اقبال اور بھوپال صہبا لکھنوی اقبال اکادمی پاکستان دیباچہ طبع سوم ’’اقبال اور بھوپال‘ ‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۷۳ء میںشائع ہوا اور خلاف توقع سال کے دوران ہی ختم ہو گیا۔ دوسرا ایڈیشن… نظر ثانی اور اضافے کے ساتھ اکتوبر ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا… اور اب یہ تیسرا ایڈیشن مزید چھا ن بین اور ترمیم و اضافے کے بعد آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ مجھے صحیح طور پر علم نہیں کہ علامہ اقبا ل پر شائع ہونے والی تحقیقی کتابوں میں کتنی کتابیں ایسی ہیں جن کے دو تین یا زائد ایڈیشن چھپے ہوں… بہرحال راقم الحروف کے لیے یہ امر باعث فخر و مسرت ہے کہ ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کو ہمہ گیر مقبولیت نصیب ہوئی اور یہ حوالے کی ایک اہم کتاب بن گئی۔ اور دوسرا ایڈیشن ختم ہونے کے بعد تیسرے ایڈیشن کی اشاعت کا امکان پیداہوا۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ چالیس سال بعد مجھے بھوپال جانے اور دیرینہ دوستوں اور عزیزوں سے ملاقات کاموقع ملا۔ بھوپال کے بیس روز ہ قیم میں جن ممتاز اہل قلم نے میری پذیرائی کی اور قدردانی فرمائی ان میں جناب ممنون حسن خان‘ جنا ب اختر سعید خاں‘ ڈاکٹر اخلاق اثر‘ ماسٹر اخٹر ‘ جناب فضل تابش‘ جناب ابراہیم یوسف ‘ جناب اشتیاق عارف‘ جناب قمر جلالی ‘ جناب قدر چغتائی ڈاکٹر عبدالقوی دسنوی‘ جناب عشرت قادری‘ ڈاکٹر خلیل بدر جناب عبدالباسط‘ محترمہ شفیقہ فرحت‘ جناب مصطفے تاج‘ برادر خورد ڈاکٹر حنیف فوق جنات شوکت رموزی‘ جناب نعیم کوثر جناب ایم نعمان وغیررہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ بھوپال پہنچ کرجس چیز نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا… وہ دارالاقبال…میں علامہ اقبال کی یادوں اور یادگاروں کو قائم اور محفوظ رکھنے کا عمل تھا جس کے لیے حکومت مدھیہ پردیش اقبال شناس جناب ممنون حسن خاں اور ان کے رفقائے کار کاذکر مناسب ہو گا۔ کہ ان سب کہ مشترکہ مساعی سے شیش محل…جہاں علامہ اقبال نے قیام فرمایا تھا… اس کے سامنے کھرنی والا میدان… اقبال میدان…ے موسوم ہوا۔ جہاں بھار ت کے ایک معروف آرٹسٹ نے اقبال کے شاہین سے اس میدان کو زینت بخشی ہے۔ نیز کل ہند اقبال ادبی مرکز کا قیام اورایک لاکھ روپے سالانہ کے اقبال (سمان) اعزاز کی ابتدا ہوئی… (اب تک جن ممتاز شخصیتوں کو اس اعزاز سے نوازا جا چکا ہے ان میں سردار جعفری عصمت چغتائی‘ اختر الایمان۔ قراہ العین حیدر اور آنند نرائن ملا بطور خاص قابل ذکر ہیں چنانچہ اب بھوپال کو یہ فخر و امتیاز حاصل ہے کہ برصغیر پاک و ہند میںرہ علامہ اقبال کی یادوں اور یادگاروں کا واحد مرکز ہے۔ اور کسی بھی دوسرے شہر کو یہ اعزاز نصیب نہیں… ایک لاکھ روپے سالانہ کا اقبال اعزاز بھی پاک و ہند میںکہیں اورنہیں دیاجاتا۔ میرے بھوپال جانے کا واحد مقصد دیرینہ احباب سے ملاقات کے علاوہ علامہ اقبال سے متعلق نئے مواد کی تلاش افکار کی ابتدائی پانچ سالہ فائل کی دستیابی اور …اقبال اور بھوپال… پر بعض اعتراضات کی مزید چھان بین تھا۔ افکار کی فائل کے سلسلے میں برادرم اختر سعید خاں نے بھوپال کے قدیمترین روزنامہ ’’ندیم‘‘ میں اعلان کرا دیا کہ صبا لکھنوی کو اپنے رسالہ افکار کی مکمل فائل درکار ہے۔ جو صاحب یا ادارہ قیمتاً یا تحفتاً عنایت کر سیں ان کا خصوصی کرم ہو گا۔ اس اعلان کے نتیجے میں بھوپا ل کے کئی احباب سے تبادلہ خیالات ہوا اور اندازہ ہوا کہ مکمل فائل تو شاید ہی دستیاب ہو سکے۔ البتہ متفرق رسالے مختلف جگہوں میںمل سکتے ہیں۔ چنانچہ میری درخواست پر بھوپال کے احباب نے مجھے ان رسالوں کی فہرست مضامین کی فوٹو کاپیاں مہیا کر دیں ۔ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۰ء کے دوران میں مجموعی طورپاافکار نے دو خاص نمبر… ۱۹۴۸ء میں لکھنو اودو کانفرنس نمبر اور ۱۹۴۹ء میں بھوپال اردو کانفرنس کے علاوہ تقریباً باون رسالے پابندی سے شائع کیے تھے۔ لیکن کافی تلاش کے بعد مجھے صرف پچیس تیس رسالوں کی فہرستیں مل سکیں۔ لیکن ۱۹۴۸ء کا لکھنو اردو کانفرنس نمبر کہیں نہ مل سکا۔ افسوس کہ ان فہرستوں میں علامہ اقبال سے متعلق مواد دستیاب نہ ہو سکا۔ اسی طرح روزنامہ ندیم اور ہفت روزہ ندیم کی مکمل فائلیں بھی نہ مل سکیں۔ اب میرے لیے لیے دے کے جناب ممنون حسن خاں کی ذات تھیں جنہیں روز اول سے ہی میں نے اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ ان کے پاس علامہ اقبال کے جو غیر مطبوعہ خطوط ہیں وہ مجھے ان کی فوٹو کاپیاں عنایت کر دیں تاکہ میرے بھوپال آنے کا سب سے بڑا مقصد پورا ہو سکے۔ اور میں ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے تیسرے ایڈیشن میں کچھنیا مواد شامل کر سکوں۔ ممنون صاحب بڑی خوبیوں کے بزرگ ہیں۔ میری خواہش اور اصرار پر مسکرا کر تسلی دیتے رہے اور روانگی سے صرف ایک دن پہلے مجھے علامہ اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط پتہ لکھے ہوئے لفافہ کے ساتھ عطا کر دیا جس کا اعلان افکار ۱؎ میں شائع کر چکا ہوں۔ علامہ اقبال کا خط اور پتے کا عکس ملاحظہ ہو: ۱؎ ماہنامہ افکار شمارہ نمبر ۲۳۸ ستمبر ۱۹۹۱ء صفحہ ۵۴ یہ خط جیسا کہ تاریخ سے ظاہر ہے… ۱۶ اپریل ۱۹۳۸ء کو ذریعے رجسٹری لاہور سے پوسٹ کیا گیا اور پتے کی مہر سے علم ہوتا ہے کہ رجسٹری ۱۸ اپریل ۱۹۳۸ء کو بھوپال پہنچ گئی۔ یہ خط جناب شعیب قریشی کے نام ہے جو ان دنوں مشیر الہام روبکاری خاص تھے۔ خط میں علامہ اقبال نے تحریر کیا ہے کہ ان کی آنکھوں میں موتیا بند اتر آیا ہے۔ اس لیے وہ یہ خط اپنے دوست نذیر نیازی سے لکھوا رہے ہیں۔ دوسری اہم بات انہوںنے اپنے دونوں بچوں یعنی جاوید اور منیرہ سے متعلق لکھی ہے جن کی عمریں چودہ اور ساڑھے سات سال کی ہیں اور خواہش ظاہر کی ہے کہ تمہاری وساطت سے اعلیٰ حضرت ان پر توجہ فرمائیں۔ اسی خط میں اپنی علالت کا ذکر کر کے ساتھ یہ جملہ بھی لکھوا دیا ہے: ممکن ہے میرا یہ خط تمہاری طرف آخری خط ہو۔ آخر میں تحریر ہے: ’’صرف تم کو اور راس مسعود کو میرے حالات کا علم ہے۔ وہ بے چارا تو چل بسا اب میں تم پر بھروسہ کر سکتا ہوں‘‘۔ علامہ اقبال کے آخری ایام کا تحریر کردہ یہ خط اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ اپنی علالت جاوید اورمنیرہ کے مستقبل اور نواب صاحب بھوپال کی ان کے بچوں پر خصوصی توجہ کے لیے… جناب شعیب قریشی پر جو ان کے خاص نیاز مندوں میں شامل ہیں کتنا اعتماد کرتے تھے۔ اس خط پر… پرائیویٹ اور کنفیڈینشل‘ ‘ بھی خصوصی طورپر لکھا گیا ہے ۔ شکر ہے کہ یہ خط جناب ممنون حسن خاں کے پاس محفوظ رہ گیا اور ۵۴ سال کے بعد پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اس خط میں یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ اپنی عمر کے آخری ایام میں بھی علامہ اقبال کا بھوپال سے رابطہ برقرار رہا ار اس لیے بھوپال اس پر جتنا بھی فخر کرے کم ہے ۱؎۔ قیام بھوپال کے دوران مجھے اقبال اور بھوپال کی دو اہم کوتاہیوں پر بھی مزید تحقیق کا موقع ملا… جن کی نشاندھی محمد نعمان خاں صاحب اور اسٹراختر نے اپنے تبصروں میں کی تھی ایک تو مفتی انوار الحق کی وفات سے متعلق اوردوسری موتی مسجد کی مطبوعہ تصویر کی سحت سے متعلق۔ ’’اقبال اور بھوپال‘‘ میں شائع شدہ تقریباً تمام تصاویر مجھے بھوپال سے میرے دیرینہ رفیق کار برادرم رشدی ایڈیٹر روزنامہ افکار بھوپال کی وساطت سے دستیاب ہوئی تھیں جن کا ذکر دیباچہ اول میں کیا گیا ہے ۔ چنانچہ پہلے اور دوسرے ایڈیشن میں موتی مسجد کی بجائے جامع مسجد کی تصویر شائع ہو گئی جس پر مبصرین نے اب توجہ دلائی…چنانچہ میں خود بی جامع مسجد گیا۔ مغرب کی نماز وہاں ادا کی اور یہ اطمینان ہو گیا کہ رشدی مرحوم نے نادانستگی میں جامع مسجد کی ؤتصویر کو موتی مسجد تحریر کر کے مجھے ارسال کیا تھا او رمیں نے ان کیرہبری پر اسی طرح اس تصویر کو شامل کتاب کر لیا۔ اس نادانشتہ غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے موتی مسجد کی جو نئی تصویر میں بھوپال سے لایا ہوں…وہ تیسرے ایڈیشن میںشامل کر دی ہے۔ میںنے تو دونوں ایڈیشنوں میں اپنی مجبوری اور بے ضابطی کا اظہار کیا ہے اور یہی درخواست کی ہے کہ تحقیق…حرف آخر نہیںہوتی اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تین سال کی سعی کاوش کے بعد دوسرے ایڈیشن کو کئی اغلاط سے پاک کیا تھا۔ لیکن نشان دہی کے بغیر خامیوں اور کوتاہیوں کو بھلا کیوں کر علم ہو سکتا ہے۔ بہرحال میں صمیم قلب سے جناب محمد نعمان خاں کا اور ماسٹراختر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مفتی انوار الحق سے متعلق میری تحریرمطبوعہ ’’اقبال اور بھوپال‘ ‘ صفحہ نمبر ۳۳۶ درست نہیں تھی۔ ۱؎ اس مستند خط کی دستیابی کے بعد ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں صٖحہ ۲۵۲ پر مطبوعہ خط جس کو اب تک آخری سمجھا جا رہا تھا یعنی ۹ اپریل ۱۹۳۸ء کا خط بنام ممنون حسن خاں وہ اب مشتبہ ہو گیا ہے۔ آخر میں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں جو اشاریہ شامل ہے وہ ’’اقبال اور بھوپال ‘‘ کے صرف پہلے ایڈیشن میںتیار کیا گیا تھا۔ اور دوسرے یا تیسرے ایڈیشن میں جو دیباچے شامل ہیں ان کی تفصیلات اس اشاریے میں شامل نہیں۔ مفتی صاحب کا انتقال واقعی ۱۹۴۰ء میں ہوا جب کہ میرے ذرائع کے مطابق اطلاع درست نہیںتھے۔ کہ میں نے یہ کتاب کراچی میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اور دس گیارہ سال تک مواد فراہم کرتا رہا تھا۔ بھوپال کے جو رفیق میری رہبری اورمدد کر رہے تھے ان ہیں کی اطلاع پر میں نے جناب عبدالقوی دسنوی کے کتابچہ ’’علامہ اقبال بھوپال میں‘‘… پر اظہار رائے کرتے ہوئے تحریر کیا تھا: ’’کتابچہ کے صفحہ نمبر ۵۷ پر انہوںنے اقبال سے ملاقات کرنے والوں کے جو نام شائع کیے ہیں ان میں دو نام محل نظر ہیں مفتی انوار الحق کا اقبال کی بھوپال آمد سے بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا‘‘۔ شکر ہے کہ مفتی صاحؓ کی وفات کی اطلاع بے بنیاد نکلی اور تیسرے ایڈیشن میں راقم الحروف کو سرخرو ہونے کا موقع مل سکا۔ جہاں تک ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری اور دیوان غالب کا تعلق ہے میں نے بہت صراحت سے لکھا ہے ۱؎۔ ’’بھوپال کا تنہا یہ ادبی کارنامہ ہی اس کی عظمت کا ہمیشہ امین رہے گا کہ غالب کے دو ابتدائی دیوان بھوپال سے ہی دستیاب ہوئے۔ پہلا دیوان فوجدار محمد خاں کے لیے لکھا گیا تھا جس کی بابت مشہور ہے کہ مرزا غالب نے ان کی فرمائش پر ارسال کیا تھا۔ یہ دیوان مولوی انوار الحق کے زیر اہتمام… ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کے معرکہ آرا مقدمہ کے ساتھ… نواب حمید اللہ خاں کے دور حکومت میں نسخہ حمیدیہ کے نام سے شائع ہوا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ ماسٹر اختر صاحب کی نظر سے کتاب کا یہ صفحۃ نہیں گزرا اور نہ وہ نسخہ حمیدیہ سے متلعق معترض نہ ہوتے: اقبال اور بھوپال کے پہلے ایڈیشن میں صفحہ نمبر ۲۷۴ پر میں نے لکھا ہے: ’’شاغل فخری کے علاوہ بھوپال کی جن دیگر ممتاز شخصیتوں نے اقبال کو موضوع بحث بنایا ان کے فکر و فن پر کا م کیا اور ان میں رضیہ فرحت بانو محمد امین زبیری‘ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی اور عبدالقوی دسنوی قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کی ادبی کاوشوں کا آئندہ صفحات میں احاطہ کیا گیا ہے۔ صرف رضیہ فرحت بانو کی مرتبہ کتاب خطبات اقبال مجھے دستیاب نہ ہو سکی۔ لیکن یہ کتاب لائبریری بھوپال میں موجو دہے رضیہ فرحت بانو بھوپال کی ممتاز ادیبہ اور افسانہ نگار ہیں‘‘۔ بھوپال کے قیام میں…’’اقبال لائبریری‘‘ کی مجلس انتظامیہ نے مجھے لائبریری آنے کی دعوت دی میں تو خود لائبریری دیکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ ایک شام ماسٹر اختر صاحب مجھے لائبریری لے گئے مجلس انتظامیہ کے اراکین نے لائبریری کے دروازے پر میرا خیر مقدم کیا۔ اندر پہنچ کر سب سے پہلے رضیہ بانو کی کتاب ’’خطبات اقبال‘‘ دیکھنے کی فرمائش کی تو لائق لائبریرین نے چند منٹ میں کتاب مہیا کر دی ۔ کتاب دیکھ کر جی خوش ہوا۔ ۱؎ ’’اقبا ل اور بھوپال ‘‘ دوسرا ایڈیشن صفحہ نمبر ۳۳۷ اس کے ابتدائی صفحات کی فوٹو کاپیاں حاصل کیں ان کے مطالعے سے علم ہوا کہ عرض مرتب کے عنوان سے رضیہ فرحت بانو نے دو صفحات تحریر کیے ہیں جس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ’’علامہ اقبال موصوف کے ان خطبات کا کوئی مجموعہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ اس کمی کو کسی حد تک پورا کرنے کے لیے میں نے ان کے تمام صداری خطبات اس مجموعے میں جمع کر دیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شائقین اقبال اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھیں گے‘‘۔ ’’خطبات اقبال‘‘…۵ اپریل ۱۹۴۶ء کو حالی پبلشنگ ہائوس کتاب گھر دہلی سے شائع ہوئی۔ کتاب کے کل ایک سو گیارہ (۱۱۱) صفحات ہیں اور اس کی قیمت صرف ایک روپیہ چار آنے ہے۔ یہ کتاب علامہ اقبال پر شائع ہونے والی دوسری کتاب ہے جسے بھوپال کی ادیبہ نے مرتب کیا۔ اس میں تین اہم خطبات بہ تفصیل ذیل شامل ہیں۔ ۱۔ خطبہ صدارت… آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس منعقدہ الہ آباد دسمبر ۱۹۳۰ء ۲۔ خطبہ صدارت … آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس منعقدہ لاہور ۳۱ مارچ ۱۹۳۱ء ۳۔ ملت بیضا پر ایک نظر… مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کتاب کے آغاز میں رضیہ فرحت بانو نے عرض مرتب تحریر کیا ہے اور پیش رس کے عنوان سے جناب چودھری غلام احمد پرویز نے علامہ اقبال کی ادبی عظمت اور ان کے شاعرانہ کمالات پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے اور ان خطبات کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ’’اقبال لائبریری‘‘ کی توسیع و ترقی میںسماجی کارکن آصف شاہ میری(مرحوم) نے عملاً سرگرمی سے حصہ لیا جس کا تذکرہ ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن میں شامل ہے۔ کاش ’’اقبال لائبریری‘‘ اس بوسیدہ عمارت سے کسی اچھی اور وسیع عمارت میں منتقل ہو سکے۔ بہرحال منتظمین نے اقبال کی اس یادگار کو سجن و خوبی محفوظ رکھا ہے۔ بھوپال کی ایک ادبی تقریب میں مجھے جناب اختر سعید خاں کا ایک مختصر لیکن جامع تحقیقی مضمون ’’شیش محل اور اقبال‘‘ سننے کا موقع ملا۔ اس قیمتی مضمون میں علامہ اقبال کے قیام بھوپال کی تیرہ نظموںمیںسے ایک نظم کا سراغ لگایا گیا ہے …دلائل کے ساتھ… یہ جامع مضمون افکار ۱ ؎ میں شامل ہو چکا ہے اس مضمون کے چند اقتباسات کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ آغاز میں لکھتے ہیں: ’’شیش محل اور اقبال پر جستہ جستہ بہت کچھ لکھاجا چکاہے۔ ہندوستان میں بھی اور ہندوستان کے باہر بھی۔ لیکن یہاں میں بھوپال سے تعلق رکھنے والے تین صاحبوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ ایک پروفیسر عبدالقوی دسنوی جنہوں نے ایک رسالہ …’’علامہ اقبال بھوپال میں‘‘ کے عنوان سے مرتب فرمایا ۔ دوسرے یادش بخیر جناب صہبا لکھنوی ثمہ بھوپالی مدیر افکار کراچی کی کتاب(اقبال اور بھوپال) جس میں انہوںنے دوسروں کے لیے کچھ کہنے کو باقی نہیں چھوڑا۔ ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی شمارہ نمبر ۲۵۲ اکتوبر ۱۹۹۱ء صٖحات ۲۳ تا ۲۶ تیسرا مضمون ’’شیش محل اور اقبال‘‘ …پروفیسر اخلاق اثر کا ہے جس میں ا ن نظموں کا پس منظر بیان کیا گیا ہے جو علامہ نے بھوپال میں کہی تھیں۔‘‘ آگے چل کر اختر سعید خاں صاحب نے شیش محل کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی ہے کہ اس محل کی تعمیر کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں سچ پوچھیے تو اس عمارت کو صرف علامہ اقبال کے مختصر قیام سے ہمہ گیر شہرت نصیب ہوئی۔ لکھتے ہیں: ’’یہ عمارت جو شیش محل کے نام سے موسوم ہے اور جس میں علامہ اقبال نے چند روز قیام فرمایا تھا… کب بنی کیسے بنی کس نے بنائی اس کا تذکرہ نہ کسی کتاب میں ملتا ہے نہ ایسا کوی کتبہ دریافت ہوا جسے تاریخٰ اسناد کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ گزشتہ چند برسوں سے اسپر ناگرک بند کا بورڈ لگا ہوانظر آتا ہے۔ اور میں سوچنے لگتاہوں… اس جگہ ایک مے کدہ تھا کیا ہوا؟ ا عمارت کی جستجو میں صرف ایک صاحب جنہوںنے عیسیٰ کی نہیں تو بزرگوں کی آنکھیں ضرور دیکھی تھیں۔ میری رہنمائی فرمائی۔ انہوںنے بتایا کہ اب سے سوا سو سال پہلے جب بھوپال کی ایک خاتون فرماں رو ا نواب سکندر جہاں بیگم نے اپنی ولیہ عہد نواب شاہجہاں بیگم کے لیے ایک عمارت شوکت محل کے نام سے تعمیر کروائی تو یہ عمارت بی جو مغربی دروازے سے ملحق ہے تعمیر ہوئی اور شیش محل کہلائی۔ اس محل میں پہلے بھوپال کے وزیر اعظم کی رہائش تھی بعد ازاں یہ شاہی مہمان خانہ قرار پائی۔ میںنے عرض کیا…قبلہ اس میں شیش محل والی کون سی با ت ہے… بے شک اس کے کمرے اور دالان بہت وسیع ہیں اور کئی حصوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن اس عمارت میں نہ کوئی تعمیری تناسب ہے نہ صناعی نہ مجموعی حسن جو دیکھنے والوں کو متاثر کر سکے۔ اگر مغل طرز تعمیر کا تین محرابوں والا بلند اور کسی قدر پرشکوہ دروازہ نہ ہوتا تو اسے محل کون کہتا؟ فرمایا… تم ٹھیک کہتے ہو صاحبزادے …مگریہ مت بھولو کہ بھوپال کی سادگی پسند بیگمات حسن سے زیادہ قوت پر اعتماد کرتی تھیں۔ دیکھتے نہیں ہو کہ سوا سو سال بیت جانے کے باوجود ا س عمارت کی کسی میاں نے خم نہیں کھایا۔ اتنا کہہ کر میرے خضر راہ تو نظروں سے اوجھل ہو گئے اور میں سوچنے لگا کہ اس عمارت کے بنانے والوں کو کیا معلوم تھا کہ یہ غیر اہم عمارت جس کا ذکر شاہی محلات کے تذکرومیں ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ ایک دن اردو ادب کی تاریخ میں نقش دوام بن کر ابھرے گی جس نقش دوام کی تعبیر علامہ اقبال نے اپنے شعر میں اس طرح فرمائی ہے: ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدانے تمام ہر چند کوششیں محل کو کسی مرد خدا نے تمام نہیں کیا۔ لیکن ایک مرد خدا کے قیا م نے اس کے نقش میں ثبات بھر دیا اور وہ مرد خدا… اقبال کے سوا کوئی اورنہ تھا‘‘۔ جس چودھویں نظم کا جناب اختر سعید نے سراغ لگایا ہے وہ اقبال کے بھوپال میں قیام کے دوران لکھی گئی ہے جیسا کہ اس نظم پر مندرجہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے۔ البتہ نظم کے نیچے… ’’شیش محل بھوپال میں لکھی گئی‘‘… درج ہونے سے رہ گیا ہے۔ ان کا استدلال ہے : ’’تیرہ نظموں کے علاوہ ضرب کلیم میں ایک نظم اور ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بھوپال کے قیام کے زمانے میں شیش محل میں کہی گئی ہے… اگرچہ اس نظم پر یہ نوٹ نہیں ہے کہ وہ بھوپال میں کہی گئی ہے۔ تاہم اس پر جو تاریخ درج ہے اس کی رو سے ان دنوں علامہ اقبال شیش محل بھوپال میںمقیم تھے اور شیش محل میں یہ ان کا پہلا قیام تھا۔ اس نظم کاعنوان ہے… ابی سینیا … اس نظم کی تاریخ ۱۸ اگست ۱۹۳۵ء درج ہے جیسا کہ ابھی میں نے عرض کیاعلامہ تیسری بار… ۱۷ جولائی ۱۹۳۵ء کو بھوپال تشریف لے گئے تھے اور ۲۸ اگست ۱۹۳۵ء کو واپس تشریف لے گئے یعنی روانگی سے دس روز قبل یہ نظم کہی گئی۔ اس سلسلے کی دوسری نظم… مسولینی…ہے جس پرقطعیت کے ساتھ ضرب کلیم میں… ۲۲ اگست ۱۹۳۵ء بھوپال شیش محل میں لکھے گئے درج ہے یعنی روانگی سے چھ روز قبل…ی نظم وجود میں آئی۔ ابی سینیا اور مسولینی کی تخلیقات میں صرف پانچ دن کا فصل ہے یہ دونوں نظمیں ذہنی تشکیل کی آئینہ دار ہیں ایسا معلوم ہوتاہے کہ ابی سینیا کے عنوان سے یہ نظم کہہ لینے کے بعد بھی… علامہ کے ذہن میں ایک خلش تھی اور وہ اس موضوع پر مزید کچھ کہنا چاہتے تھے۔ چنانچہ پانچ دن بعد ہی مسولینی کے عنوان سے انہوںنے جو نظم کہی اس میں یورپ کی جارحانہ اور ظالمانہ روش دیکھ کر بڑا تیکھا طنز کیا ہے۔ دونوںنظمون کو ایک ساتھ پڑھیے تو صاف نظر آتاہے کہ ابی سینیا میں اگر اطالیہ کے فسطائی نظام کو ہدف ملامت بنایا گیا ہے تو مسولینی میں اقبال نے یورپ کے دیواستبداد کی جمہوری قبا کا پردہ چاک کیا ہے۔ معصومات یورپ نے مخاطب ہو کر مسولینی کا یہ کہنا کہ: پردہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی! کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج منطقیانہ طریق استدلال نہ سہی لیکن نفسیات کے عین مطابق ہے۔ علامہ اقبال نے ڈرامائی انداز میں دو ظالموں کو مد مقابل کر کے مسولینی کی زبان سے وہی کہلوایاہے جو ایک غاصب دوسرے غاصب سے کہہ سکتا ہے۔ نظم ابی سینیا کی خارجی اور داخلی شہادتیں ثابت کرتی ہیںکہ یہ نظم شیش محل کے قیام کے دوران کہی گئی ہے اور اس طرح ایک اور نظم بھوپال کے حصے میں آتی ہے ۱؎۔ ضرب کلیم…بقول علامہ اقبال Topicalاور اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ بعض خاص خاص مضامین پر اپنے خیالات کا اظہار کریں…شیش محل یا ریاض منزل میں کہی گئی نظمیں اسی زمرے میں آتی ہیں‘‘۔ جناب ممنون حسن خاں صاحب جناب اختر سعید اور ماسٹر اختر ساحب سے تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ ایک دن میںنے ماسٹر اختر صاحب سے ذکر کیا کہ بھوپال کے کئی ممتاز ادیبوں اور دانشوروں کے مضامین بھوپال کے جرائد میں اور رسائل میں شائع ہوئے ہیں… علامہ اقبال کے قیام کے دوران بھی اور ان کے جانے کے بعد بھی… مثلاً مولانا ارشد تھانوی مولانا مائل نقوی‘ ملا رموزی وغیرہ‘ کاش ان پر اخبارات اور رسائل کی فائلیں دستیاب ہو جاتیں تو شائع شدہ مضامین کو جمع کر کے شائع کر دیا جاتا۔ اس پر ماسٹر اختر صاحب نے فرمایا کہ ملا رموزی کا ایک غیر مطبوعہ مضمون ان کے بیٹے شوکت رموزی کو ملا تھا جسے انہوںنے بھوپال کے معروف شاعر عشرت قادری کو دے دیا ور عشرت قادری نے اس مضمون کو ماہنامہ ’’عکس‘‘ دہلی کو اشاعت کے لیے بھیج دیا اور ماہنامہ ’’عکس‘‘ دہلی نے اپنی جون ۱۹۶۱ء کی اشاعت میں شائع کر دیا۔ چنانچہ جناب عبدالقوی دیسنوی نے ا س مضمو ن کو اپنی کتاب ’’اقبال اور درالاقبال‘‘ میں ’’عکس‘‘ کے حوالے سے شامل کیاہے۔ ذیل کا مضمون دیسنوی صاحب کی کتاب سے نقل کیا جا رہا ہے تاکہ ملا رموزی کا یہ نایاب مضمون محفوظ ہوجائے۔ ملا رموزی ہندوستان گیر شہرت کے مالک تھے ۔ اور علامہ اقبال کے بھوپالی نیاز مندوں میں انہیں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ علامہ اقبال بھی ان پر شفقت فرماتے تھے جن کا ثبوت مضمون کے مطالعے سے مل جائے گا۔ ملا رموزی کے مضمون کا عنوان ہے: مقامات اقبال علامہ اقبال سے ملنے والوں میں ملا رموزی کی ملاقات بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ خود لاہور گئے تھے لیکن لوگوں کے کہنے کے باوجود علامہ اقبال سے ملنے نہیں گئے تھے علامہ اقبال جب بھی بھوپال آئے تو لوگ جوق در جوق ان سے ملنے گئے تو بھی ملا رموزی ان سے ملاقات کرنے نہیں گئے۔ آخر علامہ اقبال نے سر راس مسعود کے ذریعے بلایا تو ملاقات ہوئی۔ تفصیل ملا رموزی کی زبان سنیے: ۱؎ عجب اتفا ق ہے کہ اختر سعید خا ں نے جس نظم کی بہ قید تاریخ نشان دہی کی ہے یعنی ’’مسولینی‘‘ اس کا ذکر محمد احمد سبزوااری کے مضمون بہ عنوان نژاد نو مطبوعہ اقبال اور بھوپال دوسرے ایڈیشن صفحہ ۲۸۲ پر موجود ہے جس کا اقتباس ملاحظہ ہو: ’’جب پہلی مرتبہ میں اس محفل میں شریک ہوا تو یورپی سیاست موضوع بحث تھی اس سلسلے میں علامہ نے اپنی ایک تازہ نظم ’’مسولینی‘‘ سنائی۔ علامہ ممدوح بھوپال تشریف لائے۔ لوگ جوق در جوق ملنے گئے مگر میں جوق جوق گیا نہ بے جوق جوق گیا۔ خدا گواہ ہے کہ ان کے کلام کو ابھی اسی حدتک پڑھتا تھا۔ جتنا کہ اخباروں اور رسالوں میں شائع ہو کر خود ہی میرے منہ کے سامنے آ جاتا تھا۔ اب علامہ سے اتنا دور اور تنا بے خبر رہ کر کیا دیکھتا ہوں کہ علامہ اقبال کی تنہا علالت اور بھوپال میں بغرض علاج تشریف آوری کی خبر سن کر بے ساختہ آنسو گرانے لگا۔ اور چند منٹ تک میری آنکھوں سے آنسو جاری رہے۔ بے سبب رونے پر میری بیوی اور میری والدہ مغفورہ نے مجھ سے رونے کا سبب دریافت کیا تو مجھے اب تک یاد ہے کہ جب سبب ان کو بتایا تھا وہ یہ تھا کہ اس بے ساختگی ہی سے میری زبان سے یہ فقرے نکلے کہ ایک سب سے بڑا مسلمان اذیت میں مبتلا ہے یعنی اقبال۔ حیران تھا کہ میرے اس فقرے پر میری بیوی اور میری والدہ بھی رونے لگ گئیں یہ تھا مقال اقبال! شرح یہ ہے کہ اقبال کا شرف خدمت اور رسوخ مرتبہ ملاحظہ ہو کہ میں ان سے کبھی نہ ملا۔ ان کے کلام کو کبھی غور سے نہ پڑھا لیکن ان کی اذیت کی انتہا اطلاع ہی پر میرے اعصاب حیات نے اپنی باضابطگی بدل دی۔ حتیٰ کہ اقبال سے یکسر ناواقف میری والدہ اور بیوی کے بھی آنسوجاری ہو گئے۔ کیا کروڑ پتی انسان کی تکلیف کی اطلاع سے بھی اس قدر جلد اور ایسا تاثر پیدا ہو سکتا ہے؟ علامہ اقبال بھوپال میں مقیم رہے مگر پھر بھی شرف نیاز حاصل کرنے نہیں گیا۔ وہ پھر وطن تشریف لے گئے۔ اب مجھے نہ وہ یاد رہے نہ اپنا آنسو بہانا یاد رہا کہ ایک رات کوئی ۸۔۹ بجے کے درمیان ایک موٹر کار آیا اور مجھے حضرت العالی علامہ راس مسعود رحمتہ اللہ کی کوٹھی پر لے گیا۔ سب دنیا جانتی ہے کہ سید صاحب قبلہ کس درجہ اشراف انوار تھے ۔ مجھ مزدور وضع قطع کے ملا رموزی کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے۔ ایک چادر سی اوڑھے ہوئے بے حد مضحمل سے انسان کی طرف کھنچ کر مجھ سے فرمایا کہ یہ تم کو بہت یاد کرتے ہیں۔ میں صورت دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ مضحمل سا انسان عہد حاضر کا حکیم معرفت اقبال ہے۔ علامہ کو ملاحظہ فرمائیے کہ مجھ سے ایسے مگرور اور مزدور قماش… ناکارہ انسان کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اللہ کو حاضرناظر جان کر کہتا ہوں کہ طبعی اورپیدائشی حیثیت سے اس غضب کا مغرواور خود فہم انسان ہوں کہ میرے روز مرہ کے دوست ہی میری حد غرور بتا سکتے ہیںَ مگر علامہ کے معانقہ فرماتے ہی مجھ پر پھر ایک کیفیت رقت طاری ہوئی ۔ یہ تھا علامہ کا دوسرامقام خلق و قوم شرف ۔ معانقہ سے متصہ ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکلا…اف…سر راس علیہ رحمتہ بیھ انے مقام پر صاحب مرتبہ صوفی تھے۔ میرے اف کہنے پر فرمایا کہ پھر ان سے ملنے خود کیوں نہ آئے؟ میراکمینہ پن ملاحظہ ہو کہ میں نے تڑ سے کہا… میں خود اپنی جگہ پر اقبال ہوں ۔ یہ کہنا تھا کہ سبحان اللہ کہہ کر اقبال نے پھر میری طرف بڑھے اور مجھے دیر تک کلیجے سے لگائے رہے۔ یہ تھا علامہ کا تیسرا مقام فیاضی و مقام شرافت آگاہی…! علامہ اقبال بڑے خوش تھے۔ کوٹھی میں اس وقت ہم تین کے سوا کوئی نہ تھا۔ رسمی الفاظ اور آغاز کلام کے کسی مربوط موقع کے بالکل بیچ میں کافی بدتمیزی سے میں سید صاحب قبلہ سے عرض کیاکہ حضور عالی… چائے پیے بغیر مجھ میں جود ت بیان و ذوق سماعت بیدار نہ ہو گا۔ علامہ نے پھر زور سے فرمایا… زندہ باد…یہ تھا علامہ کا چوتھا مقام انسان آگاہ…! ملاحظہ فرمائیے…کتنی اونچی تعلیم کتنی اونچی ذہانت کتنی اونچی مجلس کتنے اونچے جلسوں اور کتنی اونچی معاشرتوںسے وابستہ رہنے والا علامہ اقبال میری کتنی نیچے درجے کی باتوں کو کس قابل جامعیت سے معاً اور فی الفور تاڑ جاتا تھا اور ملاقات میں عین اس پست سطح پر خوش خوش اتر آتا تھا۔ جہاں سے مجھ ایسامغرور گستاخ خود فہم اور خود سر انسان اس ایسے صاحب مقام بلکہ صاحب عصر انسان سے ہم کلام تھا۔ اس عرصے میں چائے آگئی۔ میں نے چائے کی حسین پیالیوں کو دیکھ کر سید صاحب قبلہ سے بے ساختہ گستاخی کی اور عرض کیا کہ پیالیاں بے جوڑ ہیں سید صاحب غضب حساس تھے ا س لیے ان کے تیور بدل جانے سے پہلے میں نے یہ شرح پیش کی کہ بے جوڑ سے مراد یہ نہیںکہ پیالیوں کو شاہانہ یک رنگی میں فرق ہے بلکہ بے جوڑ سے مراد یہ ہے کہ علمی لوگوں کو نفاست نہیں بلکہ شدت کی ٹکر سے کام کی انرجی ملتی ہے۔ کیونکہ اگر وہ نفاست و رنگینی میں کھو جائیں تو پھر کا م کون کرے۔ اس جگہ میں نے دیکھا ہ علامہ مجھے ایسی حکیمانہ نگاہ سے دیکھ رہے تھے کہ بس میں جانتا ہوں۔ سید صاحب قبلہ نے بے ساختہ فرمایا دیکھا بھئی اقبال اقبال صاحب بولے کہ پھر کیا ہو گا۔ میں نے حوصلہ پا کر عرض کیا کہ اگر دماغی لوگوں کو نفاست اور کا سامان دے دیںتو وہ ا س حلقہ عیش کوتوڑ کر باہرنہیں آ سکیں گے۔ کہ ان سے زیادہ اور بہتر طریق پر ان نفاستوں کو دوسراکون محسوس کر سکے گا۔ نتیجہ یہ نکلے گاکہ وہ خوش رنگ ماحول کی تحسین و مدحت میں مبتلا ہو جائیں گے اور ان کے کرنے کا کام پورا نہ ہوسکے گا۔ اسی لیے سرکار گیتی پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے عوض شدت و تلخی کی زندگی عنایت ہوئی۔ ان جملوں کو سن کر میں کیا کہوں کہ علامہ اقبال کا کیا حال ہوا۔ بس یہ کہ اس مقام پر پہنچ کر ان کے ہوئے جسم نے وقار و استغنا اور خوداعتمادی کی تمام بلند فطرتوں کو روند کر مجھے ایسی داد عطا فرمائی کہ ان کی ایسی شہرت کا ایک انسان بھی مجھ ایسے کمترین انسان کو کبھی نہ دے سکے گا۔ اورنہ دیتا ہے۔ یہ تھا علامہ کا پانچواں مقام مزاج بلند۔ اب میں اپنے زور میں چٹاخ پٹاخ باتیں کر رہا تھا اور بے پروا چائے پر چائے پیے جا رہاتھا کہ معاذ اللہ علامہ نے میری اس ترکیب پر بھی داد دی تو میں نے عرض کیا کہ قبلہ یہ مقام داد کس طرح قرار پایا۔ علامہ نے میرے جملے مجھی پر اس طرح دے مارے کہ ارویہ مسلسل چائے کس طرح؟ میں نے عرض کیا کہ حضور عالی میں اپنے جسم کو اس آزاد افتاد سے بقلم خود تنگ ہوں کہ جس چیز کے عوام عادی ہوتے ہیں ان کی تقلید مجھ سے بن نہیں آتیج۔ لہٰذامیں محفل کا لحاظ کیے بغیر چائے پر چائے پیے جاتاہوں اور تعزیرات ہند سے نہیں ڈرتا۔ علامہ کے جی کی سی کہہ دی تڑپ گئے اورفرمایا کہ اگر میں جانتا کہ گلابی اردو کا لکھنے والا یہ ہے تو اس سے پہلے حاضر خدمت ہونے کی کوشش کرتا۔ ملاحظہ فرمایاکمترین نوازی کا مقام کرم۔ اس جگہ میں نے علامہ سے شعر کی درخواست کی ۔ برجستہ فرمایا کہ کیا ملا رموزی صاحب تشریف لے گئے سر راس موصوف کے فقرے پر وجد فرمانے لگے۔ میں نے اٹھ کر ہاتھ کوبوسہ دیا بڑی دشواری سے علامہ نے یہ دو شعر سنائے: ستارہ کا پیغام مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی تو اے مسافر شب خود چراغ بن اپنا کہ اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی اشعار سن کر مجھے مسرت کے عوض ایک عظیم مصیبت کا مقابلہ کرنا پڑا جو میں آپ کے کلامکے دوسرے سنانے والوں سے بھی کہا کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ ایک ہی شعر اتنے عظیم مطالب اور اصول کلام کا حامل ہوتا ہے کہ گھنٹوں دماغ اسی پیچ و تاب سے فرصت نہیں پاتا کہ معاً دوسر ا شعر سنا دیا جاتا ہے۔ تو فرمائیے کہ اتنی جلد جلد داد دینے والا یا تو بے ایمان ہو جائے یا کند آنا تراش۔ میں کیا کہوں کہ علامہ نے کس درجہ کمال بلندی سے میری ان خرافات کو تحسین و مرحبا کے ساتھ برداشت کیا۔ مگر ایک کرم کا شرف یہ عطا فرمایا کہ جس وقت بھی یکسر تنہا ہوتے مجھے ضرور یاد فرماتے۔ ا ب علامہ کی جس آخری چیزنے ان کے سب سے برتر مقامکا مجھے پتا دیا وہ یہ کہ حضرت علامہ راس مسعود اور تاجدار بھوپال ایسی عظیم شخصیتیں ان کی میزبان تھیں۔ عقیدت مندوں کے ہجوم میں کمفرصت پاتے تھے۔ مگر اس پر بھی ہر لمحہ اداس اور خاموش رہتے ۔ علامہ کے اس اندا زکے مقام تاثر کو میں تاڑ گیا تھا۔ اور جان گیا تھا کہ علامہ جس رتبے کے حساس ہیں اس رتبے کا چونکہ ماحول نہیں ہے پھر بھی مجھے ان کے مقام ضبط و علوئے استقامت پر ہمت نہیں ہوئی کہ میں کچھ عرض کرتا۔ البتہ میں نے ان کے اداس تاثر کو دور کرنے کے لیے ایک دن اپنے ظریفانہ رنگ کو اس طرح استعمال کیا کہ میں نے حاضر ہوتے ہی عرض کیا کہ… مجھے اقرار ہے کہ آپ کے دوسرے مقامات روحانیت کے علاوہ آپ کا مقام مرض بھی اتنا بلندہے کہ مجھے حضور کی عیادت کے لیے حاضر ہونا بھی اب ناممکن محسوس ہوتا ہے جس طرح اچانک اولاد جدا ہونے لگے۔ ا س بے چینی سے فرمایا کیوں کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ اتنے ناقابل برداشت مرض کے لاحق ہونے کی قانونی صورت تویہ تھی کہ اگر حضور کا مرض مجھے لاحق ہوتا اور اس زمانے میں حضور کی طرح…تاجدار بھوپال کا مہمان ہوتا تو میں اس طرح رہتا کہ روزانہ مہمان شاہی خانہ کو ایک پرچہ لکھ بھیجتا کہ آج مجھے ڈاکٹر نے ذیل کی غذائیں بتائی ہیں …فراہم کر دیجیے۔ ایک پائو طائعس کے کباب۔ ڈیڑھ چھٹانک بٹیر کے گوشت کا قیمہ۔ تھوڑے سے انگور اور انناس۔ شام کے وقت پرچہ لکھتا کہ ہرن کے گوشت کے خشک قسم کے کوفیتے۔ مسلم مرغانی اور دراج کا آب جوش۔ تھوڑے سے بادام منقی کشمش اور انجیر۔ ا س نوع کی غذائوں کے بعد جب کوئی ملاقات کو آتا تو اس سے اس طرح ملتا کہ خواہ مخواہ دس بارہ وتر کی آہ کی آواز پیدا کرتا اور مرض میں مزید شدت اور اضافے کا یقین دلاتا۔ میں اس طرح کا بیا ن دے رہا تھا اور علامہ کا مارے ہنسی کے برا حال تھا۔ الحاصل میں نے علامہ کے جسم و قویٰ اور مرض کے حالات کا کافی مطالعہ کر کے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ علامہ اپنے پیدائشی مقدرت حیات سے کہیں پہلے اس لیی بے روح ہو رہے ہیں کہ قوم ی حالت و رہبری کے جدید و بلند راستے تلاش کرنے میں دماغ کمال شدت سے کام کرتا تھا اس شدت میں جسم کے دوسرے اعضا ء کی فطری غذا کا حصہ بھی دماغ چھین لیتا تھا اور اعصاب کا وہ تمام خون جو روح حیات کوتمام جسم میں منتقل کرتا ہے دماغ ہی چھین کر جلا دیا کرتا تھا۔ اس لیے علامہ نے گویا قوم اور تحقیق راہ کے بے پناہ انہماک کے باعث غیر طبعی اور قبل از وقت جان دی اور غضب کی حالی حوصلگی سے۔ اللہ تعالیٰ کے انوار کی بے پناہ بارشیں ان کے مزار پر ہوتی رہیں اور بے نہایت الطاف ان کی اولاد پر اور آنے والی نسل ان کو یاد کرتی رہے ۱؎۔ برصغیر پاک و ہند میں بھوپال وہ پہلا خوش نصیب شہر ہے جہاں علامہ اقبال کی یادیں آج بھی تازہ ہیں اور ان کی یادگاریں قائم کی گئی ہیں۔ اور ان کے فکر و فن پر تحقیق کے نئے نئے گوشے دریافت کرنے کی سعی و جہد جاری ہے۔ اقبال اور بھوپال سے متعلق اب تک جو کتابیں شائع ہو چکی ہیں ان کا تذکرہ بھی ضروری ہے تاکہ اقبال شناسوں کو بجا طور پر یہ علم ہو سکے کہ دارالاقبال کے رہنے والے علامہ اقبال سے کس قدر عقیدت رکھتے ہیں۔ ۱۔ علامہ اقبال بھوپال میں… عبدالقوی دیسنوی…سن اشاعت : ۱۹۶۷ء ۲۔ اقبال اور بھوپال …صہبا لکھنوی… سن اشاعت: ۱۹۷۳ ء پہلا ایڈیشن ۱۹۸۲ء دوسرا ایڈیشن ۳۔ اقبال اور شیش محل… ڈاکٹر اخلاق اثر…سن اشاعت: ۱۹۷۷ء ۴۔ اقبال آئینہ خانے میں… مرتبہ : آفاق احمد…سن اشاعت: ۱۹۷۹ء ۵۔ اقبال نامے… مرتبہ : ڈاکٹر اخلاق اثر…سن اشاعت: ۱۹۸۱ء ۶۔ اقبال اور دارالاقبال بھوپال … عبدالقوی دیسنوی…سن اشاعت: ۱۹۸۲ء ۷۔ اقبال اور ممنون…ڈاکٹر اخلاق اثر…سن اشاعت: ۱۹۸۳ء ۸۔ ریاست بھوپال اور اقبال… ماسٹر اختر…سن اشاعت: ۱۹۸۳ء ۹۔ بیابہ مجلس اقبال… مرتبہ : ممنون حسن خاں… سن اشاعت: ۱۹۹۰ء ۱۰۔ اقبال اور ممنون… ڈاکٹر اخلاق اثر …نظر ثانی اور اضافہ شدہ ایڈیشن … سن اشاعت : ۱۹۹۱ء ماسٹر اختر نے اپنی کتاب …ریاست بھوپال اور اقبال کے آخری صفحات میں جس نئی کتاب کی نوید دی ہے اس کا نام ہے… اقبال اورنواب بھوپال۔ موضوع کے اعتبار رسے اس کتاب کی اہمیت مسلم ہے۔ کاش ماسٹر اختر اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کرا س کتاب کو جلد شائع کر سکیں۔ تو اقبال اور نواب بھوپال کے قریبی روابط کے بارے میں دنیائے ادب کو نئی معلومات فراہم ہو جائیں گی۔ آخر میں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ اقبال اور بھوپال کے دوسرے ایڈیشن میں جو اشاریہ شامل ہے وہ ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے صرف پہلے ایڈیشن میںتیار کیا گیا تھا اور دوسرے یا تیسرے ایڈیشن میں جو دیباچے شامل ہیں ان کی تفصیلات اس ’’اشاریے‘‘ میں شامل نہیں۔ کراچی ۱۶ اپریل ۱۹۹۸ء صہبا لکھنوی ٭٭٭ دیباچہ طبع ثانی ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کا پہلا ایڈیشن اپریل ۱۹۷۳ء میں شائع ہوا اور خلاف توقع سال کے دوران ہی ختم ہو گیا۔ مئی ۱۹۷۳ء میں ا س کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس کی صدارت شہزادی عابدہ سلطان سابق ولی عہد ریاست بھوپال نے فرمائی۔ شہزادی صاحبہ کے علاوہ پروفیسر مجنوں گورکھپوری ‘ ڈاکٹر حنیف فوق‘ پروفیسر انجم اعظمی اور محمد احمد سبزواری نے کتاب کے بارے میں نہایت حوصلہ افزا خیالات کا اظہار فرمایا ہے اور ملک بھر کے مقتدر اخبارات اور رسائل ریڈیو پاکستان کے مبصرین اور ادب کے ناقدین نے سیر حاصل تبصرے اور تنقیدیں کیں جن کا تفصیلی احاطہ اس دیباچہ میں تو ممکن نہیں البتہ اقبال شناسوں کی دلچسپی کے پیش نظر یہ تمام مضامین اور تبصرے کتاب کے آخری باب میں محفوظ کر دیے گئے ہیں… پھر بھی یہاں چند اہم آرا کا تذکرہ ضروری ہے۔ ڈاکٹر ممتاز حسن (مرحوم) سابق نائب صدر اقبال اکیڈمی پاکستان نے جن کی تحریک و خواہش پر میں نے یہ کتاب لکھی …کھل کر اعتراف فرمایا: ’’مجھے اس پر دلی مسرت ہے کہ اقبال اور بھوپال کے متعلق جس قسم کی تحقیقی کتاب میں چاہتا تھا …آپ نے اپنی محنت اور جستجو سے اسے مہیا کردیا۔ آپ کی تصنیف اقبالیات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے اورمیری توقعات سے زیادہ ہے ۱؎۔‘‘ اسی دوران یہ کتاب کسی طرح بھوپال پہنچ گئی اور علامہ اقبال کے خاص نیا ز مندممنون حسن خاں کی نظر سے گزری تو انہوںنے ڈاک کی آمد ر رفت بند ہونے کے باوجود ایک تفصیلی خط مورخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۷۳ء کسی ذریعہ سے مجھے ارسال فرمایا جو کافی عرصہ کے بعد مجھ تک پہنچا… میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس خط کو افکار میں محفوظ کر دوں بعد میں اسے نظر ثانی کے وقت شامل کتاب کر لوں گا۔ اس خط کے جستہ جستہ اقتباسات کے مطالعہ سے کئی ایسے واقعات کا علم ہوا جن کے بارے میں اقبال شناس اور اردو دنیا قطعی لاعلم تھی۔ ممنون حسن خاں کا یہ خط افکار کے شمارہ جنوری ۱۹۷۴ء میںدیگر خطوط کے ساتھ… ’’تین شہر تین داستانیں‘‘ کے عنوان سے جس ذیلی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا ہے …اس کا اقتباس پیش ہے: ۱؎ ذاتی خط بنام راقم الحروف مطبوعہ افکار شمارہ ۴۴ نومبر ۱۹۷۳ء ’’ذیل کے تینوں خط یقین ہے دلچسپی سے پڑھے جائیں گے۔ جناب ممنو حسن خاں کا تفصیلی گرامی نامہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ جنہوں نے بارہ سال کے بعد اقبال اور بھوپال ایک نظر دیکھنے کے بعد مجھے تحریر کیا ہے۔ علامہ اقبال کے بھوپالی نیاز مندوں میں جناب ممنون حسن خاں… سب سے بزرگ و محترم اور مستند و معتبر شخصیت ہیں ان کے نام علامہ کا آخری خط جو وفا ت سے صرف دو دن پہلے ہی یعنی ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء کو تحریر کیا گیا تھا… اقبالنامہ میں شامل ہے…جناب ممنو ن حسن خاں نے میری کتاب کے جن گوشوں کی وحاحت کی ہے ان کی اہمیت مسلم ہے۔ ہمایوں منزل…بھوپال ۳۰ ستمبر ۱۹۷۳ء برادر محترم…سلا م مسنون آپ کی لاجواب کتاب اقبال اور بھوپال اختر سعید خاں صاحب نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے عطا فرمائی اور اس طرح مجھے اس کو بہت عجلت میں پرھنے کا موقع ملا۔ آپ کی ہمت عالی کی داد دیتا ہوں او رآپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اس قدر مشکل حالات میں آپ نے اس قدر معلومات جمع فرمائیں اور ان کو اس قدر بہتر طریقے سے کتاب کی شکل میں پیش کیا۔ آپ نے کتاب میں جگہ جگہ مجھ ناچیز کا تذکرہ کیا ہے۔ جس کے پاس سراپا سپاس ہوں۔ میں کہاں اس قابل ہوں کہ حضرت علامہ کے نام نامی کے ساتھ میرا نام بھی لیا جائے۔ حقیقتاً تو میں ان کے جوتوں کے بند بھی کھولنے کے لائق نہیں تھا۔ اس وقت آپ کی خدمت میں ایک عریضے کو پیش کرنے کا اچھاموقع ہے۔ میری ایک شاگرد عزیزہ بیگم فرحت نور خاں جو ایر مارشل نور خاں کی اہلیہ تھیں یہاں اپنی پھوپھی صاحبہ بیگم شاہ بانو میمونہ سلطانہ صاحبہ سے ملنے آئی ہوئی تھیں ان ہی کے زریعہ یہ خط کراچی تک بھیج رہا ہوں جہاں سے وہ یہ خط آپ کو پوسٹ کر دیں گی۔ جب حالات ٹھیک ہو جائیں تو اس وقت آپ مجھ سے ضرور خط و کتابت فرمائیں… میں جو بھی خدمت ہو گی اس کو بجا لائوں گا اور اس وقت آپ اپنی کتاب کی ایک یا دو جلدیں ضرور میرے پاس ارسال فرما دیجیے گامیں کسی نہ کسی طرح ان کی قیمت آپ تک ضرور پہنچا دوں گا‘‘ ۱؎ یہ طویل خط کا مختصر اقتباس ہے جن دیگر اہم مسائل پر ممنون حسن خاں نے روشنی ڈالی ہے وہ آئندہ صفحات میں پیش کیے جائیں گے۔ ۱۹۷۳ء ہی کے دوران ممتاز ادیب و صحافی اقبال احمد صدیقی رکن ادارہ جنگ مجھ سے ملے اور کہا کہ علامہ اقبال کے بھتیجے اعجاز احمد …اس کتاب کے سلسلے میں ملنے کی خواہش مند ہیں۔ چنانچہ پہلی فرصت میں اقبال احمد صدیقی کی معیت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بڑی شفقت سے پیش آئے۔ میرے کام کی تعریف کی اور میرا حوصلہ بڑھایا۔ ساتھ ہی اقبال کا ایک نسخہ دکھایا جس میں میری کتاب میں مشمولہ بعض خطوط یا ان کے کچھ حصے حذف تھے یا ان میں تحریف کی گئی تھی چنانچہ طے پایا کہ کسی روز اپنانسخہ (اقبالنامہ) لے آئوں تاکہ دونوں نسخوں کا موازنہ کر کے اصل صورت حال کا پتا چلایا جا سکے۔ دوسری ملاقات میں… شیخ صاحب نے اور میں ںے…اقبال احمد صدیقی کی موجودگی میں اقبال نامہ کے نسخوں کا موازنہ کیا تو وہ واقعی ان میں کئی تبدیلیاںنظر آئیں… یہ انکشاف جہاںشیخ صاحب کے لیے باعث مسرت تھا وہیں میرے لیے بھی حیرانی کا باعث تھا… کیونکہ جگہ جگہ میں نے اپنی کتاب میں اقبال نامہ کے پہلے ایڈیشن کی نایابی کا ذکر کیا ہے اور اس وقت وہی ایڈیشن پہلا میرے پا س تھا۔ اور تحریف شدہ ایڈیشن شیخ صاحب کے قبضے میں تھا۔ موازنے سے پتہ چلا کہ ایک خط تو پورا حذف کر دیا گیا ہے۔ تحریف شدہ ایڈیشن میں دو مختلف رنگ کے کاغذ شامل ہیں اصلی اور تحریف شدہ ایڈشین کے صٖحات کے نمبروں میں فرق ہے کچھ عبارتیں حذف کی گئی ہیں وغیرہ۔ شیخ صاحب نے دونوں نسخوں کا موازنہ کرنے کے بعد فرمایا ک آپ کی کتاب’’اقبال اور بھوپال‘‘ شائع نہ ہوتی تو علامہ کے خطوط میں تحریف و ردوبدل کا شاید ہی کسی کو علم ہوتا۔ میں نے عرض کیا کہ اقبال نامہ کے ناشر شیخ محمد اشرف ۱؎ سے میرے دیرینہ مراسم ہیں۔ یہ نسخہ بھی میں نے ان سے حاصل کیا تھا… میں انہیں خط لکھ کر صحیح واقعات کا پتہ چلائوں گا اور نتیجہ سے آپ کو بھی مطلع کروں گا۔ اسی ملاقات کے دوران شیخ اعجاز احمد نے کتاب کے بعض واقعات کی صحت پر عدم اطمینان کا اظہار فرمایا تو میں نے انہیں اپنی مشکلات اور اس کتاب کے سلسلے میں مواد کی فراہمی کے سلسلے میں چند در چند دشواریوں کا مختصر احوال سنایا اور عرض کیا کہ آپ اپنا اطمینان فرمانے کے بعد ان واقعات کی نشان دہی فرما دیں تو مجھ پربھی ارد و ادب پر بھی احسان ہو گا۔ کیونکہ میں ذاتی طورپر کسی بھی تحقیق کو حرف آخڑنہیںسمجھتا۔ چنانچہ شیخ صاحب نے تحریری تفصیلات کی فراہمی کاوعدہ فرما لیا اور تقریباًایک سال کی کوشش و کاوش کے بعد بعض واقعات کی درستی فرمائی آپ کی تحریر کے اقتباسات آئندہ صفحات میں ملاحظہ کیجیے عبدالواحد معینی ۲؎ …سابق نائب صدر اقبال اکیڈمی پاکستان نے جن کی نگرانی میں یہ کتاب چھپی تھی۔ کتاب کی اشاعت کے تقریباً آٹھ ماہ بعد از رہ شفقت تفصیلی تبصرہ…اقبال ریویو شمارہ جنوری ۱۹۷۴ء (جلد ۱۴ شمارہ ۴) میں صفحات ۶۰ تا ۷۷ شائع فرمایا …ساتھ ہی اس تبصرے کو علیحدہ علیحدہ بھی شائع کر کے تقسیم کیا اور اس طرح اقبال اکیڈمی میں ایک نئی روایت کی طرح ڈالی اس تبصرے ک ی تفصیلات سے قطع نظر انہوںنے جس فراخ حوصلگی سے میری سعی و کاوش کو سراہا ہے وہ میرے لیے بہر طور باعث امتیاز ہے لکھتے ہیں: ’’علامہ کے علاج کی غرض سے تین بار قیام اور ان کا تفصیلی حال جو تین ابواب میں دیا ہے کتاب کی جان ہے۔ گوہر پڑھنے والا یہ چاہے تگا کہ یہ حالات اور مفصل ہوتے تو اچھا ہوتا مگر شاید زیادہ تفصیلات کا حاصل کرنا مصنف کے لیے ممکن نہ تھا۔ ان تین ابواب کے علاوہ یعنی تیسرے باب پانچویں باب اور آٹھویں باب کے علاوہ کتاب کے کچھ اور ابواب بھی ہیں جن میں بہت دلچسپ معلومات دی گئی ہیں۔ مثلاً دوسرا باب علامہ اور نواب حمید اللہ خاں بہادر کے خصوصی روابط پر روشنی ڈالتا ہے۔ چوتھا باب اقبال کے وظیفہ اور اس کے پس منظر کی تفصیلات دیتا ہے۔ ۱۔۲؎ افسوس کہ یہ دونوں شخصیتیں ۱۹۸۰ء کے دوران ہم سے جدا ہو گئیں۔ چھٹے باب میں جشن حالی کا مستند احوال پیش کیا گیا ہے اور بلا شک و شبہ ہا جا سکتا ہے کہ فاضل مصنف نے اس باب کی تفصیلات بڑی محنت اور عرق ریزی سے جمع کی ہیں۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس سے بڑھ کر اور زیادہ مفصل حال کسی دوسری جگہ ملنا محال ہے اور قابل مصنف اپنی محنت کے لیے قابل مبارک باد ہیں۔ ساتواں باب علامہ اور ان کیک خصوصی معالج ڈاکٹر عبدالباسط سے خط و کتابت پر مشتمل ہے۔ اس باب میں علامہ کے وہ غیر مطبوعہ خطوط بھی شامل ہیں جو علامہ نے ڈاکٹر عبدالباسط کو تحریر کیے تھے۔ ۱؎‘‘ ڈاکٹر محمد عباس علی خاں کے بارے میں ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے صفحہ ۷۲ اور اقبال اور حیدر آباد کے صفحہ ۲۳۱ پر جو کچھ لکھا گیا ہے عبدالواحد معینی نے اس پر اعتراض کیا ہے ان کا ارشاد ہے: ’’یہ ضروری ہے کہ اس کا ذکر کروں کہ لمعہ صاحب کے نام علامہ کے خطوط بیشتر جعلی ہیں اور خود عطاء اللہ صاحب مرحوم نے اس کے معترف تھے ۲؎ ۔ اس لحاظ سے لمعہ صاحب کا ذکر ہی اس سلسلہ میں ضروری نہیں ہے۔ اور یہ سراسر غلط ہے کہ علامہ لمعہ صاحب کی شاعرانہ صلاحیتوں کے دل سے معترف تھے۔ اتنا بڑا جعل اردو ادب کی تاریخ میں شاذ و ناذر ہی سرزد ہوا ہو گا۔ ۳؎ عجب اتفاق ہے کہ لمعہ کے جعلی خطوط کے بارے میں… اقبال اور بھوپال کی اشاعت سے پہلے کبھی کسی نے اظہار رائے کی ضرورت نہیں سمجھی… بہرطور میرے لیے معینی صاحب اور بعض دیگر معترضین کے پیدا کردہ نئے مسائل کی چھان بین ضروری تھی۔ چنانچہ جب اقبال اور بھوپال کا آخری نسخہ بھی فروخت ہو گیا تو ۱۹۸۴ء کے دوران اقبال اکیڈمی کی مجلس انتظامیہ نے اس کی دوبارہ اشاعت کا فیصلہ کیا اور مجھے اطلاع دی چنانچہ میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس دوران وہ نیا مواد بھی جو ا س دوران مجھے دستیاب ہوا چنانچہ تین سال کی سعی و جہد کے بعد دوسرا ایڈیشن اس امید اور توقع کے ساتھ پیش کر رہا ہوں کہ آپ ترمیم و اضافہ اور نظر ثانی کے بعد اسے پہلے ایڈیشن سے زیادہ مفید پائیں گے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اقبال کے متعلق بعض ضعیف اور مشتبہ روایات کی صحت و درستی ہو جائے۔ اور جو نیا مواد شامل ہو رہا ہے اس سے کتاب کی قدر و اہمیت میں کچھ اور اضافہ ممکن ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال ایسی نابغہ روزگار شخصیت کے بارے میں نئے گوشوں اور معلامات کے نئے اضافوں کے ابھی وسیع امکانات موجود ہیںَ اقبال یقینا ان عظیم شاعروں میں شامل ہے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں او رصدیوں تک زندہ رہتے ہیں اور ہر زمانے کی نئی نسل ان کے فن ان کی زندگی اور شخصیت سے فیضان حاصل کرتی ہے۔ مجھے اپنی کوتاہیوں کا پہلے کی طرح اب بھی اعتراف ہے ۔میں نے پوری توجہ احتیاط اور عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب پر نظر ثانی کی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی واقعہ خلاف حقیقت آپ کو نظر آئے تو میری رہبری فرمائیں …شاید کبھی تیسرے ایڈیشن میں اس کی تصحیح بھی ممکن ہو سکے۔ ۱۔ اقبا ل ریویو ۔ جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۶۷ ۲۔ یہ اعتراف زبانی تھا یا تحریری… اور اگر تحریری تھا تو کب اور کہاں اشاعت پذیر ہوا… معینی صاحب نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔ ۳۔ اقبال ریویو… جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۷۴ دیباچہ کے دوسرے حصے میںنئے مواد کی تفصیلات اور وہ تمام واقعات و حقائق شامل ہیں جو انتہائی کدوکاوش اورپوری ذمہ داری سے فراہم کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ممنون حسن خاں‘ شیخ اعجاز احمد ‘ بیگم چھتاری ۱؎ اور جلیل قدوائی کا بطور خاص ممنون ہوں جن کے تعاون سے دوسرے ایڈیشن میں قابل قدر اضافہ اور صحت و درستی ممکن ہو سکی۔ دوسرے ایڈیشن کا نیا مواد گزشتہ تین سال کے دوران میں اس کتاب پر نظر ثانی کے دوران سعی و کاوش سے جو نیا مواد دستیاب ہوا ہے اس کی تفصیلات یہ ہیں: ۱۔ اقبال نامہ میں تحریف و ردوبدل کا انکشاف۔ ۲۔ بعض واقعات کے سلسلے میں شیخ اعجاز کی توضیحات اور تحقیق مزید۔ ۳۔ ۱۰ مئی ۱۹۳۱ء کو بھوپال کانفرنس کا انعقاد اقبا ل کا بیان مطبوعہ انقلاب لاہور۔ ۴۔ راس مسعود کے چھ نادر خطوط بنام اقبال بتواریخ ۲۵ مارچ ۱۹۳۵ء ۳۱ مارچ ۱۹۳۵ء ۱۶ اپریل ۱۹۳۵ء ۲۴ اپریل ۱۹۳۵‘ اور ۲۰ مئی ۱۹۳۵ء اور ایک خط بنام حفیظ جالندھری بلا تاریخ جس میں جشن عالی منعقدہ پانی پت میں پڑھی جانے والی نظم پردلچسپ تبصرہ کیا گیا ہے۔ اقبال کی دو خطوط کی فوٹو کاپیاں۔ ۵۔ اقبال کے وظیفہ سے متعلق نواب حمید اللہ خاں کی جانب سے بھیجی جانے والی ایک قیمتی یادداشت۔ ۶۔ اقبال کا ایک یادگار خط خواجہ حسن نظامی کے نام جس میں ’’خواجہ نمبر‘‘ کے سلسلے میں انہوں نے بطور جج پروفیسر سید نواب علی کے مضمون کو بہترین قرار دیا ہے۔ ۷۔ اقبال کی وفات پر باسط بھوپالی‘ اختر سعید خاں اور احسن علی خاں کے گم شدہ اور غیر مطبوعہ مرثیے۔ ۸۔ ممنون حسن خاں کے چند اہم انکشافات۔ ۹۔ اقبال کے احکام وظیفہ کی فوٹو کاپی جس سے وظیفہ کے غیر مشرو ط ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ ۱۰۔ مولانا محمد علی کو ولایت کے سفر میں سلسلے میں اورعبدالرحمن چغتائی کو… اقبال اور راس مسعود کی سفارش پر ’’نقش چغتائی ‘‘ کے لیے کثیر رقم ریاست بھوپال نے عطا کی تھی۔ ۱۱۔ قرآن مجید کا خاکہ اقبال نے تیار کر دیا تھا جسے ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے مصر ارسال کیا تھا۔ ۱۲۔ اقبا ل کا ایک نایاب خط ڈاکٹر تاثیر کے نام جس سے پہلی بار یہ علم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے حواشی کے متعلق کتاب کا نام انہوںنے ’’مقدمۃ القرآن ‘‘ رکھا تھا۔ اسی خط میں انہوںنے بھوپال کے وظیفہ کو لٹریری پنشن سے موسوم کیا ہے۔ ۱۳۔ آخری باب…کتاب کے بارے میں… ان مضامین اور تبصروں پر مشتمل ہے جو پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد قومی پریس میں شائع ہوئے۔ ۱۴۔ نواب حمید اللہ خاں کی بچپن کی نایاب تصویر اپنے والد کے ساتھ۔ ۱۔ افسوس کہ بیگم راحت سعید چھتاری (سابق لیڈی مسعود) کا مارچ ۱۹۷۹ء میں انتقال ہو گیا۔ اقبال نامہ میں تحریف و ردوبدل شیخ اعجاز احمد سیدوسری ملاقات کے بعد فوراً میں نے اقبال نامہ کے ناشر شیخ محمد اشرف کو تفصیلی خط لکھ دیا تھا۔ جس کاجواب کافی تاخیر سے ملا انہوں نے جو واقعات تحریر کیے ہیں ان سے قطعی نئی صور ت حال سامنے آئی ہے۔ سب سے پہلے خط کا متن ملاحظہ ہو۔ ’’کشمیری بازار لاہور ۳ اکتوبر ۱۹۷۴ء مکرمی جناب صہبا صاحب ۔ السلام علیکم۔ مزاج گرامی۔ آپ کا گرامی نامہ موصول ہو گیا تھا۔ موسم سرما کی وجہ سے میں پہاڑ وغیرہ پرجاتا رہا ہوں اور آپ کے خط کا جواب دفتر والے نہیں دے سکتے تھے۔ اس لیے معذرت خواہ ہوں۔ مکاتیب اقبا کا ایک ہی ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ دوسرا ایڈیشن شائع نہیں ہوا۔ پہلا ایڈیشن ۱۹۵۱ء میں طبع ہوا تھا۔ شیخ عطا اللہ کے لائق فرزند مختار مسعود نے بتایا کہ اقبال نامہ کی پہلی جلد ۱۹۴۶ء میں اور دوسری جلد ۱۹۵۱ میں شائع ہوئی تھی جس وقت یہ کتاب(پہلی جلد) چھپ کر بازار میں آئی تو اس وقت چوہدری حمد حسین جن کو آپ خو ب جانتے ہوں گے زندہ تھے۔ چوہدی صاحب پریس برانچ کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور Paper Controllerبھی تھے میرے ان سے تعلقات بھی تھے۔ علامہ اقبال نے ایک خط ۱؎ سر راس مسعود کو تحریر کیاتھا جو بالکل درست تھا۔ وہ خط بھی طبع شدہ ایڈیشن میں موجود ہے۔ چوہدری صاحب پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ خط اس مجموعہ میں شامل ہو۔ میں نے ہر چند ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس خط کو حذف نہ کیا جائے مگر وہ اس پر آمادہ نہ وہئے۔ مجبوراً وہ خط حذف کیا گیا۔ جو نسخے قبل ازیں فروخت ہو گئے ان میں وہ خط شامل ہو گا۔ اور اتفاق دیکھیے کہ راقم کے پاس وہی نسخہ ہے جو چوہدری صاحب مرحوم کی قطع و برید سے محفوظ رہ گیا بقایا نسخے اس خط کے بغیر ہوں گے۔ یہ نسخہ شیخ اعجاز احمد کے پاس میں نے دیکھا یہی فرق ہے جس کی طرف آپ نے نشاندھی کی ہے اس خط کا عکس اب بھی میرے پاس موجود ہے۔ اصل خط شیخ عطاء اللہ خاں صاحب مرحوم کے پاس موجود تھے انہوں نے واپس نہیںکیے تھے۔ غالباً ان کے صاحبزادے مختار مسعود کے پاس محفوظ ہوں گے۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ بعض نسخوں میں صفحات بھی کم ہیں اور عبارتیں بھی مختلف ہیں چونکہ ایک بہت اہم اور طویل خط حذف کر دیا گیا تھا اس کی وجہ سے صفحات اور عبارت میں فرق ہونا لازم ہے۔ امید ہے آپ کی الجھن دور ہو گئی ہو گی۔ ۱؎ مشمولہ اقبال اور بھوپال صفحہ ۸۷۔۸۸ (خط بنام راس مسعود مورخہ ۳۰ مئی ۱۹۳۵ئ) اگر مزید ضرورت ہو تو آپ ہر وقت دریافت کر سکتے ہیں۔ اس تاخیر کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ آپ کا مخلص محمد اشرف‘‘ اس خط کے مندرجات سے جہاں اقبال نامہ کی پہلی جلدمیں تحریف و ردوبدل کاعلم ہوتا ہے وہیں پہلی بار یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ چوہدری محمد حسین مرحوم نے علامہ اقبال پر اتنا بڑا ظلم کیا ہے جس کی ادبی تاریخ میں مثا ل ملنا ناممکن ہے اس ناروا اقدام سے وہ شخصیتیں بھی مجروح ہوئں جن سے علامہ اقبال کے نہایت قریبی اور مخلصانہ رابطے تھے اور علامہ ایسی بلند مرتبہ شخصیت کے ذاتی خطوط کی دیانت پر بھی حرف آیا۔ میں سمجھا ہوں کہ… چوہدری صاحب مرحوم کے لیے ایسے بے جا اور نازیبا اقدام کو ادبی مورخ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ چوہدر ی محمد حسین مرحوم نے اقبال کے صرف اسی ایک خط کو حذف کرنے پر اکتفا نہیںکیا بلکہ بعض دیگر خطوط میں بھی ترمیمات سے دریغ نہیں کیا جن کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ شیخ اعجا ز احمد کی توضیحات جیسا کہ گزشتہ صفحات میں عرض کر چکا ہوں… علامہ اقبال کے لائق بھتیجے شیخ اعجاز احمد سے اس کتاب کے سلسلے میں یری دو تفصیلی ملاقاتیں ہوئی تھیں… اقبال نامہ کے بعض خطوط میں ردو بدل کے انکشاف کے علاوہ بعض روایات و واقعات پر شیخ صاحب نے شک و شبہ کا اظہارفرمایا تھا۔ اس سلسلے میں میں نے گزارش کی تھی کہ آپ مزید تحقیق فرما کر نتیجہ سے مجھے مطلع فرما دیں۔ تاکہ کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں آپ کے تحقیقی نتائج شامل کر لوں۔ اس طرح واقعات و روایات کی صحت و درستی بھی ہو جائے گی اورآئندہ کسی غلط فہمی کا امکان نہیںرہے گا۔ شیخ صاحب نے ازرہ اقبال شناسی یہ ذمہ داری قبول فرمالی …تقریباً ایک سال تک انہوںنے تمام ممکنہ ذرائع سے بعض واقعات کی چھا ن بین فرمائی اور مجھے تحریری طو ر پر تفصیلات مہیا فرما دیں جن کا سلسلہ وارتذکرہ پیش خدمت ہے: ’’۲۱۳ ۔ بی ۔ فریر اسٹریٹ کراچی۔ ۴ ۴ اکتوبر ۱۹۷۵ء مکرمی محترمی صہبا صاحب…السلام علیکم پچھلی دو ملاقاتوں میںآپ کی تصنیف ’’اقبال اوربھوپال‘ ‘ کے متعلق آپ کے ساتھ تفصیل گفتگو ہوئی۔ اس موضوع پر بکھرے ہوئے مواد کو آپ نے جس کاوش اور لگن سے یکجا کیا ہے وہ قابل داد ہے۔ اقبالیات میں اس گراں قدر اضافہ پر جہاں میںنے آپ کی خدمت میں خراج تحسین پیش کیا وہاں یہ عرض کرنے کی جسارت بھی کی تھی کہ علامہ اقبال کے متعلق بعض ایسی روایات بھی آپ کو نے معتبر و مستند سمجھ کر انہیں نئے اچھوتے اور منفرد واقعات جن کا آض تک کسی کو علم نہ تھا قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب میں شامل کر لیا ہے۔ جو میری دانست میں اگر رہ افسانہ زدند کی ذیل میں نہیں آتے تو کم از کم تاحال تشنہ تحقیق ضرو ر ہیں۔ ’’اقبال اور بھوپال ‘‘ کی چند ایسی ضعیف روایات کی نشان دہی کرتے ہوئے میںنے ان کے متعلق مزید چھان بین کامشورہ دیاتھا۔ آپ سے یہ معلوم کرکے اطمینان ہوا کہ آپ نے مزید کچھ معلومات حاصل کی ہیں جن سے میری معروضات کی ایک حد تک تائید ہوتی ہے۔ آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اپنی معروضات کو اس تحریر میں قلم بند کر کے پیش کرتا ہوں: محمد عباس علی خاں لمعہ اقبال نامہ حصہ اول میں علامہ اقبال کے کچھ خطوط ایک صاحب محمد عباس علی لمعہ ۱؎ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا میں ان صاحب کے علامہ کے ساتھ تعلقات پر روشنی ڈال سکتا ہوں کیونکہ بعض حلقے ان خطوط کی اصلیت کو مشکوک سمجھتے ہیں۔ خطوط کے متعلق بغیر اصل خطوط کو دیکھے حتمی طورپر تو کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن حسب ذیل قرائن سے مجھے یہ خطوط اصل ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اولاً ایک خط کا عکس ۲؎ اقبال نامہ حصہ اول میں شامل ہے جسکی تحریر کو میں پہچانتا ہوں کہ یہ چچا جان کی ہی ہے۔ دویم ان خطوط کا طرز تحریر بھی انہی جیسا ہے۔سویم آخر عمر میں انہوں نے آنکھوںمیں موتیا اتر آنے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے لکھنے پڑھنے سے منع کر دیاتھا۔ ان ایام میں خطوط کا جواب کسی اور سے لکھواتے ۔ عام طور پر یہ کام مشہور صحافی م۔ ش صاحب (جناب محمد شفیع صاحب ایم اے) کے سپرد تھا۔ بعض اوقات چچا جان کی ہدایت پر شفیق صاحب ہی جواب لکھ دیتے تھے چنانچہ اقبال نامہ میںشائع ہونے والے خطوط بنام لمعہ صاحب کا آخری خط ۳؎ محررہ ۳۱ اگست ۱۹۳۷ء شفیع صاحب کی طرف سے ہے اس میںدیوان غالب کا ایک نسخہ چچا جان کی خدمت مین بھیجنے کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ دیوان غالب کا ایک پاکٹ سائز نسخہ مطبع آفتاب برلن لمعہ صاحب کی طرف سے علامہ کی خدمت میں بھیجا گیا۔ اس کی نہایت دیدہ زیب جلد بندی دکن کی مشہور محؓوبیہ بک بائنڈنگ فیکٹری جو اب کراچی میں ہے۔ کی تیار کردہ ہے۔ لمعہ صاحب نے اس نسخہ پر حسب ذیل شعر تحریر کیا ہوا ہے: اقبال تو سراپا اسرار ایزدی ہے افسون تیرا تکلم تو شعر کا نبی ہے محمد عباس علی خاں لمعہ ۲۷ اگست ۱۹۳۷ء (میں نے ’’افسون‘‘(نون میں نقطہ کے ساتھ) ویسے ہی لکھ دیا ہے جیسے لمعہ صاحب نے لکھا ہوا ہے ورنہ شعر کے لحاظ سے ’’افسوں‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ۱۔ اقبال اور بھوپال صفحہ ۷۲ ۲۔ اقبال نامہ۔ (جلد اول) صفحہ ۲۷۱ ۳۔ ایضاً صفحہ ۲۹۸ سے نون میں نقطہ ڈال دیاہے۔ واللہ اعلم دیوان غالب کا یہ نسخہ علامہ اقبال نے اپنے بڑے بھائی یعنی میرے والد صاحب کو دے دیا تھا۔ چنانچہ والد صاحب کے دستخط اس پر موجود ہیں۔ والد صاحب اسے دیوان غالب کا یہ نسخہ مجھے ملا اوراب میرے قبضہ میں ہے۔ لمعہ کے نام اقبالنامہ میں شائع ہونے والے خطوط سے ظاہر ہوتاہے کہ لمعہ صاحب گاہے گاہے علامہ صاحب کی خدمت میں کتابیں پیش کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ان کی پیش کی ہوئی ایک کتاب ’’ارمغان عزیز‘‘ کلام نواب عزیز یار جنگ بہادر جلد دوم بھی میرے پاس ہے جو لمعہ صاحب نے ۱۷ اگست ۱۹۳۴ ء کو علامہ کی خدمت میں بھیجی۔ سرورق پر حسب ذیل عبارت رقم ہے: بخدمت شریف عالی جناب حضرت ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال صاحب مدظلہ بیرسٹر ایٹ لاء ۔لاہور۔ از محمد عباس علی خاں لمعہ۔ ۱۷ اگست ۱۹۳۴ئ۔ یہ کتاب چچا جان نے مجھے عطا فرمائی یہ سب قرائن خطوط متذکرہ بالا کے اصلی ہونے کی تائید کرتے ہیں‘‘۔ لمعہ کی فرضی شخصیت اور جعلی خطوط کے سلسلے میں راقم الحروف نے مختار مسعود سے بھی معلومات حاصل کی ۔ ایک ملاقات کے دوران انہوںنے فرمایا کہ والد صاحب کی لمعہ سے خط و کتابت رہی ہے۔ ان کے کچھ خطوط اب بھی ان کے پاس محفوظ ہیں لہٰذا ان کی فرضی شخصیت کا اعتراض بے معنی ہے۔ ان کے تمام تر خطوط جعلی ہیں۔ یہ بات تحقیق طلب ہے… بہرحال وہ جلد ہی اقبال نامہ کی دونوں جلدیں یکجا… شیخ و بیگم عطا اللہ ٹرسٹ کے زیر اہتمام فوٹو آفسٹ پر شائع کر رہے ہیں… اس میں وہ ابتدائیہ لکھیں گے اور مزید چھان بین کے بعد لمعہ کے جعلی خطوط اور دیگر خطوط پر اظہار رائے کریں گے۔ فی الوقت حتمی طور پر وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ جناب جمیل نقوی صاحب کی روایت شیخ اعجاز احمد نے اس سلسلے میں جو تحقیق فرمائی ہے وہ ا ن کی زبانی سنیے: اقبال اور بھوپال کے صفحات ۱۱۷ تا ۱۲۲ پر آپ نے جمیل نقوی صاحب کی ایک یادداشت نقل کی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’ماہانہ وظیفہ سے قبل راس مسعود کی مساعی سے ڈاکٹر اقبال کو یکمشت بھی کئی ہزار کی رقم نواب صاحب بھوپال نے عطا کی تھی تاکہ وہ قرآن مجید کے حواشی لکھنے کے لیے کتب کی خریداری کر سکیں‘‘۔ اپنے اس بیان کے ثبوت میں وہ فرماتے ہیں: ’’اس رقم کا حوالہ جناب ممنون حسن خاں صاحب کے نام ایک خط میں بھی کیا جو ’’اقبال نامہ‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں شامل تھا… بعد میں اسے بعض وجوہ کی بنا پر ’’پہلے ایڈیشن ‘‘ سے خارج کر دیا گیا‘‘ جمیل صاحب نے جو کچھ اپنے بیان کے ثبوت میں فرمایا ہے وہ واقعات کے خلاف ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ اقبال نامہ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونے کی تو ابھی نوبت ہی نہیںآئی۔ آپ سے معلوم ہوا کہ شیخ محمد اشرت صاحب ناشر کتاب مذکور نے آپ کے استفسار کے جواب میں اس بات کی تائید کی ہے اور لکھا ہے کہ اقبال نامہ چھپ چکنے کے بعد جناب چوہدری محمد حسین صاحب کو جو علامہ کے دوست اور ان دنوں پریس برانچ میں افسر اعلیٰ تھے۔ اقبال نامہ میں شاامل بعض خطوط کی اشاعت پر اعتراض ہوا اور ان کے کہنے کے بموجب دو ایک خطوط ان کو طبع شدہ کتاب میں ردوبدل کرنا پڑا۔ جیسا کہ آگے چل کر واضح کیا جائے گا یہ ردوبدل ممنون حسن خاں صاحب کے نام جو خطوط شامل اقبال نامہ میں ان میں نہیں کیا گیا۔ میں نے بھی اپنے طور پر اپنے چھوٹے بھائی کے ذریعہ جو لاہور میں مقیم ہیں۔ شیخ محمد اشرف صاحب سے اس واقعہ کے متعلق صورت حال دریافت کرائی تھی۔ میرے بھائی کا جواب جو آیا ہے اس کا ایک حصہ نقل کرتاہوں: ’’میں کل شیخ محمد اشرف صاحب کو ملاتھا۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں اقبال نامہ کے بارے میں انہوںنے بھی وہی بات بتائی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا تھا۔ انہوںنے بتایا کہ کتاب کی قریباً ۱۰۰ کاپیاں جب فروخت ہو گئیں تو چوہدری محمد حسین صاحب نے چند خظوں کے بعض حصوں کو حذف کرنے کو کہا۔ میںاپنے دوستوں سے مشورہ کیا۔ سب نے یہی کہا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے معلوم ہوا کہ چوہدری صاحب چھ ماہ بعد ریٹائر ہو جائیںگے۔ چوہدری صاحب لڑائی کے زمانے میں پیپر کنٹرولر بھی تھے اور کاغذ کاکوٹہ بھی وہی دیتے تھے۔ انہیں انکا ر نہیںکر سکتا تھا۔ فیصلہ کیا کہ ابھی کتاب کی فروخت بند کر دی جائے اور کسی طرح چھ ماہ گزار دیے جائیں۔ ان کے ریٹائر ہونے کے بعد فروخت کریں گے۔ چوہدری صاحب کی ملازمت میں دو سال کی توسیع ہو گئی۔ میں مجبور ہو گیا کہ کتاب کی چار ہزار کاپیاں چھپی تھیں۔ ان کاپیوں میں ورق تبدیل کرنے پڑے جس سے مجھے کافی نقصان ہوا‘‘۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ خود آپ کے پاس اقبال نامہ حصہ اول کی جو کاپی ہے اور جس سے آپ ن علامہ کے خطوط بنام سید را س مسود و ممنون حسن خاں صاحب ’’اقبال اور بھوپال‘‘ میں نقل کیے ہیں انہیں چند کاپیوں میں سے ایک کاپی سے کر کے اطمینان کر لیا ہے کہ یہ وہی پہلا ایڈیشن ہے جس کے متعلق جمیل نقوی صاحب اپنی یادداشت لکھتے ہیں: ’’مجھے معلوم نہیں کہ اب پہلا ایڈیشن کہاں ملے گا۔ اقال اور بھوپال صفحہ ۱۲۱ اور آپ نے لکھا ہے کوشش کے باوجود اقبال نامہ کا پہل ایڈیشن کہیں دست یاب نہ ہو سکا۔ جس سے یکمشت ادائی کی تصدیق ہو سکتی اقبال اور بھپال صفحہ ۱۲۲ اسے کہتے ہیں لڑکا بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں‘‘۔ اقبال نامہ کی جو کاپی آپ کے پاس ہے اس میں ممنون حسن خاں صاحب کے نام دس خط درج ہیں اور وہ دسوں کے دسوں ان کاپیوں میں بھی موجودہیں جن میں چوہدری محمد حسین صاحب کے ایما پر ردوبدل کیا گیا۔ کوئی ایک خط بھی ایسا نہیں جو یا جس کا کوئی حصۃ ردو بدل شدہ کاپیوں میں حذ ف کیا گیا ہو۔ اور آپ والی اقبال نامہ کی کاپی کامقابلہ ان کاپیوں سے کیا جائے جس میں ردوبدل کیا گیا تو جمیل صاحب کے اس بیان کی واضح طور پر تردید ہوتی ہے کئی ہزار کی مبینہ رقم کا ذکر علامہ اقبال نے ممنون حسن خاں صاحب کے نام ایک خط میں کیا جو اقبال نامہ میں شائع ہوا لیکن بعد میں بعض وجوہ کی بنا پر خارج کر دیا گیا۔ چوہدری محمد حسین صاحب کی سنسرانہ قینچی صرف راس مسعود صاحب کے نام تین خطوں پر چلی معلوم ہوتی ہے۔ اول خط محررہ ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء کا کچھ حصہ حذف کر دیا گیا… دویم خط محررہ ۱۱ دسمبر ۱۹۳۵ء سارے کا سارا حذف ہوا۔ سویم خط محررہ ۱۰ جون ۱۹۳۷ء کا کچھ حصہ حذف کیا گیا۔ اقبال نامہ کی جو کاپیاں ردوبدل سے پہلے فروخت ہو چکی تھیں جن میں آپ کی کاپی بھی شامل ہے ان میں یہ تینوں خطوط مع حذف شدہ حصوں کے موجود ہیں۔ سید راس مسعود صاحب کے نام خط محررہ ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء اقبال اور بھوپال صفحہ ۸۷ کا کچھ حصہ اور خط محررہ ۱ ۱ دسمبر ۱۹۳۵ء اقبال اور بھوپال صفحہ ۱۵۰ ؤسار ے کا سار احذف کرانے میں چوہدری محمد حسین صاحب کی کیا مصلحت تھی یہ انہیں ہی معلوم ہو گی۔ مجھے تو ان کے شائع ہو جانے میں کوئی قباحت نظر نیں آتی۔ اس تحریر میں طوالت کے خوف سے ا س بارے میں تفصیلی جائزہ ترک کرتا ہوں۔ سید صاحب موصوف کے نام خط محررہ ۱۰ جون ۱۹۳۷ء ابقبال اور بھوپال صفحہ ۱۸۹۰ کا جو حصہ چوہدری محمد حسین صاحب نے اقبال نامہ حصہ اول کے طبع ہوجانے کے بعد حذف کرایا اس تحریک کی مصلحت سمجھ میں آتی ہے۔ اگر اصل خط جو ’’اقبال اور بھوپال ‘‘ کے صفحہ ۱۸۹ پر شائع ہوا ہے کا مقابلہ تحریف شدہ خط سے کیا جائے آپ کے قارئین کی سہولت کے لیے ذیل میں اصل خط اور تحریف شدہ خط کے اقتباس نقل کرتا ہوں۔ ۱ ۲ اقتباس اصلی خط محررہ ۱۰ جون ۱۹۳۷ء جو ’’اقبال نامہ حصہ اول نے پہلے شائع ہوا اور ’’اقبال اور بھوپال کے صفحہ ۱۸۹ پر نقل ہے۔ اقتباس خط محررہ ۱۰ جون ۱۹۳۷ء جو چوہدری محمد حسین صاحب کے ایما پر بعض حصے حذف کرنے کے بعد ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ اول میں شامل ہوا۔ میں نے جاوید اور منیرہ کے چار Guardian مقرر کیے تھے۔ یہ ازروئے وصیت مقرر کیے گئے تھے جو سب رجسٹرار کے دفتر میں محفوظ ہے ۔ نام ان کے حسب ذیل ہیں: (۱) شیخ طاہر الدین: یہ میرے کلارک ہیں جو قریباً بیس سال سے میرے ساتھ ہیں مجھ کو ان کے اخلاص پر کامل اعتماد ہے (۲) چوہدری محمد حسین ایم اے سپرنٹنڈنٹ پریس برانچ سول سیکرٹریٹ لاہور یہ بھی میرے قدیم دوست ہیں اور نہایت مخلص مسلمان (۳) شیخ اعجاز احمد بی اے ایل ایل بی سب جج دہلی۔ (۴) عبدالغنی مرحوم۔ عبدالغنی بے چارے کے متعلق میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں اس کی جگہ خاں صاحب میاں امیر الدین سب رجسٹرار لاہور کو مقر کرنے کا ارادہ ہے نمبر (۳) شیخ اعجاز احمد میرا بھتیجا ہے نہایت صالح آدمی ہے لیکن وہ خود بہت عیالدار ہے اور عام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardianمقرر کر دوں… وغیرہ وغیرہ۔ میں نے جاوید او ر منیرہ کے چار Guardianمقرر کیے تھے۔ یہ ازروئے وصیت مقرر کیے گئے تھے جو سب رجسٹرار کے دفتر میں محفوظ ہے۔ ان کے نام حسب ذیل ہیں: (۱) شیخ طاہر الدین: یہ میرے کلارک ہیں جو قریباً بیس سال سے میرے ساتھ ہیں۔ مجھ کو ان کے اخلاص پر کامل اعتما د ہے (۲) چوہدری محمد حسین ایم اے سپرنٹنڈنٹ پریس برانچ سول سیکرٹریٹ لاہور۔ یہ بھی میرے قدیم دوست اور نہایت مخلص مسلمان ہیں۔ (۳) شیخ اعجاز احمد بی اے ایل ایل بی سب جج دہلی (۴) عبدالغنی مرحوم۔ عبدالغنی بے چارے کے متعلق میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو Guardianمقرر کر دوںوغیرہ وغیرہ۔ کالم نمبر ۱ میں خط کشید ہ حصہ حذف کرانے سے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے ایک تو یہ خاکسار جس کے متعلق چچا جان نے ازرہ شفقت فرمایا…میرا بھتیجا نہایت صالح آدمی ہے۔ یہ صالحیت کا سرٹیفکیٹ اگرچہ اس حسن ظن کا مرہون منت تھا جو بزرگ عام طور پر اپنے عزیزوں کے متعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس کی اشاعت چوہدری محمد حسین صاحب کی سیاست کو گوارا نہ ہوئی لہٰذا ان الفاظ کو حذف کرا دیا گیا اگرچہ ایسا کرنے سے خط کا مفہوم بدل گیا۔ مذکورہ بالا تحریف کے تیرے کے دوسرے شکار جناب میاں امیر الدین صاحب ہوئے اس اجمال کی تفصیل بیان کرنے سے یہ تحریر طویل ہوجائے گی لہٰذا اسے ترک کرتا ہوں۔ اس سیاست بازی کے متعلق میں کچھ مزید کہنا نہیں چاہتا۔ چوہدری صاحب اپنے خالق کے پاس پہنچ چکے ہیں اور ان کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ سید راس مسعود صاحب کے نام علامہ کے تمام خطوط جو اقبال نامہ میں شائع ہوئے میں بشمول ان کے جن میں بعد میں پورا کوئی حصہ حذ ف کرایا گیا پڑھیںتو معلوم ہو گا کہ کسی ایک خط میں بھی جمیل نقوی صاحب کی بیان کردہ کئی ہزار کی رقم کا ذکر یا اشارہ تک نہیں اگر سیدھا صاحب مرحوم کی مساعی سے کئی ہزار کی رقم عطا ہوئی ہوتی تو کیسے ممکن تھا کہ علامہ ان کے نام کسی خط میں بھی اس خطیر رقم کا ذکر نواب صاحب کی شکر گزاری کے طور پر نہ کرتے جیسا کہ انہوںنے ماہانہ وظیفہ عطا ہونے پر سید صاحب مرحوم کے نام اپنے ۳۰ مئی ۲۴ جون اور ۱۸ ستمبر ۱۹۳۵ء کے خطوط میں بار بار کیا۔ علامہ کو اعتراف احسان میں کبھی دریغ نہیں ہوا۔ نواب صاحب نے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تو فوراً سید نذیر نیازی صاحب کے نام اپنے خط محررہ یکم جون ۱۹۳۵ء میں اپنی احسان مندی کا ذکر کیا لیکن اس کئی ہزار کی رقم کا ذکر نہکبھی گھر میں ہوا نہ احباب میں سے کسی کے ساتھ۔ میں نے احتیاطاً سید نذیر نیازی صاحب سے جو ان دنوں چچا جان کے بہت قریب تھے اس روایت کے متعلق دریافت کیا ہے… وہ فرماتے ہیں…: ’’جمیل نقوی صاحب کی روایت بھی تصنیف بندہ ہے اور کچھ نہیں۔ اگر سید راس مسعود صاحب کی مساعی سے کئی ہزار کی رقم نواب صاحب نے عطا کی ہوتی تو حسب ذیل تین زندہ ہستیوں کو اس کا ضرور علم ہوتا۔ اول سید راس مسعود صاحب کی بیگم صاحبہ جنہیں علامہ نے گہری عقیدت تھی۔ دوسرے نواب صاحب کی کابینہ کے ایک ممتاز رکن جناب علی حیدر عباسی ۱؎ صاحب ۔ سابق مشیر المہام صیغہ سیاسیہ بھوپال جنہوںنے ماہانہ وظیفہ کی منظوری میں عملاً حصہ لیا۔ ۱؎ افسوس کہ علی حیدر عباسی کا ۱۹۷۴ء میں انتقال ہو گیا (اقبال اور بھوپال صفحۃ ۵۹ ۔ ۲۴۰ تا ۲۴۲) اور تیسرے شہزادی عابدہ سلطان صاحبہ ولی عہد ریاست بھوپال جن کے دستخطوں سے ماہانہ وظیفہ کا پہلا چیک جاری ہوا (اقبال اوربھوپال صفحہ ۲۲۹) جہا ں تک مجھے علم ہے اول الذکر کراچی میںہی مقیم ہیں۔ آپ کی کتاب سے یہ ظاہر نہیںہوا کہ آپ نے ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی یا نہیں ۱؎ ۔ دوسری دونوں ہستیوں سے آپ ملے اور ان کے ساتھ اپنی گفتگوئوں کا بالتفصیل ذکر فرمایا ہے ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی مبینہ کئی ہزار کی رقم دیے جانے کا ذکرنہیں فرمایا۔ جنا ب علی حیدر عباسی صاحب کے ساتھ آپ کی گفتگو میں تو قرآن مجید کے حواشی کا ذکر بھی آیا کہ آخری قیام بھوپا ل کے دوران میں عالمہ کی تمام تر توجہ قرآن مجید کے حواشی لکھنے پر مبذول تھی جس کے لیے نواب صاحب نے ان سے درخواست کی تھی۔ اس سلسلے میں کئی ہزار کی رقم اگر عطا کی گئی ہوتی تو علی حیدر عباسی صاحب اس کا ذکر ضرور فرماتے۔ اب اس ہر لحاظ سے معبر مستند اور قابل اعتماد روایت کے ثبوت کے لیے ایک جناب جمیل نقوی صاحب کی زبانی بیان رہ جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی روایت کی تائید میں جس تحریری ثبوت کا ذکر فرمایا ہے یعنی علامہ کا خط بنام ممنون حسن خاں مندرجہ اقبال نامہ اس کا کہیں وجود نہیں۔ آپ نے اقبال اور بھوپال کے صفحات ۲۹۱ تا ۲۹۴ پر علامہ اقبال کے ایک معاند مولوی محمد امین زبیری صاحب کا ذکر فرماتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیاہے کہ انہیں علامہ سے کچھ اسی نوعیت کا للہی بغض تھا جیسا انہیں مولانا شبلی سے تھا اور اس کے نتیجہ میں آخری عمر میں انہوںنے علامہ کے خلاف خدوخال اقبال کے نام سے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی جس کا مقصد ان کے بیان کے بموجب علامہ کی سیرت کے دوسرے رخ کو اجاگر کرنا تھا۔ ان معاند مولوی صاحب نے علامہ کی مخالفت میں غلط بیانی سے بھی دریغ نہ کیا ۔ اپنے مضمون بھوپال کاعلمی جائزہ میں لکھتے ہیں… ہز ہائنس نے ڈاکٹر اقبال مرحوم کی ایک مستقل تصنیف کی درخوات پر افکار حاضرہ کی روشنی میں قرآن مجید کے تفسیری نوٹ لکھنے کے لیے ۵۰۰ روپے ماہانہ کی امداد مقرر کی۔ حالانکہ ۵۰۰ روپے ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ نہ کہ قرآن مجید کے تفسیری نوٹ لکھنے کے لیے امداد لیکن ایسے معاند نے بھی اس کام کے لیے کتب خریدنے کی خاطر کئی ہزار کی رقم عطا ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ بات تو جمیل نقوی صاحب نے خود تسلیم کی ہے کہ اقبال نامہ کے بقول ان کے پہلے ایڈیشن کا ایک نسخہ ان کے پاس تھا جو انہوں نے خدوخال اقبال کی تدوین کے سلسلے میں جناب زبیری صاحب کو دے دیا اقبال اور بھوپال صفحہ ۱۲۱ ۱؎ بیگم چھتاری (سابق لیڈ ی مسعود) کتاب کی اشاعت کے وقت پاکستان سے باہر تھیں۔ کیااس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ جمیل نقوی صاحب زبیری صاحب کے ہم خیالوں میں ہیں۔ انہیں علامہ اقبال کے متعلق اچھی یا بری رائے رکھنے کا تو حق ہے لیکن اگر وہ زبیری صاحب کے ہم خیالوں میں ہیں تو پھر اصول شہادت کے مطابق ان کی بیان کردہ زبانی روایت کو بغیر معتبر اور مستند ثبوت کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اور ایسی کوئی شہادت ابھی تک سامنے نہیں آئی‘‘۔ کئی ہزار کی رقم اور تحقیق مزید شیخ اعجاز احمد نے کئی ہزار کی رقم کے سلسلے میں جو دلائل پیش کیے ہیح ان کی اہمیت اور صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیسا کہ خود شیخ صاحب نے ایک ملاقات کے دوران اظہار فرمایا تھا کہ اگر اقبال اور بھوپال شائع نہ ہوئی تو اقبال نامہ کے نسخوں میں تحریف و ردوبدل کا کسی کو علم نہ ہوتا۔ اس کتاب کے بعض واقعات کی صحت و درستی کی نوبت آتی۔ نہ اقبال اور بھوپال سے متعلق کتنے ہی تاریخ ساز حقائق کا انکشاف ہوتا اور مزید تحقیق کی راہیں کھلتیں۔ چنانچہ واقعات کی صحت اور تندرستی اور تحقیق کی دیانت کے پیش نظر راقم الحروف نے سب سے پہلے ممنون حسن خاں سے قلمی رابطہ پیدا کیا اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ انہوںنے پہلی فرصت میں توجہ فرمائی اور مجھے تحریری طور پر کئی ہزار کی رقم کے سلسلے میں نہایت تسلی بخش جواب سے نواز دیا۔ ان کا خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ ’’۱۹ اکتوبر ۱۹۷۸ء ہمایوں منزل متصل فائر سٹیشن نزد صدر منزل بھوپال ایم ۔ پی عزیز گرامی صہبا صاحب سلام مسنون آپ کا دوسرا گرامی نامہ ملا جو مورخہ ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۵ء مجھے ابھی ابھی ملا ہے۔ جس کے لیے میں آ پ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس گرامی نامہ میں عزیز محترم اظہر میاں (اظہر سعید خاں) کی تحریر بھی شامل ہے۔ آپ سے میری طرف سے ان کی خدمت میں میری دعا پہنچا دیجیے اوریاد آوری کیلیے شکریہ بھی۔ علامہ کے بھانجے صاحب بھتیجے شیخ اعجاز احمد صاحب کی خدمت گرامی میں آپ میرا سلام پہنچا دیں۔ کاش مجھے ان کی قدم بوسی کی عزت حاصل ہوتی۔ خداوند کریم ان کو اور عزیز گرامی جاوید سلمہ اور عزیزہ منیرہ سلمہا کو خوش و خرم اور تندرست رکھے۔ جاوید تو بھوپال بھی آئے تھے۔ اس وقت وہ بہت کم سن تھے اور میں علامہ اقبال ان کے ساتھ کیرم کھیلا کرتے تھے۔ وظیفہ کے علاوہ نواب صاحب کے یہاں سے اور کوئی رقم کی خدمت میں نہیں پیش کی گئی۔ اس کا مجھے اچھی طرح علم ہے۔ اگر کوئی اور رقم دی جاتی تو سر راس مسعود مرحو م کواور مجھے ضرور ضرور معلوم ہوتا۔ شیخ اعجاز صاحب کا ارشاد بالکل صحیح ہے۔ اقبال ناہ کے سب سے پہلے ایڈیشن میں میرے نام ایسا کوئی مکتوب اس رقم کے بارے میں نہیں ہے۔ حیدر آباد سے اکبر حمیدی نے ضرور ایک حقیر رقم کا چیک علامہ کی خدمت میں گرامی میں ارسال کیا تھا جو علامہ نے فوراً واپس کر دیا تھا۔ اس کے متعلق ایک قطعہ بھی علامہ نے لکھا تھا جو شائع ہو چکاہے۔ علامہ نے مجھے لکھا تھا کہ ایک چیک حیدری صاحب نے ارسال کیا تھا جس کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔ آپ کو شاید میں لکھ چکا ہوں کہ وظیفہ میں علامہ نے بڑی مشکل سے منظور فرمایا تھا۔ اور وہ بھی اس شرط پر کہ جو کتاب قرآن مجید کے متعلق وہ شائع فرمائیں گے اس کے جملہ حقوق نواب صاحب کے نام کر دیں گے۔ شیخ عبدالقادر صاحب نے بھی علامہ صاحب سے فرمایا تھا کہ کم از کم کتاب لکھنے میں آسانی کی وجہ سے وہ نواب صاحب کا وظیفہ منظور فرما لیں۔ سید راس مسعود صاحب نے توساری کوشش اس سلسلے ہی میں کی تھی کہ اگر کتاب مدنظر نہ ہوتی تو آپ یقین فرمائیں کہ علامہ اس حقیر وظیفہ کو بھی منظور نہ فرماتے۔ حقیقت میں نواب صاحب کا وظیفہ قبول فرما کر علامہ نے نواب صاحب پر احسان فرمایا تھا۔ اوراس طرح نواب صاحب کو وہ حددرجہ دے دیا جو گوئٹے نے پرنس آف ویمر کو دیاتھا۔ یہ کیا ہے کہ انہوں نے ضرب کلیم نواب صاحب کے نام معنون کر دی اور ا س طرح نواب صاحب کو زندہ جاوید بنا دیا۔ ممکن ہے ا س رقم کے سلسلے میں غلط فہمی پیداہو رہی ہو کیونکہ علامہ اقبال اور سر راس مسعود کی سفارش پر نواب حمید اللہ خاں مرحوم نے چغتائی صاحب مرحوم کو ’’نقش چغتائی‘‘ کے لیے ایک کثیر رقم میرے توسط سے ضرور مرحمت فرمائی تھی۔ اور اس سلسلے میں چغتائی مرحوم بھوپال تشریف بھی لائے تھے۔ اس کا ذکر جہاں تک مجھے یاد ہے سید راس مسعود نے اپنے کسی خط میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اور سید راس مسعود کے کہنے پر حالی سنیٹنری کے موقع پر پانی پت میں نواب صاحب مرحوم نے ایک بڑٰ رقم حالی میموریل ہائی سکول کے لیے اور مسدس کے سینٹنری ایڈیشن کے لیے بھی عطا فرمائی تھی۔ مسد س کاسنٹینری ایڈشین اس رقم کی مدد سے شائع ہوا تھا۔ اس کا Forwordسر راس مسعود نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا۔ پھر علامہ کی سفارش پر اور سید راس مسعود کے کہنے سے نواب صاحب نے ایک بڑی رقم (Muhammad Asad) Dr. Leopold Weiss ۱؎ کو صحیح بخاری کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے عطا فرمائی تھی۔ اس طرح ا ن نیک کاموں میں علامہ اورسر راس مسعود کی مساعی شامل رہیں لیکن علامہ نے اپنے لیے کبھی کوئی درخواست نہ کی اور نہ کوئی رقم وظیفہ کے علاوہ قرآن حکیم کے متعلق کتاب لکھنے کے لیے نواب صاحب کے یہاں سے ان کو دی گئی۔ یہ ضرور ہے کہ علامہ اقبال لکھنے کے سلسلے میں کچھ قلمی کتب کو دیکھنے کے لیے مشرق وسطیٰ اوریورپ اور کیمبرج جانا چاہتے تھے بلکہ لارڈ لووین نے ان کو کیمبرج میں لیکچرس کے لیے مدعو بھی کیا تھا لیکن خداوند کریم کو منظور نہ تھا‘‘۔ ۱؎ ؎ مصنف Islam at the Cross Roadsشائع کردہ شیخ محمد اشرف لاہور ممنون حسن خاں صاحب ایسی معتبر شخصیت کے اس اظہار کے بعد چنداں ضرورت نہ تھی کہ میں کسی اور قریبی شخصیت سے اس سلسلے میں مزید دریافت کرتا پھر بھی تحقیق کا تقاضا تھا کہ شہزادی عابدہ سلطان اوربیگم چھتاری (سابق لیڈی مسعود) سے بھی معلومات حاصل کر لوں۔ چنانچہ کافی سعی و جہد کے بعد ان معزز شخصیتوں سے میں نے رابطہ قائم کیا اور دونوں نے بیک زبان فرمایا کہ وظیفہ کے علاوہ اقبال کوکوئی رقم نہیں دی گئی اس طرح یہ اطمینان ہو گیا کہ جمیل نقوی کی بیان کردہ کئی ہزار کی رقم کی روایت غلط فہمی یا لا علمی کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے اور یکسر بے بنیاد ہے۔ مولوی عبدالحق حالی اور مضمون کی گمشدگی جشن حالی اور اقبال کے باب (صفحہ ۱۰۹ تا ۱۴۳) میں جتنی تفصیلات راقم الحروف نے کئی سال کی سعی و کاوش کے بعد فراہم کیں اتنی اس سے پہلے شاید ہی کہیں اور مل سکیں۔ پھر بھی دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ پہلے ایڈیشن کے دوران ابوالاثر حفیظ جالندھری کی نایاب نظمیں دستیاب ہوگئیں اور اب دوسرے ایڈیشن کے دوران مولوی عبدالحق کے طویل اور قیمتی مضمون کی گمشدگی کا علم مجھے اردو کے بلند پایہ ادیب ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی زبانی ہوا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری ان دنوں جب جشن حالی ہوا ہے بابائے اردو کے ساتھ حیدر آباد دکھن سے پانی پت گئے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جشن کی تیاری بہت پہلے س ہو رہی تھی راس مسعود کی خواہش پر مولوی صاحب نے حالی پر نہایت تفصیلی مضمون کئی ہفتوں کی محنت شاقہ سے لکھا تھا۔ اس مضمون کی تیاری کے دوران ان کے ہاتھ پر ورم بھی آ گیا تھا اس کے باوجود انہوںنے ہاتھ پر پٹیاں بندھوا کر مضمون کر مکمل کر لیا تھا۔ یہ مضمون فل سکیپ کے ۶۰۔۷۰ صفحات پر پھیلا ہوا تھا اور اس میں انہوںنے حالی کے عہد ساز کارناموں کا ہر جہتی مطالعہ پیش کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور بابائے اردو جشن میں شرکت کے لیے حیدر آباد دکن سے دہلی پہنچے اور ڈاکٹر انصاری کی کوٹھی پر قیام فرمایا دوسرے روز پانی پت پہنچے۔ جشن کے دن پانی پت میں میلہ کا سماں تھا۔ نواب صاحب بھوپال کی آمد کے بعد ہی کوئی دس بجے دن کو جلسہ کا آغاز ہوا۔ ڈائس پر نواب حمید اللہ خاں علامہ اقبال‘ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری وغیرہ فروکش تھے۔ جب مولوی عبدالحق صاحب کا نام پکارا گیا تو وہ ڈائس پر گئے اور اپنے طویل مضمون میں سے خاص خاص حصے تقریباً پون گھنٹے تک پڑھتے رہے۔ ان کا مضمون کافی مبسوط اورجامع تھا جسے عام طور پر پسند کیا گیا۔ اسی روز شام کو بابائے اردو ڈاکٹر صاحب اکبر حیدری کے سیلون میں پانی پت سے دہلی پہنچے اور اسٹیشن سے تانگہ میں ڈاکٹر انصاری کے لیے روانہ ہو گئے۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا کہنا ہے کہ مولوی صاحب کا سامان مختصر تھا۔ بستر کے علاوہ ان کے ساتھ چمڑے کا ایک بیگ اورایک سوٹ کیس تھا۔ بیگ میں تولیہ صابن منجن کچھ کتابیں اور جشن حالی میں پڑھا جانے والا طویل مضمون رکھاتھا۔ اسٹیشن پر قلی نے بستراور کوٹ کیس تو اگلی نشفت پر اور مولوی صاحب کا بیگ پائیدان کے نیچے رکھ دیا۔ جب تانگہ انصاری کی کوٹھی واقع نمبر ۱ دریا گنج پہنچا تو ڈاکٹر انصاری کے ملازم نے بستر اور سوٹ کیس تو اتار لیا۔ پائیدان کے نیچے رکھے ہوئے بیگ پر اس کی نظر نہیں گئی۔ اسی دوران ملازم نے اسے پیسے دیے اور تانگہ والا روانہ ہو گیا۔ سامان جب اندر پہنچا اور مولوی عبدالحق صاحب نے اپنا بیگ نہ پایا تو شور مچایا۔ چنانچہ ڈاکٹر انصاری کے دو تین ملازم تانگہ والے کی تلاش میں دوڑ پڑے… ایک ملازم سائیکل پر نکل کھڑا ہوا… لیکن تانگہ والے کا نہ ملنا تھا نہ ملا اور مولوی صاحب کا وہ قیمتی مضمون ضائع ہو گیا۔ اس طویل مضمون کی گمشدگی کا مولوی صاحب کو ہمیشہ قلق رہا اور جیساکہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے بتایا کہ وہ اسے دوبارہ نہیں لکھ سکے۔ جنوری ۱۹۷۷ء کے دوران مجھے علم ہوا کہ انجمن ترقی اردو پاکستان حالی پر بابائے اردو کے متعدد مضامین کا مجموعہ…افکار حالی کے عنوان سے شائع کر رہی ہے…چنانچہ میں نے شبیر علی کاظمی سیکرٹری انجمن ترقی اردو سے رابطہ قائم کر کے افکار حالی کا ایک نسخہ حاصل کیا اور اسے ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کو دکھایا انہوںنے تمام مضامین پر نظر ڈالنے کے بعد فرمایا کہ جو مضمون بابائے اردو نے پانی پت میں پڑھا تھا۔ وہ اس میں شامل نہیں… البتہ جو نامکمل مضمون حالی کا جشن صد سالہ کے عنوان سے اس میں شامل ہے وہ ایک نامکمل مسودہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جس کا ثبوت مرتبین کے ذیلی نوٹ سے بھی ہوتا ہے۔ مولوی عبدالحق کا مضمون حالی کا جشن صد سالہ افکار حالی کے صفحات ۶۶ تا ۶۸ تک پھیلا ہوا ہے اور اس نوٹ پر ختم ہوتا ہے: ’’مولوی صاحب مرحوم کی یہ تحریر یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ مولوی صاحب حالی مرحوم کی سیرت اور ادبی و ملی خدمات کے جن پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں وہ اگرچہ ا س کتاب میں شامل ان کی دوسری تحریروں میں بھی زیر بحث آ چکے ہیں۔ لیکن مولوی صاحب ہی کے قلم سے یہ تحریر بھی تکمیل کو پہنچتی تو یہ حکایت دل فریب ایک ادب پارہ بھی ہوتا‘‘۔ افکار حالی…میں کوئی مضمون بھی پندرہ بیس صفحات سے زیادہ پر مشتمل نہیں اور یہ تمام مضامین مختلف اوقات میں لکھے گئے ہیںَ جشن حالی پر صرف تین صفحات کی ایک ادھوری تحریر ہے اور بس۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ جشن حالی میں پڑھا جانے والامضمون دوبارہ قلم بند نہ ہو سکا۔ اور ایک اتفاقی حادثے کی نذر ہو گیا۔ صوفی خدا بخش کی روایات جواب شکوہ کے سلسلے میں صوفی خدا بخش نے جو واقعات بیان کیے ہیں ان کے بارے میں شیخ اعجاز احمد کی توضیحات ملاحظہ ہوں: ’’کتاب کے صفحات ۲۱۲ تا ۲۲۲(ملفوظات قدسی اور نیاز مندان بھوپال) پر آپ نے حضرت شاہ اسد الرحمن صاحب قدسی ۱؎ کاذکر فرمایا ہے ۔ اور ان کے مرید خدا بخش کی بیان کردہ روایت کی بنا پر آپ نے اپنی کتاب کے ان نئے اچھوتے اور منفرد واقعات جن کا آج تک کسی کو علم نہ تھا میں یہ روایت بھی شامل کی ہے کہ شکوہ کے بعد جواب شکوہ علامہ نے محض حضرت قدسی کی تحریک اور آ پ کی خواہش کے احترام میںلکھاتھا‘‘۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گاکہ علامہ کی نظم شکوہ اپریل ۱۹۱۱ء کے جلسہ انجمن حمایت اسلام لاوہر میں پڑھی گئی تھی اور جواب شکوہ نومبر ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا۔ حضرت قدسی کے جو حالات آپ نے کتاب کے صفحہ ۲۱۲ پر لکھے ہیں ان کے مطابق وہ ۱۸۹۱ء میں پیداہوئے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ سن شعور کو پہنچے تو آئندہ تعلیم کے لیے لاہور بھیج دیے گئے۔ ۱؎ افسوس کہ ۱۹۷۹ء میں آ پ انتقال فرما گئے۔ سات سال بعد بھوپال آئے تو آپ کے والد بزرگوار کا وصال ہو چکا تھا اس لیے آپ خاندانی سلسلہ رشد و ہدایت پر فائز ہوئے۔ چار پانچ برس تک صحرائوں پہاڑوں اور ریاضت شاقہ میں بسر کیے۔ آخر میں وہ بھوپال کی مشہور ٹیکری منوابھانڈ پر چلہ کشی فرمائی۔ اگر سن شعور کو پہنچنے کی عمر ۱۶ سال سمجھی جائے تو قدسی صاحب ۱۹۰۵ء میں لاہور بھیجے گئے۔ چونکہ وہ سات سال بعد لوٹ کر سلسلہ رشد و ہدایت پر فائز ہوئے لہٰذا شکوہ کی اشاعت کے وقت بھی وہ ابھی سلسلہ رشد و ہدایت پر فائز نہ تھے اور غالباً ابھی لاہور میں ہی تعلیم پا رہے تھے۔ ان حالات میں …جواب شکوہ کا پس منظر بیان کردہ صوفی خدا بخش صاحب ایک داستان معلوم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت صاحب نے یہ بات بیان نہیں فرمائی کہ ان کے تقدس کے نقطہ نظر سے کچھ وزن رکھتی ہے۔ میں نے نذیر نیازی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا علامہ نے ان سے یا ان کے علم میں کسی اور سے جواب شکوہ کا یہ پس منظر بیان فرمایا وہ فرماتے ہیں: ’’میںنے حضرت علامہ سے کبھی نہ شاہ اسد الرحمن صاحب کا نام سنا نہ ان کا کچھ ذکر آیا یہ ساری روایات خانہی ساز ہے‘‘۔ یہا ںیہ بھی عرض کر دوں کہ بعض اقبالیوں کا یہ نظریہ بھی ہے کہ علامہ دراصل اپنی قوم سے وہ کچھ کہنا چاہتے تھے۔ جو جواب شکوہ میں کہا گیا ہے۔ اور وہ کچھ کہنے کے لیے شکوہ کی نظم کہی گئی تھی گویا ان حضرات کے نظریہ کے مطابق شکوہ اور اس کا جواب ایک ہی وقت میںشاعر کے ذہن میں آئے واللہ اعلم۔ اس روایت کے سلسلے میں راقم کے استصواب پر ممنون حسن خاں نے جو وصیت فرمائی ہے اسسے بھی شیخ اعجاز احمد کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’نہ تو علامہ نے اور نہ سید راس مسعود مرحوم نے کبھی یہ فرمایا کہ علامہ نے قدسی صاحب کے ایما پر جواب شکوہ لکھا تھا۔ میرے خیال میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ شکوہ کے بعد جواب شکوہ کا لکھا جانا یقینی امر تھا کسی کے ایما پرنہیں لکھا گیا۔ یہ ایسی بات ہوئی کہ ملٹن نے کسی کے ایما پر Paradise Regainedلکھی تھی۔ میرے یال میں علامہ نے شاعری کے سلسلے میں اگر کسی شخص کی بات مانی تھی تو وہ تھے سر شیخ عبدالقادر مرحوم لیکن ’’جواب شکوہ‘‘ ان کے ایما پر بھی نہیں لکھا گیا ۔ ‘‘ ۱؎ چودھری خاقان حسین صاحب کی روایات شیخ اعجاز احمد نے چوہدری خاقان حسین صاحب کے بیان کردہ بعض واقعات کے سلسلے میں جو توضیحات فرمائی ہیں وہ درج ذیل ہیں: ’’ کتاب کے صفحہ ۲۴۳ پر چودھری خاقان حسین صاحب بھوپال میں علامہ اقبال سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ایک بار کھانے کا ذکر آیا تو علامہ نے فرمایا کہ مسلم لیگ کے لکھنو اجلاس کے دوران جیسا کھانا راجہ صاحب محمود آباد نے کھلایا ہے ایسا تو شاید پھر نصیب نہ ہو۔ ہر ڈیلیگیٹ کے لیے مختلف اور لذیذ ترین کھانوں کے چھ خوان دونوں وقت آتے تھے‘‘۔ ۱؎ اقتباس خط بنام راقم الحروف مورخہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء لکھنو میںمسلم لیگ کا پہلا اجلاس ۱۹۱۶ء میںہوا تھا تو دوسرا ۱۹۳۷ء میں۔ علامہ اقبال ان دونوں میں سے کسی میں شریک نہیں ہوئے۔ واللہ اعلم خاقان حسین صاحب مسلم لیگ کے کس اجلاس کا ذکر فرما رہے ہیں۔ خاقان حسین صاحب مزید فرماتے ہیں… ایک شب آپ نے فرمایا کہ جب تک میں نے عربی زبان پر عبور حاصل نہیںکیا تھا میرا علم ناقص تھا۔ عربی سیکھنے کے دوران میری ملاقات دہلی میں مقیم عرب سفیر سے ہو گئی اور انہو ں نے اپنی لائبریری کی تمام عربی کتب مجھے استفادہ کے لیے عنایت کر دیں۔ جن سے میں نے بہت علم حاصل کیا۔ معلوم نہیں خاقان حسین ساحب نے کس زمانے کے متعلق یہ روایت بیان کی ہے۔ علامہ کے عربی سیکھنے کا زمناہ تو ان کے کالج میں تعلیم پانے کا زمانہ تھا ۔ انہوںنے ۱۸۹۷ء میں بے اے کاامتحان پا س کیا اور وہ عربی میں امتیازی حیثیت سے حاصل کرنے پر انہیں گولڈ میڈل دیا گیا۔ ۱۸۹۹ء میں ایم اے پاس کرنے کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے اورئنٹل کالج لاہور میں عربی کی تعلیم دیتے رہے۔ پھر ۱۹۰۷ء میں لندن یونیورسٹی میں پروفیسر آرنلڈ کے قایم مقام کی حیثیت سے شعبہ عربی کے پروفیسر رہے۔ عربی سیکھنے کے دوران دہلی میں مقیم عرب کے سفیر سے ملاقات کی بات سمجھ میں نہیں آتی اور ان کے عربی سیکھنے کے زمانے میں دہلی میں کوئی عرب کا سفیر متعین بھی نہ تھا۔ چوہدری خاقان حسین صاحب کی روایت کی بنا پر آپ نے یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ اسپین کا سفر علامہ اقبال نے نواب صاحب بھوپال کی ذاتی خواہش اور عملی اعانت سے کیا۔ یہ سفر علامہ نے جنوری ۱۹۳۲ء میں میڈرڈ یونیورسٹی کی دعوت پر تیسری گول میز کانفرنس سے واپس آتے ہوئے کیا تھا اور یونیورسٹی مذکور میں ہسپانیہ اور عالم اسلام کا ذہنی ارتقاء کے عنوان سے ایک لیکچر بھی دیا تھا۔ ان کے قیام لندن کے دوران میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ سید امجد علی صاحب بھی گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن میں موجود تھے اور عامہ کے ساتھ لاہور سے لندن گئے تھے۔ علامہ کے سید صاحب کے خاندان سے گہرے مراسم تھے میں نے ان سے خاقان ھسین صاحب کی بیان کردہ روایت کے متعلق دریافت کیا ہے انہیں اس کا کوئی علم نہیں۔ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو علامہ سید امجد علی صاحب سے اس کا ضرور ذکر فرماتے۔ میں سید نذیر نیازی صاحب سے جو علاہ کے قریبی احباب میں سے اور علامہ کے آخری سالوں میں تقریباً روز آنے والوں میں سے تھے خاقان حسین صاحب کی روایات کے متعلق دریافت کیا ہے وہ فرماتے ہیں۔ یہ روایات محض روایات ہیں۔ ان میں حقیقت نام کو نہیں۔ حضرت علامہ نے اسپین کا سفر تیسری گول میز کانفرنس کے اختتام پر کیا تھا۔ نواب صاحب بھوپال کی مالی اعانت کا اس سفر سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی مالی اعانت کی ابتدا ۱۹۳۵ء میں ہوئی حضرت علامہ کی عربی دانی کے بارے میں بھی خاقان حسین صاحب نے جو کچھ فرمایا خالی از حقیقت ہے۔ اگر سپین کا سفر نواب صاحب بھوپال کی ذاتی خواہش اور مالی اعانت سے ہوا ہوتا تو علامہ اس ذکر اپنے قریبی احباب سے ضرور کرتے۔ جمیل نقوی صاحب اور خاقان حسین صاحب کی روایات جو نواب صاحب بھوپال کی مالی امداد کے متعلق ہیں اور ان پر میری معروضات کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے علامہ کی مالی اعانت کو تسلی کرنے میں کسی کو کوئی تامل نہیں۔ نواب صاحب نے علامہ کے لیے بھوپال مین علاج کا انتظام فرما کر اور پھر انہیں تاحیات ماہوار وظیفہ مقرر کر کے جملہ متعلقین و معتقدین علامہ پر جو احسا ن فرمایا ہے اس کا ہمیں اعتراف ہے۔ خود علامہ نے سید راس مسعود کے نام اپنے خطوط میں بار بار اپنی شکر گزاری کا اظہار فرمایا ہے۔ ماہانہ وظیفہ کے علاوہ بھی نواب صاحب نے کوئی مالی اعانت کی ہو تو اس عقیدت سے بعید نہیں جو انہیں علامہ سے تھی۔ ان معروضات کا مطلب صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ آپ کے ادعا کے مطابق اقبال اور بھوپال ایک ایسی تحقیقی کتاب ہے جس میں جتنا کچھ مواد مہیا کیا گیا ہے پوری ذمہ داری سے تحقیق کے اصولوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ لیکن تحقیق کے جو اصول آپ نے خود بیان فرمائے ہیںیہ روایات اس معیار پر پوری نہیں اترتیں صرف ایک صاحب کے زبانی بیان پر کسی روایت کو معتبر و مستند قرار نہیںدیا جا سکتا۔ روایت کی صداقت کو پرکھنے کے لیے جو ذرائع موجود ہوں ان سے روایت کے ہر پہلو سے چھان بین کریں تبھی تحقیق کا حق ادا ہو گا۔ اسی سلسلے میں راقم نے ممنون حسن خاں صاحب سے بھی استسواب ضروری سمجھا کہ اس کتاب کی پہلی بار اشاعت کے دوران ان سے کسی طور پر رابطہ نہ ہو سکا تھا۔ راس مسعوداور نواب حمید اللہ خاں کے ذاتی تعلقات کے سلسللے میں ممنون حسن خاں صاحب کی شخصیت سب سے زیادہ معتبر اور مستند قرار دی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ان کے جواب میں جہاں سفر سپین اور لکھنو اجلاس سے متعلق صراحت ہوتی ہے وہیں ایک بالکل نئے واقعہ کا علم ہوتاہے جس کاتعلق رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مولانا محمد علی جوہر مرحوم کے سفر انگلستان سے ہے لکھتے ہیں: ’’لکھنو میں لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ میری رائے میں یہ ادنیٰ سیاست کی باتیں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ علامہ کو ادنیٰ سیاست سے وابستہ نہیں کرناچاہیے‘‘۔ مجھے اس بات کا مطلق کوئی علم نہیںکہ نواب صاحب نے سپین کے سفر کے سلسلے میں علامہ کی خدمت گرامی میں کوئی رقم پیش کی تھی۔ یہ زمانہ وہ تھا جبکہ علامہ Round Table Conference میں شرکت کے لیے ولایت تشریف لے گئے تھے۔ اورنواب صاحب بھی وہاں بھی اسی سلسلے میں گئے تھے۔ اگر کوئی رقم دی گئی تھی تو وہ یا تو شعیب صاحب کے ذریعہ یا پھر عباسی صاحب مرحوم کے ذریعہ دی گئی ہو گی لیکن علامہ نے یاسر مسعود نے کبھی اس بات کا ذکر نہیں فرمایا۔ میرے عزیز بھائی اور دوست خاقان میاں (چوہدری خاقان حسین صاحب) کو زیادہ معلوم نہ ہو گا۔ بہرحال میں اس سلسلے میں اس سے زیادہ اور کچھ عرض نہیں کر سکتا ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نواب صاحب نے مولانا محمد علی صاحب مرحوم کی کچھ مدد ولایت کے سفر کے لیے کی تھی۔ اور مولانا صاحب بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ مجھے یہ اس لیے معلو م ہے کہ ان دونوں مولانا علیل ہو کر بھوپال تشریف لائے تھے اور میں ان کی خدمت میں برابر حاضر رہتا کیونکہ میں کالج کی تعطیلات میں لکھنو سے اپنے بھانجے کے پاس بھوپال آیا ہوا تھا اور مولانا صاحب کی جملہ خط و کتابت کا ایک طرح انچارج تھا کیونکہ مولانا سے ہمارے خاندان کے بہت گہرے تعلقات تھے اور مولانا مجھ سے اپنی اولاد کی طرح محبت فرماتے تھے۔ اسی رشتے سے گلنار بی بی مجھے اپنا بھائی مانتی تھیں اور بیگم محمد علی اپنا بیٹا تصور فرماتی تھیں۔ اور یہ رشتے آخر تک قائم رہے۔ مجھے یہ سب باتیں اچھی طرح یاد ہیں۔ ا س لیے بھی کہ میں مولانا خطوط لکھنے میں غلطیاں کرتا تھا اور میری اچھی طرح گوش مالی کی جاتی تھی۔ اللہ اللہ کیا لوگ تھے۔ مولانا صاحب نے ان دنوں بہت سے تاریخی مکتوب مجھے ہی Dictateکرائے تھے ۱؎۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان واقعات کی ایک اور عینی شاہد بیگم راحت سعید چھتاری (سابق لیڈی مسعود) سے ۱۲ جون ۱۹۷۶ء کو پی ای سی ایچ سوسائٹی کراچی میں ان کی قیام گاہ پر جلیل قدوائی کی معیت میں ملاقات کا موقع میسر آیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے وقت وہ اپنے شوہر کے ساتھ اردن میں مقیم تھیں۔ چوہدری خاقان حسین کے بیان کردہ واقعات کے سلسلے میں بیگم چھتاری نے بیان کیاکہ جہاں تک چوہدری خاقان حسین صاحب کی ذات و صفات کا تعلق ہے وہ ہر شبہ سے بالا تر ہے۔ وہ ایک معزز خاندان کے فرد او رنہایت ذمہ دار انسان ہیں۔ ۱؎ اقتباس خط بنام راق الحروف مورخہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء ان سے ہمارے خاندانی تعلقات ہیں۔ وہ برابر ہمارے گھر آتے جاتے تھے اور علامہ اقبال خاقان صاحب سے بے حد شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ اور اکثر عباسی صاحب کے گھر سے انہیں بلوا بھیجتے تھے۔ اس لیے میں نہیں کہ سکتی کہ انہوںنے لکھنواجلاس کا جو واقعہ لکھا ہے وہ کہاں تک درست ہے۔ ہی ہو سکتا ہے کہ لکھنو اجلاس کے دوران رنگا رنگ کھانوں کی تفصیل علامہ نے انہیں بطور واقعہ سنائی ہو جسے انہوںنے شرکت سے تعبیر کر دیاہو۔ لیکن میری رائے حقیر میں یہ اس دلچسپ واقعہ سے علامہ کی شخصیت کسی طور پر مجروح نہیںہوئی بلکہ ان کے حسن ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ یہی صورت اسپین کے سفر سے متعلق ہے۔ یہ واقعہ دو حضرات کے درمیان گفتگو سے عبارت ہے۔ نہ اب اس دنیا میں نواب صاحب موجود ہیں اورنہ علامہ اقبال جو اس واقعہ کی تصدیق ہو سکے۔ نہ وہ اخبار دستیاب ہے جس میں سیکرٹری کی ضرورت کا اشتہار چھپا تھا نہ سیکرٹری کا نام کسی کو معلوم ہے ۔ خود چوہدری خاقان حسین اپنی مسلسل اور شدید علالت کے سبب اس قابل نہیں ہیں کہ اس وواقعات کے سلسلے میں مزید کچھ وضاحت کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے بیان کردہ روایات میں واقعات کا دوربست صحیح پس منظر میں انہیں یاد نہ رہا ہو‘ ویسے میں یہ کسی طور پر تسلیم نہیں کر سکتی کہ انہوںنے دانستہ طور پر کسی واقعہ کو علامہ سے غلط منسوب کیا ہو گا۔ سمجھنے اور اظہار کرنے میں بھول چوک ممکن ہے۔ ایک سوال کے جواب میں بیگم چھتاری نے بتایا کہ علامہ اقبال…قیام بھوپال کے دوران اکثر و بیشتر راس مسعود کی معیت میں نواب صاحب سے ملاقاتیں فرما تے تھے اور گھنٹوں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں غور و فکر اور مشورے کرتے تھے۔ نواب صاحب کو علامہ سے بے حد عقیدت تھی۔ اسی طرح علامہ نواب صاحب کو اسلام اور مسلمانوں کا سچا ہمدرد اور بہی خواہ تصور کرتے تھے۔ یہ سب کچھ را س مسعود کی مخلصانہ مساعی کا نتیجہ تھا کہ علامہ نے ضرب کلیم ان کے نام معنون کر کے انہیں حیات دوام عطا کی۔ ایک نام دوشخصیتیں تحقیق کی ستم ظریفی ’’اقبال اور بھوپال ‘‘ کے صفحہ ۲۷۴ پر راقم الحروف نے یہ عبار ت لکھی ہے: ’’شاغل فخری کے علاوہ بھوپال کی جن دیگر ممتاز شخصیات نے اقبال کو موضوع بحث بنایا ہے یا ان کے فن و فکر پر کام کیا ہے۔ ان میں رضیہ فرحت بانو‘ محمد احمد خاں‘ محمد امین زبیری اور ڈاکتر سلیم حامد رضوی اور عبدالقوی دسنوی قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کی ادبی کاوشوں کا آئندہ شمارے میں احاطہ کیا گیا ہے۔ صرف رضیہ فرحت بانو کی مرتبہ کتاب خطبات اقبال مجھے دستیاب نہیں ہو سکی لیکن یہ کتاب اقبال لائبریری میں بھوپال میں موجود ہے۔ رضیہ فرحت بانو… بھوپال کی ممتاز ادیبہ اور افسانہ نگار ہیں۔ ’’تصورات اقبال کی ایک طرح ایک اور اہم کتاب ’’اقبا ل کا سیاسی کارنامہ‘‘ ہے جسے محمد احمد خاں ایم اے ایل ایل بی نے تالیف فرمایا ہے۔ یہ کتاب کاروان ادب کراچی کے زیر اہتمام ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا انتساب ہے: اس شاہین شادہ کے نام جو پاکستان کے قالب کو اسلام کی روح سے ہمکنار کر دے۔ محمد احمد خاں عرصہ دراز تک بھوپال میں رہے۔ آپ نے ابتداً جج ہائی کورٹ بعدہ چیف جسٹس کی حیثیت سے ریاست بھوپال کی گراں مایہ خدمات انجام دیںَ یہ وہی زمانہ ہے جب سر راس مسعود بھوپال آ گئے تھے۔ اور اقبال کی بھوپال میںآمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ آپ پاکستان آ گئے اور یہیں انتقال فرمایا‘‘ اس اقتباس سے میں نے جن محمد احمد خاں کے نام نامی سے … ایک اہم کتاب اقبال کا سیاسی کارنامہ کا بھوپال کے متعلق تذکرہ کیا ہے۔ واقعتاً وہ محمد احمد خاں سابق چیف جسٹس بھوپال کی نہیںتھی اور جن کا انکشاف پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد ہوا اور پتہ چلا کہ اس کے مولف محمد احمد خاں ایم اے ایل ایل بی ہیں اور ان کا تعلق حیدر آباد دکن سے ہے چنانچہ محمد احمد سبزواری کے ہمراہ میں کتاب کے حقیقی مولف محمد احمد خاں کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور ان سے دلی معذرت کی اور دو یکساں ناموں سے جو مغالطہ ہواتھااس کی تفصیلات انہیں بتائیں اور درخواست کی کہ وہ اپنے بارے میں مختصراً معلومات بہم پہنچا دیں تاکہ دوسرے ایڈیشن میں اس کی تصحیح ممکن ہو سکے چنانچہ ان کے خط کا متن پیش خدمت ہے: ’’۲۴۹ بہادر آباد کراچی ۱۸ اپریل ۱۹۷۴ء مکرمی سلام علیکم آپ سے ملاقات کے بعد مجھے یاد ہی نہ رہا کہ حسن اتفاق سے آج آپ کا دیا ہوا لفافہ مل گیا تو یاد آیا کہ میں نے آپ سے خودستائی کا وعدہ کیا تھا۔ ایفائے وعدہ ضروری ہے اس لیے گزارشات ذیل پیش خدمت ہیں۔ میں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے اورعلی گڑھ سے ایل ایل بی کیا ہے میری حسب ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں: (۱) ہندوستان کی معیشت اور جنگ (۲) ہندوستا ن کے زر پر جنگ کے اثرات (۳) ہندوستان کا قومی قرضہ اور جنگ (۴) انگلستان اور بین الاقوامی زر کے منصوبے (۵) ہمارا قائد (نواب بہادر یار جنگ کی سیاسی زندگی) میں مارچ ۱۹۴۹ء میں پاکستان آیا اور کراچی ہی میںمستقل رہائش رہی۔ اگست ۱۹۵۱ء میں میں ںے اقبال کا سیاسی کارنامہ لکھا ۔ ادارہ کاروان ادب نے اس کتا ب کو شائع کیا۔ یہ ادارہ حیدر آباد ٹرسٹ کے تحت کام کرتا تھا… کراچی آنے کے بعد میں نے یہ کتاب لکھی اور اس کتاب کے بعد زیادہ تر معاشی الجھنوں کے باعث تصنیف و تالیف کا سلسلہ چھوٹ گیا۔ البتہ کبھی کبھار اخبار جنگ میں میرے مضامین شائع ہوتے رہے… امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔ محمد احمد خاں‘‘ ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘ کے اصل مولف کی تحریر کے بعد اب تحقیق کی ستم ظریفی بھی ملاحظہ ہو: ہوا یوں کہ اقبال اور بھوپال کے پہلے ایڈیشن کے دوران مسلم ضیائی کی معیت میں میں محمد احمد خاں سابق چیف جسٹس بھوپال سے ملنے گیا۔ ان کی طبیعت ناساز تھی۔ مختصر سی ملاقات کے دوران میں ںے اپنے کام کی مشکلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ نہ بھوپال کے اہل قلم سے مدد مل رہی ہے نہ یہاں متعلقہ کتابیں دستیاب ہیں اقبال کا سیاسی کارنامہ میں بھوپال سے متعلق سنا ہے۔ کچھ تذکرہ ہے… وہ بھی نہیں مل رہی ہے۔ یہ سن کر محمد احمد خاں اندر آ گئے اور کچھ دیر بعد وہ کتاب لا کے دے دی۔ اور کہا کہ اسے دیکھ لییجیے۔ میں نے صفحہ الٹ کر دیکھا…کتاب پر محضمد احمد خاں درج تھا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اور مسلم ضیائی نے ان کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہو گئے۔ روانگی سے قبل انہوںنے بتایا کہ اقبال کا سیاسی کارنامہ ان کی اپنی تالیف نہیں ہے نہ ہی میں نے نام دیکھنے کے بعد دریافت کرنے کی ضرورت محسوس کی اور بات آئی گئی ہو گئی… میں خوش اور مطمئن تھا کہ بھوپا سے متعلق ایک اور قیمتی کتاب دستیاب ہو گئی۔ اسے پڑھا تو ایک دو جگہ بھوپال اور اقبال کے متعلق اقتباسات بھی نظر آئے اوریہ یقین ہو گیا کہ یہ کتاب محمد احمد خاں… سابق چیف جسٹس بھوپال کی تحریر کردہ ہے… چنانچہ صفحہ ۲۷۴ تا ۲۷۸ …راقم الحروف نے اس کتاب کے جگہ جگہ حوالے دے کر اس کی قدر و اہمیت پر روشنی ڈالی۔ لیکن جو بات وہم و گما ن میں بھی اس وقت نہ آ سکتی تھی… دوسرے محمد احمد خاں کو موجود پا کر حقیق مسرت میں تبدیل ہو گئی۔ محمد احمد خاں سابق چیف جسٹس کا کچھ عرصہ بعد انتقال ہو گیا جیسا کہ اقتباس میں بھی آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا لیکن اقبا کا سیاسی کارنامہ کے اصلی مولف محمد احمد خاں کو زندہ و سلامت پا کر …کم از کم میں تو تحقیق کی ستم ظریفی کا قائل ہی نہیں گھایل بھی ہوا۔ اوریہ سطور لکھنتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ایک نام کی دو شخصیتوں سے انسان کس کس طرح مغالطہ کھا سکتا ہے؟ شکر ہے کہ اصلی محمد احمد خاں مولف… اقبال کا سیاسی کارنامہ نے میری معذرت قبول کر کے مجھے تحقیق کی رسوائی سے بچا لیا۔ چونکہ یہ کتاب بھوپال کے کسی اہل قلم کی نہیںتھی اس لیے صفحہ ۲۷۴ تا ۲۷۸ کی عبارت حذف کر دی گئی ہے۔ ممنون حسن خاں کے انکشافات قرآن مجید کے حواشی کا باب صفحہ ۲۸۹ سے شروع ہو کر صفحہ ۳۰۰ پر ختم ہوتا ہے۔ اس باب میں اقبال کے وظیفہ محمد امین زبیری کے بعض اعتراضات قرآن مجید کے حواشی کی عدم تکمیل وغیرہ کاتفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب جب اشاعت کے بعد ممنون حسن خاں تک پہنچی تو انہوںنے راقم الحروف کے نام ایک ذاتی خط میں نہ صرف محمد امین زبیری مرحوم کے بیان کی تردید فرمائی بلکہ وظیفہ کے احکام کی نقل بھی عطا فرما دی جس سے یہ ثابت ہوا کہ نواب صاحب بھوپال کا وظیفہ غیر مشروط تھا پھر اسی خط سے یہ بھی پہلی بار منکشف ہوا کہ اقبال نے قرآن مجید کے حواشی کا خاکہ تیار کر دیا ہے جسے ڈاکٹر ذاکر حسین خاں نے مصر بھیجا تھا…ان کے خط کا متن ملاحظہ ہو: ’’اپنی کتاب میں آپ نے حضرت علامہ اقبال کے وظیفے کے متعلق مولوی محمد امین زبیری مرحوم کے کسی مضمون کا حوالہ دیا ہے مولوی صاحب مرحوم میرے بھی بزرگ تھے۔ ارو اس لیے ان کے متعلق تو میں کچھ عرض نہیں کروں گا لیکن میں آپ کی خدمت میں اس حکم کی ایک نقل ارسال کر رہا ہوں ۔ جو سید راس مسعود مرحوم نے میرے ذریعہ مفتی انوار الحق صاحب مرحوم کے پاس ارسال کرایا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوجائے گا کہ وظیفہ کے لیے کوئی شرط نواب صاحب مرحوم نے نہیں عاید فرمائی تھی۔ اس سے زیادہ اس سلسلے میں مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہیے‘‘ یہ بھی درست نہیں کہ تین سال کے عرصے میں حضرت علامہ نے کوئی نوٹس Notesنہیں لکھجے یا نامکمل کتاب کا کوئی مسودہ تیار نہیں کیا۔ اول تو اس سارے زمانے میں حضرت علامہ شدید علیل رہے اور ببچوں کی وجہ سے پریشان رہے ۔ دوسرے کچھ کتابیں ایسی تھیں جو ہندوستان میں موجود نہیں تھیں۔ اور جن کو دیکھنے کے لیے وہ ولایت جانے کا قصد کر رہے تھے۔ پھر بھی انہوںنے جو بھی نوٹس لکھے تھے یا جو بھی خاکہ تیار فرمایا تھا ا س کو میری اطلاع کے مطابق ڈاکٹر ذاکر حسین خاں صاحب مرحوم نے مصر بھیجا۔ مصطفے الراغی مرحوم کے پاس جو اس وقت ازہر کے Chancellorتھے مقصد یہ تھا کہ علماء مصر ان نوٹس کو دیکھ ر ی کوشش کریں کہ کیا علمامہ نے جہاں سے یہ کام چھوڑا تھا وہاں سے وہ اس کو شروع کر کے کتاب کو مکمل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ ان NOTESپر عالموں اور بڑے بڑے پروفیسر صاحبان نے کئی ماہ تک غور کیا۔ ور متفقہ طور پر ا س نتیجے پر پہنچے تھے کہ کتاب کو اس طرح مکمل کرنا جس طرح کہ علامہ چاہتے تھے۔ ان سب کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ ان میں وہ VISIONہو نظر وہ بصیرت نہیں تھی جو حضڑت علامہ کو باری تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعلق خاص طور سے عطا فرمائی تھی۔ اس کے بعد معلوم نہیں کہ ان NOTESکا کیا حشر ہوا ذاکتر بھائی مرحوم ہو گئے۔ میرے دوست سیدین اللہ میاں کو پیارے ہو گئے۔ پروفیسر مجیب مدت سے بے ہوش ہیں ۱؎ ۔ اعزا ز الدین صاحب کو کچھ معلو م نہیں ہے کہ کیونکہ وہ جامعہ میں نہیں تھے۔ حیات بھائی اور شعیب قریشی صاحب بھ مرحوم ہو گئے۔ اب کس سے دریافت کروں۔ بہرحال کوشش کروں گا اور اگر کچھ معلوم ہوا تو انشاء اللہ مطلع کروں گا۔ یہ جناب عزیز احمد صاحب کون بزرگ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے بڑے آشفتہ مغز اور آشفتہ ہو ہیں معلوم ہوتاہے کہ ان میں اقبال کا مقام بلند معلوم کرنے کی کوئی صلاحیت نہیںہے۔ میرے رائے میں ایسے لوگوں کی باتوں کاکوئی جواب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جواب تو عقل کی بات کا دیا جاتا ہے۔ کوچہ گردوں کی باتوں کا سنجیدہ لوگ کیونکر جواب دے سکتے ہیں رہا اقبال کوسمجھنا تو حضرت گرامی مرحوم کا یہ شعر بات صاف کر دیتا ہے: تراچناں کہ توئی ہر کسے کجا داند بقدر ہمت خود می کنند استدراک میری رائے میں جس آدمی میں ایمان نہیں ہو گا وہ اقبال کو بالکل نہیں سمجھ سکتا ہے۔ اعتراض کرنا تو بہت آسان ہے لیکن اعتراض کرنے والے کو خود اپنا مقام معلوم ہونا چاہیے۔ اقبال اور ممنو ن حسن خاں آپ نے کتاب میں کسی جگہ میرے نامکمل مضامین کاتذکرہ کیا ہے ۲؎ برادرم میں کیا اور میرے مضامین کیا۔ سالہا سال سے اقبال کے کلام کو وظیفہ جان کر پڑھ رہا ہوں لیکن سچ جانیے اب تک الف بے بھی نہیں سمجھ سکا ہوں۔ یہ حقیقت ہے یقین فرمائیں۔ بہرحال اگر زندگی ے اور اللہ پاک نے ہمت عطا فرمائی تو ان اشعار کے متعلق ضرور کچھ پیش کروں گا۔ جو حضرت علامہ نے یہاں بھوپال میں فرمائے تھے اور جن پر میری اور سید راس مسعود مرحوم کی ان سے اکثر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ اس طرح ان کے وہ مطالب جو خود علامہ نے بتلائے تھے شاید میں پیش کر سکوں۔ لیکن یہ سب اللہ پاک کے حکم پر منحصر ہے۔ ویسے اقبال پر کیا کچھ نہیں لکھا جا رہا ہے اور کیا کچھ نہیں لکھا جائے گا۔ آج دنیا میں کون سی بڑی یونیورسٹی ہے جہاں اقبال پر CHAIRقائم نہ کی گئی ہو۔ اور ویسے پاکستان میں کیا کچھ کم کام ہو رہا ہے میرے لکھنے یا نہ لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔ ۱؎ افسوس کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ ۲؎ ملاحظہ ہو صفحہ ۲۸۴ (اقبال اور بھوپال ) یہ ضرور ہے کہ دوران قیام بھوپال میں نے ان کے ساتھ وہ کام انجام دیا تھا جو کریماں نے گوئٹے کے ساتھ کیا تھا۔ یہ ریمارک میرا نہیں سید راس مسعود مرحوم کا ہے۔ جس خواب کا آپ نے ذکر فرمایا ہے ۱؎ اس کو صبح کو مجھ ناچیز سے بیان کیاگیا تھا۔ فرماتے تھے کہ جب آنکھ کھلی اور ان کی زبان پر یہ شعر تھا۔ جو انہوںنے نہ تو عالم بیداری میں کہا تھا اورنہ عالم خواب میں ۔ شعر یہ تھا: باپرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز حضور سرور کائناتؐ کی خدمت میں جو عرض داشت پیش کی گئی تھی انہوںنے مجھجے ہی لکھانا شروع کی تھی۔ اللہ اللہ کیا عشق رسولؐ تھا۔ جب آپ سے ملاقات ہو گی تو سارا قصہ عرض کروں گا۔ بہت سی باتیں کرنا ہیں یہ تو میرے عشق کی داستان ہے دفتر میں کس طرح سما سکتی ہے…بقول حسن: قلم بشکن سیاہ زیر کاغذ سوز دم درکش حسن ایں قصہ عشق است در دفتر نمی گنجد اور یہی وجہ تھی کہ میں باوجود کوشش ے اپنے مضامین کو اب تک مکمل نہیں کر سکا ہوں۔ بالکل افکار پریشاں ہیں ان کو کو ن چھاپے گا میرے بھائی! شعری بھوپالی کے پاس جو کتاب علامہ کی ہے اور جو حضرت علامہ نے نواب کو دی تھی… وہ ان کے پاس کس طرح آئی ۲؎ ۔ جب آپ سارا قصہ سنیں گے تو سرپیٹ لیں گے۔ یوں تو ریڈیو پر میں حضرت علامہ کے متعلق کئی بار چھوٹی چھوٹی تقاریر کر چکا ہوں۔ اور کالجوں میں میرے لیکچر ہو چکے ہیں لیکن میں کیا اور میرا علم کیا؟ اگر خلیل الہ خاں صاحب میاں خاقان چوہدری خاقان حسین میاں عبدالحئی اور اظہر سعید خاں صاحب مل جائیں تو ان سب کی خدمت میں میرا سلام ضرور پہنچا دیں ۔ میں ان سب کا ادنیٰ نیاز مند ہوں۔ خدا ان سب سے خیریت کے ساتھ جلد ملائے۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ گزشتہ سال ماہ اگست میں میری رفیقہ حیات کا انتقال ہو گیا۔ جب سے میں چلتی پھرتی لاش ہوں۔ وقت بھی میرے سینے کے زخموں کو اب تک نہ بھر سکا۔ اب علامہؒ ہی کی طرح بچوں کے لیے زندہ ہوں۔ نوٹ: ’’آپ نے اپنی کتاب میں ان چند خطوط کا بھی ذکر کیا ہے جن کو میں نے کسی کو نہیں دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ خطوط نجی ہیں اورعلامہؒ نے اپنے قلم سے ان پر Private and Confidential لکھ دیا ہے۔ اب آپ ہی بتلائیے کہ میں اس امانت کو کس طرح منظر عام پر لائوں۔ ۳؎ ‘‘ شیش محل…یادگار اقبال ممنون حسن خاں نے اپنے دوسرے خط میں شیش محل…قیام گاہ اقبال سے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کی اقبال شناسی اور بے پناہ عقیدت کا ایک اور ثبوت ملتا ہے۔ فرماتے ہیں: ۱؎ اقبال اور بھوپال صفحۃ ۱۶۵ ۲؎ ایضاً صفحہ ۲۴۷ ۳۔ افکار شمارہ ۴۶ جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۳۹۔۴۰ ’’زیادہ کیا عرض کروں… کوشش کر رہا ہوں کہ شیش محل کا وہ حصہ جہاں علامہ نے قیام فرمایا تھا حکومت کی طرف سے اقبال کی یادگار کو قائم رکھنے کے لیے PRESERVEکر دیا جائے ۔ اور وہاں اقبال اکادمی قائم کی جائے۔ اید میری ناچیز کوشش بارآور ہو دعا فرمائیں۔ حکومت ہند ازراہ علم اور ادب نوازی اقبال سینٹینری کے سال میں کثیر رقم خرچ کر کے کئی سیمینار کرا رہی ہے۔ پہلا سیمنیار حیدر آباد میں ہوا۔ دوسرا کشمیر میں ۱۹۷۷ء میں آخری سیمینار دہلی میں ہو گاجس میں ساری دنیا کے عالم فاضل شرکت کریں گے۔ ہماری حکومت کا یہ اقدام ہر طرح قابل تعریف ہے اورہم سب حکومت ہند کے بہت زیادہ احسان مند اور شکر گزار ہیں عالمی سیمینار میں خاکسار بھی شرکت کر رہا ہے اور شاید ایک PAPERبھی پرھے گا۔ جواب سے شکر گزار فرمائیے۔ کار لایقہ کے لیے حکم دیجیے۔ والسلام ۔ آپ کا بھائی ممنون (ممنون حسن خاں) کفش بردار علامہ اقبال ۱؎‘‘ ان معروضات و توضیحات کے بعد آخر میں مجھے اتنا ہی اور کہنا ہے کہ اقبال کی شخصیت… سچ پوچھیے تو روشنی کا ایک ایسا ہالہ ہے جس کے گرد عہد کی دیگر شخصیتیں سیاروں کی مانند گردش کر رہی ہیں اور چراغ سے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ نظر حیدر آبادی مرحوم نے اقبال اور حیدر آباد لکھی تو خود بخود میرے ذہ میں اقبال اور بھوپال کا خاکہ مرتب ہو گیا اور پہلی اشاعت کے بعد دوسری اشاعت کی نوبت آتے آتے کئی ور نئے پہلو سامنے آ گئے۔ چنانچہ نظر ثانی کے دوران جہاں بعض واقعات کی صحت اور درستی کا مرحلہ سر ہوا وہیں بعض نادر و نایاب خطوط اقبال کے مرثیے قلمی خطوط کے عکس وغیرہ بھی دستیاب ہو گئے۔ یہی نہیں بلکہ یہ اطلاع بھی ملی کہ اقبال اور بھوپال کے بعد راس مسعود ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سوسائٹی آف پاکستان… اقبال اور راس مسعود کے موضوع پر اور بھوپال میں ڈاکٹر اخلاق اثر اقبال اور ممنون کے عنوان سے کتابیں لکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب موضوعات ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں اورایک ہی شخصیت اقبال کے گرد گھومتی ہے اور جب یہ کتابیں شائع ہوں گی تو یقینا اقبال کی فنی اور شخصی عظمت کے کچھ اور پہلو ہمارے سامنے آئیں گے۔ دوسرے ایڈیشن کا مسودہ ۱۹۷۷ء کی ابتدا میںمکمل کر کے اقبال اکیدمی پاکستان کو بھیج دیا تھا لیکن چند در چند وجوہ کی بنا پر اس کی اشاعت ۱۹۸۲ سے قبل ممکن نہ ہو سکی۔ چنانچہ پورے مسودے پر ایک بار ھر نظر ڈالنے کے بعد اس کتاب سے متعلق جو شخصیتیں ہم سے جدا ہو گئیں ان کے اندراجات کر دیے ہیں اور ضروری اضافے بھی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نظر ثانی شدہ ایڈیشن کو پہلے سے زیادہ مفید پائیں گے۔ ۱۶ جنوری ۱۹۸۱ء صہبا لکھنوی ۱؎ اقتباس خط بنام راقم الحروف۔ مورخہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۵ ٭٭٭ حرف آغاز تحقیق کی دنیا امکانی دنیا ہے اور یہ دنیا وسیع بھی ہے اور بسیط بھی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ تحقیق کے فن میں حرف آخر حر ف غلط ہے اور اسی وجہ سے ہمیں جلد بازی میں حکم لگانے اور تاریخ کے تعین میں عجلت نہیں کرنی چاہیے۔ …(ایک نقاد اور محقق کی رائے) ۱۹۵۹ء یا ۱۹۶۰ء کی ایک شام کا ذکر ہے کہ کٹرک ہال کراچی میں ڈپٹی نذیر احضمد کی یاد میں ادارہ مصنفین پاکستان کے زیر اہتمام جلسہ منعقد ہوا ھتا جس کی صدارت ملک کے مشہور دانشور ممتاز حسن نے فرمائی تھی۔ مجمع بہت تھا ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ کوئی دو گھنٹے تک مختلف شخصیتوں نے ڈپٹی صاحب کی تاریخ ساز شخصیت ان کی مثالی زندگی اور ان کے کارناموں پر روشنی ڈالی۔ جلسہ ختم ہونے کے بعد حاضرین گوشہ نمائش میں جمع ہو گئے ڈپٹی نذیر احمد کی تقریباً تمام تصانیف کٹرک ہال کے باہر کھلے میدان میں سلیقہ سے آراستہ تھیں۔ میں بھی ایک طرف کھڑاہو گیا۔ میز کے گرد ممتاز حسن مسلم ضیائی اور شاہد احمد دہلوی مرحوم یک جا ہو گئے۔ اسی عرصہ میں نظر حیدر آبادی مرحوم بھی ہم میں آ ملے اور ممتاز حسن نے نظر کو دیکھتے ہی دریافت کیا کہ ان کی کتاب ’’اقبال اور حیدر آباد‘‘تیاری کی کس منزل پر ہے نظر مرحوم نے بتایا کہ کتاب چھپ رہی ہے۔ یہ سن کر یک لخت میرے ذہن میں ’’اقبال اور بھوپال‘ کا تصور گھو م گیا۔ اورمیں نے ممتاز حسن ۱؎ سے عرض کیا کہ اقبال اور حیدر آباد کے بعد اگر اقبال اوربھوپال پر بھی کچھ کا م ہو سکے تو علامہ کی زندگی کا ایک نیا رخ بھی دنیا کے سامنے آ جائے گا ۔ ممتاز حسن میرا یہ مشورہ سن کر بہت خوش ہوئے اور برجستہ کہا تو یہ کام آپ کر ڈالیے۔ بات آئی گئی ہو گئی جلسہ کے بعد گھر آیا اور یہ موضوع اور اس کتاب کے امکانات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔ موضوع کی افادیت مسلم تھی لیکن اس کی تمام تر تفصیلات پر جب میں نے غور کیا تو اس کام کی تکمیل مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن نظر آئی۔ مجھے بھوپال چھوڑے ہوئے دس سال بیت گئے تھے۔ کتاب کا سرسری سا خاکہ جو میں نے تیار کیا ہے اس کی تکمیل بھوپال جائے بغیر ممکن نہ تھی آخر کار میں نے اپنے چند خاص دوستوں سے اس سلسلے میں مشورہ کیا اور اپنا تحریری خاکہ انہیںدکھایا تو سب نے بیک زبا ہن ہو کر ااس موضوع کو پسند کیا۔ اور کہا کہ یہ قطعی اچھوتا پہلو ہے اس پر ضرور کام ہونا چاہے کیونکہ اقبا ل کے فلسفہ ان کی فکر اوران کے کجلا پر مبنی تشریحات اورکتابیں تو کثرت اور آسانی سے مل جاتی ہیں۔ لیکن علامہ اقبال کی ذاتی صفات ان کی شخصیت کے رنگارنگ پہلوئوں اور ان کی زندگی کے مستند واقعات پر بہت کم مود ملتا ہے ۔ چنانچہ احباب کی ہمت افزائی پر میں نے تہیہ کر لیا کہ مواد کی فراہمی کی کوشش تو کر دیکھوں۔ شاید کچھ کام بن جائے۔ ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کے موضوع پر جب میں نے کتابوں کو تلاش کیا تو صرف دو تین کتابیں مجھے سہولت سے مل گئیں کتابون میں بھوپال سے متعلق چند خطوط میری نظر سے گزرے ۔ میں نے تمام مکتوبات کو نقل کر لیا ارو تاریخی تسلسل کے ساتھ یکجا کر کے بھوپال کے چند مخلص دوستوں کو خطوط لکھ ڈالے۔ لیکن وہاں سے قابل اعتماد مواد بہت کم مل سکا۔ اس کے باوجود میں نے ہمت نہیں ۃاری اروچند دوسری کتابوںکو تلاش شروع کردی۔ اوریہ سلسلہ کوئی دو سال تک جاری رہا۔ اسی زمانے میں فقیر و حیدالدین مرحوم کی مشہور کتابیں روزگار فقیر جلد اول اور دویم مجھے دیکھنے کو مل گئیںَ ان میں بھوپال اور اقبال کے متعلق تھوڑا بہت مواد موجود تھا۔ اسے بھی میں نے نقل کر کے محفوظ کر لیا۔ کام کچھ آگے بڑھ گیا تو میں نے مزید سعی و جہد کر کے دوسری کتابیں بھی حاصل کر لیں۔ کتاب سے متعلق بھوپال کی کئی بزرگ اور ممتاز شخصیتوں نے قلمی رابطہ پیدا کیا۔ کئی احباب اورجواں سال ادیبوں نے بظاہر بڑے خوش کن جوابات دیے۔ ان خطوب میں اس موضوع سے متعلق مواد بھیجنے کی بشارت بھی تھی۔ وعدے اور وعید بھی کیے گئے تھے۔ لیکن تقریباً دو سال تک یاددہانیوں کے باوجود نہ مطلوبہ مواد مل سکا نہ دیگر تفصیلات فراہم ہو سکیں۔ صرف تین حضرات مرحوم یوسف قیصر بھوپالی رشدی مدیر رروزنامہ افکار بھوپال اور شمیم احمد نے جو ان دنوں اورنگ آباد کے اییک کالج میں لیکچرر ہیں۔ تھوڑی بہت مدد ضرور کی۔ بھوپال کے دیگر احباب نے تو جواب تک دینے کی زحمت نہ اٹھائی۔ رشدی کے علاوہ شمیم احمدنے جب تک وہ بھوپال میں رہے میرے استفسارات کے جواب بھی دیے اورکچھ قابل اعتبار مواد بھی بھیج دیا۔ لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود ہفت روزہ ندیم کی جواب روزنامہ ہے فائلیں دستیاب نہ ہونا تھیں نہ ہو سکیں۔ اسی عرصہ میں شمیم احمد لیکچر ر ہو کر بھوپال سے باہر چلے گئے اور اس طرح بھوپال سے رابطہ کا یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ مواد کے سلسلہ میں مزید جستجو سے پتہ چلا کہ بھوپال کے ایک بزرگ و محترم ادیب صوفی شاعر شاہ اسد الرحمن قدسی بھون ضلع جہلم میں قیام فرمائیں جہاں خاندانی سلسلہ رشد و ہدایت جاری ہے۔ چنانچہ میں نے شاہ صاحب سے قلمی رابطہ پیداکیا تو انہوں نے فوراً جواب سے نوازا اور علامہ اقبال کا ایک غیر مطبوعہ خط بھی عطا کر دیا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے کام کی مشکلات کا تذکرہ کیا ارو درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں میری مدد اور رہنمائی فرمائیں تاکہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ میری اس گزارش پر موصوف نے نہ صرف اپنی یادداشتوں سے اہم غیر مطبوعہ اور منفرد مواد بھیج دیا بلکہ اپنے تمام مریدین اور معتقدین کو بھی ہدایت فرما دی کہ اقبال اوربھوپال کے ناتے میری ہر ممکن اعانت کی جائے۔ انہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھانے پر مجھے دعائیں بھی دیں اور کئی نادر و نایاب چیزیں شاہ صاحب قبلہ کے توسط سے مجھے دستیاب ہو گئیں۔ اب کام کچھ آگے بڑھ گیا تھا۔ کراچی کی ادبی تقریبات میں جب بھی ممتاز حسن سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے پہلا سوال یہی کیا کہ آپ اقبال اور بھوپال سے متعلق کتنا کام کر چکے ہیں؟ میں نے صحیح صورت حال سے آگاہ کر دیا کہ یہ کام کافی وقت طلب ہے۔ میں اپنی کوشش کر رہا ہوں تاکہ معتبر مواد فراہم ہو جائے ممتاز صاحب کی ہدایت پر میں نے ا س کتاب کے بارے میں اقبال اکیڈمی کو خط لکھا چنانچہ ہر چوتھے پانچویں مہینے وہاں سے یاددہانیاں آنے لگیںَ اورمیں یہی جواب دیتا رہا کہ کتاب لکھ رہا ہوں۔ اور مواد کی تلاش جاری ہے۔ انشاء اللہ مکمل ہوتے ہی کتاب کا مسودہ پیش کر دوں گا۔ … اورآج تقریباً گیارہ سال کے بعد جب میں اپنی بے نام سی جدوجہد اور لگاتار سعی و کوشش کا جائزہ لیتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کراچی میں بیٹھے بیٹھے اتنا قیمتی اچھوتا اور اہم مواد کیتے مل گیا۔ جس کا دس گیارہ سال پہلے تصور بھی ممکن نہ تھا…! اس کتاب میں جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے حسب ذیل نئی چیزیں شامل ہیں چھ غیر مطبوعہ خط چار ایسے خط جو مکتوبات کے کسی مجموعہ میں نہیں چھپے دو غیر مطبوعہ مرثیے جو علامہ کی وفات کے بعد لکھے گئے۔ کئی نادر و نایاب کتابیں جو علامہ کی شاعری سیاست اور ان کی فکر کے وسیع گوشوں پر محیط ہیں۔ تین ایسی کتابوں کے انتسابات جو شہزادی عابدہ سلطان اور خصوصی معالج ڈاکٹر عبدالباسط کو بھوپال بھیجی گئی تھیں۔ نواب حمید اللہ خاں کے وہ تاریخٰ خطبے جو مرحوم نے جشن حالی کے موقع پر پانی پت میں پڑھے تھے۔ اقبال کے پہلے قیام بھوپال سے متعلق شاہ اسد الرحمن قدسی کے مرید اقبال حسین خاں ندیم خاص فرماں روائے بھوپال کے اچھوتے واقعات بھوپال کی تاریخی عمارات راحت منزل ریاض منزل اور شیش محل کی تصاویر۔ بھوپال کی ایک نہایت حسین موتی مسجد کی تصویر جہاں علامہ اکثر جمعہ کی نماز کے لیی جاتے تھے۔ جاوید اقبال کے بچپن کی تصویر جب وہ بھوپال گئے تھے۔ نیز کتاب کے متعلق کئی اور تصویریں خطوط خاکے اور عمارتوں کے نقشے وغیرہ اور یہ کتاب تقریباً گیارہ سال کے بعد میری دیوانہ وار ارو ان تھک محنت کا حاصل …آپ کے ہاتھون میں ہے۔ ذرا پھر ایک بار ابتدائی اقتباس پرنظر ڈالیے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ تحقیق کی دنیا واقعی امکانی ہے اوری ہ دنیا وسیع ہی نہیں بسیط بھی ہے۔ علاوہ ازیں اس صداقت سے بھی انکر ممکن نہیں کہ تحقیق کے فن میں حر ف آخر حرف غلط ہے میری دانست میں تحقیق کی ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ معتبر و مستند مواد فراہم کیا جائے۔ تحقیق کے ہر پہلو کو سامنے رکھ کر جتنا کچھ مواد اس کتاب میں مہیا کیا گیا ہے…پوری ذمہ داری سے کیا ہے…بغیر حوالہ کے کوئی واقعہ پیش نہیں کیا ہے اس کتاب میں اول تا آخر یا تو مستند کتابوں کے حوالے سے آپ کی نظر سے گزریں گے یا مشہور ممتاز اور سربرآوردہ شخصیتوں کے بیانات ایک اہم بات یہ بھی عرض کر دوں کہ میری تحقیق علامہ اقبال کے بھوپال سے ربط و تعلق تک محدود ہے جسے اکثر خطوں میں علامہ اقبال نے دارالاقبال لیکھا ہے۔ اس طرح تحقیق کے کسی امکان کو میں نے نظر انداز نہیں کیا ہے اب یہ فیصلہ آپ کریں گے کہ تحقیق کا حق ادا ہو سکا کہ نہیں…! اس کتاب کا ایک نہایت اہم اور قابل ذکر پہلویہ بھی ہے کہ علامہ اقبال کے بھوپال سے روابط کا آغاز ۱۹۱۰ء میں ہوا تھا اور یہ روابط وفات سے صرف تین دن پہلے یعنی ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء تک برابر قائم رہے۔ چنانچہ میں نے ابتدا سے انتہا تک حالات و واقعات کا تاریخی تسلسل برقرار رکھا ہے… اسی طرح میں اپنے موضوع سے انصاف کر سکتا تھا۔ اس تاریخی تسلسل کی روشنی میں علامہ اقبال کی بھوپال سے ذہنی وابستگی کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ کام نہایت پیچیدہ اور صبر آزما تھا۔ تیس پینتیس سال پہلے کے صحیح واقعات کی چھان بین اور علامہ اقال کے خطوط کا پس منظر تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مراد ف تھا۔ لیکن میں نے چند روز مشکالت کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا اور بہ کوشش صرف اسی مواد کو کتاب میں شامل کیا جسے میں نے ہر لحاظ سے معتبر مستند اروقابل اعتماد سمجھا ۔ اقبال اور بھوپال … بظاہرایک محدود سا موضوع ہے۔ اس موضوع کا تفصیلی احاطہ کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی…البتہ ایک مختصر سا مقالہ …عبدالقوی دسنوی… صدر شعبہ اردو سیفیہ کالج بھوپال نے تحریر کرنے کا حوصلہ کیا ۔ دسنوی صاحب نے اپنے مقالہ کو بعد میں کتابچہ کی صورت میں بھی شائع کیا۔ اور مجھے بھی ایک کاپی عنایت کی۔ میں نے اسے پڑھا تو افسو س ہو ا کہ دسنوی صاحب اپنے مقالہ علامہ اقبال بھوپال میں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے پھر بھی میں نے انہیں مبارک باد دی اور یہ لکھا کہ جن نظموں یا مرثیوں تصاویر اور دیگر مواد کو آپ فراہم نہیں کر سکے۔ اور صرف تذکرہ پر اکتفا کیا ہے براہ کرم وہ مجھے مہیا کر دیں۔ انہوں نے وعدے ضرور کیے لیکن وفا نہ کر سکے۔ ایک خط میں انہوںنے یہ بھی اعتراف کیا کہ اسے انہوںنے بہت عجلت میں لکھا ہے۔ حالانکہ عجلت کی ضرورت نہیں تھی۔ ادیب و محقق کو اپنے موضوع سے پورا انصاف کرنا چاہیے۔ میری مبارک بار پر دسنوی صاحب نے جو خط مجے بھیجا اس کا حوالہ اور مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گافرماتے ہیں: ۲۰ جون ۱۹۶۷ء محترمی صہباصاحب السلام علیکم آپ کا خط ملا۔ اطمینا ن ہوا کہ علامہ اقبال بھوپال میں پسند فرمایا… میں نے یہ کام بڑی عجلت میں کیا ہے اب اسے آپ مکمل کیجیے۔ انشاء اللہ آپ کی فرمایش جلد پوری کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہاں کام کرنے میںبڑی دشواریاں ہیں۔ تصویروں کے لیے کئی صاحبوں نے وعدے کیے ہیں لیکن ہنوز وعدہ ہی کی کے منزل میں ہیں۔ امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے اپنی یادوں میں اس ناچیز کو بھی یاد رکھیے … آپ کا …عبدالقوی دسنوی‘‘ اس خط کے بعد میں نے دسنوی صاحب کو کئی خط لکھے لیکن بات کوشش اور وعدہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ تب میں نے اپنے ہی ذرائع اور وسائل پر تمام توجہ مبذول کر دی اوریہ میری خوش نصیبی ہے کہ علامہ کے کئی بھوپالی نیاز مند مجھے کراچی میں مل گئے جن کے بیان کردہ واقعات آپ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ اس ضمن میں ماہر غالبیات اور ماہر اقبالیات مولانا غلام رسول مہر مرحوم کی خصوصی توجہ اور عنایت خاص کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ۱۹۶۹ء میں غالب صدی کی تقریبات میں شرکت کے لیے مولانا مہر مرحوم کراچی تشریف لائے تو میں نے ان کی قیام گاہ پر ان سے شرف نیاز حاصل کیا اور اقبال اور بھوپال کے آٹھ ابواب میں لکھ چکا ہوں۔ ازرہ شفقت آپ انہیں ایک نظر دیکھیں اور مشوروں سے نوا زدیں۔ نیز مناسب سمجھیں تو اس کتاب پر مقدمہ یا دیباچہ بھی تحریر فرما دیں۔ مولانا مرحوم نے فوراً آمادگی ظاہر کر دی اور دوسرے روز میں آٹھ ابواب پر مشتمل مسودہ انہیں دے آیا۔ لاہور پہنچ کر انہوں نے پہلی فرصت میں میرا مسودہ پڑھ ڈالا اورمجھے بڑی محبت سے خط لکھا۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’…حقیقت ہے کہ یہ مسودہ جتنا بھی دیکھا معلوم ہو گیا کہ آپ نے حالات بڑے ہی مناسب انداز میں مرتب فرمائے ہیں اورکوئی قابل ذکر ماخذ جو دسترس میں آ سکتا تھا نظر انداز نہیں کیا ہے‘‘۔ اس عرصہ میں میںنے کتاب کے دوباب اور لکھ ڈالے اور ان کو رجسٹری سے مولانا مہر مرحوم کی خدمت میں بھیج دیا۔ میں نے یہ گزارش بھی کی کہ ان دس ابواب میں سے کتاب کا تہائی حصہ مکمل ہو جاتا ہے اگر آپ مسودہ کو کسی قابل سمجھیں تو مقدمہ یا دیباچہ تحریر فرما دیں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ اب صرف تین چار ابواب اور لکھنا ہیں اور ان ابواب کے عنوانات مسودہ میں شامل ہیں۔ اس درخواست پر انہوںنے فوراً توجہ مبذول فرمائی اور مجھے لکھا : ’’… آپ باقی ابواب کب بھیجیں گے تاکہ انہیں دیکھ کر ایک دیباچہ یا مقدمہ لکھ دوں… اگرچ میرا احساس یہ ہے کہ آپ کی کتاب ایسے چھپے اور دل پذیر انداز میں لکھی گئی ہے کہ اس کے لیے میرا مقدمہ نہ محض ناموزو ں نہ ہو گا بلکہ کسی بھی مقدمہ کی ضرورت نہیں‘‘۔ بقیہ چار ابواب میں اپنی خرابی صحت اور افکار کی چند در چند مصروفیات کے سبب لکھنے سے قاصررہا ۔ اسی دوران اقبال اکیڈمی سے عبدالواحد معینی کا خط آ گیا کہ اقبال اور بھوپال کا مسودہ جلد اکیڈمی کو بھجوا دیں تاکہ انتظامیہ کمیٹی اس کی اشاعت پر غور کر سکے۔ چنانچہ میں نے اپنا مسودہ معینی صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا۔ معینی صاحب کو میں نے بتایا کہ دس ابواب تیار ہیں۔ ان پر مولانا مہر مرحوم نظر ڈال چکے ہیں۔ آپ بھی ایک نظر دیکھ لیں اگر کتاب اشاعت کے لیے منظور کر لی گئی تو باقی تین یا چار باب…انشاء اللہ ایک دو مہینے میں مکمل کر دوں گا۔ اکتوبر ۱۹۷۰ء سے مئی ۱۹۷۱ء تک میری کتاب کا مسودہ اقبا ل اکیڈمی میں رہا ۔ عبدالواحد نے بڑی شفقت اور توجہ سے میرا مسودہ ملاحظہ کیااور اپنی سفارش کے ساتھ کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا۔ کمیٹی نے اس مسودہ کو اشاعت کے لیے منتخب کر لیا اور ۱۲ مئی ۱۹۷۱ء کو مجھے تحریری اطلاع مل گئی چنانچہ میں نے سب کام چھوڑ کر باقی ابواب پر کام شروع کر دیا۔ اور شبانہ روز جدوجہد کے نتیجہ میں ۱۳ جولائی ۱۹۷۱ء کو اکیڈمی جا کر بقیہ حصہ ڈاکٹر صاحب اقبال اکیڈمی کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس کتاب کو مکمل کر کے جتنی ذہنی آسودگی اور مسرت مجھے نصٰب ہوئی اس کا اظہا ر الفاظ میں ممکن نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ اقبال اور بھوپال بظاہر محدود سا موضوع ہے لیکن جب میں نے اسے لکھنا شروع کیا تو نئے سے نیا مواد مجھے دستیاب ہو گیا اور اس طرح یہ موضوع سمندر بن کر پھیل گیا۔ ایک نظر فہرست مضامین پر ڈالیے تو باآسانی اس امر کا اندازہ ہو جائے گا کہ میں نے کتاب کے تقریباً ہر باب میں نئی معلومات فراہم کی ہیں اور تمام تر اس بات کی کوشش کی ہے کہ علامہ مرحوم کے ذہنی اور قلبی رشتوں اور بھوپال دارالاقبال سے ان کی خصوصی وابستگی کو تاریخی تسلسل کے ساتھ اس کتاب میں محفوظ کر دوں۔ میں نے حقائق کی تلاش و تحقیق سے ان کی خصوصی وابستگی کو تاریخی تسلسل کے ساتھ اس کتاب میں محفوظ کر دوں میں نے حقائق کی تلاش و تحقیق پوری دیانت داری اورسچائی اور خلوص سے کام لیا اور انی طرف سے بہت کم فیصلہ یا حکم لگایا ہے۔ ایک باب میں میں نے بڑی جستجو اور محنت کے بعد اقبال سے نواب حمید اللہ خاں کے ذاتی روابط کی نشان دہی کی ہے ۔ میں نے خودیہ سوال پوھچا کہ ان دونوں میں کیا مشترک قدر تھی کہ علامہ نے مرتے دم تک بھوپال سے ذہنی رشتہ قایم رکھ سکے۔ ایک نواب اور ایک قناعت پسند عزلت گزیںاور فقیر منش انسان۔ چنانچہ میں نے ان محرکات کا جائزہ لیا بھوپال کے کئی نیاز مندوں سے معلومات حاصل کیں۔ اپنے طور پر غور و فکر کیا تو پتہ چلا کہ امیر اور فقیر کا قریبی ربط و تعلق دراصل ایک نصب العین کے اشتراک کا نتیجہ تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کے دور زریں اور ان کی نشاۃ الثانیہ کے جذبے دونوں میںمشترک تھے۔ نواب صاحب کی طرف سے اقبال کا حد درجہ احترام ان کی ہر خدمت کے لیے ہمہ وقت آمادگی۔ دوسری جانب اقبال کے دل پر یہ اثر کہ نواب صاحب والی ریاست ہونے کے باوصف عوامی انداز فکر رکھتے ہیں اور ملسمانوں کی سود و بہبود سے انہیں خصوصی دلچسپی ہے دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئے اور یہ دو متضاد اور مختلف النوع زندگی بسر کرنے والے اکابر تا حیات سچے اور اچھے دوست رہے۔ اب آئیے ایک نظر کتاب کے ابواب پر بھی ڈال لیں۔ پہلا باب علامہ کے بھوپال سے روابط کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس کا دستاویزی ثبوت آئینہ مشاعرہ سے ملتا ہے۔ یہ انتخاب غزلیات ۱۹۱۰ء میں شائع ہوا تھا۔ آئینہ مشاعرہ کا عکس شامل کتاب ہے۔ اسی میں علامہ کی غزل بھی شامل ہے جو غالب کی زمین میں کہی گئی ہے۔ اور ان کے کسی شعری مجموعہ میں شامل نہیں۔ دوسرا باب اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کے ذاتی روابط اور خصوصی مراسم پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی باب میں علامہ کی اصلاح شدہ غزل بھی شامل ہے جسے اقبال حسین خاں ندیم خاص فرماں روائے بھوپال نے علامہ کے اصرار پر سنایا تھا۔ تیسرا باب علامہ کی بھوپال میں آمد و قیام مختصر سے متعلق ہے۔ اسی باب میں ان کے علاج کے سارے انتظامات کا علم ہوتا ہے جو نواب صاحب بھوپال اور راس مسعود کی ذاتی توجہ سے کیے گئے تھے۔ چوتھا باب اقبال کے وظیفہ اور اس کے پس منظر کا تفصیلی احاطہ کرتا ہے۔ پانچواں باب بھوپال کے دوسرے قیام سے متعلق ہے ان میں وہ یادگار نظمیں بھی شامل ہیںجو بھوپال میں قیام کے دوران علامہ نے لکھیں۔ چھٹا باب اس میں جشن حالی کا مستند احوال پیش کیا گیا ہے۔ اسی باب میں نواب صاحب کے وہ تاریخی خطبات بھی شامل ہیں جو چار سارل کی کوششوں کے بعد دستیاب ہوسکے۔ یہ خطبات پانی پت میں پڑھے گئے تھے ۔ ساتواں باب اقبال اوران کے خصوصی معالج ڈاکٹر عبدالباسط سے خط و کتابت پر مشتمل ہیل اسی باب میں وہ پانچ غیر مطبوعہ خط میں شامل ہیں جو علامہ نے ڈاکٹر یا باسط کو تحریرکیے تھے علامہ اقبال ک یہ خط نہایت سادہ زبان میں لکھے گئے ہیں اگرچہ ان میںتمام تر نفرس کی تفصیل اور ویاناجانے کا تذکرہ ہے۔ علامہ اقبال کے جتنے بھی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ خطوط میری نظر سے گزرے ہیں ان میں بڑی روانگی سادگی و پرکاری ہے ۔ اور شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ خطوط نویسی کے سلسلہ میں منیر احمد شیخ کا ایک اقتباس قابل توجہ ہے: ’’… ذاتی خطوط کو اس لحاظ سے اہم جاننا چاہیے کہ ان میں لکھنے والے کی ذات کا عکس بے حد نمایاں اور بے داغ ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی میں کئی خطوط لکھے ہوں گے۔ بعض ایسے خطوط جہاں دل کا حال کھل کر بیان کیا۔ ایسا حال کہ شاید کسی مضمون یا افسانے میں بھی کھپ نہ سکے۔ خط لکھنے میں یہ اہم بات ہویت ہے کہ یہ لکھا کس کو گیا ہے۔ وہ خطوط جو محبوبہ کو لکھے جاتے ہیں۔ ان میں شخصیت کے جذباتی پہلو کئی رنگوں میں سامنے آتے ہیں۔ یہ خطوط انسانی زندگی کی سب سے اہم تحریری دستاویز ہوتے ہیں کہ ان میں افراد کی شخصی کمزوریاں اعترافات حرف مدعا کا بیان اظہار کی بے ساختگی اورتصورات کی اڑان اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ذات کے کے لیے عشقیہ خطوط سے بڑھ کر کوئی شے نہیں میں سمجھتاہوں کہ آدمی اپنی بیوی کو خط لکھتے وقت بھی اپنی ذات کو اسی کو سامنے اس طرح نہیں کھولتا جیسے وہ اپنے محبوب یا بے حد عزیز دوست کے سامنے خوف و خدشہ کے بغیر اپنی قلبی و ذہنی کیفیات کو بیان کرتا ہے۔ تمام زبانوں میں ادب میں خطوط کے ایسے سرمایے بے شمار ملیں گے جہاں خط ایک خالصتہً ذاتی تحریر سے آگے نکل کر ادب بن جاتا ہے ۱؎۔ علامہ اقبال کے خطوط بھی معیار کے مندرجہ بالا اقتباس پر پورے اترتے ہیں۔ آٹھواں باب بھوپال کے تیسرے قیام کی تفصیلات پیش کرتا ہے ا س میں وہ نظمیں بھی شامل ہیں جو اس قیام کے دوران اقبال نے لکھی تھیں۔ اسی باب میں مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کا بھی ذکر ہے۔ جو انہوںنے بھوپال میں لکھی ۔ ا س سلسلے میں خواب کی حقیقتوں کا سراغ اور اس کا پس منظر شاید پہلی مرتبہ شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اور توقع ہے کہ اہل نظر سے داد و تحسین حاصل کرے گا۔ نواں باب اقبال راس مسعود اور ضرب کلیم کی اشاعت کے متعلق ہے۔ اس باب میں بھی کئی نئی باتیں آپ کے ملاحظہ سے گزریں گی۔ دسواں باب اقبال کی وفات اور بھوپال میں اس کے اثرات کا احاطہ کرتا ہے۔ ا میں وہ مرثیے بھی شامل ہیں جو ان کی وفات پر لکھے گئے ہیں اور ٓاج تک غیر مطبوعہ تھے۔ گیارھواں باب ان اثرا ت کو ظاہر کرتاہے جو علامہ کے بھوپال میں قیام کے سبب بھوپال کے ادیبوں شاعروں فن کا روں وغیرہ نے قبول کیے۔ اس باب میں بھی کئی نئے گوشے اجاگر کیے گئے ہیں۔ بارھواں باب ملفوظات قدسی اور نیاز مندان بھوپال پر محیط ہے۔ اس میں مستند حالات و واقعات پیش کیے ہیں ہیں۔ یہ باب بھی تمام تر نئی معلومات پر مبنی ہے اور پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ تیرھواں اور آخری باب قرآن مجید کے حواشی کے متعلق ہے۔ یہ وہی کتاب ہے جس کی فرمائش نواب صاحب بھوپال نے علامہ سے کی تھی اور جس کی تیار ی میں وہ زندگی کی آخری سانس تک کرتے رہے۔ افسوس کہ علاہ اقبال کی رحلت نے اس عظیم کتاب کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ اور سب سے آخر میں کتابیات اور اشاریہ ہے۔ یہ ہے سرسری سا خاکہ جس پر یہ کتاب لکھی گئی ہے اب ایک نظر ان اچھوتے اور منفرد واقعات پر بھی ڈال لیجیے جن کا آج تک کسی کو علم نہیں تھا۔ ۱۔ انیسویں صدی کے آغاز سے آخری دم تک علامہ اقبال کا بھوپال سے ذہنی قلبی اور عملی تعلق رہا ہے بھوپال کی ج گراں قدر شخصیات سے ان کو خط و کتابت رہی ان میں محمد امین زبیری‘ شاہ اسد الرحمن قدسی راس مسعود‘ خاتون ارشد (بیگم ارشد تھانوی) ممنون حسن خاں ‘ ڈاکٹر عبدالباسط وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ۲۔ ان ابواب میں ان نظموں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو علامہ نے ریاض منزل و شیش محل میں قیام کے دوران لکھیں۔ اس طرح ان نظموں کی صحیح تاریخوں کا علم ہو جاتا ہے۔ ضرب کلیم میں جو نظم علامہ نے حمید اللہ خاں والی ریاست بھوپال کی ذات و صفات سے متعلق لکھی تھی وہ بھی شامل ہے۔ ۳۔ علامہ توجہ دلانے پر اپنے کلام کی خود ہی اصلاح کر لیتے تھے جیسا کہ خاتون ارشد کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے۔ ۱؎ ماہنامہ ’’فنون‘‘ جون جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۴۴۔۱۴۵ ۴۔ علامہ اقبال بھوپال کے ممتا ز شاعروں کے علاوہ ہندوستان کے دوسرے شاعروں کے کلام پر بھی اصلاح دیتے تھے اور مشورے بھی۔ ا س کا ثبوت لمعہ کے نام خطوط میں مل جاتا ہے۔ وہ دیگر شعراء کا کلام بھی سنتے تھے اور داد دیتے تھے۔ ۵۔ شکوہ لکھنے کے بعد جواب شکوہ علامہ نے محض شاہ اسد الرحمن قدسی کی تحریک اور ان کی خواہش کے احترام میں لکھا تھا۔ ۱؎ ۶۔ علامہ کے نیاز مدوں کا ہندوستان گیر حلقہ تھا۔ چنانچہ قیام بھوپال کے دوران جب وہ علیل تھے تو بڑی پابندی سے دوستوں عقیدت مندوں اور شاگردوں کو خطوط لکھتے تھے۔ ان کے خطوط کی زبان نہایت سادہ و دل نشیں ہے۔ ۷۔ سپین وغیرہ کا سفر انہوں نے نواب حمید اللہ خاں کی ذاتی خواہش اور عملی اعانت سے کیا تھا۲؎۔ اسی نوع کے اور بھی ان گنت اچھوتے واقعات جو قطعی نئی معلومات پر مبنی ہیں۔ یکتاب کے مطالعہ کے دوران آپ کی نظر سے گزریں گے۔ ان کا اعادہ لا حاصل ہے۔ اگرچہ کتاب تفصیل بفضل خدا دیر سویر مکمل ہو گئی ہے پھر بھی مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خون جگر صرف ہونے میں کچھ کمی رہ گئی ہے علامہ اقبال کے یہ دو مصرعے میرے جذبات احساسات اور خیالات کی کتنی صحیح ترجمانی کرتے ہیں: معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود! نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر آخر میں ان بزرگوں رفیقوں اور دوستوں کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوںنے اس کتاب کی تیاری کے ہر مرحلہ میں میری مدد کی‘ مشوروں سے نوازا اور میرا حوصلہ بڑھایا تاکہ میں اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ ان حضرات کی فہرست بہت طویل ہ۔ پھر بھی چند ایک کا ذکر ضروری ہے۔ سب سے پہلے عبدالواحد میعن اور محمد احمد سبزواری کے نام آتے ہیں جنہوںنے علیحدہ علیحدہ میری کتاب کے مسودہ پر نظر ثانی کرنے کی زحمت گوارا فرمائی اور نہایت قیمتی مشوروں سے نوازا۔ دیگر حضرات میں مولانا غلام رسول مہر‘ شاہ اسد الرحمن قدسی‘ نذیر نیازی‘ اسمعیل پانی پتی سید محمد یوسف قیصر بھوپالی‘ شمشیم احمد‘ عبدالحئی‘ شہزادی عابدہ سلطان‘ شریف الدین پیرزادہ علی حید ر عباسی‘ محمد خیل اللہ خاں جمیل نقوی‘ اقبال حسین خاں رشدی (ایڈیٹر روزنامہ افکار ۔ بھوپال) چوھدری خاقان حسین مسیح الدین مسیح صدیقی عبدالمجید کمالی‘ مسلم ضایئی ‘ اظہر سعید خاں‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی ‘ خواجہ آشکار حسین ‘ عبداللہ قریشی‘ ڈاکٹر سید محمد یوسف‘ انجم اعظمی‘ ڈاکٹر حنیف فوق‘ احسن علی خاں ‘ ڈاکٹر آغاافتخار حسین‘ سید فیضی‘ اختر جمال‘ محمد علی صدیقی‘ محسن بھوپالی‘ سحر انصاری ‘ سید احمد علی انور حارث ‘ مسعود احمد برکاتی اور احمد طاہر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ صہبا لکھنوی ۱۶ فروری ۱۹۷۳ء ۱۔۲؎ ملاحظہ ہو دیباچہ طبع ثانی ٭٭٭ بھوپال سے علامہ اقبال کے روابط برصغیر کی آزادی سے قبل ہندوستان کی جن اسلامی ریاستوں کی علمی ادبی اور لسانی خدمات خصوصیت سے قابل ذکر ہیں ان میں ریاست حیدر آبا د کے بعد ریاست بھوپال کا نام سر فہرست ہے۔ یوں تو ریاست بھوپال کے قیا م سے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء تک ہر فرماں روا کے دور میں ہمیں کئی مشہور و ممتاز شخصیتیں ملتی ہیں جو ریاست بھوپال یا دربار بھوپال سے وابستہ تھیں لیکن خصوصیت کے ساتھ ریاست کی آخری دو حکمراں خواتین یتنی نواب شاہجہاں بیگم (۱۸۶۸ء ۔ ۱۱۹۰ئ) اور نواب سلطان جہاں بیگم (۱۹۰۱ء ۔ ۱۹۲۶ئ) کا دور حکومت بلاشبہ سنہری دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ حکمراں خواتین جو خود علم و فضل کی حامل تھیںل اور تصنیف و تالیف ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اپنے اب وجد کی طرح اس بات کی بھی شایق تھیں کہ ان کی ریاست میں زیادہ سے زیادہ اہل علم و اہل کمال جمع ہو جائیں اور ہر طرف علم و تعلیم کا چرچا ہو۔ خوان ان کے محل پر مشاعرے منعقد ہوتے تھے شعراء کو انعامات اور خلعتیں عطا کی جاتی تھیں۔ ریاست میں امن اور خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ حکمران وقت کی ذاتی دلچسپی کے باعث تعلیم نسواں اور خواتین کی سود و بہبود پر خصوصی توجہ دی جا رہی تھی مدراس کھل رہے تھے۔ عمارتیں بن رہی تھں خواتین کے لیے کلب لائبریریاں قائم ہو چکی تھیں اور ریاست بھر میں اردو کا سرکاری عمل دخل تھا۔ قوانین اردو میں نافذ کیے گئے تھے اور سرکاری ملازمتوں میں اردو کی قابلیت لازمی قرار دی گئی تھی۔ اور بقول مولانا اسل جیراجپوری مولف تاریخ الامت : بھوپال کی حیثیت اس وقت بغداد الہند کی تھی ۱؎ علم و ادب کی اشاعت کے لیے آٹھ سرکاری مطابع تھے جو دن رات کتابیں چھاپتے رہتے تھے اور تقریباً دو سو کتابیں مختلف علوم و فنون پر ہر سال ان مطابع میں شائع ہو کر مفت تقسیم کی جاتی تھیں۔ شاہجہاں بیگم نے جب قنوج کے ایک جید عالم مولوی سید صدیق حسن سے عقد ثانی کر لیا تو ریاست کے علمی اور فکری سرمایے میں مزید اضافہ ہو گیا۔ آپ عربی و فارسی کے منتہی اور تقریباً ڈھائی سو کتابوں کے مصنف و مولف تھے۔ جن میں سے ڈیڑھ سو کے قریب عربی و فارسی کی تھیں۔ یہ کتابیں ہندوستان کے علاوہ عرب ممالک میں بھی خاصی مقبول ہوئیں۔ شاہ سعود نے آپ کے بعض تصانیف کو نہایت اہتمام سے شائع کیا اور یہ کتابیں آج بھی عرب ممالک میں الشیخ صدیق القوجی و البخاری کے نام سے مشہور ہیں اور علم و بصیرت کا منبع ہیں۔ علامہ جمال الدین افغانی مصر کے مفتی عبدہ اور سید احمد شہید کے رفقائے کار سے آ پ کا قریبی تعلق تھا ۱؎ مقالات اسلم صفحہ ۲۱۸ اور آپ پان اسلامزم کی تحریک کے بڑے حامی تھے۔ چنانچہ اسی بنا پر برطانوی حکومت نے آپ کا نوابی کا خطاب واپس لے لیا تھا۔ اور آپ کو کچھ عرصہ تک نظر بند رکھا تھا۔نواب شاہجہاں بیگم نے دور حکومت میں ہ سر سید احمد خاں علی گڑھ کالج کے لیے چندہ لینے بھوپال آئے تھے۔ لندن کی ووکنگ مسجد شاہجہانی بھ آپ ہی کے نام سے معنون ہے اور جس کی تعمیر کے لیے آپ نے گرانوں قدر عطیہ دیا تھا۔ بعض نادر کتابوں کی اشاعت بھی نواب شاہجہان بیگم ہی کے عطیہ سے ہوئی تھی۔ مثلا صحیح بخاری کی شہرہ آفاق تصنیف فتح الباری جو آج کل تیرہ جلدوں میں ملتی ہے متعدد کتابیں اس کے علاوہ ہیں۔ اگر حافظہ غلطی نہیں کرتا تو شاہجہاں بیگم نے فتح الباری کی اشاعت پر ایک لاکھ سے زیادہ رقم صرف کی تھی۔ نواب سلطان جہاںبیگم خود بھی صاحب علم‘ بیدار مغز اور علم دوست خاتون تھیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی اورسماجی سرگرمیوں میں آپ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیال مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی آپ پہلی چانسلر ہیں اور اس حیثیت سے آپ نے یونیورسٹی کی توسیع و ترقی میں گراں قدر اورگراں مایہ خدمات انجام دیں دیو بند ندوہ دارالمصنفین مکہ معظمہ کے مدرسہ صولتیہ لندن کے اسلامی اور بے شمار تعلیمی اور رفاہی ادارے آپ کی امداد و سرپرستی سے فیض یاب ہوتے تھے۔ علامہ شبلیؒ کی سیرۃ النبی مولوی عبدالرزاق کی البرامکہ اور منشی افتخار عالم کی مارہردی کی حیات النذیر کے لیے بھی آ پ نے خصوصی مالی اعانت فراہم کی۔ بھوپال میں از سر نو دفتر تاریخ قایم کیا جس میں محمد امین زبیری علامہ نیاز فتح پوری علامہ محوی … سید محمد یوسف قیصر ‘ مانی جائسی محمد مہدی‘ مولوی عبدالرزاق ایسی بلند پایہ شخصیتیں شامل تھیں… دو بار آپ یورپ گئیں اور ایک مرتبہ فریضہ حج ادا کیا۔ حمید یہ لائبریری کا قیام رسالہ الحجاب ۱؎ اور رسالہ ظل السلطان ۲؎ کا اجراء مائل نسواں پر آپ کی قابل قدر کتابوں کی اشاعت کی وہ چند تاریخی اور ادبی کارنامے ہیں جو تاریخ ادب میں ہمیشہ ازندہ رہیںگے۔ شاہجہاں بیگم اور سلطان جہاں بیگم کے دور حکومت میں متعدد شخصیتیں بھوپال آ کر آباد ہو گئیں اور بھوپال میں رہ کر انہوںنے کتاب زبان و ادب تہذیب و ثقافت اورعلم و فن کی بے مثال خدمات انجام دیں جن مشاہیرکا بھوپال سے کسی نہ کسی عنوان سے ربط و تعلق رہا… یا وہ یہاں کچھ عرصہ کے لیے مقیم رہے۔ ان کی آمد و رفت کا سلسلہ رہا یا انہیں ریاست سے وظیفہ یا امداد دی گئی ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ پھر بھی ذیل کے چند مشاہیر کا تذکرہ نامناسب نہ ہو گا کہ ان کے ذکر کے بغیر بھوپال کی ادبی عظمت بھوپال کی نیک نامی ارو شہرت اور تاریخ ادب میں بھوپال کی نمایاں حیثیت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ نواب شاہجہاں بیگم خود بھی شعر کہتی تھیں۔ آپ کے دو دیوان مطبوعہ موجود ہیں تخلص شیریں اور تاجور تھا۔ آ پ کے بلند مرتبت شوہر نواب صدیق حسن المختلص بہ توفیق کے علاوہجمیل احمد جمیل سہسوانی … سید امجد علی اشہری و امجد حکیم معشوق علی خاں جوہر مولوی شکر اللہ سہیل‘ فرانسیسی نسل کے بھوپالی شعراء جیمز بیٹبسٹ نفیس حکیم فرانسس فطرت‘ سید ظہیر الدین ظہیر دہلوی (شاگرد ذوق) مرزا شاغل فخری ‘ محمد عباس رفعت‘ خاں محمد خاں شہپر‘ مولانا محمد عبدالحلیم صدیقی ذکا مولانا اسلم جیراجپوری ۔ مرزاذاکر حسین ثاقب لکھنوی‘ مولوی احسن اللہ خاں‘ ثاقب بدایونی امیر مینائی ( جو دوبارہ بھوپال تشریف لائے اور شاہجہاں بیگم نے انہیں باغ فرحت افزا میں مہمان رکھا) محمد ہادی رسوا۔ احمد علی شوق قدوائی‘ رشید احمد ارشد تھانوی مولانا محمد حسین محوی لکھنوی‘ علامہ نیاز فتحپوری ۱؎ زیر ادارت سید محمد یوسف قیصر ۱۹۱۱ء ۲؎ زیر ادارت محمد امین زبیری ۱۹۱۵ء کلب احمد مانی جائسی‘ مضطر خیر آبادی قاضی ولی محمد‘ مفتی انوار الحق‘ مولوی محمد مہدی‘ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری‘ مولوی افتخار عالم مارہروی‘ مولوی عبدالراق ‘ علامہ شبلی‘ محمد امین زبیری‘ سر راس مسعود ‘ علامہ اقبال‘ علامہ سید سلیمان ندوی‘ جگر مراد آبادی‘ پروفیسر سید نواب تلی( جو بھوپال میں مستقل طور پر کبھی نہیں رہے لیکن بھوپال سے خصوصی روابط کی بنا پر اکثر و بیشتر بھوپال تشریف لا کر قیام کرتے تھے) حفیظ جالندھری ‘ کوثر چاند پوری‘ مولوی مظہر احمد واہمی ارو جاں نثار اختر ۱؎ کے علاوہ اسی عرصہ میں خود ریاست بھوپال کے جن مشاہیر نے بیرونی مشاہیر کے دوش بدوش اردو زبان کی گراں مایہ خدمات انجام دے کر ہندوستان گیر شہر ت حاصل کی یا جن کی ذات گرامی سے بھوپال کی ادبی عظمت اور علم و فن میں اضافہ ہوا ان میں سراج میر خاں سحر بھوپالی ‘ امرائو علی عیش (شاگرد داغ) منشی انور علی انور بھوپالی شاگرد داغ عبدالشکور اخلاص (شاگرد امیر مینائی) حافظ سلیمان خاص خالص‘ سید محمد میاں شہید‘ محمد کریم ذکی وارثی شاہ اسد الرحمن قدسی‘ منیر الدین منیر بھوپالی ‘ میاں ارجمند محمد خاں‘ عبدالجلیل مائل نقوی ‘ شریف محمد خاں فکری‘ سید محمد یوسف قیصر بھوپالی‘ ممتاز احمد سہا مجددی ڈاکٹر عابد حسین ‘ سید محمود اعظم فہمی بھوپالی ‘ محمد اسمعیل رمزی ترمذی ‘ منشی لچھمن نرائن افسر‘ شمبھودیال سخن‘ گوبند پرشاد آفتاب‘ صالحہ خانم عاجز‘ نواب سلطان جہاں بیگم جو ۴۰ سے زائد کتابوں کی مصنفہ تھیں ہر ہائی نس نواب میمونہ سلطان معروف بہ شاہ بانو بیگم۔علامہ میاں خالد‘ علامہ خلیل عرب‘ حامد سعید خاں حامد بھوپالی‘ باسط بھوپالی‘ شعری بھوپالی‘ ملا رموزی‘ حامد رضوی‘ ابو سعید بزمی‘ عبدالحلیم آرٹسٹ ‘ قدوس صہبائی‘ شاغل فخری اور محمد احمد سبزواری وغیرہ شامل ہیں جنہوںنے آخری فرماں روا نواب حمید اللہ خاں کے دور حکومت تک علم و ادب کی گراں مایہ خدمات انجام دیں۔ اسی دور میں بھوپال کے شعراء کی تخلیقات بھوپال سے باہر کے مشہور رسائل میں بھی شائع ہونے لگیں۔ خود بھوپال سے کئی اخبارات ورسائل جاری ہوئے جن میں خصوصیت سے الحجاب (ایڈیٹر سید محمد یوسف قیصر) ’’ظل سبحان‘‘ (ایڈیٹر محمد امین زبیری ۔ سید محمد یوسف قیصر) ’’نگار‘‘ (ایڈیٹر نیاز فتح پوری) ’’زرنگار‘‘ (ایڈیٹر منشی عبدالقدیر آزاد) ’’مالوہ ریویو‘‘ (ایڈیٹر محمد یوسف قیصر ‘ کامدار عبدالمتین) ’’محسن الملک ‘‘ (ایڈیٹر حامد سعید خاں) ’’آفتاب نسواں ‘‘ (ایڈیٹر سرور جہاں۔ انور جہاں) ’’ندیم‘‘ مصور (ایڈیٹر محمود الحسن صدیقی) ’’افکار‘‘ (ایڈیٹر صہبا لکھنوی اے آر رشدی) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس دور کے جن نوجوانوں ادیبوں اور شاعروں نے بھوپال میں فکری انقلاب کی داغ بیل ڈالی اور خود کو منظم کر کے اقبال اور دوسرے معاشر شعراء کے مقصدی تعمیری ‘ اور اصلاحی رجحانات کو عام کیا ان میں سبعہ سیارہ کے اراکین جو محمد حسین محوی لکھنوی اصلاً بھوپالی سید محمو یوسف قیصر بھوپالی‘ ارشد تھانوی‘ حضور احمد حضور‘ نعیمی ‘ خورشید علی مہر دہلوی‘ عبدالحلیم صدیقی‘ ذکا بھوپالی‘ معین الدین احسن دہلوی‘ سرور قادری بدایونی‘ عصمت اللہ بیگ دھلوی‘ (برادر مرزا فرحت اللہ بیگ) پر مشتمل تھے خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ اسی ادبی انجمن نے سہا مجددی محمود اعظم فہمی‘ اور محمد حسین محوی ایسے باکمال فن کار پیدا کیے اور شعر و ادب کی اصلاح کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات کو عام کیا۔ انگریزی نظموں کے ترجمے کیے۔ ہندوستا ن کے مشہور رسائل مثلاً دکن ریویو الناظر ’’پنجاب ریویو‘‘ ’’تنویر ‘‘ الشرق‘‘ ادیب ‘ تمدن ‘ العصر ‘ تہذیب نسواں وغیرہ میں جدید نسل کا کلام امتیازی حیثیت سے شائع ہونے لگا۔ کچھ عرصے کے بعد ’’سبعہ سیارہ‘‘ کا شیرازہ بکھر گیا تو انہیں حضرات نے دائرہ ادبیہ کے نام سے ایک اور انجمن بنا لی اورجدید عہد کے تقاضوں کے مطابق ادب و فن کی خدمت کا فریضہ جاری رکھا۔ ۱؎ افسوس کہ ۱۹۷۶ء میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مشاعرے بھوپال کی ادبی و تہذیبی زندگیکا جزو لاینفک تھے۔ چنانچہ آل انڈیا مشاعرے بھوپال میں بھی ہونے لگے۔ اور طرح مشاعروں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اسی سلسلے میں پہلی بار ہمیں اقبال سے متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ’’آئینہ مشاعرہ‘ یعنی مشاعرہ بھوپا ل منعقدہ ۱۲ شعبان المعظم ۱۳۲۸ھ مطابق ۸۱ اگست ۱۹۱۰ء مرتبہ سرور قادری سے پوچھیے تو وہ پہلی ادبی دستاویز ہے جسے ہم اقبال اور بھوپال کے ذہنی و ادبی رشتے کی بنیاد قرار دے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ہمیں کوئی مطبوعہ یا غیر مطبوعہ تخلیق یا کوئی شہادت نہیں ملتی جس سے اقبال کا بھوپال سے کسی عنوان ربط و تعلق ثابت کیاجا سکے۔ آئینہ مشاعرہ ۵۶ صفحات کا ایک مختصر سا انتخاب کلام ہے جس میں اس عہد کے کئی باکمال اوربلند پایہ شعرا کی طرحی غزلیں جو غالب کی زمین میں حروف تہجی کے اعتبار سے شائع ہوئی ہیں انتخاب مشاعری کے پہلے صفحہ کا عکس حسب ذیل ہے۔ صفحہ ۲ پر عنوان نذر جو عبارت درج ہے اس کا مطالعہ خالی ا ز دلچسپی نہ ہو گا لکھا ہے: ’’… یہ مجموعہ غزلیات جس میں ہندوستان کے مشہور اور مستند سحر نگاروں کے پاکیز ہ اور نفیس خیالات شامل ہیں انتہائے جوش عقیدت مندی سے شاعر عرش آشیاںنجم الدولہ دبیر الملک نواب مرزا اسد اللہ خاں غالب نظام یار جگ بہادر اعلیٰ مقامہ کے نام نامی اور اسم گرامی پر نذر کیا جاتاہے۔ محض اس غرض سے کہ اس روح مقدس کو یہ معلوم ہو کہ مسرت ہو کہ اس نے جن پودوں کو خون جگر سے سینچا تھا وہ آج بڑے تناور درخت ہو کر شاہراہ عالم و ادب کے مسافروں پہ سایہ کیے ہوئے ہیں محض اس غرض سے اس پاک روح کو یہ امر موجب نشاط ہو کہ اس نے جس خارزار کو ہموار اور صاف راستہ بنانے میں بے شمار مصائب اٹھائے ہیں اس پر آج ہزاروں راہگیر اس کے نا م پر درود تحیات بھیجتے ہوئے منزل مقصود کو پہنچ رہے ہیں محض اس غرض سے کہ اس خلد مکاں کے یے یہ خبر باعث ابتہاج ہو کہ اس کے ابتلائے ہوئے راستے پر آج سیکڑوں چل رہے ہیں اور ہزاروں کم ہمت باندھے بیٹحے ہیں۔ درحقیقت میرزا غالب برد اللہ مفجعہ و نور اللہ مرقدہ ایک خضر طریق یا بالفاظ دیگر امت شعرا کے ایک مسلمہ لیر اور ایک برحق پیغمبر تھے جن کی حقیقی مدح سرائی میں ابدالا ٓباد تک زبان و قلم دونوں قاصڑ ہیں۔ نیاز مند مع اپنے احباب کے اس کے مشہد خاص پر نہایت خلوص کے ساتھ گلہائے بو قلموں کا سحر طراز گلدستہ پیش کرتا ہے خدا اس کے مزار مطہر کو پھولوں سے بھرے ۔ آمین …سیکرٹری مشاعرہ‘‘ صفحہ نمبر ۳ پر تعارف ہے جس کی عبارت کچھ یوں شروع ہوتی ہے: ’’… بزم شعراء میں جن باکمال حضرات نے شرکت فرمائی یا اپنے لاجواب کلام سے سرفرازی کا موقع دیا ان میں سے چند قابل الذکر حضرات کا مختصڑ حال اس طریق سے کھا جاتاہے کہ پبلک ان کا کلام دیکھنے سے پہلے ان سے تعارف کرے‘‘۔ اس عبارت کے بعد حروف تہجی کے لحاظ سے ج شعرا کا تعارف کرایا گیا ہے ان کی تعداد ۲۷ ہے پہلا نام سید علی احسن صاحب احسن ماہروی کا ہے اس کے بعد امیر احمد امیر بدایونی سید معین الدین حسن صاحب‘ احسن حکیم علی محسن خاں صاحب ابرکے نام آتے ہیں۔ اور پانچویں نمبر پر اقبال کا تعارف ہے جس کی عبارت یہ ہے: ’’اقبال… پروفیسر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لاء صوبہ پنجاب کے قابل فخر انشا پردازوں میں سے ہیں ۱؎ اور تعلیم یافتہ سوسائٹی کے مایہ ناز فرزند ۲؎ ہیں ‘‘۔ اقبال کے بعد منشی رشید احمد صاحب ارشد تھانوی‘ سید مہدی حسن صاحب احسن مرزا عاشق حسین صاحب بزم اکبر آبادی‘ حافظ سلیمان صاحب خالص‘ سید محمد عالم صاحب خنجر‘ سید امیر حسن صاحب دلیر‘ سید ریاض احمد صاحب ریاض خیر آبادی‘ منشی پیارے لال صاحب رونق دہلوی‘ سید بادشاہ حسین صاحب رعنا ‘ ابوالمعظم نواب سراج الدین احمد خاں صاحب‘ سائل دہلوی‘ منشی چندی پرشاد صاحب شیدا دہلوی‘ راقم الدولہ سید ظہیر الدین خاں صاحب ظہیر دہلوی‘ مولوی مرزا ہادی رسوا عزیز لکھنوی‘ سید ابن علی صاحب علی صفی پوری‘ بابو عطا محمد صاحب عطا‘ سید امرائو علی صاحب عیش بھوپالی‘ سید محمد یوسف قیصر صاحب قیصر بھوپالی‘ حکیم سید مہدی حسن صاحب کمال لکھنوی‘ مفتی اکرام احمد صاحب لطف سید کاظم حسین صاحب محشر لکھنوی‘ مرزا محمد ہادی صاحب مرزا اور میر غلام بھیک نیرنگ کے اسمائے گرامی مع تعارف جو زیادہ سے زیادہ ستاسطروں اور کم از کم دو سطروں پر مشتمل ہے پہیش کیے گئے ہیں۔ تعارف ص ۳ سے شروع ہو کر س ۶ پر ختم ہوتا ہے ص ۷ پر روداد مشاعرہ‘ کے عنوا ن سے اس مشاعرہ کی نوعیت غرض و غایت تفصیلات مقامی ار بیرونی شعراء کا شکریہ انتخاب اور ممبران کمیٹی کا نام بہ نام تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ روئیداد ص ۷ اور ص ۸ پر مشتمل ہے اور اس اعتبار سے اہم اور قابل مطالعہ ہے کہ اس میں آج سے باسٹھ سال پہلے کی ادبی محفلوں اور بزم آرائیوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیں بھوپال کے اس عہد کی سماجی ثقافتی اور مجلسی زندگی کے بارے میں بھی بہت کچھ معلوم ہو جاتاہے۔ اور وہاں کی وہ چند علمی و ابی شخصیتیں بھی ہمارے سامنے آ جاتی ہیں جنہوںنے بیسویں صدی کے آغاز میں زبان و ادب کیک ارتقاء میں نمایاں حصہ لیا۔ روئداد مشاعرہ کی تفصیلات یہ ہیں: ’’… ۸ اگست ۱۹۱۰ء شب پنجشبنہ کو دس بجے کے وقت مولوی محمد اسمعیل صاحب کے مکان کے ایک بڑے ہال میں یہ مشاعرہ ہوا۔ نو بجے شرکاء مجلس کی آمد شروع ہوئی۔ معززین شہر و عمائدین ملک و شائقین و سامعین سے دس بجے تک ہزار آٹھ سو سے زیادہ افراد جمع ہو گئے۔ دس بج کر ۴۳ منٹ پر شمع کو گردش دی گئی۔ باہرکی آئی ہوئی غزلیں سنانے کے واسطے نیاز مند سیکرٹری اور سید معین الدین حسن صاحب دہلوی تجویز کیے گئے جنہوںنے نہایت مستعدی سے اپنے کام کو انجام دیا۔ کثرت سے لوگوں کا خیا ل تھا کہ اس زمین میں غزل لکھنا بالکل عبث ہے۔ اساتذہ سلف خصوص مرزا غالب کی ہم نوائی کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ مگر جیسا کہ غزلوں سے ثابت ہو گا کہ شعرا نے اپنی زود طبع سے وہ گل کرتے کہ حاضرین جھوم جھوم اٹھے اوریہ زمین ۲؎ گلستاں بن گئی۔ باہر کی آئی ہوئی غزلیں نہایت دلچسپی سے سنی گئیں۔ اور ہر ہر شعر پر خوب ہی داد دی گئی اور خلاف امید اس مشاعرہ کو کامیابی ہوئی۔ جن بزرگوں کے نا م سلسلہ انٹروڈکشن میںملاحظہ فرمائے گئے یہں ان کی غزلیں چوٹی کی غزلیں ہیں جنہوں نے مشاعرہ کو چار چاند لگائے اور سچ تو یہ ہے کہ انہیں حضرات کی بدولت محفل سخن چمک اٹھی اور بقول بعض شرفا بھوپال یہ مشاعرہ اپنے رنگ ڈھنگ کا پہلا مشاعرہ تھا ساڑھے پانچ بجے صبح یہ محفل برخاست ہوئی۔ چونکہ بہت سے حضرات کی غزلیں باقی رہ گئی تھیں اور یہ امر قرین انصاف نہ تھا کہ ان حضرات کے کلام کو جنہوںنے دنوں غور و فکر کر کے آج کے واسطے کافی ذخیرہ فراہم کیا تھا نہ سنا جائے اس لیے مشاعرے کے تیسرے دن پھر ایک مشاعرہ کیا گیا جن میں ان شاعروں کی گل فشانی کے علاوہ کچھ کلام غیر طرحی بھی شامل تھا۔ اور دس بجے سے صبح دس بجی تک نہایت دلچسپی سے گزری اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ محفل بہ نسبت اور مشاعروں بھوپال کے نہایت تہذیب و شائستگی سے رہی۔ ۱؎ مولوی سید محمد اسمعیل دیسنوی نواب سکندر بیگم کے زمانے میں وارد بھوپال ہوئے اور روبکاری میںملازم ہو گئے عہد شاہجہانی میں تحصیل دار بنا دیے گئے۔ علم و ادب سے آپ کو خصوصی لگائو تھا۔ آٓپ کی مشہور تصانیف میں ’’تاریخ طلسم بکائولی‘‘ اور ’’تاریخ بھوپال‘‘ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جو نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے میں شائع ہویئں آپ کے دولت کد ہ پر اکثر ادبی محفلیں اور مشاعرے منعقد ہوئے تھے۔ ۲؎۔ یہ طرحی مشاعرہ غالب کی مشہور غزل کے اتباع میں ہوا تھا جس کا مصرعہ ہے: قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا منشی محمود علی صاحب شہزادہ سلطان عالم صاحب‘ منشی احمدرضا صاحب ہیڈ کلرک‘ منشی عبدالحئی صاحب رنجر‘ سید حسن صاحب سید‘ سید معین الدین حسن صاحب دہلوی‘ اسسٹنٹ پرائیوٹ سیکرٹری فرماں روائے بھوپال جناب ارشد تھانوی اسسٹنٹ کورٹ انسپکٹر دربار بھوپال‘ جناب قیصر صاحب ایڈیٹر الحجاب و مالوہ ریویو کے حسن انتظام سے بزم شعر بہت ہی پررونق رہی۔ میں ان حضرات کی کار گزاری کا مشکور ہوں۔ سخت ناسپاسی ہو گی اگر میں ان حضرات کا شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے مہربانی فرما کر ارو اپنے بہت سے کام ہرج کر کے محض اس مشاعرہ کے واسطے غزلیںلکھیں اور روانہ کیں۔ ڈاکٹر پروفیسر اقبال صاحب میر نیرنگ صاحب جناب ریاض صاحب جناب ابر صاحب لکھنوی جناب امیر صاحب بدایونی‘ جناب عطا صاحب بدایونی‘ وغیرہ وغیرہ اور جس قدر حضرات نے ازراہ نوازش ہمدردی سے مجھے مرہون منت بنایا جب تک میرے منہ میں زبانہے میں ان کے اس احسان اور منت پذیرہ میں ہمیشہ ہمیشہ رطب اللسان رہوں گا اور مجھے پورے طور پر یقین ہے کہ اگر پھر کبھی یاران مشرب کی ترغیب سے اس قسم کی تکلیف دہی کا موقع ہاتھ آیا تو یہ بزرگوار مجھے پھر ادائے شکر یں ترانہ سنج پائیں گے اور اس حقیر بے بضاعت کو دل سے فرامو ش نہ فرمائیں گے۔ اپنی اس تحریر کو ختم کرنے سے پہلے مجھے ممبران کمیٹی انتخاب غزلیات یعنی ابن علی صاحب عالی اور جناب سید حسن صاحب سید و جناب سید معین الدین صاحب احسن دہلوی و جنات سید بادشاہ صاحب رعنا لکھنوی و جناب حافظ سلیمان صاحب خالص و جناب منشی رشید احمد صاحب ارشد تھاونی و جناب سید محمد یوسف صاحب قیصڑ ایڈیٹر الحجاب و مالوہ ریویو کا سپاس گزار ہونا ضروری ہے جنہوںنے نہایت نیک نیتی سے غزلوں کا انتخاب کر کے اس گلدستہ کو ایسا گلدستہ بنا دیا کہ جس کے مضامین کی مہک اہل سخن کے دماغوں کو ہمیشہ معطر کرتی رہے گی۔ آپ کا مرہون منت …عبدالصمد سرور قادری بدایونی‘‘ اس گلدستہ انتخاب کا آغاز صفحہ ۲۱ سے ہوتا ہے لوح پر بسم اللہ الرحمن الرحیم درجہے اوراس کے نیچے خوبصورت بیل بوٹوں میںآئینہ مشاعرہ درج ہے۔ روئداد مشاعرہ صفحہ ۸ پر ختم ہوتی ہے اور انتخاب صفحہ ۲۱ سے شروع ہوتا ہے۔ درمیانی صفحو یعنی ۹ تا ۲۰ پر سید محمد یوسف قیصر بھوپالی کامضمون بعنوان شاعری چھپا ہے جس کی ذیلی سرخیاں یہ ہیں: شاعری کی ابتدا۔ ہندی شاعری۔ عربی شاعری۔ انگریزی شاعری۔ اردو شاعری۔ آغاز۔ گزشتہ دور۔ موجود ہ دور۔ قدیم و جدید شاعری۔ ایک مفید مشورہ اس مضمون کے فوراً بعد شعرا کی غزلیات حروف تہجی کے مطابق یوں شروع ہوتی ہیں: احسن ۔ جناب سید علی احسن صاحب احسن مارہروی فصیح الملک اور یہ التزام آخر تک برقرار رہتاہے ۔ پہلے تخلص پھر پورا نام بعض حضرات کے نا م کے آگے تلمیذ بعض کے آگے تعارفی عبارت اور بعض کے ساتھ مقیم بھوپال لکھا گیا ہے۔ گلدستہ میں بحیثیت مجموعی ۶۸ غزلیات ہیں صفحہ نمبر ۲۳ پر اقبال کی طرحی غزل اس طرح درج ہے: اقبال۔ جناب ڈاکٹر پروفیسر شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے پی ایچ ڈی بیرسٹر ایٹ لا حلقہ زنجیر کا ہر جوہر پنہاں نکلا آئینہ قیس کی تصویر کا زنداں نکلا ہم گراں جان کے لائے تھے عدم سے بلبل باغ ہستی میں متاع نفس ارزاں نکلا وسعت افزائی آشفتگی شوق نہ پوچھ خاک کی مٹھی میں پوشیدہ بیاباں نکلا غالب کی زمین میں اقبال کے یہ تین شعران کے کسی مجموعہ میں شامل نہیں تھے حالانکہ ان کی وفات کے بعد ان کا کافی منتشراور متفرق کلام ان کے تین مجموعوں رخت سفر ‘ باقات اقبال (پہلی اشاعت و اضافہ شدہ اشاعت ثانی) اور سرود رفتہ میں شائع ہو گیا۔ ان مجموعوںمیں بہت سا کلام مشترک بھی ہے۔ لیکن اقبال کے لائق بھتیجے شیخ اعجاز احمد نے جو مزید غیر مطبوعہ اور متفرق کلام بڑی جستجو سے اور سعی بلیغ کے بعد جمع کیا اسے انہوں نے فقیر وجیہ الدین صاحب کو اشاعت کے لیے دے دیا جو روزگار فقیر جلد دوم (سن اشاعت ۱۹۶۴ئ) میں ’’کلام اقبال‘‘ کے عنوان سے صفحہ ۲۱۵ تا ۳۹۵ شائع ہوا ہے۔ اسی کتاب میں یہ تین اشعار بھی صفحہ ۳۰۹ پر زیر عنوان برائے مشاعرہ بھوپال شامل ہیں۔ اقبال کے بھوپال سے ذہنی ربط و تعلق کا آغاز جیسا کہ آئینہ مشاعرہ سے ظاہر ہے ۱۹۱۰ء میں ہوا ہے جسے ہم بلا خوف تردید بھوپال سے ربط و تعارف کی پہلی کڑی قرار دے سکتے ہیں۔ کچھ مدت کے بعد نواب سلطان جہاں بیگم والی ریاست کے ایماء پر بھوپال سے رسالہ ظل السلطان ۱۹۱۵ میں جاری ہوا تو مولوی محمد امین زبیری اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ رسالہ قومی اصلاحی اخلاقی اور خواتین کے مسائل پر مضامین شائع کرنا چاہتا تھا چنانچہ اقبال نامہ میں اقبال کا ایک خط شائع ہوا ہے جو محمد امین زبیری ایڈیٹر ظل السلطان بھوپال کے نام ہے خط کا متن یہ ہے: ’’لاہور… ۲۹ اپریل ۱۹۱۷ء مخدومی السلام علیکم آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے میرے رائے میں اس بحث پر سب سے بہتر کتاب قرآن کریم ہے۔ تدبر شرط ہے۔ اس میںتمام باتیں موجود ہیں۔ کے تمام مسائل بھی اس میں موجود ہیں زمانہ حال کی سفریجٹ ۱؎ عورتوں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ایک کتاب … میری نظر سے گزری ہے۔ کسی عورت کی لکھی ہوئی ہے مگر افسوس ہے کہ مصنف کا نام ذہن میں محفوظ نہیں۔ ۱؎ … مراد ہے حق رائے دہی کی خواستگار خاتون جان سٹورٹ مل نے بھی اس پر ایک مضمون لکھا تھا ۔ مخلص محمد اقبال ۱؎‘‘ یہ خط اقبا ل اور بھوپال کے ربط و تعلق کی دوسری کڑی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھوپال کی سرکرہ شخصیتیں بھی اقبال کی علمیت و عظمت فن کی قائل تھیں۔ اور ان سے استفادہ کرنے میں فخر و عزت محسوس کرتی تھیں جیسا کہ اس خط کے مضمون میں ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ اقبا ل کے بھوپال کی علمی و ادبی شخصیتوں سے قلمی ربط و تعلق کے دو دستاویزی ثبوت مزید دستیاب ہوئے۔ ان میں پہلی خاتون ارشد (بیگم مولانا ارشد تھانوی) ہیں اور دوسرے مولانا شاہ اسد الرحمن قدسی۔ خاتون ارشد اپنے نامور شوہر کے دوش بدوش بھوپال میںرہ کر اصلاحی اور تعمیری مضامین لکھتی تھیں ۱۹۳۳ء میں آپ نے رسالہ بانو بھی جاری کیا جو خواتین کے محبوب اور پسندیدہ رسالہ کی حیثتیت سے عرصہ تک جاری رہا۔ ان دنوں آپ کراچی میںہیں… آ پ بھی اقبال کی گرویدہ و شیدا تھیں چنانچہ ایک ملاقات کے دورا ن آپ نے بتایا کہ غالباً ۱۹۱۸ ء میں جب علامہ اقبال کا جواب شکوہ شائع ہو چکا تھا تو اس کے ایک بندپر میں نے اعتراض کرتے ہوئے علامہ کو توجہ دلائی تھی میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب علامہ نے نہ صرف میرے خط کاجواب عنایت فرمایا بلکہ زیر بحث بند میںبھی تبدیلی کر دی۔ اس واقعہ سے میرے دل میں علامہ کی عقیدت و عظمت دوچند ہو گئی ۔ اس واقعہ کو انہوںنے اپنے ایک مضمون بعنوان شاعر ملت میں بھی لکھا ہے جو یکتا امروہوی کی مرتبہ کتاب ’’اقبال … خواتین کی نظروں میں‘‘ شامل ہے خاتون ارشد لکھتی ہیں : جب جواب شکوہ ابتداً اخبارات میںشائع ہوا تھا تواس کا ایک بند یہ تھا: قیس منت کش تنہائی صحرا نہ رہے شہر کی کھائے ہوا بادیہ پیما نہ رہے یہ تو دیوانہ ہے جنگل میں رہے یا نہ رہے یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلیٰ نہ رہے شوق تحریر مضامیںمیںگھلی جاتی ہے بیٹھ کر پردہ میں بے پردہ ہوئی جاتی ہے می نے ا س بند کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحب کو نہایت مودبانہ خط لکھا جناب والا رخ لیلیٰ کا بے حجاب ہونا یقینا قابل اعتراض ہے لیکن اس کا انشاء پردازی میںحصہ لینا۔ مضمون نگاری کرنا بھی کیا آپ جائز نہیںرکھتے۔ اگر عورت کے تحریر مضامین کو آپ بے حجابی تصور کرتے ہیں تو عہد رسالت کی ان خواتین کے متعلق آپ کی کیارائے ہے جن سے آئمہ کرام نے حدیثوں کا درس حاصل کیا تھا۔ اور اسلام کی بہتر سی مقدس مستورات ایسی گزری ہیں کہ جنہوںنے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور غلط یا صحیح استدلال پیش کیے تھے۔ میرا خیال یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس پر توجہ بھی نہ کریں گے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے نہایت ہی اخلاق آمیز مختصر جواب بھیجا جس سے معلوم ہوا کہ انہوںنے اس بند کے آخری شعر کو تبدیل کر دیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کی اعلیٰ تہذیب اور انصاف پسندی کا ثبوت ہے۔ چنانچہ جب ڈاکٹر صاحب کی نظمیں بانگ درا کے نام سے کتابی صورت میںشائع ہوئیں ۱؎ اقبال نامہ۔ جلد اول۔ صفحہ ۲۵۴ ۲؎ افسوس کہ ۱۹۷۴ء میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ تو اس میں یہ آخری شعر نکال کر بجائے اس کے دوسرا شعر درج کر دیا گیا اب مطبوعہ صورت میںکہیں بھی وہ سابقہ شعر : شوق تحریر مضامین میں گھلی جاتی ہے بیٹھ کر پردہ میں بے پردہ ہوئی جاتی ہے موجود نہیں ۱؎۔ بانگ درا ۲؎ میں یہ شعر اقبال نے ردو بدل کے بعد اس طرح کر دیا ہے: گلہ جور نہ ہو شکوہ بیداد نہ ہو عشق آزاد ہے کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو ۳؎ اس ایک واقعہ سے جہاں ایک طرف اقبال کی وسعت نظر کشادہ قلبی اپنے سے چھوٹوں کے اعتراضات کے ٹھنڈے دل سے سننے کے بعد خود اصلاحی کی اعلیٰ روایت کا پتہ چلتا ہے۔ وہاں اس حقیقت کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ بھوپال کے اہل قلم اقبا ل سے قلبی ربط و تعلق رکھتے تھے اور ان کی شاعری ان کے فلسفہ اور ان کے افکار و خیالات سے بھرپور استفادہ بھی کر رہے تھے۔ مولانا شاہ اسد الرحمن قدسی بھوپالی… اسی دور کے ایک صوفی پاک باز اور عالم باعمل ہیں جن سے اقبال کی خط و کتابت رہی۔ قدسی صاحب کی ساری عمر عبادت و ریاضت میں بسر ہوئی ہے۔ نظم و نثر دونوں پر قوت تامہ آپ کو حاصل ہے۔ آپ کے ارادت مندوں کا وسیع حلقہ بھوپال میں آج بھی موجود ہے۔ آزادی کے بعد آپ پاکستان تشریف لے آئے اور ان دنوں بھون (ضلع جہلم) میں آپ کا آستانہ فیوض و برکات کا وسیلہ بنا ہوا ہے ۔ شاعری کے دو مجموعے ’’آیات قدسی‘‘ اور ’’نغمات‘‘ کے علاوہ سلوک و طریقت پر آپ کی سات کتابیں الحبیب (۱۹۱۵ئ) ’’سترویں نامہ‘‘ (۱۹۱۵ئ) ’’نامہ قدسی‘‘ ’’اطمینان قلب‘ ‘ ’’کشکول قلندری‘‘ ’’الکلام ‘‘ اور ’’حفظ البحر ‘‘ لاہور لکھنو اور دہلی سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کتاب کی تکمیل کے سلسلے میں جب میں نے آپ سے رابطہ قائم کیا تو آپ نے ازرہ شفقت اقبال کا ایک مختصر سا کارڈ جو ہجرت کے دوران محفوظ رہ گیا تھا مجھے عطا فرما دیا جس کا عکس پیش خدمت ہے۔ ۱؎ اقبال خواتین کی نظر میں صفحہ ۸۰۔۸۱ ۲؎ پہلا ایڈیشن ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔ ۳؎ بانگ درا۔ صفحہ ۲۲۸۔ اس غیر مطبوعہ تحریر سے جہاں اقبال کے قدسی صاحب سے ربط و تعلق کا علم ہوتا ہے وہیں ان کے صوفیانہ مزاج اور مسلک قلندری کا بھی پتہ چلتا ہے۔ قدسی صاحب نے اپنی ذاتی یادداشتوں سے اقبال کے متعلق چند نہایت دلچسپ اور اچھوتے واقعات بھی ارسال فرما دیے جن کا اردو دنیا کو شاید ہی علم ہو۔ یہ تمام واقعات آئندہ صفحات میں شامل ہیں۔ قدسی صاحب کے پاس اقبال کے بے شمار خطوط تھے جو ہجرت کے دوران ضائع ہو گئے۔ صرف یہی ایک خط جس کا عکس اوپر پیش کیا گیا ہے… اتفاق سے محفوظ رہ گیا ۔ ۱۹۲۰ء کے بعد ۱۹۲۷ء میں اقبال نے میر سید غلام بھیک نیرنگ کے نام اپنے ایک مکتوب میں جو کانفرنس کے لیے چندہ جمع کرنے کے بار ے میں انہیںلکھا ہے۔ اس میں بھوپال اور والی بھوپال کا تذکر ہ ملتا ہے جس سے ان کے تعلق خاطر کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو: ’’لاہور… ۲۴ جنوری ۱۹۲۷ء ڈیر میر صاحب…السلام علیکم …اگر کچھ کمی چندے میں رہ گئی ہو تو والی بھوپال سے مدد کی التجا کرنا بہتر ہو گا …محمد اقبال ۲؎‘‘۔ ۱؎ اقبال کو حضرت گل حسن شاہ قلندر سے دلی عقیدت تھی آپ حضرت غوث علی شاہ قلندر پانی پتی کے خلیفہ و جانشین اور بڑے عارف کامل بزرگ تھے۔ تذکرہ غوثیہ آپ کی مشہور مقبول تالیف ہے۔ ۲؎ اقبال نامہ جلد اول و صفحہ ۲۰۹ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے دیگر علمی و ادبی مرکزوں کی طرح ریاست بھوپال بھی علمی و ادبی سرگرمیوں کا ایک وسیع مرکز بن چکی تی۔ یہ اگرچہ حیدر آباد کے بعد دوسری بڑی اسلامی ریاست تھی لیکن ریاست کے حکمرانوں کی علم دوستی ادب نوازی اور خود حکمرانوں کے علم و ادب سے غیر معمولی شغف اور دلچسپی کے سبب اس کا ادبی مرتبہ کافی بلند اور دقیع تھا۔ اوریہ مرتبہ دوسری ریاستوں کے مقابلہ میں اس حد تک قابل قدر تھا کہ اقبال تک اسکے حکمراں سے مدد کی التجا کرنا مناسب سمجھتے تھے جیسا کہ اقتباس سے ظاہر ہے۔ اقبال اچھی طرح جانتے تھے کہ ریاست بھوپال نے ہمیشہ برصغیر کی مایہ ناز شخصیتوں کی ہر دور میں قدر دانی اور حوصلہ افزائی کو اپنا شعار بنائے رکھا ہے اور وقت پڑنے پر فراخ حوصلگی سے اہل علم کی مالی اعانت بھی کی ۔ چنانچہ بھوپال سے اقبال کی ذہنی وابستگی کے یہی رشتے آگے چل کر قریبی تعلق میں تبدیل ہو گئے اور انہیں نواب حمید اللہ خاں کی ذاتی دوستی اور قربت کا شرف حاصل ہو گیا۔ اسی سلسلے میں اقبال کے چار مطبوعہ خطوط کا مطالعہ بھی خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ جو اقبال نے قاضی تلمذ حسین کے نام تحریر کیے ہیں ۔ ان میں سے ایک خط میں واضح طور پر اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال کی اہل علم کی قدردانی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اورایک خط نے بھوپال کے قیام کے دوران لکھا ہے۔ یہ چار خطوط جو اب تک غیر مطبوعہ تھے ڈاکٹر محمود الٰہی صدر شعبہ اردو گورکھپور یونیورسٹی نے قاضی تلمذ حسین کے ایک عزیز محمد حامد علی سے حاصل کر کے نگار رام پور میں شائع کیے ہیں۔ قاضی صاحب کے بارے میں ڈاکٹر محمود الٰہی نے لکھا ہے: ’’حیدر آباد کے دارالترجمہ کو جن اساتذہ علم و فن کی خدمات حاصل تھیں ان میں قاضی تلمذ حسین کا نام سرفہرست ہے۔ قاضی صاحب گورکھپور کی خاک سے اٹھے اور پھر وہیں پیوند خاک ہوئ۔ ان کی ابتدائی تعلیم مشرقی نہج پر ہوئی لیکن انہوںنے جلد محسوس کر لیا کہ اس تعلیم سے وہ اس منزل تک نہیںپہنچ سکے جس میں ملک و قوم کی فلاح مضمر ہے ۔ اس یلے انہوںںے ایم اے او کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایم ۔ اے کی سند حاصل کی۔ قاضی صاحب نہ تو مغربیت کے دل دادہ تھے اور نہ مشرقیت کے اندھے مقلد وہ دونوں میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوںنے بڑی کامیابی کے ساتھ اسے برقرار رکھا بعض امور میںشبلی کے مخالف ہوتے ہوئے قاضی صاحب سیاسی مذہبی‘ اور تعلیمی تحریکات میں شبلی کے خوشہ چیں تھے اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں انہیں ایک ممتاز عہدہ قبو ل کرنا پڑا۔ شبلی کے خطوط میں قاضی صاحب کا ذکر کئی جگہ آیا ہے‘‘۔ اردو زبان و ادب کے سلسلے میں قاضی صاحب کے کارناموں کا تنقیدی جائزہ لینے کا یہ موقع نہیں… لسان العصر ریاض رضواں اور مراۃ المثنوی کا شمار قاضی صاحب کی ادبیات میں ہو گا۔ مثنوی مولانا روم پر ہندوستان میں اب تک جتنا کام ہوا ہے ان میں مراۃ المثنوی کو ہر لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ علامہ اقبا ل کو مولانا روم سے جیسا اور جتنا تعلق ہے اس کا علم اقبالیات کے مطاالعہ کرنے والوں کو اچھی طرح ہے۔ مراۃ المثنوی کی اشاعت کے بعد قاضی صاحب نے علامہ اقبال سے خط و کتابت کی تھی۔ علامہ اقبال نے قاضی صاحب کو جو خطوط لکھے تھے وہ قاضی صاحب کے ایک عزیز محمد حامد علی صاحب کے پاس محفوظ ہیں ۱؎۔ ۱؎ نگار۔ رامپور۔ اپریل ۱۹۶۳ء ۔ صفحہ ۲۹ اب ان خطوط کا متن ملاحظہ ہو: (۱) ’’لاہور… ۳ جنوری ۱۹۳۵ء جناب من…تسلیم آپ کا خط ابھی ملا ہے افسوس کہ میں ابھی تک علیل ہوںَ گو پہلے کی نسبت کسی قدر آواز بہتر ہے۔ مجھے پہلے یہ اندیشہ تھا کہ کتاب ۱؎ کی فروخت میں آ پ کو زیادہ کامیابی نہیں ہو گی۔ ہندوستان میں فارسی کا مذاق اب بہت کم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم یافتہ مسلمانوں میںعام طور پر مذہبی ذوق بھی مفقود ہے۔ بہاول پور کے نوجوان نواب اگرچہ خود فارسی تصانیف کا ذوق شاید نہیں رکھت تاہم قدردان ضرور ہیں۔ آپ ان کی خدمت میں ایک کتاب عمدہ جلد کرا کر بطور ہدیہ ارسال کریں۔ میں بھی کوشش کروں گا کہ ان کی توجہ آپ کی کتاب کی طرف مبذول ہو۔ افسوس کہ ان کے گرد و پیش اچھے آدمی نہیں ہیں لیکن ممکن ہے کہ عنقریب کوئی خوش گوار تبدیلی ان کے مصاحبین میں ہو جائے اگر ایسا ہو گیا تو ممکن ہے کہ بہتر نتیجہ ہو۔ اس کے علاوہ آپ سر راس مسعود صاحب کو بھوپال لکھیں۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال بھی اہل علم کے قدر داں ہیں۔ ان کی خدمت میں کتاب عمدہ جلد کروا کر بھیجیے۔ سید راس مسعود صاحب اور شعیب صاحب قریشی منسٹر بھوپال کی خدمت میں بھی ایک ایک نسخہ ارسال کیجیے۔ والسلام…محمد اقبال …لاہور ۲؎‘‘ (۲) ’’جناب من…السلام علیکم آ پ کا خط ابھی ملا ہے ۔ آپ اپنی کتاب نواب صاحب کی خدمت میں ارسال نہ کیجیے آتھ دس روز تک حج بیت اللہ کو جانے والے ہیں۔ ان کی واپسی تک انتظار کیجیے جوجلد ہو گی۔ یورپ جانے کا قصد نہیں ہے۔ محمد اقبال … لاہور ۱۷ جنوری ۱۹۳۵ء ۳؎ ‘‘ (۳) ’’بھوپال… ۸ مارچ ۱۹۳۶ء جناب قاضی صاحب … السلام علیکم میں ابھی تک علیل ہوں اوریہاں بھوپال میں برقی علا ج کے لیے مقیم ہوں۔ اس وقت بہاول پور کی ریاست ہندو مسلم مناقشات میں الجھی ہوئی ہے۔ ۱؎ مراد ہے مراۃ المثنوی۔ (ڈاکٹر محمود الٰہی) ۲؎ نگار۔ رامپور۔ اپریل ۱۹۶۳ء ۔ صفحہ ۲۹۔۳۰ موقع موزوں نہیں تاہم اگر مراۃ المثنوی وہاں بھیجنا چاہیں تو عرض یادداشتہ کرنل مقبول حسن قریشی ہوم ممبر ریاست کے نام بھیجیے میں نے ان کے نام ایک خط لکھا دیا ہے جو اسی لفافے میں بند ہے۔ خط بھی عرض داشت کے ہمراہ بھیجیے۔ والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘۔ (۴) ذیل کا خط اگرچہ اس کتاب سے متعلق نہیںلیکن ایک غیر مطبوعہ خط کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیز اس کے مطالعہ سے اقبا ل کی عام صحت اور مولانا رومیؒ سے متعلق ایک غلط اطلاع کی تردید کا بھی علم ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی شمولیت ضروری سمجھی گئی ہے ۔ لکھتے ہیں: ’’جناب من آپ کا لفافہ ابھی ملا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ میری صحت عامہ تو اچھی ہے مگر آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی ہے۔ میں نے کوئی مقالہ حضرت رومیؒ پر نہیں لکھا۔ آپ کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے۔ والسلام محمد اقبال ۲۷ جولائی ۱۹۳۶ء ۲؎‘‘۔ ۱۔۲؎ ماہنامہ نگار ۔ رام پور ۔ اپریل ۱۹۶۳ ء ۔ صفحہ ۳۰ ٭٭٭ اقبال اور نواب حمید اللہ خاں نواب سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی چوتھی اور آخری خاتون حکمران تھیں۔ ان کے تین صاحب زادے تھے نواب نصر اللہ خاں ولی عہد ریاست نواب کرنل حافظ عبید اللہ خاں اور نواب حمید اللہ خاں۔ نواب سلطان جہاں بیگم کے وہم و گماں میں بھی یہ بات نہ تھی کہ دو بیٹوں کی موجودگی میں نواب حمید اللہ خاں ریاست کے حکمراں ہو سکیں گے چنانچہ انہوںنے نواب حمید اللہ خااں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ مبذول فرمائی۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیجا جہاں سے انہوںنے بی اے پاس کر لیا اور قانون میں داخلہ لیا۔ لیکن بوجوہ تکمیل نہ کر سکے۔ بھوپال واپس آنے کے بعد ان کی والدہ نے یہ کوشش کی کہ وہ ایک اچھے سیاسی لیڈر مدبر اور بااثر شخصیت کی حیثیت سے ہندوستان میں اپنی جگہ بنا لیںگے۔ چنانچہ بھوپال آنے والی سیاسی شخصیتوں سے انہیں متعارف کرایا گیا۔ علمی مجالس کی صدارت انہیں سونپی گئی اور ان گنت تقریبات میں انہیں صداتی خطبات پڑھنے کیلیے مدعو کیا گیا۔ غالباً ۱۹۲۳ء میں جب رابندر ناتھ ٹیگور بھوپال آئے اور میوزیم ہال میں تقریبات میں انہیں صدارتی خطبات پڑھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ غالباً ۱۹۲۳ میں جب رابندر ناتھ ٹیگور بھوپال آئے اورم یوزیم ہال میں ایک تقریر کی تو اس جلسہ کے صدر بھی نواب حمید اللہ خاں تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب خواجہ کمال الدین جو لندن میںتبلیغ کا کام کرتے تھے بھوپال آئے اور جلسہ عام سے خطاب کیاتو اس کی صدارت بھی نواب حمید اللہ خاں نے فرمائی ۱؎۔ … جس زمانہ میں ان کی والدہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی چانسلر تھیں۔ انہوںنے یونیورسٹی کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم بھی شروع کی‘ متعدد شہروںکا دورہ کیا اور مختلف رئیسوں سے ملاقات کی جن میں نظام حیدر آبد بھی شامل تھے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تحقیقات کے سلسلے میں جو کمیٹی بنی تھی۔ اس میں بھی حمید اللہ خاں شامل تھے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب حکیم اجمل خااں اور ڈاکٹر انصاری بھوپال آ کر شاہی مہمان ہوئے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ مولانا محمد علی جوہر مولانا شوکت علی مولانا حسرت موہانی‘ سر آغا خاں‘ مسز سروجنی نائیڈو اور دیگر سیاسی لیڈروں کی آمد و رفت کا سلسلہ برابر جاری رہا تھا جن سے نواب حمید اللہ خاں نے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ ذاتی روابط بھی پیدا کر لیے۔ علماء و فضلا میں علامہ شبلی‘ مولوی عبدالحق خواجہ حسن نظامی علامہ سید سلیمان ندوی‘ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری… اور عطیہ فیضی کا بھی بھوپال سے ربط و تعلق تھا حمید اللہ خاں کو ان تمام شخصیتوں سے ملنے او ر تبادلہ خیال کرنے کے خصوصی مواقع حاصل تھے۔ ۱؎ نواب حمید اللہ خاں کے لیکچر اور خطبات صدارت کتابی صورت میں بھوپال کے سرکاری مطبع نے شائع کیے تھے جو اب نایاب ہیں۔ اس کے علاوہ حمید اللہ خاں بہت اچھے سپورٹس مین بھی تھے ۔ یوں تو انہیں ہاکی‘ کرکٹ اور ٹینس سے بھی دلچسپی تھی لیکن وہ پولو کے بہترین کھلاڑی تھے۔ جب ڈیوک آف ونڈسر نے پرنس آف ویلز کی حیثیت سے برطانوی ہند کا دور ہ کیا تو بھوپال میں حمید اللہ خاں سے پولو کا میچ کھیلا۔ کرکٹکے مشہور کھلاڑی سید وزیر علی کافی عرصہ بھوپال کی فوج سے وابستہ رہے۔ سابق نواب پٹودی ۱؎ بھی برابر بھوپال آتے رہتے تھے۔ غرض کہ حمید اللہ خاں سیاسی علمی اور ادبی میدانو ں اور کھلاڑیوں کے حلقوں میں یکساں مقبول ہو چکے تھے اور جب یکے بعد دیگرے ان کے دونوں بڑے بھائیوں کا انتقال ہو گیا تو نواب سلطان جہاں بیگم ۱۹۲۶ء میں اپنے لائق فرزند نواب حمید اللہ خاں کے حق میںدست بردار ہو گئیں اور زمام حکومت ان کے سپرد کر دی۔ نواب سلطان جہاں بیگم دستبرداری کے بعد تصنیف و تالیف اور یا د الٰہی میں مصروف ہو گئیں اور بالآخر ۱۹۳۰ء میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ نواب محمد حمید اللہ خاں عنان حکومت سنبھالتے ہی برصغیر کی سیاسی‘ سماجی او ر تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی سے حصہ لینے لگے۔ پہلے وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے چانسلر اور دو مرتبہ ایوا ن رئوسائے ہند کے چانسلر منتخب ہوئے پہلی اور دوسری گول میز کانفرنسوں میںشرکت کی۔ اب ان کے تعلقات کچھ اور وسیع ہو گئے تھے قائد اعظم گاندھی جی چوہدری خلیق الزماں‘ مولانا حسرت موہانی‘ سر فیروز خاں نون۔ اور دوسرے اکابر بھوپال آ کر ان سے ملاقات کرتے تھے کانگرس اور خلافت تحریک کے کئی ممتاز حضرات نواب صاحب کے ایما پر ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر فائز وہ گئے تھے۔ مولانا محمد علی کے داماد شعیب قریشی‘ نواب حمید اللہ خاں کے پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ شعیب قریشی نے ابتدا میں گاندھی جی کے رفیق اورینگ انڈیا کے ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ کچھ عرصہ پنڈت نہرو کے ساتھ انڈین نیشنل کانگرس کے سیکرٹری رہے ۔ بعدمیں تحریک خلافت سے وابستہ ہو گئے اور خلافت کے طبی وفد میں شامل ہو کر ترکی کا دورہ کیا۔ آپ کے علاوہ مشہور سیاسی رہنما ڈاکٹر نصاری جو نواب صاحب کے طبی مشیروں میں اور اکثر و بیشتر بھوپال آتے تھے ) کے اسسٹنٹ ڈاکٹر سید عبدالرحمن اور حسن محمد حیات بھی بھوپال آ گئے۔ اور ریاست بھوپال کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر سید عبدالرحمن جو عام طور پر ڈاکٹر رحمن کے نام سے مشہور ہوئے بعد میں علامہ اقبال کے نگراں معالج مقرر ہوئے۔ جس کی تفصیلات آئندہ صفحات میںملاحظہ فرمائیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوںنے نواب حمید اللہ خاں نہایت روشن خیال عالی دماغ بالغ نظر اور صاحب بصیرت حکمراں تھے انہوںنے اپنے اسلاف کی اعلیٰ روایات کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انہیں آگے بھی بڑھایا۔ انہوںنے ریاست کی علمی تعلیمی تہذیبی اور ثقافتی ترقی کے لیے بہت کچھ کیا۔ بلاشبہ ان کا دور حکومت ریاست بھوپال کے آخری فرمانروا کی حیثیت سے ایک یادگار دور ہے جو ۱۹۲۷ء سے شروع ہو کر ۱۹۴۹ء میں ختم ہو گیا جب برصغیر کی تقسیم یکے بعد ریاست بھوپال کا وجود ختم ہوا اور اسے ہند یونین میں ضم ہونا پڑا۔ لیکن ۲۲ سال کا یہ زمانہ اہم سیاسی سماجی تعلیمی اور ادبی اور فکری انقلابات کا زمانہ ہے۔ جس کے چند عوامل کو مستقب کا مورخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا مثلاً برصغیر میں برطانوی اقتدار کے خلاف آزادی کی کشمکش کانگرس اور مسلم لیگ کی عوامی حیثیت اور سیاسی سرگرمیاں تقری کی تحریک کا آغاز‘ ادب اور شاعری میں انقلابی رجحانات اور ان کے اثرات‘ مسلمانوں کی تعلیم نو کے لیے اقبال ک مفکر انہ رہنمائی اور نواب حمید اللہ خاں کی مسلم معاشرہ میں عزت و تکریم اور ان کی رہنمائی میں اسلام کی نشاۃ الثانیہ کی جدوجہد برصغیر کے سماجی اور اقتصادی اور معاشرتی ڈھانچے میںنمایاں تبدیلی وغیرہ۔ ۱؎ کچھ عرصہ بعد آ پ نواب حمید اللہ خاں کے داماد بھی بن گئے۔ اقبال بھی نواب حمید اللہ خاں کے مداحوں میں شامل تھے ۔ اور انہیں یہ علم تھا کہ نواب صاحب اپنی گوناگوں خصوصیات اور صفات کی بنا پر نہایت اعلیٰ مقام پرفائز ہیں اور ہندوتان کی تحریک آزادی میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیںَ اقبال اگرچہ خود عملی سیاست میں نمایاں حصہ نہیں لے رہے تھے لیکن حقیقتاً ان کی تمام ترمساعی مسلمانوں کی تنظیم اور اتحاد ملت کے لیے وقت تھیں اور وہ بساط بھر اپنا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ نواب حمید اللہ خاں سے اقبال کے ذاتی روابط کا اغاز کب ہوا۔ اس کا ۱۹۳۱ء سے پہلے ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ ان کے بارے میں خطوط اور آڑاء ضرو ر ملتی ہیں۔ جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ والی ریاست کے فکر و تدبر کے معترف اور دیگر والیان ریاست کے مقابلہ میں نواب حمید اللہ خاں کے سیاسی بصیرت ‘ بالغ نظری اور سوجھ بوجھ کے قائل تھے۔ چنانچہ نواب صاحب سے اقبال کی پہلی ملاقات کا دستاویزی ثبوت بھی ہمیں اقبال ہی کے ایک خط سے ہی ملتا ہے جو ۴ مئی ۱۹۳۱ء میں انہو ں نے نذیر نیازی کو لکھا۔ لیکن یہ سمجھنا کہ ۱۹۳۱ء میں ہی اقبال کانواب صٓحب سے پہلی بار ربط و تعلق قائم ہوا درست نہیں ہے کیونکہ ۱۹۳۱ء کی مشاورتی ملاقات تو دراصل گول میز کانفرنس کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ جس کے پس منظر میں تحریک آزادی بھی تھی… کانگرس کی مستحکم تنظیم بھی اس مسلمانوں کی شیرازہ بندی بھی مسلمانوں کے فکری اتحاد کے سلسلے میں اقبال کے واضح نظریات خطبہ الہ آباد اور نواب بھوپال کی سیاسی بصیرت وہ عوامل تھے جنہوںنے اس عہد کی ان دو عظیم شخصیتوں کو ذہنی اور سکری طور پر ایک دوسرے سے قریب اور وابستہ کر دیا تھا… اور یہ قربت و وابستگی یقینا ۱۹۳۱ء سے بہت پہلے کی ہے جس کے نتیجہ میں اقبال نے پہلی بار بھوپال جا کر نواب صاحب سے بالمشافہ ملاقات اور مشاورت کو ضروری سمجھا ۔ اقبال نے نذیر نیازی کو جو خط لکھا ہے اس کا اقتباس اور پس منظر اس استدلال کو مزید تقویت دیتا ہے …لکھتے ہیں: ’’لاہور… ۷ مئی ۱۹۳۱ء ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم میں آ پ کو خط لکھنے ہی والا تھا کہ آپ کا خط پہنچا۔ آپ کے بھائی کی علالت کا افسوس ہے۔ خدا تعالیٰ اسے صحت مرحمت فرمائے کتاب ۱؎ کے متعلق آپ نے جو کچھ لکھا ہے درست ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں غالباً میںنے بھی آپ کو اس سے پہلیے یہی لکھا تھا کہ کتابت ‘ طبات‘ کاغذ کمیشن وغیرہ منہا کر کے باقی روپیہ ادا کر دیا جائے۔ البتہ یہ ضروری ہے … (۱) اگر پہلے سے یہ بتا دیا جائے کہ خرچ کل کس قدر ہو گا (۲) کیا میں نے جو کمیشن لکھی تھی وہ انہیںمنظور ہے (۳) کتاب کے تیار ہونے پرروپیہ پیشگی ادا کرنا ہو گا ان تمام امور سے آگاہی کی جائے۔ نیز یہ بھی لکھیں کہ جامعہ کی طرف سے یہ معاہدہ کون کرے گا۔ تاکہ یہ تمام خط ۲؎ انہیں صاحب سے ہو۔ ۱؎ اقبال کے خطبات کا ترجمہ جامعہ ملیہ شائع کرنا چاہتی تھی۔ یہ استصواب اسی سلسلے میں کیا گیا ہے۔ ۲؎ ’’کتابت‘‘ کا لفظ سہواً رہ گیا ہے ۔(نذیر نیازی) میں پرسوں بھوپا ل جا رہا ہوں۔ دو چار روز وہاں قیام ہرے گا۔ اگر قومی سرمایہ مسلمان جمع کر سکیں تو میرا یہ اندازہ ہے کہ مسلمانوں میں ہندوئوں کی نسبت زیادہ مادہ قربانی اور اپنے حقوق کے لیے ایجی ٹیشن کرنے کی ہمت و جرات موجود ہے…والسلام محمد اقبال… لاہور ۱؎‘‘ اس خط کا پس منظر بیان کرتے ہوئے نذیر نیازی لکھتے ہیں: ’’… حضرت علامہ بھوپال جا رہے تھے ۔ اور تقریب وہی سیاسی گفت و شنید… مسلمانوں کے لیے یہ زمانہ واقعی ایسا تھا کہ انہیں اپنے حقوق یا دوسرے لفظوں میںملی تحفظ کے لیے مل کر آواز اٹھانی اور قلمے درمے‘ سخنے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے تھے۔ حضرت علامہ کی اس رائے سے بھی شاید کسی کو اختلاف نہیں ہو گا کہ مسلمانوں میں ہندوئوں کی نسبت قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس خوبی سے فائدہ کس نے اٹھا یا ہے‘‘۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق اقبال مولانا غلام رسول کی معیت میں ۹ مئی کو لاہور سے روانہ کر ۱۰ کو بھوپال پہنچے۔ جہاں نواب صاحب کے ندیم خاص اے ڈی سی اقبال حسین خاں بی اے ایل ایل بی اعلیٰ ریاستی افسران عمائد شہر اور شعیب قریشی مشیر المہام روبگاری خاص نے ان کا استقبال کیا اور انہیں سرکاری قیام گاہ گیسٹ ہائوس قصر راحت منزل ۲؎ میں ٹھہرایا ۔ اقبال کے پہلی بار بھوپال جانے نواب صاحب سے ملاقات کرنے اور جن امور پر دونوں کے درمیان تبادلہ خیالات ہوا ان کے بارے میں کسی کو آج تک علم نہیںتھا۔ لیکن عجب اتفاق ہے کہ تلاش و تجسس کے بعد اس ملاقات کے تفصیلات مجھے قدسی صاحب کی معرفت اقبال کی پیشوائی کرنے والے اس کے ہم نام اقبال حسین خاں ندیم خاص سے دستیاب ہو گئیں جن کا مطالعہ اقبال کے سلسلے میں اہم انکشافات کی حیثیت رکھتا ہے۔ تفصیلی حالات اقبال حسین خاں کی زبانی سنیے: بھوپال میں پہلی مرتبہ اقبال کے آنے کا سبب انگلستان اور ہندوستان کے مدبر جب لندن میں گول میز کانفرنس ک آس پاس بیٹھ کر ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے تو ہندوستان کے لیڈروں میں آپس میں بڑ گکر کے ساتھ اسی بات پر تبادلہ خیال کا آغاز ہوا کہ ہندوستان کیکیا کیا معاملات کس انداز میں اس میز پر کرھے جائیں اوری ہ کہ اس کوشش میں ہندوستان کو کس بڑی حد تک آزادی کی راہ پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ملک کے جو رہنما اس غور و خوص میں منہمک تھے ہزلیٹ ہائنس نواب حمید اللہ خاں فرمانروائے بھوپال بھی ان سے علیحدہ نہ تھے۔ نواب صاحب تدبر کے ایسے عالی مقام پر فائز تھے جس کا اندازہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ان کے سوانح حیات کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۶۷۔۶۸ ۲؎ قصر راحت منزل جو کا فوٹو شامل کتاب ہے بیرونی مہمانوں کے قیام کے لیے مخصوص تھی اور بطور گیسٹ ہائوس عرصہ تک استعمال ہوتی رہی۔ اب اس عمارت کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ کیونکہ نواب صاحب اس زمانہ میں چیمبر آف پرنسز کے چانلسر تھے۔ اس لیے ان کا دامن ہندوستان کے سیاسی حالات سے ایسا ہی وابستہ تھا جیسا مک کے دوسرے لیڈروں کا ۔ ہندوستان کا نقطہ نظر رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں پیش کرنے کے سلسلے میں صلاح و مشورہ کے لیے ملک کے بڑے بڑے رہنما مسٹر جناح قائد اعظم گاندھی جی مسز سروجنی نائیڈو۔ ڈاکٹر انصاری وغیرہ سب ہی بھوپال آئے علامہ اقبال بھی اسی سلسلے میں ۱۹۳۱ء میں دو مرتبہ بھوپال آئے۔ علامہ اقبال سے میری ملاقات اس وقت ہز ہائنس کے پرسنل سٹاف میں سے ایک اے ڈی سی یا ایک ندیم خا ص باری باری سے ایک ایک دن اے ڈی سی ان ویٹنگ کی ڈیوٹی انجام دیتا تھا اور ایک اے ڈی سی یا ندیم خاص گیٹ ڈیوٹی پر ہوتا تھا۔ یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ دونوں موقعوں پر میں ہی گیسٹ ڈیوٹی کے لیے نامزد کیا گیا اور ا س طرح مجھے علامہ کے قریب ہونے کا افتخار حاصل ہوا۔ پہلی مرتبہ علامہ اقبال دو دن بھوپال ۱؎ ٹہھرے جب گاڑی ریلوے سٹیشن پر اتری تو صبح کا وقت تھا میں پیشوائی کے لیے پہلے سے سٹیشن پر موجود تھا۔ مہر صاحب بھی علامہ کے ساتھ تھے۔ جب علامہ ریل سے اترے میں نے سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنا نام اور عہدہ بتایا۔ علامہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا خوب اور کچھ اپنائیت کی نظر سے مجھے دیکھا۔ میں نے مصافحہ میں بھی یہی اپنائیت محسوس کی۔ میں کیا بتائوں میرے دل کو کس قدر مسرت محسوس ہوئی۔ اس کے بعد علامہ مہر صاحب اورمیں سرکاری کار میں قصر راحت منزل احمد آباد کیلیے روانہ ہو گئے۔ علامہ اقبال سے میری گفتگو اور شعر و شاعر ی کا تذکرہ جب ہم لوگ کار میں اسٹیشن سے احمد آباد روانہ ہوئے تو راستہ میں علامہ اقبال بھوپال کے بابت مختلف باتیں دریافت کرتے رہے۔ اور اسی دوران میں یہ بھی فرمایا کہ بھئی ہمارے خیال سے تو کشمیر نواب صاحب بھوپال کو دے دی جائے اور بھوپال کے مہاراجہ کو کشمیر کو وہاں مسلمانوں کی کثرت ہے اوریہاں ہندوئوں کی کثرت۔ اس سے انداز ہوتا ہے کہ اس وقت بھی اقبال کے پیش نظر کیا کیا مصالح تھے اور وہ دو قومی نظریہ سے متعلق اپنے ذہن میں ہندوستان کا کیا نقشہ بنا رہے تھے۔ قصر راحت پہنچ کر مہمانوں نے تھوڑی دیر اپنے اپنے کمروں میں آرام کیا پھر ٹھیک ۸ بجے ناشتہ کی میز پر آ گئے اس وقت ہم تینوں ہی تھے ناشتہ شروع ہوا لیکن اس دوران علامہ جس شفقت سے مجھ سے گفتگو فرما رہے تھے اس سے مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا گویا مجھے عرصہ سے علامہ کی خدمت میں شرف نیاز حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کا اورم یرا ہم نام ہونا تھا ۱؎ اس قیام کی تصدیق علامہ اقبال کے ایک مکتوب بنام مولوی صالح محمد سے بھی ہوتی ہے۔ ۹ مئی ۱۹۳۱ء کو جب آپ بھوپال پہنچے اور ۱۹۳۱ء کو لاہور پہنچ کر یہ خط لکھا۔ ’’میں ابھی ابھی صبح بھوپال سے واپس آیا اورآپ کا خط ملا۔ ریاست بھوپال میں بھی نواب صاحب کی دعوت پر میں اسی مطلب کے واسطے گیا تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی اختلافات رفع کرنے کی کوشش کر کے ان کو ایک مرکز پر متحد کیا جائے معاملہ امید افزا ہے مگر افسوس ہے کہ چونکہ ہر روز قریباً دو بجے رات تک کام کرنا اور جاگنا پڑا میں وہیں بیمار ہو گیا۔ آج صبح واپس آیا ہوں‘‘ (اقبال نامہ جلد دوم صفحہ ۳۳۸۔۳۸۹) جیسا کہ میں نے شروع میں ہی محسوس کر لیا تھا۔ اور دوسری وجہ علامہ کی وسعت قلب اور اخلاق کریمانہ مجھے اس بات پر اتنا اعتماد ہے کہ بلا خوف و تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ علامہ سے ہر ملنے والا یہی خیال لے کر اٹھتا ہو گا کہ اقبا ل میرے خاص کرم فرما ہیں۔ اس کا راز وہی جذبہ اخوت ہے جس میں اقبال چور ہو رہے تھے اور جوان کے کلام کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتا ہے۔ باتیں کرتے کرتے علامہ نے مجھ سے پوچھا کچھ شعر و شاعری سے بھی دلچسپی ہے میں نے کہا کہ اتنی دلچسپی ضرور ہے کہ کبھی کبھی تک بندی کر لیتا ہوں۔ شاعر نہیں ہوں‘ اور نہ کوئی میرا استاد ہ۔ فرمایا استاد تو ہمارا بھی کوئی نہیں… نالہ پابند نے نہیں ہے سنائو… میں نے چھوٹی سی بحر کی ایک غزل پیش کی جو حسب ذیل ہے: دل بنا دل کا ایک راز بنا سامنے اک رہ نیاز بنا اک تجلی سے کر ہی دے مدہوش مجھ کو اک منکر نماز بنا تیرے وعدے پہ اضطراب مرا نغمہ خامشی کا ساز بنا سر قلم کر کے زیر پا رکھ دے کر کے سجدہ سر نیاز بنا چشم دل سے نہ چھپ سکے گا کوئی بس حقیقت کا اک مجاز بنا خون دل چشم تر سے بہہ نکلا کیوں نہ طور ادائے ناز بنا کر کے اقبال سمت منزل گم عشق کی راہ کچھ دراز بنا اس دوران میں علامہ کبھی خوب خوب داد فرما دیتے جس سے میرا دل بڑھتا رہا اور پڑھنے کا انداز بھی بدلتا رہا۔ آخر میں ارشاد ہوا کہ واہ بھائی کچھ اور سنائو میں نے ایک غزل اور پیش کی جس کو میں تقریباً بھول چکا ہوں صرف تین شعر یاد ہیں اور وہ حسب ذیل ہیں: کوئی تنما بھری نظر سے چھپے بھلا کیوں نقاب کیسا؟ ضیاء الفت اگر سلامت حجاب کیسا حجاب کیسا؟ نکل گئیں کیوں یہ بہکی باتیں‘ قدم مرے کیسے لڑکھڑائے؟ نسیم کوچہ سے کس کے آئی‘ بہک رہا ہے گلاب کیسا؟ کسی کی مست انکھڑیوں میں واعظ جھلک تلطف کی میں نے پائی تجھے مبارک تیری نصیحت میری خطا کا حساب کیسا؟ اس دوران اقبال میری طرف زیادہ متوجہ رہے اور آخری شعر کے پہلے مصرع کے بعد جب میں نے دوسرے مصرع کے دو لفظ تجھے مبارک کہے تو علامہ نے بڑی زور سے آہاہاہا کہا اور باقی الفاظ میرے کہنے سے پہلے خود ہی ادا فرما دیے۔ اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر تک ان پر ایک کیفیت سی طاری رہی پھر فرمایا کہ آپ نے اپنی غزل کے مطلع کے دونوں مروں میں ایک ہی بات ادا کی ہے غزل کا مطلع لکھیے۔ میں قلم نکال کر لکھنے پر تیار ہوا تو ارشاد ہوا: نگاہ ہے پردہ سوز میری نقاب کیسا حجاب کیسا؟ تمہاری ان پردہ بندیوں کا ملا ہے تم کو جواب کیسا میں خوشی کے مارے اچھل پڑا۔ اور کھڑے ہو کر ادب سے عرض کیا۔ علامہ جھے آ پ کی خدمت میں اب شرف شاگردی حاصل ہو گیاہے۔ علامہ نے مجھے بڑے پیار کی نظروں سے دیکھا اور مسکرا دیے اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ علامہ کی شفقت مجھ پر اور بڑھ گئی۔ نواب حمید اللہ خاں سے علامہ کی ملاقات اور نواب صاحب کے متعلق علامہ کے تاثرات اسی دن گیارہ بجے نواب حمید اللہ خاں سے علامہ کی ملاقات کا پروگرام تھا علامہ کو قصر راحت منزل سے قصر سلطانی لے گیا۔ نواب صاحب کو اطلاع پیشتر کی گئی اور علامہ آڈینس ہال میں نوا ب صٓحب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ میں اے ڈی سی روم میں علامہ کی واپسی کا منتظر رہا۔ ایک گھنٹہ یہ ملاقات جاری رہی۔ جب علامہ واپس آئے تو چہرہ سے تھکاوٹ کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ مسرور بھی تھے۔ ارشاد فرمایا میں نہیں سمجھتاتھا کہ ہندوستان کا ایک والی ریاست ایسا عالی دماغ بھی ہو سکتا ہے نواب صاحب قوم و ملک کی ایک قابل فخر ہستی ہیں۔ دوسری مرتبہ اقبال کی بھوپال آمد اقبال دوسر ی مرتبہ بھی اسی سلسلے میں بھوپال تشریف لائے۔ صبح ہی کا وقت تھا اور قاس وقت بھی مہر صاحب علامہ کے ساتھ تھے۔ اسٹیشن پر میں استقبال کے لیے موجود تھا۔ میرے سلام کا جواب دے کر علامہ نے بڑی شفقت سے مصافحہ کیا اور ذرا دیر تک میرے ہاتھ کو دبائے رہے اسی دن نواب صاحب سے ملاقات ہوئی اور دوسرے دن علامہ واپس تشریف لے گئے۔ علامہ کی فقیر دوستی اور قلندری جذبہ دوسری مرتبہ بھوپال آنے پر جب واپسی ہو رہی تھی اس وقت علامہ نے مجھ سے فرمایا آپ نے یہاں کے کسی بزرگ کا ذکر ہی نہیں کیا۔ میںنے کہا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ کو درویشو ں سے بھی لگائو ہے۔ فرمایا کہ واہ بھئی قلندر کے پاس اس کے سوا اور رکھا ہی کیا ہے اصل چیز تو یہی ہے اور باقی مصروفیات تو زندگی کے لوازم ہون کی وجہ سے دامن سے بندھی ہوئی ہیں۔ میں نے حضور عالی ۱؎ کا ذکر کیا تو اقبال کچھ چونک پڑے۔ معلو م ہوتا تھا جیسے وہ حضور کو پہلے ہی جانتے ہوں۔ کہا افسوس آپ نے ایسے وقت تذکرہ کیا کہ اسی وقت حاضری نہیںدے سکتا اگر زندگی ہے تو کسی وقت ضرورشرف نیاز حاصل کروں گا۔ اس کے بعد ہم لوگ اسٹیشن کے واسطے روانہ ہو گئے او میں نے علامہ کو ریل پر سوار کرا دیا۔ چلتے چلتے پھر علامہ مجھ پر ایک شفقت بھری نظر ڈال گئے‘‘۔ علامہ اقبال اسی سلسلے میں ۱۹۳۱ میں دو مرتبہ بھوپال آئے۔ مزید تحقیق کی راہیں کھول گیں … دوسری مرتبہ بھوپال جانے کا ثبوت اقبال کے کسی خط میں مجھے نہیںمل سکا۔ چنانچہ میں نے مولانا غلام رسول مہر کو لاہور خط لکھا کہ مئی ۱۹۳۱ مٰں اور پھر شاید ستمبر ۱۹۳۱ میں علامہ اقبال دوسری بار بھوپال تشریف لے گئے تھے اور سرکاری قیام گاہ راحت منز ل میں قیام کیا تھا۔ ۱؎ قدسی صاحب قبلہ کی جانب اشارا ہے جن کے حلقہ ارادت میں اقبال حسین خان بھی شامل ہیں۔ آپ ان کے ساتھ تھے جس کا تذکرہ نواب صاحب کے ندیم خاص اقبال حسین خا ں نے اپنے تحریری بیان میں کیا ہے۔ مئی ۱۹۳۱ کا تذکرہ تو مکتوبات اقبال مرتبہ نذیر نیازی میں صفحہ ۶۸ پر موجود ہے۔ دوسری بار بھوپال جانے کا واضح تذکرہ کہیںنہیں۔ البتہ ستمبر ۱۹۳۱ء میں وہ دہلی گئے ہیں اور فرنٹئیر میل سے بمبئی کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ وہ اسی سفر کے دوران بھوپا ل میں ٹھہرے ہوں گے جس کی تصدیق آپ کے گرامی نامہ سے ہی ہو سکے گی۔ چنانچہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے خط مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۶۷ء میں وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’حضرت علامہ مرحوم مئی میں یقینا بھوپال گئے تھے یہ بھی صحیح ہے کہ میں ساتھ تھا۔ اس زمانے میں زیادہ تر دو مسئلے پیش نظر تھے۔ اول مسلمانان ہند کے مطالبات ۔ دوم مسلمانان کشمیر کے متعلق بہتر سیاسی و ملکی حقوق کا انتظام۔ نواب حمید اللہ خاں مرحوم اور مہاراجہ ہری سنگھ والی کشمیر کے درمیان گہرے دوستانہ روابط تھے غالباً مہاراجہ نے نواب صاحب سے کہا تھا کہ کوئی صورت تصفیے کی پیدا کر دیجیے۔ انہی معاملات پر گفتو ہوتی رہی۔ جس حد تک مجھے یاد ہے دوسری مرتبہ علامہ ستمبر ۱۹۳۱ء میں بھوپال نہیں گئے تھے… بلکہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ میں ان کے ساتھ ولایت نہیں گیا تھا۔ کیونکہ وہ گول میز کانفرنس کے رکن کی حیثیت سے یہی مناسب سمجھتے تھے کہ حکومت کے انتظامات سفر قبول فرما لیں۔ چنانچہ وہ پی اینڈ و کمپنی کے جہاز میں جا رہے تھے‘ میں زیادہ ترآزاد فضا میں جانے کا خواہاں تھا۔ وہ مجھ سے کم و بیش ایک ہفتہ بیشتر چلے گئے تے۔ میں بعد میں بمبئی پہنچا تھا اور اطالوی جہاز جنیوا میں گیا تھا۔ میں نیپلز میں جہاز سے اترا اور پھر روم اور میلان ٹھہرتا ہوا پیرس جا پہنچا جہاں پر چند روز گزارے پھر لندن گیا البتہ وہاں حضرت علامہ کے ساتھ رہا ۔ لندن ہی میں حضرت اقبال کو اٹلی سے دعوت نامہ مل گیا۔ ار وہ اس شرط پر دعوت قبول کر چکے تھ کہ میں بھی ان کے ساتھ جائوں گا۔ مجھے منظوری کے بعد انہوںنے اطلاع دی اس وجہ سے ہسپانیہ دیکھنے کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔ علاوہ بریں موتمر عالم اسلامی کی طرف سے ہم دونوں کو دعوت نامہ مل گیا تھا اور اس سلسلے میں یروشلم جانا لازم تھا۔ بہرحال واپسی میں حضرت علامہ اقبال کے ساتھ رہا۔ چھ سات روز روم میں ٹھہرے پھر نیپلز ہوتے ہوئے برنڈسی سے اطالوی جہاز پر اسکندریہ پہنچے۔ وہاں سے قاہرہ گئے آٹھ روز تک وہاں گزارے پھر ٹرین کے ذریعہ یروشلم گئے۔ وہاں بھی موتمر کے اختتام تک ٹھہرے بعد ازاں پورٹ سعید سے اطالوی جہاز پر سوار ہو کر بمبئی آ گئے۔ ستمبر ۱۹۳۱ء میں بمبئی کا سفر یورپ کے لیے تھا۔ کشمیر کے سلسلے میں نواب صاحب مرحوم کی طرف سے ایک دعوت سفر یورپ سے واپسی کے بعد بھی آئی تھی۔ جب نواب صاحب دہلی میں تھے۔ حضرت علامہ تیار تھے مگر عزیزی جاوید کی علالت کے باعث جا نہ سکے اور میں تنہا دہلی گیا‘‘۔ اس وضاحت کے بعد میں نے اقبال حسین خاں سے ربط و تعلق قائم کرنے کی سعی و جہد کی لیک نان کی شدید علالت کے باعث مجھے اقبال کو دوسری بار بھوپال جانے کی صحیح تاریخ کی تصدیق نہ ہو سکی چنانچہ میں نے پھر مولانا غلام رسول مہر سے رجو ع کیا اور انہیں تفصیلی واقعات سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ ۱۹۳۱ء کے بعد یا اس سے پہلے اقبال کے بھوپال جانے سے پہلے کچھ اس بارے میں روشنی ڈال سکیں توشاید یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ میرے دوسرے عریضہ کے جواب میں مولانا مہر نے ازرہ شفقت جو وضاحت کی ہے اس سے کسی حد تک اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ اقبال اورنواب حمید اللہ خاں کی مئی ۱۹۳۱ء سے پہلے بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ خط کا اقتباس یہ ہے: ’’… یاد آتا ہ کہ ایک مرتبہ نواب حمید اللہ خاں مرحوم نے بعض مسلم اکابر کو بھوپال بلایا تھا اور مقصود یہی تھا کہ سیاسی امور کے متعلق ان کے درمیان نیز کانگرس و لیگ کے درمیان مفاہمت کرا دیں۔ یہاں سے سر شفیع مرحوم یقینا گئے تھے خیال ہوتا ہے کہ شاید علامہ مرحوم بھی گئے ہوں۔ لیکن یہ اس سفر سے پیشتر کا واقعہ ہونا چاہیے جس کا مجھے ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اب سوچتاہوں کہ تو کوئی ایسا آدمی ذہن میں نہیں آتا جو ان حالات سے واقف ہو اور حافظے کے مدھم سے نقوش میں تازگی پیدا کر سکے۔ ۱؎ میں جس سفر میں علامہ کے ساتھ تھا ا س میں دو ہی مسئلے تھے۔ اول مسلمانوں کے مطالبات کا مسئلہ دوم مسلمانان کشمیر کا مسئلہ ۔ نواب حمید اللہ خاں مرحوم کے ذاتی روابط کانگریسیوں سے بھی بہت گہرے تھے۔ اور ان کی خواہش تھی کہ کانگرس اور لیگ یا اس زمانے میں مسلم کانفرنس کے درمیان مفاہمت کرا دیں۔ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی نواب صاحب مرحوم کو مصالحت و مفاہمت کے لیے کہہ رکھا تھا۔ اس بارے میں بھی گفتگو ہوئی تھی۔ پھر یہ گفتگو دہلی میں ملاقات پر موقوف رکھی گئی تھی۔ نواب صاحب دہلی آئے تو اس سے پیشتر مجھے اطلاع دے دی تھی۔ کہ حضرت علامہ کو ساتھ لے کر دہلی پہنچوں لیکن وہ نہ جا سکے میں گیا اور تین چار رو زتک وہاں رہا۔ اور لوگ بھی اس سلسلے میں بلائے گئے تھے۔ ان میں صرف شعیب مرحوم نے گفتگو کی تھی۔ پھر نواب صاحب کشمیر آ گئے۔ ا س سلسلے میں بھی مجھے شعیب صاحب نے پہلے اطلاع دے دی تھی کہ ہمارا سیلون فلاں گاڑی کے ساتھ آئے گا۔ کسی کو اطلاع نہ ہو حضرت علامہ کو ساتھ لے کر اسٹیشن پر آ جانا۔ چنانچہ ہم گئے اورنواب صاحب سے مل کر واپس چلے آئے۔ اس زمانے میں نواب صاحب چیمبر آف پرنسز کے صد ر تھے اس لیے انہیں عام مفاہمت کرا دینے کا خاص خیال تھا‘‘۔ اسی خط میں مولانا غلام رسول مہر نے خود اپنے کئی بار بھوپال جانے کا تذکرہ کیا ہے جس سے اس دور کی عام سیاسی فضا۔ نواب حمید اللہ خاں کے اثر و رسوخ اور ہندوستان کے سیاسی رہنمائوں کے ان سے قریبی اور خصوصی روابط پر روشنی پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں: ۱؎ مولاناغلام رسول مہر نے راقم الحروف کے نام یکم ستمبر ۱۹۷۰ء کو ایک گرامی نامہ میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ علامہ اقبال سفر یورپ سے کوئی دو ہفتے پہلے نواب حمید اللہ خاں سے ملاقات کے لیے بھوپال تشریف لے گئے تھے۔ ’’… خود میں ۱۹۳۱ء می نیز اس کے بعد کئی مرتبہ بھوپال گیا مثلاً ایک مرتبہ بمبئی سے مولاناشوکت علی مرحوم نے بلو ا لیا۔ اس وقت بھی نواب صاب نے متعدد لیڈروں کو بلوا رکھا تھا۔ مثلاً تصدیق احمد خاں شروانی مرحوم مولانا شفیع دائودی مرحوم اس زمانے میں ہم احمد آبادمیں ٹھہرے تھے پھر ایک مرتبہ گیا و وہیں ٹھہرا۔ ایک مرتبہ جہاں سے چند ایسے آدمیوں کو لے کر گیا جو بھوپال میں آباد کاری کے خواہاں تھے۔ اس کا تفصیلی جائزہ آندہ صفحات میں شامل ہے۔ اور بہت بڑے قطعات سے لے کر کاشتکاری کرانا چاہتے تھے نیز کاشتکاروں کو لے جانے کے لیے تیار تھے۔ اس مرتبہ جہانگیر آباد میں قیا م کیاتھا۔پھر ۱۹۳۲ء میں غازی رئوف بے مرحوم سے ملنے کے لیے گیا۔ ا س مرتبہ بھی احمد آبادمیں ٹھہرا تھا شعیب صاحب سے تعلقات بہت گہرے تھے۔ اس لیے وہ بعض اوقات ضروری کاموں کے سلسلے میں بلوا لیتے تھے‘‘۔ گزشتہ صفحات میں ۱۹۳۱ء کے دوران اقبال کے بھوپال جانے کے بارے میں جن متقدر شخصیتوں نے اظہار خیال کیا ہے ان میں نذیر نیازی اقبال حسین خاں اور مولانا غلام رسول مہر قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ خود اقبال کے دو مکتوبات بنام نذیرنیازی اور مولوی محمد صالح ان کے سفر بھوپال کے سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ البتہ دوسری بار بھوپال جانے کا علم ہمیں صرف اقبال حسین خاں اور مولانا غلام رسو ل مہر نے تحریری بیانات سے ہوتاہے۔ کوئی اور شہادت سے تادم تحریر پر نہیں ہو سکی۔ دوسرے ایڈیشن کی تکمیل کے دوران خوش نصیبی سے اقبال کاا یک ایسا بیان روزنامہ انقلاب لاہور دستیاب ہوا جس ی نہ صرف بھوپال جانے کی غرض و غایت کا پہلی بار علم ہوا بلکہ اقبال حسین خاں اور مولانا غلام رسول مہر کے بیان کردہ بعض واقعات بھی مشتبہ ہوگئے۔ بھوپال کانفرنس پر اقبال کے اس بیان سے ایک قطعی نئی صورت حال سامنے آئی ہے اس لیے تحقیقی دیانت کا تقاضا ہے کہ گزشتہ صفحات میں اقبال حسین خاں اور مولانا غلام رسول مہر کے حوالہ سے جو کچھ لکھا گیا ہے اس کا از سر نو جائز ہ لیا جائے تاکہ واققعات کا صحیح پس منظر روشنی میں آ سکے۔ اقبال کا یہ بیان محمد رفیق افضل کی مرتبہ کتاب گفتار اقبال میں شامل ہے۔ اس کتاب میں جو مواد ترتیب دیا گیا ہے وہ کسی اور مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔ یہ سب کا سب لاہور کے دور وزناموں زمیندار اور انقلاب کی صرف ان جلدوں سے لیا گیا ہے جو ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ تقاریر بیانات مکاتیب کا یہ مجموعہ تاریخ وار ترتیب دیا گیا ہے ۔ سوائے آخر کی دو روئدادوں کے جن کا مواد بعد میں دستیاب ہوا۔ اس بیان کے سلسلے میں گفتار اقبال کے مقدمہ میں محمد رفیق افضل لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۱ء میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے مختلف الخیال حلقوں کو متحد کرنے کی جدوجہدمیں حصہ لیا۔ ۱۹۳۱ ء میں نواب بھوپال کی دعوت پر جداگانہ انتخاب اور مخلوط انتخاب کے حامی مسلمانوں کی ایک کانفرنس بھوپال میں ہوئی۔ دیگر راہنمائوں کے علاوہ علامہ اقبال نے بھی اس میں شرکت فرمائی۔ کانفرنس کے اندر مختلف فارمولے پیش ہوئے۔ آپ کو امید تھی کہ ان تجویزوں کی بنیاد پر ہونے والی مفاہمت کی صورت میں مسلمان متحد ہوکر ملک کی سیاسی ترقی اور نشوونما اور ارتقا میں حصہ لے سکیں گے… مخلوط انتخابات کے حامی بجائے ا س کے کہ مسلمناوں کا داخلی معاملہ سمجھتے وہ ان تجاویز کی منظوری سے پہلے گاندھی جی کے پاس لے گئے جس کی وجہ سے گفت و شنید کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا‘‘۔ ذیل میں اقبال کے تین بیانات جو دراصل بھوپال کانفرنس سے ہی تعلق رکھتے ہیں… اور دو مختلف تواریخ میں چھپے ہیں ملاحظہ ہوں: بھوپال کانفرنس پر بیان نواب بھوپال کی دعوت پر جداگانہ طریق انتخاب اور مخلوط طریق انتخاب کے حامی مسلم رہنمائوں کی ایک کانفرنس بھوپال میں ۱۰ مئی کو منعقد ہوئی ۔ کوشش یہ تھی کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے صورت حال کے تمام پہلوئوں کی چھان بین کی جائے۔ متعدد فارمولے تیار کیے گئے اور فیصلہ ہواکہ تمام ارکان ان فارمولوں کو اپنی اپنی جماعت کے سامنے پیش کریں دوسرا اجلاس یکم جون کو قرار پایا۔ ۱۲ مئی کو علامہ سر محمد اقبال سر محمد شفیع‘ مولانا شوکت علی اور مسٹر شروانی کے دستخطوں سے درج ذیل بیان شائع ہوا: ’’ہم ۰ ۱مئی کو بھوپال میں ایک غیر رسمی جلسہ میں جمع ہوئے تاکہ اختلافات کو مٹائیں جن کی بناپر مسلمان اس وقت دو سیاسی طبقوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ ہمارا مقصد ہندو مسلم سوال کے حل کرنے میں آسانیاں تقسیم پیدا کرنا تھا۔ ہماری متفقہ رائے ہے کہ اس منزل پر بحث و تمحیص کی تفصیلات شائع کرنا مفاد عامہ کے لیے اچھا ہنیں ہو گا۔ ہم خوشی سے بیا ن کرتے ہیں کہ طرفین کے درمیان انتہائی خوش گوار اور دوستانہ جذبات میں گفتگو ہوتی رہی دوران گفتگو یہ امر عیاں تھا کہ حاضرین میں سے ہر ایک کی یہی آرزو اور خواہش ہے کہ ایسے فیصلے پر پہنچ جائیں جو مسلمانوں کے اتحاد کا ذریعہ بن جائے اور انہیں اس قابل بنا دے کہ وہ متحد ہو کر ملک کی سیاسی ترقی اور نشوونما اور ارتقاء میں حصہ لے سکیں جون کا پہلا ہفتہ گفت و شنید کے لیے مقرر کیا گیا ہے امید کی جاتی ہے کہ اس وقت آخری اور تسلی بخش فیصلہ ہو جائے گا ۱؎۔ ‘‘ ٭٭٭ ۱۳ مئی کو سر محمد اقبال اور نواب محمد اسمعیل خاں بھوپال سے واپس آتے ہوئے دہلی سے گزرے ۔ ریلوے سٹیشن پر نمائندہ اسٹیٹسمین سے ایک ملاقات کے دوران انہوںنے فرمایا: ’’بھوپا ل کانفرنس کے متعلق اخبارات میں جو اطلاعات شائع ہوئی ہیں وہ اسصول اساسی کے اعتبار سے ادرست ہیں۔ لیکن ہم یہ ظاہر کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ بیان صحیح نہیں کہ ہم دونوںمولانا شوکت علی اور سر محمد شفیع کے ساتھ مل کر جداگانہ نیابت کے موید رہے اور ڈاکٹر انصاری اورمسٹر تصد ق احمد خاں شیروانی مخلوط نیابت کی حمایت پر اڑ ے رہے۔ ہم چاروں دہلی کی قراردادوں کے موید تھے۔ لیکن ہم مختلف جماعتوں میں منقسم ہو کر متضاد مقاصد کی خاطر جدوجہد نہیں کر رہے تھے۔ ۱؎ انقلاب: ۱۵ مئی ۱۹۳۱ء بحوالہ گفتار اقبال۔ صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹ جب واقعات کا سامنا ہوا تو ہمیں معلوم ہوا کہ دونوں فریقوں میں بہت تھوڑا اختلاف رائے ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جس طریق پر یہ کام شروع ہوا ہے۔ ا س طرح یہ خفیف اختلاف بھی جاتا رہے گا۔ ہم تفصیلات میں نہیں جا سکتے۔ البتہ ہم یہ ظاہر کردینا چاہتے ہیں کہ اتحاد المسلمین کی طرف تسلی بخش ترقی ہوئی ہے۔ اب گفت و شنید ایسے مرحلے پر پہنچ گئی تھی کہ ہم انفرادی حیثیت سے اسے جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ اس لیے ہمیں اپنی اپنی مجلس عاملہ کی طرف منظوری اور رہنمائی کے لیے رجوع کرنا پڑا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جب جون کے پہلے ہفتہ میں کانفرنس کا اجلاس دوبارہ ہو گا تو اس وقت تک کوئی ایسا اصول تیار ہو جائے گا جو سب مسلمانوں کو قبول ہو گا اور موجودہ خفیف اختلاف بھی معدوم ہو جائے گا ‘‘ ۱؎ بھوپال کانفرنس کے فیصلوں کے متعلق علامہ اقبال نے اپنے ایک بیان میں مورخہ ۱۵ مئی میں فرمایا: ’’شملہ سے ایسوشی ایٹڈ پریس کاایک پیغام ۲؎ بدیں مضمون شائع ہو ا ہے کہ ڈاکٹر انصاری اور مسٹر شعیب قریشی شملہ پہنچتے ہی گاندھی جی کے مکان پر گئے۔ اور انہین اطلاع دی کہ ہز ہائی نس والی بھوپال نے جن اصحاب کو مدعو کیا تھا انہوںنے ایک عارضی میثاق مرتب کر لیا ہے۔ اس پیغام میں بھی لکھا ہیکہ اس میثاق میں جو فارمولا پیش کیا گیاہے اس میں جداگانہ اور مخلوط انتخاب والوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ اور تقریباً دس سال تک نافذ رہے گا اور اس کے بعد ہر جگہ مخلوط انتخاب جاری کر دیا جائے گا۔ چونکہ میں بھی مدعو تھا۔ اس لیے میں یہ ظاہر کردینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر انساری اور مسٹر شعیب نے بھوپال کانفرنس کے غیر مباحث کو بمنزلہ عارضی میثاق پیش کیا ہے تو انہوں نے یقینا نہ صرف ان لوگوں کے ستھ جن کے ساتھ ساتھ انہوںنے گفت و شنید کی بلکہ تمام مسلم قوم کے ساتھ برائی کی میں اسے کامل طور پر واضح کرنا چاہتا ہوں۔ کہ عارضی میثاق کی کسی قسم کی کوئی چیز حاضرین جلسہ کے خیال میں بھی نہیںآتی تھی۔ اس جلسہ سے زیادہ کوئی کارروائی نہیں ہوئی کہ نام نہاد مسلم نیشنلسٹوں کو انتخاب کے متعلق آل انڈیا مسلم کانفرنس کے فیصلوں کے قریب لانے کے لیے بعض تجاویز پیش کی گئیں تاکہ یہ لوگ پھر کامل مسلم قوم میں شامل ہونے کے قابل ہو سکیں۔ جس نے جداگانہ انتخاب کے بدستور بحال رکھنے کا ایسا درست فیصلہ کیا ہے کہ جس میں کسی قسم کے مغالطہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ۱؎ انقلاب: ۱۷ مئی ۱۹۳۱ء بحوالہ گفتار اقبال صفحہ ۱۱۹۔۱۲۰ ۲؎ سہوکتابت ہے …’’بیان‘‘ ہونا چاہیے۔ اس جلسے میں ان تجاویز پر عملاً کوئی بحث نہیں کی گئی کیونکہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان تجاویز کے رد یا قبول کرنے کے لیے مختلف مسلم سیاسی جماعتوں کی مجالس عاملہ کے روبرو انہیں پیش کیا جائے۔ ایسی تجاویز کو گاندھی جی کے پاس بھاگے بھاگے لے جانے جن پر کسی قسم کی بحث نہیں ہوئی تھی اور انہیں عارضی میثاق کے نام سے تعبیر کرنے سے شبہ ہوتاہے کہ بھوپال کانفرنس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس کی کوئی حقیقت ہے تو مجھے کامل یقین ہے کہ بھوپال یا شملہ میں دوسراجلسہ کرنا نہ صرف مفید ہو گا بلکہ لازمی طورپرمسلمانان ہند کے مفاد کے لیے ضرر رساں ہو گا‘‘۔ ۱؎ اقبال کے مندرجہ بالا بیان سے جن حقائق کا پہلی بار انکشاف ہوتا ہے وہ یہ ہیں: ۱۔ بھوپال کے غیر رسمی اجلاس کوبھوپال کانفرنس کانام دیا گیا۔ ۲۔ ۱۲ مئی ۱۹۳۱ء کا بیان اگرچہ صرف علامہ اقبال سر محمد شفیع‘ مولانا شوکت علی اور تصدق احمد خاں شروانی کے دستخطوں سے پریس میں شائع ہوا لیکن ا س کانفرنس میں ان حضرات کے علاوہ ڈاکٹر انصاری نواب محمد اسمعیل خاں‘ شعیب قریشی اور نواب حمید اللہ خاں شریک تھے۔ ۳۔ اس کانفرنس کا سب سے بڑا مقصد مسلم اتحاد کو مستحکم کرنا اور جداگانہ اور مخلوط طریق انتخاب کے سلسلے میں کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنا تھا۔ ۴۔ اس بیان کی رو سے کانفرنس کا دوسرا اجلاس یکم جون ۱۹۳۱ء کو ہونا طے پایا تھا لیکن منعقد نہ ہو سکا۔ اب ان حقائق کا اقبال حسین خاں اور مولانا غلام رسول مہر کے بیان کردہ واقعات سے موازنہ کیجیے تو قطعی مختلف صورت حال سامنے آتی ہے۔ اقبال حسین خاں بیان کرتے ہیں : ’’ہندوستان کا نقطہ نظر رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں پیش کرنے کے سلسلے میں صلاح و مشورہ کے لیے ملک کے بڑے بڑے رہنما مسٹر جناح (قائد اعظم) گاندھی جی‘ مسز سروجنی نائڈو‘ ڈاکٹر انصاری وغیرہ سب ہی بھوپال آئے۔ علامہ اقبال بھی اسی سلسلے میں ۱۹۳۱ء میں دو مرتبہ بھوپال آئے‘‘َ آگے لکھتے ہیں: ’’پہلی مرتبہ علامہ اقبال دو دن بھوپال ٹھہرے۔ جب گاڑی ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو صبح کا وقت تھا۔ میں پیشوائی کے لیے پہلے سے سٹیش پر موجود تھا۔ مہر صاحب بھی علامہ کے ساتھ تھے‘‘۔ آگے چل کر کہتے ہیں: ۱؎ انقلاب: ۱۷ مئی ۱۹۳۱ء بحوالہ گفتار اقبال صفحہ ۱۲۰۔۱۲۱ ’’ اقبال دوسری مرتبہ بھی اسی سلسلے میں بھوپال تشریف لائے صبح ہی کا وقت تھا اور اس وقت بھی مہر صاحب علامہ کے ساتھ تھے‘‘۔ اب مولانا غلام رسول مہر کا بیان سنیے: ’’حضرت علامہ مرحوم مئی میں یقینا بھوپا ل گئے تھے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ میں ساتھ تھا۔ اس زمانے میں زیادہ تر مسئلے پیش نظر تھے۔ اول مسلمانان ہند کے مطالبات دوم مسلمانان کشمیر کے متعلق بہتر سیاسی و ملکی حقوق کا انتظام۔ نواب حمید اللہ خاں مرحوم اور مہاراجہ ہری سنگھ والی کشمیر کے درمیان گہرے دوستانہ روابط تھے غالباً مہاراجہ نے نواب صاحب سے کہا تھا کہ کوئی صورت تصفیے کی پیدا کر دیجیے۔ انہی معاملات پر گفتو ہوتی رہی۔ جس حد تک مجھے یاد ہے۔ دوسری مرتبہ علامہ ستمبر ۱۹۳۱ء میں بھوپال نہیں گئے تھے بلکہ گول میز کانفرنس میںشرکت کے لیے روانہ ہوئے تھے میں ان کے ساتھ ولایت نہیں گیا تھا‘‘۔ یہ اقتباس راقم الحروف کے نام مولانا مہر کے مکتوب مورخہ ۱۶ جنوری ۱۹۶۷ء کا ہے۔ اب ایک اور اقتباس ان کے مکتوب مورخہ یکم ستمبر ۱۹۷۰ء کا ملاحظہ ہو: ’’یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ نواب حمید اللہ خاں مرحوم نے بعض مسلم اکابر کو بھوپال بلایا تھا اور مقصودیہی تھا کہ سیاسی امور کے متعلق ان کے درمیان نیز کانگرس و لیگ کے درمیان مفاہمت کرا دیں۔ یہاں سے سر شفیع یقینا گئے تھے۔ خیال ہوتا ہے کہ شاید حضرت علامہ مرحو م بھی گئے ہوں لیکن اس سفر میں بیشتر کا واقعہ ہونا چاہیے جس میں مجھے ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اب سوچتا ہوں تو کوئی ایسا آدمی ذہن میں نہیں آتاجو ان حالات سے واقف ہو اور حافظے کے مدہم سے نقوش میں تازگی پیدا کر سکے‘‘۔ اسی مکتوب کے حاشیے میں انہوںنے اس امر کی تصدیق کی ہے: ’’علامہ اقبال سفر یورپ سے کوئی دو ہفتے پہلے نواب حمید اللہ خاں سے ملاقات کے لیے بھوپال گئے تھے‘‘۔ بھوپال کانفرنس پر اقبال کے بیان سے اقبال حسین خاں اور مولانا غلام رسول مہر کے بیانات کا موازنہ کییے تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ بھوپال کانفرنس کے بارے میں دونوں حضرات قطعی لاعلم تھے۔ اقبال حسین خاں اقبال کی بھوپال میں آمد کو رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے سلسلے میں صلاح و مشورہ قرار دیتے ہیں جبکہ مولانا مہر… اسے مسلمانان ہند کے مطالبات اورمسلمانان کشمیر کے متعلق بہتر سیاسی و ملکی حقوق کا انتظام تصور کرتے ہیں حالانکہ اقبال کے واضح بیان سے ان واقعات کی نفی ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی مشکوک ہو گیا ہے کہ مولانا مہر اقبال کے ہمراہ دوبارہ بھوپال گئے تھے جیسا کہ اقبال حسین خاں بیان کرتے ہیں۔ مولانا مہر اقبال کے ساتھ ایک بار بھوپال جانے کا اقرار کرتے ہیں۔ (بروئے خط ۱۶ جنوری ۱۹۶۷ئ) لیکن دوسری بار ابال کے بھوپا ل جانے کو شاید علامہ مرحوم بھی گئے ہوں۔ کہہ کر یہ اظہار فرماتے ہیں: ’’لیکن یہ اس سفر سے پیشتر کا واقعہ ہونا چاہیے۔ جس میں مجھے ہم رکابی کا شر ف حاصل ہوا تھا ۔ ‘‘اصل واقعا ت ان مختلف اور متضاد بیانات سے پیچیدہ ہو گئے ہیں ’’سر شفیع محمد مرحوم یقینا گئے تھے ‘‘ کا ٹکڑا نہایت معنی خیز ہے اور اسی عبارت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ۱۰ مئی ۱۹۳۱ء کی جس بھوپال کانفرنس میں سر شفیع اور دیگر اکابر شریک ہوئے تھے اس کانفرنس میں مولانا مہر لازماً اقبال کے ساتھ بھوپال نہیں گئے تھے ورنہ خود مولانا مہر یہ کیوں لکھتے کہ یہ اس سفر سے پیشتر کا واقعی ہونا چاہیے جس میں مجھے ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا تھا‘‘۔ بلاشبہ ۱۶۷ء اور ۱۹۷۰ء کے دونوں مکتوبات مہر میں کوئی بڑا وقفہ نہیں ہے پھر بھی یہ امر واضح ہے کہ مولانا مہر ۱۰ مئی ۱۹۳۱ء کو منعقدہ کانفرنس میں اقبال کے ہمراہ نہیں تھے۔ ۱۹۷۰ء کے مکتوب میںمولانا مہر کا یہ لکھنا کہ ستمبر ۱۹۳۱ء میں سفر یورپ سے کوئیدو ہفتے قبل نواب حمید اللہ خاں سے ملاقات کے لیے بھوپال تشریف لے گئے تھے۔ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ ا س سفر میں بھی اقبال کے ہمراہ نہیں گئے تھے۔ ان حالات میں یہی گمان کیا جا سکتا ہے ک مولانا مہر اقبال کے ہمراہ یا تو مئی ۱۹۳۱ء سے پہلے یا بعد کے کسی سفر میں گئے ہوں گے جس کا دستاویزی ثبوت شاید آئندہ کبھی بھوپال کانفرنس کے بیان کی طرح دستیاب ہو جائے۔ بصورت موجودہ اقبال حسین خاں اور خود مولانا مہر کے دونوں بیانات کی صداقت مشتبہ ہو گئی ہے اس سے قطع نظر کہ مولانا مہر اقبال کے ہمراہ کب بھوپال گئے تھے یہ بات مسلمہ ہے کہ وہ خود ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء کے دوران کئی بار بھوپال تشریف لے گئے تھے جیسا کہ ان کے یکم ستمبر ۱۹۷۰ء کے خط کے حسب ذیل اقتباس سے ظاہر ہے: ’’خود میں ۱۹۳۱ء میں نیز ا سکے بعد کئی مرتبہ بھوپال گیا۔ مثلاً ایک مرتبہ بمبئی سے مولانا شوکت علی مرحوم نے بلوایا۔ اس وقت بھی نواب صاحب نے متعد د لیڈروں کو بلوا رکھا تھا۔ مثلاً تصدق احمد خاں شروانی مرحوم مولانا شفیع دائودی مرحوم ا س زمانے میں ہم احمد آباد ۱؎ میں ٹھہرے پرھ ایک مرتبہ گیا تو وہیں ٹھہرا۔ ایک مرتبہ یہاںسے چند ایسے آدمیوں کو لے کر گیا جو بھوپال میں آباد کراری کے خواہاں تھے… پھر ۱۹۳۲ء میں غازی رئوف بے (مرحوم) سے ملنے کے لیے گیا تھا… شعیب صاحب سے تعلقات بہت گہرے تھے اس لیے وہ بعض اوقات ضروری کاموں کے سلسلے میں بلوا لیتے تھے‘‘۔ اسی سلسلے میں سید نذیر نیازی کے ایک خط کا حوالہ بھی پیش خدمت ہے جو اقبال اوربھوپال کے ربط و تعلق پر کسی قدر روشنی ڈالتا ہے۔ مولانا مہر اور نذیر نیازی کی شخصیتیں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ دونوں حضرات اقبال کے خصوصی اور نیاز مندوں میں شامل رہے ہیں اور ان کے بیشتر لمحے اقبال کی معیت اور رفاقت میں گزرے ہیں۔ یہ دونوںحضرات اقبال کے ہمیشہ قرب رہے اور انہیں اقبال سے استفادہ کے تمام مواقع نصیب تھے۔ لہٰذا یہ حضرات جو اقبال کے مزاج داں بھی تھے ۔ اقبال کے بارے میں جو کچھ اب تک لکھ چکے ہیں سند کی حیثیت رکھتاہے۔ میری خوش نصیبی کہ مجھے ان دونوں بزرگوں سے ا س کتاب کے سلسلے میں استفادہ کا موقع مل گیا ۔ دونوں حضرات نے کمال شفقت و مہر بانی سے مجھے بھوپال سے متعلق کچھ ایسی باتیں بتائیں جن کا علم کسی کو نہیںتھا چنانچہ نذیر نیازی صاحب نے میرے عریضہ کے جواب میں مختصراً جو باتیں لکھیں ہیں ان کا اقتباس حاضر خدمت ہے۔ یہ خط ۱۲ جنوری ۱۹۶۷ء کا ہے: ’’… اقبال کو نواب صاحب مرحوم سے جو ارادت تھی ا سکا اندازہ مکتوبات اور ضرب کلیم سے ہو گیا ہو گا۔ دراصل اقبال کو اسلام کے عہد ماضی کی ہر یادگار سے دلی تلعق تھا۔ اس کا حال کچھ بھی ہو وہ اس ماضی کی جھلک دیکھتے اور یوں ان کا ذہن اس کے اصل الاصول کی طرف منتقل ہو جاتا۔ یعنی حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی طرف جس نے تاریخ عالم کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اور انسان کے فکر و نظر میں بحیثیت انسان وہ انقلاب پیدا کیا جس سے ااس کا مستقبل وابستہ ہے۔ لہٰذا انہیں ان کی یادگاروں سے دلی محبت تھی اور ان کا جی چاہتا تھا کہ ان افسردہ چنگاریوں میں سے پھر سے زندگی کی وہ آگ بھڑک اٹھے جس میں روشنی سے کبھی دنیا جگمگا اٹھی تھی۔ ان کے کم نظر ناقدین بالخصوص خلیفہ عبدالحکیم مرحوم ان باتوں کو ان کی جاہ پرستی سے تعبیر کرتے اور نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اسی حال میں ماضی میں مستقبل کی تصویر دیکھ رہے ہیں۔ میں ٰہ سطریں لکھ رہ اہوں اور بھوپال دارالاقبال (جس کا اقبال بالآخر ختم ہو گیا) کی وہ شام میریسامنے ہے جب ۱۹۲۲ء میںجناب امین زبیری کے د ر دولت پر بیٹھا ہوا محلات شاہی کے درودیوار لکھ رہا تھا۔ یہ خیال کس قدر تکلیف دہ ہے کہ اس بھوپال کا نام صفحہ ہستی سے مٹ گیا جس نے انتہاء زوال اور محکومی عالم اسلام کے زوال اور محکومی کے باوجود ماضی سے اپنا رشتہ نہیں توڑا بمقابلہ آج کا عالم اسلامی ہے تو آزاد اور خود مختار لیکن ماضی سے بے تعلق‘‘۔ اقبال حسین خاں مولانا غلام رسول مہر اور نذیر نیازی کی ان تحریری شہادتوں س جہاں اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کے قریبی اور خصوصی روابط کی نشان دہی ہوتی ہے وہیں ان دو عظیم شخصیتوں کی زندگی کے کئی نئے گوشے بھی ہمارے سامنے آ جاتے ہیں اور یہ باور کرانے کے معقول وجوہ ہیں کہ نواب حمید اللہ خاں اقبال کی بڑی عزت کرتے تھے اور انہیں اکابر کی صف اول میں شمار کرتے ہوئے سیاسی مسائل اور خصوصاً مسلمانوں کے مطالبات کے سلسلے میں ان سے برابر مشورہ کرتے رہتے تھے۔ اروان کی ملاقاتیں بھوپال کے علاوہ دہلی میں بھی ہوتی تھیں۔ جہاں نواب صاحب چیمبر آف پرنسز کی صدارت کے لیے اکثر و بیشتر جاتے رہتے تھے۔ جیسا کہ مولانا مہر نے بھی لکھا ہے کہ ان تینوں حضرات کی تحریروں سے جو واقعات روشنی میں آئے ہیں گزشتہ چالیس سال کے عرسہ میں ان کا کسی کو علم نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کے ذاتی روابط اور تعلقات کی اصل و بنیاد کو تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ ورنہ چالیس سال کا رعصہ اتنا بڑا نہیںکہ اس دور کے واقعات و حقائق کا احاطہ ممکن نہ ہوتا۔ نواب حمید اللہ خاں سے اقبال کی پہلی ملاقات کا یہ تاثرجیسا کہ اقبال حسین خاں نے بیان کیا ہے ۔ یقینا گہری معنویت کا حامل ہے ان کا یہ کہنا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ ہندوستان کے ایک والی ریاست ایسا عالی دماغ بھی ہو سکتا ہے کہ نواب صاحب تو قوم کی ایک قابل فخر ہستی ہیں‘‘۔ اس بات کا غمز ہے کہ وہ پہلی ہی ملاقات میں نواب صاحب کے گرویدہ و شیدا ہو گئے تھے۔ یہ اظہار کسی معمولی شخصیت کا نہیں اقبال کا ہے جو خود اس عہد کے ایک بلند مرتبت شخصیت تھے۔ ان کی یہ برملا تعریف اس حقیقت کی ترجمانی بھی کرتی ہے کہ وہ حق گو اور حق پسند تھے اور نواب صاحب کی روشن خیالی اور عالی دماغی نے انہیں ذہنی طورپر ان کے قریب کر دیا تھا۔ عجیب بات یہ کہ اقبال ایک مرد قلندر تھے اور نواب حمید اللہ خاں ایک ریاست کے حکمراں۔ لیکن سیاست تاریخ اور تہذیب کے جن رشتوں نے دو متضاد شخصیتوں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر کے مصدقہ کلیوں کی نفی کی ہے انہیں میں اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کے ذاتی روابط بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ اقبا ل نے زندگی کے کسی دور میں کسی حکمراں یا جاگیر دار یا کسی بڑی شخصیت کا کبھی کوئی اثر قبول نہیںکیا۔ چہ جائیکہ ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کا حکمراں جس سے اقبال اس حد تک متاثر ہوئے کہ بے اختیار کہہ دیا۔ تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است دل تو بیند و اندیشہ تو می داند بات صرف اتنی ہے کہ ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کا جو سود اقبال کے سر میں تھااسی جنوں میں نواب حمید اللہ خاں صاحب بھی مبتلا تھے۔ اس لیے دونوں کے درمیان پہی ہی ملاقات کے دوران عظیم مقاصد کے حصول کے سلسلے میں ذہنی رشتہ قائم ہو گیا اور دونوں میں قریبی اورگہرے روابط پیدا ہو گئے۔ سچ پوچھیے تو یہی ہم آہنگی ادبی تاریخ کا ایک ایسا موڑ ہے جس کے اثرات اقبا ل نے بھی قبول کیے نواب حمید اللہ خاں نے بھی اور بھوپال کی ادبی فضا اعلیٰ تدبر سیاسی بصیرت اور مسلمانوں کے ایک رہنما کی حیثیت سے برصغیر کی سیاسی تاریخ میں نمایاں مقام پر فائز تھے۔ اور یہ فخر و منزلت اس دور کے کسی راجہ یا نواب کو نصیب نہ تھی۔ اقبال نے اسلامی ریاست کا جو تصور الہ آباد میں پیش کیا تھا وہ بظاہر تو اس خواب کی سی حیثیت رکھتا تھا اور اسے کانگریس اور خود مسلمان عام طور پر نظر انداز کر کے متحدہ قومیت کے تصور کو فروغ دینے کی سعی و جہد کر رہے تھے۔ سیاسی فضا نہایت الجھی ہوئی تھی۔ مسلمان ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان حالات میں نواب بھوپال کا دم غنیمت تھا جنہیں ہندوئوں اورمسلمانوں دونوں کا کامل اعتماد حاصل تھا اور جو تحریک آزادی میں مفاہمانہ کردار ادا کرنے کی تمام تر صلاحیتیں رکھتے تھے۔ اقبال ان حقائق سے آگاہ تھے چنانچہ نواب صاحب سے ملاقاتوں کے بعد وہ سمجھ چکے تھے کہ نواب بھوپال کے تعاون سے ملت اسلامیہ کا اتحاد اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے تمام امکانات موجود ہیں اور یہی وہ قدر مشترک تھی جس نے ان دو رہنمائوں کو ایک دوسرے کے قریب تر کر دیا جس کا سلسلہ آخر عمر تک قائم رہا۔ ۱۹۳۱ء ‘ ۱۹۳۲‘ اور ۱۹۳۳ء میں اقبال بیشتر بلا د اسلامیہ اور یورپی ملکوں کے سفر میں رہے اور ۱۹۳۴ء میں دفعتاً شدید بیمار پڑ گئے جس کا سلسلہ عرصہ تک جاری رہا۔ دراصل اقبال اپنی صحت و تندرستی پر بہت کم توجہ دیتے تھے۔ انہیں گلے کی تکلیف بہت پرانی تھی۔ اکثر زور زور سے کھنکارتے اور پھر نزلہ اور زکام میں مبتلا ہو جائتے لیکن ۱۹۳۴ء میں نقرس کی شکایت نے شدت اختیار کر لی تو عرصہ تک آپ نے دلی کے مشہور حکیم نابینا عبدالوہاب انصاری کا علاج کیا اور ا سعلاج معالجہ کے سلسلے میں نذیر نیازی کو اقبال کی ہر ممکن مدد کرتے رہے خطوط کے ذریعہ اقبال اپنا حال نذیر نیازی کو دلی بھیجتے وہ سارا حال حکیم نابینا کو جا جا کر سناتے۔ دوائیں حاصل کرتے اور بذریعہ پارسل لاہور روانہ کر دیتے۔ مکتوبات اقبال کے وہ خطوط جو ۱۹۳۴ء صفحۃ ۱۲۵ تا ۱۳۶ پر مشتمل ہیں۔ اقبال کی اسی علالت علاج و معالجہ ار کیفیت مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ اوائل ۱۹۳۵ء میں نواب بھوپال اور راس مسود کی خواہش پر پھر بھوپال آئے اور بجلی کے ذریعہ نقرس کا علاج شروع کرایا۔ علاج کے سلسلے میں وہ تین بار بھوپال آئے جس کی تفصیل یہ ہے: ۱۔ ۳۱ جنوری ۱۹۳۵ تا ۷ مارچ ۱۹۳۵ ۲۔ ۱۷ جولائی ۱۹۳۵ تا ۲۸ اگست ۱۹۳۵ ۳۔ ۲ مارچ ۱۹۳۶ تا ۸ اپریل ۱۹۳۶ء بھپوال میں ان کی آمد اور ان کے قیام کا تفصیلی حال آئندہ ابواب میں پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ قیام اگرچہ علاج کے سلسلے میں تھا لیکن اس کے علاوہ بھی دیگر اہم نتائج کا حامل تھا اور ان روابط کے استحکام کا سبب بھی جو اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کے درمیان راس مسعود کے بھوپال آنے کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ علاج کے سلسلے میں اقبال کے تین بار قیام بھوپال کی مدت اگرچہ تقریباً چار ماہ ہے لیکن سچ پوچھیے تو ریاست بھوپال راس مسعود اورنواب حمید اللہ خاں سے ان کی ذہنی فکری اورعملی وابستگی کی مدت تقریباً آٹھ سال پر محیط ہے۔ جس کی ابتدا بھوپال کے پہلے سفر ۹ مئی ۱۹۳۱ء سے ہوئی اور آخر دم وفات ۳۱ اپریل ۱۹۳۸ء تک قائم رہی۔ میں نے اس کتاب کے ذریعہ تاریخ کے ان گم شدہ نامعلوم اچھوتے اور بکھرے ہوئے واقعات کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ اقبال کی زندگی کے آخری دور کا احاطہ ہو جائے اور ان فراموش کردہ اوراق سے نئی نسل درس تپش حاصل کر سکے۔ ٭٭٭ بھوپال کا پہلا قیام (۳۱ جنوری تا ۷ مارچ ۱۹۳۵) (۳) ۱۹۳۴ء میں حکیم نابینا کے علاج سے اقبال کی عام صحت تو بحال ہو گئی لیکن گلے کی تکلیف میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی عرسہ میں ڈاکٹر لمعہ ۱؎ اور کئی احباب نے انہیںمشورہ دیا کہ وہ بھوپال جا کر بجلی کا علاج کرائیں بجلی کا علاج اس وقت جدید ترین اور کامیاب ترینعلاج ؤسمجھا جاتا تھا۔ اوربھوپال کے حمیدیہ اسپتال ۲؎ میں اس کی قیمتی مشینیںلگ چکی تھیں۔ ماہر ڈاکٹر موجود تھے جن میں ڈاکٹر عبدالباسط ریڈیالوجسٹ کانام نامی بطور خاص قابل ذکر ہے۔ جنہیں علامہ خصوصی معالج کا شرف حاصل ہوا۔ نومبر ۱۹۳۴ء میں نواب صاحب کی خواہش کے احترام میں جب راس مسعود بھوپال آ گئے تاور انہوںنے علی گڑھ کے ناتے نواب صاحب کے ایک شریک کار کی حیثیت سے وزارت تعلیم و صحت و امور عامہ کا قلمدان سنبھالا تو بھوپال کی علمی‘ ادبی اور تعلیمی سرگرمیوںمیں جان پڑ گئی۔ ۱؎ عباس علی خاں لمعہ اقبال کے عقیدت مندوں او رنیاز مندں میں سے تھے۔ ابال نامہ میں کئی خط ڈاکٹر لمعہ کے نام شامل ہیں یکم دسمبر ۱۹۳۴ء کے ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو: مکرمی بندہ تسلیم آپ کا گرامی نامہ مل گیا ہے۔ میری طبیعت الحمد اللہ اب اچھی ہے حکیم نابینا صاحب دہلی والے علاج کر رہے ہیں ضرور فرق ہے مگر عام گفتگو کرنے میں سخت فکلیف ہوتی ہے جناب کی گراں قدر رائے کا شکریہ۔ انشاء اللہ ضرور بھوپال جائوں گا اور بجلی کے علاج سے بھی استفادہ حاصل کروں گا۔ میں نے صحت کی مجبوریوں کے باعث ولایت جانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔ (اقبال نمہ جلد اول صفحۃ ۲۸۱۔۲۸۲‘‘ ۲؎ اس کا نام پہلے پرنس آف ویلز ہسپتال تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے حمیدیہ ہسپتال رکھا گیا۔ وسط شہر میں یہ وسیع و عریض ہسپتال قائم تھا جہاں جدید ترین ڈاکٹری علاج کی سہولتیں بھوپال کے عوام کو حاصل تھیں۔ ریاست بھوپال کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہاں انگریزی اور دیسی علاج مفت ہوتا تھا۔ خود شہر بھوپال میں حمیدیہ اسپتال کے علاوہ پانچ دوسرے انگریزی شفاخانے تین یونانی شفاخانے اور ایک خواتین کا اسپتال قائم تھے۔ یہ ان کی زدنگی کا آخری اور زریں دور تھا۔ حیدر آباد کی طویل ترین ملازمت کے بعد علی گڑھ کی وائس چانسلری کے زمانے میں انہوںنے جس خلوص لگن اور دیانت اور محنت سے اپنے آب و جد کی اس امانت کے لیے کام کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیںہے۔ اسی دور میں انہوںنے مادر علمی کو نہ صرف اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیا بلکہ ان کی بنیادوں کو بھی مالی اورفنی لحاظ سے مستحکم کر دیا۔ شبانہ روز جدوجہد کے نتیجہ میں ان کی صحت کا متاثر ہونا یقینی تھا۔ اس عالم میں بھی انہوںنے حوصلہ نہیںہارا لیکن جب سازشیوں نے ان کے تاریخ ساز اور عہد آفریں کارناموں کو نظر انداز کر کے انہیں دل برداشتہ کر دیا تو ہو مستعفی ہو گئے۔ چنانچہ نواب صاحب بھوپال نے جوعرصہ درا ز سے انہیں ریاست میں اعلیٰ عہدہ کی پیش کش کا منصوبہ رکھتے تھے ان کے مستعفی ہوتے ہی انہیں بھوپال آنے کی دعوت دی اکتوبر ۱۹۳۴ء میں وہ بھوپال گئے اورنواب صاحب سے تبادلہ خیالات کے بعد ریات کی خدمت پر تیار ہو گئے۔ اقبال اور راس مسعود کے تعلقات کی ابتدا ۱۹۲۹ء میں ریاست حیدر آباد میں ہوئی تھی۔ جب راس مسعود ناظم تعلیما ت تھے اور اقبال توسیعی لیکچرں کے سلسلے میں وہاں دوسری بار گئے۔ یہ روابط رفتہ رفتہ دوستی میں محبت سے تبدیل ہو گئے۔ پھر ۱۹۳۳ء میں اقبال راس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان کے سفر پر گئے جہاں یہ رشتے اور مستحکم ہو گئے۔ نومبر ۱۹۳۴ء میں بھوپال آنے کے بعد راس مسعود کو اقبال کی علالت کا علم ہو چکا تھا۔ دیگر نیاز مندوں کی طرح انہیں بھی اقبال کی علالت سے مسلسل پریشانی تھی۔ حمیدیہ اسپتال کے ماہر ڈاکٹروں سے مشورے کے بعد انہوںنے اقبال سے بھوپال آنے اور علاج کرانے پر اصرار کیا۔ نواب صاحب بھوپال بھی اقبال کی علالت سے فکر مند تھے۔ او ران کی خواہش تھی کہ اقبال بھوپال آ کر اپنا علاج کرا لیں۔ راس مسعود اور اقبال کے درمیان نومبر اور دسمبر ۱۹۳۴ء کے دوران مسلسل خط و کتابت ہوتی رہی۔ بالآخر اقبال نے بھوپا جانے کا قصد کر لیا۔ لیکن کوشش کے باوجود ۳۱ جنوری ۱۹۳۵ء سے پہلے بھوپال نہ پہنچ سکے۔ اگرچہ اس سے قبل بھوپال جانے کے بارے میں وہ سید نذیر نیازی کو مسلسل لکھتے رہے تھے جس کا تاریخ وار تذکرہ ہمیں مکتوبات اقبال میں ملتا ہے جو اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ نواب صاحب کی خواہش اور راس مسعود کے اصرار کے نتیجے میں انہوںنے بھوپال جا کر قیام کرنے اور علاج کرانے کا قصد کر لیا تھا۔ ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’لاہور… ۵ جنوری ۱۹۳۵ء ڈئر نیازی صاحب… السلام علیکم اس سے پہلے خط لکھ چکا ہوں یہ کارڈ اس امر کی اطلاع کے لیے لکھتا ہوں کہ آج سات روز کی دوا باقی ہے۔ حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کر دیں کہ حالت میں کوی خاص فرق نہیںہوا۔ آواز بدستور ہے شانوں کے درمیان رات کو درد ہوتا ہے جس سے نیند میں خلل واقع ہوتا ہے… میں یہاں سے اس ماہ کے آخر میں بھوپال جائوں گا آپ کو پہلے سے مطلع کر دوں گا تاکہ آپ دوا لے کر مجھے سٹیشن پر مل جائیں ۱؎‘‘ ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۴۰ ’’لاہور… ۶ جنوری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم …بھوپال انشاء اللہ جنوری کے اخیر تک آ جائوں گا۔ اس بارے میں آپ کو پھر خط لکھوں گا ۱؎‘‘۔ ’’لاہور …۹جنوری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم …میں غالباً ۲۹ جنوری کو بھوپال جائوں گا ۲؎‘‘۔ ’’لاہور … ۱۲ جنوری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم …بھوپال جاتے ہوئے ممکن ہوا تو ایک آدھ روز ٹھہر جائوں گا ۳؎‘‘۔ ’’لاہور …۱۷ جنوری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم …خالدہ ادیبہ خانم کے لکچر سننے کا میں خود مشتاق تھا۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ بہرحال میں ان سے انشاء اللہ ضرور ملوں گا یا بھوپال جاتے ہوئے یا وہاں سے آتے ہوئے ۴؎‘‘۔ ’’لاہور… ۳۰ جنوری ۵؎ ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم …بھوپال کے متعلق مفصل اطلاع دوں گا مگر ایک دو روز میں جو اطلاع وہاں سے آئے گی اگر اس کی رو سے لیکچر کی صدارت ممکن ہوئی تو اس سے بھی انکار نہیں بشرطیکہ اس امر کا لحاظ رکھا جائے کہ میں بولنے سے قاصر ہوں۔ یہی بات میں نے ڈاکٹر انصاری صاحب کو بھی لکھی تھی اور کوئی امر مانع نہ تھا۔ دہلی ٹھہر سکا تو افغان کونسل خانہ میں ہی ٹھہر جائوں گا۶؎‘‘۔ ۱؎ مکتوبات اقال صفحہ ۲۴۱ ۲؎ مکتوبات اقبال ۔ صٖحہ ۲۴۳ ۳؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۲۴۵ ۴؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۲۴۷ ۵۔ یہ خط دراصل ۲۳ جنوری ۱۹۳۵ء کا تحریر کردہ ہے جو مکتوبات اقبال میں سہو کتابت سے ۳۰ جنوری ۱۹۳۵ء شائع ہوا ہے خط کی تاریخ کا راقم الحروف نے باغ جناح میوزیم کراچی میں اقبال کے اصل خط سے موازنہ کر لیا ہے۔ ۶۔ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۵۰۔۲۵۱ ’’لاہور …۲۶ جنوری ۱۹۳۵ء ڈیر نیاز ی صاحب…السلام علیکم …میں ۲۹ جنوری کی شام کو یہاں سے روانہ ہو کر ۳۰ کی صبح کو دہلی پہنچو ں گا۔ فرنٹئر میل سے سفر کروں گا۔ جیسے کہ پہلے لکھ چکا ہوں کونسل خانے میں قیام کروں گا۔ افسوس کہ خالدہ خانم کے کسی لکچر کی صدارت کرنا ناممکن ہو گا۔ کیونکہ دہلی صرف ایک روز ٹھہرنے کا موقع ہو گا۔ باقی خیریت ہے وہ ابھی میرے پاس ہے۔ مزید دوا کے لیے اسٹیشن پر گفتگو ہو گی پھر آپ سے بھوپال (معرفت سر راس مسعود۔ ریاض منزل) ارسال کر دیں ۱؎‘‘ چنانچہ پروگرام کے مطابق اقبال ۲۹جنوری ۱۹۳۵ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ ۳۰ کو صبح دہلی پہنچے ۔ قیام زیادہ تر افغان کونسل خانے میں سردار صلاح الدین سلجوقی کے ساتھ رہا جو آپ کے دیرینہ عقیدت مندو میں سے تھے۔ شام کو آپ ڈاکٹر انصاری کی خواہش پر جامع مسجد تشیرف لے گئے اور خالدہ ادیبہ ۲؎ خانم کے ایک خطبے کی صدارت فرمائی اور رات کی گاڑی سے روانہ ہو کر ۳۱ جنوری ۱۹۳۵ ء کو بھوپال پہنچے۔ بھوپال پہنچنے پر راس مسعود ان کے پرسنل سیکرٹری ممنون حسن خاں اور نواب صاحب بھوپال کے ملٹری سیکرٹری کرنل اقبال محمد کاں سی آئی ای نے اسٹیشن پر ان کا استقبال کیا جس کی تفصیلی روداد ممنون حسن خاں کی زبانی سنیے۔ ’’… ڈاکٹر اقبال سے میری پہلی ملاقات ۱۹۳۵ء میں ہوئی۔ جب وہ سر راس مسعود کی دعوت پر بھوپال تشریف لائے تھے اس زمانے میں ان کی صحت اچھی نہیں تھی۔ گلے کی تکلیف کا اثر شروع ہو گیا تھا۔ سر راس مسعود نے انہیں بلانے کے لیے تار وغیرہ میرے ہی ذریعہ بھجوائے تھے۔ جس گاڑی سے علامہ اقبال بھوپال آ رہے تھے وہ رات کے وقت یہاں پہنچتی تھی انہیںلینے کے لیے میں اور سر راس اسٹیشن پر گئے تھے نواب صاحب نے ملٹری سیکرٹری کرنل اقبال محمد خاں کو بطور اپنے نمائندے کے بھیجا تھا حالانکہ وہ شاہی مہمان کی حیثیت سے تشریف نہیں لا رہے تھے۔ اسٹیشن پر ہم لوگ پنجاب میل کی آمد سے کچھ دیر پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔ مجے یاد ہے سر راس مسعود بڑی بے چینی سے اقبال کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کا منتظر ہو جب گاڑی آئی تو ایک صاحب افغانی ٹوپی شلوار اور پنجابی کوٹ میں ملبوس پلیٹ فارم پر اترے۔ سرراس کی نظر ان پرپڑی تو اس طرف تیزی سے آگے بڑھے ۔ اور ان کے منہ اس قر بوسے لیے کہ لوگ حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ میں ان کے پیچھے کھڑا عجیب نگاہوں سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ جلدی ہی سر راس مسعود میری طرف متوجہ ہوئے اور علامہ اقبال سے کہا اس لڑکے سے ملو یہ میرا سیکرٹری ہے اورتمہارے کلام کا عاشق ہے اسے تم سے زیادہ تمہارا کلام یاد ہے۔ میں فرط مسرت سے آگے بڑھا جھک کر سلام کیا اور انہوںنے مجھے گلے سے لگا لیا۔ ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۵۳ ۲۔ حضرت علامہ ادیب کے بجائے ہمیشہ ادیبہ ہی لکھتے تھے (نیازی) …اس کے بعد کرنل اقبا ل محمد خاں آگے بڑھے اور کہا نواب صاحب نے سلام کے بعدیہ کہلوایا ہے کہ آپ اور سر راس مسعود صاحب اجاز ت دیں تو شاہی مہمان خانے میں قیام کا انتظام کیا جائے۔ آپ کے وہاں قیام سے نواب صاحب کو بے حد خوشی ہو گی۔ علامہ نے مسکراتے ہوئے نواب صاحب کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ میں تو اس وقت اپنے دوست سے ملنے آیا ہوں۔ نواب صاحب سے ضرور ملوں گا۔ ان کو میرا سلام اور شکریہ پہنچا دیجیے گا۔ علامہ اقبال کے پاس بہت مختصر سامان تھا جو سر رااس کی گاڑی کے پیچھے ہی آ گیا۔ سامان اٹھانے والی گاڑی اگرچہ آئی تھی لیکن اس کی ضرورت نہیں پڑی اور وہ خالی واپس گئی …علامہ اقبال کا قیام ریاض منزل میں ہوا۔ یہ مکان بھوپال کے مدشہور تالاب بڑے تال کے کنارے ہے۔ بھوپال کا یہمقام بڑا حسین اور دل فریب ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس سر زمین کے لیے قدرت کایہ ایک حسین عطیہ ہے۔ اس مکان کے بالائی حصے میں سر راس مسعود نے ایک کمرہ بنوایاتھا۔ اس میں انہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر اقبال نے اپنی نظم نگاہ تخلیق کی تھی۔ ہم لوگ جیسے ہی ریاض منزل پہنچے بیگم مسعود نے علامہ کا خیر مقدم کیا۔ علامہ اقبال ان سے بہت خلوص ارو محبت کے ساتھ ملے۔ …چونکہ سر راس مسعود کے کہنے پر نواب صاحب نے مجھے خاص طور پر ڈاکتڑ صاحب کی پیشی میں مقرر کر دیا تھا۔ ار میری دفتر کی حاضری معاف فرما دی گئی تھی۔ اس لیے صبح سے میں بجائے سر راس مسعود کے سیکرٹری ہونے کے اقبال کا خادم ہو کر کام کرنے لگا تھا۔ سر راس نے علامہ کو بتا دیاتھا کہ انہیں جس بات کی ضرورت ہو اس کی اطلاع ممنون حسن خاں کو دیں۔ یہ اس کی تعمیل کریں گے۔ راتکے کھانے کا انتظام سر راس مسعود نے خاص طور پر کیا تھا۔ علامہ نے سر راس مسعود کے ساتھ ہی ڈٓئننگ روم میں کھانا کھایا۔ کھانے کے درمیان ہی علامہ نے کہا کہ میرا کھانا سادہ ہونا چاہیے میں ڈائننگ روم میں کھانے کا عادی نہیںہوں اس لیے کہ اگر میں ڈائننگ روم میں نہ آ سکوں تو برا نہ مانیے گا۔ مجھے جس وقت بھوک لگے گی کھا لیوں گا۔ کھانے کے بعد میں علامہ اقبال کا کمرہ دیکھنے گیا تو مجھجے حیرت ہوئی کہ وہ بستر جو سر راس مسعود نے اپنے مہمان عزیز کے لیے بھچوایا تھا اسے ان کے ملازم ۱؎ نے اٹھا دیا تھا اور اس کی جگہ اقبال کا معمولی بستر لگا دیا تھا۔ میں نے جب دریافت کیا تو ملازم نے بتایا کہ اقبال ہمیشہ اپنے بستر پر ہی سوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اقبال کے بستر پر دو کتابیں رکھی ہوئی ہیں ایک مثنوی مولانا روم اور دوسری دیوان غالب۔ ملازم نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب سفر میں زیادہ تر ان کتابوں کو ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کے پلنگ کے قریب ایک پنجابی حقہ رکھا ہوا تھا۔ …دوسرے دن علامہ اقبال نے فرمایا کہ نواب صاحب سے ملنے کا ووقت لے لیا جائے چنانچہ ملنے کا وقت مقرر کردیا گیا۔ ٹھیک وقت پر سر راس علامہ کے ساتھ نواب صاحب سے ملنے کے لیی روانہ ہوا میں بھی بحیثیت خادم ان کے ساتھ تھا۔ ۱؎ علی بخش ۔ اقبال کا دیرینہ خادم جو سفر میں اکثر ان کے ساتھ رہتا تھا افسوس کہ گزشتہ دنوں علی بخش کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے پہلے ٹیلی فون کر دیا گیا تھا کہ قصر سلطانی کے لیے ہم لوگ فلاں راستے سے آ رہے ہیں۔ جیسے ہی گاڑی محل میںآ کر رکی تو لوگوںنے دیکھا کہ نواب صاحب نیچے کی سیڑھی پر علامہ سے ملنے کھڑے ہیں نواب صاحب بڑے احتارم اور محبت کے ساتھ علامہ سے ملے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں سے مل رہے ہیں۔ پھر نواب صاحب نے علامہ کو اپنے کمرے میں لے گئے۔ جہاں صرف ہم چار آدمی تھے میں سب سے پیچھے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ جلد ہی کافی کا دور چلا۔ نواب صاحب نے دریافت کیا کہ اقبال صاحب آپ کو کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ۃے جس پر علامہ نے کہا کسی قسم کی بھی تکلیف نہیں ۃے۔ نواب صاحب نے صحت کے بارے میں پوچھا تو علامہ نے بیماری او ر تمام علاج کی تفصیل بتائی۔ اس کے بعد گفتگو کا موضوع بدل گیا …نواب صاحب نے An Interpretation of Holy Quran in the light of modern philosophy کے بارے می دریافت کیا۔ علامہ اقبال نے بتایا کہ اس کتاب کا خاکہ میرے ذہن میں ہے کچھتیار بھی کیا ہے لیکن کچھ کتابیں بیرون ملک میں ہیں انہیںدیکھ لیناچاہتا ہوں مجھے آکسفورد اور کیمبرج میں Extension Lectureکے لے بلایا جا رہاہے۔ اگر میں وہاں گیا تو ان کتابوں کو دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ نواب صاحب نے کہا کہ اگر یہ کتاب مکمل ہو جائے تو ساری ملت اسلامیہ بلکہ ساری دنیا کے لوگ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اور آ نے مجھے جو تحفے دیے ہیں ان میں سے سب سے بڑا تحفہ ہوگا۔ اگر اس میں کچھ امداد کی ضرورت ہو تو جیسا کہ میں نے مسعود سے کہا ہے کہ ہر طرح کی امداد کے لیے تیار ہوں پھر دوسری باتوں کا ذکر چھڑ گیا اس کے بعد نواب صاحب سے علامہ اقبال نے جانے کے اجازت چاہی۔انہوںنے کہا چونکہ آپ مصروف ہیں اس لیے جانے کی اجازت دیجیے۔ نواب صاحب گاڑے تک پہنچانے آئے۔ سر راس مسعود اور علامہ اقبال کے پیچھے کی سیٹ پربیٹھ گئے اور میں آگے کی سیٹ پر بیٹھ گیا اور گاڑی ریاض منزل کے لیے روانہ ہوئی۔ …علامہ اقبال چونکہ بیمار تھے ا س لیے روزانہ کافی خطوط ایسے آتے تھے جن میں صحت کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا۔ اس لیے علامہ کے خطوط کے لیے سرراس مسعود کی طرح الگ ……… کیا جاتا تھا۔ تمام خطوط وہ اپنے پاس رکھتے تھے صبح کے وقت تمام خطوط علامہ کو سنا دیے جاتے تھے۔ اور پھر خطوط کے جو کچھ وہ جواب لکھاتے تھے۔ پہلے پنسل سے لکھے جاتے تھے پھر صاف کر کے یا ٹائپ کر کے ان کے پاس دستخط کے لیے بھیج دیے جاتے تھے۔ یہ خطوط ان نوجوانوں سے لے کر والیان ریاست تک کے ہوتے تھے۔ خصوصاً علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ کے خطوط زیادہ آتے تھے جو دریافت صحت کے بارے میں ہوا کرتے تھے۔ بیرون ملک سے بھی اسی سلسلے میں زیادہ تر خطوط آتے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو سے علامہ کی صحت کے بارے میں خبریںنشر ہوتی تھیں ۔ ۱؎‘‘ ۱؎ علامہ اقبا ل بھوپال میں صفحہ ۱۱ تا ۱۳ جن حضرات کو ریاست بھوپال کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ وسط ہند کی اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کے حکمرانوں میں علم و ادب سے جتنا گہرا شغف پایا جاتا تھا اتنا ہی فن تعمیر سے بھی انہیں خاص لگائو تھا جس کے نتیجے میں وہاں ایک نہیں متعدد بلند و بالا پر شکو اور قابل دید عمارتیں اورمحلات تعمیر کیے گئے۔ جو زبان حال سے مغل فن تعمیر کی نشان دہی کرتے ہیں۔ قصڑ سلطانی نواب بھوپال کی قیام گاہ شملہ پہاڑی کے محلات (جہاں نواب صاحب کے بھتیجے سعید الظفر خاں اوررشید الظفر خاں رہتے تھے) عید گاہ کوٹھی اور ملحقہ محلات صدر منزل شیش محل۔ موتی محل ہوا محل قصرراحت منزل (سرکاری مہمان خانہ) گوہر محل۔ ریاض منزل اور قدسیہ محل وغیرہ وہ چند مشہور عمارات ہیں جن کے درو دیوار آج بھی شاہانہ عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ ان شاہی عمارتوں کے مکین والیان ریاست کے عزیز و اقارب بھی تھے شہر کے عمائد اور معززین بھی اور اعلیٰ سرکاری عہدے دار اور افسر بھی۔ منصب اور مرتبہ کے لحاظ سے سرکاری عمارتیں وزرائے حکومت اور عہدے داران ریاست کے تصرف میں رہتی تھیں۔ جن کی تمام تر نگرانی اور دیکھ بھال ریاست کی ذمہ داری تھی۔ ’’ریاض منزل ۱؎‘‘… جہاں اقبال پہلی بار مقیم ہوئے شہر سے دور ایک وسیع اور پر شکوہ دو منزلہ عمارت تھی جو چہار جانب خوبصورت پہاڑیوں اور تالاب سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے عالی شان کمرے دالان کمپائونڈ اردگر د کے حسین منظر اور راس مسعود ایسے جاں نثار دوست کی قربت میں اقبال یہاں آ کر کافی مطمین ہوئے۔ ان کی عام صحت پر بھوپال کے حسین مناظر کا جس کا اکثر انہوں نے خطوں میں تذکرہ بھیکیا ہے بہت اچھا اثر پڑا۔ ان کا یہ قیام اگرچہ علاج کے سلسلے میں تھا لیکن علاج سے پہلے مریض کو آسودگی طمانیت قلب خوش گوار ماحول اور پرسکون فضا کی جتنی ضرورت ہتی تھی وہ سب کچھ بلکہ توقعات سے کچھ زیادہ ہی اقبال کو بھوپال آنے کے بعد قیام گاہ مسعود یعنی ریاض منزل میں میسر آ گئی۔ وہان صرف را س مسعود ہی ان کے ہمدرد فیق و جلسی نہ تھے بلکہ ان کی بیگم بھی تھیں۔ جو راس مسعود سے زیادہ اقبال کی خبر گیری اور دیکھ بھال کے لیے ہمہ وقت موجود تھیں۔ پھر راس مسعود کے اردگرد بھوپال کی مشہور و ممتاز علمی و ادبی شخصیتیں بھی تھیں جن کے لیے اقبا ل کی بھوپال میں آمد باعث فخر ومنزلت بھی تھی اور قربت و استفادہ کا ایک ذریعہ بھی… خود شاعر مشرق کے لیے بھی بھوپال کا یہ قیام آسودگی خاطر کا سبب بن گیا جس کے عہد آفریں نتائج برآمد ہوئے۔ اور جن پر تاریخ ادب ہمیشہ نازاں رہے گی۔ بھوپال پہنچنے کے فوراً بعد راس مسعود نے اقبال کے علاج معالجہ پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور حمیدیہ ہسپتال میں ان کے خصوصی طبی معائنہ کاسلسلہ شروع ہو گیا۔ حمیدیہ ہسپتال… بھوپال کا بہترین اسپتال تھا جہاں ہر قسم کی سہولتیں فراہم تھیں۔ ڈاکٹر سید عبدالرحمن جو بھوپال کے چیف میڈیکل آفیسر اور اسپتال کے نگراں تھے…اپنے فنی تجربہ اعلیٰ قابلیت اور مرہارنہ تشخیص کے لیے دور دور تک مشہور تھے۔ ڈاکٹر رحمن کے علاوہ حمیدیہ ہسپتال میں خان بہادر ڈاکٹر احمد بخش ڈاکٹر سلطان‘ ڈاکٹر بوس‘ ڈاکٹر عبدالباسط وغیرہ بھی تھے جو اپنی اپنی جگہ پر بہترین صلاحیت کار کے مالک تھے۔ ان کے علاوہ بھوپال میں افسر الطباء حکیم سید ضیاء الحسن اور حکیم سلطان محمود ایسے طبیب حاذق بھی تھے۔ چنانچہ ان سب حضرات نے مشاورت کے بعد تین دن تک مسلسل اقبال کا طبی معائنہ کیا تاکہ مرض اور علاج کی تشخیص سے قبل صحیح صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکے ۔ ۱؎ اس تاریخ سا زعمارت کی تصویر کتاب میں شامل ہے بالآخر طبی معائنہ کی رپورٹ کے بعد بجلی کا باقاعدہ علاج شروع ہو گیا ۔ چنانچہ نذیر نیازی نے بھوپال خط لکھ کر اقبال کی خیریت دریافت کی تو انہوںنے نہایت تسلی بخش جواب دیا۔ بھوپال سے یہ ان کا پہلا خط تھا جس میں انہوںنے طبی معائنہ کے علاوہ ڈاکٹر وں کی قابلیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے معالجین کی تعریف کی تھی اور اس میں علاج کی تفصیل بھی ہے اور بھوپال کے خوش گوار موسم کا حال بھی : ’’بھوپال …ریا ض منزل ۵فروری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب…السلام علیکم آپ کا خط کل ملا۔ الحمد اللہ خیریت ہے۔ کھانسی کی شکایت اب باقی نہیں رہی۔ بھوپال کا موسم نہایت عمدہ ہے۔ امید ہے اس کا اثر صحت پر بہت اچھا پڑے گا۔ طبی معائنہ کل ختم ہوا ۔یہاں کے ڈاکٹر نہایت ہوشیار ہیں اور ہسپتال بھی نہایت عمدہ ہے۔ طبی معائنہ سے جو نہایت مکمل تھا حکیم صاحب کی بہت سی باتوں کی تائید ہوئی بہرحال آج گیارہ بجے سے Ultra Violet Raysکا غسل شروع ہو گا۔ جو ابتدا میں صرف ۷ منٹ روزانہ ہو گا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے والسلام۔ محمد اقبال ۔ ۵ فروری ۱۹۳۵ء ۔ ۱؎‘‘ چار دن کے بعد ہی انہوںنے نیازی صاحب کو دوسرا خط لکھا۔ ’’ڈیر نیازی صاحب…السلام علیکم اس سے پہلے ایک خط لکھ چکا ہوں دوائی جو آپ نے ارسال کی تھی مل گئی ہے۔ امید ہے کہ آواز والی دوائی بھی لاہور پہنچ گئی ہوں گی ۔بجلی اور Ultra Violet Raysسے علاج شروع ہے۔ ایک آدھ ہفتہ کے بعد معلوم ہو گا کہ اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر صاحبان یقین دلاتے ہیں کہ ضرور ہو ا۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے ہر طرح خیریت ہے۔ بھوپال میں موسم نہایت عمدہ ہے فروری کے آخر تک بلکہ مارچ تک ایسا ہی رہے گا۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب اس وقت دہلی میں ۳؎ ہٰں ۷ ۱ فروری کو واپس آئیں گے والسلام۔ محمد اقبال ۔ بھوپال ۹ فروری ۱۹۳۵ئ۔ ۴؎‘‘ ان خطوط سے واضح طور پر مترشح ہے کہ وہ بھوپال کے موسم اور ڈاکٹروں کے علاج سے کافی مطمئن تھے۔ نواب صاحب ان دنوں پرنسز چیمبرس کے اجلاس کی صدارت کے لیے دہلی گئے ہوئے تھے۔ اس لیے اقبال کی ان سے دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی البتہ ۱۷ فروری کے بعد وہ راس مسعود کی معیت میں کئی بار نواب صاحب سے ملاقات کے لیے احمد آباد تشریف لے گئے۔ ۱؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۵۶ ۲؎ ماورا بنفشی شعاعوں۔ (نیازی) ۳۔ ’’میں‘‘ سہواً رہ گیا (نیازی) ۴؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۵۷ ا ن ملاقاتوں میں صحت و علا ج سے لے کر سیاسی مسائل تک ہر موضوع پر تبادلہ خیالات ہوا۔ ذاتی مسائل بھی زیر بحث آئے۔ باہمی دلچسپی کے دیگر امور بھی موضوع گفتگو رہے اور ا س طرح دیرینہ روابط کی تجدید ہوتی رہی سر راس مسعود اقبال سے بے حد محبت کرتے تھے۔ چنانچہ و ہ اس امر کے لیے کوشاں تھے کہ اقبال مالی پریشانیوں سے جلدنجات پا لیںَ چنانچہ مالی اعانت اور مستقل وظیفہ کی چند تجاویز انہوںنے علی حیدر عباسی‘ مشیر المہام صیغہ سیاسیہ کے توسط سے نواب صاحب کی خدمت میں پیش کیں۔ جن کی تصدیق خود عباسی صاحب نے جو ان دنوں کراچی میں ہیں ۱؎ مجھ سے گفتگو کے دوران فرمائی۔ راس مسعود کی ان مخلصانہ اور عقیدت مندانہ کوششوں کے نتائج جلد ہی سامنے آ گئے۔ اور وہ فخر و امتیاز جو ہندوستان کی کسی ریاست کو نصیب نہ ہو سکا۔ راس مسعود کی تنہا کوششوں سے ریاست بھوپال کے حصہ میں آ گیا۔ اور تاریخ کا امٹ باب بن گیا۔ اقبال ہندوستان گیر شہرت کے مالک تھے اور راس مسعود بھی ملک کی مقتدر ترین شخصیتوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان دونوں کے قرب اور وابستگی نے بھوپال میں چار چاند لگا دیے تھے ار اب جب کہ بلسلسہ علاج اقبال بھوپال میں مقیم تھے۔ ان کے ہزاروں بلکہ لاکھوں عقیدت مندوں اور نیاز مندوں کی نگاہیں بھوپال پر لگی تھیںَ گویا ہندوستان سمٹ کر ایک مرکز بن گیا تھا اور وہ مرکز تھا بھوپال جس کے روح رواں اقبال بھی تھے اور ان کے معزز میزبان راس مسعود اور نواب حمید اللہ خاں بھی جن کے طفیل اس ریاست کی اہمیت اور ادبی عظمت میں اضافہ ہوا تھا۔ اوروہ بھوپال سے دارالاقبال بن گیا تھا۔ اقبال کا علاج نہایت احتیاط اور توجہ سے جاری تھا۔ لیکن انہیں والدہ جاوید کی علالت سے بڑی تشویش تھی جو عرصہ سے بیمار تھیں۔ بھوپال میں رہتے ہوئے بھی اقبال جسم و جاں کے رشتوں کو منقطع نہیں کر سکتے تھے۔ وہ حکیم نابینا کے زیر علاج تھیں چنانچہ جو خطوط اپنی بیگم کی ادویہ کے لاہور بھیجنے کے سلسلے میں انہوںنے نذیر نیازی کو لکھے ہیں ان کے مطالعے سے کافی فکر مندی اور تردد کا اظہار ہوتا ہے۔ ۱۱فروری ۱۹۳۵ء کے دونوں خطوط دوا لاہور نہ پہنچے کے سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔ ’’بھوپال ۔ ریاض منزل ۱۱ فروری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم اس سے پہلے ایک اور خط لکھ چکا ہوں امید ہے پہنچا ہو گا۔ مجھے یا د آتاہے کہ آپ نے جاوید کی والدہ کے لیے دوا لے کر دہلی سے اسی روز روانہ کر دی تھی۔ جس روز میں دہلی سے بھوپال روانہ ہوا تھا۔ مگر بھائی صاحب کا ایک خط ۹ فروری کا لکھا ہوا آج مجھے بھوپال میں ملا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوا آج تک نہیں پہنچی۔ مہربانی کر کے فوراً ڈاک خانہ سے دریافت کریں کہ کیا معاملہ ہے۔ اور اگر ممکن ہو تو اور دوا لے کر جلد ارسال کر دیں۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے یہاں (کا) ۲؎ موسم بہت اچھا ہے۔ بجلی کا علاج شروع ہے۔ میں انشاء اللہ آخیر فروری تک واپس ہوں گا والسلام محمد اقبال اس خط کا جواب جلد دیں ۳؎ ‘‘۔ ۱؎ افسوس کہ ۱۹۷۴ء میں انتقال ہو گیا۔ ۲؎ ’’کا‘‘ شاید سہواً رہ گیا ہے (نیازی) میرے خیال میں ’’کا‘‘ کے بغیر بھی مفہوم ادا ہوتا ہے۔ ۳؎ مکتوبات اقبال صٖحہ ۲۵۸ ’’بھوپال …۱۱ فروری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب ۔ السلام علیکم میںنے آپ کو ابھی ایک خط دوا کے متعلق لکھا ہے ۔ بھائی صاحب کا خط لاہور سے آیا تھا کہ دوا مرسلہ نیازی صاحب ابھی تک نہیںپہنچی۔ مجھے اس سے بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ دوا ارسال کر دی ہے مگر اب معلوم ہوا کہ آپ کی مرسلہ دوا کا پارسل لاہور پہنچ گیا تھا۔ مگر وہاں سے ڈاک خانہ لاہور نے اسے بھوپال بھیج دیا۔ کیونکہ میں آتی دفعہ ڈاک خانہ کو ہدایت دے آیا تھا کہ میرے خطوط اور پارسل بھوپال بھیج دیے جائیں چونکہ آ پ نے یہ پارسل میرے پتے پر بھیجا تھا اس لیے ڈاک خانہ والوں نے وہیں اس کو بھوپال کر دیا۔لہٰذا آپ متردد نہ ہوں۔ میں یہ پارسل یہاں سے لاہور بھیج ہوں… والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘ بھوپال کی آب و ہوا نے اقبال کی صحت پر اچھا اثر ڈالا تھا بجلی کا علاج بھی وقفہ وقفہ سے ہو رہا تھا۔ ڈاکٹروں کی خصوصی توجہ سے اقبال بے حد مطمئن تھے۔ لیکن ڈاکٹروں کایہ کہنا تھا کہ وہ کم سے کم تین ماہ جم کر علاج کریں جو فی الوقت ممکن نہ تھا کیونکہ انہیں والدہ جاوید کی مسلسل علالت سے خاصی تشویش تھی۔ پھر بھی انہوںنے راس مسعود او رڈاکٹروں کے مشورہ پر عمل کیا اور بجلی کا علاج کا ایک کورس مکمل کرنا ضروری سمجھا۔ ابھی ان کا صرف چار مرتبہ بجلی سے علاج ہوا تھا جس سے آواز میں نسبتاً فرق محسوس ہونے لگا تھا۔ ڈاکٹروںنے مشورہ دیا تھا کہ کم سے کم ۸ سے ۱۰ مرتبہ بجلی کا علاج ہو جانے کے بعد اس کے مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ جس کا اظہار ۱۳ فروری ۱۹۳۵ء کے خط میں بھی انہوںنے کیا تھا۔ ’’بھوپال۔ ۱۳ فروری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم آ پ کو میں نے کل دو خط لکھے ہیں۔ امید ہے کہ پہنچے ہوں گے۔ دوا کا پارسل جو جاوید کی والدہ کے لیے تھا لاہور سے واپس ہو کر یہاں آ گیا تھا۔ اب میں نے وہاں بھیج دیا ہے بجلی کا علاج ابھی صرف چار دفعہ ہوا ہے ۔ کچھ خفیف سا فرق آواز میں ہے مگر زیادہ وضاحت سے آٹھ دس دفعہ کے علاج کے بعد معلوم ہو گا اس واسطے آ پ ابھی حکیم ساحب والی دوا ارسال نہ کریں۔ موسم بہت اچھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب صبح و شام دیکھتے ہیں اور بہت پر امید ہیں کہ مہنے کے اختتا م تک نمایاں فرق ہو گا۔ نبض کی حالت اور دل اور پھیپھڑوں کی حالت بہت عمدہ ہے میں انشاء اللہ اس ماہ کے آخر تک واپس ہوں گا۔ بشرطیکہ کوئی خاص امر مانع نہ ہوا … ۲؎ محمد اقبال ‘‘۔ ۱؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۲۵۹ ۲؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۲۶۰ اس خط میں بھی انہوںنے بھوپال کے موسم کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اپنی عام صحت کے بارے میں اطمینان کا اظہار کیا ہے او ر آخر ماہ فروری تک بھوپال میں قیام وعلاج کے قصد سے بھی نیازی صاحب کو اطلاع دی ہے۔ لیکن وہ آخر فروری کے بجائے ۷ مارچ ۱۹۳۵ ت بھوپال میں قیام پذیر رہے۔ اور راس مسعود اور بیگم راس مسعود کے علاوہ بھوپال کی کئی مشہور و ممتاز شخصیتوں کو بھی اقبال سے ملنے تبادلہ خیالات کرنے اور استفادہ کرنے کے مواقع نصیب ہو گئے ان شخصیتوں میں خصوصیت کے ساتھ ممنون حسن خاں پرسنل سیکرٹری سر راس مسعود مولانا ارشد تھانوی سید محمد یوسف قیصر بھوپالی ۔ مائل نقوی علی حیدر عباسی۔ مولوی شکر اللہ سہیل۔ قاضی ولی محمد۔ سہبا مجددی… ذکی وارثی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ …قیام ’’ریاض منزل‘ ‘ کی چند جھکیاں آپ کو ذیل کے واقعات میں بھی مل جائیں گی جن کو محفوظ کرنے کا سہرا مشہور اہل قلم فقیر سید وحید الدین مرحوم کے سر ہے ۔ انہوںنے روزگار فقیر جلد اول میں مختلف عنوانات کے تحت جس خلوص و محنت سے اقبال کی عام زندگی کے ان گنت مستند واقعات کو جمع کر کے شاعر مشرق کی جتنی صحیح اور سچی تصویر کشی کی ہے اس کا علم ا س سے پہلے کسی کو نہیں تھا۔ فقیر سید وحید الدین کا یہ کارنامہ تاریخ ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس لیے کہ ان کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے ہی اقبال کی عظیم شخصیت کے خدوخال مکمل ہوتے ہیں۔ وہ آفاقی شاعر بے شک تھے لیکن وہ ایک انسان بھی تھے اور ان کی زندگی بھی عام انسانوں کی طرح دکھ سکھ رنج و راحت آسودگی و بے اطمینانی سے ہم کنار تھی… چنانچہ روزگار فقیر میں جو واقعات انہوںنے سید راس مسعود مرحوم کی بیگم ؤسے جو اب نواب زادہ راحت سعید چھتاری کی رفیقہ حیات ہیں براہ راس تحاصل کر کے شامل کتاب کیے ہیں ان کے اقتباسات سے ’’ریاض منزل‘‘ کے شب و روز کی جیتی جاگتی تصویریں ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔ اقبال پہلی بار علاج کے سلسلے میں ایک ماہ سات دن قیا م پذیررہے۔ ایک ماہ سات تن کا عرصہ معمولی عرصہ نہیں ہے۔ بلکہ اس عرصہ کو اقبال نے جاوداں کر دیا ہے۔ جس کا ثبوت یہ چند مستند واقعات بھی ہیں اور وہ یادگار نظمیں بھی جو ’’ریاض منزل‘‘ میں اقبال نے کہیں اور ’’ضرب کلیم‘‘ میں شامل ہوئیں۔ روزگار فقیر جلد اول میں بھوپال میں عنوان سے سید فقیر وحید الدین لکھتے ہیں: ’’… ڈاکٹر محمد اقبا ل اور راس مسعود کے دوستانہ روابط وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور مضبوط ہوتے چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی علالت نے جب طول کھینچا تو سر راس مسعود نے ان کے علاج معالجہ کا بھوپال ہی میں معقول انتظام کیا۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب کے گلے کی تکلیف بڑھ چکی تھی۔ اور ان کی آواز اتنی خفیف اور مدھم ہو چکی تھی کہ دوسروں کی سماعت تک بڑی مشک اور دشواری سے پہنچتی تھی‘‘۔ ۱؎ بھوپال میں ڈاکٹر صاحب کا زیادہ تر وقت سر راس مسعود کے ساتھ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال میں گزرتا بیگم راس مسعود بھی اس گفتگو میں حصہ لیتیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اکثر مغموم اور فکر مند پایا گیا اور یہ غم اور فکر اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے لیے ہوتی تھی۔ بڑے ہی پرسوز لہجہ میں اکثر و بیشتر ڈاکٹر صاحب یہ فقرہ دہراتے۔ ۱؎ روزگار فقیر ۔ (جلد اول) صٖحہ ۱۵۳ ’’قوم کا تاریک مستقبل خود اپنی ہی غلطیوں سے ایک مستقل حقیقت بنتا جا رہا ہے ۔ اور افرا د کی بے حسی دیکھ کر میری مایوسی بڑھتی جاتی ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب بسا اوقات رات کو دیر تک کوٹھی کے شہ نشین پر تنہا بیٹھے رہتے اور زار و قطار روتے رہتے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے اندر سوز غم کی بھٹی سلگ رہی ہے جو انہیں چین سے نہیں رہنے دیتی۔ ڈاکٹر جانسن جن کا ذکر اس کتاب میں پڑھنے والوں کو ملے گا۔ بھوپال میں آ کر ہی ڈاکٹر صاحب سیملے اور بہت سے مسائل پر تبادلہ خیال کیا ۱؎۔ …لیڈی راس مسعود جو شعر و ادب کا نہایت ہی پاکیز ہ ذوق رکھتی تھیں ڈاکٹر صاحب کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں ہر وقت مصروف رہتیں۔ راس مسعود اور ان کی بیگم دونوں میاں بیوی ڈاکٹر صاحب کے نہ صرف یہ کہ قدر شناس تھے بلکہ ان کی ذات سے عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ لیڈی مسعود ان گزرے ہوئے واقعات کا ذکر فرماتی ہیں تو ڈاکٹر صاحب کے اس فقرے کو اکثر دہراتی ہیں۔ انگریزی نے اپنی سلطنت کی بنیاد مسلمانوں کی ہڈیوں پر رکھی ہے ۔ ۲؎ شعر کا مفہوم …ڈاکٹر صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’بال جبریل‘‘ جب منظر عام پر آئی تو انہوںنے سر راس مسعود کو ایک جلد پیش کی اور کتاب پر اپنے دستخط ثبت فرما دیے۔ بیگم مسعود بھی اس وقت موجود تھیں۔ انہوںنے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ’’ڈاکٹر صاحب آپ کا کلام ان سے بہتر سمجھتی ہوں اور آپ کتاب ان کو عنایت فرما رہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب اس فقرے سے بہت محظوظ ہوئے اور دونوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں اپنا شعر سناتا ہوں تم میں سے جو کوئی اس کی زیادہ صحیح اور بہتر تشریح کرے گا وہی اس کتاب کا مستحق قرار پائے گا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ شعر پڑھا۔ یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا سر راس مسعود اور ان کی بیگم صاحبہ دونوںنے اپنے اپنے الفاظ میں اس شعر کا مفہوم بیان کیا لیکن وقت کی بات کہ بیگم راس مسعود کی شرح و ترجمانی زیادہ بہتر ارو شاعر کے مانی الضمیر سے قریب تر نکلی چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے بال جبریل کے سر ورق پر راس مسعودکے بجائے بیگم راس مسعود لکھ دیا اور کتاب ان کو دے دی ۳؎۔ محبت کی شادی …ایک دن بیگم راس مسعود اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان اس موضوع پر بحث چل نکلی کہ لڑکوںاور لڑکیوں کے نکاح و شادی کے دائرے میں آنے سے قبل فریقین کے مابین محبت و انس کی کسی نہ کسی حد تک جھلک اور آمیزش ضرور ہونی چاہیے ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر فرمایا: ۱۔ ۲؎ روزگار فقیر۔ (جلد اول ) صفحہ ۱۵۳۔۱۵۴ ۳؎ روزگار فقیر ۔ (جلد اول) صفحہ ۱۵۵ ’’شاد ی کا بنیادی مقصد صالح توانا اور خوش شکل اولاد پیدا کرنا ہے اور رومان کا اس میں دخل نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ بیگم راس مسعود نے کہا آج کل والدین لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اپنی پسند اورمرضی سے رشتوں کا جس طرح انتخاب کرتے ہیں اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ ڈٓکٹر صاحب نے جواب دیا عموماً ان تمام ضروری باتوں کو پیش نظر رکھ کر ہی والدین ۱؎ رشتے طے کرتے ہیں ۲؎۔ الہامی شاعری ڈاکٹر صاحب اس وقت شعر کہتے جب ان پر خاص کیفیت طاری ہوجاتی ۔ یہی سبب تھا کہ ان کے واردات قلبی کسی زحمت و تکلیف کے بغیر اشعارکے قالب میں ڈھل جاتے وہ جو فرمایا گیا ہے : شاعری جزویست از پیغمبری تو اقبال کی شاری اس مصرعہ کا صحیح مصداق ہے۔ ٹھیک یہی رائے بیگم راس مسعود کی بھی ہے ڈاکٹر صاحب نے ان کے یہہاں طویل قیام فرماتے تھے۔بیگم صاحبہ ان کی میزبانی اور خاطر مدارت میں لگی رہتیں۔ ڈاکٹر صاحب یکو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کی عادات مشاغل‘ اور رجحانات کے مطلعہ کے مواقع انہیں میسر آتے رہے ہیں۔ بیگم راس مسعود فرماتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی شعر گوئی کی کیفیت و حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے وجدان پر الہام کی بارش ہو رہی ہے۔ جب ایسا وقت آتا تو ڈاکٹر صاحب خلوت و تنہائی کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس فرماتے توہ ایسے میں کسی کو اپنے پاس بیٹھانا پسند نہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنے عزیز ترین دوست سے بھی بلا تکلف کہہ دیتے کہ بھائی اس وقت تو میں تنہائی چاہتا ہوں۔ ہاں کل کسی وقت آنا۔ پھر فرصت سے بیٹھ کر با ت چیت کریں گے۔ دوسرے دن صبح کو ڈاکٹر صاحب کے تکیہ کے نیچے سے جو کاغذ برآمد ہوتا وہ تازہ ترین شعروں سے مزین ہوتا ۳؎۔ مخلوط تعلیم صنف نازک کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ نظریہ کہ خواتین کاکام گھروں میں رہ کر نئی نسل کو تربیت دینا ہے۔ کہ اس طرح معاشرے میں اعتدال و سکون قائم رہ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوںمیں یوں کہہ سکتے ہں کہ ڈاکٹر صاحب عورت کو شمع انجمن نہیں چراغ خانہ دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے یورپ کی زندگی کی تھی کہ عورت نے وہاں جب گھریلو ذمہ داری تدبر منزل اور خانہ داری کو خیر باد کہا ہے ۔ یورپ کا معاشرہ تباہ و ابتر ہو کر رہ گیا ہے۔ اور گھریلو زندگیاں بے مزہ اور بے سکون ہو گئی ہیں ایک دن بیگم راس مسعود نے قدرے شکایت کے انداز میںڈاکٹر صاحب سے کہا کہ مرد خود تو تفریح کرنے اور دل بہلانے کے لیے رقص و سرود کی محفلوں اور کلب گھروں میں چلے جاتے ہیں۔ ۱؎ سہو کتابت سے رہ گیا ہے۔ ۲؎ روزگار فقیر (جلد اول) صٖحہ ۱۵۶ ۳؎ روزگار فقیر۔ (جلد اول) صفحہ ۱۵۸ لیکن بیچاری عورتوں کو چہار دیواری میں مقید رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نہات ہی متین لہجہ میں کہا۔ میں جو کچھ کہتا ہوں اس میں تمام تر خواتین کا ہی فائدہ ہے۔ سفر افغانستان سے واپسی پر ڈاکٹر صاحب سے مزید دریافت کیا گیا کہ جب قرآن کریم تمام انسانوں کو علم و آگہی حاصل کرنے کی ہدایت کرتاہے تو پھر لڑکوںاور لڑکیوں کی جدید تعلیمی سہولتوں پر کیوں قدغن لگائی جاتی ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کے جواب میں فرمایا بے شک قرآن کریم میں حصول علم پر بڑا زور دیا گیا ہے لیکن اس میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک مکتب میں مل جل کر تعلیم حاصل کریںَ پردہ اور مخلوط تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے خیالات بڑے واضح تھے۔ اور وہ اپنے اس موقف تھے بال برابر ہٹنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوںنے خود اپنی زندگی میں ا س کا عملی ثبوت دیا کہ اپنی بچی منیرہ کی تعلیم و تربیت کے لے بڑی کوشش اور جدوجہد کے بعد علی گڑھ سے ایک معلمہ بلوائی جس نے گھر میں رہ کر بچی کو تعلیم دی۔ ڈاکٹر صاحب منطقی اور فلسفیانہ انداز میں مردوں اور عورتوں کو ایسے مختلف خوش رنگ اور مہکتے پھولوں سے تعبیر کیا کرتے تھے کہ جن کو پروان چڑھانے کے لیے جداگانہ اقسام کی کھاد درکار ہوتی ہے۔ وہ زن و مرد کی ترقی نشوونما اور تعلیم و تربیت کے لیے جداگانہ میدان عمل کے قائل تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جسمانی طورپر بھی ایک دوسرے سے مختلف بنایا اور فرائض کے اعتبار سے بھی۔ فولاد اور پھول کی ڈالی سے ایک جیسا کام نہیںلیا جا سکتا ۱؎۔ چند اور دلچسپ واقعات ہمیں غلام السیدین کی کتاب آندھی میں چراغ میں مل جاتے ہیں جو ’’ریاض منزل‘‘ سے ہی تعلق رکھتے ہیں ملاحظہ ہو: ’’… بھوپال میں ابھی چند روز ان کے ساتھ ٹھہرنے ا شرف نصیب ہوا میں عمر بھر اسمیزبان عزیز کی مہمان نوازی کے لطف اور خلوص و محبت کے سلوک کو نہ بھولوں گا۔ اس زمانے میں ان کا اور لیڈی راس مسعود کا قیام ریاض منزل میں تھا۔ یہ وہ مکان ہے جس کے دل کش پر فضا منظر اور ماحول نے اقبال کے تغزل کو باوجود ان کی علالت کے از سر نو بیدار کر دیا تھا جہاں انہوںنے یہ اشعار لکھے تھے: اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاروں کی یہ بحر یہ فلک نیلگوں پہنائی سفر عروس قمر کا عماری شب میں طلوع مہر و سکوت سپہر بینائی سر راس مسعود اور لیڈی راس مسعود کی شفقت بھری میزبانی اب ایک حسین خواب معلوم ہوتی ہے۔ وہ مہمان کی پذیرائی پر اس حد درجہ اہتمام کرتے تھے کہ یہ زمانہ بعض لحاظ سے ان کی مجلسی اور خانگی زندگی کا بہترین زمانہ تھا۔ ذاتی افکار سے بہتر حد تک نجات پا کر ان کا دماغ بھوپا ل اور اہل بھوپال کی بہتری کی تدبیریں سوچنے میں مصروف رہتا تھا۔ اپنی علمی اور ادبی دلچسپیوں کی طرف بھی وہ زیادہ توجہ کر سکتے تھے۔ ایک روز صبح کے وقت کوئی کتاب لینے کے لیے میں ان کے کتب خانے کا دروازہ کھولا تو آٹھ د س پنڈت بڑی بڑی پگڑیاں باندھے ان کے گرد بیٹھے تھے۔ میں نے دریافت کیا سید صاحب یہ کیا ہو رہاہے معلوم ہوا کہ ان کی نگرانی میں سنسکرت کی بعض کتابوں کا ترجمہ اردو میں کیا جا رہا ہے۔ ۱؎ روزگار فقیر(جلد اول) صفحات ۱۶۴تا ۱۶۶ آٹھویں دن یہ سب ودوان اپنے اپنے ترجمے کر کے لائے ہیں اور مسعود صاحب ان سب کو پڑھوا کرسنتے اور ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی علمی اور ادبی دلچسپیاں غیر معمولی طورپر وسیع تھیں۔ حافظ ‘ میر‘ انیس‘ حالی‘ اقبال کا بہت سا کلام انہیںحفظ تھا۔ انگریزی اور فرانسیسی کے ہزاروں اچھے اچھے شعر ان کی زبان پر تھے۔ انیس کے بعض مرثیوں کا ترجمہ انہوںنے انگریزی نظم میں اس قابلیت سے کیا تھا کہ اہل زبان اس کی داد دیتے تھے۔ ان کی تحریر کردہ تقریر دونوں میںایک خاص شگفتگی اور جدت تھی۔ موسیقی اور مصوری دونوںمیں بہت عمدہ مذاق رکھتے تھے۔ اور مشرق و مغرب کی آرٹ کی تحریکوں سے باخبر تھے۔ ان آخری بے تکلفی کی ملاقاتوں میںان سے گھنٹوں باتیں ہوئیںَ ان کے دل میں کیا کیا منصوبے تھے۔ کتنے بڑے بڑے علمی اور ادبی کام کرنے کی امنگ تھی۔ خیالات میں ختنی بلندی اور وسعت تھی۔ دل میں ملک اور قوم کا کتنا درد تھا لوگوں سے کام لینے کی کتنی اچھی صلاحیت تھی ان سے گفتگو کر کے دل شیر ہو جاتا تھا۔ جس قوم میں ایسے انسان موجود ہوں اس کے مستقبل کی طرف سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔ ۱؎ ’’ان کی طبیعت سے فقر اور بے نیازی کا ایک خاص انداز تھا۔ جو صرف ان لوگوں کے حصے میں آتا تھا جو دراصل بڑ ہوتے ہیں۔ انہیںکبھی یہ فکر نہ ہوئی کہ دوسروں پر اپنی عظمت کا نقش قائم کریںاور فکر کیوں ہوتی؟ ہمالہ پہاڑ کبھی خود اپنی بلند کا اعلان نہیں کرتا۔ ان کو نہ سربلندوں سے انکسار تھا نہ خاکساروں سے سر بلدنی ہر شخص انسان ہونے کی حیثیت سے انسانی سلوک کا مستحق تھا۔ بلکہہ میں نے کبھی کبھی یہ دیکھا کہ وہ عام لوگوں سے زیادہ گرم جوشی اور آمادگی سے ملتے اور جن لوگوں کو دولت اورمنصب کی وجہ سے دنیا بڑا سمجھتی ہے ان سے ملنے میں تامل کرتے۔ انتقال سے کوئی دو سال پہلے جب وہ بھوپال میںمقیم تھے سر راس مسعود کے مقامید وست اور بیرونی عمائدین برابر ان کے ہاتھ آتے جاتے رہتے تھے۔ اور جب آٹے قدرتاً اقبال سے ملنے کی خواہش کرتے اقبال اکثر یہ کہتے کہ کیوں بھئی مسعوود کیا یہ ممکن ہے کہ ان کو کسی طرح ٹال دو۔ برخلاف اس کے جب وہ جمعہ کے روز جامع مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو وہاںاکثر معمولی حیثیت کے غریب مسلمانوں کو ساتھ لے آتے اور ان سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اورباتیں کرتے۔ خیر و خوبی برخواص آمد حرام دیدہ ام صدق و صفا اندر عوام ۲؎ اقبا ل کے انگریزی خطبات میں ایک چھوٹا سا معنی خیز جملہ ہے جو اس بارے میں اس کی بنیادی پوزیشن کو بہت خوبی کے ساتھ واضح کرتا ہے ۱؎ آندھی میں چراغ ‘پاکستانی ایڈیشن ۱۹۶۴ء صفحہ ۱۳۴ ۔ ۱۳۵ ۲؎ آندھی میں چراغ ۔ صفحہ ۱۴۳ اور افراد اور جماعتوں کے باہمی تعلقات کے لیے ایک صحیح بنیاد اور ایک صالح اصول کا تعینکرتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خودی کو قائم رکھنے کے لیے ہم جو کام بھی کریں اس میں ایک اصول کو پیش نظر رکھنا چاہیے یعنی اپنی خود ی کا بھی احترام کریں اور دوسروں کی خودی کا بھی۔ اپنی خودی کا احترام یہ ایک ایسا سر ہے جو اقبال کے کلام میں شروع سے آخر تک سنائی دیتا ہے۔ اس عقیدے کی روشنی میں اقبال نے انسان کے بلند مقام کو پہچانا۔ اسے ایک امید اور حوصلہ آفریں پیغام دیا اور ان راستوں کی جھلک دکھائی جو اس کو ہم دوش ثریا کر سکتے ہیں ۱؎۔ ریاض منزل… دولت کدہ راس مسعود کے قیام میں ایک واقعہ کا تذکرہ بھی خالی از دلچسپی نہ ہو گا پروفیسر رشید احمد صدیقی جو اقبال اور راس مسعودکے نیاز مند اور عقیدت کیش تھے بیان کرتے ہیں: ’’… مرحوم کو سید راس مسعود سے بڑی شیفتگی تھی۔ اسی طرح سر راس کو بھی اقبال سے بڑا شغف تھا۔ لیڈی مسسعود کو اقبال مرحوم سے جوعقیدت تھی اور جس طور پر ڈاکتر صاحب کی صحت و آرام کا موصوفہ خیال رکھتی تھیںَ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر مرحوم نے بھوپال میں بڑے اصرار کے ساتھ ایک خوش الحان قاری مقرر کرا دیا تھا جو صبح آدھ گھنٹہ تک لیڈی مسعود کو قرآن پاک سناتے ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب لیڈی موصوف کی دوسری بچی نادرہ پیداہونے والی تھی۔ مرحوم فرماتے تھے کہ ایام حمل میں کسی خوش لہجہ قاری سے اگر ماں کلام پاک سن لیا کرے تو بچہ پر اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا ممکن ہے یہی خیال ہو جس کی بنا پر اقبال نے ارمغان حجاز میں دختر ان ملت کو یوں مخاطب کیا ہے۔ زشام مابروں آور سحر را بہ قرآن باز خواں اہل نظر را تومی دانی کہ سوز قرات تو دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را مرحوم کا ملازم علی بخش اس پر مامور تھا کہ قاری صاحب آئیں تو لیڈی مسعود کو کلام پاک سننے کے لیے فوراً آمادہ کرے۔ مرحوم خود بھی دیکھتے ہیں کہ یہ فریضہ پورا ہوتا ہے یا نہیںَ ایک دن کا واقعہ ہے کہ مرحوم نے علی بخش کو آواز دی کہ قاریصاحب آئے ہوئے ہیں لیڈی مسعود کہاں ہیں؟ علی بخش نے کسی قدر آزردہ اور تلخ ہو کر اپنی زبان سے کہا قرآن کیا سنیں گی وہ تو صبح ہی صبح باغ میں پھول کاٹنے چلی جاتی ہیںَ وہاں سے فرصت ملے تو آئیں میں کیا کروں مرحوم خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا ۔ صبر علی بخش صبر یہ کام بھی اتنا ہی ضروری ہے! اہل نظر جانتے ہں کہ اقبال کی نظر کہاں تھی؟ میرے نزدیک تو اقبال کا یہی فیسلہ اور اتنا ہی سا جملہ ان کی فکر و فرزانگی شاعری و شخصیت اور ان کا مجموعہ ان کی آفاقی بصیرت کا پورے طور پر ترجمان ہے۔ ۱؎ آندھی میں چراغ صفحہ ۱۵۳ یہ وہی مقام ہے جہاں اقبال ہم سے آ پ سے اور بہت سے دوسرے لوگوں سے جو ہم سے بڑے ہیں منفرد ملتے ہیں اور جدا ہو کر ان پہنائیوں میں داخل ہوجاتے ہیں جن کی تشریح تو درکنار ان کا تصور بھی دشوار ہوتا ہے ‘‘۔ ۱؎ اسی واقعہ کو فقیر الدین (مرحوم) نے بعنوان نادرہ مسعود ۲؎ قدرے وضاحت سے بیان کیا ہے جس کی بیگم راس مسعود نے بھی حرف بہ حڑف تصدیق کی ہے۔ ’’ریاض منزل‘‘ کے زمانہ قیام کے ان چند واقعات کے علاوہ ایک معمولی واقعے کا تذکرہ سید نذیر نیازی کے مضمون بعنوان علامہ اقبال کی آخری علالت میں ہمیں ملتا ہے وہ لکھتے ہیں: بھوپال می حضرت علامہ کا قیام بالعموم سر راس مسعود ہی کے یہاں رہتا ہے ار سر راس مسعود ان کے آرام و آسائش کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ خود حضرت علامہ کو بھی تعجب ہوتا۔ انہوںنے خود مجھ سے بیان فرمایا کہ ایک روز جب انہیں پیٹھ کے درد کا ہلکا سا دورہ ہوا تو ڈاکٹروں نے سر راس مسعود سے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ اس درد کا اصی سبب ضعف قلب ہے لہٰذا انہیں چاہیی کہ نقل و حرکت میں احتیاط رکھیں حضرت علامہ کہتے ہیں: ’’… ’’ریاض منزل‘‘ میں میرا قیام بالائی کمروں میں تھا۔ میں جب اوپر جاتا تو سید صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں ہاتھوں سے مجھے سہارا دیتے تاکہ میں زینہ چڑھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ایک آدھ روز تو خیر میں ںے اپنے شفیق دوست کی پاسداری کے خیال سے کچھ نہ کہا لیکن تیسری مرتبہ جب پھر یہی صورت پیش آئی تو میں نے کہا۔ آپ اور لیڈی صاحبہ ناحق تکلیف کرتے ہیں۔ اسی دن یا شاید اگلے رو ز میں چھت پر ٹہل رہا تھا کہ سر راس مسعود دوڑے دوڑے میرے پاس آئے اور گھبرا کر کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب آپ کیا غضب کرتے ہیں آرام سے لیٹے رہیے۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو انہوںنے بتایا کہ ڈاکٹروںکے نزدیک میری بیماری کس قدر خطرناک ہے۳؎‘‘۔ اسی سلسلے میں ایک اور دلچسپ واقعہ کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ جس کا تذکرہ محمد عبداللہ قریشی نے اپنے ایک مضمون بعنوان حقیقت وحی اور اقبال ۴؎ میں ڈاکٹر ظہیر الدین احمد الجامعی صدر شعبہ مذہب و ثقافت جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کے حوالے سے کیا ہے ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے: ’’ایک مرتبہ لاہور جاتے ہوئے میں راس مسعود سے ملنے بھوپال اتر گیا۔ اتفاق سے اقبال بھی مسعود ہی کے مکان پر فروکش تھے۔ لیکن بیماری کا ان پر غلبہ تھا۔ تقریباً فریش تھے۔ معراج کی شب تھی مسعود کا مدارالمہام امور مذہبی کی حیثیت سے مسجد شاہجہانی میں منعقدہ تقریب میں شریک ہونا شاید ضروری تھا۔ تقریب معراج میں جاتے ہوئے مسعود نے مجھے بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ ۱؎ گنج ہائے گرانمایہ صفحہ ۱۸۴‘ ۱۸۵ ۲؎ روزگار فقیر (جلد اول) صفحہ ۱۶۲۔۱۶۳ ۳؎ رسالہ اردو دہلی اقبال نمبر اکتوبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۳۰۸ ۴؎ ماہنامہ ادبی دنیا لاہور مئی ۱۹۶۵ صفحات ۱۲ تا ۱۶ منبر پر فروکش ایک مولانا واعظ فرما رہے تھے۔ انہوںنے وحی اور نبوت کے اسرار جس عامیانہ ادناز میں پیش کیے اور جد دریدہ دہنی کے ساتھ اس موقع پر اقبال نے کلام سے استناد کیا۔ راس مسعود کو اس جہل و جرات نے بہت دکھ پہنچایا۔ وہ ان مہملات کو سننے کی تاب نہ لا سکے زیادہ دیر تک وہاں نہ ٹھہر سکے اور جلد ہی لوٹ آئے۔ گھر پہنچے تو اقبال جاگ رہے تھے اور قلبی دورے کی وجہ سے کسی قدر بے چین تھے۔ مسعود جن کی سحر بیانی خوش کلامی اور ادیبانہ انداز گفتگو فطری ظرافت اور خوش طبعی اقبال کے لے ہزاروں دوائوں کی ایک دوا ہو ا کرتی تھی اقبال کی مزاج پرسی کے لیے ان کے کمرے میں چلے گئے اور ان کا دل بہلانے کی خاطر نہایت ہی دلچسپ اور شیریں انداز میں مولانا کی اس ہرزہ سرائی کا ذکر کیا جس سے خود مسعود تو پر دل ہوئے تھے لیکن اقبال کو خوش دل کر دیا۔ اس وقت ایسا محسوس ہوا کہ مسعود کی گفتگونے تریاق کا کام کیا ہے۔ یک بارگی شگفتگی کے آثار پیدا ہوئے اقبال کے چہرے پر بشاشت پھیل گئی اورانہوںنے بڑے ہی ظریف لیکن متین انداز میں کہا۔ اگر مولانا نے میرے کلام کو حسب منشا استعمال کیا ہے تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟ اس موقع پر اقبال نے امام غزالیؒ کا بھی ایک واقعہ بیا ن کیا فرمایا کہ طویل سفر کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد غزالی دمشق پہنچے جمعہ کا دن تھا جمعہ پڑھنے کے لیے جامع امویہ کا قصد کیا مسجد بھری ہوئی تھی سیڑھیوں کے قریب جوتیوں کے پا س جگہ پائی صفیں چیر کر آگے بڑھنے کی بجائے درویشانہ انداز میں وہیں بیٹھ گئے۔ نماز کے بعد ایک واعظ نے اپنی چرب زبانی کے جوہر دکھائے شروع کیے۔ ایک موقع پر اپنے کسی قول کی تائید میں ا س نے امام غزالیؒ کا نام استعمال کیا۔ غزالی چوکنے ہوئے اور برے حیران ہوئے انہوںنے اپنی نیک نفسی سے واعظ کے متعلق بدگمان ہونے کے بجائے یہ خیال کیا کہ کسی غلط روایت پر اعتماد کر کے میری جانب یہ قول منسوب کر دیا ہے۔ آداب فقر و درویشی نے امام غزالیؒ کو فوراً واعظ کی اس غلطی کی تصحیح کی اجازت نہ دی مگر جب وعظ ختم ہو گیا اور مجمع چھٹ چکا تو انتہائی تواضع اور انکسار کے ساتھ آگے بڑھے اور واعظ سے تخلیہ میں کچھ کہنے کی درخواست کی غزالی عمر میں واعظ کے باپ ہو سکتے تھے۔ مگر واعظ نے ان کو بچہ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا۔ ’’میاں ہم سے تخلیہ کیا جو چاہو کہہ دو‘‘۔ غزالی نے جب واعظ کو اس غلط انتتساب پر متنبہ کیا تو وہ یک دم طیش میں آ گئے کہا: کچھ دماغ میں خلل تو نہیں ہوا ہے کہ خود کو غزالی سمجھنے لگا ہے۔ ارے تیرے با پ نے تیر ا نام غزالیؒ رکھ دیا ہے تو کیا تو امام غزالیؒ بن گیا ہے؟ امام غزالی اس کا جواب تو کیا دیتے صبر کیا اور خاموشی کے ساتھ لوٹ آئے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد اقبال نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’اگر میں مولانا سے یہ کہتا کہ میرا یہ منشا ہرگز نہیںتھا جس کا اظہار آپ فرما رہے ہیں تو شاید غزالی سے کچھ بہتر سلوک میرے ساتھ نہ کیا جاتا‘‘۔ مسعود سے اس تھوڑی سی گفتگو کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اقبال بالکل تندرست ہو چکے ہیں لیکن مسعود نے زیادہ بیٹھنا مناسب نہ سمجھا اور ان کو آرام کی نیند سونے کے لیے خداحافظ کہہ کر اٹھ کھڑ ہوئے۔ اقبال کے لیے ملا جی کی اس ہرزہ سرائی نے مہمیز کا کام کیا اور ایک بہترین الہام کا سامان مہیا کر دیا۔ خدا شرے بر انگیزد کہ خیر مادر آں باشد ڈاکٹر ظہیر فرماتے ہیں کہ جب ہم اقبال کے ساتھ صبح چائے پی رہے تھے تو اقبال نے کہا کہ رات کو حقیقت وحی کے متعلق ایک بے ساختہ ایک خیال نظم ہو گیا۔ مسعود جن کے لیے اقبال کا ہر لفظ الہام کا درجہ رکھتاتھا۔ اس نئے الہام کے سننے کے لیے سراپا اشتیاق اور مجسم گوش دکھائی دینے لگے۔ اقبال نے حسب معمول اپنے پرتمکین اور باوقار لہجے میں فرمایا: عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں راہبر ہو ظن و تخمیں تو بوں کار حیات فکر بے نور ترا اور عمل بے بنیاد سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تار حیات خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیوں کر گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات ۱؎ حقیقت وحی کے متعلق اس ملہمانہ خیال کو اور خود اقبال کی زبانی سن کر ایک عجیب وجد اور سرشاری کی کیفیت تھی جو صرف محسوس ہی کی جا سکتی ہے۔ مسعود تو تقریباً جھوم رہے تھے اور مزے لے لے کر اس قطعہ کو دہرا رہے تھے اور اس نادر تخیل نے وحی کے متعلق تمام پردے ہٹا دیے اجنیتت کے ہر گونہ احساس کو یک لخت دور کر کے یہ محسوس کرادیا کہ وحی باہر سے مسلط کیا ہوا ہوئی اجنبی حکم نہیں بلکہ خود انسانی ضمیر کی گہرائیوں سے ابلاہوا چشمہ ہے۔ پیغمبری کا ضمیر انسانیت کے لیے مجلا اور شفاف آئینے کا کام دیتا ہے۔ ا س میں ہر فرد انسانی کے ضمیر اور زندگی کے فطری احتیاطات کا انعکاس ہوتا ہے۔ پیاسی فطرت کی آبیاری کے لیے اس کے ضمیر کی گہرائیوں سے عل و عرفان کے چشمے ابل پڑتے ہی ۔ جو پوری انسانیت کے ضمیر کی نمائندگی کرتے ہیں ۲؎‘‘۔ ان واقعات کی قدر و اہمیت اس لیے مسلم ہے کہ یہ ایک عظیم شاعر ومفکر کی عام زندگی کی چند ایسی جھلکیاں پیش کرتے ہیں جن سے ایک منفرد شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے ان واقعات کے پہلو بہ پہلو ریاض منزل کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہاں مفر مشرق نے اپنے عزیز ترین دوست سید راس مسعود اور ان کی باشعور اور مہمان نواب بیگم کی رفاقت و معیت میں انتہائی مسرت انگیز اور یادگار لمحے بسر کیے ہیں دونوں میاںبیوی ہمہ وقت اقبال کی خدمت میں حاضر رہتے اور ہر ممکن آسائش اور راحت کا سامان بہم پہنچاتے۔ ایک ماہ سات دن کے قیام بھوپال کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ لیکن ’’ریاض منزل‘‘ اور سید راس مسعود کو دوام بخش گیا۔ ’’ضرب کلیم‘‘ کی سات نظمیں جو اس ذیلی نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ … ریاض منزل (دولت کدہ سر راس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے۔ ۱؎ نظم بعنوان وحی ضر ب کلیم صفحہ ۳۳ یہ اشعار ’’ریاض منزل دولت کدہ سر راس مسعود) بھوپال میںلکھے گئے۔ ۲ ؎ اقبال کی کہانی۔ کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی۔ صفحہ ۵۵ …اقبال کی وہ یادگار اور تاریخ ساز نظمیں جو ہمیشہ ریاض منزل بھوپال اور سر راس مسعود کی یاد تازہ کرتی رہیں گی یہ مشہور و معروف نظمیں ’’ضرب کلیم‘‘ میں جس ترتیب سے شامل کی گئی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے: عنوان نظم ۱ سلطانی صفحہ ۲۶ عنوان نظم ۲ تصوف صفحہ ۲۹ عنوان نظم ۳ وحی صفحہ ۳۳ عنوان نظم ۴ مقصود صفحہ ۶۶ عنوان نظم ۵ حکومت صفحہ ۷۶ عنوان نظم ۶ نگاہ صفحہ ۱۰۲ عنوان نظم ۷ امید صفحہ ۱۰۸ یہ نظمیں ان آسودہ اور پرسکون لمحوں کی امین ہیں جو اقبال کو ریاض منزل میں میسری آئے۔ ان کا بیشتر وقت مطالعہ اور فکر شعر میں گزرتا ل صبح وہ ہسپتال جاتے ۔ دن بھر مطالعہ اور آرام کرتے۔ شام کو سر راس مسعود اور ان کی بیگم کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے۔ بھوپال اپنی خوبیوں اور خوبصورتیوں کے لیے جو شہرت رکھتا تھا اس سے اقبال کی تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکیں چنانچہ ان نظموں کے مطالعہ سے اقبال کی فکری سمت اور ان کی مدت تخلیق بآسانی معتین کی جا سکتی ہے۔ ان سات نظموں میں اگر ’’سلطانی‘‘ اور ’’تصوف‘‘ ان کے مخصوص حکیمانہ انداز فکر کی ترجمانی کرتی ہیں تو ’’مقصود‘‘ ان کے منفرد فلسفہ خودی کی غماز ہے۔ نظر حیات پہ رکھتا ہے مرد دانشمند حیات کیا ہے؟ حضور و سرور و نورو وجود پھر ’’فلاطون‘‘ کے ذیلی عنوان سے حیات و موت کی تشریح کرتے ہیں: نگاہ موت پہ رکھتا ہے مرد دانشمند حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود اور پھر حیات و موت نہیں التفات کے لایق فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود کہکر وہ ذات و کائنات کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ اور اپنے مخصوص لہجے میں جوانان ملت کو اپنی نظم حکومت میں یہ پیغام دیتے ہیں: قسمت بادہ مگر حق ہے اسی ملت کا انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخاب حیات حیات و موت مرد دانشمند ‘ خودی اور مقصود خودی ملت جوانان ملت…اقبال کی ان چند نظموں کے مخصوص موضوعات ہیںَ یہ تخلیقی سرمایہ ریاض منزل ہی کا یادگار فکری سرمایہ ہے جو آج اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آخری دو نظمیں نگاہ اور امید… بھوپال کے خوش فضا منظر اور اقبال کے جذب و سرور کی آئینہ دار ہیں …’’نگاہ‘‘ کے یہ تین شعر ملاحظہ ہوں: بہار قافلہ لالہ ہائے صحرائی شباب و مستی و ذوق و سرور و رعنائی اندھیری رات میںیہ چشمکیں ستاروں کی یہ بحر یہ فلک نیلگوں کی پہنائی سفر عروس قمر کا عمار نئی شب میں طلوع مہر و سکت سپہر مینائی اور امید کے یہ دو شعر مجھے خبر نہیں شاعری ہے یا کچھ اور عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود سچ پوچھیے تو بقول رشید احمد صدیقی: ’’… اقبال کی شاعری خود شاعری کی معراج تھی۔ انہوںنے جذبات کو فکر کا درجہ دے دیا ہے اورفکر کو جذبات کا آب و رنگ بخشا۔ دونوں صورتوں میں اقبال کا آرٹ اور یقان دوش بدوش کارفرما ملتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کا کلام پڑھ کر ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اقبال کہاں اور کہاں تک حکیم اور کہاں اور کس حد تک شاعر ہیں بلکہ حکیم اور شاعر (البتہ کہیں حکیم پہلے اور شاعر بعد میں اور کبھی اس کے برخلاف لیکن بالآخر دونوں ایک دوسرے میں ممزوج یا ایک دوسرے سے مربوط نظر آتے ہیں‘‘۔ ۱؎ یہی کچھ ان چند نظموں میں ملتا ہے ۔ حکمت و فلسفہ کے ساتھ ساتھ شاعرانہ صداقتیں بھی اورعالمانہ بصیرتیں بھی۔ ۳۱ جنوری تا ۷ مارچ ۱۹۳۵ء کے پہلے قیام بھوپال کے دوران سید نذیر نیازی کے علاوہ اقبال کا ایک خط ہمیں اقبال نامہ میں ڈاکٹڑ محمد عباس علی خاں لمعہ کے نام بھی ملتا ہے جو انہوںنے بھوپال سے ہی لکھا تھا۔ اس خط کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ ’’ریاض منزل‘‘ کے پرسکون اور مسرت بخش ماحول میں وہ نہ صرف مطالعہ فکر شعر اور اصلا ح شعر میں مصروف رہتتے تھے بلکہ اپنے عقیدت مندوں اور نیاز مندوں کو جو پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے خط و کتابت میں بھی یاد رکھتے تھے۔ اور اپنے قیمتی مشوروں سے انہیں نوازتے تھے ۔ گویا شاعر مشرق کی فکر کا مرکز بھوپال تھا جس سے پورا ہندوستان فیض یاب ہو رہا تھا۔ ان کی صحت و عافیت ان کی آفاق گیر عظمت ان کی شاعرانہ بصیرت کا ایک محور بھوپال بن گیا تھا جس کے تانے بانے سید راس مسعود نے بنے تھے ۱؎ گنجہائے گرانمایہ۔ صفحہ ۱۰۸ اور جو بالآخر نواب حمید اللہ خاں اور اقبال کے قریبی اور دوامی رشتوں میں منسلک ہو کر حیات اقبال کا ایک درخشندہ باب بن گیا ۔ یہ درخشندہ اور تابناک باب تاریکی میں تھا اور دنیا کو ان کی تفصیلات کا بہت کم علم تھا۔ تاریخ صرف صداقت کا نہیں اظہار صداقت کا نام ہے ۔ اور یہ واقعات اظہار صداقت سے محروم تھے۔ ڈاکٹر محمد عباس علی خاں لمعہ جاگیر دار ٹونڈہ پور ۔ مشرقی خاندیش اقبال کے بے حد عقیدت مند تھے ۔ ٹیگو ر سے ان کے خاص مراسم تھے ۔ اور نا کے ایما پر وہ اقبال سے ملنے لاہور بھی گئے تھے۔ وہ بیک وقت شاعر او ر نثر نگار تھے انگریزی میں بھی شاعری کرتے تھے۔ اور اردو نظم و ثر سے بھی انہیں دلچسپی تھی۔ وہ اقبال سے مشورہ بھی لیتے تھے ججسا کہ اقبال نامہ کے خطوط (صفحات ۲۸۷۔ ۲۸۸اور ۲۸۹ ) کے مطالعہ سے ظاہر ہوتاہے ان کا یہ لکھنا کہ کبھی کبھی جب طبیعت لگے ضرور شعر کہیے۔ آپ کی طبیعت شاعری کے لیے ۱؎ مناسب ہے اور آپ کی نظموں میں مجھے کو لطف آتا ہے چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی نثر میں لکھیے۔ آپ کی نثر بھی دلچسپ ہوتی ہے۔ اس با ت کا غماز ہے کہ وہ لمعہ کی صلاحیتوں سے کافی متاثر تھے اور انہیںبرابر مشورے دیتے تھے۔ اردو کلام و ہ اقبال کو بھیجتے تھے اور اقبال اس پر مناسب اصلاح کر کے انہیں لوٹا دیتے تھے۔ لمعہ جو حیدر آبادمیں رہتے تھے۔ خود حیدر آباد میں بہت کم مشہور تھے۔ جس کا تذکرہ ہمیں نظر حیدر آبادی کی کتاب… اقبال اور حیدر آباد میں ملتا ہے: ’’… یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر عباس علی خاںلمعہ ک نام سے ’’اقبال نامہ‘‘ کی اشاعت سے قبل خود اہل حیدر آباد بہت کم واقف تھے۔ لیکن ان خطوط کے مطالعے سے ان کی صلاحیتوں سے تعارف حاصل ہوتا ہے افسوس کہ اقبال سا شاعر جن کی صلاحیتوں کا معترف ہے وہ حیدر آبادمیں اتنے گم نام رہے ۲؎‘‘۔ بھوپا ل سے تحریر کردہ یہ خط نہ صڑف اقبا سے لمعہ کے قریبی روابط کی نشاں دہی کرتا ہے بلکہ اس بات کا انکشاف بھی کہ اقبال لمعہ کو اپنے قیمتی مشوروں سے برابر نوازتے تھے۔ اور ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے دل دے معترف تھے لکھتے ہیں: ’’مخدومی ۔ تسلیم میں یہ خط آپ کو بھوپال سے لکھ رہا ہوں اس سے قبل بھی آپ کو ایک خط لکھ چکا ہوں۔ ملا ہو گا۔ آپ کی تازہ نظم پڑ ھ کر بہت خوش ہوا۔ اس میں اصلاح کی گنجائش نہیں ۃے۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ آپ مثنوی مولانائے روم سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں دنیا کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ آپ کی عمر کے لحاظ سے بالکل درستہے مگر آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ دنیا ایک بہت اہم مقام ہے اور اس سے صحیح استفادہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں انسان کامل بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مولانا رومی کوبغور پڑھیے اور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیے کہ جو کچھ آپ کا ضمیر اس خصوص میں آپ کو مشورہ دے اس سے انکار نہ ہو میرے گلے کی حالتاب روبصحت ہے آپ کے گراں قدر مشوروں کا شکریہ: ۱؎ لیے سہواً رہ گیا ہے۔ ۲؎ اقبال اور حیدر آباد صفحہ ۲۳۱ نگہدار آنچہ در آب و گل تست سرور و سوز و مستی حاصل تست تہی دیدم سبوئے این و آں را مئے باقی بہ مینائے دل تست آپ نے میرا حال دریافت فرمایا ہے شکریہ۔ زندہ ہوں‘ دل مضحمل‘ مسرت فنا‘ اللہ اللہ‘ خیر صلا‘ خدا حافظ مخلص محمد اقبال لاہور ۲۰ فروری ۱۹۳۵ء ۱؎‘‘ خط کے آخر میں مخلس اقبال لاہور شاید اس لیے لکھا ہے کہ فروری کے آخر میں وہ بھوپال سے روانہ ہونے والے تھے یہ خط ۲۰ فروری ۱۹۳۵ ء کا تحریر کردہ ہے اور خط کے آغاز میں ہی انہوںنے لکھا ہے کہ میں یہ خط آپ کو بھوپال سے لکھ رہا ہوں۔ مقصد یہ تھا کہ ملمعہ انہیںلاہور کے پتے پر جواب دیں۔ اگر بھوپال میں طویل قیام ممکن ہوتا تو سید نذیر نیازی کے خطوط کی طرح وہ بھی ریاض منزل کا پتہ اس خط پر تحریر ضرور فرماتے۔ لمعہ سے ان کی مستقل خط و کتابت تھی جیسا کہ اقبال نامہ کے خطوط بنام ڈاکتر عباس علی خاں لمعہ (صفحات ۲۶۲ تا ۲۹۸) کے مطالعہ سے ظاہر ہے۔ آخر فروری ۱۹۳۵ء تک اقبال کا پابندی سے علاج جاری رہا۔ ان کی صحت و توانائی میں نمایاںفرق آ گیا تھا۔ علاج کا پہلا کورس مکمل ہونے کے بعد انہٰںڈاکٹروں نے لاہور جانے کی اجازت دے دی چنانچہ ۲۷ فروری اور ۴ مارچ ۱۹۳۵ ء کے خطوط میں نیازی صاحب کو قصد روانگی سے مطلع کرتے ہیں لاہور کی روانسگی اسب اس لیے ضروری تھی کہ اقبال کی اپنی صحت پہلے سے نسبتاً اچھی تھی… لیکن والدہ جایود کی تشویشناک علالت کے سبب وہ بے حد فکر مند اورمتردد تھے جس کی اطلاعات انہیںبرابر مل رہی تھیں: ’’بھوپال۔ ۲۷ فروری ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب … میں ۷ یا ۸ مارچ کوشام سے یہاں سے چلوں گا۔ اور ۸ یا ۹ کو ساڑھے نو بجے دہلی پہنچوں گا۔ وہاں ایک دور روز قیام کروں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقی صاحب کو بھی مطلع کر دیںَ بعد میں پھر میں آپ کو ان کے بذریعہ خط یا تار مطلع کر دوں گا۔ باقی بروقت ملاقات …والسلام… محمد اقبال ۲؎ ‘‘۔ ’’بھوپال …۴ مارچ ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم میں ۷ کی شام کو یہاں سے چلوں گا… ۸ کی صبح دہلی پہنچ جائوں گا۔ ۱؎ اقبال نامہ(جلد اول) صفحات ۲۸۳۔۲۸۴ ۲؎ ؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۶۱ یہ گاڑی ۹ بجے یا ساڑھے نو بجے دہلی پہنچتی ہے۔ ۸ کا دن دہلی ٹھہروں گا اور ۹ کی شام کو لاہور روانہ ہو جائوں گا۔ آپ سردار صلاح الدین سلجوقی کو بھی مطلع کر دیں میں نے ان کو علیحدہ خط بھی دیا ہے۔ اس کے علاوہ حکیم صاحب سے بھی ۹ کی صبح کا وقت ۸ یا ساڑھے آٹھ مقرر کر دیںَ ان سے ملے بغیر لاہور جانا ٹھیک نہیں… ہاں راغب حسن صاحب کو مطلع کر دیں ان کا پتہ یہ ہے : 2, Canning Lane New Delhi باقی انشاء الہ بوقت ۱؎ ملاقات …والسلام محمد اقبال ۲؎‘‘ چنانچہ پروگرام کے مطابق اقبال ۸ مارچ ۱۹۳۵ء کی صبح دہلی پہنچے تو نیازی صاحب نے ان کا سٹیشن پر استقبال کیا۔ ان کی صحت پہلے سے بہت اچھی تھی۔ دوران گفتو بھوپال کے معالجین کی خصوصی توجہ اور علاج کا ذکر بھی آیا چنانچہ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: …حضرت علامہ ۸ کی صبح دہلی تشریف لائے صحت نہایت اچھی تھی معالجین بھوپال کو یقین تھا کہ ان کے علاج سے حضرت علامہ کا مرض جاتا رہے گا ۳؎۔ دوسرے روز وہ حکیم نابینا صاحب سے ملے۔ انہیں نبض دکھائی اور بیگم صاحبہ کی علالت اور دوائوں کے بارے میں گفتگو کی اور شام کی گاڑی سے لاہور تشریف لے گئے۔ ۱؎ (بوقت ) نیازی ۲؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۶۲ ۳؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۶۳ ٭٭٭ اقبال اور وظیفہ ۹ مارچ ۱۹۳۵ء کو اقبال دہلی سے روانہ ہو کر لاہور پہنچے تو رفیقہ حیات کو شدید علیل پایا۔ گھر کا نظم درہم برہم تھا۔ جاوید اور منیرہ ابھی بہت کم سن تھے۔ ان حالات یں ان کی ذہنی پریشانی اور ان ے قلبی انتشار کا اندازہ لگانا مشکل نہیںتھا۔ بیگم صاحبہ کی دوائیں دہلی سے آتی تھیں۔ اور وہ پابندی سے ان کے امراض کی تفصیلات سے نیازی صاحب کو مطلع کرتے تھے۔ اب بھوپال سے واپسی کے بعد بیگم صاحبہ کو نہایت کمزور حالت میں پایا تو لاہور پہنچتے ہی نیازی صاحب کو صورت حال سے مطلع کرتے ہوئے تاکید کی کہ جلد حکیم صاحب سے مشورہ کر کے جواب دیں: ’’لاہور ۱۱ مارچ ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم میںبخیریت لاہور پہنچ گیا۔ جاوید کی والدہ نے ادوا آج سے شروع کر دی ہے ۔ چل پھر سکتی ہے اور بواسیر کی شکایت بھی نہیں ہے مگر اور شکایتیں بہت ہیں۔ ان کی طرف حکیم صاحب کی توجہ دلائیے اور مجھے مطلع کیجیے۔ (۱) جگر بہت بڑھ گیا ہے۔ اس پہلو پر لیٹنا بھی مشکل ہے۔ (۲) رات کو کھانسی بہت آتی ہے۔ امید ہے آپ مع الخیر ہوں گے جواب جلدی… والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘ اس خط کے ساتھ ہی انہوںنے نیازی صاحب کو دوسرا خط لکھا جس میں بیگم صاحبہ کے عوارض اور شکایات کا کچھ اور تفصیل سے ذکر تھا۔ چنانچہ نیازی صاحب نے تمام تفصیلات حکیم صاحب کی خدمت میں عرض کر کے ضروری ہدایات سے اقبال کو مطلع کر دیا پھر کچھ عرصہ خاموشی رہی۔ حکیم صاحب کی ادویہ سے بیگم صاحبہ کی تکلیف میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہو گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں دہلی لے جا کر حکیم صاحب کو دکھا دیں لیکن ابھی ان میں چلنے پھرنے کی اور سفر کرنے کی سکت نہ تھی۔ ۱؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۶۳ اقبال کو اپنی صحت اگرچہ اچھی تھی لیکن بیگم صاحبہ کی لگاتار اور پریشان کن بیماری کے باعث وہ بے حد متردد تھے۔ کیونکہ انہیںبجلی کا مزید علاج کرانے کے لیے پھر بھوپال جانا تھا جیسا کہ روانگی سے قبل بھوپال کے معالجین نے انہیں مشورہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ کم از کم ایک سال تک پابندی سے علاج ضروری ہے۔ چنانچہ حکیم محمد حسین عرشی کے نام ایک خط میں اس کاتذکرہ بھی کرتے ہیں: ’’لاہور …۱۹ مارچ ۱۹۳۵ء جناب عرشی صاحب! …السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے ۔ میری صحت عامہ تو بہت بہتر ہو گئی ہے مگر آواز پر ابھی خاطر خواہ اثرنہیں ہوا۔ علاج برقی ایک سال تک جاری رہے گا۔ دو ماہ کے وقفے کے بعد پھر سے بھوپال جانا ہو گا ۱؎‘‘ خانگی مسائل کے ساتھ ساتھ انہیں قومی اور ملی مسائل کا بھی سامنا تھا۔ چنانچہ ان پریشان کن حالات میں بھی وہ اپنا بیشتر وقت نیاز مندو اور عقیدت مندو سے صلاح و مشورہ اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے چند در چند مسائل کو حل کرنے میں صرف کر رہے تھے۔ انہیں دنوں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس کی تیاری ہو رہی تھی۔ انجمن حمایت اسلام سے ان کی وابستگی اور مسلمانوں کے اس نمائندہ ادارہ کی ترقی و بقا سے ان کی خصوصی دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اسی سلسلے میں وہ بھوپال کے قیام کے دوران نواب صاحب بھوپال سے بھی تفصیلی گفتگو کر چکے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ نواب صاحب لاہور آ کر انجمن حمایت اسلام کے ایک اجلاس کی صدارت فرمائیں تاکہ مسلم ققوم کی شیرازہ بندی کے لیے کچھ اور فضا سازگار ہو سکے اور یہ ادارہ مالی استحکام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی علمی و فکری ترقی میں نمایاں حصہ لے سکے۔ چنانچہ راس مسعود کے نام ایک خطمیں جو ۲۰ مارچ ۱۹۳۵ کا تحریر کردہ ہے اس کا اظہار بھی کیا ہے: ’’لاہور …۲۰ مارچ ۱۹۳۵ء مائی ڈیر مسعود امید ہے آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ بخیریت ہوںگے۔ میں بھی بفضل خدا خیریت سے ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اعلیٰ حضرت کی لاہور تشریف آوری کے لیے ۲۱ اپریل موزو ں ہو گی۔ ۰ ۲ اپریل کو تو گورنر پنجاب اجلاس میں رسمی شمولیت فرمائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ۲۱ اپریل کو تمام تر اعلیٰ حضرت اور مسلمانان پنجاب کے لے ہی مخصوص رہے۔ اگر اعلیٰ حضڑت انگلستان تشریف نہیںلے جا رہے ہیں تو اس انتظام کی طرف توجہ کیجیے۔ امید ہے اعلیٰ حضڑت کے لیے ایک دن مخصوص کرانے میں میرے منشا کو آپ نے پا لیا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ قطعی طو ر پر طے پا گیا ہے کہ اعلیٰ حضرت عازم انگلستان نہ ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو تار کے ذریعے اطلاع دے دیجیے۔ اور یہ اطلاع بھی بذریعہ تار ہی دیجیے کہ ۲۱ اپریل اعلیٰ حضرت کو منظور ہے۔ معاملہ معلومہ کی نسبت آپ کو کوئی اطلاع ملی ہیَ میںاس خط کا جوا اب ماہ کے آخر میں آپ مجھے لکھنا چاہتے ہیں بے تابی سے منتظر ہوں۔ ۱؎ اقبال نامہ(جلد اول) صفحہ ۲۷ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں سلام اور انور کو دعا محمد اقبال ۱؎ ‘‘۔ بھوپال میں ان کے عزیز ترین دوست راس مسعود کی موجودگی ان کے لیے بڑی تقویت کا باعث تھی۔ انہیں کامل یقین تھاکہ نواب صاح انگستان نہ جانے کی صورت میں لاہور ضرور تشریف لائیں گے جیسا کہ ملاقات کے دوران نواب صاحب نے بھی ان سے وعدہ کیا تھا۔ جب ایک ہفتہ تک راس مسعود کا جواب نہ آیا تو انہیں تشویش لاحق ہوئی کیونکہ انجمن کے سالانہ اجلاس کی تاریخیں قریب آ رہی تھیں۔ ارو تیاریاں زور و شو ر سے جاری تھیں۔ مولوی غلام محی الدین مرحوم سیکرٹری انجمن حمایت اسلام برابر اقبال کی خدمت میں حاضرہو کر صور ت حال سے انہیں مطلع کر رہے تھے۔ چنانچہ اقبال نے ۲۹ مارچ ۱۹۳۵ء کو راس مسعود کو دوسرا خط لکھا جس میں دیگر امور کے علاوہ خصوصیت سے نواب صاحب کی لاوہر میں آمد کے سلسلے میں استصواب کیا گیا تھا: ’’لاہور…۲۹ مارچ ۱۹۳۵ء ضروری ڈیر مسعود کئی دن ہوئے ہیں میں نے ایک خط آپ کو لکھا تھا مگر تاحال جواب نہیں آیا۔ شاید یہ خط آپ کو نہ ملا ہو۔ کیونکہ ان دنوں آپ بھوپال میں نہ تھے۔ والدہ ماجدہ کی علالت کی وجہ سے علی گڑھ چلے گئے تھے۔ بہرحال اگر وہ خط مل گیا ہو تو جواب دلکھیے۔ شاید آپ حیدر آباد سے کسی جواب کے منتظر ہوں۔ آپ کا خیال تھا کہ مارچ کے آخر میں آپ قطعی کسی فیصلہ کی اطلاع دے سکیں گے۔ میرے حالات اس امر کے متقضی ہیں کہ کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو گو میں آپ سے چھپا نہیں سکتا کہ مجھے اس طرف سے نامیدی ہے غرض کہ میں آپ کے جواب کاشدت سے منتظر ہوں۔ اس امر کی اطلاع آپ نے نہیں دی کہ آیا ہز ہانس جلسہ انجمن میں جلوہ افروز ہوں گے یا نہیں اور مجھ سے ہز ہائی نس نے خود فرمایاتھا کہ اگر انگلستان نہ گئے تو ضرورتشریف لائیں گے۔ یہاں اس خبر سے جوش مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ مہربانی کر کے مطلع فرمائیں کہ آیا ہز ہائی نس ولایت تشریف لے جائیں گے مولوی غلام محی الدین سیکرٹری انجمن نے دو تین روز ہوئے مجھے اطلاع دی کہ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ مہربانی کر کے جلد اطلاع دیجیے۔ جب سے میں بھوپال واپس آیا ہوں لوگ زمینوں کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ میرے پاس کوئی ان شرائط کی کاپی نہیں ہے جن کے مطابق اراضی دی جاتی ہے۔ اس وقت بھی جبکہ میں یہ خط لکھ رہا ہوں کہ ایک صاحب اسی غرض کے لیے بیٹھے ہیں ۔ میں نے ان کو خط لھک دینے کا وعدہ کیا ہے اور وہ خود بھوپال حاضر ہوں گے۔ شرائط کی کاپی ارسال کروا دیجیے۔ تاکہ میں زمین کے خواستگاروں کو دکھا سکوں۔ ۱؎ اقبال نامہ(جلد اول) صفحہ ۳۵۲۔۳۵۳ زیادہ عرض کیا کروں امیدہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں آداب۔ میں ان کے لیے دعائے صحت کرتا ہوں۔ انور میاں کو دعا اور حکیم صاحب کو بھی سلام کہیے… والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘۔ کتاب کی نظرثانی کے دوران خوش قسمتی سے را س مسعود کے چھ نادرخطوط بنام اقبال اور ان کے وظیفہ کے سلسلے میں نواب صاحب بھوپال کی قیمتی یادداشت کا مسودہ جلیل قدوائی نے بیگم چھتاری سابق لیڈ ی مسعود اور ڈاکٹر احسان رشید کے تعاون سے راس مسعود کے کاغذات میں سے ڈھونڈ نکالا اور وضاحتی نوٹ کے ساتھ ماہنامہ قومی زبان کراچی میں شائع کر دیا۔ یہ خطوط یادداشت کا مسودہ انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ جلیل قدوائی نے کیا ہے اور جہاں ضرورت محسوس کی ہے حواشی لکھ دیے ہیں۔ اس گم شدہ سرمایے کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ آپ کو اقبال کے خطوط اور راس مسعود کے جوابات سے ہو گا۔ جو اس دور سے عام حالات اقبال کے ذاتی مسائل وظیفہ کے سلسلے میں نواب صاحب اور راس مسعود کی مخلصانہ سعی کاو ش پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ خطوط اور وظیفہ کی یادداشت پہلی بار اس کتاب میں شامل ہو رہ ہے۔ ور مجھے یہ اظہار کرتے ہوئے مسرت ہے کہ اس بات میں میں نے جن واقعات اور حقائق کاتجزیہ کیاہے اور جو نتائج اخذ کیے ہیں وہ ان نایاب خطوط وظیفہ کی یادداشت سے بھی درست ثابت ہوئے۔ راس مسعود کے حسب ذیل خطوط مورخہ ۳۱ مارچ اور نقل خط مورخہ ۲۵ مارچ ۱۹۳۵ء کے مطالعہ سے جہاں ا س حقیقت کا ثبوت ملتا ہے کہ راس مسعود اقبال کے سچے عاشقوں او رجاں نثاروں میں تھے وہیں یہ سراغ بھی ملتا ہے کہ وہ اور نواب صاحب بھوپال کی آسودہ و مطمئن زندگی کے لیے درپردہ کیا کچھ عملی کوششیں کر رہے تھے ۔ جن کانتیجہ اپریل تک برآمد ہونے کی توقع تھی ۔ ملاحظہ ہو: ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحۃ ۳۵۳ تا ۳۵۵ (۱) ریا ض منزل بھوپال ‘ سی آئی ۳۱ مارچ ۱۹۳۵ء میرے نہایت پیارے اقبال مجھے تمہارا خط مورخہ ۲۹ مارچ اسی لمحے ملا اور تمہاری اس شکایت پر کہ میری طرف سے تمہں کوئی خبر نہیں ملی تعجب ہوا۔ میں اس خط کی ایک نقل بھیجتا ہوں جو یہاں سے تمہارے نام ۵ ۲ مارچ کو ڈاک میں ڈالا گیا ارو جو تمہں ۲۹ سے جب تم نے مجھے اپنا موجود ہ خط لکھا بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا۔ جہاں تک تمہارے ذاتی معاملہ کا تعلق ہے میں سر دست اپنے خط مورخہ ۲۵ مارچ ۱۹۳۵ء کے مضمون میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ اپریل میں کسی وقت ہم قطعی نتیجے تک پہنچ سکیں گے۔ ہز ہائی نس سے زیادہ تمہاری بہتری کا کوئی خواہش مند نہیں ہے۔ اور میں پھر کہتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں جو کچھ ان سے ممکن ہے کر رہے ہیں۔ میں نے ۲۵ مارچ کو مولوی غلام محی الدین صاحب کو ایک حسب ذیل مضمون کا تار بھیجا تھا: ’’افسوس کہ غیر متوقع مصروفیات کے سبب ہز ہائی نس اس بار سالانہ جلسے میں شرکت نہیں کر سکتے آئندہ سال شرکت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہی مضمون اقبال کو بھی لکھ بھیجا ہے‘‘۔ جہاں تک یہاں کے شرائط تقسیم اراضی کا تعلق ہے اس سلسلے میں ضروری کاغذات تمہیں بھجوا رہا ہوں۔ آج میں سرکاری کام سے پانچ دن کے لے اندور جا رہا ہوں اور واپسی پر تمہیں پھر خط لکھوں گا۔ اپنی صحت کا خیال رکھو اور مایوس نہ ہو مجھے یقین ے کہ جتنی کچھ بھی کوششیں ہو رہی ہیں ان کا نتیجہ قابل اطمینان نکلے گا۔ صمیم قلب کے ساتھ تمہارا ہمیشہ سید راس مسعود ڈاکٹر سرمحمد اقبال بار ایٹ لا میکلوڈ روڈ۔ لاہور (نقل خط منسلکہ) (۲) ریاض منزل بھوپال ۔ سی ۔ آئی ۲۵ مارچ ۱۹۳۵ء میرے نہایت پیارے اقبال میں علی گڑھ میں سے آج ہی صبح واپس آیا ہوں اور تمہارے اس مشفقانہ تار کے جواب میں جو مجھے علی گڑھ میں عین اس وقت ملا تھا جس مین بھوپال کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ میں نے ایک تار بھیجا ہے جس میں تمہیں والدہ صاحبہ کی حالت سے مطلع کیا ہے ۔ امثل ۱؎ اور میں سخت فکر مند اور پریشان رہے اور مارا مار علی گڑھ کا سفر کرنے اور وہاں سے واپس آنے کے سبب تھک کر چور ہو گئے ہیں۔ آج صبح ہز ہائی نس نے مجھے شرف بازیابی بخشا مگر تمہیں مایوس کرتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت اپنی چند در چند غیر متوقع اہم مصروفیات کی وجہ سے امسلا انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں شرکت نہ کر سکیں گے۔ اعلیٰ حضرت نے مجھے ہدایت کی ہے کہ تمہیں مطلع کر دوں۔ اگر کوئی ناگہانی مجبوری نہ آ پڑی تو وہ انجمن کے اجلاس ۱۹۳۶ء میں تم سب کے ساتھ موجود ہونے کی پوری کوشش کریں گے۔ لہٰذا تمہیں دیر آید درست آید۔ کی مثل کی صداقت پر یقین رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ جب آئندہ سال اعلیٰ حضرت لاہور تشریف لائیں گے تو وہ سب کے لیے اپنی آمد کو موجب مسرت بنا دیں گے۔ اب سنو معاملہ معلومہ کی بابت۔ بس کچھ دن ہی کی بات ہے ذرا اور انتظار کر لو کیونکہ ہز ہائی نس تمہیں کوئی قابل اطمینان بات اپریل کے مہینے میں کسی وقت لکھ سکیں گے۔ اعلیٰ حضرت تمہارے لیے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ایک انسان سے ممکن ہے اور کم از کم میں تو نتیجہ کیطرف سے پرامید ہوں۔ اس سے زیادہ کچھ کہنے کی مجھے اجازت نہیں۔ تمہارے ان محب خاص نے جن کی طرف سے خلیفہ عبدالحکیم نے تمہیں اطمینان دلایا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کچھ بھی تو نہیں کیا۔ متبادل تجویز پر عمل درآمد آج سے شروع ہو گیا ہے۔ یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ ہم لوگ تمہارے عاشق ہیں ہم تو تہمارے لے اپنی امکانی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ میںتمہیں ایک بار پھر یقین دلایا ہوں کہ آج دنیا بھر میں ہز ہائی نس…نواب صاحب بھوپال سے بڑھ کر تمہارا کوئی بہی خواہ موجود نہیں۔ میں نے حقیقتاً یہ خط خوشی کی کیفیت میں لکھا ہے ارو میں نہیں چاہتا کہ تم ہماری تجویز نمبر ۲ کے نتیجے میں ذرابھی مایوسی سے کام لو۔ ۱؎ سابق لیڈی مسعود جو شادی سے قبل امتہ الرشید تھیں اور جنہیںاپنا شریک حیات بنانے کے بعد مسعود لاڈ میں امتل کہتے تھے۔ (جلیل قدوائی) میری ابدی محبت اور میری والد صاحبہ تمہاری صحت کی بحالی کے لیے بہترین دعائوں نیز امتل کی نہایت مودبانہ تسلیم کے ساتھ۔ میں ہوں ہمیشہ تمہارا چاہنے والا سید راس مسعود ۱؎ بخدمت سر محمد اقبال ۔ نائٹ بیرسٹر ایٹ لاء میکلوڈ روڈ ۔ لاہور اقبال کے ۲۰ مارچ اور ۲۹ مارچ ۱۹۳۵ کے خط اور راس مسعود کے ۳۱ مارچ اور ۲۵ مارچ ۱۹۳۵ کے جوابات نہ صر ف اقبال کے … راس مسعود اور نواب صاحب بھوپال کے قریبی روابط و تعلق کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ تین مختلف مسائل رپ بھی روشنی ڈالتے ہیں جن کی وضاحت تجزیہ کے بغیر اقبال کی بھوپال سے خصوصی وابستگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ پہلی بات انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس سے تعلق رکھتی ہے جس کا ان خطوں میں تذکرہ ہے۔ اقبال کی دلی خواہش تھی کہ نواب صاحب بھوپال انجمن کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوں۔ کیونکہ جس سے یہ اطلاع پنجاب والوں کو ہوئی تھی تو وہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ لیکن جیسا کہ راس مسعود کے خط اور مندرجہ تار کے مضمون سے ظاہر ہے کہ نواب صاحب چند غیر متوقع اور اہم…مصروفیات کے سبب انجم کے سالانہ اجلاس جلسہ میں شرکت سے قاصر رہے۔ دوسرا مسئلہ بھوپال کی تقسیم اراضی سے تعلق رکھتا ہے۔ اقبال کے ۲۹ مارچ ۱۹۳۵ ء کے خط کا یہ حصہ: ’’… جب سے میں بھوپال سے واپس آیا ہوں لوگ زمینوںکے متعلق دریافت کریت ہیں میرے پاس کوئی ان شرائط کی کاپی نہیں ہے جن کے مطابق اراضی دی جاتی ہے ۔ اس وت بھی جب کہ میں یہ خط لکھ رہا ہوں ایک صاحب اسی غرض کے لیے بیٹھے ہیں کہ میں نے ان کو خط لکھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اور وہ خود بھوپال حاضر ہوں گے۔ شرائط کی کاپی ارسال کروا دیجیے تاکہ زمین کے خواستگاروں کو دکھا سکوں‘‘۔ دراصل اس تجویز کا ایک حصہ ہے جو اقبال نے بھوپال کے پہلے قیام (۳۱ جنوری تا ۷ مارچ ۱۹۳۵ء ) کے دوران نواب صاحب کی خدمت میں پیش کی تھی۔ انہوںنے نواب صاحب سے درخواست کی تھی کہ ریاست کے غیر آباد علاقوں میں مسلمانوں کو آباد کر دیا جائے اور انہیں ریاست کی جانب سے آباد کاری کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں تاکہ آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ غیر آباد زمینوں کی کاشت سے پیداوار اور عوام کی خوش حالی میں اضافہ ہو سکے اس تجویز کو نواب صاحب نے پسند فرمایا اور ضروری احکام جاری ہوئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس واقعہ کے ایک عینی شاہد حسن عزیز جاوید مرحوم جو حضرت قدسی کے ارادت مندوں میں شامل ہیں مجھے کراچی میں مل گئیء اور انہوںنے مجھے آباد کاری کے سلسلے میں اقبال کی تجویز کی پسندیدگی کے علاوہ آباد کاروں کے لیے جو انتظامات خصوصی ریاست کی جانب سے کیے گئے تھے ا ن کی تفصیلات مہیا کر دیں ۱؎ ماہنامہ قومی زبان کراچی اپریل ۱۹۳۵ ء صفحہ ۷ تا۹ جن کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ حسن عزیز جاوید ۱۹۰۵ء میں ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔ آپ کے وادل حاجی محمد عمر دراز خاں صاحب نواب صاحب صدیق حسن کے ایما پر سندیلہ (یو۔ پی) سے بھوپال آ کر آباد ہوئے۔ جاوید صاحب نے اردو انگریزی ہندی مرہٹی زباونں میں دستگارہ حاصل کرنے کے بعد صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ اور ابتداً خواجہ حسن نظامنی سے تربیت حاصل کی پھر لاہور کلکتہ اور دہلی کے متعدد اردو انگریزی اخبارات و رسائل سے منسلک رہے۔ تقریباً بارہ سال تک حکومت ہند کے محکمہ اطلاعات میں خدمات انجام دینے کے بعد آپ کلکتہ کے مشہور انگریزی اخبار اسٹیٹسمین میں ٹرائل آف بہادر شاہ جس کا اایک ہی نسخہ لال قلعہ میں تھا کا اردو ترجمہ بعنوانات بہادر شاہ کا مقدمہ ’’غدر دہلی کے اخبار نویس‘‘ اور ’’غدر دہلی کے گرفتار شدہ خطوط‘‘ آپ نے خواجہ حسن نظامی کے ایما پر کیا۔ مختصر افسانوں کے چار مجموعے اور کئی غیر مطبوعہ مسودات شامل ہیں۔ آپ کو نواب صاحب بھوپال اور علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ چنانچہ دریافت ر آپ نے جو تفصیلات بتائیں ان سے اقبال کے مندرجہ بالا خط کی نہ صرف تصدیق ہوتی ہے بلکہ کئی نئی باتیں بھی ہمارے علم میں آتی ہیں۔ صحیح تاریخ اب یاد نہں غالباً ۱۹۳۵ء کا زمانہ تھا۔ سلطان پور نیل گڑھ کی آباد کاری کی سکیم کا حکومت ریاست بھوپال نے اعلان کیاتھا۔ اور میں اس سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے اخبار سٹیٹسمین کے نمائندہ و وقائع نگار کی حیثیت سے بھوپال گیا تھا علامہ اقبال الرحمتہ اللہ علیہ اس وقت ریاض منزل بھوپال میں قیام فرما تھے علامہ سے بھی ملا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا تھاکہ مسلم ریاستوں میں اگر مسلمان اکچریت کی کوشش نہ کی گی تو آئندہ یہ ریاستیں ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گیل۔ اور میں نے نواب صاحب بھوپال کو آمادہ کر لیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو باہر سے بلا کر ریاست میں آباد کرائیں۔ پھر اسی ضمن میں نواب حمید اللہ خاں مرحوم والی ریاست بھوپال کے ہاں باریابی کا شرف حاصل کیا تھا۔ اور میر ے استفسارات کے جواب میں نواب حمید اللہ خاں صاحب نے علامہ اقبال علیہ الرحمتہ کا حوالہ دے کر فرمایاتھا کہ میری حکومت نے ان کا مشورہ بطیب خاطر قبول کر لیا ہے اور اب زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو ریاست میں آ کر آباد ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ سلطان پور نیل گڑھ کا علاقہ بھی دیکھنے گیا تھا۔ پہاڑوں کے دامن میں سرسبز و شاداب وسیع و عریض خطہ ارض تھا۔ ا س علاقہ میں ایک دریا بھی بہتا تھا۔ نگران اعلیٰ افسر نو آبادیات نواب زادہ سعید الظفر خاں نواب صاحب کے بھتیجے مقرر ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے قافلے کے قافلے شمالی ہند سے وارد ہورہے تھے۔ کوئی ٹرین آباد کاروں سے خالی نہ جاتی تھی۔ پلیٹ فارم پر ٹرین رکتی تو اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوتے ۔ ان لوگوں کا شاندار اور پرتپاک استقبال کیا جا تا۔ نواب زادہ صاحب بہ نفس نفیس ان کی قیادت کرتے ۔ اور منتخبہ علاقوںمیں پہنچاتے۔ ان کے خودد ونوش کامعقول انتظام ہوتا تھا۔ میں نے یہ دیکھا کہ جب یہ قافلے اور جماعتیں وہاں پہنچ جاتیں اور ان کے لیے اراضی اور جائے مسکن کی نشان دہی کر دی جاتی تو یہ لوگ سب سے پہلے درختوں کو کاٹ کر ان کی لکڑی کے ستون کھڑے کر کے اوپر پتو ں سے چھپر بنا لیتے اور پھر اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا بلند ہوتی۔ باقاعدہ نماز ادا کی جاتی۔ اس کے بعد آبدی کی اس مسجد کے اطراف میں لوگ اپنے جھونپڑے بنا لیتے۔ حکومت انہیںسال بھر کے کھانے کے قابل غلہ بولنے کے قابل بیج جوتء کے قابل بیل اور ضروریات کے لیے مختص رقم دیتی‘‘۔ آبا د کار ی کی یہ سکیم جیسا کہ حسن عزیز صاحب نے بیان کیا ہے کہ اقبال کی تحریک پر نواب صاحب نے شروع کی تھی۔ جو عرصہ تک کامیابی سے جار ی رہی لیکن کچھ مدت کے بعد بھوپال کے متعصب ہندوئوں نے کانگرس کی پشت پناہی سے اس کی مخالفت شروع کر دی اور لاکھوں روپیہ تقسیم کر کے ایک مخالف آباد کاری جماعت کھڑی کر دی۔ جاوید صاحب کا کہنا ہے کہ اس پروپیگنڈے سے بھوپال صرف بھوپالیوں کا ہے کا نعرہ لگا کر ایجی ٹیشن شروع کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں فسادات ہوئے اور سیاسی فضا مکدر ہو گئی ۔ انجام آباد کاری کی یہ سکیم محض کانگریسیوں اور شوریدہ سروں کے ہاتھوں ناکام ہوگئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح حیدر آباد حیدر آبادیوں کا ہے۔ کے نعرے لگا کر حیدر آباد میں بھی ناعاقبت اندیشوں نے سر علی امام صدر المہام ریاست دکن کی آباد کاری کی تجویز کو ناکام بنا دیا تھا۔ جس کا خمیازہ تقسیم ملک کے وقت بھگتنا پڑا۔ آباد کاری کی ا س سکیم کی کامیابی اورناکامیابی سے قطع نظر غو ر کرنے کی با ت ہے کہ اقبال کی اس تجویز کا حقیقی منشا مقصد کیا تھا۔ وہ دراصل مسلم ریاستوں میں مسلم اکثریت دیکھنا چاہتے تھے۔ بھوپال میں ہندو اکثریت میں تھے اور کشمیر میں مسلمان۔ اسی سلسلے میں انہوں نے بھوپال کے پہلے سفر کے دوران اقبال حسین خاں سے یہ دلچسپ بات بھی کہی تھی: ’’ہمارے خیال سے تو کشمیر نواب صاحب بھوپال کو دیے جانے اور ھوپال مہاراجہ کشمیر کو وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں ہندوئوں کی اکثریت‘‘۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دو قو می نظریے سے متعلق اپنے ذہن میں کیا نقشہ بنا چکے تھے۔ اور نواب صاحب بھوپال کو کن دوررس نتائج کے تحت انہوں نے آباد کاری کی یہ سکیم پیش کی تھی۔ بہرطور اقبال کے ان نظریات کے علاوہ ان کی دور اندیشی ہندوستان کی تقسیم مسلم اکثریتی علاقوں کی وحدت اور اس کی سیاسی اثر و نفوذ پر ان کی بالغ نظری سے شاید ہی کوئی انکار کر سکے۔ ان خطوں کا تیسرا حسہ خود اقبال کی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کے پس منظر میں راس مسعود کی وہ مساعی تھیں جو ان کی خصوصی امداد و اعانت کے سلسلے میں خاموشی سے کر رہے تھے اور جن کا تھوڑا بہت علم اقبال کو بھی تھا۔ اگرچہ فوری طور پر ان کوششوں سے نتائج برآمد نہ ہو سکے ۔ لیکن خطوط کے ان اقتباسات سے اقبا ل کی ذہنی اور مالی پریشانیوں کی واضح طور پر نشان دہی ہوتی ہے۔ ۰ ۲ مارچ کے خط کا یہ اقتباس: ’’… معاملہ معلومہ کی نسبت آپ کو کوئی اطلاع ملی ہے؟ اس خط کا جو اس ماہ کے آخر میں آپ مجھے لکھنا چاہتے تھے بے تابی سے منتظر ہوں…‘‘۔ ارو ۲۹ مارچ کے خط کا یہ واضح حصہ طور پر ان مساعی پر روشنی ڈالتا ہے جو راس مسعود کے مستقل وظیفہ کے سلسلے میں کر رہے تھے۔ تاکہ وہ جن مالی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں ان سے نجات مل جاتی اور وہ آسودگی… طمانیت قلب اوریکسوئی کے ساتھ فکر و تخلیق کا فریضہ انجام دے سکتے۔ ’’… شاید آپ حیدر آباد سے کسی جواب کے منتظر ہوں گے۔ آپ کا خیال تھا کہ مارچ کے آکر میں آپ کسی قطعی فیسلہ کی اطلاع دے سکیں گے۔ میرے حالات اس امر کے مقتضی ہیں کہ کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو گو میں آپ سے چھپا نہیں سکتا کہ مجھے اس طرف سے ناامیدی ہے۔ غرض کہ میں آپ کے جواب کا شدت سے منتظر ہوں‘‘۔ راس مسعود سے اقبال کے ذاتی اور خانگی مسائل پوشیدہ نہ تھے۔ قیام بھوپال کے دوران ان مسائل پر تفصیل سے گفتگو ہو چکی تھی۔ اور راس مسعود کوشاں تھے کہ ریاست بھوپال کے علاوہ حیدر آباد ریاست بھاول پور اور سر آغاخان ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیں تاکہ وہ قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے نوٹ تیار کر سکیں جن کس تذکرہ انہوںنے بھوپال کے قیام کے دوران راس مسعود سے کیا تھا۔ ان اقتباسات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ انہیں حیدر آباد سے کسی وظیفے یا اعانت کی توقع نہ تھی کیونکہ اس سے قبل وہ دو با ر حیدر آباد کے نظم دکن سر اکبر حیدری اور مہاراجہ کشن پرشاد سے مل چکے تھے۔ مہاراجہ اور سر اکبرحیدری نے اقبال کو حیدر آباد بلانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن انہیں کامیابی نہ ہو سکی تھی۔ ارو یہ اطلاعات صرف افواہ کی حد تک ہی ہیں کہ اقبال ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہو کر آ رہے ہیں یا انہیں جامعہ عثمانیہ کی وائس چانسلری کی پیش کش کی گئی ہے۔ یہی صورت وظیفے کے سلسلے میں رونما ہوئی۔ حیدر آباد کی بااقتدار اور اقبا ل سے دلی عقیدت رکھنے والی شخصیتیں بھی ریاست سے ان کے وظیفے کا اجرا نہ کرا سکیں جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے … اقبال اور حیدر آباد میں نظر حیدری آبادی نے جگہ جگہ ا س کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ حیدر آباد کی ملازمت کے سلسلے میں افواہ پھیلنے پر اقبال نے جو خط مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھا ہے اس کے اقتباس کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ ’’… یہاں پنجاب اور یوپی کے اخباروں میں چرچا ہوا تو دور دور سے مبارک باد کے تار اڑ گئے اور اضلاع پنجاب کے اہل مقدمات جن کے مقدمات میرے سپرد ہیں ان کو گونہ پریشانی ہوئی بہرحال مرضی مولا زہمہ اولیٰ ۱؎‘‘ لیکن بقول نظر حیدر آبادی: ’’… مرضی مولا کو یہ منظور نہ تھا کہ اقبال حیدر آبا د میں ہوتے۔ اگرچہ حیدر آباد میں بھی اکثر یہ افواہیں پھیلتی رہتی تھیں کہ اقبال ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنا دیے گئے کبھی یہ سننے میں آتا کہ وہ جامعہ عثمانیہ کے وائس چانسلر ہو گئے ہیں۔ علی ہذا القیاس لیکن ان میں سے کوئی خر بھی حقیقت نہ بن سکی حالانکہ اہل حیدر آباد اور خصوصاً مہاراجہ کشن پرشاد اور اکبر حیدری وغیرہ جیسے ذی اثر حضرات دل سے چاہتے تھے۔ کہ اقبال حیدر آباد آ جائیں ۲؎‘‘۔ حیدر آباد میں اقبال کے شایان شان ملازمت کی پیش کش اور اقبا ل کا وظیفہ مقرر نہ ہونے کے اسباب پر نظر حیدر آبادی ایک اور جگہ رقم طراز ہیں : ۱؎ اقبال نامہ (حصہ دوم) صفحہ ۱۸۴ ۲؎ اقبال اور حیدر آباد صفحہ ۱۳ ’’… حضور نظام سے لے کر ایک عام حیدر آبادی کی خواہش اورتمنا کے باوجود اقبال اور حیدر آبادمیں مستقل قیام نہ کر سکے۔ لیکن اس کا ملال سبھی کو رہا کہ اقبال کے شایان شان عہدہ کے اختراع اور تجسس نے جو سرکار عظمت مدار برطانیہ کے نمائندہ حیدر آباد کے اشرے سے کبھی وجود میں نہ آسکا۔ ایک سامنے کی بات کو اکابر دکن کی نظروں سے اوجھل کر دیا اور وہ سیدھی سی بات تھی کہ ان کے لیے معقول وظیفہ کا اجرا اور یہ بات کچھ ایسی مشکل نہ تھی۔ اور نہ اس سے کسی کو خوف ہو سکتا تھا۔ دیگر مشاہیر کے قطع نظر خود پنجاب کے ایک اور شاعر حفیظ ۱؎ ہیں جس ریاست سے ماہانہ وظیفہ پاسکتے تھے وہاں اقبال کے لیے کسی وظیفہ کا اجرا کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی کو سوجھا ہی نہیں اور سوجھا بھی تو اس وقت جب ریاست بھوپال نے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا ۲؎‘‘۔ اس پس منظر میں اقبال کا یہ لکھنا : ’’… شاید آپ حیدر آباد سے کسی جواب کے منتظر ہوں گے‘‘ اور پھر فوراً ہی ماضی کے تلخ تجربوں کی روشنی میں اپنی واضح رائے کا اظہار کر دینا۔ ’’… گو میں آپ سے چھپا نہیں سکتا کہ مجھے اس طرف سے ناامیدی ہے‘‘۔ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انہیںحیدر آباد کی الجھی ہوئی سیاست اور حیدر آبادی اور غیر حیدر آبادی کے نعروں سے آلودہ فضا کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا حالانکہ خون ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ حیدر آباد میں رہ کر ریاست کی خدمت انجام دیتے جیسا کہ سرکشن پرشاد کے نام خط کے اقتباس سے بھی ظاہر ہوتاہے۔ ’’… حیدر ی صاحب تو اقبال کو بلاتے بلاتے رہ گئے یونیورسٹی کے کاغذات ان کی طرف سے کبھی کبھی آ جاتے کہ یہیں سے مشورہ لکھوں۔ ادھر سے مولوی عبدالحق صاحب اصطلاحات علمیہ کی ایک طویل فہرست ارسال کر دیتے کہ ان کے تراجم اردو پر تنقید کروں گویا ان بزرگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے یکہ اقبال کو کوئی اور کام نہیں‘‘۔ میرا جذب دل تو بوڑھا ہو گیا۔ آپ کا جذبہ تو بفضلہ ابھی جوان ہے اور ہمیشہ رہے گا پھر کیوں اقبال کو وہاں نہیں کھینچ لیا جاتا ۳؎‘‘۔ لیکن اقبال کو کھینچ لے جانے کا خواب کبھی شرمندی تعبیر نہ ہو سکا۔ چنانچہ یہ تھی وہ تلخ حقیقت جس کے نتیجہ میں انہوںنے حیدر آباد سے کسی اعانت کی توقعات ختم کر دی تھیں۔ لے دے کر اب راس مسعود ہی ان کے مونس جلیس اور غم خوار تھے۔ جنہیں وہ بلا تکلف اپنا حال دل لکھ دیا کرتے تھے۔ وہ ان دنوں سخت مشکلات میں اور مصائب میںمبتلا تھے۔ ان کے مالی حالات بھی بے حد پریشان کن تھے۔ بیوی کی مسلسل علالت نے ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ نذیر نیازی صاحب کو بھوپال سے لوٹ کر جو خط انہوں نے حکیم نابینا صاحب کو لاہور بلانے کے سلسلے میں لکھا ہے اس کے اقتبا س سے ان کے ذاتی اور ذہنی الجھنوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے: ۱؎ ابوالاثر حفیظ جالندھری سے مراد ہے ۲؎ اقبال اور حیدر آباد صفحہ ۲۰۔۲۱ ۳؎ اقبال نامہ (جلد دوم) صفحہ ۱۹۱۔۱۹۲ ’’… ایک سال سے زیادہ مدت ہوئی کہ میں اپنی علالت کی وجہ سے کچھ کام نہیں کر سکا آمدنی کے ذرائع مسدود ہو گئے ہیں۔ تاہم جہاں تک ممکن ہو گا میں حکیم صاحب کے سفر کا بار اٹھانے کے لیے حاضر ہوں۱؎‘‘۔ ان حالات میں اقبا ل کا راس مسعود کو اپنے ذاتی مسائل کے سلسلے میں بار بار متوجہ کرنا اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ انہیں راس مسعود کی بے ریادوستی ‘ سچی ہمدردی اور بے پناہ عقیدت مندی پر ناز ہی نہیں ان کی مخلصانہ سعی و کوشش پر اعتماد بھی تھا۔ چنانچہ ایک اور خط میں جو ۱۴ اپریل ۱۹۳۵ء کا تحریر کردہ ہے ہمیں ریاست بھاول پور کا تذکرہ ملتاہے اس کا تعلق بھی غالباً وظیفہ کے متعلق ہے۔ کیونکہ خط عبارت واضح نہیں ہے اس لیے یہ گمان کرنے کے معقول وجوہ ہیں کہ راس مسعود نے نواب صاحب بھوپال سے جو خط نواب بہاول پور کو لکھوایا تھا وہ یقینا وظیفہ ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے مندرجات کا اقبال کو پہلے کوئی علم نہ تھا۔ لیکن اس اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال نے کسی دوست کے ذریعہ اس خط کے مضمون سے آگاہی حاصل کر لی چنانچہ لکھتے ہیں: ’’لاہور ۱۴ اپریل ۱۹۳۵ء مائی ڈیر مسعود امید ہے کہ آپ کو میرا وہ خط جس میں مس فرکوہرسن کا خط ملفوف تھا مل گیا ہو گا۔ خط کشیدہ پیرا کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ کیا وہ کاغذات بھی آپ کو مل گئے ہیں جو مس موصوفہ نے آپ کو بھیجے تھے۔ میں اور چند دوسرے احباب اعلیٰ حضرت کے استعفیٰ کے متعلق ایک بیان اورئنٹل پریس میں بھیج رہے ہیں۔ میرے متعلق آپ کو جو تجویز ہے اس کا سراغ مجھے انجام کار ہی مل گیا۔ مجھے یہ اطلاع ایک بہاول پور ی دوست کی معرفت ملی ہے اور یہ معلوم ہوا ہے کہ نواب صاحب بھوپال نے نواب صاحب بہاول پور کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس خط کے مضمون سے تھوڑی سی بہت آگاہی ہوئی ہے۔ کیا میری اطلاع درست ہے؟ اس خط کا جواب موصول ہونے پر میں اس سلسلے میں اپنی رائے آپ پر ظاہر کر سکوں گا۔ انور کو پیار محمد اقبال ۲؎‘‘۔ اس خط کا راس مسعود نے فوراً جواب دیا اور اس خط کے مندرجات کے بارے میں بھی مختصراً وضاحت کر دی ۔ ساتھ ہی اس امر کی تصدیق بھی کہ بہاول پور خط بھیجے جانے کی خبر درست ہے۔ سطور بالا میں میں نے وظیفہ کے سلسلے میں نواب صاحب بہاول پور کے نام خط کا تذکرہ کرتے ہوئے جو نتائج اخذ کیے تھے وہ راس مسعود کے جواب مورخہ ۱۶ اپریل ۱۹۳۵ء اور وظیفہ کی یادداشت سے لفظ بہ لفظ صحیح ثابت ہوئے۔ راس مسعود کا یہ خط اور مسودہ یادداشت کتاب کی نظر ثانی کے دوران دستیاب ہوا۔ ملاحظہ ہو: ’’بھوپال ۱۶ اپریل ۱۹۳۵ء میرے نہایت پیارے اقبال تمہارا مہربانی نامہ مورخہ ۱۴ اپریل مجھے ابھی ابھی ملا ہے۔ ہاں بہاول پور خط بھیجے جانے کی خبر درست ہے۔ تمہاری دوست مس فرکوہرسن ۱؎ کے کاغذات بھی مجھے مل گئے ہیں جن کا میں توجہ کے ساتھ مطالعہ کروں گا۔ میں متعدد امور میں بری طرح الجھا ہوا ہوں۔ ہز ہائی نس کے بھوپال واپس آ جانے کے بعد میں ان سے تمہاری خط کشیدہ عبارت پر تبادلہ خیا ل کروں گا مگر مجھے نہیں معلوم موصوف کی اس کے بارے میں کیا رائے ہو گی۔ میں سمجھتا ہوںکہ نئے دستور کے سلسلے میں طریق کار کی کسی تبدیلی کے لیے اب بہت تاخیر ہو چکی ہے ۔ تم ہمارے پاس اپنا علاج جاری رکھنے کے لیے کب واپسی کا ارادہ رکھتے ہو ۔ امید ہے کہ جیسا میں نے پچھلے خط میں عرض کیا تھا تم علی گڑھ جائو گے۔ محبت کے ساتھ ہمیشہ تمہارا مخلص دوست سید راس مسعود ۱؎‘‘۔ اقبال کے وظیفہ کے بارے میں یادداشت ’’قومی زبان‘‘ کے پچھلے اقبال نمبر اپریل ۱۹۷۵ء میں اپنے مضمون… خطوط را س مسعود بنام اقبال کے ایک فٹ نوٹ میں میں نے عرض کیا تھا کہ ہز ہائی نس نواب حمید اللہ خاں والی بھوال کے ایما پر علامہ اقبال کے لیے ایک ہزار روپیہ ماہوار کے وظیفہ کا بندوبست کرنے کے سلسلے میں… سر راس مسعود نے ہز ایل ہائی نس سر سلطان محمد شاہ آغا خاں نیز دیگر مسلم والیان مسلم ریاست کو ارسال کرنے کی غرض سے ایک خط کا مسودہ تیار کیا تھا جس میں نے ۱۹۷۰ء میں خیابان مسعود کے انگریزی حصہ میں شائع کر دیا تھا۔ اس نوٹ میں یہ بھی عرض کیا گیا تھا کہ اس مسودہ کا اردو ترجمہ بشرط حیات آئندہ کبھی شائع کیا جائے گا۔ چنانچہ علامہ اقبال پر قومی زبان کی موجودہ اشاعت خاص میں یہ ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ فٹ نوٹ مذکورہ صدر میں کہا گیا تھا ک ہاس سکیم پر عمل نہ ہوا۔ مراد یہ تھ کہ یہ مراسلہ جاری نہیںکیا گیا۔ اس لیے کہ علامہ اقبال نے نواب صاحب بھوپال کے پانچ سو روپیہ ماہوار ہی کو اپنے لیے کافی سمھا۔ محترمہ بیگم صاحبہ چھتاری… سابق لیڈی مسعود سے بعد کی گفتگو میں معلومہوا کہ نواب صاحب بھوپال کی مقررہ رقم اسی سکیم کا حصہ تھ اور موصوف کی منظوری کے بعد مسودہ مذکور کی ترسیل بھی ہوئی تھی۔ ۱؎ مس فرگوسن نیشنل لیگ آف انگلینڈ کی طرف سے رائل کمیشن کی رپورٹ بابت فلسطین پر علامہ سے ان کے اور جمیع مسلمانان غیر منقسم ہندوستان کے خیالات معلوم کرنے کی غرض سے خط و کتابت کر رہی تھیںَ (جلیل قدوائی) ۔ چنانچہ صرف ہر رائل ہائی نس آغا خاں مرحوم نے بقیہ پانچ سو روپیہ ماہوار ماہانہ کی اعانت منظور فرمای تھی مگر علامہ نے یہ اضافی رقم قبول نہیں کی۔ یہ ضرور ارشاد فرمایا تھا کہ اگر ضرورت ہوئی تو اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے قبول کرنے پر غور کریں گے لیکن اس قسم کی کوئی ضرورت پیش آنے سے قبل ہی وہ معبود حقیقی سے جا ملے۔ (جلیل قدوائی)۔ مسودہ آج میں یورہائی نس کو ایک ایسے موضوع پر مخاطب کرنے کی جسارت کرتاہوں جس پر پچھلے کچھ عرصے سے بڑی سنجیدگی سے غور کرتا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ مسلم والیان ریاست کو موروثی اعلیٰ روایات کے عین مطابق ہونے کے باعث وہ آپ کے فطری جذبہ فیاضی کو متاثر کرے گا۔ دور حاضر کے سب سے بڑے مسلم زندہ شاعر سر محمد اقبال کے نام نامی سے آپ ضرور واقف ہو ں گے۔ ان کا نہ صرف ہماری قوم کی ذہنی و فکری زندگی میں بلند ترین مقام ہے بلکہ مغربی دنیا میں بھی انہیں ادب و دفلسفہ کے ہر دو کے میدان میں مسلمانان ہند کی ثقافت کا عظیم نمائندہ تسلیم کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ بارہ ماہ سے وہ خلق کے ایک خطرناک مرض میں مبتلا تھے اور اس کی کوئی امید باقی نہیں کہ وہ آئندہ کبھی اپنی بیرسٹری کی پریکٹس جاری رکھ سکیں گے۔ جو ان کی معاش کاواحد وسیلہ تھا۔ جب تک اردو زبان ہمارے ملک میں بولی جاتی رہے گی۔ آئندہ نسلیں اقبال کا نام ایک ایسے صاحب کمال کی حیثیت سے جس نے ہماری شاعری میں ایک نئی روح پھونکی اور جس کے سبب ہماری مادری زبان کے ثقافتی معیار اور اس کی شہرت میں اضافہ ہوامحبت و افتخار کے ساتھ لیتی رہے گی۔ یہ امر ہمارے لیے شایان ہو گا کہ ان تاریک ایام میں جو بدقسمتی سے ا ب ان کے آنے والے ہیں ہم سے جس قدر ممکن ہو ان کی خدمت کریں تاکہ یہ کہنے کو نہ ہو کہ ہندوستان میں اس وقت کے والیان ریاست موجود تھے تاہم موصوف کو ناداری اور مصائب کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہماری نسل کے طولانی وقائع علم و ثقافت کے لیے ہمارے عظیم الشان حکمرانوں کی امداد سرپرستی کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں اور انہیں اسباب کی بنا پر ان کے نام نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ مہذب دنیا میں قدر و منزلت کے ساتھ لیے جاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شعراء و اہل علم کے ساتھ اس قسم کی امداد کو مغرب کے ان نکتہ چینوں نے بھی مسلم ثقافت کا بنیادی جزو تسلیم کر لیا ہے جنہوںنے اسلامی ثقافت کی عظمت کو گھٹانے کی زادہ سے زیادہ کوشش کی ہے۔ ہمیں دنیا کو دکھانا چاہیے کہ ایسے افراد کی ہر امکانی امداد کے سلسلے میں جنہوںنے ہماری ثقافت کی خدمت کی ہے آج کے مسلم والیان ریاست اپنے معزز پیش روئوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ ان امور کے پیش نظر مٰں اپنے برادر شہزادگان سے جو مسلم والیان ریاست بھ ہیں اپیل کرکے سر محمد اقبال کے لیے ایک ہزار روپے ماہوار کی آمدنی کی طرف سے اطمینان کر لینا چاہتاہوں۔ اس سے وہ نہ صرف اپنی باقی ماندہ مختصر زندگی نسبتاً اطمینان سے گزار سکیں گے بلکہ اپنے مفید ادبی مشاغل بھی جاری رکھ سکیں گے۔ مجھے قوی امید ہے کہ آپ میری تجویز سے اتفاق کریں گے اور مندرجہ بالا مقصد کی خاطر بخوشی مبلغ روپیہ ماہانہ کا عطیہ منظور فرمائیں گے۔ میں ٰقین کرتا ہوں کہ مسلم والیان ریاست کی طرف سے سر محمد اقبال کی شان دار خدمات کا متفقہ اعتراف جمیع مسلمانان ہند کے لیے مسرت کا باعث ہو گا اور مسلم ریاستیں ان تمام امور کی ترقی و تحفظ کی راہ میں جنہیں ہماری قوم کی زندگی میں ثقافتی اہمیت حاصل ہے آج بھی جو عظیم الشان کردار ادا کر رہی ہیں یہ واقعہ اس کی ایک اور مثال ہو گا۔ میں خود مبلغ روپیہ ماہوار اس کے مد کے لیے نکال رہا ہوں اور شکر گزار ہوں گا کہ اگر آپ بھی اپنا عطیہ ہر ماہ کی یکم تاریخ کو مجھے ارسال کر دیا کریں تاکہ سرمحمد اقبال کو ہر ماہ باقاعدگی سے ایک ہزار روپیہ کی رقم پہنچتی رہی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیںکہ یور ہائی نس از راہ کمال فیاضی جو رقم عطا کرنا منظور فرمائیں گے حضرت موصوف کو اس سے مطلع کر دیا جائے ۱؎۔ اس نایاب یادداشت کی فراہمی کے بعد اقبال کے ان خیالات کی صداقت کو تسلیم کرنا پڑتاہے کہ جس کا اظہار انہوںنے ریاست حیدر آباد اور ریاست بہاول پور کے بارے میں کیا۔ ۲۹ مارچ ۱۹۳۵ ء کا یہ اقتباس : ’’میرے متعلق آپ کی جو تجویز ہے اس کا سراغ مجھے انجام کار مل ہی گیا۔ مجھے یہ اطلاع ایک بہاولپوری کی معرفت ملی ہے کہ اور یہ معلوم ہوا ہے کہ نواب صاحب بھوپال نے نواب صاحب بہاولپور کے نام ایک خط لکھا ہے اس خط کے مضمون سے بھی تھوڑی بہت آگاہی ہوئی ہے‘‘۔ اس حقیقت کے غماز ہین کہ انہیںان دونوں ریاستوں سے کسی امداد اور سرپرستی کی ہرگز توقع نہ تھی جیسا کہ آئندہ کے واقعات سے بھی ثابت ہو گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ نواب صاحب بھوپال کی اس قابل قدر یادداشت کا ریاست حیدر آباد یا ریاست بہاول پورنے کوئی مثبت جوام نہیں دیا بجز آغا خاں مرحوم کے۔ یہ تھیں راس مسعود کی وہ مخلصانہ کوششیں جو وہ اپنے عزیز اور بہترین دوست کے لیے کر رہے تھے۔ تاکہ انہیں جلد از جلد مالی الجھنوں اور ذہنی پریشانیوں سے چھٹکارا نصیب ہو سکتا۔ اور وہ اپنا تمام تر قیمتی وقت ا س عظیم خدمت کے لیے وقف کر سکتے جس کا تعلق قرآن مجید کے حواشی میں تھا اور جس کی تکمیل کی اقبال کو دلی آرزو تھی۔ راس مسعود اور اقبال کے درمیان اس عرصہ میں خط و کتابت کا سلسلہ جاریتھا راس مسعود نے اقبال کو دوبارہ بھوپال آنے کی دعوت دی۔ خود راس مسعود کی صحت ان دنوں اچھی نہیں تھی اس کے باوجود وہ اپنے محترم دوست کے ہر خط کا جواب دے رہے تھے۔را س مسعود اور اقبال کے حسب ذیل خطوط سے ان امور کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ ۲۴ اپریل ۱۹۳۵ء سے قبل اقبال نے جو خط راس مسعود کو لکھا ہے۔ افسوس کہ وہ نہ اقبال نامہ میں شامل ہے نہ کہیں دست یاب ہو سکا۔ اس کے باوجود راس مسعود کے خط مورخہ ۲۴ اپریل اور اقبال کے جواب مورخہ ۲۶ اپریل ۱۹۳۵ء سے اقبال کے صبر آزما حالات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں: ’’ریاض منزل بھوپال۔ سی ۔ آئی ۲۴ اپریل ۱۹۳۵ء میرے نہایت پیارے اقبال تمہیں محبت نامے کا شکریہ مجھے افسوس ہے کہ تم علی گڑھ نہ جا سکے اور یہ معلوم ہوکہ بیگم صاحبہ سخت علیل ہیں تکلیف ہوئی۔ تم نے محترمہ کی بیماری کی نوعیت نہیں لکھی۔ ایسی حالت میں اتنے فاصے سے صحت یابی کی دعا کے سوا کیا کر سکتا ہوں۔ تمہارے ذاتی معاملہ کی بابت صورت حال ذرا کچھ اور واضح ہو تو خبر دوں کہ پچھلے چار روز سے میں خود ملیریا کے شدید حملے کی وجہ سے بستر پر پڑ گیا ہوں اور اس نے جاتے جاتے مجھے کچھ بہرا اور خاصا بے حال کر دیا ہے۔ مجھے صحیح صحیح بتائو کہ اپنا علاج جاری رکھنے کے لیے یہاں کس تاریخ کو پہنچ رہے ہو۔ امتل کی طرف سے مودبانہ سلام اور لیڈی اقبال کے لیے دعا قبول ہو۔ میری طرف سے علی بخش کو سلام اور جاوید کو دعا۔ ہمیشہ تمہارا چاہنے والا سید راس مسعود ۱؎ ڈاکٹر سر محمد اقبال بار ایٹ لا میکلوڈ رروڈ لاہور یہ خط ملتے ہی اقبال نے جواباً لکھا: (انگریزی) ’’لاہور … ۲۶ اپریل ۱۹۳۵ء مائی ڈیر مسعود… نوازش نامہ موصول ہوا ۔ آپ کی علالت کی اطلاع باعث تشویش ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد آپ کو صحت کلی عطافرمائے۔ ۱؎ مکتوبا ت اقبال۔ صفحہ ۲۴۶ میں انشاء اللہ مئی کے آخر تک بھوپال آکسوں گا۔ میری بیوی گزشتہ دس سال سے بیمار اور تلی اور جگر کے عوارض میں مبتلا ہے اور اب بوجہ بخار زیادہ کمزور ہو گئی ہے ۔ ہم لوگ انشاء اللہ وسط مئی تک اپنے نئے مکان میں چلے جائیں گے۔ خڈا کرے کہ اس وقت تک میری بیوی چلنے پھرنے کی ہمت یدا ہوجائے۔ اگرچہ مجھے آپ سے یہ کہنے میں تامل نہیںکہ مجھے اس سلسلے میں کامیابی کی کچھ زیادہ توقع نہیں۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے تو اس خیال کی مسرت تھی کہ آپ کی اس کوشش میں کامیاب ہونے کی قوی امید تھی اور اس طرح میرے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں۔ لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوء پیش کش مسلمانان عالم کو نہیںکر سکتا۔ بہرحال دیدہ باید ہر امر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر عالم جدید میں اسلام کی اس خدمت کا شرف میرے لیے مقدر ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ ا س کی تکمیل کے لیے ضروری ذرائع بہم پہنچا دے گا۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں سلام کہیے علی بخش آپ دونوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے۔ جاوید بھی آپ ارو لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔ محمد اقبال ۱؎‘‘۔ اس خط سے مئی میں ان کے دوبار ہ بھوپال آنے کا ارادہ کااظہار بھی ہوتاہے اور بیوی کی علالت کا حال بھی معلوم ہوتا ہے۔ نئے مکان سے مراد جاوید منزل ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں تھی ا س خط میں واضح طور پر راس مسعود کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے انہوںنے ڈھکے چھپے الفاظ میں ان خطوط کی طرف اشارہ کر کے اپنی مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے جو راس مسعودنے نواب صاحب بھوپال سے حیدر آباد اور بہاول پور بھجوائے تھے۔ ان کا یہ لکھنا… مجھے اس سلسلہ میں کامیابی کی کچھ زیادہ توقع نہیں ہے… اور پھر انتہائی مایوسی کے عالم میں یہ اظہار کرنا: …لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا… اگر مجھے حیات مستعار کی باقی گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر می ںکوء پیش کش مسلمانان عالم کو نہیں کر سکتا…‘‘ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۵۶تا ۳۵۸ ان کے دلی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ لیکن اقبال کی مایوسی اور دل برداشتگی کے باوجود راس مسعود نے اپنی پر خلوص مساعی جاری رکھیں۔ حیدر آباد اور بہاول پور سے توقعت کے مطابق کامیابی نہ ہوئی۔ تو انہوںنے نواب صاحب بھوپال اور سر آغا خاں سے رجوع کرنا مناسب سمجھاجس کی اطلاع انہوں نے اقبال کو بھی نہیں دی۔ کیونکہ ان ہی دنوں نواب صاحب نے علی گڑھ یونیورسٹی کی چانسلری سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اور علی گڑھ کے حالات ایک بار پھر الجھ گئے تھے ۲ مئی کے خط سے بیوی کے آپریشن بھوپال آخر مئی میں پہنچنے کے قصد اور نواب صاحب کے چانسلری سے استعفیٰ کے متعلق مسائل پر واضح روشنی پڑتی ہے۔ (انگریزی) ’’لاہور… ۲ مئی ۱۹۳۵ء مائی ڈیر مسعود… امید ہے آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ دونوں بخیریت ہوں گے۔ الحمد للہ میری تشویش ذرا کم ہو گئی ہے۔ میری بیوی کو ایک آپریشن کروانا پڑاہے۔ اگرچہ یہ بڑاہی ہولناک اور ناقابل برداشت منظر تھا لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی زندگی بچ گئی۔ میں انشاء اللہ مء کے آخر میں آپ دونوں کے پاس پہنچ جائوں گا آپ نے کوئی اطلاع نہیں دی اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ معاملہ جوں کا توں ہی ہے۔ یونیورسٹی کا چانسلر اب کون ہو گا؟ کاش اعلیٰ حضڑت نواب بھوپال نے اپنے استعفیٰ پر دوبار ہ غور فرما سکتے۔ لیکن شعیب صاحب نے مجھے لکھا تھا کہ اس کا کوئی امکان نہیں۔ یہ ممکن نہیں بلکہ اغلب ہے کہ لارڈ ویلنگڈن نواب صاحب کو استعفیٰ پر مکر ر غور کرنے پر ضرور مائل کر لیں گے۔ مجھے اطلاع دیجیے کہ اعلیٰ حضرت کا اس سلسلے میں کیا ارادہ ہے اگر اعلیٰ حضرت رضامند نہ ہوں تو پھر کیا آپ کی رئے میں نواب صاحب بہاول پور اس منصب کے لیے موزوں ہوں گے… محمد اقبال علی بخش آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں سلام عر ض کرتا ہے ۱؎‘‘۔ اقبال کا خط پا کر راس مسعود نے پہلی فرصت میں جواب دیا اور انہیں مئی کے آخر تک بھوپال آکر اپنا علاج کرانے کا مشورہ دیا۔ ساتھ ی یہ اطلاع بھی کہ اس بار وہ نواب صاحب بھوپال کے مہمان ہوں گے۔ اور اعلیٰ حضرت بہ نفس نفیس ان کے آرام دہ قیام کا انتظام فرمائیں گے۔ اسی خط میں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نواب صاحب بھوپال نے جن حالات کے تحت مسلم یونیورسٹی کی چانسلری سے استعفیٰ دیا تھا ان پر نظر ثانی کا زیادہ امکان نہیںتھا۔ خط کے آخر میں اقبال کے ذاتی معاملہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ خط کا متن ملاحظہ ہو۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحۃ ۳۵۸۔۳۵۹ ’’بھوپال ۹مئی ۱۹۳۵ء میرے نہایت پیارے اقبال تمہارے نہایت پیارے خط مورخہ ۲ مئی کو پا کر مجھے بڑا اطمینان ہوا جس میں یہ خوش خبری تھی کہ خداوند تعالی ٰ کی مہربانی سے تمہاری نیک بیگم صاحبہ کا آپریشن کامیاب رہا۔ ہاں مئی کے آخر تک یہاں ضرور پہنچ جائو اور اپنا علاج جاری رکھو۔ شاید میری بیوی سے تمہاری ملاقات نہ ہو اس لیے کہ… کم و بیش اسی زمانے میں وہ اندور چلی جائیں گی اور اس کے بعد جلد ہی مجھے بھی ان کے پاس جانا ہو گا مگر میں نے ہز ہائی نس سے ساری باتیں کر لی ہیں اور انہوںنے فرمایا ہے کہ وہ تمہیں بڑی خوشی سے اپنا مہمان بنائیں گے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اعلیٰ حضرت بہ نفس نفیس یہاں تمہارے آرام دہ قیام کا مناسب انتظام فرمائیں گے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ا س امر کا زیادہ امکان نہیں کہ ہر ہائی نس مسلم یونیورسٹی کی چانسلری سے اپنے استعفے پر نظر ثانی کری گے۔ اعلیٰ حضرت کسی اقدام میں جلدبازی سے کام نہیں لیتے اسی لیے میرے خیال میں وہ اپنی رائے نہیں بدلیں گے۔ تم چانسلری کے لیے جس شخص کو مناسب سمجھو اس کی سفارش کر دو۔ ہز ہائی نس اپنی چھوٹی شہزادی کو سوئٹزرلینڈ رخصت کرنے کے لیے یہاں انہیں بغرض علاج جانا پڑ رہا ہے۔ بمبئی تشریف لے گئے ہیں۔ ان کی واپسی پر مجھے معلوم ہو سکے گا کہ تمہارا معاملہ کس مرحلے میں ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کا تصفیہ ابھی تک نہ ہو سکا اور حالیکہ ہز ہائی نس ور مراسلہ ہذا کے ادنیٰ راقم سے زیادہ کوئی اور دو اشخاص اس معاملے میں دلچسپی نہیں لے سکتے۔ مکرر ۔ براہ کرم علی بخش کو میرا سلام پہنچائیں اور انہیں کہیں کہ جتنی گرمی انہیں اپنے پیارے لاہور میں لگ رہی ہوں گی یہاں اس کی آدھی بھی نہیں۔ بہترین پیار کے ساتھ تمہارا ہمیشہ راس مسعود ۱؎‘‘۔ ۱؎ ماہنامہ قومی زبان ۔ کراچی۔ اپریل ۱۹۷۵ء صفحہ ۱۰ راس مسعود کے اس خط کے جواب میں اقبال نے ۱۲ اور ۱۳ مئی ۱۹۳۵ ء کو یکے بعد دیگرے دو خط انہیں ارسال کیے جو بدقسمتی سے دست یاب نہ ہو سکے۔ البتہ نظر ثانی کے دوران راس مسعود کا خط مورخہ ۲۰ مئی ۱۹۳۵ء مل گیا جس سے اقبال کے خطوط کے مندرجات سے آگاہی ہوتی ہے۔ اقبال نے اپنے ان خطوط میں قرآن مجید کے حواشی سے متعلق جو تجویز پیش کی تھی اس راس مسعودنے اس سے کلیتاً اتفاق کیا ہے اور انہیں کوئی دس دن اور صبر سے کام لینے کی تلیقین کی ہے تاکہ اس عرصے میں وہ نواب صاحب بھوپال سے بات کر سکیں۔ راس مسعود کے خط مورخہ ۲۰ مئی اور اقبال کے جواب مورخہ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء سے ان مسائل پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے: ’’بھوپال ۔ سی آئی ۲۰ مئی ۱۹۳۵ء میرے نہایت پیارے اقبال مجھے تمہارے ۱۲ اور ۱۳ مئی ۱۹۳۵ کے دونوں خط ملے ہز ہائی نس کل ہی سہ پہر کو واپس تشریف لائے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجھے تمہارے معاملے پر اعلیٰ حضرت سے تبادلہ خیال کا وقت نہیں ملا مگر اس ہفتے باریابی کا موقع بخشے جانے پر جلد ہی اس سوال کو اٹھائوں گا۔ میں تمہارے دونوں خط اعلیٰ حضڑت کے ملاحظہ میں گزار دوں گا۔ اس لیی کہ تم نے ا میں جو تجویز پیش کی ہے اس سے مجھے کلی اتفاق ہے۔ میں خدا سے دعا کرتاہوں کہ وہ مجھے تمہیں ایسی خبر سنانے کے قابل بنائے جس سے تمہاری موجودہ مشکلات رفع ہو جائیں۔ خدارا کوئی دس دن اور صبر سے کام لو۔ امتل کے بارے میں یہ ضرور ہے کہ انہیں ابتدائے ماہ جون میں اندور ضرور چلاجانا ہے اور میں غالباً ان تک ۱۲ تاریخ کے لگ بھگ پہنچ جائوں گا یہاں تمہارے با آسائش قیام کے سلسلے میں میں نے جیسا کہ ۹ مئی کے خط میں لکھا چکا ہوں ہز ہائی نس مناسب انتظامات فرمائیں گے۔ براہ مہربانی مجھے اپنی متوقعہ آمد کی صحیح تاریخ سے مطلع کریں۔ مکرر ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہز ہائی نس چند دن کے لیے پھر باہر تشریف لے جا رہے ہیں۔ صمیم قلب کے ساتھ تمہارا ہمیشہ سید راس مسعود ۱؎‘‘ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کی زندگی کا یہ دور بڑی ابتلا و آزمائش کا تھا۔ ان کے سچے رفیق اور قدرداں… راس مسعود انہیں تقریباً ہر خط میں جلد بھوپال آنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ لین اقبال اپنی بیگم کی خطرناک علالت کے سبب اس وقت لاہور سے باہر نہیں جا سکتے تھے… چنانچہ راس مسعود کا خط ملتے ہی انہوںنے فوراً جواب دیا: ۱؎ ماہنامہ قومی زبان۔ کراچی۔ اپریل ۱۹۷۵ء صفحہ ۱۱ ’’لاہور …۲۳ مئی ۱۹۳۵ء مائی ڈیر مسعود نوازش نامہ کے لیے جس ایک گونہ اطمینان ہوا سرپا سپاس ہوں میری خواہش ہے کہ تو میں اس انسان کی خواہش ہے جو قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھا ہے۔ اور سر آخرت سے پہلے کچھ نہ کچھ خدمت انجام دینے کا تمنائی ہے مجھے امید ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت کی خدمت اقدس میں اس مسئلے کو پیش کر دیں گے۔ اعلیٰ حضرت کے مراحم خسروانہ کا کس زبان سے شکریہ ادا کروں کہ بھوپال میں میری آسائش کا ان کو اس قدر خیال ہے۔ میری بیوی خطرناک طور پر بیمار ہیں شاید اس کے آخری لمحات ہیں لہٰذا میرے لیے لاہور سے باہرجانا ممکن نہیںَ آپ کو بعد میں اطلاع دے سکوں گا مجھے اطلاع دیجیے کہ آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ کب بھوپال واپس آئیں گے۔ میرا خیال ہے کہ لیڈی مسعود صاحبہ تو کچھ دیر اندور میں مزید قیام فرمائیں گی۔ اور آپ جون کے آخر میں بھوپال واپس پہنچ جائیں گے۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں میرا سلام کہیے اور انور کو دعا۔ کیا حکیم صاحب ابھی وہاں ہی ہیں امید ہے انہیںملازمت مل گئی ہو گی۔ والسلام محمد اقبال ساڑھے پانچ بجے میری بیوی کا انتقال ہو گیا… اقبال ۱؎ ‘‘ ابھی اقبال بھوپال جانے کے پروگرام کو آخری شکل دینے بھی نہ پائے تھیکہ ۲۳ مئی کو ہی ان کی رفیقہ حیات کا انتقال ہو گیا۔ اور خط بند کرتے ہوئے آخری سطر میں انہوں نے راس مسعود کو اس المناک حادثہ کی اطلاع دے دی۔ اور دوسرے ہی روز انہوںنے نیازی صاحب کوبھی جو اس علالت کے دوران برابر ان کی خدمت میں مصروف رہے تھے۔ اس دردناک واقعہ سے مطلع کیا۔ ’’لاہور… ۲۴ مئی ۱۹۳۵ء ڈیرنیازی صاحب…السلام علیکم کل شام چھ بجے والدہ جاوید اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں۔ ان کے آلام و مصائب کا خاتمہ ہوا اور میرے اطمینان قلب کا اللہ فضل کرے۔ ہر چہ از دوست می رسد نیکو است باقی رہا میں… سو میری حالت وہی ہے جو بھوپال سے آتے وقت تھی۔ بھوپال نہ جا سکوں گا۔ جب تک بچوں کے لیے کوئی معقول انتظام نہ ہو جائے ۲؎۔ اس حادثہ جانکاہ پر نذیرنیازی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’… جاوید منزل منتقل ہوئے ابھی تین دن گزرے تھے کہ یہ حادثہ المیہ پیش آیا ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۶۰۔۳۶۱ ۲؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۷۴۔۲۷۵ اور ٹھیک اس وقت جب حضرت علامہ کو بیگم صاحبہ کی رفاقت اور معیت کی شدید ضرورت تھی لیکن عمر بھر کا یہ ساتھ اسی وقت ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیا مشیت ایزدی یونہی تھی۔ میں نے تعزیت کا تار بھیجا۔ جامعہ نے بھی تعزیت کی۔ بچوں کی پرورش اور نگہداشت اب ایک دوسرا مسئلہ تھا جس نے حضرت علامہ کے لیے مستقل پریشانی کی صورت اختیار کر لی۔ یہ صورت حالات بڑی یاس انگیز تھی۔ باقی رہا میں‘‘۔ ان الفاظ کو پڑھ کر بڑی تکلیف ہوئی… بھوپال جانا بھی رہ گیا ۱؎‘‘ بیوی کی رحلت کے بعد اقبال نے سب سے پہلے گھر کے بگڑے ہوئے نظام پر قابو پایا بچوں کی پرورش و نگہداشت پر توجہ دی اور پھر اپنے معمولات میں مصروف ہو گئے۔ ۳۰ مئی کو انہوںنے پھر راس مسعود کو انتہائی مایوسی کے عالم میں خط لکھا: (انگریزی) ’’لاہور… ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود چراغ سحر ہو بجھا چاہتا ہوں۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جائوں۔ جو تھوڑی سی ہمت اور طاقت مجھ میں باقی ہے اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے دن آپ کے جد امجد…(حضور نبی کریمؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضورؐ نے ہم تک پہنچایا ہے کوئی خدمت بجا لا سکا… مخلص محمد اقبال ۲؎‘‘ عجب اتفاق ہے کہ اس خط کو سپرد ڈاک کرنے کے فوراً بعد انہیں دوسری ڈاک سے راس مسعود کا وہ خط بالآخر مل گیا جس میں انہوںنے نواب صاحب کو پانچ سو روپے ماہوار تاحیات وظیفہ مقرر کرنے کی اطلاع دی تھی ۳۰ مئی ہی کو انہوںنے یہ دوسرا خط راس مسعود کو ارسال کیا: ’’لاہور… ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود… آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے میں کس زبان سے اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کروں انہوںنے ایسے وقت میں میری دستگیری فرمائی کہ جب میں چاروں طرف سے آلام و مصائب میں محصور تھا۔ خدا تعالیٰ ان کی عمر و دولت میں برکت دے ہندوستان کے مسلمان شرفا میں سے کون ہے جو اعلیٰ حضرت کا اور ان کے دودمان عالی کا ممنون احسان نہیں ہے: ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۷۵۔۲۷۶ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۶۱۔۳۶۲ دوردستاں رابہ احساں یاد کردن ہمت است ورنہ ہر نخلے بہ پائے خود ثمرمی افگند ۱؎ یہ عریضۃ اعلیٰ حضڑت کو سنا دیجیے ۔ میں خود حاضرہو کر شکریہ ادا کروں گا۔ اب میری درخواست صر ف اس قدر ہے کہ احکام اس پنشن کے تو جاری ہوں گے ہی سرکار عالی اپنے ہاتھ سے ایک مضمون کا ایک خط بھی مجھے لکھ دیں جو آپ نے مجھے لکھا ہے ۔یہ خط میری اولاد میں بطور یادگار کے رہے گا۔ اور وہ اس پر فخر کریں گے۔ میں انشاء اللہ تو چالیسویں کے بعد حاضر ہوں گا۔ یا جب آپ اور لیڈی مسعود ابتدا اگست میں مع الخیر اندور سے بھوپال واپس آ جائیں گے تو مہربانی کر کے مجھے یہ لکھ دیجیے کہ اگر می جون کے آخر میں آئوں تو اپنے بھوپال پہنچنے کی اطلاع کس کو دوں۔ ممنون کو اطلاع دے دوں یا جس کو آپ لکھیں۔ لیڈی مسعود کی خدمت میں سلام ۔ جاوید آداب کہتاہے… باقی آپ کا شکریہ کیا ادا کروں۔ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی سادات کی آبائی میراث ہے۔ بالخصوص آپ کے خاندان کی… آپ کا محمد اقبال ۲؎‘‘۔ راا مسعود کو خط لکھنے کے بعد انہوں نے اپنے لائف پنشن کے سلسلے میں نذیر نیازی صاحب کو بھی مطلع کیا : ’’ڈٖیر نیازی صاحب …السلام علیکم …اعلیٰ حضرت نواب صاحب جنے میری لائف پنشن پانچ سو روپے ماہوار کر دی ہے۔ خدا ان کو جزائے خیر دے۔ انہوںنے میرے ساتھ عین وقت پر سلوک کیا۔ اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایام قرآن شریف پر نوٹ لکھنے میںصرف کروں گا۔ والسلام محمد اقبال …لاہور یکم جون اس خط کی وضاحت کرتے ہوئے نیازی صاحب لکھتے ہیں: ’’… عجلت میں حضرت علامہ پانچ کے بعد سو کا اضافہ کرنا بھول گئے۔ یہ امر کہ حضر ت علامہ کو مالی پریشانیوں سے نجات ملی بڑا اطمینان بخش تھا۔ پھرمسرت بالائے مسرت یہ کہ حضرت علامہ تعلیمات قرآنی کی تشریح اور ترجمانی کا عزم رکھتے ہیں ۴؎‘‘۔ ۱؎ یہ شعر اسی طرح مشہور ہے لیکن مطبوعہ کلیات صائب میں جہاں یہ شعر آیا ہے وہاں افگند کی جگہ آورد ہے۔ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۶۲ تا ۳۶۴ ۳؎ ’’سو‘‘ سہواً رہ گیا (نیازی) ۴؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۷۶۔۲۷۷ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی زندگی میں ان کی سچی رفاقت قدردانی اور لگاتار سعی و کوشش کے بعد ان کی بروقت اعانت کا سہرا صرف راس مسعود کے سر پر ہے جسے اردو ادب کی تاریخ اور آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہیں کر سکیں گی نواب صاحب کے متعلق اقبال کا یہ کہنا… ’’… انہوںنے ایسے وقت میںمیری دستگیری فرمائی ہے کہ جو میں چاروں طرف سے آلام و مصائب میں محصو رتھا۔ خدا تعالیٰ ان کی عمر و دولت میں برکت دے۔ ہندوستان کے مسلمان شرفا میں سے کون ہے جو اعلیٰ حضرت کا اور ان کے دودمان عالی کا ممنون احسان نہیں ہے‘‘۔ ان صداقتوں کا اظہار ہے جن سے اس چھوٹی سی اسلامی ریاست کے ہر حکمراں نے تاریخ ادب میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ لہٰذا اقبال کا اظہار عقیدت مندی کسی خوشامد یا تملق سے عبارت نہیں۔ راس مسعود ان کے انتہائی مخلص اور عزیز ترین نیاز مندوں میںسے تھے۔ اور انہوںنے اس سلسلے میں جتنی کچھ مساعی کی تھیں وہ اس لیے نہیں کی تھیں کہ اقبال سے ان کی کچھ اغراض وابستہ تھیں وہ تو ان گہری وابستگیوں اور دلی ارادت مندیوں کا نتیجہ تھا جو راس مسعو د کو اقبال سے تھیں اور اقبال کو راس مسعود سے جن کا اظہار وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’… باقی آپ کا شکریہ کیا ادا کروں مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی مساوات کی آبائی میراث ہے بالخصوص آپ کے خاندان کی…‘‘ یہ اظہار بھی ان سچائیوں کا امین ہے جن سے سرسید کے اس جانشین نے درس تپش لیا تھا اور بھوپال کے ساتھ اقبال کی وابستگی کو نقش دوام بخش گیا تھا۔ اقبال جو خود حیات دوام تھے راس مسعود کے ناتے ریاست بھوپال کو بھی اور نواب حمید اللہ خاں کو بھی حیات دوام بخش گئے ۔ تاریخ و تہذیب کے ان صداقت آفریں ابدی رشتوں سے کون ہے جو انکار کر سکے ۔ ادیب و مفکر بھی انسانی تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے اس لیے ان کی دستگیری اور اعانت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ زندگی کے لیے ہر سانس کی… اس حقیقت پر کتنے لوگوں کی نظر رہی اور اقبال ایسی عظیم شخصیت کو آزمائش کے انتہائی صبر آزما لمحوں میں کس کس نے کتین مدد دی؟… یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں …نواب صاحب اور راس مسعود کے علاوہ شاید ہی کوئی اور شخصیت ایسی مل سکے جس نے اقبال کی بجا طور پر قدردانی اور حق نیاز مندی ادا کیا ہو یہ افتخار سچ پوچھیے تو نہ حیدر آباد کو حاصل ہو سکا نہ کسی اور ریاست کو بجز بھوپا ل کے جس نے اقبال ایسے آفاقی شاعر کو اس کی زندگی میں ہی نواز کر زندہ دوستی اور اعتراف عظمت کی ایک عہد آفرین مثال قائم کی جو آج اورہمیشہ زندہ رہے گی اور بقول رشید احمد صدیقی: ’’… بھوپال کا تنہا یہ کارنامہ میرے نزدیک ان کارناموں میں سے ہے جن کو آئندہ آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہیں کر سکیں گی۔ اگر افراد کے مانند اداروں کو بھی کوئی معاد ہے تو اسی ایک نیک کام کے صلہ میں بھوپال کی نجات اخروی متیقن ہے۔ اقبال کو غم روزگار سے نجات دلانا میرے نزدیک بہت بڑی سعادت ہے چنانچہ اقبال کے بعض عقیدت مند سر راس مسعود مرحوم اور نواب حمید اللہ خاں بالقابہ کی ا س فرض شناسی اور علم دوستی کو ان عزیز و گرامی ہستیوں اور بہت سی منزلتوں پر مافوق رکھتے ہیں ۱ ؎ ‘‘۔ ۱؎ گنج ہائے گرانمایہ۔ صفحہ ۱۸۳ ٭٭٭ بھوپال کا دوسرا قیام (۱۷ جولائی تا ۲۸ اگست ۱۹۳۵ئ) نواب حمید اللہ خاں کی اقبال شناسی‘ ادب دوستی اور علم پروری کے باعث اقبال بڑی حد تک مالی اور ذہنی پریشانیوں سے نجات پا چکے تھے اور اب ان کی تمام تر توجہ بھوپال جانے پر مرکوز تھی تاکہ وہاں کچھ عرصہ قیام کر کے وہ اپنے بجلی کے علاج کا دوسرا کورس مکمل کر سکیں اور فرصت اور یک سوئی کے ساتھ اس عظیم کا م یعنی قرآن مجید کے حواشی لکھنے کا کام بھی شروع کر دیں جس کی انہیں بڑی تمنا تھی اور جس کی تکمیل کے لیے وہ اپنے عزیز ترین دوست راس مسعو د کواس سے قبل باربار لکھ چکے تھے۔ راس مسعود سے ان کی خط و کتابت کا سلسلہ جاری تھا۔ اس دوران انہیں لندن سے رہوڈز لیکچرز کے سلسلے میں بھی دعوت موصول ہو گئتھی۔ لیکن اب وہ ملک سے باہر جانے پر تیار نہ تھے… والدہ جاوید کی رحلت کے بعد جاوید اور منیرہ کی پرورش و پرداخت کا تمام تر بار انہیں کے کاندھوں پر آن پڑا تھا۔ علاوہ ازیں رفیقہ حیات کی وصیت کے مطابق وہ ا بچوں کو تنہا بھی نہ چھوڑ سکتے تھے۔ چنانچہ انہوںنے ایک خط میں اس کا اظہار بھی کیا تھا۔ اسی خط میں انہوںنے لائف پنشن کے سلسلے میںنواب حمید اللہ خاں بھوپال کی قلی تحریر کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ تاحیات وظیفہ کے احکام اعلیٰ حضرت اپنے قلم سے لکھ کر انہیں بھیج دیں تاکہ وہ اسے فریم میں کرا کے رکھ لیں… یہ عجیب سی خواہش بظاہر اس جذبے کی غمازی کو ظاہر کرتی ہے جو بلا امتیاز ہر انسان میں کم و بیش پائی جاتی ہے۔ اسے جذبہ ممنونیت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ اور اسے انسان کے فطری جذبے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اقبال کے بعض ناقدین نے اس پر اعتراض کیا مثلاً عزیز احمد کا یہ لکھنا: ’’… باوجود ’’فقر‘‘ کے فلسفہ کو کمال تک پہنچانے کے اقبال کسی نہ کسی طرح کی شاہ پرستی سے آخر تک اپنے دماغ کو چھٹکارا نہ دلا سکے۔ چنانچہ امان اللہ خاں ‘ نادر شاہ شاہ افغانستان ظاہر شاہ یہاں تک کہ فرماں روائے بھوپال و بھی مخاطب کر کے انہوںنے نظمیں لکھی ہیںَ اقبال کی حمایت میںزیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا ان کی نظموں سے مدح کا پہلو بالکل خارج ہوتا گیا اور موعظمت اور عمل اک پہلو بڑھتا گیا۔ لیکن موعظمت اور خیر کی تلقین سعدی کی زبانی اچھی معلوم ہوتی ہے اور سعدی کے زمانے کے لحاظ سے موزوں بھی تھی۔ بادشاہوں کاذکر اور ان کا گوارا کر لینا ہی اقبال کی تعلیم میں حارج ہوتا ہے اور اس سے ایک ایسا تضاد پیدا ہوتا ہے جس کی تاویل نہیں ہو سکتی ۱؎ ‘‘۔ عزیزاحمد کے ان اعتراضات کا جواب نظر حیدر آبادی کی کتاب اقبال اور حیدر آباد میں ہمیں مل جاتا ہے وہ لکھتے ہیں: ’’… موعظمت اور عمل کی تلقین کے لیے ہر زمانہ میں کسی نہ کسی سعدی نے کسی نہ کسی بغداد پر آنسو بہائے ہیں اورمایوس دلوں میں امید کی کرن دوڑا دی ۔ اقبال نے جس زمانے میں ٰہ فرض ادا کیا اس وقت پوری ملت اسلامیہ بغداد کی تباہی کا سراپا منظر پیش کر رہی تھی۔ اس مسلسل اندھیرے میں اقبال جن کھوئے ہوئے کی جستجو میں نکلے تھے انہیں جہاں کہیں کوئی روشنی کوئی کرن‘ کسی نادر‘ کسی ظاہر شاہ‘ کسی نواب بھوپال یا کسی نظام دکن کی شکل میں ںظر آتی تھی۔ وہ اسیدلیل راہ سمجھتے تھے۔ چراغ منزل نہیں۔ اقبال کو شاہ پرست یا قصیدہ گو قرار دینے سے پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ کس کس کا وظیفہ خوار اور کس کس کا مصاحب رہا ہے اور کہاں کہاں ااتراتا پھرا۔ مرض الموت کے زمانہ میں گوشہ نشینی اور جہد معاش کے لیے ناقابل ہو جانے کی وجہ سے اگر انہوںنے ناب بھوپال کی دوستانہ اعانت قبول کر لی تھی تو یہ کوئی جرم نہیںَ ایسے فعل مجبوری کی مثال دے کر یزداں شکار اقبال کی پیشانی پر شاہ پرستی کا لیبل چسپاں کرنا نا مناسب ہے بلکہ تکلیف دہ ہے: فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ ۲؎‘‘ عمر کے آخری حصے میں اقبال اپنی مسلسل علالت بیوی کی لگاتار بیماری مالی حالت کی ابتری اور محدود وسائل کے جن صبر آزما مرحلوں سے گزرے تھے۔ عزیز احمد نے شاید ان کا تجزیہ ضروری نہیںسمجھا اور اقبا کو صرف ایک عظیم مفکر‘ بلند پایہ فلسفی‘ اور انقلابی سمجھ کر شاہ پرستی کا رسمی اعتراض کر دیا حالانکہ اپنی گوناگوں شاعرانہ خصوصیات و صفات کے باوجود اقبال ایک انسان بھی تھے اور ان کو بھی ایک عام انسان کی طرح مادی ضرورتوں کا سامنا تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ : ’’… بادشاہوں کا ذکر اور ان کا گوارا کر لینا ہی اقبال کی انقلابی تعلیم میں حارج ہوتا ہے اور اس سے ایک ایسا تضاد ہوتا ہے جس کی تاویل نہیں ہو سکتی‘‘۔ دوست نہیں خہ اقبال ایسے بلند پایہ مفکر کی بجا طور پر قدردانی ایک علیحدہ بات ہے اور شاہ پرستی ایک جداگانہ موضوع سوال یہ ہے کہ اقبال کو مالی پریشانیوں سے نجات دلانا کیا معاشرہ افراد معاشرہ کی ذمہ داری نہیںتھی۔ اور کیا نواب بھوپال سے وظیفہ ہونے کے بعد اقبال کی ساری فکر قصیدہ گو شاعروں کی طرح شاہ پرستوں کے لیے وقف ہو کر رہ گئی ۔ ۱؎ اقبال نئی تشکیل ۔ صفحۃ ۸۲۔۸۳ ۲؎ اقبال اور حیدر آباد۔ صفحہ ۸۴ اور پھر کیا اقبال کا آخری سرمایہ شعری تمام تر بادشاہوں کے ذکر پر ہی مشتمل ہے۔ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو پھر ا س کی واضح تاویل یہ ہے کہ اقبال نے نواب بھوپال کو کبھی شاہوں کے زمرے میں نہیں رکھا۔ اقبال اور نواب صاحب کے قریبی روابط کا تفصیلی تذکرہ گزشتہ صفحات میں پیش کیا جا چکا ہے۔ لہٰذا قایک ذمی حیثیت دوست کی بروقت رفاقت کو شاہ پرستی کا الزام دینا حق گوئی نہیں ہے نہ تنقیدی دیانت۔ زیادہ سے زیادہ اعتراض برائے اعتراض کانام دیا جا سکتا ہے اور بس۔ اقبال کی خودداری شان قلندری اور ان کے فقر غیور کے بے شمار واقعات ان کے نیاز مندوں اور قدردانوںنے بیان کیے ہیں جن کے پیش نظر بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے کسی دور میں بھی انہوںنے شاہ پرستی کو اختیا ر نہیں کیا۔ اس کے برعکس ان کا سارا کلا اور ان کی تمام تر فکر شاہی کی نفی کرتی ہے۔ اقبال کے ایک نیاز مند اور اردو ادب کے نہایت معتبر اور ممتاز ادیب و نقاد خواجہی غلام السیدین کے پیش کردہ صرف دو واقعات ہی عزیز احمد کے عاید کردہ الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں: ’’… بت شکنی کتنی ہی ضروری ہو وہ بت شکن کو ہر دل عزیز نہیں بناتی۔ یہ اقبال کی شاعری کا اعجاز ہے کہ باوجو د عمر بھر ا س ناگوار فرض کو انجام دینے کے انہوںںے ان کے فکر نے ان کے کلام نے ہماری نسل کے دلوں میںگھر کر لیا ہے ۔ او ر وہ ہماری ذہنی‘ جذباتی اور روحانی میراث کا ایک جزو عزیز بن گئی ہے۔ آخری عمر میں ان کا فقر اور بے نیازی کا انداز اور بڑھ گیا تھا جس نے ان کو دنیا کی اوچھی اور مصنوعی عزتوں کی طرف سے بے نیاز کر دیا تھا۔ اور خود شناسی اور انسان دوستی کے راستے خدا شناسی کی منزل تک پہنچا دیا تھا۔ جب وہ خلوص کے ساتھ کہہ سکتے تھے: میرا نشیمن نہیں در گہہ میر و وزیر میرا نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو اس شان فقر کے ایک دو دل چسپ واقعات قابل ذکر ہیں ۔ سر راس مسعود کی خواہش تھی کہ اقبال کو آخری عمر میں اطمینان کے ساتھ ادبی اور المی کام کرنے کا موقع ملے اور کسی طرح فکر معاش سے آزادی حاصل ہو جائے۔ ان کے توجہ دلانے سے نواب صاحب بھوپال اور ایک دوسرے دولت رئیس مند نے یہ سعادت حاصل کرنی چاہی کہ وہ ان کا وظیفہ مقرر کر دیں۔ اقبال بہ مشکل بھوپال کی کمتر رقم کو اس سے دوچند رقم کے مقابلے میں قبول کر لینے پر راضی ہو ئے اور وجہ یہ بیان کی کہ اول تو اتنی رقم میری ضروریات کے لیے کافی ہے میں زیادہ کیوں لوں۔ دوسرے جب تک میرے دل میں کسی شخص کی کوئی خاص وقعت نہ ہو اس کی امداد قبول نہیں کر سکتا۔ یہ تھا غیرت فقر کا تقاضا ایک ایسے زمانے میں جب روپے کے بازار میں تقریباً ہر شخص کی قیمت لگائی جا سکتی ہے۔ اور بڑے بڑے مشاہیر منصب جادہ و دولت کی خاطر ہر قسم کا ایثا ر کرنے کو تیار ہیں‘‘۔ ’’… ایک اور واقعہ انہیں (علامہ اقبال کو) سر اکبر حیدری کے ساتھ پیش آیا۔ واقعہ جانا بوجھا لیکن قابل ذکر ہے۔ انہوں نے یوم اقبال پر توشہ خانہ حضور نظام کی طرف سے ایک ہزار روپے کی رقم خطیر بطور تواضع پیش کی۔ جب وہ چیک اس تمہید کے ساتھ اس قلندر کے پاس پہنچا تو اس نے اسے ان اشعار کے ساتھ واپس کر دیا جو بعد میں ’’ارمغان حجاز‘‘ میں شائع ہوئے: تھا یہ فرمان الٰہی کہ شکوہ پرویز دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے ارو شہنشاہی کر حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کوثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سردوش کام درویش میں تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہی سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی ذکات اقبال اس بہت سی غیر معمولی ذاتی خوبیاں تھیں۔ لیکن میرے دل میں بڑی عقیدت ہے اس شان فقر کے لیے جس کی تفسیر انہوںنے اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کی تھی۔ لیکن اس کا خطاب دراصل عصر حاضر کے تمام نوجوانوں سے ہے: ہمت ہے اگر تو ڈھونڈ وہ فقر جس فقر کی اصل ہے حجازی اس فقر سے آدمی میں پیدا اللہ کی شان بے نیازی حاصل اس کا شکوہ محمود فطرت میں اگر نہ ہو ایازی یہ فقر غیور جس نے پایا بے تیغ و سناں ہے مرد غازی مومن کی اسی میں ہے امیری اللہ سے مانگ یہ فقیری اقبال نے اس فقیری کو اللہ سے مانگا تھا اوراس کی بدولت وہ ایمان کی دولت سے مالا مال تھے ۱؎‘‘۔ بات کچھ دور جا پڑی ہے۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ اب اقبال جلد سے جلد بھوپال جانے کے لیے بے تاب تھے اور راس مسعو د کے جواب کے منتظر جیساکہ اس خط کی عبارت سے ظاہر ہے: ’’لاہور …۱۵جون ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود امید ہے آپ اور لیڈی مسعود بہمہ وجوہ خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ کے خط کے انتظار میں ہوں۔ امید ہے کہ ضروری احکام کے متعلق پنشن جاری ہو گئے ہوں گے۔ اب صرف مجھے اس خط کا انتظار ہے جس کا ذکر میں نے اپنے گزشتہ خط میں کیا تھا۔ اگر اعلیٰ حضرت پچمڑی ۲؎ واپس تشریف لے آء ہوں تو وہ خط لکھوا کر بھجوا دیجیے۔ کل اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ کا تار تعزیتی آیاتھا اور آج سردار صلاح الدین سلجوقی اعلیٰ حضرت کا زبانی پیغام لائے تھے بہت حوصلہ افزا اور دل خوشن کن پیغا م ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے دعا و ترقی مراتب۔ ۱؎ آندھی میں چراغ۔ صفحۃ ۱۴۴ تا ۱۴۶ ۲؎ قدیم صوبہ متوسط کا پر فضا گرمائی مقام لارڈ لودین کا خط ابھی لندن سے آیا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ رہوڈز لیکچرز کے لیے کب آئو گے ؟ اب بچوں کو چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں؟ ان کی ماں کی وصیت ہے کہ ان بچوں کو اپنے سے ایک دن کے لیے بھی جدا نہ کرنا۔ لیڈی مسعود کی خیریت سے آگاہ کیجیے۔ اورمیری طرف سے انہیںسلام کہیے۔ آپ کا ۔ محمد اقبال ۱؎‘‘ تقریباً ایک ہفت کے بعد راس مسعود کا تفصیلی جواب موصول ہو گیا۔ اور نواب صاحب ھوپال کی وظیفہ سے متعلق قلمی تحریر بھ ۔ لیڈی مسعود کی علالت سے انہیں تشویش تھی چنانچہ ۲۴ جون ۱۹۳۵ء کے خط میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اور بھوپال جانے کے قصد کا اظہار بھی۔ وہ بھوپال جانے کے لیے بے چین تھے اس کا اندازہ اس خط کی اس عبارت سے : ’’… زیادہ کیا عرض کروں سعوائے اس کے کہ آپ سے ملنے کے واسطے تڑپ رہا ہوں…‘‘ واضح طو رپرلگایا جا سکتا ہے خط کا پورا متن ملاحظہ ہو: ’’لاہور… ۲۴ جون ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود آپ کا خط مل گیا ہے اور اعلیٰ حضرت کا والا نامہ بھی موصول ہو گیا ہے جسے میں نے سادہ اور خوبصورت فریم میں لگوا دیا ہے۔ آپ شاید اندور ۲؎ تشریف لے گئے ہوں میں لیڈی مسعود کے لیے دست بدعا ہوں۔ جب ان کو فراغت ہو تو مجھے ا ن کی خیریت سے بذریعہ تار مطلع کیجیے۔ میں انشاء اللہ وسط جولائی تک بھوپال پہنچوں گا۔ جاوید کو ہمراہ لانا ہو گا۔ علی بخش بھی ہمراہ ہو گا۔ وہ آپ کو ہر روز ایک دو دفعہ یاد کرتا ہے شعیب صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دوں گا مگر یہ تو فرمائیے کہ میرا ایڈریس بھوپال میں کیا ہو گا تاکہ میں گھر میں وہ ایڈریس چھوڑ جائوں۔ اس طرح بچی منیرہ کی خیریت کی خبر مجھے روز ملتی رہے گی۔ جس جگہ مجھے ٹھہرنا ہو گا اس جگہ کا مجھے پتہ لکھ دیجیے۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ آپ سے ملنے کے واسطے تڑپ رہا ہوں… والسلام محمد اقبال ہاں آپ کا سیکرٹری پرائیویٹ ممنون حسن ریاض منزل ہی میں ہو گا یا کہیں اور… میں اپنے آنے کی اطلاع اسے بھی دے دوں گا ۳؎‘‘۔ اقبال اور راس مسعود اور لیڈی مسعود سے کتنی گہری وابستگی اور قربت تھی اس کاثبوت ۳ جولائی کے اس خط سے بھی ہو جاتا ہے جو انہوںنے لیڈی مسعود کی شدید علالت کے سلسلے میں بھوپال بھیجا تھا۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول ) صفحہ ۳۶۴۔۳۶۵ ۲؎ اندور جانے آنے کا سلسلہ دراصل لیڈی مسعود کے والد کرنل عبدالرشید خاں کے سبب تھا جو ان دنو ں ریاست اندور میں تھے۔ ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۶۵۔۳۶۶ اسی خط میں اس جذبہ احسان مندی کا اظہار بھی ہوتا ہے جس کا تعلق ان کے پہلے قیام بھوپال سے ہے جب کہ وہ ریاض منزل میں راس مسود اورلیڈی مسعود کے مہمان تھے۔ لیڈی مسعود نے اقبال کی دیکھ بھال اور خبر گیری میں جس دلچسپی اور انہماک کا ثبوت دیا تھا اس کی کچھ جھلکیاں گزشتہ صفحات میں پیش کی جا چکی ہیں۔ اب و ہ پھر بھوپال جا رہے تھے اس لیے ولادت کے سلسلے میں راس مسعود کی پریشانی کے لیے بھی پریشانی کا موجب تھی چنانچہ وہ ان کے لیے دعائے صحت بھی کرتے رہے اور جب تک راس مسعود کا تار انہیں مل نہیں گیا بے حد متردد و فکر مند رہے: ’’لاہور… ۲ جولائی ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود… ابھی آپ کا تار ملا ہے جس سے اطمینان خاطر ہوا۔ خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ آپ کا خط ملنے سے اس وقت تک میری طبیعت نہایت پریشان تھی۔ گزشتہ رات بھی میں دیر تک ان کے لیے دعا کرتا رہا۔ دوران قیام بھوپال میں انہوںنے جو توجہ مجھ پر مبذول رکھی میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ امید ہے کہ اب وہ جلد صحت یاب کامل حاصل کر لیں گی۔ اور آپ کی طبیعت کو بھی اطمینان نصیب ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ موسم سخت گرم ہے اور بار ش کا انتظار ہے۔ کل سے مطلع غبار آلودہے۔ میری طرف سے انہیں سلام کہیے اور دوائے صحت…آپ کا محمد اقبال ۱؎‘‘۔ لیڈی مسعود پہلے سے بہتر تھیں اور اس لیے انہیں ان کی طرف سے اطمینان ہو گیا۔ ہفتہ عشرہ میں ہی وہ بھوپال جانا چاہتے تھے چنانچہ اس کی تیاریوں میںمصروف ہو گئے۔ راس مسعود کو اپنے پروگرام سے مطلع کرنے کے علاوہ بھوپال انہوںنے نیازی صاحب کو بھی بھوپال روانگی کے بارے میں اطلاع دی : ’’ڈیر نیازی صاحب میں دو چار روز تک بھوپال جائوں گا اور قریباً ڈیڑھ ماہ وہاں ٹھہروں گا۔ شاید اب تک چلا جاتا مگر بارش نہیں ہوئی۔ برسات شروع ہو جائے توجائوں۔ بہتر ہے آپ بھی لاہور ۲؎ میں نہ آئیں اور مجھے دہلی کے ریلوے سٹیشن پر ملیںَ ہاں اگر آپ کو کوئی ضروری کام ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔ میں غالباً ۱۵ جولائی تک یہاں سے چلوں گا بشرطیکہ بارش ہو گئی… والسلام محمد اقبال ۱۱ جولائی ۱۹۳۵ء ‘‘ ۳؎۔ ۱۱ جولائی کے اس خط کے د و دن بعد ہی انہوںنے رخت سفر باندھ لیا اور نیازی صاحب کو اپنے پروگرام سے مطلع کر دیا: ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۶۷ ۲؎ میں زائد ہے (نیازی) ۳؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۷۹ ’’لاہور ۔ ۱۳جولائی ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم اس سے پہلے ایک کار ڈ لکھ چکا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کو مل گیا ہو گا یہاں سے ۱۵ جولائی کی شام فرنٹئر میل بروز سوموار روانہ ہو کر ۱۶ کی صبح کو دہلی پہنچوں گا۔ وہاں تما م دن قیام رہے گا کہ جاوید دہلی دیکھ سکے آپ مجھے ریلوے سٹیشن پر ملیں اور بھوپال کی گٓڑی جو وہاں سے شام کو چلے گی میرے لیے دو سیٹ سیکنڈ کلام لوئر برتھ ریزرو کروا دیں… باقی بروقت ملاقات۔ والسلام۔ محمدا قبال‘‘ ۱؎۔ چنانچہ پروگرام کے مطابق اقبال ۱۵ جولائی کو لاہور سے روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں جاوید اور ان کا دیرینہ خدمت گزار علی بخش ان کے ہمراہ تھا۔ ۱۶ کو دہلی پہنچے تو سٹیشن پر نیازی صاحب اور دیگر معتقدین نے ان کا استقبال کیا۔ دن بھر انہوں نے دہلی میں قیام کیا جاوید نے دہلی کی سیر کی۔ ۱۶ کی شام کووہ دہلی سے روانہ ہوئے اور ۱۷ جولائی کو دوسری بار بھوپال پہنچے۔ راس مسعود شعیب قریشی نواب صاحب کے ندیم ممنون حسن خاں پرائیویٹ سیکرٹری راس مسعود اور کئی عقیدت مندوں نے سٹیشن پر ان کا خیر مقدم کیا۔ ار اہیںسرکاری قیام گاہ شیش محل میں ٹھہرایا۔ شیش محل وسط شہر کی ایک عالی شان اور پرشکوہ عمارت تھی اس کے سامنے مشہور کھرنی والا میدان واقع تھا۔ شیش محل کے متصل کئی اورعالی شان محل کھڑے تھے جن میں صدر منزل جو سرکاری تقریبات اور بھوپال کے یادگار سالانہ مشاعرں کے باعث شہرت دوام رکھتی تھی قابل ذکر ہے شیش محل کے سامنے قدسیہ محل تھا جہاں اقبال کے خصوصی ڈاکٹر عبدالباسط رہتے تھے۔ میدان کے دوسری طرف بڑا تالاب تھا۔ اور یہ سارا علاقہ فتح گڑھ کہلاتا تھا۔ دائیں جانب ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلہ پر حمیدیہ اسپتال تھا دوسری جانب بھوپال کی مشہور موتی مسجد ۲؎ تھی جو فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ تھی۔ ’’شیش محل‘‘ میں اقبال کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ انہیں یہاں ہر طرح کی آسودگی اور راحت مل سکے اور علاج و معالجہ کے سلسلے میں بھی سہولت رہے … اس کے علاوہ وہ ریاست کے وظیفہ یاب بھی تھے اس لیے شاہی محل میں ان کے قیام کا انتظام نوب صاحب بھوپال کی خواہش پر کیا گیا تھا تاکہ انہیں علاج اور قیام کے دوران کسی طرح کی تکلیف نہ ہو۔ شیش محل میں صرف مقتدر و معز ز شخصیتیں ہی قیام کرتی تھیں ورنہ عموماً یہ محل مقفل رہتا تھا محل کی تاریخ میں اب پہلی بار اسے حکیم الامت اور مفکر مشرق ایسی باعظمت شخصیت کے مکین ہونے کا شرف ہی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کی شان و عظمت بی دوچند ہوئی اور ان کے شاہکار تخلیقات سے جو اقبال نے شیش محل کے قیام کے دوران کہیں اسے تاریخی حیثیت بھی حاصل ہو گئی۔ یہی وہ شیش محل ہے ججس کے قیام کے دوران اقبال نے اپنے عزیز ترین دوست راس مسعود کی ہمہ وقت ررفاقت اور نواب صاحب کی خصوصی توجہات سے فیض یاب ہوئے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں انہوں نے فرصت اور آسودگی کے بہترین لمحات بسر کیے۔ ۱؎ مکتوبا ت اقبال صفحہ ۲۷۹۔۲۸۰ ۲؎ اس مشہور اور قابل دید مسجد کی تصویر شامل کتاب ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں انہوںنے قرآن مجید کے حواشی لکھنے کے لیے باقاعدہ کام کا آغاز کیا… ریاست بھوپال کا یہ فخر بے جا نہیں کہ اس نے اقبال ایسے آفاقی شاعر کو جسم و جاں کی راحتوں کا سامان ہی مہیا نہیں کیا فکر و تخلیق کے نئے گوشے اجاگر کرنے کے مواقعے بھی بہم پہنچائے۔ بھوپال آنے کے بعد دوسرے ہی دن سے ان کا معائنہ اور علاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان کے معالجین نے پہلے سے زیادہ احتیاط اور توجہ ان کے علاج پر صرف کی پہلی بار مختصر علاج کے بعدان کی صحت سنبھل گئی تھی۔ مگر لاہور لوٹنے کے بعد وہ مسلسل پریشانیوں کا شکار رہے۔ چنانچہ ان کی صحت پہلے سے بہت کمزور ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود ان کے معمولات میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا تھا۔ علاج اپنی جگہ پر تھا اور ان کے فکر و استغراق مطالعہ کتب احباب اور نیاز مندوں سے خط و کتابت کا سلسلہ اپنی جگہ پر تھا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے کو مصرو ف رکھ کر صحیح معنوں میں عالم باعمل ہونے کاثبوت دے رہے تھے۔ چنانچہ اس قیام کے دوران ہمیں ان کی تحریروں سے جو انہوںنے وقتاً فوقتاً علامہ سلیمان ندوی‘ سید نذیر نیازی‘ ڈاکٹر محمد دین تاثر اور پروفیسر شجاع وغیرہ کے نام لکھی ہیں ان کے علمی و فکری مشاغل کا تھوڑ ا بہت اندازہ ہوتا ہے یوں کہنے کو وہ صرف علاج کے سلسلے میں بھوپال آئے لیکن سچ پوچھیے تو بھوپال کا دوسرا قیام فرصت و آرام کے علاوہ ایک سوئی کے ان لمحوں میں اس عظیم کام کا آغاز کرنا ہے جس کا انہوںنے نواب بھوپال سے وعدہ کیا تھا یعنی قرآن مجید کے حواشی کی تیاری۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ روقادیانی پر بھی مضامین کی تیاری کر رہے تھے۔ چنانچہ بھوپال پہنچنے کے تیسرے ہی دن انہوںنے سید سلیمان ندوی کوتفصیلی خط لکھا جس کے مطالعہ سے اقبال کی فکر و جستجو کے کئی گوشے کھل کر سامنے آتے ہیں: ’’بھوپال ‘ شیش محل…۱۹جولائی ۱۹۳۵ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ مولوی صاحب… السلام علیکم میں گلے کے برقی علاج کے لیے مدت سے بھوپال میں مقیم ہوں۔ اس خط کا جواب یہیں مذکورہ بالاپتے پر عنایت فرمائیے۔ ۱۔ کیا فقہ اسلامی کی رو سے توہین رسالت قابل تعزیر جرم ۱؎ ہے اگر ہے تو اس کی تعزیر کیا ہے ۲؎۔ ۲۔ اگر کوئی شخص جو اسلامی کا مدوی ہو یہ کہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو حضور رسالتمآب پر جزوی فضیلت حاصل ہے اس واسطے کہ مرزا قادیانی ایک زیادہ متمدن زمانے میں پیدا ہوئے ہیں توکیا ایسا شخص توہین رسول کا مرتکب ہے ؟ بالفاظ دیگر اگر توہین رسول جرم قابل تعزیر ہے تو عقیدہ مذکورہ توہین رسول کی حد میں آتا ہے یا نہیں ۳؎ ؟ ۱؎ بے شبہ ۲؎ تعزیر حسب رائے امام قید سے لے کر قتل تک ۳؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کو جزوی فضیلت حاصل ہونا جائز ہے اور ایسا کہنا نہ کفرہے نہ توہین ہی کا باعث ہے البتہ متقاضائے محبت کے خلاف ہے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ جزوی فضیلت حقیقت میں فضیلت کے شمار میں ۃے بھی مثلاً زیادہ متمعن زمانہ میںہونا کوئی فضیلت نہیں کیونکہ خودتمدن نہ کوئی دینی فضیلت ہے۔ نہ اخلاقی نہ عقلی بلکہ ممکن ہے یکہ اس کے بعد اور بھی دنیا زیادہ متمدن ہو جائے اور اس زمان یکے آدمی پر بھی کیا اس زمانے کے آدمی کو فوقیت ہو جائے گی۔ اور اگر یہ امر باعث فضیلت ہو تو غلام احمد قادیانی کیا اقبال سیالکوٹی کو بھی یہ جزوی فضیلت حاصل ہے۔ بلکہ غلام احمد سے زیادہ کیونکہ مرزا صاحب نے صرف ا س کو دور سے دیکھا ہے چکھا اور آزمایا نہیں۔ (سید سلیمان ندوی) ۳۔ اگر توہین رسول کی مثالین کتب فقہ میں مذکور ہوں تو مہربانی کر کے ممنون فرما دیجیے ۱؎ ۔ امید ہے اس عریضہ کا جواب جلد ملے گا۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ میری صحت پہلے سے بہتر ہے امید ہے کہ اس دفعہ علاج سے زیادہ فائدہ ہو گا…والسلام مخلص محمد اقبال لاہور حال وارد بھوپال ۲؎‘‘ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پنجاب میں فتنہ قادیانی نے پھر سر اٹھایا تھا اور اقبال رد قادیانی کے سلسلے میں مضامین لکھ رہے تھے اور اس خط کے مندرجات سے اقبال کی ذہنی مصروفیت کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ ’’… میری صحت پہلے سے بہتر ہے۔ امید ہے اس دفعہ علاج سے زیادہ فائدہ ہو گا‘‘ انہوںنے اس خط کا جواب بھوپال کے پتے پر ہی طلب کیا تھا اور مقصد یہ تھا کہ سید صاحب کی رہبری کے بعد وہ اپنے مضمون کی تکمیل کر لیتے چنانچہ حسب توقع انہیں جلد جواب مل گیا۔ اس دوران قادیانیوں سے متعلق کچھ اور مسئلے زیر بحث آ گئے تو انہوںنے یکم اگست کو دوسرا خط بھی بھوپال سے روانہ کیا۔ جس میں چند اور مسائل کے بارے میں استصواب کیا گیا تھا: ’’بھوپال… شیش محل یکم اگست ۱۹۳۵ء مخدوم مکرم جناب مولانا السلام علیکم آپ کا والا نامہ مجھے ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ چند امور اور بھی دریافت طلب ہیں ان کے جواب بھی ممنون فرمائیے۳؎۔ ۱۔ تکملہ مجمع البحار صفحۃ ۸۵ میںحضرت عائشہ ؓ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ حضور رسالت مآبؐ کو خاتم النبیین کہو۔ لیکن یہ نہ کہو کہ ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں ہو گا ۴؎۔ مہربانی کر کے کتاب دیکھ کر یہ فرمائیے کہ آیا اس قول کے اسناد درج ہیں۔ ۱؎ یہ نقل کفر مجھ سے نہ ہو گا۔ آپ السیف المسلول علی شاتم الرسول کو دیکھ لیجیے۔ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۱۸۸تا۱۹۰ ۳؎ اس وقت وہ رد قادیانی پر اپنا مضمون تیار کر رہے تھے۔ ۴۔ جی ہاں اس کتاب میں یہ روایت ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ سے لی گئی ہے۔ لیکن اس کی سند مذکور نہیں جو روایت کی صحت و صنف کا پتہ لگایا جائے اور اگر صحیح بھی ہو تو یہ حضر ت عائشہؓ کی محض رائے ہے کہ رسول اللہ صلعم نے بار بار جو فرمایا ہے کہ لانبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ھضرت عائشہؓ کے خیال میں اس لیے ایسے کہنے سے منع کیا کہ حضرت عیسیٰ کا نزول کا انکار اس سے لوگ نہ سمجھنے لگیںَ بہرحال ان کا خیال ہے کہ جس کا صحیح ہونا ضروری نہیں۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب خود حضور صلعم کے قول کے خلاف ہو۔ (سید سلیمان ندوی) اور اگر ہیں تو آپ کے نزدیک ان کی اسناد کی حقیقت کیا ہے۔ ایساہی قول درمنشور جلد پنجم صفحۃ ۲۰۴ میں ہے۔ اس کی تصدیق کی بھی ضرورت ہے ۱؎ ۔ میں نے یہاں بھوپال میں یہ کتاب تلاش کیں افسوس اب تک نہیںملیں۔ جج الکرامہ صفحہ ۴۲۷۔۴۳۱ حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کے متعلق ارشاد ہے۔ من قال بسبب نبوتہ کفرھقا اس قول کی آپ کے نزدیک کیا حقیقت ہے ۲؎ ۔ ۳۔ لوماش ابراہیم لکان نبیا۔ اس حدیث کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے نودی اسے معتبر نہیں جانتا ملا علی قاعری کے نزدیک معتبر ہے جیکیا اس کے اسناد درست ہیں ۳؎ بخاری کی حدیث واما مکم منکؤم میں وائو حالیہ ہے کیا ۴؎ اگر حالیہ ہو تو اس حدیث کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے دوبارہ آنے سے مسلمانوں کو کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ جس وقت وہ آئیں گے مسلمانوں کا امام خود مسلمانوں سے ہو گا۔ ۴۔ ختم نبوت کے متعلق اور بھی اگر کوئی بات آپ کے ذہن میں ۃو تو اس سے آگاہ فرمائیے زیادہ کیا عرض کروں… امید ہے مزاج بخیر ہو گا…والسلام مخلص محمد اقبال ۵؎ ‘‘ ۱؎ جی ہاں وہی روایت بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ ا س کتا ب میں بھی ہے۔ اور اس کی نسبت پہلے لکھ چکا۔ ۲؎ جج الکرامی فی آثار ایقیامہ نواب صدیق حسن خاں کی کتاب ہے۔ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی بصفت نبوت ہو گی یا بلا صفت نبوت اس باب میں علماء کا اختلاف ہے نواب صاحب کی یہ راء معلولم ہوتی ہے کہ وہ بصفت نبوت ہو گی۔ اس لیے وہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی آمد ثانی میں ان کی صفت نبوت سے انکار کرتے ہیں ہو مرتکب کفر ہیں بہرحال یہ رائے ہے۔ ۳؎ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے۔ اس روایت کو بعض محققین نے موضوعات میں شمار کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ فرضاً ہے واقعہ نہیں کیونکہ لو فرض اور عدم وقوع کے لیے آتا ہے ای یلے معلوم ہوا کہ محمد رسول صلعم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ اس لیے ابراہیم بن محمدؐ کو بچپن ہی میں اٹھا لیا گیا تھا۔ چنانچہ دوسری روایتوں میں یہی مذکور ہے۔ چنانچہ خود ابن ماجہ میں اوربخاری میں ۃے ولو قضٰ ان یکون بعد محمد نبی لعاش انبہ ولکن لا نبی بعدہ (ابن ماجہ جنائز بخاری انبیائ) یعنی یہ کہ اگر فیصلہ الٰہی یہ ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی ہو تو وہ آپ کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن یہ فیصلہ الٰہی ہو چکا ھتا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ ملا علی قادری نے اس کو موضوعات میں لیا ہے اس کو معتبر نہیں کہا۔ ضعیف کہا ہے۔ اس میں ابو شیبہ ابراہیم راوی ضعیف ہے۔ بلکہ وہ متروک الحدیث… منکر الحدیث… باطل گو اور دروغ گو تک کہا گیا ہے۔ اس کے بعد بشرط صحت ملانے اس کی تاویل کی ہے کہ بہرحال اس حدیث کا وہی مطلب ہے جو اس حدیث کا ہے لوکان بعدی نبیا لکان عمر (مسند احمد‘ ترمذی‘ یعنی یہ کہ اگر میرے بعدع نبی ہونا ممکن ہوتا تو عمر بن خطابؓ نبی ہوتے لیکن چونکہ ممکن نہیں اس لیے نہ وہ ہوا اورنہ کوئی اور نبی ہوسکتا ہے۔ ۴۔ صحیح یہی ہے کہ دائود حالیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ عیسائیوںپر حجت ہوں گے اور مسلمانوں کی تائید فرمائیں گے۔ مسلمانوں کا ہوگا حضرت عیسیٰ نہ ہوں گے۔ (سید سلیمان ندوی) ۵؎ اقبا ل نامہ (جلد اول) صفحہ ۱۹۱ تا ۱۹۴ بھوپال کی آب و ہوا وہاں کی خوش گوار فضا پرسکون ماحول راس مسعود ایسے جاں نثار مخلص دوست کی قربت نواب حمید اللہ خاں کی رفاقت اور معالجین کی خصوصی توجہ سے اقبال کی صحت عامہ برابر روبہ ترقی تھی چنانچہ اسی دور کے دو خط اور ملتے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھوپال کے قیام اور بجلی سے علاج سے انہیں خاطر خواہ فائدہ ہو رہا تھا یکم اگست ۱۹۳۵ ء کا خط سید نذیر نیازی کے نام ہے لکھتے ہیں: ’’یکم اگست ۱۹۳۵ء شیش محل‘ بھوپال ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم میری صحت ترقی کر رہی ہے الحمد للہ…اگر آ لاہور سے واپس آ گئے ہوں تو اطلاع دیں… والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘۔ اور یہ دوسرا خط پروفیسر شجا ع کے نام ہے اس میں بھی اقبال نے اپنے قیام بھوپال اور صحت کی بحالی کا ذکر کیا ہے: ’’بھوپال … ۵ اگست ۱۹۳۵ء ڈیر مسٹر شجاع میں بغرض علاج برقی بھوپال میں مقیم ہوں۔ اور اگست کے آخر تک یہیں رہوں گا۔ میری صحت عامہ پہلے کی نسبت بہت اچھی ہے۔ اور آواز میں بھی کسی قدر فرق ہے امید ہے کہ اس دفعہ کے علاج سے بہت فائدہ ہو گا۔ رب شہتوت کی نسبت کچھ عرض نہیںکر سکتا۔ لیکن بعض لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ مفید ہے بہرحال آزمانے پر معلوم ہو گا کہ میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے محض میرے لیے اس درخت کی حفاظت کی اگراس کا پھل فائدہ نہ بھی کرے تو بھی ممکن ہے آپ کے اخلاص کی برکت سے فائدہ ہو جائے باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے … والسلام محمد اقبال ۲؎‘‘۔ انہیں دنوں لاہور کی فضا بہت مکدر ہو گئی تھی۔ مسجد شہید گنج کے انہدام اور مابعد اثرات کے سبب حکومت نے مارشل لا نافذ کر دیا تھا نیازی صاحب نے اقبال کو لاوہر کی صورت حال سے مطلع کیا تو انہیں بے حد صدمہ ہوا۔ اور انہوںنے ۶ اگست ۱۹۳۵ء کو اس کا جواب دیتے ہوئے اس امر سے بھی آگارہ کیا کہ ان کے علاج کا کورس ۲۸ اگست تک مکمل ہو جائے گا۔ نیازی صاحب نے انہیں طلوع اسلام کے اجراء کی خوشخبری سنائی تھی چنانچہ اس خط میں اس کا تذکرہ بھی ملتاہے۔ نیازی صاحب یہ ملی اسلامی مجلہ اقبال کے ایماء پرنکال رہے تھے۔ اور جب ان کی موجودگی میںبعض نیاز مندوں نے رسالہ کا نام ان کی مشہور نظم طلوع اسلام پر رکھنے کی تجویز پیش کی تو انہوںنے نہایت فراخ دلی سے اس کی اجازت دے دی۔ خط کا پورا متن یہ ہے: ۱ ؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۸۰ ۲؎ اقبال نامہ(جلد اول) صفحہ ۲۲۱ ’’ بھوپال ۔ ۶ اگست ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے الحمد للہ خیریت ہے۔ میں نے خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔ جاوید بھی راضی اور خوش ہے۔ لاہور کے حالات پر افسوس ناک ہیںَ خدا تعالیٰ رحم کرے مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ طوع اسلام کے لیے فضا سازگار ہے آپ جب دہلی واپس آئیں تو مجھے اطلاع دیںَ میں ۲۸ اگست تک اپنے علا ج کا کورس ختم کر لوں گا۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ سلامت اللہ شاہ صاحب سے سلام کہہ دیں علی بخش بھی آداب لکھواتاہے… والسلام محمد اقبال ۔بھوپال ۱؎‘‘ اس خط کے بعد انہوںنے پھر نیازی صاحب کو خط لکھا جس میں صحت عامہ کی بحالی روانگی کے پروگرام اور طلوع اسلام کے سلسلے میں قیمتی مشورے دیے تھے۔ ا س خط سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ طلوع اسلام کے اجراء میں کتنی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ’’بھوپال ۱۰ اگست ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے الحمد للہ خیریت ہے۔ صحت خوب ترقی کر گئی ہے۔ آواز میں بھی فرق ہے۔ امید ہے کہ اب کے علاج سے فائدہ ہو گا۔ شاید ایک دفعہ اور بھوپال آنا پڑے گا۔ یعنی اس ہفتے کے بعد آپ دہلی پہنچ جائیں تو وہاں پہنچتے ہی مجھے خط لکھ دیںَ میں غالباً ۲۶ یا ۲۸ اگست کویہاں سے روانہ ہوں گا۔ طلوع اسلام کے متعلق آپ نے جو کچھ مجھے لکھا ہے اس سے بڑی خوشی ہوئی صور اسرافیل ۲؎ کا ایک ٹکڑا بھیج دوں گا۔ یاد ہلی پہنچ کر خو دلکھ دوں گا۔ میرے خیال میں ایک نئی فیچر جو طلوع اسلام کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سکھوں کے دور سے پہلے کی تاریخ پنجاب پر مفصل مضمون لکھے جائیں۔ چوہدری محمد حسین صاحب اس بارے میں مشورہ کریں۔ انہوںنے حال ہی میں ۳؎ مسلمانوں کی تاریخ کے اس حصے کا مطالعہ کیا ہے۔ اور وہ لکھتے ہیں کہ میں اسے پڑھ کر دنگ رہ گیا ہوں۔ پنجاب ک مسلمانوں کی بیداری کے لیے اس حصہ تاریخ پر لکھنا ضروری ہے۔ باقی خیرت ہے۔ طلوع اسلام کے پہلے نمبر میں ہی ایک مضمون تاریخی ضروری ہے… والسلام محمد اقبال ۴؎ ‘‘۔ ۱؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۸۱ ۲؎ صور اسرافیل کا نام بعد میں ضرب کلیم رکھا گیا ۳؎ میں سہواً رہ گیا (نیازی) ۴؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۲۸۳ خط و کتابت اقبال کے معمولات کا ایک اہم حصہ تھی۔ وہ مطالعہ کرنے کے علاوہ نہایت پابندی سے ہر خط کا جواب خود ہی لکھتے تھے بھوپال کے قیام کے دوران انہوںنے مجوزہ کتاب کے سلسلے میں بھوپال کی مشہور اور مستند حمیدیہ لائبرری اور دیگر لائبریریوں سے استفادہ کیا۔ نیز سید سلیمان ندوی سے جن کے وہ بے حد عقیدت مند اور معتقد تھے خط و کتابت کے ذریعے اپنے بعض شکوک و شبہات رفع کی اور بعض اہم دینی امور میں ان سے مشورے لیے خود اپنی نظر میں ان کی شاعرانہ حیثیت کیا تھی۔ یہ بات بھی انہوںنے بلا تکلف سید صاحب کو ۲۰ اگست ۱۹۳۵ ء کے ایک خط میں لکھ دی جس کا مطالعہ خالی ا ز دلچسپی نہ ہو گا۔ کیونکہ یہ خط اقبال کی فکری عظمت کے ساتھ ساتھ ان کے عجز و انکسار کا بھی آئینہ دارہے۔ ’’بھوپال… ۲۰ اگست ۱۹۳۵ء مخدومی… السلام علیکم آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے۔ جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں بھی یہاں حمیدیہ لائبریری کے بعض پرائیویٹ احباب سے کتابیں منگوا کر دیکھتا رہا۔ الحمد لللہ کہ بہت سی باتیں مل گئیںَ اس مطالعہ سے مجھے بے انتہا فائدہ ہوا۔ اورآپ کے خط نے تو اور بھی راہیں کھول دی ہیں۔ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیںسمجھا۔ اس واسطے میرا کوئی رقیب نہیں۔ اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں۔ فن شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی ہاں بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے ورنہ : نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست (زبور عجم) مخلص محمد اقبال ۱؎‘‘۔ راس مسعود اپنی ذات سے ایک انجمن تھے حیدر آباد ہو یا علی گڑھ یا بھوپال جہاں بھی وہ رہے سب کے کام آتے رہے۔ اقبال کے قیام بھوپال کے دوران مولانا حالی کے صاحبزادے خواجہ سجاد حسین نے انہیں لکھا کہ حالی مسلم ہائی سکول پانی پت شدید مالی مشکلات میں گھرا ہے۔ اس کی مدد کی جائے۔ راس مسعود ایسے عالی ظرف درد مند اور علم و ادب کے شیدائی بھلا کب خاموش بیٹھنے والے تھے۔ چنانچہ انہوں نے نواب صاحب کو بھوپال کو پانی پت میں تقریب کے لیے رضامند کرلیا اورپھر اقبال کو آمادہ کیا۔ مولوی عبدالحق کو حیدر آباد دکن خط لکھا اور سارے انتظامات پلک جھپکتے مکمل کرا دیے۔ علم و تعلیم کی سچی لگن جو انہیں ورثے میں ملی تھی اس سے ان گنت شخصیتیں بہرہ مند ہوئیں۔ ان کے جہاں اور کارنامے زندہ ہیں وہاں پانی پت ایسے دور افتادہ مقام پر حالی کا صد سالہ جشن بھی ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گا۔ کہ اس کے روح رواں راس مسعود اور تنہا راس مسعود تھے۔ جن کے خلوص و جوش نے پانی پت میں اقصائے ملک کی مقتدر شخصیتوں کو آن کی آن میں جمع کر کے ایک مثالی تقریب منعقد کرا دی اور اتنا عطیہ فراہم کیا کہ حالی مسلم ہائی اسکول کو دوام نصیب ہو گیا۔ اس جشن کا تذکرہ پہلی بار ہمیں اقبال کے اس خط میں ملتا ہے جو انہوںنے نیازی صاحب کو تحریر کیا۔ ۱؎ اقبال نامہ(جلد اول) صفحہ ۱۹۵ء ۱۹۶ ’’بھوپال …۲۱ اگست ۱۹۳۵ء ڈیر نیازی صاحب … السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ اس سے پہلے ہی ایک خط آپ کو دہلی کے پتہ پر لکھ چکا ہوں۔ شاید یہ خط اسی کا جواب ہے۔ سفارشی تحریر ملفوف ہے اس کو ٹائپ کروا لیں۔ یا ایسے ہی ساتھ ٹانک دیں۔ عبدالعلی ۱؎ صاحب کو میں نہیں جانتا۔ مسعود ۲؎ سے دریافت کروں گا۔ اگر وہ جانتے ہوئے تو ان کو لکھوا دوں گا۔ ’’طلوع اسلام‘‘ کا پہلا نمبر سید راس مسعود کے نام بھی ارسال فرمائیے۔ مولانا حالی کی سینٹری ۳؎ اکتوبر کے آخرمیں ہو گی۔ ان پر ایک مضمون آ کے پہلے نمبر میں ہو جائے تو بہت اچھا ہے یا دوسرے نمبر میں بشرطیکہ دوسرا نمبر اکتوبر کے وسط سے پہلے نکل آئے۔ تاکہ آپ کا رسالہ سینٹینزی کے موقع پر تقسیم ہو سکے۔ سینٹینزی پانی پت میں ہو گی۔ اعلیٰ حضرت نواب بھوپال صدر ہوں گے۔ میں بھی پانی پت اس موقع پر جائوں گا۔ بلکہ اعلیٰ حضرت کے متعلق بھی اس رسالے میں کچھ ہو جائے تو اور بھی اچھا ہو۔ مولانا حالی پر جو مضمون ہو کسی اچھے مبصر کے قلم سے ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں بہتریہ ہو گا کہ آپ کا پہلا نمبر ہی وسط اکتوبر میں نکلے۔ میں انشاء اللہ ۲۸ اگست کی شام کو یہاں سے روانہ ہوکر ۲۹ کی صبحکو دہلی پہنچوں گا۔ روانگی سے پہلے اطلاع دوں گا۔ محمد اقبال آپ دہلی پہنچ کر مجھے کارڈ لکھیں جس سے مجھے معلوم ہو جائے کہ آپ دہلی پہنچ گئے ہیں ۴؎ ‘‘۔ راس مسعود کے پروگرام کے مطابق حالی کی صد سالہ برسی آخر اکتوبر ۱۹۳۵ء میں زیر صدارت نواب صاحب بھوپال منعقد ہو رہی تھی جیسا کہ اقبال کے خط سے ظاہر ہے۔ اس خط سے واضح طور پریہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں صد سالہ برسی کی تقریبات سے کتنا گہر الگائو تھا۔ نیاز ی صاحب کو طلوع اسلام کے سلسلے میں یہ لکھنا کہ مولانا حالی پر بھی ایک مضمون کسی اچھے مبصر سے لکھوا کر شامل کریں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی راس مسعود کی طرح اس جشن میںکامیاب دیکھنے کے آرزو مند تھ۔ ساتھ یہ انیں نواب صاحب بھوپال کی معارف پروری اور علم دوستی کا بھی اعتراف تھا۔ چنانچہ خط کا یہ ٹکڑا اعلیٰ حضرت کے متعلق بھی اس رسالہ میں کچھ ہو جائے تو اور بھی اچھا ہو۔ واضح طور پر ان کے پرخلوص اور دلی جذبا ت کا اظہار کرتاہے۔ انہیں طلوع اسلام سے کتنی گہری دلچسپی تھی اس کا اظہار بھی اس خط کے متن سے ہوتا ہے۔ وہ راس مسعود کے نام یہ جملہ بھیجنے کی تاکید بھی کر رہے تھے کہ اس کی سرپرستی کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ یہ ساری باتیں ان کے جذبہ ہمدردی درد مندی کی غمازی کرتی ہیں۔جن کی صداقت سے انکار ممکن نہیں۔ ۱؎ عبدالعلی خا ں کسی زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نائب مسجل تھے اور اس وقت بھوپال میں تھے ۔ (نیازی) ۲؎ سر راس مسعود مرحوم ۳؎ Centenary صد سالہ برسی (نیازی) ۴؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۸۵۔۲۸۶ اقبال کو بھوپال آئے ایک ماہ سے زیادہ کاعرصہ ہو چکا تھا۔ ان کا علاج بڑی توجہ سے ہو رہاتھا۔ اور ان کی عام صحت بھی پہلے سے کہیںبہتر تھی۔ ان کا بیشتر وقت آرام و مطالعہ اور خط وکتابت میں صرف ہوتا تھا۔ راس مسعود کی خصوصی ہدایت کے مطابق ملنے جلنے والوں کی تعداد بہت محدود تھی۔ تین حضرات کو خصوصیت کے ساتھ راس مسعود نے اقبال کی دیکھ بھال پر متعین کر دیا تھا جو صبح و شام پابندی کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی معیت میں گزارتے تھے تاکہ اقبال کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔ ان تین شخصیتوں میں سے دو حضرات خوش نصیبی سے پاکستان آ گئے اور مھجے ان سے اقبال کی مصروفیات اور مشاغل کا علم ہو گیا جس کا تذکرہ آئندہ صفحات میں پیش کیا جائیء گا۔ ان تین حضرات مٰں ایک تو ممنون حسن خاں تھے جو اب بھی بھوپال میں ہیں۔ ان کے نام اقبال کے چند خطوط بھی اقبال نامہ میں شامل ہیںَ دوسرے صاحب محمد خلیل اللہ خاں تھے اور تیسرے سید مسیح الدین۔ محمد خلیل خاں ابتداً خورجہ سے آ کر بھوپال میں بحیثیت تحصیل دار مقرر ہوئے تھے۔ اور علی گڑھ کے ناتے راس مسعود کے خاص نیاز مندوں میں سے تھے سید مسیح الدین بھوپال کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور وہیں برسرکار تھے اور راس مسعود کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ ممنون حسن خاں ان کے پرائیوٹ سیکرٹری تھے۔ یہ تینوں حضرات اپنی اعلیٰ علمی و ادبی خصوصیات کی بناپر اقبال کی خصوصی دیکھ بھال کرتے تھے۔ دیگر حاضر باشوں میں سہا مجددی ۱؎ ملا رموزی ۲؎ مولانا ارشد تھانوی ۳؎ مولانا محمد یوسف ۴؎ قیصر بھوپالی بھوپال کے بزرگ و محترم شارع ذکی وارثی ۵؎ ‘ مولوی شکر اللہ سہیل ۶؎ دبیر الملک قاضی ولی محمد ۷؎ سر لیاقت علی ۸؎ شعیب قریشی ۹؎ راس مسعود ۱۰؎ اور محمد احمد سبزواری وغیرہ شامل ہیں۔ وقتاً فوقتاً یہ حضرات علمی و ادبی موضوعات پر اقبال سے تبادلہ خیالات کرتے اورانہیںکسی طور تنہائی کا احساس نہ ہونے دیتے تھے آنے جانے والوں سے جو وقت بچتا اسے مطالعہ اقبال میں صرف کرتے یافکر شعر و ادب مین۔ چنانچہ ریاض منزل کی طرح شیش محل کو بھی یہ امتیازی حاصل ہوا کہ اس کی پرسکون فضا میں جہاں اقبال نے دقیق علمی و فکری مسائل پر قلم اٹھایا وہیں ان کی فکر تازہ نے چند شاہکار نظموں کی تخلیق بھی کی جو اس خصوصی ایونٹ کے ساتھ ضرب کلیم کی زینت ہیں۔ ’’بھوپال (شیش محل) میں لکھے گئے‘‘۔ پہلی نظم صبح ۱۱؎ ہے جو صرف چار مصرعوںپر مشتمل ہے: یہ سحرجو کچھی فردا ہے کبھی امروز نہیںمعلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا وہ سحر جس سے لرزتاہے شبستان وجود ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا بھوپال جس کی صبحیں اور شامیں جادو جگاتی تھیں اقبال کو متاثر کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ یہ شہر مسجدوں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ جہاں اعلیٰ سرکاری انتظام کے سبب مساجد ہمیشی آباد اور پر رونق رہتی تھیں۔ مومن کی آذاں کے پس منظر میں سچ پوچھیے تو اس چھوٹی سی ریاست کا وہ شکوہ نظر آتا ہے جو کہیں اور بمشکل سے مل سکے گا۔ ۱۔۱۰؎۔ افسوس کہ یہ شخصیتیں اب اس دنیا میں نہیںہیں ورنہ حیات اقبال کے کئی اور گوشے نمایاں ہو سکتے۔ ۱۱؎ ضرب کلیم صفحہ ۶ لہٰذا اقبال کے تاثرات کے پس منظر میں شعر کی صداقت بھی ہے۔ اور حقیقت کی ترجمانی بھی۔ شیش محل کے گرد تقریباً چودہ پندرہ مسجدیں تھیں جنمیں صبح کے وقت اذانوں کا سلسلہ دیر تک جاری رہتا تھا۔ اس نظم میں وجد و انسباط کی حقیقی کیفیت نمایاں ہے۔ وہ چار مصرعوں میں امروز و فردا کی عقدہ کشائی ہی نہیں کرتے بلکہ شبستان وجود کو اس سحر کی کارفرمائی قرار دیتے ہیں جو بندہ مومن کی اذاں سے عبارت ہے۔ دوسری نظم مومن ۱؎ ہے جس کاپہلا حصہ دنیا میں ذیلی عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ اوردوسرا حصہ جنت میں کے عنوان سے نظم کا پہلا شعریہ ہے: ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن آخری شعر ہے: کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت کہ کم آمیز ہے مومن پہلی نظم صبح کی طرح یہ نظم بھی ان کے مخصوص موضوع سخن کی آئینہ دار ہے۔ تیسری نظم ابلیس کافرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ۲؎ چھ اشعار پر مشتمل ہے۔ چوتھی نظم جمعیت اقوام مشرق ۳؎ ہے جس کا مشہور شعر ہے: طہراں ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے کسی توضیح و تشریح کا محتاج نہیں خہ یہی کچھ ان کی شاعری کا مقصود تھا۔ اقوام مشرق کی ملوکیت افرنگ پر برتری کا خواب جو انہوںنے دیکھا تھا۔ اس کی تعبیر جلد یا بدیر دنیا کے سامنے آ گئی۔ پانچویں اور آخری مشہور نظم جو بقید تاریخ ۲۲ اگست ۱۹۳۵ء شیش محل بھوپال میں انہوںنے لکھی ہے اس کا عنوان مسولینی ۴؎ اور نظم مٰں بھ اقبال کی شاعرانہ فکر معراج پر ہے اور یہاں بھی وہ معصومان یورپ کو للکارتے نظر آتے ہیں اور ان کی تہذیبی برتری کے کھوکھلے نعروں کا اپنے منفرد لہجہ میں پردہ چاک کرتے ہیں: میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زحاج یہ عجائب شعبدے کس ملوکیت کے ہیں راج دھانی ہے مگر باقی نہ راجہ نہ راج اور آخر میں واضح طور پر یہ اعلان کر دیتے ہیں: تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاج پردہ تہذیب میں غاری گری آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج ۱؎ ضرب کلیم صفحہ ۴۱ ۲۔۳۔۴؎ ضرب کلیم صفحہ ۱۴۸۔۱۴۹۔۱۵۱۔۱۵۲ ان پانچ نظموں کے موضوعات اورقیام شیش محل کی ذہنی اور فکری وسعتوں کا احاطہ کرنا چنداں دشوار نہیں ان میں شعری حسن سے زیادہ صداقت آفرینی ہے۔ معاملہ بندی اور زبان کے چٹخارہ کے برعکس ٹھوس حقیقتیں ہیں جو غلام ہندوستان کا مقدور بنی ہوئی تھیں اور جن کے خلاف اقبال کی رباعی گکر برسر پیکار تھی۔ کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج یہ بات صرف اقبال ہی کہہ سکتے ہیں۔ ا س دور میں جب سفید آقا کالے غلاموں کو پابہ زنجیر رکھنے پر تلا بیٹحا تھا۔ ضڑب کلیم کی تقریباً تمام نظمیںسوچنے والے ذہن کے لیے فکری سامان بہم پہنچاتی ہیں۔ اقبال بحیثیت شاعر کبھی اپنے فن پر نازاں نہیں ہوئے جیسا کہ گزشتہ اوراق میں ۲۰ اگست ۱۹۳۵ ء کے ایک خط میں سید سلیمان ندوی کو بھی انہوںنے لکھا ہے شاعری سے انہیں صرف اسی حد تک دلچسپی تھی کہ وہ اسے بعض مقاصد خاص کی ترجمانی کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے ارو بس ۔ انہیں تو ہر مسلم قوم کی شیرازہ بندی اسلام کی عظمت اور مسلمانوں میں احساس بیداری پیدا کرنے کا جذبہ ہر وقت ستاتا رہتا تھا۔ چنانچہ نظم ہو یا نثر وہ اظہار کے لیے سے زیادہ حقیقی مقصد پر توجہ صرف کرتے تھے۔ شیش محل بھوپال کے قیام کے دوران ہمیں صرف یہی پانچ نظمیں جن کا تذکرہ کیا جا چکا ہے‘ ’’ضرب کلیم‘ ‘ میں ملتی ہیں یہ مجموعہ کلام اشاعت کی منزل میں تھا۔ چنانچہ ان نظمو کے موضوعات اور ان کے پس منظر سے نہ صرف ان نظموں کے عرصہ تخلیق کا ہمیں علم ہو جاتا ہے بلکہ اقبال کی سوچ اور فکر کے مربوط گوشے بھی کھل کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس قیام کے دوران سید سیلمان ندوی کے نام اقبال کا خط ملتا ہے جس سے اس کی مخصوص طرز فکر کے کچھ اورپہلو نمایاں ہوتے ہیں ساتھ ہی یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ان کے علاج کا کورس ۲۸ اگست ۱۹۳۵ء تک ختم ہو رہاتھا۔ اور وہ اسی روز لاہور کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔ ’’بھوپال …۲۳ اگست ۱۹۳۵ء مخدوم مکرم جناب مولانا… السلام علیکم ایک عریضہ لکھ چکا ہوں۔ امید ہے کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گزرا ہو گا۔ ایک بات دریافت طلب رہ گئی تھی۔ جو اب عرض کرتا ہوں کہ کیا علمائے اسلام میں کوئی ایسے بزرگ بھی گزرے ہیں جو حیات و نزول مسیح کے اور ابن مریم کے مفکر ہوں؟ یا اگر حیات کے قائل ہوں تو نزول کے منکر ہوں؟ معتزلہ کا عام طور پر اس مسئلہ میں کیا مذہب ۱؎ ہے؟ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا ۔ میں ۲۸ اگست کی شام کو رخصت ہو جائوں گا۔ علاج کا کورس اس روز صبح ختم ہو جائے گا۔ اس خط کا جواب لاہور کے پتہ پر ارسال فرمائیے۔ والسلام مخلص محمد اقبال ۲؎‘‘ اس خط کے دوسرے روز ہی انہوںنے نیازی صاحب کو بھی روانگی کے پروگرام سے مطلع کر دیا: ۱؎ مجھے جہاں تک علم ہے نزول مسیح کا انکار کسی نے نہیں کیا۔ معتزلہ کی کتابیں نہیںملتیں جو حال معلوم ہو۔ البتہ ابن حزم وفات مسیح کے قائل تھے اور ساتھ ہی نزول کے بھی (سید سلیمان ندوی) ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۱۹۶۔۱۹۷ ’’ ڈیر نیازی صاحب …السلام علیکم آپ کا خط ابھی ابھی ملا ہے الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ میں ۲۸ اگست کی شام کو سات بجے یہاں سے روانہ ہوکر ۲۹ کی صبح آٹھ بجے دہلی پہنچوں گا۔ دن بھر ریلوے سٹیشن پر قیام رہے گا۔ رات کی گاڑی سے وہاں روانہ ہو کر ۳۰ اگست کی صبح کو انشاء اللہ لاہور۔ دہلی سے میرے لیے دو سیٹ سیکنڈ کلاس لوئر برتھ ریزروکروا چھوڑیں۔ ہمارے وہ ہندوستان جنہوں نے دہلی سے پانچ بجے شام چلنے کا مشورہ دیا تھا ان سے مدد لیجیے باقی وقت ملاقات … والسلام محمد اقبال ۲۴ اگست ۱۹۳۵ء ‘‘ ۱؎ اب اقبال بھوپال سے واپس لاہور جا رہے تھے۔ بجلی کے علاج کا دوسرا کورس ۲۸ تک ختم ہو رہا تھا۔ ان کی صحت عامہ پر اس علاج کا خاطر کواہ اثر پڑا تھا۔ پہلی بار وہ ایک معزز سرکاری مہمان کی حیثیت سے شیش محل مٰں ٹھہرے تھے جہاں ریاست کی طر ف سے بھی اور راس مسعو د ایسے جاں نثار دوست کی خصوصی توجہ کے سبب بھی ان کی آسائش و راحت کا ہر ممکن انتظام کیا گیا تھا۔ اس قیام سے انہوںنے نہ صر ف ذہنی آسودگی حاصل کی بلکہ فکر و تخلیق کے علاوہ بیش از بیش مطالعہ بھی کیا اور استفادہ بھی۔ اسی قیام کے دوران انہوںنے فتنہ قادیانی پر اپنے مشہور مضامین لکھے۔ قرآن مجید کے حواشی کے سلسلے میں ابتدائی خاکہ تیار کیا راس مسعود کی معیت میں وہ ایک سے زائد بار نوب صاحب بھوپال سے بھی ملاقات کرنے گئے اور مختلف مسائل پر ان سے گفتگو کی۔ ان کے معالجین ان کی صحت کی بحالی سے بے حد خوش اور مطمئن تھے۔ اور انہیں بتا چکے تھے کہ بجلی کے علاج کا تیسراکورس بھی وہ جلد بھوپال آ کر مکمل کر لیں چنانچہ انہوںنے پھر جلد ہی بھوپال آنے کا وعدہ کر لیاتھا۔ فی الوقت ان کا لاہور جانا ضروری تھا کیونکہ جاوید تو ان کے ساتھ ہی آء تھے لیکن منیرہ لاہور میں تھی اور وہ زیادہ عرصہ اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ جاویدنے بھوپال کے دوران قیام وہاں کے تاریخی اور تفریحی مقامات کی خوب سیر کی ڈاکٹر عبدالباسط کے بچوں کے ساتھ ان کا بیشتر وقت کھیل کو د میں صر ف ہوتا تھا۔ اقبال کے ساتھ انہیں بیگم صاحبہ بھوپال کی خدمت میں حاضر ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ اس وقت وہ بہت کم عمر تھے۔ پھر بھی بھوپال کے اس سفر و قیام کی یادوں کے جو دھندلے نقوش محفوظ رہ گئے … ان کااحوال آپ جاوید اقبال کی زبانی سنیے: ’’اماں جان کی وفات کے عرصہ بعد وہ (مراد اقبال) مجھے اس خیال سے اپنے ساتھ بھوپال لے گئے کہ ان کی عدم موجودگی میں منیرہ سے لڑتا نہ رہوں۔ اس سفر کی دھندلی سی یادداشت اب تک میرے ذہن میں محفوظ ہے بہت لمبا سفر تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کئی دن اور کئی راتیں گیل کی گاڑی میں ہی گزریں۔ رات کو علی بخش مجھے اوپر برتھ پر سلا دیتاتھا۔ اور اباجان نیچے ک ی برتھ پر سوتے تے۔ ناشتہ دوپہر رات کا کھانا بھی وہیں منگوا لیا جاتا۔ ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۸۶۔۲۸۷ جب ہم بھوپال سٹیشن پر پہنچے تو محمد شعیب استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہم موٹر کار میں شیش محل پہنچے جہاں ابا جان کی رہائش کا انتظار کیا گیا تھا۔ شیش محل ایک پرانی وضع کی عمارت نہایت وسیع و عریض تھی۔ اتنے بڑے بڑے کمرے تھے کہ مجھے رات کو ان سے گزرتے ڈر آیا کرتاتھا۔ ہم بھوپال میں کوئی دو ایک ماہ ٹھہرے وہاں ڈاکٹر باسط اباجان کے معالج تھے اور ان کے گلے کا علاج برقی شعاعوں سے کرتے تھے۔ مجھے روز پڑھانے کے لیے ایک استاد بھی شیش محل میں آیا کرتے۔ شیش محل کے قریب ایک جھیل ۱؎ کے کنارے میں ڈاکٹر باسط کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ ڈاکٹر باسط کا گھر شیش محل کے مقابل تھا اور اس کے سامنے غالباًایک وسیع میدان تھا ۲؎۔ تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز میں ابا جان کے ساتھ سید راس مسعود کے ہاں ریاض منزل جایا کرتا تھا۔ وہ میری زندگی میں دوسری ایسی شخصیت تھے جنہیںمیںنے ابا جان کو اقبا کہہ کر پکارتے سنا تھا ۔ سید راس مسعود قد میں اباجان سے بہت اونچے قوی ہیکل اور گورے چٹے بزرگ تھے۔ مجھ سے ہر وقت مذاق کرتے رہتے ۔ میں اور اباجان ہفتہ میں دو ایک بار رات کا کھانا سید راس مسعود اور بیگم امت المسعود کے ساتھ ریاض منزل میں کھاتے بسا اوقات ہم اور جگہوں پر بھی کھانے پر مدعو ہوتے۔ ایک مرتبہ ہم کسی کھانے سے واپس لوٹ رہے تھے اور گاڑی میں اباجان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کی فربہ سی ہنس مکھ خاتون بیٹھی تھیں۔ وہ مجھ سے نہایت شفقت سے پیش آئیں بعد میں اباجان نے مجھے بتایا کہ وہ سروجنی نائیڈو تھیں۔ اسی طرح ایک شام بیگم صاحبہ بھوپال کے ہاں چائے پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے کیونکہ بیگم صاحبہ نے فرمائش کی تھی کہ جاوید کو ساتھ لائیے۔ سید راس مسعو د بھی ہمارے ہمراہ تھے جب ان دونوں بزرگوں نے بیگم صاحبہ کو فرشی سلام کیے تو مجھے بڑی ہنسی آئی۔ بہرحال بھوپال میں میرا بیشتر وقت اباجان کی نگاہوں کے سامنے ہی گزرتاتھا۔ رات کو کھانے کی میز پر مجھے سکھایا کرتے کہ چمچا اس طرح پکڑنا چاہیے کہ کانٹا یوںمیں فطرتاً کچھ شرمیلا واقع ہوا تھا۔ اس لیے جب کبھی انہیںلوگ وہاں ملنے آتے یا وہ لوگوں کے ہاں جاتے تو ہمیشہ مجھ سے کہا کرتے کہ لوگوں کے سامنے خاموش بیٹھنے کے بجائے ان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ بھوپال سے واپسی پر ہم چند دنوں کے لیے دہلی ٹھہرے وہاں اباجان بذات خود مجھے تاریخی مقامات کی سیر کرانے کے لیے لے گئے پہلے لال قلعہ دیکھا پھر نظام الدین اولیاء گئے اورپھر نئی دہلی سے ہوتے ہوئے قطب پہنچے۔ میرا دل چاہا کہ قطب مینار کے اوپر چڑھ جائوں اور میں نے ابا جان کو بھی ساتھ آنے کے لیے کہا لیکن وہ بولے کہ تم جائو۔ میں اتنی بلندی پر نہیں چڑھ سکتا۔ اور جب اوپر پہنچو گے تو نیچے کی طرف مت دیکھنا کہیں دہشت سے گر نہ پڑو۔ بالآخر ہم لاہور آ گئے ۳؎‘‘۔ ۱؎ بھوپال کا مشہور بڑا تالاب جس کے قریب قدسیہ محل تھا جس میں ڈاکٹر عبدالباسط رہتے تھے۔ ۲؎ یہ کھرنی والا میدان تھا جہاں اکثر بڑے بڑے جلسے ہوتے تھے۔ ۳؎ مئے لالہ فام۔ صفحہ ۱۷۵تا ۱۷۷ ٭٭٭ جشن حالی اور اقبال (۲۶؍۲۷ اکتوبر ۱۹۳۵ئ) لاہور پہنچتے ہی اقبال کی صحت پھر متاثر ہو گئی۔ زکام ہوا تو انہوںنے بہدیانہ اور شربت بنفشہ کا استعمال شروع کر دیا۔ جس بے بلغم پک گیا اورخفیف سے دمہ کا اثر بھی محسوس ہوا۔ نیازی صاحب کے نام ۵ ستمبر ۱۹۳۵ء کا مکتوب اس امر کی نشا ن دہی کرتاہے کہ ۸ ستمبر کو انہوںنے پھر ایک خط لکھا اور کھانسی زکام اوربلغم کی شکایات کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا: ’’بھوپال میں بھی یہی کیفیت تھی مگر وہاں بلغم پختہ نہ تھی۔ یہ بات صرف بہیدانہ اور شربت بنفشہ پینے کے بعد ہوئی ہے۔ ۱؎‘‘ پھر ۱۰ ستمبر ۱۹۳۵ء کے خط میں انہوںنے بھوپال میں پھیپھڑوں کے معائنہ کا حال لکھ بھیجا: ’’… بھوپال میں دودفعہ پھیپڑوں کا امتحا ن کرایاتھا معلوم ہا کہ پھیپھڑے بالکل صاف ہیں ۲؎‘‘۔ اسی طرح ۱۲ ستمبر ۱۹۳۵ء کے خط کی یہ عبارت: ’’…وہ معمولی بلغم جو زکام سے پہلے آتی تھی ابھی آتی ہے۔ مختصراًیہ کہ جیسا میں بھوپال سے آتے وقت تھا۔ اب وہی حالت عود کر آئی ہے۳؎‘‘۔ ان خطوں کے جواب میں نیازی صاحب حکیم نابینا صاحب سے ان کے حیدر آبداد دکن چلے جانے کے سبب مشورہ نہ کر سکے نہ ادویہ بھیج سکے لیکن جب وہ حیدر آباد (دکن) سے لوٹ آئے تو تمام خطوط انہیں پڑ ھ کر سنائے اورادویہ لاہور روانہ کر دیں۔ اسی خط کے آخری اقتباس میں پانی پت میں مولانا حالی کے جشن صد سالہ کی تواریخ اور اقبال کے قصد روانگی کا بھی علم ہوتا ہے: ’’… مولانا حالی کی سالگرہ کی تاریخ ۲۶؍۲۷ اکتوبر مقرر ہوئی ہے۔ میں غالباً ۲۵ تا ۲۶ اکتوبروہاں پہنچ جائوں گا۔ ۱؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۲۹۱ ۲۔۳؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۹۲۔ ۲۹۳ آپ کے رسالے کے (لیے …سہواً رہ گیا ہے) یہ بہتر ہو گا کہ اگر ممکن ہو تو آپ خود وہاںپہنچ جائیں۔ یہ بہتر ہو گا کہ اگر ممکن ہو تو آپ خود وہاں پہنچ جائیں۔ اوراگر فوٹو گراف (مطلب ہے فوٹو گرافر) کا بھی انتظام کر سکیں تو اور بھی بہتر ہو گا۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ وہاں میں آپ کو سید راس مسعود سے بھی انٹروڈیوس کرائوں گا۔ غالباً چوہدری محمد حسین اور جاوید بھی ساتھ ہوں گے ‘‘ ۔ ۱؎ اس دوران راس مسعود سے بھی ا ن کی خط و کتابت جاری رہی جشن حالی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ پروگرام کے مطابق اقبال کو بھی نظم پڑھنا تھی۔ ۱۸ ستمبر ۱۹۳۵ء کا ی ہخط ان امور پر روشنی ڈالتا ہے ۔ ’’لاہور … ۱۹ ستمبر ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود ۔ تمہارا خط جس میں دو نامے ملفوف تھے ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ میں بھی خدا کے فضل و کرم سے اچھا ہوں۔ انشاء اللہ ۲۴ یا ۲۵ اکتوبر کو پانی پت پہنچوں گا۔ جو چند اشعار فارسی کے لکھے تھے وہ میں نے خواجہ سجاد حسین کی خدمت میں ان کی درخواست پر بھیج دیے تھے۔ جاوید کے ماموں کو بھی آج قالین کے لیے پھر لکھ دیا ہے اطمینان فرمائیے۔ باقی رہا وہ معاملہ سوا س میں تمہارے اس خط کے بعد میں کیا عرض کروں۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال کی پنشن قبول کرنے کے بعد کسی اور طرف نگاہ کرنا آئین جواں مردی نہیںہے۔ لیکن میں آپ کو اپنا دوسرا خیال کرتا ہوں اس واسطے جو کچھ آ پ لکھتے ہیں اس پر عمل کرتا ہوں۔ اخباروں میں اس کا چرچا مناسب نہیںمعلوم ہوتا۔ اور اس کی ادائیگی بھی معرفت اعلیٰ حضرت ہی ہونی چاہیے جیسا کہ آپ نے مجھ سے زبانی کہا تھا۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ لیڈی مسعود سلام قبول کریں۔ جاوید سلام عرض کرتا ہے اور علی بخش آداب کہتا ہے۔ والسلام ۔ محمدا قبال۔ لاہور ۲؎‘‘۔ ا س خط سے جہاں ۲۴ اور ۲۵ اکتوبر کے پانی پت پہنچنے کا علم ہوتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے ک فارسی اشعار انہوںنے خواجہ سجاد حسین (پسر مولانا الطاف حسین حالی) کو روانہ کر دیے تھے۔ خط کا دوسرا حصہ… جس میں نواب صاحب کی لائف پنشن قبول کرنے کا تذکرہ ہے۔ دراصل اس وظیفہ کی پیش کش سے تعلق رکھتا ہے جو سر آغا خاں نے راس مسعود کی تحریک پر کی تھی ان کی یہ کہنا: ’’…اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال کی پنشن قبول کرنے کے بعد کسی اور طرف نگاہ کرنا آئین جواں مردی نہیں…‘‘ اس عظیم درویش صفت احسان کیش مرد قلندر اور مفکر مشرق اقبال کے ان خدوخال کو نمایاں کرتا ہے جن سے ایک سچے مسلمان کی ساری زندگی عبارت ہے۔ ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۲۹۴ ۲؎ اقبال نامہ… (جلد اول ) صفحہ ۳۶۸۔۳۶۹ وہ نواب صاحب کے وظیفہ کے بعد کسی مزید وظیفہ کے طالب نہیںتھے کیونکہ ا ن کی زندگی نہایت سادہ و درویشانہ تھی۔ پھر ان میں صبر و رضا قناعت و توکل مہر و مروت اور جذبہ احسان مندی کی اعلیٰ صفات بھی موجود تھیں۔ چنانچہ راس مسعود کو جنہیں وہ اپنا دوسرا سیلف خیال کرتے تھے۔ بلا تکلف آئین جواں مردی کا اشارا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے دوست کو صحیح راستہ کی جانب متوجہ کرنا چاہتے تھے۔ بہرطور اس ضمن میں اقبال اور راس مسعود کے درمیان جو مزید مراسلت ہوئی ہے۔ اس کی تفصیلات آئندہ صفحات میں پیش ہوں گی۔ یہاں صرف اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اقبال نواب صاحب کے وظیفہ کی تشہیر کو بھی ناپسند کرتے تھے جیسا کہ خط کی اس عبارت اخباروں میں اس کا چرچا مناسب نہیں سے ظاہر ہے۔ وہ وظیفہ کی ادائی بھی اعلیٰ حضرت کی معرفت چاہتے تھے اور اس سلسلے میں راس مسعود سے بھوپال کے قیام کے دوران گفتگو بھی ہو چکی تھی۔ ستمبر کا پورا مہینہ بیماری کی نظر ہو گیا۔ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۵ء کے خط میں انہوںنے نیازی صاحب کو پورا حال لکھ کر پھر بھیجا اور یہ خواہش کی کہ حکیم صاحب سے ان تین امور پر مشورہ کریں: (۱) بلغم کا استیصال (۲) قوت جسمانی میںترقی (۳) آواز بھوپال سے لوٹے کے بعدان کی شکایات نے انہیں پھر الجھن میں ڈال دیا ھتا۔ بعض ڈاکٹروں کامشورہ تھا کہ وہ ویانا تشریف لے جائیںَ نیازی صاحب نے حکیم صاحب سے مشورہ کیا اور دوائیں روانہ کر دیںَ اسی زمانے میں انہیںلاہور کے ایک دوست نے جو ویانا سے علاج کراکے لوٹے تھے ویانا چلنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء کے خط میں وہ راس مسعود سے مشورہ طلب کرتے ہیں: ’’لاہور ۔ ۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود۔ ایک خط اس سے پہلے لکھ چکا ہوں جو امید ہے تم کو مل گیا ہو گا۔ جواب کا ابھی تک انتظار ہے۔ امید ہے کہ آ پ اور بیگم مسعود مع الخیر ہوںگے۔ میرے ایک دوست جو یہاں کے سادات میںسے ہیں اور مرض ذیابیطس کے پرانے بیمار تھے حال میں تندرست ہو کر وائنا ۱؎ آسٹریا سے واپس آئے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ دوران علاج میں انہوںںے اپنے ڈاکٹر سے میرے مرض کا بھی ذکر کیا۔ جس پر ڈاکٹر نے کہا کہ اگر وہ بیمار یہاں آ جائے تو میں گارنٹی دیتا ہوں یکہ بالکل تندرست ہو جائے گا۔ شاہ صاحب فروری میں پھر وائنا ۲؎ جؤانے والے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ چلوں اوروہاں چل کر علاج کرائوں۔ آپ اس بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ فی الحال میری صحت ترقی کر رہی ہے۔ آواز میں بھی قدرے امپرومنت ہے۔ ڈاکٹر عبدالباسط نے جو فوٹو میرے سینے کا لیا تھا۔ اسے ڈاکٹر رحمن وائنا ۳؎ بھیجنے والے تھے ۱۔۳؎ مراد ویانا معلوم نہیںابھی تک بھیجا ہے یا نہیںَ میں نے ڈاکٹرصاحب عبدالباسط کو خط لکھ کر دریافت کیا تھا وہاں سے اکسپرٹ اوپینین آ جانے پر آخری فیصلہ کروںگا۔ فی الحال آپ کی رائے چاہتا ہوں باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے جاوید آداز عرض کرتاہے۔ اور علی بخش سلام لکھواتا ہے۔ والسلام ۔ محمد اقبال بیگم مسعود صاحبہ سے سلام عرض کیجیے۔ انشاء اللہ پانی پت میں ملاقات ہو گی۔ کل سے کوٹھی کے بقایا حصے کی تعمیر ہو گی امید ہے کہ پانی پت جانے تک کام خت ہو جائے گا ‘‘۔ ۱؎ اپنی بیماری سے قطع ظر انہیںجشن پانی پت کی شرکت سے بھی خصوصی دلچسپی تھی جس کا اس خط کے آخر میں بطور خاص تذکرہ کیا ہیل کوٹھی (جاوید منزل) کے بقایا حصہ کی تعمیر بھی جاری تھی۔ جسے وہ پانی پت جانے سے قبل مکمل کر لینا چاہتے تھے۔ علاوہ ازیں میں ڈاکٹر عبدالباسط اور ڈاکٹر رحمن کا بھی ذکر ہے جو پہلے ہی ان کے سینے کے فوٹو لے چکے تھے۔ اورمشورہ کے لیے ویانا بھیجنے والے تھے۔ علامہ اقبال نے ڈاکٹر باسط کے نام اس سلسلے میں پانچ خطوط تحریر کیے جو آئندہ صفحات میں پیش کیے جائیں گے۔ یہ خطوط اب تک غیر مطبوعہ تھے جو خوش نصیبی سے مجھے ان کے صاحبزادے سید عبدالحئی سے کراچی میں دستیاب ہو گئے سید عبدالحئی کی اقبال سے ملاقات کا احوال بھی اگلے صفحات میں شامل ہو گا۔ واقعتا اقبال کی موجودہ تکلیف پھر تردد کا سبب بن گئی تھی۔ وہ اپنی علالت کا تذکرہ سیدمحفوظ علی بدایونی کے نام ایک اور خط میں کرتے ہیں جس میں ویانا جانے کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے: ’’لاہور ۔ ۴ اکتوبر ۱۹۳۵ء مخدومی السلام علیکم آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ آپ مع الخیر ہیں میں گزشتہ ۱۸ ماہ سے علیل ہوں سفر بہت کم کرتا ہوں ہر تیسرے مہینے بھوپال جاتا ہوں۔ وہاں برقی علاج ہے جس سے کچھ فائدہ ہے اب وائنا ۲؎ (آسٹریا) جانے کی فکر میں ہوں۔ یہ ظاہری علاج ہے باطنی علاج صرف اس قدر ہے کہ آپ کے جد پردرود پڑھتا ہوں آپ بھی دعا فرمائیے اگر بدایوں ہوتا تو ضرور آپ کے ہی ہاں ٹھہرتا… اور آپ کے روحانیات سے مستفیض ہوتا… والسلام مخلص محمد اقبال ۳؎ ‘‘۔ اس خط کے دوسرے دن انہوںنے نیازی صاحب کو بھی ویانا جانے کے بارے میں خط تحریر کیا: ’’ڈیر نیازی صاحب میرا خط آپ کو ملا ہے یا نہیں۔ آپ لکھتے تھ کہ آپ خود لاہور آنے کو ہیں مگر نہ آپ آئے نہ میرے خط کا جواب آیا نہ آپ کا رسالہ نکلا ۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۷۰۔۳۷۱ ۲؎ مراد ویانا ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول ) صفحہ ۲۴۸ بہرحال حکیم صاحب قبلہ سے پوچھ کر جواب لکھیے میں نے ابھی تک دوا کا استعمال شروع نہیں کیا۔ کہ آپ کے خط کا انتظار تھا۔ وائنا ؎ (اسٹریا) جانے کا خیال ہے ڈاکٹر انصاری صاحب سے خط و کتابت کر رہا ہوں۔ انہوںنے نہایت مہربانی سے مدد کا وعدہ کیا ہے۔ اگرگیا تو فروری یا اپریل ۱۹۳۶ء میں جاوں گا… والسلام محمد اقبال۔ لاہور ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۵ء ‘‘۔ ۲؎ نذیر نیازی صاحب کا بیان ہے کہ وہ حضرت علامہ کی خواہش کے باوجود اجتماع پانی پت سے پہلے نہ طلوع اسلام شائع کر سکے نہ لاہور ہی پہنچ سکے۔ اسی طرح علامہ کے ویانا جانے کا ارادہ بھی افسوس کہ پورا نہ ہو سکا۔ پروگرام کے مطابق جشن حالی کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے اقبال ۲۵ اکتوبر کو پانی پت گئے لیکن ان کی صحت اچھی نہیں تھی۔ وہ بے حد کمزور ہو گئے تھے۔ نذیر نیازی نے پانی پت پہنچ کر حضرت علامہ کو جس ضعف کے عالم میں دیکھا اس کا حال انہیںکے الفاظ میں سنیے: ’’…اکتوبر کے آخری ہفتہ میں پانی پت پہنچا لیکن یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ کے چہرے پر زدری چھا رہی ہے اور آواز کا ضعف بھی کچھ بڑھ گیا ہے۔ بڑا دکھ ہوا۔ معلوم ہوتاتھا کہ لاہور سے پانی پت کا سفر بھی ان کی برداشت سے باہر ہے۔ حالانکہ ابھی چند ہفتے پیشتر جب آخر اگست میں وہ بھوپال سے واپس آئے ہیں تو ضعف و اضمحال کی یہ کیفیت نہیں تھی۔ پانی پت میں علامہ کا قیام دو روز رہا انہوںنے تقریب میں شرکت فرمائی حضرت شاہ بو علی قلندرؒ کے مزار پر عقیدت مندانہ حاضری دی۔ احباب اور نیاز مندوں سے باکرام و التفات پیش آئے اور پھر چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم راجہ حسن اختر‘ جاوید سلمہ‘ اور علی بخش کی معیت میں لاہور واپس تشریف لے گئے۔ مگر پھر یہ امر بڑا تکلیف دہ تھا کہ اس تقریب میں حضرت علامہ اگرچہ مسند پر تشریف فرما رہے لیکن نہ اپنا مشہور قطعہ : مزاج ناقہ رامانند عرفی نیک می دانم چو محمل را گراں بینم حدی را تیز تر خوانم خود پڑھ سکے نہ ان تعریفی کلمات کے جواب میں بطور تشکر ہی کچھ فرمایا جو اعلی حضرت نواب صاحب بھوپال اور دوسرے حضرات نے ان کی شان میں کہے تھے ۳؎‘‘۔ پانی پت میں مولانا حالی کے جشن کے سلسلے میں جو وسیع انتظامات کیے گئے تھے نواب صاحب بھوپال نے جو خطبہ وہاں پڑھا تھا برصغیر کی جن مایہ ناز اور بلندپایہ شخصیتوں نے اس میں شرکت کی تھی۔ ان کی واضح تفصیلات چار سال کی لگاتار سعی و کوشش کے باوجود مجھے کہیں دستیاب نہیں ہو سکیں۔ لیکن میں نے حوصلہ نہیں ہارا ار تلاش و جستجو جاری رکھی نواب صاحب بھوپال کا خطبہ صدارت اصولاً بھوپال کے کسی لائبریری یا نواب صاحب کے محکمہ خاص میں ملنے کی توقع پر میں نے بھوپال کے کئی حضرات کو خطوط لکھے۔ ۱؎ مراد ویانا ۲؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۲۹۸۔۲۹۹ ۳؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۰۱ لیکن کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ البتہ بھوپال کے ایک ایم اے اور ریسرچ کے طالب علم شمیم احمد نے جو اورنگ آباد بھارت میں لیکچرر ہیں کافی سعی و تلاش کے بعد مجھے جو معلومات بہم پہنچائی ا س سے جشن کا کچھ نہ کچھ حال ضرور معلوم ہو گیا اور اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ نواب صاحب نے حالی مسلم ہائی سکول کے لیے بیس ہزار کی گراں قدر امداد فرمائی تھی۔ ان کے ایک خط مورخہ ۲۶ نومبر ۱۹۶۴ء کا اقتباس ملاحظہ ہو: ’’… نواب صاحب کے خطبہ کو تین دن تک ریکارڈ آفس بھوپال میں خود تلاش کیا۔ ان کے ۱۹۲۹ء ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۲ء کے کچھ مطبوعہ خطبات جو اندور اور علی گڑھ میں پڑھے گئے تھے ملے۔ لیکن مطلوبہ خطبہ نہ مل سکا۔ ریکارڈ آفس میں اس قدر بے ترتیبی ارو پھوہڑ پن ہے کہ کوئی بھی چیز آرڈر سے نہیں ہے۔ وہاں سے مایوس ہو کر اسمعیل صاحب ۱؎ کے کتاب گھر گیا۔ وہاں اسمعیل صاحب نے زمانہ کانپور دسمبر ۱۹۳۵ء جلد نمبر ۶۵ شمارہ نمبر ۶ دیا۔ یہ حالی کے اس جشن صد سالہ کی یادگار کے بطور شائع کیا گیا تھا۔ اس کے شروع میں نواب صاحب بھوپال کی تصویر تو ہے جس کے نیچے مرقوم ہے کہ آپ نے حالی کے جشن صد صالہ کی صدارت فرمائی۔ مگر اس میں وہ خطبہ نہیںہے۔ البتہ صفحہ ۴۲۴ پر مندرجہ ذیل تحریر ملی ہے: …مولانا حالی کے صد سالہ یادگاری جشن کے سلسلے میں سب سے بڑا جلسہ اعلیٰ حضرت ہز ہائی نس نواب صاحب بھوپال کی صدارت میں آخری ہفتہ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں مولانا کے خاص مولد و منشا پانی پت میں منعقد ہوا جس میں ملک کے بڑے بڑے معززین موجود تھے اعلیٰ حضرت نواب صاحب نے بیس ہزار کی گراں قدر امداد حالی میموریل سکول کے لیے منظور فرمائی‘‘۔ بھوپال سے خطبہ کی فراہمی کے امکانات جب تقریباً ختم ہو گئے تو میں نے شیخ محمد اسمعیل پانی پتی ۲؎ سے استصواب کی اور میری خوشی اور حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ جب قبلہ شیخ صاحب نے مجھے یہ لکھا کہ نواب صاحب کا خطبہ ان کے پاس محفوظ ہے۔ جس خطبہ کی تلاش چار سال تک جاری رہی۔ وہ مجھے حسن اتفاق سے لاہور ہی میں مل گیا اور شیخ صاحب ازرہ شفقت نواب صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری کا قلمی خطبہ رجسٹری سے مجھے عنایت فرما دیا۔ اس سلسلے میں قبلہ شیخ صاحب کے گرامی نامہ مورخہ ۱۱ ذی قعدہ ۱۳۸۴ھ مطابق ۱۵ مارچ ۱۹۶۵ء کے اقتباس کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ ’’… حضرت محترم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ… گرامی نامہ باعث اعزاز ہوا۔ ۱؎ اسمعیل صاحب بھوپال کے ایک صاحب علم اور باذوق انسان ہیں جن کا ذاتی کتاب گھر اور نایات اور قیمتی مسودات قدیم اخبارات ورسائل کی فائلوں اور نادر کتابوں کے لیے شہرت رکھتاہے۔ ۲؎ عرصہ دراز تک شیخ صاحب نے مسلم ہائی سکول کے لائبریرین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۳؎ میں نے شیخ صاحب سے خطبہ کی نقل طلب کی تھی ۔ یہ جواب اسی سلسلے میں دیا۔ میں آ پ کے حکم کی بڑی خوشی سے تعمیل کر تا ہوں مگر کمزوری نقاہت اور اضمحلال اب قویٰ میں اتنا زیادہ پیدا ہو گیا ہے کہ اتنی لمبی چوڑی تقریر کی نقل میرے لیے ناممکن ہے۔ مگر میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ آپ کا کام میری کم ہمتی اورناطاقتی کے باعث رک جائے خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ وہ تقریر شاید کہیں اور نہ مل سکے ۔ یقینا نواب صاحب کے ذاتی کتب خانہ میں یا ان کے پرائیویٹ کاغذات میں تو ضرور ہو گی۔ اس لیے ایک آخری تدبیر میری سمجھ میں اس مشکل کے حل کی یہ آئی ہ کہ میں بزریعہ رجسٹری نہایت احتیاط کیساتھ وہ اصل تقریر جو مرحوم نواب صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ہاتھ کی لکھی ہوئی آپ کو بھیج دوں اور آپ تکلیف فرما کراس کی نقل وہاں کسی سے کروا لیں اور پھر اصل تقریر مجھے واپس فرما دیں۔ میں نے آج تیس برس سے اس تقریر کو اور اس جلسہ کی مفصل کارروائی کو بڑی حفاظت کے ساتھ اپنی جان کے برابر رکھا ہوا ہے۔ مگر میں صرف اس وجہ سے وہ آپ کو بھیجنے کے لیے تیار ہوں کہ اگر آپ کو کام بن جائے تو اس میں میرا کیا نقصان ہے۔ اس حقیر فقیر ک گوشت پست کو موت کے بعد تو کتے بھی نہیںکھائیں گے لہٰذا اپنی ذات سے کسی کی مشکل حل ہو جائے تو بسا غنیمت ہے افسوس ہے کہ آج کل کی دنیا میں اخلاقی قدریںبالکل بدل گئی ہیں مگر مجھے امید ہے کہ اس معاملہ میں جو اعتبار اور اعتماد میں آپ پر کرنے لگا ہوں وہ قائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو بھی صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت فرمائے۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کا جواب آنے پر وہ تقریر میں انشاء اللہ آپ کو بھیج دوں گا…‘‘ خط ملتے ہی میںنے شیخ صاحب سے بصد عجز و نیاز درخواست کی کہ انہیں یقین دلایا کہ نقل کرنے کے بعد ذریعہ رجسٹری نواب صاحب کا خطبہ لوٹا دوں۔ چنانچہ شیخ صاحب نے نواب صاحؓ کے دو خطبے جو علی الترتیب جشن صد سالہ کی تقریب اور ایڈریس منجانب میونسپل کمیٹی پانی پت کے جواب میں نواب صاحب نے پڑھے تھے مجھے عطا فرما دیے جنہیں میں نے نقل کر کے محفوظ کر لیا یہ خطبات آئندہ صفحات میں شامل ہیں۔ اور اصل خطبات شیخ صاحب کو لوٹا دیے۔ جشن صد سالہ کے انتظامات کے بارے میں دریافت پر شیخ صاحب نے ایک اور گرامی نامہ میںلکھا: ’’… اکتوبر ۱۹۳۵ء میں حضرت مولانا مرحوم کی یادگار میں جو جلسہ پانی پت میں ہوا تھا اس کا سارا انتظام اس احقر نے اور میرے نہایت ہی عزیز ترین دوست شیخ محمد بدرالاسلام صاحب فضلی (مرحوم) ہیڈ ماسٹر حالی مسلم ہائی سکول پانی پت نے کیا تھا۔ نواب صاحب کے خطبہ کی فراہمی کے بعد مجھے اب اس امر کی تلاش رہی کہ جشن صد سالہ میں شرکت کرنے والی کوئی ایسی شخصیت مل جائے جو وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بتا سکے۔ اتفاق سے اسی دوران میں علی گڑھ کالج کے مایہ ناز فرزند جلیل قدوائی نے راس مسعود اکیڈمی قائم کر کے اس موقع پر مرقع مسعود کے عنوان سے چند قیمتی اور نایاب مضامین شائع کر دیے۔ اور ازرہ کرم اس کی ایک کاپی مجھے بھی عطا فرما دی۔ کتاب کے مطالعہ سے دوران جہاں تقریباً سب مضامین نے میرے علم و مطالعہ میں اضافہ کیا وہاں خصوصیت کے ساتھ جمیل نقوی کے سیر حاصل مضمون بعنوان… ’سر سید راس مسعود‘ نے جشن پانی پت کے کئی ڈھکے چھپے گوشوں کو اجاگر کر دیا اس مضمون کے دو اقتباسات بطور خاص قابل مطالعہ ہیں: ’’… اسی زمانے میں آپ نے ایک اور قومی خدمت انجام دی۔ یہ واقعہ بھی ہماری ادبی و تعلمی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش واقع ہے۔ مولانا حالی کی یادگار میں بمقام پانی پت ایک سکول عرصہ سے قائم تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اس کی مالی حالت بڑی سقیم ہو گئی۔ خواجہ سجاد حسین مرحوم خلف مولانا حالی نے جو اسکول کے سیکرٹری تھے اس باب میں راس مسعود صاحب سے رجوع کیا اور آپ کے مشورے سے ۱۹۳۵ء میں مولانا حالی کی صد سالہ جوبلی منائی گئی۔ مرحوم کو نہ صرف یہ کہ خود پانی پت جا کر اس یادگار اجتماع میں شریک ہوئے بلکہ نواب صاحب بھوپال اور علامہ اقبال کو بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔ اطراف ہند سے مولانا حالی کے بے شمار شیدائیوں پانی پت پہنچے ۔ نواب صاحب نے ایک گراں قدر رقم بطور امداد سکول کو عطا کی۔ دوسرے مخیر حضرات نے بھی معتد بہ رقمیں نذر کیں اس موقع پع بابائے ارد ومولوی عبدالحق مرحوم اپنے ہمرماہ حیدر آباد سے بہت سے لوگوں کو لے کر آئے۔ دہلی علی گڑھ اور دوسرے مقامات سے بھی معزز مہمان پہنچے تھے۔ علامہ نے اس یادگار موقع کے لیے ایک نظم لکھی تھی جو جلسے میں سنائی گئی تھی۔ ابو الاثر حفیظ بھی وہاں موجود تھے اور نظم پیش کی تھی لیکن یہ سب کچھ راس مسعود کے پر خلوص تعاون سے ممکن ہو سکا تھا ۱؎‘‘۔ اسی مضمون میں پانی پت کے دوران قیام کا ایک لطیفہ بھی قابل ذکرہے۔ جس سے راس مسعود کی ذہانت علمیت ‘ اقبال دوستی اور جشن صد سالہ کی ایک جھلک ہمارے سامنے آ جاتی ہے جمیل نقوی لکھتے ہیں: ’’… ان ۲؎ کا ادبی مذاق بڑا ستھرا اور پاکیزہ تھا۔ اور ادب و شعری کے دل دادہ تھے۔ اردو ادب تو خیر اہل زبان کی شان تھی۔ فارس انگریزی فرانسیسی‘ عربی‘ اطالوی ادب پر بھی زباں داں کی حیثیت رکھتے تھے۔ مطالعہ بے حد وسیع تھا انگریزی اور فرانسیسی زبان میں خود اہل قلم ان کا لوہا مانتے تھے۔ اہل زبان کی طرح ان دونوں زبانوں کے حسن و قنج پر بے تکان گفتگو کرتے تھے۔ ہزاروں اشعار نوک زباں تھے۔ فارسی میں مولانا روم سے عشق تھا۔ حافظے کا یہ عالم تھا کہ تقریباً ساری مثنوی حفظ تھی۔ علامہ اقبال کا پوراکلام یاد تھا۔ اس طرح کہ خود علامہ کو بھی اتنا یاد نہ تھا۔ سینیٹیزی کے موقع پر ہر صبح کو سارے سربرآوردہ مہمان ان کے خیمے میں جمع ہو جاتے اور ان کی گفتگو اور ان کے لطائف سے ان کے طنزیہ جملوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ایک صبح بیٹھے حجامت بنا رہے تھے کہ چہرے پر صابن کے جھاگ لگے تھے۔ مسہری پر ان کی پشت پر علامہ اقبال نیم دراز لیٹے تھے ۔ ۱؎ مرقع مسعود۔ صفحہ ۱۴۴۔ ۱۴۵ ۲؎ مراد راس مسعود علامہ اقبا ل نے کسی نظم کا ذکر چھیڑا… میں بھی وہاں حاضر تھا راس مسعود صاحب نے جو اقبال کاکلام سنانا شروع کیا ہے تو تقریباً ایک گھنٹیتک سناتے رہے۔ ایک شرع پر خود وجد میں آ گئے پیچھے کی طرف جھک کر علامہ کا منہ چوم لیا۔ ان کا رخسار صابن سے لتھڑ گیا۔ راس مسعود صاحب نے ایک فرمایشی قہقہہ لگایا ۔ باقی حاضرین بھی اس ہنسی میں شریک ہو گئے ۱؎‘‘۔ ان دو اہم واقعات کی نشان دہی کے بعد جمیل نقوی سے جو ’’افکار‘‘ کے اور میرے دیرینہ رفیق و ہم دم ہیں میں ںے کراچی میں رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ اس جشن کی کچھ اور تفصیلات مجھے فراہم کر دیں۔ چنانچہ انہوںنے ایک خط کی صورت میں انتہائی دلچسپ یادداشت مجھے لکھ کر عنایت کر دی جس کی تفصیلات پیش خدمت ہیں۔ ان تفصیلات سے سچ پوچھیے تو جشن کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویریں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔ جمیل نقوی ایک ممتاز ادیب و شاعر ہیں اور خوش نصیبی سے سید احمد خاں کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اسی نسبت سے وہ راس مسعود کو نانا کہتے تھے اس جشن میں وہ بہ نفس نفیس شریک تھے۔ انہو ں نے نوعمر ی کے زمانے میں اس جشن میں کیا کچھ دیکھا اس کی روداد انہیں کی زبانی سنیے جو حیات اقبا ل اور جشن حالی کے کئی نئے گوشے اجاگر کرتی ہے: مولانا حالی کی صد سالہ سال گرہ ’’…صہبا بھائی… ہدیہ مسنون… بات بہت پرانی ہو گئی۔ اس تقریب کی بہت سی تفصیلات ذہن سے نکل چکی ہیںَ جس قدر و اقعات ذہن کے مختلف گوشوں میں بکھرے پڑے ہیں انہیں سمیٹ کر یہ مختصر سی روئداد پیش خدمت ہے: اس تقریب کی تیاریاں کافی عڑصہ پہلے شروع کی گئی تھیں۔ اس کا مقصداول تو یہ تھا کہ مولانا مرحوم کی خدمت میں ہدیہ عقیدت پیش کیا جائے ۔ اور دوسری غرض عوام و خواص کو اس سکول کی طرف متوجہ کیا جائے جو عرصہ دراز سے مولانا کی یادگار میں قائم تھا اور بہت سے شعبوں میں توسیع کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اس موقع کے لیے مسدس حالی کا صدی ایڈیشن بڑی آب و تا ب سے شائع کیا گیا تھا۔ حالی بک ڈپو کی جانب سے۔ اور اس کا منافع غالباً حالی سکول کے فنڈ میں دیا جانا طے پایا تھا۔ اور مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ یہ کتاب بڑی تعداد میں فروخت بھی ہوئی تھی۔ جلسہ میں شرکت کے لیے کسی ہزار دعوت نامے ہندوستان کے منتخبلوگوں کو جاری کیے گئے تھے اور ان کے ٹھہرنے کھانے پینے کا بڑے پیمانے پر بندوبست کیا گیا تھا۔ حالی سکول کے سامنے کھیل کے میدان میں لاتعداد خیمے نصب کیے گئے تھے اور مہمانوں کی دیکھ بھال کے لیے سکول کے طلبہ و اساتذہ کے علاوہ شہر پانی پت کے بوڑھے جو ان سب ہی موجود تھے۔ جلسہ سے دو روز قبل مہمانوں کی آمد کا تانتا بندھ گیا تھا۔ ۱؎ مرقع مسعود۔ صفحہ ۱۴۵۔۱۴۶ لاہور۔ دہلی۔ علی گڑھ۔ بدایوں۔ میرٹھ۔ الہ آباد۔ لکھنو۔ ناگ پور۔ حیدر آباد دکن۔ بمبئی ۔ بھوپال اور بہت سے شہروں سے ادیب شاعر‘ صحافی ماہرین تعلیم اور دوسرے معتقدین حالی پانی پت پہنچے تھے مہمانوں میں جو لوگ خاص طور پر مجھے یاد رہ گئے ہیں ان میں حسب ذیل بزرگ شامل تھے۔ ڈاکٹر اقبال۔ ڈاکٹر سر راس مسعود۔ ڈاکتر ذاکر حسین (سابق صدر جمہویہ ہند) ڈاکٹر مولوی عبدالحق۔ ڈاکٹر عابد حسین۔ پروفیسر مجیب۔ رشید احمد صدیقی۔ مولانا سید علی احسن ماہروی۔ مولوی محمد امین زبیری۔ مرزا ابراہیم بیگ۔ سرگزشت علی گڑھ نواب کرنال۔ مولوی محی الدین ۔ خواجہ غلام السیدین۔ مولوی بشیر الدین اٹاوہ ابوالاثر حفیظ جالندھری ۔ سید ہاشمی فرید آبادی۔ شاہد احمد دھلوی۔ انصار ناصری۔ فضل حق قریشی۔ ظفر قریشی۔ آل احمد سرور۔ سید نذیر نیازی۔ جا ں نثا ر اختر ۱؎ وغیرہ۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ لاہور۔ علی گڑھ۔ دہلی حیدر آباد دک سے خصوصاً بہت بڑے لوگ آئے تھے۔ جن می علی گڑھ کے طالب علم اور دہلی کا نوجوان ادیب طبقہ پیش پیش تھا۔ یہ سب حضرات جلسہ سے ایک روز قبل پانی پت پہنچ چکے تھے۔ رات کو بڑی بہار رہی۔ لوگ خیمہ بہ خیمہ گھومتے پھر رہے تھے۔ ااور ایک عجیب خوشی اور یگانگت کا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ بڑے چھوٹے سب ہی خیموں میں مقیم تھے کسی کی تخصیص بھی نہ تھی۔ کچھ لوگ مولوی عبدالحق کے خیمے میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ کچھ راس مسعود کے یہاں برائے جماں ہوئے تھے۔ مرزا ابراہیم بیگ کا خیمہ زعفران زار بنا ہوا تھا۔ مرحوم بڑے زندہ دل صحافی تھے۔ اور علیگ برادری میں بڑے مقبول تھے۔ ڈھیر سا حلوہ اور نہ معلوم کیا کیا تیار کرا کے اپنے ساتھ لائے تھے۔ جو آتا اس کی خوب خاطر ہوتی۔ اوریار لوگ کئی کئی بار آتے ارو بہانہ بازی سے خوب کھاتے۔ انہوںنے اپنے ہفتہ وار اخبار کاجو (علی گڑھ اور علیگ برادری کے کارناموں کی پبلسٹی کے لیے مخصوص تھا) حالی نمبر نکالاتھا۔ اسے میں نے ایڈٹ کیاتھا۔ میرا کام یہ تھا کہ خیمہ خیمہ جا کر وہ پرچہ تقسیم کروں۔ اس طرح مجھے سب ہی مہمانوںسے ملنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا تھا۔ مولوی صاحب (بابائے اردو) کے خیمہ میں اخبار دینے پہنچا تو بڑے بڑے بڈھے بیٹھے تھے۔ میں جھانک کر ٹھٹھک گیا۔ مولوی صاحب نے آواز دے کر اندر بلایا اور کہا کہ بھئی خوب آئے ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کوئی چھوٹا پھنسے تو حقہ کی تواضع کرائیں۔ ٹھنڈا ہو گیاہے۔ میں حقہ لے کر باہرنکل آیا اور ایک والنٹیر کو پکڑ کر حقہ تازہ کرایا۔ مطبخ میں چلم بھروائی اور اسے ساتھ لے کر دروازے کے خیمے تک آیا۔ اور وہاں پہنچ کر اس سے حقہ لے کر اندر گیا۔ مولوی صاحب نے دیکھ لیا تھا کہ میں نے حقہ خیمے کے دروازے پر آ کر لیا ہے۔ اندر سے چیخے دیکھ لیا ہے۔ سب لوگ جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے چوکنا ہو گئے اور جھانک کر باہر دیکھنے لگے میں سہما سہما اندر گیا۔ اور حقہ مولوی صاحب کے روبرو رکھ دیا۔ اسی دوران میں مولوی صاحب سرگزشت کے پرچہ کی ورق گردانی کر چکے تھے۔ میں اندر پہنچا تو کہا بیٹھ جائو۔ ۱؎ اس جشن میں پروفیسر مجنوں گورکھپوری اور ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری بھی شریک ہوئے تھے۔ مولوی محمد امین زبیری مرحوم بھی وہیں بیٹھے تھے۔ دراصل مولوی صاحب کے خیمہ میں جتنے حاضرین تھے وہ سب حقہ کے چکر ہی میں وہاں تشریف فرما تھے۔ تب مولوی صاحب نے محمد امین صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ بھئی یہ لڑکا تو ابھی سے اچھا لکھتا ہے۔ خاندان کا اثر اس کے انداز بیان اور زبان سے ظاہر ہوتا ہے۔ تم اس کی طرف توجہ کرو یہ آگے چل کر اچھا لکھنے لگے گا۔ مگردیکھو اسے کنبوہ مت بنا لینا۔ مولوی صاحب سے ان کی بڑی بے تکلفی تھی۔ حیدر آباد واپس پہنچ کر مولوی صاحب نے جو مجھے خط لکھا اس میں بھی اس مضمون کی تعریف کی اور بعد میں واپس حیدر آباد میں میںنے ا س مضمون کو پڑھا کر تذکرہ حالی کی شکل دے دی تو اس پر مولوی صاحب نے تعارف لکھا اور بہت خوش ہوئے سو روپیہ انعام دیا اور کہا کہ باقی پیسے اپنے پاس سے لگا کر اسے چھپوا لو۔ اس زمانہ میں چھپائی کافی سستی تھی۔ شاید ڈھائی سو روپے میں وہ تذکرہ چھپ گیا تھا۔ خوب دوستوں میں تقسیم کیا باقی کاپیاں ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں میںضائع ہو گئیں۔ ذکر مسعود میں ڈاکٹر اقبال کے ساتھ جو سر راس کا لطیفہ تھا وہ میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں جسے گزشتہ صفحا ت میں آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔ سر راس کا خیمہ کافی بڑا تھا۔اس کے پہلوئوں میں دوچھوٹے چھوٹے پارٹیشن تھے ایک میں میںمقیم تھا۔ دوسر ے میں حفیظ جالندھری صاحب حفیظ صاحب نے اپنی نظم ۱؎ جلسہ میں پڑھے کے لیے اسی خٰمہ میں رات کو لکھی تھی۔ جلسہ والے دن صبح کو آٹھ بجے لوگ نواب حمید اللہ خاں مرحوم والی بھوپال کے استقبال کیلے پانی پت سٹیشن پہنچے۔ استقبال کے لیے جانے والوں میں سر راس مسعود سیدین صاحب نواب کرنال خا،ی اسکول کے پرنسپل فضلی صاحب اور چند اور عمائدین شہر میں شامل تھے۔ میں بھی سر راس مسعود کے ساتھ تھا۔ باقی لو گ جلسہ گا ہ پہنچے۔ معزز مہمانوں سے ہاتھ ملایا۔ تلاوت کا سلسلہ سے جلسہ کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد خواجہ سجاد حسین مرحوم خلف مولانا حالی نے سپاس نامہ پیش کیا جو تختی کے قلم سے لکھا گیا تھا۔ خواجہ صاحب کی بینائی کمزور تھی۔ ہاتھ میں رعشہ تھا۔ ایک صاحب جو انہیںسہارا دیے کھڑے تھے۔ عجیب منظر تھا ہر شخص متاثر نظر آتا تھا۔اس کے بعد ابوالاثر حفیظ جالندھری نے اپنی نظم سنائی۔ ان کی نظم کے بعد سیدین صاحب نے اعلان کیا کہ علامہ اقبال کی نظم ایک اور صاحب سنائیں گے کیونکہ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی آواز پر کشی عارضہ کااثر تھا۔ اور بہت آہستہ بولتے تھے نظم سنانے والے صاحب بڑے خوش الحان تھے حالی سکول کے اسٹاف کے آدمی تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی گئی کہ نظم خوانی کے دوران ڈائس پر تشریف رکھنے کی زحکم گوارا کریں۔ پہلے ہی شعر پر دا د کا شعر بلند ہوا:؛؛ ۱؎ حفیظ جالندھری کی یہ نظم اس باب کے آخر میں ملاحظہ فرمائیے۔ مزاج ناقہ مانند عرفی نیک می دانم چوں محمل راگراں بینم حدی را تیز تر خوانم خصوصاً یہ شعرتو بے پناہ تھا۔ طواف مرقد حالی سزوار باب معنی را نوائے او بجا نہا افگند شورے کہ من دانم خواد نواب صاحب بھوپال نے جھک کر ڈاکٹر صاحب کو داد دیے جاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس وقت کیا جذبات تھے ان کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ البتہ چہرہ پر سرخی دوڑ گئی تھی لوگ اس بات پر نازاں تھے کہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں ان کا کلام سننے کا موقع ملا۔ میرا شعور اس وقت زیادہ بیدار نہ ہوا تھا۔ طالب علمانہ ذہنیت تھی۔ جب نواب حمید اللہ خاں کی شان میں ان کا یہ شعر پڑھا گیا : حمید اللہ خاں اے ملک و ملت را فروغ از تو ز الطاف تو موج لالہ خیزد از خیا بانم تو مجھے شعر العجم کا وہ حصہ یاد آ گیا کہ جس میں علامہ شبلی نے اکبر اعظم ک دربار میں فیضی کی قصیدہ خوانی کا منظر پیش کیاتھا۔ اور میں سوچنے لگا کہ حضرت اقبال نے یہ شعر لکھ کر حمید اللہ خاں کو زندہ جاوید کر دیا ۔ وہ پہلے اور آخری فرما ں روا تھے جن کی شان میں خود اقبال نے خو د نہ سہی اپنی موجودگی میں مدحیہ شعر پڑھوایا۔ نواب بھوپال ان خوش قسمت لوگوںمیں س تھے جن کی مدح میں ان کی زندگی میں اقبال نے ایسا شعر کہاورنہ ان کے دواوین ایسی کسی دوسری مثال باشتثنا شہریار دکن سے غالباً خالی ہیںَ شعر خوانی کے بعد میں نے اپنے مضمون کا ایک ٹکڑا پڑھا پھر سیدین صاحب ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے مضامین پڑھے گئے۔ آخرمیں صدر کے خطبہ سے قبل مسدس حالی صدی ایڈیشن کا وہ مختصر دیباچہ پڑھا گیا جو سر راس مسعود نے لکھا تھا۔ صدر کے خطبہ کے بعد جلسہ برخاست ہو گیا۔ نواب صاحب نے کئی ہزار ۱؎ کی گرانٹ مدرجہ کو دی اور اس کا اعلان سرراس نے کیا۔ اس کے بعد سب لوگ مزار حالی پر فاتحہ پڑھنے کے لیے گئے۔ شام کی گاڑی سے نواب صاحب واپس دہلی تشریف لے گئے۔ غالباً اسی شام کو راس مسعود ڈاکٹر اقبال ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب اور دوسرے عمائدین بھی واپس چلے گئے۔ مدتوں تک اس جلسہ کی باتیں موضوع بحث رہیں جن بزرگوں سے اس موقع پر نیاز حاصل ہوا تھا وہ بڑھ کر عقیدت اور تعلق میں تبدیل ہو گیا۔ میں اس تقریب کو اپنی زندگی کا سنگ میل سمجھتا ہوں۔ یہیں سے میں نے بزرگوں سے استفادہ کرنا اور لکھنا سیکھا۔ بزرگان ادب و سیاست سے ملنے کے جو مواقع آئندہ مجھے نصیب ہوئے وہ بھی مولانا حالی کا ہی فیضان سمجھتا ہوں۔ پانی پت میں ہی میںادبی طورپر متعارف ہوا اور بزرگوں کی ہمت افزائی ہمیشہ میرے لیے شمع راہ رہی۔ ۱؎ یہ رقم بیس ہزار تھی جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ ایسے مہتمم بالشان مجمع میں مجھ جیسے نوعمر کو مضمون پڑھنے کا موقع ملنا بڑی عجیب بات سی تھی لیکن مسعود نانا کی یہ عاد ت تھی کہ اپنے خاندان کے نوجوانوں کو و ہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مواقع فراہم رکتے تھے۔ میں ںے مرحوم سے ایک دفعہ عرض کیا کہ وہ ایسا نہ کیا کریں مجھے بڑی شرم آتی ہے۔ انہوںنے فرمیاا کہ ابھی تما س کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔ بڑے ہو جائو گے اور جب ہم نہ ہوں گے تو محسوس کرو گے کہ ایسا کیوں کیا گیا اوریہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی کم از کم میری اپنی حد تو بالکک سچ ثابت ہوئی ان کے اس عمل نے میرے اندر جذبہ اعتماد اور خاندانی فخر کو ابھارا جس نے میری شخصیت کی تشکیل میں بڑار کردار ادا کیا۔ مجھے بھوپال کئی دفعہ حاضر ہونے کا موقع ملا۔ غالباً دو مرتبہ علامہ اقبال وہاں تشریف فرما تھے ۔ شا م کو سر راس کے یہاںمحفل جمتی تھی۔ مخصوص لوگ روزانہ جمع ہوتے ۔ علامہ اقبال بھی وہاں اگر ہوتے تو شامل ہو جاتے۔ خالص ادبی وعلمی محفل ہوتی تھی۔ ادب فلسفہ تاریخ اور دوسرے عام موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔ مذہب اور سیاست اس بحث سے یک سر خارج تھے ۔ علامہ اقبال کو جو مالی امداد بھوپال سے ملی وہ کلیتہً سر راس کی وجہ سے تھی۔ میں نے وہ سارے خطوط دیکھے تھے جو علامہ اقبال کو اس سلسلے میں لکھتے رہتے تھے۔ شیخ عطا اللہ نے مکاتیب کے پہلے ایڈیشن میں تو سارے خطوط بھوپال شامل کر دیے تھے۔ لیکن بعد میں ایڈیشن میں کچھ لوگوں کے اعتراض پر وہ خطوط نکال دیے اور آپ کی کتاب کا خاصا اہم مواد پردہ خفا میں چلا گیا مجھے معلوم نہیں کہ پہلا ایڈیشن کہاں ملے گا۔ ؟ میرے پاس ایک نسخہ تھا جو مولوی محمد امین زبیری مرحوم نے اپنی کتاب اقبال کی تدوین کے سلسلے میں لیا تھا۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد وہ سارا مواد کہاں چلا گیا مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ مرحوم نے علامہ اقبال کے تعلقات حیدر آباد اور بھوپال پر دو الگ الگ باب مرتب کیے تھے۔ مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ مسودہ سید ہاشمی فرید آبادی کے پاس تھا۔ اب وہ بھی اللہ کو پیارے ہو گئے کس سے پوچھا جائے۔ ماہانہ وظیفہ سے قبل راس مسعود کی مساعی سے ڈاکٹر اقبال کو یک مشت بھی کئی ہزار کی رقم نواب صاحب نے عطا کی تھی۔ تاکہ وہ قرآن مجید کے حواشی لکھنے کے لیے کتب کی خریداری کر سکیں۔ اس رقم کا حوالہ اقبال نے ممنون حسن خاں کے نا م ایک خط میں بھی کیا ہے جو اقبال نامہ کے پہلے ایڈیشن میں شامل تھا۔ بعد میں اسے بعض وجوہ کی بنا پر پہلے ایڈیشن سے خارج کر دیا گیا‘‘۔ ۱؎ جمیل نقوی نے جشن صد سالہ کے جو چشم دید واقعات بیان کیے ہیں ان کی صداقت اور اثر آفرینی سے انکار کی گنجائش نہیں ۔البتہ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ انہوںنے اقبال کے مدحیہ شعر کے سلسلے میں شعر العجم کے قصیدہ کا جس اندازہ سے تذکرہ کیا ہے وہ غالباً اقبا ل اور نواب حمید اللہ خاں کے دوستانہ اور قریبی روابط کی لا علمی کے سبب معلوم ہوتا ہے۔ یہ مدحیہ شعر ہرگز قصیدہ خوانی کے ذیل میں نہیں آتا اورنہ آنا چاہیے کہ اقبال فطرتاً قصیدہ گو شعرا کی صف میں کبھی شامل نہیں رہے ۔ جذبہ ممنونیت انسان کی اعلیٰ صفات کی قدر دانی اور علمی و تعلیمی کاموں کے سلسلے میں نواب بھوپال کی عہد آفریں خدمات کا حقیقی اعتراف نہ کرنا بھی یقینا نا سپاسی کو ذوقی‘ اور محسن کشی قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اقبال ایسے سچے اور حقیقت پسند شاعر کا مدحیہ شعر میں اعتراف خدمت آج اور ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ جشن کی ان جھلکیوں سے جہاں ایک طرف پانی پت کے اس تاریخ و عظیم اجتماع کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ وہیں چند ایک انکشافات بھی ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں مثلاً دنیائے ادب کو اب تک صرف یہی علم تھا کہ بھوپال سے اقبال کو پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ متا تھا۔ اس سے قبل راس مسعود کی مساعی سے انہیں یک مشت رقم بھی دی گئی تھی جس کی تصدیق اقبال نامہ کے پہلے ایڈیشن سے ممکن تھی۔ جو افسوس کہ دستیاب نہ ہو سکا۔ ۲؎ ۔ دویم یہ کہ مولوی محمد امین زبیری نے اقبال پر کتاب کے دو باب لکھے۔ جن میںایک باب بھوپال سے متعلق تھا کتاب کا یہ مسودہ بھی اب کہیں دستیاب نہیں۔ جشن پانی پت کی ایک اچھوتی تصویر جمیل نقوی نے پیش کی جو آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ اب اس تصویر کا دوسرا رخ جو بیشتر اقبال سے متعلق ہے۔ ملاحظہ فرمائیے یہ واقعات سید نذیر نیازی نے مکتوبات اقبال میں تحریر کیے ہیں: اجتماع پانی پت ’’اکتوبر ۱۹۳۵ء میں خواجہ الطاف حسین حالی مرحوم و مغفور کی صد سالہ برسی منائی گئی تو میں پانی پت اس وقت پہنچا جب منتظمین جلسہ اعلیٰ نواب صاحب بھوپال کے خیر مقدم کی تیاریوں میںمصروف تھے۔ حضرت علامہ بھی نواب صاحب کی تشریف آوری سے ایک روز پہلے تشریف لائے تھے۔ اور پھر جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں انہوںنے پانی پت آتے ہی حضرت شاہ بو علی قلندرؒ کے مزارکی زیارت کی اور بعض دوسرے مقامات بھی دیکھے۔ ۱؎ کوشش کے باوجود اقبال نامہ کی پہلا ایڈیشن کہیں دستیاب نہ ہو سکا۔ جس سے یک مشت رقم کی ادائی کی تصدیق ہو سکتی۔ ممنون حسن خاں اب بھی بھوپال میں موجود ہیں اور معتبر ذرائع کے بموجب چند غیر مطبوعہ خطوط ا ن کے پاس محفوظ ہیں لیکن وہ یہ خطو ط جو قطعی ذاتی ہیں کسی کو دینے کو تیار نہیں۔ یک مشت رقم کے سلسلے میں بھی وہ تصدیق یا تردید کے لیے تیار نہیںَ اس لیے اگر کہیں لائبریری میں یا کسی صاحب ذوق کے پاس اقبال نامہ کا پہلا ایڈیشن موجود ہو گا تو آئندہ اس واقعہ کی تصدیق یا تردید ممکن ہو گی۔ ملاحظہ ہو دیباچہ طبع ثانی اگلے روز والی بھوپال تشریف لائے اور جلسہ منعقد ہوا تو اس میں حضرت علامہ نے بھی شرکت فرمائی۔ یہ جلسہ بڑا پررونق تھا۔ پھر جب منتظمین جلسہ کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ مولانا حالی کی اس صد سالہ برسی کا یہ اجتما ع تین دن تک جاری رہے گا تو اور اس کا ایک اجلاس ہر روز صبح و شام منعقد ہو ا کرے گا تو لوگ یہ سمجھے کہ حضرت علامہ بھی ان میں شرکت فرمائیں گے۔ اس غلط فہمی سے قدردانان اقبال کو جو پریشانی ہوئی اس کی کیفیت صاحب نوائے فردا حضرت ایوب ۱؎ کی زبانی سنیے وہ اپنے ایک حکومت نامے میں لکھتے ہیں: ’’۱۹۳۵ء میں جب کہ اس برسی کا انعقاد ہوا میں بسلسلہ ملازمت دہلی میں مقیم تھابرسی کے اجلا س تین دن تک ہونا تھے اورہر روز صبح اور شام کے وقت الگ الگ نشستوں کا اہتمام تھا ایک مجبوری کے باعث میں دن کے صبح کے اجلاس میں شریک نہ ہو سکا۔ میری گاڑی پانی پت میں بعد دوپہر پہنچی جب کہ پہلی نشست ختم ہو چکی تھی۔ پانی پت پہنچنے پر معلوم ہوا کہ اس نشست میں جس کی صدارت نواب حمید اللہ خاں صاحب والی بھوپال نے کی تھی علامہ اقبال بہ نفس نفیس موجود تھے چونکہ ان کے گلے کی تکلیف بدستو ر قائم تھی اس لیے وہ اپنا اشعار جو انہوںنے حالی کی برسی کے سلسلے میں کہے تھے کسی دوسرے صاحب نے ان کی جانب سے پڑھ دیے تھے۔ جب شام کے وقت پہے دن کی دوست نشست منعقد ہوئی تو اہل مجلس کی نظریں پوری بے تابی کے ساتھ ڈائس کی جانب لگی ہوئی تھیں۔ کہ علامہ صاحب تشریف لاتے ہیںَ جب پنڈا ل پر ہو گیا تو جلسہ کی کارروائی کی ابتدا کا وقت آیا تو ڈائس سے یہ اعلان ہوا کہ علامہ صاحب کی طبیعت قدرے ناساز ہے۔ اس لیے وہ اجلاس میں تشریف نہیں لا سکتے۔ لیکن وہ کل صبح کے جلسے میں ضرور تشریف آور ہوں گے۔ اس اعلان نے دعوت شوق کو تلخٰ انتظار کی دعوت دی۔ دوسرے دن صبح میں کشتگان انتظار کی نظریں پوری تیزی کے ساتھ پھر ڈائس کی طرف منہمک تھیںَ امید کو یہ سہارا تھا کہ کل کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ لیک نآج بھی ہزار ہا تمنائوں کا خون ہوا جب مسند کی جانب سے یہ آواز آئی کہ علامہ اقبال ایک ضروری کام کے سلسلے میں دلی گئے ہیں دوپہر تک واپس تشریف لائیں گے۔ اور شام کے اجلاس میں شرکت فرمائیں گے شوق کو اگرچہ خود فریبی کا شکار ہونے سے بھی کبھی باک نہیں ہوتا۔ تاہم آرزو مندوں کو محسوس ہو ا کہ یہ سب اعلانات محض محفل کی رونق افزائی کے وسیلے یا حیلے ہیںَ اقبال تو غالباً اب کسی نشست میں شریک ہونے والے نہیں ہیں اس احساس کی رہنمائی میںمیں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب پانی پت میںرکنا بے سود ہے اور مناسب ہے جکہ دوپہر کی گاڑی سے دلی واپس جایا جائے۔ ۱؎ (سابق) نائب مشیر مالیات (مواصلات) حکومت پاکستان کراچی (نیازی) میریے چند احبا ب نے جو دلی سے میرے ساتھ آئے تھے۔ میری رائے سے اتفاق کیا اورہم گاڑی کی آمد سے کوئی بیس منٹ پہلے ہی پانی پت ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئے۔ گاڑی کے انتظار میں ویٹنگ روم میں جو داخکل ہوئے تو ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ اقبال وہاں تشریف فرما ہیں۔ تھوڑی دیر برد ایک گاڑی دلی کی جانب سے آنے والی تھی۔ جس میں ؑلامہ لاہور کا سفر اختیار کرنے والے تھے۔ علامہ موصوف کو دیکھنے کا عمر بھر میں یہ میرا پہلا اور آخری موقع تھا۔ جب میری نظر ان پر پڑے تو مجھے ایسا محسوس ہو ا جیسے انسانی عظمت کا کوئی ہمالہہ میرے سامنے آ گیا ہو۔ اس وقت میری عمر کوئی چوبیس برس کی تھی۔ میںنے کانپتے ہاتھوں سے علامہ سے مصافحہ کیا اور کوئی ڈیڑھ گز کے فاصلے پر ایک بنچ پر دم بخود بیٹھ گیا۔ کمرے میں چند نفوس اور بھی تھے ایک صاحب نے جو غالباً ریلوے کے محکمے میں ملازم تھے جرات کے سلسلہ گفتگو کا آغاز کیا۔ ہم ن سنا تھا کہ جناب وائسرائے سے ملاقات کی غرض سے دلی تشریف لے گئے ہیں آپ نے دلی تشریف لے جانے کا اعلان تو آج صبح ہی ہوا تھا۔ اس سوال کے جواب میں علامہ نے اپنی بیٹھی مگر جلال آگیں آواز میں فرمایا فقیر کا وائسرائے سے کیا کام اس کے بعد ایک صاحب نے علامہ کو ایک کاغذ پر لکھے ہوئے ان کے چند اشعار دکھائے جو ان کی جانب سے برسی کے اولین خطاب میں پڑھے گئے تھے۔ اور عرض کیا کہ یہ اشعارمیں نے جلسہ میں سن رکھے تھے آپ انہیں ملاحظہ فرما کر یہ فرمائیں کہ میں نے لکھنے میں کوئی غلطی تو نہیں کی۔ علامہ نے سید نذیر نیازی کی جانب سے جو ایک گوشہ میں کرسی پر بیٹھے ہاتھ میں تھامے ہوئے چند کاغذات کو گھور رہے تھے اشارا فرمایا اور نیازی صاحب کو دیکھا لیجیے۔ ادھر نیازی صاحب نے ان اشعار کی صحت پر صاد کیا اور ادھر لاہور جانے والی گاڑی پلیٹ فارم پر آ پہنچی۔ علامہ وہاں سے اٹھے اور گاڑی میں تشریف فرماہوئے۔ چند منٹ بعد گاڑی جا چکی تھی اور اس اتفاقی ملاقات کے ناقابل فراموش تاثرات و تصورات اپنی جگہ پر قائم تھے‘‘۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ صد سالہ برسی کی تقریب حالی مسلم ہائی سکول میں منائی گئی تھی۔ اور حضرت علامہ کے قیام کا بھی اسی مدرسہ میں ایک عمارت میں انتظام کیا گیا تھا۔ صاحب نوائے فردا کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ یہ والی بھوپال واپس تشریف لے گئے تو حضرت علامہ بھی جوان دنوں خلاف خلاف امید بہت زیادہ نقاہت اورضعف محسوس کرتے تھے جلسہ گاہ سے اٹھ آئے۔ انہیں اس وقت بے حد آرام کی ضرورت تھی چنانچہ حضرت علامہ نے اول تو کچھ آرام فرمایا پھر کھانا کھایا۔ علی بخش حقہ بھر کر لے آیا۔ چوہدری صاحب مرحوم راجہ صاحب اور راقم الحروف خدمت کے لیے حاضر تھے ۔ مجھے سے حکیم صاحب قبلہ کے بارے میں استفسار فرمایا اپنے خطوں اور دوا و پرہیز کا ذکر کرنے لگے۔ میں حکیم صاحب قبلہ سے مل کر سب حالات عرض کر چکا تھا۔ دوائین بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ دوا اور پرہیز کے بارے میں ان کا اطمینان ہوا تو حسب معمول کچھ نیندیں پھر باتیں ہونے لگیں۔ سہ پہر میں دارالاقامے کے میدان میں نشست رہی چائے کا اہتمام ہوا۔ موسم بڑا خوش گوار تھا۔ شام کو میدان سے اٹھ کر پھر کمرے میں تشریف لے آئے۔ اس دوران میں بھی جو حضرات ملنے کے لیی آئے ا ن کی باتوں کا اپنی دھیمی اور کمزور آواز میں جواب دیتے ہیں۔ اس اثنا میں ایک دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک صاحب بار بار آتے اور ہم لوگ جہاں بیٹھے تھے وہین پاس ہی کچھ کاغذ اور پمفلٹ پھینک دیتے۔ یہ صاحب شلوار کوٹ پہنے تھے خشخشی ڈاڑھی تھی سر پر چھوٹی سی پگڑی۔ ان کے انداز سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ کسی تبلیغی جماعت کے کارکن ہیں چنانچہ ایک مرتبہ جو مسکراتے ہوئے نمودار ہوئے تو کسی نے کہا یہ آپ کیا پھینک رہے ہیں۔ ان کا یہ عجلب پمفلٹوں کو تپائیوں پر رکھنا اور الٹے پیروں جانا پھینکنے ہی کے مترادف تھا۔ کہنے لگے یہ ہماری جماعت کا لٹریچر ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ کیا کہہ رہے ہیں؟ ہم نے عرض کیا مبلغ ہیں۔ فرمایا یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ اور پھر ارشاد ہوا کہ ان سے کہیے کہم سے اتنا خائف کیوں ہی ۔ بار بار تکلیف فرماتے ہیں کیوں نہ ہم سے بیٹھ کر بات کریں ہمیں سمجھائیں ہم ان سے کچھ سیکھیں۔ لیکن ہمارا ان کسے کہنا بھی کہ وہ مسکرائے اور تیزی سے جس سے اس مرتبہ انہوںنے جھلک دکھائی تھی غائب ہو گئے۔ شام کے اجلاس میں حضرت علامہ کی شرکت ناممکن تھی۔ سفر کی کلفت سے ان کے ضعف و اضمحلال بہت کافی بڑھ گیا تھا بلکہ تشویش تھی کہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو جاوے‘‘۔ ۱؎ حالی اوراقبال یہ اشعار جو حالی کی صد سالہ برسی پر نواب صاحب بھوپال کی موجودگی میں پڑھے گئے اور اب تک اقبال کی کسی کتاب میں درج نہیں ہوئے حسب ذیل ہیں ۲؎۔ مزاج ناقہ را مانند عرفی نیک می بینم چو محمل را گراں بینم حدی را تیز تر خوانم حمید اللہ خاں اے ملک و ملت فروغ از تو ز الطاف تو موج لالہ خیزد از خیا بانم ۱؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۳۴۶تا ۳۵۱ ۲؎ مندرجہ بالا اشعار ابتداً حالی مسلم ہائی سکول پانی پت کے سالانہ حیات نو میں شائع ہوئے تھے۔ جو جشن حالی کے مضامین نظم و نثر پر مشتمل تھا۔ اقبال نامہ کے علاوہ یہ اشعار باقیات اقبال میں صفحۃ ۲۴۵۔۲۴۶ پر بھی شامل ہیں ۔ باقیات اقبال کی ترتیب اول سید عبدالواحد معینی ایم اے آکسن کی ہے جس میں ترمی و اضافہ محمد عبداللہ قریشی نے کیا ہے۔ طواف مرقد حالی سزد ارباب معنی را نوائے او بجا نہا افگند شورے کہ من دانم بیاتا فقر و شاہی در حضور دبہم سازیم تو برخاکش گہر افشان و من برگ گل افشانم ۱؎ ایک دوسرے موقع پر حالی سے متعلق مندرجہ ذیل قطعہ کہا تھا: آں لالہ صحرا کہ خزاں دید و بیفسرد سید دگر اور انمے از اشک سحر داد حالی از نوا ہائے جگر سوزینا سود تا لالہ شبنم زدہ اداغ جگر داد ۲۴جون ۱۹۳۵ء ۲؎ جشن حالی کے موقع پر نواب صاحب بھوپال نے بحیثیت صدر جلسہ جو یادگار خطبہ ارشاد فرمایا تھا وہ پیش خدمت ہے۔ یہ خطبہ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کئی سال کی سعی و تلاش کے بعد مجھے مل سکا تھا۔ اس خطبہ میں ںواب صاحب نے اقبال کی گراں مایہ خدمات کا اعتراف ہی نہیں کیا اس کا اختتام بھی ان کی مشہور نظم کے ایک بند پر کیا ہے۔ تقریر ہز ہائی نس اعلیٰ حضرت حضور نواب صاحب بہادر والی بھوپال خلد اللہ ملکہ بجواب ایڈریس مینجنگ کمیٹی حالی مسلم ہائی سکول و کمیٹی استقبالیہ حالی سنیٹیزی پانی پت ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۵ء ’’صاحبان… سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پانی پت کے احباب نے بلا امتیاز مذہب و ملت جس پر خلوص پرجوش اور محبت کی سرگرمی سے میرا خیر مقدم کیا ہے۔ اس سے میرا دل جذبات مسرت و امتنان سے لبریز ہے اور میں تہ دل سے آپ سب صاحبان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے ا س بات کی بے حد خوشی ہے کہ حالی کی صد سالہ سال گرہ کے جلسے کی انجمن استقبالیہ نے ا س تقریب میں دعوت دے کر میرے لیے آپ کے اس قدیم اور تاریخی شہر میں آنے کا ایک موقع مہیا کر یدا جس کی سر زمین پر بارہا ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ ہوا ہے اور جس کی گزشتہ صدی کی سب سے بڑی خصوصیت اور افضلیت یہ ہے کہ وہ مولانا مرحوم کا مولد و مدفن ہے۔ اسی واسطے جب مجھے اس جلسہ کی صدارت کے لیے مدعو کیا گیا تو میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ ایک ایسے شخص کی یادگار میں منعقد ہو رہا ہے جو کسی ایک خطے یا طبقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ جس کی ذات پر ہر زمانہ میں ملک فخر کر سکتا ہے اور اس کی اتنی عالمگیر اہمیت کا خیال کرتے ہوئے میں نے اس میں شرکت کو اپنی دیگر گوناگوں مصروفیتوں پر مقدم رکھا۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۶۹ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۷۰ کیونکہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ میری ہمیشہ یہ کوشش اور خواہش رہی ہے کہ حتی الامکان ہر ایسی تحریر میں ہمدردی اور دلچسپی کے ساتھ لیا جائے جو اہل ملک اور ابنائے وطن کے واسطے مفید نہ ہو۔ اور یہ نتیجہ ہے میری اس تعلیم و تربیت کا جس کے لیے میں سب سے زیادہ اپنی والدہ محتر مہ حضور سرکار عالیہ مرحومہ فردوس آشیاں کا اوراس کے بعد اپنی مادر درس گاہ علی گڑھ کا ممنون منت ہوں۔ اس لیے میں حالی کی صد سالہ سالہ گرہ کی تقریب میں نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ بالخصوصا ہل ریاست بھوپال اور بالعموم تمام مسلمانان ہند کی جانب سے مبارک باد دینے کے لیے یہاں آیا ہوں۔ صاحبان… یہاں مجھے حالی مرحوم کے ذاتی حالات اور سوانح حیات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ صاحبان ان سے میری نسبت بدرجہا زیادہ واقف اور باخبر ہیں میں ان کی قومی اور ملکی خدمات کا اعتراف بھی ذکر کرنا نہیں چاہتا کیونکہ ملک ان کو اچھی طرح جانتا ہے وہ محتاج تشریح نہیں۔ میں ان کے ادبی کارناموں پر بھی کوئی تنقید اور تبصرہ نہیں کروں گا۔ کیونکہ اس وقت مجھے ان مختلف پہلوئوں اور نہایت خﷺش اسلوبی سے کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ البتہ مجموعی طورپر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حالی مرحوم کے یوم ولادت کی صد سالہ سال گرہ منانے کے لیے ہم آج یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ملک ے ایک سچے بہی خواہ اور قوم کے ہمدرد تھے۔ انہوںنے اپنی ساری عمر ابنائے وطن کی اصلاح اور تربیت کی کوشش میں صرف کی۔ ان کی ہر بات وعظ و نصیحت کی تھی اور ان کا ہر کام خلوص و محبت کا میرا یقین ہے اور غالباً اس سے کسی شخص کو بھی اختلاف نہ ہو گا۔ کہ ان تمام پہلوئوں سے مرحوم گزشتہ صدی کے اکابر ملک کی صف اول میں تھے۔ اور وہ ہر حیثیت سے اس کے مستحق ہیں کہ ان کی احسان شناس قوم ہر ممکن طریقہ سے ان کی یادگار کو قائم رکھے۔ تاکہ نوجوانوں میں ان کی تقلید اور تتبع کی تحریک ہو۔ بلاشبہ ان کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی خصوصیت اردو شاعر اور ادیب کی حیثیت سے ہے۔ حقیقت میں انہوںنے اردو شاعری کے اصل مقصد کو صحیح طور پر سمجھا اور یہ محسوس کیا کہ شاعر کا کام یہ ہے کہ قدرت کی نیرنگیوں کے مشاہدہ سے ج اثر ان کے حساس اور ذکی دل و دماغ پر مرتب ہوا ہے اسے ایسے دل کش انداز اور موزوں الفاظ میں ادا کرے کہ جس سے سامعین کے اعلیٰ ترین احساسات برانگیختہ ہوں۔ اور نظام فطرت کے مطالعہ سے مسائل حیات کے متعلق جو نتائج وہ خود اخذ کرتا ہے۔ اور دوسروں کے دلوں میں بھی پیدا کر دے۔ اس کی نظم ہر قسم کے رکیک خیالات اور ادنیٰ جذبات سے پاک ہو۔ چنانچہ انہوںنے نثر میں شاعر کے اس نصب العین کو نہایت وضاحت اور سلاست سے پیش کیا ہے۔ اورنظم میں پوری بے باکی اور یک سوئی سے اسے پیش نظر رکھا ہے۔ اس لیے انہوں نے تمام قوتوں کو ملک اور قوم کی اصلاح میں صرف کر دیا اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ غیر فانی اور عدیم المثال کتاب مدوجزر اسلام المعروف مسدس حالی جس کی نسبت سر سید علیہ الرحمتہ نے بالکل بجا طور پر فرمایا کہ کہ قیامت میں اگر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ کیا لایا تو میں مسد س حالی پیش کر دوں گا۔ لیکن قطع نظر اس کے کہ وہ خاص طور پر مسلمانوں کو ان کی موجودہ زبوں حالی پر غیرت دلانے کے لیے اوران میں ملکی اور قومی حمیت کا احساس پید اکرنے کے لیے لکھی گئی تھی۔ یہ یقینی بات ہے کہ اردو شاعری میں یہی وہ ایک ایسی نئی چیز تھی جس کی کوئی مثال اس سے پہلے موجود نہیں تھی۔ کیونکہ جیسا کہ مرحوم نے خود اس کے پہلے دیباچہ میں لکھا ہے: …اس میں نہ کہیں نازک خیالی ہے۔ نہ رنگین بیانی ہے نہ مبالغے کی چاٹ ہے نہ تکلف کی چاشنی ہے مگر ہے کیا؟ خلوص ہے صداقت ہے سلاست ہے روانی ہے صاف گوئی ہے سادہ بیانی ہے‘‘۔ ایک آئینہ خانہ ہے جس میں قوم اپنے صحیح خط و خال دیکھ سکتی ہے اور سمجھ سکتی ہے کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے؟ اس نظم کی ہر دل عزیزی اور قبولیت عامہ نے اور اس کے کیا مقدمہ شعر و شاعری نے شعرا کے سامنے ایک نیا اور وسیع میدان کھول دیا ہے اور اس سے جو عظیم انقلاب ہندوستانی شاعری میں پیدا ہو گیا ہے اس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔ اور جس کی مثال میں دور حاضرہ کے سب سے بڑے فلسفی شاعر اقبا ل کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرحوم نے اس بات کو کبھی فراموش نہیںکیا کہ اہل مشرق کامذہب سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ اور ہو ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں کتنا موثر اور دخیل ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مسلمانوںکی تمام شیرازہ بندی مذہب ہی سے ہے۔ اور ان کی ساری قومی ترقیکا راز اسی میں مضمر ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ کہ مذہب کا اصلی مفہوم فرقہ وارانہ تعصب اور تنگ نظری سے بہت اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اور اس کی صحیح اور سچی تعلیم عالمگیر اخوت اور رواداری کی تلقین کرتی ہے۔ ا س کے احکام کی تکمیل جہاں ہر شخص کو بہترین اخلاق سکھاتی ہیں وہیں وہ اسے کسی دوسرے شخص کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور اس کے دل میں عام انسانی محبت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتی ہے حالی کی تمام تصنیفیں شاہد ہیں کہ وہ اس سچی تعلیم کے کیسے سچے عامل تھے ان کے دل میں سچا اسلامی درد تھا۔ ان کو اپنی قوم کے تنزل کا شدید احساس تھا۔ ان کی تمام سعی و کوشش یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو ان کے خواب غفلت سے بیدار کریں اس لیے کہ وہ کو سخت سست کہتے تھے۔ ان کو لعن طعن کرتے تھے۔ مگر وہ کسی دوسری قوم کو کبھی بھی برا نہیں کہتے تھے۔ کسی دوسرے مذہب کی بھول کر بھی برائی نہیں کرتے تھے۔ ان کے پندونصائح سے تمام اہل وطن یکساں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی ان کی خصوصیت ہے جو ان کی مابہ الامتیاز ہے اور جس کی تقلید آج کل ہر شخص کو کرنی چاہیے۔ چنانچہ یادگار غالب میں ایک جگہ انہوںنے نہایت پرلطف طریقے سے اس روش کے برخلاف اپنے سابقہ طرز عمل پر خود ہی اعتراض کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ: … ایک روز مجھ سے ایک ایسی غلطی ہو گئی کہ جس کے تصور سے ہمیشہ مجھ کو شرمندگی ہوتی ہے۔ ہ وہ زمانہ تھاکہ جب مذہبی خود پسندی کے نشے میں سرشار تھے۔ خدا کی تمام مخلوق میں سے صرف مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں سے صرف اہ ل سنت کو اور اہل سنت میں سے صرف حنفیہ کو اور ان میں سے بھی صرف ان کو جو صوم و صلوۃ اور دیگر احکام الٰہی کے نہایت تقید کے ساتھ پابند ہیں نجات اور مغفرت کے لائق جانتے تھے۔ گویا دائرہ رحمت الٰہی کو کوئن وکٹویہ کی وسعت سلطنت سے بھی جس میں ہر مذہب و ملت کے آدمی ہیں بہ امن و امان زندگی بسر کرتے ہیںَ اور زیادہ تنگ اور محدود خیال کرتے تھے۔ میرے نزدیک یہ سب سے بڑا سبق ہے جو ہم کو مرحوم کی زندگی سے لینا چاہیے کیونکہ اگر اس وقت ہم بھی اسی نقطہ خیال سے اپنے مذہبی عقائد کو جانچیں اور مرحوم کی وسعت نظری اور فراخ دلی سے کا م لے کر آپس میں رواداری کا برتائو کرنے لگیں تو یقینا ہمارے سارے جھگڑے نمٹ جائیں گے اور ہماری ساری دقتیں حاصل کر لیں گی۔ آخر ہمارے بزرگوںنے اس ملک میں ایک ہزار سال تک باہم شیر و شکر رہ کر زندگی بسر کی ہے۔ کیا وہ اپنے مذہب کے سچے پرستار نہ تھے۔یا ان میں ہماری نسبت مذہبی شغف کم تھا؟ کم سے کم میں تو یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں اور میں اس خلاف مذہب تعصب کو صحیح ار سچی مذہبی تعلیم سے بیگانگی اور اصول مذہب سے ناآشنائی کا نتیجہ قرار دیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا بھر کے مذہبوں کے اصل اصول ایک ہیں۔ ہر مذہب نگوکاری کی تلقین کرتا ہے۔ ہر مذہب ہمدردی اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ تو پھر کیا ہم ان اصولوں اصلیہ کے اشتراک کے باوجود بھی لکھ دینکم ولی دین کے زریں اصولوں پر کاربند نہیں رہ سکتے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ دوستی اور اتحا د کا برتائو نہیں کر سکتے۔ میں نہایت اصرار اور تاکید سے اپنے تمام ابنائے وطن اور بالخصوص ہر ایک مسلمان سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس مسئلے پر غور کریں کہ کیا وہ اس طرح اپنے ملک اور اپنی قوم کی کوئی مفید خدمت انجام دے سکتے ہیں یا اپنے معبود حقیقی کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کر سکتے ہیں جو بلاشبہ ان کی اس تمام تگ و دو کا منشا ہے۔ میری رائے میں ہمارے ملک کی موجودہ تعلیم بھی ایک بڑی حد تک اس کی ذمہ دار ہے۔ تعلیم کا ایک صحیح مقصد یہ ہے کہ ہم کو ماہیت اشیاء کا علم ہو۔ تاکہ ہم قوانین قدرت کو سمجھ سکیں۔ ہم میں تحقیق و تنقیح کی قابلیت ہو تاکہ ہم بھلائی اور برائی میں تمیز کرسکیں اور جو معاملات ہمارے سامنے آئیں ان کے متعلق ہم کوئی درست رائے قائم کر کے بھی صحیح نتیجے پر پہنچ سکیں۔ غرض یہ کہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ اوردنیا کی مشکلات کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ قابلیت پیدا کرنے کی بجائے ہم مدرسوں کی مروجہ تعلیم سے فقط چند ٹوٹے ھوٹے الفاظ سیکھ لیتے ہیں۔ چند غلط سلط اصطلاحیں ازبر کر لیتے ہیں۔ چند الٹے سیدھے جملے بول لیتے ہیں لیکن اس کے سات ہی ہم اپنے قدیم تمدن کو بھول جاتے ہیں۔ اپنی آبائی معاشرت کو فراموش کر دیتے ہیں اور اپنے مذہب کے اصول سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا غائت المال کوئی سرکاری ملازمت حاصل کرنا ہے اور ہماری معراج ترقی کسی محکمے کی محرری کی جگہ لے لینا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ملازمتوں کی تعداد محدود ہے اور یقینا وہ اس قدر جلد خالی اور زیر انتظام نہیں ہوتی ں جتنی کثرت سے ان کے خواست گار پیدا ہوتے ہیں۔ ایک طرف تعلیم کی عمومیت کی خواہش اور دوسری طرف تعلیم کے بعد ملازمتوں کے لیے جدوجہد ایسی مخالفت اور متضاد باتیں ہیں جن کو کسی طرح جمع نہیں کیا جا سکتا۔ اسی کشمکش کا نتیجہ یہ ہیں تعلیمی اسناد کی کس مپرسی اور کساد بازاری اور مختلف قوموں کی باہمی کوشش و کاوش ملازمتوں کے حصول میں بڑی حد تک فرقہ وارانہ جنگ و جدل کی ذمہ دار ہے۔ یہ درس گاہ کی بنیا د حالی کے مقدس ہاتھوںنے لکھی ہے اور جو مرحوم کی یادگار ہے اس کے طلبہ سے خاص طور پر میں یہ کہوں گا کہ وہ اپنی تعلیم کی غرض سے حاصل کریں اسے صرف ایک پیشے کی طرح نہ سیکھیں مجھے یہ سن کر نہایت خوشی ہوئی کہ جہاں کے طلبہ کی دینی اور دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قوم ک بچوں کے دلوں میں ہاتھ سے کام کرنے کا عار نکالنے اور ہاتھ سے کا م کرنے کی عادت ڈالنے کی غرض سے بطور ایک ضروری تربیت کے اس مدرسے کے مقدور کے مطابق کسی نہ کسی قسم کی دستکاری سکھانے کابھی انتظام کیا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ یہ امر قابل افسوس ہے کہ مالی مشکلات کی وجہ سے اب تک اس کا کوئی مستقبل اور اطمینان قابل انتظام نہیں ہو سکا۔ مالی مشکلات آج کل ہر جگہ ہیں اور کوئی بھی ان سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ لیکن ایسی ضروری اور مفید تحریک میں یقینا یہ مشکلات مانع نہ ہونی چاہییں۔ اور میں یہ مشورہ دوں گاکہ اگر اور کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دیگر ضروریات کو ملتوی یا کسی قدر کم کر کے اس کا مستقبل اور قابل اطمینان انتظام کیا جائے کیونکہ حقیقت میں یہ ہماری سب سے بڑی ضروریات اور ہماری بہت سی شکایتیں کا واحد علاج ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ تعلیم پانے کے بعد پیشوں کو ذلیل سمجھنا کسی حال میں بھی درست نہیں ہو سکتا۔ اور خاص کر اپنے آبائی پیشے کو حقیر سمجھنا تو نہایت ہی نازیبا بات ہے چونکہ میں الکاسب حبیب اللہ کے ماننے والوں میں سے ہوں اور میرے نزدیک ہر پیش ور جو اپنی قوت بازو سے حلال روزی پیدا کرتا ہے اور اپنی آمدنی کی مقدا ر کے لحاظ سے بغیر یکساں قابل عزت ہے۔ اس لحاظ سے اگر ہم ضروری تعلیم پانے کے بعد سرکاری نوکریاں تلاش کرنے کے بجائے اپنے ان ہی پیشوں کو اپنا ذریعہ معاش بنائیں اور اپنی علمی لیاقت کو ان کے ترقی دینے اور ان میں اصلاح کرنے میں صرف کریں تو یقینا ہم خود اپنے اور اپنے ملک کے لیے بہت زیادہ مفید ہو سکتے ہیں۔ صاحبان… مجھے یہ سن کر اور بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنے ہاں تعلیم نسواں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ یہ ظاہر ہے کہ بچوں کی درست تربیت مائوں کی صحیح تعلیم پر منحصر ہے۔ ار آج کل کی کشاکش ہستی میں کوئی قوم اسو وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جب تک کہ اس کا ہر فرد تنازع للبقا کے لیے آمادہ اور مستعد نہ ہو۔ اگر اس دوڑ دھوپ میں ہماری قوم کی نصف جماعت سست رو رہی تو میدان مقابلہ میں ہمارا آگے بڑھنا ناممکن ہو گا۔ قوم کی ترقی کی بنیاد ماں کی گود ہے ہمدردی جرات دلاوری استقلال قناعت فیاضٰ سیر چشمی اتحاد ایثار محبت اور ملک اور قوم کی عزت کے زیور سے ہر شخص اپنی ماں کی آغوش شفقت میں آراستہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی خواتین کو اس زیور سے سب سے پہلے آراستہ کریں۔ اس مدرسہ کا میری والدہ محترمہ فردوش آشیاں کے اسم گرامی سے منسوب ہونا اس کے لیے ایک مبارک شگون ارمیرے واسطے اس میں مزید دلچسپی کا باعث ہے۔ بلاشبہ اس بارے میں خواجہ لطیف حسن صاحب کی جواں ہمتی قابل تعریف ہے مگر مجھے امید ہے ک حالی مسلم ہائی سکول کی جماعت انتظامیہ اس کو بھی جلد اپنی نگرانی میں لے کر اسے حالی مرحوم کے نام سے منسوب کر دے گی۔ تاکہ یہ دونوں مدرسے اسی بزرگ کی یادگار بن جائیں۔ جس کی محنت اور کوشش کا یہ نتیجہ ہیں مجھے یقین ہے یکہ مسلمانوں کی ادنیٰ توجہ سے آپ کی مالی مشکلات رفع ہو جائیں گی اور آپ نے جن ضروریات کا اظہار کیا ہے وہ پوری ہو سکیں گی۔ میں حتی المقدور اس میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوں مگر میں اس امر واقعی کا پھر اعادہ کر تا ہوں کہ مالی مشکلات سے کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے۔ ریاستوں کو خود اپنے اندونی کاموں کے لیے روپے کی سخت ضرورت ہے اور وہاں کے باشندوں کی یہ خواہش کچھ بے جا نہیں ہے کہ سب سے پہلے خود ان کی ضروریات پوری ہونی چاہئیں۔ اس سے میرا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم سب کی جدا جدا ذمہ داریاں ہیں اور صحیح طرز عمل یہی ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری کا بار دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اسے خود پورا کرنے کی کوشش کرے۔ برطانوی ہند میں ریاستوں کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں ہیں جنکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہ ان کے صحیح حالات سے بے خبر ہیں اور ان میں وہ ارتباط باہمی نہیں ہے جو اس کمی کا کماحقہ تدارک کر سکے ہمارے اس دعوے سے غالباً کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ مشرقی تہذیب و تمدن کے نمونے اب بھی بیشتر ریاستوں میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں وہ ابھی تک ایک حد تک تہذیب مغرب کی بے جا دست برد سے بچے ہوئے ہیں۔ بہرحال ہم اپنے مقدور بھر ہر اہم ملکی تحریک میں شرکت کرنے کے لیے تیار نہیں ار یہی امید ہم آپ صاحبان سے بھی رکھتے ہیں کہ اگر ضرورت ہو تو آپ بھی اسی طرح ہماری معاونت کریں گے۔ میں آپ کو یہ مشورہ دوں گاکہ آپ اپنی ان اہم ذمہ داریوں کی جانب حکومت ہند کو بھی توجہ دلائیں کیونکہ مجھے قوی امید ہے کہ وہ ان میں آپ کی دستگیری کر گی اور آپ کی مساعی جمیلہ انشاء اللہ ضرور مشکور ہوں گی۔ صاحبان… زمانہ جلد جلد بدل رہا ہے اصلاحات کا نیاد ور شروع ہونے والا ہے۔ ہندوستان کی حکومت خود اختیار ی کے حقوق دیے جا رہے ہیں ہم سب کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ میں اس وقت سیاست کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ بلکہ آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں۔ کہ اگر ہم نے وقت کی قدر نہ کی اور اس کے میلان کو پیش نظر نہ رکھا توہم ترقی کی شاہراہ پر نہ صرف خود پیچھے رہ جائیں گے بلکہ اپنے ساتھ ملک کی رفتار کو بھی دھیما کر دیں گے جس کے لیے آئندہ نسلیں ہم کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ اس لیے میں اپنی اس تقریر کو اسی دعا پر ختم کرتا ہوں جو اقبال نے بڑی خوبصورتی اور جامعیت کے ساتھ مانگی ہے۔ یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو روح کو گرما دے جو قلب کو تڑپادے ۱؎ احساس عنایت کر آثار مصیبت کا امروز کی شورش میں اندیشہ فردا دے اسی روز شام کو میونسپل کمیٹی کے جواب میں نواب صاحب نے یہ تقریر فرمائی ۲؎۔ تقریر ہز ہائی نس اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال بجواب ایڈریس منجانب میونسپل کمیٹی پانی پت بموقع حالی سینٹیزی پانی پت مورخہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۵ء صاحبان … آ پ نے جس خلوص اور محبت سے میرا خیر مقدم کیاہے اور اس پر میں آپ سب صاحبان کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ یوں تو جب سے تاریخ میں پانی پت کی تین فیصلہ کن لڑائیوں کا ذکر پڑھا تھا۔ تب ہی سے میں اس قدیم شہر کی تاریخی اہمیت دل پر نقش تھی۔ لیکن آج جن الفاظ میں آپ نے گزشتہ عظمت کویاددلایا ہے ان سے چشم تصور میں بہت سی باتوں کا نقشہ پھر گیا۔ ۱؎ صحیح مصرعہ یوں ہے جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے ۲؎ یہ تقریر بھی نایاب تھی۔ چونکہ جشن پانی پت سے اس کا تعلق ہے اس میں شامل کتاب کی گئی۔ ا س میں ذرا بھی کلام نہیں کہ یہی وہ سرزمین ہے جہاں بار بار ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ ہوا اور صرف ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا نقشہ بدلا لیکن صاحبان۔ اب ان کی بھولی بسری باتوںکو یاد کرنا بیکار ہے زمانہ ایسے بہت سے رنگ بدل چکا ہے اور آئندہ بھی بدلتا رہے گا۔ ہمارا تعلق سب سے زیادہ حال سے ہے اور آ پ نے درست کہا کہ اس وقت ظاہری امن و امان کے باوجود بھی ہر شخص کارگراہ ہستی میں مصروف پیکار ہے۔ اور تنازع للبقا نے ہر گھر کو پانی پت کا میدان بنا رکھا ہے۔ علم وجہل کی جنگ جاری ہے۔ اور روشنی اور تاریکی میں لڑائی ہو رہی ہے۔ مجھے یہ سن کر نہایت خوشی ہوئی کہ آپ صاحبان علم کی اشاعت اور روشنی کے اضافے میں حتی المقدور پوری کوشش کر رہے ہیں اور میں اس پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ امر بلاشبہ قابل مسرت ہے کہ آپ نے اس چھوٹے سے شہر میں برقی روشنی کا انتظام کر دیا جس سے شہر کی ظاہری رونق اور خوش نمائی میں اضافہ ہونے کے علاوہ یہاں کے باشندوں کو بھی بہت آرام ہو گیا ہو گا۔ پانی کے صاف کرنے کی تجویز میں بھی نہایت مناسب اور مفید ہے کیونکہ بسا اوقات اہل شہر کی صحت کا مدار زیادہ تر اسی پر ہوتا ہے اور پانی کی خرابی بہت سی بیماریوں کا باعث ہو جاتی ہے۔ ا س لیے یہ اصلاحیں ایسی ہیں جو میونسپلٹی کے اولین فرائض میں داخل ہیں اور یقینا پانی پت کے باشندوں کو اپنی میونسپلٹی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ انٹر میڈیٹ کالج قائم کرنے کا خیال بھی آپ کی عالی ہمتی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ وہ یہاں مفید ثابت ہو لیکن اس کے متعلق میری رائے یہ ہے ک پانی پت کے قرب و جوار میں ایسے کئی شہر ہیں جہاں بہترین کالج موجود ہیں۔ اوری ہاں کے طلبہ میٹرک کے بعد آسانی سے وہاں جا سکتے ہیںمیرے نزدیک کالجوں کی تعلیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طلبہ کو قابل ترین اساتذہ کی صحبت میں رہنے کا زیادہ موقع ملتا ہے مختلف حصہ ہائے ملک سے آئے ہوئے دیگر طلبہ کے ساتھ ان کی نشست و برخاست ہوتی ہے۔ ابنائے وطن کے متفرق طبقات سے ان کا میل جول ہوتا ہے اور یوں باہمی تبادلہ خیالات سے ان کی نظر میں وسعت اور دماغ میں صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ محض ایک انٹرمیڈیٹ کالج بنا دینے سے یہ باتیں ایک چھوٹے سے شہر میں حاصل نہیں ہو سکتیں اور یوں طلبہ ان فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ایک انٹرمیڈیٹ کالج میں اعلیٰ ترین قابلیت کے استاد فراہم نہیں ہو سکتے نہ طلبہ کے جسمانی اور دماغی قویٰ کی تربیت اس پیمانے پر ہو سکتی ہے جو ایک اول درجے کے بڑے مرکزی کالج میں ممکن ہے۔ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کی پوری احتیاط اور توجہ سے غور کر لینا چاہیے۔ ذاتی طور پر تو میں ایک زنانہ ہائی سکول کو لڑکوں انٹرمیڈیٹ کالج پر مقدم رکھنے کا مشورہ دوں گا۔ کیونکہ لڑکیاں بالعموم تعلیم کے لیے باہر نہیں بھیجی جاتیں اور ان کی ساری تعلیم و تربیت ان کے مقامی مدرسے کے حدود میں محدود ہوتی ہیں۔ بہرحال یہ ایک سرسری رائے ہے کیونکہ قطعی اور مختتم فیصلہ اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب کہ اس کے متعلق تمام جزوی اور تفصیلی حالات پیش نظر ہوں۔ جو ہر مقام کے لیے مخصوص اور مختلف ہو سکتے ہیں اور جن سے پوری واقفیت مقامی اصحاب ہی کو ہوتی ہے۔ یہ سن کر مجھے دلی مسرت ہوئی کہ آپ کے ہاں ہندو اورمسلمانوں کے تعلقات ہمیشہ نہایت خوش گوار رہے ہیں اور گزشتہ چند سالوں میں بعض اوقات جو بے لطفی پیدا ہوئی ہے اس کا سبب درحقیقت بیرونی اثرات تھے۔ میرے خیال میں کوئی عقل مند اور سمجھ دار آدمی ایسا نہیں ہو گا۔ جو اپنے پشت ہا پشت کے ہم وطنوں سے لڑنا جھگڑنا پسند کرتا ہوں۔ اور حقیقت میںیہ ہمارے ملک کی انتہائی بدقسمتیہے کہ یہاں محض خود غرض اور ناعاقبت اندیش لوگ ایسے پیداہو گئے ہیں جو طرح طرح کے حیلوں سے اس فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میری آپ سے اور تمام ابنائے ملک سے مخلصانہ استدعا ہے کہ آپ نہایت حزم و احتیاط سے اپنا دامن اس آلودگی سے بچائے رکھیں اور کبھی بھول کر بھی کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے شگفتہ اور خو ش گوار تعلقات ہی ٹھیس لگے آپ کے شہر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر مجھے کامل یقین ہے کہ وہ کبھی اپنی اس اکثریت سے کوئی بے جا نہ ہو گا یا نامناسب فائدہ نہ اٹھائیں گے مگر مجھے کامل یقین ہے کہ وہ کبھی کبھی اس اکثریت سے کوئی بے جا یا نامناسب فائدہ نہ اٹھائیں گے اور سچی اسلامی ہمدردی کو مدنظر رکھ کر ہر معاملے میں پوری پوری رواداری اور ایثار سے کام لیں گے اور اقلیب کے فائدے کے لیے اپنے فائدے کی کسی بات ک و چھوڑ دیں ت بھی ان کا کوئی نقصان نہ ہو گا اور یقینا تعلقات کی عمدگی اس کی تلافی کر دے گی کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایسے ایثار کا اثر نہ ہو اور کوئی شریف قوم اس احسان کو فراموش کر دے۔ میں یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اگر ہر بات میں پورے عدل و انصاف سے کام لیاجائے تو کسی کو کیونکر کوئی شکایت یا غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ اور کسی بیرونی در انداز کو کس طرح فتنہ پردازی کا موقع مل سکتا ہے۔ غلط فہمیاں تب ہی پیدا ہوتی ہیں کہ جب دل صاف نہ ہوں اور سینوں میں کدورتیں بھری ہوں ہم اگر دامن و امان کے ساتھ اپنے ملک کی ترقی چاہتے ہیں تو ہم کو خوب یاد رکھنا ہو گا کہ ہمارا فائدہ باہمی مصالحت اور اتحاد ہی میں ہے اختلاف اور انتشار میں نہیں ہے۔ اس کے متعلق میں اپنے خیالات کا اظہار مختصراً بھی اپنی سابقہ تقریر میں کر چکا ہوں۔ اس لیے اب اس بارے میں مجھے اور کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ صاحبان… اس سلسلے میں صرف اتنا اور کہنا چاہتا ہوں کہ ایک شہری کے لیے فقط یہی کافی نہیں ہے کہ وہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال لے بلکہ اس کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرے تاکہ وہ ابنائے وطن کو بھی کچھ فائدہ پہنچا سکے میونسپلٹی کے ذرائع آمدنی کیا ہیں۔ وہی محصول جو آپ صاحبان اسے ادا کرتے ہیں اوررفاہ عام کے تمام کام وہ کسی طرح پورے کر لیتی ہے۔ اسی روپے سے جو وہ آپ سے وصول کرتی ہے ۔ اس لیے ظاہر ہے کہ وہی میونسپلٹی زیادہ مفید خدمات انجام دے سکتی ہے جہاں کے باشندے زیادہ دولت مند ہوں اور اس امداد باہمی میں زیادہ حصہ لے سکیں۔ اپنی ذات کے لیے روپیہ کمانے اور فائدہ اٹھانے کی کوشش تو ہر شخص خود ہی کرت اہے ۔مگر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسی کوششیں میری رائے میں ایک عبادت بن جاتی ہیںَ اوراسی لحاظ سے میں اسے ایک شہری کا سب سے بڑا فرض سمجھتاہوں۔ صاحبان… اس ضمن میںایک بات اور کہنا چاہتا ہوں بسا اوقات ہماری میونسپلٹیوں میں ذاتی اختلافات کی وجہ سے طرح طرح کی بدنظمیاں پیدا ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ مورد طعن و اعتراض ہوتی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم جب عوام کی کوئی خدمت قبول کریں تو اس کی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سوچ لیں اور ہر قسم کی ذاتی غرض سے بالا تر ہو کر اسے انجام دیں۔ اختلاف رائے میں یقینا ہرج نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ نفسانیت سے پاک ہو اور اس کی تہہ میں کوئی اور مقصد پنہاں نہ ہو کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو رائے کے اختلاف کو دلی کدورت کا سبب بنا دیتی ہے۔ اور جس سے ہر طرح کا فتنہ و فساد پیدا ہوتاہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ صاحبان اپنے تمام کاموں میں اس بات کو مدنظر رکھیں گے اور خلوص اور صداقت کا وہ نمونہ پیش کریں گے جو اوروں کے لیے قابل تقلید ہو گا اور جس میں اکثریت اور اقلیت کے پیچیدہ مسائل کا اصان اور عملی حل ہو گا۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر آپ صاحبان کے سپاس نامہ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔ ان خطبات سے جہاں نواب بھوپال کے تدبر تفکر بلند نظری مسائل حاضرہ پر ان کے ترقی پسندانہ خیالات اور مسلمانوں کے حالات کی بہتری کے لیے ان کے قیمتی مشوروں اور عملی دلچسپیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہیں علم و ادب سے ان کے گہرے شغف حالی سے دلی عقیدت اقبال ایسے فلسفی شاعر سے محبت اور تعلق خاطر کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ اور جسے ہم بلا خوف تردید تاریخ ادب کے ایک زریں و یادگار باب سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جشن حالی کے پہلے اجلاس میں ابوالاثر مولانا حفیظ جالندھری نے جو نظم پڑھی تھی ۔ اسے میں نے کافی تلاش کیا لیکن دستیاب نہ ہو سکی۔ جمیل نقوی نے اتنا ضرور بتایا کہ یہ یادگار نظم غالباً حالی مسلم ہائی سکول۔ پانی پت کے رسالے حیات نو میں شائع ہوئی تھی۔ افسوس کہ یہ رسالہ بھی نہ مل سکا۔ حفیط جالندھری کے تمام مجموعے دیکھ ڈالے لیکن یہ نظم ان کے کسی مجموعہ میں شامل نہیں رہی تھی۔ نہ حفیظ صاحب کے پاس اس کی نقل ہی محفوظ تھی۔ عجب اتفا ق ہے کہ یہ کتاب تیاری کی منزلوں سے گزر رہی تھی کہ آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کا جریدہ العلم جولائی تا ستمبر ۱۹۷۲ء مجھے موصول ہوا۔ دوران مطالعہ حسین احمد خاں جمشید پانی پتی کا ایک مضمون مولانا حالی اور ساتھ ہی حفیظ جالندھری کی ان دو نظموں کا تذکرہ بھی تھا جو انہوںنے حالی مسلم ہائی سکول پانی پت میں ۲۱ فروری ۱۹۳۲ء اور ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو بعنوانات یاد حالی اور خواجہ حالی پانی پتی علی الترتیب پڑھی تھیں۔ یاد حالی ر را س مسعود کی صدارت میں منعقدہ ایک جلسے میں اور خواجہ حالی پانی پتی جشن حالی کے موقع پر نواب بھوپال کی صدارت میں پڑھی گئی تھی۔ جمشید پانی پتی نے اپنے مضمون کے آخر میں ان نایاب نظموں کو شان نزول کی دلچسپ تفصیلات کے ساتھ شامل کر دیا ہے چنانچہ ان گم شدہ اوراق کی اچانک دستیابی کو میں نے غیبی مدد جانا اور یہ ضروری سمجھا کہ باب کے آخر میں انہیں شامل کر کے محفوظ کر لوں۔ کیونکہ یہ دونوں نظمیں حالی پانی پت نواب حمید اللہ خاں اقبال اور راس مسعود کی شخصیات کا احاطہ کرتی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ دوسری نظم خواجہ حالی پانی پتی تو حالی کے جشن صد سالہ میں پڑھی گئی تھی جس میں اقبال بھی موجود تھے۔ حسین احمد خاں جمشید پانی پتی نے ان تاریخی اور یادگار نظموں کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ انہیں کی زبانی سنیے: ’’… پانچ چھ سال پہلے کی با ت ہے تھیوسوفیکل ہال کراچی میں طلبہ کے ایک جلسے میں حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام کے چند شہ پارے اور اپنی مشہور نظم ابھی تو میں جوان ہوں پڑھ کر حاضرین کو محظوظ فرمایا ارو جب جسلے کے باہر تشریف لائے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ حضرت حفیظ تو بالکل بوڑھے ہو گئے ہیں ہجوم عاشقاںمیں میں بھی شامل تھا اور میں آڑا ترچھا ہو کر ان کی کار تک پہنچ ہی گیا مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ آج میں تینتیس بتیس سال کے بعد آپ کو دیکھ رہا ہوں حفیظ صاحب نے پوچھا کہ کہاں دیکھا تھا۔ عرض کیا ۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۵ء مٰں پانی پت میں جب کہ آپ نے حالی مسلم ہائی سکول میں دو مشہور نظمیں پڑھی تھیں۔ یہ سن کر حفیظ صاحب ذرا بے چین ہو گئے اور فرمانے لگے۔ ارے بھئی اگر وہ دونوں نظمیں کسی کے پاس محفوظ ہوں تو جمیل الدین عالی صاحب کے ذریعہ میرے پاس بھیج دیں۔ تقسیم ہند کے وقت وہ افراتفری میں جالندھری میں رہ گئیںَ شاید وہ اسی زمانے میں حالی سکول امیگریشن میں یا ممکن ہے پاکستان کے کسی رسالے بھی شائع ہوئی ہوں۔ لیکن میرے وہ ناپید ہیں۔ میں نے وعدہ کر لیا لیکن گھر آ کر تلاش کیا تو غزلوں اور نظمو ں کی میری پرانی کاپی عارضی طور پر اللہ کو پیاری ہو چکی تھی اور مجھے وعدہ فراموش ثابت کرنے کے لیے روپوش تھی۔ ۱۹۷۱ء کے آغاز میں وہ کاپی مل گئی ۔ لیکن میں یہ نظمیں حضرت حفیظ کی خدمت میں نہ بھیج سکا۔ کیوں نہ پیش کر سکا اور ایک عظیم المرتبت شاعر اور فردوسی اسلام کے حکم کی تعمیل میںاس قدر تساہل کیو ں ہوا؟ جس شاعر کی ان دو نظموں کے علاوہ میں اس کے پورے کلام کا عاشق ہوں۔ شاہنامہ اسلام کی چاروں جلدوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہوں۔ ہر سال ماہ ربیع الاول میں جن شاہناموں کی تاریخی نظموں سے پورے ہندوستان کی فضائیں گونجتی رہیں۔ آج اتنا بھی نہ کر سکا۔ کہ اس کی امانت ان کے سپرد کر دوں۔ لیکن میں کیا کروں۔ پوری انسانی خصوصیات ہی دھندلا چکی ہیں اور بغیر کسی لالچ اور خود غرضی کے تعمیل حکم اور ادائیگی فرض میں بھی تو آنا کافی ہوتی ہے ۔ یقینا اس بدبختی کے بوجھ تلے میں دبا ہوں ہوں۔ سید مصطفیٰ علی صاحب بریلوی نے حالی مسلم ہائی سکول۔ پانی پت سر سید حالی اور خواجہ سجاد حسین صاحب مرحوم اورحفیظ جالندھری کہ یہ واقعات سن کر ادبیانہ انداز سے پہلو بدلے اور اس راہ گیر کو محبت بھری نظروں سے دیکھا اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ اس گفتگو سے بڑے متاثر ہوئے ہیں ۔ مجھ سے فرمانے لگے کہ پانی پت حالی مسلم ہائی سکول ۔ پانی پت مولانا حالی کے صاحبزادے سجاد حسین صاحب کی خدمات اور آج سے چالیس سال پہلے کے حالات پر اگر ایک مضمون لکھ دیں اور وہ دونوں نظمیں بھی منسلک کر دیں تو یہ ایک یادگار مضمون ہو گا اور وہ قابل قدر تاریخی نظمیں العلم میں محفوظ ہوجائیں… یہ دونوں نظمیں پیش کرنے سے پہلے مختصرطور پر ان کی وجہ نزول بھی پیش کر دوںمولانا حالی کے صاحبزادے اور حالی مسلم ہائی سکول پانی پت کے سیکرٹری خواجہ سجاد حسین صاحب سر راس مسعود وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ جسٹس محمود کے صاحبزدے اور سرسید کے پوتے۔ کو اپنے سکول میں مدعو برماتے ہیں گویا حالی کے ہاتھ سرسید اارہے ہیں۔ بہاد سید چمن زار حالی کی طرف بڑھ رہی ہے علی گڑھ سے کالی کالی بدلیاں اٹھی ہیں اور گلساتان پانی پت پر برسنے والی ہیں۔ علی گڑھ سے پروفیسر لیکچرر اور لڑکیک ٹرینوں میںبھر بھر کر آ رہے ہیں۔ سرراس مسعود کو سکول کی مسجد کا افتتاح فرمانے کے لیے زحمت دی گئی تھی۔ سر راس مسعود تشریف لائے شاہانہ استقبال ہوا ایک سجے ہوئے دربار کی کرسی صدارت پر مسعود تشریف فرما ہوئے۔ کرنال اورکنج پورہ س نواب زادہ لیاقت علی خاں مرحوم کے خاندان کے نواب یوپی اور پنجاب کے روسا اور جاگیر دار اعلیٰ حکام عوام اور رئوسائے شہر حالی مسلم ہائی سکول کے اور مسلم یونیورسٹی سے آئے ہوئے طلبہ اپنی ترکی ٹوپیوں سیاہ شیروانیوں او ر علی گڑھ کٹ سفید پاجاموں سے ایک عجیب شان یکتائی پیدا کر رہے تھے مہمانوں کے استقبال کے لیے چست و چالاک لڑکے تعینات تھے اور ہدایت یہ تھی کہ مسلمانوں کو درجہ بندی کے لحاظ سے مناسب جگہوں پر پہنچا دیا جائے۔ حالی مسلم ہائی سکول کی طرف سے مہمان ذی شان کی خدمت میں سپاس نامے پیش کیے جا رہے تھے۔ شاید شیخ محمد اسمعیل پانی پتی ۱؎ کے بعد خواجہ غلام الحسنین صاحب پانی پتی فارسی میں آخری سپاسنامہ پیش فرما رہے تھے۔ کہ اسکول کے گیٹ پر ایک تانگہ رکا اور اس میں سے بظاہر ایک سیدھے سادھے صاحب برآمد ہوئے۔ شیروانی ترکی ٹوپی‘ پاجامہ قد آور‘ چھریرا بدن بریف کیس بغل میںَ وہ تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھے اور دو ایک لڑکے اور دو ایک لڑکے این کی متوسط شخصیت کی مناسبت سے کسی مناسب نشست پر پہنچانے کے لیے ان کے پیچھے لپکے لیکن کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ان سے یہ عرض کیا جائے کہ حضور اتنی سادگی لیے آگے ہی کیوں بڑھتے جا رہے ہیں؟ ۱؎ افسوس کہ ۱۹۷۲ء کے دوران شیخ محمد اسمعیل اپنی پتی کا بھی انتقال ہو گیا۔ گو لباس سادہ تھا لیکن ان کے چہرے پر ایک سنجیدہ رعب چال میں ایک خاص فاتحانہ تیھکا پن اور اندا ز ذرا نکیلے واقع ہوئے تھے۔ ہم ان کے پیچھے پیچھے ایسے بھاگ رہے تھے جیسے گھونسلے کے انڈوں بچوں کو چھونے والے شخص کے چاروں طرف چڑیاں چوں چوں کرتی ہیں۔ لیکن رہتی ذرا دور ہی ہیں سر راس مسعود انہیں دیکتے ہی کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے۔ حفیظ بھائی آ گئے مہمان خصوصی کے اس احترام میں سب شریک ہو گئے اور ایک کھلبلی سی مچ گئی اوریہ حضرات راس مسعود صاحب کے برابر براجمان ہو گئے سر راس مسعود نے اہل پانی پت کے سپاس ناموں کے بعد مختصر انداز میں شکریہ ادا کیا اور فرمانے لگے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کس شہر کی سر زمین میں قدم رکھ رہا ہوں… دربار حالی میں کیا عرض کر سکوں گا اسی لے کہ میں نے حفیظ بھائی کو جالندھیر تار دے دیا تھا۔ ارو لک دیا تھا کہ بھائی حالی سکول اور پانی پت کو میری جانب سے خراج عقیدت آپ پیش کریں گے۔ لہٰذا میں حضرت حفیظ جالندھری سے درخواست کرتا ہوں وہی کچھ فرمائیں۔ جو ان حفیظ جن کی ہلکی سی خشخشی ڈاڑھی بھی نظر آئی۔ کھڑے ہوئے اور ہمارے سامنے فردوسی اسلام الحاج حفیظ جالندھری جن کے شاہنامہ اسلام کے متعلق اخبارات میں دھوم تھی۔ میدان جنگ اور حالی کی چہار دیواری میںحالی اور سرسید کی خدمت میں خراج عقیدت پیش رہے ہیں۔ حفیظ شاہنامہ اسلام پڑھنے کے خاص لہجہ میں نغمہ سرائی فرماتے ہیں۔ میں دوڑا بورڈنگ ہائوس سے کاپی لایا اور یہ جو ابرریز سے محفوظ کرنے میں مشغول ہو گیا۔ ایک قیامت سی بپا تھی شور مچ رہا تھا۔ اپنی عمر میں پہلی مرتبہ کسی نظم نے ایک تڑپ پیدا کی تھی اور لوگوں کو سر دھنتے دیکھا تھا۔ آئیے آپ بھی اس دربار حالی میں شرکت فرمائیں۔ یاد حالی یہ نظم حضرت حفیظ جالندھری نے مسلم ہائی سکول پانی پت کے ایک خاص جلسے میںزیر صدارت سر راس مسعود وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۲۱ فروری ۱۹۳۲ء کو پیش فرمائی۔ (۱) نشان زندگی پاتا ہوں پانی پت کی راہوں میں یہ منزل منزل مقصود ہے میری نگاہوں میں یہاں نقش قدم موجود ہیں ان کاروانوں کے زمیں پر جن کے آگے سر جھکے تھے آسمانوں کے یہاں لہرا چکے ہیں پرچم اسلامی نشانوں کے یہاں ٹکرا چکے ہیں جوش مغلوں اور پٹھانوں کے اذانوں کی صدائیں بس چکی ہیں ان فضائوں میں فضائیں محو ہیں اب انہی دل کش صدائوں میں فلک نے اس زمیں پر شعلہ ہائے جنگ دیکھے ہیں زمیں نے اس فک پر انقلابی رنگ دیکھے ہیں یہیں امڈا تھا دریا مرہٹوں کی تند فوجوں کا تلاطم تھا یہیں اس جوش انسانی کی موجوں کا بشر کی ہمت عالی کا منظر اس نے دیکھا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کا لشکر اس نے دیکھا ہے اسی وادی میں گونجی تھیں وہ باطل سوز تکبیریں اسی میدان میں چمکی تھیں وہ شمشیروں پہ شمشیریں یہیں چپ ہو گئے تھے وہ سماعت پاش جے کارے یہیں سے کھا کے بھوگے تھے شکست فاش پنڈارے ہم کثرت کے آگے شان قلت اس نے دیکھی ہے جہاں حق ہو وہاں باط کی ذلت اس نے دیکھی ہے یہاں آتے ہی مردان مجاہد یاد آتے ہیں جو تلواریں اٹھاتے تھے وہ زاہد یاد آتے ہیں اسی باعظ ملا اس سرزمین کو رتبہ عالی کہ اس بستی کی خاک پاک سے پیدا ہوا حالی وہ حالی جس نے ابدالی سے بڑھ کر معرکہ مارا تکلم سے مسخر کیا ہندوستان سارا وہ شاعر جس نے اصناف سخن میں جان ۱؎ پیدا کی بنائے خود ہی پییکر اور خود ہی جان پیدا کی وہ بلبل جس نے گلہائے سخن کو زندگی بخشی خزاں کے دور دورے میں چمن کو زندگی بخشی وہ حالی جو علم بردار تھا دین پیمبر کا وہ حالی جو سپہ سالار تھا سید کے لشکر کا وہ حالی جس نے دل کو درد سے آگاہ فرما کر کیا مردوں کو زندہ قم باذن اللہ فرما کر جگا کر خاکیوں کو گنبد افلاک کے نیچے وہ حالی سو گیا اپنے وطن کی خاک کے نیچے وہ حالی ہاں وہی سرسید مرحوم کا بازو وہ امر کی سپر وہ ملت مظلوم کا بازو ۱؎ یہاں کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے غالباً شان ہو گا دلوں کو تیر حب قوم سے برما دیا جس نے مسلمانوں کے خون سرد کو گرما دیا جس نے وطن میں جس نے اسلامی اخوت کی بنیاد ڈالی پڑا ہے آج اپنے ہی وطن میں بے وطن حالی نہ بھول اے شاہ اقلیم سخن کے مولد و مدفن اسی تربت سے ہے اب روضہ رضواں ترا گلشن نہ بابر تیرے دامن میں نہ اکبر ہے نہ ابدالی تری بزم کہن کی زیب و زینت ہے فقط حالی تری شہرت کا باعث یہ چراغ زیر دامن ہے اسی کی یاد تیرے شرف کی شمع سے روشن ہے بقائے نام ہے تیری بقائے نام حالی سے سخن کی سر خوشی قائم ہے اب تک جام حالی سے نبرد زیست میں ملحوظ رکھ پاس دیانت کو امانت کی طرح محفوظ رکھ اپنی امانت کو دوامی زندگی بخشے گا تجھ کو نام حالی کا سنا سارے زمانے کو سنا پیغام حالی کا دعا یہ ہے کہ جب ترک شوکت اسلام باقی ہے خدا کا اور محمد مصطفیٰؐ کا نام باقی ہے مساجد سے اذانوں کی صدا اٹھتی رہے جب تک مدینے کی طرف بانگ درا اٹھتی رہے جب تک جہان دل نہ ہو جب تک سپاس و شکر سے عاری الٰہی چشمہ الطاف حالی بھی رہے جاری اس نظم سے متعلق ابوالاثر حفیظ جالندھری اور سید راس مسعود کے دو اہم خط نظر ثانی کے دوران دستیاب ہوئے ہیں جن کی تلاش کا سہرا جلیل قدوائی کے سر ہے۔ حفیظ جالندھری کے خط مورخہ ۲۹ فروری ۱۹۳۲سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے یہ نظم راس مسعود کے ایما پر ارسال کی تھی جس کے جواب میں راس مسعود نے لکھا کہ وہ اس کی طباعت کا خاص اہتمام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوںنے اپنے مخلص دوست کو نظم کے بعض اشعار پر نظر ثانی کا بھی مشورہ دیا جس سے نہ صرف ان کی تنقیدی بصیرت ادبی دیانت اور صاف گوئی کا بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ قریبی ربط و تعلق کا بھی۔ راس مسعود کے خط پر تاریخ کا اندراج نہیں ہے۔ اس سلسلے میں جلیل قدوائی سے دریافت کیا تو انہوںنے بتایا کہ راس مسعود کے اکثر خطوط پر تاریخ کا اندازہ رہ گیا ہے یہ خط بھی انہیں میں شامل ہے البتہ متعلقہ خط سے تاریخ کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں خط دوسرے ایڈیشن میں قیمتی اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں: ’’دفتر شاہنامہ اسلام ماڈل ٹائون۔ لاہور ۲۹ فروری ۱۹۳۲ء میرے محسن و محترم حضرت سید صاحب اسلام علیکم پانی پت والی نظم ۱؎ ارسال خدمت کر چکا ہوں۔ تاحال رسید نہیں ملی۔ پانی پت کی وہ صحبت اور سفر دہلی کا وہ وقت جب میں آ پ کے حضور تھا میری زندگی کے لیے بہترین لمحوں پر مشتمل تھا۔ دعاہے کہ پروردگار عالم ایسے محسن‘ ایسے خلیق اور ایسے قدر شناس کو دین و دنیا ہر جگہ فائز المرام کرے: تم سلامت رہو قیامت تک اور قیامت خدا کرے کہ نہ ہو جؤناب کے رفیق ڈاکٹر صاحب کی محبت کا بھی ایسا نقش دل پر ہے کہ ان کی صورت آنکھوں میں بسی ہے۔ خدا ان کو شاد آباد رکھے۔ نظم کے متعلق جلد مطلع فرمائیے کہ بلاک کب بنیں گے اور کس ڈیزائن میں چھپے گی۔ ہاں یہ درخواست میرے بھتجے کی ہے جس کے متعلق میں نے ذکر کیا تھا ہ حساب انگریزی اور سائنس میں ماہر ہے مگر میں نے آپ سے سیکنڈ ڈویژن کہا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ وہ تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوا تھا۔ اگرچہ نمبر سیکنڈ سے تھوڑے ہی کم ہیں۔ بہرحال اگریہ لیا جا سکے تو حالی اسکول کے لیے جس تنخواہ پر بھی آپ پسند کریں حاضر ہو جائے گا۔ میں پانچ سال اس کی پڑھائی کا بوجھ اٹھا چکا ہوں اب مشکل ہے: ہیں عمل اچھے مگر دروازہ جنت ہے بند ہو چکے ہیں پاس لیکن نوکری ملتی نہیں خاکسار نیاز مند حفیظ ۲؎‘‘۔ جواب سید راس مسعود ’’پیارے حفیظ۔ تمہاری نظم پریس میں ہے۔ اس کی طباعت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ دیکھ کر بہت خوش ہو گے۔ چونکہ تم نے یہ نظم بہت عجلت میں لکھیاس لیے بعض اشعار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں وہ اشعار حسب ذیل ہیں: یہ دھرتی سہہ چکی ہے بوجھ مرہٹوں کی فوجوں کا مرہٹوں کی ٹ پر تشدید تلاطم تھا یہیں اس جوش انسانی کی موجوں کا صحیح نہیں ۱؎ حالی کی صد سالہ برسی منعقدہ حالی مسلم ہائی سکول پانی پت کے موقع پر کہی گئی اور پڑھی گئی۔ (جلیل قدوائی)۔ ۲؎ ماہنامہ قومی زبان۔ کراچی۔ مارچ ۱۹۷۶ء صفحہ ۲۲ وہ حالی یجو علم بردار تھا محراب و منبر کا وہ حالی جو سپہ سالار تھا سید کے لشکر کا محراب و منبر کی علم برداری قابل غور ہے دلوں کو تیر حب قوم سے برما دیا جس نے مسلمانوں کے خون سرد کو گرما دیا جس نے تیرسے برمانا کیا اس موقع پر مناسب ہے؟ کاپیا ں تیار ہیں کاغذ مطبع میں جا چکا ہے۔ صرف اس خط کے جواب کا انتظار ہے امید ہے کہ جواب جلد بھیجو گے۔ تمہارا سچا خیر خواہ ۱؎‘‘۔ افسوس کہ راس مسعود کے اس خط کا جواب ان کے مسودات میں سے نہ مل سکا البتہ مندرجہ بالا تین اشعار میں سے پہلے دو اشعار کے پہلے مصرعے حفیظ نے تبدیل کیے ہیں جیسا کہ مشمولہ نظم سے ثابت ہے۔ یہ دھرتی سہہ چکی ہے بوجھ مرہٹوں کی فوجوں کا تبدیل شدہ مصرع: یہیں امڈا تھا دریا مرہٹوں کی تند فوجوں کا وہ حالی جو علم بردار تھا محراب و منبر کا تبدیل شدہ مصرع وہ حالی جو علم بردار تھا دین پیمبر کا تیسرے شعر کا پہلا مصرع جوں کا توں رہا دلوں کو تیر حب سے برما دیا تو نے خواجہ حالی پانی پتی مولانا خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی کی صد سالہ جوبلی پر جو کہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۵ء کو حالی مسلم ہائی سکول میں پانی پت میں زیر صدارت ہز ہائی نس نواب حمید اللہ خاں فرماں روائے بھوپال منائی گئی۔ خود حضرت حفیظ نے اپنے خاص ترنم میں پڑھ کر سنائی۔ مسلمانوں کی شوکت بھی مرے اللہ کیا شے تھی! فلک بھی اس کے درپے تھا زمین بھی اس کے درپے تھی کتاب زندگی کے سو ورق الٹا رہا ہوں میں گزشتہ صدی کی داستاں سہرا رہا ہوں میں زوال سلطنت کا آہ وہ اندوہ گیں منظر الم انگیز حسرت خیز عبرت آفریں منظر ۱؎ ماہنامہ قومی زبان ۔ کراچی مارچ ۱۹۷۶ء صفحہ ۲۲۔۲۳ نہیں تھا بزم دہلی میں وہ ذوق شعلہ آشامی کہ خمیازہ کشوںمیں چل رہا تھا دور ناکامی صدائے عندلیب افسردہ پژمردہ گل و لالہ خزاں آلود تھا رنگ بہار ہفت صد سالہ نشاط زندگی سے روح خالی مے سے خم خالی نہ فکر بے پروبالی نہ ذکر ہمت عالی حریفان طرب آمادہ اظہار خصومت پر ہوا کی یورش اک آخری شمع حکومت پر ظفر ے نام سے اک آفتاب بام باقی تھا شراب مشک بو تو اڑ چکی تھی جام باقی تھا شفق کے گیسوئوں نے اس رخ روشن کو گھیرا تھا دھوئیں میں آخری شعلہ یہی تھا پھر اندھیرا تھا زمین ہند پر یہ مسلم کا انجام تھا گویا فروغ روز روشن پر یہ وقت شام تھا گویا یہ شام غم اندھیری رات کا پیغام لائی تھی فضاؤں پر اداسی اور تاریکی سی چھائی تھی جمود و بے حسی کو ساتھ لے کر انقلاب آیا ہماری قسمت بیدار کو پیغام خواب آیا سہارا بال و پر کا جب نہ زیر آسماں پایا قفس میں طائر بے بال و پر نے آشیاں پایا حوادث نے کیا مغلوں کا پرچم سرنگوں آخر ہوا یہ مہر عالم تاب غرق موج خوں آخر ہوا شیرازہ ملت پریشاں اس ہزیمت سے کہ مسلم بے خبر تھے اپنی اصلی قدر و قیمت سے یہ تاج و تخت میں اسلام کو محدود سمجھتے تھے غبار رہ گزر کو منزل مقصود سمجھتے تھے زوال جاہ و ملک و مال کو سمجھے زوال اپنا یہ خود بھی ایک دولت ہیں نہیں آیا خیال اتنا حجازی قافلہ ہندوستاں میں راہ بھولا تھا ہوائے سرد کے جھونکے تھے اور غفلت کا جھولا تھا وہ جس کا ہر قدم تھا پیش خیمہ خوش نصیبی کا اسے اب مرحلہ درپیش تھا شام غریبی کا کلام مصطفیٰؐ بھولا پیام مصطفیٰؐ بھولا رموز بے خودی بھولا خودی بھولا خدا بھولا جرس کی ہر صدا اب رائگاں معلوم ہوتی تھی تباہی کارواں درکارواں معلوم ہوتی تھی۔ پراگندہ جماعت فرد اس پر خود فراموشی مسلسل ایک سناٹا مسلسل ایک خاموشی پڑے تھے راہ گزار سیل میں سب نیند کے ماتے بس اتنی دیر تھی طوفان آتا اور بہہ جاتے سنا ہے میں نے یہ قصہ بزرگوں کی زبانوں سے کہ اس ظلمات میں اک چاند اترا آسمانوں سے شرافت لے کر آیا تھا ی آغوش اصالت سے کیا تھا اس نے کسب نور خورشید رسالت سے نظر والے اسے اک درد مند انسان کہتے تھے زبان والے فقط سر سید احمد خاں کہتے تھے یہ آیا ہند میں علم و عمل کی روشنی لے کر مسلماں کے لیے اس کی پرانی زندگی لے کر اسے زعم کرامت تھا نہ چھ اعجاز کے دعوے محمدؐ کی غلامی پر تھے فخر و ناز کے دعوے مسیحائی نہیں مردے جلانا کام تھا اس کا عروج زندگی پر لے جانا کام تھا اس کا نہ گھاتیں پیش گوئی کی نہ کچھج الہام کی باتیں وہ کرنی جانتا تھا خدمت اسلام کی باتیں مقابل میں جہالت تھی کٹھن تھار استہ اس کا ضرورت تھی کہ ساتھی ہو کوئی مرد خدا اس کا بروئے کار آئی جستجوئے کامیاب اس کی ملی حالی کی صورت میں اسے تعبیر خواب اس کی ادھر درد آژنا سید ادھر گرم نوا حالی زبان و دل نے گویا ربط باہم کی بنا ڈالی عجب انداز سے شاعر نے تار ساز کو چھیڑا جگا یا روح خوابیدہ کو خﷺاب ناز کو چھیڑا عجب نغمہ تھا خون سرد کو گرمادیا جس نے عجب ناوک تھا ہر پتھر کا دل برما دیا جس نے جگایا کاروان کفتہ کو آواز حالی نے کیا پھر گرم رو مسلم کو اس شعلہ مالی نے سخن کی اک نئی دنیائے عالی شان پیدا کی بنائے خود ہی پیکر اور خود ہی جان پیدا کی قیامت بن گئی قلب جرس میں اس کی گویائی ہوا پیدا سروں میں پھر جون جادہ پیمائی جگا کر خاکیوں کو گنبد افلاک کے نیچے وہ حالی سو گیا اپنے وطن کی خاک کے نیچے بجا ہے ناز حالی کے وطن کو اس کی تربت پر کہ ہے ہفت آسماں کو رشک اس مٹی کی رفعت پر عیاں ہو سید شاہ سخن کا رتبہ عالی کہ آیا اس کے شوق دید میں بھوپال کا والی مبارک اے حمید اللہ خاں تیر ایہاں آنا ترے آنے سے زندہ ہو گیا پھر ایک افسانا نہیں ہے آج قدر گو ہر دل کج کلاہوں میں یہ جوہر اب نظر آتا ہے تیری ہی نگاہوں میں دعا یہ ہے کہ جب تک شوکت اسلام باقی ہے خدا کا اور محمد مصطفیٰؐ کا نام باقی ہے مساجد سے اذانوں کی صدا اٹھتی ہے جب تک مدینے کی طرف بانگ درا اٹھتی رہے جب تک زبان و دل نہ ہو جب تک سپاس و شکر سے عاری الٰہی چشمہ الطاف حالی بھی رہے جاری ۱؎ ۱؎ سہ ماہی ’’العلم‘‘ کراچی جولائی تا ستمبر ۱۹۷۲ ء صفحۃ ۳۶ تا ۴۲ ٭٭٭ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط ڈاکٹر سید عبدالباسط کے نام بھوپال کے قیام اور نقرس کے علاج کے سلسلے میں اقبال کے خصوصی معالج کی حیثیت سے ڈاکٹر سید عبدالباسط کا نام سر فہرست ہے گزشتہ صفحات میں جا بجا اقبال نے ڈاکٹر عبدالباسط کا تذکرہ کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر سید عبدالباسط سے اقبا کی قربت و وابستگی اور خصوصی ربط و تعلق کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ آپ نہ صرف بھوپال کے بلکہ ہندوستان کے نامی گرامی ڈاکٹروںمیں شمار ہوتے تھے۔ اور بجلی کے علاج کے سلسلے میں آپ کا تجربہ و قابلیت آ پ کی فرماں اروفنی حیثیت بے مثال تھ۔ پھر آپ صاحب علم بھی تھے اور شعر و ادب کا اعلیٰ مذاق رکھتے تھے۔ اور اقبال کے مداحوں قدردانوں اور نیازمندوں میں شامل تھے۔ تیسرے یہ کہ کوششیں محؒ میں جہاں اقبال نے دو بار قیام کیا اسی کے مقام قدسیہ محل تھا جہاں ڈاکٹر عبدالباسط بھی رہائش پذیر رکھتے تھے۔ اس لیی مریض و معالج کے ہمہ وقت قرب نے ایک دوسرے سے گہری وابستگی پیدا کر دی تھی۔ جاوید جو پہلی بار بھوپال گئے تھے اپنا بیشتر وقت ڈاکٹر سید عبدالباسط کے صاحبزادے سید عبدالحئی اور دیگر عزیزوں کے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں گزارتے تھے۔ اکثر ڈاکٹر صاحب شیش محل میں رات کا کھانا اقبال کے ساتھ کھاتے تھے۔ اور ان کی محفلوںمیں ذوق شوق سے حصہ لیتے تھے۔ کبھی کبھی ڈاکٹر صاحب کے گھر جا کر اقبال ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور جیسا کہ عبدالحئی صاحب نے بتایا کہ ڈاکتر عبدالباسط اور علامہ اقبال سے دلی تعلق کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ وہ راس مسعود کے عزیزوں میں سے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے دادا سید عبدالغفرو صاحب کی شادی سرسید کی ہمشیرہ بیگم صفیہ کی صاحبزادی ذکیہ بیگم سے ہوئی تھی۔ اس نسبت سے راس مسعود ہمیشہ ڈاکٹر عبدالباسط کو اپنی قریبی عزیز بتاتے تھے اور ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ڈاکٹر سید عبدالباسط دہلی کے رہنے والے تھے۔ ابتداً دہرہ دون کی ایکسرے انسٹیٹیوٹ میں بطور ریڈیالوجسٹ ملازم ہوئے ہندوستان میں پہلی بار دہرہ دون میں ایکسرے انسٹیٹیوٹ قائم ہوا تھا جہاں ڈاکٹروں کو ایکسرے اور بجلی سے علاج کی تربیت دی جاتی تھی۔ آپ کا شمار ماہرین فن میں ہوتا تھا۔ اور سارے ہندوستان میں آپ کی شہرت تھی۔ ۱۹۲۶ء میں آپ دہرہ دون سے ریٹائر ہو کر دہلی آ گئے اور پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دی۔ وہیں آپ کی ملاقات ڈاکٹر انصاری سے ہوئی جو اپنی گوناگوں سیاسی سماجی اور علمی خدمات کی بنا پر ہندوستان گیر شہر ت کے مالک تھے۔ آپ نواب حمید اللہ خاں کے ذاتی معالج تھے اور ان کے قریبی دوست بھی۔ ڈاکٹر سید عبدالباسط سے انہوںنے کہا کہ نواب حمید اللہ خاں بھوپال میں ایکسرے ڈیپارٹمنٹ قائم کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا آپ وہاں چلے جائیں۔ ڈاکٹر سید عبدالباسط ریاست بھوپال کی چند در چند خوبیوںسے واقف تھے۔ بھوپال جانے پر فوراً آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ ۱۹۲۶ء میں ہی آپ بھوپال تشریف لے گئے اور وہاں بطور ریڈیالوجسٹ آپ کا تقرر ہو گیا۔ اور آپ نے پرنس آف ویلز ہسپتال میں جو بعد میں حمیدیہ ہسپتال کہلایا ایکسرے ڈیپارٹمنٹ قائم کر کے بجلی کے علاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ آپ نے بھوپال کے کئی ڈاکٹروں کو اس شعبہ میں علاج کی تربیت بھی دی۔ ۱۹۳۵ء میں اقبال جب پہلی بار علاج کے سلسلے میں بھوپال تشریف لائے تو دیگر معالجین کے علاوہ خصوصی معالج کا شرف ڈاکٹر سید عبدالباسط کو حاصل ہوا۔ اور جبھی سے اقبال اور ڈاکٹر صاحب کے روابط میں قرب و استحکام پیدا ہو گیا۔ ڈاکٹر سید عبدالباسط کے صاحبزادے عبدالحئی صاحب کا بیاین ہے کہ ڈاکٹر صاحب والد صاحب سے بڑی محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ والد صاحب بھی نہایت توجہ سے ان کا علاج کر رہے تھے۔ اوربجلی کے علاج سے انہیں کافی فائدہ ہوا تھا۔ پہلے اور دوسرے قیام کے بعد علامہ اقبال لاہور میں تشریف لے گئے تو وہاں سے بھی خطوط بھیجتے رہے اور والد صاحب سے مشورے لیتے رہے خط وکتابت کا سلسلہ برابر جاری رہا ۔ والد صاحب جلد انہیں بھوپال آنے کے لیے لکھتے تھے تاکہ علاج کا کورس مکمل ہو سکے اور علامہ کو گلے کی تکلیف رفع ہو سکے۔ لیکن اس کا جلد جلد آنا ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ اس عرصہ میں انہیں کسی نے ویانا جانے کا مشورہ دیا تو انہوںنے پھر والد صاحب سے مشورہ طلب کیا کہ علامہ کے خطوط والد صاحب کے نام آے تھے جن میں سے صرف پانچ خطوط ۱؎ اور ضرب کلیم کا وہ نسخہ ۲؎ جسے علامہ اقبال نے اپنے دستخط کے ساتھ بھیجا تھا محفوظ رہ گیا۔ اقبال کے پانچ غیر مطبوعہ خطوط جیسا کہ مطالعہ سے ظاہر ہو گا کہ اگرچہ تمام بیماری کی تفصیلات ویانا کے سلسلے میں مشورے ایکسرے رپورٹ وغیرہ سے متعلق ہیں لیکن ان میں بھی اقبال کا منفرد لب و لہجہ اور طرز تحریر کی سادگی و پرکاری ملتی ہے اوری ہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈاکٹر باسط سے انہیں کتنا قلبی ربط و تعلق تھا۔ پہلا خط ۲ اکتوبر ۱۹۳۵ء کا ہے جس کا عکس پیش خدمت ہے۔ اسی تاریخ کو انہوں نے راس مسعود کو بھی خط لکھا تھا جو گزشتہ صفحات میں شامل ہے۔ اس خط میں انہوںنے ویانا جانے کے سلسلے میں راس مسعود سے مشورہ طلب کیا تھا ڈاکٹر عبدالباسط کے نام خط بھیجنے کا تذکرہ بھی ۔ ۱ ؎ یہ پانچ غیر مطبوعہ خطوط اور ضرب کلیم کا دستخطی نسخہ کا عکس پیش کیا جا رہا ہے۔ راقم الحروف کی خصوصی درخواست پر سید عبدالحئی نے اقبال اکیڈمی میںمحفوظ کر ا دیے ہیں۔ (۱۔۲؎) حاشیہ اگلے صفحے پر ملاحظہ ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کی صحت پہلے سے گرچہ بہتر تھی اور گلے کی تکلیف سے مکمل ابھی تک نہیں ملی تھی۔ چنانچہ جب ان کے ایک دوست نے یورپ سے لوٹ کر انہیں ویانا جانے کا مشورہ دیا تو سب سے پہلے انہوںنے اپنے عزیز ترین دوست راس مسعود سے مشورہ حاصل کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنے خصوصی معالج ڈاکٹر سید عبدالباسط کو بھی تفصیلات سے مطلع کیا۔ اقبال کا خط ملتے ہی ڈاکٹر سید عبدالباسط نے فوراً جواب لکھا۔ اسی دوران اقبا ل نے ڈاکٹر انصاری کا مشورہ بھی حاصل کیا اور راس مسعود اور ڈاکٹر انصاری سے مشورے کے بعد پھر ایک تفصیلی خط ڈاکٹر سید عبدالباسط کو تحریر کیا۔ جس میں ویانا جانے کے پروگرام کو آخری شکل دینے سے پہلے ڈاکٹر مصطفی علی ۴؎ کو ضروری تفصیلات بھیجنے کی درخواست کی۔ اقبال کا سینہ کا فوٹو ایکسرے مرض کی تفصیلات‘ معائنہ کا مکمل ریکارڈ وغیرہ بھوپال میں موجو د تھا۔ ڈاکٹر خان بہادر ڈاکٹر رحمن اور ڈاکٹر سید عبدالباسط نے علیحدہ علیحدہ اقبال کا معائنہ کیا تھا اور مرض و علاج کی تشخیص کے بارے میں ڈاکٹر رحمن اور ڈاکٹر سید عبدالباسط میں قدرے اختلاف تھا جس کا ذکر ہمیں ذیل کے خط سے ملتا ہے۔ اقبال کی خواہش تھی کہ فوٹوک یساتھ ڈاکٹروں کی رپورٹ اور اختلاف کے سلسلے میں ایک نوٹ تیار کر کے ڈاکٹر مظفر کو ویانا بھیج دیا جائے تاکہ وہاں کے ماہرین پر غور کر کے کوئی فیصلہ کر لیں تب ویانا جانے کا پروگرام بنایا جائے۔ اس خط کی عبارت سے جو حاشیے تک میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ وہ عجلت میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے اور احتیاط پسندی کا تقاضا بھی یہی تھا کہ چند در چند ملکی ملی اور خانگی ذمہ داریاں دامن گیر تھیں اس لیے اتنا دور دراز کا سفر اختیار کرنے سے پہلے ویانا کے ماہرین کی آخری رائے حاصل کرنا نہایت ضروری تھا۔ ۱۔۲؎ خان بہادر ڈاکٹر احمد بخش اور ڈاکٹر رحمن بھی اقبال کے معالجین میں شامل تھے اور ان کی خصوصی نگرانی میں ڈاکٹر سید عبدالباسط بجلی کا علاج کر رہے تھے۔ ۳؎ ’’سے‘‘ سہواً رہ گیا۔ ۴؎ آپ ڈاکٹر انصاری کے بھانجے تھے اور ان دنوں ویانا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ۱؎ ’’کے‘‘ سہواً رہ گیا۔ ۲؎ سید عبدالحئی سے مراد ہے۔ سید عبدالحئی بیان کرتے ہیں کہ اس خط کے ملنے پر والد صاحب ڈاکٹر سید عبدالباسط نے اقبا کے سینے کا فوٹو (ایکسرے) ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق اپنا اختلافی اور وضاحتی نوٹ ڈاکٹر مظفر علی کو ویانا بھیج دیا اور حسبہ اقبال کو بھی مطلع کر دیا۔ اس کے بعد تقریباً چار ماہ تک خاموشی رہی۔ جہاں تک ویانا جانے کا سوا ل تھا خود والد صاحب نے بھی اقبال کو مشورہ دیا تھا کیونکہ یورپ سائنسی اور فنی ترقی میں اوج کمال پر تھا وہاں نئی دریافتوں کے ساتھ ساتھ علاج ومعالجہ کی جدید ترین سہولتیں بھی میسر تھیں۔ خصوصیت کے ساتھ ویانا میں سینے اور گلے کی تکلیف کا خصوصی علاج کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر مظفر علی جن کا خط میں تذکرہ ہے۔ آنکھ ناک اور گلے کی تکالیف کی جدید تحقیقات سے استفادہ کے لیے ہی ویانا گئے تھے۔ اقبال براہ راست ڈاکٹر مظفر علی سے واقف نہیں تھے۔ وہ ڈاکٹر انصاری کے بھانجے تھے چنانچہ ان کی ہی رہبری و ہدایت پر اقبال نے ان سے خط و کتابت اور والد صاحب کو بھی ان کے پتہ سے آگاہ کیا اور تفصیلی رپورٹ انہیں ارسال کرنے کی خواہش کی۔ نومبر کے دوران صرف دو خط ’’مکتوبات اقبال‘‘ میں ملتے ہیں جن میں سے ایک کا تعلق بھوپال سے ہے۔ اس خط کے اقتباس سے پتہ چلتا ہے۔ کہ پانی پت کے سفر میں اقبا کو خاصی تکلیف ہوئی۔ جسے انہوںنے راس مسعود اور نواب حمید اللہ خاں کی خاطر برداشت کیا۔ سید نذیر نیازی کے نام اس خط میں دیگر امور کے علاوہ پانی پت کے سفر کی صعوبت اور تیسری بار بھوپال جانے کا عزم کا اظہار کیا گیا ہے ملاحظہ ہو: ’’… مگر یقین جانئیے کہ مجھے پانی پت کے سفر میں تکلیف ہوئی اب جو قوت سفر باقی ہے اسے بھوپال کے سفر کے لیے محفوظ رکھتا ہوں ‘‘ ۱؎۔ اب اقبال بھوپال کے تیسرے سفر کی تیاری کر رہے تھے ۔ تاکہ علاج کا تیسرا کورس بھی مکمل ہو سکتا ۔ڈاکٹر سید عبدالباسط اور راس مسعود سے ان کی خط و کتابت جاری تھی۔ یہ دونوں حضرات انہیں جلد بھوپال آنے کے لیے لکھ چکے تھے۔ چنانچہ ۷ دسمبر ۱۹۳۵ء کے اس قلمی خط میں جو ڈاکٹر سید عبدالباسط کے نام ہے ان پر روشنی پڑتی ہے۔ ۱؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۳۰۲ اقبال کو راس مسعود کا ایک خط اور تار ملا جس میں ان کی خیریت دریافت کی گئی تھی۔ ساتھ ہی سب بھوپال کی تشویش کا بھی ڈکر تھا جس کا تعلق اقبا ل کی علالت سے تھا اقبال جشن حالی کے دوران بھی علیل تھے۔ اور پانی پت سے لاہور پہنچنے کے بعد بھی علیل رہے۔ نواب صاحب کو اس عالت کا کسی طور علم ہو گیا تھا چنانچہ اس خط میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ ’ ’لاہور…۱۰ دسمبر ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود تمہارا خط ابھی ملا۔ کل شام کے قریب تار بھی ملا۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے میں اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ معلوم ہوتا ہے ان کو میری آسائش کا بہت خیال ہے۔ خدائے تعالیٰ اجر عظیم ان کو عطا فرمائے۔ ہز ہائی نس آغا خاں کو بھی خط لکھ دوں گا۔ اطمینان فرمائیے۔ ا س سے پہلے آپ خط آ پ کی خدمت میں لکھ چکا ہوں۔ امید ہے پہنچ گیا ہو گا۔ اور کتابوں کا پارسل بھی مل گیا ہو گا۔ اندور سے رشید صاحب کا خط بھی آیا تھا۔ ان کو بھی جواب لکھ دیا ہے۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے حکیم نابینا صاحب کی خدمت میں ان کی علالت کا تذکرہ کر دیا تھا وہ نومبر ۱؎ میں تمہارے ساتھ دہلی آئیں تو ضرور ا ن کو نبض دکھائیں۔ لاہور میں گرمی کی بے انتہا شدت ہے۔ بارش کا نام و نشان نہیں ہے۔ سرحد پر جنگ باقاعدہ شروع ہو گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد شہید گنج کا اثر وہاں بھی جا پہنچا ہے۔ اور راولپنڈی میں کیا تمام پنجاب میں مسجد کی بازیابی کے لیے جوش و خروش بڑھ رہا ہے۔ خدائے تعالیٰ مسلمانوں پر اپنا فضل کرے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ جاوید آپ کی اور لیڈی مسعود کی خدمت میں آداب لکھواتا ہے علی بخش بھی سلام عرض کرتا ہے۔ والسلام ۔ محمد اقبال…لاہور ۲؎‘‘ اس خط میں نواب حمید اللہ خاں کے بارے میں ان کا یہ لکھنا کہ: ’’… میں اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ معلوم ہوتا ہے ان کو میری آسائش کا بہت خیال ہے۔ خدائے تعالیٰ اجر عظیم ان کو عطا فرمائے…‘‘ ۱؎ یہ خط دسمبر کا ہے۔ ظاہر ہے نومبر یا ت وسہوکتابت ہے یا اقبال غلطی سے لکھ گئے ہیں۔ ۲؎ اقبال نامہ ۔ (جلد اول) صفحہ ۳۷۲۔۳۷۳ سچ پوچھیے تو اس گہری وابستگی دلی قرب اور خصوصی تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو نواب صاحب کو اقبال سے اور اقبال کو نواب صاحب سے تھا۔ ورنہ غور کرنے کی بات ہے کہ ایک والی ریاست کو اقبال ایسے مرد قلندر کی علالت و بیماری کے سلسلے میں پریشان ہونے اور فکر مند ہونے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نواب صاحب نہ صڑف اقبال سے گہری محبت کرتے تھے بلکہ اس امر کے خواہش مند بھی تھے کہ وہ جلد روبصحت ہو جائیں تاکہ ملک و قوم ان سے بیش از بیش استفادہ کر سکے۔ وہ ا کے وجود کو ملت کی فلاح و تعمیر کے لیے مقدم سمجھتے تھے اور ایک سچے اور مخلص نیاز مند کی حیثیت سے ان کی صحت و عافیت کے خواہاں تھے۔ چنانچہ راس مسعود کے خط اور تار کا سلسلہ بھی اسی کی ایک کڑی معلوم ہوتاہے اور اقبال کا جذبہ سپاس گزاری بھی اسی تعلق کی خاطر ایک بنیاد جس سے دونوں کے باہمی اور مخلصانہ روابط کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس خط میں ہز ہائی نس آغاخاں کا ذکر بھی ہے لیڈی مسعود کی علالت کا بھی … رشید صاحب لیڈی مسعود کے والد جو اندور میں تھے کے خط کا تذکرہ بھی ہے اور مسجد شہید گنج کے سلسلے میں سرحد پر جنگ کا حال بھی پنجاب میں اس واقعہ سے جو صورت حا ل پیدا ہو گئی تھی۔ اس پر بھی یہ خط کچھ روشنی ڈالتا ہے۔ ’’راولپنڈی میں کیا تمام پنجاب میں مسجد کی بازیابی کے لیے جوش و خروش بڑھ رہا ہے‘‘۔ ان جستہ جستہ واقعات میں خصوصیت کے ساتھ آغا خاں کو خط لکھنے کا تذکرہ دراصل اس وظیفہ سے تعلق رکھتا ہے جو نواب صاحب بھوپال کے وظیفہ کے بعد راس مسعود کی سعی و کوشش سے سر آغا خاں نے اقبال کو دنیا منظرو کر لیا تھا۔ اقبال کی فقر و مستی سادہ روی قناعت پسندی احسان شناسی اور دوست نوازی کے سلسلے میں ان کا یہ خط جو ۱۱ دسمبر ۱۹۳۵ء کا تحریر کردہ ہے کتنے ہی گوشے بے نقاب کرتا ہے اور ہمارے دل میں اقبال کی عظمت دو چند ہو جاتی ہے۔ اس خط میں جس صاف دلی بے باکی اور اعلیٰ ظرفی کا اظہار کیا گیا ہے اس کی مثال مشکل ہی سے کہیں اور مل سکے گی۔ لکھتے ہیں: ’’لاہور… ۱۱دسمبر ۱۹۳۵ء ڈیر مسعود۔ کل خط لکھ چکا ہوں۔ آج اس تمام معاملے پر کامل غور و فکر کرنے کے بعد پھر لکھتا ہوں۔ آ پ اس خط کو کانفیڈنشل تصور فرمائیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے آپ سے بھوپال میں آپ کے بیڈ رو م میں گفتگو کی تھی۔ میرا خیال تھا کہ میرا خیال معلوم کرلینے کے بعد آپ نے شاید اس تجویز کو ڈراپ کر دیا ہو گا۔ اس کے بعد جس مسٹری کا آپ نے مجھ سے ذکر کیا تھا میں سمجھ رہا تھا کہ یہ کوئی اور معاملہ ہے۔ بہرحال آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ اور اگر کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طر بھی مسلمان کے شایان شان نہیں۔ آ کو میرے اس خط سے یقینا کوئی تعجب نہ ہو گا۔ کیونکہ جن بزرگوں کی آ پ اولاد ہیں اور جو ہم سب کے لیے زندگی کا نمونہ ہیں ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہا ہے ان حالات پر نظر کرتے ہوئے مجھے اس رقم کو قبول کرتے ہوئے حجاب آتا ہے اور میں بے حد تذبذب کی حالت میں ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کی ہز ہائی نس آغاخاں سے کیا خط و کتابت ہوئی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ میری اس تحریر کو ناشکری پر محمول نہ کیا جائے۔ بہرحال میں نے ہز ہائی نس آغا خان کو شکریہ کا خط لکھ دیا ہے۔ گواس میں مندرجہ بالا خیالات کا اظہار نہیں کیا گیا اور اخلاقاً مجھے ایسا کرنے کی جرات بھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آپ جب اس معاملے پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے بہت پہلو ہیں اور میں نے تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر آپ کو یہ خط لکھا ہے۔ آپ مہربانی کر کے مجھ کو جلد اس امر سے اطلاع دیں کہ آیا آپ کو میرے ان خیالات سے اتفاق ہے یا نہیں۔ اگر اتفاق نہیں ہے تو اس تجویز کا ڈراپ کرنا قرین مصلحت نہیں ہے تو پھر میں ایک اور تجویز پیش کرتا ہوں کہ وہ ہز ہائی نس آغا خاں یہ پنشن جاوید کو عطا کر دیں۔ ا س وقت تک کہ ا س کی تعلیم کا زمانہ ختم ہو جائے یا جس وقت تک ہز ہائی نس مناسب تصور کریں بعض پرائیویٹ وجوہات کی بنا پر جن کا کچھ نہ کچھ حال آپ کو بھی معلوم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ا س کی تعلیم کی طرف سے بہ کلی اطمینان ہو جائے ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہز ہائی نس آغا خاں میری اس تجویز کی نسبت کیا خیال کریں گے۔ میں نے اپنی مشکلات کا حال آپ کو لکھ دیا ہے۔ اب آپ جو تجویز چاہیں کریں اور مجھ کو اپنے خیالات سے مطلع کریں جہاں تک جلد ممکن ہے۔ آخری فیصلے تک اس بات کا پریس میں جانا مناسب نہیں ہے۔ امید ہے مزاج بخیر ہوگا۔ والسلام محمد اقبال…لاہور ۱؎‘‘ اس خط کے یہ جملے غور طلب ہیں: ’’… اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مختص فرمائی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ اور اگر کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں ۔بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ آپ کو میرے خط سے یقینا کوئی تعجب نہ ہو گا۔ کیونکہ جن بزرگوں کی آپ اولاد ہیں اور جو ہم سب کے لیے زندگی کا نمونہ ہیں ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ راس مسعود کو اقبال کی مالی دشواریوں ان کی گرتی ہوئی صحت اور چند در چند پریشانیوں کا ذاتی طور پر علم تھا۔ نواب صاحب بھوپال کے وظیفہ کے اجرا کے بعد انہوںنے ذاتی طور پر بھی نواب صاحب بھوپال کے وسیلے سے آغا خاں سے مراسلت کی اور یہ کوشش کی کہ وہ بھی اقبال کا پانچ سو روپے وظیفہ مقرر کر دیں تاکہ وہ آسائش و اطمینان سے زندگی بسر کر سکیں اور بچوں کی تعلی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ حیدر عباسی صاحب ۲؎ کا بیان ہے کہ سر راس مسعود کی تجویز جب انہیں موصول ہوئی تو انہوںنے نواب بھوپال کے ایما سے اسے خصوصی سفارش کے ساتھ آغا خاں کو بھیج دیا جس کی جلد ہی منظوری آ گئی۔ لیکن اقبال ان واقعات سے قطعی لاعلم اور بے خبر تھے ۔ انہیں تو راس مسعود کے خط ہی سے سر آغا خاں کے وظیفہ کی منظوری کا علم ہوا اور جب انہیںعلم ہوا تو وہ عجب الجھن میں پڑ گئے۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۷۲تا۳۷۶ ۲؎ سابق مشیر المہام صیغہ سیاسیہ ریاست بھوپا ل جو کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ بالا خط کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اس الجھن سے قطع نظر ان کے جذبہ احسان مندی کا بھی اندازہ لگائیے کہ وہ اپنے عزیز ترین دوست کو کس بے باکی سے یہ لکھتے ہیں کہ جو رقم نواب صاحب بھوپا ل نے مقرر کر دی ہے وہ ان کے لیے کافی ہے اور کافی نہ بھی ہو تو تب بھی وہ امیرانہ زندگی کے عادی نہیں۔ یہ ہے وہ طرز فکر اصول زندگی اور انسانیت کی اعلیٰ قدر جو مفکر مشرق کو قدرت کی جانب سے عطا ہوئی تھی اور جسے اپنا کر انہوںنے ایک سچے مسلمان کی ان تمام خصوصیات کو اجاگر کیا جس سے رسول کریمؐ کی ساری زندگی عبارت ہے۔ راس مسعود کی خواہش پر انہوںنے سر آغا خاں کو شکریہ کا خط تو لکھوا دیا لیکن وہ خود ان کی پیش کش قبول کرنے کے لیے آماد ہ نہیں تھے۔ چنانچہ مندرجہ بالا خط میں انہوںنے یہ تجویز پیش کی کہ پنشن کی رقم جاوید کو عطا کر دی جائے تاکہ اس کی تعلیم مکمل ہو سکے۔ چنانچہ راس مسعود نے اقبال کے جذبات و خیالات کو نہ صرف سراہا بلکہ دلی اعتراف بھی کیا کہ اور پھر یہ کوشش بھی کی کہ سر آغاخاں کی پنشن دونوں بچوں جاوید اور منیرہ کے نام منتقل ہو جائے اور ایک ٹرسٹ کی نگرانی میں صرف کی جائے تاکہ دونوں بچوں کی تعلیم میں کسی قسم کی پریشانی پیدا نہ ہو۔ لیکن افسوس کہ قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ ابھی ان کی مساعی جمیلہ کا سلسلہ جاری تھا کہ راس مسعود کا بلاوا آ گیا اور وہ معبود حقیقی سے جا ملے اور ان خوابوں کا شیرازہ ہی بکھر گیا جو وہ سوتے جاگتے اپنے پیارے دوست اقبال کی سود و بہبود کے لیے دیکھتے تھے۔ ان واقعات کی تصدیق فقیر سید وحید الدین مصنف روزگار فقیر کے بیان سے بھی ہوتی ہے جو شان استغنا کے عنوان سے شامل کتاب ہے۔ اس کے مطالعہ سے جہاں نواب حمید اللہ خاں اور سر آغا خاں کے وظائف کے سلسلے میں راس مسعود کی پر خلوص سعی و جہد کا علم ہوتا ہے وہیں اقبال اور راس مسعود کے قریبی روابط پر بھی روشنی پڑتی ہے اور یہ اندازہ ہوتا ہے کہ راس مسعود اقبال سے کتنی گہری اور شدید محبت کرتے تھے اور ان کی آسائش و آسودگی کے لیے وہ کسی خلوص اور لگن سے آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ ’’…ڈاکٹر صاحب کے یوں تو بہت سے احباب تھے مگر راس مسعود کی محبت اور لگائو کا یہ عالم تھا کہ وہ اٹھتے بیٹھتے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ہر وقت سوچتے رہتے۔ فکر اس بات کی کہ ڈاکٹر صاحب کی علالت طویل سے طویل تر ہوتی چلی جا رہی ہے ان کے مالی حالات بھی اچھے نہیں ہیں آخر کار ڈاکٹر صاحب کے حالات پر بہت کچھ غور کرنے کے بعد نواب سر حمید اللہ خاں فرماں روائے بھوپال اور سر آغا خاں سے سلسلہ جنبنانی کی اور بڑے عزت و وقات کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے معاملے کو پیش کیا۔ سر راس مسعود خود اپنی جگہ ممتاز شخصیت رکھتے تھے۔ پھر جو شخصیت موضوع فکر و گفتگو تھی وہ سب کے نزدیک محترم اور قابل عزت و تکریم تھی۔ چنانچہ انہوںنے نواب صاحب بھوپال اور سرآغاخاں کو پانچ پانچ روپے ماہوار کے وظائف کے لیے آمادہ کر لیا ۔ جب یہ معاملہ طے پا گیا تو سر راس مسعود نے جو اس وقت بھوپال کے وزیر تعلیم بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو اس واقعہ کی اطالع دی اور انہوںنے ڈاکٹر صاحب سے التجا کی کہ میں نے آپ کے ایماء کے بغیر یہ کوشش کی ہے آپ اس پیش کش کو قبول فرما لیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی قانونی پریکٹس عرصہ سے موقوف تھی۔ بیماری کے تسلسل نے ان کے مالی حالات کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ ان کی ضروریات وسیع بھی تھیں اور ناگزیر بھی۔ ایسے اعالم میں ایک ہزار روپے ماہوار کی آمدنی سبیل کتنی بڑی چیز تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب قلندر صفت اور درویش مزاج واقع ہوئے تھے۔ وہ بڑے عالی ظرف اور طبیعت کے مستغنی تھے انہوںنے سر راس مسعود کا یہ مشورہ تو قبول کر لیا اوران کی بات مان لی مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میری مدجودہ ضروریات کے لحاظ سے پانچ سو روپیہ ماہوار میرے لیے کافی ہیں۔ اس سے زیادہ خرچ کی مجھے عادت نہیں اس لیے نواب صاحب بھوپال کے وظیفہ پر اکتفا کی جائے اور سر آغا خاں سے وظیفہ نہ لیا جائے۔ سر راس مسعود نے ڈاکٹر اقبال کے اس جواب میں اور ان کی قناعت پسند روش کو بہت سراہا لیکن ساتھ ہی اس امر کے لیے کوشاں ہوئے کہ سر آغاخاں والے وظیفہ کی رقم ماہ بہ ماہ کسی بینک میں جمع ہوتی رہے اور ڈاکٹر صاحب کے دونوں بچوں جاوید اور منیرہ کی تعلیم و تربیت میں دشواری پیش آنے پر ایک ٹرسٹ کی نگرانی میں اسے صرف کیا جائے۔ یہ اقدام بڑی دور اندیشی پر مبنی تھا لیکن قدرت کا فیصلہ کون بدل سکتا تھا۔ چنانچہ اس سے قبل کہ اس مقصد کے لیے باقاعدہ ٹرسٹ قائم کیا جاتا یا سر آغا خاں وظیفہ کی ادائیگی شرو ع کرتے سر راس مسعود ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ہی رفیق اعلیٰ ۱؎ سے جا ملے اور یہ بساط ہی الٹ گئی‘‘۔ ۲؎ سر آغا خاں کے وظیفہ کے سلسے میں سر راس مسعود کو خط لکھنے کے فوراً بعد انہیں ویانا سے ڈاکٹر مظفر علی کا خط بھی موصول ہو گیا اور جب اس خط سے انہیں یہ علم ہوا کہ ان کے کاغذات ابھی تک ویانا نہیں پہنچے ہیں تو انہوںنے دوسرے ہی روز یعنی ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء کو پھر ڈاکٹر سید عبدالباسط کو تفصیلی خط لکھا اور کاغذات کے بارے میں معلومات فرمائی اور پھر درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر رحمن ارو ڈاکٹر خان بہادر سے کہہ کر ہسٹری شیٹ دوبارہ تیار کر ا دیں تاکہ جنوری ۱۹۳۶ء کے پہلے ہفتہ میں وہ بھوپال آنے کے بعد اسے نئے فوٹو کے ساتھ ویانا بھیج دیں۔ ۱؎ یہ حادثہ جانکاہ اگرچہ اقبال کے تیسرے قیام بھوپال کے بعد رونما ہوا لیکن چونکہ اس کا تعلق اقبال کے ۱۱ دسمبر ۱۹۳۵ء کے خط سے تھا اس لیے تاریخی اور واقعاتی تسلسل قائم رکھنے کے لیے اسے ان صفحات میں شامل کیا گیا۔ ۲؎ روزگار فقیر ۔ صفحہ ۱۶۰تا۱۶۳ کاغذات اور فوٹو کا ویانا نہ پہنچنا تعجب خیز تھا حالانکہ راس مسعود بھی انہیں کاغذات بھیجنے کے بارے میں لکھ چکے تھے۔ اور ڈاکٹر عبدالباسط بھی۔ بہرطور اب تو اقبال کے بھوپال پہنچنے کے بعد ہی ان کی دوبارہ ترسیل ممکن تھی۔ وہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں بھوپال جانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اسی عرصہ میں مجلس احرا ر اور جماعت احمدیہ کے مذہبی اورسیاسی جھگڑے نے نازک صورت اختیار کر لی جس سے پنجاب کی فضا کافی مکدر ہو گئی اقبال نے ختم نبوت پر جو بیان دیا تھا وہ ہر اعتبار سے مکمل اور جامع تھا لیکن پنڈت نرو نے اس بیان پردیدہ و دانستہ ایک ایسا بیان دیا تھا جس سے نہ صرف اقبال کے نظریات پر ضرب پڑتی تھی بلکہ جو اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کو بھی ظاہر کرتا تھا۔ چنانچہ اقبال نے اس کی وضاحت کو ضروری سمجھا اور جوابی بیان لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران ایک ایرانی النسل سید زادے جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا انہوںنے علاج شروع کر دیا جس سے انہیں خاصا فائدہ ہوا ۔ چنانچہ بھوپال جانے کا پروگرام انہوںنے فی الوقت ملتوی کر دیا جیسا کہ نذیر نیاز ی کے نام ۳ جنوری ۱۹۳۶ء کے اس خط سے ظاہر ہے: ’’ڈیر نیازی صاحب میں خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔ ایک ایرانی الاصل سید زادے کی دوا نے بہت فائدہ کیا عجب کہ آواز پھر عود کر آئے اس کا دعویٰ تو یہی ہے۔ اسی واسطے میں نے چند روز کے لیے بھوپال جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ سردی بھی بہت ہے۔ غالباً جنوری کے آخر میں جائوں گا۔ مضمون ۱؎ ختم ہو گیا ہے پمفلٹ کی صورت میں شائع ہو گا۔ غالباً تیس چالیس صفحے ہوں گے۔ آپ ٹائپ ہو گا۔ ٹائپ ہونے کے بعد میں پھر نظر ثانی کر کے پریس میں دوں گا۔ والسلام محمد اقبال ۳ جنوری ۱۹۳۶ئ۔ ۲؎‘‘ اقبال اس تمام عرصہ میں اپنے مضمون پر نظر ثانی کرتے رہے اور ایرانی النسل سید زادے کا علاج بھی جاری رہا۔ چند در چند مصروفیتوں کے سبب ابھی تک وہ بھوپال جانے کے پروگرام کو آخری شکل نہیں دے سکتے تھے۔ جیسا کہ ذیل کے خط سے بھی ظاہر ہے۔ ’’ڈیر نیازی صاحب! آپ کا خط مل گیا ہے ۔ اس سے پہلے میں نے آپ کو ایک پوسٹ کارڈ بجواب آپ کے ایک پہلے خط کے لکھا تھا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کارڈ آپ تک نہیں پہنچا۔ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ صحت اچھی ہے۔ آواز کا بھی علاج ہو رہا ہے مضمون کا آخری پروف میں نے آج بھیجا ہے۔ امید ہے کہ آج شام یا کل شام تک چھپ جائے گا انشاء اللہ میں آپ کو کل پرسوں تک اس کی کاپی ارسال کر سکوں گا۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ میں جنوری کے آخر یا مارچ کے پہلے ہفتہ میں بھوپال جانے کا قصد رکھتا ہوں۔ والسلام محمد اقبال ۔لاہور۔ ۱۷ جنوری ۱۹۳۶ء راجہ صاحب ۳؎ سے سلام کہہ دیجیے گا‘‘۔ ۴؎ انگریزی مضمون حسب توقع شائع ہو گیا اور نیازی صاحب نے اس کا اردو ترجمہ شروع کر دیا۔ اسی سلسلے میں ایک اصطلاح زیر بحث آ گئی اورنیازی صاحب نے اس سے دریافت کیا کہ جس کے جواب میں انہوںنے وضاحت فرما دی اور بھوپال جانے کے پروگرام سے بھی انہیں مطلع کر دیا۔ ’’ڈیر نیازی صاحب آپکا خط ابھی ملا ہے اورالحمد للہ کہ آپ خیریت سے ہیںَ میرا حال بھی خدا کے فضل سے بہتر ہے۔ انشاء اللہ وسط فروری میں بھوپال جانے کا قصد ہے۔ Major Occultationکا مطلب ہے غیبت کبریٰ۔ محمدا قبال۔ ۲۸ جنوری ۱۹۳۶ء ۔ لاہور ۱؎‘‘ ۱؎ یہ مضمون بعد میں ’’اسلام اور احمدیت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ ۲؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۱۵۔ ۳؎ مراد راجہ حسن اختر جوان دنوں دہلی میں میرے ہاں مقیم تھے۔ (نیازی) ۴؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۱۵۔۳۱۶ لاہور کی گوناگو ں مصروفیات کے ساتھ ساتھ بھوپال سے ا کا قلمی تعلق بدستور قائم تھا اور وہ وقفہ وقفہ سے اپنے عزیز دوست راس مسعود اور خصوصی معالج ڈاکٹر سید عبدالباسط کو خط برابر لکھتے رہے۔ ذیل کا عکسی خط جو انہوںنے ۹ فروری ۱۹۳۶ء کو ڈاکٹر سید عبدالباسط کو ارسال کیا ہے۔ راس مسعود کی علالت ان کے سفر کلکتہ اور فروری کے آخری ہفتہ میں بھوپال آنے کے قصد پر روشنی ڈالتا ہے۔ ۱؎ کلکتہ کا سفر۔ دراصل تعلیمی کانفرنس میں شرکت سے متعلق تھا جہاں راس مسعود نے فروری ۱۹۳۶ء کو (بقیہ نوٹ اگلے صفحہ پر) نزلہ کی موسمی شکایات کے علاوہ اقبال کی عام صحت رو بہ ترقی تھی اور وہ فروری کے آخری ہفتہ میں بھوپال جانے اور بجلی کا مزید علاج کرانے کا پروگرام بنا چکے تھے جیسا کہ مندرجہ بالا خط سے ظاہر ہے۔ ۱۲ اور ۱۵ فروری ۱۹۳۶ء کے خطوط میں انہوںنے نذیر نیازی کو بھی بھوپال کے پروگرام سے مطلع کر دیا : ’’میں فروری کے آخری ہفتہ میں بھوپال کا قصد رکھتا ہوں‘‘۔ ۱؎ بالآخر بھوپال جانے کا پروگرام طے ہو گیا۔ تو انہوںنے نیازی صاحب کو اطلاع دی۔ ’’ڈیر نیازی صاحب۔ السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے ۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے اور میں بھی خداکے فضل سے کسی قدر بہتر ہوں۔ ۲۸ فروری یا یکم مارچ کو بھوپا ل کا قصد رکھتاہوں۔ جاتی دفعہ دہلی نہ ٹھہروں گا۔ انشاء اللہ بھوپال سے واپسی پر تنصل خا نے میں ایک آدھ روز قیام رہے گا۔ کہ سردار صلاح الدین اصرار کرتے ہیں۔ روانگی سے پہلے آپ کو پھر خط لکھوں گا۔ ارادہ یہ ہے کہ تمام دن دہلی سٹیشن پر ہی رہوں گا۔ وہاں سے پانچ بجے شام کی گاڑی میں بھوپال روانہ ہو جائوں گا۔ آپ پہلے سے اس گاڑی کا وقت معلو م کر چھوڑیں۔ والسلام محمد اقبال …لاہور ۹ فروری ۱۹۳۶ء ‘‘۔ ۲؎ نیازی صاحب لکھتے ہیں: ’’…میں نے سردار صاحب کی خدمت میں اطلاع دی کہ انہیں بڑی شکایت تھی کہ حضرت علامہ براہ راست ریاست بھوپال جا رہے ہیں قنصل خانے میں قیام نہیں فرمائیں گے۔ ۲۶ کو اطلاع موصول ہوئی۔ ’’لاہور ۲۵ فروری ۱۹۳۶ء ڈیر نیازی صاحب ۔ السلام علیکم میں یہاں ۲۹ فروری کی شب فرنٹیر میل سے ۳؎ چلوں گا یا دوسری ٹرین میں جو اس کے قریب ہی لاہور سے چلتی ہے۔ بہرحال یکم مارچ کی صبح کو دہلی پہنچ کر دن بھر وہیں قیا م کروں گا۔ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) سینٹ ہائوس میں تقریر فرمائی تھی جس کی یہ عبارت آج بھی انگریزی زدہ ذہنوں کے لیے تازیانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ’’ہندوستانی طلبہ اپنے ملک کی تاریخ میں ایک ایسی زبان سیکھ رہے ہیں جو ان کی زبان ہے نہ استاد کی کیا کوئی اس سے بھی زیادہ مہمل بات ہو سکتی ہے کہ جو تعلیم اس قسم کے مصنوعی اور خلاف فطرت ماحول میں حاصل کی جائے اور وہ ہرگز قوم کے لیے ایک حیات بخش قوت نہیں بن سکتی ۲؎‘‘۔ ۲؎ مرقع مسعود صفحہ ۱۸ ۱؎ اقتباس مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۳۲۱و ۳۲۴ ۲؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۳۲۵ ۳؎ ’’سے‘‘ سہواً رہ گیا۔ ۴۔۵ بجے بعد دوپہر جو ٹرین دہلی سے بھوپال کی طرف جاتی ہے۔ اس میں سوار ہو کر ۲ مارچکو بھوپال پہنچوں گا۔ اطلاعاً گزارش ہے۔ والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘۔ نیازی صاحب کو بھوپال کی روانگی کے پروگرام سے مطلع کرنے کے علاوہ انہوںنے بیگم راس مسعود کو بھی اطلاع دے دی کہ وہ ۲۹ فروری کا لاہور سے روانہ ہو رہے ہیں جیسا کہ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خط میں راس مسعود کو کئی خط لکھنے اور ان کے جواب نہ دینے کا شکوہ بھی کیا گیا ہے۔ نیز ڈاکٹر عبدالباسط کو خط بھیجنے کا تذکرہ بھی ہے اورشعیب صاحب کو آمد کے پروگرام سے مطلع کرنے کا اظہار بھی۔ اس خط میں بیگم راس مسعود کی چند فرمائشوں کا ذکر بھی ملتا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بیگم راس مسعود بھی اقبال کو خط لکھتی رہتی تھی۔ افسوس کہ سعی و تلاش کے باوجود بیگم راس مسعود اور اقبال کے خطوط دستیاب نہ ہو سکے۔ اسی خط سے مجھے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بار وہ ایک ماہ سے زیادہ بھوپال میں قیام کا ارادہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ ایسٹر کی تعطیلوں میں انجمن حمیات اسلام کا لاہور میں سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا تھا جس میں ان کی شرکت اور موجودگی ضروری تھی۔ اس کے علاوہ بھی بعض خاص حالات کی بنا پر وہ جلد لاہور لوٹنا چاہتے تھے لیڈی مسعود کے نام اقبال کے خط کا متن یہ ہے۔ ’’لاہور… ۲۵ فروری ۱۹۳۶ء ڈیر بیگم صاحبہ آپ کا والا نامہ مل گیا ہے نان خطائی کے لیے تو میں نے کئی دن سے کہہ رکھا ہے۔ انشاء اللہ ۲۷ تک امرتسر سے تیار ہو کر آ جائے گی۔ قصور کی میتھی بھی امید (ہے۲؎) کل تک یا پرسوں تک مل جائے گی۔ ہمراہ لائوں گا۔ میں انشاء اللہ العزیز ۲۹ فروری کی شا م کو یہاں سے روانہ ہو کر ۲ مارچ کی دوپہر آپ کی خدمت میں پہنچوں گا۔ مہربانی کر کے شعیب صاحب کو مطلع کر دیجیے گا۔ مسعو د صاحب سے بھی سلام کہیے۔ انہوں نے میرے کسی خط کا جواب نہیں دیا آج ڈاکٹر صاحب عبدالباسط کو بھی خط لکھا دیا ہے۔ اب ایک ماہ سے زیادہ نہ ٹھہر سکوں گا۔ کیونکہ ایسٹر کی تعطیلوں میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا سالانہ جلسہ ہے اور بعض خاص حالات کی وجہ سے ان دنوں میرا یہاں موجود ہونا ضروری ہے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ محمد اقبال ۳؎‘‘۔ چنانچہ نیازی صاحب کے علاوہ لیڈی مسعود ڈاکٹر عبدالباسط اور چند دیگر احباب او رنیازمندوں کو خطوط لکھنے کے بعد وہ حسب پروگرام یکم مارچ ۱۹۳۶ء کو دہلی پہنچے۔ دن کا کچھ حصہ سٹیشن پر اور کچھ وقت سر دار صلاح الدین کی معیت میں قونصل خانے میں گزارا اور شام کی ٹرین سے بھوپال کے لیے روانہ ہوئے۔ اور ۲ مارچ ۱۹۳۶ء کو تیسری بار بسلسلہ علاج و قیام بھوپال پہنچے۔ ریلوے سٹیشن پر راس مسعود‘ ممنون حسن خاں ڈاکٹر سید عبدالباسط اور دیگر نیاز مندوں نے ان کا استقبال کیا اور انہیں سرکاری قیام گاہ شیش محل لے گئے جسے دوسری بار شاعر مشرق کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا! ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۲۵۔۳۲۶ ۲؎ ’’ہے‘‘ سہواً رہ گیا۔ ۳؎ اقبال نامہ(جلد اول) صفحہ ۳۹۰۔۳۹۱ ٭٭٭ بھوپال کا تیسرا قیام ۲مارچ تا ۸ اپریل ۱۹۳۶ء شیش محل کی ویران فضا ایک بار پھر اقبا اور ان کے نیاز مندوں سے آباد ہو گئی۔ بھوپال میں یہ ان کا تیسرا اور آخری قیام تھا۔ اگرچہ بعض خطوط میں انہوںنے پھر بھوپال جانے کا تذکرہ کیا ہے لیکن افسوس کہ چند وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہ ہو سکا۔ اس قیام کے دوران سب سے پہلے تو انہوںنے اپنے علاج پر توجہ مبذول کی۔ ڈاکٹر رحمن ڈاکٹر باسط وغیرہ نے ان کا تفصیلی معائنہ کیا اور بجلی کے علاج کا تیسرا کورس شروع کیا۔ اس بار ان کی عام صحت نسبتاً بہتر تھی۔ راس مسعود اور دیگر نیاز مندان بھوپال کو اقبال کے اس قیام سے پھر ایک بار قرب و استفادہ کا موقع مل گیا عبدالحئی کا کہنا ہے کہ صبح کا بیشتر وقت حمیدیہ ہسپتال کی نذر ہوجاتا تھا۔ جہاں بڑی بڑی توجہ سے ان کے علاج کا تیسرا کورس شروع ہو گیا تھا۔ دوپہر میں آپ آرام و مطالعہ فرماتے۔ آپ کا دیرینہ ملازم علی بخش آپ کے اس سفر میں بھی ہمراہ تھا۔ اس کے علاوہ سرکاری طور پر بھی کئی ملازمین اقبال کی خدمت خبر گیری اور دیکھ بھال پر متعین تھے۔ ریاست کی طرف سے سواری موٹر وغیرہ کا بھی انتظام تھا او رعلاج معالجہ کا بھی سہ پہرکو آپ اکثر ہوا خوری کرنے کے لیے کبھی شملہ پہاڑی ۱؎ کبھی کملا پتی پارک ۲؎ کبھی یادگار شاہجہانی ۳؎ تشریف لے جاتے۔ والد صاحب اکثر آ پ کے ہمراہ جاتے۔ کبھی کبھی میں بھی ساتھ ہو لیتا شا م کو راس مسعود خود اقبال کی قیام گاہ پر یا اقبال راس مسعود کے دولت کدہ ریاض منزل پر تشریف لے جاتے ۔ رات نو دس بجے تک راس مسعود بیگم راس مسعود کی معیت میں دلچسپ موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ کبھی کبھی دیگر عمائدین شہر بھی وہاں آ جائتے تو محفل گرم ہو جاتی۔ اکثر و بیشتر جو موضوع زیر بحث رہتا وہ اسلام کی عظمت سلاطین اسلام کے کارناموں ہندوستان کے مسلمانوں کی ابتری انگریزی تسلط کے خاتمہ کی تدابیر اور ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی پر مبنی ہوتا تھا۔ اقبا ل کو ان دنوں سب سے زیادہ جس مسئلے سے دلچسپی تھی۔ وہ ملت اسلامیہ اور تقسیم ملک کے مسئلے تھے اور سچ پوچھیے تو یہی مسئلے آگے چل کر تحریک پاکستان کی اساس قرار پائے۔ اور نواب حمید اللہ خاں جو اقبال کے الفاظ میں: حمید اللہ خاں اے ملک و ملت را فروغ از تو ز الطاف تو موج لالہ خیزد ازخیا بانم ۱۔۲۔۳؎ بھوپال کی مشہور اور دل آویز تفریح گاہیں۔ کی مجسم تفسیر تھے۔ تقسیم ہند کے سخت و عظیم مرحلے کے دوران قائد اعظم ؒ کے دست راست ثابت ہوئے اور بالآخر ا س دستاویز پر انہوںنے گاندھی جی کے دستخط کرا لیے جس کی رو سے مسلم لیگ کو ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا گیا۔ اور اس طرح پاکستان کا قیام عمل میں آ سکا۔ مجھے اس دستاویز کی مدت سے تلاش تھی جس پر قائد اعظم نے مسلم لیگ کی جانب سے اور گاندھی جی نے کانگریس کے نمائندہ کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال کی صاحبزادی اور ولیعہدہ ریاست شہزادی عابدہ سلطان اگرچہ کراچی میں ہی سکونت پذیر ہیں لیکن تقریبا دو سال تک سعی و کوشش کے باوجود ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ بالآخر ۶ ۱ جولائی ۱۹۶۸ء کو بہ معیت جناب حسن عزیز جاوید مجھے شرف بازیابی مل گیا اور میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف اس تاریخی دستاویز کا کھوج لگایا بالکہ نواب صاحب اور اقبال سے متعلق بھی بعض ایسے واقعات دریافت کر لیے جن کا علم اس سے پہلے کسی کو نہ تھا۔ اس انٹرویو کی تفصیلات آئندہ صفحات میں پیش کی جائیں گی۔ بات کچھ دور جا پڑی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کے باہمی روابط کے ابھی کتنے ہی گوشے تاریکی میں ہیں۔ اس کا سب سے بڑا سبب اس موضوع سے محققین کی دانستہ یا نادانستہ بے تعلقی یا عدم دلچسپی رہی۔ پھر چالیس سال سے زیادہ عرصہ بیت جانے کے باعث کتنی ہی متعلقہ اور اہم شخصیتیں ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اس طرح علم و آگیہ اور تحقیق و تلاش کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئیں۔ اور دنیا اقبال ‘ نواب حمید اللہ خاں‘ بھوپال اور سر راس مسعود کے قریبی اور خصوصی تعلقات اور کتنے ہی مستند واقعات سے آج تک لاعلم ہے۔ بھوپال آتے ہی اقبال نے خیرتی سے پہنچنے کی اطالع سب سے پہلے نیازی صاحب کو دی۔ انہیں نیازی صاحب کے رسالہ ’’طلوع اسلام‘‘ سے خصوصی دلچسپی تھی۔ اور وہ چاہتے تھے کہ یہ رسالہ رند رہ کر اور مالی اعتبار سے مستحک ہو کر ملک و قوم کی بیش از بیش خدمت کر سکے۔ چنانچہ انہوںنے راس مسعود سے ا س کا تذکرہ کیا اور سرکاری امداد ک لیے بھی ان سے گفتگو کی خود بھی نواب صاحب سے اس رسالہ کا تذکرہ کرنے کا اظہار کیا۔ لکھتے ہیں: ’’بھوپال… شیش محل ۳ مارچ ۱؎ ڈیر نیازی صاحب میں کل مع الخیر بھوپال پہنچ گیا۔ سید راس مسعود کے پاس کوئی نمبرطلوع اسلام کا آج تک نہیں پہنچا۔ ان کے نام تمام نمبر فوراً بھجوا دیجیے مزید کوشش بھی کی جائے گی ۔ سید صاحب کانام بیھ اپنے خریداروں میں لکھ لیجیے۔ میں نے ان سے آپ کی مدد کا وعدہ لے لیا ہے اور اعلیٰ حضرت سے خود بھی کہوں گا۔ افغانستان والے معاملے کو بھی Pursue کرنا چاہیے۔ باقی ہر معاملے میں خدا پر بھروسہ رکھنا مسلمان کا کام ہے۔ محمد اقبال ۲؎‘‘۔ ۱؎ ’’۱۹۳۶ئ‘‘ سہواً رہ گیا۔ ۲؎ مکتوبا ت اقبال صفحہ ۳۲۶ اس خط سے اقبال کی دردمندی کا اظہار ہی نہیں ہوتا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ قومی کارکنوں اور ملت کے خدمت گزاروں کی کتنی حوصلہ افزائی اور عملی ہمدردی کا جذبہ اپنے دل میں رکھتے تھے۔ اس خط کے بعد ۸ مارچ کو انہو ں نے پھر نیازی صاحب کو قدرے تفصیلی خط ارسال کیا جس میں عرض داشت کے مضمون وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ اس خط میں نواب صاحب بھوپال کے بارے میں ان کی یہ گراں قدر رائے تھی: ’’اس وقت سارے ہندوستا ن میں علمی اداروں اور رسالوں کی حوصلہ افزائی کرنے والی سوائے اعلیٰ حضڑت کی ذات والا صفات کے اور کون ہے؟‘‘ اس سے واضح ہوتا طور پر نواب صاحب کے ساتھ ان کے دلی تعلقات اور جذبات محبت و عقیدت کی نشان دہی ہوتی ہے ۔ انہوںنے جس محبت سے نواب صاحب کے نام رعض داشت کے لیے یہ جملہ نیازی صاحب کو لکھ کر بھیجا ہے اس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہو جاتی ہے کہ اس وقت بلا خوف تردید نواب حمید اللہ خاں کے سوا پورے ہندوستان میں واقعی کوئی ایسی درد مند صاحب دل اور صاحب نظر شخصیت موجود نہیں تھی۔ طلوع اسلام کا مقصد جیسا کہ نیازی صاحب نے بھی لکھا ہے۔ ملت اسلامیہ کی ذہنی اور فکری تعمیر تھا۔ اور اقبال کو اس مقصد سے گہری وابستگی تھی چنانچہ وہ نیازی صاحب کی ممکنہ امداد بھی ضروری سمجھتے تھے۔ فرماتے ہیں: ’’بھوپال …۸ مارچ ۱۹۳۶ء ڈیر نیازی صاحب… السلام علیکم امید ہے یہ خط آپ کو دہلی میں مل جائے گا۔ آپ ایک عرض داشت اعلیٰ حضرت کے نام رسالہ طلوع اسلام کی مدد کے لیے لکھیے۔ اور تینوں رسالے بھی ان کے نام ارسال کر دیجیے۔ عرض داشت میں رسالہ کے اغراض و مقاصد اور اس کا نصب العین عمدہ الفاظ میں بیان کیجیے۔ نیز یہ بھی لکھیے کہ اس وقت سارے ہندوستا ن میں علمی اداروں اور رسالوں کی حوصلہ افزائی کرنے والی سوائے اعلیٰ حضرت کی ذات والاصفات کے اور کون ہے؟ یہ عرض داشت میرے نام ارسال کیجیے تاکہ میں اس پر اپنی سفارش لکھ کر سید راس مسعود کے پاس بھیج دوں۔ والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘ اس خط کے سلسلے میں نیازی صاحب کا بیان ملاحظہ ہو: ’’…میری سمجھ میں نہیں آتا تھا اعلیٰ حضرت سے کس بنا پر طلوع اسلام کی امداد کے لیے درخواست کروں۔ عرض داشت کا مضمون بھی ذہن میں نہیں آتا تھا۔ احباب سے ذکر کیا تو انہوںنے کہا کہ یہ درباری کے معاملات ہیں۔ تم ان سے عہدہ برا نہیں ہو سکو گے۔ ویسے حضرت علامہ کے ارشاد کی تعمیل ضروری ہے۔ بہرحال جوں جوں تو ں کر کے ایک عرض داشت مرتب کی لیکن گھربار چونکہ لاہور میں منتقل ہو رہا تھا لہٰذا اس کی ترسیل میں غیر معمولی تاخیر ہو گئی۔ آخر مارچ میں لاہور منتقل ہو گیا۔ …حضرت علامہ نے مجھے خاموش پایا تو میرے مرحوم دوست سید سلامت اللہ کو خط لکھا حضرت علامہ کو طلاع اسلام اور میرے مستقبل کا کس قدر خیال تھا ارشاد ہوا ۱؎‘‘ ۱؎ مکتوبات اقبال ۔ صفحہ ۳۲۷ ’’بھوپال …۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء ڈیر سلامت اللہ شاہ صاحب معلوم نہیں نیازی صاحب لاہور پہنچے یا نہ پہنچے۔ میں نے جو خط ان کو لکھا تھا ا س کا کوئی جواب انہوںنے نہیں دیا۔ میں نے ان کو لکھ دیا تھا کہ طلوع اسلام کی مدد کے لیے ایک عرض داشت اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال کے نام لکھ کر میرے نام فوراً ارسال کر دیں عرض داشت کا مضمو ن بھی میں نے اس خط میں لکھ کر دیا تھا۔ وہ اب تک خاموش ہیں۔ اگر انہوں نے تساہل کیا تو معاملہ دوسرے سال پر پڑ جائے گا۔ اس وقت بجٹ تیار ہو رہا ہے۔ اگر وہ فوراً عرض داشت بھیج دیں تو کام اسی سال ہوجائے گا۔ اجہاں کہیں بھی ہوں ان کو تاکید کر دیں عرض داشت میں اعلیٰ حضرت کو ایڈریس کیا جائے اور میرے پاس بھیجا جائے تاکہ میں اپنی سفارش پر لکھ سکوں۔ والسلام محمد اقبال ۲؎‘‘ اقبال کو اپنے معاصرین اہل علم خدمت گزاران ملت اور اپنے نیاز مندوں کی سود و بہبود اور اعانت اور فلاح و صلاح کا کتنا خیال رہتا تھا ان خطوط سے اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے۔ بھوپال کے قیام کے دوران… اپنے نیاز مندوں دوستوں اور رفیقوں کو خطوط کے جوابات پابندی سے لکھنا بھی ان کا ایک محبو ب مشغلہ تھا۔ کہاں کہاں کے ضرورت مند انہیں لاہور حتیٰ کہ مختصر قیام کے دوران بھوپال تک خطوط بھیجنے جن کے وہ فوراً جوابات ارسال کرتے۔ ایسے ہی ایک صاحب علم سید احمد عباس تھے جن کا شمار شرفائے عرب میں ہوتا تھا اور روضہ رسول رسالت مآبؐ کے محافظ تھے۔ وہ اقبال کی مدد کے طالب ہوئے اورانہیں اپنے حالات سے مطلع کر کے نواب صاحب تک پہنچنے اور ریاست کی سرپرستی حاصل کرنے کی خواہش کی تو شیش محل میں سے ہی انہوںنے ایک خط راس مسعود کو بطور تعار ف تحریر کیا ۔ اس خط میں جن امور کا تذکرہ ہے وہ کسی تشریح کے محتاج نہیں۔ ہاں اقبال کی عظمت اور ان کی دردمندی کے ضرور شاہد ہیں: ’’… ڈیر مسعود۔ ملفوفہ خط سید احمد عباس کا ہے۔ جو مدینہ منورہ میں روضہ رسول حضور رسالت مآبؐ کے محافظ ہیں۔ میں نے پہلے بھی تم سے ان کا ذکر کیا تھا۔ نہایت عمدہ سفر نامہ ہندوستان کا لکھ رہے ہیں۔ عربی زبان کے ادیب ہیں شرفائے عرب میں ان کا خاندان بلند مرتبت ہے۔ یہ خط ہز ہائی نس کی خدمت میں بھجوا دیجیے۔ چونکہ ان کو یہاں کے دستور کا علم نہیں اس واسطے انہوںنے اپنا خط میرے خط میں ملفوف کر دیا ہے۔ اگر اعلیٰ حضرت نے ان کو اجازت دی تو یہاں آئیں گے۔ ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۲۷۔۳۲۸ ۲؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۲۸۔۳۲۹ پٹیالہ نے ان کی بڑی قدر افزائی اور بڑی خاطر و مدارات کی۔ اگر وہ آئیں تو تم بھی ان کو دعو ت دینا اور کرنل رابنس سے بھی تو مجھے ملا دیجیے۔ تم کہتے تھے کہ وہ اب یہاں سے چلے جانے والے ہیں۔ والسلام محمد اقبال شیش محل۔ ۰ ۱ مارچ ۱۹۳۶ئ‘‘ ۱؎ (یہ خط بھوپال ہی میں لکھا گیا) اہل علم و کمال کی عزت و تکریم اور ان کی بجا قدردانیکا جذبہ اقبال کا فطرت کا ایک حصہ تھا۔ وہ سعی و سفارش بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کرتے تھے۔ بھوپال سے ان کی گہری وابستگی نواب صاحب سے قربت اور راس مسعود ایسے سچے شیدائی کے ہوتے ہوئے انہیں اہل ضرورت کو متعارف کرنے میںذرا بھی تکلیف نہ تھا۔ جیسا کہ اس خط کی عبارت سے مترشح ہے۔ (یہ) عربی زبان کے ادیب ہیں اور شرفائے عرب میں ان کا خاندان بلند مرتبت ہے۔ اگر وہ آئیں تو تم بھی ان کو دعوت دینا… غرض وہ کسی بھی مستحق اور ضرورت مند کو پریشان حال نہیں دیکھ سکتے تھے کہ کسی عنوان اس کے کام آ جائیں۔ نیازی صاحب نے لاہور پہنچ کر جب نواب صاحب بھوپال کے نام عرض داشت ارسال کر دی تو انہوںنے فوراً جواب دیا۔ ’’بھوپال… ۳۱ مارچ ۱۹۳۶ء ڈیر نیازی صاحب ۔ السلام علیکم آ پ کی عرض داشت پہنچ گئی ہے۔ میں انشاء اللہ ۹ اپریل کی شام کو ساڑھے سات بجے لاہور پہنچ جائوں گا۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ والسلام محمد اقبال۔ بھوپال ۲؎‘‘۔ پروگرام کے مطابق ۸ اپریل ۱۹۳۶ء کو اقبال بھوپال سے روانہ ہو کر ۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو لاہور واپس پہنچ گئے۔ نیازی صاحب خدمت میں حاضر ہوئے تو انہیں پہلے سے کافی صحت مند پایا۔ فرماتے ہیں۔ ’’ … ۳؎ ۹ اپریل کو حضرت علامہ واپس لاہور تشریف لائے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ان کی صحت کے لیے بہت اچھا رہا آواز کی حالت بھی بہتر ہو گئی اور چہرے پر بھی تندرستی کے آثار نمایاں تھے ۴؎‘‘۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۷۶۔۳۷۷ ۲؎ مکتوبات اقبال۔ صفحہ ۳۲۹ ۳؎ اقبال ۸اپریل ۱۹۳۶ء کو بھوپال سے روانہ ہو کر ۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو لاہور پہنچے جیسا کہ نیازی صاحب کے اس بیان اور اقبال کے ۳۱ مارچ ۱۹۳۶ء کے خط سے ثابت ہے ۔ لیکن ڈاکٹر سلیم حامد رضوی کی کتاب اردو ادب کی ترقی میں بھوپا ل کا حصہ کے صفحہ ۴۶۲ پر لکھا ہے ۹ اپریل ۱۹۳۶ء تک شیش محل میں ٹھہرے۔ … اس غلطی کا اعادہ عبدالقوی دسنوی نے اپنے کتابچہ علامہ اقبال بھوپال میں بھی کیا ہے۔ صفحہ ۶۷ پر درج ہے۔ تیسری مرتبہ قیام ۲ مارچ ۱۹۳۶ء سے ۹ اپریل ۱۹۳۶ تک حالانکہ وہ ۹ اپریل کو لاہور پہنچ چکے تھے۔ ۴؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۲۹ نیازی صاحب کے اس بیان کے پس پردہ ایک عجیب و غریب داستان کا انکشاف خود اقبال کے اس خط سے ہوتا ہے جو لاہور پہنچنے کے دو ماہ بعد انہوںنے پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ۱۳ جون ۱۹۳۶ء کو لاہور سے ارسال کیا تھا۔ نیازی صاحب نے اقبال کو بھوپال سے لوٹ کر کافی صحت مند پایا۔ آواز میں بھی بہتری کے آثار تھے اور چہرے پر بھی تندرستی نمایاں تھی۔ اور یہ سب کچھ بھوپال کے دوران قیام شیش محل کی ایسی تاریخ سز عمارت میں ۳ اپریل ۱۹۳۶ء کی رات کو وقوع پذیر ہوا۔ یہ وہ خواب تھا جو انہوںنے بھوپال میں دیکھا اور پھر ان کی مشہور مثنوی پر چہ باید کرد اے اقوام شرق معرض وجود میں آئی۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ خط ملاحظہ ہو: ’’لاہور ۱۳ جون ۱۹۳۶ء مخدومی پروفیسر صاحب السلام علیکم نواز ش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کو طلب میں بھی دخل ہے۔ اگر معلوم ہوتا توضرور آپ کی خدمت میں لکھتا۔ دو سال سے اوپر ہو گئے جنوری کے مہینے میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا۔ سویاں دہی کے ساتھ کھاتے ہی زکام ہوا۔ بہدانہ پینے پر زکام بند ہوا تو گلا بیٹھ گیا۔ یہ کیفیت دو سال سے جاری ہے بلند آواز سے بول نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے مجھے بالآخر بیرسٹری کا کام چھوڑنا پڑا۔ انگریزی اور یونانی اطبا دونوں کا علاج کیا مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ مجھے کسی قدر دمہ کی شکایت ہو گئی۔ حکیم نابینا صاحب نے فرمایا تھا کہ تمہاری بیماری ایک ہلکا سا دمہ ہے ۔ کھانسی اس شدت سے آتی تھی کہ میں بے ہوش ہو جاتا تھا۔ اب یہ کیفیت نہیں ہے صبح بلغم نکلتی ہے۔ علی ہذا القیاس کھاناکھانے کے بعد بھی سفید بلغم نکلتی ہے جس کے نکلنے سے آواز بہتر ہو جاتی ہے۔ انگریز اطبا کی تشخیص یہ ہے کہ ایک رگ جسے Aorta کہتے ہیں اور جو قلب کے قریب ہے ایک مقام سے پھیل گئی ہے اوراسس کا دبائو ووکل کارڈ پرپڑتا ہے جس کے سبب بولنے میں دقت ہوتی ہے ۔ علی ہذا القیاس ان کی تشخیص یہ بھی ہے کہ طویل بیماری سے قلب کی رگیں کمزور ہو گئی ہیں اس واسطے عام کمزوری ہو گئی ہے اور مجھے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس میں Excitement پیدا ہو۔ ذرا سی محنت کرنے سے دم پھول جاتا ہے۔ یہاں تک کہ غسل خانے کرنے میں اپنے ہاتھوں سے اپنابدن بھی اگر ملوں تو دم پھول جاتا ہے۔ عام کمزوری بھی ہے۔ یہ مختصر سی کیفیت میری بیماری کی ہے۔ اگر آپ کوئی دوا تجویز کریں گے تو ضرور مفید ہو گی۔ آپ عاشقان رسولؐ میں سے ہیں۔ اس واسطے ایک بات اور آپ کے گوش گزار کرنے کے لائق ہے۔ ۳ اپریل کی رات ۳ بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سر سید علیہ الرحمتہ کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو؟ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی ہے۔ فرمایا حضور رسالت مآبؐ کی خدمت میں عرض کرو۔ میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرض داشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے۔ میری زبان سے جاری ہو گئی۔ انشاء اللہ ایک مثنوی فارسی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق نام کے ساتھ یہ عرض داشت شائع ہو گی۔ ۴ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ Ringعود کر رہا ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔ گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے جسم میں بھی عام کمزوری ہے زیادہ کیا عرض کروں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ۱؎‘‘ سر سید علیہ الرحمتہ کو خواب میں دیکھنے کا تذکرہ انہوںنے سر راس مسعود کے نام ایک خط میں بھی کیا ہے جو کتاب کی تکمیل کے دوران انجمن ترقی اردو کراچی کے ترجمان ماہنامہ قومی زبان میں اشاعت پذیرہوا ۔ خط کے آغاز میںانہو ں نے ’’ضرب کلیم‘‘ کا تذکرہ بھی کیاہے جس کی تفصیلات آئندہ باب میںپیش کی گئی ہیں۔ خط کا متن یہ ہے: ’’لاہور… ۲۹ جولائی ۱۹۳۶ء ڈیر مسعود تمہارا خط ابھی ملا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم اب خدا کے فضل و کرم سے بالکل اچھے ہو کیونکہ خط میں تم اپنی صحت کے متعلق ایک حرف بھی نہیں لکھا۔ ضرب کلیم یا اعلان جنگ زمانہ حاضر کے خلاف افسوس کہ اب تک تیار نہیں ہوئی۔ یہ میرا قصور نہیںپریس والوںکا قصور ہے۔ اب چار جولائی کو کتاب کی طباعت ختم ہو گئی تو… Advanceکاپی ارسال کر دوں گا۔ ۳ اپریل کی شب کو جب میں بھوپال میں تھا میں نے تمہارے دادا رحمتہ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا۔ مجھ سے فرمایا کہ اپنی علالت کے متعلق حضور رسالت مآبؐ کی خدمت میں عرض کر۔ میں اسی وقت بیدار ہو گیا اور کچھ شعر عرض داشت کے طور پر فارسی زبان میں لکھے۔ کل ساٹھ شعر ہوئے اور لاہور آ کر خیال ہوا کہ یہ چھوٹی سی نظم ہے اگر کسی زیادہ بڑی مثنوی کا آخری حصہ ہو جائے تو خوب ہو۔ الحمد للہ کہ یہ مثنوی بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ مجھ کو اس مثنوی کا گمان بھی نہ تھا۔ بہرحال اس کا نام ہو گا پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ضرب کلیم کی طباعت کے بعد اس کی کتابت شروع ہو گی۔ باقی خدا کے فضل و کر م سے خیریت ہے تم اپنی خیریت کی اطلاع دو۔ لیڈی مسعود سلام قبول کریں۔ علی بخش تم دونوں کو آداب عرض کرتا ہے۔ محمد اقبال ۲؎‘‘۔ ان خطوط کے دو بہت نمایاں پہلو ہیں پہلا ان کی علالت کی ابتدا اور اس کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ دوسرا اس خواب سے متعلق ہے جس کے زیر اثر پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ایسی معرکہ آرا مثنوی کی تخلیق کا بھوپال میں آغاز ہوا۔ اقبال کی کون سی تخلیق… کب کہاں اور کن حالات میں معرض وجود میں آئی۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۴۱۲تا۴۱۴ ۲؎ ماہنامہ ’’قومی زبان ‘‘ کراچی ستمبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۳۱۔۳۲ اس کے بارے میں تو اقبالیات کے ماہرین ہی بجا طور پر تحقیق کر کے ہر تخلیق کے پس منظر کو اجاگر کریں گے۔ جہاں تک اس مثنوی کا تعلق ہے۔ خود اقبال کی تحریر سے ہمیں اس کی شہادت مل گئی اور یہ علم ہوا کہ خواب سے آنکھ کھلتے ہی ان پرایک الہامی کیفیت طاری ہو گئی اور حضور رسالت مآبؐ کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے اشعار ان کی زبان پر جاری ہو گئے۔ اس عالم میں انہوںنے کتنے شعر لکھے اس کا اندازہ اس خط سے نہیں ہوتا۔ اس عبارت سے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ مثنوی طویل ہو گئی تھی۔ اسی مثنوی سے متعلق جس کا ۳ اپریل ۱۹۳۶ء کی شب کو شیش محل بھوپال کے قیام کے دوران آغاز ہو چکا تھا ایک اور عجیب و غریب واقعہ کا انکشاف فقیر وحید الدین نے اپنی کتاب روزگار فقیر میں کیا ہے۔ ان دونوں واقعات کو ایک دوسرے سے کسی طور علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ کچھ یوں لگتا ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں: پانچ سو آدمی ’’ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم جس زمانہ میں انارکلی کے دو منزلہ مکان میںرہتے تھے انہی دنوں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے صرف واقعہ سمجھ کر سن لینا اور پڑھ لینا کافی نہیں ہے بلکہ خود مرحوم کے اس شعر کے پس منظر میں کہ: مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ اس پر جتنا غور کیا جائے ذہن و فکر کو نئی لذت اور بالیدگی حاصل ہوتی ہے اور شعور و احساس کی دنیا وجدان و واردات قلبی کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ یہ واقعہ شاعر مشرق کی شعر گروئی کے سب سے نمایاں پہلو کو پیش کرتا ہے۔ یہ سرسری طور پر گزر جانے کا نہیں ہے ٹھہرنے غور کرنے اور لطف لینے کامقام ہے۔ ہوایوں کہ ایک بار رات گئے سوتے سوتے علامہ مرحوم کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا بلکہ محسوس کیا کہ قلب پر شعر گوئی کی وہ خاص کیفیت طاری ہے جس کا ذکر انہی صفحات میں اجمالاً آ چکا ہے۔ یہ وہ عالم ہے جسے شاعری کی زبان میں آمد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مکان کی دوسری منزل پر استراحت فرما تھے پاس نہ کاغذ تھا نہ پنسل چپ چاپ اٹھے لالٹین ہاتھ میںاٹھائی اور سیڑھیوں سے قدری تیزی کے ساتھ اتر کر نچلی منزل میں پہنچے۔ لالٹین ایک طرف رکھ دی۔ کاغذ اور قلم سنبھالا اور جس قدر اشعار اس وقت موزوں ہوتے گئے انہیں قلم بند کرتے گئے ۔یہاں تک کہ نزول شعر کی یہ کیفیت اختتا م کو پہنچی۔ انہوںنے بالائی منزل پر جانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ایک سفید ریش طویل قامت درویش صفت بزرگ نظر آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے حسرت و استعجاب کے انداز میں دریافت کیا آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ درویش نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے جلدی سے کہا: ’’پانچ سو آدمی پیدا کر…پانچ سو آدمی پیدا کر‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ بازار کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی طرف بڑھنے لگے۔ حالانکہ اس طر ف کوئی راستہ نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے لالٹین اٹھائی اورزینہ کی طرف اشارا کرتے ہوئے جہاں گھپ اندھیرا تھا کہا چلیے میں آپ کو راستہ دکھا دوں اورنیچے تک لے چلوں لیکن ان مر د بزرگ کے ڈاکٹر صاحب کی پیش کش کا کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ اپنا ہی فقرہ اسی جوش اور تاکید کے ساتھ دہراتے ہوئے نظر سے اوجھل ہو گئے ڈاکٹر صاحب زینہ کی طرف سے سیڑھیاں طے کر کے بازار میں آئے اور دور تک دیکھا مگر بزرگ کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ جیسے وہ ڈاکٹر سے اپنا یہ جملہ ہی کہنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اوروہ جملہ کہہ کر غائب ہو گئے۔ اس اثناء میں ڈاکٹر کو رات میں گشت کرنے والا کانسٹیبل نظر آیا۔ اس سے دریافت کیا کہ تم نے اس وضع قطع چال ڈھال اور حلیہ کا کوئی آدمی تو نہیں دیکھا۔ کانسٹیبل نے نفی میں جواب دیا ڈاکٹر صاحب مایوس ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے اور پھر بستر پر سو گئے۔ صبح کو جب بیدار ہوئے تو رات کا واقعہ ذہن میں بالکل تازہ تھا۔ مگر پھر خیال آیا کہ شاید انہوںنے خواب دیکھا ہے لیکن جب نچلی منزل میں آ کر رات کے لکھے ہوئے اشعار موجود پائے اور قریب ہی لالٹین رکھنے کا نشان بھی ابھرا ہوا تھا تو ذہن اس کی طرف منتقل ہوا کہ وہ خواب تھا یا بیداری تھی بہرحال جو حالت بھی تھی اس کا ایک حصہ حقیقت بن چکا ہے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر چند دن کے بعد ڈاکٹر صاحب موسم گرما کی تعطیلات میں جب سیالکوٹ تشریف لائے تو اپنے والد بزرگوار سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا۔ شیخ اعجا ز احمد اس وقت وہاں موجود تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے واقعہ سنانے کے بعد اپنے والد ماجد سے دریافت کیا۔ کہ پانچ سو آدمی تیار کرنے سے اس درویش کی کیا مراد ہے۔ تو انہوںنے فرمایا کہ پانچ سو آدمی پیدا کرنے کی۔ کی فرمائش پھراس تاکید اس کا حقیقی مفہوم تو میں نہیں بتا سکتا مگر تم پانچ سو آدمی تیار نہیں کر سکتے تو پانچ سو آدمی تیار کرنے والی پانچ سو اشعار کی کتاب ہی لکھ دو‘‘۔ اس واقعہ کو ذہن میں رکھ کر قارئین کرام ڈاکٹر صاحب مرحوم کی مشہور مثنوی … پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کا تصور کریں بلکہ اسے ایک بار پڑھیں۔ اس کے شعروں کی تعداد ۵۳۱ ہے ۔ یعنی پانچ سو اشعار سے کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ خاص طور پر ذکر کرکے قابل بات ہے یہ ہے کہ اس مجموعہ کلام کا آغاز ہی اس شعر سے ہوتاہے۔ سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است آگے چل کر فرماتے ہیں: زمانہ ہیچ نداند حقیقت اورا جنوں قباست کہ موزوں بہ قامت خرد است بآں مقام رسیدم چو در برش کردم طواف بام و درمن سعادت خرد است عجیب اتفاق ہے کہ ابھی یہ کتاب زیر ترتیب ہی تھی کہ ماہنامہ ’’افکار‘‘ کراچی کے شمارہ اپریل ۱۹۶۲ء میں مدیر افکار جناب صہبا لکھنوی کے بزرگ محترم پروفیسر سید نواب علی مرحوم کا ایک نہایت قیمتی مقالہ بعنوان پس چہ باید کر د اے اقوام شرق نظر آیا۔ راقم الحروف نے اس مقالہ کو بار بار پڑھا اور پھر اس کا منظر معلوم کرنے کے لیے مدیر افکار سے رابطہ قائم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ مقالہ پروفیسر نواب علی نے سب سے پہلے ۱۹۳۵ء ۱؎ میں شائع کرایا تھا۔ اس کے بعد بھی چھپتا رہا ۲؎۔ اور افکار نے کسی پرانے حوالے سے ہی اسے ۱۹۶۲ء میں نذر قارئین کیا ہے۔ پروفیسر نواب علی درجنوں کتابوں کے مصنف اور ڈاکٹر صاحب کے حلقہ احباب میں سے تھے۔ قیام بھوپال کے دوران ڈاکٹر صاحب سے ان کی طویل ملاقاتیں رہیں۔ دونوں کے درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ مثنوی پس چہ باید کرد سے متعلق ان کا یہ مقالہ ظاہر ہے کہ ان کے اور ڈاکٹر صاحب کے مابین دوستانہ تبادلہ خیال کا نتیجہ ہے اور ممکن ہے کہ پانچ سو اشعار کے موضوع پر انہیںانارکلی والے واقعہ کا پس منظر معلوم ہو لیکن بدقسمتی سے پروفیسر صاحب نواب علی گزشتہ سال ۳۰ جون ۱۹۶۱ء کو کراچی میں انتقال کر چکے ہیں۔ اور اب ان کے زیر نظر مقالہ کے علاوہ پانچ سو اشعار والی کتاب کے لیے مزید شہادت موجود نہیں۔ مرحوم نے اپنے اس خیال افروز مقالہ کی تمہید کے طور پر جو سطور قلم بند فرمائی ہیں ان کا مطالعہ قارئین کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں: ’’…ڈاکٹر محمد اقبال نے وفات سے دو سال پیشتر مولانائے رومؒ کی شہرہ آفاق مثنوی کی پیروی میں پانچ سو اشعار کی ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق لکھی جو ان کے افکار عالیہ کا ایک صاف و شفاف آئینہ ہے۔ مولوی معنوی کی مثنوی کی طرح اس میں بھی وہی جوش وہی سوز اور وہی تخیل ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا زبان پہلوی کے قرآن کا سورۃ اخلاص ہے ۳؎‘‘۔ ’’پانچ سو آدمی پیدا کر‘‘ کے بیان کردہ ا س واقعہ کے پس منظر میں اب آپ پھر اقبال کے ۳ اپریل ۱۹۳۶ء کے خط کے اقتباس کو پڑھیے: ۱؎ سہو کتابت ہے ۔ یہ مقالہ پہلی بار انجمن اتحاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے رسالہ جوہر کے اقبال نمبر میں ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد صرف ’’افکار‘‘ میں شائع ہوا۔ ۳؎ روزگار فقیر صفحہ ۱۱۵ تا ۱۱۹ ’’ ۳ اپریل کی رات ۳ بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سر سید علیہ الرحمتہ کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیںکہ تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا کہ دو سال سے اوپر مدت گزر گئی ۔ فرمایا حضور رسالت مآبؐ کی خدمت میں عرض کرو۔ میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرض داشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے میری زبان پر جاری ہو گئی۔ انشاء اللہ ایک مثنوی فارسی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق نام کے ساتھ یہ عرض داشت شائع ہو گی‘‘۔ تو بہت سے گوشے بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ انارکلی والے مکان میں بزرگ کا آنا اور شیش محل میں سرسید کا خواب میں نظر آنا اور حضورؐ کی خدمت میں عرض داشت پیش کرنے کی ہدایت کرنا۔ پھر مثنوی کے اشعار کا زبان پر از خود جاری ہو جانا۔ حقیقتاً ایک ہی الہامی فکر کے دو مربوط سلسلے معلوم ہوتے ہیں جن کے تحت پس چہ باید کرد ایسی معرکہ آراء مثنوی عالم وجود میں آئی اور اس طرح بھوپال کو اس کی تخلیق و آفرینش کا فخر بھی حاصل ہو گیا ۔ مثنوی کے اس پس منظر پر اس سے قبل شاید ہی کسی نے غور و فکر کی ضرورت محسوس کی ہو۔ کیونکہ یہ واقعہ ایک ایسی دور افتادہ ریاست میں وقوع پذیر ہوا جس کے در و دیوار کسی دور میں اسلامی شکوہ کے امین سمجھے جاتے تھے اور جو آج بھی اپنی عظمت رفتہ پر نوحہ کناں ہیں۔ اقبال اور پروفسیر سید نواب علی کے باہمی روابط کا آغاز کب ہوا اس کی صحیح تاریخ تو معلوم نہیں البتہ جن حقائق کا راقم الحروف کو علم ہے ان سے دونوں کے قریبی تعلقا ت کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں عرض کر چکا ہوں۔ ریاست بھوپال کے تقریباً سبھی حکمرانوں کو علم و ادب سے خاص شغف تھا اور ہندوستان بھر کی بلند پایہ شخصیتیں ریاست بھوپال کے حکمرانوں کی علم پروری اور ادبی شغف کے سبب کھنچ کھنچ کر یہاں آ گئی تھیں اور ممتاز عہدوں پر فائز تھیں۔ دوسرے معنوں میں بھوپال ان کا وطن ثانی بن گیا تھا میرے والد سید محمد علی وکیل مرحوم بھی نواب شاہ جہاں بیگم خلد آشیاں کے دور حکومت میں غالباً ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء میں لکھنو کو خیر باد کہہ کر بھوپال آ گئے تھے۔ اور پھر یہیں رہ پڑے۔ اور کچھ عرصہ بعد ان کا شمار ممتاز ترین اور سربرآوردہ وکلا میں ہونے لگا۔ پروفیسر سید نواب علی میرے والد کے حقیقی چھوٹے بھائی تھے۔ ۱۸۷۷ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے اورابتدائی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم بھی لکھنو میں حاصل کی۔ کیننگ کالج سے ایم اے بی ٹی کرنے کے بعد ۱۹۰۰ء میں علی گڑھ کے مدرستہ العلوم سے وابستہ ہو گئے۔ اور دو سال تک وہاں خدمات انجام دیں لیکن ۱۹۰۳ء میں بڑودہ کے علم دوست مہاراجہ گیکواڑ کے ایما پر آپ وہاں چلے گئے اور بڑودہ کالج کے پروفیسر مقرر ہو گئے جہاں مسلسل ۲۶ سال تک آپ کا قیام رہا۔ کچھ ہی عرصہ بعد مولانا محمد علی جوہر بھی بڑودہ کے کم سن ولی عہد کے اتالیق مقرر ہو کر وہاں تشریف لے آئے اور سات سال تک آپ کا اور ان کا ساتھ رہا اور دونوں ایک دوسرے کے ہمدم و رفیق رہے۔ پروفیسر سید نواب علی کی ساری عمر درس و تدریس علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف میں گزری۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں آپ نے بلند مرتبت معاصرین کے دوش بدوش اپنے مخصوص و پسندیدہ موضوع اسلامی تاریخ پر جو بیش بہا اور نادر روزگار کتابیں لکھیں۔ وہ آج بھی اسلامیات میں حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جن معاصرین سے آپ کے ذاتی اور قریبی روابط ہیں جن اکابر سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا جن حضرات سے تبادلہ خیال کے مواقع میسر آئے ان کی فہرست طویل ہے۔ پھر بھی جن مشاہیر کا آپ ہمیشہ خصوصیت سے ذکر فرماتے ہیں ان میں مولانا حالی علامہ شبلی مولانا محمد علی مولانا عبدالحلیم شرر علامہ سلیمان ندوی۔ عطیہ فیضی۔ علامہ اقبال۔ اکبر الہ آبادی۔ مولانا ظفر علی خاں۔ مولانا ابو الکلام آزاد قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر نواب علی اوراقبال ایک ہی سال یعنی ۱۸۷۷ء ۱؎ میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر دونوں میں فکری اور علمی مذاق تقریباً یکساں تھا۔ قرآن مجید اور سیرت رسولؐ دونوں ہے کے محبوب اور پسندیدہ موضوعات تھے مولانا محمد علی کی فرمائش پر جامعہ ملیہ دہلی کے لیے آپ کی مختصر سی کتاب ہمارے نبیؐ نہایت آسان زبان میں لکھی جس کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوئے۔ تذکرہ المصطفیٰ سیر ت پر آپ کی پہلی کتاب ہے جو ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی۔ معارج الدین المعروف بہ اسلام اور سائنس ۱۹۱۳ میں چھپی۔ جسے آپ نے علامہ کی خدمت میں ارسال کیا توانہوںنے اس کی بے حد تعریف کی۔ اور اس نوع پر مزید تحقیقی کتابیں لکھنے کا مشورہ دیا۔ آپ نے اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں بھی اس کتاب کا بطور خاص توصیفی انداز میں تذکرہ کیا۔ مولانا محمد علی نے اپنے اخبار ہمدرد اور معلانا عبدالحلیم شرر نے رسالہ دل گداز میں اس پر سیر حاصل تبصرے شائع کیے۔ اس کے فورا ہی بعد ۱۹۱۹ء میں آپ نے تاریخ صحف سماوی ایسی مستند اوربلند پایہ کتاب ترحریر کی جو آج بھی پاکستان کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے اور نئی نسل اس سے اکتساب فیض کر رہی ہے۔ سیرت پاک پر جب مستشرقین کے پے بہ پے ناروا حملوں کا سلسلہ دراز ہوا تو آپ ن دوبارہ سیرت پر قلم اٹھایا اور ۱۹۳۱ء میں سیر ت رسول اللہؐ ایسی محققانہ اور بلند پایہ کتاب شائع کی جس کا دوسرا ایڈیشن نظر ثانی اور اضافہ کے بعد مکتبہ افکار کراچی سے ۱۹۶۶ء میں شائع ہو چکا ہے۔ آپ بیک وقت انگریزی عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ اور کسی حد تک عبرانی سے بھی واقف تھے ۔ چنانچہ آپ نے سیرت رسول اللہ کا علامہ شبلی کی سیرت النبیؐ سے مختلف انداز میں احاطہ کیا۔ دونوں بزرگ و محترم شخصیتوں نے باہمی مشاورت سے کتاب کے جداگانہ موضوعات منتخب کر لیے تھے۔ چنانچہ آج بھی سیرت کی یہ دونوں کتابیں تحقیق و بصیرت اورسعی و کاوش کا بے بہا خزینہ ہیں جن سے سیرت پر کام کرنے والے مستفید ہو رہے ہیں۔ بھوپال سے پروفیسر سید نواب علی کی وابستگی کا سب سے بڑا سبب تو ان کے بڑے بھائی سید محمد علی وکیل کا بھوپال میں قیام تھا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ میرے والد صاحب کی تحریک و خواہش پر انہوںنے اپنی بڑی صاحبزادی یوسف النساء بیگم کی شادی مولوی شکر اللہ سہیل کے صاحبزادے سید وجیہ الدین سے کر دی تھی مولوی شکر اللہ سہیل یوپی کے رہنے والے اور ریاست میں ایک معزز عہدے پر فائز تھے۔ شعر و ادب سے انہیں خاص لگائو تھا۔ وہ میرے والد صاحب کے قریبی دوستوں میںسے تھے۔ ا س رشتہ کے بعد دوستی کچھ اور مستحکم ہو گئی تھی۔ پروفیسر سید نواب علی ہر سال موسم گرما کی تعطیلات میں بھوپال ضرور آتے تھے اور ایک ایک دو دو ماہ یہاں ان کا قیام رہتا تھا۔ پروفیسر صاحب کے حلقہ احباب میںبھوپال کے عمائد شہر ہی نہیں۔ ممتاز علمی و ادبی شخصیتیں بھی تھیں جن میں سے بیشتر ریاست کے اعلیٰ عہدوںپر متمکن تھیں۔ ان میں سب سے پہلے تو خود ان کے سمدھی مولوی شکر اللہ سہیل تھے ان کے علاوہ شعیب قریشی۔ راجہ اودھ نرائن بسریا۔ سر لیاقت علی خان۔ حید ر عباسی محمد حیات۔ ماسٹر ولی محمد۔ منشی منصب علی ۔ عبدالرحمن بجنوری وغیرہ تھے جو آپ کی آمد کے منتظر رہا کرتے تھے۔ خود والی ریاست نواب سلطان بیگم پروفیسر سید نواب علی کے تبحر علیمی کی بڑی معترف تھیں اور ان کی کتابیں شائع ہونے پر ریاست کے مدارس اور لائبریریوں کے لیے خرید فرما کر ہمیشہ سرپرستی کرتی تھیں سلطان جہاں بیگم کے بعد نواب حمید اللہ خاں نے بھی پروفیسر سید نواب علی کی تصانیف کی قدردانی فرمائی۔ ۱؎ جدید ترین تحقیق ودستاویزی ثبوت کی روشنی میں علامہ اقبال کا سن پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء ہے۔ ملاحظہ ہو روزگار فقیر صفحہ ۲۳۴ میرے والد صاحب نے دو ایک بار اس امر کی کوشش بھی کی کہ پروفیسر صاحب نواب بھوپال مستقلاً آ جائیں لیکن انہو ں نے مہاراجہ بڑودہ کے اسلامی علوم سے غیر معمولی شغف کی بنا پر بھوپال آنا منظور نہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ انہیں مہاراجہ نے بڑودہ کالج کی لائبریری کے اسلامی موضوعات پر ہر قسم کی بلند پایہ اور نادر کتابیں دنیا کے ہر ملک سے منگوانے کی ہر ممکن سہولت دے رکھی تھی۔ چنانچہ آپ نے مصر یورپ امریکہ اور دوسرے ملکوں سے اسلامی علوم پر کتابیں شائع شدہ بڑودہ کالج کی لائبریری کے لیے جمع کر دی تھیں۔ اس قیمتی سرمایے سے آپ نے تو خیر استفادہ کیا ہی تھا۔ آئندہ نسلوں کے لیے بھی شمعیں فروزاں کر دیں تاکہ وہ علم و تحقیق کی روایت کو برقرار رکھیں کسی ہند و ریاست کے راجہ کا اسلامی علوم سے اتنا ہی گہرا شغف آج تو دیوانے کا خواب نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال اور پروفیسر نواب علی کے روابط کا آغاز جہاں تک میری تحقیق کا تعلق ہے بڑودہ کے دوران قیام ہوا۔ جو قلمی رابطہ اور ذاتی ملاقاتوں کے بعد گہری دوستی اور قلبی تعلق میں تبدیل ہو گیا۔ آپ نے بیشتر کتابیں بڑودہ کے قیام کے دوران ہی تحریر کیں۔ کتاب کی نظر ثانی کے دوران خوش قسمتی سے رحیم بخش شاہین کی کتاب اوراق گم گشتہ میں اقبال کا ایک ایسا خط بھی مل گیا جس سے یہ ثابت ہو ا کہ وہ پروفیسر سید نواب علی کے علمی کارناموں سے ۱۹۱۳ء میں واقف ہو چکے تھے اور یہ وہی زمانہ تھا جب آپ بڑودہ کالج کے پروفسیر تھے۔ اس ضمن میں حسب ذیل امور بطور خاص قابل ذکر ہیں: خواجہ حسن نظامی میرٹھ سے ایک ہفت روزہ نکالتے تھے جس کا نام توحید تھا۔ اس پر علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر لکھا ہوتا تھا: توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے ممکن نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا اسی ہفت روزہ توحید نے ۸ جون ۱۹۱۳ء کو خواجہ نمبر شائع کیا۔ خواجہ حسن نظامی نے اعلان کیا تھا کہ بہترین مقالہ غزل یا نظم پر اول دوم اور سوم انعامات تمغوں کی صورت میں دیے جائیں گے۔ منصفین میں علامہ اقبال‘ اکبر الہ آبادی۔ اور عبدالحلیم شرر کے نام شامل تھے۔ ’’توحید‘‘ کے شمارہ بابت ۲۴ جولائی ۱۹۱۳ء میں علامہ اقبال کی رائے کے سلسلے میں یہ خط درج کیا تھا۔ جس میں علامہ نے سید نواب علی کے مضمون کو سب سے زیادہ پسند کیا اور اسے معنی خیز قرار دیا۔ اس طرح گویا پہلی بار ایک ایسا خط دستیاب ہوا جس سے اقبال اورسیدنواب علی کے ربط و تعلق کی نشاندہی ممکن ہو سکی: ڈیر خواجہ صاحب ۱؎ السلام علیکم ’’خواجہ نمبر‘‘ میں نواب علی صاحب پروفیسر بڑودہ کالج کا مضمون مجھے سب سے زیادہ پسند آیا کہ معنی خیز ہے اس سے دوسرے نمبر پر زلف خواجہ کا اسیر اور شہنشاہوں کی پیشانیاں اجمیری چوکھٹ پر موخر الذکر مضمون کچھ نتیجہ خیز نہیںہے۔ نظموں میں رامی صاحب ۲؎ کی غزل سب سے اعلیٰ اس کے بعد شفق ۳؎ صاحب کا ترانہ یا یوں کہیے کہ فارسی نظموں میں گرامی صاحب کی غزل اول نمبر اور اردو نظموں میں شفق کا ترانہ۔ محمد اقبال ۴؎ ۲۶ سال تک بڑودہ میں خدمات انجام دینے کے بعد آپ ۱۹۲۹ء میں ریاست جونا گڑھ سے وابستہ ہو گئے۔ ابتداً بطور پرنسپل بہاء الدین کالج خدمات انجام دیں اور پھر کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ وزیر تعلیمات و اوقاف مقرر ہو گئے اور بالآخر ۱۹۳۴ء می ریاست جونا گڑھ میںسے پنشن لے کر مولوی شکر اللہ سہیل اور دیگر دوستوں کی خواہش پر جولائی ۱۹۳۴ء میں بھوپال آ کر قیام پذیر ہوئے۔ یہاں چار ماہ کے قیام میں حیدر عباسی راجہ اودھ نرائن بسریا راس مسعود شعیب قریشی سر محمد لیاقت علی خاں مولوی منصب علی ڈاکٹر رحمن محمد حیات اور کئی عمائد ریاست سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں۔ خو د راس مسعود سے بھوپال میں پہلی ملاقات ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو ہوئی جس کا ذکر انہوںنے قلمی روزنامچہ میں جس کے مسودات راقم الحروف کے پا س محفوظ ہیں میں ملتا ہے: ’’… ۴ رجب المرجب ۵۳ھ مطابق ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۴ئ… سر راس مسعود سے مہمان خانہ سرکاری میںملاقات میرے حالات پر جونا گڑھ دریافت کیے۔ کہا کہ علی گڑھ چلے آئو۔ کانفرنس کے دفتر میں کام کرنا۔ انہوںنے اپنے حالات بیان کیے۔ کس طرح مخالفت ہوئی اوراب کیا قصد ہے‘‘۔ اس روزنامچہ سے شعیب قریشی کے مشیر المہام اور سر راس مسعود کے ممبر تعلیمات مقرر ہونے کی صبح تاریخ کا بھی علم ہوتا ہے ۔ لکھتے ہیں: ’’… مسٹر شعیب سے ملا مشیر المہام ہو گئے سر راس مسعود ممبر تعلیمات مقرر ہوئے شب کو مسٹر شعیب کے یہاں دعوت کھائی مع مولوی شکر اللہ… (سہیل)‘‘ جولائی ۱۹۳۴ء سے ۳ نومبر ۱۹۳۴ء تک پروفیسر نواب علی کا بھوپال میں قیام رہا۔ انہیں راس مسعود کے آنے سے قبل حیدر عباسی اور شعیب قریشی نے ملازمت کی پیش کش کی تھی۔ پھر جب راس مسعود بھوپال مستقلاً آ گئے تو انہوںنے بھی پروفسیر سید نواب علی کی خدمات بھوپال کے لیے حاصل کرنے کی سعی و کوشش کی لیکن کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا تو آپ دسمبر ۱۹۳۴ء میں اپنے وطن لکھنو لوٹ گئے لیکن بھوپال آنے جانے کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ ۱؎ ہفت روزہ توحید میرٹھ بابت ۲۴ جولائی ۱۹۱۳ء ۲؎ مولانا غلام قادر گرامی ۳؎ مولانا شفق عماد پوری ۴؎ اوراق گم گشتہ صفحہ ۱۳۔۱۴ میرے والد کا انتقال ۱۹۲۸ء میں ہو گیا تو پروفیسر سید نواب علی نے مجھے اپنی سر پرستی اور کفالت میں لے لیا۔ مئی ۱۹۳۵ء میں جب میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا تو جولائی ۱۹۳۵ء میں مجھے انہوںنے اپنے پاس لکھنو بلا لیا اور اپنے بچوں سے زیادہ شفقت کے ساتھ میری تعلیم و تربیت پر توجہ فرمائی۔ پس چہ باید کرد والا مضمون جس کا حوالہ فقیر وحید الدین نے دیا ہے علامہ اقبال کی وفات کے فوراً بعد شائع ہونے والا پہلا اقبا ل نمبر ہے جسے انجمن اتحاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی کے رسالہ جوہر نے ۱۹۳۸ء میں مرتب کیا۔ رسالہ جوہر کے اقبا نمبر میں جن گرانمایہ شخصیتوں کے پیغامات ہیں ان میں گاندھی جی ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور مولانا ابو الکلام آزاد ڈاکٹر ذاکر حسین جو انجمن اتحاد کے صدر تھے۔ ڈاکٹر سر اکبر حیدری۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق۔ سرتیج بہادر سپرد۔ اور مولانا عبدالماجد دریابادی شامل ہیں اقبال نمبر میں تاریخ اشاعت اگرچہ درج نہیں لیکن دو پیغامات بقید تاریخ دستخط شائع ہوئے ہیں جن سے اس نمبر کی تاریخ اشاعت کا تعقین ہو جاتا ہے۔ (۱) پیغام مہاتما گاندھی۔ مورخہ ۹ جون ۱۹۳۸ء گاندھی جی نے یہ پیغام اردو میں لکھا تھا جو ان کے قلمی عکس کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ (۲) پیغام ابوالکلام کلکتہ ۱۱ نومبر ۱۹۳۸ء رسالہ جوہر کے اسی اقبال نمبر میں پروفیسر سید نواب علی کا مضمون پس چہ باید کرد صفحضات ۱۵۸ تا ۱۶۶ پر شائع ہوا ہے۔ اسی نمبر میں ان کی ایک فارسی نظم بھی علامہ اقبال کے متعلق شامل ہے جس کا عنوان ہے یاد اقبال (صفحہ ۸۰) پروفیسر سید نواب علی کا انتقال ۳۰ جون ۱۹۶۱ء کو کراچی میں ۃوا جب ان کے قلمی مسودات اور قیمتی کتابوں کو میں نے محفوظ کرنے کے لیے یک جا کیا تو رسالہ جوہر پر میری نظر پڑی اور اس مضمون پر بھی۔ چنانچہ اپریل ۱۹۶۲ء کے افکار میں میں ںے ان کی پہلی برسی پر اسو مضمون کو بطور تبرک دوبارہ شائع کیا۔ اشاعت کے کچھ عرصہ بعد جب فقیر وحید الدین نے پس چہ باید کرد والے مضمون کے سلسلے میں پروفیسر نواب علی سے معلومات حاصل کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ قائم کیا تو میں نے انہیں بایا کہ ان کے انتقال کو تو ایک سال بیت گیا ہے۔ وہ کراچی ۱۹۴۸ء میں آ گئے تھے رسالہ جوہر کا اقبال نمبر بھی ان کے پاس محفوظ تھا۔ لیکن شاید فقیر وحید الدین کی نظر سے یہ رسالہ نہیں گزرا تھا۔ ورنہ ۱۹۴۸ء اور ۱۹۶۲ء کے دوران وہ پروفسیر صٓحب یا راقم سے رابطہ قائم کر کے پانچ سو آدمی پیدا کر کی تفسری و تشریح معلوم کر سکتے تھے۔ عجیب اتفاقات ہیں ان واقعات کی تلاش و جستجو کا بھلا کسے علم تھا ورنہ علم و نور کے سوتوں سے اسی وقت استفادہ کر لیا جاتا جب وہ جلوہ فگن تھے۔ پروفیسر سید نواب علی… میرے چچا ہونے کے علاوہ ۱۹۵۸ء میں میرے خسر بھی ہو گئے میں ۱۹۵۰ میں پاکستان آیا اور انہیں کے ساتھ آخر دم تک رہا۔ وہ اکثر رات کے ھانے کے بعد مولانا محمد علی علامہ اقبال علامہ سید سلیمان ندوی اور دیگر مشاہیر کے واقعات مجھے سنایا کرتے تھے ۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طور وہ ا یادداشتوں کو قلم بند کر دیں۔ یا مجھے لکھوا دیں لیکن افتاد زمانہ کہ اس کی نوبت نہ آ سکی۔ ۱۹۴۸ ء میں پاکستان آنے کے فوراً ان کی جوناگڑھ کی پنشن ج تقریباً ساڑھے تین سو روپے ماہوار تھی بند ہو گئی پھر نیوتنی قصبہ لکھنو میں ان کی کئی لاکھ کی جائیداد جو انہیں دادا سے ورثہ میں ملی تھی ختم ہو گئی۔ کراچی کے قیام کے دوران چند در چند مصائب اور وسیع کنبہ کی ذمہ داریوں نے ان کی یادداشت کو بے حد متاثر کیا۔ ۱۹۵۸ء تک وہ اگرچہ برابر تصنیف و تالیف میں مشغول رہے لیکن آخر آخر میں ان کی یادداشت قطعی جواب دے گئی… ہر یا کے پرانے مریض تھے۔ بالآخر جون ۱۹۶۱ء میں یہ منارہ نور بجھ گیا اورہم اکتساب فیض سے محروم ہو گئے وہ اگر زندہ ہوتے تو بھوپال اور اقبال سے متعلق کچھ اور واقعات جن کا جستہ جستہ ذکر ان کے روزنامچوں میں ملتا ہے روشنی میں آ جاتے لیکن افسوس آں قدح بشکست و آں ساقی نماند ٭٭٭ اقبال ‘ راس مسعود اور ضرب کلیم بھوپال سے لاہور واپس پہنچ کر اقبال پھر اپنے معمولات و مشاغل میں مصروف ہو گئے ۔ ان مصروفیات میں سب سے مقدم ضرب کلیم کی اشاعت تھی جو تکمیل کے آخری مراحل میں تھی اس ے باوجود راس مسعود سے قلمی ربط وتعلق بدستور قائم رہا۔ نیازی صاحب دہلی میں سے لاہور منتقل ہو چکے تھے۔ اس لیے اب بھوپال سے متعلق ان کے نام خط بھیجنے کا سوال ہی پدیا نہیں ہوتا تھا۔ اقبال نامہ میں ۱۹۳۶ء کے دوران ہمیں وقفے وقفے سے چار خطوط راس مسعود کے نام متے ہیں اور ایک خط سلیمان ندوی کے نام جن سے اس دور کی صرف چند جھلکیاں ہمارے سامنے آتی ہیں اور بس ۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو لاہور پہنچنے کے بعد یقینا اقبال اور راس مسعود کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا ہو گا۔ لیکن افسوس کہ یہ خطوط دستیاب نہیں ہو سکے صرف دو خطوط اقبال نامہ میں ملتے ہیں جن کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں دونوں کے درمیان قلمی ربط و تعلق قائم تھا۔ ’’لاہور… ۲ مئی ۱۹۳۶ء ڈیر مسعود کئی دن سے تمہارا خط نہیںملا میں منتظر ہوں۔ خیر خیریت تو لکھ دیا کیجیے۔اگر تم مصروف ہو تو ممنوں صاحب سے کہہ دیجیے کہ دو حر ف لکھ دیا کریں۔ میری صحت خدا کے فضل سے بحال ہو گئی ہے بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس بیماری سے پہلے جو حالت تھی وہ عود کر آئی ہے البتہ آواز میں ابھی ترقی نہیں ہوئی جتنی کہ امید تھی۔ گو پہلے سے بہتر ہے۔ نیازی اور انجمن حمایت اسلام کی عرض یادداشت کا کیا ہوا ؟ کیا تم نے سر آغا خاں والے معاملے کا اعلیٰ حضرت سے ذکر کیا تھا؟ یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی ہے۔ معلوم نہیں کہ اعلیٰ حضرت کیا خیال کریں۔ زیادہ کیا لکھوں پنڈت جواہر لال نہرو کا خط آیا تھا۔ آج کل مسٹر محمد علی جناح لاہور آئے ہوئے ہیں اور یہاں کی مختلف پولیٹکل پارٹیوں میں اتحاد کی کوشش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ تم اور بیگم صاحبہ اچھے ہوں گے۔ محمد اقبال ۱؎ ‘‘۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۷۷۔۳۷۸ اس خط کا ابتدائی ٹکڑا… کئی د ن سے تمہارا خط نہیں ملا اس بات کا غماز ہے کہ ۹ اپریل اور ۲ مئی کے دوران خطوط کا تبادلہ ضرور ہوا لیکن راس مسعود کی طرف سے انہیں جواب نہیں ملا۔ چنانچہ ابتدائی سطروں میں اس کا اظہار کیا ہے۔ اگر تم مصروف ہو تو ممنون صاحب سے کہہ دیجیے کہ دو حرف لکھ دیا کریں‘‘۔ ان کی صحت خدا کے فضل سے بحال ہو گئی تھی جس کا ذکر اس خط میں ملتا ہے۔ انہیں نیازی صاحب اور انجمن حمایت اسلام سے جو قربت اور وابستگی تھی اس کا سبھی کو علم ہے۔ ان دونوں کے کلیے انہوںنے نواب صاحب کی خدمت میں سفارش کے ساتھ عرض داشتیں بھی راس مسعود کے توسط سے پیش کرائی تھیں۔ چنانچہ ان کے نتیجہ کی انہیں فکر تھی جیسا کہ اس خط کے مضمون سے ظاہر ہے۔ سر آغا خا ں کا معاملہ وہی …وظیفہ کا ہے جس کا گزشتہ صفحات میں ذکر آ چکا ہے۔ معلوم نہیں اعلیٰ حضرت کیا خیال کریں۔ کا ٹکڑا ۔ اقبال کے قلندرانہ مزاج کا واضح نقش ہے جو ایک محسن کے ہوتے ہوئے کسی اور کا احسان مند ہونا گوارا نہیں کرتا۔ ویسے یہ معاملہ اسی وقت ختم ہو چکا تھا۔ اسی خط میں پنڈت نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح کے تذکرے اس بات کے غماز ہیں کہ لاہور پھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ کانگرس اور مسلم لیگ کے سربراہ صوبہ پنجاب سے حمایت حاسل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ اس خط کے بعد بظاہر آخر جولائی تک خاموشی ۱؎ رہی لیکن واقعتا وہ اس عرصے میں اپنے نئے مجموعہ کلام ضرب کلیم کی اشاعت میں مصروف رہے جس کا تذکرہ ہمیں عبدالحمید سالک کی کتاب ذکر اقبا ل میں ملتا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’… چونکہ برقی علاج کے لیے بھوپال جانا ضروری تھا۔ اس لیے مارچ ۱۹۳۶ء کے اوائل میں دہلی ہوتے ہوئے بھوپال پہنچ گئے۔ ۹ اپریل کو بھوپال سے واپس آ گئے اور ضرب کلیم شائع فرمائی اور چند ماہ بعد ستمبر میں پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کو مکمل کر کے شائع کر دیا ۳؎‘‘۔ خود اقبال کے ایک خط بنام خواجہ غلام السیدین مورخہ ۱۸ اپریل ۱۹۳۶ء سے ہمیں ضرب کلیم کے سلسلے میں ان کی مصروفیت کا علم ہوتا ہے اقتباس ملاحظہ ہو۔ ’’ضر ب کلیم کے پروف دیکھ رہا ہوں۔ امید ہے مئی کے آخر تک کتاب چھپ جائے گی ۳؎‘‘۔ لیکن کتاب مئی کے بجائے جولائی کے آخر تک مکمل ہو سکی جیسا کہ یکم اگست کے اس خط سے ظاہر ہوتا ہے۔ ’’لاہور… یکم اگست ۱۹۳۶ء ڈیر مسعود… آج میرے منشی طاہر دین آپ کی خدمت میں ضرب کلیم کی چھ مجلد کاپیاں ارسال کر رہے ہیں ان میں سے ایک کاپی آپ کی ہے اور باقی خاندان شاہی کے لیے اعلیٰ حضرت کے لیے ایک ہز ہائی نس کے لیے۔ ایک شہزادی ولیعہد کے لیے اور دو اعلیٰ حضرت کے دونوں بھتیجوں کے لیے۔ ۱؎ صڑف ایک غیر مطبوعہ خط ۲۹ جون ۱۹۳۶ء کامل سکا جو گزشتہ صفحات میں شامل ہے۔ ۲؎ ذکر اقبال۔ صفحہ ۲۰۲ ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول ) صفحہ ۳۱۷ اعلیٰ حضرت کے لیے جو کاپی ہے اس پر یرا نام کتاب کے صفحہ پر ڈیڈی کیشن کے اشعار کے نیچے لکھا ہے اگر کوئی اور کاپی مطلوب ہو تو اطلاع دیجیے۔ ڈاکٹر عبدالباسط صاحب اور شعیب صاحب کے لیے علیحدہ پارسل میں کاپیاں ان کے نام ارسال کی گئی ہیں۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ بیگم مسعود سلام قبول کریں۔ جاوید سلام عرض کرتا ہے۔ علی بخش بھی آدا ب کہتا ہے… والسلام محمد اقبال میں خدا کے فضل سے اچھا ہوں شاید سردیوں میںبھوپال آئوں۔ ۱؎‘‘ ’’ضر ب کلیم‘‘ شائع ہو گئی اور اس کی خصوصی آٹھ کاپیاں تیار ہو کر بھوپال پہنچ گئیں۔ راس مسعود کے علاوہ پانچ کاپیاں شاہی خاندان کے لیے انہوںنے ارسال کی تھیں۔ نواب صاحب بھوپال بیگم صاحبہ بھوپال شہزادی عابدہ سلطان۔ (ولی عہدہ ریاست ) اور اعلیٰ حضرت کے دونوں بھتیجوں۔ سعید الظفر خاں اور رشید الظفر خاں کو ضڑب کلیم کے نسخے پہنچا دیے گئے۔ دو کاپیاں ڈاکٹر عبدالباسط اور شعیب قریشی کے نا م اقبال نے علیحدہ پارسل میں روانہ کر دیں۔ ڈاکٹر عبدالباسط کے نام جو نسخہ اقبال نے اپنے دستخطوں سے بھیجا تھا۔ وہ ان کے صاحبزادے عبدالحئی صاحب کے پاس محفوظ تھا۔ جس کا عکس کتاب میں شامل ہے اصل کتاب میں نے اقبال اکیڈمی میں محفوظ کرا دی ہے ضرب کلیم اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے دستخطی نسخے شہزادہ عابدہ سلطا جو ملیر کراچی میں سکونت پذیرہیں کے پاس محفوظ تھے جن کی فوٹو کاپیا ں شامل کتاب ہیں۔ ضرب کلیم کی اشاعت کے بعد انہوںنے اپنی توجہ اس کتاب پر مبذول کر دی جس کا وعدہ انہوںنے نواب صاحب بھوپال سے کیا تھا۔ شاید سردیوں میں بھوپال آئوں یکم اگست ۱۹۳۶ء کے خط کا یہ ٹکڑا۔ اس بات کا غماز ہے کہ وہ جلد ہی پھر بھوپال جانے کا عزم رکھتے تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے نام ذیل کا یہ خط اس امر کی مزید تصدیق کرتا ہے کہ وہ قرآن مجید کے حواشی لکھنے کے لیے کتنے مضطرب تھے لکھتے ہیں: ’’لاہور… ۷اگست ۱۹۳۶ء مخدومی … السلام علیکم… ولا نامہ ابھی ملا ہے آ کی صحت کی خبر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی خدا تعالیٰ آپ کو دیر تک زندہ و سلامت رکھے۔ میری صحت کی حالت بہ نسبت سابق بہتر ہے۔ گو آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ انشاء اللہ موسم سرما مین وہ انگریزی کتاب کو لکھنا شروع کروں گا جس کا وعدہ میں نے نواب صاحب بھوپال سے کر رکھا ہے۔ اس میں آ کے مشورہ کی ضرورت ہے۔ بدرواالبازغہ بھی اسی مطلب کے لیے منگوائی ہے ۔ اس کاب میں زیادہ تر قوانین اسلام پر بحث ہو گی کہ اس وقت اسی کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے متعلق جو کتب آپ کے ذہن میں ہیں براہ مہربانی کر کے ان کے ناموں سے مجھے آگاہ کر دیجیے۔ اور یہ بھی فرمائیے کہ کہاں کہاں سے دستیاب ہو ں گی۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۷۸۔۳۷۹ الحمد للہ کہ اب قادیانی فتنہ پنجاب سے رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔۔ مولانا ابوالکلام آاد نے بھی دو تین بیان چھپوائے ہیں مگر حال کے روشن خیال علماء کو ابھی تک بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ اگر آپ کی صحت اجاز ت دے تو ایک جامع و نافع بیان شائع فرمائیے۔ میں بھی تیسرا بیان انشاء اللہ جلد لکھوں گا اس کا موضوع ہو گا بروز لفظ بروز ۱؎ کے متعلق اگر کوئی نقطہ آپ کے ذہن میں ہو تو یا کہیں صوفیا کی کتابوں میں اس پر بحث ہو تو اس کا پتہ دیجیے۔ نہایت شکر گزار ہوں گا۔ موسیٰ جاراللہ ۲؎ صاحب کی کتاب نہایت عمدہ ہے ملنے کا پتہ کتاب پر لکھا ہے۔ مکتبہ الخانجی شارع عبدالعزیز مصر امید کہ مزاج والا بخیر و عافیت ہو گا ۔والسلام مخلص محمدا قبال ۳؎‘‘۔ ان دنو ں اقبال کی توجہ دو خاص امور پر مرکوز تھی۔ اول مسئلہ قادیانی جس کے متعلق ان کے دو بیانات چھپ چکے تھے تیسرا وہ لکھ رہے تھے ۔ ان کی خواہش بھی یہی تھی کہ ندوی صاحب بھی اس سلسلے میں بیان شائع فرمائیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اب قرآن مجید کے حواشی کے لیی ضڑوری مواد بھی جمع کر رہے تھے۔ یہ کتاب وہ انگریزی میں لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اور اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی صاحب سے ممکنہ اعانت کے طالب تھے جیسا کہ مندرجہ بالا خط سے ظاہر ہے کہ انہیں اپنے وعدے اپنی ذمہ داری ا وراپنے وقت کے صحیح مصرف کا کتنا خیا ل تھا۔ اس کااندازہ ان کے اس خط سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں ٖتنہ قادیانی کا زور اگرچہ ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن اپنے نیاز مندوں کی خواہش پر اقبال اپنے تیسرے بیان کی تیار میںمصروف تھے اور اس سلسلے میں سید صاحب کی رہبری اور اعانت کے طالب تھے۔ راس مسعود کے نام ۲ مئی ۱۹۳۶ء کے خط میں پنڈت نہرو کا تذکرہ غالباً اقبال کے اس بیان سے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ جو انہوںنے مسئلہ قادیانی کے بارے میں دیا تھا جس کے جواب میں پنڈت نہرو کا تذکرہ غالباً اقبال کے اس بیان سے متعلق معلوم ہوتا ہے جو انہوںنے مسئلہ قادیانی کے بارے میں دیا تھا۔ جس کے جواب میں پنڈت نہرو نے بھی ایک بیان شائع کر دیا جس میں کانگرس کے مفادات اور اپنے مخصوص خیالات و تصورات کے پیش نظر اقبال پر اعتراضات کیے تھے۔ مجلس احرار اور جماعت احمدیہ کے درمیان مسئلہ ختم نبوت کی نزاعی مشکل سے پنڈت جی نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی کانگرس کا مفاد اسی میں تھا کہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی نہ ہو سکے اور مذہبی فرقے آپس میں دست و گریباں رہیں پنڈت نہرو کی اسلامی شعائر اقدار و تعلیمات سے ناواقفیت کا اندازہ ا ن کے بیان سے ظاہر تھا چنانچہ اقبال نے اپنے تیسرے بیان میں ان امور کی وضاحت ضروری سمجھی۔ یہ بیان جب شائع ہوا تو کتنے ہی گوشے واضح ہو کر سامنے آ گئے اس سلسلے میں نیازی صاحب فرماتے ہیں: ’’…دراصل پنڈت جی نے بلاوجہ ایک ایسی بحث میں دخل اندازی کی تھی جس کے وہ اہل نہیں تھی۔ ان کی روش بھی طالب علمانہ نہیں تھی بلکہ معترضانہ یوں بھی ان کا خطاب ایک طرح سے حضڑت علامہ ہی سے تھا اوراس لیے حضرت علامہ کے لیے بجز اس کے کہ ان سب حقائق کی تشریح فرما دیں جن کی طرف پنڈت جی نے اشارہ کیا تھا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ ۱؎ لفظ بروز کے معنی نو ظہور کے ہیں مگر اس کے اصطلاحی معنی ملاحدہ عجم کی پیداوار ہیں۔ ۲؎ موسیٰ جار اللہ مشہور روسی عالم مفکر یہ ہندوستان کئی بار آ چکے ہیں مجھ سے مکہ معظمہ میں ان سے ملاقات ہوئی تھی یہ ترکی میں بہت سی اسلامی کتابوں کے مصنف ہیں۔ (سید سلیمان ندوی) ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۱۹۸تا ۲۰۰ پنڈت جی کے بیان کو بے جواب چھوڑ دینا ایک طرح سے اعتراف شکست تھا جس سے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو شدید صدمہ پہنچتا تھا۔ لہٰذا کچھ دنوں کی رد و کد کے بعد حضرت علامہ نے فیصلہ کیا کہ اییک طویل بیان شائع کریں۔ حالانکہ انہیں آرام کی ضرورت تھی۔ اور حکیم صاحب بھی فرما چکے تھے۔ کہ ڈاکٹر صاحب کو دماغی حنت سے احتراز کرنا چاہیے۔ بایں ہمہ حضرت علامہ نے یہ طویل بیان جس نے آگے چل کر ایک مضمون کی شکل اختیار کی رقم فرمایا۔ چنانچہ یہی بیان ہے جو بعد میں اسلام اور احمدیت کے عنوان سے شائع ہوا ہے ۱؎‘‘۔ راس مسعود اور بھوپال سے خط و کتابت کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ ضرب کلیم پہنچنے کے بعد جب راس مسعود کا خط انہیںملا تو انہوںنے فوراً جواب دیا۔ ۲۷ اگست کا یہ خط ملاحظہ ہو: ’’لاہور…۲۷ اگست ۱۹۳۶ء ڈیر مسعود…تمہارا خط ابھی ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ خیریت ہے میر ابھی یہی فیصلہ ہے جو تم نے کیا ہے۔ یہ واقعی اٹل ہے کہ میں نے تو پارلیمنٹری بورڈ کی صدارت سے بھی استعفا دے دیا ہے بورڈ کی میٹنگ کل ہو گی آج کے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں جو نوٹ اس استعفا پر نکلا ہے ممکن ہے تمہارے ملاحظہ سے گزرا ہو۔ بورڈ کے ممبر اصرار کر رہے ہیں کہ کچھ دن کے لیے اسے ملتوی کر دوں۔ بہرحال اس ماہ کے اختتام تک میں اس کی صدارت سے دستبردار ہو جائوں گا۔ جس روز کتب تمہارے نام ارسال کی گئیں اس روز صرف آٹھ کتابیں جلد ہو کر آئی تھیں۔ آٹھ کی آتھ بھوپال ارسال کر دی گئیں۔ بعد میں جو جلدین ہوئیں وہ … Inferior قسم کی جلدیں تھیں۔ اس واسطے لیڈی مسعود کے نام ارسال نہ کی گئی۔ امید ہے کہ کل تک اور عمدہ جلدیں بن کر آئیں گی تو انہیں ارسال کروں گا۔ مطمئن رہیے مجھے یاد ہے بھولا نہیں ہوں۔ اعلیٰ حضرت کا خط بھی نہایت تلطف آمیز تھا جو انہوںنے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ باقی رہی کتاب سو یہ ایک Topicalچیز ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے کہ عض خاص خاص مضامین پر میں اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے۔ یہ ایک اعلان جنگ ہے زمانہ حاضر کے نام اور ناظرین سے میں نے خود کہا ہے کہ میدان جنگ میںنہ طلب کر نوائے چنگ۔ نوائے چنگ یہاں موزوں نہیں ہے۔ اس کتاب کا نام Realisticہونا ضروری ہے اورنوائے چنگ کی تلافی Epigrammatic Styleسے کی گئی ہے ۔ والسلام محمد اقبال ۲؎ ‘‘۔ ۱؎ مکتوبات اقبال صفحہ ۳۱۴ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۷۹تا ۳۸۱ اس خط سے پارلیمنٹری بورڈ کی صدارت سے استعفا کا حال ہی نہیں اس کا پس منظر بھی واضح ہو جاتا ہے۔ پنجاب کی سیاسی فضا اقبال ایسے صاحب فکر و عمل کے لیے بالآخر ناساز گار ثابت ہوئی اور وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ لیڈی مسعود کو اقبال نے ضرب کلیم نہیں بھیجی تھی۔ چنانچہ راس مسعود نے بیگم کا شکوہ ان تک پہنچایا وہ راس مسعود ہی نہیں بیگم راس مسعود کے بھی بے حد مداح قدردان اور ان کے اعلیٰ ادبی ذوق کے معترف تھے۔ ان کی شکایت پر بھلا کیوں نہ توجہ دیتے۔ وضاحتاً لکھا کہ صرف آٹھ جلدین اعلیٰ قسم کی ابتداً تیار ہو کر آئی تھیں۔ باقی جلدیں معمولی قسم کی تھیں اس واسطے لیڈی مسعود کو نہیں بھیجی گئی۔ لیکن جلد ہی عمدہ جلد کی کتاب بھیجنے کا وعدہ کیا۔ اس خط کا آخری حصہ خصوصیت سے قابل غور ہے۔ ضرب کلیم اگرچہ بقول اقبال ٹاپیکل یا موضوعاتی مجموعہ کلام ہے۔ لیکن اس سے کتاب کی قدر و اہمیت کم نہیں ہوتی۔ بلکہ کبھ بڑھ ہی جاتی ہے۔ ۱۹۳۶ء کے انقلابی اور خلفشاری دور کا اندازہ کیجیے اور پھر اس مجموعہ کی تخلیقات پر نظر ڈالیے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ان موضوعات پر صرف اقبا ل ہی قلم اٹھا سکتے ہیں۔ اور سوئی ہوئی مسلم قوم کو بیدار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ واقعی یہ مجموعہ زمانہ حاضر کے نام اعلان جنگ تھا اور ناظرین سے ان کا تخاطب یوں تھا: میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ وہ نوائے چنگ کو غیر موزوں قرار دیتے تھے۔ البتہ کتاب کے رئلسٹک حقیقت پسندانہ ہونے کو ضروری سمجھتے ہیں اور نوائے چنگ کی تلافی کے لیے انہوںنے جو انداز اختیار کیا ہے اسے اپیگریمیٹک اسٹائل تلمیحاتی اسلوب کا نا م دیا ہے۔ ویسے بھی یہ مجموعہ ان کے عام مجموعوں سے کئی اعتبار سے مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔ جیسا کہ ایک اور جگہ ضرب کلیم کی اشاعت کے دوران خواجہ غلا م السیدین کے نام ایک خط مورخہ ۲۱ جون ۱۹۳۶ء میں جو انہوںنے لاہور سے بھیجا تھا اس مجموعہ کے بارے میں خود اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ جو کئی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو: ’’…ضرب کلیم امید ہے جون کے آخر تک شائع ہو جائے گی اور میں آپ کوایک نسخہ پیشگی بھیج سکوں گا۔ اس مجموعہ میں سے ایک حصہ تعلیم و تربیت کے لیے وقف ہے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی نئی بات نظر نہ آئے تاہم اگر کتاب آپ کو بروقت مل جائے تو محولہ بالا حصہ ضرور مطالعہ فرمائیے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ Leibnitz's Monadism کے تعلیمی نتائج سے واقف ہیں۔ اس قیاس کے مطابق انسانی مونیڈ خارج سے کوئی اثر قبول کرنے سے عاری ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ انسانی مونیڈ زیادہ تاثر پذیر قوت کا حامل ہے۔ زمانہ ایک بڑی سی برکت و نعمت ہے (لا تسبو الدھر ان الدھر ھوا للہ) اگر ایک طرف موت اور تباہی لاتا ہے تو دوسری طرف وقت کی ہی آبادی و شادابی کا منبع ہے۔ یہی اشیاء کے پوشیدہ امکان کو بروئے کار لاتا ہے حالات حاضرہ میں تغیر کا امکان ہی انسان کی سب سے بڑی دولت اور ساکھ ہے ۱؎‘‘۔ ۱؎ اقبال نامہ( جلد اول) صفحہ ۳۱۵۔۳۱۶ نامناسب نہ ہو گا اگر ضرب کلیم کے پہلے اور انتساب کے صفھات پر ایک نظر ڈال لی جائے کیونکہ یہی وہ تاریخی مجموعہ ہے جو اقبال اور ناب صاحب کے ذاتی مراسم اور تعلقات کی دائمی یادگار ہے۔ کتاب کھولتے ہی ضرب کلیم کا پہلا صفحہ ہمیں چونکا دیتا ہے: ضرب کلیم یعنی اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف نہیں مقام کی خوگر طبیعت آزاد ہوائے سیر مثال نسیم پیدا کر ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے خودی میں ڈوب کے ضرب کلیم پیدا کر (اقبال) ’’ضرب کلیم‘‘ کو انہوںنے نواب حمید اللہ خاں کے نام معنون کرتے ہوئے جس انداز میں انہیں خراج تحسین ادا کیا ہے اس سے ان کی ژرف نگاہی کا قائل ہونا پڑتا ہے: اعلیٰ حضرت نواب سر حمید اللہ خاں فرماں روائے بھوپال کی خدمت میں : زمانہ با امم ایشیا چہ کردوکند کسے نہ بود کہ ایں داستاں فرو خواند تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است دل تو بیند و اندیشہ تو می داند بگیر ایں ہمہ سرمایہ بہار از من کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند اس انتساب کے دو مصرعے خصوصیت کے ساتھ نواب حمید اللہ خاں سے اقبال کی گہری عقیدت اور وابستگی کے آئینہ دار ہیں: تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است دل تو بیند و اندیشہ تو می داند نواب حمید اللہ خاں کو جب یہ عظیم تحفہ اپنے دوست کی جانب سے موصول ہوا و دیرینہ تعلق کی بنا پر انہوںنے اقبال کا رسمی نہیں بلکہ قلبی شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا۔ والیان ریاست میں ایسے صاحبان علم و نظر کتنے ہوں گے جو شاعران باکمال ی اس طرح قدر دانی اور پذیرائی کے قائل ہوں گے۔ یا اسے ضرور ی سمجھتے ہوں ۔ نواب صاحب نے جس محبت سے انہیں خط لکھا۔ ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کا اظہار خط کے اس ٹکڑے سے ظاہر ہے۔ ’’… اعلیٰ حضرت کا خط بھی نہایت تلطف آمیز تھا جو انہوںنے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا…‘‘ نواب صاحب کا یہ قلمی خط یقینا کہیں نہ کہیں ضرور محفوظ ہو گا۔ میں نے جاوید اقبال کو اس سلسلے میں دو تین بار توجہ دلائی لیکن افسوس کہ وہ اس خط کے بارے میں رہبری کرنے سے قاصر رہے۔ کاش یہ خط مل جاتا تو دونوں کے ذاتی روابط اور مراسم کے کچھ اور پہلو سامنے آ جاتے۔ ا س کتاب ضرب کلیم اور انتساب کا ایک اور پہلو وہ فکری ہم آہنگی بھی ہے جو اقبال اورنواب حمید اللہ خاں صاحب میں قدر مشتر ک کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کا اس مجموعہ کی نظموں میں موضوعاتی اعتبار سے جابجا اظہار ملتاہے۔ بعض کم نظروں اور کوتاہ بینوں نے اس انتساب پر اعتراضات بھی کیے۔ لیکن حقیقت شناس نگاہوں نے ضرب کلیم کو نواب حمید اللہ خاں کے نام معنون کرنے میں کسی مصلحت یا د نیاداری کی کوئی جھلک نہیں دیکھی۔ نواب صاحب اقبال کے گرویدہ و شیدا تھے۔ وہ ان کی عظمت فن اور ان کے فکر و فلسفہ کا بارہا اعتراف کر چکے تھے اس لیے ان حقائق کا تجزیہ کیجیے تو انسانی سطح پر یہ انتساب حقیقت پسندی جذبہ نیاز مندی اور سپاس گزاری کے ماسوا کسی اور جذبہ کا غمار نظر نہیں آئے گا۔ دونوں کے اس جذبہ مودت کا خوشامد تملق یا مدح سرائی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ بلکہ ایک مخص دوست کا دوسرے مخلص دوست کو خراج تحسین ہے اور بس۔ ضرب کلیم کے انتساب پر اقبال کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد بھی کتنی قیاس آرائیاں کی گئیں ان گنت اعتراضات ہوئے حتیٰ کہ ان کے بعض شر پسند پرستاروں جو انہیں انسان سے زیادہ پیغمبر اور مافوق البشر ہستی سمجھنے لگے تھے۔ اسے ان کی سبکی قرار دیا اور طرح طرح سے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی کہ چنانچہ اقبال کے ایک دیرینہ نیاز مند پروفیسر یوسف سلیم چشتی جن کے کئی مستند واقعات روزگار فقیر میں بھی شامل ہیں اس تنقید و اعتراض پر خاموش نہ رہ سکے اور انہوںنے حقیقت حال کا اظہار کر دیا لکھتے ہیں: ’’میں نے اس انتساب کی علت پر بار بار غور کیا۔ لیکن اس کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی کہ مرحوم بہت احسان شناس واقع ہوئے تھے اور میں ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ کوئی شخص ان کے ساتھ جب کوئی سلوک کرتا تو وہ اس کا تذکرہ ہمیشہ شکر گزاری اور ممنونیت کے رنگ میں کیا کرتے تھے ۱؎‘‘۔ مولانا الیااس برنی کی دانست می اس کا جواز یہ تھا فرماتے ہیں: ’’فرماں روائے بھوپال نے علامہ مرحوم و مغفور کی آخری زمانے میں جو قدر شناسی کی تھی تو علم پروری کی بڑی خصوصیت حاصل ہو گئی تھی۔ بھوپال گویا اقبال کا میزبان بن گیا۔ یہ مہمان داری قابل یادگار ہو گئی ۲؎‘‘۔ اور اس کا اعتراف تو ا یک سے زائد بار اقبال نے راس مسعو د کے خطوط میں کیا ہے مثلا ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء کے خط بنام راس مسعود کا یہ اقتباس: ’’اعلیٰ حضرت کے مراحم خروانہ کا کس زبان سے شکر ادا کروں کہ بھوپال میں میری آصائش کا ان کا اس قدر خیال ہے ۳؎‘‘ ۱؎ شرح ضرب کلیم صفحہ ۲۱۔۲۲ ۲؎ گورنمنٹ حمیدیہ کالج میگزین بھوپال ۱۹۶۲ء صفحہ ۱۹ ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۶۰ اقبال کی وفات کے پورے چوبیس سال بعد یعنی ۱۹۶۲ء گورنمنٹ حمیدیہ کالج بھوپال کے ایک طالب علم شبیر اقبال ایم اے (علیگ اردو) (ایم اے سال اول انگریزی) کا ایک مختصر سا مضمون کالج میگزین میں ’’اقبال اور بھوپال ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون کے بعد اقتباسات سے ضرب کلیم اس کے انتساب اور اقبال اور نواب صاحب کے باہمی روابط پر کچھ نہ کچھ روشنی پڑتی ہے ملاحظہ ہو: ’’… جہاں کسی شاعر کے پیغام کو سمجھنے اور اس کی روح فن کی گہرائیوں تک پہنچنے کی لیے اس کے کلام کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ وہاں اس کے گرد و پیش کے حالات ا س کے زمانے کے سیاسی تہذیبی تمدنی شور اور سب سے بڑھ کر خود اس کی دلی کیفیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اقبال ہماری زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ ان کے پورے کلام میں ضرب کلیم کو جو حیثیت حاصل ہے ا سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اس میں اقبال اپنے فن کے انتہائی عروج عروج پر ہیں۔ فلسفہ تصوف اسلامیات اور بین الاقوامی اثرات غرض ضڑب کلیم میں وہ سب کچھ ہے جو اقبال کی اہم خصوصیات ہیں یہی نہیں بلکہ اقبال نے ضرب کلیم میں ان مسائل پر بھی شعر کہے ہیں جن کا تعلق نہ تو ان کے وطن عزیز ہند سے ہے اورنہ ان کی قوم سے۔ اس کی سب سے اچھی مثال مسولینی اور جمعیت اقوام مشرق ہیں۔ ضرب کلیم ان فلسفیانہ نظموں سے پر ہے ۔ انہوںنے تعلیم معاشرت سیاست عورت تعلیم نسواں وغیرہ مختلف عنوانات پر اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں بے شمار نکتے بیان کیے ہیں اور بعض نظمیں اس مجموعہ میں ا س قدر بلند پائے کی ہیں کہ بقول پروفیسر سلیم چشتی ان کی سرحد الہام سے ملی ہوئی معلوم ہوتی ہے‘‘۔ ابھی تک ضرب کیم کو سمجھنے کی جتنی کوششیںکی گئی ہیں ان میں بہت کم کامیابی نصیب ہوئی ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فی الحال ہمارے سامنے اقبال کی نجی زندگی کے مختلف پہلو بے نقاب نہیں ہیں۔ اقبال کی شاعری کیونکہ اقبال نے کبھی اپنی باطنی و نفسی تحریک کے بغیر کوئی شعر نہیں کہا اوران کا تمام کلام آمد کا نتیجہ ہے۔ آورد کو اس میں کوئی دخل نہیں چنانچہ اپنے متعلق خود فرماتے ہیں: کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی دراصل ضرب کلیم کو سمجھنے کیلیے علامہ اقبال کو بھوپال سے جو تعلق رہا ہے اسے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ضرب کلیم کی تمام اچھی نظمیں ان کے قیام بھوپال کے زمانے کی یادگار ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان سب میں علامہ موصوف نے خو د بھوپال کا حوالہ دینا ضروری سمجھا ہے۔ اقبال کو بھوپال اور خصوصاً نواب حمید اللہ خاں مرحوم سے جو تعلق تھا وہ بعد میں اس قدر رنگ لایا کہ اس نے ان سے ضرب کلیم کو نواب صاحب کے نام معنون کر ا کے چھوڑا ۱؎‘‘۔ اسی مضمون میں آگے چل کر اس انتساب کے اسباب و علل پر روشنی بھی ڈالی ہے لکھتے ہیں: ۱؎ گورنمنٹ حمیدیہ کالج میگزین بھوپال ۱۹۶۲ء صفحہ ۱۸ اس انتساب کی اہم وجہ ڈاکٹر اقبال کا ممنون احسان ہونا تھا بلکہ اقبال ان سے یعنی نواب حمید اللہ خاں سے ذاتی طو ر پر متاثر تھے۔ اور اپنے سیاسی فلسفہ کی عملی جدوجہد کا ضامن نواب صاحب کو سمجھتے تھے۔ اسی لیے اپنے ایک خطبہ میں جو دوسری گول میز کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم نواب صاحب بھوپال پر کلی اطمینان ظاہر کر تے ہیں اوران کی رائے کا ہمیشہ احترام کریں گے۔ اوران کے فیصلوں کے پابند رہیں گے۔ دراصل نواب صاحب سے ا ن کے تعلقات کی ابتدا اس وقت ہوئی جب دونوں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔ وہاں آپس کی ملاقاتیں رنگ لائیں اور دونوں ایک دوسرے سے بہت متاثر ہوئے۔ لندن سے واپسی کے بعد جب کشمیری عوام کی تحریک نے مہاراجہ کشمیر کے خلاف زور پکڑا اس وقت ڈاکٹر اقبال کے ایمااور مشورہ سے مہاراجہ نے نواب صاحب کو کے ثالث بننے پر زور دیا۔ اس سلسلے میں نواب صاحب کی منظوری لینے اور ضروری صلاح و مشورہ کے لیے ڈاکٹر اقبال دوبارہ بھوپال تریف لائے اور یہاں لمبے عرصہ تک قیام کیا۔اس وقت اقبال کے دوست اور دست راست سر راس مسعود بھوپال میں وزیر تعلیم تھے جس سے گویا ان کے تعلقات کی تجدید ہو گئی اسی زمانے کی یادگاریں اقبال کی مشہور نظمیں’’صبح‘‘ ’’تصوف‘‘ ’’وحی‘‘ ’’مومن‘‘ ’’مقصود‘‘ ’’حکومت‘‘ اور ’’نگاہ‘‘ وغیرہ میں سلطانی جیسے پروفیسر سلیم چشی نے بلندی افکار اور عمق معانی کے لحاظ سے ضرب کلیم کی بہترین نظم قرار دیا ہے وہ بھی اسی زمانہ قیام کی یادگار ہے۔ اس کے بعد ان تعلقات نے اور بھی وسعت اختیار کی۔ اسی زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریک نے زورپکڑا۔ اور ڈاکٹر اقبال نواب صاحب مرحوم کے مشورہ سے تحریک میں عملی طور سے شریک ہوگئے۔ اس میں شک نہیں کہ مستی کردار کے لحاظ سے اقبال کو حلاج سے کوئی نسبت نہیں۔ دارورسن تو بڑی چیز ہے وہ سیاسی دنیا میں محمد علی جوہر داس ‘ اجمل‘ نہرو نہ بن سکے۔ پھر بھی ہر سیاسی تحریک کے وہ دماغ سمجھے جاتے تھے اور ہر فیصلہ نواب صاحب کے صلاح و مشورہ کے بعد ہوتا تھا۔ ان تعلقات کی انتہا اس وقت ہوئی جس سر آغا خاں کی تحریک اور سر راس مسعود کی تائید و حمایت پر ڈاکٹر اقبال کو نواب صاحب نے منسٹری ۱؎ پیش کی اور ڈاکٹر صاحب نے اپنی خودداری قناعت اور آزادی کے پائوں میں بیڑی ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔ ۱؎ بھوپال میں وزارت کی پیش کش کا اس اقتباس کے علاوہ کوئی اور ثبوت نہیںمل سکا۔ اور اس طرح انکار کر دیا کہ پھر سر راس مسعود کو اصرار کی ہمت نہ ہوئی ۱؎‘‘۔ اس مضمون کا آخری اقتباس خصوصیت کے ساتھ اہمیت رکھتا ہے جس میں نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں اقبال اور نواب صاحب کے گہرے روابط کا تجزیہ کیا گیا ہے: ’’… رام پور حید ر آباد اور بھوپال کی تاریخ ایسے صد ہا واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ جب کسی ادیب یا شاعر کو بہش بہا عطیات اور گراں قدر انعامات و جاگیرات عطا کر کے اسیر کر لیا گیا ہو۔ رام پور سے غالب حیدر آباد اور داغ اور امیر مینائی کو جو نسبت رہی ہے وہ اردو ادب کی تاریخ میں قابل ذکر ہے۔ مگر ڈاکٹر اقبال اور بھوپال کی نسبت اپنی نوعیت اور اہمیت کے لحاظ سے بالکل جداگانہ اور انوکھی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ تعلقات ایک نواب اورایک درباری شاعر کے تعلقات نہ تھے جس کا کام کلام پر اصلاح کرنا یا تہنیت اور تقاریب کے مواقع پر قصیدہ لکھنا ہو بلکہ ایک راز دار دوست اور سچے ساتھی کے تعلقات تھے جنہوںنے ایک دوسرے کو گرویدہ بنا لیا تھا اور جس نے اقبال کے کلام پر اور خصوصاً ضرب کلیم کی نظموں پر وہ اثرات ہیں جنہیں ہم بغیر ان دونوں کے تعلقات کو سمجھے ہوئے خیالات کی گہرائی اور روح تک نہیں پہنچ سکتے اور یہ اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ اقبال کے وہ تمام خوط منظر عام پر نہ آ جائیں جو انہوں نے وقتاً فوقتاً نواب صاحب مرحوم سرراس مسعود‘ اور وزیر تعیلم بھوپال اور ممنون حسن خاں کو لکھے ہیں ۲؎‘‘۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اقبال اور بھوپال کے سلسلے میں جتنا کچھ مواد مجھے کئی سال کی سعی و تلاش اور مسلسل جدوجہد کے بعد دستیاب ہو سکا وہ اس کتاب میں پیش کر دیا گیا ہے لیکن ابھی کتنا ہی دستاویزی ثبوت ایسا ہو گا جو ریاست بھوپال میں انضمام کے بعد شائع ہو گیا یا منتشر ہو گیا۔ نواب صاحب کے خطوط اقبال کے نام اور اقبال کے خطوط نواب صاحب کے نام ہر ممکن کوشش کے باوجود دستیاب نہ ہو سکے ۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ کبھی اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ان کی تلاش و جستجو کا سلسلہ جاری رکھیں اور ان حقائق کو بے نقاب کر سکیں جو اقبال اور نواب صاحب اوربھوپال کے گہرے روابط کی اساس تھے۔ پھر بھی جتنے واقعا ت اب تک علم میں آ سکے ہیں ان میں سے یہ حقیقت یقینا بے نقاب ہو گئی ہے کہ اقبال اور نواب بھوپال کے تعلقا اگرچہ قطعی بنیادوں پر تھے لیکن بالواسطہ اس دور کی سیاست سے بھی ان کا کچھ نہ کچھ ضرور تعلق تھا۔ ضرب کلیم بھوپال کے تیسرے قیام ۲ مارچ تا ۱۸ اپریل ۱۹۳۶ء کے بعد جولائی ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی اور یکم اگست ۱۹۳۶ء کو انہوںنے پہیلی آٹھ مطلا جلدیں بھوپال ارسال کیں ۔ جیسا کہ گزشتہ صفحا ت میں ذکر آ چکا ہے۔ دوماہ کے بعد ستمبر ۱۹۳۶ء میں ان کی مشہور مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق جس کا آغاز انہوںنے شیش محل بھوپال میں کیا تھا۔ ۱؎ گورنمنٹ حمید کالج میگزین بھوپال ۱۹۶۲ء صفحہ ۱۹۔ ۲۰ ۲؎ گورنمنٹ حمیدیہ کالج میگزین بھوپال ۱۹۶۲ء صفحہ ۲۰ مکمل ہو کر اشاعت پذیر ہوئی۔ اقبال نواب صاحب سے گہری وابستگی کے سبب صرف ضرب کلیم کے انتساب پر ہی مطمئن نہ تھے بلکہ کچھ اور تحفہ بھی ان کی نذر کرنا چاہتے تھے جیسا کہ ذیل کے خط سے ظاہر ہے فرماتے ہیں: ’’لاہور… ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ء ڈیر مسعود۔ ابھی تمہارا خط ملا۔ کیا خوب میں گزشتہ رات علی بخش سے کہہ رہا تھا کہ مسعود کا خط کئی دن سے نہیں آیا فکر و تردد ہے۔ آج دوپہرکو تمہارا خط مل گیا۔ الحمد للہ میری صحت دن بہ دن ترقی کر رہی ہے ارآواز میں بھی فرق آ رہا ہے۔ انشاء اللہ دربار رسالت میں جو کچھ میں نے عرض کیا ہے قبول ہو گا۔ امسال دربار حضو رمیں حاضری کا قصد تھا مگر بعض مواقع پیش آ گئے۔ انشاء اللہ امید ہے کہ آئندہ سال ۱؎ حج بھی کروں گا۔ اور دربار رسالتؐ میں بھی حاضری دوں گا۔ اور وہاں سے ایک ایسا تحفہ لائوں گا کہ مسلمانان ہند یاد کریں گے۔ یہ تحفہ بھی اعلیٰ حضرت کی نذر کیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے لاہور میں الیکشن کی گرم بازاری ہے پنجاب میں الیکشن کے سلسلے میں اب تک دو قتل کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ سرحد پر پھر جنگ اور قصہ وہی مسجد شہید گنج کا۔ امید ہے لیڈی مسعود بخیریت ہوں گی۔ ان کی خدمت میں آداب عرض ہو۔ علی بخش آپ دونوں کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔ جاوید بھی جو ابھی سکول سے آیا ہے سلام عرض کرتا ہے فروری یا مارچ میں دہلی جانے کا قصد ہے ممکن ہوا تو چند روز کے لیے بھوپال بھی آئوں گا۔ تمہارا مخلص محمد اقبال ۲؎ ‘‘۔ اس خط کا یہ حصہ… ’’ابھی تمہارا خط ملا ہے۔ کیا خوب میں گزشتہ رات علی بخش سے کہہ رہا تھا کہ مسعود کا خط کئی دن سے نہیں آیا فکر و تردد ہے۔ آج دوپہر کو تمہارا خط مل گیا‘‘ … اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں میں برابر خطو ط کا سلسلہ جاری تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے خطوط کا بے چینی سے انتظار کر تے تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کے دل کی گہرائیوں سے زیادہ قریب تھے۔ یہ دونوں کی سچی دوستی قلبی تعلق اور خلوص و محبت کی انتہا تھی پھر اسی خط سے دربار رسالت میں حاضری کی خواہش اور وہاں سے غیر معمولی تحفہ لانے کی آرزو کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اور اس عظیم و یادگار تحٖہ کو نواب صاحب بھوپال کی نذر کرنے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ کس خلوص و محبت سے لکھتے ہیں: ’’… انشاء اللہ … امید ہے سال آئندہ حج بھی کرو ں گا اور دربار رسالتؐ میں بھی حاضری دوں گا۔ اور وہاں سے ایک ایسا تحفہ لائوں گا کہ مسلمانان ہند یاد کریں گے۔ یہ تحفہ بھی اعلیٰ حضرت کی نذر کیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے …‘‘ ۱؎ سہواً رہ گیا۔ ۲؎ اقبال نامہ(جلد اول) صفحہ ۳۸۱۔۳۸۲ ضرب کلیم کے بعد ایک اور تحفہ نظر کرنا اور درازی عمر کی دعا کرنا۔ محض رسمی یا روایتی جملے نہیں بلکہ اس گہری عقیدت اور والہانہ وابستگی کو ظاہر کر تے ہیں جو انہیں نواب صاحب سے تھی اور نواب صاحب کو ان سے ۔ لاہو ر میں الیکشن کی گرم بازاری سرحد پر جنگ اور قصہ وہی مسجد شہید گنج کا۔ اس خط کے وہ اہم ٹکڑے ہیں جن سے اس دور کی سیاسی فضا کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خط کے آخر میں دہلی جانے کا اظہار بھی ہے اور بھوپال جانے کا تذکرہ بھی۔ …ممکن ہوا تو چند روز کے لیے بھوپال بھی آئوں گا… اس عبارت سے تعلق خاطر ہی نہیں۔ بھوپال سے ان کی خصوصی دلچسپی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اب ان کی صحت پہلے سے کافی بہتر تھی جیسا کہ خط کے شروع میں ؒکھا ہے۔ الحمد للہ میری صحت دن بدن ترقی کر رہی ہے آواز میں بھی فرق آ رہا ہے… وہ چوتھی بار بھوپال جانے کا عزم رکھتے تھے لیکن حالات کی ستم ظریفی نے اس کا موقع نہ دیا۔ وہ اپریل میں دہلی ضرور گئے لیکن حکیم نابینا صاحب کو دکھا کر دوسرے ہی روز لوٹ آئے۔ اس سفر کا تذکرہ ان کے ۱۹ اپریل ۱۹۳۷ء کے خط میں ملتا ہے جو آئندہ صفحات میں شامل ہے۔ نواب بھوپال اور ارمغان حجاز نواب صاحب بھوپال کے نام ایک اور تحفہ نذر کرنے کا تذکرہ دراصل ارمغان حجاز کے بارے میں ہے۔ یہ مجموعہ اس قت شائع ہوا جب راس مسعود بھی دنیا میں نہ رہے اور اقبال بھی شیخ عطا اللہ مرتب اقبال نامہ لکھتے ہیں: ’’اقبال کی احسان مندی کا حال یہ تھا کہ انہوںنے اپنی کتاب ارمغان حجاز بھی نواب صاحب ی کی نظر کرنے کا ارادہ کر لیا تھا جس کی اطلاع انہوںنے سر سید راس مسعود کو دی تھی۔ سر راس مسعود اقبال سے پہلے فوت ہو گئے اور ارمغان حجاز اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ اس طرح اقبال کی اس خواہش و وعدہ کا جواب ایک گونہ وصیت کا حکم رکھتا ہے۔ کسی کو علم نہ ہوا ۱؎‘‘ نادرہ مسعود کی پیدائش پر تاریخی قطعہ مارچ ۱۹۳۷ء میں راس مسعود کو اللہ نے چاند سی بچی عطا کی جس کا نام اقبال نے نادرہ رکھا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی پیدائش پر تاریخی قطعہ بھی لکھا جو خوش نصیبی سے فقیر وحید الدین کو مل گیا۔ اور انہوںنے محفوظ کر دیا۔ اس کے بارے میں تفصیلات انہیں کی زبانی سنیے: ’’ڈاکٹر صاحب نے نادرہ مسعود کی پیدائش پر تاریخی قطعہ قلمبند کرایا۔ یہ یکم مارچ ۱۹۳۷ء کا واقعہ ہے۔ یہ اشعار جو اب تئیس سال قبل کہے گئے تھے کسی کتاب یا رسالے میںآج تک شائع نہیں ہوئے۔ پہلی بار اس کتاب کی زینت بنے ہیں۔ ۱؎ دیباچہ اقبال نامہ جلد اول صفحہ غ ان اشعار کی ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ سر سید احمد خاں کے پورے خاندان کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے گھرانوں میں لڑکی پیدا ہونے پر جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا جاتاہے اس کا ازالہ ڈاکٹر صاحب نے ان اشعار میں بڑے ہی حکیمانہ انداز میں فرمایا ہے: راس مسعود جلیل القدر کو جو کہ اصل و نسل میں مجدود ہے یادگار سید والا گہر نور چشم سید محمود ہے راحت جان و جگر دختر ملی شکر خالق منت معبود ہے خاندان میں ایک لڑکی کا وجود باعث برکات لا محدود ہے کس قدر برجستہ ہے تاریخ ابھی با سعادت دختر مسعود ہے یکم مارچ ۱۹۳۷ء بھوپال ۱؎ (محمد اقبال) ۲؎‘‘۔ یہ قطعہ بھوپال بھیجنے کے بعد جب کئی د تک راس مسعود کا جواب نہیں آیا تو انہوںنے ۱۹ اپریل کو خط لکھا ان کی لیڈی مسعود کی اور نومولود بچی کی خیریت دریافت فرمائی اور اس افواہ کا تذکرہ بھی کیا جا ان کے کشمیر جانے کے متعلق تھی اور بعد میں غلط ثابت ہوئی لکھتے ہیں: ’’لاہور… ۱۹ اپریل ۱۹۳۷ء ڈیر مسعود کئی دنوں سے تمہاری خیریت معلوم نہیں ہوئی۔ امید ہے کہ لیڈی مسعود اور بچی خدا کے فض و کرم سے مع الخیر ہوں گی۔ ان کی خیریت سے مطلع کیجیے۔ میں ایک روز کے لیے دہلی گیا تھا۔ حکیم نابینا کی دوائی سے صحت بہت ترقی کر رہی ہے۔ تم اپنی خیریت سے مطلع کرو۔ گرمی کا آغاز لاہور میں ہو گیا ہے۔ گو رات کو ذرا سردی ہو جاتی ہے۔ رات میں نے ایک کشمیری بزرگ سے سنا کہ تم کشمیر کے ہوم منسٹر بننے والے ہو۔ کیا اس افواہ میں کوئی صداقت ہے؟… امید نہیں کہ اعلیٰ حضرت نواب بھوپال صاحب تم کو بھوپال چھوڑنے کی اجازت دیں گے۔ والسلام تمہارا مخلص محمد اقبال۔ میں نے یہ خط ایک دوست سے لکھوایا ہے ۔ معاف رکھنا۔ آنکھ کا معائنہ کرایا ہے اور ڈاکٹرنے کہا ہے کہ دوسرے معائنہ تک لکھنا پڑھنا بند کر دو۔ جاوید تم کو اور لیڈی مسعود کو سلام کہتا ہے اور علی بخش بھی سلام عرض کرتا ہے ۳؎‘‘۔ راس مسعود کے بھوپال چھوڑ کر کشمیر جانے کی افواہ حسب توقع غلط ثابت ہوئی: ۱؎ یکم مارچ ۱۹۳۷ء کو اقبال لاہور میں تھے۔ لفظ بھوپال شاید اس مسودہ میں لکھا ہو گا جو فقیر وحید الدین کی نظر سے گزرا ہو گا اس لیے سہواً کتاب میں بھی درج ہو گیا۔ ۲؎ روزگار فقیر ۔ جلد اول صفحہ ۱۶۳۔۱۶۴ ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۸۳۔۳۸۴ مسلسل لکھنے پڑھنے او ردیگر علمی مشاغل میں لگاتار مصروفیت ان کی بینائی کو متاثر کیا تھا۔ چانچنچہ یہ خط وہ خود نہیں لکھ سکے بلکہ کسی دوست سے لکھوایا اور اس کی معذرت بھی کر لی۔ موسم گرما میں نواب صاحب عموماً کشمیریا نینی تال جاتے تھے جب سے راس مسعود بھوپال آ گئے تھے۔ وہ بھی اکثر ان کے ہمراہ جانے لگے تھے۔ اس خط میں یہ دریافت کرنا …کیا آپ اس دفعہ کشمیر جانے کا قصد کر رہے ہیں؟ اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن راس مسعود کشمیر نہیں جا سکے۔ کیونکہ آئندہ چند ماہ میں جو انقلابات رونما ہوئے ان کی اس سے تصدیق ہوتی ہے۔ ۸ جون کا خط ملاحظہ ہو: ’’لاہور… ۸ جون ۱۹۳۷ء ڈیر مسعود… تمہارا خط آج مل گیا ہ۔ جسے پڑھ کر اطمینان ہوا۔ دعاہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری بچی کو جلد صحت یاب کرے۔ تاکہ تم دونوں کو اطمینان قلب حاصل ہو۔ جاوید اورمنیرہ کی نگہداشت کے لیے اور گھر کے عام انتظام کے لیے جو ایک مدت سے بگڑا ہوا ہے۔ میں نے فی الحال عارضی طور پر علی گڑھ سے ایک جرمن خاتون کو جا اسلامی معاشرت سے واقف ہے اوراردو بول سکتی ہے۔ بلوایا ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی اور دیگر احباب نے اس کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے۔ اگر وہ اپنے فرائض ادا کرنے میںکامیاب ہو گئی تو مجھے بے فکری ہو جائے گی۔ جاوید کی عمر اس وقت تقریباً تیرہ سال ہے اور منیرہ کی تقریباً سات سال۔ ماں کی موت سے ان کی تربیت میں بہت نقص رہ گئے ہیں اسی واسطے میں نے مذکورہ بالا انتظام کیا۔ یہ جرمن لیڈی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے علی گڑھ کے ایک پروفیسر کی بیوی کی بہن ہے جو ایک مدت سے علی گڑھ میں مقیم رہی ہے۔ شاید تم انہیں جانتے ہو گے۔ باقی تمہارے خط سے مجھے بے انتہا تسلی ہوتی ہے۔ اور تمہارا وعدہ بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ زیادہ کیا لکھوں؟ گرمی شدید ہے۔ علی بخش سلام کہتا ہے اور جاوید سلام عرض کرتا ہے۔ ہاں تم کو سن کر تعجب ہو گا کہ سر اکبر حیدری کا خط مجھ کو لندن سے آیا ہے اور بہت دل خوش کن ہے۔ والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘۔ راس مسعود کی بچی علیل ہو گئی تھی۔ وہ اس کی علالت کے سبب پریشان تھے۔ راس مسعود کا خط ملا تو انہوںنے بچی کی صحت یابی کی دعا فرمائی۔ اوراپنے دونوں بچوں جاوید اور منیرہ کی نگہداشت کے سلسلے میں جرمن خاتون کی خدمات حاصل کرنے کی تفصیلات بھی بیان کر دیں۔ اس خط کا یہ ٹکڑا… ’’باقی تمہارے خط سے مجھے بے انتہا تسلی ہوتی ہے‘‘ رفاقت اور دوستی کے ان گہرے رشتو ں کی نشان دہی کرتا ہے جو دونوں میں قائم و مستحکم تھے۔ اس خط میں سر اکبر حیدری کے خط کا بھی ذکر ہے جو انہیں لندن سے ملا تھا۔ اوردل خوش کن تھا۔ اس کا تعلق حیدر آباد دکن کی کسی نئی نسل پیش کش ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ بھوپال کے ساتھ وابستگی سے قبل حیدر آباد دکن سے جو انہیں تعلق خاطر رہا ہے ۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول ) صفحہ ۳۸۴۔۳۸۵ اس کی تفصیلات نظر حیدر آبادی مرحوم کی کتاب ’’اقبال اور حیدر آباد‘‘ میںپیش کی گئی ہیں۔ اقبال ایسے مرد قلندر کے لیے اب حیدر آباد دکن کی کسی نئی پیش کش میںصرف اتنی سی کشش رہ گئی تھی کہ وہ اپنے عزیزوں دوستوں کو دل خوش کن ایسے الفاظ ہی لکھ سکے۔ ۸ جون کے فوراً ہی بعد ۱۰ جون کو انہوںنے پھر راس مسعود کو خط لکھا۔ راس مسعود کے نام یہ ان کا آخری خط ہے جس کا جواب بھی خوش قسمتی سے محفوظ رہ گیا اور اقبال نامہ میں شامل ہو گیا۔ ’’لاہور… ۱۰ جون ۱۹۳۷ء ڈیر مسعود۔ پرسوں میں نے ایک خط لکھاتھا۔ امید ہے کہ پہنچا ہو گا۔ اس خط میں ایک بات لکھنا بھول گیا۔ جواب لکھتاہوں۔ میں نے جاوید اور منیرہ کے چار Guardians مقرر کیے تھے۔ یہ ازروئے وصیت مقرر کیے گئے تھے۔ جو سب رجسٹرار لاہور کے دفتر میں محفوظ ہے۔ نام ان کے حسب ذیل ہیں (۱) شیخ طاہر الدین یہ میرے کلارک ہیں جو قریباً بیس سال سے میرے ساتھ ہیں مجھ کو ان کے اخلاص پر کامل اعتماد ہے۔ (۲) چودھری محمد حسین ایم اے سپرنٹنڈنٹ پریس برانچ سول سیکرٹیریٹ لاہور یہ بھی میرے قدیم دوست ہیں اور نہایت مخلص مسلمان۔ (۳) شیخ اعجاز احمد بی اے ایل ایل بی سب جج دہلی ۱؎۔ (۴) عبدالغنی مرحوم ۲؎۔ عبدالغنی بیچارے کی بابت میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں اس کی جگہ خاں صاحب میا ں امیر الدین سب رجسٹرار لاہور کو مقرر کرنے کا ارادہ ہے۔ نمبر ۳ اعجاز شیخ احمد میرا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے لیکن وہ خود بہت عیال دار ہے اور عام طو ر پر لاہور سے باہر رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو … Guardianمقرر کر دوں۔ مجھے امید ہے کہ اس پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ یہ درست ہے کہ تم لاہو رسے بہت دور ہو لیکن اگر کوئی معاملہ ایسا ہو تو لاہور میں رہنے والے Guardians تمہارے ساتھ خط و کتابت کر سکتے ہیں۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ لاہور کا درجہ حرارت کسی قدر کم ہو گیا ہے۔ لیڈی مسعود سلام قبول کریں نادرہ کے لیے دعاکرتاہوں۔ امید ہے ک تم کو اب نقرس سے آرا م ہو گا۔ کہتے ہیں خہ اس کے لیے بہت مفید ہے۔ ایک تو مرہم کی صورت میں ہوتی ہے دوسری سیال صورت میں موخر الذکر کے استعمال میں سہولت ہے۔ والسلام۔ محمد اقبال ۳؎‘‘۔ راس مسعود نے اس خط کا فوراً جواب دیا ۔ ان کا یادگار اورتاریخی خط ملاحظہ ہو: ۱؎ برادر زادہ علامہ اقبال ۲ ؎ جاوید اور منیرہ کے حقیقی ماموں ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۸۶تا۳۸۸ ’’ بھوپال … ۱۴ جون ۱۹۳۷ء نہایت پیارے اقبال…تمہارا خط مورخہ ۱۰ جون ابھی ۳ بجے میں نے بغور پڑھا ہے۔ چوتھے گارڈین کی بابت میری رائے یہ ہے کہ میں چونکہ نہ لاہو رمیں رہتا ہوں اور نہ کوئی امید لاہور کے قریب رہنے کی ہے تو مجھے مقرر نہ کرو بلکہ کسی ایسے دوست کو جو کم سے کم پنجاب میں ہی مقیم ہو۔ البتہ اپنی وصیت میں یہ ضرور لکھوا کہ اگر گارڈین کو کسی معاملہ میں جہاں تک کہ منیرہ سلمہا اور جاوید سلمیہ کی تعلیم کا تعلق ہے کہ کوئی مابی وقت پیش آئے تو پہلے میں مطلع کیا جائوں کیونکہ جب تک ان دونوںکی عمر بائیس برس نہ ہو جائے میں ہر ممکن طریقہ سے مدد دینے کو تیار ہوں۔ بشرطیکہ میں زندہ رہا۔ یہ خود ایک بری ذمہ داری ہے۔ میں اپنے اوپر اس عشق کے ثبوت میں لے رہا ہوں جو مجھے تم سے ہے۔ یہ ضرور کرنا کہ میرے متعلق اس سلسلے میں جو الفاظ اپن وصیت نامہ میں درج کرو جوکہ رجسٹرار کے پاس محفوظ کر رہے ہیو ان کی ایک نقل میرے پاس بھیج دینا۔ اگر خدانخواستہ ضرورت پیش آئی تو یقین رکھو تمہارے ان دونووں بچوں کے لیے ان کے تعلیم کے مسئلے میں میں وہی کروں گا جو اپنی اولاد کے لیے یہ ضرور صلاح دیتا ہوں کہ جہاں تک جائداد وغیرہ کا تعلق ہے ا س کا انتظام اپنے سامنے ہی ایسا کر دو کہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ شکرہے خدا کا نادرہ اب ذرا بہتر ہے۔ میں ہوں تمہارا چاہنے والا… راس مسعود ۱؎‘‘۔ دو سچے دوستوں اور عاشقان باصفا کے یہ خطوط ہماری ادبی تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ اقبال کا اپنے بچوں کی سرپرستی کے لیے راس مسعود ایسے عزیز ترین دوست کو منتخب کرنا اور پھر راس مسعود کا محض سرپرست ہی نہیں بلکہ کفالت کا تمام تر بار اپنے سر لینے کا جذبہ محض سرسری طور پر پڑھنے والے واقعات اور حقائق نہیں ہیں بلکہ ایک عہد اور ایک زمانے کی وہ صداقتیں ہیں جن سے ہر دو ر کا انسان درس تپش حاصل کر سکتا ہے۔ ان کا یہ لکھنا وصیت میں یہ ضرور لکھوا دو کہ اگر گارڈین کسی معاملہ میں جہاں تک منیرہ سلمہا اور جاوید سلمیہ کی تعلیم کا تعلق ہے کوئی معالی دقت پیش آئے تو سب سے پہلے مجھے مطلع کیا جائے۔ کیونکہ جب تک ان دونوں بچوں کی انشاء اللہ بائیس برس کی عمر نہ ہو جائے میں ہر ممکن طریقہ سے مدد دینے کو تیار ہوں بشرطیکہ میں خود زندہ رہا۔ یہ خود ایک بڑی ذمہ داری انپے اوپر اس عشق کے ثبوت میں لے رہا ہو ں جو مجھے تم سے ہے۔ اور آخر میں… میں ہوں تمہارا چاہنے والا راس مسعود ‘‘… اس اتباس کے یہ فقرے بشرطیکہ میں خود زندہ رہا۔ اور اس عشق کے ثبوت میں لے رہا ہوں جو مجھے تم سے ہے… اور یا … میں ہوں تمہارا چاہنے والا نہایت معنی خیز ہیںَ اور راس مسعود کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پھر اسی خط میں ان کا یہ کہنا کہ اگر خدانخواستہ ضرورت پیش آئی تو یقین رکھو کہ میں تمہارے ان دونوں بچوں کے لیے تعلیم کے مسئلے میں وہی کروں گا جو اپنی اولاد کے لیے اس حقیقت کے آئنہ دار ہیں کہ انہیں اقبال سے ہی عشق نہیں تھا۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۸۸۔۳۸۹ ان کے بچوں سے بھی اپنی اولاد کی مانند محبت تھی۔ اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے کسی طور مصائب کا شکار ہوں۔ اسی لیے انہوںنے حق دوستی ادا کرتے ہوئے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اپنے سامنے ہی اقبال جائداد کا انتظام کر دیں تاکہ کسی طرح کا ابہام باقی نہ رہے۔ اقبال نامہ کے صرف یہی دو خط ایسے ہیں جن سے اہمی ربط و تعلق کی گہرائیں منکشف ہو سکی ہیں۔ اس نوع کے وہ سارے خطوط جو اقبال نے سر راس مسعود کو اور راس مسعود نے اقبال کو تحریر کیے ہیں کسی طور پر دستیاب ہو جاتے تو ان دونوں کی زندگی اور شخصیت کے کتنے ہی اور روشن پہلو ہمارے سا منے آ جاتے افسوس کہ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ قیمتی خطوط فراہم نہ ہو سکے۔ جولائی میں راس مسعود سخت بیمار ہوئے۔ چنانچہ ان کی جانب سے ممنون حسن خاں نے جواب ارسال کیا تو اقبالنے پریشانی کے عالم میں انہیں خط لکھا: ’’لاہور… ۱۶ جولائی ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون صاحب… آپ کا خط مل گیا ہے میں بہت متردد ہوں۔ بارہ دن کا ملیریا اور اس پر مسلسل سر درد۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مسعود بہت کمزور ہو گئے ہوں گے۔ خڈا تعالیٰ ان کو جلد صحت کامل عطا فرمائے اور میرا یہ خط وصول کرتے ہی آپ ان کی خیریت سے آگاہ کریں تاکہ تردد رفع ہو۔ امید ہے لیڈی مسعود اور بچی دونوں تندرست ہوں گی۔ میری طرف سے دعا کہیے۔ اب کے لاہور میں بھی بخار کا زور رہا۔ اور اب بھی ہے گو نسبتاً کم ہے لیکن اب برسات شروع ہو گئی ہے۔ اور موسم بدل گیا ہے۔ باقی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت ہے ۔ سید مسعود کی خیریت سے بہت جلد آگاہ کریں تاکید مزید ہے۔ بھوپال میں تو آج کل خوب بارش ہوتی ہو گی۔ جاوید میاں اچھے ہیں۔ آج کل ان کو آم کھانے سے کام ہے۔ صبح و شام یہی مشغلہ ان کا ہے امتحان میں عربی میں فیل اورانگریزی میں فرسٹ۔ علی بخش کی طرف سے سید صاحب کو لیڈی مسعود صاحبہ کو آداب کہیے۔ جاوید بھی سلام عرض کرتا ہے۔ والسلام ۔ محمد اقبال ۱؎‘‘۔ راس مسعود کی رحلت راس مسعود کی اچانک اور شیدد علالت پر اقبال کی پریشانی اور تردد حق بجانب تھا بظاہر وہ بارہ دن تک مسلسل ملیریا اور درد سر میںمبتلا رہے جو بالآخر ان کی جان لے کر گیا۔ مشیت کے اسرار و رموز کو کس نے آج تک سمجھا ہے؟ ابھی ۱۶ جولائی کے خط کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی۔ کہ ۳۰ جولائی ۱۹۳۷ء کو را س مسعود کا ررزار حیات کے کتنے ہی منصوبے اپنے ذہن و دماغ میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور معبود حقیقی سے جا ملے۔ گویا وفات سے ڈیڑھ ماہ پہلے ہی زندگی پر سے ان کا اعتماد اٹھ گیا اور اقبال کے نام ۱۴ جون ۱۹۳۷ء کے خط میں انکے قلم سے بے اختیار یہ جملہ نکل گیاتھا۔ بشرطیکہ میں خود زندہ رہا۔ زندگی اور موت کا فلسفہ آج تک عقدہ لا ینحل ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پیغمبروں سے لے کر عام انسان تک بے بس اور ناچار ہے۔ اور بقول اقبال: ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۲۶ طلسم بود و عدم جس کا نام ہے آدم خدا کا راز ہے قادر نہیں جس پہ سخن اقبال پر راس مسعود کی المناک اور اچانک موت کا کتنا گہرا اور شدید اثر ہوا اس کا اندازہ ممنون حسن خاں کے نام اس خط سے لگایا جا سکتا ہے: ’’لاہور …۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون… سید مسعود مرحوم کے انتقا ل کی ناگہانی خبر صبح اٹھتے ہی اخبار زمیندار سے معلوم ہوئی۔ میں نے اس خبر کو مشتبہ سمجھ کر آپ کے نام خط لکھا کہ اتنے میں…سول ملڑی گزٹ سے مرحوم کے انتقال کی سرکاری اطلاع معلوم ہوئی۔ سخت پریشان ہوں مفصل حالات سے مجھے آگاہ کیجیے۔ میر ے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت ہے ۔ مرحو م کے ساتھ جو قلبی تعلقات میرے تھے وہ آپ کو معلوم ہیں۔ ابھی ان کی والدہ اور لیڈی مسعود کے نام تار دینے ہیں۔ آپ کے خط کا مجھے بے چینی سے انتظار ہے۔ والسلام ۔ محمد اقبال ۱؎‘‘۔ اس خط کے ہر ہر لفظ سے ا ن کی پریشانی بے چینی اور دلی کرب ظاہر ہے۔ چنانچہ اسی روز وہ دوسرا خط بھی تحریر کرتے ہیں۔ ’’لاہور… ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون… صبح میںآپ کو خط لکھ چکا ہوں۔ آج صبح سے دوپہر تک مرحوم کے جاننے اور ان کے غائبانہ معترف تعزیت کے لیے آتے رہے۔ راس مسعود کا رنج عالم گیر ہے۔ یہ تار جو اس خط کے ساتھ بھیج رہا ہوں سردار صلاح الدین سلجوقی قونصل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا ہے ۔ ان کی خواہش ہے کہ مرحوم کے اعزا تک پہنچا دیا جائے۔ مہربانی کر کے آپ یہ تار لیڈی مسعود اور مرحوم کی والدہ کو دکھا دیں۔ والسلام محمداقبال ۲؎‘‘۔ واقعی راس مسعود کی موت ۔ ایک فرد کی موت نہیں ایک ادارہ کی موت تھی۔ وہ جو اپنی ذات سے ایک انجمن تھے اب وہ ویران ہو چکی تھی۔ اقبال سے ان کے قلبی تعلقات کسی سے پوشیدہ نہ تھے۔ لہٰذا ان کی موت پر اقبال کی خدمت میں تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا یہ غم اقبال کا ذاتی غم تھا۔ اور وہ بجا طور پر تعزیت کے مستحق تھے۔ زندگی کے آخری لمحوں تک راس مسعود نے اقبال کی جتنی سچی رفاقت و اعانت کی اور جس جس طرح حق دوستی ادا کیا اس کی مثال شاید ہی کہیں اور مل سکے چنانچہ جس پرسوز انداز میں انہوںنے بیگم مسعود کو تعزیتی خط لکھا ہے اس سے ان کے گہرے جذبات غم کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلداول) صفحۃ ۳۲۷ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۲۷۔۳۲۸ ’’لاہور … یکم اگست ۱۹۳۷ء مائی ڈیر لیڈی مسعود۔ میں آپ کو صبر و شکر کی تلقین کیونکر کروں جب کہ میرا دل تقدیر کی شکایتوں سے خود لبریز ہے۔ مرحوم سے جو میرے قلبی تعلقات تھے ان کا حال آپ کو اچھی طرح معلوم ہے اس بنا پر میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک زندہ ہوں آپ کے دکھ درد میں شریک ہوں۔غالباً مرحوم کے دوستوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جس کے دل پر مرحوم نے اپنی دل نوازی بلند نظری اور سیر چشمی کا گہرا نقش نہ چھوڑا ہو۔ مسعود اپنے باپ دادا کے تمام اوصاف کا جامع تھا۔ اس نے قدر ت سے دادا کا دل اور باپ کا دماغ پایا تھا۔ اور جب تک جیا اس دل و دماغ سے ملک و قوم کی خدمت کرتا رہا۔ خدا تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے۔ کل شام کے اخباروں میں معلوم ہوا کہ مرحوم کی میت علی غڑھ لائی گئی ہے۔ اس وجہ سے میں نے کل آپ کو ھوپال کے پتہ پر تار دیا تھا اور والدہ ماجدہ مرحوم کو علی گڑھ کے پتہ پر ۔ اس کے بعد ہز ایکسی لینسی سردار صلاح الدین خاں سلجوقی قونصل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا تعزیتی خط بھی میرے نام آیا جس میں انہوںنے خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کا پیغام ہمدردی مرحوم اعزہ تک پہنچا دیا جائے۔ یہ تار بھی میں نے بھوپال ہی بھیج دیا تھا۔ امید ہے کہ آپ تک پہنچ جائے گا۔ والدہ ماجدہ تک بھی سردار صاحب کا پیغام ہمدردی پہنچا دیجیے۔ زیادہ کیا لکھوں۔ ہم سب پریشان ہیں او ر خدا تعالیٰ سے آپ کے اطمینان قلب کی دعا مانگتے ہیں۔ والسلام محمد اقبال۔ علی بخش آداب کہتا ہے اور بے حد رنج و غم کا اظہار کرتا ہے ۱؎‘‘۔ اقبا ل اور راس مسعود کے گہرے تعلقات کا بیگم مسعود سے زیادہ بھلا اور کسے علم ہو سکتا ہے۔ کئی سال کی مسلسل قربت اور وابستگی اور اقبال اور راس مسعود کی ایک دوسرے سے بے پناہ محبت اور دوستی ایک ہی خاندان کے رشتے میں بدل چکی تھی۔ اس لیے وہ بیگم صاحبہ کو صبر و شکر کی تلقین کیا کرتے تھے۔ اور کس طرح کرتے جبکہ خود انہیں اپنے رفیق و جاں نثار دوست کی جدائی پر قدرت سے شکایت تھی۔ راس مسعود جس طرح اقبال کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لیتے تے اور ان کے دکھ سکھ کے ساتھی بن گئے تھ۔ اقبا ل بھی اسی طرح راس مسعود اور ان کے افراد خاندان کے دکھ سکھ میں برابر ے شریک تھے۔ ان کا یہ لکھنا جب تک زندہ ہوں آپ کے دکھ سکھ میں شریک ہوں … ان کے دلی جذبات کا آئینہ دار ہے۔ حقیقتاً راس مسعود کی دل نوازی بلند نظری اور سیر چشمی سے سبھی متمتع ہوئے۔ اور مرتے مرتے وہ اتنے گہرے نقش چھوڑ گئے کہ جو صدیوں تک ان کی عظمت ان کی اعلیٰ صلاحیت کار ان کے جذبہ خدمت گزاری اور ایثار پسندی اور ان کی اعلیٰ خاندانی روایات کے امین رہیں گے۔ جن کا اعتراف خود اقبال نے بھی اسی خط میں کیا ہے۔ دوسرے ہی روز انہوںنے پھر ممنون حسن خاں کو خط لکھ کر حالات دریافت فرمائے۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۹۱۔۳۹۲ ’’ لاہور …۲ اگست ۱۹۳۵ء ۱؎ ڈیر ممنون میں آپ کے خط کا کئی دن سے انتظار کر رہا ہوں مہربانی کر کے مفصل خط لکھیے۔ علی گڑھ کے خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ راس مسعود کے صاحبزادے انور ہندوستا ن میں ہیں۔ مجھے یہ بات پہلے سے معلوم نہ تھی۔ آج میں نے انہیں بھی ایک خط لکھا ہے اطلاع دیجیے کہ آیا انور اپنے مرحوم باپ سے مل سکا یا نہیں نیز یہ کہ لیڈی مسعود صاحبہ کیسی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ خدانخواستہ وہ علیل نہ ہوں۔ ان کی صحت و عافیت سے جلد اطلاع دیں۔ میں ذرا سفر کے قابل ہو تو سید مسعود کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے علی گڑھ جانے کا قصد رکھتا ہوں۔ وہا ں سے انشاء اللہ تعالیٰ ایک دو روز کے لیے بھوپال بھی آ سکوں ۔ زیادہ کیا لکھوں۔ سوائے اس کے کہ بہت پریشان ہوں۔ خط کا جواب بہت جلد دو۔ والسلام۔ محمدا قبال ۲؎‘‘۔ ان کی پریشانی مسلم تھی۔ راس مسعود کی میت علی گڑھ دفنانے کے لیے لے جائی گئی تھی۔ اس لیے وہ فاتحہ خوانی کے لیے علی گڑھ جانے کا قصد کر رہے تھے۔ ادھر بیگم مسعود بھوپال میں تھیں۔ ان کی جانب سے بھی وہ فکر مند تھے اور بھوپال جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ خود ان کی صحت ان دنوں تسلی بخش نہ تھی۔ مسعود کی اچانک موت کا ان پر شدید اثر پڑا تھا۔ چند ہی دنوں بعد انہوںنے پھر بھوپال خط لکھا۔ ’’۷اگست ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون صاحب مسعود مرحوم کے کتبہ مزار کے لیے میں نے مندرجہ ذیل رباعی انتخاب کی ہے۔ نہ پیوستم دریں بستاں سرا دل زبند این و آں آزادہ رفتم چو باد صبح گردیدم و مے چند گلاں را رنگ و آبے دادہ رفتم یہ رباعی میں نے اپنے کتبہ مزار کے لیے لکھی تھی۔ لیکن تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مسعود مرحوم مجھ سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جائے حالانکہ عمر کے اعتبار سے مجھ کو ان سے پہلے جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ رباعی کا مضمون مجھ سے زیادہ ان کی زندگی اور موت پر صادق آتا ہے۔ ۱؎ سہو کتابت ہے یہ خط ۲ اگست ۱۹۳۷ء کا ہو گا کیونکہ اس سے پہلے ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء کا خط درج ہے اور ۲ اگست کے بعد ۷ اگست ۱۹۳۷ء کا ۔ اس خط میں راس مسعود کی رحلت کا ذکر ہے۔ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۲۸۔۳۲۹ لیکن اگر صرف ایک ہی مطلع ان کے سنگ مزار پر لکھنا ہو تو مندرجہ ذیل شعر میرے خیال میں بہتر ہو گا: اے برادر من ترا از زندگی دادم نشاں خواب را مرگ سبک داں مرگ را خواب گراں باقی خیریت ہے مسعود کا غم باقی رہے گا۔ جب تک میں باقی ہوں۔ میرے پہلے خط کا مفصل جواب دیجیے۔ والسلام۔ محمد اقبال ۱؎‘‘۔ راس مسعود سے اقبال کی عقیدت و محبت کی یہ انتہا تھی کہ جو رباعی انہوںنے اپنے کتبہ مزار کے لیے لکھ رکھی تھی اسے راس مسعود کی نذر کر دیا تھا کیونکہ جن صبر آزما حالات میں انہیں راس مسعود کی جدائی کا غم سہنا پڑا تھا وہ ان کی ذات سے زیادہ راس مسعود کی زندگی اور موت پر صادق آ گئے تھے۔ …ان کے خط کا یہ جملہ… مسعود کا غم باقی رہے گا جب تک میں باقی ہوں… ان کے شدید غم اور قلبی تاثر کی سچی تصویر کشی کرتاہ۔ کتبہ مزار کے لیے صرف ایک شعر میں جو کچھ انہوںنے کہہ دیا ہے بڑے بڑے دیوان بھی اس کی ترجمانی سے قاصر ہیں: اے برادر من ترااز زندگی دادم نشاں خواب را مرگ سبک داں مرگ را خواب گراں اسی کے ساتھ ان کا یہ کہنا… تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مرحوم مجھ سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جائے۔ حالانکہ عمر کے اعتبار سے مجھ کو ان سے پہلے جانا چاہیے تھا۔ اس گہرے رنج و غم اور نفسیاتی رد عمل کا اظہار ہے جو زندگی کے ایک عزیز ترین ساتھی کے بچھڑ جانے کے سبب رونما ہوتا ہے۔ راس مسعود کی وفات کے بعد بھوپال میں لے دے کر صرف ان کے سیکرٹری ممنون حسن خاں ہی ایک ایسے نیاز مند اور معتمد رہ گئے تھے جن سے وہ بیگم مسعود ان کی بچی نادرہ ان کے دونوں بچوں انور اور اکبر اوربھوؤپال کے بارے میں ضرورت معلومات حاصل کر سکتے تھے۔ چنانچہ اس خط میں وہ لکھتے ہیں: ’’لاہور ۲۳ اگست ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون مسعود مرحوم کی وفات پر جو اشعار میں نے نہ لکھے تھے وہ آج میں نے رسالہ اردو میں چھپنے کیلیے حیدر آباد دکن بھیج دیے ہیں۔ مدیر رسالہ مولوی صاحب عبدالحق مسعود نمبر نکالنے والے ہیں ۔ امید ہے کہ یہ رسالہ آپ کو بھوپال میں مل جائے گا۔ خود بھی پڑھیے اور لیڈی مسعود کو بھی سنایے۔ لیڈٰ مسعود صاحبہ کی خیریت سے آگاہ کیجیے۔ اکبر ولایت سے آیا یا نہیں اور انور کیا اس وقت بھوپال میں ہے؟ رشید صاحب بھوپال میں ہیں یا اندور چلے گئے؟ تمام حالات و کوائف سے مفصل آگاہ کیجیے۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب اس وقت بھوپال میں ہیں یا شملہ میں؟ آپ بھوپال میں رہیں گے یا اعلیٰ حاضرت کے اسٹاف میں لے جائیں گے۔ موخر الذکر جگہ آپ کے لیے بہتر ہے۔ باقی خدا کے فضل وکرم سے سب خیریت ہے ۔ والسلام آپ کا …محمد اقبال ۲؎‘‘۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۲۹۔ ۳۳۰ ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول ) صفحہ ۳۳۰۔۳۳۱ اس خط میں جتنے سوالات کیے گئے ہیں ان کا تمام تر تعلق بھوپا ل ہی سے ہے۔ رشید صاحب راس مسعو د کے خسر تھے۔ اور اکبر ان کی پہلی بیوی سے دو بچے تھے۔ اکبر ولایت میں زیر تعلیم تھے ۔انور بھوپال آ چکے تھے۔ ممنون حسن خاں کے مستقبل کے بارے میں انہیں یہی فکر تھی۔ ان کا مشورہ یہی تھا کہ وہ نواب صاحب کے سٹاف ہی میں شامل رہیں۔ انہوں نے نواب صاحب کے بارے میں بھی دریافت کیا تھا۔ اور اس طرح سے بھوپال سے ان کا ربط و تعلق قائم تھا۔ اسی خط میں انہوںنے راس مسعود مرحوم کی وفات پر جن اشعار کا ذکر کیا ہے وہ پہلی بار بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے مرتبہ رسالہ اردو کے مسعود نمبر بابت ماہ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئے۔ یہی اشعار بعد میں ارمغان حجاز میں مسعود مرحوم کے عنوان سے شامل ہوئے اور بقول مرتب اقبال نامہ ان اشعار میں اقبال نے موت و حیات کی کشود میں انسانی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے براہ راست سر سید راس مسعود مرحوم کی وفات پر اپنے رنج و قلق کا اظہار کیا ہے ۔ اشعار ملاحظہ ہوں: رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی وہ یادگار کمالات احمد و محمود زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اس کی وہ کارواں کا متاع گراں بہا مسعود مجھے رلاتی ہے اہل جہاں کی بے دردی فغان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود نہ کہہ کہ صبر میںپنہاں ہے چارہ غم دوست نہ کہہ کہ صبر معمائے موت کی ہے کشود دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است ز عشق تا بہ صبوری ہزار فرسنگ است ۱؎ سعدی جب تک شعر و ادب کی تابدندگی باقی ہے اقبال کا یہ مرثیہ دونوں کی امٹ اور لازوال محبت کی یاد تازہ کرتا رہے گا۔ ممنون حسن خاں کا جواب ملتے ہی انہوںنے پھر ممنون حسن خاں سے دریافت حال فرمایا: ’’لاہور …۴ ستمبر ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون… آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے بہت شکریہ۔ میں لیڈی مسعود صاحبہ کی طرف سے بہت متفکر رہتا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ان کی صحت پر مرحوم کی موت کا بہت خراب اثر پڑے گا۔ بچی کی صحت اور پرورش کے لیے ان کا تندرست ہونا نہایت ضروری ہے۔ ا س کے علاوہ اس خیال نے کہ راس مسعود کوئی وصیت نہ کر سکے‘ میرے افکار میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ آپ مجھ کو باقاعدہ خط لکھتے رہیے۔ انور ریاض منزل میں ہی ہیں یا کسی اور جگہ میری طرف سے انہیں دعا کہیے۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۹۲۔۳۹۳ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میںحاضر ہو کر میری جانب سے بہت بہت سلام کہیے اور جو کچھ میں نے اوپر عرض کیا ہے عرض کر دیجیے جاوید سلمہہ تندرست ہے اور آداب کہتا ہے لاہور میں یکم اگست سے لے کر اس وقت تک کہ ۴ ستمبر ہے مطلق بارش نہیں ہوئی۔ ہاں شعیب صاحب کی خدمت میں سلام کہیے۔ والسلام محمد اقبال ۱؎‘‘۔ بیگم مسعود کی صحت بچی کی پرورش و پرداخت اور راس مسعود کے وصیت نہ چھوڑنے سے وہ جس ذہنی کرب میں مبتلا تھے۔ یہ خط بخوبی اس پر روشنی ڈالتا ہ۔ ممنون حسن خاں صاحب کو باقاعدہ خط لکھنے کی تاکید بھی اسی لیے کی تھی کہ وہ مسعود مرحرم کے متعلقین کی خیر خبر اور حالات سے آگاہ رہیں۔ ان دنوں حقیقتاً وہ بے حد فکر من داور پریشان ہیں۔ اور اس پریشانی یکا واحد سبب راس مسعود کی ناوقت موت تھی۔ راس مسعود کی والدہ علی گڑھ میں تھیں اور ان کی خیر خبر اپنے عزیز دوست خواجہ غلام السیدین کی معرفت معلوم کر رہے تھے۔ ۵ ۲ ستمبر کا یہ خط اسی سلسے کی کڑی ہے جس میں اس رباعی کا بھی ذکر ہے جو انہوںنے مسعود مرحوم کے کتبہ مزار کے لیے ممنون حسن خاں کو بھوپال ارسال کی تھی ۔ ’’لاہور… ۲۵ ستمبر ۱۹۳۷ء ڈیر سیدین صاحب آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے شکر یہ قبول کیجیے۔ میں نے مسعود مرحوم کے کتبہ مزار ک لیے ایک رباعی رباعیات میں سے انتخاب کر کے مرحوم کے سیکرٹری ممنون حسن خاں کو بھوپال بھیجی تھی۔ معلوم نہیں کہ انہوںنے اب تک علی گڑھ کیوں نہیں بھیجی۔ یہ رباعی حقیقت میں میںنے اپنے کتبہ مزار کے لیے لکھی تھی۔ میں ابھی ممنون حسن خاں صاحب کو ایک خط لکھ کر دریافت کرتا ہوں۔ چند اشعار مرحوم کی وفات پر بھی لکھے تھے جو رسالہ اردو کے مسعود نمبر میں شائع ہوں گے۔ اگر وہ رباعی جو میں نے بھوپال بھیجی تھی پسند آ گئی تو بہتر ورنہ اور فکر کروں گا۔ میری طرف سے مسعود مرحوم کی والدہ ماجدہ کی خدمت میں بہت بہت آداب عرض کیجیے۔ ذرا موسم اچھا ہو جائے تو میں خود بھی تعزیت کے لیے مرحوم کی قبر پرفاتحہ خوانی کے لیے علی گڑھ حاضر ہونے کا قصد رکھتا ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی سے اب میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وائس چانسلر مسٹر M.L.A. Darling. Financial Commissioner ہیں۔ میرے دوست ہیں۔ گو گزشتہ تین سال سے بوجہ علالت ان سے نہیں مل سکا۔ آپ ان سے اس ارے میں خط و کتابت کریں ۲؎۔ اس کے علاوہ آپ مسٹر عبدالحئی وزیرتعلیم کو لکھ سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو اور انتظام بھی ہو سکتا ہے باقی خیریت ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ محمد اقبال ۳؎‘‘۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۳۱۔۳۳۲ ۲؎ اقبال کے فلسفہ تعلیم کے متعلق توسیعی خطبات دیے جانے کی تجویز بعض احباب نے پیش کی تھی۔ ۳؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۲۳ اس خط سے اور ممنون حسن خاں کے نام مشمولہ دیگر خطوط سے بھی یہ حقیقت عیاں ہے کہ راس مسعود کی وفات کے بعد انہیں مرحوم کے متعلقین کی کتنی فکر اور پریشانی لاحق تھی۔ والدہ مسعود علی گڑھ میں تھیں اور بیگم مسعود اور بچے بھوپال میں۔ اس زمانے کے وہ تمام خطوط جو خواجہ غلام السیدین کو انہوںنے علی گڑھ ارسال کیے اور جو خطوط ممنون حسن خاں کو بھوپال بھیجے ان میں سے بیشتر میں راس مسعود کے متعلقین ہی کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ تعزیت کے لیے علی گڑھ اور بھوپال جانے کا قصد رکھتے تھے۔ لیکن موسمی حالات اور خود ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ کتبہ مزار کی رباعی ابھی تک علی گڑھ نہیںپہنچی تھی اور اسی لیے اسی روز جس روز انہوںنے مندرجہ بالا خط تحریر کیا ممنون حسن خاں کو بھی خط بھیجا۔ لاہور… ۲۵ ستمبر ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون میںنے ااپکو جو رباعی مسعود مرحوم کے کتبہ مزار کے لیے لکھ کر بھیجی تھی اس کی ایک نقل مجھے بھیج دیں۔ شاید آپ نے وہ رباعی ابھی تک علی گڑھ نہیں بھیجی۔ میاں انور ملیں تو ان سے کہیے کہ میں نے جو کچھ ان کو لکھا تھا اس کے جواب کا منتظر ہوں۔ امید ہے کہ لیڈی مسعود کا مزاج اب اچھا ہو گا۔ میری طرف سے بہت بہت دعا کہیے۔ مخلص …محمد اقبال ۱؎‘‘۔ رباعی کی نقل طلب کرنے کے علاوہ انہوںنے راس مسود کے صاحبزادے انور مسعود کا ذکربھی اس خط میں کیا ہے جنہیں انہوںنے خط لکھا تھا۔ افسوس کہ یہ خط بھی سعی و کوشش کے باوجود نہیں مل سکا۔ لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںکہ ا س خط میں انہوںنے ایک شفیق و رفیق سرپرست کی حیثیت سے انہیں مفید مشورے دے ہوں گے۔ واقعتا ایک فرد کی موت سے ایک خاندان کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا تھا۔ …راس مسعود جن کی ساری عمر دوسروں کی خدمت اور ضڑورت مندوں کی حاجت روائی میں گزری تھی۔ آج ان کے افراد خاندان بے سروسامان تھے۔ اقبال کے لیے اس سے زیادہ سوہان روح اور کیا حقیقت ہو سکتی تھی؟ ممنون حسن خاں نے فوراً ہی جواب دیا تو اقبال نے خط کی رسید بھیجتے ہوئے صورت حال سے مطلع کیا: لاہور …۲ اکتوبر ۱۹۳۷ء ڈیر ممنون صاحب… آ پ کا خط مل گیا ۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ میری حالت بھی خدا کے فضل سے بہتر ہے۔ لیکن ابھی طویل سفر کے لائق نہیں۔ انور کا خط بھی آج آیاہے۔ ابھی اس کا جواب لکھا ہے رباعی اور شعر جو آ پ نے خط میں لکھے ہیں والدہ ماجدہ مسعود مرحوم کی خدمت میں بتوسط خواجہ غلام السیدین بھیج دئے تھے ہیں۔ کیونکہ سیدین صاحب کا خط اس بارہ میں مجھے چند روز ہوئے آیا تھا۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۳۳ شاید آپ کو معلوم ہوگا کہ ریاست بھوپا ل میں اسلامی فیملی لا کے متعلق علماء کے مشورہ کے بعد ایک Enactmentضابطہ وضع کیا گیا تھا۔ار آپ کو معلوم نہیںتو شعیب صاحب سے معلوم کر لیجیے اور اس کی ایک کاپی مجھے بھیج دیجیے۔ زیادہ کیا لکھوں سوائے اس کے کہ مسعود نہیں بھولتا۔ ڈاکٹر عبدالباسط کہیں مل جائیں تو ان سے میرا سلام کہہ دیجیے۔ علیٰ ہذا القیاس خاں بہادر ڈاکٹر احمد بخش اور ڈاکٹر رحمن صاحب کو بھی۔ والسلام۔ محمد اقبال ۱؎‘‘۔ وہ جلدسے جلد بھوپال جانا چاہتے تھے۔ لیکن جیسا کہ اس خط سے ظاہر ہے کہ ابھی طویل سفر کے قابل نہ تھے۔ انور کو جو خط انہوںنے لکھا تھا اس کا جواب انہیں مل گیاتھا۔ چنانچہ اس کا جواب بھی اسی خط کے ساتھ انہوںنے لکھ دیا تھا۔ رباعی اور شعر جو ممنون حسن خاں نے نقل کر کے بھیجے تھے۔ وہ علی گڑھ غلام السیدین کو ارسال کر چکے تھے۔ اسلامی فیملی لا کے سلسلے میں علماء کے مشورے سے بھاپال میں جو ضابطہ وضع کیا گیا تھا وہ اسے دیکھنا چاہتے تھے جو غالبا ً اسی کتاب کے سلسلے میں ہو گا۔ جس کا وعدہ انہوںنے نواب صاحب بھوپال سے کیا تھا۔ اس خط کا یہ فقرہ… مسعود نہیں بھولتا ان کے دلی درد و کرب کا آئینہ دار ہے۔ وہ بھوپال کے ان قابل قدر اور مشفق معالجین کو بھی نہیںبھولے تھے جنہوںنے ان کا بھوپال میں علاج کیا تھا۔ …ڈاکٹر عبدالباسط ‘ خان بہادر احمد بخش‘ او ر ڈاکٹر رحمن کو بھی اس خط میں انہوںنے یاد کیا ہے اور ممنون حسن خاں کے توسط سے سلام بھیجا ہے۔ بھوپال اور بھوپال کی ممتاز شخصیتوں سے ابھی تک ان کا ذہنی اور روحانی تعلق برقرار تھا۔ کچھ عرصے خاموشی رہی آخر اکتوبر میں انہوں نے بیگم مسعود کو خط لکھا۔ ’’لاہور … ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۷ء ڈیر لیڈی مسعود صاحبہ… میں نے انور کے خط کا جواب لکھ دیا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر ظفر الحسن پروفیسر علی گڑھ سے مشورہ کیا تو معلوم ہو ا کہ وہ وارڈن کالج کو خود کلھ سکتے ہیں۔ مسعود مرحوم نے نیو کالج میں ہی تعلیم پائی تھی اور کالج کے موجودہ وارڈن کو غالباً جانتے تھے اس بنا پر جو تجویز آخر ی میرے ذہن میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ظفر الحسن مذکورہ بالا کالج کے وارڈن کو یہ لکھیں کہ وہ انور کے لیے سر ہیری ہیگ گورنر یوپی ک لکھیں کہ وائسرائے ہند انور کے خاندان کی خدما ت کا لحاظ کرتے ہوئے اس نوجوان کو جو اپنے قدوقامت اور تعلیم کے لحاظ سے ہر طرح موزوں ہے امپریل پولیس سروس میں جانے ی سفارش کریں۔ اورچونکہ اس وقت انور نواب صاحب بھوپال کی سروس میں ہے اس لیے وائسرائے اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال سے مشورت فرمائیں۔ یہ مختصر مضمون وارڈن اس خط کا ہونا چاہیے جو نیو کالج کا وارڈن سر ہیری ہیگ کو لکھے۔ اگر انور کی درخواست پر اعلیٰ حضرت وائسرائے کی خدمت میں سفارش کرنے کو خود تیارہو جائیں تو یہ بات سب سے اچھی ہے۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۳۳۔۳۳۴ اس صورت میں وارڈن نیو کالج صرف سر ہیری ہیگ کی خدمت میں یہ لکھیں کہ انور کی بابت وائسرائے سے خود سفارش کریں۔ اگر اس تجویز سے آپ کو اتفاق ہو تو آپ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کو علی گڑھ اور خط لکھ دیں کہ وہ نیو کالج خط لکھ کر سر ہیری ہیگ کے نام سفارشی خط جلد منگوائیں۔ محمد اقبال ۱؎‘‘۔ جیسا کہ اس خط سے ظاہر ہے انور مسعود صاحب بھوپال کی ملازمت اختیار کر چکے تھے لیکن ان کے مستقبل کی بہتتری کے لیے لیے انہوںنے نہایت قیمتی مشورے دیے تھے۔ انور امپیریل پولیس سروس میں جانے کے خواہش مند تھے۔ جس کی دو ہی صورتیں تھیں۔ اول یہ کہ نواب صاحب بھوپال وائسرائے ہند سے سفارش کریں۔ دوسری یہ کہ ڈاکٹر ظفر الحسن نیو کالج کے وارڈن کے ذریعہ سر ہیری ہیگ گورنر یوپی سے درخواست کریں کہ وہ وائسرائے ہند کو سفارش لکھ بھیجیں تاکہ انور مسعود کے خاندان کی گراں قدر مایہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں امپریل پولیس سروس میں لے لیا جائے۔ یوں تو برصغیر کی تاریخ کا کوئی دور بھی سعی و سفارش سے خالی نہیں رہا لیکن قدرت کی ستم ظریفی یہ تھی کہ راس مسعود جن سے ہر شخص نے بلا امتیاز فیض اٹھایا تھا۔ آج ان کی اولاد ملازمت کے سلسلے میں دست گیری اعانت اور سفارش کی محتاج تھی۔ ۱؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۹۴۔۳۹۵ ٭٭٭ دارالاقبال بھوپال میں اقبال کا سوگ ۹جنوری ۱۹۳۸ء کا دن حیدر آباد دکن کی ادبی تاریخ کا وہ یادگار دن ہے جب اہل حیدر آباد نے باغ عامہ ۱؎ کے ٹائون ہال میں اقبال کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں یوم اقبال منا کر زندہ دوستی کی عظیم روایت کا آغاز کیا۔ اس پر شکوہ تقریب کی صدارت ولی عہد شہزادہ برار نے کی اور ملک کی جن گراں مایہ شخصیتوں نے یوم اقبال کے لیے خصوصی پیغامات سے نوازا ان میں نواب حمید اللہ خاں ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور ہز ہائی نس آغا خاں مسز سروجنی نائیڈو اورپنڈت جواہر لال نہرو قابل ذکر ہیں۔ نواب حمید اللہ خاں کے پیغام میں ان کی اقبال شناسی اور دلی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ پیغام میںلکھتے ہیں: ’’… مجھے مسرت ہوئی کہ یوم اقبال ہز ہائینس پرنس آف برار ولی عہد خانوادہ آصفی کی صدارت میں منایا جا رہا ہے۔ اقبال کے نغموں میں ہندوستانی قومیت کے راز مضمر ہیں۔ ا س فلسفی شاعر نے اہل ہند کو خواب غفلت سے چونکا کر ان میں احساس بیداری پیدا کر دیا ہے ۲؎‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ بھوپال کے علاوہ اگر ہندوستان کی کسی اور ریاستر نے اقبال سے اپنی گہری وابستگی اور اقبال شناسی کی کویء بنا ڈالی تو وہ صڑف ریاست حیدر آباد دکن تھی۔ جہاں اقبال پر سب سے زیادہ کام ہوا۔ ان کی زندگی میں یوم اقبال منایا گیا۔ ان کے افکار و خیالات سے حیدر آباد کے سرمائے میں غیر معمولی اضافہ ہوا ااور ان کی خدمات حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن حالات اور قسمت نے یاوری نہ کی ورنہ اقبال حیدر آباد ہی کے ہو رہتے اور نواب حمید اللہ خاں کو وہ فخر و امتیاز نصیب نہ ہوتا جو راس مسعود کے توسط سے اقبال کو اپنا کر انہوںنے حاصل کیا۔ ابھی یوم اقبال کو بمشکل چار ماہ ہی گزرے ہوں گے کہ اقبال کی صحت نے جواب دے دیا۔ وہ گزشتہ ماہ سے شدید بیمار تھے۔ اراس مسعود کی موت نے انہیں گہرے صدمے سے دوچار کر دیا تھا جس کا اندازہ ان کے آخری دور کے خطوط سے لگایا جا سکتا ہے۔ ۱؎؎ حیدر آباد دکن کا مشہور باغ ۲؎ اقبال اور حیدر آباد صفحہ ۲۵ عجیب اتفاق ہے کہ اقبال نے اپنی وفات سے صرف دو روز پہلے کا ایک خط بھی بھوپال ہی روانہ کیا۔ جس ک متن سے ان کی علالت آنکھوں کے آپریشن اور دمے کی زیادتی کا علم ہوتا ہے۔ اس خط میں بشرط زندگی کا ٹکڑا نہایت معنی خیز ہے۔ اور یوں لگتا ہے جیسے اب زندگی پر سے ان کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’جاوید منزل۔ لاہور ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء ڈیر ممنون آپ کا خط کئی روز ہوئے ملا تھا۔ افسوس کہ شدید علالت کی وجہ سے جو اب نہ لکھوا سکا۔ دمے کے متواتر دوروں نے مجھے زندگی سے تقریباً مایوس کر دیا ہے۔ مگر اب خدا کے فضل سے کچھ افاقہ ہے۔ مگر کلی طور پر صحت نہیںہوئی۔ آنکھوں کا آپریشن مارچ میں ہونے والا ہے مگر دمے کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا۔ اب بشرط زندگی انشاء اللہ ستمبر میں ہو گا۔ حیات ۱؎ صاحب سے میرا بہت بہت سلام کہیے گا۔ اب آپ کے فرائض منصبی کیا ہیں۔ کیا آپ اعلیٰ حضرت کی پیشی میں ہیں میں زیادہ کیا لکھوں۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ مخلص محمد اقبا ۲؎‘‘۔ کسے معلوم تھا کہ مفکر اسلام شاعر مشرق اور دانائے راز کا یہ آخر خط بھی اسی بھوپال کا مقدر تھا جسے دارالاقبال بننے کا شرف نصیب ہوا۔ جس کے والی ریاست کو اقبال کی ذاتی شفقت و محبت میسر آئی۔ اور جس کی ریاست کے درودیوار اقبال کی نغمہ سرائی سے گونجتے رہے۔ یہ وہی بھوپال تھا جس سے اقبال کی وابستگی کا آغاز ۱۹۱۰ی میںہواتھا۔ اور اب یہ وہی بھوپال ہے جس کے ایک فرزند ممنون حسن خاں کے نام وہ آخری خط ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء کو تحریر کرتے ہیں اور تیسرے رو ز اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کی صبح یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی کہ اقبال کا انتقال ہو گیا۔ مدراس دفاتر بازار بند ہو گئے ۔ اور پورے شہر نے ماتمی لباس پہن لیا۔ ایک بھوپال ہی پر کیا منحصر تھا۔ ان کی موت نے توپورے ہندوستا ن کو اور بیرونی دنیا کو سوگ کی لپیٹ میںلے لیا تھا۔ اتنے عظیم شاعر اتنے بلند پایہ مفکر اتنے بڑے انسان دوست اور مصلح قوم کی موت ایک ایسا المیہ تھا جس نے ہر قلب کو متاثر کیا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی سچ پوچھیے تو اقبال کی موت ایک عہد کی موت تھی اور رونے والوں کے آنسو تک خشک کر گئی تھی۔ بلاشبہ اقبال ان خوش نصیبوں میں شامل تھے جن کی زندگی میں ہی ان کے قدر داں پیداہو ئے تھے حکیم یوسف حسن مدیر ماہنامہ نیرنگ خیال نے اس زمانے میں جب وہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے تھے اقبال نمبر شائع کیا تھا اور اس طرح اردو رسائل کی تاریخ میں زندہ دوستی اوراعتراف عظمت کی روایت کا آغاز ہو گیا تھا۔ نواب حمید اللہ خاں نے ان کی گراں مایہ خدمات کے اعتراف میں ان کی ہر ممکن مالی اعانت کی تھی وفات سے چند ماہ قبل حیدر آباد دکن کے اقبال شناسوں نے یوم اقبال منا کر شاعر مشرق کو شایان شان خراج تحسین پیش کیا تھا۔ لیکن آپ پورے برصغیر میں ان کا سوگ منایا جا رہا تھا۔ ۱؎ حسن محمد حیات۔ سیکرٹری لیجسلیٹو کونسل بھوپال ۲؎ اقبال نامہ (جلد اول) صفحہ ۳۳۵ سچ ہے موت برحق ہے اور اس پر کوئی فتح حاصل نہیں کر سکتا۔ اقبال بھی اپنی مسلسل گرتی ہوئی صحت اور کمزرو و ناتواں قویٰ کے ہاتھوں موت پر فتح نہ پا سکے لیکن پوری قوم کو بیدار کرکے جینے کا سلیقہ اور درس عمل دے گئے۔ ان کی موت پر جگہ جگہ تعزیتی جلسے اور قرار دادیں منظور کی گئیں۔ وفات کے تیسرے دن ایک بڑا اور یادگار تعزیتی جلسہ بھوپال میونسپلٹی کے وسیع میدان میں منعقد ہوا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس جلسہ کی صدارت اقبال کے ایک دیرینہ نیاز مند سلام الدین خاں سابق مشیر المہام صیغہ قانون و انصاف نے فرمائی جلسہ کی روداد ملاحظہ ہو: ’’… جلسہ کا افتتاح قرآ ن حکیم کے پارہ سیقول کے دوسرے رکوع سے کیا گیا۔ بعد ازاں صاحب صدر کی اجازت سے جناب چوھدری محمد اطہر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بلدہ بھوپال نے ریزولیوشن پیش کرتے ہوئے جو تقریر فرمائی وہ یقینا درد میں ڈوبی ہوئی تھی آپ نے علامہ سر محمد اقبال تاج دار سخن کی زندگی پر مختصر مگر بلیغ اور جامع الفاظ میںتبصرہ کرتے ہوئے حاضرین جلسہ کو انعقاد جلسہ کی غرض سے آگاہ فرمایا۔ اس کے بعد آفاق حسین صاحب ہیڈ ماسٹر جہانگیر یہ سکول نے علامہ اقبال کی ذاتی خصوصیات اور شاعری سے بہت وضاحت کے ساتھ حاضرین کو متاثر فرمایا۔ تیسرا نمبر بھوپال کے ایک سنسکرت عالم پنڈت لچھمن جی کا آیا۔ آپ کی تقریر کا موضوع اقبال کی مشرق سے محبت تھا آ پ نے ان شعروں سے تقریر کا آغاز فرمایا : دلا نادانی پروا نہ تاکے نگیری شیوہ مردانہ تاکے یکے خود را از سوز خویشتن سوخت طواف آتش بیگانہ تا کے ازاں بعد جناب مولوی عبدالرزاق مولف البرامکہ اور جناب سعید رزمی نے ریزولیوشن کی تائید میں جو تقریریں فرمائیں ان میں اقبال کی شاعری اور ان کے نظریہ کی خصوصیات کی وضاحت میں خاص خاص چیزوں کو پرسوز الفاظ میں دوسرے نامور شعراء سے مقابلہ کرتے ہوئے حالی مرحوم کی شاعری کی خصوصیات کا ذکر فرمایا۔ لیکن اقبال مرحوم کی اس خصوصیت کو خاص طور پر نمایاں کیا کہ مرحوم نے فنی اور ذہنی حیثیت سے کسی کی تقلید نہیں کی بلکہ نظام قدرت نے جو فضا پیدا کر رکھی ہے اس سے وہ متاثر تھے۔ دوسرا تعزیتی جلسہ بھوپال کے تمام خادمان علم و ادب کا زیر صدارت مولانا سید حامد رضوی وکیل دفتر ندیم ۴ ۲ اپریل ۱۹۳۸ء بوقت ۶ بجے شام منعقد ہوا۔ ذیل کے حضرات نے جلسہ میں شرکت فرمائی: ۱۔ مولانا سید حامد رضوی صاحب وکیل سابق ممبر لیجسلیٹو کونسل بھوپال… ۲۔ مولانا ارشد تھانوی صاحب وکیل ۳۔ مولانا عبدالحلیل صاحب مائل نقوی۔ ۴۔ مولوی محمد احمد سبزواری بی اے عثمانیہ ۵ محمود الحسن صدیقی بی ۔ اے علیگ مدیر ندیم ۶۔ مولوی عبدالرزاق صاحب مہتمم ذخائر ۷۔ ضیاء الملک ملا رموزی ۸ ماسٹر ناصر علی صاحب ناصر اٹاوی ۹۔ ماسٹر سلیمان محمد خاں صاحب آرزو ۱۰۔ جناب سید حسن بی اے علیگ ۱۱۔ جناب مرزا مظفر سیفی۔ مدیر معاون ندیم۔ ۲۱۔ منشی سید لطف علی صاحب اسسٹنٹ ریونیو سیکرٹری دیوڑھی عیدگاہ کوٹھی۔ ۱۳ مولوی عبدالقیوم صاحب۔ ۱۴۔ منشی ظہور الحسن صاحب ۱۵۔ منشی محمد اسمعیل صاحب ہاتف۔ ۱۶۔ منشی مطلوب عالم صاحب فاروقی۔ ۱۷۔ منشی رحم حسین صاحب ۱۸۔ مولانا احسان رسول صاحب ۱۹۔ جناب نفیس احمد فاروقی ۲۰۔ جناب مصباح الدین احمد ۲۱۔ منشی نواب حسن صاحب ۲۲۔ منشی شبیر حسن صاحب۔ ۲۳۔ منشی قریش مسیح وغیرہ جلسہ کا افتتاح تلاوت قرآن پاک سے ہوا مولانا احسان رسول صاحب نے سورہ یاسین کے تیسرے رکوع کی قرات فرمائی۔ اس کے بعد ذیل کے تین ریزولیوشن جلسہ میں پیش ہو کر باتفاق رائے منظور ہوئے۔ ۱۔ بھوپال میں شیفتگان اور خادمان علم و ادب کا یہ غیر معمولی جلسہ مشرق کے شاعر اعظم ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا کے بے وقت اور پر الم سانحہ وفات پر اپنے انتہائی حزن و ملال کا اظہار کرتا ہے اور اس کو ملت اسلامیہ کے لیے خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ عالم اسلامی کو آپ کی حکیمانہ رہبری کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ناقابل تلافی نقصان تصور کرتا ہے۔ ۲۔ یہ جلسہ ہندوستان کے بلند پایہ شاعر مفکر اور قائد کی ان تمام علمی ادبی اور ملی خدمات کا دلی جذبات و عقیدت مندی کے ساتھ اعتراف کرتا ہے اور ان کو ملت اسلامیہ کے لیے خصوصاً اور تمام مشرق اقوام کے لیے عموماً باعث احیاء و بیداری قرار دیتا ہے۔ ۳۔ یہ جلسہ علامہ خلد آشیاں کے تمام اعزاء اور پس ماندگان کے ساتھ ا س ماتم خیز سانحہ پر دلی رنج و الم کے ساتھ پر خلوص ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ صاحب صدر نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ کہ مجھ پر ایسے جلسہ تعزیت کی صدارت کا بار رکھا گیا ہے جس سے ہمارا دل درد و غم سے نڈھال ہے اس لیے کہ ہم سے آج وہ چیز چھین لی گئی ہے جس کی ابھی ہماری قومی و ملی بلکہ ملکی اور سیاسی زندگی کے لیے سخت ضرورت باقی تھی۔ اور جس کا بدل ااس وقت مستقبل قریب میں ہم کو نظر نہیں آتا تھا۔ ان کی شاعری جو اپنے رنگ کی نرالی تھی نہ صرف مسلمانوں کے درد سے مملو تھی بلکہ سارے ہندوستان اور ایشیا کا اس میں درد بھرا ہوا تھا…! اس کے بعد جناب محمود الحسن صدیقی ایڈیٹر ندیم نے علامہ اقبال کی ایک ایسی خصوصیت پر روشنی ڈالی جو صحیح طورپر قابل تحسین و تشکر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مشرقی اقوام کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصا ً زندگی کا نظریہ یہ ہے کہ حالات و واقعات نے انسان پیدا کیے یا انسان حالات و واقعات پیدا کرتا ہے اقبال کے مشن نے یہ ثابت کر دیا کہ انسان حالات کو بدلتا ہے۔ اس بلند پایہ مفکر بلند مرتبہ شاعر و ادیب نے مسلمانوں میں ایک روح پھونکی ۔ اس کے اندر زندگی اور جوش ملی پیداکیا۔ اس سلسلے میں حالی کا نام بھی لیا جائے تو نامناسب نہ ہو گا۔ لیکن اقبال کی شاعری میں بلندی و عظمت اور انقلاب پیدا کرنے والی قوت مضمر ہے۔ گو ہم اقبال کی خدمت کا احاطہ نہیں کر سکتے ۔ لیکن ہم اس کے اقرار کرنے پر مجبور ہیں۔ جناب سبزواری نے فرمایا کہ اقبال کی وفات سے ملک و قوم اور ادب کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ آپ نے اقبال کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا اقبال نے اردو ادب میں ایک جدید دو رکا آغا ز کیا۔ جناب ارشد تھانوی نے کہا کہ اقبال نے اس دور میں جنم لیا جب کہ شعر و شاعری میں داغ کے رنگ کو پسند کیا جاتاتھا اور ہر شاعر داغ کا تتبع کرتا تھا۔ اس وقت چند لوگ ایسے پیداہوئے جنہوںنے اس نئے پرانے رنگ کو چھوڑ کر ایک نئی روش اختیار کی اس میں علامہ اقبال مولانا حالی اور پروفیسر آزاد کا خاص حصہ ہے۔ اقبال ایسا نقصان ہے جس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ جناب مرزا ظفر سیفی نے کہا کہ اقبال بحیثیت شاعر نہ صرف اردو شاعری کے لیے باعث افتخار تھے بلکہ ان کی شخصیت ہندوستان کے لیے ایشیاء کے لیے اور عالم اسلام کے لیے بھی مایہ ناز تھی اقبال نے جس نظریہ کے تحت مسلم اقوام کے احیاء کا مسئلہ پیش کیا وہ دوسرے الفاظ میں خوداقبال پر بھی حرف بحرف صادق آتاہے۔ یعنی قوم میں سے بعض جلیل القدر افراد آگے چل کر اپنی قوموں کو بنایا کرتے ہیں۔ دنیا کی تمام قوموں نے اقبال کی بین الاقوامی شخصیت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جرمنی نے کہا اقبال کی شاعری گوئٹے کی مرہون منت ہے۔ اطالیہ نے کہا ککہ اقبال نے ہم سے سب کچھ سیکھا ہے۔ فرانس نے کہاکہ اقبال ہمارا ہے حالانکہ اقبال وہی کہہ رہا ہے جو آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پیشتر کہا جا چکا ہے۔ غرض وہ بین الملی اتحاد کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔ پہلی مئی ۱۹۳۸ء کے اخبار ندیم میں ایک طویل اداریہ لکھا گیا۔ جس میں علامہ اقبال کے انتقال پر اظہار غم کرتے ہوئے ا ن کی شاعرانہ عظمت پر روشنی ڈالی گئی۔ اداریہ میں کہا گیا اقال مرحوم ان انقلاب انگیز شعراء میں سے ہیں جن کی تخلیق ہنگامی خلیق نہیں ہوتی۔ وہ فطرت کے پیغامبر ہوتے ہیں۔ وہ پیدا ہوتے ہیں ایک عظیم الشان مشن لیے ہوئے۔ اپنی زندگی میں وہ اس مشن کو پھیلاتے ہیں۔ اس سبق کو خفتہ بخت قوم کو یا د دلاتے ہیں جو وہ بھول چکی ہوتی ہے۔ اس کے اجزائے قومیت میں ہم آہنگی پیدا کر کے اس کے پریشان اور منتشر شیرازہ کو یکجا کرتے ہیں۔ اس کی اساس ملت کو استوار اور مستحکم کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ملہم غیبی آواز ہوتی ہے ان کا ہر لفظ اثر میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ ا کے کلام میں تاثیر ہوتی ہے۔ سوز و گداز ہوتا ہے اوروہ برق آشنا تڑپ ہوتی ہے جس سے ایک مضحمل اور پس ماندہ قوم کے قویٰ میں حیات کے شرارے پیدا ہوجاتے ہیں۔ وہ حقیقتاً قوم کے مستقبل کے بانی ہوتے ہیں۔ وہی ملت کے محسن حقیقی راہبر اور صحیح معنوں میں مجدد اعظم کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ اقبال بھی ہندوستان بلکہ عالم مشرق کے زندہ جاوید شعراء میں سے ہیں ۱؎‘‘۔ اقبال کی وفات کے بعد مقامی جریدوں میں ان کی اعلیٰ شاعری اوران کے بلند نصب العین پر کئی مضامین شائع ہوئے جو افسوس ہے کہ تلاش و کوشش کے باوجود نہ مل سکے۔ البتہ ہفت روزہ ندیم کے چند مضامین کا اشارہ آئندہ صفحات میں شامل ہے۔ اقبال کے سانحہ ارتحال پر بھوپال کے جن مقتدر شعراء نے مرثیے لکھ کر اظہار عقیدت پیش کیا ان میں علامہ محسوی لکھنوی جناب حامد سعید خاں حامد جناب مائل نقوی جناب حبیب الحسن صاحب قادری جناب اختر سعید خاں کے اسماء گرامی ہمیں عبدالقوی دسنوی کے کتابچہ علامہ اقبال بھوپال میں ملتے ہیں ۔ ان تمام شعرائے گرامی کے مرثیے ان کی نظر سے گزرے تھے۔ لیکن انہوںنے صرف ایک مرثیہ مائل نقوی کا شامل کتابچہ کر لیا۔ چنانچہ میں نے انہیں لکھا کہ دیگر حضرات کے مرثیے نقل کرا کر براہ کرم مجھے بھجوا دیں تاکہ میں اپنی کتاب میں محفوظ کر دوں۔ انہوںنے وعدہ کیا۔ لیکن افسوس کہ اس کی تکمیل نہ کر سکے۔ جب میں خطوط لکھ لکھ کر مایوس ہو گیا تو میں نے اپنے وسائل سے کام لیا اور میری خوش نصیبی کہ مجھے ایک غیر مطبوعہ مرثیہ بھوپال کی مایہ ناز شاعرہ مہ جبین خمار کا ان کے بھتیجے مسیح صدیقی کے توسط سے دستیاب ہو گیا اور دوسرا مرثیہ بھوپال کے بزرگ و محترم شاعر حامد سعید خاں حامد کا ان کے صاحبزادے اظہر سعید خاں کے ذریعہ مل گیا تھا۔ تلاش کے بعد یہ بھی پہ چلا کہ باسط بھوپالی ۳؎ اور احسن علی خاں ۴؎ نے بھی اقبال پر معرکہ آرا نظمیںلکھی تھیں جو ہر ممکن کوشش کے باوجود مجھے نہ مل سکیں۔ ہفت روزہ ندیم کی فائلیں جن کی فراہمی کے لیے میں نے کوئی ارسال سعی و جہد کی کسی جگہ دستیاب ہو جاتیں تو وہ تمام سرمایہ یک جا ہو جاتا۔ کم از کم ان مضامین کی ایک مکمل فہرست ہی تیار ہو جاتی جو اقبا ل پر نظم ونثر کی صورت میں وقتا ً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اقبال پر بھوپال کے رسائل وج رائد میں ان گنت قیمتی مضامین نظم و نثر شائع ہوئے تھے جو اب دس بردر زمانہ کے ہاتھوں اوراق گم گشتہ بن چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعدبھوپال کا کوئی ہونہار محقق اس تمام ادبی سرمایہ کو تلاش ویک کجا کر شائع کر دے جو رسائل و جرائد میں بکھرا پڑا ہے۔ اس طرح آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کر سکیں گی۔ بھوپال علم و ادب کا ایک بڑ ا مرکز ہونے کے باوجود اخبارات و رسائل کی مسلسل اشاعت کے سلسلے میں بہت بدنصیب واقع ہوا ہے یوں تو وہاں ظل السلطان نگار ’’افکار‘ُ’’جادہ‘‘’’کردار‘‘ اور کتنے ہی رسالے شائع ہوئے لیکن کچھ مدت کے بعد بند ہو گئے۔ یا بھوپال سے کہیں اور منتقل ہو گئ۔ بہرحال یہ ایک الگ داستان ہے۔ ۱؎ علامہ اقبال بھوپال میں صفحہ ۵۷تا۶۲ ۲۔۳۔۴؎ ان شعرا کی نظمیں اس باب کے آخر میں ملاحظہ ہوں۔ گزارش کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آج جب گزشتہ نصف صدی کے ادبی ذخیرے کی تلاش جاری ہے تو رسالوں اور جریدوں کی فائلیں نایاب ہو گئی ہیں جس میں کتنے ہی قیمتی ادب پارے اور کتنی ہی عظیم و پرمایہ شخصیتیں جو بجا طور پر بھوپال کے شعر و ادب اور علم و فن کی آبرو کہی جا سکتی تھیں دفن ہو کر رہ گئی ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ مبہ جبین خمار کا غیر مطبوعہ مرثیہ وفات کے فورا ً بعد انہوں نے لکھا تھا جس کے شائع ہونے کی نوبت نہ آئی۔ مہ جبین خمار ے مختصر حالات زندگی آئندہ صفحات مٰں شامل ہیں۔ ان کے مرثیہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اقبال سے کتنی گہری عقیدت رکھتی تھیں۔ مرثیہ کا ہر شعر ان کے دلی جذبات غم کا آئینہ دار ہے۔ یہ مرثیہ اقبال کی وفات کے تقریباً ۳۵ سال بعد پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ فغان غم دریاد اقبال قرطاس کو تحمل تحریر غم نہیں اظہار و اضطراب مجال قلم نہیں اقبال سر بلند کی رحلت کا سانحہ کرب و بلائے یوم تغابن سے کم نہیں طوفان نوح شدت گریہ سے آشکار اشکوں پہ اختیار ذرا چشم نم نہیں ہنگامہ نشور بپا شور آہ سے صد حیف نالہ در خور ضبط الم نہیں آئی ندا لحاظ مشیت ضرور ہے ترک حدود صبر بساط قدم نہیں حکم قضا ہے زندگی نو کا راز دار حیرت ہے آگہی رموز حکم نہیں عازم ہے روح منزل تکمیل کی طرف اس مرحلہ پہ بحث وجود و عدم نہیں ہستی کہ در ازل اثر ارتقاء گرفت در مرگ و زیست سعی جہاد دالبقا گرفت اقبال کو ملی تھی سرافراز زندگی جس پر ہمیشہ کرتی رہی ناز زندگی پاکیزہ خو بلند خصائل نکو شعار ان خوبیوں سے پائی تھی ممتاز زندگی اسرار کائنات میںالہام و شعر میں شاعر کا دل صحیفہ صدر از زندگی کب موت کے جمود میں تبدیل ہو سکا وہ نغمہ تھا جو وقف تگ و تاز زندگی انجام زیست نذر سکوت فنا نہیں ہستی نو کا کرتی ہے آغاز زندگی کرتی ہے انکشاف عروج حیات کا دائم بہ اوج مائل پرواز زندگی فردوس کی فضائے درخشاں میںتابناک دنیائے ارتقاء کی عمل ساز زندگی چوں نعمت بہشت بہ جہد رواں رسید روح جری بہ زندگی جاوداں رسید اقبال چوں بہ روضہ جنت درآمدہ اکنوں بہار گلشن رحمت درآمدہ گفتند حوریاں کہ زہے اوج قسمتم نوبادہ حدیقہ عزت درآمدہ چندیں عروج شوکت طوبیٰ بہم نہ یافت آں سرو باتفاخر رفعت درآمدہ بآں ساعت کو محفل فردوس نظم جست آں شمع دل نشیں بہ جلالت درآمدہ بابوئے جاں نواز عزیز زمانہ بود اکنوں بہ خلد آں گل عظمت درآمدہ از باغ دہر قصد نعیم جناں گرفت باصد ہزار شان و شہامت درآمدہ در ظل ایزدی شرف ذوالمقام یافت قدرش بہ بیں خمار فروغ دوام یافت (مہ جبین خمار) اس مرثیہ سے اگر ایک طرف مہ جبین خمار کے ذاتی غم اور ان کی دلی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ مرثیہ بھوپال کے ادیبوں اور شاعروں کے دلی رنج و غم کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ اگرچہ اس وقت بھوپال ہی میں تھیں لیکن ایک پردہ نشین خاتون تھیں اس لیے انہیں اقبال سے نیاز مندی کا شرف تو حاصل نہ ہو سکا لیکن اقبال نے ان کا کلام ان کے بھائی معظم رسول صدیقی کی زبان سے سنا اور پسند کیا اور ان کا مجموعہ کی اشاعت کے سلسلے میں انہیں مشورہ بھی دیا۔ آئندہ باب میں اس کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے۔ حامد سعید خاں حامد بھوپال کے ایک جاگیر دار خاندان کے ذی علم اور صاحب طرز شاعر تھے اور ان کا شماعر بھوپال کے صف اول کے شعرا میں کیا جاتاتھا۔ نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ ۱۹۲۴ء میں آپ نے بھوپال سے ایک رسالہ محسن الملک بھی جاری کیاتھا جو کچھ عرصہ بعد بند ہو گیا شہید ٹونکی سے آپ کو شرف تلمذ حاصل تھا اور وسط ہند کے غزل گو شعرا میں بلاشبہ آپ کی حیثیت منفرد تھی۔ آپ کے بارے میں علامہ نیاز فتح پوری کی رائے ہے… حامد بھوپالی کی شاعری صوری و معنوی دونوں حیثیتوں سے کلاسیکل قسم کی چیز ہے اس میںوہ سب کچھ ہے جسے قدما و متاخرین کے تغزل کا سرمایہ کہہ سکتے ہیں۔ ٹھہرائو کے ساتھ متانت ان کی خاص خوبی ہے۔ ۱۹۴۱ء میں جب نواب حمید اللہ خاں نے بھوپال میں سالانہ مشاعروں کی طرح ڈالی تو اقصائے ہند کے بلند پایہ شعراء مثلاً جوش فانی جگر سیماب حفیظ فراق وغیرہ ہر سال بھوپال آنے لگے۔ یہ مشاعرہ شہر کی حسین عمارت صدر منزل میں عرصہ تک منعقد ہوتا رہا۔ ان مشاعروں کے خصوصی کار پردازوں میں حامد سعید خاں کی ذات گرامی بھی شامل رہتی تھی۔ اور بیشتر شعراء مشاعر ہ کے بعد حامد صاحب کی ذاتی دعوتوں اور ادبی محفلوں میں شریک کرتے تھے۔ اس طرح حامد صاحب کی ذات بھوپال کے لیے ایک ادبی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ افسوس کہ بھوپال کا یہ مایہ ناز فرزند فروری ۱۹۶۰ء میں ہم سے جدا ہو گیا ورنہ اقبال سے ذاتی ملاقاتوں کا کچھ اور مستند حال احوال ہم تک پہنچ جاتا جس سے وہ اقبا ل کے قیام بھوپال کے دوران متمع ہوئے تھے۔ ذیل کا مرثیہ جو انہوںنے اقبال کی وفات پر لکھا تھا ان کے دلی جذبات کا آئینہ دار ہے۔ اس میں فنی پختگی ہی نہیں۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت کا پرشکوہ اعترا ف بھی ہے۔ یہ غیر مطبوعہ مرثیہ بھی پہلی بار شائع ہو رہا ہے۔ اقبال پیکر اقبال جب تخلیق فرمایا گیا! یعنی بزم آب و گل میں جب اسے لایا گیا نطق جبریل امین معتبر بخشا اسے خود بنایا اور پھر خود غور سے دیکھا اسے کوثر و تسنیم کی موجوں سے نہلایا اسے خلعت پیغمبری شعر پہنایا اسے روح سوز عشق اس کے جسم میں پھونکی گئی پیر رومی کی امانت سب اسے بخشی گئی شاعری کا تاج اس کے فرق پر رکھا گیا علم و حکمت کا خزانہ سب اسے بخشا گیا قوم کے جذبات دل کی ترجمانی دی گئی ترجمانی دی گئی جاد و بیانی دی گئی فرش پا انداز اس کا آسمانوں سے بلند آدمی لیکن فرشتوں کی صفوں میں ارجمند طائر سدرہ نشیں کو دام میں لائے ہوئے اور اس کے بعد بھی آغوش پھیلائے ہوئے بلبل شیراز کے نغموں کو دہراتا ہوا زندگی کے راستوں میںپھول برساتا ہوا جنت الفردوس کی ساری بہاروں کو لیے شعر و نغمہ کے ہزاروں آبشاروں کو لیے زندگی بھی ساتھ میں تابندگی بھی ساتھ میں بے خودی بھی ساتھ اسرار خودی بھی ساتھ میں آہ وہ شمع ضیا افروز اب ہم میں نہیں ہم تو ہیں لیکن وہ ساز و سوز ہم میں نہیں جم ہے لیکن حقیقی روح رخصت ہو گئی قوم پر قبل از قیامت اک قیامت ہو گئی عبدالجلیل مائل نقوی۔ بقول ڈاکٹر سلیم حامد رضوی… (حامد سعید خاں حامد) ’’… بھوپال کے کہنہ مشق اور ذی علم شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سرراس مسعود کے خاص آدمی تھے سر راس مسعود کی ہی تحریک اورامداد سے انہوںنے سحر بھوپالی کا کلام جمع کر کے بیاض سحر کے نام سے شائع کیا۔ مشاعروں میںبہت کم شرکت کرتے تھے۔ غزل کے علاوہ قصیدہ کہنے میں بھی مہارت کامل رکھتے ہیں ابھی بقید حیات ہیں اور پاکستان منتقل ہوگئے ہیں۔ ابتدا میں شعری بھوپالی نے انہیں سے اصلاح لی تھی۔ بعد میں ذکی وارثی سے اصلاح لینے لگے ۱؎‘‘۔ ۱؎ اردو ادب کی ترقی میں بھوپا ل کا حصہ صفحہ ۲۸۲ مائل نقوی بیک وقت نظم و نثر پر قادر ہیں۔ نظامی بدایونی کا ایک مضمون بعنوان سر راس مسعود اور اردو ادب مرقع مسعود میں شامل ہے۔ جس کا ایک اقتباس مائل نقوی کی ادبی حیثیت اور ان کے راس مسعود سے قریبی تعلقات اور راس مسعود کے ان کارناموں پر خاصی روشنی ڈالتا ہے جو انہوںنے بھوپال کی ملازمت کے مختصر سے عرصہ میں علم و ادب کے فروغ کے لیے انجام دیں لکھتے ہیں: ’’یہ مضمون ختم نہ کرنے پایا تھا کہ انجمن ۱؎ ترقی اردو بھوپال کے معتمد حضرت مائل نقوی کا ایک مضمون ’’زمانہ ۲؎‘‘ میں نظر سے گزرا جس میں انہوںنے سر راس مسعود کی ان دلچسپیوں کا ذکر کیا ہے جو بھوپال کی ادبی فضا میں ان سے ظہور میں آئیں۔ انہوںنے لکھا ہے کہ مرحوم نے اپنے ذاتی صرف سے وہاں دارالتصنیف کی بنیاد ڈالی تھی اور اس ادارہ کو وہ بڑے پیمانہ پر عملی صورت میں اس طرح دینا چاہتے تھے کہ کسی پر فضا پہاڑی مقام پر ایک درجن کوٹھیاں تعمیر کرائی جائیں اور ہر کوٹھی کو علم و ادب کے کسی شعبہ سے منسوب کر کے اسے جملہ لوازمات سے مکمل کر دیا جائے۔ پھر ہر فن کے ماہر کی خدمت کم از کم ڈھائی سو روپیہ ماہانہ پر حاصل کی جائے اور ان سے یہ معاہدہ کر لیا جائے کہ ہر سال چھ ماہ تمام علایق سے منقطع ہو کر کوٹھی میں قیام کریں اور تین سال کے بعد اپنے فن پر ایک رسالہ تیار کر دیا کریں۔ انہوںنے اس سکیم کو عملی صورت دینے کے لیے پندرہ لاکھ روپے کا تخمینہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ وہ اس رقم کو آسانی سے جمع کر لیں گے۔ جگہ کا بھی انتخاب کر لیا تھا جس کا اظہار نہیں کیا تھا یہ بھی کہا تھا کہ میری زندگی کا یہ آخری زمانہ ہو گا۔ لیکن مشیت کو یہ منظور نہ تھا۔ مائل صاحب کے ا س مضمون کو پڑھ کر مجھے مرحوم کے اس خط کا خیال آ گیا جو ۱۹۳۶ء ۳؎ میں انہوںنے مجھے بھوپال بلانے کے لیے بھیجا تھا کہ ہو نہ ہو اس سکیم کے متعلق مشورہ کے لیے میری طلبی ہوئی ہو گی۔ ۴؎‘‘۔ اقبال کی وفات کے فوراً بعد مکتبہ جامعہ دہلی نے جوہر کا شمارہ خصوصی بیاد اقبال شائع کیا تھا۔ اس جامع اور مستد خصوصی شمارے میں جن اکابر اور مشہور شخصیتوں کے مضامین نظم و نثر شامل ہیں ان میں علامہ سید سلیمان ندوی ابوالاثر حفیظ جالندھری ڈاکٹر عابد حسین ‘ پروفیسر رشید احمد صدیقی‘ پروفیسر محمد مجیب پروفیسر سید نواب علی ‘ پروفیسر غلام السیدین‘ ڈاکٹر سعید احمد بریلوی‘ مولانا محمد اسلم جیراجپوری‘ ڈاکٹر عبدالوہاب عزام اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ۱؎ اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصہ میں تقسیم سے قبل کے علمی و ادبی اداروں کی جو فہرست دی گئی ہے اس میںمائل نقوی کے نام کے ساتھ انجمن اردو تحریر کیا گیا ہے صفحہ ۴۵۹ ۲؎ یہ مشہور رسالہ دیا نرائن نگم کی ادارت میں کانپور میں سے شائع ہوتا تھا۔ ۳؎ یہ وہی زمانہ ہے جب اقبال علاج اور قیام کے سسلے میں بھوپال تشریف لے گئے تھے ہو سکتا ہے کہ راس مسعود نے اپنی اس سکیم کے سلسلے میں اقبال سے بھی مشورہ کیا ہو۔ ۴؎ مرقع مسعود۔ صفحہ ۶۴۔۶۵ پروفیسر نواب علی اسلامی تاریخ پر سند کا درجہ دکھنے کے علاوہ اردو اور فارسی میں شعر گوئی کاملکہ بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ خصوصی شمارہ جوہر کے اقبال نمبر میں ان کا معرکہ الآرا مضمون مثنوی پس چہ بایدکر د ا ے اقوام رق شامل ہے جس کا تفصیلی ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے۔ اسی نمبر میں آپ کی بلند پایہ فارسی نظم بھی صفحہ ۸۰ پر شریک اشاعت ہے جو پیش خدمت ہے عنوان ہے: یاد اقبال بلند پایہ سخن ور حکیم ہند اقبال چو بانگ ارجعے بشنید گشت محو جمال چہ گفت؟ گفت کہ از مرگ من نمی ترسم چو مسلمم متبسم ردم بہ بزم وصال خدا رسیدہ خودی راست کاشف اسرار رموز بے خود خویش انظر والی الیماقال چہ جرات است کہ از حق شکایت اس اورا جواب شکوہ او داد ایزد متعال شکست ضرب کلیمش فرنگ را نیرنگ پیام مشرق او نردبان اوج کمال فگند غلغلہ جاوید نامہ اش بہ فلک چو رفت زمزمہ خواں تا سراوق اجلال سر آمدہ شب دیجور خفتہ ملت زنو نمود چو از بال جبرئیل ہلال چو مست بانگ درائے الست شد لاریب کلام او شدہ تاروز حشر حسن مقال حیات او سبق آموز ملک و ملت را چراغ بیت عتیق است و دیر راتمثال دماغ مغربی و قلب مشرقی اورا بشرق و غرب ضیا پاش بود مہر مثال نمود سادہ داں رانگاہ حق بینش وطن پرستی مغرب چو فتنہ دجال درست ہفت کہ حب الوطن من الایمان مگر پرستش او جان خلق راست وبال چو پیر روم بیامیخت فلسفہ با دین زخاک سجدہ برافروخت آتش سیال بہ بیں بہ دورہ باشین چوں حدی خوان است جنوں نوازی او عقل راکشید عقال حسن زبصرہ بلالؓ از حبش صہیبؓ از روم بیابہ بیں کہ چساں بود پور ہند اقبال نہ شاعرے کہ بہ ہروادی است سرگرداں نہ مشاعرے کہ ز اقوال اوجدا افعال ترانہ اش ہمہ عشق و سرود اوہمہ درد زنو بگفت کہن داستان ہجر و وصال فدائے ملت و پیک رجاو خضر طریق سوار اشہب دوراں وحید عصر اقبال فرشتہ صید و پیمبر شکار ویزداں گیر بہ یاد او دل نواب مست بادہ حال (پروفیسر سید نواب علی) جیسا کہ گزشتہ صفحات میں عرض کیا گیا ہے کہ اقبال کی وفات پر جن مقتدر شعرانے مرثیے لکھے تھے ان میں احسن علی خاں‘ اختر سعید خاں اورباسط بھوپالی بھی شامل تھے۔ پہلے ایڈیشن کی تکمیل کے دوران ہر ممکن کوشش کے باوجود ان شعرا کی نظمیں نہیں مل سکی تھیں جو خوش قسمتی سے دوسرے ایڈیشن کی نظر ثانی کے دوران دستیاب ہو گئیں اور پہلی بار شائع ہو رہی ہیں۔ احسن علی خاں اور اختر سعید خاں اس دور میں بھوپال کی نئی نسل کے نمائندہ شاعروںمیں امتیازی حیثیت کے مالک تھے۔ ان دونوں نے علی گڑھ میں تعلیم پائی اور تعلیم مکمل کر کے بھوپال آ گئے اور علمی ادبی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں انہوںنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شروع ہی سے یہ دونوں حضرات جدید خیالات اور انقلابی نظریات کے حامل تھے۔ اور اقبال کی مقصدی اورتعمیری فکر سے متاثر ۔ چنانچہ ان کی نظموں میں اقبال کے اثرات آپ محسوس کریں گے۔ اختر سعید خاں …آج بھی بھوپال میں ہیں اور شہر کے ممتاز ایڈووکیٹ ہی نہیں… بلندپایہ شاعروں میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ کل ہندانجمن ترقی پسند مصنفین کے سیکرٹری اور مرکزی حکومت ہند کے تحت قائم کردہ اقبال سینیٹری کمیٹی کے رکن بھی ہیں اور اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ شیش محل…قیام گاہ اقبال کو مستقلاً یادگار اقبال کی حیثیت عطا کر دی جائے۔ ان کی نظم بہ عنوان بیاد اقبال ان کے سچے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ احسن علی خاں… عرصہ دراز تک ملٹری کالج کا کول میں استاد کی حثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان دنوں وہ اسلام آباد میںہیں اور وزارت خارجہ میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائض ہیں ان کینظم کا عنوان ہے ’’اقبال‘‘۔ باسط بھوپالی کا شمار بھوپال کے اساتذہ میں ہوتا تھا۔ وہ غزل و نظم پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ بھوپال کی نئی نسل کی ذہنی اور فکری تربیت میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ باسط بھوپالی بھی اقال کے پرستاروں میں تھے۔ چنانچہ ان کی معرکہ آرا نظم کے مطالعہ سے آپ کو یہ بھی فائدہ ہو گا کہ وہ افکار اقبال سے کس حد تک متاثر تھے۔ باسط بھوپالی بھوپال اور وسط ہند کے بڑے بڑے مشاعرو ں میں شریک ہوتے تھے اور اکثر و بیشتر ان کا کلام حاصل مشاعرہ قرار پاتا تھا… ان کا یہ شعر تو آج بھی بھوپال میں زبا ن زد ہے: سارا عالم آئینہ باسط جیسی نگاہیں ویسے نظارے ان کا پہلا نمائندہ مجموعہ کلام کاروان غزل کے نام سے ۱۹۶۱ء میں بھوپال سے شائع ہوا تھا۔ اور اسی سال افسوس کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی درد انگیز نظم نوحہ اقبال کی فراہمی بھی ایک دلچسپ اتفاق کی رہین منت ہے۔ باسط مرحوم کے ایک عزیز شاگرد حبیب بھوپالی جو خود بھی ایک خوش فکر اور خوش آواز شاعر ہیں نومبر ۱۹۷۶ء میں اپنے عزیزوں سے ملنے کراچی آئے اورایک رو زاپنے چھوٹے بھائی فہیم رضا کے ہمراہ ملاقات کے لیے دفتر افکار بھی آ گئے۔ باتو ںباتوں میں میں ن باسط مرحوم کی اقبال کے متعلق نظم کے بارے میں دریافت کیا تو انہوںنے کہا کہ وہ نظم آج تک کہیں شائع نہیں ہوئی نہ باسط صاحب کے مجموعہ کلام میں شامل ہے۔ لیکن انہیں زبانی یاد ہے۔ اقبال کے تعزیتی اجلاس میں یہ نظم باسط بھوپالی کی جانب سے انہوںنے ہی سنائی تھی۔ وہ اسے لکھ کر دے دیں گے۔ چنانچہ یہ یادگار نظم حبیب بھوپالی کے دلی شکریہ کے ساتھ شامل کتاب کی جا رہی ہے۔ اقبال کونسا طائر فضا میں ارتعاش انداز ہے فکر کی پرواز ہے یا روح کی پرواز ہے اڑنے والا عرش کی جانب کوئی نغمہ نہیں آہ اے اقبال یہ تو ہے ترا شکوہ نہیں جی میں کیا آئی کہ یکایک آشیاں سے اڑ گیا تو بھی اے قمری نوا شاہیں جہاں سے اڑ گیا اب سنائے گا چمن میں نغمہ شیراز کون؟ اب دکھائے گا جہاں کو فکر کی پرواز کون؟ ٭٭٭ ایک ساعت جس نے دیکھی گردش دور جہاں وہ شہاب زندگی ہے زیب سقف آسماں اے شہاب زندگی اے شاعر فکر حسیں بھول کر بھی یاد آتا ہے تجھے خواب زمیں؟ تیرے شایاں جو نہ تھا ایسے جہاں کو بھول جا میرے شکوئوں پر نہ جا ہندوستاں کو بھول جا حسن کا پیارا ہے تو اور عشق کا پیارا ہے تو بہر نظارہ بتا دے کون سا تارا ہے تو؟ ٭٭٭ ساری دنیا طور سے بے طور ہے تیرے بغیر عالم بزم نگاراں اور ہے تیرے بغیر تیری مونس آج سے بیمار ہجراں ہو گئی فرط غم سے لیلیٰ شب مو پریشاں ہو گئی خوبصورت آنسوئوں کا حسن ماتم ہائے ہائے نازنین صبح کے عارض پہ شبنم ہائے ہائے ہائے وہ دھیمے سروں میں نوحہ گر جوئے رواں جیسے کوئی لے رہا ہو ہچکیوں پر ہچکیاں سینہ رنگین گل تیرے الم میں چاک چاک شبنمی چہرہ کلی کا فرط غم سے تابناک گلستاں میں کس لیے اتنی پریشاں ہے شمیم کیا خبر پائی ہے جو گھبرا گئی ہے باد نسیم تیرے غم میں ہو گئی بزم چمن بزم عزا! پھر کسی صورت سے اس ویراں چمن میں لوٹ آ …(احسن علی خاں) بیاد اقبال اے شہپر جبریل امیں طائر افلاک جاتے ہوئے فردوس کو للہ دھر دیکھ ہر سمت اندھیرا ہی اندھیرا ہے جہاں میں تجھ بن یہ زمیں ہو گئی کیا ایک نظر دیکھ اشکوں کا تلاطم کہیں آہوں کا دھواں ہے خاکستر دل شعلہ جاں زخم جگر دیکھ خاموش ہے کیوں اے لب اعجاز مسیحا! جی اٹھیں گے ہم پھر ہمیں تو بار دگر دیکھ افلاک پہ غل ہے تیری بیباک نظر کا سہمی ہوئی مجبور غلاموں کی نظر دیکھ دیکھ آج بھی دہقاں کو میسر نہیں روزی خرمن ہے وہی سیر گہ برق و شرر دیکھ مرمر کی سلیں آج بھی ہیں سجدہ گہ خلق مٹی کا حرم آج بھی ہے خاک بہ سر دیکھ جلنے کو تو جلتا ہے چراغ حرم و دیر روشن کسی اللہ کے بندے کا ہے گھر دیکھ تفریق ابھی تک ہے وہی محنت و زر میں یہ قصر یہ ایواں یہ گھروندے یہ کھنڈر دیکھ مشرق کی زمین اب بھی ہے بازیچہ اطفال اب تک ہے وہی سلسلہ شام و سحر دیکھ …(اختر سعید خاں) نوحہ اقبال حیف اے بزم جہاں اے انقلاب کائنات ہر نفس پر ختم ہو جاتا ہے اک دور حیات زندگی سی قیمتی شے اور اتنی بے ثبات آہ اے معمورہ آفات و بزم حادثات سب شہود و غیب فانی‘ باطن و ظاہر فنا منزل اول فنا اور منزل آخر فنا کیا غم و اندوہ کیا سرمایہ عیش و نشاط کیا طلسم رنج پیہم کیا فریب انبساط کیا خیال پیش بینی کیا جنون احتیاط کیا یہ دنیا اور کیا دنیا کا نظم ارتباط کیا گدا کی زندگانی اور کیا شہ کا وجود حاصل افسانہ ہستی نہیں جز رفت و بود منزلوں کی کچھ خبر ہے اور نہ راہوں کا پتا! کچھ نہیں ہے سامنے دھندلے نشانوں کے سوا گرد منزل ہی نہیں ملتی ہے منزل تو کجا! ہر طرف بس اک سراب اندر سراب اف اے خدا جا رہے ہیں کس طرح ہم کو خبر کچھ بھی نہیں زندگی محو سفر ہے اور سفر کچھ بھی نہیں کاروان ماہ و انجم صبح تک رخصت ہوا پھول گلشن میں کھلا مہکا مگر مرجھا گیا کیسا نغمہ کس کا بادہ کیا بہار جاں فزا؟ ہر حقیقت میں بجز نام حقیقت کچھ نہ تھا جاگتے ہی موج آغوش فنا میں سو گئی شکل طوفاںرفتہ رفتہ محو دریا ہو گئی جھونپڑوں میں موت اور دولت کے کاشانوں میں موت خلوتوں میں موت جلوتوں میں اور زندانوںمیں موت محفل شادی میں اور غم کے سیہ خانوں میںموت دشت و در میں موت شہروں اور ویرانوں میںموت ٹل نہیںسکتی کہ حکم آخر تقدیر ہے زندگی کے خواب کی بس موت ہی تعبیر ہے موت بہتر ہے ضعیفوں ناتوانوں کے لیے بے ثبات و بے ہنر اور بے نشانوں کے لیے آفتوں میں مبتلا بے تاب جانوں کے لیے خانماں برباد فاقہ کش جوانوں کے لیے لیکن اک کامل کا اٹھ جانا جہاں سے ہائے ہائے ہائے اب اقبال کو لائیں کہاں سے ہائے ہائے صرف اے اقبال تو ہی شاعر اسلام تھا تیرا جام فکر لبریز مئے الہام تھا عاشق فطرت تھو تو قدرت کا اک انعام تھا قلب مسلم کے لیے تسکین کا پیغام تھا تو وہ شاعر تھا کہ روح دہر جس سے شاد تھی درد کی بستی تری تخیل سے آباد تھی فارسی تک ہی نہ تھا محدود تیرا فیض عام کشت اردو کے لیے آب رواں تیرا کلام تو امام شاعراں تھا فلسفہ تیرا غلام آسمان شاعری کا تو ہی تھا ماہ تمام تجھ پہ اہل ہند کو اک فخر تھا اک ناز تھا جس پر یورپ رقص کرتا تھا تو ایسا ساز تھا مست ہے مسلم مگر بدذوق بالکل ہی نہیں اس کے ہر انداز میں پیدا ہیں سو حسن و یقیں! اس کی رگ رگ میں ہے پنہاں ایک عزم آتشیں کاش یہ خاموش چنگاڑی بھڑک اٹھے کہیں کاش تیرا واعظ و تلقیں پر اثر بن کر رہے جو خس و خاشاک مسلم میں شرر بن کر رہے تو نے اسرار ید الٰہی بتائے قوم کو تو نے غیرت خیز افسانے سنائے قوم کو تو نے جینے کے طریقے بھی سکھائے قوم کو کون اب تیری طرح دیکھیں جگائے قوم کو اے خطیب بے بدل اے شاعر عالی مقام تا ابد محفوظ رکھا جائے گا تیرا کلام …(باسط بھوپالی) ٭٭٭ ملفوظات قدسی اور نیاز مندان بھوپال حضرت شاہ اسد الرحمن قدسی مدظلہ کا مختصر احوال اس کتاب کے دوسرے باب میں اقبال کے بھوپال سے روابط کے ذیل میں درج کر چکا ہوں۔ آ پ کا اسم گرامی ناصر الدین اسد الرحمن اور تخلص قدسی ہے۔ آپ بمقام بھوپال ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حبیب الرحمن علیہ الرحمتہ اللہ صاحب رشد و ہدایت اور صوفیائے کرام کے اعلیٰ مسلک سے فیضیاب ہو چکے تھے اور حضرت وارث علی شاہ دیوہ شریف کے خلیفہ تھے۔ قدسی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور سن شعور کو پہنچے تو آئندہ تعلیم کے لیے لاہور بھیج دیے گئے۔ سات برس بعد بھوپال لوٹے ۔ آپ کے والد بزرگوار کا وصال ہو چکا تھا اس لیے آپ خاندانی سلسلہ رشد و ہدایت پر فائز ہوئے۔ چار پانچ برس تک صحرائوں پہاڑوں اور ریاضت شاقہ میں بسر کیے۔ آخر میں بھوپال کی مشہور ٹیکری منوا بھانڈ پر چلہ کشی فرمائی۔ یہ سنسان اور ویران پہاڑی شہر بھوپال سے تقریباً پانچ میل دور ہے ۔ پھر ریت گھاٹ پر قیام فرمایا۔ وہاں سے منشی حسین خاں کی مسجد میں فروکش ہو گئے۔ اس زمانہ میں بڑی رجوعات ہوئیں۔ بھوپال کے تمام صاحبزادگان اور اخوان ریاست کے علاوہ اطراف ہند کی سیکڑوں عورتیں اور مرد خدمت میںحاضری دینے لگے۔ بعدہ شملہ کوٹھی جو بھوپال کی ایک بلند ترین پہاڑی پر واقع تھی اس کے نیچے ثمرستان عبید آپ کو پیش کیا گیا اور نواب زادہ سعید الظفر خاں‘ نواب زادی رشید الظفر خاں نواب حمید اللہ خاں کے بھتیجے اور ان کی والدہ محترمہ مرحومہ حلقہ بگوش اور مرید خاص ہو گئے۔ ثمرستان میں آستانہ قائم ہوا۔ مسجد اور عمارت تعمیر کی گئیں۔ تقسیم ہندو پاک تک یہیں قیام فرما رہے ۱۹۴۹ء میںبھوپال سے ہجرت کی اور کئی لاکھ کا اثاثہ وہیں چھورا۔ پاکستان آنے کے بعد کراچی کے بولان ہوٹل میں قیام کیا۔ پھر حیدر آباد کالونی۔ کراچی میں ڈیڑھ سال تشریف فرما رہے یہاں سے لاہور روانہ ہوئے اور کوئی چار سال وہاں رہے۔ پھر بہاول پور میں قیام ہوا۔ وہاں سے کوٹری تشریف لے آئے معتقدین نے بلا طلب دریائے سند ھ کے کنارے ایک نو تعمیر بنگلہ پیش کیا۔ کچھ عرصہ قیام کے بعد یہاں سے روانہ ہو کر چکوال جہلم سے آٹھ میل دور قصبہ بھون شریف لے گئے۔ جہاں جلد ہی ایک وسیع و عریض احاطہ میں آستانہ تعمیر ہو گیا۔ جب سے وہیں قیام ہے۔ آپ کا شمار بھوپال کے بزرگ و ممتاز ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے۔ آپ کی متعدد نظم و نثر کی تصانیف شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔ تصانیف کی تفصیل گزشتہ صفحات میں پیش کی گئی ہے ۔ حضرت موصوف کے بارے میں مجھے علم ہوا کہ آپ کے اقبال سے دیرینہ روابط رہے ہیں چنانچہ اپنی کتاب کے بارے میں آپ کو تفصیلات سے مطلع کیا اور گزارش کی کہ اس بارے میں مطلوبہ معلومات سے نواز دیں چنانچہ ۱۹۶۳ء میں حضرت موصوف نے کمال شفقت سے جواب دیا اور عنایت کیا: ’’۱۶۔۱۲ ۶۳ عزیزم۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ میری صحت بہ تقاضائے عمر اب اچھی نہیں رہی۔ ایک ماہ سے سخت نزلہ زکام کھانسی اور بخار ہے اللہ پاک انجام بخیر فرمائیے۔ میں خود اب کچھ لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں۔ یادداشت بھی خراب ہو چکی ہے۔ مکاتیب سب ایک عزیز کے پاس محفوظ ہیں۔ اقبال مرحوم کا خط حاصل کر کے آپ کے پاس بھیج دیا جائے گا۔ آستانہ بھون جہلم۔ قدسی ۱؎‘‘۔ اس کے فوراً بعد آپ کی ہدایت پر صوفی خدا بخش متوسل آستانہ قدسی نے مجھے اقبال کا قلمی خط بھیجتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’مکرمی …السلام علیکم آپ کا خط موصول آسانہ ہوا۔ حضرت مرشدنا عرصہ سے علیل ہیں۔ ایک ماہ سے زیادہ تکلیف ہے اللہ کریم صحت و سلامتی عطا فرمائیئ۔ آپ نے علامہ اقبال علیہ الرحمتہ کے بھوپال سے تعلقات ے بارے میں معلومات کی درخواست کی ہے حضرت مدظلہ بہ سبب علالت جواب سے معذور ہیں۔ راقم الحروف کی نظر میں علامہ اقبال کی فقیر دوستی اس سے ظاہر ہے کہ جب کبھی بھوپال میں شاہی مہمان ہوئے حضرت مرشدنا اسد الرحمن قدسی مدظلہ العالی کے آستانہ پر ضرور حاضری دی۔ افسوس کہ علامہ علیہ الرحمتہ کے ایک مکتوب کے سوا جو حضرت گل حسن شاہ قلندر علیہ الرحمتہ کے انتقال کی خبر سے متعلق ہے دیگر علمی و روحانی خطوط جو مختلف وقتوں میںبھیجے گئے دستیاب نہ ہو سکے بطور یادگاروہی ایک خط ۲؎ ارسال ہے جو بعد نقل واپس بھیج کر ممنون فرمائیں… خیر اندیش صوفی خدا بخش مورخہ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۳ء متوسل آستانہ قدسی ۳؎‘‘۔ حضرت قبلہ ک مزاج پرسی کرتے ہوئے میں نے اپنی کتاب کے سلسلے میں چند در چند مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے خصوصی اعانت کی درخواست کی بھوپا ل سے خاندانی تعلق کا حوالہ دیا اور یہ عرض کیا کہ اگر قبلہ موصوف ا س اہم کام میں اپنی یادداشتوں سے کچھ عطا فرما دیں گے تو اس کتاب کی قدر و اہمیت بڑھ جائے گی میرے تفصیلی عریضہ کے جواب میں حضرت موصوف نے میری کامیابی کی دعا فرمائی۔ یہی نہیں بلکہ اپنی زیر ترتیب کتاب نقوش ماضی سے چند ایسے واقعات بھی بھجو ا دیے جو اقبال کے بھوپال سے روابط کے سلسلے میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ ان وقعات کا اس سے پہلے کسی کو علم نہیں تھا گرامی نامہ کا متن ملاحظ ہو فرماتے ہیں: ۱؎ ذاتی خط بنام راقم الحروف۔ مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۶۳ء ۲؎ اس خط کا تذکرہ اقبال کے بھوپال سے روابط کے سلسلے میں آ چکا ہے۔ ۳؎ ذاتی خط بنام راقم الحروف۔ مورخہ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۳ء ’’۷۸۶ ۱۲ جنوری ۱۹۶۴ء عزیز مکرم… السلام علیکم ورحمتہ اللہ محبت نامہ موصول ہوا ۔ آپ علامہ اقبال علیہ الرحمتہ سے تعلق ے بارے میں معلومات کا مجموعہ مرتب کر رہے ہیں۔ یہ بری اہم یادگار ہو گی۔ دعا ہے کہ آپ کو ا س مقصدمیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو۔ میری معلومات میں یہ ہے کہ بھوپال سے بطور قدردانی و عزت افزائی چند نامور مشاہیر ملک کے وضائف مقرر تھے۔ اسی سلسلے میں علامہ اقبال علیہ الرحمتہ کو بھی وظیفہ ملتا تھا اور اسی سبب سے موصوف کا بھوپال آنا جانا ہوا۔ علامہ علیہ الرحمتہ جہاں ایک ممتاز شاعر ادیب فلسفی ‘ مفکر و محقق اور سیاست داں تھے اسی کے ساتھ فقیر منش اور صوفی بھی تھے۔ مسلک و مشرب قلندرانہ تھا۔ گوشہ نشیں فقرا سے مخلصانہ محبت رکھتے تھے۔ ملک کے اکثر عزلت گزینوں سے مراسلت کی تھی۔ بعض مواقع پر مجھے بھی خطوط لکھے جو افسوس ہے محفوظ نہیں رہے۔ ایک خط خدا جانے کس طرح کاغذات میں مخلوط ہو کربچ گیا تھا۔ جو بطور یادگار نقوش ماضی میں شامل کر لیا گیا۔ میں نے صوفی خدا بخش صاحب کو توجہ دلائی ہے کہ جو معلومات اقبال اور بھوپال کے متعلق یادداشت میں محفوظ ہوں قلم بند کر کے آپ کو ارسال کر دیں۔ یہ معلو م ہو کہ آپ ہمارے وطن عزیز کے ایک خوش خصال فرزند ہیں مسرت ہوئی۔ اللہ رب العزت آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اورعزت و سرفرازی عطافرمائے۔ میری عمر ستر برس سے تجاوز کر چکی ہے۔ ضعیف العمری کے ساتھ عرصہ دراز سے علیل بھی ہوں چراغ سحری ہوں اللہ تبارک تعالیٰ انجام بخیر فرمائے۔ خیر طلب دعا گو آستانہ بھون ضلع جہلم فقیر قدسی ۱؎‘‘۔ اس گرامی نامہ کے فوراً بعد حضرت قبلہ کی ہدایت پر صوفی خدا بخش صاحب نے آپ کی یادداشتوں سے جو اقتباسات ارسال فرمائے ہیں ان کی تفصیلات یہ ہیں۔ اقبالیات کے سلسلے میں یہ اچھوتے واقعات قیمتی اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’۷۸۶ ۱۴ جنوری ۱۹۶۴ء جناب محترم ۔ السلام علیکم عنایت نامہ سے معلوم ہوا کہ آپ کے افکار عالیہ میں ایک دلچسپ موضوع…’’اقبال اور بھوپال منتخب ہو کر کتابی صورت میں منظر عام پر آنے والا ہے… ۱؎ ذاتی خط بنام راقم الحروف مورخہ ۱۲ جنوری ۱۹۶۴ء علامہ اقبال کی شخصیت اور شخصیت کی مختلف حیثیات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ملک کی بلند پایہ ہستیوں پر بھوپال کی شاہانہ نوازشات سے متعلق بھی کافی مواد فراہم کیا گیا ہے۔ عنوان اقبال اور بھوپال سے مترشح ہوتا ہے کہ اقبال کا تعلق بھوپال سے صرف شاہانہ نوازشات تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بھوپال کی مایہ ناز ہستیوں سے بھی مربوط ہے۔ امید ہے اس سلسلے میں بھی معلومات مہیا کی گئی ہوں گی۔ میں آپ کی معلومات میں اضافہ کے لیے بھوپال کی نہایت ممتاز اور بزرگ ہستی حضرت شاہ اسد الرحمن قدسی اعلیٰ اللہ مفاہم سے علامہ اقبال علیہ الرحمتہ کے ارتباط کا تذکرہ پیش کرتاہوں۔ بھوپال میں آستانہ عالیہ پر ملک کی اکثر نمایاں شخصیتوں نے حاضری دی ہے۔ جن میں حضرت خواجہ حسن نظامی مہاراجہ کشن پرشاد۔ علامہ سیماب اکبر آبادی۔ ساغر نظامی جگر مراد آبادی۔ حفیظ جالندھری ۔ مضطر خیر آبادی۔ سلیمان ندوی اور حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمتہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ حضرت اقبال ریاست بھوال کے وظیفہ یاب ہونے سے سالہا سال قبل حضرت مرشدنا مدظلہ العالیٰ سے متعارف تھے اور سلسلہ مکاتیب جاری تھا۔ حضرت علامہ وظیفہ یاب ہونے کے بعد جب آخری بار بھوپال میں شاہی مہما ن ہوئے تھے اس زمانہ میں حضرت مرشدنا مدظلہ علیہ شہر بھوپال سے چار میل دور فاصلہ پر باغ ثمرستان میں رونق افروز تھے۔ حضرت علامہ جب حضرت مرشدنا سے ملنے ثمرستان پہنچے تو خوش منظرپہاڑیوں سے گھرے ہوئے مقام کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور نہایت ذوق سے یہ قطعہ پڑھا ۔ چشمہ ۱؎ فیض تشنہ لب کے لیے مرکز رشد بہر اہل صفا کوئی سمجھے تو ہے مقام قدس آستانہ جناب قدسی کا جب حضرت خواجہ حسن نظامی علیہ الرحمتہ حاضر آستانہ ہوئے اور قطعہ سنا تو اس دل کشا اور پر فضا مقام کو وادی ایمن سے موسوم کر کے اپنے اخبار منادی دہلی میں تذکرہ شائع کیا۔ جگر مراد آبادی مرحوم نے بارہا آستانہ پر حاضری دی ہے۔ ایک نظم بھی آستانہ کی تعریف میں لکھی گئی تھی جو گم ہو گئی۔ بعض لوگوں کو ایک شعر آج تک یاد ہے: منزل قدس وادی ایمن آستانہ ہے خیر کا مخزن ابوالاثر حفیظ جالندھری بھی جب نواب زادہ عماد الدولہ یین المللک محمد رشید الظفر خاں بہادر مرحوم کے ساتھ آسانہ پر حاضر ہوئے تو خوش نما قدرتی مناظر سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے جذبات چند اشعار میں لکھ کر نواب زادہ موصوف کو پیش کیے جو محفوظ نہیں رہے۔ ۱؎ یہ غیر مطبوعہ قطعہ اقبال کے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں اور پہلی بار اس کتاب میں شائع ہو رہا ہے۔ مشاہیر ملک کی آستانہ پر حاضری مختلف وجوہ کی بنا پر تھی بعض حضرات تو حضرت مرشدنا مدظلہ کے عارفانہ حکیمانہ کلام کے شائق تھے۔ بعض لوگ حضرت مدظلہ کی روحانی تقاریر کے مشتاق تھے بعض اصحاب حضرت کی باوقار متوکلانہ گوشہ نشینی کے گرویدہ تھے۔ حضرت علامہ علیہ الرحمتہ کے ربط انس کا سبب حضرت مرشدنا مدظلہ کا قلندرانہ مسلک تھا۔ خط بند کرتے قت شبیہ مبارک والا واقعہ یاد آ گیا۔ علامہ اقبال بھوپال میں شاہی مہمان تھے۔ نواب زادہ فخر الملک محمد سعید الظفر خان بہادر ملاقات کے لیے مہمان خان پہنچے تو عمایدین ریاست کے علاوہ وہاں شمس العلماء سید احمد صاحب دہلوی بھی تھے۔ فرمایا کل بعد نماز جمعہ میں بھی حضرت اقبال کے ساتھ آپ کے باغ ثمرستان میں حضرت قدسی صاحب کی زیارت کے لیے گیا تھا۔ زندگی میں پہیل بار مشاہدہ ہوا کہ شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ کس طرح قلندرانہ معاشرت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ دنیا میں رہ کر ترک دنیا کا تصور بعید از قیاس تھا حضرت علامہ نے فرمایا جناب مولانا کیا آپ نے عارف رومی علیہ الرحمتہ کا مشہور شعر نہیں سنا۔ چیست دنیا از خدا غافل بدن نے قماش و نقرہ و فرزند و زن آپ کو تو صرف دنیا میں ترک دنیا کا مشاہدہ ہوا مگر میرے دل میں آستانہ میں قدم رکھتے ہی انشراح صدر کے ساتھ رجوع الی اللہ کا جذبہ ابھر آیا اور منکشف ہوا کہ بے شک فقرا حق پر انوار ربانی کا نزول ہوتا ہے۔ اور لطائف روشن ہوتے ہیں۔ پھر نواب زادہ فخر الملک کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کل سے ابھی تک جناب قدسی کی شبیہ مبارک نظر کے سامنے ہے کیا آپ تصویر مہیا فرما سکتے ہیں۔ اپنے علمی ذخیرہ میں رکھوں گا۔ نواب زادہ کی تصویر کی فراہمی کا وعدہ کر کے واپس ہوئے۔ او رآستانہ پر حاضر ہو کر تصویر کی درخواست کی ارشاد ہوا: دل کے آئینہ میں ہو تصویر دوست کاغذی تصویر ہے مانند پوست سفر حج و ممالک اسلامیہ کے پاسپورٹ پر جو تصویر ہے اس کا عکس حاصل کر لیا جائے متعدد عکس اتارے گئے ۔ ایک عکس خوش نما فریم میں حضرت علامہ کو نواب زادہ موصوف نے پیش کر دیا اور بطور یادگار اقبال متوسلین آستانہ میں تحفتہ تقسیم ہو گئے۔ جب سے ااج تک بعض مخلص احباب ہر سال حضرت مرشدنا مدظلہ کی سال گرہ کی تقریب کے موقع پر بطور یادگار اقبال عکس کشی کی تجدید کرتے ہیں۔ ۱؎ یہ شبیہہ مبارک اسی کتاب میں شامل ہے۔ ایک کاپی ۱؎ تحفتہ آپ کی خدمت میں ارسال کرتا ہوں۔ جو انی کی تصویر کلام قدسی میں ہے۔ یہ مجموعہ اب نایاب ہو چکاہے۔ ایک جلد پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ ایک واقعہ اور یاد آیا: مسعود علی وارثی اسسٹنٹ ڈایریکٹر تعلیمات بھوپال نے رباعیات عمر خیام کا انگریزی میں ترجمہ کر کے طبع کرایا تھا۔ کسی نے راس مسعود کے توسط سے ایک جلد حضرت علامہ کو پیش کی۔ یہ وہ نسخہ تھا کہ جو وارثی مرحوم نے جب گاندھی جی بھوپال میں شاہی مہمان تھے خود پیش کر کے سرورق پر ان کے دستخط بطور اعزاز کر ا لیے تھے۔ حضرت علامہ نے یہ کہہ کر نسخہ واپس کر دیا کہ یہ و اپنے گھر میں ۃی رکھنے کی چیز ہے۔ تحفتہ پیش کرنے کی نہیں۔ عمر خیام کی رباعیات کا تذکرہ چل نکلا۔ حاضرین میں سے کسی نے رباعیات سرمد شہید کی تعریف کی حضرت علامہ نے فرمیاا اپنے اپنے مذاق کے مطابق رباعیات عمر خیام اور رباعیات سرمد شہید بہت بلند پایہ کلام ہیں۔ ہر زمانے میں بہ تقاضائے حالات و ماحول مذاق میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کہ مثنوی مولانائے روم اور میری مثنوی سے ظاہر ہے۔ مجھے تو حالات حاضرہ اور موجودہ ماحول کے مذاق میں جناب قدسی کی رباعیات میں بڑی معنی آفرینی نظر آتی ہے۔ بعض رباعیاں بے حد دل کش ہیں۔ ایک رباعی تو اکثر زبان پر آتی ہے۔ ہر ذرہ بہ وسعتے بیابانے ہست ہر گل بہ لطافتے گلستانے ہست در دیدہ مردمان اہل بینش ہر قطرہ بہ خوش گریہ طوفانے ہست (قدسی) رباعیات قدسی اور نغمات قدسی بھی اب نایاب ہیں۔ انجمن ترقی اردو کے دہلی والے بکڈپو میں چند نسخے موجود تھے۔ کتابت و طباعت کی گرانی کے پیش نظر ارادہ ہے کہ اگر حالات سازگار ہوئے تو انتخاب کلام شائع کیا جائے۔ خیر طلب صوفی خدا بخش آستانہ بھون ضلع جہلم‘‘ ان نئے واقعات کا علم ہونے پر میں نے قدسی صاحب مدظلہ کا دلی شکریہ ادا کیا اور گزارش ی کی کہ یادداشتوں سے اگر کچھ اور تفصیلات مل جائیں تو عطافرما دیں۔ کچھ ہی دنوں بعد صوفی خدا بخش کا گرامی نامہ مجھے نئی معلومات کے ساتھ موصول ہو گیا۔ اس کے مطالعہ سے جیسا کہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے اقبال کی شخصیت کے کچھ اور نئے رخ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ’’۷۸۶ ۲۰ جنوری ۱۹۶۹ء جناب محترم السلام علیکم ورحمتہ اللہ عنایت نامہ اور دو کتابیں ۱؎ موصول آستانہ ہوئے۔ شکریہ۔ ۱؎ یہ دو کتابیں میرے عم محترم پروفیسر نواب علی مرحوم کی تھیں۔ تاریخ صحف سماوی ار معارج الدین جنہیں میں نے آستانہ کے لیے نذر کیاتھا۔ حضر ت مرشد نامدظلہ کی عمر شریف پچھتر برس کے قریب پہنچی۔ عرصہ دراز سے علیل ہیں۔ یکم جنوری سے یہاں بارش و ژالہ باری اور سرد ہوائوں کا سلسلہ جاری ہے۔ چند بار برف باری بھی ہوئی ہے موسم نہایت سرد ہو رہا ہے جو حضرت مرشدنا مدظلہ جیسے ضعیف العمر ے لیے ناقابل برداشت ہے۔ صحت زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ بھوپال سے اپنے حقیقی عزیزوں کو طلب فرمایا ہے اللہ کریم خیر رکھے مجھے ہدایت فرمائی کہ آپ کے خط کا مفصل جواب لکھوں۔ مخلص صوفی خدا بخش پہلے خط میں شبیہہ مبارک والے واقعہ میں ایک بات لکھنا بھول گیا تھا۔ علامہ کے ساتھ شمس العلماء سید احمد صاحب دہلوی بھی حاضر آستانہ ہوئے تھے حضرت مرشد نا مدظلہ نے ان کو نہایت بیش قیمت ایک ایرانی غالیچہ عنایت فرمایا اور کہا کہ جمعہ کے دن جامع مسجد دہلی کے منبر پر بچھا دیا جایا کرے۔ یہ غالیچہ و لی عہد ریاست ٹونک نے منجانب نواب صاحب والی ٹونک آستانہ میں پیش کیا تھا ۔ حضرت علامہ نے شمس العلماء سے کہا یہ یادگار قدسی ایک تاریخی چیز رہے گی۔ یہ سب واقعات و حالات مجھے حضرت مرشد نامدظلہ کے خادم خاص حضرت حافظ عبدالمتعال خاں صاحب غوالی سے معلوم ہوئے جو حضرت مدظلہ کے پاکستان میں تشریف آوری سے قبل ضروری سامان کے ساتھ پاکستان آ گئے تھے ۔ ابھی چند ماہ ہوئے کراچی میں انتقال ہوا۔ بافیض بزرگ تھے۔ ایک واقعہ اور یاد آیا جو اگرچہ علمی ادبی نہیں مگر معلوماتی ضرور ہے۔ علامہ اقبال کے قیام بھوپال کے زمانے میں نواب خسرو جنگ حیدر آباد سے دہلی جاتے ہوئے ایک دن کے لیے شاہی مہمان ہوئے۔ موصوف کو کشمیر کے قیام کے سبب مرغ مسلم اور کباب ماہی بہت پسند تھے۔ کشمیر کا مرغ مسلم اور کباب ماہی بہت مشہور ہیں۔ احباب کو معلوم تھا کہ موصوف کو مرغ مسلم و کباب ماہی بہت مرغوب ہے اور اس لیے شاہی دعوت میں مرغ مسلم اور کباب ماہی کا خصوصیت سے اہتمام کیا گیا ۔ نواب زادہ فخر الملک سعید الظفر خاں نواب زادہ یمین الملک رشید الظفر خاں اور کرنل اقبال محمد خاں شریک طعام تھے۔ نواب زادہ فخر الملک نے کہا لاہور کے بازار مسجد وزیر خاں کی مچھلی بہت مشہور ہے۔ علامہ علیہ الرحمتہ نے کہا کئی من مچھلی روزانہ تلی جاتی ہے۔ قابل تعریف ہوتی ہے۔ سنا ہے شاہی مبطخوں میں ایسے رکاب دار ہوتے تھے جو مچھلی کے کانٹے پکانے سے قبل نکال لیتے تھے نواب زادہ فخر الملک نے کہا کہ حضرت مرشدنا مدظہ کے آستانہ پر امانت خاں نامی خانساماں پکانے سے قبل مچھلی کے کانٹے علیحدہ کر لیتا ہے۔ اکثر باورچی اس کی خوشامد کرتے ہیں کسی کو نہیںسکھاتا۔ آستانہ کا نام سن کر نواب افتخار الملک حمید اللہ خاں مرحوم نے فرمایا آستانہ میں کبھی قلندری دیگ بھی پکتی ہے۔ جو عجیب پرلطف چیز ہے۔ حضرت قدسی صاحب ہماری والدہ محترمہ نواب سلطان جہاں بیگم مرحومہ فرماں روائے بھوپال کے لیے بھی حصہ بھیجتے ہیں۔ اس کے پکانے کا راز بھی آستانہ تک ہی محدود ہے۔ حضرت علامہؒ نے فرمایا جب میں اور ڈاکٹر انصاری میرٹھ میں حضرت گل حسن شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس دن اتفاق سے خانقاہ میں قلندری دیگ پکی تھی۔ ہم کو شریک طعام فرمایا میں نے مدت العمر اتنی لذیذ چیز نہیں کھائی۔ ہم نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو بہت ہی لذیذ کھانا ہے فرمایا قلندری دیگ سے موسوم ہے فقرا کا خاص کھانا ہے۔ نواب صاحب والی ٹونک بھی ۱۲ ربیع الاول کی دعوت میں قلندری دیگ پکواتے ہیں۔ مجھے اس کی ترکیب حیدر آباد دکن میں حضرت شاہ عبدالرحیم قلندر سے حاصل ہوئی تھی۔ جو قدسی صاحب کے والد بزرگوار حضرت شاہ حبیب الرحمن قلندر قدس سرہ کے خلیفہ تھے۔ علامہ اقبالؒ اوائل عمری سے تصوف و روحانیت کی طرف میلان رکھتے تھے۔ انگلینڈ میں جب زیر تعلیم تھے تو حضرت شاہ سلیمان پھلواری رحمتہ اللہ علیہ سے مسائل تصوف پر مراسلت جاری تھی۔ جب یورپ سے فارغ التحصیل ہو کر واپس ہوئے تو حضرت گل حسن شاہ قلندر علیہ الرحمتہ سے عقیدت مندانہ تعلق پیدا ہوا۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمتہ حضرت غوث علی شاہ قلندر پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ و جانشین تھے۔ اور بڑے عارف کامل بزرگ تھے۔ تذکرہ غوثیہ مشہو ر و معروف کتاب میں اپنے مرشد حضرت غوث علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ کے ارشادات جمع کیے ہیں۔ یہ کتاب بہت مقبول عام و خاص ہو کر متعدد بار طبع ہو چکی ہے۔ حضرت مرشدنا اسد الرحمن قدسی مدظلہ علیہ بھی قلندرانہ مسلک کے پیرو ہیں۔ بتوسط علامہ اقبال حضرت گل حسن شاہ قلندر علیہ الرحمتہ سے تعارف و تعلق قائم ہوا تھا۔ نواب ابراہیم علی خاں والی ریاست ٹونک راجپوتانہ حضرت گل حسن شاہ قلندر علیہ الرحمتہ سے ارادت مند انہ تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے ولی عہد نواب عبدالحفیظ خاں مرحوم بھی معتقد تھے جب علامہ اقبال کے توسط سے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمتہ حضرت مرشدنا قدسی مدظلہ سے متعارف ہوئے تو حضرت شاہ صاحب نے نواب عبدالحفیظ خاں والی عہد ریاست ٹونک کو ہدایت فرمائی کہ حضرت قدسی صاحب سے روحانی تعلق قائم کریں چنانچہ ولی عہد مرحوم حسب ہدایت حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمتہ مرشدنا اسد الرحمن قدسی مدظلہ العالیٰ کے معتقد ہو گئے۔ حضرت مرشدنا مدظلہ طویل عرسہ تک متواتر سیر و سیاحت میں رہے۔ جب واپس اپنے مستقر بھوپال آئے تو علامہ اقبال سے شاہ صاحب علیہ الرحمتہ کا حال دریافت کیا جس کے جواب میں علامہ نے لکھا گل حسن شاہ صاحب قریباً ایک سال ہوا۔ رحلت فرما گئے۔ بہت پرانی بات ہے۔ علامہ نے ایک نظم بنام شکوہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں پڑھی تھی جو بہت مقبول عام ہوئی اور ظفر علی خاں مرحوم ایڈیٹر اخبار زمیندار نے بڑے اہتمام سے شائع کی۔ مرحوم نے چند نسخے حضرت مرشدنا قدسی مدظلہ کو تحفتہ بھیجے اور حضرت نے ایک اور نسخہ بطور تحفہ شمس العلماء حافظ سید محب الحق صاحب عظیم آبادی علیہ الرحمتہ کو بھیجا۔ حافظ صاحب نے سخت اعتراض لکھ کر بھیجا۔ حضرت مدظلہ نے حافظ صاحب کا اعتراض نامہ علامہ علیہ الرحمتہ کو ارسال کیا جس کو پڑھ کر علامہ علیہ الرحمتہ نے جواب شکوہ لکھا جو اسی اہتمام سے شائع ہوا۔ ان دنوں حضرت گل حسن شاہ قلندر علیہ الرحمتہ ریاست ٹونک میں قیام فرما تھے۔ وہ زمان ولی عہد ٹونک کی طالب علمی کا تھا۔ کلام اقبال سے بہت دلچسپی تھی۔ شکوہ اور جواب شکوہ ولی عہد موصو ف نے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمتہ کے حضور میں پیش کیے۔ حضرت شاہ صاحب نے مطالعہ فرما کر علامہ کو خوشنودی و پسندیدگی اور دعائے خیر لکھی۔ جس کے جواب میں علامہ نے چند مدحیہ شعر بطور ساقی نامہ لکھ کر حضرت شاہ صاحبؒ کی خدمت میں ارسال کیے اور لکھا کہ جواب شکوہ کے محرک ۱؎ جناب قدسی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے بعد ملاحظہ خط اور ساقی نامہ ولی عہد کو موصوف کو عنایت فرما دیا۔ جب ولی عہد موصوف حسب ہدایت حضرت شاہ صاحب بعد فراغت تحصیل علم حضرت مرشدنا قدسی مدظلہ العالی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو علامہ علیہ الرحمتہ کا ساقی نامہ اور اپنے والد نوب ابراہیم علی خاں صاحب مرحوم کے نعتیہ کلام کا مجموعہ پیش کیا جو محفوظ ذخیرہ میں شامل کر دیا گیا۔ یہ محفوظ ذخیرہ اقبال علیہ الرحمتہ کے خطوط علامہ شبلی علیہ الرحمتہ کے خطوط علامہ ابو الکلام آزا د علیہ الرحمتہ کے خطوط اورچند مشاہیر ملک کے مرسلہ مضامین کا مجموعہ تھا۔ جس میں خود حضرت مرشدنا مدظلہ کے اہم علمی مسودات بھی تھے جو افسوس ہے سب ضائع ہو گئے۔ صورت یہ ہوئی کہ جب حضرت مرشد نا مدظلہ نے ہندوستان سے پاکستان کی طرف مراجعت کا قصد فرمایا تو وہ زمانہ حضرت مدظلہ کی سخت علالت کا تھاحکم دیا کہ آستانہ میں ضرورت سے زیادہ جس قدر بھی سامان ہے وہ سب عزیزوں دوستوں اور مریدوں میں تقسیم کر دیا جائے اور کتابیں جن کی تعداد گیارہ سو تھی اہل علم لوگوں کو ان کے مذاق کے مطابق تقسیم کر دی جائیں دو ماہ تک تقسیم کا سلسلہ جاری رہا۔ خادموں کی غفلت سے کتابوں کے ساتھ محٖوظ ذخیرہ بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ جب پاکستان پہنچ کر ساتھ آنے والے سامان کاجائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ محفوظ ذخیرہ بھی تقسیم ہو چکا ۔ معلوم نہیں کہ یہ نہایت اہم اور بیش بہا یادگار کہاں منتقل ہوئی۔ استعمال کپڑوں میں ایک بستہ لپٹا ہوا نکلا جس میں چند مشاہیر ملک کے خطوط اور کچھ یادداشتیں تھیں اور آستانہ ایگریکلچر فار م کے کاغذات میں سے علامہ اقبالؒ کا وہ خط ملا جس میں حضرت گل حسن شاہ صاحب کے انتقال کی خبر بھی تھی۔ ا ب یہ مجموعہ نقوش ماضی کے نام سے مرتب ہو رہا ہے‘‘۔ ۱؎ ’’جواب شکوہ‘‘ کا یہ پس منظر شاید پہلی بار دینائے ادب کے سامنے آیا ہے ملاحظہ جو دیہ اظلہ شانی راقم الحروف نے مکتوب اقبال کا عکس اپنی اس کتاب کے لیے محفوظ کر کے واپس کر دیا تو ۲۴ مارچ ۱۹۶۴ء کو صوفی خدا بخش صاحب نے اس کی وصولی کی رسید بھتیجے ہوئے ایک ایسی نظم کا ذکر بھی فرمایا جس کا تعلق بھوپال سے تھا اور جو یقینا قیام بھوپال ہ کی یادگار کہی جا سکتی ہے۔ راقم الحروف نے اپنے طور پر اس نظم کا ہر ممکن سراغ لگانے کی کوشش کی لیکن افسوس کہ کہیں دستیاب نہ ہو سکی ۔ صوفی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’۷۸۶ ۲۴ مارچ ۱۹۶۴ء جناب مکرم… السلام علیکم عنایت نامہ مہ مکتوب اقبال موصول ہوا۔ شکریہ۔ حضرت مدظلہ عرصہ سے علیل ہیںَ آپ کے لیے دعائے خیر فرماتے ہیں۔ علامہ اقبال کی ایک نظم سیر بھوپال راس مسعود مرحوم کے پاس تھی جس میں تاج المساجد موتی محل‘ جامع مسجد تالاب شملہ پہاڑی‘ آستانہ قدسی اور آبشار بھدا بھدا کے عاوہ بیرون شہر کے قدرتی مناظر کا نہایت دلچسپ اور پروقار تذکرہ تھا۔ افسوس کہ باوجود سعی بلیغ وہ تاریخی نظم دستیاب نہ ہو سکی۔ ایس ہی اور بھی اہم واقعات جو علامہ مرحوم کے قیام بھوپال سے متعلق ہیں بعض لوگوں میں علم سینہ ہو کر رہ گئے ہیں جن کا حصول چاند تک رسائی کی کوشش سے کم نہیں۔ بہرحال آپ کی دلچسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے جستجو جاری رہے گی اور جو حالات بھی معلوم ہو سکے انشاء اللہ ارسال خدمت کیے جائیں گے۔ بھوپال کے اکثر ادبی مذاق والے وفات پا کر یاد رفتگان کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں جو لو گ رہ گئے ہیں وہ بھی ہجوم افکار کے سبب سب ادبی علمی اور تاریخی یادگاریں فراموش کر چکے ہیں۔ اک محویت سی طاری اے شاد ہو رہی ہے بھولے ہوئے فسانے کچھ یاد آ رہے ہیں (شاد عظیم آبادی) راقم صوفی خدا بخش آستانہ بھول ۔ ضلع جہلم‘‘۔ اس خط کے بعد صوفی خدا بخش صاحب کے چند خطوط اور آئے لیکن ان میں اقبال سے متلعق کوئی نئی باتر تحریر نہیں تھی۔ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے حضرت مرشدنا قدسی صاحب مدظلہ العالیٰکی خیریت دریافت کرتا رہا اور اپنی اس کتاب کی تکمیل میں مصروف رہا۔ آپ بفضل خدا بھون میں بقید حیات ہیں عمر ۸۳ سال کے لگ بھگ ہے۔ دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر آپ کو صحت و سلامتی میں رکھے اور آپ کے طفیل رشد و ہدایت کا چشمہ فیض جاری رہے۔ قدسی صاحب مدظلہ کی وساطت سے آپ کے ج عزیز و محترم مریدین سے مجھے اقبال کے سلسلے میں نئے واقعات کا علم ہوا ان میں ایک تو اقبال حسین خاں ۱؎ ندیم خاص فرماں روائے بھوپال اور دوسرے مشہور ادیب و صحافی حسن عزیزجاوید ۲؎ ہیں جنہوںنے قدسی صاحب کا ایک قلمی خط بھی عطا کر دیا جو دفتر آستانہ مبارک سے ۱۴ مارچ ۱۹۴۱ء کو تحریر کیا گیا تھا۔ ۱؎ اقبال حسین خاں بفضل خدا بھوپال میں بقید حیات ہیں۔ ۲؎ حسن عزیز جاوید کا افسوس کہ ۱۹۷۰ء کے دوران کراچی میں انتقال ہو گیا۔ اس خط میں کسی پرفضا مقام پر دارالسلام ک قیام کا منصوبہ درج تھا۔ قدسی صاحب اور اقبال کے درمیان اس سلسے میں مراسلت بھی ہوئی تھی۔ اور اقبال کے مشہور پر ہی صحرا میں دارالسلام کے تحت دارالعلوم کا قیام تفصیلی پروگرام کا ایک حصہ تھا۔ اقبال کی خواہش تھی کہ اگر اسلامی وروحانی نو آبادی کس صحرا میں قائم ہو گئی تو وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارا کریں گے قدسی صاحب کے اس منصوبہ سے اقبال کی دلچسپی بلاشبہ اقبالیات پر کام کرنے والوں کے لیے ایک انکشاف کی حیثیت رکھتی ہے اسی منصوبے سے ملتا جلتا ایک منصوبہ راس مسعود نے بھی تیار کیا تھا ارو اقبال نے بھی جس کا تذکرہ مولانا عبدالمجید سالک کی کتاب ذکر اقبال میں ملتا ہے۔ اسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان تینوں حضرات یعنی قدسی صاحب‘ راس مسعود اور اقبال میں اس سلسلے میں ضرور تبادلہ خیال ہوا ہو گا۔ قدسی صاحب کی تجویز ۱۹۴۱ء کی ہے۔ راس مسعود اور اقبا ل نے ۱۹۳۷ء میں ان تجویزوں کو روبہ عمل لانے کا عزم کیا تھا۔ لکھتے ہیں: ’’ایک علمی اسلامی ادارہ مدت دراز سے اقبال کے دماغ میں یہ تجویز گردش کر رہی تھی کہ ایک علمی مرکز قائم کیا جائے جہاں دینی اور دنیاوی علوم کے ماہرین جمع کیے جائیں اور ماہرین کو خوردونوش کی فکر سے بالکل آزاد کر دیا جائے تاکہ وہ ایک گوشے میں بیٹھ کر علامہ کے نصب العین کے مطابق اسلام تاریخ اسلام تمدن اسلام ثقافت اسلامی اور شرع اسلام پر ایسی کتابیں لکھیں جو دین کے فکر میں انقلاب پیدا کر دیں۔ چنانچہ مرزا جلال الدین بیرسٹر سے ذکر آیا تو انہوںنے ریاست بہاول پور میں سرکار بہاول پور کے زیر سرپرستی ا س قسم کے ادارے کے قیام کا سرو سامان درست کیا اور لیکن ریاستوں کے معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں معاملہ جو تعویق میں پڑا تو پھر ا س کا سراغ نہ ملا۔ آخر ۱۹۳۷ء میں ایک دین دار مخلص‘ صاحب ایثار بزرگ چوہدری نیاز علی خاں علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئیے یہ پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔ اور پٹھان کوٹ س کوئی ایک دو میل دور ان کی اراضی موجود تھی۔ چوہدری صاحب نے علامہ کی خدمت میں گزارش کی میں نے ایک بہت بڑا قطعہ اراضی آپ کے مجوزہ ادارے دارالسلام کے لیے وقف کر دیا ہے تاکہ اس پر کتاب خانہ دارالمطالعہ مکانات برائے مصنیفین اور دوسرے ضروری مساکین تعمیر کر دیے جائیں جتنے علماء و مصنفین اس ادارہ میں رہ کر علوم اسلامی کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں گے میری جائیداد زرعی کی آمدنی ان سب کی معاش کی کفیل ہو گی۔ وہ ہر طرف سے بے فکر ہو کر امن و سکون کی فضا میں اپنا کام انجام دے سکیں گے۔ حضرت علامہ چوہدری نیاز علی خاں کی اس روشن خیالی اور دین پروری سے بے حد خوش ہوئے اور انہیں دارالسلام میں اپنے خواب کی تعبیر نظر آئی‘‘۔ ۱؎ ذکر اقبال۔ صفحہ ۲۱۲۔۲۱۳ شہزادی عابدہ سطان سے میری ملاقات تقریباً ایک سال کی سعی و کوشش کے بعد حسن عزیز جاوید کی معیت میں ان کی کوٹھی واقع ملیر سٹی کراچی میں ہوئی۔ انہوںنے میرے ہر سوال کا جواب نہایت تسلی بخش عنایت فرمایا۔ اسی کیساتھ ساتھ انہوںنے جاوید صاحب اور مجھے اقبال کی حسب ذیل چار کتابیں بھی دکھائیں جو اقبال نے بھوپال کے قیام کے دوران بہ نفس نفیس شہزادی صاحب کو پیش کی تھیں۔ (۱) بانگ درا (۲) بال جبریل (۳) ضرب کلیم (۴) پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ان کتابوں کی خصوصی جلدیں بنوائی گئی تھیں۔ اندرونی صفحہ پر اقبال کا قلمی انتساب تھا۔ چنانچہ ملاقات کے بعد ان کی اجازت سے ضرب کلیم اور مثنوی کے صفحات کا فوٹو لے لیا جو اسی کتاب میں شامل ہے۔ ان نسخوں کو انہوںنے بڑی حفاظت سے رکھا تھا اور جیسا کہ ان کے دیکھنے سے ظاہر ہوا۔ میں نے گفتگو کا آغاز نواب حمید اللہ خاں اوراقبال کے باہمی روابط سے کیا اور دریافت کیا کہ ان کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی تھی۔ شہزادی عابدہ سلطان نے بتایا کہ ان کا آغٓز اس وقت ہوا تھا جب نواب صاحب علی گڑھ میںزیر تعلیم تھے۔ وہ اقبال کے پیام و کلام سے پہلے ہی متعارف ہو چکے تھے علی گڑھ کے دوران قیام انہوںنے تعلیمی مشاغل کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا تھا اور جب وہ تعلیم مکمل کر کے بھوپال آئے اور انصرام حکومت سے اپنی والدہ نواب سلطان جہاں بیگم کا ہاتھ بٹانے لگے تو اقبال کے علاوہ ان کے رابطے قائد اعظم محمد علی جناح ڈاکٹر انصاری حکیم محمد اجمل خاں گاندھی جی سرتیج بہادر سپر وغیرہ سے قائم ہو گئے۔ ان کی تعلیم چونکہ ایک ممتاز عوامی ادارہ میں ہوئی تھی۔ اس لیے ان میں عوامی شعور کے ساتھ ساتھ جمہوریت ارو جمہوری اقدار کا صحیح احساس پیدا ہو گیا تھا۔ جب زمام حکومت سنبھالی تو بھوپال کے دیگر والیان ریاست کی طرح انہوںنے بھی ہندوستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مشہور وممتاز شخصیتوں کو اپنے اردگرد جمع کر لیا۔ تھا۔ شعیب قریشی حسن محمد حیات سلام الدین خاں‘ علی حیدر عباسی‘ سر راس مسعود‘ ماسٹر ولی محمد‘ ڈاکٹر عبدالرحمن‘ ڈاکٹر عبدالباسط محمد احمد خان‘ حکیم سید ضیاء الحسن‘ محمد خلیل اللہ خاں‘ مولوی شکر اللہ سہیل ڈاکٹر سلطان ڈاکٹر بوس وغیرہ باقاعدہ ریاست کے مختلف ذمہ دار عہدوں پر فائز ہو کر ریاستی امور میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔ خلافت تحریک کی بنیاد بھوپال میں پڑی۔ مولینا محمد علی ‘ مولانا شوکت علی قائد اعظم اور اقبال بھوپال آنے جانے لگے۔ ریاست کی طرف سے ان حضرات کو ہر ممکن اخلاقی اور مالی اعانت پیش کی گئی تھی اور اس طرح ریاست بھوپال نے ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلہ میں جلد امتیاز و اعزاز حاصل کر لیا۔ انگریزوں کی پالیسی کے تحت نوابین اور راجہ مہاراجہ عملی سیاست میں حصہ لینے کے مجاز نہیں تھے۔ لیکن نواب صاحب کی تنہا ایسی شخصیت تھی جو بلا خوف و خطر سیاست میں دخیل ہو گئی تھی۔ یہی سبب ہے کہ وہ ایک بڑے سیاست داں مدبر اسلام کے شیدائی اور مسلمانوں کے سچے بہی خواہ کی حیثیت سے آج بھی عقیدت و احترام سے یاد کیے جاتے ہیں پرنسسز چیمبرز کے چانسلر کی حیثیت سے انہوںنے ریاستوں کی جو خدمت کی ہے اور مسلمانوں کے تحفظ اور پاکستان کے قیام کے سلسلے میں جو مساعی انجام دی ہیں وہ دنیا جانتی ہے۔ میرے اس سوال کے جواب میں کہ جب پاکستان کے قیام کے لیے آخری کوششیں ہو رہی تھیں۔ کیا اس وقت تنہا نواب صاحب ہی کی ذات تھی جس پر کانگریس اور مسلم لیگ کو برابر کا اعتماد حاصل تھا۔ اور کیا آپ بھی ان کے ساتھ دہلی میں موجود تھیں…؟ شہزادی صاحبہ نے فرمایا کہ میں اس وقت بطور ولی عہد ہ خدمات انجام دے رہی تھی اور نواب صاحب کے ہمراہ دہلی گئی تھی شعیب قریشی اور حسن محمد حیات بھی ہمارے ساتھ تے۔ قائد اعظم اور گاندھی جی کے درمیان نواب صاحب ہی مصالحت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ صبح کی ملاقات کے بعد جب وہ دوپہر کے کھانے کے لیے قیام گاہ پر تشریف لائے تو میں نے نتیجہ کے بارے میں دریافت کیا جس پر انہوںنے فرمایا: ’’… ان دونوں بڈھوں نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے نہ ایک مانتا ہے نہ دوسرامانتا ہے‘‘۔ دوپہر کے کھانے کے بعد پھر ملاقات ہوئی اور نواب صاحب کی سعی بلیغ نے گاندھی جی نے یہ تسلیم کر لیا کہ مسلم لیگ انڈیا کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے ۔ اس اصول کے تسلیم ہونے کے بعد ہی پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔ اور اس طرح اقبال کے تصور پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا۔ یہ اتنی بڑی تاریخی حقیقت ہے کہ جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ وسط ۱۹۴۷ء کے تمام اخباررت میں نواب صاحب کی خصوصی کدوکاوش اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں ان کے عملی کارناموںسے بھرے پڑے ہیں ویسے اس واقعہ کا ذکر چودھری خلیق الزمان نے اپنی کتاب پاتھ وے ٹو پاکستان میں بھی تفصیل سے کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو اس دستاویز کا کچھ علم ہے جس پر قائد اعظم اور گاندھی جی نے دستخط کیے تھے اور جس میں مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا گیا تھا۔ انہوںنے فرمایا کہ نواب صاحب کے ساتھ شعیب قریشی بطور پرائیویٹ سیکرٹری اس گفت و شنید میں شریک ہوئے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ وہ تحریر جس پر قائد اعظم اور گاندھی جی نے دستخط کیے تھے شعیب قریشی کے پاس محفوظ تھی۔ افسوس کہ ان کا انتقال ہو گیا لیکن ان کی صاحبزادی خالدہ شعیب سے معلومات کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کا اصول تسلیم کر لینے کے بعد گاندھی جی کی سیاست ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ریاستوں کے الحاق کے سلسلے میں بھی یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے الحاق کا جو اعلان کیا تھا اس میں نواب صاحب بھوپال کی ذاتی مساعی کو بھی دخل تھا کیونکہ کشمیر کی مسلم آبادی تقریبا ً ۸۰ فیصد تھی۔ میں نے جب اقبال کے بھوپال آکر قیام کے بارے میں خود ان کی اور نواب صاحب کی ملاقاتوں کا حال اور وظیفہ کے بارے میں پوچھا تو انہوںنے بتایا کہ نواب صاحب اقبال کی بڑی عزت و تکریم کرتے تھے۔ انہوںنے قیام و طعام علاج و معالجہ کی تمام سہولتیں فراہم کرنے کے لیے خصوصی ہدایات دی تھیں۔ ایک دو بار میری موجودگی میں اقبال نواب صاحب سے ملنے کے لیے محل پر تشریف لائے تھے۔ زیادہ تر گفتگو مسلمانوں کے عام حالات اور سیاسی مسائل پر ہوئی نواب صاحب اور اقبال کے سیاسی مسلک میں بڑی ہم آہنگی تھی۔ اور دونوں مسلمانوں کی جداگانہ مملکت کے حامی تھے نواب صاحب نے آرام و آسائش کی جو سہولتیں مہیا کی تھیں اقبال نے ان کا دلی شکریہ ادا بھی کیا ارو جب وہ رخصت ہونے لگے تو باہر کارتک انہیں رخصت کرنے آئے۔ ۱۹۳۳ء سے میں والد صاحب کے ساتھ ریاستی فرائض انجام دینے لگی تھی۔ میری تعلیم و تربیت بھی اسلامی شعائر کے مطابق کی گئی تھی لہٰذا میرے دل پر بھی اقبال کے پیام کا گہرا اثر تھا۔ ۱۹۹۳۵ء میں جب ان کے وظیفہ کے احکام محکمہ صرف خاص ۱؎ سے جاری ہو گئے تو پہلا چیک میرے دستخطوں سے ہی شیش محل روانہ کیا گیا تھا جہاں اقبال قیام فرما تھے۔ چیک ملنے کے بعد وہ میرا شکریہ ادا کرنے تشریف لائے تو میں نے ان کی مزاج پرسی کی اور عرض کیا کہ اس سلسل میں زحمت کی کیا ضرورت تھی۔ ۱؎ یہ محکمہ نواب صاحب بھوپال کی ذاتی جائیداد و املاک سے متعلق تھا جس کا ریاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کچھ دیر ٹھہر کر وہ رخصت ہوگئے ان کے چہرے سے کافی تھکن اور اضمحلال ظاہر ہو رہا ہے۔ پھر ۱۹۳۶ء میں جب وہ بھوپال آئے تومیرے لیے چار کتابیں بطور خاص تیار کرا کر ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ یہ کتابیں آپ کے سامنے ہیں۔ جاوید صاحب اور میں نے ان دونوں کتابوں کے قلمی انتسابات کو پڑھنے کی کوشش کی کیونکہ اقبال کی تحریر ۱ ؎ کے نقوش کافی مدھم تھے۔ ضرب کلیم پر تحریر تھا: ’’… تقدیم والا جناب علیہا حضور نواب گوہر تاج بیگم صاحبہ ولی عہد دارالاقبال بھوپال بندہ اخلاص کیش محمد اقبال لاہور یکم اگست ۱۹۳۶ء ‘‘۔ اورمثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق پریہ عبارت مرقوم تھی: ’’تقدیم علیا حضور نواب گوہر تاج بیگم صاحبہ ولی عہد دولت علیہ بھوپال ایداللہ نصرہ بندہ اخلاص کیش محمد اقبال لاہور ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۶ئ‘‘۔ شہزادی عابدہ سلطان سے ہم نے آخری سوال کیا ہے کہ آپ نے ریاست بھوپال کی جانشینی کو خیر باد کہہ دیا کہ پاکستان کو اپنا وطن کیوں بنایا۔ تو انہوںنے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ اپنے والد کی طرح مجھے بھی مسلمانوں کی جداگانہ مملکت پاکستان کے قیام سے دلچسپی تھی میرے والد نے سیاست اور ادب میں قائد اعظم اور اقبال کو اپنا رہنما بنایا تھا۔ اس لیے قدرتی طور پر میں نے بھی انہیں کے اثرات قبول کیا اور اسلامی فکر و اقدار کے تحفظ کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھا اور بھوپال کی جانشینی کو چھوڑ کر پاکستان چلی آئی۔ اب یہی میرا وطن ہے۔ محمد احمد سبزواری بھوپال کے بلند پایہ اہل قلم ہیں۔ ۱۹۱۵ء میں بمقام بھوپال پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے علم و ادب کا ذوق تھا۔ ۱۹۳۲ء میں الگزنڈر ۲؎ جہانگیریہ ہائی سکول سے پہلے اردو ماہنامے گہوارہ ادب کے پہلے مدیر مقرر ہوئے آپ کی طالب علمانہ زندگی قابل رشک رہی ہے۔ تحریر و تقریر کے متعدد مقابلے جیتے۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اورنگ آباد چلے گئے ۔ وہاں کئی سال تک کالج کی سہ ماہی میگزین نور س کی ادارت کی ۔ معاشیات میں بی اے کیا اور جامعہ میں اول آئے ۔ ۱۹۳۹ء میں فرسٹ ڈویژن میں ایم اے پاس کیا اور جامعہ عثمانیہ میں اول آئے دو سال کے لیے ریسرچ سکالر شپ ملا لیکن ایک سال بعد ہی خانگی حالات کی بنا پر بھوپال آ گئے اور ریاست میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کراچی میں آ گئے او رپھر پشاور میں بطور ریسرچ سپیشلسٹ آٹھ سال تک اکیڈمی برائے ترقی دیہات میں فرائض انجام دینے کے بعد مرکزی محکمہ اعداد و شمار میں اعلیٰ افسر شماریات کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہو گیا۔ ۱؎ اقبال کی قلمی تحریروں کے عکس کتاب میں شامل ہیں۔ ۲؎ حمید اللہ خاں کے دور حکومت میں اس کا نام حمیدیہ جہانگیر ہائی سکول کر دیا گیا۔ یہ بھوپال کا سب سے قدیم اور بڑا سکول تھا جس سے دنیائے ادب کی کتنی ہی ممتاز شخصیتیں بطور استاد یا طالب علم وابستہ رہ چکی ہیں۔ دو مرتبہ اعلیٰ تعلیم اور ٹریننگ کے لیے امریکہ گئیل۔ اس کے علاوہ یورپ اور مشرق بعید کے متعدد ملکوں کا بھی آپ نے دورہ کیا۔ ۱۹۵۴ء میں آبادی کی عالمی کانفرنس منعقدہ روم میں آپ نے پاکستان کی نمائندگی کی اور ۱۹۶۳ء میںایشیائی آبادی کانفرنس میں شرکت فرمائی۔ آپ متعدد اردو انگریزی کتابوں کے مصنف ہیں۔ عرصہ تک بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے ساتھ کام بھی کیا اور ان کے مشہور رسالہ معاشیات کے مدیر رہے۔ اردو ادب میں معاشیات کے موضوع کو مقبول بنانے میں آپ کا بڑا حصہ ہے۔ ان کی کتاب ہمارے بنک جو ارد و زبان میں بنکاری پر پہلی کتاب ہے۔ ۱۹۴۶ء میں انجمن ترقی اردو چہلی سے شائع ہوئی۔ اسی طرح اردو ادب میں بھی آپ نے نام پیدا کیا۔ اس کتاب کی تیاری کے دوران پتہ چلا کہ جن دنوں اقبال بھوپال میں مقیم تھے ان دنوں محمد احمد سبزواری نے ان سے نیاز حاصل کیا تھا اور اپنی ملاقاتوں کا احوال پشاور یونیورسٹی کے مجلہ خیاباں کے اقبال نمبر میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ میں خاص نمببر کی تلاش شروع کی گئی۔ کراچی کی تقریبا ً ہر لائبریری دیکھ لی۔ لیکن خیاباں کا مطلوبہ شمارہ مل نہ سکا۔ کراچی سے مایوس ہو نے کے بعد میں نے افکار کے رفیق و شفیق محمد طاہر فاروقی صدر شعبہ اردو پشاعر یونیورسٹی کو خط لکھا اور اپنے کام کی نوعیت بتائی اور درخواست کی کہ جس طرح بن پڑے یہ خاص شمارہ مجھے فراہم کر دیں۔ انہوںنے فوراً جواب دیا کہ اور لکھا کہ یہ شمارہ ۱۹۶۲ء میں چھپا تھا اور اب نایاب ہے کوشش کر رہاہوں دستیاب ہو گیا تو فوراً بھیج دوں گا۔ میری خوش نصیبی کہ کچھ عرصہ بعد مطلوبہ شمارہ انہوںنے مجھے کہیں سے حاصل کر کے عطا کر دیا۔ خیاباں کا شمارہ ۴ اقبال نمبر تھا جو ۱۹۶۲ء میں چھپا تھا۔ اس میں محمد احمد سبزواری کا مضمون بعنوان نژاد نو شامل تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔ مضمون کے مطالعہ سے پتا چلا کہ سبزواری صاحب اقبال کے نیاز مندوں میں شامل تھے۔ اس مضمون میں انہوںنے اپنی ملاقات کی جو تفصیلات بیان کی ہیں وہ نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ کئی اعتبار سے نئی اور اچھوتی بھی ہیں یہ مضمون نہ صرف ان کے اعلیٰ ادبی مذاق اور اقبال شناسی کا آئینہ دار ہے بلکہ اقبال کی ان ادبی محفلوں کا ترجمان بھی جن سے بھوپال کے نیاز مند متمتع ہوئے لکھتے ہیں: ’’… وسط ۱۹۳۵ء کا ذکر ہے علامہ اقبال علیل تھے۔ جب آپ کی علالت کا علم فرماں روائے بھوپال کو ہوا تو تبدیل آب و ہوا اور علاج کی غرض سے انہیں بھوپال بلا لیا۔ اس زمانہ میں سر راس مسعود ریاست کے وزیر تعلیم تھے۔ ان کے اور علامہ کے دیرینہ مراسم تھے چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ ان ہی کے بنگلہ ریاض منزل میں مقیم ہوئے۔ یہ بنگلہ شہر سے کافی دور تھا۔ پھر نواب صاحب نے ایک شان دار عمارت موسومہ شیش محل کے ایک حصہ میں علامہ اقبال کی رہائش کا بندوبست کر دیا۔ شیش محل وسط شہر میں واقع تھا۔ جب مقامی باشندوں کو اس بات کا علم ہوا کہ مفکر مشرق ان کے شہر کے بیچ میں پڑا ہوا ہے تو لوگ وہا ں پہنچنے لگے۔ علامہ کی علالت کے باوجودعام طور پر رات کو آٹھ سوا آٹھ بجے شیش محل میں شاعروں ادیبوں سخن فہموں کا اچھا خاص اجتماع ہونے لگا۔ سر راس اور ریاست کے دوسرے اکابر بھی یہاںآیا کرتے تھے۔ میں اس وقت کالج میں پڑھتا تھا ۔ علامہ کا اردو فارسی کلام کورس میں داخل تھ ا۔ وہیں علامہ کا یہ شعر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بیا بمجلس اقبال ویک دو ساغر کش اگرچہ سر نہ تراشد قلندری دادند بھوپال سے لاہور کا فاصلہ… ہزار میل سے کم نہ ہو گا۔ لہٰذا کبھی مجلس اقبال میں شرکت کا تصور ہی نہ آیا لیکن اب منزل کا بعد ختم ہو چکا تھا پھر یہ دعوت عام تھی اور اس سے استفادہ نہ کرنا بڑی بدقسمتی ہوتی۔ نیز مصرعہ ثانی میں قلندر یت کا جو مرقع پیش کیا گیا وہ بھی کچھ عجیب تھا۔ سڑکوں پر مارے مارے پھرنے والے گپھائوں میں بیٹھنے واے اور خانقاہوں میں ہو حق کرنے والے قلندروں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا مگر ایک ایسے مرد قلندر کا تصور بھی نہ تھا جو مغربی تعلیم یافتہ ہو کر یورپ میں کافی وقت گزار چکا ہو اقتصادیات کا معلم رہ چکاہو حکومت کا اعلیٰ ترین اعزاز پا چکا ہو چنانچہ یہی شوق کشاں کشاں مجھے بھی ایک رات اس کوچے میں لے گیا۔ مجھ میں یہ طاقت و جرات نہ تھی کہ کوئی ساغر اٹھا سکتا مگر پرانے بادہ کشوں کو سرشارہوئے اور نئے بادہ کشوں کو جھومتے دیکھنے کا نظارہ ہی اس قدر وجد آور تھا کہ میں اکثر ان محفلوں میں شریک ہونے لگا۔ یہ محفلیں ادبی اور سیاسی رنگ لیے ہوتی تھیں۔ یہاں شعر و شاعری ہوتی لطائف و ظرائف بیان کیے جاتے قصے کہانیاں اور آپ بیتیاں سنائی جاتیں۔ سیاست حاضرہ اور ملکی مسائل پر تبصرے ہوتے۔ زیادہ تر گفتگو کا موضوع یورپ اور مشرق وسطیٰ کی سیاست ہوا کرتا تھا کیونکہ یہی وقت کی آواز تھی۔ اس وقت سیاسیات عالم پر یورپ چھایا ہوا تھا۔ وہاں نئی نئی طاقتیں ابھر رہی تھیں۔ روس میں اشتراکی حکومت ۱۹۲۸ء سے منصوبہ بندی کے ذریعہ اپنی قوت اورمعیشت کو مستحکم کرنے مین مصروف تھی۔ جرمنی میں ہٹلر اور اس کی نازی جماعت ۱۹۳۳ء میں برسراقتدار آ چکی تھی جس نے دوسال بعد معاہدہ و رسائی کے پرزے پرزے کر دیے تھے۔ اطالیہ میں مسولینی کا اقتار بڑھ رہاتھا۔ اس کی خونی آنکھیں حبشہ پر لگی ہوئی تھیں۔ برطانیہ اور فرانس دھمکیاں دے رہے تھے کہ وہ اطالیہ کے سی غیر مستحسن اقدام پر خاموش تماشائی نہ بنیں گے۔ ادھر مشرق وسطیٰ میں پہلی جنگ عظیم کے تجربے بڑی طاقتوں کی چال بازیوں اور پیرس صلح کانفرنس میں عربوں کے مطالبات کی نامنظوری نے اس علاقہ میں ایک نئے قومی احساس کو جگا دیا تھا جس میں علاقائی خود مختاری کا جذبہ کارفرما تھا۔ ترکی میں اس وقت اتاترک کمال اور ان کی جماعت برسراقتدار تھی۔ جہاں نئی نئی اصلاحات ہو رہی تھیں جن میں خلافت کا خاتمہ ۱۹۲۴ء دستور سے اسلامی مملکت کا دفعہ کا حذف عربی کے بجائے لاطینی رسم الخط کا نفاذ شامل تھا۔ ۱۹۳۴ء میں بلقان کی چار حکومتوں میں اتحاد کا معاہدہ ہوا۔ ایران میں رضا شاہ اول نئی اصطلاحات میں مصروف تھے۔ ۱۹۳۳ء میں افغانستان میں نادر شاہ کو قتل کر دیا گیا۔ ادھر ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت نے ہندوستان میں نیا آئین نافذ کیا جس میں صوبوں کو اندرونی معاملات میں خود مختاری دی گئی۔ غرض کہ گفتگو کا مواد اتنا تھا کہ اس کے لیے ہر نشست مختصر نظر آئی تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب پہلی مرتبہ اس محفل میں شریک ہوا تو یورپی سیاست فروغ بحث تھی اس سلسلے میں علامہ اقبال نے اپنی ایک تازہ نظم مسولینی سنائی جس کو پڑھ کر مجھے آج تک یاد ہیں۔ تبرکاً آپ کو بھی سنائے دیتا ہوں: کیا زمانے میں نرالا ہے مسولینی کا جرم بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج میںپھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برالگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار تو چھلنی میں چھاج میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجہ ہے نہ راج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاج پردہ تہذیب میں غارت گری آدام کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج حاضرین نے اس کلام بلاغت نظام پر جو حقائق سے معمور تھا دل کھول کر داد دی۔ ذاتی طور پر مجھے علامہ اقبال کی سیاست دانی کا اس وقت قائل ہونا پڑا جب اکتوبر ۱۹۳۵ء میں مسولینی نے حبشہ پر حملہ کر دیا اور مئی ۱۹۳۶ء میں اس کی فوجیں عدیس بابا میں داخل ہو گئیں۔ اس وقت جمعیت اقوام زندہ تھی۔ اطالیہ اور حبشہ دونوں اس کے رکن تھے مگر وہ اطالیہ کے خلاف معاشی پابندیاں لگانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی۔ یہ پابندیاں بھی صرف کاغذی تھیں ۔ نہر سویز برطانیہ کے قبضہ میں تھی اطالوی فوجوں کے لیے تیل فولاد کوئلہ حتیٰ کہ زہریلی گیس تک اسی نہر سے گزرتی رہی ۱؎۔ داستان اس قدر دل فریب ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اس کو طول دیے جائوں مگر عنوان کی پابندی بھی لازمی ہے۔ علامہ اقبال ۱۸۷۳ء ۲؎ میں پیدا ہوئے یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ انیسویں صدی کا یہ عشرہ بڑا ہی مردم خیز تھا لینن ۱۸۷۰ء مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل ۱۸۷۲ء سر ونسٹن چرچل اور مشہور ناول نگار سمرسٹ ماہم ۱۸۷۴ء مغریب جرمنی کا موجودہ چانسلر ریڈی نار۱۸۷۸ے مولانا محمد علی کمال اتاترک اور قائد اعظم محمد علی جناح ۱۸۷۸ء ٹراٹسکی اسٹالن اور آئن اسٹائن ۱۸۷۹ ء سب اسی عشرے کی پیداوار ہیں ۳؎۔ ۱؎ دی آئوٹ لائن آف ہسٹری ایچ جی ویلز گارڈن سٹی بک نیویارک جلد دوم صفحہ ۹۲۳ ۲؎ جدید تحقیق کے مطابق علامہ اقبال ۹ نومبر ۱۸۷۷ ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ۳؎ دی کولمبیا وائی کنگ ڈیسک انسائیکلو پیڈیا وائی کنگ پریس نیویارک ۱۹۵۳ء جلد اول و دوم مختلف صفحات (محمد احمد سبزواری) گویا قدرت دنیا کے مختلف گوشوں اور شعبوں میں جو انقلاب لانا چاہتی تھی اس کی داغ بیل اسی عشرے میں ڈال دی۔ علامہ کا علی گڑھ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں رہا مگر جس زمانے میں انہوںنے آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ذہن و افکار مثبت یا منفی طریقے پر سرسید کے خیالات و افکار سے متاثر ہو رہے تھے۔ سرسید کی اہمیت محض اس وجہ سے نہیں تھی کہ انہوںنے مسلمانوں کے واسطے علیحدہ کالج کی بنیاد رکھی بلکہ بقول مولوی عبدالحق مرحوم ’’لوگ کہتے ہیں کہ سرسید نے کالج بنایا کالج نہیں اس نے قوم بنائی قومیت کا تصور پیدا کیا مردہ دلوں میں روح پھونکی زندگی کے ہر شعبہ کو بنایا اور سنوارا ۔ تعلیم علم و ادب زبان سیاست صحافت مذہب سب کو جدید نظر سے دیکھا۔ وقت کے تقاضے کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اوہام باطلہ اور خیالات فاسدہ کا قلع قمع کیا اور اپنے ہم قوموں کی عقلیت اور تحقیق کی طرف رہنمائی کی جسے وہ بے جا تقلید کی فرماں برداری میں بھول چکے تھے ۱؎‘‘۔ اس وقت کے مسلمان یا تو سرسید کے حامی تھے یا ان کی تحریک و خیالات کے مخالف۔ اقبال بھی انہی لوگوں میں سے تھے جنہوںنے سرسید کی براہ راست اتباع سے گریز کیا۔ مگر شیخ محمد اکرام اپنی کتاب موج کوثر میں لکھتے ہیں : ’’…وہ علی گڑھ تحریک اور سرسید کا دلی قدردان تھا۔ سرسید کا جہاں کہیں اس کی تصانیف میں ذکر آیا ہے ساتھ رحمتہ اللہ علیہ لکھا ہوتا ہے۔ سرسید کی نسبت اقبال کے تحت الشعوری خیالات کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے۔ جب ایک دفعہ اقبال سخت بیمار ہوئے اور سب علاج معالجہ بیکار ثابت ہو رہا تھا تو سرسید خواب میں آئے اور کہا تو اپنی مشکل سرور کائناتؐ کے حضور میں عرض کر ۲؎‘‘۔ معلوم نہیں کہ شیخ صاحب نے یہ واقعہ کہاں سے لیا ۳؎ لیکن اقبال نے سید کی لوح تربت میں صاف صاف ان کی نیک نیتی کا اعتراف کیا ہے۔ ان کو بندہ مومن کے لقب سے یاد کیا ہے لیکن جس طرح اکبر الہ آبادی مغربی تعلیم کے اثرات کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتے تھے اسی طرح اقبال بھی نئی نسل کو مغربی تعلیم کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اور جابجا اس کا اظہار کرتے ہیں ایک جگہ کہا ہے: ۱؎ ڈاکٹر مولوی عبدالحق سرسید کا اصل کام برگ گل سرسید نمبر مجلہ اردو کالج کراچی ۵۵۔۱۹۵۴ء صفحہ ۱۴ ۲؎ شیخ محمد اکرام ایم اے موج کوثر مطبوعہ فیروز سنز ۱۹۵۴ء صفحہ۳۳ محمد احمد سبزواری ۳؎ یہ واقعہ شیش محل بھوپال میں پیش آیا تھا جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ گھر میں پرونیر کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ یا فردوس میں سعدی شیراز کو ہندوستانی تعلیم یافتہ طبقے کے الحادی رجحان سے حالی کی زبان میں یوںواقف کراتے ہیں: آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل دنیا تو ملی طائر دیں کر گیا پرواز دیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی فطرت ہے جو انسانوں کی زمیں گیر و زمیں ساز یہ کہنا تو صحیح نہیں ہو سکتا کہ وہ صرف اسلام پرستی کے قائل تھے ۔ لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے تھے کہ ہماری موجودہ کمزوریوں اور خرابیوںکا اصلی سبب یہ ہے کہ ہم نے اس راہ کو قطعا ً خیر باد کہہ دیا ہے جو ہمارے اجداد نے متعین کی تھیں جس کی وجہ سے دونوں نسلوں میں بڑی تفریق پیدا ہو گئی ہے۔ مولینا حالی نے مسدس میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ علامہ نے ان خیالات کو اپنی نظم خطاب بہ جوانان اسلام میں بڑی عمدگی سے سمویا ہے۔ وہ نوجوانوں کو اپنے اجداد کے فقر شجاعت غیر ت و حمیت کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ دنیا کا ہر شاعر کائنات کے روح پرور نظاروں سے متاثر ہوتا ہے اور گوناگوں ذاتی تاثرات کو نغمات کی صورت میں پیش کرتا ہے ۔ انگریزی ادب میں بعض شعرا نے اس طرف اتنی زائد توجہ دی کہ وہاں دبستان شاعر فطرت پیدا ہو گیا ۔ فارسی شاعری بھی گل و بلبل سروقمری کبکب ودری آہوئے ختن کی داستانوں سے معمور ہے جہاں ان کی خصوصیات کا طرح طرح سے ذکر کیا گیا ہے۔ اقبا بھی اس رنگ سے متاثر ہیں۔ لیکنا ن میں شاہین ماہی پروانہ و جگنو زاغ و ذغن اور شہباز و شاہین کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن ان میں شاہین کا ذکر بار بار اورکثرت سے آیا ہے۔ اقبال سے پہلے کسی شاعرنے شاہین کا وہ تخیل پیش نہیں کیا جو ان کے ہاں ملتا ہے پرانے اساتذہ نے اس کی چند خصوصیات کا ذکر کیا ہے مگر اقبال نے اس کی بڑی تفصیل بیان کی ہے۔ اسی وجہ سے بعض لوگ یہ باور کرتے ہیں کہ اقبال نے قدیم جرمنی یا نازی جرمنی کے عقابی پرچم سے یہ کنایہ مستعار لیا ہے۔ وہ اسے فسطائیت کی نشانی سمجھتے ہیں کیونکہ شاہین بڑا جنگجو اور شکاری پرندہ ہے جو کمزور پرندوں کو مار کھاتا ہے۔ حالانکہ اقبال نے یہ تشبیہہ اس لیے استعمال کی ہے کہ اس پرندہ میں اسلامی فقر کی متعدد خصوصیات مثلاً خودداری غیر ت مندی آشیانے سے بے تکلفی خلوت پسندی تیز نگاہی اور دوسروں کے بارے میں مارے ہوئے شکار سے گریز وغیرہ ۱؎ ۱؎ عزیز احمد اقبال نئی تشکی۔ ۱۹۴۸ء صفحہ ۳۷۳ (محمد احمد سبزواری) پائی جاتی ہیں اور کہیں علامہ نے اس کی وضاحت بھی کی ہے مگر اقبال اور سیاست ملی کے مولف نے اس کا حوالہ نہیں دیا۔ ۱؎ حقیقت یہ ہے کہ اگر کلام اقبا ل کا تاریخ وار مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تشبیہہ ارتقائی صورت رکھتی ہے۔ بانگ درا مرحوم کا سب سے پہلا مطبوعہ ہے۔ اس میں سارے کلام کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے شاہین کا لفظ آخری دور میں جو ۱۹۰۸ء سے شروع ہوتا ہے صرف تین جگہ آیا ہے۔ سب سے پہلے محاصرہ اور نہ میں یا دو جگہ طلوع اسلام میں نظم اسیری میں حافظ کے ایک شعر کو تضمین کیا ہے۔ تضمین میں یہ لفظ ہے مگر خود شاعر نے صرف دو ایک خصوصیات پر اکتفا کی ہے۔ لیکن جیسے جیسے اقبال کے بعض خیالات اور رجحانات میں پختگی ہوتی گئی وہ وطن پرستی اور اسلامی شاعری کے دور سے گزر کر انقلابی دور میں داخل ہوئے تو ان کے شاہین کے تصور نے بھی ایک ارتقائی کیفیت حاصل کر لی جس کا اندازہ بعد کے کلام سے ہوتا ہے۔ بال جبریل میں شاہین کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں اقبال نے اپنے شاہین کی تما م خصوصیات کو ایک جگہ سمویا ہے: کیا میں نے اس خاک داں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ خیابانوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہں اکی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضرب غازیانہ تمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا میرا نیلگوں آسماں بے کرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ اقبال کی رہبانیت اور دوسرے ادیان یا ملکوں کی رہبانیت میں بڑا فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ رہبانیت اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اقبال کے ہاں دین و دنیا دونوں کا امتزاج ہے۔ چنانچہ اس نے صاف صاف اعلان کر دیا : سکوں پرستی راہب سے فقرہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی اس کے فقر میں اگر ایک جانب جرات رندانہ جذب کلیمانہ ہے تو دوسری جانب انداز ملوکانہ شکوہ شاہانہ شان سکندری اور دبدبہ قیصری بھی نظر آتا ہے اس نے فقر کی دو واضح قسمیں بیان کی ہے: ۱؎ رئیس احمد جعفری۔ اقبال اور سیاست ملی اقبال اکیڈمی کراچی صفحہ ۷۱ (محمد احمد سبزواری) اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری اک فقیر سے مٹی میں خاصیت اکسیری اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری میراث مسلمانی سرمایہ شبیری وہ اس فقر کا قائل نہیں جو صیاد کو نخچیری سکھائے یا قوموں میں مسکینی اور دلگیری پیدا کرے بلکہ اس کے نزدیک فقر کے معجزات اج و سریر و سپاہ! فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ اور اسی فقر کو وہ علم سے بلند و بالا سمجھتا ہے۔ چنانچہ علم و فقر کا مقابلہ کرتے ہوئے ا س فرق کو بہت اچھی طرح واضح کر دیا ہے۔ علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ علم فقیہہ و حکیم فقر مسیح و کلیم علم ہے جو یائے راہ فقر ہے دانائے راہ فقر مقام نظر علم مقام خبر فقر میں مستی ثواب علم میں مستی گناہ لیکن محض اونچی ہوا میں اڑنے سے وہ خصوصیات پیدا نہیں ہوتیں جو چاہیں کو دوسرے پرندوں سے ممیز کرتی ہیں۔ پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہین وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا یا پرواز ہے دونوں کی اسی اک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور اقبال کے شاہین میں نہ صرف غیرت اور خودداری ہے بلکہ وہ قوت طاقت اور جوانمبردی کا مظہر بھی ہے۔ اقبال کے شاہین کو دنیا میں رہنا ہے خلوت پسندی اور آشیانے سے بے تعلقی کے باوجود وہ دنیا سے اپنا ناتا نہیں توڑ سکتا ہے اور دنیا میں وہی زندہ رہ سکتا ہے جس میں ذاتی قوت اور طاقت ہو۔ دوسروں کے سہارے یہاں رہنا مشکل ہے اس لیے وہ کہتا ہے: تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات لیکن یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ اقبال نے اپنے شاہین کو جبرو استبداد سے وابستہ کر دیا ہے یا وہ جنگل کا قانون نافذ کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ وہ طاقت و قوت کی ذاتی تحفظ کے لیے پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ قوت پرواز اسی وقت بڑھتی ہے جب کہ قوت تحفظ پیدا ہو جائے۔ بغیر ذاتی صلاحیت کے اس جہان رنگ و بو میں امتیاز حاصل کرنا دشوار ہے۔ پھر قوت و طاقت حرکت کاسبب ہے اور حرکت زندگی کا نشان کائنات کی ہر شے میں حرکت نظر آتی ہے۔ اور اس کے بعد ہی وہ مقام آتا ہے جہاں قوت کی جولانی کا مظاہرہ مقصود بالذات بن جاتا ہے اور وہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں رہتا بلکہ: جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ جو کبوتر پہ جھپٹنے پہ مزا ہے اے پسر وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں ۱؎ اقبال کے قیام بھوپال کی یادگار ادبی محفلوں سے فیضان حاصل کرنے والے بھوپال کے مایہ ناز فرزند محمد احمد سبزواری کے مندرجہ بالا خیالات ان کی بصیرت افروزی اقبال فہمی اور ژرف نگاہی پر دلالت کرتے ہیں انہوںنے جس خوبی اور خوبصورتی سے فکر اقبال کا اپنے اس قیمتی اور نایاب مضمون میں احاطہ کیا ہے وہ مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہے۔ جب سبزواری صاحب کراچی آ گئے تو میں نے ان سے رابطہ قائم کیا اور اس مضمون کے پس منظر کے بارے میں ان سے دریافت کیا۔ انہوںنے کہا کہ شیش محل بھوپال کی وہ محفلیں اور صحبتیں جن کا نقش آج تک میرے دل پر قائم ہے یہ سب کچھ اسی کا نتیجہ ہے۔ میں نے بچپن ہی سے اقبال کی فکر و حکمت کے گہرے اثرات قبول کیے تھے۔ جب ان سے نیاز کا شرف بھی حاصل ہو گیا اور ان کے حکیمانہ ارو عالمانہ انداز فکر کا ذاتی طور پر بھی مجھے اندازہ ہوا تو عقیدت و احترام کا جذبہ کچھ اور سوا ہو گیا۔ چنانچہ اس مضحمون میں وہی کچھ پیش کیا گیا ہے جو میں نے بزم اقبال کی صحبتوں سے حاصل کیا ہے وہ بلاشبہ نئی نسل کے لیے اپنے دل میں گہری درد مندی تڑپ رکھتے تھے۔ بھوپال میں … بزم اقبال کی کچھ اور تفصیلات کے سلسلے میں میرے ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ جس دور میں اقبال بھوپال آنے جانے لگے تھے یہ وہ دور تھا کہ جب برصغیر میں نہ ریڈیو اس قدر مقبول تھا جیسا کہ آج کل ہے اور نہ چھوٹے شہروں سے روزانہ اخبار نکلا کرتے تھے۔ اس زمانے میں روزناموں کی تعداد بس گنی چنی تھی۔ اردو کے کچھ روزنامے کلکتہ بمبئی دہلی لاہور اور لکھنو وغیرہ سے نکلا کرتے تھے مگر انگریزی روزانہ اخباروں کے مقابلے میں ان کا حلقہ محدود تھا کیونکہ یہ تیسرے یا چوتھے روز دور دراز مقامات پر پہنچا کرتے تھے۔ لہٰذا اس زمانے میں مقامی خبروں کی فراہمی تبادلہ خیال یا اپنے علمی اور فنی ذوق کو تسکین دینے کے لیے لوگوں کے گھروں پر نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ غیر رسمی اجتماع یوں تو ہر شخص کے لیے کھلے ہوتے تھے مگر عام طور پرواقف ہم خیال اور ہم ذوق افراد ہی ان میں شریک ہوتے تھے۔ برصغیر کی علمی اور سماجی زندگی میں ان نشستوں اور محفلوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھوپال میں ایسی ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ آئندہ جب کبھی بھوپال کی تہذیبی و ثقافتی تحریکات کا جائزہ لیا گیا تو اس میں ان کے کردار اور اثرات ناقابل فراموش ہوں گے۔ مثال کے طور پر ماسٹر ناصر علی ناصر اٹاوی کے مکان پر بلاناغہ روز ہر رات کو ایک نشست ہوا کرتی تھی۔ جس میں سکولوں کے اساتذہ محکمہ تعلیم کے ملازمین‘ سرکاری افسران‘ شاعر‘ صحافی ‘ وکیل اور طلبہ شریک ہوا کرتے تھے۔ ان نشستوں میں مقامی حالات پر تبصرے سے لے کرہندوستان کی سیاست‘ شعر و شاعری‘ علمی موضوعات اور لطیفہ گوئی تک ہر موضوع پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ نشست برسوں ہوتی رہی۔ اور ناصر اٹاوی کے انتقال کے بعد ہی اس کا شیرازہ بکھرا۔ اسی طرح بعض نشستیں مقامی شاعروں اور سربرآوردہ افسروں کے مکانوں پر ہوتی تھیں۔ خود راس مسعود جمعہ کے روز… جب کہ ریاست میں تعطیل ہو رہی تھی۔ یہ پابندی صبح سے نماز جمعہ سے قبل تک اور اکثر بعد نماز جمعہ سے شام تک ایسی نشستیں منعقد کرتے تھے۔ ۱؎ خیابان پشاور اقبال نمبر صفحہ ۵۴ تا ۵۸ خیاباں کا یہ خصوصی شماعرہ ۸۱۹۶۶ میں خیابان اقبال کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔ اکثر جگہوں پر دیگر تعطیلات میں بھی شعر و شاعری کی محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ راس مسعود نے بھوپال میں رہ کر یہاں کے ادیبوں شاعروں اور اہل علم کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ وہ ریاست میں بہت مقبول تھے ان کا بنگلہ ریاض منزل شہر سے کوئی سوا تین یل دو ر تھا پھر بھی جمعہ کی خاص نشستوں میں جہاں تک یاد پڑتا ہے محمود الحسن صدیقی‘ عبدالجلیل مائل نقوی ‘ ملا رموزی‘ سید حامد رضوی مولینا ارشد تھانوی‘ مولینا محمد یوسف قیصر‘ مولوی عبدالرزاق ‘ حامد سعید خاں حامد‘ محمد خلیل اللہ خاں‘ منشی سید لطف علی‘ استاد ذکی وارثی‘ حکیم علی کوثر چاند پوری‘ عبدالحلیم آرٹسٹ‘ پنڈت لکشمن آیا جی رائے زادہ مننشی گوبند پرشاد آفتاب سیٹھ بیشتر وصل داس مولوی سید احمد سبزواری وغیرہ پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ خود میں بھی قیام بھوپال کے دوران اکثر و بیشتر ریاض منزل جایا کرتا تھا۔ سر راس نے ندیم ہفت روزہ کے لکھنے والوں کا ایک حلقہ بنا دیا تھا اور تمام لکھنے والوں کو معاوضہ دیا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک بار سر راس نے مجھ س کہا کہ تم بیکار بیٹھے بیٹھے کیا کرتے ہو۔ ندیم کے دفتر میں جا کر ترجمہ کیا کرو۔ چنانچہ میں دوسرے ہی دن سے اخبار کے دفتر جانے لگا۔ اور قلم کی سب سے پہلی آمدنی مجھے اسی ندیم اخبار سے ہوئی۔ سر را س اگرچہ علامہ کو صرف اقبال کہا کرتے تھے مگر وہ ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ علامہ سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی نجی محفلوں میں ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے اور ان کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ اور بعض اوقات متقدمین اردو اورفارسی کے وہ شعر بھی سنا دیتے تھے جن کے مضامین میں مماثلت ہوتی تھی۔ جیسا کہ میںپہلے عرض کر چکا ہوں کہ علامہ نے آخری دو بار شیش محل میں قیام فرمایا جہاں اکثر اقبال شناسوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ اگر کسی شب علامہ کی طبیعت ناساز ہوتی تو آنے جانے والے مزاج پرسی کر کے رخصت ہو جاتے اور نشستوں کا سلسلہ چند دن کے لیے منقطع ہو جاتا۔ پھر جب راس مسعودجو ان کی ہمہ وقت خبر گیری کرتے تھے۔ یہ بتا دیتے کہ اب اقبال اچھے ہیں یا کسی وک مخاطب کر کے فرما دیتے کہ آج رات شیش محل میں اس موضوع پر بات ہو گی۔ وہاں آ جائو تو نیاز مندں کا یہ حلقہ شیش محل میں جمع ہو جاتا۔ عام طور پر وہی لوگ ان محفلوں میں شریک ہوتے تھے جن کا ذکر اس سے پہلے کر چکا ہوں۔ مجھے علامہ کی محفلوں میں بھی راس مسعود کے یہاں جمع ہونے والے افراد نظر آئے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر عبدالباسط اور ڈاکٹر سلطان کو بھی میں نے وہاں موجود پایا۔ یہ دونوں ان کے معالج تھے۔ اور خصوصی ہدایات کے تحت رات کو علامہ کی خیریت دریافت کرنے آتے تھے۔ ممنون حسن خاں بھی پابندی سے وہاں آتے تھے اور ماسٹر ولی محمد صاحب بھی جو نواب صاحب کے استاد رہ چکے تھے۔ برآمد ہوتے تھے چند مقامی ادیب و شاعر بھی شریک محفل ہوا کرتے ھتے کبھی خود بھی راس مسعود بھی آ جاتے تھے اور ان کی آمد سے محفل میں جان پڑ جاتی تھی۔ زیر لب مسکراہٹیں بلند قہقہوں میں تبدیل ہو جاتی تھیں۔ ان کی نشست بلاشبہ بڑی باغ و بہار تھی۔ علامہ اقبال ججھھے کم گو نظر آئے۔ ہو سکتا ہے اس کا سبب ان کی علالت ارو گلے کی تکلیف ہو۔ پھر بھی وہ اپنے پسندیدہ موضوعات پر ضرور اظہار خیال کرتے تھے۔ عام طور پر میں نے انہیں قمیص شلوار میں دیکھا تھا۔ وہ اپنے پلنگ پر بیٹحے رہتے۔ وہیں ایک چھوٹا سا گائو تکیہ رکھا تھا جس کے سہارے وہ کبھی نیم دراز ہو جاتے ایک دن آرم کرسی پر بھی دیکھا جس پر دونوں پائوں اٹھا کر رکھ لیے تھے۔ حقہ البتہ ہر جگہ آپ کے ساتھ ہوتا۔ خادم خاص علی بخش بھی سایے کی طرح آپ کے ساتھ رہتا تھا۔ پہلی مرتبہ میں تنہا گیا تھا۔ دوسری بار اپنے ایک دوست سید حسن کو ساتھ لے گیا۔ یہ مجھ سے کچھ سینئر تھے۔ باتیں بہت دلچسپ اندا زمیں کرت تھے۔ میرے اصرا ر پر انہوںنے چند مضامین تغزل کے رنگ میں لکھے تھے۔ جو لاجواب تھے۔ اس دن ترقی پرسندی پر باتیں ہو رہی تھیں۔ سید حسن کہنے لگے میں ترقی پسندی کا قائل ضرور ہوں مگر شاعری میں ترقی پسندی مجھے بالکل پسند نہیں بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک مصرعہ تو مولینا سا اور دوسرا مصرعہ جوش ملیح آبادی۔ (واضح رہے کہ مولینا سہا مجددی نہایت پستہ قد بزرگ تھے) لوگ یہ فقرہ سن کر خوب ہنسے۔ علامہ بھی مسکرا دیے۔ لیکن کہا کچھ نہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی اس فقرہ سے کافی لطف اندوز ہوئے ہیں۔ اب تو ان کی محفلوں کی صرف یادیں… یادگار بن کر رہ گئی ہیں!! بھوپال میں اقبال کے خاص معالج ڈاکٹر عبدالباسط کا تفصیلی ذکر اوراق میں کیا جا چکا ہے۔ عبدالحئی ڈاکٹر عبدالباط کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں بمقام دہرہ دون پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۵ء میں وہیں سے میٹرک کر کے بسلسلہ تعلیم دہلی گئے اور ۱۹۲۸ میں انٹرمیڈیٹ پاس کر کے علی گڑھ بھیج دیے گئے۔ جہاں سے ۱۹۳۰ء میںآپ نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اور ۱۹۳ء میں ایل ایل بی کا امتحان دے کر فرسٹ ڈویژن حاسل کی۔ اور ۳۴۔۱۹۳۳ میں میرٹھ جا کر وکالت شروع کر دی لیکن جب آپ کے والد ۱۹۳۵ء میں بھوپال منتقل ہوئے تو آپ بھی بھوپال آ گئے اور دو سال تک وکالت کرتے رہے۔ ۱۹۳۷ میں آپ جوڈیشنل افسر مقرر ہوئے اور ۱۹۴۷ تک اسی عہد ہ پر کام کرتے رہے۔ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۱ تک آپ نے سب جج اور سب ڈویزنل مجسٹریٹ بلدیہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے ۔ مارچ ۱۹۵۱ میں استعفیٰ دے کر کراچی آ گئے اور یہاں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ کچھ عرصہ اسسٹنٹ کسٹوڈین رہے اس کے بعد ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ ایڈیشنل رینٹ کنٹرولر کلیمس آفیسر ڈپٹی سٹیلمنٹ کمشنر اور ڈپٹی کسٹوڈین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ عبدالحئی صاحب سے میری اتفاقیہ ملاقات سٹیلمنٹ کے دفتر میں ہوئی۔ میں اپنے عم گرامی پروفیسر سید نواب علی کے کلیم کے سلسلے میں ان سے ملنے گیا تھا۔ دوران گفتگو بھوپال کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ میرے پاس علامہ اقبال کے پانچ غیر مطبوعہ خطوط اور ضرب کلیم کا دستخطی نسخہ محفوط ہے۔ چنانچہ می بھر کا پتہ لے کر دوسرے روز حاضر خدمت ہوا آپ نے ازراہ اقبال شناسی مجھے وہ خطوط اور نسخہ عطا فرمایا دیا میں اپنے کام کی تفصیل انہیں بتا چکا تھا چنانچہ میری خواہش پر آپ نے اپے والد صاحب اور اقبال کے خصوصی تعلقات کی تفصیلات بھی مجھے بتائیں جن کا ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے اپنے والد صاحب کی طرح عبدالٗی بھی اقبال کے گرویدہ و شیدا نکلے۔ چنانچہ انہوںنے اقبال سے اپنی ملاقاتوں کی انتہائی دلچسپ اور اچھوتی راداد سنائی۔ پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوںنے بتایا کہ ۱۹۳۵ء میں اپنے والد صاحب کے ساتھ علامہ اقبال سے ملنے ریاض منزل یا تھا ان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ بہت بڑے شاعر اور فلسفی ہیں نہایت سادہ لباس پہنے تھے۔ سرراس مسعود بھی وہاں موجود تھے۔ انہوںنے والد صاحب کا اور میرا تعارف کرایا اور خاندانی رشتے کا تذکرہ بھی کیا۔ اقبال نہایت دھیمے لہجے میں گفتگو کر رہے تھے۔ والد صاحب کو انہوںنے اپنے مرض کی تفصیلات بتائیں اور دریافت کیا کہ بجلی کے علاج سے فائدہ ہو گا۔ والدہ صاحب نے انہیں تسلی دی اور یقین دلایا کہ اس علاج سے انشاء اللہ ضرور فائدہ ہو گا۔ میں خاموش بیٹھا سنتا رہا۔ کچھ دیر ٹھہر کر ہم لوگ واپس آ گئے والد صاحب برابر ریاض منزل جاتے رہے۔ تقریباً ایک ماہ قیام کر کے علامہ اقبال واپس چلے گئے۔ اس دوران میں والد صاحب سے ان کی برابر خط و کتابت ہوتی رہی۔ دوسری بار جب ۱۹۳۶ء میں وہ بھوپال آئے تو ان کا قیام شیش محل میں ہوا جو ہمارے مکان قدسیہ محل کے سامنے تھا۔ اس مرتبہ مجھے تقریباً روزانہ ہی ان سے شرف نیاز حاصل ہوا۔ اگر کسی روز میں نہ جاتا تو علامہ کسی کو بھیج کر بلوا لیتے۔ شام کو جب سرکاری موٹر آ جاتی تو وہ والد صاحب کو اور مجھے سیر کے لیے ساتھ لے جاتے۔ یہ تقریباً رو زہی کا معمول تھا۔ شہر کی تمام تفریح گاہیں ہم نے اہیں دکھائیں۔ ایک دو بار شہر سے دور اسلام نگر بھی گئے۔ ی تاریخی اور پرفضا جگہ علامہ اقبال کو بہت پسند آئی۔ شملہ کوٹھی یاٹ کلب بڑا تالاب چھوٹا تالاب اور تمام باغات کی سیر سے علامہ بہت محظوظ ہوئے تھے ۔ اتنا قرب ہونے کے باوجود میں نے انہیںبہت کم گو پایا ۔ زیادہ تروہ کسی خیال میں مستغرق رہتے تھے۔ ممکن ہے یہ استغراق فکر شعر کے سلسلے میں ہو۔ کبھی کبھی وہ والد صاحب سے گلے کی تکلیف کے بارے میں پوچھ گچھ کر لیتے تھے۔ کبھی ادبی موضوعات پر بھی مختصر لیکن جامع انداز میں اظہار کر لیتے تھے۔ میرے والد صاحب کو بھی شعر و سخن سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ اکثر گفتگو کے دورا ن انہیں کا کلام سنا دیتے تھے لیکن خود علامہ اقبال اپنا کلام سنانے سے گریز کرتے تھے۔ البتہ دوسروں کے اچھے شعر سن کر ضرور داد دیتے تھے۔ شیش محل میں شام کو کئی لوگ ملنے کے لیے آجاتے ان میں بڑے افسران اور اقبال کے پرستار بھی ہوتے تھے اور عام لوگ بھی ۔ وہ سب سے یکساں محبت سے پیش آتے تھے۔ تقریباً روزانہ کی ملاقات نے مجھے خاصا بے تکلف کر دیا تھا۔ ایک روز میں نے سوال کر لیا کہ آپ کے کلام کی اتنی شہرت و عظمت ہے پھر کیا سبب ہے جو آپ کو نوبل پرائز نہیں ملا۔ یہ سن کر علامہ نے کچھ دیر توقف کیا پھر فرمایا میرے یہاں سب کچھ مغرب کے خلاف ہے اس لیے وہ مجھے نوبل پرائز کیسے دے سکتے ہیں ان کا جواب سن کر مجھے ان کی حقیقت پسندی کا قائل ہونا پڑا۔ ایک بار میں نے انہیں کا ایک شعر پڑھا۔ نقش دگر طراز دہ عالم پختہ تر بیار طالب خاک ساختن مے نہ سزد خدائے را اور دریافت کیا کہ اس شعر میں آپ کس حد تک سنجیدہ تھے؟ آپ نے فرمایا: …یہ تو آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہر شاعرپوری طرح ایک شعر کہتا ہے ا س کے مانی الضمیر شعری صداقت اور صحیح مفہوم کو سمجھنا پڑھنے والے کی ذمہ داری ہے۔ ایک مرتبہ میں نے پوچھا کہ آپ شعر کس طرح کہتے ہیں؟ فرمایا: ’’…بعض اوقات مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور میں بے ساختہ شعر کہتا چلا جاتا ہوں۔ لیکن اگر بالا ارادہ کبھی شعر لکھنا چاہوں تو نہیں لکھ سکتا۔ عام طور پر جس طرح لوگ مجھ کو شاعر سمجھتے ہیں اس طرح کا شاعر نہیں ہوں۔ میرے پاس صرف ایک پیغام ہے جسے میں عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں چنانچہ اپنا پیغام منظوم صورت میں پہنچا رہا ہوں۔ محض شعر کہنے کے لیے شعر کبھی نہیں کہتا جب تک کہ کوئی خاص تحریک نہ ہو‘‘۔ علامہ اقبال اکثر گفتگو کے دوران اسلامی اقدار کا ذکر کرتے تھے اور رسول مقبول ؐ کا جب تذکرہ فرماتے تو ان کی آنکھوںسے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ ایک روز مغرب کے بعد ہم سب شیش محل میں بیٹحے تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک نوجوان طالب علم علامہ سے ملنے آیا اور آتے ہی ان کے قدموں میں گر پڑا۔ آپ نے سہارا د ے کر اسے اٹھایا۔ تو وہ علامہ کی ایک نظم کا عنوان مجھے یاد نہیں بے اختیار سنانے لگا۔ جسے سن کر آپ آ ب دیدہ ہو گئے۔ اس سے نہایت شفقت سے دریافت کیا کہ کیسے آنا ہوا؟ اس نے نہایت عقیدت سے کہا کہ صرف آپ کا نیاز حاصل کرنے آیا ہوں اور اسی جذبہ سے لاہورگیا تھا۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ آپ بھوپال علاج کے لیے تشریف لے گئے ہیں چنانچہ لاہور سے چل کر بھوپال آپ سے ملنے حاضر ہوا ہوں۔ یہ سن کر آپ بہت متاثر ہوئے۔ میرے اس سوال پر کہ شیش محل کی فضا میں اقبال کس طرح اپنا وقت گزارتے ہیں۔ عبدالحئی نے کہا کہ شیش محل اگرچہ شاہی محل کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن جب بھی علامہ اقبال وہاں قیام فرما ہوتے تھے۔ ایک عام دربار کی سی فضا پیدا ہو جاتی تھی۔ ہر شخص بلا امتیاز ان سے ملاقات کے لیے آتا تھا رات کو اکثر ادیبوں اور شاعروں اور اقبال کے نیاز مندوں کے اجتماع ہوتے تھے دن میں وہ فرصت کے لمحو ں میںمطالعہ کرتے تھے۔ میں نے علامہ اقبال کو مطالعہ کو بہت شائق پایا بھوپال کی مشہور حمیدیہ لائبریری سے برابر کتابیں منگواتے رہتے تھے۔ اور ایک دو دن میں ان کو پڑھ کر لوٹا دیتے تھے۔ ارو نئی کتابیں حاصل کر لیتے تھے۔ جب بھی کسی کتاب کے بارے میں ان سے سوالات کیے۔ وہ نیہایت تفصیل سے ان کے بارے میں جواب دیتے تھے۔ مجھے ان کی یادداشت پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ اتنی جلد ضخیم کتابیں کیسے پڑھ لیتے ہیں اور کس طرح ان کے موضوعات کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔ د و کتابیں علی الخصوص ان کے سرہانے میں نے ہمیشہ دیکھیںَ ایک مثنوی مولینا روم اور دوسری کلام عبدالقادر بیدل دریافت پر علامہ نے فرممایا کہ یہ دونوں کتابیں سفر و حضر میں ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ مجھے بہت پسند تھی۔ جب میں نے وہ نظم سنائی تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ علم و مطالعہ میں اضافہ کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ان کے رہن سہن میں بڑی سادگی تھی۔ کبھی تہمد قمیص پہنتے کبھ یشلوار قمیص جب باہر کہیں جاتے تو کوٹ پہن لیتے۔ سوٹ میں ن یان کو بہت کم پہنے دیکھا۔ علی بخش ۱؎ ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔ وہ علامہ سے بہت محبت کرتا تھا اورحقہ ہمیشہ گرم رکھتا تھا۔ جاوید اقبال ۱۹۳۶ء میں لاہور سے ساتھ آئے تھے۔ اس زمانہ کی ایک دو تصویریں جو اب دھندلا گئی ہیں اب بھی محفوظ ہیں۔ میری درخواست پر وہ تصویریں انہوں نے مجھے عنایت کر دیں جس کے ممکنہ بہتر پرنٹ میں نے بنوا کر اس کتاب میں شامل کر دیے ہیں۔ تاکہ بھوپال کی یہ یادگار تصویریں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں جاوید کے بارے میں عبدالحئی نے بتایا کہ وہ زیادہ تر وقت ہم لوگوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ارو میرے چھوٹے بہن بھائیوں کے بہت مانوس ہو گئے تھے۔ اکثر تو دن بھر وہ ہمارے گھر ہی میں کھیل کو د میں مصروف رہتے علامہ اقبال جاوید سے بڑی محبت کرتے تھے ان کی تعلیم و تربیت پر ان کی خاص توجہ تھی۔ بھوپال کے ایک تجربہ کار ماسٹر ان کو پڑھانے کے لیے آتے تھے۔ شام کو وہ روزانہ ہی سیر کے لیے ساتھ جاتے تھے۔ دن کے بیشتر حصے میں وہ بلا تکلف ہمارے گھر آتے جاتے تھے۔ میرے والد صاحب تو علامہ اقبال کے بے حد مداح اور قدرداں تھے وہ ان کی خصوصی دیکھ بھال ہی نہیں کرتے تھے فرصت کے بیشتر لمحے بھی انہیں کی قربت میں صرف کرتے تھے شام کا کھانا میرے والد صاحب اکچر علامہ اقبال کے ساتھ کھاتے تھے۔ مجھے بھی بارہا شرف طعام نصیب ہوا۔ ہم نے گھر پر کئی بار ان کی دعوت کی۔ ۱؎ افسوس کہ ان کا یہ دیرینہ خادم عقیدت مند بھی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ انہیں کباب بے حد مرغوب تھے اور ہم ہر دعوت میں خصوصیت کے ساتھ کباب تیار کراتے تھے۔ آخری بار جب وہ بھوپال تشریف لائے ہیں تو ان کی صحت بہت گر چکی تھی۔ آواز بھی صاف نہیں نکلتی تھی اور کچھ دمہ کی شکایت بھی بڑھ گئی تھی۔ میرے والد صاحب اور بھوپال کے دیگر معالجین بڑی توجہ کے ساتھ اور احتیاط سے ان کا علاج کر رہے تھے اور قس علاج سے بہت کچھ فائدہ بھی ہوا تھا۔ لیکن ان کے ذاتی حالات بھوپال میں زیادہ قیام کی اجازت نہیں دیتے تھے اس لیے آخری قیام بہت مختصر رہا اور وہ جلد بھوپال آنے کا وعدہ کر کے لاہور واپس تشریف لے گئے۔ اس قیام کے دوران انہوںنے اپنا زیادہ تر وقت قرآن مجید کے حواشی پر صرف کیا۔ اس کتاب کے لیے نواب صاحب بھوپا ل نے ان سے فرمائش کی تھی۔ اور اس سلسلے میں ہر ممکنہ اعانت بھی کی تھی لیکن قدرت کا عجب تماشا ہے ادھر راس مسعود کا انتقال ہو گیا۔ ادھر علامہ اقبال کی صحت اور گر گئی اور وہ کوشش کے باوجو د پھر بھوپال نہ آ سکے۔ اقبال کے ایک اور نیاز مند محمد خؒیل اللہ خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل مہیں حمید اللہ خاں والی بھوپال نے راس مسعود سے کہہ رکھا تھا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے ہونہار ار ذہین نوجوانوں کو ملازمت کے لیے بھوپال بھیج دیا کریں۔ چنانچہ راس مسعد کی سفارش پر آپ ۱۹۳۳ء میں بھوپال آ گئے اور مختلف عہدوں پر فائز رہ کر نیک نامی اور شہرت حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۹۵۰ء میں آپ سیکرٹری فوڈ اینڈ ایگری کلچر اور فوڈ کمشنر کے عہدے سے سبک دوشی حاصل کر کے بھوپال سے کراچی منتقل ہو گئے اور یہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں سے وابستہ رہ کر درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ ۱۹۶۴ء میں اتفاقیہ طور پر میری آپ سے کراچی میں ملاقات ہو گئی۔ ملاقات کے دوران میں ںے ان سے اپنے کام کی مشکلات کا ذکر کیا۔ اور عرض کیا کہ کسی روز وقت ہو تو میں حاضر خدمت ہو جائوں اور آپ مجھے اقبال کے قیام بھوپال اور اپنی ملاقاتوں کی تفصیلات سے بہرہ مند فرمائیںَ انہوںںے بخوشی آمادگی ظاہر کی۔ وقت مقررہ پر میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا تو انہوںنے اپنی یادداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ۳۶۔۱۹۳۵ء میرے لیے واقی خوش قسمت سال تھا۔ جب مجھے شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ وہ ہز ہائی نس نواب محمد حمید اللہ خاں کے الطاف خسروانہ اور ذاتی عقیدت کی بنا پر بسلسلہ علاج بھوپال تشریف لاتے رہے اور نواب صاحب کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر بھوپال کے مشہور وممتاز ڈاکٹروں اور اطبا نے ان کے خصوصی علاج پر ہر ممکن توجہ مبذول کی میرے مکان اور شیش محل کے درمیان صرف ایک سڑک حائل تھی۔ اگر میں اپنی ساری ریہائش کو ہمسائیگی پر محمول کر دوں تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ شاعر مشرق اس زمانے میں اپنے دیرینہ ملازم علی بخش کے ساتھ تنہا رہتے تھے ظاہر ہے بیماری کی حالت میں تنہائی مرض کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ چنانچہ ان کی بحالی صحت کے لیے ڈاکٹروں اور اطبا نے علاوہ اس امر کی بھی ضرورت تھی کہ کچھ صابان ذوق وقتاً فوقتاً ان سے ملتے رہیں۔ میں اس زمانے میں ریاست بھوپال میں بعہدہ تحصیل دار متین تھا اور سر راس مسعود کی جن کی ذاتی کوششوں سے علامہ اقبال بھوپال آ کر علاج کرانے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ اس وقت وزارت تعلیمات پر مامور تھے۔ چنانچہ جب علامہ اقبال بھوپال تشریف لے آئے تو انہوںںے علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان کی خبر گیری کرنے کے لیے مجھ سے ارشاد فرمایا جس سے مجھے دلی مسرت ہوئی۔ علامہ اقبال کے احساس تنہائی کو کم کرنے کے لیے راس مسعود مرحوم نے میرے علاوہ اپنے سیکرٹری اور میرے دوست ممنون حسن خاں اور میرے محبوب اور دوست مسیح الدین سے بھی جو بھوپال کے ایک معزز گھرانے کے چشم و چراغ اورنہایت خوش مذاق انسان تھے۔ علامہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے کہہ دیا… چنانچہ ہم تینوں کبھی تنہا اور کبھی ایک ساتھ علامہ کی خدمت میں حاضری دینے لگے۔ اور ان سے فیضیاب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کے معالجین میں جنہیں نواب صٓحب نے متعین فرمایا تھا خاص طور پر ڈاکٹر عبدالباسط ڈاکٹر عبدالرحمن چیف میڈیل آفیسر ڈاکٹر سلطان حکیم ضیاء الحسن افسر الاطباء حکیم سلطان محمود وغیرہ قابل ذکر ہیںَ بھوپال کے قیام نے علامہ مرحوم کی صحت کی بحالی میں بڑی مدد دی اور بھوپال چھوڑنے سے قبل وہ بڑی حد تک صحت یادب ہو چکے تھے۔ اپنے قیام کے آخری دنوں میں مجھے خود ان کی زبان سے ان کا بصیرت افروز کلام سننے کا موقع بھی ملا۔ وہ لمحے میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں جو میں نے ان کی قربت میں گزارے ۔ ان کا کلام سن کر دل میں جوش و ولولہ پیدا ہو جاتاتھا اور عمل کی قوتیں بیدارہو جاتی تھیںَ اس دور میں بھوپال کی جن ممتاز شخصیتوں کو اکثر میں نے علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضڑ پایا ان میں ملا رموزی سید محمد یوسف قیصر‘ سہا مجددی‘ ذکی وارثی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جب بھی میں حاضر خدمت ہوتا وہ بڑی شفقت و محبت سے پیش آتے اور جب رخصت ہونے لگتا تو آئندہ جلد آنے کے لیے ضرور ارشاد فرماتے ۔ ان الفاظ سے مجھے حقیقی خوشی ہوتی تھی اور میں اسے اپنی خوش نصیبی تصور کرتا تھا کہ اس طرح علامہ مرحوم کا کچھ وقت اچھا گزر جاتا تھا۔ اور وہ اپنی بیماری اور تکلیف کو کچھ عرصے کے لیے بھلا دیتے تھے۔ میں اکثر شام کوحاضر خدمت ہوتا تھا۔ اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی کبھی شاعری کے اعلیٰ مقاصد پر کبھی ملکی اور بین الاقوامی سیاسیت پر کبھی مسلم قوم کی زبوں حالی پر اور کبھی ملت اسلامیہ کی ترقی و فلاح پر۔ علامہ مرحوم کے دل میں مسلمانوں کی سود و بہبود کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ تقریباً ہر ملاقات میں وہ قوم کی بدحالی کا ذکر ضرور کرتے اور ملت اسلامیہ کی ترقی کے لیے شیرازہ بندی کی ضرورت پر ہمیشہ زور دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ساری زندگی اور ان کا سارا سرمایہ فکر و حکمت علم و عمل سے عبارت ہے۔ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کا جو جزبہ میں نے علامہ اقبال کے دل میں موجزن پایا کہیں اور اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ مسیح الدین سے بھی میری ۱۹۶۴ء میں ملاقات ہو گئی۔ وہ افکار کے پہلے خریدار میرے چچا پروفیسر سید نواب علی کے عزیز شاگرد اور ایک ممتاز بینکار تھے۔ محمد خلیل اللہ خاں کے بیان کردہ واقعات کی انہوںنے بھی تائید و تصدیق کی اور کہا کہ شاعر مشرق کا ریاست بھوپال اور بھوپال کے عوام نے جس کھلے دل سے استقبال کیا ہے اور ان کی قدر و منزلت کی ہے۔ اردو ادب کی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرے گی۔علامہ مرحوم بھوپال کی آب و ہوا تفریح گاہیں اسلامی ریاست کا شکوہ حکمران وقت کی اعلیٰ خدمات۔ سبھی کا دل سے اعترقاف تھا۔ وہ جتنے عرصے بھی بھوپال رہے ہمیشہ خوش اور مطمئن رہے۔ یہاں ان کے نیاز مندوں میں بھی ان کی آمد سے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ شیش محل کے قیام میں انہیں ہر ممکن سہولت نواب صاحب کی جانب سے مہیا کی گئی تھی اور وہ اگرچہ ایک شاہی مہمان کی حیثیت سے مقیم رہے لیکن شاعر مشرق کا دربار عام تھا اور ہر شخص بلا تکلف ان سے ملنے اور فیض یاب ہونے کے لیے آ سکتا تھا۔ اکثر جمعہ کی نماز وہ جامع سجد یا موتی مسجد میں جا کر پڑھتے تھے اور وہاں بھی وہ جاننے والے ان کی عزت و تکریم اور عقیدت و محبت سے ملتے۔ خواص سے زیادہ انہیں عوام عزیز تھے اور وہ ہر آنے والے سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔ بھوپال کی ادبی فضاکے سلسلے میں رشید احمد ارشد تھانوی اور سید محمد یوسف قیصر کا تذکرہ ابتدائی ابواب میں سبعہ سیارہ کے ذیل میں آ چکا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں شخصیتیں بھوپال کے ادبی افق پر ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گی۔ یہ دونوں بزرگ و محترم بیک وقت نظم و نثر پر حاوی تھے اور بھوپال میں نئے رجحانات کو فروغ دینے اور نظم کی روایت کو برقرار رکھنے میں ان دونوں کا بڑا حصہ ہے۔ مجھے خوشی نصیبی سے دونوں شخصیتوں سے نیاز و قرب حاصل تھا۔ قیصر صاحب مرحوم نے تو اس کتاب کے سلسلے میں آئینہ مشاعرہ ایسی دستاویزی تالیف عطا کر کے اقبال کے بھوپال سے رواب ط کا آغاز کرایا۔ اور یہ کتاب ۱۹۱۰ میں شاء ع ہوئی تھی۔ ارشد تھانوی صاحب مرحوم سے بھوپال میں بھی ہمیشہ قریبی تعلق رہا ہے اور کراچی میں بھی جب وہ ریڈیو پاکستان کے دفتر واقع بند روڈ پر تشریف لاتے تو مجھ سے ملنے کے لیے دفتر افکار بھی آ جاتے جو ریڈیو پاکستان سے نزدیک ہی ہے۔ ارشد تھانوی اکثر و بیشتر اقبا ل سے بھوپال کے قیام کے دوران ملتے رہتے تھے اور ان کے بڑے مداغ و قدر دان تھے لیکن ان کا تعلق نیاز فتحپوری کے ادبی گروہ سے تھا اس لیے وہ کسی اختلاف کی صورت میں اظہار رائے بھی نہیں رکھتے تھے ۔ چنانچہ ارشد صاحب نے مجھے بتیاا کہ اقبال اور میں کے عنوان سے انہوںنے ایک مضمون لکھا تھا جو ہفت روزہ ندیم میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوںنے اقبال کے کلام کے بعض فنی نقائص پر روشنی ڈالی تھی۔ جس زمانے میں یہ مضمون ندیم میں چھپا تھا اقبال بھوپال ہی میں مقیم تھے۔ انہوںنے تو اسے پڑھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ لیک نان کے ایک بھوپالی نیاز مند اور تاریخ اندلس کے مشہور مصنف قاضی ولی محمد نے اس کا جواب لکھا جو ندیم میں شائع ہوا۔ راس مسعود نے دونوں مضامین دیکھے تو ارشد صاحب کو ملاقات کے لیے بلایا ساتھ ہی انہوںنے اقبال کو بھی شیش محل سے سواری بھج کر ریاض منزل بلوا لیا اور دونوں کی موجودگی میں ارشد صاحب کی غلط فہمی کو بھی دور کیا اور اقبال کی کدورت کو بھی اور اس خوبصورتی سے اعتراض اور جواب اعتراض کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ ارشد صاحب نے کہا کہ ا س محضمون کے بعد انہوںنے سولہ قسطوں میں بھوپال کی فضائے شعری کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس میں اقبال کی شاعری اور ان کے کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اقبال کو وظیفہ دے کر نواب صاحب نے انہیں مالی اور ذہنی پریشانیوںسے ہی نجات نہیں دلائی انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ بھی دیا اور آسودگی بھی بخشی تاکہ وہ فکر و تحقیق میں مصروف رہیں۔ ان کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جائے گا۔ سید محمد یوسف قیصر مرحوم ۱۹۶۴ ء میں اپنے صاحبزادے سے ملنے کراچی آئے تھے تو میں نے انہیں رات کے کھانے پر مدعو کیا اور ان کی زدنگی اور ان کے کاموں کے بارے میں متعدد سوالات کیے۔ اور ان کے تفصیلی حالات افکار ۱؎ میں فن اور فن کار کے عنوان سے شائع کیے۔ دوران گفتگو انہیوں نے بتایا کہ علامہ اقبال سے ذاتی نیاز مندی اور عقیدت کے علاوہ جن بلند مرتبت شخصیتوں سے ان کی خط و کتابت رہی ہے ان میں غالب کے پوتے خواجہ قمر الدین خاں راقم اکبر الہ آبادی‘ مہدی الافادی‘ سروجنی نائیڈو خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ افسوس کہ خطوط محفوظ نہ رہ سکے اور ان کا سارا ادبی سرمایہ چوری ہو گیا۔ اقبال کے نیا ز مندوں کی تلاش کے دوران پتہ چلا کہ نواب صاحب بھوپال کی کابینہ سے یاک ممتاز رکن علی حیدر عباسی سابق مشیر المہام صیغہ سیاسیہ کراچی میں قیام پذیر ہیں چنانچہ پہلی فرصت میں میں ںے ان سے رابطہ پیدا کیا ار ازراہ شفقت انہوںنے مجھے ملاقات کے لیے وقت دے دیا۔ میں جون ۱۹۶۷ء میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا اور ا س دور کے حالات اقبال سے ملاقاتوں کی تفصیل اور بھوپال سے ان کے تعلق خاص کے بارے میں سوالات کیے تو آ پ نے فرمایا کہ میں ۱۹۲۱ء میں بھوپا ل آ گیا تھا اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا تھا۔ ۱؎ افکار ۔ شمارہ ۱۵۱۔ مارچ ۱۹۶۴ء صفحہ ۸۱۔۸۲ راس مسعود میرے خاص دوستوں میں تھے۔ نواب صاحب انہیں بھوپال بلانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ان کی ہدایت پر خط و کتابت میں نے ہی کی اور انہیں وزارت تعلیمات کا عہدہ قبول کرنے کی ترغیب دی چنانچہ وہ بھوپال آ گئے اقبال کے وہ بے حد عقیدت مند تھے۔ میں بھی ان کا ایک ادنیٰ پرستا ر تھا۔ راس مسعود کی دلی خواہش تھی کہ اقبال علاج کے لیے بھوپال آ جائیں۔ نواب صاحب کی بی یہی آرزو تھی۔ چنانچہ اقبال کو انہوںنے خط لکھا کہ بھوپال آنے پر آمادہ کر لیا اور وہ ۱۹۳۵ء میں علاج کے لیے بھوپال تشریف لے آئے۔ ان کا قیام راس مسعود کی کوٹھی ریاض منزل میں ہوا تھا۔ ریاض منزل اور میرا بنگلہ نزدیک ہی واقع تھے۔ چنانچہ پہلی بار ریاض منزل ہی میں اقبال سے مجھے نیاز حاصل ہوا۔ اور میرا جذبہ عقیدت کچھ اور بڑھ گیا۔ نواب صاحب بھوپال کے خاص معالج دہلی کے مشہور ڈاکٹر مختار احمد انصاری تھے اور ڈاکٹر رحمن ان کے اسسٹنٹ تھے جو اکثر بھوپال آتے تھے بعد میں ان کے نواب صاحب سے خصوصی تعلقات پیدا ہو گئے اور ان کی خواہش پر وہ چیف میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے بھوپال آ گئے چنانچہ نواب صاحب کے ایما پر ڈاکٹر رحمون اور ڈاکٹر عبدالباسط نے اقبال کے اعلاج پر خاص توجہ مبذول فرمائی۔ اسی دوران راس مسعود نے اقبال کی اطلاع کے بغیر ان کے وظیفہ کی کوششیں شروع کر دیں جس کی منظور ی میں میں نے بھی عملی طور پر حصہ لیا اور جلدہی محکمہ رف خاص سے پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر ہو گیا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں راس مسعود اقبال سے بڑی محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اقبال اپنے ناگفتہ بہ معاشی حالات پر کسی عنوان جلد قابو پر لیں اور ان کی صحؓت جلد بحال ہو جائے۔ تاکہ وہ تمام پریشانیوں سے نجات پا کر تخلیقی کاموں میں مصروف رہیں۔ اسی سلسلے میں راس مسعود نے اپنے طور پر نواب صاحب بھوپال سے سفارش کرا کے سر آغا خاں کو بھی پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ دینے پر آمادہ کر لیا تھا۔ اس بات کا علم اقبال کو نہ تھا اور جب راس مسعود نے اقبال کو اس سلسلے میں خط لکھا تو خوش ہونے کے بجائے وہ فکر مند ہوگئے ان کے اعلیٰ ظرف نے نواب حمید اللہ خاں کی خصوصی عنایت کے بعد کسی اور کااحسان اٹھانا گوارا نہ کیا۔ جس پر راس مسعو د نے یہ کوشش کی کہ سر آغا خا ں کے وظیفہ کا ٹرسٹ قائم ہو جائے یا یہ رقم اقبال کے بچوں کے نام کر دی جائے۔ لیکن اس کام کی تکمیل سے پہلے ہی مسعود کا انتقال ہو گیا۔ اور ان کی مساعی بار آور نہ ہو سکیں۔ ایک بار میری موجودگی میں اقبال کے قیام بھوپال کے دوران راس مسعود نے ان کسے کہا کہ ناب صاحب بھوپال نے ایک ملاقات میں فرمایا ہے کہ نظام حیدر آباد سے بھی پانچ سو روپے وظیفہ مقرر کرا دوں گا۔ یہ سن کر اقبال نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ مجھے اب کسی وظیفہ کی ضرورت نہیں۔ نواب صاحب نے جو کچھ میرے لیے مقرر کر دیا ہے وہ میری ضروریات کے لیے کافی ہے ان کی اس شان استغنا سے ہم دونوں بہت متاثر ہوئے۔ اکثر شام کو کبھی ریاض منزل میں کبھی میرے بنگلہ پر اقبال سے میری ملاقاتیں ہوتی تھیںَ ہم لوگ اکثر و بیشتر کھاناساتھ ہی کھاتے تھے۔ ان ملاقاتوں میں خاصی بے تکلفی پیدا ہو گئی تھی۔ میں نے اقبال کو چھیڑنے کے لیے ایک بار ان سے کہا کہ آپ اردو میں شعر کہتے ہیں اور اس زبان کا دنیا کی زبانوں مٰں کوئی خاص مرتبہ نہیں فرمایا وقت آنے پر اس کی قدر و اہمیت ضرور تسلیم کی جائے گی۔ ویسے ذاتی طور پر مجھے ان کے فلسفہ مولانا روم کے پیرو کی حیثٰت سے ان کی بلند پایہ ارو اثر انگیز کلام ان کے عالمانہ خطبات سے گہری دلچسپی تھی ۔ جہاں تک مسلمانوں اور ملت اسلامیہ کی خدمت کا تعلق ہے اقبال کا مرتبہ دوسرے اکابر سے کسی طور پر کم نہیں۔ انہوںنے اپنے ولولہ انگیز پیغام اور اپنی عملی کوششوں سے برصغیر کے مسلمانوں ک لیے جو کام کیا ہے وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اقبال کا قیام دوبارہ شیش محل میں ہوا۔ وہاں بھی اکثر و بیشتر ملاقات اور خیریت دریافت کرنے جاتاتھا۔ آخری قیام ۱۹۳۶ء کے دوران ان کی تمام تر توجہ قرآن مجید کے حواشی لکھنے پر مبذول تھی۔ ان حواشی کے لیے فرماں روائے بھوپال نے ان سے درخواست کی تھی۔ لیکن ان کی صحت دن بہ دن خرا ب رہنے گی۔ بھوپال کے علاج سے وقتی فائدہ ضرور ہوا لیکن اپنے خانگی حالات کی بنا پر وہ عرصے تک بھوپال میں قیام نہیں کر سکے۔ راس مسعود کے انتقال کے بعد اپنے ایک سچے اور مخلص دوست اور عقیدت کیش کی جدائی نے انہیں بھی نڈھال اور کمزور کر دیا تھا۔ آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ شاعر مشرق اپریل ۱۹۳۸ء میں ہم سے جدا ہو کر معبود حقیقی سے جا ملے ارو دنیائے علم و ادب نوار بصیرت سے محروم ہو گئی۔ پروفیسر سید نواب علی مرحوم کے ایک صاحبزادے سید احمد علی نیشنل بنک آف پاکستان کراچی میں مینجر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہیں میری اس کتاب کا علم تھا۔ جولائی ۱۹۶۷ء میں انہیں اپنے بنک کی جانب سے آڈٹ کے لیے ڈرگ کالونی کراچی کی برانچ میں متعین کیا گیا ۔ عجب اتفاق ہے کہ وہاں ان کی ملاقات چودھری خاقان حسین سے ہو گئی۔ جن کا اکائونٹ بھی اسی برانچ میں تھا۔ اور رہائش بھی اسی کالونی میں تھی۔ دوران گفتگو جب خاقان حسین خاں نے اپنے قریبی عزیز علی حیدر عباسی کا ذکر کرتے ہوئے قیام بھوپال کی کچھ تفصیلات بتائیں تو سید احمد علی کو دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوںنے میرے کام کا ذکر کیا اور ملاقات کے لیے ان سے طے کر لیا۔ چنانچہ سید اھإد علی کے ساتھ چوھدری خاقان حسین سے ان کے دولت کدہ پر ملا تو انہوں نے اپنے قیام بھوپال کی نہایت دلچسپ تفصیل سنائی۔ ۱۹۳۴ء میں کس طرح وہ بھوپال گئے اور ۱۹۳۷ء تک وہاں مقیم کیوں رہے۔ اقبال سے انہیں کیونکر شرف نیاز حاصل ہوا ۔ راس مسعوس اور بیگم راس مسعود ان سے کس قدر شفقت فرماتے تھے وغیرہ۔ کوئی دو گھنٹے تک وہ تمام تفصیلات سناتے رہے اورہم دونوں حیرت زدہ ان کی دلچسپ اور معلومات افزا باتیں سنتے رہے۔ رخصت ہوتے وقت میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اقبال سے اپنی ملاقاتوں کا مختصر احوال قلم بند کر دیں تو عنایت ہو گی۔ اس طرح میری کتاب میں کچھ اور نئے واقعات کا اضافہ ہو جائے گا۔ چنانچہ حسب وعدہ انہوںنے تحریری یادداشتوں سے مجھے نواز دیا۔ چودھری خاقان حسین بھی مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں ۱۹۳۴ء تا ۱۹۳۷ء آپ اپنے چچا علی حیدر عباسی سابق وزیر صیغہ سیاسیہ ریاست بھوپال کے ساتھ مقیم رہے اور ان کی وسیع غیر آباد زمین کو قابل کاشت بنایا۔ یہی وہ زمانہ تھا جس آپ کی ملاقاتیں ریاض منزل میں اقبال سے برابر ہوتی رہیں راس مسعود سے ان کے خاندانی تعلقات تھے اس لیے ریاض منزل میں وہ برابر آتے جاتے تھے۔ راس مسعود اور بیگم راس مسعود ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ آپ نے بتایا کہ راس مسعود کی دوسری بیگم امتہ المسعود عبدالرشید صاحب سابق وزیر ریاست اندور کی صاحبزاد ی تھیں۔ ان کا پہلا لڑکا فوت ہو گیا تھا۔ دوسری صاحبزادی نادرہ مسعود ۱؎ تھیں جن کی شادی پروفیسر رشید احمد صدیقی کے صاحبزادے ڈاکٹر احسان رشید ۲؎ سے ہوئی ہے۔ ۱؎ افسوس کہ ۱۹۷۳ء میں آپ کا انتقال ہو گیا ۲؎ سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی اقبال سے بھوپال میں اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے چودھری خاقان حسین نے بتایا کہ ۱۹۳۵ء میںح ڈاکٹر سر محمد اقبال بسلسلہ علاج بھوپال تشریف لائے اور ریاض منزل میں قیام کیا۔ اس بنگلہ کے نچلے حصہ میں مسعود صاحب کا دفتر ہال بیٹھنے کا کمرہ کھانے کا کمرہ اور استقبالیہ کمرے تھے۔ اوپر کی منزل میں خواب گاہ کے کمرے تھے۔ ایک کمرہ کا رخ بھوپال کے مشہور بڑے تالاب کی جانب تھا۔ اور اسی سمت میں شملہ کوٹھی اور اردگرد کی خوبصورت پہاڑیاں دو ر تک پھیل تھیںَ وہیں سے یاٹ کلب گھنے جنگلات اور شاداب پہاڑی سلسلے نظر آتے تھے۔ اسی کمرے میں سر محمد اقبال ٹھہرائے گئے تھے۔ جہاں ایک بڑا پلنگ کچھ صوفے‘ چند کرسیاں ایک میز وغیرہ سلیقے سے رکھی تھی۔ خصوصی نشست زیادہ تر اسی کمرے میں ہوا کرتی تھی۔ سر محمد اقبال اپنے پلنگ پر تشریف فرما ہوتے راس مسعود چچا صاحب علی حیدر عباسی ار میں دوسری نشستوں پر بیٹھتے ۔ ان کا مخصوص حقہ پلنگ کے داہنی جانب رکھا رہتا ارو ان کا خاص ملازم علی بخش قالین پر قریب ہی بیٹھتا۔ اور وقتاً فوقتاً حقہ کو تازہ کرتا رہتا۔ علامہ اقبال برابر گفتگو کرتے رہتے ان کی گفتگو سن کر یو ں محسو س ہوتا کہ جیسے علم و حکمت کا دریا بہہ رہا ہو گفتگو ہر موضوع پر ہوتی تھی۔ اکثر رات کے کھانے کے بعد ہم لو گ ان کے کمرے میں جمع ہوتے اور دس گیارہ بجے رات ترک ان کی صحبت سے فیضیاب ہوتے۔ ایک بار کھناے کا ذکر آیا تو آپ نے بے اختیار فرمایا کہ مسلم لیگ کے لکھنو اجلاس ۱؎ کے دوران جیسا کھانا راجہ صاحب محمود آباد نے کھلایا ہے ایسا تو شاید ہی پھر نصیب ہو۔ ہر ڈیلیگیٹ کے لیے یہ مختلف اور لذیز ترین کھانوں کے چھ خوان دونوں وقت آتے تھے۔ ایک روز آپ نے اپنے سفر اسپین کا ایک اچھوتا واقعہ سنایا جس کے پس منظر کا شاید ہی کسی کو علم ہو۔ فرمانے لگے کہ لندن کے قیام کے دوران نواب صاحب بھوپال سے ملنے گیا تو انہوں نے فرمایا اقبال سپین کیوں نہیں جاتے؟ میں نے عرض کیا کہ اگر میں بھی نواب بھوپال ہوتا تو اب تک ہوآیا ہوتا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ دوسرے دن مجھے میرے ہوٹل میں نواب صاحب کا ایک چیک چھ ہزار روپے کا ملا میں سمجھ گیا کہ یہ سفر کے لیے ہے۔ چنانچہ میں نے اخبار میں ایک سیکرٹری کا اشتہار دیا۔ اور ایک موزوں لیڈی سیکرٹری انتخاب کر کے اس کو سفر کی تفصیلات بتائیں اور یہ ہدایت کی کہ روانگی سے اخٹتام سفر تک وہ ان سے کوئی گفتگو نہیں کرے گی۔ چیک کی ساری رقم اس کے حوالہ کر دی۔ اور سفر کے لیے روانہ ہو گا۔ وہ اس قدر کارگزار سیکرٹری ثابت ہوئی کہ مجھے سفر میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس نے میری رہائش قیام اور سفر کا بہت ہی اچھا انتظام کیا۔ اسی سفر کے دوران میری ایک نوٹ بک جس میں نئے اشعار اور چند نظمیں درج تھیں کہیں گم ہو گئی۔ بہت تلاش کیا لیکن دستیاب نہ ہو سکی۔ اس کالم کے گم ہونے کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔ ایک شب آپ نے فرمایا کہ جب تک میں نے عربی زبان پر عبور حاصل نہیں کیا تھا۔ میرا علم ناقص تھا۔ عربی سیکھنے کے دوران میری ملاقات دہلی میں مقیم ایک عرب کے سفیر سے ہو گئی اور انہوںںے اپنی لائبریری کی تمام عربی کتب مجھے استفادہ کے لیے عنایت کر دیں جن سے میں نے بہت کچھ علم حاصل کیا۔ ایک دن ڈاک سے کسی جرمن دوست کا خط علامہ اقبال کو ملا جس کا مضمون انہوںنے مسعود صاحب کو سنایا۔ میں وہاں موجود تھا۔ اس خط کا ایک جملہ جو اس وقت کی یورپی سیاست سے متعلق تھا مجھے وہ یاد رہ گیا ۔ ۱۔۲۔۳؎ ملاحظہ ہو دیباچہ ثانی The storm is in the air and it is not long in breaking میں جب علامہ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ادب سے سلام کر کے بیتھ جات اور گھنٹوں ان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ ان کی اور مسعود صاحب کی بات چیت خاموشی سے سنتا رہتا۔ وہ مجھ سے بڑی شفقت فرماتے تھے۔ چچا صاحب کی زمینوں کے سلسلے میں کچھ دن میں بھوپال سے باہر رہا۔ گھر لوٹا تو بیگم مسعود کا فون آیا اور انہوںنے فرمایا کہ علامہ اقبال دریافت کر رہے تھے کہ خاقان کئی دنوں سے کیوں ہیں آئے؟ میں نے عرض کیا کہ بھوپال میں نہیں تھا۔ ابھی حاضر ہوتا ہوں۔ اسی وقت ریاض منزل پہنچا اور علامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر صحیح صورت حال سے انہیں مطلع کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاض منزل کی وہ یادگار صحبتیں میرے لیے سرمایہ افتخار تھیں اور جب بھی وہ لمحے یاد آتے ہیں علامہ اقبال کی شفقت و محبت ان کا تبحر علم ان کی انسان دوستی ان کا اعلیٰ کردار اور ان کی عظیم المرتبت شخصیت میری آنکھوں میں گھوم جاتی ہے۔ شیش محل کے قیام کے دوران بھی جب مجھے وقت مل جاتا ضرور حاضر خدمت ہوتا۔ اس قیام میں جاوید اقبال بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ا س وقت وہ بہت کم سن تھے۔ خود علامہ کی صحت پہلے سے کافی بہتر نظر آتی تھی۔ بھوپال کے تجربہ کار اور ماہر ڈاکٹر ان کے علاج کے لیے ہر ممکن توجہ صر ف کر رہے تھے۔ ارو انہیں تھوڑا بہت فائدہ بھی ہو گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ ۱۹۳۶ء کے بعد چند در چند حالات کی بناپر وہ پھر بھوپال نہ آ سکے۔ ۔ بھوپال کے ایک اور ادیب مسیح صدیقی جو اقبال کے نیا ز مندوں میں شامل ہیں خوش قمستی سے مجھے کراچی میں مل گئے۔ انہوںنے اقبال کے متعلق جو واقعات سنائے ان کی نوعیت نہایت دلچسپ ہے۔ مسیح صدیقی ۱۹۵۴ء میں پاکستان آ گئے تھے۔ قیام پاسکتان کے قبل وہ بھوپال کے واحد معیاری ہفت روزہ ندیم سے وابستہ رہ چکے تھے۔ اور ان کے متعدد مضامین ہفت روزہ ندیم اور بیرون بھوپال کے ممتاز جرائد میں شائع ہو چکے تھے۔ اقبال سے ملاقاتوں کے سلسلے میں آپ نے بتایا کہ میرے والد معظم رسول صدیقی اقبال کے خاص نیاز مندوں یں تھے اور میری حقیقی پھوپھی مہ جبین خمار بھوپال کی ایک ممتاز شاعرہ تھیں اور اقبال کی پرستار۔ ان کا کلام شائع ہو کر ہر طبقہ سے خراج تحسین وصول کر چکا تھا۔ وہ اردو عربی اور فراسی میں کامل دستگاہ رکھتی تھیں… سرراس مسعود نے ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنا پر بھوپال کے مشہور سلطانیہ گریس سکول میں بحیثیت مدرس ان کا تقرر کر دیا تھا۔ جب بھوپال میں آل انڈیا مشاعرے ہونے لگے تو ان کی غزلیں بھی مشاعرے می ںسنائی جانے لگیں اور خوب مقبول ہوئیں۔ اس دور میں پردہ کا سخت رواج تھا۔ مہ جبین خمار بھی پردہ کرتی تھیں۔ ۱۹۰۱ء میں پیدا ہوئی اور مشرقی پاکستان منتقل ہونے کے بعد ۱۹۵۱ ء میں وفات پائی۔ ان کے کلام میں اسرار و رموز فطرت اور فلسفیانہ فکر ملتی ہے۔ ان کا غیر مطبوعہ مرثیہ جو انہوںنے اقبال کی وفات کے فوراً بعد لکھا تھا۔ اور ان کے مسودات میں محفوظ تھا۔ گزشتہ صفحات میں شامل ہے ۔ مسیح صدیقی نے بیان کیا ہے کہ جب اقبال بھوپال آ کر شیش محل میں وارد ہوئے تو بھوپال والوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ علامہ اقبال کو بھوپال اور بھوپالیوں سے جس قدر خلوص اور محبت اور قلبی لگائو تھا ان کی ایک دو نہیں ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ آپ کے تعلقات صرف فرماں روائے بھوپال اور عمائدین ریاست ہی سے نہیں بلکہ بھوپال کے عام لوگوں سے بھی پیدا ہو گئے تھے شیش محل کے دوران قیام ہر شخص ان سے بلا روک ٹوک ملنے جا تا تھا۔ سرزمین بھوپال ہمیشہ سے صاحبان علم و فضل کی آماج گاہ رہی ہے ۔ ار ان کے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز ہوتی رہی ہے ۔بالخصوص دور حمیدی میں برصغیر کی مشہور معروف ہستیاں کسی نہ کسی سلسلے میں بھوپال سے وابستہ رہی ہیں اور یہ انہیں کا فیض تھا کہ مقامی حضرات میں علوم و فنون کے حصول کا شوق پیدا ہو ا اور پروان چڑھا جس کے نتیجہ میں بھوپال نے ہندوستان گیر شہرت رکھنے والی شخصیتیں پیدا کیں۔ میرے والد معظم رسول صدیقی کو بھی علم و ادب سے گہرا لگائو تھا۔ اور ان کا بیشتر وقت مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق علامہ سلیمان ندوی‘ سر سید راس مسعود اور مولوی عبدالرزاق مصنف البرامکہ وغیرہ سے والد صاحب کے خصوصی تعلقات تھے۔ وہ اکثر و بیشتر ان بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ علامہ اقبال سے بھی انہیں دلی عقیدت تھی۔ جب وہ بھوپال آنے لگے تو یہ جذبہ عقیدت پرستش کی حد تک پہنچ گیا۔ اور وہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب علامہ اقبال آخری بار شیش محل میں قیام فرما ہوئے تھے میری عمر کوئی چودہ سال کی تھی ارو آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ والد صاحب نے فرمایا کہ علامہ اقبال تشریف لئے ہیں ان سے ملاقات کے لیے جا رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیے وہ تو ہندوستان کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ میں بھی ان کا نیاز حاصل کر لوں گا چنانچہ والد صاحب کے ساتھ ایک شام کو ہم شیش محل پہنچے اور علامہ اقبال سے شرف نیا ز کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سے قبل والد صاحب کے ہمراہ میں راس مسعود سر سید لیاقت علی اور شعیب قریشی وغیرہ کے دولت کدوں پر حاضر ہو چکا تھا۔ اور ان حضرات کی شاہانہ زندگی کا منظر دیکھ چکا تھا۔ چنانچہ میرا خیال تھا کہ علامہ اقبال بھی اسی شان اور کروفر کی زندگی بسر کرتے ہوں گے لیکن جب ان کے کمرے میں پہنچا تو حیران رہ گیا۔ اور میرے تصورات کا تانا بانا ٹوٹ گیا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سادہ سی مسہری پر علامہ اقبال کا گائو تکیہ کے سہارے سادہ قمیص شلوار میں ملبوس تھ۔ حقہ ان کے پاس رکھا ہے۔ گائو تکیہ کے آس پاس کچھ کتابیں رکھی ہیں۔ اللہ اللہ کیا نظارہ تھا۔ اور قلم بھی وہیں موجود ہے۔ سامنے ایک چھوٹی سی میز اور چند گدے دار کرسیاں رکھی ہیں۔ اللہ اللہ کیا نظارہ تھا۔ اتنا عظیم انسان اور اس حد تک سادگی پسند۔ سلام کر کے ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے اور والد صاحب نے مزاج پرسی کے بعد نہایت ادب سے عرض کیا کہ ان کی چھوٹی بہن مہ جبین خمار کو بچپن ہی سے اعری کا شوق ہے اوروہ آپ کے کلام کی پرستار ہی نہیں بلکہ آپ سے متاثر ہو کر بیشتر نظمیں بھی کہتی ہے اسے اسرار و رموز فطرت سے بہت لگائو ہے۔ اگفر آپ اجازت دین تو ان کی ایک نظم سنا دوں تاکہ آپ اپنے قیمتی مشوروں سے نواز دیں۔ وہ اپنا مجموعہ کلام شائع کرانا چاہتی ہے۔ علامہ نے بخوشی نظم سنانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ چنانچہ والد صاحب نے وہ نظم سنائی جس کے چند اشعار حسب ذیل ہیں: نظامت عقل کارفرما جہاں کے نظم و نسق کے انر تمام عالم کی حکمرانی اسی کے سیف و درق کے اندر بصارت عقل نکتہ بیں ہے سماعت عقل رمز شنوا نئے نئے راز پا یلے ہیںزمیں کے ہر ہر طبق کے اندر یہ بخر ذخار کے تموج میں شور قطروں کا سن رہی ہے شکوہ ذروں کا دیکھ لیتی ہے وادی لق و دق کے اندر ضیا کے آثار ڈھونڈتی ہے یہ ظلمت شب کی تیرگی میں فروغ ماہ جبیں کی جو یاغلس کے اندر غسق کے اندر یہ زندگی پاشیوں سے واقف فضائے ہستی پہ مہر کی ہے فیوض باراں سے کشت سرسبز دیکھتی ہے زحق کے اندر کشاکش انروں سے اپنی جوہر مہیا کو کھینچتی ہے طلب کی قوت یہ مانتی ہے ضرورت مستحق کے اندر حقیقت انقلاب سے یہ حسوں کو آگاہ کر رہی ہے بہار کی لالہ کاریاں ہیں خزاں کے کہنہ خلق کے اندر سنی نوائے سروز اس نے منازل ارتقا کی جانب کتابت فطرت میں جانچتی ہے نکات اپنے سبق کے اندر رہ ترقی پہ گام فرسا ہوئی مگر فطرت فطانت یہ دیکھتی ہے فراز و پستی ہر ایک سہل و ادق کے اندر مذاق کی اہمیت کو تسلیم کر چکی ہے عقل نکتہ پرور! دجائے شب میں فروغ ظلمت سحر کی رونق فلق کے اندر ہیں کارفرمائیاں ہمیشہ نظام فطرت کی ضابطے میں عطا ہوئی جذبہ نظر کو حس بصارت حدق کے اندر اثرجو ماحول کا ہے اس کو فراست فہم مانتی ہے ہوئی ہے ماحول میں نمی کے ہوا کی خلقت لثق کے اندر نگاہ منظر پر ست کو دے چکیں مگر دعوت نظارہ مچل کے شا م و سحر کی رعنائیاں حجاب شفق کے اندر چھپے ہوئے راز روز روشن سحر کی تابندہ طلعتوں میں بہار کا جلوہ نگاریں گلوں کے رنگیں ورق کے اندر نہ ہو گا خورشید علم لامع خیال میں تابشیں نہ ہوں گی تضرم آٹشی کی شوکت رہ نمایاں حرق کے اندر قوائے علمی کی پرورش کو غذائے درس جدید فطرت اگر کتابوں میں عقل الجھی گرے گی قصر حمق کے اندر کتابت فطرت کے سارے اوراق منتشر کو کرے فراہم رہے قوائے خرد جہاد شعور میں بطل و حق کے اندر بساط جدید فطرت اگر بچھی ساحت جہاں پر حواس رفعت کی چیرہ دستی کمند ڈالے گی لامکاں پر علامہ اقبال نے نظم سن کر پسند فرمائی اور کہا کہ شاعرہ کے تیور بتا رہے ہیں کہ وہ آگے چل کر بلند مقام حاصل کرے گی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسرار و رمو ز فطرت سے متعلق تمام کتابوں کو یک جا کر لیں ار دیگر موضوعات کی نظمیں علیحدہ ترتیب دے دلیں اس طرح شاعر کی فکر کا صحیح طور پر احاطہ کرنا آسان ہو گا۔ مسیح صدیقی کہتے ہیں کہ علامہ کی باتیں مجھے آج تک یاد ہیں اور یہ تاثر آج بھی دل پر نقش ہے کہ اگر علامہ کا بھوپال سے تعلق پیدا نہ ہوتا تو بھوپال کے شعرای میں ذہنی اور فکری انقلاب اتنی جلد رونما نہ ہوتا۔ بھوپال میں تو ہمیشہ سے غزل اور قصیدے کا رواج چلا آ رہا ہے ۔ لیکن علامہ کی شاعری نے جہاں پورے ہندوستان کے شعراء کو متاثر کیا ہے وہیں بھوپال کے ذی شعور شعرا نے بھی ان سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں۔ اقبال کے بھوپالی نیاز مندوں کی تلاش کے دوران چند اور نامکمل اور ادھورے واقعات کا بھی علم ہوا ہے کاش تفصیلات بھی فراہم ہو جاتیں۔ بھوپال کے جواں سال محقق شمیم احمد کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ انہوںنے ایک تفصیلی خط ۱؎ میں لکھا کہ بھوپال کے ایک بزرگ استاد کا پتا چلا ہے جو علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال کو شیش محل میں پڑھانے آتے تھے علاوہ ازیں علامہ اقبال شام کے وقت کملا پارک ۲؎ کی طرف چہل قدمی کرنے جایا کرتے تھے۔ وہاں اکثر ایک صاحب سے جنہیں کشتی رانی کا شوق تھا علامہ کی برابر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ایک صاحب بھوپال میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے کلام پر علامہ اقبال سے اصلاح لی ہے۔ نیز مولینا شعری بھوپالی کے پاس ضرب کلیم کا وہ نسخہ ہے جو علامہ اقبال نے اپنی تحریر اور دستخط سے نواب صاحب کی خدمت میں بھیجا تھا۔ ایک اور صاحب محمود الحسن سابق ایگزیکٹیو آفیسر میونسپل بورڈ سیہور (بھوپال) کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ علامہ اقبال کی پرائیویٹ اور نجی بیٹحکوں میں شرکت کرتے تھے۔ وہ اقبال کی سیرت کے بہت سے گوشوں سے واقف ہیں اور انہیں اقبال کے بہت سے لطائف یاد ہیں۔ ان کے متعلق پتا چلا ہے کہ اب سیہور بھوپال میں نہیں ہیں۔ شاید پاکستان میں ہوں۔ اگر پاکستان میں ہوئے تو پتا لے کر بھیج دوں گا۔ افسوس کہ شمیم احمد تعلیم ختم کر کے اورنگ آباد کے کسی کالج میں لیکچرار ہو کر چلے گئے ۔ اور یہ تشنہ اطلاعات تشنہ ہی رہ گئیں۔ نہ یہ معلو م ہو سکا کہ جاوید اقبال کے استاد کا نام کیا ہے؟ نہ کملا پارک کے ان صاحب کا پتا چلا جنہیںکشتی رانی کا شوق تھا اور جن کی اقبال سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ یہ اطلاع بھی راز ہی رہی کہ نواب صاحب کو بھوپال بھیجا ہوا ضرب کلیم کا خاص دستخطی نسخہ مولینا شعری کے ہاتھ کس طرح لگا۔ محمود الحسن کے بارے میں کوئی اطلاع نہ مل سکی وہ بھوپال چھوڑ کر کہاں چلے گئے ۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ کوئی اور محقق ان امور کی چھان بین کر سکے۔ ابراہیم یوسف بھوپال کے ممتاز نوجوان ادیبوں اور افکار کے قلمی معاونین میں سرفہرست ہیں۔ اپنی کتاب کے سلسلے میں انہیں بھی توجہ دلائی۔ وہ بھوپال سے باہر تھے۔ کافی مدت کے بعد مجھے ان کا جواب ملا۔ اس خط میں اقبال سے متعلق سرسری اطلاعات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ ان کا تذکرہ بھی نامناسب نہ ہو گا۔ ۱؎ خط بنام راقم الحروف مورخہ ۲۶ نومبر ۱۹۴۶ء ۲؎ بھوپال کی ایک مشہور تفریح گاہ ان کے خط کا اقتباس ملاحظہ ہو: ’’… اقبال کے متعلق عبدالقوی صاحب کا مقالہ تم کو مل گیا اچھا ہوا۔ وہ تمہارے کام میں ضرور مدد دے گا مگر موضوع کے لحاظ سے شاید عبدالقوی صاحب نے زیادہ انصاف نہیں کیا ہے۔ کیونکہ انہوںنے اقبال اور راس مسعود کے ذاتی تعلقات پر زیادہ زور دیا ہے۔ ویسے میرے ذاتی علم میں ہے کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو میرے والد کے استاد کے ہاں جو فقریرانہ زندگی بسر کرتے آئے تھے اقبال بذات خود آیا کرتے تھے۔ اور کئی کئی گھنٹے ان کے گھر گزارا کرتے تھے چونکہ میری عمر اس وقت بہت کم تھی ممکن ہے چوتھی یا پانچویں جماعت میں رہاہوں۔ چونکہ مولوی صاحب درویشانہ زندگی گزارتے تھے اس لیے ممکن ہے کہ اقبال کا تعلق اس سلسلے میں ان سے رہا ہو۔ بھوپال جانے پر والد صاحب سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کروں گا۔ ممکن ہے وہ کوئی کام کی بات بتلا سکیں۔ اگر کوئی بات معلو م ہو گئی تو تم کو لکھوں گا۔ لیکن جہاں تک اقبال کا مولوی صاحب کے یہاں آنے جانے کا سوال ہے یہ مسلم ہے کہ کیونکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ خود اقبال کو ان کے گھر پر دیکھا تھا۔ مگر بچپن کے نقوش ہیں جو اس قدر دھؤندلے ہو گئے ہیں کہ ان کے متلعق کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ عبدالقوی نے شاید اس سلسلے میں کوئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف راس مسعود اور نواب بھوپال سے ان کے تعلقات کا ذکر کر کے چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن اس نامکمل روداد کی کوشش کے باوجود مجھے مزید تفصیل نہ مل سکی کیونکہ ابراہیم یوسف اس جگہ سے کہیں اور تبدیل ہو گئے اورجب میرے خطوط بھی ان کے پتہ سے لوٹ آئے تو صبر کرنا پڑا۔ اقبال اور بھوپال کی اشاعت کے بعد بھوپال کے ممتاز ادیب و شاعر حبیب فخری نے جو گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں اردو کے استاد تھے مجھے لکھا کہ پنجاب کے ملک محمد اشرف نے اپنے زمانہ قیام بھوپال میں علامہ اقبال کی مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کا انگریزی ترجمہ اور اس پر حواشی لکھے تھے۔ میری درخواست پر انہوں نے محمد اشرف صاحب سے رابطہ قائم کیا ار اشرف صاحب نے مجھے اپنی کتاب کا دوسرا ایڈیشن عطا فرما دیا۔ اس کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ یہ کتاب پہلی بار دی ڈیولز کانفرنس کے نام سے ۱۹۴۶ء میں اور دوسرا ایڈیشن دس کفر ڈستیان کے عنوان سے نظر ثانی اور اضافے کے بعد ۱۹۷۴ ء میں شائع ہوئی۔ یہی نسخہ محمد اشرف نے گجرات سے مجھے ارسال فرمایا۔ اس ایڈیشن میں جہاں اطالوی پروفیسر بوسانی کی رائے سر شیخ عبدالقادر مرحوم کا تعارف اور ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کا پیش لفظ شامل تھا وہیں بھوپال کی بعض مقتدر شخصیتوں کی آراء بھی شامل تھیں جن میں علامہ موسیٰ جار اللہ (جو بھوپال میں نظر بند تھے) علامہ سید سلیمان ندوی (قاضی ریاست بھوپال) اور مولانا سہا مجددی (جو آخر عمر میں مستقل قیام کے لیے لاہور سے بھوپال آ گئے تھے) بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ محمد اشرف نے اپنا مکمل پتا نہیں لکھا تھا اور اپنی کتاب بھی حبیب فخری کے توسط سے مجھے بھیجی تھی اس لیے افسوس کہ براہ راست ان سے ربط و تعلق اور مزید معلومات نہ حاصل ہو سکیں لیکن اسی ایڈیشن کے پہلے پیش لفظ میں نومبر ۱۹۴۶ء میں انہوںنے بھوپال کی ایک معزز شخصیت سید زاہد علی جعفری کے خصوسی تعاون کا شکریہ ادا کیا تھا چنانچہ بھوپال کے مشہور بزرگ اور ادیب محمد احمد سبزواری سے میں نے جعفری صاحب کے بارے میں دریافت کیا تو انہوںنے بتایا کہ جعفری صاحب تو کراچی ہی میں رہتے ہیں ان کا پتا معلوم کر کے تفصیل بتائوں گا۔ چند روز کی تلاش کے بعد جعفری صاحب سے ملاقات ہو گئی ارو جب انہیںمحمد اشرف کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن دکھایا تو انہوں نے اس کے پس منظر میں تفصیل سے اظہار کیا تو خیال فرمایا جس کا لب لباب یہ ہے کہ محمد اشرف بچپن ہی میں اپنے والد کے ساتھ بھوپال آ گئے تھے۔ ان کے والد محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں ایس ڈی او تھے محمد اشرف نے ابتداً بھوپا ل کے پبلسٹی آفس میں ملازمت کی جہاں جعفری صاحب بھی ملازم تھے۔ بعد میں دونوں نے یہ ملازمتیں چھوڑ دیں۔ اشرف صاحب نے کچھ عرصے پی ۔ ڈبلیو ۔ ڈی میں کام کیا اوائل میں ۱۹۴۲ء میں ان کو یہ کتاب لکھنے کاخیال پیدا ہوا اور زاہد صاحب کے مشوروں سے انہوںنے بھوپال کی مشہور حمیدیہ لائبریری اور دیگر لائبریریوں سے استفادہ کے بعد اپنے مسودے پر موسیٰ جاراللہ علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا سہا مجددی سے آراء حاصل کیں اور یہ مسودہ لے کر ۱۹۴۵ء میں لاہور واپس آ گئے اور کتاب کا پہلا ایڈیشن انگریزی کتابوں کے مشہور پبلشر محمد اشرف نے ۱۹۴۶ء میں شائع کر دیا۔ جعفری صاحب کے بقول پہلے ایڈیشن میںعلامہ اقبال گوئٹے دانتے ڈارون چنگیز خاں کی تصویریں بھی شامل تھیں۔ دوسرا ایڈیشن جسے بک ہائوس لاہور نے ۱۹۷۴ء میں شائع کیا ہے ا س میں یہ تصاویر شامل نہیں ہیں۔ حبیب فخری کی اطلاع کے مطابق بوپال کے ایک اور نوجوان عربی کے سکالر تھے۔ ابوالنصر احمد الحسینی نے مصر کے مشہور علمی و ادبی ماہنامہ المقتطف میں علامہ اقبال کی وفات کے بعد ۳۹۔۱۹۳۸ء میں انکی فنی عظمت کے مختلف پہلوئو ں پر تین طویل مقالے عربی میں تحریر کیے تھے جو شائع ہو کر عرب دنیا میں کافی مقبول ہوئے۔ راقم الحروف نے المقتطف کو کراچی لاہور حتیٰ کہ علی گڑھ یونیورستی میں بھی تلاش کرایا لیکن اس کی فائل دستیاب نہ ہو سکی۔ آئندہ شاید بھوپال کا کوئی محقق اسے ڈھونڈ نکالے۔ کتاب کی نظر ثانی کے دوران ہی حمید الدین شاہد نے کراچی کے ماہنامہ ’’سب رس‘‘ کا جنوری ۱۹۷۸ء میں اجرا کیا ارو پہلے شمارے کو اقبال نمبر کی صورت میں پیش کیا تو خود محمد احمد سبزواری کو اپنا فروموش اور گم کردہ مضمون شاعر باکمال دستیاب ہو گیا جو انہوںنے علامہ اقبال کی وفات کے فوراً بعد لکھا تھا۔ اور ماہنامہ سب رس حیدر آباد دک کو بھیج دیا تھا۔ جس کے نگران مشہور محقق ڈاکٹر محی الدین قادری زور مرحوم اور مدیر صاحبزادہ محمد علی خاں میکش مرحوم تھے۔ یہ مضمون پہلی بار ماہنامہ سب رس حیدر آباد دکن کے اقبال نمبر میں شمارہ جون ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا تھا۔ جسے سب رس حیدر آباد دکن نے اقبال نمبر میں شائع کیا ہے۔ علامہ اقبال کی وفات کے بعد بھوپال کے اہل قلم اور بھوپال سے کسی عنوان ربط و تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی متعدد تخلیقات ہندوستان کے مختلف رسائل میں بکھری ہوئی ہیں۔ بھوپال کے ناقدین اور محققین کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ایسی تمام تخلیقات کو تلاش وتجسس کے بعد یکجا کر کے کتابی صورت میں محفوظ کر دیں۔ بھوپال میں مقیم چند نیاز مندوں کا مختصر احوال عبدالقوی دسنوی نے بھی اپنے دیباچہ میں تحریر کیا ہے۔ اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’… پروفیسر محمد زبیر صدیقی صدر شعبہ عربی حمیدیہ کالج بھوپال کا بیان ہے کہ علامہ اقبال نے جس شیش محل میں آ کر قیام کیا تو وہ آٹھویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے علامہ کو جو سرکاری موٹر ملی تھی اس کے ڈرائیور جسیم حیدر تھے۔ وہ زبیر صاحب کے ملاقاتی تھے۔ چنانچہ وہ سکول سے واپسی پر اس موٹر میں بیٹھ جاتے تھے۔ اتفاق سے ایک روز ڈاکٹر صاحب مکان سے باہر آئے غالباً وہ شملہ کی طرف جا رہے تھے انہیں دیکھ کر جسیم حیدر نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ جسیم حیدر نے بتایا کہ قاضی صاحب کا پوتا ہوں ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور دریافت کیا کہ کیا پڑھتا ہوں۔ میں نے بتایا کہ عربی پڑھتا ہوں تو انہوں نے عربی کی گردان پوچھی اور مختلف قسم کے سوالات کیے۔ زبیر صاحب کا بیان ہے کہ اکثر اس کے بعد اس طرح علامہ سے ملاقات ہوتی رہی۔ جناب حکیم قمر الحسن صاحب چیف ایڈیٹر روزنامہ ندیم بھوپال فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں اقبال کا قیام شیش محل میں تھا وہ حکیم اولاد حسین صاحب کے ساتھ علامہ سے ملنے گئے۔ حکیم اولاد حسین قمر الحسن صاحب کے رشتے کے بھائی اور بہنوئی بھی تھے۔ وہ پانی کے علاج سے کافی تجربہ کار تھے۔ علاہم ان سے طبی مشورہ چاہتے تھے۔ چنانچہ کچھ دیر تک تو علاج کے سلسلے میں گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد حکیم اولاد حسین صاحب نے قمر الحسن صاحب کا تعارف کرایا اس وقت قمر الحسن صاحب کی عمر مشکل سے بائیس سال ک ہو گی علامہ نے ان سے مختلف سوالات کیے اور دریافت کیا کہ کیا لکھتے ہو۔ اس زمانے میں حکیم قمر الحسن صاحب افسانے اور انشائیے لطیف لکھا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نئی پود ٹیگور کی انشا پردازی سے متاثر تھی۔ چنانچہ جب انہیں معلوم ہا کہ حکیم صاحب کو افسانے اور انشائے نطیف کا شوق ہے تو فرمایا کہ انشائے لطیف بے مقصد چیز ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی صحت مند اور تعمیری ادب پیش کریں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ طلبہ کو چاہیے کہ پہلے علم حاصل کریں اس لیے کہ بغیر اچھے علم کے اچھا ادب تخلیق نہیں ہوتا۔ ممنون حسن خاں صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک بار علامہ اقبال نے سر راس مسعود سے کہا کہ حیدر آباد میں اردو یونیورسٹی قائم ہو چکی ہے۔ آپ کا تعلق مہاراجہ اندور سے ہے آپ کوشش کیجیے کہ اندور ہندی یونیورسٹی قائم ہو جائے۔ سر راس مسعود نے علامہ کی یہ بات بہت پسند کی اور کہا کہ بھوپال میں ہر جمعہ کو اندور اور اجین سے سنسکرت اور ہندی کے علماء آتے ہیں ارو آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ یہاں ترجمہ کا کام بھی ہو رہا ہے۔ چنانچہ میگھ دوت کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اب کالیداس اور مشہور ڈرامہ شکنتلا کے ترجمہ کا کام ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ علامہ بھوپال میں تعلیم کے خواہاں تھیے۔ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ سر راس مسعود یہاں وزیر تعلیم ہیں اور اس لیے امید کرتے تھے کہ یہاں تعلیم عام ہو گی ۔ وہ نواب صاحب سے بھی خوش تھے اس لیے کہ ان کا خیال تھا کہ نواب صاحب اچھے دل اور روشن دماغ حکمراں ہیں اس لیے انہیں امید تھی کہ قوم اور ملک کو ان کی زات سے فائدہ پہنچے گا۔ بھوپال کے مایہ ناز مصور جناب عبدالحلیم انصاری جن کی کوئلہ کی بنائی ہوئی تصویر ہم اس مقالہ کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال کے دوران قیام بھوپال دوبار ملے۔ چنانچہ وہ بتاتے ہیں کہ علامہ سر محمد اقبال سے پہلی مرتبہ سر راس مسعود مرحوم کے یہاں ریاض منزل میں ملاقات ہوئی دوسری مرتبہ وہ شیش محل میں مقیم تھے۔ چونکہ سر راس مسعود نے خاص طور پر انہیںعلامہ اقبال کے کمرے میں لے جر کر تعارف کرایا تھا ااس لیے علامہ نے بھی خاص التفات فرمایا ۔ چنانچہ عبدالحلیم انصاری صاحب جب علامہ سے ملنے کے لیے شیش محل گئے تو انہوںنے شلوار قمیص پہنے پلنگ پر بیٹھا پایا۔ حقہ سامنے رکھا ہوا تھا۔ انہیں دیکھ کر فرمایا: سر راس مسعود نے آپ کے بارے میں کئی پسندیدہ باتیں بتلائی ہیں۔ میں چونکہ ان کے مزاج سے واقف ہوں اس لیے آپ کو اچھی طرح سمجھا اور خوش ہوا۔ عبدالحلیم انصاری صاحب نے کہا: آپ سے شرف نیاز میرے لیے اعزاز ہے اور خوش نصیبی بھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے۔ مجھ کو آرٹ کے متعلق بہت سے مسائل سمجھنا اور بہت سے مراحل حل کرنا ہیں منزل عرفان کے۔ اتنی باتیں انہوںنے بڑی جسارت کے ساتھ کہی تھیں۔ علامہ اقبال نے دریافت کیا آپ کا سبجیکٹ کیا ہے؟ عبدالحلیم صاحب نے جواب دیا: فطرت کشی اور مطالعہ فطرت اور یہ بھی کہا کہ میں عام آرٹسٹوں کی طرح فطرت کو پینٹ ہی نہیں کرتا بلکہ اسے پڑھتا بھی ہوں۔ فطرت میرے نزدیک ایک کتاب ہے جسے الہامی جس کے مطالعہ سے روشنیاں حاصل ہوتی ہیں۔ الہام و عرفان کی رموز و نکات واشگاف ہوتے ہیں علوم و فنون کے۔ حلیم صاحب فرماتے ہیں کہ میرے خیالات سے علامہ نے دلچسپی لی اور فرمایا کہ آپ نے دلچسپ نظریہ پیش کیا ہے۔ میں چونکہ آج کل معالجین کی ہدایت کا پابند ہوں اس سے پھر باتیں کروں گا۔ اس زمانے میں علامہ بجلی کے علاج کا ایک خاص کورس پورا کر رہے تھے اس لیے عبدالحلیم صاحب نے بھی احتیاط برتی۔ اگرچہ انہیں ا س کا بہت افسوس ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس وقت کچھ مواقع حاصل ہو جاتے تو اس دیدہ ور کی بدولت حقائق و معارف کے بہت سے سربستہ راز وا ہو جاتے۔ الوان فطرت کی تعلیم و تشریح آیات فطرت کی نگارش و اشاعت اور ایک نئے اسلوب و انداز سے عمل میں آتی ہے۔ جس کے سبب انسان آرٹ ارو فطرت کے قدیما ور روحانی رشتہ کو سمجھ سکتا ہے اور ان کے الہامی پیغام کو جان سکتا۔ میں نے جب دریافت کیا کہ علامہ سے ملاقات کا اس قدر اشتیاق کیوں تھا تو انہوںنے فرمایا۔ اس لیے کہ مجھے ایسے عارف کامل کی تلاش تھی جس کے پاس تسخیر کائنات کا عمل بھی ہو اور وہ واقف اسرار ازل بھی ہو۔ اس مقصد کے پیش نظر اور حصول زندگی کی خاطر ذوق ووجدان کو بھی ساتھ لیے جستجو کی منزل پر تھا۔ علامہ اقبال سے ملنے کے لیے اس لیے بھی میرا جذبہ شوق مچل رہاتھا کہ وہ فن کا نقاد اور قدر دان تھا۔ قدردان وہی ہو سکتا ہے جو نقاد بھی ہو سچا۔ سچانقاد وہی ہو سکتا ہے جو ماہر ہو فن کا عدل و انصاف کی صداقت رائے کا مظہر ہو۔ چونکہ وہ ان تمام اوصاف سے متصف تھا اس لیے اس نے فن کی تخلیق و نمود کو معجزہ فن سے تعبیر کیا ہے: معجزہ فن کی ہے خون جگرسے نمود جہاں وہ ایک اچھا نقاد و فن کار تھا۔ اچھا سازندہ فطرت بھی تھا۔ اس لیے میں نے بربط قلب پر اسے کچھ راگ سنائے تھے اور یقین اور اعتماد پر جس روز دل سے رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے علامہ سے ملاقات کی دلچسپی کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ وہ فطرت اور آرٹسٹ کے فطری تعلق اور روحانی رشتے کو سمجھتا تھا۔ دونوں کے مزاج اور مذاق سے واقف تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ فطرت اپنی جگہ پر حسین ہے بے شک لیکن اس کو حسین سے حسین تر بنانے والا آرٹسٹ ہے اسی لیے اس نے کہا بھی: آں ہنر منداے کہ برفطرت فزدو راز خود را برنگاہ ماکشود اقبال رمز ہائے فطرت کا امین و معتمد تھا اور ترجمان فطرت بھی جس نے بہ پاس اعتماد و دیانت بہت سی چیزیں مصلحتاً رمز و کنایہ میں ادا کی ہیں اور اپنی اس مصلحت کو ظاہر بھی کیا ہے یہ کہہ کر : حدیث خلوتیاں جزبہ رمز و ایما نیست اقور جب میں نے دریافت کیا کہ آپ نے علامہ اقبال کی تصویر کس جذبہ کی وجہ سے بنائی تو انہوں نے جواب دیا کہ علامہ اقبال کے قیام بھوپال کے دوران جتنا اشتیاق ملاقات تیز ہوتا گیا جذبہ عقیدت بھی اتنا ہی بڑھتا گیا۔ اسی نے میرے دل میں علامہ کی تصویر بنانے کی بنا ڈالی جس کی وجہ سے میں نے اپنے عقیدت کیشی کو قلم کاری کے ذریعہ ظاہر کیے بغیر نہ رہ سکا جو شبیہہ اس وقت مقالہ کی زینت ہے وہ قلم مصور کا نقش عقیدت ہے۱؎۔ ۱؎ علامہ اقبال بھوپال میں صفحہ ۴۹ تا ۵۳ عبدالحلیم انصاری بھوپال کے مایہ ناز آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ ان کا شمار ممتا ز اہل قلم میں بھی ہوتا ہے۔ ان کے مضامین ادبی رسالوں میں شائع ہو کر مقبول ہوئے ہیں افکار کے جوش نمبر پہلا ایڈیشن نومبر ۱۹۵۹ء میں انصاری صاحب کا معرکہ آرا مضمون جوش ملیح آبادی پر جب شائع ہوا تو مجھے کئی تعریفی خطوط ملے انصاری صاحب کو میں نے بھی توجہ دلائی کہ وہ اتن اچھے آرٹسٹ ہیں۔ مجھے راحت منزل ریاض منزل اور شیش محل کی تصاویر نہیںمل رہی ہیں۔ میرے دیرینہ رفیق اور مشہور ادیب رشدی ایڈیٹر روزنامہ افکار بھوپال تلاش کر رہے تھے۔ کیا اھچا ہو کہ آپ اپنے موقلم سے ان عمارتوں کا نقش ابھار دیں۔ تاکہ میں انہیں کتاب میں محفوظ کر دوں۔ کیونکہ یہی وہ شاہانہ عمارتیں ہیں جن کو شاعر مشرق کی سکونت کا شرف نصیب ہوا تھا۔ عبدالحلیم انصاری نے وعدہ کیا اور اپنی سی کوشش بھی کی لیکن افسوس کہ اپنی شدید علالت اور چند در چند وجوہ کی بنا پر وہ مجھے زیر بحث عمارتوں کی قلمی تصویریں نہ بھیج سکے۔ البتہ اپنی کوئلہ سے بنائی ہو ئی تصویر کو شامل کتاب کرنے کی بخوشی اجازت دے دی۔ یاٹ کلب بھوپال کا ایک غیر مطبوعہ رنگین کارڈ جو انصاری صاحب کے موقلم کا شاہکار ہے۔ دوران خط و کتابت انہوںنے مجھے بھیج دیا تھا۔ جو اس کتاب میں شامل ہے۔ یہ بہت خوبصورت جگہ ہے اوراقبال اکثر سیر کرنے کے لیے یاٹ کلب جایا کرتے تھے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر آ چکا ہے۔ بھوپال کے ایک اورمایہ ناز فرزند اور بلند پایہ ادیب ڈاکٹر محمد یوسف صدر شعبہ عربی جامعہ کراچی کا تذکرہ بھی ضروری ہے جنہیں اقبال سے قیام بھوپال کے دوران شرف نیاز حاصل نہ ہو سکا لیکن انہو ں نے اقبال کے فکر و فن سے استفادہ بھی کیا اور ان پر کئی یادگار مضامین بھی لکھے اردو عربی اور انگریزی میں تحریر کیے جو لاہور کراچی اور قاہری کے مقتدر ادبی جرائد میں شائع ہو کر کافی پسند کیے گئے۔ کراچی میںایک ملاقات کے دوران ڈاکٹر سید محمد یوسف نے ان خطوط کی نشان دہی فرمائی جنہیں ممنون حسن خاں صاحب نے شیخ عطا اللہ مرتب اقبال نامہ کو علی گڑھ بھیجے تھے۔ اقبال نامہ میں دس خط ممنون حسن خاں کے نام ہیں چوبیس خط راس مسعود کے نام تین خط لیڈی مسعود کے نام اور ایک خط راس مسعود کا اقبال کے نام شامل ہے۔ ڈاکٹر سید محمد یوسف ۱۹۱۶ ء میں بمقام بھوپال پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بھوپال میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ گئے وہیں سے عربی میں ایم ایے اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے بعد قاہرہ چلے گئے کئی سال تک قاہرہ میں رہے پھر سیلون کی یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔ اور ۱۹۵۹ء میں کراچی آ گئے اور کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے جب سے یہیں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اقبال نامہ کے خطوط کی تفصیلات اقبا ل سے عقیدت مندی بھوپال سے ربط و تعلق کے بارے میں جب میں نے ان سے متعدد سوالات کیے تو انہوں نے بیان کیا کہ میرا بچپن بھوپا ل میں گزرا جہاں میرے والد احسان حسین مرحوم الگزینڈر جہانگیریہ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور نواب حمید اللہ خاں کی شہزادیوں کے اتالیق تھے۔ اس وقت یہ ہائی سکول بھوپال کا سب سے بڑ ا تعلمی ادارہ تھال بھوپال کے تمام بچوں کی طرح میں نے بھی اسی سکول میں تعلیم پائی۔ سکول سے باہر والد مرحوم نے عربی فارسی کی تعلیم کا خصوصی انتظام کیا اورجس کے نتیجہ میں میرا شعر و ادب کا شوق سکول کے ساتھیوں کی بہ نسبت ترتیز تر ہو گیا۔ جب ذرا استعداد پیدا ہوئی اور ذوق آگے بڑھا تو شکوہ اور نالہ یتیم کی گونج کان میں پڑی۔ اقبال سے ایک سکول کے طالب علم کا یہ پہلا تعارف تھا۔ دینی علوم سے واقفیت حاصل ہوئی تو اقبال سے عقیدت بڑھ گئی۔ اقبال کے کلام نے یہ یقین عطا کیا کہ دین کوئی فرسودہ شے نہیں دین کے علم کو جلا دی جائے تو عصر حاضر کی روشنی ماند پڑ جائے۔ ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء میں جب اقبال بھوپال آئے تو میرے شعور میں پختگی آ چکی تھی اور اقبال سے عقیدت والہانہ انداز میں پہنچ چکی تھی مگر عاشق کوتاب نظارہ کہاں۔ ملاقات کا نہ موقع آیا نہ ہمت ہوئی۔ اس کے فوراً بعد میں علی گڑھ پہنا تو ہر صحبت میں ضرب کلیم کا چرچا سنا۔ جیسے جیسے مسلم لیگ نے زور پکڑا۔ اقبال کے سیاسی افکار بالخصوص ملت اور وطن کے تصورات ابھرتے گئے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ویسے بھی مسلم لیگ کی سیاست کے ایک بڑے مرکز کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کی جائے گی۔ یہاں کی نئی نسل نے تحریک کو پاکتان کو کامیاب بنانے میں ہر ممکن حصہ لیا۔ مسلم لیگ کی شاخ قائم ہوئی اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا جس نے نوجوانوں میں ایک نیا عزم نیا جوش اور نیاولولہ پیدا کر دیا… متعدد جلسوں کی صدارت قائد اعظم نے فرمائی اورانہوںنے علی گڑھ کے باحوصلہ نوجوانوں کو ہمیشہ پر امید نگاہوں سے دیکھا۔ ۶ مارچ ۱۹۴۰ کی پر جوش تقریر کا حوالہ نامناسب نہ ہو گا جس میں قائد اعظم نے یونین میں تشریف لا کر سیاسی حالات پر تقریر فرمائی اورآکر میں کہا: ’’میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوجائیں اور مسلم لیگ کے ساتھ مل کر کام کریں۔ ایک مستحکم اور مضبوط پیکر فولاد کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہیے۔ اپنی قوت کی تنظیم و تربیت کجیے اور ان کو ادب و تادیب کا خوگر بنائیے۔ ہماری قوم ہمارے ساتھ ہے۔ آپ رکاوٹوں سے پراگندہ نہ ہوں۔ ہاں مسلمانوں کو منظم اور یک جا کریں۔ اور فوی قواعد کی طرح پابند کار بنائیں۔ اس طرح آپ ان کو ایک ایسے حیرت افزا لشکر سیاسی میں تبدیل کر لیں گے جسے چشم ہند نے کبھی نہیں دیکھا۔ اس طرح ہم جلد تر آزادی کی منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۱؎‘‘۔ حکیم الامت کی وفات کی خبر آئی تو علی گڑھ والوں کے دل میں ان کے افکار کوجمع کرنے اور تعمیر ملت میں انہیں بروئے کار لانے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس وقت میں مسلم یونیورسٹی میں مسلم لیگ کی شاخ کا جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ اس سلسلے میں منجملہ دیگر اساتذہ شیخ عطاء اللہ صاحب جن کا تعلق شعبہ معاشیات سے تھا رہنمائی کیا کرتے تھے۔ ہم طلبہ ان کو ایک باوقاراستاد کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ وہ جوشیلے بالکل نہ تھے۔ بڑے پرسکون سادہ مگر صائب الرائے اور پختہ یقین رکھنے والے تھے شعر و ادب سے ان کا لگائو کا کبھی اندازہ نہ ہوا۔ حتیٰ کہ اقبال کے شعر بھی بہت کم پڑھتے تھے۔ البتہ ملت کے مستقبل کی بابت برابر سوچتے رہتے تھے اور جیسا کہ بعد میں ظاہر ہوا یہی وجہ تھی کہ انہیں اقبال کے ساتھ سچی عقیدت تھی ان کی اصابت رائے دیکھیے کہ انہوںنے سب سے پہلے اقبال کے مکاتیب جمع کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ان کی تواضع و انکسار یہ کہ انہوںنے دوسروں کو یہ کام کرنے کی دعوت دی اور کئی سال انتظار کرتے رہے کہ کوئی اٹھے جب کوئی نہ اٹھا تو انہوںنے محض اپنے عزم صادق اور خلوص نیت سے یہ خدمت انجام دی۔ خطوط جمع کرنے کے لیے انہوںنے جہاں مشاہیر سے رابطہ قائم کیا وہاں چھوٹوں کو بھی مامور کیا۔ مجھے تاکید کی کہ بھوپال جائو تو ممنون حسن خاں صاحب سے ذاتی طور پر گزارش کرو مجھے ممنون حسن خاں صاحب سے نیاز حاصل تھا۔ میں نے شیخ عطا ء اللہ صاحب کے حکم کی تعمیل کی اور ممنون حسن خاں صاحب نے بخوشی وہ خطوط جو ان کے پاس تھے شیخ صاحب کو بھجوا دیے۔ اقبال نے صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کو علوم اسلامیہ کے متعلق ایک اہم نوٹ لکھ کر بھیجا تھا۔ جس کا اردو ترجمہ شیخ عطا ء اللہ نے سہیل سے نقل کر کے اقبال نامہ جلد دوم (صفحہ ۲۱۲۔۲۲۵) میں شامل کیا ہے۔ اس کی انگریزی اصل بھی میں نے مسلم یونیورسٹی کے دفتر سے تلاش کر کے نکالی تھی جو میرے پاس رہ گئی۔ اسی عرصہ میں میرا تقرر فواد یونیورسٹی میں ہو گیا اور میں قاہرہ جانے کی تیاری میں ایسا مصروف ہوا کہ عطاء اللہ صاحب کو نہ پہنچا سکا۔ ۱؎ علی گڑھ (کتابچہ ۱۸۷۵ تا اگست ۱۹۴۷ئ) صفحہ ۲۸ ۔ ۲۹ یہ انگریزی اصل بعد کو میں نے اقبال ریویو بابت ماہ اکتوبر ۱۹۶۲ء میں شائع کی۔ میں مصر چلا گیا۔ ادھر قیام پاکستان کے نتیجہ میں اندوہناک حالات رونما ہوئے۔ شیخ عطا اللہ علی گڑھ چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور معاون حضرات کی رفاقت سے بھی محڑوم ہو گئے مگر ان کی اقبال دوستی اور ہمت دیکھیے کہ تن تنہا اقبال نامہ کی دوسری جلد بھی مرتب کر کے شائع کر دی جس کا م کا بیڑا اٹھایا تھا اسے بحسن و خوبی انجام کو پہنچایا۔ ڈاکٹر سید محمد یوسف سے میں نے خطوط کی اہمیت اور اقبال کے بعض ذاتی خطوط کی اشاعت پر ان مداحوں کی جھجک کے بارے میں رائے دریافت کی تو انہوںنے کہا کہ مکاتیب کی اہمیت یہی ہوتی ہے کہ ان میں انسان کی سیرت سادہ و بے تکلف جلوہ گر ہوتی ہے۔ انسان کھل کر خط لکھتا ہے۔ اس لیے کہ تحریر کی سچائی سادگی و پرکار ی ہمیں متاثر کرتی ہے۔ میرے خیال میں کسی مکتوب کو حذف کر دینا یا ایک مکتوب میں سے کسی کا نام حذف کر کے اس کی جگہ نقطے رکھ دینا علمی دیانت کے خلاف ہے۔ اقبال ایک انسان تھے۔ انسانی ضروریات اور انسانی جذبات رکھتے تھے۔ اس کے اظہار کے لیے ان کی انسانی عظمت کو بٹہ نہیں لگتا اس لیے مجھے معترضین سے اتفاق نہیں۔ اقبال جیسے عظیم انسان کے دل میں ذرا بھی خلش ہو تو اس کا اعتراف و اظہار کم از کم اپنے مخلص دوستوں سے کیے بغیر نہیں رہ ستکا۔ اور اس کا اسے حق تھا۔ چنانچہ راس مسعود کے نام جتنے خطوط ہیں ان کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ ان خطوط کی اشاعت سے جھجک نہ ہونا چاہیے۔ ان پر اعتراض کاکوئی جوازبھی پیدا نہیںہوتا۔ بلکہ میری دانست میں یہ رجحان افسوس ناک ہو گا کہ اگر ہم اپنے تصورات بلکہ تعصبات کے مطابق اقبال کا بت تراشیں۔ ایک طرف تو یہ صورت حال ہے دوسری طرف شاعر کے وہ ابیات ہیں جنہیں اس نے اپنی زندگی میں مسترد از قلمزد کر دیا یا بالقصد نظر انداز کر کے اپنے مجموعہ میں انہیں شامل نہیں کیا۔ لیکن ان کا کھوج لگا کر بڑے طمطراق اور زور و شورکے ساتھ وہ تمام غیر اہم کلام اس کے سر مڑھا جا رہا ہے فرض کیجیے کہ ایک مضمون کا مسودہ تیار کرتا ہوں اسے شائع کرتے وقت اگر س میں سے سے چند سطریں نکال دیتا ہوں تو کسی کو کیا حق حاصل ہے کہ ردی کی ٹوکری سے کاغذ کا پرزہ نکال کر وہ سطریں میرے ذمہ لگائے ڈاکٹر سید محمد یوسف نے بھوپال کے ناتے اقبال کے افکار و خیالات پر اب تک جو مضامین لکھے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے: اردو ۱۔ عقل و عشق ۲۔ اقبال کے کلام میں روایت و جدت ۳۔ اقبال اور عبدالرحمن الداخل ۴۔ مسجد قرطبہ کا مرکزی خیال ۵۔ اقبال اور شعر ۶۔ اقبال کی سیاسی بصیرت ۷۔ جمالیات سے متعلق اقبال کے افکار عربی ۱۔ فلسفہ اقبال ۲۔ آراء اقبال عن المراء و و ظیفتہا فی الحیاۃ ۳۔ الامامثہ فی رای اقبال ۴۔ پیام مشرق (نقد) ۵۔ ضرب الکلیم (نقد) انگریزی A study of Iqbal's views on Ijma. studies in Islamic History and culture. بھوپال کے ایک جواں سال وجواں فکر ادیب و محقق ڈاکٹر حنیف فوق بھی ان حضرات میں شامل ہیں جنہوںنے علامہ اقبال کی ذات گرامی سے بلا واسطہ اثر قبول کیا۔ انہوںنے میٹرک کا امتحان شاہجہانی ماڈل ہائی سکول بھوپال سے پاس کرنے کے بعد کان پور کا رخ کیا اور وہاں کے حلیم کالج سے انٹر کیا پھر وہ لکھنو چلے گئے اور لکھنو یونیورسٹی سے آنرز اور ایم اے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا ۔ ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ وہ ڈھاکہ چلے گئے اور ۱۹۵۰ء سے ہی وہ ڈھاکا یونیورسٹی کے شعبہ اردو فارسی سے منسلک ہو گئے۔ تقریباً ۲۱ سال وہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ وہیں سے انہوںنے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کے بعد وہ دوسرے استاد ہیں جنہوںنے پی ایچ ڈی کے لیے انگریزی مقالہ لکھا اور ان کے مقالہ کا عنوان تھا: The social analysis of Urdu Poetry during and after 1857 ان کے انگریزی مقالہ کا ایک بام تمام تر علامہ اقبال کے متعلق تھا۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ سے متاثر ہو کر بھی انہوںنے کئی اور قیمتی مضامین تحریر کیے اور ڈھاکہ کی مختلف ادبی تقریبات میں اقبال پر تقریریں بھی کیں تفصیلات یہ ہیں: ۱۔ اقبال کی ادبی شخصیت …مطبوعہ ’’نگار‘‘ لکھنو ۲۔ اقبال… مطبوعہ ’’افکار‘‘ کراچی ۳۔ اقبال اور جمہوریت… جائزہ کراچی ۴۔ Iqbal and the heritage of western thoughts. ۵۔ Inetnationalism in Iqbal's Poetry ۶۔ اقبال ڈے کے موقع پر مختلف اداروں مثلا پاکستان کونسل ڈھاکہ ۔ بلبل اکیڈمی ڈھاکہ یونیورسٹی کے مختلف ہال بزم فنون اور دوسری ادبی انجمنوں کی جو تقاریر کیں یا مضامین پڑھے وہ علامہ اقبال کی متنوع شخصیت زندگی اور فن سے متعلق تھے۔ ان کے ترجمے بنگلہ زبان کے ممتاز جرائد سنگبار آزاد او رموضوعات میں بھی شائع ہوئے۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہوںنے بتایا کہ علامہ اقبال کے بھوپال کے قیام نے سبھی ادیبوں شاعروں اور فن کاروں کو بے حد متاثر کیا۔ میرا وطن بھی بھوپال ہے چنانچہ کانپور لکھنو اور ڈھاکہ کے قیام کے دوران جب بھی میرا بھوپال جانا ہوا وہاں کے ادیبوں اور شاعروں سے ربط و تعلق قائم ہو جاتا۔ بھوپال میں اقبال شناسوں کی بہت بڑی تعداد تھی چنانچہ اقبال سے میرا متاثر نہ ہونا بھی فطر ی تھا۔ اختر جمال… ممتاز ادیب صحافی اور ہفت روزہ ندیم کے اولین مدیر محمود الحسن صدیقی کی صاحبزادی اور بھوپال کے آتش نفس اور مشہور شاعر احسن علی خاں کی بیوی ہیں اور ان دنوں اسلام آباد میں ہیں۔ اختر جمال سے رابطہ قائم ہونے پر میں نے ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے علامہ اقبال کو دیکھا ھتا یا ان سے کوئی اثر قبول کیا تھا میرے خط کے جواب میں انہوںنے لکھا کہ: ’’…جہاں تک اثرات کا تعلق ہے تومیں تو کیا کوئی ادیب و شاعرایسا نہ تھ جس نے علامہ اقبال کے قیام بھوپال سے اثر قبول نہ کیا ہو۔ میرے پاس ندیم بھوپال کے کچھ پرچے آج بھی محفوظ ہیں۔ ان پرچوں اور عبدالقوی دسنوی کے مضمون۔ علامہ اقبال بھوپال میں سے استفادہ کر کے میں نے ایک مضمون اقبال اور بھوپال ماہنامہ فنون لاہور میں لکھا تھا۔ وہ بھیج رہی ہوں۔ شاید آپ کے کسی کام آ سکے‘‘۔ مضمون پڑھ کر کچھ نئی باتیں میرے علم میں آئیں۔ چنانچہ میں نے جستہ جستہ اقتباسات پیش خدمت ہیں اس مضمون سے یہ بھی پتا چلا کہ کم سنی کے زمانے میں وہ ایک بار علامہ اقبال سے ملنے بھی اپنے والد محمود الحسن صدیقی کے ساتھ گئی تھیں۔ مضمون ے آغاز میں انہوںنے جو اظہار خیال کیا ہے اس کے مطالعہ سے بھوپال میں علامہ اقبال کے اثرات پر بھی روشنی پڑتی ہے… ملاحظہ ہو…: ’’…بھوپال کے مدراس میں اردو ذریعہ تعلیم تھی۔ اردو دفتری عدالتی اور سرکاری زبان تھی۔ شہر میں اردو کے بڑے بڑے کتب خانے تھے رسالے اور اخبارات نکالے جاتے تھے۔ اور بھوپال کی ادبی اور تہذیبی زندگی میں اقبال کا اتنا چرچا تھا اور وہاں کے لوگ اقبال سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیںہے۔ میں نے آنکھیں کھول کر یہ ماحول دیکھا تھا اور اقبال کی محبت مجھے مقدس ورثے کی طرح ملی تھی۔ اس زمانے میں بھوپال میں جدوجہد آزادی کا بھی ایک مشہور گڑھ تھا مولوی برکت اللہ بھوپالی جو جمال الدین افغانی کے دست راست تھے۔ افغانستان میں ہندوستان کی انقلابی حومت کے وزیر اعظم تھے۔ برکت اللہ بھوپالی ۱۹۲۷ء میں انتقال فرما چکے تھے لیکن بھوپال میں ان کی تحریک کے گہرے اثرات تھے اور کئی سیاسی جماعتیں تھیں۔ نواب صاحب ہندوستان کی سیاسیات میں ایک اہم حیثیت رکھتے تھے… وہ اعتدال پسند تھے۔ ان کے تعلقات برطانوی ہند کے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں دونوں سے دوستانہ تھے۔ اس لیے جب بھی باہمی بات چیت ہوتی تو نواب صاحب ثالث کا کام کرتے۔ اقبال سے بھوپال جا جو تعلق رہا ہے اس کی بہت سی یادیں خطوط اقبال روزگار فقیر اور گنج ہائے گرانمایہ میں محفوظ ہیں۔ اس لیے میں اپنے اس مضمون میں ان باتوں کا تذکرہ نہیں کروں گی۔ میں وہ باتیں ہی لکھ رہی ہوں جو میں نے اپنے بزرگوں سے سنی ہیں۔ یا جو یادیں اور باتیں اقبال کی وفات کے بعد ہفت وار ندیم میں شائع ہوئیںاور جو اتفق سے اس وقت بھی میرے پاس ہیں۔ میرے والد محمود الحسن صدیقی مرحوم ندیم کے ایڈیٹر تھے۔ ندیم ویکلی والد صاحب نے سر راس مسعود کے ایما پر جاری کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ ماہنامہ ظل السلطان کے مدیر تھے۔ والد کا علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانہ سے ہی سرراس مسعو د سے تعلق تھا۔ اور ان کے بھوپال کے دوران قیام یہ تعلق بہت بڑھ گیا تھا۔ والد کہا کرتے تھے کہ سر را س فیض صحبت سے جو کچھ اہیں حاصل ہوا وہ زندگی کے تما م تجربات سے زیادہ قیمتی تھا۔ جس زمانے میں علامہ اقبال بھوپال تشریف لائے والد کو بھی بارہا ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی اور جب وہ ان دنوں کی باتیں سنایا کرتے تھے تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ نواب صاحب بھوپال اور علامہ اقبال کے تعلقات بہت قریبی اور دوستانہ تھے۔ وہ غالباً اپنے علی گڑھ کے زمانہ قیام سے ہی اقبال کے قریب آئے تھے۔ نواب صاحب نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اور ایک عرصہ دراز تک وہ علی گڑھ یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہے تھے۔ علامہ ۸۱۹۲۹ میں علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ علی گڑھ کے طلبہ ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے علامہ اقبال کے ایک خط میں جو غلام بھیک نیرنگ کے نام ہے پتہ چلتا ہے کہ وہ ۱۹۲۷ سے قبل ہی نواب صاحب بھوپال سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک چندے کے سلسلے میں انہیںنواب صاحب کی مدد کا یقین تھا۔ ۳ جنوری ۱۹۲۷ء کو لکھتے ہیں کہ اگر کچھ کمی چندے میں رہ گئی ہو تو والی بھوپال سے مدد کی التجا بہتر ہو گی۔ اختر جمال اپنے مختصر مضمون میں آگے چل کر لکھتی ہیں: علامہ اقبال کے بھوپال آنے کی خبر کئی دن سے مشہور تھی۔ جس گاڑی سے علامہ اقبال تشریف لائے وہ رات کو پہنچتی تھی۔ بھوپال کے عوام اور خواص سب ہی اقبال کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب تھے۔ عمائدین شہر اسٹیشن پر موجود تھے۔ نواب صاحب نے اپنے نمائندے کے طور پر اپنے ملٹری سیکرٹری سر اقبال محمد خا ں کو بھیجا تھا۔ سر راس وقت سے پہلے سٹیشن پہنچ گئے تھے اور وہاں بے تابی سے ٹہل ٹہل کر ریل کا انتظار کر رہے تھے ۔ جب گاڑی سٹیشن پر رکی تو ایک صاحب افغان ٹوپی شلوار قمیص اور ڈھیلے سے کوٹ میں ملبوس سٹیشن پر اترے۔ والد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ سر راس تقریباً دوڑ کر علامہ کے قریب گئے اور محبت سے گلے ملے اور ان کی پیشانی پر بوسہ لیا۔ وہ اتنی محبت اور گہرے خلوص سے ملے کہ اسٹیشن پر کھڑے ہوئے لوگ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ۔ سر راس ممسعود نے عمائدین اور معززین شہر کا علامہ سے تعارف کرایا پھر علامہ کے خادم علی بخش کو بلا کر ان سے مصافحہ کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ علامہ کے پاس بہت مختصر سامان تھا جو سر راس مسعود کی گاڑی کے پیچھے ہی آ گیا تھا۔ نواب صاحب کی خواہش تھی کہ علامہ شاہی مہمان خانے میں قیام کریں لیکن علا مہ نے فرمایا کہ اس بار تو وہ اپنے دوست ہی سے ملنے آئے ہیں ۔ اس لیے مناسب ہو گا کہ وہ سر راس کے ساتھ قیا م کریں۔ علامہ صاحب کا قیام ریاض منزل میں ہوا۔ یہ مکان بھوپال کے مشہور بڑے تالاب کے کنارے پر ہے۔ ریاض منزل کے بالائی کمرے سے جہاں علامہ کو ٹھہرایا گیا اس تالاب کا منظر بے حد حسین نظر آتا ہے۔ ایک طرف شملہ کی سرسبز پہاڑیاں اور روشنیاں نظر آتی تھیں۔ اور تالاب کا دو ر تک پھیلا ہوا پانی طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک عجیب و غریب طلسماتی فضا پیدا کرتا دکھائی دیتا تھا۔ اس کمرے میں اس منظر کو دیکھ کر اقبال سے اپنی مشہور نظم نگاہ کہی جس کا آخری شعر ہے : نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی ممنون حسن خاں صاحب اس زمانے میں سرراس مسعود کے پرسنل سیکرٹری تھے۔ سر راس نے ان کو علامہ کی خدمت میں رہنے کا حکم دیا تھا اور دفتر سے ان کی حاضری معاف کر دی تھی۔ علامہ نے سر راس سے کہا تھا کہ انہیں جس چیز کی ضرورت ہو اور جو کام ہو وہ ممنون حسن خاں کو اطلاع دے دیں۔ وہ ان کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے۔ ممنون حسن خاں علامہ کی اس خدمت پر فخر کرتے ہیں اور اسے اپنی بہت بڑی سعادت سمجھتے ہیں۔ ایک اور جگہ لکھتی ہیں: ممنون حسن خاں صاحب کے ذمے خط و کتابت کا کام بھی تھا۔ علامہ کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ہندوستان کے کونے کونے سے خطوط آتے تھے۔ اور سر راس کی طرح ان کا علیحدہ میل بیگ جاتا تھا۔ تمام خطوط ممنون حسن خاں صاحب اپنے پاس رکھتے تھے۔ صبح کے وقت تمام خطوط علامہ صاحب کو سناتے پھر علامہ جو کچھ جواب میں لکھواتے وہ اسے پنسل سے نوٹ کر لیتے اور بعد میں صاف کر کے یا ٹائپ کر کے علامہ کے دستخط کے لیے پہنچا دیتے تھے۔ ان خطوط میں سب سے زیادہ علی گڑھ کے طلبہ اور استاتذہ کے ہوتے تھے جو علامہ کی خیریت جاننے کو بے چین ہوتے تھے اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ علامہ اقبا ل کی بھوپال میں مصروفیات اور اپنی علامہ سے ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں: علامہ… بھوپال میںزیادہ تر آرام ہی کرتے تھے۔ باہر بہت کم نکلتے تھے مگر جامع مسجد اور اکثر موتی مسجد میں نماز پڑھنے ضرور جاتے تھے۔ سر راس مسعود کے گھر پر اقبال کے مداح اور عقیدت مند برابر جاتے رہتے تھے۔ علامہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ اپنی تکلیف اور بیماری کا احساس ملاقاتی کو نہ ہونے دیتے تھے۔ جن لوگوں کو اس زمانے میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہے وہ انتہائی محبت اور احترام سے اس زمانے کی باتیں یاد کرتے ہیں۔ مرحوم رائے زادہ آفتاب جو اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے والد مرحوم کی معیت میں علامہ کی خدمت میں اکثرجایا کرتے تھے۔ اور علاہم سے حد درجہ عقیدت رکھتے تھے۔ علامہ سے عقیدت اور محبت میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک تھے۔ میں اسے اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھتی ہوں کہ نہ صر ف یہ کہ میں نے ان سے بہت سے لوگوں سے علامہ کی باتیں سنی ہیں بلکہ بچپن میں علامہ کی دید کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا ہے۔ ان دنوں مجھے پڑھنا نہیں آتا تھا اسکول میں داخل نہیں ہوئی تھی مگر گھر میں رشتے کے دوسرے بڑے بہن بھائیوں سے علامہ اقبال کی نظمیں سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور ایک مکڑا اور مککھی سنی تھیں۔ ایک دن صبح جب اباجان سر راس مسعود کے ہا ںجا رہے تھے میں نے اور میری بہن نے بھی ساتھ چلنے کی ضد کی تو انہوںنے کہا کہ کل علامہ اقبال وہاں آئے ہوں گے جو مسلمانوں کے سب سے بڑ ے شاعر ہیں تمہیں اس شرط پر ساتھ لے جائیں گے کہ سلام کرو گی… ریاض منزل میں بڑے تالاب کے کنارے بہت مزا آتا تھا۔ مچھیرے مچھلیاں پکڑتے نظر آتے۔ کشتیاں چلتی ہوئی دکھائی دیتیں۔ ارو پھر روس مسعود کا باغ بہت بڑا تھا۔ جس میں خوبصورت تتلیاں تھیں اس لیے ہم دونوں بہنوں نے سلام کرنے کا پکا وعدہ کر لیا اگرچہ راستہ بھر سلام کے خیال سے دل دھڑکتا رہا۔ ریاض منزل کے برآمدے میں پہنچ کر ایک بزرگ کو کرسی پر بیٹھے ہوئے سر راس مسعود سے باتیں کرتے دیکھا۔ وہ شلوار قمیص پہنے ہوئے تھے۔ کندھوں پر چادر لپٹی ہوئی تھی۔ قریب ہی حقہ رکھا تھا۔ ہم نے جھک کر مری مری سی آواز میں آداب کہا۔ سر راس نے کہا کہ یہ محمود کی بچیاں ہیں بہت شرماتی ہیں۔علامہ نے دعا دی اورنام پوچھے۔ اب تو ہماری آواز حلق میں اٹک گئی۔ اباجا ن نے ہم دونوں کے نام بتائے اور اس کے بعد ہم نے فوراً باغ کی راہ لی۔ جب گھنٹہ بھر بعد ابو نے ہمیں چلنے کے لیے بلوایا تو پھر ایک بار سلام کا مرحلہ طے کرنا پڑا۔ واپسی پر ابو نے کہا کہ تم بڑی ہو کر اس بات پر فخر کیا کرو گی کہ ہم نے بچپن میں علامہ اقبال کو دیکھاتھا۔ اور آج جب ابو کی اتنی بہت سی محبت بھری باتیں یاد آتی ہیں تو یہ بات بھی ان کا بڑا احسان معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنی شرمیلی اور بیوقوف بچیوں کو اپنے ساتھ علامہ کے حضور میں لے گئے تھے۔ ممنون صاحب مہینے میں دو بار ضرور علامہ کو خط لکھتے تھے اور وہ بڑی باقاعدگی سے ان خطوط کا جواب دیتے تھے۔ انتقال سے صرف دو دن پہلے ممنون صاحب کو ان کا آخری خط ملا تھا جس میں انہوںنے لکھا تھا: … مائی ڈیر ممنون۔ آپ کا خط کئی روز ہوئے ملا تھا۔ افسوس کہ شدید علالت کی وجہ سے جواب نہ لکھوا سکا۔ دمے کے متواتر دوروں نے مجھے زندگی سے تقریباً مایوس کر دیا ہے مگر اب خدا کے فضل سے افاقہ ہے۔ آنکھوں کا آپریشن مارچ میں ہونے والا تھا مگر دمہ کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا۔ اب بشرط زندگی انشاء اللہ ستمبر میں ہو گا۔ ممنون حسن خان کے نام جو خطوط آتے تھے ان کا اقبال کے سب ہی عقیدت مند بے چینی سے انتظار کرتے تھے اور ان کو سنتے تھے۔ یوم اقبال پر مجھے بچپن کا ایک واقعہ اکثر یاد آ جاتا ہے۔ ایک دن میں جب کسی کام سے باہر کے مکان میں گئی تو میں ںے وہاں ابو اور ان کے عزیز دوست ممنون حسن خاں کو زور زور سے روتے ہوئے دیکھا۔ ابو کو اس سے پہلے میں نے روتا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اندر آ کر مکان میں امی اور نانامیاں کو بتایا کہ ابو اور ان کے دوست عورتوں کی طرح رو رہے ہیں۔ سب میری بات سن کر حیران ہو گئے۔ جب ابا خود اندر آئے تو انہوںنے بتایا کہ ممنون حسن خاں یہ اطلاع لے کر آئے ہیں کہ علامہ اقبال کا آج صبح پانچ بجے لاہور میں انتقال ہو گیا۔ یہ بات تو بہت بعد میں سمجھ آئی کہ ابو اور ممنون حسن خاں اس زور اس قدر تڑ پ کر کیوں رو رہے تھے بچپن میں تو یہ واقعہ یاد رکھنے کی وجہ صرف ابا کا رونا تھا ۱؎۔ میری درخواست پر اختر جمال نے ہفت روزہ ندیم میںشائع شدہ مضامین کا مختصر سا اشاریہ لکھ کر بھیجا جو درج ذیل ہے افسوس کہ ندیم کی پوری فائل نہ اختر جمال کے پاس موجود ہے نہ تلاش و جستجو کے بھوپال میں کسی جگہ مل سکی ورنہ تمام شائع شدہ مضامین کا مکمل اشاریہ شامل کتاب ہو جاتا۔ پھر بھی یہ چند حوالے اس امر کی نشاند ہی ضرور کرتے ہیں کہ بھوپال میں اقبال سے اثرات قبول کرنے والوں کا ایک بڑا حلقہ پیدا ہو گیا تھا۔ اشاریہ ہفت روزہ ’’ندیم‘‘ ۱۔ اقبال کا نظریہ شاعری از مائل نقوی… ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ء ۲۔ شاعر مشرق علامہ اقبال (اداریہ) از محمود الحسن صدیقی… ۱۵ اپریل ۱۹۳۸ء ۳۔ علامہ ڈاکٹرسر محمد اقبال… از محمد احمد سبزواری… ۱۵ مئی ۱۹۳۸ء ۴۔ علامہ اقبال کی یاد میں… از ممنون حسن خاں… ۲۲ مئی ۱۹۳۸ء ۵۔ اقبال کی تعلیم … از ڈاکٹر سید ظفر الحسن یکم جولائی ۱۹۳۸ء ان مضامین کے علاوہ ندیم میں اقبال کی متعدد نظمیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ صرف ایک نظم کا حوالہ مل سکا ہے جو علامہ نے سر راس مسعود کی رحلت پر پڑھی تھی۔ ۱۔ مسعود مرحوم… از علامہ اقبال… ۲۲ فروری ۱۹۳۸ء ۱؎ فنون مئی جون ۱۹۷۰ء صفحہ ۶۵ تا ۷۰ ٭٭٭ اقبال کے تاثرات دنیا کی عظیم المرتبت اور لافانی شخصیتوں کے کارناموں پر نظر ڈالیے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ قدرت انہیں کسی نہ کسی بلند نصب العین کی تکمیل کے لیے ہی خلق کرتی ہے۔ ایسی شخصیتیں جب تک زندہ رہتی ہیں ملک و ملت کو زندگی کے صحیح اور بلند تر مقصد کا پیغام پہنچاتی ہیں اور جب دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں تو ان کے چھوڑے ہوئے نقوش پا قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ آفاق گیر شخصیتوں کا ہر دور اور ہر زمانے میں یہی مشن رہا ہے۔ اقبال ایسی ہی بلند و برتر بزرگ و محترم ارو نزدہ جاوید شخصیتوں میں سر فہرست ہیں جنہوں نے زندگی بھر فکر و عمل کا پیغام دیا اور جب وہ جدا ہوئے تو ملک و ملت کو انتا کچھ قیمتی سرمایہ دے گئے جس سے قوموں کی تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ آزادی اور بیداری کی وہ لہر جس نے پورے برصغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا سچ پوچھیے تو اقبال کے انقلاب انگیز اور حیات افروزپیغام کا ہی نتیجہ تھا برصغیر میںایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر شخص اقبال کا دل دادہ تھا۔ اور یہ خوش نصیبی غالب کے بعد اگر کسی اور باکمال شاعر کے حصے میں آئی ہے تو وہ اقبال کی ذات ستودہ صفات تھی۔ کیا مسلمان کیا ہندو کیا سکھ کیا دیگر مذاہب والے سبھی اقبال کے فکر انگیز اور بصیرت افروز کلام کے گرویدہ و شیدا تھے بظاہر وہ دنیا سے رخصت ہو چکے تھے مگر برصغیر میں جگہ جگہ ان کی انقلاب آفریں تقاریر کے ترجمے ہو رہے تھے۔ اور یادگاریں قائم ہو چکی تھیں۔ کہیں ان کے فلسفہ خودی پر کام ہو رہا تھا کہیں ان کی انقلاب آفریں تقاریر کے ترجمے ہو رہے تھے کہیں ان کے کلام کے دوسری زبانوں میں ترجمے ہو رہے تھے۔ کہیں ان کی یاد میں ادارے قائم ہو رہے تھیے۔ بھوپال میں ہی ان زندہ و باعمل شہروں میں شامل تھا جہاں پہلی بار ان کی عظمت کے اعتراف میں اقبال لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ اور یہ اقبال کی ذات سے اہل بھوپال کی وابستگی کا پہلا عملی قدم تھا جو بھوپال کے چند سر پھرے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اٹھایا۔ اس لائبریری کے بارے میں بھوپال کے جواں سال محقق شمیم احمد ۱؎ نے جو تفصیلات فراہم کی ہیں ان کا مطالعہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا: ۱؎ ذاتی مکتوب بنام راقم الحروف مورخہ ۲۶ نومبر ۱۹۶۴ء اقبال لائبریری کا قیام و افتتاح یکم اکتوبر ۱۹۳۹ء کو عمل میں آیا۔ اس کے بانی عبداللطیف خاں تھے سابقہ مجلس انتظامیہ میں جو حضرات شامل تھے ان کے نام یہ ہیں: ۱۔ سید آفتاب الدین ایم اے(صدر) ۲۔ ظفر علی خاں (نائب صدر ) ۳۔ سید ساجد علی (جنرل سیکرٹری) ۴۔ احمد مصطفے سیکرٹری ۵۔ حیات صدیقی (سیکرٹری نشر و اشاعت) ۶۔ محمد عمر انصاری منتظم ۷۔ سید حامد جعفری (معتمد) ۸۔ عبداللطیف خاں (خازن) ۹۔ عبدالباسط (رکن) ۱۰۔ سید شوکت علی (رکن) ۱۱۔ عبدالعلیم انصاری (رکن) ان حضرات کے بعد بھوپال کے جن اقبال شناسوں نے اقبال لائبریری کی مجلس عاملہ اور مجلس انتظامیہ میں شمولیت اختیار کی ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۱؎ مجلس عاملہ ۱۔ سید آفتاب الدین ۲۔ سید ساجد علی ۳۔ محمد انصاری ۴۔ سید حامد جعفری ۵۔عبداللطیف خاں مجلس انتظامیہ ۱۔ سید سلیمان نقوی (سیکرٹری) ۲۔ انعام الدین (جوائنٹ سیکرٹری) ۳۔ واحد علی (سیکرٹری نشرواشاعت) ۴۔ رشید انجم (خازن) محمد خالد (منتظم) ۵۔ سید عزیز الدین (رکن) نامزد ممبران ۱۔ سید مسعود علی بی ۔ اے ۲۔ محمد انس خاں بی ۔ اے ۳۔ عتیق احمد صدیقی اقبال لائبریری کی کل کتابوں کی تعداد … ۳۰۰۰ اردو کی کتابیں … ۲۳۰۰ ہندی کی کتابیں… ۳۰۰ انگریزی کی کتابیں… ۴۰۰ اقبال کی تصانیف… ۱۵ بہ تفصیل ذیل (۱) ضرب کلیم (۲) زبو ر عجم (۳) پیام مشرق (۴) ارمغان حجاز (۵) جاوید نامہ (۶) بال جبریل (۷) اسرار و رموز (۸) بانگ درا (۹) باقیات اقبال (۱۰) اقبال اورنونہال (۱۱) انتخاب دیوان اقبال مرتبہ تاج آفس (۱۲) خطبات اقبال مرتبہ رضیہ فرحت بانو (۱۳ ) اسلام کے سیاسی تصورات (۱۴) کلیات اقبال (ناشر نیو تاج آفس) (۱۵) فلسفہ عجم ان کے علاوہ اقبال پر کتابیں … ۲۵(بہ تفصیل ذیل) ۱۔ فکر اقبال … غلام دستگیر ۲۔ آثار اقبال… غلام دستگیر ۳۔ اقبال پر ایک نظر… سید محمد شاہ ۴۔ مضامین اقبال … محمد حسین تاج ۱؎ ان حضرات کے علاوہ آصف شاہمیری بھی ان نوجوانوں میں شامل تھے جنہوںنے اقبال لائبریری کو کئی سال تک بخیر و خوبی چلایا افسوس کہ وہ کے دوران ان کا انتقال ہو گیا ۵۔ تصوف اقبال… حبیب النساء بیگم ۶۔ ملفوظات اقبال … محمود نظامی ۷۔ رموز اقبال… ڈاکٹر میر ولی الدین ۸۔ اصلاحات اقبال… بشیر الحق دسنوی ۹۔ اقبال کی شاعری … عبدالمالک ۱۰۔ اقبال (انگریزی میں)… عظیم بیگ ۱۱۔ اقبال کا نظریہ فن… عزیز احمد ۱۲۔ اقبال … محمد حسین خاں ۱۳۔ اقبال… شائع کردہ انجمن ترقی اردو ۱۴۔ اقبال…مجنوں گورکھپوری ۱۵۔ حیات اقبال… شائع کردہ تاج آفس ۱۶۔ اقبال اورٹیگور… عارف بٹالوی ۱۷۔ روح اقبال… ڈاکٹر یوف حسین خان ۱۸۔ رسالہ نیرنگ خیال… اقبال نمبر ۱۹۔ مقام اقبال … اشفاق حسین ۲۰۔ اقبال… مولوی احمد الدین ۲۱۔ سیرت اقبال… یکتا حقانی ۲۲۔ اقبال امام ادب… رئیس احمد جعفری ۲۳۔ اقبال قرآن حکیم کی روشنی میں… محمد یوسف ۲۴۔ اقبال اس کی شاعری اور پیغام … علی اکبر ۲۵۔ شرح اسرار خودی … پروفیسر محمد یوسف اقبال لائبریری میں اور پبلک دارالمطالعہ شاعر مشرق کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے یکم اکتوبر ۱۹۳۸ کو معرض وجود میں آیا۔ یہ وسط شہر کے مشہور بازار ابراہیم پورہ میں واقع تھا۔ اور قیام سے آج تک نہایت خاموشی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ ابتدائی دور میں عبداللطیف خاں کے ساتھ بھوپال کے ایک سیاسی و سماجی کارکن آصف شاہمیری نے بھی عملاً اس کی ترقی میں سرگرم حصہ لیا۔ کئی سال تک پابندی سے ۲۱ اپریل کویوم اقبال منایا جاتا رہا۔ کبھ کبھی یوم اقبال پر کل ہند کے پیمانے پر مشاعرے بھی منعقد ہوئے۔ تقسیم ملک کے بعد بھی اقبال لائبریری کی عملی سرگرمیا جاری رہیں۔ مختلف مواقع پر لائبریری کے زیر اہتمام کے لیے خصوصی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ ۱۹۶۴ء سے ایک نیا سلسلہ کار پردازان لائبریری نے شروع کیا ہے کہ وہ شہر کے معزز حضرات اور سرکردہ ادیبوں شاعروں اور صحافیوںکو ہر ماہ مدعو کرتے ہیں۔ ان سے مفید مشورے حاصل کرتے ہیں۔ او ر اقبال لائبریری کے مختلف پروگراموں کا تعار ف کراتے ہیں۔ اب تک جن مقتدر اور ممتاز شخصیتوں نے اقبال لائبریری کے بارے میں اپنی گراں قدر آراء اور اس لائبریری کو بہ نفس نفیس دیکھ کر تحریر کی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ’’میرے لیے لائبریریاں ایک تہذیبی ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جن سے قوم کے شعور کا افق روشن ہوتا ہے اور مطالعہ کا شوق نہاں خانے میں جھاننے کا موقع دیتا ہے۔ مجھے مسرت ہے کہ اقبال لائبریری کے دیکھنے اور ا س کے مخلص کارکنوں سے ملنے کا موقع ملا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتب خانہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرے گا اور ایسی ترقی کرے گا کہ بھوپال کا دل بن جائے دھڑکتا ہوا دل ‘‘۔ …پروفیسر احتشام حسین ٭٭٭ ’’آپ نے ایک شمع جلائی ہے۔ ضرورت ہے کہ چراغاں ہو۔ اگر جگہ بہتر ہو تو آرام دہ کرسیاں میزیں اور عمدہ قسم کی ہوں تو آپ اس نیک کام یعنی علم کی ترویج و ترقی کوزیادہ اچھی طرح کر سکتے ہیں۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ آپ حکومت مدھیہ پردیش ۱؎ سے کہیے کہ اس لائبریری کو گرانٹ دے ارباب زر سے کہیے کہ چندہ دیں۔ اس طرح لائبریری کو اور بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے‘‘۔ …سجاد ظہیر ٭٭٭ ’’میں مجبور ہو گیا کہ وہ سب کچھ کہوں جو ایک بہترین کتاب گھر کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ آج میں لائبریری میں دوسری بار آیا ہوں۔ پہلے دن کی حاضری رواروی کی تھی۔ خدائے بزرگ و برتر کا ر پردازان کے حوصلے بڑھائے‘‘۔ … (حامد سعید خاں حامد) ٭٭٭ ’’لائبریریاں عوام کو علم و ادب سے روشناس کرانے کا اور ان کے ذوق کو بلند کرنے کا موثر ذریعہ ہی ۔ مجھے یقین ہے کہ اقبال لائبریری اسی طرح رواں دواں کام جاری رکھے گی اور میری دلی اور نیک دعائیں اس کے ساتھ ہیں‘‘۔ …(عاد ل رشید) ٭٭٭ ’’عوام کے لیے اچھے کتب خانوں کی بڑی ضرورت ہے جو انہیں اچھی کتابیں بہم پہنچائے اقبال لائبریری کے کارکنان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ انہوںنے ایک اچھی لائبریری تیار کی ‘‘۔ …(علی سردار جعفری) ’’بھوپال کی تہذیبی سطح کو بلند کرنے کی جتنی کوششیں ہو رہی ہیں ان میں اس لائبریری کا بھی نمایاں حصہ ہے جسے فراموش نہ کرنا مناسب ہے نہ آسان۔ س کے لیے تمام کارکنان مبارک باد کے لائق ہیں‘‘۔ …(کیفی اعظمی) ۱؎ ۱۹۵۶ء میں بھوپال مدھی پردیش کا صدر مقام بن گیا ۔ مدھیہ پردیش میں ریاست بھوپال کے علاوہ ریاست اندور اور ریاست گوالیار وغیرہ بھی شامل کر دی گئیں اور وسط ہند کی ان ریاستوں کے وفاق کو مدھیہ پردیش کا نام دیا گیا۔ ’’بھوپاہل اپنے مخصوص نظریات و افکار کا گہوارہ علم و ادب رہا ہے جو مخلص اس گنجینہ علوم کے کارکنا ن عظمت و باق ہیں ان کی جدوجہد کا یہ آغاز ی دور مستقبل بلند کا خود ضامن ہے‘‘۔ …(انور صابری) ’’اردو کی لائبریریاں یوں تو بہت کم کم نظر آتی ہیں اب تو اور بھی کم ہیں۔ اس پس منظر میں مدھیہ پردیش کی راج دھانی میں یہ عمدہ لائبریری دیکھنے آیا تو مسرت ہوئی‘‘۔ …(حبیب تنویر) ’’ملک و قوم کے لیے صالح ادب کی سخت ضرورت ہے۔ اقبال لائبریری اس سلسلے میں فال نیک ہے عوام کی ادبی خدمت کرنے والوں کو میں نے ان کی ادبی سرگرمیوں کے لیے مبارک باد دیتا ہوں‘‘۔ …(عرش ملسیانی) ’’عوام کوآج مطالعہ کے لیے صالح ترقی پسند ادب کی ضرورت ہے اور اقبال لائبریری جو عرصے سے عوام کی ادبی خدمت انجام دے رہی ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کی ضرور کوشش کرے گی‘‘۔ …(جاں نثار اختر) ’’اقبال لائبریری بھوپال کی شان دار علمی و ادبی روایات کا ایک زندہ و متحرک ادارہ ہے۔ اس کے مخلص منتظمین اور پرجوش کارکن اقبال کے فلسفہ اور اس کی تعلیمات سے سرشار ہو کر جس اعتماد حوصلہ اومنگ اور لگن سے ایک معیاری لائبریری بنانے کی دھن میں لگے ہوئے ہ۸ٰں وہ اس کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہ لائبریری صرف ایک کتاب گھرہی نہیں ایک ثقافتی مرکز بھی ہے۔ اس ترقی پذیر ادارہ کی ضروریات کی تکمیل ایک قومی ضرورت ہے۔ سر دست لائبریری کے پیش نظر ایک موزوں عمارت کی تعمیر نادرمخطوطات کتب کی فراہمی اور ایک معیاری مجلہ کا اجراء ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں عوام کی دلچسپی اور حکومت کے حقیقی تعاو ن و سرپرستی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں‘‘۔ …(سید قمر الحسن چیف ایڈیٹر روزنامہ ندیم بھوپال) ’’بھوپال کی ادبی تحریکات پر کچھ لکھتے وقت اقبال لائبریری کو نظر انداز کرنا مشکل ہے اور لائبریری نے بھوپال میں ادبی سرگرمی پیدا کرنے میں بڑا حصہ لیا ہے ‘‘۔ …( کوثر چاند پوری) ’’لائبریریوں کا قیام قوم و ملت کی فلاح کے لیے اشد ضروری ہے۔ مجھے مسرت ہے کہ میں اقبال لائبریری آیا یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ لائبریری منتظمین اور اراکین بڑی خوش اسلوبی سے ا س ادارہ کو چلا رہے ہیں میری دلی مبارکباد قبول کیجیے‘‘ …(عبدالحمید انصاری مالک روزنامہ انقلاب بمبئی) ’’مجھے یقین ہے کہ کوزہ سمندر میں بدل جائے گا کیونکہ اقبال لائبریری میرے لیے ایک نہایت حیرت انگیز اور مسرت افزا چیز ہے۔ اس لائبریری کے منتظمین میں خلوص کار کا وہ جذبہ نظر آتاہے جس نے حیات جاوداں کی شمعیں روشن کی ہیں‘‘۔ …(افسر سیمابی) ’’اقبال لائبریری کے سلیقہ شعار کارکنوں کا آئینہ اقبال لائبریری ہے جس میں ان کی عرق ریزی اور علم و فن سے محبت کا عکس جھلکتا ہے‘‘۔ …(مظفر شاہجہاں پوری) ’’اقبال لائبریری بھوپال کی قابل فخر اور عظیم لائبریری ہے جس کے ذریعہ تشنگان ادب برابر سیر اب ہوتے رہے ہیں اور آج بھی بفضلہ یہ سلسلہ جاری ہے ۔ خدا کرے ہمیشہ ہمیشہ یہ لائبریری اسی طرح علمی اور ادبی خدمت کرتی رہے‘‘۔ …(شعری بھوپالی) اقبال لائبریری کے زیر اہتما م جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ سالہا سال تک یوم اقبال وسیع پیمانہ پر منایا جاتا رہا جس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح‘ مہاتما گاندھی‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق ‘ سرتیج بہادر سپرد‘ پنڈت جواہر لعل نہرو‘ راج گوپال اچاریہ‘ ڈاکٹر راجندر پرشاد مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد الیا س برنی وغیرہ ایسے اکابر پیغامات ارسال کیا کرتے تھے جو یوم اقبال کے موقعوں پر سنائے جاتے تھے۔ جن بلند پایہ اور مقتدر شخصیتوں نے یوم اقبال کے سلسلے میں اقبال کی سیرت و شخصیت‘ ان کے افکار و نظریات اور ان کی شاعرانہ عظمت کو تحریر و تقریر کی صورت میں خراج عقیدت پیش کیا ان میں علامہ سید سلیمان ندوی‘ پروفیسر سید احتشام حسین‘ مولوی محمد ابراہیم‘ محمد احمد سبزواری‘ حکیم سید ضیاء الحسن ‘ ڈاکٹر سید عبدالرحمن‘ ڈاکٹر سلیم احمد رضوی‘ سردار جعفری‘ کوثر چاند پوری‘ کامتا پرشاد لالہ ملک راج‘ سورج کلا سرور‘ حامد حسین باسط بھوپالی‘ شعری بھوپالی‘ ایم عرفان مولانا وجد الحسینی‘ آفاق احمد‘ زہرہ جمال‘ تربینی سرن شاد‘ ابراہیم یوسف‘ عبدالحلیم انصاری‘ حبیب فخری گوہر جلالی‘ مقصود عمرانی‘ آصف شاہمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ۱۲ جون ۱۹۵۸ء کو یوم اقبال کے موقع پر منتظمین نے جو پوسٹر شائع کیا تھا اس کے مطالعہ سے بھوپالیوں کی اقبال سے عقیدت و محبت کا ناقابل تردید ثبوت ملتا ہے۔ اس پوسٹر سے جہاں ایک طرف اقبال کے گہرے اور مثبت اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہیں یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تقسیم ہند کے باوجود اہل بھوپال کے دلوں سے اقبال سے والہانہ عقیدت کی شمعیں اسی تابانی کے ساتھ روشن ہیں۔ وہ اپنے محبوب شاعر سے کل کی طرح آج بھی اپنا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں پوسٹر کا متن حسب ذیل ہے: ’’زندہ قومیں اپنے نامور اسلاف کی یاد تازہ کر کے موجودہ نسلوں کو مردہ پرستی کا نہیںزندگی کا درس دیتی ہیں۔ علامہ اقبال گو اس عالم آب و گل میں موجود نہیں مگر ان کی شاعری اور ان کا پیغام آج بھی زندہ اور پائندہ ہے۔ اوری ہ ان کے افکار و نظریات کی صدائے بازگشت ہی ہے کہ ہر سال ہنداور پاکستان میں جا بجا اس عظیم انسان کو مختلف صورتوں میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اقبال کا پیغام کیا تھا؟ بچھڑی ہوئی انسانیت کے لیے قم کی جاں بخش آواز ؟ پست ہمتی اور بے عملی کے لیے حوصلہ افزا للکار ۔ تنگ نظری اور تعصب کو وسیع المشربی اور فراخ حوصلگی کا درس۔ خود فراموشی اور خود فریبی کو خودی اور خود آگاہی کی تعلیم۔ انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کر دینے کی تلقین۔ غرضکہ ہماری ہیئت اجتماعی کو فرد یا جمعیت کی حیثیت سے جتنے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان سب کا حل اقبال کے کلام اور پیغام میں موجود ہے۔ چنانچہ اسی پیغام سے ایک نئی نسل اور اسی کلام سے ایک نئی تازگی حاصل کرنے کے لیے ہم یوم اقبال منا رہے ہیں اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ اس یوم اقبال میں مردہ پرستی کی رسوم ادا نہیں کیے جائیں گے بلکہ مردوں کو زندہ رہنے کا چلن سکھایا جائے گا۔ کیونکہ یہ دن اس شخص کی یاد میں منایا جا رہا ہے جس نے مردہ قوموں کی رگوں میںزندگی کا گرم خون دوڑایا ہے ۱؎۔ اقبال کی بھوپال سے وابستگی ارو ان کی بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرات کا ایک اور دستاویزی ثبوت ہمیں اس کتاب سے ملتا ہے جو تصورات اقبال کے نام سے اگست ۱۹۴۵ء میں حیدر آبا د دکن سے نفیس اکیڈمی کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مصنف بھوپال ہی کا ایک جواںسال اور قابل فخر ادیب و نقاد شاغل فخری تھا جس نے اقبال کے سانحۃ ارتحال کے فوراً بعد سے لکھنا شروع کر دیا۔ اور دو ماہ کی شبانہ روز محنت شاقہ کے بعد مسودہ تیار کر لیا۔ لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اقبال کا یہ پرستار اپنے مسودہ کو کتابی صورت میں نہ دیکھ سکا۔ بلکہ یہ کتاب اس کی جواں مرگی کے بعد بھوپال ہی کے ایک اور جواں حوصلہ ادیب و شاعر عمران انصاری کی سعی و کوشش سے طبع ہو سکی۔ عمران انصاری کی شاغل فخری سے قربت و قرابت تھی۔ چنانچہ جب یہ مسودہ ان کی نظر سے گزرا تو انہوںنے اسے اشاعت کے قابل بنایا اور نفیس اکیڈمی کے صاحب ذوق مالک محمد اقبال سلیم گاہندری نے اسے زیور طباعت سے آراستہ کیا۔ یہ کتاب اب تقریباً نایاب ہے۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد مجھے یہ کتاب دستیاب ہو سکی۔ اور جب میں نے اس کا مطالعہ کیا تو اس کے ورق ورق سے مجھے شاغل فخری کی اقبال شناسی اس کی علمیت اور اس کی اعلیٰ صلاحیت کار کاثبوت ملا۔ یہ اپنی نویت کی پہلی کتاب ہے جو اقبال کے فکر و فلسفہ کا بڑی حد تک احاطہ کرتی ہے اور جسے ہم بلا خوف تردید بھوپال کی جانب سے اقبال کے حضور پہلا قابل فخر نذرانہ عقیدت کہہ سکتے ہیں۔ ’’شاغل فخری ہندوستان کے مشہور صحافی مقالہ نگار اور افسانہ نگار تھے۔ برسوں ’’مدینہ‘‘ بجنور میں کام کیا ہے بچوں کے رسالہ ’’غنچہ‘‘ بجنور کے ایڈیٹر بھی رہے علمی ذوق کے مالک تھے۔ سب سے بڑی یادگار ’’تصورات اقبال‘‘ ہے … جوانی میں انتقال کر گئے ۲؎‘‘۔ ۱؎ علامہ اقبال بھوپال میں صفحہ ۶۶۔۶۷ ۲؎ اردو ادب کی ترقی میںبھوپا ل کا حصہ۔ صفحہ ۴۵۰ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی کے اس مختصر سے تعارف سے شاغل فخری کی عام زندگی اس کی غربت و تنگ دستی ‘ اس کے ماحول کی گھٹن‘ اس کے والد کی مخبوط الحواسی اس کے ذوق علم و کتب بینی‘ اس کی بے پناہ ذہانت اور صلاحیت کا ر کا قطعی اندازہ نہیںہوتا۔ البتہ تصورات اقبال میں عمران انصاری نے دو دو باتیں صفحات ۱ تا ۱۴ میں شاغل فخری اور اس کی زندگی کے بارے میں اپنے طور پر اور شاغل فخری کی ڈائری سے اقتباسات پیش کر کے ا س کی شخصیت اس کی خودداری اس کی حوصلہ مندی اس کے ذوق علم اور اس کے خانگی الم انگیز حالات کی جو تصویریں پیش کی ہیں انہیںپڑھ کر انسان بے اختیار آب دیدہ ہو جاتا ہے۔ فخری کی ڈائری کے اقتباسات سے پتا چلتا ہے کہ ا س نے انتہائی صبر آزما حالات میں زندگی بسر کی ۱۵ روپے ماہانہ پر مزدوری کر کے اپنے کنبہ کا خرچ چلایا۔ والد کی دیوانگی د وجوان بہنوں کی موجودگی گھر کی خستہ حالی کے باوجود اس نے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا اور چند در چند پریشانیوں محرومیوںاور ناکامیوں سے کبھی دل برداشتہ نہہوا بلکہ زندگی کی دوڑ میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا۔ ارو اس کی یہی حوصلہ مندی تھی کہ بھوپال کے مایہ ناز فرزند ابو سعید بزمی ایڈیٹر مدینہ بجنور کی جب اس پر نظر پڑی تو انہوںنے بجنور بلا کر اسے رسالہ غنچہ کا ایڈیٹر بنا دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد وہ مدینہ ایسے بڑے اخبار کا ایڈیٹر ہو گیا اور اس کی اعلیٰ صلاحیتیں دنیا کے سامنے آ گئیں وہ کتنا بڑا اقبال شناس تھا اس کے بارے میں عمران انصاری کی زبانی سنیے: ’’فخری تہذیب جدید کی پیداوار اور تہذیب جدید کا بہترین نقاد تھا۔ وہ تہذیب اسلای کا زبردست ہامی اور اسلام و قرآن کا ایسا والہ و شید ا تھا کہ یہی باعث ہے جو اس کی نگاہ صرف اقبا پر آآ کر ٹھہرتی تھی ۔ اور اس کے کلا کو سن سن کر جھوم جھوم اٹھتا تھا جس طرح کہ اس کی کتابی رٹی اورازبر کی جاتی ہیں اسی طرح اس نے اقبال کے ایک ایک مصرعہ کو سمجھا اور بوجھا تھا۔ وہ جس جس طرح حافظ قرآن تھا اسی طرح حافظ اقبال بھی ۱؎‘‘۔ وہ لگاتار کام کرنے کا بچپن سے عادی تھا۔ ڈاکٹروں نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اپنی بگڑتی ہوئی صحت پر قابو پا ن کی کوشش کرے کیونکہ اس کے پھیپھڑے متاثر ہیں۔ اس تشخیص کے باوجود فخری نے اپنی زندگی کے ہر لمحہ کو استعما ل کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ زیادہ دنوں جی نہ سکا۔ اور عین جوانی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ بلا شبہ وہ اقبال کے کلام کاحافظ تھا۔ تصورات اقبال میں اس نے اقبا ل کی فکر کے تقریباً ہر گوشہ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور حیرت ہوتی ہے کہ بھوپال کی محدود فضا میں رہ کر اس نے اپنے علم و مطالعہ اور قوت مشاہدہ میں اتنی گہرائی اور گہرائی کیونکر پیدا کر لی…! محمد اقبال سلیم گاہندری حرف آغاز میں لکھتے ہیں: ’’تصورات اقبال مرحوم شاغل فخری کے مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ شاغل ایک مدت تک مشہور اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنوور کی ادارت کاکام کرتے رہے اور ملک کے بہترین لکھنے والوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ افسوس کہ ان کی عمر نے ساتھ نہ دیا اور وہ عین جوانی میں انتقال کر گئے ان کے انتقال سے ہم نے ایک ایسے عالم کو کھویا جس کی یاد بہت دنوں تک باقی رہے گی۔ ۱؎ تصورات اقبال صفحہ ۴ یہ مسودات ہمیں مرحوم شاغل فخری کے قریب ترین عزیز اور اپنے کرم فرما جناب حافظ عمران انصاری کی عنایتوں سے ملے عمران صاحب نے ان مسودات کو بڑی امحنت سے مرتب فرمایا اور طباعت و اشاعت کے قابل بنایا ہے۔ ہم ان کی اس محنت و شوق کے لیے صمیم قلب سے شکر گزار ہیں۔ اگران میں یہ ذوق نہ ہوتا اور وہ یہ سارا کام اپنے ذمہ نہ لیتے تو شاید یہ کتاب منصہ وجود پر نہ آ سکتی ۱؎‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’تصورات اقبال میں شاغل نے اپنے مطالعہ اقبال کا ماحصل مختلف ابواب میں تقسیم و ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے اس میں اقبال کے تصورات و افکار کی دل نشیں انداز میں تشریح کی گئی ہے۔ اور اقبال کے کلام سے ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف مسائل انفرادی و اجتماعی پر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے کیا خیالات تھے اور وہ خیالات کس سرچشمہ ہدایت سے سیرابی کا نتیجہ تھے۔ شاغل مرحوم کی تحریر ساف واضح اور عالمانہ انداز کی مرتب و مربوط تحریر ہوتی ہے۔ جس میں ایک قسم کا شکوہ اور وقار بھی پایا جاتا ہے۔ مسائل کی ترتیب عموماً منطقی انداز میں کرتے ہیں۔ اور نتائج کو واضح الفاظ میں پیش کرتے ہیں ۲؎‘‘۔ آئیے اب یہ بھی دیکھیے کہ خود اس جواں مرگ ادیب نے اقبال کی موت کا کیا اثر لیا اور اس کی نظر میں اقبال کا مقام کیاتھا۔ یہ تصورات اقبال کا پیش لفظ ہے جو شاغل نے اپنے زندگی ہی میں لکھا تھا۔ اس کے مطالعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اقبال کی موت نے اسے کس طرح ہلا کر رکھ دیا۔ اور وہ بے اختیار قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھ گیا اور صرف دو ماہ کی قلیل مدت میں یہ منفرد یادگار تصنیف معرض وجود میں آ گئی: بیا بہ مجلس اقبال ویک دو ساغر کش اگرچہ سر نہ تراشد قلندری داند گواقبال کا سانحۃ ارتحال تمام دنیا ک لیے بالعموم اور عالم اسلامی کے لیے بالخصوص ایک زبردست حادثہ ہے۔ جو صدیوں تک بھلایا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کی خوشنودی روح کے لیے اب سب سے اہم فاتحہ خوانی یہی ہے کہ اس کے پیغام کو اوراق کتب سے نکال کر دلوں کے صحائف میں جگہ دی جائے۔ اس کو بیش از بیش سمجھا جائے اور دنیا کو بار بار سمجھا جائے کہ ترجمان حقیقت اپنی زندگی کی آخری سانس تک کس زندہ و طاقت ور حقیقت کو بے نقاب کر تا رہا ہے ۔ تاکہ جس مقصد کے لیے اس نے جگر کا دی کی تھی وہ حاصل ہو اور جو راستہ اس نے تیار کیا تھا اس پر قدم پڑنے لگیں۔ ۱؎ تصورات اقبال صفحہ ۵ ۲؎ تصورات اقبال ۔ صفحہ ۶ اقبال کو سمجھنے سمجھانے کے لیے فکر عمیق اور فرصت طویل کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ فلسفہ قدیم و جدید پر پورا پورا عبور رکھنے کے ساتھ خود وہ بھی ایک زبردست مفکر ہے اور برسوں غور و فکر کے بعد اس نے حیات انسانی کے لیے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ تمام تر کلام اللہ کی روشنی میں لکھا ہے۔ اس کے فلسفیانہ نکات جو وجدان و شعریت کی زبان میں ادا ہوئے ہیں وہ سب قرآن کی تفسیر اور احادیث کی تشریح ہیں اس لیے اگر اقبال کو صرف فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ معما بن جاتا ہے۔ اس کے فلسفہ کی پیچیدگیاں سلجھانے کے لیے قرآنی بصیرت کی ضرورت ہے۔ وہ حیات انسانی کو اس بلند ترین نصب العین سے واقف کرنا چاہتا ہے جو قرآن نے متعین کیا ہے اور ہر نئے اسلوب میں وہی کچھ کہتا ہے جو قرآن نے کہا ہے۔ اقبال کی مہمات سخن سے حقیقی طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے سب سے پہلے اس کی روشن فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شعر و حکمت کے باب میں اس کے انداز تفکر پر کسی قدر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن اس مقام پر بھی چند الفاظ بطور تعارف عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ اقبال کے تخیلات کا مرکزی نقطہ زندگی ہے اور اس کا تحفظ و ارتقا اس کے تصورات کا نصب العین ہے۔ وہ موجودات کے حقائق سے آنکھیں بند نہیں کر لیتا بلکہ ان کو بغور دیکھتا اور زندگی کی راہیں تلاش کرتا ہے۔ اس یلے اس کا فلسفہ عمل کا فلسفہ ہے۔ اور اس کا یہ علم یا فلسفہ ادب خوردہ دل ہے اور دل کو وہ عشق و وجدان کے زیر فرمان رکھتا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ کہ علم ہمیشہ علم کا دست پرور رہا ہے۔ حیات کی پیچیدگیاں محض عقل سے نہیں سلجھائی جا سکتیں۔ عقل کی جولانیوں کے لیے ایک خاص حد مقرر ہے جس سے آگے بڑھنے کے لیے اس کو دوسری زبردست و برتر قوت کی رہنمائی میں چلنا پڑتاہے جس کو اقبال نے عشق و وجدان سے تعبیر کیا ہے عقل کی نارسائی اس سے ظاہر ہے کہ انسان کے جذبہ شعریت کا ہی وہ آج تک مکمل تجزیہ نہ کر سکی۔ کبھی تو اس کی ہمہ گیری اور زبردست اثر اندازی دیکھ کر اس کو مفید بناتی ہے۔ اور پھر جب اس کے حدود کا احاطہ نہیں کر سکتی تو لغو و لا یعنی کہہ کر دامن چھڑا لیتی ہے۔ یہی بے چارگی اس کو رﷺح کے معاملہ میں پیش آتی ہے۔ اس طرح مذہب کا تعلق بھی عقل سے زیادہ وجدان سے ہے۔ اگر اس راستہ میں صرف عل کی مشعل جلائی جائے تو تاریکی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور قدم قدم پر ٹھوکر لگتی ہے۔ مجرد ععقل شک و وسوسہ کی دلدل میں پھنسا دیتی ہے اور عشق و وجدان یقین و استقامت کی ٹھوس چٹان پر کھڑا کر دیتا ہے۔ کیفیات قلب کو سمجھنے کے لیے دل ہی کی روشنی میں آنا پڑتاہے۔ اور ان کے اظہار کے لیے دل ہی کی زبان درکار ہوتی ہے۔ اس لیے عقل اسی وقت کامل ہوتی ہے اور نظارہ کی پریشانی اسی وقت دور ہوتی ہے کہ نظروں کی ہمراز ہو… یہی تفکر اقبال کا بنیادی نقطہ ہے۔ اقبال پر لکھنے کا خیال ایک عرصہ سے دل میں تھا۔ جو امروز و فردا پر ٹل رہا تھا۔ کہ اس کے ساتھ سانحہ ارتحال کی خبر میرے اعصاب و حسیات پر ایک برقی تازیانہ بن کر لگی اور ایک ناقابل ضبط و شدید ترین اندرونی تقاضہ سے بیتاب ہو کر میں اس طرف متوجہ ہو ا اور دو ماہ کی مسلسل کاوش کے بعد ان صفحات کو پورا کیا ۱؎ اس کے فوراً بعد نیا باب اشک خونیں ہے ملاحظہ ہو: حلقہ بستند سر تربت من نوحہ گراں دلبراں زہرہ وشاں گلبدناں سیم براں (پیام مشرق) ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کی صبح کیسی المناک صبح تھی۔ کہ ایک طرف آسمان پر سورج بلند ہو رہا تھا۔ اور دوسری طرف زمین کے اندر مشرق کی عظمت و سعادت کا آفتاب غروب ہو رہا تھا۔ دنیا کے لیی یہ بہت ہی جانکاہ حادثہ تھا۔ وہ چیخ اٹھی کہ اور س کے صبر و ضبط کا کلیجہ پھٹ گیا۔ حسرت کی آنکھ یہ دیکھ کر خوں چکاں ہو گئی کہ عشق کا وہ شعلہ جو صدیوں کی افسردگی کے بعد اقبال کی آہ سحر گاہی و سوز نفس سے بھڑک اٹھا تھا۔ پھر سیاہ پوش ہو گیا۔ جبریل کو پرفشانی سکھانے والا طائر لاہوتی عالم آب و گل سے منہ موڑ کر افلاک کی وسعتوں میں گم ہو گیا۔ اور وہ نے نواز حیات دیکھتے ہی دیکھتے فردوسی حوروں کا وجدانی نغمہ بن گیا۔ وہ لب ہائے الوہیت کا ایک لطیف تبسم تھا جس کا کوثر و تسنیم کی موجوں میں ڈوبا ہوا نطق شیریں اس چمن کی آبیاری کر رہا تھا۔ وہ حیات انسانی کا پیغامبر تھا جا کے سینہ کا مدوجزر مشرقی روحانیت کے لیے درس ابدیت اور مغربیت مادیت کے لیے برق خاطف تھا۔ وہ اسلامیان عالم کا حسان ثانی تھا جو انسانی غیرت و خودی کے لیے غفلت کا شکن تازیانہ بنا اب کون ہے جو ہم کو افلاک کی سیر کرائے؟ … اب کس کے منہ سے ہم ستاروں کا پیغام اور نوریوں کے گیت سنیں؟… آہ اب کس کی زبان وہ آتش بیانی ہے جو عرش نشیں کے حضور میں ہم خاکیوں کی طرف سے سپاس نامہ پیش کر کے جواب حاصل کر سکے؟… حسن ہمیشہ اس کے لیے تڑپے گا اور عشق ہمیشہ سوگوار رہے گا پس از من شعر من خوانند دریا بندمی گویند جہانے را دگرگوں کردیک مرد خود آگاہے (پیام مشرق) ۱؎ تصورات اقبال ۔ صفحہ ۹ تا ۱۱ ماتم اس کا نہیں کہ اقبال کی رحلت نے شاعری کا دروازہ بند کر دیا۔ بہت سے نغرگو اور شیوہ بیان شاعر موجود ہیں اور بہتر سے میر و مومن اور غالب و حالی مستقبل کے گہوارے میں پرورش پا رہے ہیں۔ دل کی خوں چکانی اس لیے ہے کہ جو صدائے ربانی آج خاموش ہوء ہے وہ مدتوں بلند نہیں ہو سکے گی۔ کہ اس وقت زمانے کا رجحان دوسرا ہے۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا (بانگ درا) اقبال ہمسے نہیں چھنا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے ہی چھن گئے ہیں وہ ہم سے ہمارا تعارف کرا رہا تھا۔ تاکہ ہم اپنی صداقتوں سے واقف ہو کر ارض و سما پر چھا جائیں اور کائنات کی پہنائیاں ہماری جولانیوں کے لیے تنگ ہوں۔ دیکھیے کن پر سوز الفاظ میں ہمارے لیے خدا سے عزم و استقامت کی دولت طلب کرتا ہے: دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرہ لاتذر میں عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے حسن و عشق کی داستانیں تو ابھی بہت کچھ بیا ن ہوں گی لیکن یہ آتشیں نعرے اب کون بلند کر سکے گا: فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک (بال جبریل) در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ (زبو ر عجم) خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ۱؎ (بال جبریل) اس باب کے بعد دیگر ابواب جس ترتیب سے لکھے گئے ہیں اور جن جن موضوعات کا احؓاطہ کیا گیا ہے ان کی تفصیل یہ ہے : اسلام و مومن… صفحہ ۱۵ تا ۲۸ روحانیت و مادیت… صفحہ ۲۹ تا ۳۳ دین و سیاست… صفحہ ۳۴ تا ۳۹ ۱ ؎ تصورات اقبال صٖحہ ۱۲ تا ۱۴ ملوکیت و اشتراکیت … صفحہ ۴۰ تا ۷۷ قومیت و بین الاقوامیت… صفحہ ۷۸ تا ۱۱۴ شعر و حکمت… سفحہ ۱۱۵ تا ۱۶۳ موت و حیات… ۱۶۴تا ۱۸۷ خودی… ۱۸۸ تا ۲۱۴ بے خودی … ۲۱۵تا ۲۵۰ خلاصہ کلام … ۲۵۱ اور آخر میں گل ہائے عقیدت ہیں جو صفحہ ۲۵۲ سے شروع ہو کر صفحہ ۲۵۴ پر ان اشعار کے ساتھ ختم ہوتے ہیں: مثل الوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا آسماں تیری لحد پر شبنم فشانی کرے سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے (بانگ درا) مختلف ابواب میں شاغل نے اپنے فکر و قلم کے خوب جوہر دکھائے ہیں ۔ اور شاعر مشرق کے اشعار سے ہی نہیں بلکہ قرآن مجید اور احادیث کے جا بجا حوالے دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ: ’’اقبال نہ محض شاعر تھا نہ محض فلسفی۔ دراصل وہ ایک حقیقت کبریٰ کا پیغام بر تھا اور حسن کا ادا شناس عاشق۔ اس کی شیریں و آتش بیانی اس کی فکر و نظر کی مستی ہے جس سے اس کا پیغام دماغوں سے گزرتا ہوا دلوں کی گہرائی میں اتر جاتا ہے محض شاعری یا محض فلسفہ خود اس نے بھی کبھی اپنا سرمایہ افتخار نہیں جانا۔ اس کا مطمح نظر شعر گوئی و فلسفہ سنجی نہیں… بلکہ تپش اندازی تھا‘‘۔ بھوپال کے ہونہار اور صاحب بصیرت نوجوان ادیب شاغل فخری مرحوم نے تصورات اقبال لکھ کر صرف اقبالیات کے مطالعہ میں اضافہ ہی نہیں کیا بلکہ بھوپال کی ادبی تاریخ میں اولیت کا شرف بھی حاصل کیا۔ اس کتا ب کی توضیح و تشریح کے دوران ایک جگہ شاغل مرحوم نے اقبال کے تصور پاکستان کو بظاہر ناممکن العمل قرار دیا تھا۔ کاش وہ زندہ ہوتا تو اپنے نظریہ کی اصلاح کر لیتا اور پاکستان ایسی … اسلامی مملکت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا اور یقینا خوش ہوتا۔ کیونکہ وہ نہایت روشن خیال اور ہوش مند ادیب تھا۔ اور خود اصلاحی کا قدرت نے اسے جوہر عطا کیا تھا۔ ویسے بھوپال کا یہ تنہا نوجوان ہے جو صحیح معنوں میں اقبال کا سچا عاشق تھا ۔ اور مرتے مرتے بھی اقبال کے سلسلے میں اس نے جو کلمات ادا کیے وہ اس کے سچے عشق اور جذبہ صادق پر دلالت کرتے ہیں عمران انصاری لکھتے ہیں: ’’میرے ہی مواجہ میں اقبال پر ایک سیر حاصل گفتگو اس نے کی اور اقبال کی صحیح صحیح منزلت کے بارے میں جس اعتمادو یقین کے ساتھ وہ اپنے عقائد کا اظہار کر رہا تھا اس وقت میری آنکھوں میںوہ تصویر بسی ہوئی ہے کہ کھانسی کو پوری طرح روک کر دونوں گھٹنوں کو دونوں بازوئوں میں گھٹنے کے بعد وہ تن کر بیٹھ گیا تھا اور سیاہ حلقوں میں بے نور ہوجانے والی آنکھوں میں اقبال کی تصویر کھینچ رہا تھا۔ اللہ اکبر رہے نام اللہ کا ۱؎‘‘۔ شاغل فخری کے علاوہ بھوپال کی جن دیگر ممتاز شخصیتوں نے اقبال کو موضوع بحث بنایا ان کے فکر و فن پر کام کیا ان میں رضیہ فرحت بانو محمد امین زبیری‘ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی‘ اور عبدالقوی دسنوی قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کی ادبی کاوشوں کا آئندہ صفحات میں احاطہ کیا گیا ہے۔ صرف رضیہ فرحت بانو کی مرتبہ کتاب خطبات اقبال مجھے دسیتاب نہ ہو سکی لیکن یہ کتاب اقبال لائبریری بھوپال میں موجود ہے۔ رضیہ فرحت بانو بھوپال کی ممتاز ادیبہ اور افسانہ نگار ہیں۔ تصورات اقبال کی طرح ایک اور اہم کتاب اقبال کا سیاسی کارنامہ ہے۔ جسے محمد احمد خاں ایم اے ایل ایل بی نے تالیف فرمایا ہے۔ یہ کتاب کاروان ادب کراچی کے زیر اہتمام ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی تھی۔ بھوپال کے بلند پایہ اور شہرت یافتہ ادیب انشاء پرداز محقق اور مورخ محمد امین زبیری مارہروی کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے سے نواب حمید اللہ خاں کے دور حکومت تک آپ نے بھوپال میں رہ کر جو علمی ادبی تاریخٰ اور تحقیقی کارنامے انجام دیے ہیں ان کی ایک طویل فہرست ہے ماہنامہ ظل السلطان بھوپال کی ادارت کے زمانے میں اقبال سے آپ کی خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ مہتمم تاریخ کی حیثیت سے آپ کا نام بھوپال کی ادبی تاریخ میںہمیشہ زندہ رہے گا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کراچی میں آ گئے اور یہیں انتقال فرمایا۔ میرے عم محترم پروفیسر نواب علی سے محمد امین زبیری اکثر ملاقات کے لیے تشریف لاتے تھے۔ یہ ۵۶۔۱۹۵۵ء کا ذکر ہے آپ نے ’’افکار‘‘ میں اشاعت کے لیے مجھے اپنا ایک معرکہ آرا مضمون تصور پاکستان بھی عطا کیا تھا جو خود میری بے سروسامانی کے سبب مسودات میں کہیں گم ہو گیا۔ جب ۱۹۵۹ء میں میں نے اپنی کتاب کا کام شروع کیا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ کہ محمد امین زبیری نے اقبال پر ایک کتاب بعنوان خدوخال اقبال تحریر کی ہے جو شائع نہیں ہو سکی۔ تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ اسے انجمن ترقی اردو پاکستان کے زیر اہتمام شائع کر دیا جائے۔ کسی وجہ سے انجمن اس کتاب کو شائع نہیں کر سکی عجب اتفاق ہے کہ میں اپنی اس کتاب کے آخری ابواب مکمل کر رہا تھا کہ مجھے سید انیس شاہ جیلانی کی مرتبہ کتاب نوازش نامے تبصرے کے لیے موصول ہوئی اور یہ دیکھ کر میری حیرت اور خوشی کی کوء انتہا نہ رہی کہ جس مسودہ کی تلاش میں میں سرگرداں رہا اس کی تفصیلات خود محمد امین زبیری کے ان خطوط میں مل گئی جو انہوںنے سید انیس شاہ جیلانی کو ۱۹۵۶ء میںتحریر کیے تھے۔ ۱؎ تصورات اقبال صفحہ ۴۱ ۲؎ بعد کی تحقیق سے اقبال کا سیاسی کارنامہ محمد امین خاں سابق چیف جسٹس بھوپال کی ثابت نہیں ہوئی ملاحظہ ہو دیباچہ طبع ثانی انیس شاہ جیلانی نے ان خطوط سے قبل جو وضاحتی نوٹ لکھا ہے اس کے مطالعے سے خدوخال اقبال کے بارے میں کئی ایسی تفصیلات ہمارے سامنے آتی ہیں جن سے اردو دنیا تقریبا اور اقبال شناس آج تک لاعلم تھے ۔ لکھتے ہیں: ’’مرحوم (محمد امین زبیری) سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس مجموعہ میں شریک تقریباً سبھی خطوط میں ذکر خیر ان کی تصنیف خدوخال اقبال کا ہے۔ میں یہ مسودہ ان سے حاصل کر نے میں اس لیے ناکام رہا کیونکہ میری مالی حالت چنداں قابل رشک نہ تھی۔ والد محترم کو میرا پبلشر بن کر ان کا روپیہ ضائع کرنا گوارا نہ ہوا۔ حالانکہ یہ کتاب کاروباری لحاظ سے بھی خاصی کامیاب رہتی جسیا کہ جوش ملیح آبادی نے بھی رحیم یار خاں بہاول پور ڈویژن میں والد صاحب کے پوچھنے پر بتایا تھا کہ اور یہی مشورہ جناب رئیس احمد جعفری مدظلہ مرحوم نے دیا تھا کہ اشاعت کا اہتمام کر ڈالنا چاہیے ۔ نفع نہ سہی لاگت تو نکل ہی آئے گی۔ پچھلے دنوں مرحوم کے ایک قریبی عزیز سے جن کے پاس وہ مسودہ محفوظ ہے حصول مسودہ کی تحریک کی گئی اور میں گھر پھونک تماشہ دیکھنے پر آمادہ ہو ا بھی تو وہ کافر مسلمان ہو گیا اور یہ لکھا کر پیچھا چھڑا لیا کہ فی الحال وہ اس تصنیف کو منظر عام پر لانے کے حق میں نہیں ہیں۔ زبیری مرحوم کی روح یقینا اس انکار پر تڑپ اٹھی ہو گی۔ یہی وہ زبیری ہیں جن کے طفیل اردو ادب میں مکاتیب شبلی بنام عطیہ کا گراں بہا اضافہ ہی نہیں ہوا بلکہ شبلی کے انسان ہونے کا ثبوت بھی ملا۔ خدا کرے خدوخال اقبال کو منظر عام پر لانے کی سعادت مجھے حاصل ہو لیکن ہی میری ہی آرزو تو ہے اور اس کا شرمندہ تعبیر ہونا معلوم ۱؎‘‘۔ اس وضاحت کے بعد مجھے محمدا مین زبیری کے وہ خطوط شامل ہیں جن کے مطالعے سے مجوزہ کتاب کے بار ے میں نئی معلومات فراہم ہوتی ہیں جستہ جستہ اقتباسات ملاحظہ ہوں: (۱) ’’اک ۔ اک۔ سکول کلفٹن کراچی ۷ دسمبر مکرم و محترم تسلیم آپ کا محبت نامہ کل موصول ہوا ۔ خطوط شبلی سے اغلباً کتاب شبلی کی رنگین زندگی مراد ہے۔ ۱؎ نوازش نامے۔ صفحہ ۵۷ ۔۵۸ آپ ذکر شبلی ملاحظہ فرمائیے جو حیات شبلی پر تنقید ہے ۔ اس سے اصل حالت معلوم ہوتی ہے اور کیسی تدلیس و تلبیس ہے۔ یہی حالت علامہ اقبال کی سوانح عمریوں کی ہے۔ میں نے ان پر تنقید بھی لکھی ہے۔ خدوخال اقبال تاریخی نام ہے لیکن اپنی ضعیف العمری اور علالت کی وجہ سے نظرثانی نہیں کر سکا۔ میری عمر ۸۶ سال میں ایک مہینہ کم ہے۔ کوئی تصویر نہیں اور تصویر کا کیا ہو گا۔ اب تو سکون کو دل چاہتا ہے۔ خدوخال اقبال بڑی معرکہ آرا کتاب ہو گی۔ پاکستان یا تقسیم ہند کا تو کا واسطہ بھی نہیں۔ یہ صرف بزم اقبال وغیرہ کا پروپیگنڈا ہے۔ معاف فرمائیے میرے متعلق آپ نے حسن ظن سے کام لیا ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔ زیادہ شوق ملاقات خاکسار محمد امین زبیری ۱۹۵۶ء (۲) ’’…علامہ اقبال پر میری تقنید شاعرانہ نہیں بلکہ علامہ اقبال کی سیرت پر جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ان پر انہی خطوط سے تنقید ہے۔ …اگر آپ تیار ہوں تو میں مسودے دوں گا۔ اس کتاب کے متعلق بالمشافہ گفتگو کی ضرورت ہے۔ میں بیمار ۸۶ سال کی عمر میرے لیے سفر ممکن نہیں آپ خود تکلیف فرمائیں اس کا تاریخٰ نام خدوخال اقبال ہے عطیہ بیگم میکلوڈ روڈ ایوان رفعت پتہ ہے۔ اپنی خاص عنایت فرمائیں۔ خادم۔ محمد امین زبیری ۱۲؍۱۳ اک اک سکول کراچی مہر ڈاک خانہ ۱۴ دسمبر ۱۹۵۶ء (۳) ’’۲۵ دسمبر ۱۹۵۶ء …کتاب کا نام میں نے خدوخال اقبال تجویز کیا ہے ۔ مسودہ دیکھے بغیر آپ قیمت کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتے… زیادہ انسب ہو گا کہ آپ ہی لکھیں کہ کیا ادا کر سکتے ہیں۔ کتاب مطبوعہ کے ۲۰۰ صفحات ہو جائیں گے۔ میں نے تمام کتب میں حوالوں سے ہی کام لیا ہے… ڈاکٹر مولوی عبدالحق بھی مسودہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ مخلص محمد امین زبیری (۴) ’’۳ جنوری ۱۹۵۷ء …یہ کتاب بڑے معرکہ کی ہے۔ آج کل اقبال کو انبیائے کرام کی صف میں ان کی سیرت نگاروں نے شامل کر دیا ہے۔ … جہاں تک شاعری کا تعلق ہے جس قدر تعریف کی جائے بجا ہے… میری کتاب دراصل ان کی سوانح عمریوں کی تنقید ہے۔ واقعات ارو انہی کے خطوط سے… مجملاً چند عنوان پیش ہیں تمہید۔ شاعری کی تعریف۔ سیرت نگاروں پر تنقید۔ نقوش سیرت۔ ابتدائی حالات ۔ مناہل زندگی۔ اقتباس خطوط بنام عطیہ بیگم۔ غیر ملکی لباس سے نفرت۔ شان فقر و غیور۔ ایک نیشنل فنڈ بلند ارادے۔ عملی زندگی۔ خطاب۔ جنگ عظیم کے متعلق نظمیں۔ علی گڑھ کی تحریک۔ مدحت طرازی۔ خالص تعلقات۔ اقبال اور وزیر اعظم سر کشن پرشاد نظام سے ملاقات۔ شاہان افغانستان سے خاص تعلق۔ سر راس مسعود سے درخواستیں۔ اور وظیفہ بھوپال۔ سیاسیات۔ عام سیاسی مصروفیات۔ تصور پاکستان کا تاریخی منظر ۱؎ چودھری رحمت علی کے ایک رفیق کا بیان ۔ چند تعجبات۔ انتقال۔ یہ فہرست بہت مجمل ہے۔ تاہم نصف اندازہ ہوتا ہے۔ مخلص محمد امین زبیری (۵) ’’۸ جنوری ۱۹۵۷ء …میرا شغل تصنیف و تالیف پیشہ وارانہ نہیں۔ میں ۸۱۹۰۷ تا ۱۹۳۱ء فردوس آشیاں بیگم صاحبہ بھوپال کا لٹریری اسسٹنٹ اور ایک بڑے دفتر کا انچارج تھا جس کا تعلق مصنیفین وغیرہ سے بھی رہتا تھا۔ دفتر میں ہمیشہ تین چار ادیب و مصنف میرے ماتحت تھے خدا کا شکر اور بھوپال کا احسان ہے کہ مجھے میرے گزارے کے قابل پنشن ملتی ہے البتہ مہاجرت نے گزارا گراں تر بنا دیا ہے۔ مہاجرت سے پہلے میری جس قدر کتابیں شائع ہوئیں وہ میرے شوق کا نتیجہ تھیں اور صرف یہ خیال رہتا تھا کہ گرہ سے خرچ نہ ہو اور نفع اتنا ملے کہ اپنے دوستوں اور لائبریریوں کو ہدیہ دے سکوں… …میں نے آپ کے خط کے ایک فقرہ پر کہ کم از کم دنیا کو تصویر کا دوسرا رخ تو نظر آ جائے گا۔ بے ساختہ خیال کیا کہ: سپر دم بتو مایہ خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ۱؎ سہو کتابت ہے پس منظر ہونا چاہیے۔ خدا کرے ہمارے نوجوان ایسے ہی خیال کے ہو جائیں تو یہ ملمع کاریاں نہ ہو سکیں۔ اب معاملہ معاملہ کی طرح کیجیے! مخلص محمد امین زبیری ۱؎‘‘ لیکن یہ معاملہ کسی وجہ سے طے نہ ہو سکا۔ اور جیسا کہ سید انیس شاہ جیلانی نے وضاحتی نوٹ میں بھی لکھا ہے کہ وفات کے بعد انہوںنے دوبارہ مسودہ حاصل کرنے کی سعی و جہد کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے اور اس طرح یہ مسودہ آج تک شائع نہ ہو سکا۔ اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصہ جسیا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں ڈاکٹر سلیم حامد رضوی کا تحقیقی مقال ہے جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تھی۔ یہ مقالہ ادبی کتابی صورت میں جنوری ۱۹۶۵ء میں شائع ہوا تھا کتاب کا آٹھواں باب دور پنجم کی تخلیقات پر مشتمل ہے جس میں ۱۹۲۷ سے ۱۹۴۹ء تک کے ادیبوں شاعروں انشاء پردازوں اور ان مشاہیر کا ذکر کیا گیا ہے جو کسی نہ کسی عنوان بھوپال سے وابستہ رہے… یہ نواب حمید اللہ خاں آخری فرماں روائے بھوپال کا زمانہ ہے جن کے دور حکومت میں ریاست بھوپال نے صنعتی ترقی اور آئینی اصلاحات کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے میدانوں میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ مشاہیر علم و ادب کا تعلق آئینی اصلاحات کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے میدانوں میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں مشاہیر علم و ادب کا تعلق بھوپال سے کی ذیلی سرخی کے تحت سب سے پہلے راس مسعود کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد صفحہ ۴۶۲ تا ۴۶۸ ڈاکٹر اقبال کے عنوان سے ابتداً اسطری نوٹ لکھا ہے۔ جس میں ان کے بھوپال آنے اور ریاض منزل میں اور شیش محل میں قیام کا حال درج ہے پھر انہوںنے راس مسعود کے نام اقبال کے ان چند خطوط ۲؎ سے اقتباسات دیے ہیں جن کے مطالعے سے نواب صاحب بھوپال اور اقبال کے خصوصی روابط پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ تمام خطوط گزشتہ صفحات میں زیر بحث آ چکے ہیں۔ اس لیے ان کا اعادہ غیر ضروری ہے۔ اقبال نامہ ہی سے ڈاکٹر سلیم حامد رضوی نے وہ قطعہ بھی نقل کیا ہے جو مولانا حالی کی صد سالہ برسی پر اعلیٰ حضرت کی موجودگی میں اقبال نے پڑھا تھا۔ اس کے بعد نذیر نیازی کے مضمون اقبال کی آخری علالت کا ایک حوالہ دیا ہے جس میں جا بجا بھوپال کے قیام کا تذکرہ ہے۔ آگے چل کر ضرب کلیم کی ان نظموں کی نشان دہی کی ہے جو دوران قیام بھوپال اقبال نے کہی تھیں علاوہ ازیں مشہور مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق کے بارے میں ہے جو دوران قیام بھوپال اقبال نے کہی تھیں اس خواب کا بھی ذکر ہے جو انہوں نے شیش محل میں دیکھا تھا اور اس کے فوراً بعد مثنوی کے اشعار کا نزول شروع ہو گیا تھا۔ سب سے آخر میں انہوںنے اقبال کے بھوپال سے تعلق خاص کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ۱۹۳۵ء کے بعد کی نسل نے اقبال کے فکر و فن سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں فرماتے ہیں: ’’بھوپال کی سرزمین کو یہ فخرحاصل ہے کہ علامہ اقبال نے چند ماہ یہاں گزارے ارویہاں کے فرمان روا کی محبت اور عظمت ان کے دل میں مستقل طریقہ پر جاگزیں رہی۔ مقامی شعراء کے ۱۹۳۵ء کے بعد کے کلام کو اٹھا کر دیکھیے تو آپ علامہ اقبال کے نقوش و افکار بہت نمایاں ملیں گے۔ ۱؎ نوازش نامے صفحہ ۵۸ تا ۶۷ ۲؎ یہ خطوط مسٹر ممنون حسن خاں صاحب بی اے کے پا س تھے جن سے شیخ عطاء اللہ نے حاصل کر کے اقبال نامہ کے مجموعہ مکاتیب اقبال کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیے ہیں ۔ (ڈاکٹر سلیم حامد رضوی) اس چیز نے علامہ اور بھوپال کے رشتہ کو اور زیادہ مضبو ط کر دیا ہے۱؎‘‘۔ عبدالقوی دسنوی سیفیہ کالج بھوپال میں اردو کے لیکچرر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے بھوپال میں رہ کر اردو کی نمایاں خدمات انجام دیں ہیں ۔ نوائے سیفیہ کالج کا امتیازی جریدہ ہے جس نے آپ کی زیر نگرانی اردو زبان و ادب کی ٹھوس خدمت کی ہے۔ آپ کو بچپن سے ہی اقبال سے عقیدت و محبت تھی۔ جب ۱۹۶۱ء ء میں آپ بھوپال بحیثیت لیکچرر پہنچے تو آپ اقبال کا بخوبی مطالعہ کر چکے تھے چنانچہ آپ نے ایک مضمون علامہ اقبال بھوپال میں تحریر کیا جو پہلے نوائے سیفیہ میں شائع ہوا بعد میں آپ نے اسی مضمون کو کتابچہ کی صورت میں بھی ۱۹۶۷ء میں شائع کر دیا۔ یہ کتابچہ … سائز کے ۶۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ آغاز میں آپ نے ان مشکلات کا ذکر کیا ہے جو اقبال پر کام کرنے کے سلسلے میں پیش آئیں فرماتے ہیں: ’’… جب میں تعلیم سے فراغت پا کر فروری ۱۹۶۱ء میں بھوپال آیا تو اس وقت تک اقبال کو مختلف پہلوئوں سے مطالعہ کر چکا تھا۔ اور ان کی عظمت کا معترف اور شاعری کا دل دادہ ہو چکا تھا۔ ان کے افکار و خیالات اور تصورات دل کے مختلف گوشوں پر اپنا سکہ جما چکے تھے۔ یہاں اقبال کے عاشق اور ان کے دیوانے ان کی آمد کا تذکرہ بڑی دلچسپی سے کرتے نظر آئے۔ میں نے ایسے لوگوں کی آنکھوں میں تذکرے کے ساتھ خوشی کی چمک چہروں پر مسرت کی دمک اور دلوں میں فخر کے جذبات محسوس کیے۔ لیکن مجھے یہ پتہ نہ چل سکا کہ وہ یہاں کب آئے کیوں آئے اور نواب صاحب بھوپال سے ان کے کس قسم کے تعلقات تھے؟ اور سر راس مسعود نے دوستی کا حق کس طرح ادا کیا۔ اس قسم کے خیالات ہمیشہ دل میں چٹکیاں لیتے رہے یہاں کے لوگوں سے دوبارہ معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جلد ہی مایوس ہونا پڑا۔ اس یلے کہ اس دور میں ان لوگوں میں سے جو علامہ کے قریب رہے تھے بہت کم موجود ہیں۔ باقی یا تو بھوپال چھوڑ چکے ہیحں یا ملک عدم کی راہ لے چکے ہیں۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور باوجود نامساعد حالات کے کوشش جاری رکھی۔ علامہ اقبال سے ملنے والوں میں خاص طور سے ممنون حسن خاں ۲؎ کا نام لیا گیا موصوف اس زمانے میں سر راس مسعود کے سیکرٹری تھے اورعلامہ اقبال کی دیکھ ریکھ کا کام انجام دے رہے تھے۔ خان صاحب علامہ اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے۔ اور اس دور کا تذکرہ بڑی دلچسپی سے کرتے ہیں۔ ان سے علامہ اقبال اور بھوپال کے تعلق سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے بہت حد تک میری رہنمائی ہمت افزائی اور بڑی مدد کی ۳؎۔ ۱؎ اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کاحصہ۔ صفحہ ۴۶۸ ۲؎ آپ بفضلہ حیات ہیں۔ قیام بھوپال ہی میں ہے سنا گیا ہے کہ آپ نے اقبال پر بہت کچھ لکھ رکھا ہے جو اب تک شائع نہیں ہو سکا۔ ۳؎ آپ کے انکشافات کے لیے ملاحظہ ہو دیباچہ طبع ثانی ان کے علاوہ عبدالحلیم انصاری صاحب‘ اقبال حسین خاں صاحب حکیم قمر الحسن صاحب زیر احمد صدیقی صاحب یوسف قیصر صاحب اور اختر سعید خاں صاحب سے اس سلسلے میں کافی تعاون ملا ۔ دراصل ان صاحبان کی دلچسپیوں نے ہی اس کام کو اس منزل تک پہنچانے میں میری ہمت افزائی کی ۱؎‘‘۔ یہ کتابچہ عبدالقوی دسنوی نے بطور خاص مجھے بھی ارسال کیا تھا۔ اور مجھے یہ لکھا کہ علامہ اقبال پر اس سے زیادہ مواد نہیں ملا۔ آپ اس کام کو تکمیل تک پہنچائیں۔ کیونکہ انہیں یہ علم تھا کہ اقبال اور بھوپال کے موضوع پر میں عرصہ دراز سے کام کر رہا ہوں۔ اور اس سلسلے میں بھوپال کے متعلق حضرات کو خطوط لکھتا رہا ہوں۔ اس کتابچہ کے مطالعے سے انداز ہ ہوتا ہے کہ دسنوی صاحب نے اسے بہت عجلت میں تحریر کیا ہے۔ اور پہلی ہی نظر میں جو موادمل گیا اسے اپنے مضمون میں سمیٹ لیا۔ حالانکہ یہ موضوع ایسا نہ تھا کہ عجلت اور رواروی کا شکار ہو جاتا۔ خود بھوپال کی لائبریریوں میں ندیم ہفت روزہ اور دوسرے اخبارات و رسائل کی فائلیں مل سکتی تھیں۔ جن میں اقبال پر شائع ہونے والا مواد بآسانیء حاصل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ وہ ادبی سرمایہ اب تک تاریکی میں ہے۔ شاید آنے والے دور میں کوئی محقق یا خود عبدالقوی دسنوی اسے ڈھونڈ نکالیں اور نشر و اشاعت کی جو سہولتیں انہیںمیسر ہیں اس کے تحت اسے کتابی صورت میں شائع کر دیں۔ اس منتشر مواد کو یک جا کیے بغیر اقبال کے ان گہرے اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا جو بھوپال کی نئی اور پرانی نسل نے قبول کیے اور جس کے نتیجہ میں اقبال شناسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ کتابچہ کے صفحہ ۵۷ پر انہوںنے اقبا ل سے ملاقات کرنے والوں کے جو نام شائع کیے ہیں ان میں دو نام محل نظر ہیں مفتی انوار الحق کا اقبال کی بھوپال آمد سے بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا اور آصف شاہمیری اس وقت بہت کم سن تھے‘ جب اقبا ل قیام کے لیے بھوپال آئے اسی طرح دیگر واقعات میں کسی تسلسل یا نظم و ضبط کا اہتمام نہیںکیا گیا ہے۔ ان معمولی کوتاہیوں کے باوجود عبدالقوی دسنوی کی سعی و جہد لایق تحسین ہے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ اقبال کے زمانہ قیام کی کتنی ہی شخصیتیں پاکستان منتقل ہو گئیں یا جن میں سے چند ایک سے راقم الحروف رابطہ کر سکا اور کتنی ہی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں ممنون حسن خاں کی ذاتی گرامی… آج بھی اقبال کے سلسلے میں سب سے مستند اور مقتدر ہے ۔ کاش وہ اپنے اس اردو اور انگریزی مواد کو جلد منصہ شہود پر لا سکیں جو اقبال سے ان کی عقیدت و وابستگی کے نتیجہ میں معرض وجود میں آ چکا ہے اور اشاعت کا منتظر ہے۔ اگر ان کی یہ کتابیں شائع ہو جائیں تو یقینا اقبال اور بھوپال کے قریبی اور گہرے روابط کے کچھ اور نئے گوشے دنیا کے سامنے آ جائیں گے۔ کاش جلد ایسا ہو سکے ۔ اقبال کی بھوپال میں آمد و قیام سے …بھوپال کے ادیبوں شاعروں فن کاروں اور اہل علم نے جو مثبت دیرپا اور گہرے اثرات قبول کیے ان کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء اور اس کے بعد کا زمانہ برصغیر میں سیاسی تحریکات کے عروج کا ؤزمانہ ہے جب اقبال کے پیغام بیداری‘ حب الوطنی کے ترانوں اور آزادی کے نغموں نے غلامی اور محکومی کے خلاف جدوجہد میں ہندوستان کے بیشتر شاعروں اور ادیبوں کو سیاسی رہنمائوں اور مجاہدین آزادی کی صفوں میںدوش بدوش لا کھڑا کیا تھا۔ اور انہوںنے اپنے فرج کو محسوس کر تے ہوئے اپنی تمام تر فنی صلاحیتوں کو جہد آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس طرح بھوپال کے فن کا ربھی جہد آزادی میں برابر کے شریک تھے۔ ۱؎ علامہ اقبال بھوپال میں صفحہ ۳۔۴ ۲؎ ملاحظہ ہو دیباچہ طبع سوم بھوپال جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے۔ ہمیشہ سے شعر و سخن اور علم و ادب کا گہوارہ ہے۔ بھوپال کے بیشتر والیان ریاست اکابر اور اعلیٰ حکام نہ صرف بلند پایہ شاعر اور صاحب دیوان گزرے ہیں بلکہ ان کی علم دوستی ادب نوازی شاعروں اور ادیبوں کی قدر شناسی‘ سرپرستی اور عزت افزائی بھی ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ بھوپال کے ریاستی ماحول میں شعر و سخن کی محفلیں ہمیشہ برپا ہوتی ہیں۔ اپنے مزاج اور روایات کے اعتبار سے بھوپال کے شعرا عموماً غزل کی طرف ائل رہے اور اسی منابت سے بھوپال کو شہر غزل کہا جاتا تھا۔ بھوپال کے مذاق شعری کا اندازہ ایک دلچسپ واقعہ سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ اخوان ریاست سے تعلق رکھنے والے ایک تحصیل دار میاں اسداللہ خاں جب اپنی تحصیل سے دیہاتوں کے دورے پر جاتے تھے تو دن میں فرائض منصبی انجام دیتے تھے کے بعد رات کو ان کے کیمپ میں محفل شعر و سخن گرم ہو جاتی تھی جس میں قصبہ کے شعراء کے علاوہ پٹواری قانون گو وغیرہ بھی شاعر یا سامع کی حیثیت سے شریک ہوتے تھے تاکہ میاں اسد اللہ خاں کی نگاہ التفات اور حسن ذوق سے فیض یاب ہو سکیں۔ بھوپال کا تنہا یہ ادبی کارنامہ ہی اس کی عظمت کا ہمیشہ امین رہے گا کہ غالب کے دو ابتدائی دیوان بھوپال ہی سے دستیاب ہوئے۔ پہلا دیوان نواب فوجدار محمد خاں کے لیے لکھا گیا تھا۔ جس کی بابت مشہور ہے کہ مرزا غالب نے ان کی فرمائش پر ارسال کیا تھا۔ یہ دیوان مولوی انوار الحق کے زیر اہتمام ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری سے معرکہ آرا مقدمہ کے ساتھ نواب حمید اللہ خاں کے دور حکومت میں نسخہ حمیدیہ کے نام سے شائع ہوا۔ دوسرا نسخہ جو نسخہ حمیدیہ سے زیادہ اہم ہے اور غالب کا قلمی اولین دیوان ہے۔ ۱۹۶۹ء میں غالب صدی کے دوران بھوپا ل ہی میں ایک کتب فروش سے امروہہ کے ایک شخص نے خرید لیا جسے عرشی زادہ اکبر علی خاں نے فوٹو سیٹ پر شائع کیا ہے اور اس کا نام نسخہ عرشی زادہ رکھا ہے۔ سیاسی تحریکات کے اثرات سے ریاستوں کا متاثر ہونا فطری تھا۔ چنانچہ برصغیر کی عام سیاسی بیداری کے نتیجہ میں بھوپال میں بھی اسٹیٹ پیپلز کانفرنس معرض وجود میںآ گئی اور اس نے ذمہ دار حکومت کا نعرہ بلند کر دیا اور اب بھوپال میں بھی دنیا کے غریبوں کو جگا دینے اور کاخ امرا کے درودیوار ہلا دینے والے نعرے کبھی مدھم اور کبھی تیز آواز میں گونجنے لگے۔ بیداری کی اس عام لہر سے بھوپال کے ادیبوں اور شاعروں کا علیحدہ رہنا ناممکن تھا۔ خاص کر ایسے حالات میں جب کہ وہ اپنے ادبی رہنما اور سیاسی پیشوا اقبال کو خود اپنے ہی شہر میں موجود پاتے تھے اور ان کے فکر و بصیرت سے درس تپش حاصل کر رہے تھے۔ اگرچہ اقبال بھوپال کی ادبی محفلوں میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ غالباً ایک بار کسی سکول کی سالانہ تقریب میںضرور شریک ہوئے تھے اور حاضرین کے بے حد اصرار پر ایک غزل : اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز سنائی تھی۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ بھوپال کے ادیبو شاعر اور اہل ذوق ان کے قیام بھوپال کے دوران ہمیشہ آستانہ ابقبال پر حاضری دیتے تھے اور ان کے افکار عالیہ سے فیضیاب ہوتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بطور خاص قابل ذکر ہے۔ شبھو دیال سخن بھوپال کے کائستھ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ بے حد ذہین طباع اور خوش گو شاعر تھے۔ قدرت نے انہیںہجو گوئی میںیگانہ بنا دیا تھا۔ ان کو بھوپال کا سودا کہا جاتا تھا۔ اور ان کی ہجویات بھوپال میں زبان زد عام تھیں ۔ اسکول کی تقریب میںاقبال کی غزل سخن نے بھی سنی اور اس موقع نکال کر خدمت میںحاضر ہوئے اور نہایت ادب سے اقبال سے دریافت کیا کہ لفظ پرہیز مذکر ہے یا مونث۔ اقبال نے زیر تبسلم کے ساتھ نہایت شفقت سے فرمایا کہ ویسے تو پرہیز مذکر ہی استعمال ہوتا ہے لیکن اقبال کو اتنا تو حق ہے کہ وہ اسے مونث بھی استعمال کر سکے۔ یہ واقعہ مجھے اظہر سعید خاں نے سنایا تھا جس سے خود ایک بار شبھو دیال سخن اقبال کے ملاقاتوں کے ذیل میں بیان کیا تھا۔ بھوپال واقعی شہر غزل تھا۔ جسے دیکھو غزل کے بانکپن کا دل دادہ تھا۔ لیکن یہ بانکپن زیادہ عرصہ اپنا جلوہ نہ دکھا سکا کیونکہ بھوپال کو اقبال ایسے عظیم شاعر مفکر نکتہ رس اور نکتہ شناس کا قرب اور اس کے کلام سے بھوپور استفادہ کی ہر ممکن سہولت میسر آ گئی تھی۔ چنانچہ ۱۹۳۵ء کے بعد بھوپال کے بیشتر شعرا غزل کے ساتھ ساتھ نظ نگاری کی طرف بھی مائل ہو گئے۔ ۱۹۳۶ میں جب ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گئی تو پورے برصغیر میں نئے ادب نئے افکار و خیالات اور نئے تصورات سے ادب اور زندگی کے رشتے نہ صرف مستحکم معتبر اور حقیقت پسندانہ انداز میں دنیا کے سامنے آنے لگے بلکہ ادب و شعر کی نئی تفہیم کا ابھی آغاز ہو گیا اوراس طرح شاعر مشرق کے کلام سے ترقی پسند ادیبوں نے بھی بیش از بیش استفادہ کیا اور زندگی اور ادب کے نئے خواب اور نئی تعبیریں موضوع بحث بننے لگیں۔ ۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم کا اغاز ہوا۔ اور ۱۹۴۵ء میں یہ جنگ ختم ہوئی۔ اس تمام عرصے میں بھوپال کے ادیبوں اور شاعرں کی نئی نسل پروان چڑھ چکی تھی۔ اسے ماضی کی اقدار سے زیادہ اپنے گرد و پیش کی فضا ماحول معاشرہ کے تضاد اور حالات کی نامساعدت نے بڑی حد تک باغی بنا دیا تھا لیکن محض بغاوت ہی تو مسائل کا حل نہیں بن سکتی۔ اس لیے جو نئے شاعر پیداہوئے انہوںنے موضوعاتی شاعری کے لیے خود کو تنگنائے غزل سے باہر نکالا۔ اور مروجہ موضوعات اور رومانی نظموں سے قطع نظر کر کے خالص سیاسی رنگ کی نظمیں بھی لکھنی شروع کر دیں جو کبھی اصلی اور کبھی سیاسی بندشوں کے سبب فرضی ناموں سے چھپتی رہیں لیکن بات: دل ضبط زباں ضبط اثر ضبط فغاں ضبط سرکار کا منشاء ہے کہ ہو سارا جہاں ضبط سے آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ صحیح ہے کہ بھوپال میں کوئی ایسا نظم گو شاعر پید انہیں ہوا جس نے کلیتاً اقبال کے لب و لہجہ یا رنگ و آہنگ میں نظمیں کہی ہوں۔ لیکن ایسا ہندوستان کے دوسرے مقامات پر کہاں ہوا؟ نواب حمید اللہ خاں کے دور میں بھوپال کے جن شعراء کی بیرون بھوپال بھی شہرت و عظمت تھی ان کی ایک طویل فہرست ہے پھر بھی سہا مجددی ملا رموزی ذکی وارثی‘ شریف محمد خاں فکری] سید محمد یوسف قیصر ارشد تھانوی ‘ محوی صدیقی ‘ سید محمود اعظم فہمی‘ رمزی ترمذی محمد اسمعیل ہاتف عبدالجلیل مائل نقوی‘ حامد سعید خاں‘ منیر بھوپالی‘ تربینی سرن شاد ‘ بہاری چرن صادق‘ باسط بھوپالی‘ شعری بھوپالی‘ اور ان کے بعد کی نئی نسل میں کیف بھوپالی احسن علی خاں‘ اختر سعید خاں‘ اظہر سعید خاں‘ وجدی الحسینی فضل علی سرور‘ اسد بھوپالی‘ عرشی بھوپالی‘ عنبر چغتائی ‘ مرزا متین سروش‘ عمران انصاری‘ گوہر جلالی احمد علی جاوید ‘ حبیبب فخری‘ مخمور بھوپالی‘ شمبھو دیال سخن‘ مقصود عمرانی‘ مقصو د عرفانی‘ افسوں بھوپالی‘ گوپی کشن شوق‘ سورج کلا سہائے سرور‘ مہ جبین خمار‘ سعیدہ بانو‘ محمد علی تاج‘ عشرت قادری‘ وفا صدیقی‘ جہاں قدر چغتائی‘ شہاب اشرف شفا گوالیاری‘ رفعت الحسینی‘ اور محسن بھوپالی کا ذکر ضروری ہے۔ اسی طرح نثر نگاروں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے بھوپال کے علم و ادب کے خزینوں میں بیش بہا اضافے کیے۔ کچھ شخصیتیں وہ ہیں جنہوںنے بالواسطہ یا بلا واسطہ اقبال کے پیغام کو دنیا کے سامنے نئی معنویت کے ساتھ پیش کیا۔ اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے جدید دور کے نئے تقاضوں کو اپنی تحریر کا موضوع بنا کر ایک نیک نامی اور شہرت حاصل کی۔ چند ایک ایسے بھی ہیں کہ جنہوںنے براہ راست اقبال کے فکر وفن پر کام کیا۔ ذیل میں ایک مختصر سی فہرست پیش کر رہا ہوں جس سے رف اندازہ ہو سکے گا کہ ان میں سے کتنے صاحب مرتبہ ہیں اور کتنے عالی مرتبہ: مولوی عبدالرزاق‘ محمد امین زبیری‘ ڈاکٹر عابد حسین‘ مولانا محمد اسلم جیراجپوری‘ مفتی انوار الحق ‘ شاہ اسد الرحمن‘ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری‘ علامہ سید سلیمان ندوی‘ نیاز فتحپوری‘ محمود اعظم مفتی‘ علامہ میاں خالد‘ حامد رضوی‘ سہا مجددی‘ قاضی ولی محمد‘ سید محمو یوسف قیصر‘ ملا رموزی محوی لکھنوی‘ ارشد تھانوی محمد احمد سبز واری‘ ابو سعید بزمی‘ خاتون ارشد ‘ شاغل فخری‘ محمود الحسن صدیقی‘ کوثر چاند پوری‘ قدوس صہبائی قمر الحسن‘ وجدی الحسینی ‘ عبدالحلیم آرٹسٹ رشدی سلمان الارشد‘ اختیر سعید خاں‘ ابراہیم یوسف‘ رقیہ خلیل عرب… اشتیاق عارف قمر جمالی‘ انجم سلمانی‘ ایم عرفان جوہر قریشی‘ کوکب جمیل ‘ سید حسن محمود الحسینی لطف اللہ خاں نظمی‘ اختر جمال ‘ زہرہ جمال‘ احمد مکی‘ خلیل بدر ‘ شاہ میری راہ پروین رشدی‘رضیہ فرحت بانو‘ شفیقہ فرحت محمد وکیع صدیقی‘ اور آخری دور میں ڈاکٹر سلیم حامد رضوی‘ ڈاکٹر گیان چند‘ ڈاکٹر حامد حسین‘ عبدالقوی دسنوی‘ شمیم احمد ‘ آفاق احمد عبدالاحد خاں تخلص‘ ڈاکٹر ابو محمد سحر‘ ڈاکٹر حنیف فوق اور ڈاکٹر محمد یوسف وغیرہ۔ بھوپال میں نظم نگاری پر خصوصیت کے ساتھ جن شعرا نے اپنی توجہ مبذول رکھی اور نظم کی رروایت کو آگے بڑھایا ان میں محمود اعظم فہمی‘ ملا رموزی‘ ارشد تھانوی‘ محوی صدیق‘ باسط بھوپالی‘ کیف بھوپالی‘ احسن علی خاں‘ اختر سعید خاں‘ اظہر سعید خاں‘ وجدی الحسینی عمران انصاری ۱؎ اور ۱۹۴۷ء کی آزدی کے بعد محسن بھوپالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۴۰ء میں بھوپال میں بھی انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آ گیا اور چند ہی سالوں میں اس انجمن کے باشعور ادیبوں شاعروں اور فن کاروں نے نثر و نظم دونوں میں موضوع و ہئت کے نئے اسالیب کو اپنایا اور اس طرح بھوپال میں بھی نئے ادب کی طرح ڈال دی۔ ۱۹۴۵ء میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو ساری دنیا کی طرح بھوپال کے اہل قلم نے بھی سکھ کا سانس لیا اور نشر و اشاعت کی نئی راہیں کھولیں۔ دسمبر ۱۹۴۵ء میں رشدی اور راقم الحروف نے بڑی جدوجہد کے بعد ماہنامہ افکار کا ڈکلریشین حکیم قمر الحسن ایڈیٹر ’’ندیم‘‘ کی وساطت سے حاصل کیا اور یہ سوچا کہ جب تک بھوپال سے کوئی معیاری ادبی ماہنامہ جاری نہ ہو گا اس وقت تک نہ بھوپال کے علم و ادب کی تشہیر ممکن ہو گی نہ ادیبوں اور شاعروں کا بجا طورپر تعارف ہو سکے گا عجب اتفاق ہے کہ رشدی اورمیں نے افکار کے اجراء کے لیے اقبال کی مشہور نظم تخلیق مطبوعہ ضرب کلیم کے پہلے شعر: جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا کو منتخب کیا۔ اور جب ایک صحبت میں ملارموی سے جو رشدی کے اور میرے مشترک دوست تھے اس شعر کا حوالہ دے کر افکار کے اجراء کا مشورہ لیا تو ملا رموزی نے جو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کے لیے ہندوستان گیر شہرت رکھتے تھے ماہرنجوم بھی تھے اور جوہری بھی اور جن کی گلابی اردو اور طنزیہ مزاحیہ نظموں نے ہندوستان بھر میں دھوم مچا دی تھی کچھ دیر سوچتے رہے۔ ۱؎ شعراء کے اس گروہ میں راقم الحروف بھی شامل تھا لیکن اس فہرست میں دانستہ اپنا نام شامل نہیں کیا ہے۔ پھر ہنس کر فرمایا کہ اس نام کی تاثیر یہ ہو گی کہ تم دونوں ساری عمر مجموعہ افکار بنے رہو گییا ہجوم افکار میں گھرے رہو گے اس لیے اگر فکروں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہو تو ماہ و انجم گلستان یا باغ و بہار قسم کانام رکھو ویسے میرا نجوم یہ بتاتا ہے کہ لفظ ’’افکار‘‘ کو یقینا دوام حاصل ہے اور پھر تم نے تو اس نام کو شاعر مشرق کے شعر سے اخذ کیا ہے لہذا بسم اللہ۔ ملا رموزی… آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کی پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی افکار مارچ ۱۹۴۶ء میں معرض وجود میں آیا اور اسے جاری ہوئے آج ۲۸ سال ہو چکے ہیں۔ ماہنامہ ’’افکار‘‘ ۱۹۵۰ء میں میرے ساتھ بھوپال سے کراچی آ گیا اور اپریل ۱۹۵۱ء سے اس نے دوسرے دور کا پاکستان سے آغاز کیا۔ مریے آنے کے بعد ۸۱۹۵۱ سے روزنامہ افکار… رشدی نے بھوپال سے جاری کیا جو تاحا ل جاری ہے۔ واقعی شعر و حکمت کا فلسفہ بھی عجیب ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ رشدی یا میں اقبال کے اس شعر: جہان تازہ کی افکار تازہ سے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا کی صداقت کے امین بن کر انتہائی صبر آزما اور نامساعد حالات میں اسے زندہ رکھ سکیں گے۔ لیکن اقبال کے فیضان سے یہ چراغ آج تک روشنہے۔ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۰ء تک افکار بھوپال سے پابندی وقت کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ اور اس کی لوح پر ہم جہان تازہ والا شعر ہمیشہ درج کرتے رہے۔ کتنے ہی پرانے اور نئے لکھنے والے اس کے زریعہ متعارف ہوئے۔ اور ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد جب صفیہ اختراور جاں نثار اختر حمیدیہ کالج بھوپال میںلکچرر ہو کر آ گئے تو بھوپال کی انجمن ترقی پسند مصنفین میں بھی جان پڑ گئی۔ ۱۹۴۹ء میں بھوپال کی ادبی تاریخ میں پہلی بار کل ہند ترقی پسند مصنفین کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس کا افتتاح علامہ سید سلیمان ندوی نے فرمایا اس کانفرنس کی قابل ذکر شخصیتوں میں پنڈت سند ر لال کرشن چندر جوش ملیح آبادی عصمت چغتائی شاہد لطیف مہندر ناتھ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مدتوںاس کانفرنس کا بھوپال میں چرچا رہا۔ افکار نے اس کانفرنس کا یادگار نممبر شائع کیا۔ اور اس طرح بھوپال نے دنیائے ادب میں اپنے لیے ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ افکار جب تک بھوپال سے نکلتا رہا اقبال کی فکر کا ترجمان رہا… اور جہان تازہ کی افکار تازہ سے تعمیر کرتا رہا۔ اور اسی مسلک پر وہ آج بھی گامزن ہے۔ ٭٭٭ قرآن مجید کے حواشی ۱۹۳۱ء سے اقبال کے بھوپال آنے جانے کا سلسلہ شرو ع ہوا جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ ۱۹۳۵ء کے بعد جب راس مسعود بھوپال تشریف لائے تو کچھ اور وسعت پذیر ہو گیا۔ ۱۹۳۳ء میں ہی ان کی صحت کا عالم دگرگوں ہو چلا تھا۔ چنانچہ نواب صاحب بھوپال کی خواہش پر اور راس مسعود کی ترغیب پر وہ ۱۹۳۵ء میں بھوپال آ کر علاج کرانے پر آمادہ ہو گئے۔ اسی دوران راس مسعود سے تبادلہ خیالات ہوا نواب صاحب کو بھی راس مسعود نے ان کے خانگی حالات اور مالی حالات سے مطلع کیا۔ اورنواب صاحب نے بلا کسی تذبذب کے فوری طور پر ان کا وظیفہ مقرر کر دیا نواب صاحب نے ا ن سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ قرآن مجید کے ایسے مستند حواشی تحریر کر دیں کہ جو تمام مسلمانان عالم کے لیے رہبری و ہدایت کا سبب بن سکیں۔ اقبا ل نے بخوشی اس پیش کش کو قبول کر لیا۔ چنانچہ مکتوبات اقبال کے آخری باب خاتمہ سخن میں نذیر نیازی نے اس سلسلے میں جو کچھ کہا ہے وہ پیش خدمت ہے: قرآن شریف کے نوٹ ’’۱۹۳۵ء میں جب اعلیٰ حضرت نوا ب صاحب بھوپال نے حضرت علامہ کی لائف پنشن مقرر کر دی اور حضرت علامہ نے راقم الحروف کو اس کی اطلاع کی تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا: اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایام قرآن شریف کے نوٹ لکھنے پر صرف کر دوں گا۔ یہاں یہ کہنے کی ضڑورت نہیں خہ قرآن مجید کے ان تفصیلی حواشی کی تکمیل جب ہی ممکن تھی جب حضرت علامہ کو صحت ہو جاتی۔ مگر اس کے باوجود لوگ دریافت کرتے ہیں کہ اس قسم کے کچھ حواشی کیا پہلے سے لکھے ہوئے موجود تھے یا ان کا کچھ حسہ بعد میں لکھا گیا اور اگر نہیںتو یہ حاشیے لکھے جاتے تو ان کی نوعیت کیا ہوتی۔ کیا حضرت علامہ اپنے ذہن میں مطالب قرآنی کا کوئی خاص نقشہ قائم کر چکے تھے ؟ ان کے خیالات اس سلسلے میں کیا تھے۔ یہ سوالات نہایت اہم ہیں اورقوم کا ذوق تجسس بجا طور پر اس امر کا مقتضی ہے کہ ان کا کوئی ٹھیک ٹھیک جواب مل سکے۔ بالخصوص اس لیے کہ ناقدین کی رائے کچھ بھی ہو حضرت علامہ کا اپنا ارشاد تو یہی ہے کہ ان کے افکار کا سرچشمہ قرآن پاک اور اسوہ حضور رسالت مآب صلعم کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ اسی ذات گرامی سے جس پر قرآن مجید نازل ہوا والہانہ عشق و محبت کا تعلق تھا جس کی بدولت کتاب اللہ کی حکمت ان پر عیاں ہوئی پس چہ باید کرد کے یہ اشعار کس کی نظر سے نہیں گزرے۔ درجہان ذکر و فکر انس و جاں تو صلوۃ صبح تو بانگ اذاں ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی قطرہ دریا و طوفانم توئی گرد تو گردد حریم کائنات ازتو خوا ہم یک نگاہ التفات قرآن پاک سے حضرت علامہ کو جو عشق تھا اور اس کا مطالعہ انہوں نے جس کاوش اور محنت سے کیا تھا وہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس سے لوگ ناواقف ہوں۔ ان کی طالب علمی کے اور ابتدائی زمانے کے دوست بھی اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ بڑے سحر خیز تھے۔ فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرتے اور پھر قرآن مجید کی تلاوت بڑے ذوق و شوق سے فرماتے۔ اپنی آخری علالت میں جب ان کی آواز بیٹھ گئی اور گلے کی تکلیف کچھ حبس دم کے باعث تلاوت قرآن کا سلسلہ چھوٹ گیا تو انہوںنے کس حسرت سے کہا: در نفس سوز جگر باقی نماند لطف قرآں سحر باقی نماند علی بخش ان کے مدت العمر سے ملازم کا بھی جو ہمیشہ سے ان کے ساتھ سایے کی طرح لگا رہا یہی بیان ہے کہ فجر کی نماز کے لیے وضواور جائے نماز کا اہتمام سونے سے پہلے ہی کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ تعلیمات قرآنی کے بارے میں ان کا ایک خاص نقطہ نظر تھا۔ جس کی اپنے اشعار اور خطبات میں انہوںنے وضاحت بھی کی۔ لیکن جہاں تک ان تفسیری حاشیوں کا تعلق ہے وہ کبھی سپرد قلم نہیں ہوئے۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے۔ یعنی علالت۔ البتہ اس سلسلے میں ان کی دو ایک تحریریں ضرور دستیاب ہوئیں اوروہ شاید اب اقبال اکیڈمی میں محفوظ ہیں۔ ایک تحریر میں تو فقہ اسلامی کی بحث میں بعض قرآن مصطلحات مذکور ہیں۔ دوسری تحریر صرف چند ایک قرآنی مصطلحات پر مشتمل ہے۔ لیکن ان دونوں تحریروں کی حیثیت حواشی کی نہیں علامہ اقبال نے ان تحریروں میں کوئی جملہ بھی رقم نہیںفرمایا۔ صرف چند الفاظ مستفسرانہ انداز میں لکھے ہیں جس سے کچھ مترشح ہوتا ہے۔ تو یہی کہ انہوں نے اپنی یادداشت کے لیے چند ایک باتیں بطور اشارات لکھ لی تھیں ۱؎۔ رہا یہ امر کہ وہ ان باتوں کی تشریح اور تفصیل کس انداز میں اور کس نہج پر کرتے اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ الا یہ کہ ان کی روز مرہ گفتگو یا ان ارشادات سے جو وقتا ً فوقتاً انہوںنے اس سلسلے میں فرمائے سامعین کو ان کے خیالات کا شاید ایک حد تک اندازہ ہو سکے۔ یہ اس لیے کہ قرآن اور رسالت یہ دو موضوع ایسے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ یا کوئی بھی بحث ہو اس کا خاتمہ اسی پر ہوتا ہے۔ کہ قرآن پاک کا ارشاد اس سلسلے میں کیا ہے یا یہ کہ حضور رسالت مآب صلعم نے اس بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا۔ بسا اوقات وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کا مطالعہ کس نہج پر کرنا چاہیے۔ اور پھر باتوں باتو ںمیں تعلیمات قرآنی کی طرف بڑے لطیف اشارات کر جاتے۔ مختصرا ً یہ کہ ان کے ذہن میں تعلیمات قرآنی کو ایک باقاعدہ شکل میں پیش کرنے کا تصورتو ضرور تھا لیکن یہ سب علالت وہ اکثر محسوس کیا کہ ان کے پیش نظر شاید یہی ایک مسئلہ ہے جس پر وہ انتہائی تجسس اور تحقیق سے قلم اٹھانا چاہتے ہیں۔ رسالہ اردو کے اقبال نمبر میں میں نے اپنے مضمون اقبال کی آخری علالت میں اس امر کی طرف اشارہ کر چکا ہوں کہ ان کا ذہن کس طرح ہر وقت اسی فکر میں الجھا رہتا تھا۲؎‘‘۔ نذیر نیازی کی اس توضیح و تشریح کے بعد میں محمد امین زبیری مرحوم کا ایک مضمون بھوپال کا علمی جائزہ میری نظر سے گزرا جسے سید محمد یوسف قیصر نے مجھے بطور خاص بھوپال سے بھجوایا تھا۔ اس مضمون میں والیان ریاستکی علمی ادبی مذہبی اخلاقی‘ تاریخی کارناموں کا مختصر تذکرہ بھی ہے اور ہندوستان سے جتنی مایہ ناز شخصیتیں بھوپال سے وابستہ ہیں اور انہوںنے بھوپال میں رہ کر یا بھوپال کی امداد سے علمی ادبی اور تاریخی خدمات انجام دیں ان کا جستہ جستہ احوال بھی درج ہے۔ یہ مضمون رسالہ اردو کے صفحہ ۱۱۵ سے شروع ہو کر صفحہ ۱۳۸ پر ختم ہوتا ہے اور بلا شبہ بھوپال کے علمی کارناموں کا جو کئی ہزار صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اتنے مختصر اور جامع انداز میں محمد امین زبیری ایسے بلند پایہ ادیب و محقق ہی احاطہ کر سکیت ھتے۔ اس مضمون کے مطالعہ کے دوران صفحہ ۱۳۰ پر دور حمیدی کے مختلف علمی و ادبی کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی یہ عبارت جب میری نظر سے گزری : ’’…ہز ہائی نس نے ڈاکٹر اقبا ل مرحوم کی ایک مستقل تصنیف کی درخواست پر افکار حاضرہ کی روشنی میں قرآن مجید کے تفسیری نوٹ لکھنے کے لیے پانچ سو روپے ماہانہ کی امداد مقرر کی مگر علامہ نے تین سال میں اس کام کا اقدام بھی نہ کیا ۱؎ سہو کتابت ہے۔ لکھ لی تھیں ہونا چاہیے ۲؎ مکتوبا ت اقبال صفحہ ۳۴۲۔۳۴۵ اور نہ کوئی یادداشت ہی چھوڑی ۱؎‘‘۔ تو مجھے واقعی حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ اس عبارت سے جو ۱۹۵۸ء میں لکھی گئی ہے۔ نذیر نیازی کا وضاحتی بیان جو کتابی صورت میں ۱۹۵۷ء میں سامنے ا اگیا تھا خود بخود تردید ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ان کے بیان کردہ واقعات بھی صحت پر مبنی نہیں کیونکہ پانچ سو روپیہ بطور وظیفہ مقرر ہوا تھا نہ کہ بطور امداد یہ رقم ماہانہ مقرر کی گئی تھی جس کا ثبوت گزشہ صفحات میں بھی مل سکتا ہے اور ڈاکٹر اقبال سے بھی عبدالمجید سالک فرماتے ہیں: ’’… اس درویش خدامست نے کبھی دولت و جاہ کی طر ف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر میں روز مرہ کی معیشت تک دشوار ہو گئی۔ اس موقع پر نواب صاحب حمید اللہ خاں والی بھوپال نے اپنے تعلق خطر اور قدر دانی خدمت اسلامی کے باعث جیب خاص سے حضرت علامہ کا پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ (تا) حسین حیات مقرر کر دیا۔ مئی ۱۹۳۵ء میں ہی بیگم کا انتقال ہوا اور اسی مہینے میں بھوپال کا وظیفہ شروع ہوا ۲؎‘‘۔ اس اقتباس سے صاف ظاہر ے کہ والی بھوپال نے اپنے تعلق خاطر اور قدردانی خدمت اسلامی کے پیش نظر وظیفہ مقرر کیاتھا۔ امداد مقرر نہیں کی تھی۔ نیز خود اقبال اورراس مسعود کے خطوط کے علاوہ شہزادی عابدہ سلطان کے ارشادات اور حیدر علی عبداسی کے بیان سے بھی پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ نیز یہ وظیفہ غیر مشروط تھا اس لیے محمد امین زبیری مرحوم کا یہ لکھنا کہ یہ رقم ڈاکٹر اقبال مرحوم کی ایک مستقل تصنیف کی درخواست پر افکار حاضرہ کی روشنی میں قرآن مجید کے تفسیری نوٹ لکھنے کے لیے دی گئی درست نہیں۔ پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ تفسیری نوٹ لکھنے کی درخواست یا خواہش اقبال نے کی تھی۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ نواب صاحب بھوپال نے اقبال سے اس خدمت کو انجام دینے کی درخواست کی تھی۔ جس کا ثبوت ہمیں کئی مستند بیانات سے مل جاتاہے۔ جو گزشتہ صفحات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کا ایک اور اعتراض کہ علامہ نے تین سال تک اس کام کا اقدام نہ کیا اور نہ کوئی یادداشت ہی چھوڑی ۔ بھی محل نظر ہے کہ نذیر نیازی نے اس کی بھی وضاحت کر دی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی دو ایک تحریر یں ضرور دستیاب ہوئیں اور وہ شاید اقبال اکیڈمی کے پاس محفوظ ہیں۔ ایک تحریر میں تو فقہ اسلامی کی بحث میں بعض قرانی مصطلحات مذکور ہیں۔ دوسری تحریر میں ایک قرآنی مصطلحات پر مشتمل ہے‘‘۔ ظاہر ہے یہ حواشی تو نہیں ہیں لیکن ان کے اس بیان سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ انہوںنے اس کام کو سب کاموں پر مقدم سمجھ کر ابتدا کر دی تھی۔ لیکن ان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور یہ عظیم کام تشنہ تکمیل رہا۔ محمد امین زبیری کے اس اعتراض برائے اعتراض کا اندازہ محمد نعیم ندوی کے اس مضمون کے اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو فاران کراچی میں بعنوان علامہ شبلی دارالمصنفین اور بھوپال شائع ہوا ہے لکھتے ہیں: ۱؎ رسالہ ’’اردو‘‘ جنوری ۱۹۵۸ء ۲؎ ذکر اقبال ۔ صفحہ ۱۹۶ ’’…علامہ شبلی نے جو اپنے گوناگوں علمی کمالات اور کارناموں کی بدولت تاریخ علم و ادب میں زندہ و جاوید ہیں۔ تقریباً نصف صدی تک داد تحقیق دینے کے بعد عمر کے اآخری حصہ میں سرور کونین علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار میں اپنے اخلاص و عقیدت کا نذرانہ پیش کرنے کا ارادہ کیا لیکن راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ سرمایہ کی نایابی تھی۔ چنانچہ علامہ شبلی نے جنوری ۱۹۱۲ء ء کے الندوۃ میں قوم کے نام یہ اپیل شائع کی کہ جو اس سعادت کو حاصل کرنا چاہتا ہے وہ دست تعاون دراز کرے منشی محمد امین زبیری‘ جو ہر ہائی نس نواب سلطان جہاں بیگم مرحومہ کے لٹریری سیکرٹری تھے یہ اپیل دیکھ کر سرکار سے کونین کی ا س لٹتی ہوئی دولت سے اپنے دامن بھر لینے کی درخواست کی اور اس علم نواب خاتون نے بسر و چشم اس کو قبول کر کے مصنف غلام کو دوسرے آستانوں سے مستغنی اور تمام افکار سے بے نیاز کر دیا۔ منشی امین زبیری مرحوم کا ذکر نوک قلم پر آ گیا ہے تو چند سطور ان کے متعلق بھی گوارا کر لی جائیں۔ زبیری مرحوم کو علامہ شبلی سے غایت درجہ عقیدت تھی چونکہ وہ ریاست کے شعبہ تاریخ کے مہتمم بھی تھے۔ اس لیے وہ ریاست کی تصانیف و تالیفات کے سلسلے میں علامہ مرحوم سے مشورہ لیتے رہتے تھے۔ سیرت کی امداد کرنے میں موصوف کی جدوجہد کو بڑا دخل تھا۔ علامہ شبلی کے مطبوعہ مکاتیب میں زبیری کے نام ۳۱ خطوط پائے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعے سے بھی دونوں کے تعلقات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ لیکن اپنے ممدوح علامہ شبلی کی رحلت کے بعد ایک عرصہ کے بعد مولانا سید سلیمان ندوی کی شہرہ آفاق تصنیف حیات شبلی منصہ شہود پر آئی اوراس نے علمی دنیا میں دھوم مچا دی تو انہی زبیری مرحوم نے یک دم قلب ماہیت اختیار کر لی ورنہ صرف سید صاحب علیہ الرحمتہ سے انتہائی بدظن ہو گئے بلکہ علامہ شبلی کی ثقاہت کو مجروح کرنے کی فکر ان پر مسلط ہو گئی۔ بظاہر تو انہوںنے یہ شکوہ کیا کہ حیات شبلی ک مصنف نے سوانح نگاری کا حق ادا نہیںکیا ہے اور شبلی کی زندگی کا صرف ایک رخ دکھایا ہے۔ تصویر کے دوسرے رخ سے جسے زبیری رنگین زندگی کا نام دیتے ہیں چشم پوشی ہے۔ مگر اہل نظر خوب جانتے ہیں کہ شبلی کی رنگین زندگی سے اغماض کا الزام سید صاحب پر صرف برائے الزام ہی ہے ورنہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ زبیری صاحب مرحوم کے بار بار اصرار کرن یپر بھی سید صاحب نے حیات شبلی کا مسودہ ان کو دیکھنے نہ بھیجا۔ بس اس پر چراغ پا ہو کر زبیری صاحب نے اپنی بقیہ عمر شبلی و سلیمان علیہما الرحمتہ کی مخالفت اور ان پر طنز و تعریض کرنے میں گزاری ۱؎‘‘۔ ۱؎ ماہنامہ فاران کراچی اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحہ ۲۵ تا ۲۹ نفس موضوع سے ہٹ کر اس طویل جملہ معترضہ کو پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ شبلی کی طرح زبیری مرحوم کو اقبال سے بھی کچھ اسی نوعیت کا للہی بغض تھا۔ جس کے نتیجہ میں آخری عمر میں انہوںنے خدوخال اقبال لکھ ڈالی جس کا خاص مقصد اقبال کی سیرت کے دوسرے رخ کو اجاگر کرنا تھا۔ لیکن ان کی یہ آرزو ان کی زندگی میں پوری نہ ہو سکی اور خدوخال اقبال کا مسودہ ہی لاپتا ہو گیا جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں۔ اب آئیے اس حقیقت کا مزید جائزہ لیں کہ قرآن مجید کے حواشی کے سلسلے میں ان کے کیا کیا عؤزائم تھے وہ اس سعی و جہد میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ اور اس ضمن میں انہوںنے کیا سرمایہ چھوڑا۔ سب سے پہلے عبدالمجید سالک کی مشہور کتاب ذکر اقبال سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو: تصنیفی منصوبے ’’… علامہ اقبا ل کے ہم صحبت نیاز مندوں کو معلوم ہے کہ حضرت ممدوح کے ذہن میں بعض نہایت مفید تصنیفات کے خاکے اور بعض تنظیمی اور اصلاحی اداروں کے منصوبے موجود تھے۔ جن کو وہ اپنی زندگی میں ہی معرض شہود پر نہ لا سکے لیکن ان کی تڑپ علامہ کے قلب میں مرتے دم تک رہی۔ مثلاً وہ جوانی کے زمانے میں محسوس کر چکے تھے کہ اگر اسلام ایک ضابطہ حیات کی حیثیت سے آج کل کے زمانے میں کامیاب اورآبرومند بنانا ہے تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ زمانہ حا ل کے جورس پروڈنس یعنی اصول قانون کی روشنی میں شرح اسلامی کے اساسات دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں اور دلیل برہان سے اصول فقہ اسلامی ی برتری آج کل کے قانون پر ثابت کی جائے۔ مجوزہ کتاب کا نام تھا۔ Constuction of Islamic Jurisprudence انہوںنے بار ہا یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ ایک کتاب لکھیں گے جس کا نام ہو گا۔ Islam as I Understand (یعنی اسلام میرے نقطہ نظر سے) جس میں اسلام پر ایک جدید تعلیم یافتہ سائنس داں اور فلسفی کی نگاہ سے روشنی ڈالی جائے گی اور ایسی زبان اختیار کی جائے گی جسے زمانہ حال کے علمی حلقے سمجھتے ہیں۔ اواخر حیات میں قریب قریب ہر روز یہی ذکر رہتا تھا کہ میں ایک کتاب لکھ کر چھوڑ جائوں گا۔ جس کا منشاء یہ ہو گا کہ پڑھنے والوں کے دلوں میں مطالعہ قرآن کا صحیح ذوق پیدا ہو جائے گا اور جتنے نظریے یورپ کے مستشرقین نے قرآن اور ادبیات اسلامی کے متعلق قائم کر رکھے ہیں وہ سب کے سب خاک میں مل جائیں۔ اس کتاب کا نام کبھی کبھی Aids to the study of Quran بتایا کرتے تھے ۱؎‘‘۔ ۱؎ ذکر اقبال ۔ صفحہ ۲۱۱۔۲۱۲ مقدمتہ القرآن قرآن مجید کے حواشی کے بارے میں ممنون حسن خاں کے انکشافات نے دیباچہ طبع ثانی میں ملاحظہ کیے ہوں گے ۔ خوش نصیبی سے نظر ثانی کے دوران اقبال کاایک ایسا خط بھی مل گیا جس سے پہلی بار یہ علم ہوا کہ انہوںنے قرآن مجید کے حواشی کے متعلق کتاب کا نام مقدمتہ القرآن رکھا تھا۔ اقبال نے یہ خط دوسرے قیام بھوپال کے دوران شیش محل سے ڈاکٹر محمد دین تاثیر کو انگلستان ارسال کیا تھا۔ گزشتہ صفحات میں اقبال کے وظیفہ کے متعلق ۱۹۳۵ء کے دوران اقبال اور راس مسعود کے درمیان جو خطوط کا تبادلہ ہوا ہے وہ آپ کی نظر سے گزر چکا ہے۔ انہیں خطوط میں انہوںنے ایک تجویز نواب صاحب بھوپال کی خدمت میںذریعہ راس مسعود پیش کی تھی جس کا واضح ثبوت ذیل کا خط مہیا کرتا ہے۔ اس خط میں وہ ڈاکٹر تاثیر کو لکھتے ہیں: ’’اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے نہایت درد مندی سے میرا علاج کرایا ہے۔ اس کے علاوہ جب ان کو سر راس مسعود سے معلوم ہواکہ میں ایک کتاب مقدمۃ القرآن لھنا چاہتا ہوں تو اس ارادے کی تکمیل کے لیے مجھے انہوںنے تاحیات پانچ سو روپے ماہوار کی لٹریری پنشن عطا فرمائی ہے آپ کو شاید اس کا علم اخباروں سے ہو گیا ہو گا‘‘۔ مقدمۃ القرآن اور لٹریری پنشن کی اصلاحات کا شاید ہی اس سے پہلے کسی کو علم ہو۔ اور اس امر کا بھی کہ لٹریری پنشن کی خبر اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی۔ دوسرے قیام بھوپال کے دوران جاوید بھی ان کے ہمراہ تھے جیسا کہ خط کے مندرجات سے ظاہر ہے: ’’بھوپال شیش محل ۲۲ جولائی ۱۹۳۰ء ۱؎ ڈیر تاثیر صاحب السلام علیکم جاوید کے لیے الف لیلہ کا نسخہ جو آپ نے بھیجا ہے مجھے آج یہاں بھوپال میں موصول ہوا۔ جاوید بھی میرے ساتھ ہے۔ وہ کتاب دیکھ کر بہت خوش ہوا اور آپ کا بہت بہت شکریہ اداز کرتا ہے۔ میں یہاں بھوپال میں بغرض علاج برقی مقیم ہوں۔ اور اگست کے آخر تک علاج جاری رہے گا۔ بہ نسبت سابق حالت بہترہے۔ اور ڈاکٹر صاحبان یقینی امید دلاتے ہیں کہ آواز عود کر آیئے گی۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے نہایت دردمندی سے میرا علاج کرایا ہے۔ اس کے علاوہ سر راس مسعود سے یہ معلوم ہوا ہے کہ میں ایک کتاب مقدمۃ القرآن لکھنا چاہتا ہوں تو اس ارادے کی تکمیل کے لیے مجھے انہوںنے تاحیات پانچ سو روپے کی ماہوار لٹریری پنشن عطا فرمائی ہے۔ ۱؎ سہو کتابت ہے ۱۹۳۵ء ہونا چاہیے آپ کو شاید اس کا علم اخباروں سے ہو گیا ہو گا۔ اب ذرا صحت اچھی ہو لے تو انشاء اللہ اس کتاب کو لکھنا شروع کر دوں گا۔ اسی سال کے دوران میںامید ہے صور اسرافیل بھی ختم ہو جائے گی۔ پھر کچھ مدت کے لیے مقدمۃ القرآن کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دوں گا۔ باقی اب زندگی میں کوئی دلچسپی مجھ کو نہیں رہی۔ صرف جاوید اورمنیرہ کی خاطر زندہ ہوں۔ انگلستان آنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ اگر میں کچھ مدت کے لیی ادھر چلا جائوں تو ان بچوں کی نگرانی کون کرے گا۔ اس کے علاوہ میرے لیے ان کی جدائی بھی مشکل ہے۔ ان کی ماں کی آخری وصیت بھی یہ تھی کہ جب تک یہ دونوں بچے بالغ نہ ہو جائیں ان کو اپنے سے جدا نہ کرنا۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ لاہور سے فساد کی خبریں آ رہی ہیں ملٹری نے فائر کر دیے تھے۔ آج کی خبر ہے کہ دس مسلمان مارے گئے زخمیوں کی تعداد معلوم نہیں ہے۔ ملٹری اورپولیس کے آدمی بھی زخمی ہوئے ہیں یہ سب کچھ مسجد شہید گنج کے انہدام کے سلسلے میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ یہ سمجھ لو کہ انگریزی تدبر کے اب آخری دن ہیں زیادہ کیا عرض کروں۔ علی بخش سلام کہتا ہے جاوید آداب لکھواتا ہے۔ محمد اقبال حاشیہ پر: میاں صاحب کے باغ کے آم لاہورسے کھا کر روانہ ہوا تھا۔ اگرچہ ان آموں کا موسم کچھ میرے بعد شروع ہو گا۔ آپ نے ارادہ کیا تھا کہ جاوید نامہ پر لکچر دیں گے۔ وہ لکچر لکھا گیا یا ابھی تک معرض التوا میں ہے۔ لکھا جائے تو ایک کاپی ضرور ارسال کیجیے۔ محمد اقبال ۱؎‘‘۔ ۱؎ انوار اقبال۔ صفحہ ۲۰۵ تا ۲۰۷ اسی سلسلے میں میاں محمد شفیع ایم اے م ش کا ایک مضمون ہماری بہت سی الجھنوں کو دور کر دیتا ہے جس میں بڑی وضاھت کے ساتھ اس کتاب کا خاکہ ہمارے ذہن میں آ جاتا ہے جسے وہ نواب صاحب کی تجویز پر لکھ رہے تھے۔ میاں صاحب کا مضمون ملاحظہ ہو: شاعر مشرق کی آخری خواہش ’’۱۹۳۳ء میں مجھے علامہ اقبال مرحوم کے نویندہ کی حیثیت سے کام کرن کا شرف حاصل ہوا تو علامہ مرحوم نے چند کاغذات میرے حواے کیے جن پر ان کے ہاتھ سے کتاب کا ایک خاکہ لکھا ہوا تھا وہ انگریزی زبان میں اسلام کے مطالعے کے لیے ایک دیباچہ قلم بند کرانا چاہتے تھے جس میں اسلام کے فلسفہ قانون رپ خصوصیت کے ساتھ بحث کی جاتی چونکہ ان کی بینائی کمزور ہو تی جا رہی تھی اس لیے ان کا ارادہ تھا کہ وہ یہ کتاب مجھے تحریر کرواتے جاتے۔ اگر یہ مکمل ہو جاتی تو انگریزی زبان میں تو اسلامی نظام حکومت و معاشرت اور فلسفہ اسلامی قانون کے متعلق یہ ایک مستند ترین اور دور آفرین تصنیف ہوتی۔ اس کتاب کی تجویز درحقیقت انہیں نواب صاحب بھوپال نے پیش کی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے علامہ مرحوم کی بڑھتی ہوئی علالت نے انہیں اپنے ارادے پورا کرنے کی مہلت نہ دی۔ اور بالآخر ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو موت نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ علامہ اقبال کی اس تحریر کو میں نے اب تک ایک قومی امانت کے طور پر سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ قائد اعظم مرحوم سے بھی اس کا ذکر کیا تھا اور انہوںنے مارچ ۱۹۴۳ء میں ایک گرامی نامے کے ذریعہ مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ میں علامہ کی کتاب کا خاکہ ان کی خدمت میں ارسال کر دوں تاکہ وہ اس کا مطالعہ کر کے اسے کسی ایسی شخصیت کے سپرد کر دیں جو اس امانت کو سنبھالنے اور علامہ مرحوم کے تحریر کردہ خاکہ کے مطابق کتاب کو مکمل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ قائد اعظم مرحوم کا خیال تھا کہ چونکہ کتاب کا موضع بحث فلسفہ قانون ہے اس لیے ایک قانون دان ہی اس کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ چونکہ یہ نوٹ پنسل سے لکھے ہوئے تھے اس لیے مدھم پڑتے جا رہے تھے۔ چنانچہ ۱۹۴۵ء میں سنٹرل جیل ملتان میںاسیری کے دوران میں نے بڑی احتیاط سے انہیں نقل کر لیا۔ اور اب میں اس خاکہ کی نقل بجنسہ قوم کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ اہل اصحاب علامہ اقبال کی خواہش کے مطابق اس خاکہ کو پیش نظر رکھ کر ایک ایسی مستند کتاب تصنیف کر سکیں جس میں اسلام کو ایک پایندہ حقیقت اور ہمارے معاشرہ میں ایک زندہ و فعال عنصر کی حیثیت سے پیش کیا جا سکے۔ ا۔ اسلام کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟ (۱) اس میں قوت و فعالیت ہے۔ اس نے مختلف ادوار میں فروعات اورزوابد سے نجات حاصل کرنے کی قابلیت کا ثبوت دیا ہے۔ اسلام میں نئی تحریکیں میں ان پر ایمان نہیںرکھتا کیونکہ یہ فکری انتشار اور اندرونی خلفشار کا اظہار کرتی ہیں۔ (۲) اسلام… دنیائے جدید اور مملکت برطانیہ ب… اسلام اور شہنشاہیت اسلام پر عرب شہنشاہیت کا اثر… انہوںنے روما اور ایران کی شہنشاہیتوں کو ختم کر کے ایک نئی شہنشاہیت کی بنیاد ڈال دی۔ شہنشاہیت کے اسباب و علل (۱) مذہبی جوش اور انسانیت کی اصلاح و ہدایت کی لگن۔ (۲) بھوک (افلاس) بہرحال اسباب چاہے کچھ ہی ہوں اس کے نتائج مفید ثابت نہیں ہوئے شہنشاہیت نے ان رہبانیت پسند مذاہب کو بھی اسلام کے دامن میں پناہ دے دی جنہیں اسپنگلر نے مویدوں کے مذہب Magian کا نام دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہواکہ اسلام نے سابقہ مذاہب کے فلسفیانہ مناقشات اور مباحثات یعنی روح نفس قرآن حدیث یا قدیم اور اسی قسم کے دوسرے متنازعہ مسائل کو اپنے اندر جذب کر لیا اور حقیقی اسلام کو ابھرنے کا بہت کم موقع ملا۔ ج… اسلام کو سمجھنے کے لیے دور جدید کے طالب علم کی مشکلات۔ اسے اسلام کے متعلق لاتعداد اور ان گنت لٹریچر کی چھان بین کرنی چاہیے۔ اور قرآن حکیم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ میں نے اسلام کا مطالعہ اسی طریق پر کیا ہے اور اپنی اسستطاعت کے مطابق اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ د…اسلام کیا ہے؟ کیا یہ ایک مذہب ہے دوسرے مذاہب کی طرح؟ مذہب کے کیا معنی ہیں؟ قرآن میں اس کے لیے دین کا لفظ استعمال ہوا ہے قانون کی اطاعت دیکھیے قرآن ۵:۱۸) پرانے ایشیائی مذاہب کی خصوصیات۔ (۱) ابتدائی مذاہب میں وحی کا تصور۔ ایک پراسرار فعل۔ اسلا نے اس کی خالص علمی اور سائنٹفک توضیح پیش کی ہے۔ قرآن ۔ ابن خلدون۔ تصوف۔ (۲) نجات (۳) دنیا سے قطعی بے تعلقی (لا رھبانیہ) خانہ‘ حجرے‘ تہ خانے‘ اسلام اور عیسائیت کا موازنہ (واللہ یخرجکم من الظلمات الی النور) حضرت عیسیٰ وحی۔ (۴) غیب کا خوف (لا خوف علیھم ولاھم یحزنون) (۵) اسپنگلر کی کتاب Some Secret Teachings جلد دوم صفحہ نمبر ۲۴۵ مارٹیمین کی جلد اول بھی پڑھیے۔ (۶) زمان اور عالم کی بے حقیقتی Unreality پر ایمان۔ (ربنا خلقت ہذا باطلا ھل اتیٰ علی الانسان…) (۷) تقدیر (۸) دینی حکومت Theocracy اسلام کے ظہور کے وقت دنیا میں جتنے مذاہب موجو د تھے اسلام ان کے خلاف ایک احتجاج تھا۔ کائنات ایک حقیقت ہے وقت حقیقت ہے۔ اب نبیوں کا ظہور نہیں ہو گا۔ (بنی موعود) (ج) قید Limitationسے فرار نہیں۔ بیچ بچائو نہیں ہو گا۔ قسمت یا تقدیر Fatalism کوئی چیز نہیں۔ کیا اسلام ایک دینی حکومت ہے؟ کلیسا اور ریاست کا رشتہ! ریاست کیا ہے ۔ ایک معاہدہ ہے ازدواجی رشتہ کی طرح۔ ر۔ لیکن اسلام مذہب سے بہت کچھ زائد ہے۔ امن و اطمینان اندرونی و بیرونی (قرآن… ۵:۱۸) (۱) اسلام انسان کی نسلی تفریق کو ختم کرتا ہے (بیرونی امن) (۲) یہ اقتصادی مساوات پیدا کرتاہے (اندرونی امن) (۳) یہ باب یہاں ختم ہوتا ہے دوآخری مشاہدات۔ ۱۔ کیا اسلام ایک خطرہ ہے؟ ۲۔ اسلام عیسائیت کا دشمن یا رقیب نہیں۔ دنیا کوتہذیب کا سبق دینے میں وہ عیسائیت کے ساتھ اشتراک عمل قبول کرتا ہے۔ باب دویم … اسلام کا قانون دیکھیے ڈکنسن کی تصنیف After Two Hundred Years مویدوں کے مذہب میں وحی ایک پراسرار عمل ہے۔ اسلامی تصوف میں اس پراسرار عمل کی علمی اور سائنٹفک تشریح کی گئی ہے۔ کیا یہ اخلاقیات کا نام ہے جس میں جذبات کی اثر پذیری ہے؟ ا… مذہب… کیا یہ خدائے واحد یا دیوتائوںمیںایمان کانام ہے جن کی کسی نہ کسی صورت میں پرستش کی جاتی ہے۔ رہبانیت کو مذہب کا نام دیا گیا ہے۔ (۱) کیا یہ دنیا سے قطع تلعق کا نام ہے؟(لا رھبانیہ فی السلام) (۲) کیا یہ غیب کا خوف ہے؟ (لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون) (۳) کیا یہ فوق الحس Super Sensible سے رابطہ کا نام ہے؟ اس کاجواب کسی حد تک اثبات میں ہے۔ لیکن ایسی فوق الحس جسکی علمی تشریح و توضیح کی جا سکے۔ ابن خلدون اتمام Finalityکا تصور۔ (۴) کیا ہی کوئی خفیہ تعلیمات ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل کی جاتی ہے۔ (راز؟) اسپنگلر کی کتاب All early Magian Religions جلد دوم صٖحہ ۲۴۶ اسلام نمبر ۲ (قد تبین الرشد من الغی) (۵) مذہب …لفظ مذہب کا ماخذ… قرآن میں مذہب کا لفظ استعما ل نہیں کیا گیا قرآن میں دین منہاج اور ملت کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ملت اور دین کے الفاظ کے معنی۔ (۶) دیکھیے … میٹی نین Matineen جلد اول ب… اسلام مذاہب کے پرانے مفہوموں سے احتجاج یا بغاوت کا نام ہے؟ (۱) نبوت کا خاتمہ Abolition اسلام اور زمان (ھل اطیع) (۲) اسلام میں نجات کا تصور۔ کیا یہ ایک نجات دہندہ مذہب ہے؟ قرآن میں نجات کا لفظ صرف ایک مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ نجات کے کیا معنی ہیں؟ (۳) یہ کوئی خفیہ تعلمات نہیں (۴) خدا (غیب) میں ایمان… انسانیت کی نسلی تفریق کا خاتمہ اور اقتصادی مساوات … (قل العفو) ج… کلیسا اور ریاست کیا اسام میں جماعت ایک قانونی فرد ہے؟ (Juristic Person) ریاست اور کلیسا کا باہمی رشتہ… ریاست کیا ہے… نکاح کی طرح ایک معاہدہ ۔ امین شیخ الاسلام ہے… وغیرہ موروثی بادشاہت… اسلام میں ملا گری (Priesthood) کی تاریخ۔ واقعہ کربلا اس کے نتائج۔ د…اسلام اور عورت ر… اسلام اور سرمایہ داری ۲۔ مویدوں کے مذاہب Magian میں وحی ایک پراسرار عمل ہے۔ جس میں کوئی روح بولنے والے کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ اسلام میں وحی آیات قرآنی کے حوالہ سے زندگی کی ایک عالمگیر خصوصیت ہے۔ جس میں انسان خدا سے رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ زندگی کے سرچشمے یہ اپنے آپ کو تین طریقوں سے ظاہر کرتی ہے۔ علم کے منبع کی حیثیت سے یہ ختم کر دی جاتی ہے اسلام میں فکر عمل کے بغیر نامکمل ہے۔ فکر اسلامی ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرتا ہے جسے نسل فرقہ اور مذہب کے دقیانوسی تصورات معدوم اور ناپید ہو جاتے ہیں یہ روشنی ہے (اللہ نور السموت والارض) واللہ یحزجکم من الظلمات الی النور ۳۔ نجات نجات کیا ہے۔ نجات کس چیز سے انفرادیت کی حد بندیوں سے نہیں۔ وجنکم فردا شعور و احساس کی کشاکش سے نہیں۔ یہ کائنات میں خودی کی آزادی کی نام ہے ۔ خدا کا تصور (رفیق علی رفیق الاعلیٰ) ا۔ نیند نجات دلاتی ہے (لاتاخذہ سنتہ ولانوم) ب… شراب نجات دلاتی ہے اور شعور کی قوت اور بل کو توڑتی ہے۔ ج… رقص بھی نجات دلاتا ہے (امر و بالولعفو وکراما) زمان اور مکاں سے نجات (فرار) ے یہ تمام ذرائع اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں اس کی تعلیم ہے کہ آپ فکر کے ذریعہ حقیقت کا ادراک اور معرفت حاصل کر کے اور مکا ن پر قبضہ حاصل کریں۔ علی سلطان تفکروا فی خلق السموات) جب ہم اشیاء کو محض اتفاقی علایق اور رتوں کے رنگ میں دیکھنے لگتے ہیں تو حقیقت حاضرہ Visible Activityکا خوف دور ہو جاتاہے۔ خوف منتروں اور تعویذ گنڈوں سے نہیں بلکہ رموز فطرت کو پہچان لینے سے دور ہوتا ہے۔ د… دنیا کا مطالعہ ایک تحریک کی حیثیت سے۔ تاریخ…تصوف ۳۔ ایمان … سلامتی اسلام میں اصلاحی تحریکیں ابن تمیمیہ عبدالوہاب بابی… پیشین گوئیاں احمدیہ… سید احمد عقلیت کم بیش مویدوں کی تحریکیں نئی تحریک نبی موعود کی بعثت احادیث (بخاری) ۱؎‘‘ نذیر نیازی مولینا عبدالمجید سالک اور میاں محمد شفیع کی شخصتیں ایسی نہیں کہ جن کی اصابت بت رائے پر مزید اظہار خیال کی ضرورت پیش آئے۔ جو کچھ نذیر نیازی نے توضیح و تشریح کی ہے جو کچھ مولینا سالک نے بیان کیا ہے جو خاکہ قرآن مجید کے حواشی کا میاں شفیع نے شائع کر دیا ہے اس کے مطالعہ سے اقبال کی آخری خواہش کا بخوبی اظہار ہوتا ہے۔ ور جیسا کہ میاں محمد شفیع نے بھی لکھا ہے کہ قائد اعظم کی بھی یہی آرزو تھی کہ اس خاکہ کو کسی ایسی شخصیت کے سپرد کیا جائے جو اس امانت کو سنبھالنے اور علامہ مرحوم کے تحریر کردہ خاکہ کے مطابق کتاب کو مکمل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ یہ خواہش اور یہ آرزو آج تک تشنہ تعبیر ہے۔ کاش مملکت اسلامیہ کا کوئی دردمند باصلاحیت اور جواں حوصلہ فرد اقبال کی اس دیرینہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے اور قرآن حکیم فلسفہ اسلام اور دین متین پر ایک ایسی کتاب معرض وجود میں آجائے جو آج اور ہمیشہ مملکت پاکستان کے لیے ہی نہیںح بلکہ ساری دنیا کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ بن جائے۔ وما توفیقی الا باللہ! ۱؎ روزنامہ ’’آفاق‘‘ … لاہور ۴ ستمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۵ ٭٭٭ کچھ اس کتاب کے بارے میں (۱۴) ۲۵ ئی ۱۹۷۳ء کو شہزادی عابدہ سلطان…سابق ولی عہد ریاست بھوپال کی صدارت میں زیر اہتمام نیشنل بک سنٹر بہ اشتراک اقبال اکیڈمی پاکستان پاکستان نیشنل سنٹر ‘ آرٹس کونسل آف پاکستان اور ادارہ یادگار غالب کراچی اقبال اور بھوپال کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ اس موقع پر جو مضامین نظم و نثر پڑھے گئے وہ حسب ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے مقتدر اخبارا ت اور رسائل میں جو مضامین اور تبصرے شائع ہوئے انہیںبھی اس با ب میں محفوظ کر دیا گیا ہے تاکہ اقبال شناس ملک کی معتبر و مستند شخصیتوں کی آراہ اور خیالات سے استفادہ حاصل کر سکیں اور اقبال اور بھوپال کے مطالعہ میں ان سے مدد مل سکے ۔ یہاںیہ اظہار بھی بے جا نہ ہو گا کہ اقبال اور بھوپال اقبال اکادمی پاکستان کی پہلی تحقیقی کتاب ہے جس نے ۱۹۷۳ء کی تحقیقی کتابوں میں دائود ادبی انعام حاصل کیا اور مصنف کو پانچ ہزار روپے عطا کیے گئے۔ ریاض فردوس میں (نواب حمید اللہ خاں اور علامہ شیخ محمد اقبال کا منظوم مکالمہ) نواب حمید اللہ خاں (۱) نگاہوں کو تمہاری جستجو تھی کہ اک تحریر دلکش روبرو تھی کتاب اقبال اور بھوپال یہ ہے دلیل عظمت اقبال یہ ہے جسے لکھا ہے تم نے دارالاقبال وہ اس سیپارہ دل میں ہے بھوپال سقوط شرق بنگلہ پر ہوں برہم مسلماں کے تدبر کا ہے ماتم عجم میں کوئی غیرت مند بھی ہے روایت کا کوئی پابند بھی ہے کوئی بوذرؓ کوئی سلمانؓ بھی ہے دلوں میں آیہ قرآن بھی ہے بتائو کچھ تو پاکستان کا حال ابھی اٹھ گئے ہیں شیر بنگال نئی شیرازہ بندی بھی ہوئی ہے کہ مدت اب نخچیر دوئی ہے محبت کا کسی نے باب لکھا حقیقی صبح نو کا خواب لکھا علامہ شیخ محمد اقبال (۲) منم آزردہ ام از حال دنیا کہ انساں کرد استحصال دنیا شنیدیم آں تگا پوئے دمادم والے بینی کہ من گیرم نہ سازم وہ ساری صحبتیں ہیں حافظے میں جو ہیں اک لکھنوی ۱؎ کے تذکرے میں درندہ آج پھر انساں ہوا ہے مسلماں کا لہو ارزاں ہوا ہے زمین دسمنان خنجر بکف ہے عرب لیکن ابھی ساغر بکف ہے عجم کی اعلحضرت کو ہے تشویش علی اخوان و حسرت کو ہے تشویش عجم جولاں گہ مردان حر ہے جراحت پیشگی سامان حر ہے کہیں صقیل گر تیغ دودم عشق کہیں صورت گر نقش ارم عشق ۱؎ مراد صہبا لکھنوی روایت گرچہ ہے پامال پھر بھی دلوں میں موجزن ہے درد مندی زمین پاک ہے آسودہ شوق مری فردوس ہے معمورہ شوق وہاں باقی ابھی خیبر شکن ہیں ہزاروں دل کا محمد کا وطن ہے وفا کے حرف جب لکھے گئے ہیں جگر کے خون سے روشن ہوئے ہیں (تقریب رونمائی میں پڑھی گئی ۱؎) …قمر ہاشمی ارمغان اقبال مزاج ناقہ رامانند عرفی نیک می دانم مزاج ناقہ سے مانند عرفی میں بھی واقف ہوں چوں محمل را گراں بینم حدی را تیز تر خوانم جو محمل ہو گراں میںتیز کرتاہوں حدی خوانی حمید اللہ خاں اے ملک و ملت را فروغ از تو حمید اللہ خاں تجھ سے فروغ ملک و ملت ہے زالطاف تو موج لالہ خیز و از خیا بانم ترے الطاف سے گلش میں فصل گل کی ارزانی طواف مرقد حالی سزد ارباب معنی را بجا ہے اہل معنی کو طواف مرقد حالی نوائے او بہا نہا افگند شورے کہ من دانم کہ ہے اس کی نوائوں سے دلوں میں حشر سامانی بیاتا فقر و شاہی در حضور او بہم سازیم چلیں اس کی لحد پر فقر و شاہی ہم قدم ہو کر تو برخاکش گہر افشاں و من برگ گل افشانم میں برگ گل لٹائوں آپ کیجیے گوہر افشانی …اقبال )ترجمہ : سحر انصاری تقریب رونمائی میں پڑھی گئی ۲؎ انتساب ضرب کلیم اعلیٰ حضرت نواب حمید اللہ خاں فرما ں روائے بھوپال کی خدمت میں زمانہ با امم ایشیاجہ کرد و کند دراز دستی تیرہ شبی کو کیا کہیے کسے نہ بود کہ ایں داستاں فروخواند یہ لطف خاص ہے اقوام ایشیا کے لیے تو صاحب نظری آنچہ در ضمیر من است وہ نور دیدہ بھوپال ہمدم اقبالؒ دل تو بیند و اندیشہ تو می و داند قبول صورت شاہین ہر فضا کے لیے ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی جون ۱۹۷۳ صفحہ ۲۶۔ ۲۷ ۲؎ ایضاً صفحہ ۲۵ بگیر ایں ہمہ سرمایہ بہار ا ز من اسی کے نا م سے منسوب تحفہ درویش کہ گل بدست تواز شاخ تازہ تر ماند وہی ہے آب بقا چشمہ بقا کے لیے …اقبال …ترجمہ آزاد: انور حارث (تقریب رونمائی میں پڑھی گئی) خطبہ صدارت محترم مصنف و میزبانو و معزز حضرات! آپ نے اقبال اور بھوپال کی افتتاحی یا تعارفی تقریب میں مجھے صدارت کی دعوت دے کر جس امتیاز ک لیے منتخب فرمایا ہے اس کا ذاتی طور پر ممنون ہونا ایک فطری امر ہے۔ اور میرے لیے یہ ایک بڑا خوش گوار فرض ہوتا ہے کہ میں چند رسمی و اخلاقی خوش نما جملوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں ہدیہ تشکر پیش کر کے اس فرض سے سبک دوشی حاصل کر لیتی… لیکن بات اتنی ہی نہیں… بات تو یہ ہے کہ صہبا صاحب کی اس بارہ سال کی محنت اس کاوش اس تحقیق اور اس قابل قدر تصنیف نے جہاں علامہ اقبال کی زندگی کے یا دل کے اس گوشے پر پہلی بار روشنی ڈالی ہے جس سے عام لوگ کم واقف تھے وہاں بھوپال کی روایات تاریخی کردار مذہبی علمی‘ ادبی و قومی خدمات کی بھی نشاندہی پاکستان میں پہلی بار صہبا صاحب کی ہی طرف سے کی گئی ہے۔ اس لیے آج میری مسرتوں میںمیرے فخر میں میرے امتیاز میں اور میری سپاس گزاری میں میں تنہا نہیں بلکہ اپنے ساتھ تمام اہل بھوپال کو شریک محسوس کرتی ہوں۔ اور ان سب کی طرف سے میں بھی ہدیہ تہنیت و تبریک پیش کرتی ہوں… عزیز و قابل فخر مصنف… آج ہماری تنہیت میں ایک بڑی مسرت یہ بھی ہے کہ تاریخ بھوپال کے شان دار اوراق میں ایک اور جگمگاتے باب کا اضافہ ایک فرزند بھوپال ہی کے قلم سے ہوا… ساتھ ہی ساتھ ہمیں اقبال اکادمی اور ان تمام بزرگ حضرات کا بھی ممنون ہونا چاہیے۔ جنہوں نے اس تصنیف کی ترتیب و تدوین و اشاعت میں اتنا پرخلوص تعاون کر کے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اقبال اور بھوپال کے متعلق سب سے پہلے تو میں اس بات کا اعتراف کروں گی کہ مجھے قطعی امید نہ تھی کہ کوئی شخص اس تحقیق و جستجو میں کامیاب ہو سکے گا۔ کیوںکہ ان واقعات کو گزرے ہوئے زمانہ ہو گیا۔ قیام پاکستان کے دوران جو لاکھوں افراد ادھر سے ادھر ہوئے۔ ان میں جا ن و مال کا نقصان تو ہوا ہی ہوا… بہت سے رابطے ٹوٹ گئے۔ قیمتی دستاویزیں خطوط اور کتابیںاس طرح ضائع ہو گئیں کہ پھر ان کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ خود میری کتابیں اور بیشتر کاغذات کا بھی یہی حشر ہوا۔ ا س لیے جب مجھے معلوم ہوا کہ اقبال اور بھوپال کے متعلق صہبا صاحب مجھ سے بھی کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مجھے افسوس و مایوسی ہوئی۔ کہ میرے پاس سوائے ان دو نسخوں کے جو علامہ ابال نے مجھے بھوپال میں بطور تحفہ دیے تھے کوئی دوسرا تحریری اور ٹھوس مواد نہ تھا جس کو زندگی کے مستند واقعات کی تائید کے طور پر پیش کیا جا سکے… مگر اس کتاب کوپڑھنے کے بعد میری حیرت اور خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اس تصنیف میں صہبا صاحب نے تحقیق کی دیانت کا پورا پورا حق کیوں ادا کر دیاہے۔ کہاں کہاں سے معلومات حاصل کی ہیں۔ واقعات خطوط وغیرہ اکٹھے کیے ہیں اور کتنے دلچسپ انداز میں ان کو پیش کیا ہے۔ یہ کتاب جہاں ماضی پر روشنی ڈالتی ہے وہاں مستقبل کے لیے دعوت فکر بھی دیتی ہے۔ ا س کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں بھوپال کے اس دور کے نقشے سامنے آ گئے ج میںعلامہ اقبال سر راس مسعود ‘ شعیب قریشی‘ مولانا محمد علی‘ شوکت علی‘ مسز نائیڈو‘ بی اماں‘ پنڈت نہرو‘ گاندھی جی ‘ قائد اعظم‘ اور بہت سے اکابر کی مسلسل آمدورفت رہتی تھی۔ میں نے سوچا… اقبال اور بھوپال قائد اعظم و مسلم لیگ علی گڑھ یونیورسٹی اور نواب حمید اللہ خاں یہ سب ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں تھیں جن کا مجموعی نام پاکستان تھا… پھر میں نے سوچا… کہ ان جیسی تاریخ ساز شخصیتوں کا یا اداروں کا ماضی سے تو بے شک رشتہ ہے کہ تاریخ بنا گئے۔ ایک ملک بنا گئے۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی و نظریاتی سلطنت بنا گئے۔ مگر حال و مستقبل سے ان کا کتنا تعلق باقی رہ گیا؟؟؟… ا س پر آپ بھی غور فرمائیں… علامہ اقبال آج ہمارے ہاں ایک تاریخ ساز مفکر‘ عظیم شاعر‘ فلسفی اور دانش وروں کے دیوتا تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن ان کے پجاریوں کے لیے اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہو گا: نہ وہ حس میں رہیں شوخیاں نہ وہ عشق کی رہیں گرمیاں نہ وہ غزنوی کی تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز کی یوم اقبال تو منایا جاتا ہے۔ قائد اعظم کی شان دار سال گرہ بھی ہوتی ہے۔ یوم پاکستان پر چراغاں ہوتے ہیں تقریریں ہوتی ہیں توپوں کی سلامیاںلی جاتی ہیں۔ پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ پھر …کیوں پاکستانیوں کا دل ہے کہ بجھا بجھا جاتا ہے نگاہیں جھکی جھکی جاتی ہیں… نہ وہ اسلام کا سنگھار ہے جو بھوپال کے پتے پتے بوٹے بوٹے سے نکھر کر اس کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ نہ وہ علی گڑھ کی بہار ہے۔ جہاں کے نوجوان متوالے ایک قوم ایک ملت کے نشے میں اٹھلاتے تھے۔ نہ وہ مسلم لیگ ہے۔ جس کا ادنیٰ کارکن بھی نظریہ پاکستان کو جزو ایمان تصور کرتا تھا۔ یہ وہی سرزمین ہے جس کو قائد اعظم بانی پاکستان کی پیدائش کا فخر حاصل ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے شاعر مشرق کو جنم دیا ہے اور یہ وہی قوم ہے جس نے تعمیر پاکستان کو عبادت سمجھا تھا… بیس بائیس سال کے قلیل عرصہ میں عبادت گناہ میںتبدیل ہو گئی ۔ اتحاد مختلف قومیتوں کو جنم دے رہاہے۔ علاقائی تعصبات نے اخوت و محبت کی جگہ لے لی ہے۔ مسلمان نے مسلمان کے خلاف پاکستان نے پاکستان کے خلاف وہ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا کہ تقسیم ہند کے فسادات بھی شرما گئے۔ میں نے سوچا… ایسی فضا میں کتنے لوگوں کو اس سے دلچسپی رہ گئی ہو گی کہ علامہ اقبال کا بھوپال اورفرماں روائے بھوپال سے کیا تعلق تھا۔ کیا رشتہ تھا۔کیا پس منظر تھا؟… بہرحال واقعات و حالات تو اپنی جگہ موجود ہیں۔ علامہ اقبال اور میرے والد مرحوم میں جو قدریں مشترک تھیں ان کی بنیاد علی گڑھ یونیور سٹی تھی۔ عالم اسلام کی ترقی فلاح و بہبود تھی۔ جو کسی خاص علاقہ سے مخصوص نہ تھی۔ اکثر میرے والد یہ مصرعہ گنگنایا کرتے تھے: مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا اور یہی دھن ہمارے تمام اکابر سابقہ کے دماغ میں سمائی ہوئی تھی۔ اگر علامہ اقبال کا تصوور ان کا پیغام ان کی فکر ان کی دعائیں یا ان کا شکوہ تمام عالم اسلام کے لیے یکساں تھا تو قائد اعظم بھی صوبہ سندھ تک محدود نہ تھے۔ اور نواب حمید اللہ خاں بھوپال ہی نہیں بلکہ بھوپال کی اس تاریخ کے محافظ و علم بردار تھے۔ جس نے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے لیے بھوپال اور بیرون بھوپال برصغیر و بیرون برصغیر مسلسل دو سو پچاس سال خدمات انجام دیں۔ اور یہی وہ عظیم رشتے تھے جو ہمارے بزرگوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتے تھے۔ منزل سب کی ایک تھی فرائض جدا جدا تھے ۔ اس دور کے ہر فرد نے ہر طبقے نے بڑی دیانت داری اور بڑے خلوڈ دل کے ساتھ اپنا یہ فرض ادا کیا۔ بڑی عظیم الشان قربانیاں دے کر پاکستان بنایا اور اس طرح ہم کو اپنی نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک فقیہ المثالی موقع اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا… مختلف زبانیں تو اس وقت بھی تھیں۔ صوبے تواس وقت بھی تھے۔ مگر کسی نے بھی ان مسلمانوں کے اتحاد و ارتقا کے لیے رکاوٹ نہ سمجھا تھا۔ ایک ہی نعرہ تھا کہ… مسلمان ایک قوم ہے اور برصغیر میں ان کی نمائندگی کا حق واحد مسلم لیگ ہی کو ہے۔ اسی نکتہ کو نواب حمید اللہ خاں صاحب نے جب گاندھی جی سے تحریری طورپر تسلیم کروا لیا… تو ایک طرف تو گاندھی جی نے فرمایا… I Have Made A Himaliyan Blunder دوسری طرف قیام پاکستان کا جمہور ی جواز پیدا ہو گیا۔ اور قیام پاکستان کی بنیاد مستحکم ہو گئی۔ اس وقت ہمارے تمام بزرگوں کو یقین تھا کہ جب برصغیر کے مسلمان متحد ہو کر سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے تو دنیا کے دوسرے مسلمان خود بخود اس طرف متوجہ ہوں گے۔ آپس کے اتحاد کی خود بخود ترغیب ہو گی اور اس برادرانہ تعلق سے تمام دنیا کے مسلمان ایک دوسرے کے شریک کار و ممدومعاو ن بن جائیں گے۔ انہیںبنیادوں پر گفتگو ہوتی تھی جس کو بارہا میں نے خود بھی سنا ہے ۔ قائد اعظم سر آغا خاں عامہ اقبال میرے والد مرحوم سررا س مسعود چوہدری خلیق الزمان شعیب قریشی ڈاکٹر انصاری‘ وغیرہ وغیرہ… سب متفق تھے۔ سب کے دل میں یہی آرزوئیں تھیں۔ یہی ولولے تھے۔ مگر کتنے قلیل عرصہ میں بجائے اتحادواخوت کے المیہ مشرقی پاکستان رونما ہوا؟ اس سے صرف ہم ہی مجروح نہ ہوئے بلکہ تمام عالم اسلام کو زبردست دھچکا لگا…! بہرحال یہ تقریب ایک مصنف کی بارہ سالہ جدوجہد کی کامیابی پہ مسرت اور خوشی کے اظہار کے لیے منعقدع کی گئی ہے اس میں میرا یہ ماتم بے موقع بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب یہ کتاب تاریخی بھی ہے او رمستند بھی۔ اقبال اور بھواپل کے متعلق بھی ہے تو تاریخ کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ اگر ماضی کے واقعت و مستقبل کے امکانات سے صرف نظر کیاجائے۔ اس کے مطالعہ سے اندازہ ہو گا کہ علامہ اقبال اگر مفکر تھے تو اہل بھوپال اہل عمل تھے۔ اور کتنے عزم اور پختگی کے ساتھ مسلمانوں کی عام فلاح و بہبود کے لیے بالخصوص تعمیر پاکستان کے لیے بھوپال نے اپنے اپنے خاندان کے اپنے ورثا کے مفادات کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے تعمیر پاکستان میںکتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا…! آج کی محفل میں مفکر بھی ہیں مصنف بھی شاعر بھی ہیں اہل قلم بھی۔ اقبال کے جانشین بھی ہیں بھوپال کے وارث بھی آپ کی اس جانشینی کا حق اسی وقت ادا ہو گا کہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کو آپ اسی طرح جاری رکھیں جس طرح ااپ کے ہمارے بزرگوں نے طاقت برطانیہ اور غیر مسلم اکثریت کے باوجود جاری رکھا اور کامیاب بنایا تھا… وہ دور دور غلامی کہلاتا تھا۔ آج آپ آزاد بھی ہیں اور خود مختار بھی۔ اس وقت آ پ کو مستعدد اختلافات سے سابقہ تھا… آج آپ کو صرف اپنے مسلمان بھائیوں کا اعتماد بحال کرنا ہے محبت اور پیار سے متحد کرنا ہے۔ دلائل کے ذریعہ یقین دلانا ہے کہ ہماری سب کی بقا اور ترقی کا راز اتحاد ومحبت میں ہے۔ تفرقہ تعصب سے دینا چاہیے۔ یا طاقت کا مظاہرہ کر کے لوگوں کو مرعوب کرنا چاہیے۔ یہ طریقہ غیر مہذب اور غیر جمہوری ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے شایان شان بھی نہیں ہے۔ اس لیے میرے بزرگو میرے بھائیو میری بہنو ایک ہی موقف ہے ایک ہی نعرہ ہے… مسلمان ایک ہی قوم ہیں او ر جہاں جہاں مسلمان ہیں وہاں وہاں پاکستان ہے۔ مسلمان جغرافیائی حدود نسلی امتیاز اور لسانی فرق وغیرہ کا کب پابند رہا ہے مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا پاکستان پائندہ باد شہزادی عابدہ سلطان (تقریب رونمائی میں پڑھا گیا ۱؎) نئے عنوان کی کتاب جناب صدر برادرم صہبا خواتین و حضرات… میں صہبا صاحب کو جسمانی طور پر ایک پرچھائیں سے زیادہ نہیںپاتا۔ اور جب دیکھتا ہوں کہ وہ اتنے بھاری بھرکم کام کر ڈالتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ بھاری بھرکم کام کی تازہ ترین مثال اقبال اور بھوپال ہے میں نے کتاب پڑھی ہے اور پوری پڑھی ہے۔ اقبال پر جتنی کتابیں لکھی گئیں ہیں شاید اتنی ہندوستان میں رہنے والے کسی اردو یا فارسی کے شاعر پر غالب کے سوا نہیں لکھی گئی ہیں۔ اقبال اور بھوپال ایک نئے عنوان کی کتاب ہے اور مجھے اس کتاب کے باوجود اس کے کہ اس کو محدود تحقیق یا جزوی تحقیق کہا جا سکتا ہے۔ ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی جولائی ۱۹۷۳ء صفحۃ ۳۰ تا ۳۳ بہت سے ایسے مواد ملے ہیں اور بہت سی ایسی محققانہ باتیں ہیں جن میں نہ صرف یہ کہ اقبال کی شاعری اور ان کی شخصیت کے بہت سے نئے گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ بلکہ ان کے ساتھ اور بہت سی اہم شخصیتوں کے بارے میں اہم معلومات ہوتی ہیں۔ مثلاً سر راس مسعود‘ نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال…ان لوگوں کی شخصیت پر جو روشن پڑتی ہے وہ اگر یہ کتاب نہ لکھی گئی ہوتی تو شاید ہم لوگ ان لوگوں سے بالکل ناواقف رہتے۔ صہبا صاحب نے بڑی محنت اور کاوش اور تحقیق اور دیانت داری سے اور اسی کے ساتھ ساتھ بغیر کسی قسم کے تصرف کے مواد اکٹھا کیا ہے۔ اقبال کے جتنے خطوط انہوںنے اکٹھا کیے ہیں ان کی داد مجھ سے بیشتر مقررین اور مقالہ پڑھنے والوں نے دی ہے۔ لیکن مجھے یہ کہنا ہے کہ جو خطوط مطبوعہ یا غیر مطبوعہ اب تک لوگوں کی نظر سے گزرے ہیں ان کے پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اقبال سے ان کی شخصیت اور شاعری سے ہم پہلے بھی واقف تھے۔ الیکن ان خطوط سے ان کی شخصیت ان کے قلندرانہ مزاج ان کی تخلیق شعری اور ان کی بہت سی اور انسانی اور شعری حیثیتوں پر ایک نئی روشنی پڑتی ہے۔ اقبال کو اپنے کام کے ساتھ جو کام وہ اپنے ذمے لے لیتے تھے یا اس کے لیے حامی بھر لیتے تھے۔ سچی لگن ہوتی تھی۔ اس کی ایک مثال جس کی طرف بعض مقررین نے اشارا کیا ہے۔ جشن حالی ہے جو ۱۹۳۵ء میں پانی پت کے مقام پر ہوا تھا۔ کس بے چینی کے ساتھ راس مسعود کو بار بار خط لکھتے تھے کہ اور خصوصیت کے ساتھ کہ وہ اس لیے نواب بھوپا ل کو راضی کر لیں۔ اور ان کو اس بات پر آمادہ کیے رہیں کہ وہ آ کر صدارت کریں جشن حالی کی۔ میں جشن حالی کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ میں خود وہاں موجود تھا۔ ایک منصبی کی حیثیت سے میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پبلسٹی آفیسر تھا اور مجھے وہاں بھیجا گیا تھا…! اقبال راس مسعود اور نواب بھوپال سے پہلی مرتبہ ملنے کا موقع مجھے وہیں ملا۔ وہ میری ڈاکٹر اقبال سے پہلی ملاقات تھی اور آخری ملاقات بھی… اور مجھے یاد ہے صہبا صاحب کی کتاب نے وہ یاد تازہ کر د ی کہ وہ کس قدر بیمار تھ۔ ان کی آواز بیٹھی ہوئی تھی۔ یہی ہیں مجھے کچھ ایسا احساس ہوتا تھا کہ بات بات پر ان پر رقت سی طاری ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اگر کوئی سوال کرتا تو زحمت بھی ہوتی تھی۔ میں نے بھی ان سے دو تین سوالات کیے تھے پھر احساس یہ ہوا کہ ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے یا آواز چونکہ بیٹھی ہوئی ہے بولنے میں تکلیف ہوتی ہے پھر میں نے سوال نہیںکیا۔ اور انہوںنے ایک ہی دن قیام کیا۔ پھر اسی وقتوہ دلی چلے گئے اور دلی سے لاہور… ان تمام باتوں کو تفصیلی معلومات صہبا صاحب نے جس طرح سے اپنی کتاب میں فراہم کی ہے وہ یقینا قابل قر ہیں اور ان سے آئندہ لکھنے والے بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ تو اس کتاب کی اہمیت ہوئی۔ ہم کو یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوتی ہے کہ صہبا صاحب نے بہت مدہم بہت ہموار اور بہت ستھرے شیشہ طریق پر تحقیق کے بعد جو مواد اکٹھا کیا ہے اس کو سلیقہ سے پیش کیا۔ ان کی عبارت میں شگفتگی ہے اور دل کشی ہے مجھے نہیں معلوم تھا کہ صہبا صاحب ایک محقق بھی ہو سکتے ہیں۔ اور تحقیق کو شگفتہ انداز دلچسپ انداز … ا س انداز میں کہ شروع سے آخر تک کتاب میں دلچسپی قائم رہے اس انداز میں پیش کر سکتے ہیں … مجھے یہ احسا س اس وقت ہوا جب میں نے اقبال اور بھوپال ان کی یہ تازہ تصنیف اٹھائی تو آپ یقین مانیے کہ اس کتاب کو ہاتھ سے رکھ دینے کو جی نہیں کرتا تھا۔ اور میں نے وہ کتاب دو دن میں پڑھی۔ انہوںے کتاب میں تحقیق کی بھی داد دی ہے اور شخصیت نگاری کے بھی آداب برتے ہیں۔ اور بعض شخصیتوں کے جیسا کہ میں نے پہلے کہا بہت سے ایسے گوشوں کو اجاگر کیا ہے جو اگر یہ کتاب نہ چھپتی تو شاید ہمیشہ کے لیے پوشیدہ ہو جاتے۔ مجھے ئشاید اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھ سے بیشتر لوگوں نے مقالے پڑھے ہیں۔ تفصیلی جائزہ لیا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جائے گی۔ لوگ اس کو خریدیں گے اس لیے کہ زبانی قدر تو بہت عام ہے۔ کتاب کی اصل قدر تو یہی ہے کہ اس کی اشاعت ہو۔ اس کی بکری ہو۔ میرا خیال ہے اور مجھے امید ہے کہ صہبا صاحب کی کتاب کی مانگ ہو گی اور خاص کر کے اقبال انتھیوزیاسٹ Iqbal Enthusiastجو اقبال کے گرویدہ لوگ ہیں ان کی شاعری ان کی شخصیت کے ساتھ عقیدت و محبت رکھتے ہیں ان کی یہ کتاب مقبول ہو گی۔ …پروفیسر مجنوں گورکھپوری (تقریب رونمائی میں پڑھا گیا ۱؎) اقبالیات میں ایک نیا موضوع اقبال سے تو شاید ہم سب کو برابر کی نسبت رہی ہے لیکن سر زمین بھوپال سے تعلق اور رفیق دیرینہ صہبا لکھنوی سے تعلق خاطر کے جر م میں ماخوذ ہو کر میں آج آپ کے سامنے پیش ہوا ہوں۔ میرے لیے یہ انتہائی مسرت کی بات ہے کہ خوش بختی سے اقبال اور بھوپال کے جس مسودے کو مجھے دیکھنے کا موقع ملاتھا وہ آج نظر افروز کتاب کی صورت میں ارباب نظر کے سامنے ہے۔ اس کی ترتیب و تکمیل میں جو مدراج طے ہوئے ہیں اور صہبا لکھنوی کو جن وقتوں سے دست و گریباں ہونا پڑا ہے۔ اس کا بھی مجھجے تھوڑ ا بہت علم ہوتا رہا ہے… بہرحال اس راہ جستجو میں صہبا لکھنوی پر جو گزری ہے یہ بے خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ اقبال اور بھوپال کے مطالعہ اقبال اور اقبالیات کے سلسلے میں ایک لائق شتائش کاوش تحقیق ہے۔ شاید آج تحقیق سے زیادہ کوئی شعبہ علم تختہ مشق نہیں رہا ہے۔ خصوصاً تحقیق ادبیات کو ادب کے منشیوں نے نقل خلاصہ نگاری اور بسیار نویسی کا مترادف اور بہانہ بنا لیا ہے… محقق ہونے کا آسان ترین نسخہ ہے کہ چند کتابوں کو سامنے رکھیے اور ان کے متن کی تفصیلات بتاتے چلے جائیے۔ نہ کسی مبسوط نظر کی ضرورت ہے نہ سماجی پس منظر سے کوئی واسطہ ہے ۔ اور نہ انسانی رابطوں سے کوئی غرض ہے۔ اس طرح کی تحقیق نہ ادبی تصورات کے تجزیے کے بکھیڑے میںپڑتی ہ اور نہ ان تصورات کو مجموعی انسانی علوم سے منسلک کرنے کاجھمیلا دیتی ہے۔ تھوڑی سی محنت سے رنگ چوکھا آ جاتا ہے۔ اس تحقیق میں خیال کو جگانے اور زندگی کو روشن کرنے کاکوئی پہلو نہیں ہوتا تو نہ سہی خواہ یہ داد تحقیق الماریوں کی زینت ہی کیوں نہ بنتی رہے صاحب تحقیق کا شمار توادب کے جغا دریوں میں ہو جاتا ہے اقبال اور بھوپال کے مطالعہ سے مجھے بڑی خوشی یہ ہوئی ہے کہ یہ کتاب تحقیق کی منشیانہ روایت سے الگ ہے۔ صہبا لکھنوی نے اپنے مواد کی جستجو میں کم و بیش گیارہ برس صرف کیے ہیں ۔ واقعات کی صداقت کو پرکھنے کے لیے دقت نظر سے کام لیا ہے او ر مختلف ماخذات و ذرائع سے اپنی کتاب کے لیے مستند واقعات فراہم کیے ہیں۔ لیکن بڑی بات یہ ہے کہ اقبال اور بھوپال کے مطالعہ سے صرف چند خشک اور بے جان کتابوں کا علم نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک دور کی تہذیب اس کا ذہنی و فکری پس منظر اور اس تہذیب کے پرور دہ افراد کے تعلقات کی رنگارنگی ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ پھر اقبال کے واسطے سے اس دور کی اہم شخصیتوں اور اہم سیاسی و فکری رجحانات کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال کی فکر سے متاثر فکری لہروں کا سراغ بھی ملتا ہے۔ اس طرح صہبا لکھنوی کی تحقیق بوسیدہ ہڈیوں کو منظر عام پر نہیںلاتی۔ ذہن کی زندہ و فعال سرگرمیوں کو پیش کرتی ہے۔ ۱؎ ماہنامہ افکار ۔ کراچی۔ جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۳۴ ‘ ۳۵ علم و ادب کا ذوق ایک زمانے سے خطہ بھوپال کے باشندوں کا حصہ خاص رہا ہے۔ اور جاگیردارانہ سماج کے باوصف علم و ادب کی قدر دانی کی روایت کو اس خطے نے خوب پروان چڑھایا ہے۔ شبلی اور اقبال جیسے دیو پیکر مشاہیر ادب کی علمی و تحقیقی کاموں میںاعانت کا فخر بھوپال کو حاصل ہوا تھا۔ صہبا لکھنوی نے جہاں ایک جانب بھوپال کی علمی فضا اور ادبی کارناموں کے پس منظر کو تاریخی حوالوں کے ساتھ واضح کیا ہے وہاں دراالاقبال بھوپال سے شاعر عالم اور فلسفی کے روابط کے مختلف پہلوئوں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کر دیا ہے۔ اس طرح کتاب میں اقبال اور بھوپال کے دو بظاہر الگ الگ موضوعات میں اس علمی اور فکری وحدت کو دریافت کرنے کی کوشش جھلکتی ہے جو اقبال کو بھوپال کے قریب لائی اور جس نے بھوپال کے باشندوں کے لیے اقبال کو روشنی کا مینار بنا دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ صہبا لکھنوی کی اس کتاب سے چند نئے گوشے ہمارے سامنے آئے ہیں۔ اور ان سے خاص طور پر اس برصغیر کے مسلمانوں کے اس فکری پس منظر کی تلاش و جستجو کو تحریک ملتی ہے جس ن درہ خیبر سے لے کر ٹیکناف اور راس کماری تک نئی بیداری کی لہر دوڑانے کے ساتھ بعض تہذیبی نقش بھی قائم کیے تھے اور خطہ بھوپال نے بھی اس نقش آرائی میں اہم حصہ لیا تھا۔ اس سلسلہ فکر کا ایک مظہر تحریک پاکستان اور مملکت پاکستان بھ ہے۔ امید ہے کہ اقبال اور بھوپال میں جن امور کی جانب چند اشارے ملتے ہیںان کی بنیاد وں پر تحقیق کی نئی عمارتیں استوار کی جائیں گی۔ اس باز خوانی میں سینے کے داغوں کو تازہ رکھنے کے ساتھ ساتھ حال اور مستقبل کے لیے راہو کے تعین میںمدد ملے گی۔ کوئی ثقافت و سیاست ماضی سے بالکل بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ اس کے برخلاف ماضی کی خوبیوں اور خامیوں کا تنقیدی جائزہ شعور کی سطح کو بلند کرتا ہے ارو لائحہ عمل کے انتخاب میں معاون ہوتا ہے۔ اقبال فکر و عمل کے شاعر ہیں۔ اسی لیے اقبال کے ذکر و فکر و جذب کے تذکرے اور بھوپال میں ان کے کلام سے حاصل کردہ سرور و سوز و مستی کی روایت میں آج کے لے بھی بہت کچھ سامان بصیرت موجود ہے۔ اقبال اور بھوپال میں اقبال کی بعض نظمو ں اور بعض اشعار کی عقبی زمین اور محرکات اس طرح سامنے آئیہیں کہ ان نظموں اور ان اشعار کی معنویت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال کی شخصیت کے بعض نجی اورنازک گوشے ان کی قر انسانیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اور ان کی زندگی میں خلوص و دل نوازی کے نقو ش ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ اقبال کے چند خطوط بھی جو اس کتاب میں پیش کیے گئے ہیں جہاں اقبال کے بھوپال ارو بھوپلا کی ممتاز شخصیتوں سے خصوصی روابط کی نشاندہی کرتے ہیں وہاں ان کی سیرت بعض دلکش رنگوں کے ترجمان ہیں اس کے علاوہ اس کتاب میں بعض جگہ تصورات فن کے بارے میں خود اقبال کے اقوال بحولہ راوی درج کیے گئے ہیں۔ اگرچہ ان میں کوئی بھی تصور نیا نہیں ۃے ارو نہ پہلی بار پیش ہوا ہے لیکن ان سے اقبال کی قدآور شخصیت کے سمجھنے میں ضرورمدد ملتی ہے۔ مثلاً اقبال کا یہ تصور فن کہ بغیر اچھے علم کے اچھا ادب تخلیق ہنیں ہو تا۔ خود ان کے فن کی بلندی کا شارح ہے۔ اقبال کے راس مسعود اور دیگر احباب سے بے تکلفانہ تعلقات میں بھی جس مشرقی وضع داری اور رکھ ررکھائو کی جھلک ملتیہے وہ ایک دور تہذیب کی گواہی دیتی ہے۔ ان تعلقاتسے جہاں اقبال کی شائستگی اور نظم و ضبط کا پتا چلتا ہے وہاں ایک دور کی اقدار شائستگی کا حال بھی کھلتا ہے۔ صہبا لکھنوی نے اپنے موضوع کا دل نشیں انداز سے جائزہ لیا ہے۔ اور اقبال کی احسان شناسی دوست نوازی صاف دلی اور اعلیٰ ظرفی کے نقوش کچھ اس طرح پیش کیے ہیں کہ خود اقبا کے لفظوں میں خیاباں سے موج لالہ کے اٹھنے کا گمان ہوتاہے۔ اپنی تلاش و جستجو میں صہبا لکھنوی نے بعض نئے گوشے دریافت کیے ہیں اور انہیں پہلی بار اس کتاب کے ذریعہ متعارف کرایا ہے۔ اس طرح تحقیق تاریخ اور سیرت نگاری میں جو تخلیقی ہم آہنگی قائم ہوئی ہے۔ وہ اس کتاب کا بڑا وصف ہے۔ اس سے ایک عمر کے ادبی انہماک کا پتا چلتا ہے۔ اقبال کی مجوزہ کتاب کے خاکے میں جو صہبا لکھنوی نے میاں محمد شفیع کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ اقتصادی مساوات کو بھی معاشرے کی ضرور ت سمجھا گیا ہے۔ اقبا ل کی فکر سے آگاہی رکھنے والو ں کے لیے یہ کوئی نیا نکتہ نہیں۔ لیکن اقبال کی شاعری کو اپنی رجعت پسندی کا شکار بنانے والوں کے لیے ضرور ایک تازیانہ ہے۔ بحیثیت مجموعی اقبال اور بھوپال کے مطالعہ سے زندگی کی عظمت و سعادت کا نقش ذہن پر مرتسم ہوتا ہے۔ صہبا لکھنوی کے ساتھ ساتھ اقبال اکیڈمی اور نیشنل بک سنٹر بھی سزاوار ستائش ہیں کہ اقبال کے سلسلے میں ایک اچھی کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ بیابہ مجلس اقبال ویک دو ساغر کش اگرچہ سرانہ تراشد قلندری داند …ڈاکٹر حنیف فوق (تقریب رونمائی میں پڑھا گیا ۱؎) اقبال اور بھوپال صہبا لکھنوی سے میرے برس ہا برس کے تعلقات ہیں۔ اس کتاب کی تیاری کے سلسلے میں صہبا جن ادوار سے گزرے ہوئے ہیں ان سے میں بخوبی واقف ہوں۔ ایک عرصہ گزرا جب صہبا نے کہا تھا کہ بھوپا ل کی ریاست سے اقبال کے گہرے روابط تھے اور ایک کتاب اقبال اور بھوپال لکھی جا سکتی ہے۔ ایک دوسال بعد انہوںنے کہا کہ میں نے کتاب پر کام شروع کر دیا ہے۔ مواد کی فراہمی مشکل سہی لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اس زمانے میں عبدالقوی دسنوی کی کتاب کا تذکرہ ہوا۔ صہبا لکھنوی کی رائے میں یہ کتاب اقبال اور بھوپال کے روابط پر تشنہ تھی۔ اہل بھوپال اور اقبال کے قریبی تعلقات رکھنے والوں کی جانب سے صہبا لکھنوی کے خطوط کے جوابات آنے شروع ہوئے تو آہستہ آہستہ کام آگے بڑھا۔ لیکن میں نے صہبا لکھنوی کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیںدیا تھا۔ اس کے کئی اسباب تھے… میں سوچتا تھا کہ اقبال اور بھوپا ل کے عنوان سے تفصیلی کتاب بھی لکھی جائے تو مطالعہ اقال می اس کی کیا اہمیت ہو گی۔ اس کے علاوہ صہبا لکھنوی کے بارے میں کچھ زیادہ خوش فہمی نہ تھی۔ میں انہیں ایک دیانت دار اور محنتی ادبی صحافی سمجھتا تھا۔ لیکن میں ان سے کسی تحقیقی کام کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اس کتاب کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ میں صہبا لکھنوی کے اتنے قریب رہ کر بھی ان کی صلاحیتوں سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا اور مجھے اپنے استاد پروفیسر رشید احمد صدیقی کی ایک بات یاد آئی جو وہ اپنے طالب علموں سے گاہے بگاہے کہا کرتے تھے کہ آدمی ٹھک ٹھک کرتا رہے تو کچھ نہ کچھ ہو رہتا ہے۔ صہبا لکھنوی کی کتاب مکمل ہوئی تو یہ جملہ ذہن کے کسی چھپے ہوئے گوشے سے نکل کر روشنی میں آ گیا اور پتا چلا کہ ہم انسان کی محنت اور ذہانت کے بارے میں جو اندازے قائم کرتے ہیں۔ ۱؎ ماہنامہ افکار۔ کراچی ۔ جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۲ تا ۱۴ وہ اکثر صحیح نہیںہوتے۔ کیوں کہ کام کرنے والے اپنی لگن میں محو دن رات اپنی کوششوں میںلگے رہتے ہیں۔ ہم ان کے بارے میں بھی کچھ سوچتے رہیں لیکن وقت کی میزان پر وہی پورے اترتے ہیں اور اپنی منزل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر لیتے ہیں صہبا لکھنوی میں بھی کا م کرنے کی بے پناہ دھن تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی صحت کی خرابی اور گھریلو اور کاروباری مصروفیات کے باوجود اس کتاب کو مکمل کر کے ہی دم لیا۔ صہبا لکھنوی کی کتاب اقبال اور بھوپال کیسی کتاب ہے۔ اس میں کیا کچھ لکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ عرض کر دوں کہ عنوان سے آپ لوگ بھی میری ہی طرح اس فریب میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ ہو گی کوئی کتاب جس میں ریاست بھوپال اور نواب بھوپال سے اقبال کے چند رشتوں کو بیان کر دیا گیا ہو گا۔ لیکن ایک بار کتاب پڑھ لیجیے پھر آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ کتاب برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم ترین باب ہے اور ایک ایسی مستند ادبی اورتاریخی دستاویز ہے جسے نہ ادب کا آدمی فراموش کر سکتا ہے اور نہ تاریخ کا… میں تحقیق کے فن سے کچھ زیادہ علاقہ نہیں رکھتا۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ صہبا لکھنوی کنے مواد کی فراہمی اور ترتیب اور حقائق کی چھان چھٹک کا ایسا سلیقہ کہاں سے برتا ہے۔ لے دے کر ذہن اس خیال کی طرف مڑ جاتا ہے کہ وہ پروفیسر نواب علی کے بھتیجے اور داماد ہیں۔ نواب علی صاحب کی وقت نظر او ر تحقیقی لگن سے کون واقف نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ گھر کی یہی روایت صہبا کے خون میں رچ گئی ہو گی۔ اور اس نے صہبا لکھنوی کو اکسایا بھی ہو گا کہ تحقیق کا کوئی کارنامہ کر کے دکھائو… صہبا لکھنوی نے اپنے موضوع سے پورا پورا انصاف کیا ہے۔ اقبال اور بھوپال کے تعلق سے جو کچھ میسر آ سکتا تھا حاصل کیا اور اسے ایک لڑی میں پرو دیا ۔ نتیجہ کے طور پر ان کی کتاب تاریخ کے ایک پورے دور کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اس میں بھوپال کی معاشرت کی دل کشی اور خوبصورتی ہے۔ نواب حمید اللہ خاں کی ذہانت تدبر اور علم دوستی کوا بھرپور عکس ہے۔ علامہ اقبال کی شاعرانہ عظمت اور شخصیت کی تابناکی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں یہ کتاب بھوپال سے نکل کر پورے برصغیر کے حالات پر محیط ہے۔ یہ برصغیر ک ادب و ثقافت معاشرت و تہذیب اور سیاست کا تدبر کا آئینہ بن گئی ہے۔ اس میں شخصیتوں کے ایسے خاکے ہیں جو ذہن سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ قدسی صاحب اقبال اور ممنون کی شخصیتوں کو صہبا لکھنوی کے قلم نے لازوال بنا دیا ہے۔ راس مسعود اور لیڈی مسعود کے اقبال سے روابط پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن ان کی دوستی اس کتاب کا ایک مکمل باب ہے۔ جس کا ایک سرا راس مسعو د کی علم دوستی ہے اور دورا سرا شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعرانہ اور ملی بصیرت ہے۔ اور بہت سی باتیں اس کتاب کے بارے میں کہی جا سکتی ہیں۔ لیکن میں نے یہاں صرف تعارفی باتیں لکھی ہیں۔ باقی آپ کو خود پڑھنی ہوں گی۔ مجھے صرف ایک بات اور کہنی ہے کہ صہبا لکھنوی نے یہ کتاب لکھ کر اپنے گھر کی روایت ہی کو نہیں اردو تحقیق کو ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ لیکن ا ن کا اسلوب پروفیسر نواب علی کی بجائے شبلی کی یاد دلاتا ہے۔ اس میں شگفتگی اور رعنائی ہے وہ تحقیق کی باتیں خشک پیرائے میں لکھنے کی بجائے اپنی بات کو بڑے دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اسلوب کا تجزیہ بڑا مشکل کام ہے لیکن مجھے اس کے ایک سبب کا بالکل صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ انہیں اس کتاب کی تکمیل کے سلسلے میں اپنے کام سے اتنا گہرا شغف رہا ہے کہ زبان اپنی تمام تر دل کشی اور خوبصورتی کے ساتھ ان کے نوک قلم سے برابر ٹپکتی رہی ہے۔ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں کہوں گا کہ یہ کتا ب اہل بھوپال کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔ کیوں کہ کسی جگہ سے متعلق شاذ و نادر ہی ایسی کتاب لکھی جاتی ہے مطالعہ اقبال میں اس کتاب کو بہت خاص جگہ دینی پڑے گی۔ کیوں کہ اس میںواقعات کی ترتیب بڑے اہم نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ خود صہبا لکھنوی تاریخی واقعات کی ترتیب میں اور اپنے اسلوب میں اس طرح سمائے ہوئے ہیں کہ انہیں بھی اس کتاب میں دوام حاصل ہے۔ اسی لیے آج جب اس کتاب کا جشن منایا جا رہا ہے تو میرے نزدیک یہ جشن اقبال بھی ہے جشن بھوپال بھی ہے اور جشن صہبا بھی ہے۔ اور یہ بات نہ میرے بتانے کی ہے ار نہ آپ کے کہنے کی بلکہ خود کتاب کہتی ہے کہ یہ ایک یادگار جشن ہے…! …پروفیسر انجم اعظمی (تقریب رونمانی میں پڑھا گیا ۱؎) صہبا ‘ اقبال اور بھوپال ہمارے ہاں تحقیق کی لگن ذرا کم رہی ہے اور اردو میں تو اس چراغ کی لو اور بھی مدھم ہے۔ تاہم اس سے یہ قیاس کرنا کہ درست نہیں ہو گا کہ اردو میں معیاری تحقیق کی بلند پایہ کتابیں ہی موجود نہیں۔ہیں اور ضرور ہیں مگر ان کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں تحقیق کو وہ درجہ نہیں دیا جاتا جس کی وہ مستحق ہے۔ چنانچہ جب اقبال اور بوھپال کی اشاعت کا مسئلہ درپیش تھا تو ایک بزرگ فرمانے لگے کہ اقبال دو تین مرتبہ بھوپال گئے ہیں اور وہاں چند مہینے قیام کیا پھر بھلا زندگی کے اس مختصر واقعے پر کتاب لکھنے سے کیا فائدہ۔ دراصل یہ ان کی ذاتی رائے نہیں تھی بلکہ اس کو ہمارے معاشرے کے ذہنی افکار کا پرتو سمجھنا چاہیے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ شیکسپئری جو اکبر اور جہاں گیر کا ہم عصر تھا اور جس کے انتقال کو ساڑھے تین سو سال سے زائد ہو چکے ہیں۔ اس پر بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اور تحقیق کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ ہر سال ایک دو نئی کتابیں اس پر شائع ہو جاتی ہیں۔ اقبال کی وفات کو بھی پورے چالیس سال بھی ہیں ہوئے مگر اب ہم اس پر مزید لکھنے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں خہ اردو میں غالب کے بعد اگر کسی پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے تو وہ اقبال ہے مگر ابھی اقبال کی زندگی کے بہت سے گوشے ایسے ہیں کہ جو عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ اور ان کو منظر عام پر لانے کی شدید ضرورت ہے۔ اقبال اور بھوپال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھوپال ایک ممتاز ریاست تھی قدیم جاگیردارانہ نظام کی ایک شاخ مگر اس زمانے میں برصغیر میں یہی نظام قائم تھا اور اس نظام میں برائیاں بھی تھیں اور اچھائیاں بھی بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ سربراہ خود کچھ خوبیوں کا حامل ہو۔ برصغیر میں اس نظام نے علم و ادبب اور فن کی بڑی خدمت کی ہے اور برصغیر ہی پر کیا منحصر عالمی علم و ادب میں ا س ادارے نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ انگریزی زبان کے قابل فخر شاعر مثلاً چاسر‘ سودے‘ ورڈس ورتھ‘ ٹینی سن‘ ملک الشعراء رہے ہیں جو اس رتبے پر نہ پہنچ سکے ان کو ؤبھی کسی نواب یا رئیس کی سرپرستی حاصل رہی۔ شیکسپئر کا مربی وریو تھیلی Wiro Thesley ارل آف سائتھ ہمپٹن تھا۔ یہی صورت ایرانی شعرا کی ہے۔ برصغیر کی یہ روایت برقرار رہی اور جب سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرا تو یہ روایت بھی منتشر ہو گئی مگر اردو اس کے ادب‘ شہ پاروں اور ا س کے فن کاروں کی کہانی ان منتشر کرداروں کے ذکر کے بغیر کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟ جب تک اردو زندہ ہے حیدر آباد دکھن کی اس خدمت کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ برصغیر میں یہیں سب سے پہلے اردو کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی۔ جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۴۰۔۴۱ اور علم جو اب تک نامانوس زبانوں میں قید تھا سرزمین جامعہ عثمانیہ پر آزاد ہوا عام ہوا ۱؎۔ ریاست بھوپال کی تاریخ کا دور تقریباً اڑھائی سو سال پر مشتمل ہے۔ اوراس کی علمی و ادبی تاریخ بھی اسی ور پر محیط ہے۔ اس نے ہمیشہ علم و ادب کی سرپرستی کی علماء و فضلا کی قدر کی‘ عمی کاموں کی ہمت افزائی کی۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں بھوپال کا ایک وفد حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دیوان ریاست کی جانب سے نذرانہ اور تحائف پیش کیے شاہ صاحب کو بھوپال آنے کی دعوت دی۔ باہ ہزار سالانہ جاگیر کی پیش کش بھی کی۔ شاہ صاحب نے ضعیف العمری کی بنا پر معذوری کا اظہار کیا ۲؎ ۔ ایک اور رئیس نے مومن کو بھی بھوپال بلانا چاہا ۳؎۔ ۱۸۵۷ء کے قیامت خیز المیے کے بعد رئیس وقت نواب سکندر جہاں بیگم نے غالب کو بھوپال آنے کی دعوت دی اور کل مصارف کی ذمہ داری لی مگر وہ بھی دلی کی گلیاں چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اس کے باوجود بیگم اپنے ماموں میاں فوج دار محمد خاں کے ذریعہ غالب کی خدمت کرتی رہیں اور اسی آمد و رفت کا نتیجہ تھا کہ غالب نے اپنے اصل دیوان کا نسخہ اپنے قلم سے تصحیح کر کے نذر کیا۔ اور یہی نسخہ اوائل بیسویں صدی میں عبدالرحمن بجنوری کے مقدمے کے ساتھ نسخہ حمیدیہ کے نام سے شائع ہوا۔ اتفاق دیکھیے کہ اس پچاس سال کے بعد غالب کی صد سالہ برسی یعنی ۱۹۶۹ء میں جو دورا اہم نسخہ عرشی شزادہ شائع ہوا وہ بھی بھوپال کے ایک کتب فروش کسے حاصل ہو کر امروہے پہنچا۔ یہ نسخہ بھوپال کیسے پہنچا اس کی تحقیق پرستاران غالب کے ذمہ ہے۔ نواب شاہجہان بیگم کے عہد میں اردو اور عربی میںمختلف علوم و فنون پر اس کثرت سے بلندپایہ کتابیں بھوپال میں شائع ہوئیں کہ بھوپال کو بغداد الہند کہا جانے لگا۔ نواب سلطان جہاں بیگم خود مصنفہ تھیں اہل علم کی مدد اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ سیرۃ النبی کے لیے علامہ شبلی نعمانی کی اعانت تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ تاریخ البر امکہ اور دوسری اہم تصانیف کی اشاعت ان ہی کی مرہون منت ہے ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انجمن ترقی اردو‘ مدرسہ دیو بند‘ مدرسہ صولتیہ‘ مکہ معظمہ اور دیگر اداروں یا افراد کو مستقل مدد ملا کرتی تھی۔ علمی ذوق کا یہ عالم تھا کہ لوگ ان کی یا ان کی اولاد کی سال گرہوں پر سیم و زر کے نذرانوں کی بجائے علمی اور ادبی تحائف پیش کرتے تھے۔ ہمارے مہمان خصوسی کی ابتدائی تربیت ہی ان بزرگ کی گودمیں ہوئی اور ان کی اکثر سال گرہوں پر مطبوعہ کتب پیش کی گئیں۔ نواب محمد حمید اللہ خاں نے علمی ماحول میں آنکھ کھولی۔ علم و ادب سے محبت اور وابستگی ان کو ورثے میں ملی۔ انہوں نے برصغیر کی سیاسی ‘ سماجی اور علمی دنیا میں بڑی خدما ت انجام دی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آادی سے قبل اور بعد دونوں ادوار میں سیاسی حالات او رمصالح نے ان کی بھرپور شخصیت کے خدوخال کو اجاگر نہ ہونے دیا اور ان کی بیشتر خدمات صرف منتشر زبانی روایات تک محدود رہ گئیں۔ اقبال اور بھوپال کی اشاعت سے قبل یہ واقعہ کس کو معلوم تھا کہ علامہ اقبال کے سفر سپین کے محرک اور معاون کون تے جب لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس کے زمانے میں علامہ نواب صاحب سے ملنے گئے تو باتوں باتوں میں انہوںنے کہا کہ اقبال سپین کیوں نہیں جاتے؟ تو علامہ نے برجستہ جواب دیا کہ اگر میں بھی نواب بھوپال ہوتا تو اب تک ہوآیا ہوتا۔ دوسرے دن علامہ کو نواب بھوپال کی جانب سے چھ ہزار روپے کا چیک مل گیا اورسفر سپین کا انتظام ہو گیا۔ ۴؎۔ اس واقعہ سے قطع نظر علامہ کے اس سادہ سے جملے میں بڑا وسیع مفہوم پوشیدہ تھا۔ ۱؎ مرزا ظفر الحسن ذکر یار چلے‘ پاک پبلشرز لمیٹد کراچی اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ ۵۴ ۲۔ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصہ ادارہ ادب و تنقید بھوپال صفحہ ۶۸ ۳۔ ڈاکٹر سلیم حامد رضوی صفحہ ۷۰ ۴۔ ملاحظہ ہو دیباچہ طبع ثانی (صہبا) وہ اب تک صرف نواب بھوپال کی سیاسی سوجھ بوجھ فراست اور دانائی کے تو ضرور قائل تھے مگر ھر بھی وہ ان کو محض ایک عالی دماغ والی ریاست ہی سمجھتے تھے۔ مگر بعد میں جب ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو اور ان کے دوسرے خیالات معلوم ہوئے تو محسوس ہوا کہ ان کے دل میں بھی اسلام اور مسلم قوم کی سربلندی کے لیے وہی تڑپ اور لگن ہے جو علامہ کے اپنے دل و دماغ میں موجود ہے۔ قرآن مجید کے تفسیری نوٹ لکھوانے کی خواہش اس کا بین ثبوت ہے۔ جب ان کو اس والی ریاست میںقلندرانہ صفات درویشانہ خصوصیات اور مجاہدانہ جذبات نظر آئے تو وہ ان کو بے ساختہ صاحب نظری سے مخاطب کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ محض شاعری نہیں تھی بلکہ اس یکتائے روزگار کے دلی جذبات کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز تھی جو خود اپنے متعلق یہ کہتا ہے: سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ نیائید یہی دانائے راز نواب کی قومی خدماات کا اعتراف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ: بگیر! ایں ہمہ سرمایہ بہار از من یہی وہ ستائش اور عقیدت تھی جس نے اقبال کے ممدوح کو بھی زندہ جاوید کر دیا۔ پاکستان میں اس کا احساس ذرا مشکل ہے۔ اس کا اندازہ اس ایک چھوٹے سے واقعے سے ہو سکتا ہے کہ ریاست ۱۹۴۹ء میں وفاق ہند میں ضم ہو کر کمشنر کا صوبہ بنی اور پھر یکم نومبر ۱۹۵۶ء کو مدھیہ پردیش کے صوبے میں مدغم ہو گئی۔ اس کے بھی چار سال بعد یعنی ۱۹۶۰ء میں اردو کے ایک بیرونی شاعر جگن ناتھ آزاد ایک بڑے مشاعرے میں شرکت کے لیے بھوپال آئے انہوںنے وہاں چند روز قیام کے بعد ایک طویل نظم کہی اس کے دو شعر پیش خدمت ہیں: اے مرے اقبال کے ممدوح کی دنیائے حسن آج بھی لبریز مستی ہے تری صہبائے حسن حال پر ماضی ترا اب بھی تجلی بار ہے آج بھی تیری زمیں پر بارش انوار ہے ۲؎ علامہ نے مولانا حالی کی صد سالہ برسی پر جو نظم پڑھی تھی ا س کے اس شعر میں علامہ نے اپنے اور نواب بھوپال کے تعلق اور دونوں کے مقامات کو بڑی خوبصورتی سے یوں ادا کیا تھا: بیاتا فقر و شاہی در حضور او بہم سازیم تو برخاکش گہر افشان و من برگ گل افشانم اقبال اور بھوپال طویل کہانی کا ایک مربوط سلسلہ ہے ۔ جس کی کڑیاں تاریخی شواہد کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ میری نظر میں اس کتا ب کی مندرجہ ذیل خصوصیات خاص طور پر مستحق توجہ ہیں: ۱۔ یہ کتاب تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ اس میں بیشتر چیزیں اب تک عوام کی نظروں سے پوشیدہ تھیں۔ اگر صہبا اس کو یک جا کرنے کی کوشش نہ کرتے تو کچھ عرصے بعد یہ سارا مواد تلف ہو جاتا۔ کتاب کی اشاعت تک اقبال کے بعض نیاز مند اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور بعض چراغ سحری ہیں جن میں محترم قدسی صاحب قبلہ ۲؎ محترمہ خاتون ارشد ۳؎ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ۱؎ روزنامہ ندیم بھوپال ۷ جولائی ۱۹۶۰ء ۲۔۳؎۔ افسوس کہ اسد الرحمن قدسی کا ۱۹۷۹ء میں اور خاتو ن ارشد کا ۱۹۷۴ء میں انتقال ہو گیا۔ ۲۔ کتاب میں متعدد انکشافات ہیں مثلاً شکوہ کا محرک کون تھا ۱؎؟ علامہ نے شکوے کے ایک بند میں کیسے ترمیم کی۔ کس طرح ایک کم نا م شاعر کو اصلاح دی۔ مذکر اور مونٹ کے اعتراض کا جواب کس عالمانہ انداز میں دیا۔ ۳۔ مختلف نظمیں اور اشعار جو بھوپال میں کہے ان کا پس منظر کیا تھا۔ مثلا جب بھوپال میں شیش محل میں قیام تھا تو آپ نے پہلی نظم صبح کہی جس کا آخری شعر یہ ہے: وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا یہ شعر جس کیفیت سے متاثر ہو کر کہا گیا ہے وہ ریاض منزل کے قیام سے ممکن تھی۔ کیونکہ یہ کوٹھی آباد ی سے باہر الگ تھلگ ہے بھوپال کو مسجدوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں بعض حصوں پر تو چپے چپے میں مساجد ہیں مثلا ً شیش محل کے گرداگرد ایک فرلانگ یا ڈیڑھ فرلانگ کا دائرہ کھینچا جاء تو وہاں کوئی گیارہ بارہ مسجدیں ہیں۔ اس زمانے میں لائوڈ سپیکر کا رواج نہیں تھا۔ ریاست کے محکمہ مساد کی جانب سے ہر مسجد میں خوش الحان امام اور موذن تھے۔ ویسے بھی علاقہ ہر قسم کے شور و شغ سے پاک تھا۔ پھر صبح کی اذانوں میں ہر مسجد میں ٖرق بھی ہوتا تھا۔ اس طرح خوش الحان قاریوں کی مسلسل اذانوں سے ایک عجیب روح پرور کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب اس سے ایک عام آدمی متاثر ہو سکتا ہے تو پھر مغرب میں سخر خیزی کے آداب نہ چھوڑنے والے پر جو گزرتی ہے اسی سے متاثر ہو کر مندرجہ بالا شعر کہا گیا ہے۔ ۴۔ مختلف غیر مطبوعہ خطوط اشعار اور بعض نادر تصاویر جو پہلی مرتبہ منظر عام پر آئیں۔ ان سے بہت سے شخصی پہلو اجاگر ہو گئے۔ انصاری صاحب کی کوئلے سے بنائی ہوئی تصویر سے بھوپال کے کچھ پرانے حضرات تو واقف تھے مگر پاکستان میں تو بہت ہی کم لوگوں کو اس کا علم تھا۔ ۵۔ اقبال کے افکار سے یوں تو پورا برصغیر متاثر تھا مگر ان ے مختصر سے قیام سے بھوپال کے علمی اور ادبی حلقے کیسے متاثر ہوئے کس طرح سکون و جمود تلاطم خیز موجوں میں تبدیل ہو گیا۔ میرے خیال میں بھوپال میں ۱۹۳۵ء کے بعد غور و فکر کی جو نئی راہیں کھلیں نظم گوئی کا شدت سے آغاز ہوا انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی اقبال لائبریری کا آغاز ہوا ان سب میں غیر شعوری طورپر بھوپال میں علامہ کے قیام کو بڑا دخل رہا ہے۔ صہبا مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے چالیس سال کی کڑیاں ایسی ترتیب مہارت اور خوبصورتی سے ملائیں کہ اس پر بے ساختہ داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ اس ذیل میں ان کو جو کاوش کرنا پڑی اس کو ان کا دل ہی جانتا ہو گا۔ مگر یہ کون دیکھتا ہے کہ تاج محل کے لیے پتھر کہاں سے لایا گیا؟ لوگ تو تاج محل کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ صہبا کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کی محنت ٹھکانے لگ گئی۔ ان کا ایک دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا۔ ان کا تاج محل کھڑا ہو گیا۔ بلکہ انہوں نے اقبال پر کام کرنے والوں کے لیے مزید راہیں کھول دیں۔ کتاب کی ترتیب میں صہبا کی دیانت داری نے بھی مجھے کافی متاثر کیا ہے۔ جو چیز جہاں سے اور جس طرح لی اس کو من و عن بیان کر دیا۔ یہ بھی قابل قدر بات ہے۔ ورنہ دوسروں کی باتوں کو اپنے نام سے پیش کر دینا ایک عام بات ہے۔ لوگ تو زندوں پر بھی ہاتھ صاف کر دیتے ہیں۔ پھر ان کا تو ذکر ہی کیا جو اب مدافعت کے قابل نہیں رہے۔ آخر میں میں آپ کی اجازت سے مہمان خصوصی کے ایک چھوٹے سے ذاتی واقعہ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ ۱؎ ملاحظہ ہو دیباچہ طبع ثانی (صہبا) ۱۹۵۴ء میں موصوفہ حکومت پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی وفد کی سربراہ بنا کر بھیجی گئی تھیں۔ غالباً اس وقت ہندوستان کی نمائندگی مسز وجے لکشمی پنڈت کے ذمے تھی۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دیے۔ امریکی پریس نے آپ کے کام کی بڑی تعریف کی۔ امریکہ کے صدرنے ان کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی میں اس زمانے میں وہیں تھا اور میں نے ان کو کامیابی کی مبارکبا د کا خط بھیجا۔ وفد کے سربراہ کے پاس سیکرٹریوں اور اسٹینوز کی کوئی کمی نہیںہوتی۔ ان کی جانب سے کوئی بھی جواب دے سکتا تھا یا یہ لکھوا کر دستخط کر سکتی تھیں مگر بھوپال سے تعلق کی بنا پر انہوںنے خود مجھے اپنے ہاتھ سے اردو میں جواب دینے کی زحمت گوارا کی۔ یہ واقعہ مجھے آج تک یاد ہے۔ آخر کس نامور باپ کی بیٹی ہیں اور اسی ناتے سے آج یہاں موجود ہیں۔ …محمد احمد سبزواری (تقریب رونمائی میں پڑھا گیا۱؎) کچھ صہبا کچھ اقبال اور کچھ بھوپال کے بارے میں صہبا لکھنوی مدیر افکار ہمارے پرانے دوست ہیں ایسے مرنجان مرنج کی چاہیں بھی تو کسی کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے… دھان پان ایسے کہ ہوا تیز ہو تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ اڑتے اڑتے سمندر میں نہ جا پڑیں۔ خشکی کے جانور ہیں وزن اس عمر میں بھی سو پائونڈ سے تھوڑاہی اوپر ہے۔ ان کے انگرکھے اور بنیان اور چشمے کاوزن نکال دیا جائے اور یہ حجامت بھی کرا لیں تو شاید سو پونڈ بھی نہ رہے۔ ہمارا یہ وزن اس وقت تھا کہ جب نویں کلاس کے طالب علم تھے صہبا صاحب نے انکسار اور کسر نفسی کی حد کر دی۔ ٭٭٭ دھا پان ہونے کی وجہ سے یہ ٹھوس کام بھی کرتے ہیحں۔ ایک کتاب بھی لکھی ہے… اقبال اور بھوپال جسے اقبال اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ چند روز ہوئے ا س کتاب کی تکریم میں ایک جلسہ ہوا۔ لوگوں نے خراج عقیدت پیش کیا اور انہوں نے گلے میں ہار ڈلوا کر خوشی خوشی قبول کیا۔ اچھی اچھی تقریریں ہوئیں۔ جو لوگ کتاب پڑھ کر نہیں آئے تھے انہوںنے بھی اچھے خاصے عمدہ تبصڑے کیے لوگوں کو معلوم نہیں ہونے دیا کہ ہمیں کتاب دیکھنے کی فرصت نہیںملی۔ اس بھیڑ میں ہم بھی شامل تھے بلکہ اہتمام ہمارے ہی ذمہ تھا۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پروگرام میں نام نہ ہونے کے باوجود ایک پرچہ ہم نے بھی پڑھا جو اس کالم میں چھاپ رہے ہیں دو صاحب مقررین میں ایسے تھے جن کو اس بات پر تعجب ہوا کہ صہبا صاحب نے یہ کتاب لکھ کیسے لی۔ پروفیسر انجم اعظمی بھی بن میں ہی سے تھے۔ آخر انہوںنے اپنے آپ کو رشید احمد صدیقی کے قول سے قائل کیا کہ آدمی کیسا بھی ہوٹھک ٹھک کرتا رہے تو ایک دن کچھ نہ کچھ بن جاتا ہے۔ انجم صاحب کا تعجب تو خیر اس لیے ہو گا کہ ان کے گما ن کے مطابق کوئی شخص باقاعدہ پروفیسر ہوئے بغیر نہ تحقیق کے لائق بن سکتا ہے نہ کوئی کتاب لکھ سکتا ہے۔ ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۳۶ تا ۴۰ پروفیسر مجنوں گورکھپوری کا کہنا ہے کہ دیسی جثے کے ساتھ صہبا نے ایسا بھاری بھرکم کام کیسے کر لیا انہوںنے صہبا صاحب کو آدمی کی بجائے ایک پرچھائیں قرار دیا …لیکن یہ بھول گئے کہ وہ خود تو پرچھائیں کی بھی پرچھائیں ہیں۔ بایں ہمہ اتنی کتابوں کے مصنف ہیں اور ٹھوس باتیں کرتے ہیں۔ ہیں ان کی بات پر تعجب ہوا تو شاد عارفی مرحوم کا یہ پرانا شعر یاد آیا: بھلا دیتی ہے فکر شعر تو اے شاد شاعر کو بڑھے گی شعر کی طاقت یہ جتنا ناتواں ہو گا ٭٭٭ اب اس بحث کو ہم چھوڑتے ہیں ۔ آیا اچھی صحت والا یا کوئی گرانڈیل آدمی اچھا ادیب بن سکتا ہے کلام نرم و نازک کہہ سکتا ہے یا سارا اد ب عالیہ کراہتے ہوئے صاحب فراش ہائے ہائے کرتے ہوئے منحنی ادیبوں ہی نے پیدا کیا ہے ہم نے ایسے ادیب بھی دیکھے ہیں جو ۲۰۰ بیٹھک لگا کر اور سو ٹنڈ پیل کراور ڈیڑھ سیر دودھ پی کر لکھنے کو بیٹھتے ہیں اور ایسے بھی ایک بادام کی گری اور ایک قوام والا پان ان کے لیے دن بھر کے لیے کافی ہے ۔ اب پڑھیے وہ پرچہ جو ہم نے اس روز لکھا تھا۔ ٭٭٭ صہبا لکھنوی سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے۔ وہ ہمیںجانتے ہیں ہم انہیں جانتے ہیں۔ ان کی کتاب پر اگر ہم تبصرہ نہ کریں گے تو وہ نارا ض ہوں گے۔ اور اگر کریں گے تو وہ اور ناراض ہوں گے۔ کیا کریں ہم لکھتے ہی ایسا ہیں لہٰذا عالمانہ تبصروں کا کام دوسرے صاحبوں کو چھو ڑ کر ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اے صاحب تم نے اس کتاب پر اتنی محنت شاقہ کیوں کی۔ اگر پیسوں کے لیے کی ہے تو واضح ہو کہ آج کل پیسوں کے لیے کسی قسم کی محنت کرنے کا مطلق رواج نہیں۔ اگر اپنے نام کے لیے کی ہے تو آپ کا نام پہلے ہی سے روشن ہے۔ اگر اقبال کے نام کے لیے کی ہے تو اقبال کا نام بھی آپ کے نام سے کم مشہور نہیں۔ بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ ٭٭٭ صہبا صاحب خود مانتے ہیں کہ جب میں نے افکار نکالنا شروع کیا تھا افکار میں مبتلا ہوں۔ بلکہ اس قدر کہ مججھ پر مستقل ایک فسانہ مبتلا لکھا جا سکتا ہے۔ آج کل اقبال کے خطوط چھاپ کر جو انہوںنے اپنے حکیموں ڈاکٹروں کو لکھے تھے اور ان کی وہ نظمیں چھاپ کر اور تبرکاً سر آنکھوں پر رکھ کر جن کو وہ رد کر چکے تھے ردی کی ٹوکری میں پھینک چکے تھے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اقبال اتنے بڑے آدمی نہیں تھے جتنا ان کو سمجھ لیا گیا ہے۔ ویسے بھی یہ ایک طرح کی خدمت ہے۔ کیوںکہ جس قدر حضرت اقبال کی حرکت و عمل کے پیامبر تھے۔ اتنے ہی ان کے عالی عقیدت مند ہمارے اقبال بھائی جامد اور ٹھس اور بے عمل ہیں۔ بعض لوگ ت یہاں تک کہتے ہیں کہ خود اقبال رحمتہ اللہ علیہ اپنی تعلیمات کے چنداں قائل نہ تھے۔ ان کی زندگی میں حرکت اور عمل کا بہت کم گزر تھا۔ اوراگرہم یہ حوالہ دیں کہ وہ چارپائی پر پڑے دھسہ اوڑھے لیٹے رہتے تھے تو ہمارے ایک اخباری بھائی شایدپھر ہم پر لعن طعن کریں جیسا کہ پہلے کر چکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جس طرح مارکس اپنی زندگی میں مارکسٹ نہیںتھے اسی طرح اقبال بھی بہت زیادہ اقبالی نہیںتھے۔ ان کی زندگی میں جھپٹ کر پلٹننا اور جھپٹنا قسم کی کوئی بات آپ کو نہیں ملے گی۔ ٭٭٭ اقبال اور بھوپال میں سب سے پہلا تعلق تو یہی ہے کہ دونوں ہم قافیہ ہیں اور اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اپنے ہم ناموں اور ہم قافیہ لوگوں کی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو صفحہ ۴۴ کے شرو ع میں اقبال حسین صاحب اے ڈی سی کا بیان۔ پھر کچھ سلسلہ راس مسعود کی ارادت اور نواب بھوپال کی عنایات کا بھی تھا۔ اس کتاب سے ضمناً بعض باتیں علامہ مرحوم کی سیاسی بصیرت کے متعلق بھی معلوم ہوئیں۔ مثلا ان کی یہ فرمانا کہ نواب بھوپال کو ریاست کشمیر دے دینی چاہیے اور مہاراجہ ہری سنگھ کو بھوپال بھیج دینا چاہیے۔ ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ کا بھی ذکر ہے ان کے نام کے خطوط بے شک اقبال نامہ میں شامل ہیں لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ ان میں ایک دو خطوط حقیقی ہیں جن میں لمعہ صاحب کو شاعری سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ باقی لمعہ صاحب کے اپنے لمعات ہیں یا مشکوک ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے نام ایک خط میں علامہ اقبال نے دو جگہ استفادہ حاصل کرنا لکھا ہے تو ان خطوط کی اصلیت پر ہمارا بھی شبہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ٭٭٭ صہبا صاحب نے ا س کتاب کے مرتب کرنے میں جتنی محنت کی ہے واقعی یہ آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے۔ اس میں نئی تحقیق و تدقیق بھی ہے۔ غیر مطبوعہ خطوط بھی ہیں بعض امور کی عقدہ کشائی بھی کی ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ علامہ مرحوم کو وظیفہ ملازمت کے مسائل سے بے جا نفرت نہیں تھی۔ اس سے پہلے انوار اقبال والے خطوط سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ قلندر آدمی تھے لیکن کتابوں کی رائلٹی ٹھوک بجا کر لیتے تھے۔ پبلشروں سے بے جا رد رعایت نہ کرتے تھے۔ اور کوئی عقیدت مند بلا اجازت ان کا کلام چھاپ لے تو خفا بھی ہوتے تھے۔ اس کی جان نہیں چھوڑتے تھے۔ ایک صاحب کو تو چھپی چھپائی کتاب کا ڈھیر نذر آتش کرنا پڑا۔ اچھی کتاب وہ ہوتی ہے جس میں ممدوح کو بے جا طور پر نہ پڑھایا نہ جائے نہ گھٹایا جائے حقائق بیان کیے جائیں۔ اس لحاظ سے اقبال اور بھوپال اچھی اور قابل قدر کتابوں میں ہے۔ ٭٭٭ بعض لوگ اس کتاب کو سطحی نظر سے دیکھ کر شاید یہ کہیں کہ اس میں بعض غیر ضروری باتیں بھی آ گئی ہیں مثلاً حفیظ جالندھری کی نظم یاد حالی دینے کا کیا موقع ہے۔ بے شک اس کا تعلق موضوع سے نہیں ہے تاہم یہ نظم اس کتاب میں محفوظ ہو گئی ہے۔ ضائع نہیں ہو گی۔ حفیظ جالندھری صاحب خود بھی ضائع کرنا چاہیں تو بھی نہیں ہو گی۔ اگر اس کتاب میں صرف وہ اشعار شامل کیے جاتے جو علامہ اقبال مرحوم نے دوسروں کو سنائے تھے تو شاید یہ کتاب اتنی مبسوط نہ بنتی۔ اب آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اقبال حسین اے ڈی سی اور معظم رسول صدیقی مرحوم نے علامہ کو کون کون سی نظمیں سنائی تھیں اور داد پائی تھی۔ دیوان تو ہر شخص کا نہیں چھپتا۔ اس بہانے ان بزرگوں کا کلام بھی محفوظ ہو گیا۔ ان کی لمبی لمبی غزلیں اور غزلیں صہبا صاحب نے بڑی ایمان داری کے ساتھ پوری پوری دے دی ہیں۔ ٭٭٭ ہمیں صہبا صاحب سے صرف ایک شکایت ہے لیکن وہ شکایت پرانی ہے۔ اس شکایت کو ہم گزارش بنا کر عرض کریں گے کہ لفظ ’’اچھوتا‘‘ اور ’’اچھوتی‘‘ کا استعمال زیادہ نہ کیا کریں۔ او ل تو اس دنیا میں اچھوتی چیزیں بہت کم ہوتی ہیںہوں بھی تو اردو میں اس لفظ کے مترادفات موجود ہیں اور ان مترادفات میں بعض نسبتاً اچھوتے بھی ہیں… …ابن انشاء (تقریب رونمائی میں پڑھا گیا ۱؎) ٭٭٭ کتاب کے بارے میں صدر گرامی… معزز خواتین و حضرات… رفیقو اور دوستو… میری حقیر سی کاوش اقبال اور بھوپال کے بارے میں زبان و ادب کی معتربر معزز اور مقتدر شخصیتوں نے ابھی ابھی جو اظہار خیال کیا ہے وہ میرے لیے سرمایہ صد افتخار ہے ۔ یہ کتاب تقریباً بارہ سال کی لگاتار سعی و جہد کے بعد مکمل ہو سکی ہے۔ اس کے محرک جناب ممتاز حسن خاں سابق نائب اعزازی صدر اقبال اکیڈمی تھے جن کی ذاتی توجہ اور کوشش سے نظیر حیدر آبادی مرحوم کی قابل قدر کتاب اقبال اور حیدر آباد اقبال اکیڈمی سے شائع ہوئی۔ یہ ۱۹۶۰ء کا ذکر ہے ۔ ایک ادبی تقریب کے دوران میں نے جناب ممتاز حسن س عرض کیا کہ اقبال اور حیدر آباد کے بعد اگرا قبال اور بھوپال پر بھی کچھ کام ہو سکے تو علامہ اقبال کی زندگی کا ایک اہم گوشہ دنیا کے سامنے آ سکے گا اور شاید اقبالیات میں ایک نئے موضوع کا اضافہ بھی ممکن ہو سکے۔ میری اس تجویز پر جناب ممتاز حسن خاں نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا ارو کہا تو یہ کام آپ کر ڈالیے۔ ممتاز صاحب کے اس مخلصانہ مشورے نے مجھے عجیب الجھن میں ڈال دیا۔ کئی دن تک ا س کتاب کے بارے میں سوچتا رہا۔ کئی خاکے تیار کیے۔ کئی قریبی دوستوں سے مشورہ کیا۔ سبھی نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ بالآخر اللہ کا نام لے کر میں نے اس کتاب پر ۱۹۶۰ء کے آخر میں کام شروع کیا۔ اور یوں ۱۲ سال کی دیوانہ وار جستجو تحقیق اور تلاش کے بعد یہ کتاب مکمل ہو کر آپ کے ہاتھوں تک پہنچ سکی۔ تحقیق و تلاش کے دوران ایک ممتاز محقق اور نقادکایہ قول میرے لیے مشعل راہ بنا رہا… ’’تحقیق کی دنیا امکانی دنیا ہے اور یہ دنیا وسیع بھی ہے اور بسیط بھی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ تحقیق کے فن میں ’’حرف آخر‘‘ …’’حرف غلط‘‘ ہے اور اسی وجہ سے ہمیں جلد بازی میں حکم لگانے اور تریخ کے تعین میں عجلت نہیں کرنی چاہیے…‘‘ چنانچہ میں نے اقبال اور بھوپال کے سلسلے میں نہ جلد بازی سے کام لیا اور نہ تحقیق کے کسی امکان کو نظر انداز کیا۔ کتاب کی تکمیل کے سلسلے میں جو کچھ بیت گئی اس کی تفصیل میں نے حرف آغاز میں پیش کر دی ہے جو کتاب کے مطالعہ کے دوران آپ کی نظر سے گزرے گی۔ اس کا اعادہ کر کے آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنا مناسب نہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کا سہرا جناب عبدالواحد معینی‘ سابق اعزازی نائب صدر اقبال اکیڈمی… جناب عبدالحمید کمالی معتمد اقبال اکیڈمی… ڈاکٹر نذیر احمد خازن اورمجلس انتظامیہ کے سرکردہ اراکین کے سر ہے جنہوںنے میری اس کاوش کو پسند فرمایا ہے اور اشاعت کے سلسلے میں ممکنہ سہولتیں بہم پہنچائیں… ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۴۲ تا ۴۴ میں نیشنل بک سنٹر پاکستان سنٹر‘ آرٹ کونسل آف پاکستان اور ادارہ یادگار غالب کا بھی دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں جنہوں نے مشترکہ طورپر اس تقریب کا اہتمام کیا اور آپ تمام حضرات کا بھی شکر گزار ہوں کہ آپ نے شرکت فرما کر میری عزت افزائی فرمائی۔ آخر میں شہزادی عابدہ سلطان کا سپاس گزار ہوں کہ انہوں نے میری درخواست پر اس تقریب کی صدارت قبول فرما کر میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ شہزادی صاحبہ اور آپ کی عالی مرتبت والد محترم نواب حمید اللہ خاں نے اقبال شناسی اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں جو تاریخ ساز خدمات انجام دی ہیں انہیں کسی دور کا مورخ کبھی نظر اندازنہیں کر سکے گا۔ …صہبا لکھنوی (تقریب رونمائی میں پڑھا گیا ۱؎) بز م کتاب نمبر ۷۳ صہبا لکھنوی نے مطالعہ اقبال اور اقبالیات کے سلسلے میں ایک لائق ستائش تخلیقی کاوش اقبال اور بھوپال کے روپ میں پیش کی ہے۔ صہبا لکھنوی نے اس کتاب کے مواد کی جستجو میں کم و بیش گیارہ برس صرف کیے ہیں۔ اقبال اور بھوپال کے مطالعے سے یہ امر واضھ ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب تحقیق کی منشیانہ روایت سے الگ ہے۔ اس سے چند خشک اور بے جان کتابوں ہی کا علم نہیں ہوتا بلکہ اس دور کی تہذیب ‘ اس کا ذہنی و فکری پس منظر اور تہذیب کے پروردہ افراد کے تعلقات کی رنگارنگی بھی ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ پھر اقبال کے واسطے اس دور کی اہم شخصیتوں اور اہم سیاسی فکری رجحانات کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ اقبال کی فکر سے متاثر فکری لہروں کا سراغ بھی ملتا ہے۔ اس طرح صہبا لکھنوی کی تحقیق بوسیدہ ہڈیوں کو منظر عام پر نہیں لاتی ذہن کو زندہ و فعال سرگرمیوں کو پیش کرتی ہے۔ صہبا لکھنوی کی اس کاب سے چند نئے گوشے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ان سے خاص طور پر اس برعظیم کے مسلمانوں کے اس فکری پس منظر کی تلاش و جستجو کو تحریک ملتی ہے جس نے درہ خیبر سے لے کر ٹیکناف اور راس کماری تک نئی بیداری کی لہر دوڑانے کے بعض تہذیبی نقش قائم کیے تھے اور خطہ بھوپال نے بھی اس نقش آرائی میں حصہ لیاتھا۔ اس سلسلہ فکر کا ایک مظہر تحریک پاکستان اور مملکت پاکستان بھی ہے۔ اقبال اور بھوپال میں اقبا ل کی بعض نظموں اور بعض اشعار کی عقبی زمین اور محرکات اس طرح سامنے آئے ہیں کہ ان نظموں اور ان اشعار کی معنویت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ بحیثیت مجموعی اقبال اور بھوپال کے مطالعہ سے زندگی کی عظمت و سعادت کا نقش ذہن پر مرتسم ہوتا ہے۔ صہبا لکھنوی کی کتاب ’’اقبال اور بھوپال‘‘ کی تقریب رونمائی شہزادی عابدہ سلطان کی صدارت میں نیشنل بک سنٹر ‘ آف پاکستان کراچی اقبال اکیڈمی نے مل کر کراچی میں ۲۵ مئی کو منائی۔ ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی۔ جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۴۵۔۴۶ اس تعارفی تقریب میں حنیف فوق صاحب کے تعارفی کلمات کے بعد پروفیسر مجنوں گورکھپوری محمد احمد سبزواری پروفیسر انجم اعظمی ‘ ابن انشا نے مقالات پیش کیے۔ آخر میں صاحب کتاب نے بھی اس کتاب کے بارے میں کچھ فرمایا (ادارہ)۔ ٭٭٭ مئی کی پچیسویں تاریخ تھی۔ ہم صہبا لکھنوی کی کتاب اقبال اور بھوپال کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے تقریباً پانچ بجے آرٹس کونسل پہنچے۔ ڈائس سجایا جا چکا تھا۔ اور کرسیاں وغیرہ بچھائی جا چکی تھیں۔ چند افراد ادھر ادھر گھوم رہے تھے اتنے میں سحر انصاری آ گئے۔ ان سے معلوم ہو ا کہ دعوت نامے میں ساڑھے پانچ بجے کا وقت دیا گیا ہے۔ چنانچہ ہم لوگ بک شاپ میں کتاب دیکھنے لگے۔ باہر آئے تو دیکھا کہ ابن انشا صاحب صہبا لکھنوی صاحب اور چند مہمان تشریف لا چکے ہیں۔ بک شاپ کے برابر اقبا ل اکیڈمی والوں نے اپنی چند کتابوں کا سٹال لگایا تھا جن میں اقبال اور بھوپال نمایاں اور خاصی تعداد میں رکھی ہوئی تھی۔ اسٹال پر ایک محترمہ تشریف فرما تھیں جو غالباً انچارج تھیں۔ ہم کتابیں دیکھنے لگے۔ جب کتابوں پر ہماری توجہ ان کی عدم توجہی کا شکار ہو گئی تو ہم آگے بڑھ گئے۔ مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے کاروں اور پیدل آنے والوں کا تانتا بندھ گیا اور نشستیں پر ہوتی چلی گئیں۔ آنے والوں میں شہر کے معروف و ممتاز شعراء اور ادباکی خاصی تعداد تھی۔ ٹھیک ساڑھے پانچ بجے مہمان خصوصی شہزادی عابدہ سلطان تشریف لائیں۔ صہبا صاحب اور دیگر حضرات نے مصافحہ کیا مختصر تعارفی کلمات ادا ہوئے اور وہ دائیں جانب کی نشست پر بیٹھ گئیں۔ ان کی سادگی ایک خاص وقار و تمکنت لیے ہوئے تھی۔ چہرے پر ماضی کے نقوش نمایاں تھے اور آنکھوں میں عظمت رفتہ کی چمک موجود تھی۔ تھوڑی دیر بعد انشا صاحب جو کہ قومی کتاب مرکز کے ڈائریکٹر ہیں۔ مائیک سنبھالا اور تقریب کا آغاز کرتے ہوئے شہزادی عابدہ سلطان صاحبہ سے ڈائس پر تشریف فرما ہونے کی درخواست کی۔ اور اس کے بعد صاحب کتاب صہبا لکھنوی صاحب کو زحمت دی گئی۔ اس وقت تقریباً تین سو نشستیں پر ہو چکی تھیں اور لوگ جلسہ گاہ کے آخری حصے میں کھڑے ہوئے تھے تلاوت قرآ ن مجید کے بعد انشاء صاحب نے گل پوشی کے لیے مرزاظفر الحسن معتمد ادارہ یادگار غالب سے درخواست کی۔ مرزا صاحب نے پیکٹوں میں سے ہار برآمد کیے اور لڑیاں سلجھانے کے دوران انہوںنے ابن انشاء صاحب کو اپنا شریک کار بنا لیا۔ چنانچہ مرزا صاحب نے ایک ہار شہزادی عابدہ سلطان کو اور ابن انشاء صاحب نے دوسرا ہار صہبا صاحب کو پہنایا۔ صہبا صاحب نے سرخ کاغذ اور ریشمی ربن میں لپٹی ہوئی کتاب شہزادی صاحبہ کی خدمت میں پیش کی اور فوٹو گرافروں نے اس یاد گار لمحہ کو مقید کر لیا۔ ابن انشاء صاحب نے انور حارث کو اظہار تہنیت ک لیے بلایا۔ انور حارث صاحب مائیک پر آئے انہوں نے ضر ب کلیم کا اصل انتساب جو علامہ اقبال نے اعلیٰ حضرت نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال کے نام معنون کیا تھا پڑھا اور پھر فارسی سے ارو میں اس کا آزاد ترجمہ پیش کیا۔ ان کے بعد قمر ہاشمی صاحب نے بڑی خوبصورت نظم پڑھی جو خلد میں نواب حمید اللہ خاں اور علامہ اقبال کے مکالمے پر مشتمل تھی۔ قمر ہاشمی صاحب کے بعد ڈاکٹر حنیف فوق کو مضمون پیش کرنے کی دعو ت دی گئی۔ فوق صاحب اس طرح گویا ہوئے کہ اقبال سے تو شاید ہم سب کو برابر ک نسبت رہی ہے لیکن سرزمین بھوپال سے تعلق اور رفیق دیرینہ صہبا لکھنوی سے تعلق خاطر کے جرم میں ماخوذ ہو کر آج آپ کے سامنے پیش ہوا ہوں۔ مضمون کی ابتدا اس انداز سے ہوئی کہ لوگ فوراً متوجہ ہو گئے ور فوق صاحب بڑی روانی سے اظہار خیال کرتے رہے۔ انہوں نے فرمایا شاید آج تحقیق سے زیادہ کوئی شعبہ علم تختہ مشق نہیں بنا ہوا۔ خصوصاً تحقیق ادبیات کو اد ب کے منشیوں نے نقل خلاصہ لگا دی اوربسیارنویسی کا مترادف اور بہانہ بنا لیا ہے۔ محقق ہونے کا آسان ترین نسخہ یہی ہے کہ چند کتابوں کو سامنے رکھ کر ان کے متن کی تفصیلات بتاتے چلے جائیے فوق صاحب نے صہبا اور اقبال اور بھوپال دونوں کے بارے میں چند جملوں میںبات سمیٹتے ہوئے کہا۔ اپنی تلاش و جستجو میں صہبا لکھنوی نے بعض نئے گوشے دریافت کیے ہیں اور انہیں پہلی بار اس کتاب کے ذریعے متعارف کرایا ہے۔ اس طرح تحقیق سیرت نگاری اور تاریخ میں جو تخلیقی ہم آہنگی قائم ہوئی ہے وہ اس کتاب کا بہت بڑا وصف ہے۔ اس سے ایک عمر کے ادبی انہماک اور لگن کا پتا چلتاہے۔ ڈاکٹر حنیف فوق کے بعد انجم اعظمی صاحب کو مضمون پڑھنے کی زحمت دی گئی۔ انجم اعظمی صاحب نے اپنا تنقیدہ لہجہ برقرار رکھتے ہوئے نہایت جچے تلے اندا ز میں کہنا شروع کیا۔ صہبا لکھنوی کے بارے میں مجھے زیادہ خوش فہمی نہتھی میں انہیں ایک دیانت دار اور محنتی ادبی صحافی سمجھتا تھا۔ لیکن ان سے کسی اہم تخلیقی کام کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اس کتاب کے مطالعے کے بعد معلوم ہوا کہ کہ صہبا کے اتنے قریب رہ کر بھی ان کی صلاحیتوں سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا۔ مجھے اپنے استاد پروفیسر رشید احمد صدیقی کی ایک بات یاد آئی جو وہ اپنے طالب علموں سے گاہے بگاہے کہا کرتے تھے کہ آدمی ٹھک ٹھک کرتا رہے تو کچھ نہ کچھ ہو رہتا ہے۔ انجم صاحب نے کتاب کے بارے میں بتایا کہ یہ کتاب بھوپال سے نکل کر پورے برصغیر کے حالات پر محیط ہے۔ یہ برصغیر کے ادب و ثقافت معاشرت و تہذیب و سیاست و تدبر کا آئینہ بن گئی ہے۔ جب وہ مضمون کے اس حصے پر پہنچے آج جب اس کتاب کا جشن منایا جا رہا ہے تو میرے نزدیک یہ جشن اقبال بھی ہے جشن بھوپال بھی ہے اور جشن صہبا بھی ہے تو جلسہ گاہ تالیوں سے گونج اٹھی۔ ابن انشاء مائیک پر آئے اور کہنے لگے کہ میں نے چند کلمات لکھے تھے لیکن اس پس و پیش میں تھا کہ پیش کروں یا نہیں۔ بہرحال اب کچھ حوصلہ ہوا۔ تو پیش کیے دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اہنوںنے اپنا مضمون شروع کر دیا۔ ان کے فقروں کی کاٹ اور جملوں کی تیزی کی زد میں صہبا صاحب بھی تھے کتاب اقبال اور بھوپال بھی تھی اور س کے پڑھنے والے بھی۔ صہبا لکھنوی سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے وہ مہیں جانتے ہیں ہم انہیں جانتے ہیں۔ ان کی کتاب پر اگر ہم تبصرہ نہ کریں تو وہ ناراض ہوں گے اور اگر کریں گے تو اور بھی ناراض ہوں گے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اے صاحب تم نے اس کتاب پر اتنی محنت شاقہ کیوں کی اگر پیسوں کے لیے کی تو واضح رہے کہ آج کل پیسوں کے لیے محنت کرنے کا مطلق رواج نہیں ہے اور اگر نام کے لیے کی ہے تو اقبال کا نام بھی آپ کے نام سے کم مشہور نہیں ہے۔ محفل زعفران زار بن چکی تھی۔ انشاء جی اپنے خاص رنگ میں لکھا ہوا مضمون ختم کیا اور سحر انصاری کو دعوت سخن دی۔ سحر انصاری نے علامہ اقبال کا وہ قطعہ جو انہوںنے والی بھوپال کی شان میں جشن حالی کے موقع پر پڑھا تھا اور اس کا منظوم ترجمہ بھی سنایا۔ ترجمہ اس قدر خوبصورت تھا کہ حاضرین نے بے ساختہ داد دی۔ سحر انصاری کے بعد محمد احمد سبزواری صاحب نے مضمون پیش کیا۔ ان کا مضمون بھوپال کے علمی اور ادبی پس منظر اور اس دور کے عالمی حالات بالخصوص ہندوستان کی سیاسی اور معاشرتی فضا پر محیط تھا۔ انہوںنے اپنے مضمون میں کہا تحقیق کی راہیں کبھی بند نہیں ہو سکتیں۔ شیکسپئر کو کہ ابکر اور جہانگیر کا ہم عصر تھا اس کے انتقال کو تقریباً ساڑھے تین سو سال ہو چکے ہیں لیکن اب بھی ہر سال دو ایک تحقیقی کتابیں اس پر شائع ہو جاتی ہیں۔ اقبال کو تو ابھی چالیس سال ہی گزرے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مفکر مشرق پر کافی تحقیق ہو چکی ہے۔ یہ رجحان غلط ہے۔ صہبا صاحب کے انداز تحقیق کو سراہتے ہوئے انہوںنے کہا کتاب کی ترتیب میں صہبا صاحب کی دیانت داری نے مجھے کافی متاثر کیاہے جو چیز جہاں سے اورجس طرح لی گئی اس کو من و عن بیان کر دیا گیا ہے ورنہ دوسروں کی باتوں کو اپنے نام سے بیان کر دینا ایک عام سی بات ہے۔ لوگ تو زندوں پر بھی ہاتھ صاف کر دیتے ہیں پھر ان کا تو ذکر ہی کیا جواب مدافعت کے قابل نہیں رہے ہیں! سبزواری صاحب کے بعد نامور نقاد جناب مجنوں گورکھپوری سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ مجنوں صاحب نے اس تقریب کی پہلی تقریر کی۔ انہوںنے کچھ اس طرح آغاز کیا کہ میں صہبا صاحب کو ایک جسمانی پرچھائی سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ اس جملے پر اہل محفل نے اس لیے لطف لیا کہ مجنوں صاحب خود بھی صہبا صاحب کے ہم جثہ ہیں ۔ اور جب دیکھتا ہوں کہ وہ بھاری بھرکم کام کر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔ بھار ی بھرکم کام کی تازہ ترین مثال اقبال اور بھوپال ہے۔ مجنوں صاحب نے جشن حالی میں اپنی شرکت کا انکشاف فرما کر حاضرین کو حیرت میں ڈال دیا۔ اپنی تقریر میں انہوںنے بتایا کہ پانی پت میں جشن حالی کے موقع پر علامہ اقبال سے ملاقات بھی کی تھی۔ اور چند سوالات بھی کیے تھے لیکن چونکہ علامہ گلے کی تکلیف میں مبتلا تھے ان کی آواز بیٹھی ہوئی تھی اس لیے زحمت دینا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہو گئے۔ آکر میں مجنوں صاحب نے ان الفاظ میں مبارک باد پیش کی۔ صہبا صاحب نے اپنی تحقیق کو شگفتہ اور لطیف انداز میں پیش کیا ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صہبا صاحب سے کہا گیا کہ وہ اپنی تحقیق کے بارے میں کچھ فرمائیں۔ صہبا صاحب نے روایتی انداز میں انکسار ی سے کام لیتے ہوئے اپنی سعی و تحقیق پر مختصر الفاظ میں روشنی ڈالی اور ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی نشست پر واپس چلے گئے۔ ابن انشاء نے آخر میں اس تقریب کی مہمان خصوصی شہزادی عابدہ سلطان سے درخواست کی کہ وہ خطبہ صدارت پیش فرمائیں۔ شہزادی عابدہ سلطان گویا ہوئیں۔ سب سے پہلے میں منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں میں ممنون ہوں کہ انہوںنے مجھے اس امتیاز کے لیے منتخب فرمایا۔ اقبال اور بھوپال پر اظہار خیال فرماتے ہوئے انہوںنے فرمایا۔ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے قطعی کوئی امید نہتھی کہ کوئی شخص اس نوعیت کی تحقیق اور جستجو میں کامیاب ہو سکے گا۔ کیوں کہ ان واقعات کو گزرے ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ قیام پاکستان کے دوران جو لاکھوں افراد ادھر سے ادھر ہوئے اس میں جان و مال کا نقصان تو ہوا ہی ہوا بہت سے رابطے ٹوٹ گئے قیمتی دستاویزیں کتابیں خطوط اور اس طرح ضائع ہو گئے کہ پھر ان کا پتا ہی نہ مل سکا۔ خود میری کتابوں اور بیشتر کاغذات کا یہی حشر ہوا۔ شہزادی عابدہ سلطان نہایت متانت کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک جملہ ادا کر رہی تھیں۔ ان کے ہر فقرے میں خرب پنہاں تھا آج اقبال اور بھوپال نے ان پرانی یادوں کے زخموں کو ہر ا کر دیا تھا۔ ماضی کے شکوہ کی پرچھائیاں آج بھی ان کی آواز کے زیر و بم میں مجسم ہو کر نظر آ رہی تھیں۔ وہ فرما رہی تھیں کہ علامہ اور مریے والد میں جو قدریں مشترک تھیں ان کی بنیاد جامعہ علی گڑھ تھی۔ عالم اسلام کی ترقی اور فلاح و بہبود تھی جو کسی خاص علاقے سے مخصوص نہ تھی میرے والد اکثر یہ مصرعہ گنگنایا کرتے تھے۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا انہوںنے فرمایا کہ آج کی محفل میں مفکر بھی ہیں مصنف بھی ہیں شاعر بھی ہیں اہل قلم بھی اقبال کے جانشیں بھی ہیں بھوپال کے وارث بھی ہیں۔ آپ کی جانشینی کا حق اسی وقت ادا ہو گا کہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کو آپ اسی طرح جاری رکھیں۔ آج آپ آزاد اور خود مختار ہیں۔ اس قوت آ کو متعدد قسم کے اختلافات سے سابقہ تھا۔ آج آپ کو صرف اپنے مسلمان بھائیوں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ محبت اور پیار سے متحد کرنا ہے۔ دلائل کے ذریعے یقین دلانا ہے کہ ہماری سب کی بقا اور ترقی کا راز اتحاد ومحبت ہی میں ہے۔ مہمان خصوصی کی تقریر کے بعد ابن انشاء صاحب نے اعلان کیا کہ چائے اور خوردونوش کا انتظام لان میں کیا گیا ہے اور یہ انتظام بھی کیا گیا ہے کہ جو صاحب اس وقت اقبال اور بھوپال خرید فرمائیں گے ان کی کتاب پر صہبا صاحب آٹو گراف بھی دیں گے۔ کچھ لوگ شہزادی عابدہ سلطان کے گرد جمع ہو گئیے۔ کچھ لوگ اکیڈمی کے اسٹال سے اقبال اور بھوپال خرید کر صہبا صاحب سے دستخط لینے لگے۔ اور بقیہ خواتین و حضرات اس لان کی طرف چل گیے جہاں چائے اور لوازمات کا انتظام تھا۔ ایک صاحب نے چائے کے دوران بتایا کہ چودہ پندرہ جلدیں فروخت ہو گئیں۔ ہم نے کہا غنیمت ہے ہمیں تو ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کی وہ تقریب اب تک یاد ہے جس میں ایک شاعر کی ۵۰ جلدیں رکھی تھیں تقریب کے خاتمے کے بعد حساب لگایا تو پتا چلا کہ ایک جلد فروخت ہوئی اورایک جلد کسی نے چرا لی ۔ …محسن بھوپالی (تقریب رونمائی کا آنکھو ں دیکھا حال ۱؎) اقبال اور بھوپال صہبا لکھنوی یوں تو دیکھنے میں دھان پان نظر آتے ہیں لیکن اس مختصر انسانی جسم کے اندر عزم و حوصلے کا جو دیو چھپا بیٹھا ہے۔ اس نے اچھے اچھوں سے اپنا لوہا منوایا ہے۔ او ر اب تو صہبا لکھنوی کو عزم اور حوصلے کی علامت سمجھا جانے گلا ہے۔ یہ بات میں بلا سوچے سمجھے نہیں بلکہ میرے سامنے صہبا لھنوی کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے افکار اور صہبا لکھنوی دو مختلف چیزیں نہیں۔ تقریباً ربع صدی سے افکار باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ جو لوگ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں کوئی ادبی رسالہ نکالنا کتنا مشکل کام ۔ وہی صہبا لکھنوی کی مشکلوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ گزشتہ پچیس برسوں میں بے شمار ادبی رسالے منصہ شہود پر آئے۔ انہیں بڑے سرمایے اور بلند ارادوں سے نکالا گیا تھا مگر ان مین سے اکثر بن کھلے مرجھا گئے۔ ۔ اس افسوس ناک صورت حال کے کئی اسباب ہیں۔ ہمارا ملک صرف سترہ فی صد پڑھے لکھے لوگوں کا ملک ہے۔ اور ان پڑھے لکھے لوگو ں میں بھی مشکل سے ایک یاد و فیصد لوگ ایسے ہوں گے جن کو ادب سے دلچسپی ہو گی۔ اور پھر ان میں سے ایسے لوگوں کو شمار کیجیے جو ادبی رسائل خریدنے کی استطاعت رکھتے ہوں تو صورت حال نہایت حوصلہ مند نظر آتی ہے۔ ایسے حالات میں صہبا لکھنوی نے افکار کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے پاکستا ن کا بہترین ادبی رسالہ بنایا اور اب ت ویہ رسالہ واحد ہے جو باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے صہبا لکھنوی کو بہت سی قربانیاں دینی پڑیں۔ اور میرے نزدیک سب سے بڑی قربانی یہ دی کہ وہ اپنی شاعری کی طرف سے غافل ہو گئے جو ان کا اصل میدان تھا۔ صہبا لکھنوی ایک اچھے شاعر ہیں اور ایسے بہت سے شاعروں میں سے ہیں جن کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صہبا لکھنوی نے نشر و اشاعت کے وسائل ہونے کے باوجود اپنی شاعرانہ شخصیت کو اس طرح ابھرنے کا موقع نہیںدیا جس طرح وہ خود دوسروں کی شاعرانہ شخصیتوں کو ابھارتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ اپنی ادبی حیثیت کو منوانے کے لیے رسالے نکالتے ہوں۔ وہاں کسی مدیر کا اپنے تخلیقی جوہر سے تغاف برتنا ایک عجیب سی بات ہے لیکن جب میں افکار کی خدمات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ بھی ادیب اور شاعر صہبا لکھنوی کا مسلسل تخلقیی عمل ہے۔ ۱؎ ماہنامہ کتاب لاہور ستمبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۳ تا ۱۵ افکار کو بنانے اور سنوارنے میں صہبا لکھنوی نے جس طرح اپنا خون جگر صرف کیا ہے وہ ایک حقیقی تخلیق کار ہی فن کی تخلیق میں صرف کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام ادبی رسالے کشکول اور وہ بھی کشکول گدائی نظر آتے ہیں۔ لیکن افکار ایک ایسا مجموعہ نگارشات ہے جس کا ایک اپنا مزاج ہے۔ اور جس کے مطالعے سے ہم ادب کی رفتار اور سمت کا تعین کر سکتے ہیں۔ یوں تو ہر رسالہ اپنے ایڈیٹر کے نزدیک ایک تحریک ہوتا ہے ۔ لیکن ’’افکار‘‘ واقعی ایک ادبی تحریک کی حیثیت رکھتا ہے۔ گزشتہ پچیس سال کے بہترین ادب کا بڑا حصہ افکار کے توسط سے منظر عام پر آیا ہے یہی نہیں بلکہ اس عہد کے متعدد اچھے ادیب بھی ہمارے ادب کو افکار ہی کے ذریعے ملے ہیں۔ اس قسم کے کام وہی رسالے انجام دے سکتے ہیں جن کے سامنے کو واضح مقصد ہو غیر ادبی مقصد نہیں خالص ادبی مقصد بلاشبہ ’’افکار ‘‘ ایک ایسا ہی رسالہ ہے۔ یہ ساری تمہید صرف کھنے کی ضرورت کے لیے پیش آئی کہ حال ہی میں صہبا لکھنوی کی ایک اور خوبی کا انکشاف یہ ہوا ہے کہ شار اچانک یا اتفاقا کو اچھا ادب پارہ تخلیق کر سکتا ہے۔ لیکن کسی شاعری نے یا مدیر سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اچانک کوئی بلند پایہ تخلیقی کارنامہ پیش کرے بڑی حد تک نامناسب ہے۔ لیکن صہبا لکھنوی نے اقبال اور بھوپال لکھ کر ایک بلند پایہ محقق کا کردار جس خوبی سے ادا کیا ہے اس پر مسرت بھی ہوتی ہے اور حیرت بھی۔ مسرت اس بات پر کہ انہوں نے موضوع کے ہر پہلو کا بغور جائزہ لیا ہے اور حیرت اس بات پر کہ اتنی ساری مصروفیات کے باوجود وہ اتنا بڑا کام کرگزرے۔ اقبا ل کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب اس موضوع پر مزید لکھنے کی گنجائش نہیں رہی لیکن جن لوگوں نے اقبالیات کے ذخیرے کو کھنگالا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ابھی اس موضوع پر لکھنے کی بہت گنجائش ہے۔ اقبال کا بھوپال اور اس ریاست کے حکمران سے جو تعلق تھا اس کے بارے میں ذخیرہ اقبالیات میں چند منتشر اشارے ملتے ہیں یا عبدالقوی دسنوی کا مختصر کتابچہ یہ سب تحریریں پوری طرح موضوع کا حق ادا نہیں کر تیں۔ صہبا لکھنوی نے مواد کی فراہمی میں جس محنت اور مواد کی ترتیب میں جس سلیقے سے کام لیا ہے اس کی بنا پر ان کی کیتاب اپنے موضوع پر پہلی جامع کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔ ۲۶۔۲۰ سائز کے ۳۱۲ صفحات کی یہ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے جن میں ابال سے بھوپال اور اہل بھوپال سے تعلقات کی داستان بیان کی گئی ہے۔ پہلا باب بھوپال سے علامہ اقبال کے روابط ہے۔ اس میں اقبال کے بھوپال سے تعلق کا ابتدائی مراحل کی نشان دہی کی گئی ہے اور اسی ضمن میں علامہ مرحوم کے ایسے خطوط بھی درج کیے ہیں جو اہل بھوپال کے نام ہیں یا جن میں بھوپال کا ذکر آتا ہے۔ دوسرا باب اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کے باہمی تعلق سے متعلق ہے۔ اس باب میں اقبال حسین خاں ندیم خاص نواب بھوپال کے بیان‘ مولانا غلام رسول مہر کے خطوط اور نذیر نیازی کی تحریری شہادتوں سے اقبال اور نواب بھوپال کے قریبی اور گہرے تعلقات کی داستان بیان کی گئی ہے۔ ضمنی طور پر یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اقبال حسین خاں اور مولانا مہر کے خطوط پہلی مرتبہ اسی جگہ منظر عام پر آئے ہیں۔ اقبال حسین کی ایک ایسی غزل بھی اس باب میں ہے جس پر علامہ نے اصلاح دی تھی۔ تیسرا باب اقبال کے بھوپال میں پہلے قیام جنوری ۔ مارچ ۱۹۳۵ء کی روداد پر مشتمل ہے۔ اسی باب میں اقبال اور سر راس مسعود کے تعلقات کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ چوتھا باب ریاستوں بھوپال سے وظیفہ ملنے کے بارے میں ہے۔ پانچویں باب میں اقبال کے دوسری مرتبہ قیام بھوپال جولائی ۔ اگست ۱۹۳۶ء کی تفصیلات ہیں۔ ا س کے بعد باب میں جشن حالی ۱۹۳۵ء سے بھوپال اور اقبال کے تعلق کی صراحت کی گئی ہے۔ پھرڈاکٹر سید عبدالباسط جو بھوپال میں اقبال کے معالج تھے کے نام اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط پیش کیے گئے ہیں آٹھواں باب اقبال کے تیسرے قیام بھوپال مارچ۔ اپریل ۱۹۳۶ء کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ آخری پانچ ابواب مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت ہیں: ٭… اقبال راس مسعود اور ضرب کلیم ٭… دارالاقبال بھوپال میں اقبال کا سوگ ٭… ملفوظات قدسی اور نیاز مندان بھوپال ٭… اقبال کے اثرات ٭… اقبال اور قرآن مجید کے حواشی یوں تو اس کتاب کا کوئی باب نئی معلومات سے خالی نہیں ہے لیکن ملفوظات قدسی سے معلق ایک اہم باب ہے۔ اس باب میں حضرت شاہ اسد الرحمن قدسی شہزادی عابدہ سلطان محمد احمد سبزواری عبدالحئی ابن ڈاکٹر عبدالباسط محمد خلیل خاں‘ علی حیدر عباسی‘ چوہدری خاقان حسین اور مسیح صدیقی کی یادداشتیں حیات اقبال کے بہت سے نئے گوشوں کو سامنے لاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہبا لکھنوی نے اس کتاب کی تدوین میں بے حد محنت کی ہے برسوں وہ اس کے مواد کی فراہمی کے لیے تگ و دو کرتے رہے۔ متعدد اشخاص سے انہوںنیملاقاتیں کیں اور بے شمار کتابوں اور رسالوں کی ورق گردانی کی تب کہیں جا کر یہ کتا ب مکمل ہوئی۔ اس کتاب میں جہاں ایک طرف ادبی تحقیق کا اعلیٰ معیار ملتا ہے وہیں دوسری طرف شگفتہ اسلوب بیان بھی نظر آتا ہے۔ صہبا لکنوی کی نثر تازگی شگفتگی اور سادگی کی حامل ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو اردو کی عام تحقیقی کتابوں کے برعکس شروع سے آخر تک دلچسپی کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے ۔ آخر میں اس قدر اور عرض کر دوں کہ پاکستان کی یونی ورسٹیوں میں متعدد تحقیقی مقالات پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مل چکی ہے اوران میں سے جو شائع ہوئے ہیں ان میں دو ایک کے علاوہ مجھے کوئی ایسا تحقیقی مقالہ نظر نہیں آتا جو صہبا لکھنوی کی کتاب کے معیار تک پہنچتا ہو۔ اقبال اور بھوپال سے ہمارے اہل تحقیق اور خصوصاً یونی ورسٹیوں میں تحقیق کرنے والے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ کتاب اقبال اکیڈمی کراچی نے شائع کی ہے اور قیمت پندرہ روپے ہے ۔ …مشفق خواجہ ۱؎ فنون ۔ لاہور اقبال کی وفات کو پینتیس برس ہونے کوآئے مگر حیات اقبال کم گم شدہ کڑیوں کی بازیافت کا عمل ہنوز جاری ہے۔ یہ اس مبارک عمل کا کرشمہ ہے کہ تقریباً ہر سال اقبال کی زندگی کے کسی نہ کسی دھندلے گوشے میں لانے کی مہم کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے اور یوں اقبالیات ایک نئے مقام نظر کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کے ریاست بھوپال سے تعلقات بھی حیات اقبال کا ایک نیم تاریک علاقہ تھے۔ نواب حمید اللہ خاں سے اقبال کے روابط کا پورا سیاق و سباق معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے ناقدان فن اقبال کی تعلیمات کے انقلابی پہلوئوں کا تجزیہ کرتے وقت اقبال پر شاہ پرستی کا الزام عاید کرتے تھے۔ اقبال کے سب سے زیادہ ترقی پسند اور پختہ فکر نقاد عزیز احمد تک نے اقبال عصر حاضر کا عظیم انقلابی شاعر ثابت کرنے کے بعد یہ سوال اٹھانا ضروری سمجھا تھا: ۱؎ ماہنامہ قومی زبان کراچی اگست ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۵ تا ۱۷ بادشاہوں کا ذکر اور ان کا گورار کر لینا ہی اقبال کی انقلابی تعلیم میں حارج ہے۔ اور اس سے ایک ایسا تضاد پیدا ہوتا ہے کہ جس کی تاویل نہیں ہو سکتی۔ اقبال اور بھوپال کی اشاعت کے بعد یہ تضاد ختم ہو گیا ہے۔ صہبا لکھنوی نے بارہ برس کی عرق ریزی کے بعد ایسا جامع اور مستند تحقیقی مواد جمع کیا ہے جس کے مطالعے سے اقبال کی بھوپال سے وابستگی اپنے حقیقی تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انتہائی تنگدستی اور اپنی رفیقہ حیات کی شدید علالت کے زمانے میں بھی اقبال نے ریاست حیدر آباد سے وابستگی اور سر آغا خاں سے مالی امداد کی پیش کش کو تو ایک قلندرانہ آن کے ساتھ رد کر دیا۔ سر اکبر حیدری اور سر سکندر حیات کی طرف سے مادی سہاروں کی پیشکش کو تو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا مگر نواب حمید اللہ خاں کا وظیفہ قبول کر لیا اور نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کی نسبت پر بارہا فخر او رانبساط کا اظہار کیا… یہ سوال اقبالیات کے سنجیدہ طالب علموں کے لیے ایک مدت سے سوہان رؤوح ہیں۔ وہ والی بھوپال سے اقبال کے مراسم کو مذکورہ بالا تضاد سمجھنے پر مجبور تھے۔ صہبا لکھنوی نے اقبال اور بھوپال کی تصنیف سے اس سوال کا شافی جواب مہیا کر دیا ہے ۔ اس کتاب کا کوئی بھی قاری یہ نتیجہ اخذ کیے بغیر نہیں ڑہ سکتا کہ بھوپال کی ریاست برصغیر کی دیگر مسلمان ریاستوں کے مقابلے میں اسلام اور ہندی مسلمانوں کی انقلابی جدوجہد سے زیادہ لگائو رکھتی تھی۔ وہ پان اسلامزم کی تحریک ہویا ہندی مسلمانوں کے جداگانہ اورمنفرد قومی وجود اور سیاسی تشخص کے منوانے کی جدوجہد ہو… ریاست بھوپال کے فرمان روائوں نے اس میں عملی دل چسپی لی۔ ریاست بھوپال کی فرماں روا شاہ جہاں بیگم نے اپنا عقد ثانی سید صدیق حسن سے کیا تھا۔ سید صاحب جما ل الدین افغانی مفتی محمد عبدہ اور سید احمد شہید کے رفقا ئے خاص میں سے ایک تھے۔ پان اسلامزم کی تحریک مجاہدین سے عملی روابط رکھتے تھ اور اسی بنا پر برطانوی حکومت نے آپ سے نوابی کا خطاب واپس لے لیا تھا۔ اور آپ کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر رکھا تھا۔ نواب حمید اللہ خاں عوامی انداز فکر رکھتے تھے اور مسلمانوں کی آزادی اور ترقی کے نصب العین کو عزیز جانتے تھے۔ اور نزدی کے آخری ایام می اقبال قرآن کریم کے حواشی جس انقلابی انداز نظر سے لکھنا چاہتے تھے نواب حمید اللہ خاں اس سے گہری دلچسپی رکھتے تھے انہوںنے اقبال کو وظیفے کی پیشکش کرتے وقت اقبال کی اس آخر ی مہم کا ذکر کیا تھا کہ اقبال مادی پریشانیوں سے نجات پا کر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ اس سب کے باوجود راس مسعود کی دوستی ریاست بھوپال سے اقبال کی مادی وابستگی کی سب سے بڑی وجہ ثابت ہوئی۔ راس مسعود کی بھوپال میں تقرری کے بعد جب پہلے پہل اقبال بھوپا ل پہنچے تو نواب حمید اللہ خاںنے انہیں اپنا خاص مہمان بنانے کی سعادت حاصل کرنا چاہی مگر اقبال نے یہ کہہ کر شیش محل میں جانے سے انکار کر دیا کہ میں تو اپنے دوست سے ملنے آیا ہوں۔ اقبال نے مسعود مرحوم کے عنوان سے راس مسعود کا جو مرثیہ لکھا ہے اس میں سوز و گداز گہرے خلوص اور حقیقی محبت کے جذبات موجزن ہیں اقبال اور بھوپال میں راس مسعود اور اقبال کی محبت کی پوری روداد قلمبند کی گئی ہے۔ دوستی محبت اور ایثارکی یہ کہانی دلگداز بھی ہے اور بصیرت افروز بھی ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے زندگی کے آخری لمحات میں اقبال کو راس مسعود کے پس ماندگان کی اپنے بچوں سے زیادہ فکر تھی اور راس مسعود مرتے دم تک اقبال کو مالی پریشانیوں سے نجات دلانے میں ہمہ تن محو تھے۔ بھوپال سے اقبال کی مالی امداد کا بندوبست کرنے کے بعد راس مسعود اقبال کو بار بار مجبور کر رہے تھے کہ وہ حیدر آباد اور آغا خاں کی پیش کشوں کو نہ ٹھکرائیں۔ اور اقبال بار بار راس مسعود کو بتا رہے تھے کہ وہ اس وقت تک کسی شخص کی امداد قبول نہیں کر سکتے جب تک ان کے دل میں اس کی کوئی خاص وقعت نہ ہو۔ راس مسعود پھر اقبال کی تنگ دستی کی بھث چھیڑتے اور اقبال پھر کہتے ہیکہ جو کچھ مجھے مل رہا ہے میری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش کرنا ہوس کاری ہے۔ اقبال کی یہ منطق راس مسعود کی سمجھ میں نہ آئی اور وہ آخری سانس تک اقبال کو قائل کرکے مادی پریشانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے منصوبے بنا چکے تھے۔ صہبا لکھنوی کے بوھپال سے تعلقات کا صحیح تناظر پیش کرنے کی جدوجہد میں بھوپال کی علمی اورتہذیبی سرگرمیوں کی تاریخ بھی قلم بند کر دی ہے۔ اور اقبال کی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق اور ضرب کلیم کے تخلیقی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ اقبال کے چند غیر مطبوعہ خطوط اور قرآن کریم کے حواشی لکھنے کی آخری خواہش کا پورا خاکہ بھی منظر عام پر لے آئے ہیں۔ یہ کتاب اردو کے تحقیقی ادب اور اقبالیات… ہر دو ر میں قابل قدر اضافہ ہے۔ اس کی تصنیف سے ایساجامع اور قابل اعتبار تحقیقی مواد سامنے آ گیا ہے کہ جس کی حیات اقبال کے شارحوں کو ضرورت تھی اور جس کے بغیر اقبال شناسی میں ایک گونہ رکاوٹ موجود تھی۔ اقبال اور بھوپال کی اشاعت کے بعد اقبال کی مفصل اور معتبر سوانح لکھنے کا سامان پیدا ہو گیا ہے۔ نظر حیدر آبادی کی اقبال اور حیدرآباد …محمد عبداللہ قریشی کے مکاتیب اقبال سید نذیر نیازی کی اقبال کے حضور کے بعد صہبا لکھنوی کی اقبال اور بھوپال کی اشاعت سے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ بزم اقبال یا اقبال اکیڈمی یا دونوں مل کر سوانح اقبال مرتب کرنے کا جامع منصوبہ بنائیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب اس پر عمل شروع ہو گا تو صہبا لکھنوی کی پر خلوص اور علمی اور تحقیقی لگن کے ساتھ ساتھ ان کی تحقیقی دیانت اور بھوپال اور اقبال سے ا ن کی عقیدت کا اعتراف کرتے ہی بنے گی۔ …فتح محمد ملک ۱؎ افکار ۔ کراچی میں تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ صہبا لکھنوی اقبال اور بھوپال کے روابط پر اس قدر وقیع مقالہ لکھ لیں گے۔ جو نہ صرف تحقیق کے میدان میں ایک غیر معمولی کارنامہ ہے بلکہ تدقیق کے نقطہ نظر سے بھی نہایت اہم ہے۔ صہبا صاحب کے بارے میں حیرت انگیز کا مقما یہ اس لیے نہیں کہ خدانخواستہ وہ اس کام کے اہل نہیں۔ بلکہ اس لیے کہ وہ بے حد عدیم الفرصت آدمی ہیں۔ ’’افکار‘‘ کے ماہانہ نشر و اشاعت کے کاموں کے علاوہ ضمیم ادبی نمبروں کی ترتیب و تشکیل کا کام بھی انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان مصروفیات کے دوران چپ چاپ تحقیق و تدقیق کا کام بھی جاری رکھنا اور اسے بحسن و خوبی انجام دے دینا میرے نزدیک معجزے سے کم نہیں۔ مذکورہ بالا کتاب پر نومبر کے مہینے میں ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک مختصر تبصرے میں راقم الحروف نے جن باتوں کی طرف سامعین کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اولاً تو یہ کہ تیرہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کو اقبال اور بھوپال پر جس طرح منطبق کیا گیا ہے۔ اور موضوع سے ہٹ کر حشور و زوائد کو جس طرح ترک کیا گیا ہے۔ وہ بجائے خود ایک ہنر ہے۔ یہ ہنر صہبا صاحب کو افکار کی تیس سالہ ادارت کے تجربے سے حاصل ہوا کہ غیر ضروری اور فالتو چیزوں کو کس طرح ترک کیا جاتا ہے۔ ثانیاً اقبال کی عظیم المرتبت شخصیت کو مرکزی حیثیت اگر موضوع کے لحاظ سے حاصل ہے تو مصنف نے اس حیثیت کو نہ صرف یہ کہ اجاگر رکھا ہے بلکہ بھوپال کی غیر ضروری بھاری بھرکم شخصیتوں سے دبنے سے بچایا ہے۔ خصوصاً نواب بھوپال اور سر راس مسعود کے مقابل میں خطرہ تھا کہ مصنف کسی عصبیت کا شکار نہ ہو جائے۔ لیکن اس بال سے زیادہ اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز پل صراط سے صہبا بخوبی گزرے ہیں۔ ثالثاً بھوپال کی منفرد حیثیت کو جن عوامل کی مدد سے منفرد ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔ ۱؎ رسالہ فنون لاہور۔ ستمبر اکتوبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۹۴ تا ۱۹۶ ان کے ایک ایک جز کو صہبا نے ملحوظ رکھا ہے۔ رابعاً اقبال اور بھوپال کے روابط میں پاکستان کے خاموش خط و خال کو جس طرح ابھارا گیا ہے وہ کسی صاحب بصیرت سے پوشیدہ نہیں۔ خامستاً اقبال اور بھوپال کی کہانی پاکستان کی کہانی ہے اور یہ مقالہ مسلمانان برصغیر کی تاریخ کا اہم جز ہے۔ اس کے ذیل میں تاریخ کے طالب علم کو بہت سی تفصیلات مل سکتی ہیں۔ صہبا نے آئینہ مشاعرہ نامی ایک مختصر سے رسالہ س یاقبال اور بھوپال کے ربط کو ۱۹۱۰ء سے ثابت کیا ہے۔ نواب حمید اللہ خاں سے اقبال کے روابط کا ذکر بھی اسی مقام سے شروع ہوتا ہے۔ اور پھر علامہ اقبال کی بھوپال میں آمد و رفت اور سر راس مسعود سے خصوصی روابط کا اغاز بھی جس طرح ہوتا ہے وہ بجائے خود اہم واقعات ہیں۔ اقبال کے وظیفے کے صحیح پس منظر پر پہلی مرتبہ اس قدر مفصل طور سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوران قیام بھوپال میں علامہ پر جن نظموں کا اجلال ہوا ہے اس کا مفصل ذکر موجود ہے۔ جشن حالی نواب صاحب کا خطبہ‘ اقبال کی شرکت‘ ان سب پر پہل مرتبہ رائے زنی کی گئی ہے۔ اور مستند حالات و واقعات پیش کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالباسط سے اقبال کی اہم مراسلت بہت سے ابواب وا کرتی ہے اقبال اور بھوپال میں آمد و رفت علاج معالجہ وظیفہ وغیرہ پر روشنی پڑتی ہی ہے پس چہ باید کرد اے اقوام شرک اور ضرب کلیم کے بارے میں بھی اہم انکشافات یہاں ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ اقبال کی وفات اور تعزیت تک کے واقعات جو بھوپال تک پھیلے ہوئے تھے صہبا نے انہیں بھی نہ چھوڑا۔ اور ان سب پر مستزا د یہ کہ اقبال قرآن مجید پر جس انداز اور جس نہج پر حواشی لکھنے کا مہتمم بالشان کام شروع کرنا چاہتے تھے۔ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ واقعات اقبالیات میں بلا خوف تردید گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صہبا اس امر میں بھی کامیاب و کامران ہوئے ہیں کہ انہوں نے اقبال کے بھوپال سے ذہنی قلبی اور روحانی تعلق کو ثابت کیا ہے جو مرحوم کو بھوپال سے واقعی تھا۔ چند مشہور و معروف ہستیوں سے اقبال کی مراسلت نہ صرف اس امر کا بین ثبوت ہے بلکہ مراسلت کامواد آفتاب آمد دلیل آفتاب کا مصداق ہے۔ صہبا نے اقبال کی ایک نادر تصویر جو کسی بھوپالی مصور نے کوئلہ سے بنائی تھی اس کتاب میں شامل کر کے اس کی افادیت میں اضافہ کیا ہے۔ بھوپال کی اہم شخصیتوں اور عمارتوں کی تصویریں بھی اس میں شامل ہیں جن سے اقبال کا کوئی نہ کوئی علاقہ تھا۔ اقبال اکادی ہر طرح لائق مبارک ہے کہ ا س نے اتنے اہم کام کے لیے ایک نحیف الجثہ لیکن قوی العزم شخص کا انتخاب کیا جس نے نہایت اہم دستاویزات اکٹھا کر کے اقبالیات کے سلسلے میں اقبال اور بوھپال کو سچ مچ ایک وقیع اضافہ بنا دیا۔ بڑی تقطیع پر ۳۱۲ صفحات کی جلی و خفہ حروف میں نفیس کاغذ پر چھپی ہوئی یہ مجلد کتاب جس میں گرد پوش Dust Coverسے اقبال کی ثقاہت کا بھرم بھی قائم ہوتا ہے۔ فی زمانتاً پندرہ روپے مہنگی نہیںبلکہ طالبان علم و ادب کے لیے تو یہ سوا کوڑیوں کے مول ہے۔ تحقیق کا فن میرے نزدیک جس قدر غیر دلچسپ اور غیر شاعرانہ ہے۔ غیر دلچسپ اور خشک طبع محققین اسے اور بھی خشک اوردکھا پھیکا بنا دیتے ہیں۔ لیکن صہبا کا کمال یہ ہے کہ اول تا آخر زبان و بیان کی شگفتگی قائم رکھی ہے اور تحقیق کو تخلیق بنا کر پیش کیا ہے۔ بعض عسیر الحصول ماخذوں سے جس طرح مواد حاصل کیا ہے اس پر پیشہ ور محققین کی طرح فخر و مباہات نہ کر کے جس طرح صہبا نے کسر نفسی سے کام لیا ہے بلکہ نفسی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ وہ ان کی شرافت پر دال ہے۔ تدقیق تحقیق سے بھی آگے کی منزل ہے۔ صہبا اس خارزار میں بھی داخل ہوئے ہیں لیکن اپنی آبلہ پائی کا ذکر کرنے کے بجائے انہوںنے قیمتی مواد سے نتائج کا استباط اور استخراج کر کے قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے… ڈینگیں مارنا اور محققانہ تمرد سے کام لینا صہبا لکھنوی کی منکسر المزاجی کے منافی ہے۔ چنانچہ جہاں اقبال کے با ب میں بعض اہم باتوں کا انکشاف ہوا ہے آپ یہ محسوس بھی نہیںکر سکیں گے کہ یہ بات پہلی بار معرض شہود پر آ رہی ہے… مذکورہ بالا کتاب نہ صرف موضوع کے اعتبار سے بلکہ دو تین سال کی مدت میں اقبال پر جو چند کتابیں لکھی گئی ہیں ان سے بالموازنہ فائق ہے۔ یہ چند سطریں تو محض طالب علمانہ مطالعہ کا اعتراف ہے ورنہ مذکورہ کتاب کے محاسن صاحبان بصیرت اور صاحبان نظر پر اس وقت اور زیادہ عیاں ہو سکیں گے جب وہ اس کا مطالعہ فرمائیں گے۔ اس کتاب کا اشاریہ بھی مطالعہ کرنے والوں سے داد و تحسین حاصل کرے گا۔ …آغا سہیل ۱؎ اوراق ۔ لاہور اقبال اور بھوپال ایک ایسے شخص کی تحقیق و تدوین کا شاہ کار ہے جس نے اس خارزار میں پہلے بھولے سے بھی قدم نہیں رکھا تھا۔ صہبا لکھنوی کسی زمانے میں اردو کے صحت مند شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ پھر انہیں ترقی پسند تحریک کو مقبول بنانے کا سودا ہوا۔ اس لگن میں رسالہ افکار جاری کیا۔ آہستہ آہستہ ان کی شاعری اور صحت تو ادارتی بوجھ تلے دب گء یلیکن افکار ان کے فکر و عمل کو ہر قدم پر مہمیز لگاتا رہا۔ نتیجہ کبھی فیض نمبر کی سورت میں ظاہر ہوا کبھی حفیظ نمبر کی صورت میں۔ جوبلی نمبر ڈیڑھ ہزار صفحات کا نکال ڈالا تو اڑھائی تین صد صفحات کا مصطفے زیدی نمبر ان کی آنکھوں میں جچا نہیں اور اسے نمبر کی بجائے محض ایڈیشن قرار دیا ۔ صہبا لکھنوی صاحب کی یہ سب معنوی اولادیں ان کے دھان پان جثے اور کمزور صحت سے زیادہ صحت مند نظر آتی ہیں اور خوبی کی بات یہ ہے کہ یہ تمام کام انہوںنے اکیلے ہی انجام دیے ہیں۔ اقبال اور بوھپال ان کی جستجو ئے مسلسل اورعمل پیہم کی مثال ہے۔ اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک اسے موضوع پر جس کی حدود بہت تنگ ہیں صہبا لکھنوی نے پوری کتاب لکھ ڈالی ۔ اس حیرت کو دور کرنے کے لیے میں آپ کو اقبال اور بھوپال پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ اقبال اور بھوپال کی اہمیت صرف اتنی نہیں کہ یہ دونوں ہم قافیہ ہیں۔ اس کتاب میں علم دوستی فن شناسی اور ادب نوازی کی وہ درخشندہ روایت اپنی کرنیں مجتمع کر رہی ہے جس کی روشنی پہلے بکھری بکھری تھی اس کا اعتراف اقبال کے خطوط میں تو موجود ہے۔ لیکن اس روایت کی کڑیاںجن کا سلسلہ بھوپال کے فرمانروا اور اس ریاست کے علم دوست اصحاب کے وسیع طبقے تک پھیلا ہوا تھا۔ صہبا لکھنوی کی وساطت سے پہلی بار سامنے آیا ہے۔ انہیں دریافت کرنے اور ان کا سلسلہ جوڑنے میں صہبا صاحب کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا احساس ہر سطر پڑھنے کے بعد ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر خیابان پشاعر کا اقبال نمبر تلا ش کرنے میں انہوںنے جس جاں کاوی سے کام لیا اس کی داد نہیںدی جا سکتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولف کو جہاں بھی مواد کی بھنک پڑی وہ وہاں اڑ کر پہنچے اور مواد حاصل کیے بغیر نہ لوٹے۔ پرانے زمانے میں کوئی بیمار پڑتا تو کوٹھے پر چڑھ کر چلاتا تھا۔ چنانچہ کہیں سے کوئی معالج ضرور میسر آ جاتا۔ صہبا صاحب نے بھی اس کتاب کا قیمتی مواد یوں جمع کیا ہے کہ بھوپال سے تعلق رکھنے والے ہر شخص تک اپنی کتاب کی صدا پہنچا دی۔ بھون کے علاقے سے شاہ اسدالرحمن قدسی کو محکمہ سیٹلمنٹ سے عبدالحئی صاحب کو ڈھونڈ نکالا اور بقول پروفیسر انجم اعظمی ٹھک ٹھک کرتے ہوئے یہ کتاب مکمل کر ڈالی۔ ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی جنوری ۱۹۷۴ء صفحہ ۷۵ تا ۷۷ اس کتاب کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے صرف اقبال اور بھوپال کے روابط ہی منظر عام پر نہیں آتے بلکہ بھوپال کی تہذیب اور اس تہذیب کو فروغ دینے والی شخصیات سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب بھوپا کا سیریبین ہے اور صہبا نے بھوپال کے حوالے سے اقبال کو مس کرنے والی ہر شخصیت کو اس کتاب میں محفوظ کر دیا ہے ۔ کتاب کل تیرہ ابواب پر مشتمل ہے آخر میں کتابیات اور اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صہبا صاحب آرٹ آف بک میکنگ کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہیں۔ کتاب کے ہر صفحے پرصہبا لکھنوی کی ذاتی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ انفرادیت بہت کم کتابوں کو حاصل ہوتی ہے۔ کتابت طباعت اجلی ہے ضخامت ۳۱۲ صفحات اور قیمت پندرہ روپے۔ …انور سدید ۱؎ سیپ کراچی صہبا لکھنوی اب تک ادبی صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن گزشتہ دنوں انہوں نے اپنے دستار میں سے ایک اور طرے کا اضافہ کر لیا … یہ طرہ تحقیق اور اقبال شناسی کا ہے جس نے علمی و ادبی حلقوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور خڑاج تحسین وصول کیا۔ اقبال کی شخصیت اور شاعری میں بڑی پہلوداری اور تہہ داری ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان پر اتنا کام ہونے کے باوجود اب بھی بعض مضامین یا کتابیں اقبال کی حیات یا کارناموں کو ایک نئے رخ سے پیش کر کے ادبی دنیا کو چونکار دیتی ہیں… صہبا لکھنوی کی اقبال اور بھوپال بھی بلاشبہ ایسی ہی کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ بات تو ادب کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ بھوپال اور والی بھوپال سے علامہ اقبال کے خصوصی روابط تھے۔ لیکن اس سلسلے میں ہمیں کچھ زیادہ مواد نہیںملتا۔ لے دے کر عبدالقوی دسنوی کا ایک کتابچہ علامہ اقبال بھوپال میں اور اختر جمال کا ایک مضمون اقبال اور بھوپال تھا جس سے اس سلسلے میں کچھ روشنی حاصل ہوئی تھی۔ صہبا لکھنوی نے بہ ظاہر اس محدود موضوع کو جس وسعت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ان کا ہی حصہ ہے۔ کتاب کے تیرہ ابواب ہیں ۔ ۱۔ بھوپال سے علامہ کے روابط ۲۔ اقبال اور نواب حمید اللہ خاں ۳۔ بھوپال کا پہلا قیام ۴۔ اقبال اور وظیفہ ۵۔ بھوپال کا دوسرا قیام ۶۔ جشن حالی اور اقبال ۷۔ اقبال کے غیر مطبوعہ خطوط ۸۔ بھوپال کا تیسرا قیام ۹۔ اقبال راس مسعود اور ضرب کلیم ۱۰۔ دارالاقبال بھوپال میں اقبال کا سوگ ۱۱۔ ملفوظات قدسی اور نیاز مندان بھوپال ۱۲۔ اقبال کے اثرات ۱۳۔ اقبال اور قرآن مجید کے حواشی… کتابیات اور اشاریہ کے حصے اس کے علاوہ ہیں۔ اقبال اور بھواپل میں قیاس آرائیوں کو راہ نہیں دی گئی ہے جو بھی واقعہ درج کیا گیا ہے وہ مستند حوالوں کے ساتھ ہے یہ حوالے کہیں کتابوں اور رسالوں کے ہیں اور کہیں معتبر ہستیوں کے بیانات کے۔ سب سے اہم بات یہ کہ کتاب دلچسپ ہے اور اپنے اندر بے پناہ Readabilityرکھتی ہے۔ تحقیقی کتابوں میں یہ خوبی ذرا کم ہے… بلکہ خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ۱؎ رسالہ اوراق لاہور ستمبر اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۳۲۵۔۳۲۶ زیر نظر کتاب نہ صرف یہ کہ ایک ریاست سے ایک شاعر کے تعلقات پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ ایک دور کے فکری اور تہذیبی نقوش بھی اجاگر کرتی ہے اقبال اور اردو ادب اور مسلم تہذیب و ثقافت سے شغف رکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ ضخامت ۳۱۲ صفحات اور لکھائی چھپائی صاف ستھری ہے۔ …علی حیدر ملک ۱؎ کتاب ۔ لاہور اقبال کی شخصیت اور اس کے فن کا اتنا عمیق جائزہ لیا جا چکا ہے کہ اب اس پر مزید کچھ لکھنے ک ہمت نہیں پڑتی۔ کیونکہ کسی نئے پہلو کی تلاش و جستجو بذات خود ایک جاں گسل عمل ہے۔ تاہم جہاں تک اقبال اور بھوپال کا تعلق ہے۔ یہ کہتے ہوئے درابھی تامل نہیں ہوتا کہ صہبا لکھنوی نے بڑی محنت کوشش اور شبینہ دیدہ ریزی کے بعد اپنی فکر ی کاوشوں کو اقبال اور بھوپال کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ جناب حنیف فوق کی اس بات سے کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے کہ یہ کتاب تحقیق کی منشیانہ رویات سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ اقبال اور بھوپال کے مطالعہ سے صرف چند خشک اور بے جان کتابوں کا علم نہیں ہوتا بلکہ ایک دور کی تہذیب اس کا ذہنی و فکری پس منظر اور اس تہذیب کے پروردہ افراد کے تعلقات کی رنگا رنگی ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ پھر اقبال کے واسطے اس دور کی اہم شخصیتوں اور اہم سیاسی و فکری رجحانات کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ اقبا کی فکر سے متاثر فکری لہروں کا سراغ بھی ملتا ہے اس طرح صہبا لکھنوی کی تحقیق بوسیدہ ہڈیوں کو منظر عام پر نہیں لاتی ذہن کی زندہ و فعال سرگرمیوں کو پیش کرتی ہے۔ صہبا لکھنوی کی اس کتاب سے بے شمار ایسے گوشوں تک ہماری رسائی ممکن ہو گئی ہے کہ جو اب تک ہماری نظروںسے اوجھل تھے۔ صہبا نے برصغیر میں مسلمانوں کی تحریک حصول آزادی کے لیے جدوجہد کی داستان اور ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیبی ورثے کے نقوش کو اقبال اور بھوپال میں از سر نو تازہ کر دیا ہے۔ …عاصم صحرائی ۲؎ افکار۔ کراچی ماہنامہ افکار کے فاضل مدیر صہبا لکھنوی صاحب مدت مدید سے گلشن ادب کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ اگرچہ وہ خود اسے شوق فضول اور باغبانی صحرا کے مترادف خیال کرتے ہیں تاہم اب ان کی مساعی کی کیفیت اور کمیت اپنوں اور غیروں میںیکساں طور پر داد پانے لگی ہے اور کم از کم اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بڑی تن دہی سے ایک ادبی ماہنامے کی بقا کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ۱؎ رسالہ سیپ کراچی۔ مارچ اپریل ۱۹۷۴ء صفحہ ۲۹۳ ۲؎ ماہنامہ کتاب لاہور جولائی اگست ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۳۹۔۱۴۰ ہجوم افکار میں گھرے رنے کے ساتھ ساتھ وہ دس گیارہ سال تک اقبالیات کے ایک اچھوتے اور اہم موضوع پر بھی کام کرتے رہے جو اب اقبال اور بھوپال کے روپ میں ہمارے سامنے آ گیا ہے۔ علامہ اقبال کو بھوپال نواب حمید اللہ خاں اور سر راس مسعود سے قلبی لگائو تھا ۔ جس کااظہار انہوںنے جابجا اپنے خطوط اور بعض منظومات میں کیا ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال ایسے درویش خدامست و خودی مست اور نواب حمید اللہ خاں ایسے والی ریاست اور صاحب خدم و حشم میں کیا قدر مشترک تھی؟ ان کے روابط اور یگانگت کے کیا رموز و عوامل تھے۔ اقبال نے نواب حمید اللہ خاں کے نام ضرب کلیم کا انتساب کیوں کیا اور اس قسم کے اشعار سے انہیں کیا متصف کیا: حمید اللہ خاں اے ملک و ملت را فروغ از تو زالطاف تو موج لالہ خیزد از خیا بانم یہ سوعال اپنے پس منظر اور جزئیات کے لحاظ سے حیات اقبال اور فکر اقبال کے ایک اہم پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں اب تک کوئی سیر حاصل کام سر انجام نہ پا سکاتھا۔ جزوی طورپر بعض واقعات منتشر حالت میں مل جاتے تھے۔ لیکن ان سب کو باہم مربوط کرکے ایک مکمل عہد کو چشم تصور سے دیکھنے اور دکھانے کی سعی کسی نے نہ کی تھی۔ اس مشکل کام کی تکمیل کا سہرا صہبا لکھنوی کے سر بندھنا تھا سو انہیں اقبال اور حیدر آباد کے نام سے اقبال اور بھوپال کا خیا ل پیدا ہوا اور وہ اس کی تکمیل میں جان و تن سے مصروف ہو گئے۔ کسی مکل کتاب کا لکھنا اتنا آسان کام نہیں ہے پہلے اس کے موضوع اور ہئیت کو اس کے تمام تر مضمرات کے ساتھ Concieveکرنا کتاب کی تکمیل کا سب سے اہم مرحلہ ہے۔ پھر اس کے مواد کی فراہمی میں جن مشکلات مصائب اور مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے جانبر ہونے کے بعد ہی کتاب کی تکمیل ممکن ہوتی ہے۔ اقبال اور بھوپال کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صہبا لکھنوی کو بھی دیگرر ارباب فن کی طرح قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے عہد میں بے حسی اور عدم تعاون کا رونا تو ہر شخص روتا ہے۔ لیکن اس کا صحیح اندازہ کسی علمی و تحقیقی کام کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ پھر بھی صہبا صاحب نے بعض اہم اور ناگزیر شخصیتوں کے تاثرات و خیالات براہ راست ان سے حاصل کر لیے اور بعض بنیادی ماخذ تک رسائی حاصل کرنے میں پوری استقامت و جانفشانی کا ثبوت دیا۔ تین سو سے زائد صفحات کی اس کتاب کے تیرہ ابواب ہیں اقبال کے بھوپال سے روابط کی ابتدا نواب حمید اللہ خاں سے ان کے ذاتی روابط اقبال کے وظیفہ بھوپال کے محرکات اور نا کا پس منظر راس مسعود اور اقبال‘ بھوپا ل میں اقبال کے تین قیام۔ اہل بھوپال پر اقبال کے اثرا ت اور قرآن مجید کے حواشی سے متعلق اقبال اور نواب حمید اللہ خاں کا منصوبہ جیسے موضوعات کا ان ابواب میں احاطہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں صہبا صاحب نے ۱۹۱۰ء میں اقبال کے بھوپال سے پہلے ربط کا سراغ لگایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ ربط و تعلق اقبال کی وفات سے تین دن قبل تک قائم رہا۔ مطبوعہ ماخذ کے ساتھ ساتھ جشن حالی کی نظمیں اور خطبات اقبال کے بعض خطوط بعض تصاویر اور آٹو گراف پہلی بار… اقبال اور بھوپال میں شائع ہوئے ہیں۔ صہبا صاحب نے سارے مواد کو بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ تاریخی ترتیب و تسلسل برقرار رکھتے ہوئے شگفتہ اور رواں دواںنثر میں پوری تصنیف مکمل کی ہے۔ اقبال کے معمولات ان کے بعض دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات شعرا کے کلام پر اصلاحیں مطالعہ اور شعر گوئی کے بعض پہلو پہلی بار سامنے آئے ہیں۔ نواب بھوپال کے ندیم خاص اقبال حسین خاں نے علامہ سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے علامہ کے ارشاد کے مطابق کچھ شعر سنائے میری ایک غزل کا مطلع یہ تھا: کوئی تمنا بھری نظر سے چھپے بھلا کیوں نقاب کیسا؟ ضیائے الفت اگر سلامت حجاب کیسا حجاب کیسا؟ علامہ غزل سن کر کچھ خاموش ہو گئے اور تھوڑی دیر تک ان پر ایک کیفیت سی طاری رہی پھر فرمایا آپ نے اپن غزل کے مطلعے کے دونوںمصرعوں میں ایک ہی بات ادا کی ہے۔ غزل کا مطلع لکھیے میں قلم نکال کر لکھنے پر تیار ہوا تو ارشاد ہوا: نگاہ ہے پردہ سوز میری نقاب کیسا حجاب کیسا تمہاری ان پردہ بندیوں کا ملا ہے تم کو جواب کیسا؟ میں خوشی کے مارے اچھل پڑا اور کھڑے ہو کر ادب سے عرض کیا؟ علامہ مجھے آپ کی خدمت میں اب شرف شاگردی حاصل ہو گیا ہے۔ علامہ نے مجھے بڑی پیار کی نظروں سے دیکھا اور مسکرا دیے اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ علامہ کی شفقت مجھ پر اور بڑھ گئی ہے۔ اقبال کے معالج خاص ڈاکٹر عبدالباسط کے بڑے صاحبزادے عبدالحئی کا کہنا ہے کہ: ’’دن میں فرصت کے لمحوں میں مطالعہ کرتے تھ۔ میں نے علامہ کو مطالعہ کا بہت شایق پایا۔ بھوپال کی مشہور حمیدیہ لائبریری سے برابر کتابیں منگواتے رہتے تھے اور ایک دو دن میں انہیں پڑھ کر لوٹا دیتے تھے۔ اور نئی کتابیں حاصل کرتے تھے۔ جب بھی کسی کتاب کے بارے میں ان سے کچھ سوالات کیے وہ نہایت تفصیل سے اس کے بارے میں جواب دیتے تھے مجھے ان کی یادداشت پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ اتنی جلد ضخیم کتابیں کیسے پڑھ لیتے ہیں۔ اور کس طرح ان کے موضوعات کو بھی یاد رکھتے ہیں۔ دو کتابیں علی الخصوص ان کے سرہانے میں نے ہمیشہ دیکھیں۔ ایک مثنوی مولانا روم اور دوسری کلام عبدالقادر بیدل دریافت پر علامہ نے بتایا کہ یہ دونوں کتابیں سفر و حضر میں ہمیشہ میرے ساتھ رہتی ہیں‘‘۔ صہبا صاحب نے ساری کتاب میں یہ التزام باقی رکھا ہے کہ وہ واقعہ کو مستند حوالے کے بغیر رقم نہ ہو جائے۔ اس سے کتاب کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کتاب کے وسط میں اقبال کی بیماری کے احوال سے ایک قسم کی تکرار ضرور پیدا ہو گئی ہے جو شاید ناگزیر بھی تھی۔ کتاب میں جو واقعات مختلف افراد سے حاصل کیے گئے ہیں ان میں سے ہر ایک کا تعارف کرانے کے بعد جو واقعات درج کیے گئے ہیں اس طرح کوئی بات ایسی نظر نہیں آتی کہ جو تشنہ تحقیق ہو یا ہوائی ہو۔ اقبال کے ضمن میں وظیفہ بھوپال اور حواشی قرآن مجید کے تعلق سے خاصے متنازعہ مباعث چھیڑے جاتے رہے ہیں اقبال اور بھوپال میں صہبا صاحب نے پہلی بار ان امور کو صحیح تناظر میں پیش کیا ہے۔ اور اعتراضات و تنازعات کا بھرپور اور مدلل جواب متعلقہ امور کی روشنی میں فراہم کیا ہے۔ نادر و کم یاب تصاویر اور خطوط اقبال کے عکس کے علاوہ کتاب کے آخر میں ایک مفصل اشاریہ بھی موجود ہے۔ جو اپنی ترتیب و کتابت کے لحاظ سے ایک منفرد چیز ہے۔ کتاب کے شروع میں صہبا صاحب نے جو حروف آغاز لکھا ہے اس سے کتاب کے آغاز سے انجام تک کے تمام مراحل سامنے آ جاتے ہیں۔ اور بے اختیار ان کی محنت اور لگن کی داد دینی پڑتی ہے… کسی رسمی انداز بیان کے بغیر یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اقبال اور بھوپال سے مدت کے بعد اقبالیات کی دنیا میں ایک منفرد دلچسپ اور مفید کتاب کا اضافہ ہوا ہے… اس ضمن میں اس کے مصنف صہبا لکھنوی اور ناشر اقبال اکادمی دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ … سحر انصاری ۱؎ نشری تقریر ۔ ریڈیو پشاور آج کی دوسری زیر تبصرہ کتاب صہبا لکھنوی کا ایک تحقیقی کارنامہ اقبال اور بھوپال ہے۔ اس کی ضخامت تین سو صفحات طباعت و کتاب اور کاغذ اوسط قیمت پندرہ روپے اور ناشر اقبال اکادمی کراچی ہیں۔ نواب بھوپال نے مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ اقبال کا پانچ سو روپے ماہوار تاحیات وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ یہ ہماری مردہ پرست قوم میں زندہ مشاہیر کی قدر دانی کی ایسی نادر مثال ہے جس سے اقبال ایسے نباض قوم کا متاثر ہونا قدرتی امر تھا۔ علاوہ ازیں اقبال بسلسلہ علاج تین بار بھوپال میں تقریباً سوا سوا مہینے مقیم رہے۔ ان کے دوست اور مزاج دان اور مرتبہ شناس راس مسعود بھی انہی دنوں اس ریاست سے منسلک تھے ۔ پھر ضرب کلیم کا انتساب بھی نواب بھوپال کے نام ہے۔ یہ حقائق مدتوں سے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ لیکن صہبا لکھنوی نے نجی خطوط‘ سرکاری دستاویزات ‘ متعلقہ شخصیتوں کے تاثرات اور تاریخی شواہد کے ممکن الحصول ذرائع سے کام لے کر سالہا سال کی محنت سے یہ کتاب اس طرح مرتب کی ہے کہ اس میں ریاست بھوپال کی ادبی سرگرمیوں چھوٹے بڑے شاعروں کی ادبی کاوشوں نواب حمید اللہ خاں کی سیاسی بصیرت‘ ملی غیرت اور جوہر شناسی‘ راس مسعود کی قدآور شخصیت اور دیگر اقبال فہم حضرات کے سارے کوائف ایک ہی داستان کا حصہ بن گئے ہیں۔ اور اس ضمن میں اقبال کی عادات و اطوار مراسم و تعلقات فکر و مطالعہ کے نئے پہلو ہی سامنے آ گئے ہیں۔ وظیفہ کے اظہار تشکر کے طور پر اقبال نے نجی خطوط میں اور پبلک تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے اس پر بعض حضرات معترض ہوئے ہیں کہ مرد قلندر کو اول تو نوابوں سے کچھ تعلق رکھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اور اگر کسی کے ساتھ کچھ سلوک کیا تھا تو اس کی اتنی تعریف نہیںکرنی چاہیے تھی جتنی علامہ اقبال نے نواب بھوپال کی تعریف کی۔ صہبا لکھنوی بجا طورپر ان حضرات کے ہم نواہیں جو جذبہ احسان مندی کو عمدہ اخلاق کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور انہیں اس پر بھی اصرار ہے کہ اور اس کے جواز میں انہوں نے خطوط سے اقتباس اور واقعات کے حوالے پیش کیے ہیں کہ نواب بھوپال اور اقبال ہندی مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور تعمیر مستقبل کے متعلق ایک ہی انداز سے سوچتے تھے۔ اور یہ نظر یاتی ہم آہنگی دونوں کو ۱۹۳۱ء کی دوسری گول میز کانفرنس میں ہی کافی نزدیک لے آئی تھی۔ اقبال کے بعض نادر خطوط کی طرح جو اس کتاب میں پہلی مرتبہ منظر عام پر ٓٓئے ہیں ان کے بعض اقوال بھی اپنے ناقابل فراموش آہنگ کے ساتھ پہلی مرتبہ سامنے آئے ہیںَ شادی کے متعلق ان کی رائے تھی کہ شادی کا بنیادی مقصد صالح توانا اور خوش شکل اولاد پیدا کرنا ہے اور رومان کا اس میں دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ۱؎ ماہنامہ افکار کراچی جون ۱۹۷۳ء صفحہ ۷۸ تا ۸۰ انہیںنوبل پرائز نہ ملنے کا سبب ان کے نزدیک یہ تھا کہ میرے یہاں سب کچھ مغرب کے خلاف ہے اس لیے وہ مجھے نوبل پرائز کیسے دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب بعض یادگار تصاویر سے بھی آراستہ ہے۔ اور اقبال سے دور یا نزدیک کے تعلق کی وجہ سے ایسے بہت سے حضرات کے قلمی خاکے اور تخلیقات اس کتاب میں محفوظ ہو گئی ہیں۔ جو دست برد زمانہ سے کسی اور شکل میں محفوظ نہ رہ سکتی تھیں۔ بہرحال یہ کتاب اقبالیات میں ایک دلچسپ اضافہ ہے اور اقبال کی بعض نظموں کے پس منظر اور خود ان کی فکر کے گوشوں پر بالکل نئی روشنی ڈالتی ہے۔ …پروفیسر محمد احمد شمسی ۱؎ اخبار خواتین ۔ کراچی اقبا ل اور بھوپال کام مسودہ صہبا لکھنوی یا صہبا بھوپالی کے طویل مطالعہ اور تحقیق کا حاصل ہے۔ بھوپال کو برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی سیاسی اور تہذیبی تحریکوں کی پذیرائی کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس ریاست نے اردو زبان و ادب کی اور تحریک پاکستان کی جس قدر خدمت کی ہے وہ بجائے خود ایک تاریخ ہے علامہ اقبال نے والی بھوپال نواب حمید اللہ خاں کو ضرب کلیم کے ابتدائیہ میں درج ذیل خراج تحسین پیش کیا تھا: بگیر ایں ہمہ سرمایہ بہار از من!! کہ گل بدست تواز شاخ تازہ تر ماند اس کتاب میں صہبا صٓحب نے نایاب دستاویزات خطوط اور قلمی نسخے اور تصاویر یک جا کی ہیںَ جن سے علامہ اقبال کے قیام بھوپال کی تفصیلات پر روشنی پڑتی ہے۔ بھوپال سے علامہ اقبال مرحوم کے روابط کا آغاز ۱۹۱۰ میں ہوا اور یہ روابط وفات سے صرف تین دن پہلے تک یعنی ۱۹ اپریل ۱۹۳۸ء تک برابرقائم رہے اس طرح صہبا صاحب نے ۳۵ سال کے واقعات کی چھان بین ک ہے۔ اور جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے کہ چھ غیر مطبوعہ خطوط چار ایسے خط جو مکتوبات کے کسی مسودے میں نہیں چھپے دو غیر مطبوعہ مرثیے جوعلامہ کی وفات کے بعد لکھے گئے اور کئی غیر مطبوعہ کتابوں کے اقتباس جمع کر کے اقبال کے شارحین اور محققین کے لیے دلچسپی کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ آخری اوراق میں کتابیات کے تحت تقریباً چالیس حوالے کی کتب کے نام درج ہیں ان کے علاوہ اشاریہ بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ مرحوم کی حیات اور شاعری کے موضوعات پر اگرچہ بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن موضوع کی وسعت کو دیکھتے ہوئے یہ بہت ناکافی ہے۔ زیر نظر تصنیف علامہ مرحوم کی زندگی کے ایک اہم تعلق پر قابل قدر دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتابت ‘ طباعت مناسب اور قیمت واجبی ہے۔ ۲؎ ۱؎ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن پشاور کی نشری تقریر ۱۷ جنوری ۱۹۷۴ء ۲؎ ہفت روزہ اخبار خواتین کراچی۔ ۳۰ جون تا ۶ جولائی ۱۹۷۳ء حریت ۔کراچی علامہ اقبال کو ان کی فکر و حیات کے صحیح تناظر میں دیکھنے کی ہر نئی کوشش ہمارے قومی ادب میں عمومی طور پر اور اقبالیات میں خصوصی طور پر ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال کی شہرت و اہمیت جس منزل میں ہے وہاں رسمی آراء اور طے شدہ خیالات کی فراوانی تازگی پسند ذہنوں کو کھلنے لگی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنے بنائے سانچوں اور سنی سنائی باتوں کو دہرانے کی بجائے مختلف جہات میں تازہ کاری کی مثالیں قائم کی جائیں۔ مشہور ادبی ماہنامے افکار کے مدیر صہبا لکھنوی نے حیات افکار کی بعض گم شدہ کڑیوں کو بڑے حسن و خوبی سے یک جا کیا ہے۔ ان کا تازہ ترین تحقیقی کارنامہ اقبال اور بھوپال دس گیارہ سال کی محنت و جاں فشانی کے بعد منظر عام پر آ رہاہے۔ نواب بھوپال حمید اللہ خاں کو اقبال سے اوراقبال کو نواب صاحب سے جو لگائو تھا وہ اہل علم و ادب سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان دونوں میں ایک اہم رشتے کی حیثیت سے سر راس مسعود کو حاصل تھی۔ صہبا لکھنوی نے اقبال کے بھوپال سے روابط کی گم شدہ کڑیاں تلاش کی ہیں اور بڑے مدلل انداز میں یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ اقبال بھوپال کو دارالاقبال کیوں لکھتے اور کہتے تھے۔ صہبا صاحب کی تحقیق کے مطابق ۱۹۱۰ء میں بھوپال سے اقبال کا پہلا رابطہ ہوا۔ یہ ربط و تعلق ان کی وفات سے تین دن پہلے تک قائم رہا۔ اس داستان کو مربوط اور مستند بنانے کے لیے صہبا صاحب نے بلاشبہ بڑی محنت کی ہے۔ کتابوں رسالوں اور دیگر ماخذاقبالیات سے قطع نظر انہوںنے متعدد ایسی شخصیات کے انٹرویو لیے جو اقبال کے قیام بھوپال کے واقعات اور تجربات ذاتی حیثیت سے بیان کر سکتے تھے۔ اس طرح خود اقبال کی شخصیت معمولات انداز فکر اور اسلوب سخن کے بہت سے گوشے پہلی بار ایک مختلف تناظر میں ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔ جن میں اقبال کے قیام بھوپال اور بھوپال کے اہل ع علم و ادب پر اقبال کے اثرات سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ بقول مصنف اس کتاب میں حسب ذیل نئی چیزیں شامل ہیں۔ چھ غیر مطبوعہ خطوط چار ایسے خطوط جو مکتوبات کے کسی مجموعے میں نہیں چھپے دو غیر مطبوعہ مرثیے جو علامہ کی وفات کے بعد لکھے گئے کئی نادر و نایاب کتابیں جو علامہ کی شاعری سیاست اور ان کی فکر کے وسیع گوشوں پر محیط تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ صہبا لکھنوی نے تیس پینتیس ال پہلے کے صحیح واقعات کی چھان بین کے صبر آزما مرحلے کو بڑے سلیقے سے طے کیا ہے انہوں نے کوئی واقعہ بغیر مستند حوالے سے طے نہیں کیا۔ ساتھ ہی انداز بیان بڑا شگفتہ اور رواں رکھا ہے جو تحقیقی کتابوںمیں عام طور پر نظر نہیں آتا۔ عنوان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس پر محض ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ لیکن صہبا صاحبنے بڑے سائز کی تین سو سے زائد صفحات کی کتاب لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر ذرہ صحرا وسعت گاہ ہے بشرطیکہ اس کے امکانات کا سراغ لگانے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا جائے۔ متعدد کم یاب و اہم تصاویر کے علاوہ کتاب کے آخر میں ایک جامع و مفید اشاریہ بھی شامل ہے اس قسم کے اشاریے جدید تحقیقی کتابوں کے لیے ناگزیر ہیں اقبال اور بھوپال کا یہ اشاریہ اپنی ترتیب و کتابت کے لحاظ سے ایک منفرد چیز ہے۔ اقبال اور بھوپال میں صہبا صاحب نے ماضی کے ایک پورے عہد کو تازہ اور ایک تہذیبی تجربے کو زندہ کر دیا ہے۔ ان کی یہ کتاب اقبالیات میں ایک منفرد دل چسپ اور مفید اضافہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اقبال شناس اور ادب دوست اس کتاب کی خاطر خواہ پذیرائی کریں گے ۱؎۔ ۱؎ روزنامہ ’’حریت‘‘ سنڈے ایڈیشن ۲۷ مئی ۱۹۷۳ء ٭٭٭ کتابیات کتب ۱۔ آندھی میں چراغ… خواجہ غلام السیدین ۲۔ آئینہ مشاعرہ … مرتبہ سرور قادری ۳۔ اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصہ … ڈاکٹر سلم حامد رضوی ۴۔ اقبال اور حیدر آباد… نظیر حیدر آبادی ۵۔ اقبال خواتین کی نظر میں… مرتبہ یکتا امروہوی ۶۔ اقبال کا سیاسی کارنامہ… محمد احمد خاں ۷ ۔ اقبال کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی… ڈاکٹر ظہیر الدین احمد الجامعی ۸۔ اقبال نامہ جلد اول و جلد دوم… مرتبہ شیخ عطا اللہ ۹۔ انوار اقبال… مرتبہ بشیر احمد ڈار ۱۰۔ اوراق گم گشتہ… مرتبہ رحیم بخش شاہین ۱۱۔ بانگ درا …اقبال ۱۲۔ تصورات اقبال…شاغل فخری ۱۳۔ خدوخال اقبال غیر مطبوعہ مسودہ…محمد امین زبیری ۱۴۔ خیابان مسعود… مرتبہ جلیل قدوائی ۱۵۔ ذکر اقبال… مولانا عبدالمجید سالک ۱۶۔ روزگار فقیر جلد اول و جلد دوم… فقیر سید وحید الدین ۱۷۔ شرح ضرب کلیم … مولفہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی ۱۸۔ ضرب کلیم… اقبال ۱۹۔ علامہ اقبال بھوپال میں… عبدالقوی دسنوی ۲۰۔ علی گڑھ… محمد امین زبیری ۲۱۔ گنج ہائے گراں مایہ… پروفیسر رشید احمد صدیقی ۲۲۔ گفتار اقبال… مرتبہ محمد رفیق افضل ۲۳۔ مرقع مسعود…مرتبہ جلیل قدوائی ۲۴۔ مقالات اسلم… مولانا اسلم جیراج پوری ۲۵۔ مکتوبات اقبال… سید نذیر نیازی ۲۶۔ ملفوظات اقبال… (مرتبہ ) محمود نظامی ۱۷۔ مئے لالہ فام… ڈاکٹر جاوید اقبال ۲۸۔ نوازش نامے… (مرتبہ) سید انیس شاہ جیلانی ۲۹۔ Thus Conferred Satan…محمد اشرف رسائل و جرائد ۱۔ ہفت روزہ توحید۔ میرٹھ (۲۴ جولائی)… ۱۹۱۳ء ۲۔ زمانہ ۔ کانپور (دسمبر)… ۱۹۳۵ء ۳۔ رسالہ اردو۔ دہلی مسعود نمبر …۱۹۳۷ء ۴۔ رسالہ اردو ۔ دہلی (اقبال نمبر)… ۱۹۳۸ء ۵۔ ماہنامہ سب رس۔ حیدر آباد کن اقبال نمبر جون…۱۹۳۸ء ۶۔ رسالہ جوہر دہلی (اقبال نمبر)… ۱۹۳۸ء ۷۔ روزنامہ آفاق۔ لاہور (۴ستمبر)… ۱۹۵۱ء ۸۔ خیابان ۔ پشاور(اقبال نمبر)… ۱۹۶۲ء ۹۔ ماہنامہ افکار۔ کراچی (اپریل)… ۱۹۶۲ء ۱۰۔ گورنمنٹ حمیدیہ کالج میگزین بھوپال… ۱۹۶۲ ۱۱۔ ماہنامہ نگار۔ رام پور (اپریل)… ۱۹۶۳ء ۱۲۔ ماہنامہ ادبی دنیا۔ لاہور (مئی)… ۱۹۶۵ء ۱۳۔ ماہنامہ فاران ۔ کراچی (اکتوبر)… ۱۹۶۸ء ۱۴۔ ماہنامہ قومی زبان۔ کراچی (ستمبر)… ۱۹۶۹ء ۱۵۔ رسالہ فنون۔ لاہور (مئی ۔ جون)… ۱۹۷۱ء ۱۶۔ رسالہ فنون لاہور (جون جولائی)… ۱۹۷۱ء ۱۷۔ رسالہ العلم کراچی جولائی تا ستمبر … ۱۹۷۳ء ۱۸۔ روزنامہ حریت کراچی (۲۷ مئی)… ۱۹۷۳ء ۱۹۔ ماہنامہ افکار۔ کراچی (جون)… ۱۹۷۳ء ۲۰۔ روزنامہ مشرق لاہور (۱۰ جون)… ۱۹۷۳ء ۲۱۔ ہفت روزہ اخبار خواتین کراچی (۳۰جون تا ۶ جولائی)… ۱۹۷۳ء ۲۲۔ ماہنامہ افکار کراچی (جولائی)… ۱۹۷۳ء ۲۳۔ ماہنامہ کتاب لاہور (جولائی۔ اگست ۔ ستمبر)… ۱۹۷۳ء ۲۴۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز۔ لاہور (۵اگست)… ۱۹۷۳ء ۲۵۔ ماہنامہ قومی زبان کراچی (اگست)… ۱۹۷۳ء ۲۶۔ رسالہ اوراق ۔ لاہور (ستمبر ۔ اکتوبر)… ۱۹۷۳ء ۲۷۔ رسالہ فنون لاہور (ستمبر ۔ اکتوبر)… ۱۹۷۳ء ۲۸۔ ماہنامہ افکار کراچی (نومبر)… ۱۹۷۳ء ۲۹۔ روزنامہ جنگ کراچی ۱۴ نومبر… ۱۹۷۳ء ۳۰۔ ماہنامہ افکار ۔ کراچی (جنوری)… ۱۹۷۴ء ۳۱۔ اقبال ریویو(جنوری)… ۱۹۷۴ء ۳۲۔ رسالہ سیپ ۔ کراچی (مارچ اپریل)… ۱۹۷۴ء ۳۳۔ ماہنامہ قومی زبان کراچی (اپریل)… ۱۹۷۵ء ۳۴۔ ماہنامہ قومی زبان۔ کراچی (مارچ) … ۱۹۷۶ء ۳۵۔ ماہنامہ قومی زبان کراچی (اپریل)… ۱۹۷۶ء ۳۶۔ ماہنامہ سب رس کراچی (جنوری) … ۱۹۷۸ء ٭٭٭ اشاریہ آبشار بھدبھدا ۔ 276 آثار اقبال ۔ 318 آرٹس کونسل آف پاکستان۔ 355, 375, 376 آرنلڈ (پروفیسر) 39 آزاد 312 آزاد (مولانا ابوالکلام) 219, 222, 227, 275, 322 آزاد (پروفیسر) 255 آستانہ قدسی۔ 267, 268, 269, 272, 276, 277 آصف شاہمیری۔ 318, 319, 322, 336 آغا افتخار حسین (ڈاکٹر) 55 آغا خاں (سر) 71, 122, 125, 127, 130, 157, 198, 199, 200 201, 202, 224, 225, 233, 251, 296, 360, 382 آغا سہیل (ڈاکٹر ) ۔ 385 آفاق۔ 354 آفاق احمد۔ 322, 339 آفاق حسین۔ 253 آفتاب احمد خاں (صاحبزادہ) ۔ 309 آفتاب الدین (سید ) 318 آفتاب نسواں۔ 59 آفٹر ٹو ہیڈ ریڈ ایرز ۔ 351 آکسفورڈ۔ 94 آل احمد سرور (پروفیسر) 165 آل ارلی مبیجن ریلیجنز۔ 352 آل انڈیا ریڈیو۔ 94 آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس۔ 182 آندھی میں چراغ۔ 102, 103, 104, 140 آئن سٹاء ۔ 283 آئینہ مشاعرہ ۔ 60, 63, 64, 295, 384 آیات قدسی۔ 66 ابر (حکیم علی محسن خاں) ۔ 61 ابراہم بن محمد۔ 146 ابراہیم علی خاں (نواب) 275 ابراہیم یوسف 302, 303, 322, 339 ابر لکھنوی ۔ 62 ابن ابی شیبہ ۔ 145, 146 ابن انشاء ۔ 373, 376, 377, 378, 379 ابن حزم۔ 153 ابن خلدون ۔ 350, 352 ابن علی عالی ۔ 63 ابن ماجہ 146 ابو سعیدبزمی۔ 59, 324, 339 ابوشیبہ ابراہیم۔ 146 ابو محمد سحر (ڈاکٹر)۔ 339 ابوالنصر احمد الحسینی۔ 304 احتشام حسین (پروفیسر سید)۔ 320, 322 احسان رسول (مولانا) 254 احسن دہلوی (سید معین الدین حسن) 59, 61, 62, 63 احسن علی خاں ۔ 25, 55, 256, 262, 263, 312, 338, 339 احسن مارہروی (مولوی ۔ سید علی) 61, 63, 64, 165 احمد آباد پیلس 96 احمد الدین (مولوی) 319 احمد رضا خاں (منشی) 63 احمد شاہ ابدالی ۔ 186, 187 احمد علی جاوید۔ 338 احمد علی شوق قدوائی۔ 58 احمد طاہر 55 احمد مصطفے۔ 318 احمد مکی 339 اخبار خواتین۔ 391 اختر جمال۔ 55, 312, 313, 316, 339, 386 اختر سعید خاں۔ 22, 25, 256, 262, 264, 336, 338, 339 ادارہ اب و تنقید۔ 368 ادارہ یادگار غالب ۔ 355, 375, 376 ادادہ مصنفین پاکستان۔ 48 ادبی دنیا۔ 105 ادیب 59 ارجمند محمد خاں(میاں)۔ 59 اردو ۔ 105, 246, 343, 344 اردو ادب کی ترقی میں بھوپال کا حصہ۔ 259, 260, 323, 334, 335, 368 ارشد تھانوی (مولانا۔ رشید احمد) 58, 59, 61, 63, 99, 151, 253, 289 294, 295, 338, 339 ارمغان اقبال ۔ 357 ارمغان حجاز ۔ 104, 140, 236, 246, 318 ارمغان عزیز۔ 29 اسپنگلر۔ 350, 351, 352 اسٹالن۔ 283 اسٹیٹمین ۔ 81, 120 اسدالرحمن قدسی (حضرت شاہ) 37, 50, 54, 55, 59, 65, 66, 67, 74 77, 119, 267, 268, 269, 270, 271, 272, 273, 274, 275, 276, 277 339, 366, 369, 381, 385 اسد بھوپالی۔ 338 اسرار و رموز۔ 318 اسلام اور احمدیت۔ 228 اسلام ایٹ دی کراس روڈ۔ 35 اسلام کے سیاسی تصورات 318 اسلام نگر 290 اسلم جیراجپوری (مولانا علامہ) 57, 58, 207, 339 اسمعیل۔ 161 اشتیاق عارف ۔ 339 اشفاق حسین۔ 319 اصلاحات اقبال۔ 319 اطمینان قلب ۔ 66 اظہر سعید خاں۔ 34, 46, 55, 256, 338, 339 افتخار عالم مارہروی (منشی مولوی) 58, 59, 61 افسر سیمابی322 افسوں بھوپالی ۔ 338 افغان کونسل خانہ۔ 51 افکار۔ 21, 46, 49, 52, 55, 59, 164, 217, 219, 222, 256,308, 311330, 339, 340, 357, 361, 363, 365, 367, 371, 372, 374, 379, 380, 383, 385, 387, 388, 390, 382 افکار حالی۔ 37 اقبال (شاعر مشرق حکیم الامت۔ علامہ۔ ڈاکٹر سر ۔ شیخ ۔ محمد)۔ 21, 22, 23, 24 ,25, 26, 27, 28, 29, 30, 3, 33, 34, 35, 36, 38, 39, 40, 41, 42, 43, 44,45, 46, 47, 48, 50, 51, 52, 53, 54, 55, 57, 59, 60, 61, 63, 64, 65, 66, 67, 68, 69, 70, 71, 72, 73, 74, 75, 76, 77, 78, 79, 80, 81, 82, 83, 84, 85, 86, 8788, 89, 90, 92, 93, 94, 95, 96, 97, 98, 99, 100, 102, 103, 104, 105, 106, 107, 108, 109, 110, 111, 112, 113, 115, 116, 117, 118, 119, 120, 121, 122 123, 124, 125, 126, 127, 128, 129, 130, 131, 122, 133, 134, 135136, 137, 138, 139, 140, 141, 142, 143, 144, 145, 146, 147, 148149, 150, 151, 152, 153, 154, 155, 156, 157, 158, 159, 160, 163164, 165, 166, 167, 168, 169, 170, 171, 172, 175, 179, 182, 183, 188, 193, 194, 195, 196, 197, 198, 199, 00, 201, 201, 202, 203, 204,205, 206, 207, 208, 209, 210, 211, 212, 213, 214, 215, 216, 217218, 219, 220, 221, 222, 223, 224, 225, 226, 227, 228, 229, 230, 231, 232, 234, 235, 236, 237, 238, 239, 240, 241, 242, 243, 244, 245, 246, 247, 248 249, 250, 251, 252, 253, 254, 255, 256, 257, 258, 260, 261, 262, 263 264, 265, 267, 268, 269, 270, 271, 272, 273, 274, 275, 276, 277, 278 279, 280, 281, 281, 283, 284, 285, 286, 287, 288, 289, 290, 291, 292,293, 294, 295, 296, 297, 298, 299, 300, 302, 303, 304, 305, 306,307, 308, 309, 310, 311, 312, 313, 314, 315, 316, 317, 318, 319, 322 323, 324, 325, 326, 327, 328, 329, 330, 331, 332, 333, 334, 335336, 337, 338, 339, 354, 356, 357, 258, 359, 360, 61, 362, 363 , 364, 365, 366, 367, 368, 369, 370, 371, 372, 373, 374, 375, 376, 377378, 379, 380, 381, 382, 383, 384, 385, 386, 387, 388, 389, 390, 391 392 اقبال احمد صدیقی ۔ 22, 23 اقبال ۔ اس کی شاعری اور پیغام۔ 319 اقبال اکیڈمی۔ 21, 23, 24, 47, 49, 52, 194, 266, 286, 342, 344 355, 358, 365, 371, 374, 375, 379, 381, 383, 384, 390 اقبال۔ اما م ادب۔ 319 اقبال اور بھوپال۔ 21, 22, 23, 24, 26, 27, 28, 29, 30, 31, 33, 34 39, 41, 43, 45, 46, 47, 48, 49, 50, 51, 52, 269, 270, 303, 326, 355 358, 359, 361, 362, 363, 364, 365, 366, 367, 371, 373, 376, 377 378, 379, 380, 381, 382, 383, 384, 385, 386, 387, 388, 389, 390, 391, 392 اقبال اور ٹیگور۔ 319 اقبال اور حیدر آباد۔ 24, 47, 48, 110, 112, 122, 123, 138, 239 251, 374, 382, 388 اقبال اور سیاست ملی۔ 286 اقبال اور نونہال۔ 318 اقبال پر ایک نظر۔ 318 اقبا ل حسین خاں۔ 50, 53, 55, 74, 77, 78, 80, 83, 84, 85, 86, 87,121, 276, 336, 373, 380, 389 اقبال خواتین کی نظر میں۔ 65, 66 اقبال ریویو۔ 23, 24, 310 اقبال سینیٹری۔ 47 اقبال ۔ قرآن حکیم کی روشنی میں۔ 319 اقبال کا سیاسی کارنامہ۔ 41, 42, 43, 33 اقبال کا نظریہ فن۔ 319 اقبال کی شاعری ۔ 319 اقبال کی کہانی کچھ میری کچھ ان کی زبانی۔ 107 اقبال کے حضور۔ 383 اقبال لائبریری۔ 41, 317, 38, 319, 320, 321, 322, 330, 370 اقبال محمد خاں ‘ کرنل۔ 92, 93, 273, 313 اقبال نامہ (خطوط اقبال)۔ 23, 25, 26, 27, 28, 29, 30, 31, 32, 33 34, 49, 65, 67, 75, 109, 110, 111, 114, 115, 116, 122, 123, 127 129, 130, 133, 134, 135, 141, 142, 145, 146, 147, 149, 151, 153, 157 159, 168, 169, 172, 173, 198, 200, 207, 212, 214, 224, 225, 226 227, 228, 229, 231, 235, 236, 237, 238, 239, 240, 241, 242,243, 244, 245, 246, 247, 248, 249, 250, 252, 308, 309, 310,313, 334 اقبال۔ نئی تشکیل۔ 138, 285 اکبر اعظم۔ 106, 107, 187, 367, 377 اکبر الہ آبادی۔ 217, 218, 219, 220, 284, 295 اکبر حیدری (سر ) ۔ 34, 35, 36, 122, 139, 222, 238, 382 اکبر علی خاں( عرشی زادہ)۔ 338 اکبر مسعود۔ 245, 246 اکرام احمد لطف (منشی) 61 اکریما۔ 46 اکیڈمی برائے ترقی دیہات۔ 280 البرامکہ۔ 58, 253, 300, 348 الحبیب۔ 66 الحجاب ۔ 58, 59, 63 السیف الملوک علی شاہ تم الرسول۔ 145 الشرق۔ 59 العصر۔ 59 العلم ۔ 192 الکلام۔ 67 الگزینڈر جہانگیریہ ہائی سکول۔ 280, 308 المناظر۔ 59 الندوہ۔ 345 الیاس برنی (پروفیسر مولانا۔ صلاح الدین ۔ محمد۔ 213, 231, 322 امام غزالیؒ۔ 106 امان اللہ خاں۔ 138 امانت خاں۔ 273 امجد علی اشہری ۔ امجد (سید)۔ 58 امجد علی (سید ) ۔ 39 امیر بدایونی (امیر احمد)۔ 60, 63 امیر حسن دلیر (سید)۔ 61 امیر مینائی ۔ 58, 59, 234 انتخاب دیوان اقبال۔ 318 انجم سلیمانی۔ 339 انجم اعظمی۔ 21, 5, 367, 3771, 376, 377, 385 انجمن اردو۔ 260 انجمن اتحاد جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ 222 انجمن ترقی اردو۔ 37, 214, 260, 281, 319, 330, 368 انجمن ترقی پسند مصنفین۔ 338, 339, 340, 370 انجمن حمایت اسلام۔ 37, 114, 115, 2087, 224, 274 انصار ناصری۔ 165 انعام الدین۔ 318 انقلاب۔ ،25, 80, 81, 82, 83, 322 انوار اقبال ۔ 348, 373 انوار الحق (مفتی)۔43, 44, 326, 337, 339 انور جہاں۔ 59 انور حارث۔ 55, 358, 376 انور سدید۔ 386 انور صابری۔ 321 انور علی انور (منشی) 59 انور مسعود۔ 116, 124, 133, 244, 245, 246, 248, 249, 250 انیس۔ 103 انیس شاہ جیلانی (سید)۔ 330, 331, 334 اوراق۔ 385, 386 اوراق گم گشتہ۔ 220, 221 اورئنٹل کالج۔ 39 ایم اے او کالج۔ 68 ایم ۔ عرفان۔ 322, 339 ایوان رفعت۔ 332 ایوب۔ 170 المقتطف۔ 304 بابر۔ 187 باسط بھوپالی۔ 25, 59, 256, 262, 266, 3222, 338, 339 باغ جناح میوزیم۔ 91 باغ عامہ ۔ 251 باقیات اقبال۔ 64, 172, 318 بال جبریل۔ 100, 261, 278, 286, 318, 328, بانگ درا۔ 65, 66, 261, 278, 286, 318, 328, 329 بانو۔ 65 بدور البازغہ۔ 226 برٹریند رسل۔ 283 برکت اللہ (مولوی) ۔ 312 برگ گل۔ 284 بڑا تالاب۔ 93, 91, 298, 314, 315 بڑودہ کالج۔ 218, 220, 221 بزم اکبر آبادی (مرزا عاشق حسین)۔ 61 بزم فنون۔ 311 بخاری۔ 146, 354 بشیر الحق دسنوی۔ 319 بلال حبشیؓ۔261 بلبل اکیڈمی۔ 311 بو علی قلندر (حضرت شاہ)۔ 160, 169 بولان ہوٹل۔ 267 بہادر شاہ کا مقدمہ۔ 120 بہاری چرن صادق۔ 338 بہاء الدین کالج۔ 321 بھوپال کانفرنس۔ 25 بیاض سحر۔ 259 بیگم بھوپال (ہز ہائی نس۔ نواب میمونہ سلطانہ معروف بہ شاہ بانو بیگم)۔ 22, 59, 154 155, 256, 233, بیگم راس مسعود (لیڈی ۔ امتہ الرشید۔ امت المسعود۔ بیگم راحت چھتاری)۔ 25, 32 36, 40, 41, 93, 95, 99, 100, 101, 102, 104, 105, 108, 114, 115, 116 118, 119, 125, 128, 129, 130, 131, 132, 133, 135, 140, 141, 142 155, 157, 158, 159, 198, 199, 207, 208, 214, 224, 226, 228, 229 335, 237, 241, 242, 243, 244, 245, 246, 247, 248, 249, 297 299, 308, 366 بیگم فرحت نور خان۔ 22 بیگم محمد علی۔ 40 بی اماں۔ 359 پاتھ وے ٹو پاکستان۔ 279 پاک پبلشرز لمیٹڈ۔ 368 پاکستان نیشنل سنٹر۔ 355 پاکستان کونسل۔ 311 پرنس آف ویلز اسپتال۔ 98 پرنس آف ویمر۔ 35 پروفیسر بو سانی۔ 303 پروفیسر سید نواب علی۔ 25, 59, 217, 218, 219, 220, 221, 222, 260 262, 272, 290, 294, 297, 330, 366 پروفیسر شجاع ۔ 144, 147 پروفیسر محمد احمد شمسی۔ 391 پروفیسر محمد یوسف۔ 319 پروین رشدی۔ 339 پس چہ باید کرد اے اقوام شرق۔ 54, 213, 214, 216, 217, 218, 222 225, 226, 234, 261, 278, 280, 334, 383, 384 پنجاب ریویو۔ 59 پنجاب یونیورسٹی۔ 247, 272 پنڈت جواہر لال نہرو۔ 72, 203, 224, 225, 227, 228, 233, 251 322, 359 پنڈت سندر لال۔ 340 پنڈت لچھمن آیا جی۔ 253, 289 پشاور یونیورسٹی۔ 281 پیام مشرق۔ 261, 311, 318, 327 تاج آفس۔ 318, 319 تاج المساجد۔ 276 تاج محل۔ 370 تاریخ الامت۔ 57 تاریخ اندلس۔ 295 تاریخ بھوپال۔ 62 تاریخ صحف سماوی۔ 219, 272 تاریخ طلسم بکائولی۔ 62 تربینی سرن شاد۔ 322, 338 ترمذی۔ 146 تذکرۃ المصطفیٰ۔ 219 تذکرہ حالی۔ 165 تذکرہ غوثیہ۔ 24 تصدق احمد خان شروانی۔ 80, 81, 83, 85 تصور اقبال ۔ 61, 33, 324, 325, 327, 328, 329, 330 تصوف اقبال ۔ 319 تکملہ مجمع البحار۔ 145 تمدن۔ 59 توحید۔ 320, 321 تنویر۔ 59 توشہ خانہ حضور نظام۔ 139 تہذیب نسواں۔ 59 تھامس مین۔ 283 تھیوسوفیکل ہال۔ 173 تیج بہادر سپر (سر)۔ 222, 278, 322 ٹراٹسکی۔ 283 ٹرائل آف بہادر شاہ۔ 120 ٹیگور۔ ڈاکٹر رابندر ناتھ۔ 71, 110, 222, 251, 305 ٹینی سن۔ 367 ثاقب بدایونی۔ مولوی احسن اللہ۔ 58 ثاقت لکھنوی (مرزا ذاکر حسین)۔ 58 ثمرستان عبید۔ 267, 270 جادہ۔ 256 جامع امویہ۔ 106 جامع مسجد۔ 276, 294, 314 جامع ازہر۔ 45 جامعہ عثمانیہ ۔ 42, 105, 122, 280 جان سٹورٹ مل۔ 64 جاں نثار اختر ۔ 59, 165, 321, 340 جاوید اقبال (ڈاکٹر)۔ 31, 34, 50, 98, 113, 128, 135, 137, 141 148, 154, 155, 157, 159, 160, 193, 195, 198, 200, 201, 202, 205 206, 226, 230, 235, 237, 238, 239, 240, 241, 247, 292, 299, 302 347, 348 جاوید منزل۔ 129, 133, 159, 252 جاوید نامہ۔ 318, 348 جائزہ۔ 311 جسٹس محمود۔ 184, 237, 246 جسیم حیدر۔ 305 جشن حالی (صد سالہ پانی پت)۔ 25, 35, 36, 37, 50, 53, 149, 150 157, 170, 172, 173, 174, 179, 182, 189, 198, 334, 362, 369, 378 380, 384, 386, 388 جمشید پانی پتی (حسین احمد خاں)۔ 182, 183 جگر مراد آبادی۔ 59, 258, 270 جگن ناتھ آزاد۔ 369 جلیل قدوائی۔ 25, 40, 116, 118, 125, 126, 162, 187, 188 جمال الدین افغانی (علامہ) ۔ 57, 312, 382 جمیل الدین عالی۔ 183 جمیل سہسوانی (جمیل احمد)۔ 58 جمیل نقوی۔ 29, 30, 32, 33, 34, 36, 39, 55, 162, 163, 164, 169 جنگ۔ 42 جوش ملیح آبادی۔ 258, 289, 308, 331, 340 جوہر۔ 217.222, 260, 261 جوہر قریشی۔ 339 جہاں قدر چغتائی۔ 338 جہانگیر۔ 367, 377 جہانگیریہ سکول۔ 253 جیمز بٹیبٹ نفیس۔ 58 چاسر۔ 367 چنگیز خاں ۔ 304 چودھری خاقان حسین ۔ 38, 39, 40, 41, 46, 55, 73, 297, 398, 299, 381 چودھری خلیق الزماں۔ 72, 279, 360 چودھری رحمت علی۔ 333 چودھری محمد اطہر۔ 253 چودھری نیاز علی خاں۔ 277 چھوٹا تالاب۔ 291 حافظ۔ 103, 286 حافظ سلیمان خالص۔ 61, 63 حالی (مولانا الطاف حسین)۔ 36, 37, 103, 149, 150, 156, 157 160, 161, 162, 163, 164, 165, 166, 169, 170, 171, 172, 173, 174, 175 176, 177, 178, 182, 183, 184, 185, 186, 187, 188, 189, 190, 191, 192, 218, 253, 255, 285, 328, 334, 357, 369 حالی بک ڈپو۔ 164 حالی میموریل مسلم ہائی سکول۔ 35, 149, 161, 162, 164, 166, 172, 173 178, 182, 183, 184, 185, 188, 189 حامد جعفری(سید)۔ 318 حامد حسین (ڈاکٹر)۔ 322, 339 حامد رضوی (مولانا سید) 59, 324, 330, 334, 339, 368ح حامد سعید خاں حامد۔ 59, 256, 258, 259, 289, 320, 338 حبیب الحسن قادری۔ 256 حبیب الرحمن (مولانا) 267, 274 حبیب النساء بیگم۔ 319 حبیب بھوپالی۔ 262, 263 حبیب تنویر۔ 321 حبیب فخری۔ 303, 304, 322, 338 جج الکرامہ فی آثار القیامہ۔ 146 حسرت موہانی۔ 71, 72 حریت۔ 392 حسن ۔46 حسن بصریؒ۔ 261 حسن عزیز جاوید۔ 119, 120, 121, 209, 276, 277, 278, 280 حسن محمد حیات۔ 72, 252, 278 حسن نظامی (خواجہ)۔ 25, 71, 120, 220, 270, حضرت عائشہؓ۔ 145 حضور احمد حضور نعیمی۔ 59 حفظ البحر۔ 66 حفیظ جالندھری (ابو الاثر)۔ 25, 36, 59, 123, 163, 165, 166, 182 183, 184, 185, 187, 188, 189, 258, 260, 270, 373 حکیم اجمل خاں (مسیح الملک)۔ 71, 233, 278 حکیم اولاد حسین۔ 305 حکیم سلطان محمود۔ 95, 294 حکیم سید ضیاء الحسن۔ 95, 278, 294, 322 حکیم علی محسن خان۔ 61 حکیم محمد حسین عرشی۔ 114 حکیم نابینا۔ (عبدالوہاب انصاری)۔ 88, 89, 90, 96, 97, 98, 112, 113 116, 123, 124, 133, 156, 158, 159, 171, 198, 213, 228, 236, 237 حلاج۔ 233 حلیم کالج۔ 311 حمید الدین شاہد۔ 304 حمید اللہ خاں(نواب اعلیٰ حضرت فرماں روائے ریاست ہائے بھوپال )۔ 23, 25 29, 2, 33, 34, 35, 36, 39, 40, 41, 43, 44, 46, 50, 52, 53, 54, 55, 59,68, 71, 72, 73, 74, 75, 77, 78, 79, 80, 81, 82, 83, 84, 85, 86, 87, 88 89, 90, 93, 94, 95, 96, 98, 110, 114, 115, 116, 117, 118, 119 120, 121, 124, 125, 127, 130, 131, 132, 133, 134, 135, 136,137, 138, 139, 160, 141, 143, 144, 146, 150, 154, 157, 158, 160 161, 162, 163, 166, 167, 168, 169, 170, 171, 173, , 179, 182 183, 189, 192, 193, 197, 198, 199, 2200, 201, 202, 208, 209 210, 211, 212, 220, 224, 225, 226, 228, 230, 231, 232, 237, 238, 245, 246, 249, 150, 251, 252, 258, 267, 273, 278, 29, 280, 289 293, 294, 395, 296, 297, 298, 302, 303, 306, 308, 312, 313, 314 349, 356, 357, 359, 360, 362, 366, 368, 369, 373, 375, 376, 377 378, 380, 381, 382, 383, 384, 386, 388, 389, 390, 391, 392 حمیدیہ اسپتال۔ 89, 90, 95, 143, 194, 208 حمیدیہ جہانگیریہ ہائی سکول۔ 280, 308 حمیدیہ کالج۔ 231, 340 حمیدیہ لائبریری۔ 58, 149, 292, 304, 389 حنیف فوق (ڈاکٹر)۔ 21, 55, 311, 339, 365, 376, 377, 387 حیات اقبال۔ 319 حیات النذیر۔ 58 حیات شبلی۔ 318 حیات نو۔ 172, 182 حیدر آباد ٹرسٹ۔ 42 حیدر عباسی (علی)۔ 32, 33, 41, 55, 98, 99, 200, 219, 221, 278 295, 297, 298, 344, 381 خاتون ارشد۔ 54, 65339, 369 خالدہ ادیبہ خاتم۔ 91, 92 خالدہ شعیب۔ 279 خان محمد خاں شبیر۔ 58 خدوخال اقبال ۔ 33, 330, 331, 332, 346 خطبات اقبال ۔ 41, 318, 330 خلیفہ عبدالحکیم۔ 86, 118 خلیل بدر۔ 339 خلیل عرب (علامہ)۔ 59 خواجہ آشکار حسین۔ 55 خواجہ سجاد حسین۔ 149, 157, 163, 166, 184 خواجہ غلام الحسین۔ 184 خواجہ قمر الدین خاں راقم۔ 295 خواجہ کمال الدین ۔ 171 خواجہ لطیف حسن۔ 178 خواجہ عنبر۔ 221 خیاباں۔ 281, 288, 385 خیابان اقبال۔ 288 خیابان مسعود۔ 125 خیام۔ 272 درالاقامہ۔ 172 درالترجمہ۔ 68 دارالمصنفین۔ 58, 345 داغ۔ 59, 234, 255 داس۔ 233 دانتے۔ 304 در منشور جلد پنجم۔ 146 دس کنفرڈ ستیان۔ 303 دل گداز۔ 219 دکن ریویو۔ 59 دی آئوٹ لائن آف ہسٹری۔ 283 دیا نرائن نگم۔ 260 دی ڈیولز کانفرنس۔ 303 دی کولمبیا وائی کنگ ڈیسک انسائیکلو پیڈیا۔ 283 دیوان غالب۔ 28, 29, 93 دیو بند۔ 58, 368 ڈارلنگ (ایم ۔ ایل ۔ اے)۔ 247 ڈارون۔ 304 ڈاکٹر احسان رشید۔ 116, 297 ڈاکٹر احمد بخش (خان بہادر)۔ 95, 195, 196, 202, 249 ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری۔ 36, 37, 165 ڈاکٹر اخلاق اثر۔ 47 ڈاکٹر انصاری۔ (مختار احمد)۔ 36, 71, 72, 750, 81, 82, 83, 91, 92, 160,193, 195, 196, 197, 274, 278, 296, 360 ڈاکٹر بوس۔ 95, 278 ڈاکٹر تاثیر۔ 25, 144 ڈاکٹر جانسن۔ 100 ڈاکٹر ذاکر حسین۔ 25, 43, 44, 165, 167, 222 ڈاکٹر رضی الدین صدیقی۔ 303 ڈاکٹر سعید احمد بریلوی۔ 260 ڈاکٹر سلطان۔ 95, 278, 289, 294, ڈاکٹر سلیم حامد رضوی۔ 41, 212, 259, 322, 339 ڈاکٹر سید عابد حسین۔ 59, 165, 2600, 339 ڈاکٹر سید عبدالباسط۔ 24, 50, 53, 54, 89, 95, 143, 154, 155, 158 159, 193, 194, 195, 197, 202, 203, 205, 207, 208, 226, 249, 278 289, 290, 294, 296, 318, 380, 381, 384, 389 ڈاکٹر سید عبدالرحمن۔ 72, 95, 158, 159, 195, 196, 202, 203, 208221, 249, 278, 294, 296, 322 ڈاکٹر ظفر الحسن۔ 249, 250 ڈاکٹر ظہیر الدین احمد (الجامعی)۔ 105, 107 ڈاکٹر عبدالوہاب عزام۔ 260 ڈاکٹر محمود الٰہی۔ 68 ڈاکٹر مظفر علی۔ 195, 196, 197, 202, 203 ڈکنسن۔ 351 ڈھاکہ یونیورسٹی۔ 311 ڈیوک آف ونڈسر۔ 72 ذکر اقبال۔ 225, 244, 277, 346 ذکر شبلی۔ 331 ذکی وارثی۔ (محمد کریم)۔ 59, 99, 151, 259, 289, 294, 338 ذکیہ بیگم۔ 193 ذوق۔ 58 راج گوپال اچاریہ۔ 322 راجندر پرشاد (ڈاکٹر)۔ 322 راجہ اودھ نرائن بسریا۔ 219, 221 راجہ حسن اختر۔ 160, 171, 204 راجہ محمود آباد۔ 38, 298 راحت سعید چھتاری۔ (نواب زادہ)۔ 99 راحت منزل۔ 50, 74, 75, 77, 78, 95, 30 راس مسعود (سر سید)۔ 25, 26, 29, 30, 31, 32, 34, 35, 36, 38, 39 40, 41, 42, 43, 44, 45, 46, 54, 59, 69, 88, 89, 90, 92, 93, 94, 95,96, 97, 99, 100, 10., 104, 105, 106, 107, 108, 109, 114, 115, 116 117, 11, 119, 121, 122, 123, 124, 125, 127, 128, 129, 130, 131, 132, 133 134, 136, 137, 139, 140, 141, 142, 143, 146, 149, 150, 151, 154 155, 157, 158, 162, 163, 164, 3645, 166, 167, 168, 182, 183, 184185, 187, 188, 189, 193, 194, 195, 196, 197, 198, 199, 200, 201 203, 204, 205, 206, 207, 208, 209, 210, 211, 212, 214, 221, 224 225, 226, 227, 228, 229, 231, 233, 234, 235, 236, 237, 238, 239, 240 , 141, 242, 2443, 244, 245, 246, 247, 248, 249, 250, 251, 259, 260, 276 278, 281, 288, 289, 290, 293, 295, 296, 297, 298, 299, 300, 304 305, 306, 308, 310, 313, 314, 315, 316, 333, 335, 341, 344, 347 359, 360, 362, 34, 366, 373, 380, 381, 382, 383, 384, 386, 388 390 راس مسعود ایجوکیشن اینڈ کلچرل سوسائٹی آف پاکستان۔ 47, 16]2 راغب حسین (مولانا)۔ 112 رائٹ آف وومن۔ 64 رائے زادہ آفتاب۔ 315 رباعیات سرمد شہید۔ 272 رباعیات عمر خیام۔ 272 رباعیات قدسی۔ 272 رحم حسین (منشی)۔ 254 رحیم بخش شاہین۔ 220 رخت سفر۔ 64 رشدی اے آر۔ 49, 55, 5, 308, 339, 340 رشید احمد صدیقی(پروفیسر)۔ 104, 109, 136, 165, 260, 297, 365, 371 376 رشید الظفر خاں (نواب زادہ)۔ 95, 226, 227, 270, 273 رشید انجم۔ 318 رضا شاہ اول۔ 282, 283 رضیہ فرحت بانو۔ 141, 318, 330, 339 رعنا لکھنوی (سید بادشاہ حسین)۔ 61, 63 رفعت الحسینی۔ 338 رقیہ خلیل عرب۔ 339 رمزی ترمذی۔ محمد اسمعیل۔ 59, 338 رموز اقبال۔ 319 رموز بے خودی۔ 261 روح اقبال۔ 319 روزگار فقیر۔ 49, 64, 99, 100, 101, 102, 105, 201, 202, 215, 217 219, 231, 237, 313 رومی (مولانا روم پیر)۔ 68, 70, 110, 163, 217, 259, 261, 271 272, 297, 389 رونق دہلوی (منشی پیارے لال)۔ 61 رئیس احمد جعفری۔ 286, 319, 331 ریاض خیر آبادی (سید ریاض احمد)۔ 61, 63 ریاض رضواں۔ 68 ریاض منزل۔ 50, 54, 92, 93, 94, 95, 96, 97, 99, 102, 104, 105 107, 108, 109, 111, 117, 97, 99, 102, 104, 105, 107, 108, 109, 111, 117, 118, 120, 128, 141, 142, 151, 155, 208, 246, 281, 289, 290 295, 296, 297, 298, 299, 306, 308, 314, 315, 334, 370 ریڈی نار۔ 283 ریڈیوپاکستان۔ 21, 295, 383, 390, 391 زبور عجم۔ 149, 318, 328 زبیر احمد صدیقی (پروفیسر)۔ 336 زرنگار۔ 59 زمانہ۔ 260, 261 زمیندار۔ 80, 242, 275 زہرہ جمال۔ 322, 339 ساجد علی (سید) 318 ساغر نظامی۔ 270 سائل دہلوی (نواب سراج الدین احمد خاں)۔ 61 سب رس۔ 304 سبعہ سیارہ۔ 59, 294 سترویں نامہ۔ 66 سجاد ظہیر۔ 320 سحر انصاری۔ 55, 357, 376, 377, 379, 390 سحر بھوپالی(سراج میر خاں)۔ 59, 259, سردار جعفری (علی)۔ 320, 322 سردار صلاح الدین سلجوقی۔ 92, 111, 112, 140, 206, 207, 242, 243 سر شفیع۔ 79, 81, 83, 85 سرگزشت۔ 165 سرلیاقت علی۔ 151 سرمد شہید۔ 272 سروجنی نائیڈو(مسز)۔ 71, 75, 83, 155, 251, 295, 389 سورد رفتہ۔ 64 سرور جہاں۔ 59 سرور قادری بدایونی (عبدالصمد)۔ 59, 60, 63 سعدی۔ 137, 138, 246, 285 سعید اکبر آبادی (مولانا)۔ 261 سعید الظفر خاں (نواب زادہ)۔ 95, 120, 226, 267, 271, 273 سعید رزمی۔ 253 سعیدہ بانو۔ 338 سکندربیگم (نواب بھوپال) 62, 368 سکندر حیات 382 سلام الدین خاں۔ 253, 278 سلامت اللہ شاہ(سید)۔ 148, 210, 211 سلطان جہاں بیگم (نواب بھوپال)۔ 57, 58, 59, 62, 64, 71, 72, 78 178, 219, 220, 273, 278, 330, 345, 368 سلطانہ عالم(شہزادہ)۔ 63 سلطانیہ گریس سکول۔ 299 سلمان الارشد۔ 339 سلیمان خاں خالص (حافظ)۔ 59 سلیمان محمد خاں آرزو ماسٹر۔ 254 سلیمان ندوی (علامہ سید)۔ 59, 71, 90, 144, 145, 146, 149, 153 218, 222, 224, 226, 227, 260, 270, 300, 303, 304, 322, 339 340, 345 سلیمان نقوی۔ 318 سم سیکریٹ ٹیچنگز۔ 351 سمرسٹ ماہم۔ 283 سنگباد۔ 312 سنٹرل جیل ملتان۔ 349 سودے۔ 367 سورج کلا سرور 322, 338 سوغات۔ 312 سول اینڈ ملٹری گزٹ۔ 242 سہا مجددی (مولانا ممتاز احمد)۔ 59, 99, 151, 289, 290, 294, 303, 304 338, 339 سہیل ۔ 309 سیٹھ وٹھل داس۔ 289 سیپ۔ 386 سید احمد ۔ 353 سید احسان حسین( ماسٹر)۔ 308 سید احمد خاں (سر)۔ 58, 136, 164, 184, 185, 186, 191, 193, 213 214, 217, 218, 236, 284 سید احمد دہلوی (شمس العلمائ)۔ 271, 273 سید احمد سبزواری(مولوی)۔ 289 سید احمد شہید۔ 57, 382 سید احمد عباس۔ 211 سید احمد علی۔ 55, 297 سید حامد رضوی۔ 253, 289 سید حسن سید۔ 63, 254, 289, 339 سید زاہد علی جعفری۔ 303, 304 سید شوکت علی۔ 318 سید عبداللہ (ڈاکٹر)۔ 311 سید عبدالغفور۔ 193, 194 سید فیضی۔ 55 سید لطف علی (منشی)۔ 254, 289 سید محب الحق (شمس العلما۔ حافظ)۔ 275 سید محمد شاہ۔ 318 سید محمد علی۔ 218, 219 سید محمد یوسف (ڈاکٹر)۔ 55, 308, 310, 339, سید محمد یوسف قیصر بھوپالی۔ 55, 58, 59, 61, 63, 99, 151, 289, 294 295, 336, 338, 339, 343 سید وحید الحسن ۔ 219 سیرت اقبال۔ 319 سیرۃ النبیؐ۔ 58, 219, 368 سیرت رسول اللہ ؐ۔ 219 سیفیہ کالج۔ 50, 51, 335 سیلون یونیورسٹی۔ 308 سیماب۔ 285, 270 شاد عارفی۔ 372 شاد عظیم آبادی۔ 276 شاغل فخری۔ 41, 59, 323, 324, 325, 329, 330, 339 شاہجہان بیگم شیریں و تاجور (نواب بھوپال)۔ 57, 58, 218, 368, 382 شاہجہانی ماڈل ہائی سکول۔ 311 شاہد احمد بریلوی۔ 48, 165 شاہد لطیف۔ 340 شاہ سعود اول۔ 57 شاہ سلیمان پھلواری۔ 274 شاہ عبدالعزیز دہلوی۔ 368 شاہ میر راہی۔ 339 شاہنامہ اسلام۔ 183, 185, 188 شبلی (علامہ)۔ 33, 58, 59, 68, 71, 167, 218, 219, 275, 331 345, 364, 366, 368 شبیر اقبال۔ 231 شبیر علی کاظمی (سید)۔ 37 شبیر حسن (منشی)۔ 254 شرح اسرار خودی۔ 319 شرح ضرب کلیم۔ 231 شریف الدین پیرزادہ۔ 55 شریف محمد خاں فکری۔ 59, 338 شعر العجم۔ 167, 169 شعری بھوپالی۔ 46, 59, 259, 302, 322, 338 شعیب قریشی(محمد)۔ 40.45, 69, 70, 72, 74, 79, 80, 82, 85, 130, ,141, 143, 151, 155, 207, 219, 221, 226, 247, 249, 278, 279, 300 359, 360 شفا گوالیاری۔ 338 شفق عماد پوری۔ 221 شفیقہ فرحت۔ 339 شکنتلا۔ 305 شمبھو لال سخن۔ 59, 337, 338 شملہ پہاڑی۔ 95, 208, 276 شملہ کوٹھی۔ 267, 291, 298 شمیم احمد۔ 49, 55, 161, 302, 339 شوکت علی (مولانا)۔ 71, 80, 81, 83, 85, 278, 359 شہاب اشرف۔ 338 شہزادہ برار۔ 251 شہید ٹونکی۔ 258 شیخ اعجاز احمد۔ 22, 23, 25, 26, 29, 31, 32, 34, 37, 38, 64, 216 239 شیخ عبدالقادر (سر)۔ 35, 38, 303 شیخ عطاء اللہ۔ 24, 26, 49, 168, 308, 309, 310, 334 شیخ محمد اسمعیل پانی پتی۔ 55, 161, 162, 184 شیخ محمد اشرف۔ 23, 2, 27, 30, 35 شیخ محمد بدرالاسلام فضلی۔ 162, 166, شیدا دہلوی (منشی چندی پرشاد)۔ 61 شیریں۔ 285 شیش محل۔ 46, 47, 50, 54, 95, 143, 144, 145, 147, 151, 152 153, 154, 155, 193, 207, 208, 209, 211, 212, 213, 214, 218, 234262, 279, 281, 288, 289, 290, 291, 292, 293, 294, 295, 297, 299 300, 302, 305, 306, 308, 334, 347, 370, 382 شیکسپیر۔ 367, 377 صالحہ خانم عاجز ۔ 59 صحیح بخاری۔ 35, 58 صدر منزل۔ 95, 285 صدی ایڈیشن۔ 164, 167 صدیق حسن توفیق (نواب مولوی ) الشیخ صدیق القنوجی البخاری)۔ 57, 58, 120 146, 382 صرف خاص۔ 279 صفیہ اختر۔ 340 صفیہ بیگم۔ 193 صور اسرافیل۔ 148 صوفی خدا بخش۔ 37, 38, 268, 269, 272, 273, 276, صہبا لکھنوی۔ 26, 27, 34, 47, 51, 55, 59, 164, 217, 268, 269 276, 295, 302, 317, 336, 343, 355, 356, 358, 359, 361, 362 363, 364, 365, , 366, 369, 370, 371, 372, 373, 375, 376, 377, 378 379, 380, 381, 382, 383, 384, 385, 386, 387, 388, 389, 390, 391 392 صہیب۔ 261 ضرب کلیم۔ 35, 41, 54, 86, 99, 107, 108, 151, 152, 153, 194 214, 224, 225, 226, 228, 229, 230, 231, 232, 233, 234, 235, 236 261, 378, 280, 290, 302, 308, 311, 318, 334, 339, 357, 376, 381 382, 384, 386, 388, 390, 391 طاہر الدین (شیخ)۔ 239 طلوع اسلام۔ 147, 148, 150, 160, 209, 210, 286 ظاہر شاہ۔ 137, 138, 140 ظفر۔ 190 ظفر الحسن (ڈاکٹر سید)۔ 316, 376 ظفر الحسن (مرزا)۔ 368 ظفر علی خاں (مولانا)۔ 219, 274, 318 ظفر قریشی۔ 165 ظل السلطان۔ 58, 64, 256, 330 ظہور الحسن (منشی)۔ 254 ظہیر دہلوی (سید ظہیر الدین)۔ 58, 61, 63 عابدہ سلطان (شہزادی ولی عہدہ ریاست بھوپال)۔ 21, 33, 36, 50, 550, 209 226, 277, 278, 280, 344, 355, 361, 375, 376, 378, 379, 381 عادل رشید۔ 320 عارف بٹالوی۔ 319 عالی صفی پوری (سید ابن علی)۔ 61 عبادت بریلوی (ڈاکٹر)۔ 55 عبدالاحد خاں مخلص۔ 339 عبدالباسط۔ 318 عبدالحق (بابائے اردو ڈاکٹرمولوی)۔ 36, 37, 71, 13, 149, 163, 165, 166 222, 245, 246, 281, 284, 300, 322, 330, 332 عبدالحکیم صدیقی ذکا بھوپالی۔ 59, 58 عبدالحلیم انصاری(آرٹسٹ)۔ 59, 289, 306, 308, 318, 322, 335, 339 عبدالحلیم شرر(مولانا)۔ 218, 219, 220 عبدالحمید انصاری۔ 322 عبداحمید کمالی۔ 55, 375 عبدالحئی (سید)۔ 46, 55, 159, 193, 194, 196, 197, 208, 226 247, 290, 292, 381, 385, 389 عبدالرحمن بجنوری (ڈاکٹر)۔ 59, 71, 72, 219, 337, 339, 368 عبدالرحمن الداخل۔ 310 عبدالرحمن چغتائی۔ 25, 35 عبدالرحیم قلندر (شاہ)۔ 274 عبدالرزاق (مولوی)۔ 58, 59, 253, 289, 300, 339 عبدالشکور اخلاص۔ 59 عبدالعزیز خاں۔ (منشی)۔ 60 عبدالعلی۔ 150 عبدالغنی۔ 31, 32, 239 عبدالقادر بیدل۔ 389 عبدالقدیر آزاد (منشی)۔ 59 عبدالقوی دسنوی۔ 41, 50, 51, 212, 256, 303, 304, 312, 330, 335,336, 339, 365, 380, 386 عبدالقیوم (مولوی)۔ 254 عبداللطیف خاں۔ 317, 318, 319 عبدالماجد دریا بادی (مولانا)۔ 202 عبدالمالک۔ 319 عبدالمتعال (حافظ)۔ 273, 275 عبدالمتین (کامدار)۔ 59 عبدالمجید سالک (مولانا)۔ 225, 277, 344, 346, 354 عبدالواحد معینی۔ 23, 51, 55, 172, 374 عبدالوہاب بابی۔ 353 عبداللہ قریشی (محمد )۔ 55, 105, 172, 383 عبید اللہ خاں (نواب کرنل حافظ)۔ 71 عتیق احمد صدیقی۔ 318 عرفی۔ 357 عرش ملیسائی۔ 321 عرشی بھوپالی۔ 338 عزیز احمد 45, 137, 138, 285, 319, 381 عزیز الدین (سید) 318 عزیز لکھنوی (مولوی مرزا ہادی) 61 عشرت قادری۔ 338 عاصم صحرائی۔ 387 عصمت اللہ بیگ دہلوی۔ 59 عصمت چغتائی۔ 340 عطا بدایونی۔ 63 عطا محمد عطا(بابو)۔ 61, 63 عطیہ فیضی (بیگم)۔ 71, 218, 332, 333 عظیم بیگ۔ 319 علی امام (سر)۔ 121 علی بخش۔ 93, 104, 128, 129, 130, 131, 141, 143, 148, 154 157, 159, 160, 171, 195, 198, 205, 208, 214, 226, 235, 237, 238241, 243, 289, 292, 293, 298, 314, 342, 348 علی حیدر ملک۔ 387 عمر انصاری (حافظ ۔ محمد) ۔ 318 عمران انصاری 323, 324, 325, 329, 338, 339 عمرؓ بن خطاب۔ 146 عنبر چغتائی۔ 339 عید گاہ کوٹھی۔ 95, 254 عیسیٰ (حضرت مسیح)۔ 146, 153, 35 عیش بھوپالی (سید امرائو علی)۔ 59, 61 غازی رئوف بے۔ 80, 85 غالب (نواب میرزا اسد اللہ خاں غالب نجم الدولہ دبیر الملک)۔ 53, 60, 61, 64 71, 234, 295, 328, 336, 367, 368 غدر دہلی اخبار نویس۔ 120 غدر دہلی کے گرفتار شدہ خطوط۔ 120 غنچہ۔ 323, 324 غوث علی شاہ۔ 67, 274 غلام احمد قادیانی۔ مرزا۔ 144 غلام السیدین (خواجہ)۔ 45, 102, 139, 165, 166, 167, 225, 229 247, 248, 249, 260 غلام بھیک نیرنگ (میر سید)۔ 61, 63, 67, 313 غلام دستگیر۔ 318 غلام رسول مہر (مولانا)۔ 51, 52, 55, 74, 75, 77, 78, 79, 80, 83 84, 85, 86, 380 غلام قادر گرامی (مولانا)۔ 221 فاران ۔ 345 فانی۔ 258 فتح الباری۔ 58 فتح محمد ملک۔ 383 فراق۔ 258 فرگوشن مس۔ 124, 125 فرانسس فطرت حکیم۔ 58 فرہاد۔ 285 فضل حق قریشی۔ 165 فضل علی سرور۔ 338 فقیر وحید الدین۔ 49, 64, 99, 105, 20, 1, 215, 222, 236, 237 فکر اقبال۔ 318 فلسفہ عجم۔ 318 فنون۔ 312, 316, 381, 383 فوجدار محمد خاں (نواب)۔ 337, 368 فواد یونیورسٹی۔ 309 فہیم رضا۔ 262 فیروز خاں نون۔ 172 فیروز سنز۔ 284 فیضی۔ 167 قاضی تلمذ حسین۔ 68, 69 قاضی علی محمد (ماسٹر)۔ 59, 99, 151, 219, 278, 289, 295, 339 قائد اعظم محمد علی جناح۔ 71, 75, 83, 209, 224, 225, 278, 279, 280,283, 309, 322, 349, 354, 359, 360 قدسیہ منزل (محل)۔ 95, 163, 155, 193, 290 قدوس صہبائی۔ 59, 339 قرآن مجید پاک حکیم۔ 25, 29, 33, 35, 43, 45, 64, 102, 122, 127 129, 134, 137, 217, 219, 226, 227, 293, 297, 326, 341, 324, 343 344, 346, 347, 350, 351, 352, 353, 354, 369, 376, 381, 382, 383 384, 386, 388, 389 قصر سلطانی۔ 94, 95 قطب مینار۔ 155 قمر جمالی۔ 339 قمر الحسن (حکیم ۔ سید)۔ 305, 321, 336, 339 قمر ہاشمی۔ 357, 376 قومی زبان۔ 119, 125, 130, 132, 188, 189, 214, 381 قومی کتاب مرکز۔ 376 کاروان ادب۔ 330 کاوان غزل۔ 262 کالیداس۔ 305 کامتا پرشاد۔ 322 کتاب۔ 379, 387 کڑک ہال۔ 48 کراچی یونیورسٹی۔ 297, 308 کردار۔ 256 کرشن چندر۔ 340 کرنل رابنسن۔ 212 کرنل عبدالرشید خاں۔ 141, 198, 199, 238, 245, 246, 297 کشکول قلندری۔ 66 کلام عبدالقادر بیدل۔ 292 کلیات اقبال۔ 318 کلیات صائب۔ 135 کمال اتاترک۔ 282, 283 کمال لکھنوی (حکیم سید مہدی حسن)۔ 61, 63 کملا پتی پارک۔ 208, 302 کوثر چاند پوری (حکیم علی)۔ 59, 89, 321, 322, 339 کوکب جمیل۔ 339 کوئن وکٹوریہ۔ 176 کیف بھوپالی۔ 338, 339 کیفی اعظمی۔ 320 کیمبرج۔ 35, 94 کیننگ کالج۔ 218 گارڈن سٹی بک نیوز۔ 283 گاندھی (مہاتما)۔ 72, 82, 83, 209, 222, 272, 278, 279, 322, 360 گفتار اقبال۔ 80 گل حسن شاہ قلندر۔ 67, 268, 274, 275 گلنار بیگم (بی بی )۔ 40 گنج ہائے گراں نمایہ۔ 105, 109, 136, 313 گوبند پرشاد آفتاب۔ 59, 289 گوپی کرشن شوق۔ 338 گورنمنٹ حمیدیہ کالج میگزین۔ 231, 232, 234 گوہر تاج بیگم صاحبہ ولی عہد۔ 280 گوہر جلالی۔ 322, 388 گوہر محل۔ 66, 95 گوئٹے۔ 35, 46, 255, 304 گہوارہ ادب۔ 280 گیان چند ڈاکٹر۔ 339 لارڈ یووین ۔ 35, 145 لارڈ ویلنگٹن۔ 130 لالہ قلعہ۔ 120, 155 لالہ ملک راج۔ 322 لچھمی نرائن افسر (منشی)۔ 59 لسان العصر۔ 68 لطف اللہ خاں نظمی۔ 339 لکھنو یونیورسٹی۔ 311 لمعہ (ڈاکٹر محمد عباس علی خاں)۔ 24, 25, 28, 29, 55, 89, 109, 110, 111,373 لندن یونیورسٹی۔ 39 لیاقت علی خاں نواب زادہ۔ 184, 219, 221, 300 لینن۔ 283 مارٹیمین۔ 351 مارکس۔ 373 مانی جائسی (کلب احمد)۔ 58 مالوہ ریویو۔ 59, 63 مائل نقوی (عبدالجلیل)۔ 59, 99, 253, 256, 259, 260, 289, 316 338 متین سروش (مرزا)۔ 338 مثنوی مولانا روم۔ 93, 110, 272, 292 مجنوں گورکھپوری (پروفیسر)۔ 217, 165, 319, 363, 372, 376, 378 محسن الملک۔ 59, 258 محسن بھوپالی۔ 55, 338, 339, 379 محشر لکھنوی۔ (سید کاظم حسین)۔ 61 محفوظ علی بدایونی (سید)159 محمدؐ (حضور نبی کریم۔ رسالت مآب۔ رسول اللہ صلعم)۔ 46, 86, 134, 144, 145 146, 187, 190, 191, 192, 201, 211, 23, 214, 215, 284, 342, 343 345 محمد ابراہیم (مولوی)۔ 322 محمد احمد خاں۔ 41.42, 43, 44, 278, 330 محمد احمد سبزواری (سید)۔ 21, 42, 55, 59, 51, 253, 255, 280, 281, 283 284, 285, 286, 288, 304, 316, 322, 371, 376, 377, 378, 381 محمد اسد (ڈاکٹر لیو پولڈدیس)۔ 35 محمد اسمعیل دسنوی (مولوی)۔ 62 محمد اسمعیل ہاتف منشی۔ 254, 338 محمد اقبال سلیم گاہندری۔ 323, 324 محمد اکرام شیخ۔ 284 محمد امین زبیری مولوی۔ 33, 34, 41, 43, 54, 58, 59, 64, 86, 165166, , 168, 169, 330, 331, 333, 333, 334, 339, 343, 344, 345, 346 محمد انس خاں 318 محمد انصاری۔ 318 محمد حامد علی۔ 68 محمد حسین تاج۔ 318 محمد حسین خاں ۔ 319 محمد حیات۔ 45, 219, 221 محمد خالد۔ 318 محمد خلیل اللہ خاں۔ 46, 55, 51, 278, 289, 293, 294, 318 محمد رفیق افضل۔ 80 محمد زبیر صدیقی (پروفیسر)۔ 305 محمد طاہر فاروقی (ڈاکٹر)۔ 281 محمد عالم خنجر (سید)۔ 61 محمد علی خاں میکش۔ 304 محمد عباس رفعت ۔ 58 محمد علی تاج۔ 338 محمد علی جوہر (مولانا)۔ 25, 40, 71, 72, 218, 2319, 222, 233, 278,283, 359 محمد علی صدیقی۔ 55 محمد عمر دراز خاں۔ 120 محمد مجیب پروفیسر۔ 45, 15, 260 محمد مہدی (مولوی)۔ 58, 59 محمد میاں شہر (سید)۔ 59 محمد نعیم ندوی۔ 344 محمد وکیل صدیقی۔ 339 محمد ہادی مرزا ۔ 55, 61 محمد ہادی مرزا (مرزا)۔ 61 محمد یوسف۔ 319 محمود اعظم فہمی (سید)۔ 59, 338, 339 محمود الحسن صدیقی۔ 59, 253, 254, 289, 302, 313, 313, 315, 316 339 محمود الحسینی۔ 339 محمود علی (منشی)۔ 63 محمود نظامی۔ 319 محوی صدیقی لکھنوی علامہ مولانا محمد حسین۔ 58, 59, 256, 338, 339 محی الدین قادری زور ڈاکٹر۔ 304 مختار مسعود۔ 26, 29 مخمور بھوپالی۔ 338 مدرستہ العلوم 218 مدرسہ صولتیہ۔ 58, 368 مدینہ۔ 323, 324 مراتہ المثنوی۔ 68, 69 مرزا ابراہیم بیگ۔ 165 مرزاجلال الدین۔ 277 مرزا شاغل فخری۔ 58 مرزا فرحت اللہ بیگ۔ 59 مرزا مظفر سیفی۔ 254, 255 مرقع مسعود۔ 163, 163, 164, 206, 260 مسجد شاہجہانی۔ 105 مسجد شہید گنج۔ 147, 198, 199, 235, 236, 248 مسجد قرطبہ۔ 30 مسجد وزیر خاں۔ 273 مسد س حالی۔ 35, 146, 167, 168, 169, 175, 285 مسعود احمد برکاتی۔ 55 مسعود اکیڈمی۔ 162 مسعود علی سید۔ 318 مسعود علی وارثی۔ 272 مسلم ضیائی۔ 43, 48, 55 مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 42, 58, 130, 131, 174, 185, 293, 297304, 309, 313, 359, 360, 362, 368, 378, مسند احمد۔ 146 مسولینی۔ 232, 282, 283 مسیح الدین۔ 55, 151, 293, 294 مسیح صدیقی (قریش)۔ 55, 254, 256, 299, 302, 381 مشفق خواجہ۔ 381 مصباح الدین احمد۔ 254 مصطفے الراغی۔ 45 مصطفے علی بریلوی (سید)۔ 184 مضامین اقبال۔ 318 مظفر خیر آبادی۔ 59, 270 مطلوب عالم فاروقی (منشی)۔ 254 مظفر شاہجہان پوری۔ 322 معارج الدین۔ 219, 272 معاشیات۔ 281 معشوق علی خاں جوہر (حکیم)۔ 58 مظہر احمد وہمی مولوی۔ 59 معظم رسول صدیقی۔ 299, 300, 373 مفتی عبدہ 382 مقالات اسلم۔ 57 مقام اقبال۔ 319 مقبول حسن قریشی کرنل۔ 70 مقدمتہ القرآن۔ 25, 347, 348 مقصود عرفانی ۔ 338 مقصود عمرانی۔ 322, 338 مکاتیب شبلی بنام عطیہ۔ 331 مکتبہ افکار۔ 262, 295 مکتبہ الخانجی۔ 227 مکتبہ جامعہ۔ 260 مکتوبات اقبال۔ 49, 74, 78, 88, 90, 91, 92, 96, 97, 98, 111, 112 113, 133, 134, 135, 142, 143, 147, 148, 154, 156, 157, 160, 169 172, 197, 204, 206, 207, 209, 210, 211, 212, 228, 274, 341, 343383 مکہ معظمہ۔ 368 ملا رموزی۔ 59, 254, 289, 294, 338, 339 ملا علی قادری۔ 146 ملٹن۔ 38 ملفوظات اقبال۔ 319 ملک محمد اشرف ۔ 303, 304 ممتاز حسن ڈاکٹر۔ 21, 38, 39, 374 ممنون حسن خاں۔ 21, 22, 25, 29, 30, 33, 34, 36, 38, 60, 43, 44,45, 46, 47, 54, 92, 93, 99, 135, 141, 143, 151, 168, 169, 207,224, 234, 241, 242, 243, 244, 245, 246, 247, 248, 249, 152, 289, 293 305, 308, 309, 314, 315, 316, 334, 335, 336, 347, 366 منادی۔ 270 منشی حسین خاں۔ 267 منشی عبدالحئی۔ 63 منشی طاہر دین شیخ۔ 31, 225 منصب علی مولوی۔ ماسٹر۔ 219, 221 منوا بھانڈ۔ 38, 267 منیر احمد شیخ۔ 53 منیر بھوپالی منیر الدین۔ 59, 338 منیرہ۔ 31, 34, 113, 137, 141, 154, 201, 202, 2389, 239 240, 348 موتی محل۔ 95 موتی مسجد۔ 50, 143, 276, 294, 31 موج کوثر۔ 284 موسیٰ جار اللہ۔ 227, 303, 304 مولانا شفیع دائودی۔ 80, 85 مولوی احسن اللہ خاں۔ 58 مولوی بشیر الدین۔ 165 مولوی شکر اللہ سہیل ۔ 58, 99, 154, 219, 221, 278, مولوی محمد صالح۔ 75, 80 مومن۔ 328.368 مہاراجہ بڑودہ گیکوار۔ , 218, 220 مہاراجہ کشمیر (ہری سنگھ)۔ 78, 79, 84, 121, 233, 373 مہاراجہ کشن پرشاد۔ 122, 123, 270, 333 مہ جبین خمار۔ 256, 257, 258, 299, 300, 338 مہدی الافادی۔ 295 مہدی حسن احسن (سید)۔ 61 مہر دہلوی خورشید علی۔ 59 مہندر ناتھ۔ 340 میاں اسد اللہ خاں۔ 337 میاں امیر الدین۔ 32, 239 میاں خالد (علامہ)۔ 59, 339 میا ں محمد شفیع۔28, 348, 349, 354, 365 میٹی نین۔ 352 میڈرڈ یونیورسٹی۔ 39 میر 103, 338 میر ولی الدین ڈاکٹر ۔ 319 میگھ دوت۔ 305 مئے لالہ فام۔ 155 میوزیم ہال۔ 71 نادر شاہ۔ 137, 138, 283 نادرہ مسعود۔ 104, 105, 236, 239, 240, 245, 297 ناصر علی ناصر اٹاوی ماسٹر۔ 254, 288 نامہ قدسی۔ 66 ندوہ۔ 58 ندوۃ العلمائ۔ 68 ندیم۔ 49, 59, 254, 255, 256, 276, 289, 295, 299, 305, 312 313, 316, 321, 336, 339, 369, 389 نذیر احمد ڈپٹی مولوی۔ 48, 375 نذیر نیازی۔ سید۔ 32, 38, 39, 49, 55, 73, 74, 86, 188, 90, 91, 92 96, 97, 98, 105, 109, 111, 112, 113, 123, 133, 135, 142, 143,144, 146, 148, 149, 150, 153, 154, 156, 158, 159, 160, 165, 169, 171 197, 203, 204, 206, 207, 209, 210, 211, 212, 213, 224, 225, 227 237, 341, 343, 344, 354, 383 نسخہ حمیدیہ۔ 71, 337, 368 نسخہ عرشی زادہ۔ 337, 368 نصر اللہ خاں (نواب)۔ 71 نظام الدین اولیائ۔ 155 نظام حیدر آباد دکن 71, 122, 123, 138, 166 نظامی بدایونی۔ 260 نظر حیدر آبادی۔ 47, 48, 110, 122, 138, 238, 374, 383 نغمات۔ 66 نغمات قدسی۔ 272 نفیس احمد فاروقی۔ 254 نقش چغتائی۔ 25, 35 نقوش ماضی۔ 268, 269, 275 نگار۔ 59, 68, 69, 70, 256, 311 نواب بہاولپور۔ 124, 127, 160 نواب پٹودی۔ 72نواب ٹونک (ابراہیم علی خاں)۔ 274 نواب حسن منشی۔ 254 نواب خسرو یار جنگ۔ 273 نواب عبدالحفیظ خاں 273, 274 نواب عزیز یار جنگ۔ 29 نواب کرنال۔ 165, 166 نواب محمد اسمعیل خاں۔ 81, 83 نوازش نامے۔ 33, 331, 334 نوائے سیفیہ۔ 335 نوائے فردا۔ 171 نور خاں ایر مارشل۔ 22 نورس۔ 280 نودی۔ 146 نیاز فتح پوری (علامہ)۔ 58, 59, 258, 295, 339 نیرنگ خیال۔ 252, 319 نیشنل بک سنٹر۔ 355, 365, 375, 376 نیشنل بک آف پاکستان۔ 297 نیو تاج آفس۔ 138 نیو کالج۔ 249, 250 واحد علی۔ 318 وادی ایمن۔ 270 وارث علی شاہ۔ 267 والدہ جاوید (اہلیہ علامہ اقبال۔ 97, 98, 111, 112, 114, 114, 128, 129 130, 131, 133, 134, 137, 141, 154, والدہ راس مسعود۔ 115, 118, 119, 242, 243, 248 وائسرائے ہند 249, 250 وائی کنگ پریس نیویارک۔ 283 وجدی الحسینی (مولانا ) 322, 338 وجے لکشمی پنڈت۔ 371 ورڈز ورتھ۔ 367 وریو تھلی۔ 367 وزیر علی (سید)۔ 72 وفا صدیقی۔ 338 ونسٹن چرچل۔ سر۔ 283 ووکنگ مسجد شاہجہانی۔ 58 ویلز ایچ جی۔ 283 ہاشمی فرید آبادی (سید) 165, 168 ہٹلر۔ 282 ہمارا قائد۔ 42 ہمارے بنک۔ 281 ہمارے نبیؐ۔ 219 ہمایوں منزل۔ 22, 34 ہمدرد۔ 219 ہندوستان کا قومی فریضہ اور جنگ۔ 42 ہندوستان کی معیشت اور جنگ۔ 42 ہوا محل۔ 95 ہیری ہیگ (سر)۔ 249, 250 یاٹ کلب ۔ 291, 298, 308 یادگار غالب 175 یادگار شاہجہانی۔ 208 یادگار غالب۔ 175 یکتا امروہوی۔ 65 یکتا حقانی 319 ینگ انڈیا۔ 172 یاسف النساء بیگم۔ 219 یوسف حسن (حکیم)۔ 252 یوسف حسین خاں (ڈاکٹر)۔ 319 یوسف سلیم چشتی (پروفیسر)۔ 231, 232, 233 ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End