انوارِ اقبال بشیر احمد ڈار ترتیب و تدوینِ نَو مع حواشی v v vزیب النساء مندرجات پیش لفظ عرضِ حال مقدمہ مخففّات انوارِ اقبال بشیر احمد ڈار ترتیب و تدوینِ نَو مع حواشی زیب النساء انوارِ اقبال مندرجات پیش لفظ ممتاز حسن عرض حال بشیر احمد ڈار مقدمہ زیب النساء مخففّات ۱۔مضامین ۱) سودیشی تحریک اور مسلمان ۲) نبوّت پر نوٹ ۱۔۲ (عکس) ۳) حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت ۴) علمِ ظاہر و علمِ باطن ۵) مسلمانوں کا امتحان ۲۔بیانات مذہب و سیاست کا تعلق ۲) اقبالؔ کی ایک تقریر (جنگ عظیم اوّل کے خاتمے کے بعد پیدا شدہ صورتِ حال پر) ۳) سائمن کمیشن سے متعلق ۴) اتحاد کانفرنس کلکتہ سے متعلق ۳۔دیباچے تقاریظ آرا دیباچے: ۱) چھٹی‘ ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لیے ۲) تاریخِ ہند ۳) آئینہ عجم تقاریظ اور آرا ۱) منشی پریم چند ’’پریم پچیسی‘‘ ۲) رسالہ ’’ہمایوں‘‘ ۳) شیخ غلام محمد طورؔ ’’کلامِ طورؔ‘‘ ۴) ناظر الحسن ہوش بلگرامی ’’بدیہہ گوئی‘‘ ۵) مولوی عبدالرؤف شوقؔ‘ نظم ’’مرقعِ رحمت‘‘ ۶) رسالہ’’المعِلّم‘‘ ۷) حاجی بدرالدین احمد ’’فتح قسطنطنیہ‘‘ ۸) خواجہ عبدالمجید ’’جامعُ الُلّغات‘‘ ۹) مولوی فتح محمدّ خان جالندھری ’’مصبا القواعد‘‘ ۱۰) ’’لسان الغیب‘‘ اردو شرح دیوانِ حافظؔ ۱۱) جرّاح محمد عاشق ’’فنِ جرّاحی کا حیرت انگیز کرشمہ‘‘ ۱۲) دواخانہ‘ حکیم ظفریاب علی ۱۳) کاسمو پولیٹن فلم کمپنی کے نام ۴۔خطوط مکتوب الیہم اور مکاتیبِ اقبال ۱) خواجہ غلام الحسنین ۱۹۰۴ء (انگریزی سے) ۲) خواجہ حسن نظامی ۲۶؍جنوری ۱۹۱۷ء ۳) ایضاً ۱۱؍جنوری ۱۹۱۸ء ۴) ایضاً ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۲ء ۵) ثاقب کانپوری ۳۰؍جولائی۱۹۳۰ء ۶) خواجہ وصی الدین ۹؍جون ۱۹۳۱ء ۷) عبدالعلی شوقؔ سندیلوی ۴؍نومبر ۱۹۱۹ء ۸) ایضاً ۱۹۱۹ء ۹) ایضاً ۱۹۱۹ء ۱۰) ایضاً ۱۹۲۰ء ۱۱) حاجی محمد احمد خاں سیتاپور ۲۹؍مارچ ۱۹۱۹ء ۱۲) ایضاً ۲۸؍ستمبر ۱۹۲۰ء ۱۳) محمدعبدالسلام سلیمؔ ۱۵؍نومبر ۱۹۳۰ء ۱۴) عبدالقوی فانی ۲۱؍مئی ۱۹۳۲ء (انگریزی سے) ۱۵) اظہر عباس ۸؍نومبر ۱۹۳۵ء ۱۶) محمد عبدالرحمن شاطرؔ مدراسی ۲۴؍فروری ۱۹۰۵ء ۱۷) ایضاً ۲۹؍اگست ۱۹۰۸ء ۱۸) مولوی کرم الٰہی صوفی نومبر ۱۹۱۱ء ۱۹) سراکبر حیدری ۱۹۲۴ء (انگریزی سے) ۲۰) محمد دین فوقؔ ۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ء (عکس) ۲۱) ایضاً ۱۹۰۶ء (عکس) ۲۲) ایضاً ۲۹؍اگست ۱۹۰۸ئ (عکس) ۲۳) ایضاً ۱۱؍مئی ۱۹۰۹ئ ایضاً ۲۴) ایضاً ۱۹۰۹ء ۲۵) ایضاً ۷؍مارچ ۱۹۱۲ء (عکس) ۲۶) ایضاً ۲۳؍جولائی ۱۹۱۵ ایضاً ۲۷) ایضاً ۲۱؍دسمبر ۱۹۱۵ئ ایضاً ۲۸) ایضاً ۲۳؍دسمبر ۱۹۱۵ئ ایضاً ۲۹) ایضاً ۲۶؍جولائی ۱۹۱۶ئ ایضاً ۳۰) ایضاً ۶؍مارچ ۱۹۱۷ئ ایضاً ۳۱) ایضاً ۸؍جون۱۹۱۷ئ ایضاً ۳۲) ایضاً ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۸ئ ایضاً ۳۳) ایضاً ۲۸؍دسمبر ۱۹۱۸ئ ایضاً ۳۴) ایضاً ۱۹۱۸ئ ایضاً ۳۵) ایضاً ۱۹۱۸ئ ایضاً ۳۶) ایضاً ۱۹۰۴ء یا ۱۹۰۵ء ۳۷) ایضاً ۲۵؍فروری ۱۹۱۹ء ۳۸) ایضاً ۲۷؍اکتوبر ۱۹۲۰ء ۳۹) غلام احمد مہجور ۱۲؍مارچ ۱۹۲۲ء ۴۰) محمد دین فوقؔ ۱۹؍دسمبر ۱۹۲۲ء ۴۱) محمد دین فوقؔ ۴؍مارچ ۱۹۲۳ئ عکس ۴۲) ایضاًً ۳۰؍جون ۱۹۲۴ئ ایضاًً ۴۳) ایضاً ۵؍مئی ۱۹۲۴ئ ایضاً ۴۴) ایضاً ۳۰؍اپریل۱۹۲۹ئ ایضاً ۴۵) ایضاً ۱۶؍جنوری ۱۹۳۴ئ ایضاً ۴۶) غلام رسول مہر ۷؍ستمبر ۱۹۲۴ ایضاً ۴۷) ایضاً ۳۰؍اپریل ۱۹۲۷ ایضاً ۴۸) ایضاً ۸؍مارچ ۱۹۲۸ئ ایضاً ۴۹) ایضاً ۲۸؍جولائی ۱۹۲۹ئ ۵۰) ایضاً ۱۹۲۹ئ عکس ۵۱) ایضاً ۵؍ستمبر ۱۹۲۹ئ ایضاً ۵۲) ایضاً یکم دسمبر ۱۹۳۰ئ ایضاً ۵۳) ایضاً ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۰ئ ایضاً ۵۴) ایضاً ۱۹۳۰ئ ایضاً ۵۵) ایضاً ۱۰؍جولائی ۱۹۳۱ئ ایضاً ۵۶) ایضاً ۲۳؍جولائی ۱۹۳۱ئ ایضاً ۵۷) ایضاً ۱۶؍اگست ۱۹۳۱ئ ایضاً ۵۸) ایضاً ۳۰؍جنوری ۱۹۳۲ئ ایضاً ۵۹) ایضاً ۱۹؍فروری ۱۹۳۲ئ ایضاً ۶۰) ایضاً ۱۷؍اگست ۱۹۳۲ئ ایضاً ۶۱) مختار احمد ۲۹دسمبر۱۹۳۲ئ ایضاً ۶۲) غلام رسول مہر یکم فروری ۱۹۳۳ئ ایضاً ۶۳) ایضاً ۲۱؍مارچ ۱۹۳۳ئ ایضاً ۶۴) ایضاً جنوری ۱۹۳۳ئ ایضاً ۶۵) ایضاً مارچ یا جون ۱۹۳۳ئ ۶۶) ایضاً ۱۶؍جون ۱۹۳۳ئ ایضاً ۶۷) ایضاً ۱۴؍اگست ۱۹۳۳ئ ۶۸) ایضاً ۲؍اکتوبر ۱۹۳۳ئ ایضاً ۶۹) شاکر صدیقی ۷؍ستمبر ۱۹۱۲ئ ایضاً ۷۰) ایضاً ۲۲؍جون ۱۹۱۵ئ ۷۱) ایضاً ۶؍جولائی ۱۹۱۵ء ۷۲) ایضاً ۱۴؍اگست ۱۹۱۵ء ۷۳) ایضاً ۱۳؍اگست ۱۹۱۵ء ۷۴) ایضاً ۲۲؍اگست۱۹۱۵ء ۷۵) ایضاً اکتوبر/نومبر ۱۹۱۵ء ۷۶) ایضاً ۲۴؍مارچ ۱۹۱۶ء ۷۷) ایضاً ۲۴؍جون ۱۹۲۴ء ۷۸) ایضاً ۲۹؍اکتوبر۱۹۲۹ء ۷۹) ایضاً ۲؍جون ۱۹۳۱ء ۸۰) ڈاکٹر مظفر الدّین قریشی ۳۰؍اگست۱۹۳۲ئ عکس ۸۱) ایضاً ۲؍ستمبر ۱۹۳۶ء ۸۲) ایضاً ۵؍اکتوبر ۱۹۳۷ء ۸۳) ایضاً ۱۶؍اکتوبر ۱۹۳۷ء ۸۴) ایضاً ۲۵؍اکتوبر ۱۹۳۷ء ۸۵) ایضاً ۱۸؍نومبر۱۹۳۷ء ۸۶) ڈاکٹر مظفرالدین قریشی ۲۷؍نومبر ۱۹۳۷ئ عکس ۸۷) ایضاً ۸؍دسمبر ۱۹۳۷ئ ایضاً ۸۸) ایضاً ۱۳؍دسمبر ۱۹۳۷ئ ایضاً ۸۹) ایضاً ۱۸؍دسمبر ۱۹۳۷ئ ایضاً ۹۰) ایضاً ۳۰؍دسمبر۱۹۳۷ئ ایضاً ۹۱) ایضاً ۲۲؍جنوری ۱۹۳۸ء ۹۲) ایضاً ۲۲؍جنوری ۱۹۳۸ء ۹۳) ایضاً ۳۱؍جنوری ۱۹۳۸ء ۹۴) ایضاً ۳؍فروری ۱۹۳۸ئ عکس ۹۵) ایضاً ۱۶؍فروری ۱۹۳۸ئ ایضاً ۹۶) ایضاً ۱۸؍فروری ۱۹۳۸ئ ایضاً ۹۷) ایضاً ۲۹؍مارچ۱۹۳۸ئ ایضاً ۹۸) ایضاً اپریل ۱۹۳۸ء ۹۹) ایضاً ۳۰؍مارچ۱۹۳۸ء ۱۰۰) ضیاء الدّین برنی ۱۷؍اپریل۱۹۱۵ئ عکس ۱۰۱) ایضاً ۲۰؍اپریل ۱۹۱۵ئ ایضاً ۱۰۲) ایضاً ۲۲؍مئی ۱۹۱۵ئ ایضاً ۱۰۳) ایضاً ۳۰؍اکتوبر۱۹۱۵ئ ایضاً ۱۰۴) ایضاً ۳۱؍اگست۱۹۱۶ئ نامکمل عکس ۱۰۵) ایضاً ۲۳؍دسمبر۱۹۲۰ء ۱۰۶) ایضاً ۱۲؍اپریل ۱۹۲۲ء ۱۰۷) میر خورشید احمد ۲۵؍اگست ۱۹۲۲ء ۱۰۸) ایضاً ۱۳؍دسمبر۱۹۲۲ء ۱۰۹) ایضاً ۲۶؍مئی ۱۹۲۳ء ۱۱۰) ایضاً ۳۱؍مئی ۱۹۲۳ء ۱۱۱) ایضاً یکم جون ۱۹۲۳ء ۱۱۲) ایضاً ۲۰؍جون ۱۹۲۳ء ۱۱۳) ایضاً ۲۶؍جون۱۹۲۳ء ۱۱۴) تمکین کاظمی ۲۶؍اگست ۱۹۲۸ء عکس ۱۱۵) ایضاً ۴؍ستمبر ۱۹۲۸ئً ۱۱۶) ایضاً ۱۸؍ستمبر ۱۹۲۸ئ ایضاً ۱۱۷) ڈی مانٹ مورینسی ۷؍جولائی ۱۹۲۸ء ۱۱۸) منشی سراج دین ۱۱؍جولائی۱۹۲۱ء ۱۱۹) ایضاً ۱۳؍اگست۱۹۲۱ء ۱۲۰) ایضاً ۲۰؍اپریل ۱۹۲۲ء ۱۲۱) علّامہ عبدالرشید طالوتؔ ۱۶؍فروری ۱۹۳۸ء ۱۲۲) ایضاً ۱۸؍فروری ۱۹۳۸ء ۱۲۳) ایضاً مارچ ۱۹۳۸ء ۱۲۴) شیخ مبارک علی مارچ/اپریل ۱۹۲۳ء عکس ۱۲۵) ایضاً ۲۶؍اگست۱۹۲۴ئً ۱۲۶) ایضاً مارچ/اپریل ۱۹۲۳ء ۱۲۷) وصل بلگرامی ۱۸؍نومبر۱۹۲۵ء ۱۲۸) ایضاً نومبر/دسمبر۱۹۲۵ء ۱۲۹) وحید احمد ۴؍ستمبر۱۹۱۹ء ۱۳۰) ایضاً ۷؍ستمبر۱۹۲۱ء ۱۳۱) شاہ سلیمان پھلواروی ۲۴؍فروری ۱۹۱۶ء ۱۳۲) ایضاً ۹؍مارچ ۱۹۱۶ء ۱۳۳) شیخ عطاء اللہ ۱۰؍اپریل۱۹۰۹ء ۱۳۴) ایضاً ۲؍جنوری۱۹۲۲ء ۱۳۵) میاں عبدالرشید جون۱۹۳۶ء عکس ۱۳۶) میاںعبدالرشید ۲۱؍اگست۱۹۳۶ء ۱۳۷) سیّد عبدالواحد معینی ۱۲؍ستمبر ۱۹۳۴ء ۱۳۸) ایضاً ۱۶؍ستمبر ۱۹۳۵ء ۱۳۹) ڈاکٹر سیّد یامین ہاشمی ۹؍مارچ ۱۹۳۴ء عکس ۱۴۰) ایضاً ۳۰؍جولائی ۱۹۳۴ء ۱۴۱) سید شاہ نظیراحمد ہاشمی غازی پوری۲۹؍جون ۱۹۲۳ء ۱۴۲) سید عبدالغنی ۲۰؍جولائی ۱۹۲۳ء ۱۴۳) سید عشرت حسین ۱۳؍ستمبر ۱۹۲۱ء ۱۴۴) شفاعت اللہ خان ۲۲؍اپریل ۱۹۲۲ء ۱۴۵) ضامن نقوی ۱۱؍جون ۱۹۲۳ء ۱۴۶) صوفی غلام مصطفی تبسم ۶؍ستمبر۱۹۲۵ء ۱۴۷) میر حسن الدین ۱۱؍جنوری ۱۹۲۷ء ۱۴۸) رشید احمد صدیقی ۷؍دسمبر ۱۹۲۹ء ۱۴۹) خواجہ بشیر احمد ۱۱؍اکتوبر ۱۹۲۹ء ۱۵۰) سردار رب نواز خان ۲۶؍جولائی ۱۹۳۰ء ۱۵۱) ڈاکٹر محمد دین تاثیر ۲۲؍۱۹۳۵ء ۱۵۲) سید مصطفی حسن ۱۷؍فروری ۱۹۳۲ء ۱۵۳) مولانا محمد عرفان خاں ۵؍جولائی ۱۹۳۲ئ عکس ۱۵۴) خواجہ عبدالوحید فروری/مارچ ۱۹۳۳ء ۱۵۵) پروفیسر علم الدین سالکؔ ۸؍جون ۱۹۳۳ء ۱۵۶) مرزا یعقوب بیگ ۱۲؍ستمبر ۱۹۳۳ء ۱۵۷) نواب بہادریارجنگ ۱۴؍ستمبر ۱۹۳۳ئ عکس ۱۵۸) نصراللہ خان ۵؍اگست ۱۹۳۶ئ عکس ۱۵۹) نورحسین ۱۷؍مارچ ۱۹۳۷ئ عکس ۱۶۰) ظفراحمد صدیقی ۱۲؍دسمبر ۱۹۳۶ئ عکس ۱۶۱) محمد رمضان ۱۹؍فروری ۱۹۳۷ئ عکس ۱۶۲) حکیم راغب مراد آبادی ۲۹؍فروری ۱۹۳۷ء ۱۶۳) مولوی عبدالحق ۱۵؍مارچ ۱۹۳۸ئ عکس ۱۶۴) محمد احمد اللہ خان منصور حیدرآبادی۲۱؍ستمبر ۱۹۳۶ء ۱۶۵) فرید احمد ۱۳؍جولائی۱۹۱۷ء ۱۶۶) تلوک چند محروم ۴جنوری ۱۹۰۹ء ۱۶۷) سرور شاہ گیلانی (۱۹۳۶ئ) ۱۶۸) میر غلام بھیک نیرنگؔ ۱۳؍اکتوبر۱۹۲۱ء ۱۶۹) ابراہیم حنیف یکم ستمبر ۱۹۲۲ء ۱۷۰) خواجہ عبدالرحیم ۱۷؍جنوری ۱۹۳۲ئ عکس ۱۷۱) شوکت تھانوی ۲۴؍اگست ۱۹۳۴ء ۱۷۲) نجم الغنی رام پوری ۱۴؍دسمبر ۱۹۱۸ء ۱۷۳) سید محمد سعیدالدین جعفری ۱۳؍اگست ۱۹۲۴ئ عکس ۱۷۴) عبدالمجید سالک ۱۹۲۷ء ۱۷۵) کیپٹن منظور حسن ۸؍جون ۱۹۱۸ء ۱۷۶) پروفیسر محمود خان شیرانی ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۳ء ۱۷۷) سعید نفیسی ۲۶؍اگست ۱۹۳۲ئ فارسی ۱۷۸) ایضاً ۴؍نومبر۱۹۳۲ئ ایضاً ۱۷۹) مرتضیٰ احمد میکش یکم فروری۱۹۳۷ء عکس ۱۸۰) مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی ۲؍نومبر۱۹۱۲ء ۱۸۱) ایضاً ۲۵؍جنوری ۱۹۱۵ء ۱۸۲) پنڈت امرناتھ مدن ساحرؔ دہلوی۲۶؍ستمبر۱۹۳۷ء ۱۸۳) مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی ۱۵؍جنوری ۱۹۱۸ئ عکس ۱۸۴) ایضاً ۸؍اپریل ۱۹۲۰ئ عکس ۱۸۵) محمد ادریس ۱۲؍جنوری ۱۹۲۲ئ ۱۸۶) مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی ۱۷؍مئی ۱۹۲۲ئ عکس ۱۸۷) ایضاً ۱۲؍اپریل ۱۹۲۵ئ ایضاً ۱۸۸) ایضاً ۲۰؍اپریل ۱۹۲۵ئ ایضاً ۱۸۹) ایضاً ۲۳؍اپریل ۱۹۳۵ئ ایضاً ۱۹۰) ایضاً ۱۲؍نومبر ۱۹۳۵ئ ایضاً ۱۹۱) ۱۳؍ستمبر ۱۹۳۶ئ عکس اقبالؔ کا ابتدائی کلام ۱) علم ۲) ظریفانہ کلام کا ایک قطعہ (ماران غوک خور) اور متفرق اشعار ۳) ’’اسرارِخودی‘‘ کی حکایت ’’شیخ و برہمن‘‘ کے چند اشعار ۴) روح الذّہب ۵) بانگِ درا کی نظم ’’چاند‘‘ کا ایک شعر ۶) اقبالؔ کی منظومات کے چند اشعار ۷) اکبر الٰہ آبادی کی وفات پر قطعۂ تاریخ اور متفرق اشعار متفرقات ۱) آئینہ مشاعرہ (مشاعرے کی روداد) ۲) شعر کا مفہوم ع فرد قائم ربطِ ملّت… ۳) اقبالؔ سے مجید ملک کی ملاقات کا حال ۴) ضمیمہ حالاتِ اقبالؔ (تحریر کردہ: محمد دین فوقؔ) ۵) روداد سفرِ مدارس ۶) روداد پنجاب پروونشل ایجوکیشنل کانفرنس‘ مُرتّبہ: اقبالؔ ضمیمہ (خطوطِ اقبال) کتابیات اشاریہ پیش لفظ اقبال کی تقاریظ‘ خطوط‘ مضامین اور نادر کلام کا یہ مجموعہ اقبال اکادمی نے مُرتّب کیا ہے۔ اس وقت تک اقبال کے اردو خطوط کے کئی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ پروفیسر شیخ عطاء اللہ کا مُرتّب کردہ ’اقبال نامہ‘ دو حصوں میں ۱۹۴۴ء اور ۱۹۵۱ء میں چھپا‘ بزم اقبال لاہور ’مکاتیب اقبال‘‘ بنام خان نیازالدین خاں ۱۹۵۴ء اور اقبال اکادمی کراچی سے ’مکتوبات اقبال‘ بنام نذیر نیازی ۱۹۵۷ء میں شائع ہوئے۔ ان سے پہلے ۱۹۴۲ء میں اردو خطوط کا ایک اور مجموعہ ’شاد اقبال‘ کے نام سے حیدرآباد دکن سے طبع ہوا تھا‘ اس کے مُرتّب ڈاکٹر محی الدین قادری زور تھے۔ اس میں وہ خطوط جمع کر دیئے گئے تھے جو اقبال نے وقتاً فوقتاً مہاراجا کشن پرشاد شادؔ مدارالمہام سلطنتِ آصفیہ حیدرآباد دکن کو تحریر کیے تھے۔ اقبالؔ کے اردو مضامین اور مقالات کے بھی دو مجموے شائع ہوچکے ہیں۔ ایک مجموعہ ’مضامین اقبال‘ مُرتّبہ تصدیق حسین تاج تھا جو ۱۹۴۴ء میں حیدرآباد دکن سے چھپا اور دوسرا ’مقالاتِ اقبال‘ مُرتّبہ سید عبدالواحد معینی ہے جو ۱۹۶۳ء میں لاہور سے شائع ہوا ہے۔ نثری تحریروں کے علاوہ اقبال کا کافی کلام ایسا موجود ہے جو ان کے معروف مجموعوں میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے یا ترمیم یافتہ صورت میں شامل ہے۔ ان کے منتشر اور غیر مدوّن کلام کے بھی بعد میں کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں جن میں ’باقیاتِ اقبال‘ اور روزگار فقیر جلد دوم‘ قابل ذکر ہیں۔ اقبال اکادمی کا موجودہ مجموعہ صرف ان خطوط‘ مضامین‘ تقاریظ اور اشعار پر مشتمل ہے جو یا تو سرے سے کہیں شائع ہوئے ہی نہیں یا اگر شائع ہوئے بھی ہیں تو کسی باقاعدہ مجموعے میں شامل نہیں۔ خطوط‘ مضامین‘ تقاریظ اور منظومات وغیرہ کے علاوہ اس کتاب میں چند نادر دستاویزات کے عکس بھی شامل ہیں۔ مثلاً اقبالؔ کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے اشعار اور تحریریں‘ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے دوران کی ایک یادداشت‘ مسئلہ نبوت پر تشریحی مکتوبات وغیرہ۔ یہ نوادر پہلی مرتبتہ شائع کیے جا رہے ہیں۔ یہ اہم مجموعہ جو اقبالیات میں ایک گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے اقبال اکادمی کے ڈآئریکٹر جناب بشیر احمد ڈار نے بڑی کاوش اور تگ و دو کے بعد مُرتّب کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی کاوش ان کے فرئض منصبی میں داخل ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ جس محنت اور عرق ریزی سے انھوں نے یہ کام انجام دیا ہے وہ فرائض کی حد سے بہت آگے ہے۔ اقبالؔ اکادمی اس کام کے لئے ڈار صاحب کی ممنون ہے اور مجھے یقین ہے کہ دنیا میں جس جگہ یہ مجموعہ پہنچے گا اقبالؔ کے طالب علم‘ عقیدت منداور محققین ان کے شکرگزار ہوں گے۔ کراچی۔ ۶؍اپریل ۱۹۶۷ئ ممتاز حسن عرضِ حال اقبالؔ کے اردو خطوط‘ متفرق تحریروں اور کم یاب منظومات کے کئی مجموعے اب تک شائع ہو چکے ہیں۔ ان مجموعوں کے علاوہ اقبال کے بہت سے خطوط‘ تحریریں‘ تقریظیں‘ آراء اور تبصرے مختلف رسائل اور اخبارات میں وقتاً فوقتاً چھپتے رہے ہیں۔ یہ بکھرا ہوا قیمتی مواد آج تک کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہو سکا۔ لیکن ریزہ ریزہ چن کر اب تمام منتشر اور نادر تحریروں‘ نظموں اور خطوط کو زیر نظر کتاب میں جمع کر دیاگیا ہے۔ تالیف کے وقت پوری کوشش کی گئی تھی کہ کہ کوئی ایسی چیز شامل نہ ہو جائے جو عام مطبوعہ مجموعوں میں آچکی ہو۔ پھر بھی سہوو خطا کا امکان ہے۔ اگر کوئی اِکاّدُکاّ ایسی تحریر اس مجموعے میں دوبارہ شامل ہو گئی ہے تو اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ جتنا مواد موجودہ مجموعے میں شامل ہے اس کا بیش تر حصّہ اکادمی میں محفوظ ہے۔ بعض نوادر ایسے بھی ہیں جو ابھی تک غیر شائع شدہ ہیں۔ ان کی عکسی نقول پہلی مُرتّبہ اس مجموعے میں شامل کی جا رہی ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ۱) مسئلہ نبوت پر دو تحریریں جو اقبال نے سید نذیر نیازی کو بھیجیں۔ ۲) پنجاب کونسل کے انتخابات کے دوران ایک یادداشت ۳) اقبال کے برادر بزرگ شیخ عطاء محمد مرحوم کا ایک خط غلام رسول صاحب مہرکے نام جس کے ساتھ اقبال کی لکھی ہوئی ایک فارسی نظم ’تنہائی‘ بخطِ مصنف۔ ان کے علاوہ اقبال کے چند ایسے اہم مضامین‘ بیانات اور تقاریر بھی شامل کتاب ہیں جو اس سے پہلے کسی مجموعے میں موجود نہیں۔ اس کتاب کی ترتیب و تدوین میں بے شمار رسائل‘ اخبارات اور کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کا اعتراف و شکریہ ادا کرنا ہمارا فض ہے۔ رسائل میں مخزن‘ زمانہ‘ صوفی‘ کارواں‘ برہان‘ ماہِ نو‘ چراغ راہ‘ کشمیر میگزین‘ نقوش وغیرہ اور اخبارات میں احسان‘ جنگ‘ امروز‘ انقلاب وغیرہ سے خاص طور پر مدد ملی۔ حواشی و تعلیقات کے سلسلے میں جناب غلام رسول مہرؔ اور محبّی محمدّ عبداللہ قریشی نے نہایت مفید مشورے دئیے اور بیش بہا معلومات فراہم کیں۔ اس مخلصانہ امداد و تعاون کے لئے ہم ان کے بہت ممنون ہیں۔ مواد کی فراہمی کے سلسلے میں محترمہ بیگم ڈاکٹر مظفر الدین قریشی کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے کہ انھوں نے ازراہِ نوازش اقبال کے وہ تمام اصل خطوط جو ان کے پاس تھے اکادمی کے سپرد کر دئیے۔ اس سلسلے میں جن اصحاب نے ہاتھ بٹایا ان میں جناب ڈاکٹر وحید قریشی‘ محبّی عبداللہ قریشی‘ (مدیرادبی دنیا)‘ جناب حسن مثنیٰ (مدیر حریت)‘ جناب شفیق بریلوی (مدیر خاتون پاکستان)‘ جناب ملک احمد نواز (یونیورسٹی لائبریری لاہور) اور جناب مدبر رضوی (لائبریرین اقبال اکادمی) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ رضوی صاحب نے نہ صرف بڑی تندہی سے مواد کی فراہمی میں مدد دی بلکہ اکثر اوقات اس کے نقل کرنے کی بھی زحمت گوارا کی۔ اس طرح غلام رسول اسسٹنٹ انچارج اقبال اکادمی نے بھی مواد کی تصحیح و ترتیب میں کافی معاونت کی۔ کتاب کی طباعت کے مختلف مرحلوں میں محبی مشفق خواجہ نے کافی رہنمائی کی۔ مُرتّب ان سب کا شکرگزار ہے۔ آخر میں جناب ممتاز حسن کا شکریہ ادا کرنا ہمار خوشگوار فریضہ ہے جنھوں نے اس کتاب کے سلسلے میں قدم قدم پر نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ازارہِ عنایت اپنے ذاتی کتب خانے سے استفادہ کا موقع بھی دیا۔ اس کتب خانے میں اقبالیات کا نہایت بیش بہا‘ نادار اور متنوع ذخیرہ ان کی علمی لگن‘ خوش ذوقی اور اقبالؔ سے حد درجہ شغف پر دال ہے۔ اس کتاب کے بعض نوادر کے لئے ہم ان کے مرہون منّت ہیں۔ آخر میں قارئین کی خدمت میں ایک معذرت پیش کرنی ہے‘ یہ کتاب کی ترتیب و تدوین کے بارے میں ہے۔ کتاب کی کتابت شروع کرتے وقت ہمارے پاس مواد مختصر اور محدود تھا اس لئے ذہن میں اس کی ترتیب کا خاکہ بھی موجودہ خاکہ سے مختلف تھا لیکن مزید مواد کی تلاش و جُستجو بہرحال جاری تھی۔ اس محنت کا ثمرہ ہماری توقع سے بڑھ کر نکلا۔ مواد خاصا اکٹھا ہو گیا لیکن پہلا مواد بعد میں دستیاب ہونے والے مواد سے مناسب اور متوازن انداز میں منسلک نہ ہو سکا۔ تدوین کی اس خامی اور ناہمواری کا ہمیں احساس تھا لیکن اس کی خاطر اُن گلہائے رنگ رنگ کو چھوڑناگوارا نہ ہوا۔ اسی لئے ہم نے انھیں بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ اس کتاب میں آپ کو گلدستے کی ترتیب و تہذیب نہیں ملتی تو نہ سہی لیکن چیدہ چیدہ پھولوں کی لطافت رنگ و بو اور بوقلمونی سے تو بہرکیف بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ کراچی مارچ ۱۹۶۷ئ بشیر احمد ڈار مقدمہ ’’انوار اقبالؔ‘‘ علّامہ اقبال کی تقاریظ‘ خطوط‘ مضامین‘ بیانات اور دیگر تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اب تک اس کتاب کے دو ایڈیشن (پہلا مارچ ۱۹۶۷ئ‘ اقبال اکادمی پاکستان کراچی‘ دوسرا ۱۹۷۷ئ‘ اقبال اکادمی پاکستان لاہور) شائع ہو چکے ہیں۔ ’’انوارِ اقبال‘‘ میں بہ قول مُرتّب: ’’چیدہ چیدہ پھولوں کی لطافت‘ رنگ و بو اور بوقلمونی‘‘ تو ہے مگر: ’گلدستے کی ترتیب و تہذیب نہیں‘‘، چنانچہ تدوین کی یہی ناہمواری اور بے ترتیبی سنجیدہ قاری کو کھٹکتی ہے۔ مُرتّب نے کتاب کی ترتیب یوں قائم کی ہے: ۱) تقاریظ اور مضامین ۲) خطوط ۳) متفرق خطوط ۴) رودادِ سفر مدراس ۵) بزم آخر (تقاریظ‘ خطوط‘ مضامین‘ بیانات‘ اقبال کاابتدائی کلام)۔ ۱) تقاریظ اور مضامین‘‘ کے عنوان پر نمبر شمار نہیں ہے۔ اس عنوان کے تحت اصولی طور پر خطوط شامل نہیں ہونے چاہئیں تھے‘ لیکن اس حصّے میں کچھ خطوط ایسے بھی ہیں‘ جن کو مُرتّب نے فہرست میں شمار نہیں کیا‘ مثلاً: خط بنام خواجہ حسن نظامی (ص:۴) ‘ بنام ثاقب کانپوری (ص:۵) بنام عزیز الدین غزیز لکھنوی (ص:۶۔۹) اور کچھ خطوط ایسے ہیں جنھیں فہرست میں شمار کیا گیا ہے۔ ’’آئینہ مشاعرہ‘‘ (ص:۱۸‘۱۹) میں اقبال کے تعارف کو اس حصّے میں شامل کرنے کے بجائے متفرق تحریروں میں شمار کرنا چاہیے تھا۔ مزید ایک شعر: (فرد قائم ربطِ ملت…) کا مفہوم‘ فہرست میں شامل نہیں ہے۔‘ لیکن اس حصّے میںشامل ہے۔ ۲) خطوط کے زیر عنوان فوقؔ کی ایک تحریر (حالاتِ زندگی) دی گئی ہے۔ اس کا اس حصّے میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ۳) ’’متفرق خطوط‘‘ کا عنوان غیر ضروری ہے‘ دراصل دوسرا اورتیسرا دونوں حصّے خطوط پر مشتمل ہیں۔ لہٰذا ایک عنوان ہی کافی تھا۔ ’’عکس‘ ‘ (ص:۱۶) کے زیرِعنوان مہرؔ کے نام خط ِص:۱۰۳‘ عکس: ۱۰۵) کے عکس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ عکسِ نظم ’بسوہ دار‘ اور ’مالوی‘ ص:۳۰۶ کے بجائے ص:۶۲ (خط بنام فوقؔ ۲۳؍دسمبر ۱۵ئ) پر ہونا چاہیے تھا کیونکہ خط میں ’’ریویو‘‘ کا ذکر ہے‘ مزید اس نظم کا متن بھی خط میں شامل نہیں کیا گیا۔ ’’انوارِ اقبالؔ‘‘ کی ترتیب و تدوین نو کی تحریک مجھے ایم۔فِل (اقبالیات) کے دوران ہوئی‘ جب مجھے ’انوار اقبال‘ کے خطوط پر حواشی و تعلیقات کے موضوع پر مقالہ لکھنے کا موقع ملا۔ ’انوار اقبال‘ میں اصل مآخذ کی کمی بری طرح کھٹکتی ہے۔ چنانچہ دورانِ تحقیق بارہا اس دشواری کا سامنا کرنا پڑا کہ متن کی صحیح صورت کیا ہے؟ یا کیا ہو سکتی ہے؟ مُرتّب نے حواشی کا اہتمام ضروری کیا ہے لیکن بہت سے تفصیل طلب نکات تشنہ رہ گئے ہیں اور حواشی کی کمی جگہ جگہ محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ ’انوار اقبال‘ کی ترتیب و تدوینِ نو میں جہاں بنیادی مآخذ (خطوں کے عکوس) سے استفادہ کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے‘ وہاں متون میں شامل شخصیات‘ مقامات اور دیگر اہم امور پر تعلیقات و حواشی درج کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ اگر ’انوار‘ میں درج حواشی سے استفادہ کیا گیا ہے تو قوسین میں ’’ب۔ا۔ڈار‘‘ لکھا گیا ہے تاکہ پتا چل سکے کہ متذکرہ حاشیہ بشیراحمد ڈار نے مُرتّب کیا ہے۔ ’’انوارِ اقبال‘‘ کی ترتیبِنو میں ابواب بندی یوں کی گئی ہے: ۱) مضامین ۲) بیانات ۳) دیباچے‘ تقاریظ‘ آرا ۴) خطوط ۵) اقبال کا ابتدائی کلام ۶) متفرقات ۱) اقبالؔ کے علمی اور مذیبہ مضامین کو اس حصّے میں شامل کیا گیا ہے‘ تاکہ ان مضامین کا ایک مجموعی تاثر ابھر سکے۔ ان پر حواشی بھی دیے گئے ہیں اور ان مضامین کی دیگر اشاعتوں کا حوالہ بھی۔ متن کی تصحیح کرنے کی بھی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ ’’نبوت پر نوٹ‘‘ کا عکس ’انوار اقبال‘ میں شامل تھا لیکن نقلِ متن میں مُرتّب نے عکس کو مدنظر نہیں رکھا۔ اس لیے چند سطریں متن میں شامل ہونے سے رہ گئیں‘ ترتیب نَو میں اصل متن کا تعین کر کے ’انوار اقبال‘ کے متن کی تحصیح کر دی گئی ہے۔ ۲) ’بیانات‘: اس حصّے میں علّامہ اقبال کی تقریر اور بیانات کو شامل کیا گیا ہے۔ ۳) ’’دیباچے‘ تقاریظ اور آرا‘‘ کے تحت علّامہ اقبالؔ کے دیباچے اور آرا شامل ہیں‘ تاہم ایسی تقاریظ اور آرا جو باقاعدہ تقریظ یا رائے کے زُمرے میں نہیں آتیں بلکہ کسی خط کا حصّہ ہیں۔ انھیں اس حصّے میں شامل نیں کیا گیا اور خطوط کی ذیل میں رکھا گیا ہے۔ مثلاً و خواجہ غلام الحسنین کی ترجمہ شدہ کتاب ’’ایجوکیشن‘‘ (انوار‘ ص:۲) پر اقبال کی رائے خط کی صورت میں ہے‘ ’انوار‘‘ میں اس خط کی چند سطریں شامل ہیں۔اب مکمل خط‘ خطوط کے حصّے میں درج کیا گیا ہے‘ اسی طرح عبدالرحمن شاطرؔ کے قصیدے ’’اعجازِ عشق‘‘ (انوار‘ ص:۱۷‘۱۸) پر دونوں تقریظیں‘ دو مختلف خطوط کا حصّہ ہیں‘ اس لیے انھیں بھی خطوط میں شمار کیا گیا ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی کتاب ’’قرآن آسان قاعدہ‘‘ (انوار ۲:۲۸۳) پر رائے بھی باقاعدہ رائے نہیں بلکہ خط کی چند سطریں ہیں۔ لہٰذا اسے ‘ اس حصّے میں شامل نہیں کیا گیا۔ ۴) خطوط: ’’انوارِ اقبالؔ‘‘ میں ۱۹۱ خطوط شامل ہیں‘ ان مکاتیب کو مُرتّب کرنے اور ان پر حواشی لکھنے سے قبل‘ ان کے متن کی تصحیح ضروری تھی کیونکہ مُرتّب نے خطوط کے اصل متن اور عکس کی نشان دہی نہیں کی‘ ترتیب نو میں خطوط کا ان کے عکوس کے ذریعے موازنہ کر کے متن کی تصحیح کی گئی ہے۔ ’’انوار‘‘ کے مُرتّب نے نقلِ متن میں تساہل سے کام لیا ہے‘ کئی خطوط کے سنین غلط ہیں‘ کئی خط بلا تاریخ ہیں‘ بعض کی تاریخ داخلی شواہد سے متعین کی جا سکتی تھی مگر مُرتّب نے اس کا تردد نہیں کیا۔ اصل متن میں بعض جگہ تبدیلی کر دی اور اضافہ شدہ الفاظ کی وضاحت نہیں کی۔ ترتیب نو میں ’انوار‘ کے متن کی اغلاط درست کر دی گئی ہیں اور اس ضمن میں درج ذیل تصحیحات اختیار کی گئی ہیں۔ (i) ’’انوار‘‘ کے خطوط چونکہ مختلف مکتوب الہیم کے نام ہیں‘ اس لیے نقلِ متن سے قبل مکتوب الیہ کے مختصر مگر جامع سوانحی حالات‘ اہم تصانیف اور اقبال سے تعلق کی نوعیت واضح کی گئی ہے۔ مکتوب الیہ کے تعارف کے بعد خط کا نمبر شمار دیا گیا ہے۔ (ii) مُرتّب کے نقل کردہ خطوط کو اصل کے مطابق کرنے میں کہیں کہیں تبدیلیاں کرنا پڑی ہیں‘ متن سے اختلاف کی صورت میں‘ متن میں رومن ہندسوں (i؎ ii؎ iii؎) سے نشان دہی کر کے ’’تحقیقِ متن‘‘ کے زیرعنوان ’انوار‘ کااختلافی متن درج کر دیا گیا ہے۔ (iii) ’’انوار‘‘ کے ترتیب نو میں خطوط کی وہی ترتیب برقرار رکھی گئی ہے‘ جو ’انوار‘ میں تھی‘ ماسوا دو خط بنام خواجہ حسن نظامی (ص: ۱۸۴۔۱۸۶‘ ۲۸۳) کے‘ ان خطوط کو خواجہ حسن نظامی کے نام خط‘ ص:۴ کے ساتھ شامل کیا گیا ہے تاکہ ایک مکتوب الیہ کے نام خطوط‘ ایک جگہ پر درج ہو جائیں تاہم ضمیمے میں ان خطوط کی سنہ وار فہرست مُرتّب کی گئی ہے۔ (iv) بعض الفاظ اصل خطوط میں سہواً رہ گئے ‘ ترتیبِ نو میں انھیں قلّابین میں لکھا گیا ہے۔ (v) ’’انوار‘‘ میں شامل بلا تاریخ‘ قیاسی تاریخ یا غلط سنین کے خطوط کی‘ عکس یاداخلی شواہد کے ذریعے صحیح تاریخ تحریر کا تعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ (vi) تاریخِ تحریر‘ اگر خط کے آغاز میں ہے تو اسے آغاز ہی میں رہنے دیا ہے‘ اور آخر میں ہے تو اسے آخر ہی میں درج کیا ہے۔ سنہ تحریر اگر مختصر مثلا ’’۲۹ئ‘‘ ہے تو اسے ’’۱۹۲۹ئ‘‘ نہیں بنایا گیا۔ (vii) پیراگراف اصل متن کے مطابق بنائے گئے ہیں۔ (viii) متن میں حتّی الامکان رموزِ اوقاف کا اہتمام کیا گیا ہے۔ (ix) خطوط کے متن میں اشعار کی تصحیح کے لیے ’’کُلیّاتِ اقبال‘‘ اردو‘‘ (لاہور ۱۹۷۳ئ)‘ ’’کُلیّاتِ اقبال‘ فارسی‘‘ (۱۹۷۳ئ) اور ’’باقیاتِ اقبال‘‘ (طبع دوم ۱۹۶۶ئ) سے مدد لی گئی ہے۔ (x) خطوط میں جن آیات یا اشعار کا حوالہ آیا ہے‘ ان پر اعراب لگا دیے گئے ہیں اور آیات کے حوالے بھی دیے ہیں۔ (xi) اصل خطوط کے متن میں مرّوجہ املا اختیار کیا گیا ہے۔ اصولِ املا کے سلسلے میں ‘ بیشتر رشید حسن خان کے اصولوں سے استفادہ کیا گیا ہے‘ جن کی تائید ’’اُردو املا‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔ (xii) لفظ ’محمدؐ‘‘ پر صَلَی اللہ ُ عَلٰیہِ وَسَلّٰم‘‘ کا مخفف ’’ص‘‘ لکھنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ (xiii) ہر خط طاق صفحے پر شروع ہوتا ہے۔ حتُّیُ الوسع اس کے بالمقابل جفت صفحے پر اصل خط کا عکس دیا گیا ہے تاکہ متن خوانی میں‘ موازنہ کرنے میں آسانی ہو۔ ’’انوار‘‘ کی ترتیب و تدوین نو میں حواشی اورتعلیقات کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے چنانچہ: (i) حواشی و تعلیقات کے لیے ہندسے( ۱؎ ۲؎ ۳؎) استعمال کیے ہیں اور یہ علامات متن کے اندر ہی دی گئی ہیں۔ (ii)متن کے کسی اہم نکتے کی وضاحت‘ متن میں زیرِ موضُوع شخصیات کا تعارف اور اقبالؔ سے اس کے تعلق کی نوعیت‘ مقامات کی تفصیل اور دیگر امور کی وضاحت کے لیے مقدوُر بھر لوازمہ فراہم کیا گیا ہے۔ (iii) ہر حاشیے کے آخر میں مآخذ کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ (iv)حواشی کی عبارتوں کے حوالے مصنفین کے نام سے دیے گئے ہیں اور کتابیات بھی مصنفین کے نام کی القبائی ترتیب سے مُرتّب کی گئی ہیں۔ ’’انوارِاقبال‘‘ میں چودہ ایسے مکاتیب موجود ہیں‘ جن کا ذکر فہرست میں نہیں ہے‘ مثلاً: بنام خواجہ حسن نظامین(ص:۴)‘ ثاقب کانپوری (ص:۵)‘ خواجہ وصی الدین (ص:۶)‘ شوق سندیلوی (ص:۹)‘ حاجی محمد احمد(ص:۱۱) عبدالقوی فانی (ص:۱۵)‘ سلیم ہزاروی (ص:۱۵)‘ اظہر عباس (ص:۱۶)‘ مولوی کرم الٰہی صوفی (ص:۱۶) سر اکبر حیدری (ص:۳۲)‘ غلام احمد مہجور (ص:۷۰)‘ مختار احمد (ص:۱۰۰)‘ نجم الغنی رام پوری (ص:۲۸۴)‘ محمد ادریس (ص:۳۱۶)‘ ’’انوار‘‘ کی ترتیبِ نَو میں خطوط کی ایک فہرست مُرتّب کی گئی ہے اور جن خطوط کے عکس دستیاب ہو سکے ان کا ذکر کر دیاگیا ہے۔ ’’انوارِ اقبالؔ‘‘ کے مُرتّب نے : ’’تالیف کے وقت پوری کوشش کی …کہ کوئی ایسی چیز شامل نہ ہو جائے جو عام مطبوعہ مجموعوں میں آچکی ہے‘‘۔ (ص:۸)‘ مگر اس ’’کوشش‘‘ کے باوجود بعض مدوّن خطوط بھی ’’انوار‘‘ میں شامل ہو گئے ہیں۔ میر حسن الدین کے نام خط (ص:۲۰۱) اقبال نامہ‘ دوم (ص:۱۰۰) میں‘ ظفر احمد صدیقی (ص:۲۱۷ تا ۲۲۰) مع عکس‘ اقبال نامہ اوّل (ص:۳۰۵)‘ محمد رمضان (ص:۲۲۳) کے نام خط مع عکسی نقل‘ اقبال نامہ اوّل(ص:۳۳۸) میں اور محمود شیرانی کے نام خط (ص:۲۸۸) اقبال نامہ۔ دوم (ص:۳۵۱) میں شامل ہیں۔ ’’انوار‘‘ کی ترتیبِ نو میں خطوط کے اس متن کو ترجیح دی گئی ہے جو نسبتاً اصل کے قریب ہے‘ خواہ وہ خطوط‘ مکاتیبِ اقبال کے کسی اور مجموعے میں شامل ہی کیوں نہ ہوں‘ مثلاً محمد عبدالقوی فانیؔ‘ عبدالرحمن شاطرؔ‘ تلوک چند محرومؔ اور سردار رب نواز ڈیرہ کے نام خط ’’خطوطِ اقبال‘‘ میں بہتر متن کے ساتھ موجود ہیں۔ اسی طرح ’’انوار‘‘ میں شامل خط (ص:۱۵۷) تمکین کاظمی کے نام نہیں تھا بلکہ ڈی مانٹ مورینسی کے نام تھا۔ یہ خط پہلے ہی ’’اقبال نامہ اوّل‘‘ ص: ’’ط‘‘ پر شائع ہو چکا تھا۔ خطوط بنام محمد دین فوقؔ‘ ص:۵۲ تا۷۷‘‘، ’’اقبالیاتِ محمد دین فوقؔ‘‘ مقالہ ایم۔فِل (اقبالیات)‘ مقالہ نگار: افتخار احمد‘ ص :۲۳۱ تا ۲۸۳( غیر مطبوعہ) میں مع عکسی نقول اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ شامل ہیں۔ مقالہ نگا کے نزدیک دو خطوط (انوار‘ ص:۵۲ تا ۵۹ اور ص:۶۲) فوقؔ کے نام نہیں ہیں۔ اوّل الذکر ان کے بہ قول ایک مراسلہ ہے جو ’’کشمیری میگزین‘‘ میں اشاعت کی غرض سے بھیجا گیا‘ ثانی الذکر خط میں ’’مکرم بندہ‘‘ کے القاب استعمال کیے گئے ہیں اور اقبالؔ‘ فوقؔ کو ’’مکرم بندہ‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کرتے تھے گویا اس خط کا مکتوب الیہ کوئی اور ہے۔ تاہم مذکورہ خطوط کے بارے میں یہ دلائل مستند نہیں‘ قیاسی ہیں کیونکہ ’’کشمیری میگزین‘‘ میں ارسال کیے گئے مراسلے میں ’’برادر مکرم و معظم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے‘ جو ہماری دانست میں فوق ہیں۔ثانی الذکر خط محض ’’القاب کی اجنبیت کی وجہ سے مسترد نہیں کیا جا سکتا‘ مزید یہ کہ خط میں جس ’’مولوی محمد دین صاحب‘‘ کو سلام کہا گیا ہے وہ فوقؔ نہیں بلکہ مدیر ’’صوفی‘‘ (مولوی محمد دین) بھی ہو سکتے ہیں۔ ’’انوار‘‘ کے صفحات ۱۶۴‘ ۱۷۵ پر دو خطوط (ص:۱۷۵ تا ۱۷۷) سے پہلے یہ نوٹ دیا گیا ہے: ’’ان خطوط کے مکتو الیہ جناب وحید احمد مدیر ’’نقیب‘‘ (بدایوں) ہیں۔ یہ رسالہ پہلے ۱۹۱۹ء میں جاری ہوا اور کچھ عرصے کے بعد بند ہو گیا۔ ۱۹۲۱ء میں دوبارہ جاری ہوا۔ اقبال نامہ‘ حصّہ اوّل (ص:۴۲۵۔۴۲۸) میں یہی خطوط عشرت رحمانی کے نام سے درج ہیں لیکن بہ قول جناب عابدرضا بیدار یہ خطوط وحید احمد کو لکھے گئے تھے جیسا کہ تیسرے خط کی آخری سطر سے ظاہر ہوتا ہے (دیکھئے: اقبال نامہ۔ حصّہ اوّل ص:۴۲۸): ’’معلوم نہیں کون سا شعر آپ کے پاس امانت ہے۔ بہتر ہے چھاپ دیجئے‘‘۔ اس نوٹ کی روشنی میں‘ اس کے بعد دیے گئے خطوط پر نظر ڈالیں‘ تو وہ تین نہیں‘ صرف دو خطوط ہیں۔ مُبّینہ طور پر تیسرا خط‘ جس کی آخری سطر یہاں نقل کی گئی ہے‘ ’’انوار‘‘ میں نہیں ملتا۔ ’’اقبال نامہ‘ اوّل (ص:۴۲۵۔۴۲۸) کے تین خطوط ’’انوار‘‘ کے زیر بحث دو خطوں (ص:۱۷۵۔ ۱۷۷) سے یکسر مختلف ہیں‘ البتہ یہ جُملہ: ’’معلوم نہیں کون سا شعر آپ کے پاس امانت ہے‘ بہتر ہے چھاپ دیجئے‘‘۔ ’’اقبال نامہ‘ اوّل‘‘ (ص:۴۲۷) میں عشرت رحمانی کے نام تیسرے خط کی آخری سطر ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب لکھتے ہیں (تصانیف اقبال‘ ص:۲۴۵‘۲۴۶) کہ قیاس ہے ’’انوار‘‘ کا جو مُسوّدہ بشیر احمد ڈار نے تیار کیاتھا‘ اس نوٹ کے معاً بعد‘ اس کے کچھ اوراق ضائع ہو گئے‘ یا کتابت شدہ اوراق کہیں گُم ہو گئے‘ مندرجہ بالا نوٹ کے بعد وحید احمد مدیر نقیب کے نام تین خط انھی اوراق میں تھے‘ باقی دو خطوط رہ گئے‘ جو ص:۱۷۵۔۱۷۷ پر منقول ہیں۔ پہلے خط کے ایک جملے (نقیب کے لیے دو تین اشعار حاضر ہیں) سے واضح ہے کہ مکتوب الیہ وحید احمد مدیر ’’نقیب‘‘ ہیں۔ دوسرے خطوط کا متن پیش کرتے ہوئے‘ اکبر علی خاں نے وضاحت کی ہے کہ یہ خط مولانا وحید احمد مدیر ’’نقیب‘‘ کے نام ہے۔ ’’انوار‘‘ میں بعض مقامات پر الفاظ حذف کر دیے گئے اور بعض مقامات پر بلا وجہ نقطے ڈال دیے گئے‘ مثلاً بنام سید عشرت حسین(ص۱۹۶) ’’لاہور… ۱۳؍ستمبر ۲۱ئ‘‘‘ یہاں نقطے ڈالنے کا کوئی جواز نہ تھا… بنام صوفی غلام مصطفی تبسم (ص:۲۰۰)‘ جملہ ہے: ’’باقی موضوعِ گفتگو کے متعلق اگر… سرِدست اجتہاد نہیں‘‘۔ یہ جملہ میری دانست میں مکمل ہے۔ (عکس میں یہ نقطے نہیں ہیں)۔ اس لیے نقطوں کی قطعاً ضرورت نہ تھی… بنام ظفر احمد صدیقی (ص۲۱۷) کا جملہ ہے: ’’معترض… قرآنِ کریم کی تعلیم سے بے بہرہ ہے‘‘۔ یہاں محذوف حصّے کی کوئی وضاحت نہیں‘ یہ جملہ کچھ یوں ہے: ’’معترض قادیانی معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم سے بے بہرہ ہے‘‘۔ ’’انوار‘‘ کی ترتیب نو میں اس نوعیت کے حذف و اضافے کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ اصل متن میں جملوں کی ترتیب کوجُوں کا تُوں برقرار رہنا چاہیے۔ جملے میں روانی پیدا کرنے کے لیے الفاظ میں ردوبدل مناسب نہیں‘ ’’انوار‘‘ اس نوعیت کی کئی مثالیں موجود ہیں: خط بنام فوقؔ ص:۶۵ پر جملہ ہے: ’’ان کے حالات کا پہلے علم نہ تھا ورنہ آپ ان کی سفارش نہ کرتے‘‘۔ اصل متن (عکس) میں یہ جملہ اس طرح ہے: ’’پہلے حالات منشی قمر الدین کے معلوم نہ تھے جب آپ نے سفارشی خط لکھا‘‘۔ خط بنام فوق (ص:۷۲) میں ایک جگہ جملہ یوں ہے: ’’اصل کے متعلق جو کچھ میں نے اپنے‘‘۔ جبکہ عکس میں یہ جملہ اس طرح ہے: ’’اصل کے متعلق میں نے جو کچھ اپنے‘‘۔ رشید احمد صدیقی کے نام خط (ص:۲۰۲) کے آغاز میں ہے: ’’میری ناقص رائے میں‘‘ اصل متن میں یوں ہے ’’میری رائے ناقص میں‘‘۔ ’’انوار‘‘ کی ترتیب نو میں نقلِ متن میں مروّج املا ختیار کیا ہے تاکہ متن خوانی میں دقّت نہ ہو اور الفاظ نامانوس معلوم نہ ہوں۔ علّامہ اقبال نے خطوں میں جہاں کہیں بھی لفظ ’’میرا‘‘ ، ’’میری‘‘ یا ’’میرے‘‘ استعمال کیا ہے‘ اسے بغیر نقطوں کے لکھا ہے‘ ہم نے اسے نقطوں کے ساتھ نقل کیا ہے۔ خطوں میں جہاں کہیں ہائے مختصی کا استعمال ہوا ہے‘ اسے دوچشمی ’’ھ‘‘ میں بدل دیا ہے‘ جیسے ’’جنہوں‘‘ کو ’’جنھوں‘‘ میں، ’’لکہیں‘‘ کو لکھیں میں۔ اسی طرح ’’فرماویں‘‘ کو ’’فرمائیں‘‘، ’’جاویں‘‘ کو جائیں‘‘، ’’لاویں‘‘ کو ’’لائیں‘‘ میں بدل دیا ہے۔ جو الفاظ ملا کر لکھے گئے ہیں۔ انھیں علیحدہ علیحدہ لکھا ہے۔ مثلاً فرمائینگے‘‘ (فرمائیں گے)‘ ’’دینگے‘‘ (دیں گے)‘ ’’جسپر‘‘ (جس پر)‘ ’’کسقدر‘‘ (کس قدر)‘ ’’اس لیے‘‘(اس لیے)، ’’آپکی‘‘ (آپ کی)، ’’دئیے‘‘ (دیے)، ’’ارادۃً‘‘ (ارادتاً)، ’’آئندہ‘‘ (آیندہ) ،’’پہونچ‘‘ (پہنچ)۔ ’’انوار‘‘ میں بعض الفاظ مرتّب نے نقل نویسی میں نظر انداز کر دیے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے نہ ہونے سے جملے کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اس کے باوجود متن کے کسی ایک لفظ کو بھی ترک کرنے کا جواز نہیں بنتا‘ مثلاً: ص ’’انوار‘‘ اصل متن (عکس) ۷۵ تسلیم کے سواکوئی تسلیم کے سوا اور کوئی ۹۷ چودھری سے چودھری صاحب سے ۱۲۱ چونکہ حکیم صاحب چونکہ اب حکیم صاحب ۱۲۱ قریباً چار ہیں قریباً چار بجے ہیں ۱۲۲ سونے کا کشتہ میرے لیے سونے کے کشتے کا استعمال میرے لیے ۱۳۱ بلغم بند ہو جائے بلغم اگر بند ہو جائے ۱۳۴ مَیں اس عطیے کو مَیں ان کے اس عطیے کو ۱۳۵ اَچھی طرح جانتا ہوں اَچھّی طر ح سے جانتا ہوں ۱۳۸ میں نے تین شکایات مَیں نے اپنی تین شکایات ۱۳۹ جن کو لکھنا جن کو میں لکھنا ۱۴۵ کچھ نہ ہو گا‘ آپ کچھ نہ ہو گا کہ آپ ۱۵۴ عربی شعر جناب عربی شعر کو جناب ۱۸۷ یہ چھوٹا رسالہ یہ چھوٹا سا رسالہ ۲۰۰ اپنی سہولت اوقات کو اپنی سہولت اور اوقات کو ۲۰۲ شعر میں ’’بادیہ پیمائی‘‘ شعر میں لفظ ’’بادیہ پیمائی‘‘ ۲۰۸ کہ مونجے کہ ڈاکٹر مونجے ۲۰۸ کہ مولانا شوکت علی صاحب کہ میں نے مولانا شوکت علی صاحب ۲۰۹ افسوس ہے کہ افسوس کہ ۲۱۲ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا ۲۴۶ کتاب جو آپ نے ارسال کی تھی مل گئی کتاب جو آپ نے ارسال کی تھی مل گئی تھی! تحریر میں جب کسی بات کی طرف خصوصی توجہ دلانا مقصود ہو تو اسے نسبتاً جلی انداز میں لکھا جاتاہے‘ پھر اسے خط کشیدہ کیا جاتا ہے۔ ’’انوار‘‘ میں ایسی باتوں کا خیال نہیں رکھا گیا‘ مثلاً: خط بنام سید شاہ نظیراحمد ہاشمی (ص:۱۹۴‘ ۱۹۵) میں ایک جملہ کشیدہ ہے: ’’میرے خط کا حوالہ دے دیجئے‘‘۔ غرض ’’انوار‘‘ کی ترتیبِ نَو میں ان مکاتیب کو بہتر اور جدید انداز میں مُرتّب کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اور نقل نویسی میں حتُّی الوسع احتیاط برتی گئی ہے۔ ۵۔ اقبال کے ابتدائی حالات: اس حصّے میں اقبالؔ کا ابتدائی کلام شامل ہے۔ مُرتّب کے بہ قول: ’’کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسی چیز درج نہ کی جائے جو ان مجموعوں میں آ چکی ہو‘‘ لیکن اس حصّے میں مُرتّب کی اس ’’کوشش‘‘ کے باوجود کچھ ایسے اشعار شامل ہو گئے ہیں‘ جو پہلے ہی سے کسی نہ کسی مجموعے میں موجود تھے چنانچہ ایسے اشعار کی وضاحت اس حصّے میں کر دی گئی ہے۔ نظم ’’شمعِ ہستی‘‘ اقبالؔ کی نہیں‘ بلکہ اسماعیل میرٹھی کی ہے‘ لہٰذا اسے ترتیبِ نَو میں شامل نہیں کیا گیا۔ ۶۔ متفرقات: اس عنوان کے تحت علّامہ اقبال کی ایسی تحریریں جمع کر دی گئی ہیں‘ جو مضمون‘ تقریظ‘ دیباچے اور خط کی ذیل میں نہیں آتیں۔ متفرقات ہی میں محمد دین فوقؔ کا مضمون ’’حالاتِ اقبال‘‘ شامل کی گیا ہے۔ مختصر یہ کہ ’’انوار‘‘ کا جدید ایڈیشن مُرتّب کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے تاہم یہ بات اظہرمِنَ الشمس ہے کہ تحقیق و تدوین میں کوئی کلیّہ‘ قاعدہ اور ضابطہ حرف آخر نہیں ہوسکتا‘ وقت کے ساتھ ساتھ معیارات کے سانچے بدلتے رہتے ہیں لہٰذا ترمیم و اضافے کی گنجائش ہر وقت رہتی ہے۔ امید ہے میری یہ ادنیٰ کاوش تحقیق و تدوین کے جدید معیار پر‘ کسی حد تک ضرور پورا اترے گی۔ ’’انوار‘‘ کا زیرِ نظر کام شاید ابھی تشنۂ تکمیل رہتا‘ اگر استادِ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی سرزنش اور بارہا یاددہانی ’’تازیانے‘‘ کا کام نہ کرتی۔ اگرچہ استادِ محترم اور ’’تازیانہ‘‘ دو متضاد چیزیں ہیں کیونکہ اپنی زندگی میں شاید ہی انھوں نے کبھی ’’تازیانہ نما‘‘ اندازِ گفتگو اور روّیہ اختیار کیا ہو‘ لیکن اس کام میں ہونے والی تاخیر اور تساہل نے انھیں دھمیے سروں میں سرزنش کرنے پر مجبور کر دیا… میں تہ دل سے ان کی شکرگزار ہوں کہ انھوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود زیرنظر کام کو تکمیل کے مراحل تک پہنچانے میں بھرپور تعاون کیا۔ اسی طرح محترم ڈاکٹر سیّد معین الرحمن صاحب‘ محترم ڈاکٹر صابرکلوروی صاحب‘ محترم ڈاکٹر منیر احمد سلیچ صاحب کی حددرجہ ممنون ہوں کہ ان کی مددواعانت نے تحقیق و تدوین کے بوجھل کام کو آسان اور دلچسپ بنا دیا…آخر میں اہل خانہ (خیرالنسائ‘ صائمہ‘ بشریٰ اور اِرم بھی شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یکسوئی سے کام کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ زیب النساء اسسٹنٹ پروفیسر اُردو گورنمنٹ کالج برائے خواتین باغبانپورہ لاہور ۳۱؍اگست ۲۰۰۰ء مخفّفات انوارِ اقبال انوار اقبال نامہ‘ حصّہ اوّل اقبال نامہ‘ اوّل اقبال نامہ‘ حصّہ دوم اقبال نامہ‘ دوم تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ تصانیفِ اقبال مطالعۂ تلمیحات واشاراتِ اقبال مطالعۂ تلمیحات کُلیّاتِ مکاتیبِ اقبالؔ‘ جلد اوّل کُلیّاتِ مکاتیب‘ اوّل کُلیّاتِ مکاتیبِ اقبالؔ‘ جلد دوم کُلیّاتِ مکاتیب‘ دوم کُلیّاتِ مکاتیبِ اقبالؔ‘ جلد سوم کُلیّاتِ مکاتیب‘ سوم کُلیّاتِ مکاتیبِ اقبالؔ‘ جلد چہارم کُلیّاتِ مکاتیب‘ چہارم کُلّیاتِ اقبال‘اردو کُلیّات‘ اردو کُلیّاتِ اقبال‘ فارسی کُلیّاتِ ‘ فارسی اشاریۂ مکاتیبِ اقبالؔ اشاریۂ مکاتیب ٭٭٭ مضامین سودیشی تحریک و مسلمان ’’زمانہ‘‘ ۱؎ (کانپور) کے ایڈیٹر نے ۱۹۰۶ء کے آغاز میں سودیشی تحریک۲؎ کے متعلق چند سوالات مُرتّب کیے اور ان کو مختلف مسلمان مفکرین‘ ادیب اور سیاسی رہنماؤں کے پاس بھیجا۔ یہ سوالات اپریل ۱۹۰۴ء کے شمارے میں شائع کیے گئے ۔ سوالات یہ تھے۔ ۱) سودیشی تحریک بذات خود ملک کی ترقّی کے لئے کہاں تک مفید ہے اور اس تحریک کے نشیب و فراز‘ نفع و نقصان اور عمل درآمد کے متعلق آپ کی مفصل رائے کیا ہے۔ ۲) اس تحریک میں ہندوستان کے اتفاق کی کہاں تک ضرورت ہے؟ خاص مسلمانوں کے لئے اس سے کوئی نفع یا نقصان پہنچنے کی کہاں تک امید ہے؟ ۳) اس تحریک کی کامیابی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے اور اس کی کامیابی کا ہندومسلمانوں پر جداگانہ اور ملک پر بہ حیثیت مجموعی کیااثر ہو گا؟ اقبال کا جواب جوانھوں نے کیمبرج سے بھیجا تھا مئی ۱۹۰۶ء کے شمارے میں یوں شائع کیا گیا ہے: از جناب پروفیسر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے! از کیمبرج ۱) سودیشی تحریک ہندوستان کے لیے کیا ہر ملک کے لیے‘ جس کے اقتصادی اور سیاسی حالات ہندوستان کی طرح ہوں مفید ہے۔ کوئی ملک اپنے سیاسی حقوق کو حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ پہلے اس کے اقتصادی حالات درست نہ ہو جائیں۔ ہمارے اہل الرائے سیاسی آزادی سیاسی آزادی پکارتے ہیں مگر کوئی شخص اس باریک اصول کی طرف توجہ نہیں کرتا کہ سیاسی آزادی کے شرائط میں سب سے بڑی شرط کسی ملک کا اقتصادی دوڑ میں سبقت لے جانا ہے۔ جہاں تک کہ اس کا جغرافی مقام اور دیگر قدرتی اسباب اس کے ممد ہوں۔ سیاسی آزادی کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ بغیر دام دیئے مل جائے۔ انگلستان کی سرزمین کے ہر ذرّے میں ان لوگوں کا خون چمکتا ہوا نظر آتا ہے جنھوں نے سیاسی حقوق کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ باغییوں کی طرح نہیں بلکہ ان لوگوں کی طرح جن کے دلوں میں اپنے وطن کے قانون اور اس کے رسوم کی عزت ہوتی ہے اور جو اپنے گراں قدر خون کے قطرے قانون کی تائید میں بہاتے ہیں نہ اس کی تردید اور مخالفت میں۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو قوم خود آزادی کی دلدادہ ہو وہ اوروں کی آزادی کو رشک کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی اور انگریزوں کی معاشرت دیکھ کر بھی میرے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ ہاں ہم لوگوں میں اس کی قابلیت ہونا ضروری ہے اور اس قابلیت کے پیدا ہونے کا سب سے بڑا سبب جیسا کہ میں نے اوپراشارہ کیا ہے اقتصادی قوانین کو ایک مرکز پر جمع کرنا ہے جس کی طرف خوش قسمتی سے اب اہل وطن کو توجہ ہوئی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ بے وجہ جوش ہماری آرزو کو تاریک کر دیتا ہے اور ہم اس جوش میں ایسے ۳؎ طفلانہ حرکات کر دیتے ہیں جس کا مفید اثر کچھ نہیں ہوتا اور جن کا نقصان دیرپا ہوتا ہے بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ امریکا اور جرمن کی چیزیں خریدو مگر انگلستان کی چیزوں کو ہندوستان کے بازاروں سے خارج کر دو۔ مجھ کو تو اس کااقتصادی فائدہ کچھ نظر نہیں آتا بلکہ اگر انسانی فطرت کے محرکات پر غور کرو تو اس میں سراسر نقصان ہے۔ اس طریق عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان سے ہم کو سخت نفرت ہے نہ یہ کہ ہم کو ہندوستان سے محبت ہے۔ اپنے وطن کی محبت کسی غیر ملک؟ کے مستلزم نہیں ہے۔ علاوہ اس کے اقتصادی لحاظ سے اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے۔ مغربی خیالات اور تعلیم کی اشاعت سے اب ہماری ضرورتوں کا احاطہ وسیع ہو گیا ہے اور اسی میں سے بعض اس قسم کے ہیں کہ سردست ہمارا اپنا ملک ان کو پورا نہیں کر سکتا۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ اس طفلانہ فعل سے سوائے اس کے کہ حکام کو خواہ مخواہ بدظن کیا جائے اور کیا فائدہ ہے۔ قطع نظر ان تمام باتوں کے ہزاروں چیزیں ایسی ہیں کہ ہمارا ملک بعض حوالی خصوصیات اور دیگر قدرتی اسباب کے عمل کی وجہ سے ان کو ارزاں نرخ پر تیار ہی نہیں کر سکتا۔ اس بات کی کوشش کرنا کہ ہماری ساری ضرورتیں اپنے ملک کی خصوصیات سے پوری ہو جایا کریں سراسر جُنون ہے۔ واقعات کے لحاظ سے دیکھو تو یہ بات کسی ملک کو نہ اب نصیب ہے اور نہ ہو سکتی ہے اور اگر یہ بات ممکن بھی ہو جائے تو اس میں میرے خیال میں بجائے فائدہ کے نقصان ہے جس کی مفصل تشریح اس مقام پر نہیں ہو سکتی۔ سودیشی تحریک کو عملی صورت دینے کے لئے میری رائے میں ان باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔ (ا) وہ کون سی مصنوعات ہیں جو اس وقت ملک میں تیار ہو رہی ہیں اور ان کی کمیّت اور کیفیت کیا ہے۔ (ب) وہ کون سی مصنوعات ہیں جو پہلے تیار ہوتی تھیں اور اب تیار نہیں ہوتیں۔ (ج) وہ کون کون سی مصنوعات ہیں جن کو ہم خصوصیت سے عمدہ اور ارزاں تیار کر سکتے ہیں۔ (د) ملک کے صوبوں یا دیگر قدرتی حصص کے لحاظ سے وہ کون کون سے مقام ہیں جو بعض اسباب کی وجہ سے خاص خاص مصنوعات کے لئے موزوں ہیں۔ ۱) تخمیناً کس قدر سرمایہ زیورات وغیرہ کی صورت میں ملک میں معطل پڑا ہے اور اس کو استعمال میں لانے کے لیے کیا وسائل اختیار کئے جائیں۔ ان تمام امور کو ملحوظ رکھ کر عملی کام شروع کرنا چاہیے۔ ضرور ہے کہ ابتدا میں ناکامی کا سامنا بھی ہو مگر کوئی بڑا کام سوائے قربانی کے نہیں ہوا۔ کسی ملک کے اقتصادی حالات کا درست ہونا تھوڑے عرصے کا کام نہیں ہے‘ اس میں صدیوں کی ضرورت ہے۔ ہم نقصان اٹھائیں گے تو ہماری آئندہ نسلیں فائدہ اٹھائیں گی۔ علاوہ اس کے مشترک سرمایہ کی جماعتیں نہایت مفید ثابت ہوں گی خصوصاً ہمارے ملک میں جہاں کے لوگ کم سرمایہ رکھتے ہیں۔ سرمایہ کے بہتر نتائج اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اس کی مقدار بڑی ہو۔ مگر عملی لحاظ سے کامیاب ہونے کے لیے سب سے بڑی ضرورت اصلاحِ اخلاق کی ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے پراعتبار کرنا سکھاؤ‘ ان کے اسراف عادت پر نکتہ چینی کرو اور ان کے دل پر یہ امر نقش کر دو کہ انسان کی زندگی کا مقصد خودغرضی کے پردے میں بنی نوع انسان کی بہتر کی جستجو کرنا ہے۔ افسوس ہے کہ میں جیسا چاہتا تھا ویسا جواب نہیں لکھ سکا کچھ اس خیال سے کہ ڈاک کا وقت جاتا ہے اور اور کچھ اس خیال سے کہ زیادہ تعویق مناسب نہ ہو گی۔ (۲) سیاسی حقوق کے حصول کی دوسری بڑی شرط کسی ملک کے افراد کے اغراض کا متحد ہونا ہے۔ اگر اتحادِ اغراض نہ ہو گا تو قومیت پیدا نہ ہو گی اور اگر افراد قومیت کے شیرازے سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ نہ ہوں گے تو نظام قدرت کے قوانین ان کو صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی مٹادیں گے۔ قدرت کسی خاص فرد یا مجموعۂ افراد کی پروا نہیں کرتی۔ مگر رونا تو اس بات کا ہے کہ لوگ اتفاق اتفاق پکارتے ہیں اور عملی زندگی اس قسم کی اختیار نہیں کرتے جس سے ان کے اندرونی رحجانات کااظہار ہو۔ ہم کو قال کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کے واسطے حال پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ مذہب دنیا میں صلح کرانے کے لیے آیا ہے ہے نہ کہ جنگ کی غرض سے۔ میری رائے میں اس تحریک کی کامیابی سے مسلمانوں کو ہر طرح فائدہ ہے۔ ایک صاحب نے کسی اخبار میں یہ خط چھپوایا تھا کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ عام طورپر مسلمان زراعت پیشہ ہیں۔ ان کا یہ ارشاد شاید پنجاب کی صُورت میں صحیح ہو‘ تاہم یہ کہنا کہ مسلمان زراعت پیشہ ہیں اس امر کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ مسلمانوں کو سودیشی تحریک کی کامیابی سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ اگر مصنوعات سستی ہوں (جو بالآخر اس تحریک کی کامیابی کا نتیجہ ہو گا) تو خریدنے والوں کو بھی فائدہ ہے اور بیچنے والوں کو بھی۔ مسلمان خواہ بیچنے والے ہوں‘ خواہ خریدنیوالے ہرطرح فائدے میں ہیں۔ ہاں! اگر وہ بیچنے والے ہیں تو ان کو زیادہ فائدہ ہے اور یہ کون کہتا ہے کہ وہ بایع نہ بنیں۔ (۳) اگر صبرواستقلال سے کام کیاگیاتو اس تحریک میں ضرور کامیابی ہو گی۔ دوراندیشی تمام کامیابی کا راز ہے۔ ایک حد تک تو اس تحریک کے مطابق ملک میں عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اس عمل کے توسیع کی ضرورت ہے۔ جو اس ضرورت میں ممکن ہے کہ عمدہ اور ارزاں مصنوعات پیدا کر کے گراں اور ظاہری نمایش والی چیزوں کو ملک سے نکالو۴؎(؟)مقدّس عہد لینا کہ ہم خارجی ممالک کی مصنوعات کا استعمال نہ کریں گے اورجوش میں آکر انگریزی کے کپڑے کے کوٹ آگ میں پھینک دینا ایک طفلانہ فعل ہے جو اقتصادی لحاظ سے غیر مفید اور سیاسی لحاظ سے مضر ہے۔ اگر اس تحریک سے ہندو اور مسلمانوں میں اتحادِ اغراض پیدا ہوجائے اور رفتہ رفتہ قوی ہوتا جائے تو سبحان اللہ اور کیا چاہیے۔ ہندوستان کے سوئے ہوئے نصیب بیدار ہوں اور میرے دیرینہ وطن کا نام جلی قلم سے فرق اقوام میں لکھا جائے والسلام تعلیقات: ۱؎ یہ رسالہ منشی دیانرائن نگم نے ۱۹۰۳ء میں کانپور سے جاری کیا۔ یہ نیم ادبی ‘ سیاسی رسالہ تھا۔ منشی کانگریسی خیالات رکھتے تھے لیکن اس رسالے نے ہندوؤں کو اردو زبان کے قریب لانے میں نمایاں کام کیا۔ ’’زمانہ‘‘ کے لکھنے والے سرسید مکتبِ فکر کی نثر نگاری کے حامی تھے۔ مآخذ: مسکین علی حجازی‘ ڈاکٹر: پاکستان و ہند میں مسلم صحافت کی مختصر ترین تاریخ‘ص:۳۳ ۲؎ ۱۸۴۱ئ۔۱۸۴۹ء کے دوران گوپال ہری دیش مکھ نے ’’ملک‘‘ میں غریبی دور کرنے اورانگریزی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کے لئے سودیشی کی اپیل کی۔ بنگال میںبھلّا ناتھBhula Nath نے معاشی سودیشی تحریک چلانے پر زور دیا۔ وائسرائے ہند لارڈ کرزن Lord Curzon نے ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال کااعلان کیا تو سودیشی تحریک نے زور پکڑا۔ بالآخر برطانوی حکومت کو ۱۹۱۱ء میں تقسیم بنگال کو تنسیخ کرنا پڑا۔ اقبالؔ نے بھی سودیشی تحریک کی حمایت کی تھی۔ اس تحریک کی حمایت کا مؤثر بیان ان کی فارسی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ (کُلّیاتِ فارسی ص:۸۴۲۔۸۴۳) میں بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ والے بڑے عیاّر اور چالاک ہیں۔ وہ ہمارے ملک سے خام مال لے جاتے ہیں اور اپنے ملکوں کے کارخانوں میں مشینوں سے عمدہ عمدہ اشیاء تیار کر کے ہمارے ہی بازاروں میں بیچتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دیسی چیزیں استعمال کریں اور بدیشی چیزیں نہ خریدیں تاکہ ہماری معیشت مضبوط ہو۔ مآخذ کُلیّاتِ مکاتیب ‘ اوّل‘ ص: ۱۱۲۸۔۱۱۳۱ ۳؎ ایسی۔ ۴؎ نکالیں۔ ٭٭٭ نبوّت پر نوٹ مسئلہ نبوّت پر اقبال کی یہ دونوں تحریر جناب سید نذیر نیازی کو بھیجی گئی تھیں۔ جب اقبال نے قادیانی تحریک کے خلاف بیان دیا تو اس بیان پر مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراضات شائع ہوئے۔ ان اعتراضات کی روشنی میں اقبال نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی اور یہ دونوں تحریریں اسی سلسلے میں ہیں۔ سید نذیر نیازی ان دونوں ’’طلوع اسلام‘‘ کے مدیر تھے۔ چنانچہ انھوں نے ’’طلوع اسلام‘‘ بابت اکتوبر ۱۹۳۵ء میں اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی اور اقبال کی ان تحریروں کے اقتباسات بھی دئے جو اس شمارے کے صفحات ۱۰۲۔۱۰۴ میں موجود ہیں نبوّت (۱) راجہ صاحب۱؎ کا مضمون میں نے نہیں دیکھا۔ دیکھا تو تھا پڑھا نہیں۔ آپ اپنے مضمون میں اپنے خیالات کااظہار کیجئے۔ ان کے خیالات کی تردید ضروری نہیں۔ نبوّت کے دواجزا ہیں۔(۱) خاص حالات و واردات جن کے اعتبار سے نبوّت‘ روحانیت کا ایک مقام خاص تصوّر کی جاتی ہے (مقام تصوف اسلام میں ایک اصطلاح ہے) (۲) ایک Socio-political institution قائم کرنے کا عمل یا اس کا قیام۔ اس institutionکا قیام i؎ گوایک نئی اخلاقی فضا کی تخلیق ہے جس میں پرورش پا کر فرد اپنے کمالات تک پہنچتا ہے اور جو فرد اس نظام کا ممبر نہ ہو یا اس کاانکار کرے وہ ان کمالات سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس محرومی کو مذہبی اصطلاح میں کفر کہتے ہیں۔ گویا اس دوسری جزو کے اعتبار سے نبیؐ کا منکر کافر ہے۔ دونوں اجزا موجود ہوں تو نبوّت ہے۔ صرف پہلا جزو موجود ہو تو تصوف اسلام میں اس کو نبوّت نہیں کہتے اس کا نام ولایت ہے۔ ختم نبوّت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزانبوّت کے موجود ہیں یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے… ii؎ لیڈنگ سٹرنگز۲؎ leading strings iii؎ سے مراد لیڈنگ سٹرنگز آف ریلیجن نہیں بلکہ لیڈنگ سٹرنگز آف فیوچر پرافٹس آف سلام ہے یا یوں کہیے کہ ایک کامل الہام و وحی کی غلامی قبول کر لینے کے بعد کسی اور الہام و وحی کی غلام حرام ہے۔ بڑا اچھا سودا ہے کہ ایک کی غلامی سے باقی سب غلامیوں سے نجات ہو جائے اور لطف یہ کہ نبی آخر الزماںؐ کی غلامی‘ غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے کیونکہ اس کی نبوّت کے احکام دینِ فطرت میں یعنی فطرت صحیحیہ iv؎ان کو خود بخود قبول کرتی ہے۔ فطرتِ صحیحیہ v؎کاانھیں خودبخود قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوتے ہیں اس واسطے عین فطرت ہیں‘ ایسے احکام نہیں جن کوایک مطلق العنان حکومت نے ہم پر عائد کر دیا ہے اور جن پر ہم محض خوف سے عمل کرنے پر مجبور ہوں۔ اسلام کو دین فطرت کے طور پر realise کرنے کا نام تصوف ہے۔ اور ایک اخلاص مند مسلمان کا فرض یہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے۔ اس کیفیت کو میں نے لفظ cmancipation سے تعبیر کیا ہے۔ والسلام vii؎ محمداقبالvi؎ نبوّت (۲) (۱) عقل اور وحی کامقابلہ یہ فرض کر کے کہ دونوں علوم کے مواخذ ہیں درست نہیں ہے۔ علوم کے مواخذ انسان کے حواس اندرونی اور بیرونی ہیں۔ عقل ان حواس ظاہری و معنوی کے انکشافات کی تنقید کرتی ہے اور یہی تنقید اس کا حقیقی Function ہے اور بس۔ مثلاً آفتاب مشرق سے طلوع کرتا ہے اور مغرب کی طرف حرکت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ یہ حواس ظاہری کا انکشاف ہے۔ عقل کی تنقید کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حواس کا انکشاف درست نہ تھا۔ (۲) وحی کا Functionحقائق کا انکشاف ہے یا یوں کہیے کہ وحی تھوڑے وقت میں ایسے حقائق کا انکشاف کر دیتی ہے جن کو مشاہدہ برسوں میں بھی نہیں کر سکتا۔ گویا وحی حصولِ علم میں جو time کا عنصر ہے اس کو خارج کرنے کی ایک ترکیب ہے۔ انسان کی ترقی کے ابتدائی مراحل میں اس ذریعہ علم کی بے انتہا ضرورت تھی کیونکہ ان مراحل میں انسان کو ان مقامات کے لیے تیار کیا جا رہا تھا جن پر پہنچ کر وہ قوائے عقلیہ کی تنقید سے خود اپنی محنت سے علم حاصل کرے۔ محمدؐ عربی کی پیدائش انسانی ارتقا کے اس مرحلے پر ہوئی جب کہ انسان کو استقرائی علم سے روشناس کرنا مقصود تھا میرے عقیدہ کی رُو سے بعد وحی محمدیؐ کے الہام کی حیثیت محض ثانوی ہے۔ سلسلہ تو الہام کا جاری ہے مگر الہام بعد وحیٔ محمدیؐ حجت نہیں ہے سوائے اس کے ہر شخص کے لئے جس کو الہام ہوا ہو۔ بالفاظ دیگر بعد وحی محمدیؐ الہام ایک پرائیویٹ fact ہے اس کا کوئی سوشل مفہوم یا وقعت نہیں ہے۔ میں نے پچھلے خط میں لکھا تھا کہ نبوّت کی دوسری حیثیت ایک socio-political institutionکی ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ بعد وحیٔ محمدیؐ کسی کا الہام یا وحی ایسے institution کی بنا قرار نہیں پاسکتا۔ تمام صوفیہ اسلام کا یہی مذہب ہے۔ محی الدین ابن عربی ۳؎تو الہام پانے والے کو نبی کہتے ہی نہیں‘ اس کا نام ولی رکھتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام سے پہلے بنی نوع انسان میں شعور ذات کی تکمیل نہ ہوئی تھی۔ اسلام نے انسان کی توجہ علوم استقرائی کی طرف مبذول کی تاکہ انسانی فطرت فی کل الوجود کامل ہو اور اپنی ذاتی محنت سے حاصل کردہ علم کے ذریعہ سے انسان میں اعتماد علی النفس پیدا ہو۔ غرضیکہ بعد وحیٔ محمدیؐ میرے عقیدہ کی رو سے الہام کی حیثیت محض ثانوی ہے۔ جس شخص کوہوتا ہے اسکے لییحجّت ہو تو ہو اوروں کے لیے نہیں ہے۔ اگر آج کوئی شخص کہے کہ میں نے بالمشافہ حضور رسالت مآبؐ سے مل کردریافت کیا ہے کہ فلاںارشاد جو محدثین آپ کیطرف منسوب کرتے ہیں آپ کاہے یا نہیں اور مجھے حضورؐ نے کہا ہے کہ نہیں‘ تو ایسامکاشفہ اسشخص کے لیے حجّت ہوگا‘ عالمِ اسلام کے لیے نہیں۔اگراس قسم کیمکاشفات کو تمام عالمِ اسلام کے لیے حجّت قرار دیاجائے تو تمام تنقیدی تاریخ کاخاتمہ ہو جاتا ہے یا بالفاظ دیگر روایت ودرایت استقرار کاخاتمہ ہو جاتا ہے۔شعرمیں لفظ حیات (شرم) ہے۴؎ محمد اقبالؔ تحقیق متن: i؎ گویاii؎ اور واجب القتل مسیلمہ کذاب کو اسی بنا پرقتل کیاگیا حالانکہ جیسالکھا ہے کہ حضور رسالت مآبؐ کی نبوّت کا مصداق تھا اور اس کی اذان میں حضوررسالت مآب کی نبوّت کی تصدیق تھی۔iii؎ بمطابق عکس انگریزی الفاظ نہیں ہیں۔ iv؎ v؎ صحیحہ۔vi؎ محمدؐ vii؎ حکیم صاحب واپس آئیںتو اُن سے دوا لے کر ارسال کیجیے اور یہ بھی طے کر لیجیے کہ کن کن اوقات میں کھائی جائے۔ انگریزی دوا صبح شام کھائی جائے گی۔ تعلیقات: ۱؎ راجاصاحب سے مراد اغلباً راجا حسن اختر مرحوم(ب۔ا۔ڈار) ۲؎ لیڈنگ سٹرنگز(Leading Strings) اشارہ ہے اقبال کے پانچوں لیکچر کے ایک فقرے کی طرف جس میںکہا گیاہے کہ Life cannot for ever be kept in leading Strings(ص۲۶ ازستمبر ۱۹۶۵)یعنی کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیںکر سکتا (ترجمہ از سیدنذیر نیازی ص۱۹۳)(ب۔ا۔ڈار) ۳؎ دیکھیے خط نمبر۱۳۱‘ تعلیقہ نمبر۳ ۴؎ ’’مدنیت اسلام‘‘ کے زیر عنوان نظم کا عکس مذکورہ تحریروں کے ساتھ شامل ہے‘ ’’انوار‘‘ کے متن میں اس نظم کو نقل نہیں کیاگیا۔ یہ نظم ’’ضربِ کلیم‘‘ میں (کُلیّات‘اُردو‘ ص۔۵۱۔۵۱۱) شامل ہے۔ اشعار کی ترتیب عکس کے مطابق نہیں ہے‘ عکس میں موجود تیسرا شعر چوتھے نمبر پر ہے۔ ٭٭٭ حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت ۱۹۲۸ء میں اورنٹیل کانفرنس کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ اقبالؔ اس کے عربی و فارسی کے شعبے کے صدر تھے۔ ان کا صدارتی خطبہ انگریزی میں تھا جس کاایک ترجمہ جناب اسرائیل احمد نے کیا جو ’’صوفی‘‘ منڈی بہاؤالدین (مارچ۱۹۳۱ئ) میں طبع ہوا اور دوسرا ترجمہ جناب داؤد رہبر نے کیا جواورنٹیل کالج میگزین حصہ اوّل (اگست۱۹۴۷ئ) میں طبع ہوا۔ رہبرؔ صاحب نے ترجمے کے ساتھ چند تشریحی حاشیے اور ابتدا میں کچھ واقعات بھی بیان کئے ہیں جن کو یہاں شکریہ کے ساتھ درج کیا جا رہا ہے۔ ذیل کا ترجملہ ان دونوں تراجم سے استفادہ کر کے مُرتّب کیا گیا ہے۔ یہ خطبہ جس تقریب پر دیا گیا اس میں اقبال کارُوئے سخن فلسفہ دانوں کی طرف نہ تھا بلکہ اسلامی علوم کے ہمدردوں کی طرف۔ لیکن مشرقی علوم کی تائید میں جونظیریں اقبالؔ نے پیش کی ہیں ان میں فلسفہ‘ طبیعیات اور ریاضی کے تصوّرات کے اشارے آجاتے ہیں۔ اس لیے پابند ترجمے پرقناعت کی ہے تاکہ مقالے کا سائنٹیفک انداز بھی حتی الامکان قائم رہے اور معانی میں بھی فرق نہ آئے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ یہ خطبہ ۱۹۲۸ء میں تیار ہوا اور تقریباً انہی دنوں اقبالؔ کے مدراس والے مقالے لکھے گئے۔ اقبالؔ داں اصحاب اس خطبے اور ان مقالوں کا باہمی ربط ضرور دیکھ سکیں گے۔ ان چھ مقالوں میں تیسرے مقالے سے اس خطبے کا تعلق زیادہ واضح ہے بلکہ بہت حد تک ممکن ہے کہ تیسرے مقالے کا کچھ مواد لے کر اقبالؔ نے اس خطبہ صدارت میں داخل کیا (اس مقالے اور خطبے میں پہلے کون سا لکھا گیا‘ یہ کہنا مشکل ہے) دونوں خطبات میں جا بجا لفظی اورمعنوی اشتراک ملتا ہے۔ مقالے میں اقبالؔ نے جہاں مسلمانوں کے دوسرے علمی نظریوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہاں زمان و مکان کے تصوّر پر زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ زمان و مکان کی بحث اقبالؔ کی زندگی کے آخری دنوں تک ان کے فکر کا مرکز بنی رہی۔ میرے مشفقِ محترم مولوی فیوض الرحمن صاحب (جو اب اورنٹیل کالج میں استاد ہیں) اقبال کی زندگی میں نیلا گنبد لاہور کی مسجد میں تدریس کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے متعلق بتایا کہ ۱۹۳۸ء میں مارچ کی پہلی یادوسری تاریخ کو اقبالؔ کے دوست چودھری محمد حسین صاحب مجھے ان کے گھر لے گئے اور مرحوم نے مجھ سے زمان و مکان کے مسلمہ اسلامی تصوّر کے متعلق سوال پوچھے۔ (ان دنوں ان کا گلا خراب تھا اس لیے لکھ کر سوالات پیش کیے) میرے جوابات کو انھوں نے پسند فرمایا اور خواہش کی کہ میں روز ان کے ہاں حاضر ہوا کروں۔ میں نے مجبوری ظاہرکی کہ ۳؍مارچ سے رمضان شروع ہے۔ پھر انھوں نے فرمایا کہ رمضان کے بعد آئیے مگر رمضان کے بعد ان کی صحت زیادہ بگڑ گئی اور ۲۱؍اپریل کو انتقال کر گئے۔ غرض یہ کہ ۱۹۲۸ء کے اس مقالے کے بعد بھی زندگی کے آخری سال تک وہ زمان و مکان کے اسلامی تصوّر کی تحقیق میں مشغول رہے یا کم سے کم ان کی دلچسپی اس مدت میں برابر قائم رہی۔ صاحبان! اس فاضلہ جلسے کے غورفکر میں مجھے صدارت کی دعوت دے کر آپ نے میری جو تکریم کی ہے اس کے لیے میں آپ کا تہہ دل سے ممنون ہوں اور ممنونیت کا یہ احساس اور بھی بڑھ جاتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ اس کرسی پر جگہ پانے کے مجھ سے زیادہ اہل اصحاب موجود ہیں۔ گو مجھ سے زیادہ اس بات کا چاہنے والا شاید کوئی نہ ہو کہ آپ سے رابطہ پیدا کرے اور آپ کوبتائے کہ ایک غیر ماہر کی حیثیت سے اس کے خیال میں مشرق کی ثقافتی تاریخ کی چھان بین کے کام کو کس رخ پر چلنا چاہیے۔ کچھ عرصہ گزرا میرے دماغ میں مختلف سوالات ثقافت اسلامیہ کے متعلق پیدا ہوئے۔ اس میں اس کے اس پہلو کو مدِّنظر رکھا گیا تھا کہ وہ ایک خاص قسم کے ’’تصوّر کونی‘‘ کی حامل ہے جو نوع بشری کی ایک مخصوص جماعت نے قائم کیا تھا۔ (سوالات یہ تھے کہ) کیا جدید سائنس اپنی نوعیت میں خالصتاً مغربی الاصل ہے؟ مسلمانوں نے اپنی تہذیبی ذات و صفات کے ایک مظہر کی حیثیت سے فن تعمیر ہی کو تمام و کمال کیوں منتخب کیا اور (دوسرے فنون لطیفہ مثلاً) موسیقی اورمصوری سے انھوں نے نسبتہً بے اعتنائی کیوں برتی؟ زمان و مکان کے بارے میں ان کی جو عقلی اور جذباتی روش تھی اس پر آیا ان کے علوم ریاضی اور فنِ تعمیر تزئینی کوئی روشنی ڈالتے ہیں یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو مزید سوال یہ ہے کہ وہ روشنی کیا ہے؟ ivمسلمانوں کا وہ نظریہ جوہر (Atomic Theory) جو یونانی نظریے سے یکسر متغائرومتعارض تھا اور جوان کے تخیّل کے ایک بے باکانہ اور مجتہدانہ پروازِفکر سے عالمِ وجود میں آیا تھا اورجو بعد میں نشوونما پا کر ایک مُسِلّمہَ مذہبی عقیدے کی حیثیت سے ان کی علمی محافل و مجالس میں مقبول ہوا‘ اس کی توجیہ و تعلیل کے لیے کوئی نفسیاتی اسباب و علل بھی بیان کئے جا سکتے ہیں؟ v اسلام کی ثقافتی تاریخ میں مسئلہ ’’معراج‘‘ کی کیا نفسیاتی تعبیر ہے؟ پروفیسر میکڈانلڈ نے حال میں اس مفروضے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام میں تخیّلاتِ جوہریّت (Atomism) کے ظہور کے آغاز و ارتقا کے اندر بدھ مت کے اثرات کی کافرمائی نظرآتی ہے۔ لیکن پروفیسر موصوف نے جس خالص تاریخی سوال کا جواب دینا چاہا اس سے وہ ثقافتی مسئلہ بمراحل اہم تر ہے جس کے اٹھانے کی میں نے جسارت کی ہے! اسی تقریب سے میں پروفیسر بیون ۱؎(Bevan) کا نام بھی لے سکتا ہوں جنھوں نے ہم کوسرگزشت معراج کی تاریحی بحث و نظر کا ایک قیمتی سازوبرگ بہم پہنچایا ہے۔ بایں ہمہ ثقافتی لحاظ سے گفتگو کرتے ہوئے جو چیز ان سب مباحث سے زیادہ وقیع ہے وہ زبردست اثر انگیزی ہے جو یہ قصہ ہمیشہ ایک اوسط درجے کے مسلمان کے قلب کے لیے اپنے اندررکھتا ہے اورنیز وہ مخصوص انداز ہے جس سے اسلامی تخیّل و تصوّر اور فکر و نظر نے اس پر ایک پوری عمارت تعمیر کی ہے۔ معراج کی حقیقت یقینا محض ایک مذہبی عقیدے سے بڑھ کر ہو گی اس لیے کہ اس نے دانتے ۲؎ایسے عظیم دل و دماغ کو متاثر کیا ہے اور محی الدین ابن عربی ۳؎کے توسط سے اس کو وہ معیار بہم پہنچایا جس پر (اطالوی شاعر کے) اس ’’طربیہ خداوندی‘‘ (Divine Comedy) کے رفیع و جلیل ابواب کا نقش صورت پذیر ہوا ہے جویوروپ کے قرون وسطیٰ کی ثقافت کا پیراہن محسوس ہے۔ ایک مورخ تو اس خیال سے مطمئن ہو سکتا ہے کہ اسلامی عقیدۂ معراج کی قرآن سے کوئی تائید نہیں ہوتی لیکن ایک ماہر نفسیات جس کا مقصود ثقافت اسلامیہ کے متعلق ایک عمیق تر بصیرت حاصل کرنا ہو وہ اس حقیقت سے تجاہل نہیں کر سکتا کہ قرآن نے اپنے مخاطبین و متبعین کو اس بارۂ خاص میں جوزاویہ نگاہ دیا ہے اس کا منطقی اقتضا یہ نہیں ہو سکتا کہ حدیثِ معراج کو اسلام کے تصوّرِ عالم کے اندر ایک تخلیقی عنصر فرض کیا جائے! درحقیقت یہ نہایت ضروری ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب دیا جائے اور ان جوابات کو باہمدگر اس طور پر مربوط کیا جائے کہ وہ فکرو جذبہ کے ایک ’’منضبط کل‘‘ کے اجزا بن جائیں۔ اس کے بغیر نا ممکن ہے کہ ان کار فرما تصوّرات کا انکشاف کیا جا سکے جو ایک مخصوص ثقافت کے بنیاد واساس ہیں‘ یا اُس روح کی معرفت حاصل کی جا سکے جو اس کے مادی جسد کے اندر جاری و ساری ہے۔ تاہم ثقافتِ اسلامیہ کا ایک جامع و مانع تصوّر جو اس کے وابستگانِ دامن کی روحانی زندگی کا آئینہ دار ہو اب بھی سہل الحصول ہو۔ ثقافتِ اسلامیہ ایشیا کی تمام ثقافتوں سے کم عمر ہے۔ ہم عہد جدید کے لوگوں کے لیے یہ کہیں آسان ہے کہ ہم اوّل الذکر کی روح کا ایک فہم حاصل کر لیں بمقابلہ اس کے کہ ان عہد عتیق کی ثقافتوں کے تصوّرات کونی کا ایک نقشہ اپنی چشمِ تخیّل سے دیکھنے بیٹھیں جن کے عقلی اور جذباتی خط و خال کا دور جدید کی کسی زبان میں بیان کرنا ہی تقریباً محال ہے! اسلامی ثقافت کے مورخ کی مشکل زیادہ تر اس سبب سے ہے کہ عربی کے ایسے علماء تقریباً مفقود ہیں جو سائنس کے مخصوص شعبہ جات کے تربیت یافتہ ہوں۔ یورپین مستشرقین نے اسلامی تاریخ‘ لسانیات‘ مذہب اور ادب کے میدانوں میں بلاشبہ بڑی شائستہ خدمات انجام دی ہیں۔ اسلامی فلسفہ بھی ان کو توجہ سے بہرہ یاب ہوا ہے لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ اسلامی فلسفہ میں جو کام ہوا ہے مجموعی طور پر سطحی نوعیت کا ہے اور اکثر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ لکھنے والے نہ صرف اسلامی بلکہ یوروپی فکر سے بھی ناآشنا اور ناواقف ہیں۔ درحقیقت ایک قوم کی فکری تہذیب کی حقیقی روح اس کے فن وصناّعی‘ سائنسی شعبہ جات اور فلسفہ کے آئینے میں منعکس ہوا کرتی ہے لیکن متذکرہ بالا وجوہ کی بناء پر ثقافتِ اسلامیہ کا محقّق آج بھی اس ثقافت کی داخلی معنویت کے فہم و ادراک سے بمراحل دور ہے۔ نامور فاضل بریفالٹ ۴؎اپنی تصنیف ’’تشکیلِ انسانیت‘‘ میں (جو ایک ایسی کتاب ہے جسے اقوام و ملل کی ثقافتوں کے مطالعہ و جستجو کرنے والے ہر شخص کو پڑھنا چاہیے) ہمیں بتاتا ہے کہ ’’تجرباتی طریق سے ہمارا تعارف کرانے کا سہرا نہ روجر بیکن۵؎؎کے سر ہے اور نہ اس کے بعد کے ہم نام (Francis Bacon)۶؎کے سر۔ مزید یہ کہ ’’بیکن کے عہد تک عربوں کا تجرباتی طریق اچھی طرح سے شائع ہوچکا تھا اور بڑے شوق وذوق سے اس کی تحصیل اور مطالعہ یوروپ کے طول و عرض میں کیا جاتا تھا‘‘۔ میرے پاس امر کے باور کرنے کے معقول وجود موجود ہیں کہ ویکارٹ۷؎کے منہاج تحقیق (Method) اور بیکن کے ’’جدید طریق تحقیق ‘‘(Novum Orgranum) کے اصلی سرچشمے کا سراغ تاریخ علوم کے ماضی بعید میں منطقِ یونانی کے اسلامی ناقدین مثلاً ابن تیمیہ۸؎ ، رازی ۹؎ غزالی، ۱۰؎ اور شہاب الدین ۱۱؎ سہروردی شہید کے خیالات و تحریرات میں جا کر لگتا ہے! لیکن یہ بدیہی بات ہے کہ اس سلسلے میں جوموادِ شہادت موجود ہے اور جواس علمی قیاس کو پایۂ ثبوت تک پہنچا سکتا ہے اس کوصرف وہی عربی کے فضلا ہاتھ لگا سکتے ہیں جنھوں نے یونانی‘ اسلامی اور نیز یوروپی منطق کا خصوصی مطالعہ کیا ہو۔ پھر مسلمانوں کی سائنس کے تصوّرات سے ہماری ناواقفیت بعض اوقات ثقافتِ جدید کے باب میں ہمیں غلط طرز خیال کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کی ایک نظیر میں اسپینگلر۱۲؎ ؎ کی نہایت درجہ فاضلانہ تصنیف ’’انحطاطِ مغرب‘‘ میں پاتا ہوں جس میں اس نے ثقافتوں کی آفرنیش اور نشوونما کے بارے میں ایک نیا نظریہ مُرتّب کیا ہے۔ کلاسکی ‘ عربی اور جدید ثقافتوں میں عدد کا جو تصوّر ہے اس پر بحث کرتے ہوئے اور مقدار کے یونانی تصوّر اور عربوں کے یہاں عدد کی ’’عدم تعینیت‘‘ کا موازنہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: ’’عدد کی حیثیت جہاں اس خالص مقدار کی ہے جو اشیاء کی مادی موجودگی میں طبعی طور پر پائی جاتی ہے وہاں اس کے متوازی اس کی حیثیت اضافتِ محض کی بھی ہے۔ اور اگر ہم کلاسکی لفظ world یعنی عالم کائنات کو دیکھی جاسکنے والی حدود کی ایک گہری ضرورت پر مبنی قرار دیں اور لہٰذا اسے مادی اشیاء کے ایک مجموعے کے طور پرترکیب پذیر سمجھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے تصوّر میں عالم ایک غیر محدود ’’مکان‘‘ کامعرض وقوع میں آجانا ہے جس میں دیکھی جا سکنے والی چیزیں تقریباً ایک پست تر درجے کی حقیقتیں بن کر ظاہر ہوتی ہیں جو غیر تحدید پذیر کی موجودگی میں محدود ہیں۔ مغرب کی ثقافت کا نشان ایک ایسا تصوّر ہے جس کا اشارہ تک کسی دوسری ثقافت میں ہمیں نہیں ملتا یعنی تفاعل (function) کا تصوّر۔ یہ ایک ایسا تصوّر ہے جو عدد کے کسی سابق تصوّر کی توسیع نہیں بلکہ اس سے کامل آزادی کی منزل ہے۔ جب سے یہ تصوّر پیدا ہوا تب سے مغربی یوروپ کی ان ریاضیات کے لئے جو حقیقتہً وقیع ہیں نہ اقلیدس۱۳؎ کے علم ہندسہ کی کوئی وقعت رہی اور نہ ارشمیدس۱۴؎ کے علم حساب کی‘‘۔ اس عبارت کے آخری تین فقرے دراصل وہ سنگِ بنیاد ہیں جن پر اسپنیگلر کے نظریے کی بلند عمارت زیادہ تر قائم ہے۔ لیکن افسوس یہ دعویٰ کہ کوئی دوسری ثقافت ہمیں تفاعل کے تصوّر کا اشارہ بھی پیش نہیں کرتی‘ غلط ہے۔ مجھے دھندلی سی یاد پڑتی تھی کہ تفاعل کاتصوّر البیرونی۱۵؎ ؎ کے ہاں ملتا ہے لیکن چونکہ میں خود ریاضی کا ماہر نہیں ہوں اس لئے میں نے علی گڑھ کے ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب ۱۶؎ کی مدد چاہی جنھوں نے ازراہ نوازش مجھ کوالبیرونیؔ کی مشارُ ٗ الیہ عبارت کا انگریزی ترجمہ عنایت کیا اور (اس تقریب سے( مجھے ایک دلچسپ اور اہم مکتوب بھی لکھا جس میں سے ذیل کا اقتباس پیش کرتا ہوں: ’’البیرونی نے اپنی کتاب قانون مسعودی میں علم المثلث (Trigonometry) کے تفاعلوں کے درمیانی زاویوں کے درجے معلوم کرنے کے لیے نیوٹن۱۷؎ کے ضابطہ ادراج (Formula of Interpolation) کا استعمال کیا اور اس کے لیے وہ جدولیں استعمال کیں جو ہر پندرہ منٹ کی بیشی کے لیے تیار کی گئی تھیں اس نے ضابطۂ ادراج کا ہندسی ثبوت دیا۔ اخیر میں اس نے یہ لکھا کہ یہ ثبوت ہر کسی تفاعل کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے خواہ وہ تفاعل دلیل (یعنی متغیر غیر متبوع) کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا ہویا گھٹتا ہو۔ اس نے تفاعل کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن اس کے ہاں اس کے تصوّر کا اظہار اس جگہ ملتا ہے جہاں اس نے ضابطۂ ادراج کی ایک تعمیم شدہ شکل تیار کی ہے جو علم المثلث کے تفاعلوں سے آگے بڑھ کر تمام تفاعلوں کے لئے قابل استعمال ہے۔ میں یہاں اضافہ کر دوں کہ میں نے گوٹنگٹن یونیورسٹی کے استاد فلکیات پروفیسر شوراتس ثلٹ (Schwartzchild) کی توجہ اس عبارت کی طرف دلائی اور ان کو اس قدرتعجب ہوا کہ وہ پروفیسر اینڈ ریوز (Andriews) کو ساتھ لے کر کتاب خانے میں پہنچے اور جب تمام عبارت کا تین مرتبہ انھوں نے ترجمہ کرایا تب ان کو اس کا یقین آیا‘‘۔ اس مختصر خطبے میں اسپنیگلرکے نظریے پر بحث کرنا اور یہ دکھانا کہ اس کی فروگذاشت اس کے تاریخی نقطۂ نگاہ پر کس اہم حد تک اثر انداز ہے‘ ممکن نہیں۔ اتنا کافی سمجھئے کہ جو ثقافتیں ان دو عظیم سامی مذاہب سے وابستہ ہیں ان کے سرچشموں کی تحقیق وتنقیح ان کی روحانی یک جہتی کو بے نقاب کر دیتی ہے اور اس انکشاف کا منطقی میلان اس طرف ہے کہ اسپینگلر کا یہ دعویٰ باطل ہے کہ ثقافتیں بحیثیت نامیاتی اجسام کے ایک دوسری سے قطعاً بیگانہ ہوتی ہیں۔ لیکن جدید ریاضیات کے اہم ترین تصوّرات میں سے ایک تصوّر کا یہ مختصر حوالہ بالا میرے ذہن کو عراقی ۱۸؎ ؎ کی تصنیف ’’غایۃ الامکان فی واریۃ المکان‘‘ کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ مشہور حدیث لاتسبو الدھران الدھر ہواللہ میں ’’دہر‘‘ (بمعنی Time)کا جو لفظ آیا ہے اس کے متعلق مولوی سید انورشاہ۱۹؎ صاحب سے‘ جو دنیائے اسلام کے جید ترین محدثینِ وقت میں سے ہیں‘ میری خط و کتابت ہوئی۔ اس مراسلت کے دوران میں مولانا موصوف نے مجھے اس ’’مخطوطے‘‘ کی طرف رجوع کرایا اور بعدازاں میری درخواست پر ازراہ عنایت مجھے اس کی ایک نقل ارسال کی۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس گرانقدر دستاویز کے مشمولات کا حال آپ کو بتاؤں۔ اس کی جزوی وجہ تو یہ ہے کہ وہ اسپنیگلر کے نظریے سے غیر مطمئن ہونے کی مزید دلیل بہم پہنچائے گا لیکن اصولاً و عموماً اس سے میرا یہ منشا ہے کہ مخصوص علوم کے وہ شعبے جو آغوش اسلام کے بطن ارتقا سے پیدا ہوئے ان کے میدانوں میں علوم مشرقیہ کی تحقیقات کی ضرورت واہمیت کو آپ حضرات کے ذہن نشین کروں۔ مزید براں اغلب ہے کہ ’’یہ بقامت کہتر و بقیمت بہتر‘‘ مخطوطہ ایک نئے میدانِ تحقیق میں ہماری رہنمائی کرے جس میں ہمارے ان تصوّرات زمان و مکان کے اصل وآغاز کی تحقیق ہو جن کی اہمیت حال میں طبیعیات نے محسوس کی ہے۔ یہ معاملہ مشکوک ہے کہ اس کتابچے کا مصنف کون ہے حاجی خلیفہ نے اسے شیخ محمود کسی بزرگ کی تصنیف بتایا ہے۔ لیکن ان کا سراغ مجھ کو اسلام کے علمی اسماء الرجال کی فہرست میں نہیں لگا۔ متن کے تقریباً وسط میں ذیل کا فقرہ وارد ہوتا ہے: ’’…این مخدرہ غیبی… چوں بمشاطگی بیان ایں بندہ ضعیف بآخر ذمانیان جلوہ کند‘ امیدوارم کہ تشنگان جرعہ حقیقت درایام آخرالزماں ازدست این ساقی عراقیؔ جمال زلال شیریں مشاہدہ نمایند…‘‘ ذاتی طور پر میرے قیاس کا میلان یہ ہے کہ اس قلمی نسخے کی معرفت ہمیں مشہور ایرانی صوفی شاعر عراقی کے ساتھ ایک قریب تر تعلق پیدا ہوا ہے جس کی آزادی فکروعمل نے اسے مصروہندوستان کے راسخ العقیدہ لوگوں کا ہدف ملامت بنا دیا تھا۔ تاہم اپنے افکار کوقلمبند کرنے کے باعث وہ یوں بیان کرتا ہے: وبایستے کہ این اسرارِ عزیز در صمیم جان و سویدائے دل مکنون و مخزون داشتمے نہ ازراہ بخل بل ازراہِ عزت و نفاست و لیکن عذر در جلوہ کردن این مخدّرہ عذرا آنست کہ وقتے دراثنائے سخن و گرمی دل برزبان لفظ مکان رفت و چوں لفظ مکان در اخبار آمدہ است انکار نباید کرد و لیکن مکان رابباید شناخت کہ عبارت ازاں چیست تاتشبیہ ازراہ خیز وپس جماعتے ازکورودلاں شور بخت چوں لفظ مکان شنیدندازسر تعصّب و حسد عناد و جحود این کلمہ را دست آویز ساختند و بر نجانیدن مامیان بستندو رقم تشبیہہ برما کشید ندوبتکفیر مافتوائے نوشتند۔ پس ناچاراز برائے اظہار برأت ساخت دل(؟) خود ازغبار تشبیہہ ایں مخّدرہ عذرااز ابدان عالمیان عالم طبیعت عرض بایست کردن و این یوسف باجمال بآن کوران جلوہ بایستے دادتارفع ظن ایشان بودہ باشد اگرچہ معلوم بود کہ دردِ تعصّب و حسد درمان نمی پذیر و چنانچہ باراں کہ مادہ حیات است مردار راجز تباہی نمی افزاید۔ ’’ان الذین حقت علیہم کلمۃ ربک لا یومنون و لوجائَ ثھم کل اٰیۃٍ حتیّٰ یرو العذاب الالیم۔(سورۃ یونس:۱۰‘ آیت ۹۷) چنانچہ یہ فرض کرتے ہوئے مصنف کتاب فخرالدین عراقیؔ ہے یہ بات بہت اہم اور معنی خیز ہو جاتی ہے کہ عراقی نصیر الدین۲۰؎ ؎ طوسی کا معاصر تھا۔ طوسی کی تصنیف علم اقلیدس پرروم میں ۱۵۹۴ء میں طبع ہوئی اور جون والس (John Wallis) نے اسے سترھویں صدی کے کم و بیش وسط میں آکسفورڈ یونویرسٹی کے نصاب میں داخل کیا۔ طوسی نے اقلیدس کے موضوعہ متوازی (Parallel Postulate) کی اصلاح کرنے کی جو کوشش کی اس نے یوروپ میں ’’مکان‘‘ کے مسئلے کے لئے بنیاد مہیا کی جس کے نتیجے کے طور پر بالآخر گاؤس۲۱؎ (Gauss) اور ریمانا۲۲؎ (Reimana) کے نظریے پیدا ہوئے۔ لیکن عراقی کوئی ماہر ریاضی نہ تھا اگرچہ اس کاتصوّر زمان و مکان مجھ کو طوسی کی فکر کی رسائی سے کئی صدیاں پیش قدم نظر آتا ہے۔ اس بات کے پیش نظر فرض ہو جاتا ہے کہ اسلام میں ریاضیاتی فکر کا جوارتقا ہوا اس کی ایک نہایت ہی محتاط چھان بین کی جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا عراقی نے جو نتیجے منکشف کئے ان نتیجوں تک خالص ریاضیاتی راستوں سے بھی کبھی رسائی ہو سکی یا نہیں؟ اب میں عراقی کی بحث زمان و مکان کا ماحصل اسی کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔ زمان و مکان کا راز سب سے بڑا راز ہے۔ اس کو جان لینا سّرِ کائنات اور صفات حق تعالیٰ کا جان لینا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کے سلسلے میں کسی نہ کسی قسم کے مکان کا وجود قرآن حکیم کی منقولہ ذیل آیات سے عیاں ہوتا ہے: الم تران اللہ یعلم مافی السمٰوٰت و فمافی الارض مائکون من نجوٰی ثلثۃٍ الا ہو رابعہم ولا خمسۃ الا ہو سادسہم ولا اذنی من ذلک ولا اکثر الا ہومعہم این کانوا(سورہ المجادلہ:۵۸‘آیت) (ترجمہ) کیاتو نہیں دیکھتا کہ خدا ارض و سماوات کی تمام چیزوں کو جانتا ہے‘ کوئی تین آدمی خلوت میں باہم ہمکلام نہیں ہوتے بدوں اس کے کہ ان کا چوتھا شریک صحبت وہ بھی ہوا ورنہ پانچ اس طرح کہ ان کی تعداد کاچھٹا فرد وہ نہ ہو! ان کا یہ شمار خواہ اس سے کم ہو خواہ زیادہ‘ لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے خدا ان کے ساتھ ساتھ ہوگا۔ وما تکون فی شانٍ و ما تتلوا منہ من قراٰن ولا تعلمون من عمل الا کنا علیکم شہودا اذ تفیضون فیہ و ما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض ولا فی السمآئِ ولا اصغر من ذالک ولا اکبر الا فی کتب مبین۔(۱۰‘ ۶۱)(سورہ یونس۱۰‘ آیت۶۱) (ترجمہ) تم نہ تو کسی مشغلے میں مصروف ہو گے نہ قرآن کی آیات میں سے کوئی حصہ پڑھو گے‘ اور نہ کوئی اور کام کرو گے بجز اس حالت کے کہ ہم تمھارے‘ جہاں کہیں بھی تم مشغول ہو گے‘ شاہد ہوں گے۔ زمین و آسمان کے ایک ذرّے کا وزن بھی تیرے رب کی نظر سے خطا نہیں جانے پاتا‘ نہ کوئی وزن‘ اس سے کم ہو یا اس سے زیادہ‘ ایسا ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو! ولقدخلقنا الانسان و نعلم و ماتوسوس بہ نفسد و نحن اقرب الیہ من حبل الوریدہ o (۵۰۔۵۱)(سورہ ق:۵۰ آیت:۱۶) (ترجمہ) ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں کہ اس کی جان اس سے کیا کیا سرگوشیاں کیاکرتی ہے‘ ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ لیکن فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ قرب‘ اتصال اور اتّصال کے الفاظ جن کا اطلاق مادی اجسام پر ہوتا ہے اللہ پر منطبق نہیں ہوتے۔ حیات الٰہیہ نظام کائنات کے ساتھ جس طور پر واصل ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے روح جسم کے ساتھ متعلق ہے۔ روح نہ جسم کے اندر ہے نہ اس کے باہر‘ نہ اس کے قریب ہے اور نہ اس سے الگ ہے تاہم اس کا تعلق جسم کے ایک ایک ذرّے کے ساتھ حقیقی ہے اور اس تعلّق کا تصوّر ناممکن ہے سوائے یوں کہ ہم کسی ایسی قسم کے مکان کا اثبات کریں جو روح کی لطافت کے مناسب ہو۔ غرض حیات الٰہیّہ کے سلسلے میں مکان کے وجود مطلق کا تو انکار نہیں کیا جا سکتا‘ البتہ ہمیں نہایت احتیاط سے مکان کی اس مخصوص نوعیت کی تعریف و تحدید کرنی ہو گی جس کا اطلاق اللہ کی مُطلقیتّ کے بارے میں کیا جائے۔ مکان کی قسمیں تین ہیں: مادّی موجودات کا مکان ‘ غیر مادّی موجودات کا مکان اورخدا کا مکان! مادی اجسام کا مکان پھرآگے تین قسموں میں منقسم ہے: اوّل کثیف اجسام کا مکان ہے جس کے مُتعلّق ہم جگہ (گنجائش) کے خیال کو پیشگی اپنے ذہن میں رکھ لیتے ہیں۔ اسی جگہ یا خلا میں ان (مُتعلّقہ اشیائ) کی حرکت وقوع میں آتی ہے اور یہ حرکت مستلزم ہے وقت (زمان) کی! چیزیں اپنی اپنی جگ مقیم یا دخیل ہوا کرتی ہیں اور اپنی بیدخلی (یا نقلِ مکان) کے خلاف مقاومت کرتی ہیں۔ دوم لطیف اجسام کا مکان ہے مثلاً ہوا اور صورت۔ اس مکان میں دو اجسام باہمدگر مقاومت کرتے ہیں اور ان کی حرکت زمان (وقت) کے پیمانے (مقادیر) کے ذریعے ناپی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ زمان کثیف اجسام کے زمان سے مختلف معلوم ہوتا ہے۔ ایک نلکی میں دوسری ہوا صرف جبھی داخل ہو گی جب پہلی ہوا خارج کی جائے اورصوتی تموّجات کا زمان کثیف اجسام کے زمان کے مقابلے میں عملاً لاشئے ہے۔ سوم روشنی کا مکان ہے۔ آفتاب کی روشنی آناً فاناً زمین کی بعید ترین حدود میں پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ روشنی اور صَوت کی سُرعتِ رفتار میں زمان تقریباً صفر مطلق کے درجے پر آجاتا ہے۔ پس یہ ظاہر ہے کہ روشنی کا مکان ہوا اور صوت کے مکان سے مختلف ہے۔ اس کے حق میں ایک اس سے بھی زیادہ کارگر دلیل اور ہے۔ ایک بتی کی روشنی کمرے کی ہوا کو بے دخل کئے بغیر کمرے کے تمام اطراف میں پھیل جاتی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روشنی کا مکان ہوا کے مکان سے لطیف تر ہے جس کا دخل روشنی کے مکان میں ممکن نہیں۔ ان تینوں امِکنہ کے انتہائی قُرب کی وجہ سے ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہم بجز خالص عقلی تجزیہ اور روحانی تجربہ کے ان کے درمیان حدودِ امتیاز کو متعین کر سکیں۔ پھر دیکھئے گرم پانی کے اندر دو ضدیں۔ آگ اور پانی۔ جو بظاہر ایک دوسرے میں متداخل معلوم ہوتی ہیں اپنی اپنی طبع کے رو سے ایک ہی مکان میں موجود نہیں ہو سکتیں۔ اس مظہر کی توجیہہ بغیر کسی مفروضے کے نہیں کی جا سکتی کہ ان دو جوہروں کے مکان گو ایک دوسرے سے نہایت قریب ہیں لیکن ایک دوسرے سے متمائز ہیں لیکن درحالیکہ روشنی کے مکان میں فاصلہ کا عنصر قطعاً غیر موجود نہیں ہے اس میں باہمی مقاومت کا امکان بالکل مفقود ہے۔ ایک بتی کی روشنی صرف ایک خاص نقطے تک پہنچتی ہے اور سو بتیوں کی روشنیاں ایک ہی کمرے کی فضا میں باہم خلط ملط ہو جاتی ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی دوسری کو بیدخل نہیں کرتی! اس طرح لطافت و کثافت کے مختلف درجے رکھنے والے طبعی اجسام کے امکنہ کوبیان کرنے کے بعد اب عراقی اپنی بحث میں آگے بڑھتا ہے اور مختصرا’ مکان کی ان عام رنگارنگ اقسام کی تفصیل پیش کرتا ہے جن پر غیر مادی موجودات عمل کرتی ہیں مثلا ملائکہ! فاصلے کاعنصر ان امکنہ میں بھی کلیّتہً غیر موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ بعض غیر مادی موجودات گو آسانی کے ساتھ سنگی دیواروں میں سے ہو کر گزر جاتی ہیں تاہم اپنی حرکت کے ’’عرض‘‘ سے تمام و کمال آزاد نہیں ہو جاتیں۔ یہ عدم استغنا عراقی کے نزدیک ان کی خاصیت روحانی کے غیر کامل ہونے کی دلیل ہے۔ مکان آزادی کے بلند ترین نقطے پر انسانی روح کی رسائی ہے جس کا بے نظیر جوہر یہ ہے کہ نہ وہ ساکن ہے نہ متحرک۔ اس طرح ’’مکان‘‘ کی لاانتہا اورگُوناگُوں اقسام سے گزرتے ہوئے ہم آخر کار مکانِ الٰہی (مکانِ لامکان) پر آتے ہیں جو تمام جہات و ابعاد سے مطلقاً آزاد ہے اور اس نقطۂ اتصال کا حامل ہے جہاں تمام موجودات لامحدود واصل یکدگر ہو جاتی ہیں۔ اسی طریق پر عراقی نے زمان کی بحث کی ہے۔ مادّہ اورروح کے درمیان موجودات کے جتنے درجے ہیں ان سے متعلق زمان کے بے اندازہ قسمیں ہیں۔ کثیف اجسام کا زمان جواجرام سماوی کی گردش سے وجود میں آتا ہے وہ ماضی‘ حال مستقبل میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کی نوعیت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ جب تک ایک دن نہ گزر جائے دوسرا وجود میں نہیں آسکتا۔ غیر مادّی موجودات کا زمان بھی اپنی ماہیت میں شمار دار ہے لیکن اس کا مرور ایسا ہے کہ کثیف اجسام کے زمان کا پورا ایک سال غیر مادی موجودات کے زمان میں ایک دن سے زیادہ کی حقیقت نہیں رکھتا۔ غیر مادی موجودات کے پیمانے میں ہم جتنا اوپر چلتے جائیں ہم زمانِ الٰہی کے تصوّر تک جا پہنچتے ہیں جو ’’مرور‘‘ کی صفت سے مطلقاً آزاد ہے حتیٰ کہ تقسیم و تکسیر‘ تاخیر و تقدیم‘ تسلسل اور تغیر و تبدل کی صِفات کا بھی پابند نہیں۔ زمان الٰہی دوام وابد سے بالاتر ہے۔ اس کی ابتدا ہے نہ اس کیانتہا۔ ادراک کے ایک ناقابل تقسیم عمل میں اللہ کی نگاہ تمام مرئی موجودات (مشہودات) کودیکھتی ہے اور اسی عمل میں اس کا سامعہ تمام قابل سماعت موجودات کو سنتا ہے اور یہ اعمال ایک واحد وغیر منقسم عملِ ادراک میں انجام پاتے ہیں۔ حق تعالیٰ کا تقدّم زمان کے تقدم کے سبب سے نہیں ہے بلکہ برعکس زمان کا تقدم حق تعالیٰ کے سبب سے ہے۔ چنانچہ زمان الٰہی وہ ہے جسے قرآن میں ’’ام الکتاب‘‘ کے نام سے تعبیر کیاگیا ئہے جس میں تمام تاریخ کائنات علتی تسلسل کے دام سے آزاد ہو کر ایک واحد فوق الدوّام ’’اکنون‘‘ یعنی (اَبً) میں جمع ہے۔ عراقی کے نظریے کے اس ملخص سے آپ کو معلوم ہوا ہو گا کہ کس طرح ایک ایسے عہد میں جبکہ کسی کے حاشیہ خیال میں بھی جدید ریاضیاتی و طبیعیاتی نظریات و تصوّرات نہ ہو سکتے تھے ایک تعلیم یافتہ مسلمان صوفی نے زمان و مکان کے متعلق اپنی روحانی واردات کی عقلی تفسیر کی۔ درحقیقت ’مکان متعدد ‘کا یہ نظریہ جوعراقی نے پیش کیا اس جدید تحریک۲۳؎ ؎ کی ایک ابتدائی منزل تسلیم کیا جا سکتا ہے جس میں تین البعاد سے زیادہ والے مکان کا دعویٰ کیا گیا اورجس کا باقاعدہ بیج طوسی کی کوششوں سے بویا گیا جو اس نے اقلیدس کے موضوعہ متوازی (Parallel Postulate) کی اصلاح کرنے میں صرف کیں۔ ماضی قریب میں کانٹ۲۴؎ وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے ایک جامع و مانع طریقے سے مختلف امکنہ کے تصوّر کو پیش کیا۔ فلسفی موصوف کی کتاب ’’مقدمہ (Prolegomena) کا مندرجہ ذیل اقتباس اس پرشاہد ہے: ’’یہ بات کہ ’مکان کل‘ (جس سے پرے اورکوئی مکان نہیں) تین ابعاد کا حامل ہے اور یہ کہ مکانِ کل اس سے زیادہ ابعاد کا متحمل نہیں ہوسکتا اس قضیہ پر مبنی ہیں کہ ایک نقطے پر زاویہ قائمہ بناتے ہوئے تین سے زیادہ خطوط ایک دوسرے کو قطع نہیں کر سکتے… ایسے حکام کوقابل تعمیل مانتا کہ لامتناہی تک ایک خط کھینچا جائے یاتغیرات کاایک سلسلہ (مثلاً امکنہ میں سے حرکت کا گزر) لا انتہا طور پر جاری رہے‘ زمان و مکان کے ایسے تصوّر کے ساتھ مشروط ہے جو صرف وجدان کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ لیکن کانٹ کوئی ماہر ریاضی نہ تھا۔ یہ کام اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں کے ماہرین ریاضی کے نصیب میں تھا کہ وہ بالآخر مکان کے اس تصوّر تک پہنچیں کہ وہ ایک حرکی ظہور (Dynamic Appearance) ہے اور اس طرح گویا مخلوق (قابل تولید) اور محدود ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عراقی کے افکار مبہم طور سے مکان کے ایک تصوّر کے ساتھ دست و گریباں ہو رہے تھے جو معروضات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے لیکن وہ ریاضی داں نہ تھا اور کچھ اس لئے کہ وہ طبعاً ارسطو۲۵؎ ؎ کے قدیم روایتی خیال یعنی ’’عالم ثابت‘‘ (fixeduniverse) کے تصوّر کی طرف مائل تھا۔ اگر اس کا ذہن یہ سوال اٹھانے کے قابل ہو جاتا کہ آیا ’ابعادیت‘ عالم کی صفت ہے یا معرفت عالم کی‘ تو وہ اپنے شعور کے ایک متجسسانہ محاسبے کی ضرورت محسوس کرتا اور اس طرح اس کے سامنے فکر کی ایک ایسی راہ کھل جاتی جو اس کے صوفیانہ نقطۂ نظر واُفتادِ مزاج سے زیادہ ہم آہنگ ہوتی! پھر حقیقتِ ‘مُطلقَِہ کی ذات میں فوق المکان ’’یہاں‘‘ اور فوق الدوام (ماوراء زمان) ’’اب‘‘ کے باہمی نفوذ کا تصوّر ہمیں ’’مکان۔ زمان‘‘ (Space-Time) کے جدید تصوّر کا خیال دلاتا ہے جسے پروفیسر الیگزانڈر۲۶؎ ( Alexander) نے ’’مکان‘ زمان اوراُلوُہیّت (معبود)‘‘ (Space, Time and Deity) پر مقالے لکھتے ہوئے تمام موجوداتِ کائنات کی کوکھ قرار دیا ہے۔ زمان کی ماہیت پر اگر عراقی کو ذرا زیادہ بصیرت ہوتی تو وہ اس خیال تک پہنچ جاتا کہ زمان‘ مکان کی نسبت زیادہ بنیادی ہے اور یہ کہنا (جیسا کہ پروفیسر الیگزانڈر نے واقعی کہہ دیا ہے) کہ ’’زمان ذہن ہے مکان کا‘‘ محض شاعرانہ استعارہ نہیں۔ عراقیؔ نے کائنات کے ساتھ خدا کا تعلّق روح اور جسم کے تعلق کے مماثل قرار دیا ہے لیکن بجائے اسکے کہ وہ تجربہ کے مکانی اور زمانی پہلوؤں کی تحقیق کے ذریعے فلسفیانہ طریق سے اس نظریے پر پہنچتا‘ اس نے محض روحانی تجربہ کی بنا پر اس کا دعویٰ کر دیا۔ خدا کی معرفت کے لئے یہ کافی نہیں کہ اس انتہائی مقام پر جو نقطہ بھی ہے اور آن بھی (Point-instant) ہم مکان اور زمان کے متوازی سلسلوں کااتصال دیکھیں۔ وہ فلسفیانہ راستہ جس پر چل کر ہم خدا کو کائنات کی رُوح کُل (Omnipsyche) کی شکل میں دکھتے ہیں‘ اس انکشاف سے گزر کر ملتا ہے کہ زمان۔ مکان ’’(Space -Time)کا اصل اصول ’’فکرِ زندہ‘‘ (Living Thought) ہے۔ عراقی کا دماغ صحیح رخ پر چلا لیکن ایک طرف تو وہ ارسطا طالیسی رحجانات کا پابند تھا اور دوسری طرف اس میں نفسیاتی تجزیہ کی کمی تھی اوریہ دونوں خامیاں اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوئیں۔ چونکہ وہ اس نظریے پر قائم تھا کہ زمانِ الٰہی تغیر سے بالکل مُبّریٰ ہے (اس کا یہ نظریہ بدیہی طورپر شعوری تجربے کے غیر صحیح تجزیے پر مبنی تھا) اس لیے اس کے لیے ممکن نہ تھاکہ زمان الٰہی اور زمان مسلسل کا باہمی تعلق منکشف کر سکے اور اس انکشاف کے ذریعے عالم کی تخلیقِ (تولید) مسلسل کے اس تصوّر تک پہنچے جو اسلام کے ساتھ مختص ہے اور جس کے معنی نموپذیر کائنات (Grwoing Universe) کے ہیں۔ میں نے آپ کے سامنے عراقی کے تصوّر زمان و مکان کا یہ مختصر خاکہ اور تبصرہ پیش کیا۔ میری غرض یہ ذہن نشین کرانا ہے کہ اسلام میں سائنس کی خاص فروغ کے جتنے تصوّرات ہیں ان کے متعلق بالاستیعاب چھان بین کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر آگے چل کر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ثقافت نے قبل الاسلامی ایشیا کی دوسری ثقافتی تحریکوں سے اثر پکڑا اور اس کی نوعیت ترکیبی ہوتی چلی گئی تو اس کی اندرونی زندگی کوصاف طور سے سمجھنا ایک عمومی دلچسپی کا معاملہ بن جاتا ہے اور اس طرح یہ معاملہ محض عربی دانی کی پہنچ سے باہر ہو جاتا ہے۔ غرض اب عملی مسئلہ یہ ہے : وہ کیا طریقہ ہے جس سے ایسے عربی دان پیداکئے جائیں جو ذہنی اورعقلی طور پر پیش نظر کام کے پورے پورے اہل ہوں؟ میرے خیال میں اس ضرورت کو پورا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ایسے عربی اور مشرقی علما کی ہمت افزائی کی جائے جوسائنس کی خاص شاخوں کی تعلیم پا چکے ہوں۔ شاید آپ کی کانفرنس اس مضمون کی قرار داد منظور کرے کہ مشرقی کلاسکی زبانوں کی اعلیٰ تعلیم کی غرض سے جو وظائف یوروپ جانے کے لیے دیے جاتے ہیں ان کو عطا کرنے میں ہندوستانی یونیورسٹیوں کے ارباب حل و عقد ان امیدواروں کو ترجیح دیں جنھوں نے عربی کے علاوہ کیمیا‘ طبیعیات یا ریاضیات کی قسم کی کوئی سائنس سیکھی ہے۔۲۷؎ تعلیقات ۱؎ بیونBraith Waite Richard Bevan:(ایک انگریز فلسفی) 1900ء میں Banbury میں پیدا ہوا۔ اس نے کنگز کالج کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔ فلسفے کی طرف آنے سے پہلے طبیعیات اورریاضی کا مطالعہ کیا۔ کیمبرج یونی ورسٹی میں پروفیسر رہا۔ اس نے مائنڈ ایسوسی ایشن (1964) اور ارسطو سوسائٹی(1947-1946) کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ فلسفۂ سائنس میں بیون نے سائنسی مفروضوں کی بنیاد ‘ شماریات اور وجدان کے حقائق پر قابلِ ذکر وضاحتیں دی ہیں۔ Ref: The Encylopaedia of Philosophy,Vol: I P: 364-365 ۲؎ : Dante Alighieri Ref: The Encyclopaedia of Philosophy, Vol:2, P:291-294 دیکھیے خط نمبر۶۴ تعلیقہ نمبر۳ ۳؎ محی الدین ابنِ عربی: دیکھئے: خط نمبر ۱۳۱۔ تعلیقہ نمبر ۳ ۴؎ Briffault Robert: 1876ء میں بمقام لندن پیدا ہوا اور 11؍دسمبر 1948ء کو وفات پائی۔ انگلستان کابہت بڑا ماہر علم الانسان‘ تاریخ کا فلسفی اور ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس نے لندن میں تعلیم حاصل کی اورصرف اٹھارہ سال کی عمر میں ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر 1894ء میں نیوزی لینڈ چلاگیا‘ وہاں اس نے پریکٹس شروع کر دی اور نیوزی لینڈ انسٹی ٹیوٹ کی آک لینڈ برانچ کاصدر منتخب ہو گیا‘ اس کے رسالے میں ڈاکٹری کے متعلق ایک سلسلۂ مقالات لکھا۔ پہلی جنگ عظیم چھڑ جانے پر فوج میں بھرتی ہوا اور فرانس‘ فلینڈرز اور گیلی پولی میں خدمات انجام دے کر ’’ملٹری کراس‘‘ کااعزاز حاصل کیا۔ جنگ کے بعد واپس انگلستان آیا اور ڈاکٹر پریکٹس ترک کر کے اقتصادی و عمرانیاتی مسائل پر لکھنا پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کی کتاب "The making of Humanity" (اردو ترجمہ: تشکیلِ انسانیت) میں ارتقائے انسانی پر معاشرتی علم الانسان کے نقطۂ نظر سے غور کیاگیا ہے۔ (مآخذ: عبدالمجید سالک‘ مترجم: تشکیل انسانیت‘ ص:۹) ۵؎ Bacon Roger: (تقریبا 1214ء 1294-ئ)‘ انگریزی عالم اور فلسفی۔ وہ سائنس کو مذہب کا مُتَّمِم سمجھتا تھا‘ متقابل نہیں سمجھتا تھا۔ اس کی معروف ترین تصانیف یہ ہیں (1)۔ Opus Majur 2۔ Opus Minor 3۔ Opus Tertiumچونکہ اس نے الکیمیا کے متعلق بھی کچھ لکھا‘ اس لیے الکیمیا اور جادو پر کئی تصانیف اس سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔ یہ دعویٰ کہ اس نے بارود ایجاد کی‘ غلط ہے اور یہ خیال کہ اس کے پاس دوربین یا خردبین بھی تھی‘ بالکل خارج از امکان ہے۔ اقبالؔ نے اس کا ذکر اپنے پانچویں خطبے میں کیا ہے۔ Ref: The Encyclopaedia of Philosophy, vol: 1, P: 240-242. ۶؎ Bacon Francis :(۱۵۶۱ئ۔ ۱۶۲۶ئ) انگریز فلسفی اور سیاسی مدبر ۔ ۱۵۷۳ء میں ٹرینٹی کالج کیمبرج میں داخل ہوا۔ ۱۵۷۲ء ’’گرے ان‘‘ سے بیرسٹری کی ڈگری لی۔ ۱۵۸۴ء میں اسے پارلیمنٹ کا ممبر چنا گیا۔ نائٹ (۱۶۰۳) ‘ لارڈ چانسلر (۱۶۲۱ئ) اس نے ۱۶۲۱ میں رشوت اور تحائف لینے کے جرم کااعتراف کیا‘ اس لیے اسے ہمیشہ کے لیے سرکاری عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس نے جدید تجرباتی سائنس میں استقرائی طریقِ استدلال کے ذریعے فلسفہ کو باثروت کیا۔ وہ انگریزی اسلوب میں صاحبِ طرز تھا۔ اس نے کل علم انسانی کی تنظیمِ نو کا جو منصوبہ بنایا‘ اس کے صرف دو حصے ہی مکمل کر پایا کہ زندگی نے اس کے ساتھ وفا نہ کی۔ مآخذ: 1- The Encyclopaedia of Philosophy, Vol: 1,P235-240 2. The New Encyclopaedia Britannica, Vol:2, P:993-999 ۷؎ Rene Descartes: (۱۵۹۶ئ۔۱۶۵۰) ‘ فرانسیسی ریاضی دان‘ فلسفی اور سائنسدان۔ ہیگل اور دوسرے متعدد حکما اسے جدید فلسفے کاامام قرار دیتے ہیں۔ یہ نظریۂ ثنویت کا زبردست مُبّلغ تھا۔ یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد فوج میں ملازم ہوا۔ اسی دوران میں مختلف ممالک کی سیروسیاحت کرتا رہا۔ ڈیکارٹ نے اپنے فلسفے اور سائنس کی توجیہات کے لئے تشکیک کے طریقے سے کام لیا۔ ڈیکارٹ نے حواس کی میکانکی دنیا اور ذہن کی فکری دنیا کے درمیان خدا کو ایک کڑی قرار دیا۔ اس نے طبیعیات میں روایت کو رد کر کے تجربے کے بجائے عقل‘ ریاضی اور منطق پر بھروسا کیا۔ مآخذ: عاصم بٹ (مترجم) سو عظیم آدمی‘ ص: ۲۵۳۔۲۵۹1- 2- The Encyclopaedia of Philosophy, Vol,2, P: 344-354 3- The New Encyclopaedia Britannica, Vol,4,P:29-30 ۸؎ علاّمہ اقبالؔ جن اسلامی مفکرین سے متاثر تھے ان میںایک ابنِ تیمیہ بھی ہیں۔ ابنِ تیمیہ کا تذکرہ ان کے انگریزی خطبات میں بھی ملتا ہے… تقی الدین ابوالعباس احمد بن تیمیہ الحرانی الحنبلی‘ ایک عرب علمِ دین اور فقیہہ جو دمشق کے قریب حرّان میں ۲۳؍جنوری ۱۲۶۳ء کو پیدا ہوئے۔ ابنِ تیمیہ نے قرآن ‘ فقہ‘ مناظرہ و استدلال میں سنِ بلوغ سے پہلے ہی مہارت حاصل کر لی تھی اور سترہ برس کی عمر میں افتاء و تصنیف کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلامی فکر کی تشکیل وتزکیہ کا عظیم کارنامہ انجام دیا‘ جس سے تصوف‘ فلسفہ اور منطق کی دنیا میں ایک مدلّل اور مستند تنقید و تحقیق سامنے آئی۔ ایک زمانے میں انھیں اپنے مخالفین کی شدید تنقید اور آزمایش کا شکار ہونا پڑا مگر ان میں سے کوئی بھی ان کے استدلال کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ اپنے محکم نظریات کے باعث قیدوبند کاشکار بھی ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ ابنِ تیمیہ نے پانچ سو کتابیں لکھیں۔ مآخذ: اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد اوّل‘ ص: ۴۴۸۔۴۵۹ ۹؎ الغزالی: دیکھئے خط نمبر ۷۵ تعلیقہ نمبر ۶ ۱۰؎ ابوعبداللہ فخرالدین رازی (۱۱۴۹ئ۔۱۲۰۹ئ) ادب اور علومِ دینی کی تعلیم سے فراغت کے بعد خوارزم گئے جہاں معتزلہ کے خلاف مناظروں کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا۔ ان کی ذکاوت ‘ درّاک‘ عقل‘ زبردست حافظے‘ ضابطہ پسند ذہن اور سلاستِ فکر نے انھیں ایک ایسا معلم بنادیا تھا‘ جسے سارے وسطِ ایشیا میں شہرت حاصل تھی۔ مسلکِ اہلِ سنّت کے دفاع میں امام رازی نے غیر معمولی انہماک دکھایا جس کی وجہ سے اُن کے بہت سے دشمن پیداہو گئے… ان کی اہم ترین اور مشہور تصنیف قرآن کی تفسیر مفاتیح الغیب یا کتاب التفسیر الکبیر ہے۔ ان کی ایک اور اہم تصنیف ’’المباحث المشرقیہ‘‘ تصوف پر ہے… علاّمہ اقبال امام رازی کے بڑے مدّاح تھے۔ ان کا مشہور شعر ہے: اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں کبھی سوزوسازِ رومیؔ‘ کبھی پیچ و تاب رازیؔ (کلیات اردو‘ ص: ۳۰۹) مآخذ: اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ ص: ۱۹۴۔۲۰۰ ۱۱؎ شہاب الدّین یحییٰ بن حبش بن امیرک سہروردی جو شیخ الاشراق کے نام سے مشہور ہیں‘ سہرورد کے رہنے والے تھے۔ شیخ سہرورد ۵۴۹ھ میں پیدا ہوئے اور ۵۸۷ھ/۱۱۹۱ء میں بمقام حلب صلاح الدین ایوبی کے بیٹے ملک الظاہر (۵۸۲ھ۔۶۱۳ھ) کے حکم پر حکمت سے شغف رکھنے کے جرم میں قتل کر دئیے گئے۔شیخ کی مشہور کتاب ’’حکمت الاشراق‘‘ ہے۔ وہ فلسفی اور صوفی کی حیثیت سے اصفہان اور بغداد میں مشہور ہوئے۔ وہ یونانی اور نو افلاطونی نظریات سے مثاتر تھے۔ مآخذ: ۱۔ عبدالماجد دریابادی: تصوفِ اسلام ‘ ص: ۱۱۸۔۱۳۶ ۲۔ اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘ جلداوّل‘ ص: ۸۶۳۔ ۱۲؎ Spengler Oswald (۱۸۸۰ئ۔۱۹۳۶ئ) : جرمن فلسفی۔ اس نے میونخ‘ برلن کی یونیورسٹیوں میں ریاضی اور فلسفے کی تعلیم پائی۔ ۱۹۱۸ء میںاپنی شہرۂ آفاق کتاب "Decline of the West" ’’زوالِ مغرب‘‘ لکھی جس کا ۱۹۲۶ء میں انگریزی ترجمہ ہوا۔ اس کتاب میں وہ کہتا ہے: ’’افراد کی طرح تہذیبیں بھی نقطۂ غروج کو پہنچتی ہیں اور پھر زوال پذیر ہو جاتی ہیں حتیٰ کہ فنا ہو جاتی ہیں‘‘۔ مزید یہ کہ : ’’اقوام یاانسانی گروہ موروثی مقدر کے مالک ہوتے ہیں جسے انسانی کوششوں سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ اسپینگلر کے ان نظریات نے جرمنی میں قومی اشتراکی تحریک کی راہ ہموار کی۔ Ref: 1- The Encyclopaedia Britannica, Vol: 11,P 85-86 2- The Encyclopaedia of Philosophy, Vol: 7, P:527 -3 شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا‘ ص: ۳۴۰ ۱۳؎ اقلیدس: یونان کا ریاضی دان تھا‘ جسے بابائے رضیایات کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بطلیموس اوّل کے عہد (۳۲۳ق۔م سے ۲۸۳/۲۸۵ ق۔م تک) میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم ایتھنز میں پائی۔ ریاضی کی تعلیم وہاں اکیڈمی میں حاصل کی‘ پھر اسکندریہ چلا آیا جو اس زمانے میں علمی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اقلیدس کی تصنیف ’’ اوّلیات‘‘(Elements) مساحت یا علم ہندسہ کی قدیم ترین کتاب ہے۔ اقلیدس کی اس تصنیف نے انسانی معاملات پر مستقل اور بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ انجیل کے بعد یہ دوسری کتاب ہے جس کے سب سے زیادہ ترجمے ہوئے ہیں۔ اقلیدس کی دیگر دسیتاب تصانیف دو ہیں‘ جن کا تعلق ابتدائی علمِ ہندسہ سے ہے۔ ایک ’’Data‘‘ کے نام سے ہے‘ جس میں 94 اشکال شامل ہیں اور دوسری "On Division" ہے۔ اس کی دیگر چار تصانیف کا پتا نہیں چلتا۔ Ref: 1- The New Encyclopaedia Britannica, Vol: 14,P: 589-590 -2 عاصم بٹ (مترجم) سو عظیم آدمی‘ ص: ۷۸۔۹۰ ۱۴؎ ارشمیدس: ۱۲۲ ق۔م سے ۲۸۷ ق۔م کے عہد کا یونانی ریاضی دان‘ جس نے میکانیات اورعلم مائعات کے اصول وضع کیے۔ اس نے اجرام فلکی کی حرکات معلوم کرنے کا ایک آلہ تیار کیا۔ ایسا آتشی شیشہ بھی بنایا جس کی حرارت سے دورکی چیزیں جل اٹھیں۔ علم جرثقیل کا بھی ماہر تھا۔ ارشمیدس نے ماسکونیات کے موضوع پر ایک کتاب لکھی‘ جس کا نام ’’تیرنے والے اجسام‘‘ تھا۔ یہ دنیا میں ماسکونیات پر پہلی تصنیف شمار کی جاتی ہے۔ مآخذ: شخصیات کا انسائیکلوپیڈیا: ص: ۷۰ ۱۵؎ ابوریحان‘ البیرونی (۹؍ستمبر ۹۷۳ئ۔۱۳؍ستمبر ۱۰۴۸ئ): بہت بڑا مسلمان سائنسدان‘ ماہر اراضیات و تاریخ و لسانیات وریاضی و نجوم۔ وسط ایشیا کی ریاست خیوا (خوارزم) کے مضافات میں پیدا ہوا۔ ۹۹۵ء میں البیرونی جرجان پہنچا اور یہیں اس نے اپنی پہلی تصنیف ’’آثار الباقیہ‘‘ ۱۰۰۰ء میں لکھی اور اسے قابوس کے نام پر معنون کیا۔ ۱۰۱۷ء میں البیرونی غزنہ آیا‘ اگلے سال اس نے یہاں ایک رصدخانہ قائم کیا اور دو برس مطالعے میں گزارنے کے بعد ہندوستان کی راہ لی۔ اس اثنا میں محمود غزنوی ہندوستان فتح کر چکا تھا۔ البیرونی نے یہاں زیادہ وقت اجمیر میں گزارا۔ یہاں مشہورہندوعالم اور پنڈتوں سے سنسکرت سیکھی۔ البیرونی نے ان کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کو عربی میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ ہندی تہذیب پر ایک کتاب ’’کتاب الہند‘‘ لکھی البیرونی ایک ماہر ہیئت دان تھا۔ ۱۰۲۹ء میں البیرونی ہندوستان سے واپس ہوااور ہیئت اور نجوم پر ایک کتاب ’’قانونِ مسعودی‘‘ لکھی۔ دیگر اہم تصانیف میں ’’تاریخِ خوارزم‘‘ ، ’’تاریخ محمود غزنوی‘‘ ،’’کتاب التفہیم‘‘، کتاب الجماہروالجواہر‘‘ اورکتاب الدستور‘‘ قابل ذکر ہیں۔ مآخذ: -1 شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا‘ ص: ۱۹۶۔۱۹۷ ۲۔ابراہیم عمادی ندوی: مسلمان سائنسدان اور ان کی خدمات‘ ص:۱۸۲۔۲۰۲ ۱۶؎ ڈاکٹر سرضیاء الدین احمد ۱۸۷۸ء میں بمقام میٹرھ (یوپی) پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد‘ ۱۸۸۹ء میں ایم۔ اے۔او کالج علی گڑھ کے سکول سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ پھر ۱۸۹۵ء میں الٰہ آباد یونی ورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد ان کو ایم اے او کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ریاضی مقرر کیا گیا۔ بعدازاں ڈاکٹرضیاء الدین ۱۸۹۷ء میں کلکتہ یونی ورسٹی سے اور ۱۸۹۸ٰ میں الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ریاضی میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۰۱ء میں ڈی۔ایس سی کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد ٹرینٹی کالج کیمبرج میں داخل ہوئے اور ۱۹۰۳ء میں ریاضی آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ لندن کی انجمن ریاضی (Mathematical Society of London) کے ممبر بنائے گئے۔ بعدازاں انھیں Royal Astronomical Society کافیلو بھی منتخب کر لیا گیا۔ آیندہ سال وہ جرمنی چلے گئے‘ جہاں انھوں نے گوتنجن یونی ورسٹی (Gottengen University) میں کچھ حصہ جیومیٹری کی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۰۶ء میں علی گڑھ واپس آئے۔ ۱۹۱۹ء میں ان کا تقرر بحیثیت پرنسپل ایم۔اے۔او کالج ہوا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین اس کے پہلے پرو وائس چانسلر بنائے گئے۔ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۶ء تک ڈاکٹر ضیاء الدین صوبائی قانون ساز کونسل کے ممبر رہے۔ ۱۹۳۱ء میں وہ مرکزی مجلسِ قانون ساز کے ممبر منتخب ہوئے۔ وہ مرکزی مجلسِ قانون ساز میں مسلم لیگ پارٹی کے سیکرٹری بھی رہے۔ ۲۳؍دسمبر ۱۹۴۷ء کوانتقال ہوا۔ مآخذ: ۱۔ رسالہ فکرو نظر: نامورانِ علی گڑھ‘ دوسرا کارواں‘ جلد ۲۳‘ ۱۹۸۴ء ۲۔ مالک رام: تذکرہ ماہ و سال‘ ص: ۲۴۸ ۱۷؎ آئزک نیوٹن (۱۶۴۲ئ۔۱۷۲۷ئ): انگلستان میں ’’وولز تھورپ‘‘ کے مقام پر پیدا ہوا۔ بچپن ہی سے اس کا میلانِ طبع میکانکی مظاہر کی طرف تھا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہو کر سائنس اور ریاضیات کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے شائع ہونے والے اوّلین تہلکہ خیز نظریات ’’روشنی‘‘ کی ہیئت سے متعلق تھے۔ ۱۶۶۸ء میں روشنی منعکس کرنے والی پہلی دوربین کا نقشہ اورڈھانچہ تیار کیا۔ ریاضیات میں اس کی بڑی کامیابی مکمل علم الاحصاء (Calcalus) کی ایجاد ہے… اس کے سائنسی قوانین میں سب سے اہم ’’کششِ ثقل‘‘ کا قانون ہے۔ ۱۶۸۷ء میں اس کی کتاب ’’فطری فلسفہ کے ریاضیاتی قوانین‘‘ شائع ہوئی‘ اس میں اس نے اپنے کشش ثقل اور حرکت کے قوانین کوبیان کیا۔ ۱۷۲۷ء میں نیوٹن کا انتقال ہوا۔ اسے ’’ویسٹ منسٹر‘‘ کے گرجا میں دفنایا گیا‘ وہ پہلا سائنس دان تھا جسے یہ اعزاز ملا۔ مآخذ: عاصم بٹ: سو عظیم آدمی‘ ص: ۳۰۔۳۵ ۱۸؎ شیخ ابراہیم فخرالدین عراقی ہمدان کے نواح میں قریہ یکجان (باکونجان) میں پیدا ہوئے‘ وہیں بچپن میں قرآن حفظ کیا اور سترہ سال کی عمر میں ہمدان کے مدرسہ سے علوم حکمت و فلسفہ و منطق کی تعلیم مکمل کی اور بغداد چلے آئے وہاں شیخ شہاب الدین سہروردی سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ شیخ نے ان کا تخلض عراقی رکھا اور ہندوستان جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ ملتان آ کر شیخ بہاء ُ الدین زکریا ملتانی کے مرید ہوئے۔ ان سے خلافت بھی ملی اور ان کے داماد بھی ہو گئے۔ ان کا کلیات بارہا چھپا ہے۔ اس میں ۵۸۰۰ اشعار ہیں۔ ایک مثنوی‘ ’’عشاق نامہ‘‘ ہے۔ ان کے مشہور رسالہ ’’لمحات‘‘ کا موضوع تصوف ہے۔ اصطلاحات صوفیہ پر بھی ایک تالیف ہے۔ اس کے علاوہ ’’غایۃ المکان فی درایۃ الزمان‘‘ نامی فارسی رسالہ بھی ان سے منسوب بتایا جاتا ہے لیکن یہ فی الحقیقت عین القضاۃ ہمدانی کا رسالہ ہے۔ اس رسالے کا اقبال کے نظریہ زمان و مکان پر گہرا اثر پڑا اور وہ ہمیشہ اس کوعراقی کی تصنیف ہی سمجھتے رہے۔ مآخذ: ۱۔ اُرود دائرہ معارف اسلامی۔ جلد ۱۳‘ ص ۴۴۔۴۷۔ ۲۔ اعجاز الحق قدوسی: اقبال کے محبوب صوفیہ۔ ص: ۲۰۷۔۲۱۵ ۱۹؎ مولانا انور شاہ کشمیری وادیِ لولاب کے ایک قصبہ ودھورا میں ۱۸۷۵ء کو پیدا ہوئے۔ مذہبی تعلیم اپنے والد محمد معظم شاہ بن عبدالکبیر سے حاصل کی۔ پھر تحصیل علم کے لیے کشمیر سے ہزارہ پہنچے۔ کچھ دن کاکول میں مولانا فضل الدین سے اکتساب کیا۔ پھر دارالعلوم دیو بند چلے گئے۔ جہاں ۱۹۱۶ء میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے حدیث کی سند حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہو کر آپ گنگوہ تشریف لے گئے جہاں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے بیعت ہو کر ان کے خلیفۂ مجاز ہو گئے۔ ۱۸۹۷ٰ میں درس وتدریس کو اپنایااور مدرسہ امینیہ میں صدر مدرس رہے۔ ۱۹۰۵ء میں فریضۂ حج ادا کیا۔ ۱۹۰۹ء میں کشمیر آ کر بارہ مولا کے مقام پر مدرسہ فیضِ عام کی بنیاد رکھی۔ بعدازاں مولانا محمودالحسن کے کہنے پر دیوبند میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے لگے۔ ۱۹۲۶ء میں مولانا کشمیر کا دیو بند والوں سے اختلاف ہو گیا۔ انھوں نے درس و تدریس کی خدمت ترک کر دی۔ علاّمہ اقبال کو حضرت انورشاہ سے بہت عقیدت و ارادت تھی اور اکثر دینی امور میں آپ ہی سے رجوع فرماتے تھے بلکہ کئی موقعوں پر علاّمہ اقبال نے مولانا شاہؒ کی علمی‘ دینی اور فقیہی قابلیت کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس سے رہبری اوررہنمائی بھی حاصل کی۔ مولانا انور شاہ کشمیری کا ۲۹؍مئی ۱۹۳۳ء میں انتقال ہوا۔ مآخذ: ۱۔ اعجازالحق قدوسی: اقبال اور علمائے پاک و ہند‘ ص: ۲۴۴۔۲۵۴ ۲۔ کلیم اختر: اقبال اور مشاہیر کشمیر‘ ص: ۸۷۔۱۰۱ ۳۔ عبدالرشید ارشد: بیس بڑے مسلمان‘ ص:۳۷۰۔۳۹۹ ۲۰؎ نصیرالدین طوسی: دیکھئے: خط نمبر ۱۴۷‘ تعلیقہ ۳۔ ۲۱؎ گاؤس Gauss: یہ مقناطیسی لَے کی اکائی ہے۔ گاؤس انیسویں صدی کے جرمن ماہر ریاضیات اور طبیعات ’’گاؤس کارل فریڈرش‘‘ Gauss Karl Friedrich کے نام پر رکھا گیا۔ چنانچہ مقناطیسی میزان کی حدّت کی اکائی ۱۹۳۲ء تک Gauss کہلاتی تھی۔ لیکن بعد میں یہ مقناطیسی لَے کی اکائی کے لیے استعمال کیا گیا۔ مآخذ: The New Encyclopaedia Britannica, Vol: 5, P:151 ۲۲؎ Georg Friedrich Bernhar Riemann: (۱۸۲۶ئ۔۱۸۶۶ئ) جرمن ماہر ریاضیات۔ اس نے ملتف متغیرات (Comple Variables) کے تفاعلات کے نظریے اورریمانی ہندسے (Riemanian Geometry) پر تخلیقی کام کیا۔ آخر الذکر ایک غیر اقلیدسی ہندسہ ہے‘ جس سے آئن سٹائن نے بھی کام لیا۔ مآخذ: The New Encyclopaedia Britannica, Vol: 10, P:62 ۲۳؎ جدید تحریک: Hyperspace Movement( ب۔ا۔ڈار) ۲۴؎ Immanuel Kant (۱۷۲۴۔۱۸۰۴ئ) جرمن کاعظیم فلسفی۔ ۱۷۴۰ء میں وہ دینیات کے طالب علم کی حیثیت سے یونی ورسٹی میں داخل ہوا۔ لیکن اس کو زیادہ شغف ریاضیات اور طبیعیات سے بالخصوص نیوٹن کے نظریات سے ہوگیا۔ وہ گیارہ سال تک (۱۷۴۶ئ۔ ۱۷۵۵ئ) کاؤنٹ کیسل رنگ (Count Kesselring) کے خاندان میں اتالیق کے فرائض انجام دیتارہا‘ پھر ڈگری حاصل کرنے کے بعد یونی ورسٹی میں لیکچرار ہو گیا اور ۱۷۷۰ء میں منطق اور با بعد الطبیعیات کا پروفیسر مقرر ہوا۔ کانٹ کی اہم تصانیف میں ’’تنقید عقلِ محض‘‘ (۱۷۸۱ئ) ’’تنقید عقلِ عمل‘‘ اور ’’تنقیدِ تصدیق‘‘ شامل ہیں۔ علاّمہ اقبالؔ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ میں کانٹ کے فلسفے کوان الفاظ میں بیان کیا ہے: فطرتش ذوقِ مے آئینہ فامے آورد از شبستانِ ازل کوکبِ جامے آورد (کلیات فارسی‘ ص:۳۳۵) مآخذ: 1- The New Encyclopaedia Britannica, Vol: 6, P:726 2- The Encyclopaedia of Philosophy, Vol: 4, P: 305 ۳۔ جگن ناتھ آزاد: اقبال اور مغربی مفکرین ‘ ص: ۴۲۔۴۵۔ ۲۵؎ ارسطو Aristotle: چوتھی صدی قبل مسیح کا یونانی فلسفی اورسائنسدان‘ مقدونیہ کے ایک قصبہ سٹاگیرا میں ۳۸۴ق م میں پیدا ہوا۔ سترہ برس کی عمرمیں ارسطو‘ ایتھنز میں افلاطون کی ’’اکادمی‘‘ میں داخل ہوا۔ بیس برس وہ وہاں رہا۔ افلاطون کی وفات کے بعد اس نے اکادمی چھوڑ دی۔ افلاطون کی زیرنگرانی اس کی فلسفیانہ استغراق میں دلچسپی بڑھی۔ ارسطو مقدونیہ واپس آکر بادشاہ کے تیرہ سالہ بیٹے کا ذاتی معلم بنا۔ جسے بعدازاں سکندراعظم کے نام سے جانا گیا۔ سکندر کی تاج پوشی کے بعد ارسطو واپس ایتھینز آیا۔ جہاں اس نے اپنا مدرسہ ’’لائسیم(Lyceum) کے نام سے قائم کیا۔ ارسطو نے علم فلکیات‘ حیوانیات‘ عملِ تولید‘ جغرافیہ‘ علم طبقات الارض‘طبیعیات‘ علم الابدان اور علم افعالِ اعضاء کے علاوہ قدیم یونانیوں کے علم کی قریب ہر شاخ میں بے پایاں کام کیا۔ اس کا سب سے اہم کام منطق کا نظریہ تھا۔ ارسطو کو عمومی طور پر فلسفے کی اس اہم شاخ کا بانی تصوّر کیا جاتا ہے مآخذ: ۱۔ اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۲‘ ص:۳۷۷۔۳۸۳ ۲۔ عاصم بٹ (مترجم) سوعظیم آدمی۔ ص: ۸۲۔۸۶۔ ۳۔ نعیم احمد: تاریخ فلسفہ یونان‘ ص: ۱۳۷۔۱۷۶۔ ۲۶؎ Samuel Alexander (۱۸۵۹ء ۔۱۹۳۸ئ) کو مابعد الطیعیاتی فلسفے کا بانی تصوّر کیا جاتا ہے۔ اس کوابتدا ہی سے زمان و مکان کی ماہیت سے دلچسپی تھی بالآخر وہ یہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ زمان و مکان لازم و ملزوم ہیں‘ چنانچہ اس کے فکری نظام میں یہ دونوں غیر منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ جب انگریز اسکالروں نے اقبالؔ کے انسان کامل کے تصوّر کو جرمن فلسفی نطشے کے خیالات و نظریات سے ماخوذ قرار دیا تو اقبال نے اس پر بڑی برہمی ظاہر کی اور کہا کہ وہ اپنے فلسفی الیگزینڈر کے افکار تک سے تو واقف نہیں۔ اقبال نے اپنے ایک خط (محررّہ ۱۹۲۱ئ) میں ڈاکٹر نکلسن کے نام اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ الیگزینڈر کی تصانیف میں گلاسگو والے خطبات بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ جن سے اس کے غیر نفسی فلسفے کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ مآخذ: عبدالرؤف عروج: رجال اقبال‘ ص: ۲۸۴۔ ۲۸۳ ۲۷؎ اس مضمون کاانگریزی عنوان ہے: "A plea for Deeper Study of the Muslim Scientists" ہے۔ مآخذ: Latif Ahmed Sherwanni: Speeches Writings and Statements of Iqbal, P:168-178, 4th edition: 1995. لطیف احمد شیروانی کی مُرتّب کردہ مذکورہ کتاب اردو ترجمے (علاّمہ اقبال‘ تقریریں‘ تحریریں اور بیانات (مترجم اقبال احمد صدیقی) کے ساتھ ۱۹۹۹ء میں اقبال اکادمی سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں درج بالا مضمون: مسلم سائنس دانوں کے عمیق تر مطالعے کی ضرورت‘‘ (ص:۱۹۴ئ۔۲۰۴) کے عنوان سے ہے۔ ٭٭٭ معارف علمیہ علم ظاہر و باطن۱؎ اقبالؔ کا یہ مضمون اخبار ’’وکیل‘‘ (امرتسر) کے ۲۷؍جون ۱۹۱۶ کے پرچے میں شائع ہوا تھا اور ان مضامین کی ایک کڑی ہے جو ’’اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد معترضین کے جواب میں اقبالؔ نے تحریر کئے تھے۔ یہ مضمون ابھی تک کسی مجموعے میں شائع نہیں ہوا۔ حضرت مجدّد الف۲؎ ثانی علیہ الرحمہ اپنے مکتوبات ۳؎ میں کئی جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تصوف شعارحقہ اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے۔ اگرتصوف کی یہ تعریف کی جائے تو کسی مسلمان کو اس پراعتراض کرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ راقم الحروف اس تصوف کو جس کا نصب العین شعائراسلام میں مخلصانہ استقامت پیدا کرنا ہو عین اسلام جانتا ہے اور اس پر اعتراض کرنے کو بدبختی اورخسران کا مترادف سمجھتا ہے۔ لیکن اہل نظر کو معلوم ہے کہ صوفیائے اسلام میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جوشریعت اسلامیہ کو علم ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے یاد کرتا ہے او رتصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے جس کی پابندی سے سالک کو فوق الادراک حقائق کاعرفان یا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ حضرت معروف۴؎ کرخی غالباً پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے تصوف پر بحیثیت ایک علمِ حقائق ہونے کے نگاہ ڈالی لیکن مسلمانوں میں اس کے حقیقی مدوّن حضرت ذوالنون مصری ہیں۵؎ جو اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے عالم تھے‘ مالک بن انس۶؎ کے شاگرد تھے اور مالکی مذہب رکھتے تھے۔ فقہی علوم میں پورے ماہر ہونے کے علاوہ علم کیمیا کے ساتھ ان کو خاص دلچسپی تھی۔ پانی کی تحلیل پہلے پہلے انھوں نے کی اور ثابت کیا کہ یہ مفردات سے مرکب ہے۔ جو آدمی علم مظاہر سے اس قدر دلچسپی رکھتا ہو اس کے دل میں عالم کے کنہ اور حقیقت معلوم کرنے کی آرزو پیدا ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ حضرت ذُوالنوُّن نے معروف کرخی کے خیال کو اور وُسعت دی اور فرمایا کہ تصوف توحید کے اسرار کا علم حاصل کرنے کا نام ہے اور اس علم کا انتہائی نکتہ یہ ہے کہ عارف و معروف ایک ہی شے ہے۔ تاریخ تصوّف ۷؎ ؎ میں ہم تصوف کی اس تعریف پر مفصل بحث کریں گے اور دکھائیں گے کہ یہ تعریف کس طرح بتدریج وضع ہوئی اور کیوں مصروشام کے صوفیا کے ساتھ اس کا خاص تعلق ہے۔ اس وقت صرف اس قدر یاد رکھنا کافی ہے کہ صوفیا کے اس گروہ کے خیالات کی عمارت کا بنیادی پتھر علمِ ظاہر اورعلمِ معارف کاامتیاز ہے۔ بعض صوفیا اس امتیاز کو علمِ حصول اور علمِ حضوری کے امتیاز سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ امتیاز نتائج کے اعتبار سے نہایت خطرناک تھا اورجو اثر اس نے مسلمانوں کے علوم‘ ان کے ادبیات اور ان کے تمدن و معاشرت اور سب سے بڑھ کر ان کے شعار ملّیہ پر کیا وہ ایک سخت افسردہ کرنے والی داستان ہے جو اپنے موقع پر مفصل بیان کی جائے گی مگر اتنی بات ظاہر ہے کہ یہ امتیاز اور معرفت کوعلم پر ترجیح دینا مذہبی اعتبار سے ہر قسم کی رہبانیت کی جڑ ہے اور علمی اعتبار سے ان تمام علوم حِسیّہ عقلیہ کی ناسخ ہے جن کی وساطت سے انسان نظام عالم کے قویٰ کو مسخر کر کے اس زمان و مکان کی دنیا پر حکومت کرنا سیکھتا ہے۔ یہی امتیاز عیسوی رہبانیت کی جڑ ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف (۵۷‘۲۷) میں فرمایا: رہبانیت ابتد عوھا…۸؎ الخ‘‘(یعنی وہ رہبانیت جس کو عیسائیوں نے ایجاد کیا) مگرہر مستعد قوم کی دماغی اور روحانی تاریخ میں ایک مماثلث ہوتی ہے۔ مسلمان بھی اس رہبانیت سے بچ نہ سکے جس کی حقیقت سے قرآن نے انھیں آگاہ کر دیا تھا اور آج وہ آیت جو عیسائی راہبوں کے متعلق نازل ہوئی تھی خود مسلمانوں پر صادق آتی ہے حالانکہ اکابرِ اسلام وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو رہبانیت کے خلاف متنبہ کرتے رہتے۔ مثلا سیدالسادات ابومحمد حضرت۹؎ غوث الثقلین ’’فتوح الغیب‘‘ مقالہ ۳۶ میں فرماتے ہیں: واتقواللہ ولا تخالفوہ فتترکو العمل بما جایہ و تخترعوا الانفسکم عملا و عبادۃ کما قال اللہ فی حق قوم ضلوا عن سواالسبیل ورہبانیۃ ابتدعوھا ماکتبنا ھا علیہم…الخ (۵۷‘۶۷) (یعنی) اللہ سے ڈرتے رہو‘ اس کے خلاف نہ کرو اس طرح پر کہ ترک کر دو ان احکام کو جو اللہ کے رسول لاتے ہیں اور اپنے پاس سے بدعتیں ایجاد کرنے لگو جیسا کہ خود خداوندتعالیٰ نے گمراہ قوم (عیسائی) کے حق مں فرمایا ہے کہ انھوں نے رہبانیت کی بدعت نکالی جو ہم نے ان پر فرض نہ کی تھی۔ خدا کی رحمت ہو سیدالطائفہ حضرت جنید بغدادی۱۰؎ ؎ پر کہ انھوں نے اس رہبانیت کی جڑ یعنی امتیاز علم و معرفت کے پیدا ہوتے ہی اس کے خطرناک نتائج کااحساس کر کے اس کی مخالفت کی۔ حال میں فرنساوی مستشرق موسیو میسیسناں۱۱؎ نے منصور حلاج۱۲؎ کا مشہور مگر نایاب رسالہ موسوم بہ ,,کتاب الطواسین۱۳؎ ؎ ،،جس کاذکر ابن الندیم۱۴؎ نے ’’کتاب الفہرست‘‘۱۵؎ میں کیا ہے مع حواشی کثیرہ شائع کیا ہے۔ اس رسالے میں مؤلف نے حضرت جنید کی ’’کتاب المیثاق‘‘ سے مندرجہ ذیل فقرہ اقتباس کیا ہے (کتاب الطواسین صفحہ ۱۹۵)جس سے حضرت سید الطائفہ کے حالات ناظرین کو معلوم ہو ں گے۔ قال الجنید العلم ارفع من المعرفۃ واتم واشمل و اکمل تسمی اللہ بالعلم ولم تسمی بالمعرفۃ و قال ’’والذین اوتوا العلم درجات‘‘(۵۸‘۱۲۷) ثم لما خاطب النبی صلعم خاطبہ باتم الاوصاف واکملھا و اشملھا للغیرات۔ فقال فاعلم انہ لاالہ الا اللہ ’’(۴۷‘۲۱) ولم یقل فاعرف‘‘ لان الانسان قدیعرف الشئی ولا تحیط بہ علماً واذعلمہ و احاطہ بہ علما فقد عرفہ۔ (ترجمہ) فرمایا جنید نے علم معرفت سے بلند تر‘ کامل تر اور جامع تر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ علم منسوب کیا جاتا ہے۔ نہ معرفت۔ اور فرمایااللہ تعالیٰ نے ’’والذین اوتوالعلم درجات‘‘ پھر جب اللہ تعالیٰ نے نبی صلعم کو مخاطب کیا تو کامل ترین اور اعلیٰ ترین اوصاف کے ساتھ مخاطب فرمایا یعنی فرمایا کہ جان لے کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے‘ اور یہ نہ فرمایا پہچان لے کیونکہ انسان کسی شئے کی معرفت رکھ سکتا ہے حالانکہ ازروئے علم اس کا احاطہ نہ کیا گیا ہو‘ اور جب انسان کسی شے کا ازروئے علم احاطہ کر لیتا ہے تو یہی اس شئے کی معرفت ہے۔ غرض کہ صوفیا کے اس گروہ کے نزدیک (۱) معرفت یا علم باطن ایک مُرتّب و منظم دستور العمل ہے جو شریعت اسلامیہ سے مختلف ہے اور جس کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے بعض کو دی اور بعض کو نہ دی۔ (۲) یہ علم باطن حضرت علی۱۶؎ ؎ سے خواجہ حسن بصری۱۷؎ کو پہنچا اور ان سے سلاسل تصوف کی وساطت سے سینہ بہ سینہ اُمّتِ مرحومہ کی آئندہ نسلوں کو پہنچا ہے۔(۳) اس دستور العمل کی پابندی سے سالک کو مشاہدہ حقائق ہو جاتا ہے اور اس مشاہدہ کا انتہائی کمال اس امر کا عرفان ہے کہ خارجی اشیاء بہ اعتبار تعین کے غیر خدا ہیں اور بااعتبار ذات کے عین خدا اور جو تفریق ان اشیاء میں نظر آتی ہے وہ ہماری قوت واہمہ کا تصرف ہے یعنی موجود فی الخارج کی کثرت محض فریب نظر ہے یا ہندوؤں کی اصطلاح میں ’مایا‘ ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہو کہ اس دستور العمل کی پابندی سے انسان آخرکار قوتِ واہمہ کے بے جا تصرف سے نجات پاجاتا ہے جس کی وجہ سے ہم ذات واحد کو کثرت کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان بزرگوں کے نزدیک بھی تحقیق توحید عرفانی کہلاتی ہے۔ اس مضمون میں ہم صرف نمبر(۱) و (۲) پربحث کریں گے۔ نمبر (۲)و (۳) کو بخوف طوالت نظرانداز کرتے ہیں۔ انشاء اللہ ان پر ایک علیحدہ مضمون لکھا جائے گا۔ احادیث صحیحہ میں کوئی ایسی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری جس سے یہ معلوم ہو کہ نبی کریمؐ نے علوم رسالت میں سے کوئی خاص علم بعض صحابہ کو سکھایا اور بعض سے اسے چھپایا۔ بادی النظر میں بھی یہ بات خلافِ شان رسالت محمدیہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ آخری رسالت تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے اور ایسا عقیدہ رکھنا حقیقت میں بعض جلیل القدر صحابہ کی توہین ہے۔ علاوہ اس لیے ممکن نہیں کہ نصِ صریح کے ہوتے ہوئے نبی کریمؐ نے علومِ رسالت میں سے بعض کو چھپایا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان الذین یکتمون ما انزلنامن البینات والھدی (۲‘۱۵۹) اس آیہ کریمہ سے ظاہر ہے کہ اگرعلم باطن کا تعلق بَیِّنَات اور ہدایت سے ہے تو معاذ اللہ‘ رسول اللہ صلعم اس گروہِ صوفیہ کے عقیدے کے مطابق آیت مذکورہ کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بہرحال چونکہ بار نبوّت ان لوگوں پر ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ علم باطن علوم رسالت میں سے ایک علم ہے جس کی تعلیم نبی کریم نے صرف بعض صحابہ کو دی ہے اس واسطے جو ثبوت ان بزرگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اس کا وزن کرنا ضروری ہے۔ چند سال ہوئے سید محمد فایق نظامی نیازی۱۸؎ نے ایک رسالہ موسوم بہ ’’تحقیق الحق فی الجود المطلق‘‘ لکھاتھا۔ اس رسالہ میں مسئلہ وحدت الوجود۱۹؎ ؎ کو جس طرح پیش کیاگیا ہے اس کی تنقید تو ہم اور موقع پر کریں گے فی الحال ہم اس روایت کاامتحان کرنا چاہتے ہیں جس کوانھوں نے عقیدہ مذکور کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ نظامی صاحب وحدت وحدت الوجود کے دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کلمۂ توحید کے دو اجزاء ہیں یعنی لاالہ اللہ اور محمد رسول اللہ۔ پہلا جزو ظرف اور مآخذ ہے علم شریعت کا اور دوسرا جزو مآخذ ہے علم تصوف وجودی کا‘ جس کو علم ِ باطن بھی کہتے ہیں اس تشریح کے بعد صاحب موصوف حضرت ابوہریرہؓ۲۰؎ کی مشہور روایت کی تشریح کرتے ہیں۔ وہ روایت یہ ہے : عن ابی ہریرہ قال حفظت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعائین فاما احد ھما…(مشکوٰۃ بحوالہ بخاری) یعنی حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ ’’یاد رکھئے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برتن یعنی دو طرح کے علم‘ ایک علم کوتو میں نے پھیلایا اور دوسرا علم ہے کہ اگر میں اسے پھیلاؤں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے‘‘۔ نظامی صاحب کی رائے میں دو برتنوں میں سے یادو علموں سے ایک علم تو شریعت کا ہے جس کا مآخذ کلمۂ توحید کا جزو اوّل ہے اور دوسرا علم‘ علم تصوّر وجودی یا علم باطن ہے جس کے ظاہر کرنے سے وہی انجام ہوتا ہے جو حسین بن منصور کا ہوا۔ اس روایت میں لفظ ’’وعائین‘‘ سے دو مختلف اقسام کے مُرتّب و منطم علم مراد لینا محض زبردستی ہے۔ ’’وعا‘‘ کے معنی ابن اثیر۲۱؎ نے ’’نہایہ‘‘ میں ظرف اور مجازاً محل علم کے لکھے ہیں۔ بس صاف اور سیدھے معنی اس روایت کے یہ ہیں کہ دو قسم کی باتوں کی آگاہی حضرت ابوہریرہؓ کو نبی کریمؐ نے دی۔ ایک تو متفرق احکامِ دین جن کو انھوں نے خوف کے مارے شائع نہ کیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا باتیں تھیں جن کو ابوہریرہؓ نے خوفِ جان کی وجہ سے شائع نہیں کیا؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے حضرت ابوہریرہؓ کے دیگر اقوال کو دیکھنا ضروری ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں ’’اعوذ باللہ من راس الستین و امارۃ الصبیان‘‘ یعنی میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں سن ۶۰ کے شروع اور لڑکوں کی حکومت کے۔ حضرت ابوہریرہؓ جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں اوروں کی نسبت زیادہ نبی کریمؐ کی صحبت میں رہے۔ ان کو بعض وہ پیشگوئیاں بھی معلوم تھیں جورسول اللہ صلعم نے مسلمانوں کی خانہ جنگیوں اور فتنوں کے متعلق کی تھیں جن کا ظہور عنقریب ہونے والا تھا۔ اور چونکہ ابوہریرہؓ کوان جلیل القدر لوگوں سے جو بعد میں ان فتنوں میں نمایاں حصہ لینے والے تھے بصورت ان باتوں کااعلان کر دینے کے جان کااندیشہ تھا اس واسطے وہ کبھی صریحاً ان باتوں کا ذکر نہ کرتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی اشارۃً ذکر فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً ’’اعوذ باللہ من راس السنین…‘‘ ابن حجر عسقلان۲۲؎ ؎ ’’فتح الباری‘‘۲۳؎ (شرح بخاری) میں فرماتے ہیں (جلد۱۔صفحہ ۱۹۳) و محل العلما الوعا الذی لم بینہ علی الا حادیث النبی فیھایتین اسامی امرا عالسوواحوالھم و زمنھم و قدکان ابوہریرہ یکتی عن بعضہ ولا بصرح بہ خوفا علیہ نفسہ منھم کفولہ اعوذ باللہ من راس السنین وامارۃ الصبیان بشیر الی خلافۃ یزید بن معاویہ من الھجرۃ استعجاب اللہ دعا ابی ہریرہ فمات قبلھا‘‘ ۲۴؎ (ترجمہ) علماء نے اس دعاکا جس کو ابوہریرہؓ نے شائع نہیں کیا یہ مفہوم سمجھا ہے کہ اس سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں بڑے امرا کے نام‘ ان کے احوال اور ان کے زمانوں کے کوائف درج ہیں اور ابوہریرہؓ کنایۃً ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ڈر کے مارے ان کو مفصل نہ کہتے تھے۔ جیسے ان کا قول ’’اعوذ باللہ من راس‘‘ ہے اور اس میں اشارہ ہے یزید ابن معاویہ کی خلافت کی طرف کیونکہ یہ سن ۶۰ھ میں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ابوہریرہؓ کی دعا قبول کر لی اور وہ خلافتِ یزید سے پہلے ہی رحلت کر گئے۔ اس تشریح کے بعد امام بن حجر عسقلان نے ابن منین۲۵؎ ؎ کاایک قول نقل کیا ہے جس پر حضرات صوفیہ وجودیہ کوغور کرنا چاہیے۔ ’’قال ابن المنین جعل الباطنیۃ ہذا الحدیث ذریعہ الی تصحیح باطلھم حیث اعقدوان اللشریعۃ ظاہراوباطنا و ذالک الباطل‘‘۲۶؎ (ترجمہ) ابن منین کہتے ہیں کہ اس حدیث (یعنی مذکورہ بالا روایت ابوہریرہؓ) کو فرقہ باطنیہ نے اپنے باطل عقیدوں کے صحیح ثابت کرنے کاذریعہ بنایا ہے کیونکہ ان کاعقیدہ ہے کہ شریعت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ حالانکہ ایسا خیال باطل ہے۔ ابنِ منین۲۸؎ کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ روایت ابوہریرہؓ کی یہ تشریح پہلے پہل فرقہ باطنیہ نے کی اور چونکہ صوفیہ وجودیہ کو فرقہ باطنیہ سے ایک گہرا معنوی تعلق ہے جس کا مفصل ذکر پھر کبھی کیا جائے گااس واسطے صوفیائے وجودیہ نے طبعی مناسبت کی وجہ سے یاعمداً اس تشریح کوان سے اختیار کر لیا۔ فرقہ باطنیہ کے لوگ اکثر ایرانی تھے اورایرانی دماغ اس قسم کی تاویلات و تشریحات میں کمال رکھتا ہے۔ مگر ہمارے خیال کی تائید میں قوی ترین ثبوت بخاری کی ایک اور حدیث ہے جس کوحضرت ابوہریرہؓ نے روایت کیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے: ’’حدثنا عبدالعزیز… عن ابی ہریرہ قال ان الناس یقولان اکثر ابی ہریرہ ولولا ایتان فی کتاب اللہ ما حدیث حدثنا ثم یتلواان الذین یکمتون ماانزلنا من البینات والہدیٰ‘‘۲۹؎ ؎ ۔ نوٹ: حدیث مذکورہ میں ایک ہی آیت درج ہے‘ دوسری کا ذکر نہیں مگر دوسری آیت بھی اس سورۃ میں ہے اور یہ ہے ’’ان الذین یکمتون ما انزل اللہ من الکتب‘‘ اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ علوم رسالت کو جو ان کے دماغ میں محفوظ تھے۔ شائع کرنا آیات مذکورہ کی تعمیل میں اپنا فرض سمجھتے تھے۔ آیہ کریمہ مذکورہ سے ظاہر ہے کہ جن امور کاتعلق ہدایت و بیّنات سے ہو ان کا کتمان احکامِ الٰہی کے خلاف ہے اور حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں اس آیت کی وجہ سے علوم رسول سے جو کچھ مجھے معلوم ہے‘ اس کی اشاعت کرتا ہوں۔ بس نتیجہ بالکل صاف ہے کہ اگر علوم باطن کا تعلق ہدایت دنیا سے ہے اور بقول حضرت صوفیہ وجودیہ ہونا چاہیے تو حضرت ابوہریرہؓ جو اپنے آپ کو آیت مذکورہ کا عامل بتاتے ہیں ان کا کتمان کر ہی نہیں سکتے اور اگر انھوں نے کتمان کیا ہے توضرور ہے کہ جن باتوں کو عامۃُ المسلمین سے انھو ںنے چھپایا ہے ان کا تعلق ہدایت و بیّنات سے نہ ہو۔ پس معلوم ہوا کہ جن باتوں کو حضرت ابوہریرہؓ نے بخوف جان چھپایا ہے ان کا تعلق حقائق اسلامیہ سے مطلق نہ تھا۔ تعلیقات ۱؎ مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی اشاعت ستمبر ۱۹۱۵ء میں ہوئی‘ اس کے بارہ صفحات پر مشتمل دیباچے اور خواجہ حافظ شیرازی کی شاعری پرتنقید جو ۳۵اشعار پر مشتمل ہے‘ اس پر بعض شخصیات کی جانب سے بہت سخت علمی احتجاج ہوا۔ فریقین میں یہ عملی معرکہ دو سال تک جاری رہا جو بالآخر اکبر الٰہ آبادی کی مداخلت اور مشاورت سے ختم ہوا۔ مگر اس دوران میں علاّمہ اقبال نے اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر میں تصوّف کے چند خاص موضوعات پر اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت اور دفاع میں چارمستقل مضامین اردو زبان میں لکھے۔ اسی سلسلے کا یہ مضمون ’’علم ظاہر وعلم باطن‘‘ ہے۔ اس مضمون کا تذکرہ اقبالؔ کے مکاتیب میں بھی ہوا ہے۔(بنام خان نیاز الدین خان ۸؍جولائی ۱۹۱۶ئ) یہ مضمون اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ علاّمہ اقبال نے اس میں شریعت کو ’’علم ظاہر‘‘ اور تصوف کو’’علم باطن‘‘ قرار دینے والوں پر ایک تنقیدی اورتحقیقی نظر ڈالی ہے۔ ۲؎ شیخ بدرالدین ‘ ابوالبرکات‘ امامِ ربّانی‘ مُجدّد الف ثانی‘ شیخ احمد سرہندی ۱۵۲۴ء میں سر ہند شریف میں پیدا ہوئے۔ اپنے روحانی مقام و مرتبے کے باعث مجدّد الف ثانی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ سترہ برس کی عمر میں علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد آگرہ تشریف لے گئے اور یہاں پر ابوالفضل اور فیضی سے ملاقات ہوئی۔ خلافت حضرت شاہ کیتھلی قادری سے حاصل کی۔ والد کی وفات کے بعددہلی تشریف لائے اور حضرت باقی باللہؒ کے مرید ہوئے۔ آپؒ نے تصوف میں پیدا ہونے والے گُمراہ کُن نظریات بالخصوص مسئلہ وحدتُ الوجود کے مقابلے میں وحدت الشہود کا تصوّر پیش کیا۔ اپنے عہد کے اکابرین کی اصلاح وتزکیہ کے لیے انھیں مکاتیب لکھے جو صوفیانہ لٹریچر میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں۔ علاّمہ اقبال بھی وحدت الوجود کے بجائے وحدت الشہود کے قائل ہیں۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کے ضمن میں پیدا ہونے والے قضیے میں آپؒ نے مجدّد الف ثانی کے نقطۂ نظر کوپیش کیا ہے۔ عہدِجہانگیری میں آپ کو گوالیار کے قلعہ میں قید رکھا گیا مگر آپؒ نے قید میں بھی اصلاح و تبلیغ کا مشن جاری رکھا۔ رہائی کے بعد زیادہ وقت سرہند میں گزارا اور یہیں ۱۶۲۴ء کو تریسٹھ برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ آپؒ سے تصوّف کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو مجدّدیہ ہے۔ مآخذ: ۱) ملک حسن اختر‘ ڈاکٹر: اقبالؔ اور مسلم مفکرین‘ ص:۲۱۳۔۲۳۳ ۲) اعجاز الحق قدوسی: اقبال اورعلمائے پاک و ہند‘ ص:۸۹۔۱۰۸ ۳) اعجازالحق قدوسی: اقبال کے محبوب صوفیہ‘ ص: ۴۴۰۔۴۶۸ ۳؎ مجددّ الف ثانیؒ نے تزکیہ وتصوف اوررُشدوہدایت کے سلسلے میں مکتوبات کااسلوب اختیار کیا۔ آپؒ کے یہ مکاتیب تین جلدوں میں ۵۳۶ کی تعداد میں شائع ہوچکے ہیں‘ یہ مکاتیب فارسی میں لکھے گئے بعدازاں اردو میں بھی ترجمہ ہوئے۔ یہ مکاتب ان کی سب سے بڑی علمی‘ تجدیدی اوراصلاحی کاوش ہے‘ جس سے تصوّف میں شامل بعض عجمی تصوّرات کی شدّت سے نفی کی گئی ہے۔ یہ مکتوبات اسرارِ تصوّف اور رموزِ شریعت کا مجموعہ ہیں۔ مآخذ: اردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘ جلد:۲‘ص:۱۶۰۲۔ ۴؎ اسم گرامی معروف اور کنیت ابو محفوظ تھی۔ والد ماجد کا نام فیروزان تھا۔ پہلے اپنے آبائی دین آتش پرستی پر قائم تھے۔ متقدمین مشائخ میں سے تھے اور حضرت شیخ سرّی سُقطی کے استاد ۔ عبدالرحمن جامیؔ نقشبندی نے آپ کو اپنی کتاب نفحات الانس میں بہترین الفاظ سے یاد کیا ہے۔ آپ نے حضرت علیؓ بن موسیٰ رضاؓ کے دستِ راست پراسلام قبول کیا اور پھر اپنے والدین کو بھی اسلام سے مشرف فرمایا۔ علاّمہ عبدالوہاب لکھتے ہیں کہ آپ حضرت امام علیؓ بن موسیٰ رضاؓ کے آزاد کیے ہوئے تھے۔ آپ حضرت داؤد طائی کی بھی صحبت میں رہے۔ آپ مُستجابُ الدَعوات تھے۔ آپ نے علوم دینیہ کی تحصیل و تکمیل حضرت سیدّنا امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہؒ کوفی سے کی۔ بیعت ظاہری حضرت سیدنا حبیب عجمی سے بھی کی‘ اس طرح آپ تبع تابعین کی مقرب صف میں شامل تھے۔ وفات بغداد میں ۲۰۰ھ یا ۲۰۶ھ میں پائی۔ مآخذ: ۱) اُردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ جلد: ۲۱‘ص:۳۶۶۔۳۶۷ ۲) محمد دین کلیم قادری: تذکرہ مشائخِ قادریہ‘ ص:۷۹۔۸۰ ۵؎ ابوالفیض‘ ثوبان بن ابراہیم المصری ابتدائی دور کے صوفی بزرگ ہیں۔ بالائی مصر کے ایک قصبے ’’رِخّمیم‘‘ میں ۱۸۰ھ کے قریب پیدا ہوئے‘ ان کے والد نوبیہ کے رہنے والے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ ایک آزادشدہ غلام تھے۔ انھوں نے طب اور علم الکیمیا کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہوا تھا۔ ان کے افکار پر یونانی تعلیمات کا اثر بھی موجود تھا۔ ان کے استاد اورمرشد سعدون مصری بتائے جاتے ہیں۔ ذوالنوان نے مکہ مکرمہ‘ دمشق اورکچھ دوسرے شہروں کی سیاحت کی۔ معتزلہ نے ان سے معاندانہ سلوک کیا۔ آخر عمر میں بغداد میں قید ہوئے خلیفہ متوکل نے انھیں رہا کر دیا‘ اور مصر واپس آگئے‘ جہاں ۲۴۶ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ذوالنون رئیس الصوفیہ کہلاتے ہیں۔ سحر اور کیمیا کی چند کتابیں ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ مآخذ: ۱) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۱۰‘ص: ۶۳۔۶۵ ۲) فریدالدین عطّار: تذکرہ الاولیا‘ ص:۸۵۔۹۸ ۶؎ مالک بن انسؓ الاصبحی قریشی اور عرب تھے۔ آپ ۹۳ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ابتدا میں اپنے بھائی کی مدد کرتے رہے‘ جو بزاز تھے۔ والدہ کی ترغیب وتربیت سے قرآن مجید حفظ کیا اورتجوید سیکھی‘ پھر مستقلاً فقہ پرتوجہ کی… ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے فقہ اورحدیث میں استفادہ کیا۔ تعلیم کے بعد درس و تدریس میں مصروف ہوئے۔ صلح کی طرف سخت میلان تھا اور جدال کو ناپسند کرتے تھے۔ امام مالک کو طلاق بالجبر کے موضوع پر جسے وہ ناجائز خیال کرتے تھے‘ ابتلاء کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی ابتلاء کے اثرات سے ۱۷۹ء میں وفات پا گئے اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ اپنے عہد کے عظیم محدث تھے۔ مؤطا امام مالک حدیث میں آپ کا شاہکار ہے‘ انھیں امیرالمومنین فی الحدیث‘ امام فی الحدیث اور امام فی السنۃ کہا جاتا ہے۔ مآخذ: ۱) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۱۸‘ ص: ۳۷۲۔۳۸۶ ۲) ملک حسن اختر: ڈاکٹر:اقبال اور مسلم مفکرین‘ ص: ۱۹۔۲۳ ۷؎ مکاتیبِ اقبال کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ علاّمہ اقبال نے ۱۹۱۵ء کے اواخر سے ۱۹۱۹ء کے اوائل تک ’’تاریخِ تصوف‘‘ کے بارے میں ایک مستقل کتاب لکھنے کا ارادہ کیا (خطوط بنام خان محمد نیاز الدین خان: ۱۳؍فروری ۱۹۱۶ئ‘ اور مولانا اسلم جیراجپوری:۱۷؍مئی ۱۹۱۹ئ) ’’تاریخِ تصوف‘‘ پرعلاّمہ اقبالؔ کی یہ کتاب شائع نہ ہوسکی اور نہ ہی یہ مکمل ہوئی۔ اس کے ابتدائی دو مکمل ابواب اوربقیہ نا مکمل ابواب کوصابر کلوروی صاحب نے مُرتّب کر کے مارچ ۱۹۸۵ء میں شائع کرادیا ہے۔ ۸؎ ’’…ورہبانیۃ ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الا ابتغآء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا…‘‘ (ترجمہ)’’…اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کر لی۔ ہم نے اسے ان پر واجب نہیں کیا تھا مگر انھوں نے اللہ کی خوشنودی کی طلب میں (یہ بدعت ایجاد کر لی) لیکن جیسا اس کو نباہنا چاہیے تھا نہ نباہ سکے‘‘۔ (الحدید:۵۷:۲۷) مآخذ: القرآن الکریم و ترجمہ معانیہ و تفسیرہ الی اللغۃ الاردیہ تفسیر از مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کے حاشیے میں لکھتے ہیں: ’’…حضرت مسیحؑ کے متبعین نے بے دین بادشاہوں سے تنگ ہو کر اور دنیا کے مخمصوں سے گھبرا کر ایک بدعت رہبانیت کی نکالی‘ جس کا حکم اللہ کی طرف سے نہیں دیا گیا تھا‘ مگر نیت ان کی یہ ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں‘ پھر اس کو پوری طرح نباہ نہ سکے…‘‘ مآخذ: القرآن الکریم وترجمۃ معانیہ وتفسیرہ الی اللغۃ الاردّیۃ‘‘ تفسیر اس مولانا سید شبیر احمد عثمانی‘ص: ۷۱۸‘ بحوالہ: عبدالجبار شاکر: اقبال کی غیر مدوّن نثر (مقالہ: ایم فل)‘ غیر مطبوعہ‘ ص: ۲۷۳۔ ۹؎ آپ کا نام عبدالقادر‘ کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین تھا۔ متاخیرین نے فرطِ عقیدت سے غوث الثقلین جیسے متعدد القاب کااضافہ کیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک ان کاسلسلۂ نسب حضرت امام حسینؑ سے جا ملتا ہے۔ دیباچۂ ’’فتوح‘‘ میں انھیں نہ صرف حسنی بلکہ حسینی بھی لکھا گیا ہے۔ طبرستان کے نواح میں قصبہ جیلان (جسے گیلان بھی کہتے ہیں) ۱۰۷۷ئ/۱۰۷۸ء میں پیدا ہوئے۔ نوّے سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ عمر کا بیشر حصہ بغداد میں گزارا‘ یہیں وفات پائی اور یہیں پر ان کی تدفین ہوئی۔ مسلک کے اعتبار سے حنبلی فقہ سے منسلک تھے۔ ان کے تبحرِ علمی کی یادگار ’’غنیۃ الطالبین‘‘ اور ’’فتوحُ الغیب‘‘ ہیں۔ آپ کی تصنیف ’’فتوح الغیب‘‘ ساڑھے تین سو سال سے پردۂ غیب میں تھی۔ عبدالحق محدّث دہلویؒ (المتوفی ۱۰۵۱ئ) فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ معظمہ گئے تو اس کتاب کا ایک نسخہ انھیں شیخ عبدالوہاب المتقی قادری کے ہاں نظر آیا۔ ’’فتوح الغیب‘‘ عربی میں تھی‘ شیخ عبدالحق نے اس کا فارسی میں ترجمہ کر دیا اور ’’مفتاح الفتوح‘‘ کے نام سے شرح بھی لکھی۔ یہ کتاب حمدونعت کے بعد اٹھہتر مقالوں میں منقسم ہے۔ آخر میں چند ورق مصنف کے جالات‘ مرض اور وفات سے متعلق مُرتّب نے اضافہ کیے ہیں۔ مآخذ: ۱) عبدالماجد دریابادی: تصوفِ اسلام‘ ص: ۱۰۰۔۱۱۷ ۲) شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا‘ ص: ۱۰۴۱۔۱۰۴۲ ۱۰؎ حضرت جنید بغدادی کی کنیت ابوالقاسم اور آپ کا لقب قوار بری اور زجاج و خزاز ہے۔ قوار بری اور زجاج آپ کو اس لیے کہتے ہیں کہ آپ کے والد محمد بن جنید آبگینہ فروشی اور شیشے کی تجارت کرتے تھے۔ آپ خود موزہ دوزی کا کام کرتے تھے‘ اس لئے آپ کو خزاز کہا جات اہے۔ آپ کاآبائی وطن نہاوند تھا لیکن آپ بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت سرّی سقطی کے خواہرزادے‘ مرید اور خلیفہ تھے۔ آپ نے ۲۹۷ھ میں وفات پائی۔ ابن الاثیر نے انھیں ’’امامِ زمانہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مذہب صوفیہ کے بھی امام سمجھے جاتے ہیں‘ انھوں نے مسلک صوفیہ کو کتاب و سنت کی روشنی میں ضبط کیا ہے۔ ذوالنون مصری کے صوفیانہ خیالات کو آپ نے مُرتّب کیا اور اسی میں تصوف کے اصل نظریہ کو پہلی مرتبہ پیش کیا۔ مآخذ: ۱) فرید الدّین عطّا ؒ: تذکرۃ الاولیا‘ ص‘۲۱۵۔۲۲۹ ۲) اعجاز الحق قدوسی: اقبال کے محبوب صوفیہ‘ ص: ۲۴۔۲۷ ۱۱؎ لوئی میسینوُن (Louis-Massionon) ۲۵؍جولائی ۱۸۸۳ء کو پیرس کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا والد فرڈی نینڈ میسینون ایک ماہر مجسمہ ساز اور مصور تھا۔ میسینوُن ۱۸۹۳ء سے ۱۸۹۹ٰ تک پیرس میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ ۱۹۰۱ء میں اسے پہلی مرتبہ مسلم ممالک کے مطالعاتی دورے کا موقع ملا۔۱۹۰۶ء میں عربی زبان میں ڈپلوما حاصل کرنے کے بعد قاہرہ میں ملازمت اختیار کی۔ اسی دوران میں اسے حلاج کی ’’کتاب الطواسین‘‘ دیکھنے کااتفاق ہوا۔ ۱۹۱۳ء میں اس نے اس کو مفید حواشی اور مقدمے کے ساتھ مُرتّب کر کے شائع کیا۔ اسی کتاب کو مزید تحقیقات کے ساتھ ۱۹۲۴ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے پیش کیا۔ اقبال کو لوئی میسینوُن کی تحقیقات سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ چنانچہ گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان جاتے ہوئے علاّمہ نے پیرس میںاس سے ملاقات کی۔ میسینون ۱۹۵۳ء میں ہندوستان بھی آیا۔ ۱۹۶۲ء میں پیرس ہی میں اس کاانتقال ہوا۔ مآخذ ۱) محمد صدیق: علاّمہ اور ان کے بعض احباب‘ ص:۹۶۔۱۰۵ ۲) صابر کلوروی‘ پروفیسر: تاریخِ تصوّف‘ ص: ۷۹۔۸۰۔ ۱۲؎ حسین بن منصور حلّاج ۷۰۸ء کے لگ بھگ قریہ طور ضلع بیدہ میں پیدا ہوئے۔ جو شیراز سے چھ فرسنگ دور ہے۔ ان کے والد دھنیے تھے جو طور سے واسطہ چلے گئے۔ آپ نے عربی میں مہارت پیدا کی‘ قرآن حفظ کیا اور اس کے رمزی معانی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش شروع کی۔ تستر میں آپ سہل تستری کے شاگرد ہوئے اور ان سے تصوف کے رموز سیکھے۔ ۱۸؍برس کی عمر میں بصرہ پہنچے اور عمر و مکی سے خرقۂ تصوّف حاصل کیا۔ چھبیس کی عمر میں پہلاحج کیا اور واپس آکر وعظ ونصیحت کرنے لگے لیکن معتزلہ اور غالیوں کاایک گروہ ان سے الجھ پڑا اور انھیں بدنام کیا۔ تیسرا حج کرنے کے بعد بغداد آئے اور گلی کوچوں میں کہتے پھرتے کہ مجھے قتل کر دو۔ میرا قتل تم پر مباح ہے۔ وہ سنی العقیدہ تھے۔ وزیر حامد نے علما کے ایک گروہ سے فتویٰ حاصل کر کے خلیفہ سے ان کے قتل کا حکم صادر کروا دیا‘ چنانچہ ۹۲۲ء کو انھں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ مآخذ: ۱) ملک حسن اختر ‘ ڈاکٹر‘ اقبال اور مسلم مفکرّین‘ ص: ۲۵۔۴۲ ۲) فریدالدّین عطّار: تذکرۃ الاولیا‘ ص: ۲۸۲۔ ۲۹۱ ۱۳؎ ’’کتاب الطواسین‘‘ حسین بن منصور حلاج کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کا مرکزی اور محوری موضوع حضورؐ کی ذاتِ گرامی ‘ واقعۂ معراج اور نورِ محمدؐ کی حقیقت ہے۔ یہ کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے‘ جس میں پہلا باب ’’طاسین السراج‘‘ اور آخری باب ’’بستان المعرفہ‘‘ ہے یہ کتاب حلاج کی ان کتابوں اور رسالوں میں سے ایک ہے‘ جواس نے اپنے ایامِ قید میں لکھے۔ اس کتاب کا طرز نگارش قرآنی اسلوب سے بہت متاثر ہے۔ اس کی نثر بہت پر تکلف ہے جس میں شاعری کااثر بہت نمایاں ہے۔ حلاج کی اس تحریر میں ایک جوش‘ ولولہ اور روانی ملتی ہے۔ طواسین کے متن کو گیارہ صدیاں گزر چکی ہی۔ اس مدت میں کتاب کا متن بھی اختلاف کا شکار ہوا ہے۔ مگر لوئی میسینوُن نے ۱۹۱۳ء میں اس کا ایک تحقیق متن پیرس سے شائع کیا۔ اور اسی متن کو علمی دنیا میں فوقیت حاصل ہے۔ علاّمہ اقبال نے جس اقتباس کو نقل کیاہے‘ وہ بھی اسی ایڈیشن سے ماخوذ ہے۔ مآخذ: عبدالجبار شاکر: اقبال کی مدوّن نثر‘ (مقالہ ایم فل‘ غیر مطبوعہ) ص:۲۷۲۔۲۷۷ ۱۴؎ اصل نام محمد بن اسحق ابی یعقوب الندیم ہے۔ یہ شخص بغداد میں قیام پذیر رہا۔ کتابوں کی تصحیح وترتیب اور نقل و فروخت اس کا پیشہ تھا۔ یہ غالباً۲۹۷ھ میں پیدا ہوا۔ اور ۳۸۵ھ یا ۳۹۰ھ کے دوران میں اس نے وفات پائی۔ ابن الندیم شیعی المذہب ہے‘ ہم اسے دنیا کا پہلا مستند فہرست ساز یا کیٹالاگر کہہ سکتے ہیں۔ مآخذ: محمداسحق بھٹی (مترجم): الفہرست‘ ص: ۳۔۹ ۱۵؎ ’’الفہرست‘‘ کتابیات اور تراجم کے موضوع پر ایک خاص شہرت کی حامل کتاب ہے۔ عربی زبان میں اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ یہ کتاب چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں اس دور تک کی تمام کتب اور علوم و فنون کاتذکرہ ملتا ہے۔ نیز ان کتب میں موجود اجمالی معلومات کا تذکرہ اس کتاب کی اہمیت کوبڑھا دیتا ہے۔ مستشرقین نے بھی اسے لائق اعتنا سمجھا۔ یہ کتاب ۳۷۷ھ میں تصنیف ہوئی۔ اس کے انگریزی‘ فارسی اور اُردو تراجم ملتے ہیں۔(حوالۂ مذکورہ۔ ص:۳۔۹) ۱۶؎ حضرت علیؓ کا نام علی‘ کنیت ابوالحسن‘ ابوتراب اور لقب حیدر ہے۔ والد کا نام ابوطالب اوروالدہ فاطمہ بنتِ اسد تھیں۔ آپ حضورؐ کے چچازاد بھائی اور چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ چھوٹی عمر کے لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ان کا عہدِ طفولیت حضورؐ کی تربیت میں گزارا۔ مکہ مکرمہ کے تیرہ کٹھن سالوں میں آپؐ کے ہمراہ رہے۔ ہجرت کے موقع پر اہل مکہ کی امانتیں آپؓ کے سپرد ہوئیں‘ پھر مدینہ تشریف لے آئے۔ ۲ھ میں حضورؐ کے داماد ہونے کا شرف حاصل کیا۔ خلافتِ فاروقی میں مدینہ کے قاضی بنے۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد حضرت عثمانی غنیؓ خلیفہ ہوئے تو ان کی بیعت کی اور آخر تک دست و بازو رہے۔ ان کی شہادت پر خلافت کا بارِ گراں آپ نے سنبھالا۔ آپؓ کا زمانۂ خلافت چارسال اور نو ماہ کا ہے۔ ۱۷؍رمضان ۴۰ھ کو آپؓ شہید ہوئے۔ مآخذ: اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد:۱۴/۲‘ ص: ۲۴۔۷۰ ۱۷؎ خواجہ حسن بصری (۲۱ھ۔۱۱۰ھ) بزرگ صوفی اور صاحبِ کرامات ولی۔ کنیت ابوسعید‘ ابومحمد ادرابی البصر ہے۔ آپ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں آپ جواہرات بیچا کرتے تھے چنانچہ لوگ آپ کو حسن لولوئی کے نام سے پکارتے تھے۔ آپ سنت نبویؐ اورمطابعتِ مصطفویؐ کے بڑے پابند تھے۔ آپ مستجاب الدعوات‘ صاحبِ کرامات‘ عالی مقامات اور ظاہری و باطنی علوم میں یگانۂ روزگار تھے۔ مآخذ: ۱) اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد۸‘ص:۲۶۲۔۲۶۴ ۲) سیدقاسم محمود (مُرتّب) اسلامی انسائیکلوپیڈیا‘ ص:۷۸۴ ۱۸؎ سید محمد فایق نظامی نیازی۔ اقبال کے معاصر ہیں اور تصوف کے وجودی نظریے کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹؎ وحدت الوجود: دیکھیے: خط نمبر۳‘ تعلیقہ نمبر ۴ ۲۰؎ ابوہریرہؓ، عمیر بن عامر بن عبد ذی الشریٰ: رسول اللہؐ کے صحابی تھے۔ آپؓ نے حضرت طفیل بن عمروالدوسُسیؓ کے طفیل اسلام قبول کیا۔ ان کاشمار ان صحابہؓ میں ہے جوعلمِ حدیث کے اساطین سمجھے جاتے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے آپؓ کے متعلق فرمایا: ابوہریرہؓ علم کا ظرف ہے‘‘۔ انھیں ابوہریرہؓ اس لیے کہا جاتا تھا کہ اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے وقت وہ دل بہلانے کے لیے اپنے ساتھ ایک بلی کا بچہ رکھا کرتے تھے۔ تقریبا آٹھ سو صحابہ اورتابعین نے ان سے حدیث روایت کی ہے۔ کل ۳۷۵,۵ حدیثیں ان سے مروی ہیں۔ ۶۲۹ء میں ہجرت کر کے مدینہ پہنچے۔ چار سال تک آنحضرتؐ کی صحبت میں رہے۔ فقرودرویشی اختیار کر کے اصحاب صفہ میں شامل ہو گئے۔ ہروقت آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر رہتے‘ احادیث سنتے اور یاد رکھتے۔ خلافتِ فاروقیؓ میں بحرین کے امیر رہے‘ عہد معاویہؓ میں مدینے کے نائب والی مقرر ہوئے۔ فتویٰ بھی دیتے تھے۔ مدینے میں غالباً ۶۷۸ء میں وفات پائی۔ اس وقت عمر ۷۸سال تھی۔ مآخذ: اردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ جلد: ۱‘ص:۹۲۹۔۹۳۱ ۲۱؎ المبارک بن الاثیر (۵۴۴ھ۔۶۰۶ھ) عربی نثر کے مایہ ناز ادیب اورعالمِ دین تھے۔ تفسیر‘ نحو‘ لغت‘ حدیث اورفقہ وغیرہ میں ماہر تھے۔ جزیرہ ابنِ عمر میں آپ کی ولادت ربیع الاوّل یا ربیع الثانی میں ہوئی اور وہیں آپ کی پرورش ہوئی‘ پھر آپ موصل چلے گئے۔ یہاں کے امراء کو آپ نے خطوط لکھے۔ یہ آپ کابے حد احترام کرتے تھے۔ آپ نے بغداد میں علم حاصل کیا۔ ذی الحجہ میں موصل میں وفات پائی۔ آپ کی تصانیف میں ’’النہایۃ فی غریب الحدیث‘‘ ’’جامع الاصول فی احادیث الرسول‘‘، ’’الانصاف فی الجمع بین الکشف والاکشاف تفسیری الثعلبی والزمخشری‘‘ ، ’’دیوانِ رسائل‘‘ اور ’’البدیع فی شرح الفصول‘‘ مشہور ہیں۔ مآخذ: عبدالجبار شاکر: اقبال کی غیر مدوّن نثر‘ ص: ۲۸۲۔ ۲۲؎ نام: احمد‘ بوالفضل کنیت اور شہاب الدین لقب تھا۔ ابنِ حجر کے لقب سے مشہور ہوئے ۱۸؍فوری ۱۳۷۲ء کو قدیم قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ شافعی مذہب کے مشہورومستند محدث‘ مؤرّخ اورفقیہہ تھے۔ بچپن میں والدین کے سائے سے محروم ہوگئے۔ حافظِ قرآن تھے۔ اپنے آپ کو حدیث کے مطالعے کے لیے وقف کر لیا اور دس سال تک زین الدّین العراقی (م۸۰۰ھ) سے حدیث پڑھی۔ ۱۴۲۲ء میں قاضی القضاۃ مقرر ہو گئے اور اکیس برس تک اس عہدے پرفائز رہے۔ ان کی متعدد تصانیف یادگار ہیں‘ جن میں ’’فتح الباری فی شرح البخاری‘‘ یا ’’فتح الباری بشرح صحیح بخاری‘‘ سب سے ممتاز ہے۔ مآخذ: اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۱‘ص:۴۷۹۔۴۸۲ ۲۳؎ ’’فتح الباری‘‘ قرآن مجید کے بعد علومِ اسلامی میں جس کتاب کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی‘ وہ امام ابوعبداللہ محمد بن اسمعٰیل بخاری (۱۹۴ھ۔۲۵۶ھ) کی ’’ابع مع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سننہ و ایامہ‘‘ ہے‘ جو ’’صحیح بخاری‘ کے مختصر نام سے زیادہ مشہورہے۔ حدیث کی اس کتاب کی ہر دور میں بہت سی شروح واحواشی لکھی گئی ہیں‘ جن کی تعداد دو سو سے زاید ہے۔ ابنِ خلدون کی آرزو تھی کہ اس کتاب کی کوئی ایسی شرح لکھی جائے جس سے اس کاعلمی اورتحقیقی حق ادا ہو جائے۔ ان کے نزدیک ایسی شرح امت کے ذمّے ایک علمی قرض تھا۔ حافظ ابنِ حجر العسقلانی کی شرح ’’فتح الباری‘‘ کے بعد یہ قرض اداہوگیا۔ علمائے حدیث نے بالاتفاق اس شرح کو سب سے اعلیٰ اور عمدہ قرار دیا ہے۔ مآخذ: اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۴‘ ص:۱۲۰۔۱۲۳ ۲۴؎ مذکورہ حدیث کی شرح کا اصل متن یوں ہے: و حمل العلما الوعا الذی لم یبثہ علی الا حادیث التی فیھاتبیین اسامی أمراء السوووَء احوألھم و زمنھم و قدکان ابوہریرہ یکتی عن بعضہ ولا بصرح بہ خوفاً علی تفسہ منھم کفولہ أعوذ باللّٰہ من رأس السنین وامارۃ الصبیان یشیر الی خلافۃ یزید بن معاویہّ لا نہاکانت سنۃ سنین من الھجرۃ واستجاب اللہ دعاء أبی ہریرہ فمات قبلھا بسنۃ‘‘۔ حوالہ: عبدالجبار شاکر: اقبال کی غیر مدوّن نثر‘ ص:۲۸۴۔ ۲۵؎ اس کی املا ’’ابن المنیر‘‘ ہونا چاہیے۔ ۲۶؎ مذکورہ حدیث کی شرح کا عربی متن اور اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: ’’قال ابن المنیر: جَعل الباطنیہ ھذا الحدیث ذریعہ الیٰ تصیح باطلھم حیث اعتقدوا أن للشریعۃ ظاہراً و باطناً‘ وذالک الباطن انما حاصلہ الانحلال من الدین‘‘۔ (ترجمہ)ابن المنیر کہتے ہیں کہ اس حدیث (یعنی مذکورہ بالا روایت ابوہریرہؓ) کو فرقہ باطنیہ نے اپنے باطل عقیدوں کے صحیح ثابت کرنے کا ذریعہ بنایا ہے کیونکہ ان کاعقیدہ ہے کہ شرعیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن‘ اور اس باطن کا حاصل تو بس دین سے انحراف ہی ہے‘‘۔ مآخذ: حوالۂ مذکورہ حاشیہ: ۲۴‘ص ۲۸۵ ۲۷؎ فرقہ باطنیہ: (الف) اسمٰعیلیوں کو یہ نام خصوصاً اس لیے دیا گیا کہ وہ قرآن مجید اوراحادیث ظاہری الفاظ کے ’’باطنی‘‘ معنوں پر زور دیتے تھے۔ (ب) عموماً اس کلمے کا اطلاق ہر ایسے شخص پر بھی ہوتا تھا جس پر ایہ الزام ہو کہ وہ قرآن و حدیث میں لفظی معنوں کو رد اور باطنی معنوں کو قبول کرتا ہے۔ اسمٰعیلیہ اور ان سے ملتے جلتے شیعہ گروہوں میں ایک خاص قسم کی تاویل کاارتقا ہوا‘ جسے ’’باطنی تفسیر‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ باطنی نظام کے چار بنیادی تصوّرات ہیں: ۱۔ باطن‘ ۲۔تاوی‘ ۳۔خاص و عام اور ۴۔ تقیّہ یہ سب بنیادی تصورات کسی بھی عقیدے کی تبلیغ کے وقت لازماً پیشِ نظر رہتے تھے… باطنی تحریک کے آثار بعد کے گروہوں‘ مثلاً حروفیوں‘ روشنیوں اور بابیوں میں ملتے ہیں‘ جو انھیں کی طرح رمزی تشریحات کرنے کے عادی ہیں۔ مآخذ: اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۳‘ ص:۹۴۱۔۹۴۳ ۲۸؎ اس کی املا ’’ابن المنیر‘‘ ہونا چاہیے۔ ۲۹؎ اس حدیث کااصل متن یوں ہے۔ ’’حدثنا عبدالعزیز بن عبداللہ قال حدّثنی مالک عن ابنِ شہاب عن الاعرج عن ابی ہریرہ قال: ان الناس یقولون: اکثر ابوہریرہ ولو آیتانٍ فی کتاب اللہ ما حدثت حدیثاً ثم یتلوا (ان الذین یکتمون مآ انزلنا من البینات۔… الی قولہ…(الرحیم) (البقرہ ۲:۱۵۹۔۱۶۰) ۳۰؎ ’’ان الذین یکتمون…‘‘ (البقرہ۲:۱۵۹۔۱۶۰) ۳۱؎ ان الذین یکتمون ما انزل اللہ من الکتب… (البقرہ۲:۱۷۴) ٭٭٭ مسلمانوں کاامتحان ایک دن محمد دین فوق نے اقبالؔ سے اسلامی تصوّرات سے متعلق چند سوالات کئے۔ اقبال کے جوابات کوانھوں نے مختصراً اپنے ہفتہ وار اخبار کشمیری (۱۴؍جنوری ۱۹۱۳ئ) میں عنوان بالا سے شائع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال ’’اسرارِ خودی‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے۔ ’’ترتیب خودی‘‘ کے دوسرے مرحلے ضبط نفس کے عنوان کے تحت اقبالؔ نے ان ہی شعائر اسلام کی افادیت ایک دوسرے رنگ میں بیان کی ہے۔ اگر مذہبی پہلو سے اسلامی زندگی کو دیکھا جائے تو وہ قربانیوں کاایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً نماز ہی کو لو۔ یہ بھی ایک قربانی ہے۔ خدا نے صبح کی نماز کا وہ وقت مقرر کیا کہ جب انسان نہایت مزے کی نیند میں ہوتا ہے اور جب بستر سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا خدا کے نک بندے اپنے مولیٰ وآقا کی رضا کے لیے خوابِ راحت کوقربان کر دیتے ہیں اور نماز کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر نماز ظہر کا وہ وقت مقرر کیا جب انسان اپنی کاروباری زندگی کے انتہائے کمال کو پہنچا ہوا ہوتا ہے یعنی اپنے کام میں نہایت مصرورف ہوتا ہے۔ عصر کا وقت وہ مقرر کیا جب دماغ آرام کا خواستگار ہوتا ہے اور تمام اعضا محنت مزدوری کی تھکاوٹ کے بعد آسایش کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ پھر شام کی نماز مقرر کر دی جب کہ انسان کاروبار سے فارغ ہو کر بال بچوں میں آ کر بیٹھتا ہے اور ان سے اپنا دل خوش کرنا چاہتا ہے۔ عشاء کی نماز کا وقت وہ مقرر کیا جب کہ بے اختیار سونے کو جی چاہتا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے دن میں پانچ مرتبہ مسلمانوں کو آزمایا ہے کہ وہ میری راہ میں اپنا وقت اور اپناآرام قربان کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اس کے بعد زکوٰۃ وصدقات مقرر کئے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ میرے بندے میری رضا میں‘ میری راہ میں اور میری خاطر اپنا مال بھی دے سکتے ہیں یا نہیں؟ جہاں ان کے لیے مختلف قسم کی نعمتیں مہیا کیں وہاں روزوں کی شرط بھی لگا دی کہ یہ لوگ میری خاطر بھوکے بھی رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ میری خاطر ان گوناگوں نعمتوں سے جن کو یہ زبان کا چٹخارہ سمجھتے ہیں منہ موڑ سکتے ہیں یا نہیں؟ پھر یہ دیکھا کہ ان کو ان کے وطن اور ان کے بال بچوں کی محبت نے جکڑ رکھا ہے‘ گھر سے قدم باہر نکالنا ان کے لیے دشوار ہو رہا ہے۔ کیا میری خاطر علائق دنیوی کوترک کر سکتے ہیں؟ اس کی آزمایش کے لیے اپنے بندوں پر حج کااضافہ کر دیا کہ دیکھیں کون کون اپنے وطن اور اپنے اہل و عیال سے میری خاطر ایک عرصہ تک کی مفارقت اختیار کر سکتا اوررستے کے مصائب برداشت کرسکتا ہے؟ جب دیکھا کہ یہ لوگ اپنے آرام و اسائش‘ اپنے وقت اور اپنے مال اور اپنے وطن اور اپنے عیال کو مجھ پر قربان کر سکنے کے قابل ہیں تو جہاد مقرر کر دیا یہ دیکھنے کے لیے کہ کیااب میری خاطر یہ لوگ اپنی جان بھی جس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز عزیز نہیں ہوسکتی قربان کر سکتے ہیں یا نہیں؟ غرض ارکان اسلام کی پابندی مسلمانوں کاایک عطیم امتحان ہے اور دراصل اسی کا نام اسلامی تصوّف ہے کیونکہ شعائر اسلام کی پابندی سے روح کووہ تدریجی تربیت حاصل ہویت ہے جس کی وجہ سے اس میں تبتیل الاللہ کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ٭٭٭ ۴ مکتوب الیہم اور مکاتیبِ اقبال بنام خواجہ غلام الحسنین تعارف یہ دسمبر ۱۸۶۸ء میں پانی پت (ریاست ہریانہ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان تیرھویں صدی عیسوی میں ہندوستان آیا۔ ان کے مورثِ اعلیٰ خواجہ ملک علی انصاری جو ہرات کے حضرت ابو علی انصاری کے خاندان سے تھے‘ ہندستان آئے تھے۔ خواجہ غلام الحسنین نے فارسی اور عربی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ دہلی سے میٹریکولیشن کا امتحان پاس کیا۔ پانچ سال مولانا حالی کی صحبت میں گزارے کہ یہ اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ دنیا کے تمام مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا‘ جس کی وجہ سے مذہب کے معاملے میں ان کا بڑا سیکولر مشرب تھا۔ انھوں نے ہربرٹ سپنسر Herbert Spencer کی مشہور تصنیف "Philosophy of Education"(فلسفۂ تعلیم) کا اتردو میں ترجمہ کیا۔ ۱۹۳۶ء میں وفات پائی۔ مآخذ: کلیات مکاتیب‘ اوّل ‘ ص:۱۰۱۵۔ (۱) مائی ڈیر خواجہ صاحب! (انگریزی سے) میں نے سپنسر (Spencer) کی تصنیف ’’ایجوکیشن‘‘ (Education) کے آپ کے اردو ترجمے کو جستہ جستہ دیکھا ہے‘ جب مولانا شبلی نے گزشتہ سال مجھ سے دریافت کیا تھا کہ آیا سپنسر کی تصنیف ’’سن تھیٹک فلاسفی "Synthetic Philosophy" کے کچھ حصوں کا اردو میں ترجمہ ہوسکتا ہے تو میں نے ان کو لکھ دیا تھا کہ یہ کوشش اس بنا پر ناکام رہے گی کہ اس کوزہ میں مواد کا یہ سمندر نہیں سما سکتا‘ لیکن آپ کے ترجمے نے مجھے قائل کر دیا ہے کہ میر افیصلہ اس حسین ترین اور ترقی پسند زبان کے تمام تر امکانات کی لاعلمی پر مبنی تھا کہ اس میں عربی زبان کی لچک اور ترکیبیں وضع کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے۔ جواس میں اور دوسری امتزاجی زبانوں میں قدرِ مشترک ہے۔ اکثر اوقات مغربی سائنٹیفک مباحث پر جدید اردو ترجمے ایک نوع کے تصنع اور آورد کی غمازی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اردو زبان کی ترقی کی ابتدائی منزل کو دیکھتے ہوئے آپ۱؎کی عبارت کی بے تکلف روانی بالکل حیرت انگیز ہے۔ اگر ہربرٹ سپنسر ہندوستانی ہوتا تو وہ بھی اردو میں اس سے بہتر تحریر اختیار نہیں کر سکتا۔ یہ امر کہ اس قدر اعلیٰ درجے کا ترجمہ ہوسکتا ہے‘ آ پ کی صلاحیت اور زبان پر قدرت پر دال ہے بلکہ اس نوخیز اور ہونہار زبان کی ہیئت (Genius) اور ممکنات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ آپ کے بیش بہا ترجمے کی ایک خصوصیت پراظہارِ خیال کرناچاہتا ہوں کہ آپ نے اپنی کتاب میں (مصنف کے نظریات و خیالات) پر ایک مسلسل تجزیہ بھی شامل کیا ہے‘ جس سے کسی مسئلے کے نمایاں نکات پر آپ کی گرفت کااحساس ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب عام طور پر بھی پڑھی جائے گی اور آپ کا تجزیہ سپنسر کے خیالات کو سمجھنے اور ان کی قدروقیمت کااندازہ لگانے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔ آدب و نیاز کے ساتھ آپ کا مخلص محمد اقبال (۱۹۰۴ئ) حواشی ۱؎ ’’انوار‘‘ (ص:۲) میں صرف یہ دو جملے بطور رائے درج ہیں۔ ڈاکٹر اخلاق اثر نے اس خط کا پورا اصل انگریزی متن فراہم کیا ہے‘ جو خواجہ غلام الحسنین کی تصنیف ’’فلسفۂ تعلیم‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ ہربرٹ سپنسر کی تصنیف ’’ایجوکیشن‘‘ (Education) کا اردوترجمہ ہے‘ جو رفاعِ عام سٹیم پریس لاہور نے ۱۹۰۴ء میں شائع کیا۔ ’’انوار‘‘ میں اس کا سالِ اشاعت ۱۹۰۳ء دیا ہے‘ جودرست نہیں۔ ناشر کا نام مولوی ممتاز علی چھپا ہے۔ اس کتاب میں ناشر نے خط کا آخری حصہ (With Regards, Yours Sincerely Mohd. Iaqbal) شامل نہیں کیا۔ مآخذ: کلیاتِ مکاتیب‘ اوّل‘ طبع دوم فروری ۱۹۹۱ء ص: ۱۲۱۱۔۱۲۱۲۔ ٭٭٭ بنام خواجہ حسن نظامی تعارف: اصل نام علی حسن‘ ۱۸۷۸ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد سید عاشق علی‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ کے خادموں میں شامل تھے۔ حسن نظامی نے مولانا رشید احمد گنگوہی سے علوم دینی حاصل کیے۔ ابتدائی زندگی عسرت میں بسر ہوئی۔ بارہ سال کی عمر میں والدین کاانتقال ہو گیا۔ انھوں نے سب سے پہلا مضمون انڈیا گزٹ کے لیے‘ ۱۸۹۸ء میں ’’انڈیا کی نازک حالت‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ سب سے پہلے کتاب ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اردو زبان وادب کی بے پناہ خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد سو سے زاید ہے۔ خواجہ حسن نظامی ‘ علاّمہ اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ اس کااندازہ ان کے خطوط سے لگایا جاسکتا ہے‘ جو اقبال نے خواجہ کو ۱۹۰۴ء سے ۱۹۱۵ء کے درمیانی عرصے میں لکھے (اقبال نامہ‘ دوم‘ ص: ۳۵۲ تا ۳۲۸) ان خطوط کے سرنامے اس طرح کے ہیں: خواجہ صاحب مکرم‘ جناب خواجہ صاحب‘ مخدومی خواجہ صاحب‘ اسرارِ قدیم سید حسن نظامی‘ پُراسرار نظامی‘ سرمست سیّاح کوسلام اور ڈیر نظامی… اقبالؔ نے ایک شعر میں خواجہ حسن نظامی کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ بھلا ہو دونوں جہاں میں حسن نظامی کا ملا ہے جس کی بدولت یہ آستاں مجھ کو (’’باقیات اقبال‘‘، ص:۱۵۸) مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی اشاعت پر ہندوستان کے بعض اہلِ تصوف نے اقبال کے خلاف ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس مخالفت میں حسن نظامی اور ان کے مرید پیش پیش تھے۔ اقبال نے اپنے مؤقف کی وضاحت میں متعدد مضامین لکھے۔ ’’وکیل‘، خطیب‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ میں موافقانہ اور مخالفانہ مضامین کاسلسلہ جاری تھا کہ اکبر الٰہ آبادی نے ثالثی کے فرائض انجام دیتے ہوئے صلح کرا دی اور اقبال کی مخالفت کا طوفان تھم گیا۔ اقبال اور حسن نظامی کے درمیان حسبِ سابق محبت اور خلوص کی فضا بحال ہو گئی۔ ۱۹۱۸ء میں مولانا ظفر علی خان کے ہفت روزہ ’’ستارۂ صبح‘‘ میں تصوف کی مخالفت میں چند مضامین شائع ہوئے تو بعض بدنیتوں نے حسن نظامی کو اقبال کے خلاف بھڑکایا کہ یہ سب اقبال کی شہ پر ہو رہا ہے مگر میر غلام بھیک نیرنگ نے خواجہ کو یقین دلایا کہ اس میں اقبال کا ہاتھ نہیں ہے‘ چنانچہ انھوں نے ایک خط لکھ کر اقبال سے معذرت کی۔ بعد کے عرصے میں اقبال اور حسن نظامی کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں اور خط و کتابت بھی رہی۔ تاحال حسن نظامی کے نام اقبال کے بیس خطوط دستیاب ہوئے ہیں‘ تفصیل یہ ہے: (i) اقبال نامہ‘ حصہ دوم‘ (ص:۳۵۲۔۳۶۸): ۱۴ خطوط۔ (ii) خطوطِ اقبال‘ (ص ۱۱۳‘ ۱۱۴‘ ۱۱۹‘ ۱۲۰): ۴خطوط (iii) انوارِ اقبال‘ (ص:۴‘ ۱۸۴): ۲ خطوط حسن نظامی نے ۳۱؍جولائی ۱۹۵۵ء کو انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) مرتضیٰ نقوی‘ امام‘ ڈاکٹر‘ ’خواجہ حسن نظامی۔ حیات اورادبی خدمات‘‘، ص:۱۶۔۹۲ ۲) عبدالقوی دسنوی‘ ’’اقبالیات کی تلاش‘‘ ص: ۱۶۲‘۲۰۴‘ ۳) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر‘ ’’معاصرینِ اقبال‘‘ ص: ۲۷۶ (۲) لاہورi؎ ۲۶؍جنوری۱۹۱۷ء مخدومی خواجہ صاحب السلام علیکم۔ میں آپ کے انداز بیان کا عاشق ہوں اور مجھی پر کیا موقوف ہے‘ ہندوستانی دنیا میں کوئی دل ایسا نہیں جس کو آپ کے اعجاز قلم نے مُسخرّ نہ کر لیا ہو۔ پیش پا افتادہ چیزوں میں اخلاقی اورروحانی اسرار دیکھنا اور اس کے ذریعے انسان کے عمیق مگر خوابیدہ جذبات کو بیدار رکرنا آپ کے کمال کا خاص جوہر ہے۔ اگر مجھ کو یقین ہوتا کہ ایسا اندازِ تحریر کوشش سے حاصل ہوسکتا تو قافیہ پیمائی چھوڑ کر آپ کے مقلدین میں داخل ہوتا۔ اُردو لکھنے والوں میں آپ کی روش سب سے نرالی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ نثر اردو کے آیندہ مؤرخین آپ کی ادبی خدمات کا خاص طور پر اعتراف کریں گے۔ رسالہ ’’بیوی کی تعلیم‘‘۱؎ جوحال میں آپ کے قلم سے نکلا ہے‘ نہایت دلچسپ اور مفید ہے خصوصاً دمڑی والے سبق نے تو مجھے ہنسایا بھی اور رُلایا بھی۔ باقی سبق بھی نہایت اچھے اور کارآمد ہیں اور عام تمدنی‘ سیاسی و مذہبی مسائل کو سمجھانے کے لیے خط و کتابت کا طریق بھی نہایت موزوں ہے۔ لڑکیوں کو اس سے بے حد فائدہ پہنچے گا۔ میں نے بھی یہ رسالہ گھر میں پڑھنے کے لیے دے دیا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کو خواجہ بانو۲؎کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ ان کی تحریک سے ایسا مفید رسالہ لکھا گیا۔ والسلام مخلص محمدؐاقبال تحقیق متن: i؎ یہ خط ’’کلیاتِ مکاتیب‘ اول‘‘ (ص:۵۵۴‘۵۵۶) میں بھی شامل ہے۔ غالباً اس کا مآخذ ’’انوار‘‘ ہے‘ کیونکہ اس کا متن اور ’’انوار‘‘ کا متن یکساں ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ حسن نظامی نے معاشرتی اصلاح سے متعلق چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے۔ ان کے نزدیک غلط اور مہمل رسموں کو تقویت دینے میں عورتوں کا بڑا ہاتھ ہے‘ کیونکہ وہی مردوں کو ایسا کرنے پر اکساتی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کی غمی سال بھر تک گھر میں رہتی ہے۔ چاہے بچوں کے کھانے کو کچھ نہ ہو مگر فصل کی نئی ترکاری پر مرنے والے کی نیاز ضرور ہو۔ پڑوسن کہتی ہیں اے ہے بیچارہ ترستا پھڑکتا گیا ہے‘ اس کو بھی تو کچھ بھیجو لیلیٰ! اسلام نے پھولوں‘ دسویں‘ بیسویں‘ چالیسویں کا کہیں حکم نہیں دیا۔ یہ سب خدا‘ رسولؐ کے خلاف رسمیں ہیں۔ بس یہ ہونا چاہیے کہ جب کوئی مر جائے تو اِناَّلِلّٰہ پڑھیں اور خدا کی مرضی پر صبر کریں‘‘۔ مآخذ: ۱) حسن نظامی ’’بیوی کی تعلیم‘‘ ص:۷۸ بحوالہ: ’’خواجہ حسن نظامی… حیات اور ادبی خدمات‘‘ ص: ۱۳۵۔ ۲) حسن نظامی کی پہلی بیوی (ان کے چچا معشوق علی کی لڑکی حبیب بانو) کا ۱۹۰۸ء میں انتقال ہوا۔ سات سال تک انھوں نے دوسرا عقد نہیں کیا۔ ۱۹۱۵ء میں حوربانو (پہلی بیوی سے بیٹی) کی خالہ کی لڑکی محمودہ خواجہ بانو سے دوسرا عقد کیا۔ یہاں خواجہ بانو سے مراد دوسری بیوی ہیں۔ (۳) لاہور ۱۱؍جنوری۱۸ئi؎ مخدوم ومکرم جناب خواجہ صاحب! السلام علیکم۔ آپ کا خط کئی دن سے آیا رکھا ہے۔ مجھے مصروفیت رہی اس وجہ سے جواب نہ لکھ سکا۔ معاف کیجئے گا۔ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ میر نیرنگ۱؎صاحب نے آپ کو خط لکھا ہے جس نے آپ کو ’’بدگمانی کے گناہ‘‘ سے بچا لیا۔ الحمد للہ علی ذالک آپ کو معلوم ہے تقریباً دو سال ہوئے میں نے ان اعتراضات کے جواب میں جو آپ نے مثنوی ’’اسرار خودی‘‘۲؎پر کیے تھے چند مضامین میں مسائلِ تصوف۳؎پر لکھے تھے۔ جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسئلہ ’’وحدت الوجود‘‘۴؎ان معنوں میں کہ ذاتِ باری تعالیٰ ہر شے کے عین ہے قرآن سے ثابت نہیں اوروحانیت میں اسلامی تربیت کا طریق ’’صحو‘‘۵؎ہے نہ ’’سُکر‘‘۶؎۔ آپ ہی کے اخبار ’’خطیب‘‘ میں حضرت صوفی قاری شاہ سلیمان۷؎نے ان دونوں مسائل کے متعلق میرے حق میں فیصلہ صادرفرمایا۔ باوجود اس کے کہ مجھے ہمیشہ اس بات کا تعجب رہا کہ آپ اور آپ کے احباب اس اختلاف کی وجہ سے مجھے کیوں دشمنِ تصوف سمجھتے ہیں؟ یہ اختلاف کوئی نئی بات نہیں بلکہ حضراتِ صوفیہ میں ایک عرصے سے موجود ہے۔ بہرحال جن خیالات کااظہار میں نے اخبار ’’وکیل‘‘ میں کیا تھا ان کی صحت و صداقت کا مجھے اب تک یقین ہے گو ان پر بحث کرنا کئی وجوہ سے غیر ضروری جانتا ہوں۔ عوام بلکہ خواص کو بھی ان اصولی امور میں کوئی دلچسپی نہیں اور نہ اس قسم کے مباحث اخباروں کے لیے موزوں ہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ مولانا اکبر۸؎(الٰہ آبادی) نے جن کا ادب و احترام میں اس طرح کرتا ہوں جس طرح کوئی مرید اپنے پیر کا احترام کرے( مجھے لکھا کہ یہ بحث غیر ضروری ہے۔ اس دن سے آج تک میں نے ایک سطر بھی ان مباحث پر نہیں لکھی۔ گو ذاتی فائدے کے خیال سے مطالعہ جاری رکھتا ہوں۔ اب جو مولوی ظفر علی خان صاحب ۹؎نے اخبار ’’ستارۂ صبح‘‘ میں یہ بحث دوبارہ چھیڑی تو بوجہ ان دیرینہ تعلقات کے جو میرے اور ان کے درمیان ہیں اور نیز اس وجہ سے کہ اس بحث میں مجھے کمال دلچسپ ہے بعض لوگوں کو یہ بدگمانی ہوئی ’’ستارۂ صبح‘‘کے مضامین میں لکھتا ہوں یا لکھواتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے قلم سے ایک سطر بھی اس بحث پر نہ نکلی اور نہ میں نے مولوی صاحب موصوف (ظفر علی خاں) کو کوئی مضمون لکھنے کی تحریک کی ہے بلکہ پرائیویٹ گفتگو میں کئی امور میں مَیں نے ان سے اختلاف کیا ہے! اس کے علاوہ میں تواصولی بحث کو جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں اخباروں کے لئے موزوں نہیں سمجھتا چہ جائیکہ کسی اور کو اس کے جاری رکھنے کی تحریک کروں۔ البتہ موجودہ نتائج کے حالات پر لکھنے اور ہمدردانہ لہجے میں ان کے خیالات و رسوم کی تنقید کرنے سے قوم کوضرور فائدہ ہو گا۔ اگر مولوی ظفر علی خاں یا آپ اس طرف توجہ کریں تو ’’چشم ماروشن دل ماشاد‘‘ غرض کہ آپ کو میری نسبت بدگمانی کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اور اگر کسی وجہ سے بدگمانی ہو بھی گئی تو آپ مجھ سے براہِ راست دریافت کر سکتے تھے۔ لوگ تو اس قسم کی باتیں اُڑایا ہی کرتے ہیں۔ دوچار روز کا ذکر ہے کہ ایک شخص نے بیان کیا کہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ اقبالؔ نے اپنی ٹوپی ہمارے قدموں پر رکھ کر ہم سے معافی مانگی ہے اور آیندہ کے لیے توبہ کی ہے۔ میں نے انھیں یہ جواب دیا کہ جن لوگوں کے عقایدوعمل کا مآخذ کتاب و سنت ہے‘ اقبالؔ ان کے قدموں پر ٹوپی کیا سر رکھنے کوتیار ہے! اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو دنیا کی تمام عزت وآبرو پر ترجیح دیتا ہے لیکن جو بات خواجہ حسن نظامی کی طرف سے منسوب کرتے ہو تو اس کے لغو ہونے میں مجھے ذرا بھیii؎شبہ نہیں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ اگر آپ چاہیں تو یہ خط شائع کر سکتے ہیں۱۰؎۔ والسلام محمد اقبال از لاہور تحقیق متن: i؎ یہ خط رسالہ ’’خطیب‘‘ دہلی (مورخہ ۲۲۔۳۰) جنوری میں شائع ہوا۔ بعدازاں ’’قومی زبان‘‘… (۱۹۶۳ئ) اور ’’کلیاتِ مکاتیب اقبالؔ‘ جلد اول‘‘ (ص:۶۸۹) میں بھی شائع ہوا… ’’کلیاتِ مکاتیب‘‘ میں ۱۹۱۸ء کے بجائے ۱۸ء ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ علاّمہ اقبال عموماً سنہ اسی طرح لکھتے تھے۔ ii؎ ’’قومی زبان‘‘ میں ’’مجھے ذرا بھی‘‘ اور ’’انوار‘‘ میں’’کوئی‘‘ ہے‘ زیادہ بہتر ’’مجھے ذرا بھی‘‘ ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ میرنیرنگ دورانہ‘ تحصیل و ضلع انبالہ میں ستمبر ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے۔ اصل نام غلام محی الدین تھا‘ جسے دورانہ سے قریب ایک مقام ٹھسکہ کے ایک صوفی بزرگ جناب میراں بھیکھ سے عقیدت کی نسبت سے تبدیل کر کے غلام بھیک رکھا گیا۔ نسباً سید تھے اور سلسلۂ نسب امام علی رضا سے ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں پائی پھر گورنمنٹ کالج اور لا کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ ۱۹۰۰ء میں وکالت کااامتحان پاس کر کے انبالے میں پریکٹس شروع کی اور بہت جلدچوٹی کے وکلا میں شمار ہونے لگے۔ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۰ء تک سرکاری وکیل بھی رہے۔ مگر بعد میں ملازمت چھوڑ کر پریکٹس کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے تعلیمی‘ اصلاحی اوراسلامی انجمنوں کے صدر اور سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دیے۔ میرنیرنگ کی گورنمنٹ کالج لاہور کی متعلمی (۱۸۹۵ئ) کے زمانے میں علاّمہ اقبالؔ سے ملاقات ہوئی جو بعدازاں دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ بقول سرعبدالقادر‘ اقبالؔ اور نیرنگؔ مولوی ضیاء الدین احمد کے وسیع مکان کے اکھاڑے میں کبھی کبھی لنگوٹ باندھ کر کشتی لڑا کرتے تھے۔ ذہنی ورزش کے لیے اقبالؔ اور نیرنگؔ ایک ہی زمین میں ایک ساتھ طبع آزمائی بھی کیا کرتے تھے۔ ۱۹۰۵ء میں جب اقبالؔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان جا رہے تھے تو نیرنگؔ انھیں الوداع کہنے دہلی تک گئے۔ پھر ۱۹۰۸ء میں جب اقبالؔ پی۔ایچ ڈی اور بیرسٹری کی سند لے کر کامیاب و کامران وطن لوٹے تو میر نیرنگ انبالے سے ان کے استقبال کو دہلی پہنچے اور اقبال کی پسندیدہ زمین میں ایک غزل کہی‘ جس کا مطلع یہ تھا: ؎ فصلِ بہار آئی پھر گلشن سخن میں ایک جشن ہو رہا ہے مرغانِ نغمہ زن میں اقبالؔ میرنیرنگؔ کی شاعری کے مداح تھے۔ انھیں اور نادر کاکوری کو اپنا ’’ہم صفیر‘‘ قرار دیا ہے: نادرو نیرنگؔ ہیں اقبالؔ میرے ہم صفیر ہے اسی تثلیث فی التوحید کا سودا مجھے علاّمہ نے مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کا ایک نسخہ میرنیرنگؔ کو بھیجا۔ اس میں تصوف اور خواجہ حافظ پر کی گئی سخت گیری انھیں بے حد ناگوار گزری تاہم اس موضوع پر باہمی تبادلۂ خیال سے نیرنگؔ صاحب کااختلاف دور ہو گیا۔ چنانچہ جب اقبال نے ’’رموزِ بے خودی‘‘ لکھنے کاارادہ کیا تو اس کا ایک خاکہ نیرنگ کے پاس بھی بغرضِ مشورہ بھیجا۔ اقبال‘ میرنیرنگ کی قابلیت اوررائے کواہمیت دیتے تھے۔ (انوارِ ص:۱۹۵) میر نیرنگؔ نے تحریکِ خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ متحدہ ہندوستان کی مرکزی لیجلسلیٹو اسمبلی کے رکن تھے‘ انھوں نے ایک مسوّدہ قانون پیش کیا جسے شریعت بل کہتے ہیں۔ تقسیم ملک کے بعد انبالے سے پاکستان آگئے۔ یہاں بھی پاک دستوریہ کے رکن کی حیثیت سے تعمیرِ ملت کے ہر منصوبے میں عملاً حصہ لیا۔ ’’کلامِ نیرنگ‘‘ اور غبارِ افق‘‘ ان کی شاعری کی یادگاریں ہیں۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۲ء کو لاہور میں انتقال کیا اور یہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ مآخذ: ۱) معین الدین عقیل‘ ڈاکٹر ‘ (مرتب) کلامِ نیرنگؔ‘‘ ص: ۹۔۴۴۔ ۲) عبداللہ قریشی‘ ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘ ص:۶۳۔۸۵۔ ۳) گوہر نوشاہی (مرتب) ‘ ’’مطالعۂ اقبال‘‘ ص: ۱۹۔۴۶۔ ۲؎ ’’اسرار خودی‘‘ اقبال کی اولین شعری تصنیف اور فارسی میں پہلا شعری مجموعہ ستمبر ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔ مثنوی دیباچے میں اقبال نے مختصراً مثنوی کے موضوع پر گفتگو کی ہے۔ اس مثنوی کے ایک باب بعنوان: ’’دربیان اینکہ افلاطونِ یونانی و حافظؔ شیرازی کہ تصوف و ادبیات اقوام اسلامیہ از تخیلات ایشاں اثر عظیم پذیر فتہ بر مسلک گو سفندی رفتہ اند و از ایشاں احتراز و اجب است‘‘ میں افلاطونِ یونانی اور حافؔ شیزارزی پرکڑی تنقید ملتی ہے۔ مثنوی ’’اسرارِ خودی‘ ‘کے دیباچے اور حافظؔ پر ان تنقیدی اشعار سے ایک زبردست علمی معرکہ بپا ہوا۔ خواجہ حسن نظامی نے اس کی ابتدا کی اور اپنے ایک مرید و معتقد ذوقی شاہ سے ایک مضمون لکھوایا‘ جو ’’خطیب‘‘ دہلی میں ۳۰؍نومبر ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا۔ ذوقی شاہ کے اس مضمون کے جواب میں اقبال کے ایک حامی نے ’’کشاف‘‘ کے نام سے ۲۲؍دسمبر ۱۹۱۵ء کے ’’وکیل‘‘امرتسر میں ایک مضمون لکھا۔ ان کے جواب میں اقبال نے ۱۵؍جنوری ۱۹۱۶ء کو ’’وکیل‘‘ امرتسر ہی میں اپنا ایک مضمون ’’اسرارِ خودی اور تصوف‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ یہ قلمی جنگ ’’سراج الاخبار‘‘ جہلم‘ ’’وکیل‘‘ امرتسر‘‘ ’’خطیب‘‘ دہلی‘ ’’آگرہ‘‘ اخبار‘ ’’اخبار لمحات‘‘ اور راجا غلام حسین کے انگریزی ہفت روزہ نیوایرا (New Era) میں ۳۰؍نومبر ۱۹۱۵ء سے ۲۸؍جولائی ۱۸۱۷ء تک جاری رہی۔ حتیٰ کہ اکبر الٰہ آبادی نے خواجہ حسن نظامی اور اقبال کے درمیان صلح کرا دی۔ مآخذ ۱) عبداللہ قریشی‘ معرکۂ اسرارِ خودی (مضمون)‘ مشمولہ: ’’اقبال‘‘ اکتوبر ۱۹۵۳ئ‘ ص:۶۴۔۹۹ ۲) مجلہ ’’اقبال‘‘ اپریل ۱۹۵۴ئ‘ ص:۴۴۔۶۷ ۳) رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر‘ ’’تصانیف اقبال‘‘ (باب: دوم‘ فارسی کلام کے مجموعے) ۴) گوہر نوشاہی (مرتب) ‘ ’’مطالعۂ اقبال‘‘ ،ص:۴۱۴۔۴۵۲ ۳؎ ’’تصوف‘‘ کا لفظ یااصطلاح عہدِ رسالت یا عہدِ صحابہ و تابعین میں نہیں ملتی۔ قرآن و حدیث میں اس لفظ کا گزر نہیں مگر آج یہ اسلامی لٹریچر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ قرآن و حدیث میں تزکیہ و احسان کا ایک مستقل نظام ہے تزکیۂ نفوس فرائضِ رسالت میں شامل ہے۔ اقبال کی تحقیق کے مطابق تصوف کا لفظ ۱۵۰ھ میں پہلی مرتبہ استعمال ہوا۔ اسی طرح’الصوفی‘ کا لقب بھی آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں کوفہ کے شیعہ کیمیا گر جابر بن حیان کے نام کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ اس کی جمع ’’صوفیۃ‘‘ بھی پہلی مرتبہ ۸۱۴ء میں ایک مشہور صوفی ابوہاشم کوفی کے ساتھ استعمال ہوئی۔ مشہور عالم جاحظ کے مطابق اسی زمانے میں اس کا استعمال نیم شیعی مسلمانوں کی ایک جماعت صوفیہ کے لیے ہوا جو کوفے میں پیدا ہوئی‘ جس کا آخری امام عبدک الصوفی تھا‘ جو بغداد میں ۸۲۵ء میں فوت ہوا۔ یوں ابتدا میں یہ لفظ کوفے تک محدود تھا۔ مآخذ: ۱) فیروز الدین ‘ مولوی (مترجم) ’’کشف المحجوب‘‘ ص: ۳۳۔۶۶ ۲) شبلی نعمانی‘ علاّمہ‘ ’’الغزالی‘‘ ص:۱۶۴۔۱۷۱ ۳) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۶‘ص:۴۱۸۔۴۳۷۔۴‘ محمدعرفان ‘ پروفیسر‘ ’’اقبال اور تصوف‘‘ ۱۹۸۴ئ۔ ۴؎ ’’وحدت الوجود‘‘ کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ ’’وجود واحد ہے‘‘ منطق کی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ ’’وجود جزئی حقیقی ہے کلی مشکک نہیں ہے‘‘۔ گویاوجود فردِ واحد میں منحصر ہے۔ اصطلاحِ تصوف میں اس سے مراد یہ ہے کہ وجودِ باری تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی ہستی موجود نہیں ہے۔ کائنات میں چیزیں اگرچہ موجود ہیں لیکن ان کے اندر خداوند تعالیٰ ہی کی صفات پائی جاتی ہیں‘ اسی کو ’’ہمہ اوست‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک نظریہ وحدت الوجود سرے سے مذہب کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ فلسفے کا مسئلہ ہے۔ اقبال کے مطابق وحدت الوجود کے ڈانڈے یونانی ‘ ویدانتی اور زرتشتی فلسفے سے ملتے ہیں۔ ان کے نزدیک فلسفہ وحدت الوجودانسان کے وجود کی نفی کر کے قوتِ عمل کوختم کر دیتا ہے اور یہ مقصودِ خداوندی نہیں‘ اس لیے برخود غلط ہے۔ مآخذ: ۱) اقبال‘ علاّمہ‘ ’’تشکیل جدیدِالٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ خطبہ نمبر ۲ ۲) عبدالواحد معینی (مرتب) مقالاتِ اقبال‘‘، ص:۲۰۳۔ ۳) الف۔د۔نسیم‘ ڈاکٹر‘ ’’مسئلہ وحدت الوجود اور اقبال‘‘ ۱۹۹۲ء ۴) عبدالصمد صارم الازہری‘ ’’تاریخِ تصوف‘‘ ص: ۳۸۲۔۳۸۵ ۵؎ ۶؎ انوارِ غیب کے غلبے سے جوبے خودی طاری ہو ’’سُکر‘‘ ہے‘ پھر اختیاری حالت کے پیدا ہونے کو ’’صحو‘‘ کہتے ہیں۔ ’’سکر‘‘ ہمیشہ نہیں رہتا۔ حالتِ سکر کے اقوال و افعال کااعتبار نہیں ہوتا۔ حالتِ سکر میں مستی غالب ہوتی ہے۔ حالتِ صحو میں ضبط واجب ہے۔ حالتِ سکر میں گناہ اور غلطی کا امکان ہے۔ اقبالؔ کے نزدیک ’’حالتِ سکر‘‘ منشائے اسلام اور قوانینِ حیات کے مخالف ہے اور ’’حالتِ صحو‘‘ جس کا دوسرا نام اسلام ہے‘ قوانینِ حیات کے عین مطابق ہے اور رسول اکرمؐ کا منشا یہ تھا کہ ایسے آدمی پیدا ہوں جن کی مستقل حالت کیفیت ’’صحو‘‘ ہو۔ مآخذ: ۱) فیروزالدین‘ مولوی (مترجم) کشف المحجوب‘‘ ص: ۲۱۱۔۲۱۴ ۲) عبدالصمد الازہری‘ ’’تاریخِ تصوف‘‘ ص: ۲۹۲ ۳) رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر‘ ’’خطوط اقبال‘‘، ص: ۱۱۷ ۷؎ اپنے زمانے کے مشہور عالمِ دین‘ بلند پایہ صحافی اور بے مثل خطیب۔ صوبہ بہار کے ضلع اعظم آباد پٹنہ کے ایک مرد خیز قصبے پھلواروی میں ۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ہندوستان کی علمی دنیا جن چراغوں سے تابناک تھی‘ ان میں فرنگی محل لکھنؤ میں مولانا عبدالحی‘ سہارن پور میں مولانا احمد علی اور دلی میں سید نذیر حسین محدث دہلوی علم کے وہ بحرِ ذخاّر تھے کہ تشنگانِ علم ان چشموں سے فیض یاب ہوتے تھے۔ شاہ سلیمان پھلواروی علوم کے ان تینوں سرچشموں سے مستفیض ہوئے‘ وہ پہلے فرنگی محل آئے‘ یہاں سے فارغ ہو کر سہارپور اور دلی آگئے۔ لکھنؤ کے دورانِ قیام میں انھوں نے علومِ درسیہ کے بعد طب کی تعلیم حاصل کی اورطبیب کی حیثیت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا‘ شروع میں حکیم محمد سلیمان کے نام سے مشہور ہوئے۔ اپنے پیشے کے لحاظ سے اپنا تخلص ’’حاذق‘‘ رکھاتھا۔ شاعری سے ذوق رکھتے تھے اور لکھنؤ کے مشاعروں میں پڑھتے بھی تھے۔ زیادہ تر اُردو اورعربی میں شعر کہتے تھے۔ اس عہد کے نوجوان علما نے ندوۃالعلما کی بنیاد رکھی توشاہ سلیمان پھلواروی اس کے بانیوں میں سے تھے۔ اس انجمن کے پلیٹ فارم سے شاہ صاحب کی خطابت کا شہرہ عام ہوا۔ سرسید آپ کی تقاریر سے متاثر تھے۔ ۳۱؍مئی ۱۹۳۵ء کو انتقال کیا۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کی طباعت پر جب ہنگامہ ہوا تو حسن نظامی نے مسئلہ وحدت الوجود کے متعلق اقبال کے خیالات سے شدیداختلاف کرتے ہوئے اس سلسلے میں اقبال اورشاہ صاحب کو خطوط لکھے‘ جن میں اقبال پر اعتراضات کئے گئے تھے۔ خواجہ صاحب اور اقبال کے درمیان اختلافِ رائے شاہ صاحب اوراکبرؔ کی مداخلت سے رفع ہوا۔ مآخذ: ۱) اعجاز الحق قدوسی‘ ’’اقبال اورعلمائے پاک و ہند‘ ص:۲۵۶۔۲۶۶ ۲) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر ’’معاصرین اقبال‘‘ ص: ۳۶۱ ۳) اعجاز الحق قدوسی‘ ’’اقبال کے محبوب صوفیہ‘‘۔ ص:۵۱۶ ۴) ’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر‘ ص:۱۵۱۵ ۸؎ سیّد اکبر حسین (۱۸۴۶ئ۔۱۹۲۱ئ) :تخلص اکبرؔ‘ لقب لسان العصر‘ پیدایش: الٰہ آباد۔ پیشہ: وکالت سرکاری ملازمت میں ترقی کر کے عدالتِ خفیفہ کے جج ہو گئے تھے۔ فنِ شاعری سے خاص لگاؤ تھا۔ وحید الٰہ آباد کے تلامذہ میں تھے۔ مغربی خیالات کو ایشائی لباس پہنانا‘ انگریزی الفاظ کو اردو میںضم کرنا اور ظرافت کے پہلو میں مغربی تعلیم و تہذیب کے برے اثرات کا خانہ اڑانا ان کا رنگِ خاص تھا۔ ان سے چار دیوان یادگار ہیں۔ اقبال نے ایک مضمون میں اکبرؔ کو اردو زبان کا ہیگل قرار دیا ہے۔ (’’مکاتیبِ اقبال بنام گرامی‘‘، ص:۱۷۸) اقبال کو اکبرؔ سے دلی عقیدت تھی‘ یہاں تک کہ ان کامرثیہ بھی کہا ہے: دریغا کہ رخت از جہاں بست اکبرؔ حیاتش بحق بود روشن دلیلے (’’باقیاتِ اقبال‘‘ ص:۱۳۰) اقبالؔ‘ اکبرؔ کو پیرومرشد اوررہبر کہتے ہیں۔ ان کے تتبع میں شعر کہہ کر ’’اکبری اقبال‘‘ کہلائے اور ان کے کلام میں تضمین کر کے ان کی عظمت کااعتراف کیا ہے جبکہ اکبرؔ ‘ اقبال کوروحانی دوست کہہ کر پکارتے ہیں اورخطوط میں ملاقات پر زور دیتے ہیں اور رازونیاز کے خواہش مند ہیں: ’’امسال ضرور ملنا بعض باتیں ایسی ہیں جو خطوط میں نہیں سما سکتیں‘‘۔ مآخذ: ۱) عبدالماجد دریا بادی‘ علاّمہ۔ ’’معاصرین‘‘ ص: ۲۵۔۳۲‘ ۲) محمد زکریا‘ خواجہ ‘ ڈاکٹر‘ ’’اکبر الٰہ آبادی۔ تحقیقی وتنقیدی مطالعہ‘ ص: ۹۔۵۱ ۳) مجلہ ’’اقبال‘‘ اپریل‘ جولائی ۱۹۷۷ء ص:۱۶۱۔۲۰۴ ۴) عبدالعزیز کمال ’’اقبال اور اسلامی روایت‘‘ ص:۱۰۱ ۹؎ مولانا ظفر علی خان (۱۸۷۳ئ۔۱۹۵۶ئ) جنجوعہ راجپوت‘ آبائی وطن داراپور (ضلع جہلم) ابتدائی تعلیم کے بعد علی گڑھ یونی ورسٹی سے ۱۸۹۴ء میں امتیاز کے ساتھ بی اے کر کے پہلے بمبئی‘ پھر حیدرآباد پہنچے ۔ریاست میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے اور اہم علمی ادبی کام بھی انجام دیے وہیں سے ۱۹۰۵ء میں ماہنامہ ’’دکن ریویو‘‘ جاری کیا۔ مولانا صاحبِ طرز شاعر‘ منفرد صحافی اور یگانہ ادیب تھے۔ برطانوی استبداد کی قیدوبند میں رہے‘ مگر زبان و قلم بند نہ ہوئے۔ اقبال اور ظفر علی خان کے فکروعمل کے کئی پہلو مشترک ہیں۔ دونوں حضرات ادبیات میں منفرد اسالیب کے حامل تھے۔ دونوں نے قومی و ملی امنگوں اورتحریکوں کی تب و تاب کے لیے قلمی جنگ کی۔ عمرانیات و سیاسیات میں عملی طور پر بھی دونوں اکابر نے ملک و ملت کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ فکرونظر اور نصب العین کے اسی اشتراک کے باعث دونوں کے مابین قربت و رفاقت کے گہرے اور موثر رشتے کا استوار ہونا بعیداز فہم نہیں۔ مآخذ: ۱) ’’نامورانِ علی گڑھ (تیسرا کارواں)‘‘ جلد اول‘ ص:۶۳ ۲) غلام حسین ذوالفقار ‘ ڈاکٹر ’’مولانا ظفر علی خان۔ حیات ‘ خدمات و آثار‘‘ ۳) جعفر بلوچ‘ ’’اقبال اور ظفر علی خان‘‘ ۱۹۹۵ء ۱۰؎ خواجہ حسن نظامی نے خط لکھ کر اقبال سے معذرت کی: ’’میں اپنی بدگمانی کو واپس لے کر آپ سے عذر کرتا ہوں۔ اب مجھے اس تگ و دو میں آپ سے کوئی سروکار نہ ہوگا‘‘۔ (’’انوار‘‘،ص:۱۸۳) اقبال نے اس خط کے جواب میں درج بالا مفصل خط لکھا اور اپنے مؤقف کی وضاحت کی۔ اس مراسلت کے بعد حسن نظامی نے اپنے ایک مضمون ’’جناب اقبال و حسن نظامی‘‘ مطبوعہ ہفت روزہ ’’خطیب‘‘ میں بھی وضاحت کی کہ وہ مسئلۂ تصوف کے سلسلے میں اختلافی گفتگو سے دستبردار ہوتے ہیں۔ (۴) خواجہ حسن نظامی کا مرتبہ ’’قرآن آسان قاعدہ‘‘ شائع ہوا تو اس کے بارے میں متعدد اکابر نے اپنی آرا‘ خواجہ صاحب کو لکھ بھیجیں۔ علاّمہ اقبالؔ نے اپنی رائے کااظہار مندرجہ ذیل خط کے شکل میں کیا: جناب خواجہ صاحب‘ السلام علیکم ورحمتہ اللہ قرآن آسان قاعدہ بظاہر خوب معلوم ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ ضرر کرنا چاہیے گو مجھے اندیشہ ہے کہ تجربات میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ کیا آپ نے اپنے بچوں میں سے کسی کو اس قاعدے کے مطابق قرآن شریف پڑھایا ہے؟ اگر آپ نے ایسا کیا تو مجھے یقین ہے کہ اور مسلمان بھی اس قاعدے سے مستفید ہوں گے۔ میں نے خود کبھی بچوں کو قرآن شریف نہیں پڑھایا۔ اس واسطے ان مشکلات سے ناواقف ہوں جو استادوں کو پیش آیا کرتی ہیں۔ محمد ؐاقبالؔ لاہور ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۲ئi؎ تحقیقِ متن: i؎ ’’انوار‘‘ (ص:۲۸۳) میں یہ خط نامکمل ہے اور القاب وآداب کے بغیر ایک سطری رائے پر مشتمل ہے۔ اس خط کا مکمل متن ’’خطوطِ اقبال‘‘ (ص:۱۱۹) میں شائع ہوا ہے‘ لہٰذا مذکورہ متن ’’خطوط اقبال‘‘ سے لیا گیا ہے۔ بنام ثاقب کانپوری تعارف: مولوی حاجی سیّد ابو محمد ثاقب کانپوری‘ تلمیذ احسن اللہ خاں احسن‘ نہایت خوش گوشاعر تھے۔ اصل وطن کڑا ضلع الٰہ آباد تھا ‘ مگر یہ ۱۹۰۴ء میں کانپور میں پیدا ہوئے۔ ثاقب کانپوری نے ابتدائی درجوں سے مولانا محمد حسین محوی صدیقی لکھنوی اور اس کے بعد مولانا حافظ عبدالحلیم صدیقی نائب ناطم جمعیۃ العلمائے دہلی سے درسی کتابیں پڑھیں او آخر میں علم و ادب کا درس علاّمہ آزاد سبحانی سے لیا۔ حافظ محمد صدیق (ملا رموزی) مولانا سعید رزمی اور پروفیسر محمد طاہر فاروقی ان کے ہم درس تھے۔ سولہ سال (۱۹۱۹ئ) کی عمر میں ان کوشاعری کا شوق پیدا ہوا۔ ۹۱۹۲۵ میں مولانا تاجور نجیب آبادی نے انجمنِ اربابِ علم پنجاب کی جانب سے متحدہ ہندوستان کے تمام شعرا کو ایک انعامی مقابلے کی دعوت دی‘ جس کے لیے بارہ مختلف عنوانات پرنظمیں لکھوائی گئیں۔ ثاقبؔ نے بھی تین نظمیں لکھ بھیجیں‘ جو اول انعام کی حق دار قرار دی گئیں اور ان کی اڑھائی سو روپیہ نقدانعام اور ’’سحرطرزار‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔ ان کی شاعری پر جن شعرا کے کلام نے نمایاں اثر ڈالا وہ میرؔ‘ غالبؔ اوراقبالؔ ہیں۔ اقبالؔ کی ’’زبورِ عجم‘‘ نے تو ان کی دنیائے تخیل ہی بدل ڈالی۔ ثاقبؔ کے دو مجموعۂ کلام ’’متاع درد‘‘ (۱۹۳۰ئ) اور ’’روحِ جاوداں‘‘ (۱۹۲۰ئ) میں شائع ہوئے۔ ’’روحِ جاوداں‘‘ اُردو اکیڈمی سندھ‘ کراچی نے شائع کیا۔ ثاقبؔ نے ۷؍دسمبر ۱۹۵۵ء کانپور میں وفات پائی۔ مآخذ: ۱) مظفر حسین برنی‘ سید،’’کلیات مکاتیب، سوم‘‘ ص:۷۷۹، ۷۸۰ ۲) عبداللہ قریشی، ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘ ص: ۴۴۹۔۴۵۳ (۵) لاہور ۳۰؍جولائی ۱۹۳۰i؎ محبّی۔ آپ کا مجموعہ۱؎ ملا۔ آپ کے کلام میں جو تناسب ہے وہ نوجوان شعرا کے یہاں بہت کم ملتا ہے۔ آپ کے ایک شعر نے مجھے تڑپا دیا۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ جان دیتا ہوں قفس میں دونوں پَر کھولے ہوئے حسرتِ پرواز میں بھی شان ہے پرواز کی۲؎ مخلص محمدؐ اقبالؔ تحقیق متن: ۱؎ یہ خط ’’چراغ راہ‘‘ مارچ ۱۹۶۰ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں کلیات مکاتیب‘ سوم (ص:۱۴۴) میں شائع ہوا۔ ’’انوار‘‘ میں یہ خط بلا تاریخ ہے۔ صابر کلوروی صاحب نے اس کا سنہ اشاعت ۱۹۳۰ء متعین کیا ہے۔ (اشاریہ مکاتیب‘‘ ص:۸۹) کلیاتِ مکاتیب‘ سوم کی فہرست اور متن میں یہ بلا تاریخ ہے جبکہ ثاقب کانپوری کے حالات میں بتایاگیا ہے کہ یہ خط ۳۰؍جولائی ۱۹۳۰ء کو لکھا گیا۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ اس مجموعے کا نام ’’متاعِ درد‘‘ ہے (تصانیفِ اقبالؔ‘ ص: ۲۴۹)۔ یہ مجموعہ ۴۷ نظموں‘ ۷۵غزلوں اور ۴۵رباعیوں پر مشتمل ہے۔ ۲؎ اس شعر کی خوبی بقول عندلیب شادانی مرحوم یہ ہے: ’’شاعر کو پہلے سے معلوم ہے کہ طائر جب اُڑنا چاہتا ہے تو اپنے دونوں بازو کھول دیتا ہے۔ اب اس نے دیکھا کہ ایک پرندہ قفس میں بند‘ دونوں بازو پھیلائے جان توڑ رہا ہے۔ سببِ مرگ خواہ کچھ بھی ہو لیکن اس کی مُتخیِّلَہ نے ان معلومات کو ایک نئی شکل میں مرتب کر کے پیش کر دیا۔ یعنی اس آخری لمحے میں دونوں کا پھیلا ہونا اس کے نزدیک دلیل ہے اس امر کی کہ طائرِ محبوس کو تمام زمانۂ قید میں آزدی کی تمنا رہی حتّٰی کہ مرتے مرتے بھی قفس سے چھوٹ کر پرواز کر جانے کی حسرت اس کے دل میں موجود تھی‘‘۔ مآخذ: عبداللہ قریشی: ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘ ص: ۴۵۲ بنام خواجہ وصی الدین تعارف: خواجہ وصی الدین ڈپٹی کلکٹر‘ جو خواجہ عزیز الدین عزیز لکھنوی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ انھوں نے والد کے انتقال کے بعد ان کا ’’کلیات‘‘ طبع کرایا اور اس کا ایک نسخہ علاّمہ کی خدمت میں ارسلا کیا (۶) لاہور ۹؍جون ۱۹۳۱ء جناب مکرم السلام علیکم۔ کلیات عزیز۱؎کا ایک نسخہ جو آپ نے بکمال عنایت ارسال فرمایا ہے مجھے مل گیا ہے‘ جس کے لیے میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں۔ نوازش نامہ میں جو کچھ آپ نے میرے متعلق ارشاد فرمایا ہے وہ آپ کے حسنِ اخلاق کا نتیجہ ہے۔ خواجہ عزیز مرحوم فارسی ادبیات کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جس کی ابتداء شہنشاہ اکبر ۲؎کے عہد سے ہوئی۔ افسوس کہi ؎وہ دور ہندوستان میں ان کی موتii؎ پر ختم ہوا۔ ایرانی تخیل نظم کی شاہراہوں کو چھوڑ کر اب زیادہ تر نثر میں اپنے کمالات دکھا رہا ہے۔ شعرائے متاخرین میں قآنی۳؎ کا آوازہ بہت بلند ہوا اور اب تک بلند ہے لیکن خواجہ عزیزم مرحوم کے قصائد اور مخمسات جو انھوں نے قآنی کی زمینوں میں لکھے ہیں۔ وہ فارسی زبان کی موسیقیت اور خواجہ مرحوم کی اس زبان پر قدرت کابین ثبوت ہیں۔ مثلاً: سحر گہاں بیادِ حق ز طائرانِ فرق فرق غزل سرا بداں نسق کہ کودکان ہم سبق شفیق‘ لعلگوں و ثق iii؎چنانکہ درافق شفق شگفتہ گُل ورق ورق بسعی ابر درعرق بہرورق طبق طبق گُہر کند نثار ہا۴؎ غزل میں ان کی نظر بیشتر روحانی حقائق پر رہتی ہے اور ان حقائق کو وہ نہایت آسانی اور لطافت کے ساتھ ادا کر جاتے ہیں۔ مثلاً دوغنچہ ہست دو عالم ز گلشنِ صنعش یکے شگفتہ‘ یکے ناشگفتہ است ہنوز زِ کوثر آں طرف است آبجوئے مقصدِ تو عنان بجانب ناب از رہِ سراب انداز برآز پردہ و احوال حبیب و داماں بیں تو مہوشی و تماشائیاں کتاں پوشند رسولِ ملت منصورم‘ احوالم چہ می پُرسی رسیدستم بمعراجے کہ نام دیگرش داراست۵؎ خواجہ عزیز کے اس شعر سے ایک اورiv؎ ہندی شاعر۶؎کا شعر یاد آگیا جس کے لطف سے میں آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا۔ انالحق گفتن منصور تاویلے نمی خواہد گداگم می کند خود راچو دولت می کند پیدا ۷؎ اسی طرح خواجہ مرحوم کے یہ شعر بھی حقائق سے لبریز ہیں ہنوز لوح و قلم بود در سوادِ عدم کہ نقشِ مہر تو برلوحِ دل نشست مرا نشاط وصل تو محروم دار دم ازوصل کہ درکنار چوآئی‘ زخود کنارہ کنم۸؎ یہ فیض ظہوری۹؎ اور نظیری۱۰؎ کا نہیں بلکہ کلام الٰہی کا فیض ہے اور خواجۂ مرحوم کو خود اس کا احساس تھا چنانچہ لکھتے ہیں: کے از ظہوری و ز نظیری رسد عزیز فیضے کہ از کلامِ الٰہی بمارسید۱۱؎ شفیق‘ لعلگوں و ثق iii؎چنانکہ درافق شفق شگفتہ گُل ورق ورق بسعی ابر درعرق مخلص محمدؐاقبال لاہورv؎ ؎ تحقیق متن: یہ خط ’’ماہِ نو‘‘ اقبال نمبر‘ ستمبر ۱۹۷۷ئ‘ (ص۳۵۹) اور کلیاتِ مکاتیب‘ سوم‘‘ (ص:۲۱۶) میں بھی شامل ہے۔ کلیاتِ مکاتیب اور ’’انوار‘‘ کا متن یکساں ہے‘ جبکہ‘ ماہِ نو‘‘ کے متن میں کچھ اختلاف نظر آتا ہے مثلاً: i؎ ’’انوار‘‘ میں ’’افسوس ہے کہ‘‘ ہے اور ’’ماہِ نو‘‘ میں ’’افسوس کہ‘‘ ہے۔ ii؎ ’انوار‘‘ میں ’’ذات‘‘ ہے اور ماۂ نو‘‘ میں ’’موت‘‘ ہے اور یہی صحیح ہے۔ iii؎ ’انوار‘‘ میں ’’شق‘‘ ہے اور ماہِ نو میں ’’ثق‘‘ ہے۔ iv؎ ’انوار‘‘ میں ’’ایک ہندی شاعر‘‘ ہے اور ’’ماہِ نو‘‘ ’’میں ایک اور ہندی شاعر‘‘ ہے۔ v؎ ’انوار‘‘ میں خط کے اختتام پر بھی تاریخ درج ہے جبکہ ’’ماہِ نو میں خط کے آخر میں تاریخ تحریر درج نہیں ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ خواجہ عزیز الدین عزیز لکھنوی ہندوستان کے فارسی گو شعرا میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ ان کے والد خواجہ امیرالدین درابوشال اور پشمینہ کی تجارت کے سلسلے میں کشمیر سے لکھنؤ آئے اور یہیں کے ہورہے۔ یہ نواب واحد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ خواجہ عزیز یہیں ۱۹۳۷ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے عربی فارسی کی تعلیم نہایت فاضل اساتذہ سے حاصل کی۔ کیننگ کالج لکھنؤ میں فارسی کے پروفیسر ہو گئے۔ اقبال‘ خواجہ عزیز کی شاعرانہ عظمت سے بخوبی واقف تھے۔ جب انھوں نے اپنی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کے کچھ حصوں کی تکمیل کی توچاہا کہ اسے لکھنؤ جا کر خواجہ عزیز کو سنا آئیں لیکن لاہورکے علائق نے نہیں چھوڑا۔ خواجہ عزیز نے نوسال۹؎تک تدریسی فرائض انجام دیے۔ ان کے صاحزادے خواجہ وصی الدین نے ان کا مجموعہ کلام‘ ’’کلیات عزیز‘‘ ۱۹۳۱ء میں طبع کرایا۔ یہ پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ تشریحات اور مختصر تاریخ کشمیر اس کے علاوہ ہے۔ چار فوٹو بلاک بھی کتاب کی زینت ہیں۔ دیگر تصانیف میں ’’یدِ بیضا‘‘ قیصر نامہ‘‘ ،’’اورنگِ حضوری‘ اور ہفت بند عزیزی‘‘ نسبتاً معروف ہیں۔ مثنوی ’’ارمغانِ احباب‘‘ بھی لکھی تھی مگر وہ چھپ نہ سکی۔ ۱۹۱۴ء میں فوت ہوئے۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر‘ جلد دوم‘ ص:۹۵۳ ۲) عبداللہ قریشی’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘ ص:۹۳۔۱۰۱ ۳) عبداللہ قریشی۔ (مرتب) ’’اقبال بنام گرامیؔ‘‘ ص:۱۰۵ ۲؎ جلال الدین محمد اکبر ۱۵۴۳ء میں پیدا ہوا۔ باپ کی وفات کے بعد ۱۵۵۶ء میں تخت نشین ہوا۔ پانی پت کی لڑائی میں فتح حاصل کر لینے کے بعد سلطنت کا تزلزل ایک حد تک ختم ہوا۔ جب تک اکبر اٹھارہ سال کا نہ ہو گیا۔ بیرم خاں مختارِ سلطنت رہا۔ جب خود اکبر نے انتظامات سنبھال لیے تو عظیم الشان فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اکبر ایک اچھا منتظم تھا‘ اس نے ملکی اور فوجی نظام کو بہتربنایا ۔ اکبر کے عہد میں علوم و فنون نے بھی بے حد ترقی کی۔ ایران کے بڑے بڑے شاعر یہاں آئے اور اعلیٰ منصب پایا۔ اس کے دربار میں فیضی بہت بڑا شاعر تھا۔ ہندی کے شاعر تلسی داس نے بھی اکبر ہی کا عہد پایا۔ مشہور زمانہ موسیقار تان سین بھی اکبر ہی کے دربار سے وابستہ رہا۔ مذہبی خیالات کے اعتبار سے اکبر کو راسخ العقیدہ مسلمان نہیں سمجھا جاتا اس نے دینِ الٰہی کی بنیاد رکھی ۔ علاّمہ اقبالؔ ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں کہتے ہیں: ؎تخم الحادے کہ اکبر پرورید باز اندر فطرت دارا دمید (کلیات‘ فارسی‘ ص:۱۱۰) مآخذ: ۱)ہاشمی فرید آبادی‘ سید‘ ’’محمد بن قاسم سے اورنگ زیب تک‘‘ ص:۴۳۷۔۴۷۸ ۲) اکبر حسین قریشی‘ ڈاکٹر‘ ’’مطالعۂ تلمیحات‘‘ ص: ۱۷۷ ۳؎ قاآنی کا پورا نام مرزا حبیب اللہ تھا اور قاآنی تخلص۔ وہ ۱۸۰۷ء میں بمقام شیراز میں پیدا ہوئے۔ شاعری ورثے میں ملی۔ حکمت و بلاغت اورعلوم و فنون میں کامل دستگاہ پیدا کی۔ علومِ درسیہ کے علاوہ فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔ انھوں نے تمام اصنافِ سخن میں زورِ قلم آزمایا۔ ضخیم دیوان کے علاوہ‘ ایک نثری کتاب ’’پریشان‘‘ ان کی یادگار ہے۔ یہ کتاب گلستانِ سعدی کے تتبع میں ہے۔ وہ ماہر موسیقی بھی تھے‘ اس لیے ان کا کلام مترنم اور موسیقی سے پر ہے۔ وہ آخری ایرانی شاعر ہیں جن کی اقبال نے توصیف کی ہے۔ علاّمہ فرماتے ہیں کہ ایرانی شاعری کا قاآنی پر خاتمہ ہوگیا اور معاصر عہد میں ایرانی تفکر‘ نثر کے میدان میں جولانیاں دکھا رہا ہے۔ (’’اقبال نامہ‘ دوم‘‘،ص:۱۵۷)۔ علاّمہ نے قاآنی کے ایک شعر کو تضمین کیا ہے۔ شیخ مکتب ہے ایک عمارت گر جس کی صنعت ہے روحِ انسانی نکتۂ دل پذیر تیرے لیے کہہ گیا ہے حکیم قاآنی ’’پیش خورشید برمکش دیوار خواہی اور صحن خانہ نورانی‘‘ (کلیات‘ اردو‘ ص:۴۵۶) علاّمہ نے مثنوی’’رموزِ بے خودی‘‘ میں حضرت علیؓ کی تعریف میں ایک مصرع کہا ہے کہ ع اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر اس کی سند میں اقبال نے لکھا ہے کہ چونکہ حضرت علیؓ کوقاآنی نے ’’بای بسم اللہ‘ کہا ہے ‘ اس لیے انھوں نے بھی ایسی ترکیب استعمال کی ہے۔ مآخذ: ۱)امداد اثر امام‘ سید ’’کاشف الحقائق‘‘ ص: ۴۹۲۔۴۹۷ ۲) محمد ریاض‘ ڈاکٹر ’’اقبال اور فارسی شعرأف‘‘، ص:۳۱۴۔۳۲۰ ۳) شبلی نعمانی‘ علاّمہ ’’شعرالعجم (حصہ پنجم)‘‘ ص:۱۵ ۴) عابد علی عابد‘ سید‘’’تلمیحاتِ اقبال‘‘،ص:۲۳۷ ۴؎ ترجمہ (۱) صبح کے وقت خدا کی یاد میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اس طرح غزل سرا تھے جیسے ہم سبق بچے(مل کر سبق پڑھتے ہیں) ۲) سرخ لالہ لعل ناب جیسا یوں جھک رہا ہے جیسے افق میں شفق۔ پھولوں کی ہر پنکھڑی شگفتہ تھی اور بادلوں کی مہربانی سے بھیگ رہی تھی۔ (۳) جو ہر پنکھڑی پر طباق بھربھر کے موتی نچھاور کر رہا تھا۔ ۵؎ ترجمہ (۱) اس کی صنعت کے گلشن میں دونوں جہان دو کلیوں کی طرح ہیں۔ ان میں ایک کھلی ہوئی ہے۔ دوسری ابھی کھلی نہیں ہے۔ ۲) تمھارے مقصد کی نہر‘ کوثر کے اس طرف ہے۔ خالص پانی کی ظفر سراب کے راستے سے اپنی باگ موڑ کر جاؤ ۳) پردے سے باہر نکلو اور اپنے جیب و دامن کا حال دیکھو تم چاند سا چہرہ رکھتے ہو۔ سب کتان پہنے ہوئے ہیں۔ (جو چاندنی میں پھٹ جاتا ہے) ۴) میں منصور کی امت کا رسول ہوں۔ میرا حال کیا پوچھتے ہو۔ میں ایسی معراج تک پہنچ گیا ہوں‘ جس کا دوسرا نام دار(صلیب) ہے ۶؎ ہندی شاعر سے مراد ملا باقر شہید ہیں‘ جن کے بزرگ طہران سے تعلق رکھتے تھے اور وہ قومِ اتراک سے تھے۔ شہید کا مولد احمد آباد گجرات ہے۔ بعد میں یہ اورنگ آباد میں مقیم ہو گئے تھے۔ حرمین شریفین کا سفر اختیار کرنے سے کچھ پہلے یہ شیخ محمد علی حزیں کی صحبت میں رہے اور ان کی شاگردی کا فخر حاصل کیا۔ نوکری ترک کرے خانہ نشین ہوگئے تھے۔ ایک ضخیم دیوان ان کی یادگار ہے۔ مآخذ: عبداللہ قریشی: معاصرین اقبالؔ کی نظر میں‘ ص:۹۹ ۷؎ ترجمہ منصور کے اناالحق کہنے کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھکاری کو دولت مل جاتی ہے تو وہ خود کو بھول جاتا ہے۔ ۸؎ ترجمہ (۱)ابھی لوح وقلم عالمِ نیستی میں تھے‘ جب تمھاری محبت کا نقش میرے دل کی تختی پر جم چکا تھا۔ (۲) تمھارے وصال کی خوشی ہی مجھے وصال سے محروم رکھتی ہے۔ تم جب میرے پہلو میں آ جاتے ہو تو میں اپنے آپ میں نہیں رہتا (بے خود ہو جاتا ہوں) ۹؎ ملا نورالدین محمد نام اور ’’ظہوری‘‘ تخلص تھا۔ اصل وطن اور جائے پیدائش (۱۵۳۷ئ) تو قاین تھا لیکن یہاں تعلیمی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے اس نے ابتدائی تعلیم ترشیز میں حاصل کی‘ اس لیے ’’ترشیزی‘‘ مشہور ہوا۔ شاعر اور نثرنگار تھا۔ جوانی میں ہندوستان پہنچا۔ وہاں سے حج کو گیا۔ اس کے بعد واپس احمد نگر میں وارد وہا اور پھر ابراہیم عادل شاہ دوم کے پاس بیجا پور (دکن) پہنچا۔ وہیں وفات پائی۔ ’’سہ نثر ظہوری‘‘ عادل شاہ کے نام پر اور ’’ساقی نامہ‘‘ برہان نظام شاہ والی احمد نگر کے نام پر لکھا۔ علاّمہ اقبال خطوط میں ظہوری کے کلام کا حوالہ دیتے ہیں۔ مثلاً ’’اسرارِ خودی‘‘ لکھتے وقت ظہوریؔ کا کلام بھی پیشِ نظر تھا۔ ’’ظہوریؔ کے ساقی نامہ کے چند اشعار بھی زیر نظر تھے‘‘ (اقبال نامہ‘ اول‘‘، ص:۸۶‘ ۹۳‘۹۶) مآخذ: ’’تاریخِ ادبیاتِ مسلماناں پاک و ہند‘ چوتھی جلد‘ فارسی ادب (دوم‘‘ ص:۳۱۳۔۳۲۶) ۱۰) محمد حسین نام‘ نظیری تخلص اور نیشاپور وطن تھا۔ شاعری کا ابتدا سے شوق تھا۔ خراساں میں جب اس کی شاعری مسلم ہو چکی تو کاشان میں آیا۔ یہاں حاتم ‘ فہمی‘ مقصود ‘ خردہ‘ شجاع‘ رضائی شاعری میں استاد تسلیم کیے جاتے تھے۔ ان کے مشاعروں میں جو طرحیں ہوتی تھیں‘ نظیری بھی ان میں طبع آزمائی کرتا تھا۔وطن میں شعروسخن کے بے قدری اسے برصغیر کھینچ لائی۔ ۱۵۸۳ء میں عبدالرحیم خانخاناں کے دربار سے منسلک ہوا۔ وہیں عرفیؔ سے معرکے رہے۔ خانخاناں کے تَوَسّل سے ۱۶۰۲ء میں حج کیا۔ آخری عمر میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ احمد آباد میں ۱۶۱۳ء میں انتقال کیا۔ شہرت کا باعث غزلیات ہیں۔ دیوان تقریباً دس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ علاّمہ اقبالؔ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ میں نظیریؔ کے مصرعے پرتضمین کی ہے: بملک جم نہ دہم مصرعِ نظیری را ’’کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ ما نیست‘‘ (’’کلیات‘ فارسی‘‘ص:۳۲۹) نظیریؔ کا پورا شعر یوں ہے: ؎گریز از صفِ ما ہر کہ مرد غوغا نیست کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلۂ مانیست (’’مطالعۂ تلمیحات‘ ‘، ص:۳۰۹) مآخذ: ۱)صدیق شبلی‘ ڈاکٹر‘ فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ‘ ص:۲۳۴‘۲۳۵ ۲)تاریخ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک و ہند‘ جلد: ۴ (فارسی ادب) ص:۳۰۰۔۳۱۳ ۱۱؎ ترجمہ وہ فیض ظہوریؔ و نظیریؔ سے‘ اے عزیز؛ کب مل سکتا ہے‘ جو ہمیں کلام الٰہی کے ذریعے سے پہنچتا ہے۔ بنام عبدالعلی شوقؔ سندیلوی تعارف محمد عبدالعلی‘ سندیلہ کے شرفا میں سے تھے۔ ۱۸۹۴ء میں پیداہوئے۔ شوق تخلص تھا۔ تعلیم انٹرنس تک پائی۔ پہلے سندیلہ کے بنک گھر میں‘ پھر میونسپل کمیٹی میں ملازم رہے۔ وہاں سے مستعفی ہو کر ایک مدرسے میں معلمِ اعلیٰ ہوئے۔ شوقؔ نے ادب کی خدمت کرنے اورفنِ غزل گوئی کو ترقی یافتہ صورت میں دیکھنے کاایک عجیب منصوبہ تیار کیا کہ اپنے عصر کے تمام صاحبِ کمال شعرائے اردو کی شاگردی اختیار کر کے سب سے اصلاح لی جائے‘ چنانچہ انھوں نے مختلف اوقات میں اپنی پسندیدہ سولہ غزلیں اس زمانے کے پینتیس (۳۵) نامور اور مستند شعرا کی خدمت میں بغرضِ اصلاح بھیجیں۔ کچھ عرصہ تو یہ کاروبار چلتا رہا۔ پھررفتہ رفتہ اس ہرجائی پن کا راز فاش ہو گیا اور بعض اساتذہ نے اصلاح سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس طرح یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ مگر شوق نے غضب یہ کیا کہ نہ صرف ان سب اصلاحوں کو ۱۹۲۲ء میں یکجا کر کے ایک کتاب کی صورت میں شائع کر دیا بلکہ اس سلسلے میں حضرات اساتذہ کے جو نجی خطوط آئے تھے وہ بھی شائع کر دیے۔ کتاب چھپنے کے بعد عرصے تک ان اصلاحوں پر نقد و نظر ہوتا رہا اور بعض خطوط کا مذاق اُڑایا جاتا رہا کیونکہ ان میں طرح طرح کی فرمائشیں اور مطالبات تھے۔ اس کتاب کا نام ’’اصلاحِ سخن‘‘ ہے۔ مشاہیر شعرا میں احسن مارہروی‘ آرزو لکھنوی‘ علاّمہ اقبالؔ‘ اکبر الٰہ آبادی‘ بیخوددہلوی‘ سائل دیلوی‘ ثاقب لکھنوی‘ جلیل مانک پوری‘ ریاض خیرآبادی‘ شاد عظیم آبادی‘ صفی لکھنوی‘ عزیز لکھنوی‘ فانی بدایونی‘ مضطرخیرآبادی‘ نظم طباطبائی‘ وحشت کلکتوی‘ اور دیگر کئی اہم نام نظرآتے ہیں۔ ہر شعر کی اصلاح متعدد ناقدانِ سخن کے قلم سے پہلو بہ پہلو اور جداگانہ دکھائی دیتی ہے اور مصلحین سخن کے متعلق ایک لطیف موازنہ و مقابلہ بھی پیش کرتی ہے۔ اس موازنے اور مقابلے سے اگر کوئی دامن بچا کر نکل گیا ہے تو وہ اکبر الٰہ آبادی اورعلاّمہ اقبال ہیں‘ جو کسی کو شاگرد بنانے کے روا دار ہی نہ تھے۔ پھر بھی چلتے چلتے انھوں نے کوئی نہ کوئی مفید مشورہ دے دیا ہے۔ اصلاح کا یہ سلسلہ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۳ء تک جاری رہا۔ مآخذ: ۱)عبداللہ قریشی‘ ’’معاصرین اقبالؔ کی نظر میں‘‘ ص:۵۶۱۔۵۶۹ ۲) مظفر حسین برنی‘ سیّد‘ ’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘ ص: ۹۰۸ (۷) لاہور ۴؍نومبر ۱۹ئi؎ مکرم بندہ سلام مسنون۔ میں اس رنگ۱؎کی شاعری سے بے بہرہ ہوں۔ اس واسطے آپ کی تعمیل ارشاد سے قاصر ہوں۔ بظاہر کوئی غلطی اس میں نظر نہیں آئی۔ مخلص محمدؐ اقبال تحقیق متن i؎ یہ خط سب سے پہلے کتاب ’’اصلاحِ سخن‘‘ میں شائع ہوا۔ بعدازاں ’’ماہ نو‘‘ اقبال نمبر ستمبر ۱۹۷۷ء (ص:۳۵۸) اور ’’کلیات مکاتیب‘‘ دوم‘ (صؒ۱۴۶) میں بھی شائع ہوا۔ ’’انوار‘‘ کا متن ’’ماہ نو‘‘ اور ’’کلیات‘‘ کے مطابق ہے لیکن ’’اصلاح سخن‘ دوسراایڈیشن‘ ۱۹۹۰ئ‘‘ (ص:۱۷۶‘۱۷۷) میں سالِ تحریر ’’۱۹۱۹ء ‘‘ کے بجائے ’’۱۹ئ‘‘ ہے اور خط کے آخر میں درج ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ جیسا کہ مکتوب الیہ کے تعارف میں ذکر آیا ہے۔ انھوں نے تمام معاصر صاحبِ کمال شعرائے اردو کی شاگردی اختیار کر کے اصلاح لینے کا منصوبہ بنایا۔ علاّمہ اقبالؔ چونکہ روایتی شاعر نہیں تھے اس لیے روایتی شاگرد بنانے اوراصلاحِ سخن سے پہلو تہی کرتے۔ چنانچہ شوقؔ کی پہلی غزل پر ہی جس کا مطلع یہ تھا:؎ ؎خواب میں ان کا گلے مل کے جدا ہو جانا دل کے ارمانوں میں اک حشر بپا ہو جانا (’’اصلاح سخن‘‘،ص:۱۹) اقبال نے معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ میں اس رنگ کی شاعری سے بے بہرہ ہوں۔ (۸) ۱۹ئi؎ ؎ مخدومی السلام علیکم۔آپ کی غزل بہت اچھی ہے۔ زبان کی اصلاح تو میں کیا دوں گا۔ خیالات ماشاء اللہ خوب ہیں۔ ’’اے قافلۂ یاس۱؎…الخ‘‘ اس شعر کا پہلا مصرع پڑھ نہیں سکا۔ مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ یہ خط اوّلاً ’’اصلاحِ سخن (ص:۱۷۷) میں چھپا۔ پھر ماہِ نوَ‘‘ اقبال نمبر ستمبر ۱۹۷۷ئ(ص:۳۵۸) اور ’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘ (ص:۱۵۶) میں بھی شائع ہوا۔ ’’انوار‘‘ کا متن ان تینوں کے مطابق ہے۔ صابر کلوروی صاحب نے اس خط کا سنہ تحریر ۱۹۱۹ء متعین کیا ہے۔ (اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۸۹) جو صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ شوقؔ نے کم و بیش اسی عرصے میں خطوط لکھے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ شعر اس طرح ہے: ؎ اے قافلۂ یاس گزر دل میں نہ ہو گر پامال نہ کر گورِ غریبان تمنا (’’اصلاح سخن‘‘ ،ص:۳۰) پہلا مصرع بہت گنجلک اور مہمل سا ہے۔ اقبالؔ اس بات کو بہت دبے لفظوں میں کہہ گئے ہیں۔ اساتذہ میں جلیلؔ‘ سائلؔ۔ صفیؔ‘ نیازؔ‘ جگرؔ‘ ریاضؔ‘ شفقؔ‘ نوحؔ‘ بیخودؔ سبھی نے اسے قابلِ اصلاح سمجھا اور بیباکؔ نے تو یہ کہہ کر قلم زد کر دیا: ’’حضرت …میرے خیال میں اس شعر کے کوئی معنی نہیں ہیں‘‘۔ مآخذ: ۱)محمد عبدالعلی شوقؔ سندیلوی ’’اصلاح سخن‘‘ ص:۳۱۔۳۷ (۹) ۱۹ئi؎ ؎ مکرم بندہ۔تسلیم مجھے آپ کی غزل میں کوئی خامی نظر نہیں آئیii؎؎ … اگر نظر آتی تو کم از کم آپ کیiii؎؎ توجہ ضرور دلاتا۔ ’’اے قافلۂ یاس…الخ‘‘ مجھ سے پڑھا نہیں گیااور نہ مصرع کسی طرح سمجھ میں آتا ہے۔ یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ باقی اشعار خوب ہیں۔’’جُز خواب نہیں وعدۂ باطل۱؎…الخ‘‘ پرانا اور متبذل مضمون ہے۔ آپ کے باقی اشعار میں تازگی پائی جاتی ہے۔ مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن i؎ یہ خط اولاً ’’اصلاح سخن‘‘ (ص:۱۷۷) میں شائع ہوا۔ بعدازاں ’’ماہ نو‘‘ اقبال نمبر ستمبر ۱۹۷۷ء (ص:۳۵۸) اور ’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘ (ص:۱۵۵) میں شائع ہوا۔ اس خط کی تاریخِ تحریر ۱۹۱۹ء میں متعین کی گئی ہے جو کہ صحیح ہے۔ (اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۷۹) کیونکہ ’’اے قافلۂ یاس…الخ‘‘ کا تذکرہ پچھلے خط میں بھی کیا گیا ہے اور شوق نے اسی دورانیے میں یہ خطوط لکھے۔ ii؎ ’’ماہ نو‘‘ میں ’’کی‘‘ کے بجائے ’’کو‘‘ ہے‘ جبکہ ’’اصلاحِ سخن‘‘ میں ’’کی‘‘ ہے اور اسی کو ہم صحیح سمجھیں گے۔ حواشی تعلیقات ۱؎ شعر اس طرح ہے: ؎جُز خواب نہیں وعدۂ باطل کی حقیقت جُز وہم نہیں موجۂ طوفانِ تمناّ (’’اصلاحِ سخن‘‘،ص:۳۰) (۱۰) ۱۹۲۰ئi؎ مکرم بندہ۔ تسلیم حسنِ اعتقاد کی داد دیتا ہوں۔ زبانِ غزل۱؎میں فارسیت کی شان نہیں ہے ہمہ غیر محدود درِ ملکِ باطن بظاہر بہ قید تعین اسیرے (خوب شعر ہے) تحقیق متن: i؎ صابرکلوروی صاحب نے اس خط کی تاریخ تحریر ۱۹۲۰ء متعین کی ہے (اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۸۹) اور یہ درست ہے کیونکہ شوقؔ کی اسی غزل پراصلاح دیتے ہوئے یکم جولائی ۱۹۲۰ء کے خط میں محمد ضمیر حسن خاں دلؔ از شاہجہاں پور لکھتے ہیں: ’’یوں تو اردو اہل زبان بھی نہیں ہوں مگر ٹوٹی پھوٹی اردو سمجھ لیتا ہوں۔ فارسی زبان دانی کا قطعی مدعی نہیں ہوں‘‘ (اصلاح سخن‘ ص:۱۸۶) …یہ خط اوّلاً ’’اصلاحِ سخن‘‘ (ص:۱۷۷) میں چھپا اور پھر ’’ماہ نو‘‘ اقبال نمبر ستمبر ۱۹۷۷ء (ص:۳۵۸)‘ ’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘ (ص:۱۵۶)میں بھی شائع ہوا۔ ’’انوار‘‘ کا متن مذکورہ حوالوں کے مطابق ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ یہ غزل سات اشعار پر مشتمل ہے۔ علاّمہ اقبال نے درج ذیل اشعار پر اصلاح دی۔ ؎بہ حسن و جمالے عدیم المثالے بوصف وکمالے ندارد النظیرے اصلاح: بہ وصف و کمالے فقید النظیرے ؎بہ رو ماہتا بے بہ ضو آفتابے بہ خو لاجوابے فقید نظیرے اصلاح: بہ خو لاجوابے ندارد نظیرے ؎نبی لاجوابے علی انتخابے عجائب شہنشہ غرائب وزیرے (قلمزد) علاّمہ اقبالؔ نے اس شعر کوقلم زد کرنے کی تلقین کی۔ (’’اصلاح سخن‘‘، ص:۱۶۶۔۱۶۷) ۲؎ ترجمہ جوکچھ عالمِ ظاہر میں قیدِ تعیّن میں اسیر ہے‘ وہ سب ملکِ باطن میں غیر محدود ہے۔ بنام حاجی محمد احمد خاں سیتاپور تعارف حاجی محمد احمد خاں سیتاپور کے ذی علم رئیس تھے۔ انھوں نے ایک شاندار کتب خانہ قائم کیا تھا‘ جس میں مشاہیر عالم کے آٹوگراف کا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔ حاجی صاحب نے اکثر مشاہیر سے خط و کتاب کے ذریعے رابطہ قائم کیا ہوا تھا۔ یہ خطوط ایک البم کی شکل میں کتب خانے میں محفوظ ہیں۔ اس البم میں علاّمہ اقبال کے درج ذیل دو خطوط بھی ہیں۔ (۱۱) لاہور ۲۹؍مارچ ۱۹۱۹ء مکرم بندہ تسلیم۔ ’’محمل‘‘۱؎کو مَیں مذکر لکھتا ہوں۔ شاعر کے لٹریری اور پرائیویٹ خطوط سے اس کے کلام پر روشنی پڑتی ہے اور اعلیٰ درجے کے شعرا کے خطوط شائع کرنا لٹریری اعتبار سے مفید ہے۔ مخلص محمدؐاقبال تحقیق متن یہ خط کلیاتِ مکاتیب‘ دوم (ص:۷۶) میں شامل ہے اور غالباً ’’انوار‘‘ سے نقل کیاگیا ہے‘ اس لیے متن میں اختلاف نہیں ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ مَحمِل: عربی زبان کا لفظ ہے اور مذکر لکھا جاتا ہے۔(’’علمی اُردو لغت‘‘، ص:۱۳۵۷) (’’فرہنگِ عامرہ‘‘،ص: ۵۵۸) (۱۲) مکرم بندہ تسلیم ’’آبِ رواں‘‘ ان معنوں میں مُہَنَّدْ ہے‘ عام طور پر بغیر اضافت بولا جاتا ہے لیکن فارسی یا عربی الاصل الفاظ کی ترکیب میں اگر اضافت یا واوِ عاطفہ استعمال کریں تو میرے نزدیک غلط ہے۔ خواجہ آتشؔ کے اس شعر میں: کسی کی محرم آب رواں جو یاد آئی۱؎ لفظ ’’محرم‘‘ بھی مہنّد ہے جس کوانھوں نے مضاف کیا ہے۔ لفظ ’’تنخواہ‘‘ فارسی میں سامان کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اُردو میں اس کا مفہوم بالکل مختلف ہے لیکن چونکہ فارسی الاصل لفظ ہے اس واسطے اُردو میں اگر کوئی شخص تنخواہ ملازم یا تنخواہ تحصیل دار لکھے تو غلط نہ کہناچاہیے۔ علی ہذا القیاس لفظ ’’حسین‘‘ (یہ معنی خوب صورت‘ حورشکل) فارسی میں نہیں آتا لیکن اُردو میں سب لوگ حسین و جمیل و مہ جبیں بولتے اور لکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اُردو فارسی کے صدہا الفاظ داخل ہو گئے اسی طرح اضافت و واوِعطف بھی آئی گو اضافت اور عطف کا استعمال صرف ان الفاظ تک محدود ہے جو فارسی ہوں یا عربی ہوں‘ فارسی یاعربی الاصل ہوں‘ ہندی الفاظ میں درست نہیں۔ ’’آبِ رواں‘‘ کی ترکیب میں چونکہ دونوں لفظ فارسی ہیں اس واسطے اضافت غلط نہیں گو ’’مرکب افعال‘‘ کے اعتبار سے اُردو ہے۔ مگر اس بارے میں محققین اُردو کی رائیں مختلف ہیں۔ مزید اطمینان کے لیے کسی صاحبِ زبان کی طرف رجوع کریں۔ محمدؐ اقبال لاہور۔۲۸؍ستمبر۲۰ء تحقیق متن: یہ خط ’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘ (ص:۲۰۴) میں بھی شامل ہے اور غالباً ’’انوار‘‘ سے نقل گیا ہے اس لیے متن میں اختلاف نہیں ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ اقبالؔ سے پہلا مصرع سہواً غلط لکھا گیا ہے۔ اصل شعر یوں ہے: کسی کے محرمِ آبِ رواں کی یاد آئی حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا بنام ابوالمکارم محمد عبدالسلام متخلص بہ سلیمؔ تعارف: ۱۸۸۹ء کوریاست امب دربند‘ ہزارہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام مولانا قاضی محمد علی اور دادا کا مولانا سیّد علی تھا۔ درسِ نظامی کی تکمیل اپنے والد صاحب سے کی‘ پھر مدرسہ عالیہ رامپور سے سندِ فراغت حاصل کی۔ دہلی سے علومِ شرقیہ کی سندات حاصل کیں۔ آپ درالعلوم دیوبند کے بھی فاضل تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعدچند سال نمبر ۱ گورنمنٹ ہائی سکول پشاور میں اسلامیات کی تدریس کی‘ پھر استعفیٰ دے کر حجاز چلے گئے۔ وہاں چار پانچ سال کے قریب قیام رہا۔ اس اثنا میں مدرسہ‘ صولیتہّ‘ مکہ مکرمہ اور ’’نظامیہ‘‘ مدینہ منورہ میں ادبِ عربی کی تدریس کرتے رہے۔ حجاز سے واپسی کے بعد ٹیچرز ٹریننگ سکول ریاست میسور میں ادبِ عربی کے استاد مقرر ہوئے او آخر وقت تک تدریس کرتے رہے۔ ۱۹۴۶ء کے لگ بھگ آپ کاانتقال ہوا۔ محمد عبدالسلام سلیمؔ نے اپنے چند فارسی قصائد مرتب کر کے ’’نسیم سلیم‘‘ کے عنوان سے چھپوائے۔ ان قصائد میں ۲۲ اشعارکا ایک قصیدہ ’’نامہ بسوئے اقبال‘‘ کے عنوان سے اور ’’جوابِ اقبالؔ‘‘ کے عنوان سے اقبالؔ کا درجِ ذیل خط شامل ہے۔ مآخذ: فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر ‘ معاصرینِ اقبالؔ‘‘ ص:۲۳۷۔۶۳۹ (۱۳) لاہورi؎ ۱۵؍نومبر ۱۹۳۰ء مخدوم و مکرم جناب مولانا سلیمؔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ آپ نے مجھ‘ ہیچ مدان کے متعلق جن اچھے خیالات کا اظہار فرمایا ہے‘ میں ان کے لیے آپ کا بے حد ممنون ہوں۔ خدائے تعالیٰii؎آپ کو جزائے خیر عطا فرمائےiii؎۔آپ کے عربی قصائد بہت دل کش ہیں۔ ع اللہ کرے حسنِ رقم اور زیادہ مخلص: محمدؐ اقبالؔ بیرسٹر لاہور تحقیق متن: i؎ یہ خط ’’نقوش‘‘ خطوط نمبر‘ جلد1(ص: ۴۳۷) جنگ اقبالؔ نمبر ۱۹۶۵ء کے علاوہ کلیاتِ مکاتیب سوم (ص:۱۷۳۔۱۷۴) میں شامل ہے۔ ’’انوار‘‘ میں یہ خط بلا تاریخ ہے جبکہ ’’نقوش‘‘ میں تاریخِ تحریر درج ہے۔ مزید برآں صابر صاحب نے بھی اس خط کا سنہ تحریر ۱۹۳۰ء متعین کیا ہے (اشاریۂ مکاتیب‘‘، ص:۹۰) ii؎ ’’انوار‘‘ کے متن کا جائزہ ’’نقوش‘‘ میں شامل خط سے کیا گیا ہے۔ ’’انوار‘‘ میں خدا تعالیٰ ہے اور ’’نقوش‘‘ میں ’’خدائے تعالیٰ‘‘ اور میرے نزدیک یہ صحیح ہے۔ iii؎ ’’انوار‘‘ میں ’’جزائے خیر دے‘‘ ہے جبکہ ’’نقوش‘‘ میں ’’جزائے خیر عطا فرمائے‘‘ ہے۔ بنام عبدالقوی فانی تعارف: مولوی عبدالقوی فانی‘ چشتی صابری لکھنؤ یونی ورسٹی کے مورس کالج‘ ناگپور میں عربی اور فارسی کے پروفیسر تھے۔ ان کی کتاب ’’لسان و ادبیاتِ فارسی مغل دربار میں (بزبانِ انگریزی) تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ فانی نے متعدد قصائد اور نظمیں اکابر ہند کی مدح و ثنا میں فارسی میں لکھیں۔ چندقصیدے نظام حیدرآباد کی شان میں کہے‘ مجموعے کا نام ’’گلزارِ عثمانی‘‘ رکھا۔ یہ سب قصیدے اساتذہ سلف کی زمینوں میں ہیں۔ ان قصائد پرمشاہیر کی آراء ایک الگ رسالے میں شائع ہوئی ہیں۔ ۱۹۳۶ء میں فانی کا انتقال ہوا۔ مآخذ: عبداللہ قریشی: معاصرین اقبالؔ کی نظر میں‘ ص:۲۷۸‘ ۲۷۹ (۱۴) لاہورi؎ ۲۱؍مئی۱۹۳۲ئ (انگریزی) ڈیرسر‘ چند روز پہلے آپ کے قصائد کانسخہ موصول ہوا تھا۔ اس کے لیے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔ اگرچہ مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ میں اس نوع کی شاعری کااَچھاپا رکھ نہیں ہوں۔ تاہم ایک نظر دیکھنے کے بعد میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کے قصائد بہت شاندار ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں‘ جب ہندوستان میں فارسی ادب کا مطالعہ انتہائی محدود ہو کررہ گیا ہے‘ آپ کے قصیدے آپ کا بہت بڑا امتیاز ہے۔ آپ کا مخلص محمدؐ اقبالؔ تحقیق متن i؎ اصل خط انگریزی میں (متن دیکھیے: خطوط اقبالؔ‘ ص:۲۱۳)۔ یہ خط مکتوب الیہ کی مثنوی ’’عدلِ جہانگیری‘‘ میں شائع ہوا۔ ’’انوار‘‘ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ انگریزی خط کا ترجمہ ہے۔ علاوہ ازیں ’’انوار‘‘ میںیہ خط بِلا تاریخ ہے جبکہ انگریزی متن میں تاریخِ تحریر (۲۱؍مئی ۱۹۳۲ئئ) درج ہے۔ ’’انوار‘‘ کا ترجمہ لفظی ترجمہ ہے اس لیے ’’خطوطِ اقبال‘‘ (ص:۲۱۲) کے ترجمے کو صحیح قرار دیتے ہوئے شامل کیا گیا ہے۔ ’’کلیات مکاتیب‘ سوم‘‘ (ص:۲۸۲) میں بھی ’’خطوط اقبالؔ‘‘ ہی کا ترجمہ شامل ہے۔ بنام اظہر ؔعباس تعارف: خواجہ اظہر عباس مولانا حالی کے نواسے‘ خواجہ غلام الثقلین کے بیٹے اور خواجہ غلام السیدین کے چھوٹے بھائی تھے۔ ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علی گڑھ سے بی اے۔ ایل ایل بی کیا اور اس کے بعد دہلی آکر کئی سال تک حالیؔ پبلشنگ ہاؤس چلاتے رہے۔ جس نے ’’مسدسِ حالی اور دیگر شعروادب کی اہم کتابیں شائع کیں۔بعدازاں خواجہ اظہر عباس حکومتِ ہند کے ڈائریکٹر جنرل آف سپلائی اینڈ ڈسپوزلز میں آفیسر مقرر ہو گئے۔ اور وہاں ۱۹۶۱ء تک کام کیا‘ پھر بمبئی جا کر سکونت اختیار کر لی‘ انھوں نے ۱۹۶۸ء میں انتقال کیا۔ شعروشاعری سے بھی گہرا لگاؤ تھا اور ان کی حسِ ظرافت مشہور تھی۔ مآخذ: کلیاتِ مکاتیب‘ چہارم‘ ص:۶۸۸ (۱۵) ۸؍نومبر۱۹۳۵ء ڈیرمسٹر اظہرؔعباس آپ کا خط مل گیا۔ اس سے پہلے بھی ایک خط موصول ہوا تھا مگر افسوس کہ میں علالت کی وجہ سے خطوط کا جواب لکھنے میں بہت سست ہو گیا ہوں۔ ’’مسدس ۱؎حالیؔ‘‘ نہایت عمدہ چھپی ہے اور اس کے متعدد دیباچے نہایت مفید ہیں۔ میں نے کئی سالوں بعد اسے کل اور پرسوں دوبارہ پڑھا اور نیا لطف اٹھایا۔ امید ہے کہ آپ مرحوم کا باقی کلام بھی اسم قسم کی چھوٹی چھوٹی اور نفیس جلدوں میں شائع کر سکیں گے۔ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: یہ خط ’’چراغِ راہ‘‘ اپریل ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ مولانا حالی (۱۸۳۷۔۱۹۱۴ئ) کا مشہور مسدس’’مدّوجزر اسلام‘‘ جو ’’مسدسِ حالیؔ‘‘ کے نام سے مشہور ہے‘ اُردو نظم کی تاریخ کا ایک شاہکار ہے۔ حالیؔ کے متعلق علاّمہ اقبالؔ کا ارشاد ہے۔ آں لالۂ صحرا کہ خزاں دید و بیفسرد سید دگر اُو رانمی از اشکِ سحر داد حالیؔ زِ نواہائے جگر سوز نیا سود تا لالۂ شبنم زدہ را داغِ جگر داد سر سید کے نزدیک اس کی اہمت یہ تھی کہ وہ اس کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ مسدس کی رسید میں جو خط سر سید نے شملہ سے مولانا حالیؔ کو لکھا ہے‘ اس میںفرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب خدا مجھ سے پوچھے گا کہ دنیا میں کیا کیا؟ تو جواب دوں گا کہ حالیؔ سے مسدس لکھوا لایا ہوں۔ شاید ہی کسی شاعر یا مصنف کو اپنے کلام کی ایسی داد ملی ہو گی… مسدس مسلمانوں کے عروج و زوال کی ایک مؤثر داستان ہے‘ جس سے مسلمانوں کی پوری تاریخ آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ اُردو میں قومی شاعری کی یہ پہلی کوشش ہے جو ادب العالیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ علاّمہ اقبالؔ کے پیشِ نظر بھی مسلمانوں کا عروج و زوال تھا چنانچہ ان کی نظموں بالخصوص ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں وہی موضوع ہے جو ’’مسدسِ حالیؔ‘‘ کا ہے۔ مآخذ: ۱) رفعت قریشی (مقالہ نگار)‘ مسدس ’’مدوجزر اسلام‘ تنقیدی و تحقیقی جائزہ (مقالہ: ایم اے)‘ نگران: غلام حسین ذوالفقار ۲) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر‘ ’’ملفوظاتِ اقبال مع حواشی و تعلیقات‘‘، ص:۳۲۵۔۳۲۶ بنام شاطر مدراسی تعارف: شمس العلماء ابوالمعانی محمدعبدالرحمن شاطرؔ‘ مدراس کے رہنے والے تھے‘ آپ مولوی عبدالغنی خان امیر کے فرزند اور سکندر جنگ بہادر اوّل شہزادہ ارکاٹ کے پوتے تھے۔ شاطر اُردو‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی زبانوں سے واقف تھے۔ مدراس ہائی کورٹ میں مترجم رہے۔ ’’کارنامہ دانش‘‘ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے‘‘ اعجازِ عشق‘‘ شاطرؔ کی ایک فلسفیانہ نظم ہے‘ جو ایک طویل رائیہ قصیدہ ہے‘ اس میں جدید و قدیم فلسفیانہ مسائل و آرا سے الٰہیات اسلامیہ کی تفسیر و تشریح کی ہے‘ یہ نظم ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی۔ ان کا انتقال ۱۹۴۳ء میں ہوا۔ مآخذ: سید سلیمان ندوی: یادرفتگاں‘ ص: ۲۷۹۔۲۵۰ (۱۶) از لاہور گورنمنٹ کالج ۲۴ ؍فروری i؎ ۱۹۰۵ء مخدوم و مکرم جناب شاطر تسلیم۔ آپ کا نوازش نامہ مع قصیدہ پہنچا۔ اس قصیدے کا کچھ حصہ مخزن۱؎میں شائع ہو چکا ہے اور پنجاب میں عموماً پسندیدگی اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ ہمارے ایک کرم فرما جالندھر میں ہیں‘ میں نے سنا ہے کہ وہ اس کو نہایت پسند کرتے ہیں اور اس کے اشعار کو انھوں نے اتنی دفعہ پڑھا ہے کہ اب ان کو وہ تمام حصہ جو مخزن میں شائع ہو چکا ہے ازبر یاد ہے۔ اکثر اشعار نہایت بلند پایہ اور معنی خیز ہیں۔ بندشیں صاف اور ستھری ہیں اور اشعار کا اندرونی درد مصنف کے چوٹ کھائے ہوئے دل کو نہایت نمایاں کر کے دکھا رہا ہے۔ انسان کی روح کی اصلی کیفیت ’’غم‘‘ ہے خوشی ایک عارضی شے ہے۔ آپ کے اشعار اس امر پر شاہد ہیں کہ آپ نے فطرتِ انسانی کے اس گہرے راز کو خوب سمجھا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں اس کے سقموں سے آپ کو آگاہ کروں۔ میں آپ کے حسنِ ظن کا ممنون ہوں مگر بخدا مجھ میں یہ قابلیت نہیں کہ آپ کے کلام کو تنقیدی نگاہ سے دیکھوں۔ میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ میرے اشعار کو نہایت وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن آپ نے شاید میرے حق سے بڑھ کر مجھے داد دی ہے۔ میں آپ کے نوازش نامے کاابتدائی حصہ دیکھ کر شرمندہ ہوتا ہوں اور آپ کی وسعتِ قلب پر حیران۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے اور ہمیشہ بامراد رکھے۔ آپ کے خاندانی تعزز کا حال معلوم کر کے مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ آپ لوگ گزشتہ کاروانِ اسلام کی یادگار ہیں اور اس وجہ سے ہر طرح واجب الاحترام اورقابلِ تعظیم ہیں۔ جس قصیدے کے ارسال کرنے کا وعدہ آپ فرماتے ہیں اس کا شوق سے منتظر رہوں گا۔ والسلام آپ کا نیاز مند محمد ؐاقبالؔ از لاہور گورنمنٹ کالج بھاٹی دروازہii؎ تحقیق متن: (i) ’’انوار‘‘ (ص:۱۸) میں ’’۲۲‘‘ درج ہے۔ (ii) ’’انوار میں خط تقریظ کی صورت میں ہے‘ تاہم نامکمل خط ہے اور القاب و آداب درج نہیں ہے۔ ’’خطوطِ اقبال‘‘ (ص:۶۹۔۷۰) میں مذکورہ خط مکمل طور پر شامل ہے۔ تعلیقہ ۱؎ مخزن: لاہور سے یہ ادبی و تاریخی رسالہ اپریل ۱۹۰۱ئء کو ظہور پذیر ہوا۔ ۴۸ صفحات پر مشتمل تھا۔ اس کے مالک و ایڈیٹر شیخ عبدالقادر تھے۔ دو قسم کے کاغذوں پر چھپتا تھا۔ رسالہ جاری کرنے کے ساڑھے تین سال کے بعد شیخ عبدالقادر ولایت چلے گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں ان کے اسسٹنٹ ایڈیٹر محمداکرام نے رسالے کا معیار برقرار رکھا ’’مخزن‘‘ نکالنے کے چھ سال کے بعد شیخ عبدالقادر ۱۹۰۷ء میں دہلی چلے گئے‘ وہاں پریکٹس شروع کر دی تو رسالے کا دفتر بھی دریاگنج کوچہ چیلان دہلی میں لاہور سے منتقل ہو گیا۔ غرض یہ رسالہ نہیں ایک ایسا ادبی عہد تھا جو بیسویں صدی سے شروع ہوا۔ مآخذ: ۱)امداد صابری: تاریخِ صحافت اُردو‘ جلد چہارم‘ ص:۱۱۰۔ ۲)مسکین علی حجازی ‘ ڈاکٹر: پنجاب میں اُردو صحافت کی تاریخ‘ ص:۱۷۲۔۱۵۸ (۱۷) سیالکوٹ شہر ۲۹؍اگست ۱۹۰۸ء مخدومی ۔ السلام علیکم۔ میں ایک دو روز کے لیے لاہور چلا گیا تھا۔ کل واپس آیا تو آپ کا نوازش نامہ ملا۔ مبارک باد کا شکریہ قبول کیجیے۱؎۔ اعجاز عشق۲؎کے چند صفحے تو میں پہلے دیکھ چکا تھا۔ باقی اشعار بھی ماشاء اللہ نہایت بلند پایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دولتِ شرافت کے ساتھ دولتِ کمال سے بھی مالا مال کیا ہے وذالک فضل اللہ یعطیہ من یشا۳؎۔ میں آپ کی سوانح عمری اور دیگر اشعار دیکھنے کا نہایت مشتاق ہوں۔ جب کبھی شائع ہوں مجھے ایک کاپی عنایت فرما کر سپاس گزار فرمائیں۔ آپ کے کلام میں ایک خاص رنگ ہے جوارورشعرا میں شاذ پایا جاتا ہے۴؎۔ مولانا ۵؎حالیؔ‘ شبلیؔ‘ شادؔ جسیے قادر الکلام بزرگوں سے دادِ سخن گوئی لینا ہر کسی کا کام نہیں۔ جو کچھ ان بزرگوں نے آپ کے حق میں تحریر فرمایا ہے وہ آپ کے لئے باعث افتخار ہے۔ میں ایک دوماہ کے لیے سیالکوٹ مقیم رہوں گا۔ اس کے بعد لاہور بیرسٹری کا کام شروع کروں گا۔ ملازمت کا سلسلہ ترک کر دیا ہے۔ آپ میرے مجموعۂ کلام کی نسبت دریافت کرتے ہیں‘ میں کیااور میرا کلام کیا۔ نہ مجھے ان اوراق پریشاں کے جمع کرنے کی فرصت ہے نہ حقیقت میں ان کی ضرورت ہے۔ محض دوستوں کے دل بہلانے کے لیے کبھی کبھی کچھ لکھتا ہوں اور وہ بھی مجبوراً۔ گزشتہ تین سال سے بہت کم اتفاق شعر گوئی کا ہوتا ہے اور اب تو میں پیشہ ہی اس قسم کا اختیار کرنے (کوi؎) ہوں‘ جس کو شاعری سے کوئی نسبت نہیں۔ آگر آپ اعجازِ عشق میرے کسی دوست کے نام ارسال کرنا چاہیں تو حضرت مولوی سیّد میر حسن۶؎ صاحب پروفیسر عربی سکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے نام ارسال کیجئے۔ یہ بڑے بزرگ عالم اور شعر فہم ہیں۔ میں نے انھیں سے اکتسابِ فیض۷؎کیا۔ والسلام آپ کا نیاز مند محمدؐاقبال تحقیق متن: ’’انوار‘‘ (ص:۱۸) میں یہ خط‘ تقریظ کی صورت میں چند سطروں پر مشتمل ہے‘ مکمل خط ’’خطوط اقبال‘‘ (ص:۷۲‘۷۳) میں شامل ہے‘ چنانچہ مذکورہ خط کا متن ’’خطوطِ اقبال‘‘ سے لیا گیا ہے۔ (i) اصل متن میں حرف ’’کو‘‘ نہیں۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ اقبال ولایت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۲۷؍جولائی ۱۹۰۸ء کو لاہور پہنچے۔ مکتوب الیہ نے اس پر مبارک باد کا خط لکھا۔ ۲؎ قصیدہ ’’اعجاز عشق‘‘ کتابی صورت میں ۱۹۰۵ء میں مطبع نافع الاسلام مدراس سے شائع ہوا تھا۔ ۳؎ قرآنِ حکیم میں اس آیت کی صحیح شکل یہ ہے۔ ذالک فضل اللہ یؤتیہٖ من یشآء (یہ اللہ کا فضل ہے‘ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے) یہ آیت تین مقامات سورہ المائدہ:۵۴‘ سورہ الحدید: ۲۱‘ اور سورہ الجمعہ‘ ۴ پر آئی ہے۔ اقبال نے جلدی میں ’’یؤتیہ‘‘ کو یعطیہِ‘‘ بنا دیا‘ اگرچہ یہ قرآن کا متن نہیں ہے مگر مفہوم اس کا بھی وہی ہے۔ ۴؎ علاّمہ اقبال کو جوشعر زیادہ پسند آیا‘ وہ یہ ہے: ؎ ہم خدائی کرتے ہیں تیری بدولت اے خیال ایک کُن سے ہوتے ہیں عالم ہزاروں آشکار ۵؎ مولانا حالیؔ کی رائے میں سے افضل شعر یہ ہے: ؎ بے محل اٹھتا نہیں ہے ایک بھی تیرا قدم کوئی ہے تجھ پر سوار اے ابلقِ لیل و نہار ۶؎ سید میر حسن: دیکھیے: خط نمبر ۴۱ تعلیقہ نمبر۱ ۷؎ اقبالؔ نے مولانا سید میر حسن سے کسبِ فیض کا ذکر نظم ’’التجائے مسافر‘‘ میں یوں کیا ہے: وہ شمعِ بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھِلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مرّوت نے نکتہ داں مجھ کو دعا یہ کر کہ خداوندِ آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو بنام مولوی کرم الٰہی صوفی (نومبر۱۹۱۱ء سے قبلi؎) مخدوم و مکرم جناب مولوی کرم الٰہی صاحب۔ السلام علیکم میں نے آپ کی کتاب اسلامی تاریخ عہدِ افغانیہ شروع سے لے کر آخر تک پڑھی۔ یہ کتاب نہایت برمحل کھی گئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کے مسلم اس کی بہت قدر کریں گے۔ تاریخی تحقیق کے اعتبار سے دیکھاجائے تو اکثر مقامات اس کتاب کے قابلِ داد ہیں اور آپ کی قوتِ استدلال اور درایت تاریخی کو ثابت کرنے کے علاوہ اس بات پر نہایت قوی حجت ہے کہ ہندوستانی مسلموں میں مذاقِ تاریخ نویسی اب تک زندہ ہے اور ابھی قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی تاریخ کو غیر اقوام کے حملوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ہندوستانی تاریخ کے واقعات کو مؤرخانہ نگاہ سے دیکھنے والے لوگ اس کتاب سے بہت فائدہ اٹھاسکتے ہیں مگر ان کے علاوہ عام پڑھنے والے لوگ بالخصوص مسلم جن کی قومی روایات کی یہ کتاب ایک نہایت روشن اور صحیح تصویر ہے‘ اس کتاب کے مطالعے سے اخلاقِ فاضلہ کے وہ گراں قدر اصول سیکھ سکتے ہیں جو ان کی قوم کے مابہ الامتیاز رہے ہیں اور جن پر عمل کرنے سے حجاز کے صحرانشین تیس ہی سال کے اندر شتربانی سے جہاں بانی تک پہنچ کر اقوامِ قدیمہ کی تہذیب کے وارث اور تہذیبِ جدید کے بانی بن گئے۔ تاریخ کا مقصد اگر اخلاقی ہے اور میرے خیال میں تاریخ کا یہی مقصد ہونا چاہیے‘ تو آپ کی تصنیف اس مقصد کو بدرجۂ اتم پورا کرتی ہے اور میں بہ حیثیت ایک مسلم ہونے کے آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے یہ کتاب عین ضرورت کے موقع پر لکھ کر اپنی قوم پر احسان کیا۔ قومیت کااحساس جس کو بالفاظ دیگر قومی خود داری کہنا چاہیے قومی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جن وسائل سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے وہ بھی قومی حیات کے لئے ضروریات میں سے ہیں۔ پس اس اعتبار سے آپ کی کتاب کا مطالعہ ہر مسلم پر واجب ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہندوستان میں ہر مسلم خاندان اس کتاب کے پڑھنے سے مستفیض ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی محنت اور جانکاہی کا اجر دے اور اس کا انعام آپ کو اس مقدس رسولؐ کی بارگاہ سے ملے جس کے کام سے بنی نوع انسان کی نجات اور جس کے نام سے ہماری قومیت وابستہ ہے۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبال بیرسٹرایٹ لائ۔ لاہور تحقیق متن: ۱؎ ڈاکٹر صابر کلوروی کے مطابق اس خط کا سنہ تحریر ۱۹۱۱ء ہے (اشاریۂ مکاتیب‘‘ ص:۹۰) یہ خطو مولوی کرام الٰہی صوفی کی کتاب ’’ہندوستان کی اسلامی تاریخ‘‘ پر (ریویو کی صورت میں) رسالہ ’’مخزن‘‘ کے نومبر ۱۹۱۱ء کے شمارے میں بطوراشتہار شائع ہوا۔ اس لیے یہ خط نومبر ۱۹۱۱ء سے پہلے لکھا گیا ہو گا۔ بنام سراکبر حیدری تعارف: محمداکبر نذر علی حیدری ۸؍نومبر ۱۸۶۹ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ ۱۶ سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا اور ۱۷ سال کی عمر میں بی اے کے امتحان میں امتیازی حیثیت کے ساتھ کامیاب ہوئے۔ ۱۸۸۸ء میں محکمۂ مالیات ہند میں ملازم ہو گئے اور ترقی کر کے صوبجات متحدہ کے اسسٹنٹ اکاؤنٹینٹ جنرل بن گئے۔ اس کے بعد بمبئی اور مدراس میں ڈپٹی اکاؤنٹینٹ جنرل اور کنٹرولر خزانہ کے فرائض انجام دیے۔ اکتوبر ۱۹۰۵ء میں ریاست حیدرآباد نے ان کی خدمات مستعار لے لیں اور مختلف عہدوں پر مثلاً صدر محاسب‘ سیکرٹری محکمہ جات عدالت وتعلیمات‘ امورِ مذہبی اورصنعت و حرفت وغیرہ پر کام کرتے رہے۔ سراکبر حیدری ایک ماہر نظم و نسق تھے۔ انھوں نے حیدرآباد میں محکمۂ آثار قدیمہ قائم کیا اور ریاست میں دستوری اصلاحات بھی ان کے کارنامے ہیں۔ سراکبر حیدر کے یوں تو متعدد کارہائے نمایاں ہیں مگر عثمانی یونی ورسٹی کا قیام (۲۲؍ستمبر۱۹۱۸ئ) ان کا سب سے بڑا علمی اور تعلیمی کارنامہ ہے۔ سراکبر حیدری علاّمہ اقبالؔ کے دوستوں میں سے تھے۔ تعلقات کا آغاز غالباً مارچ ۱۹۱۰ء میں اقبالؔ کے پہلے سفرِ حیدرآباد کے موقع پر ہوا۔ اس زمانے میں سراکبر حیدری ‘ حیدرآباد دکن میں محکمہ مالیات کے معتمد تھے۔ انھوں نے علاّمہ اقبال کی بڑی خاطر مدارات کی اور ایک چاند نی شب وہ علاّمہ کو سلاطین شاہیہ کے مقبرے دکھانے لے گئے۔ اقبالؔ کی نظم ’’گورستانِ شاہی‘‘ (کلیات‘ اُردو‘ ص:۱۴۹۔۱۵۳) اسی واقعے کی یادگار ہے۔ علاّمہ نے اس نظم کو سر اکبر اور ان کی بیگم کے نام نامی سے منسوب کیا۔ ۱۹۱۴ء میں علاّمہ کے بڑے بھائی شیخ عطامحمد پنشن یاب ہونے کے بعد دوبارہ حیدرآباد میں ملازمت کے متلاشی تھے۔ دکن میں سراکبر حیدری کی بااثر حیثیت کے پیش نظر علاّمہ نے اس سلسلے میں ان کی مدد چاہی۔ غالباً سراکبر اس بارے میں کچھ نہ کر سکے۔ اسی دوران حیدرآباد ہائی کورٹ میں عہدٔ ججی کے لیے بہت سے دوسرے ناموں کے ساتھ اقبال کا نام بھی پیش ہوا۔ عدالت عالیہ میں جج کامنصب اقبالؔ کے لیے ایک باوقار ملازمت تھی۔ مہاراجا سرکشن پرشاد شادؔ ریاست حیدرآباد میں اہم عہدے پر فائز تھے۔ اس لیے اقبالؔ کا خیال تھا کہ ان کے تقرر کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ کئی ماہ تک فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس دوران دو واقعات رونما ہوئے جن سے علاّمہ قدرے مایوس ہو گئے۔ اوّل :حیدرآباد سے قبالؔ کے نام ایک گم نام خط آیا جس کا خلاصہ یہ تھاکہ ہم تو آپ کے یہاں آنے کے لیے شب و روز دعا کر رہے ہیں مگربعض آدمی جو بظاہر آپ کے دوست ہیں‘ حقیقت میں آپ کے یہاں آنے پر خوش نہیں ہیں۔ اس خط میں نام لیے بغیر سراکبر کی طرف واضح اشارہ موجود تھا۔ دوم: اسی اثنا میں اکبر حیدری نے اقبالؔ کو عثمانیہ یونی ورسٹی میں قانون کی پروفیسری کی پیش کش کی۔ اقبالؔ کو سراکبر کی یہ پیش کش اچھی نہیں لگی۔ ممکن ہے اس نئی پیش کش کواقبال نے متذکرہ بالا مخالفانہ خط کے پس منظر میں دیکھا ہو۔ پہلے ’’یومِ اقبال‘‘ (یکم جنوری ۱۹۳۸ئ) کے موقع پرحضور نظام کی طرف سے‘ جو صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے‘ ایک ہزار روپیہ کا چیک موصول ہوا تو علاّمہ کی خودداری کو ٹھیس پہنچی‘ چنانچہ آپ نے چنداشعار میں اس کااظہار کیا: ؎ غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات علاّمہ نے چیک واپس کر دیا۔ اکبر حیدریؔ سے اقبالؔ کے تعلقات کے پورے پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو اقبالؔ کا یہ تلخ ردِ عمل فطری معلوم ہوتا ہے۔ یہ واقعہ ۵؍جنوری ۱۹۳۸ء کے آخر یا فروری ۱۹۳۸ء کے اوائل میں پیش آیا۔ اس واقعہ نے اقبال اور سراکبر کے درمیان رہے سہے تعلقات کو بہت متاثر کیا۔ وفات سے تین چار ہفتے پہلے سراکبر نے اقبالؔ سے اشعار کی فرمایش کی۔ انھوں نے اشعار براہِ راست سراکبر کو بھیجنے کے بجائے ڈاکٹر مظفرالدین قریشی کی وساطت سے روانہ کیے۔ سراکبر اور اقبالؔ کے قدیمی پُرجوش روابط برقرار نہ رہ سکے۔ روابط میں کمی آگئی تھی‘ مگرقطعِ تعلق کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ مآخذ: ۱) نظرحیدرآباد‘ ’’اقبال اور حیدرآبادی‘‘ ص:۲۰۸۔۲۱۴۔ ۲) رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر، ’’خطوطِ اقبال‘‘، ص:۲۷۵ (۱۹) ۱۹۲۴ئi؎ ڈیرمسٹر حیدری۔ آپ کے خط کا بہت بہت شکریہ جس کے ساتھ مسٹر عبدالرزاق۱؎کا خط ملفوف تھا۔ رقم کی ادائیگی کے لئے ان کی مزید مہلت طلبی پر میں رضا مند ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ مجھے کتاب ’’کلیاتِ اقبال‘‘ کی فروخت کو برطانوی ہند سے باہر یعنی مملکت نظام تک محدود رکھنے پر اصرار کرنا پڑا۔ کیونکہ جن لوگوں سے میرا معاملہ ہونا ہے وہ اس قسم کی کسی شرط کے بغیر میرے ساتھ معاہدہ نہیں کریں گے اور ان کے نقطۂ نگاہ سے میں سمجھتا ہوں بات خاصی معقول ہے۔ امید ہے اب یہ لوگ کنٹریکٹ کی تکمیل کریں گے۔ ویسے مجھے اندیشہ ہے کہ ایک ہزار روپے کی رقم معاوضے کے سلسلے میں وہ مجھے ذاتی طور پر سے ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ مسٹر عبدالرزاق سمجھ گئے ہوں گے کہ میں اس قرار داد سے جو آپ کی مہربانی سے میرے او ر ان کے درمیان طے پائی تھی‘ کوئی گریز نہیں کررہا۔ آپ کی زحمتوں کے لیے شکرگزار آپ کامخلص محمدؐاقبال تحقیق متن: ۱؎ اصل خط انگریزی میں ہے۔ نادم سیتاپوری نے اس کا اردو ترجمہ ’’ہماری زبان‘‘ (علی گڑھ) جولائی یا اگست ۱۹۲۰ء میں شائع کیا۔ اس خط کا سنہ تحریر ڈاکٹر صابر کلوروی نے ۱۹۲۴ء متعین کیا ہے۔ (اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۹۰) حواشی و تعلیقات ۱؎ علاّمہ اقبالؔ کا پہلا اُردو شعری مجموعہ ’’بانگ درا‘‘ ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا اور اسی زمانے میں مولوی عبدالرزاق حیدرآباد دکن سے ’’کلیات اقبال‘‘ شائع کرنے کے انتظامات میں مصروف تھے۔ بیک وقت دو مجموعوں کی اشاعت کا مطلب یہ ہو سکتا تھا کہ مولوی عبدالرزاق علاّمہ اقبال کو بغیر اطلاع کیے اپنے طور پر ’’کلیات‘‘ کی تیاری میں دکن میں مشغول تھے۔ ’’کلیات‘‘ کی اشاعت کے بعد سراکبر حیدری کے نام علاّمہ کے ایک خط میں اس خواہش کا اظہار ملتا ہے کہ سراکبر حیدری‘ عبدالرزاق کواس پر راضی کرلیں کہ وہ ’’کلیات‘‘ کو ریاست حیدرآباد سے باہر فروخت نہ کریں اور جب عبدالرزاق نے سراکبر کی تحریک پر علاّمہ کی یہ تجویز منظور کر لی تو علاّمہ نے سراکبر حیدری کو درجِ بالا شکریہ کا خط لکھا۔ مآخذ: ۱) عبدالواحد معینی، ’’نقشِ اقبالؔ‘‘، ص:۶۵۔۷۴۔ بنام محمد دین فوق تعارف: منشی محمد دین فوقؔ‘ علاّمہ اقبالؔ کے لڑکپن کے دوست تھے۔ علاّمہ نے انھیں ’’مجددِ کثامرہ‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ فوقؔ ۱۸۷۷ء میں موضع کوٹلی ہرنارائن (نزدیک شہر سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔ فوقؔ کی ابتدائی تعلیم موقع گھڑتل کے پرائمری اسکول میں ہوئی اور اُردو مڈل جامکے ضلع سیالکوٹ سے پاس کیا۔ وہیں شعرگوئی کی ابتداہوئی۔ ۱۸۹۵ٰ میں انگریزی مڈل کا امتحان ایچی سن اسکول میں دینے کے بعد سیالکوٹ میں پٹوار کا کام سیکھنا شروع کیا۔ پھرجموں میں ملازمت کر لی۔ جنوری ۱۸۹۶ء میں لاہور میں اپنے بڑے بھائی منشی رحیم بخش شیدا کے پاس چلے آئے۔ علاّمہ اقبالؔ اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انجمن اتحاد کے زیر اہتمام بھاٹی دروازے میں ہفتہ وار مشاعرہ منعقد ہوتا تھا۔ فوقؔ نے ۱۸۹۵ء میں علاّمہ اقبالؔ کی تقلید میں نواب مرزا داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کر لی اور ان مشاعروں میں غزلیں پڑھتے رہے۔ فوقؔ نے عزلیں‘ قطعات‘ قصیدے ‘ رباعیات اورقومی نظمیں غرض بہت کچھ لکھا۔ اس دوران میں وہ کئی اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔ ۱۸۹۶ء میں لاہور آکر ’’پیسہ اخبار‘‘ میں ملازم ہوئے۔ ۱۹۰۱ء میں اپنا ہفتہ وار اخبار ’’پنجۂ فولاد‘‘ جاری کیا جو ۱۹۰۶ء میں بند ہو گیا۔ اس کے بعد ماہنامہ ’’کشمیری میگزین‘‘ جاری کیا جو بعد میں ہفتہ وار اخبار ’’کشمیری‘‘ بن گیا۔ ۱۹۱۴ء میں رسالہ ’’طریقت‘‘ نکالا‘ جو چھ سال تک چلتا رہا۔ ۱۹۱۸ء میں رسالہ ’’نظام‘‘ شروع کیا جو جلدی بند ہوگیا۔ ان کئی تصانیف میں سے یادرِفتگاں‘‘، ’’وجدانی نشتر‘‘ ’’رہنمائے کشمیر‘‘، ’’حریت اسلام‘‘، تذکرہ شعرائے کشمیر‘‘، ’’شبابِ کشمیر‘‘ وہ کتابیں ہیں جن کا تذکرہ اقبالؔ نے ان خطوط میں کیا ہے۔ فوقؔ نے علاّمہ کی حالاتِ زندگی پر سب سے پہلے مضمون تحریر کیا‘ مثلا’ لکھتے ہیں: ڈاکٹر اقبالؔ کے مختصر حالات ان کی چند غزلوں کے ہمراہ ان کی اجازت سے سب سے پہلے میں نے ’’بہارگلشن‘‘ کے نام سے ایک مختصر مجموعۂ اشعار میں چھاپے تھے‘ یہ ۱۸۹۸ء کا ذکر ہے‘‘۔ (سرگذشتِ فوقؔ (قلمی) ص:۱۳۲)… فوقؔ نے ۱۴؍ستمبر ۱۹۴۵ء کو بروزجمعہ انتقال کیا۔ مآخذ: ۱)روزنامہ ’’امروز‘‘ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۷۳ء ۲)مجلہ ’’اقبال‘‘ اپریل ۱۹۸۲ئ‘ ص: ۱۷۔۳۵ ۳)اجمل نیازی ‘ ڈاکٹر‘ ’’فوق الکشمیر‘‘ ص: ۳۱۔۹۴ ۴)افتخار احمد‘ ’’اقبالیاتِ محمد الدین فوقؔ‘‘ (مقالہ: ایم فل‘ اقبالیات) ص: ۲۔۱۷ (۲۰) ڈیرفوقؔ اہلِ اللہ کے حالات نے‘ جو آپ نے بنام ’’یادرفتگاں‘‘۱؎ تحریر فرمائے ہیں‘ مجھ پر بڑا اثر کیا اور بعض بعض۲؎ باتوں نے تو ‘ جو آپ نے اس چھوٹی سی کتاب میں درج کی ہیں‘ مجھے اتنا رلایا کہ میں بے خود ہو گیا۔ خدا کرے آپ کی توجہ اس طرف لگی رہے۔ زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نجات اسی میں ہے کہ ان لوگوں کے حیرت ناک تذکروں کو زندہ کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے زوال کی اصل علت حسنِ ظن کا دور جانا ہے۔ بھائی فوقؔ! خود بھی اس گوہر نایاب کی تلاش میں رہو جو بادشاہوں کے خزانوں میں نہیں مل سکتا بلکہ کسی خرقہ پوش کے پاؤں کی خاک میں اتفاقیہ مل جاتا ہے۔ والسلام از سیالکوٹ آپ کا دوست ۷؍اکتوبر ۱۹۰۴ئ (شیخ محمدؐ اقبالؔ(ایم اے۔ پروفیسر گورنمنٹ کالج۔ لاہور) تحقیق متن: i؎ یہ خط ’’سرگزشتِ فوقؔ‘‘ (قلمی‘ص:۴۵)‘ اخبار کشمیری‘ ۸؍جنوری ۱۹۱۶ء اور ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۲۹۳) میں شامل ہے۔ ’’سرگزشتِ فوقؔ‘‘ کے مطابق ’’بعض بعض‘‘ ہے جبکہ ’’انوار‘‘ میں ’’بعض باتوں‘‘ ہے۔ حواشی تعلیقات ۱؎ یادِرفتگاں: فوقؔ نے ۱۹۰۴ء میں لکھی جسے سٹیم پریس لاہور نے شائع کیا۔ یہ کتاب لاہور کے صوفیا کے بارے میں ہے۔ ان صوفیا میں حضرت شاہ ابوالمعالی‘ شاہچراغ‘ موج دریا‘ شاہ محمد غوث‘ شاہ جمال‘ درس میاں وڈا‘ بی بی پاک دامن‘ طاہر بندی‘ شاہ بلاول‘ سید جان محمد حضوری‘ گھوڑے شاہ‘ پیر مکی میراں شاہ‘ حضرت ایشاں‘ حضرت لال حسین‘ حضرت شیخ مادھو‘ داتا گنج بخش‘ حضرت میاں میر اور دوسرے کئی مسلم صوفیا کے علاوہ گورو ارجن‘ چھَحُّہو بھگت اور گوروسری چند کااحوال بھی تحریر کیا ہے۔ اس کتاب سے متاثر ہو کر علاّمہ اقبالؔ نے اپنی یہ مشہور غزل کہی تمنا دردِ دل کی ہوتو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں (کلیات‘ اُردو‘ص:۱۱۴) مآخذ: اجمل نیازی‘ ڈاکٹر‘ ’’فوق الکشمیر‘‘ ص:۱۴۱۔۱۴۴ (۲۱) ۱۹۰۶ئi؎ ڈیئرفوق آپ کا خطii؎ملا! الحمدللہ کہ آپ خیریت سے ہیں۔ مجھے بھی یہ خیال تھا کہ جاتی دفعہ۱؎آپ سے ملاقات نہ ہو سکی‘ افسوس ہے مجھے اس موقع پر فرصت کم تھی ورنہ کہیں نہ کہیں آپ سے ملنے کو آجاتا۔ اچھا ہوا کہ iii؎آپ نے وہ پرچہ۲؎ اپنی ذمہ داری پر چلانا شروع کیا۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ یہاں کے مشاغل سے مطلق فرصت نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں مضامین لکھنے کی کہاں سوجھتی ہے۔ البتہ شعر ہے جو کبھی کبھی خود موزوں ہو جاتا ہے‘ سو شیخ عبدالقادر۳؎(ایڈیٹر مخزن) لے جاتے ہیں۔ ان سے انکار نہیں ہو سکتا‘ آپ سے بھی انکار نہیں۔ اگر کچھ ہوگیا تو حاضرiv؎ ہوگا۔ والسلام محمد اقبال ٹرینٹی کالج۔ کیمبرج انگلینڈ تحقیق متن: i؎ یہ خط چونکہ اپریل ۱۹۰۶ء کے ’’کشمیری میگزین‘‘ میں شائع ہوا تھا‘ لہٰذا اس کی تاریخ مارچ ۱۹۰۶ء ہوئی (تصانیف اقبالؔ‘‘، ص:۲۴۳) ii؎ عکس کے مطابق ’’کارڈ‘‘ کے بجائے ’’خط‘‘ ہے۔ iii؎ عکس کے مطابق ’’اَچھّا ہوا کہ‘‘ ہے۔ iv؎ عکس میں ’’کروں‘‘ کے بجائے ’’ہو‘‘ ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ علاّمہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ۱۹۰۵ء میں لندن تشریف لے گئے۔ سفر کی تیاری کی مصروفیات کے باعث وہ محمد دین فوق سے نہ مل سکے۔ (مزید دیکھیے:’’ عروجِ اقبالؔ‘‘،صح۲۹۱۔ ۳۴۰) ۲؎ پرچہ جس کی طرف اشارہ ہے‘ وہ ’’کشمیری میگزین‘‘ ہے جو لاہور سے جنوری ۱۹۰۶ء میں شروع ہوا۔ رسالے کے سر ورق پر یہ شعر درج ہوتا تھا: ؎ ہر سوختہ جانے کہ بہ کشمیر درآید گرمرغ کباب است پرَ وبال برآید ’’کشمیری میگزین‘‘ کا سب سے پہلا پرچہ پانچ سو چھپا تھا۔ بعد میں اس کی اشاعت تیرہ سو تک ہو گئی تھی۔ ۱۹۱۲ء میں بارہ سو تھی۔ فوقؔ نے جنوری ۱۹۱۳ء سے میگزین کو ہفتہ وار کر دیا تھا۔ یہ پرچہ مصور تھا۔ ہر ایک پرچے میں کسی نہ کسی مشہور آدمی کی تصویر چھپتی تھی۔ مآخذ: ۱) امداد صابری، ’’تاریخِ صحافتِ اُردو‘ جلد: ۴، ص: ۱۱۰۔۱۲۴ ۲) اجمل نیازی‘ ڈاکٹر‘’’فوق الکشمیر‘‘، ص:۴۸۷۔۴۸۹ ۳؎ شیخ عبدالقادر ۱۸۷۴ء میں بمقام لُدھیانہ پیداہوئے۔ آبائی وطن قصور تھا۔ ۱۸۹۴ء میں فورمن کرسچن کالج لاہور سے بی۔اے کیا۔ ۱۸۹۵ء میں لاہور کے انگریزی اخبار آبزرور (Observer) کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور تین سال بعد چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اپریل ۱۹۰۱ء میں ماہنامہ ’’مخزن‘‘ جاری کیا۔ ۱۹۰۴ء میں بیرسٹری کے لیے لندن گئے۔ واپس آ کر دلی میں وکالت شروع کی۔ ۱۹۰۹ء میں لاہور چلے گئے۔ ۱۹۱۲ء میں لائل پور اور جھنگ سرکاری وکیل کی حیثیت سے تشریف لے گئے۔ جون ۱۹۱۹ء میں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ ۱۹۲۲ء کے اوائل میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن اور ۲۰؍اپریل ۱۹۲۲ء کو قائمقام جج ہائی کورٹ پنجاب مقرر ہوئے۔ جنوری ۱۹۲۴ء میں کونسل کے ڈپٹی پریذیڈنٹ اور ۱۹۲۵ء میں پریذیڈنٹ منتخب ہوئے۔ ستمبر ۱۹۲۵ء سے نومبر ۱۹۲۵ء تک وزیر تعلیم پنجاب کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ستمبر ۱۹۲۶ء میں ہندوستان کے نمائندہ ہو کر جنیوا گئے۔ ۲۹؍دسمبر کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ دہلی کی صدارت کی۔۱۹۲۷ء میں ’’سر‘‘ کا خطاب ملا۔ ۱۹۲۸ء میں پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور ۱۹۲۹ء میں مرکزی پبلک سروس کمیشن کے رکن بنے ۔ فروری ۱۹۳۰ء میں آپ کا تقرر بحیثیت ایڈیشنل جج لاہور ہائی کورٹ ہوا۔ مئی۱۹۳۲ء میں انجمن حمایت اسلام کے صدر منتخب ہوئے۔ مئی ۱۹۳۴ء میں ممبر انڈیا کونسل (وزیر ہند) کی حیثیت میں لندن تشریف لے گئے اور ۱۹۳۹ء تک خدمات انجام دیں۔ ۱۹۳۹ء میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے رکن مقرر ہوئے۔ ۱۹۴۲ء میں آپ کا تقرر بحیثیت چیف جسٹس بہاول پور ہوا اور ۱۹۴۵ء تک بہاول پور میں مقیم رہے۔۱۹۴۸ء میں لاہور منعقد ہونے والی اُردو کانفرنس کی صدارت کی۔ ۹؍فروری ۱۹۵۰ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔ شیخ عبدالقادر نے متعدد نمایاں اعزاز حاصل کیے۔ علاّمہ اقبال سے آپ کے قریبی تعلقات اور ذہنی ہم آہنگی کا اندازہ اس قطعہ سے ہوتا ہے جو ’’عبدالقادر کے نام‘‘ کے عنوان سے ’’بانگِ درا‘‘ (کلیات‘ اُردو ‘ص:۱۴۲) کی زینت ہے۔ ’’بانگ درا‘‘ کا دیباچہ شیخ عبدالقادر کی اقبالؔ شناسی اور مزاج دانی کا ثبوت ہے۔ اُردو تصنیف ’’مقامِ خلافت‘‘ اور انگریزی کتاب ’’ادبیات اردو کادبستان جدید‘‘ کے علاوہ متعدد مضامین و مقالات شیخ صاحب کے علمی و ذہنی مشاغل کی یادگار ہیں۔ مآخذ: ۱؎ محمد حنیف شاہد،’’سر شیخ عبدالقادر (کتابیات)‘‘، ص:۵۔۱۵ ۲؎ عبداللہ قریشی،’’حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘، ص:۸۱ ۳؎ اکبر حسین قریشی‘ ڈاکٹر‘ ’’مطالعہ تلمیحات‘‘، ص:۴۱۱‘۴۱۲ ۴؎ یہ کالج کیمبرج یونی ورسٹی دریائے کیم کے کنارے پر لندن کے شمال مشرق کی جانب ۵۶میل دور واقع ہے۔ اس کا آغاز ۱۲۰۹ء میں ہوا۔ ۱۲۲۶ء میں اسے یونی ورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ ٹرینٹی کالج کا سنگ بنیاد ۱۳۵۰ء میں رکھا گیا۔ "The New Caxton Encyclopedia", 1973 P:999 (۲۲) از سیالکوٹ شہر۔ ۲۹؍اگست ۰۸ء i؎ ڈیرفوق۔ السلام علیکم ۔ آپ کانوازش ]نامہ[ مجھے کل ملا۔ میں ایک دو روز کے لیے بغرض مشورہ لاہور گیا ہواتھا کیونکہ وہیں کام شروع کرنے کاارادہ ہے۔ میگزین میں جو کامیابی آپ کو ہوئی اور ہو رہی ہے اس کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اور جو کچھ آپ گاہے گاہے میری نسبت اپنے کالموں میں تحریر فرماتے ہیں۱؎اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ جموں کے رستے جائیں تو ضرور سیالکوٹ تشریف لائیں تاکہ مجھے آپ کی دوستانہ قدرومنزلت کرنے کا موقع ملے۔ افسوس ہے کہ میں ابھی کچھ عرصے تک آپ کے لیے کچھ نہ لکھii؎سکوں گا کیونکہ ہمہ تن قانون کی کتب کی طرف متوجہ ہوں۔ چونکہ اس کام کو شروع کیا ہے اس واسطے ارادہ ہے کہ اس کو حتی الامکان پورے طور پر کروں روٹی تو خدا ہر ایک کودیتا ہے‘ میری آرزو ہے کہ میں اس فن میں کمال پیدا کروں۔ آپ بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس مہم میں میرا شاملِ حال ہو۔ ان شاء اللہ نومبر میں لاہور چلا جاؤں گا اور مستقل طور پر کام شروع کروں گا۔ اس وقت آپ سے ملاقات ہوا کرے گی جیسے کبھی کبھی پہلے ہوا کرتی تھی اور میں کشمیری گوت۲؎کے متعلق بھی چند باتیں آپ سے کروں گا۔ باقی خیریت ہے۔ اللہ یارصاحب جوگیؔ۳؎کی خدمت میں میرا شکریہ پہنچائیںiii؎علاوہ ازیں تارا چند صاحب۴؎کی خدمت میں۔ والسلام محمدؐاقبال تحقیق متن: i؎ انوار: ۱۹۰۸ء ii؎ انوار: کر۔ iii؎ انوار پہنچایے۔ حواشی وتعلیقات ۱؎ میگزین سے مراد ’’کشمیری میگزین‘‘ ہے، جس کے مختلف پرچوں میں فوقؔ ‘ علاّمہ کے متعلق لکھتے رہتے تھے۔ (کشمیر میگزین‘ ۱۹۰۸ئ، ۱۹۰۹ئ) ۲) فوقؔ کے استفسار پر ۱۶؍جنوری ۱۹۳۴ء کے ایک خط میں علاّمہ اقبال نے اپنے والد ماجد کے حوالے سے ’’سپرو‘‘ فرقے کی وجہ تسمیہ یوں بیان کی ہے: ’’جب مسلمانوں کا کشمیر میں دَور دورہ ہوا تو براہمۂ کشمیر‘ مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا کسی اور وجہ کے باعث توجہ نہ کر تے تھے۔ اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کر کے حکومتِ اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا‘ وہ ’’سپرو‘‘ کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے۔ ’’س‘‘ تقدیم کے لئے زبانوں میں آتا ہے اور ’’پر‘‘ کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر ’’پڑھنا‘‘ کا ہے۔ والدِ مرحوم کہتے تھے یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو ازراہِ تعریض و تحقیر دیا تھا‘ جنھوں نے قدیم رسوم و تعصبات قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا‘ جو رفتہ رفتہ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہو گیا‘‘۔ علاّمہ اقبالؔ کے اجداد براہمۂ کشمیر کے اسی ’’سپرو‘‘ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ مآخذ: ۱) اعجاز احمد ‘ شیخ‘ ’’مظلوم اقبال‘‘ ص:۱۹۔۲۱ ۲) افتخار احمد صدیقی‘ ڈاکٹر ’’عروج اقبال‘‘،ص:۵ ۳؎ منشی اللہ یار جوگی کا خاندان پنجاب کا رہنے والا تھا۔ ان کے والد میجر خان محمد خان نے فوج میں ملازمت کر لی تھی اور دکن چلے گئے تھے‘ دکن میں ان کا عرصے تک قیام رہا‘ وہیں پونا میں ۱۸۸۷ء کے لگ بھگ منشی اللہ یار جوگی پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت لاہور میں پائی۔ اسلامیہ اسکول لاہور سے انٹرنس کرنے کے بعد شاعری کی جانب متوجہ ہوئے اور آغا شاعر قزلباش کی شاگردی اختیار کی۔ اصلاح شدہ غزلوں کا معیار کافی بہتر ہوتا۔ ’’پنجۂ فولاد‘‘ میں سنگ سازی اور کتابت کا کام کیا کرتے تھے۔ پریس چھوڑ کر حکمت شروع کر دی۔ حکیم مرزا اللہ یار جوگیؔ دکنی کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے۔ ایک رسالہ ’’گئو ماتا‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ ہندوؤں میں بھی ان کی کافی قدرومنزلت تھی۔ ۱۹۴۰ء سے پہلے انتقال کر گئے۔ علاّمہ اقبالؔ جب یورپ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۰۸ء میں لاہور پہنچے تو استقبال کرنے والوں میں منشی اللہ یار بھی شامل تھے۔ اس موقع پر انھوں نے ایک نظم ’’خیرمقدم‘‘ پڑھی: ؎ کدھر ہے کیفِ مسرت مجھے سنبھال سنبھال کہ ہو کے آئے ولایت سے ڈاکٹر اقبالؔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ لاہور نمبر،ص:۹۲۵‘۹۲۶۔ ۲) عبدالرؤف عروج (مرتّب): ’’رجالِ اقبال‘‘، ص: ۱۷۶۔۱۷۷‘ ۳) محمد دین فوق: سرگزشتِ فوق (قلمی)‘ص:۱۱۵ ۴؎ تاراچند تارا‘ منشی الٰہی بخش رفیق کے شاگردوں میں ایک اچھے شاعر تھے۔ دہلی دروازے کے اندر سوہن حلوہ بیچا کرتے تھے۔ ان کا یہ مصرع اس بات کا مظہر ہے : ع تارا نہ ہو تو حلوائے سوہن کھلائے کون داغؔ جب ایک دفعہ لاہور آئے تھے تو تارا کی دکان پر بھی گئے تھے۔ مولانا حالیؔ‘ مولانا آزادؔ اور علاّمہ اقبالؔ سے بھی ان کے مراسم بہت اچھے تھے۔ اقبالؔ جب تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت گئے تو اپنے خطوں میں تارا کو بھی یاد کرتے رہے۔ ۱۹۰۸ء یا ۱۹۰۹ء میں ان کاانتقال ہوا۔ تارا چند نے آنحضورؐ کی شان میں قصیدے اور نعتیں کہیں: ہیں جہاں میں گو بظاہر مائلِ زناّر ہم دل سے ہیں مفتونِ حسنِ احمدؐ مختار ہم اس تمناّ میں درِ دیدہ سدا رہتے ہیں وا شاہدِ مقصود کا دیکھیں کہیں دیدار ہم گر مدینہ کی طرف جائے تو لکھ بھیجیں وہاں دامنِ بادِصبا پر اپنا حالِ زار ہم تارا چند نے اپنے کلام کے ساتھ اپنے استاد رفیق کا کلام بھی چھپوایا تھا‘ مگر اب نایاب ہے۔ یہ ہندومسلم تعلقات اور رواداری کی ایک بے نظیر مثال ہے۔ مآخذ: عبداللہ قریشی۔ ’’حیات اقبالؔ کی گم شدہ کڑیاں‘‘، ص:۱۱۱۔۱۱۳۔ (۲۳) ڈیرفوق۔ مرزاi؎ فضل احمد صاحب۱؎کا خط ملفوف ہے وہ اس خط کو کمیٹی۲؎میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور کارڈ آیا ہے۔ مہربانی کر کے اس ]کی[ تعمیل بھی کریں۔ جو خط آپ نے میری طرف سے میگزین میں شائع کیا ہے اس کی چند کاپیاں (اگر وہ علیحدہ شائع ہوا ہو) مندرجہ ذیل پتے پر ارسال کر دیں۔ غلام محمد ڈار متصل گھنٹہ گھر۔ گجرانوالہ۔ یہ صاحب آپ کے خریدار ہیں۔ اگر علیحدہ شایئع نہ ہوا ہو تو ان کو جواب ii؎دیں۔ راقم ۱۱؍مئی۱۹۰۹ء محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ خط کا متن عکس کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ عکس‘ اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ انوار= افضل۔ ii؎ دے دیں ۔ iii؎ عکس میں تاریخِ تحریر درج نہیں ہے۔ علاّمہ نے یہ خط مرزاافضل احمد کے خط محررہ ۹؍مئی ۱۹۰۹ء کے جواب میں تحریر کیا تھا۔ چنانچہ قیاس ہے کہ علاّمہ نے مذکورہ خط ۱۱؍مئی ۱۹۰۹ء کو تحریر کیا ہو گا۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ مرزا فضل احمد بیگ: خان صاحب مرزا قطب الدین وکیل راولپنڈی‘ جاگیردار و مالک اخبار ’’رہنما‘‘ راولپنڈی‘ کے والدِ بزرگوار تھے۔ موضع سؤاں والا ضلع گجرات کے رئیس و جاگیردار تھے۔ نقلِ مقاکی کر کے راولپنڈی میں رہایش اختیار کر لی۔ مآخذ: محمد دین فوق، ’’سرگزشتِ فوقؔ (قلمی)‘‘ ،ص:۴۶۔ ۲؎ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۹ء کو کشمیرمسلمانانِ لاہور کا ایک اجلاس بلایا گیا‘ جس میں اقبالؔ بھی ایک رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ ۲۲؍جنویر کو سب کمیٹی کاایک اجلاس بلایا گیا‘ جس میں ایک انجمن بنام ’’انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور‘‘ قائم کی گئی۔ ۶؍فروری کو انجمن کے عہدہ داروں کا انتخاب ہوا اور اقبالؔ اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ انجمن کے سامنے سب سے اہم مسئلہ پنجاب کے زراعت پیشہ کشمیری مسلمانوں کا تھا۔ اس سلسلے میں وہ گورنر جنرل کے پاس وفد لے کر جانے پر غور کر رہے تھے۔ مرز افضل احمد کا خط اسی سلسلے میں تھا۔ مآخذ: رئیس احمد جعفری‘ ’’اقبالؔ اور سیاستِ ملّی‘‘،ص:۱۴۹۔۱۵۹‘ ۲۹۳۔۳۰۵ (۲۴) برادرمکرم و معظمi؎ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ‘۔ آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ ہمارے مربی و محسن جناب نواب سر آنرایبل خواجہ محمد سلیم اللہ صاحب۱؎ نواب بہادر‘ نواب ڈھاکہ نے ۵؍فروری ۱۹۰۹ء کو وائسرائگل کونسل میں کشمیریوں کے متعلق فوج اور زمینداری کی بابت سوالات پیش کئے تھے۔ فوج کے متعلق تو لارڈ کچنر۲؎ کمانڈر انچیف افواجِ ہند نے فرمایا کہ ’کشمیری مسلمانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگرچہ کشمیریوں کی کوئی کمپنی یا سکوارڈن علیحدہ موجود نہیں۔ اِس امر کے متعلق انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور۳؎ علیحدہ کوشش کر رہی ہے۔ مگر فیر الحال میں آپ کی توجہ دو سوالوں کی طرف منعطف کرنا چاہتا ہوں۔ زراعت پیشہ اقوام کے متعلق جو جواب نواب صاحب کے سوال کا دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ لوکل گورنمنٹ جس قوم کو مناسب سمجھتی ہے اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیتی ہے۔ گورنمنٹ پنجاب کو یہ دونوں سوال اور جواب زمینداری کے متعلق حضور وائسرائے بہادر نے بھیج دیے تھے۔ گورنمنٹ ممدوح نے حکم جاری فرمایا ہے کہ کمشنر اپنے اپنے علاقے کی مفصل رپورٹ کریں کہ آیا کشمیری مسلمان اقوام بندی زمینداری میں شامل کر لیے جائیں یا کیے جانے کے لائق ہیں۔ کمشنر صاحب بہادر نے ڈپٹی کمشنروں کے نام حکم صادر فرمایا ہے کہ وہ ان کو اس معاملے میں مدد دیں۔ ڈپٹی کمشنروں نے تمام کشمیری زمینداروں کی ایک فہرست مرتب کرائی ہے جس سے ان کو معلوم ہو گا کہ پنجاب میں کتنے کشمیری زراعت پیشہ ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب سیالکوٹ کا حکم نہایت صاف ہے۔ انھوں نے تحصیل داروں سے چار امور دریافت فرمائے ہیں یعنی (۱) قوم کشمیری کے افراد عموماً کیا پیشہ ہے (۲) کس قدر کشمیری ایسے ہوں گے جن کاگزارا صرف زراعت کاری پر ہے۔ (۳) اگر وہ مالکانِ اراضی ہیں تو کب سے انھوں نے زمین حاصل کی ہے (۴) کوئی کشمیری دخیل کار ہے یا نہیں۔ اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ مفصلات اور شہروں میں بودوباش رکھنے والے زراعت پیشہ کشمیریوں کی جو فہرست تیار ہو گی اس میں مندرجہ بالا چارامور کا خیال کیا جاتا ہے۔ آپ مہربانی فرما کر تحصیل دار صاحبوں کو اس فہرست کے مرتب کرنے میں خود بھی امداد دیں او ردیکھیں کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے تیار کی جاتی ہے یا نہیں؟ تمام اہلِ خطہ کو جو آپ کے علاقے میں رہتے ہیں‘ ان کو مفصل طور پر یہ سمجھا دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے گاؤں میں بھی فہرست کے تیار کرنے میں امداد دیں تاکہ مکمل فہرست تیار ہو اور ہماری عادل گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ کشمیری کس قدر پنجاب میں زمیندار ہیں اور زمینداری کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ فہرست بموجب حکم صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر تیار نہیں ہوئی تو صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست کریں کہ وہ ان کو بموجب حکم کے تیار کرانے کا حکم صادر فرمائیں۔ جو نقشہ کہ تیار ہو رہا ہے اس کی ایک نقل انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہورکے پاس جس قدر جلد ممکن ہو سکے ارسال فرمانے کی کوشش کریں۔ یہ چٹھی اپنے بھائیوں کو جو مفصلات میں رہتے ہیں جلدی بھیج دیں تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ کس قسم کی فہرست تیار ہونی چاہیے۔ اگروہ دیکھیں کہ فہرست بموجب حکم بالا تیار نہیں ہوئی یا ہوتی تو وہ آپ کی معرفت صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر سے خط و کتابت کریں۔ اس غرض کے لیے مندرجہ بالا امر میں تمام قوم کے افراد متفقہ طور پر اپنی بہبودی کے لیے کوشش کر سکیں اور نیز دیگر امور کے لیے جو قوم سے بحیثیت مجموعی تعلق رکھتے ہوں‘ میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ اپنے سنٹر میں ضرور کشمیری مجلس قائم کریں۔ اس کے علاوہ ہر ایسے مقام میں جہاں آپ کا اثر ہو اپنے دیگر بھائیوں کو کشمیری مجلس قائم کرنے کی ترغیب بھی دیں کیونکہ اس طریق سے نہ صرف قوم کے افراد میں اتحادو یگانگت کی صورت پیدا ہو گی بلکہ قومی حقوق کی حفاظت اور توسیع میں بھی سہولت ہو گی۔ خاکسار محمدؐ اقبالؔ بیرسٹرایٹ لا جنرل سیکرٹری انجمن کشمیری‘ مسلمانانِ لاہور تحقیقِ متن: i؎ یہ ذاتی خط نہیں ہے بلکہ ایک مراسلہ ہے(جس کا حوالہ علاّمہ کے ۱۱؍مئی ۱۹۰۹ء کے خط میں ملتا ہے)۔ جس میں ہندوستانی فوج میں کشمیری بھرتی اور حصولِ اراضی کی ضرورت اور اہمیت ‘ برادری اور حکام دونوں پرواضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ مراسلہ ’’کشمیری میگزین‘‘ لاہور،مئی ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا۔ ’’حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘ (ص:۱۴۸۔۱۵۱) میں بھی شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ نواب سر سلیم اللہ تحریک آزادی کے ممتاز رہنما تھے۔ ۱۸۷۱ء میں ڈھاکہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سراحسن اللہ تھا۔ والد کی وفات (۱۹۰۱ئ) کے بعد خواجہ سلیم اللہ ڈھاکہ کے نواب ہوئے۔ حکومت کی طرف سے ان کو پہلے ’’نواب بہادر‘‘ اور پھر ’’کے سی آئی ای‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ جب لارڈ کرزن اور اس کے مشیروں نے تقسیم بنگال کی کوشش کی تو نواب صاحب نے مسلم مفاد کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی اور اس سلسلے میں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک کے مشورے سے کل ہند مسلم لیگ کے قیام کااعلان کیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے علی گڑھ کالج کے لیے بھی ایک بہت بڑی رقم کا عطیہ دیا‘ جس کے نتیجے میں مسلم یونی ورسٹی کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی۔ ۱۹۰۸ء میں علاّمہ اقبالؔ کو انجمن کشمیری مسلمانان کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا۔ ابھی ان کو جنرل سیکرٹری بنے چند ہی مہینے گزرے تھے کہ امرتسر میں آل انڈیامحمڈن کانفرنس سالانہ اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے نواب سلیم اللہ ڈھاکہ سے امرتسر پہنچے۔ اقبال نے بھی اپنی انجمن کے عہدیداروں کے ساتھ ان سے سرکٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور فارسی میں ایک سپاس نامہ پیش کیا‘ جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ وہ انجمن کی سرپرستی قبول فرمائیں۔ نواب صاحب نے سپاس نامے کا جواب انگریزی میں دیا اور انجمن کی سرپرستی قبول کی۔ نواب صاحب نے اس واقعے کے ایک سال بعد‘ اقبالؔ کی تحریک پر وائسرائے کی لیجسلیٹو کونسل کے ایک اجلاس میں کشمیریوں کے بارے میں استفسار کیا: کیاکشمیری فوج میں بھرتی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ اگرہو سکتے ہیں تو پھر ابھی تک ان کوفوج میں ملازمت کیوں نہیں دی گئی؟ نواب صاحب کا یہ استفسار اس قدر مؤثر ثابت ہوا کہ اس اجلاس میں لارڈکچنر کو حکومت کی طرف سے یہ وضاحت پیش کرنی پڑی کہ کشمیریوں کے فوج میں بھرتی ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر جہاں تک رجمنٹوں کا تعلق ہے‘ ان کی کلاس کمپوزیشن نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے ان کو کسی ہندوستانی رسالہ‘ پلٹن میں بھرتی نہیں کیا جا تا ہے۔ نواب صاحب کی ملّی او قومی خدمات کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ آپ نے ۱۶؍جنویر ۱۹۱۶ء کو کلکتہ میں انتقال کیا اور ڈھاکہ میں اپنے خاندانی قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔ مآخذ: ۱ "Muslims in India, A Biographical Dictionary" Vol-II, P:133,134 ۲۔ عبداللہ قریشی (مرتّب) ’’اقبال بنام شادؔ‘‘ص:۱۱۰۔۱۱۱ ۲؎ لارڈ ہربرٹ کچنر ۲۴؍جون ۱۸۵۰ء کو آئر لینڈ میں پیدا ہوا۔ رائل ملٹری اکیڈمی میں تعلیم پائی اور اکیس برس کی عمر میں افسر بن گیا۔ بحیثیت کیپٹن مصری فوج کے ساتھ منسلک ہوا۔ ۱۸۸۴ء میں برطانوی فوج کے ساتھ دریائے نیل مہم میں شامل رہا۔ ۱۸۸۶ء سے ۱۸۸۸ء تک شمالی سوڈان کا گورنرجنرل رہا۔۱۸۹۲ء میں مصری فوج کا سردار بنا۔۱۸۹۸ء میں مہدی کو شکست دی۔۱۸۹۹ء میں چیف آف سٹاف بنا کر جنوبی افریقہ بھیجا گیا۔ ۱۹۰۲ء سے ۱۹۰۹ء تک ہندوستان کا کمانڈر انچیف رہا۔ یہاں اسے فیلڈ مارشل بنا دیا گیا۔ ۱۹۱۱ء میں مصر میں کونسل جنرل بنا دیے گئے۔ خدمات کے پیشِ نظر ۱۹۱۴ء میں "Earl Kitchener of Khartoum" (ذوالخرطوم) کا خطاب دیا گیا۔ پہلی جنگِ عظیم میں اسے وزیرجنگ مقرر کیاگیا۔ ۱۹۱۶ء میں اسے زارِ روس نے روس بلایا لیکن وہ راستے ہی میں جہاز کے ڈوب جانے سے مر گیا۔ سمندر گیا میں ڈوب مرنے کی بناء پر علاّمہ اقبالؔ نے ’’جاوید نامہ‘‘ (کلیاتِ فارسی ص:۵۶۶) میں اسے ’’فرعون صغیر‘‘ کہا ہے۔ مآخذ: 1- "The New Caxton Encyclopaedia Vol:II" P"3503-3504 ۲) اکبر حسین قریشی‘ ڈاکٹر،’’مطالعۂ تلمیحات‘‘ ص:۴۳۲ ۳) عابد علی عابد‘ سید‘ ’’تلمیحاتِ اقبال‘‘، ص: ۴۴۹ ۳؎لاہورمیں مقیم کشمیری برادری کے چند سربرآوردہ اصحاب نے برادری کے اصلاحِ احوال کے لیے فروری ۱۸۹۶ء میں ’’انجمن کشمیری مسلمانان‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ اقبالؔ اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم تھے۔ کشمیری ہونے کے ناتے سے ان کا تعلق انجمن مذکورہ سے قائم ہوا اور انجمن کے ’’کشمیری گزٹ‘‘ میں ان کا کلام بھی شائع ہونے لگا۔ ایم اے کے بعد جب وہ اورئینٹل کالج میں استاد مقرر ہوئے تو انھیں انجمن کا سیکرٹری بنا دیاگیا۔ ۱۹۰۸ء میں اعلیٰ تعلیم کے بعد یورپ سے واپسی پر انھوں نے وکالت شروع کی تو انجمن کی از سرِ نو تجدید ہوئی اوراقبالؔ جنرل سیکرٹری بنائے گئے۔ انجمن کے ایک وفد نے علاّمہ اقبالؔ کی قیادت میں دسمبر ۱۹۰۸ء میں امرتسر میں نواب سلیم اللہ سے ملاقات کی اور نواب موصوف نے انجمن کا سرپرست (Patron) بننا منظور کرلیا۔ الغرض اس زمانے میں اقبالؔ نے کشمیری مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے بڑی سرگرمی اور تندہی کے ساتھ مختلف کارروائیوں میں حصہ لیا۔ مآخذ: رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر‘ ’’خطوطِ اقبالؔ‘‘ ص:۱۰۶ (۲۵) بصحنِ گلشنِ ماصورت بہار بیا کشادہ دیدۂ گل بہرانتظار بیا۱؎ ۷؍مارچ ۱۹۱۲ئi؎ اقبالؔ تحقیق متن:یہ شعر پوسٹ کارڈ پر ہے اور مہر۷؍مارچ ۱۹۱۲ء کی ہے۔ کلیاتِ مکاتیب‘ اول‘‘ (ص:۱۷۰) کے حاشیے میں اسے ۱۱؍مئی ۱۹۰۹ء کے مراسلے کا حصہ قرار دیا ہے۔ جبکہ اس شعر کا ۱۹۰۹ء کے خط سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (دیکھیے عکس ص۴۸ الف) حواشی و تعلیقات: ۱؎ ترجمہ: ہمارے صحنِ گلشن میں بہارکی طرح آجا‘ پھولوں کی آنکھیں انتظار میں کھلی ہیں‘ آجا۔ (۲۶) ڈیرفوقؔ السلام علیکم۔ کیا آپ آج کل لاہور میں ہیں یا i؎میراں کدل۱؎ میں؟ ایک دفعہ آپ نے کشمیری میگزین میں میرے حالات شائع کیے تھے اگر اس نمبر کی کوئی کاپی آپ کے پاس رہ گئی ہو تو ۲؎ ارسال فرمائیے پھر واپس کر دی جائے گی۔ اگر پاس نہ ہو تو کہیں سے منگوا دیجئے۔ زیادہ کیا عرض کروں آپ کبھی ملتے ہی نہیں۔ اب تو آپ پیرِ طریقت بھی بن گئے۔ خدا کرے کہ جلد حافظ جماعت شاہ صاحب۳؎ کی طرح آپ کے ورودِ کشمیر کے متعلق اطلاعیں شائع ہوا کریں۔ والسلام اس کارڈ کا جواب جلد ملے۔ آپ کا خادم اقبالؔ لاہور ۲۳؍جولائی ۱۹۱۵ء تحقیق متن: اس خط کا عکس اقبال اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ انوار: میراکدل عکس: میراں کدل۔ دراصل یہ ’’امیراکدل‘‘ ہے ۱؎ سری نگر‘ صوبہ کشمیر کا سب سے بڑا شہر اور ریاستی حکومت کا گرمائی دارالخلافہ ہے‘ جو دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ سری نگر میں آج جہاں شیرگڑھی آباد ہے وہاں ملک سیف کا تعمیر کردہ ایک عالی شان باغ تھا جو ڈارہ باغ کہلاتاتھا۔ عہدِ افاغنہ میں امیر خاں جوان شیر تھا جس کے نام سے دریائے جہلم کا مشہور پُل امیراکدل اب تک موجود ہے۔ دریائے جہلم کے دائیں اور بائیں کناروں پر امیراکدل سے اوپر کی طرف آبادی نئی طرز کی ہے اور اس حصے میں فراخ سڑکیں اور رہایشی مکانات و کوٹھیاں ہیں۔ شہر اور اس کے نواحی محلوں میں جانے کے لئے موٹر‘ ٹانگہ اور چھوٹی کشتیاں (جنھیں شکارہ کے نام سے پکارا جاتا ہے) استعمال کی جاتی ہیں۔ مآخذ: ۱) محمد سلیم (شیخ) ’’طبعی اور جغرافیائی حالات جموں و کشمیر‘‘ (مضمون) مشمولہ:ادبی دنیا (کشمیر نمبر) ۱۹۱۶ئ، ص:۴۷ ۲) عبداللہ قریشی‘ ’’شاعر کشمیر‘‘ ص:۱۵ ۲؎ فوقؔ نے اپنے رسالے ’’کشمیر میگزین‘‘ لاہورکے اپریل ۱۹۰۹ء کے پرچے میں اقبالؔ کے بارے میں ایک مضمون تحریر کیا تھا۔ ’’نیرنگِ خیال‘‘ لاہورکے ستمبر‘ اکتوبر ۱۹۳۲ء کے اقبالؔ نمبر میں بھی فوقؔ کا مضمون شائع ہوا تھا۔ فوقؔ کی تصنیف ’’تاریخِ اقوامِ کشمیر‘‘(جلد اوّل‘ ۱۹۳۴ئ) میں بھی اقبال کے آباء واجداد ان کے خاندانی حالات اور ذات‘ گھر کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۳؎ حافظ جماعت علی شاہ (۱۸۴۱ئ…۳۰؍اگست ۱۹۵۱ئ) ممتاز صوفی بزرگ‘ علی پور سیداں (سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔ سلسلۂ نسب ۳۸واسطوں سے حضرت سیدنا علی مرتضیٰؓ سے جا ملتا ہے۔ قرآنِ پاک حافط شہاب الدینؒ کشمیری سے اور دیگر ابتدائی کتب مولانا عبدالرشید اور مولانا عبدالوہاب امرتسری سے پڑھیں۔ مولانا غلام قادر بھیروی ‘ مولانا فیض الحسن سہارنپوری‘ مولانا محمد علی مونگیری (کانپور) ‘ مولانا احمد حسن کانپوری‘ مولانا عبدالرحمن پانی پتی اور مولانا عبدالحق مہاجر مکی سے بھی استفادہ کیا۔ سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں حضرات خواجہ فقیر محمد (چورہ شریف) کے مرید ہوئے اور خلافت و اجازت سے نوازے گئے۔ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے جھوٹے دعویٔ نبوّت کی زبردست تردید کی۔ شاہی مسجد لاہور میں مرزا غلام احمد کی موت کی پیش گوئی کہ جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ ۹۱۹۳۵ میں مسجد شہید گنج کی تحریک کے وقت شاہی مسجد لاہور میں ولولہ انگیز تقریر کی‘ جس کی بنا پر انھیں ’’امیرِ ملت‘‘ کاخطاب ملا…تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے۔ علی گڑھ کالج کو یونی ورسٹی کادرجہ دینے کے تحریک چلی تو انھوں نے نواب وقار الملک کی اپیل پر لاکھوں روپیہ چندہ جمع کرا دیا۔ علاّمہ اقبالؔ بھی ان کے متعقدین میں سے تھے۔ ۱۹۰۴ء میں انجمن خدام الصوفیہ کی بنیاد رکھی۔ آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس میں بحیثیت سرپرست شرکت کی۔ ضرورتِ شیخ‘ یارانِ طریقت‘ اطاعتِ مرشد جیسے اہم رسائل تصنیف کیے۔ مرزا علی پورسیداں میں ہے۔ مآخذ ۱) عبداللہ قریشی‘ ’’اقبال بنام شاد‘‘ ، ص:۱۹۹۔۲۰۱ ۲) عبداللہ قریشی (مرتب)، حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘،ص۲۸۷۔ ۳) ماہنامہ ’’زینت‘‘ لاہور‘ ۱۹۹۱ئ، ص: ۶۷۔۴ آفتاب احمد قریشی‘ حکیم (مرتب)‘ ’’کاروانِ شوق‘‘ ص:۲۳۳۔۲۳۵ (۲۷) ڈیرفوقؔ السلام علیکم۔ آپ کاکارڈ ابھی ملا ہے۔ بھلا آپ کوکیوں کر آنے کی ممانعت ہو سکتی ہے۔ میں نے اس خیال سے لکھاتھا کہ آپ مصروف آدمی ]ہیں[ اس لیے آنے میں ہرج ہو گا اور تکلیف مزید کہ انارکلی شیراں والے۱؎دروازے سے دور ہے۔ کتاب جب آجائے تو ضرور ہمراہ لائیے بلکہ اس کے آنے میں دیر ہو تو بلا کتاب تشریف لائیں۔ ۲۱؍دسمبر کا ’کشمیری‘۲؎ اور ’وجدانی نشتر‘۳؎ میری نظر سے نہیں گزرے والسلام آپ کا خادم محمدؐ اقبالؔ لاہور ۲۱؍دسمبر ۱۵ئi؎ تحقیق متن: i؎ عکس ’’کلیاتِ مکاتیب‘ اوّل‘‘ (ص:۴۳۹) میں شامل ہے۔ انوار:۱۹۱۵ء حواشی وتعلیقات ۱؎ اس زمانے میں علاّمہ اقبالؔ کی رہایش انارکلی بازار میں تھی۔ شیراں والا دروازہ‘ شہر کے مشرقی جانب‘ یکی دروازہ کے درمیان ہے۔ اس کا پہلانام معلوم نہ ہو سکا۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس جگہ دو شیر رکھے گئے تھے۔ اس وجہ سے یہ نام پرا۔ اس کے اندر کچھ مدت ایوب شاہ (ابن تیمور شاہ والیٔ افغانستان) رہے اور اس مقام کا نام بنگلہ ایوب شاہ مشہور ہوگیا۔ اس دروازے کے اندر ایک چھوٹی سی مسجد میں حضرت مولانا احمد علی نے درسِ قرآن شروع کیا تھا۔ آخر وہ مسجد اس قدروسیع ہوئی کہ وہاں ایک عالی شان درسگاہ بھی بنگئی۔ مآخذ: تاریخِ لاہور‘ص:۶۰ ۲؎ ۲۱؍دسمبر ۱۹۱۵ء کے ’’کشمیری‘‘ (ہفتہ وار) میں فوقؔ نے ایک واقعے کا ذکر کیا تھا‘ جس کا عنوان تھا: ’’ڈاکٹر اقبال کی ایک نظم کااثر ’’واقعہ یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بہاول پور نے ایک لوکل زنانہ اخبار کی ایڈیٹر صاحبہ سے اثنائے گفتگو میں فرمایا: ’’جب سے میں نے ؎ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا (کلیاتِ اقبال (اردو)ص:۵۲) والی نظم پڑھی ہے‘ میں نے تیتر ‘ بٹیر اور چڑیوں کا کھانا قطعی چھوڑ دیا ہے بلکہ جب میں کسی بلبل یاچڑیا کو اسیر دیکھتی ہوں تو میرے دل پر بہت چوٹ لگتی ہے۔ اور فوراً مجھے یاد آجاتا ہے: آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے میں بے زباں ہوں قیدی‘ تو چھوڑ کر دعا لے (’’ب۔ا۔ڈار‘‘،ص:۶۱) ۳؎ اقبالؔ نے فوقؔ کی کتاب ’’وجدانی نشتر‘‘ کا نام ’’سوزوگداز‘‘ تجویز کیا۔ یہ کتاب صوفیوں کے حلقے میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے چھ حصے تھے: ’تجلی‘، برقِ طور، پیام وصال، تیرونشتر، دردِ دل اور حال وقال… اس میں قرآن مجید کی وہ انقلاب انگیز آیتیں اورعربی‘ فارسی‘ اُردو‘ پنجابی کے وہ دلگداز ‘ وجد آفرین‘ درد انگیز اور پُراثر اشعار مع اپنی پوری کیفیتوں کے جمع کیے گئے تھے‘ جن کے پڑھنے یا سننے سے صاحب دل بزرگوں اور پاک باطن لوگوں پر خاص اثر ہوا یا جو دمِ واپسیں کی طرح مرنے والوں کے آخری کلمات ثابت ہوئئے۔ یہ کتاب مکمل شکل میں پہلی بار دسمبر ۱۹۱۵ء میں گلزار سٹیم پریس لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کی ضخامت ۱۲۷صفحات ہے۔ مآخذ: اجمل نیازی‘ ڈاکٹر‘ ’’فوق الکشمیر‘‘،ص:۱۹۰۔۱۹۷ (۲۸) لاہور ۲۳؍دسمبر۱۵ء ڈیئرفوقi؎ السلام علیکم دونوں کتابیں مل گئی ہیں۔ انگریزی کتاب پہلے سے میرے پاس موجود ہے۔ افسوس ہے کہ آپ کو مفت میں تکلیف ہوئی۔ ’’وجدانی نشتر‘‘ خوب ہے مگر تعجب ہے کہ شیخ مُلّا۱؎کے ملحدانہ زندیقانہ شعر ’’من چہ پرواے مصطفی دارم۲؎ ‘‘ کو آپ اس کتاب میں جگہ دیتے ہیں‘ اور پھر ملّا کی تشریح کس قدر بے ہودہ ہے۔ یہی وہ وحدت الوجود۳؎ہے جس پر خواجہ حسن نظامی ۴؎اوراہل طریقت کو ناز ہے؟ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرے اور ہم غریب مسلمانوں کو ان کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ ریویو دوسرے صفحے پر درج ہے۔ii؎ بسو دارiii؎ رات مچھر نے کہہ دیا مجھ سے ماجرا اپنی ناتمامی کا مجھ کو دیتے ہیں ایک بوند لہو صلہ شب بھر کی تشنہ کامی کا اور یہ بسوہ دار بے زحمت پی گیا سب لہو اسامی کا iv؎ اتنی خدمت کی ہے خلق اللہ کی دیکھیے ہوتے ہیں کب سرمالوی مسلم نادانوں کو کیا معلوم ہے کس خدا کے ہیں پیمبر مالوی خوب تھا یہ خالصہ جس کا بچپن کب ہے گاندھی کے برابر مالوی مردِ میداں گاندھیٔ درویش خو اورکونسل کے سپیکر مالوی تحقیق متن: i؎ انوار: عکس کے مطابق القاب و آداب نقل نہیں کیے گئے۔i؎i انوار: محمد اقبال۔ iii؎ iv؎ انوار: یہ اشعار متن میں شامل نہیں کیے گئے‘ البتہ اس نظم کا عکس ص:۳۰۶ پر دیا گیا ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ آپ کانام شاہ محمد تھا۔ ان کے مرشد حضرت میاں میر ان کو محمد شاہ کے نام سے پکارتے تھے لیکن وہ مُلّا شاہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا آبائی وطن بدخشاں تھا اس لیے وہ ملاشاہ بدخشی یا بدخشانی بھی کہلائے۔ دوست احباب ان کو حضرت اخوند بھی کہتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو لسان اللہ کے خطاب سے بھی سرفراز سمجھتے تھے۔ وہ موضع ارکسا بلدۂ روستاق میں پیدا ہوئے۔ جہاں آرا کے بیان کے مطابق انھوں نے ۱۰۲۳ھ میں ہندوستان کا سفر اختیار کیا اور لاہور پہنچے۔ اس حساب سے ان کی تاریخ ولادت ۹۹۵ھ ٹھہرتی ہے۔ ان کے والد مولانا عبداحمد بن مولانا سلطان علی بن قاضی فتح اللہ تھے۔ والدہ کا نام بی بی خاتون تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے وطن میں قریہ موسوارک کے ملا خواجہ علی سے حاصل کی۔ اکیس برس کی عمر میں علومِ دینی کی تکمیل کے لیے بلخ تشریف لے گئے اور ملاحسین قبادیانی سے استفادہ کیا۔ بلخ میں قیام کے بعد جستجوئے حقیقت اور معرفتِ خداوندی کے شوق میں ہندوستان کا رخ کیا۔ وہ سلاطین و امرا سے نذرونیاز قبول نہیں کرتے تھے۔ اپنے مریدوں سے معمولی نیاز مثلاً ایک دو روپے قبول فرما لیتے اور اور یہ رقم غرباء و مساکین پر صرف کر دیتے تھے۔ حضرت ملّا شاہ صوفی‘ عارف اور پیرِ طریقت کے ساتھ ساتھ مصنف اور شاعر بھی تھے۔ ان کی کلیات کا ایک مکمل نسخہ اورینٹل پبلک لائبریری بانکی پور پٹنہ میں موجود ہے۔ مآخذ: ۱) ظہور الدین احمد ‘ داکٹر‘’’پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ‘‘،ص:۱۲۴۔۱۲۳ ۲) قاضی جاوید‘ ’’پنجاب کے صوفی دانشور‘‘ ص: ۱۷۹۔۱۸۵ ۲؎ ’’وجدانی نشتر‘‘ کے چوتھے باب میں فوقؔ نے ملّا شاہ بدخشانی سے متعلق یہ واقعہ بھی لکھ دیا کہ ایک دفعہ آپ نے کسی خاص جذبے کے ماتحت یہ شعر کہا: پنجہ در پنجۂ خُدا دارم من چہ پرواے مصطفیؐ دارم شاہ جہان بادشاہ نے علمائے دہلی سے فتویٰ طلب کیا اور مُلّا شاہ کو بلا کر کہا کہ اس شعر سے رسولِ خداؐ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ حضرت مُلّا شاہ نے جواب دیا‘ توہین تو وہ لوگ کرتے ہیں جواپنے اور مصطفیؐ اور خدا میں تفریق کرتے ہیں۔ خدا کے پنجے میں آپ بھی ہیں‘ میں بھی اور مصطفیؐ بھی۔ پھر پروا کس کی اور خوف کس بات کا۔ اس پر بادشاہ خاموش ہو گیا اور لوگوں نے سمجھا کہ مُلّا شاہ کا جادو چل گیا۔ چونکہ اس واقعے کے کتاب سے کوئی خاص تعلق نہ تھا‘ اس لیے اقبالؔ نے اس کے متعلق فوقؔ صاحب کو خط میں لکھا۔ مآخذ: ظہور الدین احمد‘ ڈاکٹر‘ ’’پاکستان میں فارسی ادب کی تاریخ‘‘ ص:۱۲۹‘۱۳۰۔ ۳؎ ’وحدت الوجود‘ کے لیے دیکھیے خط ۳‘ تعلیقہ ۴ ۴؎ ’خواجہ حسن نظامی‘ کے لیے دیکھیے خط ’’۲‘‘ کا تعارف (۲۹) مکرم بندہ کتاب ’’مشاہیر کشمیر‘‘۱؎مل گئی ہے۔ شکریہ قبول کیجئے۔ مولوی محمد دین صاحب کی خدمت میں میرا سلام لکھیے۔ والسلام خاکسار محمدؐ اقبالؔ لاہور ۲۲؍جولائی ۱۶ء تحقیقِ متن: متن عکس کے مطابق ہے۔ (دیکھیے عکس) حواشی وتعلیقات ۱؎ مشاہیر کشمیر: ظفر برادرس لاہور کے زیر اہتمام ۱۹۳۰ء میں دوسری بار شایع ہوئی۔ یہ کتاب ۲۰۸صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’مشاہیر کشمیر‘‘ میں کسی راجا‘ مہاراجا یاسلطان اور بادشاہ کا ذکر نہیں۔ وہ لوگ جو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی محنت اور استعداد کی بدولت اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے‘ فوقؔ نے ان لوگوں کے حالات اس کتاب میں جمع کر دیے۔ مشاہیر کشمیر میں چالیس شخصیات کے حالات اور کارہائے نمایاں شامل ہیں۔ ان شخصیات میں سب سے طویل مضمون فوقؔ نے علاّمہ اقبال کے بارے میں لکھا ہے جو ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ فوقؔ کا یہ مضمون اس لیے بھی اہم ہے کہ تفہیم اقبالیات کے لیے ابتدائی تحریروں میں شمار کیاجاتا ہے۔ مآخذ: اجمل نیازی ڈاکٹر ’’فوق الکشمیر‘‘،ص:۳۰۸۔ ۳۱۵ ۲؎ مولوی محمد دین سے مُراد مدیر ’’صوفی‘‘ ہیں۔ (مزید دیکھیے: خط نمبر ۳۲‘ حاشیہ ۴) (۳۰) ڈیرفوقؔ السلام علیکم۔ آپ کا خط دستیi؎مل گیا ہے۔ منشی قمر الدین۱؎جن کو آپ نے سفارشی خط دے کر بھیجا ہے وہ اس قابل نہیں کہ ان کو اجازت دی جائے مجھے یہ بات گزشتہ تجربے سے معلوم ہے۔ ورنہ میری عادت میں کسی کو محروم کرنا داخل نہیں۔ علاوہ اس کے یہ لوگ تجارتی اغراض کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس بات کی مطلق پروا نہیں کرتے کہ شعر غلط چھپا ہے یا صحیح۔ اس کے بعد اعتراض مجھ پر ہوتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان نظموں کو میں نے شائع کیا ہے اس سے پیشتر میں اس شخص پر نوٹ ii؎ دائرکرنے کو تھا مگر مولوی ظفر علی خان۲؎کے کہنے سے باز رہا۔ اس نے اس سے پیشتر میری نظموں کو بغیرiii؎ میری اجازت کے شائع کر لیاتھا۔ اب یہ سب معاملہ iv؎ میں نے مولوی احمد دین۳؎وکیل کے سپرد کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بغیرv؎اجازت چھاپے تو اس پر دعویٰ کیاvi؎ جائے۔ اخباروں میں جو کچھ شائع ہوا ہے اسے میں نے پڑھا ہے مگر سب اخبار میری نظر سے نہیں گزرےvii؎۔ ’’مخبر دکن‘‘۴؎ کے لیے شکرگزار ہوں۔ مجھے اس معاملہ کا مطلق علم نہیں۔ نہ میں نے حیدر آباد کسی کو لکھا ہے نہ وہاں سے مجھے کسی نے کہا ہےviii؎۔ میرے خیال میں یہ بات محض اخباری گپ شپ ہے۔ حیدرآباد میں مجھ سے بہت آدمی موجود ہوں گے۔ اودھ۵؎پنچ نے جو اعتراضات مجھ پر کیے ہیں ان کا مجھے علم نہیں۔ وہ پرچہ تلاش کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ان اعتراضوں میں کوئی کام کی بات ہو۔ لکھنؤ والے یااور معترض یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبالؔ شاعر ہے۔ مگر میری غرض شاعری سے زبان دانی اظہار یا مضمون آفرینی نہیں نہ میں نے آج تک اپنے آپ کو شاعرسمجھا ہے۔ حقیقت میں فنِ شاعری اس قدر دقیق اور مشکل ہے کہ ایک عمر میں بھی انسان اس پر حاوی نہیں ہوسکتا۔ پھر میں کیوں کر کامیاب ہو سکتا ہوں جسے روزی کے دھندوں سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ میرا مقصود گاہ نظم لکھنے سے صرف اسی قدر ہے کہ چند مطالب جو میرے ذہن میں ہیں ان کو مسلمانوں تک پہنچا دوں اور بس۔ والسلام امید کہix؎آپ میرے اجازتx؎نہ دینے سے ناراض نہ ہوں گے۔ غالباً آپ کو پہلےxi؎حالات منشی قمرالدین کے معلوم نہ تھے جب آپ نے سفارشی خط لکھا ۔ مخلص محمد ؐ اقبالؔ کسی روز ضروری ملیے۔ آپ کی فوقیت اس قدر بلند ہوئی xii؎ کہ نظر سے غائب ہو گئی۔ محمدؐاقبال تحقیق کا متن ’’انوار‘‘ کا متن بہت ناقص ہے‘ درج بالا عکس کے مطابق ہے۔ (دیکھیے عکس) i؎ انوار=دستی خط۔ ii؎ انوار=مقدمہ iii؎ انوار=میری اجازت کے بغیرiv؎ انوار=معاملہ مولوی۔ v؎ انوار= میرا کلام میر ی اجازت کے vi؎ انوار کر دیا جائے۔ vii؎ انور =گزرتے viii؎ انوار=تحریک کیix؎ انوار=امید ہے کہ x؎ انوار=قمرالدین صاحب کو اجازت نہ دینے سے۔ xi؎ انوار =ان کے حالات کا پہلے علم نہ تھا ورنہ آپ ان کی سفارش نہ کرتے۔ xii؎ اب اس قدر بلند ہو رہی ہے کہ نظر ہی سے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ لاہور کے تاجر کتب ۱۹۱۳ء میں ’’بے نظیر نظموں کا مجموعہ‘‘ کے نام سے مختلف شعرا کی نظمیں چھپوائیں۔ اس مجموعے میں اقبال کی نظمیں’’دعا‘‘ ، نوید صبح‘‘، ’’شمع وپروانہ‘‘، ’’ہمارا دیس‘‘، ’’نیا شوالہ‘‘، ’’سبز گنبد کے شہنشاہ کے حضور میں‘‘، ’’خونِ شہدا کی نذر‘‘ اور ایک نا تمام نظم کے چھ شعر شامل کیے گئے۔ مآخذ: صابرکلوروی ’’باقیات اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ‘‘ (مقالہ: پی ایچ ڈی) غیر مطبوعہ ۲؎ دیکھیے خط نمبر۳ تعلیقہ نمبر۹ ۳؎ مولوی احمد دین وکیل کا شمار اقبالؔ کے اوّلین دوستوں اور عقیدت مندوں میں ہوتا ہے۔ بازارِ حکیماں کی محفلوں میں محمدؐ اقبال کا تعارف مولوی احمد دین سے ہوا۔ ۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی ابتدا گوجرانوالہ سے ہوئی۔ لاہور آئے‘ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کیا۔ مولوی احمد دین دیوانی قانون کے زبردست ماہر تھے۔ انجمن حمایت اسلام کی تعلیمی‘ اصلاحی اور علمی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سالانہ جلسوں میں لیکچر بھی دیے۔ انجمن کشمیری مسلمانان میں بھی حصہ لیا۔ قلمی زندگی کی ابتدا صحافت سے کی۔ ’’پیسہ اخبار‘‘ سے تعلق رہا۔ خود بھی ’’غم خوار عالم‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالا۔ جن دنوں اقبالؔ اُردو مجموعۂ کلام ’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت کا اہتمام کر رہے تھے‘ انھی دنوں مولوی صاحب نے ان کا اُردو کلام جمع کر کے ’’اقبالؔ‘‘ کے نام سے چھاپ دیا۔ جب کتاب چھپ کر علاّمہ کے پاس پہنچی تو شیخ گلاب دین سے کہنے لگے: میں تو اپنا کلام خود ہی مرتب کر رہا تھا‘ نظر ثانی ہو رہی تھی‘ کیا اچھا ہوتا مولوی صاحب ذرا انتظار کر لیتے۔ مولوی صاحب نے یہ بات سنی تو اس کا کچھ اور ہی مطلب سمجھے۔ انھیں یہ بات گوارا ہی نہیں تھی کہ محمدؐ اقبالؔ کو کسی پہلو سے ناراض کریں یا نقصان پہنچائیں اور سارے کا سارا مجموعۂ کتب جو چھپ کر آیا تھا‘ صحن میں رکھا اور نذر آتش کر دیا۔ محمدؐ اقبال کو معلوم ہوا تو انھیں بڑا صدمہ ہوا۔ دل سے معذرت کی۔ یہ کتاب ’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت کے بعد ۱۹۲۶ء میں اگرچہ پھر شائع ہوئی لیکن مولوی صاحب نے بہت سا کلام حذف کر دیا۔’’سرگزشتِ الفاظ‘‘ بھی ان کی ایک اہم کتاب ہے۔ مولوی احمد دین آخر عمر میں بیمار رہنے لگے تھے۔ اقبالؔ اکثر ان کی تیمار داری کے لیے جاتے رہتے تھے لیکن جب ۱۹۲۹ء میں ان کا انتقال ہوگیا تو اتفاق سے اقبالؔ بیمار ہو گئے اور جنازے میں شریک نہ ہوسکے۔ انھوں نے بڑے افسوس سے اپنی محرومی کاذکر کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے خواجہ بشیر کو ایک خط میں لکھا: ’’مجھے یہ افسوس زیست بھر رہے گا کہ مرحوم کے لیے جو آخری دعا کی گئی اس میں شریک ہونے سے محروم رہا‘‘۔ مآخذ: ۱) احمد دین (مولوی) مصنف‘ مشفق خواجہ (مرتب)‘ ’’اقبال‘‘،ص: ۲۳۔۱۰۵ ۲) نذیر نیازی‘ سید، ’’دانائے راز‘‘، ص: ۱۶۳۔۱۶۵ ۳) محمد عبداللہ چغتائی‘ ’’اقبال کی صحبت میں‘‘، ص: ۴۴۴‘۴۴۵۔ ۴؎ اخبار ’’مخبر دکن‘‘ میں یہ خبر چھپی تھی کہ حیدر آباد دکن ہائی کورٹ کی ججی کے سلسلے میں اقبالؔ کا نام اکثر لیا جارہا ہے۔ علاّمہ کے خطوط کے مطالعے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے (’’شادؔ اقبالؔ‘‘۔ خطوط نمبر ۱۸‘ ص: ۳۷‘ ۲۱‘ص:۴۲‘۲۳‘ص:۴۴)… مدراس سے یہ ماہانہ رسالہ ۲۷؍جون ۱۸۹۵ء کو ظہور پذیر ہوا۔ اس کے بانی سید عبدالقادر تھے۔ بارہ صفحات پر پنجشنبہ کو نکلتا تھا۔ سلطانی پریس میں چھپتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد یہ ہفتہ وار ہو گیا تھا۔ اس اخبار کی پالیسی انصاف اورحق گوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی ابتدامیں ڈھائی سو کے قریب تعداد تھی۔ ۱۹۱۲ء میں دو ہزار ہو گئی تھی۔ مآخذ: ’’امداد صابری ‘‘، تاریخِ صحافت اُردو‘ جلد سوم‘‘ ص: ۶۵۴ ۵؎ اودھ پنچ: سید محمد سجاد حسین نے یہ ہفتہ وار اخبار ۱۸۷۷ء میں لکھنؤ سے جاری کیا تھا۔ جو ۱۹۱۲ء تک جا ری رہا۔ ۲۷؍اپریل ۱۸۷۷ء سے پہلے مطبع کایستھ سماچار چھپتا تھا۔ ان ہی تاریخوں میں اخبار کا ذاتی مطبع شامِ اودھ محلہ گولہ گنج میں قائم ہوا تھا‘ اس وقت سے اس میں چھپنے لگا تھا۔ یہ بھارتی کانگرس کا حامی‘ حکمران طبقے کا نقاد و نکتہ چیں اور مغربی تہذیب و روش کے مقابلے میں مشرقیت کا علمبردار تھا۔ اس کی ظرافت اور طنز کی زد میں بڑے بڑے ادیب آئے۔ ۱۹۱۵ء میں سید سجاد حسین کی وفات کے بعد ایک دو مرتبہ اودھ پنچ کے احیا کی کوشش کی گئی اسے پہلی حیثیت حاصل نہ ہو سکی۔ مآخذ ۱۔امداد صابری‘ ’’تاریخِ صحافتِ اُردو‘ جلد سوم‘‘، ص:۷۸۔ ۲۔ عبدالرزاق فاروقی‘ محمد‘ ’’اودھ پنچ کی ادبی خدمات‘‘، ۱۹۸۸ئ۔ ۳۔عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر، ’’صحافت‘ پاکستان و ہند میں،ص:۲۳۳‘۲۵۱ ۴۔ایم ایس ناز‘ ’’اخبار نویسی کی مختصر ترین تاریخ‘‘ ص: ۲۱۳‘۲۱۲۔ (۳۱) لاہور ۸؍جون ۱۷ء ڈیرفوق۔ السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ کشمیر اور اہلِ کشمیر پر مختلف کتابیں لکھ کر آپ نے مسلمانوں پر اور ان کے لٹریچر پر احسان کیا ہے۔ البتہ کشامرہ کی قبرپرستی ایک ایسا مضمون ہے جس پر جہاں تک مجھے معلوم ہے آپ نے اب تک کچھ نہیں لکھا۔ اس طرف سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ رسالہ ’رہنمائے کشمیر‘۱؎جو حال میں آپ کے قلم سے نکلا ہے نہایت مفید اور دلچسپ ہے۔ طرز بیان بھی دلکش ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ رسالہ عام لوگوں کے لیے نہایت مفید ہو گا۔ افسوس ہےi؎ میں نے آج تک کشمیر کی سیر نہیں کی لیکن امسال ممکن ہے کہ آپ کارسالہ مجھے بھی ادھر کھینچے۔ ’اسرارِ۲؎خودی‘ کی کوئی کاپی اب موجود نہیں۔ مدت ہوئی پہلاایڈیشن جس کی تعداد بہت نہ تھی ختم ہو گئی۔ میں نے ارادتاً کم تعداد میں چھپوائی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ عربی اسلام ہندوستان میں ایک فراموش شدہ چیز ہے۔ اس واسطے اس کے مضمون سے بہت کم لوگوں کو دلچسپی ہو گی۔ ممکن ہے کہ دوسری ایڈیشن شائع ہو۔ ایسا ہواتو سب سے پہلے ایک کاپی آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔ اس مثنوی کا دوسرا۳؎حصہ بھی قریب الاختتام ہے۔ والسلام مخلص محمدؐ اقبالؔ لاہور تحقیق متن: ۱؎عکس ’’کلیاتِ مکاتیب‘ اول‘‘ (ص:۶۰۸‘۶۰۹) میں شامل ہے۔ انوار= افسوس ہے کہ حواشی و تعلیقات ۲؎رہنمائے کشمیر: ایک سو اٹھانوے صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار ۱۹۲۳ء میں خادم التعلیم برقی پریس لاہور میں شائع ہوئی۔ یہ فوقؔ کے ’’سفرنامۂ کشمیر‘‘ کی بنیاد پر لکھی گئی تھی۔ یہ کتاب اپنے نام کی مناسبت سے کشمیر میں سفروسیاحت کے لیے ایک رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سترہ ابواب پر مشتمل ہے۔ کشمیر کے ہوٹلوں اور مسافروں کی عام ضرورت کے لیے کئی اہم معلومات کتاب میں موجود ہیں۔ (اجمل نیازی‘ ڈاکٹر‘ فوق الکشمیر‘ ص:۵۷۸۔۵۸۱) ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۳‘ تعلیقہ نمبر۲ ۳؎ فارسی مثنوی ’’رموزِ بے خودی‘‘ کی طرف اشارہ ہے جو پہلی بار ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ (۳۲) ڈیرفوقؔ السلام علیکم! آپ کا خط مع ملفوف اخبار مل گیا ہے جس کے لیے شکریہ ہے۔ رائل ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال (جرنل) کے بعض نمبر پنجاب پبلک لائبریری۱؎اور شاید یونی ورسٹی لائبریری۲؎ میں بھی ہیں۔ آپ کسی روز جا کر خود دیکھیں۔ رسالہ نظام کا اجرا مبارک ہو۔ میرے خیال میں تو آپ ’طریقت‘ کو ہی فروغ دیتے تو شاید حضور نظام تصوّف کی اشاعت کا صلہ عطا فرماتے۔ محمد دین صاحب صوفی۴؎ آپ سے بہتر نہیںi؎لیکن وہ آدمی معاملہ فہم اور کاردان ہے۔ میں بھی آپ کے لیے ان شاء اللہ کچھ لکھوں گا۔ حکیم محمد دین۵؎صاحب کئی روز سے نہیں ملے۔ خدا کرے کہ اچھے ہوں۔ آپ سے ملیں تو میری طرف سے استفسار حال کیجئے۔ والسلام محمد اقبال لاہور ۱۴؍ii؎ دسمبر ۱۸ء تحقیقِ متن: خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریر میں بھی موجود ہے۔ i؎ انوار=نہیں ہیں۔ ii؎انوار= ۱۶ حواشی و تعلیقات ۱؎ برصغیر پاک و ہند کے کتب خانوں میں ’’پنجاب پبلک لائبریری‘‘ ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ کتب خانہ ۱۸۸۴ء میں بارہ دری وزیرخان میں قائم ہوا۔ ۱۸۸۴ء میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سرچارلس ایچی سن کی خواہش سے اس میں پبلک لائبریری کاقیام عمل میں آیا۔ پچھتر کتب سے شروع ہونے والا یہ کتب خانہ اب اڑھائی لاکھ سے زائد کتب ‘ دس ہزار سے زیادہ رسائل و جرائد‘ اخبارات اور ایک ہزار سے متجاوز قلمی مخطوطات موجود ہیں۔ اس کتب خانے کو لاہور میں بین الاقوامی ادارے یونیسکو کو مخزن (Depository) کے ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔ پنجاب پبلک لائبریری کی موجودہ عمارات سولہ کنال رقبے پر محیط ہیں۔ شارعِ قائداعظمؒ پر پنجاب یونی ورسٹی کے سامنے اور عجائب گھر کے پہلو سے ایک سڑک گزرتی ہوئی چرچ روڈ سے جا کر ملتی ہے۔ اسے لائبریری روڈ کا نام دیاگیا ہے‘ جس کے دائیں جانب عجائب گھر کے عقب میں یہ کتب خانہ واقع ہے۔ اگر شارعِ قائداعظمؒ کی جانب سے داخل ہوں تو دائیں ہاتھ گیٹ سے داخل ہوتے ہی لائبریری کا اورنیٹیل سیکشن دکھائی دے گا‘ جسے ۱۹۲۷ء میں تعمیر کیا گیا۔ شعبہ السنۃ الشرقیہ میں اس وقت اُردو‘ عربی‘ فارسی‘ پنجابی ‘ ہندی اورپشتو کی اَسّی ہزارکتب موجود ہیں‘ جن میں اُردو زبان کی کتب کی تعداد ساٹھ ہزار سے زائد ہے۔ مشرقی علوم وفنون میں تحقیقی مقاصد کے لیے یہ شعبہ بہت نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ بارہ دری میں جگہ کی کمی کے پیشِ نظر ۱۹۳۹ء میں شعبہ انگریزی قائم کیا گیا‘ جس کی تین منزلہ عمارت میں اسوقت ایک لاکھ سے زائد انگریزی زبان میں مختلف علوم و فنون کی کتب موجود ہیں۔ عمارت کے اس حصے میں انتظامی دفاتر کے علاوہ شعبہ خواتین‘ شعبہ اطفال‘ شعبہ اسلامیات‘ رفعت سلطانہ سیکشن‘ ذخیرہ مخطوطات اور ٹیکنیکل سیکشن قائم ہیں۔ انگریزی زبان میں مختلف علوم و فنون پر یہاں نادر کتب موجود ہیں۔ حکومتِ پنجاب کے محکمہ اسلامیات کی چار ہزار کتب کا ذخیرہ بھی یہیں منتقل ہوا ہے۔ ۱۹۶۸ء میں بارہ دری وزیر خان کے بائیں جانب اور شعبہ انگریزی کے دائیں طرف متصلاً ایک نئی دو منزلہ عمارت ’’بیت القرآن‘‘ کے نام سے تعمیر کی گئی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں ا س کتب خانے میں ’’شعبہ اطفال‘‘ کااضافہ کیا گیا۔ اس شعبے میں سات ہزار کتب کے علاوہ چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے ان کی دلچسپی کے سامان‘ تصاویر‘ کھیلیں‘ ماڈلز کی شکل میں موجود ہیں۔ مآخذ: ۱) ملک احسن اختر‘ ڈاکٹر‘ ’’ہمارے کتب خانے‘‘ ص: ۳۱۔۴۲ ۲) ’’نقوش‘ لاہور نمبر فروری ۱۹۶۲ء ‘ ص: ۶۰۱۔۶۰۳ ۳) عبدالجبار شاکر‘ پروفیسر‘ ’’پنجاب پبلک لائبریری۔ ماضی‘ حال اور مستقبل کے آئینہ میں‘‘ (مضمون) صؒ۸۔۱۹‘ مشمولہ : ’’جشنِ صد صالہ تقریبات ۱۸۸۴ئ۔۱۹۸۴ئ‘‘۔ پنجاب پبلک لائبریری لاہور۔ ۴) محمد اسلم: پبلک لائبریری اور اس کا نظم و نسق مع کتب خانوں کی تاریخ‘ آزاد بک ڈپو اُردو بازار لاہور‘ ۱۹۹۲ء ۲؎ پنجاب یونیورسٹی لائبریری اگرچہ ۱۸۸۲ء میں قائم کی گئی‘ مگر صحیح معنوں میں اس کی تنظیم ۱۹۱۲ء میں (جب اس کو نئی عمارت میسر آئی) ہوئی۔ اس کی عمارت کا سنگ بنیاد پنجاب یونی ورسٹی کے اس زمانے کے چانسلر لیفٹیننٹ گورنر سر لوئی ڈین نے ۲۷؍فروری ۱۹۱۱ء کو رکھا تھا‘ ماہِ اپریل ۱۹۱۲ء کو پہلے حصے کاافتتاح بھی چانسلر موصوف ہی نے کیا۔ لائبریری کی عمارت کی تکمیل فروری ۱۹۱۷ء میں ہوئی جس پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے صرف ہوئے۔ مسٹر ایم ایچ پرسیول نے ۱۹۱۱ء میں چھ ہزار پانچ سو کتابوں کا ذخیرہ لائبریری کی نذر کیا۔ یونی ورسٹی لائبریری میں کتابوں کی مجموعہ تعداد ایک لاکھ نوّے ہزار ہے۔ مقتدر علمی رسائل کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ اس وقت تقریباً ۴۳۲ رسالے پنجاب یونی ورسٹی میں آتے ہیں۔ ان میں اُردو‘ فارسی‘ عربی‘ انگریزی‘ جرمن‘ فرنچ وغیرہ زبانوں کے رسائل شامل ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں لائبریری میں عربی‘ فارسی‘ اُردو اور سنسکرت کے بیش بہا قلمی ذخائر موجود ہیں۔ عربی‘ فارسی‘ اُردو کی کم و بیش ۹ہزار قلمی کتابیں جمع ہیں۔ مخطوطات کا یہ نادر مجموعہ کئی سال کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یونی ورسٹی لائبریری نئے کیمپس (قائداعظم کیمپس) میں ۱۹۸۹ء میں منتقل ہو گئی۔ لائبریری کاانتظام یونی ورسٹی کی مجلسِ حاکمہ یعنی سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی عملی تنظیم ایک کمیٹی کے سپرد ہے‘ جو یونی ورسٹی کے تدرسیی شعبوں کے صدر صاحبان اور کالجوں کے مختلف پرنسپلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ لاہور نمبر فروری ۱۹۶۲ئ‘ ص:۶۰۸۔۶۱۰ ۲) ملک احسن اختر‘ ڈاکٹر‘ ’’ہمارے کتب خانے‘‘،ص:۲۱۔۳۹ ۳) غلام حسین ذوالفقار ‘ ڈاکٹر‘ ’’صدر سالہ تاریخِ جامعہ پنجاب‘‘ ۱۹۸۲ء ۳؎ علاّمہ اقبالؔ نے اپنی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ میں مسلمانوں کو عرفانِ نفس‘ تعینِ ذات اور قوتِ عمل کااحساس دلاتے ہوئے فلسفۂ اشراق‘ عجمی تصوف اورصوفیانہ شاعری پرتنقید کی کہ انھی چیزوں کے اثر سے مسلمانوں کی پوری قوم قوتِ عمل سے یکسر محروم ہو گئی ہے چونکہ یونان میں فلسفۂ اشراق پھیلا اور ایران میں تصوّف اس لیے افلاطون اورحافظؔ شیرازی کا ذکر بھی آیا۔ اقبالؔ نے تصوّف کے بعض معتقدات سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں ’بُز‘ اور ’گوسفند‘ قرار دیا۔ اس پر طبقۂ صوفیا بھڑک اٹھا اور ہر طرف سے مثنوی کی مخالفت میں مضامین شائع ہونے لگے۔ اقبالؔ نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے بہت سے مضامین شائع کرائے۔ اقبالؔ کے گہرے دوست ہونے کی وجہ سے اہلِ ’طریقت‘ فوقؔ صاحب سے بھی آہستہ آہستہ بدظن ہو گئے اور انھوں نے رسالے کا مقاطع شروع کر دیا۔ جس سے یہ پرچہ ڈولنے لگا۔ انھی دنوں مولوی محمد عظیم گکھڑوی مرحوم‘ جو سید جماعت علی شاہ کے مریدوں میں بڑے خوش بیان واعظ تھے‘ حضرت شاہ صاحب کے بعض مشیروں سے کسی بات پر ناراض ہو گئے اور انھوں نے ’طریقت‘ میں اصلاحی مضامین کا سلسل ہشرع کر دیا۔ آخر یہ رسالہ بند ہو گیا۔ اس کے بند ہوتے ہی فوقؔ صاحب نے اسی قسم کاایک اور رسالہ ’نظام‘ جاری کر دیا مگر اقبال کو ’طریقت‘ کے بند ہونے کاافسوس ہی رہا۔ فروری ۱۹۱۹ء میں رسالہ ’نظام‘ کا پہلا پرچہ شائع ہوا۔ اس رسالے کا مزاج اور انداز تو وہی تھا جو پہلے رسالے کا تھا مگر اس کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو ’طریقت‘ کو حاصل ہوئی تھی۔ اس لیے چند ہی ماہ بعد یہ بھی بند ہو گیا۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی: حیاتِ اقبالؔ کی گم شدہ کڑیاں‘ ص:۲۹۶۔۳۰۲ ۲) اجمل نیازی ڈاکٹر: فوق الکشمیر‘ ص: ۵۱۲‘ ۵۱۳۔ ۴؎ ملک محمد الدین ۹؍اگست ۱۸۸۱ء کو مہوٹہ کلان ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ جلالپور اور چکوال کے مدرسوں میں تعلیم پا کر مڈل کاامتحان پاس کیااور سرکاری وظیفہ حاصل کر کے اپریل ۱۸۹۶ء میں لاہور اسلامیہ ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے تصنیف و تالیف اور شعروشاعری کی طرف طبیعت مائل ہو گئی۔ طالب علمی ہی میں انجمن حمایت ِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں ایک نظم پڑھی اور خوب داد حاصل کی۔ فورتھ ایئر میں مہاراجا رنجیت سنگھ اور امیر عبدالرحمن خاں مرحوم آف کابل کی سوانح عمر لکھی۔۱۸۹۹ء میں نہر چناب پر پٹواری مقرر ہوئے۔ دو سال بعد نہر جہلم پرتبدیلی ہوگئی۔ نوکری چھوڑ کر تجارت کی طرف توجہ کی۔ جلالپور میں تین سال تک ادویات اور پشمینہ کی تجارت کا کام شروع رکھا لیکن خسارے کے بعد کام کو خیرباد کہہ کر لاہور آگئے ’’جلوۂ نور‘‘ نامی ایک ماہوار رسالہ جاری کیا جو تین مہینے کے بعد سرمایہ کی کمی کی وجہ سے بند ہوگیا۔ لاہور سے ۱۹۰۶ء میں حصولِ ملازمت کی غرض سے کشمیر چلے گئے۔ کشمیر سے واپس آ کر سیال شریف ضلع جہلم گئے اور پھر جلال پور شریف میں حضرت قبلۂ عالم جلالپوری سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ لالہ دینا ناتھ‘ ایڈیٹر اخبار ہندوستان لاہور کے دفتر میں اسسٹنٹ منیجر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ساتھ ہی کارخانہ آبِ حیات چلانا شروع کیا۔ جنوری ۱۹۰۹ء میں ’صوفی‘ کا پہلا پرچہ پانچ ہزار طبع کرا کے بطورنمونہ مفت تقسیم کیا۔’صوفی‘ کو پنڈی بہاء الدین جیسے ایک چھوٹے سے گاؤں میں وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو کسی بڑے سے بڑے شہر میں بھی اردو رسالوں کو میسر ہو سکتی ہے۔ مآخذ: ۱) محمد دین فوق،ؔ ’’اخبار نویسوں کے حالات‘‘، ص:۶۲۔۶۳ ۳) امداد صابر، ’’تاریخ صحافتِ اُردو‘ جلد چہارم‘‘، ص: ۷۴۴ ۵؎ حکیم محمد دین: مولوی انشاء اللہ خاں کے قریبی عزیز تھے۔ بچپن میں اکثر سیالکوٹ جاتے رہتے تھے۔ علاّمہ اقبالؔ کو بچپن سے جانتے تھے۔ ’’شفاخانہ طاہری‘‘ کے مالک تھے۔ لاہورمیں بھی علاّمہ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔ ٭٭٭ (۳۳) لاہور ۲۸؍دسمبر۱۸ء ڈیرفوقؔ! السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے جس میں اودھ پنچ کا ایک صفحہ ملفوف تھا۔ میں لاہور ہوں‘ سردی کی وجہ سے بھی i؎باہر نہیں گیا۔ نظم زیر تنقید ۱؎میر ی ابتدائی نظموں سے ہے۔ اس میں بہت سی خامیاں ہیں لیکن تعجب ہے کہ معترض نے ان میںسے ایک پر بھی اعتراض نہیں کیا اور جس قدر اعتراض ہیں غالباً کتابت کی غلطیوں پر ہیں۔ لوگ اس نظم کو بار بار چھاپتے ہیں اور بغیرمیری اجازت کے‘ کم از کم مجھے پروف ہی دکھا لیا کریں۔ اس کا علاج میرے پاس کچھ نہیں۔ والسلام محمداقبالؔ لاہور تحقیق متن: خط کا عکس ’’کلیاتِ مکاتیب، اول‘‘ (ص:۷۹۸) میں شامل ہے۔ i؎ انوار= کہیں حواشی و تعلیقات ۱؎ فوقؔ نے ۲۱؍جنوری ۱۹۱۹ء کے اخبار کشمیری کے ص:۲ (کالم ۳) پر ’’ڈاکٹر اقبالؔ کی نظمیں اور اودھ پنچ‘‘ کے عنوان سے اس نظم پر تفصیل سے لکھا ہے۔ اودھ پنچ کو ملک کے مشہور ادیبوں سے ہمیشہ لاگ رہی ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے دورِ اول میں مولانا حالی ؔمرحوم اور مرزا ؔداغؔ دہلوی ؔکے کلام پر اعتراضات کر کے خوب شہرت حاصل کی۔ علاّمہ اقبالؔ کی ایک نعت پر اعتراضات کیے ہیں جس کے مقطع کا آخری مصرع حسبِ ذیل ہے: ع بغل میں زادِ عمل نہیں ہے صلہ مری نعت کا عطا کر یہ ان کے ابتدائی دور کی نظم ہے۔ انھوں نے اس نظم کو اپنے مجموعے میں درج کرنے کے قابل بھی نہیں سمجھا۔ گو نظم ابتدائے مشقِ سخن کا نمونہ ہے لیکن اہل اخبارورسائل بھی بلا اطلاع اور بغیر نظر ثانی کرائے اس کو غلط در غلط چھاپتے رہے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ مصرع ہے ع اُڑا کے لائی ہے اے صباتو جو بُوئے زلفِ معنبرین کی یہ مصرع اصل میں اس طرح ہے ع اُڑا کے لائی ہے اے صبا تو جو بُو کسی زلفِ عنبرین کی لیکن اخبارات میں ’’بوئے زلفِ معنبرین‘‘ نقل در نقل ہورہا ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ یہ ترکیب درست ہے یا نہیں۔ نہ ڈاکٹر اقبالؔ کو علم ہے کہ یہ نظم کہاں کہاں چھپی اور کس کس نے اس کو چھاپا ہے… یہ نعت ’’باقیاتِ اقبال‘‘ (ص:۴۰۰۔۴۰۲) میں شامل ہے۔ اشعار کی تعداد سترہ ہے یہ نعت ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء کے ’’زمیندار‘‘ میں شائع ہوئی اور ’’تلاش و تاثر‘‘ (مرتبہ عبدالقوی دسنوی طبع اول نسیم بک ڈپو لکھنؤ ۱۹۷۶ئ) ص:۴۷ میں بھی شامل کی گئی ہے۔ (۳۴) ڈیرفوقؔ ۔السلام علیکم خط دستی ابھی موصول ہوا ۔ کل گورکھپور سے حکیم برہم۱؎کا خط آیا تھا۔ انھوں نے مجھے ۸؍ کا ریاض الاخبار۲؎ارسال کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر ابھی پہنچا نہیں۔ اس پرچہ سے حضرت ریاض۳؎کی رائے معلوم ہو گی۔ حکیم برہمؔ کہتے ہیں کہ ہم لوگ آپ کے بہت مشکور ہیں ۔ والسلام آپ کا اقبالؔ اس انگریزی مضمون کاترجمہ بھی ان شاء اللہ ضرور شائع ہو گا۔ غالباً شیخ عبدالقادر صاحب۴؎کریں گے کیونکہ انھوں نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ہوا ہے ایڈیٹر سول اینڈ ملٹری نیوز۵؎ کا میری طرف سے شکریہ ادا کر دیں۔ آپ کا اقبالؔ تحقیق متن: i؎ خط کا متن عکس کے مطابق ہے۔ ۱۹۱۸ء قیاسی تاریخ تحریر ہے۔ (دیکھیے عکس) حواشی و تعلیقات ۱؎ حکیم عبدالکریم خان برہمؔ فتح پور ہسوے کے رہنے والے تھے۔ امیر مینائی کے خاص عقیدت مندوں اور تلامذہ میں سے تھے۔ طبیعت میں رنگینی اور شوخی تھی۔ نثرنگاری میں دسترس تھی۔ ایک ناول ’’کرشن کنور‘‘ آپ کی یادگار ہے۔ زبان کے متعلق ان کی سوجھ بوجھ اور بے لاگ ادبی تنقیدوں سے متاثر ہو کر مولانا ظفرعلی خان مرحوم نے ایک دفعہ کہا تھا: ع سلجھا ہوا کوئی نہیں برہم سے زیادہ گورکھپور سے ’صلح کل‘ اخبار آپ کی ادارت میں شائع ہوا تھا۔ رسالہ ’فتنہ‘ کے مالک و مہتمم ہو گئے تھے۔ ہفت روز ’مشرق‘ ۱۹۰۷ء میں گورکھپور سے نکلنا شروع ہوا۔ عبدالکریم برہمؔ اس کے مالک و ایڈیٹر تھے۔ ریاض خیر آبادی نے ان کی وفات پر قطعہ کہا جو ’مشرق‘ کی ۲۱؍فروری ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں ’بزم ماتم‘ کے تحت شائع ہوا۔ مُرد افسوس اڈیٹر’مشرق‘ سال فوت ایں زمام اُوگفتم کردہ شش بگو حکیم ریاضؔ باز عبدالکریم برہمؔ ۱۳۴۷ھ گویا ان کا انتقال ۱۹۲۹ء میں ہوا۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر (دوم) ص:۹۳۰ ۲) خلیل اللہ‘ ڈاکٹر، ’’ریاض خیرآبادی۔ حیات اور ادبی خدمات‘‘، ص:۱۹۷ ۲؎ ۳؎ ’’ریاض الاخبار‘‘ کے کرتا دھرتا حضرت ریاضؔ تھے۔ حضرت ریاض کی ولادت ۱۸۵۳ء خیر آباد میں ہوئی۔ ریاض احمد نام رکھا گیا۔ آپ کے والد مولوی سید طفیل احمد بڑے پائے کے عالم تھے۔ آپ کا نسب حضرت مخدوم شیخ سعدؒ کے خلیفہ حضرت قاضی سید بخشؒ کے سلسلہ سے حضرت سید شاہ شجاع کرمانی تک پہنچتا ہے۔ حضرت ریاض نے ابتدا میں فارسی اپنے والد سے پڑھی۔ اس کے بعد مولوی حافظ سید نبی بخش کے مدرسۂ عربیہ میں داخل ہوئے۔ وسطی درجوں میں شاعری کا شوق دامن گیر ہوا۔ اسیرؔ کے شاگرد ہوئے۔ شروع میں اپنی مشکل پسند طبیعت کے باعث غالبؔ کے رنگ میں مشقِ سخن کرتے تھے۔ بعدازاں امیرمینائی سے کلام میں اصلاح لیتے اور اپنا کلام رام پور بھیجتے۔ ریاض خیر آبادی کا اُردو شاعری میں وہی رتبہ ہے جو عمر خیام کا فارسی ادب میں ہے۔ ریاضؔ کو ’’خیام الہند‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ شاعری کی طرح انھوں نے ناول نویسی میں بھی نام کمایا۔ انھوں نے کوئی ناول نہیں لکھا لیکن ’’رینالڈس‘ کے انگریز ناولوں کا اُردو ترجمہ کیا۔Loves of Harm کا ترجمہ ’’حرم سرا‘‘ اورMiss Ellin Pirsy کا ترجمہ ’’نظارہ‘‘ Branze Statue کا ترجمہ ’تصویر‘ جو کہ ادھورا ہی رہ گیا۔ اس کے علاوہ ریاضؔ کا ایک چوتھا ناول ’’ناشاد‘‘ ہے جو کم یاب ہے۔ ’’نظارہ‘‘ کی تویہ خوبی ہے کہ پوری کتاب میں فارسی کی اضافت استعمال نہیں کی گئی ہے۔ ریاض الاخبار ۱۸۷۲ء میں ’’لمعٔہ رخشاں‘‘ کے تاریخی مطبع خیرآباد سے جاری ہوا۔ یہ ہفتہ وار اخبار تھا ار قریب ۱۸۸۱ء تک خیرآباد سے نکلتا رہا۔ خیرآباد کے لوگ اس کا دوسرا نام ’نظام الآثار‘‘ بھی بتاتے ہیں ۔ریاض الاخبار‘‘ کے پہلے صفحے پر یہ شعر درج رہتاتھا۔ تری اٹھان ترقی کرے قیامت کی ترا شباب بڑھے عمرِ جاوداں کی طرح ریاض الاخبار ۱۸۸۱ء میں گورکھپور آیا۔ ۱۹۰۷ء میں مہاراجا محمود آباد کے اصرار پرلکھنؤ آگئے اور ریاض الاخبار یہاں سے نکلنا شروع ہوا۔ لکھنؤ میں ریاض الاخبار ۱۹۱۰ء کے آغاز تک نکلتارہا۔ ۱۹۱۰ء کے قریب ریاض لکھنؤ سے خیرآباد آگئے۔ ریاض الاخبار کے علاوہ ’’تار برقی‘‘، ’’صلح کُل‘‘ اور ’’فتنہ و عطر فتنہ‘‘ بھی جاری کیے۔ ریاض نے ’’گلکدۂ ریاض‘‘ جنوری ۱۸۹۷۹ء میں خیر آباد سے نکالا۔ یہ شعر و سخن کے کلام کا ایک ماہنامہ تھا۔ اس کے بعد ریاض نے ایک گلدستہ ’’گلچیں‘‘ نکالا جس میں مشہور شعراء کا کلام ایک ہی دی ہوئی طرح پر شائع ہوتا تھا۔ ۲۸؍جولائی ۱۹۳۴ء کو ۸۱سال کی عمر میں ریاض نے انتقال کیا اور خیرآباد میں سپردِ خاک کیے گئے۔ مآخذ: ۱) ’’نگار‘‘ (ریاض نمبر) جنوری فروری ۱۹۴۳ء لکھنؤ‘ ص:۹۔۱۲ ۲) ’’ساقی‘‘ (سالنامہ) جنوری ۱۹۳۵ئ‘ ص:۱۰۰۔۱۱۹ ۳) خلیل اللہ ‘ ڈاکٹر‘ ’’ریاض خیرآبادی۔ حیات اور ادبی خدمات‘‘ ،ص:۶۱۔۹۳ ‘۲۷۴۔۲۸۲ ۴) مرتاض خیر آبادی (مرتب)‘ ’’ریاض خیر آبای اپنے آئینے میں‘ جلد اول، ’’ص:۱۸۔۶۴ ۴؎ دیکھیے خط نمبر ۲۱ تعلیقہ نمبر۳ ۵؎ سول اینڈ ملٹری نیوز: لدھیانہ سے یہ ہفتہ وار اخبار ۱۰؍مئی ۱۸۹۳ء کو نمودار ہوا۔ ہر چہارشنبہ کوبارہ صفحات پر نکلتاتھا۔ ماسٹر غلام محی الدین نے بھی اس اخبار کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے تھے۔ اس اخبار کے جاری کرنے کی وجہ اس اخبار کے ۱۰؍مئی ۱۸۹۳ء کے شمارے میں یوں ہے: ’’انگریز افسروں اور عام رعایا ہندو مسلمانوں اور عیسائیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے علیحدہ علیحدہ اخبار جاری ہیں۔ لیکن نہایت ضروری گروہ جس کی ذات پر ملک کے امن و امان اور جان و مال کی سلامتی کادارومدار ہے‘ اب تک بے حمایت ہے۔ وہ بے شمار ہندوستانی فوجی افسر اور سپاہی جنھوں نے ملک کی حفاظت کے لیے سر بیچ دیے‘ ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے یہ اخبار جاری کیا جاتا ہے‘‘۔ مآخذ: امداد صابری ’’تاریخِ صحافت اُردو، جلد سوم‘‘، ص:۶۳۵۔۶۳۶ (۳۵) میں ایڈیٹر صاحب سول اینڈ ملٹری نیوز کا دل سے ممنون ہوں۔ جو رائے انھوں نے میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی نسبت اپنے قیمتی اخبار میں ظاہر فرمائی ہے۔ حقیقت میں‘ میں اس کے قابل نہیں۔ حق تو یوں ہے کہ وہ ہیں سب شعرا سے بدتر آپ اچھے ہیں جو کہتے ہیں جلال۱؎اچھا ہے‘‘ میں ایڈیٹر صاحب کو اطمینان دلاتا ہوں کہ ان شاء اللہ اس انگریزی مضمون کا ترجمہ شیخ عبدالقادر صاحب ایڈیٹر ’’مخزن‘‘ کریں گے۔ اقبالؔ تحقیقِ متن خط کا متن عکس کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ خط پر اگرچہ تاریخ درج نہیں لیکن مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء میں تحریر کیاگیا ہے کیونکہ بعد میں شیخ عبدالقادر کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیاگیا تھا۔ حواشی وتعلیقات ۱؎ نام سید ضامن علی تخلص جلالؔ… والد کا نام حکیم اصغر علی تھا۔ خاندانی پیشہ طبابت تھا۔ حضرت جلالؔ ۱۸۳۴ء میں پیدا ہوئے۔ فارسی کی درسی کتابیں مکمل پڑھیں اور عربی میں بقدرِ ضرورت استعداد پیدا کی۔ اپنا آبائی پیشہ طبابت بھی نظر انداز نہیں کیا۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے نے جب لکھنؤ کی بساطِ سخن اُلٹ دی اور شعروشاعری کی محفل درہم برہم ہو گئی تو جلالؔ نے لکھنؤ میں ایک دواخانہ کھول کر کسبِ معاش کے لیے اس سے کام لیا۔ نواب یوسف علی خاں کو خبر ہوئی توانھوں نے رام پور بلا لیا۔ بیس سال تک دربار سے تعلق رہا۔ نواب کلب علی خاں کی و فات کے بعد رئیس منگرول کی طلبی پر وہاں چلے گئے۔ مگر آب و ہوا راس نہ آئی۔ لکھنؤ واپس چلے آئے۔ جہاں ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۹ء کو انتقال کیا۔ مشہور تصانیف یہ ہیں۔ چار دیوان اُردو (اوّل)‘ شاہدِ شوخ طبع (۱۸۸۴ئ) دوم‘ کرشمہ گاہِ سخن (۱۸۸۴ئ) سوم‘ مضمون ہائے دلکش ۱۸۸۸ئ(چہارم)‘ نظم نگاریں‘ سرمایہ زبانِ اُردو‘ افادۂ تاریخ ‘ منتخب القواعد‘ تنقیح اللغات‘ گلشنِ فیض‘ دستور الفصحا‘ مفید الشعرا وغیرہ۔ شاگردوں میں میرذاکر حسین یاسؔ آرزو لکھنوی‘ احسان شاہ جہان پوری۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘آپ بیتی نمبر‘ ص:۹۲۵‘۹۲۶ ۲) ’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر ‘ ص:۱۵۰۶‘۱۵۰۷ ۳) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر‘ لکھنؤ کا دبستانِ شاعری‘‘، ص:۴۵۷ (۳۶) لفافہ پر نوٹi؎ علی گڑھ منتھلی۱؎ کا آخری نمبر ضرور دیکھیے‘ اس میں حسرتؔ موہانی۲؎نے ایک نہایت بزدلانہ حملہ آپ پر کیا ہے۔ اقبالؔ تحقیق متن ۱؎ اقبالؔ نے ایک دستی خط کے لفافے پر اپنا نام و پتا کاٹ کر فوقؔ کا پتا لکھا… اور درجِ بالا خط لکھا۔ اقبالؔ اس وقت بھاٹی دروازہ لاہور میں رہایش پذیر تھے کیونکہ رقعہ پر بھاٹی دروازہ کا پتا درج ہے اور نام شیخ محمداقبالؔ ایم ۔اے درج ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خط اقبالؔ کے انگلستان جانے سے پہلے کا ہے۔ (دیکھیے: عکس) حواشی وتعلیقات: ۴؎ یہ ماہانہ رسالہ علی گڑھ سے جنوری ۱۹۰۳ء میں جاری ہوا۔ یہ اُردو انگریزی زبان میں نکلتا تھا۔ انگریزی کا حصہ مختصر ہوتا تھا اور اُردو کے حصے میں کافی صفحات تھے۔ سید ولایت تحسین اس کے ایڈیٹر تھے۔ سالانہ چندہ چار روپیہ تھا۔ انگریزی کا حصہ سی‘ سی مشن پریس کانپور میں اور اُردو کا حصہ ریاض ہند پریس علی گڑھ میں طبع ہوتاتھا۔ اس رسالے میں تاریخی ‘ علمی اور ادبی مضامین شائع ہوتے تھے۔ مآخذ: امداد صابری‘ ’’تاریخِ صحافتِ اُردو‘ جلد چہارم‘‘، ص:۲۱۷۔۲۱۸ ۲؎ اصل نام سید فضل الحسن‘ ۱۸۷۶ء میں ضلع اناؤ کے ایک قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔ وہیں سے مڈل پاس کیا۔ ۱۸۹۵ء میں انٹرنس کرنے کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ ۱۹۰۳ء میں بی۔اے کیا اور ’’اُردوئے معلی‘‘ نکالنے لگے۔ یہ دوراقبالؔ کی شاعری کے آغاز کاتھا۔ ان کا کلام ’’مخزن‘‘ میں شائع ہو کر مقبول ہو رہا تھا۔ اکتوبر ۱۹۰۴ء میں ’ترانۂ ہندی‘‘ شائع ہوا۔ جس پر مولانا عبدالحلیم شررؔ کے رسالہ ’’دلگداز‘‘ میں زبان و بیان کے سلسلے میں شدید اعتراضات کیے گئے۔ حسرتؔ موہانی نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا اور ’’دلگداز‘‘ کے روّیے پر کڑی نکتہ چینی کی۔ انھوں نے عملی سیاست میں بھی حصہ لیا اور طویل عرصے تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی۔ قید کے حالات ’’نقوشِ زنداں‘‘ کے نام سے تحریر کیے… وہ اقبالؔ کی شاعرانہ عظمت کے زبردست مدّاح تھے۔ اقبالؔ کے انتقال پر پانچ شعروں کی ایک نظم بھی کہی جس کا نام انھوں نے ’’اشکِ خونیں‘‘ رکھا تھا۔ اس کا پہلا شعر ہے: ؎ عاشقی کاحوصلہ بیکار ہے تیرے بغیر آرزو کی زندگی دشوار ہے تیرے بغیر حسرتؔنے اپنی پوری زندگی قلندرانہ انداز میں گزاری۔ ۱۹۴۷ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ ۱۳؍مئی ۱۹۵۱ء کو ۷۵سال کی عمر میں بہ مقام لکھنؤ انتقال کیا۔ ان کی تصانیف میں کلیات کے علاوہ‘ نکاتِ سخن‘ ’’معائبِ سخن‘‘ جیسے رسالے بھی اہم ہیں مآخذ: ۱) اشتیاق اظہر،سیّد، ’’سیّدالاحرار‘‘، ص:۳۱۔۷۰ ۲) حامد‘ سید‘ ’’نگارخانۂ رقصاں‘‘، ص:۱۲۰۔۲۱۹ ۳) محمد ایوب قادری‘ ڈاکٹر ’’کاروانِ رفتہ‘‘، ص:۷۲۔۷۵ (۳۷) ڈیرفوق ! السلام علیکم ایک کاپی اس نظم ۱؎ کی مجھے بھی ارسال کیجئے جو میں نے آپ کو ’نظام‘۲؎میں شائع کرنے کے لیے بھیجی تھی۔ اس کا مسوّدہ بھی میرے پاس موجود نہیں۔ والسلام مخلص محمدؐ اقبالؔ ازi؎لاہور ۲۵؍فروری ۱۹ء تحقیق متن: خط کا عکس اقبال اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ i؎ انوار= اقبالؔ لاہور حواشی وتعلیقات ۱؎ ’’نظام‘‘ کے پہلے شمارے (فروری ۱۹۱۹ئ) میں اقبال کی درج ذیل نظم شائع ہوئی تھی۔ ہر عمل کے لیے ہے ردِّ عمل دہر میں نیش کا جواب ہے نیش شیر سے آسمان لیتا ہے انتقام غزال و اشتر و میش سرگزشتِ جہاں کا سرِّ خفی کہہ گیا ہے کوئی تکو اندیش شمع پروانہ رابسوخت ولے زود بریاں شود بہ روغن خویش (’’باقیاتِ اقبال‘‘،ص:۲۲۰) ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۳۲ تعلیقہ نمبر ۳ (۳۸) ڈیرفوق ! السلام علیکم دونوں کتابوں کا پیکٹ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ نے ’’تاریخِ حرّیتِ۲؎ اسلام‘‘ بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب لاجواب ہو گی اور مسلمانوں کے لیے تازیانے کا کام دے گی۔ آپ بڑا کام کر رہے ہیں۔ اس کا اجر خدا تعالیٰ کی درگاہ سے ملے گا۔ والسلام محمدؐاقبال لاہور ۲۷؍اکتوبر۲۰ء تحقیق متن: خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں بھی موجود ہے‘ متن عکس کے مطابق درست کیا گیا ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ اس کا پہلا ایڈیشن ۷؍مارچ ۱۹۲۱ء اور دوسرا ۱۹ء دسمبر ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا۔ اس میں زمانۂ رسالت‘ عہد خلافتِ راشدہ ‘ دورِ خلفائے بنی امیّہ و عباسیہ‘ عہدِ بنی بویہ و سلجوقیہ‘ دولتِ ہسپانیہ و غزنویہ کے علاوہ ترکی و مصر ‘الجزائر و مراکش‘ فرماں روایانِ ہند اور مسلمان بادشاہان دکن‘ سندھ و کشمیر کے عہدِ گزشتہ کے راست گو اور حق پرست بزرگوں کے حرّیت آموز حالات و واقعات درج ہیں۔ اس پر اقبال نے رائے بھی دی ہے۔ مآخذ: اجمل نیازی‘ ڈاکٹر ’’فوق الکشمیر،‘‘ ص:۱۸۴۔۱۸۷ (۳۹) بنام غلام احمد مہجور تعارف: کشمیری زبان کے مشہور شاعر پیرزادہ غلام احمد مہجور ۱۸۸۸ء میں تحصیل پلومہ کے گاؤں تری گام میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام پیراسداللہ شاہ تھا۔ جو اپنے حلقے میں ‘ اپنی بزرگی اور پرہیزگاری کی وجہ سے بہت ممتاز تھے‘ مگر غلام احمد مہجور نے پیری مریدی کا شغل اختیار نہ کیا بلکہ ذریعۂ معاش کے لیے ملازمت اختیار کرلی۔ ’’مہجور‘‘ کشمیری کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ انسانوں سے پیار‘ آزادیٔ فکر و عمل اور مناظر فطرت ان کی شاعری کے موضوعات ہیں۔ کلام کے دو مجموعے’’کلام مہجور‘‘ اور ’’پیام مہجور‘‘ چھپ چکے ہیں۔ مہجور کو علمِ جدید ‘ سیاسیات اور اقتصادیات سے بھی واقفیت تھی۔ علاّمہ اقبالؔ‘ پیر زادہ غلام احمد مہجور کی شخصیت سے واقف تھے۔ اقبالؔ کی شاعری اور پیام نے مہجور کی زندگی اور شاعری میں انقلاب پیدا کیا۔ اقبال جب کشمیر گئے۔ (جون۱۹۲۱ئ) تو مہجور سے بھی ملے اورانھیں ’’بزم ادیبانِ کشمیر‘‘ بنانے کا مشورہ دیاتھا تاکہ کشمیری زبان کے شاعر وادیب نئے نئے رحجانات اور خیالات سے واقف ہوکر اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ مہجور نے اقبالؔ کی نظموں : غنی کاشمیری‘ ساقی نامہ اور کشمیر کا سب سے زیادہ اثر قبول کیا۔ مہجور نے اقبالؔ کے طرز فکر کو اپنایا اور اگر یہ کہا جائے کہ مہجور علاّمہ اقبالؔ کے کلام و پیام کے کشمیری زبان میں ترجمان ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ مہجور نے ئ؍اپریل ۱۹۵۲ء کو انتقال کیا اور وزیرِ اعظم شیخ عبداللہ کی خواہش پر سرکاری اعزاز کے ساتھ سری نگر میں حبہّ خاتون کے مزار کے متصل دفنایا گیا۔ مآخذ: ۱) سلیم خان گمی‘ ’’اقبال اور کشمیر‘‘،ص:۱۴۹۔۱۵۰ ۲) محمد عرفان (مقالہ نگار)، ’’اقبال اور کشمیر‘‘ (مقالہ : ایم۔ فل اقبالیات) ص:۲۱۵۔۲۱۸ ۳) کلیم اختر، ’’اقبال اور مشاہیر کشمیر‘‘، ص:۱۲۵۔۱۳۴۔ ٭٭ لاہور ۱۲؍مارچ ۲۲ء مکرم بندہ۔ السلام علیکم مجھے معلوم کر کے کمال مسرت ہوئی کہ آپ تذکرۂ شعرائے۱؎ کشمیر لکھنے والے ہیں۔ میں کئی سالوں سے اس کے لکھنے کی تحریک کررہا ہوں مگر افسوس کسی نے ادھرتوجہ نہ کی۔ آپ کے ارادوں میں اللہ تعالیٰ برکت دے۔ افسوس ہےii؎ کشمیر کالٹریچر تباہ ہو گیا۔ اس تباہی کا باعث زیادہ تر سکھوں کی حکومت اورموجودہ حکومت کی لاپروائی اورنیز مسلمانانِ کشمیر کی غفلت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وادیٔ کشمیر کے تعلیم یافتہ مسلمان اب بھی موجودہ لٹریچر کی تلاش و حفاظت کے لیے ایک سوسائٹی بنائیں؟ ہاں تذکرۂ شعرائے کشمیر لکھتے وقت مولانا شبلیؔ۲؎ کی شعرالعجم آپ کے پیشِ نظر iii؎ ہونی چاہیے۔ محض حروف کی ترتیب سے شعرا کا حال لکھ دینا کافی نہ ہو گا۔ کام کی چیز یہ ہے کہ آپ کشمیر میں فارسی شعر کی تاریخ لکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تصنیف نہایت بار آورہو گی اور اگر کبھی خود کشمیر میں یونی ورسٹی بن گئی تو فارسی زبان کے نصاب میں اس کا کورس ہونا یقینی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پلٹا کھانے والی ہے۔ امید کہ iv؎ جناب کامزاج بخیر ہو گا۔ میرے پاس کوئی مسالہ تذکرہ شعرا کے لیے نہیں ورنہ آپ کی خدمت میں ارسال کرتا۔ والسلام محمداقبالؔ لاہور تحقیق متن: i؎ اس خط کے مکتوب الیٰہہ محمد دین فوقؔ نہیں بلکہ غلام احمد مہجور ہیں (’’حیاتِ اقبالؔ کی گم شدہ کڑیاں‘‘ص: ۳۲۱۔۳۲۲) اکبر حیدری کاشمیری لکھتے ہیں: ’’بشیراحمد ڈار کو اس خط کے متعلق غلط فہمی یوں پیدا ہو گئی کہ فوقؔ نے اس کاعکس ’تاریخِ اقوام کشمیر‘ جلد دوم کے ص:۳۳۲۔۳۳۳ کے درمیان اقبالؔ کے حالات زندگی کے تحت اقبال کی تصویر کی پشت پر شائع کیا چونکہ خط کا عکس نام اور پتے کی طرف سے نہیں چھپا بلکہ نفسِ مضمون کی طرف سے چھپا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اصل مکتوب الیہ کے بارے میں غلطی ہوئی۔ (’’شاعر‘‘ اقبالؔ نمبر‘ جلد اوّل‘ص:۴۷۵) ii؎ انوار= افسوس ہے کہ iii؎ انوار=رہنی iv؎ انوار=امید ہے کہ۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ غلام احمدمہجور تذکرۂ شعرائے کشمیر نہ لکھ سکے اوریہ کام فوقؔ ہی نے مکمل کیا۔ (صابر کلوروی‘ ’’اقبالؔ کے ہم نشین‘‘،ص:۲۰۰) ۲؎ مولانا شبلیؔ مئی ۱۸۵۷ء میں شہراعظم گڑھ کے نواحی گاؤں بندول میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تحریروں میں اپنا نام محمد شبلیؔ ہی لکھتے تھے‘ بعد میں صرف شبلیؔ کردیا اور نام کے ساتھ نعمانی لکھنے لگے۔ تعلم بندول‘ اعظم گڑھ‘ جونپور‘ چڑیا کوٹ‘ غازی پور‘ لاہور‘دیوبند‘ رام پور اور سہارن پور میں ہوئی۔ اساتذہ میں مولانا محمد فاروق‘ مولانا فیض الحسن‘ مولاناارشاد حسین اور مولانا احمد علی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ۱۸۹۸ء میں سر سید احمد خان کے انتقال کے بعد اعظم گڑھ آکر نیشنل اسکول کی بنیاد رکھی اور اپنی تصنیف ’’الفاروق‘‘ کو مکمل کیا۔ علی گڑھ میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی… ۱۹۱۱ء میں آل انڈیا محمڈن کانفرنس کے اجلاس منعقدہ دہلی میں اقبالؔ مدعو کیے گئے اور اس اجلاس میں شبلیؔ نے اقبالؔ کو پھولوں کے ہار پہنائے اور ان کی شاعری پرتبصرہ کیا۔ اقبالؔ کی پہلی تصنیف ’’علم الاقتصاد‘‘ (۱۹۰۴ئ) کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبالؔ ‘ شبلیؔ کی علمی قابلیت کے معترف تھے کیونکہ انھوں نے ’’علم الاقتصاد‘‘ کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابلِ قدر اصلاح دی (’’علم الاقتصاد‘‘،صؒ۳۴) شبلیؔ کی اہم تصانیف میں فارسی غزلوں کا مجموعہ ’’دستۂ گل‘‘ ، شعرالعجم‘‘ (۵جلدیں) ‘ ’’الفاروق‘‘ ،سوانح مولانا روم‘‘، ’’سیرۃ النعمان‘‘، ’’الغزالی‘‘، ’’موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘، سفر نامۂ روم و مصر و شام‘‘ اور رسائلِ شبلیؔ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ آخری تصنیف ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ تھی جسے سید سلمان ندوی نے تکمیل کو پہنچایا۔ مآخذ: ۱) سلیمان ندوی‘ سید‘ ’’حیات ِ شبلیؔ‘‘، ص:۱۴۲۔۱۶۵ ۲) ایس ایم۔اکرام ’’یادگارِ شبلی‘‘ص:۱۷۔۸۱ ۳) اعجاز الحق قدوسی‘ ’’اقبال اورعلمائے پاک و ہند ‘ ص:۱۶۸۔۱۹۱ بنام محمد دین فوقؔ (۴۰) لاہور ۱۹؍دسمبر ۲۲ء ڈیرفوقؔ صاحب السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ آپ کے مصائب۱؎ کا حال سن کر بہت افسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ صبرِ جمیل عطا فرمائے مولوی عبداللہ۲؎ غزنویؒi؎ حدیث کا درس دے رہے تھے کہ ان کواپنے بیٹے کے قتل کی خبر موصول ہوئی۔ ایک منٹ تامل کیا پھر طلبا کو مخاطب کر کے۔ ’’مابرضائے او راضی ہستیم‘‘ بیائید کہ کارخود بکنیم۳؎ ‘‘ یہ کہہ کر پھر درس میں مصروف ہو گئے۔ مخلص مسلمان اپنے مصائب کو بھی خدا تعالیٰ کے قُرب کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ شبابِ کشمیر۴؎ضرور لکھیے۔ بہت مفید کتاب ہو گی۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کے لوگوں میں خود داری کی روح پیدا کی جائے۔ میں نے بھی ایک نظم اس مضمون پر لکھی ہے جو عنقریب فارسی ۵؎ مجموعے میں شائع ہو گی۔ افسوس ہے کہ مجھے تاریخ کشمیر سے بہت کم آگاہی ہے۔ ممکن ہے پنڈت شونرائن۶؎آپ کی مدد کر سکیں۔ راج ترنگنی۷؎غالباً ان کے پاس ہے۔ اگر نہ ہوئی تو پنجاب پبلک لائبریری۸؎سے ضرورمل جائے گی۔ ’’اسلام میں سیاست‘‘ ۱۴؍سال ہوئے انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا یعنی ۱۹۰۸ء میں جب ترکی میں انقلاب ہورہا تھا جس کا نتیجہ آخر کار ۱۹۰۹ء میں عبدالحمید خاں۹؎ کی معزولی ہوا۔ یہ مضمون لندن کے سوشیالوجیکل ریویو میں شائع ہوا تھا۔ پیسہ اخبار۱۰؎نے اس کا ترجمہ بہت غلط شائع کیا ہے۔ صحیح ترجمہ زمیندار۱۱؎میں شائع ہوا تھا۔ یہ ترجمہ چودھری محمد حسین۱۲؎ صاحب ایم ۔اے سیکرٹری نواب سرذوالفقار علی صاحب نے کیا تھا معتبر ہے اگر آپ چھاپنا چاہیں تو بڑی خوشی سے پمفلٹ فارم میں شائع کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ چودھری صاحب سے بھی اجازت لے لیں تو بہتر ہے وہ ایک آدھ روز کے لیے سیالکوٹ جانے والے ہیں۔ وہاں سے جنوری کے شروع میں میں واپس آئیں گے۔ ان کو اجازت دینے میں مجھے یقین ہے تامل نہ ہو گا۔ انگریزی اصل چند روز ہوئے مسلم آؤٹ لک میں چھپا تھا۔ وہ مطلوب ہو تو مسلم آؤٹ لک۱۴؎ سے طلب فرمائیں۔ باقی رہے میرے حالات سو ان میں کیا رکھا ہے۔ میرا طرزِ رہایش مشرقی ہے آپ شوق سے تشریف لا سکتے ہیں والسلام محمد۱ اقبالؔ تحقیق متن: ۱؎ انوار= مولوی عبداللہ غزنوی آج۔ (دیکھیے عکس) حواشی و تعلیقات ۱؎ اقبالؔ نے یہ خط فوقؔ کے لڑکے ظفر الاحسن کی وفات پر تعزیت کے لیے لکھا۔ فوقؔ اکتوبر ۱۹۲۲ء کے آخری دنوں میں بھوپال گئے تھے۔ ۵؍نومبر ۱۹۲۲ء کو تار کے ذریعے سب سے چھوٹے بیٹے ظفرالاحسن کی بیماری کی اطلاع ملی‘ جس کی عمر گیارہ سال تھی۔ ۸؍نومبر کی شام کو بیٹے کے انتقال کا تار ملا۔ فوقؔ ماتمِ فرزند میں خون کے آنسو بہاتے گاڑی میں سوار ہو گئے۔ جب گاڑی بلب گڑھ ریلوے اسٹیشن پرپہنچی تو یہ شعر بے ساختہ زبان پر آگیا۔ ؎ کچھ لڑکے چلے آتے ہیں اسکول سے پڑھ کر دیکھو کہیں ان میں مرا احسن تو نہیں ہے اس کے بعد دہلی‘ سہارن پور اور جگادھری کے درمیانی اسٹیشنوں پر اور بھی شعر ہوگئے۔ یہ اشعار پہلے پہل ۲۱‘۲۸؍نومبر ۱۹۲۲ء کے ’’کشمیری میگزین لاہور‘‘ (ص:۴) میں شائع ہوئے۔ مزیدّکلامِ فوقؔ‘‘ طبع دوم ص:۱۹۲‘ ۱۹۷ پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔مآخذ:اجمل نیازی ڈاکٹر‘ فوق الکشمیر‘ ص:۸۵ ۲؎ مولوی عبداللہ غزنوی توحید و سنت کے علم بردار تھے۔ انھوں نے ساری عمر بدعت کے خلاف جہاد کیا اور اسی وجہ سے انھیں افغانستان سے ہجرت کرنا پڑی۔ مآخذ: ۱) محمد اسحاق بھٹی‘ ’’فقہائے پاک و ہند (تیرہویں صدی ہجری) جلد دوم‘‘ ص:۱۴۷۔۲۱۹ ۲) محمداسحاق بھٹی‘ ’’فقہائے پاک و ہند (تیرھویں صدی ہجری) جلد سوم‘‘ ص:۶۰۔۶۵ ۳؎ ترجمہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پرراضی ہیں‘ آؤ اپنا کام کریں۔ ۴؎ شبابِ کشمیر فوقؔ نے اپنی کتاب ’’تذکرہ سلطان زین العابدین‘‘ کی بنیاد پرتحریر کی۔ اس کی ضخامت ۵۲صفحات سے ۲۸۸صفحات تک بڑھا دی اور اپنے اشاعتی ادارے ’’ظفر برادرس لاہور‘‘ کے زیر اہتمام ۱۹۲۹ء میں شائع کی۔ یہ کتاب کشمیر کی مٹی ہوئی شان و شوکت اور اس کے گم شدہ عروج و اقبال کی ایک ولولہ انگیز کیفیت اور روشن تصویر ہے۔ ’’شبابِ کشمیر‘‘ کے نام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے فوقؔ نے لکھا ہے کہ تذکرہ بڈشاہ کا نام میں ’’شبابِ کشمیر‘‘ رکھا ہے۔ بڈشاہ کے زمانے میں کشمیر کوجو عروج و اقبال حاصل تھا اس کی رو سے یہ نام غیر موزوں نہیں۔ ’’شبابِ کشمیر‘‘ کے مطالعے سے اس وقت کی علمی‘ ادبی‘ سیاسی‘ روحانی‘ صنعتی‘ تجارتی‘ معاشرتی اور تمدنی ترقیوں کی کیفیت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ مآخذ: محمد دین فوق‘ ’’شبابِ کشمیر‘‘ طبع دوم‘ ۱۹۸۷ئ۔ ۵؎ فارسی مجموعے سے مراد ’’پیام مشرق‘‘ ہے جو پہلی بار ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا۔ اس میں کشمیر کے عنوان سے ایک نظم ہے۔(ص:۲۸۳) جس کا مطلع ہے: رخت بہ کاشمر کشا‘ کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہاں جہاں ببیس‘ لالہ چمن چمن نگر اس کے علاوہ ’’ساقی نامہ‘‘ (کلیات فارسی‘ص: ۲۶۹) ہے جو نشاط باغ کشمیر میں لکھا گیا۔ اس کی تشبیب میں انھوں نے بہار کا منظر پیش کیا ہے۔ اس کے بعد گریز کی ہے اور ساقی (خدا) سے دعا کی ہے کہ شرابِ حرّیت کے چند قطرے ٹپکا کر کشمیریوں کے دلوں کو گرما دے تاکہ اس خاکستر سے چنگاریاں پیدا ہو جائیں۔ مردہ جسموں میں سوز کی لہر دوڑ جائے اور ہر بے خود و بے جان‘ خودی اور زندگی کی لذت سے آشنا ہو جائے۔ ۶؎ پنڈت شونرائن لاہورکے مشہور وکیل‘ ادیب اور اعلیٰ درجے کے شاعر تھے۔ ۱۸۵۹ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور ۱۸۸۱ء میں لاہور ہی سے وکالت کی سند حاصل کی۔ حکومت نے رائے بہادرکا خطاب دیا۔ ۱۹۰۵ء تک جالندھر میں وکالت کرتے رہے پھر لاہور چلے آئے۔ اُردو ادب کا بھی بڑا شوق رکھتے تھے۔ تاریخ سے دلچسپی تھی‘ اسی ذوق اورشوق کے باعث یہ پنجاب ہسٹاریکل سوسائٹی کے صدر مقرر ہوئے۔ انھوں نے ہندومذہب کو چھوڑ کر بدھ مت اختایر کر لیا اور پنجاب میں اس مذہب کے زبردست مبلغ رہے۔ جنوری ۱۹۳۱ء میں یہ حیات تھے۔ اس کے بعد کی کسی تاریخ میں وفات پائی۔ ان کی اہم تصانیف یہ ہیں: ’’کشمیر پنڈت (کشمیری پنڈتوں کی سوشل اصلاح کے متعلق)، ’’تحفۂ شمیم‘‘ (اصلاحی حکایات کا مجموعہ) ’’بدھ مت‘‘ (بدھ کے حالات اور تعلیمات)…۱۹۰۱ء میں انھوں نے ’’شمیمِ ہند‘‘ کے نام سے ایک اخبار جالندھر سے جاری کیا تھا‘ جوڈیڑھ سال بعد بند ہو گیا۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ لاہورنمبر :۹۳۴ ۲) امداد صابری ’’تاریخِ صحافتِ اُردو‘ جلد چہارم‘ ص: ۱۶۹‘۱۷۰ ۷؎ راج ترنگنی (مصنف پندت کلہن) راجگانِ کشمیر کی نہایت قدیم اور مستند تاریخ ہے۔ یہ راجا جے سنگھ والیٔ کشمیر کے عہدِ حکومت میں تصنیف ہوئی اور تاریخِ برعظیم ہندوستان کے بہترین مآخذوں میں شمار کی جاتی ہے۔ مستشرقین کے خیال میں سنسکرت زبان میں جس قدرتاریخی سرمایہ ہے اس میں یہ کتاب بہت زیادہ اہمیت رکھتی ے۔ پنڈت کلہن ایک شاعرتھا جو کشمیر کا رہنے والا تھا۔ اس کے آباؤ اجداد کو کشمیر کے شاہی دربار میں غیر معمولی رسوخ حاصل تھا۔ راج ترنگنی سنسکرت نظم میں لکھی گئی ہے۔ اس میں ہندو دکن اور جنوب کے تقریباً ان تمام راجے مہاراجاؤں کاذکر ملتا ہے جوراجگان کشمیر کے ہمعصر‘ ان پر حملہ آور یا ان کے ماتحت رہے ہیں۔ کلہن نے تاریخ کشمیر کی ابتدا راجا گونند کے عہدے سے کی ہے جس کا زمانہ تحت نشینی تین ہزار سال قبل مسیح تصور کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے یہ کتاب چار ہزار دو سو پچاس برس کے واقعات کی ایک مکمل تاریخ ہے۔ راج ترنگنی کی ترتیب مصنف نے آٹھ ابواب میں کی ہے اور اس کے ہر باب کو ’’ترنگ‘‘ کہتے ہیں‘۔ مآخذ: ۱) ادبی دنیا لاہور(کشمیر نمبر) مارچ‘ اپریل ۱۹۶۶ئ‘ ص:۴۵۷۔۴۵۹ ۲) ’’کشمیر سلاطین کے عہد میں‘‘ معارف اعظم گڑھ‘ ۱۹۶۷ئ‘ ص:۲‘۳ ۸؎ دیکھیے خط نمبر ۳۲‘ تعلیقہ نمبر۱ ۹؎ عبدالحمید خاں (۱۸۴۲ئ۔۱۹۱۸ئ) : خلافت عثمانیہ کاتاجدار‘ جوسلطان عبدالحمید ثانی کے نام سے معروف ہے۔ ا۳؍اگست ۱۸۷۶ء کو اپنے بھائی سلطان مراد خامس کا جانشین ہوا جسے ’’نوجوان ترکوں‘‘ نے معزول کر دیا تھا۔ عبدالحمیدنے پہلی جنگ روس کے خلاف لڑی(۱۸۷۷۔۱۸۷۸ئ)‘ دوسری یونان کے خلاف (۱۸؍اپریل ۱۸۹۷ء سے ۵؍جون ۱۸۹۷ء تک) اس کے دورِ حکومت میں نوجوان ترکوں (Young Turks) کی تحریک زور پکڑ گئی اور سلطان کو مجبوراً اصلاحات نافذ کرنی پڑیں۔ برسراقتدار آنے پر نوجوان ترکوں نے سلطان عبدالحمید ثانی کوبرطرف کر دیا اور ۱۸؍اپریل ۱۹۰۹ء کو مجلس ملی (پارلیمانی) نے اس کو معزول کرنے کا فیصلہ کیااور اس کے بھائی محمد ارشاد محمد خامس کو جانشین بنایا۔ عبدالحمید ثانی یہودیوں کا سخت مخالف تھا اور اس نے یہودیوں کی بڑی بڑی پیش کش ٹھکرا دیں اور انھیں کسی قسم کی مراعات دینے سے انکار کر دیا۔ نوجوان ترکوں نے برسراقتدار آنے پر نہ صرف یہودیوں کو بعض رعایات دیں بلکہ تین یہودیوں کو وزارت میں بھی شامل کیا۔ برطرفی کے بعد سلطان کو سیلونیکا Saolonica میں جلا وطن کر دیا گیا۔ وہ حالت نظر بندی ہی میں ۱۹۱۸ء میں انتقال کر گیا۔ مآخذ: ۱) اُردو دائرہ معارف اسلامیہ ‘ ج۱۲‘ص:۸۴۹ ۲) رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر‘ ’’خطوط اقبالؔ‘‘ص:۸۲ ۱۰؎ ’’پیسہ اخبار‘‘ منشی محبوب عالم نے گوجرانوالہ سے ۱۸۸۷ء میں جاری کیا۔ یہ ہر ہفتے آٹھ چھوٹے صفحات پر نکلتا تھا۔ اس اخبار کی قیمت ایک پیسہ تھی اور اس کا سالانہ چندہ صرف بارہ آنے تھا‘ البتہ محصول ڈاک کے لیے تیرہ آنے مزید وصول کیے جاتے تھے۔ بعدازاں یہ اخبار لاہورسے شائع ہونے لگا اور انیسویں صدی ختم ہونے سے پہلے پہلے اس نے روزنامے کی شکل اختیار کر لی۔ یہ اخبار زیادہ تر روز مرہ زندگی کے مسائل پر اداریے اورتبصرے لکھتا تھا۔ اس نے صحافت میں تجارت کے اصولوں کی بنیاد رکھی‘ قیمت کم تھی اور تعداداشاعت بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ اشتہارات کے حصول پر توجہ صرف کی۔ اس نے نصف صدی سے زیادہ عمر پائی۔۱۹۲۴ء میں پیسہ اخبار بند ہو گیا۔ مآخذ: ۱) عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر‘ ’’صحافت‘ پاکستان و ہند میں‘‘ص:۳۱۶۔۳۲۲ ۲) مسکین علی حجازی ڈاکٹر‘ ’’پنجاب میں اُردو صحافت‘‘ ص:۱۸۴۔۱۹۸ ۳) ایم ۔ایس۔ ناز‘ اخبار نویسی کی مختصر ترین تاریخ‘‘ ص:۲۵۹۔۲۶۲ ۱۱؎ زمیندار: مولوی سراج الدین احمد خاں نے ۱۹۰۳ء میں لاہور میں جاری کیا اور ہفت روزہ کے طور پر جاری ہوا۔ دیہاتی آبادی کی اصلاح و ترقی اس کا سب سے بڑا مقصد تھا‘ اگرچہ ۱۹۰۷ء میں اس اخبار کو سیاسیات میں بھی حصہ لینا پڑا جب نہری آبادیوں میں ملکیت اراضی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ زمیندار لاہور سے جاری کیا گیا تھا۔ لیکن کچھ مدت بعد مولوی سراج الدین اسے اپنے گاؤں کرم آباد لے گئے جہاں ڈاک خانہ اور پریس قائم کر لیا گیا۔ ۱۹۰۹ء میں مولانا کی رحلت کے بعد ان کے فرزندِاکبر مولانا ظفر علی خان نے ادارت کے فرائض سنبھال لیے۔ وہ اسے کچھ مدت بعد دوبارہ لاہور لے گئے جہاں یہ ہفتے میں دو بار شائع ہونے لگا۔ پھر روزنہ ہوا۔ اور جنگِ بلقان کے زمانے میں تو دن میں دو بار نکلنے لگا۔ ہفتہ وار اخبار بھی برابر الگ چھپتا رہا۔ جدوجہد آزادی اور اتحاد بین المسلمین کی کوششوں میں ’’زمیندار‘‘ مولانا ظفر علی خان اور ان کے شرکائے کارحکومتِ انگریزی کے زیرعتاب رہے۔ آخر ساٹھ سال کی ہنگامہ جدوجہد کے بعد اخبار بند ہو گیا۔ مآخذ: ۱) عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر‘ ’’صحافت‘ پاکستان و ہند میں‘‘، ص: ۳۴۰‘۳۴۸۔۳۶۰ ۲) مسکین علی حجازی‘ ڈاکٹر‘ ’’پنجاب میں اردو صحافت‘‘ ص:۲۷۵۔۳۱۳۔ ۳) ایم ایس ناز‘ ’’اخبار نویسی کی مختصر ترین تاریخ‘‘، ص:۲۷۰۔۲۷۵ ۱۲؎ چودھری محمد حسین(۲۸؍مارچ ۱۸۹۴ئ۔۱۶؍جولائی ۱۹۵۰ئ)، اسلامیہ کالج لاہور سے ۱۹۱۸ء میں بی۔اے کیا۔ ۱۹۲۰ء میں اسی کالج سے عربی میں ایم۔اے کا امتحان پاس کیا۔ پرائیویٹ طور پر منشی فاضل بھی کیا۔ اصولِ فقہ اور عربی منطق پر بھی عبور حاصل تھا۔ غزلیں اور نظمیں روزنامہ ’’الاثر‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ میں اکثر شائع ہوتی تھیں۔ نواب ذوالفقارعلی خاں کے بچوں کے اتالیق رہے۔ اقبالؔ سے گہرے مراسم تھے۔ چودھری صاحب چونکہ پریس برانچ میں ملازم تھے جہاں پنجاب بھر کے اخبارات و رسائل حکماً آتے تھے اور ان کا مطالعہ ان کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا لہٰذا وہ حالاتِ حاضرہ سے بخوبی آگاہ رہتے تھے۔ اقبالؔ ان کی آمد کا بطورِ خاص انتظار فرماتے تھے کیونکہ وہ تازہ ترین ملکی حالات اور سیاسی رحجانات سے انھیں باخبر رکھتے تھے۔ ۱۹۲۴ء میں اقبالؔ کے اصرار پر آپ نے سول سیکرٹریٹ میں ملازمت اختیار کر لی اور ترقی کرتے ہوئے ہوم ڈیپارٹمنٹ تک پہنچے۔ اقبال نے مدراس میں اسلام پر لیکچر دیے تو چودھری صاحب جنوبی ہند کے دورے پر ان کے ہمراہ گئے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ اور سلطان ٹیپو کے مزارات پر حاضری بھی اقبالؔ کی معیت میں دی تھی۔ اقبالؔ نے اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں انھیں ’’ولی‘‘ مقرر کیا تھا۔ انھوں نے اقبالؔ کے انتقال کے بعد بارہ سال تک‘ خلوص‘ ہمت اور کمال بے نفسی سے کلامِ اقبالؔ کی اشاعت کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے حقوق کی نگہداشت بھی کی۔ مزارِ اقبالؔ کی تعمیرکا فریضہ انجام دیا۔ لاہور میں ۱۶؍جولائی ۱۹۵۰ء کو فالج کے حملے کے باعث انتقال ہوا۔ مآخذ: ۱) ثاقف نفیس (مقالہ نگار) ’’چودھری محمد حسین اورعلاّمہ اقبالؔ‘‘، (مقالہ:ایم۔اے) ۱۹۸۴ء ۲) جاوید اقبال‘ڈاکٹر مئے لالہ فام‘‘ ص:۳۱۱۔۳۲۵ ۳) ثاقب نفیس: مکتوباتِ اقبال (بنام چودھری محمد حسین)‘‘، ص:۹۔۱۲ ۱۳؎ ذوالفقار علی خان (۱۸۷۳ئ۔۲۶؍مئی ۱۹۳۳ئ) مالیر کوٹلہ کے خوانین میں سے تھے۔ ابتدائی تعلیم چیفس کالج سے حاصل کی۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۸۹۷ء میں انگلستان گئے اور کیمبرج یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے ۱۹۰۰ء میں وطن واپس آئے۔ ۱۹۰۹ء میں امپریل لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۱۰ء میں ریاست پٹیالہ کے وزیرِ اعظم مقرر ہوئے۔ انجمن حمایتِ اسلام کے کاموں میں نمایاں حصہ لیتے رہے۔ مرکزی اسمبلی کے رکن بھی تھے۔ ۱۹۲۸ء میں سائمن کمیشن کے سنٹرل کمیٹی میں شامل کیے گئے۔ نواب صاحب‘ اقبالؔ کے مخلص دوست تھے۔ ان کی کوٹھی ’’زرفشاں‘‘ علمی وادبی سرگرمیوں کا مرکز رہی۔ نواب صاحب نے اقبال پر ایک کتاب: A Voice from the East لکھ کر اقبالؔ کو ایک شاعر اور مفکر کی حیثیت سے انگریزی خوانوں میں پیش کیا اور ان کے ذہنی اور دماغی جوہرآشکار کیے۔ نواب صاحب کی موٹر پر اقبالؔ کی ایک نظم ’’بانگ درا‘‘ (کلیات اقبال اردو ص:۲۰۶) میں موجود ہے۔ آخری عمر میں نواب صاحب اور علاّمہ اقبال میں کچھ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی‘ جسے دور کرنے کی کوشش ہو رہی تھی کہ نواب صاحب ۲۶؍مئی ۱۹۳۳ء کو انتقال کر گئے۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی‘ ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘، ۲۵۵ ۲) محمد عبداللہ چغتائی‘ ڈاکٹر،’’روایاتِ اقبالِٔٔ ص:۱۵۷ ۳) عبداللہ قریشی (مرتب)، ’’اقبال بنام شادؔ‘‘،ص:۸۴۔۱۰۱ ۱۴؎ پنجاب میں مسلمانوں کا کوئی انگریزی اخبار نہیں تھا۔ تحریکِ خلافت کے زمانے میں یہ کمی بہت بری طرح محسوس کی گئی۔ چند مسلم نوجوانوں نے لاہور سے ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اقبالؔ نے اس پر چند اشعار کہے جو ’’باقیاتِ اقبالؔ‘‘ (ص:۴۶۰۔۴۶۱) میں شامل ہیں۔ ؎ ہند کی کیاپوچھتے ہو اے حسینانِ فرنگ دل گراں‘ ہمت سبک‘ ووٹر فزوں روزی تنک لُک وِد ان کا حکم تھا اس بندۂ اللہ کو اب یہ سنتے ہیں نکلنے کو ہے مسلم آؤٹ لُک مآخذ: صابرکلوروی (مرتب)، ’’اقبال کے ہم نشین‘‘ص:۳۹‘۴۰ (۴۱) ڈیرفوقؔ۔ السلام علیکم مخدومی جناب مولوی صاحب۱؎ نے جو نام لکھے ہیں ان میں سے میں کسی کو نہیں جانتا سوائے عشق پیچہ۲؎شاعرکے جو کوئی شاعر نہ تھا ہاں تُک بند ضرور تھا۔ سیالکوٹ کے قدیم مشہور شعرا میں سے شیخ محمد علی۳؎ رائج تھے۔ ان کا دیوان فارسی میں بہت ضخیم‘ میں نے خود دیکھا ہے۔ غالباً شاہ جہاں۴؎ یا عالمگیر کے عہد میں تھے۔ ٹیک چند۶؎ نے ’’بہارِ عجم‘ میں جا بجا ان کے اشعار کو محاورات فارسی کی سند میں لکھا ہے۔ ایک شعر ان کا مجھے بھی یاد ہے۔ از جوانے سروقد دیگر بہ بند افتادہ اَم دوستاں‘ر حمے کہ از بام بلند افتادہ اَم۷؎ غالباً کسی نہ کسی تذکرے میںان کا ذکر آپ کوضرور مل جائے گا۔ مولوی صاحب قبلہ میر حسن صاحب کے متعلق جہاں تک مجھے یاد ہے میری کوئی نظم نہیں ۔شاید کوئی شعر اشارتاً کسی نظم میں ہو۔ والسلام محمدؐاقبالؔ لاہور ۴؍مارچ ۲۳ء تحقیق متن: خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ ’انوار‘ کا متن عکس کے مطابق ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ مولوی صاحب سے مراد شمس العلما مولانا سید میر حسن ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کے ایک شعرمیں اقبالؔ نے اپنے استاد کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: ؎ وہ شمعِ بارگہ خاندانِ مرتضوی رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو (کلیات‘ اُردو‘ص:۹۷) مولوی سیّد میر حسن کے والد کا نام سید محمد شاہ اور دادا کا نام سید ظہور اللہ ہے۔ ۱۸؍اپریل ۱۸۴۴ء کو فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر ہی میں قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ضلع سکول سیالکوٹ سے ۱۸۶۱ء میں ورنیکلر کاامتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ حصولِ تعلیم کے بعد دو برس تک ضلع سکول کی ملازمت کی۔ ۱۸۶۳ء میں سکاچ مشن کے تعلیمی شعبے میں ملازم ہو گئے اور پہلی تقرری سکاچ مشن سکول وزیرآباد میں ہوئی۔ ۱۸۶۹ء میں آپ سیالکوٹ کے مشن سکول میں تبدیل ہو کر آگئے۔ سکول میں عربی اور فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ حصہ مڈل‘ ہائی اور کالج میں اقبالؔکو ان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ۱۹۲۸ء میں کالج کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ آخری عمر میں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی تھی۔ ۲۵؍ستمبر ۱۹۲۹ء کو وفات پائی۔ اقبالؔ کو اپنے استاد سید میر حسن سے بڑی عقیدت تھی اور ان کے تبحرِ علمی کے بڑے مداح تھے۔ غالباً ۱۹۲۳ء میں گورنمنٹ نے سیّد میر حسن کو شمس العلما کاخطاب دیا۔ خطاب کی شانِ نزول بھی عجیب ہے۔ سرایڈورڈ میکلیگن سابق گورنر پنجاب نے ایک دفعہ اقبال کو ملاقات کے لیے یاد فرمایا۔ باتوں میں دریافت کیا کہ امسال حکومت کا ارادہ کسی مولوی صاحب کو شمس العلما کا خطاب دینے کا ہے اور آپ کی رائے میں کس کو دیا جائے۔ اقبالؔ نے اپنے استاد کا نام پیش کیا۔ سرایڈورڈ‘ مولوی صاحب کو نہیں جانتے تھے۔ پوچھا مولوی صاحب کی کوئی تصنیف۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا‘ ہاں! ان کی تصنیف ہے۔ گورنر نے نام پوچھا۔ اقبالؔ نے اپنی طرف اشارہ کر کے جواب دیا: ’’اقبالؔ‘‘ مآخذ: ۱) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر،’’معاصرینِ اقبال‘‘ ص:۱۱۰۴ ۲) محمد حمزہ فاروقی (مرتّب)، ’’حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے‘‘، ص:۲۳۹۔۲۴۰ ۳) سلطان محمود حسین ڈاکٹر‘’’اقبال کی ابتدائی زندگی‘‘ ،ص:۲۳۹‘۲۴۰ ۴) افتخار احمد صدیقی‘ ڈاکٹر، ’’عروجِ اقبالٔٔ،ص:۱۹۔۳۱ ۵) سلطان محمود حسین‘ ڈاکٹر: ’’شمس العلماء مولوی سیّد میرحسن (حیات و افکار)‘‘ طبع اول۱۹۸۱ء ۲؎ اصل نام گلاب اور تخلص عشق پیچہ تھا۔ کشمیری بٹ گھرانے سے تعلق تھا۔ اُردو اور فارسی میں شعر خوب کہتے تھے۔ ۱۸۵۷ء میں جوان تھے۔ ہم محلہ ہونے کی وجہ سے میرحسن نے ان کو عہدِ شباب میں دیکھاتھا۔ عشقؔ پیچہ اس وقت کے مشاعروں کی جان تھے۔ ان کی زیرِ صدارت شعروشاعری کی محفلیں جمتی تھیں۔ عشق پیچہ نے طویل عمر پا کر ۲۴؍مئی ۱۸۹۵ء کو سیالکوٹ میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) نقوش‘ مکاتیب نمبر (جلد دوم)،ص:۸۰۵ ۲) سلطان محمود حسین ڈاکٹر، ’’اقبالؔکی ابتدائی زندگی‘‘،ص:۲۶۰ ۳) خورشید احمد خان یوسفی: پنجاب کے قدیم اُردو شعرائ‘ ص:۲۶۷۔۲۷۲ ۳؎ میر محمد علی رائج سیالکوٹ کے باشندے تھے۔ وہ آزاد مشرب اور خوش خلق تھے اور قلندرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ شعروشاعری ان کا خاص مشغلہ تھا۔ انھوں نے لمبی عمر پائی۔ تذکرہ عبدالغنی (ص:۵۶) میں وفات کا حسبِ ذیل مصرع درج ہے: ع رفت رائج بعالم باقی ۱۱۵۰ھ (رائج عالمِ باقی کو سدھارا) مآخذ: مظفر حسین برنی (مرتب) ’’کلیاتِ مکاتیب ،دوم‘‘ص:۸۷۸ ۴؎ شہاب الدین محمدبن نورالدین جہانگیر نے میواڑ اور دکن میں کارنامے انجام دے کر شاہ جہاں لقب پایا۔ ۱۱؍فروری ۱۶۲۸ء کو تخت نشین ہوا۔ شاہ جہاں نے بندھیلوں اور خاں جہاں لودھی کی بغاوتیں فرو کیں۔ بلخ و بدخشاں کی تسخیر کے لیے مہمات بھیجیں۔ قندھار پرایرانی صوبہ دار علی مردان خاں کے ساتھ جوڑ توڑ کے ذریعے سے قبضہ کیا۔ دکن میں نئے علاقوں کی تسخیر کے بعد وہاں سلطنتِ مغلیہ کے چار صوبے قائم ہو گئے۔ شاہ جہاں نے تعمیرات میں لازوال شہرت حاصل کی۔ آگرے میں’’تاج محل‘‘ اور’’موتی مسجد‘‘ دہلی میں’’لال قلعہ‘‘ اور جامع مسجد‘‘ (جسے ’’جہاں نما‘‘ کہتے تھے ) لاہور کا ’’شالامار باغ‘‘ اور ٹھٹھہ کی ’’شاہجہانی مسجد‘‘ دنیا کی بے مثال عمارتیں مانی جاتی ہیں۔ ’’تخت طاؤس‘‘ جیسا تخت بھی کسی دوسرے بادشاہ کو نصیب نہ ہوا۔ مآخذ: سیتارام کوہلی‘ پروفیسر’’تاریخ ہند(حصہ اول)‘‘، ص:۳۰۳۔۳۱۴ ۵؎ نام محی الدین اورنگ زیب‘ کنیت ابوالمظفر اور لقب عالمگیر تھا۔ شاہ جہاں کا تیسرا لڑکا تھا۔ صحیح تاریخ پیدائش ۱۶۱۸ء ہے۔ عالمگیر ۱۶۵۷ء میں تخت نشین ہوا۔ عالمگیر تفسیر‘ حدیث اور فقہ کا جید عالم تھا۔ حافظ قرآن بھی تھا اور کامیاب انشاء پرداز بھی۔ ترکی اور ہندی میں مہارت رکھتا تھا۔ اعلیٰ درجے کا خطاط تھا۔ عالمگیر کے عہد میں شریعت کے مطابق جو اصلاحات عمل میں آئیں‘ ان میںسے چند یہ ہیں: رقص و سرود کاانسداد‘ محتسب کا تقرر‘ نشہ آور اشیا کا استعمال موقوف‘ شرعی وکیل کا ممالکِ محروسہ کی عدالتوں میں تقرر اور سلام مسنون کا جاری ہونا۔ اورنگزیب نے علمائے اسلام کو جمع کر کے فقہ اسلامی پر مشہورکتاب فتاویٰ عالمگیری اپنی نگرانی میں مرتب کرائی تھی۔ اپنی روزی قرآن مجید کی کتابت اور ٹوپیاں سینے سے حاصل کرتا۔ علاّمہ اقبالؔ نے ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں ’’حکایت شیروشہنشاہ عالمگیرؒ‘‘ کے عنوان سے خراج تحسین پیش کیا ہے: شاہِ عالمگیر گردوں آستاں اعتبارِ دودمانِ گورگاں (کلیات‘ فارسی‘ ص:۱۱۰) عالمگیر نے جب وفات پائی تو سلطنت کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ کابل سے راس کماری تک مغل بادشاہوں کے جھنڈے گڑتے تھے لیکن اس کے جانشین اس وسیع سلطنت کا انتظام نہ کر سکے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا انتشار بڑی تیزی سے شروع ہو گیا۔ مآخذ: ۱) ہاشمی فرید آبادی‘ سید‘ ’’محمد بن قاسم سے اونگ زیب عالمگیر تک (حصہ اول)‘‘ ص:۵۴۶۔۵۷۹ ۲) عابد علی عابد‘ سیّد‘ تلمیحاتِ اقبالؔ‘ ص:۴۰۴۔۴۰۵۔ ۳) افتخار احمدصدیقی (مترجم) ’’شذراتِ فکرِ اقبالؔ‘‘، ص:۹۷۔۱۰۰ ۶؎ نام ٹیک چند‘ بہارؔ تخلص۔ ذات کے کھتری۔ ۱۶۸۹ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ سراج الدین علی خاں آرزو‘ اور شیخ ابوالخیر خیر اللہ رفاہی کے شاگرد تھے۔ میرتقی میر کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ میرؔ کے تذکرہ ’’نکات الشعرا‘‘ میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ میر حسن نے بھی اپنے تذکرہ میں ان کی اصطلاحاتِ فارسی میں معلومات کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ ان کی بہت سی تصانیف ہیں۔ دہلی دربار سے ’’راجا‘‘ یا ’’رائے ‘‘ کا خط پایا ۔۱۷۶۹ء میں انتقال کیا۔ ’’بہارِ عجم‘‘ کے مؤلف ہیں جو فارسی کی ضخیم اورمستند لُغت ہے۔ ان کی دوسری اہم تصانیف: ’’نوادر المصادر‘‘ (۱۷۳۹ئ) اور ابطالِ ضرورت‘‘ ،’’جواہرالحروف‘‘، ’’شرح نصاب‘‘، ’’بدیع‘‘ اور ’’جواہر الترکیب‘‘ ہیں۔ علاّمہ اقبالؔ اشعار کے لیے ٹیک چند بہار کی ’’بہارِ عجم‘‘ استعمال کرتے تھے۔ مآخذ: عبداللہ‘ سید‘ ڈاکٹر‘ ’’ادبیات فارسی میں ہندوؤں کا حصہ‘‘ ص:۱۶۲۔۱۶۹ ۷؎ ترجمہ ایک سروقد جوان کے ہاتھوں پھر بند میں گرفتار ہوگیا ہوں۔ دوستو! مجھ پر رحم کرو کہ بامِ بلند سے گرا ہوں۔ (۴۲) ڈیئرفوق صاحب! السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ الحمد للہi؎کہ تاحال ہر طرح خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ اگر آپ نے خواب میں مجھے دوزخ میں دیکھا ہے تو یہ بالکل صحیح ہے کیونکہ لاہورii؎ آج کل دوزخ سے کم نہیں۔ باقی خیریت ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمدؐ اقبال لاہور ۳۰؍جون ۲۴ئiii؎ تحقیق متن: i؎ انوار=الحمدللہ ii؎ انوار=آج کل لاہور iii؎انوار=۱۹۲۴ء (۴۳) ڈیرفوقؔ اودھ پنچ کا مضمون ’’بیمارانِ لکھنؤ‘‘ کے جواب میں ہے۔ مجھے پہلے سے خیال تھا کہ اس کا جواب لکھا جائے گا۔ بہرحال موجودہ لٹریری مذاق کی حالت قابلِ ماتم ہے۔ ذخیرۃ الملوک۲؎کے دیکھنے کا میں بھی مشتاق ہوں۔ کوئی شخص کشمیر میں اس کا ترجمہ اُردو زبان میں کر رہا ہے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ ۵؍مئی۶۶ئi؎ تحقیق متن: دیکھیے عکس i؎ انوار= ۱۹۲۶ء حواشی و تعلیقات ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۳۰‘ تعلیقہ نمبر ۵ ۲؎ ’’ذخیرۃُ الملوک‘‘ امیر کبیر سید علی ہمدانی کی مشہور تصنیف ہے۔ یہ کتاب سید صاحب نے غالباً کشمیر کے سلاطین کی ہدایت کے لیے لکھی تھی۔ اس کا ایک عمدہ خطی نسخہ برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے جس کے ۲۵۰ صفحات ہیں اور ہر صفحے پر پندرہ سطریں۔ ۱۳۲۱ھ ہیں یہ کتاب مطبع افغانی امرتسر نے شائع کی تھی۔ اس میں معرفتِ الٰہی‘ دین حقانی‘ معرفت بشری‘ فرائض انسانی‘ مکارمِ اخلاق‘ حسنِ معاشرت‘ لوازمِ حکومت اور جملہ امورِ ضروری پر بحث کی گئی ہے۔ اس کااُردو ترجمہ بھی ’’منہاج السلوک‘‘ کے نام سے ۱۳۳۴ھ میں لاہور سے شائع ہوا تھا۔ سیّد صاحب کے کمالات کا اعتراف اقبالؔ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں بھی کیا ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں اقبالؔ نے انھیں شاہِ ہمدان کے نام سے پکارا ہے۔ سیّد علی ہمدانی کا تعارف اقبالؔ ان الفاظ میں کراتے ہیں: سید السادات‘ سالارِ عجم دستِ اومعمارِ تقدیر امم! تا غزالی درسِ اللہ ہو گرفت ذکر و فکر از دوودمانِ او گرفت مرشدِ آں کشور مینو نظیر میرودرویش و سلاطین را مشیر! خطہ را آں شاہِ دریا آستین داد علم وصنعت و تہذیب و دیں (کلیات‘ فارسی ص:۶۳۱) فوقؔ کے کاغذات میں ایک اشتہار کے حوالے سے ثابت ہوتا ہے کہ فوقؔ اس قلمی نسخہ کو شائع کرنا چاہتے تھے۔ اقبالؔ نے ہی اشتہار دیکھ کرکتاب دیکھنے کا شوق ظاہر کیا۔ مآخذ: ۱) اشرف بخاری‘ سیدہ: سید علی ہمدانیؒ (مضمون)‘ مشمولہ: ادبی دنیا (کشمیر نمبر) مارچ و اپریل ۱۹۶۶ء ص:۳۰۵۔۳۱۳ ۲) محمدریاض‘ ڈاکٹر ’’حضرت میر سید علی ہمدانیؒ۔ شاہ ہمدان‘‘ ص:۵۳۔۷۲ (۴۴) لاہورi؎ ۳۰؍اپریل۲۹ء ڈیرفوقؔ صاحب! السلام علیکم اخبار انقلاب۱؎ میں آپ کی اہلیہ۲؎ کے انتقال کی خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ خُدا تعالیٰ مرحومہ کو جنت عطا فرمائے اور آپ کو صبرِ جمیل۔ تقدیر الٰہی سے کوئی چارہ نہیں۔ مسلمانوں کے لیے تسلیم کے سواii؎ اور کوئی راہ نہیں اور یہی راہ انسب واولیٰ ہے۔ والسلام محمد ؐاقبالؔ تحقیق متن: ۱؎ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ ۴؍اپریل ۱۹۲۷ء کو منصہ شہود پر آیا اور اس کی پیشانی پر یہ شعر رقم تھا: آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک اس اخبار کی ضخامت بارہ صفحات تھی‘ اوریہ دس ہزار کی تعداد میں چھپا۔ اخبار کا نام علاّمہ اقبالؔ کا تجویز کردہ ہے۔ انقلاب‘ تقسیمِ ہند سے قبل دو قومی نظریے‘ مسلم لیگ کے موقف کاترجمان اورمسلمانوں کا مشہور اخبار تھا۔ مآخذ: ۱) امدادصابری ‘ ’’تاریخِ صحافت اُردو‘ جلد چہارم‘‘،ص:۷۴۲ ۲: ایم ایس ناز: ’’اخبار نویسی کی مختصر ترین تاریخ‘‘ ص:۲۹۵۔۲۹۹ ۲؎ فوقؔ نے تین شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد چچازاد عزیزہ بی بی‘ دختر بُڈا خان مشتاق سے شادی کی۔ اس سے ظفرالحسن پیدا ہوئے جو بارہ سال کی عمر میں تپ محرقہ سے فوت ہو گئے۔ عزیز بی بی اسی بچے کے رنج و غم میں تپ دق کا شکار ہوئی اور ۲۸؍اپریل ۱۹۲۹ء کو فوت ہو گئی۔ علاّمہ نے خط میںاسی کاذکر کیا ہے۔ فوقؔ کی غزل کے مقطع میں بھی اسی بیوی کی طرف اشارہ ہے: ؎ اے فوقؔ میں ہوں اس لیے محتاجِ رفاقت تنہا رہِ منزل میں کوئی چھوڑ گیا ہے مآخذ: عبداللہ قریشی: ’’شاعرکشمیر‘‘، ص:۲۳‘۲۴ (۴۵) ڈیرفوق صاحب! مجھے معلوم نہیں لفظ سپرو کے معانی کشمیری زبان میں کیا ہیں۔ ممکن ہے اس کے معنی وہیں ہوں جو آپ نے تحریرفرمائے ہیں یعنی وہ لڑکا جو چھوٹی عمر میں بڑوں کی سی ذہانت دکھائے۔ البتہ کشمیری برہمنوں کی جو گوت سپرو ہے اس کے اصل کے متعلق میں نے i؎ جو کچھ اپنے والد مرحوم سے سنا تھا وہ عرض کرتا ہوں۔ جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمۂ کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف بوجہ قدامت پرستی یا اوروجوہ کے توجہ نہ کرتے تھے۔ اس قوم میں سے پہلے جس گروہ نے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اوراس میں امتیاز حاصل کر کے حکومتِ اسلامی کا اعتماد حاصل کیا وہ سپرو کہلایا۔ اس لفظ کے معنی ہیں وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے۔ س تقدم کے لیے کئی زبانوں میں آتا ہے اور پرو کا روٹ وہی ہے جو ہمارے مصدر پڑھنا کا ہے۔ والد مرحوم کہتے تھے کہ یہ نام کشمیر کے برہمنوں نے اپنے ان بھائی بندوں کو زراہِ عریض و تحقیر دیا تھا جنھوں نے قدیم رسوم و تعصباتِii؎ قومی و مذہبی کو چھوڑ کر سب سے پہلے اسلامی زبان و علوم کو سیکھنا شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ iii؎ ایک مستقل گوت ہو کر مشہور ہواiv؎ ۔ ٹیک چندv؎ جو پنجاب میں کمشنر تھے‘ ان کو تحقیق لسان کاvi؎ شوق تھا۔ ایک دفعہ انبالےvii؎ میں انھوں نے مجھ سے کہا تھاکہ لفظ سپرو کاتعلق ایران کے قدیم بادشاہ شاپورviii؎ ۱؎ سے ہے اور سپرو حقیقت میں ایرانی ہیں جواسلام سے بہت پہلے ایران کو چھوڑ کر کشمیر میں آباد ہوئے اور اپنی ذہانت و فطانت کی وجہ سے برہمنوں میں داخل ہوگئے۔ واللہ اعلم پنجاب میں جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی گھر مسلمان سپرو خاندان کانہیں ہے ۔ اعجاز۲؎ کی شادی کے وقت جستجوix ؎ کی گئی تھی مگر ناکامی ہوئی۔ محمدؐ اقبالؔ ۱۶؍جنوری ۳۴ئx؎ تحقیق متن: i؎ انوار:جو کچھ میں نے۔ii؎ انوار=تعلقات iii؎ انوار= رفتہ رفتہ یہ نام ایک iv؎ انوار: ہو گیا ہےv؎ انوار: دیوان ٹیک چند (ایم۔اے) vi؎ انوار: کا بڑا شوق vii انوار=انبالہ میں viii؎ انوار= شاہ پور۔ix؎ انوار= وقت اس امر کی جستجوx؎ یہ تاریخ خط کے متن میں نہیں بلکہ لفافے پر درج ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ شا پورؔ اوّل ساسانی دودمان کا مشہور بادشاہ ہے۔ اردشیر نے اپنی زندگی ہی میں اسے نظم و نسق سلطنت میں شریک کر لیا تھا۔ ۲۴۱ء میں ارد شیر کی وفات کے بعد شاہ پور تخت نشین ہوا۔ اس کے زمانے میں ایرانی فوج نے بڑی شاندار فتوحات حاصل کیں بالخصوص رومیوں کے مقابلے میں شاپور ہی کے زمانے میں مانیؔ نے اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی۔ ۲۷۱ء میں انتقال ہوا۔ مآخذ: عابد علی عابد سید‘ ’’تلمیحات اقبال‘‘ ص:۴۷۸ ۲؎ شیخ اعجاز احمد‘ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے بڑے بیٹے تھے۔ یہ ۱۲؍جنوری ۱۸۹۹ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے میٹرک اوراسلامیہ کالج لاہور سے بی۔اے پاس کیا۔ یہیں سے ایل ایل بی کاامتحان پاس کیا اوروکالت شروع کر دی۔ کچھ عرصے بعد محکمہ انکم ٹیکس میں چلے گئے‘ پھر ان کی خدمات ہائی کورٹ کو منتقل ہو گئیں۔ موگا‘ حافظ آباد چونیاں اور دہلی میں بھی سب جج رہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت وہ حکومتِ ہند کے محکمہ خوراک میں تھے۔ ۱۹۴۷ء میں کراچی چلے گئے۔ جنوری ۱۹۵۴ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد چار سال تک پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن سے وابستہ رہے‘ پھر ایف۔اے۔او کے نمایندے کی حیثیت سے کام کیا۔ ’’مظلوم اقبال‘‘ ان کی اہم تصنیف ہے۔ اقبال ان کی تعلیم و تربیت کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ اقبالؔ نے انھیں اپنے بچوں (منیرہ اور جاوید) کا گارڈین مقرر کیاتھا‘ لیکن بعدازاں ان کے قادیانی مسلک کے باعث اپنی وصیت پر نظرثانی کرتے ہوئے ان کا نام خارچ کر دیا۔ ۱۹۹۵ء میں کراچی میں فوت ہوئے۔ مآخذ: ۱) وحیدالدین فقیر سید:’’روزگارِ فقیر‘‘ ص:۲۰۰۔۲۰۲ ۲) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رُود۔ سوم‘‘،۲۸۷۔۲۸۸ بنام غلام رسول مہرؔ تعارف: غلام رسول مہرؔ ۱۸۹۵ء میں جالندھر کے ایک قصبہ پھول پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دیہاتی اسکول میں پائی۔ مشن اسکول جالندھر سے میٹرک کیا۔ ۱۹۱۰ء میں حصولِ تعلیم کے لیے لاہور آ کر اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے۔ مہرؔ ۱۹۰۷ء میں اقبال کے اسم گرامی سے واقف ہوئے۔ مہرؔ ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۷ء تک ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ رہے۔ اس کے بعدانھوں نے اور عبدالمجید سالکؔ نے بعض اختلافات کی بنا پر ’’زمیندار‘‘ کی ملازمت چھوڑ دی۔ بعدازاں ’’انقلاب‘‘ اخبار جاری کیا‘ اخبار کا نام اقبالؔ کی رائے سے طے پایا۔ اقبالؔ‘ مہرؔ کی سیاسی سوجھ بوجھ کے بہت قائل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہرؔ کی موجودگی سے ان کو اپنے سیاسی موقف کے درست ہونے کے سلسلے میں بڑی طمانیت اورتقویت رہتی ہے۔ چنانچہ ستمبر ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس میں مہرؔ‘ اقبالؔ کے ہمراہ تھے۔ اس کانفرنس میں مہرؔ نے بحیثیت صحافی شرکت کی۔ وہ اس بحری سفر اور کانفرنس کی مکمل روئیداد مولانا عبدالمجید سالکؔ کوارسال کرتے رہے‘ جو روزانہ ’’انقلاب‘‘ میں چھپتی رہی۔ اس روداد میں انھوں نے اقبالؔ کی مصروفیات کا ذکر بھی کیا ہے۔ اقبالؔ کے انتقال کے بعدمہر نے نہایت دردمندی اور عقیدت سے بھرپور مضامین تحریر کے۔ مہرؔ نے اپنی پوری زندگی علم وادب کے خدمت میں گزاری۔ انھوں نے ۱۴؍نومبر ۱۹۷۱ء کو انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) شفیق احمد ‘ ڈاکٹر‘ :’’مولانا غلام رسول مہرؔ…حیات اور کارنامے‘‘، مجلس ترقی ادب لاہور‘ ص:۱۳‘۸۴۔ ۲) غلام رسول مہرؔ (مصنف)‘ امجد سلیم علوی‘ (مرتّب) : ’’اقبالیات‘‘، ۱۹۸۸ء ۳) محمد صدیق: ’’علاّمہ اقبال اور ان کے بعض احباب‘‘، ص:۱۱۸ ۴) حق نواز (مرتب): سفر نامۂ اقبال‘‘، ص:۱۰۸۔۱۳۷ (۴۶) لاہور۷؍ستمبر ۲۴ء ڈیرچودھری غلام رسول! السلام علیکم میں نے پرسوں ایک خط ’’زمیندار‘‘۱؎ میں اشاعت کی غرض سے لکھا تھا۔ اس میں سکرٹری انجمن حمایتِ اسلام لاہور۲؎ کا نام لکھنا بھول گیا۔ مہربانی کر کے لفظ سکرٹری انجمن کے آگے ’’شیخ عبدالعزیز صاحب‘‘۳؎ کے الفاظ بڑھا دیجیے اور خط کے آخر میں یہ فقرہ بھی لکھ دیجیے کہ ’’مجھے معلوم نہیں اخباروں میں جو خبر اس وفد کے متعلق شائع ہوئی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے‘ مخلص محمدؐ اقبالؔ تحقیقِ متن: خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۴۰ تعلیقہ نمبر ۱۱ ۲؎ انجمن حمایتِ اسلام‘ مارچ ۱۸۸۴ء میں لاہور کے چند درد مند مسلمانوں نے سر سید احمد خان کی تعلیمات کے زیرِ اثر اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ اس کے ابتدائی مقاصد یہ تھے۔ (۱) غیر مسلم تبلیغی اداروں کے شر سے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے تحریری و تقریری مہم کاانتظام۔ (۲) مسائلِ اسلامی کی تبلیغ واشاعت(۳) مسلمان بچوں اور بچیوں کو مذہبی تعلیم کے علاوہ جدید دنیوی تعلیم سے بہرہ ور کر کے قوم کو ترقی کی راہ پر لگانا۔ ۲۴؍ستمبر۱۸۸۴ء کو انجمن کا پہلا جلسۂ عام منعقد ہوا۔ انجمن کے جلسوں میں اکابرِ قوم ہر سال مسلمانوں کو درسِ بیداری دیتے رہے۔ علاّمہ اقبال نے اپنی مشہور نظمیں نالۂ یتیم‘ اسرار خودی‘ طلوعِ اسلام‘ شمع و شاعر‘ خضرراہ وغیرہ انجمن ہی کے سالانہ جلسوں میں پڑھیں۔ اس کے علاوہ اقبالؔ ۱۹۲۰ء سے ستمبر ۱۹۲۴ء تک انجمن کے معتمد عمومی اور ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۷ء تک صدر بھی رہے۔ علاّمہ اقبال کی وصیت کے مطابق ان کی نادر کتب کاایک گراں بہا مجموعہ اسلامیہ کالج کے کتب خانے کو ملا۔ انجمن نے اپنے تعلیمی مقاصد کے پیش نظر بہت سے تعلیمی ادارے قائم کے۔ یتیم بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک الگ دارالشفقت لڑکوں کے ’’دارالشفقت‘‘ کے ساتھ پیشہ ورانہ تربیت کاایک مرکز۔ معاشرتی خدمات کے باب میں ’’درالامان‘‘ کاقیام بھی انجمن کاایک اہم کارنامہ ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کی ترویج کے لیے انجمن کے پریس نے تاریخ‘ تفسیر‘ قرآنِ مجید اور اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق نصابی کتب اُردو میں شائع کی ہیں۔ قرآنِ پاک کا ایک نسخہ بھی شائع کیا ہے۔ قیام پاکستان میں انجمن کا حصہ اس لیے اہم ہے کہ اسلامیہ کالج کے طلبہ نے اس تحریک میں پُر جوش حصہ لیا۔ چنانچہ ۱۹۲۴ء میں‘ اور اس سے پہلے متعدد موقعوں پر قائداعظمؒ بہ نفسِ نفیس طلبہ سے خطاب کرنے کے لیے اس کالج میں تشریف لائے۔ مآخذ: محمد حنیف شاہد: ’’اقبال اور انجمنِ حمایت اسلام‘‘، ص:۲۱۔۴۵ ۳؎ شیخ عبدالعزیز (جنوری ۱۸۷۵ئ…ستمبر ۱۹۴۱ئ) : فارغ التحصیل ہونے کے بعد لاہور کے انگریزی اسلامی اخبار ’’آبزرور‘‘ کے نائب مدیر مقرر ہوئے۔ بعد میں مدیر بھی رہے۔ اسلامیہ کالج لاہورمیں معلم بھی مقرر رہے۔ ۱۹۱۴ء میں سرکاری پراپیگنڈے کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری اوراخبار ’’حق‘‘ کے ذریعے سے جنگی خبروں کی نشرواشاعت میں مشغول رہے۔ اسی زمانے میں ’’انجمن حمایتِ اسلام‘‘ لاہورکے سکرٹری بنائے گئے۔ انگریزی سرکار نے انھیں ’’خان صاحب‘‘ کا خطاب عطا کیا۔مآخذ: منیر احمد سلیچ‘ ڈاکٹر: اقبال اور گجرات‘ص:۲۵۲۔۲۵۳ (۴۷) ۳۰؍اپریلi؎ ۲۷ء ڈیرچودھری صاحب! السلام علیکم ’’الطرق الحکمیہ فی سیاستہ الشرعیہ۱؎ ، (حافظ ابنِ قیّم) اور ’اعلام الموقعین۲؎ ، مرحمت فرمائیے۔ یہ بھی فرمائیے کہ مولوی عبدالقادر صاحب۳؎ قصور سے تشریف لائے یا نہیں۔ آج شام آئیے بھی۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: ۱؎ خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ اقبالؔ نے تاریخِ تحریر درج نہیں کیا۔ تاہم قیاس ہے کہ ۳۰؍اپریل ۲۷ء کو یہ خط لکھا گیا کیونکہ اقبالؔ اکادمی لاہور کی خطوط کی فائل میں یہی تاریخِ تحریر درج ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ ۲؎ الطریق الحکمہ فی سیاستہ الشرعیہ‘ اور اعلام الموقین من رب العالمین‘ حافظ ابنِ قیّم کی تصانیف ہیں۔ اعلام الموقعین کااردو ترجمہ ’’دینِ محمدی‘‘ کے نام سے دہلی سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کا موضوع فقہی مسائل ہیں۔ اقبالؔ نے مدراس میں جو لیکچر دیے ان کی تیاری کے سلسلے میں ان کتب سے استفادہ کیا۔ حافظ ابنِ قیّم(۱۲۹۳ئ۔۱۳۵۰ئ) دمشق میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابوبکر بن ایوب دمشق کے مدرسہ الجوزیہ کے قیّم (مہتمم) تھے۔ اسی بناء پر ابتدا میں انھیں ابن قیّم الجوزیہ کہا جاتا تھا‘ بعد میں صرف ابن قیّم کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ ابن تیمیہ کے صحیح جانشین اور ان کے علوم کے صحیح معنی میں حامل تھے۔ اپنے استاد(ابن تیمیہ) کی طرح وہ فلسفیوں‘ معتزلیوں‘ حشویوں اوروحدت الوجودیوں کے سخت مخالف تھے اور کلام‘ عقائد اور تصوف کے مسائل میں سلف صالحین کے نقطۂ نظر کے حامی تھے۔ ابنِ قیّم نے ۶۰برس کی عمر میں دمشق میںوفات پائی۔ مآخذ: ۱) عبدالعظیم‘ غلام احمد حریری (مترجم) ’’حیاتِ حافظ ابنِ قیّمؒ‘‘ ص:۱۰۰۔۱۰۳ ۲) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد اول‘ ص: ۶۵۱ ‘ ۲۵۳ ۳؎ مولانا عبدالقادر قصوری ۱۸۶۳ء میں دلاور چیمہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعدازاں اورینٹل کالج لاہور میں داخلہ لیا اور امتحانات سے فارغ ہو کر لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وکالت کے امتحان کے بعد وہ سوچ ہی رہے تھے کہ کہاں کام شروع کیا جائے‘ اس اثنا میں ایک شخص قصور کا مقدمہ لے کران کے پاس آیا۔ قصور کے تحصیل دار کی عدالت میں اپنے مؤکل کے حق میں مؤثر دلائل دیے۔ مولانا مقدمہ جیت گئے اور اس کے بعد تحصیل دار نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ قصور ہی کو اپنا وطن بنائیں۔ مولانا نے اس کی بات مان لی اور یوں قصوری ہو گئے۔ مولانا قصوری کو وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ تحریک خلافت (۱۹۲۰ئ) میں بھر پور حصہ لیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایما پر آل انڈیا کانگریس کی رکنیت اختیار کی اور صوبہ کانگریس کے صدر بنائے گئے۔ جب مسلم لیگ اور کانگریس میں کھلم کھلا تصادم شروع ہوا تو مولانا قصوری نے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اقبالؔ سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ اقبالؔ اپنے دوستوں سے بھی ان کی خیریت معلوم کرتے رہتے۔ مولانا قصوری نے ۱۶؍نومبر ۱۹۴۲ء کو انتقال کیا اور قصور میںدفن ہوئے۔ مآخذ: ۱) محمداسحق بھٹی: ’’قصوری خاندان‘‘، ص:۱۹۔۴۶ ۲) عبداللہ ملک: ’’داستان خانوادہ میاں محمود علی قصوری‘‘ ص:۶۲‘۶۹ (۴۸) لاہور ۸؍مارچ ۲۸ء ڈیرمہرؔ صاحب ۔السلام علیکم ۱۔i؎ میں نے سنا ہے امام ابنِ تیمیہ کی کتاب التقدیر کااُردو ترجمہ ہوکر چھپ گیا ہے۔ اگر یہ کتاب مل سکے تو اس کا نسخہ بہم پہنچائیے۔ ۲۔ii؎ میں نے جو تقریر کونسل میں مالگزاری والے رزولیوشن پر کی تھی اس کی نقل ارسال کرتا ہوں۔ افسوس کہ دفتر نے وہ مسوّدہ نہیں بھیجا جو میں نے درست کر کے ان کو دیا تھا۔ بہرحال مطلب معلوم ہو جائے گا۔ اگر آپ مناسب خیال کریں تو اس کااُردو ترجمہ چھاپ دیں۔ اس کے متعلق پنجاب کے زمینداروں کے نام ایک کھلی چٹھی چھاپنے کاارادہ ہے جس کے لیے آپ سے مشورہ کروں گا۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ ii؎ ’’انوار‘‘ میں نمبر درج نہیں ہیں (دیکھیے عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ ’’کتاب التقدیر‘‘ کا صحیح نام ’’شفاء العلیل فی مسائل القضاء و القدرہ الحکمۃ و التحلیل‘‘ ہے۔ اس کااُردوترجمہ کتاب ’’التقدیر‘‘ کے نام سے چھپا ہے۔ یہ خافظ ابنِ قیّم کی تصنیف ہے‘ ابنِ تیمیہ کی نہیں۔ اقبال اپنے لیکچروں کی تیاری کے سلسلے میں اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔ (۴۹) شملہ ۲۸؍جولائی ۲۹ جناب ایڈیٹر صاحب ! انقلاب السلام علیکم۔ ۲۶جولائی کے ’’انقلاب‘‘ میں‘ آپ نے نواب احمد یار۱؎ خاں صاحب کے ایک مکتوب کا حوالہ دیا ہے۔ میں اس مکتوب کے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ سطورِ ذیل اپنے اخبار کے کسی کالم میں شائع فرما کر مجھے ممنون فرمائیے۔ نواب صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ کسی مطبوعہ پمفلٹ میں وہ تمام تجاویز درج تھیں جن پر اب ’’انقلاب‘‘۲؎ متوجہ ہے اس واسطے نواب صاحب موصوف کے خیال میں اس مسلم کشی کے لیے صرف پنجاب سائمن کمیٹی۳؎ ؎ کے ممبر ہی ذمہ دار نہیں بلکہ تمام مسلم ارکانِ کونسل ذمہ دار ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا یہ مطبوعہ پمفلٹ وہی تحریر ہے جس پر آپ نے متعدد مضامین ’’انقلاب‘‘ میں لکھے تھے اور جس کی تجاویز کے خلاف لاہور کے تمام میونسپل وارڈوں نے ریزولیوشن پاس کیے تھے۔ یہ ریزولیوشن بھی غالباً آپ کے اخبار میں شائع ہو چکے ہیں۔ پنجاب سائمن کمیٹی کی سفارشات کا مجھے کوئی علم نہیں۔ ان کی رپورٹ اب تک شائع نہیں ہوئی لیکن نواب صاحب کے خط سے‘ جس کا ملخص آپ نے ’’انقلاب‘‘ میں شائع کیا ہے‘ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا خطرہ بالکل بجا ہے اور پنجاب سائمن کمیٹی کی سفارشات وہی ہیں جو مذکورہ بالا پمفلٹ میں درج تھیں۔ بہرحال میں نے متعدد ارکانِ کونسل سے دریافت کیا۔ وہ سب کے سب پمفلٹ مذکورہ کی تجاویز پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ نواب احمد یار خاں صاحب سے بھی میں نے گفتگو کی‘ وہ فرماتے ہیں کہ کوئی میٹنگ کسی جگہ ہوئی تھی جہاں مسلم ارکانِ کونسل نے ان تجاویز پر دستخط کیے تھے۔ ممکن ہے نواب صاب ب کے پاس ان حضرات کے دستخط محفوظ ہوں۔ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں کسی ایسی میٹنگ میں شریک نہیں ہوا اور نہ کسی پمفلٹ کی تجاویز پر میں نے دستخط کیے ہیں۔ جن ارکانِ کونسل سے میں نے دریافت کیا‘ ان کے اسمائے گرامی ذیل میں درج ہیں: سردار حبیب اللہ‘ مسٹر دین محمد‘ سید محمدحسین شاہ‘ مولوی سر رحیم بخش‘ پیر اکبر علی‘ ملک محمد امین شمس آبادی‘ مسٹر غلام یٰسین۔ ان حضرات نے بڑے زور سے نواب احمد یار خاں صاحب کے بیان کی تردید کی۔ مسٹر دین محمد توشاید اس مضمون کی کوئی تحریر بھی آپ کی خدمت میں اشاعت کے لیے ارسال کر چکے ہیں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ۔ شملہ تحقیق متن: خط کا عکس اقبال اکادمی لاہورکی لائبریر میں موجود ہے۔ درجِ بالا خط کا متن عکس کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ احمد یار خان دولتانہ‘ میاں غلام قادر خاں دولتانہ کے صاحبزادے اور میاں غلام محمد خاں دولتانہ رئیس اعظم کے پوتے تھے۔ ۱۳؍اپریل ۱۸۹۶ء کو ملتان کے ایک قصبہ لڈن میں پیدا ہوئے۔ دولتانہ صاحب کو برطانیہ نوازی ورثے میں ملی تھی‘ اس لیے سیاست میں دلچسپی رکھنے کے باوجود وہ کسی ایسی تحریک میں حصہ لینے سے ڈرتے تھے جو انگریزوں کے خلاف چل رہی ہو۔ جب ان کو یقین ہو گیا کہ اتحاد پارٹی کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے تو انھوں نے اس میں اپنی شمولیت کا اعلان کر دیا اور اس کے جنرل سکریٹری ہو گئے۔ اسی زمانے میں ان کی ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور وہ غزلیں اور نظمیں کہنے کے ساتھ ساتھ اپنا زیادہ وقت اقبالؔ کی مجلسوں میں گزارنے لگے۔ سرسکند حیات کے برسرِاقتدار آنے کے بعد پارلیمانی سکریٹری (پولیٹیکل) مقرر ہوئے۔ اکتوبر ۱۹۴۰ء میں انتقال ہوا۔ مآخذ: ۱) عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر ’’وَے صورتیں الٰہی‘‘ ص:۳۱۔۳۳ ۲) عبدالرؤف عروج‘ ’’رجالِ اقبال‘‘،صؒ۲۳۱‘۲۳۲ ۳) "Muslims in India: A Biographical Dictionary Vol: I" P:63 ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۴۴ تعلیقہ نمبر۱ ۳؎ ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا یک طرفہ فیصلہ کرنے کی غرض سے انگریزوں نے ۷؍نومبر۱۹۲۷ء کو ایک کمیشن قائم کیا تھا‘ جس میں کسی ہندوستانی کو نمایندگی کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے متام ممبر انگریز تھے اور صدر کا نام سر جان سائمن تھا۔ ۱۹۳۰ء میں کمیشن کی رپورٹ دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ کانگریس نے اس سے مقاطعہ کا فیصلہ کیا لیکن مسلمانوں کی اکثریت اس مقاطعے کے حق میں نہیں تھی۔ سائمن کمیشن کی مدد کے لیے ہر صوبے میں کمیٹیاں بنائی گئیں جو کونسل کے ممبران پر مشتمل تھیں۔ پنجاب سائمن کمیٹی نے جو سفارشات تیار کیں‘ وہ پنجاب کے مسلمانوں کے جائز حقوق کے مطابق نہ تھیں۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں ان کے خلاف مقالے لکھے گئے۔ اس کمیٹی کی سفارشات شائع ہونے سے قبل ایک پمفلٹ شائع ہوا تھا‘ جس میں ایسی باتیں درج تھیں جن سے شبہ ہوتا تھا کہ کمیٹی کی سفارشات اسی نوعیت کی ہوں گی۔ نواب احمد یار دولتانہ جو یونینسٹ پارٹی کے سکرٹری تھے‘ اخباروں میں ایک مکتوب چھپوایا جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان سفارشات کو پنجاب کونسل کے مسلم ارکان منظور کر چکے ہیں۔ اقبالؔ اس زمانے میں کونسل کے ممبر تھے۔ مآخذ: ۱) محمد رفیق افضل: ’’گفتارِ اقبالؔ‘‘،ص:۱۰۶۔۱۰۹ ۲) محمداحمد خاں: ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ‘‘ ص:۱۶۸۔۱۸۵ ۳) خدیجہ یاسمین ملک:’’اقبالؔ اور سائمن کمیشن‘‘ (مقالہ: ایم۔فل) ۱۹۹۲ء (۵۰) ۱۹۲۹ئi؎ ڈیرچودھری غلام رسول رسالہ’’معارف۱؎ ‘‘ بابت ماہ اگست ۲۹ء اگر آپ کے پاس ہوتو بھجوائیے‘ اس میں ایک مضمون سنّت پر ہے۔ اسے دیکھنا مطلوب ہے۔ والسلام محمد ؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎’’انوار‘‘ کا متن عکس کے مطابق ہے۔ صابرکلوروی صاحب نے ۱۹۲۹ئء سنہِ تحریر متعین کیا ہے (اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۹۰) سنہ کا تعین خط کے داخلی شواہد سے بھی ہوتا ہے) حواشی و تعلیقات: ۱؎ ’’معارف‘‘ جولائی ۱۹۱۶ء میں جاری وہا۔ جب سیّد سلیمان ندوی نے مولانا شبلیؔ کے مرتبہ منصوبے کے مطابق اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کی بنیاد رکھی تو اس رسالے نے بہت جلد علمی حلقے میں اپنا مستقل مقام پیدا کر لیا۔ ۱۹۱۶ء سے آج تک اس کے اسلوب‘ اندازِ تحریر‘ اعلیٰ علمی مقالوں کی فراہمی میں کی نہیں آئی‘ اور اس رسالے نے دینی‘ علمی‘ تاریخی‘ سوانحی‘ تمدنی اور ادبی جواہر پاروں کے قیمتی ذخیرے سے اُردو کا دامن بھر دیا ہے۔ مآخذ: ۱) اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا، دوم‘‘ ص:۱۵۸۲ ۲) عبدالسلام خورشید ،ڈاکٹر،’’کاروانِ صحافت‘‘ ،ص:۱۴۵ (۵۱) بخدمت مولانا غلام۱ مرشد۔ مولانا احمد علی ۲؎ ، مولانا ظفر علی خاں۳؎؎ ، سیّد حبیب۴؎ ‘ مولوی نورالحق۵؎ ، سید عبدالقادر۶؎ ، مولانا مہر صاحبان۷؎ ۔ جناب مکرم۔ السلام علیکم۔ ایک نہایت ضروری امر میں مشورہ کرنا ہے۔ آج آٹھ بجے شام غریب خانے پر تشریف لا کر مجھے ممنون فرمائیے۔ مشورہ طلب امر نہایت ضروری ۸؎ ہے۔ امید کہ آپ تکلیف معاف فرمائیں گے۔ مخلص محمدؐ اقبال بیرسٹر لاہور ۵؍ستمبر ۲۹ء حواشی و تعلیقات ۱؎ مولانا غلام مرشد جو کافی عرصے تک بادشاہی مسجد کے خطیب رہے۔ ۲؎ مولانا احمد علی لاہوری ۱۸۸۷ء میں گوجرانوالہ کے ایک قصبہ جلالہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے مولانا عبیداللہ سندھی سے مذہبی اور دینی تعلیم پائی۔ مولانا احمد علی نے ۱۹۲۲ء میں انجمن خدام الدین قائم کی۔ اس کے دو سال بعد مدرسہ قاسم العلوم کاقیام عمل میں آیا۔ علاّمہ اقبال‘ مولانا احمد علی لاہوری کی اس اصلاحِ عقائد و احوال کی تحریک سے بہت متاثر تھے جوانھوں نے انجمن خدّام الدین کی جانب سے شروع کی تھی۔ جب انجمن کے سالانہ جلسہ منعقدہ ۱۹۲۵ء میں مولانا انور شاہ خاں کشمیری لاہور آئے تو اقبالؔ نے ان کے ساتھ مولانا احمد علی لاہوری کو بھی بطورِ خاص کھانے پر مدعو کیا۔ اسی طرح اقبالؔ نے ’’تشکیل الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ کی تیاری شروع کی تومولانا سے بھی مشورہ کیا۔ مولانا غلام رسول مہرؔ کا بیان ہے کہ اقبالؔ نے مولانا لاہوری سے بعض فقہی مسائل پر تبادلۂ خیال بھی کیا تھا۔ مولانا لاہوری نے اپنی پوری زندگی اعلائے کلمۃ الحق میں گزاری تھی۔ قیام ِ پاکستان کے بعد بھی ان کی حق گوئی اور بے باکی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ غیر جمہوری رحجانات کے خلاف کھل کر احتجاج کرتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں ان کو تحریکِ ختمِ نبوت کے سلسلے میں جیل جانا پڑا۔ اس کے باوجود ان کے جوشِ خطابت میں کمی نہیں آئی۔ انھوں نے نصف صدی سے زائد عرصے تک تبلیغ واشاعت اور رُشدوہدایت کا کام جاری رکھا۔ ۷۵سال کی عمر میں ۱۹۶۲ء میں انتقال کیا۔ مولانا کی تصانیف میں ان کے مجموعہ رسائل جن کی تعداد ۳۴ ہے‘ خلاصہ المشکواۃ اور حواشی ترجمۂ قرآن کریم ہیں‘ جو مولانا نے اس ترجمے پر لکھے تھے جوانھوں نے حضرت شاہ عبدالقادر کا ترجمہ انجمنِ خدام الدّین سے شائع کیاتھا۔ مآخذ: ۱) اعجاز الحق قدوسی: ’’اقبال اور علمائے پاک و ہند‘‘،ص:۳۹۹ ۲) عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر: ’’وَے صورتیں الٰہی،‘‘ ص:۱۰۹۔۱۱۰ ۳) نقوش (لاہور نمبر)،ص:۹۲۶ ۵؎ مولوی نورالحق: مالک روزنامہ’’مسلم آؤٹ لُک‘‘ لاہور کے ایڈیٹر تھے۔ ۶؎ پروفیسر سید عبدالقادر: ان کا وطن جالندھر تھا۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد آگرہ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ اسلامیہ کالج لاہور میں تاریخ کے پروفیسر تھے۔ اقبالؔ سے نیاز حاصل ہوا۔ چونکہ ان کی دوستی گرامیؔ سے بھی تھی‘ اس لیے اقبالؔ ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ان کا مطالعہ بیحد وسیع تھا اور اگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ انھوں نے ایک مرتبہ گرامیؔ کے ایک دوست سیّد صفدر علی شاہ کی عرضی کا انگریزی میں مسودہ تیار کر کے اقبالؔ کودکھایا تھا۔ اقبالؔ نے ان کواس سلسلے میں ضروری مشورے بھی دیے۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ تدریس میں گزرا۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں ان کی تمام املاک تباہ ہو گئیں۔ لاہور میں حق برادرز کے نام سے کتابوں کی ایک دکان کھول لی۔ ۲۲؍جنوری ۱۹۵۶ء کو ان کاانتقال ہو گیا۔ مآخذ: عبدالرؤف عروج: رجالِ اقبالؔ‘‘ ص:۳۵۵۔۳۵۶ ۷؎ مُراد غلام رسول مہر ۸؎ ضروری امر جیسا کہ مہر صاحب بیان کرتے ہیں مسلمانوں کے فقہی مسائل کے متعلق مشورہ تھا۔ (۵۲) لاہور‘ یکم ستمبر ۳۰ء جناب مدیر انقلاب: السلام علیکم و رحمۃ اللہ آپ کے بیش قیمت کالموں کی وساطت سے میں ان بے شمار احباب کا شکریہ اداکرتا ہوں جنھوں نے میرے والد مرحوم کی وفات پر مجھ سے اور میرے اعزہ سے اظہارِ ہمدردی فرمایا۱؎ ۔ خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ چونکہ فرداً فرداً خطوط اور برقی پیامات کا جواب لکھنے سے قاصر ہوں۔ اس واسطے آپ سے درخواست ہے کہ میرا دلی شکریہ مرے احباب تک پہنچا کر مجھے ممنون فرمائیے۔ والسلام مخلص محمدؐاقبال تحقیقِ متن: (دیکھے عکس) حواشی و تعلیقات ۱؎ اقبال کے والد شیخ نور محمد نے (۱۸۳۷ئ) ۱۷؍اگست ۱۹۳۰ء کو سیالکوٹ میں انتقال کیا۔ قبرستان امام صاحب میں دفن ہوئے۔اقبالؔ ان کو میاں جی کہا کرتے تھے۔ ان کی بزرگی سے بہت متاثر تھے۔ شیخ نور محمد صرف قرآنِ پاک ناظرہ پڑھے ہوئے تھے۔ اہل اللہ کی مجالس میں بڑے ذوق و شوق سے شرکت کرتے۔ مآخذ: سلطان محمود حسین‘ ڈاکٹر ’’اقبالؔ کی ابتدائی زندگی‘‘، ص:۱۸۳۔۱۸۶ (۵۳) ۲۲؍نومبر۳۰ئi؎ لاہور ڈیرمہرؔوسالک کل برکت علی محمڈن ہال میں مجوزہ کانفرنس کے متعلق جلسہ ہے۱؎ ۔ اگر تجویز متفقہ طور پر قرار پاگئی تو استقبالیہ کمیٹی وہیں بن جائے گی۔ آپ اس جلسہ میں ضرور تشریف لائیںii؎اور (یعنی پورے گیاہ بجے صبح) تشریف لائیںiii؎ ۔ خلیفہ شجاع الدّین۲؎ صاحب کی طرف سے آپ کو اطلاع بھی پہنچے گی۔ والسلام اوروں کو بھی ساتھ لائیے محمدؐاقبال تحقیقِ متن ۱؎ ’’انوار‘‘ میں تاریخ خط کے آخر میں ہے۔ ii؎ iii؎ لاویں (دیکھیے عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ ’’علاّمہ اقبالؔ کی دعوت پر ۲۳؍نومبر ۱۹۳۰ء کو لاہورکے مسلم اکابر برکت علی اسلامیہ ہال میں جمع ہوئے۔ اس اجتماع میں لاہور کے ۲۲ نہایت ممتاز حضرات نے شرکت کی‘ جن میں مولانا غلام رسول مہرؔ‘ مولانا عبدالمجید سالک‘ خاں سعادت علی خاں ریئس اعظم‘ ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین‘ مولانا غلام محی الدین‘ ملک محمد دین‘ سید مراتب علی شاہ گیلانی شامل تھے۔ اس اجتماع میں علاّمہ اقبالؔ نے ایک مختصر سی تقریر کی اور اس میں اس کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا: ’’حالاتِ حاضرہ کے اعتبار سے شمالی ہند کے مسلمانوں کی ایک خاص کانفرنس کا انعقاد ضروری ہے‘ جس میں صوبہ سرحد‘ بلوچستان‘ پنجاب و سندھ کے نمایندے شریک ہوں۔ اور ان صوبوں کے مسلمانوں کے اسلامی حقوق کے حصول کے لیے منظم بنانے اور ان میں جوشِ عمل پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں‘‘۔ اسی اجتماع میں اس کانفرنس کی ایک مجلسِ استقبالیہ ترتیب دی گئی اور مجلس استقبالیہ کے سکریٹری اور فنانسل سکرٹیری کا انتخاب بھی عمل میں آیا۔ اقبالؔ مجلسِ استقبالیہ کے صدر منتخب ہوئے۔ مآخذ: ۱) محمد احمد خان: اقبال کا سیاسی کارنامہ‘ ص:۲۰۶۔۲۱۶ ۲) محمد رفیق افضل: گفتارِاقبالؔ‘ ص:۱۱۱۔۱۱۸ ۲؎ خلیفہ شجاع الدین (۱۸۸۳ئ) لاہور کے ان بزرگوں میں سے تھے جن کو ہر وقت مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعلیمی ترقی کا خیال رہتاتھا۔ خلیفہ شجاع الدین‘ علاّمہ اقبالؔ کے خیالات سے پہلے پہل اپنے زمانۂ طالب علمی میں آگاہ ہوئے۔ خلیفہ شجاع الدین نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایم۔اے کیا۔ لندن سے بیرسٹری کی سند لی اور پھر لاہور آ کر وکالت کرنے لگے۔ اسلامیہ کالج لاہور کی کمیٹی کے اعزازی سکریٹری مقرر کیے گئے۔ انھوں نے عوام میں مسلم لیگ کااثرونفوذ بڑھانے کی کوشش کی۔ ۱۹۳۲ء میں محمدعلی جناحؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ قائم کیا تاکہ صوبوں میں مسلمانوں کے انتخابات کی نگرانی کی جائے‘ اس سلسلے میں ۱۲؍مئی کو میاں عبدالعزیز بیرسٹر کے مکان پر مسلم لیگ کاایک جلسہ ہوا‘ جس کی صدارت اقبالؔ نے کی۔ اس جلسہ میں کئی قرار دادیں اتفاقِ رائے سے منظور ہوئیں۔ ایک قرار داد میں پنجاب مسلم لیگ کی ازسرِنو تنظیم پر زور دیاگیا اور اس کے لیے اقبالؔ صدر اور خلیفہ شجاع الدین نائب صدر مقرر کیے گئے۔ آپ سالہا سال تک پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن رہے بعدازاں شجاع الدین نائب صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر: ’’وے صورتیں الٰہی‘‘ ص:۹۹۔۲۰۰ ۲) عبدالرؤف عروج ’رجالِ اقبال‘‘ ص:۲۹۹۔۳۰۱ ۳) محمد حمزہ فاروقی: ’’اقبال کا سیاسی سفر‘‘ ص:۴۸۷ (۵۴) غُلَبِتِ الرُّوْمْ فٓیِْ اِدْنَی الْاِرضِ وَھُمْمَ مّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغِْلبُْونَo ۱؎ ڈیرمہرؔصاحب۔ السلام علیکم خلیفہ صاحب (خلیفہ شجاع الدین) وہ شجرہ مانگتے ہیں۔ مہربانی کر کے واپس فرمایے۔ وہ اس کا کوئی اور انتظام کرنا چاہتے ہیں۔ محمد ؐاقبالؔ تحقیقِ متن: خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے‘ عکس میں تاریخِ تحریر نہیں ہے‘ تاہم قیاس ہے کہ یہ خط ۱۹۳۰ء میں لکھا گیا۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ ترجمہ اہلِ روم مغلوب ہوگئے‘ نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آجائیں گے (سورہ الروم: آیت نمبر ۱۔۳‘ پارہ:۲۱) (۵۵) ۱۰؍جولائی ۳۱ء ڈیئرمہرؔ صاحب آج کے مسلم آؤٹ لُک کے صفحہ ۹ پر نارتھ انڈیا مسلم۱؎ سٹیٹ پر جج پلوڈون۲؎ کے خیالات ہیں جو نہایت دل چسپ ہیں۔ ان کا ترجمہ کر کے انقلاب میں شائع کیجئے۔ ۱۷؍ یا ۱۸ء جولائی کو بھوپال جانا ناممکن ہو گیا ہے۔ مغل پورہ۳؎کالج انکوائری ۲۰؍سے شروع ہوگی اور مجھے گواہی دینا ہے جو ۲۰؍اور ۲۴؍کے درمیان ہو گی۔ کل کمشنر لاہور کا خط اس مضمون کا آیا ہے۔ والسلام شاید ۲۱؍کو بھوپال جا سکیں گے محمد ؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات ۱؎ نارتھ انڈیا مسلم سٹیٹ سے مراد شمالی ہندوستان کے صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست کا تصور ہے‘ جو اقبال نے الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے خطبۂ صدارت (۲۹؍دسمبر ۱۹۳۰ئ) میں پیش کیا تھا۔ ۲؎ جج پلوڈون Plaudon پنجاب ہائی کورٹ کا جج تھا۔ ۳؎ لاہور میں مغل پورہ انجینئرنگ کالج جو اب انجینئرنگ یونی ورسٹی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وقت اس کالج کا پرنسپل وٹیکر تھا‘ جس نے کالج کے ایک پروفیسر صدیقی کو برطرف کر دیا۔ ۱۳؍مئی ۱۹۳۱ء کو کالج کے مسلمان طلبہ نے پرنسپل سے ملاقات کی۔ دورانِ ملاقات پرنسپل نے مسلمانوں کے خلاف بہت باتیں کیں چنانچہ مسلمان طلبہ نے پرنسپل کے خلاف سٹرائک کر دی جو کل صوبہ تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی‘ جس کے سامنے دوسرے اشخاص کے علاوہ اقبالؔ نے بھی شہادت دی۔ مآخذ: محمد رفیق افضل :’’گفتارِ اقبالؔ‘‘ ص:۱۲۲۔۱۲۵ (۵۶) ۲۳؍جولائیi؎ ڈیرمہرصاحب! السلام علیکم۔ مجھ کو بھی شعیب صاحب۱؎ کا تار آیا تھا جس کا جواب میں نے ان کو دے دیا تھا۔ ان شاء اللہ ۲۷؍کو یہاں کشمیر کے معاملات کے متعلق مشورت ہو گی۔ لاہور سے ان شاء اللہ بھوپال چلیں گے۔ والسلام چودھری i؎ صاحبii؎سے سلام کہیے۔ نیز سالک صاحب سے محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ انوار= شملہ ۲۳؍جولائی ۔ii؎ انوار=چودھری سے …صابرکلوروی صاحب نے خط کا سنہ ۱۹۳۱ء متعین کیا ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ ۱۰؍جولائی ۱۹۳۱ء کا خط بھی اسی سلسلے میں ہے۔ کشمیر کے متعلق مشورت بھی ۱۹۳۱ء ہی میں شملہ میں ہوئی تھی۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ محمد شعیب قریشی علی گڑھ کے رہنے والے تھے۔ علی گڑھ یونی ورسٹی سے بی۔اے کیا پھر آکسفورڈ یونی ورسٹی میں بھی تعلیم پائی اور لندن سے بار ایٹ لا کیا۔ سیاسی تحریکوں میں شریک ہوئے۔ ۱۹۱۲ء میں سلسلہ جنگ بلقان ڈاکٹر انصاری کے طبی مشن میں شریک ہو کر ترکی گئے۔ لندن میں بیرسٹری کی تعلیم کے دوران میں ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کی ادارت میں شریک رہے۔ ۱۹۱۷ء میں انگریزی ہفتہ وار’’New Era‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ احمد آباد میں گاندھی جی کی غیر موجودگی میں ان کے شہرٔ آفاق ہفتہ وار ینگ انڈیا(Young India)کو بھی چلاتے رہے۔ جیل بھی گئے اور مدت تک خلافت کمیٹی کے سکریٹری رہے۔ ۱۹۲۴ء میں جب مشہور وفدِ خلافت حجاز گیا تو اس کے بھی سکریٹری تھے اور جب دوسرا وفد مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں گیا تو اس میں بھی شامل تھے۔ کانگریس میں بھی بہت مقبول تھے اور جواہرلال نہرو کے دوستوں میں سے تھے۔ جب نہرو رپورٹ شائع ہوئی تو اس سے اختلاف کی وجہ سے کانگریس سے علیحدہ ہو گئے۔ بعد میں نواب حمید اللہ خاں والیِ بھوپال کے پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ پھر ریاست بھوپال میں وزیر اور مشیر المہام روبکاری خاص کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اقبالؔ سے بہت اچھے مراسم تھے۔ اقبالؔ جب کبھی بھوپال جاتے تو استقبال اور پذیرائی میں شعیب قریشی پیش پیش رہتے۔ زندگی کا آخری حصہ گوشہ نشینی میں بسر کیا۔ ۲۵؍فروری ۱۹۶۲ء کو انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر:’’معاصرین اقبال‘‘، ص:۴۲۵‘۴۲۶ ۲) صہبا لکھنوی: ’’اقبال اور بھوپال (طبع دوم)‘‘،ص:۱۹۸۲ء ۳) عبدالقوی دسنوی: ’’اقبال اور دارالاقبال بھوپال‘‘، ۱۹۸۳ء ۴) اخلاق اثر‘ ڈاکٹر: ’’اقبال نامے‘‘، ۱۹۸۱ء ۵) رئیس احمد جعفری: ’’دیدوشنید‘‘،ص:۱۶۳‘۱۶۴ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۴۰ تعلیقہ نمبر ۱۲ (۵۷) ۱۶؍اگست ۳۱ء ڈیرمہر صاحب! السلام علیکم۔ آپ کے اخبار میں یہ شائع ہوا ہے کہ جموں کے حوادث۱؎ کے متعلق جو پرسوں رونما ہوئے تمام فوٹو لے لیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سری نگر میں جو آتش بازی ہوئی اس کے فوٹو بھی میں نے سنا ہے موجود ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنے کسی دوست یا نامہ نگار کے معرفت تمام مذکورہ بالا فوٹو حاصل کر سکیںi؎ ۔ یہ کام بڑا ضروری اور مفید ہے۔ اس کے لیے فوراً کوشش شروع کیجئے اور مرے انگلستان روانہ ہونے سے پہلے سب کو حاصل کر لیجئے۲؎ ۔ آپ کا جہاز مکتوب۳؎ ہو چکا یا نہیں؟ چودھری صاحب تو رہ گئے۔ والسلام محمدؐاقبال تحقیق متن: i؎ انوار=حاصل کریں گے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ کشمیر میں ۱۹۳۱ء میں کافی بے چینی پھیل گئی تھی۔ ویسے تو کشمیر میں ریاستی نظم و نسق کی خرابی اور مسلمانوں کی زبوں حالی کے باعث پہلے ہی سے ہیجان موجود تھا۔ دسمبر ۱۹۳۰ء میں آل انڈیا کشمیر مسلم کانفرنس کاایک اجلاس لاہور میں منعقد ہوا تھا‘ جس میں حکومتِ کشمیر کے نظم و نسق پر شدید نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اس کے کچھ دنوں بعد دو اہم واقعات پیش آئے۔ ایک واقعہ تو یہ تھا کہ مسلمان ایک جگہ نماز کے لیے جمع ہوئے تھے اور امام خطبہ پڑھنے والا تھا کہ ایک سب انسپکٹر پولیس نے‘ جو ہندو تھا‘ امام کو خطبہ پڑھنے سے روک دیا۔ اس پرمسلمانوں نے سخت احتجاج کیا۔ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ جموں سنٹرل جیل میں ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی۔ اس پر ایک شخص عبدالعزیز نامی نے اشتعال انگیز تقریر کی۔ پولیس نے عبدالعزیز کو گرفتار کر لیا اور عدالت میں پیش کیا‘ مقدمہ کی سماعت ہوئی لیکن وہاں بھی مسلمانوں کاایک کثیر مجمع جمع ہو گیا۔ اس ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی‘ جس میں دس اشخاص ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ ۱۲؍جولائی ۱۹۳۱ء کو پیش آیا۔ ان کے واقعات کے بعد کشمیر کے مختلف مقامات پر مسلمانوں نے مظاہرے کرنے شروع کیے اور پولیس نے ان مظاہروں کوسختی سے دبانا چاہا ان مظاہروں نے فرقہ وارانہ فساد کی شکل اختیار کر لی۔ ستمبر۱۹۳۱ء میں پوری وادیٔ کشمیر میں سخت فسادات ہوئے۔ نومبر میں فسادات کی یہ آگ جموں تک پہنچ گئی۔ اقبالؔ کے خط میں انھی واقعات کی تصویروں کا ذکر ہے۔ مآخذ: ۱) محمداحمد خان: ’’اقبالؔ کا سیاسی کارنامہ‘‘، ص:۴۱۵۔۴۲۳ ۲؎ اقبالؔ دوسری گول میز کانفرنس (دسمبر ۱۹۳۱ئ) میں شرکت کے لیے لندن جارہے تھے۔ مآخذ: ۱) محمداحمد خان: ’’اقبالؔ کا سیاسی کارنامہ‘‘، ص:۲۸۱۔۲۸۹ ۲) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رود۔ حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘،ص:۱۶۶ ۳؎ چونکہ میں (مہرؔ) لندن جارہا تھا‘ اس لیے مرحوم نے استفسار فرمایا کہ جہاز میں نشست کا بندوبست کر لیا ہے یا نہیں۔ مآخذ: ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اوّل،ص:۳۱۱ (۵۸) ۳۰؍جنوری ۳۲ء ڈیرمہرصاحب السلام علیکم۔ میں تو دہلی کے لیے تیار تھا اور اب علی بخش۱؎ بستر وغیرہ بھی باندھ چکا تھا۔ خیال تھا کہ گوٹ۲؎ کی تکلیف جو مجھے گزشتہ رات ہو گئی تھی آج شام تک رفع ہو جائے گی۔ میں نے اس کا علاج بھی کیا مگر اب گرگابی پہنی تو تکلیف بڑھ گئی۔ اس واسطے میں دہلی نہ جا سکوں گا۔ میرطرف سے ورکنگ کمیٹی۳؎کی خدمت میں اور نیز سیٹھ صاحب۴؎ کی خدمت میں معذرت کر i؎ دیجئے والسلام والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ انوار=کہہ حواشی و تعلیقات ۱؎ علی بخش‘ اقبالؔ کے پاس اس وقت ملازم ہوا جب اقبالؔ گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ علی بخش موضع اٹل گڑھ ضلع ہوشیارپور سے اپنے کسی رشتہ دار کے پاس ملازمت کی تلاش میں آیا اور چند دن بعد اسے مولوی حاکم علی کے ہاں ملازمت مل گئی۔ ابھی اس ملازمت پر اسے دو تین ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن مولوی حاکم علی نے ایک خط علی بخش کے ہاتھ اقبالؔ کو بھیجا۔ اقبالؔ نے علی بخش کو دیکھا تو اس سے کہا کہ تم ہماری نوکری کر لو۔ علی بخش نے اقبالؔ کے اصرار پر اپنے کسی عزیز کوبلوا کر مولوی حاکم علی کے پاس رکھوا دیا اور خود اقبالؔ کے ہاں ملازم ہو گیا۔ وسط ۱۹۰۵ء میں جب اقبال انگلستان جانے لگے تو علی بخش کو اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس ہنگو (کوہاٹ) بھیج دیا۔ لیکن وہاں اس کا دل نہ لگا اور وہ لاہور واپس آگیا۔ پہلے اسلامیہ کالج اور پھر مشن کالج میں نوکر ہو گیا۔ ۱۹۰۸ء میں انگلستان سے اقبالؔ کی واپسی پر علی بخش نوکری چھوڑ کر دوبارہ ان کے پاس آگیا اور ان کے پاس آخری دم تک رہا۔ علی بخش کی وفات ۲؍جنوری ۱۹۶۹ء کو فیصل آباد میں ہوئی۔ مآخذ: ۱) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر‘ ’’زندہ رود (حیات اقبال کا تشکیلی دور)‘‘،ص:۹۲ ۲) محمد عبداللہ چغتائی‘ ڈاکٹر:’’اقبال کی صحبت میں‘‘ ص:۴۵۱۔۴۵۵ ۳) صابرکلوروی:’’اقبال کے ہم نشیں‘‘،ص:۷۲ ۴) محمد صدیق: ’’مولوی حاکم علی اور اقبال‘‘،۳۵‘۳۶‘۱۴۷ ۲؎ گوٹ (Gout) نقرس: جوڑوں کا ورم‘ خون میں یورک ترشے کی افزائش اور جوڑوں کے اردگرد سوڈیم یوریٹ کی قلموں کے مطروحات اس مرض کی خصوصیات ہیں۔ علاّمہ اقبال کو نقرس کی شکایت کبھی کبھی ہو جاتی تھی اور جب اقبالؔ کے گلے کی بیماری کا سلسلہ (۱۰؍جنوری ۱۹۳۴ئ) شروع ہوا تو بعض ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ نقرس کااثر بھی آواز پر ہو سکتا ہے۔ مآخذ: ۱) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر: ملفوظاتِ اقبالؔ مع حواشی و تعلیقات‘‘، ص:۳۰۳۔۳۰۵ ۲) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رود۔ حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘،ص:۵۳۶ ۳؎ اس زمانے میں آل انڈیا مسلم کانفرنس اسلامی حقوق کے متعلق ضروری تحریکات کی سب سے بڑی کفیل تھی۔ اقبالؔ پہلے اس مجلس عاملہ کے رکن تھے‘ پھر صدر بن گئے تھے۔ اس کے اجلاس میں شرکت کے لیے وقتاً فوقتاً دہلی جایا کرتے تھے۔ مہر صاحب بھی مجلس عامہ کے رکن اور اقبالؔ کے ہمراہ دہلی جانے والے تھے۔ مآخذ: ۱) محمد حمزہ فاروقی:’’اقبال کا سیاسی سفر‘‘ص:۴۱۹۔۴۳۳ ۲) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رود۔ حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘،ص:۱۸۹ ۴؎ سیٹھ صاحب سے مراد سیٹھ عبداللہ ہارون ہیں‘ جنھوں نے اقبالؔ کو اجلاس میں شریک ہونے کی تاکید کی تھی۔ سرعبداللہ ہارون۱۸۷۲ء کے لگ بھگ کراچی میں پیدا ہوئے۔ تحریک خلافت میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ اسی زمانے میں اقبالؔ سے ملاقات ہوئی اور خیالات و نظریات کی ہم آہنگی کی بنا پر ان سے زیادہ قریب ہوگئے۔ ۳۲۔۱۹۳۱ء میں اقبالؔ نے پنجاب ‘سندھ‘ سرحد اور بلوچستان کے مسلمانوں کے ایما پر اَپر انڈیا مسلم کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو سرعبداللہ ہارون نے اسے اپنے حلقۂ اثر میں کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ گو اس کانفرنس کاانعقاد نہ ہوا۔ ۱۹۳۱ء میں اقبالؔ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن جا رہے تھے تو انھوں نے لاہور اسٹیشن پران سے ملاقات کی۔ انھوں نے اقبالؔ سے کہا کہ وہ اپنے اس مؤقف پر سختی سے ڈٹے رہیں جو انھوں نے خطبۂ الٰہ آباد میں پیش کیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ کانفرنس مسلم مندوبین کی اختلاف رائے کا شکار ہو گئی۔ سیٹھ عبداللہ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے بھی سرگرم رکن رہے مسلم لیگ کی مالی مدد میںہمیشہ پیش پیش رہے۔ ۱۹۴۲ء میں انتقال ہوا۔ مآخذ: ۳) "Muslims in India: A Biographical Dictionary Vol: I" P:28,29 (۵۹) ڈیرمہر صاحب! i؎ انوار=۲۹ حواشی و تعلیقات ۱؎ جاوید: علاّمہ اقبالؔ کے صاحبزادے۔ ۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ لاہورکے مختلف سکولوں میں تعلیم پائی۔ ۱۹۴۰ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ جہاں سے پہلے انگریزی اور پھر فلسفہ میں ایم۔اے(۱۹۴۸ئ) کیا اور گولڈمیڈل حاصل کیا۔ ستمبر ۱۹۴۹ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے‘ جہاں ۱۹۵۴ء میں The development of Muslim Pliticial Philosphy کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی۔ ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے لندن میں بیرسٹرایٹ لاء کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ستمبر ۹۱۹۵۶ میں پاکستان واپس آئے۔ وکالت کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کے لا کالج میں ۱۹۵۷ء سے ۱۹۷۰ء تک لیکچرر اور ریڈر رہے۔ ۱۹۷۰ء میں کونسل مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور قومی اسمبلی کا الیکشن بمقابلہ ذوالفقار علی بھٹو لڑا مگر ناکام رہے۔ جولائی ۱۹۷۱ء میں لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور ۱۹۸۶ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ آخری چار سال چیف جسٹس رہے۔ ۱۹۸۶ء سے ۱۹۸۹ء تک سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبالؔ نے اپنے والدِ بزرگوار کی سوانح حیات ’’زندہ رود‘‘ کے نام سے تین جلدوں میں مرتب کی ہے۔ مآخذ: ۱) تنویر ظہور (مرتب): ’’یادیں‘‘ ۲) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رود۔ حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘،ص:۱۹۱ ۳) سعشہ خان: ’’ڈاکٹر جسٹس(ریٹائرڈ) جاوید اقبال شخصیت اورادبی خدمات‘‘، ص:۷۔۲۷ ۲؎ ’’ہزہائی نس‘‘ سے مراد اعلیٰ حضرت نواب حمیداللہ خان بہادر والیِ بھوپال ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں نے جو تحریک شروع کررکھی تھی اس میں ایک موقع پر مہاراجا ہری سنگھ والیِ کشمیر کی خواہش کے مطابق اعلیٰ حضرت بھوپال مصالحت کرا دینے پرآمادہ ہوئے تھے۔ اس ضمن میں انھوں نے اقبالؔ کی وساطت سے گفتگو شروع کی تھی۔ چنانچہ اقبالؔ دو مرتبہ بھوپال تشریف لے گئے۔ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت دہلی آئے تو اقبالؔ کواسی گفتگو کے لیے دہلی بلایا لیکن اقبال’’جاوید‘‘ کی علالت کے باعث نہ جا سکے۔ بعدازاں علاج کے سلسلے میں تین مرتبہ بھوپال گئے۔ نواب بھوپال (حمیداللہ خان) ۹؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۰ء میں ایم۔اے۔او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے جہاں سے ۱۹۱۱ء میں میٹرک اور ۱۹۱۵ء میںبی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۱۵ء میں بھوپال میونسپل بورڈ کے صدر‘ ۱۹۱۶ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ٹرسٹی بھی رہے۔ ۹؍جون ۱۹۲۶ء کو ان کی والدہ حضرت علیا سلطان جہاں بیگم ان کے حق میں دستبردار ہو گئیں اور وہ سریرآرائے ریاست ہوئے۔ لندن میں منعقدہ دو گول میز کانفرنسوں (۱۹۳۱ئ۔۱۹۳۲ئ) کے مندوبین میں سے تھے۔ نواب صاحب نے اپنے دورِ حکمرانی میں جدیدتقاضوں کے مطابق آئینی اصلاحات کیں۔ تعلیمی معاملات میں پوری دلچسپی لی۔ ۱۹۴۶ء میں بھوپال میں حمیدیہ ڈگری کالج قائم کیا۔ نواب صاحب نے ۴؍فروری ۱۹۶۰ء کو بھوپال میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رود…حیاتِ اقبالؔ کا اختتامی دور‘‘،ص:۱۹۰۔۱۹۱ ۲) صہبا لکھنوی: ’’اقبال اور بھوپال‘‘،ص:۷۷۔۸۸ ۳) افتخار احمد صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’فروغِ اقبالؔ‘‘،ص:۳۷۹۔۴۰۹ (۶۰) ڈیئرمہرصاحب السلام علیکم۔ گزشتہ رات پنڈت موتی لال نہرو۱؎ کا ایک تار مرے نام آیا تھا جس کا مقصود یہ تھا کہ میں اس بیان۲؎ پر دستخط کروں جو دہلی سے شائع ہوا ہے اور جو آج کے ’’انقلاب‘‘ میں بھی شائع ہوا ہے۔ اس کے جواب میں مندرجہ ذیل تار دیا گیا ہے۔ Committed to joint statement already issued from Lahore. Sorry cannot now sign another statement. Another ؎i uninty conference essential. ۱۷؍اگست۱۹۳۲ء Sd.Md. Iqbal ؎ii تحقیق متن:یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر‘ جلد اوّل‘ ص:۳۱۲ میں شامل ہے۔ اس کاعکس اقبال میوزیم میں ہے۔ i؎ موتی لال نہرو‘ پنڈت:(۱۸۶۱ئ۔۶؍فروری۱۹۳۰ئ) کانگریس کا ممتاز رہنما‘ اصل وطن کشمیر تھا۔ باپ دادا دہلی میں نہر کے کنارے رہتے تھے۔ اس لیے اس خاندان کا لقب نہروپڑا۔ موتی لال نہرو نے وکالت پاس کر کے اِلٰہ آباد میں پریکٹس شروع کی۔ ۱۹۱۷ء میں ہوم رول لیگ کی تحریک کا ساتھ دیا‘ پھر ترکِ موالات کرتے ہوئے وکالت چھوڑ دی اور کھدر پہننا شروع کر دیا۔ ۱۹۲۳ء میں سوراج پارٹی کی بنیاد رکھی اور مرکزی اسمبلی میں کئی سال تک پارٹی کی قیادت کی۔ ۱۹۲۸ء میں کانگریس کی مقرر کردہ کمیٹی نے نہرو رپورٹ شائع کی تو مسلمانوں نے بہ حیثیت ملت و قوم شدیداختلاف کیا۔ آخری دور میں اپنی شاندار کوٹھی (آنند بھون) قوم کے حوالے کر دی۔ مآخذ: ۱) اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا (جلد دوم) مدیراعلیٰ مولانا حامد علی خان۔ ۲؎ ۱۶؍اگست ۱۹۳۲ء کو حکومتِ برطانیہ نے فرقہ ورانہ فیصلے کے اعلان کیاجو ہندوؤں کے لیے ناقابل قبول تھا۔ چنانچہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوششیں پھرسے شروع ہوئیں لیکن یہ کوششیں مسلمانوں کے متحدہ محاذ کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوئیں۔ مآخذ محمد حمزہ فاروقی: ’’اقبالؔ کا سیاسی سفر‘‘ ص:۴۷۱ (۶۱) بنام مختار احمدi؎ Queen Anne's Mansions St. James Park, London SWI ؎ii ۲۹؍دسمبر ۳۲ء لندن برخوردار مختار و جاوید کو بعددعا کے واضح ہو کہ ا س سے پہلے میں نے جو خطوط اپنے بمبئی پہنچنے کی تاریخ کے متعلق چودھری صاحب یا منشی طاہر دین۱ یا کسی اورکو لکھے ہیں ان سب کو منسوخ تصور کیجیے۔ پہلے ارادہ یہی تھا مگر بعد میں دیکھا تو جہازوں کی روانگی کی موزوں تاریخیں نہ ملیں۔ اس واسطے اب میں ہسپانیہ ‘ جرمنی اور آسٹریا ہوتا ہوا ۱۰؍فروری ۳۳ء کو وینس سے بمبئی کے لیے جہاز لوں گا۔ اس جہاز کا نام ’’کانٹے وردی‘‘ ہے اور یہ بمبئی ۲۲؍فروری کی صبح کو پہنچے گا۔ باقی خطوط کے متعلق اور علی بخش۲؎ کے متعلق چودھری صاحب کے خط میں ہدایات لکھ چکا ہوں۔ علی بخش ایک آدھ روز پہلے بمبئی پہنچ جائے اور میرا بستر ہمراہ لائے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ جاوید اور منیرہ۳؎ کو دعا۔ سب کو سلام والسلام محمداقبالؔ اس خط کے مضمون سے چودھری صاحب اور منشی طاہر دین کو مطلع کر دینا۴؎ ۔ تحقیق متن: i؎ صابرکلوروی صاحب کے مطابق زیرِ نظر خط غلام رسول مہرؔ کے نام نہیں بلکہ اقبالؔ کے برادرزادے مختار احمد کے نام ہے۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۱۴۰) ii؎ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق اصل خط اقبال میوزیم میں محفوظ ہے۔ اس کی پیشانی پر لندن کی رہائش گاہ کا پتا بھی درج ہے۔ (’’تصانیفِ اقبال‘‘،ص:۲۴۳) حواشی و تعلیقات ۱؎ منشی طاہر دین‘ علاّمہ اقبالؔ کے منشی تھے۔ اقبالؔ کی کتابوں کی اشاعت اور رائلٹی کے معاملات بھی طے کرتے۔ اقبالؔ نے انھیں اپنے بچوں کا گارڈین مقرر کیا تھا۔ منشی صاحب نے ’’دِل روز‘‘ کے نام سے ایک دوا ایجاد کی تھی‘ جو زہریلے جانوروں کے کاٹے کا مؤثر علاج تھا۔ آپ نے ۳۰؍اپریل ۱۹۴۰ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) "Iqbal as I knew him",P:33,34 ۲) محمد اسلم پروفیسر: خفتگانِ خاک لاہور‘ ص:۴۱۹ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۵۸ تعلیقہ نمبر ۱ ۳؎ علاّمہ اقبال کی صاحبزادی۔ مسلم گرلز ہائی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ اقبال انھیں ’’بے بی‘‘ اور ’’بانو‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ ڈورس احمد کے مشورے سے بعدازاں کنیئرڈ اسکول میں داخل کیا گیا۔ مآخذ: "Iqbal as I knew him",P:21-28 ۴؎ اقبالؔ نے یہ خط لندن سے اس وقت لکھا تھا جب وہ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کر کے واپس آنے والے تھے۔ تیسری گول میز کانفرنس ۱۷؍نومبر کوشروع ہوئی اور ۲۴؍دسمبر کو ختم ہو گئی۔ (۶۲) غلام رسول مہر HOTEL LULETIA 43-Boulevard Raspail Square Dubon Marche PARIS.؎i یکم فروری ۳۳ئii؎ ڈیرمہرصاحب۔ السلام علیکم۔ کل ’’انقلاب‘‘ کے بہت سے نمبر اقبالؔ شیدائی صاحب۱؎ سے مل گئے جن کو پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔۲۶؍جنوری کو ہسپانیہ کے سفر سے واپس آیا۔ اب ۱۰؍فروری کووینس سے اطالی جہاز ’کانٹے وردی‘ پر سوار ہو کر ۲۲؍صبح کو ان شاء اللہ العزیز بمبئی پہنچ جاؤں گا۔ ہسپانیہ میں جو کچھ دیکھا ایک خط کے ظرفِ تنگ میں کیوں کر سما سکتا ہے!۲؎اُمید ہے آپ کا مزاج بخیروعافیت ہو گا۔ چودھری محمدحسین صاحب کی خدمت میں سلام عرض کیجئے اور گھر میں بھی خیر iii؎ خیریت بھیج دیجیے۔ خان صاحب ذکاء الدین ۳؎ کی وفات کی خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ خدا تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے۔ ان کے اعزہ تک میری طرف سے تعزیت پہنچایے۔ مجھے ان میں سے کسی کا ایڈریس معلوم نہیں۔ سالک صاحب کس رنگ میں ہیں؟ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ انوار میں یہ پتا درج نہیں ہے۔جبکہ عکس میں موجود ہے۔ ii؎ عکس میں یکم فروری ۳۲ء ہے جو صحیح نہیں ہے۔iii؎ انوار=خبر حواشی و تعلیقات ۱؎ محمد اقبالؔ شیدائی‘ سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں ’’پورہ ہمیراں‘‘ میں ۱۸۸۸ء میں پیدا ہوئے۔ شیدائی‘ اقبالؔ کے ہم مدرسہ تھے۔ ۱۹۱۴ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۱۷ء میں بی۔اے کیا۔ طالبعلمی ہی کے زمانے میں انھوں نے سیاست میں دل چسپی لینی شروع کر دی اور اس زمانے میں ان کا تعارف مولانا شوکت علی اور میاں سر محمدشفیع سے ہوا۔ مولانا شوکت علی کی تحریک ہی پر شیدائی ’’انجمن خدام کعبہ‘‘ کے رکن بنے۔ کعبہ شریف کے شیدائی ہونے کی وجہ سے انھیں ’’شیدائی‘‘ کا لقب ملا… شیدائی جولائی ۱۹۲۰ء میں کابل پہنچ گئے۔ مولانا سندھی نے انھیں ’’عبوری حکومتِ ہند‘‘ میں جنگ اور مواصلات کے محکموں کا نائب وزیر مقرر کیا۔ ۱۹۳۶ء میں شیدائی نے ایک فرانسیسی طالبہ شارلوت سے شادی کر لی اور اس کا اسلامی نام بلقیس رکھا۔ جب اقبالؔ پیرس پہنچے تو شیدائی اور ان کی بیگم نے ان کی ہر طرح سے خاطر مدارات کی۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے قبل ہی سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر شیدائی کو فرانس سے نکل جانے کا حکم ملا۔ انھوں نے سوئزرلینڈ میں رہنا چاہا لیکن کچھ عرصے بھی وہاںسے بھی نکالے گئے۔ اٹلی پہنچ کر وہ ریڈیو میں ملازم ہو گئے اور انگریزوں کے خلاف اُردو پروگرام نشر کرنا شروع کیا۔ ۱۹۴۷ء کے آغاز پر پنڈت جواہر لال نہرو کی سفارش پر برطانوی حکومت نے انھیں ہندوستان آنے کی اجازت دے دی۔ وہ اٹلی سے دہلی پہنچے۔ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد اپنے وطن سیالکوٹ آئے اور اکتوبر ۱۹۴۷ء میں کراچی پہنچے۔ ایک بار اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمایندگی بھی کی۔ اسکندر مرز ان کے بہت مخالف تھے۔ اسکندر مرزا نے گورنر جنرل ہوتے ہی ان کو گرفتار کرنا چاہا‘ جس کی اطلاع انھیں بھی مل گئی اور وہ ایک بار پھر اٹلی چلے گئے۔ اٹلی کے دورانِ قیام انھیں TURNIN یونی ورسٹی میں اردو پڑھانے کا کام مل گیا۔ اگست ۱۹۶۵ء میں شیدائی پاکستان لوٹ آئے اور سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ لاہور میں عارضۂ قلب میں مبتلا ہو کر ۱۳؍جنوری ۱۹۷۴ء کوانتقال کر گئے۔ مآخذ: ۱) عبدالرؤف عروج‘ ’’رجالِ اقبال‘‘،ص:۸۸‘۸۹ ۲) مظفرحسین برنی (مرتب) ’’کلیاتِ مکاتیب‘ سوم‘‘ ص:۷۴۱۔۷۴۳ ۲؎ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے اقبالؔ کو مسلمانانِ ہند کا نمایندہ منتخب کیا گیا تو انھوں نے ہسپانیہ کی سیاحت کا پرگرام بھی بنایا۔ ہسپانیہ کی سیاحت سے متعلق اپنے تاثرات کاذکر کرتے ہوئے شیخ محمداکرام کے نام اپنے خط محررہ ۲۷؍مراچ ۱۹۳۳ء میں لکھا: ’’میںاپنی سیاحتِ اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجدِ قرطبہ پر لکھی جو کسی وقت شائع ہو گی۔ الحمرا کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہ ہوا۔ لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی‘‘۔(اقبالنامہ‘‘ دو‘ص: ۲۳۱‘۳۲۲) مآخذ: ۱) جاویداقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رود ۔ حیات اقبال کااختتامی دور‘‘ ص:۲۱۵۔۲۲۰ ۲) افتخاراحمد صدیقی‘ ڈاکٹر‘’’فروغِ اقبال‘‘ص:۳۶۶۔۳۷۳ ۳؎ خان ذکاء الدین بستی دانش منداں‘ جالندھر کے رہنے والے‘ اقبالؔ کے عزیز دوستوں میں سے تھے۔ (۶۳) ۲۱؍مارچ۳۳ء ڈیرمہر صاحب! عطیہ بیگم صاحبہ ۱؎ کا خط بمبئی سے آیا ہے جس میں آپ کے نام بھی ایک پیغام ہے اور وہ یہ کہ انھوں نے جو تراشے آپ کو تعلیم نسواں اسلام کے متعلق ۲سال ہوئے دیے تھے یا بھیجے تھے وہ واپس ارسال کر دیے جائیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ میں نے متعدد خطوط لکھے مگرآپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ مجھے امید ہے کہ آپ ان کے تراشے ان کی خدمت میں واپس ارسال کر دیں گے۔ والسلام محمدؐاقبال لاہور حواشی و تعلیقات ۱؎ عطیہ بیگم (۱۸۸۲ئ۔۱۹۶۷ئ) حسن علی آفندی کی صاحبزادی تھیں۔ قیامِ انگلستان میں اقبالؔ کی ان سے ملاقات ہوئی۔ اقبالؔ نے اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ انھیں پڑھ کر سنایا۔ عطیہ قیامِ انگلستان کے زمانے میں اپنا روزنامچہ لکھتی جاتی تھیں‘ اس کی مدد سے انھوں نے اکیڈمی آف اسلام کی طرف سے ’’اقبالؔ‘‘ کے زیرِ عنوان ایک مقالہ انگریزی زبان میں شائع کیا‘ جس میں اقبالؔ کے خطوط اور غیر مطبوعہ اشعار بھی شامل ہیں۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی (مرتب): ’’حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘ص:۲۲۵‘۲۲۶ ۲) محمد عبداللہ چغتائی: ’’اقبال کی صحبت میں‘‘ ص:۵۰۔۴۶ ۳) افتخار احمد صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’عروجِ اقبال‘‘ ص:۳۱۹۔۳۴۰ ۴) نصراللہ خان:’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ ص:۱۱۵۔۱۱۹ ۵) ماہر القادری (مرتب): ’’یاد رفتگاں (حصہ دوم)‘‘ ص:۱۴۰۔۱۴۸ (۶۴) ۱۹۳۳ئi؎ ڈیرمہر صاحب۔ کل مع الخیر میڈرڈ پہنچے۔ یہاں سے قرطبہ‘ غرناطہ وغیرہ جائیں گے۱؎ ۔۲؍فروری تک وینسؔ پہنچنا ہے۔ آج یہاں کے وزیر تعلیم سے ملاقات ہوئی اور پروفیسر آسن۲؎ سے جنھوں نے دانتے کی ڈواین کامیڈی اور اسلام پر کتاب لکھی ہے۔ صدر جمہوریہ سے غالباً ملاقات ہو گی۔ امید ہے سب طرح خیریت ہو گی۔ چودھری صاحب سے مضمون واحد محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ صابر کلوروی صاحب نے زیرِ نظر خط کی تاریخِ تحریر جنوری ۱۹۳۳ء متعین کی ہے۔ (اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۱۰۳) اور یہی درست ہے کیونکہ اقبال نے تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے بعد تحریر کیا۔ حواشی وتعلیقات ۱؎ اقبالؔ ۵؍یا ۶؍جنوری ۱۹۳۳ء کو پیرس سے میڈرڈ پہنچے۔ قرطبہ اورغرناطہ میں دس بارہ دن رہے اور ۲۶؍جنوری کو پیرس واپس آگئے۔ پس اسپین میں ان کا قیام تقریباً تین ہفتوں کا تھا۔ (مآخذ: زندہ رود۔ سوم‘ ص: ۴۹۷) ۲؎ میڈرڈ میں اقبال کے میزبان دراصل پروفیسر آسین پیلاکیوس تھے اور انھوں نے اقبالؔ کو قیامِ لندن کے دوران میں میڈرڈ آکر یونی ورسٹی میں لیکچر دینے کی دعوت دی تھی۔ چنانچہ ۲۴؍جنوری ۱۹۳۳ء کو اقبالؔ نے ’’اسپین اور فلسفہ اسلام‘‘ کے موضوع پر میڈرڈ یونی ورسٹی کی نئی عمارت میں لیکچر دیا۔ اجلاس کی صدارت پروفیسر آسین پیلا کیوس نے کی اور انھوں نے ہی اقبالؔ کا تعارف حاضرینِ جلسہ سے کرایا۔ اجلاس کی روائیداد میڈرڈ کے اخبار الدیبیت میں شائع ہوئی۔ مآخذ: جاویداقبال‘ ڈاکٹر‘ ’’زندہ رود… سوم‘‘ ص:۵۵۴ ۳؎ Dante Alighieri ۱۲۶۵ء میں فلارنس (اٹلی) میں پیدا ہوا اور ۵۶سال کی عمر میں (۱۳۲۱ئ) امیونیا میں فوت ہوا۔ اس نے مقامی درس گاہوں کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک میں تعلیم حاصل کی۔ وہ ادب و شعر اورفنونِ لطیفہ پر بے نظیر دسترس رکھتا تھا۔ جوانی میں اس نے سیاست میں بھی حصہ لیا مگر پوپ اور بادشاہ کی مخالفت نے ۱۳۰۳ء میں اسے جلاوطن کروا دیا۔ ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ اس نے جلاوطنی میں ہی لکھی۔ دانتے نوجوانی میں ’’بیترس‘‘ نام کی ایک ہم عمر لڑکی کاعاشق ہوا۔ گو اسے اس نے دوبار ہی دیکھا تھا مگر اس کی یاد تازہ کرنے کے لیے دانتے نے ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کا شاہکار لکھا‘ جس میں اندرونِ بہشت یہی محبوبہ اس کی رہنما بنی۔ ’’ڈیوائن کا میڈی‘‘ میں بہشت کے سوا دیگر جگہوں پراس کا راہنمائے راہ ورجل ہے جو کہ لاطینی زبان کا عظیم شاعررہا ہے۔ ورجلؔ‘ دانتےؔ کا ایسے ہی مرشد ہے جیسے اقبالؔ کا رومیؔ… ’’جاوید نامہ‘‘ (۱۹۳۲) کے لکھنے کی تحریک ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ہی سے ہوئی۔ مگر دانتے کو حیات بعد الموت سے زیادہ دلچسپی ہے جبکہ اقبالؔ کواس حیات کے ابدی بنانے سے…’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ میں منظر نگاری زیادہ ہے اور ’’جاوید نامہ‘‘ میں حقائق نگاری کا بحرِ موّاج دکھائی دیتا ہے۔ مآخذ: 1."The New Encyclopaedia Britannica Vol:3", 1768, P:878 ۲) ماہ نو‘ اقبال نمبر ۱۹۷۷ء ،ص:۳۳ ۳) محمد ریاض ڈاکٹر:’’جاوید نامہ‘ تحقیق و توضیح‘‘ ص:۴۰۔۴۱ (۶۵) ۱۹۳۳ئi؎ ڈیرمہر صاحب یہ اس خط کی نقل ہے جو مسٹر آصف علی۱؎ بیرسٹر دہلی نے ان حضرات کے نام لکھاتھا جن کے دستخط احیائے ii؎مسلم لیگ والی مینو فیسٹو پر تھے۔ آپ کے ملاحظہ کے لیے ارسال کرتا ہوں۔ ’’ہمدم‘‘ کا لیڈر اور مفتیِ اعظم۲؎کے متعلق جو نوٹ ہے وہ بھی پڑھ لیجئے۔ اس کے علاوہ اقبالؔ شیدائی۳؎کا خط پیرس سے آیا ہے۔ وہ آپ سے متوقع ہے کہ ساہوکاروں اور سودکے متعلق چند مضامین لکھیں جو عام ہوں۔ ان میں پنجاب کے مسلمانوں کے قرضے کا بھی عام طور پر ذکر ہو۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ایسے مضامین مسلمانوں کے متعلق ہمدردی پیدا کرنے میں ممدومعاون ہوں گے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ صابر کلوروی صاحب کے مطابق زیرِنظر خط مارچ ۱۹۳۳ء اور جون ۱۹۳۳ء کے درمیان لکھا گیا ہے۔ii؎ انوار =آج تک۔ یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول‘ ص: ۳۱۴ میں شامل ہے۔ ’’انوار‘‘کا متن نقوش کے مطابق مرتب کیا گیا ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ روزنامہ ’’الامان‘‘ (دہلی) کے مولوی مظہرالدین نے ایک خط اقبالؔ کے نام بھیجا تھا‘ جس کے ساتھ مسٹر آصف علی بیرسٹر کے ایک انگریزی خط کی نقل منسلک تھی۔ مسٹر آصف علی نے اپنے خط میں اپیل کی تھی کہ مسلم لیگ کوعوامی جماعت بنانے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے۔ یہ اس دور کا ذکر ہے جب لیگ کی حالت خراب ہو چکی تھی اورقائداعظمؒ انگلستان میں مقیم تھے۔ بیرسٹر آصف علی نے اسٹیفن کالج سے تحصیلِ علم کے بعد ۱۹۰۹ء سے لے کر ۱۹۱۴ء تک انگلینڈ میں رہے‘ جہاں سے انھوں نے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی اور ہندوستان آنے کے بعد وہ جنگِ آزدی کے بہادر اور بے باک مجاہدین بن گئے۔ وہ ایک کامیاب صحافی تھے۔ تحریکِ عدمِ تعاون‘ خلافت تحریک میں حصہ لیا۔ آصف علی کو انگریز اور ان کے نوکر شاہ ’’تیز زبان‘‘ والا آدمی کہتے تھے۔ انھوں نے اسمبلی بم کیس میں سردار بھگت سنگھ کی طرف سے وکالت کی۔ ۱۹۴۶ء میں انٹیرم سرکار میں ٹرانسپورٹ کے وزیر بنے۔ ۱۹۴۷ء میں ان کو امریکا میں ہندوستان کا سفیر نامزد کیاگیا جہاں وہ اپریل ۱۹۴۸ء تک رہے۔ ۱۹۴۸ء میں ان کو صوبہ اڑیسہ کی گورنری دی گئی۔ اس کے بعد وہ سوئزرلینڈ میں سفیر مقرر کیے گئے‘ اور ساتھ ہی واٹی کن (Vatican)اور آسٹریا کے سفیر بھی مامور ہوئے۔ وہ ۲؍اپریل ۱۹۵۳ء کو بعارضۂ قلب برن (سوئزرلینڈ) میں انتقال کر گئے۔ مآخذ: ۱) فرقان احمد صدیقی: ’’ضلع بجنور کے جواہر‘‘،ص:۵۳‘۵۴ ۲) رئیس احمد جعفری ’’دیدوشنید‘‘ ص:۱۷۷‘۱۷۸ ۳) مظفر حسین برنی (مرتب) ’’کلیاتِ مکاتیب‘ سوم‘‘،ص:۷۳۸۔۷۴۰ ۲؎ سیّد امین الحسینی عرب کے مذہبی وسیاسی قائد‘ ۱۸۹۳ء میں یروشلم میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم قسطنطنیہ میں پائی۔ کچھ عرصہ جامعہ ازہر میں گزارا۔ پھر ترکی کے عسکری کالج میں فوجی تربیت مکمل کی اور عثمانی فوج میں ملازم ہو گئے۔ ۱۹۱۷ء میں یروشلم میں قائم شدہ عرب تحریک میں شامل ہوئے۔ اس کا مقصد فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کوروکنا تھا۔ اپریل ۱۹۲۰ء میں یہودیوں کے خلاف فسادات برپا کرنے کی پاداش میں دس سال قیدِ سخت کی سزا ہوئی لیکن وہ اُردن سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اگلے سال عام معافی کااعلان ہوا تو یروشلم واپس آگئے اور ہائی کمشنر کے حکم پر مفتی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ فلسطین کے مسائل کی جانب دنیائے اسلام کی توجہ حاصل کرنے میں انھیں خاصی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بعض اسلامی ممالک کو وفود بھی بھیجے۔ دنیائے اسلام کے متعدد ممتاز راہنماؤں سے ان کے قریبی روابط تھے۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہودیوں کے خطرات سے آگاہ کرنے اور فلسطین میں ایک اسلامی یونی ورسٹی اور کتب خانہ قائم کرنے کے لئے چندہ جمع کرنے ۱۹۳۳ء میں ہندوستان آئے تھے۔ اقبالؔ سے ان کے دوستانہ روابط رہے۔ انھوں نے خاص طور پر اقبالؔ کو اس کانفرنس (منعقدہ بیت المقدس ۱۹۳۳ئ) میں بلایا تھا۔ مآخذ: ۱) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر: ’’معاصرینِ اقبال‘‘،ص:۲۰۰ ۲) معین الدین عقیل‘ ڈاکٹر: ’’اقبال اور جدید دنیائے اسلام‘‘ ص: ۳۲۸ ۳) رئیس احمد جعفری: ’’دیدوشنید‘‘،ص:۳۵۔۳۷ ۳؎ دیکھیے خط نمبر ۶۲ تعلیقہ نمبر۱ (۶۶) لاہور ۱۶؍جون ۳۳ء جناب مہرین۱؎ ایک ضروری مشورہ آپ دونوں سے مطلوب ہے اس واسطے کچھ ۱؎ معمول سے سویرے لاہور تشریف لائیے اور دفتر جانے سے پہلے مجھ سے ملتے جائیے کیونکہ آپ سے مشورہ کرنے کے بعد ان تاروں کا جواب دیا جائے گا جوشملہ سے آئے ہیں۲؎۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن انوار=آج حواشی و تعلیقات ۱؎ مہرین سے مراد غلام رسول مہرؔ صاحب اور عبدالمجید سالکؔ ہیں۔ ۲؎ یہ وہ دورتھا جب اقبالؔ تیسری گول میز کانفرنس سے واپس آئے تھے۔ (فروری ۱۹۳۳ئ) اور مارچ ۱۹۳۳ء میں حکومتِ برطانیہ نے حکومتِ ہند کے جدید دستور کا خاکہ قرطاسِ ابیض کی شکل میں شائع کیا تھا جس سے سارے ملک میں ہنگامہ خیز اختلافات رونما ہوئے۔ مسلمانوں نے عام طور پر اس پر چند اعتراضات کیے لیکن مجموعی طور پر اس کوعارضی طور پر قبول کرنا پسند کیا۔ اس دور میں مختلف حلقوں کی طرف سے ہندوؤں ‘مسلمانوں اور سکھوں میں باہمی سمجھوتے کی کوششیں شروع ہوئیں جو پہلے کی طرح بے مقصد ہو کر رہ گئیں (’’انوار‘‘، ص:۱۰۷) (۶۷) ڈیرمہرؔصاحب مضمون سے مطلع ہوا۔ یہ خط واپس ارسال ہے کہ آپ کو اطمینان ہو جائے کہ اورکوئی اسے نہ دیکھے گا۔ کل صبح یہیں آجائیے گا۔ اکٹھے چلیں گے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ اگر آپ نہیں آ سکتے تو بتائیے کونسی گاڑی میں آرہے ہیں؟ فرانٹیر میل یا بمبئی میل یا کوئی اور گاڑی۱؎ ۱۴؍اگستi؎۱۹۳۳ء تحقیق متن ۱؎ زیرِنظر خط غلام رسول مہرؔکے خط محررّہ ۱۴؍اگست ۱۹۳۳ء کے جواب میں ہے۔ جس پر Most Confidentialدرج تھا۔ اقبالؔ نے اس خط کی پشت پر جواب لکھا۔ خط کو بصیغۂ راز رکھنے کا اس سے زیادہ مناسب طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا۔ اقبالؔ نے جوابی خط پر کوئی تاریخ درج نہیں کی۔ ’’انوار‘‘ کی یہ تاریخ (۱۴؍اگست ۱۹۳۳ئ) قیاسی ہے۔ حواشی وتعلیقات: ۱؎ مہرؔصاحب نے اپنے خط (۱۴؍اگست ۱۹۳۳ئ) میں اقبالؔ کو لکھا تھا کہ بھوپال سے شعیب صاحب کا خط آیا ہے‘ جس میں انھوں نے مطلع کیا ہے کہ وہ اور نواب صاحب بھوپال‘ کشمیر جاتے ہوئے ۱۵؍اگست کوساڑھے چار بجے صبح لاہور سے گزریں گے اور نواب صاحب کی خواہش ہے کہ وہ لاہور اسٹیشن پر اقبالؔ سے ملاقات کریں نیز یہ تاکید کی ہے کہ ان کے آنے کی اطلاع مخفی رکھی جائے۔ چنانچہ اقبالؔ اور مہر صاحب نے نواب صاحب سے ملاقات کی۔ مہرؔصاحب کا بیان ہے کہ یہ ملاقات سیاسی نوعیت کی نہ تھی بلکہ محض نواب صاحب‘ اقبالؔ سے ملنے کے خواہش مند تھے۔ (’’انوار‘‘،ص:۱۰۷‘۱۰۸) (۶۸) ڈیرمہرصاحب۔ یہ خط مفتی ۱؎اعظمi؎صاحب کا ہے شاید آپ کو بھی آیا ہو گا ۔اگر ملک فیروز۲؎خاں یہاں ہوں تو ان کے مشورہ سے کوئی تقریب مفتی صاحب کے زیر اہتمام انجمن حمایت الاسلام ۳؎لاہور ہو جائے تو بہتر ہے۔ اس بارے میں مولوی غلام محی الدین ۴؎صاحب سے بھی مشورہ کر لیجئے۔ میں بھی ان کو فون کرتا ہوں۔ محمدؐاقبالؔ ۲؍اکتوبر۱۹۳۳ئii؎ تحقیقِ متن: i؎ انوار=مفتی صاحب۔ii؎ تاریخ تحریر عکس میں نہیں ہے بلکہ لفافے پر ہے‘ کیونکہ خط کامذکورہ متن بھی خط کے لفافے پر ہے جو مفتی فلسطین امین الحسینی نے اقبال کو بھیجا تھا۔ مفتی صاحب ان دنوں تاج کمپنی لاہور کے دفتر میں آکر مقیم تھے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۶۵ تعلیقہ نمبر ۲ ۲؎ ملک فیروزخان نون (۱۸۹۳ئ۔۱۹۷۰ئ)پاکستان کے ممتاز سیاسی رہنما اور سابق وزیرِاعظم ۔ایچی سن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ ۱۹۱۶ء میں آکسفورڈ یونی ورسٹی سے ایم۔ اے کی ڈگری لی‘ وہیں قانون کا امتحان پاس کیا۔ وطن واپس آکر وکالت کاپیشہ اختیار کیا۔ ۱۹۲۷ء میں انھیں صوبہ پنجاب کاوزیرتعلیم اورصحتِ عامہ مقرر کیا گیا۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۱ء تک لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر اور ۱۹۴۲ء تا۱۹۴۵ء رکنِ دفاع کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے گورنر اور پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔ ۱۹۵۶ء میں وزیرخارجہ اور اکتوبر ۱۹۵۸ء میں وزیر اعظم کی حیثیت سے تعینات کیے گئے۔ انھوں نے پانچ کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں کینیڈا اور ہندوستان‘ احمقوں سے حصول عقل اور آپ بیتی‘ چشم دید شامل ہیں۔ لاہور میں انتقال ہوا۔ مآخذ: ۱) رئیس احمد جعفری‘’’دیدوشنید‘‘ص:۱۷۰۔۱۷۲ ۲) عبدالروف عروج‘ ’’رجالِ اقبال‘‘ص:۴۹۵۔۴۹۶ ۳؎ دیکھیے خط نمبر ۴۶ تعلیقہ نمبر۲ ۴؎ غلام محی الدین قصوری لاہور کے مشہور وکیل‘ قومی کارکن اور زبردست مقرر تھے۔ ۱۸۸۰ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۵ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے سالِ اول میںداخلہ لیا۔ اس زمانے میں ان کی اقبال سے ملاقات ہوئی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور اس میں اتنی بے تکلفی پیدا ہو گئی کہ اقبالؔ ان کو ان کی فلسفیانہ گفتگو کے پیشِ نظر ’’ینگ فلاسفر‘‘ کہنے لگے۔ قصوری صاحب نے تعلیم سے فراغت پانے کے بعد وکالت شروع کر دی۔ اس وکالت کے زمانے میں ان کا اقبال سے مزید ربط ضبط بڑھا‘ اوروہ ان کی شاعری سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ ان کی شخصیت اور فن پر ایک مقالہ لکھا۔ انھوں نے انجمن حمایت اسلام کے جوائنٹ سیکرٹری اور بعد میں سیکرٹری کی حیثیت سے بھی دینی اور ملی خدمات انجام دیں۔ صوبائی خودمختاری کے نظام کے ماتحت پہلی اسمبلی (۱۹۳۷ئ) کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ جنگِ بلقان کے زمانے میں ترکوں کی مدد کے لیے لاہور میں جو جلسے ہوتے تھے‘ ان میں مولانا غلام محی الدین‘ مولانا ظفر علی خان کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔ ان کی تقریریں بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی تھیں۔ مآخذ: عبداللہ ملک: ’’داستانِ خانوادہ میاں محمود علی قصوری‘‘،ص:۶۹۔۷۲ بنام شاکر صدیقی تعارف: شاکرصدیقی کے متعلق اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ ایک زمانے میں چک جھمرہ لائل پور میں مقیم تھے اور ۱۹۱۵ء میں گوجرانوالہ میونسپل کمیٹی میں اوورسیر کی حیثیت سے خدمامت انجام دیتے تھے۔ انھیں شعرکہنے کا شوق تھا۔ ’مخزن‘ کے دورِ ثانی کے معاون مدیرسردار کسیرا سنگھ کے ایما پر ۱۹۱۲ء میں انھوں نے اقبالؔ سے اپنے کلام پر اصلاح لینے کے لیے خط کتابت شروع کی۔ اقبالؔ نے حسبِ عادت اصلاح دینے سے تو انکار کیا لیکن شاکر صاحب کے استقلال کے باعث کبھی کبھی مفید مشورہ ضرور دیا۔ مآخذ:عبداللہ قریشی: ’’معاصرین اقبال کی نظر میں‘‘۔ص:۵۹۳ (۶۹) ۷؍ستمبر۱۹۲۲ئi؎ مکرمی! اُردو زبان مَیں آپ سے زیادہ نہیں جانتا کہ آپ کے کلام کو اصلاح دوں۔ باقی رہے شاعرانہ خیالات و سوزوگداز‘ یہ سیکھنے سکھلانے کی شے نہیں‘ قدرتی بات ہے۔ ان سب باتوں کے علاوہ مجھ کواپنے مشاغلِ ضروری سے فرصت کہاں کہ کوئی ذمہ داری کا کام اپنے سر پر لوں۔ میں نے آپ کے اشعار پڑھے ہیں۔ میرے رائے میں آپ اس جھگڑے میں نہ پڑیں تو اچھا ہے۔ آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎لفافے پر ڈاک کی مہر سے معلوم ہوتا ہے کہ زیر نظر خط ۷؍ستمبر ۱۹۱۲ء کا ہے۔ صابرکلوروی صاحب نے بھی اس خط کی تاریخ تحریر ۷؍ستمبر ۱۹۱۲ء متعین کی ہے۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۰) (۷۰) لاہور ۲۲؍جون۹۱۵ء مخدومی آپ کا عنایت نامہ مل گیا ہے۔ آپ نے جس حسنِ ظن کا اظہار کیا ہے اس کے لیے مَیں آپ کاسپاس گزار ہوں۔ افسوس ہے کہ دیوان۱؎ ابھی تک شائع نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ کچھ میری عدیم الفرصتی اور کچھ یہ کہ فارسی مثنوی موسوم بہ’’اسرارِ خودی‘‘۲؎مکمل ہو کرپریس کے لیے لکھی جا چکی ہے چنددنوں میں شائع ہو جائے گی۔ اس کی اشاعت کے بعد دیوان کی طرف توجہ کروں گا۔ یہ مثنوی ایک نہایت مشکل کام تھا۔ الحمدللہ کہ باوجود مشاغلِ دیگر میں اس کام کو انجام تک پہنچا سکا۔ ماسٹر نذرمحمد۳؎صاحب کی خدمت میں آداب عرض کر دیں۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ لاہور حواشی وتعلیقات ۱؎ ’’دیوان‘‘ سے مراد اقبالؔ کا اُردو مجموعۂ کلام ’’بانگِ درا‘‘ ہے‘ جو ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ ۱۹۱۵ء تک کوئی اُردو مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۳‘ تعلیقہ نمبر ۲ ۳؎ شیخ نذر محمد:اقبالؔ کے نہایت عزیز دوستوں میں تھے۔ کشمیری نژاد پنجابی‘ ۱۸۶۶ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۸۹ء میں گورنمٹ کالج لاہور سے بی۔اے کیا۔ محکمۂ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ سرکاری ملازمت سے بحیثیت انسپکٹر مدارس سبکدوش ہوئے۔ شعروسخن سے دلی ذوق تھا۔ شعر کہتے‘ نذر ؔتخلص تھا‘ کلام ’’مخزن‘‘ میں چھپتا رہا۔ ’’کلامَ نذرؔ‘‘ کے نام سے ان کامجموعہ شائع ہوا تو مولانا حالیؔ اور محمداقبالؔ نے اسے بہت سراہا۔ نذر محمد باوجود تفاوتِ عمر‘ اقبالؔ سے اصلاحِ کلام میں رجوع کرتے‘ اقبالؔ نے شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ کیا تو شیخ صاحب نے انھیں لکھا: ع تجھے خدا کی قسم نہ کر بند نغمۂ بربطِ سخن کو شیخ صاحب نے طویل عمر پائی۔ ۹؍فروری۱۹۴۲ء کو انتقال کیا۔ گوجرانوالہ میں مدفون ہیں۔ مآخذ: نذیر نیازی سیّد،’’دانائے راز‘‘ ،ص:۲۰۰۔۲۰۳ (۷۱) مکرم بندہ مثنوی کا دیباچہ۱؎کسی قدر پیامات سمجھنے میں ممدہو گا۔ وہاں لفظ ’’خودی‘‘ کی بھی تشریح ہے۔ آپ کی نظم اچھی ہے مگر اس میں بہت سے نقائص ہیں۔ میں نے ان پر نشان کر دیے ہیں۔ اصلاح کی فرصت نہیں رکھتا۔ ماسٹر نذر محمدصاحب کو دکھائیے وہ درست کر دیں گے۔ الفاظِ حشو سے پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ کی نظم میں بہت سے الفاظ حشو ہیں۔ محاورہ کی درستی کابھی خیال ضروری ہے۔ ’’سودا‘‘ سر میں ہوتا ہے نہ دل میں۔ علیٰ ہذاالقیاس عہد کو یا وعدہ کو بالائے طاق رکھتے ہیں نہ بالائے بام وغیرہ۔ اسی طرح مرکب کی عنان ہوتی ہے نہ زمام۔ بہت سے الفاظ مثلا’’چونکہ‘ ’’تعاقب‘‘ وغیر ہ اشعار کے لیے موزوں نہیں ہیں‘ ان سے احتراز اولیٰ ہے۔ ’’ہے خوشی تجھ کو کمال…الخ‘‘ کے دوسرے مصرعے میں ہر کی ’’ہ‘‘ تقطیع میں گرتی ہے۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ نظم طویل ہے۔ محمد ؐاقبال ؔلاہور ۶؍جولائی ۱۵ء حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر۳ تعلیقہ نمبر ۲ (۷۲) لاہور ۱۴؍اگست۱۵ء مخدومی۔ السلام علیکم۔ آپ کے اشعار پڑھ کر میں آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ یہ آنسو خوشی کے نہ تھے بلکہ تاسف کے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ظن کو جو میری نسبت ہے صحیح ثابت کرے اور مجھ کوان باتوں کی توفیق عنایت کرے جن کا ذکر آپ کرتے ہیں اوراِس حُسنِ ظن کے عوض میں جو آپ ایک مسلمان کی نسبت رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کوبھی اجرِ جزیل عطا کرے اور حبیب کریم کے عشق و محبت کی نعمت سے مالامال کرے۔ آمین ’’یعنی مدہوشوں کو تو آمادۂ پیکار کر‘‘ اس مصرعے میں پیکار کا لفظ ٹھیک نہیں ہے یوں کہہ سکتے ہیں: یعنی اپنی محفلِ بے ہوش (یامدہوش) کو ہشیار کر اور بھی خامیاں اس نظم میں ہیں جو یقینا دو چار بار پڑھنے سے آپ کو معلوم ہو جائیں گی مگر مَیں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس نظم کوشائع نہ کریں۔ میرے لئے پرائیویٹ شرمندگی کافی ہے۔ اس کے علاوہ یہ آپ کے پرائیویٹ تاثرات ہیں‘ پبلک کاان سے آگاہ ہونا کچھ ضروری نہیں ہے۔ گزشتہ خط میں جو آپ نے ۱؎جو نظم لکھی تھی اس میں ایک لفظ ’’زمام‘‘ تھا جس پر مَیں نے اعتراض کیا تھا۔ غالباً میں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ زمام کا لفظ ناقہ یا شتر کے لیے خاص ہے‘ مرکب کے لیے عنان چاہیے۔ اسکے بعد میرے دل میں خودبخود شبہ سا پیدا ہو گیا۔ مَیں نے فارسی کی لغات میں جستجو کی۔ معلوم ہوا کہ زمام کا لفظ مرکب کے لیے بھی آسکتا ہے گو ناقے کے لیے یہ لفظ خصوصیت سے مستعمل ہوتا ہے۔ صاحب بہارِ ۲؎عجم نے کوئی سند ایسے استعمال کی نہیں لکھی مگر چونکہ انھوں نے فارسی الفاظ و محاورات کی تحقیق و تدقیق میں بڑی محنت و جانفشانی کی ہے اس واسطے ان کے بیان بلا سند کو بھی قابلِ اعتبار سمجھنا چاہیے۔ یہ اس واسطے لکھتا ہوں کہ آپ اس غلطی میں مبتلا نہ رہیں جو میری لاعلمی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ شاکرصدیقی نے اپنی ایک نظم ’’ہلالِ عید‘‘ بغرضِ اصلاح بھیجی تھی۔ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۴۱تعلیقہ نمبر۶ (۷۳) ۱۳؍اگست ۱۹۹۵ئi؎ مکرمی الفاظ کے اعتبار سے اس نظم میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ معانی کے اعتبار سے البتہ بعض شعر قابلِ اعتراض ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو فارسی ترکیبیں آپ استعمال کرتے ہیں ان کا مطلب اچھی طرح سے نہیں سمجھتے۔ والسلام آپ کو بھی مبارک ہو۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ زیرنظر خط کی تاریخِ تحریر ۱۳؍اگست ۱۹۱۵ء ہے۔(’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۰) (۷۴) ۲۲؍اگست ۱۹۱۵ئi؎ یہ نظم ویسی ہے جیسی پہلے تھی مضمون یعنی موضوع انتخاب کرنے میں بڑی احتیاط لازم ہے۔ بعض اشعار ایسے ہیں کہ ان کے پڑھنے سے ہنسی آتی ہے اور مصنف کی نسبت اچھا خیال دل میں نہیں بیٹھتا۔ والسلام۔ مجھے فرصت کم ہوتی ہے۔ اس واسطے پے در پے خطوط کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ صابر کلوروی صاحب نے ۲۲؍اگست ۱۹۱۵ء تاریخِ تحریر متعین کی ہے۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۰) (۷۵) اکتوبر /نومبر۱۹۱۵ئi؎ مکرم بندہ میں نے آپ کے اشعار کی خامیوں پر نشان لگا دیے ہیں۔ ان پرمفصل لکھنے کی فرصت نہیں۔ تراکیب و الفاظ کی ساخت و انتخاب محص ذوق پر منحصر ہے اورایک حد تک زبان فارسی کے علم پر۔ آپ فارسی زبان کی کتابیں خصوصاً اشعار پڑھا کریں۔ مثلاً دیوانِ بیدل۱؎،نظیری نیشاپوری۲؎‘ صائب۳؎‘ جلال اسیر۴؎ ‘ عرفی۵؎، غزالی مشہدی۶؎، طالب آملی۷؎ وغیرہ۔ ان کی مزاولت سے مذاقِ صحیح خود بخود پیدا ہو گا اور زبان کے محاورات سے بھی واقفیت پیدا ہو گی۔ عروض کی طرف خیال لازم ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرع ہی بہ اعتبار عروض غلط ہے۔ زنجیر‘ فقیر‘ وزیر‘ عسکری‘ روکشی‘ تفسیر ‘ خوانِ مسلم کا خوشہ چین وغیرہ (دو لفظ پڑھے نہیں گئے) پست اور خلاف محاورہ ہیں۔ خوان کا خوشہ چیں نہیں کہتے خرمن کا خوشہ چین ہوتا ہے۔ خوان کا زلہ ربا کہتے ہیں۔ ’’ہے‘‘ کے ’’ی‘‘ کو طول دینا بُرا معلوم ہوتا ہے موسیقیت(؟) کے اعتبار سے علیٰ ہذاالقیاس۔ ’’آہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ کی آواز کو چھوٹا کرنا یوں بھی بُرا ہے۔ ایک ہی مصرع اُردو میں چار اضافتیں برُی معلوم ہوتی ہیں۔ اس سے فارسی والے بھی محترز ہیں۸؎۔ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ زیر نظر خط کی تاریخ تحریر اکتوبر/نومبر ۱۹۱۵ء متعین کی گئی ہے۔(’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۰) حواشی و تعلیقات: ۱؎ بیدلؔ(۱۶۴۴۔۱۷۲۰ئ) عظیم آباد میں پیدا ہوئے۔ ایک صوفی برزگ میرزا ابوالقاسم ترمذی نے ازروئے حساب جمل ان کی تاریخ پیدائش ’فیض قدس‘ اور ’انتخاب‘ کے الفاظ سے نکالی ہے۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چھ سال کی عمر میں والدہ بھی فوت ہو گئیں۔ میرزا قلندر (بیدلؔ کے چچا) نے ان کی تربیت کی۔ ابتدا میں ’’رمزی‘‘ کے تخلص سے شعر کہنے لگے۔ ان کی عمر کا بیشتر حصہ دہلی میں بسر ہوا۔ معنوی یادگار میں دیوان کے علاوہ مثنوی محیطِ اعظم‘ طلسم حیرت‘ گلگشتِ حقیقت‘ نور‘ معرفت نیز نکات‘ رقعات اور چہار عنصر ہیں۔ شعرگوئی میں ان کا ایک خاص انداز ہے۔ خیال بندی کے ساتھ ہی وہ عرفان و تصوف کے مضامین بیان کرتے ہیں۔ اقبالؔ اپنی فکری بلوغت کے آغاز سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک بیدلؔ کی شاعری اور ان کے حرکی تصورِ حیات کے بے حد مداح رہے۔ انھوں نے بیدل کا ذکر متعدد مقامات پر کیا ہے‘ خطوط ‘ شاعری‘ شذرات اور مرتّبات میں متعدد جگہ بیدلؔ کا حوالہ ملتا ہے۔ مآخذ: ۱) عبدالغنی‘ ڈاکٹر:’’روح بیدلؔ‘‘،ص:۴۴۔۹۷ ۲) عبدالغنی‘ ڈاکٹر: فیضِ بیدلؔ‘‘ص:۲۳۲۔۲۷۸ ۳) تحسین فراقی‘ ڈاکٹر:’’مطالعہ بیدلؔ فکرِ برگساں کی روشنی میں‘‘، ص:۶ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۶‘ تعلیقہ نمبر ۱۰ ۳؎ صائب(۱۶۰۳ئ۔۱۶۷۷) کی ولادت تبریز میں ہوئی لیکن نشوونما اور تعلیم و تربیت اصفہان میں حاصل کی۔ اسی بنا پر اس کوتبریزی اور اصفہانی‘ دونوں کہتے ہیں۔ فارغ التحصیل ہو کر ہندوستان کا رخ کیا۔ کچھ عرصہ کابل میں بھی قیام رہا۔ پھر شاہجہان کے دربار میں پہنچا اور بادشاہ کاتقرب حاصل ہوا۔ کچھ مدت بعدایران کے شاہ عباس ثانی نے اسے اپنے دربار میںبلا کر ’’ملک الشعرائ‘‘ کاخطاب بخشا‘ مضمون آفرینی‘ نازک خیالی اور نُکتہ سنجی اس کے کلام کی خصوصیات ہیں۔ اقبالؔ نے صائب کامنتخب کلام پڑھا تھا۔ اقبالؔ کے ہاں صائب کے چند اشعار اور مصرعے تضمین اور نقل شدہ ملتے ہیں۔ اقبالؔ اورصائب میں ایک قدرِ مشترک مولوی معنوی سے عقیدت ہے۔ علاوہ ازیں مجموعی طورپر ’’چشم بینا‘‘، جان آگاہ و دل بیدار‘‘ ، ’’برہانِ آدمیت‘‘ ، قانونِ محبت‘‘، ’’غیرت مردانہ‘‘، ’’جنون‘‘ کی کارفرمائی اور لب و لہجے کی حرارت کے باب میں جتنی مماثلت صائب اور اقبالؔ میں ہے‘ اتنی دو مختلف دور کے شاعروں میں کم پائی جاتی ہے۔ مآخذ: ۱) منظور حسن (خواجہ):’’اقبال اور بعض دوسرے شاعر‘‘، ص:۴۹۵‘۴۹۶ ۲) محمد ریاض‘ ڈاکٹر: ’’اقبال اور فارسی شعرائ‘‘ ص:۲۴۹۔۲۵۴ ۳) شبلی نعمانی،علامہ: ’’شعرالعجم‘ جلد: ۳‘‘،ص:۱۹۹ ۴؎ مرزا سید جلال اسیر اصفہانی‘ مرزا صائب کے دوست تھے۔ آپ کے اشعار پیچیدہ مطالب اور نازک خیالی کے حامل ہیں اور یہ انداز ’’اصفہانی‘‘یا ’’ہندی‘‘ کہلاتا ہے۔ فارسی کے مشہور تذکروں مثلاً ’’ریاض الشعرا‘‘ ، ’’ صحف ابراہیم‘‘اور ’’مخزن الغرائب‘‘ میں اسیر کو نازک خیالی اور دقّتِ بیان کے بانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ مآخذ: ۱) صدیق شبلی‘ ڈاکٹر: ’’فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘،ص:۱۲۷ ۲) محمدریاض،ڈاکٹر:اقبال اور فارسی شعرا‘‘،ص:۲۹۵ ۵؎ محمد نام‘ جمال الدین لقب،عرفی تخلص…۹۶۳ہجری میں پیدا ہوئے اور ۳۶سال کی عمر میں لاہور میں انتقال (۱۵۹۱ئ) فرما گئے۔ عرفیؔ کی تعلیم و تربیت شیراز میں ہوئی۔ تحصیلِ علم کے بعد ہندوستان کا سفر کیا۔ پہلے دکن اور پھر آگرے پہنچے اور مدت تک فیضیؔ اور ابوالفتح کی صحبت میں رہے۔ اس کے بعد عبدالرحیم خانِ خاناں کے ذریعے سے اکبر کے دربار میں رسائی ہوئی۔ بادشاہ نے شہزادہ سلیم کا اتالیق مقرر کیا۔ دیوانِ عرفیؔ میں قصیدے‘ غزلیں‘ ترجیع بند اورقطعات ملتے ہیں۔ عرفیؔ کے کلام کی نمایاں خصوصیات جوش و ولولہ اور درسِ خود داری ہیں۔ اقبالؔ‘ عرفی کی ان شاعرانہ خصوصیات کے مداح تھے۔ ’’عرفیؔ‘‘ کے عنوان کے تحت اقبالؔ نے ’’بانگِ درا‘‘ (حصہ سوم) میں ایک قطعہ لکھا اور اس میں عرفیؔ کی فعال طبعیت کو سراہا نیز اس کے ایک شعر کو تضمین بھی کیا۔ محل ایسا کیا تعمیر عرفیؔ کے تخیّل نے تصدق جس پہ حیرت خانۂ سینا وفارابی ’’نواراتلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حدی را تیز ترمی خواں چو محمل را گراں بینی‘‘ عرفیؔ کے اس شعر کی تضمین اور بازگشت‘ اقبالؔ کے کئی اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس شعر کے علاوہ بھی اشعار اورمصرعے کلامِ اقبال میں منقول اورتضمین شدہ ملتے ہیں۔ مآخذ: ۱) شبلی نعمانی: شعرالعجم‘ حصہ سوم‘‘ ص:۸۴‘ ۲) تاریخ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک و ہند‘‘ ص:۲۸۹۔۲۹۹ ۳) محمدریاض‘ ڈاکٹر:’’اقبالؔ اورفارسی شعرا‘‘ ص:۲۲۹۔۲۳۵ ۶؎ علی رضائی غزالی مشہدی‘ دربارِ اکبری کے پہلے ملک الشعرا تھے۔ پہلے آپ شاہ تہماسپ صفوی کے دربار میں رہے۔ وہاں سے جنوب ہند کے درباروں کا رُخ کیا اور آخر کار اکبرؔ کے ہاں آئے۔ احمد آباد گجرات کے ایک ہنگامے میں قتل ہو گئے‘ اور اکبرکے حکم کے مطابق پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیے گئے۔ تصانیف میں دیوانِ قصائد وغزلیات‘ کتاب اسرار(نثر فارسی)‘ رشحاتُ الحیات (درتصوف) مرآۃ الکائنات (دراخلاق) مآخذ: محمدریاض‘ ڈاکٹر:’’اقبالؔ اور فارسی شعرا‘‘،ص:۲۸۷ ۷؎ محمد طالب آملی: (۱۵۹۹ئ) قصبۂ آمل (ماژندراں) میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں درسی علوم و فنون کی تعلیم پائی اور پندرہ سولہ سال کی عمر میں اس نے ہندسہ‘ منطق‘ ہیئت‘ فلسفہ‘ تصوف اور خوش نویسی میں کمال حاصل کر لیاتھا۔ طالب آملی دربارِ جہانگیری کا ملک الشعرا تھا۔ طالبؔ نے ابتدائی زندگی آمل‘ ماژندران‘ کاشان اور مرو میں بسر کی۔ مرو سے وہ برِصغیر میں وارد ہوا۔ طالبؔ کو اپنی بہن‘ ’’ستی النسائ‘‘ سے بہت محبت تھی۔ طبرستانی لہجے میں ’’طالبا‘‘ نام کی ایک مثنوی مشہور ہے اور کہتے ہیں کہ طالبؔ نے اسے اپنی بہن کے لیے لکھا تھا۔ طالبؔ نے ۱۶۲۶ء میں انتقال کیا۔ اقبالؔ کے ہاں طالبؔ کا صرف ایک مصرع تضمین شدہ ملتا ہے۔ یہ ’’ضرب کلیم‘‘ کے ان انتسابی اشعار میں ہے ‘ جن کا خطاب نواب سرحمیداللہ خان فرمانروائے بھوپال سے ہے۔ ؎ بگیر ایں ہمہ سرمایۂ بہار ازمن کہ گل بدست تو از شاخ تازہ ترماند اس شعر کا دوسرا مصرع طالب آملی سے ماخوذ ہے۔ مآخذ: ۱) محمدریاض ڈاکٹر: اقبالؔ اور فارسی شعرا‘‘،ص:۲۹۴‘۲۹۵ ۲) تاریخِ ادبیاتِ مسلمانانِ پاک و ہند‘ فارسی ادب (دوم)،ص:۳۳۱۔۳۴۰ ۳) صدیق شبلی‘ڈاکٹر ’’فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘، ص:۲۳۶‘۲۳۷ ۸؎ شاکر صدیقی نے اپنے خط (۲۳؍اکتوبر ۱۹۱۵ئ) کے ساتھ ایک نظم ’’ہرن منارہ‘‘ بغرضِ اصلاح بھیجی تھی۔ زیر نظر خط اسی کے جواب میں ہے۔ (۷۶) مکرم بندہ: السلام علیکم اضافت کی حالت میں اعلانِ نون غلط ہے کبھی نہ کرنا چاہیے۔ طول ہرگز نہ ہونا چاہیے میں نے پہلے بھی آپ کو لکھا تھا۔ اتنے شعروں میں صرف دو شعر جن پر نشان کر دیا ہے اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ تلّمذ سے مجھے معاف فرمایے۱؎۔ محمدؐاقبالؔ لاہور حواشی و تعلیقات: ۱؎ شاکر صدیقی نے ایک غزل بغرضِ اصلاح بھیجی تھی۔ اس کے جواب میں زیرِ نظر خط موصول ہوا۔ لفافے پر مُہر انارکلی پوسٹ آفس کی ۲۴؍مارچ ۱۹۱۶ء کی ہے۔ جن دو اشعار کے متعلق اقبالؔ نے پسندیدگی کااظہار کیا وہ درجِ ذیل ہیں: کسی کامل سے رسم و راہ میری جان پیدا کر علاج خاطر ناکام کا سامان پیدا کر رقابت اے دلِ مضطر نہیں اچھی زلیخا سے ہزاروں جس میں ہوں یوسف تو وہ کنعان پیدا کر تلمذ سے معاف فرمانے کی وجہ یہ تھی کہ شاکر صاحب اس غزل کے مقطع میں لکھتے ہیں: رموزِ شعر کی خاطر قم اقبال سے جلدی تن بے جان نظم خود میں شاکر جان پیدا کر (۷۷) مکرم بندہ۔ السلام علیکم۔ آپ کے حسن ظن کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ افسوس ہے آپ کا ترجمہ میری رائے ناقص میں اشاعت کے قابل نہیں۔ آپ کو اس کی اشاعت سے روکنا نہیںچاہتا۔ اگر آپ چاہیں تو مجھے اس کی اشاعت میں کوئی اعتراض۱؎ نہیں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ ۲۴؍جون ۱۹۲۴ء حواشی و تعلیقات ۱؎ شاکرصدیقی نے اپنے خط میں پوچھا تھا کہ ’’اشکِ ندامت‘‘ کو ’’کوہِ نور‘‘ سے تشبیہ دینا درست ہے یا نہیں اقبالؔ نے اسی خط کی پُشت پر فقرہ لکھ کرواپس بھیج دیا۔ (۷۹) لاہور ۲؍جون۳۱ء جناب من السلام علیکم۔ ’انجم‘ واحد دیکھنے میں نہیں آیا۔ اصلاح سے معاف فرمائیے کہ نہ فرصت ہے نہ اہلیت۔ والسلام محمدؐاقبالؔ بنام ڈاکٹر مظفرالدین قریشی تعارف: ڈاکٹر مظفرالدین قریشی نے لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۲۱ء میں ان کو اسلامیہ کالج لاہور میں کیمیا کا استاد مقرر کیاگیا۔ بعدازاں جامعہ عثمانیہ میں شعبۂ کیمیا کے صدر ہوگئے۔ مظفرالدین کو اقبالؔ سے بڑی عقیدت تھی۔ انھوں نے ۱۹۳۶ء میں اقبالؔ کو دعوت دی کہ وہ حیدرآباد تشریف لے آئیں‘ ان دنوں اقبال علیل رہتے تھے۔ بیماری کا حال ۱۹۳۵ء تک سید نذیر نیازی کے ’’مکتوباتِ اقبال‘‘ میں تفصیل سے موجود ہے۔ اقبال حکیم نابینا سے علاج کرو ا رہے تھے۔ حکیم نابینا صاحب دہلی سے حیدرآباد چلے گئے تو دواؤں کی ترسیل میں تعطل پیدا ہوگیا۔ مظفرالدین چونکہ حیدرآباد میں تھے اس لیے انھوں نے بالالتزام دوائیں بھجوانے کا اہتمام کیا۔ انھوں نے حیدری صاحب سے اقبالؔ کی شدید بیماری کا ذکر کیا۔ حیدری صاحب نے توشک خانہ نظام سے بطور امداد جورقم اقبالؔ کو دی وہ انھوں نے لوٹا دی کیونکہ اقبالؔ کواس بات کی شکایت تھی کہ ان کے لیے جس فنڈ سے امداد کا بندوبست کیاگیا تھا اسے کوئی بھی غیور آدمی قبول نہیں کر سکتا۔ حیدری صاحب نے اس سلسلے میں پیداہونے والی غلط فہمی کی وضاحت کی۔ قیام پاکستان کے بعد مظفرالدین پاکستان آگئے اور لاہور میں رہایش اختیار کر لی۔ ان کو محکمۂ انڈسٹریز کاڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ ۱۹۷۰ء میں بہ عارضۂ قلب انتقال کیا۔ مآخذ: عبدالرؤف عروج: ’’رجالِ اقبالؔ‘‘ ص:۴۵۶‘۴۵۷ (۸۰) لاہور ۳۰؍اگست۳۲ء ڈیرمظفر الدین آپ کاخط ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ میری صحت پہلے سے کسی قدر اچھی ہے مگر حیدرآباد کے طویل سفر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ’’ضرب کلیم‘‘ کتاب خانہ طلوعِ اسلام‘ ۲۵۔میکلوڈ روڈ لاہور نے خرید کر لی ہے‘ انھیں سے طلب فرمائیے۔ نیازی صاحب۲؎مدیر ’’طلوعِ اسلام‘‘ نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ضربِ کلیم‘‘ کااشتہار اخبار ’’رہبر دکن‘‘ میں دیا گیا ہے۔ نہ معلوم اب تک کیوں شائع نہیں ہوا۔ زیادہ کیا لکھوں۔ جاوید۳؎آداب کہتا ہے اور علی بخش۴؎بھی سلام عرض کرتا ہے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات ۱؎ ’’ضرب کلیم‘‘ اقبالؔ کا اُردو مجموعۂ کلام ‘ جو پہلی بار جولائی ۱۹۳۶ئء میں شائع ہوا۔ ۲؎ نذیرنیازی: صفِ اول کے اقبالؔ شناس‘ اقبالؔ کے دانائے راز‘ شمس العلما سید میرحسن کے برادر زادے‘ ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وتربیت سیالکوٹ میں پائی۔ میٹرک ہائی سکول قادیان (بھارت) سے کیا۔ علی گڑھ میں زیرِ تلعیم تھے کہ مولانا محمد علی جوہر کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے تحریک علی گڑھ کو خیرباد کہا اور جامعہ ملیہ دہلی کا رخ کیا۔ جامعہ سے فارغ ہونے پروہیں ۱۹۲۲ء میں منطق اور تاریخ اسلام کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ اقبالؔ اور جامع میں رابطہ انھوں نے ہی پیدا کیااواقبالؔ کو جامعہ کا تاسیسی ممبر بنوایا‘ چنانچہ ’’پیامِ مشرق‘‘ کا پہلاایڈیشن جامعہ کی معرفت چھپا تھا۔ ۱۹۳۳ء میں ڈاکٹر انصاری (امیر جامعہ) کی کوششوں سے جامعہ میں توسیعی خطبات کا سلسلہ شروع ہوا۔اس کی ابتدا غازی رؤف پاشا کے خطبات سے ہوئی۔ڈاکٹر انصاری اور نیازی صاحب نے توسیعی خطبات کی صدارت کے لیے اقبالؔ کو خطوط لکھے‘ اقبالؔ نے یہ دعوت قبول کرلی اور پہلے دو خطبات کی صدارت کی۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں نذیر نیازی نے اقبالؔ کے ایما پر ماہنامہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ جاری کیا۔ اقبال کے انگریزی خطبات کااُردو ترجمہ ’’تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے نام سے کیا۔ اقبالؔ پر بعض اہم کتابیں لکھیں:مطالعہ اقبالؔ‘‘ مکتوباتِ اقبالؔ‘‘ ’’اقبالؔ کے حضور‘‘، دانائے راز‘‘ ’’اقبالیاتِ نذیر نیازی‘‘۔ سید نذیر نیازی صرف ایک بلند پایہ ادیب‘ مؤرّخ اور معلم و مترجم ہی نہ تھے بلکہ شاعر بھی تھے۔ ان کے اس پہلو کا علم خاص الخاص احباب کے سوا کسی کو نہ تھا۔ مآخذ: ۱) نذیرنیازی‘ سید (مرتّب): مکتوباتِ اقبال‘‘ ص:۳۵۱۔۳۵۴ ۲) ’’اقبالیات‘‘: جولائی ۹۰۔۱۹۹۱ئ،ص:۲۷۹۔۲۷۲ ۳) نسیم اختر (مقالہ نگار): سید نذیر نیازی۔’’حیات اور تصانیف (تحقیقی مقالہ:ایم۔اے)‘‘ ۱۹۸۳ء ۴) عبداللہ شاہ ہاشمی (مرتّب) ’’اقبالیاتِ نذیر نیازی‘‘، ۱۹۹۶ء ۳؎ دیکھیے خط نمبر ۵۹تعلیقہ نمبر۱ ۴؎ دیکھیے خط نمبر ۵۸تعلیقہ نمبر۱ (۸۱) لاہور ۲؍ستمبر۳۶ء ڈیرپروفیسر مظفر۔مجلہ عثمانیہ مجھے مل گیا ہے جس کے لیے شکریہ قبول کیجئے۔ میں یہ مضمون غالباً پہلے بھی پڑ چکا ہوں۔ میری طرف سے آپ اپنے دوست کا بہت بہت شکریہ ادا کیجئے۔ زیادہ کیا لکھوں گرمی کا زور کم ہو رہا ہے۔ اب کے لاہورمیں بارش بہت کم ہوئی۔ مثنوی فارسی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘۱؎عنقریب شائع ہو گی۔ والسلام محمدؐاقبالؔ حواشی وتعلیقات ۱؎ یہ کتاب اکتوبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ (۸۲) لاہور ۵؍اکتوبر۱۹۳۷ء Dear Dr. ؎i Kureshi السلام علیکم ملفوف خط حکیم عبدالوہاب انصاری۱؎ المعروف بہ حکیم نابینا برادرِ اکبر ڈاکٹر انصاری ۲؎کے لیے ہے۔ وہ حال ہی میں حضور نظام۳؎کی دعوت پر حیدرآباد گئے ہیں اور معلوم نہیں کب تک وہاں ٹھہریں گے۔ مہربانی فرما کر ان کا پتا معلوم کیجئے‘ اور مفلوفہ خط میری طرف سے ان کی خدمت میں پیش کر کے استدعا کیجئے کہ مطلوبہ دواتیار کر کے ارسال فرمائیں۔ بلکہ آپ خود ان سے دوا لے کر بذریعہ پارسل ارسال کر دیں تو اور بھی اچھا ہو گا۔ براہِ عنایت میرے لیے اتنی زحمت گوارا فرمائیے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار=ڈیرڈاکٹر قریشی حواشی و تعلیقات ۱؎ حکیم عبدالوہاب انصاری جن کو عام طور پر حکیم نابینا کہا جاتا ہے‘ اپنے دور کے مشہور طبیب اور زبردست نبض شناس تھے۔ انھوں نے غازی پور کے ایک قصبہ یوسف پور میں ہوش سنبھالا۔ علومِ متداولہ کے ساتھ طب کی تحصیل کی۔ میر محبوب علی خان نظام دکن نے ان کی قدر دانی کی اور ان کو حیدر آباد بلا کر شاہی طبیب مقرر کیا۔ نظام دکن نے ان کو شیخ الرئیس ثانی کہا کرتے تھے۔ حکیم عبدالوہاب پیدایشی نابینا نہ تھے بلکہ آٹھ نو سال کی عمر میںچیچک نکلنے سے نابینا ہو گئے تھے۔ اقبالؔ نے ۱۹۱۷ء میں پہلی دفعہ ان سے دردِ گردہ کا علاج کرایا۔ بعد میں تادمِ مرگ اقبالؔ مختلف امراض کا علاج ان سے کراتے رہے اور ان کی ادویات منگواکر استعمال کرتے رہے۔ ۱۹۳۷ء میں اقبالؔ کی علامت نے تشویشناک رخ اختیار کر لیا تھا‘ حکیم نابینا نے ’’روح الذہب قدیم‘‘ ارور روح الذہب جدید‘‘ اور حب تقویتِ صلب کی گولیاں ارسال کیں۔ ان کے استعمال سے اقبالؔ کے مرض کی شدت کم ہو گئی۔ اقبالؔ نے شکریہ کے طور پر ایک قطعہ لکھ کر حکیم صاحب کی خدمت میں بھجوایا۔ ہے دو روحوں کا نشیمن پیکرِ خاکی مرا رکھتا ہے بیتاب دونوں کو مرا ذوقِ طلب ایک جو اللہ نے بخشی ہے مجھے صبحِ ازل دوسری ہے آپ کی بخشی ہوئی روح الذہب حکیم صاحب طبیبِ خاص کے عہدے سے مستعفی ہو کر دہلی آگئے اور یہیں ۱۹۴۱ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) اکبر حسین قریشی‘ ڈاکٹر: ’’مطالعۂ تلمیحات‘‘،ص:۴۶۹ ۲) عبدالواحد معینی (مرتب) ’’باقیاتِ اقبال‘‘، ص:۱۴۰ ۳) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر:’’معاصرینِ اقبال‘‘ ص:۷۷۵۔۷۷۸ ۴) رئیس احمد جعفری: ’’دیدوشنید‘‘، ص:۳۲۲۔۳۲۴ ۲؎ ڈاکٹر انصاری (ڈاکٹر مختار احمد انصاری): (۱۸۸۰ئ۔۱۰؍مئی ۱۹۳۶ئ) حاجی عبدالرحمن انصاری کے فرزند‘ وطن یوسف پور‘ ضلع غازی پور (بھارت)۔ ابتدائی تعلیم بنارس میں ہوئی۔ ۱۹۰۰ء میں مدراس یونی ورسٹی سے طب کی سند حاصل کرنے کے بعد انگلستان چلے گئے‘ جہاں سے ڈاکٹر آف میڈیسن نیز ماسٹر آف سرجری کی ڈگری لی۔ وہ پہلے ہندوستانی تھے جو چیئر کراس ہسپتال (لندن) میں ’’ہاؤس سرجن‘‘ مقرر ہوئے۔ وطن واپس آ کر دہلی میں اپنا مطلب قائم کیا۔ جنگِ بلقان کے زمانے میں اخوتِ اسلامی کے جذبے کے زیر اثر ڈاکٹر انصاری‘ ڈاکٹروں کا ایک وفد لے کر ترکی گئے اور ترک مجاہدوں کی مرہم پٹی کرتے رہے۔ واپس آ کر طبی کاموں کے علاوہ سیاسیات میں بھی دلچسپی لیتے رہے۔ خلافت کی تحریک کے سربرآوردہ رہنماؤں میں رہے۔ ڈاکٹر انصاری اوراقبالؔ کے ذاتی تعلقات انتہائی خوشگوار تھے۔ ۱۹۳۲ء میں ڈاکٹر انصاری نے امیرِ جامعہ کی حیثیت سے سابق وزیرِ اعظم ترکی غازی رؤف پاشا کو ہندوستان آنے کی دعوت دی‘ ساتھ ہی ایک لیکچر کی صدارت کے لیے اقبالؔ کو مدعو کیا۔ چنانچہ اقبالؔ نے دہلی پہنچنے کے بعد ان ہی کے مکان پرقیام کیا۔ بعدازاں ڈاکٹر انصاری نے جامعہ کی امداد و اعانت کے لیے اپیل شائع کرائی تو اقبالؔ نے اس کی تائید کرتے ہوئے ایک تفصیلی بیان شائع کرایا۔ وفات کے بعد ڈاکٹر انصاری جامعۂ ملّیۂ اسلامیہ ’’اوکھلا‘‘ دہلی کے احاطے ہی میں دفن ہو ئے۔ مآخذ: ۱) عبدالقوی دسنوی: ’’اقبالیات کی تلاش‘‘،ص:۱۵۱۔۱۶۱ ۲) ریئس احمد جعفری ’’دیدوشنید‘‘، ص: ۳۱۰۔۳۱۱ ۳؎ حضور نظام میر عثمان علی خان: ۱۶؍اپریل ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۶ء میں باقاعدہ تعلیم شروع کی۔ ۲۹؍اگست ۱۹۱۱ء کو تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی۔ عثمانیہ یونی ورسٹی‘ میر عثمان علی خان نے قائم کی۔ اُردو اور فارسی کے شاعر بھی تھے۔ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے چانسلر بھی رہے۔ ۱۹۴۸ء میں انڈین یونین نے ان کی ریاست کو ختم کر کے حکومتِ ہند میں شامل کر لیا۔ آپ نے ۲۴؍فروری ۱۹۶۷ء میں انتقال کیا۔ اقبالؔ کے اس شعر میں میر عثمان علی خان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: ؎ اے مقامت برتر از چرخ بریں از تو باقی سطوت دینِ مبین (’’باقیاتِ اقبال‘‘،ص:۱۰۹) مآخذ: ۱) ماہر القادری (مرتب) یادِرفتگاں (حصہ دوم)‘‘ ص:۸۴۔۱۲۴ ۲) اکبر حسین قریشی ‘ڈاکٹر ’’مطالعۂ تلمیحات‘‘،ص:۴۷۲۔۴۷۳ ۳) ماہنامہ ’’زینت‘‘ لاہور‘ ص:۳۳۵ (۸۳) لاہور ۱۶؍اکتوبر ۱۹۳۷ء ڈیرپروفیسر مظفرالدّین آپ کاخط ابھی ملا ہے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے بہت جلد میرے خط کی طرف توجہ کی۔ چونکہ ابi ؎ حکیم صاحب دُور تشریف لے گئے ہیں اس واسطے آئندہ میں آپ ہی کو زحمت دیا کروں گا۔ اُمید ہے کہ آپ معاف فرماویںii؎گے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں مندرجہ ذیل باتیں فوراً عرض کر دیجئے۔ اوّل: دس بارہ سال ہوئے جب مجھ کو دردِ گردہ ہوا تھا ور حکیم صاحب قبلہ نے ہی اس کاعلاج کیا تھا۔ اس طویل عرصے کے بعد گزشتہ رات یعنی ۱۵؍اور ۱۶؍اکتوبر کی درمیانی رات کو پھر اس درد کا دورہ ہوا۔ دورہ شدید نہ تھا لیکن تمام رات اور دن کا کچھ حصہ بے چین رکھنے کے لیے کافی تھا۔ اس وقت کہ قریباً چار بجےiii؎ہیں مجھے افاقہ ہے۔ جو دوا بھی حکیم صاحب میرے لیے تیار فرمائیں اس میں اس امر کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ دوم: عام کمزوری۔ سوئم: عام قبض کی شکایت۔ چہارم:خون میں سوداوی جراثیم۔ یہ سب باتیں حکیم صاحب قبلہ کو معلوم ہیں میں نے صرف یاددہانی کے لیے عرض کیا ہے۔ آپ اس خط کے پہنچتے ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوں تاکہ دواتیار ہونے سے پہلے وہ ان باتوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں۱؎۔ میری بصارت کمزور ہوگئی ہے اس واسطے اب میری خط و کتابت یاتو جاوید کرتا ہے یا دیگر احباب۔ آپ اگر کالی سیاہی سے سفید کاعذ پر لکھیں تو آپ کا خط مَیں خود بھی پڑھ سکوں گا۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ جاوید آداب کہتا ہے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ ہاں ایک ضروری بات لکھنا بھول گیا۔ حکیم صاحب سے یہ بھی دریافت کیجیے کہ آیا سونےiv ؎کے کشتہ کا استعمالv؎ میرے لیے مفید ہے یا مُضر ہے۔ حکیم صاحب کے ایک دوست جنھوں نے دیر تک ان کے ساتھ کام کیا ہے یعنی شاہزادہ غلام محمد خاں کشتۂ طلا کا استعمال میرے لیے مفید بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کشتۂ یاقوت کا استعمال بھی وہ میرے لیے مفید بتاتے ہیں۔ مَیں نے ان سے یہی کہا تھا کہ حکیم صاحب قبلہ کے مشورے کے بغیر میں کوئی کشتہ استعمال نہیں کر سکتا۔ اس خط کے جواب کاانتظار ہے۔ تحقیق متن: i؎ انوار=چونکہ حکیم صاحب۔ii؎ انوار=فرما دیں۔iii؎ انوار=چار ہیں۔ iv؎انوار=سونے کا کشتہ v؎ انوار= کشتہ میرے لیے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ ۱۹۱۷ء میں اقبالؔ کو پہلی مرتبہ دردِ گردہ کی شکایت ہوئی۔ لالہ لاجپت رائے کے مشورے سے حکیم عبدالوہاب انصاری سے علاج کرایا‘ جس کے نتیجے میں جلد ہی شفا ہو گئی۔ اس کے چند سال بعد ۱۰؍جنوری ۱۹۳۴ء سے اقبالؔ کو ایک خاص تکلیف سے دو چار ہونا پڑا۔ انھوں نے عیدالفطر کی نماز کے بعد سویّوں پر دہی ڈال کر کھایا۔ سویّاں کھاتے ہی ان کی آواز بیٹھ گئی۔ حکیم صاحب سے خط و کتابت کے ذریعے مشورے طلب کرتے رہے اور وہ اقبالؔ کو مستقل طور پر دوائیں بھیجتے رہے‘ جن سے خاصا فائدہ ہوا۔ اس کے کچھ دن بعد حکیم صاحب حیدرآباد جا کر میرعثمان علی خان نظام دکن کے خاص طبیب ہو گئے۔ ۱۹۳۷ء میں اقبالؔ کو دردِ گردہ کی دوبارہ تکلیف شروع ہوگئی چنانچہ ڈاکٹر مظفرالدین‘ حکیم صاحب سے دوائیں لے کر بھیجتے رہے۔ (۸۴) لاہور ۲۵؍اکتوبر۳۷ء ڈیرپروفیسر مظفرالدین السلام علیکم۔ آپ کا مراسلہ پیکٹ دواؤں کا مل گیا جس کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مجھے آپ کو کوئی ایک دفعہ اور بھی تکلیف دینا پڑے گی۔ سب تکلیفوں کے لیے ابھی سے شکریہ قبول کیجئے۔ پیکٹ میں سے ترکیبِ استعمال کا کاغذ نہیں نکلا شاید وہ آپ کے خط میں ہو گا۔ اگر نہیں تو حکیم صاحب سے دریافت کر کے مہربانی کر کے لکھے دواؤں کے نام حسب ذیل ہیں۔ (۱)روح الذہب۱؎ (۲)روح الذہب جدید(۳)حب تقویت صلب۔ واسلام مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۸۲ تعلیقہ نمبر۱ (۸۵) میوروڈ‘ لاہور ۱۸؍نومبر ۳۷ء ڈیرڈاکٹر مظفر السلام علیکم۔ حکیم صاحب کی خدمت میں مندرجہ ذیل باتیں عرض کر دیجئے:(۱) دوا کا استعمال باقاعدہ ہورہا ہے لیکن پیٹھ کادرد جو پہلے روح الذہب کے کھانے سے دور ہو گیا تھا اب پھر ہوتا ہے۔ یہ درد عموماً رات کو ہوتا ہے۔ دن میں نہیں۔ یہ شکایت سن کر جو کچھ حکیم صاحب ارشاد فرمائیں اس سے مجھے جلد مطلع فرمائیں۔ مخلص محمد ؐاقبالؔ (۸۶) لاہور ۲۷؍نومبر ۱۹۳۷ء Dear Dr. ؎i Muzaffar-Ud.Din اس سے پہلے میں آپ کو ایک خط لکھ چکاہوں۔ اُمید ہے کہ آپ کو مل گیا ہو گا۔ اس خط میں ایک پُڑیہ ملفوف ہے جس میں وہ پتھر کاریزہ ہے جو کل میرے پیشاب کے ساتھ خارج ہوا۔ حکیم صاحب نے جو دوا تقویتِ صلب کی ارسال فرمائی تھی اس پتھر کا اتنی جلد خارج ہونا اسی دوا کا اعجاز معلوم ہوتا ہے۔ میں نے ان کی خدمت میں خاص طور پر عرض کی تھی کہ گُردوں کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ پتھر کاریزہ ان کودکھا دیجئے اور میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کیجئے۔ نیز مندرجہ ذیل باتیں ان کی خدمت میں عرض کیجیے: اوّل: پُشت کا درد۔ اس کے متعلق پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور آپ کے خط کا منتظر ہوں۔ یہ درد اب پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے۔ صرف رات کو ہوتا ہے دن کو نہیںii؎ ہوتا اوررات کو جو سختی اس میں تھی اب اس میں تخفیف ہے۔ دوئم: بلغم۔ میری طرف سے حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کیجیے کہ اس شکایت کی طرف خاص توجہ دیں۔ گرمی میں یہ بلغم بہت کم تھی۔ اب جوں جوں سردی زیادہ ہوتی جاتی ہے بلغم میں زیادتی ہوتی جاتی ہے۔ صبح قریباً ایک گھنٹہ تک بلغم جاری رہتی ہے۔ دوسرے اوقات میں کبھی آتی ہے کبھی نہیں آتی ہے۔ بلغم کچی آتی iii؎ہے اور اس کے نکل جانے سے آواز میں صفائی اور ترقی پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں کا یہ خیال ہے کہ قلب کے قریب سے جو نالی گزرتی ہے اس میں بلغم پیدا ہوتی ہے۔ شاید اِطباّ اس کا سرچشمہ دماغ بتاتے ہیں۔ بہرحال یہ خط حکیم صاحب قبلہ کو سنا دیجیے اور اگر کوئی دوا دافع بلغم وہ تجویز فرمائیں تو مہربانی کر کے اسے جلد بھجوا دیجیے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ اُمید ہے کہ آپ کا مزاج اچھا ہو گا۔ جاوید اچھا ہے۔ امید ہے کہ آپ کا جاوید بھی اچھا ہو گا۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: تصحیح کی گئی ہے i؎ انوار= ڈیر ڈاکٹر مظفر الدّین۔ii؎ انوار= رات کو ہوتا ہے اوررات کو بھی۔ iii؎انوار=کچی ہوتی ہے (۸۷) ۸؍دسمبر۱۹۳۷ء ڈیر پروفیسر قریشی آپ کا خط مل گیا ہے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں میری طرف سے بہت بہت آداب عرض کریں۔ باقی رہا ان کااعترافِ کمال سو اس وقت ہندوستان کیا بلکہ تمام ایشیا میں اسلامی طب انھیں کے نام سے زندہ ہے۔ میری طرف سے ان کی خدمت میں یہ دو شعر عرض کر دیجئے گا جو ایک علیحدہ کاغذ پر لکھتا ہوں والسلام محمدؐاقبالؔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کہ میری آنکھوں میں موتیا۱؎ اترآیا ہے اور آپریشن ماہ مارچ میں ہوگا۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کر دیجئے کہ وہ سرمہ جو آپ نے عنایت فرمایا تھا مفید ثابت نہ ہوا۔ کیااسلامی طبّ میں موتیا کا کوئی علاج نہیں؟ حواشی و تعلیقات ۱؎موتیا بند (Cateract)نزوالما سے آنکھ کے عدسے یااس کے کِیسے (Capsule of eye) کاغیر شفاف ہوجانا مراد ہے۔ اسباب میں ناقص نشوونما‘ ضرارت اور بڑھاپا شامل ہے۔ بصارت اکثر عملِ جراحی سے بحال کی جا سکتی ہے۔ اس کی دو قسموں میں سفید اور کالا موتیا۔ سفید موتیا کا آپریشن کے ذریعے علاج ممکن ہے لیکن تاحال کالے موتیے کا علاج ممکن نہیں ہو سکا۔ مآخذ: اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘ جلد دوم‘ ص:۱۶۳۵ (۸۸) میوروڈ۔ لاہور ۱۳؍دسمبر ۳۷ء آپ کے گزشتہ خط سے معلوم ہواتھا کہ حکیم صاحب نے میری بلغم اور کھانسی کے لیے ایک نئی دوا تجویز کی ہے جو دو چار روز میں بھیج دی جائے گی۔ مجھے اس دوا کا ہر روز انتظار رہتا ہے۔ مہربانی فرما کر یہ دوا جلد بھجوا دیجئے۔ عنایت ہو گی۔ باقی خدا کا فضل ہے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں سلام پہنچے۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ (۸۹) لاہور ۱۸؍دسمبر ۱۹۳۷ء Dear ؎i Prof Kureshi حکیم صاحب قبلہ کی فوری توجہ مندرجہ ذیل تین باتوں کی طرف دلائیں۔ (۱) وہ دوائی جو مونگ کے دانہ کے برابر روزانہ استعمال کے لیے تھی ایک مدّت (جب سے آئی ہے) سے استعمال ہو رہی ہے مگر بلغم کی تولید پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ (۲) تھوڑی سی حرکت کرنے مثلاً کپڑے بدلنے یا دس بیس قدم چلنے سے میرا دم پھول جاتا ہے اور اس کے بعد جب تک پانچ سات منٹ بیٹھ نہ جاؤں یا لیٹ نہ جاؤں دم ٹھیک نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں کہ یہ نتیجہ اعصاب کی کمزوری کا ہے یا پھیپھڑوں یا قلب کی کمزوری کی وجہ سے۔ یہ بات حکیم صاحب کی خاص توجہ کی مستحق ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ دم پھولتا تھا تاہم اس طرح نہیں ہوتا تھا۔ میری استدعا یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی خاص دوا تجویز فرمائی جائے۔ (۳) معلوم ہوتا ہے کہ میرے جسم میں یورک ایسڈ کا مواد ہے جو کبھی نقرس کی شکل میں نمودار ہوتا ہے کبھی پٹھہ یا زانو کی تکلیف کی صورت میں۔ حملہ اگرچہ شدید نہیں ہوتا تاہم کوئی مہینا خالی نہیں جاتا جب یہ تکلیف نہ ہو۔ اس کے لیے بھی خاص اہتمام کی ضرورت ہے۔ مہربانی فرما کر آپ خود حکیم صاحب کے پاس جائیں اور لفظ بلفظ یہ خط ان کو پڑھ کر سنائیں اور جو کچھ وہ فرمائیں اس سے فوراً مجھے مطلع فرمائیں۔ والسلام محمدؐ اقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار= ڈیر پروفیسر قریشی۔ زیر نظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ (۹۰) ڈیر پروفیسر قریشی صاحب سرمہ مرسلہ حکیم صاحب موصول ہو گیا ہے۔ میری طرف سے ان کی خدمت میں شکریہ ادا کیجئے۔ والسلام ۳۰؍دسمبر۱۹۳۷ئ۱؎ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ ’’انوار‘‘ میں سنہ تحریر درج نہیں ہے۔ صابرکلوروی نے اس خط کا سنہ تحریر ۱۹۳۷ء متعین کیا ہے جو صحیح ہے کیونکہ مکتوب الیہ کے نام ۸؍دسمبر ۱۹۳۷ء کے خط میں بھی سرمے کا ذکر ہے۔ زیر نظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ (۹۱) لاہور ۲۲؍جنوری ۱۹۳۸ئi؎ ڈیر پروفیسر قریشی آپ کا خط آج موصول ہوا ہے۔ میں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ گولیاں ارسال کردہ حکیم صاحب موصول ہو گئی ہیں۔ معجون جس کی نسبت آپ لکھتے ہیں کہ ترک کر دی جائے وہ میں نے پہلے ہی ترک کر دی تھی۔ باقی ایک معجون حکیم صاحب کی بھیجی ہوئی میرے پاس اور ہے جو مونگ کے برابر ناشتہ کے درمیان کھائی جاتی تھی۔ اگر حکیم صاحب کا ارشاد ii؎ہے تو بدستور سابق اسی کااستعمال کیا جائے گا۔ مگر پیشتر اس کے کہ میں اس کا استعمال شروع کروں آپ حکیم صاحب کی خدمت میں مندرجہ ذیل باتیں عرض کریں: ڈاکٹر صاحب کے معائنہ کے مطابق قلب اور پھیپھڑوں کی حالت اچھی ہے۔ حکیم قرشی ۱؎صاحب جو ہمارے طبیہ کالج کے پرنسپل ہیں ان کو نبض بھی دکھائی گئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ نبض کی حالت بھی اچھی ہے۔ عام دیکھنے والے بھی میرے چہرے سے بیماری کاقیاس نہیں کر سکتے۔ بایں ہمہ میری سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ذرا سی حرکت سے میرا دم پھول جاتا ہے۔ تھوڑا سا چلنا پھرنا‘ کپڑے بدلنا‘ پاخانے آنا جانا‘ یہاں تک کہ مسلسل پانی کا آدھا گلاس پینا یہ سب چیزیں تنفس پر اثر کرتی ہیں۔ بعض دفعہ رات کو پچھلے پہر بھی تنفس تکلیف دیتا ہے اور حکیم قرشی صاحب کے جوشاندہ جس میں عناب‘ گاؤ زبان اور ابریشم وغیرہ ہے‘ کے پینے سے آرام ملتا ہے۔ ریح کے اخراج سے بھی تنفس پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تنفّس کی تکلیف شدت برودت کی وجہ سے ہے یا ریح کی وجہ سے۔ حکیم صاحب قبلہ بہتر اندازہ کر سکتے ہیں‘ غالباً ریح کی وجہ سے ہے۔ قریباً چار سال ہوئے ہیں حکیم صاحب نے فرمایا تھا کہ تمھاری بیماری اصل میں مرض دمہ کی ایک ہلکی سی صورت ہے۔ اب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ حکیم صاحب کاارشاد بالکل بجا تھا۔ تنفس کی یہ حالت اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ کچھ نہ کچھ دم پھولتا تھا مگر موجودہ حالت صرف اسی موسمِ سرما میں ہوئی ہے‘ اس سے پہلے نہ تھی۔ اس واسطے میری استدعا ہے کہ حکیم صاحب ان حالات کی طرف خاص توجہ فرمائیں یہ حالت سننے کے بعد اگر حکیم صاحب کا یہ ارشاد ہو کہ وہی مونگ کے دانہ والی معجون کا استعمال جاری رکھنا مناسب ہے تو میں اس ]کا[استعمال کروں گا۔ حکیم قرشی صاحب جن کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ دواء المسک اور خمیرہ گاؤ زبان عنبری کا استعمال میرے لیے بہت مفید ہوگا۔ مہربانی فرما کر آپ اس بارے میں حکیم صاحب سے مشورہ فرمائیں اور جو کچھ ان کی رائے ہو اس سے مجھے مطلع فرمائیں۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ امید کہ آپ بھی بخیریت ہوں گے۔ لاہور میں سردی کی بہت شدت ہے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار=۱۹۳۷ء صابر کلوروی صاحب کے مطابق صحیح ۱۹۳۸ء ہے (اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۹۱) ii؎ انوار=ارشاد ہو… زیرِ نظر خط کا عکس اقبال اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ حکیم قرشی (محمد حسن قرشی):(۱۸۹۶ئ‘ ۶؍دسمبر ۱۹۷۴ئ) برّصغیر کے ممتاز طبیب‘ گجرات میں پیدا ہوئے‘ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور طبی تعلیم کا آغاز اگرچہ لاہور سے کیا تاہم دہلی میں تکمیل کی۔ پھر طبیہ کالج دہلی میں پروفیسر ہو گئے بعدازاں بمبئی میں مطب کرنے لگے۔ ۱۹۲۰ء میں لاہور آگئے۔ ۱۹۳۶ء میں حکومتِ حیدرآباد اور ۱۹۴۶ء میں حکومتِ ہندوستان کی مقرر کردہ طبی کمیٹی کے رکن مقرر ہوئے۔ وہ طبیہ کالج کمیٹی لاہور کے صدر‘ انجمن حمایتِ اسلام کے نائب صدر اور آل پاکستان آیور ویدک یونانی طبی کانفرنس کے تاحیات صدر رہے۔ پنجاب یونی ورسٹی نے انھیں ایران میں منعقدہ بوعلی سینا کی برسی کے لیے اپنا مندوب مقرر کیا۔ حکومت پاکستان کی سائنسی صنعتی کونسل کی جانب سے مقرر کردہ ادویہ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ سالہا سال انھیں طبیہ کالج لاہورکا پرنسپل ہونے کااعزاز بھی حاصل رہا۔ انھوں نے متعدد طبی کتایں لکھیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور موتمر عالمِ اسلامی کانفرنسوں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ انھیں ان کی طبی خدمات کے صلے میں شفاء الملک کاخطاب دیا گیا۔ حکیم قرشی‘ اقبالؔ کے دوست اور معالج بھی رہے۔ انھوں نے اقبالؔ کو پہلے پہل ۱۹۰۹ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں نظم ’’شکوہ‘‘ سناتے دیکھا۔ ’’شکوہ‘‘ کے علاوہ انھوں نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کے بعض اجزا‘ ’’خضرِ راہ‘‘ اور ’’طلوعِ اسلام‘‘ کو انجمن کے جلسوں میں سنا۔ اقبالؔ کی نطموں کے علاوہ انھوں نے ان کی متعدد سیاسی اور علمی تقریریں بھی سنیں۔ اقبالؔ طبِ یونانی کے معترف نہ تھے لیکن حکیم صاحب نے انھیں طبِ یونانی کی خوبیوں اور صفات کا کسی حد تک معترف کر لیا تھا۔ اقبالؔ حکیم نابینا سے گلے کاعلاج کرانے کے ساتھ ساتھ حکیم قرشی سے بھی مشورہ کرتے تھے۔ غرض حکیم صاحب سے اقبالؔ کے آخری دم تک مخلصانہ روابط قائم رہے۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ لاہور نمبر‘ص:۸۳۷ ۲) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’ملفوظاتِ اقبال مع حواشی و تعلیقات‘‘ص:۲۷۶۔۲۹۱ ۳) فیوض الرحمن ڈاکٹر:’’معاصرین اقبال‘‘ ص:۹۵۷۔۹۶۰ ۴) آفتاب احمد قریشی (حکیم): ’’کاروانِ شوق‘‘، ص:۴۸۲۔۴۸۴ (۹۲) لاہور ۲۲؍جنوری ۱۹۳۸ئi؎ ڈیر پروفیسر قریشی عرضِ حال پہلے خط میں کر چکا ہوں جو اُمید ہے کہ آپ تک پہنچ گیا ہوگا اور آپ نے اسے حکیم صاحب کی خدمت میں پڑھ کر سنا بھی دیا ہو گا۔ آج معلوم ہوا کہ تینوں قسم کی گولیاں یعنی روح الذہب قدیم‘ روح الذہب جدید اور حب تقویت صلب قریب الاختتام ہیں۔ شاید دس بارہ روز کے لیے ہوں۔ باقی وہ دوائی جو مونگ کے دانے کے برابر کھائی جاتی ہے ابھی کافی ہے۔ اس کی نسبت میں پہلے خط میں لکھ چکا ہوں کہ بلغم پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ باقی حالات پہلے خط میں لکھ چکا ہوں۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور آپ کا بچہ بھی خوش و خرم ہو گا۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ انوار=۱۹۳۷ء اقبالؔ سے سنہ لکھنے میں سہو ہوا ہے۔ (۹۳) ۳۱؍جنوری ۱۹۳۸ء ڈیر پروفیسر قریشی دوائی جو آپ نے ارسال کی ہے آج موصول ہو گئی ہے۔ کل سے اِن شاء اللہ اس کا استعمال شروع ہوگا اور ایک ہفتے کے بعد ان شاء اللہ اس کے اثرات سے مطلع کروں گا۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلغم۱؎اگر بند ہو جائے تو کسی قدر تکلیف دیتی ہے اور اگر ہر صبح آسانی کے ساتھ نکل جائے تو مقابلتاً حالت بہتر رہتی ہے۔ بہرحال جو دوائی آپ نے اب بھیجی ہے اس کے استعمال کے بعد زیادہ یقین کے ساتھ کہہ سکوں گا۔ دوسری بات جو حکیم صاحب کی توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ میرے انگوٹھے‘ زانو یا جسم کے اور حصوں میں کبھی کبھی درد ہوتا ہے۔ یہ درد اگرچہ شدید نہیں ہوتا تاہم دو چار دن تکلیف ضرور دیتا ہے۔ ہر مہینے میں ایک آدھ دفعہ ضرور ہوتا ہے۔ تھوڑی سی حرکت سے دم پھول جانے کے متعلق میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ یہ بات سب سے زیادہ توجہ کے قابل ہے۔ قبض کی شکایت بھی عموماً رہتی ہے۔ تین چار روز ہوئے ڈاکٹر سے قلب اور پھیپھڑوں کا معائنہ کرایا تھا۔ وہ دونوں کی حالت ٹھیک بتاتے ہیں۔ روح الذہب کے ساتھ اگر کوئی معجون حکیم صاحب ایسی تیار فرمائیں کہ جس میں درد‘ بلغم اور دم پھول جانے یعنی تینوں باتوںii؎کا خاص لحاظ رکھا جائے تو شاید یہ معجون بہت موثر ہو۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں میری طرف سے بہت بہت آداب عرض کریں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار= بلغم بند ہو۔ ii؎ انوار=تینوں کا۔ خط کاعکس اقبال اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ (۹۴) لاہور ۳؍فروری۱۹۳۸ء ڈیر پروفیسر قریشی معجون جو آپ نے حکیم صاحب سے لے کر ارسال کی ہے وہ میں نے دو روز استعمال کی ہے اور دو روز میںاس کااثر یہ ہوا ہے کہ بلغم کااخراج بہت کم ہوگیا ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک معلوم نہیں ہوتا کہ بلغم کی تولید بھی کم ہو گئی ہے کیونکہ بلغم کااخراج نہ ہونے سے میری آواز پر نمایاں اثر پڑا ہے یعنی گلا بیٹھ گیا ہے۔ پہلے یہ تھا کہ بلغم کے ہرصبح اخراج ہو جانے سے آواز صاف رہتی تھی لیکن اس دوائی کے استعمال سے اخراج تو کم ہوتا ہے مگر آواز بیٹھ جاتی ہے۔ تولید پر میرے خیال میں اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کر دیں۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ آپ نے سُرمہ کے متعلق استفسار کیاتھا۔ اس کا جواب لکھنا میں بھول گیا۔ آپ حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں عرض کریں کہ اس سرمے سے بینائی میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ ڈاکٹر صاحب یہی کہتے ہیں کہ سرموں سے اس پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ مارچ یا اس کے بعد میں آپریشن کا وقت بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکیم صاحب کی خدمت میں یہ بھی عرض کریں کہ میری بھوک کم ہو گئی ہے اور نیند بھی پہلے کی طرح مسلسل نہیں آتی۔ رات کو میں چھ سات (گھنٹے) سو تو لیتا ہوں مگر یہ نیند مسلسل نہیں ہوتیi؎۔ جاوید آداب کہتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کا بچہ تندرست ہو گا۔ والسلام محمد ؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ انوار=مسلسل نہیں آتی۔ جاوید آدابِ۔ زیرِ نظر خط اقبال ؔاکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود عکس کے مطابق مرتّب کیا گیا ہے۔ (۹۵) لاہور ۱۶؍فروری۳۸i؎ ڈیر پروفیسر قریشی گولیاں جو آپ نے حکیم صاحب سے لے کر ارسال فرمائی ہیں موصول ہو گئی ہیں۔ باقی دوا کاانتظار ہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے عرض کیا ہے مجھ کو زیادہ تر شکایت ایسی بھی ہے کہ ذرا سی حرکت سے دم پھول جاتا ہے اور کبھی کبھی رات کو تنفّس کی تکلیف بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ شدّتِ سرما کی وجہ سے ہو جو آج کل لاہور میں غیر معمولی طور پر وسط فروری میں نمایاں ہو گئی ہے۔ کم خوابی کی بھی شکایت ہے۔ مسلسل نیند صرف رات کے آخری گھنٹوں میں آتی ہے۔ پہلے گھنٹوں میں وقتاً فوقتاً اس میں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ سرمے کی نسبت میں پہلے لکھ چکا ہوں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ باقی آپ کہتے ہیں کہ حیدرآباد آئیے۔ دل تو حکیم صاحب سے ملنے کوبہت چاہتا ہے اور ملاقات کی ضرورت بھی ہے۔ اس کے علاوہ حیدری صاحب بھی دعوت دیتے ہیں مگر افسوس کہ صحت اتنے طویل سفر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عثمانیہ یونی ۱؎ورسٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مجھ کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی جائے۔ اس فیصلے کے لیے میں صدراعظم صاحب اورنواب مہدی یارجنگ بہادر۲؎کا شکر گزار ہوں۔ نواب مہدی یار جنگ صاحب نے لکھا تھا کہ حیدرآباد آئیے‘ آپ کی آسایش کا پورا انتظام کیا جائے گا۔ مگر افسوس ہے کہ صحت اجازت نہیں دیتی۔ حیدری صاحب نے مجھ پر ایک مزید عنایت کی اور وہ یہ کہ اقبالؔ ڈے کے موقعے پر حضورنظام کے توشہ خانے سے بھی ایک ہزار روپیہ عطا فرمایا مگر افسوس کہ میں انii؎کے اس عطیے کو قبول نہ کر سکا۳؎۔ باقی خُدا کے فضل سے خیریت ہے۔ امید ہےiii؎ آپ کا بچہ اچھا ہو گا۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار=۱۹۳۸ء ii انوار=میں اس عطیے۔ iii؎ انوار=امید ہے کہ۔ خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ عثمانیہ یونی ورسٹی: سر راس مسعود کے قیامِ حیدرآباد کا زرّیں کارنامہ ’’جامعۂ عثمانیہ‘‘ کا قیام ہے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے سلسلے میں پہلی آواز ۱۸۷۳ء میں محمد حسین (المعروف نواب الفتیار جنگ) نے بلند کی تھی۔ انھوں نے ’’جامع العلوم‘‘ کے قیام کے لیے ایک اپیل شائع کی تھی۔ ۱۸۸۳ء میں ایک انگریز مسٹر بلنٹ نے جامعہ مشرقی کاخاکہ مرتّب کر کے نواب میر محبوب علی خان کی خدمت میں باغِ عامہ کے اجلاس میں پیش کیا۔ بلنٹ کے برطانیہ چلے جانے کی بنا پر یہ سلسلہ وقتی طور پر بند ہو گیا۔ حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے اجلاس منعقدہ اورنگ آباد کی صدارت کرتے ہوئے ۱۹۱۴ء میں سراکبر حیدری نے کہاتھا کہ ہمیں ایک جدید یونی ورسٹی کی ضرورت ہے جہاں تعلیم عملی ہو اور امتحان بھی اور ساتھ ہی ساتھ تالیف و ترجمہ کا کام بھی کرے۔ سراکبر حیدری کی جانب سے تیار کر دہ عرضداشت جس میں راس مسعود نے بھی حصہ لیا تھا‘ ۲۲؍ستمبر ۱۹۱۸ء کو نظام دکن میر عثمان علی خان نے کلیہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دے دی اور یونی ورسٹی کاافتتاح ۲۸؍اگست ۱۹۱۹ء کی صبح دس بجے آغا محمد حسن کی رہایش (واقع سانچہ توپ) میں ہوا۔اس تقریب کی صدارت مولوی حبیب الرحمن شیروانی نے کی۔ کلیہ جامعہ کے اوّلین عارضی صدر کے طور پر نواب مسعود جنگ (سرراس مسعود) ۲۸؍اگست ۱۹۱۹ء تا ۱۹۲۰ء کام کرتے رہے۔ مآخذ: ۱) فتح محمد خان (مقالہ نگار): ’’اقبالؔ اور راس مسعود‘‘ (مقالہ: ایم۔فل) ۱۹۹۴‘ص:۲۶۔۲۷ ۲) مجیب الاسلام ڈاکٹر: ’’دارالترجمہ عثمانیہ کی علمی وادبی خدمات‘‘،ص:۱۳۔۳۸ ۲؎ نواب مہدی یار جنگ: عمادالملک سیّد حسین بلگرامی کے فرزند تھے۔ ۱۸۸۰ء میں پیدا ہوئے۔ آکسفورڈ سے بی اے اور ایم اے کیا۔ ۱۹۱۱ء میں نظام کے پولیٹیکل سیکرٹری اور ۱۹۱۵ء میں فنانس سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۱۸ء میں عثمانیہ یونی ورسٹی کے پرنسپل منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۰ء میں ریاست کے نمایندے کی حیثیت سے گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔۱۹۴۸ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) ’’داستانِ ادب حیدرآباد‘‘ص:۱۸۹ "Muslims in India, A Bioghraphical Dictionary Vol:II",P:51۲۔ ۳؎ اس واقعے کا ذکر ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کی ایک نظم میں موجود ہے‘ جس کاآخری شعر یہ ہے : ؎غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خُدائی کی زکات (کُلیات‘ اُردو‘ ص:۷۵۳) مزید دیکھیے: خط نمبر۱۹ بنام سراکبر حیدری (تعارف) (۹۶) لاہور ۱۸؍فروری ۱۹۳۸ء ڈیر پروفیسر قریشی مَیں آپ کو ایک خط لکھ چکا ہوں جس میں مفصل حالات عرض کردیے تھے۔ امید ہے کہ آپ نے وہ خط حکیم صاحب کو سنا دیا ہو گا۔ یہ خط بھی اس کے ہمراہ سنا دیجئے۔ کل آپ کو لکھ چکنے کے بعد رات کو مجھے تنفس کی بہت تکلیف رہی قریباً ۱۲؍بجے شب سے ۳بجے صبح تک۔ صبح اٹھ کر مَیں نے ڈاکٹر کو بلوایا اور معائنہ کروایا۔ انھوں نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ دمہ ہے۔ مگر اس دمہ کو پھیپڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ وہ دمہ ہے جو قلب کے اعصاب کی کمزوری سے پیدا ہوتا ہے۔ مَیں تو خیال کرتا تھا کہ شاید شدتِ سرما یاریح کے باعث تکلیف ہو جاتی ہے مگر اب معلوم ہوا کہ اس کی اصل وجہ قلب کی کمزوری ہے۔ حکیم صاحب کا بھی یہی خیال تھا کہ اسی واسطے مَیں نے ان کو ڈاکٹری معائنے کے نتیجے سے مطلع کرنا ضروری سمجھا ہے تاکہ اگر میرے لیے کوئی اور معجون تیار کریں تو اس نتیجہ کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔ باقی حالات آپ کو پہلے لکھ چکا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کامزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: ’’انوار کا متن اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود عکس کے مطابق ہے۔ (۹۷) جاوید منزل ۲۹؍مارچ ۱۹۳۸ئi؎ ڈیر پروفیسر مظفرالدین افسوس ہے مَیں اتنے دنوں تک آپ کو یا کسی اور دوست کو کوئی خط نہیں لکھ سکا۔ دمہ کے متواتر دوروں سے بہت تکلیف رہتی]ہے [ یہاں تک کہ ایک وقت زندگی سے بھی مایوسی ہو گئی۔ اُسیiii؎وقت نیازی صاحب کے اصرار سے یہ غلطی کی گئی کہ حکیم صاحب کی آمد کی کوشش کرنے کے لیے آپ کو تار دیا گیا۔ مَیں اس غلطی کے لیے جس کے ذمہ دار زیادہ تر میرے احباب ہیں‘ بہت نادم ہوں۔ میں اچھی طرح سے iii؎جانتا ہوں کہ وہ حضور نظام کے پرائیویٹ ملازم ہیں۔ سیکڑوں مریض ان کے زیرِ علاج ہوں گے جن کو چھوڑ کر آنا ان کے لیے نہایت مشکل ہے۔ اس کے علاوہ اتنے طویل سفر کے متحمل نہیں۔ بہرحال آپ حیدری صاحب کی خدمت میں اس غلطی کی معذرت کر دیجیے اور اس کے لیے مزید کوشش ترک کر دیجیے۔ دو دوائیاں جو آپ نے بھیجی تھیں ان کا استعمال آج آٹھ نو روز سے جاری ہے۔ دوروں کے تواتر میں بہت افاقہ ہے اورصحت اپنی اصل حالت کی طرف رفتہ رفتہ عود کر رہی ہے۔ ہاں کبھی پیٹھ کا درد جس کا حال حکیم صاحب]کو[اَچھی طرح سے معلوم ہے باقی ہے یا ایک مدّت کے بعد عود کر آئی ہے۔ ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس درد کا تعلق بھی قلب کی کمزوری سے ہے۔ حکیم صاحب کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ پیٹھ کے اوپر نصف حصہ میں یعنی گردن سے لے کر دونوں شانوں کے درمیان تک یہ درد ہوتی ہے۔ اس شکایت کے علاوہ دوسری شکایت یہ ہے کہ اجابت باقاعدہ کھل کر نہیں ہوتی ہے۔ تیسری شکایت یہ ہے کہ رات کو نیند شب کے پہلے حصہ میں کم آتی ہے۔ آخری حصہ میں البتہ کچھ نیند آتی ہے۔ پیٹھ کی درد بالعموم رات کو ہوتی ہے۔ یہ تینوں شکایات یعنی (۱) پیٹھ کی درد (۲) اجابت کا کھل کر نہ ہونا اور (۳) نیند کی کمی حکیم صاحب کی خصوصی توجہ کے لائق ہے۔ میری طرف سے ان کی خدمت میں بہت بہت سلام اور شکریہ عرض کیجئے۔ اگر ان کی مرسلہ دوائیوں سے مجھ کو مقابلتاً کچھ صحت ہو گئی اور مَیں سفر کے لائق ہو گیا تو بہت ممکن ہے کہ مَیں خود ان کی خدمت میں زبانی مشورت کے لیے حاضر ہوں گا۔ فی الحال ڈاکٹروں نے مجھ کو سفر سے بالکل منع کر دیا ہے یہاں تک کہ اگر ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جانا ہو تو مجھ کوچارپائی پر ہی لے جایا جاتا ہے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ حیدری صاحب کی خدمت میں اگر آپ حاضر ہوں تو میری طرف سے سلام عرض کر دیجیے۔ باقی جو شعر انھوں نے طلب فرمائے ہیں مَیں ان کی خدمت میں عرض کروں گا۔ پہلا شعر میرے ذہن سے اتر گیا ہے اگر وہ شعر یاد آگیا اور اگر یاد نہ آیا تو نیا شعر لکھ کر تینوں شعر لکھ کر بھیج دوں گا۔ آپ ان کو اطمینان دلائیں۔ آپ کے جاوید کو پیار۔ والسلام اس خط کا جواب اور اگر حکیم صاحب کوئی دوائی تجویز فرمائیں تو دوا جلد ارسال فرمائیں۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ صابر کلوروی صاحب کے مطابق اس کا سنہ تحریر ۱۹۳۸ء ہے اور یہی درست بھی ہے۔ کیونکہ (اشاریۂ مکاتیب‘‘ ص:۹۱) ۳۰؍مارچ کے خط میں اس خط کا ذکر ہے۔ ii؎ انوار=اس۔ iii؎ انوار=اَچھی طرح جانتا۔ (۹۸) اپریل ۱۹۳۸ئi؎ ڈیر پروفیسر مظفرالدین اس سے پہلے دو خط لکھ چکا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ نے وہ دونوں خطوط حکیم صاحب قبلہ کی خدمت میں پیش کردیئے ہوں گے جس سے ان کو میری تمام موجودہ شکایات معلوم ہو گئی ہوں گی۔جو دوا آپ نے بھیجی تھی وہ بیس روز کے لیے تھی۔ آج بارہ روز گزر گئے ہیں صرف ۸ روز کی خوراک باقی ہے۔ یہ آٹھ روز اس خط و کتابت میں صرف ہو جائیں گے اور جب یہ خط آپ کو ملے گا میرے پاس صرف چار روز کی دوا ہو گی۔ مہربانی کر کے اس خط کے پہنچتے ہی حکیم صاحب کی توجہ دلائیں۔ ان شکایات کا ملحوظ رکھتے ہوئے جو میں پہلے خطوں میں لکھ چکا ہوں یا تو اسی دوا میں ترمیم کی جائے یا کوئی اور دوا تجویز فرمائی جائے۔ حیدری صاحب کے مطلوبہ اشعارعلیحدہ کاغذ پر لکھتا ہوں۔ یہ ان کی خدمت میں پیش کر دیجیے۔ افسوس ہے کہ تیسرا شعر میرے حافظہ سے اتر گیا ہے مگر موجودہ دونوں شعر بھی بہت مربوط ہیں۔ اِن شاء اللہ تندرست ہونے پر اور بھیج دوں گا۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور میں موجود ہے۔ ’’انوار‘‘ کا متن عکس کے مطابق ہے۔ صابر کلوروی نے اس خط کی تاریخِ تحریر اپریل ۱۹۳۸ء متعین کی ہے‘ یہ مکتوب الیہ کے نام آخری خط ہے۔ (اشاریۂ مکاتیب‘ص:۹۱) (۹۹) لاہور جاوید منزل ۳۰؍مارچ ۳۸ء ڈیرپروفیسر مظفرالدین کل مَیں آپ کوایک خط لکھ چکا ہوں جس میں مَیں نے اپنیi؎تین شکایات لکھی تھیں یعنی اجابت کا کھل کر نہ ہونا‘ نیند کا نہ آنا اور پیٹھ کا درد۔ دو باتیں اور تھیں جن کو میںii؎لکھنا بھول گیا۔ یعنی پیشاب کا کم آنا۔ ایک پاؤں میں خفیف سا ورم ہونا جو غالباً خرابی جگر کی علامت ہے۔ یہ باتیں اس سے پہلے نیازی صاحب حکیم صاحب کی خدمت میں لکھ چکے ہیں۔ احتیاطً میں بھی لکھتا ہوں۔ مَیں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے حیدرآباد کی طرف سے میرے اعتراض کیے جانے کے متعلق حیدری صاحب سے ذکر کیا ہے۔ شاید آپ کو سارے حالات معلوم نہیں اس وجہ سے آپ نے ان سے ذکر کر دیا۔ ورنہ حالات اس قسم کے ہیں کہ حیدری صاحب سے اس بات کا ذکرکرنا نامناسب۱؎ہے۔ آیندہ احتیاط رکھنا چاہیے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ آپ کے بچے جاوید کو دعا۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: زیرنظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ i؎ انوار=مَیں نے تین iii؎ انوار=جن کو لکھنا۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۱۹ کا تعارف (سراکبرحیدری)۔ بنام ضیاء الدین برنیؔ تعارف: ان کا خاندان پنجاب سے دِلّی آیا تھا۔ ۳؍فروری ۱۸۹۰ء کو پیدا ہوئے۔ دِلّی میں چھتّہ لال میاں میں رہے۔ اصل نام ضیاء الدّین احمد تھا۔ جب یہ مختلف اخبارات اور رسائل میں مضامین لکھنے لگے تو خواجہ حسن نظامی نے ان کو (۶۸۴ھ۔۱۲۸۵ئ) مصنف ’’تاریخِ فیروزشاہی‘‘ کے نام ان کی مناسبت سے برنی کا لقب عطا کیا۔ اس کے بعد اس نام سے ادبی حلقوں میں مشہور ہو گئے۔ یہ ۱۹۱۵ء تک تھوسوفیکل ہائی اسکول کانپور میں ٹیچر رہے۔ ۱۹۱۶ء میں Translation Office بمبئی میں ملازم رہے۔ انھوں نے سی ایف اینڈریوز(C.F.Andrews) کی مشہور کتاب ذکاء اللہ دہلوی (Zakaullah of Dehlive) کا ترجمہ ’’عظمتِ رفتہ‘‘ کے نام سے کیا۔ مشاہیر کے حالات لکھے۔ عطیہ فیضیؔ کی کتاب ’’اقبالؔ‘‘ کااُردو میں ترجمہ کیا‘ جو ستمبر ۹۱۹۵۶ میں اقبال اکادمی کراچی سے شائع ہوا۔ ان کی ایک اور تصنیف ’’اخباری لغات‘‘ تھی جس کو یہ اقبالؔ کے نام معنون کرنا چاہتے تھے۔ تقسیمِ ملک کے بعد پاکستان آگئے اور یہیں ۱۹۶۹ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) ماہرالقادری (مرتب):’’یادِرفتگاں) حصہ اوّل)‘‘ ص:۳۸۱۔۳۸۴ ۲)محمود الرحمن ‘ ڈاکٹر: ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘،صؒ۱۰۲۔۱۰۵ (۱۰۰) مکرم بندہ تسلیم آپ کا نوازش نامہ ملا۔ میں اس عزت کا نہایت مشکور ہوں جو آپ مجھے دینا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ میں اسے قبول کرنے سے قاصر ہوں اور اس وجہ سے کہ مجھے اس قسم کے نام و نمود ۱؎سے قطعی اجتناب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے معاف فرماویں گے۔ تعجب ہے کہ اس واقعہ کو آپ کشیدگی تعلقات۲؎سے تعبیر فرماتے ہیں۔ اس واقعہ سے پہلے میرے آپ کے کوئی تعلقات نہیں تھے اور میں نے اس موقع پر جو کچھ عرض کیا تھا اس میں مَیں اخلاقی اعتبار سے بالکل حق بجانب تھا۔ اس کو آپ بخوبی سمجھتے تھے اور یقینا اب بھی سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی اور معاملہ ہوتا یااب ہو تو میں ہر طرح آپ کی مدد کے لیے حاضر ہوں۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔi؎ تحقیقِ متن: زیر نظر خط کا عکس ’’کلیاتِ مکاتیب اول‘‘ (ص:۳۶۳) میں شامل ہے۔i؎ انوار= آپ کاخادم محمد اقبالؔ (دیکھیے: عکس) حواشی و تعلیقات ۱؎ برنیؔ صاحب چاہتے تھے کہ وہ اپنی کتاب ’’اخباری لغات‘‘ کو اقبالؔ کے نام سے معنون کریں‘ اس کے لیے انھوں نے اقبالؔ سے اجازت طلب کی تھی۔ ۲؎ لاہور میں جب اقبالؔ سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں برنیؔ صاحب کو معلوم ہوا کہ اقبالؔ بی۔اے کے فلسفے کے مضمون کے ممتحن ہیں۔ انھوں نے جسارت کر کے اپنا رول نمبر پیش کر دیا۔ جس پر اقبال خفا ہو گئے اور ملاقات منقطع ہو گئی۔ ’’کشیدگیِ تعلقات‘‘ سے اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ مآخذ: محمودالرحمن‘ ڈاکٹر: ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘، ص:۱۰۳‘۱۰۴۔ (۱۰۱) لاہور۲۰؍اپریل ۱۵ء مکرم بندہ۔ السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے۔ اگر کتاب۱؎کو میرے نام سے معنون کرنے سے اس کی قدروقیمت میں کوئی اضافہ ہو سکتا جو آپ کی مالی منفعت یا کسی اور فائدے کاباعث ہوتا تو میں ضرور اجازت دے دیتا مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کا یہ اثر نہیں ہوسکتا کہ مجھے اخباری دنیا یا اخبار نویسی سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر چونکہ آپ مُصر ہیں اس واسطے میں اپنا پہلا خط واپس لیتاi؎ہوں اور یہ عرض کرتا ہوں کہ میں کتاب دیکھ کر ہی آخری فیصلہ کروں گا۔ لیکن آپ مجھ سے یہ عہد کریں کہ اگر کتاب دیکھ کر میں نے اجازت نہ دی تو آپ اس سے ناراض نہ ہوں گے۔ اس واقعے کا کوئی اثر میرے دل پر نہ تھا اور نہ اب ہے۔ آپ بلاتکلف جب چاہیں میرے غریب خانے پر تشریف لاویں۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: زیرنظر خط کا عکس ’’کلیاتِ مکاتیب، اوّل‘‘(ص:۳۶۵) میں شامل ہے۔ i؎=واپس کرتا ہوں۔ (دیکھیے :عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ کتاب سے مراد ’’اخباری لُغات‘‘ ہے (۱۰۲) مکرم بندہ آپ کی کتاب مفید ثابت ہو گی۔ اُردو خوانوں کے لئے بالخصوص اس قسم کی کتاب کی ضرورت تھی۔ اگر آپ اس کتاب کے ڈیڈیکیشن سے مجھے معزز کرنا چاہتے ہیں تو میں آ پ کی راہ میں حائل ہونا نہیں چاہتا۔شوق سے ڈیڈیکیٹ کیجیے۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۲؍مئی ۱۵ء (۱۰۳) لاہور ۳۰؍اکتوبر ۱۵ء مکرمی۔ السلام علیکم۔ آپ کا خط مل گیا ہے جس کے لیے میں آپ کاممنون ہوں۔ تصوف کی کتاب پر نظرثانی کرنے کے لیے میں کسی طرح اہل نہیں کیونکہ مجھے تصوف سے معمولی واقفیت ہے اوروہ بھی سطحی۔ اس کام کے لیے موزوں تر آدمی خواجہ حسن نظامی۱؎ ہیں۔ میری رائے میں تصوف پر بہت سی کتابیں تمام اسلامی زبانوں میں موجود ہیں جن کامطالعہ عام اسلامی پبلک کے لیے کچھ مفید ثابت نہیں ہوا۔ البتہ اگر آپ تصوف کی تاریخ لکھیں اور بتائیں کہ تاریخی اعتبار سے تصوف کا تعلق اسلام سے ہے یا نہیں تو یہ رسالہ نہایت مفید ثابت ۲؎ہوگا۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ لاہور حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر(۲) ۲؎ برنیؔ صاحب تھیوسوفیکل اسکول کانپور میں ٹیچر تھے تو انھیں تصوف پر ایک مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انھوں نے خواہش کی کہ اقبالؔ ان کے مضمون پر نظرثانی کر دیں۔ (ب۔ا۔ڈار‘ص:۱۴۳) (۱۰۴) مکرم بندہ۔ السلام علیکم افسوس ہے کہ مجموعۂ اشعار اب تک شائع نہ ہو سکا۔ امید ہے کہ جنگ کے بعد شائع ہو گا۔ ’’مینار دل پہ اپنے…الخ‘‘ اس غزل کو اس قصے سے کوئی تعلق نہیں جو آپ نے سنا ہے۱؎۔ پیغام محبت کے جواب میں جو نظم مَیں نے لکھی تھی وہ اور ہے۔ مدت ہوئی ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ مہدی۲؎و مسیح۳؎کے متعلق جو احادیث ہیں ان پر علامہ ابنِ خلدون۴؎ نے اپنے مقدمہ میں مفصل بحث کی ہے۔ ان کی رائے میں یہ تمام احادیث کمزور ہیں۔ جہاں تک اصولِ فن تنقیدِ احادیث کا تعلق ہے میں بھی ان کا ہم نوا ہوں مگر اس بات کاقائل ہوں کہ مسلمانوں میں کسی بڑی شخصیت کا ظہور ہو گا۔ احادیث کی بنا پر نہیں بلکہ اور بنا پر میرا عقیدہ یہی ہے۔ ماجد علی۵؎صاحب کی کتاب میری نظر سے نہیں گزری نہ اس فقرے کا مطلب پوری طرح ذہن میں آیا ہے کہ کچھ عرض کر سکوں۔ جو سوال آپ نے مجھ سے کیا ہے اس سے پہلے یہ طے ہونا چاہیے کہe Consistenc کیا ہے؟ ممکن ہے کہ یہ خود نقیضین کی تحلیل اور ہم آغوشی ہو۶؎۔ یہ مسئلہ نہایت دقیق ہے جس کے متعلق اس خط میں لکھنا آسان نہیں۔ اس کا فائدہ کچھ نہ ہوگا کہ آپ میرا مفہوم نہ سمجھ سکیں گے۔ محمدعلی صاحب۷؎کے شعر مَیں سن چکا ہوں۔ آپ نے ان کو اپنے خط میں نقل کرنے کی زحمت کی‘ اس کے لیے شکرگزر ہوں۔ والسلام آپ خادم محمدؐاقبالؔ لاہور ۳۱؍اگست ۱۶ء حواشی و تعلیقات: ۱؎ اقبالؔ کی ابتدائی دور کی غزلوں میں سے ایک غزل (بانگِ درا‘ص:۱۱۲) کا مقطع ہے: واعظ ثبوت لائے جو مئے کے جواز میں اقبالؔ کو یہ ضدہے کہ پینا بھی چھوڑ دے اسی غزل کاایک اورشعر تھا جو ’’بانگ درا‘‘ کی طباعت کے وقت حذف کر دِ گیا: مینارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظارِ مہدی وعیسیٰ بھی چھوڑ دے برنیؔ صاحب نے ’’مینارِ دل‘‘ کی ترکیب سے اندازہ لگایا کہ شاید مرزا غلام محمداحمد قادیانی کی طرف اشارہ ہے۔ (ب۔ا۔ڈار‘ص:۱۴۴) ۲؎ مہدی:حضورؐ نے مہدی کا لفظ استعمال فرمایا ہے‘ جس کے معنی ہیں ہدایت یافتہ۔ اسلامی روایات کے مطابق خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ایک برزگ جن کا ظہور قیامت کے قریب ہو گا اور ان کی وجہ سے اسلام دنیا پر غالب آجائے گا۔ انھیں موعود اور مہدی آخرالزماں بھی کہتے ہیں۔ شیعوں کے نزدیک بارہویں امام جو غائب ہیں اور خاص وقت میں ان کاظہور ہو گا وہ بھی یہی کارنامہ انجام دیں گے۔ تاریخِ اسلام میں ایسی بہت سی شخصیات گزری ہیں جنھوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا لیکن آخر ثابت ہوا کہ دعویٰ غلط تھا یا پتا چلا کہ وہ بے شک نیک دل اور حق پرست بزرگ تھے مگر مہدی موعود نہ تھے۔ ’’ضرب کلیم‘‘ میں دو نظمیں ’’مہدیِ برحق‘‘ (ص: ۴۴) اور ’’مہدی‘‘(ص:۵۹) کے عنوان سے ہیں۔ اقبالؔ نے حکیم محمد حسین عرشی کے نام ایک خط میں تصریح فرما دی ہے کہ مہدی سے مراد کوئی خاص مہدی نہیں ہے‘ وہی جو عالمِ افکار میں زلزلہ پیدا کرے مہدی برحق ہو گا۔ (’’اقبالؔ نامہ اوّل‘‘،ص:۳۳) جیسا کہ اس شعر میں کہا ہے: ؎ دنیا کو ہے اس مہدیِ برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالمِ افکار مآخذ: ابوالاعلی مودودی: ’’تجدیدواحیائے دین‘‘ص:۵۲۔۵۴‘۱۶۲۔۱۷۳۔ ۳؎ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کاذکر قرآن پاک میں معجزانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ جب فرشتوں نے مریمؑ کو مسیح عیسیٰ ابنِ مریمؑ کی بشارت دی تو مریمؑ نے کہا کہ میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مجھ کو کسی مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرشتے نے کہا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اسی طرح پیدا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب و حکمت اور تورات وانجیل کا علم عطا کرے گا‘ اور بنی اسرائیل کی جانب اللہ کا رسول ہو گا۔ (سورۃ آلِ عمران‘ آیت ۴۵۔۴۷) حضرت مریمؑ کی پاک دامنی کی گواہی سورۃ مریم اور سورۃ الانبیاء میں بھی موجود ہے۔ بنی اسرائیل نے کفروانکار کی سرگرمیوں کے تحت حضرت عیسیٰؑ کے قتل کا منصوبہ بنایا لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں ملائِ اعلیٰ کی جانب اٹھالیا‘ یہودونصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ عیسیٰ کو سولی پر چڑھایا گیا اور قتل بھی کیاگیا‘ سراسرغلط ہے۔ (سورۃ آلِ عمران آیت ۵۵۔۶۱‘ سورۃ النسائ‘ آیت ۱۵۶۔۱۵۸) ۴؎ پورا نام ابوزید ولی الدین عبدالرحمن ابنِ خلدون ہے۔ تیونس میں یکم رمضان ۷۳۲ھ/۲۷؍مئی ۱۳۳۲ء کو پیدا ہوئے اورقاہرہ میں ۲۵؍رمضان ۸۰۸ھ/۱۶؍مارچ ۱۴۰۶ء کو فوت ہوئے۔ تعلیم کے بعد تیونس کے سلطان ابوعنان کے وزیر مقرر ہوئے۔ لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکمِ غرناطہ کے پاس چلے گئے بعدازاں مصر آگئے اور جامعہ ازہر میں درس و تدریس پر مامور ہوئے مصرہی میں ان کو مالکی فقہ کا منصب قضا بھی تفویض کیا گیا‘ اسی عہدہ پر وفات پائی۔ ابنِ خلدون کو تاریخ اور عمرانیت کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ’’العبد‘‘ کے نام سے ہسپانوی عربوں کی تاریخ لکھی تھی۔ جو دو جلدوں میں شائع ہوئی لیکن ان کاسب سے بڑا کارنامہ‘ مقدمہ فی التاریخ‘‘ ہے جو ’’مقدمہ ابنِ خلدون‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔۔ یہ تاریخ‘ سیاست‘ عمرانیات‘ اقتصادیات اور ادبیات کا گرانمایہ خزانہ ہے۔ دیگر تصانیف میں: (۱) شرح قصیدہ بُردہ ‘ (۲) المحصل کی تلخیص‘ (۳) ابن الخطیب کے ایک ارجوزہ کی شرح (۴) ابنِ رُشد کے بعض رسائل کی تلخیص (۵) منطق پر ایک رسالہ (۶)ریاضی پر ایک کتابچہ ۔ شعروسخن کا ذخیرہ بھی اس سے منقول ہے۔ اقبالؔ نے متعدد خصوصیات کی بنا پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ابنِ خلدون نے سب سے پہلے عقلی انداز میں وحی‘ نبوت‘ ختم نبوت‘ عقیدۂ ظہورِ مہدی‘ مسئلہ خلافت‘ نفس تحت الشعور وغیرہ مسائل پر بحث کی اور اس طرح بہ قول اقبالؔ خالص اسلام کی تہذیبی و ثقافتی قدروں کو اجاگر کیا۔ مآخذ: ۱) اقبال‘ علامہ:’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ص:۲۵۔۲۶‘ ۱۴۵‘ ۲۱۳۔۲۱۶‘ ۲۲۲‘ ۲۴۳۔۲۴۴‘۲۹۵ ۲) ’’اقبال ریویو‘‘ (اقبال نمبر) جنوری ۱۹۸۴ئ‘ ص:۱۸۹۔۲۰۲ ۳) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد۱‘ ص:۵۰۳۔۵۰۷ ۵؎ عبدالماجد دریابادی‘ مارچ ۱۸۹۲ء میں دریابادضلع بارہ بنکی اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولوی عبدالقادر ڈپٹی کلکٹر تھے۔ فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اور سیتا پور ہائی اسکول سے انٹرنس کیا۔ ۱۹۱۲ء میں کیننگ کالج‘ لکھنؤ سے بی اے کیا۔ ایم۔اے۔او کالج علی گڑھ میں ایم۔اے میں زیرِ تعلیم تھے کہ والد کاسایہ سر سے اٹھ گیا‘ جس کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ دارالترجمہ‘ عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد میں (۱۹۱۷ئ۔۱۹۱۸ئ) کو بطور مترجم کام کیا۔ ۱۹۲۵ء میں لکھنؤ سے ہفت روز ’’سچ‘‘ نکالا۔ یہ اخبار ۱۹۳۵ء میں بند ہوگیا۔ دو سال بعد دوسرا اخبار ’’صدق‘‘ نکالا‘ ۱۹۵۰ء میں بند ہو گیا۔ چندماہ کے تعطل کے بعد اسی سال پھر ’’صدقِ جدید‘‘ کے نام سے شروع کیا اور آخر دم تک شائع کرتے رہے۔ آپ نے تقریباً تیس (۳۰)کتابیں لکھی ہیں‘ جو مذہب‘ فلسفہ اور ادب سے متعلق ہیں۔ چند اہم یہ ہیں۔ ’’فلسفۂ اجتماع‘‘ (۱۹۱۵ئ) ’’تصوف اسلام‘‘ (۱۹۲۴ئ) اور چوتھا ایڈیشن ۱۹۶۵ئ)، ’’فلسفۂ جذبات‘‘(۱۹۳۱ئ) (دو جلدوں میں)، ’’محمد علی‘‘ (۱۹۵۴ئ)، ’’خطوطِ مشاہیر‘‘ (۱۹۶۹ئ) اور لیکی کی مشہور کتاب History of European Morals کا اُردو ترجمہ دو جلدوں میں شائع کیا۔ آپ نے سلیس زبان میں قرآن کا اُردو ترجمہ اور انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ مآخذ: ۱) اعجازالحق قدوسی: ’’اقبال اور علمائے پاک و ہند‘‘ ص:۴۱۰۔۴۳۴ ۲) تحسین فراقی‘ ڈاکٹر: ’’عبدالماجد دریابادی۔ احوال وآثار‘‘،ص:۳۱۔۱۴۲ ۶؎ ماجد علی غلط ہے۔ مکتوب الیہ نے مولوی عبدالماجد دریا بادی کی ایک کتاب ’’لیڈرشپ کی نفسیات‘‘ کے اُردوترجمے کا حوالہ دے کر سوال کیا تھا۔ اس کتاب میں لکھا تھا کہ انسان کی سیرت Consistence ہے۔ (انوار‘۱۴۵) ۷؎ محمد علی سے مراد مولانا محمد علی جوہرؔ ہیں۔ رام پور میں ۱۸۷۸ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم علی گڑھ اور آکسفورڈ میں ہوئی۔ ان کی اعلیٰ تربیت میں ان کی والدہ کوبڑا دخل رہا ہے اور یہ انھیں کی تربیت کا اثر تھا کہ مولانا شروع سے آخر تک پُرجوش مسلمان رہے۔ جنوری ۱۹۱۱ء میں انگریزی ہفت روزہ ’’کامریڈ‘‘ جاری کیا‘ جس نے مولانا کی انگریزی انشا پردازی کا سکہ جما دیا۔ اردو میں ان کا اخبار ’’ہمدرد‘‘ بھی مقبول ہوا۔ تحریک خلافت اور ترکِ موالات کے روحِ رواں تھے۔ مولانا ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ’’کلامِ جوہر‘‘ کے عنوان سے ان کا کلام چھپ چکا ہے۔ ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔ لندن میں ۴؍ جنوری ۱۹۳۱ء کو انتقال کیا۔ دفن بیت المقدس میں کیے گئے۔ اقبالؔ نے مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر ایک مرثیہ کہا‘ جس کا ایک معروف شعر یہ ہے: ؎خاک قدس اُو را بآغوشِ تمناّ در گرفت سُوے گردوں رفت زاں را ہے کہ پیغمبر گزشت (’’باقیاتِ اقبالؔ‘‘ ص:۱۴۱) مآخذ: ۱) عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر: ’’وَے صورتیں الٰہی‘‘ ،ص:۳۵۳۔ ۲) عبداللہ قریشی(مرتب): ’’اقبال بنام شادؔ‘‘، ص:۱۲۰۔۱۲۳ ۳) رحیم بخش شاہین:’’ارمغانِ اقبال‘‘،ص:۱۵۳۔۱۸۹ (۱۰۵) مکرم بندہ۔ السلام علیکم نوازش نامہ مل گیا ہے۔ افسوس ہے کہ آپ کی مدت کی خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ میں مجموعہ مرتب کر رہا ہوں۱؎۔ کچھ نظموں کی نظرثانی باقی ہے۔ بعض دولت مند دوستوں نے اسے نہایت عمدہ کاغذ پر چھاپنے کا تہیہ کیا ہے۔ ان کی خواہش ہے روپیہ وہ خرچ کریں اور فائدے تمام و کل میں اٹھاؤں۔ دل اس کے قبول کرنے میں بھی متامل ہے۔ والسلام محمدؐاقبال ۲۲؍دسمبر۲۰ء لاہور تحقیقِ متن: زیرِنظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ برنیؔ صاحب نے دوسرے بے شمار احباب کی طرح اقبالؔ سے خواہش کی تھی کہ وہ اپنا مجموعہ کلام مرتب کر کے چھپوا دیں۔ (۱۰۶) لاہور ۱۲؍اپریل ۲۲ء مکرم بندہ۔ السلام علیکم میں بوجہ عارضۂ نقرس کئی روز سے صاحبِ فراش ہوں اس واسطے آپ کے خط کا جواب نہ لکھ سکا۔ آپ نے جہاں آرابیگم کی سوانح عمری بہت اچھی لکھی ہے۔ اس کی زندگی واقعی ایک نیک مسلم عورت کا نمونہ ہے۔ علالت کی وجہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ معاف فرمائیے۔ میرے نثر کے مضامین صرف چند ایک ہیں اور وہ بھی محفوظ ہیں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: اقبال اکادمی لاہور کی لائبریری میں اس خط کا عکس موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ جہاں آرابیگم (۱۶۱۴ئ۔۱۶۸۱ئ) شاہ جہاں اور ممتاز محل کی سب سے بڑی اور چہیتی اولاد اجمیر میں پیدا ہوئی۔ اعزاز لقب فاطمۃ الزماں۔ بادشاہ بیگم درباری خطاب تھا۔ ۱۶۳۱ء میں ممتاز محل کی وفات کے بعد اسے خاتونِ اول کا خطاب ملا۔ خطاطی‘ ادب‘ تاریخ‘ تفسیر میں ماہر تھی۔ اس دور کی علمی و ادبی فضا اور طالب آملی کی بہن سنی النساء کی تربیت نے اس کی طبعیت میں نکھار پیدا کیا۔ چھبیس سال کی عمر میں ’’مونس الارواح‘‘ لکھی‘ جو خواجگانِ چشت کا تذکرہ ہے۔ دوسری تصنیف ’’صاجیہ‘‘ ہے اس میں اس نے پیرومرشد ملاشاہ بدخشی کے حالات لکھے ہیں۔ اہم سیاسی خط و کتابت اس کے ذریعے ہوتی تھی‘ جہاں آرا نے ساری عمر شادی نہیں کی۔اسے خواجگانِ چشت سے بے حد عقیدت تھی۔ جب اس کا انتقال ہوا تو وصیت کے مطابق اسے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے مزار کی پائنتی میں ایک سادہ قبر میں دفن کیاگیا۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر (حصہ دوم) ص:۹۳۲۔۹۳۵ ۲) ماہنامہ ’’زینت‘‘ لاہور‘ شخصیات نمبر۱۹۹۱ئ‘ ص:۲۵۶ بنام میرخورشید احمد تعارف: میر خورشید احمد ان چند افراد میں سے ایک تھے‘ جن کے روابط اقبالؔ سے بیس کی دہائی میں استوار ہوئے اور تازیست قایم و دائم رہے۔ میر خورشید احمد حکومتِ ہند کے محکمہ امورِ خارجہ سے وابستہ تھے اور کشمیر ریذیڈنسی سے منسلک تھے۔ عمدہ شعر کہتے تھے۔ ان کا کلام ’’ہمایوں‘‘ اور دوسرے رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔ جموں و کشمیر کی ادبی مجلسوں میں بھی کبھی کبھار اپنا کلام سناتے۔ ۱۹۲۲ء میں شملہ چلے گئے۔ ان ایام میں اقبالؔ سے ان کی مراسلت شروع ہو چکی تھی۔ اقبالؔ نے انھیں صاحبِ علم و دانش پایا اور ان کے مذاقِ سخن کے پیش نظر ذاتی تعلقات قائم و استوار کیے۔ میرخورشید احمد سری نگری‘ شملہ‘ دہلی کے علاوہ ایک عرصے تک گلگت میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصہ فارن آفس کراچی اور پھر پشاور میں فرنٹیئر کورز میں اسسٹنٹ فنانشل سیکرٹری کے منصب پر فائز ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد راولپنڈی میں رہائش پذیر ہوئے۔ جنوری ۱۹۵۸ء میں راولپنڈی میں فوت ہوئے اور وہیں پیوندِ خاک ہوئے۔ مآخذ: کلیم اختر: ’’اقبالؔ اور مشاہر کشمیر‘‘، ص:۲۱۵۔۲۲۶ (۱۰۷) مکرمی السلام علیکم۔ آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میں شملہ میں آفتاب دیکھنے کو ترس گیا۔ اس کے علاوہ اندیشہ تھا کہ ہوا کی رطوبت سے نقرس عود نہ کر آئے۔ شعر زیر۱؎ بحث کے متعلق یہ عرض ہے کہ دوسری پارٹی کا خیال صحیح ہے۔ اعتقادات کی بحث نہیں بلکہ فرقہ بندی کی بحث ہے۔ بعض اسلامی فرقے (خاصتہً احمدی۲؎ ) مسیحؑ و علی مرتضیؓ۳؎ کو نصاریٰ کا خدا اور شیعوں کا علیؓ کہہ کر گالیاں دے لیتے ہیں۔ خود مرزا صاحب۴؎ مرحوم اور ان کے مرید مولوی عبدالکریم۵؎؎ نے شیعوں کی تردید میں یہی افسوس ناک طریقہ اختیار کیا ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ چودھری محمد حسین سے سلام کہیے گا۔ والسلام محمدؐاقبالؔ سیالکوٹ ۲۵؍اگست ۱۹۲۲ء تحقیق متن: زیرِنظر خط’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۰۔۳۰۱) میں بھی شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ اقبالؔ کی نظم ’’ابرِ گُہربار‘‘ یا ’’فریادِ اُمت‘‘ کاایک شعر ہے: ؎ یہ نصاریٰ کا خدا اور وہ علیؓ شیعوں کا ہائے کس ڈھنگ سے اَچھوں کو بُرا کہتے ہیں غالباً اس شعر کے مفہوم کے متعلق اختلاف تھا۔ اقبالؔ سے پوچھا گیا تو انھوں نے واضح کیا کہ اس میں عقائد کی بحث نہیں بلکہ فرقہ بندی کی بحث ہے۔ مناظروں میں بعض اصحاب نے یہ طریقہ اختیار کر لیا تھا کہ مثلاً حضرت مسیحؑ کے خلاف برے انداز میں باتیں کرتے اور ٹوکا جاتا تو کہہ دیتے ہم حضرت مسیحؑ کو نہیں کہتے بلکہ انجیلوں کے مسیح کو کہتے ہیں۔ یہی طریقہ بعض لوگوں نے حضرت علیؓ کے متعلق اختیار کر لیا تھا جیسا کہ اقبالؔ نے خُود اِجمالاً اشارہ کر دیا ہے۔ گویا اقبالؔ کا یہ شعر اس طریق مناظرہ و گفتگو کے خلاف ہے۔ اسی نظم کے صلے میں خواجہ عبدالصمد ککرو نے اقبالؔ کو ایک نقرئی تمغا پہنایا جو وہ کشمیر سے بنوا کر لائے تھے۔(ب۔ا۔ڈار‘ ص:۱۴۸) مآخذ: کلیم اختر: ’’اقبال اور مشاہیر کشمیر‘‘ ص:۱۵۵‘۱۵۶۔ ۲؎ خاصتہ احمدی (احمدیہ جماعت): اس جماعت کی بنیاد مرزا غلام احمد قادیانی نے لدھیانہ میں ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو صوفی احمد جان کے مکان پر رکھی تھی۔ ۱۹۰۱ء میں انھوں نے ایک اشتہار کے ذریعے اس جماعت کا نام جماعت احمدیہ تجویز کیا‘ مرزا نے دعویٰ نبوت کیا اور اپنے پیروکاروں کوامتِ مسلمہ سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا۔ اس لیے اقبالؔ نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا‘ جو ۱۹۷۴ء میں مانا گیا۔ ۳؎ حضرت علیؓ کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب‘ لقب حیدر ہے۔ والد کا نام ابوطالب‘ والد ہ کا نام فاطمہ تھا۔ جوبعد میں مسلمان ہوئیں۔ حضرت علیؓ حضورؐ کے چچازاد بھائی تھے۔ آپؓ واقعۂ فیل سے تیس سال بعد‘ ہجرت سے ۲۳سال قبل ۶۰۰ء میں بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت علیؓ کی پرورش ابتدا ہی سے حضورؐ کے زیرِ سایہ ہوئی۔ لڑکوں میں سب سے پہلے آپ ؓ ہی ایمان لائے‘ اس وقت آپؓ کی عمر دس سال تھی۔ نبوت کے تیرویں سال جب قریشِ مکہ رسولؐ کی جان کے درپے ہو گئے تھے‘ وحیِ الٰہی نے ہجرتِ مدینہ کا حکم دیا تو آنحضورؐ نے لوگوں کی امانتیں واپس کرنے کے لیے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ حضرت فاطمہؓ سے آپؓ کا نکاح ہوا۔ مدنی زندگی میں حضرت علیؓ تمام غزوات میں پیش پیش رہے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد آپؓ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ مآخذ: ۱) فیروزالدین‘ مولوی ’’کشف المحجوب‘‘،ص:۷۷ ۲) محمد جمیل احمد:’’خلفائے راشدین‘‘ ص:۱۵۱ ۳) ’’سیارہ‘‘ ڈائجسٹ: ’’خلفائے راشدین نمبر ۱۹۹۵ئ‘‘ ص:۳۷۹۔۴۲۴ ۴؎ مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۳۷ء میں پنجاب کے ایک گاؤں قادیاں ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے دفتر میں ملازمت اختیار کر لی۔ کچھ عرصے کے بعد سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ دیا لیکن اس دوران میں انھوں نے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کے ساتھ مناظرے کیے اور مباحثوں میں حصہ لیا۔ ۱۸۸۹ء میں ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈالی جو فرقۂ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۸۹۱ء میں مہدی اور مسیحِ موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ جماعتِ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نہ تو آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور نہ ہی مصلوب ہوئے بلکہ وہ طبعی موت مرے اور ان کی قبر سری نگر (کشمیر) میں ہے۔ ان کے نزدیک آنحضورؐ کے بعد (نعوذباللہ) نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے کے لیے مرزا غلام احمد نے ۱۸۹۲ء میں قادیان سے ریویو آف ریلیجز جاری کیا۔ انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ مثلاً: نورالحق‘ آئینہ کمالات‘ کشتیِ نوحؑ‘ اعجازِ احمدی‘ دُرِّثمین (مجموعۂ کلام)‘ تریاق القلوب اور تحفہ گولڑویہ شامل ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں انتقال کیا اور قادیان میں دفن ہوئے۔ احمدیوں میں اب دو فرقے ہیں۔ ایک وہ جو مرزا کی نبوت پر ایمان رکھتا ہے‘ دوسرا وہ جو انھیں صرف مجدد خیال کرتا ہے‘ یہ دونوں فرقے اسلام سے خارج ہیں۔ قادیانی تحریک کے متعلق اقبالؔ کا نقطۂ نظر صاف ظاہر ہے۔ انھوں نے اپنے مکاتیب میں صاف صاف لکھا ہے کہ قادیانی نہ اسلام کے وفادار ہوسکتے ہیں او رنہ اس ملک کے۔ مآحذ: ۱) محمداکرام شیخ: ’’موجِ کوثر‘‘ص:۱۶۶۔۱۶۸ ۲) ابوالاعلیٰ مودودی: قادیانی مسئلہ‘‘، ص:۱۴۔۸۶ ۳) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’ملفوظاتِ اقبال مع حواشی و تعلیقات‘‘ ص:۳۸۱‘ ۳۸۲ ۴) اعجاز احمد‘ شیخ:’’مظلوم اقبال‘‘، ص:۱۹۴۔۲۰۹ ۵) جاوید اقبال‘ڈاکٹر: ’’زندہ رود۔ حیات اقبال کا اختتامی دور‘‘، ص:۵۶۹۔۵۹۹ ۵؎ مولوی عبدالکریم (۱۸۶۳ئ۔۱۹۴۳ئ) سلہٹ (بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ بی۔اے کرنے کے بعد مدرسۂ عالیہ میں مدرس ہوئے۔ بعد میں مدراس چلے گئے‘ جہاں محکمۂ تعلیم کے انسپکٹر مقرر ہوئے۔ یہ بنگالی مسلمانوں کی نصابی کتابیں لکھنے والے پہلے مصنف تھے۔ سبکدوشی (۱۹۱۴ئ) کے بعد کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ ’’کونسل آف سٹیٹ‘‘ کے بنگالی رکن مقرر ہوئے۔ پچاس پچاس ہزار روپے قیمت کے دو مکان مسلمانوں کی تعلیم کے لیے وقف کر دیے۔ وفات رانچی میں ہوئی۔ مآخذ: اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘‘، دوم‘ص:۹۶۹ (۱۰۸) مخدومی! السلام علیکم۔ والانامہ ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مولوی عبدالسلام۱؎کی دونوں کتابوں سے میں بہت مستفیض ہوا۔ میری طرف اسے ان کی خدمت میں بہت بہت آداب عرض کیجیے۔ نیز التماسِ دعا بھی کیجیے۔ کرسمس کے دنوں میں دِلّی آنے کی امید نہیں۔ البتہ فروری میں ممکن ہے۔ ان شاء اللہ العزیز مولوی صاحب سے بھی شرفِ نیاز حاصل ہو گا۔ غزل مطلوب کے جتنے اشعار یاد ہیں عرض کرتا ہوں کبھی اے حقیقتِ منتظر! نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں طرب آشناے خروش ہو‘ تو نوا ہے محرمِ گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردۂ ساز میں دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن نہ ترے فسانۂ سوز میں‘ نہ مری حدیثِ گداز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی میرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں۲؎ شاید دو چار شعر اورہوں گے لیکن اس وقت یاد نہیں آئے‘ پھر عرض کروں گا۔ جو شعر آپ نے خط میں لکھا ہے معلوم نہیں کس کا ہے مگر شعر خوب ہے۔ حضورؐ سرورِ کائنات کو مخاطب کرکے چند اشعار میں نے لکھے تھے جو مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیجیے۔ مجھے یقین ہے انھیں پسند آئیں گے۳؎۔ تیغِ لَا در پنجۂ ایں کافرِ دیرینہ دہ بازبنگر درجہاں ہنگامۂ اِلاّئے من از سپہرِ بارگاہت یک جہاں وافر نصیب جلوہ ئی داری دریغ از وادیِ سینائی من؟ باخدا درپردہ گویم باتو گویم آشکار یا رسول اللہ! اُوپنہان و تو پیدائی من۴؎ (کلیاتِ فارسی ص:۳۱۶) مخلص محمدؐاقبال ؔلاہور ۱۳؍دسمبر۱۹۲۲ء تحقیقِ متن: یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۱‘۳۰۲) میں شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ مولوی عبدالسلام سے مراد مولانا عبدالسلام نیازی ہیں‘ جو شاہ نظامالدین حسن نیازی بریلوی کے مرید تھے اور اس طرح یہ چشتیہ نیازیہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ عالموں میں عالم اور رندوں میں رند تھے۔ شرح کے پابند‘ کیامجال جو نماز قضا ہو جائے مولانا عرسوں میں شریک ہوتے۔ طوائفوں سے گانا بھی سنتے۔ بڑے طبّاع اور حاضر جواب تھے‘ جملہ خوب چست کرتے۔ حافظہ غضب کا تھا۔ ہر کتاب ازبر تھی۔ عربی‘ فارسی‘ اُردو‘ مذہبی علم‘ معقول و منقول غرض دنیا بھر کے علوم سے بخوبی واقف تھے۔ ہر علم سے خدا کا وجود ثابت کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ علمِ موسیقی سے بھی۔ مزاج میں درشتی بہت تھی۔ اس لیے اپنی شاگردی میں مشکل ہی سے کسی کو قبول کرتے تھے۔ برصغیر کے شاعروں میں وہ صرف اقبال کو مانتے تھے اوراقبال کے فارسی کے بہت سے اشعار یاد تھے اور انھیں علومِ مشرقی و مغربی کی پوٹ کہا کرتے تھے۔ اقبالؔ بھی مولوی صاحب سے عقیدت مندانہ انداز میں ملا کرتے تھے۔ کبھی لاہور سے عازم دہلی ہوتے تو ان کے لیے بطور تحفہ کبوتر لے جاتے۔ مولوی صاحب نے دہلی میں ۱۹۶۷ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) شاہد احمددہلوی (مصنف)‘ جمیل جالبی (ڈاکٹر) مرتب: بزمِ خوش نفساں‘‘، ص:۴۹۔۵۸ ۲) نصراللہ خان: ’’کیاقافلہ جاتا ہے‘‘،ص:۲۲۔۲۶ ۳) صلاح الدین‘ڈاکٹر (مرتب): ’’دلی والے‘‘،ص:۲۷۱۔۲۸۲ ۴) کلیم اختر: ’’اقبال اور مشاہیرِکشمیر‘‘،ص:۲۱۹۔۲۲۱ ۲؎ یہ غزل ’’بانگِ درا‘‘ (ص:۲۸۰‘۲۸۱) میں شائع ہوچکی ہے‘ اس میں تیسرے شعر کا آخری مصرع یوں ہے: ع نہ تری حکایتِ سوز میں‘ نہ مری حدیث گداز میں نیز ’’بانگ درا‘‘ میں ایک شعر زاید ہے: ؎جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو‘ زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا‘ تجھے کیا ملے گا نماز میں ۳؎ خورشیدؔ صاحب‘ اقبالؔ کو زیرِنظر خط کے جواب میں مولوی عبدالسلام کی رائے سے یوں آگاہ کرتے ہیں: ’’جواب میں بہت توقف ہوا۔ اس کی وجہ صرف یہ کہ قبلہ مولوی صاحب کو خط سنانے کاموقع نہیں ملا تھا۔ کل صبح ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے خط پڑھ کر سنایا۔ فرمانے لگے‘ ڈاکٹر صاحب کو میرا سلام کہو اور لکھو اے سالکِ رہ سخن زہریاب مجو جز راہِ وصول ربّ ارباب مجو چوں علّتِ تفرقہ است اسباب جہاں جمعیت دل زجمع اسباب مجو پرسوں شب ایک محفل میں بیٹھے ہوئے یہ مطلع ع کبھی اے حقیقتِ منتظر! نظر آلباسِ مجاز میں دہرا رہے تھے۔ فرمانے لگے‘ جو کوئی جس لائق ہوتا ہے اسے وہی ملتا ہے۔ جو ذہن اور تخیل ڈاکٹر صاحب کو عطا ہوا ہے اگر سائل اور بیخودؔ (دہلوی) کو عطا ہوتا تو یہ حضرات برداشت نہ کر سکتے۔ ان کے دماغ پھٹ جاتے اور دیوانے ہو جاتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مآخذ: ’’نقوش‘‘،مکاتیب نمبر جلد اول‘ص:۳۰۲ ۴؎ یہ اشعار ’’ کلیات‘ فارسی‘ ص:۳۱۶ میں چھپ چکے ہیں۔ ترجمہ: لا(نفی) کی تیغ اس پرانے کافر کے ہاتھ میں دے‘ پھر دنیا میں میرے اِلاّ (اثبات) کاتماشا دیکھ۔ تمھاری بارگاہ کے سپہر سے ایک زمانے کو بہت کچھ حصہ مل رہا ہے مگر افسوس میری وادی سینا میں جلوہ دکھانے سے بخل کرتے ہو۔ میں خدا سے تو درپردہ کرہتا ہوں مگر آپ سے برملا کہتا ہوں۔ اے رسولؐ اللہ وہ (خدا) میرا درپردہ(والی) ہے اور آپ عالمِ ظاہر میں میرے آقا ہیں۔ (۱۰۹) مخدومی! تسلیم۔ سائل صاحب۱؎(دہلوی) کا جواب میری رائے ناقص میں صحیح ہے۔ اصل عربی لفظ دُرّہ (دُرّۃ التاج) ہے۔ جمع اس کی دُرا ۱؎آتی ہے اور شاید دراری بھی۔ فارسی میں بغیر تشدید بھی لکھتے ہیں۔ دُرِیکتا‘ دُرِثمین‘ دُرِمکنون‘ دُرِیتیم‘دُرِخوشاب‘ دُرِشاہوار‘ دُرِنایاب‘ جہاں تک مجھے معلوم ہے سب درست ہیں۔ اگر ان تینوں ترکیبوں میں دُرِ یکتا وغیرہ مع التشدید بھی لکھیں تو بھی درست ہے۔ افسوس ہے سند اس وقت مجھے کوئی یاد نہیں۔ اگر مطالعہ میں آگئی تو لکھ بھیجوں گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ دُرِ یکتا اور درِّ یکتا دونوں درست ہیں۔ نیاز صاحب فتح پوری۲؎کا استدلال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ قآنی۳؎نے ایزد یکتا (حالانکہ یکتا ایزد کی صفت معناً نہ ہونی چاہیے) اور رُخِ یکتابھی لکھا ہے۔ ایسی صورت میں دُرِ یکتا میں کیا تامل ہوسکتا ہے۔ ساقی iii؎نامۂ کشمیر کے متعلق بعض لوگوں کا گِلا سن کر مجھے تعجب ہوا۔ افسوس ہے ہندوستان سے فارسی رخصت ہو گئی۔ سعدیؔ۵؎نے محض قومی رقابت سے کشمیریوں کی ہجو کی ہو گی کیونکہ ایک زمانہ میں کشمیر ایران کا ہم سر رہ چکا ہے۔ میں نے تو دکھڑا رویا ہے اور یہ بات سیاق‘ اشعار سے صاف ظاہر ہے۔ دکھڑے کی بنا بھی واقعات پر ہے جن کا میں نے کشمیر میں خود مشاہدہ کیا۔ پنجاب کے کشامرہ کی حالت کشمیر کے کشامرہ سے بدرجہابہتر ہے۔ نظم کا موضوع کشامرۂ کشمیر ہیں نہ کشامرۂ پنجاب۔ جو لوگ میرے اشعار کو کشمیریوں کی ہجو تصور کرتے ہیں وہ شعر کے مذاق اور مقاصد سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ ان کے لیے یہی جواب کافی ہے کہ میرے آباؤ اجداد اہلِ خطہ میں سے ہیں۔ شملے۲؎میں… کے لیے حاضر ہونا پڑے گا۔ مگر معلوم نہیں یہ رسم کب ادا کی جائے گی۔ محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۲؍مئی ۱۹۲۳ء تحقیق متن: زیرنظر خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اوّل(ص:۳۰۴‘۳۰۵) میں بھی شامل ہے۔ i؎ انوار=دارii؎ انوار=لکھتے ہیں۔ دُرِ ثمینiii؎ انوار=ساقی نامہ و کشمیرiv؎ انوار: شملہ میں حواشی و تعلیقات ۱؎ سائل دہلوی (۹۱۸۶۸۔۱۵؍ستمبر۱۹۴۵ئ) خان لوہارو کے چشم و چراغ تھے۔ ’’مرزا سراج الدین احمد خاں‘‘ سے تاریخِ ولادت برآمد ہوتی ہے۔ ان کی پہلی شادی والیِ پاٹوڈی کی ہمشیر سے ہوئی تھی۔ دوسرا نکاح داغؔ کی لے پالک بیٹی لاڈلی بیگم سے کیا۔ داغؔ ہی سے تلمذ تھا۔ بہت دن تک حیدرآباد میں داغؔ ہی کے پاس رہے اور وہاں سے ایک رسالہ ’’معیارالانشا‘‘ نکالتے تھے۔ اُردو فارسی میں ان کی قابلیت مُسَلَّم تھی۔ پنجاب یونی ورسٹی کے ممتحن بھی تھے۔ مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا۔ ایک ضخیم مثنوی ’’نورُٗ علی نُور‘‘میں جہانگیر اور نورجہاں کی حیاتِ معاشقہ بیان کی ہے جونامکمل رہ گئی۔ ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۵ء کو ۷۸برس کی عمر میں انتقال کیا۔ ’’یہ جنت جانشین داغ آسود‘‘ سے تاریخِ وفات نکلتی ہے۔ مآخذ: ۱) ’’جدید غزل گو‘‘ ص:۲۸۹ ۲) شاہداحمد دہلوی: ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ ص:۱۹۹ ۳) صلاح الدین ‘ ڈاکٹر (مرتب)’’دلی والے‘‘ ص:۱۸۱۔۱۹۷ ۴) ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر‘ ص:۵۲۸‘۵۲۹ ۲؎ نیاز فتح پوری (۱۸۸۴ئ۔۱۹۶۶ئ) نیازمحمدخان نام اور لیاقت علی خان‘ تاریخی نام تھا جبکہ نیاز فتح پوری قلمی نام تھا۔ فتح پور ہسوا میں پیدا ہوئے۔ نیازؔ ایک صاحبِ طرز ادیب‘ صحافی‘ شاعر‘ نقاد‘ افسانہ و ناول نگار ‘ مؤرخ اور ماہر لسانیات تھے۔ ملازمت کی ابتدا پولیس کے محکمے سے کی۔ نیازؔ کا سلسلۂ ملازمت خاصا طویل ہے۔ انھوں نے کئی محکمے اور کئی شعبے بدلے۔ ۱۹۲۲ء میں نیازؔ اور ’’یارانِ نجد‘‘ نے مل کر ’’نگار‘‘ کااجرا کیا۔ ’’نگار‘‘ آگرہ سے بھوپال و لکھنؤ ہوتا ہوا کراچی پہنچا اور ابھی تک اپنے مخصوص علمی و ادبی مزاج کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ یہ ’’نگار‘‘ کا سب سے بڑا عزاز ہے نیازؔ وسیع القلب اور وسیع النظر تھے۔ اپریل ۱۹۶۲ء میں حکومت ہند کی طرف سے ’’پدما بھوشن‘‘ کا خطاب ملا۔ ہندوستان میں قیام کے باوجود‘ نیاز کو پاکستان اور اس کے مسائل سے گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے ۱۹۴۸ء میں لکھنؤ سے ’’نگار‘‘ کا ضخیم ’’پاکستان نمبر‘‘ نکالا۔ اس نمبر کاانتساب مسلمانانِ پاکستان کے نام ہے۔ نیازؔ ۳۱؍جولائی ۱۹۶۲ء کو مستقلاً پاکستان آگئے۔ پاکستان میں قومی عجائب گھر کے کتب خانے سے منسلک ہو گئے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کا ہفتہ وار کالم ’’رنگارنگ‘‘ بھی لکھتے تھے۔ ۲۴؍مئی ۱۹۶۶ء کو انتقال کیا۔ مآخذ: عقیلہ شاہین ڈاکٹر: ’’نیازفتح پوری…شخصیت اور فن‘‘،ص:۱۔۶۲ ۳؎ دیکھیے خط نمبر۶‘ تعلیقہ نمبر۳ ۴؎ ’’ساقی نامہ‘‘ ،پیامِ مشرق‘‘ کی مشہور نظم ہے جو اقبالؔ نے نشاط باغ کشمیر میں بیٹھ کر کہی تھی اس کی تشبیب میں انھوں نے بہار کا منظر پیش کیا ہے۔ اس کے بعد گریز کی ہے اور ساقی (خدا) سے دعا کی ہے کہ شرابِ حرّیت کے چند قطرے ٹپکا کر کشمیریوں کے دلوں کو گرما دے تاکہ اس خاکستر سے چنگاریاں پیدا ہو جائیں‘ مردہ جسموں میں سوز کی لہر دوڑ جائے اور ہر بے خود و بے جان ‘ خودی اور زندگی کی لذت سے آشنا ہو جائے۔ اقبالؔ کو یقین تھا کہ اگر ان کے ہم وطن ان کے پیغام پر عامل ہوئے تو ایک دن ان کی حالت یقینا بہتر ہو جائے گی۔ مگر بعض لوگوں نے شکوہ کیا کہ اس نظم میں کشمیریوں کی ہجو کی گئی ہے۔ ۵؎ شیخ مصلح الدین سعدیؔ کے والد عبداللہ شیرازی اتابک سعد بن زنگی والیِ شیراز کے ملازم تھے۔ اسی نسبت سے شیخ نے سعدی تخلص اختیار کیا۔ سعدیؔ فارسی ادب کی بلند پایہ شخصیت ہیں اور گلستان و بوستان کے مصنف کی حیثیت سے شہرت دوام کے مالک ہیں۔ سعدیؔ شیراز میں (۱۹؍۱۲۱۸ئ) پیدا ہوئے اور مدرسہ نظامیہ‘ بغداد میں تعلیم حاصل کی۔ تحصیل علم سے فارغ ہو کر سیروسیاحت شروع کی۔ ترکی‘ عراق‘ شام و حجاز سے شمالی افریقہ تک طویل سفر کیے۔ ان کے سفر کی مدت تذکرہ نویسوں نے بیس برس لکھی ہے۔ اقبالؔ نے سعدیؔ کا گہرا مطالعہ کیا تھا‘ وہ ان کے کلام سے سند بھی پیش کرتے ہیں۔ (اقبال نامہ‘‘، اول‘ ص:۱۸۸) ان کے بعض اشعار کی تضمین بھی کی ہے۔ (’’بانگِ درا‘‘۔ حصہ سوم) اقبالؔ کے اور بھی متعدد اشعار ایسے ملتے ہیں جن کا خیال سعدیؔ سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ مآخذ: ۱) شبلی نعمانی‘ علاّمہ ’’:شعرالعجم (حصہ دوم)‘‘،ص:۲۹۔۱۰۴ ۲) ڈاکٹر محمد ریاض: ’’اقبال اور فارسی شُعرا‘‘،ص:۱۵۴۔۱۶۲ ۶؎ شملے میں تقریب سے مراد‘ سر کا خطاب ملنے کی تقریب کی طرف اشارہ ہے۔ (۱۱۰) بربنا گوش تو اے نیک تر از دُرِّیتیم سنبل تازہ ہمے برد مرا زنقرۂ سیم۱؎ (فرخیؔ) اس شعر سے ظاہر ہے کہ دُرّمع التشدید واحد ہے اور اس کی صفت میں لفظ یتیم واقع ہواi؎ ہے جس کے معنی بے نظیر و یکتا کے ہیں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ از لاہور ۳۱؍مئی ۱۹۲۳ء تحقیق متن: زیر نظر خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول(ص:۳۰۵) میں شامل ہے۔ i؎ انوار =واقع ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ یہ حکیم فرخی سیستانی کے ایک قصیدے کا مطلع ہے‘ جو خواجہ ابوسہل عبداللہ بن احمد بن گلشن دبیر کی مدح میں ہے۔ یہ ناصرالدین سبکتگین کے بیٹے امیر ابویعقوب یوسف کا داماد اور دربار غزنوی کے ممتاز امرا میں سے تھا۔ مطلع کی اصل اور بامعنی شکل یہ ہے: ؎ بربنا گوش تو اے پاک تر از دُرِّیتیم سنبل تازہ ہمی برمد از صفحہ سیم ترجمہ اے دُرِّیتیم سے بھی پاک تر (ممدوح) تیرا بنا گوش ایسا چمک رہا ہے گویا چاندی کے صفحہ پر سنبل تازہ اُگا ہو۔ اقبالؔکے خط میں اس کی جو شکل ہے وہ غلط اور بے معنی ہو گئی ہے۔ (’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘،ص:۴۵۰) (۱۱۱) مکرمی! تسلیم! لفظ دُر مع التشدید جمع نہیں بلکہ واحد ہے۔ مَیں آج قصیدہ بردہ۱؎پڑھ رہا تھا اس میں یہ شعر نظر آیا: قَالدُّرْیُزْدَادُحُسْناًوَّہُومُنْتَظَم وَلَیْسَ یَنقِصُ قَدْرًاغَیْر مُنتَظَم یعنی موتی حسن کے اعتبار سے بڑھ جاتا ہے جب سلسلہ میں منسلک ہو اور اگر منسلک نہ بھی ہوتو اس کی قدر گھٹتی نہیں۔ ایسی صورت میں دُرِّ یکتا کیونکر غلط ہو سکتا ہے؟ اگر یہ لفظ جمع ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یکتا کا لفظ اس کی صفت نہیں ہو سکتا۔ والسلام محمدؐاقبالؔ لاہور یکم جون ۱۹۲۳ء تحقیقِ متن: یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۵) میں شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ قصیدہ بُردہ : آنحضورؐ کی شانِ اقدس میں لکھا ہوا قصیدہ… اسے شرف الدین ابوعبداللہ ابنِ سعید الصنہاجی المعروف بہ البوصیری ہے۔ یہ قصیدہ ۱۶۲ ابیات پر مشتمل ہے۔ بصیری مصر میں ۱۲۱۲ء میں پیداہوا۔ وہ ابوالعباس احمد المرسی کے حلقۂ ارادت میں شریک تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ قلمی کتب کی نقل کا کام کرتا تھا۔ بصیری نے مرضِ فالج کی حالت میں ایک قصیدہ الکواکب الدریہ فی مدح خیر البریہ کے نام سے لکھا جو رسولِ کریمؐ کی مدح میں تھا۔ آنحضرتؐ‘ بصیری کے پاس عالم رؤیا میں تشریف لائے اور ان کو اپنی چادر سے ڈھانپ لیا جس کی برکت سے بصیری نے فالج کے مرض سے شفاپائی اسی لیے اس قصیدے کا نام بردہ پڑا کہ چادر کو عربی میں بردہ کہتے ہیں۔ بُصیری نے کئی اور قصیدے بھی لکھے ہیں لیکن سب سے زیادہ شہرت قصیدۂ بردہ ہی کو ملی اور اس قصیدے کی ۹۰ سے زیادہ شرحیں لکھی گئیں۔ بُصیری نے علمِ حدیث میں بڑی شہرت حاصل کی۔ ان کی تاریخِ وفات میں بڑا اختلاف ہے۔ سیوطیؒ (۹۶۔۱۲۹۵ئ) مقریزی اور ابنِ شاکر (۹۷۔۱۲۹۶) کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک (۹۵۔۱۲۹۴ئ) ہے۔ مآخذ: ۱) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ‘ جلد: ۴‘ص:۳۷۹۔۳۸۰ ۲) جمال بن نصیر الجنابہ‘ الشیخ: ’’شرح قصیدۃ البردۃ للبوصیرۃ‘ ۱۹۹۵م‘ ص:۳۔۷ ۳) فرمان فتح پوری‘ ڈاکٹر: ’’اُردو کی نعتیہ شاعری‘‘،ص:۳۰‘۳۱۔ (۱۱۲) مکرم بندہ! السلام علیکم۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ جہاں آپ چاہیں چھپوائیں۔ ہمایوں۱؎ بھی اچھا رسالہ ہے۔ امام شرف۲؎الدین کا لقب ’بصیری‘ ہے۔ عربوں میں تخلص کا دستور نہ تھا۔ میں نے مثنوی رموزِ بے خودی میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ اے بصیری را ردا بخشندہِ بربط سلمیٰ مرا بخشندہٖ۳؎ والسلام! محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۰؍جون۱۹۲۳ء تحقیق متن: یہ خط’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۵)میں شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ ہمایوں: میاں بشیراحمد نے اپنے والد میاں محمد شاہ دین ہمایوں کی یاد میں یہ ماہنامہ جاری کیا۔ محمد شاہ دین ہمایوں ۲؍اپریل ۱۸۶۸ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ باغبانپورہ کے میاں خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ۱۸۸۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال نومبر میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان روانہ ہو گئے اور وہاں سے ۱۸۹۰ء میں بیرسٹری کر کے واپس آئے اور کامیاب وکیل بنے۔ جلد ہی ۱۹۰۶ء میں پنجاب چیف کورٹ کے جج مقرر ہو گئے۔ اس سے قبل پنجاب کی مجلس قانون ساز کے رکن نامزد کیے گئے تھے۔ شعروادب سے شغف تھا۔ نظموں کا مجموعہ ’’جذباتِ ہمایوں‘‘ ان کی یادگار ہے۔ ۱۲؍جولائی ۱۹۱۸ء کو لاہورمیں انتقال ہو گیا۔ اقبالؔ نے ہمایوں کی یاد میں ایک خوبصورت نظم کہی جو ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل ہے: اے ہمایوں زندگی تیری سراپا سوز تھی تیری چنگاری چراغِ انجمن افروز تھی (کلیات‘اُردو‘ص:۲۸۲) اقبال ؔنے ہمایوں کی وفات پر ایک قطعۂ تاریخ اور ایک شعر بھی کہا ہے جس کا عکس’’انوارِ اقبال‘‘(ص:۲۴۷) میں شامل ہے۔ ’’ہمایوں‘‘ رسالہ ۱۹۲۲ء میں جاری ہوا اور ۱۹۵۷ء میں بند ہو گیا۔ مآخذ: ۱) رفیع الدین ہاشمی ‘ ڈاکٹر:’’خطوط اقبال‘‘،ص:۱۳۰ ۲) نذیرنیازی‘ سید: داناے راز‘‘،ص:۹۲۔۱۹۳ ۳) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر: ’’معاصرین اقبال‘‘،ص:۴۰۴‘۴۰۵ ۴) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’ملفوظاتِ اقبال مع حواشی و تعلیقات‘‘، ۳۱۵‘۳۱۶ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۱۱۱ ‘ تعلیقہ نمبر۱ ۳؎ ترجمہ: اے وہ ذات جس نے امام بوصبیری کو چادر بخشی اور مجھے سلمیٰ کا بربط عطا کیا ہے۔ (۱۱۳) مکرمی جناب خورشید! امین۱؎صاحب کا میری طرف سے بہت بہت شکریہ ادا کیجیے۔ قطعہ ان کا بہت اچھا ہے۔ کسی اخبار میں اس کی اشاعت کر دیجیے شاید زمیندار۲؎اس مطلب کے لیے بہتر ہو گا۔ تعجب ہے عربی شعر جناب ۳؎(نگار) کسی عجمی کا بتاتے ہیں۔ وہ شعر حضرت بصیری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو مصر کے مشہور شعرا میں سے ہیں۔ ان کا نام امام شرف الدین ہے چھٹی صدی کے آخر میں مکہ میں پیدا ہوئے اور ساتویں صدی کے وسط میں بمقام قاہرہ ان کا انتقال ہوا۔ خالص عرب تھے۔ مشہور قصیدہ بُردہ جس کا لوگ ورد کرتے ہیں انھی کی تصانیف سے ہے۔ والسلام میں ان شاء اللہ اگست میںشملہ آؤں گا۔ محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۶؍جون ۱۹۲۳ تحقیق متن: یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اوّل (ص:۳۰۶) میں بھی شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ امین صاحب سے مراد خواجہ عبدالمسیح پال امین حزیں سیالکوٹی ہیں۔ کشمیرریذیڈنسی سے وابستہ بلکہ پولٹیکل ایجنٹ تھے۔ ان کوبھی خان صاحب کاخطاب ملا تھا۔ اُردو کے ممتاز شاعر تھے اور اثر صہبائی کے بڑے بھائی تھے۔ (مآخذ: کلیم اختر:اقبالؔ اور مشاہیر کشمیر‘‘،ص:۲۲۵) ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۴۰ تعلیقہ نمبر۱۱ ۳؎ ’’نگار‘‘ سے مراد نیازؔ فتح پوری ہیں۔ (مزید دیکھیے: خط نمبر ۱۰۹‘ تعلیقہ نمبر۲) بنام تمکینؔ کاظمی تعارف:سید مصباح الدّین تمکین کاظمی مرحوم‘ حضرتِ داغؔ کے حیدرآبادی شاگرد ابوالمعنی سید منتخب الدین تجلی کے نورنظر تھے۔ ۱۹۰۲ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ مدرسے کی تعلیم کے علاوہ عربی‘ فارسی اور حدیث و تفسیر کا علم بھی حاصل کیا۔ ۱۹۲۸ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے منشی فاضل کاامتحان پاس کرنے کے بعد صوبہ داری گلبرگہ میں ملازم ہو گئے اور مختلف دیوانی ‘ مالی اور ملکی دفتروں میں کام کرتے رہے‘ شاعری میراث میں پائی تھی۔ شعروشاعری کے سلسلے میں اقبالؔ سے مراسلت بھی کی تھی اور مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کا منظوم اُردو ترجمہ کرنے کی اجازت چاہی‘ اور ترجمے کا نمونہ بھیجا جسے دیکھ کر اقبالؔ نے انھیں ترکِ شعر کا مشورہ دیا۔ اس مشورے کو قبول کر کے سیدصاحب نے نثر کی طرف توجہ کی اور اقبالؔ سے ’’زبورِ عجم‘‘ پر ایک تنقیدی مضمون لکھنے کی اجازت چاہی‘ انھوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی۔ تمکین کاظمی نے چند کتابیں تصنیف و تالیف کیں‘ جن میں ’’داغؔ‘‘ بہت مشہور ہے۔ وہ مزاح نگار کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔’’غنچۂ تبسم‘‘ ان کے چند مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان کی تصانیف میں سے ’’تذکرۂ ریختی‘‘ ،’’ارنسٹ‘‘ اور ’’معاشقہ نپولین‘‘ بھی شائع ہو چکی ہیں۔ انھوں نے اعظم الامرا ارسطو جاہ کی سوانح عمری بھی مرتب کی تھی۔ ۱۹۶۱ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مندرجہ ذیل خطوط میں مکتوب نگار‘ اقبالؔ کے کلام کا ترجمہ کرنے کے متمنی ہیں‘ علاوہ ازیں’’زبورِ عجم‘‘ پرمضمون لکھنے کی خواہش مند ہیں۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی: ’’معاصرین اقبال کی نظرمیں‘‘،ص:۵۰۸۔۵۱۲ ۲) ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر‘ جلد اول‘ص:۳۰۸ (۱۱۴) جنابِ من۔ تسلیم نوازش نامہ ابھی ملا ہے۔ مَیں ذاتی طور پر ترجموں کا قائل نہیں ہوں۔ تاہم آپ چند اشعار ترجمہ کر کے بھیجییتو میں رائے دینے کے قابل ہو سکوں گا۔ اس سے پہلے جو نمونے تراجم کے وصول ہوئے بہت ناقص تھے۔ میں نے خود’’اسرارِ خودی۱؎‘‘ پہلے اُردو میں لکھنی شروع کی تھی مگرمطالب ادا کرنے سے قاصر رہا۔ جوحصہ لکھا گیا تھا اس کو تلف کر دیا گیا۔ کئی سال بعد پھر یہی کوشش میں نے کی۔ قریباً ڈیڑھ سو اشعار لکھے مگر میں ان سے مطمئن نہیں ہوں۔ والسلامi؎ محمدؐاقبالؔii؎ ۲۲؍اگست۲۸ء لاہور تحقیق متن: i؎ انوار=نہیں ہوں۔ii؎ انوار=۱۶؍اگست (دیکھیے: عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر۲ تعلیقہ نمبر۲ (۱۱۵) لاہورi؎۴؍ستمبر۲۸ء جناب من۔ تسلیم میں نے آپ کا ترجمہ دیکھا ہے۔ افسوس کہ ناقص اور بعض بعض جگہ غلط ہے۔ میری رائے میںاس ترجمے سے اُردولٹریچر کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ محض لفظی ترجمہ ادبی اعتبار سے بے سود بلکہ شاید مضر ہے۔ میری دوستانہ رائے یہ ہے کہ آپ اپنے اوقات کے لیے کوئی بہتر مصرف تلاش کریں۔ امیدiii؎کہ اس بے لاگ رائے سے آپ ناخوش نہ ہو ںگے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ ’’انوار‘‘ میں تاریخِ تحریر خط کے آخر میں درج ہے۔ ii؎ انوار= امید ہے کہ (دیکھیے:عکس) (۱۱۶) (لاہورi؎) شملہ ۱۸؍ستمبر۲۸ء جنابِ من ۔تسلیم نوازش نامہ مل گیا ہے۔ ’’زبورِ عجم۱؎‘‘ پر شوق سے مضمون لکھیے۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ فی الحال علالت کی وجہ سے میںii؎بہت کم لکھتا پڑھتا ہوں۔ دردِگردہ نے دو ماہ تک بیقرار رکھاiii؎۔ اب خدا کے فضل سے اچھا ہوں اور صحت کے خیال سے چند روز کے لیے شملہ میں مقیم ہوں۔ لاہور جاتے ہی فرصت کے اوقات الٰہیاتِ اسلامیہ۲؎پر لکچر لکھنے میں صرف ہوں گے جن کا وعدہ میں مسلم ایسوسی ایشن مدراس سے کرچکا ہوں۔ اگرفروری ۲۹ء تک یہ لکچر لکھ سکا تو مدراس میں پڑھے جائیں گے۔ امیدiv؎ کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ مقامِ تحریر شملہ ہے‘ جیسا کہ خط کے متن سے واضح ہوتا ہے۔ii؎ انوار=وجہ سے بہت iii؎ انوار=کیا۔ iv؎ انوار: امید ہے کہ۔ (دیکھیے :عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ زبورعجم: اقبالؔ کا فارسی مجموعۂ کلام‘ جو پہلی مرتبہ ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا۔ ۲؎ اقبالؔ نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کے بانی سیٹھ محمد جمال کی فرمایس پر ’’دینیات‘‘ اور تخیّل جدید‘‘ پر چھ لیکچر دینے منظور فرمالیے۔ پہلے تین لیکچر ۱۹۲۸ء کے اواخر میں لکھے گئے۔ جنوری ۱۹۲۹ء کے اوائل میں مدراس کے گوکھلے ہال میں وزیراعظم حکومتِ مدراس‘ ڈاکٹر سبرائن کے زیرصدارت ارشاد فرمائے۔ باقی تین لیکچر اس سفر سے واپسی پر چھ سات ماہ کے اندر لکھے گئے اور مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی استدعا پر نومبر۱۹۲۹ء میں یونی ورسٹی کے طلبہ‘ اساتذہ اور پبلک کے سامنے پڑھے گئے۔ اس سفر میں اقبالؔ کے ہمراہ چودھری محمدحسین اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی تھے۔ واپسی پر میسور یونی ورسٹی اور عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد کی فرمایشوں پر ان تین لیکچروں کااعادہ بنگلور ‘ میسور اور حیدرآباد میں بھی کیا گیا۔ ۱۹۳۲ء میں جب اقبالؔ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے تو وہاں کی ’’مجلس ارسطو‘‘ کی درخواست پر آپ نے ایک لیکچر بہ عنوان ’’کیا مذہب ممکن ہے‘‘(Is Religion Possible) پڑھا تھا‘ یوں سات خطبات کا مجموعہ: "The Reconstruction of Religious thought in Islam" کے نام سے شائع ہوا۔ سیدنذیر نیازی نے ان خطبات کا اردو ترجمہ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ مآخذ: ۱) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رُود…حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘، ص:۴۳۴۔۴۳۵ ۲) محمد حمزہ فاروقی (مرتب): ’’حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے‘‘،ص:۲۱۴۔۲۲۷ ۳) محمد رفیق افضل (مرتب)’’گفتارِ اقبال‘‘،ص:۲۱۵۔۲۳۱ ۴) محمد عبداللہ چغتائی‘ ڈاکٹر: ’’اقبال کی صحبت میں‘‘، ۲۹۹۔۳۴۴ ۵) افتخار احمد صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’فروغِ اقبال‘‘،ص:۳۵۵۔۳۶۵ بنام جافرے ڈی مانٹ مورینسیi؎ (De Montmorency Sir Jeoffrey) تعارف: ۲۳؍اگست۱۸۷۲ء کو پیدا ہوئے۔ پیمبروک کالج کیمبرج میں تعلیم پائی۔ ۱۸۹۹ء میں آئی سی ایس سے منسلک ہوئے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں افسر آبادکاری رہے۔ ۱۹۰۷ء اور ۲۰۔۱۹۱۷ء کے دوران میں لائل پور (فیصل آباد) کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ ۱۹۲۰ء میں حکومتِ ہند کے ڈپٹی سکرٹری نامزد ہوئے۔ ۲۶۔۱۹۲۲ء کے دوران میں وائسرائے کے پرائیویٹ سکرٹری رہے۔ ۱۹۲۶ء سے ۱۹۲۸ء تک پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۳ء تک پنجاب کے گورنر رہے۔ بہت سے خطابات عطا ہوئے جن میں کے سی آئی ای (۱۹۲۲ئ) کے ۔سی۔ایس۔آئی (۱۹۲۸ئ) اور جی۔سی۔آئی ۔ ای(۱۹۳۳ئ) شامل ہیں۔ پیمبروک کالج کے اعزازی فیلو بھی تھے۔ مآخذ: عبدالشکور احسن (مؤلف): ’’زندگی نامہ‘‘،:۱۰ (۱۱۷) لاہور ۷؍جولائی۱۹۲۸ء میر ولی اللہ خوش نویس‘ ائمہ جامع مسجد۱؎دہلی کے خاندان سے ہیں۔ اور یہ وہ محترم خاندان ہے جس کے مورثِ اعلیٰ کو شہنشاہ شاہجہاں۲؎علیہ الرحمۃ نے بخارا سے بلا کر امام جامع مسجد مقرر کیا تھا۔ میر ولی اللہ کے دادا مولانا حافظ امیرالدین مرحوم و مغفور ابوظفر بہادرشاہ۳؎بادشاہ دہلی کے استاد تھے۔ ان کے والد حافظ سید محمد سعید سلطنت دکن اور بھوپال کے وظیفہ خوار تھے جو ان کو ان کی خاندانی شرافت و نجابت و تقویٰ کی بنا پر عطا کیاگیا تھا۔ میر ے نزدیک اس خاندان کے افراد قدر کے مستحق ہیں۔ محمدؐاقبالؔ بیرسٹرایٹ لا۔ تحقیقِ متن: ۱؎ یہ خط تمکین کاظمی کے نام نہیں ہے بلکہ ڈی مانٹ مورینسی کے نام ہے۔ میرولی اللہ صاحب بشیر اہلکار محکمۂ مشیر قانونی و معتمدی وضع قوانین سرکارِ عالی نے ڈی مانٹ مورینسی سابق گورنر پنجاب سے ملاقات کے لیے درخواست کی تو میر صاحب کو جواب ملا: ’’میں نے تمھارے والد کے ساتھ تمھیں کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ اقبالؔ کو یہ قصہ معلوم ہوا تو انھوں نے میر صاحب کو درجِ بالا تحریر لکھ دی اور فرمایا سالکؔ صاحب سے انگریزی ترجمہ کرا کر ڈی مانٹ مورینسی کے پاس بھجوادیجیے۔ (’’اقبال نامہ‘ اول‘‘،ص:ط۔ظ) ’’اقبالنامہ‘‘ کے علاوہ زیرِ نظر خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر حصہ اوّل (ص:۳۰۷) میں بھی شامل ہے۔ حواشی و تعلقیات: ۱؎ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی تعمیر کردہ جامع مسجد کا شماردنیا کی خوبصورت اور عظیم ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ ہر روز تقریباً پانچ ہزار معمار‘ مزدور اور سنگ تراش اس کی تعمیر میں لگے رہے۔ دس لاکھ روپے کے خرچ سے چھ سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔ یہ سنگِ مرمر اورسنگِ سرخ کی بنی ہوئی ہے۔ سنگِ موسیٰ کی پچی کاری کی گئی ہے۔ اس کا طول ۲۰۰فٹ اور عرض ۱۲۰ ہے۔ مسجد کا صحن بھی بڑا وسیع و عریض ہے اور اس میں بیک وقت کئی ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے میناروں کی بلندی ۱۳۰فٹ ہے۔ چھت تک پہنچنے کے لیے ۳۷۹ سیڑھیاں ہیں۔ ۱۸۵۷ء سے ۱۸۶۲ء تک یہ مسجد بند رہی۔ بالآخر انگریزوں نے اسے ۱۸۶۲ء میں مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ مآخذ: ۱)سرسیداحمدخاں(مصنف)‘ خلیق انجم (مرتب):’’آثارالصنادید‘ جلد اوّل‘‘ص:۳۴۵۔۳۴۷ ۲) جمیل احمد (خواجہ): اسلامی تہذیب کے گہوارے‘‘،ص:۲۶۹‘۲۷۰ ۳) عطاء الرحمن قاسمی:دِلّی کی تاریخی مساجد‘‘،جلد اوّل‘ص: ۱۹۹۔۲۲۳۔ ۲؎ دیکھیے خط نمبر۴۱‘ تعلیقہ نمبر۴ ۳؎ ابوظفر بہادرشاہ (۱۷۷۵ئ۔۱۸۶۲ئ) دِلّی کے آخری مغل تاجدار۔ سالِ جلوس ۱۸۳۷ئ۔ تحریکِ آزادی (۱۸۵۷ئ) میں ماخوذ ہوئے اور جلاوطن کر کے رنگون بھیج دیئے گئے۔ شعرگوئی کا شوق تھا۔ دِلّی کے نامور شُعرا دربار سے منسلک تھے۔ پہلے ذوقؔ سے اور اس کے بعد غالبؔ سے تلّمذ رہا۔ کلام میں سلاست اور محاورات کی بندش خوب ہے۔ تصانیف میں چاردیوان‘ شرحِ گلستانِ سعدیؔ اور ایک رسالہ ’’سراج المعرفت‘‘ یادگارِ ہے۔ مآخذ: اسلم پرویز: ’’بہادرشاہ ظفر‘‘،ص:۲۹۔۳۰۴ بنام منشی سراج دین تعارف: شیخ منشی سراج الدّین ریاست جموں کشمیر کے رہنے والے تھے اور محکمہ مال سے وابستہ تھے۔ افسر مال کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ نہایت متقی‘ پرہیزگار اورصاحب علم تھے۔ ان کا مسلک اہل حدیث تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مداحین میں سے تھے۔ اقبالؔ سے بھی دوستانہ روابط تھے۔ ریاست کے مشہور کاروباری خاندان کے فرد تھے۔ شیخ محمدبخش اورسیٹھ کریم بخش تاجران آپ کے بزرگوں میں سے تھے۔ آپ شیخ محمد بخش کے داماد تھے۔ جب ریاست کی ایک عدالت نے ایک کاروباری مقدمے میں شیخ صاحبان کی جائیداد کی قرقی کا حکم دیا تو منشی سراج دین‘ اقبالؔ کو مقدمے کی پیروی کے لیے سری نگر لے گئے۔ اقبالؔ کے ہمراہ دوسرے وکیل مولوی احمد دین تھے جو دیوانی قانون کے ماہر تھے۔ یہ جون ۱۹۲۱ء کا واقعہ ہے۔ اقبالؔ نے کشمیر میں دوہفتے قیام کیا اور جولائی ۱۹۲۱ء کے پہلے عشرے میں لاہورمیں واپس آگئے۔ اقبالؔ نے انھی مقدمات کے سلسلے میں منشی سراج دین کو خطوط لکھے۔ ان خطوط کی تعداد تین ہے‘ جو ذیل میں درج ہیں۔ ان خطوط سے خان صاحب منشی سراج الدین (میر منشی) کا کوئی تعلق نہیں ہے‘ جن کے نام ’’اقبالنامہ‘‘ اول(ص:۱۶۔۲۶) میں چار خطوط شامل ہیں۔ شیخ منشی سراج الدین قیامِ پاکستان کے بعد کچھ وقت سری نگر اور دہلی میں گزار کر پاکستان آگئے تھے اور کراچی میں رہایش پذیر ہوئے۔ سو سال کی عمر پائی اور ۱۹۷۸ء میں کراچی ہی میں انتقال کیا۔ مآخذ:کلیم اختر: اقبال اور مشاہیر کشمیر‘‘، ص:۲۰۶ (۱۱۸) مخدومی منشی صاحب! السلام علیکم۔ آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ سے رخصت ہو کر پانچ بجے شام راولپنڈی پہنچ گئے اور ۶بجے شام کی ٹرین بھی مل گئی۔ رستے میں بھی خدا کے فضل و کرم سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آپ کی مستعدی‘ خدمت گزاری اور مہمان نوازی کی تعرف کرتے کرتے منزل ختم ہو گئی۔ فَالْحمْدُلِلّٰہِ عَلَیٰ ذَاْلِکَ۔ میرا خیال تھا کہ آپ کے مقدمے میںحکم سنا دیا گیا ہوگا‘ مگر سیٹھ کریم بخش۱؎صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ جج صاحب بہادر رخصت سے واپس آ کر حکم سنائیں گے۔ آپ سیٹھ صاحب کی خدمت میں عرض کر دیں کہ اگر وہ اشتہار نیلام جو پنڈت جانکی ناتھ نے پیش کیا ہے‘ مثل پر نہیں ہے تو اس کا کچھ اثر نہ ہونا چاہیے۔ بَہرحال اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھناچاہیے۔ وہ مسلمان کی آخری امید ہے۔ سیٹھ صاحب اور بڑے شیخ صاحب۲؎سے کہیے کہ درودشریف پڑھنے سے غفلت نہ کریں۔ اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے یہ بات خاص کر حلّال مشکلات ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ خُدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ میری طرف سے سب کی خدمت میں سلام عرض کیجیے۔ گرمی کی شدّت ہے‘ بارش مطلق نہیں ہوئی اور نہ اس کی بظاہر کوئی علامات نظر آتی ہیں۔ خواجہ اسداللہ صاحب(ایڈووکیٹ سری نگری‘ کشمیر) ملیں تو میرا سلام ان سے ضرور کہیے۔ والسلام بخدمت سیٹھ کریم بخش صاحب مضمون واحد مخلص محمدؐاقبالؔلاہور ۱۱؍جولائی ۱۹۲۱ء حواشی و تعلیقات: ۱؎ ریاست جموں و کشمیر میں شیخ محمد بخش اور سیٹھ کریم بخش نامورتاجر اور رئیس تھے لیکن بعد میں انقلاباتِ زمانہ کے ہاتھوں ان کی حالت پتلی ہو گئی۔ پنجاب نیشنل بینک کی شاخ سری نگر نے حساب کتاب اور لین دین کے معاملے میں ان کی ڈگری اورقرقیاں کرائیں اور ہزار ہا روپے کی جائیداد سینکڑوں میں نیلام کر ا دی۔ چونکہ نیلام اورقرقیوں وغیرہ میں بہت سی بے ضابطگیاں تھیں اور بینک کا رسوخ بھی بہت کام کر رہا تھا‘ اس لیے شیخ محمد بخش کے داماد منشی سراج دین نے جو اس وقت مہتمم بندوبست کے مثل خواں تھے اور بعد میں افسرِمال کے عہدے سے سبکدوش ہو کر ریونیو ایجنٹ (وکیل) ہوگئے تھے‘ اقبالؔ کی قانونی قابلیت سے مستفید ہونے کے لیے ان کو اس مقدمے کے سلسلے میں کشمیر میں بلایا۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی (مرتب):’’حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘، ص:۳۰۵‘۳۰۶) ۲) بڑے شیخ صاحب: سے مراد شیخ محمد بخش صاحب ہیں۔ (۱۱۹) مخدومی منشی صاحب السلام علیکم۔ آپ کی علالت کی خبر معلوم کر کے تردّد ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ نقل فیصلہ مرسلہ سیٹھ کریم بخش صاحب مل گئی ہے اور میں نے فیصلہ بہ غور پڑھا ہے۔ دفعہ ۴۷کے متعلق جج صاحب بہادر نے جو کچھ لکھا ہے میر رائے میں غلط ہے۔ ہائی کورٹ میں اس کی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر عدالت ہائی کورٹ اس امر میں ہم سے متفق ہو اور واقعات پر متفق نہ ہو تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں اس واسطے زیادہ ضروری امر واقعات کے متعلق ہے۔ واقعات کے متعلق یہ عرض ہے کہ جج صاحب نے وہی بات لکھی ہے اور اپنے فیصلے کو اسی بات پر مبنی کیا ہے جس کااحساس ہمیں پہلے ہی تھا یعنی یہ بات کہ واقعات اور بے ضابطگیوں سے ڈگری دار کی بدنیتی ثابت نہیں ہوتی۔ مَیں نے یہ تمام باتیں پہلے ہی عرض کر دی تھیں۔ سب سے بڑی کمزوری اس مقدمے میں یہی ہے۔ مجھے امید نہیں کہ ہائی کورٹ جہاں تک بے ضابطگیوں اور غلطیوں کا تعلق ہے‘ اے ڈی حکیم صاحب۱؎سے مختلف تجویز کرے۔ شیخ صاحبان۲؎اپنی جگہ سوچ لیں اور اس تمام زیرباری کا اندازہ کر لیں جو اپیل وغیرہ کا نتیجہ ہو گی۔ اگرمعمولی مالیت کا مقدمہ ہوتا تو مضائقہ نہ تھا۔ مقدمہ کی مالیت بھی بڑی ہے اور اخراجات وکلا وغیرہ بھی اسی حیثیت سے ہوں گے۔ غرض ان تمام امور کو ملحوظ رکھ کر آخری فیصلہ کرنا چاہیے۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی زیرباری میں اور اضافہ ہو۔ وجوہات اپیل دو چار روز تک لکھ کر ارسالِ خدمت کردوں گا۔ اگر آپ کی مرضی ہو تو آپ اپیل دائر کر دیں۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ چند ابتدائی غلطیوں کی وجہ سے اس مقدمے کا فیصلہ آپ کے حق میں نہ ہو سکا مگر خُدا تعالیٰ کی درگاہ سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ اگر یہ صورت نہیں تو اللہ تعالیٰ سیٹھ صاحبان کے لیے کوئی اورصورت پیدا کر دے گا۔ سیٹھ صاحبان کی خدمت میں السلام علیکم۔ مخلص محمدؐاقبالؔ لاہور ۱۳؍اگست ۱۹۲۱ء حواشی و تعلیقات: ۱؎ اے ڈی حکیم‘ سشن جج۔ بمبئی کے ایک پارسی تھے۔ اُردو اور کشمیری تو بالکل ہی نہ جانتے تھے‘ البتہ کشمیریوں کی بدقسمتی سے حکومت کے محکمۂ سیاسیہ و خارجہ میں ’’حکیم‘‘ کی رعایت سے مسلمان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے زمانے میں ہندو سررشتہ دار من مانی کار روائیاں کرتے تھے اور کسی کی کوئی پیش نہ جانے دیتے تھے‘ اس لیے چند ابتدائی غلطیوں کی وجہ سے اس مقدمے کا فیصلہ حسبِ منشا نہ ہو سکا‘ جس کا اقبالؔ کو افسوس رہا۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی (مرتب) ’’حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘،ص:۳۰۶‘۳۰۷ ۲؎ شیخ صاحبان: شیخ محمد بخش اور سیٹھ کریم بخش مُراد ہیں۔ (۱۲۰) ڈیرمنشی صاحب! السلام علیکم۔ آپ کاخط ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ اِن شاء اللہ آپ کے ارشاد پر غور کیا جائے گا۔ افسوس کہ رحمان ۱؎راہ کامل طور پر نہ بچا‘ گو پھانسی سے بچ گیا۔ لالہ کنور سین۲؎ صاحب سے لاہور میں مَیں نے اس مقدمے کا مفصل ذکر کیا تھا اورتمام بڑی بڑی باتیں ان کو سمجھا دی تھیں اور یہ بھی درخواست کی تھی کہ مقدمہ کی سماعت جموں میں کریں تو مَیں بغیر مزید فیس کے بحث کروں گا مگر افسوس کہ وہ مقدمہ کشمیر میں سنا گیا۔ بہرحال میں نے منشی اسداللہ کی تحریر پر اپنی بحث کے مفصل نوٹ ان کوبھیج دیے تھے جو عدالت میں پیش کردیے گئے تھے۔ لالہ کنور سین صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ تمھاری بحث کے مفصل نوٹ مثل پر موجود ہیں۔ اس وقت اگر میعاد کاسوال نہ اٹھایا جاتا تومقدمہ مہاراجا (سرپرتاپ سنگھ)۳؎کے سامنے ہی غالباً فیصلہ ہو جاتا۔ مگر منشی اسداللہ صاحب یہ خیال کرتے رہے کہ بارِ دیگر مقدمہ کونسل کے سامنے پیش ہو گا جہاں رحمان راہ کی بریت کی توقع ہے اس واسطے اس وقت التواکو غنیمت سمجھا گیا ورنہ مَیں نے تو مہاراجہ صاحب کو بھی کہہ دیا تھا کہ آپ ابھی فیصلہ کر دیں کیونکہ دوبارہ یہاں آنے کا خرچ مؤکل اپنی غریبی کی وجہ سے نہ اٹھا سکیں گے مگر منشی اسداللہ صاحب کا یہی خیال تھا کہ التوا بہتر ہے مگر افسوس کہ بعد میں ان کا خیال پورا نہ ہو سکا اور کونسل اب تک نہ بن سکی۔ وہ غلطی سے یہ سمجھتے رہے کہ اس فیس میں جو انھوں نے مجھ کودی تھی میں دوبارہ کشمیر آجاؤں گا مگر یہ کیوں کر ممکن تھا۔ اس علاوہ مہاراجہ صاحب کے سامنے مَیں نے یہ سب کچھ کہہ دیا تھا۔ بہرحال اب مَیں نے سنا ہے کہ وہ گورنمنٹ آف انڈیا میں لالہ کنورسین صاحب کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں نے مندرجہ بالاطویل حالات لکھ کر آپ کو تکلیف دی ہے۔ اس سے غرض یہ ہے کہ اگر رحمان راہ کے وارثوں کا ارادہ اپیل کرنے کا مصمم ہو تو مَیں بغیر کسی مزید فیس کے ان کی اپیل لکھ دوں گا۔ آپ یہ امر ان کے گوش گزار کر دیں۔ چونکہ کشمیر میں یہ معاملہ ہندومسلمان سوال بن گیا ہے۔ اس واسطے ممکن ہے رحمان راہ کے وارثوں کو یہ خیال ہو کہ گورنمنٹ آف انڈیا کا قانونی ممبر بھی تو ایک کشمیری پنڈت ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دقّت بھی ہے اوروہ یہ کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے مہاراجا کی طرف سے اگر کسی کوپھانسی کا حکم ہو تو اس کی اپیل گورنمنٹ آف انڈیا میں ہوتی ہے۔ قید کا اگر حکم ہو تو اس کی اپیل نہیں ہوتی۔ بہرحال اگر ان کاارادہ ہو تو مجھے اس میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ اس صورت میں آپ ان سے کہہ دیں کہ میری بحث کے مفصل نوٹ اور دیگر کاغذات بھیج دیں۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ امید ہے آپ کا مزاج بہ خیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۰؍اپریل ۱۹۲۲ء حواشی و تعلیقات ۱؎ رحمان راہ سری نگر کا ایک باشندہ تھا اور قتل کے الزام میں ماخوذ تھا۔ یہ مقدمہ سری نگر ہی میں اقبالؔ کو ملا تھا۔ اقبالؔ کی بحث سے یہ شخص پھانسی سے تو بچ گیا مگرقید ہو گیا۔ ۲؎ لالہ کنورسین : ایم۔اے کی ڈگری لینے کے بعد بارایٹ لا کیا۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۱۳ء کولا کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۱ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ریاست کشمیر کے چیف جسٹس بھی رہے۔ میرحسن کے شاگرد۔ عربی میں دسترس حاصل تھی۔ آیاتِ قرانی کا بلا تکلف حوالہ دیتے۔ اقبالؔ کی لیاقت اور قابلیت کے دل سے معترف تھے۔ مآخذ: ۱) نذیر نیازی سیّد:’’داناے راز‘‘ ص:۱۹۱‘۱۹۲ ۲) عبدالشکوراحسن (مؤلف): ’’زندگی نامہ‘‘ ص:۱۲۸ ۳) سلطان محمود حسین‘ڈاکٹر‘ شمس العلماء مولوی سید میرحسین ‘’’حیات و افکار‘‘ ص:۲۱۲۔۲۱۴ ۴) مہاراجا پرتاب سنگھ والیِ ریاست جموں و کشمیر ریاسی(RIASI ) کے مقام پر ۱۸۵۰ء میں پیدا ہوا۔ ڈوگری‘ سنسکرت‘ فارسی اور انگریزی زبانیں سیکھیں۔ ۱۸۸۵ء میں تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں انتظامیہ میں اصلاحات ہوئیں۔ پرتاپ سنگھ نے ۲۳؍ستمبر۱۹۲۵ء کو سری نگر میں انتقال کیا۔ مآخذ: مظفرحسین برنی(مرتّب) : کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘،ص:۸۱۶‘۸۱۷ بنام علاّمہ عبدالرشید طالوتؔ تعارف عبدالرشید نام‘ نسیم تخلص‘ قلمی نام طالوت۔ یکم فروری ۱۹۰۹ء کو ڈیرہ غازی خان کے ایک نواحی قصبے چوٹی زیریں جمال خاں میں پیدا ہوئے۔ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور گورنمنٹ اورینٹیل سکول ملتان میں پڑھاتے تھے۔ ان کی سیاسی تحریریں ’’زمیندار‘‘ ،’’عالمگیر‘‘،’’خیام‘‘ اور دوسرے رسالوں میں شائع ہوتی تھیں۔ اسلامی نظمیں زیادہ تر ’’بُرہان‘‘ دہلی اور ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ میں شائع ہوتی تھیں۔ اُردو‘ فارسی اور سرائیکی کے قادرالکلام شاعر تھے۔ دیوانِ فرید کو مرتب اور مدوّن کیا۔ ان کا تاریخی کارنامہ عربی ادب کی تاریخ ہے۔ انھوں نے ۳؍مارچ ۱۹۶۳ء کو ملتان میں وفات پائی۔ ہماری سیاسی اورقومی تاریخ میں ان کا نام اس لحاظ سے زندہ رہے گا کہ انھوں نے اپنی مراسلت کے ذریعے مولانا حسین احمد مدنی اور اقبالؔ کی باہم غلط فہمی دور کروا دی تھی۔ مآخذ: ۱) افضل حق قرشی‘ قاضی: ’’اقبال کے ممدوح علما‘‘، ص:۸۸۔ ۲) عبدالرحمن خان ‘ منشی:’’چند ناقابلِ فراموش شخصیات‘‘، ص:۹۳۔۹۵ (۱۲۱) ۱۶؍فروری ۱۹۳۸ء جنابِ من مولانا حسین احمد۱؎صاحب کے معتقدین اوراحباب کے بہت سے خطوط میرے پاس آئے۔ ان میں سے بعض میں تو اصل معاملے کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے مگر بعض نے معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کیا اور مولوی صاحب کو بھی اس ضمن میں خطوط لکھے ہیں۔ چنانچہ آپ کے خط میں مولوی صاحب کے خط کے اقتباسات۲؎درج ہیں۔ اس واسطے مَیں نے آپ ہی کے خط کو جواب کے لیے انتخاب کیا ہے۔ جواب ان شاء اللہ اخبار ’’احسان‘‘ میں شائع ہو گا۔ میں فرداً فرداً علالت کی وجہ سے خط لکھنے سے قاصر ہوں۔ مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات ۱؎ مولانا حسین احمد مدنی بمقام بانگر مئو ضلع اناؤ میں ۱۸۷۹ء میں پیدا ہوئے۔ تاریخی نام چراغ محمد ہے۔ ابتدائی پرورش بانگر مئو ہی میں ہوئی۔ درالعلوم دیوبند سے امتیاز کے ساتھ سند حاصل کی۔ مدینہ طیبہ میں ایک عرصے تک قرآن اور حدیث کا درس دیا۔ بعدازاں درالعلوم دیوبند میں بھی درس و تدریس میں مشغول رہے اور صدر مدرس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا نے ہند کی سیاسیات میں نمایاں حصہ لیا اور مولانا محمودحسن کے ساتھ مالٹا میں اسیر رہے۔ کانگریس اور خلافت کی تحریک میں پیش پیش رہے اور اس سلسلے میں کئی بار قید بھی ہوئے۔ جمعیت العلما کے صدر بھی رہے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں مولانا کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے علما اور مشائخ میں تھا۔ ۶؍دسمبر ۱۹۵۷ء کو انتقال کیا اور دیو بند میں دفن کیے گئے۔ مآخذ: ۱) روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی‘ ص:۵۔۷ ۲) اعجازالحق قدوسی ’’اقبال اور علمائے پاک و ہند‘‘ ص: ۳۷۸۔۳۸۸ ۳) عبدالرشید ارشد:’’بیس بڑے مسلمان‘‘ ص:۶۴۳۔۶۹۸ ۲؎ مولانا حسین احمدمدنی نے ۸؍جنوری ۱۹۰۸ء کو دہلی کے ایک جلسہ میں تقریر کی۔ یہ تقریر بہت طویل تھی۔ جس کااختصار ۹؍جنوری کو روزنامہ ’’تیج‘‘ اور روزنامہ ’’انصاری‘‘ میں شائع ہوا۔ بعد میں ’’انقلاب‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ نے نقل کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ مولانا حسین احمد نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ زمانے میں قومیں وطن سے بنتی ہیں‘ مذہب سے نہیں بنتی ہیں‘ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قومیت کی بنیاد وطن کوبنائیں۔ جب یہ ’’انقلاب‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ اقبالؔ کی نظر سے گزرے تو انھیں ذہنی و قلبی تکلیف ہوئی اور یہ اضطراب ایک شعری قطعہ میں ڈھل گیا۔ عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ ز دیوبند حسین احمدؐایں چہ بوالعجبی است! سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر زِمقامِ محمدؐ عربی است! بمصطفیٰؐ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اُو نرسیدی تمام بولہبی است! ان اشعار کا شائع ہونا تھا کہ بحث و تمحیص کے دروازے کھل گئے۔ معترضین نے ان اشعار کا جواب اشعار میں دیا۔ کتابچے شائع کیے‘ مضامین لکھے۔ مولانا طالوتؔ کو چونکہ مولانا حسین احمد سے عقیدت تھی۔ اس لیے انھیں اقبالؔ کے مذکورہ اشعار سے صدمہ پہنچا۔ انھوں نے اقبالؔ کو ایک طویل خط لکھا اور مولانا حسین احمد کے خط کے اقتباسات بھی لکھے‘ مولانا کا یہ طویل خط مختلف اخبارات و رسائل مثلاً ’’مدینہ‘‘، الجمعیت‘‘، ’’انصاری‘‘، ’’ہندجدید‘‘،پاسبان‘‘ اور ’’ترجمانِ سرحد‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجا گیا‘ اس خط میںانھوں نے اپنے فرمودہ ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘کی وضات کی کہ ان کے اس بیان کاوہ مطلب نہیں جواقبالؔ سمجھے ہیں… اقبالؔ نے ایک مضمون ’’جغرافیائی حدود اورمسلمان‘‘ لکھا جو اخبار ’’احسان‘‘ لاہور کی ۹؍مارچ ۱۹۳۸ء کی اشاعت میں چھپا۔ تاہم مولانا حسین احمد کے اعتراف کے بعد اقبالؔ نے اپنا بیان اخبار ’’احسان‘‘ میں شائع کرایا اور وضاحت کی کہ انھیں مولانا صاحب سے ذاتی رنجش اور عناد نہیں ہے بلکہ نظریاتی اختلاف ہے کیونکہ اس نظریے کے اثرات بہت مضر ثابت ہو سکتے تھے۔ طالوتؔ صاحب کے نام خطوط میں اسی مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مآخذ: ۱) اقبالؔ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنی‘ از پروفیسر یوسف سلیم چشتی‘ مشمولہ : روزنامہ ’’الجمیعۃ‘‘ دہلی‘ ص:۳۷۹۔۳۸۳ ۲) نورمحمد قادری‘ سیّد (مرتب) اقبالؔ کا آخری معرکہ‘‘ُص:۸۵۔۹۵ (۱۲۲) ۱۸؍فروری ۱۹۳۸ء جنابِ من سلام مسنون۔ میں حسب وعدہ آپ کے خط کا جواب ’’احسان‘‘ میں لکھوانے کو تھا کہ میرے ذہن میں ایک بات آئی جس کا گوش گزار کر دینا ضروری ہے۔ امید ہے کہ آپ مولوی صاحب کو خط لکھنے زحمت گوارا فرما کر اس بات کو صاف کر دیں گے۔ جو اقتباسات آپ نے ان کے خط سے درج کیے ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے فرمایا کہ آج کل قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اگر ان کامقصود ان الفاظ سے صرف ایک امرِ واقعہ کو بیان کرنا ہے تواس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایشیا میں بھی مقبول ہورہا ہے۔ البتہ اگر ان کا یہ مقصد تھا کہ ہندی مسلمان بھی اس نظریے کو قبول کر لیں تو پھر بحث کی گنجایش باقی رہ جاتی ہے۔ کیونکہ کسی نظریے کو اختیار کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا وہ اسلام کے مطابق ہے یا منافی ۔ اس خیال سے کہ بحث تلخ اور طویل نہ ہو نے پائے اس بات کا صاف ہوجانا ضروری ہے کہ مولانا کا مقصود ان الفاظ سے کیا تھا۔ ان کا جو جواب۱؎آئے وہ آپ مجھے روانہ کر دیجیے۔ مولوی صاحب کو میری طرف سے یقین دلائیے کہ مَیں ان کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں۔ البتہ اگرمذکورہ بالاارشاد سے ان کامقصد وہی ہے جو مَیں نے اوپر لکھا ہے تو میں ان کے مشورے کو اپنے ایمان اور دیانت کی رُو سے اسلام کی روح اور اس کے اساسی اصولوں کے خلاف جانتا ہوں۔ میرے نزدیک ایسا مشورہ مولوی صاحب کے شایانِ شان نہیں اور وہ مسلمانانِ ہند کی گمراہی کا باعث ہو گا۔ اگر مولوی صاحب نے میری تحریروں کو پڑھنے کی کبھی تکلیف گوارا فرمائی ہے تو انھیں معلوم ہوگیا ہو گا کہ مَیں نے اپنی عمر کا نصف حصہ اسلامی قومیت اور ملّت کے اسلامی نقطۂ نظر کی تشریح و توضیح میں گزارا ہے محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا کے لیے اور خصوصاً اسلام کے لیے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایک خطرۂ عظیم محسوس ہوتا تھا۔ کسی سیاسی جماعت کا پروپیگنڈا کرنا نہ میرا اس سے پہلے مقصد تھا نہ آج مقصود ہے بلکہ وہ شخص جو دین کو سیاسی پروپیگنڈے کا پردا بناتا ہے‘ میرے نزدیک لعنتی ہے۔ مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۱۲۱ تعلیقہ نمبر ۲ (۱۲۳) مارچ ۱۹۳۸ئi؎ جناب ایڈیٹر صاحب احسان۱؎،لاہور السلامُ علیکم۔ میں نے تبصرہ مولانا حسین احمد صاحب کے بیان پر شائع کیا ہے اور جو آپ کے اخبار میں شائع ہو چکا ہے اس میںاس امر کی تصریح کر دی تھی کہ اگر مولانا کا یہ ارشاد کہ ’’زمانۂ حال میں اقوام اوطان سے بنتی ہیں‘‘ محض برسبیل تذکرہ ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں اور اگر مولانا نے مسلمانانِ ہند کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ جدید نظریۂ وطنیت اختیار کریں تو دینی پہلو سے اس پر مجھ کو اعتراض ہے۔ مولوی صاحب کے اس بیان میں جو اخبار ’’انصاری‘‘ میں شائع ہوا ۔ مندرجہ ذیل الفاظ ہیں: لہٰذا اشد ضرورت ہے کہ تمام باشندگانِ ملک کو منظم کیا جائے اور ان کو ایک ہی رشتے میں منسلک کر کے کامیابی کے میدان میں گامزن بنایا جائے۔ ہندوستان کے مختلف عناصر اور متفرق ملل کے لیے کوئی رشتۂ اتحاد بجز متحدہ قومیت اورکوئی رشتہ نہیں جس کی اساس محض یہی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ان الفاظ سے تو میں نے یہی سمجھا کہ مولوی صاحب نے مسلمانانِ ہندوستان کو مشورہ دیا ہے۔ اسی بنا پر میں نے وہ مضمون۲؎ لکھاجو اخبار احسان میں شائع ہوا ہے۔ لیکن بعد میں مولوی صاحب کا ایک خط طالوتؔ صاحب کے نام آیا جس کی ایک نقل انھوں نے مجھ کو بھی ارسال کی ہے۔ اس خط میں مولانا ارشاد فرماتے ہیں: مرے محترم سر صاحب کاارشاد ہے کہ اگر بیانِ واقعہ مقصود تھا اس میں کوئی کلام نہیں اور اگر مشورہ مقصود ہے تو خلاف دیانت ہے۔ اس لیے مَیں خیال کرتا ہوں کہ پھر الفاط پر غور کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ تقریر کے لاحق و سابق پر نظر ڈال لی جائے۔ مَیں عرض کر رہا تھا کہ ’’موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘۔ یہ اس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اورذہینت کی خبر ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہیے۔ خبر ہے‘ انشا نہیں ہے۔ کسی ناقل نے مشورے کا ذکر بھی نہیں کیا۔ پھر اس مشورے کو نکال لینا کس قدر غلطی ہے۔ خط کے مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریۂ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔ مَیں نے مولانا کے ان عقیدت مندوں کے جوشِ عقیدت کی قدر کرتا ہوں جنھوں نے ایک دینی امر کی توضیح کے سائے میں پرائیویٹ خطوط اور پبلک تحریروں میں گالیاں دیں۔ خدا تعالیٰ ان کو مولانا کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ مستفید کرے۔ نیز ان کو یقین دلاتا ہوں کہ مولانا کی حمیّتِ دینی کے احترام میں مَیں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ صابرکلوروی صاحب کے مطابق یہ خط مارچ ۱۹۳۸ء کے اوائل میں تحریر کیا گیا۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۱) حواشی و تعلیقات: ۱؎ ’’احسان‘‘ لاہور سے ۹۱۹۳۴ میں جاری ہوا۔ ملک نورالٰہی اس کے ناشر اور اقبالؔ سرپرست تھے۔ اس اخبار کو مرتضیٰ احمد خان میکش‘ چراغ حسن حسرت اور مولانا انعام اللہ خان ناصر ایسے ممتاز صحافیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ ’’احسان‘‘ فنی لحاظ سے ایک اعلیٰ اخبار تھا۔ یہ برصغیر کا پہلا اُردو اخبار تھا جس نے ٹیلی پرنٹر نصب کرایا۔ ورنہ دوسرے اُردو اخباروں کو خبررساں ایجنسیاں دستی خبریں پہنچاتی تھیں۔ مآخذ: ۱) عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر:صحافت‘ پاکستان و ہند میں‘‘ص:۴۵۶۔۴۵۷ ۲) مسکین علی حجازی‘ ڈاکٹر: ’’پنجاب میں اُردوصحافت‘‘،ص:۳۷۰۔۳۷۲ ۳) ایم۔ایس۔ناز: ’’اخبار نویسی کی مختصرترین تاریخ‘‘ص:۲۹۸۔۳۰۱ ۲؎ مضمون سے مراد’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ ہے‘ جو ۹؍مارچ ۱۹۳۸ء کے اخبار ’’احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ بنام شیخ مبارک علی تعارف: شیخ مبارک علی (۱۸۹۲ئ۔۱۹۸۳ئ) لاہور کے مشہور ناشر اور تاجر کتب ۔تعلیم سے فراغت کے بعد ریلوے اکاؤنٹس میں ملازم ہو گئے۔ ملازمت سے مستعفی ہو کر کتابوں کا کاروبار شروع کر دیا۔ جو ابتدائً چھوٹے درجے کا تھا۔ ان کی کتابوں کی دُکان لوہاری دروازے میں تھی۔ اقبالؔ نے اپنی کتاب ’’رموز‘ بیخودی‘‘ کی طباعت و اشاعت کا کام ان کے سپر کر دیا۔ انھوں نے طبع اول کی فروخت کا وقت تین مہینے مقرر کیا تھا۔ مگر تین ہی ہفتے میں مقررہ رقم اقبالؔ کو پہنچا دی۔ اس کے بعد اقبالؔ نے اپنی دوسری کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی انھیں کو منتخب کیا اور ان کی اندرون لوہاری دروازہ کی دکان پورے برعظیم میں مشہور ہو گئی۔ اقبالؔ کے علاوہ انھوں نے محمد حسین آزادؔ‘ مولاناشبلیؔ‘ اور دیگر مصنفین کی اُردو اور فارسی کتابوں کی طباعت و اشاعت بھی کی۔ دارالمصفنین اعظم گڑھ کی کتابیں بھی انھیں کے ذریعے فروخت ہوتی تھیں۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی دونوں جلدیں شیخ مبارک علی ہی کے توسط سے اہلِ ذوق تک پہنچیں۔ آخر میں انھوں نے اپنی مشہوردکان اپنی بیٹی اور داماد کے حوالے کر دی اور خود انارکلی میں پبلشرز یونائٹیڈ کا کام سنبھالا۔ مآخذ: ’’پاکستانیکا انسائیکلوپیڈیا‘ مرتبہ سید قاسم محمود‘ جلداوّل‘‘،ص: ۸۰۹ (۱۲۴) مارچ /اپریلi؎۱۹۲۳ء مکرم بندہ ۱۔ کاپی جو تیار تھی بھیج دیجیے تاکہ میں دیکھ دوں۔ ۲۔کاپی کے خالی حصے کے لیے جو شعر مَیں نے دیے تھے وہ کاپی میں لکھے گئے یا نہیں۔اگر عبدالمجید۱؎نے انھیں نقل کر لیا ہو تو وہ کاپی بھی بھیج دیں۔ ۳۔ ’’خردہ‘‘ کا مسوّدہ مجھے بھیج دیجیے کہ اس میں اور چند اشعار کا اضافہ کر دوں۔ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎زیرنظر خط کی تاریخِ تحریر صابرکلوروی صاحب نے مارچ/اپریل ۱۹۲۳ء متعین کی ہے۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘، ص:۹۱) حواشی وتعلیقات: ۱؎ برعظیم پاک و ہند کے نامور خطاط…ایمن آبادی دبستانِ نستعلیق سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والدمنشی عبدالعزیز اور دادا مولوی پیر بخش بھی خوش نویس تھے۔ عبدالمجید نے ابتدا میں خلیفہ نوراحمد سے اصلاح لی۔ اس کے بعد وہ امام ویردی اور سید احمد ایمن آبادی کی پیروی کرنے لگے۔ آخر میں انھوں نے حکیم فقیر محمد چشتی سے مشورہ کیااور دائرے بنانے میں کمال حاصل کیا۔ عبدالمجید نے الفاظ کی پیوندوں کی پراخت میں نہایت دلکش اور حسین ترامیم کیں اور یوں ایک خاص طرزِ خطاطی کے موجد بنے۔ انھوں نے اقبالؔ کے کلام کی کتابت کر کے شہرت حاصل کی۔ آخری عمر میں تصوّف کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ غلام رسول مہرؔ نے انھیں ’’پروین رقم‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ۴؍اپریل ۱۹۴۶ء کووفات پائی۔ مآخذ: ۱) محمد اسلم پروفیسر‘ ’’خفتگانِ خاکِ لاہور‘‘،ص:۱۹۶‘۱۹۷ ۲) اسلم کمال:’’اسلامی خطاطی کا ایک تعارف‘‘: ۶۴‘۶۶ ۲؎ ’’خردہ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ’’پیامِ مشرق‘‘ کی کتابت کے متعلق ہے جو پہلی بار ۱۹۲۳ء میں طبع ہوئی۔ (۱۲۵) جناب شیخ مبارک علی صاحب بانگِ درا۱؎کی طباعت وغیرہ کا بل کریمی پریس کی طرف سے میرے پاس آگیا ہے جس کو مَیں ادا کردوں گا۔ آپ اسے ادا کرنے کی زحمت گوارا نہ کریں۔ لیکن عبدالمجید صاحب کاتب کا بِل ابھی تک میرے پاس نہیں آیا۔ اگر آپ نے ادا کر دیا ہے تو بہتر۔ اگر ابھی تک ادا نہیں ہوا تو اطلاع دیجیے کہ اس سے بِل منگوا کر ادا کر دیا جائے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ لاہور۲۶؍اگست ۲۴ء حواشی و تعلیقات ۱؎ ’’بانگِ درا‘‘ اقبالؔ کا پہلا اُردو مجموعۂ کلام جو ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ (۱۲۶) مارچ/اپریلi؎۱۹۲۳ء مکرم بندہ مندرجہ ذیل کاغذ مرسل ہیں۔ (۱) پیش کش (۲) ٹائٹل پیج۔ اس پر حسب فرمایش وغیرہ نہ لکھا جائے نہ کتاب کی پُشت پر کسی اور کتاب کااشتہار دیا جائے۔ کاغذ ii؎کے ایک طرف کتاب کا نام وغیرہ ہے‘ دوسری طرف وسط میں لفظ ’’کاپی رائٹ‘‘ ہے۔ (۳)دیباچہ (۴) گزشتہ کاپی میں جو جگہ خالی رہ گئی تھی اس کے لیے اشتہار۔ مہربانی کر کے عبدالمجید سے میری طرف سے درخواست کیجیے کہ وہ اب اس کام کو ختم کر کے کہیں باہر جائے‘ اس سے پہلے نہ جائے کیونکہ اس تھوڑے سے کام کے لیے تمام کتاب میں دیرہو جائے گی۔ ایک دو دن کا کام ہے اور وہ آسانی سے ایک دو روز کے لیے اپنا سفر ملتوی کر سکتے ہیں۔ اگر ان کو روکنا نا ممکن ہوتوکیا یہ ممکن نہیں کہ پیش کش اوردیباچہ وغیرہ آپ کسیiii؎سے لکھوا لیں؟ مجھے اندیشہ ہے کہ عبدالمجید کو سفر میں زیادہ دن لگ جائیں گے اور کام رُکارہے گا۔ بہرحال مَیں یہ کام آپ پر چھوڑتا ہوں۔ اگروہ ایک دو روز کے لیے اپنا سفر ملتوی کردیں تو ان کی مہربانی ہے‘ نہیں تو جس طرح آپ مناسب سمجھیں کریں۔ باقی کاپیاں جو کل ختم ہو گئی ہوں گی ارسال کیجیے کہ مَیں ان کو دیکھ لوں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎صابرکلوروی صاحب کے نزدیک یہ خط مارچ/اپریل ۱۹۲۳ء میں لکھا گیا۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۱)ii؎ انوار=کی۔iii؎ انوار=آپ اور کسی (دیکھیے:عکس) بنام وصل بلگرامی تعارف: سیّد مقبول حسین نام‘ وصل تخلص‘ بلگرام کے رہنے والے تھے۔ اپنے زمانے کی نہایت ہنگامہ پرورشخصیت گزرے ہیں۔ وصلؔ نے ابتدائًرسالہ ’’عالمگیر‘‘ نکالا پھر ۱۹۲۵ء کے آخر میں لکھنؤ سے ادبی رسالہ ’’مُرقع‘‘ کے نام سے چھاپنا چاہاتھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے مختلف ادیبوں اور شاعروں کوقلمی تعاون کے لیے لکھا۔ اقبالؔ سے فرمائش کی تھی کہ وہ سرورق کے لیے کوئی اچھا سا شعرتجویز کریں‘ اس کا ذکر اقبالؔ کے خط محررہ ۱۸؍نومبر ۱۹۲۵ء میں ہے۔ دوسرا شعر جس کا عکس وصل بلگرامی نے جنوری ۱۹۲۲ء کے ’’مرقع‘‘ میں شائع کیاتھا‘ درج ذیل ہے: ؎تاتو بیدارشوی نالہ کشیدم ورنہ عشق کاری است کہ بے آہ و فغاں نیزکنند یہ شعر ’’زبورِ عجم کے حصہ دوم میں موجود ہے۔ وصلؔ بلگرامی کی وفات تھانہ بھون میں ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۲ء کو ہوئی۔ مآخذ: ۱) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر:’’معاصرینِ اقبالؔ‘‘،ص:۱۱۹۰ ۲) ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر‘ص:۵۳۵۔۵۳۷ ۳) ماہنامہ ’’شاعر‘‘ اقبالؔ نمبر۔ جلداوّل ۱۹۸۸ء بمبئی ص:۴۷۷ (۱۲۷) لاہور ۱۸؍نومبر ۱۹۲۵ء مخدومی ‘ تسلیم یہ ایک شعر حاضر ہے۔ معلوم نہیں سرورق کے لیے موزوں ہو گا یا نہیں: ندارد عشق سامانی و لیکن تیشہ ئی دارد شگافد سینۂ کہسار و پاک از خون پرویز است۱؎ حواشی و تعلیقات:یہ شعر’’زبورعجم‘‘(کلیاتِ فارسی‘ ص:۳۵۸) میں ہے اور مصرعۂ ثانی میں ’’شگافد‘‘ کی بجائے ’’خراشد‘‘ ہے۔ ۱؎ ترجمہ عشق کے پاس سروسامان نہیں ہے مگرتیشہ تو ہے۔ وہ پہاڑوں کا سینہ چیر دیتا ہے۔ مگر خونِ پرویز سے پاک ہے۔ (۱۲۸) نومبر/دسمبرi؎۱۹۲۵ء مخدومی‘ تسلیم گفتند دِلآزار کہ پربستہ نکوتر گفتم کہ زِبند دو جہاں رستہ نکوتر گفتند زخلوت کدۂ خویش بروں آ گفتم شرر جستہ ز نا جستہ نکوتر گفتند کہ دربارۂ اُوچیزے دِگرے گو گفتم چوگل از باد صبا خستہ نکوتر۱؎ دانت کے درد سے اب افاقہ ہے۔ ہمدردی کا شکریہ قبول فرمائیے۔ٹائٹل پیج کے لیے شاید یہ شعر موزوں ہو۔ تاتوبیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ! عشق کارے ست کہ بے آہ و فغاں نیز کنند۲؎ مخلص اقبالؔ تحقیق متن: ۱؎ زیرنظر خط کی تاریخ تحریر صابرکلوروی صاحب نے متعین کی ہے۔ (اشاریۂ مکاتیب‘‘ ص:۹۱) ’’ماہِ نو‘‘ اقبال نمبر ۱۹۷۷ء ص:۳۵۰۔۳۵۲۔ حواشی تعلیقات ۱؎ ترجمہ: انھوں نے کہا کہ پَر بندھے رہنا گویا قیدِ قفس میں رکھنا زیادہ بہتر ہے کہ پھرعاشق کی دل آزاری کے اسباب کم ہوں گے۔ میں نے کہا کہ ہر دو جہاں کی قید سے آزادی زیادہ بہتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ تنہائی کے گوشے سے باہر نکل آؤ۔ میں نے کہا کہ دہکتا ہوا شرار مردہ شرارے سے زیادہ بہتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس (محبوب) کے بارے میں ذکر اذکار اس کے Exposureکے مترادف ہو گا جو ہوا سے پھول کے کھلانے کی طرح ہے) ۲؎ ترجمہ: میں نے اس لیے نالہ کیا ہے کہ تو جاگ جائے ورنہ عشق تو وہ کاروبار ہے کہ جسے لوگ بغیر نالہ وفریاد کے بھی کرتے ہیں۔ (’’زبورعجم‘‘ص:۷۱) بنام وحید احمد تعارف: وحید احمد مسعود قصبہ شیخوپورہ ضلع بدایوں(یو۔پی)کے ایک امیر گھرانے میں ۱۸؍مارچ ۱۸۹۳ء کو پیداہوئے۔ ۱۹۱۴ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے‘ لیکن پہلی جنگِ عظیم چھڑنے کے سبب بغیر کوئی ڈگری لیے واپس آگئے۔ وحید احمد تصوف پر اچھی نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے تصوف کو سید علی ہجویری داتا گنج بخش کی تعلیمات کی روشنی میں عوام کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ اقبالؔ کے نظریے کے حامی تھے کہ صوفی کو بے عمل نہیں ہونا چاہیے۔ وحیداحمد ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ بدایوں سے ایک رسالہ ’’نقیب‘‘ نکالتے تھے۔ جس میں اقبالؔ کے کلام کی اشاعت کے لیے برابر خط لکھا کرتے تھے۔ ان کی مشہور تصانیف میں: حضرت بابا فریدؒ ‘ ’سید احمد شہید‘ ’اسلام مشرق میں‘اور’ گردِ راہ‘ شامل ہیں۔ وہ شاعر بھی تھے۔ وحیدتخلص کرتے تھے۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۷۲ء کو انتقال کیا۔ مآخذ: مظفر حسین برنی(مرتب):’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘:۱۰۷۰‘۱۰۷۱ (۱۲۹) لاہور ۴؍ستمبر۱۹۱۹ئi؎ مکرمی تسلیم ’’نقیب۱؎‘‘ کے لیے دو تین اشعار حاضر ہیں: از من اے بادِ صبا گوئی بہ دانائی فرنگ عقل تا بال کشود است گرفتار تر است برق را ایں بہ جگر میزندآں رام کند عشق از عقل فسوں پیشہ جگر دار تراست چشم جز رنگِ گل و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ درپردۂ رنگ است پدیدار تراست۲؎ مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: ۱؎ اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۹۱ حواشی و تعلیقات: ۱؎ یہ رسالہ پہلے پہل ۱۹۱۹ء میں جاری ہوا اور کچھ عرصے کے بعد بند ہوگیا۔ ۱۹۲۱ء میں دوبارہ جاری ہوا۔ ۲؎ یہ تین اشعار ’’نقشِ فرنگ‘‘ کے عنوان سے ’’پیام مشرق‘‘ میں شامل ہیں۔ (کلیات‘ فارسی‘ ص:۳۲۱) ترجمہ: اے بادِصبا میری طرف سے دانائے فرنگ سے کہہ دینا کہ: جب سے عقل نے پَرپُرزے نکالے ہیں وہ اور بھی زیادہ گرفتار ہو گئی ہے۔ برق (بجلی) کو یہ جگر پرسہتا ہے اورعقل اسے مسخر کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو عقلِ فسوں ساز سے عشق زیادہ جیالا ہے آنکھ سوائے رنگِ گل و لالہ کے کچھ نہیں دیکھتی ورنہ جو کچھ رنگ کے پردے میں چھپا ہوا ہے وہ زیادہ ظاہر ہے۔ (۱۳۰) لاہور ۷؍ستمبر ۱۹۲۱ء مخدومی ‘ السلام علیکم آپ کا والا نامہ ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میرا خیال تھا کہ آپ کے پاس میرا کوئی اور شعر ہو گا۔ اس شعرمیں کیا رکھا ہے۔ اگر آپ کو مضمون لکھنے کی زحمت گوارا ہی کرنا ہے تو ایک رباعی حاضر کرتا ہوں۔ اس پر لکھیے اور اس شعر کو نہ چھاپیے اور اس پرمضمون لکھنے کا خیال ترک کیجیے۔ وہ رباعی مندرجہ ذیل ہے: تو اے کودک منش خود را ادب کُن مسلمان زادیٔ ترک نسب کُن برنگِ احمر و خون و رگ و پوست عرب نازد اگر‘ ترکِ عرب کُن۱؎ اس زمانے میں سب سے زیادہ بڑا دشمن اسلام اوراسلامیوں کا نسلی امتیاز و ملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ ]تیرہ لکھ کر کاٹ دیا اور اسے پندرہ بنایا[برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا۔ اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگزشت قلم بند کروں گا۔ جس سے مجھے یقین (ہے) بہت لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ اس دن سے جب یہ احساس مجھے ہوا آج تک برابر اپنی تحریروں میں یہ ہی خیال میرا مطمحِ نظر رہا ہے معلوم نہیں میری تحریروں نے اور لوگوں پر اثر کیا یا نہیں کیا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس خیال نے میری زندگی پر حیرت انگیز اثر کیا۔ زیادہ کیاعرض کروں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ یہ رباعی ’’پیامِ مشرق‘‘ میں شامل ہے۔ (کلیات‘ فارسی‘ ص:۲۲۳) ترجمہ: اے بچوں کا سامزاج رکھنے والے اپنی تربیت کر۔ تو مسلمان زادہ ہے تو نسب کا فخر چھوڑ دے۔ سرخ رنگ ‘ خون اور رگ و پوست پر اگر عرب ناز کرتا ہے تو عرب کو بھی چھوڑ دے۔ بنام شاہ سلیمان پھلواروی تعارف: دیکھیے خط نمبر ۳ تعلیقہ نمبر۷ (۱۳۱) لاہور‘ ۲۴؍فروری ۱۶ء مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا السلام علیکم آپ کا خط جو ’’خطیب‘‘ میں شائع ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ میر ی مثنوی اسرارِ خودی۱؎آپ تک نہیں پہنچی۔ ایک کاپی ارسالِ خدمت کرتا ہوں تاکہ آپ یہ اندازہ کر سکیں کہ خواجہ حسن نظامی صاحب۲؎نے جو اتہامات مجھ پر لگائے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔ آپ نے جو خط شائع کیا ہے اس کے حرف حرف سے مجھے اتفاق ہے اور مَیں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے خدا لگتی بات کہی۔ شیخ اکبر محی الدین ابنِ ۳؎عربی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت مجھے i؎؎کوئی بدظنی نہیں بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کو فتوحات۴؎ اور فصوص۵؎ سے کمال توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفل درس میں ہر روز شریک ہوتا۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود بھی پڑھنے لگااور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اورواقفیت زیادہ ہوتی گئی۔ اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات تعلیمِ قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ مَیں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا۔ کئی سالوں تک میرا یہی خیال رہا ہے کہ مَیں غلطی پر ہوں گو اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ مَیں ایک قطعی نتیجے تک پہنچ گیا ہوں لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں۔ اس واسطے بذریعہ عریضہ ہٰذا آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ آپ ازراہِ عنایت و مکرمت چند اشارات تطہیر فرما دیں۔ مَیں ان اشارت کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر دیکھوں گا اور اپنے علم و رائے میں مناسب ترمیم کر لوں گا۔ اگر آپ ایسا ارشاد فرما دیں تو مَیں مدت العمر آپ کا شکرگزار رہوں گا۔ تجلیِ ذاتی کا ذکر کرتے ہوئے شیخ اکبر فرماتے ہیں: ’’وَمَا بَعْدَھَذَاالتّٰجِلی الْااَلعَدمَ الْمَحض فَلَا تَطٰمَعْ وَلا تُحِبُّ فِیْ اِن تَرْقیْ مِنْ ھَذَہ الدَّرجَۃ مِنَ التَّجِلٖی الذّٰتِیْ‘‘اس میں شیخ نے تجلی ذاتی کو انتہائی مقام قرار دیا ہے اور اس کے بعد عدم محض حضرت مجدد نے یہ فقرہ ایک مکتوب میں نقل کیا ہے۔ میری کتابیں اس وقت لاہور میں موجود نہیں ہیں کہ صفحہ و مقام کا پتا دے سکتا۔ میرا یہ ہرگز عقیدہ نہیں کہ جن بزرگوں کا آپ نے ذکر کیا ہے انھوں نے قرمطی تحریک۷؎ سے رافاضہ کیا۔ یہ خواجہ حسن نظامی کا بہتان ہے۔ بعض صوفیہ کی تحریروں اورعلماے قرمطی کی تحریروں میں مماثلت ہونا اور بات ہے۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ مَیں نے اپنی کسی تحریر میں کوئی سوالات نہیں کیے۔ خواجہ صاحب نے خود یہ تنقیحات قائم کی ہیں جو ان کے خیال میں میری تحریر سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بات دیانت کے خلاف ہے کہ ان سوالوں کو جو خواجہ صاحب نے آپ کی خدمت میں ارسال کیے میری طرف منسوب کیاجائے اور ان کا نام‘ ’’ڈاکٹر اقبالؔ کے آٹھ سوال‘‘ رکھا جائے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اس عریضے کے جواب کاانتظار رہے گا۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: زیرنظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہورکی لائبریری میں موجود ہے۔i؎ انوار=نسبت کوئی۔ حواشی وتعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۳ تعلیقہ نمبر ۲ ۲؎ دیکھیے خط نمبر’’۲‘‘ کا تعارف ۳؎ شیخ محی الدین ابنِ عربی (۱۱۶۵ء ۔۱۱۴۰) مرسیہ (اندلس) میں پیدا ہوئے۔ تیس سال تک اشبیلیہ میں مشہورعلما اور صوفیا سے ظاہر اور باطنی علوم کی تحصیل کرتے رہے۔ زُہد کی طرف میلان بڑھا تو حج کے ارادے سے حجاز روانہ ہو گئے۔ پھر بیت المقدس ‘ بغداد اور حلب بھی گئے۔ بالآخر دمشق میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ دمشق ہی میں وفات پائی اور جبل قاسیون میں دفن ہوئے۔ ابنِ عربی نے تصوف کی تحریک کوآگے بڑھایا۔ ان کی دو تصانیف ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ نے تحریک تصوف پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ابنِ عربی کے نظریہ وحدت الوجود نے بڑے بڑے صوفیا کو متاثر کیا۔ یہاں تک مولانا روم بھی وحدت الوجود کے قائل و معترف نظر آتے ہیں۔ اقبالؔ نے ابنِ عربی کے فلسفۂ و حدت الوجود کی سخت مخالفت کی۔ ان کے خیال میں اس فلسفے نے قوم کو خودی سے نابلد کر کے ذوق عمل سے محروم کر دیا ہے۔ اقبالؔ نے خودی کا فلسفہ دے کر ذوقِ عمل کو بیدار کیا۔ ابنِ عربی بہت متنازعہ فیہ شخصیت ہیں۔ ایک گروہ انھیں ولی کامل مانتا ہے اور دوسرے گروہ کے نزدیک وہ ملحد ہیں۔ مآخذ: ۱) اعجاز الحق قدوسی: ’’اقبال کے محبوب صوفیہ‘‘ ص:۵۱۹‘۵۲۰ ۲) عابد علی عابد‘ سیّد: تلمیحاتِ اقبال‘‘ ص:۱۵۱ ۳) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۱‘ص:۶۰۵۔۶۱۲ ۴) محسن جہانگیری‘ ڈاکٹر: ’’محی الدین ابنِ عربی‘ حیات و آثار‘‘،احمد جاوید‘ سہیل عمر (مترجم)ص:۱۵۔۸۳ ۴؎ فتوحات: پورا نام: الفتوحات المکیہ فی معرفۃ الاسرار لمالکیہ و الملکیۃ…ابنِ عربی کی تصنیف‘ اس کتاب کے متعلق ابنِ عربی فرماتے ہیں کہ جو حقائق و معارف قاری کے لیے بطور امانت درج کیے ہیں‘ وہ اکثر خانہ کعبہ کے طواف کرنے کے وقت یاحرم شریف میں بحالتِ مراقبہ خدا ے تعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہیں۔ ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ میں ایک اور جگہ تحریر فرمایا: ’’ہم پر اس کتاب کی تکمیل کے لیے خداے تعالیٰ کا تاکیدی حکم وارد ہوا‘ اس وجہ سے ہم اس کتاب کی تصنیف میں مشغول ہو گئے‘ اور دوسرے امور کے انجام دینے سے رک گئے‘‘۔ مآخذ: ۱) اعجازالحق قدوسی: ’’اقبال کے محبوب صوفیہ‘‘،ص:۵۳۱‘۵۳۲ ۲) اُردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ جلد:۱‘ص:۶۰۵۔۶۱۲ ۵؎ فصوص الحکم: علمِ تصوف میں شیخ محی الدین ابنِ عربی کی تصنیف۔ قرآنِ کریم میں انبیا کے حالات و کوائف کے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے‘ ابنِ عربی نے مسائل توحید اور مسائلِ تصوف سمجھانے کی کوشش ہے۔ یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ ابنِ عربی نے مکاشفے میں دیکھا کہ خیرالبشرؐ نے یہ کتاب ان کو دی ہے اور اس کے ظاہر کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ مولانااشرف علی تھانوی نے اس کے ایک باب کی شرح بھی لکھی ہے‘ جس کا نام ’’خصوص الکلم فی حل خصوص الحکم‘‘ ہے۔ تاہم اقبالؔ ’’فصوص الحکم‘‘ کو الحاد و زندقہ‘‘ قرار دیتے ہیں اور اس پر مفصل لکھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔(بنام سراج الدین پال‘ اقبالنامہ‘ اول‘ص:۴۴) ۲؎ اس تجلی کے بعد عدم محض کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تجلی ذاتی کے مرتبہ سے اوپر جانے کی خواہش ہو یااس کی طمع کی جائے۔ ۷؎ اسمٰعیلی خیالات کی سب سے پہلی جماعت جس کا ذکر پاک و ہند کی تاریخ میں ملتا ہے‘ قرامطہ ہے۔ جن کے داعی نویں صدی عیسوی ہی میں قاہرہ ‘ عراق‘ حضرموت اور یمن سے مغربی پاکستان میں آنے شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے سندھ اور مغربی پنجاب میں بڑا اقتدار حاصل کر لیا۔ اہلِ سنت و الجماعت سے ان کے شدید مذہبی اور سیاسی اختلافات تھے۔ تیرھویں صدی عیسوی کے وسط کے بعد قرامطہ کا ذکر ہندوستانی تواریخ میں نہیں ملتا‘ لیکن ان کے جانشین خوجے اور بوہرے موجود ہیں‘ جن کی اہمیت ان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ مآخذ: محمداکرام ‘ شیخ : ’’آبِ کوثر‘‘ص:۳۳۸‘۳۳۹ (۱۳۲) لاہور ۹؍مارچ۱۶ء مخدوم ومکرم حضرت قبلہ مولانا السلام علیکم جناب کا والا نامہ ملا جس کو پڑھ کر مجھے بہت اطمینان ہوا۔ مجھے اس کایقین تھا کہ آپ کومثنوی پرکوئی اعتراض نہ ہو گا کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کمالِ روحانی کے ساتھ علم و فضل سے آراستہ کیا ہے۔ مَیں نے خواجہ حسن نظامی کو بھی لکھاتھا کہ مثنوی سے اختلاف نہ کیجیے‘ دیباچے میں جوبحث ہے اس پر لکھیے۔ مگر افسوس ہے کہ انھوں نے آج تک ایک حرف بھی اس کے متعلق نہیں لکھا۔ آپ کی تحریر سے مجھے یقینا فائدہ ہو گا مگر میری استدعا ہے کہ مثنوی کے متعلق بھی جوخیال آپ نے خط میں ظاہر فرمایا ہے اس مضمون میں ظاہر فرمائیے کہ جو غلط فہمی خواجہ حسن نظامی کے مضامین سے پیدا ہو گئی ہے وہ دور ہو جائے۔ دیباچے کی بحث ایک علیحدہ بحث ہے اور وحدۃ الوجود کا مسئلہ اس میں ضمناً آگیا ہے۔ اس مئلے کے متعلق جو کہ میرا خیال ہے وہ مَیں نے پہلے خط میں عرض کردیا تھا۔ فارسی شعرا نے جو تعبیر اس مسئلے کی کی ہے اور جو جو نتائج اس سے پیدا کیے ہیں ان پر مجھے سخت اعتراض ہے۔ یہ تعبیر مجھے نہ صرف عقائدِ اسلامیہ کی مخالف معلوم ہوتی ہے بلکہ عام اخلاقی اعتبار سے بھی اقوامِ اسلامیہ کے لیے مضر ہے۔ یہی تصوف عوام کا ہے اور شیخ علی حزیں۱؎نے بھی اسی کو مدِنظر رکھ کر کہا تھا کہ ’’تصوّف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ لیکن حقیقی اسلامی تصوّف کا مَیں کیوں کر مخالف ہوسکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیۂ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ مَیں نے تصوّف کرّات سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیرخواہ ہے نہ(کہ) مخالف۔ انھیں غیر اسلامی عناصر کی وجہ سے ہی مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے اور یہ حملہ انھوں نے حقیقت میں مذہبِ اسلام پر کیا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تصوف اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے جس سے معاملہ صاف ہو جائے اور غیراسلامی عناصر کی تقطیع ہو جائے۔ سلاسلِ تصوف کی تاریخی تنقید بھی ضروری ہے اور زمانۂ حال کا علم النفس‘جو مسالہ‘ تصوف پر حملہ کرنے کے لیے تیار کررہا ہے اس کا پیشتر سے ہی علاج ہونا ضروری ہے۔ میں نے اس پر کچھ لکھنا۲؎ شروع کیا ہے مگر میری بساط کچھ نہیں۔ یہ کام اصل میں کسی اور کے بس کا ہے۔ مَیں صرف اس قدر کام کر سکوں گا کہ جدید مذاق کے مطابق تنقید کی راہ دکھلا دوں۔ زیادہ تحقیق و تدقیق مجھ سے زیادہ واقف کار لوگوں کا کام ہے۔ آپ کے مکتوبات نہایت دلچسپ ہیں اور حفاظت سے رکھنے کے قابل‘ نہ کہ ردّی کی ٹوکری میں ڈالنے کے قابل‘ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ میں نے ان کو خود پڑھا ہے اور بیوی کو پڑھنے کے لیے دیا ہے۔ یہ اعتراف ضرور کرتا ہوں کہ بعض بعض مقامات سے مجھے اختلاف ہے اور یہ سب مقامات مسئلہ وحدت الوجود سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب آپ اپنے مضمون میں زیادہ تشریح سے کام لیں گے تو ممکن ہے کہ مجھے اختلاف نہ رہے کیونکہ مکتوبات میں ایک آدھ جگہ مسئلہ مذکورہ کی ایک ایسی تعبیر بھی ہے جس سے مجھ کو مطلق اختلاف نہیں اور نہ کسی مسلمان کو ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ لاہور حواشی وتعلیقات ۱؎ شیخ علی حزیں: یکم اکتوبر ۱۷۰۱ء کو اصفہان میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۳۳ء میں ہندوستان آئے۔ ایران سے آنے والی آخری کھیپ کے شاعر تھے۔ کلیات چار دواوین پر مشتمل ہے‘ جس میں قصیدہ‘ غزل‘ رباعی و مثنوی سب کچھ شامل ہے۔ عربی میں بھی شعر کہتے تھے۔ اگرچہ یہ کلام بہت تھوڑا ہے۔ فارسی میں اپنی سوانح عمری ’’سوانح عمری شیخ علی حزیں‘‘ کے نام سے لکھی جو ’’کُلّیاتِ حزیں‘‘ میں چھپی ہے اور علیحدہ بھی شائع ہو چکی ہے۔ ۱۷۶۶ء میں انتقال کیا‘ ان کا مزار بنارس میں ہے۔ شیخ علی حزیں نے برصغیر کے شعرا اور ادبا کے بارے میں بڑاتعصب دکھایا اور یہاں کے لوگوں کے لہجے اور سُبک ہندی کا انھوں نے استہزا کیا ہے۔ اقبالؔ نے مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت اوّل کے دیباچے میں حزیںکے معروف قول‘ تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ پر انتقاد کیا ہے۔ ’’زبورعجم‘‘ کی ابتدا میں حزیں کی تضمین بھی ملتی ہے۔ مآخذ: محمد ریاض ‘ ڈاکٹر :’’اقبالؔ اور فارسی شعرا‘‘ ص:۳۰۵‘ ۳۰۶ ۲؎ اقبالؔ نے تصوف کی تاریخ کے ایک دوابواب لکھ لیے تھے اور باقی ابواب کے لیے نوٹس لے لیے تھے لیکن یہ کام مکمل نہ کر سکے… ڈاکٹر صابر کلوروی نے ان نامکمل ابواب کو ’’تاریخ تصوف‘‘ کے نام سے حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب کر کے ۱۹۸۵ء میں چھاپ دیا۔ ان ابواب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبالؔ تصوف کی تاریخ اور تنقید کے بارے میں کس انداز میں لکھنا چاہتے تھے اور اس مسئلے کی افادیت سے کس حد تک باخبر تھے۔ بنام شیخ عطاء اللہ تعارف: شیخ عطاء اللہ ۱۸۵۷ء کے قریب گجرات کی قانون گو فیملی میں پیدا ہوئے۔ گجرات اورعلی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ چیف کورٹ پنجاب اور چیف کورٹ کشمیر میں درجہ اول کے پلیڈر تھے۔ ریاست پونچھ و کشمیر میں جج اور گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ جوانی سے ہی دینی علوم اورصالح اعمال کی طرف راغب تھے۔ اکابر علما سے صحبتیں رہیں۔ نوجوانی میں مولانا عبیداللہ غزنوی کے ہاتھ پر شرک سے مجتنب رہنے کی بیعیت کی۔ احمداللہ امرتسری سے حدیث پڑھی۔ شیخ صاحب گجرات میں ’’اہل قرآن گروہ‘‘ کے سرخیل تھے۔ بات بات میں قرآن سے استناد کرتے تھے۔ آپ نے ایک لغت قرآنِ پاک مرتب کی تھی‘ جس کے متعلق ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: ایسی لغتِ قرآن سابقہ تیرہ صدیوں میں نہیں لکھی گئی‘‘۔ مگر افسوس اس کا مسوّدہ علاّمہ عرشی سے تقسیم کے ہنگاموں میں ضائع ہو گیا۔ آپ نے ۱۹۰۷ء میں ایک کتاب ’’شہادت الفرقان علی جمع القرآن‘‘ لکھی تھی۔ آپ گجرات میں سرسید کے ساتھی اور نظریاتی پیروکار تھے۔ اقبالؔ اور شیخ صاحب کی پہلی ملاقات بیسویں صدی کے ابتدائی چند سالوں میں ہوئی جب اقبالؔ گجرات آیا کرتے تھے۔ ان کا شیخ صاحب سے تعارف انجمن تعلیم القرآن کے حوالے سے ہوا۔ شیخ صاحب لاہور چیف کورٹس میں اپنے پیشہ وارانہ امور کے سلسلے میں حاضر ہوتے تو اقبالؔ سے بھی ملاقات کرتے۔ شیخ صاحب نے ۱۹۳۹ء میں انتقال کیا اور گجرات میں دفن کیے گئے۔ مآخذ: ۱) رسالہ’’قانون گو‘‘ لاہور ،دسمبر ۱۹۶۶ء ‘ ص:۲۵‘۲۶ ۲) دیباچہ :’’شہادت الفرقان علیٰ جمع القرآن‘‘ از علاّمہ عرشی‘ص:۴۔۹ ۳) منیر احمد سلیج ’’خفتگانِ خاک گجرات‘‘،ص:۱۳۵ (۱۳۳) از لاہور مخدوم و مکرم جناب قبلہ شیخ صاحب السلام علیکم آپ کی تصنیف شہادت الفرقان علیٰ جمع القرآن۱؎کئی روز ہوئے مجھے شیخ عتیق۲؎اللہ صاحب سے ملی تھی۔ میں عرصے سے آپ کاi؎تحریریii؎شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ عدیم الفرصت رہا۔ معاف کیجیے گا۔ یہ چھوٹا سا iii؎ رسالہ نہایت لاجواب ہے اور مَیں اس کے طرز استدلال کو نہایت پسند کرتا ہوں۔ آپ کی محنت واقعی داد کے قابل ہے۔ اور آپ اس بات کے لیے تحسین کے مستحق ہیں کہ قانونی مشاغل میں دینی خدمات کا موقع بھی نکال لیتے ہیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ یورپ میں اس مضمون پر تحقیق ہوئی اور ہو رہی ہےiv؎۔ خصوصاً علماے جرمنی کے درمیان ایک شخص موسوم بہ خان کریمر۳؎نے جرمن زبان میں ایک مبسوط کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ لکھی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ کبھی فرصت ملے تو اسکے بعض حصص کا ترجمہ اُردو میں کر ڈالوں۔ کتاب کاانداز عالمانہ اور منصفانہ ہے اگرچہ مجموعی لحاظ سے اس کا مقصد ہماری آرا اور عقائد کے خلاف ہے۔ میرا مقصد ترجمے سے صرف یہ ہے کہ ہمارے علما کو یورپ والوں کے طرزِ استدلال و تحقیق معلوم ہو۔ زیادہ کیاعرض کروں۔ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ والسلامv؎ محمدؐاقبالؔ از لاہورvi؎انارکلی ۱۰؍اپریلvii؎۰۹ء تحقیقِ متن: زیرِ نظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔i؎ انوار=کی۔ ii؎ انوار=تحریر کا۔ iii؎انوار=چھوٹا رسالہiv؎ انوار=ہیں۔v؎انوار=ادا کرتا ہوں۔vi؎انوار=محمدؐاقبالؔ۔ vii؎انوار=تاریخِ تحریر خط کے آغاز میں درج ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔ اس میں قرآنی آیات سے ثابت کیاگیا ہے کہ (۱) کلماتِ وحی کی جمع و ترتیب کتاب کی شکل میں انبیاء کی سنتِ قدیم ہے۔ (۲) نزولِ قرآن کے وقت کاغذ اورکتابت کا رواج جاری تھا۔ (۳)قرآن کے نزدیک تحریروکتابت ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ (۴) نزولِ قرآن کے دوران میں مومنوں‘مخالفوں‘ معترضوں کی زبان سے قرآن کے بصورتِ کتاب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ (۵) وحی قرآنی کی کتابت ایک جماعتِ صالحہ کے سپرد تھی۔ (۶) قرآنی الفاظ نزول کے وقت ہی لکھ کر شاملِ کتاب کیے جاتے تھے۔ (۷)حفاظتِ قرآن کے متعلق مزید متفرق دلائل (۸) قرآن سے متعلق صحابہ کرامؓ کی خدمات (۹) قرآن ایک کامل و کافی کتاب ہے۔ کتاب ’’شہادت الفرقان علیٰ جمع القرآن‘‘ بعدازیں ادارہ طلوعِ اسلام‘ لاہور سے علاّمہ عرشی کے دیباچے کے ساتھ شائع ہوئی۔ ۲؎ شیخ عتیق اللہ ‘ شیخ عطاء اللہ کے صاحبزادے ‘ جو لاہور میں بسلسلہ کاروبار سکونت پذیر تھے۔ ۳؎ فان کریمر:(۱۸۲۸ئ۔۱۸۸۹ئ) جرمن مستشرق ‘ وزرا میں سے تھا۔ ویانا میں پیدا ہوا۔ وہیں تعلیم پائی۔ مصر اور شام میں بارہا سفر کیے اور عربی زبان سیکھی۔ مصر میں قنصل بھی مقرر ہوا‘ پھر ۱۸۷۰ء میں بیروت میں رہا۔ یہاں سے واپس ویانا آیا اور یہاں کا وزیرِخارجہ بنایا گیا۔ دوسرے محکموں میں بھی وزیر رہا۔ اس کی تقریباً ۲۰کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں ’’کتاب المغازی‘‘، ’’للواقدی‘‘، الاحکام السلطانیہ‘‘، للماوردی‘‘،القصیدہ الحمیریہ‘‘، لِنَسوان‘‘ اور الاستبصارفی عجائب الامصار‘‘ وغیرہ۔ کریمر نے جرمن زبان میں اسلام اور اسلامی ثقافت پر بھی لکھا ہے۔ اس کی کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ بہت مشہور ہے۔(مآخذ: ’’المستشرقون‘‘ ص:۱۶۷) (۱۳۴) لاہور ۶؍جنوری ۲۲ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ شیخ صاحب السلام علیکم۔ والانامہ ملا۔ جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اگرچہ نمایشی چیزوں سے دل گریز کرتا ہے اور میرے قلب کی کیفیت یہ ہے کہ دِلم بہ ہیچ تسلّی نمی شود حاذق بہار دیدم گُل دیدم و خزاں دیدم۱؎ بوجہ تعلقاتِ دیرینہ آپ کے خط نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا جس کے لیے مَیں آپ کا نہایت شکرگزار ہوں۔ حضرت قبلہ گاہی کی خدمت میں آپ کی مبارکباد پہنچا دوں گا۔ عزیز عتیق اللہ قریباً ہرروز ملتا ہے۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا اور زاویہ نشینی کی وجہ سے قرآن کریم پر غوروخوض کرنے ]کا[بہتر موقع آپ کو ملتا ہو گا۔ حواشی وتعلقیات :۱؎ ترجمہ: حاذقؔ گیلانی کا شعر ہے۔ حاذقؔ میرا دل کسی چیز سے تسلی نہیں پاتا‘ بہار بھی دیکھی‘ پھول بھی دیکھ لیے‘ خزاں بھی دیکھ لی۔ حکیم کمال الدین حاذقؔ بن حکیم ہمام گیلانی فتح پور میں پیدا ہوا۔ عہدِجہانگیری میں ممتاز منصب ملا۔ عہد شاہجہانی میں والد کی طرح والیِ توران امام قلی خان کی خدمت میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ بعدازاں بارگاہ بادشاہی میں لوٹا اور سہ ہزاری کا منصب پایا۔ آخری عمر میں دارالحکومت آگرہ میں گوشہ نشیں ہو گیا اور یہیں ۱۶۵۷ء میں وفات پائی۔ صاحبِ ’’شمعِ انجمن‘‘ نے لکھا ہے کہ حکیم حاذقؔ فن کا واقف اور سخن کا نبض شناس تھا۔ (مآخذ: احمد علوی سندیلوی (مصنف)‘ محمد باقر‘ ڈاکٹر (مرتب): ’’مخزن الغرائب‘‘، ادارہ تحقیقاتِ دانشگاہِ پنجاب لاہور۔ بنام میاں عبدالرشید تعارف : میاں عبدالرشید ابنِ میاں امام دین یکم جنوری ۱۹۱۵ء کو ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے بی۔اے کیا۔ پنجاب اسمبلی میں رپورٹر رہے اور ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں تاحیات کالم’’نوربصیرت‘‘ لکھتے رہے۔ اہم تصانیف میں اسلام اور تعمیرانسانیت‘ سیفِ کشمیر‘ شیرہ شاہ سوری‘ زندگی کاراستہ (ترجمہ)‘ پنجاب کے لوک گیت ‘Islam in Indo-Pak Sub-Continent ‘ ماہنامہ ’’حیات‘‘ اور ’’جاوداں‘‘ لاہور کے ۱۹۶۱ئ‘ ۱۹۶۷ء میں مدیر رہے۔ ۱۶؍ستمبر ۱۹۹۱ء میں فوت ہوئے۔ مآخذ: زاہد حسین انجم ’’ہمارے اہل قلم‘‘ ص:۳۳۳۔۳۳۴ (۱۳۵) جونi؎۱۹۳۶ء آپ کے خط کے جواب کے لیے ایک دفتر چاہیے جو مَیں لکھنے سے قاصر ہوں۔ دوسرا زمانۂ حال کے فلسفہ اور سوشل حالات کا بغور مطالعہ ضروری ہے جس کے لیے چند برسوں کی ضرورت۱؎ہے۔ آپ کے سوالات ویسے ہی ٹیکنیکل ہیں جیسے ریاضی کے مسائل جس کو بغیر خاص تربیت و تعلیم کے سمجھنا مشکل ہے۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ میاں عبدالرشید نے یہ خط ۸؍جون ۱۹۳۶ء کو لکھا تھا‘ لہٰذا زیرِ نظر خط کی تاریخِ تحریر صابرکلوروی صاحب کے نزدیک ۹؍تا ۱۴؍جون ۱۹۳۶ء ہے۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘ص:۹۱) حواشی وتعلیقات: ۱؎ میاں عبدالرشید‘ جنھوں نے اپنے خط میں کچھ فلسفیانہ شکوک کا اظہار کیا تھا‘ اقبالؔ نے اسی خط پر جواب لکھ کر انھیں واپس بھیج دیا تھا۔ (دیکھیے عکس) (۱۳۶) لاہور ۲۱؍اگست ۳۶ء جنابِ من۔ آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میں خوش ہوں کہ آپ کے شکوک رفع ہوئے۔ زیادہ تدبر سے اور باتیں معلوم ہوں گی۔ آپ کے دوست جب چاہیں تشریف لائیں‘ میں ہمیشہ گھر پر ہوتا ہوں‘ بوجہ علالت باہر بہت کم جاتا ہوں پارلیمنٹری۱؎بورڈ کا کام زیادہ تیزی سے ستمبر کے بعد شروع ہو گا جب کہ ان لوگوں (کی) درخواستیں نامزدگی کے لیے وصول ہو جائیں گی جو بورڈ کے ٹکٹ پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ نامزدگی درخواست پر ہوتی ہے بغیر اس کے نہیں کی جاتی۔ بورڈ کا اجلاس ۲۳؍اگست کو ہونے والا ہے۔ اس میں نامزدگی کے لیے درخواستیں وصول ہونے کی آخری تاریخ مقرر ہو گی۔ مَیں نے علالت کی بنا پر استعفا دیا تھا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ تمام امور سوچ سکوں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک ’’سنٹرل پارلیمنٹری بورڈ‘‘ اور مختلف صوبوں میں پروانشل پارلیمنٹری بورڈ بنائے۔ پنجاب میں ایک بورڈ اقبالؔ کی صدارت میں بنا۔ (مآخذ: محمد رفیق افضل(مرتب) گفتارِ اقبالؔ‘‘ ص:۲۰۲۔۲۰۶) بنام سید عبدالواحدمعینی تعارف: ان کا سلسلۂ نسب خواجہ معین الدین اجمیری سے ملتا ہے۔ اسی نسبت سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ معینی کا اضافہ کیا۔ ۲۰؍جنوری ۱۸۹۸ء کو اجمیر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی‘ پھر وہیں گورنمنٹ کالج سے بی۔ایس۔ سی کیا۔ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۳۰ء تک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رہے۔ حکومت نے اسکالرشپ پر ان کو آکسفورڈ یونی ورسٹی بھیجا‘ جہاں سے انھوں نے ۱۹۳۳ء میں نباتات پر ڈگری لی۔ لندن سے واپس آ کر انڈین فارن سروس میں ملازمت کی۔ کچھ عرصہ سی پی میں گزارا‘ پھر حیدرآباد جا کر ناظم جنگلات ہو گئے۔ یہ زمانہ ان کی اقبالؔ شناسی کا تھا۔ اقبالؔ سے مختلف امورکے سلسلے میں خط کتابت ہوتی رہی۔ اقبالؔ کی وفات کے بعد معینی صاحب کی جو کتاب منظر عام پر آئی‘ اس کا موضوع اقبالؔ اور اس کا فن تھا۔ دیگر کتب میں ’’باقیاتِ اقبال‘‘ "Thoughts and Reflection of Iqbal" ’’نقش اقبال‘‘ اور ’’مقالاتِ اقبال‘‘ شامل ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ ۱۹۵۲ء میں اقوام متحدہ کے مشیرِجنگلات ہوئے‘ ایک طویل عرصہ روم ‘ قاہرہ‘ افغانستان اور ترکی میں گزارا۔ ۱۹۵۷ء میں وظیفے پر ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ پھر یورپ جا کر مختلف ملکوں میں اقبالؔ کے پیغام کو عام کیا۔ ۱۹۶۳ء میں پاکستان واپس آکر کراچی میں اقامت گزیں ہو گئے۔ ۱۹۷۰ء میں اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ۳؍مارچ ۱۹۸۰ء کو کراچی میں وفات پائی۔(مآخذ: عبدالرؤف: رجالِ اقبالؔ‘‘ ص:۴۵۷‘۴۵۹) (۱۳۷) ۱۲؍ستمبر۳۴ء جنابِ من۔ السلام علیکم آپ کا والا نامہ مل گیا ہے جس کے لیے شکریہ قبول کیجیے۔ میں ابھی تک علیل ہوں۔ یونانی دوا کے استعمال سے صحتِ عامہ بہت اچھی ہو گئی ہے مگر آواز ۱؎ پر ابھی کوئی نمایاں اثر نہیں ہوا۔ دعا فرمائیے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ گلے کی تکلیف کا آغاز ۱۰؍جنوری ۱۹۳۴ء کو عیدالفطر کے دن سے سویوں پر دہی ڈال کر کھانے سے ہوا۔ پہلے انفلوئنزا ہوا اور پھر کھانسی۔ علاج کیا گیا۔ چند دنوں بعد انفلوئنزا اور کھانسی کی شکایت تو دور ہو گئی لیکن گلا بیٹھ گیا اور ایلوپیتھک‘ یونانی اور ریڈیائی علاج کے باوجود یہ تکلیف رفع نہ ہوئی۔ یہ عارضہ آخری دم تک رہا‘ جس کے نتیجے میں کھل کر یا بلند آواز سے بول نہ سکتے تھے۔ مآخذ: جاویداقبال ‘ڈاکٹر: ’’زندہ رُود…حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘، ص:۵۳۶۔۵۳۹ ٭٭٭ بنام میرخورشید احمد تعارف: میر خورشید احمد ان چند افراد میں سے ایک تھے‘ جن کے روابط اقبالؔ سے بیس کی دہائی میں استوار ہوئے اور تازیست قایم و دائم رہے۔ میر خورشید احمد حکومتِ ہند کے محکمہ امورِ خارجہ سے وابستہ تھے اور کشمیر ریذیڈنسی سے منسلک تھے۔ عمدہ شعر کہتے تھے۔ ان کا کلام ’’ہمایوں‘‘ اور دوسرے رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔ جموں و کشمیر کی ادبی مجلسوں میں بھی کبھی کبھار اپنا کلام سناتے۔ ۱۹۲۲ء میں شملہ چلے گئے۔ ان ایام میں اقبالؔ سے ان کی مراسلت شروع ہو چکی تھی۔ اقبالؔ نے انھیں صاحبِ علم و دانش پایا اور ان کے مذاقِ سخن کے پیش نظر ذاتی تعلقات قائم و استوار کیے۔ میرخورشید احمد سری نگری‘ شملہ‘ دہلی کے علاوہ ایک عرصے تک گلگت میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصہ فارن آفس کراچی اور پھر پشاور میں فرنٹیئر کورز میں اسسٹنٹ فنانشل سیکرٹری کے منصب پر فائز ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد راولپنڈی میں رہائش پذیر ہوئے۔ جنوری ۱۹۵۸ء میں راولپنڈی میں فوت ہوئے اور وہیں پیوندِ خاک ہوئے۔ مآخذ: کلیم اختر: ’’اقبالؔ اور مشاہر کشمیر‘‘، ص:۲۱۵۔۲۲۶ (۱۰۷) مکرمی السلام علیکم۔ آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میں شملہ میں آفتاب دیکھنے کو ترس گیا۔ اس کے علاوہ اندیشہ تھا کہ ہوا کی رطوبت سے نقرس عود نہ کر آئے۔ شعر زیر۱؎ بحث کے متعلق یہ عرض ہے کہ دوسری پارٹی کا خیال صحیح ہے۔ اعتقادات کی بحث نہیں بلکہ فرقہ بندی کی بحث ہے۔ بعض اسلامی فرقے (خاصتہً احمدی۲؎ ) مسیحؑ و علی مرتضیؓ۳؎ کو نصاریٰ کا خدا اور شیعوں کا علیؓ کہہ کر گالیاں دے لیتے ہیں۔ خود مرزا صاحب۴؎ مرحوم اور ان کے مرید مولوی عبدالکریم۵؎؎ نے شیعوں کی تردید میں یہی افسوس ناک طریقہ اختیار کیا ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ چودھری محمد حسین سے سلام کہیے گا۔ والسلام محمدؐاقبالؔ سیالکوٹ ۲۵؍اگست ۱۹۲۲ء تحقیق متن: زیرِنظر خط’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۰۔۳۰۱) میں بھی شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ اقبالؔ کی نظم ’’ابرِ گُہربار‘‘ یا ’’فریادِ اُمت‘‘ کاایک شعر ہے: ؎ یہ نصاریٰ کا خدا اور وہ علیؓ شیعوں کا ہائے کس ڈھنگ سے اَچھوں کو بُرا کہتے ہیں غالباً اس شعر کے مفہوم کے متعلق اختلاف تھا۔ اقبالؔ سے پوچھا گیا تو انھوں نے واضح کیا کہ اس میں عقائد کی بحث نہیں بلکہ فرقہ بندی کی بحث ہے۔ مناظروں میں بعض اصحاب نے یہ طریقہ اختیار کر لیا تھا کہ مثلاً حضرت مسیحؑ کے خلاف برے انداز میں باتیں کرتے اور ٹوکا جاتا تو کہہ دیتے ہم حضرت مسیحؑ کو نہیں کہتے بلکہ انجیلوں کے مسیح کو کہتے ہیں۔ یہی طریقہ بعض لوگوں نے حضرت علیؓ کے متعلق اختیار کر لیا تھا جیسا کہ اقبالؔ نے خُود اِجمالاً اشارہ کر دیا ہے۔ گویا اقبالؔ کا یہ شعر اس طریق مناظرہ و گفتگو کے خلاف ہے۔ اسی نظم کے صلے میں خواجہ عبدالصمد ککرو نے اقبالؔ کو ایک نقرئی تمغا پہنایا جو وہ کشمیر سے بنوا کر لائے تھے۔(ب۔ا۔ڈار‘ ص:۱۴۸) مآخذ: کلیم اختر: ’’اقبال اور مشاہیر کشمیر‘‘ ص:۱۵۵‘۱۵۶۔ ۲؎ خاصتہ احمدی (احمدیہ جماعت): اس جماعت کی بنیاد مرزا غلام احمد قادیانی نے لدھیانہ میں ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو صوفی احمد جان کے مکان پر رکھی تھی۔ ۱۹۰۱ء میں انھوں نے ایک اشتہار کے ذریعے اس جماعت کا نام جماعت احمدیہ تجویز کیا‘ مرزا نے دعویٰ نبوت کیا اور اپنے پیروکاروں کوامتِ مسلمہ سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا۔ اس لیے اقبالؔ نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا‘ جو ۱۹۷۴ء میں مانا گیا۔ ۳؎ حضرت علیؓ کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب‘ لقب حیدر ہے۔ والد کا نام ابوطالب‘ والد ہ کا نام فاطمہ تھا۔ جوبعد میں مسلمان ہوئیں۔ حضرت علیؓ حضورؐ کے چچازاد بھائی تھے۔ آپؓ واقعۂ فیل سے تیس سال بعد‘ ہجرت سے ۲۳سال قبل ۶۰۰ء میں بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت علیؓ کی پرورش ابتدا ہی سے حضورؐ کے زیرِ سایہ ہوئی۔ لڑکوں میں سب سے پہلے آپ ؓ ہی ایمان لائے‘ اس وقت آپؓ کی عمر دس سال تھی۔ نبوت کے تیرویں سال جب قریشِ مکہ رسولؐ کی جان کے درپے ہو گئے تھے‘ وحیِ الٰہی نے ہجرتِ مدینہ کا حکم دیا تو آنحضورؐ نے لوگوں کی امانتیں واپس کرنے کے لیے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ حضرت فاطمہؓ سے آپؓ کا نکاح ہوا۔ مدنی زندگی میں حضرت علیؓ تمام غزوات میں پیش پیش رہے۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد آپؓ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ مآخذ: ۱) فیروزالدین‘ مولوی ’’کشف المحجوب‘‘،ص:۷۷ ۲) محمد جمیل احمد:’’خلفائے راشدین‘‘ ص:۱۵۱ ۳) ’’سیارہ‘‘ ڈائجسٹ: ’’خلفائے راشدین نمبر ۱۹۹۵ئ‘‘ ص:۳۷۹۔۴۲۴ ۴؎ مرزا غلام احمد قادیانی ۱۸۳۷ء میں پنجاب کے ایک گاؤں قادیاں ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے دفتر میں ملازمت اختیار کر لی۔ کچھ عرصے کے بعد سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ دیا لیکن اس دوران میں انھوں نے عیسائیوں اور آریہ سماجیوں کے ساتھ مناظرے کیے اور مباحثوں میں حصہ لیا۔ ۱۸۸۹ء میں ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈالی جو فرقۂ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۸۹۱ء میں مہدی اور مسیحِ موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ جماعتِ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نہ تو آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور نہ ہی مصلوب ہوئے بلکہ وہ طبعی موت مرے اور ان کی قبر سری نگر (کشمیر) میں ہے۔ ان کے نزدیک آنحضورؐ کے بعد (نعوذباللہ) نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے کے لیے مرزا غلام احمد نے ۱۸۹۲ء میں قادیان سے ریویو آف ریلیجز جاری کیا۔ انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ مثلاً: نورالحق‘ آئینہ کمالات‘ کشتیِ نوحؑ‘ اعجازِ احمدی‘ دُرِّثمین (مجموعۂ کلام)‘ تریاق القلوب اور تحفہ گولڑویہ شامل ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں انتقال کیا اور قادیان میں دفن ہوئے۔ احمدیوں میں اب دو فرقے ہیں۔ ایک وہ جو مرزا کی نبوت پر ایمان رکھتا ہے‘ دوسرا وہ جو انھیں صرف مجدد خیال کرتا ہے‘ یہ دونوں فرقے اسلام سے خارج ہیں۔ قادیانی تحریک کے متعلق اقبالؔ کا نقطۂ نظر صاف ظاہر ہے۔ انھوں نے اپنے مکاتیب میں صاف صاف لکھا ہے کہ قادیانی نہ اسلام کے وفادار ہوسکتے ہیں او رنہ اس ملک کے۔ مآحذ: ۱) محمداکرام شیخ: ’’موجِ کوثر‘‘ص:۱۶۶۔۱۶۸ ۲) ابوالاعلیٰ مودودی: قادیانی مسئلہ‘‘، ص:۱۴۔۸۶ ۳) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’ملفوظاتِ اقبال مع حواشی و تعلیقات‘‘ ص:۳۸۱‘ ۳۸۲ ۴) اعجاز احمد‘ شیخ:’’مظلوم اقبال‘‘، ص:۱۹۴۔۲۰۹ ۵) جاوید اقبال‘ڈاکٹر: ’’زندہ رود۔ حیات اقبال کا اختتامی دور‘‘، ص:۵۶۹۔۵۹۹ ۵؎ مولوی عبدالکریم (۱۸۶۳ئ۔۱۹۴۳ئ) سلہٹ (بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ بی۔اے کرنے کے بعد مدرسۂ عالیہ میں مدرس ہوئے۔ بعد میں مدراس چلے گئے‘ جہاں محکمۂ تعلیم کے انسپکٹر مقرر ہوئے۔ یہ بنگالی مسلمانوں کی نصابی کتابیں لکھنے والے پہلے مصنف تھے۔ سبکدوشی (۱۹۱۴ئ) کے بعد کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔ ’’کونسل آف سٹیٹ‘‘ کے بنگالی رکن مقرر ہوئے۔ پچاس پچاس ہزار روپے قیمت کے دو مکان مسلمانوں کی تعلیم کے لیے وقف کر دیے۔ وفات رانچی میں ہوئی۔ مآخذ: اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘‘، دوم‘ص:۹۶۹ (۱۰۸) مخدومی! السلام علیکم۔ والانامہ ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مولوی عبدالسلام۱؎کی دونوں کتابوں سے میں بہت مستفیض ہوا۔ میری طرف اسے ان کی خدمت میں بہت بہت آداب عرض کیجیے۔ نیز التماسِ دعا بھی کیجیے۔ کرسمس کے دنوں میں دِلّی آنے کی امید نہیں۔ البتہ فروری میں ممکن ہے۔ ان شاء اللہ العزیز مولوی صاحب سے بھی شرفِ نیاز حاصل ہو گا۔ غزل مطلوب کے جتنے اشعار یاد ہیں عرض کرتا ہوں کبھی اے حقیقتِ منتظر! نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں طرب آشناے خروش ہو‘ تو نوا ہے محرمِ گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردۂ ساز میں دمِ طوف کرمکِ شمع نے یہ کہا کہ وہ اثرِ کہن نہ ترے فسانۂ سوز میں‘ نہ مری حدیثِ گداز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی میرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں۲؎ شاید دو چار شعر اورہوں گے لیکن اس وقت یاد نہیں آئے‘ پھر عرض کروں گا۔ جو شعر آپ نے خط میں لکھا ہے معلوم نہیں کس کا ہے مگر شعر خوب ہے۔ حضورؐ سرورِ کائنات کو مخاطب کرکے چند اشعار میں نے لکھے تھے جو مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیجیے۔ مجھے یقین ہے انھیں پسند آئیں گے۳؎۔ تیغِ لَا در پنجۂ ایں کافرِ دیرینہ دہ بازبنگر درجہاں ہنگامۂ اِلاّئے من از سپہرِ بارگاہت یک جہاں وافر نصیب جلوہ ئی داری دریغ از وادیِ سینائی من؟ باخدا درپردہ گویم باتو گویم آشکار یا رسول اللہ! اُوپنہان و تو پیدائی من۴؎ (کلیاتِ فارسی ص:۳۱۶) مخلص محمدؐاقبال ؔلاہور ۱۳؍دسمبر۱۹۲۲ء تحقیقِ متن: یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۱‘۳۰۲) میں شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ مولوی عبدالسلام سے مراد مولانا عبدالسلام نیازی ہیں‘ جو شاہ نظامالدین حسن نیازی بریلوی کے مرید تھے اور اس طرح یہ چشتیہ نیازیہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ عالموں میں عالم اور رندوں میں رند تھے۔ شرح کے پابند‘ کیامجال جو نماز قضا ہو جائے مولانا عرسوں میں شریک ہوتے۔ طوائفوں سے گانا بھی سنتے۔ بڑے طبّاع اور حاضر جواب تھے‘ جملہ خوب چست کرتے۔ حافظہ غضب کا تھا۔ ہر کتاب ازبر تھی۔ عربی‘ فارسی‘ اُردو‘ مذہبی علم‘ معقول و منقول غرض دنیا بھر کے علوم سے بخوبی واقف تھے۔ ہر علم سے خدا کا وجود ثابت کر دیتے تھے۔ یہاں تک کہ علمِ موسیقی سے بھی۔ مزاج میں درشتی بہت تھی۔ اس لیے اپنی شاگردی میں مشکل ہی سے کسی کو قبول کرتے تھے۔ برصغیر کے شاعروں میں وہ صرف اقبال کو مانتے تھے اوراقبال کے فارسی کے بہت سے اشعار یاد تھے اور انھیں علومِ مشرقی و مغربی کی پوٹ کہا کرتے تھے۔ اقبالؔ بھی مولوی صاحب سے عقیدت مندانہ انداز میں ملا کرتے تھے۔ کبھی لاہور سے عازم دہلی ہوتے تو ان کے لیے بطور تحفہ کبوتر لے جاتے۔ مولوی صاحب نے دہلی میں ۱۹۶۷ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) شاہد احمددہلوی (مصنف)‘ جمیل جالبی (ڈاکٹر) مرتب: بزمِ خوش نفساں‘‘، ص:۴۹۔۵۸ ۲) نصراللہ خان: ’’کیاقافلہ جاتا ہے‘‘،ص:۲۲۔۲۶ ۳) صلاح الدین‘ڈاکٹر (مرتب): ’’دلی والے‘‘،ص:۲۷۱۔۲۸۲ ۴) کلیم اختر: ’’اقبال اور مشاہیرِکشمیر‘‘،ص:۲۱۹۔۲۲۱ ۲؎ یہ غزل ’’بانگِ درا‘‘ (ص:۲۸۰‘۲۸۱) میں شائع ہوچکی ہے‘ اس میں تیسرے شعر کا آخری مصرع یوں ہے: ع نہ تری حکایتِ سوز میں‘ نہ مری حدیث گداز میں نیز ’’بانگ درا‘‘ میں ایک شعر زاید ہے: ؎جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو‘ زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا‘ تجھے کیا ملے گا نماز میں ۳؎ خورشیدؔ صاحب‘ اقبالؔ کو زیرِنظر خط کے جواب میں مولوی عبدالسلام کی رائے سے یوں آگاہ کرتے ہیں: ’’جواب میں بہت توقف ہوا۔ اس کی وجہ صرف یہ کہ قبلہ مولوی صاحب کو خط سنانے کاموقع نہیں ملا تھا۔ کل صبح ہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے خط پڑھ کر سنایا۔ فرمانے لگے‘ ڈاکٹر صاحب کو میرا سلام کہو اور لکھو اے سالکِ رہ سخن زہریاب مجو جز راہِ وصول ربّ ارباب مجو چوں علّتِ تفرقہ است اسباب جہاں جمعیت دل زجمع اسباب مجو پرسوں شب ایک محفل میں بیٹھے ہوئے یہ مطلع ع کبھی اے حقیقتِ منتظر! نظر آلباسِ مجاز میں دہرا رہے تھے۔ فرمانے لگے‘ جو کوئی جس لائق ہوتا ہے اسے وہی ملتا ہے۔ جو ذہن اور تخیل ڈاکٹر صاحب کو عطا ہوا ہے اگر سائل اور بیخودؔ (دہلوی) کو عطا ہوتا تو یہ حضرات برداشت نہ کر سکتے۔ ان کے دماغ پھٹ جاتے اور دیوانے ہو جاتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مآخذ: ’’نقوش‘‘،مکاتیب نمبر جلد اول‘ص:۳۰۲ ۴؎ یہ اشعار ’’ کلیات‘ فارسی‘ ص:۳۱۶ میں چھپ چکے ہیں۔ ترجمہ: لا(نفی) کی تیغ اس پرانے کافر کے ہاتھ میں دے‘ پھر دنیا میں میرے اِلاّ (اثبات) کاتماشا دیکھ۔ تمھاری بارگاہ کے سپہر سے ایک زمانے کو بہت کچھ حصہ مل رہا ہے مگر افسوس میری وادی سینا میں جلوہ دکھانے سے بخل کرتے ہو۔ میں خدا سے تو درپردہ کرہتا ہوں مگر آپ سے برملا کہتا ہوں۔ اے رسولؐ اللہ وہ (خدا) میرا درپردہ(والی) ہے اور آپ عالمِ ظاہر میں میرے آقا ہیں۔ (۱۰۹) مخدومی! تسلیم۔ سائل صاحب۱؎(دہلوی) کا جواب میری رائے ناقص میں صحیح ہے۔ اصل عربی لفظ دُرّہ (دُرّۃ التاج) ہے۔ جمع اس کی دُرا ۱؎آتی ہے اور شاید دراری بھی۔ فارسی میں بغیر تشدید بھی لکھتے ہیں۔ دُرِیکتا‘ دُرِثمین‘ دُرِمکنون‘ دُرِیتیم‘دُرِخوشاب‘ دُرِشاہوار‘ دُرِنایاب‘ جہاں تک مجھے معلوم ہے سب درست ہیں۔ اگر ان تینوں ترکیبوں میں دُرِ یکتا وغیرہ مع التشدید بھی لکھیں تو بھی درست ہے۔ افسوس ہے سند اس وقت مجھے کوئی یاد نہیں۔ اگر مطالعہ میں آگئی تو لکھ بھیجوں گا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ دُرِ یکتا اور درِّ یکتا دونوں درست ہیں۔ نیاز صاحب فتح پوری۲؎کا استدلال صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ قآنی۳؎نے ایزد یکتا (حالانکہ یکتا ایزد کی صفت معناً نہ ہونی چاہیے) اور رُخِ یکتابھی لکھا ہے۔ ایسی صورت میں دُرِ یکتا میں کیا تامل ہوسکتا ہے۔ ساقی iii؎نامۂ کشمیر کے متعلق بعض لوگوں کا گِلا سن کر مجھے تعجب ہوا۔ افسوس ہے ہندوستان سے فارسی رخصت ہو گئی۔ سعدیؔ۵؎نے محض قومی رقابت سے کشمیریوں کی ہجو کی ہو گی کیونکہ ایک زمانہ میں کشمیر ایران کا ہم سر رہ چکا ہے۔ میں نے تو دکھڑا رویا ہے اور یہ بات سیاق‘ اشعار سے صاف ظاہر ہے۔ دکھڑے کی بنا بھی واقعات پر ہے جن کا میں نے کشمیر میں خود مشاہدہ کیا۔ پنجاب کے کشامرہ کی حالت کشمیر کے کشامرہ سے بدرجہابہتر ہے۔ نظم کا موضوع کشامرۂ کشمیر ہیں نہ کشامرۂ پنجاب۔ جو لوگ میرے اشعار کو کشمیریوں کی ہجو تصور کرتے ہیں وہ شعر کے مذاق اور مقاصد سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ ان کے لیے یہی جواب کافی ہے کہ میرے آباؤ اجداد اہلِ خطہ میں سے ہیں۔ شملے۲؎میں… کے لیے حاضر ہونا پڑے گا۔ مگر معلوم نہیں یہ رسم کب ادا کی جائے گی۔ محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۲؍مئی ۱۹۲۳ء تحقیق متن: زیرنظر خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اوّل(ص:۳۰۴‘۳۰۵) میں بھی شامل ہے۔ i؎ انوار=دارii؎ انوار=لکھتے ہیں۔ دُرِ ثمینiii؎ انوار=ساقی نامہ و کشمیرiv؎ انوار: شملہ میں حواشی و تعلیقات ۱؎ سائل دہلوی (۹۱۸۶۸۔۱۵؍ستمبر۱۹۴۵ئ) خان لوہارو کے چشم و چراغ تھے۔ ’’مرزا سراج الدین احمد خاں‘‘ سے تاریخِ ولادت برآمد ہوتی ہے۔ ان کی پہلی شادی والیِ پاٹوڈی کی ہمشیر سے ہوئی تھی۔ دوسرا نکاح داغؔ کی لے پالک بیٹی لاڈلی بیگم سے کیا۔ داغؔ ہی سے تلمذ تھا۔ بہت دن تک حیدرآباد میں داغؔ ہی کے پاس رہے اور وہاں سے ایک رسالہ ’’معیارالانشا‘‘ نکالتے تھے۔ اُردو فارسی میں ان کی قابلیت مُسَلَّم تھی۔ پنجاب یونی ورسٹی کے ممتحن بھی تھے۔ مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا۔ ایک ضخیم مثنوی ’’نورُٗ علی نُور‘‘میں جہانگیر اور نورجہاں کی حیاتِ معاشقہ بیان کی ہے جونامکمل رہ گئی۔ ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۵ء کو ۷۸برس کی عمر میں انتقال کیا۔ ’’یہ جنت جانشین داغ آسود‘‘ سے تاریخِ وفات نکلتی ہے۔ مآخذ: ۱) ’’جدید غزل گو‘‘ ص:۲۸۹ ۲) شاہداحمد دہلوی: ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ ص:۱۹۹ ۳) صلاح الدین ‘ ڈاکٹر (مرتب)’’دلی والے‘‘ ص:۱۸۱۔۱۹۷ ۴) ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر‘ ص:۵۲۸‘۵۲۹ ۲؎ نیاز فتح پوری (۱۸۸۴ئ۔۱۹۶۶ئ) نیازمحمدخان نام اور لیاقت علی خان‘ تاریخی نام تھا جبکہ نیاز فتح پوری قلمی نام تھا۔ فتح پور ہسوا میں پیدا ہوئے۔ نیازؔ ایک صاحبِ طرز ادیب‘ صحافی‘ شاعر‘ نقاد‘ افسانہ و ناول نگار ‘ مؤرخ اور ماہر لسانیات تھے۔ ملازمت کی ابتدا پولیس کے محکمے سے کی۔ نیازؔ کا سلسلۂ ملازمت خاصا طویل ہے۔ انھوں نے کئی محکمے اور کئی شعبے بدلے۔ ۱۹۲۲ء میں نیازؔ اور ’’یارانِ نجد‘‘ نے مل کر ’’نگار‘‘ کااجرا کیا۔ ’’نگار‘‘ آگرہ سے بھوپال و لکھنؤ ہوتا ہوا کراچی پہنچا اور ابھی تک اپنے مخصوص علمی و ادبی مزاج کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ یہ ’’نگار‘‘ کا سب سے بڑا عزاز ہے نیازؔ وسیع القلب اور وسیع النظر تھے۔ اپریل ۱۹۶۲ء میں حکومت ہند کی طرف سے ’’پدما بھوشن‘‘ کا خطاب ملا۔ ہندوستان میں قیام کے باوجود‘ نیاز کو پاکستان اور اس کے مسائل سے گہری دلچسپی تھی۔ انھوں نے ۱۹۴۸ء میں لکھنؤ سے ’’نگار‘‘ کا ضخیم ’’پاکستان نمبر‘‘ نکالا۔ اس نمبر کاانتساب مسلمانانِ پاکستان کے نام ہے۔ نیازؔ ۳۱؍جولائی ۱۹۶۲ء کو مستقلاً پاکستان آگئے۔ پاکستان میں قومی عجائب گھر کے کتب خانے سے منسلک ہو گئے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کا ہفتہ وار کالم ’’رنگارنگ‘‘ بھی لکھتے تھے۔ ۲۴؍مئی ۱۹۶۶ء کو انتقال کیا۔ مآخذ: عقیلہ شاہین ڈاکٹر: ’’نیازفتح پوری…شخصیت اور فن‘‘،ص:۱۔۶۲ ۳؎ دیکھیے خط نمبر۶‘ تعلیقہ نمبر۳ ۴؎ ’’ساقی نامہ‘‘ ،پیامِ مشرق‘‘ کی مشہور نظم ہے جو اقبالؔ نے نشاط باغ کشمیر میں بیٹھ کر کہی تھی اس کی تشبیب میں انھوں نے بہار کا منظر پیش کیا ہے۔ اس کے بعد گریز کی ہے اور ساقی (خدا) سے دعا کی ہے کہ شرابِ حرّیت کے چند قطرے ٹپکا کر کشمیریوں کے دلوں کو گرما دے تاکہ اس خاکستر سے چنگاریاں پیدا ہو جائیں‘ مردہ جسموں میں سوز کی لہر دوڑ جائے اور ہر بے خود و بے جان ‘ خودی اور زندگی کی لذت سے آشنا ہو جائے۔ اقبالؔ کو یقین تھا کہ اگر ان کے ہم وطن ان کے پیغام پر عامل ہوئے تو ایک دن ان کی حالت یقینا بہتر ہو جائے گی۔ مگر بعض لوگوں نے شکوہ کیا کہ اس نظم میں کشمیریوں کی ہجو کی گئی ہے۔ ۵؎ شیخ مصلح الدین سعدیؔ کے والد عبداللہ شیرازی اتابک سعد بن زنگی والیِ شیراز کے ملازم تھے۔ اسی نسبت سے شیخ نے سعدی تخلص اختیار کیا۔ سعدیؔ فارسی ادب کی بلند پایہ شخصیت ہیں اور گلستان و بوستان کے مصنف کی حیثیت سے شہرت دوام کے مالک ہیں۔ سعدیؔ شیراز میں (۱۹؍۱۲۱۸ئ) پیدا ہوئے اور مدرسہ نظامیہ‘ بغداد میں تعلیم حاصل کی۔ تحصیل علم سے فارغ ہو کر سیروسیاحت شروع کی۔ ترکی‘ عراق‘ شام و حجاز سے شمالی افریقہ تک طویل سفر کیے۔ ان کے سفر کی مدت تذکرہ نویسوں نے بیس برس لکھی ہے۔ اقبالؔ نے سعدیؔ کا گہرا مطالعہ کیا تھا‘ وہ ان کے کلام سے سند بھی پیش کرتے ہیں۔ (اقبال نامہ‘‘، اول‘ ص:۱۸۸) ان کے بعض اشعار کی تضمین بھی کی ہے۔ (’’بانگِ درا‘‘۔ حصہ سوم) اقبالؔ کے اور بھی متعدد اشعار ایسے ملتے ہیں جن کا خیال سعدیؔ سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ مآخذ: ۱) شبلی نعمانی‘ علاّمہ ’’:شعرالعجم (حصہ دوم)‘‘،ص:۲۹۔۱۰۴ ۲) ڈاکٹر محمد ریاض: ’’اقبال اور فارسی شُعرا‘‘،ص:۱۵۴۔۱۶۲ ۶؎ شملے میں تقریب سے مراد‘ سر کا خطاب ملنے کی تقریب کی طرف اشارہ ہے۔ (۱۱۰) بربنا گوش تو اے نیک تر از دُرِّیتیم سنبل تازہ ہمے برد مرا زنقرۂ سیم۱؎ (فرخیؔ) اس شعر سے ظاہر ہے کہ دُرّمع التشدید واحد ہے اور اس کی صفت میں لفظ یتیم واقع ہواi؎ ہے جس کے معنی بے نظیر و یکتا کے ہیں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ از لاہور ۳۱؍مئی ۱۹۲۳ء تحقیق متن: زیر نظر خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول(ص:۳۰۵) میں شامل ہے۔ i؎ انوار =واقع ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ یہ حکیم فرخی سیستانی کے ایک قصیدے کا مطلع ہے‘ جو خواجہ ابوسہل عبداللہ بن احمد بن گلشن دبیر کی مدح میں ہے۔ یہ ناصرالدین سبکتگین کے بیٹے امیر ابویعقوب یوسف کا داماد اور دربار غزنوی کے ممتاز امرا میں سے تھا۔ مطلع کی اصل اور بامعنی شکل یہ ہے: ؎ بربنا گوش تو اے پاک تر از دُرِّیتیم سنبل تازہ ہمی برمد از صفحہ سیم ترجمہ اے دُرِّیتیم سے بھی پاک تر (ممدوح) تیرا بنا گوش ایسا چمک رہا ہے گویا چاندی کے صفحہ پر سنبل تازہ اُگا ہو۔ اقبالؔکے خط میں اس کی جو شکل ہے وہ غلط اور بے معنی ہو گئی ہے۔ (’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘،ص:۴۵۰) (۱۱۱) مکرمی! تسلیم! لفظ دُر مع التشدید جمع نہیں بلکہ واحد ہے۔ مَیں آج قصیدہ بردہ۱؎پڑھ رہا تھا اس میں یہ شعر نظر آیا: قَالدُّرْیُزْدَادُحُسْناًوَّہُومُنْتَظَم وَلَیْسَ یَنقِصُ قَدْرًاغَیْر مُنتَظَم یعنی موتی حسن کے اعتبار سے بڑھ جاتا ہے جب سلسلہ میں منسلک ہو اور اگر منسلک نہ بھی ہوتو اس کی قدر گھٹتی نہیں۔ ایسی صورت میں دُرِّ یکتا کیونکر غلط ہو سکتا ہے؟ اگر یہ لفظ جمع ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یکتا کا لفظ اس کی صفت نہیں ہو سکتا۔ والسلام محمدؐاقبالؔ لاہور یکم جون ۱۹۲۳ء تحقیقِ متن: یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۵) میں شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ قصیدہ بُردہ : آنحضورؐ کی شانِ اقدس میں لکھا ہوا قصیدہ… اسے شرف الدین ابوعبداللہ ابنِ سعید الصنہاجی المعروف بہ البوصیری ہے۔ یہ قصیدہ ۱۶۲ ابیات پر مشتمل ہے۔ بصیری مصر میں ۱۲۱۲ء میں پیداہوا۔ وہ ابوالعباس احمد المرسی کے حلقۂ ارادت میں شریک تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ قلمی کتب کی نقل کا کام کرتا تھا۔ بصیری نے مرضِ فالج کی حالت میں ایک قصیدہ الکواکب الدریہ فی مدح خیر البریہ کے نام سے لکھا جو رسولِ کریمؐ کی مدح میں تھا۔ آنحضرتؐ‘ بصیری کے پاس عالم رؤیا میں تشریف لائے اور ان کو اپنی چادر سے ڈھانپ لیا جس کی برکت سے بصیری نے فالج کے مرض سے شفاپائی اسی لیے اس قصیدے کا نام بردہ پڑا کہ چادر کو عربی میں بردہ کہتے ہیں۔ بُصیری نے کئی اور قصیدے بھی لکھے ہیں لیکن سب سے زیادہ شہرت قصیدۂ بردہ ہی کو ملی اور اس قصیدے کی ۹۰ سے زیادہ شرحیں لکھی گئیں۔ بُصیری نے علمِ حدیث میں بڑی شہرت حاصل کی۔ ان کی تاریخِ وفات میں بڑا اختلاف ہے۔ سیوطیؒ (۹۶۔۱۲۹۵ئ) مقریزی اور ابنِ شاکر (۹۷۔۱۲۹۶) کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک (۹۵۔۱۲۹۴ئ) ہے۔ مآخذ: ۱) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ‘ جلد: ۴‘ص:۳۷۹۔۳۸۰ ۲) جمال بن نصیر الجنابہ‘ الشیخ: ’’شرح قصیدۃ البردۃ للبوصیرۃ‘ ۱۹۹۵م‘ ص:۳۔۷ ۳) فرمان فتح پوری‘ ڈاکٹر: ’’اُردو کی نعتیہ شاعری‘‘،ص:۳۰‘۳۱۔ (۱۱۲) مکرم بندہ! السلام علیکم۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں‘ جہاں آپ چاہیں چھپوائیں۔ ہمایوں۱؎ بھی اچھا رسالہ ہے۔ امام شرف۲؎الدین کا لقب ’بصیری‘ ہے۔ عربوں میں تخلص کا دستور نہ تھا۔ میں نے مثنوی رموزِ بے خودی میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ اے بصیری را ردا بخشندہِ بربط سلمیٰ مرا بخشندہٖ۳؎ والسلام! محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۰؍جون۱۹۲۳ء تحقیق متن: یہ خط’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اول (ص:۳۰۵)میں شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ ہمایوں: میاں بشیراحمد نے اپنے والد میاں محمد شاہ دین ہمایوں کی یاد میں یہ ماہنامہ جاری کیا۔ محمد شاہ دین ہمایوں ۲؍اپریل ۱۸۶۸ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ باغبانپورہ کے میاں خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ ۱۸۸۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال نومبر میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان روانہ ہو گئے اور وہاں سے ۱۸۹۰ء میں بیرسٹری کر کے واپس آئے اور کامیاب وکیل بنے۔ جلد ہی ۱۹۰۶ء میں پنجاب چیف کورٹ کے جج مقرر ہو گئے۔ اس سے قبل پنجاب کی مجلس قانون ساز کے رکن نامزد کیے گئے تھے۔ شعروادب سے شغف تھا۔ نظموں کا مجموعہ ’’جذباتِ ہمایوں‘‘ ان کی یادگار ہے۔ ۱۲؍جولائی ۱۹۱۸ء کو لاہورمیں انتقال ہو گیا۔ اقبالؔ نے ہمایوں کی یاد میں ایک خوبصورت نظم کہی جو ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل ہے: اے ہمایوں زندگی تیری سراپا سوز تھی تیری چنگاری چراغِ انجمن افروز تھی (کلیات‘اُردو‘ص:۲۸۲) اقبال ؔنے ہمایوں کی وفات پر ایک قطعۂ تاریخ اور ایک شعر بھی کہا ہے جس کا عکس’’انوارِ اقبال‘‘(ص:۲۴۷) میں شامل ہے۔ ’’ہمایوں‘‘ رسالہ ۱۹۲۲ء میں جاری ہوا اور ۱۹۵۷ء میں بند ہو گیا۔ مآخذ: ۱) رفیع الدین ہاشمی ‘ ڈاکٹر:’’خطوط اقبال‘‘،ص:۱۳۰ ۲) نذیرنیازی‘ سید: داناے راز‘‘،ص:۹۲۔۱۹۳ ۳) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر: ’’معاصرین اقبال‘‘،ص:۴۰۴‘۴۰۵ ۴) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’ملفوظاتِ اقبال مع حواشی و تعلیقات‘‘، ۳۱۵‘۳۱۶ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۱۱۱ ‘ تعلیقہ نمبر۱ ۳؎ ترجمہ: اے وہ ذات جس نے امام بوصبیری کو چادر بخشی اور مجھے سلمیٰ کا بربط عطا کیا ہے۔ (۱۱۳) مکرمی جناب خورشید! امین۱؎صاحب کا میری طرف سے بہت بہت شکریہ ادا کیجیے۔ قطعہ ان کا بہت اچھا ہے۔ کسی اخبار میں اس کی اشاعت کر دیجیے شاید زمیندار۲؎اس مطلب کے لیے بہتر ہو گا۔ تعجب ہے عربی شعر جناب ۳؎(نگار) کسی عجمی کا بتاتے ہیں۔ وہ شعر حضرت بصیری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو مصر کے مشہور شعرا میں سے ہیں۔ ان کا نام امام شرف الدین ہے چھٹی صدی کے آخر میں مکہ میں پیدا ہوئے اور ساتویں صدی کے وسط میں بمقام قاہرہ ان کا انتقال ہوا۔ خالص عرب تھے۔ مشہور قصیدہ بُردہ جس کا لوگ ورد کرتے ہیں انھی کی تصانیف سے ہے۔ والسلام میں ان شاء اللہ اگست میںشملہ آؤں گا۔ محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۶؍جون ۱۹۲۳ تحقیق متن: یہ خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر جلد اوّل (ص:۳۰۶) میں بھی شامل ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ امین صاحب سے مراد خواجہ عبدالمسیح پال امین حزیں سیالکوٹی ہیں۔ کشمیرریذیڈنسی سے وابستہ بلکہ پولٹیکل ایجنٹ تھے۔ ان کوبھی خان صاحب کاخطاب ملا تھا۔ اُردو کے ممتاز شاعر تھے اور اثر صہبائی کے بڑے بھائی تھے۔ (مآخذ: کلیم اختر:اقبالؔ اور مشاہیر کشمیر‘‘،ص:۲۲۵) ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۴۰ تعلیقہ نمبر۱۱ ۳؎ ’’نگار‘‘ سے مراد نیازؔ فتح پوری ہیں۔ (مزید دیکھیے: خط نمبر ۱۰۹‘ تعلیقہ نمبر۲) بنام تمکینؔ کاظمی تعارف:سید مصباح الدّین تمکین کاظمی مرحوم‘ حضرتِ داغؔ کے حیدرآبادی شاگرد ابوالمعنی سید منتخب الدین تجلی کے نورنظر تھے۔ ۱۹۰۲ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ مدرسے کی تعلیم کے علاوہ عربی‘ فارسی اور حدیث و تفسیر کا علم بھی حاصل کیا۔ ۱۹۲۸ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے منشی فاضل کاامتحان پاس کرنے کے بعد صوبہ داری گلبرگہ میں ملازم ہو گئے اور مختلف دیوانی ‘ مالی اور ملکی دفتروں میں کام کرتے رہے‘ شاعری میراث میں پائی تھی۔ شعروشاعری کے سلسلے میں اقبالؔ سے مراسلت بھی کی تھی اور مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کا منظوم اُردو ترجمہ کرنے کی اجازت چاہی‘ اور ترجمے کا نمونہ بھیجا جسے دیکھ کر اقبالؔ نے انھیں ترکِ شعر کا مشورہ دیا۔ اس مشورے کو قبول کر کے سیدصاحب نے نثر کی طرف توجہ کی اور اقبالؔ سے ’’زبورِ عجم‘‘ پر ایک تنقیدی مضمون لکھنے کی اجازت چاہی‘ انھوں نے بخوشی اس کی اجازت دے دی۔ تمکین کاظمی نے چند کتابیں تصنیف و تالیف کیں‘ جن میں ’’داغؔ‘‘ بہت مشہور ہے۔ وہ مزاح نگار کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔’’غنچۂ تبسم‘‘ ان کے چند مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان کی تصانیف میں سے ’’تذکرۂ ریختی‘‘ ،’’ارنسٹ‘‘ اور ’’معاشقہ نپولین‘‘ بھی شائع ہو چکی ہیں۔ انھوں نے اعظم الامرا ارسطو جاہ کی سوانح عمری بھی مرتب کی تھی۔ ۱۹۶۱ء میں ان کا انتقال ہوا۔ مندرجہ ذیل خطوط میں مکتوب نگار‘ اقبالؔ کے کلام کا ترجمہ کرنے کے متمنی ہیں‘ علاوہ ازیں’’زبورِ عجم‘‘ پرمضمون لکھنے کی خواہش مند ہیں۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی: ’’معاصرین اقبال کی نظرمیں‘‘،ص:۵۰۸۔۵۱۲ ۲) ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر‘ جلد اول‘ص:۳۰۸ (۱۱۴) جنابِ من۔ تسلیم نوازش نامہ ابھی ملا ہے۔ مَیں ذاتی طور پر ترجموں کا قائل نہیں ہوں۔ تاہم آپ چند اشعار ترجمہ کر کے بھیجییتو میں رائے دینے کے قابل ہو سکوں گا۔ اس سے پہلے جو نمونے تراجم کے وصول ہوئے بہت ناقص تھے۔ میں نے خود’’اسرارِ خودی۱؎‘‘ پہلے اُردو میں لکھنی شروع کی تھی مگرمطالب ادا کرنے سے قاصر رہا۔ جوحصہ لکھا گیا تھا اس کو تلف کر دیا گیا۔ کئی سال بعد پھر یہی کوشش میں نے کی۔ قریباً ڈیڑھ سو اشعار لکھے مگر میں ان سے مطمئن نہیں ہوں۔ والسلامi؎ محمدؐاقبالؔii؎ ۲۲؍اگست۲۸ء لاہور تحقیق متن: i؎ انوار=نہیں ہوں۔ii؎ انوار=۱۶؍اگست (دیکھیے: عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر۲ تعلیقہ نمبر۲ (۱۱۵) لاہورi؎۴؍ستمبر۲۸ء جناب من۔ تسلیم میں نے آپ کا ترجمہ دیکھا ہے۔ افسوس کہ ناقص اور بعض بعض جگہ غلط ہے۔ میری رائے میںاس ترجمے سے اُردولٹریچر کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ محض لفظی ترجمہ ادبی اعتبار سے بے سود بلکہ شاید مضر ہے۔ میری دوستانہ رائے یہ ہے کہ آپ اپنے اوقات کے لیے کوئی بہتر مصرف تلاش کریں۔ امیدiii؎کہ اس بے لاگ رائے سے آپ ناخوش نہ ہو ںگے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ ’’انوار‘‘ میں تاریخِ تحریر خط کے آخر میں درج ہے۔ ii؎ انوار= امید ہے کہ (دیکھیے:عکس) (۱۱۶) (لاہورi؎) شملہ ۱۸؍ستمبر۲۸ء جنابِ من ۔تسلیم نوازش نامہ مل گیا ہے۔ ’’زبورِ عجم۱؎‘‘ پر شوق سے مضمون لکھیے۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ فی الحال علالت کی وجہ سے میںii؎بہت کم لکھتا پڑھتا ہوں۔ دردِگردہ نے دو ماہ تک بیقرار رکھاiii؎۔ اب خدا کے فضل سے اچھا ہوں اور صحت کے خیال سے چند روز کے لیے شملہ میں مقیم ہوں۔ لاہور جاتے ہی فرصت کے اوقات الٰہیاتِ اسلامیہ۲؎پر لکچر لکھنے میں صرف ہوں گے جن کا وعدہ میں مسلم ایسوسی ایشن مدراس سے کرچکا ہوں۔ اگرفروری ۲۹ء تک یہ لکچر لکھ سکا تو مدراس میں پڑھے جائیں گے۔ امیدiv؎ کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ مقامِ تحریر شملہ ہے‘ جیسا کہ خط کے متن سے واضح ہوتا ہے۔ii؎ انوار=وجہ سے بہت iii؎ انوار=کیا۔ iv؎ انوار: امید ہے کہ۔ (دیکھیے :عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ زبورعجم: اقبالؔ کا فارسی مجموعۂ کلام‘ جو پہلی مرتبہ ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا۔ ۲؎ اقبالؔ نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کے بانی سیٹھ محمد جمال کی فرمایس پر ’’دینیات‘‘ اور تخیّل جدید‘‘ پر چھ لیکچر دینے منظور فرمالیے۔ پہلے تین لیکچر ۱۹۲۸ء کے اواخر میں لکھے گئے۔ جنوری ۱۹۲۹ء کے اوائل میں مدراس کے گوکھلے ہال میں وزیراعظم حکومتِ مدراس‘ ڈاکٹر سبرائن کے زیرصدارت ارشاد فرمائے۔ باقی تین لیکچر اس سفر سے واپسی پر چھ سات ماہ کے اندر لکھے گئے اور مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی استدعا پر نومبر۱۹۲۹ء میں یونی ورسٹی کے طلبہ‘ اساتذہ اور پبلک کے سامنے پڑھے گئے۔ اس سفر میں اقبالؔ کے ہمراہ چودھری محمدحسین اور ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی تھے۔ واپسی پر میسور یونی ورسٹی اور عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد کی فرمایشوں پر ان تین لیکچروں کااعادہ بنگلور ‘ میسور اور حیدرآباد میں بھی کیا گیا۔ ۱۹۳۲ء میں جب اقبالؔ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے تو وہاں کی ’’مجلس ارسطو‘‘ کی درخواست پر آپ نے ایک لیکچر بہ عنوان ’’کیا مذہب ممکن ہے‘‘(Is Religion Possible) پڑھا تھا‘ یوں سات خطبات کا مجموعہ: "The Reconstruction of Religious thought in Islam" کے نام سے شائع ہوا۔ سیدنذیر نیازی نے ان خطبات کا اردو ترجمہ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ مآخذ: ۱) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رُود…حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘، ص:۴۳۴۔۴۳۵ ۲) محمد حمزہ فاروقی (مرتب): ’’حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے‘‘،ص:۲۱۴۔۲۲۷ ۳) محمد رفیق افضل (مرتب)’’گفتارِ اقبال‘‘،ص:۲۱۵۔۲۳۱ ۴) محمد عبداللہ چغتائی‘ ڈاکٹر: ’’اقبال کی صحبت میں‘‘، ۲۹۹۔۳۴۴ ۵) افتخار احمد صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’فروغِ اقبال‘‘،ص:۳۵۵۔۳۶۵ بنام جافرے ڈی مانٹ مورینسیi؎ (De Montmorency Sir Jeoffrey) تعارف: ۲۳؍اگست۱۸۷۲ء کو پیدا ہوئے۔ پیمبروک کالج کیمبرج میں تعلیم پائی۔ ۱۸۹۹ء میں آئی سی ایس سے منسلک ہوئے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں افسر آبادکاری رہے۔ ۱۹۰۷ء اور ۲۰۔۱۹۱۷ء کے دوران میں لائل پور (فیصل آباد) کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ ۱۹۲۰ء میں حکومتِ ہند کے ڈپٹی سکرٹری نامزد ہوئے۔ ۲۶۔۱۹۲۲ء کے دوران میں وائسرائے کے پرائیویٹ سکرٹری رہے۔ ۱۹۲۶ء سے ۱۹۲۸ء تک پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۳ء تک پنجاب کے گورنر رہے۔ بہت سے خطابات عطا ہوئے جن میں کے سی آئی ای (۱۹۲۲ئ) کے ۔سی۔ایس۔آئی (۱۹۲۸ئ) اور جی۔سی۔آئی ۔ ای(۱۹۳۳ئ) شامل ہیں۔ پیمبروک کالج کے اعزازی فیلو بھی تھے۔ مآخذ: عبدالشکور احسن (مؤلف): ’’زندگی نامہ‘‘،:۱۰ (۱۱۷) لاہور ۷؍جولائی۱۹۲۸ء میر ولی اللہ خوش نویس‘ ائمہ جامع مسجد۱؎دہلی کے خاندان سے ہیں۔ اور یہ وہ محترم خاندان ہے جس کے مورثِ اعلیٰ کو شہنشاہ شاہجہاں۲؎علیہ الرحمۃ نے بخارا سے بلا کر امام جامع مسجد مقرر کیا تھا۔ میر ولی اللہ کے دادا مولانا حافظ امیرالدین مرحوم و مغفور ابوظفر بہادرشاہ۳؎بادشاہ دہلی کے استاد تھے۔ ان کے والد حافظ سید محمد سعید سلطنت دکن اور بھوپال کے وظیفہ خوار تھے جو ان کو ان کی خاندانی شرافت و نجابت و تقویٰ کی بنا پر عطا کیاگیا تھا۔ میر ے نزدیک اس خاندان کے افراد قدر کے مستحق ہیں۔ محمدؐاقبالؔ بیرسٹرایٹ لا۔ تحقیقِ متن: ۱؎ یہ خط تمکین کاظمی کے نام نہیں ہے بلکہ ڈی مانٹ مورینسی کے نام ہے۔ میرولی اللہ صاحب بشیر اہلکار محکمۂ مشیر قانونی و معتمدی وضع قوانین سرکارِ عالی نے ڈی مانٹ مورینسی سابق گورنر پنجاب سے ملاقات کے لیے درخواست کی تو میر صاحب کو جواب ملا: ’’میں نے تمھارے والد کے ساتھ تمھیں کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ اقبالؔ کو یہ قصہ معلوم ہوا تو انھوں نے میر صاحب کو درجِ بالا تحریر لکھ دی اور فرمایا سالکؔ صاحب سے انگریزی ترجمہ کرا کر ڈی مانٹ مورینسی کے پاس بھجوادیجیے۔ (’’اقبال نامہ‘ اول‘‘،ص:ط۔ظ) ’’اقبالنامہ‘‘ کے علاوہ زیرِ نظر خط ’’نقوش‘‘ مکاتیب نمبر حصہ اوّل (ص:۳۰۷) میں بھی شامل ہے۔ حواشی و تعلقیات: ۱؎ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی تعمیر کردہ جامع مسجد کا شماردنیا کی خوبصورت اور عظیم ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ ہر روز تقریباً پانچ ہزار معمار‘ مزدور اور سنگ تراش اس کی تعمیر میں لگے رہے۔ دس لاکھ روپے کے خرچ سے چھ سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔ یہ سنگِ مرمر اورسنگِ سرخ کی بنی ہوئی ہے۔ سنگِ موسیٰ کی پچی کاری کی گئی ہے۔ اس کا طول ۲۰۰فٹ اور عرض ۱۲۰ ہے۔ مسجد کا صحن بھی بڑا وسیع و عریض ہے اور اس میں بیک وقت کئی ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے میناروں کی بلندی ۱۳۰فٹ ہے۔ چھت تک پہنچنے کے لیے ۳۷۹ سیڑھیاں ہیں۔ ۱۸۵۷ء سے ۱۸۶۲ء تک یہ مسجد بند رہی۔ بالآخر انگریزوں نے اسے ۱۸۶۲ء میں مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ مآخذ: ۱)سرسیداحمدخاں(مصنف)‘ خلیق انجم (مرتب):’’آثارالصنادید‘ جلد اوّل‘‘ص:۳۴۵۔۳۴۷ ۲) جمیل احمد (خواجہ): اسلامی تہذیب کے گہوارے‘‘،ص:۲۶۹‘۲۷۰ ۳) عطاء الرحمن قاسمی:دِلّی کی تاریخی مساجد‘‘،جلد اوّل‘ص: ۱۹۹۔۲۲۳۔ ۲؎ دیکھیے خط نمبر۴۱‘ تعلیقہ نمبر۴ ۳؎ ابوظفر بہادرشاہ (۱۷۷۵ئ۔۱۸۶۲ئ) دِلّی کے آخری مغل تاجدار۔ سالِ جلوس ۱۸۳۷ئ۔ تحریکِ آزادی (۱۸۵۷ئ) میں ماخوذ ہوئے اور جلاوطن کر کے رنگون بھیج دیئے گئے۔ شعرگوئی کا شوق تھا۔ دِلّی کے نامور شُعرا دربار سے منسلک تھے۔ پہلے ذوقؔ سے اور اس کے بعد غالبؔ سے تلّمذ رہا۔ کلام میں سلاست اور محاورات کی بندش خوب ہے۔ تصانیف میں چاردیوان‘ شرحِ گلستانِ سعدیؔ اور ایک رسالہ ’’سراج المعرفت‘‘ یادگارِ ہے۔ مآخذ: اسلم پرویز: ’’بہادرشاہ ظفر‘‘،ص:۲۹۔۳۰۴ بنام منشی سراج دین تعارف: شیخ منشی سراج الدّین ریاست جموں کشمیر کے رہنے والے تھے اور محکمہ مال سے وابستہ تھے۔ افسر مال کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ نہایت متقی‘ پرہیزگار اورصاحب علم تھے۔ ان کا مسلک اہل حدیث تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے مداحین میں سے تھے۔ اقبالؔ سے بھی دوستانہ روابط تھے۔ ریاست کے مشہور کاروباری خاندان کے فرد تھے۔ شیخ محمدبخش اورسیٹھ کریم بخش تاجران آپ کے بزرگوں میں سے تھے۔ آپ شیخ محمد بخش کے داماد تھے۔ جب ریاست کی ایک عدالت نے ایک کاروباری مقدمے میں شیخ صاحبان کی جائیداد کی قرقی کا حکم دیا تو منشی سراج دین‘ اقبالؔ کو مقدمے کی پیروی کے لیے سری نگر لے گئے۔ اقبالؔ کے ہمراہ دوسرے وکیل مولوی احمد دین تھے جو دیوانی قانون کے ماہر تھے۔ یہ جون ۱۹۲۱ء کا واقعہ ہے۔ اقبالؔ نے کشمیر میں دوہفتے قیام کیا اور جولائی ۱۹۲۱ء کے پہلے عشرے میں لاہورمیں واپس آگئے۔ اقبالؔ نے انھی مقدمات کے سلسلے میں منشی سراج دین کو خطوط لکھے۔ ان خطوط کی تعداد تین ہے‘ جو ذیل میں درج ہیں۔ ان خطوط سے خان صاحب منشی سراج الدین (میر منشی) کا کوئی تعلق نہیں ہے‘ جن کے نام ’’اقبالنامہ‘‘ اول(ص:۱۶۔۲۶) میں چار خطوط شامل ہیں۔ شیخ منشی سراج الدین قیامِ پاکستان کے بعد کچھ وقت سری نگر اور دہلی میں گزار کر پاکستان آگئے تھے اور کراچی میں رہایش پذیر ہوئے۔ سو سال کی عمر پائی اور ۱۹۷۸ء میں کراچی ہی میں انتقال کیا۔ مآخذ:کلیم اختر: اقبال اور مشاہیر کشمیر‘‘، ص:۲۰۶ (۱۱۸) مخدومی منشی صاحب! السلام علیکم۔ آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ سے رخصت ہو کر پانچ بجے شام راولپنڈی پہنچ گئے اور ۶بجے شام کی ٹرین بھی مل گئی۔ رستے میں بھی خدا کے فضل و کرم سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آپ کی مستعدی‘ خدمت گزاری اور مہمان نوازی کی تعرف کرتے کرتے منزل ختم ہو گئی۔ فَالْحمْدُلِلّٰہِ عَلَیٰ ذَاْلِکَ۔ میرا خیال تھا کہ آپ کے مقدمے میںحکم سنا دیا گیا ہوگا‘ مگر سیٹھ کریم بخش۱؎صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ جج صاحب بہادر رخصت سے واپس آ کر حکم سنائیں گے۔ آپ سیٹھ صاحب کی خدمت میں عرض کر دیں کہ اگر وہ اشتہار نیلام جو پنڈت جانکی ناتھ نے پیش کیا ہے‘ مثل پر نہیں ہے تو اس کا کچھ اثر نہ ہونا چاہیے۔ بَہرحال اللہ تعالیٰ پر بھروسا رکھناچاہیے۔ وہ مسلمان کی آخری امید ہے۔ سیٹھ صاحب اور بڑے شیخ صاحب۲؎سے کہیے کہ درودشریف پڑھنے سے غفلت نہ کریں۔ اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے یہ بات خاص کر حلّال مشکلات ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ خُدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ میری طرف سے سب کی خدمت میں سلام عرض کیجیے۔ گرمی کی شدّت ہے‘ بارش مطلق نہیں ہوئی اور نہ اس کی بظاہر کوئی علامات نظر آتی ہیں۔ خواجہ اسداللہ صاحب(ایڈووکیٹ سری نگری‘ کشمیر) ملیں تو میرا سلام ان سے ضرور کہیے۔ والسلام بخدمت سیٹھ کریم بخش صاحب مضمون واحد مخلص محمدؐاقبالؔلاہور ۱۱؍جولائی ۱۹۲۱ء حواشی و تعلیقات: ۱؎ ریاست جموں و کشمیر میں شیخ محمد بخش اور سیٹھ کریم بخش نامورتاجر اور رئیس تھے لیکن بعد میں انقلاباتِ زمانہ کے ہاتھوں ان کی حالت پتلی ہو گئی۔ پنجاب نیشنل بینک کی شاخ سری نگر نے حساب کتاب اور لین دین کے معاملے میں ان کی ڈگری اورقرقیاں کرائیں اور ہزار ہا روپے کی جائیداد سینکڑوں میں نیلام کر ا دی۔ چونکہ نیلام اورقرقیوں وغیرہ میں بہت سی بے ضابطگیاں تھیں اور بینک کا رسوخ بھی بہت کام کر رہا تھا‘ اس لیے شیخ محمد بخش کے داماد منشی سراج دین نے جو اس وقت مہتمم بندوبست کے مثل خواں تھے اور بعد میں افسرِمال کے عہدے سے سبکدوش ہو کر ریونیو ایجنٹ (وکیل) ہوگئے تھے‘ اقبالؔ کی قانونی قابلیت سے مستفید ہونے کے لیے ان کو اس مقدمے کے سلسلے میں کشمیر میں بلایا۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی (مرتب):’’حیاتِ اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘، ص:۳۰۵‘۳۰۶) ۲) بڑے شیخ صاحب: سے مراد شیخ محمد بخش صاحب ہیں۔ (۱۱۹) مخدومی منشی صاحب السلام علیکم۔ آپ کی علالت کی خبر معلوم کر کے تردّد ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ نقل فیصلہ مرسلہ سیٹھ کریم بخش صاحب مل گئی ہے اور میں نے فیصلہ بہ غور پڑھا ہے۔ دفعہ ۴۷کے متعلق جج صاحب بہادر نے جو کچھ لکھا ہے میر رائے میں غلط ہے۔ ہائی کورٹ میں اس کی چارہ جوئی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر عدالت ہائی کورٹ اس امر میں ہم سے متفق ہو اور واقعات پر متفق نہ ہو تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں اس واسطے زیادہ ضروری امر واقعات کے متعلق ہے۔ واقعات کے متعلق یہ عرض ہے کہ جج صاحب نے وہی بات لکھی ہے اور اپنے فیصلے کو اسی بات پر مبنی کیا ہے جس کااحساس ہمیں پہلے ہی تھا یعنی یہ بات کہ واقعات اور بے ضابطگیوں سے ڈگری دار کی بدنیتی ثابت نہیں ہوتی۔ مَیں نے یہ تمام باتیں پہلے ہی عرض کر دی تھیں۔ سب سے بڑی کمزوری اس مقدمے میں یہی ہے۔ مجھے امید نہیں کہ ہائی کورٹ جہاں تک بے ضابطگیوں اور غلطیوں کا تعلق ہے‘ اے ڈی حکیم صاحب۱؎سے مختلف تجویز کرے۔ شیخ صاحبان۲؎اپنی جگہ سوچ لیں اور اس تمام زیرباری کا اندازہ کر لیں جو اپیل وغیرہ کا نتیجہ ہو گی۔ اگرمعمولی مالیت کا مقدمہ ہوتا تو مضائقہ نہ تھا۔ مقدمہ کی مالیت بھی بڑی ہے اور اخراجات وکلا وغیرہ بھی اسی حیثیت سے ہوں گے۔ غرض ان تمام امور کو ملحوظ رکھ کر آخری فیصلہ کرنا چاہیے۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی زیرباری میں اور اضافہ ہو۔ وجوہات اپیل دو چار روز تک لکھ کر ارسالِ خدمت کردوں گا۔ اگر آپ کی مرضی ہو تو آپ اپیل دائر کر دیں۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ چند ابتدائی غلطیوں کی وجہ سے اس مقدمے کا فیصلہ آپ کے حق میں نہ ہو سکا مگر خُدا تعالیٰ کی درگاہ سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ اگر یہ صورت نہیں تو اللہ تعالیٰ سیٹھ صاحبان کے لیے کوئی اورصورت پیدا کر دے گا۔ سیٹھ صاحبان کی خدمت میں السلام علیکم۔ مخلص محمدؐاقبالؔ لاہور ۱۳؍اگست ۱۹۲۱ء حواشی و تعلیقات: ۱؎ اے ڈی حکیم‘ سشن جج۔ بمبئی کے ایک پارسی تھے۔ اُردو اور کشمیری تو بالکل ہی نہ جانتے تھے‘ البتہ کشمیریوں کی بدقسمتی سے حکومت کے محکمۂ سیاسیہ و خارجہ میں ’’حکیم‘‘ کی رعایت سے مسلمان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے زمانے میں ہندو سررشتہ دار من مانی کار روائیاں کرتے تھے اور کسی کی کوئی پیش نہ جانے دیتے تھے‘ اس لیے چند ابتدائی غلطیوں کی وجہ سے اس مقدمے کا فیصلہ حسبِ منشا نہ ہو سکا‘ جس کا اقبالؔ کو افسوس رہا۔ مآخذ: ۱) عبداللہ قریشی (مرتب) ’’حیات اقبال کی گم شدہ کڑیاں‘‘،ص:۳۰۶‘۳۰۷ ۲؎ شیخ صاحبان: شیخ محمد بخش اور سیٹھ کریم بخش مُراد ہیں۔ (۱۲۰) ڈیرمنشی صاحب! السلام علیکم۔ آپ کاخط ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ اِن شاء اللہ آپ کے ارشاد پر غور کیا جائے گا۔ افسوس کہ رحمان ۱؎راہ کامل طور پر نہ بچا‘ گو پھانسی سے بچ گیا۔ لالہ کنور سین۲؎ صاحب سے لاہور میں مَیں نے اس مقدمے کا مفصل ذکر کیا تھا اورتمام بڑی بڑی باتیں ان کو سمجھا دی تھیں اور یہ بھی درخواست کی تھی کہ مقدمہ کی سماعت جموں میں کریں تو مَیں بغیر مزید فیس کے بحث کروں گا مگر افسوس کہ وہ مقدمہ کشمیر میں سنا گیا۔ بہرحال میں نے منشی اسداللہ کی تحریر پر اپنی بحث کے مفصل نوٹ ان کوبھیج دیے تھے جو عدالت میں پیش کردیے گئے تھے۔ لالہ کنور سین صاحب نے مجھ سے کہا تھا کہ تمھاری بحث کے مفصل نوٹ مثل پر موجود ہیں۔ اس وقت اگر میعاد کاسوال نہ اٹھایا جاتا تومقدمہ مہاراجا (سرپرتاپ سنگھ)۳؎کے سامنے ہی غالباً فیصلہ ہو جاتا۔ مگر منشی اسداللہ صاحب یہ خیال کرتے رہے کہ بارِ دیگر مقدمہ کونسل کے سامنے پیش ہو گا جہاں رحمان راہ کی بریت کی توقع ہے اس واسطے اس وقت التواکو غنیمت سمجھا گیا ورنہ مَیں نے تو مہاراجہ صاحب کو بھی کہہ دیا تھا کہ آپ ابھی فیصلہ کر دیں کیونکہ دوبارہ یہاں آنے کا خرچ مؤکل اپنی غریبی کی وجہ سے نہ اٹھا سکیں گے مگر منشی اسداللہ صاحب کا یہی خیال تھا کہ التوا بہتر ہے مگر افسوس کہ بعد میں ان کا خیال پورا نہ ہو سکا اور کونسل اب تک نہ بن سکی۔ وہ غلطی سے یہ سمجھتے رہے کہ اس فیس میں جو انھوں نے مجھ کودی تھی میں دوبارہ کشمیر آجاؤں گا مگر یہ کیوں کر ممکن تھا۔ اس علاوہ مہاراجہ صاحب کے سامنے مَیں نے یہ سب کچھ کہہ دیا تھا۔ بہرحال اب مَیں نے سنا ہے کہ وہ گورنمنٹ آف انڈیا میں لالہ کنورسین صاحب کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں نے مندرجہ بالاطویل حالات لکھ کر آپ کو تکلیف دی ہے۔ اس سے غرض یہ ہے کہ اگر رحمان راہ کے وارثوں کا ارادہ اپیل کرنے کا مصمم ہو تو مَیں بغیر کسی مزید فیس کے ان کی اپیل لکھ دوں گا۔ آپ یہ امر ان کے گوش گزار کر دیں۔ چونکہ کشمیر میں یہ معاملہ ہندومسلمان سوال بن گیا ہے۔ اس واسطے ممکن ہے رحمان راہ کے وارثوں کو یہ خیال ہو کہ گورنمنٹ آف انڈیا کا قانونی ممبر بھی تو ایک کشمیری پنڈت ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دقّت بھی ہے اوروہ یہ کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے مہاراجا کی طرف سے اگر کسی کوپھانسی کا حکم ہو تو اس کی اپیل گورنمنٹ آف انڈیا میں ہوتی ہے۔ قید کا اگر حکم ہو تو اس کی اپیل نہیں ہوتی۔ بہرحال اگر ان کاارادہ ہو تو مجھے اس میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ اس صورت میں آپ ان سے کہہ دیں کہ میری بحث کے مفصل نوٹ اور دیگر کاغذات بھیج دیں۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ امید ہے آپ کا مزاج بہ خیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ لاہور ۲۰؍اپریل ۱۹۲۲ء حواشی و تعلیقات ۱؎ رحمان راہ سری نگر کا ایک باشندہ تھا اور قتل کے الزام میں ماخوذ تھا۔ یہ مقدمہ سری نگر ہی میں اقبالؔ کو ملا تھا۔ اقبالؔ کی بحث سے یہ شخص پھانسی سے تو بچ گیا مگرقید ہو گیا۔ ۲؎ لالہ کنورسین : ایم۔اے کی ڈگری لینے کے بعد بارایٹ لا کیا۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۱۳ء کولا کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۱ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ریاست کشمیر کے چیف جسٹس بھی رہے۔ میرحسن کے شاگرد۔ عربی میں دسترس حاصل تھی۔ آیاتِ قرانی کا بلا تکلف حوالہ دیتے۔ اقبالؔ کی لیاقت اور قابلیت کے دل سے معترف تھے۔ مآخذ: ۱) نذیر نیازی سیّد:’’داناے راز‘‘ ص:۱۹۱‘۱۹۲ ۲) عبدالشکوراحسن (مؤلف): ’’زندگی نامہ‘‘ ص:۱۲۸ ۳) سلطان محمود حسین‘ڈاکٹر‘ شمس العلماء مولوی سید میرحسین ‘’’حیات و افکار‘‘ ص:۲۱۲۔۲۱۴ ۴) مہاراجا پرتاب سنگھ والیِ ریاست جموں و کشمیر ریاسی(RIASI ) کے مقام پر ۱۸۵۰ء میں پیدا ہوا۔ ڈوگری‘ سنسکرت‘ فارسی اور انگریزی زبانیں سیکھیں۔ ۱۸۸۵ء میں تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں انتظامیہ میں اصلاحات ہوئیں۔ پرتاپ سنگھ نے ۲۳؍ستمبر۱۹۲۵ء کو سری نگر میں انتقال کیا۔ مآخذ: مظفرحسین برنی(مرتّب) : کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘،ص:۸۱۶‘۸۱۷ بنام علاّمہ عبدالرشید طالوتؔ تعارف عبدالرشید نام‘ نسیم تخلص‘ قلمی نام طالوت۔ یکم فروری ۱۹۰۹ء کو ڈیرہ غازی خان کے ایک نواحی قصبے چوٹی زیریں جمال خاں میں پیدا ہوئے۔ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور گورنمنٹ اورینٹیل سکول ملتان میں پڑھاتے تھے۔ ان کی سیاسی تحریریں ’’زمیندار‘‘ ،’’عالمگیر‘‘،’’خیام‘‘ اور دوسرے رسالوں میں شائع ہوتی تھیں۔ اسلامی نظمیں زیادہ تر ’’بُرہان‘‘ دہلی اور ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ میں شائع ہوتی تھیں۔ اُردو‘ فارسی اور سرائیکی کے قادرالکلام شاعر تھے۔ دیوانِ فرید کو مرتب اور مدوّن کیا۔ ان کا تاریخی کارنامہ عربی ادب کی تاریخ ہے۔ انھوں نے ۳؍مارچ ۱۹۶۳ء کو ملتان میں وفات پائی۔ ہماری سیاسی اورقومی تاریخ میں ان کا نام اس لحاظ سے زندہ رہے گا کہ انھوں نے اپنی مراسلت کے ذریعے مولانا حسین احمد مدنی اور اقبالؔ کی باہم غلط فہمی دور کروا دی تھی۔ مآخذ: ۱) افضل حق قرشی‘ قاضی: ’’اقبال کے ممدوح علما‘‘، ص:۸۸۔ ۲) عبدالرحمن خان ‘ منشی:’’چند ناقابلِ فراموش شخصیات‘‘، ص:۹۳۔۹۵ (۱۲۱) ۱۶؍فروری ۱۹۳۸ء جنابِ من مولانا حسین احمد۱؎صاحب کے معتقدین اوراحباب کے بہت سے خطوط میرے پاس آئے۔ ان میں سے بعض میں تو اصل معاملے کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے مگر بعض نے معاملے پر ٹھنڈے دل سے غور کیا اور مولوی صاحب کو بھی اس ضمن میں خطوط لکھے ہیں۔ چنانچہ آپ کے خط میں مولوی صاحب کے خط کے اقتباسات۲؎درج ہیں۔ اس واسطے مَیں نے آپ ہی کے خط کو جواب کے لیے انتخاب کیا ہے۔ جواب ان شاء اللہ اخبار ’’احسان‘‘ میں شائع ہو گا۔ میں فرداً فرداً علالت کی وجہ سے خط لکھنے سے قاصر ہوں۔ مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات ۱؎ مولانا حسین احمد مدنی بمقام بانگر مئو ضلع اناؤ میں ۱۸۷۹ء میں پیدا ہوئے۔ تاریخی نام چراغ محمد ہے۔ ابتدائی پرورش بانگر مئو ہی میں ہوئی۔ درالعلوم دیوبند سے امتیاز کے ساتھ سند حاصل کی۔ مدینہ طیبہ میں ایک عرصے تک قرآن اور حدیث کا درس دیا۔ بعدازاں درالعلوم دیوبند میں بھی درس و تدریس میں مشغول رہے اور صدر مدرس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا نے ہند کی سیاسیات میں نمایاں حصہ لیا اور مولانا محمودحسن کے ساتھ مالٹا میں اسیر رہے۔ کانگریس اور خلافت کی تحریک میں پیش پیش رہے اور اس سلسلے میں کئی بار قید بھی ہوئے۔ جمعیت العلما کے صدر بھی رہے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں مولانا کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے علما اور مشائخ میں تھا۔ ۶؍دسمبر ۱۹۵۷ء کو انتقال کیا اور دیو بند میں دفن کیے گئے۔ مآخذ: ۱) روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی‘ ص:۵۔۷ ۲) اعجازالحق قدوسی ’’اقبال اور علمائے پاک و ہند‘‘ ص: ۳۷۸۔۳۸۸ ۳) عبدالرشید ارشد:’’بیس بڑے مسلمان‘‘ ص:۶۴۳۔۶۹۸ ۲؎ مولانا حسین احمدمدنی نے ۸؍جنوری ۱۹۰۸ء کو دہلی کے ایک جلسہ میں تقریر کی۔ یہ تقریر بہت طویل تھی۔ جس کااختصار ۹؍جنوری کو روزنامہ ’’تیج‘‘ اور روزنامہ ’’انصاری‘‘ میں شائع ہوا۔ بعد میں ’’انقلاب‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ نے نقل کرتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ مولانا حسین احمد نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ زمانے میں قومیں وطن سے بنتی ہیں‘ مذہب سے نہیں بنتی ہیں‘ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قومیت کی بنیاد وطن کوبنائیں۔ جب یہ ’’انقلاب‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ اقبالؔ کی نظر سے گزرے تو انھیں ذہنی و قلبی تکلیف ہوئی اور یہ اضطراب ایک شعری قطعہ میں ڈھل گیا۔ عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ ز دیوبند حسین احمدؐایں چہ بوالعجبی است! سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر زِمقامِ محمدؐ عربی است! بمصطفیٰؐ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگر بہ اُو نرسیدی تمام بولہبی است! ان اشعار کا شائع ہونا تھا کہ بحث و تمحیص کے دروازے کھل گئے۔ معترضین نے ان اشعار کا جواب اشعار میں دیا۔ کتابچے شائع کیے‘ مضامین لکھے۔ مولانا طالوتؔ کو چونکہ مولانا حسین احمد سے عقیدت تھی۔ اس لیے انھیں اقبالؔ کے مذکورہ اشعار سے صدمہ پہنچا۔ انھوں نے اقبالؔ کو ایک طویل خط لکھا اور مولانا حسین احمد کے خط کے اقتباسات بھی لکھے‘ مولانا کا یہ طویل خط مختلف اخبارات و رسائل مثلاً ’’مدینہ‘‘، الجمعیت‘‘، ’’انصاری‘‘، ’’ہندجدید‘‘،پاسبان‘‘ اور ’’ترجمانِ سرحد‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجا گیا‘ اس خط میںانھوں نے اپنے فرمودہ ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘کی وضات کی کہ ان کے اس بیان کاوہ مطلب نہیں جواقبالؔ سمجھے ہیں… اقبالؔ نے ایک مضمون ’’جغرافیائی حدود اورمسلمان‘‘ لکھا جو اخبار ’’احسان‘‘ لاہور کی ۹؍مارچ ۱۹۳۸ء کی اشاعت میں چھپا۔ تاہم مولانا حسین احمد کے اعتراف کے بعد اقبالؔ نے اپنا بیان اخبار ’’احسان‘‘ میں شائع کرایا اور وضاحت کی کہ انھیں مولانا صاحب سے ذاتی رنجش اور عناد نہیں ہے بلکہ نظریاتی اختلاف ہے کیونکہ اس نظریے کے اثرات بہت مضر ثابت ہو سکتے تھے۔ طالوتؔ صاحب کے نام خطوط میں اسی مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مآخذ: ۱) اقبالؔ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنی‘ از پروفیسر یوسف سلیم چشتی‘ مشمولہ : روزنامہ ’’الجمیعۃ‘‘ دہلی‘ ص:۳۷۹۔۳۸۳ ۲) نورمحمد قادری‘ سیّد (مرتب) اقبالؔ کا آخری معرکہ‘‘ُص:۸۵۔۹۵ (۱۲۲) ۱۸؍فروری ۱۹۳۸ء جنابِ من سلام مسنون۔ میں حسب وعدہ آپ کے خط کا جواب ’’احسان‘‘ میں لکھوانے کو تھا کہ میرے ذہن میں ایک بات آئی جس کا گوش گزار کر دینا ضروری ہے۔ امید ہے کہ آپ مولوی صاحب کو خط لکھنے زحمت گوارا فرما کر اس بات کو صاف کر دیں گے۔ جو اقتباسات آپ نے ان کے خط سے درج کیے ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے فرمایا کہ آج کل قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اگر ان کامقصود ان الفاظ سے صرف ایک امرِ واقعہ کو بیان کرنا ہے تواس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایشیا میں بھی مقبول ہورہا ہے۔ البتہ اگر ان کا یہ مقصد تھا کہ ہندی مسلمان بھی اس نظریے کو قبول کر لیں تو پھر بحث کی گنجایش باقی رہ جاتی ہے۔ کیونکہ کسی نظریے کو اختیار کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ آیا وہ اسلام کے مطابق ہے یا منافی ۔ اس خیال سے کہ بحث تلخ اور طویل نہ ہو نے پائے اس بات کا صاف ہوجانا ضروری ہے کہ مولانا کا مقصود ان الفاظ سے کیا تھا۔ ان کا جو جواب۱؎آئے وہ آپ مجھے روانہ کر دیجیے۔ مولوی صاحب کو میری طرف سے یقین دلائیے کہ مَیں ان کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں۔ البتہ اگرمذکورہ بالاارشاد سے ان کامقصد وہی ہے جو مَیں نے اوپر لکھا ہے تو میں ان کے مشورے کو اپنے ایمان اور دیانت کی رُو سے اسلام کی روح اور اس کے اساسی اصولوں کے خلاف جانتا ہوں۔ میرے نزدیک ایسا مشورہ مولوی صاحب کے شایانِ شان نہیں اور وہ مسلمانانِ ہند کی گمراہی کا باعث ہو گا۔ اگر مولوی صاحب نے میری تحریروں کو پڑھنے کی کبھی تکلیف گوارا فرمائی ہے تو انھیں معلوم ہوگیا ہو گا کہ مَیں نے اپنی عمر کا نصف حصہ اسلامی قومیت اور ملّت کے اسلامی نقطۂ نظر کی تشریح و توضیح میں گزارا ہے محض اس وجہ سے کہ مجھ کو ایشیا کے لیے اور خصوصاً اسلام کے لیے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ ایک خطرۂ عظیم محسوس ہوتا تھا۔ کسی سیاسی جماعت کا پروپیگنڈا کرنا نہ میرا اس سے پہلے مقصد تھا نہ آج مقصود ہے بلکہ وہ شخص جو دین کو سیاسی پروپیگنڈے کا پردا بناتا ہے‘ میرے نزدیک لعنتی ہے۔ مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۱۲۱ تعلیقہ نمبر ۲ (۱۲۳) مارچ ۱۹۳۸ئi؎ جناب ایڈیٹر صاحب احسان۱؎،لاہور السلامُ علیکم۔ میں نے تبصرہ مولانا حسین احمد صاحب کے بیان پر شائع کیا ہے اور جو آپ کے اخبار میں شائع ہو چکا ہے اس میںاس امر کی تصریح کر دی تھی کہ اگر مولانا کا یہ ارشاد کہ ’’زمانۂ حال میں اقوام اوطان سے بنتی ہیں‘‘ محض برسبیل تذکرہ ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں اور اگر مولانا نے مسلمانانِ ہند کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ جدید نظریۂ وطنیت اختیار کریں تو دینی پہلو سے اس پر مجھ کو اعتراض ہے۔ مولوی صاحب کے اس بیان میں جو اخبار ’’انصاری‘‘ میں شائع ہوا ۔ مندرجہ ذیل الفاظ ہیں: لہٰذا اشد ضرورت ہے کہ تمام باشندگانِ ملک کو منظم کیا جائے اور ان کو ایک ہی رشتے میں منسلک کر کے کامیابی کے میدان میں گامزن بنایا جائے۔ ہندوستان کے مختلف عناصر اور متفرق ملل کے لیے کوئی رشتۂ اتحاد بجز متحدہ قومیت اورکوئی رشتہ نہیں جس کی اساس محض یہی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ان الفاظ سے تو میں نے یہی سمجھا کہ مولوی صاحب نے مسلمانانِ ہندوستان کو مشورہ دیا ہے۔ اسی بنا پر میں نے وہ مضمون۲؎ لکھاجو اخبار احسان میں شائع ہوا ہے۔ لیکن بعد میں مولوی صاحب کا ایک خط طالوتؔ صاحب کے نام آیا جس کی ایک نقل انھوں نے مجھ کو بھی ارسال کی ہے۔ اس خط میں مولانا ارشاد فرماتے ہیں: مرے محترم سر صاحب کاارشاد ہے کہ اگر بیانِ واقعہ مقصود تھا اس میں کوئی کلام نہیں اور اگر مشورہ مقصود ہے تو خلاف دیانت ہے۔ اس لیے مَیں خیال کرتا ہوں کہ پھر الفاط پر غور کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ تقریر کے لاحق و سابق پر نظر ڈال لی جائے۔ مَیں عرض کر رہا تھا کہ ’’موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘۔ یہ اس زمانے کی جاری ہونے والی نظریت اورذہینت کی خبر ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہیے۔ خبر ہے‘ انشا نہیں ہے۔ کسی ناقل نے مشورے کا ذکر بھی نہیں کیا۔ پھر اس مشورے کو نکال لینا کس قدر غلطی ہے۔ خط کے مندرجہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ مولانا اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریۂ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھ کو مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا کوئی حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا۔ مَیں نے مولانا کے ان عقیدت مندوں کے جوشِ عقیدت کی قدر کرتا ہوں جنھوں نے ایک دینی امر کی توضیح کے سائے میں پرائیویٹ خطوط اور پبلک تحریروں میں گالیاں دیں۔ خدا تعالیٰ ان کو مولانا کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ مستفید کرے۔ نیز ان کو یقین دلاتا ہوں کہ مولانا کی حمیّتِ دینی کے احترام میں مَیں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ صابرکلوروی صاحب کے مطابق یہ خط مارچ ۱۹۳۸ء کے اوائل میں تحریر کیا گیا۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۱) حواشی و تعلیقات: ۱؎ ’’احسان‘‘ لاہور سے ۹۱۹۳۴ میں جاری ہوا۔ ملک نورالٰہی اس کے ناشر اور اقبالؔ سرپرست تھے۔ اس اخبار کو مرتضیٰ احمد خان میکش‘ چراغ حسن حسرت اور مولانا انعام اللہ خان ناصر ایسے ممتاز صحافیوں کی خدمات حاصل تھیں۔ ’’احسان‘‘ فنی لحاظ سے ایک اعلیٰ اخبار تھا۔ یہ برصغیر کا پہلا اُردو اخبار تھا جس نے ٹیلی پرنٹر نصب کرایا۔ ورنہ دوسرے اُردو اخباروں کو خبررساں ایجنسیاں دستی خبریں پہنچاتی تھیں۔ مآخذ: ۱) عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر:صحافت‘ پاکستان و ہند میں‘‘ص:۴۵۶۔۴۵۷ ۲) مسکین علی حجازی‘ ڈاکٹر: ’’پنجاب میں اُردوصحافت‘‘،ص:۳۷۰۔۳۷۲ ۳) ایم۔ایس۔ناز: ’’اخبار نویسی کی مختصرترین تاریخ‘‘ص:۲۹۸۔۳۰۱ ۲؎ مضمون سے مراد’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ ہے‘ جو ۹؍مارچ ۱۹۳۸ء کے اخبار ’’احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ بنام شیخ مبارک علی تعارف: شیخ مبارک علی (۱۸۹۲ئ۔۱۹۸۳ئ) لاہور کے مشہور ناشر اور تاجر کتب ۔تعلیم سے فراغت کے بعد ریلوے اکاؤنٹس میں ملازم ہو گئے۔ ملازمت سے مستعفی ہو کر کتابوں کا کاروبار شروع کر دیا۔ جو ابتدائً چھوٹے درجے کا تھا۔ ان کی کتابوں کی دُکان لوہاری دروازے میں تھی۔ اقبالؔ نے اپنی کتاب ’’رموز‘ بیخودی‘‘ کی طباعت و اشاعت کا کام ان کے سپر کر دیا۔ انھوں نے طبع اول کی فروخت کا وقت تین مہینے مقرر کیا تھا۔ مگر تین ہی ہفتے میں مقررہ رقم اقبالؔ کو پہنچا دی۔ اس کے بعد اقبالؔ نے اپنی دوسری کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی انھیں کو منتخب کیا اور ان کی اندرون لوہاری دروازہ کی دکان پورے برعظیم میں مشہور ہو گئی۔ اقبالؔ کے علاوہ انھوں نے محمد حسین آزادؔ‘ مولاناشبلیؔ‘ اور دیگر مصنفین کی اُردو اور فارسی کتابوں کی طباعت و اشاعت بھی کی۔ دارالمصفنین اعظم گڑھ کی کتابیں بھی انھیں کے ذریعے فروخت ہوتی تھیں۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی دونوں جلدیں شیخ مبارک علی ہی کے توسط سے اہلِ ذوق تک پہنچیں۔ آخر میں انھوں نے اپنی مشہوردکان اپنی بیٹی اور داماد کے حوالے کر دی اور خود انارکلی میں پبلشرز یونائٹیڈ کا کام سنبھالا۔ مآخذ: ’’پاکستانیکا انسائیکلوپیڈیا‘ مرتبہ سید قاسم محمود‘ جلداوّل‘‘،ص: ۸۰۹ (۱۲۴) مارچ /اپریلi؎۱۹۲۳ء مکرم بندہ ۱۔ کاپی جو تیار تھی بھیج دیجیے تاکہ میں دیکھ دوں۔ ۲۔کاپی کے خالی حصے کے لیے جو شعر مَیں نے دیے تھے وہ کاپی میں لکھے گئے یا نہیں۔اگر عبدالمجید۱؎نے انھیں نقل کر لیا ہو تو وہ کاپی بھی بھیج دیں۔ ۳۔ ’’خردہ‘‘ کا مسوّدہ مجھے بھیج دیجیے کہ اس میں اور چند اشعار کا اضافہ کر دوں۔ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎زیرنظر خط کی تاریخِ تحریر صابرکلوروی صاحب نے مارچ/اپریل ۱۹۲۳ء متعین کی ہے۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘، ص:۹۱) حواشی وتعلیقات: ۱؎ برعظیم پاک و ہند کے نامور خطاط…ایمن آبادی دبستانِ نستعلیق سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والدمنشی عبدالعزیز اور دادا مولوی پیر بخش بھی خوش نویس تھے۔ عبدالمجید نے ابتدا میں خلیفہ نوراحمد سے اصلاح لی۔ اس کے بعد وہ امام ویردی اور سید احمد ایمن آبادی کی پیروی کرنے لگے۔ آخر میں انھوں نے حکیم فقیر محمد چشتی سے مشورہ کیااور دائرے بنانے میں کمال حاصل کیا۔ عبدالمجید نے الفاظ کی پیوندوں کی پراخت میں نہایت دلکش اور حسین ترامیم کیں اور یوں ایک خاص طرزِ خطاطی کے موجد بنے۔ انھوں نے اقبالؔ کے کلام کی کتابت کر کے شہرت حاصل کی۔ آخری عمر میں تصوّف کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ غلام رسول مہرؔ نے انھیں ’’پروین رقم‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ۴؍اپریل ۱۹۴۶ء کووفات پائی۔ مآخذ: ۱) محمد اسلم پروفیسر‘ ’’خفتگانِ خاکِ لاہور‘‘،ص:۱۹۶‘۱۹۷ ۲) اسلم کمال:’’اسلامی خطاطی کا ایک تعارف‘‘: ۶۴‘۶۶ ۲؎ ’’خردہ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ’’پیامِ مشرق‘‘ کی کتابت کے متعلق ہے جو پہلی بار ۱۹۲۳ء میں طبع ہوئی۔ (۱۲۵) جناب شیخ مبارک علی صاحب بانگِ درا۱؎کی طباعت وغیرہ کا بل کریمی پریس کی طرف سے میرے پاس آگیا ہے جس کو مَیں ادا کردوں گا۔ آپ اسے ادا کرنے کی زحمت گوارا نہ کریں۔ لیکن عبدالمجید صاحب کاتب کا بِل ابھی تک میرے پاس نہیں آیا۔ اگر آپ نے ادا کر دیا ہے تو بہتر۔ اگر ابھی تک ادا نہیں ہوا تو اطلاع دیجیے کہ اس سے بِل منگوا کر ادا کر دیا جائے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ لاہور۲۶؍اگست ۲۴ء حواشی و تعلیقات ۱؎ ’’بانگِ درا‘‘ اقبالؔ کا پہلا اُردو مجموعۂ کلام جو ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ (۱۲۶) مارچ/اپریلi؎۱۹۲۳ء مکرم بندہ مندرجہ ذیل کاغذ مرسل ہیں۔ (۱) پیش کش (۲) ٹائٹل پیج۔ اس پر حسب فرمایش وغیرہ نہ لکھا جائے نہ کتاب کی پُشت پر کسی اور کتاب کااشتہار دیا جائے۔ کاغذ ii؎کے ایک طرف کتاب کا نام وغیرہ ہے‘ دوسری طرف وسط میں لفظ ’’کاپی رائٹ‘‘ ہے۔ (۳)دیباچہ (۴) گزشتہ کاپی میں جو جگہ خالی رہ گئی تھی اس کے لیے اشتہار۔ مہربانی کر کے عبدالمجید سے میری طرف سے درخواست کیجیے کہ وہ اب اس کام کو ختم کر کے کہیں باہر جائے‘ اس سے پہلے نہ جائے کیونکہ اس تھوڑے سے کام کے لیے تمام کتاب میں دیرہو جائے گی۔ ایک دو دن کا کام ہے اور وہ آسانی سے ایک دو روز کے لیے اپنا سفر ملتوی کر سکتے ہیں۔ اگر ان کو روکنا نا ممکن ہوتوکیا یہ ممکن نہیں کہ پیش کش اوردیباچہ وغیرہ آپ کسیiii؎سے لکھوا لیں؟ مجھے اندیشہ ہے کہ عبدالمجید کو سفر میں زیادہ دن لگ جائیں گے اور کام رُکارہے گا۔ بہرحال مَیں یہ کام آپ پر چھوڑتا ہوں۔ اگروہ ایک دو روز کے لیے اپنا سفر ملتوی کردیں تو ان کی مہربانی ہے‘ نہیں تو جس طرح آپ مناسب سمجھیں کریں۔ باقی کاپیاں جو کل ختم ہو گئی ہوں گی ارسال کیجیے کہ مَیں ان کو دیکھ لوں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎صابرکلوروی صاحب کے نزدیک یہ خط مارچ/اپریل ۱۹۲۳ء میں لکھا گیا۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘،ص:۹۱)ii؎ انوار=کی۔iii؎ انوار=آپ اور کسی (دیکھیے:عکس) بنام وصل بلگرامی تعارف: سیّد مقبول حسین نام‘ وصل تخلص‘ بلگرام کے رہنے والے تھے۔ اپنے زمانے کی نہایت ہنگامہ پرورشخصیت گزرے ہیں۔ وصلؔ نے ابتدائًرسالہ ’’عالمگیر‘‘ نکالا پھر ۱۹۲۵ء کے آخر میں لکھنؤ سے ادبی رسالہ ’’مُرقع‘‘ کے نام سے چھاپنا چاہاتھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے مختلف ادیبوں اور شاعروں کوقلمی تعاون کے لیے لکھا۔ اقبالؔ سے فرمائش کی تھی کہ وہ سرورق کے لیے کوئی اچھا سا شعرتجویز کریں‘ اس کا ذکر اقبالؔ کے خط محررہ ۱۸؍نومبر ۱۹۲۵ء میں ہے۔ دوسرا شعر جس کا عکس وصل بلگرامی نے جنوری ۱۹۲۲ء کے ’’مرقع‘‘ میں شائع کیاتھا‘ درج ذیل ہے: ؎تاتو بیدارشوی نالہ کشیدم ورنہ عشق کاری است کہ بے آہ و فغاں نیزکنند یہ شعر ’’زبورِ عجم کے حصہ دوم میں موجود ہے۔ وصلؔ بلگرامی کی وفات تھانہ بھون میں ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۲ء کو ہوئی۔ مآخذ: ۱) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر:’’معاصرینِ اقبالؔ‘‘،ص:۱۱۹۰ ۲) ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر‘ص:۵۳۵۔۵۳۷ ۳) ماہنامہ ’’شاعر‘‘ اقبالؔ نمبر۔ جلداوّل ۱۹۸۸ء بمبئی ص:۴۷۷ (۱۲۷) لاہور ۱۸؍نومبر ۱۹۲۵ء مخدومی ‘ تسلیم یہ ایک شعر حاضر ہے۔ معلوم نہیں سرورق کے لیے موزوں ہو گا یا نہیں: ندارد عشق سامانی و لیکن تیشہ ئی دارد شگافد سینۂ کہسار و پاک از خون پرویز است۱؎ حواشی و تعلیقات:یہ شعر’’زبورعجم‘‘(کلیاتِ فارسی‘ ص:۳۵۸) میں ہے اور مصرعۂ ثانی میں ’’شگافد‘‘ کی بجائے ’’خراشد‘‘ ہے۔ ۱؎ ترجمہ عشق کے پاس سروسامان نہیں ہے مگرتیشہ تو ہے۔ وہ پہاڑوں کا سینہ چیر دیتا ہے۔ مگر خونِ پرویز سے پاک ہے۔ (۱۲۸) نومبر/دسمبرi؎۱۹۲۵ء مخدومی‘ تسلیم گفتند دِلآزار کہ پربستہ نکوتر گفتم کہ زِبند دو جہاں رستہ نکوتر گفتند زخلوت کدۂ خویش بروں آ گفتم شرر جستہ ز نا جستہ نکوتر گفتند کہ دربارۂ اُوچیزے دِگرے گو گفتم چوگل از باد صبا خستہ نکوتر۱؎ دانت کے درد سے اب افاقہ ہے۔ ہمدردی کا شکریہ قبول فرمائیے۔ٹائٹل پیج کے لیے شاید یہ شعر موزوں ہو۔ تاتوبیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ! عشق کارے ست کہ بے آہ و فغاں نیز کنند۲؎ مخلص اقبالؔ تحقیق متن: ۱؎ زیرنظر خط کی تاریخ تحریر صابرکلوروی صاحب نے متعین کی ہے۔ (اشاریۂ مکاتیب‘‘ ص:۹۱) ’’ماہِ نو‘‘ اقبال نمبر ۱۹۷۷ء ص:۳۵۰۔۳۵۲۔ حواشی تعلیقات ۱؎ ترجمہ: انھوں نے کہا کہ پَر بندھے رہنا گویا قیدِ قفس میں رکھنا زیادہ بہتر ہے کہ پھرعاشق کی دل آزاری کے اسباب کم ہوں گے۔ میں نے کہا کہ ہر دو جہاں کی قید سے آزادی زیادہ بہتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ تنہائی کے گوشے سے باہر نکل آؤ۔ میں نے کہا کہ دہکتا ہوا شرار مردہ شرارے سے زیادہ بہتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس (محبوب) کے بارے میں ذکر اذکار اس کے Exposureکے مترادف ہو گا جو ہوا سے پھول کے کھلانے کی طرح ہے) ۲؎ ترجمہ: میں نے اس لیے نالہ کیا ہے کہ تو جاگ جائے ورنہ عشق تو وہ کاروبار ہے کہ جسے لوگ بغیر نالہ وفریاد کے بھی کرتے ہیں۔ (’’زبورعجم‘‘ص:۷۱) بنام وحید احمد تعارف: وحید احمد مسعود قصبہ شیخوپورہ ضلع بدایوں(یو۔پی)کے ایک امیر گھرانے میں ۱۸؍مارچ ۱۸۹۳ء کو پیداہوئے۔ ۱۹۱۴ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے‘ لیکن پہلی جنگِ عظیم چھڑنے کے سبب بغیر کوئی ڈگری لیے واپس آگئے۔ وحید احمد تصوف پر اچھی نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے تصوف کو سید علی ہجویری داتا گنج بخش کی تعلیمات کی روشنی میں عوام کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ اقبالؔ کے نظریے کے حامی تھے کہ صوفی کو بے عمل نہیں ہونا چاہیے۔ وحیداحمد ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ بدایوں سے ایک رسالہ ’’نقیب‘‘ نکالتے تھے۔ جس میں اقبالؔ کے کلام کی اشاعت کے لیے برابر خط لکھا کرتے تھے۔ ان کی مشہور تصانیف میں: حضرت بابا فریدؒ ‘ ’سید احمد شہید‘ ’اسلام مشرق میں‘اور’ گردِ راہ‘ شامل ہیں۔ وہ شاعر بھی تھے۔ وحیدتخلص کرتے تھے۔ ۱۵؍جنوری ۱۹۷۲ء کو انتقال کیا۔ مآخذ: مظفر حسین برنی(مرتب):’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘:۱۰۷۰‘۱۰۷۱ (۱۲۹) لاہور ۴؍ستمبر۱۹۱۹ئi؎ مکرمی تسلیم ’’نقیب۱؎‘‘ کے لیے دو تین اشعار حاضر ہیں: از من اے بادِ صبا گوئی بہ دانائی فرنگ عقل تا بال کشود است گرفتار تر است برق را ایں بہ جگر میزندآں رام کند عشق از عقل فسوں پیشہ جگر دار تراست چشم جز رنگِ گل و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ درپردۂ رنگ است پدیدار تراست۲؎ مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: ۱؎ اشاریۂ مکاتیب‘ ص:۹۱ حواشی و تعلیقات: ۱؎ یہ رسالہ پہلے پہل ۱۹۱۹ء میں جاری ہوا اور کچھ عرصے کے بعد بند ہوگیا۔ ۱۹۲۱ء میں دوبارہ جاری ہوا۔ ۲؎ یہ تین اشعار ’’نقشِ فرنگ‘‘ کے عنوان سے ’’پیام مشرق‘‘ میں شامل ہیں۔ (کلیات‘ فارسی‘ ص:۳۲۱) ترجمہ: اے بادِصبا میری طرف سے دانائے فرنگ سے کہہ دینا کہ: جب سے عقل نے پَرپُرزے نکالے ہیں وہ اور بھی زیادہ گرفتار ہو گئی ہے۔ برق (بجلی) کو یہ جگر پرسہتا ہے اورعقل اسے مسخر کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو عقلِ فسوں ساز سے عشق زیادہ جیالا ہے آنکھ سوائے رنگِ گل و لالہ کے کچھ نہیں دیکھتی ورنہ جو کچھ رنگ کے پردے میں چھپا ہوا ہے وہ زیادہ ظاہر ہے۔ (۱۳۰) لاہور ۷؍ستمبر ۱۹۲۱ء مخدومی ‘ السلام علیکم آپ کا والا نامہ ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میرا خیال تھا کہ آپ کے پاس میرا کوئی اور شعر ہو گا۔ اس شعرمیں کیا رکھا ہے۔ اگر آپ کو مضمون لکھنے کی زحمت گوارا ہی کرنا ہے تو ایک رباعی حاضر کرتا ہوں۔ اس پر لکھیے اور اس شعر کو نہ چھاپیے اور اس پرمضمون لکھنے کا خیال ترک کیجیے۔ وہ رباعی مندرجہ ذیل ہے: تو اے کودک منش خود را ادب کُن مسلمان زادیٔ ترک نسب کُن برنگِ احمر و خون و رگ و پوست عرب نازد اگر‘ ترکِ عرب کُن۱؎ اس زمانے میں سب سے زیادہ بڑا دشمن اسلام اوراسلامیوں کا نسلی امتیاز و ملکی قومیت کا خیال ہے۔ پندرہ ]تیرہ لکھ کر کاٹ دیا اور اسے پندرہ بنایا[برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا۔ اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ کبھی فرصت ہوئی تو اپنے قلب کی تمام سرگزشت قلم بند کروں گا۔ جس سے مجھے یقین (ہے) بہت لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ اس دن سے جب یہ احساس مجھے ہوا آج تک برابر اپنی تحریروں میں یہ ہی خیال میرا مطمحِ نظر رہا ہے معلوم نہیں میری تحریروں نے اور لوگوں پر اثر کیا یا نہیں کیا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس خیال نے میری زندگی پر حیرت انگیز اثر کیا۔ زیادہ کیاعرض کروں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ یہ رباعی ’’پیامِ مشرق‘‘ میں شامل ہے۔ (کلیات‘ فارسی‘ ص:۲۲۳) ترجمہ: اے بچوں کا سامزاج رکھنے والے اپنی تربیت کر۔ تو مسلمان زادہ ہے تو نسب کا فخر چھوڑ دے۔ سرخ رنگ ‘ خون اور رگ و پوست پر اگر عرب ناز کرتا ہے تو عرب کو بھی چھوڑ دے۔ بنام شاہ سلیمان پھلواروی تعارف: دیکھیے خط نمبر ۳ تعلیقہ نمبر۷ (۱۳۱) لاہور‘ ۲۴؍فروری ۱۶ء مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولانا السلام علیکم آپ کا خط جو ’’خطیب‘‘ میں شائع ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ میر ی مثنوی اسرارِ خودی۱؎آپ تک نہیں پہنچی۔ ایک کاپی ارسالِ خدمت کرتا ہوں تاکہ آپ یہ اندازہ کر سکیں کہ خواجہ حسن نظامی صاحب۲؎نے جو اتہامات مجھ پر لگائے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔ آپ نے جو خط شائع کیا ہے اس کے حرف حرف سے مجھے اتفاق ہے اور مَیں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے خدا لگتی بات کہی۔ شیخ اکبر محی الدین ابنِ ۳؎عربی رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت مجھے i؎؎کوئی بدظنی نہیں بلکہ مجھے ان سے محبت ہے۔ میرے والد کو فتوحات۴؎ اور فصوص۵؎ سے کمال توغل رہا ہے اور چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ان کا نام اور ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کتابوں کا درس ہمارے گھر میں رہا گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی تاہم محفل درس میں ہر روز شریک ہوتا۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود بھی پڑھنے لگااور جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا میرا شوق اورواقفیت زیادہ ہوتی گئی۔ اس وقت میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت شیخ کی تعلیمات تعلیمِ قرآن کے مطابق نہیں ہیں اور نہ کسی تاویل و تشریح سے اس کے مطابق ہو سکتی ہیں لیکن یہ بالکل ممکن ہے کہ مَیں نے شیخ کا مفہوم غلط سمجھا۔ کئی سالوں تک میرا یہی خیال رہا ہے کہ مَیں غلطی پر ہوں گو اب میں یہ سمجھتا ہوں کہ مَیں ایک قطعی نتیجے تک پہنچ گیا ہوں لیکن اس وقت بھی مجھے اپنے خیال کے لیے کوئی ضد نہیں۔ اس واسطے بذریعہ عریضہ ہٰذا آپ کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ آپ ازراہِ عنایت و مکرمت چند اشارات تطہیر فرما دیں۔ مَیں ان اشارت کی روشنی میں فصوص اور فتوحات کو پھر دیکھوں گا اور اپنے علم و رائے میں مناسب ترمیم کر لوں گا۔ اگر آپ ایسا ارشاد فرما دیں تو مَیں مدت العمر آپ کا شکرگزار رہوں گا۔ تجلیِ ذاتی کا ذکر کرتے ہوئے شیخ اکبر فرماتے ہیں: ’’وَمَا بَعْدَھَذَاالتّٰجِلی الْااَلعَدمَ الْمَحض فَلَا تَطٰمَعْ وَلا تُحِبُّ فِیْ اِن تَرْقیْ مِنْ ھَذَہ الدَّرجَۃ مِنَ التَّجِلٖی الذّٰتِیْ‘‘اس میں شیخ نے تجلی ذاتی کو انتہائی مقام قرار دیا ہے اور اس کے بعد عدم محض حضرت مجدد نے یہ فقرہ ایک مکتوب میں نقل کیا ہے۔ میری کتابیں اس وقت لاہور میں موجود نہیں ہیں کہ صفحہ و مقام کا پتا دے سکتا۔ میرا یہ ہرگز عقیدہ نہیں کہ جن بزرگوں کا آپ نے ذکر کیا ہے انھوں نے قرمطی تحریک۷؎ سے رافاضہ کیا۔ یہ خواجہ حسن نظامی کا بہتان ہے۔ بعض صوفیہ کی تحریروں اورعلماے قرمطی کی تحریروں میں مماثلت ہونا اور بات ہے۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ مَیں نے اپنی کسی تحریر میں کوئی سوالات نہیں کیے۔ خواجہ صاحب نے خود یہ تنقیحات قائم کی ہیں جو ان کے خیال میں میری تحریر سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بات دیانت کے خلاف ہے کہ ان سوالوں کو جو خواجہ صاحب نے آپ کی خدمت میں ارسال کیے میری طرف منسوب کیاجائے اور ان کا نام‘ ’’ڈاکٹر اقبالؔ کے آٹھ سوال‘‘ رکھا جائے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اس عریضے کے جواب کاانتظار رہے گا۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: زیرنظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہورکی لائبریری میں موجود ہے۔i؎ انوار=نسبت کوئی۔ حواشی وتعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۳ تعلیقہ نمبر ۲ ۲؎ دیکھیے خط نمبر’’۲‘‘ کا تعارف ۳؎ شیخ محی الدین ابنِ عربی (۱۱۶۵ء ۔۱۱۴۰) مرسیہ (اندلس) میں پیدا ہوئے۔ تیس سال تک اشبیلیہ میں مشہورعلما اور صوفیا سے ظاہر اور باطنی علوم کی تحصیل کرتے رہے۔ زُہد کی طرف میلان بڑھا تو حج کے ارادے سے حجاز روانہ ہو گئے۔ پھر بیت المقدس ‘ بغداد اور حلب بھی گئے۔ بالآخر دمشق میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ دمشق ہی میں وفات پائی اور جبل قاسیون میں دفن ہوئے۔ ابنِ عربی نے تصوف کی تحریک کوآگے بڑھایا۔ ان کی دو تصانیف ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ نے تحریک تصوف پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ابنِ عربی کے نظریہ وحدت الوجود نے بڑے بڑے صوفیا کو متاثر کیا۔ یہاں تک مولانا روم بھی وحدت الوجود کے قائل و معترف نظر آتے ہیں۔ اقبالؔ نے ابنِ عربی کے فلسفۂ و حدت الوجود کی سخت مخالفت کی۔ ان کے خیال میں اس فلسفے نے قوم کو خودی سے نابلد کر کے ذوق عمل سے محروم کر دیا ہے۔ اقبالؔ نے خودی کا فلسفہ دے کر ذوقِ عمل کو بیدار کیا۔ ابنِ عربی بہت متنازعہ فیہ شخصیت ہیں۔ ایک گروہ انھیں ولی کامل مانتا ہے اور دوسرے گروہ کے نزدیک وہ ملحد ہیں۔ مآخذ: ۱) اعجاز الحق قدوسی: ’’اقبال کے محبوب صوفیہ‘‘ ص:۵۱۹‘۵۲۰ ۲) عابد علی عابد‘ سیّد: تلمیحاتِ اقبال‘‘ ص:۱۵۱ ۳) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد: ۱‘ص:۶۰۵۔۶۱۲ ۴) محسن جہانگیری‘ ڈاکٹر: ’’محی الدین ابنِ عربی‘ حیات و آثار‘‘،احمد جاوید‘ سہیل عمر (مترجم)ص:۱۵۔۸۳ ۴؎ فتوحات: پورا نام: الفتوحات المکیہ فی معرفۃ الاسرار لمالکیہ و الملکیۃ…ابنِ عربی کی تصنیف‘ اس کتاب کے متعلق ابنِ عربی فرماتے ہیں کہ جو حقائق و معارف قاری کے لیے بطور امانت درج کیے ہیں‘ وہ اکثر خانہ کعبہ کے طواف کرنے کے وقت یاحرم شریف میں بحالتِ مراقبہ خدا ے تعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہیں۔ ’’فتوحاتِ مکیہ‘‘ میں ایک اور جگہ تحریر فرمایا: ’’ہم پر اس کتاب کی تکمیل کے لیے خداے تعالیٰ کا تاکیدی حکم وارد ہوا‘ اس وجہ سے ہم اس کتاب کی تصنیف میں مشغول ہو گئے‘ اور دوسرے امور کے انجام دینے سے رک گئے‘‘۔ مآخذ: ۱) اعجازالحق قدوسی: ’’اقبال کے محبوب صوفیہ‘‘،ص:۵۳۱‘۵۳۲ ۲) اُردو دائرہ معارف اسلامیہ‘ جلد:۱‘ص:۶۰۵۔۶۱۲ ۵؎ فصوص الحکم: علمِ تصوف میں شیخ محی الدین ابنِ عربی کی تصنیف۔ قرآنِ کریم میں انبیا کے حالات و کوائف کے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے‘ ابنِ عربی نے مسائل توحید اور مسائلِ تصوف سمجھانے کی کوشش ہے۔ یہ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ ابنِ عربی نے مکاشفے میں دیکھا کہ خیرالبشرؐ نے یہ کتاب ان کو دی ہے اور اس کے ظاہر کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ مولانااشرف علی تھانوی نے اس کے ایک باب کی شرح بھی لکھی ہے‘ جس کا نام ’’خصوص الکلم فی حل خصوص الحکم‘‘ ہے۔ تاہم اقبالؔ ’’فصوص الحکم‘‘ کو الحاد و زندقہ‘‘ قرار دیتے ہیں اور اس پر مفصل لکھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔(بنام سراج الدین پال‘ اقبالنامہ‘ اول‘ص:۴۴) ۲؎ اس تجلی کے بعد عدم محض کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تجلی ذاتی کے مرتبہ سے اوپر جانے کی خواہش ہو یااس کی طمع کی جائے۔ ۷؎ اسمٰعیلی خیالات کی سب سے پہلی جماعت جس کا ذکر پاک و ہند کی تاریخ میں ملتا ہے‘ قرامطہ ہے۔ جن کے داعی نویں صدی عیسوی ہی میں قاہرہ ‘ عراق‘ حضرموت اور یمن سے مغربی پاکستان میں آنے شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے سندھ اور مغربی پنجاب میں بڑا اقتدار حاصل کر لیا۔ اہلِ سنت و الجماعت سے ان کے شدید مذہبی اور سیاسی اختلافات تھے۔ تیرھویں صدی عیسوی کے وسط کے بعد قرامطہ کا ذکر ہندوستانی تواریخ میں نہیں ملتا‘ لیکن ان کے جانشین خوجے اور بوہرے موجود ہیں‘ جن کی اہمیت ان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ مآخذ: محمداکرام ‘ شیخ : ’’آبِ کوثر‘‘ص:۳۳۸‘۳۳۹ (۱۳۲) لاہور ۹؍مارچ۱۶ء مخدوم ومکرم حضرت قبلہ مولانا السلام علیکم جناب کا والا نامہ ملا جس کو پڑھ کر مجھے بہت اطمینان ہوا۔ مجھے اس کایقین تھا کہ آپ کومثنوی پرکوئی اعتراض نہ ہو گا کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کمالِ روحانی کے ساتھ علم و فضل سے آراستہ کیا ہے۔ مَیں نے خواجہ حسن نظامی کو بھی لکھاتھا کہ مثنوی سے اختلاف نہ کیجیے‘ دیباچے میں جوبحث ہے اس پر لکھیے۔ مگر افسوس ہے کہ انھوں نے آج تک ایک حرف بھی اس کے متعلق نہیں لکھا۔ آپ کی تحریر سے مجھے یقینا فائدہ ہو گا مگر میری استدعا ہے کہ مثنوی کے متعلق بھی جوخیال آپ نے خط میں ظاہر فرمایا ہے اس مضمون میں ظاہر فرمائیے کہ جو غلط فہمی خواجہ حسن نظامی کے مضامین سے پیدا ہو گئی ہے وہ دور ہو جائے۔ دیباچے کی بحث ایک علیحدہ بحث ہے اور وحدۃ الوجود کا مسئلہ اس میں ضمناً آگیا ہے۔ اس مئلے کے متعلق جو کہ میرا خیال ہے وہ مَیں نے پہلے خط میں عرض کردیا تھا۔ فارسی شعرا نے جو تعبیر اس مسئلے کی کی ہے اور جو جو نتائج اس سے پیدا کیے ہیں ان پر مجھے سخت اعتراض ہے۔ یہ تعبیر مجھے نہ صرف عقائدِ اسلامیہ کی مخالف معلوم ہوتی ہے بلکہ عام اخلاقی اعتبار سے بھی اقوامِ اسلامیہ کے لیے مضر ہے۔ یہی تصوف عوام کا ہے اور شیخ علی حزیں۱؎نے بھی اسی کو مدِنظر رکھ کر کہا تھا کہ ’’تصوّف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ لیکن حقیقی اسلامی تصوّف کا مَیں کیوں کر مخالف ہوسکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیۂ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ مَیں نے تصوّف کرّات سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صداے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیرخواہ ہے نہ(کہ) مخالف۔ انھیں غیر اسلامی عناصر کی وجہ سے ہی مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے اور یہ حملہ انھوں نے حقیقت میں مذہبِ اسلام پر کیا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تصوف اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے جس سے معاملہ صاف ہو جائے اور غیراسلامی عناصر کی تقطیع ہو جائے۔ سلاسلِ تصوف کی تاریخی تنقید بھی ضروری ہے اور زمانۂ حال کا علم النفس‘جو مسالہ‘ تصوف پر حملہ کرنے کے لیے تیار کررہا ہے اس کا پیشتر سے ہی علاج ہونا ضروری ہے۔ میں نے اس پر کچھ لکھنا۲؎ شروع کیا ہے مگر میری بساط کچھ نہیں۔ یہ کام اصل میں کسی اور کے بس کا ہے۔ مَیں صرف اس قدر کام کر سکوں گا کہ جدید مذاق کے مطابق تنقید کی راہ دکھلا دوں۔ زیادہ تحقیق و تدقیق مجھ سے زیادہ واقف کار لوگوں کا کام ہے۔ آپ کے مکتوبات نہایت دلچسپ ہیں اور حفاظت سے رکھنے کے قابل‘ نہ کہ ردّی کی ٹوکری میں ڈالنے کے قابل‘ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔ میں نے ان کو خود پڑھا ہے اور بیوی کو پڑھنے کے لیے دیا ہے۔ یہ اعتراف ضرور کرتا ہوں کہ بعض بعض مقامات سے مجھے اختلاف ہے اور یہ سب مقامات مسئلہ وحدت الوجود سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب آپ اپنے مضمون میں زیادہ تشریح سے کام لیں گے تو ممکن ہے کہ مجھے اختلاف نہ رہے کیونکہ مکتوبات میں ایک آدھ جگہ مسئلہ مذکورہ کی ایک ایسی تعبیر بھی ہے جس سے مجھ کو مطلق اختلاف نہیں اور نہ کسی مسلمان کو ہوسکتا ہے۔ امید ہے کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ لاہور حواشی وتعلیقات ۱؎ شیخ علی حزیں: یکم اکتوبر ۱۷۰۱ء کو اصفہان میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۳۳ء میں ہندوستان آئے۔ ایران سے آنے والی آخری کھیپ کے شاعر تھے۔ کلیات چار دواوین پر مشتمل ہے‘ جس میں قصیدہ‘ غزل‘ رباعی و مثنوی سب کچھ شامل ہے۔ عربی میں بھی شعر کہتے تھے۔ اگرچہ یہ کلام بہت تھوڑا ہے۔ فارسی میں اپنی سوانح عمری ’’سوانح عمری شیخ علی حزیں‘‘ کے نام سے لکھی جو ’’کُلّیاتِ حزیں‘‘ میں چھپی ہے اور علیحدہ بھی شائع ہو چکی ہے۔ ۱۷۶۶ء میں انتقال کیا‘ ان کا مزار بنارس میں ہے۔ شیخ علی حزیں نے برصغیر کے شعرا اور ادبا کے بارے میں بڑاتعصب دکھایا اور یہاں کے لوگوں کے لہجے اور سُبک ہندی کا انھوں نے استہزا کیا ہے۔ اقبالؔ نے مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت اوّل کے دیباچے میں حزیںکے معروف قول‘ تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ پر انتقاد کیا ہے۔ ’’زبورعجم‘‘ کی ابتدا میں حزیں کی تضمین بھی ملتی ہے۔ مآخذ: محمد ریاض ‘ ڈاکٹر :’’اقبالؔ اور فارسی شعرا‘‘ ص:۳۰۵‘ ۳۰۶ ۲؎ اقبالؔ نے تصوف کی تاریخ کے ایک دوابواب لکھ لیے تھے اور باقی ابواب کے لیے نوٹس لے لیے تھے لیکن یہ کام مکمل نہ کر سکے… ڈاکٹر صابر کلوروی نے ان نامکمل ابواب کو ’’تاریخ تصوف‘‘ کے نام سے حواشی و تعلیقات کے ساتھ مرتب کر کے ۱۹۸۵ء میں چھاپ دیا۔ ان ابواب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبالؔ تصوف کی تاریخ اور تنقید کے بارے میں کس انداز میں لکھنا چاہتے تھے اور اس مسئلے کی افادیت سے کس حد تک باخبر تھے۔ بنام شیخ عطاء اللہ تعارف: شیخ عطاء اللہ ۱۸۵۷ء کے قریب گجرات کی قانون گو فیملی میں پیدا ہوئے۔ گجرات اورعلی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ چیف کورٹ پنجاب اور چیف کورٹ کشمیر میں درجہ اول کے پلیڈر تھے۔ ریاست پونچھ و کشمیر میں جج اور گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ جوانی سے ہی دینی علوم اورصالح اعمال کی طرف راغب تھے۔ اکابر علما سے صحبتیں رہیں۔ نوجوانی میں مولانا عبیداللہ غزنوی کے ہاتھ پر شرک سے مجتنب رہنے کی بیعیت کی۔ احمداللہ امرتسری سے حدیث پڑھی۔ شیخ صاحب گجرات میں ’’اہل قرآن گروہ‘‘ کے سرخیل تھے۔ بات بات میں قرآن سے استناد کرتے تھے۔ آپ نے ایک لغت قرآنِ پاک مرتب کی تھی‘ جس کے متعلق ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: ایسی لغتِ قرآن سابقہ تیرہ صدیوں میں نہیں لکھی گئی‘‘۔ مگر افسوس اس کا مسوّدہ علاّمہ عرشی سے تقسیم کے ہنگاموں میں ضائع ہو گیا۔ آپ نے ۱۹۰۷ء میں ایک کتاب ’’شہادت الفرقان علی جمع القرآن‘‘ لکھی تھی۔ آپ گجرات میں سرسید کے ساتھی اور نظریاتی پیروکار تھے۔ اقبالؔ اور شیخ صاحب کی پہلی ملاقات بیسویں صدی کے ابتدائی چند سالوں میں ہوئی جب اقبالؔ گجرات آیا کرتے تھے۔ ان کا شیخ صاحب سے تعارف انجمن تعلیم القرآن کے حوالے سے ہوا۔ شیخ صاحب لاہور چیف کورٹس میں اپنے پیشہ وارانہ امور کے سلسلے میں حاضر ہوتے تو اقبالؔ سے بھی ملاقات کرتے۔ شیخ صاحب نے ۱۹۳۹ء میں انتقال کیا اور گجرات میں دفن کیے گئے۔ مآخذ: ۱) رسالہ’’قانون گو‘‘ لاہور ،دسمبر ۱۹۶۶ء ‘ ص:۲۵‘۲۶ ۲) دیباچہ :’’شہادت الفرقان علیٰ جمع القرآن‘‘ از علاّمہ عرشی‘ص:۴۔۹ ۳) منیر احمد سلیج ’’خفتگانِ خاک گجرات‘‘،ص:۱۳۵ (۱۳۳) از لاہور مخدوم و مکرم جناب قبلہ شیخ صاحب السلام علیکم آپ کی تصنیف شہادت الفرقان علیٰ جمع القرآن۱؎کئی روز ہوئے مجھے شیخ عتیق۲؎اللہ صاحب سے ملی تھی۔ میں عرصے سے آپ کاi؎تحریریii؎شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ عدیم الفرصت رہا۔ معاف کیجیے گا۔ یہ چھوٹا سا iii؎ رسالہ نہایت لاجواب ہے اور مَیں اس کے طرز استدلال کو نہایت پسند کرتا ہوں۔ آپ کی محنت واقعی داد کے قابل ہے۔ اور آپ اس بات کے لیے تحسین کے مستحق ہیں کہ قانونی مشاغل میں دینی خدمات کا موقع بھی نکال لیتے ہیں۔ خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ یورپ میں اس مضمون پر تحقیق ہوئی اور ہو رہی ہےiv؎۔ خصوصاً علماے جرمنی کے درمیان ایک شخص موسوم بہ خان کریمر۳؎نے جرمن زبان میں ایک مبسوط کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ لکھی ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ کبھی فرصت ملے تو اسکے بعض حصص کا ترجمہ اُردو میں کر ڈالوں۔ کتاب کاانداز عالمانہ اور منصفانہ ہے اگرچہ مجموعی لحاظ سے اس کا مقصد ہماری آرا اور عقائد کے خلاف ہے۔ میرا مقصد ترجمے سے صرف یہ ہے کہ ہمارے علما کو یورپ والوں کے طرزِ استدلال و تحقیق معلوم ہو۔ زیادہ کیاعرض کروں۔ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ والسلامv؎ محمدؐاقبالؔ از لاہورvi؎انارکلی ۱۰؍اپریلvii؎۰۹ء تحقیقِ متن: زیرِ نظر خط کا عکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔i؎ انوار=کی۔ ii؎ انوار=تحریر کا۔ iii؎انوار=چھوٹا رسالہiv؎ انوار=ہیں۔v؎انوار=ادا کرتا ہوں۔vi؎انوار=محمدؐاقبالؔ۔ vii؎انوار=تاریخِ تحریر خط کے آغاز میں درج ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ ۱۹۰۷ء میں شائع ہوئی۔ اس میں قرآنی آیات سے ثابت کیاگیا ہے کہ (۱) کلماتِ وحی کی جمع و ترتیب کتاب کی شکل میں انبیاء کی سنتِ قدیم ہے۔ (۲) نزولِ قرآن کے وقت کاغذ اورکتابت کا رواج جاری تھا۔ (۳)قرآن کے نزدیک تحریروکتابت ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ (۴) نزولِ قرآن کے دوران میں مومنوں‘مخالفوں‘ معترضوں کی زبان سے قرآن کے بصورتِ کتاب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ (۵) وحی قرآنی کی کتابت ایک جماعتِ صالحہ کے سپرد تھی۔ (۶) قرآنی الفاظ نزول کے وقت ہی لکھ کر شاملِ کتاب کیے جاتے تھے۔ (۷)حفاظتِ قرآن کے متعلق مزید متفرق دلائل (۸) قرآن سے متعلق صحابہ کرامؓ کی خدمات (۹) قرآن ایک کامل و کافی کتاب ہے۔ کتاب ’’شہادت الفرقان علیٰ جمع القرآن‘‘ بعدازیں ادارہ طلوعِ اسلام‘ لاہور سے علاّمہ عرشی کے دیباچے کے ساتھ شائع ہوئی۔ ۲؎ شیخ عتیق اللہ ‘ شیخ عطاء اللہ کے صاحبزادے ‘ جو لاہور میں بسلسلہ کاروبار سکونت پذیر تھے۔ ۳؎ فان کریمر:(۱۸۲۸ئ۔۱۸۸۹ئ) جرمن مستشرق ‘ وزرا میں سے تھا۔ ویانا میں پیدا ہوا۔ وہیں تعلیم پائی۔ مصر اور شام میں بارہا سفر کیے اور عربی زبان سیکھی۔ مصر میں قنصل بھی مقرر ہوا‘ پھر ۱۸۷۰ء میں بیروت میں رہا۔ یہاں سے واپس ویانا آیا اور یہاں کا وزیرِخارجہ بنایا گیا۔ دوسرے محکموں میں بھی وزیر رہا۔ اس کی تقریباً ۲۰کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں ’’کتاب المغازی‘‘، ’’للواقدی‘‘، الاحکام السلطانیہ‘‘، للماوردی‘‘،القصیدہ الحمیریہ‘‘، لِنَسوان‘‘ اور الاستبصارفی عجائب الامصار‘‘ وغیرہ۔ کریمر نے جرمن زبان میں اسلام اور اسلامی ثقافت پر بھی لکھا ہے۔ اس کی کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ بہت مشہور ہے۔(مآخذ: ’’المستشرقون‘‘ ص:۱۶۷) (۱۳۴) لاہور ۶؍جنوری ۲۲ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ شیخ صاحب السلام علیکم۔ والانامہ ملا۔ جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اگرچہ نمایشی چیزوں سے دل گریز کرتا ہے اور میرے قلب کی کیفیت یہ ہے کہ دِلم بہ ہیچ تسلّی نمی شود حاذق بہار دیدم گُل دیدم و خزاں دیدم۱؎ بوجہ تعلقاتِ دیرینہ آپ کے خط نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا جس کے لیے مَیں آپ کا نہایت شکرگزار ہوں۔ حضرت قبلہ گاہی کی خدمت میں آپ کی مبارکباد پہنچا دوں گا۔ عزیز عتیق اللہ قریباً ہرروز ملتا ہے۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا اور زاویہ نشینی کی وجہ سے قرآن کریم پر غوروخوض کرنے ]کا[بہتر موقع آپ کو ملتا ہو گا۔ حواشی وتعلقیات :۱؎ ترجمہ: حاذقؔ گیلانی کا شعر ہے۔ حاذقؔ میرا دل کسی چیز سے تسلی نہیں پاتا‘ بہار بھی دیکھی‘ پھول بھی دیکھ لیے‘ خزاں بھی دیکھ لی۔ حکیم کمال الدین حاذقؔ بن حکیم ہمام گیلانی فتح پور میں پیدا ہوا۔ عہدِجہانگیری میں ممتاز منصب ملا۔ عہد شاہجہانی میں والد کی طرح والیِ توران امام قلی خان کی خدمت میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ بعدازاں بارگاہ بادشاہی میں لوٹا اور سہ ہزاری کا منصب پایا۔ آخری عمر میں دارالحکومت آگرہ میں گوشہ نشیں ہو گیا اور یہیں ۱۶۵۷ء میں وفات پائی۔ صاحبِ ’’شمعِ انجمن‘‘ نے لکھا ہے کہ حکیم حاذقؔ فن کا واقف اور سخن کا نبض شناس تھا۔ (مآخذ: احمد علوی سندیلوی (مصنف)‘ محمد باقر‘ ڈاکٹر (مرتب): ’’مخزن الغرائب‘‘، ادارہ تحقیقاتِ دانشگاہِ پنجاب لاہور۔ بنام میاں عبدالرشید تعارف : میاں عبدالرشید ابنِ میاں امام دین یکم جنوری ۱۹۱۵ء کو ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے بی۔اے کیا۔ پنجاب اسمبلی میں رپورٹر رہے اور ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں تاحیات کالم’’نوربصیرت‘‘ لکھتے رہے۔ اہم تصانیف میں اسلام اور تعمیرانسانیت‘ سیفِ کشمیر‘ شیرہ شاہ سوری‘ زندگی کاراستہ (ترجمہ)‘ پنجاب کے لوک گیت ‘Islam in Indo-Pak Sub-Continent ‘ ماہنامہ ’’حیات‘‘ اور ’’جاوداں‘‘ لاہور کے ۱۹۶۱ئ‘ ۱۹۶۷ء میں مدیر رہے۔ ۱۶؍ستمبر ۱۹۹۱ء میں فوت ہوئے۔ مآخذ: زاہد حسین انجم ’’ہمارے اہل قلم‘‘ ص:۳۳۳۔۳۳۴ (۱۳۵) جونi؎۱۹۳۶ء آپ کے خط کے جواب کے لیے ایک دفتر چاہیے جو مَیں لکھنے سے قاصر ہوں۔ دوسرا زمانۂ حال کے فلسفہ اور سوشل حالات کا بغور مطالعہ ضروری ہے جس کے لیے چند برسوں کی ضرورت۱؎ہے۔ آپ کے سوالات ویسے ہی ٹیکنیکل ہیں جیسے ریاضی کے مسائل جس کو بغیر خاص تربیت و تعلیم کے سمجھنا مشکل ہے۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ میاں عبدالرشید نے یہ خط ۸؍جون ۱۹۳۶ء کو لکھا تھا‘ لہٰذا زیرِ نظر خط کی تاریخِ تحریر صابرکلوروی صاحب کے نزدیک ۹؍تا ۱۴؍جون ۱۹۳۶ء ہے۔ (’’اشاریۂ مکاتیب‘‘ص:۹۱) حواشی وتعلیقات: ۱؎ میاں عبدالرشید‘ جنھوں نے اپنے خط میں کچھ فلسفیانہ شکوک کا اظہار کیا تھا‘ اقبالؔ نے اسی خط پر جواب لکھ کر انھیں واپس بھیج دیا تھا۔ (دیکھیے عکس) (۱۳۶) لاہور ۲۱؍اگست ۳۶ء جنابِ من۔ آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میں خوش ہوں کہ آپ کے شکوک رفع ہوئے۔ زیادہ تدبر سے اور باتیں معلوم ہوں گی۔ آپ کے دوست جب چاہیں تشریف لائیں‘ میں ہمیشہ گھر پر ہوتا ہوں‘ بوجہ علالت باہر بہت کم جاتا ہوں پارلیمنٹری۱؎بورڈ کا کام زیادہ تیزی سے ستمبر کے بعد شروع ہو گا جب کہ ان لوگوں (کی) درخواستیں نامزدگی کے لیے وصول ہو جائیں گی جو بورڈ کے ٹکٹ پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ نامزدگی درخواست پر ہوتی ہے بغیر اس کے نہیں کی جاتی۔ بورڈ کا اجلاس ۲۳؍اگست کو ہونے والا ہے۔ اس میں نامزدگی کے لیے درخواستیں وصول ہونے کی آخری تاریخ مقرر ہو گی۔ مَیں نے علالت کی بنا پر استعفا دیا تھا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ تمام امور سوچ سکوں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ آل انڈیا مسلم لیگ نے ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک ’’سنٹرل پارلیمنٹری بورڈ‘‘ اور مختلف صوبوں میں پروانشل پارلیمنٹری بورڈ بنائے۔ پنجاب میں ایک بورڈ اقبالؔ کی صدارت میں بنا۔ (مآخذ: محمد رفیق افضل(مرتب) گفتارِ اقبالؔ‘‘ ص:۲۰۲۔۲۰۶) بنام سید عبدالواحدمعینی تعارف: ان کا سلسلۂ نسب خواجہ معین الدین اجمیری سے ملتا ہے۔ اسی نسبت سے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ معینی کا اضافہ کیا۔ ۲۰؍جنوری ۱۸۹۸ء کو اجمیر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی‘ پھر وہیں گورنمنٹ کالج سے بی۔ایس۔ سی کیا۔ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۳۰ء تک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رہے۔ حکومت نے اسکالرشپ پر ان کو آکسفورڈ یونی ورسٹی بھیجا‘ جہاں سے انھوں نے ۱۹۳۳ء میں نباتات پر ڈگری لی۔ لندن سے واپس آ کر انڈین فارن سروس میں ملازمت کی۔ کچھ عرصہ سی پی میں گزارا‘ پھر حیدرآباد جا کر ناظم جنگلات ہو گئے۔ یہ زمانہ ان کی اقبالؔ شناسی کا تھا۔ اقبالؔ سے مختلف امورکے سلسلے میں خط کتابت ہوتی رہی۔ اقبالؔ کی وفات کے بعد معینی صاحب کی جو کتاب منظر عام پر آئی‘ اس کا موضوع اقبالؔ اور اس کا فن تھا۔ دیگر کتب میں ’’باقیاتِ اقبال‘‘ "Thoughts and Reflection of Iqbal" ’’نقش اقبال‘‘ اور ’’مقالاتِ اقبال‘‘ شامل ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ ۱۹۵۲ء میں اقوام متحدہ کے مشیرِجنگلات ہوئے‘ ایک طویل عرصہ روم ‘ قاہرہ‘ افغانستان اور ترکی میں گزارا۔ ۱۹۵۷ء میں وظیفے پر ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ پھر یورپ جا کر مختلف ملکوں میں اقبالؔ کے پیغام کو عام کیا۔ ۱۹۶۳ء میں پاکستان واپس آکر کراچی میں اقامت گزیں ہو گئے۔ ۱۹۷۰ء میں اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ۳؍مارچ ۱۹۸۰ء کو کراچی میں وفات پائی۔(مآخذ: عبدالرؤف: رجالِ اقبالؔ‘‘ ص:۴۵۷‘۴۵۹) (۱۳۷) ۱۲؍ستمبر۳۴ء جنابِ من۔ السلام علیکم آپ کا والا نامہ مل گیا ہے جس کے لیے شکریہ قبول کیجیے۔ میں ابھی تک علیل ہوں۔ یونانی دوا کے استعمال سے صحتِ عامہ بہت اچھی ہو گئی ہے مگر آواز ۱؎ پر ابھی کوئی نمایاں اثر نہیں ہوا۔ دعا فرمائیے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ گلے کی تکلیف کا آغاز ۱۰؍جنوری ۱۹۳۴ء کو عیدالفطر کے دن سے سویوں پر دہی ڈال کر کھانے سے ہوا۔ پہلے انفلوئنزا ہوا اور پھر کھانسی۔ علاج کیا گیا۔ چند دنوں بعد انفلوئنزا اور کھانسی کی شکایت تو دور ہو گئی لیکن گلا بیٹھ گیا اور ایلوپیتھک‘ یونانی اور ریڈیائی علاج کے باوجود یہ تکلیف رفع نہ ہوئی۔ یہ عارضہ آخری دم تک رہا‘ جس کے نتیجے میں کھل کر یا بلند آواز سے بول نہ سکتے تھے۔ مآخذ: جاویداقبال ‘ڈاکٹر: ’’زندہ رُود…حیاتِ اقبال کا اختتامی دور‘‘، ص:۵۳۶۔۵۳۹ ٭٭٭ (۱۳۸) جناب من۔ تسلیم مَیں اکتوبر میں لاہور ہی میں حاضر رہوں گا سوائے ۲۵؍ ۲۶؍ ۲۷؍ اکتوبر کے کہ ان ایام میں مولانا حالیؔ۱؎ مرحوم کی سنٹزی پانی پت میں ہو گی۔ وہاں جانے کاوعدہ ہے۔ صحت نسبتاً اچھی ہے۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ لاہور۱۶؍ستمبر۳۵ء افسوس کہ پروفیسر نکلسن۲؎ والے خط کی کوئی کاپی میرے پاس موجود نہیں۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ مولانا حالیؔ ۱۸۳۷ء میں پانی پت کے محلہ انصار میں ایزدبخش انصاری کے ہاں پیدا ہوئے۔ حالیؔ کی والدہ سیدّانی تھیں اوروالد کا شجرۂ نسبت حضرت ابو ایوب انصاری سے جا ملتا ہے۔ حالیؔ نو برس کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ حالیؔ نے قاری حافظ ممتاز حسین سے قرآن شریف پڑھا اور قرآن حفظ کیا۔ فارسی کی تعلیم سیّد جعفر علی سے اور عربی کی تعلیم حاجی ابراہیم حسین سے حاصل کی۔ سترہ سال کی عمر میں شادی ہوئی لیکن علم کی پیاس بجھانے کے لیے دِلّی آگئے۔ مولوی نوازش علی کے علاوہ دلی کے زمانۂ قیام میں انھوں نے مولوی فیض الحسنؔ‘ مولوی امیر احمد اور شمس العلما سیّد نذیرحسین کے درس سے بھی استفادہ کیا۔ اسی زمانے میں غالبؔ سے ملاقات ہوئی اورغالبؔ کی ہمت افزائی کی بنا پر انھوں نے شعرگوئی کی تھوڑی بہت مشق جاری رکھی‘ اس زمانے میں خستہؔ تخلص کرتے تھے۔ حالیؔ ۱۸۵۵ء میں پانی پت واپس آگئے۔ ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ فرو ہونے پر دلی آئے جہاں ان کی ملاقات نواب مصطفی خان شیفتہؔ سے ہو گئی‘ انھوں نے حالیؔ کو جہانگیر آباد بلا کر اپنے بچوں کی اتالیقی ان کے سپرد کر دی۔ حالیؔ نے آٹھ سال جہانگیر آباد میں گزارے۔ ۱۸۶۹ء میں شیفتہؔ کے انتقال کے بعد حالیؔ کو لاہورمیں پنجاب گورنمٹ بک ڈپو میں جگہ مل گئی۔ وہ چار برس تک لاہورمیں انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی اُردو کتابوں پر نظرثانی کرتے رہے۔ محمد حسین آزادؔ نے ۱۸۷۴ء میں ایک نئے قسم کے مشاعرے کی بنیاد ڈالی جس میں طرح مصرع کے بجائے شاعروں کو کوئی موضوع طبع آزمائی کے لیے دیا جاتا تھا‘ حالیؔ نے اس کے چار جلسوں کے لیے چار مسلسل نظمیں یا مثنویاں لکھیں: برکھا رُت‘ اُمید‘ تعصب و انصاف اور حبِ وطن… لاہور میں چار سال کے قیام کے بعد دلی میں اینگلو عربک اسکول میں مدرس ہو گئے۔ سرسید سے حالیؔ کی ملاقات انھیں قومی زندگی کی طرف لائی اور اس جذبے کے تحت انھوں نے ’’مسدسِ حالیؔ‘‘ لکھی۔ ۱۹۰۴ء میں حکومت نے انھیں شمس العلما کا خطاب دیا‘ اسی سال ان کو انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور وہ پیری اور نقاہت کے باوجود اس میں شریک ہوئے۔ اقبالؔ کی نظم ’’تصویرِ درد‘‘ کا ایک شعر پسند کر کے مولانا نے انجمن کو دس روپے کا نوٹ عنایت فرمایا اوراس طرح اقبالؔ کی حوصلہ افزائی کی لیکن جب خود ان کے نظم پڑھنے کی باری آئی تو ضعفِ پیری کی وجہ سے ان کی آواز لوگوں تک نہ پہنچ سکی۔ شیخ عبدالقادر نے مجمع کو خاموش کیااور کہا کہ آپ لوگ مولانا حالیؔ کی زبان سے جو سنا جائے سن لیجیے‘ بعد میں یہی نظم اقبالؔ پڑھ کر سنائیں گے۔ اقبال ؔحالیؔ کی نظم سنانے سے پہلے ایک فی البدیہہ رباعی پڑھی۔ مشہور زمانے میں ہے نام حالیؔ معمورمئے حق سے ہے جامِ حالیؔ مَیں کشورِ شعر کا نبی ہوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلامِ حالی ’’بانگ درا‘‘ کے اس شعر میں بھی اقبالؔ‘ حالیؔ کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں: اٹھ گئے ساقی جو تھے‘ میخانہ خالی رہ گیا یادگارِ بزمِ دہلی ایک حالیؔ رہ گیا (کلیات‘ اُردو‘ص:۹۰) حالی کی اہم تصانیف میں: مقدمہ شعروشاعری‘ یادگار غالبؔ‘ حیاتِ سعدی‘ حیاتِ جاوید‘ مسدس مدّوجزر اسلام شامل ہیں۔ ۱۹۱۴ء میں وفات پائی۔ مآخذ: ۱) صالحہ عابد حسین۔ یادگارِ حالیؔ‘ص:۲۵۔۷۴ ۲) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر: معاصرین اقبالؔ‘ ص:۱۹۵ ۲؎ NICHOLSON, REYONLD, ALLEYNE (۱۸۶۸ئ۔۱۹۴۵ئ): ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۸۸۸ء میں ٹرینٹی کالج‘ کیمبرج میں داخلہ لیا۔ مشرقی زبانوں میں دلچسپی اس کواپنے دادا جان نکلسن کے کتب خانے سے پیدا ہوئی۔ جو انجیل کے اسکالر تھے۔ عربی و فارسی کے مخطوطات اسے ان ہی سے ملے تھے۔ کیمبرج یونی ورسٹی میں براؤن کے بعد پہلا فارسی کا لیکچرار (۱۹۰۲ئ۔۱۹۲۶ئ) اور ۱۹۲۶ء میں عربی کا پروفیسر مقرر ہوا۔ ۱۹۳۳ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوا لیکن اورینیٹل اسکول سے ۱۹۴۰ء تک وابستگی قائم رہی۔ نکلسنؔ کو تصوف سے خاصا شغف تھا۔ اس نے دیوانِ شمس تبریز مع ترجمہ شائع کیا۔ (۱۸۹۸ئ) اس کے بعد ۱۹۰۵ئ۔۱۹۱۴ء کے درمیانی عرصے میں اس نے تصوف پر چار اہم تصانیف کے تراجم کیے۔ عطار کی ’’تذکرہ اولیائ‘‘۔(۱۹۰۷ئ۔۱۹۰۵ئ)‘ کشف المحجوب ہجویری‘‘ (۱۹۱۱ئ) اور ابن عربی کا کلام ’’ترجمان الاشواق‘‘ (۱۹۱۱ئ) سراج کی کتاب ’’کتاب اللمع‘‘ (۱۹۱۴ئ) کے علاوہ براؤن کے ساتھ مختلف تصانیف و تالیف میں معاون رہا۔۱۹۱۴ء میں عام قاری کے لیے ’’اسلامی صوفیائ‘‘ (The Mystics of Islam) کے نام سے شائع کی۔۱۹۰۷ء میں ’’تاریخِ ادبیاتِ عرب‘‘ لکھی۔ ان کا ایک اور ایڈیشن ۱۹۰۷ئ۔۱۹۱۱ء میں تصنیف کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دو اور اہم تصانیف ’’اسلامی تصوف کا مطالعہ‘‘ (Studies in Islamic Mysticism) اور ’’اسلامی شاعری کا مطالعہ‘‘ (Studies in Islamic Poetry) ۱۹۲۱ء میں دو جلدوں میں مکمل کیں جو ۱۹۲۳ء میں شائع ہوئیں۔ نکلسن‘ اقبالؔ شناسوں میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اقبالؔ کی فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا جو ۱۹۲۰ء میں شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن ۱۹۴۴ء میں اقبالؔ کے تصحیح کردہ ترجمہ کے ساتھ شائع ہوا۔ مآخذ: ۱) "The Ne Encyclopaedia Britanica Vo:8,P:689-690" بنام ڈاکٹر سید یامین ہاشمی تعارف: سید یامین ہاشمی کی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی۔ لندن سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ’’اقبال کی پیش گوئیاں‘‘ (شیخ علام علی ایند سنزلاہور‘ ۱۹۶۲ئ) نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ جس زمانے میں کتاب شائع ہوئی۔ یامین ہاشمی سند ھ مسلم کالج کراچی میں پروفیسر تھے۔ (۱۳۹) لاہور ۹؍مارچ ۳۴ئi؎ جناب ڈاکٹر صاحب السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے شکریہ قبول کیجیے۔ لیکن میں آپ کے ii؎خط ]کا[ مفہوم پورے طور پر نہیں سمجھ سکا۔ کیا آپ ادھر پنجاب یا لاہور میں کوئی ملازمت چاہتے ہیں؟ اگر آپ کا مقصود یہ ہے تو افسوس ہے کہ فی الحال کوئی امکان اس بات کا نظر نہیں آتا۔ البتہ میرا ارادہ ہے کہ ایک پبلشنگ فرم یہاں بنایا جائے خواہ شراکت کے اصول پر خواہ کمپنی کی صورت میں۔ اگر یہ تجویز کوئی صورت پکڑ گئی تو آپ اس فرم میں شریک ہو سکتے ہیں یا اس کی ملازمت کر سکتے ہیں۔ آپ مفصل لکھیں کہ آپ کااصل مقصود کیا ہے۔ صحافت کا حال بھی اس وقت پنجاب میں خراب ہے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ عکس میں سنہ درج نہیں ہے۔ii؎ انوار= آپ(کا)۔ دیکھیے عکس (۱۴۰) مکرم بندہ۔ السلام علیکم میں نے آپ کی تعمیلِ ارشاد میں آپ کے پہلے شعر کی اصلاح اپنے خیالِ ناقص کے i؎ مطابق کر دی۱؎ہے۔ مگر مضمون کے اعتبار سے باقی اشعار کا ٹون اس شعر سے مختلف ہے اور بحیثیت مجموعی آپ کے اشعار کارنگ عجمیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ زمانۂ حال میں عجمیت سے اجتناب لازم ہے۔ اس وقت مسلمان کا فرض ہے کہ جوقوت خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے اسے اسلام کی خدمت اور اقوام و ملل اسلامیہ کے احیاء و بیداری میں صرف کرے۔ میری رائے میں عجمیت ایشیا کے مسلمانوں کی تباہی کا باعث ہوئی ہے۔ اس وقت اس باطل کے خلاف جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ عجمیت کا اثر مذہب لٹریچر اورعام زندگی پر غالب ہے۔ شاید عربوں اور افغانوں کے سوا تمام اقوامِ اسلامیہ اس زہر سے خطرناک طور پر متاثر ہوچکی ہیں۔ شعرائے عرب سے میری مراد شعرائے زمانۂ جاہلیت اور زمانہ بنو امیہ۲؎ ہیں۔ عباسیوں۳؎ کے عہد میں عجمیت عرب کے لٹریچر پر غالب آگئی تھی۔ اس زمانے کی شاعری کا مطالعہ کچھ زیادہ مفید نہیں خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو ایک لٹریری آئیڈیل کی تلاش میں ہوں۔ دیگر یہ عرض ہے کہ مری صحت اچھی نہیں۔ نقرس کی شکایت ہے اس واسطے بہت کم خط و کتابت کرتا ہوں اور اوروں کی اصلاح سے اصولاً اجتناب کرتا ہوں۔ خیالات کااثر خط کتابتii؎ سے نہیں ہوتا اس کے لیے صحبت ضروری ہے۔ باقی رہی زبان اُردو اور فنِ شاعری سو ان سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ میرے مقاصد شاعرانہ نہیں بلکہ مذہبی اوراخلاقی ہیں اس واسطے فنِ شعر کی اصلاح کے لیے آپ کو کوئی موزوں تر آدمی تلاش کرنا چاہیے۔ مَیں اس میدان کا مرد نہیں ہوں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ لاہور ۳۰؍جولائی۳۴ء میرے خیالات کے لیے مندرجہ ذیل کتابیں دیکھیے: (1) A voice from the East ؎iii on the Poetry of Iqbal by Sir Zulfiqar Ali Khan, Kt, C.S.I. Simla. (2) Introduction to Nicholson's English translation of Asrar-i-Khudi. ان کتب کے علاوہ اور مضامین جو امریکہ و یورپ کے اخباروں اور رسالوں میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے ہیں۔ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: زیرنظر خط کا عکس آرکائیوز اسلام آباد میں موجود ہے۔ i؎ انوار=ناقص میں کر۔ii؎ انوار=خط و کتابت۔ iii؎ انوار=or۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ سید یامین ہاشمی نے اپنی ایک نظم ’’قلزمِ ہستی‘‘ بہ غرضِ اصلاح بھیجی تھی۔ اس نظم کے پہلے شعر کی اقبالؔ نے اصلاح کر دی اور باقی اشعار اسی طرح چھوڑ دیے۔ اصل شعر اس طرح تھا: ؎مری حیات وجۂ عرفانِ زندگی ہے یعنی کہ زندگی پر احسانِ زندگی ہے اقبالؔ کی اصلاح کے بعد ؎ کہتے ہیں مرگ جِس کو عرفانِ زندگی ہے یعنی کہ موت پر بھی احسانِ زندگی ہے یہ سات اشعار پر مشتمل نظم تھی۔ آرکائیوز اسلام آباد(۱۵۹/DAC)میں یہ نظم محفوظ ہے۔ ۲؎ بنو امیہ: عرب خلفا کا خاندان (۶۶۱۔۷۵۰ئ) جس کی بنیاد امیر معاویہؓ نے ۶۶۱ء میں رکھی۔ اس کے تمام حکمرانوں کی تعداد ۱۴ ہے۔ امویوں کا دارالخلافہ بالعموم دمشق رہا تا آنکہ ۷۵۰ء میں مروان دوم(خلیفہ چہاردہم) کوعباسیوں نے جنگ میںشکست دی اور امیہ خاندان کے افراد مارے گئے‘ البتہ اس خاندان کاایک رکن عبدالرحمن اول بھاگ کر ہسپانیہ چلا گیا‘ جس نے ۷۵۶ء میں امیرقرطبہ کی حیثیت سے حکومت قائم کی۔ دسویں صدی عیسوں میں یہ امارت خلافت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ خلافت ۱۰۳۱ء تک قائم رہی۔ مآخذ: محمد رضاخان‘ پروفیسر: ’’تاریخِ مسلمانانِ عالم‘‘ ص:۱۳۹ ۳؎ عباسیوں:خلفا کا یہ خاندان اپنا سلسلۂ نسب رسولِ کریمؐ کے حقیقی چچا حضرت عباس ابنِ عبدالمطلب تک پہنچاتا ہے۔ ان کی خلافت ۷۴۹ء سے ۱۲۵۸ء تک قائم رہی۔ خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں سلطنت کا جاہ و جلال اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گیا۔ تاہم چنگیز خان کے کامیاب حملوں نے عباسیوں کا رعب ُداب مٹا دیا اور ۱۲۵۸ء میں چنگیز کے پوتے ہلاکو نے بعداد میں قتل و غارت کے بعد سینتیسویں(۳۷) اور آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ عباسی خاندان کا ایک رکن بچ کر قاہرہ پہنچ گیا تھا۔ جہاں مملوکوں نے اسے خلیفہ تسلیم کرلیا‘ لیکن وہاں عنانِ اقتدار فی الحقیقت مملوکوں ہی کے ہاتھ میں رہی۔ تاہم وہاں عباسی خلفا مملوکوں کے زیرسایہ ۱۵۱۷ء تک منصب خلافت پر فائز رہے تاآنکہ ترکانِ آلِ عثمان نے مصرفتح کر لیا۔ مآخذ: محمد رضا خان‘ پروفیسر ’’تاریخ مسلمانانِ عالم‘‘ ص:۲۱۴۔۲۱۹ بنام سیّد شاہ نظیراحمد ہاشمی غازی پوری تعارف: نظیراحمد ہاشمی ضلع غازی پور کے موضع نئے سارہ میں پیدا ہوئے۔ اعظم گڑھ کے کسی موضع میں اپنی ننھیال میں تربیت پائی۔ اُردو‘فارسی اورعربی کے علاوہ انگریزی زبان وادب میں مہارت پیدا کی۔ حصولِ تعلیم کے بعد تحصیل دار کے عہدہ پرتقرر ہوا۔ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ جون پور کے ممتاز رئیس نواب یوسف کی ہمشیرہ سے ان کا عقد ہوا۔ غالباً اسی وجہ سے نواب صاحب کی اِلٰہ آباد والی کوٹھی میں مقیم رہے۔ نہایت ذہین و فطین تھے۔ مختلف رسائل و جرائد کے لیے کئی مضامین بہ یک وقت لکھا کرتے تھے۔ ایک ماہنامہ ’’کلیم‘‘ بھی نکالتے تھے۔ مآخذ: مظفر حسین برنی (مرتب) ’’کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘،ص:۱۰۵۶ئ۔ (۱۴۱) لاہور ۱۹؍جون ۲۳ء مکرم بندہ جناب سید صاحب۔السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ افسوس کہ آپ سفر میں بیمار ہو گئے۔ مجھے آپ سے مل کر بڑی مسرت ہوتی مگر ایک اعتبار سے یہ اچھی بات ہوئی کہ لاہور کی گرمی آپ کے لیے شاید ناقابل برداشت ہوتی۔ مجھے آپ کے ترجمے۱؎ اور تمہید کی اشاعت میں کیوں کر عذر ہوسکتا ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اجازتِ اشاعت دینے سے پہلے مَیں آپ کی کتاب پڑھ لوں۔ ترجمہ نہایت مشکل کام ہے اس کے علاوہ بسااوقات نثر میں شعر کے مطالب بیان]کرنے[ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ مَیں آپ سے کتاب منگوا لیتا لیکن اس میں بھی ایک دقّت ہے اور وہ یہ کہ ستمبر کے آخر تک مجھے بالکل فرصت نہیں۔ اگرچہ ہائی کورٹ جولائی کے آخر میں بند ہو جائے گا تاہم مجھے تعطیلوں میں مطلقاً فرصت نہیں۔ بہت سے کام ہیں جن میں سے ایک ’’پیامِ مشرق‘‘ کی دوسری ایڈیشن کی ترتیب ہے جو غالباً جرمنی میں طبع ہو گی۔ البتہ ماہِ نومبر میں مَیں آپ کا ترجمہ اورتمہید پڑھ کر کوئی رائے قائم کر سکوں گا۔ کیا میر غلام بھیک صاحب۲؎ نیرنگؔ نے آپ کا ترجمہ دیکھا ہے؟ ان کی کیا رائے ہے؟ اگر آپ اتنی دیرانتظار نہیں کر سکتے تو شاید میر غلام بھیک صاحب آپ کے کام پر غائر نظر ڈال کر رائے دے سکیں گے۔ آپ ان سے دریافت کریں کہ آیا وہ یہ زحمت گوارا کر سکیں گے۔ میرے خط کا حوالہ دے دیجیے۔ گوئٹے ۳؎ کے مغربی دیوان کی اکثر نظموں کا ترجمہ انگریزی میں ہوچکا ہے شاید بان لائبریری سیریز میں نکلا تھا۔ غالباً پنجاب پبلک لائبریری۴؎ لاہور میں اس کی ایک جلد ہے۔ کسی انگریزی کُتب فروش سے دریافت کیجیے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: زیرنظر خط کاعکس اقبالؔاکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ نظیراحمدہاشمی‘ اقبالؔ کے فارسی مجموعے ’’پیامِ مشرق‘‘ کا ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۳ ‘ تعلیقہ نمبر۱ ۳؎ گوئٹے (Johann-Wolfgang-von Goethe) (۱۷۴۹ئ۔۱۸۳۲ئ) ‘ جرمن شاعر‘ ڈرامانگار اور ناول نویس۔ فرینکفرٹ میں پیدا ہوا۔ سولہ برس تک گھر پر ہی تعلیم حاصل کی اور پھر لائپزس یونی ورسٹی بھیج دیا گیا۔ شٹراس بورگ میں (۱۷۶۵ئ۔۱۷۶۸ئ) قانون کا مطالعہ کرتا رہا۔ گوئٹے کی ملاقات ہرڈر (Herder) سے ہوئی ‘ جس کے باعث گوئٹے لوک شاعری اور تغزّل کی جانب متوجہ ہوا۔ جرمنی ادب کی تحریکوں سے بھی وہ تاثر لیتا رہا۔ گوئٹے کا لافانی شاہکار فاؤسٹ ( Faust) ہے‘ جس کا پہلا حصہ ۱۸۰۸ء میں شائع ہوا اور یہ اس کی زندگی کے ساتھ ہی ۱۸۳۲ء میں مکمل ہو کر اس کے مرنے کے بعد شائع ہوا۔ ۱۸۱۹ء میں اس نے ’’غربی شرقی دیوان‘‘ (West Oesttieher Divan) لکھا‘ جو لطیف غزلیہ نظموں کامجموعہ ہے۔ اس تصنیف میں اس نے ایرانی شعرا بالخصوص خافظؔ سے بہت فیضان حاصل کیا۔ گوئٹے سے اقبالؔ کی ذہنی مناسبت اور فکری رابطہ بہت قدیم ہے۔ ’’شذراتِ فکرِ اقبالؔ‘‘ میں اقبال مختلف مقامات (ص:۱۰۵‘۱۵۰) پر اس جرمن حکیم کو خراج پیش کرتے ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا شعر ہے: آہ! تو اُجڑی ہوئی دِلّی میں آر ا میدہ ہے گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدا ہے (کلیات‘ اُردو‘ ص:۴۰) ’گلشن ویمر‘‘ سے مراد گوئٹے کی ابدی خواب گاہ ہے۔ اقبالؔ کا مجموعۂ کلام ’’پیام مشرق‘‘ گوئٹے کے ’دیوانِ مغربی کے فیوض و تاثرات کامرہون منت ہے۔ ’’پیام مشرق‘‘ کی نظم جلال و گوئٹے‘‘ کا آخری شعر مولانا رومؔ کا ہے‘ اس میں گوئٹے کی یوں تعریف کی ہے: شاعر کو ہمچوآں عالی جناب نیست پیغمبر ولے دارد کتاب! (کلیات‘ فارسی‘ ص:۳۳۲) رومیؔ کے بعد اقبالؔ سب سے زیادہ گوئٹے سے متاثر ہوئے۔ گوئٹے کاانسانی شخصیت کے ارتقا سے والہانہ لگاؤ‘ مشرق اور مشرقی ادبیات سے دلچسپی ‘ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ اور قرآن مجید سے عقیدت نے اقبالؔ کو گوئٹے سے مزید قرب اور لگاؤ پیدا کردیا۔ مآخذ: ۱) افتخار احمد صدیقی ڈاکٹر: ’’فروغِ اقبالؔ‘‘ ص:۱۵۲ ۲) ممتاز حسن‘ ڈاکٹر: ’’مقالاتِ ممتاز‘‘ ص:۴۳۷۔۴۴۹ ۴؎ دیکھیے خط نمبر ۳۲ تعلیقہ نمبر۱ بنام سید عبدالغنی تعارف: سیدعبدالغنی‘ سید محمد شاہ کے صاحبزادے اور شمس العلما میر حسن کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ ۱۸۶۳ء کے لگ بھگ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اسکاچ مشن ہائی اسکول سے میٹرک کیا اور محکمہ ڈاک میں ملازم ہو گئے۔ سرسید کی تعلیمی اور علمی سرگرمیوں سے بے حد متاثر تھے۔ سید عبدالغنی کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی تعلیمی و علمی پسماندگی کا خاص خیال رہتا تھا‘ چنانچہ جب گورداسپور کے ایک قصبہ دینا نگر میں پوسٹ ماسٹر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا تو انھوں نے وہاں کے مسلمانوں کواس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی مدد آپ کے اصولوں پر ایسی کوئی انجمن قائم کریں جس سے ان کی فلاحی اورتعلیمی اغراض پوری ہو سکیں چنانچہ وہاں کے بعض معززین کے تعاون سے ’’نصرت الاسلام‘‘ کے نام سے ایک انجمن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس انجمن کے زیراہتمام ہرسال اجلاس ہوتے اور ان میں مسلمانوں کے مسائل پرغور کیا جاتا تھا اور ان کے حل کے لیے مختلف تجاویز پیش کی جاتی تھیں۔ اپنی وفات سے چند سال پہلے سید عبدالغنی گورداسپور سے دوبارہ دہلی چلے گئے اوروہیں ۱۹۳۰ء میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) نذیرنیازی سید: ’’مکتوباتِ اقبالؔ‘‘،ص:۷ ۲) عبدالرؤف عروج ’’رجالِ اقبالؔ‘‘ ص:۳۵۰‘۳۵۱ (۱۴۲) مخدومی جناب قبلہ شاہ صاحب۔ السلامُ علیکم انجمن۱؎ کی طرف سے مجھے کوئی خط نہیں ملا۔ آپ کا فرمان سر آنکھوں پر‘ مگر افسوس ہے کہ حاضری سے معذور ہوں۔ جولائی کے آخر میں مجھے اور ضروری کام ہے۔ اس کے علاوہ مَیں نے تو پبلک لائف بوجوہات قریباً ترک کردی ہے۔ والسلام آپ کا خادم محمدؐاقبالؔ از لاہور ۲۰؍جولائی تحقیق متن: اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں اس خط کا عکس موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ سید عبدالغنی نے گورداسپور میں اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ’’نصرت الاسلام‘‘ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ وہ اقبالؔ کو اپنے بھائی (مولوی میرحسن) کے عزیز ترین شاگرد کی حیثیت سے انجمن کے سالانہ اجلاس میں مدعو کرنا چاہتے تھے۔ انجمن نے دعوت نامہ بھی بھیجا لیکن جب اقبالؔ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں ملا تو سیدعبدالغنی نے ان سے شکایت کی۔ اس کے جواب میں اقبالؔ نے زیر نظر خط لکھا کہ انھیں انجمن کی طرف سے کوئی خط نہیں ملا۔ مآخذ: نذیرنیازی سّید ’’مکتوباتِ اقبال‘‘ ص:۷‘۸ بنام سّید عشرت حسین تعارف: سید عشرت حسین‘ اکبر اِلٰہ آبادی کے نسبتاً گم نام فرزند تھے اور آخر میں یہی اکیلے فرزند حضرتِ اکبر کے رہ گئے تھے۔ شیعہ بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۰ء میں سیتا پور کے ڈپٹی کلکٹر بنے۔ سّید عشرت خیالات میں اپنے والدِ گرامی کی حرارتِ ایمانی سے کوئی نسبت نہ رکھتے تھے۔ اکبرؔ کو اس کا بہت رنج تھا۔ انھوں نے اشعار میں اس درد اور کرب کاذکر بھی کیا ہے۔ عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے کیک کو چکھ کرسِوَیُّوں کا مزا بھول گئے موم کی پُتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی چمنِ ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے کیسا کیسا دل نازک کو ستایا تم نے خبرِ فیصلۂ روزِ جزا بھول گئے عشرت حسین پرتاپ گڑھ ‘ لکھیم پور وغیرہ مختلف شہروں میں ڈپٹی کی حیثیت سے رہے۔ آخر میں پنشن لی اور پنشن کے کچھ ہی روز بعد ۱۹۴۵ء میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ مآخذ: عبدالماجد دریا بادی: ’’معاصرین‘‘ ص:۸۲‘۸۳ (۱۳۴) لاہور ۱۳؍ستمبر ۲۱ء مخدومی۔ السلام علیکم ابھی زمیندار۱؎ سے آپ کے والدِ بزرگوار (اور میرے مرشد معنوی) کے انتقالِ پُرملا کی خبر معلوم ہوئی۔ اِنالِلِّٰہٖ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعُون اس بات کا ہمیشہ قلق رہے گا کہ ان سے آخری ملاقات نہ ہو سکی۔ مَیں اور میر ے ایک دوست قصد کر رہے تھے کہ ذرا گرمی کم ہو جائے تو ان کی زیارت کے لیے الٰہ آباد کا سفر کریں۔ انھوں نے اپنے آخری خط میں مجھے لکھا بھی تھا کہ اِمسال ضرور ملنا۔ بعض باتیں ایسی ہیں کہ خطوط میں نہیں سما سکتیں۔ میری بدنصیبی ہے کہی مَیں ان کے آخری دیدار سے محروم رہا۔ ہندوستان اور بالخصوص مسلمانوں میں مرحوم کی شخصیت قریباً ہر حیثیت سے بے نظیر تھی۔ اسلامی ادیبوں میں تو شاید آج تک ایسی نکتہ رس ہستی پیدا نہیں ہوئی اورمجھے یقین ہے کہ تمام ایشیا میں کسی قوم کے ادبیات کواکبرؔ۲؎ نصیب نہیں ہوا۔ فطرت ایسی ہستیاں پیدا کرنے میں بڑی بخیل ہے۔ زمانہ سینکڑوں سال گردش کھاتا رہتا ہے جب جا کے ایک اکبرؔ اسے ہاتھ آتا ہے۔ کاش اس انسان کا معنوی فیض اس بدقسمت ملک اوراس کی بدقسمت قوم کے لیے کچھ عرصے اور جاری رہتا۔ خدا تعالیٰ اپنے حبیب کے صدقے ان کواپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور آپ کوصبرِ جمیل عطا فرمائے۔ مَیں نے ابھی ایک تار۳؎ بھی آپ کو دیا ہے۔ مخلص محمدؐاقبالؔ حواشی تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۴۰ تعلیقہ نمبر ۱۱ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۳تعلیقہ نمبر۸ ۳؎ تار کا متن درج ذیل ہے: Heart felt sympathy India loses a great personality Iqbal. (ب۔ا۔ڈار‘ص:۱۹۷) بنام شفاعت اللہ خاں تعارف: شفاعت اللہ خان اخبار ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے۔ (۱۴۴) لاہور ۲۲؍اپریل ۲۲ء ڈیر شفاعت اللہ خاں چندشعر۱؎ ابھی ڈاک میں ڈال چکا ہوں۔ ’’اتحاد‘‘ کاآخری شعر یوں چھاپیے: مندر سے تو بیزار تھا پہلے ہی سے ’’بدری‘‘ مسجد سے نکلتا نہیں ضدی ہے ’’مسیتا‘‘ محمدؐاقبالؔ تحقیقِ متن: خط کا متن عکس کے مطابق ہے‘ جواقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریر میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ اقبالؔ نے ’’اتحاد‘‘ کے عنوان سے درجِ ذیل اشعار بھیجے تھے: یہ آیۂ نوجیل سے نازل ہوئی مجھ پر گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا کیا خوب ہوئی آشتیِ شیخ و برہمن اس جنگ میں آخر نہ یہ ہارا نہ وہ جیتا یہ کفر سے آزاد وہ اسلام سے آزاد مندر میں نہ بدری ہے نہ مسجد میں مسیتا (’’کلیاتِ اقبال (اردو) ص:۳۲۲) (دیکھیے: عکس) بنام ضامن نقوی ضامن نقوی نے ایک سلسلۂ مضامین ’’ہمایوں‘‘ لاہور میں شائع کرایا۔ پھر اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے ایک مثنوی ’’اسرارِ ہستی‘‘ کے نام سے لکھی اور اقبالؔ کو بغرض تنقید بھیجی۔ اقبالؔ کا یہ خط اسی سلسلے میں ہے۔ ضامن نقوی نے ۱۹۳۴ء میں ایک مثنوی ’’صہبائے راز‘‘ اور ایک مقالہ ’’اصلِ حیات‘‘ طبع کرا کے اقبالؔ کی خدمت میں بھیجا۔ ان کے مطالعے سے اقبالؔ نے اندازہ لگایا کہ نقوی صاحب برگساں سے متاثر ہیں چنانچہ اقبالؔ نے تبصرے کے طور پر ایک نظم ’’فلسفہ زدہ سیدزادے کے نام‘‘ کہی جو ’’ضربِ کلیم‘‘ میں شامل ہے۔ (۱۴۵) مکرم تسلیم آپ کی فلسفیانہ مثنوی موسوم بہ ’’اسرار ہستی‘‘ نہایت سبق آموز ہے اور اس کا طرزِ بیان بھی دلچسپ ہے۔ اقبالؔلاہور ۱۱؍جون۲۳ء بنام صوفی غلام مصطفی تبسمؔ تعارف: صوفی غلام مصطفی تبسم ابنِ صوفی غلام رسول‘ ۴؍اگست ۱۸۹۹ء امرتسر میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی ابتدا مرتسر ہی میں مفتی حکیم غلام رسول کے مطب سے ہوئی۔ چرچ مشن ہائی سکول امرتسر سے میٹرک اور خالصہ کالج امرتسر سے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۲۳ء میں ایف۔سی کالج سے فارسی آنرز کے ساتھ بی۔اے کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۲۴ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایک سال میں ایم۔اے فارسی کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۲۷ء میں سنٹرل ٹریننگ کالج میں السنہ شرقیہ کے لیکچرار مقرر ہوئے۔ اس کالج سے ۱۹۳۱ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں آگئے اور یہاں سے ۱۹۵۴ء میں ریٹائرہوئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد خانۂ فرہنگِ ایران کے ڈائریکٹر اور بعد میں معلم مقرر ہوئے۔ سول سروس اکیڈمی اور فنانس سروسز اکیڈمی میں بنگالی طلبہ کو اُردو پڑھاتے رہے۔ ۱۹۶۲ء میں صوفی صاحب کو گورنمنٹ آف پاکستان کی طرف سے تمغہ و اعزاز کارکردگی اور ۱۹۶۷ء میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ عطا ہوا۔ ایرانی حکومت نے آپ کو تمغۂ نشان سپاس سے بھی نوازا۔ اپریل ۱۹۷۵ء کو چیئرمین پاکستان آرٹس کونسل لاہور اور ۱۹۷۶ء کو وائس پریذیڈنٹ اقبالؔاکادمی لاہور مقرر ہوئے۔ ہفت روزہ ’’لیل ونہار لاہور‘‘ اور رسالہ ’’بلاغ‘‘ امرتسر کے مدیر‘ ماہنامہ ’’مخزن‘‘ ،’’سکھی گھر‘‘ کے اعزازی مدیر‘ ماہنامہ ’’اطفال‘‘ اور پنجابی ادب کے نگران اور رسالہ ’’پھول‘‘ کی مجلسِ مشاورت میں شریک رہے۔ ۷؍فروری ۱۹۷۸ء کو حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال ہوا۔ اقبالؔ کے ساتھ صوفی تبسم کی عقیدت کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے ہوا اورتاحیات قائم رہا۔اقبالؔ کے ساتھ ایک متعلم‘ نیازمند اور معلم کے رشتوں کے سبب انھیں اقبالؔ کی شخصیت و فن کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملا۔ بقول ڈاکٹر تاثیر: ’’ان کی آمد بکثرت تھی اور اقبالؔ انھیں فارسی محاورے اور زبان کااستاد بھی سمجھتے تھے۔ اور سندات کے سلسلے میں انھیں کئی ارشادات کیا کرتے تھے۔ صوفی صاحب نے اقبالؔ کی زندگی ہی میں (۱۹۳۲ئ) میں ایک طویل مقالہ تحریر کیا‘ جسے اقبالؔ نے سراہا۔ وہ عمر بھر اقبالیات کی تشریح‘ توضیح اور ترویج کے لیے کام کرتے رہے۔ مآخذ: ۱) نثاراحمد قریشی: ’’علاّمہ اقبال (صوفی تبسیم کی نظر میں)‘‘،ص:۹اور ۱۸ ۲) صوفی تبسم (مصنف)‘ گلزار احمد‘ صوفی (مرتب) : ’’علاّمہ اقبال سے آخری ملاقاتیں‘‘ ص:۲۳۔۳۱ ۳) ’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر‘ص:۱۰۹۳۔۱۰۹۶ (۱۴۶) لاہور ۶؍ستمبر ۲۵ء جناب من۔ السلام علیکم مَیں کل شام مولوی۱؎ صاحب کا منتظر رہا لیکن چونکہ وہ تشریف نہ لائے اس واسطے مجھے اندیشہ ہے کہ میرے خط سے کوئی غلط فہمی نہ ہوئی ہو۔ مَیں نے آپ کے ارشاد کی تعمیل میں وقت کا تعین اس واسطے نہ کی تھیi؎ کہ اس بارے میں مولوی صاحب موصوف کی آسایش کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ان کی یہ عنایت کم نہیں کہ وہ محض مرے فائدے کے لیے لاہور تشریف لانے کی زحمت گوارا فرماتے ہیں۔ یہ بات قرینِ انصاف نہیں کہ ان حالات میں مَیں اپنی سہولت اورii؎ اوقات کو ملحوظ رکھوں۔ مجھ کو یہ بات اس خط میں واضح کر دینی چاہیے تھی کہ وہ جب چاہیں تشریف لائیں مجھ کوصرف ایک روز پہلے مطلع کر دیں تاکہ مَیں ان کی تشریف آوری کے وقت مکان پر ہی رہوں کہیں اِدھر اُدھر نہ چلا جاؤں۔ باقی موضوعِ گفتگو کے متعلق اگر سرِدست اجتہاد نہیں تو اور بہت سے امور ہیں جن کے متعلق میں ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں۔ آپ مہربانی کر کے میری تحریر سے یہ نتیجہ نہ نکالیں کہ مجھے ان سے فائدہ اٹھانے میں تامل ہے۔ آپ کوگذشتہ خط لکھنے کے بعد میں نے چند باتیں نوٹ بھی کر رکھی تھیں جن پر میں مولوی صاحب کے خیالات سننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا آرزومند ہوں۔ مخلص محمدؐاقبالؔ مولوی صاحب کی خدمت میں میری طرف سے سلام عرض کر دیجیے گا۔ تحقیق متن: i ؎ انوار= واسطے (کیا؟) ii؎ سہولت اوقات۔ حواشی و تعلقیات: ۱؎ ’’مولوی صاحب‘‘ سے مراد مولوی احمد دین ہیں۔ بازار حکیماں کی محفلوں میں اقبالؔ سے ان کا تعارف ہوا‘ عمر میں اگرچہ اقبالؔ سے بڑے تھے مگر دِلی دوست‘قدردان اور ہمدرد تھے۔ ۱۸۶۵ء میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کی ابتدا گوجرانوالہ سے ہوئی۔ لاہور سے بی۔اے کیا۔ انجمن حمایتِ اسلام کی تعلیمی‘ اصلاحی اور علمی سرگرمیوں کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ علمی زندگی کی ابتدا صحافت سے کی۔ ’’پیسہ اخبار‘‘ سے تعلق رہا۔ خود بھی ’’غم خوار عالم‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالا۔ تصنیفات و تالیفات میں ’’سرگزشت الفاظ‘ بالخصوص قابلِ قدر ہے۔ مولوی احمد دین نے اقبالؔ کی شخصیت اور فن کے حوالے سے مضامین لکھے۔ اقبالؔ کو دیوانی امورمیں مشورے کی جب کبھی ضرورت ہوتی تو اکثر انھی سے کرتے۔ ۱۹۱۸ء میں اقبالؔ کے عزیزوں نے انارکلی میں جائیداد خریدی تو اقبالؔ نے خاص طور پر اپنے عزیز ڈاکٹر غلام حمد کو مشورہ دیا کہ وہ بیع نامہ اور مکمل دستاویزات کا مسوّدہ مولوی احمد دین سے لکھوائیں چنانچہ منشی طاہرالدین نے انھی سے یہ مسوّدہ لکھوایا تھا اور وہی آخر تک رہا۔ اقبالؔ کااُردو کلام سب سے پہلے انھیں نے مرتب کیا۔ چونکہ اسی زمانے میں اقبالؔ ’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت کا اہتمام کر رہے تھے اس لیے مولوی صاحب کی کتاب ’’اقبال‘‘ چھپ کر جب اقبال کے پاس پہنچی تو انھوں نے شیخ گلاب دین سے کہا: مَیں تو اپنا کلام خود ہی مرتب کر رہا تھا‘ نظرثانی ہو رہی تھی‘ کیا اچھا ہوتا مولوی صاحب ذرا انتظار کر لیتے۔ مولوی صاحب کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ اقبال کو کسی پہلوسے ناراض کریں‘ یا نقصان پہنچائیں۔ سارے کا سارا مجموعہ کتب جو چھپ کر آیا تھا‘ صحن میں رکھا اور نذرِآتش کر دیا۔ اقبالؔ کو معلوم ہوا تو انھیں بڑا صدمہ ہوا۔ دل سے معذرت کی۔ ’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت کے بعد ۱۹۲۶ء میں اگرچہ یہ کتاب پھر شائع ہوئی لیکن مولوی صاحب نے بہت سا کلام حذف کر دیا۔ مآخذ: ۱) نذیرنیازی‘ سید:’’دانائے راز‘‘ ص:۱۶۳۔ ۱۶۴ ۲) عبداللہ چغتائی‘ ڈاکٹر: ’’اقبال کی صحبت میں‘‘ص:۴۴۴‘۴۴۵ ۳) احمددین‘ مولوی (مصنف) ‘ مشفق خواجہ (مرتب): ’’اقبال‘‘،۱۹۷۹ء ۴) احمد شجاع‘ حکیم‘ ’’لاہور کا چیلسی‘‘ ص:۶۳۔۶۵ بنام میرحسن الدین تعارف: میرحسن الدّین ۲؍دسمبر۱۹۰۳ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ سے بی۔اے پاس کیا۔ایل۔ایل بی کے بعد چند برس تک وکالت کی۔ طبعاً وکالت کا پیشہ انھیں پسند نہیں تھا۔ ۱۹۴۰ء میں ہفتہ وار ’’مملکت‘‘ جاری کیا اور ریاست حیدرآباد کے سیاسی معاملات میں دلچسپی لینے لگے۔ ’’مملکت‘‘ کامزاحیہ کالم ’’نمک پارے‘‘ حسن الدین لکھا کرتے تھے۔ اقبالؔ کے کئی مضامین کا ترجمہ کیا اور ان کے مضامین کو ’’مملکت‘‘ میں شائع کیا۔ ۱۹۲۷ء میں میر حسن الدین نے اقبالؔ کے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے The development of Metaphysics in Persiaکاترجمہ کیا جو ’’فلسفۂ عجم‘‘ کے نام سے ۱۹۳۶ء میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ مآخذ: مظفر حسین برنی (مرتب) کلیاتِ مکاتیب‘ دوم‘‘ ص:۸۴۵ (۱۴۷) لاہور۱۱؍جنوری i؎ ؎ ۲۷ء جناب من‘ اسلام علیکم مجھے کوئی تامل نہیں‘ آپ بلاتکلف اس کاترجمہ۱؎ شائع فرما سکتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس کاترجمہ کچھ مفید نہ ہو گا۔ یہ کتاب اب سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس وقت سے بہت سے نئے امور کاانکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میں بھی بہت ساانقلاب آچکا ہے۔ جرمن زبان میں غزالیؔ۲؎ ‘ طوسی۳؎ وغیرہ پر علیحدہ علیحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں۔ میرے خیال میں اب اس کتاب کا تھوڑا سا حصہ باقی ہے جو تنقید کی زد سے بچ سکے۔ آیندہ آپ کو اختیار ہے۔ میری رائے میں ترجمہ کرنے سے بہتر یہ بات ہے کہ آپ خود ایسی تاریخ لکھیں۔ والسلامii؎ محمدؐاقبالؔiii؎ تحقیق متن: i؎ ’’انوار‘‘ میں تاریخ تحریر خط کے آخر میں درج ہے۔ii؎ انوار=فقط iii؎ انوار=محمدؐاقبال لاہور حواشی و تعلیقات: ۱؎ اقبال سے ان کے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے کااُردو ترجمہ کرنے کی اجازت طلب کی۔ یہ مقالہ اقبال نے ۱۹۰۷ء میں قیامِ یورپ کے دوران میں لکھا تھا اور اس پر انھیں میونخ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند عطا ہوئی تھی۔ میرحسن الدین نے ۱۹۲۸ء میں اس مقالے The Development of Metaphysics in Persia کا ترجمہ مکمل کیااور ’’فلسفۂ عجم‘‘ کے نام سے ۱۹۳۶ء میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوا۔ اب تک اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ۲؎ دیکھیے خط نمبر ۷۵‘ تعلیقہ نمبر۶ ۳؎ ’’طوسیؔ‘‘ (نصیرالدین) (۱۲۰۱ئ۔۱۲۷۴ئ): ایرانی عالم دین اور ماہرفلکیات… طوسؔ میں پیدا ہوئے اور بغداد میں انتقال کیا اور وہیں دفن ہوئے۔ انھیں مختلف علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل تھی خصوصاً ہیئت اور فلسفہ میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ طوسیؔ نے اقلیدس کا ترجمہ جو یونانی زبان میں تھی‘ عربی میں کیا۔ انھوں نے عربی کی ایک کتاب الطہارت فی الحکمت عملی کا فارسی میں ترجمہ کیا‘ جو ’’اخلاقِ ناصری‘‘ کے نام سے اب تک مشہور ہے۔ طوسیؔ نے علم ہیئت کے متعلق کچھ نقشے بھی تیار کیے تھے جو زیچ ایلخانی کہلاتے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’’اوصاف الاشراف‘‘ اور ’’بحرالمعانی‘‘ اہم ہیں۔ اقبالؔ نے ’’زبورعجم‘‘ کے اس شعر میں طوسیؔ کا یوں ذکر کیا ہے۔ ؎ درآں عالم کہ جزو از کل فزون است قیاسِ رازیؔ و طوسیؔ جنون است (کلیات‘ فارسی‘ص:۵۴۸) مآخذ: اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد ۱۲۔ص:۵۷۴۔۵۷۷ بنام رشیداحمد صدیقی تعارف: مشرقی اتر پردیش کے ضلع جونپور کے ایک قصبہ مَریاہو میں(۱۸۹۶ئ) پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۴ء میں جونپور سے میٹرک کیا۔ علی گڑھ کالج سے ۱۹۱۹ء میں بی اے کیا اور ۱۹۲۱ء میں ایم۔اے ۱۹۲۳ء میں مسلم یونی ورسٹی میں اُردو کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ تیرہ سال تک اسی عہدے پر کام کرتے رہے‘ اس کے بعد ۱۹۳۵ء میں ان کو اقبالؔ کی سفارش پر ریڈر بنایا گیا۔ اس طرح ان میں اور اقبال میں باقاعدہ خط و کتابت شروع ہو گئی اور بتدریج اقبالؔ کے بہت قریب آگئے۔ اقبالؔ کی بیوی کا ۱۹۳۶ء میں انتقال ہوا تو انھیں جاوید اور منیرہ کی نگہداشت کے لیے ایک خاتون کی ضرورت پیش آئی‘ اس سلسلے میں انھوں نے رشید احمد صدیقی کو بھی خط لکھا۔ رشیداحمد نے ایک جرمن خاتون کا انتظام کر دیا۔ اقبالؔ کی زندگی میں جب ہندوستان کے کئی شہروں میں جشنِ اقبالؔ منایا جارہا تھا تورشیدصاحب کی سعیِ جمیلہ سے بدایوں میں جشنِ اقبالؔ انتہائی شاندار طریقہ سے منایا گیا۔ اقبالؔ کی شاعری اور شخصیت پرانھوں نے مضامین بھی لکھے اور یوں اپنی عقیدت کا عملی ثبوت پیش کیا۔ رشید احمد نے اپنی زندگی علی گڑھ میں گزاری اور ۱۵؍جنوری ۱۹۷۷ء کو علی گڑھ میں انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) مالک رام: ’’تذکرۂ معاصرین‘‘،جلد۴‘ص:۲۰۱۔۲۱۶ ۲) معین الرحمن ‘ سید‘ ڈاکٹر: ’’مضامین رشید‘‘ ص:۱۹ ۳) نامورانِ علی گڑھ(تیسرا کارواں) جلداول‘‘،ص۲۴۹۔۲۵۴ (۱۴۸) لاہور۷؍دسمبر ۱۹ئi؎ جناب صدیقی صاحب‘ السلامُ علیکم آپ کا خط مل گیا ہے۔ میری رائے ناقص ii؎ میں خواجہ ۱؎ حافظؔ کے شعر میںiii؎ لفظ’’بادیہ پیمائی‘‘۲؎ ہے۔ پہلے مصرع میں ’’اینجا‘‘ سے مُراد ’’دریں بادیہ‘‘ ہے۔ مفہوم شعر کا یہ ہے کہ اس دشت میں سینکڑوں ہوائیں بے سلسلہ (یعنی بے زنجیر‘ آزادانہ) رقص کر رہی ہیں اور یہی ہوائیں اے دل تیری رفیق (حریف بمعنی رفیق) ہیں۔ جب تک تو بادیہ پیما ہے یا ان کا رقص اس غرض سے ہے کہ تو آسانی اور اطمینان سے ا س صحرا کو طے کر لے۔ شاعرکا مقصود اپنے آپ کو تسکین دینا ہے کہ تو اس بادیہ گردی میں تنہا نہیں ہے بلکہ عالم کا ہر ذرّہ تیری ہی خاطر حالتِ رقص میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلا مصرع بہت بلند ہے۔ اور کسی اور مضمون کا متقاضی ہے۔ اُمید کہ آپ کامزاج بخیر ہوگا۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار=تاریخِ تحریر خط کے خر میں درج ہے۔ii؎ انوار=ناقص رائے میںiii؎ انوار= میں ’’بادیہ پیمائی‘‘۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ خواجہ خافظؔ (شمس الدین محمد حافظؔ) (۱۳۹۲ء بہ مقام شیراز) فارسی گو شاعر۔ لقب لسان الغیب اور ترجمان الاسرار۔ والد کا نام بہاء الدین ‘ جو تاجر تھے اوراصفہان چھوڑ کر شیراز میں آبسے تھے۔ ان کازمانہ سیاسی بے چینی کا تھا۔ جس کا اثر شاعری پر بھی پڑا۔ غزلیات کا رنگ عموماً عارفانہ ہے۔ شہرت ہندوستان پہنچی تو محمود شاہ بہمنی بادشاہ دکن اور غیاث الدین حاکم بنگالہ نے آنے دعوت بھیجی لیکن حافظؔ سفر کی زحمت برداشت نہ کر سکے۔ ’’دیوانِ حافظؔ‘‘ کی قدروقیمت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اس سے فال بھی نکالتے ہیں۔ دیوان کاترکی اور عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا۔ جرمن کے وہ شعرا جن کا تعلق ’’تحریک مشرقی‘‘ سے ہے‘ انھوں نے حافظؔ کی شاعری کے گہرے اثرات قبول کیے ہیں۔ حافظ نے شیراز میں انتقال کیا اور ان کی آرام گاہ ’’حافظیہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اقبالؔ نے مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ میں پینتیس اشعار میں حافظ پر تنقید کی۔ جس کوبعض علما اور مشائخ نے تصوف پر تنقید قرار دیا اور کہا کہ اقبال تصوف کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں اقبالؔ کے مکاتیب میں کئی جگہ بحث ملتی ہے۔ ۳؍اپریل ۱۹۱۶ء کے خط میں مہاراجا کشن پرشاد کو لکھتے ہیں کہ حافظؔ کا صوفی ہونا یا محض شاعر‘ ہر دو اعتبار سے ان کے کام کی قدروقیمت کااندازہ اور صحیح اندازہ علم الحیات کے اعتبار سے ہونا چاہیے۔ ۱۴؍جولائی ۱۹۱۶ء کو سید فصیح اللہ کاظمی کے نام اقبالؔ لکھتے ہیں کہ تصوف کے متعلق میں خود لکھ رہا ہوں۔ حافظؔ کی شاعری نے بالخصوص اورعجمی شاعری نے بالعموم مسلمانوں کی سیرت اور عام زندگی پرنہایت مذموم اثر کیا ہے‘ اسی واسطے میں نے ان کے خلاف لکھا ہے۔ سراج الدین پال کے نام خطوط میں بھی حافظؔ کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو واضح کیا۔ مآخذ: ۱) شبلی نعمانی علاّمہ: ’’شعرالعجم‘ دوم‘‘ ص:۲۳۶۔۳۱۲ ۲) منظور حسین خواجہ: ’’اقبال اور بعض دوسرے شاعر‘‘ص:۲۲۶‘۲۹۴ ۳) صدیق شبلی ڈاکٹر: ’’فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ ص:۹۲‘۹۳ ۴) اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ‘ جلد ۷‘ص:۷۹۷۔۷۹۹ ۲؎ خواجہ حافظؔ کا شعر ہے: ؎صد بادِ صبا ایں جا بے سلسلہ می رقصند این است حریف اے دل تا بادیہ پیمائی (ترجمہ: یہاں سو(۱۰۰) بادِصبا بے زنجیر رقص کرتی ہیں۔ اے دل یہی تیری حریف ہیں‘ اگر توبادیہ پیمائی کرے)۔ ’’بادیہ پیمائی‘‘ کی جگہ دیوان میں اختلاف ہیں۔ ایک ’’بادنہ پیمائی‘‘ دوسرا ’’بادہ نہ پیمائی‘‘ سوال غالباً یہ تھا کہ تینوں میں سے کون سا صحیح ہے۔ اقبالؔ نے ’’بادیہ پیمائی‘‘ کو درست قرار دیا ہے۔ (ب۔ا۔ڈار:۲۰۲) بنام خواجہ بشیراحمد تعارف: خواجہ بشیراحمد ‘ مولوی احمد دین کے صاحبزادے۔ بشیراحمد کے بارے میں ان کے بھائی خواجہ اعجاز احمد کا بیان ہے کہ وہ والد صاحب کے بہت قریب تھے اور اکثر ڈاکٹر اقبالؔ کے ہاں بھی کئی معاملات میں گفت و شنید کے لیے جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مولوی صاحب کی کتابوں کی نشرواشاعت کا کام خواجہ بشیراحمد ہی کے سپرد تھا جسے وہ خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ خواجہ بشیراحمد شیخ مبارک علی کے پاس برسوں کام کرتے رہے۔ تقسیم سے کئی برس پیشتر وفات پائی۔ مآخذ: احمد دین‘ مولوی (مصنف) مشفق خواجہ (مرتب):’’اقبال‘‘ ص:۴۰ (۱۴۹) ۱۱؍اکتوبر ۱۹۲۹ء عزیزم بشیر السلامُ علیکم افسوس ہے کہ میں مولوی۱؎ صاحب مرحوم کے جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ مجھے اس سے دو ایک روز پہلے نقرس ہو گیا‘ جس کی وجہ سے پاؤں میں سخت تکلیف تھی‘ حرکت سے قاصر رہا۔ دوسرے روز دانت کے درد کا پھر اضافہ ہو گیا۔ میں نے خواجہ صاحب (خواجہ فیروز ۲؎ الدین) کے ہم دست آپ کو اپنی معذوری کا پیغام بھی بھیجا تھا۔ معلوم نہیں کہ وہ پیغام آپ تک پہنچا کہ نہ پہنچا۔ بہرحال مجھے یہ افسوس تازیست رہے گاکہ مرحوم کے لیے آخری دعا جو کی گئی‘ مَیں اس میں شریک ہونے سے محروم رہا۔ خُدا تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کرے اور آپ کوصبر جمیل عطا فرمائے۔ کل آپ کے ہاں حاضر ہونے کا قصد تھا مگر اس سے پہلے انجمن کے جلسے میں دیر ہو گئی۔ اِن شاء اللہ اب حاضر ہوں گا۔ اُمید ہے شام کے قریب آپ سب بھائی گھر پر ہوتے ہوں گے۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے دعاے صبرِ جمیل کے۔ والسلام محمد ؐ اقبالؔ تحقیق متن: زیرنظر خط ’’حیات اقبالؔ کی گم شدہ کڑیاں‘‘ (ص:۸۶) میں بھی شائع ہوا ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۱۴۶‘ تعلیقہ نمبر ۱ ۲؎ خواجہ فیروز الدین: خان بہادر رحیم بخش کے صاحبزادے علی گڑھ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۱۴ء میں انگلستان چلے گئے۔ اور ۱۹۱۷ء میںوہاں سے بیرسٹری کی سند لے کر واپس آئے اور لاہور میں وکالت شروع کر دی۔ ۱۹۱۹ء میں جب رولٹ ایکٹ کے نفاذ پر پنجاب میں مارشل لا لگا تو لاہور میں سب سے پہلے جو سرکردہ لوگ کارگزاریوں کی بنا پر گرفتار ہوئے‘ ان میں خواجہ صاحب بھی شامل تھے۔ اقبالؔ کے دوست اور ہم زلف (والدۂ آفتاب کے تعلق سے) بھی تھے۔ ممتاز موسیقار خورشیدانور انھیں کے صاحبزادے تھے۔ مآخذ: فیوض الرحمن ڈاکٹر: ’’معاصرینِ اقبالؔ‘‘،ص:۸۸۹ بنام سردار رب نوازخان تعارف: سردار محمد رب نواز خان وہوا‘ ضلع ڈیرہ غازی خان میں ۸؍فروری ۱۸۹۲ء کو پیدا ہوئے۔ تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ دُرّانی پٹھانوں کے کھتران قبیلے کے تمندار (سردار) آنریری مجسٹریٹ درجہ اول ‘ وائسریگل درباری اور امپریل بلوچی جرگہ کے ممبر تھے۔ ان کا پیشہ زمینداری تھا۔ عربی فارسی میں اچھی دسترس حاصل تھی۔ انگریزی زبان سے معمولی واقفیت تھی۔ اقبالؔ سے بے حد عقیدت تھی جب کبھی لاہور آتے تو لازماً اقبال کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ سردار کریم نواز کے بہ قول:’’اقبالؔ کے کلام کے حافظ تھے… سردیوں کے موسم میں گھر پر الاؤ کے گرد بیٹھے علاّمہ صاحب کا کلام سب گھر والوں کو سناتے‘‘۔ سردار محمد سعداللہ خان کے الفاظ میں ’’کوئی دن ایسا بمشکل ہو گا جب ان کی محفل میں علاّمہ کا ذکر نہ ہوا ہو۔ علاّمہ کے اشعار کی قرآن اور حدیث سے تطبیق ان کا خاص کمال تھا‘‘۔ ۱۷؍اگست کو اپنے آبائی گاؤں وہوا میں انتقال کیا۔ مآخذ: رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر:’’خطوط اقبالؔ‘‘ ص:۱۹۴‘۱۹۵ (۱۵۰) لاہور ۲۶؍جولائی ۳۰ئi؎ جناب سردار صاحب‘ السلام علیکم آپ کا والا نامہ مل گیا ہے جس کے لیے شکرگزار ہوں۔ اَلْحَمدْلِلّٰہٖii؎ ہر طرحiii؎ خیریت ہے۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ اپنے مقاصد میں کامیاب۱؎ ہوئے۔ اَللّٰھُمَّ زِدفَزِدْiv؎ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: زیرنظر خط کاعکس اقبالؔاکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ مزید ’’خطوط اقبالؔ‘‘ (ص:۱۹۲) میں دیکھیے۔i؎ انوار=جون۔ii؎ عکس میں ’’لِلّٰہ‘ ‘رہ گیا ہے۔iii؎ انوار=کہ iv ’’انوار‘‘کے متن میں عربی کا یہ جملہ موجود نہیں ہے۔ حواشی و تعلیقات ۱؎ سردار کریم نواز زیرِ نظر مکتوب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں گورنمنٹ نے ڈیرہ غازی خان کے جملہ تمنداروں کو ۱۵مربعہ اراضی Landed Gentry Grant میں فی تمندار عطیہ کیا۔ تمنداروں کے سربراہ اس زمانے میں نواب سربہرام خان مزاری K.C.I.E تھے۔ جملہ تمندار بلوچ تھے۔ صرف ہمارا قبیلہ پٹھان تھا۔ اس لیے نواب صاحب مرحوم نے یہ گرانٹ صرف بلوچ سرداروں کے لیے منظور کرائی۔ ہمیں اس عطیہ سے محروم رکھاگیا‘ حالانکہ اس دور کی خدمات آنریری مجسٹریٹ اور ممبرجرگہ کی حیثیت سے ہم برابر تھے۔ میاں سرفضل حسین اس زمانے میں وزیر تھے اوراقبالؔ سے ان کے مراسم تھے۔ والد صاحب نے اقبالؔ سے گزارش کی کہ ہمارے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے‘ میاں صاحب سے سفارش کرا کے اس کا ازالہ کرائیں۔ غالباً علاّمہ صاحب نے معذوری بیان کی کہ وہ دنیاوی معاملات میں کسی سفارش کے قائل نہیں۔ والد صاحب خُود میاں سے علاّمہ صاحب کے فرمان کے مطابق ملے اور اپنا کیس بیان کیا۔ جس پرانھیں بھی باقی بلوچ تمنداروں کی طرح عطیہ دیا گیا۔ اس کی اطلاع والد صاحب نے علاّمہ صاحب کو دی‘ جس کا یہ خط جوا ب تھا۔ مآخذ:رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر: ’’خطوط اقبالؔ‘‘ ۱۹۵‘۱۹۶۔ بنام ڈاکٹر محمد دین تاثیر تعارف: محمد دین تاثیر ۲۸؍فروری ۱۹۰۲ء کو امرتسر کے ایک قصبہ اجنالہ میں پیدا ہوئے۔ تاثیر کی تمام تعلیم میاں نظام الدین کے زیراثر ہوئی۔ میٹرک کاامتحان ۱۹۱۸ء میں اسلامیہ ہائی اسکول شیرانوالہ گیٹ سے پاس کیا۔ بی۔اے آنرز انگریزی کا امتحان ۱۹۲۲ء میں پاس کیا۔ ایم۔اے انگریزی کاامتحان ۱۹۲۴ء میں پاس کیا۔ جولائی ۱۹۲۵ء سے انجمنِ اسلامیہ پنجاب کے سہ ماہی رسالہ ’’انجمن‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے اور ستمبر ۱۹۲۷ء تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے ۱۹۲۶ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں جے۔اے وی کلاس کے لیے سوروپیہ مشاہرہ پرانگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۹؍فروری ۱۹۲۸ء کواس ملازمت سے مستعفی ہو گئے۔ بعدازاں محکمۂ اطلاعات پنجاب میں کام کرنے کی خواہش کی جو اقبالؔ کے توسط سے پوری ہوئی۔ اس ملازمت سے ستمبر ۱۹۲۸ء میں علیحدہ ہو کراسلامیہ کالج آگئے اور ۱۹۳۶ء تک رہے۔ ۱۹۳۲ء میں کیمبرج یونی ورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وزارتِ امورِ کشمیر میں بحیثیت ڈائریکٹر پبلسٹی تقرر ہوا۔ اور ۱۹۴۸ء میں آزادکشمیر کے صدرسردار محمد ابراہیم خان کے ساتھ امریکا چلے گئے۔ اگست ۱۹۴۸ء میں اسلامیہ کالج لاہورکے پرنسپل مقرر ہوئے اور انتقال تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ ۳۰؍نومبر ۱۹۵۰ء کو لاہور میں انتقال کیا۔ اقبالؔ سے محمد دین تاثیر کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ایف سی کالج لاہورمیں انٹرمیڈیٹ میں پڑھتے تھے۔ اس کے بعد وہ روزانہ شام کو اقبالؔ کے گھر جاتے اور ان سے شعروادب کے مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ تاثیر کی انگریز بیوی کرسٹابل اقبالؔ کے ہاتھوں مسلمان ہوئیں اور اقبالؔ نے ان کا نکاح خود پڑھایا۔ تاثیرؔ نے ’’نیرنگ خیال‘‘ کے اقبال ؔنمبر میں اسمائے رجالِ اقبالؔ کے عنوان سے ایسے لوگوں کے مختصر حالات بھی لکھے تھے جو اقبالؔ کے حاضر باش دوستوں میں سے تھے۔ مآخذ: ۱) محمد دین تاثیر‘ ڈاکٹر (مصنف) افضل حق قرشی (مرتب) : ’’اقبال کا فکروفن‘‘،ص:۱۷۔۱۹‘ ۲) ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر‘ ص:۵۸۵۔۵۸۸ ۳) ماہرالقادری (مصنف)‘ طالب ہاشمی (مرتب): ’’یادرفتگاں (حصہ اول)‘‘ص:۱۲۹ ۴) نصراللہ خان:’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘، ص:۱۱۵۔۱۱۹ (۱۵۱) بھوپال شیش محل ۲۲؍جولائی۳۵ئi؎ ڈیر تاثیر صاحب السلام علیکم جاوید۱؎ کے لیے الف ۲؎ لیلہ کا نسخہ جو آپ نے بھیجا ہے مجھے آج یہاں بھوپال میں موصول ہوا۔ جاوید بھی میرے ساتھ ہے۔ وہ کتاب دیکھ کر بہت خوش ہے اور آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہے۔ مَیں یہاں بھوپال میں بغرضِ علاجِ برقی مقیم ہوں اور اگست کے آخر تک علاج جاری رہے گا۔ بہ نسبت سابق حالت بہتر ہے اور ڈاکٹر صاحبان یقینی اُمید دلاتے ہیں کہ آواز عود کر آئے گی۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب۳؎ بھوپال نے نہایت درد مندی سے میرا علاج کرایا ہے۔ اس کے علاوہ جب ان کو سرراس مسعود۴؎ سے معلوم ہوا کہ میں ایک کتاب مقدمۃ القرآن لکھنا چاہتا ہوں تو اس ارادے کی تکمیل کے لیے مجھے انھوں نے تاحیات پانچ سو روپیہ ماہوار لٹریری پنشن عطا فرمائی ہے۔ آپ کو شاید اس کا علم اخباروں سے ہو گیا ہو گا۔ اب ذرا صحت اچھی ہو لے تو ان شاء اللہ اس کتاب کو لکھنا شروع کروںگا۔ اسی سال کے دوران میں امید ہے صورِ اسرافیل۵؎ بھی ختم ہو جائے گی۔ پھر کچھ مدت کے لیے مقدمۃ القرآن کے لیے اپنے آپ کووقف کردوں گا۔ باقی اب زندگی میں کوئی دل چسپی مجھ کو نہیں رہی صرف جاوید و منیرہ کی خاطر زندہ ہوں۔ انگلستان آنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ اگر مَیں کچھ مدّت کے لیے ادھر چلا جاؤں تو ان بچوں کی نگرانی کون کرے گا۔ اس کے علاوہ میرے لیے ان کی جدائی بھی مشکل ہے۔ ان کی ماں کی آخری وصیت بھی یہ تھی کہ جب تک یہ دونوں بچے بالغ نہ ہوجائیں ان کو اپنے سے جدا نہ کرنا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ لاہور سے فساد کی خبریں آرہی ہیں۔ ملٹری نے فائر کر دیے تھے۔ آج کی خبر ہے کہ ۱۰مسلمان مارے گئے۔ زخمیوں کی تعداد معلوم نہیں ہے۔ ملٹری اور پولیس کے آدمی بھی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ مسجد شہید۶؎ گنج کے انہدام کے سلسلے میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ یہ سمجھ لو کہ انگریزی تدبر کے اب آخری دن ہیں۔ زیادہ کیاعرض کروں۔ علی بخش۷؎ سلام کہتا ہے‘ جاوید آداب لکھواتا ہے۔ محمدؐاقبالؔ حاشیہ پر: میاں صاحب کے باغ کے آم لاہور سے کھا کر روانہ بھوپال ہوا تھا اگرچہ ان آموں کا موسم کچھ میرے بعد شروع ہو گا۔ آپ نے ارادہ کیاتھا کہ جاوید نامہ۸؎ پر لکچر دیں گے وہ لکچر لکھا گیا یا ابھی تک معرضِ التوا میں ہے۔ لکھا جائے تو ایک کاپی ضرور ارسال کیجیے۔ محمدؐ اقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار= ۳۰ئ۔ صابر صاحب کے نزدیک ۱۹۳۵ء تاریخِ تحریر ہے۔(’’اشاریہ مکاتیب‘‘، ص:۹۱) اور ’’تصانیفِ اقبال‘‘میں بھی یہی سنہ صحیح ہے (ص:۲۴۴) حواشی و تعلیقات ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۵۹‘ تعلیقہ نمبر۱ ۲؎ الف لیلہ‘ (الف لیلہ و لیلہ): عربی زبان میں کہانیوں کی ایک مشہور کتاب‘ جس کے مؤلف یا مؤلفین کے متعلق کچھ معلوم نہیں‘ مگرقرائن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں عراق اورمصر میں مختلف اوقات میں قلم بند ہوئی تھیں۔ ان کی بنیاد ایک ایرانی افسانوی داستان پر ہے۔ جس کی حکایات شہرزاد کی زبانی بیان ہوئی ہیں۔ رفتہ رفتہ دیگرحکایات کے اضافے سے اس کی ہئیت ایسی بدل گئی کہ الف لیلہ اپنی موجودہ صورت میں قرونِ وسطیٰ کے عربی اسلامی تہذیب و تمدن کے مختلف پہلوؤں کی ایک نہایت دل کش اور تقریباً ہو بہو تصویر پیش کرتی ہے۔کئی زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ (مآخذ:’’اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘ اول‘‘،ص:۱۲۳ ۳؎ ۱۹۳۴ء میں حکیم نابینا کے علاج سے اقبال کی عام صحت تو بحال ہو گئی لیکن گلے کی تکلیف میں کوئی فرق نہ آیا۔ کئی احباب نے یہ مشورہ دیا کہ وہ بھوپال جا کر بجلی کا علاج کرائیں‘ جو اس وقت جدید ترین و کامیاب ترین علاج سمجھا جاتا تھا اور بھوپال کے حمیدیہ ہسپتال میں اس کی قیمتی مشینیں لگ چکی تھیں اور ماہر ڈاکٹر بھی موجود تھے‘ جن میں ڈاکٹرعبدالباسط‘ ریڈیالوجسٹ کا اسم گرامی خاص طور پرقابل ذکر ہے۔ چنانچہ اقبالؔ‘ نواب حمیدالہ خان اور سر راس مسعود کی خواہش پر بھوپال‘ بجلی کے ذریعے علاج کرانے کی غرض سے تشریف لے گئے۔ اور ۳۱؍جنوری ۱۹۳۵ء کو بھوپال پہنچے۔ (مآخذ صہبا لکھنوی: ’’اقبال ؔاوربھوپال‘‘، ص:۸۹۔۱۱۲ ۴؎ سرراس مسعود (۱۸۸۸ئ۔۳۰؍جولائی ۱۹۳۷ئ) جسٹس سیّد محمود کے بیٹے‘ سرسید احمد خان کے پوتے‘ علی گڑھ میں پیداہوئے۔ آکسفورڈ میں تعلیم پائی‘ پٹنہ ہائی کورٹ سے وکالت شروع کی‘ پھر پٹنہ ہائی اسکول میں ہیڈماسٹر ہو گئے۔ کنگ کالج میں تاریخ کے پروفیسر ہوئے۔ ۱۹۱۵ء میں حیدرآباد دکن میں ناظم تعلیمات مقرر ہوئے۔ ۱۴؍جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبالؔ‘ جامعہ عثمانیہ میں لیکچر دینے کے لیے حیدرآباد گئے تو وہاں سر راس مسعود سے ملاقات ہوئی‘ جو وقت کے ساتھ انتہائی گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ ۱۹۳۳ء میں وہ نادرشاہ کی دعوت پرافغانستان کے تعلیمی نظام کا مطالعہ کرنے کے لیے اقبالؔ اورمولانا سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان گئے۔ ۱۹۳۴ء میں وزیرصحت و تعلیم ہو کر ریاست بھوپال آگئے۔ اقبالؔ بھوپال جاتے تو ان کی کوٹھی ’’ریاض منزل‘‘ میں قیام کرتے۔ اقبالؔ نے ’’ضرب کلیم‘‘ کی اکثر نظمیں بھوپال ہی کے قیام کے دوران میں لکھیں۔ سر راس مسعود نے بھوپال میں اپنی نگرانی میں اقبالؔ کے علاج و معالجے کا انتظام کیا۔ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۷ء کو راس مسعود کا بھوپال میں انتقال ہوا اور اگلے دن علی گڑھ میں دفن ہوئے۔ مآخذ: ۱) محمد حنیف شاہد (مرتب): ’’مقالاتِ عبدالقادر‘‘،ص:۱۷۱۔۱۷۹ ۲) مجلہ ’’اقبال‘ اکتوبر ۱۹۸۹ئ‘ص:۱۶۱۔۱۷۰ ۳) فتح محمد خان (مقالہ نگار): ’’اقبال اور راس مسعود‘‘(ایم فل۔ اقبالیات)‘ ۱۹۹۴ء ۴) غلام السیّدین ‘ خواجہ : ’’آندھی میں چراغ‘‘ ص:۱۲۱۔۱۳۶ ۵؎ اقبال نے پہلے پہل ’’بالِ جبریل‘‘ کا نام صورِ اسرافیل‘‘ تجویز کیا تھا۔ یہ اُردو مجموعہ کلام ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا۔ ۶؎ مسجد شہید گنج: مسجد نولکھا اورلنڈا بازار کے مابین ایک بزرگ شاہ کاکوچشتیؒ کا مزار تھا‘ جن کی وفات ۱۴۷۷ء میں ہوئی تھی۔ یہیں ایک مقبرہ میرمنو کا تھا جن کی وفات ۱۷۵۲ء میں ہوئی تھی۔ یہ میر منو‘ نواب قمر الدین خان وزیر محمد شاہ کے فرزند تھے اور سکھ ان کو اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ اسی کے ساتھ ایک پختہ مسجد اور حمام تھے۔ اس مسجد کے تین گنبد اورتین محرابیں تھیں اوراسے داراشکوہ کے خانساماں عبداللہ خاں نے ۱۶۵۳ء میں تعمیر کرایا تھا۔ سکھوں نے اپنے اقتدار کے زمانے میں اس مسجد اور مقبرہ کو مسمار کر کے گوردوارہ تعمیر کیا اوراس جگہ کو شہید گنج کہنے لگے کیونکہ ان کے خیال میں میر منو (نواب میر معین الملک) نے فرخ سیر کے عہد میں یہاں سکھوں کو قتل کیاتھا۔ میر منو کا مقبرہ بارہ دری کی صورت میں تھا۔ اسے مسمار کر کے میر کی لاش نکال کر اس کی بے حرمتی کی‘ بقیہ عمارتوں کے آثار برطانوی عہد حکومت تک باقی تھے اور مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ یہ مسجد اور ملحقہ عمارتیں ان کے حوالے کر دی جائیں لیکن مسلمان دشمن انگریزوں کی حکومت نے اسے مسلمانوں کے حوالے نہ کیا بلکہ ۸؍جولائی ۱۹۳۵ء کو سکھ لیڈرماسٹر تارا سنگھ نے انگریزی حکومت اور پولیس کی قیادت میں اس مسجد اور مزار حضرت شاہ کاکوچشتیؒ کومسمار کر دیا مسلمانوں نے اس پر سخت احتجاج کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے دس ہزاررضا کار بھرتی کرنے کااعلان کیا جنھیں نیلی پوش کا نام دیاگیا۔ حکومت نے ظفرعلی خان اوران کے دیگررفقا جن میں سید حبیب ایڈیٹر روزنامہ ’’سیاست‘‘ اور ملک لال خان بھی شامل تھے‘ گرفتارکر لیا۔ حکومت کے اس قدام سے مسلمانوں میں مزید اشتعال بڑھا‘ حکومت نے مسلمانوں کی یلغار کو روکنے کے لیے کرفیو نافذ کر دیا۔ ۲۱؍فروری ۱۹۳۶ء کو قائداعظم نے لاہور آکر معاملے کورفع دفع کرانے کے لیے مسلمانوں اور سکھوں کے تین تین افراد پر مشتمل ایک مشترکہ بورڈ بنایا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد عالم نے مقدمہ بھی دائر کر دیا تاہم اب بھی یہ جگہ سکھوں کے لیے محفوظ مقامات میں شامل ہے۔ مآخذ: ۱) ابواللیث صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’ملفوظاتِ اقبالؔ مع حواشی و تعلیقات‘‘، ص:۴۱۸‘۴۱۹۔ ۲) عاشق حسین بٹالوی ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ ص:۵۴۷‘۵۸۱ ۷؎ دیکھیے خط نمبر ۵۸تعلیقہ نمبر۱ ۸؎ دیکھیے خط نمبر ۴۶ تعلیقہ نمبر۲ بنام سید مصطفی حسن تعارف: سید مصطفی حسن‘ جوسید رجب علی میرمنشی وائسرائے ہند دہلی کے نواسے تھے۔ غالباً مکتوب الیہٖ نے جگراؤں آکر نوادردیکھنے کی دعوت دی‘ جس کے جواب میں اقبال نے یہ خط لکھا۔ (۱۵۲) جنابِ من۔ تسلیم آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے۔ جس کے لے مَیں سراپا سپاس ہوں۔ افسوس کہ جگراؤں آنے کا مجھے کبھی اتفاق نہ ہوا‘ ورنہ آپ کے کتب خانے کے نوادر دیکھ کر مجھے دلی مسرت ہوتی۔ زیادہ کیاعرض کروں۔ محمدؐ اقبالؔ ۱۷؍فروری۳۲ء بنام مولانا محمدعرفان خاں تعارف: موضع پکھووال ہزارہ کے رہنے والے تھے۔ مولانا محمداسحاق کے ہم وطن اور ساتھی۔ ذات کے تناول ‘ اُردو زبان کے فصیح و بلیغ مقرر۔ سلسلۂ خیرآباد کے عالم معقولات اور مدرس۔ ۱۹۲۰ء میںدرس و تدریس کے بجائے قومی تحریکوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ شُدھی کے خلاف تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ دہلی کے جمعیۃ العلما کے سیکرٹری رہے۔ بعد میں مجلسِ خلافت کے سیکرٹری ہو کر بمبئی آگئے اوروفات تک وہیں رہے۔ شریف حجاز اورابنِ سعود کی لڑائی کے زمانے میں حجاز جا کر معاملات کی تحقیق کرنے کے لیے بھیجے گئے۔ صوبہ سرحد سے جلا وطن کر دیے گئے۔ جلاوطنی کے خاتمے پر بھی وطن آ کر اپنی خدمات کو محدود کرنا پسند نہ کیا۔ حد درجہ غیور‘ شریف اور سادہ تھے‘ ساری عمر مجاہدانہ گزاری۔ کئی مرتبہ جیل گئے‘ ہمیشہ حق و صداقت کا ساتھ دیا۔ کبھی جان کی پروا نہ کی۔ بڑے قناعت پسند تھے۔ دل کے صاف مگر کان کے کچے تھے۔ ساری عمر شادی نہ کی ساری عمر قوم کی خدمت میں گزاردی۔ عربی کے بہترین استاد اور عالم۔ اُردو اہل زبان کی طرح بولتے۔ ۲۶؍اکتوبر ۱۹۲۵ء کو جو وفد سلطان عبدالعزیز ابنِ سعود کی دعوت پر موتمراسلامی کے انعقاد کے لیے بھیجا گیا۔ اس میں ظفر علی خاں اورشعیب قریشی کے ہمراہ شرکت کی۔ ۱۹۳۹ء میں بمبئی میں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کیا۔ مآخذ: ۱) ضیاء الدین برنی ’’عظمت رفتہ‘‘ ص:۳۷۷۔۳۸۱ ۲) رئیس احمد جعفری:’’دیدوشنید‘‘ص:۱۱۴۔۱۱۹ ۳) شیربہادر خان پنی‘ ڈاکٹر: ’’دیدہ شنیدہ‘‘،ص:۷۸‘۷۹ ۴) سلیمان ندوی‘ سید:’’یادِرفتگاں‘‘ص:۱۹۲‘۱۹۳ (۱۵۳) ۵؍i؎جولائی۳۲ء بصیغہ راز جناب مولانا ۔السلامُ علیکم مولانا شوکت ۱؎ علی تو اس وقت مقدمے کی تیاری میں مصروف ہوں ۲؎ گے۔ آپ ان سے دریافت حالات کر کے اس خط کا جواب دیں۔ کچھ روز ہوئے مَیں نے ان کی خدمت میں لکھا تھا کہ ایک ہندوبزرگ مسٹر للت۳؎ کا خط میرے پاس آیا تھا۔ اس کا مضمون یہ تھا کہ ’’ڈآکٹرii؎ مونجے۴؎ تمھاری اسکیم کو جو تم نے لیگ کے صدارتی ایڈریس میں پیش کی تھی تسلیم کرتے ہیں۔ پنڈت مالوی۵؎ سے بھی مشورہ کرنے کے لیے جا رہا ہوں۔ وہ بھی ہندومسلمانوں کی صلح کیiii؎ خاطر اس کو تسلیم کرلیں گے گو اس وقت علانیہ طور پر اس اسکیم کو تسلیم کرنا مصلحت نہیں ہے‘‘۔ یہ خط بصیغہ راز تھا اوراس میں یہ بھی لکھاتھا کہ میں iv؎ نے مولانا شوکت علی صاحب سے بھی گفتگو کی ہے وہ بھی صلح پر آمادہ ہیں۔ اسکیم جس کی طرف مَیں نے اشارہ کیا ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے یعنی شمالی ہندوستان کے مسلمان صوبوں کا ایک ہوجانا۔ اس خط کے موصول ہونے پر مَیں نے مولانا شوکت علی کو لکھا اور انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مسٹر v؎ للت ان سے ملے تھے۔ میں نے مسٹر موصوف کو دو خط اس کے جواب میں لکھے تھے مگر یہ خط قریباً ایک ماہ کے بعد ڈڈلیٹر آفس کے ذریعے سے میرے پاس واپس آگئے ہیں۔ پہلے مجھ کو شبہ تھا کہ اس میں کوئی چال اور عیاری نہ ہو مگر اب خطوں کے واپس آ جانے سے یہ شبہ رفع ہوا۔ مسٹر للت اب معلوم نہیں کہاں ہیں اور مذکورہ بالاخط لکھنےvi؎ سے ان کا کیا مقصد تھا۔ ممکن ہے مولانا شوکت علی اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ بعض لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ میرے خطوط کے واپس آجانے کے بعد مسٹر للت کے خط کو شائع کرنا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو حالات دریافت کرنے کے بعد مجھ کو مطلع فرمائیں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلامvii؎ مخلص محمدؐاقبال افسوسviii؎ کہ بمبئی کے۶؎ فسادات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ والسلامix؎ تحقیق متن: i؎ انوار=۸؍جون۔ ii؎ انوار=مونجے۔iii؎ انوار=صلح کے خاطر۔ ivانوار=کہ مولانا۔v؎ انوار=مسٹر پندت للت۔ vi؎ انوار=خط کے لکھنے۔vii؎’’انوار‘‘ میں والسلام درج نہیں ہے۔viii؎ انوار=افسوس ہے کہ۔ix؎ ’’انوار‘‘ میں والسلام درج نہیں ہے۔ (دیکھیے عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ مولانا شوکت علی (۱۰؍مارچ ۱۸۷۳ئ۔۲۷؍نومبر ۱۹۳۸ئ) :والد کا نام عبدالعلی خان‘ وطن: رام پور۔ مولانا محمد علی کے بڑے بھائی۔ والدہ آبادی بیگم تحریک خلافت کے دنوں میں بی اماں کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ مولانا نے ملازمت سے مستعفی ہو نے کے بعد ’’انجمن خدام کعبہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ پہلی عالمی جنگ میں مولانا محمد علی کے ساتھ مہرولی ‘ پھر چھنڈواڑے‘ بعدازاں بتیول میں نظر بند رہے۔ ۱۹۱۹ء میں رہا ہو کر تحریکِ خلافت کاآغاز کیا۔ مختلف اسلامی ممالک کی سیاحت بھی کی۔ ’’مؤتمر اسلامی‘‘ منعقدہ مکہ معظمہ ‘ نیز مؤتمر اسلامی منعقدہ یروشلم میں شریک ہوئے۔ دوسری گول میز کانفرنس کے رکن تھے۔ آخر میں مسلم لیگ میں شریک ہو گئے تھے۔ مرکزی اسمبلی کے رکن تھے۔ دیلی میں حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوا اور جامع مسجد کے سامنے دفن ہوئے۔ مآخذ: ۱) ’’نامورانِ علی گڑھ (تیسرا کارواں)‘‘ص:۲۳۔۲۹ ۲) عبدالسلام خورشید ڈاکٹر: ’’وَے صورتیں الٰہی‘‘،ص:۲۰۹۔۲۱۱ ۲؎ یہ مقدمہ مولانا شوکت علی نے فری پریس جرنل کے مالک اور اڈیٹر سدانند کے خلاف ازالۂ حیثیت عرفی کے سلسلے میں دائر کیا تھا۔ سدانند نے الزام لگایا تھا کہ رضاکارانِ خلافت کی لاری سے خون آلود چھرے دستیاب ہوئے جن سے ہندوؤں کو قتل کیا گیا۔ اس مقدمے میں سدانند کو جرمانے کی سزا ہوئی تھی۔ (’’انوار‘‘،ص:۲۰۸) ۳؎ مسٹر للت کوئی وکیل تھے اور مولانا شوکت علی سے ملے تھے۔ اس ملاقات کے بعد مولانا نے روزنامہ ’’خلافت‘‘ میںاس تجویز کی حمایت میں اپنے خیالات ظاہر کیے تھے۔ مسٹر للت کا خط ’’زندہ رود …حیات اقبالؔ کا اختتامی دور‘‘ (ص:۴۱۸) میں شامل ہے‘ جس میں وہ مسلم سٹیٹ کی اصطلاح کو ’’مسلم پروانس‘‘ کانام دیتے ہیں۔ ۴؎ ڈاکٹر مونجے:(۱۸۷۲ئ۔۱۹۴۸) ‘۱۲؍دسمبر کو بلاسپور (مدھیہ پردیش۔ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۱ء میں میٹرک کاامتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۴ء میں گورنمنٹ میڈیکل کالج‘ ناگپور میں داخلہ لیا اور ۱۸۹۸ء میں ایل ۔ایم۔اینڈ ایس کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۰۱ء میں ناگپور میں ڈاکٹری پریکٹس شروع کی۔ یہ آنکھوں کے امراض کے ماہر تھے۔ ۱۹۰۶ء میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت کی۔ ۱۹۲۱ء میں عدم تعاون کی تحریک میں حصہ لیا۔ اور دوبارہ قید کی سزا پائی۔ بعدازاں ہندومہاسبھا میں شامل ہو گئے اور ۱۹۲۶ء میں اس کے صدر منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر مونجے نے ہریجنوں کی نمائندگی کے بارے میں ایک سمجھوتہ ان کے رہنما ایم۔سی۔راجا کے ساتھ کیا جو مونجے راجا سمجھونے کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۹۳۷ء میں ہندو ملٹری ایجوکیشن سوسائٹی قائم کی اور ناسک کے قریب بھونسلے ملٹری اسکول کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر مو نجے نے ۳؍مارچ ۱۹۴۸ء کو ناگپور میں وفات پائی۔ ڈاکٹر مونجے کا مؤقف یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمان یا ہندو بن کر رہیں یا عرب چلے جائیں۔ مآخذ: مظفر حسین برنی (مرتب)’’کلیاتِ مکاتیب‘ سوم‘‘ ص:۹۸۹‘۹۹۰۔ ۵؎ پنڈت مالوی: (مدن موہن مالویہ) ‘ ۱۸۶۱ئ۔۱۹۴۶ئ) ‘ اِلٰہ آباد میں ۲۵؍دسمبر ۱۸۶۱ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۸۷۹ء میں میٹرک پاس کیا اور میور سینٹرل کالج اِلٰہ آباد سے ۱۸۸۴ء میں بی۔اے کی ڈگری لی۔ ۱۸۹۱ء میں ایل۔ایل۔بی کا امتحان پاس کیا۔ اور ۱۸۹۳ء میں اِلٰہ آباد ہائی کورٹ میں وکیل ہو گئے۔ اگرچہ پنڈت مالویہ کانگریس کے زبردست حامی تھے تاہم انھوں نے ۱۹۰۶ء میں ہندومہاسبھا قائم کی اور تین بار اس کے صدر رہے۔ ان کاانتقال ۱۹۴۶ء میں ہوا۔ مآخذ: رئیس احمد جعفری: ’’دیدوشنید‘‘ ،ص:۱۹۷۔۱۹۹ ۶؎ یہ بڑا ہولناک فساد تھا۔ جو بمبئی کے پٹھانوں کے خلاف ہوا تھا۔ ہندوؤں کو شُبہ ہو گیا تھا کہ پٹھان ہندو بچوں کواغوا کر کے لے جاتے ہیں۔ اس خون ریزی میں پٹھانوں کو نیست و نابود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مولانا شوکت علی نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر پٹھانوں کو بچایا۔ (ب۔ا۔ڈار‘ ص:۲۰۹) بنام خواجہ عبدالوحید تعارف: خواجہ عبدالوحید‘ خواجہ کریم بخش کے بیٹے اور خواجہ عبدالحمید مؤلف ’’جامع اللغات‘‘ کے چھوٹے بھائی تھے۔ خواجہ صاحب ۳؍جنوری ۱۹۰۱ء کو لاہور میں ایک مکان ’’للی لاج‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک یہ مکان لاہور کا سب سے اہم تہذیبی اورادبی و علم مرکز تھا۔ اس مکان میںہر شام منعقد ہونے والے اجتماعات میں علاّمہ اقبال‘ سرعبدالقادر‘ مولانا ظفرعلی خان‘ سر شہاب الدین‘ مولوی احمد دین اورمولوی انشاء اللہ خان تواتر سے شریک ہوتے تھے۔ مرّوجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ خواجہ صاحب نے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے تفسیر کا باقاعدہ درس لیا۔ علومِ قرآنی اوراصولِ تفسیر پرانھیں مکمل عبورحاصل تھا۔ خواجہ صاحب نے کم و بیش تیس برس برصغیر کے مشاہیر کی کتابوں اور ڈاکٹریٹ کے مقالوں پر نظرثانی کا کام کیا۔ منجملہ اور کتابوں کے انھوں نے عبداللہ یوسف علی اور مولانا عبدالماجد دریابادی کے انگریزی تراجم کی تصحیح بھی کی۔ ۱۹۲۸ء میں خواجہ صاحب نے ’’اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ جس کی دعوت پر خالدہ ادیب خانم‘ مفتی اعظم فلسطین اور غازی حسین روف لاہورتشریف لائے۔ اس ادارے کے سرپرست اعلیٰ اقبال تھے۔ پہلا’’یومِ اقبال‘‘ اقبال کی حیات ہی میں ۱۹۳۲ء میں اسی ادارے کے زیراہتمام خواجہ صاحب نے منانے کا اہتمام کیا تھا۔ ۱۹۳۴ء میں انجمن خدام الدین نے پندرہ روزہ انگریزی اخبار ’’اسلام‘‘ جاری کیا۔ علاّمہ اقبال کا مشہور مقالہ "Islam and Qadianism"اسی اخبار کے ۲۲؍جنوری ۱۹۳۶ء کے شمارے میں پہلی بار شائع ہوا۔ پندرہ روزہ ’’اسلام ‘‘کے تمام ایڈیٹوریل اقبال کے مشورے سے لکھے گئے۔ ۱۹۴۸ء میں خواجہ صاحب کراچی منتقل ہوگئے۔ خواجہ صاحب نے ۱۹۲۴ء میں سرکاری ملازمت کاآغازکیا اور وزارتِ اطلاعات سے ۱۹۶۰ء میں ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد اقبال اکیڈمی کراچی اور پی ای سی ایچ کالج کراچی قابلِ ذکر ہیں۔ قرآنی خدمات کے سلسلے میں ایک اہم کام ’’تبویب القرآن‘‘ کی تالیف ہے۔ اگست ۱۹۷۹ء میں انتقال ہوا اور کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔ مآخذ: عبدالوحید خواجہ (مؤلف):’’موضوعاتِ قرآن اور انسانی زندگی‘‘ ص:ع‘ص‘ق (۱۵۴) فروری /مارچi؎ ۱۹۳۳ء جناب خواجہ صاحب ابھی تک جواب نہیں ]آیا[ مگر امید ہے کہ آج شام تک آجائے گا اور اگر انھوں نے تار کی جگہ خط لکھا تو کل صبح جواب ملے گا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر انصاری۱؎؎ کا تار ابھی آیا ہے کہ دہلی آکر رؤف ۲؎ پاشا کے لیکچر کی صدارت کروں۔ یہ لیکچر ۴‘۶‘۸ مارچ کو ہوں گے۔ مَیں ان کے لیکچر کی صدارت کے لیے جاؤں گا مگرواپس آنے کی جواب آنے کے بعد تاریخ مقرر کر سکوں گا۔ آپ آج شام کو پھر دریافت کریں تو شاید مَیں کوئی مستقل جواب دے سکوں۔ محمدؐ اقبالؔ تحقیقِ متن: i؎ مذکورہ تاریخ صابرکلوروی صاحب کی متعین کردہ ہے۔ عکس میں یہ خط بلا تاریخ ہے۔ (’’اشاریہ مکاتیب‘‘،ص:۹۱) (دیکھیے عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۸۲‘ تعلیقہ نمبر ۲ ۲؎ ’’رؤف پاشا‘‘ ۱۸۷۱ء میں بمقام استنبول پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد مظفر پاشا کا عثمانی بحریہ سے تعلق تھا۔ چنانچہ رؤف پاشا کو بھی بحریہ کی تربیت دی گئی‘ اس سے فراغت پانے کے بعد وہ جہاز ’حمیدیہ ‘پر مامور ہوئے۔ جنگِ بلقان میں ان کو ’حمیدیہ ‘کا سالار مقرر کیا گیا۔ آپ انجمن اتحادِ ترقی کے سرگرم رکن اور مصطفی کمال پاشا کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ۱۹۲۲ء میں وزارت انگورہ کاانتخاب ازسرِ نو عمل میں آیا تو وزارت عظمیٰ کا اہم منصب آپ کے حصے میں آیا۔ اس کے دو ماہ بعد رؤف بے کو پاشا کے سب سے بڑے خطاب سے نوازا گیا‘ لیکن وہ اتاترک کے مغرب پسندانہ اقدامات میں زیادہ دنوں تک ساتھ نہ دے سکے اور حکومت سے الگ ہو گئے‘ بالآخر انھیں جلا وطن ہوجانا پڑا اور ایک عرصے تک پیرس میں مقیم رہے۔ ۱۹۳۳ء میں جامع ملّیہ اسلامیہ نے دہلی میں توسیعی خطبات کا سلسلہ شروع کیا اوراعلان کیا کہ اس کی ابتدا غازی رؤف پاشا کی تقریر سے کی جائے گی۔ غازی رؤف پاشا کی تقاریر کی صدارت کے لیے اقبالؔ کانام تجویز ہوا چنانچہ ۱۸؍مارچ ۱۹۳۳ء کواقبالؔ ‘ ڈاکٹر انصاری کی دعوت پر جامعہ ملیہ میں رؤف بے کے دو خطبوں کی صدارت کے لیے دہلی پہنچے۔ رؤف بے نے وطنیت اوراتحاد اسلامی کے موضوع پر اپنا خطبہ پڑھا۔ بعدازاں اقبال نے بحیثیت صدر جلسہ انگریزی میں ایک طویل تقریر کی۔ آخر میں اپنی معروف نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ (جو اس وقت غیر مطبوعہ تھی)کا آخری بند سنایا۔ ۲۰؍مارچ ۱۹۳۳ء کو رؤف بے کے دوسرے توسیعی لیکچر کے لیے اجلاس کی صدارت پھراقبالؔ نے کی۔ خطبے کا موضوع جنگِ عظیم تھا۔ رؤف پاشا ہندوستان کی سیاحت کے بعد وطن واپس پہنچے تو انھیں وزارت بحریہ کانگران مقرر کیا گیا‘کچھ دنوں اس عہدے پر فائز رہنے کے بعد خرابیِ صحت کی بنا پر کنارہ کشی اختیار کر لی اور بالآخر طویل بیماری کے بعد ۷؍جولائی ۱۹۶۴ء کوانتقال کر گئے۔ مآخذ: ۱) رئیس احمد جعفری:’’دیدوشنید‘‘ص:۴۶۔۴۸ ۲) فیوض الرحمن‘ ڈاکٹر: ’’معاصرینِ اقبال‘‘، ص:۳۴۰ ۳) جاوید اقبال ‘ ڈاکٹر:’’زندہ رود…حیاتِ اقبال کااختتامی دور‘‘، ص:۵۶۶‘۵۶۷۔ بنام پروفیسر علم الدین سالکؔ تعارف: مولانا علم الدین سالکؔ باغبانپورہ (لاہور) کے قریب بستی سلامت پورہ میں یکم جنوری ۱۹۰۰ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۶ء میں میٹرک پاس کیا۔ ۱۹۲۲ء تک مولوی فاضل‘ منشی فاصل اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کر لیے اور پھر تحریکِ خلافت کے خاتمے پر ۱۹۲۴ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے بی۔اے کر لیا۔ ۱۹۲۹ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی سے پرائیویٹ طور پر فارسی میں ایم۔اے کیااوراسلامیہ کالج میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہو گئے۔ ۱۹۲۲ء میں سالکؔ صاحب نے ایک ادارہ’’دارالعلوم السنہ شرقیہ‘‘ کے نام سے قائم کیا اور اس کے بانی اور اعزازی پرنسپل کی حیثیت سے ۱۹۲۹ء تک فرائض انجام دے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۵۸ء تک پنجاب یونی ورسٹی اورینئٹل کالج میں ایم۔اے فارسی کی کلاسوں کو پڑھایا۔ ۱۹۶۷ء میں سالک صاحب اسلامیہ کالج سے بطوروائس پرنسپل ریٹائر ہوئے لیکن ۱۹۷۱ء میں پھر اسلامیہ کالج لاہورکینٹ میں پرنسپل ہو گئے۔ ۹۲۷جولائی ۱۹۷۳ء کو انتقال کیا۔ اقبالؔ سے ان کاگہرا ربط تھا۔ وہ اقبالؔ کے ایک سیاسی رفیق اور بے لوث کارکن تھے۔ انھوںنے ۱۹۲۱ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک تحریک آزادیِ کشمیر کا ہر مرحلے پر ساتھ دیا اوراس تحریک کے دستۂ ہراول کے سالارِ اول تھے۔ ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اقبالؔ نے انھیں ’’اعزازی کشمیری‘‘ اور ’’اعزازِ کشمیر‘‘ کے القابات سے نوازا تھا۔ جب اقبالؔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر تھے تو انھیں مولانا سالکؔ پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ کشمیر کے بارے میں کوئی بیان جاری کرنے سے پہلے مولانا سے تبادلۂ خیال ضروری سمجھتے تھے۔ سالک ؔصاحب نے افسانے اور ڈارمے بھی لکھے۔ بعد میں ان کا رحجان تحقیق و تنقید کی طرف ہو گیا۔ مآخذ: ۱) مظفرحسین برنی (مرتب) ’’کلیاتِ مکاتیب‘ سوم‘‘ ص:۸۳۱‘۸۳۲‘ ۲) روزنامہ ’’جنگ‘‘ راولپنڈی ۵؍اگست ۱۹۷۳ئ‘ ۳) عبدالسلام خورشید‘ ڈاکٹر ’’وے صورتیں الٰہی‘‘، ص: ۱۸۴۔۱۸۷ (۱۵۵) ۸؍جون ۳۳ء جناب پروفیسر صاحب وہ مسودہ۱؎ ابھی تک نہیں آیا۔ مَیں اس کا منتظر ہوں تاکہ ڈیپوٹیشن جانے سے پہلے اس کی اشاعت ہو جائے۔ محمدؐ اقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ یہ خط کشمیر کے معاملات سے متعلق ہے۔ اقبالؔ‘ کشمیر کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے کشمیر کے معاملات کے متعلق ایک بیان جاری کرنا چاہتے تھے‘ جس کا مسوّدہ تیار کرنے کے لیے پروفیسر سالکؔسے کہاگیا تھا۔ (’’روحِ مکاتیبِ اقبالؔ‘‘،ص:۴۶۳) بنام مرزا یعقوب بیگ تعارف: ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ ۱۶؍اپریل ۱۸۷۲ء کو کلانور(ضلع گورداسپور) میں پیداہوئے۔ آپ مرزا نیاز بیگ رئیس کلانور کے تیسرے فرزند تھے۔ ابتدائی تعلیم قصبہ قصور (ضلع لاہور) اوراس کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول امرتسر میں حاصل کی۔ انٹرنس کے بعد میڈیکل کالج لاہورمیں داخلہ لیا اور ۱۸۹۷ء میں ڈاکٹر کا آخری امتحان پاس کیا ‘ اس کے علاوہ آپ نے پرائیویٹ طور پر غالباً کلکتہ یونی ورسٹی یاالٰہ آباد یونی ورسٹی سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ جون ۱۸۹۸ء میں ایچی سن چیفس کالج لاہور میں سائنس ماسٹر مقرر ہوئے۔ میو ہسپتال لاہورمیں ہاؤس سرجن مقرر ہوئے۔ میڈیکل سکول لاہور میں پروفیسر اناٹومی اورکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں سینئر ڈیمانسٹریر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب ۵؍فروری ۱۸۹۲ء کو مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت میں داخل ہوئے‘ اور آخری عمر تک جوشِ تبلیغ جاری رکھا۔ ۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۴ء تک صدرانجمن احمدیہ کے معتمد کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۱۴ء میں مولانا نورالدین کی وفات کے بعد جماعت کے دو فریق بن گئے۔ مئی۱۹۱۴ء میں احمدیہ انجمن اشاعت الاسلام کی بنیاد ڈالی گئی اور ۳؍مئی ۱۹۱۴ء کو معتمدین کا پہلااجلاس ہوا۔ مرزا یعقوب جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ آپ نے ۱۲؍فروری ۱۹۳۲ء کو وفات پائی۔ مآخذ: مسعودبیگ مرزا: ’’آئینہ صدق و صفا‘‘،ص:۳۔۷۷ (۱۵۶) ۱۲؍ستمبر ۳۳ء جناب مرزا صاحب آپ کا دستی خط ابھی ملا ہے۔ اس وقت تک مجھے کوئی اطلاع نہ تھی۔ ہاں اخباروں میں ضرور دیکھا تھا کہ آپ کا کوئی جلسہ لورینگ ۱؎ ہوٹل میں ہوا ہے۔ آپ کے خط کے ساتھ مہرؔ صاحب۲؎ کاایک خط ملا‘ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ۱۶؍ستمبر سے پہلے جواب دیا جائے۔ افسوس ہے کہ مَیں ان کے خط کا جواب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اجلاس میں ان کاخط پیش کرنے کے بغیرعرض نہیں کر سکتا۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کااجلاس ۱۶؍ستمبر تک ممکن نہیں کیونکہ بہت سے ممبران لاہورسے باہرہیں۔ دونوں سکیرٹری بھی باہر ہیں۔ رحیم بخش۳؎ صاحب بھی یہاں نہیں ہیں۔ مَیں اپنی ذمہ داری پر کوئی جواب لکھنا نہیں چاہتا۔ ہاں ذاتی رائے رکھتا ہوں جس کے بیان کرنے کا موقع ابھی نہیں آیا۔ والسلام محمدؐ اقبالؔ مہربانی کر کے یہ خط مہرؔ صاحب تک پہنچا دیں کہ ان کے خط کا جواب بھی یہی ہے جواِدھر مذکور ہوا۔ محمدؐ اقبالؔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ ۱۹۳۱ء کے آخری مہینوں میں کشمیر میں فسادات کاایک بے پناہ سلسلہ شروع ہوا۔ مجلسِ احرار نے عملی مظاہرے شروع کیے۔ دوسری طرف ایک علیحدہ کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جس کا مقصد آئینی ذرائع سے مسلمانانِ کشمیر کی مدافعت تھی۔ اس سلسلے میں اس کمیٹی نے مسلمان سیاسی قیدیوں کی قانونی مدد کے لیے وکلا کو کشمیر بھیجنا شروع کیا۔ اس کمیٹی کے صدر مرزا بشیرالدین محمود تھے۔ کشمیر کمیٹی کے اکثر اجلاس لورینگ ہوٹل میں ہوتے تھے۔ جو مال روڈ پر واقع تھا۔ مآخذ: ۱) محمد احمد خان:’’اقبالؔ کا سیاسی کارنامہ‘‘،ص:۴۱۵۔۴۲۳ ۲) محمد رفیق افضل (مرتب): گفتارِ اقبالؔ‘‘ ص:۱۷۳۔۱۷۷ ۲؎ دیکھیے خطوط بنام غلام رسول مہرؔ ۳؎ رحیم بخش مرحوم ریٹائرڈ سیشن جج تھے جوکشمیر کے معاملات میں بہت دل چسپی رکھتے تھے۔ (’’انوار‘‘،ص:۲۱۱) بنام نواب بہادریارجنگ تعارف: محمد بہادرخاں جوبعد میں نواب بہادریارجنگ کے نام سے مشہورہوئے‘ ۲۸؍فروری ۱۹۰۵ء کو بمقام کوسہ واڑی بیگم بازار‘حیدرآباد (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ اور مفیدالانام میں ہوئی۔ پندرہسال کے تھے کہ قومی خدمت کاجذبہ پیدا ہوا توانگریزی سامراج اوریونانیوں کے مظالم کے خلاف مظلومینِ سمر نا کی امداد کے لیے فنڈ جمع کرنے میں پیش پیش رہے۔ ۱۹۳۱ء میں حج و زیارت حرمین سے مشرف ہوئے۔ واپسی کے بعد حیدرآباد کے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے مجلس سے وابستگی اختیار کی اور ۱۹۳۲ء ۔۱۹۳۵ء تک ریاست میں ایک پُرزورتحریک چلائی۔ آپ ایک بے مثال خطیب تھے۔ ۱۹۳۸ء کے لگ بھگ حیدرآباد میں فرقہ وارانہ فساد میں دو نوجوان پٹھانوں کو قتل کر دیا گیا تو مسلمان جلوس کی شکل میں نکل پڑے۔ اس سے قبل حیدرآباد میں کبھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا تھا۔ نواب صاحب نے اس مجمعے کو آدھے راستے میں جا لیا اور دو گھنٹے کی تقریر کی۔ بالآخر جلوس منتشر ہو گیا‘ جو کام پولیس کے دستے نہ کر سکے وہ نواب بہادر یارجنگ کی خطابت نے کر دیا۔وہ کل ہندریاستی مسلم لیگ کے صدرمنتخب ہوئے۔ جب نظام (حیدرآباد) نے فرمان جاری کیا کہ خطاب یافتہ جاگیرداروں کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تو نواب صاحب نے اپنے خطاب اور جاگیرات ۳؍مارچ ۱۹۴۴ء کو واپس کر دیں۔ نواب بہادر یار جنگ شاعر بھی تھے اور خلقؔ تخلص فرماتے تھے۔ ۲۵؍جون ۱۹۴۴ء کو نسبتاً کم عمری میں انتقال فرما گئے۔ نواب صاحب کو اقبالؔ سے خاص عقیدت تھی۔ ان کی فکر و نظر کاایک سرچشمہ کلامِ اقبالؔ تھا۔ ۱۹۳۳ء میں اقبالؔ نے پہلی بار ‘ بہادر یارجنگ کو بذریعہ خط مخاطب فرمایا: مآخذ: ۱) نظرحیدرآبادی: ’’اقبال اور حیدرآباد‘‘،ص:۲۲۲‘۲۲۷ ۲) محمدایوب قادری‘ ڈاکٹر: ’’کاروانِ رفتہ‘‘،ص:۶۸۔۷۱ ۳) "Muslims in India, A Biographical Dictionary Vol: I", P:116 (۱۵۷) لاہور ۱۴؍ستمبر ۳۳ء مخدومی جناب نواب صاحب۔السلام علیکم مظلومینِ کشمیر ۱؎ کی امداد کے لیے آپ سے درخواست کرنے کے لیے یہ عریضہ لکھتا ہوں۔ اسوقت حکومت کی طرف سے ان پر متعدد مقدمات چل رہے ہیں جن کے اخراجات کی وجہ سے فنڈ کی نہایت ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی تھوڑی سی توجہ سے یہ مشکل حل ہو جائے گی۔ اس سے پہلے ایک خط مجھے ایک بزرگ محمدؐاعظم نامی نصیروالہ عمان آباد کی طرف سے آیا تھا۔ انھوں نے نے خود بھی چندہi؎ کر کے بھیجنے کاوعدہ فرمایا تھا اور مجھے یہ بھی لکھا تھا کہ آپ کی توجہ اس طرف منعطف کروںii؎ ۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمانانِ کشمیر کو امداد کامستحق تصور کرتے ہیں۔ یہ طباع اور ذہین قوم ایک مدت سے استبداد و ظلم کا شکار ہے۔ اس وقت مسلمانانِ ہند کا فرض ہے کہ ان کی موجودہ مشکلات میں ان کی مدد کی جائے۔ زیادہ کیا عرض کروں اُمید ہے کہ آپ کامزاج بخیر ہو گا۔ یہ خط خلیفہ عبدالحکیم۲؎ صاحب پروفیسر عثمانیہ ۳؎ یونی ورسٹی کی معرفت آپ تک پہنچاتا ہوں۔ مجھے آپ کا ایڈریس معلوم نہ تھا اور اس بات کااندیشہ تھا کہ میرا خط کسی اور طرف نہ چلا جائے۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ انوار=چیدہ۔ ii؎ انوار=اس طرف کراؤں (دیکھیے عکس) حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر ۱۵۶‘ تعلیقہ نمبر۱ ۲؎ خلیفہ عبدالحکیم (۱۸۹۵ء ۹؍اگست ۱۹۵۹ئ) لاہور میں پیدا ہوئے۔ لاہور اور دہلی میں تعلیم مکمل کر کے ہائیڈل برگ (جرمنی) گئے اور پی ۔ایچ۔ڈی (فلسفہ) کی ڈگری لی۔ واپس آ کر جامعۂ عثمانیہ حیدرآباد (دکن) میں صدر شعبۂ فلسفہ مقرر ہو گئے۔ آخر میں کئی سال ڈین آف دی فیکلٹی آف دی آرٹس کے مرتبے پر فائز رہے۔ مدتِ ملازمت پوری کر کے پنشن لی۔ بعدازاں سری نگر کالج کے پرنسپل رہے۔ آزادیٔ پاکستان کے بعد ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ (لاہور) کے ناظم مقرر کیے گئے۔ یہاں انھوں نے اسلامی فلسفے اور اسلامی نظریات پر متعدد کتابیں لکھیں اور لکھوائیں۔ ادبی‘ علمی اور دینی مجلسوں سے گہری وابستگی تھی۔ اہم تصانیف میں: ’’فکرِ اقبالؔ‘‘ ،’’افکارِ غالبؔ‘‘،’’اقبال اور مُلّا‘‘،’’مابعدالطبعیاتِ رومیؔ‘‘ شامل ہیں۔ مآخذ: ۱) ’’نامورانِ علی گڑھ (تیسرا کارواں‘ جلد اوّل)‘‘ ص:۲۰۵۔۲۱۶‘ ۲) وَلے صورتیں الٰہی‘‘ ص:۲۴۳۔۲۴۶ ۳) زاہد حسین انجم: ’’ہمارے اہل قلم‘‘،ص:۳۳۰ ۴) ممتاز اختر مرزا:’’ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم۔ سوانح اور علمی وادبی خدمات‘‘ ص:۵۔۴۳ ۳؎ دیکھیے خط نمبر۹۵‘ تعلیقہ نمبر۱ بنام جناب نصراللہ خاں تعارف: برصغیر کے مشہور صحافی اورصاحب طرز کالم نگار…ریاست جاورہ (بھارت)میں ۱۱؍نومبر ۱۹۲۰ء میں پیدا ہوئے۔ سات برس کی عمر میں امرتسر آگئے اور یہیں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۴۵ء میں آگرہ یونی ورسٹی سے بی۔اے اور بی۔ٹی کی اسناد حاصل کیں۔ ۱۹۴۷ء میں ناگپور یونی ورسٹی سے ایم۔اے(اُردو) کیا۔ اسی سال کراچی آئے۔ آپ کراچی کے مشہور تعلیمی ادارے ہیپی ڈیل اسکول کے آپ بانیوں میں سے ہیں۔ ۱۹۴۹ء میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ اس کے لیے بے شمار فیچر‘ ڈرامے اور دیگر پروگرام لکھے۔ ’’دیکھتا چلا گیا‘‘ ان کا مقبول ترین پرگروام تھا۔ زمانۂ طالب علمی ہی میں صحافت کی تربیت مولانا ظفر علی خاں سے حاصل کی اور ان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ میں کام کیا۔ ۱۹۳۸ء میں مضطرہاشمی کے اشتراک سے لاہور سے روزنامہ ’’نقاد‘‘ جاری کیا۔ ایک عرصے تک روزنامہ ’’احسان‘‘ (لاہور)‘ ’’امروز‘‘ (کراچی) اور ’’جنگ‘‘ (کراچی) میں کالم نگاری کی۔ ۱۹۶۱ء میں روزنامہ ’’حرّیت‘‘ (کراچی) جاری ہوا تو اس کے پہلے شمارے سے کالم لکھنا شروع کیا۔ اخباری کالموں کا انتخاب ’’بات سے بات‘‘ کے نام سے ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا۔ شخصی خاکوں کا مجموعہ ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ مآخذ: ۱) نصراللہ خان: ’’کیا قافلہ جاتا ہے (فلیپ)‘‘،۱۹۸۴ء ۲) راغب مراد آبادی (مرتّب) خطوطِ جوشؔ ملیح آبادی‘‘ ص:۲۳۷‘۲۳۸ (۱۵۸) لاہور ۵؍اگست ۳۶ء جنابِ من۔ السلام علیکم اپ کا والا نامہ ابھی ملاہے۔ افسوس کہ مَیں ابھی تک علیل ہوں۔ اگرچہ پہلے کی نسبت کسی قدر افاقہ ہے۔ عام صحت کسی قدر بہتر ہو گئی ہے مگر آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ اسمبلی کے آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کی نہ ہمتi؎ ہے نہ ارادہ۔ والسلامii؎ محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎انوار=تمناّ۔ ii؎ ’’انوار‘‘ میں ’’والسلام‘‘ نہیں ہے۔ اس خط کا عکس ماہنامہ ’’کائنات‘‘ امرتسر میں جولائی ۱۹۳۸ء کے شمارے میں شائع ہوا‘ اور اس پر لکھا ہے ’’مرسلہ نصراللہ خاں جرنلسٹ‘ رکن ادارہ زمیندار لاہور‘‘ (کلیاتِ مکاتیب‘ چہارم‘ص:۳۷۳) بنام نورحسین تعارف: نورحسین اقبال کے مدّاح و عقیدت مند تھے۔ انھوں نے اقبال کے نام اپنے خط میں یہ خواہش ظاہر کی اگر روزگار کا انتظام ہو سکے تو وہ لاہور میں آکرمقیم ہو جائیں اوراس طرح اقبال کی صحبت سے مستفید ہو سکیں۔ جناب نور حسین نے لاہور کو ’’مدینہ محمداقبالؔ‘‘ کا نام دیا ہے۔ (۱۵۹) لاہور ۱۷؍مارچ ۳۷ء جنابِ من السلام علیکم۔ آپ کا خط مل گیا ہے۔ میں خرابیِ صحت اور کمزوریِ بصارت کی وجہ سے خود نہیں لکھ سکتا۔ اس واسطے ایک دوست (سے) خط کا جواب لکھوا رہا ہوں۔ معاف کیجیے۔ افسوس ہے کہ شہر لاہور میں آپ کے لیے کوئی صورت گزارا ہو جانے کے متعلق میں کوئی اُمید آپ کو نہیں دِلا سکتا۔ یہاں کے سیکڑوں تعلیم یافتہ نوجوان بے کار پھر رہے ہیں۔ سرکاری ملازمت کا دروازہ عملاً بند ہے اور پرائیویٹ ملازمت تجارت کی کساد بازاری کی وجہ سے قریباً ناممکن ہو گئی ہے۔ ایسی حالت میں مَیں آپ کو لاہور کی طرف رخ کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتا۔ مَیں ذاتی تجربے کی بِنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ لاہور میں ملازمت کی تلاش میں آتے ہیں ان کو بے اندازہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باقی رہے آپ کے خواب۱؎ ‘ سو عرض یہ ہے کہ مَیں فنِ تعبیر میں کوئی ملکہ نہیں رکھتا۔ البتہ عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضورِ رسالت مآبؐ کی زیارت خیروبرکت کا باعث ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سال سے میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضور رسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاے اسلام کی ہے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: اس خط کا عکس اقبالؔاکادمی لاہور کی لائبریر میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ جناب نور حسین نے اپنا یہ خواب اقبالؔ کو تحریر کر کے اس کی تعبیر دریافت کی تھی: ’’بندہ گنبدِ خضرا کے اندر پالتی مار کر بیٹھا ہے۔ حضورؐ مقبرے کے چبوترے پر بیٹھے ہیں‘ چہرہ خوفناک ہے‘ آنکھیں ماتھے پر ہیں‘ خوف اور کراہت ہو رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد صورت منقلب ہوتی ہے۔ چہرہ مبارک نورانی‘ داڑھی نصف سیاہ نصف سفید ہے۔ رات کی جگہ دن ہے۔ پھر صورت منقلب ہوتی ہے۔ چہرہ بہت نورانی ہے۔ تیس بتیس کا سن ہے۔ سر پر بال بٹے رکھتے ہیں۔ داڑھی چھوٹی چھوٹی سیاہ ۔ پھر چوتھی حالت پیداہوگئی ہے۔ آپؐ کا سن ۱۸‘۱۹ سال کا ہے۔ سبزہ آغاز نوجوان ہیں۔ بندہ نے حضرت اقبالؔ کے کلام سے پڑھنا شروع کیا ہوا ہے… جوں ہی اقبالؔ کے کلام سے بندہ نے شعر پڑھا تو آپ نے بھی حضرتِ علاّمہ کے کلام کواسی طرح پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ بندہ اور آنحضرتؐ بالکل آمنے سامنے جیسے استاد شاگرد یا دوست دوست حضرت علاّمہ اقبالؔ کے کلام کو دہراتے اور داد دیتے ہیں۔ سرور کاوہ عالم ہے جس کی کیفیت تحریر میں نہیں آسکتی‘‘۔(ب۔ا۔ڈار‘ص:۲۱۶) بنام ظفر احمد صدیقی تعارف: پروفیسر ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی ۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ایم۔اے فلسفہ کا امتحان ۱۹۳۵ء میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے پاس کیا اور پھر اسی یونی ورسٹی سے فلسفہ میں پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی‘ ان کے تحقیقی مقالہ کاموضوع ’’فلسفۂ ابنِ طفیل‘‘ تھا۔ ظفر احمد نے ملازمت کا آغاز ۱۹۳۹ء میں مجیدیہ اسلامیہ کالج اِلٰہ آباد میں فلسفے کے لیکچرار کی حیثیت سے کیا۔ ۱۹۴۵ء تک اسی کالج میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۴۵ء میں اسلامیہ کالج اٹاوہ کے پرنسپل مقرر ہوئے اور ۱۹۴۷ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ ۱۹۴۷ء میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ فلسفہ میں لیکچرار کی حیثیت سے درس و تدریس کاآغاز کیا اورپھر ریڈر ہوئے اور پروفیسر بنے‘ شعبہ فلسفہ کے صدر مقرر ہوئے اور فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ علی گڑھ یونی ورٹسی کے ماحول اور ذاتی کوشش و کاوش نے ان کے علمی وادبی ذوق کی جلا بخشی۔ ۱۹۳۴ء تا ۱۹۳۵ء علی گڑھ میگزین کے مدیر رہے۔ ۱۹۳۸ء میں رسالہ ’’اقبال‘‘ جاری کیا۔ جو ۱۹۴۰ء تک شائع ہوتا رہا ۔شاعری سے بھی شغف رہا۔ کلام کا مجموعہ ’’فکرونظر‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ پروفیسر ظفر احمد نے اقبالیات پر وقعی اورمعیاری کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں ’’مثنوی پس چہ بایدکرد‘‘ کامنظوم اُردو ترجمہ ’’حکمتِ کلیمی‘‘ کے نام سے ۱۹۵۵ء میں علی گڑھ سے شائع ہوا۔ اقبالؔ پر ان کے فاضلانہ خطبات کا مجموعہ ’’اقبالؔ…فلسفہ اور شاعری‘‘ کے نام سے ۱۹۷۵ء میں طبع ہوا۔ مآخذ: ۱) مجلہ ’’اقبالؔ‘‘ جولائی ۱۹۸۸ء ص:۱۶۵۔۱۶۹ ۲) افتخار احمد صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’فروغ اقبالؔ‘‘ص:۱۱۴ (۱۶۰) لاہور ۱۲؍دسمبر ۳۶ء جناب من۔ ۱۔ معترض۱؎ قادیانی معلوم ہوتا ہے ار یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہi؎ قرآن کریم کی تعلیم سے بے بہرہ ہے علیٰ ہذا القیاس اسلامی تصوف میں مسئلہ خودی کی تاریخ اور نیز میری تحریروں سے ناواقف محض ہے۔ موخر الذکر صورت میں مَیں اسے معذور جانتا ہوں۔ آخر اس غلامی کے زمانے میں مسلمانوں کے پاس کون سا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی آیندہ نسلوں کو اسلامی تصورات کے بننے اور بگڑنے کی تاریخ سے آگاہ کر سکیں۔ غلام قومیں مادیات کو روحانیات پر مقدم سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور جب اِن میں خوے غلامی راسخ ہو جاتی ہے تو ہر ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرتے ہیں جس کا مقصد قوتِ نفس اور روحِ انسانی کا ترفع ہو۔ ۲۔ اعتراض کا جواب آسان ہے‘ دین اسلام جو ہر مسلمان کے عقیدے کی رُو سے ہر شے پر مقدم ہے نفسِ انسانی اوراس کی مرکزی قوتوں کوفنا نہیں کرتا بلکہ ان کے عمل کے لیے حدود معین کرتا ہے۔ ان حدود کے متعین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الٰہی ہے۔ خودی خواہ مسولینی۲؎کی ہو خواہ ہٹلر۳؎ کی قانونِ الٰہی کی پابند ہو جائے تو مسلمان ہو جاتی ہے۔ مسولینی نے حبشہ کو محض جوع الارض کی تسکین کے لیے پامال کیا۴؎ ۔ مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں حبشہ کی آزادی کو محفوظ رکھا۔ فرق اس قدر ہے کہ پہلی صورت میں خودی کسی قانون کی پابند نہیں دوسری صورت میں قانونِ الٰہی و اخلاق کی پابند ہے۔ بَہرحال حدودخودی کے تعین کا نام شریعت ہے۔ اور شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکامِ الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال وعواطف باقی نہ رہیں اورصرف رضاے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کوبعض اکابر صوفیہ اسلام نے فنا کہا ہے بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی اورایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ وہ یدانت۵؎ اور بُدھ مت۶؎ کے زیر اثر کی ہے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ محض ہے۔ میرے عقیدے کی رُو سے یہ تفسیر بغداد۷؎ کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں مری تمام تحریریں اس تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں۔ ۳۔ معترض کا یہ کہنا کہ اقبالؔ اس دورِ ترقی میں جنگ کا حامی ہے غلط ہے۔ مَیں جنگ کا حامی نہیں ہوں نہ کوئی مسلمان شریعت کی حدودِ معینہ کے ہوتے ہوئے اس کاحامی ہوسکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جہاد یا جنگ کی صرف دو صورتیں ہیں۔ محافظانہ اور مصلحانہ پہلی صورت میں یعنی اس صورت میں جبکہ مسلمانوں پر ظلم کیاجائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے۔مسلمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے۔ (نہ حکم) دوسری صورت میں جس میں جہاد کا حکم ہے ۹:۸۹۴؎ میں بیان ہوئی ہے ان آیات کو غور سے پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ چیز جس کو سیمیویل۹؎ ہور جمعیت اقوام۱۰؎ کے اجلاس میں Collective Security۱ ؎ کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور وضاحت سے بیان کیا ہے اگر گزشتہ زمانے کے مسلمان مدبرین اورسیاسئین قرآن پر تدّبر کرتے تو اسلامی دنیا میں جمعیت اقوام کو بنے ہوئے آج کئی صدیاں گزر گئی ہوتیں۔ جمعیت اقوام جو زمانہ حال میں بنائی گئی ہے اوراس کی تاریخ بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ جب تک اقوام کی خودی قانونِ الٰہی کی پابند نہ ہو امنِ عالم کی (کوئی) سبیل نہیں نکل سکتی۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوا مَیں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا۔ جوع الارض کی تسکین کے لیے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے علیٰ ہذاالقیاس دین کی اشاعت کے لیے تلواراٹھانا بھی حرام ہے۔ ۴۔ شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے۔ اس جانور میں اسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں۔ (۱) خُود دار وغیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔(۳) بلند پرواز ہے (۴)خلوت پسند ہے (۵) تیز نگاہ ہے۔ آپ کے خط کا جواب حقیقت میں طویل ہے لیکن افسوس کہ مَیں طویل خط لکھنا تو درکنار معمولی خط و کتابت سے بھی قاصر ہوں۔ والسلام محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: i؎ ’’انوار‘‘ اور ’’اقبالنامہ‘‘ اول‘ (ص:۲۰۱۔۲۰۵) کے متن میں یہ جملہ محذوف ہے۔ عکس ناقص ہے اور چونکہ اصل مکتوب دستیاب نہیں تھااس لیے یہ عبارت اندازے سے لکھی گئی تاہم مفہوم یہی ہے اور یہ اندازہ جناب ظفر احمد صدیقی کے ۶؍اکتوبر ۱۹۸۷ء کے خط کی روشنی میں قائم کیا گیا ہے اور جناب ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے بھی ایک ملاقات میں اس بات کی تصدیق کی ہے‘ جناب ابواللیث صدیقی اس زمانے میں علی گڑھ میگزین کے مدیر تھے۔ جب یہ خط پہلی مرتبہ علی گڑھ میگزین میں شائع ہوا تھا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس زمانے کے حالات کے پیشِ نظر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر کی ہدایت پر یہ عبارت حذف کی گئی تھی۔ بہرحال اقبالؔ کا اندازہ درست نہیں تھا۔ اصل معترض پروفیسر ڈاکٹر عبدالعلیم تھے جو قادیانی بہرحا ل نہیں تھے۔ (مجلہ:’’اقبال‘‘ جولائی ۱۹۸۸ء ص:۱۷۶۔۱۷۷) حواشی و تعلیقات: ۱؎ ظفراحمدصدیقی کے ایم۔اے کے زمانۂ طالب علمی میں علی گڑھ یونی ورسٹی کے شعبہ اُردو میں ایک انجمن ’’اُردوئے معلّٰی‘‘ قائم ہوئی تھی۔ انجمن کے اجلاس میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کے علاوہ‘ پروفیسر عبدالعلیم اور پروفیسر ظفر احمد صدیقی بھی شریک ہوتے تھے۔ پروفیسر عبدالعلیم ترقی پسندوں کی ترجمانی کرتے‘ اور ظفراحمدصدیقی اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بات کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک بحث کے دوران میں پروفیسر عبدالعلیم نے اقبالؔ کی شاعری اور فلسفہ پر اعتراضات کیے۔ پروفیسر ظفراحمد صدیقی نے جوابات دیے اوراس بحث کی روشنی میں ایک نظم(نذرِاقبالؔ‘ ’’انوار‘‘ ‘ص:۲۲۰۔۲۲۲) بھی لکھی۔ مآخذ: افتخاراحمد صدیقی‘ ڈاکٹر: ’’فروغ اقبالؔ‘‘ ص:۱۱۴‘۱۱۵ ۲؎ بینی ٹو مسولینی(Mussolini Benito) :اطالیہ کے صوبے فارلی کے ایک قصبے میں ۲۹؍جولائی ۱۸۸۳ء کو پیدا ہوا۔ مسولینی اطالیہ کا وزیراعظم اورآمرِ مطلق تھا۔ علاّمہ اقبالؔ نے مسولینی سے ۲۷؍نومبر ۱۹۳۱ء کو ملاقات کی تھی اور اٹلی کی ترقی کے لیے چند مشورے بھی دیے تھے۔ اقبالؔ مسولینی سے متاثر بھی ہوئے لیکن اس وقت تک مسولینی کی انتہا پسندانہ توسیعی سرگرمیاں ظاہر نہ ہوئی تھیں۔ اطالوی قوم فاشی پارٹی کے پرچم تلے منظم ہو رہی تھی‘ ایسی حالات میں اقبالؔ کامسولینی کی انقلابی شخصیت سے متاثر ہونا تعجب انگیز نہ تھا۔ آلِ احمدسرور کے نام خط میں لکھتے ہیں کہ مسولینی میں Devil اور Saint کی خصوصیات جمع ہو گئی ہیں۔ (اقبال نامہ ‘ ص:۵۷۰) انھیں مسولینی کی نگاہ میں ناممکن البیان تیزی نظر آئی جسے انھوں نے ’’شعاعِ آفتاب‘‘ سے تعبیر کیا۔ (کلیات‘ اُردو‘ ص:۴۸۰۔۴۸۱) مسولینی کی طرح اقبالؔ بھی قوت کے علمبردار تھے لیکن ان کا مطمحِ نظر مادی قوت کے بجائے اخلاقی اور روحانی قوت تھا۔ (اقبال نامہ‘ ص:۳۴۲) مسولینی ۲۶؍اپریل ۱۹۴۵ء کوگرفتار ہوا اور دو روز بعد مع اپنے ساتھیوں کے قتل کر دیا گیا۔ مآخذ: ۱) حق نواز (مرتب) ’’سفرنامۂ اقبالؔ‘‘ ص:۱۵۱ ۲) جاوید اقبال‘ ڈاکٹر: ’’زندہ رود…حیات اقبالؔ کااختتامی دور‘‘،ص:۵۲۰۔۵۲۱ ۳) ’’داستانِ مسولینی…آپ بیتی‘‘ ص:۱۵۔۳۶‘۲۵۱ ۳؎ ہٹلر (Adolph Hitler) (۱۸۸۹ئ۔۳۰؍اپریل ۱۹۴۵) جرمن رہنما اور آمرِ مطلق ۱۹۱۲ء میں نازی تحریک کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۳۳ء سے ۱۹۳۹ء تک جرمنی کامطلق العنان حکمران تھا۔ ۱۹۴۲ء کے آخر میں ہٹلر کی فوجوں کو شکست ہونے لگی۔ بالآخر ۳۰؍اپریل ۱۹۴۵ء کو ہٹلر نے خود کشی کر لی۔ مآخذ: ۱) ’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر‘ص:۹۰۸۔۹۱۸ ۲) مائیکل ہارٹ (مصنف) عاصم بٹ (مترجم): ’’سوعظیم آدمی‘‘،ص:۲۰۹۔ ۲۱۵ ۴؎ ۱۸؍اگست ۱۹۳۵ء کواخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ اٹلی نے ابی سینا پر بلاوجہ حملہ کر دیا ہے۔ اقبالؔ کواس پرشدید رنج ہوا۔ اس کااظہار انھوں نے ’’ضرب کلیم‘‘ کی دو نظموں میں کیا‘ پہلی نظم کا عنوان: ’’ابی سینا‘‘ ہے (کلیات‘ اردو‘ص:۶۵۷) ‘ دوسری نظم ’’مسولینی‘‘ (کلیات‘ اُردو‘ ص:۴۷۰۔۴۷۱) ۵؎ وہ صوفیانہ فکر جس کی تعلیم شنکراچاریہ نے دی‘ ویدانت کہلاتی ہے‘ اس کی رُو سے آدمی کی کامیابی کاراز اس میں مضمر ہے کہ وہ اپنی خودی کوخُدا میں فنا کر دے یا اپنی ہستی کو اس طرح مٹا دے جس طرح قطرہ سمندر میں مل کر اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ ویدانت کی رُو سے گیان حاصل ہونے کے بعد اپاسنا (عبادت) کی ضرورت نہیں رہتی۔ ۶؎ بُدھ مت کی بنیاد گوتم بدھ نے رکھی تھی‘ تیسرصدی قبل مسیح میں بُدھ مت ہندوستان کا مقبول ترین مذہب تھا‘ اس مذہب کا اصل الاصول یہ ہے کہ اَنا کاتصور ختم کر دو تاکہ دُکھ کاخاتمہ ہو جائے اسی کو نروان کہتے ہیں۔ مآخذ: سیتا رام ‘ پروفیسر‘ ’’تاریخ ہند (حصہ اول)‘‘ ص:۵۹۔۷۲ ۷؎ ہلاکوخان (۱۲۱۷ء ۔ ۱۲۶۵ئ) نے ۱۲۵۸ء میں بغداد کو تاراج کیا۔ اس نے نہ صرف عباسی سلطنت کے مرکز کوتباہ کر کے مسلمانوں کی سیاسی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ صدیوں میں جمع ہونے والی علمی خزانے کو بھی نذرِآتش کردیا۔ شیخ سعدی شیرازی نے خلافتِ عباسیہ کے خاتمے او ربغداد کی تباہی پر ایک مرثیہ لکھا تھا جس کا ذکر اقبالؔ نے ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’صقلیہ‘‘ میں یوں کیا ہے: ع ناکہ کش شیراز کا بلبل ہوا بغداد پر (کلیات‘ اُردو‘ ص:۱۵۹) ۸؎ اقبالؔ نے قرآن مجید میں جہاد کے حکم کا جو حوالہ دیا ہے وہ درست نہیں فرضیتِ جہاد کے احکام البقرہ: ۱۹۱۔۱۹۳‘ ۲۱۶ اور التوبہ :۴۱ میں نازل ہوئے جب کہ قتال کا حکم التوبہ۵:۳۶ میں دیا گیا ہے ۹؎ سیموئل ہور(Samuel Hoare(۱۸۸۰ئ۔۱۹۵۹ئ) مختلف اوقات میں برطانیہ کے وزیرِ داخلہ ‘ وزیرخارجہ اوروزیرہند کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی جس تقریر کا حوالہ اقبالؔ نے دیا ہے غالباً یہ ۱۹۳۵ء میں کی گئی تھی۔ جب وہ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ تھے۔ مآخذ: ۱ "Dictionary of National History, 1951-1960, P:487-489 ۱۰؎ جمعیت اقوام (League of Nations) ‘ یہ عالمی ادارہ جنگِ عظیم اوّل کے بعد یکم جنوری ۱۹۲۰ء کو معرض وجود میں آیا۔ مقصد وجود یہ تھا کہ اقوام عالم باہمی اختلافات و تنازعات کو جنگ و جدل کے بجائے صلح وآتشی سے طے کریں مگرادارے کی طاقت ور رکن اقوام کے عدم تعاون کی بنا پر یہ مقصد پورا نہ ہوا۔ لہٰذا ۱۹۴۶ء میں جمعیت اقوام ختم ہو گئی۔ اس کاآخر اجلاس ۱۸؍اپریل ۱۹۴۶ء کو منعقد ہوا تھا۔اس کاصدرمقام جنیوا تھا۔ مآخذ: مجلہ :’’اقبال‘‘ جولائی ۱۹۸۸ء ‘ ص:۱۸۱۔ ۱۱؎ Collective Security یعنی اجتماعی تحفظ ۔ وہ نظام جس کے ذریعے دنیا کے تمام ممالک کی آزادی اورعلاقائی حدود کی حفاظت کااجتماعی طور پر اہتمام کیاجاتا ہے۔ جمعیت اقوام کے پس منظر میں بھی یہ اصول کام کر رہا تھا اور انجمن اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی اس اصول کو بنیادی اہمیت حاصل ہے‘ اجتماعی تحفظ کے نظام کی کامیابی کاانحصار اس بات پر ہے کہ تمام ممالک انفرادی طور پر ان فیصلوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں جو امن کے قیام کے لیے اجتماعی طورپر کیے جائیں لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ مآخذ: مجلہ: ’’اقبال‘‘ جولائی۱۹۸۸ئ‘ص:۱۸۱۔ بنام محمد رمضان عطائی تعارف: محمدرمضان عطائی سینئر انگلش ماسٹر گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان کے نام ہے۔ ایک دفعہ مولوی محمدابراہیم صاحب (سب جج گوجرانوالہ) نے اقبالؔ کی مندرجہ ذیل رباعی: تو غنی از ہر دوعالم من فقیر روزِ محشر عذر ہائے من پذیر درحسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر محمد رمضان صاحب کے سامنے پڑھی۔ رمضان صاحب صوفی منش آدمی تھے۔ ان کے دل پر رباعی کااتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ گر پڑے‘ چوٹ کھائی اوربے ہوش ہو گئے۔ اس کے بعد وہ اقبالؔ کے مکان پر گئے اورالتجا کی یہ رباعی انھیں بخش دی جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ وصیت کریں گے کہ ان کے مرنے کے بعد یہ رباعی ان کی لوحِ مزار پر لکھ دی جائے۔ ان کی اس عقیدت کے پیش نظر اقبالؔ نے رباعی انھیں بخش دی اوراسے اپنے کلام میں شامل نہیں کیا۔ اس کی بجائے اقبالؔ نے ایک اور رباعی کہی جو ’’کلیاتِ اقبال (فارسی) ص۷۷۹پر موجود ہے۔ بے پایاں چورسد ایں عالم پیر شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہ مارا حساب من زِ چشم اُونہاں گیر (ب۔ا۔ڈار‘ ص:۲۲۲‘۲۲۳) (۱۶۱) لاہور ۱۹؍فروری ۳۷ء جناب من۔ مَیں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں۔ خط و کتابت سے معذور ہوں۔ باقی شعر کسی کی ملکیت نہیں‘ آپ بلا تکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آگئی ہے اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ والسلامi ؎ محمدؐ اقبالؔ لاہور تحقیق متن: ’’اقبال نامہ‘ اول‘‘ (ص:۲۵۵۔۲۵۶) میں یہ خط مع عکس شامل ہے۔i ؎ ’’انوار‘‘ میں ’’والسلام‘‘ نہیں ہے‘’’اقبال نامہ‘‘ میں لفظ ’’فقط‘‘ ہے جو عکس کے مطابق صحیح نہیں ہے۔ بنام حکیم راغب مراد آبادی تعارف: نام:اصغر حسین اورتخلص : راغب ۔ ۱۹۱۸ء میں شاہ جہاں آباد (دہلی) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تاریخ ولادت قرآن مجید کی آیت ھذٰا مِن فَضلِ رَبِیّْ سے نکالی ہے۔ آیت کے اعداد ۱۹۱۸ء ہیں۔ ابتدائی تعلیم مراد آباد‘ شملہ اور دہلی میں ہوئی۔ بی۔اے‘ ادیب فاضل‘ منشی فاضل کے بعد طبِ یونانی کی سندبھی لی لیکن مطب کرنے کے بجائے گورنمنٹ کی ملازمت کرلی۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان آگئے۔ ۱۹۸۰ء میں حکومت سندھ سے افسرِ تعلقاتِ عامہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اُردو اور فارسی میںشعری مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ متعدداخبار و رسائل سے وابستگی رہی۔ مآخذ: ۱) راغب مراد آبادی (مرتب) :’’خطوطِ جوش ملیح آبادی‘‘ ص:۲۱۳۔۲۱۴ ۲) زاہدحسین انجم: ’’ہمارے اہلِ قلم‘‘ ،ص:۲۱۵۔۲۱۶ (۱۶۲) لاہور ۲۹؍جولائی ۱۹۳۷ء جناب من۔ آپ کے خط کامدلل جواب طویل ہے۔ افسوس کہ مَیں علالت طبع کے باعث طویل خط نہیں لکھ سکتا۔ مختصراً میری رائے یہ ہے کہ کانگریس۱؎ میں مسلمانوں کی غیر مشروط شمولیت اسلام اور مسلمان دونوں کے لیے مضر ہے۔ محمدؐاقبالؔ حواشی تعلیقات: ۱؎ کانگریس (انڈین نیشنل کانگریس) :بھارت کی سیاسی جماعت ۱۸۸۵ء میں قائم ہوئی ۔ بنیادی مقصد ہندوستان کوآئینی ذرائع سے درجۂ نَوآبادیات دِلوانا تھا۔ جب یہ جماعت خالصتاً ہندوؤں کے حقوق کے تحفظ کی امین بن گئی تومسلمانوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ جماعت مسلم لیگ کی ۱۹۰۶ء میں بنیاد رکھی۔ بنام مولوی عبدالحق تعارف: مولوی عبدالحق ۱۸۶۹ء میں ہاپوڑ(ضلع میرٹھ بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۴ء میں علی گڑھ سے بی۔اے کر کے حیدرآباد میں محکمۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ اس زمانے میں انھوں نے ایک رسالہ ’’افسر‘‘ کی ادارت بھی کی۔ پھر ان کو اورنگ آباد میں ناظمِ تعلیمات کے عہدے پرفائز کیاگیا۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد پہلے ناظم دارالترجمہ اور پھر صدرشعبۂ اردو مقرر ہوئے۔ ۱۹۱۲ء میں مولوی صاحب نے انجمن ترقی اُردو کی سکرٹری شپ سنبھالی ‘ جس کے نتیجے میں انجمن کا دفتر علی گڑھ سے اورنگ آباد منتقل ہوا۔ ۱۹۳۵ء میں ریٹائر ہوئے تواقبالؔ نے ان کو مشورہ دیا کہ اُردو کی اشاعت اورترقی کے لیے ان کا دِلّی میں نقل مکانی کرنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ وہ اورنگ آباد سے دہلی چلے گئے۔ اقبالؔ مولوی عبدالحق کی اُردوتحریک کواس تحریک سے کم نہیں سمجھتے تھے ‘ جس کی ابتدا سرسیداحمدخان نے کی تھی۔ چنانچہ اقبالؔ کی خواہش پر ۱۹۳۶ء میںمولوی صاحب کو انجمن حمایت الاسلام کے سالانہ اجلاس کی صدارت کے لیے لاہور بلایا گیا اور ساتھ ہی یوم اُردو کی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں انجمن ترقیِ اُردو کا دفترقائم کیا‘ اُردوکالج کی بنیا د رکھی۔ ۱۹۶۱ء میں انتقال کیا۔ مولوی صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں‘ جن میں ’’انگریزی اُردو ڈکشنری‘‘ ’’قواعدِ اُردو‘‘،’’ملانصرتی‘‘ ،دکنی مخطوطات‘‘، مقدمات‘‘،’’شذرات‘‘ ، سرسید خان‘‘، مولاناحالیؔ‘‘، اُردو کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘ اور مرہٹی زبان پر فارسی کااثر‘‘ قابل ذکر تصانیف ہیں۔ مآخذ: ۱) نظر حیدرآبادی: اقبالؔ اورحیدرآباد‘ ص:۲۱۵۔۲۱۸ ۲) مختار الدین احمد: ’’عبدالحق‘‘ ۱۹۹۲ء ۳) معین الرحمن ‘ سید‘ ڈاکٹر: بابائے اردو ‘ خدمات اور فرمودات‘ص:۲۸۵۔۲۹۴ ۴) ممتاز حسن: ڈاکٹر(مرتب): اقبال اورعبدالحق ‘ص:۹۔۴۰ (۱۶۳) جاوید منزل‘ لاہور ۱۵؍مارچ۳۸ء ڈیر مولوی صاحب سلامِ مسنون۔ امید ہے کہ آپ کامزاج اچھا ہو گا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سارٹن کی انگریزی کتاب مقدمہ تاریخ سائنس کا ترجمہ نیازی ۱؎ صاحب آپ کے لیے اُردو میں کر رہے ہیں۔ میں نے ترجمے کا ایک حصہ خود بھی دیکھا ہے۔ نصف سے زیادہ کتاب کاترجمہ مکمل ہوچکا ہے۔ چونکہ گذشتہ چارپانچ برس سے نیازی صاحب کے حالات اچھے نہیں رہے اس لیے وہ باطمینان ترجمے کا کوئی حصہ آپ کو نہ بھیج سکے۔ ترجمہ اب صاف ہو رہا ہے اور نیازی صاحب نے مجھے یقین دلایا ہے کہ اپریل سے ماہ بماہ آپ کی خدمت میں پہنچاتا رہے گا۔ نیازی صاحب آپ کی مدد کے مستحق ہیں۔ مَیں چاہتا ہوں آپ انھیں تھوڑا سا وقت اور دیجیے تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ ترجمے کی اقساط آپ کو بھیج سکیں۔ والسلام مخلص محمدؐاقبالؔ تحقیق متن: یہ خط ’’اقبال اور عبدالحق‘‘ (ص:۵۳) میں بی شامل ہے۔ زیرنظر خط کاعکس اقبالؔ اکادمی لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ دیکھیے خط نمبر۸۰‘ تعلیقہ نمبر ۲ بنام احمداللہ خاں منصور حیدرآبادی تعارف: آپ نقاشِ سیرت محمد احمد اللہ خاں منصور کے نام سے مشہورتھے اور انھیں منصور حیدرآبادی بھی پکارا جاتا تھا۔ ادبی حلقوں میں نیز علمائے وقت کی نظروں میں ایک باعزت مقام کے حامل رہے۔ ان کی کتاب ’’برکاتِ عثمانی‘‘ آصف صابع کے بے مثال کارناموں اور اس دور کے امرا و رؤسا و نیز دفاتر کے قیام و نظم نسق پر ایک مستند دستایزی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی دیگر اہم تصانیف میں ’’جوہر توانائی‘‘ (ایٹم بم)‘’’ترکی خاتون کا احسانِ عظیم (باتصویر) ’’کالج کے ہیرے‘‘ (باتصویر) ’’ہندو بیوہ کی اپیل‘‘ ،’’بیدر کا ظالم ہمایوں‘‘،مقامِ اعراف‘‘ (ڈاکٹر سراقبال) وغیرہ۔مآخذ: کلیاتِ مکاتیب‘ چہارم: ۸۴۸ (۱۶۴) لاہور ۲۱؍ستمبر ۱۹۳۲ء جناب من۔ تسلیم آپ کاوالا نامہ مع پارسل کُتب ابھی موصول ہوا ہے۔ افسوس کہ گزشتہ دو سال سے علیل ہوں۔ مشاغلِ علمی قریباً ترک ہوچکے ہیں اور خط و کتابت بھی شاذ ہی کرتا ہوں۔ فی الحال آپ کی کتابیں پڑھنے کی ہمت اپنے آپ میں نہیں پاتا۔ مَیں آپ کی نظم و نثر کو اچھی نظروں سے دیکھتا ہوں۔ فقط محمدؐاقبالؔ بنام فریداحمدصاحب تعارف: مولوی فریداحمد نظامی‘ حضرت بابا فرید گنج شکر کی اولاد میں تھے۔ وہ امروہہ ‘ ضلع مراد آباد کے باشندے تھے۔ ان کے والد ارشادعلی نظامی ۱۸۴۶ء سے صوبہ پنجاب کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ مولوی فرید احمد نظامی جھانسی‘ میرٹھ وغیرہ میں سب رجسٹرار ہے۔ وہ سر سید کی تحریک کے بڑے حامی‘ وسیع المطالعہ اورروشن خیال انسان تھے۔ ۱۹۴۱ء میں میرٹھ ہی میں انتقال ہوا‘ درگاہ شاہ ولایت میرٹھ میں دفن ہوئے۔ (’’کلیاتِ مکاتیب‘ اول‘‘ص:۱۰۲۱) (۱۶۵) مکرم بندہ السلام علیکم افسوس ہے کہ مجموعہ ابھی تک تیار نہیں ہوا۔ والسلام مخلص محمدؐاقبال بیرسٹر لاہور ۱۳؍جولائی ۱۹۱۷ء بنام تلوک چند محرومؔ تعارف: تلوک چند محرومؔ ۱۸۸۷ء میں عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۰۵ء میں ٹریننگ کالج لاہور سے جے اے وی کر کے مشن ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان میں مدرسی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد عیسیٰ خیل اور کلورکوٹ میں پڑھاتے رہے‘ اسی اثناء میں بی۔اے بھی کر لیا۔ ۱۹۴۳ء میں گارڈن کالج راولپنڈی میں اُردو فارسی کے لیکچرر ہو گئے۔ تقسیم کے بعد دہلی چلے گئے۔ پہلے روزنامہ ’’تیج‘‘ میں رہے پھر پنجاب یونی ورسٹی کیمپ کالج دہلی میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ دہلی میں انتقال کیا۔ ۱۹۲۹ء میں مجموعۂ کلام ’’گنجِ معانی‘‘ کے نام سے چھپا۔ اس کے علاوہ کئی مجموعے شائع ہوئے‘ مثلاً’’مہرشی درشن‘‘ رباعیاتِ محرومؔ‘‘،’’کاروانِ وطن‘‘ ’’بہارِ طفلی‘‘، ’’شعلہ نوا‘‘،’’کلامِ نیرنگِ معانی‘‘ اور ’’بچوں کی دنیا‘‘ وغیرہ۔ اقبال سے انھیں خاص عقیدت تھی۔ معروف اقبال شناش جگن ناتھ آزاد‘ محرومؔ کے فرزند ہیں۔ اقبالؔ ‘ ڈاکٹریٹ اور بیرسٹری کی تکمیل کے بعد جولائی ۱۹۰۸ء میں یورپ سے لوٹے تو ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے محرومؔ نے ’’اسلام و پیام‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔ یہ نظم رسالہ ’’مخزن‘‘ (نومبر ۱۹۰۸ئ) میں شائع ہوئی۔ اقبالؔ نے یہ نظم دیکھی تو محرومؔ کوشکریے کا خط لکھا۔ مآخذ: ۱) رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر: ’’خطوط اقبالؔ‘‘ ص:۱۰۴ ۲) خدابخش لائبریری‘ پٹنہ: ’’جدید غزل گو‘‘،ص:۲۲۳ ۳) ’’نقوش‘‘ خاص نمبر ۱۹۶۷ء ‘ص:۱۵۶۔۲۳۱ ۴) ’’نقوش‘‘ آپ بیتی نمبر ص:۱۱۰۸۔۱۱۱۲ (۱۶۶) مکرم بندہ جناب تلوک چندصاحب محرومؔ آپ کا پیام و سلام رسالہ مخزن میں میری نظر سے گزرا۔ جس حُسن ظن کااظہار آپ نے ان اشعار مں کیا ہے اس کے لیے مَیں آپi؎ کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ مَیں آپ کی نظمیں مخزن میں پڑھتا رہا ہوں۔ ماشاء اللہ خوب طبعیت پائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تھوڑے عرصے میں تمام شعر کہنے والوںii؎ میں آپ کا نمبر اول ہو گا۔ افسوس ہے کہ مَیں بوجہ مصروفیت فی الحال شعر گوئی سے محروم ہوں۔ خُدا آپ کی جولانیِ طبع کو اور زیادہ کرے۔ والسلام محمدؐاقبالؔ بیرسٹرایٹ لا۔ لاہور ۴؍جنوری۰۹ء تحقیق متن: زیر نظر خط ’’خطوط اقبالؔ‘‘ (ص:۱۰۴‘۱۰۵) میں بھی شامل ہے۔i؎ خطوط اقبالؔ: لفظ ’’آپ‘‘ زاید ہے۔ii؎ خطوطِ اقبالؔ: لکھنے والوں بنام سرور شاہ گیلانی سید سرورشاہ گیلانی نے ایک ہفتہ وار اخبار ’’مسجد‘‘ جاری کیا‘ جس پر اقبالؔ نے انھیں ایک خط لکھا (۱۹۳۵ئ)i؎ ۔ یہ خط علاّمہ شبیر احمدعثمانی اورسیدصفدر شاہ گیلانی کے مرتب کردہ ایک کتابچہ موسوم بہ ’’خطبہ عیدالفطر اور تحریک تنظیم مساجد کا دینی پروگرام‘‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتابچہ سید سرور شاہ گیلانی ایڈیٹر ’’الجماعت‘‘ صدر کراچی نے شائع کیاتھا۔ حضرت علاّمہ کے علاوہ قائداعظم‘ علاّمہ مشرقی‘ مولانا ظفر علی خان‘ مولانا عبیداللہ سندھی اور دیگر حضرات کے پیغامات بھی اس کتابچے میں شائع ہوئے تھے۔ حضرت علاّمہ کا پیغام درج کرنے سے پہلے سید سرور شاہ گیلانی نے یہ نوٹ لکھا ہے۔ ’’۱۹۳۶ء میں جب تحریک تنظیمِ مساجد کے سلسلے میں راقم الحروف نے لاہور سے اخبار ’مسجد‘ جاری کیا تو علاّمہ اقبال نے یہ پیغام تحریک تنظیم مساجد کے سلسلے میں ارسال فرمایا: (مآخذ: جعفر بلوچ: ’’اقبال کے چند نوادر‘‘ رسالہ ’’سیارہ‘‘ اقبال نمبر ۱ جون ۱۹۹۲ء لاہورص:۴۳۶) (۱۶۷) مجھے یہ سن کر دلی مسرت ہوئیii؎ کہ آپ مساجد کی تنظیم کے سلسلے میں ہفت روزہ iii؎ اخبار ’’مسجد‘‘ شروع کررہے ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کی فلاح و تنظیم کے لیے اس سے بہتر اور کوئی دستور العمل نہیں۔ میر ی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ محمدؐاقبالؔiv؎ تحقیق متن: i؎ سید سرورشاہ گیلانی کی تحریر کے پیش نظر اس کا سنہِ تحریر ۱۹۳۶ء ہو سکتا ہےii؎ انوار=مسرت محسوس ہوئی ہے کہ۔iii؎ انوار=ہفتہ وارiv؎’’انوار‘‘ میں محمدؐاقبال‘‘ درج نہیں ہے۔ بنام میر غلام بھیک نیرنگؔ تعارف: دیکھیے خط نمبر۳‘ تعلیقہ نمبر ۱ ڈیر میرصاحب۔ السلامُ علیکم والا نامہ ملا۔ بڑی خوشی سے ۱؎ وہ مراسلت کریں۔ منورّالدین کے مقدمے کی کل کچی پیشی تھی مگر ملتوی ہو گئی۔ دو چار روز میں پھر پیشی ہو گی۔ اُمید ہے جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمدؐاقبالؔ لاہور ۱۳؍اکتوبر ۲۱ء تحقیق متن: خط کا اصل متن اقبالؔاکادمی لاہورکی لائبریری میں موجود ہے۔ حواشی و تعلیقات: ۱؎ زیرِ نظر خط میں میر غلام بھیک نیرنگؔ نے اقبالؔ کو لکھا کہ پیرزادہ ابراہیم حنیف ان سے مراسلت کرنا چاہتے ہیں۔ میر صاحب نے اقبالؔ کے اسی خط پر اپنی طرف سے چندفقرے لکھ کر ابراہیم حنیف کو بھیج دیا کہ اب آپ براہِ راست مراسلت کر کے معاملے طے کرلیں۔ (’’انوار‘‘ص:۲۴۳)