اقبال شخصیت اور شاعری مجموعہ مقالات پروفیسر حمید اللہ خان(مرحوم) اقبال اکادمی پاکستان طبع ثالث۔ عرض ناشر پروفیسر حمید اللہ خاں مرحوم و مغفور کی تصنیف ’’اقبال: شخصیت اور شاعری‘‘ طبع ثالث قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے چند تصریحات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ اس کتاب کی پہلی طباعت ۱۹۷۴ء میں ہوئی۔ جیسا کہ پروفیسر محمد عثمان کے حرف آغاز میں واضح ہے کہ یہ کتاب مطبع میں تھی جب ۲۲ مارچ ۱۹۷۴ء کو پروفیسر حمید احمد خاں رحلت فرما گئے۔ طبع اول ٹائپ میںکمپوز ہو کر چھپی تھی۔ اس کتاب کی طباعت ثانی ۱۹۸۳ء میں ہوئی اور یہ چھپائی طبع اول ہی کے عکس پر مبنی تھی۔ جس میں کوئی لفظی ترمیم و اصلاح بھی نہیںہوئی تھی۔ اب طبع ثالث میں یہ جدت کی گئی ہے کہ اس کتاب کو نستعلیق کمپیوٹر میں از سر نو کمپوز کروایا گیا ہے۔ کمپوزنگ کی اس تبدیلی سے بحیثیت ناشر مجھ پر یہ بڑی ذمہ داری آ جاتی ہے کہ متن کی صحت کا پورا پورا خیال رکھوں۔ ایک اوروجہ پروفیسر صاحب مرحوم سے راقم کی نیاز مندی بھی ہے۔ یہ میرے مشاہدے کی بات ہے کہ پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم لکھتے وقت لفظ و معنی کی دروبست اور ایجاز بیان کاخاص خیال رکھتے تھے۔ اس لیے ان کی تصنیف میں ذرہ بھر لغزش بھی ہو جائے تو ان کی روح کو صدمہ پہنچ سکتا ہے۔ اور میںاس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم میرے بڑے مہربان تھے۔ یہ موقع نہیں کہ ان کی مہربانیوں کا تذکرہ یہاں پرکروں۔ چند ایک بار ایسا ہوا ہے کہ میں نے بڑے مودبانہ انداز میں ان سے بعض علمی معاملات میں اختلاف رائے کی جسارت کی تھی تو انہوںنے بڑی مہر و محبت سے میری باتوں کو سنا اوراپنے موقف کی وضاحت کی جو ایک مثالی استاد کا شیوہ ہے۔ یہ تذکرہ میں اس لیے کر رہا ہوں کہ اس کتاب کی جدید طباعت میں کہیںکہیں میں نے محبت آمیز جسارت بھی کی ہے ۔ مثال کے طور پر دو مواقع کا ذکر یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پہلا موقع تو یہ ہے کہ اس کتاب کے آخر میں ان کا ایک نہایت ہی قابل قدر انگریزی مضمون ہے جس میں انہوںنے اقبا ل کے فارسی اور اردو اشعار کے ساتھ ساتھ انگریزی ترجمے کا اہتمام کیا ہے۔ مگر ایک جگہ صوفی کے مقامات کا حوالہ ’’جاوید نامہ‘‘ سے دیتے ہوئے متن کے اشعار (شاید اقتباس کی طوالت کوملحوظ رکھتے ہوئے) دینے کی بجائے صرف اشعار کا انگریزی ترجمہ (اور وہ بھی حضڑت علامہ اقبال کے قلم سے ) دینے پر اکتفا کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں انگریزی ترجمے کے ساتھ ساتھ ’’جاوید نامہ‘‘ کے اصل اشعار بھی دے دیے جاتے تو مناسب تھا۔ چنانچہ طبع ثالث میں ’’جاوید نامہ‘ ‘ کے فارسی اشعار کا اضافہ انگریزی ترجمے کے بعد کر دیا گیا ہے۔ دوسرا موقع ’’علامہ اقبال کا انتخاب بیدل‘‘ میں آیا ہے۔ مضمون کی ترتیب میں صورت یہ تھی کہ پروفیسر صاحب نے بیدل کے اشعار پیش کرتے ہوئے اپنے تدریسی انداز میں ہر مصرعے کے ساتھ ساتھ اس کا اردو ترجمہ کر دیا ہے (خصوصاً غزل کے اشعار میں) میں نے محسوس کیا کہ اگرپہلے پورا شعر دے دیا جائے اور پھر اس پورے شعر کا ترجمہ کر دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو تاکہ شعر کی دلفریبی بھی قائم رہے۔ اور مطلب بھی قاری پر واضح ہو جائے۔ طبع سوم میں یہ تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اسے میں جسارت ہی کہوں گا۔ تاہم اگر پروفیسر صاحب مرحوم کی زندگی میں بھی ان کے سامنے میں ایسی جسارت کرتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ خوش دلی سے میری اس جسارت یا گزارش کو اپنے لطف و کرم سے شرف قبولیت بخشتے۔ ان تصریحات کے ساتھ قارئین کرام کی خدمت میں پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم کی اس قابل قدر تصنیف کا تیسرا ایڈیشن پیش کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ٭٭٭ حرف آغاز اس کتاب کی ایک خصوصیت جو علامہ اقبال پر لکھی ہوئی تمام کتابوں سے اسے ممیز کرتی ہے یہ ہے کہ یہ مضامین کم و بیش ۳۶ برسوں کی کاوش و عقیدت کی یادگار ہیں اور ایک ایسے شخص کی یادگار ہیں جو ابھی کل تک ہم میں تھا اور اردو زبان و ادب کی ابھی بہت سی امیدیں اس سے وابستہ تھیں۔ پاکستان کی تاریخ کے پہلے پچیس برسوں میں جن دانشوروں اور معلموں نے اس نئے ملک میں عزت و وقار کے منصب حاصل کیے اور اپنے ذاتی وقار سے خود ان منصوبوں کو عزت بخشی ان میںپروفیسر حمید احمد خاں کا نام خاص طورسے شامل ہے۔ پروفیسر صاحب مرحوم فی الواقع ایک عالم تھے۔ ان کو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں عبور تھا اور انہوںنے ان زبانو ں کے شعرو ادب کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ان میں ناقدانہ بصیرت بہم پہنچائی تھی۔ پروفیسر حمید احمد خاں کو ادب ثقافت تعلیم مذہب اور معاشرت کے کئی دوسرے شعبوں سے مبصرانہ لگائو تھا۔ مگر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوںنے اپنا سارا علم اپنی شخصیت میں سمو رکھا تھا اور ان کی ذات ان کے علم و دانش کا بھرپور مظہر تھی۔ اس جملے کی وضاحت میں یوں کروں گا کہ پروفیسر صاحب مرحوم ان لوگوں میں سے نہ تھے کہ جنہوں نے اپنے علم او راپنی ذات کو الگ الگ خانوں میں بانٹ رکھا ہوتا ہے۔ جن کی ذات ان کے علم پر اپنا پرتو تو نہیں ڈالتی اور جن کا علم ان کی ذات پر اثر انداز نہیںہوتا۔ پروفیسر حمید احمد خاں کے ہاں ایسی دوئی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ انہوںنے جو کچھ پڑھا اور سوچا اس کو برتا‘ او ر جو کچھ کیا اور برتا فقط اسی کا پرچار کیا۔ ان مضامین کی سطر سطرسے جو بات عیاں ہے وہ یہ ہے کہ پروفیسر حمید احمد خاں بڑے سچے پاکستانی تھے۔ انہیں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر کامل یقین تھا اور اقبال کے فکری ارتقاء کو وہ اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے سمجھانے کی پوری اہلیت رکھتے تھے۔ کتاب کے دو حصے ہیں ایک شخصیت کے متعلق ہے اور دوسرا شاعری سے۔ اس سے قبل علامہ اقبال کی شخصیت پر بھی ان کے ملنے اور جاننے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان کی شاعری پر بھی خاصا لکھا جا چکا ہے۔ خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ مختصر سی کتاب علامہ کی شخصیت کے بارے میں بھی ہماری معلومات میں اضافہ کرتی ہے اور ان کی شاعری کے باب میں بھی ہمارے علم کو جلا بخشتی ہے۔ پروفیسر حمید احمد خاں ۲۲ مارچ ۱۹۷۴ء کو ناگہاں رحلت فرما گئے ۔ اس وقت یہ کتاب مطبع میں تھی اور اس کا بیشتر حصہ چھپ بھی چکاتھا۔ صرف ایک مضمون ’’اقبال کانظام فکر‘‘ ابھی وہ لکھ رہے تھے (جو اپریل ۱۹۷۴ء میں پنجاب یونیورسٹی کا ’’اقبال میموریل لیکچر‘‘ بھی ہوتا) افسوس کہ یہ مضمون نامکمل رہ گیا۔ اب یہ اسی حالت میں شامل کتاب کر دیا گیا ہے۔ محمد عثمان معتمد بزم اقبال بی ۔ ۶۔ نیو کیمپس لاہور ۳۰ ستمبر ۱۹۷۴ء ٭٭٭ بسم اللہ الرحمن الرحیم دیباچہ اس کتاب میں جو مضامین شامل کیے جا رہے ہیںان میں سے بعض مثلا ’’اقبال کی لفظی تصویر‘‘ پانزدہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ میں یا ’’اقبال کا شاعرانہ مقام‘‘ ماہنامہ ’’ہمایوں‘‘ میں برسوں پہلے شائع ہو ئے تھے ۔ بعض ایسے بھی ہیں جو اب تک غیر مطبوعہ رہے۔ یہ سب مضامین قدرتی طور پر دو حصوں میں بٹ جاتے ہیں ایک حصہ وہ ہے جس میں مصنف کو اقبال کی شخصیت سے سروکار ہے۔ اور دوسرا حصہ وہ جس میں علامہ مرحوم کی شاعری کے مختلف پہلوئوں سے بحث کی گئی ہے۔ اس حصے کے آخر میں اقبال کی آفاقیت پر میرا ایک انگریزی مقالہ اس لیے شامل ہے کہ اس اہم موضوع پر مفصل اظہار خیال بہت کم ہوا ہے ۔کم از کم کوئی مبسوط مقالہ جس میں یہ بحث چھیڑی گئی ہو میری نظر سے نہیں گزرا۔ قارئین کرام کی سہولت کے لیے میں نے یہ مناسب سمجھا ہے کہ اس مجموعے کے مشمولہ مضامین میں سے ہر ایک کے آغاز میں اس کا زمانہ تحریر ظاہر کر دیا جائے۔ علامہ اقبال کی عکسی شبیہہ جو اس کتاب کی زینت ہے پروفیسر جے ۔ ایف ۔ بروس کی انگریزی تالیف ’’اے ہسٹری آف د ی یونیورسٹی آف دی پنجاب‘‘ (لاہور ۱۹۳۳ئ) سے ماخوذ ہے۔ یہ تصویر غالباً ۴ دسمبر ۱۹۳۳ء کو لی گئی تھی جب علامہ اقبال کو پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ لٹ کی اعزازی سند دی۔ ۱؎ حمید احمدخاں لاہور ۲۱ اپریل ۱۹۷۲ء ٭٭٭ ۱؎ اس سلسلے میں یہ ذکر خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ ۱۸۸۶ء سے شروع کر کے ۱۹۳۳ء تک جن پندرہ اکابر کو یونیورسٹی کی طرف سے ڈی ۔ لٹ کی اعزازی سند ملی ان میں سے پہلے تیرہ غیر ملکی اور مغربی الاصل ہیں اور چودھواں نام علامہ اقبال کا ہے۔ گویا مقامی اکابر میں اقبال پہلے شخص ہیں جنہیں یہ اعزا ز ملا۔ ٭٭٭ شخصیت ٭٭٭ اقبا ل کی لفظی تصویر (۱۹۴۰ئ) ہر بڑے آدمی کا نام ایک طلسم ہے جسے زبان پر لاتے ہی نظر کے سامنے ایک نیا جہان ابھر آتا ہے۔ محمد اقبال! یہ نام پچھلی صدی تک کسی خاص مفہوم سے آشنا نہ تھا۔ ہزروں دوسرے ناموں کی طرح یہ بھی ایک نام تھا غیر متحرک اور منجمد جیسے زید اور بکر اور عمرو! آخر کار صدیوں کی بے سروسامانی کے بعد خود ہمارے عہد میں اس نام نے حیات جاوید کا خلعت پہنا۔ اس کو زندہ کرنے کے لیے ایک مسیح آیا اوریہ نام علامت قرار پایا‘ فلسفہ زندگی کی ایک ہمہ گیر حرکت اوروسعت اور اضطراب کی۔ آنے والی نسلیں اس نام کے پیچھے صرف اسی حرکت اور وسعت اور اضطراب کی جھپٹ دیکھیں گی۔ لیکن موجودہ نسل یہ نام سنتی ہے تو زندگی کے اس طوفان انگیز تخیل کے پیچھے اسے ایک پرسکون اور عزلت پسند انسانی پیکر کی تصویر نظر آتی ہے۔ محمد اقبال! پیغمبر امید‘ پیغمبر حیات! بے شک! مگر اس سے پہلے ہماری طرح ہنسنے اور بولنے والا کھانے پینے والا ایک انسان! جب تک موجودہ نسل زندہ ہے یہ متحرک شبیہ اس کے تصور میں زندہ رہے گی۔ لیکن اس نسل کے گزر جانے کے ساتھ عالم خیال کی یہ تصویر بھی گزر جائے گی۔ اقبال کے سراپاکی لفظی تصویر کھینچنا آسان نہیں۔ اگر انہیں کشیدہ قامت کہا جائے تو یہ کچھ مبالغہ سا معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہیںمحض میانہ قد کہنا صریحاً کوتاہی ہو گی۔ یہی حال ان کے ڈیل ڈول کا تھا۔ ان کا جسم بھرا بھرا تھا مگر فربہی کے شبہ سے پاک۔ چنانچہ جب گرمی کے موسم کی باتیں کرتے کرتے پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا دیتے تو اہل مجلس کو تعجب سا ہوتا تھا کہ ان کی پنڈلیوں پر کچھ زائد گوشت کیوں نظر نہیں آتا۔ یہ اس کے کہ ان کے بھرے ہوئے پر رعب چہرے کا لحاظ کر کے دیکھنے والا قدرتی طورپر زیادہ گوشت اور بھری ہوئی پنڈلیوں کی توقع رکھتاتھا۔ ان کا رنگ گورا تھا اور جس میں سرخی کی جھلک آخری دنوں تک قائم رہی ۔ مرض کی حالت سے قطع نظر ان کے چہرے کی سرخی روشنی اور دھوپ میں خاص طورپر نمایاں ہو جاتی تھی۔ یہ گویا ان کے کشمیری خون کا اثر تھا۔ جو ان کے شفاف خدوخال سے چھپائے نہیں چھپتا تھا۔ اقبال اپنے سر کے بال سنوارنے میں نہ صرف یہ کرتے تھے کہ انہیں کنگھی سے سلجھا کر پیچھے ہٹا دیتے تھے (کم از کم میں نے ان کے بالوں میں کبھی مانگ نہیں دیکھی)۔ باتیںکرتے ہوئے کبھی اپنا ہاتھ اسی انداز سے پیچھے کی طرف بالوں میں پھیر لیتے تھے پیشانی اگرچہ کشادہ تھی مگر جہاں سر کے بال شروع ہوتے تھے وہاں کچھ تنگ تنگ بلکہ ایک گوشہ سا بناتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ابرو بہت گھنے تھے اور شاید اس لیے کچھ زیادہ گھنے معلوم ہوتے تھے کہ ان کے نیچے آنکھیں گہری بلکہ ذرا اندر کو دبی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ ان کی آنکھیں بڑی نہ تھیں مگر گہری اور ذہین آنکھیںضرور تھیں۔ جن کے اوپر گھنے ابروئوں کے چھجے جھکے ہوئے تھے۔ گفتگو کرتے وقت ان کی صرف دائیں آنکھ کھلی رہتی تھی۔ دوسری آنکھ کو نادانستہ طورپر ذرابند کرتے رہتے تھے دراصل ان کی یہ آنھک بینائی سے محروم تھی۔ اقبال ڈاڑھی عمر بھر منڈواتے رہے لیکن مونچھیں رکھتے تھے۔ مونچھیں رکھنے کے بھی کئی فیشن ہیں ہماری سوسائٹٰ میں بعض حضرات صرف اپنی زور دار مونچھوں کے دم خم سے پہچانے جاتے ہیں۔ اقبال کا تعلق اس گروہ سے نہیں تھا۔ ان کی مونچھیں ذرا چھدری تھیں۔ اور خاموش مگراسی خاموشی کے باوجود جان دار معلوم ہوتی تھیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کی مونچھوں میں اگر قیصر ولیم کی مونچھوں کی اکڑ نہیں تھی تو مسٹر چیمبرلین کی مونچھوں کا عجزو انکسار بھی نہیں تھا۔ یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ جو لوگ اقبال کے پاس بیٹھتے تھے ان پر اقبال کی شخصیت کا مجموعی طور پر کیا اثرہوتاتھا۔ ہم اپنی جان پہچان کے لوگوں میں سے ہر ایک شخص کے ساتھ بالعموم ایک نہ ایک خصوصیت منسوب کر دیتے ہیں جو ہمارے نزدیک اس کی شخصیت کی امتیازی نشانی بن جاتی ہے۔ اگر ایک شخص بالطبع خاموش ہے تو دوسرا بہت باتونی ہے ایک کاکام دن رات ہنسی دل لگی ہے تو دوسرا ذرا سی بات پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ غرض کہ کوئی نہ کوئی نمایاں صفت ایسی ہوتی ہے جسے ہم ا س کی شخصیت کا جوہر قرار دیتے ہیں۔ اقبال کو میںنے بارہا ہنستے ہوئے دیکھا ہے اورکبھی کبھی غصے کی حالت میں بھی۔ لیکن ان کی شخصیت کا محور نہ ہنسی تھی اور نہ غصہ۔ اصل میں ہر انسان کے مختلف اوقات میں بہت سی ذہنی اور جسمانی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی زندگی میں غور و فکر کو جومرکزی حیثیت حاصل تھی وہ کسی اور کیفیت کو کبھی حاصل نہ ہوئی۔ خاموشی اور گفتگو سکون اور اشتعال ہر رنگ میں ان کی اصل حیثیت ایک مفکر کی تھی۔ یہ ناممکن تھا کہ کوئی شخص تھوڑی دیر ان کے پاس بیٹھے اوریہ محسوس نہ کرے کہ اقبال کی پوری ہستی کی بنیاد غور و فکر پر قائم ہے۔ گفتگو کا ذرا وقفہ آیا اور اقبال کا ذہن ایک جست میں کائنات کی حدوں کو عبور کر کے وہاں جا پہنچا جہاں ہمارا تمام شور و شعب قدرت کے سرمدی سکون میں گم ہو جاتا ہے اس وقت دیکھنے والے کو صرف ایک نظر بتا دیتی تھی کہ یہ اپنے آپ میں سمٹا ہو ا انسان سیاسی پلیٹ فارم کی تقریر شرربار اور منبر کے وعظ ستم اندوز کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ اس وقت اس کا پیکر خاک اسی عالم رنگ و بو میں موجود ہوتا لیکن اس کی روح ستاروں کے نور سے الجھتی ہوئی پاتال کے اندھرے سے ٹکراتی ہوئی کسی نئی دنیا میں جا نکلتی مگر اقبال کی اس حیات فکری کا ایک پہلو اوربھی تھا اپنے ذہن کی اس کیفیت کی وجہ سے اقبال عام انسانی تعلقات سے بے نیاز تھے اپنے ملنے والوں سے ان کا تعلق معاشرتی تعلق نہیں تھا فلسفیانہ تھا۔ میں برسوں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا لیکن مجھے پورے عجز کے ساتھ اعتراف ہے کہ انہیں مجھ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا۔ میں تو خیر ایک عقیدت مند کی حیثیت سے ان کے پاس جاتا تھا مگر ان کے مقربین بھی ان کے دلی تعلق سے غالباً محروم تھے۔ جب اقبال خلوص اور گرم جوشی سے بات کرتے تھے تو اس کے لیے نہیں کہ ان کا مخاطب اس اخلاص کا مستحق ہوتا بلکہ اس لیے کہ وہ تمام جوش اور خلوص انہیں اپنے اس خیال کے متعلق محسوس ہوتا تھا جس کے اظہار سے انہیں اس وقت غرض ہوتی تھی۔ جن لوگوں سے اقبال بے تکلف تھے وہ لوگ بھی روحانی طور پر ان کے لیے اشخاص نہیں تھے بلکہ محض چند کھونٹیاں جن پر مختلف قسم کے خیالات بالکل مناسب طور پر لٹکائے جا سکتے تھے۔ اقبال اس معاملے میں ہمیشہ ہی تنہا اور آزاد رہے۔ روح کی اس تنہائی کے باوجود اقبال کو ایک مختصر حلقے کی گفتگو اور وہاں اپنے خیالات کے اظہار میں خاص لطف آتا تھا۔ وہ خود بھی خاموش رہ کر دوسروں کی بات سن سکتے تھے اور انہیں باتونی کہنا تو کسی طرح بھی درست نہیں ہو گا۔ لیکن مختلف سوالات کے جواب میں اپنی تشریحات پیش کرتے ہوئے جو لذت انہیںملتی تھی وہ ہر شخص پر ظاہر تھی۔ دراصل ان کی فطرت مشرقی وضع کے پرانے استاد کی فطرت تھی۔ جس کا محبوب ترین مشغلہ اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھ کر بات بات میں نکتے پیدا کرنا تھا۔ آج وہ شمع خاموش ہے اور وہ محفل باقی نہیں رہی لیکن ہمارا تخیل اس مٹتی ہوئی تصویر کو ایک بار پھر زندہ کر سکتا ہے۔ آئیے پھر ایک مرتبہ ڈاکٹر اقبال سے ملتے چلیں۔ میکلوڈ روڈ سے مڑتے ہی ڈاکٹر صاحب اپنی کوٹھی کے برآمدے میں آرام کرسی پر بے تکلفی سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اگر سردی کا موسم ہے تو ڈاکٹر صاحب قمیص اور شلوار میں ملبوس ایک بادامی دھسہ اوڑھے ہوئے ہیں اگر گرمی ہے تو قمیص کے ساتھ ایک تہبند ہے اور قمیص کے بجائے بھی کئی مرتبہ صرف بنیان ہی ہے آرام کرسی پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے پائوں کے بے حد سفید تلوے ہاتھ سے سہلا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی آرام کرسی کے برابر ایک حقہ پڑا ہے۔ چلم بجھ جاتی ہے تو ایک ایسے انداز میں جو کبھی نہیں بدلا آواز دیتے ہیں علی بخش! اتنے میں ہم برآمدے کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہیں اور انہیں سلام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر کے لیے ادھر توجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں آئو جی…صاحب! جس شخص کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اس کا خیر مقدم اسی مختصر جملے سے کرتے ہیں۔ جس کو نہیں پہچانتے اس کے متعلق کبھی نہیںپوچھتے کہ یہ کون ہے۔ ناواقفوں کے لیے یہی کافی ہے کہ سلام کریں اور بیٹھ جائیں۔ اس کے بعد تکلف برطرف وہ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو میں پوری آزادی سے شامل ہوجاتے ہیں۔ اب باتیں شروع ہوتی ہیں اور علم و حکمت کا چشمہ ابلنے لگتاہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دماغ سے ہر رنگ کی موج اٹھتی ہے اور اجنبی چہروں کا سامنا بھی ان کی گفتگو کی بے باک روانی کو تکلف کی کسی زنجیر کا پابند نہیں کر سکتا۔ ان کی تشریحات استادانہ ہیں۔ وہ سوالات کا جواب دینے سے نہیں تھکتے۔ بلکہ ایک ایک نکتہ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ کچھ سمجھاتے ہیں تو صرف ہاتھ کی ایک انگلی ہی نہیں اٹھاتے بلکہ داہنے ہاتھ کا پورا پنجہ حرکت میں آتا ہے۔ گفتگو ہمیشہ پنجابی میں ہوتی ہے۔ کبھی کسی علمی نکتے کا بیان میں انگریزی کے دو ایک جملے بھی بے تکلف استعمال کر جاتے ہیں۔ اردو میں صرف اس وقت بات کرتے ہیں جب بیرون پنجاب سے کوئی صاحب شریک مجلس ہوں مذہب اور سیاست دو ایسے مضمون ہیں جن سے بحث کرتے ہوئے کبھی کبھی ان کا لہجہ پر جوش ہو جاتاہے۔ جوں ہی کوئی ایسا موقع آتا ہے ڈاکٹر صاحب کرسی پر ذرا سیدھے ہو کر بیٹھتے ہیں۔ یہ میکلوڈ روڈ کے دنوں کی کیفیت ہے۔ میو روڑ کی کوٹھی کے زمانے میں امراض نے آ گھیرا ہے۔ بستر پر لیتے رہتے ہیں اور ملاقاتیوں کو خواب گاہ میں ہی بلا لیتے ہیں۔ اسی حالت میں گھنٹوں تک پر لطف باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جوں ہی گفتگو میں ذرا نرمی پیدا ہوئی ڈاکٹر صاحب ایک دم اٹھ کر بسر پر بیٹھ گئے اور پھر اس وقت تک نہیں لیٹے جب تک وہ بات ختم نہیں ہو گئی۔ اب ہمیں ان کے پاس بیٹھے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ہے۔ ہمارے سوالات ختم ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا ذہن بھی ایک اور پرواز کے لیے ذرا دم لیتا ہے۔ دونوں طرف خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب ایک اور ہی عالم میں ہیں وہ کمرے میں موجود ہیں مگر پھر بھی موجود نہیں ہیں۔ ان کی ظاہر کی آنکھیں کچھ بند کچھ کھلی ہیں لیکن باطن کی آنکھ کسی اور سمت میں سراپا نگاہ ہو رہی ہے۔ اسی کیفیت میں کچھ وقت گزر جاتا ہے۔ ان کے خیالات کی موجیں انہیںبہاتی ہوئی کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ آخر کار حواس ظاہری کا دیدبان دفعتہ واپسی کا اشارہ کرتا ہے اور ان کا سفینہ خیال گہرے سمندروں کے سفر کے بعد پھر زندگی کے پرانے ساحلوں کی طرف رخ پھیرتاہے ۔ اس وقت وہ اپنا سر تھوڑا سا اوپر اٹھاتے ہیں اور انکے منہ سے کبھی یا اللہ کبھی فقط ہوں! کی ہلکی سی آواز نکلتی ہے۔ یہ آواز ا س با ت کی علامت ہے کہ جہاز ساحل پر آ پہنچا ہے۔ اوراس کے لنگر کا قلابہ پھر ایک بار عالم اسباب کی مضبوط زمین میں پیوست ہو گیا ہے۔ اس قسم کے وقفوں کے بعد بالعموم ان کی یہی لمبی اور پرسکون ہوں! ان کے ذہن کی دور دراز اڑان سے ان کی بازگشت کی نقیب ہوتی ہے پھر اسی پہلے انہماک سے باتیں شروع ہو جاتی ہیں تاآنکہ سہ پہرکے سایے ڈھل کر شام میں غائب ہو جاتے ہیں اور سورج غروب ہو جاتاہے۔ آخر ہم اپنی کرسیوں پر ایک بے معنی سی جنبش کرتے ہیں اورپھر اٹھ کر اجازت چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اچھا چلتے ہیں آپ! اور پھر ہمارے سلام کا جواب ہاتھ اٹھا کر دیتے ہیں۔ یہ ان کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جب رحلت کی تو اہل لاہور کو ایک ایسا شخصی نقصان پہنچا کہ جس کی تلافی خود ڈاکتر صاحب کا کلام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے انتقال کے موقع پر میں اتفاق سے لاہور میں موجود نہیں تھا۔ میرے ایک دوست نے جن کے ساتھ مل کرمیں بارہا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا مجھے ایک خط لکھا جس میں لاہور کی زبان بن کر انہوںنے وہ جذبات قلم بند کیے جو بہت سے دلوں کو بے تاب کر رہے تھے مگر لب تک نہیں آ سکے تھے۔ انہوںنے لکھا: ڈاکٹر صاحب چل بسے افسوس کہ ہمیں آخری دنوں میں ان کا نیاز حاصل نہ ہو سکا۔ یہ حسر ت ہمیشہ میرے دل میں رہے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال مرا نہیں کیونکہ اس کا کلام اسے زندہ جاوید بنانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبا ل کے کلام میں ا س کی مکمل شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی نظم تو انسانی زندگی کی اعلیٰ ترین اقدار کے لیے موزوں (یعنی پر معنی اور متین) زبان میں بحث کرتی ہے لیکن خود اقبال کی شخصیت کا ایک اور نہایت دل چسپ پہلو بھی تھا یعنی اس کی خوش کلامی جو بعض دفعہ بذلہ سنجی سے جاملتی تھی۔ اس کی نظم میں تو اس کا تخیل عرش بریں کو اپنی بلند پروازی کی پہلی سیڑھی سمجھتا ہے لیکن کیا ہم نے اس کو اپنی زندگی میں بے عملوں اور وہم پرستوں سے انہی کی سطح پر نایت انہماک سے بحثیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ اس کے کلام سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ’’دانائے راز‘‘ سے ہم سخن ہونا مجھ جیسے ہیچ مداں کے بس کی بات نہ تھی لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں نے گھنٹوں اس کی صحبت میں بصیرت افروز باتیں سنتے ہوئے گزار دیے مگر اس اللہ کے بندے نے کبھی ایک دفعہ بھی اشارے یا کنایے سے یہ جتانے کی کوشش نہیں کی کہ بھئی تمہاری تنگ نظری وبال جان ہو رہی ہے۔ اب ختم بھی کرو۔ الغرض وہ اقبال جو لوگوں سے گویا پکار پکار کر کہتا تھا کہ آئو میرے علم و فضل کے خزانے کھلے پڑے ہیںجھولیاں بھر بھر کے لے جائو مرگیا ہے۔ اقبال کا کلام برحق لیکن ہم اپنے بظاہر لاینحل مسئلوں کو اب کس کے پاس لے جائیں گے کہ وہ ایک جنبش لب سے مشکل سے مشکل گتھی کو سلجھا دے۔ یہ اقبال مر گیا ہے ۔ افسوس! علامہ اقبال کی یاد ان کی رحلت کے بعد (۱۹۳۸ئ) یہ مضمون ان تاثرات کا مرقع ہے جو علامہ اقبال کی وفات کے معاً بعد قوم کے سواد اعظم پر طاری ہوئے۔ مجھے اس کے لکھنے کی تحریک اس بنا پر ہوئی تھی کہ جولائی ۱۹۳۸ء میں پروفیسر محمد طاہر فاروقی نے آگرے سے فرمائش کی کہ میں ان کی کتاب ’’سیرت اقبال‘‘ کا دیباچہ لکھوں۔ چونکہ اس دیباچے کا بڑا حصہ اقبال کے شخصی کمالات کے بیان پر مشتمل ہے اس لیے میں اسے بہ تغیر خفیف ا س کتاب کے باب شخصیت میں جگہ دے رہا ہوں۔ دنیا کی تاریخ میں شایدہی کوئی باب ایسا ملے جو کسی مٹی ہوئی ملت کے دوبارہ عروج کی داستان سناتاہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ افراد کی طرح اقوام کو بھی ایک ہی دفعہ زندگی عطا ہوتی ہے۔ لیکن تباہ ہو جانے والی قوموں میں بہ لحاظ بربادی فرق مدارج ہے۔ بعض تو قدیم یونانیوں او ر بابلیوں کی طرح یوں نابود ہو ئیں کہ ان کا سراغ اب صرف تاریخ داں کے حافظے ہی میں مل سکتا ہے۔ لیکن بعض دوسری موت و حیات کے اس درمیانی برزخ میں معلق ہو گئیں جہاں اگرچہ وہ عملاً مردہ ہیں مگر ان کے احیائے ثانی کا کم از کم منطقی امکان ضرور موجود ہے۔ اسی زمرے میں بدنصیب ہندوستان کی بسنے والی دونوں قوموں یعنی مسلمانوں اور ہندوئوں کا شمار ہے۔ اس قسم کی نیم مردہ اقوام میں زندگی کی طرف عود کرنے کا ایک امید افزا اشاریہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذی مرتبت اکابر کی تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور ان کی قدر و منزلت کا صحیح معیار قائم کرنے کے لیے مضطرب ہوں۔ کچھ عرصے سے ہماری قوم میں حرکت کے جو آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کا ایک ثبوت اس وقت ملا جب علامہ اقبال کی وفات پر ہر چہار جانب سے نہ صرف رنج و الم کی لہر دوڑ گئی بلکہ ان کے افادات سے کامل واقفیت حاصل کرنے کا شو ق انتہا کو پہنچ گیا۔ یہ کوششیں اس لحاظ سے بہت مبارک ہیں کہ ایسے عظیم الشان شاعر اور حکیم امت کی تعلیمات کی شرح کر کے جمہوریت ملک کو ان سے روشناس کرانا دوسرے لفظوں میں قوم کو زندگی اور اقبال وسعادت کی منزل کی طرف دعوت دینا ہے۔ لیکن اس افادی پہلو کے اعتبار سے اقبال کے کلام کی ایک خصوصیت ایسی ہے کہ جو اسے تمام دوسرے شعراء سے ممتاز کر دیتی ہے۔ بلاد مشرق میں شاعری کو پیغمبر ی سے جو روایتی نسبت حاصل رہی ہے اس کا مظہر اتم ہندوستان میں یقینا علامہ اقبال کی ذات گرامی صفات تھی۔ پیغمبر محض شعائر اخلق کا قائم کرنے ولا ہی نہیں بلکہ انسان کی تمام حیات عمرانی کا مئوسس ہوتاہے۔ اگر وہ کسی جامع شریعت کا حامل ہے تو قوم کی زندگی کے ہر شعبے کے لیے اس کے احکام موجود ہونے چاہئیں۔ اقبال کی حکمت اسلامیہ کا امتیاز یہی ہے کہ وہ تمام قومی و معاشرتی اداروں کو محیط ہے۔ اقبال کا قول قرآن حکیم کے قائم کیے ہوئے نظام حیات کی تفسیر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی والہانہ ترجمانی ہے۔ گرامی مرحوم نے کیا خوب فرمایاہے: در دیدہ معنی نگہان حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتوان گفت اقبال کا کلام بہ اعتبار شاعری قرن اول کے بہترین محرکات و عوامل کا گنجینہ دار اور بہ لحاظ پیغمبری ہماری آنے والی زندگی کی شاہراہوں پر چمکنے والا نور حقیقت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری نیم مردہ قوم کی رگوں میں ایک مدت کے بعد اقبال کی آتش نفسی نے خون حیات دوڑایا ہے اسی لحاظ سے یہ بہت ضروری ہے۔ کہ اقبال کی محض فنی حیثیت پر بحث کرنے کے بجائے اس کی پیغمبرانہ صفت کو اور زیادہ نمایاں کیاجائے۔ میرا خیا ل ہے کہ اگر ہم اقبال کو صحیح جذب و شوق سے پڑھیں تو اس کی فنی آرائشیں خود بخود نظر انداز ہونے لگتی ہیں۔ اور اس کا پیغمبرانہ اضطراب ہماری توجہ کا مرکز بن جاتاہے۔ اقبال کامتن پیغمبری اور حاشیہ شاعری ہے ہم اسے دائود سلیمانؑ کا شریک محفل نہیں دیکھتے وہ موسیٰؑ عمرانؑ کی وادی میں ایک شعلہ نور کا تعاقب کرتا نظر آتا ہے۔ پچھے دنوں اقبال کی وفات کے بعد اخباروں میں بعض ایسے خطوط شائع ہوئے جو معاصرین نے مختلف موقعوں پر اقبال کو لکھے تھے۔ ان میں سے ایک خط بہت اونچے پائے کے بزرگ کی طرف سے تھا۔ یہ خط اقبال کے کلام کی تحسین سے لبریز تھا۔ لیکن ا س تحسین کا بیشتر حصہ اقبال کے حسن تراکیب اور ندرت تشبیہات پر آفریں کہنے میںصرف ہوا تھا۔ ان قابل احرام بزرگ کا مرتبہ مجھ جیسے عقیدت مندوں کی تنقید سے بہت بلند ہے۔ لیکن باایں ہمہ مجھے ان کے نقطہ نگاہ کو دیکھ کر افسوس ہوا اوریقین ہے کہ جب انہوںنے وہ خط لکھا کم از کم اس وقت ان کے ذہن میںاسلام اور مرق کے لیے اقبال کی قدر و قیمت کا کوئی صحیح تصور نہ تھا۔ بہ خوں آلودہ دست و تیغ غازی ماندہ بے تحسین تو اول زیب اسپ و زینت برگستواں بینی! لیکن اقبا ل محض ایک فلسفی شاعر اور حکیم ہی نہیں تھا۔ ا س کی شخصیت کے اور بھی پہلو تھے جنہیں بال جبریل یا پیام مشرق میں جگہ نہیں مل سکی۔ شاید یہ ممکن بھی نہ تھا۔ ظرافت و بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی و بزم آرائی پیغمبری کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔ اقبال کو صرف اس کے کلام میں دیکھیے تو وہ منبر پر ہاتھ میں عصا تھامے ہاتھ میں صور اسرافیل لیے کھڑا نظر آتا ہے۔ خوش نصیب تھے وہ بے شمار لو گ جنہیں کبھی اقبال کی صحبت میں چند گھڑیاں گزارنے کا موقع ملا۔ اس قسم کی صحبتوں میں انہوںنے دیکھا کہ اقبال بے تکلفی سے کرتے اور تہبند میں ملبوس آرام کرسی پر پائوں سمیٹے بیٹھاتھا۔ حقے کی نے منہ میں لیے ہوئے ہر مقامی و آفاقی محدود و نامحدود مسئلے پر ایک بے نظیر ذہن اور برق وش فراست کی رنگ بہ رنگ روشنیاں ڈالتا چلا جاتا ہے۔ لاہور کے پہلوان اکھاڑوںسے اٹھ کر چلے آتے ہیں تو دنگل کے افسانے اور کشتی کے دائوں پیچ اقبال کی مبصرانہ گفتگو کا موضود بن جاتے ۔ اتنے میں کسی صاحب علم بزرگ کی موجودگی کے باعث باتوں کا رخ ذرا پلٹا تو فلسفہ مغرب کی جدید ترین تحقیقات پر اقبال نے اس انہماک سے گفتگو شروع کر دی گویا یورپی فلسفے کی موشگافیوں کے سوا اسے اورکسی چیز سے کا م ہی نہیں ہے۔ مختلف کھانوں کا ذکر چھڑ گیا تو ہسپانیہ کے ماکولات افغانستان کے پلائو اور لکھنو کے دستر خوانوں کے لذائذ سبھی زیر بحث آئے۔ بڑے بڑے سیاست دان حکومت کے ایوانوں سے اٹھ کر آتے بڑے بڑے مدبر تھوڑی دیر مکالمت میںاپنے مخصوص مسائل کے متعلق ایک نئی بصیرت لے کر جاتے۔ کالجوں کے نوجوان طالب علم آتے تو اس انداز سے کلام اللہ کی تفسیر اور فلسفہ اسلام کی شرح ہوتی کہ خودا ن کی پیشانیاں نور ایمان سے جگمگانے لگتیں۔ غرض گفتگو کا کوئی موضوع ایسا نہیں تھا کہ جس سے اقبال کو عمیق دلچسپی نہ ہو۔ جس قیامت خیز صبح کو سارا ہندوستان شاعر و حکیم اقبال کے لیے سوگوار تھا ا س دن مفلس لاہور اپنے ان خزانوں کو یاد کر کے پیٹ رہا تھا۔ جسے ایک فقیر راہ نشیں سر راہ گزار لٹایا کرتا تھا۔ اقبال اب اورنگ زیب کی مسجد کے زینے کے پاس سوتا ہے۔ ایک موقع پر اس نے خود کہاتھا کہ اسلامی فن تعمیر کے دور عروج کی خصوصیت اس کا جلا ل و جبروت ہے۔ اسی جلال و جبروت کی آخری جھلک مغلیہ فن تعمیر نے اورنگ زیب کی شاہی مسجد میں دکھائی یہی جلال و جبروت اقبال کی شاعری نے اپنے لیے پسند کیا اور جب شاعر کا جسد عنصری احباب و معتقدین کے کندھوں پر اپنے دنیوی مکان سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوا تو اس کی منزل مقصود شاہی مسجد کی دیوار کا سایہ تھا۔ بلاشبہ اقبال کے لیے ایسی ہی خواب گاہ موزوںتھی۔ اب ہر صبح عالمگیر کے تعمیر کیے ہوئے رفیع الشان مینار اپنی سنگ سرخ میں لپٹی ہوئی پرغرور صلابت کے ساتھ اس شخص کے مرقد پر فاتحہ خواں ہوتے ہیں جس کے کلام کی رفعت و جلال نے اسے ہمیشہ کے لیے ان کی ہمسائیگی کا حق دیا ہے۔ مسجد کے صحن کی پرشکوہ وسعت و عظمت مسجد کے زینے سے اتر کر اس تودہ خاک پر نثار ہونا چاہتی ہے۔ جس کی آغوش میں اقبال ہمیشہ کی نیند سو رہا ہے۔ جب اندھیرا ہو جاتا ہے اور سکوت شب کے طلسم سے لاہور کے کوچہ و بازار بتدریج مسحور ہونے لگتے ہیں تو مسجد کے طاق و محراب اور گنبد و مینار سے وہی تارانہ خاموش بلند ہوتا ہے جسے اقبال کے کان سب سے زیادہ پہچانتے ہیں۔ اقبال کی وفات پر لاہور کے ایک مقتدر انگریز افسر نے اقبال کے ایک عقیدت مند دوست سے کہا کہ تم نے ہندوستان کے آخری مسلمان کو سپرد خاک کر دیا۔ بے شک مگر مسلمان مرتا نہیں ہے اس کا اسلام اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے اور جس خا ک میں اس کی خاک ملتی ہے اس میں سے زندگی کی ہری بھری کونپل پھوٹتی ہے ۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کے ملفوظات کو جمع کرنے کی اہمیت (۱۹۴۹ئ) اسلامیہ کالج لاہور کے بعض اساتذہ اور طلبا کی کوشش و کاوش سے ۱۹۳۸ئ۔ ۱۹۳۹ء میں علامہ اقبال کے کچھ ملفوظات جمع ہوگئے اور مرزا محمود نظامی مرحوم نے انہیں ترتیب د کر سلیقے سے شائع کیا۔ مرحوم ہی کے ہاتھوں ۱۹۴۹ء میں ملفوظات کی طبع ثانی کا اہتمام ہوا جس کا دیباچہ میں نے لکھا۔ ذیل کا مضمون اسی مختصر دیباچے کا ایک حصہ ہے ۔ مشاہیر ادب کے ذاتی احوال و اقوال کی ایک جستجو ایک پرانا مشغلہ ہے۔ اس کے حق میں اور اس کے خلاف دونوں طرف کی رائیں موجود ہیںَ لیکن ان مخالف و موافق آراء سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ عملاً سبھی مشاہیر کے حالات کے متعلق مدح یا قدح کی نیت سے خاصی چھان بین کی جاتی ہے۔ اس تجسس کے نتائج بعض صورتوں میں بہت اہم ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی اس حقیقت ایک دلچسپ تفریح سے زیادہ نہیں ہوتی۔ دوسری بالخصوص ان شعرا کے معاملے میں پیش آتی ہے۔ جن کے قلم کی نازک تراش اور ہمہ رنگ حرکت ان کے کلام میں ان کی شخصیت کی ایسی کامل تصویر چھوڑ جاتی ہے کہ ان کی شخصی زندگی کے کرید سے کوئی نیا انکشاف نہیںہوتا۔ مثلاً شیکسپئر یا غالب کے ذاتی کوائف اور لطائف ان کی شاعری پر کوئی خاص اضافہ نہیں کرتے۔ ان کا کلام دیکھیے تو ان کی شخصیت کے چھوٹے اور بڑے خفی اور جلی سبھی پہلو شعری اشارات کی روشنی میں ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر ہمیں یہ معلوم بھی ہو جائے کہ مرزا پان نہیں کھاتے تھے یا شیکسپئر نے اپنی وصیت میں صرف دوم درجے کا ایک پلنگ اپنی بیوی کے لیے چھوڑا تھا تو دراصل ہماری معلومات میں کوئی اہم اضافہ نہیں ہوتا۔ اقبال کی کیفیت اس معاملے میں الگ ہے۔ ان کی شاعری کے موضوعات عظیم الشان اور نامحدود ہیں لیکن پھر بھی ان پر شخصیت کا ہر رنگ منعکس نہیں ہوتا۔ بنیادی طور پر وہ ایک مبلغ تھے اور ان کی شخصیت کا یہی پہلو ان کے کلام میں نمایاں ہے۔ یہ وہ پہلو ہے کہ جو ان کی بلندی فکر ان کے خلوص جذبات ان کے جوش ایمان ان کی چبھتی ہوئی طنز میں ہر جگہ جھلکتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف ملتا رہا وہ جانتے ہیں کہ ان چار عناصر کے علاوہ مرحوم کی فطرت کی تعمیر میں کچھ اور اثرات بھی شامل تھے۔ ان کا لطیف مزاح جو ان کے شاعرانہ کلام میں نظر نہیںآتا ان کی شخصی زندگی کا ایک نمایاںپہلو تھا۔ اس طرح وہ محدود و مجبور مگر مضطرب بشریت بھی صرف اقبال کے مکالمات اور ذاتی احوال میں اپنی جھلک دکھاتی تھی۔ جس کے پایے پر شاعر اسلام اور حکیم الامت کی مطلق انا کا منبر قائم تھا یہی وہ منبر تھا جس سے اقبال اور اس کے نصب العینی مرد مومن کی ہم ضمیر آوازیں ایک آواز بن کر گونجتی تھیں۔ ملفوظات اقبال کے اس انکشافی پہلو سے قطع نظر ان تفصیلات میں اقبال کے بنیادی پیغام کے بعض پہلوئوں کی عجیب و غریب تائید ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اپنی تحریروں میں پیغمبر امید تھے۔ جب انہیں ذاتی زندگی کے تاریک تر لمحات بھی امید اور ایمان کی روشنی سے منور نظر آتے ہیں تو ان کے ملفوظات پڑھنے والے کو طبیعت میں ایک خاص انبساط محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ان کی مفکرانہ شان جس تکرار اور تواتر سے ان کی عام گفتگو میں نمودار ہوتی ہے وہ اہل ذوق کے لیے بجائے خود ایک سبق ہے۔ ان کی جذباتی زندگی میں اتنی وسعت اور پاکیزگی تھی کہ مجاز اور حقیقت یہاں متے تھے اورمل کر ایک ہو جاتے تھے۔ ان کی شاعری کی روح اول و آخر تبلیغ تھی اور ان سے ملنے والے ہمیشہ یہ محصوس کرتے تھے کہ جس شخص کی حضور میں وہ پہنچے ہیں وہ پیدائشی طورپر ایک معلم ہے۔ غرض علامہ اقبال کے ذاتی کوائف کا بیان کئی لحاظ سے ضروری تھا او ر اب بھی ضروری ہے اس سلسلے میں موجودہ نسل کی بالخصوص اہل لاہور کی ذمہ دار بہت زیادہ ہے۔ اس نسل کے گزر جانے کے بعد علامہ علیہ الرحمتہ سے متعلق یادداشتوں کا وہ سرمایہ کالعدم ہو جائے گا جو اس وقت تک بیسیوں ذہنوں میںمحفوظ ہے۔ علامہ اقبال کی ادا شناسی کا ایک ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے ملاقاتیوں کے حلقے میں ہر شخص سے اس کے انفرادی ذوق کے مطابق گفتگو فرماتے تھے۔ کاش اقبال کی محفل میں باریاب ہونے والے اصحاب اپنی اپنی یادداشتیں حوالہ قلم کرتے! ان یادداشتوں سے نہ صرف اقبال کی شخصی وسعت ذوق کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ اقبال کے حوالے سے یہ محبت آمیز کاوز ذہن انسانی کی رنگا رنگی کا ایک عجبی و غریب نقش قائم کر جاتی۔ ٭٭٭ کچھ یادیں کچھ ملفوظات یہ باب ۱۹۳۸ئ۔۱۹۳۹ء میں قلم بند ہوا۔ مگر یادداشتوں کی مدد سے اس میں بعض اجزاء کا اضافہ ۱۹۷۲ء میں کیا گیا واضح رہے کہ علامہ اقبال کے جین حیات میں ہم لوگ انہیں حاضر و غائب ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ ہی کہتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذیل کی تحریر میں وہ کہیں ’’حضرت علامہ ‘‘ ہیں اور کہیں ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ ۔ یہ مضمون پہلے کہیں شائع نہیں ہوا۔ کسی بڑے آدمی کا ہمارا ہم عصر ہونا ہمارے ذاتی کمال کا نتیجہ نہیںہوتا‘ پھر بھی ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جب وہ عظیم انسان ہمارے درمیان موجود تھا۔ علامہ اقبال کے وجود ذی وجود کے طفیل ایسا ہی فخر ہزاروں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مجھے بھی حاصل ہے۔ اقبا ل کو سب سے پہلے میں نے ان کی جوانی کے زمانے میں دیکھا۔ یہ میرے بچپن کے دن تھے۔ اس لیے تصویر کے خدوخال بہت واضح نہیں ہیں۔ لاہور کی میکلوڈ روڈ پر اس وقت کے میلا رام کے تالاب کے سامنے ایک کوٹھی تھی جس میں ان دنوں مولانا ظفر علی خان مقیم تھے۔ یہ کوٹھی اب بھی موجود ہے اگرچہ میلا رام کے تالاب کی جگہ اب ہوٹل اور بسوں کے اڈے کھڑے ہیں۔ میرے بچپن کا کچھ حصہ اسی مکان میںگزر ا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ اقبال کو مولانا ظفر علی خاں کے ہاں دوپہر کے کھانے پر مدعو تھے ۔ میں نے یہاں پہلی مرتبہ ایک نظر دیکھا۔ شدید گرمی کی اس دوپہر کی بعض کیفیتیں میرے حافظے پر نقش ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ سامنے کے کمرے میں ایک بڑا آدمی طعام و کلام میں مصروف ہے لیکن مجھے اس کمرے کے قریب جانے کی اجازت نہ تھی۔ تاہم اپنے بچپن کے صدقے میں مجھے کچھ آزادیاں بھی میسر تھیں۔ میں اس کمرے کے دروازے کے بالکل سامنے ذرا فاصلے پر دھوپ میں کھڑا تھا۔ اور عہد طفلی کی پوری بے تکلفی سے ٹکٹکی باندھے اس بڑے آدمی کی حرکتوں کا معائنہ کر رہا تھا۔ جو بات میں اب تک نہیں بھولا وہ یہ ہے کہ اقبال اس وقت ننگے سر فرز پر بیٹھے تھے۔ ایک سفید برا ق قمیص اور اتنی براق ہی شلوار میں ملبوس تھے۔ میں نے دیکھا کہ ہنسی مذاق کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال کا ہنستا ہوا سرخ و سفید چہرہ سنجیدگی سے کوسوں دور ہے۔ لطیفوں پر قہقہے گونج رہے ہیں اور بار بار اقبال ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔ اقبال کی دوسری تصویر جو میرے حافظے پر ابھرتی ہے وہ بھی اسی زمانے کے قریب کی ہے۔ لاہورکے موچی دروازے کے باغ میں(اس حصہ باغ میں جو دروازے سے باہر نلتے ہوئے ائیں ہاتھ پڑتا ہے) مولانا ظفر علی خاں کے اہتمام ایک جلسہ عام ہو رہا تھا۔ علامہ اقبال سٹیج پر بیٹھے تھے مگر انہیں اہل لاہور سے خطاب کرنے میں تامل تھا۔ مولانا ظفر علی خاں انہیں ہاتھ پکڑ پکڑ کر اٹھاتے تھے اور ساتھ سااتھ اہل جلسہ کو بھی ترغیب دیتے جاتے تھے کہ اپنے نعروں سے اقبال کو اٹھنے پر مجبور کر دیں میرا خیال ہے کہ اس دن اقبال کی ہر جنبش کی قیمت کے طور پر جنگ بلقان کے لیے اچھا خاصا چندہ جمع ہو گیا تھا بہرحال آخر کار اقبال اٹھے اور انہوںنے اپنی ایک نظم اہل جلسہ کو سنائی ۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ یہ کون سی نظ تھی مگر اپنے موجودہ علم کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان کی مشہور نظم ’’جواب شکوہ‘‘ تھی۔ اس واقعے کے دو اڑھائی سال کے بعد (شاید ۱۹۱۳ئیا ۱۹۱۴ء میں) میں ںے ایک اور جلسے میں علامہ اقبال اورمولانا ظفر علی خان کو یک جا دیکھا۔ یہ جلسہ بھی لاہور کے موچی دروازے کے باغ میں (مگر اس حصہ باغ میں جو دروازے سے نکل کر سیدھے ہاتھ واع ہے) ایک خاص ضرورت سے منعقد ہوا تھا۔ بات یہ ہوئی کہ ان دنوں قادیان کی احمدی جماعت نے ایک تبلیغی وفد غالباً مفتی محمد صادق کی سرکردگی میں امریکا بھیجا تھا۔ امریکی حکومت نے اس وفد کی تبلیغی سرگرمیوںکو روک دیا اور کہا کہ امریکہ میں اسلام کی تبلیغ جائز نہیں ہے کیونکہ یہ مذہب تعدد ازدواج کو روا رکھتا ہے۔ یہ بات مسلمانوں کو قدرتہً ناگوار گزری اور شاید لاہور کی احمدی جماعت کی طرف سے تحریک ہوئی کہ اس سلسلے میں احتجاج کے طور پر ایک جلسہ ہونا چاہیے۔ بہرحال تحریک خواہ کسی طر ف سے ہوئی ہو۔ لاہور کی احمدی جماعت کے سرکردہ ارکان مثلاً مولوی محمد علی‘ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ وغیرھم ممتاز حیثیت سے جلسے میں شریک تھے۔ اگرچہ جلسے کے مہتمم مولانا ظفر علی خاں اور صدر علامہ اقبال تھے۔ میرا مقصوداس وقت ان تفصیلات کا بیان نہیں ہے کہ کس طرح جلسے کے ایک گوشے سے بڑی پرزور آواز بلند ہوئی(مولوی تاج الدین احمد مجددی و نقشبندی کی آواز جن کے ہاتھ میں ا س وقت ایک عصا تھا) کہ ’ۃم مرزائیوں کی حمایت میں کوئی قرارداد منظور نہیں کریں گے‘‘ کس طرح عام میں اتنا ہنگامہ پیداہوا کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جلسہ گاہ کو چھوڑکر بھاگنے لگی۔ کس طرح مولانا ظفر علی خان نے ایک بے قابو ہجوم کو پھر ٹھیک کیا اور اس سے وہی قرارداد منظور کرائی جس کے خلاف بطور احتجاج اس نے جلسہ گاہ سے اٹھ کر جانا ضروری سمجھا تھا۔ یہاں جو واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ا س دن اقبال کے عالمانہ انداز گفتو اور پرسکون طبیعت کا میرے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ جلسے کے بے قابو ہا جانے پر علامہ اقبال کی فلسفیانہ بے نیازی اور سکون خاطر اور ادھر مولانا ظفر علی خاں کی طرف سے زور خطابت اور عوامی قیادت کے تمام گروں کا استعمال ایک عجیب شان تقابل دکھا رہا تھا ۔ علامہ اقبال نے اس جلسے میں جو تقریر کی اس میں انہوںنے فرمایا کہ تعدد ازدواج فی نفسہ کوئی عیب نہیں۔ اور پھر ا س کا رواج کچھ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بعض دوسری قوموں میں بھی دو یا دو سے زیادہ شادیاں کرنا بالکل جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے مارمن فرقے کا ذکر کیا اور ہندو قوم کا بھی نام لیا۔ یہ ذکر حاضرین جلسہ میں سے کسی ہندو صاحب کو شدید ناگوار گزرا۔ انہوںنے کاغذ کے ایک پرچے پر کچھ فقرے لکھ کر صدر جلسہ کو بھیجے جس کا مفہوم یہ تھا کہ آپ نے ہندوئوں کے تعدد ازدواج کے رائج ہو نے پر جو کچھ کہا ہے وہ جھوٹ ہے مجھے آج تک یاد ہے کہ اس کا جواب دینے کے لیے جب علامہ اقبال کھڑے ہوئے تو ان کا لب و لہجہ اور الفاظ ہر قسم کے غصے یا طنز یا تعریض کے شائبے سے پاک اور ایک بڑے عالم کی شان کے عین مطابق تھے۔ آپ نے معترض کا بھیجا ہوا پرچہ حاضرین جلسہ کی اطلاع کے لیے پڑھا اور فرمایا کہ میں نے جو کچھ کہا ار آپ اسے غلط بھی سمجھتے ہیں تب بھی آپ کو میری نیت اور راستی میں شبہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق تعدد ازداج ایک مستحسن (۳) چیز ہے۔ اگر میں نے کہا کہ ہندوئوں میں بھی تعددازدوان کا رواج ہے تو میں نے اپنے عقیدے کے مطابق ایک اچھی چیز آپ سے منسوب کی نہ کہ بری۔ مجے یاد ہے کہ اس تشریح کے بعد ان صاحب کی طرف سے اور کوئی اعتراض نہ ہوا۔ یہ قصہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اس وقت پیش آیا جب میں اسلامیہ ہائی سکول کی پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اس کے بعد میں چار سال کے لیے وزیر آباد کے مشن ہائی سکول میں منتقل ہو گیا۔ اورپھر ۱۹۱۸ء کے اواخر میں دوبارہ لاہور آ گیا۔ اب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور سن شعور کو پہنچ چکا تھا شعر سمجھنے کی کچھ شد بد ہو گئی تھی۔ میں واپس لاہور آیا توظاہر ہے کہ بااقبال لاہور میںواپس آیا یعنی یہاں مجھے کسی نہ کسی رہ گزر پر یا جلسہ عام میں علامہ اقبالکی جھلک ضرور نظر آ جاتی تھی۔ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو ۱۹۲۰ء ۔ اور ۱۹۲۲ء کے درمیانی عرصے میں (اگچہ صحیح طور پر نہیں کہہ سکتا کہ کس سال) مجھے ایک بڑے جلسے میں علامہ اقبال کی زبانی ان کی ایک اور نظم سننے کا موقع ملا۔ یہ نظم مجھے خوب یاد ہے۔ اسلامیہ کالج کے میدان میں انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ ہو رہا تھا۔ گرامی مرحوم بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ اقبال نے اپنی نظم ترنم سے سنائی یہ وہ مشہور نظم تھی جس کا پہلا شعر ہے: ستیزہ کار رہا ہے از سے تا امروز چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی جس لے میں اقبال نے یہ نظم پڑھی وہ اب تک کانوں میںگونج رہی ہے ۔ اسی طرح وہ نظم بھی جس کا پہلا شعر ہے: اخبار میں یہ لکھتا ہے لندن کا پادری ہم کو نہیں ہے مذہب اسلام سے عناد میں نے اسی زمانے میں خود اقبال کی زبانی انجمن حمایت اسلام کے کسی جلسے میں سنی یہ نظم انہوںنے گاکر نہیں تحت اللفظ پڑھی تھی۔ اب تک میں اقبال کو ایک دور کے تماشائی اور عقیدت مندکی حیثیت سے جانتا تھا۔ بلکہ اس کے بعد کئی برس تک لاہور سے باہر رنے کے باعث میں اس دور کے نظارے سے بھی محروم رہا۔ آخر اکتوبر ۱۹۲۶ء میں ایک دن وہ بھی آیا کہ میں پہلی مرتبہ بطور خاص علامہ اقبال کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس حاضریکی تحریک ایک ذاتی ضرورت سے ہوئی۔ میں نے بی اے کی سند حیدر آباد دکن کی جامعہ عثمانیہ سے لی تھی اور اس کے بعد ایم اے کے لیے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا لیکن دقت یہ تھی کہ پنجاب یونیورسٹی نے اس وقت عثمانیہ یونیورسٹی کی ڈگریوں کوتسلیم نہیں کرتی تھی۔ تاہم میں مایوس نہیںتھا میری طالب علمی کی فرد عمل خاصی حوصلہ افزاتھی۔ پھر جوانی یوں بھی امید کا زمانہ ہے۔ میں نے سر اکبر حیدری سے سفارش کے دو خط لیے ایک سر محمد شفیع مرحوم کے نام اور دوسرا مسٹر عبداللہ یوسف علی پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کے نام او ر بہ زعم خود گورنمنٹ کالج میں اپنے داخلے کا انتظام کر کے لاہور آ پہنچا۔ اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ خیال میرے دل میں کیوں آیا اور میں نے کیونکر یہ جسارت کی کہ اس سلسلے میں علامہ اقبال کی مدد حاصل کروں۔ بہرحال اتنا بہ خوبی یاد ہے کہ ایک شام میں اپنے بھائی حامد علی خاں (۴) کی معیت کو سہارا بنا کر علامہ مرحوم کی خدمت میں جا پہنچا۔ وہ اس وقت اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرما تھے۔ ان کا دربار ہر خا ص و عام کے لیے کھلا رہتا تھا۔ لوگ بے روک ٹوک ان کے پاس آ بیٹھتے تھے اور پھر جتنی دیر جی چاہے بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے بعد میں بیسیوں مرتبہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لیکن میں ںے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ انہوںنے وقت کی کمی یا کسی مصڑوفیت یا اور عذر کی بنا پر کسی ملاقاتی کو اٹھ جانے کو کہا ہو یا خود مجلس سے اٹھ گئے ہوں۔ جس دن کا میں ذکر کر رہا ہوں اس دن اگر میراحافظہ خطا نہیںکرتا تو ان کی مجلس میںکچھ زیادہ لوگ نہیں بیٹھے تھے شاید ایک یا دو صاحب ہوں۔ علامہ اقبال برآمدے میں آرام کرسی پر کرتا اور تہمد پہنے بیٹھے تھے۔ اور کبھی کبھی پائوں کو ہاتھ سے سہلا لیتے تھے۔ میں نے تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد خود ہی اپنا تعارف کرایا اور اپنا مطلب گوش گزار کیا۔ اب مجھے اپنی اس حرکت پر خود بھی تعجب ہے کہ پنجاب یونیورسٹی تو میری بے اے کی سند کو تسلیم نہیںکرتی تھی اور میں تھا کہ ایم اے میں داخلے کی تجویز کر رہا تھا۔ علامہ اقبال امید کے پیغمبر تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کو بھی میری اس حد سے بڑھی ہوئی رجائیت میں دیوانگی کی جھلک نظر آئی۔ انہوںنے مجھے سمجھایا کہ جو طریق کار تم (۵) نے اختیار کیا ہے وہ غلط ہے۔ اس طرح پنجاب یونیورسٹی تمہارے داخلے کی درخواست کو فوراً رد کر دے گی۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ تمہاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو خط لکھیں اور پہلے اپنی ڈگریوں کو تسلیم کرائیں۔ اس کے بعد تمہارے داخلے کے لیی راستہ صاف ہو جائے گا۔ یہ بات بالکل معقول تھی۔ لیکن اس وقت میرے جنون کے لیے عقل کو خاطر میں لانا دشوار تھا۔ میںنے اپنے حق میں بہت سی تاویلیں پیش کیں اور کہا کہ میں درجہ اول میںکامیاب ہوا ہوں۔ یونیورسٹی میںاول آیا ہوں اس لیے میرے داخلے میں کوئی رکاوٹ نہیںہونی چاہیے۔ علامہ اقبال کی انسانی عظمت ملاحظہ فرمائیے کہ میری اس پریشاں سرائی پر انہوںنے نرمی سے جواب دیا کہ سوال قابلیت کا نہیں قاعدے اوراصول کا ہے۔ آپ اگر چند اچھی کتابوں کے مصنف بھی ہوتے تو بھی بی اے کی باقاعدہ ڈگری کے بغیر ایم اے کے امتحان میں شامل ہونا ناممکن تھا۔ آج اس پورے واقعے کا تصور کرتا ہوں تو میں اپنی اس بے باکی (اقبال کی بے باکی) پر حیرت زدہ ہو جاتاہے کہ میں ے اس کے باوجود اصرار کیا کہ گورنمنٹ کالج کے کسی پروفیسر کے نام مجھے تعارف کا ایک خط دے دیجیے۔ اسے علامہ کی شخصی رافت و شفقت کا کرشمہ سمجھیے کہ یہ درخواست انہوںنے فوراً منظور فرما لی اور میرے رخصت ہونے سے پہلے میرے ہاتھ سے ایک مختصر سی چٹھی پروفیسر مرزا محمد سعید کے نام مجھے لکھ دی: My dear Said, This is to Introduce M.Hamid Ahmad Khan B.A of the Usmania University. I hope you will do that you can for him. Yours Sincerely Muhammad Iqbal مجھے یاد ہے کہ اس دن کی گفتگو میں علامہ اقبال نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ ایم اے میں کیا مضمو ن لینا چاہتے ہو؟ میں نے جب جواب دیا کہ انگریزی تو انہوںنے فوراً یہ دوسرا سوال کیا کہ کیا یہ ممکن نہیںکہ انگریزی کے بجائے کوئی دوسرا مضمو ن مثلاً اکنامکس یا سائنس لے لو؟ میں نے جواب میں کہا کہ بی اے میں انگریزی او ر فلسفہ میرے خاص مضمون رہے ہیں اور میں انہی دو مضمونوں سے ایک مضمون ایم اے میں لے سکتا ہوں۔ اس پر علامہ مرحوم نے فرمایا کہ یہ دونوں مضمون تہذیب نفس کے لیے بہت اچھے ہیں (انہوںنے کلچر کا لفظ استعمال نہیں کیا) لیکن مسلمانوں کی توجہ اس طرف زیادہ اور ٹھوس علمی مضامین کی طرف بہت کم رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان نوجوان سائنس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر اب زیادہ زور دیں۔ ظاہر ہے کہ میں اس معاملے میں علامہ اقبال کے ارشاد کی تعمیل سے قاصر تھا۔ لیکن ایم اے انگلش کے داخلے کے متعلق میرے یقین محکم عمل پیہم نے آخر مجھے کامیاب کر ہی دیا۔ خود مسٹر اے ایس ہیمی پرنسپل گورنمنٹ کالج نے کمال مہربانی سے میرے داخلے کی اجازت حاصل کرنے کی سعی کی تآنکہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے منظور ی دے دی۔ اس پرمیں ایک دفعہ پھر علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مجھے اعتراف ہے کہ میرے دل میں ایک چھپا ہوا ’فتح مندانہ‘‘ جذبہ تھی تھا کہ دیکھیے جس بات کو ناممکن کہنے میں آپ کو اصرار تھا وہی عملاً ممکن ثابت ہوئی۔ اقبال نے میری داستان کو نمایاں تعجب سے سنا اور اگرچہ اس تعجب کے علاوہ میری کامیابی پر انہیںواقعی خوشی بھی ہوئی۔ اس واقعے سے دو ڈھائی برس کا ایک ایسا وقفہ آیا کہ جس میں مجھے علامہ مرحوم سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔ میں غالبا ۱۹۲۹ئ۔ ۱۹۳۰ء میں دوبارہ ان کی خدمت میںحاضر ہوا اوراس کے بعد گاہ بگاہ حاضری کا سلسلہ تادم آخر قائم رہا۔ اب غور کرتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صحیح یا غلط طور پر مگر یقینابہ تقاضائے ادب میں نے علامہ کی خدتم میںاپنی حاضری کو ہمیشہ ایک قسم کی جسارت سمجھا۔ اس جسارت کے لیے عذر خواہی کی صورت میرے لاشعور نے بظاہر یہ طے کر رکھی تھی کہ میں کسی ساتھی کے بغیر ان کی خدمت میں حاضر نہ ہوتا تھا۔ کم از کم اب سوچنے پر بھی مجھے یاد نہیں آتا کہ میں کسی موقع پر تن تنہا علامہ اقبال کے پاس جا نکلا ہوں۔ شاید دوسرے لوگ بھی اسی احساس انکسار کے ماتحت علامہ اقبا ل کی خدمت میں مل جل کر حاضر ہوتے تھے۔ ان ملاقاتوں سے گفتگو تقریباً ہمیشہ پنجابی میںہوتی تھی۔ کبھی استدلالی یا ہیجانی لمحات میں اقبال انگریزی زبان برت لیتے تھے۔ مگر اردو صرف اسی صورت میںبولتے تھے کہ اردو بولنے والے کوئی صاحب شریک گفتگو ہوں۔ یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ ملفوظات اقبال کی یہ مختصر روداد گو اردو میںلکھی جا رہی ہے لیکن مذکروہ امور میں سے بیشتر حقیقت پنجابی میںبیانہوئے تھے۔ میرے لیے یہ مقام شکر ہے کہ اقبال کی حیات عنصری کے آخری آٹھ نو برس میں میرے شعور و لاشعورکی کوئی ظاہری یا باطنی بندش مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے سے باز نہ رکھ سکی۔ شروع کے چند سال میںہمیشہ اپنے دوست ممتاز حسن کی معیت میں جاتا رہا۔ وہ اس وقت لاہور میں اسسٹنٹ اکائونٹنٹ جنرل تھے اور اپنی طالب علمی کے زمانے میں علامہ مرحوم کی خدمت میںحاضر ہوتے تھے۔ ہم دونوں کبھی دوسرے تیسرے مہینے کبھی دوسرے تیسرے ہفتے اور کبھ دوسرے تیسرے دن چلے جاتے تھے۔ ہماری نشست عام طورپر بہت لمبی ہوتی تھی اوراس عرصے میں بیسیوں گراںبہا نکتے اور لطیفے علامہ اقبال کی زبان سے نکلتے تھے۔ افسوس کہ اس وقت ہم دونوں نے ان بے مثال ملفوظات ک یادداشتیں قلم بند کرنے پر توجہ نہ دی۔ اب ان مجلسوں کی صرف متفرق باتیں کبھی کبھی یاد آتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں صرف ان واقعات کا ذکر ممکن ہے جن کے متعلق حافظہ وفا کرتا ہے۔ پھر بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے لطائف و نکات ہیں جو بلا ترتیب حافظے میں ابھرتے ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر علامہ مرحوم بنی نوع انسان کی ساتی تاریخ پر بڑی پرلطف تنقید کی۔ تاریخ انسانی کو انہوںنے چار بڑے ادوار میں تقسیم کیا۔ پہلے مذہب پھر تلوار پھر تجارت کو اقتدار حاصل رہا۔ اور اب مزدور جماعت بتدریج زور پکڑ رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کو انہوںنے ہندو ورن آشرام کے پس منظر میں اس طرح بیان فرمایا کہ دنیا پر پہلے برہمنوں کی حکومت بھی اس کے بعد کھشتریوں نے اپنا راج قائم کیا آج کل ویش لوگ دنیا پر قابض ہیں لیکن ان کے بعد شودروں کا دور آ رہا ہے۔ ایک اور موقع کا ذکر ہے کہ تہذیب و تمدن کے فرق پر گفتگو ہو رہی تھی۔ علامہ اقبال نے فرمایا کہ تمدن (Civilization)کا تعلق ظاہری آداب و رسو م سے ہے اور تہذیب (Culture)کا انسان کی باطنی اور ذہنی کیفیتوں سے۔ اسی ضمن میں گفتگو کا رخ پلٹ کر یہ کہنے لگے کہ میں تو کسی قوم کے تمدن کو اس بات سے جانچتا ہوں کہ اس قوم میں کھانا کھانے کے آداب اور طریقے کس قسم کے رائج ہیں۔ پھر ہنس کر کہا کہ جب میں پہلی مرتبہ انگلستان گیا تو مجھے ایک پر لطف واقعہ پیش آیا۔ میں کھانے کی ایک تقریب میںشریک تھا۔ مہمانوں میں انگریز مرد اور عورتیں دونوں موجود تھے۔ میز پر گوشت کا ایک بہت بڑا ٹکڑا پرا تھا او ر میں دل میں سوچ رہا تھا کہ دیکھیں اس کے کاٹنے کی کیا سبیل ہوتی ہے۔ اتنے میں میزبان خاتون نے (یہاں علامہ اقبال نے اپنا ہاتھ اٹھاکر ذراآگے کو بڑھایا) ایک انتا لمبا چھرا کہیں سے نکالا اور بڑے مزے سے گوشت کے اس ٹکڑے پر چلانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہنسی بھی آئی اوریہ خیال بھی دل میں آیا کہ یہاں وحشت اور تمدن میں آخر کتنا فرق رہ گیا ہے؟ ایک اور واقعہ جو مجھے خاص طور پریاد آتا ہے اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے کہ جب علامہ مرحوم رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس لاہور تشریف لائے۔ ان دنوں انہوںنے بہت سے ذاتی تجربات جو انگلستان میں پیش آئے تھے ہم لوگوں سے بیان کیے۔ چنانچہ ایک دن میں حاضر ہوا تو عہد مغلیہ میں مسلمانوں کی تہذیب و شائستگی کا ذکر چھڑ گیا۔ علامہ مرحوم نے فرمایا کہ دلی کی تباہی کے بعد انگریزی حکومت نے مسلمانوںکی تہذیب کو برباد کرنے میں پورا زور لگایا۔ مجھے اس مضمون سے خود بھی بہت دلچسپی تھی۔ اس لیے میں نے تائید کی کہ اب انگریزی دور میں یہ خیال جو عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ انگریزی اثرات سے پہلے مسلمان جاہل مطلق اور تعلیم سے بالکل متنفر تھے۔ بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے۔ خود عہد مغلیہ میں بعض انگریزوں نے اعتراف یا ہے کہ ان کے معاصر مسلمان تہذیب اور تعلیمی ترقی کے معاملے میں غیر معمولی طور پر بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ اتفاق سے انہی دنوں میںنے جنرل سلیمن کی کتاب Rambles and Recollectionsکا پہلا ایڈیشن (جو ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا) شوق سے پڑھا تھا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ سلیمن نے اپنی کتاب میں یہ رائے دی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں تعلیم جس قدر وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے اس قدر دنیا کی کسی اور قوم میں نہیںہے۔ اس بات پر ڈاکٹر صاحب نے گہری دلچسپی کا اظہا ر کیا۔ اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ سلیمن کی عبارت نقل کر کے انہیں بھیج دیں۔ ان معاملات میں ڈاکٹر صاحب کے انہماک کا یہ عالم تھا کہ جب میں دوبارہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب پبلک لائبریری سے اصل کتاب منگوا کر دیکھ چکے ہیں۔ مذکورہ بالا گفتگو کے دوران میرا جی چاہا کہ ڈاکٹر صاحب اس سلسلے میں کچھ اور بھی فرمائیں اس لیے میں نے کہا کہ یہ عجیب کیفیت ہے کہ سیاسی زوال کا زمانہ بارہا تہذیب و تمدن کے عروج کا زمانہ ہوتاہے ڈاکٹر صاحب نے اس خیال سے پورااتفاق فرمایا اور حسب ذیل واقعہ سنایا۔ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے دنوں میں ایک انگریزخاتون نے جو لندن کے سوسائٹی اور سیاسی حلقوںمیں بڑے احترام سے دیکھی جاتی ہیں میری دعوت کی گفتگو کے دوران میں اس خاتون نے مجھ سے کہا کہ آپ بڑے فلسفی ہیں ایک سوال کا جواب تلاش کرنے میں میری مدد کیجیے۔ میرے گھر میں ایک آسٹرین پیش خدمت ہے جس نے مجھ سے ایک دن ایک ایسی بات پوچھی کہ جس کا کچھ جواب مجھ سے بن نہ پڑا۔ ا سنے مجھ سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ تم انگریزلوگ کچھ کام بھی نہیںکرتے پھر بھی تمہارے بازاروں اور منڈیوں میںہمیشہ دولت کی ریل پیل رہتی ہے؟ تم بہت دن چڑھے اٹھتے ہو اور دوستوں کی ملاقات کو نکل جاتے ہو۔ تیسرے دوپہر تفریح گاہوں اور کلبوں میں جا بیٹھتے ہو یا شاندار موٹروں میں سوار ہو کر چمکتی ہوئی دکانوں سے ہزاروں کا مال خرید تے پھرتے ہو۔ لیکن کسی کام میں لگے ہوئے تم کم ہی نظر آتے ہو۔ پھر یہ ہیرے او ر جواہرات تمہاری دکانوںمیں کہاں سے آتے ہیں؟ انگریزی خاتون نے اپنی آسٹرین پیش خدمت کا سارا قصہ سنا کر مجھ سے کہا کہ میں حیران ہوں کہ اس سوال کا اسے کیا جواب دوں کیونکہ مجھے خود بھی اس کا جواب معلوم نہیںہے۔ میںجب یہ پورا قصہ سن چکا تو میںنے اس خاتون کو جواب دیا: انگریزی سوسائٹی کی یہ کیفیت کوئی ایسا عجیب و غریب واقعہ تو نہیں ہے کہ سمجھ میں نہ آ سکے۔ پچھلی صدی میں خود ہندوستانی سوسائٹی کی بھی یہی کیفیت تھی۔ ہمارے ملک کے شرفا علمی اور تفریحی مجلسیں سجاتے تھے بذلہ سنجی کی محفلوں کی رونق بنتے تھے لیکن کوئی کام کرنے کا سوال ہی ان کے متعلق پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود دولت آتی تھی اور ا ن بے شغل انسانوں کے ہاتھوں ہزاروں روپے خرچ ہوتے تھے۔ پچھلی صدی میں جو حالت ہماری تھی وہی آج کل تمہاری ہے۔ ۱۹۳۰ئ۔ ۱۹۳۲ء کے دوران کا ذکر ہے کہ ایک دن میں ایک اینگلو انڈین دوست کو لے کر ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا۔ میرے یہ دوست ڈاکتر صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے مشتا ق تھے اور میں نے اسی حیثیت سے ان کا تعارف کرایا۔ اس ملاقات کا ذکر میں ا س لیے بھی کر رہا ہوں کہ اس میںڈاکٹر صاحب کے مزاج کی ایک خاص کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان دنوں ترکستان کے مسلمانون نے چینی حکومت کے خلاف آزادی کی جنگ شروع کر رکھی تھی اور ہمارے برعظیم کے مسلمانوں کو اس جنگ سے قدر ۃً بہت ہمدردی تھی۔ علامہ اقبال کوا س سے بڑی بڑی امیدیں تھیں وہ اس تحریک سے کسی عظیم تر انقلاب (آشوب ہلاکوے ہنگامہ چنگیزے) کی توقعات قائم کر رہے تھے۔ لیکن میرے اینگلو انڈین دوست جو کاشغر کے برطانوی قونصل خانے میں کچھ عرصہ کام کر چکے تھے بقول خود ترکیوں کی تن آسانی اور بے علمی کے پیش نظر (۶) ان کے متعلق کوئی نیک گمان نہیں رکھتے تھے۔ انہوںنے اہل ترکستان کی کاہلی اور جہالت کا ذکر کرکے علامہ اقبال سے مودبانہ اختلاف کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کی باتیں سن لیں مگر ان کے قائم کردہ نتائج کو صحیح تسلیم نہ کیا۔ اس واقعے کے بعد زیادہ عرصہ گزنے نہ پایا تھا کہ اہل ترکستان کی ہمت اور طاقت نے جواب دے دیا اور ان کی تحریک آزادی دب کر رہ گئی۔ اسی قسم کا ایک اور تجربہ مجھے چند سال بعد ہوا۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب شاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے دست برداری کا ہنگامہ برپا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے برطانیہ کے شاہی خاندان کا ذکر فرمایا اور کہا کہ ان لوگوں میں سے کسی کو کچھ معمولی فراست تو نصیب نہیں ہوئی مگر ایڈورڈ (ہشتم) نے جمہوری رجحانات کا اظہار ضرور کیا ہے۔ اس بنا پرڈاکٹر صاحب کو یقین تھا کہ ایڈورڈ کو تخت سے ہٹانا ایک سیاسی چال ہے اور مسز سمپسن کا ڈھونگ محض دنیا کی آنکھوںمیں خاک جھونکنے کے لیے رچایا گیا ہے۔ وہ کسی قدر پر جوش لہجے میں یہ فرماتے تھے کہ جب ایڈورڈ تخت سے دست بردار ہو گیا تو مسز سمپسن سے شادی کا قضیہ ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ فرماتے ہوئے انہوںنے جو لفظ استعمال کیے وہ مجھے اب تک یاد ہیں: No man can ever respect a woman whom he has enjoyed out of wedlock! (کوئی شخص ایسی عورت کی عزت ہرگز نہیںکر سکتا جس سے اس نے جنسی تعلق حدود نکاح سے باہر قائم کیا ہو) اتنا تو سب کومعلوم ہے کہ حضرت علامہ کی گفتگو میںظرافت بار بار ابل پڑتی ہے۔ ہم عقیدت مندانہ طور پر حاضر ہوتے تھے لیکن ہم سے بھی بعض مرتبہ برابر کا مذاق کر لیتے تھے۔ رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے بعد فلسطین سے ہوتے ہوئے آئے اس سلسلے میں فرمایا میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہودی اب فلسطینی عربوں کو ورغلانے کے لیے یہودنوں کو استعمال کر رہے ہیںَ ہمارے دوست اے ڈی اظہر نے کہ اس صحبت میں موجود تھے پوچھا کہ یہ الزام واقعی درست ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے فی البدیہہ جواب دیا کہ اس کے متعلق میں کیا کہہ سکتا ہوں آپ جیسے نوجوانوں میں سے کوئی جائے تو ہمیں بھی سچ جھوٹ کا پتا چل سکے! اسی زمانے میں موسم سرما کے ایک دن کا ذکر ہیکہ ہم میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ انتے میں ایک پہلوان صورت ان پڑھ مسلمان برآمدے میں داخل ہوا اور چق اٹھا کر اندر آ گیا۔ اندر آتے ہی اس نے بڑے ادب سے ڈاکٹر صاحب کو سلام کیا اور پھر سر کو فرط عقیدت سے جھکا کر دونوں ہاتھ بڑھائے اور ڈاکٹر صاحب سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعد بغیر کچھ کہے الٹے پائوں لوٹنے لگا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا بیٹھیے۔ اس نے جواب دیا کہ بس اتنا ہی کام تھا اورواپس چلا گیا۔ اس قسم کے مرید علامہ اقبال کو مسلمانوں ہی میں نہیں ہندوئوں میں بھی ملے۔ میکلوڈ روڈ کے زمانہ قیام میں ان کامالک مکان ایک ہندو بھلا مانس تھا۔ ا س کا قصہ ایک دن ڈاکتر صاحب نے ازراہ تفنن یوں بیان کیا کہ میرے مالک مکان نے گھر کے احاطے میں پانی کا پمپ لگوایا مگر پانی نکلا تو کھاری تھا۔ اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ اس کے بعد دوسری جگہ کھدائی کی گئی تو معلوم ہوا کہ صورت حال اب بھی وہی ہے۔ اس نے میرے پاس ا ٓ کر اظہار افسوس کیا تو میں نے کہا کہ ابھی کچھ اور کھدوائی کرو میٹھا پانی ضرور نکلے گا۔ چنانچہ آخر کار میٹھا پانی نکل آیا۔ اس پر وہ شخص خوش خوش میرے پاس پہنچا میرا بے انتہا معتقد ہو گیا اور میری کرامت کا قائل یہ پوری کہانی ڈاکٹر صاحب نے بطور لطیفہ ہنستے ہنستے سنائی۔ اگرچہ حضرت علامہ نے اپنا اور ہندو مالک مکان کا یہ واقعہ تفریح طبع کے طور پر سنایا لیکن بزرگان سلف کے کمالات پر یقین کامل ان کی روح کے عمیق ترین جذبات میں ہمیشہ شامل رہا ان کی زبانی میں نے کئی ایسی روایتیں سنیں جن سے انسان کے روحانی تصڑف پر انکا پختہ عقیدہ بار بار ظاہر ہوتا تھا۔ اس قسم کی ایک روایت انہوںنے اپنے والد ماجد کے حوالے سے سنائی۔ (راقم الحروف کو اس روایت کی تمام تفصیلات ٹھیک طرح سے یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ اس میں شہر سیالکوٹ کے ایک قصائی کا ذکر تھا جو ایک عجیب و غریب واقعے سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے قصائی کا پیشہ ترک کر دیا) روایت یوں ہے کہ اس قصائی کو ایک بکرا ذبح کرناتھا۔ اس بکرے کو اس ے ایک کوٹھڑی میں بند کیا اور خود کسی کام کے لیے باہر چلا گیا۔ قصائی جب کام سے فارغ ہو کر واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ مقفل کوٹھڑی کے اندر بکرا تو موجود ہے مگر چھری غائب ہے۔ بظاہر یہ حرکت بکرے کی تھی لیکن کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس نے کس طرح یہ کام کیا۔ بہرحال اس نے قصائی کی طبیعت پر کچھ ایسا اثر کیا کہ اس نے اپنے کام سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔ ایک اور واقعہ جو اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہے۔ مجھے کچھ بہتر یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ پاک پتن کی درگاہ میں کوئی خدا رسیدہ بزرگ (۷) حوض کے کنارے وضو کر رہے تھے۔ ایک اور شخص بھی اس وقت ان کے پاس موجود تھا۔ ایکا ایکی وہ گزرت کھڑے ہو گئے اور مٹی کا لوٹا اٹھا کر جیسے کسی چیز کا نشانہ باندھ رہے ہوں اس زور سے پھینکا کہ ہوا میں غائب ہو گیا۔ جو شخص یہ کیفیت دیکھ رہاتھا متعجب ضرور ہوا لیکن خاموش رہا۔ چند روز بعد حضرت کے مریدوں کا ایک قافلہ ایران سے پاک پتن پہنچا جب مرید اپنے مرشد کے حضور میں پہنچے تو میر قافلہ نے ایک بقچی نکالی اور حضرت کی خدمت میں پیش کی۔ بقچی کھولی گئی تو ا س میں سے مٹی کے چند ٹوٹے ہوئے ٹھیکرے نکلے۔ اب وہ شخص پھر متعجب ہوا مگر خاموش رہا۔ جب حضرت کی مجلس برخاست ہوئی تو وہ نہ رہ سکا اور میر قافلہ سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا ماجراہے؟ جواب ملا کہ ہم لوگ ایران سے چلے آ رہے تھے ۔جب بلوچستان کی حدود میں داخل ہوئے تو ایک صحرا میں سامنے سے ایک شیر نکلا اور سیدھا ہماری طرف چلا آیا۔ ہم لوگ بہت گھبرائے اتنے میں مٹی کا ایک لوٹا فضامیں نمودار ہوا اور شیر کے سر پر آ کر لگا۔ اس پر شیر ڈر کر بھاگ گیا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو یہ کرامات ہمارے حضڑت ہی کی ہے۔ چنانچہ ہم نے ٹوٹے ہوئے لوٹے کے ٹھیکرے تبرکاً اٹھا لیے اور اب لا کر حضرت کی خدمت میں پیش کردیے ہیں۔ (۲) گزرے ہوئے برسوں کے دھندلکے سے یادوں کے موتی رول لانے کی یہ کوشش جب مجھے تسلسل سے عاری محسوس ہوتی ہے تو میں تھک کر اسے ایک سعی رائیگاں سمجھنے پر آمادہ ہو جاتا ہوں۔ لیکن جب پھر یہ دیکھتا ہوں کہ ان متفرقات میں سے ہو گوہر یکدانہی اپنی الگ آب اور اپنا الگ رنگ رکھتے ہوئے بھی ایک لڑی یاد اقبال کی لڑی میں منسلک ہے تومیری چشم از سر نو روشن ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’پیام مشرق‘‘ میں ایک پرا ثر مثنوی امیر امان اللہ خاں کے نام کتاب کی ’’پیش کش‘‘ کے طورپر درج کی ہے۔ یہ اشعار ۱۹۲۲ئ۔ ۱۹۲۳ء میں لکھے گئے ہوں گے ۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ چند سال بعد افغانستان کو ترقی کی راہ پر لانے کی کوشش میں جو مغربی دنیا کی راہ ہے امان اللہ خاں کو تخت و تاج سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جب نادر خاں بادشاہ ہوئے تو انہوںنے علامہ اقبال کو افغانستان آنے کی دعوت دی (یہ وہ موقع ہے جب سر راس مسعود اور سید سلمان ندوی مرحوم حضرت علامہ کے رفیق سفرتھے) افغانستان سے واپس تشریف لائے تو ہم لوگ حسب معمول حاضر خدمت ہوئے۔ افغانستان میں باتی ہوتی رہیں۔ اس سلسلے میں فرمایا کہ امان اللہ خان نے مذہب کو چھوڑا تو تخت بھی ہاتھ سے نکل گیا کیونکہ امیر عبدالرحمن کو تخت اس لیے ملا تھا کہ انہوںنے تبلیغ اسلام کا وعدہ کیا تھا اوریہ وعدہ پورا کرنے کے لیے امیر عبدالرحمن نے کافرستان کو مسلمان کیا اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے کئی واقعات بیان کیے جو پنسل کی لھی ہوئی یادداشتوں کی صورت میں اس وقت میرے سامنے ہیںَ ی یادداشتیں پینتیس برس پہلے میں نے اس خیال سے لکھ ڈالی تھیں کہ حاشیے کی تفصیلات خود بخود میرے حافظے میں ابھر آئیں گی۔ مگر وائے تمنائے خام ۱۹۳۸ء سے ۱۹۷۲ء تک کے سیل حوادث کی جھپٹ ان تفصیلات کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ امیر عبدالرحمن خاں اور ہندوستانی بھنگی کے مسلمان ہونے کاواقعہ امیر حبیب اللہ خاں کے طمانچہ کھانے کا واقعہ نادر خاں کا ایک معمولی کسان کو موٹر میں اپنے ساتھ بٹھانے کا واقعہ یہ سب اشارات اس لیے نقل کرتا ہوں کہ مجلس حاضریھ میں سے جس کسی کا حافظہ وفا کرے وہ اہل شوق کی دست گیری فرمائیں۔ اسی زمانے(یا اس سے کچھ پہلے) کی بات ہے کہ انگریز ادیب ٹامس ہارڈی کا ذکر ہوا۔ اس مصنف کی نظم و نثر کا بڑا موضوع قدرت کی طاقتوں کے خلاف انسان کی مایوسانہ کشمکش ہے۔ ہارڑی نے زندگی کی مسلسل جدوجہد کے باوجود انسان کی بیکسی اور ناکامی کے درد انگیز مرقعوں پر اپنا پورا زرو قلم صرف کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ضمن میں بزبان انگریزی فرمایا کہ اگر میں کسی ملک کا حکمران ہوتا واور میرے ملک کا کوئی مصنف ٹامس ہارڈی کی سی حرکت کرتا تو میں اسے گولی سے اڑا دیتتا اور ایک پرانی گفتگو میں ارشاد ہوا کہ مغل بادشاہوں کا مذہب اسلام نہیں تھا۔ ان کا مذہب تھا حسن کی پرستش اسی طرح (مگر برسوں بعد جب دل و دماغ استقلال پاکستان کے خیال سے بہ تدریج مانوس ہو رہے تھے) کسی نے برعظیم کے مسلمانوں کے مستقبل کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ لیکن حیدر آباد کا کیا انجام ہو گا؟ ڈاکٹر صاحب نے ایک لمحے توقف کے بغیر انگریزی میں جواب دیا حیدر آباد فنا ہو کر رہے گا۔ اس لیے کہ حیدر آباد کے مسلمانوں نے تبلیغ اسلام کے فریضے کو صدہا برس تک فراموش کیے رکھا۔ (۸) اسی سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور ارشاد یاد آتا ہے جو حیدر آباد سے تعلق ان یک مذکورہ قول فیصل سے چند سال پہلے کا ہے (شاید ۱۹۳۰ئ۔ ۱۹۳۱ء کے زمانے کا) وہ بیرون ملک کے کسی سفر سے واپس تشریف لائے تو لاہور کے گول باغ(ناصر باغ) میں ٹائون ہال کے سامنے ایک استقبالیے کا اہتمام کیا گیا علامہ اقبال اس تقریب میں شریک ہوئے تو انگریزی سوٹ پہنے ہوئے تھے اور سر پر لال ترکی ٹوپی تھی۔ شرکایے استقبالیہ سے انہوںنے انگریزی میں خطاب کیا۔ اپنے سفر کے امید افزاء کوائف حاضرین کو سنائے اور تقریر ختم کرتے ہوئے اہل جلسہ کو ان الفاظ کیں کام کرنے کی صلائے عام دی اٹھو وہ گھڑی آ گئی ہے کہ جس کا ہمیں مدتوں سے انتظار تھا۔ ایک دفعہ ہم میںسے چند لوگ حاضر خدمت تھے۔ ایک صاحب نے ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوںپر ایک الزام ہے کہ وہ آزادی کی جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔ علامہ اقبال نے ملامت آمیز لہجے میں فورا ً جواب دیا کہ مسلمان کس چیز کی خاطر لڑیں؟ ان کا کوئی وطن ہوتا تو وہ ضرور اس وطن کی حفاظت کرتے۔ اب آپ مجھی کو دیکھیے اورمیرے آباواجداد اسی سرزمین کی مٹی سے پیدا ہوئے لیکن میرا یہ حال ہے کہ ا س ملک میں دو گز زمین بھی میری ملکیت نہیں ہے اور مرن یپر میری خاک اس متی میں مل سکے گی پھر ڈاکٹر صاحب نے اپنی آواز بلند کی اور انگریزی میں فرمایا مسلمانوں کا کوئی وطن نہیںہے۔ ان کو کوئی وطن دے دیجیے تو وہ ضرور اس وطن کے لیے لڑیں گے۔ The Muslims have no Land Give them a land and they will fight for it لیکن ان بنیادی ملی و عمرانی امور سے قطع نظر اقبال کبھی کبھی روز مرہ کے سیدھے سادھے معاملات پر بھی ذوق و شوق سے گفتگو کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ محض از راہ تفنن اس مسئلے پر بات ہوتی رہی کہ شاعروں کے نا م کے ساتھ لفظ حضرت کے استعمال کا مطلب کیا ہے؟ ایک موقع پر فرمایا میں نے اپنی زندگی میں لذیذ ترین کھانا دو جگہ کھایا ہے۔ ایک کابل میں اور دوسرا لکھنو میں۔ ایک اور موقع پر ارشاد ہوا پنجابی اور اطالوی دنیا کی سب سے زیادہ Lyrical(غنائی) زبانیں ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ہمت کر کے ڈاکٹر صاحب پر یہ جرح کر ڈالی کہ آپ نے ارو میں لکھنا بالکل ترک کر دیا ہے۔ فارسی میںلکھنا بجا مگر اردو کا بھی تو کچھ حق ہے۔ (یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیام مشرق کے بعد زبور عجم اور زبور عجم کے بعد جاوید نامہ شائع ہوئی) ڈاکٹر صاحب نے میری اس جسارت پر تھوڑی دیر خاموش رہے۔ بالآخر انہوںنے انگریزی میں فرمایا It comes to me in Persian(مجھ پر شعر وارد ہی فارسی میں ہوتا ہے)۔ اس کتاب کے بعد قارئین میری طرح افسوس کریں گے کہ ترجمان حقیقت کے اقوام و فرمودات وقت پر کیوںنہ محفوظ کر لیے گئے۔ بجا اور درست لیکن فرض کیجیے کہ یہی ملفوظات اور دس بیس صفحوں پر پھیلے ہوئے ہوتے تو کیا اس صورت میں اقبال کی شخصیت کا کچھ زیادہ بھرپور اظہار ہو گیا ہوتا؟ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے دل کی دھڑکنیں اب بھی ’’بال جبریل‘‘ اور ’’زبور عجم‘‘ ’’جاوید نامہ‘‘ اور ’’بانگ درا‘‘ میں زیادہ صاف سنائی دیتی ہیں اور ہمیشہ سنائی دیتی رہیں گی۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ اس سلسلے میں یہ ذکر خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ ۱۸۸۶ء سے شروع کر کے ۱۹۳۳ء تک جن پندرہ اکابر کو یونیورسٹی کی طرف سے ڈی لٹ کی اعزازی سند ملی ان میں سے پہلے تیرہ غیر ملکی اور مغربی الاصل ہیں اور چودھواں نام علامہ اقبال کا ہے۔ گویا مقامی اکابر میںاقبال پہلے شخص ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ ۲۔ پروفیسر عبدالواحد اسلامیہ کالج لاہور۔ ۳۔ اس بحث میں لفظ ’’مستحسن‘‘ علامہ اقبال نے کئی مرتبہ استعمال کیا ان کے باقی الفاظ مجھے یاد نہیں رہے۔ گو ان کا مفہوم وہی تھا جو میںنے بیان کیا ہے۔ ۴۔ حامد علی خاں ا س وقت ماہنامہ ’’ہمایوں‘‘ کے جائنٹ ایڈیٹر تھے۔ ۵۔ اس ضمن میں یہ واضح رہے کہ علامہ اقبال دوران گفتگو میںاپنے ہر مخاطب سے (خواہ وہ کتنا ہی کم عمر یا کم مرتبہ ہو) ’’آپ‘‘ کہہ کر خطاب کرتے تھے۔ یہ مذکورہ گفتگو پنجابی میں ہو رہی تھی۔ ۶۔ یہ گفتگوجس کا ذکر اب ہو رہا ہے۔ انگریزی زبان میںہوئی۔ ۷۔ مجھے یاد نہیں آتاکہ حضرت علامہ نے ان بزرگ کا کیا نام لیاتھا۔ یا نہیں۔ ۸۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد مجھے لفظ بہ لفظ یاد نہیں ہے لیکن پہلے چار الفاظ جس پر جوش لہجے میں ادا ہوئے تھے اس نے انہیں میرے حافظے پر نقش کر دیا ہے۔ Haiderabad mus go Under! ٭٭٭ علامہ اقبال کے ہاں ایک شام یہ مضمون (ذیلی حواشی سے قطع نظر) اواخر ۱۹۳۷ء میں قلم بند ہوا۔ جس ملاقات کا ذکر ہے وہ ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء کوہوئی۔ چہار شنبے کا دن تھا اور شاید پنجم ماہ رمضان۔ گزشتہ ماہ رمضان کی ایک سہانی شام کو جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت میں بس رہے تھے تو ہم علامہ اقبال سے ملنے کے لیے روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میرے شعبہ انگریزی کے رفیق پروفیسر عبدالواحد اور صدر شعبہ فلسفہ ڈاکٹر سعید اللہ تھے۔ (۱) خزاں کا آغاز تھا مگر موسم میں وہ جولانی تھی کہ جو لاہور کا فرحت بخش آسمان بھی صرف کبھی کبھی زمین والوںکو عطا کرتا ہے۔ ساڑھے چار بج چکے تھے (۲)۔ سورج کے غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ فضا اجلی اورنکھری ہوئی تھی۔ مگر مغرب کی طرف ابر کی چند قرمزی اور نارنجی دھاریاں افق پرایک لہریاسا بنا رہی تھیں۔ ہم ایمپریس روڈ سے ہوتے ہوئے اس چھوٹی سی سڑک پر چل رہے تھے جو ریلوے کے بڑے دفتر کے جنوبی رخ کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ وہ سہ راہ آیا جہاں یہ سڑک میو روڈ سے ملتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم نے اس مختصرسے سفید مکان پر نظر ڈالی جہاں دور حاضر میں حقیقت کا سب سے بڑ ا ترجمان اپنی خاموش مگر ہنگامہ خیز زندگی بسر کر رہا ہے۔ سڑک کے متوازی صحن کی چھوٹی سی دیوار اور اس کے پیچھے یوکلپٹس کے چار پودے جو ابھی اپنے پورے قد و قامت کو نہیں پہنچے تھے پھر سبزے کا ایک مختصر سا تختہ جس کے ساتھ ہوتے ہوئے ہم مکان کی ڈیوڑھی کے پاس جا کر رک گئے۔ اس ڈیوڑھی کی تین محرابیں جن میں اندلسی اور گاتھک اانداز تعمیر کی جھلک ملی ہوئی ہے۔ اپنے ہشت پہلو ستونوں پر سڑک سے صاف نظر آتی ہیں۔ ڈیوڑھی کے ساتھ ہی مکان کا دروازہ ہے ۔ جس کے سفید پپل پائے طبیعت کو رعب و وقار کے بجائے حسن و لطافت کا اثر زیادہ دیتے ہیں۔ ہمارا پرانا دوست علی بخش ہمیںدیکھ کر صحن کے ایک بغلی حجریمیں سے نکلا ااس نے جا کر علامہ اقبال کو ہماری آمد کی اطلاع دی اورپھر فوراً واپس آ کر ہمیں اندر آنے کو کہا۔ برآمدے سے گزرتے ہی ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس کمرے کا سامان بہت مختصر بہت سادہ اورتکلف و تصنع سے پاک تھا۔ رواق پر شاعر مشرق کی دو تین فٹ اونچی تصویر فوراً نظر کے سامنے آ گئی۔ اسی کمرے سے ملحق بائیں ہاتھ کو علامہ اقبال کی خواب گاہ ہے۔ اس خواہ گاہ کی ایک کھڑکی برآمدے کی طرف کھلتی ہے۔ جس کے ساتھ ملا ہوا علامہ ممدوح کا بستر بچھا رہتا ہے۔ اب ایک عرصہ ہو گیا ہے کہ ہم جب آتے تھے علامہ اقبال کو اسی بستر پر کبھی کبھی بیٹھے مگر اکثر لیٹے ہوئے پاتے تھے۔ لیکن مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میکلوڈ روڈ کے قیام کے دنوں میں ڈاکٹر صاحب اپنے خرمن فیض کے خوشہ چینوں کو کسی اور رنگ میں صلائے عام دیتے تھے۔ میں سڑک سے مڑتا تھا تو کوٹھی کے صحن میںداخل ہوتے ہی (۳) اور بعد کے دنوں میں اس لمبی روش پر چند ہی قدم چل کر جو مکان تک پہنچاتی تھی ہمیشہ برآمدے کے ایک مخصوص گوشے میں ڈاکٹر صاحب ایک آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے دور سے نظر آ جاتے تھے۔ برآمدے تک پہنچتے پہنچتے علی بخش پہلے جمی ہوئی محفل میں حسب ضرورت ایک دو کرسیوںکا اضافہ کر دیتا تھا۔ آج ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی ہم ذرا کھٹکے۔ ایک یورپین خاتون ڈاکٹر صاحب کے بسر کے برابر کرسی پر بیٹھی تھیں اور ڈاکٹر صاحب کی چھوٹی بچی کو گود میں لیے ہوئے تھیں۔ ہم کو دیکھتے ہی وہ اٹھیںاور مقابل کا پردہ اٹھا کر مکان کے اندر چلی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ انہوںنے تکیے کے سہارے لیٹے ہوئے ہمارے سلام کا جواب دیا۔ ہم تینوں بستر کے برابر کرسیوں پر بیٹھنے ہی کو تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہم سے مخاطب ہوئے کون صاحب ہیں؟ یہ سوال سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے اب سات آٹھ سال ہو گئے تھے اور ڈاکٹر صاحب ہمیشہ شفقت و عنایت سے پیش آتے تھے۔ اب میں تعطیل گرما کے بعد اگرچہ مہینوں کے وقفے سے حاضر ہوا تھا۔ پھر بھی ڈاکٹر صاحب کا سوال میری سمجھ میںنہ آیا۔ اپنے استعجاب کو چھپاتے ہوئے میں نے جواب دیا جی میں ہوں حمید احمد خاں… سعید اللہ اور عبدالواحد اوریہ کہہ کر ہم کرسیوں پربیٹھ گئے۔ سب سے پہلے ہم نے ڈاکٹر صاحب کے مزاج کی کیفیت پوچھی۔ اس کے بعد تھوڑی دیر تک سکو ت رہا۔ اس سکوت کو ڈاکٹر صاحب نے معمول کے مطابق اپنی لمبی استادانہ ہوں سے توڑا جس میں بالعموم گفتگو کے لاتعداد امکانات مضمر ہوتے تھے۔ میں نے اس تپائی پر نظر ڈالی جو بستر کے برابر لگی ہوئی تھی۔ پانچ سات کتابیں اس کے اوپر تھیں اور دو ایک نیچے فرش پر پڑی تھیں۔ میں نے ایک اچٹتی ہوئی نظر ان کتابوں پر ڈالی اور تھوڑے وقفے کے بعد پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب! آج کل پڑھنے پر زیادہ توجہ ہے یا کبھی کبھی آپ شعر بھی لکھتے ہیں؟ پڑھنا کیسا! کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کچھ دیکھ سکو ں تو پڑھوں۔ نظر نہیںآتا! ڈاکٹر صاحب کے یہ الفاظ میں نے حیرت اور اضطراب کے عالم میں دہرائے۔ ہاں جب آپ لو گ کمرے میں داخل ہوئے ہیں تو میں آپ کو دیکھ نہیںسکا۔ اب تھوڑ ی دیر بعد آپ کی صورتیںکچھ دھندلی سی نظر آ رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ Senile Cataract (موتیا بند) اتر آیا ہے۔ سعید اللہ: ان گرمی کی چھٹیوں سے پہلے آپ نے ذکر کیا تھا کہ Senile Cataractاتر آنے کا خطرہ ہے مگر یہ خیال نہیں تھا کہ اس قدر جلد اتر آئے گا۔ ڈاکٹر صاحب: جی ہاں عام طور پر لوگوں کو دیر سے اترتا ہے۔ مجھے ذرا پہلے اتر آیا ہے۔ میرے والد مرحوم کو جن کی عمر سو سال سے کچھ اوپر ہوئی اسی برس کی عمر میں اتر ا تھا۔ میں: اس کے علاج کی کوئی صورت تو آپ کر رہے ہوں گے؟ ڈاکٹر صاحب: اب اس کا آپریشن ہو گا لیکن جب تک یہ پک نہیں جائے آپریشن نہیں ہو سکتا۔ پکنے میں اسے پانچ مہینے لگ جائیں گے۔ پانچ سال لگ جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحال لکھنا پڑھا بالکل موقوف ہے۔ کیونکہ میری داہنی آنکھ تو شروع ہی سے بے کار تھی۔ ’’شروع سے بے کار تھی!‘‘ اب حیرت کے ساتھ اس فقرے میں ہمارا تاسف اور دلی کرب بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر صاحب: جی ہاں دو سال کی عمر میں میری یہ آنکھ ضائع ہو گئی تھی مجھے اپنے ہوش میں مطلق یاد نہیں ہے کہ یہ آنکھ کبھی ٹھیک تھی بھی یا نہیں۔ ڈاکٹر نے خیال کیا تھا کہ داہنی آنکھ سے خون لیا گیا ہے جس کی وجہ سے بینائی ضائع ہو گئی۔ میری والدہ کا بیان ہے کہ دو سال کی عمر میں جونکیں لگوائی گئی تھیں۔ تاہم میں نے اس آنکھ کی کمی کبھی محسوس نہیں کی۔ ایک آنکھ سے دن کو تارے دیکھ لیا کرتا تھا۔ (اس کے بعد ایک ایسے تبسم کے ساتھ جو گویا تاریکی کی قوتوں کے خلا ف پیغمبر امید کا نعرہ خاموش تھا) اب اگرچہ میں پڑھتا نہیں ہوں مگرپڑھنے کی بجائے سوچتا ہوں جس میں وہی لطف ہے جو پڑھنے میں۔ ( پھر ذرا سر گرمی کے ساتھ تکیے سے سر اٹھا کر) عجیب بات یہ ہے کہ جب سے بصارت گئی ہے میرا حافظہ بہتر ہو گیا ہے۔ اس کے بعدادھر ادھر کی کچھ باتیں ہوئیں۔ اس یورپین خاتون کا ذکر ہوا جو تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں ہمیں نظر آئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کے بچوں کی گورنس ہیں اور علی گڑھ کے کسی پروفیسر کے مشورے سے ڈاکٹر صاحب نے انہیں بچوں کی تعلیم کے لیے مقرر کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا بیچاری اپنے حالات کی وجہ سے مصیبت میں تھی اور ہے بڑی شریف عورت بہت اچھی منتظم ہے ۔ بچوں کی تعلیم کے علاوہ اس کے گھر کا بہت سا کام کاج بھی سنبھال لیا ہے۔ ذرا فرصت ملتی ہے تو مکان کے جھاڑنے پونچھے میں لگ جاتیہے یا باورچی خانے میں جا کر ہاتھ بٹاتی ہے۔ میرا باورچی خانے کا خرچ ایک تہائی کم ہو گیا ہے۔ کبھی مجھے انگریزی میںخط لکھنا ہوتاہے تو اسی سے لکھوا دیتا ہوں۔ اردو خط جاوید لکھ دیتا ہے۔ ہاں اس سلسلے میں بڑا لطیفہ ہوا میری لڑکی منیرہ اپنی گورنس کے ساتھ سیر کے لیے کسی طرح نہیں جانا چاہتی تھی۔ بہت دفعہ کہا مگر اسے گورنس کے ساتھ سڑک پر نکلنا منظور نہیں تھا۔ آخر کئی دن بعد یہ راز کھلا کہ جب منیرہ نے کہا کہ لوگ مجھے کہیں گے میم کی بیٹی ہے۔ انہی باتوں میں سوا پانچ بج گئے علی بخش نے آ کر مہر صاحب اور سالک صاحب کے آنے کی اطلاع دی۔ دونوں صاحب تھوڑی دیر میںاندر داخل ہوئے اورہمارے آس پاس دو کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان دنوں تھوڑا ہی عرصہ پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس لکھنو میں ہوا تھا اور پنجاب کی یونینسٹ پارٹی ارو مسلم لیگ کے باہمی میثاق کے چرچے تھے۔ مدیران ’’انقلاب‘‘ (۴) کے آتے ہی گفتگو کا رخ سیاسیات کی طرف پھر گیا۔ مہر صاحب نے یقین دلایا کہ سر سکندر عنقریب پارٹی اور مسلم لیگ کے اتحاد کے متعلق اعلان کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا انہیں شبہ ہے کہ ایسا کوئی بیان شائع ہو گا یا نہیں۔ ھر ہم سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ میں سے کوئی صاحب Historian(مورخ) ہیں؟ ہم نے اپنے عجز کا اعتراف کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا تاریخ انگلستان میں ایک عہدہ دار ہوا کرتا تھا جسے Keeper of the King's Conscience(بادشاہ کا ضمیر بردار) کہتے تھے۔ مہر صاحب Keeper of the Premier's Conscience(وزیر اعظم کے ضمیر بردار) ہیں۔ اس اثنا میں افطار کا وقت قریب آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھنٹی بجا کر اپنے ملازم رحما کو طلب کیا اور اس کے کہاکہ افطار کے لیے سنگترے کھجوریں کچھ نمکین اور میٹھی چیزیں جو کچھ ہو سکے لے آئے۔ سالک صاحب: افوہ یہ سب کچھ منگوانے کی کیا ضرورت ہے کھجوریں کافی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب: (ایسی شوخی سے جس میں طفلانہ معصومیت کا انداز جھلکتا تھا) سب کچھ کہہ کر ذرا رعب جما دیں کچھ نہ کچھ تو لے آئے گا۔ رحما نے ڈاکٹر صاحب کی ہدایات کی لفظ لفظ پابندی ضروری نہ سمجھی اور قریب قریب سالک صاحب کی خواہش کی پاسداری پر اکتفا کیا۔ افطار کے ساتھ ہی مہر صاحب ڈرائنگ روم میں جا کر مصروف نماز ہو گئے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے ہم سے کہا مہر صاحب نماز کی بہت پابندی کرتے ہیں اور اسی طرح مولوی ظفر علی خاں صاحب بھی مگر مولوی صاحب کی نماز اس رفتار سے ادا ہوتی ہے کہ قیام سے رکوع اور رکوع سے سجود تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ سر شفیع مرحوم نے اس مسلم کلب بناء یتھی۔ اس میں ایک دفعہ مولوی ظفر علی خاں اسی طرح نماز پڑھی اور نماز ختم کرتے ہی مجھے ملامت کرنی شروع کر دی کہ تم نماز کیوں نہیںپڑھتے میں نے کہا مولوی صاحب جب آپ نماز پڑھ رہے تھے تو مجھے یوں معلوم ہو رہا تھاکہ آپ ایک پھانسی ہیں اور نماز پھانسی پر لٹک رہی ہے اور فریاد کر رہی ہے کہ مجھے بچا لو۔ مجھے ظفر علی پڑ گی اہے (مجھ پر ظفر عل آ پڑا ہے) یہ کہتے کہتے ڈاکٹر صاحب خود بھی ہنسے اور ہم نے بھی قہقہہ لگایا۔ مہر صاحب نماز سے فارغ ہو کر آ گئے تو قادیان کی سیاسیات کے متعلق گفتگو ہوئی۔ ان دنوں امیر جماعت قادیان نے اعلان کیا کہ کانگرس اور مسلم لیگ دونوں میں سے ایک جماعت نے ہمارے حقوق تسلیم کیے ہم اسی کے ساتھ شامل ہوں گے۔ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ اگر قادیانی کانگرس کے ساتھ شامل ہو گئے تواس مسئلے کے متعلق انقلاب کی روش کیا ہو گی؟ مہر صاحب نے جو گفتگو کے بیشتر حصے میں خاموش رہے تھے ا س موقع پر بھی سکونت اختیار کیا۔ لیکن سالک صاحب نے ذرا تفصیل سے اس بات کی شرح کی کہ ایسی صورت حال می ںانقلاب کا مسلک کیا ہو گا۔ اس تقریر کو یہاں دہرانا ضروری معلوم نہیں ہوتا۔ مگر ڈاکٹر صاحب اسی سلسلے میں ایک پرلطف فقرہ کہہ گئے جو یہ تھا کہ ہاں مرزا بشیر الدین محمود تو کانگرس اور لیگ سے (سر بہ مہر) ٹنڈر مطلوب ہیں! ان سیاسی مباحث کے بعد خاموشی کا ایک وقفہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اسے توڑا اور کہا۔ ڈاکٹر صاحب گرمی کی چھٹیوں سے پہلے ہم حاضر ہوئے تھے تو آپ نے غالب اور بیدل کے متعلق فرمایا تھا کہ آپ کی رائے می غالب نے بیدل کو سمجھا ہی نہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ بیدل کا تصوف Dynamic(حرکی) ہے اور غالب کا Static(سکونی)۔ ڈاکٹر صاحب: Inclined to be Static(مائل بہ سکون) میں: جی ہاں اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟ ڈاکٹر صاحب: بیدل کے کلام میں خصوصیت سے حرکت پر زور ہے یہاں تک کہ اس کا معشوق بھی صاحب خرام ہے۔ اس کے برعکس غالب کو زیادہ تر اطمینان و سکون سے الفت ہے بیدل نے ایک شعرکہاہے کہ جس میں خرام می کاشت (۵) کی ترکیب استعمال کی ہے گویا سکون کو بھی بہ شکل حرکت دیکھا ہے۔ مثالیں اس وقت یاد نہیں ہیں لیکن اگر آپ بیدل کا کلام پڑھیں تو بہت سے اشعارہاتھ آ جائیں گے۔ میں جن دنوں انارکلی میں رہتا تھا میںنے بیدل کے کلام کا انتخاب کیاتھا وہ اب میرے کاغذوںمیں کہیں ادھر ادھر مل گیا ہے۔ نقشبندی سلسلے اور حضرت مجدد الف ثانی سے بیدل کی عقیدت کی بنیاد یہی تھی۔ نقشبندی مسلک حرکت اور رجائیت پر مبنی ہے (ڈاکٹر صاحب نے Dynamic and Optimisticفرمایا) مگر چشتی مسلیک میں قنوطیت اور سکون کی جھلک نظر آتی ہے (یہاں ڈاکٹر صاحب نے Pessimistic and Staticکے الفاظ استعمال کیے) اسی وجہ سے چشتیہ سلسلے کا حلقہ ارادت زیادہ تر ہندوستان تک محدود ہے مگر ہندوستان سے باہر افغانستان بخارا ترکی وغیرہ میں نقشبندی مسلک کا زور ہے۔ دراصل زندگی کے جس جس شعبے میں تقلید کا عنصر نمایاں ہے اس میں حرکت مفقود ہوتی جاتی ہے۔ تصوف تقلید پر مبنی ہے۔ سیاسیات فلسفہ شاعر ی یہ بھی تقلید پر مبنی ہیں۔ لیکن نقشبندی سلسلے کے شعراء مثلاً ناصر علی سرہندی کو دیکھیے۔ ناصر علی کی شاعری تقلیدی نہیں ہے۔ اسی لیے حرکت والی قوموں میں وہ زیادہ ہر دل عزیزی ہے۔ ہندوستان میں ناصر علی سرہندی کی کچھ زیادہ قدر نہیں ہے۔ لیکن افغانستان اور بخارا کے اطراف میں لوگ اس کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں۔ بیدل کو بھی افغانستان کے لوگ بہت مانتے ہیں۔ میں: اس کے کلام کے حرکی (۶) عنصر کی وجہ کیاہے؟ ڈاکٹر صاحب: (مسکراتے ہوئے) میرا یلا ہے کہ بیدل کے کلام کو سجھنے میں انہیں مشکل پیش آتی ہے اس لیے۔ سعید اللہ: آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے جو غالب نے شروع شروع میںبیدل کی طرح مشکل گوئی کی۔ کیا یہ صرف اس دعوے کے لیے کہ میں بھی مشکل شعر لکھ سکتا ہوں؟ اس موقع پر مہر صاحب نے سالک صاحب کی طرف دیکھا اور دونوں صاحبوں نے بہ اتفاق ڈاکٹر صاحب سے رخصت چاہی۔ چنانچہ قبل اس کے کہ ڈاکٹر صاحب سعید اللہ کے سوال کاجوب دیں کہ ہاں جوانی میں انسان طبعاً مشکل پسند ہوتا ہے۔ وہ دونوں صاحب ڈاکٹر صاحب کی خوا ب گاہ سے نکل کر ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھے۔ ان کی رفت و برخاست کی وجہ سے گفتگومیں قدرۃً ایک اور وقفہ آیا۔ اس کے بعد سعید اللہ (۷) نے کہا کہ آج کل ہندوستان کے نیشنل اینتھم کے متعلق بڑی بحث ہو رہی ہے آپ کی اس مسئلے کے متعلق کیا رائے ہے؟ ڈاکٹر صاحب : نیشنل اینتھم تو اس صورت میں کہیں کہ کوئی نیشن ہو۔ جب سرے سے نیشن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے تو نیشنل اینتھم کہاں ہو سکتا ہے؟ میر ی تو یہ رائے ہے کہ ہندوستان کو کسی نیشنل اینتھم کی ضرورت نہیں ہے۔ سعید اللہ: بندے ما ترم پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ ایک تو یہ بنگال میں ہے دوسرے اس کے آہنگ میں گرمی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب: (ذرا گرمی سے) آپ ہندوئوں کی شاعری میں گرمی ڈھونڈتے ہیں ہندو شاعری کے تمام دفتر دیکھ ڈالیے کہیں گرمی نہیں ملے گی ۔ ہندو کو ہر جگہ شانتی کی تلاش ہے۔ ہندوئوں کی ادبی پیداوار میرے نزدیک اس کی صرف ایک استثنا ہے رامائن اوروہ بھی بعض بعض حصوں میں۔ عبدالواحد: مگر ہندوستان کی موسیقی تو خاصی ہیجان انگیز ہے قوالی میں یہی موسیقی کافی گرمی پید اکر لیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب: میں اسے مصنوعی گرمی کہتا ہوں جس طرح منشیات سے کوئی شخص طبیعت میں ہیجان پیدا کر لے عبدالواحد: کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ وجدو حال کی کیفیت مصنوعی ہے؟ مثلاً ہمارے ہاں سیالکوٹ میں نوشاہیوں کا میلہ ہوتاہے وہاں قوالی سے بعض لوگوں کو ایک دم حال آ جاتا ہے۔ کیا وہ آپ کے نزدیک محض دکھاوا ہے؟ ڈاکٹر صاحب: ان لوگوں نے وجد و حال کو ایک Cult(رواج) بنا لیا ہے یہ کیفیت ان پر واقعی طاری ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنے جوش و جذبات کو اس طرح فرو کر لیتے ہیں تو پھر ان میں باقی کچھ نہیں رہتا اور وہ جذبہ دوبارہ طاری نہیں ہوتا۔ دراصل مسلمان جب عرب سے نکلے اور انہیں باہر کی قوموں سے سابقہ پڑا تو صوفیہ نے ان قوموں کی Effeminacy(نسائیت) کا لحاظ کرتے ہوئے قوالی او رموسیقی کو اپنے نظام میں شامل کر لیا۔ Effiminacyسے مراد ہے Surplus Emotion(فالتو جذبات) ایران اورہندوستان میں فالتو جذبات کی کثرت ہے۔ اور یہی حال ان فالتو جذبات کے خراج کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیہ کے سلسلوں میںقوالی کو جو دخل ہے وہ صرف اسی وجہ سے ہے۔ یہاں لاہور میں ہمارے دوست حاجی رحیم بخش (۸) کے مکان پر ایک ز مانے میں قوالی ہوا کرتی تھی۔ ایک پیر صاحب تھے جن کا نام مہر صوبہ تھا۔ حاجی صاحب ان کے مرید تھے شاید اب تھی ہوں۔ بہرحال ایک مرتبہ حاجی صاحب کے مکان پر سماع کی محفل ہوئی مہر صوبہ اور ان کے مرید جمع تھے حاجی صاحب نے مجھے بھی دعوت دی میں گیا۔ وہاں اسی طرح ایک شخص کو حال آ گیا۔ مہر صاحب کا ایک مرید میرے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا کہ سنا ہے کہ آ پ حال کو نہیں مانتے؟ میں نے کہا کہ مجھے حال کی کیفیت سے توانکار نہیں ہے۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں حال کو نہیں مانتا:؟ وہ بولا آپ کے متعلق لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو جذب و حا ل کی کیفیتوں پر اعتقاد نہیں ہے۔ مگر اب یہ ہمارا پیر بھائی آپ کے سامنے ہے آپ ا س کی نسبت سے کیا کہتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ بے شک اس پر حال کی کیفیت جاری ہے مگر اس حال میں اور آنحضرتؐ کے صحابہ کے حال میں بڑا فرق ہے۔ اس نے پوچھا وہ کیا؟ میں نے کہا یہ بات اپنے پیر صاحب سے جا کر پوچھ لو وہ بتائیں گے اس پر وہ اصرار کرنے لگا کہ نہیں آپ ہی بتا دیجیے۔ میں نے کہا صحابہ کے حال میں اور تمہارے حال میں یہ فرق ہے کہ انہیں تو میدان جنگ میں حال آتا تھا اورتمہیں رحیم بخش کی کوٹھڑی میں! اس لطیفے پر ہم دل کھول کر ہنسے ۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: حقیقت یہ ہے کہ اسلامی موسیقی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ اس وقت تمام اسلامی ممالک میںاپنا اپنا مقامی فن موسیقی رائج ہے۔ مسلمان جہاں جہاںپہنچے وہیں کی موسیقی انہوںنے قبول کر لی اور کوئی اسلامی موسیقی پیداکرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ یہ واقعہ ہے کہ فن تعمیر کے سوا فنون لطیفہ میں سے کسی میں بھی اسلامی روح نہیں آئی۔ اسلامی تعمیرات میں جو کیفیت نظر آتی ہے۔وہ مجھے اور تو کہیں نظر نہیں آتی البتہ پچھلی مرتبہ یورپ سے واپسی پر مصر جانے کا اتفاق ہوا وہاں قدیم فرعونوں کے مقابر دیکھنے کا موقع ملا۔ ان قبروں کے ساتھ مدفون بادشاہوں کے بت بھی تھے جن میں Power(قوت و ہیبت) کی ایک ایسی شان تھی جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قوت کا یہی احساس حضرت عمرؓ کی مسجد اور دلی کی مسجد قوۃ الاسلام بھی پیدا کرتی ہے۔ بہت عرصہ ہوا جب میںنے مسجد قوۃ الاسلام کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا مگر جو اثر میری طبیعت پر اس وقت ہوا وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ شام کی سیاہی پھیل رہی تھی اور مغرب کا وقت تھا۔ میرا جی چاہاکہ مسجد میں داخل ہو کر نماز ادا کروں۔ لیکن مسجد کی قوت و جلال نے مجھے اس درجہ مرعوب کر دیا کہ مجھے اپنا یہ فعل ایک جسارت سے کم معلوم نہ ہوتا تھا مسجد کا وقار مجھ پر اس طرح چھا گیا کہ میرے دل میں صرف یہ احساس تھا کہ میں اس مسجدمیں نماز پڑھنے کے قابل نہیں ہوں۔ اندلس کی بعض عمارتوں میں بھی اسلامی فن تعمیر کی اسی خاص کیفیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن جوں جوں قومی زندگی کے قوا شل ہو تے گئے تعمیرات اسلامی انداز میں ضعف آتا گیا۔ وہاں کی تین عمارتوں میں مجھے ایک خاص فرق نظر آیا قصر زہرا دیوئوں کا کارنامہ معلوم ہوتا ہے مسجد قرطبہ مہذب دیوئوں کا مگر الحمرا محض مہذب انسانوں کا! پھرایک تبسم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا: میں الحمرا کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا مگر جدھر نظر اٹھتی تھی دیوار پر ہو الغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے۔ کہیں انسان بھی غالب نظر آئے تو بات بھی ہو! اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہندوستان کی اسلامی عمارات کا ذکر ہوتا رہا تاج محل کے متعلق ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: مسجد قوۃ الاسلام کی کیفیت اس میں نظر نہیں آتی۔ بعد کی عمارتوں کی طرح اس میں بھی قوت کے عنصر کو ضعف آ گیا ہے اور دراصل یہی قوت کا عنصر ہے جو حسن کے لیے توازن قائم کرتاہے۔ سعید اللہ: دلی کی جامع مسجد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ ڈاکٹر صاحب: وہ تو ایک بیگم ہے! ہم اس فقرے پر ہنسے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔ اس منزل پراسلامی تعمیرات کے متعلق یہ دل کشا بحث ختم ہوئی۔ اب شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے اور تین گھنٹے کی اس مسلسل نشست کو طول دینا مناسب بھی نہیں تھا ہم نے ایک دوسرے کو ان مشورہ طلب نگاہو ں سے دیکھا جنہیں ہم نے معمولاً ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کا پیش خیمہ قرار دے رکھاتھا۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول ہم سے کہا ’’اچھا چلتے ہیں آپ؟‘‘ اور اس کے بعد ہم رخصت ہوئے۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ شعبہ انگریزی اور شعبہ فلسفہ سے مراد اسلامیہ کالج (لاہور) کے یہ شعبے ہیں۔ ۲۔ ۱۹۳۷ء کے وقت کے حساب سے اب یہ وقت غالباً چار بجے کہلاتا ہے۔ ۳۔ علامہ اقبال کے دوران قیام میں یہ مکان اس حد تک بدلا تھا کہ پہلے تو میکلوڈ روڈ سے مڑتے ہی کوٹھی کا پورا بیرونی منظر سامنے دکھائی دیتا تھامگر بعد میں صحن کا رقبہ کسی قدر محدود ہو گیا تھا۔ ۴۔ روزنامہ ’’انقلاب‘‘ مولانا غلام رسول مہر اور مولانا عبدالمجید سالک کے برادرانہ اشتراک عمل سے ۱۹۲۷ء میں جاری ہوا۔ اردو صحافت میں یہ اخبار ’’جذباتی‘‘ کے بجائے ’’مدلل‘‘ اسلوب نگارش کا نقیب بنا۔ چنانچہ نہرو رپورت کا معرکہ حقائق و اعداد کے حوالے سے اسی انداز میں سر ہوا۔ پنجاب کی یونینسٹ حکومت کو علی العموم اور سر سکندر حیات خان کو علی الخصوص ’’انقلاب ‘‘ کی استدلالی تحریروں سے تادم آخر سہارا دیا۔ مگر اب وہ زمانہ آ گیا تھا کہ جب قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے افق سے طلوع ہوئے اور تحریک پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی۔ علامہ اقبال اس وقت پنجاب پراونشل مسلم لیگ کی صدارت کر رہے تھے۔ انہیں سکندر حیات خاں سے شدید اختلاف تھا۔ شاید یہ کہنا صحیح ہو کہ سر سکندر حیات خاں سے قائد اعظم کو جس درجے کا اختلاف تھا‘ اس سے کہیں زیادہ شدید اختلاف علامہ اقبال کو تھا۔ ۵۔ ڈاکٹر صاحب نے جس شعر کی طرف اشارہ کیا وہ یہ ہے: ہر گہ دو قدم خرام می کاشت از انگشتم عصا بہ کف داشت ۶۔ اس تمام گفتگو میں ’’حرکی‘‘ (یا سکونی) کا لفظ نہیں آیا تھا۔ انگریزی لفظ Dynamicاور Staticاستعمال ہوتے رہے۔ ۷۔ یہاں ڈاکٹر سعید اللہ کے متعلق ایک تعارفی حاشیہ ضروری معلوم ہوتاہے۔ ڈاکٹر صاحب اصلاً امرتسر کے رہنے والے ہیں اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو ‘ سعادت حسن منٹو (مرحومین) وغیرھم کی برادری کے ممتاز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہیں۔ علی گڑھ سے ایم اے ایل ایل بی‘ میونخ سے پی ایچ ڈی اور لندن سے ڈی ایس سی پانے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں فلسفے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ مدت تک راسخ العقیدہ کانگریسی رہے۔ آخر مارچ ۱۹۴۷ء میں اپنی تمام املاک ہندو اور سکھ آتش زنوں اور تباہ کاروں کے حوالے کر کے امرتسر سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو ئے اور ہجرت کر کے لاہور پہنچے جہاں بیگم روڈ پر قیام فرما ہیں۔ ۸۔ حاجی رحیم بخش (سیشن جج) لاہور میں فرید کوٹ روڈ پر قیام فرما تھے۔ ان کی وفات ۱۹۵۵ء میں ہوئی۔ ٭٭٭ شاعری اقبال کا شاعرانہ ارتقا یہ مضمون علامہ اقبال کی وفات کے معاً بعد (غالباً مئی جون ۱۹۳۸ء میں ) لکھا گیا تھا۔ اب اس مجموعے کی ترتیب کے موقع پر پرانے متن کی نظر ثانی کی گئی ہے اور دو ایک جگہ بعض معلومات کااضافہ ہوا ہے۔ نیز تشریحی حواشی سب کے سب پہلی مرتبہ شامل کیے گئے ہیں۔ انگریز ہندو عہد کی یہ قلمی کاوش علامہ اقبال کی یاد کے گرد ایک دفاعی حصار کھینچنے کی کوشش تھی۔ مضمون کی اس حیثیت سے تعرض نہیں کیا گیا۔ بعض تفصیلات کے اضافے کے سوا (جن کا ذکر ابھی ہوا ہے) اس تحریر میں کسی قسم کی ترمیم نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی عہد کے متحد برعظیم میں اقبال کی عظمت کے شارح کے لیے بڑا مسئلہ اس دعوے کا اثبات تھا کہ باوصف (یا یوں کہیے کہ بوجہ) اپنے اسلامی جذبہ و شعور کے اقبال کا مقام صف اول کے عالمی شعراء میں ہے۔ استقلال پاکستان کے بعد بھی یہ بحث ختم نہیں ہو سکی۔ قارئین ملاحظہ کریں گے کہ اس مجموعے کا آخری مقالہ’’اقبال کی شاعری کا آفاقی لہجہ‘‘ گویا اسی مسئلے کا حل بہ انداز دگر تلاش کرتا ہے۔ اور گو یہ مقالہ بوجوہ خاص انگریزی زبان میں لکھا گیا توقع ہے کہ پاکستان کی خواندہ آبادی کا ذولسانین طبقہ کلام اقبال میں آفاقیت کی اس بحث کو ناقابل اعتنا خیال نہیںکرے گا۔ ٭٭٭ ہمارے ملک کے ادبی اور سیاسی حلقوں میںاقبال کی شاعری کے متعلق ایک قول عام طور پر دہرایا جاتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اقبال شروع میں ایک وطن پرست شاعر تھا لیکن دور آخر کے آتے آتے اس کے خیالات میں ایک شدید انقلاب پیدا ہو چکا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ایک خاص فرقے اورایک خاص مذہب کی ترجمانی کو اپنا فرض قرار د ے لیا۔ رواج پا جانے والے اکثر غلط نظریوں کی طرح اس قول کی تہہ میں بھی صداقت کا ایک نمایاں شائبہ موجو د ہے۔ اس لیے کہ دور اول اور دور آخر کے اقبال میں ایک خاص امتیاز واضح طورپر نظر آتا ہے۔ مگر اس امتیاز کی جو تاویل کی جاتی ہے وہ ادبی تنقید کو سیاسی مصلحتوں کے بھینٹ چڑھا دینے کی ایک زندہ مثال ہے۔ اول تو یہی غلط ہے کہ دور اول کے اقبال میں صرف عشق وطن نظر آتا ہے اور عشق مذہب دکھائی نہیں دیتا۔ پھر پہلے اور آخری دور کے فرق کو ایک ذہنی انقلاب کا نام دینا اور بھی غلط ہے۔ جس کیفیت کو اقبال نے قلب ماہیت سے منسوب کیا جاتاہے۔ وہ دراصل اس کی اولین شاعرانہ فطرت کے ارتقاء کی ناگزیر منزل مقصود تھی دور حاضر کے سیاسی و عمرانی ماحول سے اقبال کی شخصیت کے ٹکرانے کا لازماً یہی منطقی نتیجہ پیدا کرنا تھا کہ اقبال کی اٹل منزل حیات کی طرف جادہ پیما ہوتا۔ اقبال کی فطرت کا وہ عنصر جسے ایک ذہنی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی عمر کے چالیسویں برس سے کچھ پہلے (۱۹۱۱ئ۔ ۱۹۱۲ء کے قریب) نمایاں ہوا مگر ا س کو یوں بیان کرنا کہ اقبال نے وطن کے دیوتا سے منہ موڑ کر ’’قوم‘‘ کے سنگھاسن کے سامنے سر جھکا دیا واقعا ت کوغلط طورپر دیکھنا ہے۔ اس کیفیت کی مثال تبدیل مذہب سے نہیں دی جا سکتی۔ یہ ایک صاحب جوہر ہستی کا اپنی تقدیر کی اس انتہائی منزل کی طرف اٹل کوچ ہے جس سے اس کا رخ دراصل ایک لمحے کے لیے بھی نہیں پھرا تھا۔ برنارڈ شا نے کسی جگہ کہا ہے کہ صاحب جوہر وہ شخص ہے جو ’’اہم ‘‘ اور ’’غیر اہم‘‘ کے درمیان امتیاز کر سکے۔ جوہر قابل کی اس تعریف میں ایک بنیادی حقیقت چھپی ہوئی ہے۔ کہ اس کی عقابی نگاہ مرکزی حقائق اور اہم امور کو سب سے پہلے تاکتی ہے۔ اقبال جوں جوں اقبال بنتا گیا اور تقدیر کے پردے اس کی نگاہ کے سامنے پھٹتے چلے گئے اسی قدر وہ اپنے آپ کو زیادہ واقعات کی دنیا کے قریب تر پاتا گیا۔ حالی اور کبر سے لے کر آج ت ہمارے ادیبوں میں سے شاید ہی کسی کانام لیا جا سکے جس نے تخیلات کی دنیا میں بے غل و غش پڑے رہنے پر قناعت کی ہو اور دور حاضڑ کے ہنگامہ سیاست و مذہب میں شامل ہو کر آشوب واقعات سے کسی قسم کا ربط پیدا نہ کیا ہو۔ پھر اقبال جیسی لبریز حیات شخصیت کا اپنے حالات گرد و پیش سے بے نیاز رہنا کس طرح ممکن ہو سکتا تھا؟ حقیقت صرف اتنی ہے کہ ’’مخزن‘‘ کے پہلے پرچے میں جس اقبال نے ’’کوہستان ہمالہ‘‘ پر اپنی نظر شائع کی اس کے سینے میں ابھی وہ نور پوری طرح نہیں چمکاتھا۔ جس نے گرامی کی زبان میں اسے پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت کی سند عطا کرائی۔ اقبال کی شاعری کا آغاز اگرچہ سیالکوٹ میں ہوا لیکن اس کے تدریجی ارتقاء کاپہلا قدم دراصل اقبال کا سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہونا تھا۔ ۱۸۵۹ء میں ایف اے کی منزل سے گزر کر اقبال لاہور آئے اس سے کم سے کم دو برس پہلے زمانہ قیام سیالکوت میں بھی ان کا کلام ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہونے لگا تھا۔ چنانچہ یہ بہ سہولت ممکن ہے کہ اقبال کے وہ اشعار جو قدیم رسمی انداز میں لکھے گئے ہیں اور وہ اشعار جن میںایک ادائے خاص کا اضطراب ابلنے کو ہے الگ الگ کر کے دیکھے جا سکیں۔ اپریل ۱۹۰۱ء میں لاہور سے ’’مخزن‘‘ جاری ہوا اور آئندہ چند سال تک اقبال کی نظم و نثر اس رسالے میں مسلسل شائع ہو تی رہی۔ جولائی ۱۹۰۱ء کے ’’مخزن‘‘ میں (صفحہ ۴۷) قدیم رنگ کی یہ غزل چھپی: محبت کو دولت بڑی جانتے ہیں اسے مایہ زندگی جانتے ہیں نرالے ہیں انداز دنیا سے اپنے کہ تقلید کو خود کشی جانتے ہیں جو ہے گلشن طور اے دل تجھے ہم اسی باغ کی اک کلی جانتے ہیں یہاں ’’تقلید کو خود کشی‘‘ قرار دیتے ہوئے اگرچہ اقبال کا ذاتی اجتہاد ایک جھلک دکھا گیاہے لیکن پھر بھی صورت و معنی دونوں لحاظ سے یہ غزل ایک فرسودہ پیکر معلوم ہوتی ہے اب اسی زمانے کی ایک اور غزل دیکھیے(’’مخزن‘‘ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۴۵) جس میں قدیم رنگ کے باوجود اقبال کا اپنا انداز خاص ابھر کرسامنے آ گیا ہے: لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے دیکھ لیتا ہوں جہاں تنکا کوئی چبھتا ہوا میںاٹھا لیتا ہوں اپنے آشیانے کے لیے اس دور کے رسمی انداز غزل سرائی کے باوجود اقبال کا مخصوص فلسفہ سخت کوشی اس غزل کے مطلع میں (اور بعض دوسری ادبیات میںبھی) اپنی انفرادیت کا اعلان کرتا ہو ا نظر آتاہے۔ ان دونوں مذکورہ غزلوں نے ’’بانگ درا‘‘ کے انتخاب میں جگہ نہیں پائی (اوربجا طور پر نہیں پائی) لیکن ایسے آشیانے کی تلاش جو بجلی کی زد میں ہو اقبال کے ہوش مند طالب علم کو صاف بتا رہی ہے کہ اس دوران میں شاعر کی عظیم الشان شخصیت کا تسلسل کہیں برہم نہیں ہوا۔ باقی رہی نظم کے بارے میں اگر ذراسا غور کیجیے تو ظاہر ہو گا کہ دور اول میں ’’مقامی‘‘ رنگ کے ظہور کے باوجود اقبال کی فطرت نے اپنے مقصدی انداز سے بھی انحراف نہیں کیا۔ اپریل ۱۹۰۱ء سے مارچ ۱۹۰۵ء تک کی چہار سالہ مدت میں ’’مقامی‘‘ رنگ کی جو قابل ذکر نظمیں ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوئیں ان کاجائزہ لیجیے تو صاف ظاہر ہو گا کہ قید مقامی میں بھی احساس مقصد برابر زندہ ہے ۔ یہ چند نظمیں ترتیب وار دیکھیے: اپریل ۱۹۰۱ء ’’کوہستان ہمالہ‘‘ (اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان) اکتوبر ۱۹۰۴ئ۔ ’’ہمارا دیس‘‘ (سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا) فروری ۱۹۰۵ء ۔ ’’ایک ہندوستانی لڑکے کا گیت‘‘ (چشتی نے جس زمین میں پیغام حق سنایا)۔ مارچ ۱۹۰۵ئ۔ ’’نیا شوالہ‘‘ (سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے) ان چاروں نظموں میںاقبال کی عظمت بظاہر ہندوستان کے جغرافیے میں محصور معلوم ہوتی ہے مگر گو ان سب نظموں پر ہندوستان کا سایہ پڑ رہا ہے ان کا پس منظر ایک بے قید و بے مقام معنویت سے چمک رہ اہے۔ اسی دور کی ایک اورمقامی نظم ’’کنار راوی‘‘ ہے جو احساس و تخیل کی حد بندیوں کے لیے شاعر کو ایک عجیب و غریب موقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن وہ قید مقام سے بلا تکلف گزر جاتا ہے اور لاہور کے دریا کو ابدی زندگی کے سمندر میں ملا دیتا ہے۔ الغرض کیا نظم اور کیا غزل دونوں میں ارتقاء کا ایک واضح عمل جاری ہے۔ کہیں کوئی جھٹکا نہیں کہیںکوئی ناگہانی زلزلہ نہیں جو ہمیں ایک منزل سے گھسیٹ کر دوسری منزل میں لے جا رہا ہو۔ اقبال نے ۱۹۰۵ء میں سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے کے الفاظ کے ساتھ ایک نیا لہجہ ہی اختیار نہیںکیا بلکہ اجتماعی شعور کا وہ باب کھولا ہے جو کچھ عرصہ پہلے بند تھا۔ ’’نیا شوالہ‘‘ میں زندگی کی وہ پہلی لرزش محسوس ہوتی ہے جو اعلان کر رہی ہے کہ فرد کو جماعت میں ضم کرنے کے اس ابتدائی تجربے کے ذریعے اقبال نے اپنے مقصد زندگی کو پا لیا ہے۔ جس وقت شاعر کی روح اس نظم میں امنڈ آئی زمانے نے دیکھ لیا کہ اس کے دست و بازو میں ضرب کلیم کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اس واقعے پر اور پانچ سات سال نہیں گزرے تھے کہ نئے تعصبات اور پرانے بتوں کوتوڑنے کا وقت آ گیا۔ ہزروں برس سے ان قدیم بتوں کو جو اولاد آدم کے درمیان بیر ڈالتے رہے تھے اور نئی قوم پرستی کی اس ’’انوپ مورتی‘‘ کو جو ’’ہردوار دل‘‘ میں لا بٹھائی گئی تھی۔ (۱) اییک ہی نعرہ توحید نے پاش پاش کر دیا۔ جذبہ و فکر کے ایک نئے نظام کی تشکیل کا آغاز ہوا اورسنت ابراہیمیؑ نے بیسویں صدی کے فلسفہ خودی کی صورت میں ظہور کیا۔ اس کے بعد پیغمبری کی یہ راہ اقبال کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوئی۔ ہندوستان کے بعد ایشیا جس کی زبان بن کر اقبال نے یورپ کو اپنی تاریخی یاددہانی روانہ کی : تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی اور ایشیا کے بعد (مذہب کی راہ سے) ایک عالمگیر انسانی اخوت کے عالم تک پہنچنا بالکل قدری تدریجات تھیں۔ اقبال کا مقصد و منتہا ملتن ورڈز ورتھ اور شیلے کی طرح اپنی قوم بلکہ تمام بنی نوع انسان کو ایک بلند نصب العین کی طر ف لے جانا تھا۔ شیکسپیر نظری اور غالب کی طرح انسانی فطرت کے اسرار و رموز اور واردات قلبی کی تصویر کشی اس کاکام نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے ظہور کے ساتھ عشق و محبتر کے بیان میں جو غزلیں لکھیں ان میں اس عظمت کی جھلک نظر نہیں آتی تھی جو اس کی بعد کی نواہائے تیز کے لیے مقدر ہو چکی تھی۔ ہم سب جانتے ہیںکہ وہ اس کوچے سے ناآشنا نہیں تھا۔ اور ارضی محبت کے لحاظ سے اس کے تجربہ حیات میں کسی دوسرے شاعر سے کم وسعت نہیں تھی۔ باایں ہمہ جس حقیقت کی ترجمانی کے لیے وہ مامور ہو ا تھا اس کے بیان کے ساتھ قلب انسانی کی واردات و کیفیات کی مصوری کی گنجائش نہیں تھی۔ شاعری سے کہیں زیادہ پیغمبری اس کی شخصیت سے ظاہر تھی۔ وہ ایک ایسے چمکتے ہوئے سیارے کی مانند تھا جو ہر لحظہ نئے بروج و افلاک کی طرف مصروف خرام رہتا ہو۔ وہ شاعروں کی صف میں ’’پیغمبر‘‘ اور ’’پیغمبروں‘‘ کی صف میں شاعر معلوم ہوتا تھا۔ اس کا اہم ترین وظیفہ حیات انسانی زندگی کو بہتر اور بلند تر بنانا تھا۔ ہندوستان اور مشرق اور عالم انسانی اس کے ’’پیغمبرانہ‘‘ اضطراب کے مختلف زینے تھے۔ لیکن خواہ وہ نیچے کے زینے پر کھڑا نظر آئے یا اوپر کے زینے پر وہ ہر رنگ میں زندگی کا ایک معمار ہے اس ک گزشتہ چالیس سال کی سرگرمیاں دراصل ایک ہی سرگرمی کے مختلف پہلو ہیں۔ شروع میں ہندوستان پھر ایشیا اورپھر تمام کائنات اسلام کی تعمیر کو وہ اپنے حلقہ عمل میں شامل دیکھتا ہے۔ اس کی حرکت کا دائرہ بتدریج وسیع تر ہوتا جاتا ہے مگر اس ارتقاء میں کوئی تناقض کوئی نام نہاد انقلاب کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کے طلوع و ظہور کے تین افق ایک ہی آسمان کے تین افق ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کے یہ تین دور کون سی خصوصیات کے حامل تھے ۔ جن کی روشنی میں سہ گانہ تقسیم کو کوئی مفہوم پہنانا ممکن اور جائز معلوم ہو۔ ہم طے کر چکے ہیں کہ یہ ارتقاء دراصل ایک ہی حرکت حیات کا تدریجی انکشاف تھا۔ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کس بنا پر اس انکشاف نے یہ تین منازل اختیار کیں؟ اقبال کی شاعری کا دور اول جو شاعر کے قیام یورپ (۱۹۰۵ئ۔ ۱۹۰۸ئ) کے ساتھ ختم ہوتاہے سرف ایک خاص ذہنی استعداد یا شاید یہ کہنا بہتر ہو کہ ربط حیات کے ایک خاص ملکے کا سراغ دیتا ہے۔ یہاں ہم اس ذوق ہنگامہ سے دو چار ہوتے ہیں جسے عادت ہے کہ حوادث و مصائب کو ٹھوکر مار کر دعوت پیکار دے اور جسے آگے چل کر اقبال کی عمارت کا کونے کا پتھر بننا ہے۔ غزل اور نظم میں جگہ جگہ ہمیںیہ خاص ذہنی ملکہ اپنے نشان دیتا چلا جاتا ہے: رلاتا ہے ترا نظٓرہ اے ہندوستاں! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوںمیں سن اے غافل صدا میری یہ ایسی چیز ہے جس کو وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوںمیں نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ٭٭٭ ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا (۲) پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو جو مشکل ے تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا دکھا دوں گا جہاں کو جو مری آنکھوں نے دیکھا ہے تجھے بھی صورت آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا ’’تصویردرد(۱۹۰۴ئ) باایں ہمہ زندگی کے ساتھ ابھی وہ گہرا ربط پیدا نہیں ہوا کہ کوئی خاص نظام عمل اقبال کے سامنے ہو۔ وہ مقامی اثرات میں محصور ہے اور زیادہ تر اپنے ملک کے کوہ و دریا کانام لیتا ہے۔ اسلام کی گزشتہ عظمت و سطوت کے مناظر کو دیکھتا ہے۔ یتیموں کے دکھڑے سنا سنا کر روتا اور رلاتا ہے یا ہندوستان کی پھوٹ کا ماتم کرتا ہے۔ یورپ پہنچ کر اسے ایک نئی اورزیادہ وسیع دنیا نظر آتی ہے۔ اب اسے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ زندگی کیا ہے اور زندگی کے مسائل کیا ہیںَ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مقامی امورہی حیات انسانی کے مہمات مسائل نہیں ہیں۔ جس جھگڑے کا فیصلہ زیادہ ضروری ہے وہ ایشیا کی پس ماندہ اقوام اوریورپ کی شہنشاہیت پسند نسلوں کا جھگڑا ہے۔ اب پہلی مرتبہ اہم اور غیر اہم کے درمیان اسے وہ امتیاز کرنا پڑتا ہے جوایک صاحب جوہر ہستی کی پہلی پہچان ہے۔ زندگی کے حقائق سے پہلی مرتبہ اس کی ٹکر ہوتی ہے اور کچھ کام کرنے کی خواہش اسے ا س قدر بے تاب کر دیتی ہے کہ وہ شعر گوئی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنا چاہتا ہے۔ خوشی قسمتی سے چند ذی فراست احباب اسے اس ارادے سے باز رکھتے ہیں۔ لیکن ربط حیات کا وہ ملکہ جو اب تک عالم تخیل سے باہر نہیں آیا تھا قوت سے فعل میں آنے کے لیے مضطرب ہے۔ عملی زندگی کی پیچیدگیاں اب اسے گہری سوچ بچار کی مستحق معلوم ہوتی ہیں۔ مشرق و مغرب کا باہمی تعلق قوموں کا عروج و زوال ملکوں کے معاشرتی سیاسی اور اقتصادی ادارے سب شدت کے ساتھ اسکے غور و فکر کو دامن گیر ہوتے ہیں۔ یہاں پہلی مرتبہ اس کے ذہن پر یہ نکتہ روشن ہوتا ہے کہ زندگی ایک رزم گاہ ہے جس کے سپاہی کا سب سے تیز ہتھیار استحکا م نفس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد کے آٹھ دس سال جن میں اقبال نے اپنا عظیم الشان عمرانی فلسفہ تیار کیا دیار فرنگ میں واقعات سے ربط پیدا کرنے کی اس کیفیت کا لازمی نتیجہ تھے۔ اب اقبال کے سامنے زندگی کے کارخانے کی تمام جزئیات و تفصیلات تھیں اوروہ ان کے متعلق ایک خاص طرز خیال اور نقطہ نگاہ کی نشوونما کر رہا تھا۔ شمع اور شاعر (۱۹۱۲ئ) اردو میںاس دور ثانی کی بہترین یادگار ہے۔ لیکن اس زمانہ تعمیر و تشکیل کا بلند ترین مظہر فارسی کی دو مثنویاں ہیں۔ ’’اسرار خودی‘‘ (۱۹۱۵ئ) اور ’’رموز بے خودی‘‘ (۱۹۱۸ئ) اقبال کی آنے والی عظمت کا نقش اول ہی نہیں بلکہ اس کی جلالت قدر کی کوہ صفت اور غیر متزلزل بنیاد ہیں۔ اپنے شاعرانہ ارتقاء کے اس دوسرے دور میں اقبال نے زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق ایک پختہ اور عظیم نقطہ نظر بڑی وضاحت سے پیدا کر لیا ہے۔ اب صرف حالات و واقعات کی دینا پر اس نقطہ نظر کا اطلاق کرنا باقی تھا۔ اس کام کو اقبال نے تحصیل کمال کے تیسرے دور میں انجام دیا۔ یہ تیسرا دور شاعر کی زندگی کے آخری سولہ سترہ برس کے عرصے پر حاوی ہے۔ ایک خاص طبقے کی رائے میں یہی اقبال کی زندگی کا قابل اعتراض زمانہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تیسرا دور دوسرے کا لازمی تتمہ ہے۔ جس سے کسی صورت میں مفر نہ تھا۔ اگر ہم تیسرے دور پر اعتراض کریں تو ا س کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں تو یہ گوارا ہے کہ اقبال ایک خاص نوعیت کے نظریات کا بیان واقعات و حقائق کی روشنی میں کرے۔ یہ نظریات ہمیں ناقبال قبول معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اردو میں ’’طلوع اسلام‘‘ ج(۱۹۲۲ئ) اور فارسی میں ’’پیام مشرق‘‘ (۱۹۲۳ئ) اس دور سام کی اولین نقیب ہیں۔ اس دور میں اقبال عام اصول ونظریات کے بیان پر اکتفا نہیںکرتا۔ وہ خاص خاص واقعات یا خاص خاص شخصیتوں کا نام بہ نام ذکر کر کے حالات حاضرہ پر اپنے مخصوص نقطہ نگاہ کے ماتحت تنقید کرتا ہے۔ اب اس نے واقعات کی دنیا سے براہ راست تعلق پید ا کر لیا ہے اور وہ اس عالم نو بہ نو میں اپنے خیالات عملاً نافذ کرنا چاہتا ہے۔ عرصہ ہوا جب ’’طلوع اسلام‘‘ شائع ہوئی بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ا س نظم میں شاعر کے تخیل کو کچھ ضعف آتا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔ یہی شکایت اقبال سے بھی انہوںنے کی جس کا جوا ب انہیں یہ ملا کہ جو پیغام میں دینا چاہتا ہوں وہ اب میرے لیے بالکل واضح ہو گیا ہے ۔ میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں (۳) چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ ’’طلاع اسلام‘‘ کے بعد سے اقبال کے لیے اظہار خیال مطلب آرائش گفتار سے ہمیشہ زیادہ اہم رہا۔ اس تیسرے دور کے آغاز میں فارسی زبان کی طرف جو توجہ ہوئی اس کی غیر شعوری وجہ شاید یہ تھی کہ روز مرہ کے واقعات کا بیان اردو میںبے رنگ اورپھیکا معلوم ہوا اور فارسی میں یہ آسانی ایک زیادہ موثر پیرایہ بیان میسر آ سکا۔ اگر یہ مذکورہ بالا تاویل درست تسلیم کی جائے تو غالب اور اقبال کی شخصیتوں کے باہمی فرق کے باوجود یہ عجیب اتفاق ہے کہ دونوں نے ایک ہی قسم کے اسباب کی تحریک پر علی الترتیب تیس اور چالیس برس کی عمر میںا ردو سے علیحدہ ہو کر صرف فارسی گوئی کو اپنا شاعرانہ دستور بنا لیا۔ ’’خضر راہ‘‘ (۱۹۲۱ئ) اور ’’طلو ع اسلام‘‘ (۱۹۲۲ئ) سے قطع نظر اقبال نے اب اپنے نئے مضامین پہلے صرف فارسی زبان میں اد ا کیے پھر جب ’’پیام مشرق‘‘ (۱۹۲۳ئ) ’’زبور عجم‘‘ (۱۹۲۷۸ئ) اور ’’جاوید نامہ‘‘ (۱۹۳۲ئ) کی مشق سخن نے اس خاص طریق بیان میں پختگی پیدا کر دی تو خود بخود اردو کی طرف رجوع ہوا چنانچہ بال جبریل (۱۹۳۵ئ) میں عربی شاعری کی سادگی اور زور بیان دونوں بیک وقت موجود ہیں۔ لیکن اس دور کی شاعری کا اسلوب ہی صاف صاف نہیں بلکہ مضماین بھی کھرے کھرے اور ذرا سخت ہیں۔ گزشہ سال ایک بنگالی فاضل (۴) نے ایک محفل میںجہاں میں بھی موجود تھا شکایت کی کہ مغربی تہذیب کے متعلق اقبال کا نظریہ سخت گیرانہ اور ضرورت سے زیادہ منتقمانہ ہے۔ میں نے اس کے جواب میں ان سے یہی کہا تھا کہ اقبال کے لیے یورپ کا عالمی تسلط کوئی نرا علمی مسئلہ نہیں ہے۔ اقبال کے لیے یہ صورت حال عملی زندگی کا ایک ہنگامہ ہے۔ اس لیے اس قسم کی ہر چیز کے متعلق اس کا نقطہ نظر ایک ایسے شخص کا نقطہ نظر ہے جو واقعات سے عملاً دوچار ہو۔ اقبال کا نرم سے نرم قول یورپ کے متعلق یہ ہے: تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو ایک اور بات جو اکثر معرض بحث میں آتی ہے اقبال کے دور آخر کی سیاسیات ہیں۔ دراصل ہندوستان میں ابھی تک ہندو اورمسلم سیاسیات کا علیحدہ وجود بڑی شدت سے قائم ہے (۵) جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتوں میں قوت و اقتدار کا وہ توازن ابھی قائم نہیں ہوا جس کا نتیجہ باہمی اعتماد ہو۔ آزادی وطن کے متلق کانگرس کا نصب العین بلاشبہ بلند ہے لیکن موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اکثر مسلمان اس پر آمادہ نہیں ہیں۔ کہ ہندوستان کے اسلامی مفاد کو قطعاً کانگرس کی صوابدید کے حوالے کر دیں۔ اقبال کا ذوق حرکت و عمل اس تیسرے دور میں اسے کھینچ کر خود بخود سیاسیات تک لے آیا تھا۔ اگر اسے ہندوستانی سیاسیات سے محض علمی بحث ہوتی تو وہ ہر قسم کی جماعتی نزاع سے بالاتر رہ سکتا تھا۔ لیکن وہ تو اصلی طور پر زندگی سے ربط پیدا کرنے کے لیے مضطرب تھا۔ اس لیے جماعتی سیاسیات کے اس دور می اس کا کسی نہکسی جماعت میںشامل ہونا ناگزیر تھا۔ ملت از وطن کے جغرافیائی اور نسلی تصور سے وہ بہت بلند ہو چکا تھا۔ اس لیے سچ پوچھیے تو کانگرس کی صفتوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کے اسلامی اشتراکی نظریات نے ا س کے اس میلان کو اور تقویت پہنچائی تھی اب اس کی ہمہ گیر بین الاقوامیت نسلی یا وطنی حدود میںمحصورنہیںرہ سکتی تھی۔ اقوام شرق سے اگر اس کا خطاب تھا تو سرف اس لیے کہ عالم انسانی کا یہ حصہ اپنی خودی کھو بیٹھا تھا۔ اور اسی طرح مغربی شہنشاہیت کے پنجے میں اسیر تھا۔ جس طرح مزدور سرمایہ دار کی گرفت میں۔ اقبال کا فلسفہ حیات اسے محض ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کی رعایت سے نہیں قدرتی ارتقاء کی تین منزلوں سے گزرتے ہوئے ملا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ یہ فلسفہ اس کو روحانی طو ر پر اسلام کے قریب لے آیا تھا۔ میرا اپنا عقیدہ یہ ہے کہ کانگرس کا سیاسی نصب العین کچھ اس سے بھی زیادہ زبلند ہوتا تب بھی اقبال اس پس ماندہ جماعت سے کبھی اپنا منہ نہ پھیرتا جس کے مذہبی نظام نے اس کے فطری نصب العین کی طرف اس کی رہنمائی کی تھی: دریوزہ گر آتش بیگانہ نہیںمیں یہی وجہ تھی کہ ایشیا اور ہندوستان کی سیاسی تقدیر کے حل کے لیے اقبال مسلم سیاسیات سے وابستہ ہوا۔ لیکن پہلے اور تیسرے دور میں کوئی تضاد نہیںہے۔ ربط واقعات کی جس منزل کی طرف وہ دور اول روانہ ہوا تھا وہ لازماً اسے یہیں پہنچانے والی تھی۔ اب بھی وہ یہ کہتا ہے: ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی مگر اب وہ وطن کا نام لے لے کر لوگوں کو خودی اور آزادی کی منزلکی طرف نہیں پکارتا۔ وطن کے تصور کو وہ بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے اب اس کے سامنے ایک نصب العین ہے اور وہ اس نصب العین کی انتہائی بلندی کو واقعات کی دنیا سے دو چار دیکھنا چاہتا ہے۔ اس دور کا اقبال خیالی اقبال نہیںعملی اقبال ہے۔ اگر سیاسیات میں قدم رکھنا اس کے لیے لاز م تھا تو اس کے مخصوص نصب العین کے لیے سیاست کا کوئی رنگ مسلم سیاسیات سے زیادہ موزوںنہیںتھا۔ حواشی ۱۔ پھر اک انوپ ایسی سونے کی مورتی ہو اس ہردوار دل میںلا کر جسے بٹھا دیں یہ شعر اقبال کی نظم نیا شوالہ کے ان چند اشعار میں سے ہے جو بانگ درا کی ترتیب کے موقع پر حذف کیے گئے (ملاحظہ ہو ’’مخزن‘‘ بابت مارچ ۱۹۰۵ء صفحہ ۵۰) ۲۔ اس شعر کا مصرع ثانی بانگ درا (۱۹۲۴ئ) میں اسی طرح شائع ہواجس طرح یہاں دیا گیا ہے۔ لیکن اس کی اصل صورت(ملاحظہ ہو ’’مخزن‘‘ بابت مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۶۴) جس میں یہ انجمن حمایت اسلام کے انیسویں سالانہ جلسے میں پڑھا گیا۔ حسب ذیل تھی: تری ظلمت میں میں روشن چراغاں کر کے چھوڑوں گا ۳۔ اب نصف صدی کے بعد یہ توضیح شاید باعث دلچسپی ہو کہ طلوع اسلام کے سلسلے میں یہ روایت ہے کہ ۱۹۲۲ء میں راقم الحروف سے مولانا غلام رسول مہر نے کی۔ مراد یہ ہے کہ مولانا مہر نے طلوع اسلام پر تنقید کی اور علامہ اقبال نے انہیں یہ جواب دیا جو یہاں بیان کیا گیا ہے مولانا مہر طلوع اسلام کا مقابلہ شمع اور شاعر کے انداز بیان سے کرتے تھے۔ ان کے نزدیک ۱۹۲۲ء کی لکھی ہوئی نظم شاعرانہ کمال کی اس سطح پر نہیں تھی جس پر ۱۹۱۲ء میں لکھی ہوئی نظم طلوع اسلام کے ا س قسم کے اشعار اس وقت خصوصیت سے مولانا مہر نے پیش کیے تھے: ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انسان نوع انساں کا شکاری ہے ۴۔ یہ اشارہ ہے ڈاکٹر آمیا چکرورتی کی طرف جو ان دنوں عارضی ور پر فارمن کالج سے منسلک تھے ۔ علامہ اقبال کی علالت کے زمانے میں جب پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے تو ڈاکٹر چکرورتی ہی کی تحریک پر اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ ذکر خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ ڈاکتر چکرورتی علامہ اقبال کی فضیلت علمی کے مداح اوران کے خطبات کی انگریزی نثر کی تعریف میںرطب اللسان تھے۔ ۵۔ یہ ۱۹۳۸ء کے نصف اول کی تحریر ہے اوراس مناسبت سے ہندو مسلم چپقلش کا یہ ذکر یہاںبرقرار رہنے دیا گیا ہے۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کا انتخاب بیدل یہ مضمون غالباً ۱۹۴۰ء میں لکھا گیا اوراسی سال پانزادہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ کے دو مسلسل شماروں میں چھپا۔ اب نظر ثانی کے موقع پر ا س میں کہیں کہیں لفظی ترمیمات کی گئی ہیں۔ جن صاحبوں کو علامہ اقبال سے شعر وشاعری کے متعلق گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ اعلامہ مرحوم مرزا عبدالقادر بیدل کو بحیثیت شاعر کتنا بلند مرتبہ دیتے تھے۔ یہ محض زبانی تعریف ہی نہ تھی بلکہ اس کی بنیاد بیدل سے اقبال کی عمیق روحانی ہم آہنگی پر قائم تھی۔ ایک مرتبہ علامہ مرحوم نے دوران گفتگو فرمایا کہ میں Art of Art's Sake(فن برائے فن) کے نظریے کا قائل نہیںہوں۔ اسی نقطہ نظر کے ماتحت وہ صاحب مقصد شعرا کو محض فن کار شعرا پر ہمیشہ ترجیح دیتے تھے۔ بیدل کے لیے بھی شاعری محض ایک فن لطیف نہیں ہے۔ بلکہ اس کا پورا کلام اقبال کے کلام کی طرح ایک مقصد کے تابع ہے۔ سترھویں صدی کے مغلیہ ہندوستان میںاحیائے اسلام کی جو آخری کوشش کی گئی بیدل اسی کا ایک ظہور تھا۔ یہیں سے بیدل اور اقبال کا باہمی رشتہ واضح ہو جاتاہے لیکن مذہب و سیاست سے قطع نظر بیدل کے کلام کو پڑھیے تو معاً اندازہوتا ہے کہ بیدل کی شاعری نے اقبال کے دل و دماغ کو کس درجہ متاثر کیا ہے کہیں کہیں اقبال نے وضاحت سے اس کا اعتراف بھی کیا ہے: محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش مذہب ہے جس کا نام وہ ہے اک جنون خام ہے جس سے آدمی کے تخیل کو انتعاش کہتا مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش با ہر کمال اند کے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدہ بے جنوںمباش! (بانگ درا) اس قسم کی تحسین سے کہیں زیادہ قابل توجہ وہ نامعلوم مگر دور رس اثرات ہیں جنہوںنے اقبال کی شخصیت کے ساتھ ترکیب پا کر بالآخر اس کے شاعرانہ خیالات و عقائد کو زندہ اور متحرک کیا اقبال کے اساسی تصورات میں سے اس کے تصور حرکت کو لیجیے یا ضمنی مضامین میں بہشت کے متلق اس کے خیالات کو دیکھیے اورپھر بیدل کے کلام کا مطالعہ کیجیے تو بیدل کو اقبال کے ایک ہم جنس اور ہم خیال کی حیثیت سے پہچاننے سے کوئی دقت نہیں ہوتی۔ بہشت کے متعلق بیدل نے بہت سے شعر لکھے ہیں حسب ذیل شعر جو بیدل کے بہترین اشعار میں سے ہے کسی ناواقف شص کو شاید خود اقال کا شعر معلوم ہو: گویند بہشت است و ہمہ راحت جاوید جائے کہ بہ داغے نہ تپد دل چہ مقام است ترجمہ: کہتے ہیں کہ بہشت میں ہمیشہ آرام ہی آرام ہے۔ بھلا وہ بھی کوئی جگہ ہے جہاں دل میں آرزوئوں کی بے قرار ی نہ ہو۔ اسی سلسلے میں ایک اور بات مجھے قابل ذکر معلوم ہوتی ہے۔ ۱۵ فروری ۱۹۳۷ء کو لاہور میں انجمن اردو پنجاب کے زیر اہتمام یوم غالب منایا گیا۔ اس تقریب پر کارکنان انجمن کی درخواست کے جواب میں علامہ اقبال نے بھی ایک پیغام بھیجا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ اس دن بعض حضرات نے اس امر پر اظہار تعجب کیا کہ علامہ اقال ے یوم غالب کے موقع پر نوجوانوں کو کلام بیدل کے مطالعے کی ترغیب کس مصلحت سے دی۔ لیکن دراصل یہ نہ صرف علامہ اقبال کی شیفتگی بیدل کا ایک ثبوت تھا۔ بلکہ اس سے غرض یہ بھی تھی کہ اہل ذوق اس نظریہ شعر کی طرف متوجہ ہوں جو اقبال و بیدل کے درمیان مشترک قدر کی حیثیت رکھتاہے۔ علامہ اقبال کا پیغام یہ ہے: ’’اپنا پیام تو میں کیا دوں گا البتہ غالب کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں جو آج یوم غالب منا رہے ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے: بگزر از مجموعہ اردو کہ بیرنگ من است مرزا آپ کو اپنے فارسی کلام کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت کا قبو ل کرنا یا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ۃے۔ لیکن اگر آپ اسے قول کرنے کا فیصلہ کر لیں تو ان کے فارسی کلام کی حقیقت اور ان کی تعلیم کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے دو باتوں کا جاننا ضروری ہے۔ اول یہ کہ عالم شعر میں مرزا عبدالقادر بیدل اور مرزاغالب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ دوم یہ کہ مرزا بیدل کا فلسفہ حیات کو سمجھنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟ مجھ کو یقین ہے کہ اگر آج کل کے وہ نوجوان جو فارسی ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں اس نقطہ نگاہ سے مرزا غالب کے فارسی کلام کا مطالعہ کریں تو بہت فائدہ اٹھائیں گے‘‘۔ مجھے صحیح تاریخ و سال یا نہیںلیکن ۱۹۳۶ء یا ۱۹۳۷ء کا واقعہ ہے کہ علامہ اقبال نے دوران گفتگو میں مجھ سے فرمایا کہ کسی زمانے میں جب میں بیدل کا کلام پڑھتا تھا تو اپنی پسند کے شعر الگ لکھ لیا کرتا تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر وہ انتخاب ا تک آپ کے پاس موجود ہو تو مجھے دیکھنے کے لیے عنایت کیجیے۔ علامہ مرحوم نے جاب دیا کہ وہ کاغذات کہیں ادھر ادھر پڑے تو ضرور ہوں گے لیکن اب وہ میرے دوسرے کاغذات کے ساتھ اس طرح مل جل گئے ہیں کہ ان کا تلاش کرنا آسان کام نہیں۔ اس پر میں بہ تقاضائے ادب خاموش ہو گیا لیکن میرے دل دے یہ خواہش نکل نہ سکی کہ کاش بیدل کے کلام کا وہ حصہ جسے اقبال کے انتخاب کا شرف حاصل ہوا شائع ہو کر دنیا کی نظروں تک پہنچ سکتا۔ انہی دنوں میں نے ایک اپنے ادبی انہماک کے ضمن میں اکثر دیوان بیدل کا مطالعہ کیا کرتاتھا اور اسی سلسلے میں کبھی کبھی مولانا محمد عمر خاں(سابق استاد فارسی اسلامیہ کالج لاہور) سے میری گفتگو بھی ہو جاتی تھی ایک دن باتوں باتوں میں مولانا نے مجھ سے یہ کہا ۱۹۲۶ء میں پنجاب یونیورسٹی کا جو فارسی کا بی اے کا کارس تھا وہ کہیں سے تلاش کیجیے اور اس میں بیدل کا جو انتخاب ہے اسے ضرور پڑھیے کیونکہ اس حصے کا انتخاب کنندہ وہ شخص ہے جسے عمر بھر بیدل سے شغف رہا ہے۔ یعنی اقبال۔ پھر مولانا نے ہنس کر کہا کہ بیدل کا کلام ادق اور پیچیدہ ہے مگر اقبال ان دنوں یونیورسٹی کے پرشین بورڈ کے ممبر تھے۔ اس لیے انہوں نے فارسی کے کورس میں بیدل کو گھسیڑ ہی دیا بعد می ںجونہی اقبال پر شین بورڈ سے الگ ہوئے یونیورسٹی نے بیدل کا کلام نکال باہر کیا۔ مولانا محمد عمر خاں کی زبا ن سے یہ الفاظ سن کر مجھے قدرۃً بہت خوشی ہوئی۔ اس کے بعد میری درخواست پر شیخ محمد امین صاحب لائبریرین اسلامیہ کالج نے بی اے کے فارسی کورس کا ایک پرانا فرسوہ نسخہ میرے لیے ڈھونڈ نکالا اس کتاب میں پورے سولہ صفحے بیدل کو دیے گئے ہیں۔ مگر یہ انتخاب دیوان بیدل کے متن میں سے نہیںبلکہ اس کے حواشی کے ’’نکات‘‘ سے لیا گیا ہے۔ نکات بیدل کا عام انداز یہ ہے کہ پہلے نثر میں کسی نکتے کا بیان ہے اس کے بعد اسی مضمون کو رباعی غزل یا مثنوی میں شاعرانہ طور پر ادا کیا گیا ہے علامہ اقبال نے مذکورہ بالا انتخاب میں بیدل کے دس نکات لیے ہیںَ پہلا نکتہ اس وارستگی وبے پروائی کے متعلق ہے جو تاثیر اسمائے الٰہی سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جسے غالب کے کلام میں کہیں کہیں آزادی و وارستگی (۱) اور اقبال کے کلام میںہمیشہ فقر و قلندری کے نام سے یاد کیا گیا ہے اس کی شاعرانہ تشری کے لیے بیدل نے سب سے پہلے ایک رباعی دی ہے: عالم مشغول حاصل فضل و ہنر منعم سرگرم دست گاہ کر و فر بیکاری وضع بیدلاں افتادہ است یک پردہ ز ساز این و آں نازک تر ترجمہ: عالم علم و کمال کی دولت سے لو لگائے ہوئے ہے۔ اور دولت مند شان و شوکت کے سامان فراہم کرنے میںمصروف وارستہ مزاجوں کی بے نیاز طبیعت کی افتاد عالم اور دولت مند دونوں سے بقدر ساز کے ایک پردے کے زیادہ نازک ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک غزل ہے جس کا مضمون بیدل کی شاعری کے عام پر امید انداز سے الگ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دراصل اسے اقبال کی اس اردو غزل سے نسبت ہے جس کا پہلا شعریہ ہے: نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میںہلاک جادوے سامری تو قتیل شیوہ آزری بیدل کی غزل کے چند شعر یہ ہیں: من آں غبارم کہ حکم نقشم بہ ہیچ عنوان در نگیرد اگر سراپا سحر برآیم شکست انگم اثر نگیرد ’’ترجمہ: میں وہ ناکارہ غبار ہوں جس کے نقش سے بننے کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوتی میں سپیدہ سحر کا نور بن کر بھی آئوں تو میری شکست رنگ بے حاصل رہتی ہے۔ یعنی کوئی آفتاب طلوع نہیںہوتا۔ نہ شد ز سازم بہ ہیچ عنواں جنوں خروش دگر پرافشاں جز ایں کہ یارب دریں نیستاں بر نوایم شکر نگیرد ’’ترجمہ: میرے ساز میں سے پھر کسی طور بھی جنوں خروش نغمے پرواز کرتے ہوئے نہ نکلے ۔ خدایا! میرا حاصل بس یہی ہے کہ میں اس نیستاں کے اندر میرے نغموں کے پھل میں شیرینی نہیں آتی… یعنی میری شخصیت پختگی سے محروم ہے۔ بہ ایں گرانی کہ دارد امروز چندیں خیال دوشم چو کشیتم پائے رفتنی کو اگر محیطم بسر نگیرد ’’ترجمہ: میراامروز میرے افکار دوش کی کثرت سے گراں بار ہو رہا ہے۔ میری مثال کشتی کی ہے میرے پاس چلنے کے لیے پائوں کہاں! مجھے میرا سمندر ہی سر پر اٹھائے تو اٹھائے۔ براہ یاسیت سعی کامم کہ اگر بہ لغزش رسد خرامم کسے جز آغوش بے نشانم چو اشکم از خاک بر نگیرد ’’ترجمہ: مجھے حصول مراد کے لیے یاس کی منزل سے گزرنا ہے۔ اگر چلتے چلتے میرا پائوں پھسل جائے تو ٹپکے ہوئے آنسو کے مانند کوئی مجھے خاک پر سے نہیں اٹھائے گا۔ مجھے صرف میری بے نشان آغوش یعنی میری روح یا خودی پناہ دے گی۔‘‘ خوشا غنا مشر بے کہ طبعش بہ حکم اقبال بے نیازی ز ہرچہ گیرد غنا نخواھد زھرچہ گیرد خبر نگیرد ’’ترجمہ: اس شخص کا کیا کہنا جس کا دل غنی ہو کہ اپنی بے نیازی کے طفیل سب کچھ چھوڑ دے خود اس چیز کو بھی رد کر دے جو اسے غنی بناتی ہے۔ اگر ز معمار دھر باشند بنائے انصاف را ثباتے گلے کہ تعمیر رنگ دارد چراش در آب زر نگیرد ’’ترجمہ: اگر معمار عالم انصاف کی عمارت کا استحکام فچاہے تو اس کی مٹی کو جو تعمیر کی صلاحیت رکھتی ہو کیوں نہ آب زر میں گوندھے گا‘‘۔ دلے کہ پروردہ آب نازش بہ آتش عشق کن گرازش چو شیشہ برسنگ خورد سازش کسیش جز شیسہ گر نگیرد (۲) ’’ترجمہ: وہ دل جو ناز و نعم میں پلا ہے اسے عشقکی آگ میں پگھلا دے جب شیشے نے پتھر سے چوٹ کھائی تو بس پھر وہ شیشہ ساز ہی کے پاس پہنچا‘‘۔ گزشت مجنوں بہ وضع عریاں چو نالہ آزاد زیں بیاباں تو ہم بہ ایں رنگ دامن افشاں کہ چین دامن کمر نگیرد (۳) ’’ترجمہ: مجنوںایک نالہ آزاد کی طرح اس بیابان سے عریاںنکل گیا۔ تو بھی لباس دنیوی سے اس طرح عاری ہو جا کہ کمر اور دامن میں کوئی ربط نہ رہے۔ ‘‘ قبول سرمایہ تعلق کمیں گہ کہ آفت است بیدل چو شمع خاموش ترک سر گیر تا ھوایت بسر نگیرد ’’ترجمہ : بیدل! سرمایہ دنیا قبول کرنا انسان پر سو سو آفتیں لاتا ہے تو بجھی ہوئی شمع کی طرح ترک سر کرنا سیکھ تاکہ حوادث روزگار سے تیرا سر محفوظ رہے‘‘۔ اس کے بعد اسی نکتے کے ماتحت دو حکایتیں دی گئی ہیں۔ چونکہ ان دونوں کا سمجھنا نسبتاً آسان ہے اس لیے یہ دونوںیہاں نقل کی جاتی ہیں۔ پہلی حکایت میںبتایا گیا ہے کہ دنیا سے بے نیاز اور خدا سے وابستہ ہو جانے پر انسان پر طرح طرح کی مسیبتوںسے دوچار ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیا حق پرست کے خون کی پیاسی ہو جاتی ہے۔ حکایت یوں ہے کہ ایک دن پیالے نے صراحی پر اعتراض کیا کہ جب تو بظاہر خدا کے حضور میں جھکتی ہے تو ساتھ ساتھ قہقہے کیوں لگاتی رہتی ہے؟ نماز میں یہ طفلانہ شوخیاں تجھ جیسی خضر حقیقت نما کے لیے نہایت نازیبا ہیں‘‘۔ قدح کرد روزے ز مینا سوال کہ روشن دل از تو بود وجد و حال خیال قدت سرو گلزار یار صفائے دلت صبح انوار یار جگر تشنہ حسرت قلقت نظرھا کمیں گاہ رنگ ملت بست از چہ رو در سجود نیاز چو گل می کند شوخی خندہ باز اگر ایں نماز است قہ قہ چراست؟ وگر لہو باشد سجودت کراست؟ ز مثل تو خضر حقیقت نما براہ طریقت نہ زیبد خطا ز روشن دل ایں شیوہ سہل است سہل کہ از آستاں کج خرامیست جہل بہ ایں رنگ طاعت نہ دید است کس بہ قہ قہ نماز اختراع است و بس اب صراحی کو بھی غصہ آیا اور جوش میں آ کر پیلاے سے کہنے لگی کہ عجیب بات ہے کہ تو سراپا شم ہو کر بھی بے بصر اور سراپا گوش ہونے کے باوجود بے خبرہے کیا تجھے اتنابھی معلوم نہیں کہ میں شب وروز اطاعت حق میں مشغول ہوں اور اسی وج سے ایک عالم میرے خون کا پیاساہے؟ جب میں رکوع میں جانا چاہتی ہوں تو لوگ میرا مغز سر پنبہ ینا نکال لیتے ہیں اور جب میں سجدہ کرتی ہوں تو میری گردن کو اس طرح دبوچ لیتے ہیں کہ میرا جگر خون ہو کر میرے منہ سے ٹپک پڑتا ہے۔ جب دنیا والوں کی روش یہ ہو کہ وہ خدا پرستوں کا خون اپنے آپ پر حلال سمجھتے ہوںتو مجھے ان پر کیوں نہ ہنسی آئے؟ صراحی ز حیرت جنوںساز شد بہ خون جگر حلقہ پرداز شد کہ اے چشمت از نور غیرت تہی نداری ز اوضاع دھر آگہی ھمہ چشمی و نیستی دیدہ ور ھمہ گوشی و از جہاں بے خبر نماز چنیں کردن (۴) عین خطاست اگر خون من می گدازد رواست ہ از طاعت حق دریں انجمن شدہ عالمے تشنہ خون من چو خواھم رکوعے بجا آورم برآرند از پنبہ مغز سرم فشارند در سجدہ حلقم چناں کہ خون جگر ریزدم در دھاں بہ وھم ایں گروہ ندامت مآل شمارد بر خویش خوانم حلال کہ داد است بر قتل عابد صلاح؟ کہ گفت است خون مصلی مباح؟ ازیں غم بہ دل خوں نہ بندم چرا؟ بر اوصناع دنیا نخندم چرا؟ یہ حکایت اسباب ظاہری سے بے نیاز ہونے کے متعلق تھی۔ لیکن عز و جاہ کی ہوس سے نجات پانے کے عد بھی اندیشہ یہ ہیکہ انسان انانیت میںگم ہو کر نہ رہ جائے۔ صحیح وارستگی وبے پروائی اسی وقت پیدا ہو جاتی ہے جب انسان خود بینی و خود پرستی سے رہائی حاصل کر لے۔ انسان اپنے نفس کو دیکھتا ہے تو اس کی یکتائی میں خلل آ جاتا ہے کیونکہ اس کی ہستی دو حصوں میںتقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک حصہ بت ہے اور دوسرا حصہ بت پرست۔ اب بیدل کی حکایت سنیے کسی شخص کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں وارد ہونے کے باوجود من و تو کے امتیاز سے بے خبر تھا۔ اتفاق سے گھر کے طاق میں اسے ایک آئینہ پڑا ملا اس آئینے میں اپنی صورت جو دیکھی تو اس پر فریفتہ ہو گیا۔ بار بار اس صورت کو دیکھتا اور خوش ہوتا۔ اسی طرح ایک عمر گزار دی۔ یکے غافل از رنگ ما و توئی نو آموز نیرنگ عالم دوئی ز طاق سرا یافت آئینہ صفا در بغل طبع بے کینہ دراں آئنہ صورت خویش دید گرفتار شد ھر قدر بیش دید بوھمے کہ نشگافدش رائے خلق چو معنی نہفت از نظرہائے خلق ز ھر جلوہ اش حسرتے می فزود بحیرت نظر باز صد رنگ بود چنیں برد با خویش عمرے بسر در آغوش وھمے رفیق دگر گل وحدتش ریشہ غیر داشت ھم از خویش اندیشہ غیر داشت چو گیسو گرفتار زنجیر خویش چو تصویر حیران تصویر خویش ایک مرتبہ اچانک آئینہ اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ پس پھر کیا تھا دنیا اس کی نگاہ میں اندھیر ہو گئی۔ وہ روتا اور فریاد کرتا تھا: … … … چو تصویر حیران تصویر خویش کہ ناگہ زکف رفت آئینہ اش تو گوئی دلے رفت از سینہ اش زد از نالہ در جیب آرام چاک چو اشک از طپیدن بسر کرد خاک شکست دل انگیخت طوفان آہ جہاں شد بہ چشمش چو مژگاں سیاہ ز بے طاقتی ہا بہ ہر سو شتافت نشانے ز گم کردہ خود نیافت نفس خوں شدہ نالہ ماند از صدا کسے یارب از خود نگردد جدا جب اس کے دوستو ں پر اصل راز کھلا تو اہنوںنے سمجھایا کہ جس چیز کا تم فریفتہ ہو وہ تو تمہارا اپنا ہی عکس ہے۔ اب ھبی کوئی دوسراائینہ اٹھا لو تو پھر وہی جلوہ دیکھو گے ۔ اس تشریح سے وہ شخص اپنے وھم پر بے حد شرمندہ ہوا۔ اور پھر عمر بھر ا س کی یہ کیفیت رہی کہ جہااں کوئی آئینہ دیکھتا دور بھاگتا: رفیقاں کہ از رمز دریافتند معمائے از جہد بشگافتند کہ بے خود اذاں لوح آئینہ بود کہ ھم بر تو نقش تو وا می نمود گر آئینہ دیگر آری بکف ہماں جلوہ ہایت کشیدہ است صف طلب پیشہ را بعد تفتیش کار چو گردید تحقیق آئینہ وار ز رمز توہم خبردار شد زذخوابے کہ می دید بیدار شد خجل کردش اندیشہ وھم خویش بنالید در ماتم فہم خویش بہ رخ انفعالے فگندش نقاب کہ صد آئینہ از جبیں زد بر آب وگر تا نفس بر لبش راہ داشت ز تمثال آئینہ اکراہ داشت بہر جایش آئینہ گشتے دوچار نگہ را ز مژگاں گرفتے بہ خار ایک دوست کو اس حالت پر تعجب ہوا۔پوچھا کہ پہلے تو آئینہ دیکھ دیکھ کر جیتے تھے اب یہ انقلاب کیسا؟ یکے گفتش ایں انفعالت چراست؟ ز آئینہ رنگ ملامت چراست؟ چو زیں صفحہ خواندی بچندیں نیاز خط اعبارات نیرنگ باز نہ زیں گل چمن رونما داشتی نگاہے بہ خویش آشنا داشتی اس شخص نے جواب دیا کہ میں وہم و خیال میںپھنسا ہوا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ میں اپنی ذات کے ساتھ نہین غیر کے ساتھ زندگی بسر کر رہاتھا۔ اب میں نے خدا کو پہچانا ہے۔ اور اپنی بے شعوری سے نجات حاصل کر لی ہے۔ اب میں نے جانا ہے کہ میرے اور حقیقت کے درمیان وہ آئینہ ایک دیور بن گیا تھا۔ اپنے آ پ کو دیکھنا گویا اپنی اصل و حقیقت سے پھرجانا ہے۔ انسان جوں ہی اپنے آپ پر نظر کرت اہے خود میں نہیں رہتا دوسرا ہو جاتا ہے۔ میں تو باغ وحدت کا پھول ہوں مجھے دوئی سے کیا کام! نفس زد کز اوھام غفلت ثمر دمے چند با غیر بردم بسر نمودم بوھم آنچہ نتواں نمود فزودم بخویش آنچہ نتواں فزود کنوں شست رنگ خدا دانیم بنائے اثر ہائے نادانیم یقیں شد کہ در بحر اسرار من ہماں بود آئینہ دیوار من مرا گرچہ بامن بدل می نمود بہ یکتائی من خلل می نمود! تماشائے خود غیر او گشتن است چو آئینہ باخود دو رو گشتن است ز بس وھم دارد دوئی پروری بخود تا نظر کردہ دیگری بہارے کہ ساف است مرآت او چہ لازم کشد تہمت رنگ و بو گل باغ وحدت کنوں بیشکم دو باشم چرا چوں بہ معنی یکم! یہاں پہلے نکتے کا بیان ختم ہو جاتا ہے۔ باقی نکتوں میں سے اکثر نسبتاً مختصر طور پر بیان ہوئے ہیں چنانچہ دوسرے نکتے کایہی حال ہے جس میں یہ تلقین کی ہے کہ لوگوں کے کام میں جا وبے جا دخل دینا ٹھیک نہیںہوتا۔ اس میں صرف تین شعر ہیںجن میں سے پہلا یہ ہے: تو کار خویش کن ایں جا توئی در من نمی گنجد گریباں عالمے دارد کہ در دامن نمی گنجد ’’ترجمہ: یہ وہ دنیا ہے جہاں میں کے اندر تو نہیں سما سکتا اس لیے تجھے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے ۔گریبان میںاگر تو نگاہ ڈال یتو ایک ایسی کیفیت ہے کہ جو دامن میں نہیں سما سکتی‘‘۔ تیسرے نکتے میں زمانے کی ررشتی طبیعت کا ذکر ہے۔ بیدل کہتا ہے کہ اہل دنیا کو ر طبعی اور بے دردی سے ہر شخص کو چار و ناچار سابقہ پڑتا ہے۔ اس بیان میں یہ قطعہ دیا ہے: عندلیبے بہ ھم نوائے دگ شکوہ سر کرد کاے نوا پرور شور زاغم دریں چمن یار است گفت خاموش زاغ بسیار است عالم از جنس ایں خروش پر است از نوا ہائے ہرزہ گوش پر است ’’ترجمہ : ایک بلبل ن ے اپنے ایک ہم صفیر سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اے مرغ نغمہ زن اس باغ میں کوے کی کائیںکائیں ساتھ لگی رہتی ہے۔ دوسرے نے کہا بس چپ ہی رہو یہاں کووں کی کثرت ہے۔ تمام دنیا اس بے معنی شور سے اس طرح بھری ہوئی ہے کہ کان پھٹے جاتے ہیں ۔‘‘ چوتھا نکتہ پھر مفصل بیان ہوا ہے کہ اس میں لاف زنی اور اس خود کامی کی مذیمت ہے جس سے بالآخر انسان کی اپنی بے وقعتی ہوتی ہے۔ اس کے تحت میں ایک رباعی دو غزلیں دو حکایتیں اور ایک قطعہ دیا ہے ۔ پہلی غزل کا مطلعہ ہے۔ گہری محیط تقدسی مکن آبروے حیا سبک چو حباب حیف ار شوی ز غرور سر بہ ہوا سبک ’’ترجمہ: تو ایک موتی ہے تو پاکیزگی کا سمندر ہے ۔ اپنی عزت نفس کی توہین نہ کر افسوس ہے جتھ پر اگر تو نخوت سے بلبلے کی طرح پھول جائے اور اپنے آ پ کو ہلکا کرے‘‘۔ دوسری غزل کا مطلع یہ ہے : دل آرمیدہ بخوں مکش ز فسون رنگ و ھوائے گل ستم است غنچہ ایں چمن مژہ وا کند بہ صدائے گل! ’’ترجمہ: وہ دل جو اپنے ہی خون میں ڈوب کر خوش ہے اسے بہار دنیا کی ہوس میں برباد نہ کر۔ ستم ہے کہ ایسے چمن کی کلی ہو اور باغ دنیا کے پھولوں کے چٹکنے کی آواز پر آنکھ کھولے۔ قطعے کے اشعار میں بھی اسی طرح انسان کی فضیلت کا مضجمون بیان کیا ہے: عشق از مشت خاک آدم ریخت آں قدر خوں کہ رنگ عالم ریخت چیست آدم؟ تجلی ادراک یعنی آں فہم معنی لولاک! احدیت را بنائے محکم او الف افتادہ علت دم او دال او مغز اول و انجام کہ درو وجد وحدت است تمام میم آں ختم خلقت عالم ایں بود لفظ و معنی آدم ’’ترجمہ: یہ عشق کی برکت ہے کہ آدم کی مشت خاک سے اس قدر لہو نکلا کہ صفحہ ہستی رنگین ہو گیا۔ آدم کیا ہے؟ ادراک کی تجلی اور لولاک کا مفہوم! لفظ آدم کے الف پر جو اس کے وجود کی علت ہے اس ی احدیت و یکتائی کی بنیاد قائم ہے ۔ اس کی دال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے آغاز و انجام کی جان ہے کیونکہ اس میں وحدت ہی وحدت ملتی ہے۔ اس کا میم اسے تخلیق عام کی انتہا بناتا ہے۔ یہ ہے لفظ آدم اور یہ ہیں اس لفظ کے معنی! دونوں حکایتوں میں سنان کی وحدت و یکتائی پر خصوصیت سے زور دیا ہے ان میں سے دوسری حکایت موجودہ زمانے میں ہرلحاظ سے دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ اس میں عام زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے مگر اس انداز سے کہ اسے خاصا ڈراما بنا دیا ہے ایک بچہ ہاتھ میں روٹی لیے کسی کنویں کی مینڈھ پر کھیل رہا تھا۔ بچے نے کھیلتے کھیلتے ہاتھ جو کھولا تو روٹی غڑاپ سے کنویں میں جا رہی۔ اس پر بچے نے رونا شروع کر دیا اور اتنا رویا کہ آسمان سر پر اٹھا لیا۔ لڑکے کے باپ نے جو اس کی یہ حالت دیکھی تو گھبرا کر پوچھا کہ کیا بات ہے؟ بچے نے روتے روتے اپنا خالی ہاتھ دکھایا۔ باپ نے پوچھا روٹی کہاں گئی؟ بیٹے نے رونی صورت بنا کر کہا کنویں کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس پر باپ غصے میں بھرا ہوا کنویں کی طرف آیا۔ جھک کر پانی دیکھا تو اپنے ہی چہرے کا عکس نظر آیا گرج کر بولا اے شیطان یوں دھوکا دے کر روٹی کھانے سے گندگی کھانا اچھا ہے او کمینے فریبی تجھے شرم نہیں آتی؟ جل دے کر چھوٹے بچوں سے روٹی چھین لیتا ہے! یہ باتیں سن کر پانی کنویں میں ہنس پڑا اور بولا۔ اے اپنے آپ کو بھولنے اور دوسرے کو دیکھنے والے تو اپنے آپ ہی پر التفات و عتاب کر رہا ہے ۔ تجھ پر تیرے طفل وہم نے جادو کر رکھا ہے ۔ ہوش کر اور اس دوئی کے چکر سے نکل۔ اصل مثنوی یہ ہے: کود کے ناں بہ دست بازی داشت بہ لب چاہ لابہ سازی داشت رفت ناگاہ پنجہ اش بکشاد نان برنگ صدف در آب افتاد گریہ برداشت طفل بازی کوش اضطرابش گرفت در آغوش داد چوںموج داد نالیدن غوطہ زد چوں گہر بہ غلطیدن ھمچو اشکے کہ از بن مژہ ریخت در کنار پدر طپش انگیخت چوں پدر رمز اضطراب شگافت کف خالیش جائے ناں دریافت گفت ناں از کفت کہ غارت کرد؟ طفل سوئے چہش اشارت کرد؟ مرد آشفت و رفت برسر چاہ کرد ز آشفتگی رد آب نگاہ تا تامل بہ طبع آب گماشت عکس آئینہ در مقابل داشت بانگ برعکس زد کہ اے ابلیس! گہ خوری بہ کہ ناں بہ ایں تلبیس شرم دار از خود اے خسیس و غل کہ ز اطفال ناں بری بہ حیل آب در خندہ آمد از لب چاہ کاے ز خویشت روئے غیر نگاہ از تو با تست التفات و عتاب ورنہ در آب نیست غیر از آب طفل وھمت بہ ایں فسوں پرداخت کہ ترا از تو درگماں انداخت زیں شعورے کہ درنظر داری ہر چہ گوئی بہ خود سزاواری چند با خود خطاب شرم کنی بہ کہ خود را چو آب نرم کنی تا جوابت ہمہ زلال شود عکس و آئینہ یک جمال شود پانچویں اور چھٹے نکتے میں سخاوت و ایثار اور بنی نوع انسان کی باہم دگر وابستگی پر مختصراً بحث کی ہے اوراس سلسلے میں ایک عباعی دی ہے ساتویں ’’نکتے‘‘ میں بے خودی کی کیفیت سے بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک انسان کی عقل خام ہے اس وقت تک اسے خیال رہتاہے کہ اس کے اپنے نفس کا بجائے خود کوئی علیحدہ وجود بھی ہے لیکن جوں جوں انسان زیادہ پختہ کار ہوتا جاتا ہے اس کی عقل اس فریب سے آزاد ہوتی جاتی ہے۔ اس کی مثا ل یہ دی ہے کہ ساحل نشیں لوگ موجوں کا شمار کرتے اور دکف دریا کی مقدار کا اندازہ لگاتے رہتے ہیں۔ مگر جو لوگ ان حدود سے گزر چکے ہیں ان کا خود سمندر کی بھی کبر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد کی ایک غزل لکھی ہے جس کے بعض شعر خوب ہیں: تو گر خود را نہ بینی نیست عالم غیر دیدارش خودی آئینہ ای دارد کہ محرومی ست اظہارش چہ لازم مائل پست و بلند دھر گردیدن تو خود ایں جا نہ ای تا بایدت فہمید مقدارش گمانے بردہ گویا بہ نقد اعتبار خود کہ بر ھر جنس می پیچی و می گردمی خریدارش بہ حق تسلیم شو تا وا رھی از این و آں بیدل بہ دریا قطرہ چوں گم گشت دریا داند و کارش ’’ترجمہ: تو اگر اپنی ذات کو نہ دیکھے تو پھر دنیا میں ہر طر ف اسی کے جلوے کا ظہور ہے۔ خودبینی کے اہتھ میں ایک ایسا آئینہ ہے جس کا دیکھنا انسان کو بینائی سے محروم کر دیتا ہے۔ زمانے کے پست و بلند کے متعلق سر کھپانا کیا ضرور ہے۔ اس کا اندازہ لگانا تو اس صورت میں ضرور ہوتا ہے کہ جب یہاں تیرے اپنے وجود کی کوئی حقیقت ہوتی۔ اس بازار میں تجھے اپنی ہستی موہوم کے سکے پر شاید بڑا گھمنڈ ہو گیا ہے۔ کیونکہ تو ہر جنس پر منڈلاتا رہتا ہے اور ا س کا خریدار بن بیٹھتا ہے۔ بیدل! اپنے آپ کو ذات خدا کے حوالے کر دے تاکہ تجھے این و آں کے جھگڑوں سے رہائی ہو۔ جب قطرہ دریا سے جا ملا تو پھر دریا جانے اور اس کا کام! آٹھویں ’’نکتے‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ زندگی جلوہ گاہ اضداد ہے۔ بری چیزوں کی نفی کے بغیر اچھی چیزوں کا اثبات نہیں ہوتا۔ برسوں کی ہرزہ گردی کے بعد انسان کسی گوشہ عافیت کی صحیح قدر پہچانتا ہے۔ نامرغوب صحبت میں پڑنے کے بعد تنہائی کے لطف کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس مضمون پر ایک قطعہ لکھا ہے جس کے پہلے دو شعر یہ ہیں: ہیچ کس بے شور کثرت طالب وحدت نہ شد رنگ تمیز سلامت در غبار آفت است تا نہ بینی رنج نتواں محرم راحت شدن طینت بیمار یک سر قدر دان صحت است ’’ترجمہ: اگر ہم کثرت کے شور سے نہ گھبراتے تو وحدت کی کبھی تلاش نہ کرتے۔ انسان خطرے میں پڑے تب کہیں سلامتی کو ٹھیک طرح پہچانتا ہے۔ جب تک تم تکلیف نہ اٹھائو گے راحت وآرام کا را ز تم پرنہیں کھل سکتا۔ بیمار کو دیکھو‘ اسے صحت کی کیسی قدر ہوتی ہے! اس انتخاب کے آخری دو ’’نکتوں‘‘ میں خاموشی کے اسرار و رموز کی شرح حسب دستور پہلے نثر میں کی ہے اور پھر اس پر ایک غزل اور ایک قطعے کا اضافہ کیا ہے ۔ غزل یہاں درج کی جاتی ہے اور اسی پر یہ باب ختم ہوجاتا ہے۔ اس غزل کے نصیحت آمیز مضامین کے علاوہ اس کے اکثر شعروں کی فنی خصوصیات بھی اس لحاظ سے قابل غور ہیں کہ غالب کی ابتدائی اردو شاعری اس انداز بیان سے بے حد متاثرہوئی: در تکلم از ندامت ہیچ کس آسودہ نیست جنبش لب یک قلم جز دست برھم سودہ نیست راحت آبادے کہ مردم جنتش نامیدہ اند بے تکلف بے سخن غیر از لب نکشودہ نیست گر زبان از شوخی اظہار در دزودہ نفس صافی آئینہ مطلب غبار اندودہ نیست پاس ناموس سخن در بے زبانی روشن است ہیچ مضمونے دریں صورت نفس فرسودہ نیست قطرہ ھا در ضبط موج آئینہ دار گوھر اند تا شود روشن کہ سعی خامشی بیہودی نیست (۵) گفتگو یکسر دلیل ھرزہ تازی ھاے ماست تا جرس فریاد دارد کارواں آسودہ نیست ’’ترجمہ: انسان کے لیے یہ مشکل ہے کہ بات کرے اور ندامت اٹھانے سے بچ سکے۔ پس یہ سمجھ لو کہ ہم ہونٹ نہیںہلاتے رنج و حسرت سے اپنے ہاتھ ملتے ہیں۔ وہ راحت کدہ جسے لوگوں نے جنت کا نام دے رکھا ہے سچ پوچھو تو اس کی حقیقت ایک لب بے گفتار سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر زبان اپنی شوخ بیانی سے رک کر ذرا دم سادھ لے تو آئینہ معانی ہمارے سانس سے دھندلا نہیں ہونے پاتا۔ ہمار ی گفتگو کی وقعت خاموشی کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس صورت میں ہمارے مطلب کی تازگی ہمارے سانس سے پامال نہیں ہوتی۔ قطرے جب موج بند ہو جاتے ہیں تو موتیوں کی شان کو پہنچتے ہیں اس سے ظاہرہے کہ خاموشی کی تکلیف بے نتیجہ نہیں رہتی گفتگو سراسر ہمارے دماغ کی آوارگی و پریشانی کا ثبوت ہے۔ جب تک جرس کی صداآئے سمجھ لو کہ قافلہ ابھی منزل تک نہیںپہنچا۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم ٭٭٭ بندگی میں بھی وہ آزدہ و خود بیں ہیں کہ ہم الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا ٭٭٭ آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے (غالب) ۲ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئنہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں (اقبال) ۳۔ شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا (غالب) ۴۔ ’’ن‘‘ اور ’’ع‘‘ کا یہ ادغام صریحاً ناجائز او ر خلاف قاعدہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سہو کتابت کی وجہ سے کوئی لفظی تحریف ہو گئی ہے۔ ۵۔ بہ رہن ضبط ہے آئینہ بندی گوہر وگرنہ بحر میں ہر قطرہ چشم پرنم ہے (غالب) ٭٭٭ اقبال اور انگریزی شعرا یہ تقریر بی ۔ بی ۔ سی۔ کی فرمائش پر ۱۹۵۴ء کے اوائل میں لکھی گئی اور لندن سے نشر ہوئی۔ دسمبر ۱۹۵۴ء میں حلقہ ارباب ذوق (لاہور) کے لیے اس میں کہیں کہیں چند جملوں کا اضافہ ہوا اور آخر میں ایک پیراگراف پڑھا گیا۔ مشرق کے ترجمان اور مغرب کے نکتہ چیں کی حیثیت سے علامہ اقبال اس حد تک معروف و مشہور ہو چکے ہیں کہ اقبال کے کلام اور انگریزی شاعری میں کسی تعلق کا خیال ذرا عجیب معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالی کے مقابلے میں اقبال کا ربط انگریزی شعر ا سے نہ صر ف زیادہ قریبی بلکہ زیادہ گہرا بھی تھا۔ ایم ۔ اے ۔ کرنے کے بعد انہوںنے کچھ عرصے تک اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی شاعری کے اعزازی لیکچرر اور یور پ سے واپسی کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی شاعری (اور فلسفے) کے تنخواہ دار لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا (۱)۔ اقبال کے اپنے ذخیرہ کتب میں جوان کی وفات کے بعد اسلامیہ کالج کی لائبریری کی زینت بنا ورڈز ورتھ (۲) ‘ ٹینی سن اور بروننگ وغیرھم کے کلیات نمایاں ہیں۔ اس سے قطع نظر ’’بانگ درا‘‘ کے حصہ اول میں انگریزی شعراء کے ترجمے جا بجا دکھائی دیتے ہیں اور حصہ سوم میں شیکسپئر پر ایک مرصع نظم موجود ہے۔ ’’پیام مشرق‘‘ اٹھائیے تو وہاں رومی اور غالب کی یاد میں بائرن اور بروننگ بھی شریک ملتے ہیں۔ چنانچہ بروننگ کے متعلق یہ شعر ہے: بے پشت بود بادہ سرجوش زندگی آب از خضر بگیرم و در ساغر افگنم اور بائرن کے متعلق کہا ہے: از منت خضر نتواں کرد سینہ داغ آب از جگر بگیرم و در ساغر افگنم ایک اور مقام پر بائرن کے لیے ایک پورا قطعہ وقف کیا ہے جس کا ایک شعر یہ ہے: نبود در خود طبعش ھوائے سرد فرنگ تپید پیک محبت ز سوز پیغامش انگریزی شعراسے اقبال کا یہ تعلق یقینا تھوڑی بہت توجہ کا محتاج ہے۔ ’’بانگ درا‘‘ میں دس نظمیں صراحتہً ’’ماخوذ ‘‘ ہیں بیشتر انگریزی سے۔ ان میں پانچ نظمیں ایسی ہیں جن کے عنوان کے نیچے انگریزی کے انگلستانی یا امریکی شاعر کا نام کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک نظم لانگ فیلو سے ایک ٹینی سن سے‘ ایک ولیم کوپر سے‘ اور ایک ایمرسن سے ماخوذ بیان کی گئی ہے۔ نظم ’’ہمدردی‘‘ جو کوپر سے ماخوذ بتائی گئی ہے۔ ا س کی اصل راقم الحروف کو Cowper's Poetical Works میں نہیں ملی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم (بجائے بعض دوسری نظموں کے) سہواً ماخوذ از ولیم کوپر بیان ہوئی ہے تاہم یہ کسی اور انگریزی نظم کا ترجمہ ضرور ہو گی۔ جیسے ماں کا خواب ‘ بچے کی دعا وغیرہ بھی ترجمے ہیں۔ لیکن ان معدودے چند نظموں کے علاوہ بھی دور اول کے کلام کاایک بیشتر حصہ انگریزی شاعری کے اسلوب فکر و بیان سے متاثر ہے۔ ’’ہمالہ‘‘ ہو یا ’’ابر کوہسار‘‘ ’’مرزا غالب ‘‘ ہو یا ’’آفتاب صبح‘‘ ہر جگہ لفظی ومعنوی صنعتیں ترکیبیں اور تشبیہیں انگریزی شعر ا کے مطلاعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کئی نظمیں جن کے متعلق انگریی سے ترجمے کی صراحت نہیں کی گئی دراصل انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ جب یہ نظمیں پہلی مرتبہ ’’مخزن‘‘ یا کسی دوسرے رسالے میں طبع ہوئیں تو اقبال نے انہیں بطور ترجمہ پیش کیا۔ مثلاً ’’بانگ درا‘‘ کی مشہور نظم ’’حسن اور زوال‘‘ ابتداً مارچ ۱۹۰۶ء کے ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس نظم کی پیشانی پر مخزن میں یہ نوٹ ملتا ہے: اصل خیال جرمن نثڑ میںدیکھا گیا۔ میں نے ناظرین ’’مخزن‘‘ کے لیے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ارد ونظم میں منتقل کر دیا۔ (اقبال) ’’بانگ درا میں یہ تفصیل نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ جن عقیدت مند کارکنوں نے بہ ایمائے اقبال ’’بانگ درا‘‘ کے اشعار کی ترتیب و انتخاب کا کام اپنے ہاتھ میں لیا ان کے لیے تاثیر و تاثر کے جھگڑے قابل اعتنا نہ تھے۔ (۳) سب سے پہلے اس قسم کی نظم کو لیجیے جس کی انگریزی اصل کا ’’بانگ درا‘‘ میں بالوضاحت ذکر ہے۔ لانگ فیلو کی نظم Daybreak (۴) کا ترجمہ اقبال نے ’’پیا م صبح‘‘ کے عنوان سے کیا ہے انگریزی نظم یوںشروع ہوتی ہے: A wind came up out of the sea And said O mists make room for me اور اقبال کی نظم کا پہلا شعر یہ ہے: اجالا جب ہوا رخصت جبین شب کی افشاں کا نسیم زندگی پیغام لائی صبح خنداں کا اقبال کا ترجمہ اس قدر آزاد ہے کہ اگر وہ خود اسے ترجمہ تسلیم نہ کرتے تو ترجمے کو اصل نسبت دینے کا خیال شاید ہی پیدا نہ ہوتا۔ نظم کے آخری مصرعوں میں البتہ اردو ترجمہ اور انگریزی اصل ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں۔ لانگ فیلو نے نسیم صبح کے متعلق کہا ہے: It crossed the churchyard with a sigh And said Not yet! in quite lie اقبال نے یہی مضمون نظم کے خاتمے پر یوں پیش کیا ہے: سوئے گور غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے تو یوں بولی نظارا دیکھ کر شہر خموشاں کا ابھی آرام سے لیٹے رہو میں پھر بھی آئوں گی سلام دوں گی جہاں کو خواب سے تم کو جگائوں گی اس اقتباس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ترجمے کا یہ دور اقبال کی نو مشقی کا دور تھا انہیں صرف انگریزی شعراء کے مضامین پسند تھے بلکہ وہ ان شعراء کی فنی مہارت سے بھی متاثر تھے اور اس اثر کے ماتحت اردو میں اپنے لیے ایک نیا اسلوب بیان تراش رہے تھے ’’بانگ درا‘‘ میں ااس سے اگلی نظم ’’عشق اور موت ‘‘ جو ٹینی سن کی Love and Death(۵) سے ماخوذ ہے اقبال کی بڑھتی ہوئی مہارت فن کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اقبال کے حسب معمول آزاد ترجمے کے مقابلے میں ٹینی سن کی اصل نظم نو عمر کا کلام معلوم ہوتی ہے۔ ٹینی سن نے یوں آغاز کیا ہے: What time the mighty moon was gathering light... اقبال کے ترجمے میں Gathering lightاور Mighty moonکی کج مج بیانی کا کوئی نشان نہیںملتا: سہانی نمود جہاں کی گھڑی تھی تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی کہیںمہر کو تاج زر مل رہا تھا عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اقبا ل کی اس نظم کے پہلے شعر میں ابتدائی شکل یوں تھی: سہانی نومود جہاں کی گھڑی تھی کہ خود ناخوشی مست جام خوشی تھی ’’بانگ درا‘‘ کی اشاعت کے موقع پر مصرع ثانی کی تبدیلی جسے یہ صاف ظاہر ہے کہ اقبال بحیثیت ایک فن کا ر کے اپنے انداز بیان کی اصلاح پر بدستور متوجہ رہے۔ یہ سوال بھی خالی از دلچسپی نہیں ۃے کہ ٹینی سن کی ناپختہ نظم میں اس کے طرز بیان کی خامیوںکے باوجود اقبال کو کیا چیز باعث کشش معلوم ہوئی ؟ اس سوال کاجواب خود بخود ٹینی سن کے مضمون کی نوعیت تک پہنچتا ہے۔ بچوں کے لیے اقال نے جو ترجمے کیے ہیں وہ اس دورمین بھی بیان کی سادگی اورپختگی کا اچھا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ایک پہاڑ اور گلہری ایمرسن کی مشہور ننھی منی نظم (۶) کا ترجمہ ہے: کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے تجھے ہو شرم تا پانی میں جا کے ڈوب مرے لیکن انصاف یہ ہے کہ ایمرسن کا آغاز The mountain and the spuirrel Had a quarrel, Squirrel اور Quarrelکے قافیو ں کی کھڑکھڑاہٹ سے صوتی چپقلش کا جو لطف دے گیا ہے وہ ترجمے میں پیدا نہیں ہو سکا۔ ایسی نظموں کے علاوہ جو بانگ درا میں بطور ترجمے کے پیش ہوئی ہیں کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں جو ہیں تو ترجمہ مگر ترجمے کی تصریح ان کے متعلق کسی وجہ سے رہ گئی ہے اس بظاہر دو رنگ طرز عمل کی سب سے دلچسپ مثال یہ ہے کہ نظم بعنوان ہمدردی تو ولیم کوپر سے ماخوذ بیان کی گئی ہے (حالانکہ کوپر کے کلیات میں اردو نظم کی اصل کا سراغ نہیںملتا) لیکن پرندہ اور جگنو کی ایک مستقل نظم کے طورپر شائع ہوئی ہے حالانکہ کوپر کی The Nightingale and Glowworm(۷) کا سلیس ترجمہ ہے ۔ ترجمے اور اصل میں ایک معنی خیز فرق یہ ہے کہ اخلاق کی تعلیم کے ساتھ مزاح کی جو آمیش کوپر میں صاف نظر آتی ہے اسے اقبا ل نے بالکل حذف کردیا ہے۔ اس فرق سے قطع نظر اقبال نے اردو نظ میں کوپر کے حسن و سادگی بیان کا حق ادا کر دیا ہے ۔ بلکہ معلوم یوں ہوا کہ اقبال کے جگنو کی چمک دمک کوپر کے Glowwormسے کچھ بڑھ گئی ہے۔ اقبال نے جگنو اور بلبل کے مکالمے میں ’’پیام مشرق‘‘ کے آنے والے دور کے زیادہ پختہ اور زیادہ گہرے شعری مکالموں کی جھلک دکھائی ہے۔ یہاں نمونے کے طور پر انگریزی اور اردو ترجمے کا ایک ایک ٹکڑا ساتھ رکھ کے دیکھیے: For twas the self same Power divine Taught you to sing nd me to shine That you with music I with light Might beautify and cheer the night کہا جگنو نے او مرغ نوا ریز نہ کر بیکس پہ منقار ہوس تیز تجھے جس نے چہک گل کو مہک دی اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی ’’پرندے کی فریاد‘‘ اقبال کے دور اول کی ایک اور مقبو ل و مشہور نظم ہے: آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا (۸) یہ بھی بانگ درا میں ایک مسقل نظم ہے مگر دراصل اس کی تحریک کوپر ہی کی ایک اور نظم On a Goldfinch Straved to Death in his Cage(۹) سے ہوئی۔ ترجمہ اقبال نے معمول سے بھی زیادہ آزادانہ کیا ہے۔ اوراردو نظم کی مستقل حیثیت بالکل بجا معلوم ہوتی ہے۔ کوپر کی نظم کا آغاز یو ں ہے: Time was when I was free as air The Thistle's downy seed my face My drink the morning dew... اس تیسرے مصرے کے مقابل اقبال کی نظم کا یہ شعر ہے: لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مسکرانا اس سے پہلا شعر سب کو یاد ہے: آزادیاں کہاں اب وہ اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا اس شعر کی تحریک یقیناً کوپر کے اس مصرع سے ہوئی ہے: I Perch'd at will on every spray کوپر کا پرندہ قفس میںبھوکوں مر جاتا ہے۔ اقبال کے پرندے کا یہ حال ہے کہ: دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے اس فرق کے باوجود دونوں شاعر اپنی اپنی نظم کو ایک ہی انداز میں ختم کرتے ہیںنظم کے آخری بند میں دونوںپرندے صیاد سے مخاطب ہوجاتے ہیں۔ اقبال کے پرندے کی فریادہے: آزاد مجھ کو کردے او قید کرنے والے کوپر کا مرا ہوا پرندہ زبان حال سے مگر بطریق طنز موت کے ذریعے سے حاصل کی ہوئی رہائی پر صیا د کا شکریہ ادا کرتا ہے: Thanks gentle swan for all my woes And thanks for this effectual close And cure of every ill کوپر کے مطالعے کی جھلک اقبال یک بعد کے کلام میں بھی جگہ جگہ ملتی ہے مثلاً اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ غور سے پڑھیے تو ایک بند خصوصیت سے کوپر کی اس نظم کی یاد دلاتاہے جس کا عنوان اردو میں یوں ہو گا والدہ مرحومہ کی تصویر نارفک سے وصول ہونے پر (۱۰) کوپر چھ برس کا تھا جب اس کی ماں کا انتقال ہوا۔ برسوں بعد اس کے بڑھاپے کو دنوں میں جب ایک عزیزہ نے اس کی ماں کی تصویر اسے بھیجی تو اس نے ماں کی یاد میں یہ زندہ جاوید نظم لکھی۔ اقبال بھی بطور خاص اپنی والدہ مرحومہ کی تصویر کا ذکر کرتے ہیں اور اس سلسلے میں یہ مصرع لکھتے ہیں: رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا کوپر نے بعینہ اسی طرح وقت کی پروازکے پلٹ جانے کی تمنا کی ہے: Could Time his flight reversed restore the hours... اسی طرح کوپر اس نظم میں Wings of Fancy کا ذکر کرتا ہے: And while the wings of fancy still are free... اس کے ذہن خودبخود اقبال کے ابتدائی دور کی نظم مرزا غالب کے پہلے شعر کے مصرع ثانی کی طرف منتقل ہو گیا ہے: ہے پر مرغ تصور کی رسائی تا کجا (۱۱) پہلے دور کی نظموں میں ایک آرزو ا س لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ یہ بھی پرندے کی فریاد کی طرح اصل ایک انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ ہے۔ انگریزی نظم کا عنوان ہے A Wish(۱۲) اورشاعر کا نام ہے سیموئیل راجرز راجرز کی نظم کے کئی مصرعے اقبال نے اپنی نظم میں منتقل کیے ہیں۔ مثلاً انگریزی شاعر کہتا ہے: Mine be a cot beside the hill اقبال کا ترجمہ ہے: دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو یا انگریزی شاعر کہتا ہے: Oft shall the pilgrim lift the latch And share my meal a welcome guest اور اقبال کا شعر ہے: راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جسم دم امید ان کی میرا ٹوٹاہوا دیا ہو اور اسی طریقے پر اصل انگریزی نظم اقبال کے اردو اشعار میں جا بجا گونج رہیہے۔ (۱۳) اس ابتدائی دور کے بعد جو گویا مشق سخن کا زمانہ ہے۔ اقبال نے انگریزی شعراء کا ترجمہ نہیں کیا کیونکہ دوسرے دور میں اقبال کے لیے جو قومی شاعری کا دور تھا محض ادیبانہ شعر گوئی کا موقع نہ رہا تھا۔ پھربھی انگریزی شعرا کی یاد اقبال کے تخیل میں کبھی کبھی ابھر آتی تھی مثلاً گورستان شاہی میں انگریزی شاعر گرے کی Elegy کہیں کہیں جھلکتی ہے۔ اگرچہ دور اول کی نظم خفتگان خاک سے استفسار میں Elegyکی جھلکیاں زیادہ وضاحت سے موجود ہیں۔ علی ہذا القیاس ’’گورستان شاہی‘‘ میں ایک پورا مصرع ہے جو شیلے کے ایک انگریزی مصرع کا گویا لفظی ترجمہ ہے۔ وہ مصرعہ یہ ہے: آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم بالکل یہی تشبیہہ شیلے نے اپنے متعلق استعمال کی ہے۔ کیٹس کا مرثیہ Adonaisلکھتے ہوئے وہ ایک جگہ خو د اپنی تصویر یوں کھینچتا ہے: Midst others of less note came one frail Form A phantom among men companionless As the Last cloud of an expiring storm whose thunder is its knell... میںنے اس مختصر مقالے میں ملٹن کا ذکر نہیں کیا (۱۴) بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اقبال کا تصور ابلیس ملٹن کی گم شدہ بہشت کے شیطان سے ماخوذ ہے۔ مجھے یہ خیال صحیح معلو م نہیں ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال کا ابلیس بھی ملٹن کے شیطان کی طرح ایک خوددار متحرک اور ہنگامہ خیز شخصیت ہے۔ لیکن اقبال کے ابلیس کا اصل جوہر وہ مابعد الطبیعی پس منظر ہے جس میں ابلیس کی ہستی ذات باری سے منفصل نہیںمتصل دکھائی دیتی ہے۔ یاد رہے کہ مسلمان صوفیہ نے بھی شیطان کے موضوع پر بہت کچھ غور کیا ہے ۔ ان کے افکار اقبال کے انداز فکر سے بہت زیادہ قریب ہیں۔ اور جو فرق ہے وہ اقبال کا اپنا اضافہ ہے۔ دراصل ۱۹۱۰ء سے کچھ پہلے علامہ اقبال اس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ جہاں مشق سخن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ان کی عظمت ان کے سامنے تھی۔ اور ان کا کام انہیںپکار رہا تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان دوسروں کاترجمہ نہیں کرتا اپنی روح کا ترجمان ہوتا ہے۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ یہاں مرحوم پروفیسر صاحب سے تسامح ہوا ہے اسلامیہ کالج لاہور میں چند ماہ کے لیے اقبال نے اعزازی طور پر انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کو ضرور پڑھایا تھا مگر یورپ جانے سے قبل وہ ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک کچھ وقفے کو چھوڑ کر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر رہے اور اسی پوسٹ سے رخصت بلا تنخواہ لے کروہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلے گئئے۔ یورپ سے واپسی پر وہ ا س پوسٹ سے مستعفی ہو کر وکالت کرنے لگے تھے اور اس کے ساتھ پروفیسر تاریخ کی جگہ ایک سال سے اوپر انہوں نے گورنمنٹ کالج میں یہ فرجبھی انجام دیا (۱۹۱۰ء ۱۹۱۱ء میں) (ذوالفقار) ۲۔ علامہ اقبال کی ۱۹۱۰ء میں لکھی ہوئی انگریزی بیاض میں (جو ڈاکٹر جاوید اقبال نے ۱۹۶۱ء میں شائع کی) صفحہ ۵۴ پر یہ ذکر ملتا ہے کہ ورڈزورتھ نے میری طالب علمی کے دنوں میں مجھے الحاد سے بچایا۔ ۳۔ یاد رہے کہ اس صدی کے ربع اول تک اردو کے اہل قلم ترجمہ و اصل کے درمیان (بالخصوص افسانہ و شعر میں) پابندی سے امتیاز نہیں کرتے تھے۔ DAYBREAK A wind came up out of the sea And said O mists make room for me It hailed the ships and cried Sail on Ye mariners the night is gone And hurries landward far away Crying Awake it is the day It said unto the forests shout! Hang all your leafy banners out! It touched the wood bird's rolded wing And said O bird awake and sing And o'er the farms O chanticleer Your clarion blow the day is near It whispered to the fields of corn Bow down and hail the coming morn It shouted through the belfry tower Awake O bell! proclaim the hour It crossed the churchyard with a sigh And said Not yet! in quite lie. H.W.Longfellow ۵۔ LOVE AND DEATH What time the mighty moon was gathering light Love peaced the thymy plots of paradise, And all about him roll'd his lustrous eyes, when turning round a cassio, full in view Death, walking all alone beneath a yew And taking to himself, first met his sight: You must begone said Death, these walks are mine Love wept and spread his sheeny vans for fight Yet ere he parted said this hour is thine Thou art the shadow of life and as the tree stands in teh sun and shadows all beneath, So in the light of great eternity Life eminent created the shade of death; The shadow passeth when the tree shall fall, But I shall reign for ever over all. A. Tennyson ۶۔ THE MOUNTAIN AND THE SQUIRREL The mountain and the squirrel Had a quarrel, And the former called latter little prig Bun replied: You are doubtless very big' but all sorts of things and weather Must be taken in together To make up a year And a sphere And think it no disgrace To occupy my place It I'm not so large as you You are not so small as I, And not half so apry: I'll not deny you make A very pretty spuirrel-track Talents differ all is well and wisely put If I cannot carry forests on my back Neither can you crack an nunt R.W. Emerson ۷۔ THE NIGHTINGALE AND GLOWWORM A nightingale that all day long Had cheer'd the village with his song Ner yet at eve his note suspended Nor yet when eventide was ended Began to feel as well he might, The keen demands of appetite; When looking eagerly around, A something shining in the dark, and knew the glow-worm by his spark So stooping down from hawthorm stop, He thought to put him in his crop. The worm aware of his intent Harangued him thus right eloquent... Did you admire my lamp, qouth he, As much as I your minsterlsy, You would abhor to do me wrong As much as I to spoil your song; For 'twas the self same Power Divine Taught you to sing and me to shine That you with music I with light Might beautify and cheer the night. The songster heard his short oration, And warbling out his approbation, Released him as my story tells, And found a supper some where else. Hence jarring sactares may learn Their real interest do discern; That brother should not war with brother, And worry and devour each other; But sing and shine by sweet contest, Till life's poor tansient night is spent, Respecting in each other's case The gifts of nature and of grace. Those Christians best deserve the same Who studiously make peace their aim; Peace both the duty and the prize Of him that creeps and him that flies. W. Cowper ۸۔ اس شعر کا دوسرا مصرع ابتدا میں یوںتھا: وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ ۹۔ ON A FOLDFINCH STARVED TO DEATH IN HIS CAGE-1 Time was when I was free as air, The thistle's downy seed my fare, My drink the morning dew; I perch'd at will on ev'ry spray, My form genteel my plumage gay My strains for ever new. But gaudy plumage sprightly strain And form genteel were were all in vain And of a transient date; For caught and caged and starved to death, In dying sighs my little breath Soon pass's the wiry grate. Thanks gentle swain for all my woes, And thanks for this effectual close And cure of ev'ry ill! More cruelty could none express, And I, if you had shown me less, Had been your pris'ner still W. Cowper ۱۰۔ On the Reciept of my Mother's Picture out of Norfolk. ۱۱۔ برسوں بعد یہ مصرع ’’بانگ درا میں یوں بدل گیا: ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا ۱۲۔ A WISH Mine be a cot beside the hill, A bee-hive's hum shall soothe my ear; A willowy brook that turns a mill With many a fall shall linger near The swallow oft beneath my thatch Shall twitter from her clay built nest Of't shall the pilgrim lift the latch And share my meal a welcome guest Arount my ivied porch shall spring Each fragrant flower that drinks the dew; And Lucy at her wheel shall sing In russet gown and apron blue. The village church among the tress, Where first our marriage vows were given, With merry peals shall swell the breeze And point with taper spire to Heaven. S. Rogers ۱۳ ۔ ایک آرزو پہلے پہل ’’مخزن‘‘ بابت دسمبر ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے جو اشعار بانگ درا میں حذف ہوگئے ان کے لیے ملاحظہ فرمائیے سید عبدالواحد معینی کی ’’باقیات اقبال‘‘ (لاہور ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۹۹۔۳۰۰) ۱۴۔ مگر اس سے یہ غرض ہرگز نہیں ہے کہ اقبال اور ملٹن کی عظمت کے مشترک عناصر کا انکار کیا جائے۔ بنیادی طورپر دونوں شاعروں کو انسان اور خدا سے سروکار ہے۔ دونوں کے بلند مقاصد خود بخود ایک مخصوص شکوہ بیان سے منسلک ہیں اور پھر ایک ابتدائی خط بنام منشی سراج الدین سری نگر (مورخہ ۱۱ مارچ ۱۹۰۳ئ) میں اقبال کی یہ تجویز اس شعری مماثلت کو کچھ اور نمایاں کر دیتی ہے۔ ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیںجاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو… (شیخ عطاء اللہ ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ اول صفحہ ۲۱ سال طبع ندارد‘ مطبوعہ شیخ محمد اشرف ‘ لاہور)۔ ٭٭٭ شعر اقبال میںفن کاری کاعنصر یہ مضمون جنوری ۱۹۵۱ء کے ’’ہمایوں‘‘ میں شائع ہوا۔ اب اس کتاب کے لیے متعدد اضافوں کے ساتھ از سر نو مرتب کیا گیا۔ تنقید اقبال کا بہت بڑا حصہ قدرتاً اقبال کے پیغام اور اس کے پیغام کے فلسفیانہ مطلب کی تشریح میں صرف ہوا ہے۔ مگر اس دوسرے سوال پر نسبتاً کم غور کیا گیا ہے کہ اقبال کی خالص ادبی حیثیت کیا تھی اور کی اقبال نے شعر کو بطور فن کسی نئے سانچے میں ڈھالا؟ اقبال کی فکری عظمت کا جائزہ لینے کے علاوہ نقاد کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ شاعری کی دنیا میں بطور ایک فن کار کے اقبال کا مقام کیا ہے؟ اگر اقبال ایک پیغامی شاعر ہے (جو وہ یقینا ہے) تو اس کی پیغامی حیثیت کے علاوہ اس کے فنی کمال پر غور کرنا بھی متوازن تنقید کے لیے بداہتہً لازم ہوجاتا ہے۔ اقبال نے ابتدائی دور میں مناظر فطرت کو بھی موضوع سخن بنایا اور نفس انسانی کی مختلف کیفیات کو بھی لیکن ان دونوں پہلوئوں سے اقبال کا مرتبہ اس عہد کے بزرگ شعراء مثلاً حالی اور داغ کے مقابلے میں نمایاں طورپر نیچے ہے۔ ان دونوں میدانوں میںاقبال مثلاً حالی اور داغ کے مقابلے میں نمایاں طور پر نیچے ہے۔ ان دونوں میدانوںمیں اقبال کا ذاتی جوہر نہیں چمکا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں اقبال اپنے اصل مقام سے بہت دور ہے۔ ان ابتدائی نظموں کوایک تبرک کی حیثیت ضرور حاصل ہے۔ لیکن اگر اقبال بھ غالب کے معیار سے اپنے کلام کا انتخاب کرتے تو ابتدائی نظموں میں سے بیشتر کو مجموعہ کلام میں جگہ نصیب نہ ہوتی۔ چنانچہ فی الواقع پہلے دور کی لکھی ہوئی متعدد نظمیں بانگ دراکی تالیف کے موقع پر قلم زد کی بھی گئیں۔ دراصل یہ دور اقبا ل کے لیے ایک صحیح شاعرانہ منصب کی تلاش کا دور ہے۔ یہ منصب انہیں اس وقت ملا جب ان کے کلام میں ایک حکیمانہ پیغام بتدریج نمایاں ہونے لگا۔ یہی ان کی فن کاری کے عروج کا بھی دور ہے۔ اس دور کے کلام میں ایک نئی گونج بلکہ ایک ہلکی سی گرج سنائی دینے لگتی ہے۔ روح القدس کا یہ فیض یک بہ یک شروع نہیں ہوا۔ ۱۹۰۵ء تک کی نظمیں مثلاً ’’بلالؓ‘‘ یا ’’نیا شوالہ‘‘ بھی جو اس نئے آغاز کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ ہنوز ایک نئے اقبال کے شکوہ بیان کی منتظر ہیں۔ اس ضمن میں ایک پرلطف حقیقت ہے کہ اقبال کو بلالؓ پر اپنی پہلی نظم (جس نے بانگ درا میں قطع و برید کے بعد جگہ پائی) قابل اطمینان معلوم نہ ہوئی اور یورپ سے واپسی کے کچھ ہی عرصے کے بعد انہوںنے بلالؓ پر دس اشعار کی ایک اور نظم لکھی۔ دونوں نظمیںبانگ درا میں موجود ہیں (۱) لیکن بلال اول اور بلال دوم کے لہجے کافرق ایک نئے دورکے طلوع کی خبر دے رہا ہے۔ بلال دوم سکندر رومی کے ذکر سے شروع ہوتی ہے۔ اس ذکر میںشاعر کا تازہ حاصل شدہ صوتی تجمل ملاحظہ کیجیے: تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے دعویٰ کیا جو پورس و دارا نے خام تھا یہ صوتی تجمل محض تینبادشاہوں کے نا م جمع کر دینے سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کا جز و اعظم دونوں مصرعوں میں حروف علت بالخصوص لمبی آواز والے الف اور اسی انداز کی یائے ممتد کا آہستہ رو طمطراق ہے جو بجائے خود ایک شاہانہ آن بان رکھتا ہے۔ آگے چلیے تو نظم کے دوسرے بند میں شعر کی زمین بدل گئی ہے۔ اس دوسرے بند کے یہ تین شعر سننے کے قابل ہیں۔ ہر مصرع اول کے آخری لفظ میںایک اعلان حق کی پکار سنائی دیتی ہے۔ جس کی توثیق ہر مصرع ثانی کے قافیے کی کوک فضا کو چیرتے ہوئے کرتی ہے: جس کا امیں ازل سے ہوا سینہ بلالؓ محکوم اس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر! ہوتا ہے جس سے اسود و احمر میں اختلاط کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر! ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز صدیوں سے سن رہا ہے جسے گوش چرخ پیر شروع شروع میں اقبال کو اپنے نئے مضمون کے لیے موزوں ہیت کی تلاش رہی لیکن نئے اسلوب اظہار کی مطلوبہ تراکیب سے بھی زیادہ انہیں ایک ایسی صنف سخن کی ضڑورت تھی جس کی مد د سے ان کے خیالات جذباتی ہم آہنگی کے علاوہ منطقی تسلسل کے ساتھ ادا ہو سکیں۔ انہوںنے مثنوی کو آزمایا مگر مثنوی کی بحروں کے انتخاب میں رواج سے سند نہ لی۔ ’’شمع اور پروانہ‘‘ ’’صدائے درد‘‘ ’’طفل شیر خوار‘‘ وغیرہ ااسی آزمائشی دور کی یادگاریں ہیں۔ مثنوی کے ساتھ ہی انہوں نے مسدس کوبھی استعمال کرنا شروع کیا۔ بلکہ شاید مثنوی سے کبھی زیادہ ’’کوہ ہمالیہ ‘ ‘ ’’مرزاغالب‘‘ ’’آفتاب صبح‘‘ وغیرہ کی مثالیں ہیں ۔ یہ تجربہ انہیں پسندآیا۔ بعد کے کلام میں ’’شکوہ ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ اس پسندیدگی کے مشہور ثبوت ہیں۔ بایں ہمہ اس تجربے سے اقبال کے فنی احساس کی پوری تشفی نہ ہو سکی۔ مثنوی او رمسدس کے ساتھ ساتھ انہوںنے (اپنی طویل نظموں میں بالخصوص) اس صنف کو آزمایا جسے ترکیب بند کہتے ہیں۔ ترکیب بند کو انہوں نے اس طرح استعمال کیا ہے جس ططرح غزلکی ہئیت میں لکھے ہوئے متعدد بند ایک مسلسل نظم کی شکل میں باہم ٹانک دیے۔ یہ طریقہ بظاہر کچھ زیادہ تسلی بخژ معلوم ہوا اورپھر عمر بھر جاری رہا۔ اس کی مثالیں اقبال کی شاعرانہ زندگی کے ہر دور میں موجو د ہیں۔ ’’تصویر درد‘‘ اور ’’عاشق ہرجائی‘‘ دور اول میں ’’شمع اور شاعر‘‘ اور دور ثانی میں ’’طلوع اسلام‘‘ اور ’’مسجد قرطبہ‘‘ دور ثالث میں اس طرح اقبال نے اپنی نئی غزل گوئی کی مشق بہم پہنچائی۔ آہستہ آہستہ وہ غزل کی زمین میں اپنے حکیمانہ اور عمرانی تصورات کو روانی اور برجستگی سے ادا کرنے پر قادر ہو گئے بال جبریل تک پہنچتے پہنچتے یہ کیفیت بالکل واضح ہو گئی ہے۔ تلاش ہئیت کے دور کا سب سے اہم واقعہ شاعر کے ذہن کا اردو سے فارسی زبان کی طرف منتقل ہو جانا ہے۔ ان معاملات میں ماہ و سال کا معین کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۱۰ء میں یا اس کے بعد اقبال کے شب و رروز ایک فلسفیانہ نظام کے مابعد الطبیعی او ر اخلاقی پہلوئوں کی تکمیل میں لگے ہوئے تھے۔ شعر میںاس نظام فکر کا حسب دل خواہ بیان اقبال سے اردو کے بجائے فارسی کا تقاضا کرنے لگا۔ مسعود سعد سلمان سے لے کر امیر خسروتک اور امیر خسرو سے لے کر بیدل اورغالب تک ہمارے شعراء نے مقامی زبان میں سخن سرا ہونے کے باوجود فارسی گو دنیا کے لیے اپنے ضمیر کے دریچوں کو کھولنا مناسب نہیں سمجھا۔ دراصل یہ مسئلہ صرف اظہار خیال کا نہیں ابلاغ خیال کا بھی ہے۔ ار اقبال نے برطانیہ کے تسلط کے باوجود اپنے عظیم پیش روئوں کی طرح برعظیم سے ایران و توران کی علیحدگی تسلیم نہیں کی چنانچہ اپنے نظام فلسفہکو جامہ الفاظ میں جلوہ گر کرنے کا وقت آیا تو اقال کے لیے پیر رومی کی مثنوی خود بخود چراغ راہ بنی۔ جب پہلی عالمگیر جنگ شروع ہوئی اقبال اپنے فلسفہ زندگی کو اسرار خودی کی صورت دے چکے تھے۔ (اقبال کی یہ پہلی طویل فارسی نظم ۱۹۱۵ء کے اوائل میں شائع ہوئی اوراس کا تتمہ رموز بے خودی تین سال بعد چھپا) فلسفہ خودی کے انکشاف کا اعلان اقبال نے اسرار خودی میںمستانہ وار کیا ہے: سر عیش جاوداں خواہی بیا! ہم زمیں ہم آسماں خواہی بیا! فارسی گوئی کا زمانہ اقبال کی زندگی کے دور آخر کی پوری ربع صدی پر پھیلا ہوا ہے لیکن اس دور آخر میں اردو اور فارسی کی سخن سرائی کو اقبال نے بڑی ہنر مندی سے باہم ملا دیا ہے۔ فارسی میں اقبال نے پہلے صنف مثنوی پر قدرت حاصل کی اور پھر بعدمیںپیام مشرق اور زبور عجم میں صنف غز کو جلا دی مثلا ’’زبورعجم‘‘ میں یہ شعر ایک فلسفی شاعر کی سخن ورانہ صناعی کی عمدہ مثال ہے اور ثابت کر رہا ہے کہ فارسی زبان کی طرف رجوع بے وجہ نہ تھا: نہ بہ ماست زندگانی! نہ ز ماست زندگانی ہمہ جاست زندگانی! زکجاست زندگانی! لیکن اس فارسی گوئی کے دور میں اقبال نے فارسی کے لطف سخن کو اردو نظم میں اس خوبی سے ملایا ہے کہ صورت و معنی کے اس بہتر توازن کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ ’’بانگ درا ‘‘ میں مشمولہ نظم ’’میں اور تو‘‘(اس نام کی دوسری نظم) دراصل اس کمال سخن کا پیش خیمہ ہے جو ’’بال جبریل‘‘ میں جلوہ گر ہونے والا تھال اس نظم کے فنی حسن کا اندازہ کرنے کے لیے صرف یہ دو شعر کافی ہیں: مرا عیش غم مرا شہد سم مری بود ہم نفس عدم ترا دل حرم‘ گرو عجم‘ ترا دیں خریدہ کافری دم زندگی رم زندگی‘ غم زندگی سم زندگی غم رم نہ کر سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری تقریباً دس برس بعد نظموں اور آوازوں کی نگینہ کاری کا یہ انداز مسجد قرطبہ کے پہلے بند میں ذرا سے فرق کے ساتھ دوبارہ نمودار ہوا ۔ یہ پورا بند اپنے معنوی محاسن کے علاوہ فن تعمیر کا نمونہ بھی ہے اور فن موسیقی کا بھی۔ فارسی میںمشق سخن سے اقبا کی اردو مثنوی اور اردو غزل براہ راست مستفید ہوئیں۔ تاہم فارسی میں اپنے بعض تجربات فن کو اقبال نے فارسی تک محدود رکھا۔ یورپی شاعری کی طرز پر لکھے ہوئے گیت (مختصر منظومات جن کے بند چھوٹے بڑے مصرعوں سے بنے ہوں) پیام مشرق میں نمایاں ہیں۔ لیکن (او غافل افغان اور اے وادی لولاب سے قطع نظر) نئی نغمہ نوازی کی یہ روا اردو میں داخل نہیںہوئیی۔ باایں ہمہ اردو کے نوجوان شعراء نے ۱۹۲۱ئ۔۔ ۱۹۲۲ء کے زمانے میں ’’پیام مشرق‘‘ کی فارسی سے گہرا اثر قبول کیا۔ جس زمانے میں اقبال کے فارسی گیت کے چرچے ہو رہے ھتے اردو شاعری میں بھی ’’گیت‘‘ نمودار ہوا۔ اقبال کے فارسی گیت کا ترنم اگر پچاس برس پہلے کے نوجوان اردو گو شعراء کو متاثر نہ کر سکا تو حیرت کی بات ہوتی ۔مثلاً سنیے سرود انجم: ھستی ما نظام ما مستی ما خرام ما گردش بے مقام ما زندگی دوام ما دور فلک بکام ما‘ می نگریم و می رویم یا’’فصل بہار‘‘ کے اس قسم کے نشاط آہنگ اور ارغنوں نواز مصرعے: بلبللگاں در صفیر‘ صلصلگاں در خروش یہ مصرعے باجا بجا کر اپنا مطلب سمجھا دیتے ہیں ۔ ’’صفیر ‘‘ اور ’’خروش‘‘ ’’بلبلگاں‘‘ اور صلصلگاں‘‘ کے معنی کسی لغت میں دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اسی طرح کرمک شب تاب کے یہ تین مصرعے دیکھیے جو اندھیرے میں تھرکتے اور دمکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں: یا اختر کے ماہ مہینے بکمینے نزدیک تر آمد بتماشائے زمینے از چرخ برینے بلحاظ ہئیت ’’زبور عجم‘‘ اور ’’جاوید نامہ‘‘ علی الترتیب فارسی میںغزل اور فارسی میںمثنوی کا نقطہ عروج ہیں۔ یہ کمال فن بالآخر اردو میں منتقل ہوا ۔ ’’بال جبریل‘‘ وغیرہ اس دولت سے مالا مال ہیں۔ فارسی ’’گیت ‘‘ جو صرف ‘‘پیام مشرق‘‘ کے حصے میں آئے تھے اقبال نے جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے اپنے اردو کلام کو عطا نہیں کیے۔ اقبال نے بطور ایک فن کار کے شعر کی سب سے پہلی خدمت یہ انجام دی کہ غزل کی ہئیت کو ایک ایسے مضمون سے ترکیب دی جسے غزل نے اس سے پہلے اپنی ہزار سالہ تاریخ میںکبھی قبول نہیںکیا تھا۔ شروع میں غزل کا سرمایہ عشق و عاشقی کے موضوعات تھے۔ پھر سنائی و عطار نے اسے متصوفانہ مضامین کے لطف سے آشناکر کے ایک عظیم الشان قدم آگے بڑھایا۔ اقبال نے اسی نوعیت کا ایک اور انقلاب برپا کیا یعنی عاشقی اور تصوف سے قطع نظر کر کے غزل کو بین الاقوامی معاملات و سیاسیات سے دور چار کیا غزل کے لیے مضمون کی قید ہمیشہ بڑی اہم رہی ہے۔ اب فارسی اور اردو غزل صدہا سا ل پرانے مضامین کی قید سے آزاد ہو چکی ہے اور اقبا ل نے یہ کارنامہ اس صفائی سے انجام دیا کہ کسی جھٹکے کا احساس نہ ہوا۔ یہ ادبی معجزہ اس لیے ممکن ہو سکا کہ اول اقبال نے غزل کی قدیم روایات کا احترام ملحوظ رکھا اور دوم اپنے افکار کو بے انتہا شدت سے محسوس کیا۔ ان کا کمال فن یہ ہے کہ انہوںنے غزل کو مڑوڑ دیے بغیر ایک نئے راستے پر ڈال دیا: درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے اہل مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند درویش اور مست اور اصفہان و سمرقند وغیرہ الفاظ غزل کا پراناسکہ ہیں۔ اقبال نے انہی کی مدد سے ایک نیا تصور بیان کر دیا ہے۔ دوسرے شعر میں ملائیت اور یورپ زدگی پر بہ یک وقت چوٹ ہے۔ لیکن انداز بیان میںغرابت کا احساس نہیں ہوتا۔ اسی قسم کے اشعاریہ ہیں: بر عقل فلک پیما ترکانہ شیخوں بہ یک ذرہ درد دل از علم فلاطوں بہ ٭٭٭ ما از خدائے گم شدہ ایم و بجستجوست چوں ما نیاز مند و گرفتار آرزو ست ٭٭٭ چہ حرمہا کہ درون جرمے ساختہ اند اہل توحید یک اندیش و دونیم اند ہمہ ٭٭٭ زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ٭٭٭ بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیںقومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا ٭٭٭ رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لیے یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ تاریخ ادب میں مثنوی کی ہیئت غزل کی طرح ایک مقید اور پابستہ ہئیت نہیں رہی تاہم اقبال نے صنف مثنوی کو بھی نئے بال و پر دیے ہیں: زندگی از لذت غیب و حضور بست نقش ایں جہاں نزد و دور ہر کجا از ذوق و شوق خود گری نعرہ من دیگرم تو دیگری یہی ہنر اردو میںبھی بجلی کی سی چمک کے ساتھ نمودار ہوتا ہے: اتر کر جہان مکافات میں رہی زندگی موت کی گھات میں! مذاق دوئی سے بنی زوج زوج اٹھی دشت و کہسار سے فوج فوج! گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھی رہے! اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے! اقبا ل کی امتیازی خصوصیت ان کے انداز بیان کا شکوہ ہے جس کی طر ف سرسری اشارہ کیا جا چکا ہے۔ ہمارے اور کسی شاعری کے لب و لہجہ میں یہ طنطنہ نہیں ملتا۔ قدرت کی آوازوں میں اگر کسی آواز سے اقبال کے انداز تکلم کی مثال دی جا سکتی ہے تو وہ بادل کی گرج ہے: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیداکر اے غافل کہ مغلوب گماںتو ہے یہ پر شکوہ انداز بیان اقبال کے پر شکوہ مضامین کے قامت پر اس طرح راست آتا ہے کہ ان مضامین کا دوسرے الفاظ میں بیان ہونا تصور میں نہیں آ سکتا۔ اس انداز بیان کا سرچشمہ اقبال کی سر بلندی اور جوش ایمان ہے: خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے یہ لب و لہجہ بولنے والے کی شخصی عظمت کا خود بخود اعلان کرتا ہے: یا بکش در سینہ من آرزوئے انقلاب یا دگرگوں کن نہاد ایں زمان و ایں زمیں مصرع ثانی میں این زمان و زمیںنہیں کہا ایںزمان و ایں زمیں کہہ کر دنیا کی اور زمانے کی کم مائیگی پر زور دیا ہے۔ لیکن دراصل اس شعر میں ایک للکار کا انداز اسی وقت قائم ہو جاتا ہے کہ جب ابن آدم اپنے سینے پر ہاتھ مار کر خدا سے مدعیانہ خطاب کرتا ہے۔ اسی طرح کی کڑک ان شعروں میں سنائی دیتی ہے: می تپد از سوز من خون رگ کائنات من بہ دو صرصرم من بہ غو تندرم ٭٭٭ گفتند جہان ما آیا بتو می سازد؟ گفتم کہ نمی سازد! گفتند کہ برھم زن! ٭٭٭ در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ اقبال جب زبان کھولتے ہیں تو ہمیں خود بخو د احساس ہوتا ہے کہ ایک عظیم الشان شخصیت ہم سے مخاطب ہے: میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے انداز بیان کا یہ کروفر ہمیں بعض دفعہ ایک خاص نشست الفاظ کے ذریعے متاثر کرتا ہے مثلاً: خدا کا آخری پیغام تو ہے جاوداں تو ہے پھر کبھی الفاظ کی یہ ترکیب پرشکوہ ہوتی ہے جیسے: یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ اور کبھی سادہ لفظوں کی پرکاری سے یہ جلالی کیفیت پیدا ہوتی ہے: دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیںمیری نہیں اقبال کے شکوہ بیان کا ایک اور سرچشمہ ان کی ترکیبوں اور مصرعوں کی صورتی ساخت ہے: سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں! جیسا ابھی کہا جا چکا ہے کہ اقبال کے کلام میں ایک گونج بلکہ گرج ہے۔ یہ اقبال کی اپنی شخصیت کی گرج ہے جو ایک بھونچال کی دھمک کی طرح صاف سنائی دیتی ہے: تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں ہر دم رواں ہے زندگی یا مثلا ً یہ شعر: جس سے جگر لالہ میںٹھنڈک ہووہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان اقبال کبھی کبھی اسمائے معرفہ سے بھی کام لیتے ہیں لیکن اس کی مثالیں نسبتاً کم ہیں: ستیزہ کار رہا از سے تا امروز چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی! ٭٭٭ اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند ٭٭٭ قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن یا خالد جانباز ہے یا حیدر کرارؓ ٭٭٭ از خاک سمرقندے ترسم کہ دگر خیزد آشوب ہلاکوئے ہنگامہ چنگیزے ’’پیام مشرق‘ کی نظم ’’نوائے وقت‘‘ پڑھیے تو پوری کی پوری نظم عظمت نامحدود کی ایک بے پناہ کیفیت سے لبریز معلوم ہوتی ہے بالخصوص اس کا دوسرا بند: چنگیزی و تیموری مشتے ز غبار من ہنگامہ افرنگی یک جستہ شرار من انسان و جہان او از نقش و نگار من خون جگر مرداں سامان بہار من من آتش سوزانم من روضہ رضوانم اسی قسم کا لطف ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے بہت سے اشعار میں ملتا ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کارساز خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز اقبال کی ایک اور فنی خصوصیت انہیں اردو شعراہی سے نہیں بلکہ دنیا بھر کے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ انہوںنے تشبیہہ کا استعمال حیرت انگیز طور پر کم کیا ہے۔ ان کا پیغام تصویروں میں نہیں ملتا۔ تشبیہات میں نہیں جذبے کی حیثیت سے آتا ہے: ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے! زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں چنگاری کا لفظ ضرورآیا ہے لیکن اس مصرع کا حسن فروغ جاوداں کی ترکیب میں ہے۔ چنگاری کی عام تشبیہ میں نہیں ہے۔ یا مثلاً ذیل کے شعرکی خوبی… فقر کی سان اور تیغ خودی کے سیدھے سادھے استعاروں میں نہیں ہے بلکہ ایک تو اس اجتہادی نکتے میں ہے جو اس شعر کا مضمون ہے اور دوسرے اس جوش اور کڑک میں جس سے دوسرا مصرع ادا ہواہے: چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ خودی ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ! اقبال کے اچھے شعر بار بار استعارہ و تشبیہہ اور محاکات سے بے نیاز ہوتے ہیں جیسے کہ یہ مشہور شعر: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اس بیان سے یہ مراد نہیں ہے ک استعارہ و تشبیہہ کلام اقبال میں پائے ہی نہیں جاتے۔ ہر کسی کو دور اول کی ماہ نو اور پھر جگنو کے چمکتے استعارے یا د ہیں۔ بلکہ پاس سات برس بعد کی ’’رات اور شاعر‘‘ اور ’’بز م انجم‘‘ کی نسبتاً پختہ انجمن آرائی بھی یہ ابتدائی نظمیں جنہوںنے بزم سخن میں ایک نووارد کا تعارف کرایا یا عہد شباب کی مستی سخن کو آب و رنگ بخشا اصل اقبال نہیں ہی ۔ ذرا غور کیجیے تو جس حد تک عالم تشبیہہ کا تعلق ہے شروع سے لے کر آخر تک اقبال کی تصویر کاری میں واقعیت کے بجائے تخیل کا رنگ نمایاں ہے۔ عروش شام کی بالی ہو یا تاروں کے موتیوں کا جوہری ان کا وجود حقیقی نہیں خیالی ہے۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ دریائوں کے دل (جس سے دہل جائیں وہ طوفان) اور پھولوں کی ’’پریاں قطار اندر قطار‘‘ سب تخیلی خاکے ہیں۔ تخیل کی پیدا کی ہوئی وہ تشبیہہ اس سے الگ ہوتی ہے جو حقیقی مشاہدے پر مبنی ہو۔ لیکن تخیل کی لائی ہو ئی تشبیہ بھی کلام اقبال میں یقینا ملتی ہے۔ کہیں بغرض تزئین: اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں اہل ایماں جس طرح جنت میں غرد سلسبیل! اور کہیں بغرض توضیح: بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی (۲) اور کہیں بہ اشتراک تزئین و توضیح: اس چمن میں پیر و بلبل ہو یا تلمیذ گل یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر یا مثلاً ایک اور شعر میں جو ’’پیام مشرق‘‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ شعر جمعیت الاقوام کی اصل و حقیقت بڑی وضاحت سے بتاتا ہے۔ اور ساتھ ہی تشبیہہ کو طنز کی مخصوص جراحت کا فنی لطف بھی عطاکرتا ہے۔ من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند! لیکن بحیثیت مجموعی دیکھیے تو اقبال کا لطف ایک بلند تر معنویت سے پیدا ہوتا ہے جو بلا آرائش تشبیہہ کارگر ہوتی ہے: میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط! اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو! اس شعر میں ’’کانٹے کی طرح‘‘ بلاشبہ ایک تشبیہہ ہے لیکن اس رسمی تشبیہہ کا نکال بھی دیجیے تو شعر کا لطف بدستور قائم رہتاہے۔ یہی حال ذیل کے شعر میں جوئے کہکشاں کے استعارے کا ہے جو محض جزو کلام کے طور پر وارد ہوا ہے۔ یہ شعر ان بے شمار اشعار میںبے تکلف شامل ہو سکتا ہے۔ جو تشبیہہ کے سہارے کے بغیر جذبہ و معنی کے سرور سے قائم ہیں: ز جوئے کہکشاں بگذر (۳) زنیل آسماں بگذر ز منزل دل بمیرد گرچہ باشد منزل ماہے بعض اشعار میں تشبیہات ایک خاص لطف رکھتی ہیںَ زبور عجم کا یہ شعر اس ضمن میں آتا ہے: شاخ نہال سدرہ خار و خس چمن مشو منکر او اگر شدی منکر خویشتن مشو لیکن ذرا غور کیجیے تو ظاہر ہے کہ شعر کی جان مصر ع ثانی ہے۔ (جس میں کوئی تشبیہہ و استعارہ نہیں) مصرع اول میں نہال سدرہ اور خار و خس کا تقابل محض تمثیل ہے اور پر لطف تمثیل ہے ۔ تاہم اقبال اسے کوئی اور صورت بھی دے سکتے تھے۔ شعر کا مرکز بہرحال انکار خدا اور انکار خویشتن کا تقابل ہے۔ غرض اقبال کے بہت سے اشعار تشبیہ کے بغیر وہ لطف دے جاتے ہیں کہ وج دوسروں کے مرصع بہ تشبیہہ اشعار بھی نہیں دیتے۔ ذیل کے چند اشعار بال جبریل سے ماخوذ ہیں: اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا؟ مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا؟ ٭٭٭ روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر! ٭٭٭ دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے پھر اس میں عجب کیا کہ تو بیباک نہیں ہے ٭٭٭ کافر ہے تو بے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی ٭٭٭ جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا یہی ہے اک حرف محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ! تشبیہات کے بجائے اقبال نے کچھ نئی اصطلاحات سے کام لیا ہے۔ مثلاً شاہین یا کرگس یہ ایک طرح کی ملفوف تشبیہیں ہی لیکن ان کی حیثیت محاکاتی نہیں معنوی ہے اسی طرح کچھ ترکیبیں کچھ الفاظ اقبال نے یا تو نئے بنائے یا انہیں نئے معنوں میں استعمال کیا۔ ذوق یقین مرد مومن عقل و عشق خودی وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ ان نئے الفاظ و اصطلاحات نے اقبال کی شاعری میں ایک ناگریز فنی ضرورت کو پورا کیا۔ اس نکتے کی تفصیل یہ ہے کہ اقبال سے پہلے انسانی جبلتوں میں سے جنسیت کو فارسی اور اردو غزل میں ایک مرکزی حیثیت حاصل رہی تھی۔ اقبال نے عین وقت جب یورپ نفسیات نے بھی جنسیت کے بنیادی مقام کو تسلیم کر لیا تھا۔ ایک دوسری جبلت کی طرف رجوع کیا اور خود اعائیت کو شاعری کا محور بنایا۔ اقبال کو اس نئے مضمون کے بیان کے لیے بدایتہً ایک نئے اسلوب کی ضرورت تھی۔ یہ اسلوب اقبال کی نئی اصطلاحات و تراکیب میں ظاہر ہوا ابھی ذکر ہو چکا ہ کہ بطور ایک شاعر یعنی شعر گو کے اقبال نے غزل کی ہئیت کو ناپسند کیا تھا۔ لیکن غزل کے مضامین اور سکہ بند رمزی اصطلاحات تمام تر عشق و محبت کے گرد گھومتی ہیں۔ دوسری طرف صورت یہ تھی کہ اقبال کے پیش نظر ایک بہت بڑا شعری انقلاب تھا۔ وہ عشق و محبت کے بغیر شاعری کو ممکن کر دکھانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اپنی غزل کی بلاغت اور ایجاز بیان کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے گل و بلبل اور شمع و پروانہ کے نمونے پر مذکورہ بالا نئے رموز و علامات وضع کیے اور ان کے موزوں استعمال کو اپنی سیاسی اور پیغامی غزل کی کامیابی کا ذریعہ بنایا۔ اقبال کا بڑا شاعرانہ کارنامہ یہ ہے کہ انہوںنے عام انسانی تجربے کے دوران مل عنصر لے کر ایک دوسرے میں منقلب کر دیا۔ تعقلات کی دنیا اور جذبات کی دنیا میں بظاہر کوئی میل نہیں ہے۔ ایک مدرک بہ عمل ہے دوسری مدرک بہ حسیت۔ یہ نفس انسانی کے دو واضح طورپر علیحدہ کارخانے ہیں جن کی صنعت کے نمونے اپنی اپنی امتیازی خصوصیات رکھتے ہیں۔ اقبال کا مواد ٹھوس وزن دار بلکہ ثقیل تعلقات تھے لیکن جب اقبال نے انہیں بیان کیا تو وہ دہکتے ہوئے جذبات بن کر ہمارے سامنے آئے۔ تعقل اور جذبے کی دوئی کا مٹا دینا اقبال کے معجزات سخن میں سے ہے: شوق غزل سرائے را رخصت ھا و ھو بدہ باز بہ رند و محتسب بادہ سبو سبو بدہ ٭٭٭ بدہ آں دل بدہ آں دل کہ گیتی را فرا گیرد بگیر ایں دل بگیر ایں دل کہ در بند کم و بیش است ٭٭٭ آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو رہرو بھی تو رہبر تھی تو منزل بھی تو ٭٭٭ میں نوائے سوختہ در گلو تو پریدہ رنگ رمیدہ بو میں حکایت غم آرزو تو حدیث ماتم دلبری ٭٭٭ خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ ٭٭٭ پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے فنکاری کایہ کمال شاعرنے کیونکر دکھایا؟ اور شعر میں فلسفیانہ تفکر کی یہ گہرائی کہاں سے آئی فلسفی شاعر فنکار دراصل یہ سب کچھ ایک ہی انسان تھا۔ اس کا فلسفہ اس کے شعر سے اس کا شعر اس کے فن سے منفعل نہیں ہو سکتا۔ حواشی ۱۔ ’’بانگ درا‘‘ ص ۷۸۔۷۹ و ص ۲۷۲۔۲۷۳۔ ۲۔ اس مصرع ثانی کی کشادگی اور پھیلائو اس کی آواز میں موجود ہے۔ ۳۔ ’’زبور عجم‘‘ میں ’’بگذر‘‘ کا املا یہی ہے۔ ٭٭٭ اقبال کا نظام فکر عالم وجود کی ماہیت سمجھنے اور اس کے آغاز و انجام کا راز معلوم کرنے کی مسلسل عقلی کوشش جو تقریباً تین ہزار برس پہلے شروع ہوئی تھی۔ تاریخ فلسفہ کا موضوع ہے۔ یہی کوشش شعر اقبال کا موضوع ہے اگرچہ مابعد الطبیعیات کے اسرار اور اخلاقیات کے رموز کی دریافت کے لیے اقبال کے دماغ نے بیک وقت دو الگ سمتوں میں حرکت کی۔ ایک سمت میں انہوںنے فلسفیانہ تعقل سے کام لیا اور دوسری طرف سے وہ شاعرانہ تخیل کے میدان میں داخل ہوئے۔ دنیا نے اقبال کو بیشتر میدان شعر میں مصروف و تگ و تاز دیکھا۔ لیکن درحقیقت اقبال کی حیات مستعار کا آخری چہل سالہ دور شعر و سخن ہی سے نہیں فلسفے کے ایک طالب علم کی شبانہ روز ذہنی کشمکش اور پیہم فکر و استدلال میں بھی بسر ہوا۔(اس دور کی ابتدا ۱۸۹۷ء کے اواخر میں ہوئی جب وہ سیالکوٹ سے لاہور آئے اور بی اے کی جماعت میں داخل ہوئے) فلسفی کی حیثیت سے اقبال کا تعلق فلسفہ مغرب کی تاریخ سے اس قرد واضح ہے کہ ان کی ذات و تائید و اختلاف کے بے شمار رشتوں میںافلاطون دیکارت اورہیوم کانت نٹشے اور ہیگل کارل مارکس نطشے اور برگساں وغیرھم سے اس طرح گرہ در گرہ بندھی ہوئی ہے کہ ان کے نظام فکر کی کوئی تشریح تاریخ فلسفہ مغرب کے حوالوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ (۱) چنانچہ ہمیں بھی آغاز کلام میں لامحالہ فلسفہ فرنگ کی روداد کے بعض اجزاء گنانے پڑیں گے۔ جن سے اقبال کا نظام فکر ایجابی یا سلبی طور پر بداہتہً وابستہ ہے۔ جس وقت اقبال کے برہمن اجداد آج سے ڈھائی تین ہزار برس پہلے نفس انسانی کی گہرائی میں ڈوب کر ویدانت کی گتھیاں سلجھا رہے تھے تو اس سے غالباً کچھ ہی عرصے بعد ان ہند ی و پاکستانی مفکرین کے آریا بھائی یونان قدیم مین خارجی دنیا کے پیہم تغیرات کا معما حل کرنے پر متوجہ ہوئے۔ ان قدیم یونانی حکما نے مطلہ کے خوبصورت ساحلی شہر میں طبیعی کائنات کے مطاہر کی کثرت کا سراغ کسی ایک اصل تک پہنچانا چاہا۔ انہوںنے محسوس کیا کہ اشیاء عدم محض سے وجود میں نہیں آ سکتیں۔ نہ موجود سے کلیتہً معدوم ہو جاتی ہیں۔ اشیا کے کون و فساد اور تعمیر و تخریب کے پس پردہ کوئی ثبات ہے جس میں تغیر و تبدل کا عمل طاری ہوتا ہے۔ چنانچہ بنائے ہستی کے تشخص کے سلسلے میں کہا گیا کہ مبدا عالم پانی ہے جس پر نباتی اور حیوانی زندگی کا انحصار ہے اور جو مختلف اشکار اختیار کرنے کی لامتناہی استعداد رکھتا ہے۔ یا پھر کوئی ایسا ہیولیٰ ہے جو ازلی و ابدی ہے اور کسی خاص شکل میں محدود محصور نہیں ہے۔ تمام موجودات اسی کے عمل سے صورت پذیر ہوتی ہیں۔ اس طرح یونان قدیم کے حکماء کے اولین گروہ نے ظواہر کی کثرت کے پیچھے کسی وحدت کی تلاش کی اور کون و تکون کے اس مسئلے کے خاص طبعی حل پیش کیے جسے بعد میں تاریخ فلسفہ کے بنیادی مباحث میں جگہ ملی۔ ملطی مسلک کے ساتھ ایک اور تحریک کو بھی فروغ ہوا جس کا بانی فیثا غورث تھا۔ اگ حکمائے ملطہ نے مادے کے خاجی کیفیات پر زیادہ توجہ دی تھی تو فیثاغورس کی جماعت نے مادی اشیا کی ترتیب و تناسب پر نگاہ ڈالی۔ ان کی رائے تھی کہ مظاہر کائنات کے اختلاف کی علت محض اختلاف اشکال ہے۔ اوراختلاف اشکال بنتی ہے۔ اشیاء کے اجزائے ترکیبی کے باہمی تناسب پر اگر یہ تناسب مادی اشیاء سے خارج ہو جائے تو لاشے اور عدم محض کے سوا کائنات میں کوئی چیز باقی نہ رہے۔ مگر تناسب کی بنیاد عدد پر ہے لہٰذا عالم وجود کی بنیاد پر اور اصل اصول عد د ہے۔ تمام معدودات ایک وحدت سے نکلے ہیں اور ان کا عدد اس وحدت مطلقہ کی علامت ہے۔ وحدت مطلقہ کی تکرار ارو ترکیب سے مختلف اشیاء کا ظہور ہوتا ہے گویا اشیاء کی فی الحقیقت اعداد محسوسہ ہیں اور متناسب صورتوں ہی کا دوسرا نام موجودات عالم ہے۔ اس انداز فکر کی روشنی میں اصحاب و تابعین فیثا غورث پوری کائنات کو ہندسی اشکال میں جلوہ گردیکھتے تھے۔ فیثا غورس کے متبعین او ر ان کے پیش رو ملطی حکما کا زمانہ گزر گیا تو پانچویں صدی قبل مسیح کے قریب ملطہ کے نواحی شہر ایفیوس میں ایک ایسے فلسفی کا ظہور ہوا جس نے ظواہر کی وحدت کے بجائے ان کے لحظہ بہ لحظہ تغیر و تحول پر کون کے بجائے تکون پر زور دیا۔ یہ فلسفی ہر قلیطوس تھا۔ جو آگ کو مبدا عالم قرار دیتا تھا مگر آگ ملطی فلاسفہ کے مبدا عالم کی طرح کوئی مادی وجودنہیں رکھتی بلکہ زندگی کی دائمی حرکت اور نت نئے تحولات کی علامت ہے ۔ سب چیزیں اسی اگ سے نکلی ہیں اور اسی میں فنا ہو جائیں گی۔ زندگی کی دو متضاد قوتوں کی کشمکش کانام ہے۔ متعارض قوتوں کی یہ کشمکش نہ ہو تو تمام حرکت مبدل بہ سکون ہو جائے لہٰذا یہ پیہم تخالف تمام موجودات کی زندگی کی ناگریزز شرط ہے۔ ہوا اور پانی دراصل آگ کے جلنے اور بجھنے کی منزلیں ہیںَ کائنات میں ایک مرتب و منظم انقلاب ہر وقت برپا رہتا ہے۔ یہ ترتیب و تنظیم کائنات کے تو افق کا سرچشمہ ہے۔ اس کا یہی تقاضا ہے کہ اضداد کی جنگ جاری رہے جس طرح موسیقی میںترنم ا س وقت تک پیدا نہیں ہوتا جب تک نغمے زیر و بم میں توافق نہ ہو۔ ہر قلیطوس موجودات کے مسلسل بہائو پر رہ رہ کر اصرار کرتا ہے اس کا مشہور دعویٰ ہے کہ کوئی شص ایک ہی ندی میں دو مرتبہ غوطہ نہیں لگا سکتا۔ مراد یہ ہے کہ زندگی کی جوے رواں ہر لحظہ متحرک اور تغیر پذیر ہے۔ با ایں ہمہ ا س کثرت کے پیچھے وہ ایک وحدت کے وجود کا انکار نہیں کرتا۔ اس کا قول ہے یہ بہت سی متناقض چیزیں دراصل ایک ہیں اور یہی وحدت کثرت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وحدت کائنات ہر قلیطوس کی رائے میں آ گہے یا وہ توافق جو تمام کشمکش کرتے ہوئے اضداد پر حاوی ہے۔ شاید یہ آگ اور یہ توافق اس کے نزدیک ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ایک ذاتی ہے اور دوسراصفاتی۔ دائمی حرکت اور پیہم تغیر کا یہ اصول یونانی فلاسفہ کے نزدیک ایک اور گروہ کو ناقابل تسلیم معلوم ہوا۔ ان کا تعلق جنوبی اطالیہ کی یونانی آبادی ایلسیا سے تھا۔ پرمانیدس اور زینو ی قیادت میں ایلسائی حکمانے شد و مد سے کہا کہ حقیقت ہستی تغیر کے بجائے ثبات ہے۔ ان کے نزدییک ہستی مطلق میں کوئی ردوبدل ممکن نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنابھی نادرست ہے کہ ہستی وجود میں آئی۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہستی نیستی سے پیدا ہوئی یعنی پیدا نہیں ہوئی۔ الغرض یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ ہستی کا کوئی وجود ہے ہی نہیں اور یا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہستی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ان حکماء کا دعویٰ تھا کہ کثرت و تغیر کے سب مظاہر فریب حواس پر مبنی لہٰذا موہوم اور غیر حقیقی ہیں۔ عقل سلیم انہیں رد کر دیتی ہے۔ حقیقت ایک ہے اور غیر متغیر ہے ۔ انسانی علم کی بنیاد صرف وحدت اور ثبات پر قائم ہو سکتی ہے۔ باقی سب لاطائل توہمات ہیں۔ ایلسیائی فلاسفہ کا حقیقی جانشین افلاطو ن ہے۔ تاریخ فلاسفہ کی اس معرکہ الآرا شخصیت نے یونانی فکر کے متفرق اجزا کی نہ صرف شیرازہ بندی کی بلکہ اس حاصل جمع کو ایک نئی ترتیب اور نیا مفہوم عطا کیا۔ ا س نے اپنے استاد سقراط کے تحقیقی کام کی تدوین بھی کی اور تکمیل بھی۔ وہ سقراط ک سوفسطائی معاصرین کے اس دعو ے کی تصدیق کرتا ہے کہ عالم ظواہر سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ مگر ساتھ ہی یہ کہتاہے کہ عالم اعیان کا علم حقیقی علم ہے۔ وہ ہر قلیطوس کے دائمی تغیر اور ایلسیائی مفکرین کے ازلی و ابدی ثبات کے اصول کو ربط دے کر ایک نیا نظریہ کائنات وضع کرتا ہے جس کی رو سے گو دنیائے محسوسات حرکت و تغیر کا مرقع ہے مگر دنیائے حقائق کو ایک لازوال سکون و ثبات میسر ہے۔ افلاطون کے نظام فکر کا مرکز اس کا وہ جز ہے جسے اس نے جدلیات یا منطق کا نام دیا ہے۔ افلاطونی جدلیات کی بنیاد یہ نکتہ ہے کہ انسانی شعور فی نفسہ ایک تخلیقی عمل ہے جو حسی ادراک کی دنیا سے ماورا ہے۔ اس تخلیق عمل کی مثال انسان کا علم ریاضیات ہے جو مدرک بہ حواس نہیں مگر حقیقی ہے۔ چنانچہ خالص ریاضیاتی علائق جیسے مثلث یا دائرے کے خواص مادی دنیا میں کوئی جسمی وجود نہیں رکھتے۔ لیکن عقل ان کے تصور پر پوری پوری طرح حاوی ہے اور یہ ہندسی خواص عالم عقلی مین ایک حقیقی اور مستقل مقام رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمیں یہ تصور حسی ادراکات کی تجرید سے نہیںملا۔ بلکہ تعقل کی اس فعلیت سے حاصل ہو ا ہے جو ذہن انسانی کا فطری عمل ہے۔ علم ہندسہ کو افلاطون نے اپنے جدلیاتی فلسفے کی تحقیقات کا نج اورمعیار مقرر کر کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حقیقی وجو دمحسوسات کا نہیںبلکہ تعلقات کا ہے۔ یہ دراصل سقراط کی کو بہ کو عقلی دایہ گری کی توثیق تھی اور استاد اس کی تلقین کی تائید کہ غیر متغیر صداقت عالم حواس میں نہیں عالم تصورات میں پائی جاتی ہے۔ سقراط سے افلاطون نے یہ سیکھا کہ گو انسانی ذہن کی رسائی عالم شہود کی علت اولیٰ تک نہیں ہوتی مگر اس ذہن کی بصیرت (باطنی حس) خیر برتر سے علم تک ضرور پہنچ سکتی ہے۔ اس طرح اس نے مسئلہ کون و تکون کا ایک نیا حل تلاش کیا جس میں ۃر قلیطوس اور ایلیائی مسلک کے متضاد خیالات باہم مل گئے۔ افلاطون کو ہر قیلطوس کی طرح دنیا میں پیہم تغیر کا ایک دائمی سلسلہ تسلیم ہے لیکن اسے یہ باور نہیں ہے کہ کائنات میں کسی ثبات کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔ اگر سب چیزیں ہر وقت بدل رہی ہیں تو ان کے متعلق علم حاصل کرنا ناممکن ہے اور اگر علم حاصل کرنا ممکن نہیں تو سقراط کے وہ جامع تصورات جن کی بنا پر وہ اشیاء کی تعریفات معین کرتا ہے اور ہمارے وہ خیالات جن کی مدد سے ہم کلیات و قوانین وضع کرتے ہیں کہاں سے آئے ہیں؟ کلیات ہندسی ہوں یا اخلاقی کسی نہ کسی ثبات کے متقاضی ہیں۔ افلاطون اس ثبات زمان و مکان سے ماورا ایک ایسی دنیا میں بتاتا ہے جسے اس نے عالم مثال کا نام دیا ہے۔ مثل فلاطونی کا ہمارے ذہن کے کلیات سے وہی تعلق ہے جو موجودات خارجی کا ہمارے حسی ادراکات سے مثل فلاطونی گو عالم محسوسات میں نہیں ہے لیکن ان کا وجود ماد ی اشیاء سے زیادہ حقیقی… (پروفیسر حمید احمد خاں کا یہ مضمون یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے آغے لکھنے کے لیے زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یہ آخری فقرہ شاید ہے پر ختم ہوتا (؟) لیکن یہ اسی طرح نامکمل رکھا گیا ہے جس طرح خود پروفیسر صاحب نے اسے ۲۰ مارچ ۱۹۷۴ء کی شا م کو چھوڑا تھا۔ ۱ ۲ مارچ کو وہ بعض دوسرے کاموں اور ملاقاتوں میں مصروف رہے اور ۲۲ مارچ کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا کی محفلوں کو خیر باد کہہ گئے۔ یہ مضمون لکھنے کے لیے گھر میں ایک میز پر ان کے کاغذات اور کتابی ابھی تک اسی طرح سجی رکھی ہیں جس طرح یہ ۲۰ اور ۲۱ مارچ تک تھیں بلکہ جب اس سے بھی کئی ہفتے پہلے خود پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے بڑے اہتمام سے انہیں ایک خاص ترتیب سے رکھا تھا۔ ان کاغذات میں مضمون کی تکمیل کے لیے ان کے لکھے ہوئے اشارات کے کچھ ورق بھی ملے ہیںَ اگلے چند صفحوں میں یہ بھی چھاپ دیے گئے ہیں۔ ان کے بعد پروفیسر صاحب کی بنائی ہوئی ایک نامکمل فرہنگ اصلاحات ہے آخر میں پروفیسر صاحب کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اشارات کے ایک ورق کا عکس بھی شامل کر دیا گیا ہے ۔) ٭٭٭ پروفیسر حمید احمد خاں کے لکھے ہوئے اشارات کا پہلا ورق معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۸ء کے قریب اقبال نے خالص قومی شعور کی سرحد کو پار کر لیا اور ہمہ وطنیت و بین الاقوامیت کی آزاد فضا میں قدم رکھا۔ اس فضا میں شاعر تمام بنی نو ع انسان کو اپنے سامنے دیکھتاہے اور شاعری کا منصب پیغمبری کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ شعر کے ذریعے سے بنی نوع انسان کو ایک روحانی انقلاب کا پیغام دینے کی جو واضح مثال اقبال کے کلا م میں ملتی ہے وہ نئی دنیا کے کسی اور شاعر میں نہیں نظر آتی۔ اقبال کے پیغام کے اہم اجزاء یہ ہیں: (۱) انسان کی عظمت اس کی فطرت کی بلندی سے ہے نہ کہ رتبہ و حیثیت قوم و وطن یا نسل و رنگ کی بنا پر۔ (۲) انسان جب اپنے ذاتی نفع و نقصان (’’عقل) سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ کو کسی بلند مقصد کے حوالے کر دیتا ہے۔ (عشق) تو اس کا ذوق یقیں (بلند مقصد کا احساس) وہ کچھ کر دکھاتا ہے جو مادی اسباب سے ممکن نہیں ہوتا۔ یہ پیام دے گئی مجھے باد صبح گاہی ہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی! ٭٭٭ دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو تیری نگہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ ! ٭٭٭ اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق ٭٭٭ (۳) زندگی ایک دائمی حرکت ہے۔ یہ حرکت جب ’’ذوق یقین‘‘ کے ماتحت ہو تو انسان کی شخصیت (خودی) مضبوط ہوتی ہے۔ (۴) جوں جوں انسان کی ’’خودی‘‘ مضبوط ہو تی جاتی ہے۔ وہ خدا کے قریب آتا جاتا ہے۔ یعنی خدا کے ارادے اور انسان کی خواہش میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایسے انسان کو اقبا نے کہیں ’’مرد مومن‘‘ ارو کہیں’’مرد مسلماں‘‘ کا نام دیا ہے: تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کارساز خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز (۵) قوم اور وطن کے تصور کو یورپ نے جو سیاسی رنگ دیاہے اس سے تمام انسانیت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ہے۔ اس تصور کا نابود ہو جانا لازم ہے۔ خود یورپی تمدن بھی جو عقل کے سہارے پر قائم ہے فنا ہوکر رہے گا۔ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا! ٭٭٭ اشارات (دوسرا ورق) اقبال کے مابعد الطبیعی اور ’’اخلاقیاتی‘‘ دونوں قسم کے افکار کا Nucleus’’اسلام‘‘ ہے ۔ ایک طرف ذات باری تعالیٰ کا تصور التوحید عبادت ‘ رسالت ‘ معراج الہام ‘ تقدیر (۲) دوسری طرف نفس انسانی کا وہ تصور جو اسلام نے دیا فکر اقبا ل کامحور ہے ۔ اس طریق عمل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برگساں اور نطشے افلاطون اور ہیگل رومی اور بیدل… منفی اور مثبت انداز میں ان افکار کی تعمیر کے خلاف یا حق میں اپنا اپنا حصہ پورا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں قاضی احمد میاں اختر کی کتاب میں خلیفی عبدالحکیم کے قول کا یہ ترجمہ قابل لحاظ ہے: وجدان کی مد د کے بغیر ذہن انسانی وجود کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا اور انسان کو غیر محدود تخلیقی قوت حیات سے ہم آہنگ نہیں بنا سکتا۔ (elan vital) کتاب کا مذکورہ صفحہ ۱۲۰۔ خودی انسان کامل کارل مارکس۔ لینن نظریہ زمان و مکان ہیگل ۔ برگساں۔ نٹشے Metaphysical Ethical خودی خودی تصور زمان و مکان انسان کامل روح بقائے روح مساوات معیشت حقیقت کیا ہے؟ ۱۔ آثار اقبال (ص ۲۸) میں مذکورہے کہ مولانا محمد علی نے ایک مرتبہ اقبال سے ان کی ’’بے عملی‘‘ کے بارے میں سوال کیا۔ انہوںنے جواب دیا کہ میں قوال ہوں میں گاتا ہوں تم ناچتے ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی تمہاری طرح ناچنا شروع کر دوں؟ قاضی احمد میاں کی کتاب ص ۲۳۸۔ ۲۔ نکلسن کے انگریزی ترجمے کے ساتھ نکلسن کا مقدمہ بھی ہے۔ (۱۹۲۰ئ) (عشرت حسن انور کا پی ایچ ڈی کا مقالہ The Metaphysics of Iqbalزیر ہدایت ڈاکٹر ظفر الحسن علی گڑھ)۔ اشارات (تیسرا ورق) (۱) فلسفے کے استاد کا قول نظریہ اخلاق کی اہمیت کے متعلق ۔ (۲) ارسطو کا قول (انسان سیاسی حیوان ہے‘‘۔ ا س منزل کی طرف اقبال کے ذہنی سفر کے لیے دیکھو الگ ورق پر (الف) (ب) (ج) (د) (۴) (۳) اسرار خودی (۱۹۱۵ئ) خودی = شخصیت کا اخلاقی پہلو۔ سر عیش جاوداں خواہی بیا! ہم زمیں ہم آسماں خواہی بیا! ٭٭٭ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دام و دو ملولم و انسانم آرزوست زین ہمراہان ست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نہ شود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست اطاعت ۔ ضبط نفس (۴) رموز بے خودی (۱۹۱۸ئ) فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ٭٭٭ در جماعت خود شکن گردد خودی تا ز گلبرگے چمن گردد خودی جماعت کا اتحاد عقیدہ توحید پر قائم ہے: ما ز نعمت ہائے او اخواں شدیم یک زبان و یک دل و یک جاں شدیم ٭٭٭ در شریعت معنی دیگر مجو غیر ضو در باطن گوہر مجو! ٭٭٭ پوشش عریانی مرداں زن است حسن دلجو عشق را پیراہن است ہن لباس لکم نیک اگر بینی امومت رحمت است زانکہ او را با نبوت نسبت است شفقت او شفقت پیغمبرؐ است سیرت اقوام را سیرت گر است از امومت پختہ تر تعمیر ما در خط سیمائے او تقدیر ما SeeP. 149of Kuliyat Farsi اشارات (چوتھا ورق) (الف) انیسویں صدی کے آخر میں: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے تھے جو مرے عرق انفعال کے (ب) بیسویں صدی کے شروع میں: رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں (ج) فروری ۱۹۱۲ء میں: شمع محفل ہو کے جب تو سوز سے خالی رہا تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے رشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے شوق بے پروا کیا فکر فلک پیما کیا تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے ٭٭٭ اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے (د) اسی سال طرابلس میں شہید ہونے والی لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ پر نظم لکھی۔ صفحہ ۲۳۹۔ امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی ٭٭٭ اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ٭٭٭ تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر مصرو حجاز سے گزر پارس وشام سے گزر کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشاد شرق و غرب تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر ٭٭٭ من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھائوں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن ٭٭٭ اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم ٭٭٭ دل کی آزادی شہنشاہی شکم ساماں موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟ کافر ہے مسلمان تو شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیر میں بھی شاہی ٭٭٭ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی ٭٭٭ تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ ترا گنہ کہ نخیل بلند کا ہے گناہ؟ ٭٭٭ مابعد الطبیعیات Metaphisics اخلاقیات Ethics معروضی Objective موضوعی Subjective مظاہر Phenomena ظواہر Apperances ایجابی Positive سلبی Negative کون Being تکون Becoming لزوم استحالہ Reductio ad absurdum جدلیبات Dialectice منطق Logic اعیان Noumena ادراک Perception حسی ادراک Sense Perception طبیعیات Physics طبیعی Physical مثال Idea مثل Ideas ہندسہ Geometry ہندسی Geometric ٭٭٭ حواشی ۱۔ (یہ نشان پروفیسر صاحب کے ہاتھ کا ہے ۔ ظاہر ہے کہ انہیں یہاں کوئی حاشیہ لکھنا تھا جس کے لیے انہیں مہلت نہ ملی)۔ ۲۔ (توحید ‘ عبادت‘ رسالت) معراج الہام تقدیر (عکس تحریر میں یہ الفاظ دائیں حاشیے میں ملتے ہیں۔ پریس کو مجبوراً یہاں درج کرنے پڑے ہیں۔ طبع سوم میں یہ الفاظ متن میں قوسین کے اندر دے دیے گئے ہیں۔ ۳۔ دیکھیے صفحہ ۱۳۴۔۱۳۶۔ یہ پروفیسر صاحب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اشارات کا ایک ورق کا عکس ہے جسے کتاب کی تقطیع کے مطابق بنانے کے لیے اصل ورق کو تقریبا ً آدھے کے قریب مصغر کر لیا گیا ہے۔ اس ورق کی مطبوعہ شکل کے لیے دیکھیے کتاب کے صفحات ۱۵۰۔ ۱۵۱۔ ٭٭٭ THE UNIVERSAL NOTE IN IQBAL'S POETRY Iqbal continuous to be such a dynamic influence in the contemporary affairs of mankind that part of the modern world is still interested in denying him. Could be today speak for himself he would not ask for a higher tribute. Even while he lived voices were raised in protest against his intense preoccupation with his own times and his own people, Thus Dr. Nicholson of England with all his admiration for the poet made an indirect criticism when he observed His message is not for the Muhammadans of India alone. but for Muslims everywhere. Later Professor Poure Daoud of Iran dubbed Iqbal only a local poet. Still later Mr. Iqbal Singh of India ..... in his Publication The Ardent Pilgrim... added to the maass of this particular criticism of Iqbal. Mr. Iqbal Singh alleges that Iqbal's poetry (or most of it) can be interpreted only as being applicable O the developmnt of a particular class and gruop and he proceeds to single out some of the important poems which are essentially parochial in their inspiration. How should we distinguish between what is merely local and what is universal in poetry? As in the case of many other problems Aristotle shows the way of by making a distinction between such things as have actually happened and such as might have happened such as are possible according to the probable or necessary conscequence On this account Aristotle goes on to say poetry is a more philosophical and a more excellent thing than history for poetry is cheifly conversant about general truth history about particuar it is in this sense according to Aristotle that Herodotus deals with the particular (what has been) and Homer with the universal (What might be) . If we proceedd to pass judgement in terms of the Aristotelian point of view Iqbal certanly would be among the great poets for his doctrines are essentially concerned with the probable scope of human nature with the emering divinity of man.... rather than with the fortunes of a particular group of persons Iqbal's art is focussed not on the history of Islam. but on the apotheosis of the human ego, a force which must unfold itself inthe future. The issue between the universal and the parochial in poetry has never been reduced to the precision of a mathematical formula. On this as on all questions of ultimate value there always will be ground for arguement. Certain relevant facts remain to us however and they may be stated on the clear dut pattern of a geometric theorem. Thus the issue of a universal (or other) note in poetry is never raised except inthe contaxt of inherent greatness. That is so say good poetry (which may or may not be great poetry) does not in itself provide matter for our argument. It is only with the greatness of poetry that the questions of universality or the reverse is involved. Henry Vaughan and rare Ben Johnson for instance. are not subject to the dispute but Milton and Shakespeare are Similarly we apportion praise or blame to Ghalib and Iqbal. with reference to the width of their appeal but never on that score judge even supremely good poets like Mir Taqi Mir or Khawaja Hali. It is poetry of a certain magnitude that raises the issue not any other Exquisiteness working on the smaller canvas or a sappho is left alone but such greatness as Dante's if it turn away from the larger canvas must come in for criticism . Apart from the fact that we always concede an initial greatness to the poet whom we would comment or disparage on account of scope and amplitude there is another consideration no less fundamental. It concerns the process of creation. in which you cannot but state the particular even enough you mean the general poetry is the matter of flesh and blood. It will not like philosophy content itself with form and idea alone. The philosopher and the methamatician formulate their concepts in universal terms. That is not how the poet even the poet of universal scope.... expresses himself More often than not he begins and apparently ends, with a particular experience Poetry enunciated in universal formulas is hardly conceivable From a particular inspiration the poet rises to an expression not of the universal but ostensibly of another catagory of the particular. The universal note in poetry comes by implication and suggestion and as it would seem in spite of the particular. For all its universal quality the Ghazal of Hafiz is a record of particular experience Shakespear's universality could not find vent except in particular situations and through the acts of particular persons. Great poetry is located somewhere midway between the universal and the particular Thus it is Beatrice one particular woman and Christianity .... One particular religion .... That inspire the flight of Dante's imagination beyond space and time. What keeps poetry alive is its capacity to be interpreted in terms of the I and now of the reader. The Capacity to be so interpreted depends mainly on the scope given to the reader to pass beyond the social and moral particularisms of the poet. There is in Homer the great scene in which Hector comes to bid farewell to Andromache who keeps would stop her husband from going to his death. Surely says Hector. I take through for all these things my wife but I thinkk shame because of the Trojans and the Trojan women of the long robe if I Shrink like a coward from the battle And then that peculiar touch . Hector's child in the nurse arms crying in fear of his father in coat of bronze and helmet. Then his dear father laughed aloud. and his Lady mother and Hector laid his helmet on the ground and took his son in his arms and kissed him. This is a fine instance of how the particular merges into the universal Here is a family scene enacted in Troy three thousand years ago and yet it belongs to the whole earth and to all human beings today and tomorrow. It has vitality because it was so vividly particularized. Let us not forget moreover that Homer with all his greatness belongs to primarily to his age and to Greece. just as Shakespeare is rooted in that very much curcumscribed bit of earth... This other Eden dime Paradise Himer's grip on the life of his day is at once real and practical. The ideals of a bygone Heroic Age are the inspiration behind the framework of his story and character which are both focussed on the obsolete Greek Pantheon. Viewed that way it is suprising how much of the Iliad and the Odyssey is steeped in the myth and rutual the superstition and tradition or the Greek world Homer's Hellenism and humanity both make an essential contribution to his universal appeal. Here is elsewhere the particular gives life to poetry while the universal bequeaths to it its immortality But a poet must live first before he may hope to be immortal. Now when Iqbal is impugned as being a parochial poet the critic obvously holds that Iqbal's lively concern with the local and the contemporary is barren of consequential human worth. This would signify that while other great poets survived the initial contact with the particular Iqbal failed to convert ephemeral dross into immortal gold. and is therefore in the final reckoning adjudged to be one who lacked interest in man and inthe world at large. This unfavourable judgement usually proceeds on the assumption that the early Iqbal who wrote ''Naya Shivala'' and ''Tarana i Hindi'' was shaping well towards a universal outlook when something went wrong and he chose to turn to a narrower view inspired by religion. Thus when the post sang.... سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا Better than the whole world is Hindustan or ours! his vision was more broad based than when he said later: چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا China is ours and Arabia and Hindustan is ours. Muslims we are our homeland is the entire world. It is hard to understand how this later and sublimer phase can unsulaar patriotic poetry should pass muster as universal. Territorial nationalism is the legacy of Greece, and it would appear that this particular form of political parochialism has had its day. The modrn world is already looking forward to an international outlook, and the loyalties of race and place are making room for ideological movement to bring this modern note to bear on the organization of world forces and naturally enough Iqbal's sense of the philosophy of history went straight to this point when he discovered the inadequacy of local or regional patritotism. Some people frown at any mention of Islam and Muslim in poetry . But it is of course obvious that poetically as well as rationally. There is nothing against invoking a larger vision of man from a historical against philosophical fact. Iqbal has himself elucidated this point in his famous letter to Dr. R. A . Nicholson wherin he analysis and refutes some of the criticism made by Mr. Dickinson who objected to Iqbal specificallly addressing himself to the Muslim world. It is well to remember that in Iqbal's references to Islam the largest issues of the human family are peremptorily present to his mind. The theme is not incidental in Iqbal it lies at the very root of his thought and comes out of by inference when he is not expressly referring to it. Thus talking of the principle of movement in the structure of Islam. he observes in chapter VI of the Reconstruction of Religious Thought in Islam (pp. 158-159) Islam is non territorial in its character and its aim is to furnish a model for the final combination of humanity by drawing its adherents from a variety of mutually repellent races. and then transforming this atomic aggregate into a poeple possessing a self consciousness of their own. An identical note of comprehenisiveness inspries this remarkable passagr from the same chapter of the reconstruction (P. 147) There is no such thing as a profane world All this immensity of matter constitutes a scope for the immensity of spirit. All is holy ground. And to this hs adds the characteristic observation As the Prophet (S.A.W) So beautifully put it. The whole of this earth is a mosque Referring to some of the smaller institutions of Muslim society Iqbal insists that we must look at their structure not from the standpoint of social advantage or disadvantage to this or that country but from the point of view of the larger purpose which is being gradually worked out in the life of mankind as a whole (my italics). The Marxitst school of literary criticism in Urdu finds fault with Iqbal's sense of the universal because the poet used Islam rather than Marxism for the exposition of his moral and social idealism A contemporary exponent of this school makes a typical observation in an essay entitles Is Iqbal a universal poet? Translated into English this observation runs as follows Any theorist who thinks sincerely in terms of humanity as a whole must turn to the socialist system What is the reason then (for Iqbal) to have preferred Islam to Socialism This is a strange question to ask. but we are concerned with its literary aspect alone . We would therefore say that Iqbal preffered Islam to Communism because his deepest feelings were Intergrated with Islam not with communism All art from the lowest to the highest is so largely a matter or emotive reponse that an artists will disavow his genius emotional affiliations only at the risk at the risk of thwarting the creative process. In tha happy fusion of cosmic emotion with particular facts of experience lies the supreme greatness of Lucretius Dante and Goethe of Rumi Sa'di and Iqbal. Moreover there is no inherent discord between religion and the highest art. Rather the contrary Marxist religion narrows down the scope of art will do well to note in scuplture and architecture have been inspired by religion. Religion like love has been from time immemorial the primium mobile in the universe of poetry It is obvious however that love has life and being only when it is directed to the particular So also may the poet's consecration to a particular creed exalt the spirit of and raise it to a vision of immortal truth. For religion no less than love thrives on a particular layalty. nor has it ever breathed in the supposedly universal atmosphere of a vaccum Thus it is always a circumscribed loyalty which in the highest sphere of expression. gives meaning and vital purpose to love and religion. Of course it is quite possible to take a narrow view of love of religion. But this limited view may always be recognised and judged by objective standards. Only when it is rooted in dogma is religious poetry parochial Poetry of the sort written by George Herbert of Richard Craxhaw and the usual hamd and Na't of Muslim Poets are essentially communal in their appeal. In so far as religious digma is a codification of facts outside the mind of the poet it is not susceptible of poetic treatment But the highest poetical results may be achieved when the inner spiritual urges of the poet find vent in the social and moral framework set up by a religion. Dante's Christian poetry and Iqbal's Islamic poetry are of this high order The sources of Iqbal's Inspiration lie within the spirit not in an external dogma. Never is Iqbal's poetry a mere echo of orthodox belief. His sublime vision of God's immanent purpose in Man of God striving to realise Himself in Man of Man emerging from his mortal interlude in the full glory of immortal life may even appear to be a little heterodox. کشای ؤچشم کہ آں کس کہ لن ترانی گفت ہنو منتظر جلوہ کف خاک است Open your eye for He who said Thou wilt not see me. Awaits to see a speck of dust revealed. And again: چناں بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام خدا ز کردہ خود شرمسار تر گردد So live that it our death be death eternal God should the more repent His own decree. With this unorthodox metaphysics Iqbal links an ethics no less electrified with the shock of a personal revelation. کافر بیدار دل پیش صنم بہ ز دیں دارے کہ خفت اندر حرم The wakeful heathen prone before an idol is better than a man of faith asleep in the House of God. گر از دست تو کار نادر آید گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است If thou achievest something rare Even though a sin .... it is an act of virtue. This titanic vision of life unconfined is put naturally into words and images borrowed from the poet's own society . This was a society to which the landmarks of the history of Islam and the phraseology of the Quran with its major doctrinal concepts were the main vehicles of education. The great teacher could only use the language of his people in the following verse for instance Iraq the Hijaz Kufa and Syria. are mere symbols of an earth pledged to death and dishonour looking for a greater man to come and redeem it. ریگ عراق منتظر کشت حجاز تشنہ کام خون حسینؓ باز وہ کوفہ و شام خویش را! The sands of Iraq lie waiting the fields of Hijaz are athrist. O give the blood of Hussain to thy Kufa and Syria again! The infinite greatness of man in a boundless universe is represented again and again in phrases relative to a Muslim Life. I would illustrate this with one more quotation in Iqbal's own beautiful English translation. It is a longer passage this time fro Jawaid Nama The stations of a Sufi's Mystic Pilgrimage are recalled and the Ascension of the Prophet (S.A.W) but behing it all looms the image of the destiny of man: زندہ ای یا مردہ ای یا جاں بلب از سہ شاہد کن شہادت را طلب شاہد اول شعور خویشتن خویش را دیدن بنود خویشتن شاہد ثانی شعور دیگرے خویش را دیدن بنور دیگرے شاہد ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن بنور ذات حق پیش ایں نور اربمانی استوار حی و قائم چوں خدا خود را شمار برمقام خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است مرد مومن در نسازد باصفات مصطفیؐ راضٰ شد الا بذات چیست معراج آرزوئے شاہدے امتحانے روبروے شاہدے شاہد عادل کہ بے تصدیق او زندگی ما را چوگل را رنگ و بو در حضورش کس نماند استوار در بماند ہست او کامل عیار ذرہ ای کف مدہ تابے کہ ہست پختہ گیر اندر گرہ تابے کہ ہست تاب خود را بر فزدون خوشتراست پیش خورشید آزمودن خوشتراست یپکر فرسودہ را دیگر تراش امتحان خویش کن موجود باش ایں چنیں موجود محمود است و بس ورنہ نار زندگی دود است و بس Art thou in the stage of life death or death in life? Invoke the aid of three witnesses to verify thy station. The first witness is thine own consciousness. See thyself then with thine own light. The second witness is the consciousness of another ego. See thyself then with the light of an ego other than thee. The third witness is God's consciousness. See thyself then with God's light If thou standest unshaken in front of this light Consider thyself as living and eternal as He! That man alone is real who dares.... Dares to See God face to face What is Ascension ? Only a search for a witness Who may finally confirm thy reality... A witness whose confirmation alone makes thee eternal. No one can stand unshaken in His presence. And he who can verily hw is pure gold Art thou a mere particle of dust? Tighten the knot of thy ego. And hold fast to thy tiny being. How glorious to burnish one's ego And to test its lustre in the presence of the Sun! Re chisel then thine ancient frame. And build up a real being. Such being is real being. Or else thy ego is a mere ring of smoke. In the ultimate analysis of Iqba's most compelling concern is the future of man not the future of religious creed. The greater part of Armughan -i-Hijaz his last and porthumously published work falls into three sections From the presence of God Iqbal passes into the presence of the Prophet (S.A.W) but the final section is addressed to the world of Man. The earlier sections however are not purely devotional ... in the orthodox sense of the word . In the Presence of God it is not a personal redemption that the poet seeks. All the fervour of his profound sense of religion is concentrated in the Prayer.... ز خاک ما دگر آدم بر انگیز Raise from our dust a second Adam! Again and Again he pleads passionately with God... not for the physical survival of his own people but for the moral survival of mankind as a whole. For it is an ideal that he worships : he has no idolatrous regard for racr or creed or place referring specifically to the Muslim nations of the world He cries: بیا نقش دگر ملت بریزم کہ ایں ملت جہاںرا بار دوش است They are a dead weight to the world; Come let us fashion a new people. And again: دلم نکشود ازاں طوفاں کہ دادی مر شورے ز طوفان دگر دہ My spirit did not swell to the storm thou gavest, Give me the glory of another storm! In other parts of his work the aunguish of his heart comes out in such supplications as this.... بر سر کفر و دیں فشاں رحمت عام خویش را On Faith and un Faith shed alike The universal bounty! The general ruin of religious values comes to him with a painful shock. در کلیسا ابن مریم را بہ دار آویختند! مصطفیؐ از کعبہ ہجرت کردہ با ام الکتاب! In the church they hung up Mary's Son on the Cross! From the Ka'ba Muhammad migrated carrying the Mother of Books! It is not for the sorrows of a sect, or the sufferings of a parish that his mighty heart is bursting: دل گیتی! انا المسموم انا المسموم فریادش خرد نالاں کہ ما عندی بتریاق ولا راقی O the heart of the world It cries I am poisoned I am poisoned! And Reason moans No antidote nor talisman have I! The modern world has become a sense of decay and death. So much the more does Iqbal cherish the spark of eternity i the heart of individual man. The finest part of his work centres round the kindling of that spark into a mighty blaze. From the nascent self of man Iqbal would bring a thousand fires to Synagogue and Mosque and temple and Church. The argument in Asrar-i-Khudi opens with a memorable passagr in which the self comes out of a cosmic creative force working its purposes through and beyond apace and time. پیکر ہستی ز آثار خودی است ہرچہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او در جہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غٰر خود پنداشت است سازد از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را می کشد از قوت بازوئے خویش تا شود آگاہ از نیروئے خویش خود فریبی ہائے او عین حیات ہمچو گل از خوں وجو عین حیات The form of existance is an effect of the self. Whatsover thou seest is a secret of the Self. When the self awoke to consciousness It revealed the universe of thought. A hundred worlds are hidden in its essecne. Self affirmation brings Not Self to light. By the self the seed of hostility is sown in the world: It imagines itself to be other than itself. It makes from itself the forms of others. In order to multiply the pleasure of strife. It is slaying by the strength of its arm. That it may become conscious of its own strength. Its Self deceptions are the essence of Life. Like the rose it lives by bathing itself in blood. 2 This is a unique philosophy of life and universal being. But it is not unique because it pitches the consciousness of man against the immensity of space and time. Kant had already done that and so had Fichte and others With Kant and the rest of however the theory of the self of man remains only an intellectually comprehended fact. To Iqbal the knowledge comes red hot in a glow of feeling by virtue of its actual human implication. and it is exactly because of its emotional illumination as an apocalypse that it became a theme worthy of great poetry. This was where the poet rose from the particular to the universal He saw his people fallen one evil days saw that the whole issue lay between a phychology of life and a psychology of death. Thus from the mind of his own people he passed to the mind of man. and from the mind of man to the very heart of life and the moving principle of the universe. This stupendous vision of man and earth and star opens an infinity of moral and spiritual possibilities Links together past present and Future. and bridges the gulf between the human and the divine Thus does the throb inthe heart of Asian man become one with the music of the spheres This is poliltical and therefore human poetry of an order the like of whidh has never been written before. Never has nationalism thus overflowed to the uttermost reaches of a world view in which the earth becomes a mere parish of the infinite. With this achievement of the poet as bachground an critic who would accuse Iqbal of narrow religiousy is himself liable to become an interesting study. Admittedly the greater part of Iqbal's significant terminology. and imagery is borrowed from Islam this is as it should be and no sound criticism should expect a profoundly religious mind to write poetry with no personal religion in it. Should a poet cut himselt off from his own spiritual tradition before he qualifies for unversality? The practice of some of the greatest poets of the West negatives this Dante. In Dante almost any pagr proclaims the poet's Catholic Christianity Canto after canto in his magnum iopus is dogmaticaly and almost fiercely assertive of the poet's own creed. Local politics and religious animosities are inserted so that not only are the prophet of Islam and Hazrat Ali housed in the inferno (Canto XXVIII) .... Which might habe been expected of a Christian poet but Dante's own Contemporaries popes Boniface VIII Nicholad III and Clement V are shown roasting in hellfire (Canto XIX) and considerable part of the pardiso concerns itself witt he exposition of Christian dogma. Thus Canto XXIII is devoted to a vision of Christ triumphing with his Church In the next Canto St Peter examines Dante on the articles of the true faith. and in the one that follows We learnt that the Christ and the virgin alone had come with their bodies into heaven All this and much besides is forgiven Dante... for Dante is a universal poet Going back pagan time lucretius with his fervid exposition of an exploded philosophy and with his out of date reverence for a Master whom nobody recognizes today is admitted to the halls of immortality What the liberal critic of today cannot digest is allegiance to Islam and its Prophet (S.A.W) Is this because Islam still lives and is likely to have a future? Let such a critic get rid of his political and religious complexes before the presumes to pass judgement on the issue of the universal in poetry . Otherwise in judging Iqbal he would only be inviting a judgement on himself. That a poet of Iqbal's intense religious sensibility should at no point appear to bear the impress ot the outlook of Islam is an incredible proposition What is most surprising however and must be regarded as a miracle of creative art is how often for all men having profound faith in any creed whatsover Iqbal's sincerity and fervour can raise a particular devotion to the level of the universal Here is a quotation from Armughan i Hijaz . بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہ ما را حساب من ز چشم او نہاں گیر When this age weary world come to the end, And hidden dipensations are unvieled, Save me disgrace in the presence of the Master; O God check not my record in his eye! Here we have a specific reference to the prophet (S.A.V) and the lines have an Islamic application in the narrowest sense of that word Yet the human note in this supplication to God. the burning sense of having fallen short of light ideal the immeasurable love for the Master whose good opinion had been so much worth the striving for might be readily transferred to the relations between any disciple and any master These and similar verses should present no difficulty to a reader of Iqbal unless of course sucha reader nourishes a private histility towards the Prophet (S.A.V) and personal malice warps his aesthetic capacity The point at issue is whether acceptacne of the credo of Islam's essential ... or even antecedent ... to the appreciation of Iqbal. This has already been shown not to be the case The core of Iqbal's message is human not doctrinal: بر خیز کہ آدم را ہنگامہ نمود آمد! Arise the hour is come for man to reveal himself! You may or may not be a Muslim to open your heart to such a messagr And it should furthermore be remembered that iqbal uses his islamic terms indifferently for Muslims and non Muslims alike. Refering to the self chosen death of the Hindu mystic . Swami Ram Tirath Iqbal freely makes use of the Kalmah of Islam La Ilaha Il Allah (There is no God but God). نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا لا کے دریا میں نہاں موی ہے الا اللہ کا Negation of Being is a feat of the knowing mind: In the ocean of La lies hidden the pearl of Il Allah. Thus in Iqbal the poet (i.e. the machinery of expression) is Muslim but the poetry (i.e. the expressed meaning) is cosmopolitan. This is possible because of Iqbal's view of what he himself calls the universal charachter or Islam In the Reconstrucion he quotes with approval Shah Wali Ullah's Interpretation of revealed religion: The prophetic method of teaching, according to Shah Wali Ullah, is that generally speaking the law revealed by a prophet takes especial notice of the habits, ways and peculiarities of the poeple to whom he id specifically sent. The prophet who aims at all embracing principles however can neither reveal different principles for different peoples nor leaves them to work out their own rules of conduct. His method is to train one particular people and to use them as a nucleus for the building up of a universal Shari'at. It is Iqbal's view of Islam not that of his critic that has singnificance n a just appraisal of Iqbal's poetry. We have already considered the fact that Iqbal invariably links Islam with universal values That he regards Islam iteself as a universal Issue is the second relevant fact that we could emphasizw here. To Iqbal religion is not a matter or priestcraft or Church gevernment. it is a vital umpulse which has an essential contribution to make a spiritual and even physical survival of mankind In the present context it may be pertinent to quote a longer passage from the Reconstruction. Both nationalism and atheistic socialism at least in the present state of human adjustments, must draw upon the psychological forces of hate suspicion ant resentment which tend to impoverish the soul of man and close up his hidden sources of spiritual enersy Neither the technique of medieval mysticism nor nationalism nor atheistic socialism can cure the ills of a desparing humanity Surely the present moment is one of the great crisis in the history of modern culturre The modern world stands in need of biological renewal. And religion which in its higher manifestations is neither dogma nor priesthood nor ritual can alone ethically prepare the modern man for the burden of teh great responsibilty which the advancement of modern science necessarily involves and restore to him that attigute of faith which makes him capable of winning a personality here and retaining it hereafter It is only by rising to a fresh vision of his origin and future his whence and whither that man will eventually triumph over a society motivated by an unhuman competition and a civilization which has lost its spiritual unity by its inner conflict of religious and political values. The entire argument so far has dealt more or less with the religious outlook in Iqbal's poetry. In polotics too Iqbal war active both as man and poet . His personal political activity has no unexpectedly cost him a good deal of popularity with the less discerning (or the more bigoted) among his readers It is hard indeed to forgive a poet who is actually fought us in the battle field That is where remoteness in time becomes a catalytic agent stimulative of appreciation . But neither the original political aversion nor the remotness conductive to appreciation should be reckoned to have any intrinsic value in terms of literary judgement. On political issues generally in so far as Iqbal was concerned with theem a basic fact must needs be stated here. In his poetry it was not a parochial approach that Iqbal brought to bear onthe politics of his day. His intersts were world wide and not restricted to Asian countries alone The well known verse... یورپ کے کرگسوںکو نہیں ہے ابھی خبر ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش The vultures of Europe are not yet aware How poisonous is the corpse of abyssinia! takes us beyond Islam and Asia. But with all his chamioning of the East Iqbal was not hostile to the West. He attacked not Western man but a certain way of life. which he considered vicious Thus in his sharpest satrirical sallies he was not anti European he was essentially pro human Some of his utterances on Western civilazation are no doubt threats but most of them are warnings: از من اے باد صبا گوے بہ دانائے فرنگ عقل تا بال کشود است گرفتار تر است! Bear this from me O breeze to the sage of Europe Reason is the more enmeshed as it spreads its wings! The superb urdu poem Lenin in the Presence of God is only one illustration of how Iqbal's heart goes out to man whanever and whereever he may bed plundere and exploited. During Iqbal's time England was the reigning world imperialism and Iqbal had in a sense fought England all his life. But it was a humanitarian not a sectarian. fight and i the end Iqbal saw peace not conflict He wrote thus (so Sir Francis Youghusband) in 1931: I am looking forward to the day that when the disputes between England and India wioll be settled. and the two countries will begin to work together not only for their mutual benefit but for the greater good of mankind. In january 1938, he made what is probably his last public pronouncement on the Cibil War in Spain: This one event shows clearly that national unity too is not a very durable force Only one unity is dependable and that unity is the brotherhood of man which is above race nationality colour and language. So long as this so called democracy this accursed nationalism and this regarded imperialism. are not demonstrate by their actions that they believe that the whole world is the family of God... they will never be able to lead a happy and contented life and the beauful ideals of liberty equality and fraternity will never materialise. 3 Before I close may I argue one purely literary consideration? Universal poetry like any other poetry ... has its own variations of technique and attitude thus there are poets of graphic vision like Homer and Shakespeare and there are poetsof conceptual vision like Lucretius and Iqbal It will be clear that poets of conceptual vision call initially for a different intellectual reponse as against poets of graphic vision Thus we have lucretius (in Book IV): I am blazing trail through pathless tracts of the Muses Pierian realm where no foot has ever trod before. What joy it is to light upon virgin springs and drink their waters What joy to pluck new flowers and gather for my brow a glorious garland from frelds whose blossoms were never yet wreathed by the Muses round any head. This is my reward rof struggling to loose mens minds fro the tight knots of superstition and shedding on dark corners the bright beam of my song that irridiates everything with the sparkle of the Muses. The difference here is between the description of things and the description of ideas Readers of graphic poetry will possibly be more numerous than traders of conceptural poetry. But it should be clearly understood that popularity in itself is not universality nor should the scope of a poet be judged in terms of the number of his readers The story of Jack and the Bean Stalk for instance counts its readers in millions but it is not on that account more universal than a Dialogue of Plato. Poetry that exhorts and poetry that entertains satisfy two very different needs of humanity Both needs are vital and universal and poetry that satisfies the one the other. Moreover it is well to remember that Iqbal is like Wordsworth or Milton a poet with a message. Poetry with a message must always be directed to one specific aim and not to its opposite. Thus Iqbal has his own specific pupose. He will not lull us to sleep he will lash us into action. It is not for a soothing syrup that we go to his fountain but for a draught as bitter as life. Iqbal's universe is alive with hope and light and motion. depair and darkness and rest are unknown to him In him there is no compassionate exaggeration of individual sorrow and pain. no trace of morbid self pity The man was too big for that sort of whining lyricism His poetry urges us forward to an ideal which is never attained for there is always one still higher He puts us on to a struggle from which there is no respite for when we cease we die There is only one mood in Iqbal but in that exalted mood he will continue to be the greatest poet of the world as long as men put their shoulder to the wheel of life and throw a challenge to the stars. References: 1. Mumtaz Hussain Naqd-i-Hayat, Allahabad 1950, pp118-19. 2. Tr; R.A. Nicholson 3. Message broadcast from All India Radio, Lahore. ٭٭٭ اشاریہ اشخاص آمیا چکرورتی ‘ ڈاکٹر : ۷۴ احمد میاں اختر‘ قاضی: ۱۳۲ ارسطو حکیم Aristotle: ۱۳۳‘۱۶۱ اظہر‘ اے ڈی: ۴۱ افلاطون حکیم : ۱۲۵‘۱۲۸‘۱۲۹‘۱۳۱‘۱۴۰ اقبال ‘ ڈاکٹر سر شیخ محمد: تقریباً تمام صفحات پر موجود ہیں۔ اقبال سنگھ: ۱۶۱ اکبر الہ آبادی: ۶۴ اکبر حیدری سر: ۳۴ امان اللہ خاں ‘امیر : ۴۳‘۴۴ امیر خسرو: ۱۱۲ اورنگ زیب عالمگیر: ۲۵ ایڈورڈ ہشتم: ۴۰ ایمرسن: ۹۶‘۹۸‘۱۰۶ بائرن لارڈ: ۹۵‘۹۶ برگسان ہنری: ۱۲۵‘ ۱۳۱‘۱۳۲ بروننگ: ۹۵ بشیر الدین محمود ‘ مرزا: ۵۴ بلالؓ حضرت: ۱۱۰ بونی فیس (پوپ) : ۱۴۷ بیدل‘ مرزا عبدالقادر ۵۴‘۵۵‘۷۵‘۹۴ ۱۱۲‘۱۳۱ بیطرائس: ۱۵۹ پرمانیدس: ۱۲۷ پورس راجہ: ۱۱۰ پیٹر سینٹ: ۱۴۷ تاج الدین احمد مولوی: ۳۲ ٹینی سن : ۹۵‘ ۹۶‘ ۹۷‘ ۹۸‘ ۱۰۵۔ جاسن بین: ۱۶۰ جاوید اقبال: ۵۲أ۱۰۴ چشتی ‘ نظام الدین حضرت: ۶۶ چیمبرلین : ۱۶ حافظ شیرازی : ۱۵۹ حالی ‘ خواجہ الطاف حسین: ۶۴‘ ۹۵‘ ۱۰۹‘ ۱۶۰ حامد علی خاں‘ ۳۴‘ ۴۷ حبیب اللہ‘ امیر: ۴۴ حسینؓ حضرت امام: ۱۵۳ حمید احمد خاں‘پروفیسر: ۳۵‘ ۵۰‘ ۱۰۴‘ ۱۲۹‘ ۱۳۰ حیدر کرارؓ : دیکھے حضرت علیؓ خالدؓ بن ولید: ۱۱۸ دارا: ۱۱۰ داغ میرزا خاں: ۱۰۹ دانتے: ۱۴۷‘ ۱۵۴‘ ۱۵۵‘ ۱۵۹‘ ۱۶۰ دائودؓ حضرت: ۲۴ دائود پروفیسر پور: ۱۶۱ دیکارٹ : ۱۲۵ ڈکنسن: ۱۵۷ راجرز سیموئیل: ۱۰۱‘ ۱۰۸ راس مسعود ‘ سر : ۴۳ رچرڈ کراشا: ۱۵۴ رام تیرتھ سوامی: ۱۴۵ رحما (ملازم علامہ اقبال) : ۵۲‘ ۵۳ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) دیکھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحیم بخش حاجی : ۵۷:۶۰ رومی ‘ مولانا جلال الدین : ۹۵‘ ۱۳۱‘ ۱۵۵ زینو: ۱۲۷ سافو: ۱۶۰ سالک عبدالمجید : ۵۲‘ ۵۳‘ ۵۵‘ ۶۰ سراج الدین ‘ منشی: ۱۰۸ سعدی شیرازی: ۱۵۵ سعید اللہ ‘ ڈاکٹر: ۴۸‘۵۰‘۵۵‘۵۶‘۵۹‘ ۶۰ سقراط حکیم: ۱۲۸‘۱۲۹ سکندر حیات خاں‘سر: ۵۲‘ ۶۰ سکندر رومی: ۱۱۰ سلیمان حضرت: ۲۴ سلیمان ندوی: ۴۳ سلیمن جنرل: ۳۸‘۳۹ سمپسن مسز: ۴۰‘۴۱ سنائی ‘حکیم: ۱۱۴ شا‘ جارج برنارڈ: ۶۴ شیکسپئر‘ ولیم: ۲۷‘۶۷‘ ۹۵‘ ۱۴۱‘۱۵۸‘ ۱۵۹‘ ۱۶۰ شیلے: ۶۷‘ ۱۰۲ ظفر الحسن ‘ ڈاکٹر : ۱۳۲ ظفر علی خاں ‘ مولانا : ۳۰‘۳۱‘۳۳‘۵۳ عبدالحکیم ‘ خلیفہ: ۱۳۲ عبدالرحمن‘ امیر: ۴۴ عبداللہ یوسف علی: ۳۴ عبدالواحد پروفیسر: ۴۷‘ ۵۰‘ ۵۶ عبدالواحد معینی‘ سید: ۱۰۸ عشرت حسن انور: ۱۳۲ عطا اللہ شیخ: ۱۰۸ عطار شیخ: ۱۱۴ علی ؓ حضرت : ۱۱۸‘۱۴۷ علی بخش: ۱۸‘۴۹‘۵۲ عمر ؓ حضرت: ۵۸ عمران حضرت: ۲۴ غالب ‘مرزا: ۲۷‘ ۵۴‘ ۵۵‘ ۶۷‘ ۷۱‘ ۷۶ ‘ ۷۷‘ ۷۸‘ ۹۳‘ ۹۴‘ ۹۵‘ ۹۶‘ ۱۰۱‘ ۱۰۹‘ ۱۱۱‘ ۱۱۲‘ ۱۶۰ فاطمہ بنت عبداللہ: ۱۳۵ فرانسس‘ سرینگ ہسبنڈ: ۱۴۲‘ ۱۴۸ فشٹے: ۱۲۵ فیثا غورس: ۱۲۶ قائد اعظم محمد علی جناح: ۶۰ قیصر ولیم: ۱۶ کانٹ عمانویل: ۱۲۵‘ ۱۴۸ کچلو‘ سیف الدین ڈاکٹر : ۶۰ کلیمنٹ (پوپ) : ۱۴۷ کوپر ولیم: ۹۶‘ ۹۹‘ ۱۰۰‘ ۱۰۱‘ ۱۰۷ کیٹس: ۱۰۲ گرامی‘ غلام قادر: ۲۳‘ ۳۳‘ ۶۵ گرے: ۱۰۲ گوئٹے: ۱۵۵ لانگ فیلو: ۹۶‘ ۹۷‘ ۱۰۴ لکر ٹیس : ۱۴۱‘ ۱۴۶‘ ۱۵۵ لینن: ۱۳۲‘ ۱۳۲ مجدد الف ثانی: ۵۴ محمد صلی اللہ علیہ وسلم: ۲۳‘ ۳۳‘ ۵۷‘ ۱۱۸‘ ۱۴۵‘ ۱۴۶‘ ۱۴۷‘ ۱۵۰‘ ۱۵۱‘۱۵۲‘ ۱۵۳‘ ۱۵۶ محمد اشرف شیخ: ۱۰۸ محمد امین شیخ‘ ۷۸ محمد حسین شاہ‘ ڈاکٹر : ۳۲ محمد سعید پروفیسر مرزا: ۳۵ محمد شفیع سر : ۳۴‘ ۵۳ محمد صادق‘ مفتی: ۳۱ محمد طاہر فاروقی‘ پروفیسر: ۲۲ محمد علی جوہر ‘ مولانا: ۱۳۲ محمد علی ‘ مولوی: ۳۲ محمد عمر خاں‘ مولوی : ۷۸ محمود نظامی‘ مرزا: ۲۷ مسعود سعد سلمان: ۱۱۲ مسیح ابن مریم : ۱۴۷‘ ۱۵۰ ملٹن: ۶۷‘ ۱۰۲‘ ۱۰۸‘ ۱۴۰‘ ۱۶۰ ممتا زحسن: ۳۷ منٹو سعادت حسین: ۶۰ منیری بانو: ۵۲ موسی: ۲۴ مہر صوبہ: ۵۷ مہر غلام رسول: ۵۲‘ ۵۳‘ ۵۵‘ ۶۰‘ ۷۴ میر تقی میر‘ ۱۶۰ نادر خاں: ۴۳‘۴۴ ناصر علی سرہندی: ۵۵ نطشے: ۱۳۵‘۱۳۱‘۱۳۲ نظیری: ۶۷ نکلسن (پوپ III) : ۱۴۷ نکلسن ڈاکٹر: ۱۳۲‘ ۱۳۹‘ ۱۵۷‘ ۱۶۱ نہرو‘ جواہر لال: ۷۴ ورڈز ورتھ : ۶۷‘ ۹۵‘ ۱۰۴‘ ۱۴۰ ولی اللہ شاہ: ۱۴۴ بارڈی ٹامس: ۴۴ ہربرٹ جارج: ۱۵۴ ہرقلیطوس: ۱۲۷‘۱۲۸‘۱۲۹ ہنری واغان: ۱۶۰ ہومر: ۱۴۱‘ ۱۵۸‘ ۱۵۹‘ ۱۶۱ ہیروڈس: ۱۶۱ ہیکٹر: ۱۵۹ ہیگل: ۱۲۵‘۱۳۱‘۱۳۲ ہیمی اے ایس پروفیسر: ۳۶ ہیوم: ۱۲۵ اماکن آگرہ : ۲۲ ابی سینیا: ۱۴۲ اصفہاں: ۱۱۵ اطالیہ: ۱۲۷ افغانستان: ۲۵‘۴۳‘۴۴‘۵۴‘۵۵ الہ آباد: ۱۳۹ امرتسر: ۶۰ امریکہ: ۳۱ اندلس: ۵۸ انگلستان (انگلینڈ) : ۳۸‘ ۵۲‘ ۱۴۱‘ ۱۴۲‘ ۱۶۱ ایران: ۶۷‘۶۸‘ ۶۹‘ ۷۳‘ ۱۴۲ ایشیائ: ۶۷’۶۸’ ۶۹‘ ۷۳‘ ۱۴۲ ایفیسویں: ۱۲۶ بخارا: ۵۴‘ ۵۵‘ ۱۱۸ برطانیہ: ۴۰‘ ۱۱۲ بلقان: ۳۱ بلوچستان: ۴۳ پاک پتن: ۴۲‘۴۳ پاکستان: ۶۰‘۶۳ پنجاب: ۱۹‘۵۲‘۶۰‘۷۶ ترکستان: ۴۰ ترکی: ۵۴ توران: ۱۱۲ چین: ۱۵۷ حجاز: ۱۳۶‘۱۵۳ حیدر آباد (دکن): ۴۳‘۴۴‘۴۵‘۴۷ دلی: ۳۸‘۵۸‘۵۹‘۱۱۵ سپین: ۱۴۱ سری نگر : ۱۰۸ سمرقند: ۱۱۵‘۱۱۸ سیالکوٹ: ۴۲‘۵۶‘۶۵‘۱۲۵ شام : ۱۳۶‘ ۱۵۳ طرابلس: ۱۳۵ عراق: ۱۵۳ عرب: ۵۶‘ ۱۵۷ علی گڑھ: ۵۱‘ ۶۰‘ ۱۳۲ فارس (پارس) : ۱۳۶ فلسطین: ۴۱ قادیان: ۳۱‘ ۵۳ کابل: ۴۵ کاشغر: ۴۰ کوفہ: ۱۵۳ لاہور: ۲۰‘۲۵‘۲۷‘۲۹‘ ۳۰‘ ۳۱‘ ۳۲‘ ۳۳‘ ۳۴‘ ۳۷‘ ۳۸‘ ۴۵‘ ۴۷‘ ۴۸‘ ۵۷‘ ۶۰‘ ۶۵‘ ۶۶‘ ۷۴‘ ۷۶‘ ۷۸‘ ۹۵‘ ۱۰۴‘ ۱۰۸‘ ۱۱۸‘ ۱۲۵‘ ۱۳۹۔ لکھنو: ۲۵‘ ۴۵‘ ۵۲ لندن: ۳۳‘ ۶۰‘ ۹۵ مصر: ۵۸‘ ۱۳۶ ملط (مالٹا): ۱۲۶ میونخ: ۶۰ نارفک: ۱۰۱‘ ۱۰۷ وزیر آباد: ۳۳ ہسپانیہ: ۲۵ ہندوستان (انڈیا) : ۲۲‘ ۲۳‘ ۲۵‘ ۲۶‘ ۳۸‘ ۳۹‘ ۵۴‘ ۵۵‘ ۵۸‘ ۶۷‘ ۶۸‘ ۶۹‘ ۷۲‘ ۷۳‘ ۷۵‘ ۱۴۱‘ ۱۵۷‘ ۱۵۸‘ ۱۶۱۔ یورپ: ۵۸‘ ۶۷‘ ۶۸‘ ۶۹‘ ۷۰‘ ۷۲‘ ۹۵‘ ۱۰۴‘ ۱۱۰‘ ۱۱۵‘ ۱۴۲۔ یونان: ۱۲۶‘ ۱۵۷‘ ۱۵۸ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End