقل کر لئے اور بعد میں انہیں ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں چھاپ دیا۔ 17؎ اس مجموعہ مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے: سر ورق ص:1، انتساب (بہ نام: پروفیسر اسلوب احمد انصاری) ص:5ص6خالی، پیش لفظ (از: خلیق انجم) ص:7 تا8 عرض مرتب ص:9 تا15متن کتاب ص17سے 282 تک محیط ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اردو مضامین اور دوسرے حصے میں انگریزی مضامین کے تراجم کو پیش کیا ہے۔ مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کرتے وقت مرتب نے کچھ زیادہ تحقیق سے کام نہیں لیا کیونکہ حصہ اول میں تین تحریریں (شعبہ تحقیقات اسلامی کی ضرورت، اسلامیات، سال نو کا پیغام) بھی انگریزی تحریروں کے تراجم ہیں۔ اگر انہیں اس بات کا علم ہوتا تو وہ یقینا ان تین تحریروں کو بھی حصہ دوم میں شامل کرتے۔ ’’ پیش لفظ‘‘ میں خلیق انجم اس کتاب کو ’’ مضامین اقبال‘‘ کے بعد دوسری کتاب قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ مضامین اقبال، کے بعد شاید کوئی مجموعہ مضامین شائع نہیں ہوا‘‘ 18؎ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ مضامین اقبال‘‘ کے بعد اقبال کے مضامین کے کئی مجموعہ شائع ہو چکے تھے، مثلاً: مقالات اقبال (1963ئ) ’’ انوار اقبال‘‘ (1967ئ) ، گفتار اقبال (1969ئ) جبکہ ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ 1977ء میں شائع ہوئی، خلیق انجم نے اور مرتب نے بھی اس کتاب میں شامل نثر پاروں کی تعداد تینتیس بتائی ہے، جبکہ فہرست میں مضامین کی تعداد35بنتی ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ مضامین کے شمار29کے بعد باقی مضامین کو پھر نمبر28سے شمار کیا گیا ہے۔ کتابت کی اس غلطی کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔ مرتب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کتاب میں شامل مضامین کو پہلے پہل متعارف کروا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس مجموعہ مضامین سے قبل ’’ مضامین اقبال‘‘ کے علاوہ تقریباً تین مجموعے شائع ہو چکے تھے، چنانچہ اس مجموعے میں شامل تقریباً تمام نثر پارے ایسے ہیں جو کہیں نہ کہیں ضرور شائع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اس مجموعے میں شامل مضامین کی تفصیل بتائی ہے اور نشاندہی کی ہے کہ کون کون سا نثر پارہ کہاں کہاں چھپا ہے۔ 19؎ ڈاکٹر صاحب کے تفصیلی جائزے سے یہ امر سامنے آتا ہے کہ اس مجموعہ مضامین میں شامل صرف دو تحریریں ایسی ہیں، جو کسی اور مجموعے میں شامل نہیں ہیں (اسلامی یونیورسٹی، اور علم الانساب) باقی تمام مضامین ایک سے زیادہ بار مختلف جگہ شائع ہو چکے ہیں۔ اس طرح مرتب کا یہ دعویٰ کہ اس مجموعے میں شامل بیشتر نثری مضامین نایاب و کم یاب ہیں، اور یہ نایاب و کمیاب مضامین کسی مجموعے میں شامل نہیں، باطل ہو جاتا ہے۔ مرتب اس مجموعے کے ماخذ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ اس مجموعے میں جو مضامین یکجا کئے گئے ہیں، وہ مخزن، زمانہ، وکیل، سہیل، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، صوفی، خطیب، کشمیری میگزین، احسان وغیرہ رسائل اور مضامین اقبال، حرف اقبال آثار اقبال وغیرہ نایاب کتابوں سے یکجا کر لئے گئے ہیں۔ پہلی بار علامہ اقبال کے اتنے مضامین یکجا پیش کئے جا رہے ہیں اس سے پہلے کسی مجموعے میں اقبال کے اتنے مضامین یکجا نہیں پیش کئے گئے۔ ‘‘ 20؎ یہ امر باعث تعجب ہے کہ مرتب نے اس مجموعے میں شامل مضامین کے ماخذ میں ’’ مقالات اقبال‘‘ ’’ انوار اقبال‘‘ اور’’ گفتار اقبال‘‘ کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ بیشتر نثر پارے مذکورہ مجموعوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔ مرتب نے ’’ مضامین اقبال‘‘ ’’ حرف اقبال‘‘ اور’’ آثار اقبال‘‘ کو’’ نایاب‘‘ کتابیں قرار دیا ہے، جبکہ یہ کتابیں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ مرتب نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ علامہ اقبال کے اتنے مضامین پہلی بار یکجا صورت میں پیش کئے جا رہے ہیں، گویا ان کے نزدیک ضخامت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مرتب کا کہنا ہے کہ یہ نایاب مضامین پرانے اخبارات و رسائل سے اخذ کئے گئے ہیں، مگر تمام تحریروں کے بارے میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بہت سی تحریریں مرتب نے ثانوی ذرائع سے اخذ کی ہیں، مثلاً: ’’ اسرار خودی‘‘ طبع اول کا دیباچہ انہوں نے اصل کتاب سے نہیں بلکہ ’’ مضامین ا قبال‘‘ سے نقل کیا ہے، لیکن اس کا حوالہ نہیں دیا۔ اسی طرح ’’ سال نو کا پیغام‘‘ ’’ حرف اقبال‘‘ (ص:222تا225) سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب لیتھو میں چھپی ہے اور کتابت بھی کسی اچھے خوش نویس سے نہیں کرائی گئی، چنانچہ متن میں جا بجا اغلاط نظر آتی ہیں۔ متن میں بعض جگہ پوری پوری سطریں غائب ہیں، لیکن ان کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ علاوہ ازیں متن میں جگہ جگہ تصرفات و ترامیم کی گئی ہیں، مگر مرتب نے کہیں بھی اس کی وجہ بیان نہیں کی۔ متن کا جائزہ ہم آئندہ صفحات میں لیں گے۔ ہمارے مقالے کے اس باب کا موضوع چونکہ اقبال کے اردو مضامین ہیں، اس لئے جب ہم اس نقطہ نظر سے اس مجموعے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس مجموعے میں اقبال کا کوئی نو دریافت نثر پارہ نظرنہیں آتا۔ دو نثر پارے جو پہلی بار سامنے آئے ہیں وہ بھی اصلاً اردو مضامین نہیں ہیں، مثلاً: ’’اسلامی یونیورسٹی‘‘ اور’’ علم الانساب‘‘ وغیرہ ان میں سے اول الذکر تقریر ہے جو علامہ اقبال نے ترکی کے مشہور ادیب اور شاعر خالد خلیل کے ایک سوال کے جواب میں لکھی۔ مرتب نے اس خط کا ماخذ نہیں بتایا، اس طرح ان دو نثر پاروں کی اہمیت بھی ہمارے موضوع کے حوالے سے صفر ہے، چنانچہ ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں کوئی مضمون ایسا نہیں جو اصلاً اردو نثری مضمون ہو اور وہ پہلی بار اس مجموعے میں شائع ہوا ہو۔ جب ہم مذکورہ بالا تمام مجموعوں (مضامین اقبال، مقالات اقبال طبع اول و طبع دوم، انوار اقبال اور اقبال کے نثری افکار) کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان میں اقبال کی تقریباً ہر طرح کی تحریریں ملتی ہیں، لیکن چونکہ ہمارے موضوع سے اقبال کی ہر قسم کی تحریریں متعلق نہیں ہیں، اس لئے ہم ان مجموعوں میں شامل صرف اردو مضامین کی تعداد کا تعین کرتے ہیں۔ یعنی اردو مضامین کی تعداد سترہ بنتی ہے، مثلاً: 1بچوں کی تعلیم و تربیت، 2زبان اردو، 3اردو زبان پنجاب میں،4 قومی زندگی، 5جغرافیائی حدود اور مسلمان، 6خطبہ صدارت (1931ئ)،7اسرار خودی اور تصوف، 8سر اسرار خودی، 9 تصوف وجودیہ، 10 اسلام اور علوم جدیدہ، 11خطبہ عید الفطر، 12علم ظاہر و علم باطن، 13 ایک دلچسپ مکالمہ، 14 سودیشی تحریک او رمسلمان، 15 نبوت پر نوٹ1, 2, 3, 16 مسلمانوں کا امتحان، 17 شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ۔ اب ہم مندرجہ بالا اردو مضامین کا پس منظر، تعارف اور متن کا جائزہ پیش کرتے ہیں: 1بچوں کی تعلیم و تربیت: یہ علامہ اقبال کا پہلا مضمون ہے، جو اردو زبان میں تحریر کیا گیا اور ’’مخزن‘‘ جنوری 1902ء میں شائع ہوا۔ متن کا مطالعہ: نمبر شمار صفحہ اصل متن ’’مخزن ‘ جنوری 1902 صفحہ مقالات اقبال (طبع اول) صفحہ اقبال کے نثری افکار، مارچ صفحہ مقالات اقبال (طبع دوم) 1 22 شاگرد 1 شاگردوں 17 شاگرد 33 شاگردوں 2 22 ہوتے 1 ہوتے 17 ہوئے 33 ہوتے 3 22 پڑ کر 2 پڑ کے 18 پڑ کر 34 پڑ کے 4 22 دیویں 2 دیں 18 دیویں 34 دیں 5 22 مجا او مصفا 2 مجاد و مصفا 18 مجاد و مصفا 34 مجاد و مصفا 6 32 فرائض 2 جادے 18 جاوے 34 جائے 7 23 جاوے 2 جاوے 18 جاوے 34 جائے 8 23 ہی کے وساطت 2 ہی کی وساطت 18 ہی کے وساطت 43 ہی کی وساطت 9 23 افراد سوسائٹی 2 افراد سوسائٹی 18 افراد اور سوسائٹی 34 افراد اور سوسائٹی 10 23 خیالی ہی نہیں ہے۔۔۔ 2 خیالی ہی نہیں ہے 19 خیالی ہی نہیں ہے۔۔ 35 خیالی ہی نہیں ہے۔۔۔ 11 24 ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔۔ 3 ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔ 19 ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔۔ 35 ہر حیوان میں پائی جاتی ہے 12 24 ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔۔ 3 ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔۔ 19 ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔ 36 ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔۔ 13 24 تنگ آتے ہیں۔۔۔ 3 تنگ آتے ہیں۔۔ 19 تنگ آتے ہیں۔۔۔ 36 تنگ آتے ہیں۔۔۔ 14 25 طویل نہ ہوں 4 طویل نہ ہوں۔۔۔ 20 طویل نہ ہوں۔۔۔ 37 طویل نہ ہوں۔۔۔ 15 25 پڑھتے وقت۔۔۔ 4 پڑھتے وقت۔۔۔ 20 پڑھتے وقت۔۔۔ 37 پڑھتے وقت۔۔۔ 16 25 اشیاء خارجی ۔۔۔ 4 اشیاء خارجی۔۔۔ 20 اشیاء خارجی۔۔ 37 اشیاء خارجی۔۔۔ 17 25 ہاتھوں میں دیدی جائے۔۔ 5 ہاتھوںمیں دیدی جائے۔۔۔ 20 ہاتھوں میں دیدی جائے۔۔۔ 37 ہاتھوں میں دیدی جائے۔۔۔ 18 25 شے مذکور اس کے 5 شے مذکور اس کے 21 شے مذکور کو اس کے 37 شے مذکور اس کے 19 26 اقل درجہ کے مصور 5 اعلیٰ درجے کے مصور۔ 21 اقل درجہ کی مصور۔۔ 37 اعلیٰ درجے کے مصور۔۔ 20 26 بچے میں بڑوں کی نقل کرنے کا 5 بچے میں بڑوں کی نقل کرنے کا 21 بچے میں بڑوں کی نقل کا 38 بچے میں بڑوں کی مدد کرنے کا 21 26 ذرا بڑا ہوتا ہے 5 ذرا بڑاہوتا ہے۔۔۔ 21 ذرا بڑاہوتا ہے۔۔۔ 38 ذرا بڑا ہو جاتا ہے۔ 22 26 لگا دئیے 5 لگا دئیے 21 پگا دئیے 38 لگا دئیے 23 26 کہانی تو 6 کہانی تو 21 کہانی تو 38 کہانی تو کہہ دو۔۔ کہہ دو۔۔ دیدو۔۔۔ کہہ دو۔۔ 24 36 اور کچھ پڑھنا۔۔ 6 اور پڑھنا۔۔۔ 21 اور کچھ پڑھنا۔۔۔ 38 اور پڑھنا۔۔۔ 25 27 اندر رکھنے کی 6 اندر رکھنے کی۔۔ 22 اندر رکھنے کی۔۔۔ 39 اندر رکھنے کی 26 27 کاغذ کی کشتیاں یا ’’دن رات ‘‘ بنایا دن رات بنایا یا دن رات بنایا دن رات بنایا 27 27 علامات بھی ظاہر۔۔ 6 علامات بھی ظاہر۔ 22 علامات ظاہر۔۔ ظاہر۔۔۔ 39 علامات بھی 28 27 نظمیں یاد کرائے۔۔ 6 نظمیں یاد کرائے۔۔۔ 22 نظمیں یاد کرائے۔۔ 39 نظمیں یاد کرائے۔۔ 29 28 نمایاں اور ظاہر اختلافات 7 نمایاں اور ظاہری اختلافات 23 نمایاں اور ظاہر اختلافات 40 نمایاں اور ظاہری اختلافات 30 28 شے کا اس۔۔ 8 شے کا اس۔۔ 32 شے اس 41 شے کا اس۔۔۔ 31 29 بعض وجوہات سے اچھا ہوا ہو۔ 8 بعض وجوہ سے اچھا ہوا مگر 23 بعض وجوہات سے اچھا ہوا مگر 41 بعض وجوہ سے اچھا ہو مگر۔۔۔ 32 29 علم کے انداز کے ساتھ ترقی کرتے 8 علم کے انداز کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے 24/ 23 علم کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے 41 علم کے انداز کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے 33 29 ابتدا سے ہی بچے میں۔۔۔ 8 ابتداء سے ہی بچے میں۔۔۔ 24 ابتداء سے ہی اپنے بچوں میں۔۔۔ 41 ابتداء سے ہی بچے میں۔۔۔ 34 29 عادت انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔ 8 عادت انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔ 24 عادت انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔ 41 عادت انہی چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔۔ 35 29 بڑہتے 9 بڑہتے 24 بڑھتے۔۔ 42 بڑھتے 36 30 قابل بنانا انہیں کی۔۔۔ 9 قابل بنانا انہیں کی۔۔ 24 قابل بنانا ان ہی کی 42 قابل بنانا انہی کی 37 30 جو قدر کہ ہونی چاہیے۔ 9 جو قدر ہونی چاہیے 24 جو قدر کہ ہونی چاہیے۔۔ 42 جو قدر ہونی چاہیے۔۔ 38 30 تمام قسم کی ترقی کا۔۔ 9 تمام قسم کی ملکی ترقی کا 25 تمام قسم کی ملکی ترقی کا۔۔۔ 42 تمام تر ملکی ترقی کا۔۔۔ 28 30 نتیجہ یقینا یقینا پہ ہو۔۔۔ 9 نتیجہ یقینا تہ ہو۔۔۔ 25 نتیجہ یقینا ۔۔۔ یہ ہو 42 نتیجہ یقینا یہ ہو مندرجہ بالا متن کے تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تینوں مجموعوں میں اس مضمون کے سلسلہ میں کسی نہ کسی حد تک تصرفات کئے گئے ہیں۔ ان میں بعض تصرفات بالکل بے جا ہیں اور بعض قابل قبول بھی ہیں، مثلاً: بعض جگہ اصل متن میں ’’ کے‘‘ کو’’ کی‘‘ کر دیا گیا ہے، جو صحیح ہے۔ اسی طرح بعض الفاظ کا املا قدیم املا کے مطابق ہے، مگر بعض جگہ اصل متن کے برخلاف زائد الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور اکثر جگہ اصل متن کے کئی الفاظ بلا ضرورت حذف کر دیے گئے ہیں۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ (طبع اول و دومـ)اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں سے ہمیں موخر الذکر میں’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کا متن، اصل متن کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں کتابت کی بہت سی اغلاط ہیں اور کہیں کہیں اصل متن میں تصرفات بھی کئے گئے ہیں لیکن ان کی تعداد بہ نسبت’’ مقالات اقبال‘‘ طبع اول و دوم کے کم ہے۔ عبدالغفار شکیل نے براہ راست اصل متن سے استفادہ کیا ہے، مگر مرتب کا یہ دعویٰ کہ یہ مضمون پہلی بار اس مجموعہ مضامین میں شائع ہو رہا ہے، درست نہیں ہے۔ اس سے قبل یہ مضمون ’’ مقالات اقبال طبع اول‘‘ میں شائع ہو چکا تھا۔ شاید مرتب کی نظر سے یہ مجموعہ نہیں گزرا، ورنہ وہ اس قسم کا دعویٰ ہرگز نہ کرتے۔ (2)ز بان اردو: اصلاً یہ ایک انگریزی مضمون ہے، جسے ڈاکٹر وائٹ برجنٹ نے تحریر کیا تھا۔ یہ مضمون چونکہ ہماری مشرقی زبان (اردو) سے متعلق تھا، اور خاصا اہم تھا، اس لئے شیخ عبدالقادر کی درخواست پر علامہ اقبال نے اسے ترجمہ کیا۔ یہ مضمون’’ مخزن‘‘ ستمبر1902ء میں اس نوٹ کے ساتھ چھپا: ’’ ڈاکٹر وائٹ برجنٹ صاحب نے جس کو لسنہ مشرقیہ کے ساتھ بالخصوص دلچسپی ہے، انگریزی زبان میں ایک مختصر سا مضمون اردو زبان پر لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا علم و فضل ہماری تعریف کا محتاج نہیں۔ ان کی عالمانہ گفتگو اور وسیع ہمدردی کو اگر صیاد خلق کہا جائے تو ہر طرح سے زیبا ہے اس مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ اردو زبان کی بانکپن نے مغربی فضلاء کو بھی اپنا گرویدہ کر لیا ہے۔ ہماری درخواست پر ہمارے دوست شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے جنہیں اس مضمون کی کاپی ڈاکٹر صاحب موصوف نے تحفتہً دی تھی، اسے ناظرین مخزن کے لئے ترجمہ کر کے بھیجتے ہیں۔‘‘ 21؎ ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہونے کے بعد یہ مضمون یکے بعد دیگرے کئی مجموعوں مثلاً’’ مضامین اقبال‘‘ مقالات اقبال طبع اول و دوم اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں چھپا اب ہم ان مجموعوں میں شامل اس مضمون کا موازنہ اصل متن سے کرتے ہیں: متن کا مطالعہ: ستمبر 1902ء مئی 1963ء مارچ1977ء نمبر شمار صفحہ اصل متن ’’مخزن‘‘ صفحہ مضامین اقبال (طبع اول و دوم) صفحہ مقالات اقبال (طبع اول و دوم) صفحہ اقبال کے نثری افکار صفحہ مقالات اقبال طبع دوم 1988ء 1 1 جس کو 1 جن کو 11 جن کو 26 جن کو 43 جن کو 2 1 اردو زبان کی 1 اردو زبان کی 11 اردو زبان کے 26 اردو زبان کے 43 اردو زبان کے 3 1 مغربی فضلا کو 1 مغربی فضلاء کو 11 مغربی فضا کو 26 مغربی فضلاء کو 43 مغربی فضا کو 4 1 ہوئی ہے 1 ہوئی ہے 11 ہوئی ہے 26 ہوئی 43 ہوئی ہے 5 1 ذکاوت اور اس کی قوت انتظام 1 زکاوت اور اس کی قوت انتظام 11 ذکاوت اور اس کی قوت انتظام 26 ذکاوت اور اس کی قوت انتظام 43 ذکاوت اور قوت انتظام 6 1 دار الخلافت کبھی شہر دہلی 1 دار الخلافت کبھی شہر دہلی۔ 12 دار الخلافت کبھی شہر دہلی 27 دار الخلافہ کبھی دہلی 44 دار الخلافت کبھی شہر دہلی 7 1 مذکور کی زمانے 2 مذکور کی زمانے 12 مذکور کے زمانے 27 مذکور کے زمانے 44 مذکور کے زمانے 8 1 میں یہی برج بھاشا۔ 2 میں یہی برج بھاشا 12 میں یہی برج بھاشا 27 میں برج بھاشا 24 میں بھی برج بھاشا 9 2 سیکھنی 2 سیکنی 12 سیکھئی 27 سیکھنی 44 سیکھنی 10 2 عہد سے 2 عہد سے 12 عہد سے 27 عہد میں 44 عہد سے 11 2 زبانوں کی 2 زبانوں کی 12 زبانوں کی 27 زبانوں کی 44 زبان کی 12 2 سپاہی روز مرہ 2 سپاہی روز مرہ 12 سپاہی جنکو روز مرہ 27 سپاہی کو روز مرہ 44 سپاہی جن کو روز مرہ 13 2 ساتھ برتاؤ کرنا پڑتا 2 ساتھ برتاؤ کرنا پڑتا۔ 12 کے ساتھ واسطہ پڑتا 27 ساتھ برتاؤ کرنا پڑتا 44 ساتھ واسطہ پڑتا 14 2 ہندی مغربی 2 ہندی مغربی 12 ہندی مغربی 27 ہندی مغربی 44 ہندی مغربی 15 2 تو محمدیہ 2 تو محمدیہ 12 تو یہ محمدیہ 27 تو محمدیہ 44 تو یہ محمدیہ 16 2 تک ہی 2 تک ہی 12 تک ہی 27 تک 44 تک ہی 17 2 زبان کی تدریجی نشوونما 2 زبان کی تدریجی نشوونما 12 زبان کی تدریجی نشوونما 27 زبان کی تدریجی نشوونما 44 زبان کی تدریجی نشوونما 18 2 شائع 2 شیائع 13 شائع 27 شائع 45 شائع 19 2 تصانیف ادبیہ 3 تصانیف ادبیہ 13 تصانیف ادبیہ 28 تصانیف ادبیہ 45 تصانیف ادبیہ 20 2 مستحق نہیں ہے 3 مستحق نہیں ہے 13 مستحق نہیں ہے 28 مستحق نہیں ہے 45 مستحق نہیں ہے 21 3 نشوونما میں 3 نشوونما میں 13 نشوونما میں 28 نشوونما 45 نشوونما میں 22 3 کسی تبدیل کے 3 کسی تبدیل کے 13 کسی تبدیلی کے 28 کسی تبدیل کے 45 کسی تبدیلی کے 23 3 ایسی طرز تحریر کو اختیار 3 ایسی طرز تحریر اختیار 13 ایسا طرز تحریر اختیار 28 ایسی طرز تحریر کو اختیار 45 ایسا طرز تحریر اختیار 24 3 مطابق تھے 3 مطابق تھے 13 مطابق ہے 28 مطابق ہے 45 مطابق ہے 25 3 قوی اسباب 3 قوی اسباب 13 قوی اسباب 28 قوی اسباب 49 قوی اسباب 26 3 1832ء سے 3 1832ء سے 13 1832ء سے 28 1832ء سے 46 1832ء سے 27 3 ڈف صاحب کی مساعی جملیہ سے 3 ڈف صاحب کی مساعی جمیلہ سے شروع ہوئی 13 ڈف صاحب کی مساعی جمیلہ سے شروع ہوئی 28 ڈف صاحب کے مساعی جمیلہ سے ہوئی 46 ڈف صاحب کی مساعی جمیلہ سے شروع ہوئی 28 3 کی زبانوں پر 3 کی زبانوں پر 13 کی زبان پر 28 کی زبانوں پر 46 کی زبان پر 29 3 نہیں ہوئے 3 نہیں ہوئی 14 نہیں ہوئی 28 نہیں ہوئے 46 نہیں ہوئی 30 3 کے درمیان ممالک 4 کے درمیان ممالک 14 کے درمیان ممالک 29 کے درمیان ممالک 46 کے درمیانی ممالک 31 4 لاکہہ 4 لا کہہ 14 لاکھ 29 لاکھ 46 لاکھ 32 4 باوجود اس 4 باوجود اس 14 باوجود ان 29 باوجود اس 46 باوجود ان 33 4 اوردھ 4 اودھ 14 اودھ 29 باوجود اس 46 باوجود ان 34 4 حیدر آباد 270 400= 4 حیدر آباد 270 400= 14 حیدر آباد 120 400= 29 حیدر آباد 270 400= 47 حیدر آباد 120 400= 35 4 بمبئی 130 1222= 4 بمبئی 130 1222= 14 بمبئی 1310222 29 بمبئی 130 1222= 47 بمبئی 1310 222= 36 4 میزان 8004183= 4 میزان 8004183= 14 میزان 801384 29 میزان 8004183= 47 میزان 8004183= 37 4 مدراس کے 5 مدراس کے 15 مدراس میں 29 مدراس کے 47 مدراس میں 38 4 جزئی طور پر 5 جزئی طور پر 15 جزوی طور پر 29 جزئی طور پر 47 جزوی طور پر 39 5, 4 ایک کروڑ55 لاکھ مسلمان بنگالی 5 ایک کروڑ55 لاکھ مسلمان بنگالی 15 ایک کروڑ5 لاکھ مسلمان بنگالی 29 ایک کروڑ55 لاکھ مسلمان بنگالی 47 ایک کروڑ5 لاکھ مسلمان بنگالی 40 5 ہندی اصل کی ہے 5 ہندی اصل کی ہے 15 ہندی اصل کی ہے 29 ہندی اصل کی ہے 47 ہندی اصل ہے 41 5 متمیز تصور کرنا 5 متمیز تصور کرنا 15 متمیز تصور کرنا 30 متمیز کرنا 47 متمیز تصور کرنا 42 5 اس امر کو 5 اس امر کو 15 اس بات کو 30 اس امر کو 48 اس بات کو 43 5 تک ہی محدود 5 تک ہی محدود 15 تک محدود 30 تک محدود 48 تک محدود 44 5 معمولی مقامی بولی کو 5 معمولی مقامی بولی کو 15 معمولی مقامی بولی کو 30 معمولی مقامی بولی کو 48 معمولی مقامی بولی کو 45 5 پس اردو بلحاظ صرف و نحو کے ہندی الاصل ہے جس میں کچھ ماروا ڈی اور پنجابی اجزاء بھی شامل ہیں اور بلحاظ الفاظ واصطلاحات 5 پس اردو بلحاظ صرف و نحو کے ہندی الاصل ہے جس میں کچھ مارواڑی اور پنجابی اجزاء بھی شامل ہیں اور بلحاظ الفاظ و اصطلاحات 15 اور بلحاظ الفاظ و اصطلاحات ہیں اور بلحاظ الفاظ اصطلاحات 30 پس اردو بلحاظ صرف و نحو جس میں کچھ مارواڑی اور پنجابی اجزاء بھی شامل ہیں اور بلحاظ الفاظ 48 اور بلحاظ الفاظ و اصطلاحات کے ہندی الاصل ہے 46 6 وغیرہ جو محنت 16 وغیرہ محنت 30 وغیرہ محنت 48 وغیرہ محنت 47 2 ترجمہ ہیں 6 ترجمہ ہیں 16 ترجمہ ہے 30 ترجمہ ہیں 48 ترجمہ ہے 48 6 کے تعلیم یافتہ 6 کے تعلیم یافتہ 16 کے تمام تعلیم یافتہ 30 کے تعلیم یافتہ 48 کے تمام تعلیم یافتہ 49 6 فی زمانا 6 فی زمانا 16 فی زمانہ 31 فی زمانہ 49 فی زمانہ 50 6 موجودہ اردو اخبارات 6 موجودہ اردو اخبارات 16 موجودہ اردو اخبارات 31 اردو اخبارات 49 موجودہ اردو اخبارات 51 6 صحیح ہے 6 صحیح ہے 16 صحیح ہے 31 صحیح نہیں 49 صحیح ہے 52 6 پنجابی اور راجپوتانہ کے 6 پنجابی اور راجپوتانہ کے 16 پنجابی اور راجپوتانہ کی 31 پنجابی اور راجپوتانہ کی 49 پنجاب اور راجپوتانہ کی 53 7 ہمسایہ زبانوں پر 7 ہمسایہ زبانوں پر 17 ہمسایہ زبان پر 31 ہمسایہ زبانوں پر 50 ہمسایہ زبان پر 54 7 انگریزی زبان کے ساتھ 7 انگریزی زبان کے ساتھ 17 انگریزی کے ساتھ 31 انگریزی زبان کے ساتھ 50 انگریزی کے ساتھ 55 7 جب کہ 7 جب کہ 17 کہ 31 جب کہ 50 کہ 56 7 شستگی، بانکپن اور 7 شستگی بانکپن اور 17 شستگی اور 32 شستگی، بانکپن اور 50 شستگی اور 57 7 اے 7 اے 17 اے 32 ارے 50 اے 58 7 ان گرانما یہ 7 ان گرنما یہ 17 ان گرنما یہ۔۔ 32 گرنمایہ 50 ان گرانمایہ۔۔ مندرجہ بالا متن کے تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مضمون میں ’’ مضامین اقبال‘‘ کی نسبت’’ مقالات اقبال طبع اول و دوم‘‘ اور ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں تحریفات و تصرفات زیادہ کئے گئے ہیں اور ان کی وضاحت نہیں کی گئی۔’’ مقالات اقبال‘‘ طبع اول، ص:15اور مقالات اقبال طبع دوم:ص48پر اصل متن کا ایک جملہ کلی طور پر محذوف ہے۔ بعض تصرفات ’’ طبع اول‘‘ میں کئے گئے ہیں مگر طبع دوم میں جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے (مندرجہ بالا تفصیلی جائزے میں یہ فرق ملاحظہ کیا جا سکتا ہے) علاوہ ازیں ’’ مقالات اقبال طبع اول و دوم‘‘ میں کئی جگہ اصل متن کے برخلاف نیا پیراگراف شروع کیا گیا ہے، جبکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی بعض جگہ پیراگراف واوین میں درج کر دیے گئے ہیں، حالانکہ اصل متن میں اس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ ’’ مضامین اقبال‘‘ میں تصرفات و ترمیمات زیادہ نہیں کی گئیں، البتہ اس میں بہت سے الفاظ قدیم املا کے مطابق ہیں۔ متن کے اس موازنے میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مرتب تصدق حسین تاج نے اصل متن کو پیش نظر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ مضمون اصل متن کے بے حد قریب معلوم ہوتا ہے۔ ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں اکثر و بیشتر مقامات پر جا و بیجا تصرف کئے گئے ہیں، اکثر جگہ الفاظ کی املا درست نہیں ہے۔ بعض جگہ الفاظ سہوراً رہ گئے ہیں، کئی مقامات پر الفاظ بڑھا دیے گئے ہیں۔ بیشتر جملوں میں الفاظ بدل دیے ہیں، جس سے اصل مفہوم بدل کر رہ گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس مضمون میں جہاں اصل متن کے مطابق پیراگراف بنانے چاہئے تھے، وہاں نہیں بنائے گئے اور جہاں ان کی ضرورت نہ تھی،وہاں نئے پیراگراف بنا دیے گئے۔ تحقیق کے اعتبار سے اس مجموعے میں شامل ’’ زبان اردو‘‘ کا متن ناقص ہے اور محقق کی کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ اصل متن میں بھی کئی الفاظ ایسے ہیں، جنہیں کتابت کی غلطی کہا جا سکتا ہے، مثلاً: بار آور زن (بار آور زن)، اور زماننا (زمانا، زمانہ) موزون (موزوں) اوردھ (اودھ) وسائیل (وسائل) وغیرہ۔ ان الفاظ کی دیگر مجموعوں میں تصحیح کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ کئی الفاظ قدیم املا میں ہیں، انہیں بھی موجودہ املا کے مطابق لکھ دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے عبارت میں روانی تو پیدا ہو گئی ہے، مگر اصل متن مجروح ہو گیا ہے۔ اس قسم کی ترمیمات کی وضاحت اگر ابتداء میں یا حاشئے میں کر دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا، اس طرح اصل متن مشکوک نہ ہونے پاتا۔ اردو زبان پنجاب میں: یہ مضمون کسی صاحب کے اعتراض کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے کلام پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ زبان کی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے، مزید یہ کہ ان کی زبان، اہل زبان کے مطابق نہیں ہے۔ مگر علامہ اقبال نے اس مضمون میں جس طرح اساتذہ کے کلام سے مثالیں پیش کی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زبان آشنا تھے بلکہ انہیں الفاظ و محاورات کے استعمال پر عبور بھی حاصل تھا۔ اس مضمون کا انداز بیان اتنا شائستہ اور مہذب ہے کہ یہ قطعی گمان نہیں گزرتا کہ اسے کسی اعتراض کے جواب میں رقم کیا گیا ہے۔ یہ مضمون ’’ مخزن‘‘ اکتوبر1902ء میں اس نوٹ کے ساتھ چھپا: ’’ عنوان مندرجہ بالا سے گو یہ مفہوم ہو سکتا ہے کہ اس مضمون میں پنجاب اور ہندوستان کی اردو کے متعلق ایسی بحث ہو جسے ہم ناگوار کہہ سکتے ہیں اور جس سے ہم گریز کرنا پسند کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ نہیں اس میں بعض محاورات زبان کے متعلق اساتذہ کلام سے استناد کر کے جتایا گیا ہے کہ ان کا کس کس طرح استعمال جائز ہے اور ان کے استعمال پر جو اعتراضات ہوئے تھے ان اعتراضات سے بریت کی کوشش کی گئی ہے۔ جس تحقیق سے شیخ محمد اقبال نے اس مضمون میں کام لیا ہے وہ قابل داد ہے اور اسے اس بحث کا خاتم سمجھنا چاہئے۔‘‘ 22؎ ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہونے کے بعد یہ مضمون ’’ مضامین اقبال‘‘ مقالات اقبال طبع اول و دوم اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں یکے بعد دیگرے شائع ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس مرتب نے کس حد تک اصل متن کو پیش نظر رکھا ہے،اور کس نے ثانوی ذرائع سے کام لیا ہے۔ چنانچہ اب ہم تفصیل سے اس مضمون کے متن کا موازنہ پیش کرتے ہیں: اکتوبر 1902ء مضامین اقبال مئی 1963ء مارچ 1977ء 1988ء نمبر شمار صفحہ اصل متن ’’مخزن‘‘ صفحہ طبع اول و دوم صفحہ مقالات اقبال طبع اول صفحہ اقبال کے نثری افکار صفحہ مقالات اقبال طبع دوم 1 25 اردو کے متعلق 8 اردو کے متعلق 19 اردو کے متعلق 23 اردو سے متعلق 51 اردو کے متعلق 2 25 اس مضمون میں کام لیا 8 اس مضمون میں کام لیا 19 کام لیا 33 اس مضمون میں کام لیا 51 کام لیا 3 25 خاتم 8 خاتم 19 خاتمہ 33 خاتمہ 51 خاتمہ 4 25 قسم کی معیار خود بخود قائم ہو جاتی ہے 9 قسم کی معیار خود بخود قائم ہو جاتی ہے 20 قسم کا معیار خود بخود قائم ہو جاتا ہے 34 قسم کی معیار خود بخود قائم ہو جاتی ہے 52 قسم کا معیار خود بخود قائم ہو جاتا ہے 5 25 وقتاً فوقتاً اختراع 9 وقتاً فوقتاً اختراع 20 وقتاً اختراع 34 وقتاً فوقتاً اختراع 52 وقتاً فوقتاً اختراع 6 26 اردو زبان جامع مسجد 9 اردو زبان جامع مسجد 20 اردو جامع مسجد 34 اردو زبان جامع مسجد 52 اردو جامع مسجد 7 26 اخذ کرے تو 10 اخذ کرے تو 21 اخذ کئے جائیں گے 34 اخذ کرے تو 53 اخذ کئے جائیں تو 8 26 وغیرہ کے لئے ہیں 10 وغیرہ کے لئے ہیں 21 وغیرہ لے لیے ہیں 35 وغیرہ کے لیے ہیں 53 وغیرہ لے لیے ہیں 9 26 میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظر کے کلام کو اپنی 10 میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظر کے کلام کو اپنی 21 میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست ناظر کے کلام کو اپنی 35 میرے اور ناظر کے کلام کو اپنی 53 میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظر کے کلام کو اپنی اپنی 10 27 فن تنقید کا پہلا 10 فن تنقید کا پہلا 21 فن کا پہلا 35 فن تنقید کا پہلا 53 فن کا پہلا 11 27 اس لفظ کو 11 اس لفظ کو 22 اس لفظ کو 36 اسی لفظ کو 54 اس لفظ کو 12 27 غیر متغیری لکھنا 11 غیر متغیر لکھنا 22 غیر متغیر لکھنا 36 غیر متغیر لکھنا 54 غیر متغیر لکھنا 13 28 مرزا داغ دام فیصد 11 مرزا داغ دام فیفہ 22 مرزا داغ دام فیضہ 36 مرزا داغ دام فیصد 54 مرزا داغ فیضہ 14 28 اکابر شعرائے حال و قدیم 12 اکابر شعرائے حال و قدیم 23 اکابر شعرائے حال و قدیم 37 اکابر شعراء کے حال و قدیم 55 اکابر شعرائے حال و قدیم 15 28 کوئی صفت 12 کوئی صفت 24 کسوٹی صفت 37 کوئی صفت 55 کسوٹی صفت 16 28 بجز جام جہاں میں کئے پیمانے کو کیا کہئے 12 بجز جام جہاں میں کہتے پیمانے کو کیا کہے 23 جز جام جہاں بیں کے پیمانے کو کیا کہئے 37 بجز جام جہاں میں کئے پیمانے کو کیا کہئے 55 بجز جام جہاں بین کے پیمانے کو کیا کہتے ہیں 17 28 مرکب تام 12 مرکب تام 23 مرکب تمام 37 مرکب تام 55 مرکب تمام 18 29 یہ ہے کہ کہنا تجھے کے ساتھ 13 یہ ہے کہ کہنا 24 یہ ہے کہ تجھے کے ساتھ 38 یہ ہے کہ کہنا تجھے کے ساتھ 57 یہ ہے کہ تجھے کے ساتھ 20 29 کبھی مستعمل نہیں ہوتا لہٰذا 13 کبھی مستعمل نہیں ہوتا لہٰذا 24 کبھی استعمال نہیں ہوتا لہٰذا 38 کبھی مستعمل نہیں ہوتا لہٰذا 57 کبھی استعمال نہیں ہوتا لہٰذا 21 29 آزاد نہیں ہیں 13 آزاد نہیں ہیں 25 آزاد نہیں ہیں 38 آزاد نہیں 57 آزاد نہیں ہیں 22 30 کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں 13 کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں 25 کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں 38 کیا عدم ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں 57 کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں 23 30 میں وہ خاک 13 میں وہ خاک 25 میں وہ خاک 38 میں خاک 58 میں وہ خاک 24 30 ان لالہ رخاں کو 14 ان لالہ رخاں کو 25 ان لالہ رخوں کو 38 ان لالہ رخاں کو 58 میں وہ خاک 25 31 شعر پر کیا تھا 14 شعر پر کیا تھا 26 شعر پر کیا تھا 39 شعر پر کہا تھا 59 شعر پر کیا تھا 26 31 اصول فن قافیہ 15 اصول فن، فن قافیہ 27 اصول فن قافیہ 40 اصول فن قافیہ 60 اصل فن قافیہ 27 26 قافیہ میں ایطائے خفی 15 قافیہ میں ایطائے خفی 27 قافیہ میں ایطائے خفی 40 قافیہ میں کے خفی 60 قافیہ میں ایطائے خفی 28 32 میں سے ہے 15 میں سے ہے 27 میں ہے 40 میں سے ہے 60 میں ہے 29 32 اختلاف روی 16 اختلاف روی 28 اختلاف روی 40 اختلاف رومی 61 اختلاف روی 30 32 راہ میں کچھ جو۔۔ 16 راہ میں کچھ جو 28 راہ میں کچھ جو 40 میں وجہ کچھ جو 61 راہ میں کچھ جو 31 32 ہم سے ظاہر میں دو 16 ہم سے ظاہر وہ 28 ہم سے ظاہر وہ 41 ہم سے ظاہر وہ 61 ہم سے ظاہر میں وہ 32 32 ادق اور حال کا ہے 16 اوق اور حال 17 اوق اور حال 41 اوق اور حال 61 اور اور حال 33 33 اختلاف ردی ہے 16 اختلاف ردی کا ہے 17 اختلاف ردی کا ہے 41 اختلاف ردی کا ہے 62 اختلاف ردی کا ہے 34 33 حدائق البلاغت فرماتے 17 حدائق البلاغت میں فرماتے 29 حدائق البلاغت میں فرماتے 41 حدائق البلاغت میں فرماتے 26 حدائق البلاغت میں فرماتے 35 33 حروف قید قریب المخرج 17 حروف قید قریب المخرج 29 حروف قید قریب المخرج 41 حروف قریب المخرج 26 حروف قید قریب المخرج 36 34 بردمد 18 بردمد 30 ببردمد 42 بردمد 63 ببردمد 37 34 درست نہیں ہے 18 درست نہیں ہے 30 درست نہیں ہے 42 درست نہیں 64 درست نہیں ہے 38 35 جو کچھ اکابر شعراء 19 جو کچھ اکابر شعراء 31 جو کچھ اکابر شعراء 42 جو اکابر شعراء 65 جو کچھ اکابر شعراء 39 35 صفا کر دیا کس نے 19 صفا کر دیا کس نے 33 صفا کر دیا جس نے 42 صفا کر دیا کس نے 66 صفا کر دیا جس نے 40 36 ہمچدان عرض کرتا ہے 20 ہمچدان عرض کرتا ہے 33 ہمچدان ان پر اعتراض کرتا ہے 43 ہمچدان عرض کرتا ہے 27 ہمچدان ان پر عرض کرتا ہے 41 36 رسالہ لیکر پڑھئے 20 رسالہ لے کر پڑہیے 34 رسالہ اٹھا کر پڑھے 44 رسالہ لے کر پڑھئے 67 رسالہ اٹھا کر پڑھئے 42 36 استعارۂ بے تکلف ہے 20 استعارۂ بے تکلف 34 استعارۂ بے تکلف 44 استعارہ بے تکلف 68 استعارۂ بے تکلف 43 37 تخیل کا مقلد نہیں 21 تخیل کا مقلد نہیں 34 تخیل کا مقلد نہیں 45 تخیل کا مقالہ نہیں 68 تخیل کا مقلد نہیں 44 37 نغمہ یا حی شود مارا 21 نغمہ یا حی شود مارا 35 نغمہ یا حی شود مارا 46 نغمہ یاصی شد مارا 69 نغمہ یا حی شود مارا 45 37 اس قسم کے استعارے 21 اس قسم کے استعارے 35 اس قسم کے استعارے 46 اس کے استعارے 69 اس قسم کے استعارے 46 47 آپ سرشتہ انصاف 21 آپ سرشتہ انصاف 35 آپ سر رشتہ انصاف 46 آپ سرشتہ انصاف 69 آپ سر رشتہ انصاف 47 37 ہاتھ سے نہ دینگنے 21 ہاتھ سے نہ دینگے 35 ہاتھ سے نہ دیں گے 46 ہاتھ سے نہ جانے دیں گے 69 ہاتھ سے نہ دیں گے 48 38 جب وہ ماہرو 22 جب وہ ماہرو 35 جب وہ ماہ رو 46 جب وہ ماہر 69 جب وہ ماہ رو 49 38 وہ دس منزل میں 22 وہ دس منزل میں 36 وہ دس منزل میں 47 وہ کس منزل میں 70 وہ دس منزل میں 50 39 اب آپ خود 23 آپ خود 37 آپ خود 48 آپ خود 71 آپ خود 51 39 تارو رہر جا 23 تارورہا جا 47 تارور ہرجا 48 تاروہرجا 72 تارورہاجا 52 39 اپنے فہم قاصر کے مطابق 23 اپنے مہم قاصر کے مطابق 37 اپنے فہم کے مطابق 48 اپنے فہم کے 72 اپنے فہم قاصر کے مطابق 53 39 وہ صحیح ہے 23 وہ صحیح ہے 37 وہ صحیح ہے 48 وہ صحیح ہی ہے 72 وہ صحیح ہے 54 39 حرف گیری اسی محاورے تک جن میں اس محاورہ کا صحیح استعمال ہے 24 حرف گیری اس محاورے تک جن میں اس محاورے کا صحیح استعمال ہے 38 حرف گیری اس محاورے تک جس میں اس محاورے کا صحیح استعمال ہے 48 حرف گیری اس محاورہ اس فائدہ تک جن میں اس محاورے کا صحیح استعمال ہے 72 حرف گیری اس محاورے تک جس میں اس محاورے کا صحیح استعمال موجود ہے 55 40 کیا تعجب ہے کہ 24 کیا تعجب ہے کہ 38 کیا تعجب ہے کہ 49 کیا تعجب کہ 72 کیا تعجب ہے کہ 56 40 مجھے نہ زباندانی کا 24 مجھے نہ زبان دانی کا 38 مجھے زبان دانی کا 49 مجھے نہ زبان دانی کا 73 مجھے زبان دانی کا اس مضمون کے متن میں بہت زیادہ تصرفات و ترمیمات کی گئی ہیں، حتیٰ کہ ’’ مضامین اقبال‘‘ کے متن میں بھی تصرفات و محذوفات کی خاصی تعداد ہے۔ ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں تو اغلاط و تصرفات کی بھرمار ہے۔ اس میں جگہ جگہ کتابت کی اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً شاخی (شافی) ہاسبان (پاسبان) شالگاں (شایگان) قریب المخرخ (قریب المخرج) وغیرہ۔ اس مجموعہ مضامین میں متعدد جگہ ایسے الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے، جو بے جوڑ اور بلا ضرورت ہیں۔ اس تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو ترامیم یا تصرفات ہمیں ’’ مضامین اقبال‘‘ کے متن میں نظر آتی ہیں، وہی جوں کی توں ’’ مقالات اقبال طبع اول و دوم‘‘ اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں دہرا دی گئی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ مقالات اقبال‘‘ اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ کے مرتب نے ثانوی ذرائع سے استفادہ کیا ہے۔ علامہ اقبال کے اردو مضامین کے مزید متن دستیاب نہیں ہو سکے، اس لئے ان کے متن کا جائزہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ جن مضامین کے متون کا جائزہ لیا گیا ہے، ان سے اس امر کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف مجموعہ ہائے مضامین میں اصل متن کے برخلاف متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں اور صحت متن کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کے اردو مضامین کی اہمیت علامہ اقبال نے اردو میں مضامین لکھنے کا سلسلہ اپنی پہلی علمی تصنیف’’ علم الاقتصاد‘‘ (1901-02ئ) کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا۔ ابتداء میں آپ کے مضامین ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوئے۔’’ مخزن‘‘ کی رومانی تحریک سے علامہ اقبال کسی حد تک متاثر تھے۔ ’’ مخزن‘‘ کا دور اردو نثر نگاری کی تاریخ میں دبستان سرسید کی نثر کے بعد، لطیف رومانی رد عمل کا دور ہے۔ دبستان سرسید کے رفقاء محض مدعا نگاری پر زور دیتے تھے، جس سے عبارت بعض اوقات بوجھل اور ثقیل ہو جاتی تھی، نتیجتہً اس ثقالت اور پھیکے پن کی وجہ سے مدعا و مقصد قاری تک پر اثر طریقے سے نہیں پہنچ پاتا تھا۔ چنانچہ ’’ مخزن‘‘ سے تعلق رکھنے والے ادیبوں نے اپنی نثر کو زیادہ پر تاثیر بنانے کے لئے تخیل کی چاشنی اور لطف بیان کا عنصر نثر میں داخل کیا اور ہلکے پھلکے مضامین لکھ کر اردو نثر میں ایک نے ذوق کی بنیاد ڈالی۔ علامہ اقبال بھی ’’ مخزن‘‘ تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کی بعض نثری تحریروں کا جھکاؤ دبستان سرسید کی طرف بھی ہے، مگر بیشتر نثری تحریریں مقصدیت کے ساتھ ساتھ سادہ وسلیس، دلچسپ اور لطیف ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ تو یہاں تک لکھتے ہیں: ’’ اردو نثر میں رومانی تحریک کا بانی یا اس کا سب سے بڑا علمبردار کوئی بھی ہو، یہ ماننا پڑتا ہے کہ اقبال بھی اس رومانی تحریک کے اولیں پیشروؤں میں سے ہیں، جس کے بڑے بڑے رہنماؤں نے بیسویں صدی کے ربع اول میں رومانیت کے پر شور اور پر خروش نمونے ادب اردو کو دیے۔‘‘ 22؎ اس طرح علامہ اقبال کی ابتدائی نثری تحریریں ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوئیں۔ ان پہلا مضمون 1902ء میں ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے ’’ مخزن‘‘ میں چھپا اور مضامین کا یہ سلسلہ 1905ء تک جاری رہا۔ 1905ء میں آپ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان تشریف لے گئے۔ انگلستان میں آپ نے زیادہ تر انگریزی میں مضمون نویسی کی۔ وطن واپس آنے پر علامہ اقبال مضمون نویسی کی طرف باقاعدہ توجہ نہ دے سکے، کیونکہ آپ وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں ان کی بیشتر توجہ ’’ اسرار خودی‘‘ کی طرف مبذول رہی۔ مضمون نویسی ان کے لئے ثانوی درجہ رکھتی تھی، انہوں نے نثر میں جو کچھ بھی لکھا کسی نہ کسی مجبوری کے تحت لکھا، ورنہ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر تھے اور ان کی ساری توجہ شعر و شاعری کی تخلیق میں ہی صرف ہوتی تھی، اس سلسلے میں سید عبدالواحد معینی لکھتے ہیںـ: ’’ جو کچھ لکھا گیا، وہ وقت کے تقاضوں سے لکھا گیا تھا۔ لہٰذا ان مضامین کی تعداد محدود ہے مگر تعداد کی کمی ان مضامین کی اہمیت اور اردو ادب میں ان کے مقام پر کوئی اثر نہیں ڈال سکی۔‘‘ 23؎ اقبال کے مذکورہ بالا سترہ اردو مضامین کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اسی اعتبار سے ہم ان کا جائزہ بھی لیں گے: عملی و عمرانی مسائل: 1بچوں کی تعلیم و تربیت، 2قومی زندگی، 3سودیشی تحریک اور مسلمان، 4 شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ، 5 خطبہ صدارت، 5 خطبہ صدارت (1931ئ) ، 6خطبہ عید الفطر 1932ئ، 7 نبوت پر نوٹ1,2 ، 3 جغرافیائی حدود اور مسلمان1938ء لسانیات: 1زبان اردو 2 اردو زبان پنجاب میں تصوف اور اسرار خودی کی بحث: 1مسلمانوں کا امتحان، جنوری 1913ء ، 2ایک دلچسپ مکالمہ 1914ئ، 3 اسرار خودی اور تصوف، 4 سر اسرار خودی، 5 علم ظاہر و علم باطن، 6 تصوف وجودیہ متفرق: 1اسلام اور علوم جدیدہ ملی و عمرانی مسائل۔۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ: علامہ اقبال کو عنفوان شباب سے ہی ملی اور عمرانی مسائل و امور سے گہری دلچسپی رہی ہے، جس کا اظہار وہ نظم و نثر25؎ دونوں میں بیک وقت کرتے رہے ہیں۔ نثر میں انہوں نے انگریزی اور اردو زبان میں متعدد مضامین لکھے۔ ان میں بعض مضامین خاصے تفصیلی ہیں اور بعض مختصر ہیں، مگر اختصار کے باوجود اہم ہیں۔ (انگریزی مضامین یا ان کے تراجم ہمارے موضوع سے خارج ہیں، اس لئے ہم ان پر یہاں بحث نہیں کریں گے۔) علامہ اقبال کی شخصیت کا اہم پہلو، ان کا ’’ درد و سوز‘‘ تھا، وہ ایک درد مند دل کے مالک تھے، جو اپنی قوم کی دگرگوں حالات پر کڑھتا رہتا تھا۔ وہ قوم کی تہذیبی، معاشی، اخلاقی و معاشرتی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتے تھے اور تقریر و تحریر کے ذریعے قوم کو اپنی حالت سنوارنے پر اکساتے رہتے تھے، غلام دستگیر رشید لکھتے ہیں: ’’ اقبال ادب و فلسفہ کے علاوہ عمرانیات کے نہایت بالغ نظر عالم اور ماہر ہیں قوموں کے عروج و زوال کے اصول اور قوانین پر ان کی دور رس نظر ہے۔ حکمت ایمانی اور مصلحت عمرانی کا مطالعہ ایک دوسرے سے تعلق کی روشنی میں خوب کیا ہے۔‘‘ 26؎ عمرانی مسائل میں علامہ اقبال تعلیم کے مسئلے کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً ہر نثری مضمون پر تعلیم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک تفصیلی مضمون ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ بچوں کی بہتر تعلیم اور بہتر تربیت کا مسئلہ آج بھی زیر غور ہے، علامہ اقبال بھی اس مسئلے کی گھمبیرتا سے بخوبی واقف تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی تعلیم اور ان کی بہتر تربیت ایک دشوار امر ہے کیونکہ تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے، اگر بچوں کی ابتدائی تعلیم تشنہ رہ جائے تو ملک کا مستقبل مخدوش ہو جاتا ہے کہ قوم کے مستقبل کی باگ ڈور آج کے بچے کل کے بڑوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ ایک ٹیکنیکی موضوع ہے، جس میں بچے کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر اس کی تعلیم و تربیت کے مختلف امور سے بحث کی گئی ہے۔ اس مضمون کی غایت اقبال کے الفاظ میں یہ ہے: ’’ اس مضمون کی تحریر سے ہماری یہ غرض ہے کہ علمی اصولوں کی رو سے بچپن کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کریں کہ بچوں میں کون کون سے قواء کا ظہور پہلے ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح ہونی چاہئے، ہم ایک ایسا طریقہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو محض خیالی ہی نہیں ہے بلکہ ایک قابل عمل طریق ہے۔ جس سے بچوں کی تعلیم کے لئے ایسے آسان اور صریح اصول ہاتھ آ جاتے ہیں جن کو معمولی سمجھ کا آدمی سمجھ سکتا ہے اور ان کے نتائج سے مستفید ہو سکتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ناظرین ان سے فائدہ اٹھائیں گے اور اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم میں ان اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔‘‘ 27؎ چنانچہ علامہ اقبال نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے دس گیارہ علمی اصول وضع کئے ہیں اگرچہ یہ علمی موضوع ہے، مگر انداز بیان سادہ اور دلچسپ ہے۔ علامہ اقبال بذات خود ایک تعلیم یافتہ انسان تھے۔ انہوں نے قدیم طریقہ تدریس اور جدید طرز تعلیم دونوں سے استفادہ کیا تھا اور اندرون ملک و بیرون ملک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ بھی رہے۔ محمد احمد خاں لکھتے ہیں: ’’ تعلیم کا مسئلہ ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے انہیں عملی طور پر زندگی بھر سابقہ پڑتا رہا۔ ظاہر ہے کہ ایک مفکر کی حیثیت سے جو کچھ انہوں نے اس مسئلے پر سوچا، اس کو عملی طور پر برتنے کا انہیں موقع بھی ملا اور اس طرح جو تجربات انہیں حاصل ہوئے ان پر غور و خوض کر کے انہوں نے نتائج بھی اخذ کیے۔‘‘ 28؎ غرض اس مضمون میں انہوں نے جو اصول وضع کئے، ان کے پیچھے ان کا تجربہ مشاہدہ کار فرما تھا۔ اگرچہ یہ مضمون1902ء میں لکھا گیا لیکن اقبال ابتداء سے ہی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ یہ مضمون چونکہ عوام کے مفاد کے نقطہ نظر سے لکھ اگیا ہے، اس لئے اس میں علمی اصطلاحات (مدرکات، تصدیقات، مقابلہ تصورات) کے ساتھ ساتھ سادہ اور عام فہم مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں: ’’ اس خالص علمی اور ٹیکنیکی بحث میں مصطلحات تعلیمی کے علی الرغم اقبال نے سادہ، سلیس اور دلنشین انداز میں فلسفہ تعلیم کی باریکیوں کو خوش اسلوبی سے سلجھایا ہے اور وضاحت کے لئے گرد و پیش کی زندگی کے مشاہدات سے ایسی چھوٹی چھوٹی جزئیات پیش کی ہیں جو بعض مقامات پر تصور نما بن کر ایک مصور ادیب کے مو قلم کا کرشمہ بن گئی ہیں۔‘‘ 29؎ علامہ نے اس مضمون میں جا بجا گفتگو اور مکالمے کا پیرایہ بیان اختیار کیا ہے۔ اکثر جگہ انداز تشریحی اور مدرسانہ نوعیت کا ہے، مگر ناگوار نہیں گزرتا۔ مضمون کے آخر میں علامہ اقبال معلم کے مرتبے اور اس کے فرائض کا تعین کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کی قدرت میں ہے، سب محنتوں سے اعلیٰ درجہ کی محنت اور سب کار گذاریوں سے زیادہ بیش قیمت کار گزاری ملک کے معلموں کی کار گزاری ہے معلم کا فرض تمام فرضوں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کا سرچشمہ اسی کی محنت ہے۔‘‘ 30؎ ’’ قومی زندگی ‘‘ ایک جذباتی انداز کا مضمون ہے، مگر مصنف نے جذبات و تخیل کی رو میں بہہ کر حقیقی مسائل کو نظر انداز نہیں کیا، ان حقیقی اور تلخ حقائق کو درد مندانہ پیرائے میں سادگی و سلاست اور روانی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا نقشہ فکری انداز میں کھینچا ہے، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا کہنا ہے: ’’ اس میں تاریخ، عمرانیات اور فلسفے کا علم، باعتبار موضوع گہرائی کی لہر سی دوڑاتا ہے۔ واقعات عالم کے محرکات اور اس کے نتائج پر علامہ کی نظر بڑی گہری ہے۔‘‘ 31؎ جذبے اور عقل کا خوشگوار امتزاج اس مضمون کا خاصا ہے۔ اس کی اہمیت کا احساس آغاز ہی میں ان سطور سے ہو جاتا ہے، جہاں مصنف اقوام عالم کی تاریخ کے اس نازک دور میں قلم اور تلوار کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ ایک زمانہ تھا جب کہ اقوام دنیاکی باہمی معرکہ آرائیوں کا فیصلہ تلوار سے ہوا کرتا تھا اور یہ فولادی حربہ دنیائے قدیم کی تاریخ میں ایک زبردست قوت تھی۔ مگر حال کا زمانہ ایک عجیب زمانہ ہے جس میں قوموں کی بقا ان کے افراد کی تعداد، ان کے زور بازو اور ان کے فولادی ہتھیاروں پر انحصار نہیں رکھتی، بلکہ ان کی زندگی کا دار و مدار اس کاٹھ کی تلوار پر ہے جو قلم کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔‘‘ 32؎ علامہ اقبال نے تمہیداً اس مقالہ میں دور حاضر کے انقلابات کا ذکر کیا ہے اور اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ پس ماندہ قومیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی بقا کے لئے نئے نئے سامان بہم پہنچائیں۔ اس کے بعد وہ ان قوموں کا ذکر کرتے ہیں جو محنت، کوشش، تنظیم اور جدوجہد کے ذریعے معمولی حیثیت سے بلند مقام پر پہنچی ہیں۔ یہاں وہ قدیم اقوام میں سے بنی اسرائیل اور پارسی اقوام کا ذکر کرتے ہیں کہ جو صدہا سال کے مصائب جھیلنے اور پنے وطن سے بے وطن ہونے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو قوموں نے انقلاب زمانہ کے تقاضوں کو سمجھا اور صنعت و تجارت کے وسائل اختیار کر کے حالات کا مقابلہ کیا۔ جدید اقوام میں وہ ایشیا میں جاپانی اور یورپ میں انگریز قوم کی مثالیں دیتے ہیں۔ صنعت و تجارت میں ترقی اور اصلاح تمدن نے 36سال کی مختصر مدت میں جاپان کی کایا پلٹ دی۔ قدیم و جدید اقوام کی ترقی کے اسباب کا ذکرکرنے کے بعد وہ ہندوستان کی مایوس کن حالات کا نقشہ کھینچتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ قوم اپنی عظمت و بزرگی کے باوجود اپنی معمولی معمولی ضروریات کے لئے اقوام غیر کی محتاج ہے، لکھتے ہیں: ’’ یہ بد قسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے، صنعت کھو بیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔‘‘ 33؎ اس ضمن میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کے رویے، یعنی علماء کی فرقہ آرائی، امراء کی عیش پرستی اور عوام کی جاہلانہ رسوم پرستی کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ پھر جاپان کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں کو اجتماعی جدوجہد، ایثار و محنت کی تلقین کی ہے اور قومی تعمیر نو کے لئے اصلاح تمدن اور تعلیم عام کا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ چونکہ اصلاح تمدن کا تعلق مذہب سے ہے لہٰذا مقالہ نگار نے نہایت محتاط لفظوں میں فقہ اسلامی کی تدوین جدید کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ 34؎ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال نوجوانی کے زمانے سے ہی مذہب و ملت کے اہم مسائل پر پوری ذمہ داری اور بصیرت کے ساتھ گفتگو کر سکتے تھے اور یہ مسئلہ زندگی کے آخری ادوار میں بھی ان کے سنجیدہ غور و فکر کا موضوع بنا۔ اصلاح تمدن کے سلسلے میں حقوق نسواں، تعلیم نسواں اور اصلاح رسوم کے مسائل پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اصلاح تمدن کے بعد قومی تعلیم کے بارے میں انیسویں صدی کے رہنماؤں کے مسلک کے برخلاف، ضروریات زمانہ کے مطابق سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت و تجارت پر زور دیا ہے۔ 35؎ اس سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ وہ مصاف زندگی جو آج کل اقوام عالم میں شروع ہے اور جس کے نتائج بعض اقوام کی صورت میں یقینا خطرناک ہوں گے، ایک ایسی جنگ ہے جس کو مسلح سپاہیوں کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے سپاہی وہ ہنرمند دستکار ہیں جو خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے ملک کے کارخانوں میں کام کر رہے ہیں ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہئے۔ میں صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتا ہوں اور اگر میرے دل کی پوچھو تو سچ کہتا ہوں کہ میری نگاہ میں اس بڑھئی کے ہاتھ جو تیشے کے متواتر استعمال سے کھردرے ہو گئے ہیں، ان نرم نرم ہاتھوں کی نسبت بدرجہا خوبصورت اور مفید ہیں جنہوں نے قلم کے سوا کسی اور چیز کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا۔‘‘36؎ اسلوبیاتی سطح پر یہ مقالہ اپنے دامن میں بہت سی فنی خصوصیات سمیٹے ہوئے ہے۔ جذبے اور فکر کی آمیزش نے اس مضمون کے اسلوب میں سلاست اور روانی پیدا کر دی ہے۔ خیالات کا ایک بہاؤ ہے جس میں بے ساختہ طور پر بعض برجستہ فقرے تصویر پیرائے میں نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں کہ جنہیں ادبی لحاظ سے خیال افروز کہا جا سکتا ہے، 37؎ مثلاً: ’’ برق جس کی مضطربانہ چمک تہذیب کے ابتدائی مراحل میں انسان کے دل میں مذہبی تاثرات کا ایک ہجوم پیدا کر دیا کرتی تھی، اب اس کی پیام رسانی کا کام دیتی ہے۔ سٹیم اس کی سواری ہے اور ہوا اس کے پنکھے جھلا کرتی ہے۔‘‘ 38؎ تشبیہہ کی مثال ملاحظہ کیجئے:’’ لڑکا خواہ منگنی سے پہلے اپنے سسرال کے گھر میں جاتا ہی ہو، منگنی کے بعد تو اس گھر سے ایسی پرہیز کرنی پڑتی ہے جیسے ایک متقی کو مے خانے سے۔‘‘ 39 غرض یہ کہ مقالہ گہرے ملی و عمرانی مسائل کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ ’’ سودیشی تحریک اور مسلمان‘‘ علامہ اقبال کا ایک فکری اور حقیقت پسندانہ نوعیت کا مضمون ہے۔ اس تحریک کے سلسلے میں انہوں نے جوش سے نہیں ہوش سے کام لیتے ہوئے اس کی افادیت اور نقصان پر اجمالاً روشنی ڈالی ہے۔ منشی دیا نرائن نگم، مدیر رسالہ ’’ زمانہ‘‘ (کانپور) نے سودیشی تحریک کے متعلق اپریل 1906ء کے شمارے میں ایک سوال نامہ شائع کیا، اور اسے خاص طور پر مسلمان مفکروں، ادیبوں اور رہنماؤں کے پاس اظہار خیال کے لئے بھیجا۔ علامہ اقبال ان دنوں کیمرج میں تھے۔ رسالہ پہنچتے ہی انہوں نے کیمرج سے جواب بھیجا، اور اقتصادی نقطہ نظر سے مسئلے کے تمام پہلوؤں پر بھرپور تبصرہ کیا۔ اب ہم اقبال کے جواب کے اہم نکات اجمالاً پیش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ملک میں صنعتی ترقی کے زبردست حامی تھے، انہوں نے اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں بھی اس پہلو پر خاص زور دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ سودیشی تحریک ہندوستان کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر ملک کے لئے جس کے اقتصادی اور سیاسی حالات ہندوستان کی طرح ہو مفید ہے، اس سے ملک میں خوشحالی بڑھے گی اور اقتصادی حالات درست ہوں گے۔ لیکن انہیں افسوس ہے کہ موجودہ تحریک منفی تحریک ہے، لہٰذا وہ اس جوش و خروش کو ’’ طفلانہ حرکات‘‘ قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں: ’’ بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ امریکہ اور جرمن کی چیزیں خریدو مگر انگلستان کی چیزوں کو ہندوستان کے بازاروں سے خارج کر دو۔ اس طریق عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان سے ہم کو سخت نفرت ہے نہ یہ کہ ہم کو ہندوستان سے محبت ہے۔‘‘ 40؎ اقتصادی نقطہ نظر سے وہ اس قسم کی تحریک کو غیر مفید بلکہ ناقابل عمل سمجھتے ہیں، کیونکہ مغربی خیالات اور تعلیم کی اشاعت سے ہماری ضروریات کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور بعض اشیاء ایسی ہیں جنہیں ہمارا ملک سر دست تیار نہیں کر سکتا ، اس لئے اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا ملک ہماری ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل ہو جائے سراسر جنوں ہے۔ سودیشی تحریک کو عملی صورت دینے کے لئے علامہ نے کچھ آرا فراہم کی ہیں، علاوہ ازیں اس تحریک کی کامیابی کے لئے سرمائے کی فراہمی کے مسئلے کے بارے میں بھی اہم تجاویز پیش کی ہیں۔ اقبال کی رائے میں اگر سودیشی تحریک صحیح خطوط پر چلائی جائے، یعنی ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور ملکی مصنوعات کے مقابلے میں کسی تخصیص یا امتیاز کے بغیر بیرونی مصنوعات کا مقاطعہ کیا جائے، تو اس کی کامیابی میں مسلمانوں کا بھی فائدہ ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے صبر و استقلال، مناسب منصوبہ بندی اور عملی تنظیم پر زور دیتے ہیں، غرض اقبال کی یہ مختصر تحریر: ’’ ان کے متوازن، سائنٹیفک تجزیاتی انداز فکر اور ان کی بے باکی و بے ریائی کا آئینہ ہے۔‘‘ 41؎ مضمون ’’ شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ ‘‘ علامہ اقبال کے عورتوں کے بارے میں تصورات سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے اور عورت درجے او رمرتبے میں مرد سے کمتر ہے۔ علامہ اقبال کا موقف ہے کہ اسلام میں مرد و زن میں قطعی مساوات ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے قرآنی آیت:الرجال قوامون علی النساء پیش کی اور فرمایا کہ عربی محاورے کی رو سے اس کی یہ تفسیر صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے۔ عربی گرائمر کی رو سے قائم کا صلہ علی پر آئے تو معنی محافظت کے ہو جاتے ہیں۔ قرآن حکیم کی ایک اور آیت ھن لباس لکم وانتم لباس لھن کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لباس بھی محافظت کے لئے ہوتا ہے مرد عورت کا لباس ہے۔ دیگر کئی لحاظ سے بھی مرد اور عورت میں کسی قسم کا فرق نہیں۔ علامہ اقبال نے قرون اولیٰ کی عورتوں (حضرت عائشہؓ ) کی مثالیں دیں کہ وہ مردوں کے دوش بدوش کام کیا کرتی تھیں، البتہ اسلام کے نقطہ نظر سے مرد اور عورت کے فرائض الگ الگ ہیں۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتاکہ عورت ادنیٰ ہے اور مرد اعلیٰ۔ اسلام میں سب سے پہلے عورتوں کے حقوق کا تعین کیا گیا۔ عورت بچوں کی وراثت، علیحدہ جائیداد کا حق رکھتی ہے۔ جبکہ یورپ اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود عورتوں کو مساوی حقوق دینے میں اسلام سے پیچھے ہے، بلکہ اب تو یورپین قومیں اس سلسلے میں اسلام کا تتبع کر رہی ہیں۔ علامہ اقبال’’ آزادی نسواں‘‘ کے خلاف تھے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں، جیسا کہ انہوں نے انگلستان اور ترکی کی مثالیں دے کر واضح کیا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ عورت پردے میں رہ کر بھی جائز اور نمایاں کام کر سکتی ہے۔ عورتوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے اسلامی قانون کی عدالتیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے، تاکہ عورتوں کے طلاق کے مسائل اور تعداد ازدواج کے مسائل پر بہتر طریقے سے غور کیا جا سکے۔ اس موضوع پر علامہ اس سے بیشتر بھی اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں عورتوں کے مسائل سے گہری دلچسپی تھی۔ علامہ اقبال نے عورتوں کے لئے بہترین اسوہ حضرت فاطمہ الزہراؓ کی ذات قرار دی ہے، علاوہ ازیں بہترین راہنمائی کے لئے انبیاء کے طریقے سے رجوع کرنے کی تلقین کی ہے۔ وہ عورتوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں، تاکہ مرد کو ان کے حقوق غصب کرنے کا موقع نہ ملے، لکھتے ہیں: ’’ اگر عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت پر پورے طور سے آمادہ ہو جائیں اور وہ حق جو شریعت اسلامی نے عورتوں کو دے رکھے ہیں، آپ مردوں سے لے کر رہیں، تو میں سچ کہتا ہوں کہ مردوں کی زندگی تلخ ہو جائے ۔‘‘ 42؎ اس نثر پارے کا انداز سادہ، دلچسپ اور رواں ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہنے والا ایک جذب کے عالم میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ خیالات کا ایک بہاؤ ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے نصیحت آموز فقرے، واقعات اور قرآنی آیات قاری کے دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ علامہ اقبال نے 21مارچ1931ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ لاہور کی صدارت کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے ایک طویل اور تجزیاتی خطبہ پیش کیا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصا اہم ہے۔ اس خطبہ میں علامہ نے اپنے بہت سے نظریات کی وضاحت کی ہے۔ کانگرس کی پالیسیوں، مہاتما گاندھی کے سیاسی حربے، حکومت برطانیہ کے صوبہ سرحد اور کشمیر کے بارے میں کئے گئے ہیں فیصلوں اور مضمون کے آخر میں کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ اس خطبہ کا بہ نظر غائر مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ علامہ اقبال برصغیر میں رونما ہونے والے سیاسی حالات و واقعات سے پوری طرح باخبر تھے اور نہ صرف باخبر تھے بلکہ سیاست میں دلچسپی بھی رکھتے تھے، فرماتے ہیں: ’’ سیاسیات کی جڑیں انسان کی روحانی زندگی کے اندر جاگزیں ہوتی ہیں اسی لئے میں سیاسیات سے دلچسپی لیتا ہوں، میں قومیت (نیشنلزم) کے خلاف ہوں جیسا کہ یورپ میں اس سے مفہوم لیا جاتا ہے۔‘‘ 43؎ غرض یہ خطبہ اس دور کے سیاسی حالات و واقعات کو جاننے کے لئے خاصا اہم ہے۔ ’’ خطبہ عید الفطر‘‘ میں علامہ اقبال نے اس اسلامی تہوار کے منانے کی غرض و غایت پر پر تاثیر انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ عید الفطر ماہ رمضان کے بعد آتی ہے، یہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، جو وہ ان روزے داروں کو عطا کرتا ہے، جنہوں نے اس کی اطاعت و خوشنودی کی خاطر ماہ رمضان کے پورے روزے رکھے۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی بجا آوری میں پورا نکلے، اور قومیں بھی خوشی کے تیوہار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے جو خدائے پاک کی فرمانبرداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔‘‘ 44؎ روزہ ایک اجتماعی عبادت ہے، اس سے پوری ملت کو اقتصادی اور معاشرتی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ آنحضور ؐ نے عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے لئے عید گاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا، تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ علامہ کہتے ہیں: ’’ حق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور اصول تقسیم وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا صدقات کا تھا اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقہ فطر کا، اس لئے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔‘‘ 45؎ علامہ اقبال نے روزے کے انفرادی اور اجتماعی فائدوں پر روشنی ڈالی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ روزے ماہ رمضان سے اس لئے مختص کئے گئے کہ اس مہینے میں احکام الٰہی کا نزول شروع ہو اتھا، یعنی اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ آخر میں علامہ اقبال مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج سے تم یہ عہد کر لو کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اس کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانان پنجاب شرع قرآنی کے پابند ہو جائیں تو وہ اس وقت قرض کی جس لعنت میں مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان فضول خرچی اور مال و جائیداد کے جھوٹے مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دیں،ر شوتوں میں روپیہ ضائع نہ کریں تو اس سے نہ صرف قرض کا کثیر حصہ کم ہو جائے گا بلکہ اسی روپیہ سے وہ اپنی تجارت اور اپنی صنعت کو بھی فروغ دے سکیں گے۔ گویا اس خطبے میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ خطبہ کا اندازہ مدرسانہ ہے۔ اپنی بات کو مدلل بنانے کے لئے اپنے گرد و پیش کی مثالیں دی ہیں اور انہیں قرآن پاک کے حوالے سے ثابت کر کے یہ دکھایا ہے کہ اگر مسلمان اسلام کے زریں اصولوں کو مدنظر رکھیں تو وہ بہت سی خرابیوں اور برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔ ’’ نبوت پر نوٹ(1) (2)‘‘ علامہ اقبال کا ایک معلومات افزا اورتشریحی نوعیت کا مضمون ہے، جو انہوں نے قادیاتی تحریک کے خلاف تحریر کیا تھا۔ اس میں علامہ نے نبوت کے دو اجزاء بتائے ہیں اور کہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں، یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے۔46؎ نبوت کے سلسلے میں اپنے دوسرے نوٹ میں وہ وحی کا مقابلہ عقل سے کر کے وحی کا مقام متعین کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ وحی کے Function کا تعین کرتے ہیں۔ یہ ایک معلوماتی نثر پارہ ہے، جس کے مطالعہ سے جہاں ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، وہاں اس بات کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے کہ علامہ اقبال قرآنی تعلیمات اور اسلام کے بنیادی مسائل پر خاصا عبور رکھتے ہیں۔ ’’ جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ اقبال کا آخری نثری مضمون تھا، جو ان کی وفات سے محض چند ماہ پہلے لاہور کے ایک روزنامے ’’ احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون اس امر کی شہادت ہے کہ اقبال نے اسلام، وطنیت اور برصغیر میں مسلمانوں کی سیاست کے بارے میں جو موقف ولایت سے واپسی پر اختیار کیا تھا، آخری وقت تک وہ اس کی اشاعت و استحکام میں لگے رہے اور اس پر جب اور جس جانب سے بھی کوئیو ار ہوا، اس کا جواب دینے اور اپنے موقف کی سچائی اور حقانیت ثابت کرنے کے لئے انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ 47؎ علامہ نے یہ مضمون انڈین نیشنل کانگریس کے ہم نوا مولانا حسین احمد مدنی کے اس بیان کے جواب میں لکھا کہ:’’ اقوام اوطان سے بنتی ہیں۔‘‘ علامہ نے مولانا حسین کے اس بیان پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور مشہور قطعہ تحریر فرمایا، جس کا ایک مصرع یہ تھا سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است لیکن حسین احمد مدنی اس مصرعے میں لفظ’’ ملت‘‘ اور’’ وطن‘‘ کے فرق میں الجھ گئے اور اپنی بات پر اڑے رہے، تو علامہ اقبال کو ناچار نثر کا سہارا لینا پڑا۔ اس مضمون میں علامہ اقبال نے ایک بار پھر جدید وطنیت کی انسانیت کش اصل کو بے نقاب کیا ہے، اور ا س کے مقابلے میں اسلام نے نسل آدم کو جن انسانی بنیادوں پر متحد ہونے کی عملاً دعوت دی ہے، اس کی حقیقت بڑے موثر دلائل کے ساتھ بیان کی ہے: ’’ جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے۔ اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ عام بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے۔ جو اس کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔۔۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اس کا مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔ ایسا دستور العمل قوم اور نسل پر بنا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ 48؎ مضمون کے درمیانی حصے میں اقبال نے ’’ ملت‘‘ اور’’ قوم‘‘ کی فرضی تفریق پر بہت دلچسپ اور ایمان افروز بحث کی ہے، اور مرحوم حسین احمد مدنی اور ان کے ہم خیالوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے محکم دلائل پیش کئے ہیں۔ مضمون کے آخری دو پیراگراف میں اقبال نے اپنے موقف کو اس قدر و اشگاف لفظوںمیں بیان کیا ہے کہ اس سے واضح تر الفاظ کا ملنا دشوار ہے۔ علامہ اقبال نے بے جھجک اور بلا خوف یہ کہا کہ ہمیں ایسی ’’ آزادی‘‘ ہرگز ہرگز مطلوب نہیں جس میں ہماری حیثیت غیر یقینی یا بے آبرومندانہ ہو۔ یہی حقیقت پسندی، جرات پسندی اور بے باکی اقبال کو بے شمار دوسرے مسلمان ’’ رہنماؤں‘‘ اور سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہے، کہتے ہیں: ’’ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کنیتہً نہیں تو ایک بڑی حد تک دار الاسلام بن جائے۔ لیکن اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دار الکفر ہے ویسا ہی رہے، یا اس سے بھی بد تر بن جائے، تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہے۔‘‘ غرض ملی و عمرانی مضامین کے جائزے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قومی زندگی کے مختلف موضوعات کو پیش کرنے کے لئے اقبال نے جو نثر لکھی، وہ اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں کسی قسم کا الجھاؤ اور ابہام نہیں ہے۔ اس میں صفائی اور صاف گوئی، بے خوفی اور بے باکی کی خصوصیت ہیں۔ علامہ اقبال نے قومی و ملی اور فلسفیانہ موضوعات کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ اردو مضمون نگاری کی روایت میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔ لسانیات۔۔۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ: علامہ اقبال نے قومی و ملی موضوعات کے علاوہ زبان اور لسانی معاملات پر بھی اپنی نثر میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان موضوعات نے علامہ اقبال کو ماہر لسانیات اور ایک اچھا نقاد بھی ثابت کر دیا ہے۔ 49؎ لسانیات کے موضوع پر ان کا پہلا مضمون 1902ء کے ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون خود علامہ اقبال نے نہیں لکھا بلکہ ڈاکٹر وائٹ برجنٹ کے مضمون کا ترجمہ ہے، جو اقبال نے شوق اور دلچسپی سے کیا۔ ظاہر ہے کہ اس مضمون میں جو خیالات پیش کئے گئے ہیں، وہ علامہ اقبال کے نہیں ہیں، لیکن مضمون کے ترجمے سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس موضوع کے ساتھ خاص دلچسپی ہے، اور اسی دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے یہ ترجمہ کیا ہے۔ یہ مضمون چونکہ ترجمہ ہے، اس لئے اس موضوع پر علامہ اقبال کے خیالات کی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ البتہ اس میں اسلوب کی کئی خصوصیات نظر آتی ہیں، یعنی یہ کہ ترجمہ طبع زاد کا گمان ہوتا ہے، کیونکہ ترجمے کا انداز شستہ اور رواں ہے۔ شاید اتنی روانی اصل متن میں موجود نہ ہو ، جتنی کہ اس ترجمے کو پڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ ا قبال اردو زبان کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ ’’ اردو زبان پنجاب میں‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال کا ایک مضمون ’’ مخزن‘‘ میں چھپا۔ اس مضمون سے زبان اور لسانی معاملات پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ علامہ اقبال کی شہرت جیسے جیسے پھیلتی گئی، ان کے مداحوں اور معترضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اکثر لوگوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ اقبال زبان و بیان کی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بہت سے الفاظ گرائمر کی رو سے صحیح نہیں ہیں۔علامہ اقبال اگرچہ اس قسم کے اعتراضات کی بالعموم پرواہ نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا مدعا و مقصد عوام تک اپنی بات پہنچانا تھا، نہ کہ اسلوب کی خوبیاں گنوانا۔ ویسے بھی وہ اپنے آپ کو روایتی شعراء سے الگ تصور کرتے تھے، اس لیے وہ اس امر کو خاطر خواہ نہ سمجھتے تھے کہ محض الفاظ کی خاطر شاعری کی جائے۔ علامہ پر جب اس قسم کے اعتراضات کی تعداد بڑھنے لگی تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس کا شافی جواب دیں چنانچہ انہوں نے یہ مضمون لکھا، اس سے علامہ کے خیالات کی وضاحت زیادہ صراحت سے ہو جاتی ہے۔ یہ مضمون ا گرچہ اعتراض کے جواب میں لکھا گیا ہے، لیکن انداز ایسا ہے کہ ناگوار نہیں گزرتا۔ اعتراض کا جواب دینے کے لئے وہ جس طرح سے اساتذہ کے اشعار کا حوالہ دیتے ہیں، وہ زبان کے گہرے شعور اور فن شاعری کے اصولوں سے گہری واقفیت کے مظہر ہیں۔ مضمون کے ابتدائی حصہ میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ آج کل بعض لوگ اہل پنجابیوں کی ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پنجابی غلط اردو پھیلا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کا موقف یہ ہے کہ جو زبان ابھی بن رہی ہو، اس کے متعلق صحت و عدم صحت کا معیار قائم کرنا درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ یہ مقالہ محض اس لئے اہم نہیں کہ اس میں ایک ’’ منصف مزاج پنجابی‘‘ نے دہلوی اور لکھنوی اساتذہ کے اشعار کو اعتراضات کے جواب میں بطور سند پیش کیا، اس کی اصل اہمیت اس امر میں مضمر ہے کہ علم اللسان کا ماہر نہ ہوتے ہوئے بھی اقبال نے تبدیلی زبان کے عمل سے آگہی کا ثبوت دیا ہے۔ 49؎ علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ ابھی کل کی بات ہے اردو زبان جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک محدود تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا، اس واسطے اس بولی نے ہندوستان کے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کرنا شروع کیا اور کیا تعجب ہے کہ کبھی تمام ملک ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رواج ہو وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت، ان کی تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثر کیے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ ایک مسلم اصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے، اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے۔‘‘ 51؎ اقبال زبان اور تہذیب و تمدن کی باہمی اثر پذیری کو تسلیم کرتے ہیں۔ زبان کا مزاج متعین کرنے میں معاشرتی حالات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ الفاظ کے اخذ و قبول اور رو و متروک کا عمل ان ہی حالات کا مرہون منت ہے۔ تمدنی حالات کے نتیجے میں زبان میں نئے نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں اور اس عمل کے منطقی نتائج کے خلاف مزاحمت، زبان کی نشوونما اور ذخیرہ الفاظ میں اضافے کو روکنے کے مترادف ہوتی ہے۔ اسی لئے اقبال اردو میں پنجابی الفاظ کے استعمال پر اعتراضات کے جواب میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ 52؎ علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں زبان کے بارے میں بعض بصیرت افروز باتیں کی ہیں۔ چنانچہ مولوی عبدالحق کو 9ستمبر1937ء کے ایک مکتوب میں اس خیال کا اظہار کیا ہے: ’’ زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کی بقا کا انحصار ہے۔‘‘ 53؎ اسی طرح سردار عبدالرب نشتر کے نام19اگست1923ء کو لکھے گئے، خط میں جو کچھ لکھا اسے زبان کے بارے میں خود اقبال کا اپنا موقف بلکہ بطور ایک تخلیقی فنکاران کا منشور بھی قرار دیا جا سکتا ہے:ـ ’’ زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا، جس کی پرستش کی جائے، بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔‘‘ 54؎ علامہ اقبال نے اپنے ایک اور مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں قانون ارتقاء کے نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے اس کا زبانوں پر اطلاق کر کے زبان میں نئے الفاظ کی اہمیت اور ضرورت کا احساس کرایا ہے: ’’ ایک زمانہ تھا جب یونانی، لاطینی اور سنسکرت وغیرہ زندہ زبانیں تھیں، مگر اب ایک عرصہ سے یہ زبانیں بے جان ہو چکی ہیں۔ ان کی موت کا راز اس قانون کا عمل ہے اور خود پنجابی زبان جس کو ہم روز مرہ استعمال کرتے ہیں، اس سے روز بروز متاثر ہو رہی ہے۔ سینکڑوں الفاظ ہیں جو تعلیم یافتہ لوگوں کے روز مرہ استعمال میں ہیں مگر اس زبان میں موجود نہیں۔اظہار خیالات کے جدید طریق ہماری عقلی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ زبان ان کے ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے حالات میں یہ لازم ہے کہ اس زبان کا حشر وہی ہو جو اور قدیم زبانوںکا ہوا ہے۔‘‘ 55؎ اس مضمون میں علامہ اقبال نے اعتراضات کے جو جواب دیے ہیں ان سے اس موضوع پر علامہ اقبال کے علم، شعور اور بصیرت کی وضاحت ہوتی ہے۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے جو انداز اختیارکیا ہے، اس سے تہذیب و شائستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اقبال کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ انہیں حسن بیان کے لواز اور صنائع بدائع وغیرہ کا اول تو شعور ہی نہ تھا یا اگر شعور تھا تو انہوں نے کبھی ان سے خصوصی دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔سید عابد علی عابد ’’ شعر اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ جن صنائع لفظی و معنوی کا ذکر بلاغت کی کتابوں میں کیا گیا ہے، وہ تمام کی تمام علامہ اقبال کے کلام میں موجود ہیں۔‘‘ چنانچہ علامہ اقبال کے کلام کا تجزیہ صنائع بدائع کے لحاظ سے بھی کیا گیا ہے۔ نذیر احمد نے اپنی تالیف ’’ اقبال کے صنائع بدائع‘‘ سے ثابت کیا ہے کہ اقبال نے شاعری کے فنی محاسن کی طرف سے شعوری توجہ نہ کرتے ہوئے بھی صنائع بدائع کی کل ستر (70) اقسام استعمال کی ہیں۔ اس اے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال زبان کی نزاکتوں سے ناآشنا نہ تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اس مقالہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اردو زبان پنجاب میں، اس لحاظ سے بے حد اہم تحقیقی مقالہ ہے کہ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ا قبال کو نہ صرف الفاظ کے تخلیقی استعمال کا سلیقہ تھا بلکہ اس معاملے میں ان کی معلومات اور مطالعہ کسی اہل زبان شاعر سے فروتر نہ تھا۔‘‘ 56؎ بہرحال موضوع کے اعتبار سے علامہ اقبال کا یہ مضمون بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے زبان کے بارے میں علامہ کے خیالات کا اظہار واضح انداز میں ہوتا ہے۔ تصوف اور اسرار خودی۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ: علامہ اقبال نے تصوف کے موضوع پر بھی متعدد مضامین لکھے۔ انہیں ابتدا ہی سے صوفیانہ ماحول ملا تھا۔ انہوں نے عجمی و عربی تصوف کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔ ’’ مسلمانوں کا امتحان‘‘ اس عنوان کے تحت علامہ اقبال نے ’’ تربیت خودی‘‘ کے دوسرے مرحلے ضبط نفس کو ایک مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی زمانے میں علامہ اقبال ’’ اسرار خودی‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے۔ اس مثنوی میں بھی انہوں نے ضبط نفس کے تحت اشعار درج کیے ہیں۔ علامہ ا قبال اس نثر پارے میں کہتے ہیں کہ انسانی زندگی، اسلامی نقطہ نظر سے قربانیوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتی ہے۔ یہاں علامہ اقبال نے اسلامی ارکان کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کس کس طرح آزماتا ہے، مثلاً:ـ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات ایسے مقرر کئے ہیں، جن میں انسان آرام کا طالب ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ و صدقات مقرر کئے ہیں کہ میرے بندے میری راہ میں اپنا مال خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس مختصر تحریر کے آخر میں علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ غرض ارکان اسلام کی پابندی مسلمانوں کا ایک عظیم ا متحان ہے اور دراصل اسی کا نام اسلامی تصوف ہے کیونکہ شعائر اسلام کی پابندی سے روح کو وہ تدریجی تربیت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس میں تبتیل الا اللہ کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ 57؎ غرض علامہ اقبال نے اپنی اس مختصر مگر جامع تحریر میں نماز، زکوٰۃ و صدقات کا ذکر کیا ہے، دقیق اور ثقیل الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ سادہ و دل نشین انداز میں اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔ ’’ ایک دلچسپ مکالمہ‘‘ تصوف کے موضوع پر ہے، جو محمد دین فوق نے علامہ اقبال سے مختلف سوالات کے ذریعے تصوف اور ضرورت مرشد کے متعلق کیا تھا۔ا س مکالمے سے تصوف کے بارے میں اقبال کے بہت سے افکار و خیالات کی وضاحت ہوتی ہے۔ یہ مکالمہ خاصا دلچسپ ہے، جیسا کہ اس کے عنوان سے بھی ظاہر ہے۔ اب ہم علامہ اقبال کے چند جوابات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مختلف سوالات کے جواب میں دئیے۔ جب علامہ سے یہ سوال کیا گیا کہ صوفیوں سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ تو انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ صوفیوں نے انسانوں کو انسان اور مسلمانوں کو مسلمان بنایا اور انہوں نے مسلمانوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک سوال کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ اسلامی تصوف رہبانیت کے سخت خلاف ہے۔ قانون الٰہی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور کی طرف بھی توجہ دی جائے اور اپنے گھر بار، اہل و عیال کا خاص خیال رکھا جائے۔ اسی طرح علامہ اقبال نے عرس کی رسم، عرس کا مقصد، اولیاء کی کرامات، قبروں پر جانا اور پیر و مرشد کی ضرورت کے سوالات کے جواب میں انتہائی معلومات افزا جوابات تحریر فرمائے ہیں۔ علامہ اقبال نے ’’ اسرار خودی‘‘ میں ادب اور تصوف کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے حافظ کی شاعری اور افلاطون کے فلسفے پر خاص طور پر نکتہ چینی کی تھی، چونکہ حافظ کی شاعری ذوق عمل کے لئے تباہ کن تھی، اس لئے علامہ نے اسے مسلمانوں کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ مگر کچھ لوگ علامہ اقبال کے نقطہ نظر کو صحیح طور سے نہ سمجھ سکے اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی چنانچہ علامہ اقبال نے اپنے موقف کی وضاحت کے لئے اردو نثر میں چند مضامین لکھے۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ ہے جو15جنوری 1916ء کے ’’ وکیل‘‘ (امرتسر) میں شائع ہوا تھا۔ اس میں حافظ کی شاعری اور مسئلہ وحدت الوجود کا ذکر کیا کہ وہ کس طرح اسلامی فکر و ادب میں یونانی اثرات کے ذریعے داخل ہوا۔ اس مضمون کی ابتدا میں علامہ اقبال لکھتے ہیں: ’’ اس وقت اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ یہ تحریک غیر اسلامی عناصر سے خالی نہیں اور میں اگر مخالف ہوں تو صر ف ایک گروہ کا، جس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت لے کر دانستہ یا نا دانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی ہے جومذہب اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔ حضرات صوفیہ میں جو گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر قائم ہے اور سیرت صدیقی کو اپنے سامنے رکھتا ہے، میں اس گروہ کا خاک پا ہوں اوران کی محبت کو سعادت دارین کا باعث تصور کرتا ہوں۔‘‘ 58؎ گویا اس سے واضح ہو گیا ہے کہ اقبال اسلامی تصوف کے نہیں بلکہ غیر اسلامی تصوف کے خلاف ہیں۔ وحدت الوجود کے سلسلے میں جہاں انہوں نے دیگر فارسی شعراء کے اشعار نقل کئے ہیں وہاں ایک پنجابی شاعر وحید خاں پٹھان کا ذکر کیا ہے جو کسی ہندو جوگی کا مرید ہو کر فلسفہ ویدانت کا قائل ہو گیا تھا۔ اس تبدیلی خیال و عقیدہ نے جو اثر اس پر کیا ہے، اسے وہ خود بیان کرتا ہے: تھے ہم پوت پٹھان کے دل ول دیں موڑ شرن پڑے رگناتھ کے سکیں نہ تنکا توڑ یعنی میں پٹھانت ھا اور فوجوں کے منہ موڑ سکتا تھا، مگر جب سے رگناتھ جی کے قدم پکڑے ہیں، یا بالفاظ دیگر یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر چیز میں خدا کا وجود جاری و ساری ہے، میں ایک تنکا بھی نہیں توڑ سکتا۔ کیونکہ توڑنے میں تنکے کو دکھ پہنچنے کا احتمال ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ کاش وحید خاں کو یہ معلوم ہوتا کہ زندگی نام ہی دکھ اٹھانے اور دکھ پہنچانے کی قوت رکھنے کا ہے۔ زندگی کا مقصد زندگی ہے نہ کہ موت۔ اس طرح وحید خاں کی مثال سے اقبال کا موقف بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور ان کی بات ہر کسی کی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ حافظ کے متعلق اپنے بیان میں اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت اپنے آپ کو اس عقیدت سے الگ رکھنا چاہئے جو صوفیانہ مشاغل کے باعث بعض لوگوں کو حافظ کی ذات سے پیدا ہو جاتی ہے۔’’ اسرار خودی‘‘ کے متعلقہ اشعار سے مقصود ادبی تنقید تھی، حافظ کی ذات کو زیر بحث لانا ہرگز مطلوب نہ تھا۔ اقبال، حافظ کی شاعرانہ عظمت کے منکر نہ تھے، مگر اس کی شاعری نے جو کم ہمتی، پست اخلاقی اور یوں کہئے کہ ایک طرح کی توہم پرستی کو مسلمان معاشرے میں جنم دیا ہے، اقبال اس کے شدید مخالف تھے۔ اس بحث کے ضمن میں ایک جگہ اقبال نے اپنے نقطہ نظر کی مندرجہ ذیل الفاظ میں وضاحت کی ہے: ’’ شاعرانہ اعتبار سے میں حافظ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں۔ جہاں تک فن کا تعلق ہے یعنی جو مقصد اور شعراء پوری غزل میں بھی حاصل نہیں کر سکتے، خواجہ حافظ اسے ایک لفظ میں حاصل کرتے ہیں۔ اس واسطے کہ وہ انسانی قلب کے راز کو پورے طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن فردی اور مادی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی معیار ہونا چاہئے۔ میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔‘‘ 59؎ اس مضمون کا انداز بیان اس قدر دلچسپ اور پیرایہ بیان اس قدر دھیما ہے کہ جس پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے، شاید وہ بھی پڑھے تو اس کو تکلیف نہ ہو آخری جملے خاص طور سے پڑھنے کے قابل ہیں یعنی یہ کہ حافظ کی دعوت موت کی طرف ہے، جس کو وہ اپنے کمال فن سے شیریں کر دیتے ہیں تاکہ مرنے والے کو اپنے دکھ کا احساس نہ ہو۔ دوسرا مضمون ’’ سر اسرار خودی‘‘ خواجہ حسن نظامی کے چند اعتراضات کے جواب میں لکھا گیا تھا۔ اس مضمون سے ’’ اسلام اور تصوف‘‘ کے موضوع پر مزید روشنی پڑتی ہے اور بے عملی اور دنیا سے کنارہ کشی (راہبانیت) کے خلاف اقبال اور اسلام کا موقف واضح تر ہوتا ہے۔ اس مضمون سے ضمناً ہم کو یہ جاننے کا موقع بھی ملتا ہے کہ اقبال کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات کا حدود اربعہ کیا تھا اور معترضوں کے جواب میں اقبال کس بردباری اور عالمانہ وقار کا ثبوت دیا کرتے تھے تیسرا مضمون’’ علم ظاہر و علم باطن‘‘ بھی’’ اسرار خودی‘‘ کے معترضین کے جواب میں تحریر کیا گیا صوفیائے اسلام میں ایک گروہ ایسا ہے جو شریعت اسلامیہ کو علم ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے تعبیر کرتا ہے اور تصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے، جس سے سالک کو فوق الادراک حقائق کا عرفان یا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال ایسے صوفیوں کے گروہ کے سخت خلاف ہیں، چنانچہ وہ تفصیل سے مختلف علماء اور قرآنی آیات کے حوالے سے علم ظاہر اور علم باطن کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس مضمون سے بھی رہبانیت کے مسئلے کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ یہ مضمون ظاہر کرتا ہے کہ علامہ اقبال جہاں معترضین کے اعتراضات کا مدبرانہ انداز میں جواب دینا جانتے ہیں، وہاں انہیں دلائل و براہین سے قائل کرنا بھی جانتے ہیں۔ یہ خصوصیت ان کی علمیت کی دلیل ہے۔ ’’ تصوف وجودیہ‘‘ میں نبی کریم ؐ کی اس پیشین گوئی پر بحث کی گئی ہے کہ تین قرنوں کے بعد میری امت میں سمن کا ظہور ہو گا۔ اس مضمون میں اقبال نے ’’ سمن‘‘ کے الفاظ کی وضاحت جس تحقیقی انداز میں کی ہے وہ اپنی جگہ بے حد اہم ہے۔ اس مضمون میں اگرچہ ایک نہایت سنجیدہ اور علمی مسئلے کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور عبارت باوجود یہ کہ رواں و سلیس نہیں ہے، مگر گراں بار نہیں ہے، اکتاہٹ کا احساس کہیں نہیں ہوتا بلکہ اس کا انداز اس قدر دلچسپ ہے کہ جوں جوں آگے بڑھتے جاتے ہیں، تجسس بڑھتا جاتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت میں مثالیں پیش کرتے ہیں، جس سے لطف اور دلچسپی دوبالا ہو جاتی ہے اور قاری مصنف کے اسلوب بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ متفرق ۔۔۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ: اس حصے میں صرف ایک نثری مضمون ’’ اسلام اور علوم جدیدہ‘‘ شامل ہے یہ نثری تحریر اگرچہ مختصر ہے ، مگر اس مختصر سی تحریر سے اسلام اور علوم جدیدہ کے مابین تعلق کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ اقبال کا کہنا ہے:’’ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے۔‘‘ 60؎ علامہ اقبال یورپین مفکرین کے اس قول پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام اور علوم جدیدہ یکجا نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں ہی کی یونیورسٹیوں سے ہوا تھا۔ بڑے بڑے یورپی فلاسفر مثلاً: بیکن، ڈی کارٹ، اورمل وغیرہ کے فلسفہ کی بنیاد تجربہ اور مشاہدہ پر ہے۔ حتیٰ کہ ڈی کارٹ کا اصول (Method) غزالیؒ کی احیاء العلوم میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں راجر بیکن خود ایک اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا۔ جان اسٹوارٹ مل نے منطق کی شکل پر جو اعتراض کیا ہے، بعینہ وہی اعتراض امام فخر الدین رازیؒ نے بھی کیا تھا اور مل کے فلسفہ کے تمام بنیادی اصول شیخ بو علی سینا کی مشہور کتاب ’’ شفائ‘‘ میں موجود ہیں۔ غرض زندگی کے ہر اچھے پہلو پر اسلام نے گہرا اثر ڈالا ہے اور علم جدیدہ کی بنیاد جن اصولوں پر ہے، وہ مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں۔ مختصر یہ کہ علامہ اقبال کے اردو مضامین اپنے اندر مقصدیت کے ساتھ ساتھ دیگر فنی محاسن بھی رکھتے تھے۔ ان مضامین میں یکسانیت، پھیکا پن اور خشکی کا غلبہ نہیں ہے، بلکہ رومانی تحریک کے زیر اثر مقصدیت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی چاشنی اور تخیل کی کار فرمائی بھی نظر آتی ہے، جس سے مضامین میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ روانی اور سلاست بھی پیدا ہو گئی ہے۔ علامہ اقبال کے لئے مضمون نویسی اگرچہ ثانوی حیثیت رکھتی تھی، اس کے باوجود انہوں نے متنوع موضوعات پر سیر حاصل مضامین یادگار چھوڑے ہیں۔ ان مضامین سے علامہ اقبال کے بعض مبہم اور مشکل تصورات معین اور واضح ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مجمل نکات مفصل توجیہات کے آئینہ میں اجاگر ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کے اردو مضامین اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ بہ قول ڈاکٹر غلام دستگیر رشید آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں: ’’ مضامین اقبال اردو ادب کے عظیم الشان انقلابی مظاہر ہیں۔ یہ ترقی پسند ادب کا معیار ہیں۔ دلیل راہ ہیں۔ ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کا سنگ بنیاد ہیں۔ ان مضامین کی اشاعت اردو نثر میں انقلاب پرور اور ترقی پسند حکیمانہ ادب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ یہ مضامین ہمیں احتساب کائنات کے حکیمانہ طریقے سمجھاتے ہیں، انسانی مسائل پر فکر و تدبر کے سلیقہ سے آشنا کرتے ہیں۔‘‘ 61؎ ٭٭٭ حواشی 1تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص336 2ایضاً، ص336 3پیش لفظ مضامین اقبال طبع دوم 4 پیش لفظ، مقالات اقبال، طبع دوم ص:ع 5کتاب مذکورہ، ص:ف 6 ’’ مقالات اقبال ‘‘ پیش لفظ ص:’’ ط‘‘ 7’’ مقالات اقبال‘‘ ص:ف 8 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:341 9 اقبال کی اردو نثر، ص:88 10’’ پیش لفظ‘‘ ص:ف 11 ’’ پیش لفظ‘‘ ص:ع 12تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:342 13مقالات اقبال، طبع دوم، ص:318 14 مقالات اقبال، طبع دوم،ص:351 15 مقالات اقبال (طبع اول) ص:ف 16’’ انوار اقبال‘‘ ص:278 17 اقبال کے نثری افکار،ص:10 18 کتاب مذکور، ص:8 19 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، صفحات:353, 352, 351 20اقبال کے نثری افکار، ص:15 21مخزن، ستمبر1902ئ، ص1 22’’ مخزن‘‘ اکتوبر1902ء ص:25 23مقدمہ ( بہ عنوان: جسارت) مقالات اقبال، طبع دوم، ص:11 24 ’’ پیش لفظ‘‘ مقالات اقبال، طبع دوم، ص23 25’’ بانگ درا‘‘ کی نظم ’’ سید کی لوح تربت‘‘ جنوری 1903ء ص:52 اور نظم بعنوان: ’’شاعر‘‘ دسمبر1903ء ص61عمرانی مسائل کے سلسلے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ 26مقدمہ (بہ عنوان: صبح مراد) مضامین اقبال، ص5 27 مقالات اقبال، طبع اول، ص:2, 3 28 اقبال اور مسئلہ تعلیم، از: محمد احمد خاں، ص:7 29 اقبال کا اسلوب نگارش، ص:17 30مقالات اقبال، طبع اول، ص:9 31 اقبال کی اردو نثر، از: ڈاکٹر عبادت بریلوی، ص:185 32مقالات اقبال، طبع دوم، ص74 33 ایضاً، ص87 34 عروج اقبال، از: ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ص:183 35ایضاً، ص:184 36 مقالات اقبال، طبع دوم، ص:98, 99 37 اقبال کا اسلوب نگارش، از: ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ص:22 38 مقالات اقبال، طبع دوم، ص75 39 ایضاً، ص:95 40انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار27, 28 41 عروج اقبال، از:ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ص349 42مقالات اقبال، طبع دوم، ص:325 43مضامین اقبال، مرتبہ: تصدق حسین تاج، ص:243 44 مقالات اقبال، طبع دوم، ص:283 45ایضاً، ص:283-4 46 انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص46, 45 47 اقبال کی عظیم نثر، مشہولہ: حیات اقبال کا ایک جذباتی دور اور دوسرے مضامین، ازـ: پروفیسر محمد عثمان ص:170 48 مضامین اقبال، ص:183 49 اقبال کی اردو نثر، از: ڈاکٹر عبادت بریلوی، ص:193 50اقبال کی نثر کا مزاج، از: ڈاکٹر سلیم اختر، مشہولہ: سہ ماہی’’ اقبال‘‘ ص:97 51مضامین اقبال، ص:9 52اقبال کی نثر کا مزاج، از: ڈاکٹر سلیم اختر، مشہولہ: سہ ماہی’’ اقبال‘‘ ص:ـ97 53اقبال نامہ، مرتبہ : شیخ عطاء اللہ (حصہ دوم) ص:85 54ایضاً (حصہ اول) ص:56 55مقالات اقبال، طبع دوم، ص:79 56 اقبال کی عظیم نثر، مشہولہ: مجلہ سہ ماہی ’’ اقبال‘‘ ص:ـ97 57انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، صـ:279 58 مقالات اقبال، طبع دوم، ص:206 59ایضاً، ص206 60مقالات اقبال، طبع دوم، ص:206 61مضامین اقبال، مرتبہ: تصدق حسین تاج، ص: ب ٭٭٭ (4) اردو خطوط اقبال اس دور کے سب سے بڑے قومی شاعر اور اسلام کی فکری، تہذیبی اور ثقافتی روایت کے ایک اہم نمائندے اور تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ اقبال نے شاعری کے علاوہ بعض ضروریات کے تحت ہزاروں خطوط بھی لکھے۔ یہ خطوط مختلف لوگوں کو لھے گئے۔ ان خطوط میں کچھ تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے ہیں، کچھ علمی و فکری اور بعض کی نوعیت محض رسمی ہے۔ بظاہر تو مکاتیب مستقل اور باقاعدہ تصنیف کی ذیل میں نہیں آتے۔ خطوط بسا اوقات عجلت میں لکھے جاتے ہیں اور ان میں وحدت فکر کی کمی ہوتی ہے، مگر علامہ اقبال کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ چونکہ ہمارے نزدیک ایک مقدس امانت ہے اور اس امانت کو قوم تک پہنچانا ایک مقدس ترین فریضہ ہے، مزید برآں علامہ کی شخصی زندگی، اس کے گوناگوں رحجانات اور نفسیاتی و جذباتی کیفیات ان کے خطوط میں آئینہ ہو گئی ہیں اس لئے ان کے خطوط کی اہمیت، ان کی شعری تخلیقات سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ علامہ اقبال بھی غالب کی طرح خطوط اشاعت کی غرض سے نہیں لکھتے تھے، (سوائے ان چند خطوط کے جو مختلف اخبارات کے ایڈیٹروں کے نام لکھے گئے۔) جب انہیں اس امر کا علم ہوا کہ ان کے دوست احباب ان کے خطوط اشاعت کی غرض سے محفوظ رکھتے ہیں تو انہوں نے اس پر، خان محمد نیاز الدین خان کے نام 19اکتوبر1919ء کے خط میں اس طرح تبصرہ کیا: ’’ مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ آپ میرے خطوط محفوظ رکھتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا، جب انہوں نے میرے بعض خطوط ایک کتاب میں شائع کر دیے، تو مجھے پریشانی ہوئی، کیونکہ خطوط ہمیشہ عجلت میں لکھے جاتے ہیں اور ان کی اشاعت مقصود نہیں ہوتی۔ عدیم الفرصتی تحریر میں ایک ایسا انداز پیدا کر دیتی ہے، جس کو پرائیویٹ خطوط میں معاف کر سکتے ہیں، مگر اشاعت، ان کی نظر ثانی کے بغیر ، نہ ہونی چاہئے۔‘‘ 1؎ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ کی زندگی میں ان کے خطوط کا کوئی مجموعہ شائع نہ ہوا، مگر خطوط کے متعدد مجموعے ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آئے۔ علامہ اقبال طبعی طور پر تساہل پسند تھے۔ ان کے اکثر دوست احباب انہیں ’’ قطب از جانمی جنبد‘‘ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے، لیکن علامہ اقبال خط کا جواب خاصی مستعدی، تعجیل اور باقاعدگی سے تحریر کیا کرتے تھے، یہ اور بات ہے کہ طبعی تساہل ان خطوط کے بین السطور میں بھی جھلکتا ہے چنانچہ زیادہ تر خطوط مختصر ہیں اور ’’ زیادہ کیا عرض کروں‘‘ کی تکرار تقریباً ہر خط میں نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال کو جو خط موصول ہوتا، وہ اس کا جواب فوراً دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: ’’ دستور یہ تھا کہ ادھر ڈاکیا خطوط دے کر جاتا تھا اور ادھر وہ اپنے خدمت گار علی بخش کو فوراً قلم دان اور کاغذات کا ڈبہ لانے کی ہدایت فرماتے تھے، پھر فوراً جواب لکھتے تھے اور اسی وقت علی بخش کے حوالے فرماتے تھے کہ لیٹر بکس میں ڈال آئے۔‘‘ 3؎ چنانچہ علامہ اقبال نے زمانہ طالب علمی سے لے کر وفات تک بلا مبالغہ ہزاروں خطوط اردو، انگریزی، جرمنی، فارسی اور عربی میں لکھے۔ قدیم ترین دستیاب خط مولانا حسن مارہروی کے نام ہے، جو گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل سے 28 فروری 1899ء کو لکھا گیا۔ 3؎ آخری خط 19اپریل 1938ء کا ہے جو ممنون حسن خاںکے نام لکھا گیا۔ آخری برسوں میں ضعف بصارت کے سبب بقلم خود جواب لکھنے سے قاصر ہو گئے تو املا کرا کے خود دستخط کر دیتے۔ خطوط اقبال کے کاتبین میں منشی طاہر الدین، میاں محمد شفیع، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، سید نذیر نیازی، مس ڈورالینٹ ویرا اور جاوید اقبال شامل ہیں۔4؎ القاب کے سلسلے میں وہ مکتوب الیہ کے رتبے کا بطور خاص خیال رکھتے تھے۔ علامہ اقبال خطوط کا جواب جس طرح پابندی سے دیتے تھے، اسی طرح وہ موصول شدہ خطوط کو ضائع بھی بڑے التزام سے فرماتے تھے۔ سوائے اکبر الہ آبادی کے خطوط کے، جواب لکھنے کے فوراً بعد وہ خطوط کو تلف کر دیتے تھے۔ 5؎ ہماری کتاب کا موضوع چونکہ ’’ اقبال کی اردو نثر‘‘ ہے، اس لئے اس باب میں بھی فقط اردو خطوط کا تذکرہ کیا جائے گا، انگریزی خطوط یا دیگر زبانوں میں لکھے گئے خطوط کے تراجم زیربحث نہیں آئیں گے۔ علامہ کی وفات کے بعد ان کے اردو خطوط کے درج ذیل مجموعے شائع ہو چکے ہیںـ: 1شاد اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور۔ (اول 1942ئ) 2 اقبال بنام شاد: مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی اول: جون1986ی (یہ مجموعہ ’’ شاد اقبال‘‘ ہی کی اشاعت مکرر ہے، اس میں کچھ مزید خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں، جو اس سے قبل ’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر(حصہ اول) 1973ء میں شائع ہوئے تھے۔) 3 اقبالنامہ (حصہ اول)، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ایم اے اول:(1944ئ) 4 اقبالنامہ (حصہ دوم) مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ایم اے اول:1951ء 5مکاتیب اقبال، بنام: خان محمد نیاز الدین خان مرحوم اول:1954ء دوم:1986ی 6مکتوبات اقبال، مرتبہ: سید نذیر نیازی اول: ستمبر1957ء دوم: اکتوبر1977ء 7 انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار اول: مارچ1967ء دوم:1977ء 8 مکاتیب اقبال بنام گرامی، مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی اول: اپریل 1969ء دوم: جون1981ء 9 خطوط اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اول:1976ء دوم:1977ء 10 خطوط اقبال بنام بیگم گرامی، مرتبہ: سید حمید اللہ شاہ ہاشمی اول: جنوری 1978ء 11اقبال نامے، مرتبہ: ڈاکٹر اخلاق اثر اول:1981ء 12اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر، مرتبہ: محمد فرید الحق اول:8جولائی 1983ء 13کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول مرتبہ: سید مظفر حسین برنی طبع اول 1989ء ۔۔۔۔۔ طبع دوم:1991ء 14کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم1991ء 15کلیات مکاتیب اقبال جلد سوم، 1993ء 16مکاتیب سر محمد اقبال بنام سید سلیمان ندوی 1992ء آئندہ صفحات میں ہم اردو خطوط کے ان مجموعوں کا جائزہ پیش کریں گے۔ 1شاد اقبال:ـ علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں بلامبالغہ ہزاروں خطوط لکھے، لیکن اقبال کی زندگی میں ان کے خطوط کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہ آ سکا، کیونکہ اقبال اپنے خطوط کی اشاعت کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد وقتاً فوقتاً کئی مجموعہ ہائے مکاتیب اشاعت پذیر ہوئے۔ اس سلسلے میں اولیت کا شرف جامعہ عثمانیہ کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محی الدین زور کو حاصل ہے، جنہوں نے ’’ شاد اقبال‘‘ کے زیر عنوان علامہ اقبال کے 49اور شاد کے 52خطوط شائع کیے۔ مہاراجا سر کشن پرشاد سے علامہ اقبال کے دوستانہ تعلقات تھے۔ خطوط کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال، مہاراجا سے اپنے ذاتی مسائل بھی بیان کر دیا کرتے تھے، اور مہاراجا بھی اپنے ذاتی مسائل کے سلسلے میں علامہ اقبال سے مشورے طلب کرتے تھے۔ مہاراجہ سے اقبال کی اولین ملاقات مارچ1910ء میں ہوئی، اس وقت وہ حیدر آباد میں مدار المہام تھے۔ 1910ء اور 1913ء کے درمیانی عرصے میں علامہ کی مراسلت ضرور ہوئی ہو گی، لیکن یہ خطوط ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکے۔ 1913ء میں مہاراجہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور اسی سال وہ پنجاب کی سیر کو نکلے اور لاہور میں ان کی علامہ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، جن کا حال سرکشن پرشاد نے ’’ سیر پنجاب‘‘ میں بیان کیا ہے۔ مدار المہام کے عہدے پر شاد کی تقرری دسمبر1926ء میں ہوئی اور علامہ کا آخری خط بھی دسمبر1926ء کا ہے۔ 6؎ ’’ شاد اقبال‘‘ اعظم اسٹیم پریس حیدر آباد دکن سے پہلی بار1942ء میں شائع ہوا۔ کتاب کا سائز علامہ اقبال کے مروجہ شعری مجموعوں کے مطابق ہے۔ کل صفحات 176+40=216 ہیں۔ ص:1سے 7تک کتاب کا عنوان اور فہرست مکتوبات درج ہے۔ ص8 خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ ص9سے 38تک سید محی الدین قادری زور کا مقدمہ ہے، جس میں انہوں نے اقبال اور شاد کے باہمی تعلقات کا ذکر کیا ہے اور شاد کی علم دوستی اور علم پروری کا تذکرہ کیا ہے۔ ص39پر شاد کا 29دسمبر16ء کے خط کا عکس درج ہے اورص40پر علامہ اقبال کے 24اکتوبر23ء کے خط کا عکس ہے۔ اس کے بعد دونوں شخصیات کی ایک ایک تصویر ہے۔ ان چالیس صفحات کے بعد دونوں اصحاب کے خطوط کے لئے علیحدہ سے صفحات نمبر شمار کئے گئے ہیں، یعنی پہلا خط:3 پر درج ہے اور آخری خط ص:175پر۔ تمام خطوط کو تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے۔ پہلا خط اقبال کا ہے، اس کے جواب میں دوسرا خط شاد کا، تیسرا خط اقبال کا اور چوتھا شاد کا، آخ تک یہی ترتیب ہے۔ مقدمے میں ڈاکٹر الدین قادری زور لکھتے ہیں: ’’ اس مجموعے میں جو خطوط شائع کئے جا رہے ہیں، وہ مہاراجہ کی وفات سے دو تین سال قبل ہی بغرض اشاعت وصول ہوئے تھے لیکن ان کی ترتیب و طباعت میں اتنی تعویق ہو گئی کہ یہ مجموعہ ان کی وفات کے دو تین سال بعد شائع ہو رہا ہے۔‘‘ 7؎ شاد کا انتقال1939ء 8؎ میں ہوا لیکن یہ مجموعہ 1942ء میں منظر عام پر آیا، گویا اس کی تدوین و ترتیب میں خاصا وقت لگ گیا۔ مرتب نے 19دسمبر1919ء اور اکتوبر1922ء کے درمیانی اڑھائی سال کے خطوط فراہم نہ ہو سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد شاد کے نام اقبال کے خطوط دستیاب ہو گئے، جسے محمد عبداللہ قریشی نے ’’ صحیفہ‘‘ میں چھاپ دیا۔ ’’صحیفہ‘‘ میں شامل مکتوبات پر بحث ہم آگے کریں گے۔ ’’ شاد اقبال‘‘ میں خطوط کے ساتھ حواشی اور تعلیقات نہیں دئیے گئے، اگرچہ کشن پرشاد کے اپنے خطوط سے علامہ کے خطوط کے بعض مخفی گوشے واضح ہو جاتے ہیں، تاہم بعض باتوں کی وضاحت ضروری تھی اور محی الدین قادری زور کے لئے اس زمانے میں ان پرائیویٹ نوعیت کی باتوں کا سراغ لگانا بہ نسبت آج کے قدرے آسان تھا۔ شاید کسی نے اس وقت اس امر کی طرف توجہ نہیں کی، اس لئے اس مجموعہ مکاتیب کے کئی حصوں کی وضاحت نہ ہو سکی۔ اگرچہ مرتب نے مقدمے میں بیان کیا ہے کہ خطوط کی:’’ ترتیب اور نقل کے سلسلے میں مرتب کو صاحبزادہ میر محمد علی خاں میکش، صاحبزادہ میر اشرف علی خاں صاحب بی اے تحصیلدار اور رشید قریشی صاحب ایم اے سے خاص طور پر مدد ملی۔۔۔۔‘‘ 9؎ لیکن متون خطوط کے بغور مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل خطوط کو پڑھنے اور پھر انہیں احتیاط و صحت کے ساتھ نقل کرنے میں وقت نظر سے کام نہیں لیا گیا۔ تین خطوط کی اغلاط کی نشان دہی محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب 10؎ نے کی ہے۔ اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر تمام خطوط کی عکسی نقول دستیاب ہو جائیں تو اغلاط کی تعداد بیسیوں تک پہنچ جائے۔ ’’ شاد اقبال‘‘ کے بعض خطوط پر تاریخیں غلط درج کی گئی ہیں، مثلاً خط نمبر:1کی صحیح تاریخ یکم اکتوبر ہے، نہ کہ نومبر، اسی طرح خط نمبر5کی صحیح تاریخ 5دسمبر ہے، نہ کہ 4دسمبرخط نمبر96کی صحیح تاریخ29دسمبر ہے نہ کہ 9دسمبر۔ ابتدا میں علامہ کے مکتوب کا جو عکس دیا گیا ہے، وہ نامکمل ہے (دیکھئے اصل خط: ’’ شاد اقبال‘‘ ص:154, 153) علاوہ ازیں یہ خط23اکتوبر1923ء کا ہے جبکہ عکسی نقل میں 24 اکتوبر 1922ء ہے۔ جو کہ درست نہیں ہے۔ ’’ شاد اقبال‘‘ میں بعض الفاظ کا املا واضح طور پر غلط ہے۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ اغلاط کاتب سے سرزد ہوئی ہوں، بہرحال ذیل میں بعض اغلاط کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ صفحہ غلط صحیح 66 19دسمبر 29دسمبر 97 لللہ للہ 111 الحمد لللہ الحمد للہ 115 1923ء 1922ء 115 11اکتوبر 11اکتوبر 155 واتمام والاتمام اقبال اپنے نام کے جزو (محمد) پر علامت’’ ص‘‘ بناتے تھے، لیکن ’’ شاد اقبال‘‘ میں یہ التزام کہیں نظر نہیں آتا۔ بعض مقامات پر کچھ الفاظ یا عبارات حذف کر دی گئی ہیں، مثلاً: (صفحات 136, 126, 125, 123, 112, 32, 19) مرتب نے یہ نہیں بتایا کہ محذوف الفاظ و عبارات مصلحتاً درج نہیں کئے گئے ، یا وہ پڑھے نہ جا سکے۔ ’’ شاد اقبال‘‘ دوبارہ شائع نہ ہو سکی۔ آج کل یہ کتاب تقریباً ناپید ہے۔ بیشتر لائبریریوں میں موجود نہیں ہے۔ ’’ شاد اقبال‘‘ میں اقبال کی شخصیت کے بہت سے پہلو آشکارہ ہوتے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل خطوط کی اہمیت صاحب مرتب ہی کے الفاظ میں اس طرح ہے: ’’ ان کے مطالعے سے ہندوستان کے دو بڑے انسانوں کے قلبی و ذہنی رحجانات بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں ان کی اخلاقی اور روحانی قوتوں کی گہرائیاں آئینے کی طرح صاف و شفاف نظر آتی ہیں۔ یہ خطوط اس حقیقت حال پر سے پردہ اٹھا دیتے ہیں کہ دوستی اور محبت نبھانے اور اس میں ترقی دینے کے لئے قلب و دماغ کی کیسی وسعتیں درکار ہیں اور دو انسان وطن، مذہب اور مرتبے کی وسیع سے وسیع تر خلیجوں اور اختلافات کے باوجود کیونکر ایک دوسرے کے رنج و راحت کے شریک اور کمالات کے معترف رہ سکتے ہیں۔ ‘‘ 11؎ نوادر اقبال (غیر مطبوعہ خطوط): ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے ’’ شاد اقبال‘‘ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ 19دسمبر1919ء اور11اکتوبر1922ء کے درمیانی زمانے کے خطوط دستیاب نہ ہو سکے، لیکن خوش قسمتی سے اس مدت کے 4خطوط اور 1913ء اور1916ء کے درمیانی زمانے کے 46 خطوط چند سال قبل دستیاب ہو گئے۔ اقبال اکیڈمی نے شاد کے نام اقبال کے ان پچاس خطوط کو خرید کر محفوظ کر لیا اور عبداللہ قریشی نے انہیں مرتب کر کے ’’ صحیفہ‘‘ اقبال نمبر (اول) اکتوبر1973ء میں ایک طویل مقدمے اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کر دیا۔ اس طرح شاد کے نام اقبال کے خطوط کی تعداد 50+49=99 ہو جاتی ہے۔ یہ پچاس خطوط’’ صحیفہ‘‘ میں ایک مضمون کی صورت میں شائع ہوئے۔ ان کو کتابی صورت میں چھاپنے کی اشد ضرورت تھی، چنانچہ محمد عبداللہ قریشی نے انہیں بھی نئے مجموعے ’’ اقبال بنام شاد‘‘ میں شامل کر لیا۔ اقبال بنام شاد: ’’ صحیفہ‘‘ میں اقبال کے شاد کے نام پچاس خطوط اور’’ شاد اقبال‘‘ میں شامل اقبال کے 49 اور شاد کے 52 خطوط کو کتابی صورت میں محمد عبداللہ قریشی نے جون1986ء میں شائع کیا۔ یہ کتاب ’’ بزم اقبال‘‘ لاہور نے چھاپی ہے۔ عبداللہ قریشی نے ’’ صحیفہ‘‘ میں شامل اپنے طویل مقدمے کو بعینہ نقل کر دیا ہے، یہ امر قابل افسوس ہے کہ انہوں نے سر ورق پہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور کا نام نہیں دیا۔ یہ ان کا اخلاقی فریضہ تھا کہ وہ اقبال کے خطوط کے اولیں مرتب کا حوالہ دیتے۔ اپنے طویل مقدمے میں انہوں نے ’’ شاد اقبال‘‘ کے مرتب کے مقدمے سے استفادہ کیا ہے، لیکن اس کا حوالہ بھی کہیں نہیں دیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی رقمطراز ہیں: ’’ اقبال بنام شاد۔۔۔۔ اصل میں تو یہ شاد اقبال، ہی کا اضافہ شدہ ایڈیشن ہے اس مجموعے کا اصل نام برقرار رکھنا چاہئے تھا اور سر ورق پر اس کے مرتب ڈاکٹر زور کا نام بھی درج کرنا قرین انصاف تھا، اور اس کے ساتھ محمد عبداللہ قریشی صاحب کا نام، بہ طور شریک مرتب خوب جچتا‘‘ 13؎ ’’ اقبال بنام شاد‘‘ میں خطوط کی ترتیب’’ شاد اقبال‘‘ کی نسبت مختلف ہے، یعنی اس میں پہلے تمام خطوط علامہ اقبال کے ہیں اور اس کے بعد خطوط شاد ہیں۔ ’’ صحیفہ ‘‘ میں جو پچاس خطوط عبداللہ قریشی نے حواشی و تعلیقات کے ساتھ شائع کیے ہیں، ان میں بھی ’’ شاد اقبال‘‘ کی طرح اقبال کے نام کے جزو’’ محمد‘‘ پر ’’ محمد ؐ‘‘ علامت نہیں بنائی گئی تاہم ’’اقبال بنام شاد‘‘ میں اس کا خاص التزام کیا گیا ہے (سوائے خطوط نمبر1, 2, 3, 4اور5 کے) تعلیقات بعض مقامات پر خاصے طویل ہو گئے ہیں، جس سے اصل خط پس منظر میں چلا جاتا ہے اور تعلیقہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تعلیقات مختصر مگر جامع ہوتے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی فرماتے ہیں: ’’ ایک ڈیڑھ سطر کے مختصر تعلیقات کے مقابلے میں بعض تعلقے کئی کئی صفحات پر پھیل گئے ہیں۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کے بارے میں فاضل مرتب کو جو بھی معلومات حاصل ہو گئیں، وہ سب تعلیقات میں شامل کر لی گئیں، قطع نظر اس سے کہ، متعلقہ مقام پر ان کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔۔۔ انہوں نے خیال نہیں فرمایا کہ وہ خطوط کے تعلیقات رقم کر رہے ہیں، رجال اقبال یا معاصرین اقبال کی سوانح عمریاں مرتب نہیں فرماتے رہے۔‘‘ 13؎ لیکن تعلیقات کی طوالت کے باوجود کئی اہم اور مطلوبہ شخصیات کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، حالانکہ ان کی زیادہ ضرورت تھی کیونکہ ان کے بارے میں عام قارئین نہیں جانتے، مثلاً: اللہ اکبر، مرزا صاحب، سائیں رب، شاہ صاحب علاوہ ازیں ان خطوط میں بعض جملے اور اقتباس مبہم ہیں۔ ان کی وضاحت از حد ضروری تھی، لیکن ہمیں اس سلسلے میں بھی کوئی وضاحت نہیں ملتی، مثلاً: 1’’ سائیں رب کو آپ کا پیغام پہنچا دیا تھا‘‘ لا تقتنطوا فرماتے تھے (ص: 107) 2’’ ایاک نستعین کا دور دورہ پھر ہو جائے گا‘‘ (ص:205) 3 ’’ ایاک نعبد تو کوچ کر گئے‘‘ (ص:231) 4’’ اگرچہ میرا ٹیلی فون خراب ہے اور ادھر شان بے نیازی ہے، تاہم جواب کی توقع ہے۔ ‘‘ (ص:265) ’’ شاد اقبال‘‘ کی طرح محمد عبداللہ قریشی نے بھی بعض خطوط کے محذوف شدہ حصوں کی وضاحت نہیں کی مثلاً: (صفحات: 272, 271, 245, 230) خط:53 (ص:202) کی تاریخ محررہ22فروری درج کی گئی ہے، جبکہ ’’ شاد اقبال‘‘ خط:14ص:29پہ 23فروری درج ہے۔ اس کی وجہ شاید کتابت کی غلطی ہے۔ اسی طرح خط:53 (ص:202) کی تاریخ محررہ22 فروری درج کی گئی ہے جبکہ ’’ ثرو اقبال‘‘ خط:89(ص:271) پہ صرف دسمبر لکھا گیا ہے، حالانکہ زمانی ترتیب کے اعتبار سے اس کا سنہ کا بآسانی تعین کیا جا سکتا تھا، یعنی یہ خط دسمبر1922ء میں لکھا گیا ۔ اگرچہ ’’ اقبال بنام شاد‘‘ میں کتابت کی غلطیاں زیادہ نظر نہیں آتیں، تاہم کہیں کہیں چند اغلاط نظر آجاتی ہیں، مثلاً: صفحہ غلط صحیح 78 چند روز ہونے چند روز ہوئے 109 جاپہنچا جا پہنچتا 128 روز ہونے روز ہوئے محمد عبداللہ قریشی نے اگرچہ خاصی دقت نظر سے اس مجموعے کو مرتب کیا ہے، مگر کہیں کہیں ان سے بھی لغزشیں ہوئی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر یہ مجموعہ اہم ہے۔ 3 اقبال نامہ، حصہ اول: اقبال کے خطوط کا یہ مجموعہ شیخ عطاء اللہ لیکچرار معاشیات علی گڑھ یونیورسٹی نے مرتب کر کے باہتمام شیخ محمد اشرف، تاجر کتب، کشمیری بازار، لاہور سے شائع کیا۔ جلد اول میں مرتب نے خطوط کی تعداد درج نہیں کی لیکن آخری خط کا نمبر شمار267ہے۔ اور اس کے بعد بھی ایک خط ڈاکٹر نکلسن کے نام درج ہے۔ صابر کلوروی لکھتے ہیں کہ اس مجموعے میں خطوط کی کل تعداد266ہے اور اس میں وہ خط بھی شامل ہے، جو ڈی مونٹ مورینسی کے نام ہے اور دیباچے میں دیا ہوا ہے۔ تعداد میں فرق اس لئے ہے کہ اس مجموعے میں خط نمبر183اور خط نمبر202 سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ مزید برآں خط نمبر205خط نہیں ہے، بلکہ یہ اسد ملتانی کا ’’ شبنم کا قطرہ‘‘ دیا ہوا ہے۔ 14؎ اس مجموعے میں شامل خطوط کی تعداد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نزدیک 267ء کے بجائے 236ہے اور اس کی وضاحت وہ حاشئیے میں یوں کرتے ہیں: 1 اصل تعداد، کل تعداد سے مندرجہ ذیل نوعیت کے خطوط منہا کر کے نکالی گئی ہے: (الف) ایسے انگریزی خطوط کے اردو تراجم، جن کا اصل متن کسی انگریزی مجموعہ مکاتیب میں شامل ہے (چونکہ اردو ترجمہ اصل انگریزی متن کے مقابلے میں بہرحال ثانوی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے یہاں ایسے اردو تراجم کو گنتی سے خارج کر دیا گیا ہے، البتہ وہ اردو تراجم شمار میں شامل ہیں، جن کے انگریزی متون کسی مجموعے میں نہیں ملتے) (ب) ایسے اردو خطوط جو یہاں نا مکمل صورت میں ہیں، مگر کسی اور مجموعہ خطوط میں ان کا صحیح اور مکمل متن شامل ہے۔ (ج) شمارہ نمبر205(ص:340) کو بھی گنتی میں شامل نہیں کیا گیا، کہ یہ ایک نظم ہے۔ 15؎ ’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ اول کے سر ورق یا دیباچے میں اس کا سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔ شیخ عطاء اللہ نے دیباچے میں بتایا ہے کہ ان خطوط کی تدوین و ترتیب کے کام کا آغاز فروری 1943ء میں ہوا۔ اور اس میں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا۔ بشیر احمد ڈار نے اس کا سنہ اشاعت 1944ء 16؎ لکھا ہے۔ صابر کلوروی نے بھی سنہ اشاعت1944ء ہی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اس بیان کو ایک اور شہادت سے بھی تقویت ملتی ہے کہ میر ولی اللہ ایبٹ آبادی، جو علامہ کے معاصر ہونے کے ساتھ علامہ کے دوست تھے، اقبال کے متعلق ہر کتاب منگوا کر اپنی لائبریری میں محفوظ کر لیتے تھے۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں جو انہوں نے بعد میں پشاور یونیورسٹی کو عطئیے کے طور پر دے دیا، ’’ اقبالنامہ‘‘ جلد اول کا نسخہ بھی موجود ہے جو انہیں شیخ احمد نامی کسی صاحب نے بطور عطیہ دیا تھا۔ نسخہ پیش کرنے کی تاریخ4دسمبر1944ء ہے جو اس بات کے ثبوت میں مضبوط دلیل ہے کہ یہ مجموعہ 1944ء کے اواخر میں شائع ہو چکا تھا۔17؎ علامہ اقبال سے شیخ عطاء اللہ کو گہری عقیدت تھی اور یہی احترام اور عقیدت مندی اس مجموعے کی تدوین و ترتیب کا بنیادی محرک بنی۔ وہ دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’ اگرچہ اقبال کے مکاتیب کی فراہمی و اشاعت سے مقصود ایک حد تک ان جواہر پاروں کو دستبرد زمانہ سے محفوظ کر لینا ہے۔ لیکن اقبالنامہ کی اشاعت سے میرا سب سے اہم مقصد اقبال کے آئندہ سیرت نگار کے لئے بعض مسائل اور خود اقبال کی زندگی پر اقبال کی تحریری شہادتیں مہیا کرنا ہے۔‘‘ 18؎ مرتب کی عیقدت مندی اپنی جگہ ایک مستحسن امر ہے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس مجموعے کو کسی اسکیم کے بغیر افراتفری میں مرتب کیا گیا ہے۔ بعض خطوط کے تراجم ناقص ہیں، بعض خطوط کے متون پڑھنے میں غلطیاں ہوئی ہیں، کچھ خطوط نامکمل چھاپے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض غیر متعلق چیزیں بھی اس مجموعے میں شائع کی گئی ہیں مثلاً: فلسطین پر بیان (:451) شبنم کا قطرہ: اسد ملتانی (ص:340) لمعہ حیدر آبادی کی نظم (ص:293) اس مجموعے کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ فہرست مندرجات ص: اتاث، اور دیباچہ ص: ج تا ق مقدمہ ڈاکٹر محمد حبیب الرحمن شروانی نے رقم فرمایا ہے اور یہ ص: ک تان پہ مشتمل ہے۔ انتساب: شمس العلماء مولانا میر حسن مرحوم (ص:و) کے نام ہے۔ خطوط کا شمار علیحدہ صفحات سے کیا گیا ہے اور یہ صفحات 3سے 474تک محیط ہے۔ اس میں سات خطوط کی عکسی نقول دی گئی ہیں۔ مرتب نے کہیں بھی یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا انہوں نے تمام خطوط کے اصل متن ملاحظہ کئے تھے یا نہیں؟ ’’ اقبالنامہ‘‘ میں جن سات خطوط کے عکس دیے گئے ہیں، ان کے تقابلی جائزے سے نقل شدہ متن میں بیسیوں اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً: حافظ محمد اسلم جیرا جپوری کے نام خط کا جو عکس دیا گیا ہے، اس میں ایک جگہ عبارت پڑھی نہیں گئی، لہٰذا اسے بغیر کسی وضاحت کے چھوڑ دیا گیا ہے، مزید یہ کہ بعض الفاظ و عبارات میں ترمیم و اضافہ کر دیا گیا ہے، ملاحظہ کیجئے: صفحہ اقبالنامہ عکس خط 55 تحقیقات تحقیق 55 مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی، امید کہ۔۔۔ مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی اس لئے مجھے یہ خط لکھنے کی جرأت ہوئی، امید کہ۔۔ مولوی ظفر احمد صدیقی کے نام خط کی عکسی نقل کے تقابلی جائزے سے درج ذیل اغلاط سامنے آئی ہیں، مثلاً: صفحہ اقبالنامہ عکس خط 201 میری تحریروں مری تحریروں 204 جمعیت اقوام بنے ہوئے جمعیت اقوام کو بنے ہوئے۔۔ 204 شاعرانہ تشبیہہ نہیں۔۔۔ شاعرانہ تشبیہہ نہیں ہے میر سید غلام بھیک نیرنگ کے نام خط میں کچھ اسی قسم کی ترامیم کی گئی ہیں، مثلاً صفحہ اقبالنامہ عکس خط 206 میری جان و آبرو میری جان اور آبرو اس خط میں ایک جگہ علیحدہ سے پیراگراف نہیں بنایا گیا، یعنی خط کی ترتیب میں تبدیلی کر دی ہے۔ پروفیسر شجاع کے نام خط میں(ص:220) ایک جگہ لفظوں کی ترتیب بدل دی ہے، یعنی عکس خط کے مطابق’’ عربی خاصی‘‘ لکھنے کے بجائے ’’ خاصی عربی‘‘ لکھ دیا ہے، اور عکس خط کے مطابق ایک جگہ علیحدہ سے پیراگراف بھی نہیں بنایا۔ مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام خط نمبر7میں ایک غلطی نظر آتی ہے، مثلاً صفحہ اقبالنامہ عکس خط 239 افسوس ہے کوئی افسوس کہ کوئی اس خط میں بھی ایک جگہ علیحدہ پیراگراف نہیں بنایا گیا۔ سید راس مسعود کے نام خط نمبر16میں بھی بعض غیر ضروری ترامیم و اضافے کیے گئے ہیں، مثلاً:ـ صفحہ اقبالنامہ عکس خط 374 اس رقم کو قبول۔۔ اس رقم مزید کو قبول 375 اس امر سے اطلاع۔۔۔ اس امر کی اطلاع۔۔۔ 376 امید ہے مزاج۔۔۔ امید کہ مزاج۔۔۔ اس خط میں بھی ایک جگہ عکس خط کے مطابق علیحدہ سے پیراگراف نہیں بنایا گیا۔ خط نمبر23 جو ظہور الدین مہجود کے نام سے درج ہے، اصل میں یہ خط منشی محمد دین فوق کے نام لکھا گیا تھا۔ یہ ’’ انوار اقبال‘‘ (ص71, 70) میں انہی کے نام سے چھپا ہے، کیونکہ اس خط میں ’’ تذکرہ شعرائے کشمیر‘‘ کا ذکر ہے جو منشی محمد دین فوق نے لکھا تھا۔ ’’ انوار اقبال‘‘ اور’’ اقبالنامہ‘‘ میں شامل اس خط کے متون میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں، مثلاً: صفحہ اقبالنامہ صفحہ انوار اقبال 58 مسلمانوں کی۔۔ 70 مسلمانان کشمیر کی۔۔ 58 لٹریچر و حفاظت۔۔ 70 لٹریچر کی تلاش و حفاظت 59 تذکرہ کشمیر 70 تذکرہ شعرائے کشمیر 59 بار آور ثابت ہو گی اگر۔۔ 71 بار آور ہو گی اور اگر۔۔ 59 امید کہ۔۔۔ 71 امید ہے کہ مندرجہ بالا غیر ضروری ترامیم و محذوفات کے علاوہ اس مجموعے میں متعدد مقامات پر کتابت کی اغلاط بھی نظر آتی ہیں، مثلاً: صفحہ غلط صحیح 145 آیہ توریت آیہ توریت 158 بہ ممکن یہ ممکن 225 حو جو 409 سلاح الدین صلاح الدین 216 غرض کروں عرض کروں گویا تدوین و ترتیب کے ضمن میں جس غایت درجہ کی محنت و کاوش کی ضرورت ہوتی ہے، مرتب نے اس کا خیال نہیں رکھتا، نتیجتہً اس مجموعے میں بہت سی اغلاط اور تصرفات و محذوفات در آئی ہیں اور متون خطوط کو مجروح کرنے کا باعث بنی ہیں۔ ’’ اقبالنامہ‘‘ جلد اول، میں سب سے بڑی خامی جس کا تذکرہ متعدد محققین نے بھی کیا ہے، وہ تاریخ و سنہ کے بارے میں مرتب کی بے احتیاطی ہے۔ ان گنت خطوط کی تاریخ، مہینہ یا سال غلط لکھا ہے، یا سرے سے لکھا ہی نہیں۔ مرتب نے دیباچے میں لکھا ہے کہ وہ مکاتیب کے سلسلے میں تقدیم و تاخیر کو اہم نہیں سمجھتے، حالانکہ بہ قول صابر کلوروی، علامہ کے افکار کو اپنے عہد کے حوالے سے پرکھنے اور ان کی مستند سوانح حیات مرتب کرنے کے کام میں خطوط کی تاریخ محررہ کا صحیح صحیح معلوم ہونا بے حد ضروری ہے۔ صابر کلوروی نے اس سلسلے میں متعدد خطوط کی صحیح تاریخ کا تعین نہایت وقت اور محنت سے کیا ہے۔ 19؎ لیکن انہوں نے خط نمبر67(ص:136) کا ذکر نہیں کیا، جس پر تاریخ19اگست1924ء درج ہے، یہ تاریخ غلط ہے، کیونکہ یہ خط27اگست1924ء (ص:133) کے بعد لکھا گیا ہے، خط کے متن سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس مجموعے میں مکتوب الیہ کے سلسلے میں ایک سے زیادہ خطوط کی ترتیب زمانی ہے، لیکن بعض مقامات پر اس کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ مثلاً: خط نمبر39اور41 (ص:87, 84) کی زمانی ترتیب غلط ہے۔ ان فروگذاشتوں کے علاوہ دوسری خامیاں حسب ذیل ہیں: 1اقبال اپنے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پر ہمیشہ علامت’’ ؐ ‘‘ بناتے تھے’’ اقبالنامہ‘‘ میں یہ اہتمام نہیں کیا گیا۔ 2دستخط سے پہلے، خط کے خاتمے پر موجود لفظ’’ والسلام‘‘ نقل نویس نے عام طور پر حذف کر دیا ہے۔ 3 ڈی ماؤنٹ مورینسی کے نام ایک خط دیباچے میں شامل کیا گیا ہے۔ 4 خط نمبر207کا نمبر شمار غلط ہے، یہ دراصل خط نمبر206ہے۔ 5خطوط پر حواشی درج نہیں ہیں، جن خطوط پر ان کا اہتمام کیا گیا ہے، وہ مکتوب الیہ کی جانب سے کیا گیا ہے، مثلاً سید سلیمان ندوی کے نام خطوط میں حواشی کا التزام خود سید سلیمان ندوی نے کیا ہے۔ 6 ص:437 پر تین خطوط ایسے بھی درج ہیں، جن کا مکتوب الیہ گم نام ہے۔ مرتب ’’اقبالنامہ‘‘ نے لکھا ہے کہ یہ خطوط سید نعیم الحق کا عطیہ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ شیخ عبداللہ کے نام لکھے گئے تھے۔ شیخ صاحب نے مزید لکھا ہے کہ ان کے خیال میں یہ کسی اور بزرگ کے نام لکھے گئے ہیں۔ یوں ان خطوط کا مکتوب الیہ گم نام ہے۔ شیخ عطاء اللہ تھوڑی سی محنت اور جستجو کرتے تو انہیں اس مسئلے کو حل کرنے میں زیادہ دشواری نہ ہوتی۔ ان تینوں خطوط کے مکتوب الیہ کے بارے میں صابر کلوروی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ خطوط مسلم لیگ کے آنریری سیکرٹری مولوی سر محمد یعقوب کے نام لکھے گئے تھے۔ 20؎ ’’ اقبالنامہ‘‘ کے ان نقائص سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ اقبالیات میں اس کی اہمیت نہیں۔ اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، کیونکہ تعداد کے اعتبار سے اس میں اقبال کے سب سے زیادہ خطوط شامل ہیں، اگر شیخ عطاء اللہ بروقت خطوط کی تدوین و ترتیب کا فیصلہ نہ کرتے تو یقینا آج مکتوبات اقبال کا ایک بڑا ذخیرہ ضائع ہو چکا ہوتا۔۔۔۔ علاوہ ازیں اقبال کی شخصیت، ان کے مشاغل اور دیگر مصروفیات کے علاوہ ہمیں اس مجموعے سے علامہ کی بعض نظموں کے ابتدائی متن کا بھی پتا چلتا ہے مثلاً نظم (ردیف انگشتری) ص:16 غزل: سلیقہ مجھ میں کلیم کا (ص:82) فارسی اشعار بسلسلہ مسعود، ص:393 ’’ اقبالنامہ اول‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا پہلا ایڈیشن اشاعت کے بعد واپس لے لیا گیا یا اس میں سے بعض صفحات نکال دئیے گئے۔ یہ صفحات چودھری محمد حسین کے ایما پر نکالے گئے۔ علامہ کی وفات کے بعد چودھری محمد حسین کا علامہ اور ان کی اولاد اور پھر علامہ کی تصنیفات کے ضمن میں یہ روش رہی کہ وہ ہر ایسی کوشش کی مخالفت کرتے رہے، جس سے علامہ کے مقام پر حرف آتا ہو۔ چودھری محمد حسین کے ایماء پر جو صفحات نکالے گئے، ان میں گمان غالب ہے کہ سر راس مسعود کے نام خطوط تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ خطوط انتہائی پرائیویٹ نوعیت کے ہوں کیونکہ 2 جون1934ء میں علامہ کا سر راس مسعود کو یہ لکھنا کہ اپنے صحیح پتہ سے نوازیں، کیونکہ ایک اہم معاملے کے متعلق مشورہ مطلوب ہے۔ اس سے بھی معاملے کی نزاکت کا پتہ چلتا ہے اور علامہ یہ پسند نہیں کرتے ہوں گے کہ ان کا خط غلط ہاتھوں میں چلا جائے۔ قرین قیاس ہے کہ یہ خطوط علامہ نے مالی امداد یا وظیفے کے لئے لکھے ہوں گے۔ ’’ اقبالنامہ‘‘ حصہ اول کی اشاعت کے بعد جب اس کی اشاعت روک دی گئی تو پروفیسر آل احمد سرور نے تحریفات و ترمیمات کی مخالفت کی تھی، لکھتے ہیں: ’’ اس مجموعے کو چھپے ہوئے تقریباً سال بھر ہو گیا۔ اس کی کچھ کاپیاں شائع ہوئیں اور اس کے بعد ایک حیرت انگیز سازش کے ماتحت جس کا جواب غالباً اردو ادب میں ملے اس کی اشاعت روک دی گئی۔ ادبی دنیا، اور دو ایک رسالوں میں اس پر ریویو بھی نکلے۔ سنا ہے کہ اشاعت روک دینے کی وجہ یہ ہوئی کہ اقبال پرستوں کے بعض حلقوں میں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس کی اشاعت اقبال کی شان کے منافی ہے، کیونکہ اس میں اقبال نے سید سلیمان ندوی اور بعض دوسرے علماء سے عقیدت ظاہر کی تھی چنانچہ اب یہ کتاب کہیں نہیں ملتی اور پبلشر پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ ایسے نامناسب خطوط نکال دیے جائیں تاکہ اقبال کی عظمت میں فرق نہ آئے۔ حالانکہ اقبال کی عظمت دوسرے کی عظمت کا اعتراف کرنے سے بڑھتی ہے، گھٹتی نہیں اور نہ جاوید کے لئے پنشن کی درخواست سے یہ خیال باطل ہو سکتا ہے کہ اقبال ذاتی طور پر درویش اور قناعت پسند آدمی تھے، اقبال کی ایک ایک سطر کو شائع کرنا چاہئے۔ یہ قوم کی میراث ہے، کسی کا مال تجارت نہیں۔‘‘ 21؎ ’’ اقبالنامہ‘‘ کی طباعت و اشاعت میں یہ ترامیم تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس سلسلے میں اس مجموعے کے ناشر شیخ محمد اشرف نے 5جولائی 1979ء کو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو ایک ملاقات میں بتایا: ’’ اقبالنامہ کی اشاعت رکوانے کا قصہ یہ ہے کہ اس میں ایک خط تھا راس مسعود کے نام، جس میں اقبال نے لکھا تھا کہ جب تک جاوید کی تعلیم مکمل نہیں ہوتی اس کے لئے پنشن جاری رہے گی۔ یہ ایک طرح کی درخواست تھی۔ چودھری محمد حسین اس زمانے میں پریس برانچ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور پیپر کنٹرولر بھی۔ اس وقت کاغذ پر کنٹرول تھا، جا کس مطلب تھا کہ ناشرین کی روح وہ قبض کر سکتے ہیں۔ چودھری صاحب نے کہا یہ خط ہے اسے شامل نہ کیا جائے، مگر کتاب چھپ چکی تھی جلدیں بن گئیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے بیچ میں سے نکال دو مگر میں نے یہ پسند نہ کیا اور کتاب روک کر رکھ دی، فروخت بند کر دی۔ کافی عرصہ انتظار کیا۔ (پھر) میں نے وہ خط کتاب میں سے نکال دیا۔‘‘ 22؎ چودھری محمد حسین کے ایماء پر بعض خطوط میں ترامیم بھی کی گئیں، مثلاً راس مسعود کے نام10جون 1937ء کے خط میں یہ ترمیم واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اس خط میں علامہ نے اپنے بچوں (جاوید اور منیرہ) کے گارڈین کے متعلق لکھا تھا۔ اپنے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کی جگہ وہ سر راس مسعود کو بچوں کا گارڈین مقرر کرنا چاہتے تھے، لیکن اس ترمیم کی جو وجہ انہوں نے تحریر کی تھی وہ ’’ اقبالنامہ‘‘ حصہ اول میں مکمل صورت میں درج نہیں ہے۔ یہ خط اپنی مکمل صورت میں’’ اقبال اور ممنون حسن خاں‘‘ مصنف: ڈاکٹر اخلاق اثر میں شائع ہوا ہے اور یہاں سے لے کر اسے ’’اقبالیات‘‘ میں ڈاکٹر وحید عشرت نے تنقید و تبصرے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مجلہ ’’ اقبالیات‘‘ میں ڈاکٹر وحید عشرت نے تنقید و تبصرے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ مجلہ ’’ اقبالیات‘‘ لاہور میں ’’اقبالنامہ‘‘ کی اولیں سو کاپیوں میں شامل 10 جون1937ء کا خط بھی شامل ہے، یہ وہ سو کاپیاں ہیں جو چودھری محمد حسین کی قطع و برید سے قبل شائع ہوئیں۔ ذیل میں ہم ’’ اقبالنامہ‘‘ میں شامل اس خط کے دونوں متون کا اصل متن سے موازنہ کرتے ہیں، مکمل خط کے بجائے صرف اس حصے کا تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے، جسے اصل متن سے نکال دیا گیا یا پھر اس میں ترمیم و تبدیلی کر دی گئی: خط نمبر1۔ اقبال نامہ، حصہ اول، ص386 عبدالغنی بیچارے کی بابت میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں۔ اس کی جگہ خاں صاحب میاں امیر الدین سب رجسٹرار لاہور کو مقرر کرنے کا ارادہ ہے۔ نمبر3 شیخ اعجاز احمد میرا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح ہے، لیکن وہ خود بہت عیالدار ہے اور عام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardian مقرر کر دوں مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ خط نمبر2۔ اقبال نامہ، حصہ اول، ص386 عبدالغنی بیچارے کی بابت تم کو اطلاع دے چکا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardian مقرر کر دوں۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا عکس خط: (اقبال اور ممنون 1؎) ص:15 عبدالغنی بیچارے کی بابت میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں۔ اس کی جگہ خان صاحب میاں امیر الدین سب رجسٹرار لاہور کو مقرر کرنے کا ارادہ ہے۔ نمبر3 شیخ اعجاز احمد میرا بڑا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے مگر افسوس کہ دینی عقائد کی رو سے قادیانی ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ قادیانیوں کے عقیدے کے مطابق تمام مسلمان کافر ہیں۔ اس واسطے یہ امر شرعاً مشتبہ ہے کہ آیا ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا Guardian ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ خود بہت عیال دار ہے اور عام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardian مقرر کر دوں۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ شیخ اعجاز احمد اس خط میں تحریف کا سارا الزام چودھری محمد حسین پر دھرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اس کی اشاعت میرے محترم شریک کار (ہم دونوں یعنی چودھری محمد حسین اور شیخ اعجاز جاوید اور منیرہ کے گارڈین تھے) کی سیاست کو گوارا نہ ہوتی، اس سیاست بازی کے متعلق کچھ کہنا مناسب نہیں۔‘‘ 24؎ ٭٭٭ ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں کہ اس خط میں تحریف کوئی نادانستہ طور پر کسی ایک فرد نے نہیں کی بلکہ کسی خاص فرد اور جماعت کی طرف سے ایک خاص منصوبہ بندی اور کوشش سے مختلف اشخاص سے اپنے اثر و نفوذ کی بنیاد پر تحریف کروائی گئی ہے اور اس کا مقصد شیخ اعجاز احمد، ان کے عقیدے اور قادیانیوں کے بارے میں علامہ اقبال کے واضح اور صریح اظہار و موقف کو چھپانے کی سعی نا مسعود کی گئی ہے۔ 25؎ ’’ اقبالنامہ‘‘ اول کی اشاعت کے بعد اس میں شامل ڈاکٹر عباس خاں لمعہ حیدر آبادی کے بیشتر خطوط کو ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے ’’ وضعی‘‘ 26؎ قرار دیا۔ اس ضمن میں عبدالواحد معینی کا بیان ہے کہ :’’ شیخ عطاء اللہ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ان میں سے اکثر خطوط کو آئندہ اشاعت میں حذف کر دیا جائے گا۔‘‘ 27؎ ان خطوط میں علامہ اقبال نے لمعہ حیدر آبادی کی شاعری کی بے حد تعریف و توصیف کی ہے اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ اقبال، جنہوں نے ہمیشہ اصلاح سخن سے پہلو تہی کی ہے، وہ لمعہ کو نہ صرف اپنے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں بلکہ مسلسل اصلاحیں بھی دیتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ لمعہ حیدر آبادی کے ٹیگور سے بھی دوستانہ مراسم تھے اور انہوں نے اقبال اور ٹیگور کو ملانے کی بھی کوشش کی۔ ان چونکا دینے والی باتوں کی وجہ سے لمعہ کے نام، اقبال کے خطوط پر بعض محققین اقبال نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ کے بارے میں’’ اقبال اور بھوپال‘‘ کے صفحہ72 پر جو کچھ لکھا گیا ہے، عبدالواحد معینی نے اس پر اعتراض کیا ہے، ان کا ارشاد ہے: ’’ یہ ضروری ہے کہ اس کا ذکر کر دوں کہ لمعہ صاحب کے (نام) علامہ کے خطوط بیشتر جعلی ہیں اور خود عطاء اللہ صاحب (مرحوم) اس کے معترف تھے۔ اس لحاظ سے لمعہ صاحب کا ذکر ہی اس سلسلہ میں غیر ضروری ہے اور یہ سراسر غلط ہے کہ علامہ، لمعہ صاحب کی شاعرانہ صلاحیتوں کے دل سے معترف تھے۔ اتنا بڑا جعل اردو ادب کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی سر زد ہوا ہو گا۔‘‘ 28؎ ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ کے نام خطوط شائقین اقبال کے لئے ایک اختلافی مسئلہ بنا ہوا تھا، مگر اب دہلی سے شائع ہونے والی کتاب ’’ اقبال کے کرم فرما‘‘ مصنف: ماسٹر اختر، سے یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہو جاتا ہے۔ مصنف نے مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ اقبال سے منسوب لمعہ کے نام29 خطوط میں23وضعی اور جعلی ہیں اور چار میں تحریف کی گئی ہے، باقی دو اصلی ہیں۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ لمعہ نے یہ خطوط لکھے تھے۔ مصنف نے لمعہ کے خطوط کو جن امور کی بناء پر جعلی اور وضعی قرار دیا ہے وہ اس نوعیت کے ہیں کہ انہیں باسانی رد نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر ہم لمعہ کے نام، خط نمبر2(ص:37) کے وضعی ہونے کی وجوہ انہی کے الفاظ میں بیان کرتے ہیں: خط نمبر2(ص:37) جناب من ڈاکٹر لمعہ السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے۔ فی الحال اصلاح اشعار سے معاف فرمایے کہ فرصت بالکل نہیں ہے۔ کسی فرصت کے وقت دیکھوں گا۔ امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے۔ مخلص محمد اقبال لاہور 7مئی 1929ء ٭٭٭ یہ خط دو خاص وجوہات کی بناء پر قابل بھروسہ نہیں ہے۔ اول تو یوں کہ اس خط میں لمعہ کو ڈاکٹر لمعہ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو غلط ہے۔ کیونکہ لمعہ اس وقت ڈاکٹر نہیں تھے۔ لمعہ صاحب فرماتے ہیں: ’’ اقبال سے میری ملاقات جنوری یا فروری 1929ء میں حیدر آباد میں ہوئی۔ اس وقت میں انٹرنس کا طالب علم تھا۔‘‘ 29؎ ظاہر ہے کہ اگر 1929ء میں ہی انہوں نے انٹرنس پاس کر لیا ہو گا، تب بھی وہ ڈاکٹر کہاں سے ہو گئے؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ لمعہ نے اپنے وضعی خطوط میں اصلیت کا رنگ لانے کے لئے القاب میں الٹ پھیر کی ہے، یہ اس کی بہترین مثال ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس خط میں مکتوب نگار نے اختتامہ جملہ ’’امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے‘‘ میں لفظ’’ ہے‘‘ کے ساتھ تحریر کیا ہے، جبکہ علامہ اقبال نے اس مخصوص جملہ میں جب وہ تحریر کے بالکل آخر میں لایا گیا ہو ’’ ہے‘‘ کا استعمال نہیں کیا ہے۔ وہ ہمیشہ ’’ امید کہ‘‘ لکھتے تھے۔ ان کے اردو کے تقریباً گیارہ سو خطوط میں اگر اس کی دو چار مثالیں ملتی ہیں تو وہ ناقل حضرات کی ان الفاظ کو پہچاننے میں غلطی کے سبب ہو سکتی ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مکاتیبی ادب کی تاریخ میں ’’امید کہ‘‘ علامہ اقبال کی پہچان ہو گا۔ لمعہ کے معاملے میں اس غلطی کو یوں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے نام کے 29مکاتیب میں سے دس میں یہ جملہ اسی ترکیب سے تحریر کیا گیا ہے۔ ان کے خطوط میں نقل کی غلطی کا امکان بھی خود بخود یوں مسترد ہو جاتا ہے کہ کئی خطوط میں یہ جملہ صحیح حالت میں تحریر ہے۔ اس لئے اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جن دس خطوط میں علامہ اقبال کا یہ مخصوص جملہ ’’ ہے‘‘ کے ساتھ تحریر ہے، وہ علامہ اقبال کے مکاتیب نہیں ہیں، علامہ کے نام سے وضع کئے گئے ہیں۔30؎ مندرجہ بالا وجوہ کے علاوہ بھی ماسٹر اختر نے دیگر خطوط کے بارے میں ایسے ٹھوس دلائل دئیے ہیں کہ ہم انہیں آسانی سے مسترد نہیں کر سکتے اور لمعہ کے نام خطوط کے بارے میں ہمارا شک مستحکم ہو جاتا ہے۔ مگر اس اختلافی مسئلے کی ڈور ایک بار پھر الجھ گئی ہے، کیونکہ ہفت روزہ ’’ ہماری زبان‘‘ میں لمعہ حیدر آبادی کے نام علامہ اقبال کے خطوط کی دریافت کے بارے میں یہ بیان شائع ہوا ہے: ’’ اکبر رحمانی نے یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لئے اقبال اور لمعہ حیدر آبادی کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ وہ گذشتہ ایک سال سے اصل خطوط کی تلاش کر رہے تھے بالاخر انہیں اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور لمعہ حیدر آبادی کے قریبی رشتہ داروں کے یہاں سے خطوط کا ایک ایسا ذخیرہ ملا، جس میں علامہ کے اقبال کے تحریر کردہ چند خطوط بھی ہیں۔ ان میں دو غیر مطبوعہ خطوط بھی ہیں۔ لمعہ کے نام اقبال کے اصل خطوط دریافت ہونے سے ڈاکٹر تاثیر اور عبدالواحد معینی کے الزام کی تردید ہو جاتی ہے۔ پروفیسر اکبر رحمانی لائق صد مبارک باد ہیں کہ ان کی محنت اور سعی رائیگاں نہیں گئی اور اس طرح انہوں نے اقبالین میں برسوں سے چلی آ رہی بحث کا خاتمہ کر دیا۔ اقبال اکادمی پاکستان نے اقبال نامہ کے زیر طبع دوسرے ایڈیشن سے لمعہ کے نام خطوط اقبال کو مشتبہ تصور کر کے خارج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اسے اکبر رحمانی نے بد بختانہ، عاجلانہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا ہے۔۔۔ پروفیسر اکبر رحمانی عنقریب پاکستان جانے والے ہیں، جہاں وہ اس معاملے میں اکادمی کے عہدے داروں، ماہرین اقبالیات اور علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید سے گفت و شنید کریں گے۔‘‘ 31؎ اس بیان کے بعد لمعہ کے نام اقبال کے خطوط کے جعلی یا وضعی ہونے کے سلسلے میں کوئی حتمی اور قطعی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اکبر رحمانی کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے منظر عام پر آنے سے ہی ان خطوط کی اصلیت کا فیصلہ کرنا ممکن ہے۔ تاہم اسی ضمن میں کمال احمد صدیقی کا مضمون’’ علامہ اقبال سے منسوب کچھ خط ایک مطالعہ‘‘ 32؎ بھی قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے ماسٹر اختر کی کتاب ’’ اقبال کے کرم فرما‘‘ میں شامل علامہ کے بعض خطوط سے متعلق مزید نئے نکات بیان کئے ہیں، جن سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ لمعہ نے اپنے نام علامہ کے خطوط میں یا تو تصرف کیا ہے، یا مکتوب الیہ کا نام بدل دیا ہے۔۔۔ یہ مضمون بھی خاصے کی چیز ہے، اس کے مطالعے سے لمعہ کے نام علامہ کے خطوط سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ کمال احمد صدیقی سے زیر نظر مجموعہ مکاتیب کے مرتب کی ذیل میں تسامح ہوا ہے۔ انہوں نے علامہ کے برادر بزرگ شیخ عطا محمد اور اس مجموعے کے مرتب شیخ عطاء اللہ کو ایک ہی شخص سمجھ لیا ہے اور صاحب مرتب کو علامہ کا بڑا بھائی بتایا ہے، جو قطعی غلط ہے۔۔۔ راقمہ کے خیال میں تحقیقی موضوعات پہ قلم اٹھاتے ہوئے نہایت بیدار مغزی اور ژرف نگاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنقید کی صورت میں ان اوصاف کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کہ کہیں ہمارے اٹھائے گئے نکات اعتبار کے درجے سے گر نہ جائیں۔ 4اقبالنامہ (حصہ دوم): اقبال کے 187 خطوط کا یہ مجموعہ بھی شیخ عطاء اللہ شعبہ معاشیات ہیلی کالج آف کامرس لاہور نے قیام پاکستان کے چار سال بعد1951ء میں لاہور سے باہتمام شیخ محمد اشرف کیا۔ اس مجموعے کی اشاعت کی نوید شیخ عطاء اللہ نے ’’ اقبالنامہ(حصہ اول)‘‘ ہی میں سنا دی تھی، لکھتے ہیں: ’’ ابھی کافی اور اہم مواد خطوط کی صورت میں میرے پاس موجود ہے۔ تلاش و جستجو جاری ہے مجھے توقع ہے کہ میں جلد از جلد حصہ دوم کی اشاعت کے فرض سے سبکدوش ہو سکوں۔‘‘ 33؎ اس مجموعے کے مکتوب الیہم کی تعداد 43ہے، جن میں قائداعظم محمد علی جناح، اکبر الہ آبادی، مولوی عبدالحق، عطیہ بیگم، مہاراجا کشن پرشاد، صاحبزادہ آفتاب احمد، خواجہ حسن نظامی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس مجموعہ مکاتیب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ اقبال نامہ کے مرتب شیخ عطاء اللہ کا جذبہ و شوق قابل داد ہے کہ انہوں نے مناسب وقت پر مکاتیب اقبال کی جمع آوری کا کام شروع کیا اور چند سال میں حضرت علامہ کے بہت سے متفرق خطوط اکٹھے کر کے انہیں اقبالنامہ حصہ اول و دوم میں شائع کر دیا۔ مکاتیب اقبال کے یہ مجموعے از بس قیمتی ہیں لیکن تدوین کے اعتبار سے یہی مجموعے سب سے زیادہ ناقص بھی ہیں۔۔۔۔ مرتب نے مکاتیب کی ترتیب و تدوین کا کوئی اصول و معیار پیش نظر نہیں رکھا۔‘‘ 34؎ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ اقبال نامہ، حصہ دوم‘‘ میں بھی انہی اغلاط کو دہرایا گیا ہے، جن کا ذکر اس سے قبل ’’ اقبال نامہ، حصہ اول‘‘ میں تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔ یعنی بعض خطوط پر سنین اور تاریخیں درست نہیں ہیں۔ اس مجموعے کی بڑی خامی یہ ہے کہ مرتب نے ضخامت بڑھانے کے لئے ایسے خطوط بھی شامل کر لیے ہیں، جو پہلے ہی کسی نہ کسی مجموعے میں شائع ہو چکے تھے۔ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت 187خطوط کے اس مجموعے میں58خطوط ایسے ہیں جو دوسرے مجموعوں میں موجودہ ہیں، یا زیادہ بہتر متن کے ساتھ شائع ہو چکے ہیں، اس طرح حصہ دوم کے خطوط کی تعداد187سے کم ہو کر 129رہ جاتی ہے۔ حصہ دوم میں بھی حصہ اول کی طرح بعض خطوط نا مکمل چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ بعض مقامات پر مصلیٰ متن حذف کر دیا گیا ہے، لیکن بعض مقامات پر ایسا لگتا ہے، مرتب خطوط سے اصل متن اخذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس طرح کی چند مثالیں درج ذیل ہیں: 1 خط نمبر20تا22 خالی جگہوں میں خواجہ حسن نظامی کا نام مصلحتاً حذف کر دیا گیا ہے۔ 2خط نمبر24, 25اور 56میں بعض انگریزی کتابوں کے نام جان بوجھ کر چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ 3 خط نمبر77, 79, 118 میں بھی اسی قبیل کی خامیاں ہیں۔ ان کے علاوہ ’’ اقبالنامہ، حصہ دوم‘‘ میں حواشی درج نہیں کئے گئے، صرف چند ایک خطوط میں یہ اہتمام کیا گیا ہے، حالانکہ اس کی اشد ضرورت تھی۔ مرتب نے اس امر کی وضاحت بھی نہیں کی کہ آیا انہوں نے تمام خطوط کے اصل متون کو خود ملاحظہ کیا تھا یا نہیں۔ بیشتر خطوط کے ماخذ کی بھی نشان دہی نہیں کی۔ بعض مکاتیب کے مکتوب الیہم یا تو سرے سے موجود نہیں یا مشکوک ہیں، مثلاً: 1خط نمبر44(ص:100) کا مکتوب الیہ تصدق حسین تاج نہیں ہے، بلکہ یہ خط میر حسن الدین کے نام لکھا گیا تھا۔ 2 خط نمبر86 (ص:228) یہ خط ماسٹر طالع محمد کے نام نہیں، بلکہ سردار ایم بی احمد، مشیر انکم ٹیکس بمبئی کو لکھا گیا ۔ 35؎ 3 خط نمبر106(ص:265) محمد دین فوق کے نام نہیں بلکہ مولوی انشاء اللہ خاں ایڈیٹر وطن کے نام تھا۔ 4 خط نمبر108 (ص:271) کا مکتوب الیہ گم نام ہے۔ 5 خط نمبر156 (ص:351) مولانا اختر شیرانی کے نام نہیں بلکہ ان کے والد حافظ محمود شیرانی کے نام تھا۔ مندرجہ بالا خامیوں کے باوجود’’ اقبال نامہ، حصہ اول و دوم‘‘ کی اہمیت مسلم ہے اور شیخ عطاء اللہ کے الفاظ میں: ’’ ان خطوط کے مطالعے کے بعد اقبال کی ذات سے متعلق جو امتیازات مجھے نظر آئے ہیں، ان میں ان کا خلوص، ان کی علم دوستی، اسلام سے ان کی شیفتگی، ہندوستان کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر ان کی دلسوزی اور اصلاح حال پر ان کی کوشش، ممالک اسلامیہ کے اتحاد و استقلال و استحکام کی تجاویز اور کوشش، اہل و عیال سے محبت، دوستوں کے لئے جذبہ مروت اور عالم انسانیت کے لئے فلاح و خیر سگالی کے جذبات نمایاں ہیں۔ اقبال کو سمجھنے کے لئے ان کے کلام کی طرح، ان کے خطوط کا مطالعہ بھی دوستداران اقبال کے لئے لازمی ہے۔ ‘‘ 36؎ دیباچے میں شیخ عطاء اللہ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اقبال کے افکار سے وسیع حلقہ کو روشناس کرانے کی غرض سے اس مجموعے کے اہم مکاتیب کو انگریزی اور فارسی میں شائع کرایا جائے گا، اور اگر ممکن ہوا تو عربی میں بھی اس کی اشاعت کا اہتمام پیش نظر رہے گا۔ 37؎ مگر افسوس کہ تراجم کا یہ منصوبہ بروئے کار نہ آ سکا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی اپنے مضمون ’’ اقبال نامہ۔۔۔۔ چند گزارشات، چند تصحیحات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک شیخ عطاء اللہ کے مرتبہ اقبالنامہ (دو جلد1944, 1951ئ) کا تعلق ہے، صحت متن کے اعتبار سے حد درجہ ناقص ہے۔ مکاتیب اقبال کے متفرق مجموعوں میں تعداد مکاتیب کے اعتبار سے یہ جتنا بڑا مجموعہ ہے، صحت متن کے اعتبار سے اتنا ہی ناقص ہے کیونکہ ان میں بعض مکاتیب کی تاریخیں غلط ہیں۔ بعض مکاتیب کے مکتوب الیہم وہ نہیں جو دراصل تھے۔ بعض مصالح کی بنیاد پر متن میں قطع و برید کی گئی ہے مثلاً راس مسعود، مولوی عبدالحق اور اکبر منیر کے نام خطوط میں۔۔۔۔۔ کچھ مکاتیب متن کے اعتبار سے ادھورے ہیں۔۔۔ بعض انگریزی خطوں کا ترجمہ بہت ناقص ہے، اقبالنامہ جلد اول میں نکلسن کے نام خط اور جلد دوم میں عطیہ کے نام اقبال کے بعض مکاتیب مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ کہیں کہیں متن کے اندر ہی حواشی لکھ دئیے گئے ہیں حالانکہ ان کا محل یا تو آخر میں ہوتا ہے یا پا ورق میں، مثلاً اقبالنامہ، جلد دوم صفحات126, 131 نقل حرفی متعدد مقامات پر افراد و کتب کے نام غلط درج ہو گئے ہیں۔۔۔ بعض مقامات پر آیات قرآنی، شعر اور مصرعے صحت متن سے عاری ہیں۔ 38؎ غرض ڈاکٹر تحسین فراقی نے نہایت کدو کاوش سے ’’ اقبالنامہ جلد اول اور دوم‘‘ کی اغلاط کی نہ صرف نشان دہی کی ہے بلکہ ان کی تصحیح بھی کی ہے۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کی معین کردہ تلمیحات کی روشنی میں ’’ اقبالنامہ‘‘ صحت متن کے ساتھ دوبارہ چھاپا جائے تو یقینا ایک گراں قدر اور مستحسن اقدام ہو گا۔ 5 مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، طبع اول: نیاز الدین خان کے نام علامہ کے اناسی (79) خطوط پر مشتمل، یہ مجموعہ اقبال کے شعری مجموعوں کے مروج سائز پر باریک ٹائپ میں طبع کیا گیا۔ سر ورق پہ سال اشاعت درج نہیں ہے، مگر ایس اے رحمان کی تمہیدی سطور بہ عنوان ’’ تصدیق‘‘ پر8جولائی 1954ء کی تاریخ اور سال درج ہے، جس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ سال اشاعت بھی 1954ء ہو گا۔ یہ مجموعہ بزم اقبال لاہور نے شائع کیا ہے اور مکتوب الیہ کے دو صاحبزادوں، خان افتخار الدین احمد اور خان نفیس الدین احمد کے ادبی ذوق کا مرہون منت ہے۔ اس مجموعے کا پیش لفظ ایس اے رحمان کے قلم سے ہے۔ پیش لفظ میں انہوں نے بتایا ہے کہ مکتوب الیہ بستی دانشمندوں (جالندھر) کے رئیس اور علم و ادب سے شغف رکھنے والے بزرگوں میں سے تھے۔ ادبی ذوق کے علاوہ علامہ اقبال اور خان نیاز الدین خاں دونوں کو اعلیٰ نسل کے کبوتر پالنے کا شوق تھا، چنانچہ یہ ان خطوط کا ایک نمایاں موضوع ہے۔ تمہیدی سطور میں ایس اے رحمان نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اس مجموعے میں شامل خطوط میں سے سوائے ایک خط کے انہوں نے تمام خطوط خود ملاحظہ کئے ہیں، اور اس طرح ان خطوط کی صحت اور استناد کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ یہ مکاتیب ص:1سے ص:55تک محیط ہیں دو خطوط کی عکسی نقلو بھی شامل کتاب ہیں۔ عکسی نقول کے جائزے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ متون اصل کے مطابق ہیں۔ یہ خطوط جنوری 1916ء اور جون1928ء کے درمیانی عرصے پر محیط ہیں۔ یہ خطوط ان دو خطوط کے علاوہ ہیں جو ہمیں ’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم(ص:317) پر ملتے ہیں۔ زیر نظر مجموعے میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ اگر خط کی تاریخ شروع میں درج ہے تو اسے شرو ع ہی میں رہنے دیا ہے اور اگر آخر میں درج ہے تو اسے آخر میں درج کیا گیا ہے تاہم سنین کے سلسلے میں یہ ترمیم کر دی گئی ہے کہ 16ء (عکس خط، ص:3) 17ء (عکس خط، ص:11) کو 1916ء اور 1917ء میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ علامہ کے نام کے جزو ’’ محمد ‘‘ پر علامت ’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی گئی، حالانکہ علامہ اقبال نے اس علامت کا خاص طور پر اہتمام کرتے تھے۔ خط نمبر44(ص:32) میں دس مقامات پر دس اصحاب کے نام اور ان کے کوائف حذف کر دئیے گئے ہیں، تاہم حاشئیے میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ ایسا مصلحتاً کیا گیا ہے ۔ کسی خط کا سنہ تحریر مشکوک نہیں ہے، البتہ خط نمبر41(ص:29, 30) پر دو تاریخیں درج ہیں، ایک تاریخ آگاز میں (لاہور16اپریل 1920ء ) اور ایک تاریخ آخر (لاہور11مئی 1920ئ) میں گمان غالب ہے کہ خط کے آخر میں درج تاریخ، خط نمبر42کی ہے جو ٹائپ کی غلطی سے خط نمبر41 کے آخر میں درج ہو گئی ہے۔ زیر نظر مجموعے کی پروف ریڈنگ اگرچہ احتیاط سے کی گئی ہے، تاہم ہمیں کتابت کی متعدد اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً: نمبرشمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 8 9 بہت محبت 2 9 24 ٓؑاعصاد اعصار 3 10 2 والد نامہ والا نامہ 4 14 5 تمام تمام 5 14 9 مخلوق بر مخلوق پر 6 14 9 بہ کہنا یہ کہنا 7 15 4 نہبں نہیں 8 16 6 نلص مخلص 9 18 18 انذاختہ انداختہ 10 19 13 بھے مجھے 11 20 3 مخص مخلص 12 20 21 صوقیانہ رنگ صوفیانہ رنگ 13 27 20 ندومی مخدومی 14 29 9 ارسال فرما تھے ارسال فرمائے تھے 15 32 15 امگان مکان 16 32 16 گا کا 16 33 21, 22 کھا پینے کھانے پینے 17 34 9 خاں صاجب خاں صاحب 18 38 6 آپ کا کا آپ کا 19 39 2 دسمیر دسمبر 20 40 20 یچے بچے 21 41 13 ندومی مخدومی 22 43 4 ندومی مخدومی 23 44 2 یمعوں مجمعوں 24 46 2 آگے آکے 25 55 7 آچ آج 26 55 12 نلص مخلص مندرجہ بالا اغلاط سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتابت کے لئے جس غایت درجے کی احتیاط کی ضرورت تھی، اس کا اہتمام نہیں کیا گیا، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب کی نسبت اس میں متون نقل بمطابق اصل ہیں اور تحریفات و محذوفات کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ اس مجموعے کے منظر عام پر آنے سے بقول ایس اے رحمان ’’ اقبالیات کے ذخیرے میں بیش بہا اضافہ‘‘ ہوا ہے۔ مکاتیب اقبال بنام: خان محمد نیاز الدین خان، طبع دوم: زیر بحث مجموعے کا دوسرا ایڈیشن1986ء میں اقبال اکادمی پاکستان، لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس کا مقدمہ (ملاحظات، ص:7تا16) پروفیسر مرزا محمد منور نے تحریر کیا ہے۔ طبع اول، میں حواشی و تعلیقات کی کمی محسوس ہوتی تھی، اس لئے اس ایڈیشن میں اس کا اہتمام کیا گیا ہے، نیز خان محمد نیاز الدین خان کا مختصر تعارف اور مکاتیب گرامی بنام نیاز الدین خان کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مکتوب الیہ کے صاحبزادے نفیس الدین احمد ایم اے (علیگ) نے ’’ تعارف‘‘ میں خطوط کی ترتیب و اشاعت کے پاس منظر پر روشنی ڈالی ہے۔ خان نیاز الدین خان کے سوانحی خاکے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صاحب قلم تھے اور شعر بھی کہتے تھے، ان کی متعدد قلمی یادگاریں 1947 ء کے ہنگاموں کی نذر ہو گئیں۔ ان میں ایک فارسی کتاب کا ترجمہ، خود نوشت بہ عنوان:’’ حیات بے ثبات‘‘ اور اردو فارسی کلام پر مشتمل بیاض شامل تھی۔ مزید برآں انہوں نے ’’ پیام مشرق‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا تھا، علامہ نے اسے پسند تو کیا مگر فرمایا کہ شائع نہ کیا جائے، ورنہ اصل کتاب نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گی۔ 39؎ پروفیسر محمد مرزا منور نے مقدمے میں علامہ کی شخصیت اور ان کی مکتوب نگاری پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ غالب کے سوا، اردو کے شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے اتنے خطوط لکھے ہوں گے۔ تاہم غالب اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ 1857ء کے بعد غالب مکتوب نویسی کو، اپنی تنہائی کی تسکین کے لئے، بہ طور مشغلہ حیات اختیار کیا تھا، مگر اقبال نے محض تنہائی سے گھبرا کر یا فارغ ایام کی شکم پروری کے لئے شاید ہی کبھی خط لکھا ہو۔ ان کے خطوط کی کثرت کثیرہ لوگوں کے مکاتیب کا جواب ہے۔ 40؎ مکتوب الیہ کے نام خطوط ص:19سے ص75تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس ایڈیشن کے کل صفحات 100 ہیں۔ اس مجموعہ میں طبع اول میں شامل دو خطوط کی عکسی نقول حذف کر دی گئی ہیں، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان عکسی نقول کے علاوہ دیگر خطوط کے عکس بھی پیش کیے جاتے۔ اس مجموعے کے سر ورق پہ جس خط کی عکسی نقل دی گئی ہے، وہ خان محمد نیاز الدین خان کے نام نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر ظفر الحسن کے نام ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ خط مکتوب الیہ کے نام خط کا عکس دیتے۔ طبع اول میں ہمیں کتابت کی جو اغلاط نظر آتی ہیں اس ایڈیشن میں اگرچہ ان کی تصحیح کر دی گئی ہے مگر اس ایڈیشن میں بھی کتابت کی بعض اغلاط راہ پا گئی ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 28 14 الحمد لللہ الحمد للہ 2 29 16 خط لکھتا خط لکھتا نقل نویسی میں بے احتیاطی اور سہل پسندی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ متون میں الحمد للہ کا املا دو طرح سے ملتا ہے، یعنی صحیح لفظ الحمد للہ (ص:18) پہ درج ہے جبکہ باقی تمام خطوط میں ان الفاظ کا غلط املا نقل کیا گیا ہے۔ کتابت کی اغلاط کے علاوہ اس ایڈیشن میں ایک افسوس ناک اور ناقابل فہم غلطی یہ نظر آتی ہے کہ اس میں جابجا تصرفات و اضافے کئے گئے ہیں، بعض جگہ پورا جملہ حذف کر دیا گیا ہے۔ طبع اول اور طبع دوم کے خطوط کا تفصیلی جائزہ لیں تو ہمیں مختلف خطوط میں مختلف طرح کا متن نظر آتا ہے، مثلاً نمبرشمار صفحہ سطر طبع اول، 1954ء صفحہ سطر طبع دوم، 1986ء 1 4 26 آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔۔۔ 23 5 آپ کا مزاج گرامی بخیر ہو گا۔۔۔۔ 2 5 5 قیام کرو۔۔۔ 23 11 قیام کروں۔۔۔ 3 5 20 جلد ہو جائے۔۔۔ 24 3 جلد ختم ہو جائے۔۔۔ 4 5 21 خرید کیا ہے 24 4 خرید لیا ہے۔۔۔ 5 6 23 جس کے رو سے۔۔۔ 25 3 جس کی رو سے 6 7 23 مولینا گرامی جالندھری تشریف فرما 23 4 مولینا گرامی جالندھری یہاں تشریف فرما۔۔۔ 7 8 15 گرامی صاحب بھی اب آلام و افکار۔۔۔ 27 3 گرامی صاحب بھی آلام و افکار۔۔۔۔ 8 8 21 محبت کا مبالغہ شامل ہے 27 7 محبت کا مبالغہ بھی شامل ہے۔۔۔۔ 9 9 23 اسلام نے ہی بتائے ہیں۔۔۔ 28 8 اسلام نے ہی بنائے ہیں۔۔۔۔ 10 10 7 ہر کتاب کو اپنے۔۔۔ 28 17 ہر کتاب اپنے۔۔۔۔ 11 10 19 یہ کہنے میں کوئی مبالغہ 29 7 یہ کہنے میں مبالغہ۔۔۔ 12 11 12 دل کو آپ سے۔۔۔ 30 2 دل کو تو آپ سے۔۔۔ 13 11 14 لاہور تشریف لاتے ہیں۔۔۔ 30 4 لاہور تشریف لائے ہیں۔۔۔۔ 14 15 3 ہمراہ لائیں۔۔۔ 34 8 ہمراہ لاویں۔۔۔ 15 18 19, 18 برانذاختہ کر دیا ہے 38 3 برانداختہ کر رکھا ہے۔۔۔ 16 19 21 لاہور آنے کا بھی قصد۔۔۔ 39 7 لاہور آنے کا قصد۔۔۔ 17 23 22 نہایت موزوں ہے۔۔۔ 43 2 نہایت ہی موزوں ہے 18 23 24 گرامی صاحب کے۔۔۔ 43 4 گرامی کے۔۔۔ 19 27 18 بعض ممبروں کا۔۔۔ 46 18 بعض ممبران کا۔۔۔ 20 27 23 ایوان خواص 47 4 ایوان خاص 21 28 2 ایوان عوام۔۔۔۔ 47 4 ایوان عام 22 31 4 ترسم کہ سراز 50 7 ترسم نہ سراز 23 31 13, 14 Messrs Luzac & Co. Oriental 50 13, 14 Oriental 24 31 22 خدا کرے کہ یہ ختم ہو جائے۔ عرشی امرتسری نے ۔۔۔۔ 51 2 عرشی۔۔۔۔۔ امرتسری نے۔۔۔۔ 25 31 23 زخم کو چھیڑ دیا۔۔۔ 51 2 زخم کو چھیڑ دیا ہے۔۔۔ 26 36 6 منظور نہ ہو۔۔۔ 55 16 منظور نہ ہوا۔۔۔ 27 37 5 وہ بھی قبول نہ ہو۔۔۔ 56 13 وہ بھی مقبول نہ ہو۔۔۔ 28 42 9 اس کا علاج نقرس کے علاج۔۔۔ 61 17, 18 اس کا علاج اس سے۔۔۔ 29 42 18 رفع ہو گئی ہے۔۔۔ 62 5 رفع ہو گئی۔۔۔ 30 42 23 امید کہ آپ کا مزاج۔۔۔ 62 9 امید کہ مزاج۔۔۔ 31 43 17 نواب صاحب کے پرائیویٹ۔۔۔ 63 5 نواب صاحب پرائیویٹ۔۔۔۔ 32 44 4 امید ہے کہ۔۔۔۔ 63 12 امید کہ۔۔۔ 33 45 11 امید کہ آپ کا مزاج۔۔۔ 64 17 امید کہ مزاج۔۔۔ 34 45 20 اقبال فنڈ قائم کرنا میری رائے میں۔۔۔۔ 65 6 اقبال فنڈ قائم کرنا۔۔۔ 35 46 16 یہ بات میرے نزدیک مروت کے۔۔۔ 66 3 یہ بات مروت کے۔۔۔ 36 48 2, 3 ہمارے ملک کے لوگ 67 12 ہمارے لوگ۔۔۔ 37 49 16 ان میں سے اکثر۔۔۔ 69 4 ان میں اکثر۔۔۔۔ 38 49 20 فلسفے میں یکتا ہے۔۔۔ 69 6 فلسفے میں لکھتا ہے۔۔ 39 52 10, 9 کی خدمت میں میری طرف سے آداب۔۔۔ 72 5 کی خدمت میں آداب۔۔۔ 40 53 7 ایسی ایسی مشکلات۔۔ 73 3 ایسی مشکلات۔۔۔ 41 54 12 1967ء 74 10 1968ء 42 55 4 گردہ میں پتھر ہے۔۔۔ 75 1 گردہ میں پتھری ہے۔۔۔ مکوس کی عدم موجودگی میں یہ فیصلہ کرنا قدرے مشکل ہے کہ طبع اول کا متن درست ہے یا طبع دوم کا۔۔۔۔’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول اور دوم میں خان محمد نیاز الدین خان کے نام جو خطوط شامل ہیں وہ غالباً’’ مکاتیب اقبال‘‘ طبع اول سے نقل کئے گئے ہیں، لہٰذا ان کا متن ایک سا ہے تاہم موازنے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طبع دوم کے متن میں جو ترامیم کی گئی ہیں وہ مرتب کی طرف سے ہیں مگر مرتب نے کس بنیاد پہ یہ ترامیم کی ہیں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ اس ایڈیشن میں بھی پہلے ایڈیشن کی خامیوں کو دہرایا گیا ہے، مثلاً: 1 16کو1916ء کو بنا دیا گیا ہے۔ 2علامہ اقبال کے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پہ علامت ’’ ؐ ‘‘ کا اہتمام نہیں کیا گیا، سوائے ایک خط (ص:39) میں یہ التزام موجود ہے، اس سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذرا سی کوشش اور احتیاط سے اس کمی کو دور کیا جا سکتا تھا۔ 3طبع اول کے جس خط (ص:29) پہ دو مختلف تواریخ درج ہیں، ان کی تصحیح کے بجائے اس غلطی کو طبع دوم (ص:49, 48) میں بھی دہرایا گیا ہے۔ ان خامیوں کے علاوہ زیر نظر ایڈیشن میں ہمیں ایک اور خامی یہ نظر آتی ہے کہ اگرچہ اس میں حواشی و تعلیقات کا اضافہ کیا گیا ہے، مگر اس میں خطوط کے نمبر شمار تو ایک جیسے ہیں، مگر صفحات نمبر پہلے ایڈیشن کے شمار کئے گئے ہیں، اس سے تھوڑی سی الجھن پیدا ہو جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے اور دوسرے یعنی دونوں ایڈیشنوں کے صفحات نمبر درج کیے جاتے تاکہ کسی ابہام کا احتمال نہ ہونے پاتا۔ حواشی میں اس با ت کی وضاحت بھی نہیں کی گئی ۔ کہ مختلف خطوط میں موجود قوسین کاتب یا مرتب نے بڑھائے ہیں یا بعینہ علامہ اقبال کے خطوط کے اصل متون میں شامل تھے۔البتہ ان تعلیقات سے جہاں او ربہت سے امور واضح ہو جاتے ہیں، وہاں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ کبوتر پالنے کا شوق مکتوب الیہ کو نہیں بلکہ ان کے بڑے صاحبزادے نوبہار الدین خاں کو تھا، اور اس نے کبوتروں کی ایک نئی نسل بھی تیار کی تھی۔ بحیثیت مجموعی اس ایڈیشن کی اہمیت پہلے ایڈیشن کی نسبت زیادہ ہے، اگر اس اشاعت میں جو تصرفات راہ پا گئے ہیں، ان کی تصحیح کر دی جائے تو ا سکی قدر و قیمت میںمزید اضافہ ہو جائے گا۔ بہرحال بہ الفاظ پروفیسر مرزا محمد منور: ’’ اس ننھے منے سے مجموعہ مکاتیب نے خان صاحب کو حیات جاوید بخش دی۔ مردان حر دوامی قدروں کی طرح لافانی ہیں۔ ان مردان حر سے ذر اسی نسبت بھی لافانی بنا دیتی ہے۔‘‘ 41؎ مکتوبات اقبال، طبع اول: مکاتیب اقبال کا یہ مجموعہ ممتاز حسن کی تحریک پر مرتب کیا گیا اور اسے اقبال اکادمی، کراچی نے ستمبر1957ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اسے مکتوب الیہ (سید نذیر نیازی) نے خود مرتب کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:’’ حضرت علامہ سے باقاعدہ خط و کتابت کا آغاز1929ء میں ہوا۔ ابتدا میں پیام مشرق کی طباعت اس کا سبب بنی۔ پھر انگریزی خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے اردو ترجمے نے اس سلسلے کو اور آگے بڑھایا۔‘‘ 42؎ اس طرح 182 مکاتیب کا یہ مجموعہ 1929ء اور1936ء کے درمیانی عرصے میں لکھے گئے، خطوط پر مشتمل ہے، جب مکتوب الیہ جامعہ ملیہ دہلی میں استاد تھے۔ دو مختصر خطوط 1937ء کے ہیں، تب وہ لاہور آ چکے تھے۔ دیباچے میں خطوط کی تعداد182بتائی گئی ہے۔ صحیح تعداد179(43)؎ ہے۔ ان میں 177 خطوط سید نیر نیازی کے نام ہیں۔ ایک دن ان کے والد ماجد (خط:1912ئ) کے نام اور ایک خط کے مکتوب الیہ مولانا سلامت اللہ شاہ ہیں۔ دو خط انگریزی میں ہیں۔ (صفحات: 28, 29 اور 339) ابتدا میں دو خطوں کا عکس دیا گیا ہے۔ ’’ تین خطوں کا عکس اس سے پہلے امروز کے اقبال نمبر22اپریل1949ء میں چھپ چکا ہے۔ آٹھ خطوط کی عکسی نقول، جنگ کراچی کے اقبال ایڈیشن اپریل 1974ء میں شائع کی گئی ہیں۔ دو خطوط اقبال نامہ، دوم (ص:312, 309) میں بھی شامل ہیں۔‘‘ 44؎ ابتدائی بارہ صفحات (سر ورق، انتساب، فہرست اور عکس مکاتیب) پر صفحات کے نمبر درج نہیں ہیں۔ پھر آٹھ صفحات کی تمہید پر صفحات کا شمار الف تا ح کیا گیا ہے۔ کتاب کا متن (متون خطوط اور حوشی و تعلیقات) 372صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں12 صفحات کا اشاریہ شامل کتاب ہے۔ اس مجموعے کے خطوط کو سنہ وار اور تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے، تاہم بہ قول صابر کلوروی اس مجموعے کے گیارہ خطوط کی سنین قیاسی ہیں، کیونکہ خط لکھتے وقت علامہ تاریخ لکھنا بھول گئے تاہم مرتب کتاب ہذا نے ان سنین کا سراغ لگا لیا ہے۔ خط، ص:37کی تاریخ محررہ (8نومبر) بھی قیاسی ہے۔ خط، ص:162کا مہینہ جولائی ہے نہ کہ جون خط، ص:212پر مہینہ اکتوبر ہے۔ خط، ص:330پر مہینہ ستمبر ہے۔ خط، ص:250کی تاریخ محررہ 30جنوری درج ہے۔ اگلے پچھلے خطوط کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ درست نہیں۔ 22جنوری اور 25جنوری کے درمیان کی کوئی تاریخ ہو سکتی ہے، زیادہ قرین قیاس تاریخ25جنوری ہے۔ 45؎ مولف نے دیباچے میں اعتراف کیا ہے کہ ان خطوط میں بعض اسماء اور عبارتیں مصلحتاً حذف کر دی گئیں، درج ذیل خطوط کی عبارتیں مصلحتاً حذوف کر دی گئیں: خط،ص:228محررہ20نومبر34ء خط، ص:230، محررہ29نومبر34ء خط، ص:271، محررہ 17مئی 1935ء خط، ص:302، محررہ18نومبر35ء اس مجموعے میں علامہ کے خطوط کا متن قدرے خفی قلم میں دیا گیا ہے اور پس منظر نسبتاً جلی خط میں چنانچہ غور سے دیکھنا پڑتا ہے کہ اصل خط کہاں سے شروع ہوا اور کہاں ختم ہوا۔ خطوط پر خط نمبر بھی درج نہیں ہیں۔ حواشی و تعلیقات کہیں کہیں زیادہ طویل ہو گئے ہیں اور خود مرتب کو بھی اس کا احساس ہے، لکھتے ہیںـ:’’ مجھے اعتراف ہے کہ یہ تصریحات کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ طویل ہو گئی ہیں۔‘‘ 46؎ ص:24 (خط محررہ از، لاہور، یکم جون) پہ ایک جملہ اس طرح درج ہے: ’’ گو مجھے اس پر شبہ ہے کہ عام لوگ اس سے مستفیض ہو سکیں گے۔‘‘ جبکہ اس خط کے متن سے پتہ چلتا ہے کہ عام لوگ اس (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے ترجمے) سے مستفیض نہیں ہو سکیں گے اور نذیر نیازی نے بھی حاشئیے میں وضاحت کی ہے کہ حضرت علامہ کا خیال تھا کہ عام لوگ خطبات کے ترجمے سے مستفیض نہیں ہو سکیں گے۔ زیر نظر مجموعے میں بھی مرتب نے 33 ء کو 1933ء بنا دیا ہے، بلکہ بیشتر خطوط کے سنین کے ساتھ علامت ’’ ئ‘‘ (عیسوی) کے اہتمام نہیں کیا گیا او رعلامہ کے نام کے جزو’’ محمد‘‘ پر علامت ’’ ؐ‘‘ کا التزام نہیں کیا گیا۔ اس مجموعے میں کتابت کی مختلف اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً: نمبرشمار صفحہ غلط صحیح 1 10 مبرے میرے 2 141 عرض کر کر دوں۔۔ عرض کر دوں۔۔۔ 3 162 طیار تیار 4 169 شاہرک شاہ رگ 5 174 نمام تمام سید نذیر نیازی کے نام خطوط میں علامہ اقبال نے اپنی بعض کتابوں کی طباعت کے کاروباری معاملات سے لے کر اپنی مہلک بیماری گلے کی خرابی اور آواز کا بیٹھ جانا، کے بارے میں چھوٹی چھوٹی جزئیات تحریر کر دی ہیں۔ سید نذیر نیازی نے اس مجموعہ مکاتیب کو خود مرتب کر کے اس کے پس منظر اور پیش نظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ 2مکتوبات اقبال، طبع دوم: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے اکتوبر1977ء میں طبع اول کا فوٹو لے کر یہ مجموعہ دوبارہ شائع کیا۔ طبع دوم کی ضخامت میں چار صفحات کم کر دئیے گئے ہیں بلاشمار کے ابتدائی صفحات بارہ کے بجائے آٹھ ہیں۔ دوسرے ایڈیشن کے صفحات142, 143 پر کچھ عبارت محذوف ہے، گویا ان صفحات کی فوٹو کاپی صحیح نہیں بنائی گئی۔ 7انوار اقبال، طبع اول: بشیر احمد ڈار کی مرتبہ یہ کتاب اقبال اکادمی کراچی نے مارچ1967ء میں شائع کی۔ یہ اقبال کی متفرق تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں مضامین، تبصرے، کتابوں پر آراء اور مختلف لوگوں کے نام خطوط بھی ہیں۔ اس میں چونکہ زیادہ تعداد خطوط کی ہے، اس لئے ہم اس کا جائزہ مکاتیب کے مجموعوں کے ضمن میں پیش کر رہے ہیں ۔ اس مجموعے کے پہلے سولہ صفحات (سر ورق، پیش لفظ، عرض حال اور مندرجات کی فہرست) کے بعد متن کتاب کے آغاز سے از سر نو صفحات کا شمار کیا گیا ہے، جو 319 صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں29صفحات کا اشاریہ بھی شامل کتاب ہے۔ کتاب خط نستعلیق میں ہے۔ مگر313تا آخر نسخ ٹائپ استعمال کیا گیا ہے۔ کاغذ دبیز اور مضبوط ہے۔ جس زمانے میں یہ مجموعہ مرتب ہوا، بشیر احمد ڈار نے اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے بڑی کاوش اور تگ و دو سے اکادمی میں موجود بہت سا غیر مطبوعہ اور غیر مدون مواد مرتب کیا، بلکہ بہ قول ممتاز حسن اس قسم کی کاوش ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔۔۔ جس محنت اور عرق ریزی سے انہوں نے یہ کام سر انجام دیا ہے وہ فرائض کی حد سے بہت آگے ہے۔47؎ ’’ انوار اقبال‘‘ میں شامل اصل خطوط کی تعداد 175 (48) ہے، لیکن صابر کلوروی نے خطوط کی تعداد191بتائی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ خطوط کی تعداد میں یہ اختلاف زیادہ اہمیت کا باعث اس لئے نہیں ہے کہ ہم نے ہر اس تحریر کو خط تصور کیا ہے، جو بطور خط ہی بھیجی گئی ہے چاہے اس پر تاریخ محررہ یا مقام تحریر بھی درج نہ ہو۔ مثال کے طور پر میر ولی اللہ ایبٹ آبادی کی کتاب ’’ لسان الغیب‘‘ پر علامہ کا تبصرہ خط کی صورت میں تھا، لیکن مصنف نے اس خط کے صرف اسی حصے کا حوالہ دیا ہے جو مصنف کی کتاب سے متعلق تھا۔ اس طرح کی تحریروں کا اسلوب اور خطابیہ انداز بیان اس کے خط ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ان تحریروں کو ہم زیادہ سے زیادہ نامکمل خط کہہ سکتے ہیں۔ ایسی تحریروں کو تقاریظ سے الگ متصور کرنا چاہئے۔ 49؎ زیر نظر مجموعے میں علامہ کے دو خطوط کے عکس دئیے گئے ہیں۔ اس مجموعے میں علامہ کے دو فارسی خطوط بھی شامل ہیں، یہ سعید نفیسی کے نام ہیں۔ مرتب کتاب نے ان خطوط کا اردوترجمہ بھی دیا ہے۔ سر اکبر حیدری کے نام خط (ص:32) اصلاً انگریزی میں ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ بعض دیگر خطوط پر بھی اصلاً انگریزی خط ہونے کا گمان گزرتا ہے، لیکن اس کی تصریح نہیں کی گئی، مثلاً مظفر الدین قریشی کے نام خطوط، انگریزی میں معلوم ہوتے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل خطوط میں کوئی داخلی ترتیب موجود نہیں ہے اور نہ انہیں سنین وار مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجموعے میں گیارہ خطوط ایسے ہیں، جن کا ذکر فہرست میں نہیں ہو سکا، مثلاً:ـ بنام خواجہ حسن نظامی (ص:4) ثاقب کانپوری (ص:5) خواجہ وصی الدین (ص:6) عبدالعلی شوق سندیلو ی(ص:9) حاجی محمد احمد خاں (ص:11) محمد عبدالقوی فانی (ص:15) ابولمکارم محمد عبدالسلام متخلص بہ سلیم (ص:15) اظہر عباس (ص:16) سر اکبر حیدری (ص:32) نجم الغنی رامپوری (ص:284) محمد ادریس(ص:316) اس مجموعے میں عددی اعتبار سے زیادہ تر خطوط حسب ذیل اصحاب کے نام ہیں: محمد دین فوقـ:26 غلام رسول مہر:23 شاکر صدیقی:11 ڈاکٹر مظفر الدین قریشی:25 مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی:8 میر خورشید احمد:7 ضیاء الدین برنی:7 بعض خطوط کے سنین معلوم کرنے کی کوشش کی گئی اور ڈاک خانے کی مہر سے تاریخ محررہ کا سراغ لگایا گیا ہے، مثلاًـ: شاکر صدیقی کے نام بعض خطوط:ص113, 114. شوق سندیلوی کے نام خطوط:ص10, 9 اس مجموعے کے آٹھ خطوط دیگر مجموعوں میں شامل ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے: 1خطوط میں 17, 18 بنام عبدالرحمان شاطر (تعداد:2 خطوط اقبال ص:72 )پر زیادہ مستند متن کے ساتھ موجود ہیں۔ 2 خط ص204بنام سردار رب نواز ڈیرہ بھی ’’ خطوط اقبال‘‘ ص196 پر صحیح متن کے ساتھ موجود ہ۔ 3 خط ص217 بنام ظفر احمد صدیقی اور خط ص223 بنام محمد رمضان (اقبالنامہ، حصہ اول) اور خط ص225بنام محمد احمد اللہ خان پہلے ہی ’’اقبالنامہ حصہ دوم‘‘ میں شائع ہو چکے تھے۔ لہٰذا انہیں اس مجموعے میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ 4 خط ص226بنام تلوک چند محروم بھی اپنے مستند متن کے ساتھ ’’خطوط اقبال‘‘ ص104پر شائع ہو چکا ہے۔ 5خط ص157 تمکین کاظمی کے نام نہیں تھا بلکہ مانٹ موینسی کے نام تھا۔ یہ خط پہلے ہی ’’ اقبالنامہ حصہ اول‘‘ ص’’ ط‘‘ پر شائع ہو چکا تھا۔ یوں191 خطوط کے اس مجموعے میں صرف183خطوط نئے ہیں۔ 50؎ ’’ انوار اقبال‘‘ کے متعدد خطوط تاریخ یا سنہ کے بغیر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرتب کتاب نے بعض خطوط کے سلسلے میں صحیح تاریخ کی دریافت میں کوشش ضرور کی ہے، لیکن پھر بھی متعدد خطوط کی تاریخ کی نشان دہی نہیں ہو سکی۔ صابر کلوروی نے بہت سے خطوط کی صحیح تاریخ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 51؎ متن خوانی اور نقل نویسی میں جو احتیاط اور وقت نظر مطلوب تھی، ’’ انوار اقبال‘‘ میں اس کا فقدان ہے۔ بعض خطوط کا اصل خطوط سے موازنہ کرنے پر بشیر احمد ڈار کے ہاں بھی، شیخ عطاء اللہ کی سی بے احتیاطی نظر آتی ہے۔ ذیل کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے: (الف) ص186: میاں عبدالرشید کے نام دوسرا خط (عکس مطبوعہ: کردار نو، اپریل مئی 1963ء 152؎) انوار اقبال اصل خط آپ کا دوست آپ اور آپ کے دوست کے لئے وصول کے لئے موصول (ب) ص204: مکتوب بنام رب نواز خاں (عکس مطبوعہ: ’’ آزاد کشمیر‘‘ 22 اپریل 1955ء 52؎) 66، جون30ئ 26، جولائی 30ء ہوئے۔ زیادہ ہوئے۔ اللھم زد فزو،زیادہ (ج) ص210: مکتوب بنام خواجہ عبدالوحید (عکس مطبوعہ: ماہ نو، اپریل 1955ء 54؎ میں ان کے لیکچر میں ایک لیکچر محمد محمد ؐ متن خوانی میں بے احتیاطی کے علاوہ اس میں شامل خطوط میں کتابت کی اغلاط بھی نظر آتی ہیں: نمبرشمار صفحہ غلط صحیح 1 52 الحمدلللہ الحمد للہ 2 90 چھت گیا چھپ گیا 3 167 مولوی صاف مولوی صاحب 4 169 مں میں 5 180 جس لو جس کو اس مجموعے میں حواشی و تعلیقات کا مناسب انتظام نہیں کیا گیا، چنانچہ وضاحت طلب امور تشنہ رہ گئے ہیں۔ مرتب نے اکا دکا مقامات کے سوا کہیں نہیں بتایا کہ کسی خط کا ماخذ کیا ہے؟ کیونکہ اس مجموعے میں شامل بیشتر خطوط مختلف اخبار و رسائل میں شامل ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی حوالوں کی اس کمی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے کئی برس پہلے بشیر احمد ڈار کو ’’ انوار اقبال‘‘ کی اس خامی کی طرف متوجہ کیا تو انہوں نے 20دسمبر1972ء کو جواباً یوں وضاحت کی: جہاں تک ماخذات کی کمی کا معاملہ ہے، اس کی ایک خاص وجہ تھی۔ جیسے لوگ دوسرے لوگوں کی محنت پر ڈاکہ ڈالنے کے عادی ہیں، اور پھر اس کو تسلیم کرنے سے منکر اگر آپ بالفرض انقلاب کے حوالے سے کوئی چیز بڑی محنت سے معلوم کر کے شائع بھی کروا دیں، تو کچھ عرصے بعد یہی چیز انقلاب، کے حوالے سے وہ خود کسی مجموعے میں شامل کر کے تمام سرخروئی اپنے لئے مخصوص کر لیتے ہیں۔ ان کی اس حرکت سے بچنے کے لئے میں نے عملاًان تمام ماخذات کو آخری مسودے سے حذف کر دیا تھا۔ ہاشمی صاحب اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ سرقے کے خدشے سے حوالے حذف کرنا اصولاً غلط ہے اس سے کتاب کی ثقاہت مجروح اور اس کی استنادی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ 55؎ آخر میں ہم بہ قول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار یہ کہہ سکتے ہیں: ’’ مجموعہ اہم ہے لیکن تدوین از حد ناقص‘‘ 56؎ (ii) انوار اقبال، طبع دوم: ’’ انوار اقبال‘‘ دوسری بار1977ء میں طبع اول کا عکس لے کر شائع کیا گیا۔ اس میں طبع اول کی تمام اغلاط موجود ہیں اور بعض الفاظ (ص:111) چھپائی میں نہیں آ سکے، جس سے متن خوانی میں دقت پیش آتی ہے۔ طبع دوم کا کاغذ نسبتاً باریک ہے۔ 8مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع اول: اقبال کے نوے خطوط پر مشتمل یہ مجموعہ، مولانا شیخ غلام قادر گرامی اور اقبال کے باہمی ربط و تعلق کا ایک دلچسپ مرقع ہے۔ اقبال کے اصل خطوط شیخ سردار محمد کے توسط سے اقبال اکادمی کو حاصل ہوئے تھے چنانچہ یہ مجموعہ مکاتیب اپریل 1969ء کو اقبال اکادمی کراچی سے چھپا۔ مقدمہ و تعلیقات محمد عبداللہ قریشی کی ہیں۔ تمہید و تعارف غلام رسول مہر اور ممتاز حسن کا ہے۔سب سے پہلا خط11مارچ1910ء کا ہے، اور آخری 31 جنوری 1927ء کا۔ ابتدائی سولہ صفحات (سر ورق، فہرست، پیش لفظ ازـ: ممتاز حسن) کے بعد صفحات کا شمار از سر نو کیا گیا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے سات صفحات کے ’’ تمہید و تعارف‘‘ میں گرامی کی شخصیت اور اقبال و گرامی کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ مرتب نے مقدمہ میں گرامی کے سوانحی، ان کی شخصیت و شاعری، زیر نظر خطوط اور ان کے حوالے سے اقبال اور گرامی کے باہمی روابط کی تفصیل مہیا کی ہے۔ گرامی کے بعض جوابی خطوط بھی دستیاب ہوئے ہیں، جن سے محمد عبداللہ قریشی نے تعلیقات و حوایشی میں استفادہ کیا ہے۔ حواشی کے ضمن میں محمد عبداللہ قریشی کی دیدہ ریزی اور دماغ کاوی یقینا داد کی مستحق ہے۔ انہوں نے مکاتیب اقبال کے مرتبین کے لئے ایک تابندہ مثال قائم کی ہے۔ خطوط تاریخ وار اور سنہ وار مرتب کئے گئے ہیں، مگر سات خطوط پر کوئی تاریخ یا سنہ درج نہیں، ان میں سے چھ خطوں کے سنہ تو صاحب مرتب نے متعین کر دئیے ہیں، تاہم ایک خط (ص:92) کا حتمی سنہ متعین نہیں ہو سکا اور صرف اتنا لکھ دیا گیا ہے کہ یہ خط1910ء اور1912ء کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا تھا۔ صابر کلوروی نے اس خط کی تاریخ محررہ نومبر، دسمبر1911ء 57؎ بتائی ہے۔ اس مجموعے کے مطالعے سے یہ افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ گرامی کے کئی خطوط ضائع ہو گئے۔ 11مارچ1910ء کے خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کم از کم دو خط لکھے جا چکے تھے۔ 11مارچ1910ء کا یہ خط بھی ’’ شہاب‘‘ (حیدر آباد دکن) کے مدیر کو بسکٹ فروش کی دکان سے پڑیا کی صورت میں ملا۔ 1911ء 1913ء اور 1925ء کا کوئی خط اس مجموعے میں شامل نہیں۔ قیاس غالب ہے کہ ان سالوں کے خطوط بھی ضائع ہو گئے۔ اس مجموعے میں شامل بعض مکاتیب قبل ازیں مختلف مجموعوں میں چھپ چکے ہیں، مثلاً: خط نمبر1اور38اقبالنامہ حصہ اول (صفحات:12, 13, 14, 15) میں خط نمبر2, 3, 18, 21, 24, 43, 60اور 87 ’’ نقوش، خطوط نمبر‘‘ اول (صفحات:23, 24, 25, 26, 27اور28) میں خط نمبر16اور42اقبال میوزیم لاہور میں محفوظ ہیں۔ 58؎ نقل متن میں، مرتب نے خاصی احتیاط سے کام لیا ہے، تاہم دیگر مرتبین خطوط کی طرح انہوں نے ’’ محمد ‘‘ پر علامات ’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی، حالانکہ علامہ اقبال نے ہمیشہ اس کا التزام رکھا۔ خط نمبر83 (ص:232) پہ ایک جملہ اس طرح درج ہے ’’ جس جس کو یہ بخار آیا ہے ا سکی عمر میں بقدر سی سال کا اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ اس میں لفظ’’ سی‘‘ قابل غور ہے، یہاں نہ معلوم صحیح لفظ کیا ہے کیونکہ اس خط کا متن پیش نظر نہیں ہے۔ اگر ’’ سی‘‘ کی جگہ لفظ’’ اسی ‘‘ لکھ دیا جائے تو جملہ میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ زیر نظر مجموعے میں کتابت کی کچھ اغلاط راہ پا گئی ہیں، ملاحظہ کیجئے: نمبرشمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 114 19 خیرت خیریت 2 156 2 قلب قلب 3 مبنی پر انصاف مبنی بر انصاف 4 کھینج کھینچ مرتب نے حواشی و تعلیقات کا جو التزام کیا ہے، ان کی اہمیت اور افادیت میں قطعی کوئی کلام نہیں، مگر بعض تعلیقات طویل ہو گئے ہیں، مثلاً: سر عبدالقادر (صفحات:107، 108) نواب ذوالفقار علی خاں (صفحات:108, 109) اور اکبر الہ آبادی (ص:178) کے تعارفی شذرات اگر مختصر ہوتے تو بہتر تھا، مرتب نے تعلیقات میں نظم ’’ خضر راہ‘‘ پر اپنی طرف سے اظہار خیال کے بعد نظم کے متعلق غلام رسول مہر کا طویل تنقیدی مضمون نقل کر دیا ہے، حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ مجموعے کے آخر میں ایک اشاریہ ہے، جس میں نظموں اور کتابوں کے حوالوں کے علاوہ اشخاص کا اشاریہ بھی دیا گیا ہے، مگر بعض اشخاص مثلاً: مرزا جلال (ص:185) چودھری خوشی محمد (ص:204) کا ذکر نہیں کیا گیا، اسی طرح اشاریے میں خطوط کے موضوعات کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا، چنانچہ ہم اس اشاریے کو جامع اور مکمل نہیں کہہ سکتے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس مجموعے کی ایک اور خامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ اس مجموعے کو آئندہ چھاپتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھا جائے تو بہتر ہے کہ خطوط کا متن پہلے دیا جائے اور تعلیقات متن کے بعد دئیے جائیں۔ مختصر حواشی پا میں شذرے کے طور پر بھی دیے جا سکتے ہیں لیکن طویل شذرات (شخصیات سے متعلق الگ اور واقعات سے متعلق) متن کے بعد آئیں تو مناسب ہیں۔ ‘‘ 59 (ii) مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور نے یہ مجموعہ جون 1981ء میں دوبارہ شائع کیا، جو طبع اول کی عکسی اشاعت ہے۔ آخر میں ’’ اضافہ طبع دوم‘‘ کے تحت گرامی کے نام ا یک نئے اور بیگم گرامی کے نام سات خطوط (ماخوذ از: ’’ خطوط اقبال بنام بیگم گرامی‘‘ مرتبہ: حمید اللہ شاہ ہاشمی 60؎ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس ایڈیشن میں بعض الفاظ اور جملے چھپائی میں نہیں آ سکے، مثلاًـ: صفحات154, 155, 183, 189, 236یہ ایڈیشن چونکہ طبع اول کی عکسی نقول ہے، اس لئے اس میں بھی طبع اول کی خامیاں جوں کی توں دہرا دی گئی ہیں۔ طبع دوم میں مرتب نے ایک نیا دیباچہ بھی تحریر کیا ہے، جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ گرامی کے نام خطوط جس اسلوب سے مرتب کئے گئے تھے، اسے بے حد پسند کیا گیا اور اس کے بعد خطوط کا جو بھی مجموعہ منظر عام پر آیا، اس کے مرتب نے ان کی اسی روش کی پیروی کی۔ اس مجموعہ مکاتیب سے علامہ کے نظریہ فن اور فن شاعری کے رموز سے ان کی واقفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعری کے نقاد کی حیثیت سے بھی ان کا مقام و مرتبہ متعین ہوتا ہے۔ بعض نظموں اور اشعار خصوصاً فارسی اشعار کے شان نزول کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ علامہ اقبال کی حیدر آباد میں ملازمت کی خواہش کی بعض تفصیلات بھی پہلی بار منظر عام پر آتی ہیں۔ 9خطوط اقبال: خطوط اقبال کے اس مجموعے میں علامہ کے ایک سو گیارہ خطوط شامل ہیں۔ اسے رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے اور مکتبہ خیابان ادب 39چیمبرلین روڈ لاہور سے 1976ء میں شائع ہوا۔ ’’ پیش لفظ‘‘ میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے لکھا ہے کہ اس مجموعے میں علامہ کے وہ خطوط شامل ہیں، جو 1976ء سے پہلے شائع ہونے والے کسی باقاعدہ مجموعے میں شامل نہ ہو سکے یا اگر شامل تھے تو ان کا متن غلط یا نا مکمل تھا۔ زیر نظر مجموعے میں اردو کے 91انگریزی کے 19اور عربی کا ایک خط شامل ہے۔ عربی اور انگریزی خطوط کا اصل متن مع ترجمہ دیا گیا ہے۔ مجموعے میں اقبال کے 9اردو اور انگریزی خطوط کی عکسی نقول بھی شامل ہیں۔ اقبال کے نام جامعہ ازہر کے علامہ مصطفی المراغی کے جوابی خط کی عکسی نقل بھی مہیا کی گئی ہے۔ ’’ عرض مرتب‘‘ کے زیر عنوان مرتب نے صحت متن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مختلف مثالوں کے ذریعے وضاحت کی ہے، اس مجموعے کے سلسلے میں مرتب نے لکھا ہے: ’’ میں نے اول تو خطوط کی عکسی نقول مہیا کرنے کی کوشش کی اور جس قدر خطوں کی عکسی نقول مل سکیں، اسے سامنے رکھ کر، خطوط کے متون نقل کرنے میں حتی الامکان پوری احتیاط سے کام لیا، یہاں تک کہ حضرت علامہ کا اصل املا بھی جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔ اسی طرح اگر تاریخ کسی خط کے آغاز میں درج ہے تو آغاز ہی میں درج کی، اگر آخر میں ہے تو آخر میں۔ خط میں سن 16ء لکھا ہے تو اسے 1916ء نہیں بنایا یعنی نقل نویسی میں نقل کی اصل سے مطابقت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ پھر جن خطوط کی عکسی نقول دستیاب نہیں ہو سکیں، دوسرے ذرائع سے امکانی حد تک، ان کا صحیح متن دریافت کرنے کی سعی کی گئی، اس کے باوجود کئی خطوط کے دو دو متن ملے چنانچہ نسبتاً زیادہ قابل ترجیح متن اختیار کر کے اختلافات کی نشاندہی، حواشی میں کر دی گئی۔ اسی طرح انگریزی خطوط کے ترجموں میں بھی خاصی احتیاط سے کام لیا ہے۔ جس جس انگریزی خط کا متن دستیاب ہو سکا وہ اردو ترجمے کے ساتھ درج کر دیا گیا ہے۔ تاکہ قارئین ترجمے کا موازنہ اصل متن سے کر سکیں۔ ترجمے کے ضمن میں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ میں نے انگریزی خطوط کے القاب کا اردو ترجمہ نہیں کیا بلکہ انہیں جوں کا توں رہنے دیا ہے کیونکہ اول تو ان القاب کا ایسا مناسب و موزوں ترجمہ کرنا آسان نہیں جو پوری طرح اس مفہوم کو ادا کرے جو خط لکھتے ہوئے علامہ اقبال کے ذہن میں کسی خاص مکتوب الیہ کے لئے موجود تھا۔ دوسرے ڈیر سر، مائی ڈیر اکبر وغیرہ ایسے القبا ہیں جو حضرت علامہ نے اپنے اردو خطوط میں بھی کئی جگہ استعمال کئے ہیں اس لئے ایسے القاب کو اردو میں بھی علی حالہ برقرار رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ‘‘ 61؎ ’’ خطوط اقبال‘‘ کے آغاز میں مکاتیب اقبال کے مختلف مجموعوں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے اقبال کے خطوط اور ان کی خطوط نویسی پر ایک تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے۔ خطوط کی ترتیب تاریخ و سنہ وار ہے، البتہ ایک مکتوب الیہ کے نام جملہ خطوط یکجا ہی دیے گئے ہیں۔ ہر خط سے پہلے مکتوب الیہ کا مختصر تعارف اور خط کا مختصر پس منظر درج ہے۔ مختصر پارورتی تعلیقات میں متن خط کے اختلافات اور بعض شخصیات وغیرہ کے بارے میں تعارفی اشارات موجود ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ (ضمیمے، ص:308, 292) متون مکاتیب سے متعلق بعض نثری و شعری تحریروں پر مشتمل ہے۔ چوتھے حصے بعنوان:’’ ماخذ‘‘ میں ہر خط کے ذریعہ حصول، قبل ازیں اس کی اشاعت اور بعض انگریزی خطوط کے ناقص ترجموں سے بحث کی گئی ہے۔ مجموعے کے آخر میں کتابیات اور ایک مفصل اشاریہ بھی شامل ہے۔ صابر کلوروی نے زیر نظر مجموعے میں خطوط کی تعداد ایک سو گیارہ کے بجائے ایک سو دس 63؎ تسلیم کی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ خط نمبر46(ص:174) بنام صوفی غلام مصطفی تبسم ’’ انوار اقبال‘‘ کا متن کچھ زیادہ ہے، اس لئے ہمارے نزدیک یہ متن زیادہ مستند ہے۔’’ خطوط اقبال‘‘ میں اس خط کو شامل کرنے کا جواز نہیں تھا۔ اگرچہ بہ قول فروغ احمد 63؎ زیر نظر مجموعہ کتابت اور طباعت کے اعتبار سے بھی معیاری ہے، تاہم ہزار احتیاط کے باوجود کچھ نہ کچھ سہو کتابت اور نقص طباعت کا راہ پا جانا عین ممکن ہوتا ہے، چنانچہ فروغ احمد نے اور اس مجموعے کے مرتب نے خود بھی بعض اغلاط کی نشان دہی کی ہے، مثلاً: نمبرشمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 103 9 نومبر ستمبر 2 122 2 خفتہ سفتہ 3 124 11 قادیانیت کے بارے اقبال کی قادیانیت کے بارے میں اقبال کی 4 126 13 رکھتا ہوں رکھتا ہو 5 131 3 نالید نالیدو 6 160 4 تکلیف تکلیف دینا 7 177 6 نصیر الدین نصر الدین 8 201 3 میں پیش میں نہیں پیش 9 209 2 میں گوشت میں نے گوشت 10 211 12 24فروری 24جنوری 11 224 12 تھامس تھامسن 12 237 17 الجھن الجھی 13 249 5 مفید طلب مفید مطلب طباعت کی دو اور اغلاط بھی دکھائی دیتی ہیں، مثلاً ص:76 کی سطر4میں لفظ’’ یکم‘‘ کی جگہ یہ نشان باقی رہ گیا ہے:’’ تا‘‘ اورص:160کی سطر4میں’’ آپ کو تکلیف‘‘ کے بعد لفظ’’ دیتا‘‘ کی جگہ خالی رہ گئی ہے۔ دو مقامات پر املا کی غلطیاں کھٹکتی ہیں، یعنی صرف178پر عنوان بنام اکرام الحق سلیم کے تحت سطر5میں ’’ خاصا عرصہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح ص180کی سطر2میں’’ اچھا گلا پایا‘‘ کے بجائے ’’ اچھا گلہ پایا‘‘ تحریر ہوا ہے۔ مرتب نے بعض خطوط کی تاریخیں اور سنین کی اصلاح کر دی ہے، مثلاً: مکتوب بنام جاوید اقبال 1933ء میں لکھا گیا، نہ کہ 1932ء میں (ص:222) مکتوب بنام مصطفی المراغی 1937ء میں لکھا گیا، نہ کہ 1936ء میں (ص:214) مکتوب بنام یلدرم، دسمبر1933ء میں لکھا گیا، نہ کہ دسمبر1932ء میں (ص:151) محمد نعمان کے نام خط اکتوبر1937ء کا تحریر کردہ ہے (گفتار اقبال، ص:210)64؎ ان اغلاط کے باوجود، بہ قول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ خطوط اقبال میں ’’متن کی تصحیح کے علاوہ بعض تاریخوں کو بھی درست کیا گیا ہے۔‘‘ 65؎ زیر نظر مجموعہ اپنی افادیت و اہمیت کی بدولت اقبالیات میں ایک موثر و اہم ترین اضافہ ہے، فروغ احمد لکھتے ہیںـ: ’’ یہ کتاب گرانقدر اپنے ظاہری محاسن کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کی قدر و قیمت کا تعین اس دیدہ ریزہ اور عرق ریزی سے ہوتا ہے، جس سے مرتب نے تحقیق و تفتیش، مقابلہ و موازنہ اور توثیق و تصحیح کے سلسلہ میں کام کیا ہے۔‘‘ 66؎ خطوط اقبال، طبع دوم:ـ تقریباً ایک سال بعد1977ء میں طبع اول کے عکس پر مبنی ’’ خطوط اقبال‘‘ کی ایک اور اشاعت دہلی سے عمل میں آئی۔ یہ ایڈیشن چونکہ مرتب کی اطلاع و اجازت کے بغیر شائع کیا گیا، اس لئے اس اشاعت میں، طبع اول کی تمام اغلاط و نقائص موجود ہیں۔ اگر مرتب کی اجازت سے یہ ایڈیشن چھپایا جاتا تو ممکن ہے کہ یہ اغلاط و نقائص راہ نہ پا سکتے۔ 10روح مکاتیب اقبال: زیر بحث مجموعہ محمد عبداللہ قریشی نے مدون کیا، جو جشن صد سالہ اقبال نومبر1977ء کے موقع پر اقبال اکادمی لاہور نے شائع کیا۔ یہ خطوط کا کوئی نیا مجموعہ نہیں بلکہ مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب میں سے 1233خطوں کے اقتباسات تاریخ وار جمع کر دیے گئے ہیں۔ یہ مجموعہ تقریباً748صفحات پہ محیط ہے، انتساب: محمد دین فوق کے نام ہے۔ فہرست مندرجات ص5سے 64تک محیط ہے۔ دیباچہ بہ عنوان:’’ تقریب‘‘ ص65سے 68 تک پھیلا ہوا ہے۔ متن کتاب ص69تا 699ہے۔ آخر میں ایک طویل اشاریہ (صفحات:701تا748) ہے۔ اشاریہ احمد رضا نے مرتب کیا ہے، اشاریے کے عنوانات یہ ہیں:1اشخاص، 2مقامات، ادارے، 3 کتب ، رسائل اور اخبارات۔ محمد عبداللہ قریشی نے دیباچے میں اس مجموعے کی تدوین و ترتیب اور مقصد پر روشنی ڈالی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں ان تمام مجموعوں (یعنی جو اس مجموعے سے پہلے شائع ہو چکے ہیں) کے خط کو یک جا کر کے پہلے تاریخ وار مرتب کیا ہے، پھر ہر خط کی اقبال ہی کے الفاظ میں تلخیص کر کے گویا دریا کو کوزے میں یا سمندر کو صدف میں بند کر دیا ہے، اس مجموعے کی اشاعت کے مقاصد یہ ہیں: 1 علامہ کے وہ تمام خطوط، جو کہیں نہ کہیں مل سکتے ہیں، یک جا ہو کر ایک نظر میں دیکھے جا سکیں۔ 2روزنامچہ یا آپ بیتی قسم کی ایک چیزتیار ہو جائے۔ 3سوانح نگاروں کو حضرت علامہ کے روزانہ معمولات، شب و روز کی سرگرمیوں، ذہنی اور مزاجی کیفیتوں، ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤِ ادبی اور کاروباری مشغلوں، موسموں کے تغیر و تبدل، حوادث عالم کے اثرات، روحانی اور جسمانی عوارض، خوشی اور غمی، تفریحات اور مرغوبات کا حال معلوم کرنے میں آسانی ہو۔ 4اقبال کی سلامت روی، ان کی رواداری، بے تکلف دوستوں سے ان کی محبت اور نفرت، خوش طبعی اور شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی کے واقعات سامنے آ سکیں۔ 67؎ ڈاکٹر حمید یزادنی، محمد عبداللہ قریشی کی اس کاوش کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کی ہے: ’’ روح مکاتیب اقبال، حضرت علامہ سے متعلق ایک ایسی زبردست حوالے کی کتاب بن گئی ہے، جو محققین کو اگر کاملاً نہیں تو بہت بڑی حد تک بقیہ مجموعہ ہائے مکاتیب اقبال سے بے نیاز کر دے گی۔ محققین کے علاوہ عشاق اقبال کے لئے بھی یہ ایک انتہائی خوبصورت تحفہ ہے۔‘‘ 68؎ لیکن ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی رائے اس سلسلے میں ڈاکٹر حمید یزدانی سے مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’ روح مکاتیب اقبال‘‘ تو محض ایک خلاصہ نگاری ہے، خلاصہ نگار اپنے زاویہ نظر سے تلخیص و انتخاب کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ انتخاب ہر کسی کے لئے اطمینان بخش ہو۔ حقیقت میں خطوں کا انتخاب شعروں کے انتخاب سے بھی مشکل تر مسئلہ ہے کیونکہ خط ایک ایسا ہشت پہلو نگینہ ہوتا ہے جس کے ہر پہلو کی اہمیت زاویہ نظر بدل جانے سے اور ہو جاتی ہے، اس لئے خطوط کو مکمل صورت ہی میں چھپنا چاہئے۔ 69؎ خلاصہ نگاری کی بہرحال اہمیت ہے۔ دور حاضر میں گوناگوں مصروفیات اور فرائض کی ادائیگی میں فرصت کے لمحات کم ہی ملتے ہیں۔ موجودہ دور میں جس طرح مختصر افسانہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے اسی طرح تلخیص نگاری کی افادیت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ راقمہ کی ناقص رائے میں زیر بحث مجموعہ مکاتیب اقبال کی اہمیت و افادیت، اقبال کے دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ 11خطوط اقبال بنام بیگم گرامی: بیگم مولانا گرامی کے نام اقبال کے آٹھ خطوط کا یہ مختصر مجموعہ، حمید اللہ ہاشمی نے مرتب کر کے جنوری 1978ء میں فیصل آباد سے شائع کیا تھا۔ مولانا گرامی کی وفات کے بعد بیگم گرامی ان کا کلام مرتب کر کے چھپوانا چاہتی تھیں۔ اس سلسلے میں وہ علامہ اقبال سے مشورہ و اعانت کی طالب ہوئیں۔ یہ خطوط مولانا گرامی کے ورثاء سے حاصل کر کے مرتب کئے گئے ہیں۔ مرتب نے مجموعے کے ابتدائی حصے میں مولانا گرامی اور اقبال کے باہمی بے مکلفانہ روابط پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اقبال کے مطبوعہ مکاتیب کے علاوہ، گرامی کی غیر مطبوعہ یادداشتوں سے بھی مدد لی ہے، پھر بیگم گرامی کا مختصر تعارف کرایا ہے۔ اس کے بعد خطوط اقبال کا متن درج ہے۔ آخر میں عکس خطوط شامل ہیں۔ عکس خطوط کے جائزے سے متن میں متعدد اغلاط کا پتا چلتا ہے، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر خطوط اقبال بنام بیگم گرامی عکس خطوط 1 47 4 1918ء 18ء 2 47 8 تعمیل سمن نہیں ہوئے تعمیل سمن کی نہیں ہوئی 3 47 9 امید ہے آپ امید کہ آپ 4 47 11 1917ء 17ء 5 52 2 الحمد لللہ الحمد للہ 6 52 5 اس کام کے اس کے 7 52 7 پہلے ان پہلے صرف ان 8 52 14 13ستمبر1967ء 13ستمبر67ء 9 53 3 پانچ سال مدت پانچ کی سال مدت70؎ 10 53 4 نہ کہ کتاب نہ کتاب 11 53 8 20اپریل1930ء 25اپریل30ء 12 56 5 بھیجوگی بھیجونگی 14 56 8 1930ء 30ء 15 58 3 قابل اعتبار قابل اعتماد 16 60 5 عزیز سے میں نے عزیز سے یا آپ سے میں نے 17 60 12 آپ سارا کلام آپ کل کلام 18 61 16 باہر سے آنے والے باہر رہنے والے 19 61 18 نہ ہوتی نہ ہو سکتی 20 61 19 نوبت نہیں نوبت ہی نہیں اس مجموعے میں مولانا گرامی کے نام، اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط بھی شامل ہے۔ محمد عبداللہ قریشی نے ان تمام خطوط کو ’’ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں شامل کر لیا ہے مگر خطوط کی عکسی نقول شامل نہیں کیں، اس لئے متن میں بہت سی اغلاط راہ پا گئی ہیں۔ 12اقبال نامے: یہ مجموعہ ڈاکٹر اخلاق اثر نے مرتب کیا اور 1981ء میں طارق پبلی کیشنز صادق منزل چوکی امام باڑہ بھوپال سے شائع ہوا۔ کل صفحات104ہیں۔ سر ورق، انتساب (بہ نام: جناب ممنون حسن خاں) فہرست مندرجات (مکتوب الیہم، خطوط کی تعداد اور ترتیب) پر صفحات نمبر درج نہیں ہیں۔ ’’ اقبال نامہ‘‘ (اخلاق اثر) ص:9تا14 اقبال نامے (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) ص15تا24ہے۔ متن خطوط ص25سے104تک پھیلا ہوا ہے۔ دیباچے (بہ عنوان: اقبال نامے) میں مرتب نے اس مجموعے کی تدوین کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے: ’’ اردو کے عظیم شاعر اقبال کے بھوپال سے متعلق اکہتر غیر مطبوعہ اور مطبوعہ مکاتیب کے مجموعے اقبال نامے کو ترتیب دینے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔ اس مجموعہ میں وہ تمام دستیاب مکاتیب شامل ہیں جو علامہ اقبال نے لاہور سے بھوپال میں موجود یا بھوپال سے بھوپال میں موجود اور بھوپال سے باہر موجود اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کو تحریر کئے تھے۔‘‘ 71؎ اس مجموعے میں جن اصحاب کے نام مکتوبات شامل ہیں، ان کی تفصیل اس طرح ہے: 1محمد امین زبیری 1 2شاہ اسد الرحمن قدسی 1 3محمد شعیب قریشی 1 4سید نذیر نیازی 15 5عباس علی خاں لمعہ حیدر آبادی 1 6سر راس مسعود 27 7لیڈی امتہ المسعود 3 8مولانا سید سلیمان ندوی 4 9خواجہ ایف، ایم شجاع 1 10ڈاکٹر سید عبدالباسط 5 11قاضی تلمذ حسین 1 12سلامت اللہ شاہ 1 13ممنون حسن خاں 10 ان میں سے بیشتر خطوط، مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب میں شائع ہو چکے ہیں۔ چند مکاتیب پہلی بار شائع ہوئے مثلاً بقول مرتب : محمد شعیب قریشی کے نام11جون1930ء (ص:26) غیر مطبوعہ ہے اور محمد شعیب قریشی کے نام اقبال کا یہ پہلا دستیاب مکتوب ہے۔ ممنون حسن خاں کے توسط سے مرتب کو سر راس مسعود کے نام اقبال کے تین غیر مطبوعہ اور پانچ مطبوعہ مکاتیب دستیاب ہوئے۔ سر راس مسعود کے نام خط مورخہ 10جون1937ء (ص76) کے بارے میں مرتب کا دعویٰ ہے کہ اس مجموعے کے ذریعے پہلی بار اس کا معیاری مکمل اور مستند متن سامنے آ رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مشمولہ متن بھی مکمل نہیں ہے اور شیخ اعجاز احمد کے مذہبی عقیدے کے بارے میں اقبال کے ریمارکس حذف کر دیے گئے ہیں۔ مرتب نے زیر نظر مجموعے میں انگریزی خطوط کے تراجم دیے ہیں، اصل انگریزی متن درج نہیں کیے، چنانچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ متون کس حد تک اصل کے مطابق ہیں۔ مرتب نے حواشی و تعلیقات کا اہتمام نہیں کیا اور نہ اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ مطبوعہ خطوط انہوں نے کس مجموعے سے اخذ کیے ہیں، بعض خطوط کئی بار چھپ چکے ہیں، مرتب نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ اس نے کس مطبوعہ متن کو بنیاد بنایا ہے۔ غیر مطبوعہ خطوط جو اس مجموعے کے ذریعے پہلی بار سامنے آئے ہیں، اگر مرتب ان کی عکسی نقول بھی شامل کر دیتے تو مجموعے کی افادیت میں مزید اضافہ ہو تا۔ مرتب نے ’’ اقبال نامے‘‘ (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) کے عنوان کے تحت جو معلومات فراہم کی ہیں اور علامہ اقبال کے بھوپال سے تعلق پر بحث کی ہے، اس میں حوالوں کی عدم موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ ماسٹر اختر نے لکھا ہے، فاضل مرتب نے ساری معلومات کا بغیر کسی حوالوں کے امتحانی نوٹس کی طرح کمال خوبی سے احاطہ کر لیا ہے۔72؎ مجموعی طور پر یہ مجموعہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں علامہ کے بھوپال سے متعلق خطوط ایک جگہ جمع کر دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں چند غیر مطبوعہ خطوط بھی سامنے آ گئے ہیں، بہرحال اپنی نوعیت کے اعتبار سے اقبالیات میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اقبالؒ۔۔۔۔۔ جہان دیگر: زیر بحث مجموعہ محمد فرید الحق ایڈووکیٹ نے مرتب کر کے، گردیزی پبلشرز کراچی سے 8 جولائی 1983ء میں شائع کیا۔ کل صفحات152ہیں۔ شروع کے چوبیس صفحات یعنی سر ورق (ص:1,2) انتساب ص:3 عرض ناشر (ص:4) ترتیب مضامین (ص:5) خطوط کی ترتیب (ص:6) پیش لفظ (از : محمد فرید الحق، ص:7تا13) دیباچہ (از: محمد علی صدیقی، ص:14تا 21) تعارف (از: رئیس امروہوی، ص:22تا24) پر مشتمل ہیں۔ ص24خالی ہے، ص25پہ ’’ اردو خطوط‘‘ کے الفاظ درج ہیں اور متن خطوط صفحہ26سے 128تک پھیلا ہوا ہے۔ آخر میں (ص:129تا151) مولانا راغب احسن کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ خطوط کی کل تعداد 44ہے، جن میں سے اردو خطوط کی تعداد35ہے اور9انگریزی خطوط ہیں۔ یہ خطوط اسلامیان ہند کے ایک معروف عالم اور سیاست دان مولانا راغب احسن کے نام ہیں۔ ان خطوط سے علامہ کے علمی مشاغل، دینی مسلک اور سیاسی فکر کے متنوع پہلو روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ خطوط، اقبال اور مولانا راغب احسن کے مابین 1967ء سے 1937ء کے عرصے پر محیط ہیں۔ یہ تمام خطوط محمد فرید الحق کے پاس محفوظ ہیں، بہ قول محمد علی صدیقی: ’’ اس مجموعہ مکاتیب میں بعض ایسے خطوط بھی شامل ہیں جن سے مولانا راغب احسن پر غیر معمولی اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں بعض مسائل کے بارے میں علامہ کی مبہم آرا زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔۔۔۔ کچھ ایسے مکاتیب بھی شامل ہیں جو کافی چونکا دینے والی تحریر سمجھی جائیں گی۔ ‘‘ 73؎ مولانا راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد اکتالیس ہے، اور یہ تمام خطوط سوائے ایک خط کے جو’’ اقبالنامہ، حصہ دوم‘‘ (ص:251) میں شامل ہے، غیر مطبوعہ ہیں اور اس مجموعہ کے ذریعے پہلی بار سامنے آئے ہیں۔ اس مجموعے میں ایک خط انوری بیگم (ص:27) کے نام سے ہے اور ایک انگریزی خط (ص:121) مولانا شفیع کے نام ہے، علاوہ ازیں ایک خط (ص:33) کے القاب ’’ ڈیر مولنا‘‘ درج ہیں، یہ خط بھوپال سے لکھا گیا ہے۔ ایک داخلی شہادت کی بنا پر ہم اسے مولانا راغب احسن کے نام قرار نہیں دے سکتے، اس خط میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں۔ ’’ راغب احسن کی مجھے خود فکر ہے۔۔۔۔ آج راغب صاحب کا خط بھی آیا ہے۔۔۔۔ راغب صاحب کے خط سے جو حالات معلوم ہوئے۔۔۔‘‘ مگر مکتوب الیہ کون ہے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس مجموعے کی نمایاں ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام خطوط کے عکس دیے گئے ہیں، انگریزی خطوط کے عکس اور اردو تراجم بھی دئیے گئے ہیں۔ متن خوانی میں اگرچہ خاصی احتیاط سے کام لیاگیا ہے، تاہم عکسی نقول کے موازنے سے متن کی بہت سی غلطیاں نظر آتی ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر عکس خط صفحہ سطر اقبالؒ جہان دیگر 1 26 5 والسلام 27 7 فقط 2 30 13 والسلام 31 13 3 30 14 6فروری 35ء 31 16 6فروری 30ء 4 32 1 12فروری 35ء 33 1 12فروری30ء 5 32 11 والسلام 33 13 فقط 6 34 1 6جولائی35ء 35 1 6جولائی 30ء 7 34 14 والسلام 35 14 فقط 8 36 13 مرے 37 14 میرے 9 38 9 لیکے 39 7 لئے 10 38 17 ہیں 39 12 ہے 11 38 20 جدید دنیا کے حالات 39 14 کے حالات 12 38 21 اسلام کی یہ خدمت 39 14 اسلام کی خدمت 13 38 25 اور بھی دو چار حضرات شریک 39 18 اور بھی حضرات شریک 14 38 31 محمد ؐ 39 21 محمد 15 40 3 محمد ؐ عثمان ؑ 41 3 محمد عثمان 16 40 10 والسلام 41 9 فقط 17 44 20 والسلام 45 18 فقط 18 46 11 جماعت بھی 47 11 جماعت ہی 19 46 14, 15 کرے اور کوئی 47 14 کرے کوئی 20 46 17 والسلام 47 16 فقط 21 46 17 محمد ؐ 47 17 محمد 22 48 15 ممکن نہیں 49 19 ممکن ہے 23 50 6 سے بھی زیادہ 51 6, 5 سے زیادہ 24 50 6 شفیع داؤدی صاحب 51 6 شفیع داؤدی 25 50 12 والسلام 51 12 فقط 26 52 13 ممکن ہے متقدری صاحب 53 16 مقتدری صاحب 27 54 11 والسلام 55 11 فقط 28 56 17 والسلام 57 14 29 60 1 پرائیویٹ 61 1 30 70 8 بیزاری کی وجودہ 71 8 بیزاری کے وجوہ 31 72 6 ہندوستان سے باہر 73 7 ہندوستان کے باہر 32 72 8 لائق ہو ملنے 73 9 لائق ملنے 33 73 5 والسلام 73 18 فقط 34 78 7 ہے ان کی 79 8 ہے کہ ان کی 35 79 1 شملہ میں آپ کا 81 16 آپ کا شملہ میں 36 79 3 ممکن ہے کہ 81 17 ممکن ہے 37 82 16 امید کہ 83 13 امید ہے کہ 38 82 18 سلجوقی قونصل افغانی مرے 83 14 سلجوقی افغانی میرے 39 85 2 ہاں 83 15 یہاں 40 86 10 لیکن 87 11 مگر 41 88 1 پرائیویٹ 89 1 41 86 15 تو میں پھر 87 14 تو پھر 42 90 10 اصلی 91 11 اصل 43 92 6 ہاں 93 6 وہاں 44 104 6 آپ کو تکمیل تعلیم 105 21 تکمیل تعلیم زیر نظر مجموعے میں اختلاف متن کے علاوہ اور بھی بہت سی خامیاں بری طرح کھٹکتی ہیں، مثلاً: 1خطوط کو تاریخ اور سنین وار مرتب نہیں کیا گیا۔ 2خط نمبر1ص نمبر27پر درج ہے جبکہ فہرست میں اسے ص28پر درج بتایا گیا ہے اور نمبر شمار ایک کے بجائے دو درج ہیں، حالانکہ متن خطوط میں یہ خط سب سے پہلے درج ہے۔ 3 جہاں عبارت نہیں پڑھی جا سکی (ص:47اور73) وہاں جگہ چھوڑ دی گئی ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ 4 نذیر نیازی کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط (صـ:ـ101, 100) اور خط ص:105پر سنہ درج نہیں ہے اور نہ مرتب نے اس کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ 5حواشی و تعلیقات کی عدم موجودگی بری طرح محسوس ہوتی ہے۔ 6مولانا راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد چوالیس 44(ص:16) بتائی گئی ہے، حالانکہ دو خطوط کے مکتوب الیہم مختلف ہیں اور ایک مکتوب الیہ گم نام ہے، گویا اس طرح راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد اکتالیس بنتی ہے۔ 7اس مجموعے میں 9انگریزی خطوط اور ان کے تراجم بھی شامل ہیں، یہ تراجم کس نے کیے ہیں؟ اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ 8 کئی خطوط میں عکسی نقول کے مطابق نئے پیراگراف نہیں بنائے گئے، مثلاً: صفحات47, 53, 83 9ایک غلطی جو کثرت سے دہرائی گئی ہے، وہ اقبال کے خطوط کے آخر میں درج الفاظ، ’’والسلام‘‘ کو لفظ’’ فقط‘‘ سے بدل دیا ہے۔ تاہم دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب کی نسبت زیر نظر مجموعے میں30ء کو 1930ء نہیں بنایا گیا اور علامہ کے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پر علامت’’ ؐ‘‘ کا اہتمام کیا گیا ہے، سوائے چند خطوط (ص39, 47) کے جہاں یہ التزام نہیں کیا گیا، علاوہ ازیں اگر تاریخ خط کے آغاز میں درج ہے تو اسے آغاز ہی میں رہنے دیا ہے اور اگر آخر میں درج ہے تو اسے آخر میں درج کیا ہے۔ 14کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول: ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول، اردو اکادمی، دہلی سے 1989ء میں شائع ہوئی۔ اسے سید مظفر حسین برنی نے مرتب کیا ہے۔ کل صفحات1207ہیں، صفحات کا شمار مسلسل کیا گیا ہے۔ خطوط تاریخ وار مرتب کئے گئے ہیں۔ انگریزی اور جرمن زبان میں اقبال کے خطوط کے اردو تراجم پیش کئے گئے ہیں۔ انگریزی اور جرمن خطوط کے تراجم شامل کرنے کی غایت مرتب نے یہ بتائی ہے کہ چونکہ خطوط کو سنہ وار مرتب کیا گیا ہے، اس لئے ان تراجم کو بھی حسب موقع شامل کیا گیا ہے۔ا ردو اکادمی، دہلی نے اقبال کے تمام معلومہ مکاتیب کو پانچ جلدوں میں چھاپنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان پانچ جلدوں کو کس طرح ترتیب دیا گیا ہے، اس کے متعلق مرتب لکھتے ہیں: ’’ علامہ اقبال کے تمام معلومہ خطوط کی تدوین و اشاعت کا منصوبہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ انہیں پانچ جلدوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس تقسیم کے لئے کوئی جواز بھی ہونا چاہئے تھا۔ بہت غور و فکر کے بعد اقبال کی تصانیف کو نشان راہ بنایا گیا ہے، یعنی رموز بیخودی’’ بانگ درا‘‘ ’’ بال جبریل‘‘ اور پھر آخری زمانہ ۔۔۔۔ اس طرح اقبال کے ذہنی سفر کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو گی۔‘‘ 1جلد اول، میں1899ء سے 1918ء تک لکھے ہوئے تین سو انیس (319) خطوط شامل ہیں، جن میں سے ایک غیر مطبوعہ ہے اور ایک سو تینتیس (133) خطوط کے عکس دیے جا رہے ہیں۔ (1918ء ان کی تصنیف رموز بیخودی کا سال اشاعت ہے) 2جلد دوم۔۔۔۔۔ اس میں 1919ء سے 1928ء تک لکھے ہوئے مکتوبات درج کئے گئے ہیں (اس سال ان کے چھ خطبات، فکر اسلامی کی تشکیل جدید لکھے گئے ) 3جلد سوم۔۔۔۔ میں1929ء سے آخر1934ء تک لکھے ہوئے خطوط شامل ہیں (جنوری 1935ء میں بال جبریل کی اشاعت ہوئی) 4جلد چہارم میں 1935ء سے 1938ء تک لکھے ہوئے مکتوبات شامل کیے گئے ہیں (21 اپریل 1938 ء علامہ اقبال کی تاریخ وفات ہے) اس آخری جلد کے دوسرے حصے میں علامہ کے خطوط کا تنقیدی و تحلیلی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں: الف :چاروں جلدوں میں شامل خطوط کی مکمل فہرست (مکسب تاریخ) ب: مکتوب الیہم کی مکمل فہرست (ابجدی ترتیب سے) ج: چاروں جلدوں میں اشخاص، مقامات و ادارے اور کتب و رسائل کا مکمل اشاریہ بھی دیا جا رہا ہے۔ د: سب جلدوں کا ایک جامع اشاریہ (Master Index) اور خطوط میں جن موضوعات پر لکھا گیا ہے، ان کا اشاریہ آخری جلد میں دیا جا رہا ہے۔ ۵: جلد پنجم۔۔۔۔۔ علامہ اقبال کے انگریزی خطوط پر مشتمل ہے۔ انگریزی کے تمام خطوط کا اردو ترجمہ جلد اول تا چہارم میں باعتبار تاریخ اپنے اپنے مقام پر دے دیا گیا ہے۔ انگریزی کے اصل خطوط اس جلد میں تاریخی ترتیب سے یک جا کر دئیے گئے ہیں 74؎ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کی ترتیب کچھ اس طرح ہے: انتساب ص5پہ ترتیب مندرجات ص7تا21 حرف آغاز (از: سید شریف الحسن نقوی) مقدمہ (از: سید مظفر حسین برنی) ص25سے 53تک محیط ہے۔ مقدمہ میں مرتب نے مختلف زبانوں میں مکتوب نگاری کی ابتدا پر روشنی ڈالی ہے، علاوہ ازیں علامہ کے مکاتیب کے مختلف مجموعوں کا مختصر سا تعارف بھی پیش کیا ہے، مگر ان خطوط کو بھی جو خطوط کے کسی مجموعے کے بجائے مختلف کتابوں (مثلاً: اقبال یورپ میں، مظلوم اقبال Iqbal His Political Ideas at Cross Road. میں چھپے ہیں۔ مرتب نے ان کا ذکر مجموعہ ہائے مکاتیب کی ذیل میں کیا ہے۔ مرتب نے مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب کی صرف اولیں اشاعت کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ کئی مجموعے (مثلاً: مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، مکتوبات اقبال بنام نذیر نیازی، انوار اقبال) اس سے زیادہ بار شائع ہو چکے ہیں۔ مقدمہ میں مرتب نے ان امور کا تذکرہ بھی کیا ہے، جو ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کی ترتیب و تدوین میں پیش نظر رکھے گئے، یعنی تمام خطوط کو تاریخ وار مرتب کیا گیا ہے، جن خطوط کی تاریخیں پچھلے مجموعوں میں غلط چھپ گئی تھیں، بعد میں کی جانے والی تحقیق کی روشنی میں ان کی تاریخیں درست کر لی گئیں۔ بعض خطوط پر تاریخ درج نہیں ہے، ان کا زمانہ اندرونی و بیرونی شہادتوں کی روشنی میں متعین کیا گیا ہے کئی خطوط ایسے ہیں جن پر نہ تاریخ درج ہے اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ان کے زمانہ کتابت کا تعین ہو سکا ہے، ایسے خطوط چوتھی جلد کے آخر میں درج کر دیے جائیں گے۔ مقدمے میں جن معروف اور غیر معروف اصحاب کا ذکر آیا ہے، ان کی تفصیل مقدمے کے آخر میں حواشی میں دی گئی ہے۔ حواشی کی ترتیب و تدوین میں نثار احمد فاروقی صاحب نے معاونت کی ہے۔ متن خطوط ص62سے 798تک محیط ہے۔ یہ خطوط جن مکتوب الیہم کو لکھے گئے، یا ان مکاتیب میں جن شخصیات کا ذکر آیا ہے، ان کے متعلق مختصر سوانحی نوعیت کے حواشی ص 809 تا 1134پہ دئیے گئے ہیں۔ حواشی سے قبل حواشی کی فہرست (ص799تا808) درج کی گئی ہے۔ کتابیات کی تفصیل ص1135تا1150پہ دی گئی ہے۔ اشاریہ ص1151سے 1186 تک پھیلا ہوا ہے۔ اشاریے کے عنوانات یہ ہیں:1 اشخاص، 2ممالک، شہر، مقامات ، 3 اخبارات و رسائل، 4 انجمن، ادارے، کانفرنس، 5 کتابیں، ڈکشنریاں، انسائیکلو پیڈیا، انگریزی کتابیات کی فہرست ص1204تا1207پہ درج کی گئی ہے۔ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول، میں کل 319خطوط ہیں، ان میں269اردو خطوط، 17جرمن خطوط کے اردو تراجم اور 33 انگریزی خطوط کے تراجم شامل ہیں۔ 133 کی عکسی نقول شامل کی گئی ہیں، مگر133 عکسی نقول کے بجائے کل عکس140ہیں، تعداد میں فرق شاید اس وجہ سے ہے کہ مرتب نے ان عکسی نقول کو شمار نہیں کیا جو پہلے بھی منظر عام پہ آ چکی ہیں اور اب انہیں اس کلیات میں شامل کیا گیا ہے۔ مرتب نے یہ تعداد ان عکوس کی بتائی ہے، جو اس کلیات کے ذریعے پہلی بار منظر عام پہ آئے ہیں، مگر مرتب نے مقدمے میں کہیں اس کی وضاحت نہیں کی۔ کلیات کی چھپائی خوبصورت ہے۔ متن خطوط جلی قلم میں اور حواشی خفی قلم میں ہیں۔ کاغذ نسبتاً دبیز ہے۔ نقل متن میں اگرچہ احتیاط برتی گئی ہے، مگر اس کے باوجود عکسی نقول کے جائزے سے نقل متن میں بہت سی کوتاہیاں نظر آتی ہیں۔ ذیل میں متن کا ایک جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال جلد اول صفحہ سطر عکس خط 1 152 7 کے رستے کشمیر جائیں 154 7 کے رستے جائیں 2 152 11 میری آرزو 154 11 مری آرزو 3 152 14 کریگی 154 13, 14 کرے گی 4 243 5 ہے کہ 244 4 ہے 5 254 3 کیلئے 257 6 کے لئے 6 254 11 میرے 287 2 مرے 7 255 7 خواجہ نظامی صاحب 259 2 خواجہ نظامی 8 255 14 عرض کر رہا ہوں 259 9 عرض کرتا ہوں 9 256 2 سرکار والا مہاراجہ 262 2 سرکار والا تبار 10 260 5 ایک وجہ 263 1 وجہ ایک 11 260 5 سات آٹھ سو روپے ماہوار 263 2 سات آٹھ سو روپیہ ماہوار 12 260 14 حیرتناک 263 12 حیرت ناک 13 267 13 میں اس وقت 269 9 اس وقت میں 14 272 8 محمد 275 5 محمد ؐ 15 279 8 پنجاب میں آپ کی 284 14 پنجاب میں اب آپ کی 16 279 11 لکھے یا نہ لکھے 285 1 لکھے نہ لکھے 17 287 3 گیا ہے 288 3 گیا 18 301 4 الحمد للہ آپ کا 303 7 الحمد للہ کہ آپ کا 19 301 4 افرغ ہو 303 8 فارغ 20 302 2 سرکار والا تبار 307 2 سرکار والا 21 318 3 بخیر ہوں 319 4 بخیر ہو 22 353 1 1915ء 358 1 15ء 23 375 2 ہے۔ پنجاب 377 1 ہے مگر پنجاب 24 378 7 1915ء 379 7 15ء 25 382 2 چاہتے 385 1 چاہتے ہیں آہ! 26 383 8 کے ساتھ 386 5 کے ساتھ ہو 27 389 3 الحمد للہ سرکار 391 5 الحمد للہ کہ سرکار 28 389 5 افسوس ہے کہ 391 5 افسوس کہ 29 390 2 پڑھتا ہوں 393 5 پڑھ رہا ہوں 30 379 5 کبھی اجلاس میں 398 4 کبھی کسی اجلاس میں 31 397 7 مفید آدمی 398 6 مفید تر آدمی 32 401 9 میں اسی 407 9 میں بھی اسی 33 405 4 تحریر کیا ہے 408 3 تحریر کیا 34 405 5 کیے ہیں 408 4 کیے 35 405 6 وہ سینہ بہ سینہ 408 5 وہ رسالہ سینہ بہ سینہ 36 405 12 گرمی سخت 408 11 گرمی رخصت 37 406 9 رکھ کر 410 8 رکھ کے 38 411 14 میرے 413 11 مرے 39 440 3 کتاب میرے 441 3 کتاب پہلے سے مرے 40 463 10 میں تو ایک عرصے سے 464 11 میں تو عرصے سے 41 466 1 4فروری 467 1 4فروری16ء 42 485 10 ہے سرکار تک 488 12 ہے کہ سرکار تک 43 485 12 سے معلوم 489 14 سے یہ معلوم 44 485 16 اس 489 14 سے یہ معلوم 45 486 14 اس کو اسی وقت 490 12 اسی کو اس وقت 46 486 13 ہے خداے واحد 293 12 ہے اس خدائے واحد 47 496 4 بیشتر اور مشرق 498 2, 3 بیشتر اقوام مشرق 48 505 2 میں سمجھتا 507 9 میں اسے سمجھتا 49 505 7 ہے تو 508 6 ہے 50 515 8, 9 تاریخ اور آثار 516 9 تاریخ و آثار 51 538 3, 4 دے آپ 539 9 دے اور آپ 52 577 11 امید ہے کہ 580 2 امید کہ 53 593 20 محمد ؐ اقبال 595 8 محمد ؐ اقبال لاہور 54 605 6 کب قصد ہے 606 6 کب تک قصد ہے 56 607 17 محمدؐ اقبال 609 4 محمد ؐ اقبال لاہور 57 617 15 میرے پاس 621 8 مرے ہاں 58 617 16 خدمت میں رہا 621 8, 9 خدمت میں حاضر رہا 89 624 1 گا۔ آپ نے 623 11 گا۔ کیا آپ نے 60 633 7 مگر 634 7 لیکن 61 635 10 1917ء 638 1 17ء 62 637 1 سے فائدہ 639 8 سے یہ فائدہ 63 644 20 کے لئے جو 646 6 کے متعلق جو 64 681 2 ڈیر مولانا گرامی السلام علیکم 683 2 ڈیر مولنا گرامی 65 681 7 کر کے لکھیں کہ 683 7 کر کے کہ 66 681 11 شدید 683 12 شاید 67 695 4 الفت رسائل 696 5 الفت رسل و رسائل 68 705 13 تھا اور میں 706 12 تھا افسوس 69 717 کے یہاں 720 4 کے ہاں 70 743 8 ضروری 746 4 ضرور 71 751 5 سے زیادہ 754 1 سے بھی زیادہ 72 759 6 دشت در 758 4 دشت و در 73 776 11 کشائش کی دل 780, 781 13 کشایش کی کہ دل 74 789 10 اغراض کے لیے یہ 791 4 اغراض کے لحاظ لحاظ مندرجہ بالا گوشوارے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں، کہ نقل متن میں جس غایت درجہ کی دقت نظر اور کدو کاوش درکار تھی، اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ عکسی نقول اسی وقت سود مند ثابت ہوتی ہیں، جب ان کا متن صحیح نقل کیا جائے۔ مقدمے میں مرتب نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام خطوط میں ایک ہی املا ملتا ہے، تاکہ الجھن نہ ہو، مگر عکسی نقول کے جائزے سے ہمیں متعدد مقامات پہ دو طرح کا املا ملتا ہے، مثلاً: کریگی (کرے گی) کیلئے (کے لئے)، سیالکوٹ (سیال کوٹ)، دئیے (دیے) وغیرہ۔ نیز اس امر سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ علامہ اقبال اپنے نام کے جزو ’’ محمد‘‘ پر علامت ’’ ؐ ‘‘ خصوصیت سے بناتے ہیں، یہی نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی ’’ محمد ‘‘ یا ’’ محمدیہ‘‘ کے الفاظ آتے ہیں، علامہ ان پہ بہ اہتمام علامت’’ ؐ‘‘ بناتے ہیں، لیکن خطوط کے عکوس کے جائزے سے اس امر کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ نقل متن میں سوائے چند خطوط کے باقی تقریباً تمام خطوط میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا، مثلاً: صفحات 272, 298, 349, 353, 360, 368, 435, 463, 466, 469, 478, 492, 520, 529, 545, 577, 759, 767, 783, 793۔ مقدمے میں مرتب نے لکھا ہے کہ علامہ خط لکھتے وقت تاریخ کبھی خط کے آغاز میں لکھتے ہیں اور کبھی آخر میں کبھی تاریخ مع ماہ و سال پوری لکھتے ہیں اور کبھی 29جون لکھ دیتے ہیں، کبھی سنہ کے اوپر پورے اعداد ہوں گے اور کہیں صرف07ء لکھ دیں گے۔ مرتب نے لکھا ہے کہ ہم نے اس کا التزام صرف ان خطوط میں کیا ہے، جن کی اصلی یا عکسی نقلیں ہم نے دیکھی ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ علامہ تاریخ خط کے آغاز میں لکھتے ہیں، یا آخر میں، مرتب نے عکس کے مطابق اس کو ملحوظ رکھا ہے، مگر انہوں نے اس اصول کی نفی ایک دو مقامات پہ کی ہے کہ 29جون وغیرہ کے ساتھ سنہ کو حذف کر دیا ہے، مزید یہ کہ 07ء وغیرہ کو 1907ء بنا دیا گیا، حالانکہ عکس میں اس کا التزام نہیں کیا گیا۔ مرتب نے ایک مقام (ص466) پہ صرف4فروری لکھا ہے، مگر عکس (ص467) میں4 فروری 16ء موجود ہے، اسی طرح دو مقامات پہ 15ء کو 1915ء سے بدل دیا ہے۔ عکوس میں علامہ نے بالتزام علامت ’’ سنہ‘‘ کو ملحوظ رکھا ہے، مگر مرتب نے سوائے چند خطوط کے بیشتر خطوط میں اس علامت کو حذف کر دیا ہے، مثلاً: صفحات 152, 253, 271, 278, 288, 293, 294, 298, 302, 306, 312, 313, 318, 320, 323, 331, 366, 372, 381, 389, 400, 401, 406, 411, 422, 425, 431, 438, 440, 442, 457, 485, 500, 502, 515, 518, 545, 560, 565, 576, 591, 596, 207, 624, 627, 633, 640, 642, 644, 679, 652, 662, 668, 684, 705, 708, 738, 741, 756, 767۔ علاوہ ازیں متن خطوط میں کئی مقامات پہ عکسی نقول کے برعکس نئے پیراگراف بنا دیے گئے ہیں، یا پھر جہاں عکس کے مطابق پیراگراف بنانا چاہئے تھا، وہاں اس کا خیال نہیں رکھا گیا، مثلاً: صفحات349, 364, 375, 411, 752, 792, 793۔ مندرجہ بالا تحریفات و محذوفات کی وضاحت، مرتب نے کہیں بھی نہیں کی۔ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں جن مجموعہ ہائے مکاتیب سے خطوط اخذ کئے گئے ہیں ان کے آخر میں ماخذ کی نشان دہی کر دی گئی ہے، یہ نشان دہی تشنہ ہے کیونکہ ماخذ کے ساتھ صفحات نمبر درج نہیں کئے گئے۔ علاوہ ازیں خط اگر ’’ اقبالنامہ‘‘ سے لیا گیا ہے، تو قوسین میں محض’’ اقبالنامہ‘‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں، اس سے یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ خط’’ اقبالنامہ‘‘ حصہ اول سے لیا گیا ہے، یا حصہ دوم سے۔ سب سے بڑا نقص اس ضمن میں یہ نظر آتا ہے کہ مختلف مجموعہ ہائے مکاتیب سے خطوط نقل کرتے وقت، کامل احتیاط سے کام نہیں لیا گیا، نتیجتہً متن میں بہت سے تصرفات راہ پا گئے ہیں۔ مرتب نے بعض مقامات پہ تو ان تصرفات کی وضاحت کی ہے، مگر بیشتر مقامات پہ ہمیں یہ التزام نظر نہیں آتا۔ ہم نے چند خطوط کے متن کا موازنہ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کے متن سے کیا ہے، ذیل میں ایک مختصر سا جائزہ پیش کیا جاتا ہے: نمبر شمار صفحہ سطر اقبالنامہ حصہ اول صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال جلد اول 1 9 11 پوچھتے ہیں خط 76 7 پوچھتے ہیں کہ خط 2 11 4 امیر و داغ 86 3 امیر اور داغ 3 11 7 دو حروف 86 6 دو حرف 4 11 9 میں بیٹھے 86 7 میں بیٹھے بیٹھے 5 73 8 ہو تو میں 239 7 ہو تو اقبالنامہ، حصہ دوم 6 353 1 دہلی ملوں 84 5 دہلی میں ملوں 7 361 11 کیجئے 160 5 کیجے 8 362 4 ہوتا تو میں ابھی 160 11 ہوتا تو ابھی 9 36 12 مگر میں ان 228 7 مگر ان 10 39 9, 10 پیر مشرقی 234 3 پیر مشرق خطوط اقبال 11 67 12 تکلیف ہوتی ہو گی 77 4 تکلیف ہوئی ہو گی 12 68 4 ریجنٹ کوئٹہ 78 8 ایجنٹ کوئٹہ 13 68 6 کرسکا اس کی 78 10 کر سکا کہ اس کی 14 71 6 واقعی خوب 93 15 واقعی میں خوب 15 91 5 سر ولیم میور کی تصانیف 106 6 سر ولیم میور تصانیف 16 73 3 پیشہ ہی 151 11 پیشہ میں یہ محض چند خطوط کے متن کا موازنہ ہے، اگر تمام خطوط کے متون کا موازنہ کیا جائے، تو تحریفات و ترامیم کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جائے۔ نقل متن میں یہ تساہل لائق تحسین امر نہیں ہے، کیونکہ مرتب نے خود ہی مقدمے میں لکھا ہے:’’ متن میں اگر ایک لفظ بھی بدل جائے تو جملہ کا مفہوم ہی خبط ہو جاتا ہے۔‘‘ 75؎ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں جا بہ جا تصرفات کئے گئے ہیں، ان تصرفات سے نہ صرف یہ کہ جملہ کا مفہوم خبط ہو گیا ہے، بلکہ صحت متن کے متعلق بھی شبہ پیدا ہو گیا ہے۔ مرتب نے مقدمے میں وضاحت کی ہے کہ انہوں نے تمام خطوط میں ایک ہی املا رکھا ہے، اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں: ’’ اردو کا کوئی معیاری املا نہیں ہے، پھر بھی صحت سے وہ املا زیادہ قریب ہے، جس کے رہنما اصول انجمن ترقی اردو ہند نے تیار کیے تھے۔‘‘76؎ مگر مرتب نے جن اصولوں کو رہنما بنایا ہے، انہیں تمام خطوط میں ملحوظ نہیں رکھا۔ متون خطوط میں ہمیں دو طرح کا املا ملتا ہے، کئی الفاظ جنہیں الگ الگ لکھنا چاہئے،ا نہیں اکٹھا لکھا گیا ہے، جو الفاظ دو چشمی (ھ) سے لکھنے چاہیں، وہ ہاے محتفی سے لکھے ہیں، مثلاً کیلئے، کرونگا انہیں وغیرہ۔ اسی طرح ایک ہی لفظ کا دو طرح کا املا استعمال کیا ہے۔ مثلا مولانا۔۔۔ مولینا، دیجئے ۔۔۔ دیجئے، سیال کوٹ۔۔۔۔ سیالکوٹ، فرمائیے۔۔۔۔ فرمایے، قائم ۔۔۔۔۔قایم، فرمائش۔۔۔۔ فرمایش، دئیے۔۔۔۔ دیے، شکرئیے۔۔۔۔۔۔شکریے، گذرے۔۔۔۔۔گزرے۔۔۔۔ اسی طرح ’’ خاصا‘‘ اور’’ مہاراجا‘‘ کے الفاظ کو متعدد مقامات پہ ’’ خاصہ‘‘ اور’’ مہاراجہ‘‘ لکھا ہے،گویا مرتب نے مقدمے میں جن اصولوں پر کاربند رہنے کی نشان دہی کی ہے خود ہی ان کی نفی بھی کر دی ہے۔۔۔ صابر کلوروی صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں اغلاط متن کی نشان دہی کی ہے۔77؎ مقدمے میں مرتب نے اقبال کے خطوط کے مجموعوں کا تعارف کراتے ہوئے ’’ اقبال۔۔۔ جہان دیگر‘‘ کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس میں راغب حسن (احسن) کے نام اردو انگریزی زبانوں میں لکھے ہوئے چوالیس (44) خطوط ہیں، خطوط کی صحیح تعداد44 کے بجائے اکیالیس (41) ہے، کیونکہ دو خطوط کے مکتوب الیہم مختلف ہیں، اور ایک خط کا مکتوب الیہ گم نام ہے، مگر مرتب نے اس ضمن میں بغیر تحقیق کے، اس مجموعہ مکاتیب کے دیباچہ نگار (محمد علی صدیقی، ص14تا21) کی غلطی کو دہرا دیا ہے، جنہوں نے راغب احسن کے نام خطوط کی تعداد چوالیس (44) بتائی ہے۔ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں ہمیں کتابت اور ٹائپ کی اغلاط بھی نظر آ جاتی ہیں۔مثلاً نمبر شمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 20 5 194 294 2 32 4 تفصبل تفصیل 3 52 6 اشاریہ مکاتیب بنال اشاریہ مکاتیب اقبال 4 55 19 چارلس لیمپ چارلس لیمب 5 99 14 ینگ ٹرک پاٹی ینگ ٹرک پارٹی 6 100 21 دی ٹی اسٹیشن ٹی وی اسٹیشن 7 110 5 نمام تمام 8 126 1 مائر ڈئیر مائی ڈئیر 9 160 17 پرلشان پریشان 10 390 2 غرض کروں عرض کروں 11 390 4 ہجران ہجراں 12 390 5 درمان درماں 13 485 4 حلد جلد 14 627 12 عرش برین عرش بریں 15 797 6 لاہور لاہور 16 1012 8 تلمیحات اقبال تلمیحات اقبال 17 1117 9 جسن جس ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ میں ان اغلاط کے علاوہ بعض دیگر اغلاط بھی کھٹکتی ہیں، مثلاً: 1خطوط پر نمبر شمار درج نہیں کئے گئے۔ 2دو خطوط i ص 235، ii ص476 کے آخر میں ’’ عکس‘‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں، مگر ان خطوط کے عکوس شامل نہیں کئے گئے، علاوہ ازیں مرتب نے عکوس کی تعداد133بتائی ہے جبکہ کل عکس140بنتے ہیں۔ 3 متون خطوط کے آخر میں حواشی شامل کے گئے ہیں، جو حواشی مرتب کی ذاتی معلومات پہ مبنی ہیں، ان کی وضاحت کر دی گئی ہے، اگر حواشی کہیں سے اخذ کئے گئے ہیں، تو اس کا حوالہ بھی دے دیا گیا، مگر اس میں ہمیں ایک تو یہ بات کھٹکتی ہے کہ جس کتاب کو ماخذ بنایا گیا ہے، اور جس صفحے سے وہ حواشی نقل کئے گئے ہیں، اس کے صفحہ نمبر کی نشاندہی نہیں کی گئی، سوائے چند ماخذ کے دوسری بات یہ کہ بعض جگہ یا تو ماخذ کی تفصیل مکمل طور پہ نہیں دی، یا پھر ماخذ کا حوالہ ہی نہیں دیا گیا، مثلاً ص:915 پہ ماخذ نامکمل ہیں، اور صفحات115،1133پہ ماخذ کی تفصیل درج نہیں ہے۔ 4صفحات751, 792کے بین السطور علامت بنائی گئی، مگر حاشیہ نہیں دیا گیا۔ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد اول، پر تبصرہ کرتے ہوئے خلیق انجم اسے ’’ معیاری‘‘ اور’’بنیادی کام‘‘ قرار دیتے ہیں لکھتے ہیں: ’’ برنی صاحب نے یہ خطوط انتہائی سائنٹیفک انداز میں مرتب کیے ہیں۔ متنی تنقید کے تمام جدید اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ متن درست ترین ہو۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ کلیات مکاتیب اقبال، علامہ کے خطوط کے تمام مجموعوں سے زیادہ بہتر اور سائنٹفک ہے۔ اقبالیات میں اہم ترین اضافہ ہے۔‘‘ 78؎ تبصرہ نگار کے نزدیک ’’ کلیات‘‘ کا کام ’’ سائنٹفک‘‘ ہے، اور علامہ کے خطوط کے ’’ تمام مجموعوں سے زیادہ بہتر‘‘ ہے۔ مندرجہ بالا اغلاط، تبصرہ نگار کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مرتب نے بلا شبہ سائنٹفک اصولوں کو مدنظر رکھا ہے، مگر ان اصولوں کی جا بہ جا نفی کی ہے۔ متن میں سینکڑوں اغلاط ہیں، کتابت اور ٹائپ کی اغلاط بہ کثرت ہیں۔ حواشی کے ماخذ کا حوالہ کہیں دیا ہے، کہیں چھوڑ دیا ہے، اس طرح تبصرہ نگا رکا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انہوں (سید مظفر حسین برنی) نے جن لوگوں سے استفادہ کیا ہے، اس کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ اصل میں اقبال کے مکاتیب کی تدوین نو کا کام نہایت توجہ، محنت، صلاحیت اور باہمی صلاح و مشورے کا طالب ہے۔ محض چند اصول وضع کر دینے اور بہ عجلت ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کو چھاپ دینا، کسی طرح سے بھی ’’ معیاری‘‘ اور’’ بنیادی‘‘ کام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ اقبال پر زیادہ معیاری اور سائنٹفک کام، پاکستان کی نسبت ہندوستان میں ہو رہا ہے ۔ حقیقت یہ نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں بھی اقبال پر نہایت عمدہ اور معیاری کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ مرتب نے حواشی کی ذیل میں جگہ جگہ پاکستانی محققین اور نقادوں کے تحقیقی کام سے استفادہ کیا ہے، حتیٰ کہ کلیات کی ترتیب و تدوین کے جو اصول وضع کئے گئے ہیں، وہ بھی معمولی ترامیم کے ساتھ پاکستانی محقق اور نقاد (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب) کے تحقیقی و تنقیدی مقالے (تصانیف اقبال کا تحقیق و توضیحی مطالعہ) سے اخذ کئے گئے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مرتب سے یہ اصول پوری طرح نبھ نہ سکے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کو از سر نو بہتر، معیاری اور مستند متن اور حواشی کے ساتھ چھاپنے کی ضرورت ہے، اور اس کی ترتیب و تدوین میں ان اصولوں کو خاص طور سے مدنظر رکھا جائے، جو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے وضع کیے ہیں، مثلاً: ’’ سب سے پہلے تو اردو، انگریزی، فارسی، جرمن اور عربی خطوط کو الگ کر دیا جائے، پھر باعتبار نوعیت ان کی تقسیم اس کی طرح کی جائے: اول: وہ خطوط جن کے اصل یا عکس دستیاب ہیں۔ دوم: وہ خطوط جن کا متن مستند اور باوثوق حوالوں کے ذریعے دستیاب ہوا ہو۔ سوم: وہ خطوط جن کے ایک سے زائد متن دستیاب ہوں۔ چہارم: نا مکمل اور جزوی خطوط، جن کا پورا متن موجود نہیں۔‘‘ 79؎ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ان چاروں اصولوں کی نہایت عمدہ اور جامع انداز میں وضاحت کی ہے، اگر ان اصولوں کو بھی پیش نظر رکھا جاتا، تو مرتب (سید مظفر حسین برنی) کے اس کام کو ہم یقینا ’’ معیاری‘‘ اور’’ سائنٹیفک‘‘ کہہ سکتے تھے۔ آخر میں ہم بہ قول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی یہ کہہ سکتے ہیں: ’’ مکاتیب اقبال عمیق تر تحقیق و مطالعے کے بعد، از سر نو تدوین و ترتیب کے متقاضی ہیں۔ یہ کام جس قدر اہم ہے اسی لحاظ سے محنت و صلاحیت اور وسائل و ذرائع چاہتا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے الفاظ میں مکاتیب اقبال کی تدوین نو اقبالیاتی اداروں کا کام ہے، کیونکہ ان کے پاس ریکارڈ بھی ہے اور طباعت و اشاعت کی سہولتیں اور معقول گرانٹیں بھی بایں ہمہ اقبال کے محقق و نقاد اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اس ذمہ داری سے کلیتاً بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ 80؎ پروفیسر صابر کلوروی صاحب نے ’’ کلیات مکاتیب اقبال جلد اول‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف تصرفات اور اغلاط کی تصحیح کے لئے ٹھوس ثبوت فراہم کئے ہیں۔۔۔ آخر میں وہ کلیات مکاتیب کو تمام ممکنہ اغلاط سے پاک رکھنے کے لئے درج ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں: 1 مکاتیب کے عکس اس طرح شائع کئے جائیں کہ یہ کم سے کم جگہ گھیریں ہر ممکن کوش کی جائے کہ اصل خط اور عکس آمنے سامنے آ سکیں۔ 2حواشی کا قلم، عام متن کی نسبت خفی ہونا چاہئے اس مواد کی (Pasting) کچھ اس طرح کی جائے کہ یہ کم جگہ لے۔ 3مکتوب الیہم اور متن کے اندر بعض امور کے حواشی کے ضمن میں مناسب تقابلی اشارے (Cross References) دینے چاہئے۔ 4 سنین اور متن کی درستی کا ہر ممکن خیال کیاجائے اور زیادہ سے زیادہ خطوط کی عکسی نقول فراہم کی جائیں۔ 5 کتاب کی پروف ریڈنگ اور اشاریہ سازی کا معاملہ زیادہ توجہ طلب ہے۔ اسے سرسری نہ لیا جائے۔ 6 اس امر کا امکان ہے کہ اقبال کی بعض تقاریظ بھی خطوط شمار کر لی جائیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دیباچے میں ’’ خط‘‘ کی مناسب تعریف کی جائے اور اس کی حدود واضح کی جائیں تاکہ دیگر نوع کی تحریروں سے انہیں ممیز کیا جا سکے۔ 81؎ کلیات مکاتیب اقبال جلد اول (طبع دوم): مذکورہ کلیات کا دوسرا ایڈیشن 1991ء میں شائع ہوا۔ امید تھی کہ طبع دوم میں طبع اول کی اغلاط کی تصحیح کر دی جائے گی لیکن افسوس کہ اغلاط جوں کی توں دوہرا دی گئی ہیں۔۔۔ مذکورہ ایڈیشن کے دیباچے میں بعض جگہ پہ تبدیلی کی گئی ہے۔ فلیپ پر اقبال شناسوں مثلاً ڈاکٹر مختار الدین احمد، محمد ظہیر الدین احمد، ڈاکٹر صابر کلوروی، ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر وحید عشرت وغیرہ کی آرا درج ہیں۔۔۔ اس ایڈیشن میں ضمیمہ کے طور پر پندرہ سولہ صفحات کا اضافہ کیا گیا ہے، اس میں1918ء تک کے عرصہ کے درج ذیل خطوط کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 1 خط بنام سر ولیم روتھین اسٹائن 18 دسمبر1902ء ماخذ قومی زبان جنوری 1991ء 2 خواجہ غلام الحسنین 1904ء Education کتاب، مصنف مذکور۔ 3 شعیب قریشی8نومبر1918ء ہماری زبان8نومبر1989ء 4 محمد عبداللہ العمادی10اکتوبر1918ء (غیر مطبوعہ، عکسی) آخر الذکر دونوں خطوط کے عکس بھی شامل کتاب کئے گئے ہیں ایک اور خط کا عکس بھی مرتب کو بعد میں دستیاب ہوا ہے جو شامل کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سر ولیم روتھین اسٹائن، خلیفہ عبدالحکیم اور گولزیر اگنائس پر بھی وضاحتی نوٹ بطور حواشی کتاب میں اضافہ کیا گیا ہے۔ مذکورہ کلیات کے پہلے ایڈیشن کے جائزے میں ہم نے جن اغلاط کی نشان دہی کی ہے، دوسرے ایڈیشن میں اگر ان کی تصحیح کر دی جاتی تو یقینا اس کی افادیت و اہمیت کو چار چاند لگ جاتے۔۔۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب اس سلسلے میں لکھتے ہیں: ’’ کلیات مکاتیب اقبال کی تدوین نہایت اہم کام ہے۔۔ زیر نظر کلیات دیکھ کر انداز ہوتا ہے کہ اس نوعیت کے کام کے لئے محض وسائل کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے وہ تحقیقی ذوق اور نظر مطلوب ہے، جو ایک طویل مشق اور موضوع پر کچھ وقت کام کرنے ہی سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔ چنانچہ زیر نظر کلیات کو دیکھ کر قدرے مایوسی، قدرتی بات ہے۔‘‘ 82؎ کلیات مکاتیب اقبال۔۔۔۔ جلد دوم: اردو اکادمی دہلی نے علامہ اقبال کے مکاتیب پانچ جلدوں میں چھاپنے کا جو پروگرام مرتب کیا ہے، اس کے تحت پہلی اور دوسری جلد منظر عام پر آ گئی ہے۔ پہلی جلد میں1899ء سے 1918ء تک کے خطوط شامل ہیں اور دوسری جلد میں1919ء سے 1928ء تک کے خطوط شامل کئے گئے ہیں۔ اس مدت کا تعین بہ قول سید مظفر حسین برنی ’’ اس مدت کا تعین اس لحاظ سے کیا گیا کہ 1928ء میں علامہ نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے موضوع پر اپنے مشہور زمانہ خطبات لکھے تھے اور ان خطبات کے مباحث پر اس عہد کے علماء سے خط و کتابت کرتے رہے تھے۔‘‘ (ص:30) خطبات کے علاوہ یہ دور (1919ء تا 1928ئ) علامہ کی نجی، علمی، ادبی اور سیاسی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں بھی یہ دور کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ کے خطوط میں اس سیاسی صورت حال پہ کافی مواد مل جاتا ہے۔۔۔۔’’ پیام مشرق‘‘ ’’ بانگ درا‘‘ زبور عجم اور خطبات اسی دور میں منظر عام پر آئے گویا علمی و ادبی لحاظ سے علامہ کی زندگی میں یہ دور خاصا زرخیز رہا۔ زیر نظر کلیات 1991ء میں شائع ہوئی اور اسے بھی سید مظفر حسین برنی نے مرتب کیا ہے۔ مرتب نے اس جلد میں خطوط کی کل تعداد چار سو اکتیس بتائی ہے۔ جبکہ کل تعداد چار سو تیس ہے۔ ایک خط ضمیمے میں شامل ہے جو علامہ نے کیپٹن منظور حسن کے نام لکھا تھا (ص:1118) ضمیمے میں شامل خط پہ نمبر شمار نہیں ہے، تاہم فہرست کے مطابق اس کا نمبر430بنتا ہے اور یوں کل خطوط چار سو تیس ہوئے۔۔۔۔ ایک سو دس خطوط کے عکس دیے گئے ہیں مگر مرتب نے عکوس کی تعداد ایک سو بارہ بتائی ہے دراصل فہرست میں ایک سو بارہ عکوس کا ہی حوالہ دیا گیا ہے مگر ص:372 اور ص:425 پر لفظ عکس لکھا گیا ہے تاہم عکس نہیں دیا گیا۔ یوں عکوس کی کل تعداد ایک سو دس ہوئی۔ انگریزی خطوط کی تعداد بھی تینتیس (33) کے بجائے چھتیس (36) ہے فہرست میں بعض انگریزی خطوط کے ساتھ لفظ’’ انگریزی‘‘ نہیں لکھا جس سے صحیح تعداد متعین نہ ہو سکی، مثلاً: خط بنام مہاتما گاندھی، ص216، خط بنام سردار ایم بی احمد ص:386، خط بنام دینا ناتھ، ص:523، خط بنام مرزا محمد سعید، ص:651، خط بنام حمید احمد انصاری، ص:710, 712 فہرست میں ان خطوط کے ساتھ لفظ انگریزی درج نہیں کیاگیا، اس لئے تعداد کا صحیح تعین نہ کیا جا سکا۔ زیر نظر کلیات 1224صفحات پر محیط ہے۔ فہرست مندرجات ص7سے ص26تک محیط ہے۔ ’’ حرف آغاز‘‘ شیکرٹری سید اشتیاق عابدی ک اتحریر کیا ہوا ہے، جو ص27تا28پہ درج ہے۔ مقدمہ از سید مظفر حسین برنی ص:29تا42پہ ہے۔ مقدمے میں مرتب نے اس دور کے مکاتیب کے حوالے سے علامہ کی علمی و ادبی اور سیاسی زندگی پہ روشنی ڈالی ہے۔۔۔۔ مکاتیب اقبال ص:43 سے 712 تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک خط ضمیمے میں ہے، ص:118 فہرست حواشی ص713تا721 اور متن حواشی ص:722تا1096ہے۔ فہرست تعلیقات ص:1097پر ہے اور متن تعلیقات ص:1908سے 1117 تک ہے۔ ص:1119 سے 1126 تک کتابیات محیط ہیں۔۔۔ اشاریہ ان عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے ـ:1اشخاص، 2 مقامات، 3کتابیں، رسائل، 4 ادارے، تنظیمیں۔۔۔۔ انگریزی کتابیات ص: 1223 تا 1224 پر ہیں۔ کلیات کی قیمت280/روپے ہے۔ جو ضخامت کے لحاظ سے بالکل مناسب ہے۔ نقل متن کا معاملہ بظاہر آسان بہ باطن نہایت جگر کاوی کا طالب ہوتا ہے اور کام کے پھیلاؤ کی صورت میں اس کی اہمیت چوگنی ہو جاتی ہے۔۔۔۔ کلیات مکاتیب اقبال کا جب ہم عمیق نظری سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں متن کے ذیل میں کچھ تصرفات، اصلاحات اور اغلاط نظر آتی ہیں۔۔۔ بعض خطوط کا متن عکس کے مطابق نقل نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔ ذیل میں ہم زیر نظر کلیات کے چند خطوط کا موازنہ پیش کر رہے ہیں، جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرتب نے صحت متن کا کس حد تک خیال رکھا ہے: نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر مظلوم اقبال 1 82 1 الحمد للہ کہ 249 1 الحمد للہ۔۔۔ 2 82 9 قائم۔۔۔۔ 249 9 قائم ہیں۔۔۔ 3 90 3 متعلق لکھ۔۔۔ 253 17 متعلق پہلے لکھ۔۔۔ 4 98 4 سے امتحان۔۔۔ 254 14 سے اعجاز امتحان۔۔۔ 5 105 12 اس لئے اس پر۔۔۔ 265 4 اس پر۔۔۔ 6 109 20 پیٹی۔۔۔ 269 20 بلٹی 7 119 13 تین سو زائد۔۔۔ 276 18 تین سو سے زائد۔۔۔ 8 135 15 ریز رو 279 9 ریز روڈ 9 135 279 12 تا 15 کرایہ زیادہ نہ دینا پڑے گا ، جس قدر ٹکٹ ہوں گے انہیں کا کرایہ دینا ہو گا۔ دو ٹکٹ تمہاری بیبیوں کے ہوں گے تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جانا اور اگر کوئی لیڈی آ گئی تو تم کو مردوں کے کمرے میں بیٹھنا ہو گا۔ داری کا ٹکٹ تیسرے درجے کا ہو گا۔ بورڈ گاڑی پر لگوا لینا۔ 10 157 14 دینی علوم۔۔ 282 3 علوم دینی ہی۔۔۔ 11 176 2 وہ گم نام۔۔۔ 290 18 وہ خط گمنام۔۔۔ 12 176 5 اس کی عمر قریب۔۔۔ 290 20 اس کی عمر قریباً۔۔۔ 13 181 6 کے مشہور۔۔۔ 292 19 کے ایک مشہور۔۔۔ 14 182 10 اس دنیا۔۔۔ 293 23 اس بد نصیب دنیا۔۔۔ 15 185 2 آج خوب۔۔۔ 295 11 آج صبح خوب۔۔۔ 16 210 16 لکھے یہ۔۔۔ 297 3 لکھے اگر یہ۔۔۔ 17 222 6 انجمن کے۔۔۔ 297 19 انجمن کی۔۔۔ 18 222 7 بھی کالج۔۔۔ 297 20 بھی ہو کالج۔۔ 19 316 5 واقف کار ہیں۔۔۔ 317 20 واقف ہیں 20 316 14 گاہے گاہے 318 9 گاہے ماہے۔۔۔ 21 392 11 مسلمان ایشیا 341 11 مسلمانان ایشیا۔۔ 22 556 1 لاہور، 22 اکتوبر 24ء 351 18 لدھیانہ، 22اکتوبر 24ء درج بالا گوشوارہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرمت متن پر زیادہ دھیان نہیں دیا گیا۔ متن میں اختلاف ہمیں دیگر مجموعہ ہائے مکاتیب کے موازنے سے بھی معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔ ذیل میں ہم کلیات مکاتیب اقبال کا موازنہ، مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، انوار اقبال، خطوط اقبال، اقبال نامہ اور مکاتیب اقبال بنام گرامی سے کرتے ہیں، تاکہ صحیح متن کی نشان دہی ہو سکے۔ نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، طبع دوم 1 97 7 نہ۔۔۔ 39 7 نہیں۔۔۔ 2 123 17 کے رنگ۔۔۔ 41 11 کے رنگوں۔۔۔ 3 142 5 عزیز جنگ۔۔۔۔ 41 20 نواب عزیز جنگ۔۔۔ 4 143 4 ہے کمال شاعری۔۔۔ 42 9 ہے وہ کمال شاعری۔۔۔ 5 145 4 نہایت موزوں 43 3 نہایت ہی موزوں 6 161 16 امید کہ مزاج۔۔۔ 42 1 امید کہ آپ کا مزاج۔۔۔ 7 164 1 یہ معلوم ہوا۔۔۔ 46 8 یہ نہ معلوم ہوا۔۔۔۔ 8 164 2 کے طور پر۔۔۔ 46 9 کے طرز پر۔۔۔ 9 169 16 ایوان عوام۔۔۔ 47 4 ایوان عام۔۔۔ 10 174 2 نوازش نامہ ملا۔۔۔ 48 18 نوازش نامہ ابھی ملا۔۔۔ 11 174 4 عنقریب آنے۔۔۔ 48 19 عنقریب لاہور آنے۔۔۔ 12 174 5 ہم دست روانہ۔۔۔ 48 20 ہمدست ارسال 13 179 4 ایک قصیدہ۔۔۔ 51 1 ایک فارسی قصیدہ۔۔۔ 14 180 5 بھی قیاس۔۔۔ 52 5 بھی یہی قیاس۔۔۔ 15 184 2 سے آتے۔۔۔ 53 13 سے واپس آتے۔۔۔ 16 209 6 گئی اور۔۔۔ 54 15 گئی ہے اور۔۔۔ 17 209 7 میں اراکین انجمن۔۔۔ 54 16 میں بھی اراکین انجمن 18 210 3 بالکل غلط ہے اس خیال سے کہ۔۔۔ 55 6 بالکل غلط ہے۔ میرے ساتھ ان کی کوئی گفتگو اس بارے میں نہیں ہوئی واقعات کی رو سے یہ بات بالکل غلط ہے اس خیال سے کہ۔۔۔۔ 19 258 6 بابری بہترین کتاب 57 19 تزک بابری بہترین کتاب نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم 1981ء 1 185 11 خزانہ ملت۔۔۔ 162 17 خزانہ مدت۔۔۔ 2 185 13 وقت کا لازوال 162 19 وقت کا ایک لازوال۔۔۔ 3 193 4 اس لئے۔۔۔ 164 2 اس واسطے۔۔۔۔ 4 193 19 نہ تخت۔۔۔ 164 17 بہ تخت 5 195 2 اس امر کی۔۔۔ 165 10 اس کی۔۔۔ 6 195 4 دیکھیں۔۔۔ 165 4 دیکھئے 7 211 7 شاہ نعمت اللہ کرمانی۔۔ 166 25 شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی۔۔ 8 245 4 پہلے مصرع 171 7 علوم جدیدہ نے بڑی تحقیق و تدقیق کے بعد یہ معلوم کیا ہے کہ ذرات عالم اپنے محور حرکت کر رہے ہیں۔ پہلے مصرع۔۔۔ 9 276 8 وجہ کچھ۔۔۔ 177 23 وجہ خواہ کچھ۔۔۔ 10 276 8 مولانا اکبر مرحوم۔۔۔ 177 23 صوفی اکبر مرحوم۔۔۔ نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر خطوط اقبال، طبع اول 1976ء 1 165 13 بیرسٹر ایٹ لاء کا۔۔۔ 141 1 بیرسٹر ایٹ لاء لاہور کا۔۔۔ 2 165 15 5 تاریخ 141 3 5مارچ 3 165 16 قیام دہلی کے۔۔۔ 141 5 قیام دہلی میں اضافے۔۔ 4 494 6 نقطہ نظر۔۔۔ 165 14, 15 نقطہ خیال 5 573 18 تمہارے خط 144 7 تمہارے دونوں خط۔۔۔ نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر اقبالنامہ، حصہ اول 1 151 1 ایسا مترشح۔۔۔ 111 2 ایسا خیال مترشح۔۔۔ 2 151 5 سنی سنائی باتوں پر۔۔۔ 111 8 سنی سنائی بات پر۔۔۔ نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر اقبال بنام شاد، طبع اول 1986ء 1 134 5 خمادی شاد۔۔۔ 253 14 خماری شاہ 2 135 3 عجب کہ۔۔۔ 254 20 عجب ہے کہ۔۔۔ 3 135 3, 4 خماری شاد۔۔۔ 254 21 خماری شاہ۔۔۔ 4 506 4 اتنے روز لاہور سے۔۔۔ 278 20 اتنے روز پنجاب سے۔۔۔ 5 566 5 افواہ یہاں سر محمد شفیع صاحب۔۔۔ 280 13 افواہ میاں سر محمد شفیع صاحب۔۔۔ نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر انوار اقبال، طبع دوم 1977ء 1 208 9 بارگارہ۔۔۔ 69 11 درگاہ۔۔۔ 2 260 12 میرا ان سے سلام ضرور۔۔۔ 161 1 میرا سلام ان سے ضرور۔۔۔ 3 498 10 بعد ایک۔۔۔ 244 13 بعد آپ ایک۔۔۔ 4 544 4 سمجھتا ہو۔۔۔ 32 12 سمجھتا ہوں۔۔۔ مندرجہ بالا اختلاف متن مرتب کے اس دعوے کو غلط ثابت کرتا ہے کہ نقل متن میں بے پناہ محنت صرف کی گئی ہے۔۔۔ حتیٰ کہ بعض خطوط عکس کے مطابق نقل کئے ہی نہیں گئے، مثلاًـ: صفحات131اور 245 پر پوری پوری سطریں نقل نہیں کی گئیں۔ زیر نظر کلیات میں ’’ کلیات مکاتیب اقبال جلد اول‘‘ کی اغلاط کو دہرایا گیا ہے، یعنی جس مجموعہ مکاتیب سے خط لیا گیا ہے، اس کا صرف نام لکھ دینے پر اکتفا کیا ہے، جو ناکافی ہے۔ اگر صفحات کے نمبر بھی درج کر دیے جاتے تو بہتر تھا۔ علاوہ ازیں حواشی میں بھی اسی غلطی کو دہرایا گیا ہے اور حوالہ مکمل نہیں دیا گیا۔۔۔۔ جو خطوط ’’ اقبالنامہ‘‘ سے لئے گئے ہیں، ان کے ساتھ جلد اول یا دوم نہیں لکھا، جس سے کافی کوفت ہوتی ہے۔ کلیات مکاتیب کا غائر مطالعہ چند اور خامیوں او رکوتاہیوں کو بھی ہمارے سامنے لاتا ہے، مثلاً:ـ ’’ فہرست مکاتیب میں شیخ عطا محمد کے نام خط13جون1922ء کا ہے، ناکہ 15جون 1922ء اسی طرح شیخ اعجاز احمد کے نام خط جو کہ 15جون1922ء کا ہے، کی تاریخ نہیں لکھی گئی۔‘‘ ص:51پر ’’ مخلص محمد اقبال لاہور‘‘ کے الفاظ بہ مطابق عکس نقل نہیں کئے گئے۔ علاوہ ازیں علامہ نے خط کی تاریخ قطعہ تاریخ کے آخر میں لکھی ہے مگر مرتب نے خط کے آغاز میں لکھ دی ہے۔ اسی طرح ص:58 پر بھی ’’ محمد اقبال‘‘ عکس کے مطابق نقل نہیں کیا گیا۔ عکس کے مطابق خط کی تاریخ نقل کرتے ہوئے اضافہ کر دیا گیا ہے، یعنی 19ء کو 1919ء کر دیا گیا ہے، مثلاً صفحات:71, 77, 85, 92وغیرہ۔ ص:90 پر لفظ ’’ کی‘‘ (دعا کی برکت) محذوف ہے۔ ’’ مظلوم اقبال‘‘ ص:253 پر بھی لفظ’’کی‘‘ ’’ محذوف ہے۔ اسی طرح کلیات کے ص:257 اور ’’ مظلوم اقبال‘‘ کے ص:313 پر لفظ’’ کر‘‘ محذوف ہے۔‘‘ کلیات مکاتیب ص:225 پر انگریزی خط کا ترجمہ درج ہے، یہ ترجمہ ’’ خطوط اقبال‘‘ ص:142 پر سے نقل کیا گیا ہے، تاہم کلیات اور ’’ خطوط اقبال‘‘ کے ترجمے میں نمایاں فرق ہے۔ یہ ترجمہ نئے سرے سے کیوں کیا گیا؟ اس کی وضاحت مرتب نے نہیں کی۔ کلیات ص:221 پر حاشیہ ادھورہ ہے۔ کلیات ص:130کے حاشئے میں علامت2کے بجائے علامت3ہونی چاہئے کیونکہ علامت 2کو دو مرتبہ لکھا گیا ہے۔ کلیات ص:134 پر ’’ خماد شاد‘‘ اور ’’ خماری شاہ‘‘ کو واوین میں نہیں لکھا جبکہ ’’ شاد اقبال‘‘ ص:253 پر با اہتمام واوین میں لکھا گیا ہے۔ مذکورہ بالا تصرفات و اغلاط کے علاوہ، ہمیں کتابت کی اغلاط بھی کھٹکتی ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 61 1 یرشاد پرشاد 2 152 2 جانے سے جانے سے جانے سے 3 192 6 نکا کر نکال کر 4 217 1 پں میں 5 226 3 الحمد الللہ الحمد للہ صفحات:237, 239, 242, 248, 252, 253, 254 پر بھی الحمد الللہ (الحمد للہ) لکھا ہے۔ چودھری محمد حسین کا شمار علامہ اقبال کے دیرینہ اور با اعتماد احباب میں ہوتاہے۔ علامہ نے انہیں اپنے بچوں کا گارڈین بھی مقرر کیا تھا۔۔۔۔ ظاہر ہے علامہ نے مختلف امور کے سلسلے میں انہیں خطوط بھی لکھے ہوں گے مگر زیر نظر کلیات میں چودھری محمد حسین کے نام ایک خط بھی شامل نہیں ہے۔ ممکن ہے مرتب نے کوشش کی ہو مگر انہیں یہ خطوط دستیاب نہ ہو سکے ہوں۔ ذیل میں ہم ان خطوط کی ایک فہرست درج کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ثاقف نفیس ایم اے اردو نے 1984ء میں چودھری محمد حسین پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا، علامہ کے خطوط اس مقالے میں شامل ہیں۔ چار خطوط کے عکس بھی شامل ہیں۔ یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور کی لائبریری میں موجود ہے اور اس کا نمبرT/268 ہے۔ مقالے کے نگران ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ہیں۔ بعد ازاں ثاقف نفیس نے اپنے مضمون ’’ چودھری محمد حسین اور علامہ اقبال: روابط اور مکاتیب 83؎‘‘ میں چودھری محمد حسین کے نام علامہ کے پانچ خطوط کا عکس پیش کیا ہے۔۔۔۔ ثاقف نفیس نے ’’ تحقیق نامہ‘‘ میں نو مزید نئے خطوط شائع کیے ہیں مگر ان خطوط کے عکوس نہیں دیے۔ 84؎ مکاتیب اقبال بنام چودھری محمد حسین 1 لاہور7ستمبر22ء 2 لاہور23ستمبر22ء 3 لاہور25ستمبر22ء 4 لاہور2 اکتوبر22ء 5 لاہور24جولائی 23ء 6 لاہور6 اگست23ء 7 لاہور26اگست23ء 8 لاہور30اگست23ء 9 لاہور8ستمبر23ء 10 لاہور8مئی 24ء 11 لاہور16جولائی 24ء 12 لاہور25جولائی 24ء 13 لاہور5اگست24ء 14 لاہور15اگست24ء 15 لاہور25اگست24ء 16 لاہور30اگست24ء 17 لاہور18ستمبر24ء 18 22ستمبر24ء 19 لاہور10اکتوبر24ء 20 مقالہ: ص:97سنہ ندارد 21 مقالہ ص:98سنہ ندارد 22 21جولائی 24ء 23 مقالہ: ص:ـ99سنہ ندارد 24 بحر روم ملوجا 21ستمبر31ء 25 بحر روم ملوجا 22ستمبر31ء 26 لنڈن 24دسمبر32ء علامہ اقبال کے بیشتر خطوط میں بعض مصلحت اندیش افراد نے رد و بدل اور کاٹ چھانٹ کی ہے۔ زیر نظر کلیات مکاتیب میں جن خطوط کے عکس میسر آ سکے انہیں بلا تامل درج کر دیا گیا ہے اور یوں ناقص متون کی تکمیل ہو گئی۔ تاہم بعض ایسے خطوط کہ جن کے متون میں کچھ الفاظ یا سطریں حذف کر دی گئی ہیں، وہ جوں کے توں کلیات میں شامل کر لیے گئے ہیں، مثلاً ص:ـ120 , 180 وغیرہ لہٰذا مرتب کا یہ دعویٰ کاملاً درست نہیں ہے:’’ ہماری کتاب میں مشمولہ خطوط اقبال کے متون نہ صرف مکمل بلکہ مستند بھی ہیں‘‘ ص31 ذاتی و نجی خطوط میں الفاظ یا سطریں حذف کر دینے کی جو روش عام ہے، وہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ اس ضمن میں رشید حسن خاں لکھتے ہیں: ’’ مرحومین کے خطوں کو چھپنا چاہئے، مگر تحریف اور دخل اندازی کے بغیر یعنی کسی مرتب کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بعض لفظوں کی جگہ نقطے لگائے یا ایک لکیر کھینچ دے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض لفظ، جملے یا سطریں مرتب کے خیال میں شائع ہونے کے قابل نہ ہوں، مگر مرتب کو یہ حق دیا کس نے کہ وہ اپنے خیال سے کام لے کر دوسرے شخص کی عبارت میں رد و بدل کرے؟ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہو سکتا۔ اگر مرتب میں اتنا حوصلہ نہیں، اتنی جرات نہیں کہ وہ سب کچھ چھاپ سکے، تو پھر ایسے مصلحت اندیش، عافیت دوست یا کم زور اعصاب رکھنے والے کیلئے جائز ہی نہیں کہ وہ ایسے کسی مجموعے کو شائع کرنے کا خیال بھی دل میں لائے۔‘‘ 85؎ غرض مرتب اپنے طور پر تو مکتوب نگار کی خامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ کوشش اتنی بھونڈی ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کا ذہن غلط و صحیح خیالات کی پٹاری بن کر رہ جاتا ہے اور یوں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ طرح طرح کے مفروضے قائم کر لیتا ہے۔۔۔۔ اگر ذرا سی ہمت اور جرأت سے کام لے لیا جائے تو مکتوب نگار اور قارئین کڑی آزمائش سے بچ جائیں۔ مکتوبات اقبال کے بعض مرتبین نے بھی مکاتیب اقبال میں اس نوعیت کی ترامہم کر کے قارئین کے لئے مشکلات کے در وا کر دیے ہیں۔ ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کے تفصیلی و تنقیدی جائزے کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کلیات کاملاً ’’ معیاری‘‘ نہیں ہے۔۔۔۔ سید اشتیاق عابدی سیکرٹری اردو اکادمی دہلی کے یہ جملے غور طلب ہیں’’ یہ کتاب بوجوہ بڑی عجلت میں شائع کی جا رہی ہے اس لئے عین ممکن ہے کہ اس کی کتابت و طباعت میں کچھ خامیاں رہ گئی ہوں۔‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہی کلیات کا یہ پھیلا ہوا کام ’’ عجلت‘‘ کا متحمل ہو سکتا ہے؟راقمہ کے خیال میں ایسے کلمات سے مرتبین اور ناشرین راہ پا جانے والی خامیوں سے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں حالانکہ صرف اس قدر لکھ دینے سے خلاصی نہیں ہوتی کیونکہ تحقیق کا کام حد درجہ محنت، جانفشانی اور عرق ریزی کا طالب ہوتا ہے۔ کلیات مکاتیب اقبالؒ(جلد سوم): سید مظفر حسین برنی کی مرتبہ’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد سوم، جنوری 1929ء سے دسمبر1934ء تک کے خطوط پہ محیط ہے۔ مذکورہ کلیات1993ء میں اردو اکادمی دہلی سے شائع ہوئی۔ اس میں ضمیمہ سمیت 412 خطوط ہیں، جبکہ مقدمے میں406 خطوط کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس جلد میں14 غیر مطبوعہ خطوط بھی شامل ہیں اور پندرہ خطوط غیر مدون ہیں جو کسی مجموعے میں شامل نہیں ہوئے۔۔۔۔۔ اس جلد میںسو (100) مکاتیب انگریزی کے ہیں اور بہ قول مرتب: ’’ چند خطوط کا ترجمہ پہلی بار کیا ہے او رباقی خطوط کے ترجموں پر نظر ثانی کی گئی ہے۔۔۔ دو خط فارسی زبان میں بھی ہیں جو ایران کے ادیب و نقاد سعید نفیسی کے نام26اگست 1932ء اور 4 نومبر1932 ء کو لکھے گئے۔ ان خطوط کے اردو ترجموں کے ساتھ اصل فارسی متون بھی شامل کر دیے ہیں۔‘‘ (ص:30) زیر تبصرہ کلیات میں ایک سو اسی (180) خطوط کے عکوس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ جبکہ فہرست میں188مکاتیب کے عکوس کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم سات مکاتیب کے عکس کا حوالہ تو دیا گیا ہے مگر شامل نہیں کئے گئے اور یوں مجموعی عکوس کی تعداد181بنتی ہے۔عکوس کے سلسلے میں ایک دلچسپ صورت حال راغب احسن کے مکاتیب کی ذیل میں نظر آتی ہے اور وہ اس طرح کہ ’’اقبال جہان دیگر‘‘ میں سے متن تو نقل کر لیا گیا ہے مگر عکس کا حوالہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی مذکورہ کلیات میں ان عکوس کو شامل کیا گیا ہے البتہ چند مکاتیب کے عکوس درج کئے گئے ہیں مثلاً صفحات:213,603, 625 اور 694 علاوہ ازیں راغب احسن کے نام علامہ کے انگریزی مکاتیب کے تراجم کے ساتھ عکس کی نشان دہی کی گئی ہے مثلاً صفحات :429, 603, 625 اور 694 علاوہ ازیں راغب احسن کے نام علامہ کے انگریزی مکاتیب کے تراجم کے ساتھ عکس کی نشان دہی کی گئی ہے مثلاً صفحات: 429, 434, 474 اور478 ’’ اقبال ۔۔ جہان دیگر‘‘ کی نمایاں خوبی ہی یہ ہے کہ اس میں تقریباً ہر خط کا عکس شامل ہے اور یوں متن کی صحت کے سلسلے میں شبہات کی گنجائش نہیں رہتی۔ زیر تبصرہ کلیات میں ’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ کے متون کو عکس سے موازنہ کیے بنا ہی شامل کر لیا گیا ہے چنانچہ ’’ اقبال۔۔۔۔ جہاں دیگر‘‘ کی اغلاط مذکورہ کلیات میں بھی در آئی ہیں۔ غرض یہ کہ عکوس کے سلسلے میں مرتب کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ ’’ یک سو اسی (180) مکاتیب کے عکس بھی دیے جا رہے ہیں۔ جو تمام مشمولہ مکاتیب کے قریباً چوالیس (44) فیصد ہیں۔ باالفاظ دیگر ہر دو خط میں سے ایک کا عکس حاصل کیا گیا ہے تاکہ کماحقہ، صحت متن کی جا سکے۔‘‘ (ص:30) مرتب کو’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ میں سے عکوس نقل کر کے شامل کرنے میں کسی قسم کی کاوش نہ کرنا پڑتی، یہ مجموعہ مکاتیب ان کے پاس موجود تھا کیونکہ انہوں نے راغب احسن کے نام مکاتیب اسی مجموعے سے نقل کئے ہیں او رانہوں نے اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ ’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ میں سے عکوس نقل کرنے میں کیا امر مانع تھا جبکہ انہوں نے کچھ مکاتیب کے عکوس کا حوالہ بھی دیا ہے، یہ غیر متوازن صورت حال بعید از فہم ہے۔ سید مظفر حسین برنی صاحب نے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’’ حسب سابق اس جلد میں بھی صحت متن کی جانب بطور خاص توجہ کی گئی ہے چنانچہ دستیاب شدہ خطوط کا موازنہ و مقابلہ عکسی نقول سے کیا گیا ہے متعدد مطبوعہ خطوط میں کہیں کہیں تو ایک ایک پیراگراف حذف تھا، اسے عکس کے مطابق متعلقہ جگہ پر شامل کر دیا گیاہے۔‘‘ (ص:30)مرتب کا یہ دعویٰ کس حد تک بجا ہے، اس کا اندازہ درج ذیل گوشوارے سے ہوتا ہے: نمبر شمار صفحہ سطر متن ’’کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد سوم صفحہ سطر عکس ’’کلیات مکاتیب اقبال‘‘ جلد سوم 1 58 2 ڈیر نیازی صاحب۔۔ 59 2 ڈیر نیازی صاحب السلام علیکم۔۔۔ 2 63 2 فی الحال اشعار سے۔۔ 64 2 فی الحال اصلاح اشعار کے لئے۔۔۔ 3 67 4 مجیب صاحب سے۔۔ 68 5 مجیب سے 4 75 17 مولانا غلام مرشد۔۔۔ 76 1 بخدمت مولانا غلام مرشد 5 117 20 واقفیت نہیں۔۔۔ 116 6 واقفیت نہیں ہے۔۔ 6 180 5 جاؤں کا۔۔۔۔ 182 7 جاؤں گا۔۔۔ 7 197 4 بوقت خریداری ادا۔۔ 196 8 بوقت خریدار ادا۔۔۔ 8 202 6 نسبت زیادہ۔۔۔ 201 13 نسبت بہت زیادہ۔۔۔ 9 212 3 آپ کا خط ابھی ملا۔۔ 213 2 آپ کا خط مع میشاق ابھی ملا 10 212 3 کچھ عجیب نہیں۔۔۔ 213 3 کچھ عجب نہیں۔۔۔ 11 212 7 ایک جزو کی صورت میں 213 7 ایک خبر کی صورت میں 12 227 3 لاہور ہی رہوں گا۔۔۔ 226 9 لاہور ہی میں لاہور ہی میں رہوں گا۔۔۔ 14 256 6 تاثیر صاحب کو۔۔۔ 255 12 تاثیر صاحب سے۔۔۔ 15 264 6 تمام سوالوں کا۔۔۔ 265 5 تمام سوالوں کے۔۔۔ 16 274 1 سفر کے لکے۔۔۔ 273 7 سفر کے لئے۔۔۔ 17 278 9 ایڈیشن۔۔۔ 279 6 ایڈریس 18 334 20 الٰہی ہے۔۔۔ 335 9 الٰہی رہے۔۔۔ 19 411 7 پہننے کے لئے کپڑے 410 14 پہننے کے کپڑے 20 423 16 خدا تعالیٰ اپنی 424 7 خدا تعالیٰ انہیں۔۔۔ 21 470 19 میرا خیال ہے ایک۔۔ 271 7 میرا خیال ہے کہ ایک۔۔ 22 486 6 گر یہ بات۔۔۔ 487 7 اگر یہ بات۔۔۔ 23 491 11 معاملہ پیچیدہ ہے۔۔۔ 492 13 معاملہ کسی قدر پیچیدہ ہے۔ 24 500 12 میرے۔۔۔ 501 4 مرے۔۔۔ 25 502 8 معلوم نہیں۔۔۔ 305 8 معلوم نہیں کہ۔۔۔ 26 504 10 ایک روز آنے کا۔۔۔ 505 11, 12 ایک روز کے لئے آنے کا۔۔۔ 27 504 13 تو قیام کا۔۔۔ 505 15 تو پھر قیام کا۔۔۔ 28 504 14 باقی میری تمام۔۔۔ 505 16 باقی مری عام۔۔۔ 29 513 1 حکیم صاحب اوقات خاص۔۔۔ 512 15 حکیم صاحب کی خدمت میں یہ بھی عرض کریں کہ اوقات خاص۔۔۔ 30 516 6 سمجھتے ہیں ان کا۔۔۔ 517 7 سمجھتے ہیں اس واسطے ان کا 31 516 5 مگر ان کی تعداد دگنی ہونی۔۔۔ 522 5, 6, 7, مگر ان کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی تھی کہیں غلطی تو نہیں ہو گئی۔ خط میں آپ لکھتے ہیں کہ دواؤں کی مقدار دگنی کر دی گئی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان دونوں دواؤں کی مقدار دگنی ہونی۔۔۔۔ 32 77 18 بجائے دوا کے۔۔۔ 579 3 بجائے دو کے۔۔۔ 33 577 22 کر لیں۔۔۔ 579 8 کریں۔۔۔ 34 578 1 مجھے شکایت۔۔۔ 579 9 مجھے کوئی شکایت۔۔۔ 35 578 8 ان کو خود لکھوں گا۔۔۔ 579 17 ان کو خط لکھونگا۔۔۔ 36 590 20 بخار مجھے نہیں ہوا۔۔۔ 592 4 بخار آج نہیں ہوا۔۔۔ 37 626 10 امید ہے کہ۔۔۔ 627 16 امید کہ۔۔۔ 38 626 12 میرے دوست۔۔۔ 627 18 مرے دوست۔۔۔ 39 626 15 میرے کمرے۔۔۔ 627 22 مرے کمرے۔۔۔ 40 634 11 صبح کی نماز گریہ و زاری 636 4 صبح کی نماز میں گریہ و زاری 41 638 10 جامعہ کی طرف۔۔۔ 637 11 جامعہ ملیہ کی طرف۔۔۔ 42 638 11 سروجنی نائیڈو۔۔۔ 637 12 مسز سروجنی نائیڈو۔۔۔ 43 643 13 اب علی بخش۔۔۔ 644 8 وہ اب علی بخش۔۔۔ 44 645 2 امید ہے۔۔۔ 646 2 امید کہ۔۔۔ 45 647 4 آواز میں ہوتی ہے۔۔ 648 4 آواز میں معلوم ہوتی ہے۔ 46 660 17 کہ وہ روپیہ کی۔۔۔ 663 2, 3 کہ چند ان سے کہ دیں کہ چند روز کے بعد ان کے خط کا آخری جواب دوں گا، وہ روپیہ کی۔۔۔۔ درج بالا گوشوارے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرتب نے عکس کے مطابق متن نقل کرنے میں کتنی کاوش کی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ مرتب کا ایک اور دعویٰ بھی قابل گرفت ہے، ان کا کہنا ہے:’’ اس جلد میں یہ بھی التزام کیا گیا ہے کہ عکس متعلقہ خط کے سامنے رہے تاکہ وقت ضرورت قاری کو مقلاہ و موازنہ میں سہولت ہو۔‘‘ (ص:30) جب ہم عکس کے مطابق متن کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں عکس مطلوبہ مقام پہ درج نہ ہونے کے باعث کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً ایک خط کا متن مذکورہ کلیات کے ص:510پر ہے جبکہ عکس ص:519پر ہے۔ اسی طرح صفحات639اور 641 پہ بھی اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ زیر تبصرہ کلیات میں جن مجموعہ ہائے مکاتیب سے خطوط نقل کئے گئے ہیں ان کے متون میں بھی کہیں کہیں نمایاں فرق ہے۔ نمونے کے طور پر ذیل میں ’’ اقبالنامہ حصہ دوم ‘‘ اور’’ خطوط اقبال‘‘ کا موازنہ پیش کیا جاتا ہے: نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم صفحہ سطر اقبالنامہ، حصہ دوم 1 119 11 انسان کی اصل فطرت۔۔ 372 7 انسان کی اصلی فطرت۔۔ 2 136 12 زبان فارسی ہے۔۔۔ 377 3, 4 زبان فارسی۔۔۔ 3 146 16 الفہرست دیکھی ہو گی۔۔ 379 6, 7 فہرست دیکھی ہو گی۔۔۔ 4 146 19 اچھی بات ہو۔۔۔ 379 6, 7 اچھی بات ہے۔۔۔ 5 149 4 میں نے مولوی۔۔۔ 380 12 میں نے بھی مولوی۔۔ 6 149 9 مسلمانوں کو لاحق حاصل ہے۔۔۔ 381 4 مسلمانوں کے لاحق حال ہے۔۔۔۔ نمبر شمار صفحہ سطر کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم صفحہ سطر خطوط اقبال 1 126 18 الحمد للہ کہ خیریت ہے۔۔ 196 12 الحمد ہر طرح خیریت ہے۔۔ 2 245 17 البتہ مشرق ضرب۔۔ 210 9 البتہ مشرقی ضرب۔۔۔ 3 246 4 یہ خط ارسالی سے۔۔۔ 210 14 یہ خط مارسالی سے۔۔۔ اسی طرح ’’ مکتوبات اقبال‘‘ مرتبہ: سید نذیر نیازی کے ص:46 اور ’’ اقبالنامہ حصہ اول‘‘ کے ص:341 اور مذکورہ کلیات کے بالترتیب صفحات185, 365 کے متون میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کتابت کی اغلاط دوران مطالعہ بری طرح سے کھٹکتی ہیں اور بعض لفظ کتابت ہونے سے رہ گئے ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 33 11 عطائے عصائے 2 41 3 قلمبد قلم بند 3 46 16 جلد ہیں۔ جلد میں ہیں۔ 4 46 23 جنہوں ادب پروری جنہوں نے ادب پروری 5 134 12 نامزدکی نامزدگی 6 215 1 حدیث میں نے دیکھا ہے حدیث میں دیکھا ہے 7 217 20 پنکڑھی پنکھڑی 8 229 14 لبے لیے 9 243 6 رائٹر رائیٹر 10 259 8 گل کندہ گل کدہ 11 299 7 او اور 12 338 7 غرض عرض 13 346 12 معاشات معاشیات 14 408 3 جدز جلد از 15 408 4 ئی کوئی 16 709 1 حواشنی حواشی زیر تبصرہ کلیات میں درج ذیل تسامحات اور اغلاط بھی نظر آتی ہیں، جن سے کلیات کی مجموعی قدر و قیمت متاثر ہوتی ہے: 1۔مکاتیب کی فہرست میں منشی طاہر دین کے نام خط کو بلا تاریخ لکھا ہے جبکہ مقدمے میں (ص:33) 21 ستمبر1931ء کی تاریخ کا تعین کیا گیا ہے۔ 2۔کلیات کے ص:102پہ درج خط راغب احسن کے نام نہیں ہے بلکہ کسی مولانا کے نام ہے۔ 3 ۔کلیات کے ص180 حاشیہ نمبر3میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ سطریں ’’ مکتوبات اقبال‘‘ میں حذف کر دی گئی ہیں، جبکہ ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص:41 پر یہ سطریں درج ہیں۔۔۔ کلیات کے ص197 پر بھی اسی طرح کی وضاحت کی گئی ہے حالانکہ ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص54 پر یہ سطریں محذوف نہیں ہیں۔ کلیات ص638 کے حاشئیے میں بھی اسی طرح کے وضاحتی جملے لکھے گئے ہیں مگر ’’ مکتوبات اقبال‘‘ ص:206 پر جملے حذف نہیں کئے گئے۔ 4 ۔کلیات کے ص:185 کا حاشیہ نمبر1 مکمل نہیں ہے کیونکہ اس میں پروفیسر سہیل کی کتاب کا نام درج نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کتاب کے ترجمے کا نام لکھا گیا ہے۔ 5۔ عکس کے مطابق تاریخ نقل نہیں کی گئی۔ آغاز کو آخر میں اور آخر کی تاریخ کو آغاز میں تحریر کیا ہے، مثلاً ص:214 اسی طرح لفظ’’ محمد‘‘ پہ علامت ’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی گئی۔ 6 ۔کلیات ص:277کے حاشئیے میں حوالہ نہیں دیا گیا کہ یہ حاشیہ کس خط کا ہے۔ 7 ۔کلیات ص:284 اور ص:289 پر جہاں حاشیہ نمبر 2پر جہاں حاشیہ نمبر2 ہونا چاہئے تھا وہاں حاشیہ نمبر1 لکھا گیا ہے۔ 8 ۔ص:304 پر سعید نفیسی کے نام علامہ کا خط’’ انوار اقبال‘‘ (ص291) سے نقل کیا گیا ہے مگر اس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ 9۔ص:321 حاشیہ نمبر1 زاید ہے کیونکہ یہ حاشیہ ص نمبر320 پر بھی درج ہے اور ایک ہی خط کے سلسلے میں درج کیا گیا ہے۔ 10۔ ص:418 پر حاشئے کی علامت 1سید سلیمان ندوی کے خط پر دی گئی ہے جبکہ یہ حاشیہ پروفیسر محمد شیرانی کے نام خط کا ہے۔ 11۔ ص:698 پر راغب احسن کے نام خط’’ اقبال۔۔۔۔ جہان دیگر‘‘ (ص:91) سے لیا گیا ہے مگر حوالہ ’’ مکتوبات اقبال کا دیا گیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔ درج بالا اغلاط و تصرفات کے علاوہ اگر ہم ان بے شمار اغلاط کو بھی مدنظر رکھیں جو ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اپنے مضمون کلیات مکاتیب اقبال (جلد سوم)۔۔۔۔ ایک جائزہ 82 ؎‘‘ میں بیان کی ہیں تو یہ احساس قوی تر ہو جاتا ہے کہ تحقیقی، تنقیدی اور علمی نوعیت کے کام عجلت پسندی اور سہل انگاری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ الغرض’’ کلیات مکاتیب اقبال‘‘ کی اب تک جتنی جلدیں منظر عام پر آئی ہیں وہ اگر ایک لحاظ سے اہم ہیں تو دوسری طرف ان میں موجود تصرفات و اغلاط کو دیکھتے ہوئے از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس دو چند ہو جاتا ہے۔۔۔ تاہم سید مظفر حسین برنی اس حوالے سے لائق ستائش ہیں کہ انہوں نے مشکل اور وسیع کام کو سمیٹ کر اقبالیین کے لئے راہ ہموار کر دی ہے۔۔۔ اقبالیات سے متعلق جو کام پاکستان میں ہونا چاہئے تھا، اس کا آغاز اہل بھارت نے کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہم سے زیادہ فعال ہیں۔۔۔ ہم ابھی تک سوچ رہے ہیں کہ کام کرنے والے آگے نکل گئے ہیں۔۔۔۔ بہرحال ا قبالیات سے متعلق تحقیقی و تنقیدی نوعیت کا کام خواہ بھارت میں ہو ، پاکستان میں یا کہیں اور، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک معیاری اور سائنٹفک ہے۔۔۔۔ لہٰذا اردو اکادمی رہلی کی اس کاوش کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ بہتر سے بہتر کی طرف سفر جاری رہنا چاہئے۔۔۔۔ مزید برآں ’’ کلیات مکاتیب اقبال ‘‘ کسی ذمہ دار اور اہل ادارے کی طرف سے مستند متن اور حواشی کے ساتھ چھپنے چاہیں تاکہ صحیح اور مضبوط بنیادوں پر خوبصورت اور دیر پا عمارت تعمیر ہو سکے۔ (15) مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی: علامہ اقبال نے اپنے معاصرین کو مختلف امور کے سلسلے میں خطوط تحریر کیے۔ ان کی وفات کے بعد اقبال کے عقیدت مندوں نے ان مکاتیب کو مجموعوں کی صورت میں چھاپنا شروع کر دیا اور یہ یقینا ایک قابل تحسین فعل تھا۔۔۔۔ کچھ شخصیات تو ایسی ہیں کہ علامہ کے ان کے نام خطوط ایک علیحدہ مجموعے کی صورت اختیار کر گئے ہیں، مثلاً: قائد اعظم ، عطیہ فیضی، مولانا راغب احسن، مولانا غلام قادر گرامی، خان محمد نیاز الدین خان، سید نذیر نیازی وغیرہ۔۔۔۔ ’’ مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگرچہ سید سلیمان ندوی کے نام خطوط’’ اقبالنامہ، حصہ اول‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں لیکن ان خطوط کو الگ چھاپنے کی ضرورت کچھ یوں بھی تھی کہ یہ تعداد میں زیادہ ہیں اور ایک اور ہم بات یہ کہ علامہ نے سید سلیمان ندوی سے دینی امور اور دیگر مسائل کو سلجھانے کے لئے مفید مشورے طلب کیے ہیں، جو اس امر کی دلیل ہیں کہ علامہ میں علمی انکسار حد درجہ بڑھا ہوا تھا۔ زیر تبصرہ مجموعہ مکاتیب، سید شفقت رضوی نے مرتب کر کے 1992ء میں المخزن پرنٹرز (مکتبہ رشیدیہ) پاکستان چوک، کراچی سے شائع کیا۔ کتاب143 صفحات پہ محیط ہے۔ آغاز میں صاحب مرتب نے مقدمہ تحریر کیا ہے، جس میں انہوں نے مولانا سید سلیمان ندوی کے حالات زندگی اور ان کی علمی و ادبی کاوشوں کا سرسری سا جائزہ پیش کیا ہے، اسی طرح علامہ اقبال کے حالات زندگی اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ ان کے روابط کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اگرچہ سید صاحب کے نام علامہ کے خطوط’’ اقبالنامہ‘‘ میں چھپ سکے ہیں، مگر ماخذ کی ذیل میں مرتب نے ’’ معارف‘‘ کی جلد73نمبر4 تا جلد75نمبر1 کا حوالہ دیا ہے۔۔۔ طویل مقدمے (ص5 تا ص28) کے بعد اصل متن ص29) کے بعد اصل متن ص29سے لے کر ص112 تک پھیلا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔’’ رجال مکاتیب اقبال‘‘ کے عنوان سے تقریباً 30 شخصیات کے مختصر حالات زندگی قلم بند کئے گئے ہیں۔ مذکورہ مجموعہ مکاتیب کے متن کا موازنہ جب ہم ’’ اقبالنامہ حصہ اول‘‘ سے کرتے ہیں تو ہمیں متن میں کہیں کہیں اختلاف دکھائی دیتا ہے ذیل کے گوشوارے سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ نمبر شمار صفحہ سطر مکاتیب سر محمد اقبال بنام مولانا سید سلیمان ندوی صفحہ سطر اقبالنامہ، حصہ اول 1 30 6 اک 77 3 ایک 2 30 16 ان ہی 77 14 انہیں 3 31 3 قرون 78 7 قرنوں 4 31 13 قادریت 79 3 قادریہ 5 35 18 اس قسم کی۔۔۔ 86 2 اس قسم کے۔۔۔ 6 39 14 چوں 92 12 چو 7 40 2 ازان 93 9 اذاں 8 40 3 بیالہ 93 10 ببالد 10 40 17 استعمال نہیں 94 7 استعمال نیا 11 40 18 گرداگر 94 8 گردا گرد 12 41 4 قصیدیہ 94 15 قصیدہ 13 42 7 بروید 96 8 بردمد 14 43 9 اس میں 88 2 ’’ از ‘‘ میں 15 45 10 مولانا محمود حسن 99 13 مولانا محمود الحسن 16 49 12 معلوم نہیں اس بارے میں 106 2 معلوم نہیں آپ کا اس بارہ میں 17 51 3 نہیں دیتے 108 2 نہیں چھوڑتے 18 52 17 ایسا کیوں لکھا 110 13 ایسا لکھا 19 53 8 ہو سکتے ہیں۔۔۔ 111 9 ہو سکتے ہوں۔۔۔ 20 57 10 کتابیں مل۔۔۔ 115 12 کتابیں عاریتاً مل۔۔ 21 61 7 کے بارے میں جو نوٹ۔۔۔ 119 15 پر جو نوٹ۔۔۔ 22 61 20 تفہیمات الٰہیہ 121 1 کیا تفہیمات الٰہیہ۔۔۔ 23 65 5 انہی ۔۔۔ 126 2 انہیں۔۔۔ 24 67 18 ابو الکلام صاحب۔۔۔ 132 9 مولوی ابو الکلام صاحب 25 67 20 محمد اقبال۔۔۔ 133 2 محمد اقبال بیرسٹر۔۔ 26 69 21 ذریعہ منگوا۔۔۔ 135 12 ذریعہ سے منگوا۔۔۔ 27 70 3 محمد اقبال۔۔۔ 135 16 محمد اقبال بیرسٹر۔۔۔ 28 71 19 معلوم ہوا ہے۔۔۔ 138 7 معلوم ہوا۔۔۔ 29 72 1 تذکرہ کا ایک۔۔۔ 138 11 تذکرہ پر ایک۔۔۔ 30 72 17 براہ تو خرقہ 139 14 براہ تو سخت۔۔۔ 31 72 17 پوشند۔۔۔ 139 14 کوشند۔۔۔ 32 75 18 راستے۔۔۔ 144 10 رستہ۔۔۔ 33 78 16 قائم کی تھی۔۔۔ 149 3, 4 قائم کی ہے۔۔۔ 34 79 2 جس کا۔۔۔ 150 5 جن کا۔۔۔ 35 81 4 تجربہ و مشاہدہ پر ہے۔۔ 153 3 تجربہ و مشاہدہ ہے۔۔۔ 36 81 10 ان کے متعلق۔۔۔ 154 1 اذان کے متعلق۔۔۔ 37 81 17 یہ اصول۔۔۔ 154 8 کیا یہ اصول۔۔۔ 38 87 3 یعنی کلام جدید۔۔۔ 161 10 یعنی علم کلام جدید۔۔۔ 39 89 16 اردو میں۔۔۔ 165 11 اردو میں ہے۔۔۔ 40 92 18 تو امید ہے کہ پاسپورٹ۔۔۔ 170 10 تو پاسپورٹ۔۔۔ 41 92 10 5اکتوبر 170 12 15اکتوبر 42 93 1 9اکتوبر 171 2 19اکتوبر۔۔۔ 43 93 11 افغانستان گورنمنٹ۔۔ 171 13 افغان گورنمنٹ۔۔۔ 44 94 5 خیال ہے۔۔۔ 173 1 خیال رہے۔۔۔ 45 94 10 ہمارے ساتھ۔۔۔ 173 7 ہمارے ہمراہ۔۔۔ 46 94 17 اکتوبر کی صبح پشاور۔۔۔ 173 14 اکتوبر کی صبح کو پشاور۔۔ 47 94 19 20تاریخ کی صبح۔۔ 174 1 اکتوبر کی صبح کو پشاور۔۔ 48 95 2 البتہ ملازم کو دو تین۔۔ 174 4 البتہ ملازم کا دو تین۔۔ 49 101 14 معاملات کی فہرست۔۔ 184 2 معاملات کی ایک فہرست۔۔ 50 106 11 نبی نہ ہو گا۔۔۔ 191 10 نبی نہیں ہو گا۔۔۔ 51 109 3 رقیب سمجھتا ہوں۔۔۔ 195 11 رقیب تصور کرتا ہوں۔۔ درج بالا اختلاف متن بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔۔۔۔ مرتب نے اگرچہ ’’ اقبالنامہ‘‘ کو ماخذ نہیں بنایا، مگر’’ اقبالنامہ‘‘ میں شامل سید سلیمان ندوی کے نام خطوط کا موازنہ، مذکورہ مجموعے کے خطوط کے ساتھ کرنا از بس ضروری تھا کیونکہ یہ خطوط قبل ازیں ’’ اقبالنامہ‘‘ میں شائع ہو چکے تھے۔۔۔۔ مرتب اگر موازنے کے ساتھ ان خطوط کو شائع کرتے تو ان خطوط کا یقینا ایک مستند اور معیاری متن تیار ہو جاتا اور ان کی یہ کاوش مزید مستحسن ہو جاتی۔ اختلاف متن کے علاوہ مذکورہ مجموعہ مکاتیب میں کتابت کی اغلاط بھی کھٹکتی ہیں، مثلاً: نمبر شمار صفحہ سطر غلط صحیح 1 44 5 معالہ معاملہ 2 45 10 خضرت حضرت 3 46 2 شکر سکر 4 47 7 الابم الائیم 5 92 1 ن ان 6 96 10 زریعہ بذریعہ علاوہ ازیں لفظ’’ علیحدہ‘‘ کو’’ علاحدہ‘‘ لکھا ہے، جو جدید املا کے مطابق درست ہے مگر ا س سے علامہ کے خطوط کا متن مجروح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ طرز املا کی تحقیق میں نہایت اہمیت ہے۔ بسا اوقات تو اس کے توسط سے مصنف کے زمانے، مزاج اور کسی خاص مصنف کی تحریر کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔۔۔۔ زیر تبصرہ مجموعہ مکاتیب میں کچھ اور خامیان بھی کھٹکتی ہیں، مثلاًـ: اضافت کا اہتمام نہیں کیا گیا، جبکہ ’’ اقبالنامہ‘‘ میں اس کا خیال رکھا گیا ہے۔۔۔۔ اس تساہل کی بنا پر لفظ یا عبارت پڑھنے میں کوفت ہوتی ہے اور روانی و تسلسل برقرار نہیں رہتا۔ رموز اوقاف کا خیال بھی نہیں رکھا گیا، مثلاً جہاں وقفہ (‘) ہونا چاہئے وہاں ختمہ (۔) درج کر کے جملہ ختم کر دیا گیا ہے، جبکہ وہ جملہ جاری ہے۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں واوین بھی ہٹا دیے ہیں مثلاً ’’ معارف‘‘ ’’ صوفی‘‘ ’’ ابطال‘‘ ’’ ضرورت‘‘ کو بغیر واوین کے لکھا ہے، جس سے یہ مخصوص الفاظ عبارت کا عام حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ لفظ’’ محمد‘‘ پر علامت’’ ؐ‘‘ نہیں بنائی جبکہ علامہ اقبال اس کا خصوصیت سے اہتمام کرتے تھے۔ ’’ اقبالنامہ‘‘ میں بعض خطوط کی تاریخ خط کے آخر میں درج ہے، مگر مذکورہ مجموعہ مکاتیب میں آغاز میں درج کر دی گئی ہے، مثلاً صـ36 پر ’’مخلص محمد اقبال‘‘ دو مرتبہ لکھا گیا ہے۔ حواشی کے سلسلے میں مرتب نے اگرچہ یہ وضاحت کی ہے کہ اگر حاشیہ مکتوب الیہ کے قلم سے ہے تو وہاں ’’ س‘‘ لکھا گیا ہے اور جہاں مرتب کے قلم سے وہاں ’’ ش‘‘ لکھا گیا ہے، مگر یہ اہتمام تمام حواشی میں روا نہیں رکھا گیا۔ بہرحال انفرادی نقطہ نظر سے سید شفقت رضوی صاحب کی یہ کوشش مستحسن ہے کہ انہوں نے ایک مجموعے کی صورت میں ان خطوط کو چھاپا، تاہم اگر درج بالا اغلاط اور تصرفات کی تصحیح و وضاحت کر دی جائے تو اس کی قدر و قیمت دو چند ہو جائے گی۔ اقبال کے خطوط کی اہمیتـ: علامہ اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’شاعر کے لٹریری اور پرائیویٹ خطوط سے اس کے کلام پر روشنی پڑتی ہے اور اعلیٰ درجے کے شعراء کے خطوط شائع کرنا لٹریری اعتبار سے مفید ہے۔‘‘ 87؎ ان کا یہ قول، کسی اور سے زیادہ خود ان کے مکاتیب پر صادق آتا ہے۔ بہ قول محمد عبداللہ قریشی: ’’ حضرت علامہ کی ہمہ گیر شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں کو سمجھنے کے لئے ان کے نجی اور ذاتی خطوط کے عظیم سرمائے کو سب سے اہم کلیدی حیثیت حاصل ہے۔‘‘ 88؎ علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں بلا مبالغہ ہزاروں خطوط لکھے۔ اقبال خط کا جواب لکھنے میں بہت باقاعدہ اور مستعد تھے، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں: ’’ عام طور پر لوگ کاتب خط کی اخلاقی حالت اور خط کے مضمون کی اہمیت کے علاوہ ذاتی حالات کو مد نظر رکھ کر جواب دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات عدیم الفرصتی اور جسمانی عوارض بطور خاص جواب لکھنے سے مانع ہوتے ہیں مگر حضرت علامہ نے باوجود جسمانی عوارض، علمی مطالعے میں استغراق اور عدیم الفرصتی کے کبھی جواب لکھنے سے گریز نہیں فرماتے۔‘‘ 89؎ شاعری کی طرح علامہ کے خطوط میں بھی بڑا تنوع ملتا ہے۔ ان میں مختلف علمی، ادبی، فکری اور مذہبی موضوعات زیر بحث آئے ہیں، اور ایسے موضوعات بھی جو اقبال کے تحت الشعور میں تو تھے مگر شاعری میں کسی مناسب عنوان سے ظاہر نہ ہو سکے تھے، علاوہ ازیں مندرجہ بالا مجموعہ ہائے مکاتیب میں اقبال کی شخصیت اور فن کے متعلق بعض نادر انکشافات بھی سامنے آتے ہیں۔ عبداللطیف اعظمی لکھتے ہیں کہ اچھے خط کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ بے ساختہ ہو، تصنع اور ریاکاری سے پاک ہو اور لکھنے والے کے دل و دماغ کا صحیح معنی میں ترجمان اور عکاس ہو۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال اردو کے ان چند مکتوب نگاروں میں سے ہیں، جن کی شخصیت اور ذہنیت کو ان کے خطوط کی روشنی میں بڑی آسانی سے سمجھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔ اقبال انتہائی سادہ اور بے تکلف، لگاوٹ اور تصنع سے دور، دوستوں کے دوست، مخلصوں کے مخلص، خالص پنجابی کی طرح کھرے اور بے باک، جو دل میں وہی قلم پر، ان کے خطوط ہو بہو ان کی تصویر ہیں۔ 90؎ اردو کے مکاتیبی ادب میں خطوط غالب نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، مگر ان کی حیثیت ادبی ہے، فکری نہیں۔ اقبال کے خطوط کی قدر و قیمت ادبی نہیں بلکہ فلسفیانہ ہے، وہ ہمیشہ قلم برداشتہ لکھتے تھے۔ بعض اوقات تو ان پر نظر ثانی بھی نہیں کی گئی، اس عدم اہتمام کی وجہ سے کہیں کہیں لفظ بھی چھوٹ گئے ہیں۔ انہیں خیال بھی نہیں تھا کہ یہ خطوط شائع ہوں گے۔ 91؎ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:’’ علامہ کے خطوط تین لحاظ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں: 1ان کے شعری افکار کی توضیح و تشریح کے لئے 2ان کے خیالات کے تدریجی ارتقا اور پس منظر کی وضاحت کے لئے۔ 3ان کے سوانحی حالات، کردار و شخصیت کو سمجھنے کے لئے۔‘‘ 92؎ اقبال کے ذخیرہ مکاتیب کا عمیق مطالعہ کریں تو ان کی افادیت و اہمیت کا دائرہ اور بھی پھیل جاتا ہے، اور ’’ اقبال کے خطوط‘‘ کو پڑھ کر ان کے ذہنی سفر اور ان کے ذہنی ارتقا کی داستان قلم بند کی جا سکتی ہے، اقبال کے خطوط ان کی زندگی کا آئینہ ہیں۔ 93؎ عبداللطیف اعظمی نے علامہ اقبال کی مکتوب نگاری کے تین ادوار مقرر کیے: 1 ابتدائی دور: ابتدا سے یورپ سے واپسی تک یعنی 1908ء تک۔ تقریباً27سال 2دور شباب: 1908ء سے 1934ء تک یعنی علالت کے آغاز تک۔ 26سال 3 آخر دور: جنوری 1934ء سے وفات تک یعنی 21 اپریل 1938ء تک 94؎ ان کا خیال ہے کہ اقبال کے خطوط کی بڑی تعداد 1908ء سے 1934ء تک کے عرصے میں لکھی گئی، اس دور کے خطوط کی تعداد677 ۔ 95؎ ہے۔ چنانچہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا باری، گرامی، اکبر الہ آبادی، عطیہ فیضی، مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد سے مراسلت اسی دور میں شروع ہوئی اور زیادہ تر اسی دور میں ختم ہو گئی۔ خان محمد نیاز الدین خاں اقبال کے بے تکلف اور مخلص دوستوں میں سے تھے، ان کے نام79خطوط ہیں، یہ سب کے سب اسی دور میں شروع ہوئے اور اسی میں ختم ہو گئے۔ اسی طرح سید نذیر نیازی کو بھی اقبالیات میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان کے نام اس دور میں38خطوط ملتے ہیں۔ ان خطوط میں ہمیں علامہ کے شعری سفر سے متعلق معلومات بھی ملتی ہیں۔ علامہ اپنے دوست احباب کو اپنی شعری کاوشوں سے آگاہ کرتے رہتے تھے مثلاً:’’ رموز بیخودی‘‘ کے سلسلے میں خان محمد نیاز الدین خاں کے نام2 مارچ1917ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ مثنوی کا دوسرا حصہ جس کا نام رموز بیخودی ہو گا، انشاء اللہ اس سال کے ختم ہونے سے پیشتر ختم ہو جائے گا۔‘‘ 92؎ انہی کے نام27جون1917ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ رموز بیخودی کو میں اپنے خیال میں ختم کر چکا تھا مگر پرسوں معلوم ہوا کہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ترتیب مضامین کرتے وقت یہ بات ذہن میں آئی کہ ابھی دو تین ضروری مضامین باقی ہیں یعنی قرآن اور بیت الحرام کا مفہوم و مقصود حیات ملیہ اسلامیہ میں لکھا ہے۔ان مضامین کے لکھ چکنے کے بعد اس حصہ مثنوی کو ختم سمجھنا چاہئے۔ مگر ایسے ایسے مطالب ذہن میں آئے ہیں کہ خود مسلمانوں کے لئے موجب حیرت و مسرت ہوں گے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ملت اسلامیہ کا فلسفہ اس صورت میں اس سے پہلے کبھی اسلامی جماعت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ نئے سکول کے مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے، وہ محض بودے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے۔ قومیت کے اصول حقہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پختگی اور پائیداری مرور ایام و اعصار سے متاثر نہیں ہو سکتی۔‘‘ 97؎ تقریباً پانچ ماہ کے بعد27نومبر1917ء کو انہیں مزید اطلاع دیتے ہیں: ’’ مثنوی ختم ہو گئی۔ اسے نقل کر رہا ہوں۔ چند روز کے بعد پریس میں دے دی جائے گی۔‘‘98؎ اس طرح ہمیں مثنوی کا نام ، اس کے مباحث اور اس کی تیاری و اشاعت کے بارے میں تمام معلومات ان خطوط سے مل جاتی ہیں۔ اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی بیداری میں ان کی نظموں اور مثنویوں کا دخل ہے، اس لئے 1919ء میں جب مولانا ابو الکلام آزاد کی مشہور کتاب ’’ تذکرہ‘‘ شائع ہوئی اور اس کے مقدمہ میں کتاب کے مرتب فضل الدین احمد مرزا نے مسلمانوں کی اس بیداری کا تمام کریڈٹ مولانا آزاد کے ’’ الہلال‘‘ کو دے دیاتو قدرتی طور پر اقبال کو سخت شکایت پیدا ہوئی۔ فاضل مقدمہ نگار نے لکھا تھا: ’’ الہلال، کے ایک ایک مضمون بلکہ ایک ایک سطر نے جیسے جیسے ہوش ربا اثر لوگوں پر ڈالے ہیں، ان کو اگر بیان کیا جائے تو ایک پورا رسالہ بن جائے۔ مثال کے طور پر صرف چند محترم ناموں کا ذکر کروں گا۔ طبقہ علماء میں سے حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کایہ قول خود مولانا ابو الکلام نے ایک مرتبہ مجھ سے نقل کی اتھ اکہ ہم سب اصلی کام بھولے ہوئے تھے، الہلال نے یاد دلایا۔۔۔۔۔۔ (جدید) تعلیم یافتہ جماعت میں فدائے قوم مسٹر محمد علی اور مسٹر شوکت علی خاں اور ہمارے قومی شاعر ڈاکٹر اقبال کا ذکر کر دینا کافی ہے۔ ان اسلام پرستوں کو مذہب کی راہ اسی نے دکھلائی اور بتدریج اپنے رنگ میں یک قلم رنگ دیا، ورنہ ہم لوگوں کو وہ زمانہ بھی اچھی طرح یاد ہے جب نیا نیا الہلال نکلا تھا اور مسلم یونیورسٹی کے متعلق مسٹر محمد علی نے اس کی مخالفت میں مضامین لکھے تھے، تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہی الہلال، والی صدا یونیورسٹی کے متعلق انہوں نے بھی بلند کی۔ مسٹر شوکت علی کا تو اس بارے میں عجب حال ہے، وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ابو الکلام نے ہم کو ایمان کا راستہ بتلا دیا، ڈاکٹر اقبال کا مذہبی عقائد میں پچھلا حال جو کچھ سنا ہے، اس کے مقابلے میں اب ان کی فارسی مثنویاں دیکھتے ہیں تو سخت حیرت ہوتی ہے۔ اسرار خودی، اور رموز بیخودی فی الحقیقت الہلال ہی کی صدائے باز گشت ہیں۔‘‘ 99؎ ’’ تذکرہ ‘‘کے شائع ہوتے ہی ڈاکٹر اقبال نے مولانا سید سلیمان ندوی کو اپنے خط مورخہ 1 نومبر1919ء میں یہ شکایت کی: ’’ مولانا ابو الکلام کا تذکرہ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا، بہت دلچسپ کتاب ہے مگر دیباچہ میں مولوی فضل الدین احمد لکھتے ہیں کہ اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال ہی کی بازگشت ہیں، شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں ان کو برابر1907ء سے ظاہر کر رہا ہوں، اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں نظم و نثر و انگریزی و اردو موجود ہیں، جو غالباً مولوی صاحب کے پیش نظر نہ تھیں، بہرحال اس کا کچھ افسوس نہیں کہ انہوں نے ایسا لکھا، مقصود اسلامی حقائق کی اشاعت ہے نہ نام آوری۔ البتہ اس بات سے مجھے رنج ہو اکہ ان کے خیال میں اقبال تحریک الہلال سے پہلے مسلمان نہ تھا، تحریک الہلال نے اسے مسلمان کیا۔ ان کی عبارت سے ایسا خیال مترشح ہوتا ہے، ممکن ہے ان کا مقصود یہ نہ ہو۔ میرے دل میں مولانا ابو الکلام آزاد کی بڑی عزت ہے اور ان کی تحریک سے ہمدردی، مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اوروں کی دل آزاری کی جائے۔‘‘ 100؎ ’’ نقیب‘‘ بدایوں (فروری1919ء ۔ جنوری 1922ئ) کے مالک اور ایڈیٹر شیخ وحید احمد نے جب علامہ اقبال کی توجہ ’’ تذکرہ‘‘ کی زیر بحث عبارت کی طرف مبذول کرائی تو اس کے جواب میں علامہ نے انہیں30اگست 1921ء کو لکھا: ’’ آپ کا حسن ظن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے۔ حقیقت میں میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے Seriously اس طرف توجہ کی ہے۔ بہرحال آپ کی عنایت کا شکر گزار ہوں۔ باقی رہا یہ امر کہ موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہئے۔ اس کے متعلق کیا عرض کروں۔ مقصود تو بیداری سے تھا اگر بیداری ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں۔ لیکن آپ کے اس ریمارک سے مجھے بہت تعجب ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابو الکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی، شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کو بھی اس کا احساس نہ ہو تو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملہ میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بے غرض ہوں۔‘‘101؎ مذکورہ خطوط سے علامہ کی طبعی بے نیازی او ربے غرضی کا پتہ چلتا ہے۔۔۔۔۔ انداز تحریر ایسا ہے کہ کہیں یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ علامہ اپنے آپ کو اور اپنے علمی و ادبی کارناموں کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔۔۔ البتہ معاصرین کی کم نگاہی اور بے بصری کا انہیں گلہ ضرور تھا، جو میرے خیال میں جائز ہے۔ مکاتیب اقبال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض نو آموز شاعر بڑی کثرت سے اپنی شعری کاوشیں اصلاح کی خاطر ان کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے، مگر یہ کہہ کر کہ میں زبان داں نہیں ہوں او رنہ زبان کی باریکیوں پر میری نظر ہے، اصلاح دینے سے انکار کر دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب چک جھمرہ ضلع لائل پور کے ایک صاحب شاکر صدیقی نے اس طرح کی خواہش کی تو اقبال نے لکھا: ’’ اردو زبان میں آپ سے زیادہ نہیں جانتا کہ آپ کے کلام کو اصلاح دوں۔ باقی رہے شاعرانہ خیالات و سوز گداز، یہ سیکھنے سکھلانے کی شے نہیں، قدرتی بات ہے۔ ان سب باتوں کے علاوہ مجھ کو اپنے مشاغل ضروری سے فرصت کہاں کہ کوئی ذمہ داری کا کام اپنے سر لوں۔ میں نے آپ کے اشعار پڑھے ہیں، میری رائے میں آپ اس جھگڑے میں نہ پڑیں تو اچھا ہے۔‘‘ 102؎ مگر بعد میں جب مجبور ہو کر انہیں یہ ناخوشگوار کام انجام دینا پڑا تو ا ن کے مشوروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زبان اور محاورے کی باریکیوں اور شاعرانہ محاسن پر ان کی بڑی گہری اور وسیع نظر تھی، بہ قول ڈاکٹر عبدالحق:’’ بہت سے خطوط شعری اصلاحت اور نکات فن سے متعلق ہیں۔ ان کی نکتہ شناسی اور فن کا معیار پورے عروج پر دکھائی دیتا ہے۔‘‘ 102؎ چنانچہ شاکر صدیقی کو اپنے خطوط میں بہت ہی مفید اور اہم مشورے دیے ہیں، مثلاً: 6 جولائی 15ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ الفاظ حشو سے پرہیز کرنا چاہئے، آپ کی نظم میں بہت سے الفاظ حشو ہیں۔ محاورہ کی درستی کا بھی خیال ضروری ہے۔ سودا سر میں ہوتا ہے نہ دل میں۔ علیٰ ہذا القیاس عہد کو یا وعدہ کو بالائے طاق رکھتے ہیں نہ بالائے بام وغیرہ، اسی طرح مرکب کی عناں ہوتی ہے نہ زمام۔ بہت سے الفاظ مثلاً چونکہ تعاقب وغیرہ اشعار کے لئے موزوں نہیں ہیں، ان سے احتراز اولیٰ ہے۔ ہے خوشی تجھ کو کمال۔۔۔۔۔ الخ کے دوسرے مصرعے میں ہر کی ’’ ہ‘‘ تقطیع میں گرتی ہے۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ نظم طویل ہے۔‘‘ 104؎ اسی طرح انہیں صاحب کے نام14اگست1915ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’ یعنی مدہوشوں کو تو آمادہ پیکار کر، اس مصرعے میں پیکار کا لفظ ٹھیک نہیں ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں: یعنی اپنی محفل بے ہوش (یا مدہوش) کو ہشیار کر اور بھی خامیاں اس نظم میں ہیں جو یقینا دو چار بار پڑھنے سے آپ کو معلوم ہو جائیں گی۔۔۔۔۔ گذشتہ خط میں جو آپ نے نظم لکھی تھی اس میں ایک لفظ زمام تھا جس پر میں نے اعتراض کیا تھا۔ غالباً میں نے اعتراض کیا تھا کہ زمام کا لفظ ناقہ یا شتر کے لئے خاص ہے، مرکب کے لئے عناں چاہئے۔ اس کے بعد میرے دل میں خود بخود شبہ سا پیدا ہو گیا۔ میں نے فارسی کی لغات میں جستجو کی۔ معلوم ہوا کہ زمام کا لفظ مرکب کے لئے بھی آ سکتا ہے گو ناقے کے لئے یہ لفظ خصوصیت سے مستعمل ہوتا ہے۔ صاحب بہار عجم نے کوئی سند ایسے استعمال کی نہیں لکھی مگر چونکہ انہوں نے فارسی الفاظ و محاورات کی تحقیق و تدقیق میں بڑی جانفشانی کی ہے اس واسطے ان کے بیان بلا سند کو بھی قابل اعتبار سمجھنا چاہئے۔ یہ اس واسطے لکھتا ہوں کہ آپ اس غلطی میں مبتلا نہ رہیں جو میری لا علمی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔‘‘ 105؎ اسی طرح ایک اور خط میں لکھتے ہیں: ’’ تراکیب و الفاظ کی ساخت و انتخاب محض ذوق پر منحصر ہے اور ایک حد تک زبان فارسی کے علم پر۔ آپ فارسی زبان کی کتابیں خصوصااشعار پڑھا کریں۔ مثلاً دیوان بیدل، نظیری نیشاپوری، صائب جلال اسیر، عرفی، غزالی مشہدی، طالب آملی وغیرہ ان کی مزاولت سے مذاق صحیح خود بخود پیدا ہو گا اور زبان کے محاورات سے بھی واقفیت پیدا ہو گی۔ عروض کی طرف خیال لازم ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرع ہی بہ اعتبار عروض غلط ہے۔ زنجیر، فقیر، وزیر، عسکری، روکشی، تفسیر، خوان مسلم کا خوشہ چین وغیرہ۔۔۔۔ پست اور خلاف محاورہ ہیں۔ خوان کا خوشہ چیں نہیں کہتے، خرمن کا خوشہ چین ہوتا ہے۔ خوان کا زلہ ربا کہتے ہیں۔ ہے کے ’’ی‘‘ کو طول دینا برا معلوم ہوتا ہے۔۔ آہ میں ’’ ہ‘‘ کی آواز کو چھوٹا کرنا یوں بھی برا ہے۔ ایک ہی مصرع اردو میں چار اضافتیں بری معلوم ہوتی ہیں، اس سے فارسی والے بھی محترز ہیں۔‘‘ 106؎ یہ تمام مشورے تو اقبال نے دیے اور کبھی کبھار بعض اشعار پر اصلاح بھی دی، مگر ایک خط میں صاف صاف فرما دیا:’’ تلمذ سے مجھے معاف فرمایے‘‘ اس کے علاوہ اپنے ایک خط مورخہ2جون31ء میں یہ بھی لکھ دیا:’’ اصلاح سے معاف فرما یے کہ نہ فرصت ہے نہ اہلیت‘‘ مگر جہاں تک اہلیت کا تعلق ہے وہ تو مندرجہ بالا مثالوں سے واضح ہے کہ اقبال میں اصلاح شعر کی صلاحیت و اہلیت بدرجہ اتم موجود تھی، اور اگر وہ چاہتے تو انتہائی خوش اسلوبی سے اس فرض کو ادا کر سکتے تھے مگر بالعموم اس لئے پہلو تہی کرتے تھے کہ ان کے پاس فرصت کی کمی تھی۔ اقبال کے خطوں سے ان کے نظریہ فن کے متعلق بیش قیمت معلومات و نکات فراہم ہوتے ہیں۔ انہوں نے غالباً نظری تنقید نگاروں مثلاً ڈرائیڈن، آرنلڈ وغیرہ کا خصوصی مطالعہ نہیں کیا تھا بلکہ قدیم یونان اور جدید مغرب کے تمام فلاسفروں اور فن کے بارے میں ان کے نظریوں کو غور سے پڑھاتھا۔ اسی لئے ان کے نظریہ فن میں غیر معمولی شادابی اور توانائی ہے اور ان کے ادبی اور تنقیدی نقطہ نظر میں شروع سے آخر تک زندگی و تازگی اور صحت و انفرادیت ملتی ہے۔ اقبال فن برائے فن کے مخالف تھے اور وہ آرٹ کو اخلاقیات اور حیاتیات سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔ 107؎ ایک جگہ انہوں نے اس مہلک نظریے پر سختی سے نکتہ چینی کی ہے، سید سلیمان ندوی کے نام مورخہ 10 اکتوبر1919ء میں لکھتے ہیں: ’’ شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں، مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس، اس بات کو مدنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کیا عجب کہ آئدنہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں، اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لئے ممکن نہیں۔‘‘ 108؎ اقبال شاعری کے لئے حیات بخشی کو ضروری سمجھتے ہیں، وہ ایسے آرٹ کو اہمیت دیتے ہیں، جس کی کوئی غایت نہ ہو، ان محدود معنوں میں وہ اپنے آپ کو شاعر بھی نہیں کہتے: ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں، فن شاعری سے مجھے بھی دلچسپی نہیں رہی، ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لئے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔‘‘ 109؎ علامہ اقبال کے نزدیک ایسا آرٹ جو معنوں کو پست اور جذبات کو مردہ کرنے والا ہو، اہم نہیں ہے، اسی طرح زبان کے معاملے میں بھی ان کا نظریہ، زندگی سے علیحدہ نہیں ہے،و ہ اسے جامد اور میکانکی چیز نہیں سمجھتے۔ سردار عبدالرب نشتر کو لکھتے ہیں: ’’ زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میںمذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہئے۔‘‘ 110؎ غرض علامہ کا طبعی انکسار اور عجز و بے نفسی ان کے خطوط میں قدم قدم پہ جھلک دکھاتا ہے۔۔ علامہ سے زیادہ فن کی باریکیوں اور شعر کے حسن و قبح سے کون واقف تھا؟ مگر علامہ شعراء کی صف میں خود کو شما رنہیں کرتے اور حقیقت حال بھی یہ ہے کہ وہ سرکاری، درباری اور مشاعروں کے شاعروں سے یکسر مختلف تھے۔ دراصل وہ ایک پیامبر تھے، جنہوں نے اظہار مطالب کے لئے شعر کا قالب اپنایا۔۔۔۔۔ اقبال کے خطوط کے مطالعہ سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ کی سرگزشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتے تھے، جس سے لوگوں کو ان کی شاعری اور افکار کے سمجھنے میں سہولت ہو۔ 11 ؎ لیکن یہ کام وہ نہ کر سکے، تاہم ان کے خطوں میں ایسا مواد موجود ہے، جو ان کی نظموں اور تنقیدی صلاحیتوں پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ عطیہ بیگم فیضی کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’ مجھے نظموں کے انتخاب میں بے حد مشکل پیش آ رہی ہے، گذشتہ 5, 6 برس کے عرصے میں جتنی بھی نظمیں کہی ہیں، وہ نجی حیثیت رکھتی ہیں اور میرا خیال ہے کہ عوام کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے بعض میں نے ضائع بھی کر دی ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی چرا کر چھپوا دے۔‘‘ 112؎ سرکشن پرشاد شاد کو لکھتے ہیں۔ ’’ اس تنہائی میں مثنوی اسرار خودی کے حصہ دوم کا کچھ حصہ لکھا گیا اور ایک نظم کے خیالات یا پلاٹ ذہن میں آئے جس کا نام ہو گا ’’ اقلیم خاموشاں‘‘ یہ نظم اردو میں ہو گی اور اس کا مقصود یہ دکھانا ہو گا کہ مردہ قومیں دنیا میں کیا کرتی ہیںان کے عام حالات و جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں۔ ‘‘ 113؎ منشی سراج الدین کے نام خط میں ’’ پرندے کی فریاد‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ مندرجہ بالا نظم کی بندش ملاحظہ فرمائیے چونکہ بچوں کے لئے ہے اس واسطے اضافات اور وقت مضمون سے خالی ہے۔ علاوہ ازیں فریاد کرنے والے آخر پرندہ ہے۔‘‘ 114؎ ’’ پیام مشرق‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ فی الحال میں ایک مغربی شاعر کے دیوان کا جواب لکھ رہا ہوں جس کا قریباً نصف حصہ لکھا جا چکا ہے، کچھ نظمیں فارسی میں ہوں گی کچھ اردو میں۔‘‘ 115؎ نظم ’’ خضر راہ‘‘ کے متعلق سید سلیمان ندوی کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’ جوش بیان کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے صحیح ہے، مگر یہ نقص اس نظم کے لئے ضروری تھا (کم از کم میرے خیال میں) جناب خضر کی پختہ کاری، ان کا تجربہ اور واقعات و حوادث عالم پر ان کی نظر ان سب باتوں کے علاوہ ان کا انداز طبیعت جو سورۂ کہف سے معلوم ہوتا ہے اس بات کا مقتضی تھا کہ جوش اور تخیل کو ان کے ارشادات میں کم دخل ہو، اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دیے اور محض اس وجہ سے کہ ان کا جوش بیان بہت بڑھا ہوا تھا اور جناب خضر کے اندر طبیعت سے موافقت نہ رکھتا تھا، یہ بن اب کسی اور نظم کا حصہ بن جائیں گے۔‘‘ 116؎ اسی طرح’’ ضرب کلیم‘‘ کے آرٹ کے متعلق سر راس مسعود کے نام خط (اقبالنامہ، حصہ اول ص:381)اور’’ جاوید نامہ‘‘ کے متعلق ان کے خطوط میں تفصیل سے وضاحت ملتی ہے چنانچہ ہم بہ قول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کہہ سکتے ہیں:’’ کلام اقبال کے بعض حصوں کے پس منظر کو جاننے اور تخلیقی محرکات کے ساتھ ساتھ فنی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے یہ خطوط بہت اہم ہیں۔‘‘ 117؎ اسی طرح سید وقار عظیم لکھتے ہیں: ’’ ان خطوں میں اقبال کے کلام کی تشریح اور توضیح کے ایسے نکات ملتے ہیں جن میں بحث، تجزیے، تاویل اور توجیہہ نے فکر و خیال کی پیچیدگیوں کی عقدہ کشائی کی ہے۔‘‘ 118؎ اقبال کے خطوں سے ان کے افکار پر بھی روشنی پڑتی ہے، وہ تصوف سے بخوبی واقف تھے لیکن گو سفندی طبیعت اور خانقاہی مزاج کو پسند نہیں کرتے تھے، ان کے نظام فکر میں مسکینی و محرومی کو دخل نہیں ہے، اس لئے انہوں نے عجمی تصوف کی افیونی خصوصیت کی جا بجا مخالفت کی ہے: ’’ حضرت امام ربانی نے مکتوبات میں ایک جگہ بحث کی ہے کہ گستن اچھا ہے یا پیوستین میرے نزدیک گستن عین اسلام ہے اور پیوستین رہبانیت یا ایرانی تصوف ہے اور اسی کے خلاف میں صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔ گذشتہ علمائے اسلام نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور اس بات کی تاریخی شہادت موجود ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب آپ نے مجھے سرالوصال کا خطاب دیا تھا تو میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے سر الفراق کہا جائے۔ اس وقت میرے ذہن میں یہی امتیاز تھا جو مجدد الف ثانی نے کیا ہے۔ آپ کے تصوف کی اصطلاح میں اگر میں اپنے مذہب کو بیان کروں تو یہ ہو گا کہ شان عبدیت انتہائی کمال، روح انسانی کا ہے۔ اس سے آگے اور کوئی مرتبہ یا مقام نہیں یا محی الدین ابن عربی کے الفاظ میں عدم محض ہے یا بالفاظ دیگر یوں کہئے کہ حالت سکر منشائے اسلام اور قوانین حیات کے مخالف ہے اور حالت صحو جس کا دوسرا نام اسلام ہے، قوانین حیات کے عین مطابق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ ایسے آدمی پیدا ہوں جن کی مستقل حالت کیفیت صحو ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ؐ کے صحابہ میں صدیق و عمر تو بکثرت ملے مگر حافظ شیرازی کوئی نظر نہیں آتا۔‘‘ 119؎ ادب اور تصوف پر بحث کرتے ہوئے منشی سراج الدین کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’ یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹیکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا جس قوم میں طاقت و توانائی مفوز ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی، تو پھر اس قوم کا نکتہ نگاہ بدل جایا کرتا ہے، ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین۔۔۔۔۔ اس ترک دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جوان کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں۔ خود ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھئے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنو کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا۔‘‘ 120؎ اقبال کا خیال ہے کہ حیات اس لئے وجود میں آئی ہے کہ وہ کائنات کی غیر منظم قوتوں کو تسخیر کر کے ان میں حسین نظم و ضبط پیدا کرے اور انہیں اپنے کام میں لائے، عجمیت اس نظریے کے خلاف ہے، وہ ہمیں جگاتی نہیں، سلاتی ہے، بیدار نہیں کرتی، غافل اور کابل کر دیتی ہے۔ اس لئے اقبال نے اس کی شدت سے مخالفت کی ہے اور اس کو قومی زوال کا سب سے بڑا سبب قرار دیا ہے۔ اس عجمی اثر سے ہمارے ادب میں غیر متوازن جمالی نقطہ نظر پیدا ہوا ہے جسے اقبال نے رد کر کے حسن کو حرکت اور ارتقاء سے وابستہ کر دیا ہے۔ 121؎ اقبال عجمیت کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین ا ور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔ا ن کے لٹریری آئیڈیل بھی ایرانی ہیں اور سوشل نصب العین بھی ایرانی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کروں جس کی اشاعت رسول اللہ صلعم کے منہ سے ہوئی۔ صوفی لوگوں نے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا ہے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے انشاء اللہ دوسرے حصے میں دکھاؤں گا کہ تصوف کیا ہے اور کہاں سے آیا اور صحابہ کرام کی زندگی سے کہاں تک ان تعلیمات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا تصوف حامی ہے۔‘‘ 122؎ اقبال کے خیالات کا اصلی سرچشمہ قرآن ہے اور انہوں نے اکثر جگہ اس کے صحیح مطالعے پر زور دیا (اقبالنامہ، ص:49,50) وہ خود بھی چاہتے تھے کہ عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں قرآن کی تشریح کریں، سر راس مسعود کو لکھتے ہیں: ’’ اس طرح میرے لئے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتاجو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں۔ لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن حکیم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں کر سکتا۔‘‘ 123؎ اقبال کو قرآن کریم اور مثنوی مولانا روم ؑ سے بڑا شغف رہا ہے اور ان کی فکری تشکیل و ترویج میں ان سر چشموں کے گہرے اور دیرپا اثرات کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا، خطوط میں ایک جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے مثنوی کبھی بھی شروع سے آخر تک نہیں پڑھی124؎ انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی عمر کا زیادہ حصہ مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزرا ہے۔ اقبال کی نظر وقت کے اہم تقاضوں پر تھی اور وہ ایک جدید معاشرتی نظام کی تلاش میں سرگرداں تھے وہ نئے نظام میں مذہب کے اعلیٰ اور صحت مند تصور کو باقی رکھنا چاہتے تھے اور ان کی دلی خواہش تھی کہ ماضی کی توانا روایات اور عناصر کی مدد سے مستقبل کو سنوارا جائے، وہ قوموں کی زندگی میں نئے اور پرانے دونوں عناصر کو برابر کی اہمیت دیتے تھے، ان کی آرزو تھی کہ پرانے حقائق کو جدید افکار کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ سید سلیمان ندوی کو15 جنوری 1934ء کے خط میں لکھتے ہیں:ـ ’’ دنیا اس وقت عجیب کشمکش میں ہے، جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہاد عظیم ہو رہا ہے، تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) بھی حالت نزع میں ہے، غرض کہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہو سکتا ہے۔ ‘‘ 125؎ اقبال ایک وسیع المطالعہ شخص تھے، اس بات کی شہادت سید سلیمان ندوی کے نام خطوط سے ملتی ہے، ان کے نام خطوط میں اقبال تلاش و تحقیق میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ 23اکتوبر 1918ء کے خط میں صائب، مخلص، کاشی، یحییٰ شیرازی اور30اکتوبر کے خط میں ناصر علی، صائب، زلالی، ظہوری، ملا طغرا، بیدل ، قآانی کے حوالے دیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ شعر العجم، ملفوظات، انسائیکلو پیڈیا آف اسلام، لطائف غیبی، ابطال ضرورت، باہر عجم، تذکرہ علامہ مشرقی اور تذکرہ مولانا ابو الکلام وغیرہ اہم تصانیف کے حوالوں سے ان کے گہرے علمی انہماک اور مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔ مسئلہ زماں سے اقبال کو بڑی دلچسپی تھی۔ وہ اس جدید فلسفے کو اسلامی افکار سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ 126؎ اس ضمن میں اسلامی فلاسفہ کی تصانیف کی تلاش پر وہ خاصے متجسس دکھائی دیتے ہیں۔ لمعات، فصوص الحکم، الفتوحات، رسالہ العلم، بغداد کے قدیم صوفیہ، عبقات، تحقیق زماں، جواہر الفرد، مباحث مشرقیہ، شرح مواقف، ارشاد الفعول، طریق الحکمیہ، المقابلات، شمس بازغہ، صدرا، حجتہ اللہ البالغہ، رسالہ اتقان فی غایتہ الزماں، تحقیق المکان، تفہیمات الٰہیہ، درایتہ الزماں وغیرہ دقیق مباحث پر مشتمل کتابوں سے ان کے فلسفیانہ ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے۔ تازہ ترین تصانیف بھی ان کے زیر مطالعہ رہتیں، فکر و فلسفہ کے یہ نشانات شاعری میں بہت کم پائے جاتے ہیں بہ قول، رفیع الدین ہاشمی: ’’ مکاتیب اقبال، ان کے شعور تحقیق و تنقید اور شعری و ادبی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں بلکہ اس سے ان کے تبحر علمی اور وسعت مطالعہ کا بھی پتہ چلتا ے۔‘‘ 127؎ مکاتیب اقبال سے ان کے مستقبل کے بعض تصنیفی منصوبوں کا پتہ چلتا ہے جن کے مطابق وہ قرآن، فقہ، تصوف اور اجتہاد وغیرہ کے متعلق مندرجہ ذیل مضامین و کتب لکھنا چاہتے تھے: 1مقدمہ القرآن 2 اسلامی تصوف کی تاریخ 3 حیات مستقبلہ اسلامیہ 4 قلب و دماغ کی سرگذشت 5 اسلامی فقہ کی تاریخ 6 تاریخ ادب اردو 7فصوص الحکم پر تنقید 8 رامائن (اردو میں) 9 The Book of frogotten Prophet. اس طرح ہمیں ان کے خطوط سے موعودہ تصانیف کے بارے میں خاصی معلومات مل جاتی ہیں۔ علامہ کی سیرت کی ایک اہم خصوصیت ان کی وسیع القلبی ہے، انہوں نے اپنے معاصرین کا ذکر بڑے احترام سے کیا ہے ان کے جتنے مجموعہ ہائے مکاتیب اب تک شائع ہوئے ہیں، ان میں ایک بھی خط ایسا نہیں جس سے ہم عصرانہ چشمک کا اظہار ہو، شیخ عطاء اللہ (ایم اے) لکھتے ہیں: ’’ اقبال نے کبھی کسی دوست کو کسی دوسرے دوست یا بیگانے کے متعلق ایسی بات نہیں لکھی جو براہ راست اسے لکھنے یا کہنے پر آمادہ نہ ہوں۔‘‘ 128؎ اقبال نجی محفلوں اور پرائیویٹ گفتگوؤں میں بڑے بذلہ سنج، خوش گفتار اور ظریف انسان تھے۔ بے تکلف دوستوں خصوصاً مولانا گرامیؒ کے نام خطوں میں اس شگفتہ طبعی کا اظہار اکثر ہوتا ہے: ’’ آپ کہاں ہیں؟ حیدر آباد میں یا عدم آباد میں؟ اگر عدم آباد ہوں تو مجھے مطلع کیجئے کہ تعزیت نامہ لکھوں۔‘‘ 129؎ ’’ گرامی سال خوردہ ہے یعنی سالوں اور برسوں کو کھا جاتا ہے۔ پھر بوڑھا کیونکر ہو سکتا ہے، بوڑھا تو وہ ہے جس کو سال اور برس کھا جائیں۔‘‘130؎ ’’ مولانا گرامی ابھی آلام و افکار سے آزاد نہیں۔ عرصہ ہوا میں نے انہیں خط لکھا تھا مگر ان کے لئے خط کا جواب دینا ایسا ہی نا ممکن ہے جیسا کہ روس کا موجودہ حالت میں جرمنی سے لڑ سکنا۔‘‘ 131؎ ’’ گرامی صاحب نے شاید ملک الموت کو کوئی رباعی کہہ کر ٹال دیا ہے اور کیا تعجب کہ ہجو کہنے کی دھمکی دی ہو‘‘ 132؎ ’’ آپ کے کبوتر بہت اچھے ہیں مگر افسوس کہ زمانہ حال کی مغربی تہذیب سے بہت متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ بچوں کی پرورش سے بہت بیزار ہیں۔‘‘ 133؎ ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی کے نام لکھتے ہیں: ’’ تمام لاہور میں اس بات کا چرچا ہے کہ ماسٹر عبداللہ اعلان آزادی کے خوف سے کہیں بھاگ گئے ہیں۔ کیا یہ واقعی درست ہے؟‘‘ 134؎ ان خطوں میں ہمیں تخیلاتی دنیا میں مگن رہنے والے اقبال کے علاوہ اس اقبال سے بھی قریب آنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے جو ہماری طرح گوشت پوست کا ایک معمولی انسان ہے اور اپنے غم میں دوسروں کو شریک کرنے کے علاوہ دوسروں کے غم پر رونے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ 135؎ 1908ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی ذہنی کیفیت پر حیرت انگیز حد تک یاس و درماندگی چھائی ہوئی ہے۔ وہ شراب نوشی میں پناہ لینا چاہتے ہیں، یا ترک وطن کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں، یا پھر سپیرا بن کر در بدر پھرنے کا ذکر کرتے ہیں، ذہن اقبال کی یہ سب سے زیادہ اذیت ناک تصویر ہے ۔ عطیہ فیضی کو لکھے خطوط کے علاوہ بھی ان کی اس ذہنی کیفیت کا ذکر ملتا ہے، اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں: ’’ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں ۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے۔‘‘ 136؎ مولانا شوکت علی کو1914ء میں لکھا تھا: ’’ بھائی شوکت! اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفان بے تمیزی کے زمانہ میں گھر کی چار دیواری کو کشتی نوح سمجھتا ہے۔ دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے مگر محض اس وجہ سے کہ روٹی کمانے کی مجبوری ہے۔ تم مجھے علی گڑھ بلاتے ہو، میں ایک عرصہ سے خدا گڑھ میں رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کئی عمروں میں ختم نہیں ہو سکتی۔‘‘ 137؎ علی گڑھ اور لاہور کی تعلیمی ملازمت کی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ وہ قید ملازمت سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ خطوط اقبال کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال گرد و پیش کے حالات سے مطمئن نہ تھے۔ انہیں جو کام انجام دینا تھا اسے تعمیل تک نہ لے جا سکے۔ بظاہر ان کی خارجی زندگی پر سکون نظر آتی ہے لیکن خطوط کے بین السطور افکار کے تلاطم کا اضطراب ذہن اقبال کی حیرت انگیز تصویر پیش کرتا ہے۔ ان خطوط میں بعض جملے حکیمانہ اقوال کا درجہ رکھتے ہیں، مثلاًـ: ’’ حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اور شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔‘‘ 138؎ ’’ طاقت کا سرچشمہ فراست ہے۔‘‘ 139؎ ’’ اکثر انسانوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے ہمہ دانی کا دھوکا ہو جاتا ہے۔‘‘140؎ ’’ شاعری محض محاورات اور اظہار بیان کی صحت سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے۔‘‘ 141؎ اقبال کے خطوط کی زبان اور اسلوب بالعموم سادہ اور آسان ہے، البتہ کہیں کہیں مشکلا ور غریب الفاظ آ گئے ہیں، مثلاً : تعزز، حظوظ، ارقام، مرئیات، اعصاد (اعصار) ایقاطی وغیرہ۔ وہ فقروں کی بناوٹ میں طوالت سے پرہیز کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے فقرے ان کی اختصاد پسند طبیعت سے فطری مناسبت رکھتے ہیں۔ اس سے بیان کی سادگی قائم رہتی ہے اور اثر آفرینی بھی بڑھ جاتی ہے، مثلاً: ’’ اب اسلامی جماعت کا محض خدا پر بھروسہ ہے۔ میں بھلا کیا کر سکتا ہوں، صرف ایک بے چین ا ور مضطرب جان رکھتا ہوں، قوت عمل مفقود ہے۔ ہاں یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوق خدا داد کے ساتھ قوت عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے۔ جس کے دل میں اپنا اضطراب نقل کر دوں۔‘‘ 142؎ ’’ مکاتیب اقبال بنام گرامی‘‘ کے فاضل مرتب محمد عبداللہ قریشی نے اقبال کے خطوط کے اسلوب نگارش پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ جہاں تک گرامی کے نام اقبال کے زیر نظر خطوط کا تعلق ہے، ان میں اکثریت ایسے خطوں کی ہے جو اردو نثر کا نہایت شگفتہ نمونہ ہیں۔ یہ نہ بے رنگ ہیں نہ خشک۔ اقبال کی دیگر علمی تحریروں کی طرح ان کی عبارت میں رعب و دبدبہ بھی ہے اور وزن بھی۔ فکر کی جولانی بھی ہے اور خیال کی برجستگی بھی۔ بعض بعض جگہ تو شاعری نثر سے ہم آغوش نظر آتی ہے۔‘‘143؎ یہ خصوصیت ان ہی خطوط تک محدود نہیں ہے جو حضرت گرامی کو لکھے گئے ہیں، دوسرے خطوط میں بھی موجود ہے، مثلاً: خواجہ حسن نظامی مرحوم کو 25 اپریل 1906ء کو ایک خط لکھا تھا جس کا آغاز یوں ہوتا ہے: ’’ سرمست سیاح کو سلام، متھرا۔ ہر دوار، جگن ناتھ، امرناتھ جی سب کی سیر کی۔ مبارک ہو، مگر بنارس جا کر لیلام ہو گئے۔‘‘ اس کے بعد لکھتے ہیں:ـ’’ میرے پہلو میں ایک چھوٹا سا بت خانہ ہے کہ ہر بت اس صنم کدے کا رشک صنعت آذری ہے۔ اس پرانے مکان کی کبھی سیر کی ہے خدا کی قسم، بنارس کا بازار فراموش کر جاؤ۔‘‘ 144؎ غرض یہ کہ :’’ سوانحی ، جذباتی اور فکری اہمیت سے قطع نظر وہ اسلوب کی خوبصورتی اور نثر کی شگفتگی سے خالی نہیں ہے۔‘‘ 145؎ غرض ان خطوط سے علامہ اقبال کی ایک مستند سوانح مرتب کی جا سکتی ہے، ان میں ان کے روز و شب کی معمولی معمولی تفصیلات آ گئی ہیں، آخر میں ان خطوط کی اہمیت پروفیسر آل احمد سرور کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے: ’’ ان خطوط کی دلچسپی، ان کی شوخی، رنگینی، ظرافت، ادبیت میں نہیں، ان کے خیالات کی اہمیت اور عظمت میں مضمر ہے، ان میں سچے اور پوری طرح محسوس کئے ہوئے خیال کا حسن ہے جسے کسی اور حسن کی ضرورت نہیں۔‘‘ 146؎ ٭٭٭ حواشی 1۔ مکاتیب اقبال، بنام: خان محمد نیاز الدین خان، ص:24 2۔ اقبال کی صحبت میں، ص:470 3۔ اقبال نامہ، اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص:3,4 4۔ ملفوظات، ص:120، بحوالہ: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، از: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ص:207, 208 5 ۔ اقبال کی صحبت میں، از: ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، ص:481 6۔’’ مکاتیب اقبال کے ماخذ‘‘ از: صابر کلوروی، ص:41, 42 مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء 7 ۔شاد اقبال، ص:36 8۔ مہاراجہ سر کشن پرشاد شاد، حیات اور ادبی خدمات، ص:41، بحوالہ: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، از: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ص:210 9۔ شاد اقبال، ص:36 10۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، از: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ص:211 11۔ شاد قبال، ص:36 12۔ 1986ء کا اقبالیاتی ادب (ایک جائزہـ) ص:28 13۔ کتاب مذکور، ص:29 14 ۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:46 15۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:217 16۔ دیباچہ:Letters of Iqbal ، 1977ء 17۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، ص:47، مشمولہ، اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:46 18۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:ح 19مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:49, 50, 51 20۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ص:56 21۔ اقبال کے خطوط، مشمولہ: عرفان اقبال، مرتبہ:128 22۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ 324, 325 23۔ اقبال اور ممنون، از ڈاکٹر اخلاق اثر،1983ء ص:15 24۔ مظلوم اقبال، از: شیخ اعجاز احمد، ص:337 25۔ قصہ ایک خط کا۔۔۔ از: ڈاکٹر وحید عشرت، مشمولہ: مجلہ اقبالیات، اقبال اکادمی لاہور، جولائی۔ ستمبر1987ء ص:98, 99 26۔ اقبال کا فکر و فن، ص:117 27۔ نقش اقبال، ص:184 28 ۔ ’’ اقبال اور بھوپال‘‘ از: مہبا لکھنوی، طبع دوم، 1982ء 29 ۔ تحقیقات و تاثرات، ص:46بحوالہ: اقبال کے کرم فرما، ص:37 30۔ اقبال کے کرم فرما،ا ز: ماسٹر اختر، ص:37, 38 مئی 1989ء 31 ۔ ’’ لمعہ حیدر آبادی کے نام علامہ اقبال کے خطوط دریافت‘‘ از: پروفیسر عبدالرؤف، مشمولہ:ـ ہفت روزہ ’’ ہماری زبان‘‘ انجمن ترقی اردو ہند (دہلی) یکم جون1989ئ، شمارہ:21 ، جلد:48 32۔ سہ ماہی اردو ادب، انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی، ص9تا70 ، شمارہ (3) 1991ء 33 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:ظ 34 ۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک تحقیقی مطالعہ، ص:248 35۔ Letters of Iqbal، ص148 36۔اقبال نامہ، حصہ دوم، ص:14, 15 37 ۔ایضاً، ص83 38۔ سیارہ، لاہور، جون جولائی 1992ئ، ص:297, 298 39 ۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں مرحوم، طبع دوم، ص:89 40۔ ایضاً، ص:9 41۔ مکاتیب اقبال بنام: خان محمد نیاز الدین خان، طبع دوم، ص:16 42۔ تمہید، مکتوبات اقبال، ص:1 43۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، از: صابر کلوروی، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ، ص:69 44۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:235 45۔ مکاتیب اقبال ماخذ، از: صابر کلوروی، ص:69, 70 46۔ مکتوبات اقبال، ص:ح 47: پیش لفظ ’’ انوار اقبال‘‘ ص:6, 7 48تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:240 49۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ئ، ص70 50۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، از : صابر کلوروی، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ئ، ص:72 51۔ ایضاً، ص:72, 73 52, 53, 54 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:242 55 ۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:247 56۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:249 57۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، جولائی 1982ء ، ص:83 58 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:251 59۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک مطالعہ، ص:250 60۔ خطوط اقبال بنام بیگم گرامی، کا جائزہ ہم آئندہ صفحات میں لیں گے۔ 61۔ عرض مرتب، ص:22, 23 62 ۔ مکاتیب اقبال کے ماخذ، مشمولہ: اقبال ریویو، ص:85 63۔ خطوط اقبال کا دسواں مجموعہ، مشمولہ: تفہیم اقبال، 1985ئ، ص:66, 67 64۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:256 65۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک مطالعہ، ص:250 66۔ خطوط اقبال کا دسواں مجموعہ، مشمولہ: تفہیم اقبال، از : پروفیسر فروغ احمد، ص:55 67۔ ’’ تقریب‘‘ ص:66, 67 68۔ بیابہ مجلس اقبال، از: ڈاکٹر حمید یزدانی، طبع اول، 1987ء ص:378 69 ۔ مکاتیب اقبال پر ایک تنقیدی نظر، مشمولہ: اقبال ایک مطالعہ، ص:251 70۔ صحیح جملہ اس طرح ہے:’’ پانچ سال کی مدت‘‘ علامہ نے بہ عجلت’’ کی‘‘ پہلے لکھ دیا۔ 71۔ اقبال نامے، ص:9 72۔ ریاست بھوپال اور اقبال، از: ماسٹر اختر، 1987ئ، ص:83 73۔ دیباچہ، از: اقبال۔۔۔۔۔ جہان دیگر، ص:15 74۔ مقدمہ، از سید مظفر حسین برنی، ص41تا43 75۔ مقدمہ، از مرتب، ص44 76 ۔ حوالہ مذکور، ص48 77 ۔ مجلہ اقبال، اپریل، جولائی 1992ئ، بزم اقبال لاہور، ص:129 تا131 78 ۔ ہفت روزہ’’ ہماری زبان‘‘ انجمن ترقی اردو ہند (دہلی) یکم جنوری 1990ئ، شمارہ:1 جلد 49 ، ص6 79 ۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:272 80۔ ایضاً، ص:276 81۔ مجلہ اقبال، اپریل، جولائی 1992ئ، بزم اقبال لاہور، ص:135 82۔ اقبالیات کے تین سال، ص:30 83 ۔ تحقیق نامہ، شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور، شمارہ:1 ، 1991-84ء ص:11 تا34 84۔ ایضاً1994-95، ص:251 تا266 85 ۔ فنون، مدیر: احمد ندیم قاسمی، سالنامہ، ستمبر۔۔۔۔۔ دسمبر1992ئ، شمارہ 37 لاہور، ص:40 86۔ ماہنامہ ’’ سیارہ‘‘ لاہور، سالنامہ فروری 1994ئ، ص394 تا440 87۔ انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص:11 88۔ روح مکاتیب اقبال، ص:65 89۔ اقبال کی صحبت میں، از: محمد عبداللہ چغتائی، ص:471 90۔ مکاتیب اقبال کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ، مشمولہ: دانائے راز، ص:ـ128,129 91۔ تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، از: ڈاکٹر عبدالحق ص:71 92 ۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:245 93 ۔ خطوط اقبال کی اہمیت، از: ڈاکٹر جمیل جالبی، مشمولہ: اقبال دور جدید کی آواز، مولفہ: سلطانہ مہر، ص:20 94۔ مکاتیب اقبال کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ، از: عبداللطیف اعظمی، مشمولہ: دانائے راز ص:130 95۔ ایضاً، ص:130 96۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، طبع دوم، 1986ئ، ص:26 97 ۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خاں، طبع دوم، 1986ئ، ص:28 98۔ ایضاً 99 ۔ تذکرہ، طبع اول، مکتبہ احباب لاہور، ص:13، بحوالہ: دانائے راز، از: عبداللطیف اعظمیٰ، ص:138 100۔ اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ص:110, 111 101۔ایضاً، ص:427, 428 102۔ انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، طبع دوم، 1977ئ، ص:110 103۔ تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، ص:63 104 ۔ انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص:111, 112 105 ۔ ایضاً، ص112, 113 106۔ ایضاً، ص:114, 115 107 ۔ اقبال کے خطوط، از: ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، مشمولہ: اقبال آئینہ خانے میں، مرتبہ آفاق احمد، ص:132 108 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:108 109 ۔ ایضاً، ص:195 110۔ ایضاً، ص:56 111 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:108 112۔ اقبال از: عطیہ بیگم، ص:73 113۔ شاد اقبال، مرتبہ: ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ص:3 114۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:22 115۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:107 116۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:119 117 ۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:233 118 ۔ اقبال۔۔۔۔۔۔ خطوں کی روشنی میں، مشمولہ اقبالیات کا مطالعہ، مرتبہ: ڈاکٹر سید معین الرحمن، 1977ئ، ص:208 119 ۔ خطوط اقبال، ص:116, 117 120۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:44, 45 121 اقبال کے خطوط۔۔۔۔ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، مشمولہ: اقبال آئینہ خانے میں، مرتبہ: آفاق احمد، ص: 138, 139 122 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:24 123 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول:ـ357, 358 124 ۔ ایضاً، ص:103 125 ۔ ایضاً، صـ:181 126 ۔ ’’ مسلم فلسفہ میں زمان کا مسئلہ‘‘ از: اقبال، تعارف و ترجمہ: از ڈاکٹر تحسین فراقی، مشمولہ: سیارہ، مارچ۔ اپریل 1987ئ، ص:70 تا81 127 ۔ خطوط اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، ص:60 128 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:18 129 ۔ مکاتیب اقبال، بنام گرامی، ص:97 130 ۔ ایضاً، ص:151 131۔ مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خاں، ص:8 132 ۔ ایضاً، ص:13 133 ۔ ایضاً، ص:39 134 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:350 135۔ اقبال۔۔۔۔۔ خطوں کی روشنی میں، مشمولہ: اقبالیات کا مطالعہ، مصنف: سید وقار عظیم، مرتبہ: ڈاکٹر سید معین الرحمن1977ئ۔ 136 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:35 137 ۔ ایضاً، ص:355 138 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، ص:202 139 ۔ ایضاً، ص:445 140 ۔ ایضاً، ص:11 141 ۔ خطوط اقبال، ص:133 142 ۔ اقبالنامہ، حصہ دوم، ص:49 143 ۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم، جون1981ئ، ص:85 144 ۔ اقبالنامہ حصہ دوم۔356 145 ۔ اقبال کے خطوط، از: ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، مشمولہ: اقبال آئینہ خانے میں، مرتبہ: آفاق احمد، ص:150 146 ۔ اقبال کے خطوط، از: آل احمد سرور، مشمولہ: عرفان اقبال، مرتبہ: زہرا معین، طبع دوم، ص:142 ٭٭٭ (5) ’’ نگارشات اقبال‘‘ علامہ اقبال ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے اور شخصیت کے اظہار کے لئے انہوں نے ادب کی مختلف اصناف کو اپنایا۔۔۔۔ نثر میں جہاں انہوں نے ایک مستند علمی کتاب (علم الاقتصاد) یادگار چھوڑی ہے، وہیں مختلف النوع مضامین اور خطوط بھی تحریر کئے، مگر ان کے ساتھ وقتاً فوقتاً انہوں نے تقاریظ اور آرا کا بھی اظہار کیا جو دوست و حباب کی کتب، رسائل یا ان کی کسی کاوش کے سلسلے میں رقم کی گئیں۔ ادبی لحاظ سے اور علامہ کی شخصیت کے انعکاس کی ذیل میں ان کی اہمیت ہے یا نہیں، مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ یہ علامہ کے قلم سے نکلی ہیں اور اتنی ہی اہم ہیں جتنی کہ ان کی دیگر نثری تحریریں۔۔۔۔ ان تقاریظ اور آرا سے بھی ویسی ہی بے نیازی برتی گئی جو علامہ کی دیگر نثری تحریروں کے لیے روا رکھی گئی ہے۔ علامہ کی یہ تقاریظ اور آرا یکجا صورت میں دستیاب نہ تھیں، البتہ ادھر ادھر مختلف کتب و رسائل میں بکھری ہوئی تھیں۔ ضرورت ا س امر کی تھی کہ انہیں یکجا صورت میں چھاپا جائے تاکہ ان کی اصل افادیت و اہمیت اجاگر ہو سکے۔۔۔ راقمہ نے ایسی تمام تحریروں کو ’’ نگارشات اقبال‘‘ کے زیر عنوان مرتب کر کے چھاپ دیا ہے۔ ذیل میں مذکورہ کتاب کا تعارف پیش کیا جاتا ہے: ’’ نگارشات اقبال‘‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور سے 1993ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب 120 صفحات پہ محیط ہے۔ ص7 تا10 ترتیب کے لئے مختص ہیں۔۔۔ دیباچہ ص11 اور 12 پر ہے، جو محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے تحریر کیا ہے۔ ’’ پیش گفتار‘‘ ص13 تا15 اور ’’مقدمہ ‘‘ ص19تا31 پر ہے۔ ’’ مقدمے‘‘ میں علامہ کی متفرق تحریروں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور علامہ کی تحریروں میں سے مثالیں دی گئی ہیں۔۔۔۔ نگارشات کا اصل متن ص35سے ص85 تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’ نگارشات اقبال‘‘ کا سنہ وار گوشوارہ ص 89 سے ص99 تک محیط ہے۔ یہ گوشوارہ سات حصوں میں منقسم ہے، جس کی تفصیل اس طرح ہے: ’’ کالم نمبر1 میں تاریخ تحریر ہے، یعنی وہ تاریخ جو اقبال نے رائے تحریر کرنے کے بعد درج کی، صحیح تاریخ کا تعین نہ ہونے کی صورت میں، قریب ترین قیاسی تاریخ تحریر کو قلابین میں درج کیا گیا ہے۔۔۔ کالم نمبر 2میں کتاب یا رسالہ کا نام مع مصنف اور مرتب درج ہے۔ کالم نمبر 3میں ان کی آرا کی نوعیت درج ہے کہ آیا وہ دیباچے ہیں؟ تقاریظ یا اثرات؟ کالم نمبر4 میں دیباچہ یا تقاریظ کی ضخامت کا ذکر ہے۔ کالم نمبر 5 میں آرا کی اشاعت (بالعموم اشاعت اول) کا ذکر ہے۔ کالم نمبر6 میں ان کی مزید اشاعتوں کا ذکر ہے۔ کالم نمبر7 میں دیباچوں اور آرا کی عکسی نقول کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اگر عکس کہیں چھپا ہے تو اس کالم میں عکس لکھ دیا گیا ہے اور عکس دستیاب یا موجود نہ ہونے کی صورت میں کراس (X) لگا دیا گیا ہے۔‘‘ (ص89, 90) ’’ نگارشات اقبال‘‘ میں جن اشخاص کی تحریروں پر علامہ نے اظہار خیال کیا ہے، یا جنہیں علامہ نے خراج تحسین پیش کیا ہے ان کا مختصر سا حال الضبائی ترتیب سے ص103 سے ص109 پر ہے۔ کتب و جرائد کی تفصیل ص113 اور114 پر ہے۔۔۔۔ علامہ اقبال کی تحریروں پر مبنی اشاریہ ص115 سے 120 تک پھیلا ہے۔ ’’ نگارشات اقبال‘‘ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اول حصے میں کتب و جرائد پر تقاریظ، دیباچے اور آرا شامل ہیں، جبکہ دوسرے حصے میں متفرق تاثرات اور اسناد شامل ہیں، یوں کل انسٹھ (59) نگارشات ہیں۔ ممکن ہے کچھ اور نگارشات بھی ہوں جن تک راقمہ کی رسائی نہ ہو سکی ہو، تاہم دستیاب ہونے پر انہیں آئندہ ایڈیشن میں شامل کر لیا جائے گا۔۔۔۔ اس کتاب پہ دیباچہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں : ’’ نگارشات اقبال، بنیادی طور پر، مختلف کتابوں پر علامہ کی تقاریظ و آراء کا مجموعہ ہے۔ یہ تحریریں بظاہر اتنی اہم نظر نہیں آتیں، بعض کو علامہ نے متروک قرار دیا تھا، اور بعض رواداری میں اور از راہ وضع داری لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، مگر ان کے عقب میں اقبال کی دلچسپ، دل کش اور وضع دار شخصیت کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، اور اسی طرح ہمیں ان کے بعض محسوسات، ذہنی افتاد اور ان کے مخصوص انداز فکر و نظر کا بھی انداز ہوتا ہے۔‘‘ (ص12) ’’ نگارشات اقبال‘‘ صوری حسن سے بھی مزین ہے۔ کتابت خوبصورت اور چھپائی نفیس اور دل کش ہے۔ کتابت کی اغلاط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پروف خوانی خاصی وقت نظری سے کی گئی ہے لیکن چونکہ کوئی بھی کاوش کامل و اکمل نہیں ہوتی لہٰذا زیر تبصرہ کتاب میں بھی ایک آدھ مقامات پہ کچھ اغلاط نظر آتی ہیں، ذیل میں ایسی اغلاط کی نشان دہی کی جا رہی ہے تاکہ مذکورہ کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کی جا سکے: 1۔’’ نگارشات اقبال‘‘ ص:37 ، سطر نمبر5، پر حوالہ کی ذیل میں ص نمبر8 کے بجائے 18 ہونا چاہئے۔ 2 ۔ ص نمبر47 ، سطر نمبر10 پر لفظ ’’ جو‘‘ کتابت ہونے سے رہ گیا ہے، علاوہ ازیں اسی صفحے پر سطر نمبر16 پر حوالے کی ذیل میں ’’ اسرار خودی‘‘ طبع دوم 1918ء کا ص نمبر درج نہیں کیا گیا جو کہ ص نمبر 1ہے۔ 3 ۔ ص نمبر77، سطر نمبر6پہ لفظ ’’ گفتا‘‘ کے بجائے صحیح لفظ’’ گفتار‘‘ ہے، اسی صفحے کی سطر نمبر12 پر لفظ’’ ارد‘‘ کے بجائے ’’ اردو ‘‘ ہے۔ 4۔ ص79، سطر نمبر1پر لفظ’’ تمہید‘‘ کے بجائے ’’ تمہیدی‘‘ ہے۔ 5 ۔ ص83، سطر نمبر11 پر لفظ ’’ کتالوں‘‘ کی بجائے ’’ کتابوں‘‘ ہے۔ 6۔ ص نمبر89، سطر نمبر5پر لفظ ’’ کرنے‘‘ کی کتابت دو مرتبہ کر دی گئی ہے، جبکہ ایک دفعہ ہونی چاہئے۔ 7 ۔ ص نمبر92، سطر نمبر6، لفظ’’ گم گشتہ‘‘ کے بجائے صحیح لفظ’’ گم شدہ‘‘ ہے۔ اسی صفحے پر رام بابو سکسینہ کی کتاب History of Urdu Literature کا نام دو کام میں درج ہونے سے رہ گیا ہے۔ 8۔ ص93، سطر نمبر8 ، پر سنہ ’’ 198ئ‘‘ کے بجائے ’’ 1928ئ‘‘ ہے اور اسی صفحے کی سطر نمبر9 پر ’’ تصانیف‘‘ صحیح کتابت ہے بجائے ’’تصنیفات‘‘ کے ۔ اسی صفحے کی سطر نمبر17پر’’ نوعیت‘‘ کے کالم میں ’’تقریظ‘‘ نہیں لکھا گیا۔ 9 ۔ ص94، سطر18 اور ص نمبر95، سطر نمبر9 پر لفظ’’ تقریط‘‘ کے بجائے ’’ تقریظ‘‘ ہے۔ 10۔ ص نمبر106 پہ ص نمبر درج نہیں کیا گیا۔ 11 ۔ ص نمبر108، سطر نمبر11, 12پر لفظ ’’ پرنسپل‘‘ کی کتابت دو مرتبہ کر دی گئی ہے، جبکہ ایک مرتبہ ہونی چاہئے تھی۔ آئندہ ایڈیشن میں ان اغلاط کی تصحیح کر کے ’’ نگارشات اقبال‘‘ کو معیاری بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ مختصر یہ کہ علامہ کی ان متفرق کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ان کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے۔۔۔ مجموعی طور پر جب ہم ’’ نگارشات اقبال‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں علامہ کی شخصیت کے چند نئے گوشے روشن تر ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان تقاریظ میں برصغیر کا عظیم شاعر اور فلسفی ایک عام انسان کی طرح چلتا پھرتا، گفتگو کرتا اور رسوم و رواج کو نبھاتا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ علامہ کی نثر میں ان تقاریظ کی معنویت و افادیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی اور علامہ کی مستند سوانح عمری مرتب کرتے ہوئے ان سے بھی بخوبی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭ (6) اقبالؒ کا نثری اسلوب اسلوب سے مراد وہ طرز یا اسٹائل ہے، جس کے تحت لکھنے والا اپنے افکار، خیالات اور جذبات و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔۔۔۔ اسلوب کے بارے میں اطہر پرویز لکھتے ہیں: ’’ ہر بڑے شاعر اور بڑے ادیب کی اپنی محفل ہوتی ہے، جہاں لفظوں، فقروں، ترکیبیوں اور جملوں کو مہذب کیا جاتا ہے۔ اسی تہذیب اور اس تہذیب کے آداب اور طور و طریق کو اسلوب کہا جاتا ہے۔‘‘ 1؎ اسلوب شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اگر اسلوب نگار مزاجاً درویش منش ہے تو اسلوب بھی اس رنگ میں رنگا ہوا ملے گا۔ لکھنے والا اگر مبالغے کو پسند کرتا ہے تو اس کی تحریر میں بھی جاوبے جا تعلی کا انداز غالب نظر آئے گا۔۔۔ علامہ اقبال چونکہ فطری طور پر بے نیاز، منکسر المزاج، سادہ لوح اور درویش منش انسان تھے لہٰذا ان کے نثری اسلوب میں بھی ان کے مزاج کے یہ اوصاف بخوبی دکھائی دیتے ہیں۔ علامہ اقبال جامع الحیثیات شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت فلسفی، شاعر، نقاد اور نثر نگار تھے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ بنیادی طور پر ایک شاعر ہی تھے، مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے مختلف تقاضوں کے تحت نثر کو بھی اظہار خیال کا ذریعہ بنایا، ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں:’’ اقبال کی نثر ان کے کلام سے کم اہم نہیں ہے، بلکہ ایک لحاظ سے قدر و قیمت میں نظم سے بھی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر،ا قبال کے فکر و ذہن اور کلام کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہے۔‘‘ 2؎ چنانچہ انہوں نے علمی موضوع پر بھی قلم اٹھایا اور نثر میں معاشیات کے موضوع پر پوری کتاب لکھ ڈالی۔ تصوف سے بھی انہیں گہری وابستگی تھی، شاعری کے علاوہ نثر میں بھی تصوف کے ایک دو ابواب مل جاتے ہیں۔ علامہ نے مختلف ضروریات کے تحت مضامین لکھے، ان مضامین سے بھی ان کے خیالات و افکار کی خاصی حد تک وضاحت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں علامہ نے اپنے دوست احباب کو کئی خطوط تحریر کئے، یہ خطوط بھی کئی اعتبار سے ان کی اردو نثر میں اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔۔ پھر انہوں نے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر یا از خود تقاریظ اور آرا بھی رقم کیں، ان کی اردو نثر میں ان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔ ان تمام نثر پاروں کا جائزہ ہم گذشتہ صفحات میں پیش کر چکے ہیں۔ اس باب میں ہم علامہ کے نثری اسلوب سے بحث کریں گے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ہر لکھنے والے کا، خواہ وہ ادیب ہو یا نہ ہو، اپنا ایک مخصوص اسٹائل اور اسلوب ہوتا ہے بسا اوقات یہ اسلوب انفرادی نوعیت کا ہوتاہے اور کبھی اس میں مشترکہ عناصر کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جب ہم علامہ کی نثری تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں، تو اس میں ہمیں انفرادی اسلوب کے علاوہ، معاصرین کے اثرات بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔۔۔ علامہ ایک طرف تو سرسید تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ’’ مخزن‘‘ کی رومانی تحریک سے بھی کسی حد تک متاثر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سرسید تحریک سے مقصدیت، منطقیت، استدلال اور ’’ مخزن‘‘ تحریک سے شگفتگی، لطافت اور تشبیہہ و استعارہ جیسی صفات مستعار لی ہیں، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ علامہ کا اپنا کوئی انفرادی اسلوب نہ تھا۔ علامہ نے مقصدیت اور شگفتگی و لطافت کی آمیزش سے ایک ایسا اسلوب وضع کیا، جو زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں: ’’ اقبال کی ساری تحریریں سرسید احمد خاں اور مولانا حالی سے گہرا معنوی رشتہ رکھتی ہیں، لیکن شاعری کی طرح، اقبال کی نثر کا اسلوب بھی سرسید اور حالی سے بہت الگ ہے۔ اسے الگ ہونا بھی چاہئے کہ اقبال کو مشرق و مغرب کے جن دقیق و پیچیدہ فلسفیانہ مسائل سے واسطہ تھا، ان کے پیش رو اصلاح پسند نثر نگاروں کو نہ تھا۔‘‘ 3؎ اسلوب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لکھنے والے کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے، یعنی لکھنے والے کی شخصیت اس کی تحریر میں لامحالہ در آتی ہے۔ اسلوب کی یہ تعریف علامہ کی نثری تحریروں پہ پوری طرح صادق آتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیںـ: ’’ ان (علامہ اقبال) کا انثری اسلوب بھی اپنی ایک مخصوص انفرادیت رکھتا ہے جو ان کی شخصیت کا آئینہ ہے، ان کے کردار کی صحیح تصویر ہے، ان کے خیالات و نظریات کا عکس ہے، ان کے ذہنی رحجانات کا سایہ ہے اور ان کی شخصیت ہی کی طرح جان دار اور پختہ ہے۔ اس میں وہی رنگ و آہنگ نظر آتا ہے جو ان کے ذہنی اور جذباتی تجربات میں نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں جو لہریں شعور اور تحت شعور میں اٹھتی رہی ہیں، ان کی پرچھائیاں ان کے اسلوب پر بھی پڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس کا ہیولہ بے شمار رنگوں سے تیار ہوا ہے اور یہ رنگ اقبال کی پہلو دار، متنوع اور ہمہ گیر شخصیت کے رنگ ہیں۔ اسی کا یہ اثر ہے کہ علامہ کا اسلوب ان بے شمار رنگوں کی ایک قوس قزح کے روپ میں اپنے آپ کو رونما کرتا ہے۔‘‘4؎ ڈاکٹر عبداللہ علامہ اقبال کے اسلوب کی نگارش کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اقبال کا ذہن دو عناصر سے مرکب ہے۔ اول: حقائق حکمیہ سے خاص شغف، دوم: اور شدید جذباتی کیفیتوں سے وابستگی۔ حقائق کے بیان کے سلسلہ میں ان کا مقصد، مطلب کو عقلی انداز میں سمجھانا ہے اور ان کے بعض مضامین میں یہی رحجان کار فرما ہے، لیکن اقبال نے اکثر مضامین (خواہ وہ علمی ہوں یا ادبی) تخیل اور جذبات کی مدد لئے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ ان کاا سلوب ایک حکیم کا اسلوب بھی ہے، مگر ایسے حکیم کا جو حکمت میں شعر کا سارس پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ 5؎ یہ صحیح ہے کہ اقبال اپنے اکثر مضامین میں تخیل اور جذبات کا سہارا لیتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ’’ مخزن‘‘ تحریک سے متاثر تھے، ’’ مخزن‘‘ اردو ادب میں رومانی تحریک کا علمبردار ہے۔ علامہ جہاں ٹھوس علمی موضوعات کو سنجیدہ اسلوب میں پیش کرتے ہیں، وہاں علمی موضوعات میں دل کشی پیدا کرنا بھی جانتے ہیں، یہ ان کے اسلوب کی انفرادی خصوصیت ہے۔ رحیم بخش شاہین لکھتے ہیں: ’’ اقبال کی نثر میں رومانی اثر نظر آتا ہے کیونکہ ایک شاعر جب نظر لکھتا ہے تو اس میں تخیل اور جذبات کی آمیزش نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ البتہ اقبال کے خطوط میں بعض دوستوں کے ساتھ بڑی بے تکلفی اور طرز بیان کی شگفتگی نظر آتی ہے۔ مجموعی طور پر اقبال کی نثر پر فلسفہ و حکمت کی چھاپ ہے۔ اسے ہم مدعا نگاری کہہ سکتے ہیں لیکن اقبال کے بیان میں عالمانہ اسلوب بیان ملتا ہے۔‘‘ 6؎ سب سے پہلے اقبال کے اسلوب کی انفرادیت ہمیں ان کے معاشی اور اقتصادی موضوعات میں نظر آتی ہے۔ اقتصادیات کے موضوع پر اقبال نے 1904ء میں ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھی، اس وقت ایسے علمی موضوع کو اردو میں پیش کرنے کی روایت نہ تھی، مگر علامہ نے اس موضوع پر لکھتے ہوئے بھی ایک ایسا اسلوب نثر اختیار کیا جو اس موضوع کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ اس اسلوب نثر کے متعلق علامہ اقبال دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’ زبان اور طرز عبارت کے متعلق صرف اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ میں اہل زبان نہیں ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا ہے میں نے اقتصادی اصولوں کے حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے، جو انگریزی علمی کتابوں میں عام ہے۔ نئی علمی اصطلاحات کے وضع کرنے کی دقت کو ہر بامذاق آدمی جانتا ہے۔ میں نے بعض اصطلاحات خود وضع کی ہیں اور بعض مصر کے عربی اخباروں سے لی ہیں، جو زمانہ حال کی عربی زبان میں آج کل متد اول ہیں۔ جہاں جہاں کسی اردو لفظ کو اپنی طرف سے کوئی نیا مفہوم دیا ہے، ساتھ ہی اس کی تصریح بھی کر دی ہے۔‘‘ 7؎ یہ علامہ کا انکسار تھا کہ وہ اپنے آپ کو اہل زبان نہ سمجھتے تھے، مگر حقیقت ہے کہ وہ زبان و بیان کی باریکیوں اور نزاکتوں سے بخوبی واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ موضوع کی مناسبت سے کس قسم کا اسلوب اختیار کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کا خیال ہے کہ علامہ نے انگریزی، عربی اور فارسی کے مختلف اسالیب کو سامنے رکھ کر اردو میں علمی نثر لکھنے کی ایک نئی طرح ڈالی ہے اور اس طرح ایک نئے اسلوب نثر کا تجربہ کیا ہے، جو اردو کی نثری روایت میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔8؎ علمی موضوع پر لکھتے ہوئے وہ ٹھوس علمی اصطلاحات کے علاوہ موقع و محل کی مناسب سے محاورہ، روز مرہ، تشبیہہ اور استعارہ سے بھی کام لیتے ہیں۔ اس طرح علمی موضوع میں بھی ادب کی چاشنی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں: ’’ اقبال نے ہمیں علمی زبان کا ایک ایسا نمونہ دیا ہے، جس میں علمی حقائق کا چہرہ اچھی طرح نظر آتا ہے، اس میں زیبائش اگر کہیں ہے بھی تو اس نے حقائق کے رنگ کو پھیکا نہیں کر دیا۔‘‘ 9؎ اقبال کے اسلوب کی نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مدلل انداز میں حقائق بیان کرتے ہیں۔ وہ کسی جذباتی موضوع پر بھی لکھ رہے ہوں تو استدلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ علامہ سرسید تحریک سے بھی متاثر تھے اور سرسید تحریک کی نمایاں خصوصیت منطقیت اور استدلال ہے، چنانچہ علامہ جب سنجیدہ مسئلے پر بھی قلم اٹھاتے ہیں تو اسلوب سادہ مگر مدلل ہوتا ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ یہ امر بھی ظاہر ہے کہ جوں جوں آبادی بڑھتی ہے ضرورت ان زمینوں کو کاشت میں لانے پر مجبور کرتی ہے جو اس سے پہلے غیر مزروعہ پڑتی تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو زمینیں افزائش آبادی سے پیشتر کاشت کی جاتی تھیں ان کا لگان بڑھ جاتا ہے۔ زمیندار روز بروز دولت مند ہوتے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ مزید دولت جو ان کو ملتی ہے نہ ان کی ذاتی کوششوں اور نہ ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار بڑھنے کا نتیجہ ہوتی ہے، بلکہ صرف آبادی کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کی ذاتی کوششیں اور ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا پھر ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ دولت مند ہوتے جائیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ آبادی کی زیادتی سے قوم کے خاص افراد کو فائدہ پہنچے اور باقی قوم اس سے محروم رہے۔ اگر یہ فائدہ ان کی ذاتی کوششوں یا ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا۔ پھر ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ دولت مند ہوتے جائیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ آبادی کی زیادتی سے قوم کے خاص افراد کو فائدہ پہنچے اور باقی قوم اس سے محروم رہے۔ا گر یہ فائدہ ان کی ذاتی کوششوں یا ان کی زمینوں کے محاصل کے بڑھ جانے کے نتیجہ ہوتا تو ایک بات تھی، لیکن جب ان کی دولت مندی کے یہ اسباب نہیں ہیں، تو صاف ظاہر ہے کہ ان کی امیری صریحاً اصول انصاف کے خلاف ہے۔‘‘ 10؎ غرض یہ کہ علامہ اقبال نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھ کر اردو میں علمی نثر لکھنے کا ایک نیا تجربہ کیا اور ایک ایسے اسلوب نثر کی داغ بیل ڈالی، جو انہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ علاوہ ازیں اردو کا دامن علمی موضوعات کے لئے وسیع کر دیا اور اردو کو اس اعتراض سے بری کر دیا کہ یہ زبان دقیق علمی مباحث کو بیان کرنے سے عاجز ہے۔ علامہ نے علمی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں۔ علمی موضوعات میں بھی اسلوب ایسا اختیاط کیا ہے، جو عام فہم اور پرکار ہے۔ ان کے مضمون ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ (مخزن1902) میں بچوں کی نفسیات، ان کی ترغیبات ذہن اور ان کے ماحول کے محرکات وغیرہ کا علمی بیان ہے۔ اس مضمون میں اقبال کا انداز بیان تشریحی نوعیت کا ہے، مثلاً اس مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ بچوں میں بڑی کی نقل کرنے کا مادہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں ہستی ہے تو خود بھی بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اس کی آواز کی نقل اتارے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا بڑا ہوتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے تو اپنے ہمجولیوں کا کہتا ہے آؤ بھئی ہم مولوی بنتے ہیں تم شاگرد بنو۔ کبھی بازار کے دکانداروں کی طرح سودا سلف بیچتا ہے۔ کبھی پھر پھر کر اونچی آواز دیتا ہے کہ چلے آؤ انار سستے لگا دیے۔‘‘ 11؎ اس پیراگراف میں اسلوب سادہ اور آسان ہے، بہ قول: ڈاکٹر سید عبداللہ:’’ فلسفی نثر نگار‘‘ ادیب نثر نگار کے روپ میں جلوہ گر ہے۔۔۔۔ سادگی اور سلاست بھی ہے اور مدرسانہ تشریحی انداز بھی ہے اور ادیبانہ طرز تخاطب بھی ہے۔ 12؎ علامہ کے علمی مضامین میں مشکل الفاظ بھی ہیں۔ علمی مضامین میں ان مشکل الفاظ کا در آنا نا گزیر ہے۔ اسی مضمون میں یعنی ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ جس طرح تصورات کے لئے مقابلہ مدرکات کی تصدیقات کے لئے مقابلہ تصورات کی ضرورت ہے، اسی طرح استدلال کے لئے جو مقابلہ تصدیقات سے پیدا ہوتا ہے یہ ضروری ہے کہ بچے کے علم میں کافی تعداد تصدیقات کی ہو۔ استاد کو خیال رکھنا چاہئے کہ بچے کے مدرکات، تصورات، تصدیقات اور استدلالات اس کے علم کے انداز کے ساتھ ترقی کرتے جائیں۔‘‘ 13؎ علامہ کی علمی نثر خشک اور بے کیف نہیں ہے۔ علمی موضوع کو آسان، سہل اور دلچسپ انداز میں اس طرح پیش کرنا کہ قاری کی دلچسپی آخر تک قائم رہے، خاصا مشکل کام ہے، مگر علامہاس مشکل پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے سنجیدہ مضامین بھی محض سنجیدہ اور ثقیل نہیں ہیں، وہ فطرتاً ایک شاعر ہونے کے باعث اپنی نظر کو بے کیف نہیں رکھتے۔ ان کی تحریریں’’ بے رنگ‘‘ نہیں ہیں ان میں تخیلا ور جذبہ کی کارفرمائی بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کا دیباچہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اپنے علمی اسلوب نظر میں جمالیاتی اقدار کا خاص خیال رکھتے ہیں، چنانچہ کہیں تشبیہات و استعارات سے کام لیتے ہیں، بعض جگہ تصویر کشی کرتے ہیں اور کہیں جزئیات کو جمالیاتی انداز میں پیش کر کے اپنے اسلوب نثر میں دل کشی پیدا کرتے ہیں، مثلاً تشبیہات و استعارات کی چند مثالیں دیکھئے: 1 ’’ برق جس کی مضطربانہ چمک تہذیب کے ابتدائی مراحل میں انسان کے دل میں مذہبی تاثرات کا ایک ہجوم پیدا کر دیا کرتی تھی، اب اس کی پیام رسانی کا کام دیتی ہے۔ نسیم اس کی سواری ہے اور ہوا اس کے پنکھے جھلا کرتی ہے۔‘‘ 14۔ (مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ ) 2’’ لڑکا خواہ منگنی سے پہلے اپنے سسرال کے گھر میں جاتا ہی ہو۔ منگنی کے بعد تو اس گھر سے ایسا پرہیز کرنا پڑتا ہے جیسے ایک متقی کو مے خانے سے۔‘‘ 15؎ ان اقتباسات میں جو تشبیہات و استعارات استعمال کئے گئے ہیں، وہ نہ صرف موضوع سے مناسبت رکھتے ہیں بلکہ احساس جمال کو بھی بیدار کرتے ہیں۔ ان سے اسلوب میں ایک دل کشی اور ندرت پیدا ہو گئی ہے۔ رحیم بخش شاہین لکھتے ہیں: ’’ اقبال کی شاعری کی طرح کا جمال و جلال ان کی نثر میں بھی ہے۔ اس نثر کا جمال یہ ہے کہ علامہ کی تحریر اور بیان کا اسلوب نہایت حسین اور دلچسپ رہتا ہے، اور ا س تحریر کا جلال یہ ہے کہ وہ نہایت شان و شوکت والے عربی، فارسی یا ترکی آمیز فارسی کے الفاظ نہایت نفاست سے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ 16؎ علامہ کی علمی نثر کے علاوہ ادبی اور تنقیدی نثر میں بھی عالمانہ اسلوب کے ساتھ ساتھ شگفتگی اور شادابی کی لہر سی دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی علامہ کے ایک انگریزی مضمون The Muslim Community, A Sociological Study جس کا ترجمہ ’’جناب رسالت ماب کا ادبی تبصرہ‘‘ کے عنوان سے چھپا ہے، پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ علامہ کا ایک مختصر سا تنقیدی مضمون ہے، لیکن اس مختصر سے مضمون میں بھی انہوں نے جو کچھ کہا ہے اور جس انداز سے کہا ہے، اس کے ایک ایک لفظ سے شادابی ٹپکتی ہے اور ساتھ ہی زندگی کا احساس بھی ہوتا ہے 17؎ اسی طرح اسی مضمون کا ایک اور طویل اقتباس (ص:240, 241) پر نقل کرتے ہوئے انہوں نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ اس میں حیرت و استعجاب کی آواز دلوں میں ولولہ بیدار کرتی ہے اور زندگی کی تصویر جان دار رنگوں میں ملتی ہے لیکن اس تبصرے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ وہ جس بنیاد پر، اس اقتباس کے محاسن گنوا رہے ہیں، وہ تو علامہ کی انگریزی تحریر کا اردو ترجمہ ہے اور تراجم ظاہر ہے کہ علامہ کی اردو تحریروں میں شمار نہیں ہوتے۔۔۔ علامہ کے تنقیدی اسلوب کی ایک مثال ہم ان کے دیباچے ’’ پیام مشرق‘‘ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اس دیباچے میں دیگر تنقیدی تحریروں کے برعکس انداز بیان خشکی، نشتریت اور کاٹ سے پاک ہے۔۔۔ عام طور پر تنقیدی تحریریں کاٹ دار ہوتی ہیں مگر علامہ اقبال تنقید میں بھی نہایت سنبھلا ہوا انداز اختیار کرتے ہیں حتیٰ کہ اعتراضات کا جواب بھی اتنے متوازن، متین اور سلجھے ہوئے اندازمیں دیتے ہیں کہ معترض از خود شرمندہ ہو جاتے ہیں، مثلاً یہ انداز تحریر ہم ان کے مضامین ’’ اردو زبان پنجاب میں‘‘ ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ اور’’ سر اسرار خودی‘‘ میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ علامہ کا اسلوب ان کے موضوعات سے گہری وابستگی رکھتا ہے۔۔۔ چنانچہ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں مدلل اور ٹھوس اور کہیں کہیں تشریحی نوعیت کا انداز غالب نظر آتا ہے۔ مضامین چونکہ مختلف موضوعات پر تحریر کئے گئے ہیں لہٰذا یہاں وہ موقع و محل کی مناسب سے اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ اسلوب کی متنوع اور رنگا رنگ صورتیں ان کے مکاتیب میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں: ’’ اقبال کی اردو نثر کے موضوعات مختلف ہیں اس لئے اسلوب کی بھی متنوع صورتیں ان کی تحریروں میں جلوہ گر نظر آئیں گی، جن کے تنوع میں وہ عناصر بھی شامل ہوں گے جو ان کے مزاج کا حصہ تھے۔ اسلوب کی یہ نیرنگی مکاتیب میں تو اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں اسلوب کا لب و لہجہ مکتوبات نگار اور مکتوب الیہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کے علاوہ ان مطالب و موضوعات سے بھی متعین ہو گا جو خط کی تحریر کا باعث ہوئے۔‘‘ 18؎ علامہ نے مختلف ضروریات اور تقاضوں کے تحت کئی خطوط تحریر کئے۔۔۔۔ علامہ کے یہ خطوط مجموعوں کی صورت میں چھپ کر سامنے آ چکے ہیں۔۔۔۔ ان خطوط سے جہاں علامہ کی شخصیت کے مختلف اور ہمہ گیر گوشے عیاں ہوتے ہیں، وہیں ان کا مختلف اور متنوع اسلوب نگارش بھی ابھرتا ہے۔ علامہ نے اگرچہ یہ خطوط چھپوانے کے نقطہ نظر سے تحریر نہیں کئے تھے، اس لئے ان میں بعض خطوط بالکل رسمی سے اور بعض ایک جملے پہ مشتمل ہیں اور ان سے علامہ کی شخصیت یا ان کے اسلوب نگارش پہ واضح روشنی نہیں پڑتی تاہم ایسے مکاتیب کی تعداد خاصی زیادہ ہے، جن سے نہ صرف علامہ کے افکار کی وضاحت ہوتی ہے بلکہ ان میں علامہ نے موضوع کی مناسبت سے جامع اسلوب بھی اختیار کیا ہے مثلاً عطیہ فیضی، سرکشن پرشاد، سید سلیمان ندوی اور مولانا غلام قادر گرامی کو لکھے گئے خطوط میں ایک خاص ادبی اسلوب ابھرتا ہے۔۔۔۔ ادبی حوالے سے وہ دو خطوط بھی کم اہمیت کے حامل نہیں ہیں جو انہوں نے لندن (1905ئ) سے ایڈیٹر’’ وطن‘‘ کے نام تحریر کیے۔۔۔ ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطوط چھپوانے کی غرض سے تحریر کئے گئے۔ ان دونوں خطوط میں لندن کے سفر کی روا داد بیان کی گئی ہے۔۔۔۔۔ ایک خط میں سمندر کی کیفیت کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں: ’’ راستے میں ایک آدھ بارش بھی ہوئی، جس سے سمندر کا تلاطم نسبتاً بڑھ گیا اور طبیعت اس نظارے کی یکسانیت سے اکتانے لگی۔ سمندر کا پانی بالکل سیاہ معلوم ہوتا ہے اور موجیں جو زور سے اٹھتی ہیں ان کو سفید جھاگ چاندی کی ایک کلغی سے پہنا دیتی ہے اور دور دور تک، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے سطح سمندر پر روئی کے گالے سے بکھیر ڈالے ہیں، یہ نظارہ نہایت دلفریب ہے۔‘‘ 19؎ اس اقتباس میں منظر نگاری نہایت دل کش انداز میں کی گئی ہے۔ علامہ نے مشاہدے اور محسوسات کے امتزاج سے ایک اثر انگیز اسلوب تشکیل دیا ہے۔۔۔۔ ذیل کے اقتباس میں علامہ کے خیالات و نظریات اور جذبات و محسوسات ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں: ’’ یہاں جو پہنچا تو ایک اور نظارہ دیکھنے میں آیا۔ پختہ جہاز پر تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا۔ ان عورتوں میں ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی، نہایت حسین تھی، مجھے دیانت داری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے حسن نے تھوڑی دیر کے لئے مجھ پر سخت اثر کیا، لیکن جب اس نے چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہو گیا، کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس پر استغنا کا غازہ نہ ہو، بد صورتی سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔‘‘ 20؎ ان دونوں خطوط کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں: ’’ سمندر کا تلاطم، مسافروں کے حلئے، ان کی بو العجبیاں، بحری سفر میں شب و روز مشاغل اور موقع و محل کی نازک باریکیاں۔۔۔ نثر کا ایک ایسا مرقع پیش کرتا ہے، جس سے اقبال کے اندر ایک عظیم نثر نگار کے امکانات کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ نظر نگار ایسا ہے، جو کہیں کہیں اور کبھی کبھی نثری شاعری کی قلمرو میں داخل ہو جاتا ہے۔‘‘ 21؎ علامہ نے گرامی کے نام جو خطوط لکھے ہیں، ان سے ان کے تنقیدی و تخلیقی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ ایک خط جو انہوں نے 12 اکتوبر1918ء کو لکھا خالصتاً فلسفیانہ نوعیت کا ہے۔ اس میں چونکہ فلسفے کے مسائل بیان کر رہے ہیں اس لئے زبان اور اسلوب بھی موضوع کی مناسبت سے اختیار کیا ہے، مثلاً لکھتے ہیں: ’’ گرامی مسلم ہے اور مسلم تو وہ خاک نہیں کہ خاک اسے جذب کر سکے یہ ایک قوت نورانہ ہے کہ جامع ہے جواہر موسویت و ابراہیمیت کی آگ اسے چھو جائے تو برد و سلام بن جائے، پانی اس کی ہیبت سے خشک ہو جائے، آسمان و زمین میں یہ سما نہیں سکتی کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہوئی ہیں۔ پانی آگ کو جذب کر لیتا ہے، عدم بود کو کھا جاتا ہے، پستی بلندی میں سما جاتی ہے مگر جو قوت جامع اضداد ہو اور محلل تمام تناقضات کی ہو اسے کون جذب کرے؟ مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو اپنے اندر جذب کرے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے۔‘‘22؎ گرامی کے نام اقبال کے خطوط کے اسلوب کے بارے میں محمد عبداللہ قریشی کی رائے ہے: ’’ ان میں اکثریت ایسے خطوں کی ہے جو اردو نثر کا نہایت شگفتہ نمونہ ہیں۔ یہ نہ بے رنگ ہیں نہ خشک۔ اقبال کی دیگر علمی تحریروں کی طرح ان کی عبارت میں رعب و دبدبہ بھی ہے اور وزن بھی ۔ فکر کی جولانی بھی ہے اور خیال کی برجستگی بھی۔ بعض جگہ تو شاعری نثر سے ہم آغوش نظر آتی ہے۔‘‘ 23؎ دیگر مکتوبات میں، طرز تخاطب اور اسلوب مکتوب الیہم کے مقام اور مرتبے کے مطابق بدلتا رہتا ہے، اس طرح خطوط کے اسلوب میں یکسانیت کے بجائے رنگا رنگی ملتی ہے، مثلاً سید سلیمان ندوی کے نام10اکتوبر1919ء کو لکھتے ہیں: ’’ شاعری میں لٹریچر بہ حیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا۔ کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں، مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں، کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں، اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے، اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لئے ممکن نہیں۔‘‘ 24؎ ایجاز و اختصار علامہ کے اسلوب کا ایک نمایاں وصف ہے، چونکہ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر ہیں لہٰذا مباحث کو کم سے کم الفاظ میں سمیٹنے کے گر سے اچھی طرح واقف ہیں۔ خطوط میں تو یہ انداز قدم قدم پر اپنی جھلک دکھاتا ہے تاہم علامہ کسی مسئلے کے بیان میں جزئیات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے جس سے ان کی تحریروں میں ایک وضاحتی اور تشریحی نوعیت کا اسلوب بھی ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ علامہ ایک پیامبر شاعر اور نثر نگار تھے اور اپنی تحریروں میں انہوں نے اس بات کا واشگاف الفاظ میں اظہار بھی کیا ہے کہ ان کی تحریروں کا بنیادی اور اولین مقصد قاری تک اپنا پیغام پہنچانا ہے لہٰذا وہ افکار و خیالات کی تفہیم کے لئے سادہ اور عام فہم پیرایہ بیان اختیار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قاری ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے کہیں بھی اسلوب کی بھول بھلیوں میں نہیں الجھتا اور نہ صرف ان کی بات کو جزئیات سمیت سمجھ جاتا ہے بلکہ اس سے اثر پذیر بھی ہوتا ہے۔۔۔ اس ضمن میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا خیال بجا ہے: ’’ اقبال کی ان تحریروں کو پڑھ کر قاری کا ذہن ایک لحظہ کے لئے بھی اسلوب کی بھول بھلیوں میں نہیں الجھتا اور نہ ہی مطالب سے کہیں جدا ہوتا ہے۔ اسلوب بیان اور مدعا نگاری کا یہ حسین امتزاج جس میں ابلاغ کے تقاضوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، اقبال کی نثر کا خاص وصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں اپنی معتدل لطافت اور دل کشی سے پڑھنے والوں کو محظوظ بھی کرتی ہیں اور اپنے علمی مطالب سے ذہنوں کو قائل اور دلوں کو متاثر بھی کرتی ہیں۔‘‘ 25؎ صاحب طرز نثر نگار:ـ اقبال کی اردو نثر کے سلسلے میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہم اقبال کو صاحب طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں؟ اگرچہ علامہ نے اس ذوق و شوق سے نثر نہیں لکھی، جس قلبی وابستگی کے ساتھ شاعری کی ہے اور نہ ہی انہوں نے نثر کو اظہار خیال کا باقاعدہ ذریعہ بنایا۔۔۔۔ انہوں نے زیادہ تر نثری تحریریں دوست احباب کی فرمائشوں یا کسی فوری اظہار کے طور پر لکھیں، چنانچہ ان کا نثری سرمایہ، شاعری کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے لیکن ہم اسے شاعری سے کم تر قرار نہیں دے سکتے۔۔۔۔ باوجودیکہ انہوں نے کسی خاص ضابطے اور قلبی لگاؤ سے نثر نہیں لکھی مگر ان کا جتنا بھی نثری سرمایہ ہے وہ مواد اور طرز بیان ہر دو اعتبار سے اس قابل ہے کہ اسے اردو کی نثری تاریخ میں نمایاں مقام دیا جائے۔ ان تحریروں میں ان کا اپنا ایک اسٹائل ہے جو ان کی شخصیت اور مزاج کا پرتو ہے ۔ انہوں نے کلیتاً کسی کی پیروی نہیں کی، البتہ اپنے دور کے رحجانات اور اسٹائل کو اپنے مزاج میں شامل کر کے ایک خاص انداز کی طرح ڈالی یہ خاص طرز ادا ان کی تحریروں میں رچا بسا ہوا ہے، لہٰذا ہم انہیں صاحب طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں نقادوں کی متضاد آرا ملتی ہیں۔ کچھ حضرات اقبال کی نثر کو خاصی اہمیت دیتے ہوئے انہیں صاحب طرز نثر نگار قرار دیتے ہیں مگر بعض اقبالیین ان کی نثر کو وہ مقام نہیں دیتے جس کی بنا پر علامہ اقبال کو صاحب طرز نثر نگار تسلیم کر لیا جائے۔۔۔۔ ڈاکٹر سید عبداللہ علامہ کو صاحب طرز نثر نگار قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ اقبال کا تخلیقی اور فکری جوہر ان کی نثر اور شاعری میں ہم رنگ نہ سہی ہم مزاج ضرور ہے۔ ان کی نثر کے ان نمونوں کے سامنے آ جانے سے ہمیں ان کی شاعری میں اور بھی تیقن ہو گیا ہے اور یہ بھی یقین ہو گیا ہے کہ شاعر اقبال ایک منفرد طرز کا نثرنگار بھی ہے۔‘‘ 26؎ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے نزدیک علامہ ایک صاحب طرز نثر نگار ہیں، وہ لکھتے ہیں: ’’ اقبال ایک صاحب طرز اسلوب نگار ہیں اور اس طرز بیان کا بنیادی وصف حکیمانہ ہے، جسے اتنی خود اعتمادی اور بصیرت کے ساتھ اردو میں کسی نے نہیں برتا تھا۔ اگرچہ یہ بات اقبال نے سید سلیمان ندوی کی نثر کے بارے میں کہی ہے کہ آپ کی نثر معانی سے معمور ہونے کے علاوہ لٹریری خوبیوں سے بھی مالا مال ہوتی ہے، لیکن یہ بات خود ان کی اردو نثر اور اسلوب نگارش پر زیادہ صادق آتی ہے۔‘‘ 27؎ اسی طرح ڈاکٹر وحید قریشی نے بھی علامہ کو صاحب طرز نثر نگار تسلیم کیا ہے، انہوں نے راقمہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو (10دسمبر 1989ئ) میں بتایا: ’’ ہم اقبال کو صاحب طرز نثر نگار کہہ سکتے ہیں۔ان کی نثر کا آہنگ دوسرے لکھنے والوں سے جدا ہے۔ وہ نثر میں تشبیہہ و استعارہ کا سہارا نہیں لیتے نہ اپنے معاصر رومانی نثر نگاروں کی طرح نثر کو غیر حقیقی بناتے ہیں۔ ان کی نثر میں خاص طرح کا سیدھا پن ہے۔ اسے آسان نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو باتیں وہ بیان کرتے ہیں وہ پیچیدہ ہیں اس لئے ان کی نثر عالمانہ لیکن بہت مضبوط ہے۔‘‘ مگر ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اس بات سے متفق ہیں کہ علامہ اقبال صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر اپنے مضمون’’ اقبال کی نثر کا مزاج‘‘ میں لکھتے ہیںـ: ’’ اقبال کی شاعری اور نثر کا بیک وقت مطالعہ کرنے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ دو الگ شخصیتوں کا اظہار ہو۔ مجھے تو نثر نگار اقبال وکیل نظر آتا ہے۔ اس کی نثر میں ادبی حسن کے مقابلے میں لیگل ڈرافٹنگ کا انداز زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اس سے اقبال کی نثر میں استدلال کی قوت جلوہ گر ہوتی ہے۔ قوت کی ایسی زیریں لہر جو ایک انتہا پر اثر آفرینی میں برقی رو کا کام کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، تو دوسری انتہا پر محض سرد منطق بن کر رہ جاتی ہے۔‘‘ 28؎ اسی طرح ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے بھی اپنے انٹرویو (18دسمبر1989ئ) میں بتایا: ’’ ہر شخص خواہ وہ کتنا ہی معمولی لکھنے والا ہو ایک مخصوص طرز تحریر کا مالک ہوتا ہے، لیکن جوں جوں ہم اعلیٰ درجے کے نثر نگاروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان میں انفرادیت کا احساس زیادہ سے زیادہ ہونے لگتا ہے۔ اقبال کا ایک منفرد طرز تحریر یقینا موجود ہے۔ وہ جس طرح سے عربیت آمیز جملے تخلیق کرتے ہیں، وہ انہی کا حصہ ہیں۔ ایک طرف ابو الکلام جیسی پر شکوہ نثر ان کے ہاں موجود نہیں ہے، تو دوسری طرف ان کے ہاں مولوی عبدالحق جیسی رواں نثر بھی نہیں ہے۔ وہ پر شکوہ اور رواں نثر لکھنے والوں کے بین بین ہیں۔ان کی نثر میں وضاحت ہے لیکن گھلاوٹ نہیں ہے۔ یہ کار آمد نثر ہے مگر اسے دل کش نثر نہیں کہہ سکتے۔ مختصر یہ کہ ان کا ایک اپنا اسلوب تو یقیناً موجود ہے لیکن صاحب طرز نثر نگاروں میں انہیں جگہ دینا مشکل ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کے خیالات اپنی جگہ درست ہیں، مگر ہم ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اور ڈاکٹر وحید قریشی صاحب سے متفق ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کا اپنا ایک انفرادی طرز ہے، جس میں وہ اپنے خیالات و افکار کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی نثری تحریروں کو تشبیہات و استعارات اور ضرب الامثال سے بوجھل نہیں بناتے، چنانچہ ہم ان کی تحریروں کو پر شکوہ نہیں کہہ سکتے تاہم حسب موقع صنائع بدائع لفظی و معنوی کا التزام کر کے وہ اپنے اسلوب نثر کو دل کش ضرور بناتے ہیں اس لئے ہم انہیں صاحب طرز نثر نگاروں کی ذیل میں رکھ سکتے ہیں۔ بہ حیثیت مجموعہ علامہ کی نثری تحریریں ( علم الاقتصاد، تاریخ تصوف اور مضامین اردو خطوط، دیباچے اور تقاریظ) اردو ادب میں ایک اہم اور نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ بسا اوقات ان کی نثر، ان کی شاعری سے زیادہ وقیع نظر آتی ہے۔ بہت سے اہم اور دقیق مباحث جو شعر کی محدود دنیا میں بیان نہیں کئے جا سکتے، وہ علامہ نے نثر میں بیان کیے ہیں علاوہ ازیں علامہ کے کئی اشعار کا صحیح مفہوم اور پس منظر ان کی نثر کے مطالعے سے ہی متعین ہوتا ہے، اس ضمن میں ہم سید افتخار حسین شاہ سے متفق ہیں: ’’ علامہ کے کلام کو سمجھنے کے لئے ان کی نثر کا مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ بہت سے الجھے ہوئے مسائل جو اشعار میں وضاحت طلب تھے، نثر میں نہایت واضح الفاظ میں پیش کر دئیے گئے ہیں۔‘‘ 29؎ تاہم ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے انٹرویو (10دسمبر1989ئ) میں بتایا: ’’ علامہ اقبال کی نثر و نظم میں تقابل ممکن نہیں۔ شاعر کی حیثیت سے ان کا مرتبہ مسلم ہے، تاہم ان کی اردو نثر بھی کئی اعتبارات سے اہم ہے۔ ایک تو اس لئے کہ ان کی شاعری کی وضاحت ان کی نثر کے ذریعے ممکن ہے اور شعر کی تعبیر و تشریح میں جذباتی لہجے کی وجہ سے انسان اپنے مطالب بھی کلام اقبال میں دیکھنے لگتا ہے لیکن نثر میں اس کی گنجائش نہیں، دوسرے وہ صاحب طرز نثر نگار بھی تھے اس لئے ان کی نثر نگاری کو یقینا پوری توجہ کی ضرورت ہے جو اب تک نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر وحید قریشی علامہ کے نثری سرمائے میں مضامین اور دیباچوں کو زیادہ اہم قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو (10دسمبر1989ئ) میں بتایا کہ اقبال کی نثر میں نفس مضمون کے اعتبار سے ان کے خطوط کی اہمیت زیادہ ہے لیکن فلسفیانہ نکات کے اعتبار سے ان کے دیباچے اور مضامین زیادہ اہم ہیں۔۔۔۔ انہوں نے اردو نثر کو فلسفیانہ مسائل بیان کرنے کا مخصوص پیرایہ عطا کیا۔ اب اردو نثر میں فلسفیانہ باریکیوں کو بیان کرنے کی پوری صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ تقاریظ ڈاکٹر وحید قریشی کے نزدیک زیادہ اہم نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر فرمائشی ہیں۔ ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا نے اپنے انٹرویو (18دسمبر1989ئ) میں علامہ کی نثر و نظم کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا: ’’ میں نے ذاتی طور پر ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ اقبال کو شاعر، فطرت نے بنایا تھا لیکن نثر انہوں نے اپنی کوشش سے لکھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ نثر میں اظہار خیال کرتے ہیں تو اس میں کاوش اور آورد کا دخل زیادہ نظر آتا ہے جبکہ ان کی شاعری پر شکوہ اسلوب میں ہونے کے باوجود زیادہ دل کش اور زیادہ فطری چیز معلوم ہوتی ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر اقبال شاعر نہ ہوتے تو وہ اپنی موجودہ نثر کی وجہ سے زندہ ادیب نہ ہوتے، یعنی ان کی نثر کی اہمیت بھی زیادہ تر ان کی شاعری کی وجہ سے ہے۔‘‘ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے نزدیک علامہ کے خطوط کی اہمیت ان کے باقی نثر پاروں کی نسبت زیادہ ہے۔ انہوں نے مذکورہ انٹرویو میں بتایا: ’’ میرے خیال میں ان کی تمام نثر میں خطوط کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگرچہ ان کے بیشتر خطوط مختصر ہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ ان کی مدد سے اقبال کا ذہنی پس منظر سمجھنے میں بہت کچھ آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اردو میں ان کی دوسری نثری تحریریں ان کی شخصیت پر اتنی زیادہ روشنی نہیں ڈالتیں جتنی کہ ان کے خطوط‘‘ بہرحال ہمارے خیال میں علامہ کی تمام نثری تحریریں کسی نہ کسی زاویے سے ان کی شخصیت، فن، ذکر و فکر اور خیالات و نظریات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ بعض نثر پاروں کی ادبی دنیا میں خواہ زیادہ اہمیت نہ ہو مگر وہ چونکہ اقبال کے قلم سے نکلے ہیں۔ اس لئے ہمارے لیے تبرک کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی اپنی ایک افادیت و اہمیت ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے آخر میں ہم بہ قول ڈاکٹر سید عبداللہ یہ کہہ سکتے ہیں: ’’ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہا قبال اگر شاعری نہ کرتے اور نثر ہی لکھتے تو بھی وہ اردو نثر میں مرزا غالب کی مانند ایک خاص دبستان یادگار چھوڑ جاتے۔ وہ اپنی خاص شگفتہ تحریر کے زیادہ سے زیادہ نمونے ہمیں دے جاتے اور ایک ایسا ادبی انداز ایجاد کرتے جس میں زبردست قوت فکریہ کہ ہمراہ ایک قوی قوت متخیلہ دست بدست چل رہی ہوتی ہے، جس میں واقعاتی حس اور تخلیقی حس کا سنجوگ ہوتا ہے، جس میں شاعری نثر سے ہم آغوش نظر آتی ہے۔‘‘ 30؎ ٭٭٭ حواشی 1۔ ادب کا مطالعہ، اطہر پرویز، ص:146 2۔ اقبال سب کے لئے، ص:37 3۔ اقبال سب کے لئے، ص:38 4۔ اقبال کی اردو نثر، ص:218 5۔ مقالات اقبال، طبع دوم1988ئ، ص:10 6۔ اقبال کی اردو نثر (بی اے نصاب) ص:31 7۔ علم الاقتصاد، طبع دوم 1977ئ، ص:32, 33 8۔ اقبال کی اردو نثر، ص:225 9 ۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:11 10۔ علم الاقتصاد، طبع اول، ص:152, 153 11۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:38 12۔ ایضاً، ص:12 13۔ ایضاً، ص:41 14۔ ایضاً، ص:75 15 ۔ ایضاً، ص:95 16 ۔ اقبال کی اردو نثری (نصاب بی اے )ص:31 17 ۔ اقبال کی اردو نثر، ص:239, 240 18۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:203, 204 19۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:109, 110 20۔ ایضاً، ص:118 21۔ ایضاً، ص:19 22۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی، طبع دوم 1981ء ، ص:147 23۔ ایضاً، ص:85 24 ۔ اقبالنامہ، حصہ اول، مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، ص:108 25۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:208 26۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:19, 20 27۔ اقبال ایک مطالعہ، ص:226 28۔ مجلہ سہ ماہی ’’ اقبال‘‘ اپریل تا جولائی 1977ئ، ص:92 29۔ اقبال اور پیروی شبلی، ص:145 30۔ مقالات اقبال، طبع دوم، ص:19 ٭٭٭ کتابیات (الف) تصانیف اقبال 1۔ علم الاقتصاد: طبع اول، پیسہ اخبار خادم التعلیم پریس لاہور (1904ئ)، طبع دوم اقبال اکادمی کراچی 1961ئ، طبع سوم اقبال اکادمی، لاہور، مرتبہ: ممتاز حسن، طبع چہارم: آئینہ ادب لاہور۔ 1991ء 2۔ شاد اقبال: (مرتبہ: ڈاکٹر محی الدین قادری زور) سب رس کتاب گھر حیدر آباد دکن، 1942ء 3۔ مضامین اقبال: (مرتبہ: تصدق حسین تاج) احمد حسین جعفر علی تاجر کتب حیدر آباد، طبع اول 1944ئ، طبع دوم حیدر آباد، 1985ء 4۔ اقبالنامہ حصہ اول: (مرتبہ: شیخ عطاء اللہ) شیخ محمد اشرف تاجر کتب، لاہور، طبع اول 1944ئ۔ 5۔ اقبالنامہ حصہ دوم: مرتبہ: شیخ عطاء اللہ، شیخ محمد اشرف تاجر کتب لاہور، طبع اول1951ء 6۔ مکاتیب اقبال بنام خان محمد نیاز الدین خان، بزم اقبال لاہور، 1954ئ، طبع دوم، اقبال اکادمی لاہور، 1986ء 7۔ مکتوبات اقبال (مرتبہ: سید نذیر نیازی) اقبال اکادمی کراچی، طبع اول 1957ء طبع دوم اقبال اکادمی لاہور 1977ء 8۔ مقالات اقبال (مرتبہ: سید عبدالواحد معینی) شیخ محمد اشرف تاجر کتب لاہور، طبع اول 1963ء طبع دوم، مرتبہ (سید عبدالواحد معینی اور محمد عبداللہ قریشی)1988ء 9۔ انوار اقبال (مرتبہ: بشیر احمد ڈار) اقبال اکادمی کراچی، طبع اول 1969ء طبع دوم، اقبال اکادمی لاہور 1977ء 10۔ مکاتیب اقبال بنام گرامی (مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی) اقبال اکادمی کراچی، طبع اول 1969ئ، طبع دوم، اقبال اکادمی لاہور، 1981ء 11۔ خطوط اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، مکتبہ خیابان ادب لاہور، 1976ء 12۔ روح مکاتیب اقبال، مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی، اقبال اکادمی لاہور، 1977ء 13۔ اقبال کے نثری افکار، مرتبہ: عبدالغفار شکیل، انجمن ترقی اردو ہند دہلی، 1977ء 14۔ Letters of Iqbal مرتبہ: بشیر احمد ڈار، اقبال اکادمی لاہور1977ء 15۔ خطوط اقبال بنام بیگم گرامی، مرتبہ: حمید اللہ شاہ ہاشمی، فیصل آباد، 1978ء 16۔ اقبال نامے، مرتبہ: ڈاکٹر اخلاق اثر، طارق پبلی کیشنز بھوپال 1981ء 17۔ اقبال جہان دیگر، مرتبہ: محمد فرید الحق، گردیزی پبلشرز کراچی 1983ء 18۔ تاریخ تصوف (مرتبہ: صابر کلوروی) مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور 1985ء 19۔ اقبال بنام شاد(مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی) بزم اقبال لاہور1986ء 20۔ کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول (مرتبہ: سید مظفر حسین برنی) اردو اکادمی دہلی 1989ء 21۔ کلیات مکاتیب اقبال، جلد دوم، مرتبہ: سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، 1991ء 22۔ کلیات مکاتیب اقبال، جلد سوم، مرتبہ: سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، 1993ء 23۔ مکاتیب سر محمد اقبال بنام سید سلیمان ندوی، مرتبہ: سید شفقت رضوی، المخزن پرنٹرز (مکتبہ رشیدیہ) پاکستان چوک، کراچی ، 1992ء 24۔ نگارشات اقبال، مرتبہ: زیب النسائ، مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور، 1993ئ۔ (ب) دیگر کتابیں 1۔ آفاق احمد: اقبال آئینہ خانے میں، مدھیہ پردیش اردو اکادمی بھوپال۔ 2۔ آل احمد سرور: عرفان اقبال، مرتبہ: زہرا معین، تخلیق مرکز لاہور،1977ء 3 ۔ ابو سعید نور الدین، ڈاکٹر: اسلامی تصوف اور اقبال، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم 1977ء 4۔ اخلاق اثر، ڈاکٹر: اقبال اور ممنون، طارق اخلاق پبلی کیشنز، بھوپال (مدھیہ پردیش) 5۔ اطہر پرویز: ادب کا مطالعہ، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، 1980ء 6۔ اعجاز احمد شیخ: مظلوم اقبال، شیخ شوکت علی پرنٹرز، کراچی، 1985ء 7۔ افتخار احمد صدیقی، ڈاکٹر: عروج اقبال، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع اول 1987ء 8۔ افتخار حسین شاہ، سید: اقبال اور پیروی شبلی، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، 1977ء 9۔ اقبال کی اردو نثر (بی اے): علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد 10۔ جاوید اقبال، ڈاکٹر: مئے لالہ فام، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور طبع دوم 1972ء 11۔ جاوید اقبال، ڈاکٹر: زندہ رود (حیات اقبال کا تشکیلی دور) طبع سوم1985ء 12 ۔ حسن اختر، ملک ڈاکٹر: اقبال ایک تحقیقی مطالعہ، یونیورسل بکس لاہور،1988ء 13۔ حمید یزدانی، ڈاکٹر: بیابہ مجلس اقبال، بزم اقبال لاہور 14۔ خالد نظیر صوفی: اقبال درون خانہ، بزم اقبال لاہور، 1971ء 15۔ رحیم بخش شاہین، اوراق گم گشتہ، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، طبع اول 1975ء 16۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر:1986ء کا اقبالیاتی ادب (ایک جائزہ) اقبال اکادمی لاہور، 1988ء 17۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر: تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، اقبال اکادمی لاہور، 1985ء 18۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر: اقبالیات کے تین سال، حرا پبلی کیشنز لاہور، 1661ء 19۔ سعید اختر درانی، ڈاکٹر: اقبال یورپ میں، اقبال اکادمی لاہور طبع اول 1985ء 20۔ سلطانہ مہر (مرتبہ): اقبال دور جدید کی آواز، ادارۂ تحریر کراچی، طبع اول 1977ء 21۔ صہبا لکھنوی: اقبال اور بھوپال، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم 1982ء 22 ۔طاہر فاروقی، ڈاکٹر: اقبال اور محبت رسول ؐ، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، طبع اول 1977ء 23 ۔ عبادت بریلوی، ڈاکٹر: اقبال کی اردو نثر، مجلس ترقی ادب لاہور1977ء 24۔ عبدالحق، بابائے اردو مولوی (مرتب): دانائے راز اقبال، انجمن ترقی اردو دہلی۔ 25۔عبدالحق، ڈاکٹر: تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، دہلی 1976ء 26۔ عبداللطیف اعظمی: دانائے راز، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی 27۔ عبدالواحد معینی، سید: نقش اقبال، آئینہ ادب لاہور1969ء 28۔ عطیہ فیضی: اقبال، اقبال اکادمی کراچی، طبع اول 1956ء 29۔ غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر: اقبال ایک مطالعہ، اقبال اکادمی لاہور، 1987ء 30۔ فرمان فتح پوری، ڈاکٹر: اقبال سب کے لئے،ا ردو اکیڈمی سندھ، کراچی 1978ء 31۔ فروغ احمد: تفہیم اقبال، اردو اکیڈمی سندھ کراچی، طبع اول، 1985ء 32۔ گوہر نوشاہی (مرتب): مطالعہ اقبال، بزم اقبال لاہور 1971ء 33۔ ماسٹر اختر: اقبال کے کرم فرما، بھوپال 1987ء 34۔ ماسٹر اختر: ریاست بھوپال اور اقبال، بھوپال 1987ء 35۔ محمد احمد خاں: اقبال اور مسئلہ تعلیم، اقبال اکادمی لاہور، طبع اول 1978ء 36۔ محمد دین تاثیر، ڈاکٹر: اقبال کا فکر و فن (مرتب افضل حق قریشی) منیب پبلی کیشنز لاہور، طبع اول 1977ء 37۔ محمد عبداللہ قریشی: حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں،ا قبال اکادمی لاہور 1985ء 38۔ محمد عبداللہ چغتائی، ڈاکٹر: اقبال کی صحبت میں، مجلس ترقی ادب لاہور 1977ء 39۔ محمد عثمان، پروفیسر: حیات اقبال کا ایک جذباتی دور، مکتبہ جدید لاہور1964ء 40۔ محمد فرمان، پروفیسر: اقبال اور تصوف، بزم اقبال لاہور، 1984ء 41۔ مظفر حسین چودھری: اقبال کے زرعی افکار، اقبال اکادمی لاہور1984ء 42۔ نذیر نیازی، سید: دانائے راز، سوانح حیات حکیم الامت حضرت علامہ اقبال، اقبال اکادمی لاہور1979ء 43۔ وحید الدین، سید فقیر: روزگار فقیر (اول)، فقیر سپننگ ملز لمیٹڈ کراچی 1963ئ۔ 44۔ وقار عظیم، پروفیسر سید: اقبالیات کا مطالعہ (مرتبہ) ڈاکٹر سید معین الرحمن اقبال اکادمی لاہور 1977ء (ج) رسائل و جرائد 1۔ ’’ اردو‘‘ کراچی، جولائی تا اکتوبر 1961ء 2۔ سہ ماہی ’’ اردو ادب‘‘ انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی، 1991ء 3۔’’ اقبال‘‘ لاہور اکتوبر1976ئ، جولائی 1977ئ، اکتوبر1989ئ، اپریل/جولائی 1992ء 4۔ ’’ اقبال ریویو‘‘ لاہور جنوری 1976ئ، جولائی 1982ء 5۔ ’’ اقبالیات‘‘ لاہور جولائی۔۔۔۔ ستمبر1987ئ، جنوری ۔۔۔۔ مارچ1988ء 6۔’’ اورینٹل کالج میگزین‘‘ لاہور (اقبال نمبر)1989ء 7۔’’ تحقیق نامہ‘‘ گورنمنٹ کالج لاہور1992ء 1991ء 8۔ ’’ سیارہ‘‘ لاہور، مارچ تا اپریل 1988ئ، جون جولائی 1992ئ، فروری 1994ء 9۔ ’’ شاعر‘‘ بمبئی اقبال نمبر، حصہ اول، 1988ء 10۔ ’’ صحیفہ‘‘ لاہور، اقبال نمبر، حصہ اول، اکتوبر1973ء 11۔ ’’ فنون‘‘ لاہور، ستمبر۔۔۔ دسمبر1992ء 12۔ ’’ مخزن‘‘ لاہور، ستمبر1902ئ، اکتوبر1902ء 13۔ ’’ نقوش‘‘ لاہور، اقبال نمبر، حصہ دوم، دسمبر1977ء 14۔ ’’ ہماری زبان‘‘ دہلی، یکم جون1989ئ، یکم جنوری 1990ء اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End