اقبالیات کے نقوش ڈاکٹر سلیم اختر اقبال اکادمی پاکستان حرف آغاز اردو ادب کی تاریخ اور اقبالیات میں ڈاکٹر سلیم اختر کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں استاد‘ نقاد‘ افسانہ نگار اورمورخ ان کی شہرت کے معتبر حوالے ہیں۔ زیر نظر کتاب انہوں نے 1977ء میں مرتب کی جس میں دنیا بھر کے ماہرین اقبال کے علامہ اقبال کے بارے میں مقالات کا ایک خوبصورت انتخاب شامل تھا۔ یہ مقالات حکیم الامت کے حضور محض خراج عقیدت پر مشتمل نہیں بلکہ علامہ کے فکر و فن پر بھی ایک سیر حاصل بحث سے عبارت ہے۔ موجودہ مجموعے کا حجم اگرچہ کم کر دیا گیا ہے تاہم اب بھی اس میں جن حضرات کے مقالات شامل ہیں اگر انہیںفکر اقبا ل پر ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ان میں ڈاکٹر یوسف حسن خان‘ ڈاکٹر سید عبداللہ ‘ سر عبدالقادر ‘ یوسف سلیم چشتی ‘ سید نذیر نیازی‘ عبدالرحمن بجنوری‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر‘ حمید احمد خاں صوفی تبسم‘ آل احمد سرور‘ جگن ناتھ آزا د اور ارشاد حسین حقانی جیسے ثقہ اہل علم کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ مجموعہ مقالات کے موضوع متنوع ہیں اور ثروت فکر کے حوالے سے یہ مجموعہ مستند ہے۔ لیکن سب سے نمایاں جو بات نظر آتی ہے وہ فکر اقبال کی ہمہ گیریت ہے ۔ کہ اقبال نے نہ صرف روح عصر کی خود تفہیم کی بلکہ اپنے پورے عہد کو اپنی شاعری او ر فکر میں اسیر کر لیا اور یسے مسائل پر کلام کیا جن سے برصغیر کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مستقبل بندھا ہو اہے۔ 1977ء کی اشاعت کے بعد ا س کتاب کی بار بار ضرورت محسوس کی گئی مگر قلت وسائل آڑے آتی رہی۔ اب اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے تاکہ ایک عرصے کی کمیابی کی تلافی ہو سکے۔ ناشر پیش لفظ 1977ء میں اقبال صدی کے اشاعتی منصوبہ کے سلسلہ میں علامہ اقبال کی زندگی میں ان کے فکر و فن کی توضیح کے لیے تحریر کردہ مقالات کا انتخاب ’’اقبالیات کے نقوش‘‘ طبع ہوا تو اقبال شناسی کی اولیں مثالوں کی حیثیت سے ان مقالات سے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا گیا۔ مقالات کی تلاش میں مجھے میری محنت کی وادیوں ملی کہ جب معروف اقبال شناس نقاد‘ شاعر جناب جگن ناتھ آزا د نے کتاب میں اپنے زمانہ طالب علمی کا مضمون ’’اقبال کی منظر نگاری‘‘ دیکھا تو خوش ہو کر مجھے گلے لگا لیا اور بتایا کہ یہ مضمون تو خود انہیںبھی یاد نہ تھا۔ واپس دہلی جا کر انہوںنے کتاب پرخود تبصرہ کیا اور یہ بھی لکھا: ’’اقبالیات کے نقوش‘‘ ایک عجیب و غریب کتاب ہے۔ عجیب و غریب اس لیے کہ اس میں سلیم اختر نے قریب قریب وہ تمام مقالے فراہم کیے ہیں جو اقبال کے متعلق 1938ء تک یعنی اقبال کی زندگی میں لکھے گئے اس کتاب کے چھپنے تک ان میں زیادہ تر مقایل نایاب بلکہ کمیاب ہو چکے ہیں۔ اقبال پر تحریروں کے یہ اولین نقوش ڈاکٹر سلیم اختر کی توجہ سے اس کتاب میں محفوظ ہو گئے ہیں لیکن سلیم اختر کو یہ مقالات فراہم کرنے اور تلاش و جستجو میںکیا کیا ہفت خواں‘ طے کرنے پڑ ے ہوں گے میرے لیے اس کا تصور بھی دشوار ہے۔ ‘‘ (ث ماری زبان ‘‘ نئی دہلی 15اگست 1979ئ) ’’اقبالیات کے نقوش‘‘ آٹھ سو صفحات پر مشتمل تھی مگر طبع نو کے موقع پر تقریباً نصف مواد خارج کر دیا گیا ہے۔ میں ناظم اقبال اکیڈمی کا بے حد ممنون ہوں کہ جن کی ذاتی دلچسپی اور توجہ کے باعث ’’اقبالیات کے نقوش‘‘ بہ انداز نو طبع ہو سکی۔ ڈاکٹر سلیم اختر ٭٭٭ دیباچہ اقبال کے نام کو اقبالیات میں تبدیل ہونے میں کتنا عرصہ لگا یہ واضح کرنا تو بہت مشکل ہے۔ لیکن آج ہم اس اصطلاح سے جتنے مانو س ہیں جس طرح ہم نے اس نے عصری تنقید میں ایک جداگانہ شعبہ کی حیثیت اختیار کر لی ہے اوراس مد میں جس کثرت سے لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم جنم جنم سے اقبال اور اقبالیات سے آشنا چلے آ رہے ہیں۔ لیکن ظاہرہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہو گا۔ گو اقبال نے بطور خاص کبھی مشاعروں میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ لیکن اب یہ ثابت ہے کہ زمانہ طالب علم ہی کے دوران بحیثیت ایک ذہین شاعر کے نوجوا ن اقبا ل کی شہرت لاہور کے علمی حلقوں میں بوئے گل کی طرح پھیلتی جا رہی تھی۔ اقبال کی شہرت کو پہلے پنجاب اور پھر برصغیر میں پھیلانے میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسوں او ر ’’مخزن‘‘ نے بہت اہم کردار ادا کیا گو اقبال پیشہ ور شاعروں کی مانند مشاعرہ مشاعرہ جا کر داد بٹورنے کے دھندے سے آزاد تھے لیکن قومی خدمات کی بنا پر انہوں نے انجمن کے جلسوں کے لیے نہ صرف نظمیں لکھیں بلکہ اقبال کی بعض شاہکار نظمیں جیسے ’’شکوہ‘‘ یا ’’جواب شکوہ‘‘ انجمن ہی کے لیے لکھی گئی تھیںَ اپریل 1901ء میں سر عبدالقادر نے لاہور سے ’’مخزن‘‘ کا اجرا کیا تو اس کے پہلے شمارہ میں ’’ہمالہ‘‘ طبع کی۔ بانگ درا کے دیباچے میںسر عبدالقادر نے لکھا ہے کہ اقبال اس نظم سے مطمئن نہ تھے اور نظر ثانی کی خاطر اس کی اشاعت منظور نہ تھی۔ لیکن انہوںنے باصرار نظم حاصل کی اور چھپنے پر بے حد پسند کی گئی۔ یوں ’’مخزن‘‘ کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ لکھنا قرار پایا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں لکھی جانے والی تنقیدی تحریروں کے ضمن میں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اس عہد میں حالی ‘ شبلی ‘ داغ ‘ امیر مینائی اور اکبر الہ آبادی ایسے شاعر بقید حیات تھے اور اقبال ان کے مقابلے میں یقینا جونئیر شاعر تھے۔ داغ تو خیر وہ شاگرد تھے لیکن امیر مینائی کا بھی احترام کرتے تھے بقول اقبال: عجیب شے ہے صنم خانہ امیر‘ اقبال میں بت پرست ہوں رکھ دی یہیں جبیں میں نے حالی سے تو اقبال کو بے حد عقیدت معلوم ہوتی ہے ۔ چنانچہ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں حالی کا کلام سنانے سے بیشتر جو فی البدیہہ رباعی پڑھی اس کا ایک ایک لفظ عقیدت کے جذبے سے سرشار ہے: مشہور زمانے میں ہے نام حالی معمور مئے حق سے ہے جام حالی میں کشور شعر کا نبی ہوں گویا جاری ہے مرے لب پہ کلام حالی ان حالات اور ایسے اساتذہ کی موجودگی میں اقبال ایسے جونئیر شاعر پر اتنی جلدی لکھنے کا آغاز بذات خود بہت اہم ہے۔ یہی نہیں بلکہ اقبال پر نظمیں لکھنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ چنانچہ مخزن (اگست 1906ئ) میں ’’فضائے برشگال‘‘ اور ’’پروفیسر اقبال‘‘ کے عنوان سے سرور جہاں آبادی کی نظم ملتی ہے۔ ’’مخزن‘‘ (اگست 1908ئ) میں اقبال کی لندن سے واپسی پر کلمات مسرت ملتے ہیں تو ’’مخزن‘‘ (ستمبر 1908ئ) میں حامد ؤحسن قادری کی نظم’’خیر مقدم‘‘ ملتی ہے۔ بالفاظ دیگر نسبتاً کم عمری اور لکھنے کے باوجود بھی یورپ سے واپسی تک اقبال ملک کے ادبی حلقوں کے لیے اتنی قد آور شخصیت بن چکے تھے کہ وطن واپسی پر منظو خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ اقبال پر سب سے پہلا باضابطہ مقالہ کس نے قلم بند کیا‘ اس کے بار میں تو اب وثوق سے کہنا کچھ مشکل ہے البتہ یہ ہے کہ تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی شہرت کے باعث وہ بہت جلد ہی مرکز نقد بن گئے ہوں گے لیکن اتنا یقین ہے کہ اسرار خودی(سنہ اشاعت: 1915ئ) کی اشاعت کے بعد سے وہ مرکز نقد کے ساتھ ساتھ نکتہ چینی اور نزاع چینی کا مرکز بنے تھے۔ لیکن یہ نکتہ چینی علمی یا مذہبی نویعیت کے برعکس اہل زبان کے ا جارحانہ مضامین کی صورت میں تھی جن میں اقبال و بیان کی حقیقی( اور مفروضہ) اغلاط کی نشاندھی کی گئی تھی۔ شاید یہ بات دور کی محسوس ہو مگر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اقبالیات کے ابتدائی نقوش کے سراغ میں ہم ضابطہ مقالات کے قطع نظر ان مختصر تعارفی نوٹس تک جا سکتے ہیں جو سر عبدالقادر نے ’’مخزن‘‘ میں لکھے ۔ چنانچہ اقبال کی بعض نظموں کے ساتھ لکھے ہوئے نوٹس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں: طلبائے علی گڑھ کالج کے نام کلام اقبال علی گڑھ میں ہمیشہ مقبول ہے اور شوق سے پڑھا جاتا رہا ہے مگر پیام اقبال جو ہم آج شائع کرتے ہیں نہایت ہی غور سے پڑھے جانے کے لائق ہے ۔ طلبائے علی گڑھ کو خصوصیت کے ساتھ مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانان ہند کی آئندہ امیدیں بہت کچھ ان سے وابستہ ہیں ورنہ سب پڑھے لکھے نوجوان اس درد مندانہ مشورے کے مخاطب ہو سکتے ہیں جو حضرت اقبال نے ان چند اشعار کے جامع اور بلیغ اشارات میں انہیں دیا ہے ۔ (’’مخزن‘‘ مئی 1907ئ) عبدالقادر کے نام ’’اس نظ کو ہدیہ ناظرین کرتے ہوئے مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ ایسی نظم اور ایسے خیالات کا مخاطب مجھے بنایا گیا ہے اور ایسے بلند ارادوں میں مجھے شریک کیا گیا ہے۔ سوائے ا س کے کہ دل اپنے دلنواز کی محبت کا شکریہ ادا کرے اور میں یہ دعا مانگوں کہ خدا حضرت اقبال کے ارادوں میںبرکت دے اور اگر میرے نصیب میں کوئی خدمت ملک کی لکھی ہے تو مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے۔ کوئی جواب اس خط کا مجھ سے بن نہیں پڑتا۔ خصوصاً جب جناب اقبال کے اشعار آبدار کے مقابل اپنی نثر کی خشکی اور بے مائیگی پر نظر رکھتا ہوں‘‘۔ (مخزن دسمبر 1908ئ) ۲ یہ اور اس نوع کے دیگر تعارفی نوٹس بظاہر سیدھے سادھے ہیں۔ ان میں نہ تو تنقیدی نقطہ نظر ملتا ہے بلکہ انداز تحسین بھی جذباتی سا ہے۔ لیکن ہی نہ بھولنا چاہیے کہ اینٹ اینٹ مل کر رفیع الشان قصر کی صورت اختیار کرتی ہے۔ چنانچہ آ ج اقبالیات میں مقالات کا جوگرا ں قدر ذخیرہ ملتا ہے اس کی اساس اگر اس طرح کی سیدھی سادی باتوں پر استوار ملے تو یہ باعث تعجب تو ہو سکتا ہے۔ ناممکنات میں سے نہیں! اقبالیات کے تجزیاتی مطالعے سے بیشتر ہی یہ اساسی امر ملحوظ رکھنا لازم ہے کہ 1901 ء تک بھی اردو تنقید گھٹنوں کے بل چل رہی تھی۔ مولانا الطاف حسین حالی کے ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ (سنہ اشاعت 1893ئ) سے اگر اسے جدید تنقید کا آغاز کیا جائے تو انیسویں صدی کے اختتام تک اردو میں جدید تنقید کی عمر محض سات سال بنتی ہے۔ حالی کے علاوہ اس دور میں علامہ شبلی نعمانیاور مولانا محمد حسین آزاد کی صورت میں دو اور بھی قد آور نقاد ملتے ہیں لیکن ان دونوں کی تنقید بھی مزاج اور لب و لہجہ کے اعتبار سے جدید نہیں قرار پا سکتی ۔ مگر یہ دونوں (آزاد کم‘ شبلی زیادہ) انگریزی ناقدین اور مفکرین کے اسماء اور آراء استعمال کرتے ہیں لیکن یہ کیونکہ ان کے تنقیدی مزاج کا عنصر نہیں اس لیے ان کی حیثیت مستعار لی ہوئی اشیائے تزئین سے زیادہ نہیں۔ ان کے پہلو بہ پہلو ناقدین کی ایک اور نسل بھی ابھر رہی ہے۔ جنہیںمغربی ادبیات سے واقفیت بھی تھی اور جو ان بزرگوں کے مقابلے میں اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ یہ تخلیقی نظر رکھتے تھے۔ اس ضمن میں مہدی افادی ارو ان کے بعد امداد امام اثر کا نام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی شخصیت او ر تحریروں کے اردو ادب و نقدپر اثرات اتنے گہرے نہ تھے کہ انہیں رجحان ساز قرار دیا جا سکتا ہو۔ ان کے بعد مولوی عبدالحق عبدالرحمن بجنوری‘ وحید الدین سلیم‘ عبدالماجد دریا آبادی اور نیاز فتح پوری نظر آتے ہیں چنانچہ موجودہ صدی کی دوسری اور تیسری دہائی تک ان کا ہی سلسلہ چلتا رہا۔ ھر 1936ء کے بعد ترقی پسند ادب کی تحریک کے ذریعے تنقید میں مارکسی نقطہ نظر نے فروغ پایا۔ لیکن یہ ایک الگ داستان ہے۔ اس طرح 1920ء کے بعد سے نفسیاتی انداز نقد کے سراغ بھی مل جاتے ہیں۔ جو 1930ء کے بعد میرا جی کی تنقید میں باقاعدہ طور پر نمو پذیر ہوئے لیکن یہ بھی ایک الگ بحث ہے۔ نفسیاتی اور مارکسی تنقید میں باقاعدہ طور سے نمو پذیر ہوئے لیکن یہ بھی ایک الگ بحث ہے۔ نفسیاتی اور مارکسی انداز نظر سے قطع نظر کر کے جب بحیثیت مجموعی ان ناقدین کا جائزہ لیں تو اپنی تخلیقی صلاحیتوں (مولوی عبدالحق) عالمی ادبیات کے تقابلی مطالعے (عبدالرحمن بجنوری) گہرے لسانی شعور (وحید الدین سلیم) فلسفے کے رچے ہوئے مذاق (عبدالماجد دریا آبادی) او رتحیرر میں حسن کا ری (نیاز فتح پوری) کے باوجود یہاںتک جن حضرات کی ناقدارنہ بصیرت کا تعلق ہے تو ان میں سے وئی بھی حالی تک نہیں پہنچ سکا ۔ ہر چند کہاہم اور غیر اہم نام دنیائے نقد میں داخل ہو رہے ہیں اور حسب دستور گو تنقیدی کتب کم چھپ رہی تھیں لیکن اس عہد کے ادبی جرائد میں تنقیدی مقالات چھپتے رہتے تھے اورسنجیدہ قارئین کی صورت میں تنقید ایسی خشک چیز سے دلچسپی لینے والا ایک طبقہ ابھر رہا تھا۔ یہ ہے وہ کل تناظر جس میں اقبالیات کے اولین نقوش کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس ضمن میں یہ اہم نکتہ بھی ملحوظ خاطر ہے کہ گو اقبال اپنے بعض معاصرین کے مقابلے میں خاصے جونئیر تھے لیکن یہ جونئیر ہونا صر ف عمر کے لحاظ سے تھا۔ کلام اقبال میں فکر کی جو گہرائی ملتی ہے ان کا دلنشیں اسلوب اس سونے پہ سہاگے کا کام دیتا ہے اور شاعری میں اقبال کی لے ایک نیا آہنگ لے کر آتی ہے تو فلسفہ ہماری فکری تاریخ کا ایک نیا موڑ ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ جلد ہی زمانے کو احساس ہو گیا کہ اقبال کی صورت میں اردو شاعری کو ایسا مفکر شاعر مل رہا ہے جو اپنی تخلیقی بصیورت کے بو قلموں اظہار سے نظم کو وہ رفعت بخشے گا کہ نہ صرف یہ کہ اس کے تمام فنی امکانات کو ان کی منطقی انتہاتک پہنچا دے گا بلکہ اپنی زندگی ہی میں کلاسیک کا درجہ اختیار کر جائے گا۔ اگر ریاضی کے اصولوں کے مطابق بات کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کا فکری ارتقاء جو میٹریکل یعنی ۱‘۲‘۴‘۱۶‘۳۲ کے انداز پر تھا۔ چنانچہ اردو ادب کے گراف پر اس کے فکری ارتقا کی قوس نہایت اعتماد کے ساتھ اپنا عمودی سفر جاری رکھتی ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں تنقید کی فکری سطح اتنی بلند نہ تھی۔ چنانچہ اصول مباحث میں وہ مدتوں حالی کے نقطہ پر رکی رہی۔ جس کے نتیجے میں ان کی ترقی عموداً کے برعکس افقاً نظر آتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ قوس ٹوٹ کر ایک ہی نقطے پر کھڑی کی ہوئی سوئی کی طرح اٹک چکی ہے۔ گویا اقبال کے فکری ارتقاء کے برعکس تنقید کی ترقی ریاضیاتی یعنی ۱‘۲‘۳‘۴ کے اندا ز پر تھی۔ اقبال کی فکری بلندی اور تنقید کی ہموار سطح میں بعد کا نتیجہ یہ نکلا کہ قلیل مدت میں اقبال نے تو فکری بلندیوں کو چھو لیا مگر تنقید ابھی افتاں و خیزاں گرد سفر کر میں گم رہی۔ یہ بعد بہت اہم ہے کہ اس سے تنقید کی عمودی صورت حال سمجھنے کے ساتھ ساتھاقبالیات کا مطالعہ بہت زیادہ بہتر خطوط پر ہو سکتا ہے۔ آ ج اقبالیات کی ذیل میں آنے والی تحریروں کا تجزیاتی مطالعہکرنے پر جہاں آراء میں افراط و تفریط کا احساس ہوتا ہے‘ وہاں تنقیدی معائر میں بھی یکسانیت کا فقدان نظر آتا ہ اگر ایک انتہا پر کالج نوٹس قسم کی تحریریں ملتی ہیں تو دوسری طرف فکری گہرائی میں ڈوبا تجزیاتی انداز بھی نظر آتا ہے جس کا نتیجہ تکرار و توارد کی ایسی صورت میںرونما ہوا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا فکر اقبال چند فارمولوں کا نام نہیں ہے۔ شاید اسی لیے ہر شخص اپنی دانست میں نقد اقبال کا حق ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ وہ وقتاً فوقتاً یہ حق ادا بھی کرتا رہتا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ ذہین قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو اس کی وجہ نہ تو ناقدین کی کم علمی ہے نہ سہل نگاری اور نہ عدم خلوص بلکہ سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ اردو تنقید اپنی ترقی کی سست رفتاری کے باعث فکر اقبال کے ارتقائی مراحل کا ساتھ دینے کی اہل نہیںَ ہرچند ادب میں تنقید بالمقابل تخلیق قسم کا کوئی دنگل نہیںہوتا۔ کہ دونو ں میںسے کسی ایک کا چاروںشانے چت گرانالازم ہو۔ گو ایسے ناقدین بھی مل جاتے ہیں جو تنقید کوایک طرح کی پنجہ آزمائی سمجھتے ہوئے تخلیق کے حوالہ سے تخلیق کار کو ناک آئوٹ کرنے کی دھن میں ؒگیرہتیہیں۔ لیکن تنقید کا یہ انداز متوازن نہیںلہٰذا ایسی تنقید ی کاوش قابل قدر یا قابل تقلید نہیں بن سکتی۔ تاہم اس امر پر یقینا زور دیا جا سکتا ہے کہ اقبال کی لکھی گئی بیشتر تنقیدی تحریروں کی مانند محض اشعار کی تشریح کر دینے اور معروف ناقدین پر مغربی مفکرین کے خوبصورت حوالوں کو مضمون میں ڈیکوریشن پیس کی طرح سجانے کا نام بھی نہیںَ تنقید اور تخلیق دراصل دو ارفع ذہنوں کا مقابل ہونا ہے۔ اگر تنقید اقبال کے الفاظ میں ’’کم عیار‘‘ ہو تو وہ تخلیق سے مبہوت اور مسہور سی ہو جاتی ہے اور اس کی رفعتوں میںگم ہو جاتی ہے۔ نتیجتہ و رہ نما بننے کے برعکس خود راستہ بھول جاتی ہے۔ یوں نقاد کی شخصیت تخلیق کا ر شخصیت سے دب جاتی ہے وہ خود کو اس عظیم الشان عمارت کے سامنے محسوس کرتاہے جس کی بلند دیواریں اس کی ہمت کو ڈراتی ہیں۔ دروازہ کھٹکھٹانے کا وہ خو د میں حوصلہ نہیں ہوتا چنانچہ عالم حیرت میں وہ اسے تکتا رہتا ہے اور بالآخر صرف باہر کا احوال بتا کر فرغ ہو جاتا ہے۔ اقبال کے ناقدین کی اکثریت کا یہی حال نظر آتا ہے۔ وہ اقبال کے فلسفے سے یوں مسحور ہوتے ہیں کہ اشعار کی تشریح سے آگے کی بات سوچ ہی نہیں سکتے ۔ اس کا عمومی باعث اردو تنقید کی کم مائیگی اور نقادوں کی کم نگاہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ تنقید تخلیق کے بعد جنم لیتی ہے لیکن تخلیق کا فکری مرتبہ متعین کرنے میں تنقید خود بھی تخلیق کا مرتبہ پا سکتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اصول سازی سے تنقید فلسفے کی ہم پایہ ہو جاتی ہے۔ دیگر شعرا پر کی گئی تنقیدوں کا اقبال پر کی گئی تنقیدوں سے تقابلی مطالعہ کرنے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اردو تنقید واقعی اقبال کی فکری بلندی کو چھونے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اردو تنقید کا فلسفیانہ شعور برائے نام ہے۔ کم از کم اقبال کی حد اس کا عدم توازن اور وجود دونوں ہی برابر ہیں جبکہ اقبال کا سارا کلام دراصل فلسفہ ہے اس یلے ہمارے ناقدین کلاسیکی شعراء کے مقابلے میں اقبال کے ہاتھوں مات کھا گئے۔ نقد اقبال میں یہ امر بھی معنی خیز ہے کہ اقبال پر اولین مقالات میں زیادہ تر زبان و بیان پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اقبال کے فکری ماخذات تک پہنچنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی جبکہ زبان و بیان کی غلطیاں دریافت کرنا بہت ہی آسان ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال پراہل زبان نے تذکیر و تانیث محاورات اور اسی انواع کے جو اعتراضات کیے ہیں ان ہیں ایک ابھرتے ہوئے پنجابی شاعر سے اہل زبان کا لسانی تعصب قرار رینے کے برعکس یہ سمجھتا ہو کہ ان کے ادبی شعور اور تنقیدی حس نے جن روایات میں پرورش پائی تھی۔ ان میں زبان و بیان سے بڑھ کر اور کسی کی اہمیت نہ تھی۔ اس تنقید ی رویہ کی اساس فکر کے برعکس عروض پر تھی جذبے کے برعکس الفاظ پر تھی۔ جس کے نتیجے میں اس تنقید میں حسن ادا ایسا زرین لبادہ تھا جو کلام کے تمام عیوب چھپا دیتا تھا۔ اقبال کی غلطیاں نکال کر وہ اپنے تنقیدی رویے میں خلوص کا اظہار کر رہے تھے۔ اقبال نے ان معترضین کو جوجواب دیا تھا (ملاحظہ ہو مقالات اقبال مرتبہ عبدالواحد معینی) اس سے اگرچہ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کے شعر کے فنی لوازم سے ناواقف نہ تھے لیکن اقبال نے جن مقاصد خاص کے لیے شاعری کی تھی ان کی بنا پر وہ شعوری طور پر حسن الفاظ کی طرف متوجہ نہ تھے۔ چنانچہ بقول اقبال شعر محاورہ اور بندش کی درستی اور چستی ہی کا نام نہیںَ میرا ادبی نصب العین نقاد کے ادبی نصب العین سے مختلف ہے۔ میرے کلام میں شعریت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور میری ہرگز یہ خواہش نہیں کہ اس زمانے کے شعراء میں میرا شمار ہو‘‘۔۳ اقبال نے ایک سے زائد خطوط میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے چنانچہ 10اکتوبر 1919ء کے ایک لٹریچر میں یوں لکھا: ’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کبھی میر امطمح نظر نہیں رہا۔ کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو او ر بس اس بات کو مدنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب کہ آئندہ نسلیںمجھے شاعر تصور نہ کریں اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ با ت موجودہ حالات میںمیرے لیے ممکن نہیں ‘‘ ۴ ۲ اقبال نے کہا تھا: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے! کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے بحیثیت ایک انسان بلکہ بحیثیت ایک مرد اقبال کیاتھے۔ ان کی شخصیت کی اسا س کن نفسیاتی خطوط پر استوار تھی۔ وہ کون سے تخلیقی محرکات تھے جنہوں نے اردو شاعری کو مسلمات سے انہیںانحراف پر مجبور کیا۔ ور وہ کون سے عوامل تھے جنہوںنے مادیت کی دنیا میں مرد قلندر اور عملی ہونے کے باوجود درویش بنائے رکھا۔ اور ان سب پر مستزاد ا س امر کا تجزیہ بھی لازم ہے کہ وہ کون سا فنی منصب تھا جس نے اقبال کو محض ایک شاعری کی جذباتی سطح سے بلند کر حکیم الامت کے ارفع منصب پر فائز کر کے اشعار کو چراغ راہ بنایا تو فکر کو ملت کے لیے رہنما ستارہ۔ ار یہ اس نوع کے دیگر سوالات ابتدائی سہی لیک اقال فہمی میں ان کی اساسی حیثیت کو کسی طرح سے بھی جھٹلاناممن نہ ہو گا۔ لیکن اقبالیات کے تجزیاتی مطعلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبال شاعر اقبال فلسفی‘ اقبال شیدائے اسلام اور عاشق رسولؐ‘ اقبال مرید رومی اقبال مخالف عقل‘ اقبال دشمن مغربی تہذیب وغیرہ کچھ عنوانات نے دائمی حیثیت اخیتار کر لی ہے اور ان پر دل کھول کر خامہ فرسائی بھی ہوئی۔ لیکن اقبال بہ حیثیت انسان میں کسی نے بھی دلچسپی لینے کی ضرورت محسوس نہ کی اور اب تو یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا اقبال شخص اور اقبال حکیم الامت کو دو جداگانہ ہوا بند خانوں میں رکھا گیا ہے اس طرح سے کہ یہ ایک دوسرے کے وجو د کی پرچھائیں بھی نہ پڑنے پائے لیکن جس طرھ قلب کو نظر سے جدا کرنا ممکن نہیںاسیطرح شخص کو شاعر سے منقطع نہیںکیا جا سکتا۔ لیکن ہماری تنقید میں بالعموم اور اقبال شناسی میں بالخصوص یہی خامی نظر آتی ہے۔ یہ نکتہ بے حد اہم ہے کہ اس نے اقبالیات سے وابستہ ذہنی فکری اور جذباتی سانچوں کی تشکیل کی۔ اقبالیات میں جوایک خاص نوع کی تکرار کا احساس ہوتا ہے اور بیشتر مضامین کے مطالعے کے بعد جو یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا انہیں پہلے بھی کہیں پڑھ چکے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد اور مفکر میں روا رکھے گئے ہیں اسی قطبین کے بعد تلاش کی جا سکتی ہے ۔ یورپ میں تحقیق و تخلیق کاروں کو بھی کبھی یوں الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ ان کی حقیقت پسندی کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے تنقید کے بیشتر مباحث میں نفسیات سے امداد لینے کا قوی رجحا ن موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں کے تمام نقاد نفسیاتی نقاد نہیں لیکن یہ بھی ہے کہ ہماری مانند وہ لوگ نفسیات سے الرجک بھی نہیںَ نفسیات یا تحلیل نفسی اتنی خوفناک نہیںہے کہ ہم ڈر کر ان سے آنکھیں بند کر لیں۔ تخلیق کار کے ذہن کے نہاں خانوں سے پھوٹنے والی کرن تخلیق ہے جو شخصیت کے تمام رنگوں سے روشن ہوتی ہے۔ تخلیقی عمل پر اسرار اور ناقابل فہم سہی لیکن انتا طے ہے کہ یہ تخلیقی عمل شخصیت کی نفسی اساس سے وابستہ ہوتا ہے ۔ شخسیت کے لاشعوری محرکات اس میںرنگ آمیزی کرتے ہیں۔ تخلیق کی صورت یہ ہے کہ یہ شخصیت کو جو ثمر دیتا ہے اس کی نفسیاتی اہمیت جداگانہ اور منفردہوتیہے ۔ نقاد تخلیق کار کے حوالے سے تخلیق کوسمجھتا ہے تو تخلیق کار کو ملانے والا پل دراصل نفسیات ہے۔ بیچ میں لاشعور کے بھنور میں اور نفسی عوامل کے گہرے پ انی ہی کیوںنہ ہوں لیکن نفسیات کے مضبوط اورمحفوظ پل پر نقاد ان سب سے بالاتر ہوتا ہے مگر ہماری تنقید نفسیات سے محروم رہی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرد اقبال پر مفکر اقبال چھا گیا۔ اور یہ اقبالیات کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ہمارے اپنے عہد کا ہونے کے باوجود ہم اقبال کی شخصیت سے میر اور غالب اتنے بھی واقف نہ ہوئے! ۳ ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچہ میں سر عبدالقادرنے اقبال کی شاعری کے جو ادوار مقر ر کیے ہیں اب سبھی انہیں تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی نے اقبالیات کے ادوار مقرر کرنے کی کوشش نہ کی حالانکہ آج اقبالیات کی عمر 77برس بنتی ہے جو تنقید کی کل عمر یعنی حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی اشاعت (1893)ء سے صرف 7 برس کم ہے ۔ میرے خیال میں اقبالیات کے تین دو ربن سکتے ہیں (۱) ابتدا سے لے کر 1940ء یعنی لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری تک۔ (۲) 1940ء سے 1947ء یعنی قیام پاکستان تک اور (۳) 1947ء سے اب تک یعنی قیام پاکستان کا زمانہ ان ادوار کے ضمن میں یہ امر واضح رہے کہ پہلا دور 1940ء کی بجائے اقبال کے سال وفات یعنی 1938ء پر لا کر ختم کیا جا سکتا تھا۔ اور شاید بادی النظر میں یہ درست بھی محسوس ہو لیکن میرا استدلال یہ ہے کہ اقبال نے قومی نظمیں لکھ کر جس ملی شعور کا مظاہرہ کیا تھا وہ قائد اعظم کے ساتھ مل کر سیاسی جدوجہد اور پھر الہ آباد کے خطبہ صدارت میں تصور پاکستان کی پیش کش کی صورت میںبالاخر نقطہ عروج کو پہنچتا ہے۔ یوں 1940ء میں قرار داد پاکستان کی منظوری گویا اقبال کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے پہلا عملی قدم تھا۔ 1938ء میں انتقال سے گو اقبال کا کلام اور پیغام مکمل ہو چکا تھا لیکن اس پیغام کے اثرات ختم نہ ہوئے تھے لہٰذا 1940ء میں ان اثرات کو قرارداد کی صورت میں ایک نقطہ پر مرکوز کردیا گیا۔ اس لیے اقبالیات کا دور اول 1940ء تک ہونا چاہیے۔ دوسرا دور حصول پاکستان کے سات پر آشوب برسوں پر محیط ہے۔ لہٰذا بلا واسطہ یا بالواسطہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اقبا ل کا نام بھی آتا رہا۔ خالص فکری اور تنقیدی مقالات کے ساتھ ساتھ اقبال کے سیاسی تصورات کا تجزیاتی مطالعہ دوسرے دور کی اہم ترین خصوصیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ تیسرا دور اقبال کے خواب کی تعبیر پاکستان سے متعلق ہے۔ بطور قومی شاعر گزشتہ تیس برسوں میں اقبال پر بہت کا م ہوا ہے۔ ا ب ان کے نام سے ادارے چل رہے ہیں۔ اور جرائد طبع ہو رہے ہیں۔ یوم اقبال سرکاری طور پر منایا جاتا ہے اور پاکستان میںجرائد اور اخبارات کی بڑی تعداد میں اقبال نمبر نکل چکے ہیں۔ اس کتاب میں شامل (اور 1938ء تک کے مطبوعہ ) مقالات کی رعایت سے اقبالیات کے دور اول کا جائزہ لینے پر یہ ششدر کر دینے والی حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ آج یعنی اقبالیات کے دوسرے دور میں جو موضوعات مرغوب عام ہیں وہی دور اول میں بھی پسندیدہ تھے اور فکر اقبال کے جن گوشوں کو آج کے ناقدین اپنی دانست میں پہلی مرتبہ اجاگر کر ا رہے ہیں ان میں سے بیشتر موضوعات کا اقبال کی زندگی میں ہی بیشتر لکھنے والے احاطہ کر چکے ہیں۔ چند مقالات کے عنوانات سے اس امر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے: ۱۔ مرزا سلطان احمد حضرت اقبال کا طرز جدید مخزن اگست 1914ء ۲۔ سر عبدالقادر رموز بے خودی مخزن ستمبر 1918ء ۳۔ ’’عنق‘‘ عشق کا مفہوم قدما اور اقبال راوی دسمبر 1928ء ۴۔ ذکیہ احمد ہمارا قومی شاعر اقبال عالمگیر خاص نمبر 1923ء ۵۔ کفایت علی اقبال وطنیت پین اسلامزم اور سیاسی تحاریک ادبی دنیا اکتوبر 1934ء ۶۔ شیخ اکبر علی اقبال کی شاعر ی میں آرٹ کا تصور ادبی دنیا جون 1934ء ۷۔ چوہدری محمد حسین اسرار خودی ہمایو ں مئی 1923ء ۸۔ ارشاد حسین حقانی اقبال اردو کا بہترین شاعر ہمایوں جولائی 1936ء ۹۔ جگن ناتھ آزاد اقبال کی منظر نگاری ہمایوں مئی 1936ء ۱۰۔ آل احمد صدیقی سرور جبریل مشرق سہیل 1936ء 1932ء میں نیرنگ خیال نے جو گرانقدر اقبال نمبر نالا اس کے مقالات اس فہرست میں شامل نہیں کیے گئیل۔ یوں بھی یہ فہرست مکمل نہیںَ صرف بعض موضوعات کی قدامت کا اندازہ کرنا مقصود تھا۔ یہ درست ہے کہ بعد کے ناقدین نے نسبتاً زیادہ وسیع مطالعے کی بنا پر مزید نکتہ طرازیاں کیں لیکن ان سے دور اول کی ان تحریروں کی تاریخی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ بلکہ اس دور میں لکھے گئے بعض مقالات تو اب بھی سدا بہار ہیں۔ کیا 1938ء تک لکھے گئے ان مقالات کی اہمیت کم ہو سکتی ہے: ۱۔ خلیفہ عبدالحکیم اقبال‘ حالات اور شاعری ۲۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اقبال اور سیاسیات ۳۔ ڈاکٹر یوسف حسن خان اقبا ل کا تصور حیات ۴۔ رشید احمد صدیقی پیام اقبال ۵۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی اقبال کا پیام حیات ۶۔ سید سلیمان ندوی رموز بے خودی ۷۔ چراغ حسن حسرت اقبا ل کا فلسفہ سخت کوشی ۸۔ نور الحسن ہاشمی اقبال کا نوجوان ۹۔ عبدالرحمن بجنوری مثنویات اقبال ۱۰۔ حمید احمد خان اقبال کا شاعرانہ ارتقاء ۱۱۔ عزیز احمد اقبال کی شاعری میں حسن و عشق کاعنصر ۱۲۔ آل احمد سرور اقبال اوراس کے نکتہ چیں ۱۳۔ محی الدین قادری زور اقبال کا اثر اردو شاعری پر ۱۴۔ سید نذیر نیازی تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ۱۵۔ قاضی عبدالغفار پیام اقبال ۱۶۔ ممتاز حسن اقبال کی شاعری پر قیام یورپ کے اثرات ۱۷۔ صوفی غلام مصطفی تبسم علامہ اقبال کی شاعری ۱۸۔ ملک راج آنند اقبال کی شاعری ۱۹۔ محمد محمود زمان خان ڈاکٹر اقبال کی اردو ۲۰۔ ادیب اے آبادی علامہ اقبا ل اور فلسفہ تصوف ان منتشر مقالات کی فہرست سے قطع نظر موضوعات کی درجہ بندی سے بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ اب اقبالیات کے لیے اساس سمجھے جانے والے بیشتر موضوعات اقبال کی زندگی میں ہی مقبول ہو چکے ہیں۔ چنانچہ فلسفہ ‘ اسلام‘ تصوف‘ خودی‘ تصور حیات‘ شاعرانہ پیغام‘ تصور ادب‘ وطنیت ‘ تصور عورت‘ تصور زمان و مکان‘ زبان کے حسن و قبح کی جانچ انفرادی کتب کا مطالعہ۔ غرض یہ کہ کون سا ایسا موضوع ہے جس پر اقبالیات کے دور اول میںنہ لکھا گیا۔ یہ درست ہے کہ دور اول کی بعض تحریروں کی تنقیدی اہمیت نہ ہو گی لیکن جہاں تک ان کی تاریخٰ اہمیت کا تعلق ہے تو اردو تنقید میں بالعموم اور اقبالیات میں بالخصوص ان کی حیثیت کم نہیں ہو سکتی کہ آنے والے ناقدین کے لیے یہ جادہ تراش تھے! جب علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کا اہتمام کرنے والی کمیٹی نے میرا نام یہ کتاب مرتب کر نے کے لیے منتخب کیا تو صد سالہ تقریبات کی سعادت سے عزت افزائی ہوئی البتہ کتاب کی حدود میں قطعیت نہ تھی۔ بس یہ لکھا تھا : اقبال کی شہر ت کے بعد اس پرلکھے گئے مقالات کی ترتیب! میں چاہتا تو اس ابہام کو اپنے حق میں استعمال کر سکتا تھا اور نہایت آسانی سے متعدد ناقدین کے مقالات پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دینا اور یہ مشکل بھی نہ ہوتا کہ لیکن سوچا جب کام کرناہے اور کام بھی ایسا جو قوی سطح پر کیا جا رہا ہے اور علامہ اقبال ایسی ہستی کے لیے کیا جارہا ہے تو اس میں کوئی نیا پن ضرور ہونا چاہیے۔ ورنہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کے ضمن میں محض مقالات کے انتخاب کا کوئی جواز نہیں ہے۔ چنانچہ اسلام آباد سے خط و کتابت کا آغاز ہوا اور میں نے عبارت کی جو نئی تشریح پیش کی اسے قبول کرتے ہوئے مجھے علامہ اقبال پر 1938ء تک لکھے گئے مقالات مرتب کرنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن یہ کام آسان نہ ثابت ہوا۔ مقالات کے لیے میںنے کہاں کہاں کی خاک چھانی کن دروازوں پر دستک دی۔ کن حضرات کا بار احسان اٹھایا یہ ایک الگ داستان ہے ۔ بہرحال مجھے اطمینا ن ہے کہ دریں حالات اپنی محدود بساط کے مطابق خوب سے خوب تر کی جستجو پر مبنی معیار برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس مجموعہ میںمعروف نام بھی ملیں گے اور غیر معروف بھی لیکن انتخاب میںمعیار برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مقالہ نفس موضوع کے لحاظ سے ہر طرح سے منفرد ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ اقبالیات کی مالامیں اپنے وجود کا جواب بھی مہیا کر سکے ان میں سے بعض مقالات ایسے بھی ہیں جو اس سے قبل کسی نہ کسی صورت میں کتابی روپ اختیار کر چکے ہیں مگر اس مجموعہ میں انہیں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ 1938ء تک اقبال پر کام کی نوعیت کا اندازہ کیا جا سکے پھربعض مقالات کے ناقدین آج معروف بھی نہیں لیکن ان کامطالعہ اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر کرنا چاہیے کہ آج سے کم از کم چالیس اور (بعض صورتوں میںتو پچاس ساٹھ) برس پرانی تحیریریں ہیں۔ لہٰذا ان کی ادبی یا تنقیدی اہمیت کے مقابلہ میں ان کی تاریخی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔ اقبالیات دو چار یا دس بیس مقالات کا نام نہیں ہے۔ یہ عظیم مفکر پر اردو میں تنقید کے ایک مستقل شعبہ کا نام ہے۔ ایسا شعبہ جس کی متنوع جہات میں علوم و فنون کے نئے زاویوں سے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آج جس طرح علامہ اقبال کی زندگی کے بارے میں ہر نوع کی معمولی سے معمولی معلومات بھی قابل قدر ہیں۔ اسی طرح اقبال کی شخصیت یا فکر و فن پر بھی لکھی گئی ہر تحریر قابل توجہ ہے اورانہیں تو صرف اسی بنا پر علامہ اقبال کے معاصر ناقدین ان کے فکر و فن کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے۔ آج ایسی آراء ناقدین کے نام کے برعکس اقبال کے نام سے اہمیت اختیار کرتی ہیں۔ یہی معیار رہا ہے اس مجموعے کے لیے مقالات جمع کرنے میں! میں اقبال کمیٹی (وزارت تعلیم ۔ اسلام آباد) کی مجلس انتظامیہ کاممنون ہوں کہ جنہوں نے مجھے اس گرانقدر علمی ذمہ داری کا اہل جانا اور میری اس کوشش کو پذیرائی بخشی۔ آخر میں ڈاکٹر معز الدین صاحب ڈائریکٹر اقبال اکادمی کا بھی شکریہ لازم ہے جن کے توسط سے یہ کتاب پیش کی جا رہی ہے۔ سلیم اختر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور ٭٭٭ حواشی ۱۔ ماہنامہ ’’نیرنگ خیال‘‘ اقبال نمبر 1932ء ۲۔ اس ضمن میں مزید نوٹس ملاحظہ ہوں۔ ’’قطعہ‘‘ (مخزن مئی 1911ئ) ’’شکوہ ‘‘ (مخزن جون 1918ئ) ۳۔ مکتوب مرقومہ 3جنوری 1936ء ’’اقبا ل نامہ‘‘ مرتبہ شیخ عطا اللہ حصہ دوم‘ ص 254 ۴۔ ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ اول ص 108۔ ٭٭٭ ڈاکٹر یوسف حسن خان اقبال کا تصور حیات ابھی حال میں اقبال نے آل انڈیا ریڈیو (لاہور) کی استدعا پر سال نو کے موقع پر جو پیغام دیا اس کے ایک ایک لفظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نطشے اور دوسرے مغربی مفکرین کی طرح بقاء اصلح کے اصول موضوعہ کے تحت زبردست اقوا م کایہ حق تسلیم نہیںکرتا کہ وہ بے بسوں پر غلبہ و استیلا حاصل کریں۔ اس پیغام کے الفاظ یہ ہیں دور حاضر کو علوم عقلیہ اور سائنس کی عدیم المثال ترقی پر بڑا فخر ہے اور یہ فخر و ناز یقینا حق بجانب ہے۔ آج زمان و مکان کی پہنائیاں سمٹ رہی ہیں اور انسان نے فطرت کے اسرار کی نقاب کشائی اور تسخیر میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن اس کی تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبر و استبداد نے جمہوریت قومیت‘ اشتراکیت فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدر حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال نہیںپیش کر سکتا۔ جن نام نہاد مدبروں کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سپرد کی گئی ہے۔ وہ خونریزی سفاکی اور زیردست آزادی کے دیوتا ثابت ہوئے۔ جن حاکموں کا یہ فرض تھا کہ اخلاق انسانی کے نوامیس عالیہ کی حفاظت کریں انسان کو انسان پر ظلم کرنے سے روکیں اور انسانیت کی ذہنی اور عملی سطح کو بلند کریں انہوں نے ملوکیت اور استعمار کے جوش میں لاکھوں کروڑوں مظلوم بندگان خدا کو ہلاک و ماپال کر ڈالا۔ صرف اس واسطے کہ ان کے اپنے مخصوص گروہ کی ہوا و ہوس کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا جائے۔‘‘ انہوںنے کمزور قوموںپر تسلط حاصل کرنے کے بعد ان کے اخلاق ان کے مذہب اور ان کی معاشرتی روایات ان کے ادب اور ان کے اموال پر دست تطاول دراز کیا۔ پھر ان میں تفرقہ ڈال کر ان بدبختوں کو خوں ریزی اور برادر کشی میںمصروف کر دیا تاکہ وہ غلامی کی افیون سے مدہوش و غافل رہیں اوراستعمار کی جو نک چپ چا پ ان کا لہو پیتی رہے۔ جو سال گزر چکا ہے اس کو دیکھو اور آج نو روز کی خوشیوں کے درمیان بھی دنیا کے واقعات پر نظر ڈالو تو معلوم ہو گا کہ اس دنیا کے ہر گوشہ میںچاہے وہ فلسطین ہو یا حبش‘ ہسپانیہ ہو یا چین ایک قیامت برپا ہے۔ لاکھوں انسان بیدردانہ موت کے گھاٹ اتار ے جا رہے ہیں۔ سائنس کے تباہ کن آلات سے تمدن انسانی کے عظیم الشان آثار کو معدوم کیا جا رہا ہے اور جو حکومتیں فی الحال آگ اور خون ے اس تماشے میں عماً شریک نہیںہیں وہ اقتصادی میدان میں ضعیفوں کے خون کے آخری قطرات تک چوس رہی ہیں۔ تمامدنیا کے ارباب فکر دم بخود ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ تہذیب و تمدن کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کا انجا م یہی ہونا تھا ہ انسان ایک دوسرے کی جان و مال کے لاگو ہو کر کرہ ارض پر زندگی کا قیام ناممکن بنا دیں دراصل انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میںہے جب تک دنیا کی تعلیمی قوتیں اپنی توجہ کو محض احترام انسانیت کے درس پر مرتکز نہ کریں گی یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہسپانیہ کے باشندے ایک نسل ایک زبان اورایک مذہب اور ایک قوم رکھنے کے باوجود اقتصادی مسئلوں کے اختلاف پر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے تمدن کا نام و نشان مٹا رہے ہیں۔ اس ایک واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ قومی وحدت بھی ہرگز قائم و دائم نہیں وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہیں ہو جائے گا جب تک جغرافی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے امتیازات کو نہ مٹایا جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے اور اخوت‘ حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی نہ ہوں گے‘‘۔ اس مذکورہ پیغام کا ایک ایک لفظ انسانیت دوستی کے جذبات میں ڈوبا ہوا ہے اقبا ل نے اپنی ذہنی نشوو نما کے ساتھ بین الاقوامیت کا نقطہ نظر اختیار کیا ہے اور وہ وطنیت کو انسان کی ترقی اور فلاح کے لیے نقصان رساں تصور کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کی اس کے نزدیک سب سے بڑی خصوصیت یہی رہی ہے کہ وہ نسل اور رنگ و مقام کے ظاہری امتیازات سے ہمیشہ بالاتر رہی۔ اس موضو ع پر اقبال نے یوں اظہار کیا ہے: مردمی اندر جہاں افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد روح از تن رفت و ہفت اندام ماند آدمیت کم شد و اقوام ماند ٭٭٭ ہنوز از بند آب و گل نہ رستی تو گوئی روی و افغانیم من من اول آدم بے رنگ و بویم ازان پس ہندی و تورانیم من ٭٭٭ تو اے کودک منش خود را ادب کن مسلمان زادہ ای ترک نسب کن برنگ احمر و خون و رگ و پوست عرب نازد اگر ترک عرب کن ٭٭٭ فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند ٭٭٭ نہ افغانیم و نے ترک تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردہ یک نو بہاریم اقبال کے بعض اشعار سے بعض ناواقف لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اقوام کے لیے کسی اخلاق کی پابندی ضروری نہیں سمجھتا اور ’’فلسفہ شاہین‘‘ کو کھلم کھلا سراہتا ہے۔ لیکن غالباً یہ غلط نتیجہ اس لیے نکالا گیا ہے کہ اقبا ل بے عملی اور کمزوری کو اجتماعی زندگی کی سب سے بڑی لعنت خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک مظلوم سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں کہ وہ کیوں دوسروں کے ظلم کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ کمزور جماعتیںنکو کاری او رسعی پیہم سے زبردست بن جائیں اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنا سیکھیں۔ جس طرح وہ اہل مغرب کی مجنونانہ عملی زندگی کو جو اخلاقی اقدار سے عاری ہے انسانیت کے لیے خطرناک بتاتا ہے اسی طرح اہل مشرق کی بے عملی اور مجہولیت کو قابل نفرت خیال کرتا ہے ۔ جس ی وجہ سے انہیں غیروں کی غلامی نصیب ہوئی۔ وہ اہل مشرق کے دل میں اعلیٰ انسانی مقاصد کی لگن پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی عزت کو دنیا کی نظروں میں حاصل کر سکیں۔ اس کے نزدیک قوموں کو اس وقت عزت و قوت حاصل ہوتیہے جب پر خطر زندگی بسر کرنا سیکھیں اور جوکھوں میں پڑیں۔ ظاہر ہے کہ اہل مشرق کو بیدار کرنے اور آمادہ عمل رکنے کے لیے شاعر شاہین و باز کی تشبیہوں میں وہ جن اشارات سے کام لیتا ہے وہ عمل کے لیے اکسانے کی خاطر ہوتے ہیں۔ جس قوم کو آرام و آسائش کی زندگی حاصل ہو اور اس کا دل آرزو کی خلش سے محروم ہو وہ بہت جلد کسی قوم کی سیرت رکھنے والی تازہ دم قوم کا شکار بن جاتی ہے۔ اس تاریخی ؤحقیقت کو اقبال نے ’’درحدیث دیگراں‘‘ بار بار اپنے کلام یں بیان کیا ہے۔ ’’پیام مشرق‘‘ میں ہمارے ؤشاعر نے ہرنوں کا ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک ہرن نے دوسرے ہرن سے ایک دن اپنا درد دل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر حرم میں مجھے پناہ مل جائے تو کیا مزہ کی بات ہو۔ چین آرام سے زندگی بسر ہو۔ نہ شکاری کا خوف رہے نہ رزق کی تلاش کرنے کا روز کا جنجال باقی رہے۔ یہ سن کر دوسرے ہرن نے جو زندگی رمز شناس تھا یوں جواب دیا: رفیقش گفت اے یار خرد مند اگر خواہی حیات اندر خطر زی دمادم قوتش را بر فساں زن ز تیغ پاک گوہر تیز تر زی خطر تاب و تواں را امتحان است عیار ممکنات جسم و جان است اقبال کے فلسفہ عمرانی میں اثبات خودی اورسعی و جہد کی ایک مخصوص ضبط و آئین کے مطابق ہر جماعت کا فرض ہے لیکن یہ سعی و جہد ایک خاص اخلاقی مقصد کے لیے ہونی چاہیے اجتماعی زندگی میں ضعف اور ناتوانی بے مقصدی اور بے آرزوئی پیدا ہوتی ہے۔ سخت کوشی‘ جفاکشی اور کشاکش کے جوکھوں بغیر جماعتوں کے قوائے عمل مفلوج ہو جاتے ہیں اور ا ن میں زندگی کی سرگرمی باقی نہیں رہتی۔ ایک جگہ بال جبریل میں بوڑھا عقاب بچہ شاہی کو یوں نصیحت کرتا ہے: بچہ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سال خورد اے ترے شہپر پہ آساں رفعت چرخ بریں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پسر وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں اس مضمونکو اس نے بار بار بیان کیا ہے: مگو از مدعائے زندگانی ترا بر شیوہ ہائے او نگہ نیست من از ذوق اثر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست ٭٭٭ سکندر با خضر خوش نکگہ اے گفت شریک سوز و ساز بحر و بر شو تو ایں جنگ از کنار عرصہ بینی میر اندر نبرد و زندہ تر شو ٭٭٭ فریب خوردہ منزل ہے کارواں ورنہ زیادہ راحت منزل سے ہے نشان رحیل ٭٭٭ بہ کیش زندہ دلاں زندگی جفا طلبی است سفر بہ کعبہ نکردم کہ راہ بے خطر است ٭٭٭ باد صحرا سب کہ با فطرت ما در سازد از نفسہائے صبا غنچہ دیگر شدہ ایم اقبال کے تصور حیات میں ’’قوت‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ وہ جہاں کہیں کائنات فطرت میں اس مظہر جاوید سے دوچار ہوتا ہے فوراً ٹھٹک جاتا ہے۔ یہ مظہر اس کے لیے جاذب نظر ہے۔ جس طرح کسی صناع کو رنگ و خط کی موزونی میں حسن نظر آتاہے اسی طرح اقبال کو جب کبھی اور جہاں کہیں مظہر قوت نظر پڑ جاتا ہے اسکی نظر اس پر جم جاتی ہے اوروہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ اسے زندگی کا اعلیٰ ترین مظہر تصور کرتا ہے۔ ایک فرانسیسی ماہر نفسیات نے لکھا ہے کہ بعض بڑے ماہر موسیقار ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے رنگ و خطوط کو دیکھ کر یا بعض اوقات روز مرہ کی زندگی کے کسی واقعہ سے متاثر ہو کر نئے سر دریافت کیے اسی طرح بعض مصوری اور بت گری کے استاد ہوئے ہیں جنہوںنے موسیقی کی کسی کے لے کو سن کر رنگ و خط کی خاص شکلیں بنائیں۔ صناعی (آرٹ) کے محرکات تخلیقی اس قدر متنوع اور عجیب و غریب ہیں کہ ان کا نفسیاتی تجزیہ ممکن نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اقبا ل کے وجدان اور جذبات شعری کو جو چیز سب سے زیادہ متحرک کرتی ہے اور اس کے د کے تاروں کو چھیڑتی ہے وہ مظہر قوت ہے جو اسے عالم انسانی اور عالم فطرت دونوں میںنظر آتا ہے۔ قوت میں اسے حسن نظر آتا ہے جہاں کہیں اس کی آنکھ اس مظہر پر پڑ جاتی ہے وہ جھومنے لگتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلبل اور قمری کی تشبیہوں کے بجائے وہ باز اور شاہین کو ترجیح دینتا ہے۔ اس لیے آخر الذکر اس کے وجدان شعری کے لیے زیادہ موزوں ہیں اور ان کے ذریعہ وہ اپنے حسب دلخواہ اخلاقی نتائج مرتب کر سکتا ہے جو اس کا اصل مقصود ہیں۔ وہ مظہر قتو کا قدر دان ہے چاہے وہ اپنوں سے ملے یا غیروں میں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ خالص ہو سونا ملمع نہ ہو۔ اس نے قومی سیرت کے موضوع پر بہت کچھ کہا ہے۔ بعض اوقات لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ اس جذبہ کے تحت وہ متضاد خیالات کا اظہار کر جاتا ہے۔ اس کی محفل میں لینن اور مسولینی‘ نطشے‘ اور ٹالسٹائی ‘ امام ابن تمیمہ اور شاہ ہمدان‘ برگسون اور کارکل مارکس‘ بائرن اور رومی‘ مصطفی کمال اور جمال الدین افغانی پہلو بہ پہلو بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ بادی النظر میں یہ فکر کا تضاد ہے لیکن جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں کہ اقبال پیش ور فلسفی نہیں جس کے نزدیک تجریدی منطقی واسطوں کو زندگی سے زیادہ اہمیت حاصل ہو۔ اور واقعہ یہ بھی ہے کہ زندگی سب کچھ ہے لیکن منطق نہیں۔ جس طرح بھونرا زندگی کے نشہ میں مست اڑتا پھرتا ہے اور بھانت بھانت کے پھولوں کا رس چوستا ہے اسی طرح اقبال اپنے جوش وجدان میں سرشار حقیقت کے مختلف پہلوئوں کو اپنی شاعری میں جذبت کرتاہے ۔ دنیا والے یا پیشہ ور فلسفی چاہیں تو اپنے ملکوں کے الگ الگ نام رکھیں لیکن شاعر کی وسیع نظر ظاہری اختلا ف و کثرت میں باطنی وحدت محسو س کر لیتی ہے۔ چنانچہ اس پر تعجب نہ ہو نا چاہیے کہ اقبال کے ہاں ملوکیت اور اشتراکیت‘ اجتہاد او ر تقلید‘ عینیت اور حقیقت پسندی‘ خودی اور بے خودی جیسے متضاد موضوعوں پر شاعرانہ توجیہیںملتی ہیں جن کی تہہ میں آپ ایک لطیف ہم آہنگی پا سکتے ہیں۔ شاعر کے دل و دماغ پر متضاد کیفیات کا جو اثر پڑتا ہے انہیں اپنی شخصیت کی گہرائوں میںسمونے کے بعد جب وہ ظاہر کرتاہے تو وہ ایک متناسب نقش کی صورت اختیار کرتی ہیں جس کے نوک و پلک درست ہوتے ہیں اور کہیں کوئی بے آہنگی اور مطلق کسی قسم کی کوئی کسر نہیںہوتی۔ اس کی خوبی و زیبائی کاسب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ دل کو لبھاتا اور مشام جاں کو مست کرتا ہے۔ اقبال نے تمدن جدید کے مختلف ادوار میں اپنے مخصوص انداز میں تنقید کی ہے اس کے کلام میں آپ جمہوریت کے متعلق بار بار ذکر فرمائیں گے۔ یہ جمہوریت عہد خلافت راشدہ کی اسلامی جمہوریت نہیں ہے جس کو وہ یقینا بہترین سیاسی نظام سمجھتا ہے لیکن اسے عہد جدید کی جمہوریت کوسرمایہ داری کی لونڈی کہہ کر پکارنے میں مطلق باک نہیں۔ اقبال جمہوریت کی روح کا قائل ہے اس لیے کہ وہ اس کے نظام خیال کے تانے بانے میں اچھی طرح کھپتی ہے۔ لیکن موجودہ جمہوریت کے خارجی مظاہر ایسے پھسپھسے زندیگ کی دشواریوں سے گریز کرنے والے اور جماعتوں کو بے عملی کی طرف لے جانے والے ہیں کہ وہ ان سے بیزار ہے۔ جمہوریت(عمومیت) کو محض اعداد و شمار کے تابع کرنا اس کے نزدیک انسانیت کے لیے باعث ننگ ہے: متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی زموران شوخی طبع سلیمانے نمی آید گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید پھر دوسے موقع پر وہ نام نہاد نظام جمہوری کی چن چن کر چوریاں پکڑتا ہے: ہے وہی ساز کہن مغرب کاجمہوری نظام جس کے پردے میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھ اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زر گری اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھاہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو یورپ میں عمومیت کی بڑھتی ہوئی رو کا یہ نتیجہ نکلا کہ معاشرہ کے نیچے کے طبقوں کوبھی سیاسی معاملات میں دخل حاصل ہو گیا لیکن ان کا یہ دخل و اثر برائے نام ہے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اب چند سربر آوردہ اور بااثر اشخاص رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں اور انے مخصوص مقاصد و مفاد کے لیے اس کو استعمال کرتے ہیں عوام ان اشخاص کی پیروی بھیڑوں کی طرح کرنے پر مجبور ہیںَ ہر شخص کو اس کا موقع نہیں حاصل ہے کہ وہ اہم پیچیدہ اور سیاسی و عمرانی معاملات پر غور کر سکے۔ دراصل یہ صلاحیت ہر معاشرہ میں چند لوگوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر پیچیدہ مسائل پر غور و فکر کرنے میں انسان زحمت محسوس کرتا ہے۔ اور اس کو سہولت اس میں ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کی بجائے غور و فکر کی زحمت گوارا کر لے اور ا س کو ایک بنی بنائی رائے مل جائے جسے وہ تسلیم کر لے ۔ موجودہ تمدن کے وسائل و نشر واشاعت کی حیرت انگیز ترقی کی وجہ یہی ہوئی اس نشر و اشاعت کا ادنیٰ کرشمہ ی ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جائے۔ بالخصوص جمہوریت کا تمام تر انحصار نشر و اشاعت کی توسیع پر ہے۔ جدید تمدن کی انجمن آرائی کا سارا دارومدار سخن سازی پر ہے۔ اشتراکیت کے نا م نہاد اصول‘ مساوا ت کے متعلق وہ نہایت لطیف پیرایہ میں یہ کہتا ہے: نماند ناز شیریں بے خرایدار اگر خسرو نہ باشد کوہکن ہست زمام کار اگرمزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ان اشعار میں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اقبال کو مزدوروں اور معاشرہ کے نیچے کے طبقوں سے ہمدردی نہیں۔ ایک مزدور کی زبانی و فرانسیسی حکیم آگست کونت کو یوں خطاب کرتا ہے: فریبی بحکمت مرا اے حکیم کہ نتواں شکست ایں طلسم قدیم مس خام را از زر اندوہ؟ مرا خوئے تسلیم فرمودہ؟ کند بحر را آبنایم اسیر ز خارا برد تیشہ ام جوئے شیر حق کوہکن دادی اے نکتہ سنج بہ پرویز پرکار و نابردہ رنج بدوش زمیں بار‘ سرمایہ دار ندارد گزشت از خود و خواب کار پے جرم او پوزش آوردہ بایں عقل و دانش فسوں خوردہ؟ اپنی نظم نوائے مزدور میں وہ مزدور کی اس طرح وکالت کرتا ہے: ز مزد بندہ کرپاس پوش و محنت کش نصیب خواجہ ناکردہ کار رخت حریر زخون من چو زلو فربہی کلیسا را بزور بازوئے من دست سلطنت ہمہ گیر خراجہ رشک گلستاں زگریہ سحرم شباب لالہ و گل از طراوت جگرم ’’خضر راہ‘‘ میں وہ اسے یوں آمادہ عمل کرتا ہے: بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغا کیا ہے یہ پیام کاینات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہوں غریبوں کو زکوۃ ٭٭٭ نسل ‘ قومیت‘ کلیسا‘ سلطنت تہذیب رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے اقبال نے اپنی شاعری کے ابتدائی دورمیں ہندوستان کی متحدہ قومیت کے مسئلے پر غور کیا تھا اوروہ اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا بھی اسی طرح وطن ہے جس طرح اس ملک کے دوسرے باشندوں کا۔ مسلمانوںنے اپنے عروج کے زمانے میں اس ملک کو اپنا وطن بنایا اور یہں رس بس گئے۔ اس کی حفاظت کے لیے چھ صدیوں تک انہوںنے اپنا خون بہایا۔ اب یہ سوال اٹھانا کہ کیا ہہندی مسلمان محب وطن ہو سکتا ہے یا نہیں باعث شرم ہے۔ وطنیت کا وہ تخیل بلا شبہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جو وطن کے لیے انسانیت کے حقوق تسلیم نہ کرے۔ لیکن اپنے پڑوسیوں اور دیس میں رہنے والوں کے ساتھ تعاون عمل کرنا تاکہ عزت و آبروسے زندگی بسر کی جائے دنیا کے کسی مذہب کے بھی خلاف نہیں ہو سکتا۔ اقبال نے اپنے ابتدائی زمانہ میں وطنیت کی پکار پر لبیک کہا تھا۔ کیا مسلمانان ہند آج اپنے دیس میںتاریخ کی تخلیقی قوتوں کو بروئے کار آتے دیکھیں اور اپنے تئیں ان سے علیحدہ رکھیں۔ ہم اپنے اجتماعی وجود کو مستحکم کر کے اس ملک کی معیشت میں وہ حصہ لے سکتے ہیں اور ہمیں لینا چاہیے جو تاریخی اعتبار سے ہمارے شایان شان ہے۔ میرے نزدیک اقبال کے پیغام نے اس گزشتہ بیس پچیس سال کے عرصہ میں اس ملک کے مسلمانوں میںاتنی خود اعتمادی پیدا کر دی ہے کہ وہ دوسرے عناصر سے لرزہ براندام ہوئے بغیر یہ محسوس کریں کہ وہ دنیا کی کوئی طاقت انہیںوہ رتبہ حاصل کرنے سے محروم نہیں کر سکتی جس کے وہ مستحق ہیں۔ اسلامی تہذیب میں چاہے وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ کہ وہ تاریخ کے تمام حرکتی عناصر کو اپنے میں جذب کر لے۔ پھر یہ کیا بوالعجبی ہے کہ وہی جماعت جسے جنگ آزادی میں پیش پیش ہونا چاہییتھا پس و پیش اور حیص بیص میں مبتلا ہے ۔ اور کوئی روشن راہ عمل اس کے سامنے نہیں۔ اقبال کی بعض ابتدائی نظمیں وطن پرستی کے جذبات سے مملو ہیں اور اردو ادب میں اب تک اپنی نظیر آپ رکھتی ہیں۔ ترانہ ہندی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: سارے جہاںسے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا وہ سنتری ہمارا وہ پاسباںہمارا گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں گلشن ہے جس کے دم سے رشک جناں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم‘ وطن ہے ہندوستان ہمارا اپنی نظم ’’نیا شوالہ‘‘ میں اقبال برہمن کو یوں مخاطب کرتا ہے: پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہ خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے ’’ہندوستانی بچوں کاگیت‘‘ اس لائق ہے ہندوستان کے تمام ابتدائی مدارس میں بچوں کو یاد کرایا جائے اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا نانک نے اس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے ٭٭٭ یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیاتھا مٹی کوجس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا میرا وطن وہی ہے‘ میرا وطن وہی ہے ٭٭٭ بندے کلیم جس کے پربت جہاں کے سینا نوح نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینہ رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینہ جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا میرا وطن وہی ہے ‘ میرا وطن وہی ہے ان پران نظموں کے علاوہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں اقبال نے جہاں پیر رومی کے ساتھ فلک زحل کی خیالی سیر کا حال بیا کیا ہے وہاں ’’روح ہندوستان‘‘ کا جس پردرد انداز سے ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے وطن کی حالت زار پر اس کا دل کس قدر سوگوار ہے۔ ’’روح ہندوستان‘‘ سے ملاقات کا منظر وہ اس انداز میں بیان کرتا ہے: آسماں شق گشت و حورے پاک زاد پردہ را از چہرہ خود برکشاد در جبینش نار و نور لا یزال در دو چشم او سرور لا یزال با چنیں خوبی نصیش طوق و بند بر لب او نالہ ہائے درد مند گفت رومی ’’روح ہند است ایں نگر از فغانش سوز ہا اندر جگر‘‘ شاعر کو دیکھ کر روح ہندوستان اس طرح نالہ و فریاد کرتی آگے بڑھی: شمع جاں افسرد در فانوس ہند ہندیاں بیگانہ از ناموش ہند مردک نا محرم از اسرار خویش زخمہ خود کم زند بر تار خویش بر زمان رفتہ می بندد نظر ازتش ۱ افسردہ می سوزد جگر بند ہا بر دست و پائے من ازوست نالہ ہائے نارسائے من ازدست اپنی ایک نظم ’’شعاع امید‘‘ میں وہ ہندوستان کے متعلق یوں ذکر کرتا ہے: اک شوخ کرن شوخ مثال نگہ حور آرام سے فارغ صٖت جوہر سیماب بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب چھوڑوں گی نہ میںہند کی تاریک فضا کو جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ در ناب اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواض معانی جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں محفل کا وہی ساز ہے بیگانہ مضراب بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلمان تہ محراب اقبا ل ایک آزاد منش شخص ہے اور وہ دوسروں میں بھی آزادی کا جوہر دیکھنا چاہتا ہے۔ ہندوستان کے بعض مسلمان لیڈروں کی طرف وہ اشارہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ حکومت کے مناصب و اعزاز انہیں اس واسطے عنایت ہوتے ہیں کہ انہیںکٹھ پتلی کی طرح استعمال کیا جاسکے اور ان کے اثرات اور قابلیت کو اپنے مفاد کے لیے بروئے کار لائے: ہوا ہے بندہ مومن فسون افرنگ اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نمناک ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک اپنے اہل ملک سے اقبال اس طرح گلہ کرتا ہے: معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک بے چارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے جاں بھی گرو غیر بدن بھی گرو غیر افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے ہندی مسلمان کی موجودہ حیثیت کا نقشہ وہ ان الفاظ میں کھینچتا ہے: غدار وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن انگریز سمجھتا ہے مسلماںکو گداگر آوازہ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے ’’مسکیں د لکم ماندہ دریں کشمکش اندر‘‘ اقبال نے اپنے کلام میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر اظہار خیال کیا ہے ۔ وہ جو کچھ کہتا ہے اپنے خاص انداز میں کہتا ہے۔ اس کی ہر بات میں ایج اور انوکھا پن نظر آتا ہے‘ جو دراصل عکس ہے اس کی شخصیت کا۔ ا س نے مشرق و مغرب کے مختلف مسالک فلسفہ کا گہرا مطالعہ کیا ہے ۔لیکن اس نے اپنی خودی کو کسی مفکر کے تخیلات میں گم نہیں ہونے دیا۔ اس نے صرف انہی خیالات کو اپنایا اور جذب کیا ہے جو اس کی طبیعت کے موافق تھے۔ اس کا جوہر اصلی اس کی ہر بات میں نمایاں ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے ہمیں اس کے کلا م میں تازگی‘ قوت‘ اثر اور برجستگی محسوس ہوتی ہے۔ اقبال ان شعراء میں سے ہیجو صاحب پیغام ہوتے ہیں اور زندگی کی تنظیم خاص مقاصد کے تحت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس مختصر مضمون میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقبال نے انسان کی اجتماعی زندگی کے لیے کیا پیغام دیا ہے ۔ اگرچہ اس کا دعویٰ ہے کہ آرٹ کلیتہً زندگی کے تابع ہے لیکن باوجود اس کے کہ اگر آرٹ برائے آرٹ یا آرٹ برائے حسن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اقبال عہد جدید کا ایک زبردست صناع (آرٹسٹ) ہے۔ اس نے اپنے نغموں یا بقول خود ا کے اپنی ’’نے نوازی‘‘ سے ایک پوری قوم کو سوتے سے جگا دیا اور آمادہ عمل کر دیا۔ مسلمانان ہند کو بیدار کرکے اقبال نے پوری ہندوستانی قومیت پر احسا ن کی اہے جس کا اعتراف کرنا ہماری موجودہ نسل کے ہر فرد کا فرض ہے۔ (جامعہ مئی 1938ئ) ٭٭٭ ڈاکٹر سید عبداللہ اقبال اورسیاسیات اقبا ل نے اگرچہ سیاست کے موضوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی لیکن اس کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال کی تصنیفات سیاست کے بے شمار حقائق سے لبریز ہیں ۔ لٹریچر ان زبردست اور عامل قوتوں میں سے ہے جو قوموں کوایک زبردست ذہنی انقلاب کے لیے آمادہ کر دیتی ہیں۔ اقبال کی شاعری کو صرف شاعری ہی کے نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس حیثیت سے بھی اس پر نظر ڈالنی چاہیے کہ اس کا شاعری کے علاوہ ایک اور بلند تر مفہوم بھی ہے۔ اقبال کی شاعری اور سیاست باہم اس طرح ملی جلی ہیں کہ جس طرح دانتے کی شاعری اور فلارینس کی سیاسیات۔ در دیدہ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت اقبال ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوا جب کہ مشرق و مغرب میں زندگی اور اس کے مختلف شعبوں میں عجیب و غریب انقلاب نمودار ہو رہا تھا۔ مشرق کی جہاں گیریاں‘ جہاں ستانیاں ختم ہو چکی تھیں اور مغرب کی سیاسی فتح مندیوں کے قدم بقدم ذہن اورفکر کی فتوحات کا سکہ بھی بیٹح رہا تھا اہل مشرق اور علی الخصوص مسلمانوں کی آنکھیں مغرب کے روشن اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے تخیل سے چندھیاء جا رہی تھیں۔ ہر سمت زوال اور پستی کا احساس پیدا ہو گیا تھا اور مرعوبیت کی حد یہ تھی کہ ہر شعبہ حیات میں مغرب کی تقلید ضروری بن گئی ۔ اقبال اگرچہ استاد ان فرنگ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کر چکا تھا اور تہذیب فرنگ کے خمستان سے مدتوں تک سیراب ہوتا رہا لیکن اسے پیران مشرق کا فیض صحبت کہنے یا سعادت ازلی کی یاوری اور مساعدت کہ جس قدر یورپی افکار اور خیالات کے مطالعہ کا زیادہ موقع ملتا گیا اس کے ذہن میں مغربی انداز حیات کے خلا ف ایک شورش ترقی پکڑتی گئی۔ مغربی سیاست کے نظری اکتساب اور تجرباتی ادراک نے اقبال کو اس نظر فریب تہذیب کے دام میں پھنسنے سے بچا لیا۔ برگساں جس قدر ہر برٹ سپنسر کے خیالات کا گہرا مطالعہ کرتاجاتا تھا اسی قدر اس کے دل میں ’’مادیت‘‘ کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا جاتا تھا۔ اقبال بھی مغربی استادوں کی کتابوں سے جس قدر قریب ہوا اتنا ہی وہ ان نظریات زندگی سے بیزار ہو ا جن سے وہ لبریز تھیں۔ مشرق کی اس بے چارگی اور فکر صحیح کی اس درماندگی کے احساس نے اقبال کے نہاں خانہ دماغ میں خیالات کی ایک نئی بستی کی بنیاد رکھی جو اپنی ترکیب اور نوعیت کے لحاظ سے تو خالص اسلامی طرز کی طرح معلوم ہوتی تھی لیکن درحقیقت وہ مشرق و مغرب کے افکار کے آزادانہ مقابلے اورموازنے او ر امتزاج اور اختلاط کے بعد تیار ہوئی ہے ۔ یہ نیا فلسفہ سیاست جو اقبال کے نغموں سے دنیا میں پھیلا وہ صرف افلاطون ارسطو مشیاولی‘ ہابس‘ کانٹ اور روسو کے علم پر ہی مبنی نہ تھا بلکہ اس کی تیاری میں قرآن و حدیث غزالی اور رازی ‘ نظام الملک ‘ ابن حزم اور ابن خلدون کے خیالات سے مدد لی گئی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ عام انسانی تجربات نے بھی اس کی تعمیر وترکیب پر خاص اثر ڈالا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اقبال کی سیاست کا ایک ایسے زمانے میں جبکہ مغربی انداز خیال بے حد مقبول ہے یورپ میں بلکہ ہندوستان میں زیادہ خیر مقدم نہیںہوا۔ لیکن ہمیں ہرگز یہ فراموش نہیںکرنا چاہیے کہ اقبال جن خیالات کی تعلیم دے رہا ہے وہ ہوا اور فضا کے بالکل مخالف ہیں جنہیں وہ شاعر فردا ہونے کی حیثیت سے کل کی بجائے آج ہی سے ظاہر کر رہا ہے۔ لیکن اتنا ضرور معلوم ہو رہا ہے کہ ان تعلیمات کی صداقت کی بعض دلیلیں خود شاعر کی زندگی میں مل رہی ہیں اور دنیا اس نصب العین سیاست ی طرف خود بخود کھنچی چلی آتی ہے جو اقبال کے نزدیک اصلی اور صحیح ترین نصب العین ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جہاں اقبال کا نصب العین تقریباً وہی ہے جو اسلام کا عین منشاہے وہاں خود مسلمان اس وقت تک طوفان مغرب میں اس قدر تیزی اور شدت کے ساتھ بہ گئے ہیں کہ انہیں یہ نصب العین کچھ اجنبی سا معلوم ہوتا ہے۔ اقبال کے سیاسی فکر کا نشو و ارتقا اقبا ل کے بعض مغربی معترضین عام طور پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اقبال کا سیاسی نصب العین اکثر بدلتا رہتاہے۔ اور اس کے افکار میں اوقات کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ اسرار خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی رسالہ اتھینیم کے ایک مضمون نگار مسٹر وقار نے یہی کہا تھا کہ ’’اقبا ل کا قدم کسی ایک راستے پر نہ رہے گا‘‘ ۔ اس اعتراض کی تائید میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال کسی زمانے میں ہندوستانیت کے جذبات سے سرشار ہوتا ہے جس سے متاثر ہو کر تصویر درد‘ ترانہ ہندی‘ نیا شوالہ‘ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت جیسی قومیت آفرینی اور وطنیت سے لبریز نظمیں لکھتا ہے۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اس کے خیالات میں ایک انقلاب پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور اس وطنی عقیدت سے بیزار ہو کر بلاد اسلامیہ’’ترانہ ملی‘‘ خطاب بہ جوانان اسلام‘ شکوہ اور جواب شکوہ اور اس قسم کی سینکڑو ں ملی اور خالص اسلامی نظمیں لکھتا ہے۔ اس اعتراض کی صداقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ لیکن اس بات کا ضرور پتہ چلتا ہے کہ اقبال کے سیاسی فکر کی پختگی میں ان تجربات کا حصہ کثیر بھی شامل ہے جو اسے اوصناع و اطوار عالم کے عمیق مطالعہ سے حاصل ہوئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اقبال ایک زمانے میں وطنیت اور قومیت کے موید اور حامی تھے لیکن ان کے خیالات زیادہ تر اس کتابی علم اورمطالعہ پر موقوف تھے۔ جو انہیں مغرب کے ایسے مصنفین کی کتابوں سے حاصل ہوا جو عموماً قومیت اور وطنی عصبیت کو اپنے افکار سیاسی کا جزو لاینفک خیال کرتے ہیں۔ آج دنیا کے اکثر ارباب علم یورپ کے نظر فریب اور دل کو لبھا لینے والے تمدن سے اس قدر متاثر ہیں کہ یورپ کی ہر حجت کو حجت قاطع اور ہر خیال کو وحی ناطق سمجھتے ہیں۔ جو خیال یورپ سے اٹھتا ہے قبول کر لیا جاتا ہے۔ جوبات یورپ کی زبان سے نکلتی ہے مشرق میں اس پر درست اوربجا کا غلغلہ بلند ہو جاتا ہے مولانا شبلی فرما گئے ہیں: نکتہ شرع بافسانہ برابر بنہی یورپ ار گپ زند آں نیز مسل باشد سچ تو یہ ہے کہ تہذیب فرنگ کی تابانی کے سامنے بڑے بڑے خودی آشنا اور خود آشنا بھی آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں۔ اقبال بھی چندے اس کے دام میں گرفتار ہوئے لیکن فلاسفہ مشرق کے گہرے مطالعہ اسلام اور مشرقی تمدن کی روح کے صحیح ادراک یورپ کے سفر اور تمدن مغرب کے قریبی نظارے نے ان کو بہت جلد اس کی تابانی سے بدظن کر دیا: وائے برسادگی ماکہ فسونش خوردیم رہزنے بود کمیں کرد و رہ آدم زد یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اقبال نے جب تک یورپ کو نہ دیکھا تھا ان کے ذہن میں مغربی رجحان زیادہ تھا لیکن جب یورپ کو نزدیک سے دیکھا تو ان کے خیالات میں مغرب سے دوری پیدا ہو گئی جو اب تک قائم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقبال ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ رائے بدل لیتے ہیں۔ اور زمانے کے معمولی انقلاب کے ساتھ نیا راگ گانے لگتے ہیں۔ اقبال نے ج بسے اپنے سیاسی افکار کے لیے ایک مرکز و محور تجویز کر لیا ہے اور گرد و پیش کے تمام عامل قوتوں اورماضی و استقبال کے تمام سیاسی اور تمدنی مسائل پر غائر نظر ڈال کر اپنے لیے دائرہ فکر معین کر لیا ہے‘ اس کے بعد ان کی ساری قت اسی کی تبلیغ و اشاعت میں صرف ہو رہی ہے۔ زمانہ ہر لحاظ جو رنگ بدلتا جاتا ہے اور جر نیرنگیاں دکھلاتا ہے اقبال ان پر اسی ایک زاویہ نگاہ سے نظر ڈالتے ہیں۔ جو ان کے نزدیک معقول ترین مناسب ترین اور صحیح ترین زاویہ نگاہ ہے۔ اقبال کے سیاسی فکر کے ماخذ اقبال کے سیاسی فکر کے نشو و ارتقاء کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے اپنے چمن کی آبیاری کے لیے کن کن سرچشموں کی جانب التفات کیا ہے۔ اور ان کے تخیل کو موجودہ قالب میں ڈھالنے میں کون کون سے زبردست اثرات کارفرما ہوئے ہیں۔ دمغربی نقاد اوربعض مشرقی دوست عموماً فرمایا کرتے ہیں کہ اقبال نے بہت حد تک ولیم بلیک نٹشے اور برگساں سے استفادہ کیا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اس قول کی بنیا د صرف ایک مفروضے پر ہے کہ اقبال اور نطشے یا اقبال اوربرگساں میں بعض مقامات میں اتحاد خیال پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف معمولی سی وحدت خیال اس امر کے لیے ایک محکم ثبوت نہیں بن سکتی کہ اقبال نے تمام تر خیالات ان فلسفیوں سے لیے ہیں۔ اس سے قبل ذکر کیا جا چکا ہے کہ اقبال بہت حد تک مغربی تخیل سے نفوذ رہیں لیکن اس کے باوجود بعض مغربی مفکرین کا ستاھ ان کا بعض معاملات میں اتحاد خیال ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا ایک خاص زاویہ نگاہ ہے جس کی رو سے انہیںنطشے اور برگساں کا اندا ز خیال پسند ہے ۔ جس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ ان دونوں کے افکار میں اقبال کو اپنے خیالات کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس کی مزید توضیح اس بات سے ہو سکتی ہے کہ اقبال کو نٹشے اور برگساں سے بہت اہم معاملات میں اختلاف ہے ۔ جو اصولی حیثیت رکھتے ہیں اور جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ جو لوگ اقبال کی کتابوں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اقبا ل پر مولانائے روم کا کتنا زبردست اثر ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی تازہ تصنیف جاوید نامہ میں مولانا ئے روم کو اپنا اسی طرح رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح دانتے نے ورجل کو اپنا رہنما تسلیم کیا تھا۔ یہ بات بلا خوف تردید پیش کی جا سکتی ہے کہ اقبال نے پیر روم کے فکر روشن سے جس قدر روشنی حاصل کی ہے اتنی کسی اور گوشے سے انہیںدستیاب نہیں ہوئی: بیا کہ من زخم پیر روم آوردم مئے سخن کہ جواں تر بادہ عنی ست البتہ یہ ضرور ہے کہ مشرق اور مغرب کے علوم کے امتزاج نے اقبال کو اپنے لیے ایک نئی اور مستقل شاہراہ اختیار کرنے میں مدد ضرور دی ہے۔ عجمی عفلسف اور تصوف کو مگربی دانش و حکمت کے معیار پر پرکھا اور پھر ان کے مقابلے اور توازن کے ایک معتدل اور زندہ حکمت پیدا کی جس پر مغرب کے بجائے مشرق کا اثر زیادہ معلوم ہوتا ہے چنانچہ خود اقبال لکھتے ہیں: ’’مقام تاسف ہے کہ مغرب اسلامی فلسفہ سے اس قدر ناآشنا ہے کہ مجھے اگر اس بحث پر ایک ضخیم کتاب لکھنے کی فرصت ہوتی تو میں یورپ کے فلاسفہ کو بتلا سکتا کہ ہمارے اور ان کے فلسفہ میں کس بڑی حد تک اشتراک ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں: ’’میرا جو فلسفہ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیہ و حکما ہی کی تعلیمات کا مکلمہ ہے۔ بلکہ بالفاظ صحیح تو یوں کہنا چاہیے کہ یہ جدید تجربات کی روشنی میں قدیم متن کی تفسیر ہے‘‘۔ اقبال کا پیغام سیاسی ہے یا اخلاقی؟ تمہیدی مباحث میں اب صرف ایک بحث باقی ہے جس کی طرف اشارہ کرنا بے حد ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اقبا ل کا پیغام‘ ایک خالص سیاسی حیثیت رکھتا ہے یا اس کی بنیادیں اس سے بھی زیادہ گہری اور عمیق انسانی فطرت پر رکھی گئی ہیں ؟ عام طور پر اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اقبال کا کلام تمام تر ایک جارحانہ سیاسی مفہوم رکھتا ہے یہاں تک کہ ان کے فلسفیانہ اشعار اور شاعرانہ غزلیات کا مفہوم بھی سیاسی ہیے۔ یہ بقول مسٹر ڈکنسن کے ایک شگون نحس ہے جو فساد ‘ہلاکت اور خونریزی کا پتہ دیتا ہے حقیقت یہ ہے کہ استعمار پسند یورپ جب مشرقی اقوام میں زندگی اور احساس کی معمولی سی علامت دیکھتا ہے تو اسکے جسم میں ایک ارتعاش کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ اس کا ذہن مرعوب ہو جاتا ہے اورمشرق کی مظلومیوں کے رد عمل کا تخیل ایک انتقام کا کابوس بن کر اس کے دماغ پر مسلط ہو جاتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی نے جب مشرق کو متحد ہونے کی دعوت دی تو یورپ نے اس جنبش اور اثر زندگی کو ایک خوفناک تحریک کی شکل میں پیش کیا اور خود ہی موہوم خطرے کی خیالی تصویریں بنا بنا کر اس کو ایک مہیب صورت دے دی۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ مغرب ان زنجیروں کو ذرا زیادہ سخت اور گراں کر دے جن سے اس نے مشرق کی جان ناتواں کو جکڑ رکھا ہے۔ نکلسن ہو یا فارسٹر یاڈکنسن انہیںمشرق سے ایک ایسی گونج سنائی دی جو فطرت انسانی کے عمیق اور پختہ اداراک پر مبنی ہے جس کا اثر یقینی طور پر بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ مشرق زندگی کے اس احساس سے بہرہ ور ہو گا جس سے شعور میں ایک انقلاب پیدا ہونا بے حد یقینی ہے اور جس کے اثرات دور رس اور جس کے نتائج ہمہ گیر ہوں گے مغرب اپنی کم نگہی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ اقبال کا پیام سیاسی ہے لیکن یہ خیال اس کے محدود اور تنگ تخیل کی پیداوار ہے ۔ جس کا طول و عرض صرف مادیت ہے حالانکہ اقبال کا منتہائے نظر رباب حیات کے ان تاروں کو چھیڑنا ہے جو ارضی نہیں بلکہ آسمانی ہیں جو صرف آب و گل اور مادہ کی بستی کو متاثر نہ کریں گے بلکہ روح کی اقلیم کو مسخر کریں گے۔ ان کا اثر جغرافیہ اور تاریخ کی زمینی حد بندیوں سے کہیں زیادہ قلوب کی پہنائیوں پر ہو گا۔ اقبال خود اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’میں اس کشمکش کا جوں مفہوم لیتا ہوں وہ اصلاً اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی۔ درآں حالیکہ نٹشے کے پیش نظر اس کا سیاسی نصب العین ہے‘‘۔ پھر پیام مشرق کے دیباچے میں اس حقیقت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: ’’اقوام مشرق کو یہ محسو س کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو۔ کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے ان اللہ لا یغیر و ما بقوم حتی یغٰر واما بانفسھم کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں پرحاوی ہے اور میں نے اپنی فارسی تصنیفات میں اسی صداقت کو مدنظر رکھنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ اقبال نے جن اندرونی گہرائیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے مراد وہ کلچرل اور اخلاقی انقلاب ہے جو اقوا م کے شعور کو تبدیل کرتا ہے اور ان کے ضمیر کو ایک ایسے قالب میں ڈھالتا ہے جس سے ’’خودی‘‘ کے راگ نکلتے ہیں۔ اس کے لیے ’’کش مکش‘‘ کا عمل ضروری ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لے میں یہ عرض کروں گا کہ اقبا ل نے مسلسل اورپیہم مغرب کے کلچر اور تمدن کی اس بنا پر مخالفت کی ہے ۔ کہ اس میں عقل Intellectualism اور مادیت کے عناصر اصولی اور اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ بخلاف سا کے اقبال اپنے تمام کاموں کی بنا پر عشق پر رکھتے ہیں اور اسی ایک چیز کو کائنات کی ترقی اور صحت کا باعث سمجھتے ہیں۔ مغربی کلچر کے تمام شعبوں کے خلاف اقبال کو جو شکایت ہے وہ یہی ہے کہ اس کے تمام شعبے اسی مرض مادیت و عقلیت کے جراثیم سے متاثر ہیں جن دکی بدولت تہذیب یورپ کا وجود روز بروز کمزور ہورہا ہے مشرق جو خود فراموشی کے عالم میں جب انہی مہلک جراثیم سے متاثر ہو تا ہے تو اقبال کو رنج ہوتا ہے ان کے دل میں بے قراری اور اضطراب کے طوفان پیدا ہوتے ہیںَ یہ طوفان کچھ تو اشکوں اورکچھ نالوں کی صورت میں زبان اور آنکھوں سے منظر ستان عالم میں نمودار ہوتے ہیں ۔ یہی نالے ہیں جو پیام مشرق بانگ درا‘ جاوید نامہ اور زبور عجم کا محسوس جامہ پہن کر باہر آتے یں اوردنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ ان سب میں ہم اقبال کے مغرب کی مادہ پرستی اور روحانیت سے بیگانگی پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے دیکھتے ہیںَ اقبال کی نظر مغرب کے سیاسی استیلا سے بیگانگی پرپیچ و تاب کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں اقبال کی نظر مغرب کے سیاسی استیلا اور ملک گیری پر بھی رہتی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اسے مغرب کی روحانی علالتوں اور اس کی تہذیب میں اخلاقی عنصر کی کمی دیکھ کر رنج ہوتا ہے اور اقبا ل یہ دیکھ کر رنج میں ڈوب جاتا ہے کہ سادہ لوح مشرق بھی مغرب کے روحانی امراض سے متاثر ہو رہا ہے۔ غرض اقبال کے پیغام کا مقصد دوگانہ ہے۔ اولاً یہ کہ وہ مشرق کو اس روحانی بیماری سے بچائے دوم یہ کہ یورپ کو اس مرض مہلک سے آگاہ اور خبردار کرے۔ میں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ پیام مشرق کے باب ’’نقش فرنگ‘‘ سے خوب واضح ہو گا جس کے کچھ اشعار یہاں لکھتا ہوں: از من اے باد صبا گوئے بداناں فرنگ عقل تا بال کشودست گرفتار تراست برق را ایں بجگر می زند آں رام کند عشق اس عقل فسوں پیشہ جگر دار تر است چشم جز رنگ گل و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ در پردہ رنگ است پریدارتر است عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب ایست کہ بیمار تو بیمارتر است دانش اندوختہ ای دل ز کف انداختہ ای آہ ازاں نقد گراں مایہ کہ در باختہ ای زبور عجم میں فرماتے ہیں: بر عقل فلک پیما ترکانہ شبیخوں بہ یک ذرہ درد دل از علم فلاطوں بہ یہ اور اس قسم کے ہزاروں شعار اسی ایک امر کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ اقال کو یورپین کلچر کی روح سے سخت نفرت ہے ۔ یہ نفرت لینن‘ ایچ جی ویلز اور برنارڈ شاہ کی نفرت سے جداگانہ ہے کیونکہ یہ لوگ ہنوز اس نسخہ کیمیا کو تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کاش مغرب اقبال کی آواز کو سن سکے۔ لیکن اگر مغربیوں کو اپنی موہوم بلندی اور تفاخر کا خیال باطل ایک مشرقی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے مانع آئے توپھر وہ اپنے ہی ایک ہم وطن برگساں سے ان علالتوں اور پریشانیوں کا علاج دریافت کر لیں جو اقبال کی زبان میں یہ کہتا ہوا سنائی دے گا: نقشے کہ بستہ ای ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است اقبال کے فلسفہ سیاست کے اہم اجزا ان گزارشات کے بعد میں اقبال کے فلسفہ حیات کے اہم اجزا کی طرف توجہ کرتا ہوں۔ ایک کامل سوسائٹی اقبال کاسب سے بڑا سیاسی تخیل یہ ہے کہ وہ ایک زندہ اوربہمہ وجوہ کی کامل سوسائٹی کی تعمیر کا خواب دیکھتا ہے جو موجودہ قوانین‘ موجودہ انداز خیال‘ موجود ہ جذبا ت اور ارادوں سے بالکل جدا ہو گی۔ جس کے سب افراد مافوق الانسان ہوں گے جو خدا ئے لم یزل کے زیادہ قریب ہوں گے۔ یہ نئی سوسائٹی مساوات‘ اخوت اور یک جہتی کازندہ نمونہ ہو گی اور اس میں مادیت اور عقلیت سے پیدا شدہ خرابیاں بہ کم ہوں گی۔ اقبال کے خیال میں ایسی زندہ اور باعمل جماعت کسی ایسے نظام کی بنیادوں سے اٹھے گی جو اپنے زاویہ نگاہ میں مغربی اقوام کی طرح تنگ نظر او رکوتاہ بیں نہ ہو گی‘ بلکہ اس کا تصور‘ انسان اور کائنات کے متعلق زیادہ وسیع‘ زیادہ آزادانہ اور زیادہ روحانی ہوگا۔ اس وقت دنیا میں جس قدر ترقی پذیر نظام معاشرت و سیاست موجود ہیں۔ اقبال ان میں اسلامی نظام کو اپنے خاص نصب العین اور اپنے خاص تصور ملت کے قریب تر سمجھتاہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اقبال ایسے فلسفی اور مفکر کا کسی خاص جماعت اور قوم کو یوں سراہنا بادی النظر میں اکثر لوگوں کو عجیب معلوم ہوتا ہے بلکہ یورپ اور ہنوستان کے بعض معترضین کو اقبال کی یہ بات سخت ناپسند بھی ہوتی ہے چنانچہ مسٹر ڈکنسن فارسٹر اور نکلسن اس تصور پر بہت چین بچیں معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ خود اقبال نے اپنے ایک مقالے میں وضاحت فرما دچکے ہیں ان کا یہ تخیل کسی اندھی اور جامد تقلید اور خوش اعتقادی کا نتیجہ نہیں بلکہ عملی سہولتوں اور نظام اسلامی کے اندر ترقی پذیر ممکنات کی موجودگی نے انہیں اس یقین پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ دنیا کے بے شمار نظام ہائے زندگی میں سے اپنی زندہ اور کامل سوسائٹی کی تعمیر کے لیے صرف اسلام ہی کو بطور بنیاد عمل اپنے پیش نظر رکھیں ۔ اقبال نے اپنی ساری تصانیف میں ملت اسلام کو صرف اپنے ہی خاص زاویہ ظڑ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ور جا بجا اس قو م کو مستقبل کی بہترین قوم قرار دیا ہے۔ سب سے بڑی دلیل جو اس سلسلے میں پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں وسیع ترین انسانی برادری اور قوم کا جو خیال ملت اسلا م نے پیش کیا ہے وہ کسی اور نظام اور گروہ می نہیں ملتا اسلام کی حدود بہت وسیع ہیں۔ اس کی ماہیت غیر محدود اور لامتناہی ہے اس کا وجود زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے اور جیسا کہ اقبال خود فرماتے ہں ۲ اسلام تمام مادی قیود سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اس کی قومیت کا دارومدار ایک خاص تنزیہی تصور پر ہے جس کی تجسیمی شکل وہ جماعت اشخاص ہے جس میںپڑھنے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت قطعاً موجود ہے‘‘۔ اسلام کی قومیت کا تصور دوسری اقوا م کے تصور سے بالکل مختلف ہے ۔ اس کا اصل اصول نہ اشتراک زباں ہے نہ اشتراک وطن‘ نہ اشتراک غرض اقتصادی بلکہ اس کا اصل اصول مظاہر کائنات کے متعلق ایک اسیا تحاد خیال ہے جو سب انسانوں کو ایک رشتہ وحدت میں پرو سکتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس کے ماننے والے افریقہ کی کالی دنیا سے متعلق ہیں یا ریگستان بطحا کے شجاع عرب گنگا کی وادیوں میں بسنے والے آریا ہیں یا پامیر کے بلند کوہساروں کے مکیں۔ کوئی زمینی قید ان میں تفرقہ نہیں ڈال سکتی۔ کوئی مادی جدائی ان کو جدا نہیں کر سکتی اورکوئی نسل یا زبان کا امتیاز ان میں باہمی امتیاز کا باعث نہیں ہو سکتا۔ یہی معاشرتی قانو ن ہے جس کی وسعت اور ہمہ گیری کا اقبال کو یقین ہے اور یہی نکتہ ہے جسے اقبال سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انہی خیالات کو اقبال رموز بے خودی میں اپنے دلکش انداز میں بار بار پیش کرتے ہیںَ چنانچہ اس موضوع پر کہ چونکہ ملت اسلام کا دارومدار توحید و رسالت پر ہے اس لیے مکان Spaceکے نکتہ نگاہ سے وہ لا انتہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں ۳: جوہر ما با مقامے بستہ نیست بادہ تندش بجامے بستہ نیست ہندی و چینی سفال جام ماست رومی و شامی گل اندام ماست قلب ما از ہند و روم و شام نیست مرز و بوم او بجز اسلام نیست عقدہ قومیت مسلم کشود از وطن آقائے ما ہجرت نمود حکمتش یک ملت گیتی نورد بر اساس کلمہ اے تعمیر کرد تا ز بخشہائے آں سلطاں دیں مسجد ما شد ہمہ روئے زمین صورت ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قید مقام آزاد شو اقبا ل کے اس خیال کا یورپ میں زیادہ خیر مقدم نہیں ہوا لیکن باایں ہمہ عصبیت یورپ میں ایسے اہل دل موجود ہیں جو ان افکار کی درستی کے قائل ہیں مثلاً پروفیسر ہر گودنجے نے اسلام اور مسئلہ نسل پر مضمون لکھتے ہوئے ان تمام امور کا اعتراف کیا ہے ارو ان کے علاو ہ بے شمار دوسرے اہل قلم نے اسلام کی اس برتری کا اقرار کیا ہے۔ ملت اسلام جس طرح مکانی لحاظ سے لامحدود ہے اسی طرح زمانی میعار سے بھی اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ چنانچہ رمو ز میں لکھتے ہیں۔ ۴ گرچہ ملت ہم بیمرد مثل فرد از اجل فرماں پذیرد مثل فرد امت مسلم ز آیات خداست اصلش از ہنگامہ قالوا بلی ست از اجل ایں قوم بے پرواستے استوار از ان نزلنا ستے ما کہ توحید خدا را حجتیم حافظ رمز کتاب و حکمتیم آسماں با ما سر پیکار داشت در بغل یک فتنہ تاتار داشت خفتہ صد آشوب در آغوش او صبح امروزے نزاید دوش او سطوت مسلم بخاک و خون تپید دید بغداد آنچہ روما ہم ندید تو مگر از چرخ کج رفتار پرس زاں نو آئین کہن پندار پرس آتش تاتاریاں گلزار کیست؟ شعلہ ہائے او گل ستار کیست؟ شعلہ ہائے انقلاب روزگار چوں بباغ ما رسد گردد بہار رومیاں را گرم بازاری نماند آن جہانگیری جہاندادی نماند شیشہ ساسانیاں در خوں نشست رونق خمخانہ یوناں شکست مصر ہم در امتحاں ناکام ماند استخوان او تہ احرام ماند در جہاں بانگ اذاں بودست و ہست ملت اسلامیاں بودست و ہست عشق آئین حیات عالم است امتزاج سالمات عالم است عشق از سوز دل ما زندہ است از شرار لا الہ تابندہ است گرچہ مثل غنچہ دلگیریم ما گلستاں میرد اگر میریم ما یہی حکمت کی باتیں ہیںجو آپ نے اشعار میں سنی ہیں اقبال انہیں مدراس لیکچرز ۵ میں پیرایہ نثر میں ادا کرتے ہیں۔ دیہ خیال کہ ملت کا زمان کے نقطہ نظر سے کوئی محدود انجام نہیں اس وقت تک صحیح شکل اور قالب نہیں اختیار کر سکتا جب تک اس کے قوانین کی ہر زمانے میں ںئی تعمیر و توجیہہ نہ کی جائے۔ صرف اصول اسلامی نظام کو فرسودہ پرانا اور ناقابل عمل ہونے سے بچا سکتا ہے اور اسی کی بدولت اسلام انسانی معاشرت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ حرکت کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ چیز اسلام کااصول اجتہاد ہے جو مفکرین کو نئے نئے مسائل ے حل اور مختلف معاملات میں اصول شریعت کی زمانی تعبیر کا اختیار دیتا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اقبال ’’عالمان کم نظر‘‘ کے اجتہاد کے مخالف اور ہر کہ مہ کے اجتہاد کو ملت کے لیے بے حد مضر سمجھتے ہیں۔ غرض یہ وہ آئیڈیل سوسائٹی ہے جس کی تعمیر اقبال کی زندگی کا مقصد ہے ۔ ڈاکٹر نکلسن جنہوں نے اسرار خودی کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا ہے شکایت کرتے ہیں کہ ان خیالات میں اقبال ایک پرجوش مذہبی مسلمان معلوم ہوتے ہیں نہ کہ فلسفی ادھر ان کا ہر قول و ہر خیال ایک مسلمان کا قول او ر خیال معلوم ہوتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ مسٹر نکلسن کے اس قول کی تائید کرو یا تردید ۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں مجھے مشکل معلوم ہوتی ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ڈاکٹر نکلسن جب ان خیالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے سامنے یکایک موجودہ زمانے کی مسلمان سوسائٹی آ جاتی ہے۔ حالانکہ اقبال کی نگاہ مذہب اسلام کی ان ممکنات اور ترقی پذیر عناصرپر ہے جو اسلام کی فطرت میں موجود ہیں مگر انہیں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا اور کوئی تعجب نہیں کہ خود بقول اقبال کے مسلمانوں کی فتوحات ہی اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہوں۔ حقیقت میں اسلام کائنات کے ضمیر میں ہنوز ایک تخیل کا درجہ دکھتاہے اور فطرت کی قوتیں اپنے عمل اور رد عمل سے اس تخیل کو وجود کی شکل دے رہی ہیں۔ ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے اقبا ل کے اس تصور ملت پر عموماً اعتراض کیا جاتا ہے کہ اصولی طور پر تو اقبال کا فلسفہ عام ہوتا ہے لیکن اس کو ایک خاص قوم سے وابستہ کر دینا تنگ نظری ہے اس کا جواب خود اقبال کی زبانی سننا چاہیے۔ ’’شاعری اور فلسفہ میں انسانی نصب العین ہمیشہ عالم گیر ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کی تحصیل عملی زندگی میں کی جائے گی تو لا محالہ اس کا آغاز کسی مخصوص جماعت سے کرنا ہو گا جو اپنا ایک مستقل اور مخصوص موضوع رکھتی ہو اور جس کے حدود میں تبلیغ عملی و لسانی سے وسعت ہو سکتی ہے۔ یہ جماعت میرے عقیدے میں اسلام ہے‘‘۔ طوالت کے خوف سے اس سوسائٹی کے مختلف ترکیبی اجزا پر مفصل تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم مختصر اہم مباحث کی طرف اشارہ کر دینا مناسب نہ ہوگا۔ انسان کامل اقبال کے نزدیک ایسی سوسائٹی کے ویسے ہی آئیڈیل (مثالی) افراد کی ضرورت ہے جو اس نظام کو کامیاب بنائیں گے۔ یہ آئیڈیل افراد ایسے ہوں گے جن میں خودی کی تکمیل ہو چکی ہو گی۔ خودی اقبال کے نزدیک ایک نوری نقطہ ہے جو محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ یہی محبت خودی کی تکمیل کا باعث ہو گی اور یہی خودی ان افراد میں بے خوفی اور مردانگی پیدا کرے گی۔ خودی نظام عالم کی بنیاد ہے جس کے بغیر عناصر ترکیب نہیں پا سکتے: می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل خیزد انگیزد فند تابد دمد سوزد افروزد خرامد پر زند وا نمودن خویش را خوی خودی ست خفتہ در ہر ذرہ نیروی خودی ست چونکہ زندگی ’’خودی‘‘ کی تکمیل سے ہے اسی لیے سختی اور سخت کوشی استواری اور طاقت زندگی کی ضروریات میں سے ہیں۔ افراد جس قدر کش مکش اور تحمل و برداشت کے عادی ہوںگے اسی قدر ان میں خودی کی تکمیل زیادہ ہو گی۔ لیکن خودی کے تسلسل اور بقا کے لیے مقاصد اور نصب العین کا ہونا ضروری ہے کیونکہ زندگی جستجوئے مسلسل میں پوشیدہ ہے۔ آرزوئوں اور کوششوں کانام کامیاب زندگی ہے جب تک آرزو اور مقاصد کو حاصل کرنے کا جنون نہ ہو گا زندگی پختہ نہ ہو گی۔ زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است دل ز سوز آرزو گیرد حیات غیر حق میرد جو او گیرد حیات چوں ز تخلیق تمنا باز ماند شہپرش بشکست و از پرواز ماند اقبال ان سب اثرات کا سخت مخالف ہے جو خودی کو ذرا بھی کمزور کرتے ہیں وہ افلاطون کے گو سفندانہ فلسفہ کو اسی لیے ناپسند کرتا ہے کہ اس نے زندگی کا انجام موت کو قرار دیا ہے اقبال کے نزدیک ایسی تعلیم خودی کو کمزور کرتی ہے ۔ اور خودی کو کمزور کرنے کا حربہ ان اقوام نے ایجاد کیا ہے جو خود کمزور ہیں۔ اس لیے ان کی خواہش یہ ہے کہ طاقتور بھی کمزور ہو جائیں۔ اقبال نے ایسی تعلیم کی قباحتوں کو ایک حکایت کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ جس میں یہ دکھلایا گیا ہے کہ ایک شیر نے بکریوں کے ایک قسم کے خودی کش وعظ سے متاثر ہو کر گوشت کھانا ترک کر دیا تھا جس کے معنی’’شیر‘‘ کی موت اور تباہی کے بغیر کچھ نہ تھے: آنکہ کردے کو سفنداں را شکار ارد دین گوسفندی اختیار از علف آن تیزی دنداں نماند ہیبت چشم شرر افشاں نماند با پلنگان سازگار آمد علف گشت آخر گوہر شیرے خزف آں جنون کوشش کامل نماند آں تقاضائے عمل در دل نماند شیر بیدار از فسون میش خفت انحطاط خویش را تہذیب گفت نٹشے کی طرح اقبال بھی استیلا قوت اور جہاد کوخود کی تربیت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ نٹشے کہتا ہے کہ نیکی قوت اورہمت مردانہ کانام ہے بلکہ ہر اس شے کا نام ہے جو انسانوں میں استیلا اور قوت کے جذبات کو ترقی دے ۔ اور بدی ہر وہ چیز جو کمزوری سے پیدا ہو اقبال جہاد کو زندگی کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن کون سا جہاد۔ ساری دنیا کو غلام بنانے کیلیے نہیں بلکہ خدائی کلمہ کی تبلیغ کے لیے۔ جو الارض اور دنیا کی تسخیر کا جہاد اقبال کے نزدیک حرام ہے۔ ہر کہ خنجر بہر غیر اللہ کشید تیغ او در سینہ او آرمید اس جہاد کے سلسلے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اقبال کا مہتا مادی قوت نہیں بلکہ روحانی قوت ہے جیساکہ خود اقبال ایک مقام پر کہتے ہیں: ’’جدید سائنس سے ہمیں معلوم ہواہے کہ قوت مادی کا ہر سالمہ ہزار سال کے ارتقاء کے بعد اپنی موجودہ ہیئت تک پہنچتا ہے۔ اس پر بھی اسے دوام نہیں اور وہ انحلال قبول کر لیتا ہے۔ بالکل یہی حال روحانی قوت کا ہے یعنی فرد انسانی بے شمار فرقوں کے تنازع ور جدجہد کے بعد اس مرتبے تک پہنچا ہے اور پھر بھی آسانی کے ساتھ اختلال قبول کر لیتا ہے… اس لیے اگر اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے تو لازم ہے کہ گزشتہ زندگی میں جو تجربات حاصل ہوئے ہیں اور ماضی میں جو قوتیں اس کے ثبات میں مددگار ہوئی ہیں‘ ان سے مستقبل میں بھی کام لیتا رہے۔ اس سے معلوم ہو گ کہ میں نے تنازع اور جنگ کی ضرورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے اخلاقی ہی ہے۔ جہاد کے بعد خودی کی تربیت کے لیے تین مرحلے ہیں اطاعت ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ قطرہا دریاست از آئین وصل ذرہ با صحراست از آئین وصل باطن ہر شے ز آئینے قوی تو چرا غافل ازیں ساماں روی جب ایک فرد اطاعت اور ضبط نفس کے مراحل طے کر چکتا ہے تو پھر وہ نیابت الٰہی کی منزل میں آ پہنچتا ہے۔ اقبال اس پختہ عنصرفرد کا مل کا نائب حق کا خطاب دیتے ہیں جس کی عقیدت سے ان کا دل سرشار ہے۔ نائب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است نائب حق ہمچو جان عالم است ہستی او ظل اسم اعظم است ذات و توجیہ ذات عالم است از جلال او نجات عالم است از رموز جزو و کل آگہ بود در جہان قائم بامر اللہ بود زندگی را می کند تفسیر نو نوع انسان را بشیر و ہم نذیر ہم سپاہی ہم سپہ گر ہم امیر طبع فطرت عمر ہا در خوں تپد تا دو بیت ذات او موزوں شود مشت خاک ما سر گردوں رسید زیں غبار آں شہسوار آید پدید اقبال اس مرد میدان کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں جس کا وجود اطاعت کامل اور ضبط نفس کی تمام قیود اور امتحانوں سے کامیاب ہو کر ا س درجے تک پہنچا ہے فرماتے ہیں: اے سوار اشہب دوراں بیا اے فروغ دیدہ امکاں بیا خیز و قانون اخوت ساز دہ جام صہبائے محبت باز دہ رونق ہنگامہ ایجاد شو در سواد دید ہا آباد شو باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویاں را بدہ پیغام صلح شورش اقوام را خاموش کن نغمہ خود را بہشت گوش کن سجدہ ہائے بفلک و برنا د پیر از جبین شرمسار ما بگیر از وجود تو سر افرازیم ما پس بہ سوز ایں جہاں سازیم ما یہ ’’نائب حق‘‘ کا تخٰل اقبال کا نیا تخیل نہیں ہے بلکہ مشرق و مغرب کا پرانا تخیل ہے۔ نیٹشے کا مافوق الانسان کارلائل کا ہیرو اور گوئٹے کا Geniusاسی قسم کے افراد ہیں نیٹشے اور اقبال میں جو وحدت پائی جاتی ہے اس سے بعض مغربی نقادوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اقبال نے انسان کامل کا خیال اسی جرمن فلسفی سے مستعار لیا ہے۔ حالانکہ اقبال خود فرماتے ہیں: ’’میں نے یہ خیال نٹشے سے نہیں لیا بلکہ تصور کا ’’انسان کامل‘‘ آج سے بیس سال قبل میرے پی شنظر رہا۔ انگریزوں کو انے ایک ہم وطن فلسفی الیگزینڈر کے خیالات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ لیکن ہم دونوں میںایک فرق ہے کہ الیگزینڈر کے خیال میں حقیقت منظر ایک خدائے ممکن الوجود کی شکل میں جلوہ گر ہو گی۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ شان الٰہی ایک برتر انسان کے قالب میں جلوہ گر ہو کر رہے گی‘‘۔ اقبال نے تصور کے جس انسان کامل کی جانب اشارہ کیا ہے وہ محی الدین ابن عربی اور ابراہیم الجیلی کا انسان کامل ہے۔ افسوس کہ اندیشہ طوالت مانع ہے ورنہ یہ بتایا جاتا کہ ابراہیم جیلی کا ’’انسان کامل‘‘ اقبال کے نائب حق سے بہت مختلف ہے۔ اس کا مفصل حال اقبال کی کتاب ’’فلسفہ عجم‘‘ اور نکلسن کی کتاب Studies in Islamic Mysticismمیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے اجمالاً مگر وضاحت کے ساتھ اقبال کی کامل سوسائٹی اور کامل انسان کا حل آپ کے سامنے بیان کر دیا ہے جس کی بعض تفصیلات کو دانستہ ترک کر دیا گیا ہے۔ ساری کی ساری تسنیفات میں اقبال اس کامل سوسائٹی کے بلند مقاصد کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ نہ صرف تخیل اور فلسفہ ہی میں بلہ اپنی مختصر سی عملی سیاست کی زندگی میں بھی انہوں نے ایسے خیالات اور افکار ہی میں کی پرجوش مخالفت کی ہے جو انہٰںرا بھی اس خاص نصب العین کے لیے مضر رساں نظر آئے۔ اقبال شروع سے لے کر آج تک اس زندہ سوسائٹی کی کامیابی کے متعلق ایمان اور ایقان رکھتے ہیں اور اپنی بصیرت سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خاکی مگر خودی آشنا افراد ایک دن فرشتوں سے بھی بڑھ جائیں گے: فروغ خاکیاں از نوریاں افزوں شود روزے زمین از کوکب تقدیر ما گردوں شود روزے یکے در معنی آدم نگر از من چہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے چنان موزوں شود ایں پیش پا افتاد مضمونے کہ یزداں را دل از تاثیر اوپرخوں شود روزے اقبال کا نظریہ حکومت و خلافت حکومت اور خلافت کے متعلق اقبال نے بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ تاہم خلافت انسانی کے اہم اصول انہوں نے اپنی نظموں میں بیان کر دیے ہیں۔ اقبال ایک عادل اور موثر حکمت کے لیے ایمان اور عشق کو ضروری سمجھتے ہیں: ولایت‘ پادشاہی‘ علم اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہے فقط اک نقطہ ایمان کی تفسیریں حکومت اور سروری اقبال کے خیال میں خدمت گری کا دوسرانام ہے لیکن انسان میں حقیقی اور بے لوث خدمت خلق کا مادہ نہیںپیدا ہو سکتا تاآنکہ تما م کاموں کی بنیاد عشق پر نہ رکھی جائے اور تمام امور میں یقین اورایمان کی مشعل سے روشنی نہ حاصل کی جائے۔گویا دوسرے الفاظ میں درویشی اور سلطانی کا اجتماع ہونا ضروری ہے۔ یہاں بھی اقبال اپنے ’’انسان کامل‘‘ کو فراموش نہین کرتے۔ اور حکمرانی کے لیے عشق مصطفی کو ایک ضروری شرط قرار دیتے ہیں کیونکہ یہی عشق افراد قوم کو ایک نقطے پر جمع کر سکتا ہے اور اسی کی ذات کے ساتھ وابستگی اس پریشان شیرازے میں ایک نظم پیدا کرسکتی ہے پیام میں فرماتے ہیں: سروری در دین ما خدمت گری است عدل فاروقی و فقر حیدری ست آں مسلماناں کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند در ہجوم کارہائے ملک و دیں بادل خود یک نفس خلوت گزیں ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست روح را جز عشق او آرام نیست عشق او روزیست کو را شام نیست اقبا ل جس طرح باقی امور میں عقلی بنیادعمل کے مخالف ہیں اور عقلیت یعنی Intellectualism کو عالم انسانیت کے لیے بے حد مضر سمجھتے ہیں اسی طرح نظریہ سلطنت میں بھی انہیںعقلی بنیاد سے خاص پرخاش ہے۔ کیونکہ جو قوانین عقلیت فرسودہ دماغوںسے وضع ہوں گے ان میں انسان کی خود غرضی اور انفراد پسندی کی چاشنی ضرور پیداہو گی۔ اور ظاہر ہے کہ انسان سوسائٹی اور اجتماعی امور میں اس لیے نہیں شامل ہوتا کہ اس سے اجتماع کو زیادہ مستحکم کرنا منظور ہو تا ہ بلکہ اس کے پیش نظر صرف یہ چیز ہوتی ہے کہ سوسائٹی کے تابع رہنے سے اس کے خاص مفاد بہترین طریق سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ ۷۔ یہی وجہ ہے کہ آئین سب لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتے اور جو اقلیت غیر مطمئن ہوتی ہے وہ ان قوانین کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ پس اقبال کے نزدیک یہ صورت حالات چونکہ عقلیت کی مرہون منت ہے اس لے اس سے بچنا چاہیے اور اس کی بجائے وحی کے دیے ہوئے قوانین کی اطاعت کرنی چاہیے جاوید نامہ ۸ میں فرماتے ہیں: بندہ حق بے نیاز از ہر مقام نے غلام او را نہ او کس را غلام بندہ حق مرد آزادست و بس ملک و آیینش خدا داد است و بس عقل خود بین غافل از بہبود غیر سود خود بیند نہ بیند سود غیر وحی حق بینندہ سود ہمہ در نگاہش سود و بہبود ہمہ عادل اندر صلح و ہم اندر مصاف وصل و فصلش لا یراعی لا یخاف حاصل آئین و دستور ملوک دہ خدایاں فربہ و دہقاں چو دوک مذہب اور حکومت ’’دین اور سلطنت ‘‘ کی پرانی بحث میں اقبال اسلامی طریقے کی پر زور حمایت کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک مارٹن لوتھر مسیحیت کا سب سے بڑا دشمن تھا جس نے مذہب اور حکومت کو دو مختلف اور مستقل وجود قرار دیا ہ۔ آپ کے خیال میں مذہب اور حکومت کی مثال جسم اور روح کی ہے جن کا ربط باہمی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جن کا ایک دوسرے سے قطع تعلق موت کے مترادف ہے۔ اقبال کے اس خیال کی اس زمانے میں شاید زیادہ تائید نہ ہو سکے لیکن یورپ میں سیاسیات کے مصنفین نے سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ان مضامین پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں جن کا کامل اطلاق ان حالت پر نہیں ہو سکتا جو اقبال کے پیش نظر ہیں۔ کیونکہ قرون وسطیٰ میں یورپ کا مسیحی نظام حکومت و مذہب بالکل ایک خاص قسم کانظام تھا جس میں پوپ اوربادشاہ دونوں کو یکساں طورپر جسمانی اور روحانی بزرگ تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن اقبال کی حکومت میں جسمانی اور روحانی دو جدا ہستیان نہیںبلکہ ایک ہی شخص اور ایک ہی نظام کی دونوں ملی ہوئی ہیں۔ گلشن راز جدید ۹ میں لکھتے ہیں: تن و جان را دو تا گفتن کلام است تن و جان را دو تا دن حرام است کلیسا سبحہ بطرس شمارد کہ با او حاکمی کارے ندارد بدن را تا فرنگ از جان جدا دید نگاہش ملک و دین را ہم دو تادید خرد را با دل خود ہمسفر کن یکے بر ملت ترکان نظر کن بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند میان ملک و دین ربطے ندیدن رموز ۱۰ میں فرماتے ہیں: تا حکومت مسند مذہب گرفت ایں شجر در گلشن مغرب گرفت قصہ دین مسیحائی فسرد شعلہ شمع کلیسائی فسرد دور جدید میں ترکو ں نے یورپ کی دیکھا دیکھی مذہب اور حکومت کو الگ کر دیا ہے ۔ اقبال کے نزدیک ترکوں کی یہ تدبیر صحیح نہیں۔ اس لیے کہ یہ اس نظریہ حکومت کے خلاف ہے جس کی بنیاد عشق اور عشق مصظفیٰؐ پر ہے۔ مصطفی کمال نے یورپ کی اس چیز کوجسے خود اہل یورپ اب پرانا سمجھتے ہیں نیا سمجھ کر اختیار کر لیا ہے حالانکہ مرد مومن کو اپنی دنیا خود ہی پیدا کرنی چاہیے۔ مگر یہ قوت عمل صرف عشق ہی کی کارفرمائیوں سے ممکن ہو سکتی ہے۔ جاوید نامہ میں لکھتے ہیں ۱۱: ترک را آہنگ نو در چنگ نیست تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست جمہوریت اقبال یورپ کے جمہوری نظام کے متلعق بہت زیادہ حسن ظن نہیں رکھتے۔ ا ن کا خیال ہے کہ یہ جمہوریت بھی استبداد تسلط اور غلبہ عام کی ایک نئی شکل ہے۔ اصولی طورپر اقبال حکومت میں عوام کی مداخلت کے زیادہ قائل نہیں معلوم ہوتے اس لیے کہ ان کے نزدیک عوام سے ہر فرد کو قدرت نے مصالح حکومت کو سمجھنے کی توفیق دی ہے۔ آپ نے ایک زمانے میں خلافت اسلامیہ کے موضوع پر ایک رسالہ لکھاتھا جس میں کسی حد تک انتخاب کے طریقے کی تعریف کی تھی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ اس مسئلہ کے متعلق ان کے خیالات میں یک گونہ تبدیلی پیدا ہو گی ہے۔ آپ ایک نظام سیاست میں ایک کامل طور پر حساس فرد (Personality)کے قائل ہیں اور نٹشے کی طرح زندہ اور طاقت ور Personalityکی حکومت کو زیادہ کامیاب اور مناسب خیال کرتے ہیں۔ پیام میں آپ فرماتے ہیں: متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید گریز ار طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید روسو اگرچہ ایسی جمہوریت کا قائل تھا جس میں حریت اخوت اور مساوات بطور اصل الاصول ہوں لیکن جمہوریت کے اصولی نقائص کا اسے پورا پورا احسا س تھا۔ چنانچہ اس کا قول ہے کہ ایسی طرز حکومت تو فرشتوں کی دنیا کے لیے مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ہم انسان تو اس کے قابل نظر نہیں آتے لیکن اب یورپ میں جمہوریت کے خلاف زبردست رائے پیدا ہو گئی ہے اور بیسیوں کتابیں اس کی خرابیوں کو ظاہر کرنے سے لکھی جا رہی ہیں۔ اقبال کو سب سے بڑی شکایت اس طرز حکومت سے یہ ہے کہ اس میں قابلیت نہیں بلکہ مقبولیت معیار ہے حالانکہ ہو سکتاہے کہ اس شخص قابل ہونے کے بغیر مقبول ہو۔ اس پر اقبال کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جمہوریت گروہ بندی اور فرقہ پرستی کو ترقی دیتی ہے۔ لاسلکی اگرچہ جمہورتی کی خوبیوں کا بے حد معترف ہے۔ لیکن اسے بھی سب سے زیادہ اسی بات کا خطرہ ہے کہ یہ عوام کی مداخلت اور Franchiseکی وسعت فرقوں میں بے حد وسعت اور کثرت کا باعث ہو رہی ہے۔ جمہور کی آزادی کی لاکھ برکات ہوں مگراس میں شبہ نہیں کہ جمہور کا یہ غلبہ عام اور مطلق العنانی کسی نظام کو زندہ اورمستحکم نہیں ہونے دے گی۔ اور ارتقائے کے فطرتی اور قدرتی طریق سے معاملات کی تکمیل کی بجائے انقلاب اور سریع الوقوع تغیرات عام اور زیادہ ہو جائیں گے۔ گلشن راز جدید ۱۲ امیں اقبال نے انہی نکات کی جانب اشار ہ کیا ہے: فرہنگ آئین جمہوری نہادست رسن از گردن دیوے نہادست گروہے را گروہے در کمین است خدایش یار اگر کارش چنین است چو رہزن کاروانے در تگ و تاز نکمہا بہر نان در تگ و تاز زمن دہ اہل مغرب را پیامے کہ جمہوریت تیغ بے نیامے نہ ماند در خلاف خود زمانے برد جان خود و جان جہانے ان اشعار کے ساتھ ’’خضر راہ‘‘ کے ان اشعار کو بھی سن لیجیے: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردے میں نہیںغیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زر گری اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھاہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو قیصر ولیم اور لینن کے مکالمے میں وہ نکتہ پیش کیا ہے کہ انسانی طبیعت اطاعت پر مجبورہے خواہ وہ ایک طاقتور فرد کی ہو یا پارلیمنٹ کی۔ وہی خرابیاں جو مطلق العنان حکومتوںمیں ہیں وہی جمہوریاداروں میں بھی وارد ہو سکتی ہیں: گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست طواف اندر سرشت برہمن ہست اگر تاجے کئی جمہوری پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست ۱۳ قومیت کا تصور قومیت یا نیشنلزم کے متعلق اقبال کے عقائد اس قدر واضح اور صاف ہیں کہ ان پر طویل تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ جو لوگ اقبال کے نطہ نظر سے مطابق عالم گیر برادری اور وسیع انسانی اخوت کے تخیل کو سمجھتے ہیں وہ اقبال کانیشنلزم کی اس شدید مخالفتمیں ضرر حق بجانب سمجھتے ہوں گے۔ خود یورپ اس فرقہ پسندی سے تنگ آ چکا ہے اور اس جماعت تراشی سے بھاگ کر جمعیت الاقوام کی تخیل میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ اگرچہ اقبال اس کی ان کوششوں میں کامیابی کے متعلق بھی یقین نہیں رکھتے اور اس بظاہر یونیورسل نظام کو کفن چوروں کی انجمن کا خطاب دیتے ہیں۔ کیونکہ اس کا متنہا بھی وہی مادیت ہے جس کے خلاف اقبال نے اپنی زندگی صرف کر دی ہے۔ بلکہ ا س سے بھی زیادہ یہ کہ لیگ آف نیشنز کی پے در پے ناکامیاں اور طاقتور اقوام کا اس کے نظام پر تسلط اقبال کو بدظن کر دیتا ہے اور اس بدظنی کے لیی اس کے پاس موجودہ ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لیگ ابھی تک کمزوروں کی حفاظت نہیں کر سکی اور Disarmamentیا تخفیف اسلحہ کی کوششین بقول ریمزے میور Armament (اسلحہ اندوزی) پر ختم ہو رہی ہیں۔ لیگ کی اس ناکامی کا سب سے بڑا سبب بھی نیشنلزم ہی ہے۔ جس طرح کہ دور جدید کی لڑائیوں کا اصلی سبب نیشنلزم ہی ہے ہندوستان کے اکثر حضرات جب اقبا ل کو نیشنلزم کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ بہت برہم ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے غلط فہمی کی وجہ سے اقبال کے خیالات کا صحیح اور گہرا مطالعہ نہیںکیا۔ ورنہ انہیںمعلوم ہوتا کہ اقبال نیشنلزم کی مخالفت نہیںکرتے کہ انہیں آزادی پسند نہیں کیا یا غلامی کو محبوب سمجھتے ہیں بلکہ اس کی محرک بعض اور چیزیں ہیں جن کے متعلق اجمالی طور پر عمر بھر افراد اور ملتوں کو خودی کا سبق پڑھایا۔ جس نے بندگی نامہ لکھ کر یہ ثابت کیا کہ بندگی اور زندگی دو مخالف چیزیں ہیں۔ جس نے انسانوں کو عام حریت عام اخوت عام انصٓف اور عام رواداری کا پیغام دیا اس کے متعلق مہربانان وطن اپنے دلوں میں یہ خیال جاگزیں کر لیں کہ ان عام انسانی جذبات سے بھی نفرت ہے جو بقول روسو کیڑے میں بھی موجودہیں اور جن کے بغیر کوئی سیرت مکمل نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال ایک یونیورسلیسٹ ہیں پس وہ ہر چیز جو اس خاص نصب العین سے ٹکرائے گی وہ اس کی مخالفت کریں گے۔ یہی یونیورسلزم کی عام تبلیغ ہے جسے بعض دوست پین اسلامزم کے نام سے موسوم کرتے ہیں حالانکہ اقبال پین اسلامزم کو بھی ایک ناقص اور محدود تدبیر سمجھتے ہیں۔ یہ غلط فہمی اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ اقبال جا بجا مسلمان اقوام کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اوروطن اور نسل کے امتیاز سے دوری کی تعلیم دیتے ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلامی تعلیم و تربیت کے صدقے میں صر ف مسلمان اقوام ہی اس تعلیم کو بہ آسانی سمجھ سکتی ہیں۔ باقی اقوام نیشنلزم سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ اس یونیورسل اپیل کو Utopiaسمجھیں گی یا اسے اپنے تسلط کے منافی سمجھیں گی۔ اقبال نیشنلزم کے ہر اس تصور کا شدید مخالف ہے جس کا معیار وطن رنگ نسل اور زبان سے ہو۔ رینان کا یہ مقولہ کہ اسلام اور سائنس باہم متناقض ہیں صحیح نہیںکیونکہ اصل میں اسلام اور نسلی امتیاز باہم متناقض ہیں۔ اقبال خود ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’میں نے جب یہ محسوس کیا کہ قومیت کا تخیل جو ہر نسل و وطن کے امتیازات پر مبنی ہے دنیائے اسلام پر بھی حاوی ہوتا جاتاہے اور جب مجے یہ نظر آیا کہ مسلمان اپنے وطن کی عمومیت اور عالمگیری کو چھوڑ کر وطنیت اور قومیت کے پھندے میں پھنستے جاتے ہیں تو بحیثیت ایک مسلمان او ر محب نوع انسان کے میں نے انا فرض سمجھا کہ میں ارتقائے انسانیت میں نہیں ان کے اصلی فرض کی طرف توجہ دلائوں گا۔ اس سے انکار نہیں کہ اجتماعی زندگی کے ارتقاء اور نشوونما میں قبلیلے اور قومی نظامات کا وجودبھی ایک عارضی حیثیت رکھتاہے۔ اوراگران کی اتنی ہی کائنات تسلیم کی جائے تو میں انکا مخالف نہیں لیکن جب انہیں انتہائی منزل قرار دیا جائے تو مجھے ان کے بدترین لعنت قرار دینے میں مطلق تامل نہیں‘‘۔ اس بحث کو زیادہ طول دینے کے بغیر میں چاہتا ہوں کہ آپ کی توجہ اقبال کے ان سینکڑوں اشعار کی طرف مبذول کروں جن میں اقبال نے نیشنلز م کی مخالفت کی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی قوم یعنی انٹرنیشنلزم بلکہ یونیورسلزم میں اعتقاد دکھنے والی وم کو ان جغرافیائی ارو غیر فطری قیود دے احتراز کرنے کی تلقین کی ہے۔ وطنیت کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس میں لکھتے ہیں: اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سایست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے ان اشعار اور سینکڑوں دوسرے ترانوں کو ریمزے میور کی ایک مختصر سی کتاب The Political Consequences of Warکے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو ان فقرت کی صداقت پر مزید یقین ہو جائے گا۔ سوشلزم اور سرمایہ کے موضوعپر اقبال نے نہایت صاف انداز میں اظہار خیال کیاہے ۔ اقبال مزدور کا حامی ہے سرمائے کی مضرتوں اورناانصافیوں کا دردناک حال نہایت شیریں اور دلگداز لفظوں میں ظاہر کرتا ہے قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور اور خضر راہ کے معرکتہ الآرا بند میں جہاں سرمایہ دار کی شاخ نبات کا ذکر ہے اس بلیغ پیرائے میں مزدور کی محکومی اور مجبوری کا اظہار کی اہے کہ ایک شخص بادی النظر میں اقبال کو سوشلسٹ سمجھنے لگتا ہے۔ لیکن اقبال جس طرح باقی تخیلات میں مستقل راہ اور رجحان رکھتا ہے اسی طرح اس معاملے میں بھی وہ ان مسائل کو اپنے خاص نصب العین کے معیار پر پرکھتا ہے ۔ چنانچہ جاوید نامہ میں سید جمال الدین افغانی کی زبانی جن اسرار کا اظہار کی اہے وہ خاص غور ک قابل ہیںَ افغانی پہلے تو یہ بتلاتے ہیں کہ قیصریت کی شکست‘ سود کی مذمت‘ زمین پر خدا کا قبضہ تمام انسانی برادری کی مساوات وغیرہ میں مسلمان اور روسی متحد الخیال ہیں لیکن اگرفرق ہے تو صرف اس قدر کہ روسی کے تصور کی بنیاد ’’شکم‘‘ پر ہے اور و ح کی ترقی کے بجائے اس کا منتہائے نظر ’’جسم‘‘ ہے روس کی تہذیب لاکھ مدح کے قابل سہی لکن چونکہ ا س میں ذکر حق کی کمی ہے اس یے اس سے بھی احتراز لازم ہے۔ کارل مارکس کے متعلق اظہار رائے کرتے ہوئے لکھتے ہیں: صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل ز آنکہ حق در باطل او مضمر است قلب او مومن دماغش کافر است غریباں گم کردہ اند افلاک را در شکم جویند جان پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جز بہ تن کارے ندارد اشتراک دین آں پیغمبر ناحق شناس بر مساوات شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ در آب و گل است اقبال سوشلزم کو وسیع انسانی برادری کی تعمیر اور ترکیب کے لیے اتنا مضر نہیں سمجھتے جتنا نیشنلزم کو۔ مگر سوشلزم کوبھی روحانیت کے بغیر ناقص خیال کرتے ہیں میرا خیال ہے کہ اب تک میں یہ ظاہر کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہو ںکہ اقبال موجودہ تمدن اور اس کے مختلف شعبوں میں کس قسم کا انقلاب پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی نگاہین دیکھ رہی ہیں کہ فرنگی تہذیب خود اپنے ہی خنجر سے خودکشی کر رہی ہے اور مغرب خود اپنی ہی تلوار کے زخموں سے گھائل ہو رہا ہے۔ ایشیا کی تاریخ کے زبردست انقلاب کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اسلیے اہل ایشیا کا فرض ہے کہ اس ستخیز میں دیدہ بینا اور گوش شنوا سے کام لیں اور اپنے آپ کو ان مضرتوں سے محفوظ کر لیں جو یورپ کی ہلاکت کا باعث ہو رہی ہی ۔ جس طرح روسو اور والٹیر کا لٹریچر فرانس میں ایک زبردست تبدیلی اورہیجان کا پیش رو تھا اسی طرح اقبال کا لٹریچر ایشیا میں ایک عظیم الشان ذہنی قیامت کا پیغامبرثابت ہو گا۔ جس کے آثار روزبروز زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں: انقلابے کہ نہ گنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ہیچ ندانم کہ چساں می بینم خرم آن کس کہ دریں گرد سوارے بیند جوہر نغمہ ز لرزیدن تارے بیند (ہمایوں لاہور مئی 1933ئ) حواشی و حوالہ جات ۱۔ معارف اکتوبر 1931ء ص 386(ماخوذ از رسالہ Quest) ۲۔ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر۔ ص 9 ۳۔ رموز ۔ 45 ۴۔ رموز 53 و ما بعد ۵ ۔ Lecture on the Principles of Movement in the Structure of Islam ۶۔ معارف (محولہ بالا) ماخوز اذ Quest ۷۔ The Ehtical Basis of the State, Vailid Chapter iii, iv۔ ۸۔ ص 78 ۹۔ ص 217 ۱۰۔ ص 49 ۱۱۔ جاوید نامہ ص 72 ۱۲۔ ص 233 ۱۳۔ پیام 250 ٭٭٭ مرزا سلطان احمد زندگی اور مقاصد ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم یہ سوال کہ زندگی کیاہے اور زندگی سے کیا مراد ہے؟ جیسے کہ بڑادلچسپ اور دلآویز ہے ایسے ہی پیچیدہ اور اہم بھی ہے ۔ زندوں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ایسے سوالات کے باوجود زندہ ہونے کے غور کرنے کے عادی ہیں۔ گو سب زندہ مخلوق بہ حد کمال زندگی کی خواہا ں یا زندگی کی مشتاق ہے۔ لیکن اگر اس سے یہ پوچھا جائے کہ جس زندگی کے تم اس قدر مشتاق اور خواہاں ہو وہ ہے کیا؟ تو اکثر کا جواب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں ایک وقت تک رہنا یا کھانا پینا اور چلنا پھرنا یا کسی حد تک کچھ اور احساس اور ادراک کا ہونا۔ بعض کا یہ جواب بھی ہو گا کہ ہم اس سوال کاجواب تو نہیں دے سکتے لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ہم اس دنیا میں ایک بڑے عرصہ تک زندہ یا موجود رہیں۔ گوکہ زندگی کی نعمت انسان کے واسطے اس دنیا میں ایک عارضی اور غیرمستقل سرمایہ ہے لیکن ہر زندہ مخلوق فطرتی اقتضا کے مطابق چاہتی یہی ہے کہ اس کی زندگی کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہ ہو یا یہ کہ بہت ہی لمبا چلا جائے۔ گو کہ بعض وقت انسان بعض مشکلات کے عائد ہونے کی وجہ سے تنگ آ کر خود کشی پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔ اور اس بار کو اتار دینا ضروری خیال کرتا ہے۔ لیکن باوجود ان نظائر کے بھی زندہ مخلوق جو کچھ زندگی سے چاہت اور محبت رکھتی ہے۔ وہ زندگی کی قدر و منزلت اور قمت کو بہت کچھ بڑھا دیتی ہے۔ خود کشی کرنے والا دراصل زندگی اور زندگی کی دلآویز روش سے بیزار نہیںہوتا اورنہ ایسی زندگی اسے خود کشی پر آمادہ کرتی ہے‘ بلکہ جو مشکلات اسے نرغہ میں کر لیتی ہیں ان سے رہائی پانے کی خاطر درآنحا لیکہ ان کا دفعیہ کا کوئی علاج نہیں پاتا‘ ایک سبیل نکالتا ہے۔ اگر پیش آمدہ مشکلات کا سلسلہ ٹوٹ جائے یا ان کا کوئی دارو نکل آئے تو زندگی سے نفرت گزیں نہیں ہو گا۔ گو ایسی مشکلات انسان یا دیگر زندہ مخلوق کو ایک تکلیف اور تذبذب میں ڈالتی ہیں لیکن باایں ہمہ انسان زندگی کی محبت اور الفت اپنے دل و دماغ اور جذبات سے دور نہیں کر سکتا۔ مشکلات میں بھی امید بندھی رہتی ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ شاید کسی مرحلہ پر یہ دکھ اورم ایوسی دور ہو جائے اور جو لذت زندگی کی مزعومہ ہے وہ واپس آ جائے۔ جج جن ملزموں کو پھانسی کا حکم سناتا ہے وہ اپیل کے اخیر دنوں یا اخیر منٹوں تک بھی بریت یا رہائی کی امید میں دم واپسیں لیتے ہیں۔ مگر امید کی کرنیں بھی اس دھندلے میں کبھی کبھی مطلع صاف دکھانے میں کوئی کسر نہیں کرتیں: مشکل سے لب پہ آہ جہان سوز لائے ہم دل میں کوئی امید مگر سد راہ تھی مسٹر ہربرٹ سپنسر کہتے ہیں کہ زندگی گردوپیش کے حالات کے ساتھ موافقت کرنے کا نام ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبال فخر پنجاب و فخر قوم کاقول ہے کہ زندگی کی تخلیق پیہم یعنی مقاصد تازہ کی دوامی آفرینش ہے۔ ان دونوںقیاسات میں جو فرق جو جامعیت ہے وہ غور کرنے والوں سے پوشیدہ نہیں رہے گی۔ مسٹرہرفرٹ سپنسر کا قیاس یا قول وہ جامعیت نہیں رکھتا جو زندگی گردو پیش کے حالات کے ساتھ موافقت پیدا کرنے کا نام ہے گویا زندگی اور گردوپیش کے حالات دو جداگانہ اشیاء یا کیفیات ہیں۔ زندگی کے واسطے لازمی اور لابدی ہے کہ ان گردوپیش کے حالات سے موافقت پیدا کر لے۔ اگر موافقت پیدا نہیں کی جائے گی تو زندگی زندگی نہیں رہے گی۔ دوسرے الفاظ می مطلب اس کا یہ ہواکہ جو انسان یا جو زندگی ایسا نہیںکرتی یا ایسا کرنے پر قادر نہیں وہ صحیح معنوں میں زندگی کا لطف نہیں اٹھا سکتی یا ایسی زندگی ان حالات میں زندگی کہلانے کی مستحق نہ ہو گی۔ مسٹر ہر برٹ کی یہ توجیہ درست نہیں کوئی ایسی زندگی نہیں ہے جو گردوپیش کے حالات سے موافقت کرنے کے لیے کوشان نہ ہو۔ یہ جدا با ت ہے کہ اس کا طریق عمل بوجوہ مکمل اور سلیم نہ ہو۔ ہر زندگی خواہشمند ہے کہ گردوپیش کے حالات جب الٹ جائیں یا ان تک دسترس نہ ہو تو پھر زندگی کا کیا قصور ہے اور یہ ضروری ہے کہ کل حالات کے گردوپیش سے زندگی یا زندگیاں موافقت پیداکر سکیں یا ہر ایک حالت سے ایسی موافقت ضروری ہو۔ بہت سے ایسے واقعت ہیں جو ہماری زندگیوں کے گرد و پیش ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے چند واقعات ہی ہمارے مناسب ہوتے ہیں۔ یہ جدابات ہے کہ زندگی یا زندگیوں کے وہ مناسب حال ہوں لیکن مسٹر موصوف کے الفاظ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ: ’’ہر زندگی کو ان گردوپیش کے واقعات اور حالات سے موافقت کرنی چاہیے کہ جن کا وہ ادراک اور احسا س کرتی ہے۔ یا تمام ایسے واقعات اور حالات سے جو اس کے گردو پیش ہیں خواہ وہ ان کا احساس کرتی ہیں یا نہیں‘‘۔ جو زندگی ایسا احساس ہی نہیںرکھتی وہ کس طرح موافقت کر سکتی ہے۔ اور یہ موقع اس کے حصہ میں کس طرح ا ٓ سکتا ہے۔ دوسرے یہ بھی کہا جائے گاکہ مسٹر ہربرٹ کے قول کے مطابق زندگی بذاتہ کوئی حس اور قوت نہیں رکھتی ہے۔ اس کا مدار صرف واقعات اور حالات گردوپیش ہی سے وابستہ ہے۔ اگر فی الواقعۃ یہ مطلب ہے تو پھر ایسی زندگی نہ ہوئی۔ بلکہ ایک بے حس جذبہ ہوئی کہ مسٹر ہربرٹ کے قول میں زندگی کو چند حالات اور چند واقعات گردوپیش سے وابستہ کر کے محدود کر دیا گیا ہے جب تک ایسے واقعات اور چند حالات رہیں گے تب تک وہ بھی رہے گی ورنہ اس کا بھی خاتمہ ہے اور جو حالت یا جو کیفیت اسے ان حالات میں بھی حاصل ہو گی وہ بھی عارضی ہو گی نہ کہ دوامی۔ اور یہ قرار کرنا پڑے گا کہ زندگی درحقیقت محض چند روزہ ہے اسے قیام نہیں اور نہ ایک حالت سے دوسری حالت قبول کر سکتی ہے۔ یہ اس قول اور مسلمہ کے منافی ہیں جو مذاہب پیش کرتے ہیں۔ یا جن کا بعض مشاہیر فلاسفر نے بھی اعتراف کیا ہے ۔ ڈاکٹر محمد اقبال کی تعریف میں وہ خوبی اور جامیعت ہے جو ہربرٹ سپنسر کے قول میں نہیں ہے۔ جس کی تشریح ایک خوبی کے ساتھ ڈاکٹرموصوف نے شعر مندرجہ عنوان میں کر دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: ’’زندگی یا زندگی کی جڑ آرزو یاخواہش ہے اور زندگی کا دارومدار آرزو اور خواہش پر ہی ہے۔ تخلیق مقاصد اور زندگی مترادف الفاظ ہیں ۔ جس شخص اور جس قوم کے دل میں نئی نء خواہشیں او رمقاصد نہیں پیدا ہو سکتے یا نہیں پیدا ہوتے وہ شخص یا وہ قوم مردہ ہے اور تخلیق مقاصد اور ان کی آفرینش دوامی ہے ۔ یہ باتیں اور یہ جامعیت مسٹر ہربرٹ سپنسر کی تعریف میں نہیں ہے‘‘۔ قبل اس کے کہ ہم اس جامعیت کی تفصیل درج کریں وہ چند شعر پیش کرتے ہیں جو حضرت ڈاکٹر اقبال کی ایک جدید مثنوی سے لیے گئے ہیں۔ حضرت اقبال فرماتے ہیں: دل ز سوز آرزو گیرد حیات غیر حق میرد چو او گیرد حیات چوں ز تخلیق تمنا باز ماند شہپرش بشکست و از پرواز ماند عقل ندرت کوش و گردوں تاز چیست ہیچ می دانی کہ ایں اعجاز چیست زندگی سرمایہ دار از آرزوست عقل از زایندگان بطن اوست چیست نظم قوم و آئین و رسوم چیست راز اختراعات علوم آرزوئے کو بزور خود شکست سر ز دل بیروں زد و صورت بہ بست دست و دندان و دماغ و چشم و گوش فکر و تیل و شعور و یاد و ہوش زندگی مرکب چو در جنگاہ باخت بہر حفظ خویش ایں آلات ساخت اے ز راز زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز مقصدے مثل سحر تابندہ ماسویٰ را آتش سوزندہ مقصدے از آسماں بالا ترے دلربائے دلستانے دلربے باطل دیرینہ را غارت گرے فتنہ در جیبے سراپا محشرے ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم ہم مختصر طور پر بحث کریں گے ورنہ ہر شعر بڑی تفصیل چاہتا ہے۔ اور ہر شعر کے مطالب پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ہر شعر میںشاعر نے نکات عالیہ اور مقاصد اہم کو جس خوبی اور جس سادگی سے اور جس جامعیت سے باندھا ہے وہ اسی کا حصہ ہے گویا دریا کو کوزہ میں بند کر کے دکھایا ہے۔ ناظرین خود انصاف فرما سکتے ہیں کہ مسٹر ہربرٹ سپنسر کے بیان اور اقبال کے بیان میںکیسا اور کس قدر فرق ہے ۔ اقبال کا بیان اقبال کا استدلال ان واقعات ان کیفیات ان مقاصدکے تابع ہے جن کا منبع فیضان الٰہی ہے۔ مسٹر ہربرٹ نرے فلسفہ کے خوشہ چیں ہیںَ حضرت اقبال اس بحر نا پیدا کنار کے غواص ہیں کہ دہانہ وہ چشمہ ہے جو چشمہ محمدیؐ کے نام سے موسوم اور ملقب ہے اور جس چشمہ کی شاخیں نہ صرف اس دنیا کی سرزمین میں ختم ہو جاتی ہیں بلکہ جس کی شاخیں اور شعبے آنے والی زندگی کی حدود سے بھی جا نکلتے ہیں۔ مسٹر ہربرٹ صرف فلسہ مادی سے آشنا تھے اور حضرت اقبال نے فلسفہ روحانی سے بھی استفادہ کیا ہے: بین تفاوت رہ از کجاست تا بکجا سوال یہ تھا کہ زندگی کیاہے؟ اور زندگی سے مراد کیا ہے؟ موٹے یا عام الفاظ میں زندگی سے مراد ایک نہیں بلکہ مختلف مفہوم یامختلف مرادیں ہیں کیونکہ اگر انسان اپنی زندگی کی تعریف چاہے تو ان الفاظ میں کرے گا: ’’جس مخلوق میں قوت ارادی چلنے پھرنے‘ کھانے پینے‘ سمجھنے بولنے‘ نطق کی طاقت ہو وہ ایک زندہ انسان ہے یا یہ کہ وہ زندگی رکھتا ہے۔ جب ان امور کا سلب ہو جائے تو کہا جائے گا کہ وہ مردہ ہے یا زندہ نہیں ہے‘‘۔ انسان کے سوائے پرند‘ درند اور چرند یا دیگر حشرات الارض اپنی اپنی زندگی کی تعریف کریں گے تو یہ کہیں گے کہ جو اجسام جو خلقتیں چلتی پھرتی کھاتی پیتی اپنے اپنے رنگ میں غوں غاں کرتی ہیں وہ سب زندہ ہیں‘‘۔ جاندا ر کے سوا دوسری مخلق بھی ایک قسم کی زندگی رکھتی ہے۔ جیسے جانداروں کی زندگیاں معرض زوال میںآ جاتی ہیں ایسے ہی ان کی مختصر زندگیاں بھی زوال پذیر ہیں۔ اس کائنات میں جس قدر چیزیں پائی جاتی ہیں وہ کسی نہ کسی رنگمیں زندہ ہیں یا زندگی رکھتی ہیں۔ اگرچہ ان کی زندگیاں یا سرمایہ زندگی انسانی زندگیوں سے ایک بڑی حد تک متغائر ہے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ زندگی نہیں رکھتیں۔ اگر انسان بوجہ زندہ ہونے کے بڑھتا اور پھلتا پھولتا ہے تو نباتات اور جمادات میںبھی برنگ خود ایسی طاقت پائی جاتی ہے۔ اگر انسان کسی وقت یا کسی حد پر آ کر ٹھہر جاتا ہے اور اس کی قوتین پست پڑ جاتی ہیں اگر انسان کسی وقت یا کسی حد پر آ کر ٹھہرجاتا ہے اور اس کی قوتیں پست پڑ کر زائل ہونے لگتی ہیں تو دوسری کائنات کا بھی یہی حال ہے۔ زندگی دراصل نام موجودگی اور حسیات کا ہے۔ اگر انسان میں چند باتیں پائی جاتی ہیں تو دوسری مخلوق میں بھی اس سے خالی نہیں ہے۔ ہر خلقت اپنے رنگ میں ایک طاقت اور ایک حس رکھتی ہے۔ جب تک وہ باقی رہتی ہے تو اسے موجود اور بقید زندگی کہا جاتاہے ۔ جب وہ باقی نہیں رہتی تو اسے زندہ نہیں کہاجا سکتا۔ یہ وہ تعریف ہے جو عام طورپر زندگی کی کی جاتی ہے۔ لیکن یہ تعریف ایسی جامع نہیں کہ جس کو ایک مختتم تعریف کہا جائے حضرت اقبال فرماتے ہیں: ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم ہم کیسی زندگی رکھتے ہیں جو مختلف مقاصد سے وابستہ ہے۔ ایسے مقاصد جو دراصل مایہ زندگی یا خود زندگی ہیں۔ اگر ایسے مقاصد نہ ہوں تو ہم زندہ ہی نہ رہیں۔ بلکہ مردہ۔ ہم میں زندگی کی رمق اور مایہ صرف اس لیے نشوونما پا رہاہے کہ ہم آفتاب آرزو اپنے اندر رکھتے ہیں جو انواع و اقسام کے رنگوں اورقالبوں میں طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ اگر اس آفتاب آرزو کی کرنیں اور اشعار ہ ہوں تو ہماری زندگی کوئی قیمت نہ رکھے۔ بلکہ یہ کہ محض فن ہو آدمی فنا کب ہوتا ہے۔ جب اس کی حسیں اور اس کے جذبات ماند پڑ جاتے ہیں۔ کب کہتے ہیںکہ وہ سو گیا جب اس کی حسیا تمر جاتی ہیں حسیات اور جذبات ہی زندگی کا ماحصل کیاہے۔ مقاصد ‘تمنا‘ آرزو‘ احساس‘ ادراک یہ وہ عناصر ہیں کہ جو زندگی اور زندگی کے وسائل یامراحل ہیںَ جیسے کوئی آزاد منش جو کوئی حس نہیںرکھتا۔ جس کا دل اور دماغ کوئی کام نہیںکرتا۔ جس کے جذبات مردہ ہیں دراصل وہ انسان زندہ نہیں ہے بلکہ مردہ ہے۔ صرف دم کا آ جانا زندہ ہونا یا زندگی نہیںہے۔ زندگی وہی ہے جو اپنے ساتھ مقاصد کا سلسلہ‘ علوخیالی اور بلند عزم رکھتی ہو۔ جب کوئی زندہ مخلوق ہجوم مقاصد سے دور اور تخلیق آرزو سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کی زندگی کے پر پرزے جھڑ جاتے ہیں اور وہ محض بے کار ہو کر صرف سانس بھرنے کا کھیل رہ جاتی ہے۔ جیسے کہ حضرت اقبال فرماتے ہیں: چوں ز تخلیق تمنا باز ماند شہپرش شکست و از پرواز ماند بعض لوگ کہتے ہیں: خدایا وہ دل دے جو بے آرزو ہو یہ حقیقت کے خلاف ہے ب ایسا دل حاصل ہوتا ہ تو وہ زندہ نہیںرہتا۔ بلکہ زندگی کی منزل سے گر کر فنا ہو جاتا ہے۔ تخلیق تمنا برا عمل نہیں عدم تخلیق برا عمل ہے۔ فرض کرو ایک شخص ایک قوم کوئی تمنا ہی نہیں رکھتی پھر وہ کیا رکھتی ہے۔ کیا اس کو زندہ کہاجائے گا۔خیالات کا ہجوم تمنائوں کا نرغہ کب ہوتاہے جب انسان دنیامیں رہنے کے واسطے مختلف راہوں میں تلاش میں لگ جاتا ہے۔ جب یہ جوش یہ ولولہ نہیں رہتا تو انسان انسان نہیں رہتا بلکہ کچھ اور ہو جاتا ہے: ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیںہوتا کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ دل نہیں ہوتا وہ شخص وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جو مقاصد مدنظر نہیں رکھتی یا جس کا کوئی اصول یا مطمح نظر نہیں ہوتا۔ ایسی قوم مردہ ہے اور اس قابل ہے کہ بڑی دنیا کی زندہ منڈی میں سے حکماً باہر کر دی جائے۔ دنیا جائے تنازع للبقا ہے اس مرحلہ میں تخلیق مقاصد اوراخذ مقاصد کی ضرورت مقدم ہے۔ اور اس ضرورت کے پورا ہونے ارو ایفاء سے قومیں بنتی ہیں اورترقی یاب ہوتی ہیں۔ اور انہی کے سلب سے قوموں کا شیرازہ بکھرتا ہے۔ اقبال‘ احترام عزت و شہرت اور علوم و فنون کی رونق اور اختراع اس سے ہوتا ہے۔ بقول حضرت اقبال: عقل ندرت کوش و گردوں تاز چیست ہیچ می دانی کہ ایں ایجاز چیست زندگی سامایہ دار آرزو است عقل از زایندگان بطن اوست چیست نظم قوم و آئین و رسوم چیست راز اختراعات علوم ان سب سوالات کایہی جواب ہو سکتاہے کہ ان سب امور اورمقاصد کا مداور اور تمنا آرزو پر ہے ۔ جب تک یہ نہ ہو کوئی حقیقت وقوع پذیر نہیں ہو سکتی ہے اور نہ یہ کہاجا سکتا ہے کہ کوئی شخص زندہ ہے یا کوئی قوم زندگی رکھتی ہے اور زندوں میںاس کی بھی کوئی حقیقت اورکوئی شمار ہے۔ وہ قومیںاور اشخاص جو مقاصد زندگی یا ضروریات زندگی سے بے خبر اور لاپروا ہیں ان کی شان میں حضرت اقبال فرماتے ہیں: اے ز راز زندگی بیگانہ خیز از شراب مقصدے مستانہ خیز اٹھو اور دنیا کی دوسری قوموں اور دوسرے گروہوں پر نظر غائر سے غور کرو اورفیصلہ کرو کہ ان میں اور تم میں کیا فرق ہے اور کیسی یا کیا کمی ہے ۔ جب کوئی شخص یا کوئی قوم مقاصد کی لے میں اٹھتی ہے اور تمنائوں کی تلاش میں سالک ہوتی ہے۔ تو اس وقت خداوند کریم اس پر فتوحات اورکامیابی کے دروازے کھول دیتاہے۔ اور شاہین عقل زمین و آسمان کی حکمتوں کے شکار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور معاملات تصورات کے بطن س نکل کر تصدیقات اور اصلیت کے روپ میں صورت پذیر ہونے لگتے ہیں۔ بقول حضرت اقبال: آرزوئے کو بزور خود شکست سر ز دل بیروں زد و صورت بہ بست آرزو کیا ہے تمنا کیا ہے وہ مواد اور وہ سرمایہ جس سے ہزاروں صورتیں متمثل اور صدہا شکلیں متشکل ہوتی ہیں۔ اور حضرت انسان کے واسطے مشکلات میں پشت پناہ تکالیف میں تکیہ گاہ مصاعب میں مددگار ازلی مصائب میں معین صمدی ثابت ہوتی ہیں۔ اور انسان کو پتہ لگتا ہے کہ قدرت نے اس کے اندرونہ میں کیا کچھ بھر رکھا ہے بقول حضرت اقبال: زندگی مرکب چو در جنگاہ باخت بہر حفظ خویش ایں آلات ساخت نہ صرف اس دنیا میں یہ سامان کام دیتے ہیں بلکہ آنے والی زندگی کے واسطے بھی کامیابی کے سامان پیدا ہونے لگتے ہیں کما قال حضرت اقبال: مقصدے از آسماں بالا ترے دلربائے دلستانے دلبرے آنے والی زندگی کا پیش رو کون ہے یہی آرزو اور یہی مقصد۔ اگر زندگیوں کا بڑا یا محتشم مقصد او ر آرزو نہ ہو تو ایسی زندگی کا لطف ہی کیا۔ اور اس کی ضرورت ہی مذاہب اور ادیان پر زور ہی کیوں دیں۔ فیصلہ ہی اس دنیا میں ہو جاتا ہے تو پھر یہ کھینچا تانی کیسی؟ اسی آرزوئے زندگی ثانی نے پرانے توہمات اور دیرینہ شکوک کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ اور پر زور دلائل اور براہین قاطع سے ثابت ہے کہ یہ حضرت انسان ایسی فضول اور رائگاں شے یا مخلوق نہیں ہے کہ اسے یونہی برباد کر دیا جائے۔ انسان کوئی چیز ہے اور کوی کام کی ہستی۔ اس کا حشر حشرات الارض کی طرح نہیں ہے۔ وہ دور تک جانے والی ہستی ہے۔ اور اس کی فطرت میں برنگ آرزو اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ کوئی انسان نہیں چاہتا کہ اس کا خاتمہ ہو جائے وہ ہمیشہ قائم رہنے کی آرزو میں رہتا ہے اور اس کی یہی آرزو اس بات کا ثبوت ہے کہ : ’’اس کے واسطے اللہ میاں نے دوسری دنیایا زندگی کی دوسری تماشا گاہ بھی رکھی ہے‘‘۔ میں وہ طائر ہوں جس کے زمزمہ کا غل ہے جنت میں پر جبریل ہے کوپل مری شاخ نشیمن کا یہ وہ آرزو ہے کہ جو انسان کی اصلی حقیقت اور مرجع کا صاف آئینہ ہے۔ جس سے تمام اباطیل کی ازالت اور شکوک کی ازاحت ہوتی ہے۔ اسی کی شان میں حضرت اقبال فرماتے ہیں: باطل دیرینہ را غارت گرے فتنہ در جیبے سراپا محشرے اور اسی کو مقصد اطہر اور مدعائے اقدس مانتے ہیں: مقصدے مثل سحر تابندہ غیر حق را آتش سوزندہ جس قوم اور جس قوم کے افراد کے دلوں میں نئی نئی خواہشیں ار نئے نئے مقاصد اور حل ممکنات کے خیالات اور جذبات پیدا نہیں ہوتے‘ جو اپنے ارادوں میں ناقص اور تخلیقات میں محدود درجہ رکھتی ہے۔ وہ قوم مردہ اور بوسیدہ ہے۔ اس کی زندگی کا صرف دم کا آنا جانا ہے۔ اور اس کی ہستی محض برائے نام ہے۔ وہ احساسات اور ادراکات سے عاری اور جذبات سے معرائے محض ہے۔ اس کا وجود اور عدم برابر ہے تنازع للبقاء کے میدان میں وہ ٹھہر نہیں سکتی۔ اور نہ اس کا قیام کوئی استحکام رکھتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اسے کلیتہً زندگی میں سے کاٹ دیا جائے۔ اور کوئی قوم یہ نہ صرف مادی تمنائوں سے ہی اصلی زندگی پا سکتی ہے‘ بلکہ روحانی تمنائیں بھی اس زندگی کا جزو اعظم ہیں۔ مادہ پرست زندگیاں گو ظاہر میں سرسبز اور فارغ البال نظر آتی ہیں لیکن اندرونہ میں ان کی ہستی مٹ چکی ہوتی ہے۔ اس روحانی زندگی سے مراد صوفیانہ اور مذہبی زندگی ہے۔ وہ زندگی مراد ہے جو اپنے اندر حقانیت کے انوار رکھتی ہے۔ اور جن انوار کا سرچشمہ ذات محمدیؐ ہے جس سے ظلماتی فطرتیں اور دھندلی سرشتیں ضیاء پاتی ہیں اور منور ہو جاتی ہیں۔ فلک پہ مہر نے پیدا بہت فروغ کیا۔ پر اس کے رخ سے جو دعویٰ کیا دروغ کیا حضرت مظہر زندگی کا پتہ حضرت اقبال کی فارسی مثنوی دیتی ہے اور وہ دو پہلو رکھتی ہے: (الف) مادی زندگی (ب) روحانی زندگی روحانی زندگی کے بغیر مادی زندگی ایک وبال جا ن ہے۔ ایسا شخص بظاہر زندہ ہوتا ہے باطن میں اس پر موت وارد ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ اس کے جذبات میں آئندہ زندگی کا خیر مقدم کرنے کا جوش اور ولولہ نہیںپایا جاتا۔ جس دل میں یہ آرزو‘ یہ تمنا نہ ہو‘ جس دماغ میں یہ قوت نہ پائی جاوے وہ دل کیا اور وہ دماغ کیا۔ یوں جینے کو حشرات الارض بھی جیتے ہیں۔ مگر ایسا جینا کیا۔ ایسی آرزو یہ دل کو زندہ رکھتی ہے اور روح کو پژمردگی سے بچاتی ہے۔ ممصداق قول حضرت اقبال: دل ز سوز آرزو گیرد حیات غیر حق میرد چو او گیرد حیات وہ زندگی اور وہ حیات ہی کیا جو طلب اور آرزو سے معرا ہے۔ کیونکہ زندگی نام ہی آرزو اور خواہش کا ہے ۔ جب یہ آرزو یہ طاقت اور یہ جوش ماند پڑ جاتا ہے تو خود انسان اپنے تئیں مردہ سمجھتا ہے۔ آرزو اور تمنائیں ہمیشہ ایک قسم کی بیتابی تڑپ اور جستجو ہوتی ہے۔ اور یہی احساسات ترقی اور زدنگی کے نشانات ہیں۔ آرزوئوں کا ہجوم اور تمنائو کا سرمایہ حرص و آز کا مرادف نہیں ہے۔ حرص و آز اور شے ہے اور آرزو اور تمنا اور چیز۔ تمنا اور آرزو فطرتی خواص ہیں اور حرص اور آز نفسانی توہمات اور ردی جذبات۔ آرزو اور تمنا سے تہذیب و تمدن اور اقتصادیات و روحانیات کی بنیاد پڑتی ہے۔ اور حرص و آز سے سوسائٹی او ر تمدن میں رخنہ اندازی ہوتی ہے۔ تقریبا سب شاعروں نے سوائے چند کے آرزو اور تمنا کی مذمت کی ہے اور کامیاب زندگی کا ااسے ایک انوکھا ذریعہ مانا ہے ۔ لیکن حضرت اقبال نے فلسفیانہ اور صوفیانہ مذہبی و مذہبی رنگ میں آرزو اور تمنا کو سب کامیابیوں کا مقدمہ یا گر قرار دیا ہے۔ یہ خیال مذہب اور دین کے بھی عین مطابق ہے ۔ قرآن مجید میں بہ سورۃ الحمد خداوند کریم ارشاد فرماتا ہے: اھدنا الصراط المستقیم یہ دعا تمنائوں اور آرزوئوں کی کلید ہے۔ ایک تمنا اور آرزو۔ آرزو اور تمنا کیا ہے جس میں کچھ چاہا جائے۔ اور یہی دعامیں ہوتا ہے۔ حضرت اقبال اور قیاس کی وجہ سے من جملہ شاعروں کے قابل مبارک باد ہیں اور بحیثیت ایک فلاسفر ہونے کے موجب شکریہ۔ اصل مثنوی کے پڑھنے سے نکات کھلیں گے اوراقبال مسخرا ت یا مزعومات پر روشنی پڑے گی: غیر ممکن ہے کہ فیض اصل آئے نقل میں نافہ کرتا ہے کہاں پیدا ہرن تصویر کا (مخزن لاہور اکتوبر 1913ئ) ٭٭٭ سید محمد عبدالرشید فاضل علامہ اقبال ایک رفارمر کی حیثیت میں ایک وقت وہ تھا جب کہ مسلمانوں کے اقبال و کامرانی کا آفتاب نصف النہار پر تھا ار ہر فن کے صاحب کمال اسلام کے جھنڈے تلے جمع تھے۔ شیراز کی سرزمین نے سعدی و حافظ جیسی ہستیاں پیدا کر ک اپنا سر آسمان پر پہنچایا۔ جام میں جامی اور گنجہ میں نظامی نے دبدبہ خسروی بلند کر کے اپنے خداوند سخن ہونے کو منوالیا۔ طوس کی قسمت جاگی کہ اس میں فردوسی پیدا ہو اور ہندوستان کے بھاگ کھلے کہ اس میں خسرو اور فیضی جیسی ہستیوں نے جنم لیا۔ لیکن زمانہ کے ظالم ہاتھوں نے آخر وہ بساط الٹ دی اور اس پیمان شکن آسمان نے وہ پیمانہ توڑ دیا۔ عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن لیکن ہندوستان کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے کہ وہ ایران سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوا۔ اس لیے کہ یہاں پھر سے ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ وہی آواز جو کبھی اس کے درودیوار سے ٹکرا کر آسمان تک پہنچ گئی تھی۔ آج ایک اور ہی لب و لہجہ اختیار کر کے افسردہ دلوں میں شگفتگی اور مردہ دلوں میں زدنگی کے سامان بہم پہنچا رہی ہے ۔ اقبال ہمارے اسلاف کی نشانی ہماری عظمت پارینہ کی یادگار‘ نہیں نہیں ہماری گزشتہ اقبال مندی اورخوش نسیبی کاآئینہ ایساآئینہ جس میں وہ شکلیں نظر آتی ہیں جن پر کبھی اسلام کو ناز تھا۔ آج مسلمانوں کی شان و شوکت کی یادگار کا ستارہ بن کر افق مشرق پر چمک رہا ہے۔ میرا اپنا عقیدہ یہ ہے کہ وہی شاعری جس نے چھٹی صدی ہجری میںمطلق العنان او رسرکش بادشاہوں کی نمرودیت کو مٹانے‘ ان کے سروں کو خڈائے واحد کی چوکھٹ پر جھکانے اور عامتہ الناس کی بے راہ روی کی اصلاح کرنے کامشن اپنے ذمہ لیا تھا آج مسلمانوں کی حالت پر رحم کر کے خدائے تعالیٰ نے اقبال کو ودیعت فرمائی ہے کہ اس کے ذریع سیاس خفتہ قوم کو بیدار کرے۔ بانگ درا میں بے شک بانگ درا ہے۔ اگر قافلہ والوں میں کچھ بھی ایسی زندگی کے آثار موجود ہیں تو اس آواز کے سہارے منزل پر پہنچنا ممکن ہے۔ اقبال نے ایک جگہ شاعر کو مخاطب کر کے کیا خوب کہا ہے: ہے اگر ہاتھوں میں تیرے خامنہ معجز رقم شیشہ دل ہے اگر تیرا مثال جام جم پاک رکھ اپنی زبان تلمیذ رحمانی ہے تو ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے مگر اقبال کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے اور وہ بھی فلسفیانہ رنگ میں یہ۔ اس لیے اکثر و بیشتر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں اور صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک شاعر ہے اورنیچرل شاعری کا علمبردار ہے۔ لیکن جو کچھ اقبال ہے وہ بہت کم جانتے ہیں۔ جیسا کہ عمر خیام کی نسبت اہل مشرق کو یہی معلوم تھا کہ وہ ایک شاعر ہے اور رباعی کا استاد۔ مگر جب اہل یورپ کی عقابی نظر نے اس کی وہ تصانیف دریافت کر لیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چودہ علوم کا ماہر اور باکمال استاد تھا اور رباعیاں محض تفریح طبع یا اظہار جذبات کے لیے کہا کرتا تھا تو مشرق والوں کی آنکھیں کھل گئیں اور چاروناچار ماننا پڑا کہ بے شک عمر خیام بڑی شخصیت کا آدمی تھا۔ یہی معاملہ آج اقبال کے ساتھ ہے۔ دوسروں کی شکایت نہیں جبکہ خود مسلمان جن کا درد وہ ازل سے اپنے ساتھ لایا ہے۔ اس کو محض ایک شاعر سمجھتے ہیں بلکہ سچ پوچھیے تو ا س لحاظ سے بھی جیسا کہ اس کو سمجھنا چاہیے تھا۔ ویسا نہیں سمجھا گیا ۔ شاید ٹیگور کی شہرت اقبا ل سے کہیں زیادہ ہے۔ حالانکہ علمی اعتبار سے دونوں میں بین فرق ہے۔ ٹیگور کی تگ و یاز اس کے ایک خاص موضوع تک محدود ہے یعنی اس نے قدرت کے وہ دلفریب مناظر جن میں سکونو خاموشی کی شان پائی جاتی ہے نہایت دلکش اور موثر پیرایہ میں دکھائے ہیں۔ اور بس۔ چونکہ یورپ ایک عرصہ ہوا اس نعمت کو اپنی پر ہیجان زندگی کی نذر کر چکا تھا۔ اس لیے اس نے تسیم کر لیا کہ یہ وہی چیز ہے جو کبھی ہماری زندی کا سامان تھی۔ اور ٹیگور ہماری اس حالت کا ترجمان ہے۔ اور اس شہرت کے اسباب اس کی قوم نے پیدا کیے ۔ مگر اقبال نے وہ اصول یاد دلائے ہیں جن پر ہمارے عروج و ارتقاء کی بنیادیں قائم کی گئی ہیں۔ اور جو اب بھی معراج کمال پر پہنچا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ان پر عمل پیرا ہوں۔ لیکن ہم نے ا سکے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس کا بجز اس کے اور کیا سبب ہو سکتا ہے کہ قوم میں سے مردم شناسی کا مادہ اٹھ گیا۔ اور قابلیت و استعداد جاتی رہی۔ جیسا کہ خود اقبال کہتا ہے: عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست قلزم یاران چو شبنم بے خروش شبنم من مثل طوفان یم بدوش نغمہ من از جہان دیگر است ایں جرس را کاروان دیگر است کون ہے جو فیضٰ کی جامعیت وہمہ گیری کا معترف نہیں۔ مگر غالباً اس کو بھی اہل مشرق کی ذہنیت کا انداہ ہو گیا تھا۔ اس لیے اس نے خوف سے کہ مبادا مجھے بھی لوگ شاعر سمجھ کر اس مرتبہ سے گر ا دیں جس کا میں آرززوئے کمالات مستحق ہوں نل و من میں ایک جگہ نہایت پرزور الفاظ میں کہا ہے: امروز نہ شاعرم حکیمم دانندہ حادث و قدیم اس کے یہ معنی ہیں کہ ایک حکیم اپنی طبیعت کی لطافت و ہمہ گیری کے سبب سے مسائل حکمت کو شعری کے رنگ میں بیان کر سکتا ہے۔ کہ اس سے وہ مسائل آسان بھی ہو جاتے ہیںؓ اور دلنشیں بھی مگر ایک شاعر جو فلسفہ اور حکمت سے قطعاً معرا ہے حکیم نہیںہو سکتا‘ خواہ کتنا ہی اعلیٰ پایہ کا شاعر کیوں نہ ہو۔ حکیم وہ ہے جو نفس انسانی کو کمال تک پہنچانے کے لیے احوال موجودات کو بقدر طاقت بشری کما ینبغی جانے اور اس پر عمل کرنے اقبال بھی ایک جگہ اسرار خودی میںکہتا ہے: کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید آشنائے من ز من بیگانہ رفت از غمستانم تہی پیمانہ رفت او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن من شکوہ خسروی او را دہم تخت کسریٰ زیر پائے او نہم گلستاں اور بوستان کی تعلیم اولاً مکتب سے شرو ع ہوئی۔ لیکن رفتہ رفتہ جہاں تک لوگ سمجھتے تھے اور ان کتابوں کی حقیقت معلوم ہوتی گئی ان کی قبولیت اور ہر دلعزیزی میں اضافہ ہوتارہا حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ یہی کتابیں آئین سلطنت میں داخل ہو گئیں اور بادشاہوں نے ان کو اپنا دستور العمل بنا لیا۔ اور اس وقت جتنی مشہور زبانیں ہیں کم و بیش ان میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ یہ مثنوی معنوی کا حال ہے بلکہ مثنوی کے لیے تو یہاں تک کہہ دیاگیا ہے کہ : مثنوی مولوی معنوی ہست قرآن در زبان پہلوی میرا منشا یہ ہے کہ آیا ان مقدس ہستیوں کے لیے شاعر کا لفظ موجب فخر ہو سکتا ہے۔ ؟ اور کیا بوستان اور مثنوی معنوی شاعری کے چٹخارے لینے کے لیے لکھی گئی ہے۔ ہرگز نہیں ان بزرگوں کا کام شاعری نہ تھا۔ جیسا کہ خود مولانا روم فرماتے ہیں: من ندانم فاعلاتن فاعلات شعر گویم ایک چوں آب حیات بلکہ ان کا کام بنی نو ع انسان کی اصلاح اور خدا کا راستہ بناتا تھا۔ جس کو قوت سے فعل میں لانے کے لیے شعر کی قوت تاثیر کو بہتر و کارآمد سمجھا۔ اس لیے ان لوگوں کو ایک شاعر کی حیثیت سے یاد کرنا اور اس اصل مقصد و غایت کو نظر انداز کردینا جو اس شاعری کے اندر پوشیدہ ہے ۔ اسبات کی نمائش ہے کہ ہم حقیقت و مجاز میں تمیز کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح اقبال کو بھی نرا شاعر سمجھ لینا اپنی انتہائی کم نظری کا اظہار کرنا ہے۔ میں اقبال کے کلام میں سے چند مثالیں دے کر اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ اقبال کی موجودہ زمانہ میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ تمام ایشیا کو کس قدر ضرورت ہے۔ (۱) اقبال کے کلام کا معتد بہ حصہ وہ ہے جس میں اس نے جدوجہد کوشش کی تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ مصیبت اور تکلیف محض اعتبارات ہیں۔ بلکہ اگر غور سے دیکھیے تو یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کی تکمیل و بقائے دوام کا باعث ہیں: میارا بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است منشا یہ ہے کہ عیش و عشت کی زندگی جو فی الحقیقت قوائے عمل کو بیکار و مفلوج بنا دیتی ہے‘ دنیا بھر کی نحوست و بد نصیبی کا پیش خیمہ ہے بلکہ موت کا پیغام۔ اگر انسان کو حیات ابدی کی تلاش ہے اور نام و نمود کی تمنا تو اپنے آپ کو محنت و ریاضت کے نذر کر دینا چاہیے۔ اور مصائب و آلا م کا جو ترقی کی راہ میں حائل ہوں سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتا تو اس کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنی قسمت کا شکوہ زبان پر لائے اور فطرت کو جو لوث گناہ سے پاک ہے خطا وار ٹھیرائے ۔ ایک جگہ زندگی کی تعریف اس طرح کی ہے: برسیدم از بلند نگاہے حیات چیست گفتا مئے کہ تلخ تر او نکو تراست ایک جگہ یہ بتایا ہے کہ خوف و اندیشہ سے ہر آسان کام مشکل اور ہمت و استقلال کے آگے مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے: دل بیباک را ضرغام رنگ است دل ترسندہ را آہو پلنگ است اگر بیمے نداری بحر صحراست اگر ترسی بہر موجش نہنگ است ایک مقا م پر کہا ہے کہ پروانہ اپنے تئیں ایک دفعہ شمع پر نثار کر کے زندگی کی کشاکش سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ مگرمیرے نزدیک یہ ہیچ ہے۔ میں تو اس کی پروانہ کو پراونہ جانتا ہوں جس کی جان سخت کوش اور شعلہ نوش ہے: بہل افسانہ آں پا چراغے حدیث سوز او آزار گوش است من آں پروانہ را پروانہ دانم کہ جانش سخت کوش و شعلہ نوش است (۲) اقبال کے نزدیک سکون کا نام موت ہے۔ یعنی انسان کو ایک حالت پر نہیں رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس چمن زار کائنات میں امکان مستقبل موجود ہے: دما دم نقشہائے تازہ ریزد بیک صورت قرار زندگی نیست اگر امروز تو تصویر دوش است بخاک تو شرار زندگی نیست ایک جگہ پیام مشرق میں کہا ہے کہ جس طرح موج جب تک قائم ہے پیچ و تاب میں ہے اور جب پیچ و تاب نہیں تو موج بھی نہیں۔ معلوم ہواکہ پیچ و تاب اور بے قراری ہی کا نام موج ہے ۔ اسی طرح انسان کی حیات اس کی تگ و تاز اور سکون کا ناآشنا رہنے میں ہے نہ کہ راحت طلبی اور تن آسانی میں۔ ایک جگہ دو شعروں میں اس خیال کو کس قدر بلییغ پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے کہ ساحل نے جو بالکل جامد و ساکن ہوتا ہے موج سے کہا کہ اگرچہ میں نے ایک درا ز عمر پائی ہے لیکن ا ب تک معلوم نہ کر سکا کہ میں کیا ہوں۔ موج نے جو ساکن رہنا ہی نہیں جانتی نہایت تیزی سے چل کر کہا کہ اے ساحل میری حقیقت تو تجھے معلوم ہوگئی۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر میں حرکت میں رہوں تو میں زندہ رہوں ورنہ کچھ بھی نہیں۔ (۳) اقبال جہد کوشش کے ساتھ علم کا ہونا لازم سمجھتا ہے: زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر یعنی زندگی کسی قوم کا حصہ نہیں بلکہ جو قومیں زیور علم سے آراستہ اور محنت کی خوگر ہیں انہیں کو دنیا میں زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ علم کی اہمیت واضح کرنے کے لیے نہایت عمدہ دلیل پیش کی ہے کہ: سید کل صاحب ام الکتاب پردگیہا بر ضمیرش بے حجاب گرچہ عین ذات را بے پردہ دید رب زدنی از زبان او چکید رب کی تمام ترقی یافتہ قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کے اندر ہی دینی و دنیوی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ جس قوم میں جہالت کے آثارپیدا ہوئے سمجھ لینا چاہیے کہ اہ قوم صفحہ ہستی پر کچھ ہی دنوں کی مہمان ہے۔ زمانہ بہت جلد نقش باطل کی طرح اس کومٹا کر خدا کی زمین کو اس کے وجود سے پاک کر دے گا امریکہ اور یورپ پر اس حقیقت کا اچھی طرح انکشاف ہو گیا کہ ان ممالک میں تعلیم کی وہ گرم بازاری ہے کہ آج یہاں بے علم ایسا ہی کم یاب ہے جیسا ہندوستان میں تعلیم یافتہ۔ اسلم نے تیرہ سو برس پہلے یہی تعلیم دی تھی کہ اور حصول علم کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کر دیا تھا اقبال کہتا ہے کہ : علم و دولت نظم کار ملت است علم و دولت اعتبار ملت است مگر موجودہ زمانہ میں جہاں تعلیم کا دور دورہ ہے وہاں اخلاق اور سچی اخلاقی تعلیم کا سرے سے خاتمہ ہے ۔ حالانکہ اخلاق اور وہ اخلاق تعلیم جس کی بنیادیں خلوص سچائی اور ایثار پر قائم کی گئی ہوں نظام عالم اور اصلاح کے لیے ناگزیر ہے ۔ اقبا ل کا دل اس تعلیمی کمزوری کو کیونکر محسوس نہ کرتا۔ اس نے محسوس کیا اور بہت زیادہ محسوس کیا وہ تعلیم کو برا نہیں کہتا۔ مگرا س کے نزدیک قدیم اسلامی تعلیم سے بیزاری اور موجودہ تعلیم میں شغف ایسی حالت میں کہ اس سے اخلاقی سوشل زندگی کی اصلاح نہ ہو اضاعت اوقات بلکہ گمراہی کا موجب ہے وہ کہتا ہے : اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے واجب ہے صحرا گرد پر تعلیم فرمان خضر لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری رفتم کہ خار از پاکشم محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد اقبال نے مذہب کے عنوان سے مرزا بیدل کے شعر پر تضمین کی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ فلسفہ مغرب کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ ہستی غائب(خدا) کی تلاش میں ہیں وہ نادان ہیں اور اس فلسفہ کی رو سے شیخ اور برہمن دونوں صنم تراش ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ برہمن کا پیکر معبود ظاہر کرتا ہے اور شیخ کا فرضی اور غائب اقبال کہتا ہے کہ ان علوم جدیدہ سے جن کی بنا محسوس و مرئی اشیاء پر ہے عقائد مذہبی کا شیشہ پاش پاش ہو چکا ہے اس لیے اس تعلیم کی رو سے مذہب و جنون میں کوئی فرق نہیں مگر فلسفہ حیات اور ہی کچھ کہتا ہے اور مجھ پر ایک مرشد کامل (مرزا) نے اس راز کو فاش کیا ہے: با ہر کمال اند کے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدہ ای بے جنوں مباش (۴) اقبال کی نمایاں خصوصیت اس کی وسیع المشربی ہے۔ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرتا اورچاہتا ہے کہ اس کا پیغام عالمگیر شہر ت حاصل کرے تمام اقوام کو ایک برادری بنا دے اور اس طرح ایک اور ہی دنیا قائم ہو جائے جس میں صرف محبت و مساوات کی حکومت ہو۔ اقبال کو توحید کا فرزند اور اس مذہب کا حلقہ بگوش ہے۔ جس کی تعلیم ہے الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسن ابی عیالم پھر وہ امتیاز ملت و قوم تعصب اور فرقہ بندی کو کیوں کر گوارا کرتا جیسا کہ وہ کہتا ہے: اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوع انساں قوم ہو میری وطن میرا جہاں بلکہ اقبال بنی نوع انسان سے ہمدردی کرتے کرتے بے جان چیزوں سے بھی ہمدردی کرنے لگتا ہے۔ ا س لیے کہ اس کے نزدیک: حقیقت ایک ہے ہر شے کی نوری ہو یا ناری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں وہ کہتا ہے: صدمہ آ جائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر (۵) اقبال نے اعتماد نفس پر زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان کی کمزوری اس کی حقیقت ناشناسی کا نتیجہ ہے اگر اس کو اپنے علوم مرتبہ و کمال ذاتی کا علم ہو جائے تو دنیا میں کوئی کام اس کے لیے مشکل نہیں: اگر آگاہی از کیف و کم خویش یمے تعمیر کن از شبنم خویش دلا دریوزہ مہتاب تا کے شب خود را بر افروز از دم خویش ٭٭٭ ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست قدم بیباک تر نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست (۶) علم نفسیات کا عالم اچھی طرح جانتا ہے کہ فرد واحد کا وجود ایک اعتباری شے ہے مگرجب چند افراد مل کر ایک جماعت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی قوت ان کا وقار اور ان کااعتبار کس قدر بڑھ جاتا ہ۔ غرضیکہ جماعت و قوم کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور فرد کی جماعت سے علیحدہ کوئی وقعت نہیں۔ اقبال نے ربط ملت کے سلسلہ میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ کسی قوم کا اعتبار قائم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ اس کے افراد میں وحدت خیال وحدت عقائد اور وحدت مقاصد کے ذریعہ ربط و اتحاد پیدا نہ ہو جائے۔ اور مسلمانوں کا ایک مرکز اور ایک مقصد ہے اور وہ ان مذہب ہے: قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں ٭٭٭ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں ٭٭٭ نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردہ نو بہاریم مگر ہم نے اس دور میں مغربی تعلیم و طرز معاشرت سے متاثر ہو کر مذہب کو خیر باد کہہ دیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ کامیابی و ترقی اسی قوم کا حصہ ہے۔ جس کے پاس جملہ مادی اسباب موجود ہوں اور جن کا کوئی مذہب نہ ہو۔ اگر ہو تو پالیٹکس سیاسیات اور ملوکیت اقبال کس قدر د ل نشین پیرایہ میں سمجھاتا ہے: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جعمیت ہے ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی (۷) اقبال مسلمانوں کو آزاد اورمسلمانی کو حریت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کو خیال قول اور فعل میں غرضیکہ ہر طرح اپنے آپ کو آزاد سمجھنا چاہیے اور ماسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست پر یقین کامل رکھتے ہوئے اس معبود حقیقی کے سوا کسی کو اپنا آقا اور مختار نہیں بنانا چاہیے: از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن تا تراشی خواجہ اے از برہمن کافر تری اقبال کا خیا ل ہے کہ اور خیال کیا معنی فیکٹ ہے کہ مسلمان اگر سچا مسلمان ہے تو کسی حالت میں دوسری دنیوی طاقتوںسے مغلوب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ تاریخ عالم شاہد ہے کہ ان مٹھی بھر صحرا نشینوں نے جن کے پاس نہ کوئی ساز و سامان تھا نہ کوئی سلطنت محض اپنے اتحاد اور روحانی وت سے بڑی بڑی طاقتوں کو سرنگوں کر دیا: مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا؟ زور حیدر‘ فقر بوذر‘ صدق سلمانی کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا! نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں غرضیکہ اقبال کے نزدیک مسلمان ایک ایسی ہستی ہے جس کی بلندی مرتبہ و رفعت شان کے آگے آسمانوں کی بلندی بھی پست دکھائی دیتی ہے: پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے اور نظام عالم اسی کے ہاتھ میں ہے بلکہ انتہاہے: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زبان تو ہے یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے (۸) اقبال کا ایک خاص موضوع حیات بعد الممات ہے جس کو اس نے فلسفیانہ دلائل و براہین کے ساتھ نہایت منظم طریق پر بیان کیا ہے۔ اس کے متعلق خود اقبال کے الفاظ نقل کرتاہوں۔ مجھے مسئلہ حیات بعد الممات کے ساتھ خاص دلچسپی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انسان ایک شاندار اور درکشاں مستقبل اپنے سامنے رکھتا ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات و افکار میں آپ کو عموماً جاری و ساری نظر آئے گا‘‘۔ (۹) اقبال کا ایک مستقل موضوع مسئلہ خودی ہے ۔ خودی سے اس کا منشا ی ہے کہ دنیا میں ہر چیز کی حقیقت ایک ہے۔ اور انسان جب اس سے واقف ہو جاتا ہے تو ہر چیز میں اپنی ہی صورت جلوہ گر دیکھتا ہے۔ اقبال نے بتایا ہے کہ نظام عالم کی اصل خودی سے ہے اور حیات تعینات کا تسلسل استحکام خودی پر منحصر ہے۔ لیکن اول اپنی خودی (حقیقت) سے واقف ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ اور چونکہ حیات عالم کا انحصار قوت خودی پر رکھا گیا ہے اس لیے جس در یہ استوار ہو گی اسی قدرزندگی دیرپا مستحکم اور عزیز تر ہو گی۔ اور حیات حودی تخلیق و تولید مقاصد سے وابستہ ہے یعنی انسان کے مقاصد بلند اور آرزو مستقل ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ اصل زندگی آرزو ہے یعنی اگر انسان کے دل میں آرزو باقی ہے تو وہ قوی دل بلند حوصلہ اور خوش و خرم رہے۔ محنت و مشقت میں اس کو مزہ آتاہے لیکن جب آرزو مر جاتی ہے تو دل مردہ ‘حوصلے پست اور زندگی بے لطف ہو جاتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مقصد پاکیزہ اور آرزو ارفع و اعلیٰ ہونی چاہیے۔ اقبال کہتا ہے کہ مسلمان کے لیے عشق رسول کافی ہے۔ اس کو اپنا دل اس تمنا سے آباد کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس سے بہتر کوئی مقصد نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ کسی کے آگے دست سوا پھیلانے سے خودی ضعیف ہو جاتی ہے۔ انسان کوچاہیے کہ محض خدا پر بھروسہ رکھے اور کسی کا زیر بار احسان نہ ہو۔ (۱۰) اقبال کا ایک موضوع بے خودی ہے۔ بے کودی کے معنی اپنے آپ کو جماعت میں ملا دینا یعنی فر د کا اپنے احساسات کو جماعت کے مقصد وحید کے اندر فنا کر دینا۔ کیونکہ فرد کے لیے ججماعت میں داخل ہونا آیہ رحمت ہے اور اپنی ہستی کو جماعت سے جدا کرنا عین کملا یعنی جس طرح قطرہ دریا میں مل کر دریا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فرد جماعت میں داخکل ہو کر جماعت کی قوت جماعت کاوقار اور جماعت کے اوصاف سے متصف ہو جاتا ہے۔ فرد تا اندر جماعت گم شود قطرہ وسعت طلب قلزم شود غرضیکہ اقبال نے جو کچھ لکھا ہے اس پر بالاستعیاب تبصرہ کرنا مشکل نہ سہی لیکن اس مضمون کو میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کرنا آسان نہیں۔ میرامنشا یہ ہے کہ صرف اقبال شعرائے ہند کی طرح حسن لب بام کا شیدائی یا کمریار کی حقیقت کا سودائی نہیں بلکہ وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے علو مرتبہ و کمال ذاتی ہی نے اب تک اس کی حقیقت کو پردہ میں رکھا ہے۔ اس لیے جو دل و دماغ وہ لے کر آیا ہے اور جس تمدن جس اخلاق اور جس تہذیب کی وہ ترجمانی کرتاہے اس کے چاہنے والے دنیا سے اٹھ گئے جیسا کہ وہ خود کہتا ہے: اب نوا پیرا ہے کیا گلشن ہرا برہم ترا بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا بعض لوگوں کا خیالہے کہ اقبال کا پالٹکس سے قطعی ناواقف ہوتے ہوئے سیاسی معاملات میں حصہ لینا اس لیے بھی اور قوم کے لیے بھی مضر ثابت ہو گا۔ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا نے ایسی کتاب عطا ک ہے جس میں دینی و دنیوی دونوں زندگیوں کے ہر پہلو کو بطریق احسان بیان کیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مسلمان کو کسی دوسری چیز کی ضرورت باقی نہیںرہتی۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے: ملتے را رفت چوں آئین ز دست مثل خاک اجزائے او از ہم شکست ہستی مسلم ز آئین است و بس باطن دین نبی این است و بس تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست؟ زیر گردوں سر تمکین تو چیست؟ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت و لا یزال است و قدیم نسخہ اسرار تمکین حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات لیکن اس کو سمجھنے کے لیے قابلیت درکار ہے۔ اقبال ایک مسلمان اور خالص مسلمان ہے اور قرآن رپ اس کا کامل ایمان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کوئی پالیٹکس اس جامع و مانع کتاب سے باہر نہیں ہو ستکی اگر نگاہ حقیقت بیں ہو تو اس کے ایک ایک حرف میں دنیا کی حکمت اور دانشوری ک ہزاروں باب دیکھ سکتی ہے۔ اور یوں دیکھیے توآج جس قدر مشاہیر اہل الرائے نظر آتے ہیں۔ ان میں کوئی بیرسٹر ہے اور ایم اے اور کوئی ڈاکٹر ہے مگر اقبال بیرسٹر بھی ہے اور ایم اے پی ایچ ڈی بھی ڈاکٹر بھی ہے اور شاعر بھی حکیم بھی ہے اور صوفی بھی رفارمر بھی ہے اور فلسفی بھی ہے اورنجومی بھی جانتا ہے اور سنسکرت بھی۔ اگر ایک طرف اقتصادیات و معاشیات کا زبردست ماہر ہے تو دوسری طرف علم نفسیات کا زبردست استاد۔ اگر قدیم فلسفہ میں کمال رکھتا ہے تو فلسفہ جدید میں بھی اسکو طولیٰ حاصل ہے۔ تاریخ اسلام کا ہی حافظ نہیں تاریخ عالم بھی اس کو ازبر ہے جس کی فلسفہ دانی کو دیکھتے ۰ہوئے جرمنی والوں نے ڈاکٹر کا علمی درجہ دیا۔ اور جس کی ادبی کاوش کی قدر کرتے ہوئے انگریز سرکار نے سر کا ممتاز خطاب عطا فرمایا۔ اور جس کی شاعری کا یہ حال ہے کہ داغ نے دو ایک غزلیں دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کا شاگرد کوئی معمولی شعر گو نہیں۔ جس کی طبیعت داری قابلیت اور درد اسلام کو دیکھ کر شبلی و حالی جیسے مبصر تاڑ گئے ھتے کہ یہ ایک فتنہ ہے اور بہت جلد قیامت بن جائے گا۔ اور جس کی شہرت کے اٹھتے ہوئے شباب کودیکھ کر مسٹر آرنلڈ جیسے استاد کو فخر تھا کہ اقبال دنیا میں بڑا اقبال لے کر آیا ہے۔ اس کے نام کے ساتھ میرا نا م بھی روشن ہو گا ۔ غرضیکہ مشاہیر وقت میں سے ہر ایک نے اس جوہر قابل کی شخصیت کا جداگانہ حیثیت میں اپنی نظر قابلیت اور رسائی کے مطابق اعتراف کیا ہے رہے کم استعداد اور کج فہم لوگ ان کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ سخن شناس نئی دلبرا خطا ایں جاست! جب اقبال ایسا ہے اور فی الواقعہ ایساہی ہے تو انصاف فرمائیے کہ آیا سیاسیات کے سٹیج پر اس سے بہتر کوئی اور دوسرا پارٹ ادا کر سکتا ہے؟ لیکن چونکہ اختلاف رائے ہمیشہ اعلیٰ و افضل شخصیتوں کا جزو لاینفک رہاہے ۔ اس لیے ہم کو اس قسم کے تضاد رائے سے افسوس نہیں بلکہ ہمارے خیال میں نہایت درجہ تقویت اور استحکام ہوتا ہے۔ اور اقبال کے بلند مرتبہ شخصیت ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ اقبال کی شہرت کا آفتاب طلوع ہو چکا ہے اور عنقریب سمت الراس پر پہنچ کر شکوک و شبہات کی تاریکیوں کو دور کر کے اپنی روشنی سے جگمگا دے گا۔ اور لوگوں کو اس اذا جاء الحق و ز حق الباطل ان باطل کان زحوقا کامنظر آنکھو ںسے دیکھنے میں آجائے گا۔ (نیرنگ خیال اقبال نمبر 1932ئ) ٭٭٭ یوسف سلیم چشتی اقبال اور فلسفہ مغرب فلسفہ مغرب کا صحیح ترین معنوں میں آغاز سولہویں صدی سے ہوا ہے جبکہ یورپ کو پاپائیت کی ذہنی غلامی سے نجات ملی۔ اور اس کی وجہ سے اکتشافات حکمیہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل گیا۔ اور یور پ نے مادی اور سیاسی رنگ میں جو تفوق حاصل کیا ا س کی وجہ سے فلسفہ کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ بعض ارباب فکر کا اب تک یہ خیال ہے کہ متکلمین اور علی الخصوص ٹامس ایکویناس کا فلسفہ انسانی غور و فکر منتہائے پرواز ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بزرگوں کو فلسفہ یونانی اور اسلامی متکلمین کی صدائے بازگشت سے زیادہ نہیں ہے اور اگر کسی مسئلہ میں انہوںنے اجتہاد فکر کا نمونہ پیش کیا ہے تو اس نے نہایت مضحکہ خیز صورت اختیار کر لی ہے ۔ مثلاً ایک متکلم نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا صحیح جواب کیا دیا گیا۔ تاہم اس قدر یقین ہے کہ جب ڈیکارٹ کا فلسفہ آفتاب طلو ع ہوا تو ان سب بزرگوں کے چراغ ماند ہو کر رہ گئے۔ ڈیکارٹ کے بعد یورپ میں پے در پے بہت سے نامور فلاسفہ منصہ شہود پر آئے جن میں کینٹ کامرتبہ سب سے اونچا ہے۔ اس کے بعد نطشے کا دورحکمرانی شروع ہوا جس نے فلسفہ پر الہام کا رنگ چڑھا دیا۔ یہ شخص محض فلاسفر یا ایشئاے کائنات کے حسن و قبح کا نقاد ہی نہ تھا۔ بلکہ اس نے اپنی قابلیت کی بدولت حسن و قبح کا نیا معیار پیش کیا ہے۔ فلسفہ ہمیشہ سے سائنس کامرہون منت رہ اہے فلاسفہ یونان کے بیشتر خیالات‘ کائنات کے اس علم پر مبنی ہیں‘ جو اسقرء اور مشاہدہ سے حاصل ہوتاہے۔ اور چونکہ فی زماننا سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے۔ اسی لیے ان لوگوں کے فلسفہ کا بہت سا حصہ اب بے کار ہو گیا ہے۔ فلسفہ کی تاریخ سے یہ بات عیاں ہے کہ فلسفہ اور سائنس میں موافقت اور مطابقت کی رفتار روز افزوں ترقی پر ہے۔ اور نیوٹن کی تحقیقات علمیہ نے تو فلسفہ اور سائنس کو ایک دوسرے سے بہت ہی زیادہ قریب کر دیا ہے۔ اور اس تعلق کو نظریہ ارتقاء نے اور بھی استوار کر دیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کو جن کا نام نامی اب کسی تعارف کر محتاج نہیں رہا ہے یورپ کے ارباب فکر کی موشگافیوں کے مطالعہ کا موقع نہیںملا۔ بلکہ انہوں نے بفراغت تمام ان کے باہمی اختلافات کا تماشہ بھی دیکھا۔ اور تجربہ کی بنا پر ان تمام فلسفیانہ نظریوں کی اصلی قدروقیمت معلوم کی ہے۔ اورمیں بالقیں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکتڑ صاحب کے ان افکار متذکرہ کو تجزیہ و مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھ لینا بہت اہمیت کا باعث ہے۔ کیونکہ وہ نیٹشے کی طرح مابعد الطبیعیات سے اس قدر وابستگی نہیں رکھتے ۔ جس قدر اخلاقیات سے بلاشبہ ان کا فلسفہ مابعد الطبیعیات کے مسائل سے جدا نہیں ہے۔ لیکن انہوںنے زیادہ تر زور عمل پر دیا ہے یعنی اگرچہ علم بھی اچھی چیز ہے مگر عمل کا مرتبہ ان کی نظر میں محض علم سے بہت زیادہ ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر اقبال کے فلسفہ اجمالی کا خاکہ جو انہوںنے ڈاکٹر نکلسن کی فرمائش پر لکھا تھا ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ ’’ہر موجود میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔ حیات تمام و کم انفرادی ہے۔ حیات کلی کا خارج منیں کہیں وجود نہیں ہے۔ خدا خود بھی ایک فرد ہی ہے۔ وہ فرد یکتا ہے کائنات افراد کے ایک مجموعہ کانام ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس مجموعہ میں جو نظم و نسق اور توافق و تطابق پایا جاتاہے۔ اور وہ بذاتہ کامل نہیں ہے۔ بہرکیف جو کچھ بھی ہے وہ افراد کی جبلی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ ہمارا قدم بالتدریج بدنظمی سے نظم و نسق کی طرف اٹھ رہا ہے۔ اس مجموعے کے افراد کی تعداد بھی معین نہیں ہے بلکہ روز مرہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور نوزائیدہ افراد میں اس عظیم الشان مقصد کی تکمیل میں ہمارے معاون ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی کائنات فعل مختتم نہیں ہے ۔ بلکہ ہنوز مراتب تکمیل طے کر رہی ہے۔ چونکہ کائنات ابھی مرتبہ کمال کو نہیں پہنچی اور تکمیل کے مراتب میں سے گزر رہی ہے‘اس لیے اس کے متعلق ابھی کوئی بات حتمی اور اذعانی طور پر نہیں کی جا سکتی ہے۔ جو کچھ کہا جا سکتا ہے یا ابھی تک کہا گیا ہے اس میں کامل صداقت نہیں پائی جا سکتی۔ فعل تخلیق ہنوز جاری ہے اور جس حد تک انسان اس کائنات کے کسی غیر مربوط حصہ میں ربط و ترتیب پیدا کر سکتا ہے‘ اس حد تک اس کو بھی فعل تخلیق میں معاون قرار دیا جا سکتا ہے۔ خود قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کے علاوہ دوسرے خالقوں کے امکان کی طرف اشارہ موجود ہے ۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین ظاہر ہے کہ انسان اور کائنات کا یہ نظریہ ہیگل کے انگریزی متبعین اور ارباب وحدت الوجود کے خیالات کے سراسر خلاف ہے ‘ جن کے خیال میں انسان کا متہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حیات کلی میں جذب ہو جائے جس طرح قطرہ میں مل جاتا ہے اور اپنی انفرادی ہستی کھو بیٹھتا ہے ۔ انسان کا اخلاق اور مذہبی نصب العین یہ نہیں کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دے یا اپنی خودی کو فنا کر دے‘ بلکہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی ہستی کو قائم رکھے اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر بیش از بیش انفرادیت اور یکتائی پیدا کرے۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا ہے : باخلاق اللہ تخلقو یعنی اپنے اندر خدا کی صفات پیدا کرو۔ پس انسان جس قدر اور جس حد تک ا س فرد یکتا (خدا) سے مشابہ ہو گا اسی قدر خود بھی یکتا ہو جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حیات کیا ہے؟ حیات فرد کا دوسرا نام ہے۔ اور فرد کی اعلیٰ ترین صورت جو اس وقت تک محقق ہو سکی ہے ‘ خود یا ایغو ہے۔جس کی بنا پر فرد کی اعلیٰ ترین صورت جو اس وقت تک متحقق ہو سکی ہے۔ خودی یا ایغو ہے۔ جس کی بنا پر ایک فرد ایک مستقل بالذات مرکز بن جاتا ہے۔ جسمانی اور روحانی دونوںپہلوئوں سے انسان ایک مستقل بالذات مرکز ہے لیکن وہ ابھی تک ’’فرد کامل‘‘ نہیں ہے۔ فرد جس قدر خدا سے دور ہو گا اسی قدر اس کی انفرادیت ناقص اور کمتر درجہ کی ہو گی۔ اور جس قدر وہ خدا سے قریب ہو گا اسی قدر کامل انسان ہو گا۔ قرب الٰہی کایہ مطلب نہیں کہ انسان انجام کار خدا کی ذات میں واصل فنا ہو جائے بلکہ اس کے برعکس یہ کہ کامل انسان وہ ہے جو خدا کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ دراصل حیات ایک ترقی کرنے والی اور کائنات کو اپنے جذب کرنے والی حرکت کا نام ہے۔ جو مشکلات اور رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہوتی ہیں‘ وہ ان پر غلبہ پا کر انہیںاپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ حیات کا جوہر یہ ہے کہ مسلسل اور پیہم نئی نئی آرزوئیں اور نئے نئے نصب العین پیدا کرتی رہتی ہے۔ اور اپنی ترقی اور حفاظت کے لیے اس نے بعض آلات اور وسائل پیدا کر لیے ہیں مثلاً حواس خمسہ اور قوت ادراک وغیرہ جن کی مدد سے وہ مشکلات پر غالب آ کر انہیں اپنے اندر جذب کر لیتی ہیل۔ مادہ یا فطرت حیات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ فطرت کوئی مذمومشے نہیں ہے بلکہ حیات کے حق میں محمود ہے کیونکہ اسی کی بدولت حیات کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ قوتوں اور استعدادوں کو بہ روئے کار لائے اور مشکلات پر غالب آئے۔ جب خودی تمام مشکلات پر غالب آ جاتی ہے تو مرتبہ جبر سے مرتبہ اختیار پر فائز ہو جاتی ہے۔ خودی ایک حد تک مجبور ہے اور ایک حد تک مختار۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے : الایمان بین الجبر والاختیار اور جب خودی ذات مطلق کا تقرب حاصل کرتی ہے تو اختیار کے اعلیٰ مرتبہ کو حاصل کر لیتی ہے۔ مختصر یہ کہ حیات مرتبہ اختیار تک پہنچنے کی مسلسل کوشش کا نام ہے۔ جامہ انسانیت میں آ کر مرکز حیات کام کا ایغو یا شخص ہو جاتاہے۔ اور شخصیت عبارت ہے جدوجہد کی مسلسل حالت سے۔ شخصیت کا تسلسل ایسی حالت کے قیام پر منحصر ہے۔ اگریہ حالت قائم نہ رہے تو لامحالہ تعطل یا ضعف کی حالت طاری ہو جاتیہے ۔ چونکہ شخصیت انسان کا سب سے بڑا کمال ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ وہ اس جوہر بے بہا کو مسلسل سرگرم رکھے اور معطل نہ ہونے دے۔ کیونکہ جدوجہد ہی زندگی ہے۔ اور جو شے شخصیت کو پیہم جدوجہد کی طرف راغب کرتی ہے وہ دراصل ہمیں بقائے دوام کے حصول میں مدد دیتی ہے گویا شخصیت کا تسور اشیائے کائنات کے حسن و قبح کا معیار ہے۔ اس کی بنا پر خیر و شر کا مسئلہ بخوبی حل ہو سکتا ہے۔ جو شے شخصیت کو توانائی عطا کرتی ہے اچھی ہے اورجو اسے کمزور کرے وہ بری ہے۔ آرٹ مذہب اور اخلاق سب کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔ میں نے افلاطون کے فلسفہ پر جو کچھ تنقید کی ہے اس سے میرا مطلب ان فلسفیانہ مذاہب کی تردید ہے جو بجائے زندگی کے موت (فنا) کو انسان کا نصب العین قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ مذاہب ہیں جو انسان کو بزدلی سکھاتے ہیںجن کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی ’’مادہ‘‘ کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس سے گریز کرنا چاہیے‘ حالانکہ جوہر انسانیت یہ ہے کہ انسان مخالف قوتوں کو مردانہ وار مقابلہ کرے اور ان پر غالب آئے بلکہ انہیں اپنا خادم بنا لے۔ جس طرح خودی کو مرتبہ اختیار پر رفائز کرنے کے لیے ہمیں مادہ پر غالب آنا ضروری ہے۔ اسی طرح اسے غیر فانی بنانے کے لیے ’’زمان‘‘ پر غالب آنا لازمی ہے۔ برگساں کہتا ہے کہ زمان خط لامتناہی نہیں ہے (باعتبار مفہوم مکانی) جس میں ہو کر ہمیں گزرنا ہے خواہ ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ زمانہ کایہ مفہوم صحیح ہے‘ کیونکہ زمان محض میں طوالت کو مفہوم داخل نہیں ہے۔ بقائے شخص ایک امر متمنی ہے۔ اسے وہی شخص حاصل کر سکتا ہے‘ جو اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرے اور اس کا حصول ہماری زندگی میں فکر اور عمل کے ان طریقوں پر منحصر ہے۔ جو ہماری خودی کی حالات جدوجہد کو برقرار رکھ سکیں۔ بدھ مذہب اور ایرانی تصوف اور فلسفہ اخلاق کی ہمچو ازیں قبیل کی دوسری صورتیں اس مقصد کے لیے مفید نہیں ہیں۔ تاہم ان میں فائدہ کا ایک پہلو ضرور موجود ہے وہ یہ کہ مسلسل جدوجہد کے بعد کچھ عرصے کے لیے ہمیں آرام کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ گویا فکر اور عمل کی یہ صورتیں زندگی کے دنوں کے اعتبار سے راتیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ بہرکیف اگر ہماری فاعلیت کا منشا یہ ہو کہ خودی کی حالت جدوجہد برقرار رہے تو گمان غالب ہے کہ موت کا صدمہ ہماری خودی پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ موت موجودہ زندگی اور آئندہ جدوجہد کے درمیان آرام او رسکون کا ایک وقفہ ہو جسے قرآن مجید عالم برزخ سے تعبیر کرتا ہے۔ اور یہ حالت یوم حشر تک قائم رہے گی۔ واضح ہو کہ موت کا صدمہ صرف وہی ’’خودیاں‘‘ برداشت کر سکیں گی۔ جنہوں نے اس زندگی میں پختگی حاصل کر لی ہو۔ اگرچہ حیات اپنے ارتقائی منازل پر اعادہ اور تکرار سے نفوذ ہے تاہم برگساں کے فلسفہ کی رو سے جیسا کہ ولڈن کا ر لکھتا ہے حشر اجساد بھی عین قرین قیاس ہے۔ زمانہ کو لمحات میں تقسیم کر دینے کی وجہ سے ہم اسے مکان سے وابستہ کر دیتے ہیں۔ اور اس لیے اس کو عبور کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ زمانہ کی اصل حقیقت اس وقت آشکارا ہو سکتی ہے جبکہ ہم اپنی ذات میں غوطہ زن ہوں کیونکہ حقیقی زمانہ خود ہماری حیات ہی ہے ‘ جو حالت جدوجہد کو برقرار رکھنے سے اپنے آپکو قائم و دائم رکھ سکتی ہے۔ ہم زمانہ کے محکوم اسی وقت تک ہیں جب تک کہ زمانہ کو مکان سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ مقید بالمکان زمانہ تو ایک زنجیر ہے‘ جسے حیات نے اسے اپنے گر د لپیٹ رکھا ہے تاکہ وہ موجودہ ماحول کو اپنے اندر جذب کر سکے۔ درحقیقت ہم غیر زمانی ہیں۔ اور موجودہ زندگی میں بھی ہمیں اپنے غیر فانی ہونے کا احساس ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ احساس محض آنی ہو گا۔ خودی میں جس چیز سے پختگی ہوتی ہے وہ عشق ہے ۔ لفظ عشق نے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کیا ہے ۔ اس کے معنی ہیں جزو ذات بنانا یا اپنے اندر جذب کرنا۔ عشق کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ کوئی نسب العین سامنے رکھا جائے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ عشق کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عاشق اور معشوق دونوں میں انفرادیت کی شان پیدا کر دیتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر فرد یکتا کے حصول کی کوشش طلب او رمطلوب دونوں کے اندر شان انفرادیت پیداکر دیتی ہے۔ جس طرح عشق سے خودی میں پختگی اور توانائی آتی ہے۔ اسی طرح سوال اسے میں سے ضعف اور نقص پیدا ہو جاتا ہے۔ جو بات تمہیں بغیر ذاتی کوشش کے حاصل ہو جائے وہ سوال کے ذیل میں آ جاتی ہے۔ ایک دولت مند کا بیٹا جو انپے باپ کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کا وارث ہوتا ہے دراصل سائل یعنی گدا ہے اسی طرح شخص دوسروں کے خیالات کو مدار فکر بناتا ہے۔ وہ بھی سائل ہے۔ پس خودی کو پختہ کرنے کے لیے ہمیں عشق اختیار کرنا چاہیے یعنی اپنے اندر انجذاب پیدا کرنی چاہیے اور ہر قسم کے سوال سے محترز رہنا چاہیے : خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی عشق کس طرح اختیار کرنا چاہیے اس سوال جواب کم ازکم مسلمان کے لیے آنحضرت صلعم کی زندگی میںموجود ہے۔ آپ نے اپنے طرز عمل سے مسلمانوں کو دکھا دیا کہ عشق ایسا ہوتا ہے او ر اس طرح پر کاربند ہوتے ہیں۔ پس مسلمان کو لازم ہے کہ آنحضرت صلعم کا اسوہ حسنہ اپنے سامنے رکھے یعنی آپ سے محبت کرے: ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست ترتیب خودی کے مراحل تین ہیں: ۱۔ دستور الہیہ کی اطاعت۔ ۲۔ ضبط نفس ‘ جو شعور ذاتی یا انانیت کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ ۳۔ نیابت الٰہی ۲ نیابت الٰہی دنیا میں انسانی ارتقاء کی تیسری اور آخر ی منزل ہے۔ نائب اس زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے۔ وہ کامل خودی کا مالک اور انسانیت کا منتہائے مقصود ہوتاہے دماغ اور جسم دونوں کے لحاظ سے حیات کا بہترین اور بلند ترین مظہر ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں حیات مرتبہ کمال کو پہنچ جاتی ہے ۔ ہماری ذہنی زندگی کے اختلافات اس کی ذات میں پہنچ کر ہم آہنگی کا جامہ پہن لیتے ہیں یعنی کائنات کے پیچیدہ مسائل اس کی نظر میں سہل ہو جاتے ہیں۔ وہ اعلیٰ ترین قوت اور برترین عل دونوں کا حامل ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں فکر اور عمل جبلت اور ادراک سب ایک ہو جاتے ہیں ۔ گویا وہ شجر انسانیت کا آخری ثمر ہوتا ہے ۔ اور چونکہ وہ سب کے آخر میں ظاہر ہو گا۔ اس لیے وہ تمام صعوبتیں جو انسانیت کو ارتقائی منازل طے کرنے میں لاحق ہوتی ہیں۔ محل اعتراض نہیں ہیں۔ وہ بنی نو ع آدم کا حقیقی حاکم ہوتا ہے۔ اور اس کی بادشاہت دراصل اس دنیا میں خدا کی بادشاہت ہوتی ہے ۔ وہ لوگوں کو حیات کی دولت اور اپنا تقرب عنایت کرتا ہے۔ ہم منازل ارتقائی جس قدر زیادہ طے کریں گے‘ اسی قدر اس سے قریب ہوتے جائیںگے۔ اس کے تقرب کے معنی یہ ہیں کہ ہم حیات کے مراتب اعلیٰ پر فائز ہو رہے ہیں۔ واضح ہو کہ اس کے ظہور کی پہلی شرط یہ ہے کہ بنی نوع آدم جسمانی اور دماغی دونوںپہلوئوں سے ترقی یافتہ ہو جائیں۔ اگرچہ فی الحال ایسے افرد کا وجود ہمارے تخیل کے علاوہ اور کسی جگہ نہیںپایا جاتا۔ لیکن انسانیت کا تدریجی نشوونما اس بات کی دلیل ہے کہ زمانہ آئندہ میں افراد یکتا کی ایسی نسل پید ا ہو جائے گی جو حقیقی معنوں میں خلافت و نیابت الہیہ کی اہل ہو گی۔ الغرض زمین پر خدا کی حکومت کے معنی یہ ہیں کہ یہاں یکتا اور اعلیٰ افراد کی جماعت جمہوری رنگ میں قائم ہو گی اور ان کا صدر اعلیٰ وہ شخص ہو گا جو ان سب پر فائق ہو گا۔ جس کا مثل اس روئے زمین پر ڈھونڈے نہ مل سکے گا۔ نٹشے نے بھی اپنے تخیل میں افراد یکتا کی ا س ترقی یافتہ جماعت کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ لیکن اس کے اتحاد اور نسلی تعصب نے اس تصویر کو بھونڈا کر دیا۔ (ماخوذ از دیباچہ اسرار خودی) اب ہم اقبال ک فلسفہ کا مغربی حکما کے افکار سے موازنہ کرتے ہیں: اقبال کے فلسفہ کی رو سے یہ بات مسلم ہے کہ انسان کی ترقی تین مختلف جہات میں ہو گی: (۱) شخصی اختیار (۲) شخصی بقائے روح اور نیابت الٰہی یورپ میں کینٹ وہ شخص گزرا جس نے یہ بات بخوبی واضح کر دی کہ مجرد عقل کی مدد سے ہم کائنات کے اہم ترین مسائل کو حل نہیںکر سکتے۔ اور اس طرح اس نے فلسفیانہ زاویہ نگاہ سے ’’ایمان‘‘ کی ضرورت کو ثابت کر دیا۔ تنقید عقل عملی میں اسے انہی مسائل میں زندگی کی حقیقت نظر آ گئی چنانچہ وہ ان تصورات سہ گانہ کو تجرید انسانی کے اصول اولین قرار دیتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ جب تک انسان کو فاعل مختار نہ مانا جائے۔ اس وقت تک کسی کو قرار نہیں دے سکتے اور نہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ ار گردانا جا سکتا ہے۔ کینٹ نے اس حقیقت کا انکشاف کر کے انسانیت کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ کینٹ کی طرح اقبال کو ’’ایمان‘‘ کے اثبات کی ضرورت لاحق نہیں ہوئی ‘ کیونکہ ان کا فلسفہ ’’خودی‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ اور اس کی مسلسل جدوجہد کی تاویل ا س کے سوا اور کسی نہج پر نہیں ہو سکتی کہ انسان کو اپنی خودی کی مسلسل جدوجہد کے آخری نتیجہ پر ایمان حاصل ہے جبھی تو وہ سراپا جدوجہد بنا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ہمیں یہ یقین نہ ہو کہ جدوجہد کی بدولت ہمیں گوہر مقصود حاصل ہو جائے گا اس وقت تک ہم پیہم کوشش کر ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح اقبال کو ’’اخلاقی قانون‘‘ کے اثبات کی ضرورت در پیش نہیں ہوئی۔ اس حیثیت سے کہ حکم ما فی الخارج میں نافذ ہو ۔ اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ ’’اخلاقی قانون‘‘ حیات خودی کی باطنی ضروریات ی بنا پر ظہور میں آتا ہے۔ جو شے شخصیت کو توانائی عطا کرے اچھ ہے اور جو شے اسے کمزور کرے و ہ بری ہے۔ گویا قانون مذکور کے وجود میں آنے کے لیے خود انسان کی شخصیت کافی ضمانت ہے۔ اس کے اثبات کے لیے کسی دلیل و برہان کی حاجت نہیں ہے۔ اقبال اور کینٹ کے زاویائے نگاہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اقبال کے فلسفہ کی رو سے آزادی یا اختیار اور بقایا حیات دوام سعی پیہم اور جدوجہد مسلسل کا ثمرہ ہے اور اس سے وہی لوگ متمتع ہو سکتے ہں جو مسلسل جدوجہد کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص آزادی اور حیات ابدی کا طالب ہو تو اسے ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ چیزیں گھر بیٹھے ہاتھ نہیں آئیں گی۔ اس کے بالمقابل کینت نے آزادی اور حیات ابدی کو اس لیے اپنے فلسفہ میں داخل کیا کہ اسے یہ کہنے کا موقع مل سکے کہ کائنات میں عدل کار فرما ہے ‘ اور افعال اور ان کے ثمرات میںمطابقت کلی موجود ہے۔ اقبال کا فلسفہ انسان کے دل میں خوش آئند امیدیں پیدا کرنے کو موجب ہے۔ میرا خیال ہے کہ خواہش اور فاعلیت یہ دونوں چیزیں خودی کے اولین خصائص ہیں اور ان کی وجہ سے انسان میں امیدوں کا پیدا ہونا ایک لازمی اور فطری امر ہے۔ شوپن ہار کی قنوطیت کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ بسا اوقات کائنات کی ناخوش آئندہ وسعت کے خیال میں منہمک رہتاہے۔ اور زندگی کے ان طوفان خیزیوں پر نظر نہیں ڈالتا جو خود اس کے اندر برپا ہیں۔ علاوہ بریں اگر وہ زندگی کو زبوں اور مذموم خیال کرتا ہے تو اس تو اس کا سبب کہ بدقسمتی سے اسے زندگی میںنہایت تلخ تجاذب حاصل ہوئے تھے۔ اور اس لیے وہ اس نتیجہ پہنچ گیا کہ خواہش ایک امر مذموم ہے اور موجب کلفت ہے۔ اقبال اور شوپن ہار میں اس لحاظ سے بعد المشرقین ہے۔ جو شے اقبال کی نظر میں اچھی ہے وہی شے شوپن ہار کے نزدیک بری ہے۔ اقبال کی رائے میں مصائب اور آلام خودی کی تربیت اور اصلاح کو موجب ہیں۔ شوپن ہار کی نظر میں یہی شے خود کشی کے جواز کی دلیل بن گئی ہے۔ فی الجملہ کینٹ اور شوپن ہار کے خیالات کا براہ راست اقبال کے فلسفہ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کیونکہ کینٹ اگرچہ فلسفہ کی دنیا میں عظیم الشان مرتبہ رکھتا ہے۔ تاہم وہ محض ایک مابعد الطبیعیاتی مفکر تھا۔ اور اقبال کو فلسفہ کے اس شعبہ میں اس قدر علاقہ نہیں جس قدر اخلاقیات سے ہے۔ رہا شوپن ہار کا فلسفہ کے اس شعبہ سے اس قدر علاقہ نہیںجس قدر اخلاقیات سے ہے۔ رہا شوپن ہار کا فلسفہ سو اس کے متعلق میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اقبال جیسا مذہبی خیالات رکھنے والا انسان اس کے فلسفہ کو کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔ جس شخص کے فلسفہ کا اقبال کے خیال پر سب سے زیادہ اثر پڑا ہے وہ نطشے (Neitzshche)ہے جس کی وفات 1900ء میں ہوئی۔ اس کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’خواہش اقتدار ‘‘ اس کائنات میں ایک بنیادی حقیقت ہے۔ یہ خواہش زندگی کی فراوانی اور افزونی کی مظہر ہے اروبالذات تمام حسنات کی سرتاج ہے۔ ٹھیک ہے جس طرح شوپن ہار کے فلسفہ میں خواہش زیست تمام سئیات کی بنیاد پر ہے۔ یعنی جو زچیز شوپن ہار کی نظر میں بدترین ہے۔ وہ نٹشے کی بہترین ہے۔ کسی نے کیا خو ب کہا ہے کہ شوپن ہار جسے شیطان سمجھتا ہے اسے خدا سمجھتا ہے۔ بہرکیف اقتدار حاصلکرنے کا جذبہ بقول نٹشے اس کائنات کی رگ وپے میں کارفرما ہے اوراس کے فلسفہ کا یہ سنگ بنیاد اقبال کے فلسفہ کے سنگ بنیاد یعنی خودی کی مسلسل جدوجہد کی حالت سے عملی طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ اقبال اور نٹشے دونوں کی نظر میں جدوجہد اور خواہش ‘ خطرات اور مشکلات آویزش اور تنازعتات اور مصائب و آلام کے مصلحانہ اثرات تعمیر انسانی کے بنیادی لوازم ہیں۔ نٹشے نے بنی نوع انسان کو دو طبقوں میںتقسیم کیا ہے۔ آقا اور غلام اور ان دونوں کے لیے جداگانہ اخلاق تجویز کیے ہیںَ غلاموں کے لیے مسیحٰ اخلاق یعنی بردباری اور مسکینی ار آقائوں کے لیے وہ اخلاق جو ’’خواہش اقتدار‘‘ پر مبنی ہیں اور جو شدت اور جدوجہد کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جدوجہد کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ ’’فوق البشر‘‘ ظاہر ہو جو مستقبل بعید میں ظاہر ہو گا اور زندگی کا کامل مظہر ہوگا۔ چنانچہ نٹشے لکھتا ہے کہ یہ زمانہ آئندہ کا یہ مرد میدان جو ہمارا نجات دہندہ ہو گا ہمیں موجودہ نصب العین اور اس کے نتائج سے آزادی دلائے گا۔ اور ان قوتوں کو فنا کرنے والا ہو گا۔ جو زندگی کے خلاف مصروف عمل ہیں جو اپنے ساتھ انقلاب عظیم لائے گا اور جس کی بدولت دنیا میں حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ جو ہماری قوت ارادی کو آزادی عطا کرے گا۔ جو کائنات کو اس کے صحیح مقام پر قائم کرے گا۔ اور بنی نوع آدم کے اندر بہترین تمنائیں پیدا کرے گا جو مسیحیت کا مخالف اور تباہ کرنے والا ہو گا۔ جو کائنات کی حقیقت کو ثابت کرے گا۔ الغرض یہ وہ فوق البشر جو غیر معمولی طاقتوں کا مالک ہوگا ضرور ہے ایک دن دنیا میں ظاہر ہو‘‘۔ اقبال اور نٹشے کے خیالات میں بڑی حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ دونوں کامسلک یہ ہے کہ یہ مادی دنیا خودی کی جدوجہد کا ایک وسیع میدان ہے جس میں وہ مرتبہ اختیار پر فائز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ دونوں کامذہب یہ ہے کہ آرٹ کے اندر جمال اوراقتدار دونوں میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ دونوں مسیحی فلسفہ اخلاق کے مخالف ہیں کیونکہ یہ فلسفہ خود ی کوکمزور کرتا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ نٹشے نے فلسفہ مذکور میں نہایت سختی کے ساتھ نکتہ چینی کی ہے۔ اقبال نے براہ راست اس کی تردید پر کمر نہیں باندھی صرف اشارہ دیا ہے کہ یہ فلسفہ ناقص ہے۔ اور مسیحیت بنی نوع آدم کے لیے مفید نہیںکیونکہ یہ ترک دنیا سکھاتی ہے۔ اور اس وجہ سے خودی کی مخفی طاقتیں بروئے کار نہیں آ سکتیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است دنیا میں رہ کر اور مشکلات کا مقابلہ کرنے سے ہی خود ی میں پختگی پیدا ہو سکتی ہے بااین ہمہ فوق البشر ہونے کے تصور کے لحا ظ سے اقبال اور نٹشے دونوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ نٹشے کا فوق البشر ایک ایسی ہستی ہے جو رحم دلی اور محبت اور ہمچو ازیں قبیل دیگر صفات قلبی سے جو سوسائٹی کے قیام کے لیے از بس ضروری ہیں یکسر عاری ہے۔ اقبال کا فوق البشر یا انسان کامل ایک ملنسار ہستی ہے۔ جو سوسائٹی میں دوسرے آدمیوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ اور اپنی ذاتی قوتوں کی بدولت دوسروں کو اپنی سطح پر لاسکتا ہے فرماتے ہیں: تنے پیدا کن از مشت غبارے تنے محکم تر از سنگین حصارے درون او دل درد آشنائے چو جوئے در کنار کوہسارے اقبال کے انسان کامل کا مزاج سختی اور نرمی دونوں کا حامل ہے اوروہ حسب اقتضائے وقت ان دونوںصفات سے کام لیتاہے۔ اس طرح اس کو بھی فائدہ ہو اور سوسائٹی کو بھی لیکن نٹشے کا فوق البشر اگر کامیاب انسان ہے تو وہ یقینا ظالم اور سنگدل ہو گا اور اگر ناکام رہا تو خلوت گزیں اور غالباً دنیا سے متنفر ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ نٹشے کا فوق البشر اپنی ذات میں محدود ہے۔ اس کے سامنے کوئی نصب العین یا مطمح نظر نہیں۔ جس کے حصول کے لیے وہ کوشش کرے۔ برخلاف اس کے اقبال کے انسان کامل کے سامنے خدا کی ذات موجود ہے۔ اور خدا چونکہ غیر محدود ہے اس لیے اس کی ترقی کا میدان بھی غیر محدود ہے۔ لیکن نٹشے کے فوق البشر کے لیے ترقی کرنے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ میرے خیال میں فلسفہ حیات کے لیے یہ بات اشد ضروری ہے کہ وہ انسا ن کی ترقی کا ضامن ہو۔ پس اس لحاظ سے اقبال کا نظریہ نٹشے کے نظریہ پر یقینا فوقیت رکھتا ہے۔ آخر الذکر چونکہ خدا کی ہستی کا منکر ہے اس لیے اس کے فلسفہ کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اس کا فوق البشر مزید ترقی نہیں کر سکتا۔ علاوہ بریں نٹشے کے فوق البشر میںایک یہ نقص ہے کہ اس نے بنی نو ع آدم کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے آقا اور غلام۔ اس کا خیال ہے کہ غلام ہمیشہ غلام ہی رہیں گے۔ وہ کبھی آقا کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ چنانچہ فوق البشر کے مستقبل قریب میں ظاہر ہونے کے لیے اس نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ طبقہ امرا میں اعلیٰ افراد پیدا کیے جائیں لیکن اقبا ل کے فلسفہ کی رو سے ہر شخص غیر محدود ترقیات کا محدود مرکز ہے۔ ترقی کی راہیں ہر شخص کے لیے یکساں طورپر کھلی ہوئی ہیں۔ پس اقبال کے انسان کے ظہور کے لیے مدت مدید درکار نہیں ہے۔ وہ مستقبل قربی میں اور اسی عالم میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اقبال نے اسلامی جمہوریت کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے اس میں وہ ایک مقام پر یوں لکھتے ہیں یورپ کی جمہوریت جس کے سر پر اشتراکی شورش کا بھوت سوار ہے دراصل یورپین سوسائٹی کی اقتصادی اصلاح کی بدولت پیدا ہوتی ۔ نٹشے چونکہ جمہور کی حکومت کوپسند نہیںکرتا اور عوام الناس سے کوئی توقع نہیں رکھتا ہے اس لے وہ مجبوراً اعلیٰ تہذیب و تمدن کو طبقہ امرا کی نشوونما پرمنحصر کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عامتہ الناس ترقی کی مطلق صلاحیت نہیںرکھتے؟ اسلامی جمہوریت یورپین جمہوریت کی طرح اقتصادی مواقع کی وسعت سے پیدا نہیں ہوتی۔ وہ تو ایک روحانی اصول ہے جو اس حقیقت پر مبنی ہے ک ہر شخص میں ترقی کی استعداد موجود ہے۔ بشرطیکہ اس کو ترقی کرنے کے مواقع بہم پہنچائے جائیںَ اور اسلام ایسا مذہب ہے جو انسان کی مخفی قوتوں کو بروئے کار لا سکتاہے۔ چنانچہ اسلام نے عامتہ الناس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں میں سے بہترین کریکٹر اور لیاقت کے افراد پیدا کیے ہیں پس بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے۔ کہ ابتدائی اسلام کی جمہوریت میں نٹشے کے فلسفہ کی تکذیب کا کافی سامان موجود ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ اقبال کے اس قول کی صداقت میںکوئی شبہ نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت مل سکتی ہیں کہ ادنیٰ ترین طبقہ کے افراد غلامی سے بادشاہت کے مرتبہ پر پہنچ گئے ہیں اور ان کا شمار دنیا کے سب سے بڑے آدمیوں میں ہو سکتا ہے۔ نٹشے کو جو کچھ غلطی اس باب میں لاحق ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے تمدن اور امارت کا تصور یونانی ادبیات کے مطالعہ پر مبنی کیا ہے۔ اس نے یہ نہ سوچا کہ اس معاملہ میں یونانی طرز حکومت بے حد ناقص تھا۔ اگر اسے اس کا احساس ہو جاتا تو وہ غلامی کو تمدن کا جزو لاینفک قرا ر نہ دیتا۔ اس کا فوق البشر دوسروں کی محنت کے بل بوتے پر تفوق حاصل کرتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بقول اقبال اس کی حیثیت ایک سائل سے زیادہ نہیں۔ نٹشے کے بعد جس مغربی فلاسفر سے اقبال کا فلسفہ قدرے مشابہہت رکتا ہے وہ ہنری برگساں ہے۔ اس جگہ اس کا فلسفہ شرح و وسط کے ساتھ بیان نہیںکیا جا سکتا۔ مختصر طورپر یوں سمجھیے کہ اس کی نظرمیں تغیر اور انقلاب کائنات کی بنیادی حقیقت ہے ۔ زندگی تغیرات کی ایک لڑی ہے۔ لیکن ہماری قوت مدرجہ ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ وہ غیر مربوط حالتوں کے مجموعہ کا نا م ہے۔ علاوہ بریں خارجی حواس بھی ہمیں دھوکہ دیتے ہیںکیونکہ ان کامقصد ہمیں حقیقت کا علم عطا کرنا نہیں بلکہ روز مرہ کی زندگی میں ہماری رہنمائی کرنا ہے۔ ہماری قوت مدرکہ زندگی کے ان مظاہر سے سروکار رکھتی ہے جنہیں زمان مسلسل اور مکان کہتے ہیں حالانکہ حقیقت کا انکشاف ہمارے شعور کی وحدت میں ہوتا ہے۔ جسے ہم بذریعہ وجدان معلوم کر سکتے ہیں اور وجدا ن زمان مسلسل میں نہیں بلکہ زمان خالص میں پایا جاتا ہے۔ حقیقت جس علم کا اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ ایک تخلیقی تحریک ہے جسے بہ الفاظ دیگر تخلیقی انقلاب کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک زبردست پیشرو حرکت ہے اور ہر شے اپنے ساتھ ارتقائی رنگ عطا کر دیتی ہے لیکن اس کا راستہ بالکل غیر معین ہے اور زمانہ آئندہ میں کوئی مقصد اس سے وابستہ نہیں ہے۔ اقبال بھی برگساں کی طرح تغیر کی واقعیت کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک بھی دنیا ہر لحظہ منقبل ہو تی رہتی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں زمان خالص کے متعلق بھی اقبال کا وہی عقیدہ ہے جو برگساں کا ہے اقبال اس کی حقیقت کے معترف ہیں۔ اور اسے زمان مسلسل سے جدا تصور کرتے ہیں۔ تاہم خطبات مدراس میںیہ بات واضھ ہو سکتی ہے کہ انہوںنے یہ خیالات برگساں کے فلسفے سے اخذ نہیں کیے ہیں۔ اس جزوی مشابہت سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو دونوں مفکرین کے خیالات میں بہت کچھ اختلاف نظر آتا ہے برگساں کا فلسفہ روح اور مادہ میں تصادم تسلیم کرنے کی وجہ سے کائنات میں دوئی کا علمبردار ہے۔ لیکن اقبال کے فلسفہ میں یہ دوئی محیط کل خودی یعنی خدا کی ذات میں آ کر وحدت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ برگساں نے عقل و ادراک کی خوب دھجیاں اڑائی ہیں اور اسے بالکل ناکارہ قرار دیا ہے۔ لیکن اقبال عقل کو بالکل بیکار نہیںسمجھتا۔ ان کی رائے میں ادراک وجدان و عشق تینوں مل کر وہ مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں جسے گلشن راز میں تفکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ عشق ایک ایسے یکسانیت پیدا کرنے والے طریق عمل کا نام ہے جو برگساں کے وجدان سے زیادہ قوی اورجان دار ہے۔ عشق سے مراد یہ یہ کہ عاشق حقیقت سے صرف آشنا ہی نہ ہو بلکہ اس سے بغل گیر ہوجائے ۔ عاشق کی دراصل خواہش یہی ہوتی ہے کہ معشوق اس کے دل میں سما جائے۔ اقبال نے عقل اور عشق دنوں میں کامل ہم آہنگی پیدا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں خادم اور مخدوم کا رشتہ ہونا چاہیے: من بندہ آزادم عشق اسب امام من عشق است امام من عقل است غلام من علاوہ بریں برگساں نے انفرادی اور کلی دونوںقسم کی زندگیوں سے غایت یا مقصد کا تصور خارج کر دیا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کے مقاصد سے معرا ہے۔ حافظہ اس کی رائے میں دماغ کی فاعلیت کی بہترین مثال ہے۔ اس نے ارادہ اور نیت کو جو مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں کوئی اہمیت نہیںدی ہے۔ برگساں نے شخصیت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ اقبال کے فلسفہ کے پیش نظر ناقص معلوم ہوتا ہے۔ برگساں نے ’’جذبہ تخلیق‘‘ کو ایک مطبوع اصول کی شکل میں پیش کیا ہے جو شوپن ہار کے ’’غیر ذی شعور ارادہ‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس قسم کا اصول انفرادی زندگی پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ شخصیت کے ابھرنے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیںرہتی۔ علاوہ بریں اصلی تحریک حیات کو قوت جو اپنے ساتھ ہر شے کو بہائے لیے جاتی ہے۔ ہمارے سامنے ایک ایسی کائنات کا منظر پیش کرتی ہے جہاں ہر طرف ’’جبر‘‘ کا ڈنکا بج رہا ہے حالانکہ برگساںنے کئی جگہ انسان کے خود مختار ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اگرچہ وہ انسانی اختیار کو شخصیتی آزادی کے رنگ میں پیش کرتا ہے لیکن جب تک شخصیت کی حدو بست مناسب اور صحیح طریق پر نہ کی جائے۔ اس وقت تک اختیار شرمندہ معنی نہیں ہو سکتا۔ برگساںکے فلسفہ میں اس بات کی بھی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ شخصیت کو ایک غیر ذی شعور اصل یعنی ’’ارتقائے تخلیقی‘‘ نے کیونکر پید اکر دیا ہے۔ واضح ہو کہ اس کے فلسفہ میں تخلیقی ارتقاء کو وہی مرتبہ حاصل ہے جو اقبال کے فلسفہ میں خدا کو۔ لیکن خدا کی خودی ہے اور اس لیے بجا طور پر خالق خودی کہلا سکتا ہے۔ اس لیے اقبال کا نظریہ برگساں کے نظریہ کے مقابلہ میں زیادہ معقول نظر آتاہے۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ انسانی شخصیت کی تشریح اس صورت میں ہو سکتی ہے جب ہم خدایا حقیقت الحقائق کو بھی ایک شخص تصور کریں۔ اقبال کی طبیعت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں زبردست مذہبی میلان پایا جاتا ہے او راس لیے وہ خدا کا تصور شخصیت ہی کے رنگ میں کرتے ہیں اور یہ انداز بع ا ن کے فلسفہ کے حق میں از بس مفید ہے۔ اقبال نے اپنے خطبات میں بیان کیا ہے کہ خدا نے اپنے لیے اپنی آزادی پر بعض قیود عاید کر لی ہیں۔ تاکہ انسان کو زیادہ سے زیادہ آزادی نصیب ہو سکے لیکن برگساں کا ’’جذبہ تخلیق‘‘ انسان اور حیوان کو ایک لکڑی سے ہانکتا ہے اورجہاں تک میں سمجھتا ہوں انسان کے لیے بہت کم اختیار کی گنجائش باقی رہتی ہے اقبال نے جہاں تک ہو سکا ہے خدائی قدرت و اختیار سے انسان کو حصہ دلایا ہے اور انسانی شخصیت کو اوج ترقی پر پہنچایا ہے۔ لیکن برگساں غیر ذی شعور ارتقائے تخلیقی کے نظریہ کو فروغ دینے کی خاطر انسانی شخصیت کو بہت کچھ پست اور درماندہ کر دیتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ نٹشے اوربرگساں دونوں نے جماعت کے بجائے فرد کو مخاطب کیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ برگساں کے فلسفہ کی بدولت یورپ میںتجارتی اتحاد کی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ براہ راست یا بلا واسطہ اس تحریک کا بانی قرار نہیںدیا جا سکتا۔ رہا نٹشے تو وہ بنی نوع انسان کو بنظر حقارت دیکھتا ہے اور صرف مخصوص افراد کو لائق خطاب سمجھتاتھا۔ چونکہ وہ ہر وقت فوق البشر کے تصور میں غرق رہتا تھا۔ اس لیے اس سوسائٹی کا کبھی خیال ہی نہ آتا تھا۔ ان فکرین نے برخلاف اقبال کی توجہ ہمیشہ افراد کامل کی ایک بڑی جماعت پر مرکوز رہتی ہے۔ اس لیے ان کے فلسفہ کی عمرانی اہمیت بالکل واضح ہے۔ اور میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس رنگ میں وہ تمام مغربی فلاسفروں سے منفرد نظر آتے ہیں۔ ان کی شاہراہ بھی سب سے جدا ہے۔ لگے ہاتھوں اگر گوئٹے کا بھی ذکر کیا جائے تو خلاف حل نہ ہو گا۔ یہ شخص میرے خیال میں یورپ کے لیونار ک بعد خدا کی بہترین مخلوق یا اس کی قوت تخلیق کا بہترین نمونہ ہو گزراہے۔ اگرچہ وہ پیغمبر نہ تھا لیکن اپنے اندر پیغمبرانہ صفات ضرور رکھتا تھا۔ اس کی زندگی ہم آہنگی اور توازن کا ایک بہترین نمونہ تھی یعنی سراپا آرٹ تھی جس کے مطالعہ سے فتبارک اللاہ احسن الخالقین کے معنی سمجھ میں آ جاتے ہیں میں اس کا ذکر اس لیے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اس کی زندگی میں اقبال کے فلسفہ کی جیتی جاگتی تصویر تھی فائوسٹ میں اس نے لکھا ہے کہ اور کیا خوب لکھا ہے: ’’حوادث روزگار سے متاثر نہ ہونا چاہیے‘ زندگی کا آرٹ اسی نکتہ میں مضمر ہے‘‘۔ پیام مشرق میں اقبال نے بھی گوئٹے کے کمالات کا نہایت فراخ دلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔ یہ امربھی قابل غو ر ہے کہ اقبا ل کی طرح گوئٹے بھی اس بات کا قائل تاھ کہ بقا ذاتی کوشش سے حاصل ہو گی یہ دولت یونہی بیٹھے بیٹھے کسی کو نہیںمل سکتی۔ ایں دولت سرمد ہمہ کہ راند ہند آخر میں اس امر کی صراحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اقبال ’’مادیت‘‘ کے خواہ وہ کسیرنگ میں ہو سخت دشمن ہیں۔ اور اسے انسانیت کے حق میں سم قاتل خیال کرتے ہیں۔ انہوںنے اپنی تصنیفات میں اس مسلک کے مضر نتائج کھول کر بیان کر دیے ہیں۔ اور انجام کار اس نظام کے فنا ہوجانے کے متعلق پیش گوئی بھی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ اوراق کے مطالعہ سے ناظرین کو معلوم ہو جائے گا کہ اقبال کا فلسفہ کیا ہے اورکن کن باتوں میں مغربی ارباب فکر کے خیالات سے مختلف ہے جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال کا فلسفہ تمام تر حکمائے مغرب کے خیالات سے ماخوذ ہے تو صریحاً غلط فہمی میںمبتلا ہیں۔ ان کا یہ قول اس امر کی دلیل ہے کہ انہوںنے اقبال کے فلسفہ کا مطالعہ تو کیا ہے مگر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ جس طرح دو تصویروں کے بعض امور میں باہم مشابہ ہونے سے ایک کو دوسری کی نقل نہیں کر سکتے اسی طرح اگر نٹشے اور برگساں کے بعض خیالات کا پرتو اقبال کے فلسفہ میں نظر آتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ اقبال نے اپنا فلسفہ ہی ان حضرات سے اخذ کیا ہے اقبال نے اپنے خطبات مدراس میں ان تمام فلاسفہ اور حکماء کی آراء و افکار پر زبردست تنقید کی ہے۔ جس سے ان کا فلسفہ ماخوذ سمجھا جاتا ہے۔ ۔نٹشے اور برگساں دو ہی فلاسفر ایسے ہیں جن کے خیالات سے اقبال کے فلسفہ میں کہیںکہیں جزوی مشابہت پائی جاتی ہے۔ لیکن اصول او رفروغ دونوں کے لحاظ سے اقبال اور نٹشے یا برگساں میں اس قدر نمایاں اوربین اختلافات پائے جاتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں وہی شخص اقبال پر تقلید کا الزام لگانے کی جرات کر سکتا ہے جس نے صداقت پسندی اور حقیقت پژوہی دونوں سے اپنا رشتہ بالکل منقطع کر لیا ہو۔ اب میں اقبال کے اس شعر پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں: تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل چیست حیات دوام؟ سوختن نا تمام (نیرنگ خیال‘ اقبال نمبر 1932ئ) ٭٭٭ حواشی ۱۔ ڈاکٹر صاحب نے رسالہ نیو ایرا میں لکھا ہے کہ حیات تمام انسانی اعمال کا منتہائے مقصود ہے۔ انسانی اعمال کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کی زندگی شاندار موثر اور افزوں ہو جائے اس لیے ضروری ہے کہ جملہ انسانی آرٹ کو بھی مقصد عظمیٰ کے ماتحت رکھا جائے اور جو شے زندگی کو اس قدر فراوانی عطا کرے اسی قدر اعلیٰ اور اشرف خیال کی جائے۔ بلند ترین آرٹ وہ ہے جو ہمارے اندر خفتہ قوت ارادی کو بیدار کرے تاکہ ہم زندگی کی مشکلات کا کامیابی سے مقابلہ کر سکیں وہ تمام علوم و فنون جو خواب آور ہیں جو ہمیں ان حقائق گردوپیش سے غافل کر دیں جن کے حصول پر زندگی کا انحصارہے وہ دراصل بربادی اور موت کا پیغام ہیں آرٹ وہ ہے جو ہمارے اندر بیداری کی روح پھونکے۔نہ کہ وہ جو ہم پر حالت سکر طاری کر دے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آرٹ کا منتہائے مقصود خود آرٹ ہے وہ نادانستہ طور پر ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش اور ہماری زندگی اور توانائی کو فنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہمارے لیے از بس ضروری ہے کہ ہم ایسے نادان دوستوں سے ہوشیار رہیںانتہی بلفظہ: قدحے خرد فروزے کہ فرنگ داد مارا ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر ندارد ۲۔ نیابت یا خلافت الہیہ کی استعداد ہر شخص میں موجود ہے چنانچہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے واذ قال ربک للملائکتہ انی جاعل فی الارض خلیفہ ٭٭٭ حفیظ ہوشیارپوری فلسفہ اقبال پر ایک اجمالی نظر ہر کسے در ظن خود شد یار من وز درون من نہ جست اسرار من (مولانا روم) فلسفے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے کوئی ترقی نہیںکی۔ وہ آج بھی اسی مقا م پر ہے جہاں آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے تھا اور اس کا کوئی مقصد اور معیار نہیں۔ میں اس نظریے کی روشنی میں علامہ کے فلسفہ کے ضڑوری اجزا کا خاکہ اختصار کے ساتھ پیش کروں گا۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے تصوف کی تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے۔ تصوف مختلف ممالک میںمختلف شکلوں میں جلوہ گر ہوا۔ لیکن ان سب شکلوں کا سرچشمہ افلاطون کی تعلیم تھی۔ جس نے روحانیت پرستی کے جنون مین اس عالم اسبب کی حقیقت اور اہمیت کو بالکل نظر انداز کر دیا اس نے موجودہ زندگی کو سراب سمجھا اور حقیقت مطلق کی تلاش میں جس کا ذریعہ اس کے نزدیک موت ہے وہ موجودہ زندگی کیوسیع امکانات سے آنکھیں بند کر کے موہوم امیدوں کا شکار ہو گیا۔ اسے افلاطون کی خوش نصیبی کہیے یا عظمت کہ تما م ممالک میں اس کے تخیل کا خیر مقدم کیا گیا ۔ یونانیوںنے جہاں جہاں اپنا جھنڈا لہرایا اپنے فلسفہ اور تعلیم کی عظیم الشان روایات کی اشاعت کرتے رہے فاتح قوموں کا تمدن ہمیشہ مفتوح قوموں کے تمدن پر غالب آ جایا کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا کی ہر زبان میں اس کے ترجمے ہوئے اور غیر شعوری طورپر افلاطون کافلسفہ تن آساں قوموں کے رگ و پے میں سرایت کرتا چلا گیا۔ اسلامی تصوف کی تاریخ سے معلوم ہو گا کہ اہل شریعت ہمیشہ اہل تصوف کی مخالفت کرتے رہے لیکن مخالفت کا یہ انداز جو بعض حالتوں میں قتل اور خونریزی کی حد تک بھی پہنچا خالص مذہبی تعصب کی بنا پر تھا۔ اور اس کی جڑ یا بنیاد کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔ افلاطون کے بعد اس کے مخالف اورموافق ہر قسم کے فلسفی پیدا ہوتے رہے لیکن جس منظ اطور پر ہمارے فلسفی نے اس فلسفہ تن آسانی کی خامیوںسے بنی نو ع انسان کو آگاہ کیا اس کی مثال نہیںملتی۔ اسے معلو م تھا کہ اسی چشمہ سے تصوف کی آبیاری بھی ہوتی ہے اور اس نے یہی بہتر سمجھا کہ پہلے اس چشمے کومسدود کیا جائے چنانچہ اس نے افلاطون کے ایوان تخیل کے کھنڈروں میں خودی کا عالیشان محل تعمیر کر کے یہ ثابت کر دیا کہ فلسفہ وہاں نہیں جا سکتا جہاں آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے تھا اور اب اس کا مقصد بھی موجود ہے یعنی خودی کا ترفع اور لیجیے معیار بھی۔ یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے مختلف فلسفیوں کے درمیان جو مسئلہ سب سے زیادہ اختلاف عقائد کا باعث بنا رہا ہے وہ روح اور مادہ کا مسئلہ ہے۔ روح اور مادہ کے درمیانایک خلیج حائل کرنا مشرقی اور مغربی تمدنوں کی مشترکہ غلطی ہے۔ زندگی کی محض ’’روح یا محض ’’جسم‘‘ نہیں بلکہ یہ روح جسم کا نا م ہے روح جسم کے بغیر اور جسم روح کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ دونوں میں جدائی ہر حالت میں موت ہے۔ اقبال کا نظریہ دین و سیاست کی بنیاد بھی یہی مسئلہ ہے۔ جس طرح ایک فرد کی زندگی میں روح اور جسم کا توازن ضروری ہے۔ اسی طرح کسی قوم کی زندگی میں بھی ’’مذہب ‘‘ اور ’’سیاست‘‘ کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنا گویا اس قو م کی موت ہے۔ دوسرے لفظوں میں مذہب قوم کی روح ہے اور سیاست اس کا جسم: ملک است تن خاکی و دیں روح و روان است تن زندہ و جاں زندہ ز ربط تن و جان است فلسفہ کے مسائل میں یہ خصوصیت نمایاں طور پر پائی جاتی ہے کہ ایک مسئلہ کے نتائج دوسرے مسئلہ کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں اور عام طورپر ایسا ہوتاہے کہ ایک مسئلہ کے متعلق کسی فلسفی کی رائے معلو م ہو جائے تو دوسرے مسئلہ کے متعلق اسی فلسفی کے نقطہ نگاہ کا اندازہ کرنا آسان ہوجاتاہے۔ چنانچہ اقبال کے ہاں باقی مسائل کا حل بھی’’روح و جسم‘‘ کے مسئلہ کے حل سے ملتا جلتا ہے۔ ’’جبروقدر‘‘ کے متعلق کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صوفیائے کرام اور اقبال دونوں حقیقت کی تلاش میں تھے۔ صوفیوں کے نزدیک یہ حقیقت منتظر خداکی ذات مطلق ہے۔ چنانچہ ایسی چیز ڈھونڈتے رہے جو ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے۔ اس کے برعکس اقبال کو آدمی کی تلاش تھی۔ چنانچہ وہ مولانا روم کے ہم نوا ہو کر یہی کہتے: ازچام و دد ملولم و انسانم آرزو است! اسی بات سے جبر و قدر کا مسئلہ نکلتا ہے۔ ایک طرف ان تن آسانوں کا گروہ ہے جو سب کچھ خدا کے بھروسے پر چھوڑ کر عزم و ہمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے دوسری طرف ہمارا فلسفی ہے جو کہتاہے: خودی کوکر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے لیکن جیسا کہ ا س شعر سے ظاہر ہے کہ یہاں بھی اقبال جبر و قدر کا توازن برقرار رکھنا چاہتا ہے۔لیکن اس نے ایک اور جگہ بھی کہا ہے کہ مومن کا مقام ’’جبروقدر‘‘ کے درمیان ہے۔ روح اورجسم کا اتحاد اقبال کی شاعری میں بھی کارفرما نظر آتاہے۔ شعر کی انتہائی خوبی اسی میںہے کہ الفاظ و معانی یا طرز اظہار جسے انگریزی میں Formکہتے ہیں اور خیال یعنی Contentمیںایک خاص قسم کا ربط ہے ۔ اگرچہ اس بات کو جانچنے کے لیے کوئی صحیح معیار نہیں۔ لیکن ذوق سلیم اس لذت سے بخوبی آشنا ہو سکتا ہے خیال کی بلندی اور لطافت کے ساتھ ساتھ الفاظ کا حسن بھی اور موسیقی اقبال کے ہاں کثرت سے موجود ہیں اردو تصانیف میں بال جبریل سے اس کی بہترین مثالیں مل سکتی ہیں۔ فلسفہ کا ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمیںخارجی اشیا ء کا علم کس طرح ہوتا ہے ۔ اس کے تین ذرائع (۱) حواس (۲) عقل (۳) وجدان ۔ اور یہاں سے پھر فلسفیوں کے تین گروہ ہو جاتے ہیںَ جن کے متعلق تفصیل میںجانے کی نہ یہاں ضرورت ہے نہ گنجائش۔ اقبال ’’وجدان‘‘ کا قائل ہے جسے وہ ’’عشق‘‘ بھی کہتا ہے ۔ اس کی نظر میں ’’عقل‘‘ شر کی بنیاد ہے۔ لیکن کبھی کبھی ’’عشق‘‘ کے لیے ’’عقل‘‘ کا پاسبان ضروری ہے۔ تاکہ یہ گمراہ نہ ہو جائے۔ ’’خیر و شر‘‘ کے مسئلے کا فیصلہ بھی یہیں ہو جاتاہے ۔ وجدان عشق یا ذوق سلیم حسن عمل کی بنیاد ہے اور : عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی قسمت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے اقبال’’زمان و مکان‘‘ کی ظاہری قیود سے بھی آزاد ہے۔ ہم نے اپنی سہولتوں کیلیے ’’مکان‘‘ کو ’براعظموں‘‘ ’’ملکوں‘‘ ’’شہروں‘‘ ’’اور ’’قریوں‘‘ میں اور زمان کو ’’صدیوں‘‘ ’’برسوں‘‘ ’’مہینوں‘‘ ’’ اور ’’گھنٹوں‘‘ میں تقسیم کر دیا ہے اور ان تقسیموں کی حیثیت صرف اضافی ہے: تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ہر دم رواں پیہم دواں ہے زندگی اقبال اپنے آپکو مرد آفاقی کہتا ہے۔ اس کے اس عقیدے کی بنیاد بھی ’’نظریہ مکان‘‘ پر ہے۔ اور وہ اسی لیے ’’وطنیت‘‘ کے خلاف ہے۔ ملکوں کی تقسیم انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے۔ عہد حاضر میں مغرب کی مختلف طاقتوں کی خود غرضی جو جوع الارض کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے ۔ اس بات کی روشن دلیل ہے اقبال انسان کو اور خصوصاً مسلمان کو ملکی امتیازات سے بالاتر رہنے کا سبق دیتا ہے: رہے گا راوی و نیل وفرات میں کب تک ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے (راوی ‘ لاہور اقبال نمبر 1938ئ) ٭٭٭ سر عبدالقادر رموز بے خودی مثنویاں تو بہت لکھی گئی ہیں لیکن یہ امتیاز شاید کسی کسی کو حاصل ہو کہ ملک و قوم تک کوئی ضروری پیغام پہنچانے کے لیے مثنوی کو ذریعہ اظہار بنایا جائے۔ خدا جزائے خیر دے سر محمد اقبال کو جنہوںنے اس زمانہ میں انحطاط میں ملت اسلامیہ کو مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کے ذریعہ سے پیغام عمل دیا اور رموز بے خودی میں مژدہ حیات سنایا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی مثنوی غالباً مولانا روم علیہ الرحمتہ ہے جس کو اسلامی ممالک میں اکثرلوگ قرآن مجید کے بعد اعلیٰ درجہ کی مذہبی کتاب سمجھتے ہیں ۔ اور قرآن در زبان پہلوی کا خطاب دیتے ہیں۔ اس کی زبان ایسی سلیس ہے کہ اورانداز بیان ایسا دلنشیں ہے کہ خاص و عام میں مقبول ہے۔ یہ عالیشان مثنوی ایک دریائے ناپیدا کنار ہے۔ اس کی کئی ضخیم جلدیں ہیں جن میں کلام الٰہی کے ضروری مسائل جا بجا عام فہ پیرایہ اور مثالوں سے اور حکایتوں سے لوگوں کو سمجھائے گئے ہیںَ اس کتاب کا مقصد مذہب اسلام کی خدمت ہے۔ تصور کا عنصر اس میں غالب ہے اور اس لیے یہ کتاب علماء اور صوفیاء دونوں میںمقبول ہے۔ اور فلسفی بھی اسے شوق سے پڑھتے ہیں۔ ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ میں طرز مثنوی مولوی معنوی کا تتبع کیا گیا ہے۔ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ہم ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی ان دو مختصر مثنویوں کا مولانا روم کی عظیم الشان کتاب سے مقابلہ کیا چاہتے ہیںَ ہاں یہ نسبت ضروری ہے کہ اقبال نے مثنوی شریف کی شیریں زبان اپنی مثنویوں کے لیے اختیار کی ہے اور مثنوی کی مقبول بحر اپنے لیے تبرکاً انتخاب کی ہے۔ جناب مولانا علیہ الرحمتہ کا فیض معنوی سمجھیے کہ ان دونوں مثنویوں میںایک خاص تاثیر موجود ہے۔ ذیل کے اشعار میں’’اسرار خودی ‘‘ کی تمہید میں اقبال نے خود اس فیض کا اعتراف کیاہے: ایں قدر نظارہ ام بے تاب شد بال وپر شکست و آخر خواب شد ٭٭٭ روئے خود بنمود پیر حق سرشت کو بحرف پہلوی قرآن نوشت ٭٭٭ گفت اے دیوانہ ارباب عشق جرعہ اے گیر از شراب ناب عشق ٭٭٭ بر جگر ہنگامہ محشر بزن شیشہ بر سر دیدہ بر نشتر بزن ٭٭٭ آشنائے لذت گفتار شو اے درائے کارواں بیدار شو ’’درائے کارواں‘‘ یعنی اقبال نے بیدار ہو کر اس ارشاد کی تعمیل کی ہے۔ سوز و گداز خدا نے فطرت میں ودیعت کیا تھا۔ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر نظر پڑتے ہی وہ سوز و گداز نالہ کی طرح فریاد بن کر سینہ سے نکلا اور پکارا کہ دنیا مین وہی افرادزندگی کا فرض کماحقہ ادا کر تے ہیں جو لذبت عمل سے بہرہ یاب ہیں اور جو قوت عمل کھو بیٹھے یا محو خیال ہو بیٹھے ہیںَ ان کا شمار زندوں میں نہیں اس ایک مضمون کو کئی پیرایوں میں ادا کیا گیا ہے۔ اور کئی تشبیہوں اور کئی موثر مثالوں سے واضح کیا گیا ہے۔ اسرار خودی کے لیے ایک بسیط ریویو جداگانہ درکار ہے جو پھر کبھی اگر حالات مساعد ہوئے تو لکھا جائے گا۔ اخبارات میں اس پر بہت لے دے ہو چکی ہے۔ اور بہت کچ اس کی تعریف میں لکھا جا چکاہے۔ اس وقت تو اس مثنوی کے دسرے حصے سے بحث ہے جو حال میں شائع ہوا ہے۔ اور جس کانام ’’رموز بے خودی‘‘ رکھا گیا ہے۔ اگر صرف دو نوں مثنویوں کے ناموںکو سرسری طورپر دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ حضرت اقبال نے اضداد کے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ نکتہ چینی زبان قلم سے بے اختیار نکلنے کو ہوتی ہے کہ پہلے تو ملت اسلا م کو پیغام دیا کہ اس کا ہر فرد خودداری سیکھے اور اپنے حقوق کی حفاظت کیلیے جدوجہد زیست کے میدان مردانہ کارزار کے لیے تیار ہو۔ اور پھر دوسری کتاب میں خودی سے بیگانہ ہو کر وہی بے خودیکا جادہ فرسودہ اختیار کر لیا۔ لیکن جب رموز بے خودی کو غور سے پڑھیںتو یہ اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ اول تو یہ صاف معلوم ہو جاتاہے کہ مصنف نے رموز بے خودی میں ان اصولوں سے بالکل انحراف نہیں کیا جو اسرار خودی میں اصول زندگی قرار دیے گئے تھے۔ اور دوسرے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں افراد کے لیے خودی اور خودداریذریعہ استواری وہیں کامل افرا د کا اپنی ہسیت میں محو کر دینا اور اپنی انفرادی زندگی کے جزو کو قومی زندگی کے کل میں شامل کر دینا قومی ترقی کے لیے لازم ہے ۔ اور اس کو بے خودی سے تعبیر کیا گیا ہے گویا یہ وہ بے خودی ہے جو خودداری اور خود شناسی کے بعد پیدا ہوتی ہے ۔ اورجو ہر فرد و قوم دونوں کے لیے عین نفع ہے۔ اس مثنوی میں یہ مضمون کس خوبی سے ادا ہوا ہے: تو خودی از بیخودی شناختی خویش را اندر گماں انداختی جوہر نوریست اندر خاک تو یک شعاعش جلوہ ادراک تو ٭٭٭ خوگر پیکار پیہم دیدمش ہم خودی ہم زندگی نامیدش چوں ز خلوت خویش را بیروں کشد پائے در ہنگامہ جلوت نہد ٭٭٭ در جماعت خود شکن گردد خودی تا ز گلبرگے چمن گردد خودی (رموز بے خودی صفحہ ۴و ۵) یہ اسول ذہن نشین کر تے ہوئے شاعر مطلب کی طرف آتاہے اور یہ بتالاتاہے کہ ربط افراد کا نام ہی ملت ہے اور افراد کی ہستی کے قیام کا مدار اسی ارتباط پر ہے۔ اور اس دعویٰ کی زبردست دلییل نیچر کامشاہدہ ہے: محفل انجم ز جذب باہم است ہستی کوکب ز کوکب محکم است (صفحہ ۷) اس ضمن میں کیا اچھا اصول بتایا ہے کہ افرا د انسانی کو باہم مربوط کرنے کے لیے کسی خاص صاحب اثر فرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ کے اہم ترین موقعوں پر وہ فر د لباس نبوت میں جلوہ گر ہوا ہے اور ا س سے کم ضروری مرحلوںپر رہبر کامل کی صورت میں ایسے انسان کامل کے اوصاف کیسے اچھے پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں: تاخدا صاحب دلے پیدا کند کز فغانے نغمہ اے انشاء کند ساز پردازے کہ از آوازہ خاک را بخشند حیات تازہ ٭٭٭ زندہ از یک دم دو صد پیکر کند محفلے رنگیں ز یک ساغر کند ٭٭٭ گلستاں در دشت و در پیدا کند تازہ انداز نظر پیدا کند (صفحہ ۹) قوم کا انداز نظر بدل دینا یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ جو خاص اور برگزیدہ آدمیوں کے حصے میں آتا ہے ۔ اور اگر وہ انداز نظر صحیح ہے تو اسی سے حیات تازہ پیدا ہوتی ہے۔ اس نئی زندگی کے پروں سے قوم بلند پروازیاں کرتی ہے مگر اس کی بلند پروازیاں آئین کی پابندی پر منحصر ہوتی ہیں۔ یہ ایک عجیب صداقت ہے کہ جس پر اس مثنوی میں جا بجا زور دیا گیا ہے کہ آئین قانون جو بظاہر پابندی ہے یہی اصل میں آزادی کی بنا ہے۔ او ر جو قومیں آئین کی پابندیاں اپنے اوپر لازم کیے بغیر آزادی کے خواب دیکھتی ہیں وہ ایک خیال خام میں مبتلا ہیں جو ان کو منزل مقصود سے ہمیشہ دور رکھے گا۔ اس سلسلہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آئین اسلام کا بنیادی پتھر توحید ہے یعنی خدائے واحد پر ایمان لانا ایک کلمہ ایک کعبی ایک کتاب ایک سنت یا دستور العمل یہ اینٹیں ہیں جن کے ساتھ وہ بنیادی پتھر مضبوط گڑا ہوتا ہے۔ ملت کے استحکام کے لیے ہم آہنگی کی ضرورت ہے: ملت از یک رنگی دلہاستے روشن از یک جلوہ ایں سیناستے قوم را اندیشہا باید یکے در ضمیرش مدعا باید یکے (صفحہ ۱۴) یہ مشہور مسئلہ ہے کہ اسلام میںملت کی نبا نہ ایک ملک کے باشندے ہونے پر ہے اور نہ ایک نسل پر بلکہ ہم مذہب یعنی ہم عقیدہ اور ہم خیال ہونے پر ہے۔ مگر اس زمانہ میں اکثر لوگ اس رائے کی طرف مائل ہیں کہ یہ ہم خیالی کا رشتہ گو خالی از اثر نہیں مگر ایسا مضبوط نہیں ہو سکتا کہ جیسا وہ رشتہ جس کی بنا قومیت یا وطنیت پر ہو۔ اور اس راء کی تائید میں بعض ممالک کے جوش قومیت یا وطن کی مثالیںپیش کی جاتی ہیں اور اس کے مقابل میں موجودہ دنیائے اسلام کی منتشرہ اور غیر متحدہ حالت دکھائی جاتی ہے۔ اس مسئلہ پر کوئی قطعی فیصلہ کرنا اس مختصر ریویو میںممکن نہیں۔ مگر عام اسلامی خیال اب تک مذہبی بنا ہی کو بہتر سمجھتا ہے۔ اور اس بارے میں حضرت اقبال کا مذہب اس خیال کے عین مطابق ہے۔ اس کی تائید میں جو دلائل انہوںنے پیش ہیں نظم میں آ جانے سے ان کا زور دوبالا ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ پر زور الفاظ میں اس مسئلے کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے: با وطن وابستہ تقدیر امم بر نسبت بنیاد تعمیر امم اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ باد و آب و گل پرستیدن کہ چہ بر نسب نازاں شدن نادانی است حکم او اندر تن و تن فانی است ملت ما را اساس دیگر است ایں اساس اندر دل ما مضمر است تیر خوش پیکان یک کیشیم ما یک نما یک بیں یک اندیشیم ما مدعائے ما مال ما یکے است طرز و انداز خیال ما یکے است ما ز منتہائے او اخواں شدیم یک زبان و یک دل و یک جاں شدیم (صفحہ ۱۵۔۱۶) قومی زندگی کی بنیادیک دلی پر رکھ کر قومی خیالات کی تدبیروں کا ذکر شروع کیاگیا ہے۔ پہلے تنبیہہ کی ہے کہ یا س وناامیدی قومی زندگی کے لیے زہر کا حکم رکھتی ہ۔ ترقی چاہنے والی قوموں کو چاہیے کہ ناامیدی کو پاس نہ آنے دیں۔ حوصلے پست رکھیں اور سرگرم جستجو رہیں۔ ناامیدی عموماً خوف سے پیدا ہوتی ہے۔ یا غم سے۔ اس لیے خوف اور غم سے بھی الگ رہنا چاہیے۔ اس ہدایت پر عمل کی تاکید کرتے ہوئے مثنوی میں آیات و احکام قرآنی کے حوالے پیش کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ سوائے خدا کے کسی سے ڈرنا شان ایمان کے خلاف ہے اور جب بیم غیر اللہ سے نجات ہو تو کوئی کام آدمی کے لیے دشوار نہیں ہوتا: بیم چوں بند است اندر پائے ما ورنہ صد سیل است در دریائے ما (صفحہ ۲۰) اس سلسلہ میں ایک حکایت اورنگ زیب عالمگیر کی درج کی ہے۔ جس پر جنگل میں نماز پڑھنے کی حالت میں شیر نے حملہ کیا۔ مگر بادشاہ اس سے نہ ڈرا اور بغیر تاک کر ضرب لگانے کے اس نے خنجر کا ایسا وار کیا کہ شیر کو ہلاک کر دیا ور پھر مصرف نماز ہو گیا۔ اس حکایت کو نظم کرتے ہوئے اورنگ زیب کی خدمات مذہبی کی تعریف کی ہے او ر اس ساری تعریف کی جان یہ شعر ہے جو عالمگیر کی شان میں کہا گیا ہے۔ دوسرے مصرعہ کی بلاغت خصوصاً قابل داد ہے: درمیان کار زار کفر و دیں ترکش ما را خدنگ آخریں (صفحہ ۲۳) اس کے بعد ملت اسلامی کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا باہمی رشتہ جنات رسالت مآب صلعم کی ذات بابرکات کی بدولت مضبوط ہے: از رسالت ہم نوا گشتیم ما ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما کثرت ہم مدعا وحدت شود پختہ چوں وحدت شود ملت شود (صفحہ ۳۰) پھر ملت اسلامی کی خصوصیات چند پر معنی شعروں میںبیان کی ہیں اور باتایا ہے کہ حریت اور مساوات ا س ملت کی سرشت میں داخل ہے۔ اسلامی مساوات کی تمثیل کے طور پر ایک دردناک تاریخی روایت نظم کی ہ۔ لکھتے ہیں کہ سلطان مراد نے ایک مسجد بنوائی تھی جو ملک خجند کے رہنے والے ایک پردیسی معمار نے بنائی تھی۔ بادشاہ کو اس کی عمارت کچھ ناپسند ہوئی تو ا س نے معمار کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس معمار نے قاضی کی عدالت میں بادشاہ کے خلاف استغاثہ کیا۔ بادشاہ عدالت میں طلب کیا گیا اور قاضی نے مقدمہ سننے کے بعد فتویٰ دیا کہ: عبد مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگیں تر از معمار نیست یہ فتویٰ سن کر بادشاہ نے اپنا ہاتھ کاٹے جانے کے لیے پیش کیا: چوں مراد ایں آیہ محکم شنید دست خویش از آستین بیروں کشید مدعی را تاب خاموشی نماند آیہ بالعدل و الاحسان خواند گف از بہر خدا بخشیدمش از برائے مصطفی بخشیدمش (صفحہ ۳۸) یعنی قانون ن ہاتھ کاٹنے کا فتویٰ دے دیا مگر خود مستغیث کو رحم آ گیا اور اس نے اپنا بدلہ نہیںلیا اور بادشاہ کو معاف کر دیا۔ آگے چل کر میدان کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے متعلق ایک پردرد باب لکھا ہے۔ جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت حریت کی بنیادرکھنے کے لیے اور ضمیر انسانی کا حق آزادی قائم کرنے کے لیے تھی: ما سوا اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست خون او تفسیر این اسرار کرد ملت خوابیدہ را بیدار کرد (صفحہ ۴۳) اقبال نے ایک باب ہجرت پر لکھا ہے۔ اورسچ یہ ہے کہ اس میں معنی آفرینی کی داد دی ہے مقصود تو اس باب میں وہی ہے جو پہلے میں بھی بیان ہو چکا ہے کہ ملت اسلام کی بنیاد یامذہبی یگانگت پر ہے اوریہ کسی خاص ملک یا وط ن کی پابندنہیں۔ مگر اس باب میں مصنف نے اپنے دعویٰ پر ایک زبردست دلیل ہجرت نبویؐ کے مسلمہ واقوعہ سے پیدا کی ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مکہ شریف سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں جا بسے اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ فی الحقیقت دشمنو ں سے عاجز آ کر بھاگ گئے تھے بلکہ اس میں یہی حکمت چھپی تھی کہ اسلام کی عالمگیری کی بنیاد پڑے گی اور اسلام کے نام لیوا ہر جگہ اپنا وطن بنائیں اور وہاں نور اسلام پھیلائیں: آنکہ در قرآں خدا او را ستود آنکہ حفظ جان او موعود بود دشمناں بے دست و پا از ہیبتش لرزہ بر تن از شکوہ قطرتش پس چرا از مسکن آبا گریخت؟ تو گماں داری کہ از اعدا گریخت؟ قصہ گویاں حق ز ما پوشیدہ اند معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند ہجرت آئین حیات مسلم است ایں بہ اسباب ثبات مسلم است (صفحہ ۴۶) اس کے مقابل میں ملت کی بنا پر وطن پر رکھنے کا جو خیال ہے اور اس کے خلاف دلائل چند اشعار میں پہلے بیان ہو چکے ہیں ان پر اس باب میں اقبا ل نے ایک اور دلیل اضافہ کی ہے اور وہ عام انسانی اغراض کے لحاظ سے ہیے وہ کہتے ہیں کہ مختلف جغرافیائی قطعات میں سے ایک قطعہ ملت قرار پانے سے دنیا تنگ خیالی ایسی پھیلی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کی دشمن بن گئی ہے اور دنیا میں جنگ و جدال کی کثرت ہو گئی ہے۔ گہری فلسفیانہ نگاہ سے اگر دیکھیں تو عا م بنی نوع انسان کو اس اصول سے ضرور نقصان پہنچتا ہے۔ گو وہ محدود جماعتیں جو علیحدہ علیحدہ قومیں بنی ہوئی ہیں۔ اس اصول کی بدولت جلد ترقی کر جائیں ان خیالات کو نظم میں یوں بیان کیا گیا ہے: آں چناں قطع اخوت کردہ اند بروطن تعمیر ملت کردہ اند (صفحہ ۴۸) ایںشجر جنت ز عالم بردہ است تلخی پیکار بار آوردہ است (صفحہ ۴۹) مردمی اندر جہاں افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد روح از تن و ہفت اندام ماند آدمیت گم شد و اقوام ماند (صفحہ ۴۹) اس مسلہ سے کہ ملت اسلامی حدود و مکانی کی پابندنہیں قدرتی طور پر ھدود زمانی کی طر ف خیال منتقل ہوتا ہے۔ اور اس کے متعلق شاعر نے ایک باب میں یہ بیان کیا ہے کہ ملت اسلامی کا دوام جریدہ عالم پر ثبت ہے ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں: رومیاں را گرم بازاری نماند آں جہانگیری جہانداری نماند (صفحہ ۵۶) شیشہ سسانیاں در خوں نشست رونق غمخانہ یوناںشکست (صفحہ ۵۶) مصرف ہم در دمتحان ناکامماند استخوان او تہ اہرام ماند (صفحہ ۵۷) در جہاں بانگ اذان بودست و ہست ملت اسلامیاں بودست و ہست ٭٭٭ گرچہ مثل غنچہ و دلگرییم ما گلستاں میرد اگر میریم ما (صفحہ ۵۷) اسلامیوںکو یہ بتانے کے بعد کہ ان کی ملت ان کے مذہب پر مبنی ہے۔ ور اس کے دوام کا وعدہ ہو چکا ہے۔ ان کو یہ یاد دلایا گیا ہے کہ یہ سب جبھی ہو گا کہ وہ اپنے آئین کے پابند ہوں گے جو ان کی آسمانی کتاب یعنی قرآن شریف میںمندر ج ہے اس باب میں قرآن مجید کی تعریف خوب اشعار میں کی گئی ہے۔ جن میں سے صرف د ویہاں درج کیے جاتے ہیں: نوع انساں را پیام آخریں حامل او رحمتہ اللعالمینؐ (صفحۃ ۵۹) گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن (صفحہ ۶۲) آگے چل کر مسلمانوں کو شرع کی پابندی کی تاکید کی گئی ہے: ہست دین مصطفیؐ دین حیات شرع او تفسیر آئین حیات (صفحہ ۶۸) گر زمینی آسماں سازد ترا آنچہ حق می خواہد آں سازد ترا (صفحہ ۶۸) اگر اسی طرح باقی سب بابو ںکاخلاصہ اس مختصڑ تبصرہ میں درج کیا جائے تو شاید باعث طوالت ہو گا شائقین اصل کتاب کو پڑھیں اور مستفید ہوں۔ مگر دو تین بابوں کے خاص خاص اشعار کاذکر کیے بغیر پھربھی نہیںرہا جا سکتا۔ ان میں سے ایک تو وہ باب ہے جس میں علم کی تاریخ کی اہمیت پر زو ر دیا گیا ہے۔ ترقی قومی کے لیے تاریخ دانی لازم ہے۔ یہ مضمون کیسے خوب صورت اور سلیس لفظوں میں ادا ہوا ہے: ربط ایام است ما را پیرہن سوزنش حفظ روایات کہن چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ اے داستانے قصہ اے افسانہ اے ایں ترا از خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مرد رہ کند (صفحہ ۱۰۰) ا س سے اگلا باب بھی توجہ کے قابل ہے ۔ اس میں عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اچھے بیٹوں بیٹیوں کی ماں بننا بڑے فخر کی بات ہے۔ اور نوع انسان کے صنف نازک کا یہ سب سے بڑا فرض ہے جدید زمانہ میں اس فرض کی طرف جو بے توجہی کا میلان ہے وہ بہت نقصان دہ ہے۔ ایک گنوار اور بد وضع لڑکی جو کسی نیک اور کارآمد شخص کی ماں بنتی ہے۔ اس نازنین گل اندام سے بہترہے جو اپنے اس اہم فرض سے بے پروا ہو یا اس ذمہ داری کی متحمل ہونے کے ناقابل اس پیغام کو تو حضرت اقبال سے انہی کے الفاظ میں سنیے: آن دخ ۱ رستاق ۲ زادے جاہلے پست بالائے سطبرے ۳ بد گلے ۴ نا تراشے پرورش نادادہ کم نگاہے‘ کم زبانے‘ سادہ دل ز آلام امومت ۵ کردہ خوں گرد چشمش حلقہ ہائے نیلگوں ملت ار گیرد ز آغوشش بدست یک مسلمان غیور و حق پرست ہستی ما محکم از آلام اوست صبح ما عالم فروز از شام اوست (صفحہ ۱۰۵) رسول عربیؐ کی بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرا کا نام مبارک اس سلسلہ میں مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنی خوبیوں اور نیکی کے لحاظ سے رسول کریمؐجیسے باپ کی پیاری بیٹی حضرتع علیؓ جیسے شوہر کی چہیتی بیوی اورحضرت امام حسنؓ و حسینؓ جیسے بیٹوں کو واجب تعظیم ماں بنی۔ اور انہوںنے اپنی زندگی میں ایسی مثال قائم کی کہ عور ت ذات کو کس طرح اپنی زندگی کے ان تینوں مرحلوں پر اپنے فرائض کو ادا کر کے ساری ملت کے لیے بہتری کاباعث ہو۔ حضرت فاطمہ کی شان میں جو بعض اشعار اقبال کے قلم سے نکلے ہیں۔ وہ اس دلی ارادت کے ترجمان ہیں جو اقبال کو رسولؐ اور آل رسولؐ سے ہے اور ان میں یہ دو شعر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں صفات کا ایک دریا ہے جو ایک ایک شعر کے کوزہ میں بند کیا گیاہے۔ اہل نظر داد دیں گے اور جنہیںتفصیل نہ معلوم ہو وہ صفحات تاریخ و سیر ملاحظہ کریں: آں ادب پروردہ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآں سرا گریہ ہائے او ز بالیں بے نیاز گوہر افشاندے بدامان نماز آخری باب جس میں مثنوی کے مطالب کا خلاصہ اور سورہ قل ہوا للہ احد کی تفسیر ہے خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہے۔ کتاب کا خاتمہ عرض حال مصنف پر ہوتا ہے ۔ جو بارگاہ رسالت مآبؐ میں کی گئی ہے۔ اس میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کانقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ راستے سے دور جا پڑے ہیں ۔ ان کے شیخ برہمن سے زیادہ بت پرست ہوگئے ہیں کیونکہ ان کے دماغوں میںبت چھوڑ مندر بھر گئے ہیں جو صفات پہلے غیر مسلموں سے مخصوص تھیں وہ انہوںنے سیکھ لی ہیں۔ موت سے نہ ڈرنے کے بجائے موت سے ڈرنے لگے ہیںَ عرب کی بجائے عجم کی تقلید میںمبتلا ہیں۔ دعا ہے کہ ان کو جو پیغام ا س مثنوی کے ذریعے راہ حق کی طر ف پھر آنے ک لیے دیا گیا ہے وہ بااثر ثابت ہو اور مقبول ہو۔ آخر میں چند شعر شاعر نے اپنی ایک دلی آرزو کے اظہار میں لکھے ہیں اور ان میں درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ ان شعروں کا مزا اہل دل اور فدایان نبی لیں گے: ہست شان رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میریم بیگانہ اے تا کجا زنجیری بت خانہ اے حیف چوں او را سر آید روزگار پیکرش را دیر گیرد درکنار از درت خیزد اگر اجزائے من وائے امروزم خوشا فردائے من (صفحہ ۱۳۸) (مخزن ‘ ستمبر 1918ئ) ٭٭٭ حواشی ۱۔ مخفف دختر ۲ گنوار ۳۔ موٹی ۴۔ سیدھی شکل کی۔ ۵۔ ماں بننا ٭٭٭ آل احمد صدیقی سرور جبریل مشرق جبریل مشرق ‘ علامہ اقبا ل کا تازہ ترین اردو کلام بال جبریل کے نا م سے شائع ہوا ہے۔ بانگ درا کی اشاعت کے بعد مشہو ر تھا کہ علامہ موصوف نے اردو میں لھنا کم کر دیا ہے ار اس شبہ کو خود ان کے الفاظ میں کہ اردو میںشعر نازل ہی نہیں ہوتے اور قوی کر دیا تھا۔ اندیشہ تھاکہ کہیں راوی اور گنگا کی تمام بہاریں جیجوں ور سیجوں کی رو میں نہ بہہ جائیں ار ان کی فارسی شاعری جو ہمارے لیے ودی بے راہ (Blind Valley)کی مانند ہے‘ اردو کے حق میں کانٹے نہ بوئے‘ مگر بڑی خوشی کی بات ہے کہ عصر حاضر کے سب سے بڑے حامی اردو شاعر نے اپنی مادری زبنا کو خیر باد کہہ دیا بلکہ تازہ کلام کے تیور بتا رہے ہیں کہ بطن گیتی سے اور آفتاب تازہ پیدا ہونے والا ہے۔ اقبال کی شاعری کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ وہ اب اس بلندی پر ہیں کہ ترک و قبول کے منازل سے گزرتی ہوئی احساس عظمت پر ختم ہوتی ہے۔ ان کی جگہ بقائے دوام کے دربار میںمتعین ہو چکی ہے۔ اور ان کا درجہ میر و مرزا اور انیس کے قریب محفوظ ہو چکا ہے۔ اس لیے ہمیں بال جبریل پر نظر کرتے وقت تمام آموختہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اقبال نے شاعری اور شعرا دونوں کو متاثر کیا ہے۔ گزشتہ ربع صدی میں اردو نظم کے لیے جو نئے نئے راستے کھلے ہیں ان میں اقبال کا بہتر بڑا حصہ ہے اور معاصر شعراء کا پیش نہاد بھی پہلے سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ محض تغزل جو ہمارے شعرا کا طرہ امتیاز تھا اب حد ادیب نہیں رہا بلکہ اگر ایک طرف حسرت کے علاوہ فانی جگر اصغر نمودار ہوئے ہیں تو دوسری طرف جوش حفیظ صفی و اختر شیرانی نے بھی نظم کا میدان وسیع کیا ہے۔ یہ سب اشخاص بالواسطہ یا بلا واسطہ اقبال کے کلام سے یا اس فضاسے جس کا رنگ و آہنگ جاری و ساری ہے متاثر ہوئے ہیں بالفاظ دیگر اقبال نے شاعر کے تجربہ کی دنیا کو وسیع کر کے ایک طرف اسے جہد بلقا سے زیادہ مانوس کر دیا ہے دوسری طرف فنی شعور Artistic Conscienceمیں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ اقبال مفکر بھی ہے اور شاعر بھی خطیب بھی ہے اور مغنی بھی۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی میں اور سیاسیات کی دنیا میں وہ رجعت پسند ہے۔ بظاہر اس تفاوت کا اثرہماری اجتماعی زندگی پر اچھا نہیںپڑا۔ ایک طرف شعرانکی نیت میں شبہ ہونے لگا ہے۔ اور دوسری طرف دنیائے فکر و عمل میںایک ناقابل عبور خلیج حائل ہوگئی ہے لہٰذا اقبال کی شاعری اوران کی عملی زندگی میں جو تفاوت معلوم ہوتا ہے اس کے اسباب و علل پر غور کرنا ہمارے لیے بے حد ضروری ہو گیا ہے۔ حضرت شاہ محدث دہلوی کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی آیتہ کریمہ کے معجزات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرما گئے تھے کہ اس کی تلاوت سے سبکسران ساحل دام موج اور حلقہ ہائے نہنگ دونوںسے اچھی طرح عہد برآ ہو سکتے ہیں۔ راوی ناقل ہے کہ کسی یتیم و یسیر راہرو کو یہ نسخہ ایسا ہاتھ آ گیا ہے کہ روز اپنے حوایج ضروری کے سلسلہ میں اس اسم اعظم کے زور سے جمنا پا رآیا جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ بعدداس نے اظہار عقیدت کے لیے شاہ صاحب موصو ف کو مدعو کیا اور اس وقت یہ معلوم ہوا کہ مسیحا بھی کبھی کبھی بیمار ہو جایا کرتے ہیں۔ قریب قریب کچھ ایسا ہی خیال ایک طبقے کا اقبال کے متعلق ہے اور رسالہ جامعہ دہلی کی کسی گزشتہ اشاعت میں جو نظم شائع ہوئی ہے اس کا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یعنی ملک کی بدقسمتی ہے کہ مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق کی تما م جادوگریوں سے واقف کار کلیم سرمایہ داروں کی فرعونیت سے مسحور ہو جاتا ہے ۔ اور قفس کو آشیاں سمجھنے لگاتا ہے خود شاعر کے اعتراف سے ا س نظریہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے: اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں سے موہ لیتاہے گفتارکا یہ غازی ت بنا کردار کا غازی بن نہ سکا مگر چونہ ہمارے ہاں غزل گوئی کا اثر خیالات پر بھی پڑا ہے اور اشعار میں بھی تسلسل بالکل ضروری نہیں سمجھا جاتا اس لیے کسی شاعر کا فلسفہ زندگی اس کے اشعار سے اس وقت تک اخذ نہیںکیا جا سکتا جب تک کئی دفعہ اسے دہرایا نہ گیا ہو۔ قرین قیاس یہ ہے کہ بال جبریل کا حسب ذیل شعر اقبال کی شاعری پر بہترین تبصرہ ہے ۔ اور ا سسے ان کی عملی زندگی کے چند پہلوئوں پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ یورپ میں ایک غزل لکھی گئی ہے جس کے شروع میں یہ شعر ہیں: خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ مری نوائے پریشان کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظریات کے میدان میں شاعر کی تگ و تاز بہت دور تک ہے مگر اس پر وجدانی کیفیات پورے طور پر طاری نہ ہو سکیں اور شاعری جب سوسائٹی کی ترجمان ہوئی تو شعریت کو کچھ نہ کچھ صدمہ ضرور پہنچا۔ اس سلسلہ میں ایک نظریہ اور قابل غور ہے ۔ اس سے شاعر اورسیاست داں کے ظاہری تفاوت پر تو روشنی پڑتی ہے مگر شاعر کی عظمت پر داغ آتاہے۔ وضاحت کے لیے بال جبریل کی ایکنظم سنیے: چیونٹی میںپائمال و خوار و پریشان و درد مند تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند؟ عقاب تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاک راہ میں میںنہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں یعنی شاعر کا نصب العین زندگی کی جدوجہد اور ارتقاء کے صبر آزما منازل سے بچ کر تخیل کی فضائوںمیںپرواز کران اور اس طرح غزائے روح فراہم کرنا ہے۔ یہ چیز اپنی جگہ کتنی ہی دلچسپ کیوں نہ ہو لیکن اسے عملی زندگی کی جانبازیوں سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔ اس نقطہ نظر سے اقبا ل اور اس کی شاعری میں ذرا بھی تفاوت نہیں رہتا وہ زمانہ کے مکر و فریب سے اچھی طرح واقف ہے مگر اس کامقصد شروع سے دنیا میں رہنا نہیں اپنی الگ دنیا بنانا ہے۔ جس میں عافیت ہے اور پرواز اور زمانہ ماضی کے د ل خوش کن افسانے ہیں: حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز اور بازمانہ ستیز کی ایک صور ت زمانہ سے علیحدہ رہنا بھی ہے۔ اقبال دنیا کی پستیوں کا قائل نہیں۔ فضائوں میں پرواز اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے اس کے خیال میں شاعری میںوسعت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جس زندگی کا زرا بلندی سے دیکھا جائے۔ یہ خیال اپین جگہ کتنا ہی صحیح کیوںنہ ہو مگر چونکہ اقبال نے اپنا نصب العین ہوائی رکھا ہے اس لیے ا س سیاست کی دنیا سے اہم نہیں معلوم ہوتی اور یہاںوہ جو کچھ کرتا ہے اس کو زیادہ اہمیت نہیںدیتا۔ مریخ کا کوئی باشندہ اگر ہماری زندگی کی کشاکش کو برابر دیکھتا ہے تو اسے ہم سے ہمدردی ہونا قرین قیاس ضرور ہے مگر یہ اور بھی قرین قیاس ہے کہ یہاں اتر کر وہی کرے گا جس کے خلاف کرنے کا اس نے عزم کر لیا تھا۔ اس کی وجہ وہی عملی زندگی سے گریزاں رہنا ہے ۔ چونکہ یہ مسئلہ نہایت اہم ہے اس لیے میں اسے اور واضح کرنا چاہتاہوں۔ ہر شاعر کے اظہار کے لیے ایک تشبیہی مترادف Symbolic Equivalentضروری ہے یعنی کسی خاص ذریعے سے وہ اپن شاعری کی سب سے قیمتی اور سب سے بنیادی تجربے کو زندہ جاوید کرتاہے۔ مثلاًکیٹش ن اپنے Ode to Nightingale میں عندلیب کا راز کا جو نقشہ کھینچا ہے ۔ اس کے صحیح تصور کے بغیر کیٹس کی شاعری کا تجزیہ نامناست ہے۔ اسی طرح شیلے Shelleyنے Odeto Sky larkمیں جو عکاسی کی ہے اس کی حقیقی تخٰل کے بغیراس کی شاعری کی عظمت کا اندزہلگانا ایسا ہے جیسے گھوڑے کو گاڑے کے آگے جوتنے کے بجائے اسے گاڑی کے پیچھے جوت دیاجائے۔ اقبا ل کے کلام پرایک گہری اور سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چند مخصوص چیزیں انہیںخاص طورپر متاثر کرتی ہیں اور انہیںکو لوٹ پھیر کر وہنئی ترکیبوں سے موزوں کرتے ہیںَ کسی شاعر کے کلام میںان چیزوں کی تکرار بجائے خود نہایت دلچسپ اور بشرط فرصت اس پر بالتفصیل گفتگو کی جائے گی مگر اس وقت ہمیںنفس مضمون پرآنا چاہیے۔ اقبال کے یہاں محمود و ایاز سومنات شاہین خودی بار بار آتے ہیں اور ان میں سے ہرایک کے متعلق اقبال کا خاص نظریہ ہے۔ مگر ان میں سے شاہین سے وہ خاص طور پرمتاثر ہوئے ہیں کہاورن ہ صرف مختلف نظموں اور غزلوں میں سے اپنا تشبیہی مترادف بنایا ہے بلکہ ایک علیحدہ نظم بھی اس پرموجود ہے ملاحظہ ہو: کیا میں نے اس خاک داں سے کنارا جہاں عشق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے مری فطرت راہبانہ نہ باد بہاری نہ گلچیں نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ دوسری جگہ ایک نوجوان سے ارشاد ہوتا ہے: عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے انہیںاپنی منزل آسمانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیر کر پہاڑوں کی چٹانوں میں بہرحال یہ خیال کہ اقبال ہنگامہ زندگی سے بچ کر فضائوں میں پناہ لینا چاہتے تھے نہایت دلچسپ ہے۔ اور اس سے ان کی شاعری پر نئی روشنی پڑتی ہے۔ یہاں بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ شاعر کا سیاسیات کے گرداب میں پڑنا کہاںتک مناسب ہے۔ شعری ایک بامعنی تجربے ک اروشن تخیل ہے۔ تجربے کا جوہر جتنا قیمتی ہو گا اسی قدرقیمتی ا س کی شاعری ہو گی۔ اس تجربے کا اظہار اشعار میںہوتا ہے اور اظہار خیال کے ذریعے ابلاغ خیال اور Expression کے ذریعہ سے Communication ہو جاتی ہے۔ شاعر کی تسلی وہیں ہو جاتی ہے جہاں اس کے اشعارمکمل ہو گئے مگر پڑھنے والوں کا مقصد آرٹ نہیں زندگی ہے۔ اس لیے وہ اس میں اپنا فلسفہ اپنا تخیل اپنی حب وطن کا عکس دیکھتے ہیں۔ بائر ن یا Repert Brookeکی طرح شعراء اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنا دیں مگر شاعر کے لیے یہ ضروری نہیںکیونہ یہ اس کامقصد نہیں۔ ہاں اس کے دماغ میں خیالات ضرور شدت کے ساتھ موجزن ہوتے ہیںَ ورنہ جوش بیان اور صداقت مفقود ہو جائے بعض شعراء زبردستی اپنے آپ کو اس رومیں بہا لیتے ہیں مگر پڑھنے والا ایک نظر میں آمد او آورد میں امتیاز کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جوش کو لیجیے انہوں نے جب تک شبابیات پر زور قلم صرف کیا کلام بحیثیت مجموعی رہا۔ مگر ان کی انقلابی شاعری سراسر آورد ہے۔ انہوںنے زمانہ کی رو میں بہ جانا چاہا ہے اور چونکہ کہنہ مشق شاعر ہیں اس لیے الفاظ کے طلسم اور پیچیدہ تراکیب سے ہجوم سے مزدور کی تہی مایگی اور سرمایہ دار کی رعونت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ برخلاف اس ے اقبال کی اس قسم کی چیزوں میں ایک خاص روانی ایک خاص جوش ہوتاہے جو لایا ہوا نہیں ہو سکتا ملاحظہ ہو: فرمان خدا فرشتوں کے نام اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرمائو غلاموں کالہو سوز یقیں سے کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو میں ناخوش و بیزار ہوںمر مر کی سلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو میرے نزدیک اس نظم میں سوائے اس کے اور کوئی خوبی نہیںہے کہ جوش سے لکھی گئی ہے اور یہ بہت بڑی چیز ہے۔ جوش میں آ کر وہ ایسی بات کہہ گئے ہیں کہ جو ان کی عام روش کے خلاف ہے یعنی جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو یاد رہے یہ اس شخص کی زبان سے نکل رہاہے کہ جس کے لیے قرطبہ اور الحمراء کیااثار اب تک حشر دور آغوش ہیں۔ اس لیے اگر ہم اس ایک بات کو اور زیادہ اہمیت نہ دیں تو بھی ہمیں اس خلوص نیت میں شبہ نہیںہونا چاہیے۔ اقبال کے متعلق چند شکوک رفع کونے کے بعد اب آئیے بال جبریل کی شاعری کو پرکھیں: عام طور پر شاعری کا ایک خاص زمانہ ہوتا ہے او راس کے بعد کلام میں انحطاط شروع ہو جاتا ہے۔ اچھے اچھے شاعروں کو دیکھا ہے کہ ان کی عمر میں زوال کے ہوتے ہی شاعری میں بھی زوال آ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ تمام تر جذبات کی فراوانی میںگم رہتے ہیں اور انحطاط عمر کے ساتھ شدت جذبات کم ہونے لگتی ہے۔ جذباتی شاعری کا اکثر یہی حشر ہوتا ہے۔ کم شعرا عم کے ساتھ شعور فن Artistic Conscienceمیںبھی ترقی کرتے ہیںَ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ شاعر جو عالم جوانی میں نور و نغمہ کی دنیا بن کر رہا ہوتا ہے۔ ایک خاص فلسفہ زدنگی میں اس قدر محو ہو جاتاہے کہ وہ اچھا خاصہ خطیب بن جاتا ہے میتھیو آرنلڈ پر جو الزام لگایا گیاہے و ہ اقبال پر بھی لگایا جا سکتا ہے اور اس وقت ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس جنگ کا ابھی کوئی فیصلہ کن پہلو نہیں نکلا یعنی شاعر خطیب سے نبرد آزما ہے۔ A poet is struggling with a preacher۔ بانگ درا اور بال جبریل کے شاعر میں بہت فرق ہے۔ اگرچہ آب روان کبیر کے کنارے خواب شروع سے دیکھے جا سکتے ہیں خاک مدینہ و نجف روز اول سے آنکھ کاسرمہ ہے اور تہذیب حاضر کی چمک کی ابتدا سے نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے۔ مگر شاعر کے انداز بیان میں نمااں فرق ہو گیا ہے۔ جوش کی جگہ سنجیدگی نے خندہ و دنداں نما کی جگہ ایک لطیف تبسم نیاور شعلہ جوالہ کی برق سامانیوں کی جگہ ایک مسلسل‘ متوازی اور ضعیف ضیا باری نے لے لی ہے۔ پہلے شمع و شاعر ہو یا طلوع اسلام شاعر کا قلم بقول شخصے ٹھاٹھیںمارتا ہوا چلا جائے گا۔ ایک طوفان تھا جس میںبلندی تخیل اور پیرایہ بیان نہایت خوب صورتی سے سموئے گئے تھے۔ اب ایک ہلکا سکوت ہے جس بجائے خود ایک جہان معنی اپنے اندر کھتا ہے۔ دوسرے ہر نظم بجائے خود مستقل تھی اور اپنی جگہ پر بال جبریل میں طرز بیان دوسرا ہے۔ تخیل جو پہلے فضائوں میں رقص کرتا تھا اب الفاظ میں ناچ رہا ہے ۔ نشہ اتر گیا ہے ۔ اور اس کی جگہ ایک ہلکی لطیف کیفیت نے لے لی ہے۔ اب وہ طوففانی خروش نہیں الفاظ کو ثرمیں دھلے ہوئے نگینہ میں جڑے ہوئے نکلتے ہیں۔ غزلیں اور نظمیں سب معلمو ہوتا ہے کہ بیک وقت یا کم از کم ایک طرح کے وجدان کے ماتحت لکھی گئی ہیں۔ بحیثیت مجموعی کلام کا معیار بلند ہے مگر مخصوص و مختص نظموں کا امتیاز مشکل ہے۔ کتاب کے سرورق پر جو شعر ہے وہ کلام کی نرمی و نزاکت پر دا ل ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر ا سکے بعد غزلیں ہیں جو مختلف موقعوں اور مختلف مقامات پر لکھی گئی ہیں۔ یہ صرف غزلیںنہیں بلکہ حالات حاضری اور مسائل مہمہ پر اچھے خاصے تبصرے ہیں۔ کوئی قرطبہ کے بے نظیر مناظر کو دیکھ کر موزوں ہوئی ہے کہیں شاعر افغانستان ک مہماں نوازی و اخوت کے مظاہرے سے متاثر ہواہے کہیں اس نے روائونڈ ٹیبل کانفرنس کے تجربات نظم کیے ہیں۔ بعض جگہ اس نے بے چینی کا اطہار ان الفاظ میںکیا ہے جو اس پر آشوب زمانے میں ہر قلب کے اندر کانٹا بنی ہوئی ہے۔ کہیں بارگاہ ایزدی میں شکوے ہیں اورکہیںنیاز مندانہ معروضات غرض کہ: وہ کونسا نغمہ ہے جو اس ساز میں نہیں یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے غزل کا کام لیا ہے۔ یہ طرز بانگ درا میں بھی نمایاں تھی مگر بال جبریل میں تو خالص تغزل جس کے بہترین ترجمان صرف میر مومن داغ اور حسرت ہوئے ہیں سرے سے نہیںہے۔ یا ہے تو نہ ہونے کے برابر ہے اگر کہیں کہیں ایک آدھ شعر ملتا ہے تو وہ اس طرح جیسے قدیم مثنوی نگا ر حمد و نعت لکھا کرتے تھے اور اس کے بعد مطلب پر آ جاتے تھے۔ حسب ذیل غزلوں کے چند اشعار سے معلوم ہوگا کہ وہ مخصوص تجربات جن کو ہم ’’اڑتے اڑتے‘‘ سن پائے تھے کس قدر روشن طریقے سے زندہ جاوید کیے گئے ہیں۔ 1933ء میں ہندوستان کے ماہرین تعلیم کا ایک وفد کابل بلایا گیا تھا جس میں اقبال‘ سرراس مسعود اور سید سلیمان ندوی شریک تھے وہاں کے تاثر ملاحظہ ہوں: مسلماں کے لہو میں سلیقہ دل نوازی کا مروت‘ حسن عالمگیر ہے مردان غازی کا شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا قلند جز دو حرف لا الہ کچھ نہیں رکھتا فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خارا شگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا دوسری غزل پڑھنے کے بعد آ پ کو رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے چند راز دروان پردہ آئینہ ہو سکتے ہیں: زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی کبھی سرمایہ محفل تھی میری گرم گفتاری کبھی سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں وہی حیلے ہیں پرویزی سواد رومتہ الکبریٰ میں دلی یاد آتی ہے وہی عبرت‘ وہی عظمت‘ وہی شان دلآویزی قرطبہ کی سرزمین میں جو کایا پلٹ ہو ئی ہے اس کا حا ل سنیے: یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پا برکاب وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہ سیماب غزلوں میں آپ کی توجہ اتنی زور بیان تڑپ سوز و گداز صفائی بیان اور روانی وغیرہ وغیرہ کی طرف نہیں دلائوں گا جتنی خاص مضامین کی طرف چند اشخضاص فلسفہ کو شاعری کا جامہ زیب تن کیے دیکھ کر کچھ چراغ پا ہو جاتے ہیں مگریہاں صرف فلسفہ نہیںکچھ اور ہی ہے۔ اقبال کامذہب ہر شخص کومعلوم ہے ۔ وہ ملا پر طع ن کرتا ہے ۔ مگر ملا کے عقاید کا خود پابند ہے۔ وہ حضرت یزداں کا شاکی ہے مگر یزدانیت کا معترف وہ جبر و اختیار دونوں کا قائل ہے وہ کبھی کبھی اپنی بے حجابی یا رسوائی پر صدائے احتجاج بلند کرتا ہے مگر پھرمسکرا کر چپ بھی ہو رہتاہے۔ وہ ایام ماضی کے خیال سے لے کر مستقبل کے خواب دیکھتا ہے۔ وہ زاہد کی ہنسی اڑاتاہے۔ مگر اس کی توہین گوارا نہیںکرا۔ مگر وہ مغرب اور ہر مغربی شے کا جانی دشمن ہے اور اس میں کوئی خوبی اسے نظر نہیں آتی۔ جی چاہتا ہے تو رعایت لفظی اورصنائع و بدائع سے کھیلتا ہے مگر اسی طرحض جس طرح ایک ماہر فن بچوں کے کھلونے سے کھیلے ۔ منہ کا مزہ بدلنے کے لیے تصوف کی چاشنی بھی ہوتی ہے مگر زیادہ نہیں۔ کبھی کبھی وہ Strained Paradoxسے بھی کام لیتا ہے۔ کبھی باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ گویا اسے یقین نہیںکہ ایک دفعہ کہنا گوش ناشنوا کے لیے کافی ہو مگر پھر بھی اس نے اردو غزل کا دامن بہت وسیع کر دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں ٭٭٭ باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر ٭٭٭ روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر ٭٭٭ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹ ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے ٭٭٭ اگرچہ بحر کی موجوں میںہے مقام اس کا صفائے پا کی طینت سے ہے گہر کا وضو ٭٭٭ ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاںجینے کی پابندی ٭٭٭ تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے دردناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھامیں اور وہ شعر جو نہ معلوم کیوں اس مجموعہ کلام سے نکال دیا گیا: عرصہ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی داور محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں ٭٭٭ نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا بہت دیکھے ہیں میںنے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا ٭٭٭ اے مسلماں اپنے دل سے پوچھ ملا سے نہ پوچھ ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم ٭٭٭ خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری ٭٭٭ فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں مرا یا مرا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک ٭٭٭ برہنہ سر ہے تو عزم بلند پیداکر یہاں فقط سر شاہیں کے واسطے ہے کلاہ ٭٭٭ ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں عروس لالہ مناسب نہیںہے مجھ سے حجاب کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں ٭٭٭ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ٭٭٭ تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں ٭٭٭ کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی ان چند متفرق اشعار کے بعد ایک خاس غزل کے چند اشعار اور سن لیجیے: افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیںجواب آخر احوال محبت میںکچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اول سوز و تپ و تاب آخر میںتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر مے خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیںسرور اول دیتے ہیں شراب آخر غرض جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ یہ غزلیںنہیں حالات حاضرہ پر مختلف تبصرے ہیں۔ شاعر اگرچہ نور و نغمہ کی فضائوں میں مصروف پرواز ہے مگر اپنے گردوپیش کا جائزہ بھی لے لیتا ہے اوراس لیے جو بات اسے اہم نظر آتی ہے اشعار میں بیان ہو جاتی ہے۔ خود ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباںسے باخبر میں کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی اردو شاعری پر اس روش کا اثر میرے خیا ل میں خو ش گوار ہو گا۔ تغزل کا داخلی رنگ اس قدر محدود ہو گیا ہے کہ خود غالب کو اس کا شکوہ کرنا پڑا اور اب ان کے بعد شعراء نے تو اس رنگ پر چ کر اس کی کوتاہیوں کا اچھی طرح ثبوت دے دیا ہے۔ اقبال کی غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق جذبات ‘ جوش قلب سوز و گداز‘ درد و اثر‘ صرف جذبات عشق و محبت کی عکاسی سے ہی نہیں اس عالم مجاز کی ہر چیز سے ابل سکتے ہیں۔ حسن نظر حسن ادا صر ف مسائل ہجر و وصل کے لیے ہی نہیں مشکلات انسانی کو حل کرنے کے لیے بھی صرف ہو سکتے ہیں۔ ان غزلوں کے علاوہ کچھ قطعات بھی موتیوں کی صورت میں بکھرے ہوئے ہیں جن میں ایک خاص شان انانیت پائی جاتی ہے: ترے شیشے میں مے باقی نہیں ہے بتا کیا تو مرا ساقی نہیںہے؟ سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم بخیلی ہے یہ رزاقی نہیںہے خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں نہ دیکھا آنکھ اٹھا کے جلوہ دوست قیامت میں تماشا بن گیا میں ٭٭٭ نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی اماں شایدملے اللہ ہو میں ٭٭٭ نظموںکے بارے میں چند باتیں قابل غور ہی ۔ان میں سے بیشتر اقبال کے سفر یورپ کی یادگار ہیں اور ان میں مشاہیر یورپ کے متعلق اچھی طرح اظہار خیال کیاگیا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ان میں سب سے زیادہ مسولینی سے متاثر ہوئے ہیں اس کی فاشیت ان کے مرد منتظر یا مافوق الفطرت انسان (Super Man)کے تصور سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ مسولینی قدیم بنیادوں پر جدید نظام تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے اقبال کی نظر میں ا س کا پروگرام اگر قابل قبول نہیں تو کم از کم اہم ضرور ہے: ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی ندرت فکر و عمل سے سنگ خارہ لعل ناب فیض یہ کس کی نظر کا ہے کرامت ہے کس کی وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب ’’نپولین کے مزار پر‘‘ جو نظم لکھی گء ہے اس میںکردار کی لذتیں خوب دکھائی ہیں مگر ٹھیک کہا ہے: صف جنگاہ میںمردان خدا کی تکبیر جوش کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز ہے مگر فرصت کردار نفس یا دو نفس عوض یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز اقبال کی نظر میں لینن کا تصور نہایت دلچشپ ہے ۔ شاعر نے اسے بارگاہ ایزدی میںاپنی گمراہیوں کی صفائی پیش کرتے دکھایا ہے یہ تصور صحیح نہیں کیونکہ لینن شک و شبہ میں بھٹکنے والا نہیں ھتا۔ اس نے اپنے گرد و پیش کے حالات کا جائزہ لے کر ایک نظریہ کائنات اور اس کی تخلیق کے متعلق قائم کیا تھا اور اس پر سختی سے عامل تھا۔ اقبال نے اس کو ایک کافر کی حیثیت سے پیش کیاہے جو ممکن تھا کہ ایمان لے آتا حالانکہ یہ بات حقیقت سے دور ہے: میں کیسے سمجھتا تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے تو خالق اعصار و نگارندۂ آنات سرمایہ داروں کے خلاف لینن کی انتہا پسندی کایہ جواز پیش کیا گیا ہے: گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات یہ نظم شاعر کی قادر الکلامی کا اچھا نمونہ ہے آخری دو شعر حسب معمول ختم ہوتے ہیں: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات سارے مجموعے کی جان ہے وہ نظم جس کا عنوان ’’جبریل و ابلیس‘‘ ہے۔ ابلیس کی سیرت میں چند ایسی بلند پایہ خوبیاں ملتی ہیں کہ صدیوں پیشتر سے شعرائے عظام اس کی عظمت کے قائل ہو گئے تھے۔ ملٹن نے جب فردوس گم شدہ لکھی تو ا س کامقصد آدم کو ہیرو بناناتھا۔ مگر ابلیس کے جوش و استقلال سے وہ اس قدرمتاثر ہوا کہ اس عظیم الشان کتاب کا سب سے عظیم الشان کریکٹر ابلیس ہی ہے اور ملٹن کی شاعری کے بہترین نمونے اس کی تقریروں میںملتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو ضرب المثل بن چکے ہیں: The mind is its own place and in itself can make a hell of heaven and heaven of hell . Awake........ arise! or be for ever fallen. مگر یہ امر واضح رہے کہ ملٹن خود نہایت سچا اور پکاعیسائی تھا اور اس کا یہ عظیم الشان کریکٹر مشیت ایزدی کی بعض خاص الخاص مصلحتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے متصور کیا گیا تھا۔ بالفاظ دیگر اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو بقول اصغر: کفار کا مر جانا خود مرگ مسلماں ہے لہٰذا ابلیس کی عظمتوں کو بے نقاب کرنا فطرت کے ان حجابات کو اٹھا دینا ہے۔ جو ہمارے اور حقیقت کے درمیان میں ہیں اور اس سے ان کی عقیدت و مذہبیت ظاہر ہوتی ہے نہ کہ دہریت: جبریل شرو میںکچھ مشفقانہ اور سرپرستانہ لہجہ استعمال کرتے ہیں: ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو؟ جواب اس قدر جامع ملتاہے کہ پھر فوراً گفتگو کا رخ بدلنا پڑتاہے: جواب ابلیس سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو اب کی بار جبریل ابلیس کو وہ گالیاں یاد دلاتے ہیں جن میں دونوںکی جوانی گزری تھی۔ جبریل ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو ابلیس کا جواب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے پہلا شعر یہ ہے : ابلیس آہ اے جبریل تو واقف نہیںاس راز سے کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو مقرب بارگاہ فرشتے کے ترکش میں اب ایک تیر طنز و رشک کا رہ گیا ہے۔ فرماتے ہیں جبریل: جبریل کھو دیے انکار سے تو نے مقامات بلند چشم یزداں میںفرشتوں کی رہی کیاآبرو اس طعنے پر ابلیس کا پرجوش جواب اردو شاعری کے لیے مایہ ناز ہے: ابلیس ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر کون طوفاں کے طمانچے کھا رہاہے میں کہ تو خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو میں کھٹکتا ہوں دل یزداںمیںکانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو‘ اللہ ہو ‘ اللہ ہو دو نظمیں او رقابل ذکر ہیں ایک مرید ہندی اورپیر رومی کا مکالمہ دوسرا آدم کا استقبال روح ارضی کی طرف سے۔ پہلی نظم میں ان مسائل مہمہ کوجو مرید ہندی کے لیے عقدہ ہائے لاینحل بنے ہوئے تھے۔ مولانا رومی کی مثنوی کے اشعار سے حل کیاگیا ہے اور دوسری میں اقبال اپنی جوانی کے طرز بیان پر آ گئے ہیں۔ ایک بندملاحظہ ہو اللہ رے حسن بیان: خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تیری پنہاں ہے تیرے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ تہذیب جدید سے اقبال کی نفرت بعض جگہ خوف بلکہ سراسیمگی کی صورت اختیار کر گئی ہے سینما اور ایک نوجوان کے نام دونوںنے جو نقطہ نظربیان کیاہے وہ بہت پیش پا افتادہ ار پرانا ہو چکا ہے۔ اپنی آنکھیں بند کر لینے سے ترغیب گناہ ضرور نہیںہوتی مگرساتھ ہی ہم فطرت کے بے شمار دل فریب مناظر سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ مضمون بالا کا مقصد اقبال پر کوئی قطعی فیصلہ کرنا نہیں اقبال کے جدیدکلام کی روش دیکھنا ہے۔ اقبال کی خوبی (یا برائی) یہ ہے کہ وہ محفل کو اصغر و جگر کی طرح مستی و خود رفتگی کی تعلیم نہیں دیتا۔ وہ روح میںبیداری اور خیالات میں موجودہ حالات سے بے اطمینانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بال جبریل بانگ درا سے بہتر نہ سہی پختہ تر توہے۔ اقبال نے عصر حاضر کے عام تجربات کے اشعار میں ’’سمو‘‘ کر گو ’’شعریت‘‘ کو نقصان پہنچایا ہو مگر ارد و شاعری کا دامن ضرور وسیع کیا ہے۔ حقیقی شاعری میںصرف ’’نغمہ ‘‘ یا ’’پیغام‘‘ ہی نہیں ہوتا ا س کے لیے ’’منتخب زبان‘‘ بھی نہایت ضروری ہے۔ وہ منتخب زبان جو تجربے کا وجدان الفاظ میں بکھیردے۔ بال جبریل کی زبان باوجود اپنی متانت کے ایسی ہی ہے اور بال جبریل کے شاعر کی اس تسلی میں ہم دل و جان سے شریک ہیں: نہ ہو مایوس اے اقبال اپنی کشت ویران سے ذرا نم ہو تویہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی (سہیل ‘ 1936ئ) ٭٭٭ صوفی غلام مصطفی تبسم ارمغان حجاز (ایک طائرانہ نظر) ’’بال جبریل‘‘ اور ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کے بعد کسے معلوم تھا کہ علامہ اقبال کے کلام کا ایک اور مجموعہ تیار ہو جائے گا۔ بظاہر یہ دو کتابیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے ا ن کے آخری شعری کارنامے معلوم ہوتے تھے لیکن ’’ارمغان حجاز‘‘ کی اشاعت نے اس خیال کی تردید کر دی۔ علامہ مرحوم کے عقیدت مندوں کے لیے یہ کتاب بھی ایک نایاب تحفہ ہے‘ جسے ان کی آخری یادگار سمجھتے ہوئے سر اورآنکھوں پر رکھیں گے۔ ا س کتاب کا دو تہائی حصہ فارسی قطعات پر مشتمل ہے۔ اور ایک تہائی حصے میں اردو کی متفرق نظمیں ہیں اگرچہ شعریت کے اعتبار سے یہ دونوں حصے ان کی باقی تصانیف کے پایہ کو نہیں پہنچتے تاہم فارسی کے قطعات جنہیں وہ اکثر رباعیات کے نام سے یا د کرتے ہیں اردو نظموں سے بہترین اور ان میں سے بعض شعری اعتبار سے کافی بلند ہیں۔ کلام کا رباعیوں تک محدود ہونا بذات خود اس بات کی دلی ہے کہ شاعر کی طبیعت میں ایک جستگی سی آ گئی ہے اور ایک تھکے ہوئے مسافر کی طرح ہولے ہولے رک رک قدم اٹھاتا ہے اور کسی طویل مسلسل ذہنی کوشش کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس تازہ مجموعے میں مسلسل نظمیں بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ ’’پیام مشرق‘‘ اور ’’بال جبریل‘‘ کی نظموں کے مقابلے میں پست ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ علامہ مرحوم کے افکار اور ان کا شعری تخیل بھی پختہ ہوتا چلا گیا ہے۔ زبور عجم اور جاوید نامہ ان کی شاعرانہ ثقاہت کا بہترین نمونہ ہیں لیکن بحیثیت مجموعی فارسی شاعری میں جو کمال انہیں پیام مشرق میں اور اردو میں ’’بال جبریل‘‘ میں حاصل ہوا وہ ان کتابوںمیںمفقود ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ کی نظم کا قابلہ بال جبریل کی نظم ابلیس و جبریل کے مکالمہ سے کیجیے تو یہ فرق واضح ہو جاتا ہے۔ موخڑ الذکر میں جہاں تخیل کا عمق ہے وہاں شدت جذبات بھی موجود ہے۔ جو شعریت کی جان ہے‘ لیکن مقدم الذکر نظم ایک بوڑھے فلسفی کی بحث معلوم ہوتی ہے‘ جو اپنے عل اور تجربات کو منطقی دلائل کے رنگ میں پیش کر رہا ہو ملا ضیغم زادہ لولابی کا بیاض کی نظموں میں بھی یہی حال ہے۔ فارسی قطعات میں اکثر جگہ شعریت درخشاں نظر آتی ہے۔ لیکن ان میں بڑھاپے کی کسالت ایک ذہنی تھکن ایک مایوس کن حزن پایا جاتا ہے۔ شاعر ترانے گاتا گاتا تنگ آ گیا ہے۔ اسے لوگوں کی گراں گوشی کا حد سے زیادہ احساس ہے۔ وہ کبھی انہیںکوستا ہے کبھی انہیں یہ کہہ کر ڈراتا ہے کہ: دگر دانائے راز آید کہ ناید کبھی فطرت کا گلہ اور کبھی حالات کی ناسازگاری کا شکوہ کرتاہے۔ اس شکایت میںتعریض کا پہلو نمایاں ہے ملاح شیخ غلامی‘ نظام حکومت ‘ ملوکیت یہ سب کے سب اس کے طعن و تشنیع کا نشانہ بنے ہیں دیکھیے : ملوکیت سراپا شیشہ بازی است ازو ایمن نہ رومی نے حجازی است مسلماں شرمسار از بے کلاہی است کہ دینش مرد و فقرش خانقاہی است اس قسم کے اشعار نے ان قطعات کو ایک خاص رنگ دے دیا ہے جو دوسری تصنیفات میں کم نظر آتا ہے۔ چند اشعار انتخاب کرتا ہوں: جہان تست در دست خسے چند کسان او بہ بند نا کسے چند ہنرور درمیاں کار گاہاں کشد خود را بہ عیش کر گے چند ٭٭٭ مرید فاقہ مستے گفت با شیخ کہ یزداں را ز حال ما خبر نیست بہ ما نزدیک تر از شہ رگ ماست و لیکن از شکم نزدیک تر نیست (راوی ‘ دسمبر 1938ئ) ٭٭٭ سید نذیر نیازی تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (علامہ اقبال کے انگریزی خطبات مدراس) ابھی چند سا ل ہوئے مشہور انگریز مستشرق اے آر نکلسن نے جریدہ ’’اسلامیہ‘‘کی ایک اشاعت میں پیام مشرق پر تبصرہ کرتے ہوئے ہلکھا تھا ’’اقبا ل کے سمجھنے کے لیے اس قدر غور و تفکر ‘ وسعت مطالعہ اور عمیق احساسات کی ضرورت ہے جس کا اظہار عالم اسلامی کے ایک ممتاز فاضل کے ایک ایک لفظ سے ہوتا ہے۔ ‘‘ جن لوگوں کو علامہ مرحوم کے کلام سے تھوڑا سا شغف رہا ہے وہ پروفیسر نکلسن کی اس رائے سے اتفاق کریں گے۔ حقیقت میں ڈاکٹر صاحب کی شاعری کا مطالعہ دراصل ایک نہایت ہی بلند اور پرواز حقیقت ذہنی تحریک کا جائزہ لینا ہے‘ جس کی ابتدا ان کی ذات سے ہوتی ہے۔ اور جس میں ہماری مردہ اور بے روح قوم کی نشاۃ الثانیہ کے لامتناہی امکانات مضمر ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس ذہنی تحریک کے بنیادی افکار ایک مرتبہ شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ بظاہر ایک مختصر سا مجموعہ ہے جس میں فلسفہ و کلام کے چند اہم مسائل سے بحث کی گئی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک نہایت ہی بدیع اور مجتہدانہ تصنیف ہے۔ جس میں علامہ ممدوح نے عصر حاضر کی بے ربط اور منتشر زندگی میں حقائق حیات کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے ۔ اور جس کے انقلاب آفریں نتائج کا اہل نظر کو ابھی سے احساس ہے۔ الہیات اسلامیہ کی تاریخ میں ’’تشکیل جدید‘‘ کی نظری شاید ہی مل سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علمائے اسلام نے مذہب کی عقلی تعبیر اور اس کے لیے حیات انسانی میں ایک مستقل اور پائیدار جگہ حاصل کرنے میں نہایت قابل قدر کوششیں سرانجام دی ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جس پر ان کے پیشرو گامزن تھے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیائے قدیم میں فلسفہ و حکمت کی باقاعدہ تشکیل سرزمین یونان میں ہوئی۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اہل یونان کی فلسفیانہ بلندی کے مقابلہ میں ان کامذہبی تخیل نہایت پست تھا یہی وجہ سہے کہ مذہب سے مایوس ہو کر حکمائے یونان نے فلسفہ کے دامن میںپناہ لی اور اس وقت کی وطنی معتقدات کو بجز ان کی عقلی تعبیر کے صحیح تسلی کر نے سے انکارکر دیا اس طرح یونانی ار رومی تمدن کی جو عمارت تیار ہوئی‘ اس میں مذہب کو کوئی مرکزی جگ حاصل نہیںتھی۔ نہ ان نیم مذہبی اخلاقی نظامات پر جن کا تعلق گنتی کے چند افراد میں سے تھا اور جو زیادہ تر فلسفہ و تصوف کے امتزاج کا نتیجہ تھے۔ کسی صحیح مذہبی شخصیت کا اثر تھا لہٰذا عامتہ الناس بدستور اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم رہے۔ آگے چل کر جب مذہب عیسائیت نے ایک تیز رو کی طرح بلاد مغرب کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کی جولان گاہ بنایا اور سامی تخیلات میں یونانی افکار کی آمیزش ہوئی تو مسیحی علماء نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ وہ اپنے دین کا اظہار عقائد کی شکل میںکریں۔ گویا تدوین عقائد کی تحریک یونانی اثرات کا نتیجہ تھی۔ اور سواحل بحر روم کے قدیم مراکز تمدن میں جہاںکبھی جستجوئے علم کا چرچا رہتا تھا۔ اب مسیحی عقائد پر زبردست بحثیں ہونے لگیں۔ یہ ماحول تھا کہ جس میں علمائے اسلام دینی غور و فکر اور فلسفہ و حکمت کی دنیا سے آشنا ہوئے۔ اور بعض ایسے اسباب کی بنا پر جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ان کی توجہ بھی تدوین عقائد کی طرح منعف ہوئی ۱۔ رفتہ رفتہ علم کلام کی بنا پر پڑی اور مذہب و حکمت کے دفتر میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ ایساکرنے میں اگرچہ ائمہ اسلام نے اپنی غیر معمولی ذہانت اورجودت طبع کا ثبوت دیا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عقل و عقیدہ کے باہمی تضاد اور واردات انسانی کے مختلف مظاہر کی صحیح حقیقت معلوم کرنے میں جس نے قوموں کے ذہن کو ان کی زندگی کے مختلف ادوارمیں بجا طورپر پریشان رکھا ہے انہوںنے قرآن مجید کو بہت کم اپنا رہنما بنایا ۔ ان کی توجہ زیادہ تر فلسفہ یونان پر رہی اس سے قدرتاً یا تو فلسفہ و مذہب کی تطبیق کی کوششیںشروع ہوئیں اور دین کے اٹل اور دائمی حقائق اپنی تصدیق و تثبیت کے لیے ایک متحرک غیر قطعی اور تغیر پذیر نظام تصورات کے محتاج ہو گئے یا فکر اور عقل کی دنیا کو مذہب کے لیے بے نتیجہ مان لینے سے واردات انسانی کے ان دو نہایت اہم اورفطری مظاہر میں ایک مستقل اور ابدی اختلاف پیدا ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ مفکرین اسلام کی یہ روش تعلیمات قرآں سے کسی طرح مطابق نہیں تھی۔ جس نے ہر شخص کو آیات الہیہ پر تفکر و تدبر کی دعوت دی ہے الہیات اسلامیہ پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے علامہ ممدوح نے کس قدر صحیح فرمایا ہے: ’’… انہوںنے قرآ ن پاک کا مطالعہ بھی فلسفہ یونان ہہی کی روشنی میںکیا ہے۔ یہ امر کہ تعلیمات قرآنی کی روح یونانیت کے سراسر منافی ہے ان پر کہیں دو سو سال کے بعد منکشف ہوا کہ اور اس وقت بھی پورے طور پر نہیں۔ بہرکیف یہ اسی انکشاف کا نتیجہ تھا کہ فلسفہ یونان کے خلاف ایک ذہنی رد عمل شرو ع ہوا۔ جس کی صحیح اہمیت کا اندازہ آج تک نہیں کیا گیا۔ یہ کچھاس بغاوت اور کچھ غزالی کے ذاتی حالات کا تقاضا تھا کہ امام موصوف نے مذہب کی بنا پر فلسفیانہ تشکیک پر رکھی حالانکہ ان کایہ خیال نہ قرآن پاک کی تعلیمات کے بالکل مطابق ہے اورنہ اس کو مذہب کی کوئی مضبوط اور پائیدار اساس ٹھہرانا ممکن ہے… اشاعرہ میں جو لوگ نسبتاً زیادہ تعمیری دل و دماغ رکھتے تھے وہ صحیح راستے پر گامزن تھے… لیکن اشعری تحریک کا مقصد صرف اس قدر تھا کہ وہ منطق یونانی ہی کے حربوں سے شرعیت کی حمایت کرے۔ برعکس اس کے معتزلہ کا تصور یہ تھا کہ مذہب کا وجود ایک مجموعہ عقائد و مسلمات ہے وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ مذہب کا وجود حیات کے لیے ناگزیر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے حقیقت مطلقہ کے ادراک میں غیر تصوری سے کوئی کا م نہیںلیا…‘‘ خوش قسمتی سے عین اس وقت جب دین اسلام اس بلند بانگ مگر بے روح عقلیت کا شکار ہو رہا تھا۔ امام غزالی علیہ الرحمتہ پیدا ہوئے اور ان کی فلسفیانہ تشکیک نے اس خوفناک مرض کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کر دیا۔ لیکن چونکہ امام موصوف نے فلسفہ و حکمت سے مایوس ہو کر تصوف کار خ کیا تھا لہٰذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ باطنی واردات کے اندر مذہب کا ایک مستقلسرمایہ موجود ہے۔ اس طرح انہوں نے یہ ثابت کیا کہ مذہب کو مابعد الطبیعیات اور سائنس سے الگ اپنا آزادانہ وجود قائم رکھنے کا حق حاصل ہے… امام موصوف… کو یقین ہو گیا تھا کہ فکر ایک متناہی اور ناقص شے ہے۔ اس سے مجبوراً انہیں فکر اور وجدان میں ایک حد فاصل قائم کرنا پڑی۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ فکر اور وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ اور ان کا نشوونما ایک تہ ہوتا ہے۔ اگر فکر سے نقص اور متناہیت کا اظہار ہوتا ہے تو محض اس لیے کہ فکر زمان قار سے وابستہ ہے یہ خیال کہ فکر کے لیے متناہی ہونا لازمی ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اس کی وساطت سے لامتناہی تک پہنچ سکیں اس غلط نظریے پر مبنی ہے جو ہم نے علم کی دنیا میں فکر کے طریق ادراک کے متعلق قائم کر رکھا ہے‘‘۔ لیکن جہاں علامہ ممدوح نے اس امر کو تسلیم نہیں کیا کہ فکر سے لامحالہ نقص اور متناہیت کا اظہار ہوتاہے۔ وہاں انہوںنے ’’تشکیل جدید‘‘ کی بناپر ان استدلالات پر بھی نہیں رکھی جو متکلمین کا سرمایہ افتخار ہیں اور جن کی بے تمکینی ایک عالم میں مسلم ہے فلسفہ کایہ کا م نہیں کہ وہ حقائق مذہب کا ثبوت بہم پہنچائے۔ اس کی غرض و غایت آزادانہ تحقیق ہے۔ چنانچہ ابتدائے کتاب میںڈاکٹر صاحب نے جو نہایت ہی مختصر مگر دلپذیر دیباچہ رقم فرمایا ہے اس میں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ: ’’فلسفیانہ غور وفکر میں قطعیت کوء چیز نہیں۔ جوں جوں علم میں اضافہ ہوتا ہے فکر کی نئی نئی راہیں منکشف ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ آگے چل کر اس کتاب کے نظریوں کے مقابلہ اور بہتر نظریے قائم ہو سکیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم نہایت احتیاط کے ساتھ فکر انسانی کی ترقیوں کاجائزہ لیتے رہیں اور اس کے متعلق آزادانہ تنقید کا رویہ قائم رکھیں‘‘۔ دراصل فلسفہ اور مذہب کی باہمی تطبیق یا ان کی آویزش کا مسئلہ ایک قسم کا فتنہ ہے‘ جس سے کوئی مفید مطلب نتیجہ مرتب نہیں ہو سکتا۔ ا س سے یا تو انسان ان اصنام خیالی کا شکار ہو جاتا ہے جن کو عقل کا آزر خود اپنے لیے تیار کر لیتا ہے اور واردات مذہبی میںاس کی نگاہیں سطح سے آگے نہیں بڑھتیں اور وہ مغز کو پوست سے تمیز نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے حکمت جدیدہ کا مطالعہ کیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ عصر حاضڑ میںمشہور جرمن فلسفی کانٹ وہ پہلا شخص تھا جس نے عقل انسانی کی دیوار کو متعین کیا ہے او ر مذہب کو اس امر کا موقع دیا کہ وہ فلسفہ اور سائنس سے الگ اپنا مستقل وجود قائم رکھے۔ اس وقت سے لے کر اب تک اگرچہ مغرب کامطمح نظر برابروسیع ہو رہا ہے اور جدید فلسفہ اور سائنس کے مزاج پر مذہبیت کا غلبہ ہے۔ لیکن ابھی تکاہل یورپ کا ذہن اس ترتیب اورہم آہنگی سے عاری ہے جس سے قوموں کے نظام افکار میںصحیح ترکیب اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ محض اس لحاظ سے دیکھاجائے تو زیر نظر خطبات آج کل کے غور و فکر کی دنیا میںایک خاص اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہاں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ علامہ ممدوح کانٹ کی طرح اس بات کے قائل نہیںہیں کہ عقل محض کے لیے ذات الٰہی کا ادراک ناممکن ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے ظاہر کر چکے ہیں ڈاکٹرموصوف فکر اور وجدان کوایک دوسرے سے بے تعلق نہیں سمجھتے کہ اس معاملہ میں وہ برگسان کے ہم نوا ہیں کہ وجدان فکر ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے ہمیں صرف اس عقل کا قائل ہونا چاہیے کہ جو ادب خوردہ دل ہو اوریہ اس لیے کہ انسان ایک بے پایاں شخصیت کا مالک ہو اور گو اس کے مظاہر کی انتہا نہیں اور اس کی تفسیریںبے شمار لیکن اگر کوئی شخص محض ایک نگہ آشنا پیدا کر لے تو اس ی حقیقت کا فہم کچھ مشکل نہیں۔ علامہ ممدوح کی نظر بھی ایک خاص حقیقت پر ہے جس کو انہوںنے مختلف صورتوں میںظاہر کیا ہے۔ انہوںنے جس چیز کی ترجمانی اپنی شاعری میں کی ہے اسی کو تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے فلسفہ کی زبان میں ادا کیا ہے۔ جاوید نامہ میں وہ خود فر ماتے ہیں: من طبع عصر خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف حرف پیچا پیچ و حرف نیش دار تا کنم عقل و دل مرداں شکار حرف تہ داری بانداز فرنگ نالہ مستانہ ی از تار چنگ اصل ایں از ذکر و اصل آں ز فکر اے تو بادا وارث ایں فکر و ذکر آبجویم از دو بحر اصل من است فضل من فصل است و ہم وصل من است تا مزاج عصر من دیگر فتاد طبع من ہنگامہ دیگر نہاد لہٰذا اگرشعر و غزل کی دلکش وادیوں کو چھوڑ کر شاعر نے فلسفہ کے خشک موضوع میدان میں قد م رکھا ہے تو محض اس لیے کہ بعض طبائع ایسے ہیں کہ جب تک وہ اس خاص قسم کے داخلی محسوسات جن کی بناپر ہم مذہب کی بنا قائم ہے اسی طرح اپنے اندر احساسکر لیں۔ جس طرح انکی حیات کے دوسرے اعمال میں وہ اس باتکے اہل ہی نہیں ہو سکتے کہ ایک بیگانہ عالم کو اپنا جزو ہستی بنائیںَ مزید برآں آج کل کے انسان کی نظر زیادہ تر محسوسات پر ہے… لہٰذا وہ ان واردات کے اور بھی زیادہ ناقابل ہو گئے ہیں بالخصوص اس لیے کہ ان کا محض ایک فریب یا ثابت ہونا بھی ممکن ہے… آج کل ہمیں ایک ایسے منہاس علم کی ضرورت ہے جس میں عضویات پر زیادہ اصرا ر نہ کیاجائے بلکہ نفسیاتی لحاظ سے وہ ان طبائع کے زیادہ موافق ہو جو محسوسات کی عادی ہو چکی ہیں۔ چونکہ فی زمانہ اس قسم کا کوئی منہاج موجو د نہیں لہٰذا یہ ہمارا مطالبہ سراسر جائز ہے کہ مذہب کی بدولت ہمیں جو علم حاصل ہوتاہے اس کو عقلاً سمجھنے کی کوشش کریںَ لہٰذا تشکیل جدید کی اشاعت سے علامہ ممدوح نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ پانچ سو برس کے جمود کے بعد عالم اسلامی نے دفعتہً ایک کروٹ لی ہے اور نوجوانان اسلام جدید علم و حکمت کے زیر اثر نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کا علم و حکمت کس نتیجے پر پہنچا ہے۔ اس کی نوعیت کیا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس کے ماتحت الہیات اسلامیہ پر نظر ثانی کر سکیں یا اپنے فلسفہ کی تشکیل جدید کا بیڑہ اٹھائیں۔ ادھر مغرب کی دنیا بھی انقلابات سے خالی نہیںرہی جہاں انسانی فکر اور تجربات میں نہایت دور رس تبدیلیا ں رونما ہو رہی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ ہماری زندگیاں بہت کچھ بدل گئی ہیں۔ آج ہمیں کس قدر فرائض درپیش ہیں۔ جن کا تعلق ہماری زندگی سے نہایت گہرا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ماور ا پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس چیز کی طلب ہے جو نہ تو ابھی متعین ہوئی ہے نہ معلوم ‘ ہم مختلف قوتوں کے ایک گرداب میں الجھ گئے ہیںَ اور جیسا کہ ان ادوار کا قاعدہ ہے جن میں جذبات کا ہیجان ہوتاہے ہماری زندگی مذہبی عناصر سے معمور ہے۔ اس کا اظہار رہ رہ کر ادب اور فنون لطیفہ میںہو رہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے لیے یہ زمانہ تغیر و انقلاب کا ہے۔ اہل جرمنی کی یہ تصویر جس کو دلہلم و مڈل بانڈ نے اپنی مشہور کتاب مقدمہ فلسفہ میںآجسے اٹھارہ سال پیشتر تیار کیاتھا یورپ کی موجودہ حالت سے کچھ بھی مختلف نہیں اور حضرت علامہ نے ان تمام مظاہر کا جائزہ لیتے ہوئے حیات انسانی کا جو مربوط اور متوازن تصور پیش کیا ہے۔ وہ مشرق و مغرب کے لیے یکساں طورپر ایک احسان عظیم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پہلانظام الہیات ہے جو خالصاً قرآن پاک کے مطالعہ پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ علامہ ممدوح نے محسوسات و مدرکات انسانی کی تعبیر میں جگہ جگہ قرآن میجد کے اس اشارے کاتتبع کیا ہے کہ ہمارے ذہنی اور خارجی محسوسات دراصل ایک ہی حقیقت کی مختلف آیات ہیں جو اول سے آخر بھی ہے اور ظاہر و باطن بھی‘‘۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس مضمون میں قارئین کی توجہ ان تمام مباحث کی جانب منعطف کرائیں جن کا تذکرہ تشکیل جدید میںموجود ہے۔ ہم سمجتے ہیں کہ سردست اس کتاب کی ان سہ گانہ خصوصیات کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہو گا جن کا تعلق (۱) اسلام (۲) فلسفہ اور (۳) مذہب سے ہے۔ (۱) اسلام جیساکہ عنوانسے ظاہر ہے خطبات زیر نظر کا موضوع الہیات اسلامیہ ہے لیکن اس کی تشکیل نو میں علامہ نے اس امر کو فراموش نہیںکیا کہ بلحاظ ایک مظہر تمدن اسلام کا جامع تصور کیا ہو گا اس طرح عقلی اعتبار سے انہوںنے تمدن اسلامی کا وجود جو وسیع اور ہمہ گیر تخیل قائم کیا ہے اس میں اس کے مختلف اجزاء کے تاریخی نشوونما کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ پھر استقصائے مسائل میں ان کا معیار بحث اس قدر اعلیٰ اور ارفع ہے کہ اس کی مثال نہ صرف الہیات اسلامیہ بلکہ اس کے کسی دورے ذخیرے میں بھی نہیں ملتی ابتدائیئے کتاب کے چار خطبات کو چھوڑ کر جنکا موضوع علی الترتیب (۱) علم اور مذہبی واردات یعنی وہ علم جو حواس کے ذریعے سے حاصل ہوتاہے اور وہ علم جس کا ماخذ باطنی مشاہدات وحی الہام اور کشف ہے (۲) مذہبی واردات کا فلسفیانہ معیار(۳) ذات الٰہی کا تصور اور حقیقت عبادت (۴) انائے انسانی (ایغو) مسئلہ جبر و قدر اور حیات بعد الممات ہے۔ آخری دو خطبوں میںعلامہ ممدوح نے تمدن اسلامی کی روح اس کے زندگی بخش اور متحرک عنصر یعنی مسئلہ اجتہاد سے بحث کی ہے۔ ان کی رائے میں صوفیا کے صحیح المشرب سلسلوں نے مذہبی واردات کو اسلامی رنگ میں بہت کچھ ترقی دی ہے۔ مثال کے طور پر مکان و زمان ہی کو لیجیے جس کا صحیح ادارک مذہب فلسفہ اور تمدن ہر ایک کے لیے یکساں طور پر ضروری ہے۔ اس میں اسلام کو اس بحث سے بے حد انہماک رہا ہے ’’… ان کی توجہ ہمیشہ اس مسئلے پر رہی کہ کچھ اس لیے کہ قرآن پاک کے نزدیک لیل و نہار کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی وقیع ترین آیات میں سے ہے اور کچھ اس لیے کہ ایک مشہور حدیث میںدہر کو ذات الٰہی کا مترادف ٹھہرایا گیا ہے ۔ اکابر صوفیا میںبعض کا خیال تھا کہ دہر میں بہت سے باطنی اسرار پوشیدہیں۔ شیخ اکبر محی الدین ابن العربی کے نزدیک دہر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں سے ایک ہے… اسلامی فلسفہ کی تاریخ میں سب سے پہلے اشاعرہ نے یہ کوشش کی کہ وہ عقلی اعتبار سے زمانے کی ماہیت پر ایک نظر ڈالیں ان کی رائے میں زمانہ باہم دگر منفرد آنات کا ایک تواتر ہے گویا ہر دو آنات یا لمحات زمانہ کے درمیان ایک طرح کا خلائے زمانی موجود رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مضحکہ خیز تخیل کا باعث فقط یہ ہے کہ اشاعرہ نے زمانے پر محض خارجی حیثیت سے نظر ڈالی ہے۔ انہوںنے یونانی فلسفہ کی تاریخ سے مطلق فائدہ نہیںاٹھایا جو خود اس غلطی کا شکار ہو گئے تھے … عرب ایک عملی قوم تھے اور وہ یونانیوں کی طرح زمانے کو بے حقیقت نہیںٹھہرا سکتے تھے… بایںہمہ ماہیت زمانہ کی تحقیق میں اشاعرہ نے آج کل کے علماء کی طرح اس کے نفسیاتی تجزیے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ لہٰذا وہ ا س کے داخلی مظہر کے ادراک سے قاصر رہے۔ آگے چل کر مسلمان علماء نے ان دقتوں کو بخوبی محسوس کر لیا تھا جو زمانے کے اس تصور سے پیدا ہوتی ہیں۔ ملا جلال الدین دوانی نے الزوراء میں لکھا ہے کہ اگر ہم زمانے کو ایک مخصوص مقدار فرض کر لیں جس پر ایک متحرک جلوس کی طرح جملہ حوادث رونماہوتے ہیں اور اس مقدار کو بجائے خود ایک وحدت ٹھہرائیں تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ زمانہ فعالیت الٰہی کی ایک کیفیت ہے جو اس کی تمام بعدمیں آنے والی کیفیات پر حاوی ہے۔ لیکن ا س کے ساتھ ہی ملانے یہ تنبیہہ کر دی ہے کہ اگر غور سے کام لیا جائے تو زمانے کا تواتر محض اضافی ہے… مشہور صوفی شاعر عراقی نے بھی اس قسم کے خیالات کا اظہار کیاہے ۔ ا س کے نزدیک جس طرح مدارج حیات مختلف ہیں اسی طرح زمانے کی شکلیںبھی لاتعداد ہیں… بڑے بڑے اجسام کا زمانہ جو گردش افلاک سے پیدا ہوتا ہے ماضی حال اور مستقبل میں تقسیم کیا جا سکتاہے۔ …غیر مادی اشیاء کا زمانہ بھی سلسلہ وار ہے لیکن بڑے بڑے اجسام کا ایک سال ان کے ایک دن کے برابر ہے۔ … اس طرح بتدریج ہم زمان باری تعالیٰ تک پہنچتے ہیں جو مردر سے قطعاً آزاد ہے… وہ ابدیت سے بھی بالا تر ہے۔ نہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا… علمائے اسلام میں امام فخر الدین رازی نے سب سے زیادہ اس مسئلے کے متعلق کاوش اور جستجو سے کام لیا ہے لیکن ان کو اعتراف ہے کہ وہ کسی نتیجے پرنہیںپہنچے‘‘۔ تمدن اسلامی پر بھی ہمیشہ اس خیال کا غلبہ رہا ہے کہ زمانہ ایک حقیقت ہے اور زندگی نام ہے زمانے کے اندر ایک مسلسل حرکت کا: ’’زندگی کا یہی تصور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ کا سب سے اہم پہلو ہے۔ فلنٹ نے غلط نہیں کہا کہ افلاطون ارسطو اور آگسٹائین کا یہ منصب نہیںکہ وہ اس کی ہمسری کا دعویٰکریں باقیوںکا تو ذکر ہی کیا ہے۔ ابن خلدون کا یہ نظریہ ہمارے لیے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے ہ اس کے ماتحت تاریخ کا تصور یہ ہو گا کہ وہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر گویا وہ فی الواقعی ایک تخلیقی حرکت ہے ۔ ایسی حرکت نہیںجس کا راستہ پہلے ہی سے متعین ہو۔ ابن خلدون کو مابعد الطبیعیات سے مطلق دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن زمانے کے متعلق اس نے جو نظریہ قائم کیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بجا طورپر اس کو برگساں کا پیشرو ٹھہرا سکتے ہیں قرآن پاک کا یہ کہنا کہ اختلاف لیل و نہار حقیقت مطلقہ کی جس سے ہر وقت ایک نئی شان کا اظہار ہوتا رہتا ہے ایک آیت ہے۔ اسلامی مابعد الطبعیات کا یہ رجحا کہ زمانے کو ایک خارجی وجود تسلیم کیا جائے ابن مسکوبہ کا ارتقائے نظریہ حیات اورآخر االامر بیرونی کا اس نتیجے پر پہنچنا کہ فطرت ایک عمل ہے تکوین کا یہ سب خیالات تھے جو ابن خلدون کو ورثے میں ملے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جس تمد ن کا وہ خود ایک زبردست مظہر تھا اس کی حقیقت کوخوب سمجھ لیا تھا۔ یہ گویا قرآن مجید کی قطعی فتح تھی یونانیت پر اس لیے کہ اہل یونان یا تو زمانے کی حقیقت کے قائل ہی نہیںتھے جیسا کہ زینو اور افلاطون کا عقیدہ تھا یا ان کے نزدیک زمانہ ایک دائرے کی طرح گردش کرتا رتھا جیسا کہ ہر ا قلیطس اور رواقتین کا خیال ہے…‘‘۔ افسوس کہ یہ مختصر سا مضمون اس امر کا متحمل نہیںہو سکتا کہ ہم یہاں ان تمام بحثوں کا اعادہ کریں جو علامہ ممدوحنے زمان و مکاں کے متعلق فرمائی ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے: ’’ خدائے تعالیٰ کے لیے تخلیق کوئی مخصوص حادثہ نہیں جس کا ایک ماقبل اور ایک مابعد ہو ہم یہ نہیںکہہ سکتے کہ کائنات ایک قائم بالذات حقیقت ہے جس کا وجود اللہ تعالیٰ کی ذات سے الگ ہے ۔ زمان و مکان اور مادہ و ہ ذرائع ہیں جن کے ماتحت فکر انسانی قادر مطلق کی آزادانہ تخلیقی قوت کا تصور کرتی ہے۔ وہ کوئی مستقل حقیقتیںنہیں بلکہ حیات ایزدی کے ادراک کے عقلی طریق ایک دفعہ حضرت بایزید بسطامی کے حلقہ ارادت میں تخلیق کا مسئلہ چھڑ گیا۔ ان کا ایک مرید کہنے لگا کہ ایک زمانہ تھا جب سوائے خدا کے کچھ نہ تھا۔ جو کچھ تھا محض ا س کی ذات تھی یہ سن کر حضرت بایزید نے فرمایا کہ اب کیا ہے؟ اب بھی وہی ہے۔ دراصل مادی عالم کوئی ایسا ہیولیٰ نہیں جو شروع سے خدا کی ذات کے ساتھ ساتھ موجود ہو۔ اس کی ماہیت ایک عمل کی سی ہے جس کو فکر باہمد گرو منفرد اشیاء کی ایک کثرت میں تقسیم کر دیتی ہے‘‘۔ (۲) فلسفیانہ لحاظ سے یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ علامہ ممدوح کے افکار پر مولاسطی فلسفہ کا مطلق اثر نہیں۔ الہیات کی راہ میں سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ اس کا فریضہ عدم ذات ماورائے ذات اور مادیت و روحانیت کو ایک ہی حقیقت میں شمار کرنا ہے علامہ ممدوح نے ا س نہایت ہی نازک مسئلے کے متعلق جو رویہ اختیار فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان اشتراکات یا ہم آہنگیوں کی تلاش کریں جو ممکن ہے مذہب اور سائنس کے درمیان پہلے ہی ہوں ۔ چنانچہ ا س امر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ قدیم طبیعیات اب خود اپنی اساس کی تنقید میںمصروف ہ۔ اور مادیت کا وہ تصور جس کو کبھی اس کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا۔ نہایت تیزی کے ساتھ کافور ہو رہا ہے انہوںنے مادہ کی ماہیت پر جو دقیق بحث کی ہے وہ خالصاً فلسفیانہ ہے۔ ہم اس کے جزوی اقتباسات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کریں گے: ’’ارتقائی لحاظ سے دیکھا جائے توہمارے محسوسات و مدرکات کے تین بڑے مراتب ہیں جن میںسے ہر مرتبے کو ہم ایک عالم قرار دے سکتے ہیں۔ یعنی مادیات و حیات او ر شعور کی دنیا جو علی الترتیب طبیعیات و حیاتیات اور نفسیات کاموضوع بحث ہیں۔ طبیعیات ایک اختیاری اور تجربی علم ہے۔ جس کا تعلق حقائق خارجہ یعنی علم بالحواس سے ہے۔ مظاہر حواس کے علاوہ علمائے طبعیات کے پاس نظریوں کی تصدیق و تائید کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ اس بات کے مجاز ہیں کہ غیر مدرک اشیامثلاً جواہر کا وجود تسلیم کر لیں لیکن ان کاایسا کرنا محض اس لیے ہے کہ بغیر اس کے وہ اپنے تجربات حسی کی تشریح و تعبیر نہیںکر سکتے۔ جب ہم طبیعیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ذہنوں کو حرکت میں لاناپڑتا ہے۔ یہ حرکت کیا ہے؟ اعمال ذہنی جو ہمارے قلب کی جمالی کیفیات اور واردات روحانی کی طرح اسی کل کے ایک جزو ہیں جس کو ہم اپنے مدرکات و محسوسات سے تعبیر کرتے ہیں۔ بایں ہمہ ان کو طبعیات کی رو سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ طبیعیات کا مطالعہ صرف مادیاشیا ء تک محدودہے اب فرض کیجیے کہ ہم کسی شخص سے سوا ل کریں کہ اس مادی عالم میں تم کو کن چیزوں کا ادراک ہوتاہے۔ تو ظاہر ہے کہ وہ انہی اشیاء کا نام لے گا جو اس کے گرد و پیش میں موجود ہیں۔ لیکن اگر اس سے مکرر یہ سوال کیا جائے کہ ت اس چیز کا نام بتائوجس کا فی الواقعہ تم ان اشیاء ہی سے خوراک حاصل کرتے ہو تو اس کوکہنا پڑے گا کہ ہم اپنے حواس کی شہادت ہی کی تعبیر کرتے ہیں اور اس تعبیر کا انحصار ااس پر ہے کہ اشیاء اور ان کے خواص کے درمیان ایک امتیاز قائم کیا جائے۔ بعض لوگوں نے مادے کے متعلق یہی نظریہ اختیار کیا ہے۔یہ انگلستان کا مشہور فلسفی برکلے تھا جس نے سب سے پہلے اس نظریے کی تردید کی کہ مادہ ہمارے حواس کی نامعلوم علت ہے۔ خود ہمارے زمانے میںپروفیسر وائٹ ہیڈ نے ثابت کر دیا ہے کہ مادیت کا قدیم نظریہ سراسر ناقابل اعتبار ہے۔ اس نظریے کی رو سے یہ تسلیم کرنا پڑتا تھا کہ اشیاء کے خواص مدرک کی ذہنی کیفیات ہیں فطرت میں شامل نہیںہمارے ادراکات کیا ہیں؟ محض فریب نظر جن کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ فی الواقعہ فطرت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظریہ فطرت کو دو حصوں میںتقسیم کردیتا ہے۔ ایک طرف ذہنی کیفیات ہیں اور دوسری طرف ناقابل تصدیق غیر مدرک وجود جو ان کیفیات کی علت ہیں۔ اگر طبیعیات کو حقائق کا صحیح اور منظم علم حاصل ہے جن کا ادراک ہمیں حواس کے ذریعے ہوتاہے تو ہمیں مادے کے قدیم نظریے سے فوراً دستبردار ہو جانا چاہیے پروفیسر رائٹ ہیڈ کے نزدیک اس نظریے کے معنی یہ ہیں کہ فطرت کا ایک حصہ خواب ہے اور دوسرا محض قیاس لیکن مادے کے تصور پر سب سے زیادہ کاری ضرب آئن سٹائن کے ہاتھوں لگی ہے۔ مسٹر رسل کہتے ہیں کہ نظریہ اضافیت نے مکان و زمان کو باہمی مدغم کر کے جوہر کے قدیم تصور پر شدید حملہ کیا ہے۔ کسی مادی شے کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنی بدلتی ہوئی حالتوںکے باوجود زمانے میں استقرار رکھتی ہے۔ صحیح نہیں حقیقت میں یہ باہمدگر مربوط حوادث کاایک نظام ہے جمود کا یہ قدیم تصور اب ترک کر دیا گیاہے اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام فرائض بھی جن کی بنا پر کبھی مادئین کا یہ خیال تھا کہ مادہ سریع السیر افکار کی نسبت کہیں زیادہ حقیقی اور مستقل شے ہے…‘‘ یہاں قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرمادے کا رائج الوقت نظریہ ناقابل اعتبار ہے تو پھر فطرت یعنی نیچر کی ماہیت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کوئی ساکن وجود نہیں جو ایک غیر متحرک خلا میں قائم ہے بلکہ یہ حوادث کی ایک ترکیب ہے جس میںایک مسلسل او رتخلیقی حرکت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ جب ہم اس تخلیقی حرکت کا مشاہدہ فکر کی عینک سے کرتے ہیں تو اس کا تسلسل فنا ہو جاتا ہے‘ اور اس کی بجائے چند منفرد اور غیر متحرک اشیاء کا ادراک ہوتا ہے۔ جن کے باہمی روابط سے مکان و زمان کے تصورات مترتب ہوتے ہیں۔ طبعیات کا یہ نظریہ کہ فطرت محض مادہ ہے نیوٹن کے ا س نظریے سے وابستہ ہے کہ مکان ایک خلائے مطلق ہے جس میں تمام اشیاء واقع ہیں ریاضیات کی تنقید سے اب یہ امر واضھ ہو گیا ہے کہ خالص مادیت کا مفروضہ یعنی یہ خیال کہ مادہ ایک مستقل بالذات شے ہے جو مکان مطلق میںواقع ہے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ‘‘۔ سطور بالا سے زمان و مکان اور دوسرے مسائل کے متعلق جن نازک بحثوں کا آغاز ہوتاہے۔ ان کی تفصیل کی یہاں مطلق گنجائش نہیں۔ ہمارا مقصد تشکیل جدید کی فلسفیانہ اہمیت کو ظاہر کرنا ہے۔ جس کے لیے یہ اجمالی اشارات کافی ہوں گے۔ البتہ ہم یہ ضرور عرض کر دیں کہ علامہ ممدوح نے جن حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ ان کوبالعموم عقل و فکر کی حدود دے ماورا سمجھا جاتاہے۔ انسان ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کا اظہار واردات کی شکل میں تو ممکن ہے لیکن دیدہ حکمت سے ان کا مشاہدہ شاید ہی ہو سکے۔ یہ خلش اگرچہ ایک حد تک فطری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے کون سا فلسفہ آزاد ہے۔ ثنویت سے بچنے کے لیے جو بھی نقطہ نظر اختیار کیجیے گا اس میں یہ اوراس قسم کے ہزاروں تذبذب باقی رہیں گے۔ (۳) اب ہمیں مذہب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ علامہ ممدوح نے اس کی تحقیق میںنفسیاتی منہاج پر زور دیا ہے۔ حامیان معنویات کو غالباً شروع ہی سے اس پر اعتراض ہو گا۔ لیکن ہمیں حضرت علامہ کے خیالات سن لینا چاہیئں۔ انہوںنے ابتدا ہی سے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ جب فلسفہ مذہب پر تنقید کی نگاہیںڈالتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مذہب کو اس کے مقدمات میں کوئی ادنیٰ جگہ حاصل ہے۔ مذہب فلسفہ کا کوئی شعبہ نہیں اس لیے کہ یہ محض فکر ہے نہ عمل نہ احساس بلکہ انسان کی ذات کلی کا مظہر ۔ پھر یہ خیال بھی سراسر غلط ہے کہ فکر اور وجدان بالطبع ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دونوں کا تعلق ایک ہی سرچشمے سے ہے اور بغیر ایک دوسرے کے ان کا وجود نامکمل رہتاہے۔ ایک منزل بہ منزل ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ دوسرا اس کے وجود کلی پرحاوی ہونا چاہتا ہے۔ وجدان ایک ہی وقت میںتمام حقیقت سے لطف اندوز ہونے کا طلب گار ہے۔ فکر اس راستے کو آہستہ آہستہ اور رک رک کر طے کرتی ہے۔ تاکہ وہ اس کے مختلف مراحل کو محض ان کے مشاہدے کے لیے مخصوص و منفرد کرتی جائے۔ وجدان کے پیش نظر حقیقت مطلقہ کا ابدی اور فکر کے سامنے اس کا زمانی پہلو ہے ۔ دونوں ایک دوسرے ک لیے تقویت و تازگی کا موجب بنتے ہیں۔ اور دونوں کو حیات میں جو منصب حاصل ہے اس کے اعتبار سے ایک ہی حقیقت کی بقا کے آرزو مند ہیں‘‘ اگر سائنس اور فلسفہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ ان کی توجہ محسوسات پر ہے تو مذہب کو اس سے کوئی تعرض نہیں اس لیے کہ مذہب نے تو سائنس سے بھی بہت پہلے محسوسات پر زور دیا ہے جب ہم اس منصب کا خیال کرتے ہیںجو مذہب کوہماری زندگی میں حاصل ہے تو ہم خود بخود اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بہ نسبت مسلمات علم کے ہمارے اس امر کی کہیں ضرورت نہیں ہے کہ ہم مذہب کے اصول و عقائد کے لیے کسی عقلی اساس کی جستجو کریں۔ علم مابعد الطبیعیات کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اب تک اس نے ایسا ہی کیا ہے۔ لیکن مذہب ک لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ محسوسات انسانی کے تضاد کو رفع نہ کرے۔ یا جس ماحول میں انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کی تصدیق و تثبیت سے انکار کر دے۔ مذہب کا ہر عہد عقلیت کا عہد تھا۔ مذہب کو بھی محسوسات و مدرکات کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح سائنس کو۔ کہیں اس کا مقصد ان مقصدات کی تعبیر کرنا نہیں ہے جو علوم فطرت کا موضوع ہیں مذہب نہ کیمیا ہے نہ طبیعیات جس کا فریضہ ی ہو کہ وہ حقائق فطرت کی ترجمانی کرے علت ومعلول کی زبان میں کرے۔ اگر ان دونوں میں اختلاف پیدا ہو جاتاہے تو اس لیے نہیں کہ ایک کی بنا محسوسات پر ہے اور دوسرا محسوسات سے آزاد دونوں کی ابتدا محسوسات سے ہوتی ہے لیکن جب ہم اپنی غلط فہمی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی قسم کی واردات کی الگ الگ ترجمانیکر تے ہیں تو ان میںتضاد و تصادم رونما ہو جاتا ہے۔ مذہب کے پیش نظر واردات انسانی کی ایک مخصوص دنیا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ وہ اس کی صحیح اہمیت کا پورا پورا علم حاصل کر ے‘‘۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری مذہبی واردات بھی محسوسات اور مدرکات کی کسیطرح علم کا سرچشمہ بن سکتی ہے؟ علامہ ممدوح نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے اگر اس علم ک ی نوعیت عالم بالحواس سے مختلف ہے تو اس کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ضروری نہیںکہ علم غیر عقلی ذرائع سے حاصل ہو وہ بہ نسبت اس علم کے جس میں عضویاتی حرکات کو دخل ہوتاہے ناقص ہو۔ اس کے لیے علامہ ممدوح نے واردات مذہبی کے نفسیاتی تجزیے کے بعد جو شواہد پیش کیے ہیں ان کو افسوس ہے کہ بخوف طوالت ہم یہاں نقل نہیں کر سکتے۔ لیکن اہل نفسیات کی یہ بدگمانی کہ چونکہ مذہبی واردت کی بناادراک حسی سے نہیںہوتی لہٰذا ان کو نظر انداز کر دینا چاہیے صحیح نہیں ایسے ہی محض ان کیفیات کی بنا پر جو باطنی واردات کو بظاہر متعین کرتی نظر آتی ہیں ان کی روحانی قدر و قیمت سے انکار کر دینا بھی غلطی ہے اگر جدید نفسیات کا یہ مسلمہ صحیح تسلیم کرلیا جائے جسم اور ذہن باہم متعلق ہیں تب بھی باطنی واردات کو اظہار حقیقت کا ذریعہ نہ سمجھنا منطقی اعتبار سے غلط ہے۔ اصول نفسیات کے ماتحت دیکھا جائے تو سبھی کیفیات عضوی حالتوںکی پابندہیں۔ خواہ ان کے مشمول کا تعلق مذہب سے ہو یا مذہب سے الگ کسی دوسری چیز سے۔ جن لوگوں کا مزاج عالمانہ رنگ اختیار کر لیتا ہے ان کا ذہن بھی تو اعضا کا اسی طرح محتاج رہتا ہے۔ جیسے اہل مذہب کا۔ مثال کے طورپر صر ف ان لوگوں کے تخلیقی کارناموں کو لیجیے جن کا شمار ہم نوابغ میں کرتے ہیں۔ اور جن پر غور کرتے ہوئے ہم اس بات پر مطلق خیال نہیںکرتے کہ ایک ماہر نفسیات ان کی عضوی کیفیات کے متعلق کیا کہیں گے۔ ممکن ہے کہ ایک خاص قسم کی قبولیت کے لیے ایک خاص قسم کا مزاج ناگزیر ہو۔ لیکن اس کی حقیقت و ماہیت کو محض ان کیفیات تک محدود رکھنا غلطی ہے جو بظاہر اسے متعین کرتی نظر آتی ہے۔ حقیقت میں ہماری ذہنی کیفیات کی عضوی تحلیل کا اس معیار سے کوئی تعلق نہیں جس کے ماتحت ہم کسی کیفیت کو ادنیٰ یا اعلیٰ قرار دیتے ہیں‘‘۔ اس امر کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مذہب داخلی کیفیات کا کوئی چیستاں نہیں جیسا کہ بالعموم معترضین خیال کرتے ہیں مذہبی واردات کی مثال زیادہ تر غیر واضح احسا س کی سی ہے۔ ان میں عقل و استدلال کا شائبہ تک نہیں ہوتا لیکن جس طرح انسان کے دوسرے احساسات ادراک کا ایک عنصر موجود ہوتاہے۔ اسی طرح باطنی واردات بھی ادراک سے معرا نہیں ہمارے نزدیک سیاسی عنصر ادراک کانتیجہ ہے۔ جس کی بدولت باطنی واردات فکر کی صورت اختیار کرتی ہے۔ دراصل احساسات کا اقتضا ہی یہ ہے کہ ان کا اظہار فکر کی شکل میں ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ فکر اور احسا س دونوں کا تعلق ہمارے داخلی مشاہدات سے ہے۔ اول الذکر ان کا زمانی پہلو ہے اور دوسرا غیر زمانی… احساس گویا کسی بیرونی شے کی کشش کا نا م ہے۔ جس طرح فکر کسی خارجی شے کی خبر کا۔ جب ہمارے ذہن پر احساس کی کوئی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس کے ایک جزو لازم کے طور پر اس شے کا خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کو سکون ہو گا۔ یہ کہ احسا س کا کوئی رخ نہیںہوا ایسا ہی ہے جیسے یہ کہ فعالیت کی کوئی سمت نہ ہو اور یا د رکھنا چاہیے کہ سمت کا اشارہ ہمیشہ کسی جانب سے ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ گو مذہب کی ابتدا احساس سے ہوتی ہے۔ لیکن وہ محض احساس پر جیسا کہ خود احساس ہی کا تقاضا ہے قناعت نہیں کر سکتا۔ برعکس اس کے اس سے ہمیشہ مابعد الطبیعی جستجو کا اظہار ہوتاہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کر دیا گیا ہے کہ فسفہ اور مذہب باعتبار اپنی نوعیت کے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں فلسفہ کا کا م یہ ہے کہ وہ عقل کی عینک سے اشیا کا مشاہدہ کرے۔ اس کا مقصود صرف اس قدر ہے کہ اسے کوئی ایسا تصور مل جائے جس کے ماتحت ہمارے جملہ محسوسات و مدرکات کسی ایک نظام میںمرقسم ہو جائیں گویا فلسفہ دو رہی سے حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ برعکس اس کے مذہب کی تمنا یہ ہے کہ وہ اس سے ربط و اتلاف پیدا کرے۔ ایک محض نظریہ ہے دوسراحقیقی واردات ‘ قرب اور اتصال۔ اس کے لیے فکر کو اپنے آپ سے بلند ہونے کی ضرورت ہے اور اس کا مدعا یہ ہے کہ اس اسلوب کی شکل میں پورا ہو سکتاہے کہ جس کو مذہب نے دعا سے تعبیر کیا ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک پر تادم آخر موجود تھی۲۔ ان نہایت ہی اہم اور دقیق مباحث کے علاوہ جن کا مجمل سا خاکہ ہم نے سطور بالا میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ’’تشکیل جدید‘ ‘ میں فلسفہ اور سائنس کے سینکڑوں مسائل زیر نظر آ گئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اسی غیر معمولی عمق کاوش ‘ تحقیق اور رفعت تخیل کے ساتھ جس کے لیے علامہ ممدوح کی ذات اب کسی تعارف کی محتاج نہیں جس قدر کتاب کے مباحث دقیق ہیں اسی قدر انداز بیان سلیس اور دلآویز ہے ۔ ایک جرمن فاضل کی رائے ہے کہ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ عصر نو کا سب سے تعجب خیز مظہر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل مبصر کی اس رائے میں ذرا سا بھی مبالغہ نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی حلقوں میں تشکیل جدید کے مباحث کو نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا۔ ان کی علمی صلاحیتیں اہل مشرق سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ فرض مسلمانوں کا ہے کہ وہ اس کے مطالب پر غور کریں اور حضرت علامہ کے ان ارشادات سے مستفیض ہونے کی کوشش کریں جو ان کے تمدنی ارتقاء میںبجا طور پر ان کی رہبری کا حق ادا کر سکتے ہیں: ایں چنیں دیدہ رہ بیں بہ شب تار کجاست؟ (نیرنگ خیال ‘ ستمبر۔ اکتوبر 1932ئ) ٭٭٭ حواشی ۱۔ یہ امر کہ مسلمانوںکے اندر مذاہب دینیات کی ترغیب و تدوین کا خیال کیونکر پیداہوا نہایت درجہ متنازع فیہ ہے۔ مستشرقین نے اس کو مسیحی اثرات کا نتیجہ ٹھہرایا ہے۔ اور علمائے اسلام کی رائے بالعموم یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری اہل ایران پر عائد ہوتی ہے۔ راقم الحروف کو دونوں نظریوں سے اختلاف ہے جس کا اظہار رسالہ جامعہ اشاعت اکتوبر 1929ء میں ہو چکا ہے۔ ۲۔ یہ اور ماسبق اقتباسات تشکیل جدید کے مختلف اجزاء سے لیے گئے ہیں (نیازی) ٭٭٭ چوہدری محمد حسین اسرار خودی (ادباء و حکماء مغرب کی نظر میں) زمانہ حال کے فلسفہ مذہب شاعری اور عا م علم ادب میں علامہ اقبال کا کیا پایہ ہے یا علامہ اقبال کے فلسفہ مذہب اور شاعری کا زمانہ حال پر کیا اثر ہو رہا ہے اور یہ اثر اس ’’حال‘‘ کو کس ’’مستقبل‘‘ میں بدلنا چاہتا ہے؟ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات سے بصورت دیگر موجودہ مشرقی اقوا م کے عام افراد قاصر ہیں۔ کیوں قاصر ہیں؟ اس کو وہی شخص سمجھ ؤسکتا ہے جس نے زمانہ کو زمانہ کے محقق کی نگاہ سے دیکھا ہومشرق و مغرب دونوں کی سیر کی ہو‘ دونوں کے علوم و فنون‘ تمدن و معاشرت‘ مذہب و سیاست‘ اخلاق و رجحان طبائع کا وسیع مطالعہ کیا ہو۔ اور پھر یہ اہلیت رکھتا ہو کہ صحیح مطالعہ کے بعد صحیح نتائج مرتب کر سکے۔ ایسے شخص کو بے چون و چرا کہنا پڑے گاکہ جس طرح زوال و انحطاط کی زندگی کو صحیح زندگی سے کوئی نسبت نہیں کوئی علاقہ نہیں اسی طرح انحطاط میں بسر کرنے والے افراد کے خیالات کو صحیح یعنی ’’زندہ خیالات‘‘ سے کوئی نسبت اور کوئی علاقہ نہیں چہ جائیکہ وہ ان کا موازنہ کریں اور ان کی قدر و قیمت کا پتہ لگائیں۔ اور اگر کوئی نسبت ہو سکتی ہے تو صرف یہ کہ ’’زندہ زندگی‘‘ ایک نئی اور الگ دنیا اور خیالات تصور کیے جائیں اور ان کی انتہائی داد جو دی جا سکے وہ حیرت و استعجاب ہو اور بس۔ اقبال بھی مشرق میںپیدا ہوا اور یہ سچ ہے مگر کون ہے جو ارتقاء کے کرشموں سے واقف ہو علل و اسباب کی عجائب آفرینی کا مبصر ہو اورپھر اس بات سے انکار کرے کہ قدرت کو جب کسی قو م کو نئی روح بخشنی ہوتی ہے اسے نئے قالب میں ڈھالنا مقصود ہوتا ہے و اس قوم ہی سے پہلے نئی روح نئی عقل اور نئے احساس کے افراد پیدا کیے جاتے ہیں وہ افراد جن کی ہستیاں ایک عظیم الشان انقلاب زندگی کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ وہ افراد جن کے اقوال اگرچہ ابتدا میں عالم بالا کی باتیں متصور ہوتی ہیں مگر جونہی لوگ ان کی صدائوں سے مانوس ہوتے ہیں ان کی دعوت پر کان دھرتے ہیں ان کے خیالات و ارشادات کو جذب کرتے ہیں اور ان کے کہنے پر عمل کرتے کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ وہ خود ویسا ہی سوچنا اور ویسا ہی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو پھروہ نہ ہستیاں رہتی ہیں اورنہ ان کے خیالات معمولی خیالات متصور ہوتے ہیں۔ غرض فطرت کو جن اقوام میں انقلاب منظور ہوتا ہے غیر معمولی افراد بھی انہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال کس مضبوط فلسفہ کی بنیاد ڈال رہا ہے ابنائے جنس کو کن مکارم اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس کے نزدیک انسان کیا ہستی ہے؟ فرد کیا ہے؟ وہ کامل کس طرح ہو سکتا ہے؟ قوم کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ تمام دنیا ایک ہی قوم کیسے بن سکتی ہے؟ پھر اقبال کے پاک جذبات کس عالمگیراخوت کے لیے تڑپ رہے ہیں اس کی باریک نگاہ تمام عالم کو کس ایک معاشرت اور ایک تمدن میں دیکھنے کی آرزو مند ہے۔ اس کا محبت بھرا دل کس مساوات کا متمنی ہے ۔ وہ کس وحشت کے ساتھ دوئی سے گریزاں ہے۔ کس درد سے یک رنگی کا وارفتہ ہے؟ یہ سب ایسے حقائق ہیں کہ افراد کو افراد بنانے کے لیے قوموں کو ایک قوم میں ظاہر ہونے کے لیے اور دنیا کو ایک دنیا کہلانے کے لیے بغیر ان کی طرف رجوع کیے چارہ نہیں۔ سال گزر رہے ہیں علامہ موصوف نے خدا جانے کتنے عرصے کے فکر و تدبر اوردماغ سوزی کے بعداپنی صحیح اور اعلیٰ قوت فکریہ کی بدولت بنی نوع انسان کے لیے مکمل حیات فردیہ کے حصول کا نسخہ تجویز کیا۔ مثنوی اسرار خودی کی شکل میں یہ نسخہ چھپا اور لوگوں نے دیکھا کہ بنی نوع پر تو یہ ایک احسان تھا۔ مخصوص مورد اس انعام سے اہم مشرقی لوگ تھے اور پھر ان میںمختص ہم ہندوستانی جن کی زندگی اصل زندگی سے کہیںدور ہے۔ جن کے نفس مردہ ہو چکے ہیں جن کا قویٰ ضعف کا شکار ہیں جن کی ہمتیں سو چکی ہیں جن کے دماغ پست خیالات کا گھر ہیں اور جن کی زندگی ایک طویل شیریںحالات نزع ہے مگر افسوس نہ صرف ہم مریضوں کو بلحاظ افراد ابھی تک پوری واقفیت نہیں ہوئی کہ یہ نسخۃ ہمارے ہی مرض کا علاج ہے بلکہ ہمارے مدعی نباضوں کی تشخیص اب تک یہ دریافت کرنے سے قاصر ہے۔ کہ یہی وہ دواہے جو کافی و شافی ہو سکتی ہے اور ہم جو علاج آج تک عمل میں لا رہے ہیں وہ مریض کو اور مریض بنانے میںممد ہیں نہ کہ اسے صحت مند اور تندرستی عطا کرنے میں اورنہ صرف یہ کہ قومی پیشوائوں اور مبلغوں نے اس کتاب میں نگاہ نہیں کی اور ملت افراد کو مکمل افراد بنانے کے درپے نہیں ہوئے۔ بلکہ ادبا و شعرا جن کی نظر عام نظروں سے گہری ہونا چاہیے اور جن کا مذاق سخن عام مذاقوں سے زیادہ لطیف اور زیادہ پاکیزہ ہونا ضروری ہے وہ بھی بلحاظ شعر و ادب کے ابھی تک اس ی خوبیوں سے ناآشنا ہیں۔ مگر نا آشنا ہو ں بھی کیوں نہ ہم خود کہہ چکے ہیں کہ زوال اور انحطاط کے زمانہ کے خیالات اور مذاق اس قابل نہیں ہوتے کہ ان کے حقائق و دقائق تک رسائی ہو۔ جب ہم حقیقی زندگی ہی سے روشناس نہیں تو حقیقی ادب اور حقیقی شعر کو کیا سمجھیں گے اور ہمارے اس کتاب کی طرف ابھی تک بہت تھوڑا تام ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ علم و ادب کی انتہائی وسعتوں سے آشنا نہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ شعر سے دنیا میںکیا کیا کام لیے جا سکتے ہیں۔ زندہ اقوام کے اشعار میں مضامین کیسے ہو سکتے ہیں۔ اورکیوں ہوتے ہیں ان کے اسلوب بیان میں کیا سحر ہوتا ہے۔ پھر شعریت کیا ہے اور شعریت کے کون سے اثرات زندگی بخش ہیں اورکون سے مرگ آور؟ ہمارے نقاد مثنوی اسرار خودی کی کسی ایک خوبی کو آج تک پورے طور پر واضح نہ کر سکے۔ اس کے مطالب و معانی کو کماحقہ ادراک نہ کر سکے۔ یہ نہ جان سکے کہ سلسلہ خیالات کس مرکز سے کس ربط و ضبط کے ساتھ زمین سے اٹھا ہے اور کس قوت و اعجاز سے آسمان تک پہنچ کر تمام فضا میں بسیط ہو رہاہے۔ بلکہ علم و ادب کی حقیقت سے اپنے بے بہرہ ہونے کا ثبوت اس طرح دیا کہ اسرار خودی میں خواجہ حافظ علیہ الرحمہ کے ادب پر جو تنقید تھی اسے اپنی کم فہمی سے خواجہ کی بزرگی پر حملہ سمجھا۔ گویا نہ صرف ادب کو سمجھنے سے قاصر رہے بلکہ نقاد کہلا کر تنقید کے سمجھنے سے درماندگی کا ثبوت دیا۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے‘ کس قدر علم و ادب کی حقیقت سے ناآشنائی کا اظہار ہے کہ اسرار خودی کے ادب کو جو آ ج مغرب کے ادباء کو محو حیرت کر رہا ہے نہ سمجھنا تو درکنار ہمارے نقاد اس میں ایک غیر معمولی تنقید کو نہ سمجھ سکے‘ اورپھر اس پر جو ہمہ دانی کے دعوے ہیں وہ خدا ہی جانتا ہے۔ ہم پھر بھول رہے ہیں ہمارا افسوس ناحق ہے اور ہمارے کلیوں کی بنا پر ناحق ہے۔ ہم اس وقت تک اسرار خودی کو نہ سمجھ سکتے جب تک کہ زندہ قومیںاسے پہلے نہ سمجھ لیتیںَ اور ہمارے سمجھانے کے لیے اس کی تشریح میںکچھ نہ کچھ نہ لکھ چکتیںَ مثنوی مذکور کے انگلستان میں انگریزی زبان میںترجمہ ہونے کے بعد کئی مغربی ادیب اور فلسفی اور نقاد اس پر رائے زنی کر چکے ہیں۔ انہی تنقیدوں میں سے ایک تنقید کا ترجمہ ہم ناظرین اور بالخصوص نقاد حضرات کے لیے پیش کرتے یں تاکہ وہ جان لیں کہ ہم اسرار خودی کو کیا سمجھتے تھے اور خودی کے مالکوں نے اسرار خودی کو کیا سمجھا ہے۔ اس مضمون سے یہ بھی واضح ہو گا کہ علم و ادب کی کیا حقیقت ووسعت ہے اور اگر دنیا آج کی دنیا بنی ہے تو ادب ہی کے اثرات سے بنی ہے اور اگر کل کی دنیا بنے گی تو اسی کے کرشموں سے ۔ اس تنقید میں یہ حقیقت پڑھ کر ہمارے نقاد ان ادب کی اور بھی آنکھیں کھلیں گی کہ زندہ اقوام کے ادباء کے نزدیک اگر کوئی مفید اور زندہ ادب لکھنے والا مفید اورزندہ شعر کہنے والا مفید اور زندہ فلسفہ کا سبق دینے والا اس وقت تمام دنیا میں زندہ ادیب زندہ شاعر ‘ زندہ فلسفی ہے تو وہ سرف ایک اقبال ہے اور بس اور حیات انسانی کا اصل راز اگر کسی نے آج تک سمجھا ہے تو اسی نے۔ فاضل نقاد نے جس خوبی اور قابلیت سے اسرار خودی کے اصل جوہر کوہمیں دکھایا ہے ہم فی الحقیقت اس کی داد نہیں دے سکتے دنیا کے دو مشہور ترین فلسفی ادباء (نٹشا اور ٹمین) سے جن کا سکہ موجودہ وقت میں تمام اہل مغرب پر ہے اقبال کا مقابلہ کر کے دکھا دیا ہے کہ وہ دونوں حضرات مدت العمر میں انسان کے متعلق جس نکتہ کو نہ سمجھ سکے اسے اقبا ل کی حقائق شناسی نے کس خوبی سے اور سادگی سے دنیا کی صحیح مطمع نظر بنا کر دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس تنقید کا لکھنے والا امریکہ کا مشہور فاضل فلسفی ادیب اورنقاد مسٹر ہربرٹ ریڈ ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے اور سمجھنے کا لطف تو اصل زبان میں انگریزی ہی میں ہے۔ ترجمہ اس مفہوم کو کیا ادا کرے گا۔ جو اصل مضمون نگار کے انگریزی الفاظ میں مضمر ہے یہ مضمون امریکہ کے اخبار نیو ایج (New Age)مورخہ 25اگست 1921ء میں چھپا تھا۔ وٹمین امریکہ کا سب سے بڑ ا فلسفی شاعر ہے۔ اس کے کلام پر امریکہ کے ایک نقاد مسٹر لارنس نے اپنی تنقید شائع کی تھی۔ مسٹر ہربرٹ ریڈ یہ شکایت کرتا ہوا کہ صحیح تنقید ادب ادبی دنیا میں مفقود ہے اس تنقید پر نظر ثانی کرتا ہے ۔ اس کی داد دینے کے بعد خود بتاتا ہے ک وٹمین کے کلام میں کیا کیا خصوصی کمالات تھے۔ پھر اس کے کمالات کے بعض نقائص پر جو مسز لارنس نے لکھے ہیں بحث کا آغاز کرتے اس طرح قلم کو جولانی دیتاہے: مسٹر لارنس نے جس خوبی کے ساتھ وٹمین کی متذکرہ بالا حقیقت آفرینی کو بے نقاب کیا ہے بعینہ ویسی تدقیق و تنقید سے اس ’’شاعرانہ کذب‘‘ کے عنصر کو بھی جو اس کے کلا م میںپایا جاتا ہے بالشتریح واضح کر دیا ہے کہ کیونکہ وٹمین باوجود اپنی تمام عظمت و علومرتبت کے کامل شاعر نہ تھا۔ مگر اس کے کلام کی تصوری کے اس رخ پر چنداں اصرار کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک اس شاعرانہ کذب تخیل کی محدود جولانی اور تعینات عالم سے چشم پوشی کے مسئلہ سے تعلق ہے اس کے کلام سے عیاں ہے اور بالکل مظہر من الشمس ۔ اس کی شاعری کے اور بھی پہلو ہیں۔ ضبط تخیل اثبات تعینات اور یہ وہ پہلو ہیں جو زیادہ مستحق توجہ ہیں۔ ان معنوں میں ’’وٹمین‘‘ کی استعداد نادرہ کی بہترین توضیح اور ا س کے فن کی مکمل ترین تعریف خود وٹمین کے قلم سے حسن نگارش پا چکی ہے ۔ یہ ’’وٹمین‘‘ کی کتاب ’’ڈیمو کریٹک وسٹاز‘‘ (مناظر جموریہ) کے صفحات میں پوشیدہ ایک فٹ نوٹ ہے جو اس قدر جلی نہیں کہ قاری کی توجہ کو خود بخود اپنی طرف مبذول کر لے۔ اس لیے مجھے حق ہے کہ میں اسے اس مقام پر نقل کر دوں۔ ادبی صناعت و بداعت کی معنی آفرینی کا منتہائے عروج اس کا حاصل اس کی خط و انبساط کی انتہائی وسعتیں جو روح انسانی کی بلند پروازی کے لیے ممکن ہو سکتی ہیں سب مابعد الطبیعات کے حقائق و لطائف ہیں۔ علم روحانی کے غوامض و اسرار خود روح اور ہمارے تشخیص ذاتی کی بقا و دوام کا مسئلہ بھی اسی میں شامل ہے۔ تمام قرآن میں نفس انسانی کی رسائی اس منزل تک ہوتی رہی ہے اور آئندہ ہوتی رہے گی ۔ کم سے کم اس نکتہ میں تو بلا امتیاز نسل و زمانہ تمام بنی نو ع انسان کو ایک ہی مقامپر کھڑے ہیں بلکہ نگاہ میں وہی مصنفین محبوب ترین ہیں جو اس میدان کے شہسوار ہیں اور اگرچہ ان کا صلہ چاندی سونے کے سکوں کے سوا اور کچھ نہیں اور اگرچہ بالاخر کچھ ہو تو صرف یہ کہ شہرت ان کے قدم چومے اور عظمت و فضیلت کا تاج ان کے سر پر رکھا جائے ۔ مگر بایں ہمہ ابتذال ان کے رشحات قلم (جن میں اگرچہ ازروے حسن بیان سقم بھی ہوں) وہ انمول موتی ہیں جن کو دنیا جان سے بڑھ کر عزیز و محفوظ رکھے گی۔ ادب و شاعری کا منتہی ہمیشہ مذہب رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وید ژند‘ اوستا تالمود‘ زبور‘ مسیح اور اس کے تلامذہ کی اناجیل ‘ تصانیف افلاطون‘ قرآن اعلیٰ ھذالقیاس ہمارے زمانہ میں سویڈ نبرگ کی تحریریں ۔ پھر لینز کانٹ اور ہیگل کے گراں بہا افکار سب ایسے اعلیٰ پایہ کے ادبی ذخائر ہیں جو عل و ادب کی حقیقی بلندیوں او ر عروج کو اس طرح نمایاں کرتے ہیں کہ جس طرح دنیاکے عظیم الشا پہار سطح دنیا سیبلند نمایاں سربفلک نظر آتے ہی۔ پھر ان کے دو ش بدوش شعراء کے وہ نتائج طبع بھی ہمیشہ حرز جاں بنے رہیں گے جن میں اشخاص و واقعات‘ جذبات بہیمیہ انسانی اور مناظر عالم مادی کے متعلق راگنیاں الاپنے کے ساتھ ساتھ انہوںنے اپنے کلام میں مذہبی انداز اور شعور اسرار کے علاوہ مستقبل ‘ غیب ‘ شہود‘ مشیت ‘ غائب ‘ تکوین عالم وغیرہ مسائل پر حصول اطلاع کے مضامین کو بھی کبھی ہاتھ سے نہیںچھوڑا‘ بلکہ بالواسطہ ہر ادائے بیان میں ان نکات کو ادا کر جاتے ہیں۔ مگر یہ علم ادب کے نقد و ماہیت کے بجائے اس کی وسعت استعدادی کی تعریف ہے جو وٹمین نے کی ہے۔ یعنی یہ ادب کا کم ہے نہ کہ اس کا کیف۔ یہ تعریف ’’انداز بیان‘‘ و ’’حسن ادا‘‘ کے مسئلہ کو حل نہیں کرتی بلکہ اپنے الفاظ کی سادگی میں اسے پائمال کر جاتی ہے (یہ گرامی تصانیف جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے علم حسن الاعیان کے نظریہ سے خواہ کتنی سقم ہوں اپنی ذاتی خوبی میں ہمیشہ پاک و بے عیب ہیں۔ ان کی طاقت فکرکی آتش سیری دشت خیالات میں نیا جادو پیدا کر دیتی ہے ۔ اور قلوب انسانی کو پگھلا کر تمام عالم کو نئی شکل میں متشکل کر دیتی ہے) مگر ان توضیحات کے زیر شرائط وٹمین کا مذکورہ بالا صدر منتہی ہے وہ صحیح و نقد منتہی ہے جو عمل وہ بلا واسطہ افادہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر طرح موزون و مناسب ہے۔ آج اس مقام اور اس زمانہ میں ا س ’’منتہی‘‘ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میرے ذہن میں اگر کسی زندہ شاعر کا خیال آ سکتا ہے جو اس میزان میں پورا اتر سکتا ہے تو وہ ایک ہی ہے اور وہ بھی لازمی طور پر نہ ہمارا اہم قوم اور نہ ہمارااہم مذہب ۔ میری مراد اقبال سے ہے جس کی نظم ’’اسرار خودی‘‘ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ڈاکٹر رینلڈ نکلسن کے قلم سے اصل زبان فارسی سے اگنریزی میں ترجمہ ہو کر میسرز میکملن کے اہتمام سے شائع ہوئی۔ اس زمانہ میں جب کہ ہمارے ہم وطن متشاعر بلیوں اور بٹیروں پر ت بندیوں سے اپنے یاروں کی ضیافت طبع کا سامان پیدا کررہے تھے اور کیٹس ۱ کے انداز پر پیش پا افتادہ مضامین پر طبع آزمائیوں میں مشغول تھے عین اس وقت لاہور میں یہ نظم جس کی نسبت ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس نے ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں کے خیالا ت میں ایک محشر برپا کر دیا تھا تصنیف کی گئی اور شائع کی گئی ۔ ایک ہندی مسلمان ۲ نے لکھا ہے کہ اقبال ہم سب میں مسیح بن کر نمودار ہوا ہے جس نے مردہ اجسام کو جنبش دے کر ان میں حیات تازہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ تم پوچھو گے کہ یہ کیا ٹوٹکا تھا جس نے نادان خریداروں کے دلو ں کو موہ لیا تمہیںمعلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ٹوٹکا نہ تھا۔ کسی سیاسی مجذوب کی بڑ نہ تھی۔ کسی مکتی فوج کے نجات فروش کا نسخہ نجات نہ تھا بلکہ یہ اس نظم کا وہ اثر تھا جس کے حسن معنوی موجودہ فلسفہ کے اہم ترین نکات و دقائق پر حاوی ے۔ یہ اس نکتہ آفرینی کا طلسم تھا جس نے افکار کی گونا گونی سے وحدت ایمانی پیدا کر دی ہے۔ یہ اس حقیقت ترجمانی کا سحر حلال تھا جس نے ایک ایسی منطق کو جو محض مدرسوں کے طلبا تک ہی محدود و مخصوص تھی ایک عالمگیر الہام کی صورت میں بدل کر عالم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اقبال اس بات سے انکار کرتا ہے کہ اس کے افکار نٹشا کے خیالات سے متاثر ہوئے ہیں بایں ہمہ نٹشا سے اس کا موازنہ ناگزیر ہے۔ نٹشا کا فوق الانسان اقبال کے انسان کامل سے صر ف اتفاقی اوصاف میں مختلف ہے اگرچہ اول الذکر کی بنیاد امرا کے تمدن پر ہے اورموخر الذکر جہاں تک میرا خیال ہے ان معنوںمیںزیادہ یقینی اور مستحکم بنا پر مبنی ہے۔ کہ اس کی تعریف میں ’’منتہی‘‘ (یعنی کسی سقراط کسی مسیح کسی محمدؐ) کا صحبت آشنا ہونا یا اس کو ازروئے پیدائش مکمل ہونا تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ ہاسے فطرت کے قوائے مولدہ کا مال و مقصود ٹھہرایا گیا ہے ساتھ ہی اس کے اقبا ل کا انسان کامل ارتقاء جمہور کامنتہی ہے۔ وہ ایک اصول ہے جو اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہر انسان ایک مستتر طاقت کا مرکز ہے۔ وہ ایک اصول ہے جو اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہر انسان ایک متتر طاقت کا مرکز ہے۔ جس کے ممکنات زندگی ایک خاص طریق عمل سے ترقی پا سکتے ہیں۔ انسانیت کا یہ نصب العین حقیقت کے زیادہ قریب ہے کہ اور اس لحاظ سے وتمین کے نفس متوسطہ ۳ سے زیادہ مناسب و متشابہ ہے۔ تاہم تینوں نصب العینوں کی تہ میں ایک ہی ابتدائی خواہش یا خیال مضمر ہے۔ ان میں فرق صرف اس قدر ہے کہ جس قدر ان کے دیکھنے میں پیش بینی سے کام لیا جاتا ہے۔ ازروئے مذہب ان سب کی بنیاد یہ اعتقاد ہے کہ انسان ایک قوت الہیہ کی کشش و جذب سے پیدا ہوتا ہے اور ارتقاء پاتا ہے جس کا نام خدا ہے ۔ ازروئے سائنس مفروضہ یہ ہے کہ ہئیت واقعات میں ایک قوت مولدہ داخل کی جاتی ہے جو شعور انسانی پر از خود جلوہ گر ہوتی ہے ۔ اور نفس انسانی کے شعور و ادراک کو ہمیشہ ترقی دیتی رہتی ہے۔ ازروئے مابعد الطبیعیات یہ دونوںپہلو جن میں ایک مذہب نے اختیار کیا ہے اور دوسرا سائنس نے متحد ہیں۔ زندگی (مٰں اقبال کی نظم کی تمہید سے نقل کرتا ہوں) ایک متقدم حرکت جذب و ہضم ہے یہ اپنی پیش روی میں اپنے رستہ کی تمام رکاوٹوں کو خود اپنے اندر جذب کر کے دور کرتی جاتی ہے۔ آرزوئوں اور نصب العینوں کا مسلسل پیدا کرتے رہنا ا س کا اصلی جوہر ہے اور اس نے اپنی حفاظت و توسیع کے لیے ایسے ایسے آلے (حواس‘ عقل وغیرہ وغیرہ) ایجاد کیے ہیں یا خود ہی اپنی ذات میںپیدا کر لیے ہیں جو اس کے سنگہائے راہ کو جذب کرنے اور اس کے اپن مشابہ بنانے میںاس کی مدد کرتے ہیں۔ زندگی کے رستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مادہ ہے یا یوں کہو کہ نیچر ہے۔ تہم نیچر اس لحاظ سے کہ وہ زندگی کی اندرونی طاقتوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آئیں اپنی ذات میں شر نہیں۔ لہٰذا زندگی ایک سعی آزادی ہے۔ اور اس سعی کا طریق انا کی تعلیم ہے یا دوسرے الفاظ میں جیسے خودمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا : تخلقوا باخلاق اللہ (اپنے اندر اخلاق اللہ پیدا کرو) یہ حدیث ہمیں وٹمین کا یہ قو ل یاد دلاتی ہے میںمکمل اشای کی انتہا ہوں اور پیدا کرنے والی اشیاء کا محیط۔ وٹمین نے یہ بھی کہا ہے کہ میں خدا کومردوں اور عورتوں کے چہروں میں دیکھتا ہوں اور خود انے چہرے میں جب آئینہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں۔ نٹشا نے اسی نصب العین کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ خالق انپے ایسے اورخالقوں کی جستجو میں رہتا ہے۔ اور فی الحقیقت سارے کا سارا مذہب اور سارے کے سارے فلسفہ بالاخر اسی تکمیل خودی کے اصول پر آ جمع ہوتا ہے۔ ازروئے نفسیات بھی انسان کسی ایسی الوہیت کو تسلیم نہیںکر سکتا۔ جس کا وہ خود مظہر نہیں۔ اور معلوم بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ امر ایک صداقت طبیعہ ہے ۔ اقبا ل نے صداقت کا نٹشا یا وٹمین کی نسبت زیادہ وثوق سے ادرا ک کیا ہے وٹمین کا ’’نفس متوسط‘‘ مبہم وغیر متشخص ہے اورنہ اس قدر جامع ہی ہے جیسا کہ ایک منتہی کو ہونا ضروری ہے۔ نٹشا کا فوق الانسان صحبت انسان سے گریزاں اورنفوذ ہے۔ اس لیے جبلتہ باطل ہے مگر اقبال کا انسان کامل ’’نفس متوسطہ‘‘ ہے اور جلیس ہمدرد اور اقبال کا ’’نفس متوسطہ‘‘ ’’انسان کامل‘‘ گویا ’’خود صنم ہے خود پرستار صنم‘‘ ٭٭٭ با خودے شنید ز افکار خودی نعرہ زد از گنج ’’اسرار خودی‘‘ وا نہ گزشتہ بر من بے خود ہنوز سرے از ’’اسرار‘‘ و رمزے از ’’رموز‘‘ ٭٭٭ (ہمایوں مئی 1922ئ) ٭٭٭ حواشی ۱۔ انگریزی شاعر ۲۔ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری ۳۔ وکذالک جعلنا کم امتہ وسطالتکونو اشھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھداء (قرآن) ٭٭٭ قمر الدین خان ضرب کلیم ضرب کلیم کے مطالعہ کے بجائے والہانہ کیفیت اور بے خودی طاری ہونے کے انسان کی خودی بیدار ہوتی ہے۔ وہ خوب غفلت کی گہرائیوں سے چونک پڑتاہے۔ اور اپنے ماحول کو اپنے دل کی روشنی سے منور اور بے نقاب پاتا ہے۔ وہ کائنات عالم کے کیر و شر کو پہچاننے اور زمانہ کے فریب سازیوں کو پرکھنے اور سمجھنے کے قابل ہو جاتاہے۔ اس کی آنکھوں سے نکتہ توحید کا پردہ اٹھ جاتاہے ۔ اور وہ خدائی کاراز داں اور صداقت کا پاسباں بن جاتا ہے۔ آج کی صحبت میں مجھے اقبال کے اسی مجموعہ کلام پر اظہار خیال کرنا ہے۔ کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی ہماری نظر فوراً سرورق رپ پڑتی ہے جس پر شاعر کے دو اشعار درج ہیں ۔ یہ دونوںاشعار اپن موزو نیت اور اعلیٰ تخیلی کے لحاظ سے آپ اپنی مثال آپ ہیں اورصحیح معنوں میں یہ کتاب کی روح ہیں۔ پھر بجائے مقدمہ یا دیباچہ کے تین نظمیں ہیں جن میںشاعر بتلانا چاہتا ہے ک یہ چنگ و رباب اور بزم آرائی کا محل نہیں وقت کسی اور بات کا مقتضی ہے۔ یہ عہد اس کے نزدیک میدان جنگ ہے جہاں سے دم بدم صدائے کشت و خوںآ رہی ہے۔ پھر ا س موقع پر غز ل کی موسیقی یا عشق کا سرود کس قدر بے جوڑ اور بے جا ہے: یہ زور دست و ضربت کاری کاہے مقام میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ ضرب کلیم اقسام مضامین کے لحاظ سے چھ حصوں پر مشتمل ہے: (۱) متفرقات (۲) تعلیم و تربیت (۳) عورت (۴) ادبیات فنون لطیفہ (۵) سیاست مشرق و مغرب (۶) محراب گل افغان کے افکار۔ مضامین کی یہ تقسیم اجازت نہیں دیتی کہ اس پر مجموعی حیثیت سے بحث کی جائے اس کے لیے ہر عنوان پر الگ الگ بحث کرنا زیادہ مناسب ہو گا خاتمہ مضمون پر کتاب کی ادبی خوبیوں پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے گی۔ (۱) متفرقات اس حصے کی زیادہ تر نظمیں فقر و ایمان‘ قوت و دین‘ مدنیت اسلام و تمدن مغرب‘ مسلمانوں کی پستی و زوال اور مسئلہ اجتہاد وغیرہ سے متعلق ہیں۔ اقبال کو عشق و محبت کے معاملہ میں مکاری اور ابلہ سازی نہیں آتی اور یہی وجہ ہے کہ منطق کے خشک اور الجھے ہوئے اصول کو بہت زیادہ پسند نہیںکرتا۔ ذکر و فکر‘ علم و عشق اور نظر و خرد اورعلم و فقر کی بحثیں بال جبریل اورضرب کلیم دونوںمیں اکثر پائی جاتی ہیں۔ شاعر انسان کی خود ساختہ بندشوں اور زنجیروں کو نہایت بے باکی اور حوصلہ مندی سے توڑ کر ماحول مادی اور عنصری سے منزلوںآگے نکل جاتا ہے: مقام فکر یہ پیمائش زمین و مکان مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ تمام تصوف و فلسفہ بیکار ہے اگر اس سے حرم کی حفاظت نہیںہوتی۔ وہ نیم شب کے مراقبے اور سوزوگداز جو خودی پیدا کرنے سے عاری ہیں بالکل لاحصل ہیں اسی طرح وہ عقل جو عالم بالا کی سیر کرتی ہو اگر اپنے ضمیر میں جذب و مستی اور شور و شرار نہ رکھتی ہو تو کس کام کی؟ اگر علم و حکمت سے دماغ روشن ہوا لیکن دل و نگاہ مسلمان نہ ہوئے تو کچھ بھی نہ ہوا: یہ عقل جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں اقبال مسلمانوں کی کم نظری اور بے مایگی سے بیزار ہو کر اکثر مسئلہ تقدیر کی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اس کی رائے میں اگر مرد مومن کے احکام الٰہی پر کاربند ہوجاتے ہیں تو نوشتہ تقدیر کو آسانی سے مٹا سکتا ہے وہ اکثر ملائے حرم کی شکایت میںسرگرم ہو جاتا ہے: زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علم کلام قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت ہے کیا اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام آج ہند میں مسلمان غدار اور قوم فروش خیال کیا جاتا ہے۔ ہر چہار طرف سے اس پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ لیکن وہ غریب اپنی نظروں میں خود ہی ذلیل و خوار معلوم ہوتا ہے۔ اسے ہمت ہی نہیں ہوتی کہ کسی بلندی سے کھڑا ہو کر لوگو ں کو منہ توڑ جواب دے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ: مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی گاہے گاہے اقبال ہندی مسلمان کی بے بسی اور بدقسمتی پر بجائے اظہار تاسف کے سخت سے سخت طنز کہہ جاتاہے۔ کہتا ہے کہ ہدی مسلمان کی آزادی افکار پر کون الزام لگا سکتا ہے۔ وہ چاہے تو آتش کدہ پارس کو خانہ کعبہ بنا دے یا اس میں فرنگی صنم آباد کر دے یا قرآن کو بازیچہ اطفال بنا کر کھیلے یا ایک نئی شریعت کھڑی کر دے۔ غرضیکہ یہاں کا مسلمان کچھ عجیب معما سا ہے: ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا اسلام ہے محبوس مسلمان ہے آزاد آخر کار اقبال ہندی مسلمان کی فلاکت و بربادی اور اس کی بے حسی کو دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے وار بارگاہ الٰہی میںپکار اٹھتا ہے: لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضامند مگر جب کہیں سے جواب نہیںملتا تو د کو خود ہی اس طرح تسکین دے لیتا ہے کہ یہ تو ایک فلسفہ عام ہے کہ غلام قوموں کی ذہنیت طلسم سامری سے اس حد تک متاثرہو جاتی ہے کہ ان کواپنی ہر برائی میں خوبی ہی خوبی جھلکتی ہے: تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر بہرحال شاعر ایک لمحہ کی تفریح کے بعد پھر سے اپنے ہوش میں آتاہے اورپھر وہی شان ہمدردی اور التفات ظہور میں آتی ہے۔ اپنے گوشہ دل سے مایوسی اور آزردگی نکال ڈالتا ہے اور پھر دوش کے آئینے میں فردا کا خواب دیکھ کر مسلمانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے اور ان کو ان کے شان دار مستقبل کی خبر دیتا ہے: ناوک ہے مسلماں ہدف اس کا ہے ثریا ہے سر سرا پردہ جاں نکتہ معراج مرد مومن اپنا کھویا ہوا منصب پھر حاصل کر سکتاہے اور دنیا اس کو دوبارہ عزت کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ شان خسروی و خالدی مکرر پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مومن یقین محکم پیدا کر لے اور فقر و غنا کے زیور سے دوبارہ آراستہ ہوجائے: بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے دیہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں آج مسلمانان عالم کے دلوںمیں صدیوں کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے ولولے شروع ہوئے ہیںَ ان کو قوت اور ملوکیت کا خواب پھر نظر آ رہا ہے۔ لیکن انہیںیاد رہ کہ یہی حاکمانہ قوت جمعیت انسان کے لیے ہمیشہ باعث بربادی و تباہ کاری ثابت ہوئی ہے۔ اسی نشہ قوت نے گزشتہ صدیوں میں نیز دور حاضر میںبے شمارسکندر و چنگیز پیدا کیے جنہوںنے انسانیت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خوب خوش کوشش کی ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی چیز انسان کو انسان بنا سکتی ہے تو وہ قوت دین و ایمان ہے: وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا فقر و ایمان کی دولت لازوال اور ا س کی قوت بے پناہ ہ۔ اس کے پاس کوء سامان جنگ نہیںکوئی ہتھیار نہیں تاہم میدان کارزار میں وہ ایک امنڈتے ہوئے دریا کی طرح نہایت بے باکی وبے تابی سے شور مچاتا آتاہے اور اپنی رو میں ہر چیز کو پیس ڈالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ک ہر دور میں ہر قرن میں اور قصہ فرعون و کلیم کسی نہ کسی صورت میں ضرور زندہ ہوتا ہے: اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے تازہ ہر عہد میں ہے قصہ فرعون و کلیم کہا جاتا ہے کہ اسلام ایک رجعت پسند مذہب ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ سائنس جدید کے انکشافات اور موجودہ سوسائٹی کے آئین سے مطابقت کر سکے۔ لیکن اس اعتراض کی کوئی بنا نہیں۔ وقتی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلام نے روز اول سے ہی اجتہاد کا دروازہ کھول دیا تھا۔ چند صدیوں بعد البتہ یہ دروازہ بند ہو گیا اور کورانہ تقلید شروع ہو گئی اورکم و بیش ہزار برس تک قائم رہی۔ آخر کار پچھلی صدی ہجری میں ملائی اسلام نے کروٹلی ا ور حضرت جمال الدین افغانیؒ نے باب اجتہادی پھر وا کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں یہ تحریک تمام اسلامی ممالک میں پھیل گئی لیکن افسوس ہے کہ ہندی مسلمان اب بھی کورے کورے رہے۔ اقبال اسی طرف اشار ہ کر کے لکھتا ہے: خود بدلتے نہیںقرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق ان دنوں ایشائی قومیں یورپی تمدن کی نقل میں مدہوش ہیں ۔ آہ ان کو کون سمجھائے کہ مدنیت مغرب سرتا سر سیاسیات کا گورکھ دھندا ہے۔ اس کا ضمیر مذہب سے خالی ہے۔ عیسائی ممالک میں اخوت کا قیام نسب و قومیت پر ہے نہ کہ دین و مذہب پر۔ چنانچہ اگر ہند کے شیخ و برہمن بالفرض دین عیسیٰ قبول بھی کر لیں تو بھی غلامی کی زنجیر سے آزاد نہیںہو سکتے: بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں قبول دین مسیحی سے برہمن کا مقام اگر قبول کریں دین مصطفی انگریز سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام برخلاف اس کے مدنیت اسلام نہایت ہی غیور و جسور ہے جس کا راز تقویت خودی میں سربستہ ہے اور جس کی حیات دین و ایمان میںمضمر ہے۔ اس کا انحصار حقائق ابدی اور جوش سرمدی پر ہے۔ اس کو کبھی زوال نہیں۔ اس کے اصول میں کبھی فرق نہیں آتا۔ ممکن ہے قومیں بدل جائیں سلطنتیں مٹ جائیں لیکن مدنیت اسلام غیر فانی ہے وہ زمانہ کے استبداد سے آزاد ہیں۔ اس کو محض مسلمان سے سروکار ہے۔ اس سے بندہ مومن کی زندگی بنتی ہے اور وہ اشرف المخلوقات کا مرتبہ حاصل کرتاہے اور یہ کیوں ؟ اس وجہ سے کہ: عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال عجم کا حسن طبیعت عرب کا سوز دروں ضڑب کلیم کا دوسرا حصہ تعلیم و تربیت سے موسوم ہے ۔ تعلیم و تربیت انسان کے اصلی جوہر ہیں جن کا فقدان انسان کو جان داروں کے قریب لے جاتاہے۔ اقبال نے شعر و شاعری کا اعلیٰ ترین مقصد تعلیم قرار دیا ہے اور اس کو برابر مدنظر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظم ک ہر شعر میں ہم ایک سبق ایک مارل حاصل کرتے ہیںَ اس میں شک نہیں کہ اقبال فلسفی شاعر ہے لیکن ا س کے اشعار خشک فلسفہ ہو کر نہیںرہ گئے ہیں۔ اس کی تعلیم و تلقین فقیہانہ و زاہدا نہ نہیںبلکہ حکیمانہ و شاعرانہ ہے۔ اس کے فلسفیانہ اشعار بہترین شاعری کے بہترین نمونے ہیں جن کی صڈاقت سے کسیکو گریز نہیں۔ اقبال نے تعلیم زندگی کے مختلف شعبو ں پر مختلف طریقوں سے روشنی ڈالی ہے۔ اسپنوزا (ڈچ فلسفی) کا قول ہے کہ دانش مند کی نظر ہمیشہ حیات پر ہوتی ہے کیونکہ حیات ہی حضور سرور و نور و وجود ہے۔ برخلاف اس کے افلاطون کا خیال ہے کہ مرد ہوشمندکی نگاہ موت پر ہوتی ہے کیونکہ حیات انسانی تو شب تاریک میںایک ایسے شرر سے بیشتر نہیں اقبال ان دونوں نظریوں سے اختلاف کرتاہے: حیات و موت نہیں التفات کے لائق فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود اقبال محرک زندگی کا شروع ہی سے قائل ہے اوریہ اس کے فلسفہ زندگی کا جز اہم ہے۔ بانگ درا میں بیسیوںنظمیں اس خیال کی بہترین ترجمانی کرتی ہیں: پختہ ترہے گردش پیہم سے جام زندگی ہے یہی اے بیخبر راز دوام زندگی با ل جبریل میں بھی اس نظریے کا بار بار اعادہ کیا گیاہے: ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوق سفر کے سواکچھ اور نہیں یہی نظریہ ضرب کلیم میں تمام شاعرانہ لطافتوں او ر خوبیوں کے ساتھ سلطان ٹیپو کی وصیت میں اس طرح پیش کیاگیاہے: تو رہ نوردع شق ہے منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول اقبال کا خاص فلسفہ زندگی خودی ہے۔ دل کے احوال و مقامات کو سمجھنے کے لیے شرط اول اپنی کودی کی بلندی ہے جس کے بغیر کوئی مملکت صبح و شام اور دل کے حلال و حرام سے باخبر نہیں ہوسکتا۔ اس مسئلے کو شاعر نے اپنے اردو اور فارسی کلام دونوں میںنہایت وضاحت کے ساتھ ہزر ہا طریقوںسے پیش کیاہے چنانچہ اس حصے میں شروع سے اخیرتک خودی کی تعلیم ہے۔ اس خودی کی بیداری مومن ہندو پارس اور مصر و حجاز سے آزاد اور دو جہان سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اس کی شوخنگاہیں رمز ہائے قدرت کو بخوبی سمجھنے لگتی ہیں۔ ہر شے کی حقیقت مثل آفتاب اس پر آشکار ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ تمام آفاق اس میں گم ہو جاتاہے خودی کی پرورش و تربیت سے اس مشت خاک میںزندگی کے شرارے پیدا ہو جاتے ہیں اور روح کلیمی جاگ اٹھتی ہے۔ خودی کے کمند میں سنجر و طغرل دارا و سکندر صید ہائے ہیچ ہیں۔ خودی دریائے بیکراں کو جوئے کم آب سمجھ کر بات کی بات میں پار کر جاتی ہے اس کی براق و تیزی بال جبریل پر فوقیت رکھتی ہے۔ غرض کہ خودی سب کچھ ہے لیکن اہل ہند کو خودی کی تعلیم دینے سے اقبال ڈرتاہے کہ یہ محکوم ہے۔ ان کے لیے یہ سبق موزوں نہیں ا س لیے ان کی زندگی گران سیر ان کا ہر لمحہ حیات ایک نئی موت ان کے خیالات پراگندہ اور توہمات سے پر اور ان کا دین و ایمان پیروں کی کرامات پر مبنی ہے۔ اور یہ تمام چیزیں خودی کے عین منافی ہیں: خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوںپر قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام لیکن اگر مغرب کے لوگ خودی سے دور ہیں تو ان میں اور صفات موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ آج جہانگیری کر رہے ہیں مگر اہل ہند تو ہر لحاظ سے کورے ہی کور ے ہیں ان کا کیا حال ہو گا؟ فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف جب کوئی قو م فلاکت و ادبار میںمبتلا ہو جاتی ہے تو اس میں ایسے ایسے شاعر فلسفی اور لیڈڑ پیدا ہوتے ہیں اورجو قوم کی تمام پچھلی روایات کو وہم اور جھوٹ سے تعبیر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ خود راہ گم کردہ ہوتے ہیں بہرحال ان کی آواز پر لبیک کہتی ہے اور ان کی کارگزاریوں کا صدق دل سے شکریہ ادا کرتی ہے۔ انجام یہ ہوتا ہے کہ پوری کی پوری قوم مٹ جاتی ہے۔ آج کل مشرقی ممالک اور خاص کر ہندوستان میںایسے ہی مصلحین اور ریفارمر پیدا ہو رہے ہیں جو اپنی کم نظری اور مکاری سے اپنے عزیز ملک کو غیروں کے ہاتھ بیچ رہے ہیں۔ اقبال ان لیڈروں سے انتہائی مایوس اور شاکی ہے: میںہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی ایک عرصے سے ایشیا والے مغربی علوم و فنون سیکھنے میں نہایت سرگرم ہیں لیکن ان کا علمی انہماک قابل رحم ہے بایںمعنی کہ باوجود سخت مطالعہ و سعی پیہم کے وہ مردان حر کی طرح حقیقی بصیرت نہیں حاصل کر پاتے۔ ان کو چشم بینا نہیں عطا ہوتی۔ ان کو سنگ راہ حیات سے ٹکرانے کا موقع ہی نہیںملتا۔ وہ حریفانہ کشاکش زندگی سے آشنا ہی نہیںہوتے ۔ دنیا میں ان کا سب سے بڑا کام فکر معاش ہے گویا کہ یہی مدعائے زندگی ہے۔ اسی جمعیت سے مخاطب ہو کر شاعر کہتا ہے: خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں عصر حاضر کے نوجوانوں کی روش سے اقبال بہت نالاں ہے۔ اس موضوع پر متعدد نظمیں موجودہیں جن کی بلا کی تلخی اور شکایت ہے۔ اس عہد کی سب سے ممتاز چیز نوجوانوں کی آزاد خیالی ہے۔ حال یہ ہے کہ عظیم الشان کالجوںاور یونیورسٹیوں میں تعلیم پا کر نوجوا ن روشن دماغ ضرور ہو جاتے ہیں لیکن ان کے دل سخت او رسیاہ ہو جاتے ہیںَ پھر ظاہر ہے کہ دماغ دل سے الگ رہ کر فکر و تدبر کا سلیقہ کیونکر پیدا کر سکتا ہے بایں ہمہ دنیا کی رفتار کو بدلنا بڑا مشکل ہے اور شاعر بھی اس کو محسوس کرتا ہے پھر کس تجاہل عارفانہ سے سوال کرتا ہے: یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بیباک تمدن جدید کا دوسرا شگوفہ ڈھلمل یقینی ہے او ر آزادی افکار کے ساتھ ساتھ اس صفت کانا محمود پایا جانا سم قاتل سے کم نہیں۔ یقین محکم اور پختہ خیالی کمیاب ہے۔ لوگوں کے قول و فعل میںکوئی ربط نہیں کوئی نظام نہیں دلوںمیںسوز نہیںگداز نہیںسمجھ مردہ اوردماغ افسردہ ہے۔ اس افلاس تخیل نے مشرق و مغرب میں عجیب و غریب گل بوٹے کھلائے ہیں: مردہ لا دینی افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام واقعہ یہ ہے کہ تہذیب مغرب کی روح حقیقت اور اصلیت سے مبرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں پاکیزی ہے نہ بلند خیالی اور نہ ذوق لطیف۔ اخیر میں جاوید کے نام سے تین نظمیں ہیں جو نہایت دلا ویز اور شگفتہ زمیں میں لکھی گئی ہیں۔ یہ نظمیں اس حصے کی لبالب ہیں ۔ جاوید اقبال کا چھوٹابیٹا ہے جو غالباً دس بارہ سال کا ہے۔ اس بچے سے اقبال کو غایت انسیت ہے بال جبریل میں بھی جاوید کے نام سے دو بہت خوبصورت نظمیں ہیں اور اسی جاوید کے نام سے معرکتہ الارا فارسی مثنوی ہے جس کو جاوید نامہ کہتے ہیں۔ ان تمام نظموں میںجاوید نژاد نو کا پیش خیمہ ہے۔ اقبال نہایت بزرگانہ اور پدرانہ شفقت و محبت سے سمجھاتا ہے۔ کہ دور حاضر توحید کا دشمن ہے اس کی نہاد کافرانہ ہے ۔ یہ غارت گر دیں ہے دوسرے الفاظ میں یہ دور ساحری ہے جس میں ہر چیز اپنی جھوٹی شکل پیش کرتی ہے۔ اب سرچشمہ زندگی میںنہ آب حیات باقی ہے نہ مے شبانہ میں وہ اگلی سی سرمستیاں نہ مدرسوں اور خانقاہوں میںوہ رعنائی افکار ہے اور نہ صوفی دلوں میں وہ سوز و شرار جو ہمارے اسلاف میں تھا لیکن اس ماحول شیطنت میں فلاسفہ مغرب کو خضر بنانا بڑی غلطی ہے۔ مغربی تعلیم بری نہیں لیکن مغربی تہذیب ضروری بری ہے۔ لہٰذا ہر فرزند اسلام کا فرض ہے کہ اس بدلے ہوئے دور میں اپنے دین و ایمان کو نہ بدلے۔ بلک زمانے کی ناخوشگوار یوں کو آب شیریں کی طرح پی جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اس کو فقر غیور اور ذوق حضور عطا ہو تاکہ اس میںتوفیق عمل اور اللہ کی شان بے نیازی پیدا ہو: مومن کی اسی میں ہے امیری اللہ سے مانگ یہ فقیری ضرب کلیم کا تیسرا حصہ عورت کے عنوان سے ہے۔ دور حاضر میں مشرقی تمدن پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اس نے عورت کو آزادی سے محروم اور دنیا کی عام روشوں سے بالکل علیحدہ رکھا ہے۔ یہ اعتراض اسلامی تمدن پر بالخصوص بڑے شد ومد سے کیا جاتا ہ۔ اس مسئلے پر مسلمان نیز دنیا کی دیگر اقوام کے عالی دماغ حضات نے بہت کچھ جوش طبع صر ف کیاہے پھر بھی بہ قول اقبال: ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں اقبال ایک مردمسلما ن ہے اس کا فلسفہ فلسفہ قرآن ہے ۔ اس کے نزدیک اسلامی سوسائٹی آئیڈیل ہے۔ لہٰذ ا وہ جو کچھ کہتاہے یا لکھتا ہے محض اصول اسلام کی تشریح ہوتی ہے۔ مسئلہ زن کوجہان تک اس نے سمجھا ہے وہ صرف اسلام کی روشنی میں۔ آزادی نسواں پردہ عورتوں کی تعلیم‘ عورتوں کی حفاظت اور عورتوں کا احترام مسئلہ زن کے جزئیات اہم ہیں۔ ان تمام مسئلوں پر اقبال کے خیالات بہت شرح و بسط کے ساتھ موجود ہیں وہ عورت کا احترام کرتا ہے: شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسے بھی نہیں فرامو ش کر سکتا تاکہ عورت کاصرف اسی وقت احترام کیاجائے جب تک وہ خانگی زندگی کو پسند کرے۔ اور مرد کے احسان کو احسا ن سمجھے کیونکہ حقیقتاً عورت کی نمود مر دہی سے ہے لیکن صفات مردانی عورت کے منت کش نہیں۔ اکثر ملکوں میں آج یہ تحریک جاری ہے کہ عورت تخلیق آدم اور اس کی پرورش کی مصیبت خواہ مخواہ اپنے سر کیوں لے۔ لیکن نہیںمعلوم کہ راز ہے اس کے تب غم کا یہی نکتہ شوق آتشیں لذت شوق سے ہے اس کا وجود کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات گرم اسی آگ سے ہے معرکہ بود و نبود چوتھا باب ادبیات فنون لطیف پر مشتمل ہے۔ قبل اس کے کہ اس حصے پر نظر ڈالی جائے بہتر ہو گا کہ اقبال کے آرٹ پر ایک بہت سرسری اور اجمالی نگاہ ڈالی جائے اورپھر اس کی روشنی میں اس باب پر مزید تنقید کی جائے۔ آرٹ فی نفسہ کوئی معنی نہیںرکھتا۔ آرٹ سے اگر نوع انسان کو مادی یا روحانی کوئی فائدہ نہیںپہنچا تو آرٹ کی تخلیق ایک سعی لاحاصل ہے۔ دراصل آرٹ حسن و جمال کا مرقع ہونا چاہیے جس کا نظارہ دلوں میںسوز و آرزو اور شوق و تمنا پیدا کردے: حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست آرٹ محض وجدانی اور جذباتی نہیںہونا چاہیے۔ ا س کا کمال روح افزائی اور جان آفرینی ہے۔ آرٹسٹ کو لازم ہے کہ اپنی مصوری کو نشہ و خمار سے پاک رکھے‘ ورنہ جب کبھی خمار اترے گا کہپردہ سحر دھوئیں کی مانند اڑ جائے گا او رارٹ آرٹ نہ رہ جائے گابلکہ جھوٹ اور مکاری کا جال۔ آرٹ کو ہمیشہ صڈاقت اور حقانیت پر مبنی ہونا چاہیے کیونکہ دراصل یہی تو ادب کی جان ہے۔ شاعر کی نگاہ اتنی تیز اور شوخ ہو کہ فرش تاعرش تمام کائنات اس کے دل کا آئینہ ہو ۔ دنیا کی ہر شے میں اس کو اپنا ہی جلوہ نظر آئے اوروہ ہر چیز کو اپنے اند رسمو لے۔ آرٹ کا تیسرا مقصد تعلیمی ہے۔ اس نکتہ پر سطور بالا میں کافی روشنی پڑ چکی ہے۔ اورتکرار کی حاجت نہیں۔ آرٹ داخلی ہے۔ آرٹ کی تمثیل فوٹونہیںبلکہ پینٹنگ ہونی چاہیے۔ فوٹو محض کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ برخلاف اس کے پینٹنگ روح پرور اورجاں بخش ہے جو اپنے آپ بولتی ہے یہ صرف داخلی آرٹ کی جدتیں ہیںجو ادبی مصوری میںنزاکت و لطافت‘ حسن و جمال‘ رندی و سرمستی‘ بے باکی و بے تکلفی‘ سرور و رعنائی او رجان و حرکت پیداکرتی ہیں۔ اقبال کا آرٹ داخلیت کا بہترین نمونہ ہے کبھی وہ ہمالیہ سے مخاطب ہوتا ہے۔ کبھی شمع و شب سے۔ گاہ چاند و جگنو سے باتیں کرتا ہے گاہ ستاروںسے کھیلتا ہے۔ کبھی بادلوں پر اڑتا ہے کبھی آسمانوںکی سیر کرتا ہے۔ غرضیکہ اس کی طبعیت قدرت کی بوقلمونیوں میںکھیلتی کودتی اور پھولتی پھلتی ہے۔ اور وہ ہمیشی مست و سرشار رہتا ہے۔ آرٹ کے منتہائے کمال میں یہ راز بھی مضمر ہے کہ وہ سچائی اور حقانیت کو صاف صاف نہ بیان کرے۔ اقبال نے با ل جبریل میں ایک جگہ اس کے متعلق بھی اظہار خیال کیا ہے: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرف تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی است حدیث خلوتیاں جز بہ رمز و ایماء نیست صحیح آرٹ وہ ہے کہ جس کا نقش دل پر مرتعش ہو جائے اور جس کی انشراح دل دے ہو یعنی یہ کہ شعر صداقت کی طرف صرف اشارہ کرے اوراس کا تجزیہ یہ کرے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ مصور اپنے آرٹ کو جہاں تک ہو سکے خارجیت سے بچائے تاکہ اس کی مصوری محض نقالی نہ ہو کر رہ جائے۔ اس عنی کو دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ ہر تمثیل میں تمثیل نگار کو خود نمودار ہونا چاہیے۔ اور ا س طرح کے سوا نقاد کے دوسرے کو اس کا شبہ تک نہ ہو۔ فنون لطیفہ کے ارکان خمسہ میں شاعری موسیقی رقص مصوری اور سنگتراشی ہیں تین اول الذکر میں بہت زیادہ ربط و مناسبت پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ موسیقی شاعری کی جان اور رقص موسیقی کا ایمان ہے۔ شاعری جس طرح قوت فکرسے انسان نے فطرت کے باریک سے باریک نکتے حل کر لیے ہیں اسی طرح وہ اپنے افکار تازہ سے ہر ساعت میںایک جہاں نو تعمیر کرسکتا ہے۔ یہی ہے قوت تعمیر جس کے بغیر کوئی ہوش مند او ر باوقار قوم زندہ نہیںرہ سکتی کیونکہ: وہی زمانہ کی گردش پہ غالب آتاہے جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا قوت تخیل تحصیل خودی سے حاصل ہوتی ہے۔ مشرق کی قوموں میںیہ جوہر کمیاب ہے ۔ چنانچہ اقبال کس یاس و حسرت سے کہتا ہے: خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوںمیں ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا قوت تخلیق کے لیے نگاہناز نہیں بلکہ نگاہ دل اندو ز کی ضرورت ہے۔ لالہ صحرا کی شباب و مستی‘ شب تاریک میں ستاروں کی چشمگیں رات کے سناٹے میں سپہر بریں کی وسعت میں عروس قمر کی نازک خرامی اور آغوش صبح مٰں طلو ع آفتا ب کی ضو فشانیاں کس قدر دلکش ہیں لیکن اگر خدا نے کسی کو نگاہ شوق عطا کی ہو تو و ہ ان نظاروں سے کہیں بہتر نظارے دیکھ سکتا ہے: یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا کہ ذرہ ذرہ میں ہے ذوق آشکارائی حقیقت یہ ہے کہ اگر نظر شوق شریک بینائی ہو تو اس دنیا کا کچھ اور ہی نقشہ نظر آتاہے اس کی بہترین مثال عصر کے اہرام ہیںَ مصر صحرائے اعظم کا مشرقی بازوہے۔ دریائے نیل کی وادی کو چھوڑ کر باقی تمام ملک ایک لق و دق ریتیلا میدان ہے۔ جہاں قدرت نے انسان کے لیے بجز خاک اڑتے ہوئے ذروں کے اور کوئی نعمت نہیں پیدا کی لیکن وہاں کے قدیم باشندوں کی فکر تخلیق اور ذوق نظر کا یہ کمال ہے کہ انہوںنے ایسے عظیم الشان اور ہیبت ناک مینارے تعمیر کیے ہیں جن کو دیکھکر زمانہ حاضر کا انسان دنگ رہ جاتاہے۔ ذوق نظر کی دوسری قابل رشک مثال ا س بے گناہ چینی کی ہے جس کو سزائے موت ملی تھی اور جس نے ہنگامہ قتل جلاد سے کہا تھا: ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر ذرا میں دیکھ تو لوں تابناکی شمشیر شاعر ی کی دوسری خصوصیات کا ذکر اقبال کے آرٹ میں کیاجا چکاہے لہٰذا ان کا اعادہ بے سود یہ۔ چونکہ اس حصے میں قوت تخلیق کو اقبال نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اس لیے موضوع پر ایک مختصر سا نوٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ موسیقی فنون لطیفہ میں شاعری کے بعد سب سے اہم موسیقی ہے۔ لیکن انسٹرومنٹل میوزک سے نالہ آتشیں پیدانہیں ہوتا۔ اصل میں وہ دل کی آواز ہوتی ہے جو دلوںکو پگھلا دیتی ہے۔ نالہ نے اور سرود و سوز نے کی لکڑی سے نہیں ہے بلکہ نے نواز کے دل سے ہے اقبال کا تخیل موسیقی وہی ہے جو غالب کا تھا: ڈھونڈے ہے اس مغنی آٹش نفس کو جی دجس کی صدا ہو جلوہ برق فنا مجھے نغمہ آتشناک اس وقت پیدا ہو سکتاہے جب کہ مغنی کا ضمیر پاک اور خودی سے لبریز ہو اور اس حد تک کہ سننے والے کا چہرہ تابناک اور مسرت سے باغ باغ ہو جائے ۔ اور انتہائی جوش و خروش میں اس کو اپنے جیب و دامن کی بھی خبرنہ ہو۔ سرود و حلال و سرود حرام پر دومستقل نظمیںموجود ہیں جو شاعر کے صحیح نظریے کی بخوبی ترجمانی کرتی ہیں۔ شاعری اس سرود کو سرود سمجھتا ہے جس کے زیر و بم کی خوش آہنگی سے ہر دل اس کی طرف کھنچ آئے۔ جو زندہ و پائندہ ہو اور جس کی گرمی سے ستاروں کا بیھ وجود پگھل جائے: جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک اورپیدا ہو ایازیسے مقام محمود مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود رقص رقص و سرود کا آپس میں وہی رشتہ ہے جو روح و تن کا ہے۔ موسیقی کا راز یہ ہے کہ دلوں میںگدگدی پید ا کر دے اور روح کو بیدار کر دے نہ کہ ہاتھ پائوں میںحرکت پیدا کرے کیونکہ یہ تو اہل یورپ کا دستور ہے: چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کا خم و پیچ روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم الٰہی مصوری و صورت گری ان دونوں فنون لطیفہ میں کامیابی کی سب سے بڑی شرط قوت تخلیق ہے جو شاعری کے لیے بھی شرط اول ہے۔ لیکن ان فنون میںا س قوت کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے کہ ان کا شاہکار الفاظ و زبان کی مدد سے نامحروم رہتاہے لہٰذا آرٹسٹ کو بڑی سے بڑی گہرائیوں میں ڈوب کر گوہر یکدانہ نکالناپڑتا ہے۔ دراصل اس کی منزل شاعری سے کہیں زیادہ کٹھن ہے اور دشوار گزار ہے۔ سچا آرٹ فطرت کی غلامی سے آزاد اور مصور کے دل کا آئینہ ہوتا ہے۔ جس پر دنیا حیرت و آفرین کرتی ہے۔ مثال کے طور پر تاج محل یا مصر کا احرام : اہرام کی عظمت سے نگونسار ہیں افلاک کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر؟ مصور کا شہ پارہ حقیقتاً اس کا پارہ دل ہوتاہے جو اس کے لہو کی گرمی و تپش سے پیدا ہوتا ہے: خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعبیر میخانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد اقبال نے اس باب میں فنون لطیفہ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم لکھی ہے جس میں اس مبحث پر کافی روشنی پڑتی ہے: اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کہ حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا جس سے دریا متلاطم نہیںہوتا اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ معنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیںقومیں جو ضرب کلیمی نہیںرکھتا وہ ہنر کیا مشرق میں شاعری کا زوال اہل مشرق کے دل سوز سے خالی ان کا نفس سرد اور ان کا تن روح سے نا آشنا ہے ان کے سینوں میں آرزو نہیں ان کے سرود بیگانہ اور آوارہ ہیں۔ ا ن کی مثال اس تصویر جیسیہے جو بغیر تار نفس کے جیتی ہے اور جو نمی داند کہ ذوق زندگی چیست مشر ق کی تقریباً تمام قومیںغلام و محکوم ہیں اور وہ صر ف غلام ہی نہیں بلکہ غلامی ان کی رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ اس کابدترین اثڑ ان کی شاعری پر پڑا ہے۔ ان کے دلوںمیںامید کی کرن خاموش ہوچکی ہے۔ اور اب ان کی زندگی محض موت کا انتظار ہے۔ اس مردہ شاعری نے اقبال کی حساس طبیعت کو بہت صدمہ پہنچایا ہے۔ چنانچہ اس نے ضرب کلیم کے اس حصے میں خوب دل کھول کر جی کی بھڑاس نکالی ہے اورہماری متداولہ شاعری پر بڑی سختی سے نکتہ چینی کی ہ شاعر کے عنوان سے ایک نظم ہے اس میں شاعر کو کس پرسوز تاثیر لہجہ میں غیرت دلاتا ہے: مشرق کے نستیاں میںہے محتاج نفس نے شاعر! تیرے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے؟ ہنرور ان ہند کے عنوان سے ایک دوسری نظم ہے جس میں ان کی سچی تصویر کھینچی گئی ہے اس کے دو اشعار بڑے دلاویز ہیں: عشق و مستی کاجنازہ ہے تخیل ان کا ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار ایک دوسری جگہ شاعر مشرق کے متعلق کہا جاتاہے: افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز آگے چل کر اقبال کا طنز اور بھی بڑھ جاتاہے: تو ہے میت! یہ ہنر تیرے جنازے کا امام نظر آئی جیسے مرقد کے شبستاں میں حیات بہرحال اقبال محض نکتہ چیںنہیں ہے۔ اس کامقصد اصلاح دینا بھی ہے۔ تقریباً ہر نظم میں ہمارے ادب کی برائیوںکی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان کے ازالہ کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال جاب جا ہم کو امید دلاتا ہے کہ ہمارا ادب زندہ اور لازوال ہو سکتاہے۔ شعاع امید کی تین مسلسل نظموں میں امید کا بہترین سبق پڑھایا گیا ہے۔ سورج اپنی کرنوں کی آوارگی اور بے کسی پر افسوس کرتاہے اور ان سے ازراہ شفقت و بزرگی کہتا ہے: پھر میرے تجلی کدہ دل میں سما جائو چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام لہٰذا ہر چہار طرف سے شعاعیں اٹھ اٹھ کر سورج کی طرف بڑھتی ہیں اور یہ شور مچاتی جاتی ہیں کہ مغرب مشینوں کے دھوئیںسے سیہ پوش ہے۔ وہاں اجالا ممکن نہیں اور مشرق گو لذت دید سے محروم نہیں عالم لاہوت کی مانند خاموش ہے اس لیے وہاں روشنی کی ضرورت ہی نہیں۔ چنانچہ تام کرنیں بہ یک آواز سورج سے التجا کرتی ہیں کہ وہ ان کو اپنی آغوش میں چھپا لے لیکن: اک شوخ کرن شوخ مثال نگہ حور آرام سے فارغ صفت جوہر سیماب بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبال کے اشکوں سے یہ یہی خاک ہے سیراب ضرب کلیمی کا پانچواں باب سیاسیات مشرق و مغرب سے موسوم ہے۔ اقبال مغر کی ہر چیز سے بیزار ہیَ چنانچہ مغرب کی سیاست بھی اس کو ویسی ہی بری معلوم ہوتی ہے جیسی مغرب کی تہذیب وہ یورپ کی ملوکیت‘ اشتراکیت اور فاشزم تینوںکا دشمن ہے لیکن اشتراکیت سے اس کو خاص طور پر عداوت ہے۔ روس‘ اشتراکیت اور کارل مارکس وغیرہ کے عنوان سے بہت سی نظمیں ہیں جن میںفلسفہ اشتراکیت کی کمزوریاں دکھلائی گئی ہیں۔ اگر مغرب کا حال یہ ہے تو مشر ق اس سے بھی گیا گزراہے۔ آج دنیا کے مسلمانوں کی نگاہیںمصطفی کمال اتاترک اور رضا شاہ پہلوی کی کارگزاریوں پر پڑتی ہیں اور یہ دو حکمران مسلمانوں کی نامحکم سیاست کے امام مانے جاتے ہیں۔ لیکن اقبال کو ان سے تشفی نہیں: نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی اقبا ل موجودہ سیاسیا ت عالم کو بہت حکیمانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ چنانچہ کبھی مصریوں کو ان کی جنگ آزادی پر نصیحت کرتاہے کہ آزادی جذبہ توحید او ر قوت ایمان سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ کبھی مسئلہ یہود و فلسطین پر تبصرہ کرتاہے۔ فلسطین ہزاروں سال سے ایک اسلامی ملک رہا ہے لیکن آج کل یہا ںیہودیوں کی نو آبادی اور نیشنک ہوم بنایا جار ہا ہے اور فسلطین پر یہودیوں کا حق اس طرح ثابت کیا جا رہاہے کہ کبھی دو ہزار سا ل قبل وہاں ان کی حکومت تھی۔ لیکن شاعر کہتا ہے : ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا ابی سینیا کے دردناک واقعات پر اقبال نے بہت آنسو بہائے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یورپ کے دعویٰ تہذیب و کمال پر بے پناہ چوٹیں کسی ہیں۔ ابی سینیا کی نظم سے دو بند تمونتاً درج کیے جاتے ہیں: تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال غارتگری جہاں میں ہے اقوام کی معاش ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش اے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہ روما نے کر دیا سربازار پاش پاش پیر کلیسا! یہ حقیقیت ہے دل خراش مسولینی کے عنوان سے ایک دوسری نظم ہے جس سے شاعر کی سیاسی نکتہ سنجی کا ثبوت ملتا ہے۔ مسولینی اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے کہتا ہے (حریفوں سے انگریز اور فرانسیسی مراد ہیں) کہ تم میرے سودائے ملوکیت کو کیوں ٹھکراتے ہو‘ تم نے تو اس سے کہیں بڑھ کر مظالم کیے ہیں‘ تم نے غریب قوموں کو لوٹا ہے۔ کمزور حکومتوں کو تاخت و تاراج کیا ہے: میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیںکمزور قوموں کے زجاج آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاج اور: پردہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتاہوں آج آج کل ہر بااقتدار ملک اور خصوصاً یورپی قوموں کا دستورہو گیا ہے کہ جب کسی کمزور اور لاچار ملک پر غاصبانہ قبضہ جمانا ہو تو یہ بہانہ پیش کرتی ہیں کہ اس کو متمدن بنانے کی ضرورت ہے اور بس یہ بہانہ کافی ہے اور تعلیم و تمدن کا واحد طریقہ لوٹ مار اور غارت اور ملک گیری ہے ۔ چنانچہ حال کا ابی سینیا اوراٹلی کا واقعہ زندہ مثال ہے۔ فلسطین شام اور عراق صدیوں سے اسلامی تمدن کے مشہور مرکز چلے آئے ہیں لیکن جمعیت اقوام نے ان ملکوں کو غیر مہذب کہہ کر برطانوی اور فرانسیسی تہذیب کے پھندوں میں پھنسا دیا ہے۔ شاعر خود اپنے ملک کی سیاسیات سے بے خبر نہیں۔ گول میز کانفرنس میں اس نے خود ہی شرکت کی تھی اور اس کے نتائج یعنی جدید اصلاحات کے متعلق اس کے خیالات بہت دلچسپ ہیں۔ وہ انگریزوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے: رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری حاکم کی ساحرانہ تھپکیوں کا ذکر بانگ درا کی مشہور نظم سلطنت میں بھی بہت خوبی سے کیا گیا ہے: جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری اخیر میں جمعیت اقوام پر حملہ ہوتاہے۔ جمعیت کا بہترین خاکہ تو اقبال نے پیام مشرق میں ہی اڑایا ہے: من ازاں بیش ندانم کہ کفن وزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند لیکن یہ شعر اقبال نے اس وقت کہا تھا کہ جب جمعیت بچہ تھی اب وہ جوا ن ہو کر بڈھی بھی ہو چکی۔ لہٰذا اس کی بقیہ سرگزشت بھی سن لیجیے: بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویز سے کچھ روز سنبھل جائے ضرب کلیم کا چھٹا حصہ محراب کل افغان کے افکار پر مشتمل ہے ۔ اس حصے میں بیس نظمیںہیں جو ماقبل باب کا ماحصل یا نچوڑ ہیں۔ یہ نظمیں زبان سادگی طرز ادا‘ ترنم اور معانی کے لحاظ سے بہت بلند ہیں۔ محراب گل افغان ایک فرضی نام ہے اور شعر کی جدت طبع کا نتیجہ ہے۔ ا ن نظموں میں افغانیوں کو ان کی غیرت قومی خود داری‘ فقروغنا‘ اسلامی تہذیب‘ افغانستان کی مشہور قابل قدر روایات افغانیو ں کے اسلاف کے کارناموں انکی شجاعت و مردانگی اخوت وجمعیت ‘ ان کا مغربی تمدن کی طرف رجحان اور اس کے خطرات کی طر ف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہ نظمیں افغانیوں کو دعوت فکر و عمل دیتی ہیں تاکہ ان میں سنائی و جمال اور نادر و غزنوی پیداہوں جو دنیا پر دوبارہ حکمرانی کریں اور افغانستان کو پھر وہی شان و عظمت حاصل ہو جو کبھی حاصل تھی۔ ضرب کلیم اقبال کی پہلی تصانیف سے کئی وجوہ سے خاص طور پر ممتاز ہے۔ اول یہ کہ شاعر نے تخیل اور جذبات پر زبان کو عمداً قربان کیا ہے۔ زبان میں وہ شوخی‘ شباب‘ شیرینی اور رنگینی نہیں ملتی جو بانگ درا کا خاص طغرائے امتیاز ہے اورجو بہت کافی حد تک بال جبریل میںبھی پائی جاتی ہے مثلاً: جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ اس شعر کے دوسرے مصرعہ پر سراسر فارسیت کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ ایسے اشعار ضرب کلیم میں کثرت سے ملیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال ’’شاعر فلسفی‘‘ تھا اور اب ’’فلسفی شاعر‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے استعمال میں وہ اس قدر آزاد ہے لیکن اقبال کے کلا م میں سب سے قابل تحسین چیز اس کی جدت تخلیق اور اس کی ندرت بیانی ہے۔ نئی اور نہایت موزوں اور دلکش ترکیبوں کے تراشنے میں اقبال ماہر ہے اور مثال کے لیے چند ترکیبیں ملاحظہ ہوں: ملبو س حنائی۔ شعلہ نم خوردہ۔ بت خانہ رنگ و بو۔ قافلہ موج۔ شبستان وجود۔ تنک لباس ۔ شرر تیشہ ۔ موج گہر۔ ساقیان سامری فن۔ ضمیر آسمان۔ غمزہ ستارہ وغیرہ لیکن جوش تخلیق میں کبھی کبھی وہ حد سے بڑھ جاتا ہے ۔ مثلاً ناخوب نازن۔ فسونی افرنگ۔ لرد فرنگ۔ اعماق سیاست وغیرہ۔ یہ ترکیبیںکانوں کو ناخوش گوار معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح نامانوس فارسی اور عربی الفاظ کے استعمال میںبھی اقبال نے غالب کی طرح غلو سے کام لیا ہے۔ بانگ درا اور بال جبریل میں ترنم اور موسیقیت بہت زیادہ ہے۔ بلکہ مجموعی حیثیت سے جو ترنم کہ بانگ درا کی نظموں میں ہے اردو کی کسی دوسری کتاب میں شاذو نادر ہی ملے گا۔ مگر ضرب کلیم میں یہ خوبی بدرجہ کمال موجود نہیں۔ بلکہ ایک سرسری نگاہ کے بعد تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب تو بالکل خشک ہے لیکن حقیقت اور ہے۔ ضرب کلیم میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جو اقبال کی ترنم ریزیوں کا بہترین نمونہ ہیں۔ ضرب کلیم میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جو اقبال کی ترنم ریزیوں کا بہترین نمونہ ہیں۔ مثلا تصوف ’’قبر‘‘ ’’مون ‘‘ ’’مرد مسلمان‘‘ ’’مصلحین مشرق‘‘ ’’صبح چمن‘‘ ’’شاعر‘‘ ’’ابی سینیا ۔ ’’ایک بحری قزاق اور سکندر‘ ‘ محراب گل افغان کے افکار‘‘ موسیقیت کے لحاظ سے بھی بہت دلاویز ہیں۔ (علی گڑھ میگزین ۔ جنوری 1937ئ) ٭٭٭ عبدالرحمن بجنوری مالک رام مثنویات اقبال (اسرار و رموز ) مترجم کا نوٹ جن لوگوں نے ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری مرحوم کا دیباچہ دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ) جو علیحدہ کتابی صورت میں بھی بعنوان محاسن کلام غالب چھپ چکا ہے پڑھا ہے۔ وہ اس کے موصوف کے عمق فکر اور پہنائی خیال کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مرحوم ان لوگوں میں سے تھے کہ جن سے علم و ادب اردو کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ بدقسمتی سے اجل نے انہیںفرصت نہ دی کہ وہ کچھ مستقل خدمت زبان کر سکتے ہیں۔ انہوںنے سوائے چند مضامین کے کوئی اپنی زیادہ پائیدار یادگار نہیںچھوڑی مگر جو تھوڑا بہت بھی ان کے قلم سے نکلا ہے‘ کافی ہے کہ ہم اس سے ان کے وسعت مطالعہ وقت نظر اور اصابت رائے کی نسبت ایک صحیح رائے قائم کر سکیں۔ ایک برخود غلط ادیب کی رائے میں دیباچہ مذکور میں سوائے شرح اشعار کے اورجو کچھ ہے سب واہی تباہی ہے۔ یہ رائے اردو کے ایک شاہکار مضمون کی نسبت سے اور ہر شخص کا حق ہے کہ وہ کسی چیز کی نسبت جو رائے چاہے قائم کرے۔ مگر کیا اچھا ہو کہ تنقید اور رائے قائم کرنے سے پہلے جذبہ تنقیض و تفضیح دل سے نکال دیا جائے۔ پندار اورتفاخر کوئی اچھی چیز نہیں اور جب کسی نقاد کے دل میں یہ چیزیں راہ پکڑ لیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے ۔ اور رواداری میں ایسے خیالات کااظہار کر جاتاہے جو کسی دوسری حالت میںغالباً وہ زبان پر نہ لائے گا۔ اگر ادیب ممدوح ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی کہ مضمون لکھتے وقت ڈاکٹر بجنوری مرحوم کی نفسیاتی کیفیت کیا تھی تو شاید وہ اس فیصلے پر نہ پہنچتے میرے نزدیک اس مضمون میں جو والہانہ جوش دکھایا گیا ہے اس کی دو وجہیں ہیں۔ اول غالب سے پہلے اردو زبان کا جو سرمایہ تھا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ ایسا پامال اور فرسودہ مضمون ہو چکاہے کہ اس پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ غالب وہ پہلا شخص ہے جس نے ہمیں بتایا اردو زبان میں ترقی کی کتنی صلاحیتیںہیں ۔ اس میں وسعت کی کتنی گنجائش ہے۔ اور اس میں کیسے کیسے خیالات جدید اورمضامین عالیہ کا اظہار ممکن ہے بجنوری مرحوم کے پیش نظر غالب بھی تھا اور اس کے پیشرو معاصرین بھی۔ انہیں حیرت ہوئی کہ اس آذر کدے میں یہ ابراہیم پیدا کیونکر ہوا؟ جواب ایک ہی تھا۔ جوہر صالح اور ذہانت خداداد ۔ اس امر نے ان کے دل پر غالب کے تفوق کو منقوش کر دیا اور اس کے ساتھ یہ قدرتی طور پر خوش اعتقادی کا شائبہ بھی پیدا ہو گیا ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مضمون میں مرحوم نے آئینہ غالب میں اپنی شکل دیکھنے کی کوشش کی ہے ان کا اپنا تخیل اتنا بلند اور علم اتنا وسیع تھا کہ لکھ تو و ہ رہے تھے دیوان غالب پر تبصرہ لیکن جا بجا اپنی روح اور دماغ کے نقوش کی تعبیر دیوان غالب سے ڈھونڈ رہے تھے انہوںنے اپنے مرغوبات کو غالب پر چسپاں کردیا ہے۔ لازماً اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مضمون زیر بحث میں ایسے مبحث بھی آ گئے ہیں جو نفس مضمون سے بے تعلق سے معلوم ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ واہی تباہی کے لیے یقینا اس میں بھی اتنا سامان بصیرت موجود ہے کہ ہم اس سے غالب کی دھندلی تصویروں کو زیادہ اجاگر کر سکتے ہیں اور غیر ممالک کے مصنفین کے ساتھ موازنہ کر کے ایک رائے (خواہ وہ کتنی ہی غیر مکمل کیوں نہ ہو) قائم کر سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل مضمون بھی ڈاکٹر بجنوری مرحوم کے ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے ۔ اسرار خودی سب سے اول بار 1916ء میں اور رموز بے خودی 1918ء میں شائع ہوئیں۔ مرحوم نے جب ہی یہ مضمون انگریزی رسالہ ایسٹ اور ویسٹ میں لکھا تھا جب ایک ہی زبان کے خیالات دوسری زبان میں منتقل کیے جائیں تو وہ اپنی شائستگی اور چستی کا اکثر حصہ کھو بیٹھتے ہیں اس وجہ سے جیسا کہ ناظرین ملاحظہ فرمائیں گے میں نے لفظی ترجمہ سے احتراز کیا ہے مگر کہیں بھی اصل مضمون کی روح کو مسخ نہیں ہونے دای۔ نوٹ سارے کے سارے میں نے خود پڑحائے ہیں اور کوشش کی ہے کہ متعلقہ اشعار درج کر دیے جائیں۔ لیکن پھر بھی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ ایک مضمون پر کے تمام اشعار دے یے گئے ہیں مثنویوں میں ایک ایک موضوع پر طرح طرح سے بحث کی گئی ہے جگہ جگہ نئے نئے انداز سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر تمام متعلقہ اشعار درج کرتا تو بلا مبالغہ دونوں مثنویاں ساتھ چھپ جاتیںَ ضرورت اس امر کی ہے کہ ناظرین اسرارو رموز کا خود غائر مطالعہ کریں اور ان کے مضامین کو سمجھنے کی سعی کریں۔ فقط مالک رام ٭٭٭ جب نقد وتبصرہ کا موضوع کوئی زندہ مصنف ہو تو نقاد کے لیے لازم ہے کہ قدم پھونک پھونک کررکھیے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ مصنف اور نقاد کے درمیان کوئی رنگین پردہ حائل ہو جائے گا یا قرب مکانی ہی مصنف کے خدو خال کی تفاصیل کو دھندلا کر دے۔ ہندوستان کے اسلامی ادب میں روح ملائے اعلیٰ کی جانب صعود مرزا غالب کے زمانہ سے بدستور جاری ہے۔ غالب حالی اور اقبال ایک مقدم اقالیم ورثہ کے ارکان ہیں۔ غالب نے ا س سکون وجمود کا خاتمہ کر دیا ہے جو انحطا ط کا نتیجہ ہوا کرتا ہے اس کا سب سے بڑ ا کارنامہ ی ہے کہ اس نے لوگوں کے دلوں میں شکوک پیداکر دیے مگر وہ کوئی غیر معقول متکک نہیں تھا جسے اپنے شک کی صحت پر یقین بھی ہو۔ اس کا شک ایک چنگاری تھی جس نے دنیا میں آگ سی لگا دی۔ دہلی کی سلطنت اس کی شاعری کی متحمل نہ ہو سکی اور اس کی ایک نگاہ نے اسے ملیامیٹ کر دیا۔ حالی نے جس کے خون میں شعرائے عرب کی سی گرمی تھی‘ دیکھا کہ دنیا اسے ظاہری حسن و نمائش کے باوجود تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اس نظارہ نے اسے بہت متاثر کیا‘ مگر اس نے اپنے اندر ایک نئی طاقت محسوس کی۔ اس نے غم و یا س کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت کی مسرت کا احساس کیا اور اپنے استاد کی تاخت کردہ عمارت کے کھنڈرات پر ایک نئی دنیا کی تعمیر ٹھانی اور اسے اپنے سینہ میں نشوونما دی۔ امید کی جھلک نے اسے نئی زندگی دی اور یوں تن مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اقبال کی شاعری اب یاس و قنوط کی زنجیروں سے آزاد ہو گئی ہے ۔ اس نے اس میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔ اور نئی عمارت کو متفائولی بنیادوں پر قائم کیا ہے ا س کا نام وبشارت کا مترادف ہے۔ اس نے زمانہ حاضرہ کے غیر ملکی اثر پر قابو پا لیا ہے۔ جو فضائے ہند پر چھایا جا رہا تھا۔ اور یہ سب کچھ اس نے اس اخلاقی قوت کی مدد سے کیا ہے‘ جس کا منبع اورمبدا خالص اسلامی ہے۔ ا س کی روحانی تعلیم نے اس انانیت کو فتح کر لیا ہے جو اس مادی دور کی پیداوار ہے۔ اقبال اسلامی کارواںکا سالار ہے جس کی منزل مقصود حرم محترم ہے۔ اقبال کے ساتھ ادب نوجوانوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ اور خود ہی جوان ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت اس کی دونوں مثنویوں (اسرار خودی اوررموز بے خودی) سے پوری طرح نمایاں ہے۔ ان میں وہ زندگی ہے وہ طاقت ہے جس ے لیے ہماری نئی نسل پرانے غزل گو شعرا کے دواوین کو بے سود کھنگالتی تھی۔ مجھے یہ کہنے میں ذرہ بھر باک نہیں کہ اقبال ہمارے درمیان مسیحا بن کر آیا ہے۔ جس نے مردوں میں زندگی کے آثار پیدا کر دیے ہیں۔ زمانہ پر اس کے پیغام کی اہمیت رفتہ رفتہ واضح ہو گی جو زمانہ حاضرہ کی ان دونوںمعرکتہ الارا نظموں میں پنہاں ہے۔ مثنویاں ایک ایسے غلام فانی کام کا جز و ہیں جو تکمیل کے بعد اسلامی دنیا کے خواب کی صحیح تعبیر ہو گا ۔ اقبال کے نظریہ کے مطابق موجودہ اسلامی ممالک کے تنزل کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوںنے عملی زندگی کی بجائے افلاطونی بے عملی کو اختیار کر لیا ہے افلاطونیت جدیدہ اور حافظ نے ان سے وہ احساس مسرت چھین لیا ہے جو کچھ کر لو کا نتیجہ ہوا کرتا ہے اور اس کی جگہ اس دماغی تفتیش نے لے لی ہے جو ایک تن بیمار کا خاصہ ہے۔ مسلمانوں میں سنگ خارا کی سختی کی بجائے کوئلہ کی سی نرمی آ گئی ہے۔ خوف خدا کی جگہ مخلوق خدا کا خوف ان پر حاوی ہو گیا ہے ۔ ۱ مگر زندگی کا ایک نصب العین بنانھے سے سب خوف دور ہو جاتے ہیں۔ ترقی و عروج اسلام کے لیے خدائے ودیعت کر رکھے ہیں۔ پس توحید الٰہی پر کامل اعتقاد ہمیشہ خوف کو زائل کرتا ہے ۲ اور دل یں وہ عزم مصمم پیدا کر دیتا ہے کہ جو اخلاقی کا طغریٰ ہے۔ حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیر ۳ اندرو قلس اور شیر کی کہانی ۴ نہیںہے۔ اسلام کی روح مساوات کی روح نہیں ہے۔ بانیان سلطنت کا خون بانیان مکانات آب و گل سے زیادہ قیمتی نہیںَ شریعت کے معتوب کے لیے کوئی پناہ نہیں اور جس کا محافظ قرآن کریم ہے اسے خوف سے کوئی واسطہ نہیں ۵۔ اقبال ایک محدود زمانہ کے اندر اسلامی نظام کو از سر نو حیات تازہ اور شباب بخشنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بعینہ جس طرح ایک مہوس مادہ خام سے سونا نکال لیتا ہے وہ موجودہ زمانہ کا ہے مگر اس کی نظر پر بھی ہے۔ اور موجودہ زمانہ کا نکتہ چیں بھی ہے۔ ایمرسن ۶ افلاطون پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ہملٹ بالکل افلاطونی ہے ۔ اقبال اپنے ہم مذہبوں کو افلاطون کے ہملٹ پن (متشائم پسندی) کے خلاف خبردار کرتا ہے۔ اس متشائم پسدندی اور اخلاقی ضعف نے کئی قوموں کو بلندی سے دے پٹکا ہے وہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس زمین پر رہیں اور یہاں کے کار کی نکوکاری پر توجہ دیں افلاطون اس پرندہ صبح کی مانند ہے جو ایک اثیری دنیائے خواب و خیال میں پرواز پر قانع ہے ۔ برخلاف اس کے اقبال ایک بحری عقا ب کی طرح ہے جو بحر حیات کی طوفان خیز موجوں پر سوار ہو۔ اقبال کا فلسفہ خودی اور عمل کا فلسفہ ہے۔ اقبال کو سب سے بڑا اعتراض اس یونانی فلسفی کے مسئلہ عیان ۷ پر ہے جسے جدید افلاطونیوںنے مرتب کر کے اس کا کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔ افلاطونیت جدیدہ پر بدترین ضعف طاری ہے ارو وہ ضعف فقدان جذبہ عمل سے ہے ان کا مابعد الطبیعیات قاطع حیات ہے اور مقصد زندگی کا محو کنندہ ۔ کیایہ تباہی کا راستہ نہیں؟ اقبال کے نزدیک زندگی ایک حقیقت ہے۔ اسلامی زندگی سے بڑھ کر اور کوئی معراج نہیں۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتاہے تحقیق پر زمین پر ایک نائب قائم کرنے والا ہوں۸۔ اقبال میں جان ہے چستی ہے خلاق ہے‘ قناعت ہے ‘ تفاول ہے‘ خون تازہ ہے حقیقت پژوہی یہ ۔ اور سب سے بڑھ کر اسلا م ہے۔ وہ نہیں دیکھ سکتا کہ ملت ابراہیمی دارالفنا میں داخل ہو خواہ اس کا راستہ دکھانے والا خود افلاطون اعظیم ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کی فتادگی اور گوسفندی اسے غضبناک کر دیتی ہے۔ وہ اسے روحانیات اور تصوف جدید پر محمول کرتا ہے۔ یہاں وہ ایک مبارز کی حیثیت سے کھڑا ہو جاتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کا مد مقابل کون ہے ۔ وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں وہ روحانیات یا تصوف کی پیداوار ہے۔ اور ہمارے مذہب کی روح کے منافی ہے۔ اسلام کا اساسی اصول توحید ہے اور تصوف کی بنیاد ہمہ اوست پر قائم ہے۔ توحید مثنت ہے اور ہمہ اوست منفی۔ ہارن کا خیال ہے کہ تصوف جدید بہت حد تک زرتشتی اور بدھ مت کے خیالات سے متاثر ہے۔ فان کریمر اس میں ویدانت کے آثار دیکھتاہے۔ لیکن میرے خیال میں صداقت افلاطونیت جدیدہ اور آزاد نشو ارتقا کے بین بین ہے۔ تصوف کے روئیت حق اور افلاطون کے اعیان نامشہود میںمماثلت ہے۔ صوفیوں کا رقص مستانہ در حقیقت نقل ہے۔ فلاطونی روح کی جو ایک متحرک دائرہ ہے۔ اپنے مرکز قدیم کے گرد اور بس۔ اوریہ مرکز خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔ افلاطونیت جدید اور تصوف جدیدہ دونوں کی تفاصیل اور ظواہر میں بہت حد تک تطابق موجود ہے۔ برائون لکھتا ہے کہ فلاطینوس ۹ کی تحریرات صاحب الفہرست ۱۰ اور شہرستانی ۱۱ سے مخفی نہیںتھیں۔ اسلام ان تمام بے اعتدالیوں سے پاک ہے۔ خدا رب العالمین ہے اور مادہ کی علت سے مبراہے۔ اس کی مخلوق سراب نہیں۔ جس طرح خدا لکڑی اور پتھر سے تراشا نہیں جا سکتا اسی طرح اس ی روئیت بھی مادی یا روحانی آنکھوں سے ناممکن ہے۔ شیخ احمد سرہندی ۱۲ اپنے ملفوظات میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اگر کوئی صوفی یا مجذوب خیال کرتا ہے کہ اس نے خدا کا دیدار کیا ہے ۔ چشم ظاہر سے یا چشم باطن سے تو اس نے اپنے واہمہ یا دماغ کی متصور شکل کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ ‘‘ خداوند تعالیٰ بے مثال ہے یکتا ہے اور نظر سے اوجھل ۔ خدا تک پہنچنے کا راستہ شریعت کا راستہ ۱۳ ۔ جدید تصوف کے خیالات باطلہ مغضوب اور ضالین کے راستہ پر چلاتے ہیں۔ اقبال ے فلسفہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اسلامی عقائد و شعائر کو افلاطون اور ارسطو کے تاثرات سے آزاد کر دے ۔ تاثرات جن کا لازمی نتیجہ رہبانیت و تباہی ہے۔ تصوف جدید رہبانیت ہے یہ اسدنیا کو خواب در خواب مایا یقین کرتاہے۔ یہ زندگی کے حقائق کامقابلہ کرنے سے کتراتا ہے۔ اس نے اسلام کی تعلیم عمل کو پشت میں ڈال دیا ہے اور عمل ہی اصل اسلام ۱۴ ہے اقبال اپنے ہم مذہبوں کو بھی اسی عمل کی طرف واپس بلاتاہے۔ اس کی حقیقی روحانی تعلیم اخلایققوت جوش فکر سرگرمی اور عمل میں مضمر ہے۔ مگر وہ حافظ سے کیوں برسر پیکار ہے؟ اورمولانا جلال الدین رومی کے خلاف صف آرا نہیں ہوتا۔ حالانکہ موخر الذکر تمام متصوفانہ شاعری کا باوا آدم ہے۔ سبب ظاہر ہے۔ صوفی جب اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو انہیں قدرتاً الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ جو عوام کے فہم اور ادراک کے مطابق ہوں۔ خیالات خواہ آسمانی ہی کیوں نہ ہوں مگر اظہار خیالات زمینی الفاظ ہوں گ۔ عشق جب مے اور نغمہ کے پردوں میں بیان کیا جائے گا تو عجب نہیں کہ اسے مادی اور ہیجانی لذت مراد لی جائے سناء عطار‘ اور رومی باوجود اس کے ایسی زبان میں لکھتے ہیں جو ان کی روح حقیقی کا صاف اور نمایاں کر دیتی ہے۔ وہ اپنے ناظرین کو دنیا سے پرے لے جائیںمگر وہ اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاتے۔ برخلاف اس کے حافظ نے ان کے نشہ آور جرعہ میں اصلی شراب ٹپکا دی ہے۔ اس کا دیوان بصیرت سے زیادہ سکر آور ہے بے ریب سقراب ۱۵ کی مانند حافظ مخرب اخلاق نہیں‘ تاہم وہ ان کے خراب کرنے میں ممدو معاون ضرور ہوا ہے۔ اس سے بہتوں نے شراب حقیقت کی بجائے شراب مجازی پی ہے۔ اقبال کا حملہ دراصل اس اپیکورس ۱۶ کے خلاف ہے نہ کہ شعراء کے مادی تصوف جدیدہ پر۔ جیسے کہ نکلسن دیوان شمس تبریز کے دیباچہ میں لکھتاہے : ’’تصوف جدید کے انحطاط کی انتہا ہے کہ اس نے پیر کو الوہیتی صفات سے متصف کر دیا ہے۔ پیر سے شب و تم اور بداخلاقیوں بلکہ اس کے جرائم کی نہ صڑف یہ کہ تاویل کی جاتی ہے بلکہ ان کو متبرک سمجھا جاتا ہے… ایسے نظریوں کا جو برا اثر سادہ لوحوں پر پڑتا ہے اس کے نتائج سے کون آگاہ نہیں یہ دوسری وجہ ہے کہ اقبال اور آج کل کے صوفیوں کے درمیان جنگ کی جب اسرار خودی شائع ہوئی تو بعض صوفی جنہیںپیر روایات باطلہ کی پابندی اور شریعت حقہ سے ناواقفیت کی نمائندی کاشرف حاصل تھا ۱۷ اقبال کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ اسے دار پر کھینچ دو۔ یہ مسلمانوں کو مغربی مادیت کی تعلیم دیتاہے ۔ اقبال کی آوازشور و شغب سے بلند سنائی دی۔ جاہل اور برخود غلط خدا کی شان کہ آج افلاطونی اور ہمہ اوستی مجھے مغربی مادیت کا شائع کرنے والا خیال کر رہے ہیں‘‘۔ آج ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے اہم ترین سوال مسئلہ وفنیت ہے ۔ اسلام قید مکانی سے آزاد ہے اور وطنیت بستہ حدود و جہات ہے۔ اقبا ل بھی اپنے آپ کو اسلام اور وطن کے درمیان گھرا ہو اپاتا ہے۔ اس کی شاعری ان خیالات کی تصویر ہے جو آج ہندوستان کے مسلمانوںکے دلوں میں گزر رہی ہے۔ وہ میکیاولی ۱۸ کو مجرم گردانتا ہے۔ اور اسے مقامی ریاست کے خیا ل کا بانی قرار دتیا ہے۔ اقبال اس فلارنساوی کو مورد طعن ٹھہراتا ہے۔ جس نے دنیا کی آنکھوں کو خیر ہ کر دیا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس کی کتاب الملوک شاہنشاہوں کا لائحہ عمل بنی بلکہ اس لیے کہ اس کی تعلیم دانتے ۱۹ اور مارسیلس کے ریاست عالمگیر کے خیال کو زائل کرنے اور عیسائیت روما کو حدود اطالیہ میںقیام کرنے پر مجتج ہوئی۔ اقبال نہیں چاہتا کہ اسلام ملکوں کی چہار دیواری میں قید ہو کر لخت لخت ہو جائے اقبال کی سیاست اخوت پر مبنی ہے نہ کہ خود غرضی پر۔ مذہب سیاسی زندگی کا حقیقی پاسبان ہے۔ وطن یا ملک ایک عارضی یا جغرافیائی چیز ہے تاریخی حوادث و واقعات اس کے حدود اور نصب العین کو متواتر بدلتے رہتے ہیں اس کی حیات ارضی ہوتی ہے۔ اور وہ چند صدیوں کے لیے بھی ایک نہج پر قائم نہیں رہتا۔ اقبال کی ریاست عالمگیر مذہبی ہے خدائی ہے آدرش ہے‘ اور ابدی ہے مگر ہمہ اقبال یہ نہیںکہتاکہ حب وطن حب الایمان کی نقیض ہے۔ کل میںجزو ہوتاہے عالمگیر اخوت میں حب وطن پوشیدہ ہے۔ اسلامیان ہند کے رایت پر دو نشان ہیں اسلامیت محض اور وطنیت اور دونوں زندگی کی ایک ہی منزل کی جانب راہنمائی کرتے ہیں اگرچہ راہیں جداجدا ہیں ۲۰۔ درحقیقت اقبال میں مذہب کے غائر مطالعہ اور عمیق جذبہ حب الوطنی کا امتزاج کامل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کا سیاسی سطح نگاہ اس کے بلند مذہبی نصب العین کے ماتحت ہے۔ سیاسی نقطہ خیال اور مذہبی مقصد نظر کے اختلاط نے اس کے سیاسی فلسفہ کو ایک نئی حیثیت دے دی ہے۔ فریڈرک نٹشے 12کے خیال میں فن کی دو شکلیں ہیں (۱) اپالونی اور (۲) ڈایونیسنی اپالونی پروقار اور سجیدہ تفکر ہے ۔ ڈایونیسنی طوفان اور ہیجان کا دوسرا نامہے۔ نٹشے کا ارشادات زرتت جو عہد حاضر کے جرمنی کا شاہکا ر ہے بلحاظ ہر دو موضوع اور طرز تحریر ڈایونیسنی ہے۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی بھی جو دونوں اسلام کی حیاۃ ثانیہ کے نشانات ہیں اسی قبیل سے ہیں۔ کیا اقبال نٹشے کے زیر اثر ہے ؟ میرا جواب اثبا ت میں ہے اگرچہ وہ ہمیشہ مستعار چیزوں کو جلا دے کر ایک نئی اور عجوبہ چیز بنا دیتا ہے ۔ نٹشے میں اس کے ماخذ حکایت الماس و زغال ( اسرار خودی) سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جو تصنیف مندرجہ بالا کی حکایت ۲۹ (پتھر و کوئلہ) سے ماخوذ ہے مگر چونکہ اقبال نٹشے سے بزرگ تر شاعر ہے۔ اس نے پتھر کو اس طرح کاٹا اور صقیل کیا کہ الماس اس کا اپنا بن گیا ہے۔ نٹشے کی طرح اقبال بھی حریت فکر و فعل کا حامی ہے۔ اس نے نوجوانوں کو مقابلہ کرنے کی جرات سے سرفراز کیا ہے۔ اس کی حیات افروز مثنویوں کا حیرت انگیز اثر ہوا ہے۔ وہ شاندار مستقبل کا پتہ دے رہاہے۔ میں اسی طرح مرد و عورت کو چاہتا ہوں ایک جنگ کے قابل اور دوسری امومت کے لائق۔ نسائیت اقبال کے نزدیک امومت کے ہم معنی ہے ۲۲ اے لوگو! ڈرو اپنے خدا سے جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اورتمہارے جوڑے پیدا کیے۔ اورپھر ان دونون سے کئی مرد اور عورتیں پیداکیں۔ ۲۳ اور نسائیت کے لیے اسوہ کاملہ حضرت فاطمہ الزہرائؓ ہیں وہ دخت رسولؐ ہیں بتول علیؓ اورام حسینؓ شہید کربلا ہیں۔ جب شاعر کی آنکھ عورت پر پڑتی ہے تو وہ اس سے پرے خاتون جنت کو دیکھتا ہے۔ حضرت فاطمہؓ کی آنکھیں دن رات اپنی اولا د کو دیکھتی ہیں اوراسلامی دنیا پربارش ضیا نور کر رہی ہیں۔ ۲۴ عفت و عصمت مستورات وہ بنیادی پتھر ہے ۔ جس پر مذہب اور سیاست کی دیواریں قائم ہیں آج کل کی نام نہاد آزاد عورت جو ایک محدود خاندان میںیقینرکھتی ہے سلطنت کے زوال اور مذہب کے ادبار کی نشانی ہے ۲۵۔ اقبال نے ایک نہایت اہم سوال کو چھیرا مگر اس نوعی بحث کو طول دینے سے احتراز کیا ہے۔ اور اس کے جملہ پہلوئوں کو منظر عام پر لانے کی بجائے خاموشی اختیار کی ہے۔ بہت لطف ہو اگر وہ نسائیات کے بعض مسائل کی توضیح کر دیں مثلاً مرد و عورت کے لیے غیر مساوی شرائط نکاح یا پھر فقہائے قدیم کے اصولوں کی کوئی نئی تاویل و توجیہ پیش کریں۔ اقبال بعض معاملات میں روسو ۲۶ کی مانند ہے۔ وہ چاہتاہے کہ پھر سے عہد نبویؐ کی شاندار شب و روزآجائیں۔ اس کے تمام خیالات اسی ایک خواب کی تعبیر میں ہیں روسو فطرت کی طرف جانا چاہتا ہے۔ اقبال دشت حجاز پرمٹا ہوا ہے۔ اس ک ادل دکھتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ مسلمان تہذیب حاضرہ کے تصنع اور چمک دمک سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں جس میں سطحگی او رتعیش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسلامی روایات عربی ہیں اس لیے انہیں اپنے شریفانہ جذبات اور قدرتی فطانت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ یورپ کی نقل کسی طرح سود مند نہیں ہو سکتی‘ جیسا کہ ایرانی اوصناع و اطوار نے ماضی میں کچھ فائدہ نہیں پہنچایا۔ غیر ملکی خیالات کا مبالغہ آمیز اور غلامانہ تتبع ہر ایک قوم کے لیے مہلک ثابت ہوا۔ ۲۷ لیکن اسلامی سوسائٹی ان پرانی روایات پر پھر سے کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ تاریخ قوم کے لیے وہی کام دیتی ہے جو حافظہ فردکے لیے۔ مسلمانوں کی تمام حیات ماضی ان کے تمام محسوسات و مزعومات عزائم او رکامیابیاں اس دن سے جب ان میں قومی و مذہبی زندگی کا احساس پیدا ہوا۔ اوراق تاریخ میں غیر فانی طور پر محفوظ ہیں اورتاریخ کو اپنے آپ کو دہرانا چاہیے۔ ۲۸۔ زندگی کو سادہ بنائو ا س میں جھوٹے تصنع فرقہ وارانہ خیالات اور غیر مخلصانہ و خود غرضانہ خواہشات کا گزر نہ ہو۔ اخلاقی‘ دماغی او ر سیاسی بزدلی آج اسلام کی انفرادی حیثیت کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔ اور اسے دور کرو۔ اس کے معنی رجعت قہقوی نہیں۔ مصلح کاکام ماضی سے شاندار عہد کی جانب رہنمائی کرنا ہے۔ اس سے مراد سادہ اخلاق زندگی پر ایک مردانہ نظر اور عرب کی شجاعانہ جانبازی کے ذریعہ مسلمانوں میں مذہبی عصبیت پیدا کر کے ان کے دلدر کاٹنا ہے ۔ اقبال کا مقصد ی ہے کہ ہر طرح کی بزدلی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکوں۔ جب مثنویوں کا علم کلام ہر جگہ سمجھ میں آ جائے گا تو تمام اسلامی دنیا میں وہ لہر چلے گی کہ جس کا نتیجہ نہایت شاندارہے ۔ اقبال ایک پیغمبر ہے وہ اسلام کے شاندار اور بے نظیر زریں ماضی اور مستقبل میں اس کی معاودت کانظارہ کرتا ہے۔ مگر وہ مستقبل ایسا ہے جیسے اس کے ہر طرف دھند چھائی ہوئی ہے اگر چہ دھند گہری نہیں ہے۔ بعض دفعہ اس ملک میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر مثنویوں کو اردو کی بجائے فارسی میںلکھنے سے کیا فائدہ مترتب ہو گا؟ اقبال ان لوگوں میں سے ہے جو گاہے گاہے ایک پیغام اور ایک مقصد کے ساتھ منصہ شہود پرآتے ہیں اس کا پیغام تمام اسلامی دنیا کے لیے ہے ۔ اس کی مثنویاں بچوں کے مدارس میں سعدی کی گلستاں اور دہلی کابل طہران قاہرہ قازان‘ استنبول مدینہ اور مکہ کی جامع مسجدوں کے منبروں پر مثنوی مولانا روم کی جگہ استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ مثنویاں بحر رمل مسدس مقصود میں لکھی گئی ہیں۔ بحر رمل میں یہ تبدیلی غزل اور مثنوی میںمتد اول ہے مثنوی معنوی بھی اسی بحر میں لکھی ہوئی ہے۔ پہلی مثنوی (اسرار خودی) زیادہ حقیقی ہے ۔ دوسری (رموز بے خودی) زیادہ تخلی ہے۔ رموز میں اگر تھوڑی سی حکایتیں اورہو جاتیں تو دماغ پر اس کی بھی وہی حقیقی گرفت ہوتی جو اسرا ر کی ہے۔ یہ کمی رموز کے نصف آخر میں خصوصاً بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ کوء ایسا نقص نہیں ہے جو مصنف دور نہیںکر سکتا۔ اقبال نے فارسی ادبیات کے جھوٹے مصنوعی ادب القدما سے اصلی ادب القدما کی طرف رہنمائی کر دی ہے۔ صائب کے بعد کے شعرا عہد زریں کا ایک غیر شعوری اور مدھم سی گونج رہ گئے تھے اقبال کا پھر سے اساتذہ قدیم کی روش اختیار کرنا اس وجہ سے ہے کہ وہ بیدل اور اس کے متبعن کی شاعری کے خلاف ہے۔ جو رنگین پردوں میںلپٹی ہوئی ہے جس میں حسن و کشش تو ہے مگر قوت و عمل نہیں۔ اس کا طرز تحریر مولانا روم کا ہے۔ لیکن الفاظ ایسے ہیں کہ جیسے کسی مرصع تلوار کے دستہ میں موتی جڑے ہوں۔ لیکن باوجود اپنے اس عظیم الشان پیش رو کی تقلید کے اقبال یقینا بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ نو بیدار مشرق کی روح ایک ترجمان کی ضرورت محسوس کررہی تھی۔ اور اقبال کی شاعری نے اس ضرورت کو پورا کر دیاہے۔ اس نے ایرانی شاعری کی واماندہ رگوں میںخون تازہ دوڑا دیاہے۔ اور حسن صوریہ کے ساتھ قوت معنوی کے مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔ مثنویوں کی زبان بہت پر شوکت ہے لیکن اس مردانگی کے باوجو د اس میں لوچ اور لچک ہے آج جبکہ فارسی زبان خود اپنے وطن میں اس قدر بدنما ہو گئی ہے اقبال اس کے شباب کی یاد دلاتاہے۔ فارسی ادب ایک خطرناک دور سے گزر رہا ہے ۔ ایک طرف جب خود ایران میں ادبی انحطاط نمایاں ہے دوسری طرف ایک موسیٰ نے اپنے عصا سے چٹان کو ضرب لگائی ہے اور ایک نیا کوثر پھوٹ بہا ہے جو بنی اسرائیل کے بارہ چشموں سے کسی طرح کم نہیں ۲۹۔ (نیرنگ خیال اقبال نمبر 1932ئ) ٭٭٭ حواشی و حوالہ جات ۱۔ اس مضمون کو علامہ ممدوح نے حکایت طائرے کہ از تشنگی بیتاب بود اور حکایت الماس و زغال میں بیان فرمایا ہے۔ موخر الذکر میں جب کوئلہ الماس سے پوچھتاہے کہ باوجود یہ کہ ہماری پیدائش ایک کان سے ہوئی ہے کیا وجہ ہے کہ تو سرتاج شہنشاہاں ہوتا ہے اور میں انگیٹھی میں جلتا ہوں۔ تیری قدر ہوتی ہے اور میں ہر جگہ ذلیل ہوتا ہوں۔ گفت الماس اے رفیق نکتہ بیں تیرہ خاک از پختگی گردد نگیں تابہ پیرامون خود در جنگ شد پختہ از پیکار مثل سنگ شد پیکرم از پختگی ذوالنور شد سینہ ام از جلوہ ہا معمور شد خوار گشتی از وجود خام خویش سوختی از نرمئی اندام خویش فارغ از خوف و غم و وسواس باش پختہ مثل سنگ شو الماس باش می شود از روئے عالم مستیر ہر کہ باشد سخت کوش و سخت گیر مشت خاکے اصل سنگ اسود است کہ سر از جیب حرم بیروں زردست البتہ از طور بالا تر شد است بوسہ گاہ اسود و احمر شد است در صلابت آبروئے زندگی است ناتوانی ناکسی نا پختگی است (اسرار‘ ص ۶۴) ۲۔ تا عصائے لا الہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست ہر کہ حق باشد چوں جاں اندر ننش خم نگردد پیش باطل گردنش خوف را در سینہ او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند ز و اولاد شد می کند از ماسویٰ قطع نظر میں نہد ساطور بر حلق پسر با یکی مثل ہجوم لشکر است جاں بچشم او زباد ارزاں تراست (اسرار‘ ص ۴۷) دوسری جگہ فرماتے ہیں: ایکہ در زندان غم باشی اسیر از نبیؐ تعلیم لا تحزن بگیر ایں سبق صدیق را صدیق کرد سر خوش از پیمانہ تحقیق کرد از رضا مسلم مثال کوکب است در رہ ہستی تبسم بر لب است گر خدا داری زغم آزاد شو از خیال پیش و کم آزاد شو قوت ایماں حیات افزادیت درد لا خوف علیھم بایدت چوں کلیمے سوئے فرعونے رود قلب او از لا تخف محکم شود بیم غیر اللہ عمل را دشمن است کاروان زندگی را رہزن است بیم جاسوسے است از اقلیم مرگ اندرونش تیرہ مثل میم مرگ ہرشر پنہاں کہ اندر قلب تست اصل او بیم است اگر بینی درست ہر کہ رمز مصطفی فہمیدہ است شرک را در خوف مضمر دیدہ است (رموز‘ ص ۱۰۹ تا ۱۱۱) یہی مضمون محاورہ تیر و شمشیر اور حکایت شیر و عالمگیر میںبیان کیا گیا ہے آخر الذکر کر کے دوشعر درج ذیل ہیں: عشق را آتش زن اندیشہ کن روبہ حق باش و شیری پیشہ کن خوف حق عنوان ایمان است و بس خوف غیر از شرک پنہاں است و بس (رموز‘ ص ۱۱۴) ۳۔ شاہ عالمگیر گردوں آستاں اعتبار دودماں گورگاں درمیان کارزار کفر و دیں ترکش ما را خدنگ آخریں در صف شاہنشاں یکتاستے فقراو از ترہتش پیداستے روزے آں زبیندہ تاج و سریر آں سپہدار و شہنشاہ و فقیر صبحگاہاں شد بہ سر بیشہ اے با پرستارے وفا اندیشہ اے سرخوش از کیفیت باد سحر طائران تسبیح خواں بر ہر شجر شاہ رمز آگاہ شد محو نماز خیمہ بر زد در حقیقت از مجاز شیر ببر آمد پدید از طرف دشت از خروش او فلک لرزندہ گشت بوئے انساں دادش از انساں خبر پنجہ عالمگیر را زد بر کمر دست شہ نادیدہ خنجر برکشید شرزہ شیرے را شکم از ہم درید دل بخود راہے نداد اندیشہ را شیر قالیں کرد شیر بیشہ را باز سوئے حق رمید آں ناصبور بود معراجش نماز با حضور ایں چنیں دل خود نما و خود شکن دارد اندر سینہ مومن وطن تو ہم اے نادان دلے آور بدست شاہدے را محملے آور بدست (رموز ص ۱۱۲ تا ۱۱۴) ۴۔ اندر و قلس اورشیر کی کہانی مشہور ہے: اندرو قلس روما کا رم خوردہ غلام تھا۔ اسنے ایک غار میں پناہ لی۔ اچانک اس غار میں شیر بھی داخل ہوا اور بجائے غالم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے اپنا پائوں اس کے سامنے رکھ دیا جس میں کانٹا چبھ گیا تھا۔ غلام نے وہ کانٹا نکال دیا اور شیر چلا گیا۔ بعد میں غلام گرفتارہوا اور حسب قانون اسے شیر سے کشتی لڑنے کا حکم ہوا۔ حسن اتفاق کہ اس کے مقابل وہی شیر چھوڑا گیا جس کا کانٹا اس نے نکالا تھا۔ جب شیر اس پر جھپٹ آیا تو اسے پہچانتے ہی فوراً اس کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے پیر چاٹنے لگا جب حکام نے یہ نظارہ دیکھا تو غلا م کو آزاد کر دیا۔ ایک اسی طرح کا واقعہ برطانوی سفیر روما سر جارج ڈیوس کا بھی ہے۔ لیکن طوالت سے خالی نہیں۔ اس لیے چھوڑتا ہوں۔ ۵۔ مساوات اسلامی کا مضمون نہایت تفصیل سے رموز کے باب رسالت میں درج ہے میںصرف حکایت سلطان مراد و معمار سے چند اشعار درج ذیل کرتاہوں: بود معمارے ز اقلیم نجند در فن تعمیر نام او بلند ساخت آں صنعت گر فرہاد زاد مسجدے از حکم سلطان مراد خوش نیامد شاہ را تعمیر او خشمگیں گردید از تقصیر او آتش سوزندہ از چمشمش چکید دست آں بیچارہ از خنجر برید جوئے خوں از ساعد معمار رفت پیش قاضی ناتوان و زار رفت آں ہنر مندے کہ دستش سنگ سفت داستان جور سلطاں باز گفت قاضی عادل بدنداں خستہ ل کرد شہ را در خود طلب رنگ شہ از ہیبت قرآں پرید پیش قاضی چوں خطا کاراں رسید گفت شہ از کردہ خجلت بردہ ام اعتراف از جرم خود آوردہ ام گفت قاضی فی القصاص آمد حیواۃ زندگی گیرد بایں قانوں ثبات عبد مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگیں تر از معمار نیست چوں مراد ایں آیہ محکم شنید دست خویش از آستیں بیروں کشید مدعی را تاب خاموشی نماند آیہ بالعدل و الاحسان خواند گفت از بہر خدا بخشیدمش از برائے مصطفیؐ بخشیدمش یافت مورے بر سلیمانے ظفر سطوت آئین پیغمبر نگر پیش قرآں بندہ و مولا یکے ست بوریا و مسند دیبا یکے ست (رموز ص ۱۲۳ تا ۱۲۵) ۶۔ رالف والڈو ایمرسن (1803-1882)امریکہ کا مشہو ر مصنف انیسویں صدی کے اخلاقیات پر اس کی تصنیفات اور تعلیم نے نہایت گہرا اثر ڈالا ۔ اسکا فلسفہ خود اعتمادی اورخو د داری اور اس کا روح کے احکام کی پانبدی پر زور دینا بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ اور حال اس کے خیالات کا دائرہ اثر ترقی پذیر ہے۔ ۷۔ راہب دیرینہ افلاطوں حکیم از گروہ گو سفندان قدیم گفت سر زندگی در مردن است شمع را ص جلوہ از افسردن است بر تخیلہائے ما فرماں رواست جام او خواب آور و گیتی رباست گوسفندے در لباس آدم است حکم او برجان صوفی محکم است عقل خود را بر سر گردوں رساند عالم اسباب را افسانہ خواند کار او تحلیل اجزائے حیات قطع شاخ سرو رعنائے حیات فکر افلاطوں زیاں را سود گفت حکمت او بود را نابود گفت بسکہ از ذوق عمل محروم بود جان او وارفتہ و معدوم بود منکر ہنگامہ موجود گشت خالق اعیان نامشہود گشت زندہ جاں را عالم امکاں خوش است مردہ دل را عالم اعیان خوش است آہوش بے بہرہ از لطف خرام لذت رفتار برکبکش حرام شبنمش از طاقت رم بے نصیب طائرش را سینہ از دم بے نصیب ذوق روئیدن ندارد دانہ اش از تپیدن بے خبر پروانہ اش قومہا از سکر او مسموم گشت خفت و از ذوق عمل محروم گشت (اسرا ر ص ۳۴ تا ۳۶) ۸۔ واذ قال ربک للملکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرۃ ۔ ۳۰) ۹۔ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں افلاطون اس کے فلسفہ اور فلاطینوس اور افلاطونیت جدیدہ (اشراق) کی نسبت کچھ تھوڑا سا لکھ دیا جائے۔ کیونکہ یہ لفظ مضمون میں اکثر استعمال ہوئے ہیں: (الف) افلاطون ۴۲۹۔۳۴۷ ق م وہ سقراط کاشاگرد تھا۔ اس کا اصلی نام ارسطاقلس تھا۔ مگر اس کے چوڑے چکلے سینے کی وجہ سے سقراط نے اس کا نام افلاطون رکھا۔ اس نے فلسفہ کو تین شاخوں میں تقسیم کردیا اخلاقیات‘ منطق (مابعد الطبیعیات) اور الہیات۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے تمام مخلوق کو اپنی شکل پر بنانے کا خیال کیا اس سے پہلے روح کو بنایا جو محسوس اور معقول کے درمیان توصل کا کام دیتی ہے ا س روح کے ساتھ اس نے جسد خاکی کو ملایا۔ روح جسم کے تین حصوں میں رہتی ہے دماغ دل اور انتڑیاں اور ان سے بالترتیب عقل حوصلہ اور اعتدال پیدا ہوتاہے۔ وہ خدائی کی طرح مادہ کو بھی ازلی مانتاہے۔ اس کے نزدیک تمام علم اپنی انتہا میں واحد اور آزاد ہے۔ خدا تمام چیزوں کا معیار ہے۔ اور اس میں ہی ہمت اور عقل کا اجتماع ہوتاہے۔ اور قدرت میں جو کچھ اصلی ہے اور جو خیالات و قوانین کا مجموعہ ہے خدا سے نکلاہے۔ اس کا مسئلہ اعیان نامشہود مشہورہے۔ اس کی کتاب الجمہوریت اردو میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے۔ اور اس کے نصب العین سیاسیات کو واضح کرتی ہے۔ (ب) فلاطینوس (۲۰۳ یا ۲۰۴ میںپیدا ہوا اور ۲۶۲ اور ۲۷۰ کے درمیان فوت ہوا) نے افلاطونیت جدیدہ کو مرتب کیا۔ اپنے خیا ل میں وہ افلاطون کا شارح اورمتع تھا۔ مگرا س کے خیالات اپنے پیشرو سے کچھ اس قدر مختلف ہیں کہ افلاطون سے اس کی نسبت بھی غلطی ہے۔ فلاطینوس کے فلسفہ کی قدر و قیمت اس کے خیالات کیوجہ سے نہیںبلکہ بوجوہ اپنی تاریخٰ اہمیت اور بعض انسانی طبائع کے تجزیہ کی وجہ سے ہے۔ فلاطون کے نزدیک عقل میں جو کچھ ہے بہترین اور اعلیٰ ہے اس کا نام خیر ہے۔ فلاطینوس خیرکو تجرید محض خیال کرتاہے۔ فلاطینوس تتع اور خو د صفات اللہ کو بنگاہ حقارت دیکھتا ہے۔ اورانسانی مطمح نظر ادغام بر الہ یقین کرتاہے۔ فلاطینوس کے نطریہ کے مطابق روح اپنے مبدا سے ایسی ہی نکلی ہے جیسے سورج سے شعاعیں‘ اور اب غیر ارادی طور پر اپنے منبع کو دیکھنے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے۔ اس حرکت میں اس سے تصور اورتصور سے خیا ل پیدا ہوتا ہے۔ یہ خیال انسانی روح کا آفرینندہ ہے۔ مادہ خیر کا زیریں ترین مقام ہے اور اسی کی ارتقائی حالت خیر ہے۔ وہ انسان اور خدا کے درمیان بلا واسطہ تعلق کا قائل ہے۔ ۱۰۔ ابو الندیم ۱۱۔ ابو الفتح محمد الشہر ستانی مصنف کتاب الملل و النحل جس میں مختلف سنی فرقوں کا حال بالتفصیل درج ہے۔ کتاب کا ترجمہ انگریزی میں ہو چکا ہے۔ سال وفات 1153ء مطابق ۵۴۸ھ۔ ۱۲۔ شیخ احمد سرہندی کا لقب مجدد الف ثانی ہے۔ شیخ عبدالوحید فاروقی سرہندی کے فرزند ارجمند تھے۔ سرہند 1563ء مطابق ۹۷۱ھ کو پیدا ہوئے ۔دہلی کے مشہور ولی اللہ خواجہ باقی اللہ کے مرید تھے۔ ان کا یقین تھا کہ ہرہزار سال کے بعد ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو تمام علوم اسلامیہ میں کامل اور طاقت اورشوکت اسلام کا بڑھانے والا ہوتاہے۔ اور وہ دعویٰ کرتے تھے کہ دوسرے ہزار سال کامجدد میں ہوں۔ 1624ء مطابق ۱۰۳۴ھ میں وفات پائی۔ مقبرہ سرہند میں ہے۔ ۱۳۔ در شریعت معنی دیگر مجو غیر ضو در باطن گوہر مجو ایں گہر را خود خدا گوہر گر است ظاہرش گوہر بطونش گوہر است علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست اصل سنت جز محبت ہیچ نیست فرد را شرع است مرقات یقیں پختہ تر از وے مقامات یقیں ملت از آئین حق گیرد نظام از نظام محکمے خیزد دوام با تو گویم سر اسلام است شرع شرع آغاز است و انجام است شرع شارع آئین شناس خوب و زشت بہر تو ایں نسخہی قدرت نوشت از عمل آہن عصب می سازدت جانے خوبے در جہاں اندازدت خستہ باشی استوارست می کند پختہ مثل کوہسارت می کند ہست دین مصطفی دین حیات شرع او تفسیر آئین حیات گر زمینی آسمان سازد ترا آنچہ حق می خواہد سازد ترا صیقلش آئینہ سازد سنگ را از دل آہن رباید زنگ را (رموز ص ۱۴۶ تا ۱۴۸) ۱۴۔ فلسفہ عمل علامہ کا بڑ دل پسند موضوع ہے۔ انہوںنے اپنی تمام کتابوں میںاس کی تعلیم دی ہے اور ہر جگہ نئے انداز سے دی ہے۔ اگر جگہ تنگ نہ ہوتی تو دوسری کتب سے حوالہ جات پیش کرتا مگر : دامن نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار صر ف اسرار و رموز ہی پر اکتفا کرتا ہوں اور وہ بھی سرف ایک جگہ ہے ضرورت ہے کہ ناظرین کتاب کو خوب بنگاہ غائر مطالعہ کریں: اے ز جور چرخ ناہنجاز و تنگ جام تو فریادی بیدار سنگ نالہ و فریاد و ماتم تا کجا سینہ کوبیہائے پیہم تا کجا در عمل پوشیدہ مضمون حیات لذت تخلیق قانون حیات خیز و خلاق جہان تازہ شو شعلہ در بر کن خلیل آوازہ شو با جہان نا مساعد ساختن ہست در میدان سپر انداختن مرد خود دارے کہ باشد پختہ کار با مزاج او بسازد روزگار گر نہ سازد با مزاج او جہاں می شود جنگ آزما با آسماں بر کند بنیاد موجودات را می دہد ترکیب نو ذرات را می کند از قوت خود آشکار روزگار تو کہ باشد سازگار درجہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جاں سپردن زندگی ست آزماید صاحب قلب سلیم زور خود را از مہمات عظیم عشق با دشوار ورزیدن خوش است چوں خلیل از شعلہ گل چیدن خوش است حربہ دوں ہمتاں کین است و بس زندگی را دیں یک آئین است و بس زندگانی قوت پیداستے اصل او از ذوق استیلاستے عفو بیجا سردی خون حیات سکتہ اے در بیت موزون حیات ہر کہ در قعر مذلت ماندہ است ناتوانی را قناعت خواندہ است ناتوانی زندگی را رہزن است بطنش از خوف و دروغ آبستن است (رموز ص ۵۴ تا ۵۶) ۱۵۔ سقراط (۴۶۹۔۳۹۹ ق م ) یونانی فلسفی افلاطون کا استاد۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ اپنے نفس کو جانو یعنی اپنی انا کا انداز ہ کرو۔ رو ح کی تعریف وہ یوں کرتاہے کہ ہماری وہ چیز جو عل بھی رکھتی ہے اور بے علمی بھی خیر بھی ہے اور شر بھی۔ اپنی خدا پرستی کی وجہ سے زہر سے ہلاک ہوا۔ ۱۶۔ اپیکورس ( ۳۴۲۔۲۷۰ ق م) یونانی فلسفی۔ اس کی تعلیم کااصول یہ تھاکہ چونکہ خوشی اور غم ہی دنیا کے خیر و شر ہیں لہٰذا فلسفہ کا مقصد اولیٰ حصول مسرت اور انعدام کلفت ہونا چاہیے اس کے نزدیک سکون قلب مبنی بہ مراقبہ خیر پر منتج ہوتا ہے۔ یہ جو مشہور ہے کہ اس کی تعلیم کھائو پیو اور خو ش رہو غلط فہمی پر مبنی ہے۔ ۱۷۔ حضرت علامہ نے ایک جگہ ایسے پیروں کی نہایت صحیح شکل کھینچی ہے ۔ فرماتے ہیں: شیخ در عشق بتاں اسلام باخت رشتہ تسبیح از زنار ساخت پیر ہا پیر از بیاض مو شدند سخرہ بہر کودکان کو شدند دل ز نقش لا الہ بیگانہ اے از صنمہائے ہوس بت خانہ اے می شود ہر مو دروازے خرقہ پوش آہ زیں سوداگران دیں فروش با مریداں روز و شب اندر سفر از ضرورت ہائے ملت بے خبر دیدہ ہا بے نور مثل نرگس اند سینہ ہا از دولت دل مفلس اند واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست اعتبار ملت بیضا شکست واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخٹ مفتی دین مبیں فتویٰ فروخت چیست یاراں بعد ازیں تدبیر ما رخ سوئے مے خانہ دارد پیر ما (اسرار ص ۷۹) ۱۸۔ میکیاولی (۱۴۶۹ء ۔ ۱۵۳۷ئ) اطالوی مورخ و سیاس۔ وہ فلارنس میں پید ا ہوا۔ اور وہاں مدتوں ریاست میں منصب جلیلہ پر سرفراز رہا۔ آخر معطل کر دیا گیا اور اپنے جاگیری بندوبست میں بقیہ عمر بسر کی۔ اس کی کتاب الملوک سب سے پہلے ۱۵۳۲ء میں پوپ کلیمنٹ ہفتم کی اجازت سے شائع ہوئی۔ اس میں اس نے سیاسیات اور اخلاقیات کے درمیان ایک حد فاص قائم کی ۔ اور اس میں زمانہ حال کے کئی سیاسین نے اس کی تقلید کی ہے۔ جو اپنی سیاسی اغراض و مقاصد میں اصول اخلاق کو دخل نہیںدیتے۔ حضرت علامہ اس کی نسبت فرماتے ہیں: دہریت چوں جامہ مذہب درید مرسلے از حضرت شیطاں رسید آں فلارنساوی باطل پرست سرمہ او دیدہ مردم شکست نسخہ اے بہر شہنشاہاں نوشت در گل ما دانہ پیکار کشت فطرت او سویئے ظلمت بردہ رخت حق ز تبغ خامہ او لخت لخت بت گری مانند آزر پیشہ اش بست نقش تازہ اندیشہ اش مملکت را دین او معبود ساخت فکر او مذموم را محمود ساخت بوسہ تا بر پائے ایں معبود زد نقد حق را بر عیار سود زد باطل از تعلیم او بالیدہ است حیلہ اندازی فنے گرویدہ است طرح تدبیر زبوں فرجام ریخت ایں خسک در جادہ ایام ریخت شب بہ چشم اہل عالم چیدہ است مصلحت تزویر را نامیدہ است (رموز ص ۱۳۴) ۱۹۔ دانتے (۱۲۶۵ء ۔ ۱۳۲۱ئ) اٹلی کا بزرگ ترین شاعر ہے۔ اس نے ڈیوائن کامیڈی طربیہ الٰہی مشہور و معروف چیز ہے۔ اس میں مصنف نے طبقات علوی کی سیر کا حال بیان کیا ہے۔ اسے اس نے تین حصوںمیںتقسیم کیا ہے دوزخ دارا لکفارۃ اور جنت وہ خواب دیکھتا ہے کہ میں ایک گھنے جنگل میں جا نکلا ہوں جہان ورجل (اس سے پہلے کا ایک اطالوی شاعر) کا ہیولا ظاہر ہوتاہے۔ اور دوزخ اور دارالکفارۃ میں اس کی رہنمائی کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے۔ دوزخ کے جو نظارے دانتے نے بیان کیے ہیں بلحاظ وقت نظر اعتقاد تامہ اور جزئیات کرداری نگاری غالباً بے نظیر ہے اور شاید کسی ایک مصنف کے کلام میں اتنی خوبیاں بیک وقت نہیں ملیں گی ۔ دارالکفارۃ میں نظارے تقریباً وہی ہیں البتہ سزا و عقوبت عارضی ہے۔ جنت سماوی میں اس کا رہبراس کی معشوقہ بطریس ہے۔ سات طبقوں کی سیر کے بعد وہ آٹھویں طبقہ میں پہنچتا ہے۔ جہاں حضر ت یسوع مسیحؑ کو اپنے صاحب عظمت حواریوں کے حلقہ میں دیکھتا ہے۔ نویں طبقہ میں وہ اپنے آپ کو روح کل کی موجودگی میںمحسوس کرتاہے۔ اور ارواح مرحومہ کو ایک لامحدود دائرہ میں تختوں پر بیٹھاہوا دیکھتا ہے۔ خداوند تعالیٰ خود دسویںطبقہ میں جسے وہ فور نور کے باعث نظارہ نہیں کر سکتا ان تمام روئیاتی تجربات کی بنیاد اصل اعتقاد حسن خیر و زشت شر اور محبت کی عالمگیری اور قدرت عظیمہ ہے۔ اور یہ سب کچھ اس جوش و خروش اور صحت کے ساتھ معلوم ہوا ہے کہ الہام معلوم ہوتاہے۔ چنانچہ مدتوں اس کے ہموطنوں کا یہ خیا ل رہا ہے کہ یہ تمام حالات الہامی ہیں۔ ۲۰۔ جوہر ما با مقامے بستہ نیست بادہ تندش بجامے بستہ نیست ہندی و چینی سفال جام ماست رومی و شامی گل اندام ماست قلب ما از ہند و روم و شام نیست مرز و بوم او بجز اسلام نیست زانکہ ما از سینہ جاں گم کردہ ایم خویش را در خاکداں گم کردہ ایم مسلم استی دل باقلیمے مبند گم مشو اندر جہان چون و چند می نہ گنجد مسلم اندر مرز و بوم در دل او یاوہ گردد شام و روم عقدہ قومیت مسلم کشود از وطن آقائے ما ہجرت نمود حکمتش یک ملت گیتی نورد بر اساس کلمہ تعمیر کرد تا ز بخششھائے آں سلطان دین مسجد ما شد ہمہ روئے زمین آں کہ در قرآں خدا او را ستود آں کہ حفظ جان او موعود بود دشمناں بے دست و پا از ہیبتش لرزہ بر تن از شکوہ فطرتش پس چرا از مسکن آبا گریخت؟ تو گماں داری کہ از اعدا گریخت؟ قصہ گویان حق ز ما پوشیدہ اند معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند ہجرت آئین حیات مسلم است ایں ز اسباب ثبات مسلم است صورت ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قید مقام آزاد شو از فریب عصر نو ہشیار باش رہ فند اے راہبر و ہشیار باش (رموز ص ۱۲۹ تا ۱۳۲) ۲۱۔ فریڈرک نٹشے (۱۸۴۴۔ ۱۹۵۰ئ) جرمن شاعر اور فلسفی۔ لیکن چونکہ وہ اصل میں شاعر تھا اس لیے اس کے نزدیک فلسفہ بھی زندگی اور فکر کی تنقید ہی ہے۔ اس کے خیال میں تمام مخلوق میں جس میں انسان بھی شامل ہے آرزوئے حیات کا سب سے زیادہ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ طاقت حاصل کی جائے اور تمام رکاوٹوں کا قلع قمع کیا جائے ۔ جو زندگی کو مشکل بناتی ہیں۔ موجودہ انسان مخلوق خداوندی کا منتہائے مقصود نہیں بلکہ جیسے جانور کی ارتقائی صورت انسان ہے۔ ایسے ہی انسان بھی عارضی ہے۔ اور اس کے بعد مکمل انسان فوق البشر ہو گا جس میں حسن و طاقت عقل و اخلاق‘ قوت ارادی و عمیق نگاہ بدرجہ کمال ہوں گے۔ اور ان الفاظ کے معنی بھی ان کے موجودہ مطلب سے کچھ زیادہ وسیع ہوں گے محبت رحم اور ہمدردی اس کے لیے بے معنی الفاظ ہیں اس کے نزدیک فطرت ان الفاظ سے مبرا ہے اور مندرجہ بالا مقصود کی طرف بغیر دائیں بائیں دیکھے جاری ہے۔ اس طرح گویا اس نے انتہا درجہ کی انفرادیت کی تعلیم دی جس میں زندگی کی نسبت مقصد حیات گنا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اشتراکیت اور فوضویت مساوات سیاسی اور حکومت عوام کالانعام کے سخت خلاف ہے۔ بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ جرمنوں کی موجودہ ذہنیت کے لیے بہت حد تک وہ ذمہ دار ہے اور گزشتہ جنگ عظیم کی تہہ میں اسی کی تعلیم تھی۔ ۲۲۔ نغمہ خیز از زخمہ زن ساز مرد از نیاز او دو بالا ناز مرد پوشش عریانی مرداں زن است حسن دلجو عشق را پیرہن است آنکہ نازد بر وجودش کائنات ذکر او فرد با طیب و الصلوۃ نیک اگر بینی امومت رحمت است زانکہ او را با نبوت نسبت است از امومت پختہ تر تعمیر ما در خط سیمائے او تقدیر ما ہست اگر فرہنگ تو معنی رسے حرف امت نکتہ ہا دارد بسے ملت از تکریم ارحام است و بس وزنہ کار زندگی خام است و بس از امومت گرم رفتار حیات از اموت کشف اسرار حیات از امومت پیچ و تاب جوئے ما موج و گرداب و حباب جوئے ما (رموز‘ ص ۱۷۴) ۲۳۔ یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا وبث منھما ر جالا کثیرا و نسا ۔ (نساء آیت ۱) ۲۴۔ سیرت فرزند ہا از امہات جوہر صدق و صفا از امہات مزرع تسلیم را حاصل بتولؓ مادراں را اسوۂ کامل بتولؓ بہر محتاجے دلش آں گونہ سوخت با یہودے چادرے خود را فروخت نوری و ہم آتشی فرمابنرش گم رضائش در رضائے شوہرش آں ادب پروردہ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآں سرا گریہ ہائے او ز بالیں بے نیاز گوہر افشاندے بدامان نماز اشک او بر چید جبریل از زمیں ہمچو شبنم ریخت بر عرش بریں رشتہ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفی است اسی سلسلہ میں ’’خطاب بہ مخدرات اسلام‘‘ بھی زیر نظر رہی۔ (رموز ‘ ص ۱۷۷ تا ۱۸۰) ۲۵۔ آں تہی آغوش نازک پیکرے خانہ پرورد نگاہش محشرے فکر او از تاب مغرب روشن است ظاہرش زن ‘ باطن او نازن است بند ہائے ملت بیضا گسیخت تا ز چشمش عشوہ ہا حل کردہ ریخت شوخ چشم و فتنہ زا آزادیش از حیا نا آشنا آزادیش علم او بار امومت بر نتاخت بر سر شامش یکے اختر نتافت ایں گل از بستان ما نارستہ بہ داغش از دامان ملت شستہ بہ (رموز ‘ ص ۱۷۵) ۲۶۔ روسو (۱۷۱۲ئ۔۱۷۷۸ئ) ایک عجیب انقلابی دل و دماغ کا مالک تھا۔ فرانس میں جب حکومت نے اس کو جلا وطن کیا تو انگلستان پہنچا۔ یہاں بھی ہوا راس نہ آئی تو واپس فرانس آیا اور عمر تصنیف و تالیف میں گزار دی۔ وہ موجودہ تہذیب و تمدن کے سخت مخالفین میں سے تھا۔ اس کا خیال تھا کہ انسان کی ابتدائی فطرتی حالت بہترین تھی۔اس میں عجیب طور پر سرگرم جذبہ محبت و رافت کے ساتھ ساتھ تمام قائم شدہ اصول و قواعد کے خلاف سخت مخالفانہ و جارحانہ خیالات کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس کے لیے وہ بھی بہت حد تک ذمہ دار گردانا گیا ہے۔ ۲۷۔ اے میان کیسہ ات نقد سخن بر عیار زندگی او را بزن فکر روشن بیں عمل را راہبر است چوں درخش برق پیش از تندر است فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوئے عرب می بایدت دل بہ سلمائے عرب سپرد تا دمد صبح حجاز از شام کرد از چمن زار عجم گل چیدہ ای نوبہار ہند و ایراں دیدہ ای اند کے از گرمی صحرا بخور بادہ دیرینہ از خرما بخور سر یکے اندر بہر گرمش بدہ تن دمے با صر صر گرمش بدہ (اسرار ‘ ص ۴۲) مگر رموز میں اس سے اور بھی صاف اور واضح الفاظ میں فرماتے ہیں: تا شعار مصطفی از دست رفت قوم را رمز بقا از دست رفت آں نہاں سر بلند و استوار مسلم صحرائی اشتر سوار آنکہ کشتے شیر را چوں گوسفند گشت از پامال مورے درد مند آنکہ حزمش کوہ را کاہے شمرد با توکل دست و پائے خود سپرد کوشش او با قناعت ساز کرد تا بہ کشکوش گدائی ناز کرد شیخ احمد سید گردوں جناب کاسب نور از ضمیرش آفتاب گل کہ می پوشد مزار پاک او لا الہ گویاں دمد از خاک او با مریدے گفت اے جان پدر از خیالات عجم باید حذر زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گزشت از حد دین نبی بیروں گزشت اے برادر ایں نصیحت گوش کن پند آں آقائے ملت گوش کن قلب را زیں حرف حق گرداں قوی با عرب در ساز تا مسلم شوی (رموز‘ ص ۱۴۸۔ ۱۴۹) ۲۸۔ چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ داستانے قصہ پارینہ ؟ ایں ترا از خویشتن آ کہ کند آشنائے کار و مرد رہ کند روح را سرمایہ تاب است ایں جسم ملت را چو اعصاب ایں ہمچو خنجر بر فسانت می زند باز بر بروئے جہانت می زند شمع او بخت امم را کوکب است روشن از وے امشب و ہم دیشب است چشم پر کارے کہ بیند رفتہ را پیش تو باز آفریند رفتہ را ضبط کن تاریخ را پائندہ شو از نفسہائے رمیدہ زندہ شو سر زند از ماضی تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو موج ادراک تسلسل زندگی است مے کشاں را شور قلقل زندگی است (رموز ‘ ص ۷۳ ۔ ۱۷۲) ۲۹۔ واذا ستسقیٰ موسیٰ لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر فانفجرت منماثنتا عشرۃ عینا قدعلم کل الناس مشربہم (البقرۃ ۶۰) ٭٭٭ ڈاکٹر۔ ایم ۔ ڈی ۔ تاثیر اقبال کا نظریہ شاعری اٹھارویںاور انیسویں صدی میں ہندوستان کی شاعری پیشتر داخلی یا ذاتی شاعری تھی۔ سب شاعر اپنے دکھڑے روتے تھے اوریہ درد دکھ تمام تر عاشقانہ تھا۔ میں اس میں شاعروں کو دوش نہیں دیتا۔ ان کاماحول ایسا ہی تھا۔ ان کی چھوٹی سی دنیا تھی ہی کچھ اس طرح کی۔ اردو شاعری صحیح معنوںمیں درباری شاعری تھی اور دربار بھی کیسا؟ مٹے ہوئے بادشاہوں اور پٹے ہوئے نوابوں کا دربار! ہماری اردو غزل کاسارا نقشہ درباری ہے۔ معشوق کے دروازے پر دربان ہے پاسبان ہیں اور اندرون خانہ ایک رقیبوں کی جماعت ہے جو لگانے بجھانے میں مصروف ہے۔ معشوق خود پورا نواب ہے خود مختار‘ مطلق العنان فرماں روا ہے جس کا جب چاہا سر اڑا دیا۔ محفل سے نکلوا دیا۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے: دربار عام ہے کہ ستمگر کی بزم ناز میںبھی مرا رقیب بھی آیا گیا بھی ہے یہ شاعری بڑی حد تک مصنوعی قسم کی شاعری تھی۔ شاعر دنیا اور اس کی حقیقت مسائل ملی اور روزمرہ کی ضروریات کو نظر انداز کر کے ایک خیالی دنیا آباد کر رہے تھے۔ یہ شاعری زندگی کے چہرے کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بلکہ زندگی سے اپنی آنکھیں بند کر چکی تھی۔ زندگی سے دور بھاگ رہی تھی مگر زندگی سے دور بھاگنا بھی ایک حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کوئی خوفناک شے نہیں جس سے گھبرا کر بھاگنا چاہیے۔ جب کسی ملک کی شاعری عا م طورپر اس قسم کی ہو تو معلوم ہوتاہے کہ ملک کی حالت بہت پسندیدہ نہیں ہمارے اردو شاعروں کا رونا دھونا اور یاس بھرے مضامین میں کوئی اتفاقی امر نہیں جسے دیکھو یہی کہتا ہے کہ : شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے گک جن شاعروں کو درباری سے نفرت تھی وہ تصوف کی پناہ میں ا ٓ گئے اور نیم راہبانہ زندگی بسر کرنے لگے۔ مگر یہ تصوف اور یہ عاشقی دونوںپختہ نہ تھے کیونکہ اس زمانہ میں ہر شعبہ خیال نامکمل تھا۔ غدر سے پہلے کی ہندوستانی سماج تغیر کی حالت میں تھی۔ شاعری غزل کی صورت میں ہوتی تھی۔ اور غزل نام ہے بکھرے ہوئے اشعار کا۔ درباروں میں اور زوال آمادہ سماج میں مسلسل خیالات اور غور و فکر کی گنجائش کیسے ہو سکتی تھی؟ اقبال نے بھی شاعری کی ابتداغزل سے کی‘ جذبات اور محسوسات کو تیز کرنے والے متفرق اشعار سے: سو سو امید بندھتی ہے اک اک نگاہ پر ہم کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی اس قسم کے اشعار لیکن اقبال ان سطحی لذتوں سے جلد اکتا گیا۔ اسے ہنگامی حسن پرستی کی حقیقت بہت جلد معلوم ہو گئی۔ اور وہ اس سطح سے گزر کر زندگی کی گہرائیوں میں اتر آیا۔ اسے آگاہی ہو چکی تھی کہ زندگی اور ادب جدا نہیں کیے جا سکتے۔ ان میں ایک بنیادی پیوستگی ہے۔ ادب آخر کار اساسی طورپر الفاظ پر مبنی ہے۔ جس طرح موسیقی آواز پر مصوری رنگوں اور خطوں پر … اور الفاظ اور زبان سماج کی پیداوار ہیں ذرائع ہیں جن سے ہم دوسروں تک اپنے آپکو پہنچاتے ہیں اپنی ترجمانی کرتے ہیں ذرائع ہیں جن سے ہم دوسروں تک اپنے آپ کو پہنچاتے ہیں اپنی ترجمانی کرتے ہیں مگر آج کل ہماری زندگی میں اس قدر پیچیدہ ہے کہ ہم ان بنیاددی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آپ سوچیں ایک مزدور جو کارخانہ میں ایک پرزے کو گول کر رہاہے اسے اس وقت یہ احساس کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ پرزہ اور پرزے مل کر ارور اسی طرح کے ہزاروں لاکھوں پرزے مل کر ہزاروں لاکھو ں آدمیوں کی متحدہ محنت سے ایک بڑی توپ بن جائے گی۔ اور وہ توپ ہزاروں آدمیوںکی موت کا باعث ہو گی۔ شاید انہی آڈمیوں کی موت جنہوں نے اس توپ کو بنایا یہ واقعہ ہے کہ جنگ عظیم میں درہ دانیال میں جن توپوں سے ترکوں نے انگریز فوجوں پر آگ برسائی وہ توپیں انگریزی کارخانوں میںبنی ہوئی تھیں۔ لیکن توپیں تو بری بڑی موٹی ٹھوس چیزیں ہیں۔ اگر ہم ان کی اصل بنیاد کو بھول سکتے ہیں تو ادب اور زندگی کے جوڑ کو بھول جانا بعید از قیاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کئی نقاد فن برائے فن کی رٹ لگاء یجاتے ہیں۔ مگر سب شاعر اور نقاد اس قسم کے نہیں ہوتے۔ جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے نے شاعری اور ادب کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اپنے ماحول کا پورا پورا احساس اور اس کی زندہ ترجمانی کا نام ہے گوئٹے تو زمانہ حال کا آدمی ہے۔ انیسویں صدی میں زندہ تھا۔ ہو مر اپنی مشہور رزمیہ نظموں کے آغاز میں دعا کرت اہے کہ اسے حقیقت کی ترجمانی کی توفیق عطا ہو حقیقت کی ترجمانی ماحول کا احساس‘ صداقت کا اظہار یہ ہے ادب کا مقصد یہ وہ مقصد ادب ہے جس کا اقبال کا بہت جلد احساس ہوگیا۔ اور ہر چند اقبال کے فلسفہ اور نظام فکر میں بہت سے انقلابات آتے رہے مگر اس کا نظریہ شاعری ہمیشہ کے لیے یہی رہا۔ ۱۹۰۲ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک اقبال نے ادب اور زندگی کو ایک لمحے کے لیے مختلف نہیںکیا عاشقانہ تغزل اور داخلی شاعری سے خارجی شاعری تک جسے ن جانے کیوںفلسفیانہ کہا جاتا ہے۔ ی ہے اقبا ل کی نظریہ شاعری کا ارتقا… اور یہ ترقی اقبال کی شاعری نہیں بلکہ تمام ہندوستانی شاعری کی تدریج و ترقی کا خلاصہ ہے۔ حالی کے وقت تک یہ بدعت سمجھی گئی مگر اقبا ل نے اپنی شاعرانہ شخصیت کے زور سے اس بدعت کو اردو شاعری کا بنیادی اصول بنا دیا۔ گویا یہ جواب تھا غالب کی فریاد کا جو اس نے غزلیہ شاعری سے تنگ آ کر درباری شاعری کے بندھنوں سے گھبرا کر بلند کی: بقدر ذوق نہیں ظرف تنگ نائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے اقبال نے وسعت بیاں کے لیے مناسب ظرف مہیا کیا اور پھر جب غزل بھی لکھی تو اسے خیال کا پابند کیا۔ خیال کو غزل کا پابند نہیںکیا۔ (راوی لاہور‘ اقبال نمبر ۱۹۳۸ئ) ٭٭٭ شیخ اکبر علی اقبال کی شاعری میں آرٹ کا تصور خویش را از خود بروں آوردہ اند ایں چنیں خود را تماشا کردہ اند آرٹ اقبال نے ہمیں اچھے برے کی ایک پہچان بتائی ہے۔ جو چیز انسان میں قوت پیدا کرے و ہ اچھی ہے اور جو اس کے عزم میں کمزوری پیدا کر دے وہ بری ہے۔ اگر اسی معیار سے آرٹ کو بھی جانچا جائے تو اس کا کام بھی انسان کی ذات کی تقویم ہونا چاہیے۔ اقبال کہتا ہے: آگہی از علم و فن مقصود نیست غنچہ و گل از چمن مقصود نیست علم از سامان حفظ زندگی است علم از اسباب تقویم خودی است علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات آرٹ کا جدید مفہوم اقبال کے نزدیک جدید آرٹ کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھیڑوں کا وہ حسن ہے جس کے سحر نے کسی شیر پر نیند طاری کردی ہو اوریہ کہ آرٹ میں اس قدر جذبات پرستی داخل ہو گئی ہے کہ اس کو صرف اس کی خاطر ہی سراہا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ وہ پستی ہے جسے عہد حاضر کے لوگ تہذیب و اخلاق کہتے ہیں۔ ’’اسرار خودی‘‘ میں شاعری کی حقیقت اوراسلامی ادب کی تجدید کے سلسلے میں وہ لکھتا ہے: اے میان کیسہ ات نقد سخن بر عیار زندگی او را بزن آرٹ حسن ہے اور وہ آرزو پیدا کرتا ہے آرٹ حسن ہے اور اقبا ل سمجھتا ہے کہ آرٹسٹ کا کام حسن کا اظہار ہے۔ سینہ شاعر تجلی زار حسن خیزد از سینائے او انوار حسن از نگاہش خوب گردد خوب تر فطرت از افسون او محبوب تر اور وہ ہمیں بتاتا ہے کہ حسن کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہمارے دلوں میں کوئی تمنا کوئی خواہش کوئی آرزو پیدا کرے کیونکہ: حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست یوں اقبال آرٹ کو حسن کا ایک اظہار سمجھتاہے جس کا کام آرزو اور محبت کی تخلیق ہے جس سے عالم وجود کی روشنی ہے اور اس کی نامعلوم ممکنات کی ترقی کا انحصار ہے وہ کہتا ہے: زندگی مضمون تسخیر است و بس آرزو افسون تسخیر است و بس زندگی صید افگن و دام آرزو حسن را از عشق پیغام آرزو گویا آرٹ خود ایک منزل نہیں ہے بلکہ منزل تک پہنچنے کا محض ایک وسیلہ ہے یہ وہ قوت ہے جو حرکت پیدا کرتی ہے اور یہ حرکت ختم ہونے والی نہیںہوتی۔ آرٹ جذبات پرست نہیں ہونا چاہیے ایک اور بات جس پر اقبال اس ضمن میں زور دیتا ہے کہ آرٹ میں محض جذبات پرستی نہیںہونی چاہیے اور آرٹسٹ کو فلاطوں جیسے لوگوں کی تقلید نہیں کرنی چاہیے ۔ جو درحقیقت انسانوں کے بھیس میں بھیڑیں بکریاں ہیں کیونکہ: فطرتش خوابید و خوابے آفرید چشم ہوش او سرابے آفرید آرٹ روح پرور اور حیات بخش ہونا چاہیے نہ کہ افیون کے دریا میں غرق آرٹ کا اکم حقیقت کو متشکل کرنا ہے۔ آرٹ کو اتنی بلندیوںپر پرواز نہیں کرنا چاہیے کہ پھر اس کے لیے اپنے مسکن میں آنا ممکن ہوجائے بلکہ اسے نیستاںکی ایک نے کی طرح مجنوں کی طرف لیلیٰ کا پیغام لانا چاہیے۔ آرٹسٹ کو اس شہباز کی طرح ہونا چاہیے جو بلندیوں پر پرواز کرتا ہے لیکن اپنا شکار حاصل کرنے کے لیے کبھی نیچے بھی اترتاہے۔ اقبال کا اپنا آرٹ اس معیار کا اتنا مطابق ہے کہ وہ زندگی اور ’’اس کے ظہور کا بیان موت کی زبان سے بھی ادا کرنے سے احتراز نہیںکرتا۔ ا س کی نظم خفتگان خاک سے استفسار‘‘ جس میں اس نے موت کی دنیا پر تبصرہ کرتے ہوئے زندگی کا تذکرہ کیا ہے اس کی ایک مثال ہے۔ آرٹ ایک ذریعہ تعلیم ہے صحیح آرٹ کا ایک اور پہلو اقبال کے نزدیک تعلیمی او ر تبلیغی ہے وہ کہتاہے : کچھ جو سنتا ہوں تو اوروں کو سنانے کے لیے دیکھتا ہوں کچھ تو اوروں کو دکھانے کے لیے حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے آرٹسٹ کو معاشرہ کی آنکھوں کا درجہ دے دیا ہے۔ آرٹ نفس کا آئینہ ہے اس کے علاوہ وہ آرٹ کو بالکل ایک ذاتی چیز سمجھتا ہے۔ اس کے قول کے مطابق یہ کسی چیز کا سطحی خاکہ نہیں بلکہ آرٹسٹ کے اپنے احساسات کی تصویر ہونا چاہیے۔ اسے ایک فوٹو نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک تصویر‘ کیونکہ اول الذکر ایک بالکل بے جان شے ہے اور دوسری میں زندگی سانس لیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ مغربی آرٹ میں سر بہ سرخار جیت سمائی ہوئی ہے۔ مغرب میں آرٹ کسی چیز کے ایک ہو بہو مرقعے ایک نقل کا نام ہے جان اس میں بالکل نہیں ہوتی۔ آرٹ کو روح پرور زندہ زنگی بخش اور حسین صرف ذاتی احساسات کاموقلم بنا سکتا ہے۔ اقبال اپنے کلام میںشروع سے لے کر آخر تک بیرونی اشیاء کے ذریعے اپنے قلبی احساسات بیان کرتا ہے۔ خواہ وہ ہمالیہ سے خطاب کرے خواہ شمع سے خواہ رات سے خواہ خفتگان خاک سے خواہ وہ بادلوں پر نظم لکھے یا موٹر کار پر وہ ہمیشہ اپنے ذاتی احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے آرٹ ایمائی ہے ایک اور پہلو جس کا اظہار اقبال کرنا چاہتا ہے یہ ہے کہ آرٹ ایمائی ہے۔ مغرب کی کوشش یہ ہے کہ کسی چیز کی ہو بہو نقل پیش کرے۔ اس کے مدنظر صرف ذہانت ہے اور انسانی قلب پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ وہ محنت کو کم کرتا ہے اور یوں مشکلات کی غیر موجودگی سے لطف اٹھاتا ہے۔ لیکن اقبال مشکلات اور محنت کا دلدادہ ہے اور وہ بہت کچھ قلب کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ آرٹ میں خلا ہونا ضروری ہے اوریہ قلب کا کام ہے کہ اس خلا کو پر کرے اقبال کا شعر ہے: برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائی است حدیث خلوتیاں جز بہ رمز و ایما نیست بجائے اس کے کہ آرٹ صریح ہو اسے ایسا ہونا چاہیے کہ وہ دل کی گیند کو لڑھکاتا پھرے اوراس کا کام نہ صرف دل میں سنسنی پیدا کر دینا ہے بلکہ اس کو درہم برہم کر دینا بھی ہے۔ آرٹ اور آرٹسٹ کا مقصد آرٹ کسی بیرونی شے کا غلام نہیں ہے بلکہ یہ خود آرٹسٹ کے اعلیٰ اور بلند جذبات کا اظہار ہے۔ اس لیے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم جس چیز کی تصویر کھینچیں وہ ہماری تمام تر توجہ اپنے اندر جذب کر لے بلکہ اسے اس کے بنانے والے کے قلب کی دھندلی روشنی میں نظر آنا چاہیے آرٹ میں کسی خارجی شے کا وجود محض تقریب کے طور پر موجود ہونا چاہیے۔ لیکن اصل مواد ہمیشہ آرٹسٹ کے حقیقی جذبات پر مشتمل ہوناچاہے جیسا کہ بندوق کے چلنے کا اصل سبب بارود ہے۔ اگرچہ شعلہ اسے چلاتا ہے۔ اہمیت آرٹسٹ کو حاصل ہے۔ ان اشیا کو نہیں جن کے متعلق آرٹسٹ اپنے خیالا ت کا اظہار کرتاہے اقبال کہتاہے : تو قدر خویش ندانی بہا ز تو گیرد وگرنہ لعل درخشندہ پارہ سنگ است اسی خیال کو اس نے ایک اور طرح بھی ادا کیا ہے وہ کہتا ہے: بہار برگ پراگندہ را بہم بربست نگاہ ماست کہ بر لالہ رنگ و آب افزود غلام اور آزاد اقوام کے آرٹ کا مقابلہ ’’زبور عجم‘‘ میں اقبال نے ایک خاص باب غلام اقوام کے فنون کیلے وقف کیا ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ فن تعمیر صرف آزاد قوم کا حصہ ہے۔ اور اس لیے غلام اقوام اس سلسلے میں نہ صرف موسیقی اور مصوری کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان کی موسیقی موت کا راگ ہے اور وہ ایک بیوہ کے نالہ و فغاں سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کی شاعری ایسی ہے کہ اس کے الفاظ دیکھتے ہی ہماری ساری توجہ کو جذب کر لیتے ہیں۔ لیکن آزاد لوگوں کے روح افزا نغمے ہمیں الفاظ میں نہیںالجھایت بلکہ ان معانی تک لے جاتے ہیں جو ان کی تہ میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اقبال رومی کو یوں پیش کرتاہے: معنی آں باشد کہ بستاند ترا بے نیاز از نقش گرداند ترا شاعری کے فن کو انسان میں ایسا ذوق پیدا کر دینا چاہیے کہ وہ الفاظ کی بہتی ہوئی آبجو کے کنارے پر کھڑا نہ رہے بلکہ اس میں غوطہ لگا کا اس کے پوشیدہ معنی کی منزل تک پہنچ جائے ۔ ایک غلام مصور کے کا م میں کوئی ذاتی جوہر نہیں ہوتا اسے اپنی ذات پر کوئی اعتماد نہیں ہوتا ہے۔ وہ طلسم اشیاء کی سطحی خلیج کو عبور کر کے ایما و تخیل کے ساحل پرنہیں پہنچ سکتا۔ وہ ہر نئے خیال پر کانپ جاتا ہے اور پرانی وضع کی ہوئی ڈگر پر چل دیتا ہے۔ غلام آرٹسٹ کی ذہانت و قابلیت کی رہبری عوام الناس کا ذوق کرتاہے‘ اور اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اس معیار کو حاصل کر کے لو مقبول عام ہے خواہ وہ کتناہی پست کیوں نہ ہو۔ حسن تو وہ شے ہے جو ہمارے اپنے نفس میں موجود ہوتا ہے لیکن ایسا آرٹسٹ اسے فطرت سے مستعار لے کر اس کی ایک نقل تیار کرتا ہے۔ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ لے لیتا ہے لیکن جسے اسے لینا چاہیے اور جو اس کے قلب میں پوشیدہ ہے اسے حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی ذات کو واقعیت کے اظہار کے لے وقف کر دیتا ہے لیکن ا س سے آگے نہیں جا سکتا۔ حالانکہ آرٹ کا اصل کام یہ ہے کہ وہ واقعیت کو تخی کے آسمان تک پہنچا دے اور یہ وہ جوہر ہے جو غلام آرٹسٹ میں قطعاً موجود نہیں ہوتا۔ واقعیت کا ارتفاع یہاں میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ واقعیت کو کس طرح بلند کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اقبال کی اردو نظم میری دعا میں سے میں ایک شعر پیش کرتا ہوں وہ کہتا ہے: ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو جو باتیں اس شعر میں بیان کی گئی ہیں ایک پہاڑ ہے جو اک دلفریب منظرپیش کر رہا ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہاں چشمے اور نہریں بھی ہیں اوران نہروں میں موجیں بھی اٹھتی ہیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آس پاس کی اشیا کا عکس پانی پر پڑ رہا ہے یہاں شعر نے ان حقیقتوں کی اصلیت تبدیل نہیں کی اور ان میں کسی قسم کا تصنع پیدا نہیں کیا شاعر نے ان واقعتوں کو ایک مرکب تجربے میں یکجا کر دیا ہے اور ان کو ایک ایسی شکل دے دی ہے جس میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس نے اپنے تصور کے ذریعے سے ان کو اپنایا ہے کہ اس منظر کے ایک خاص اسلوب مشاہدہ پر زور پڑتاہے۔ یہاں شاعر نے واقعیت میں بلندی پیدا نہیں کی اس خاص نقطہ نظر کی تحسین کی ہے جس سے اس منظر کو ہمیں دیکھنا ہے پانی کی موجوں کا اٹھ اٹھ کر کوہستان کے دلکش نظارے کو دیکھناجب یہ نقش شاعر ہمارے شعور پر منتقل ہوتاہے تو منظر کو ایک مثال اورعدیم النظیر چیز بن جاتا ہے مشاہدہ اس طرح ایک مثالی دنیا کا واقعہ نظر آتا ہے ایک اور نقطہ نظر سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان دو مصرعوں میں شاعر نے ہمارے مشاہدے کومثالی اور عینی نہیں بنایا بلکہ موجوں کے اٹھ اٹھ کر دیکھنے کو بلند کر دیا ہے ۔ پہاڑ کو ہر آدمی دیکھتا ہے اور اس کے حسن سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ لیکن جب اسکو موجوں کی تخیلی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہی منظر پہلے سیہزار گنا خوبصورت ہو جاتا ہے۔ ہر آرٹسٹ کو لازم ہے کہ وہ اسی طرح شدید واقعتوں کو اپنے تخیل کے ذریعہ سے بلد کرے اور جب وہ ایسا کرتا ہے تو اقبال کے بقول: حور او از حور جنت خوشتر است منکر لات ومناتش کافر است سچ ہے واقعیت جب اس اعلیٰ و ارفع دنیا میں پہنچ جاتی ہے تو وہ ایک بت بن جاتی ہے۔ اور ہر شخص کو لازم ہے کہ اس بت کے آگے اپنا سر خم کرے ورنہ یہ سمجھا جائے گاکہ وہ آرٹ جیسی نعمت سے محروم ہے۔ تخیل آرٹ کی روح ہے یہ واقعیت کا درجہ بلند کر دیتی ہے اقبال کہتا ہے : آں ہنر مندے کہ بر فطرت فزود راز خود را بر نگاہ ما کشود نتیجہ غرض حقیقی آرٹ حسن کا وہ اظہار ہے جس کا مقصد اس کی خواہش کی تخلیق ہے جو اپنے ساتھ محبت اورزندگی لائے۔ ا س کاکام یہ ہے کہ یہ انسان کی ذات کو قوت اور ترقی کی طرف لے جائے اقبال کہتا ہے : ’’تمام انسانی سرگرمیوں کا انتہائی مقصد زندگی ہے پرشوکت‘ پرقوت‘ مالا مال زندگی‘ تمام انسانی آرٹ کے پیش نظر یہی مقصد ہونا چاہیے اور ہر چیز کی قدر اس کی حیات بخش قابلیت کے مطابق ہونی چاہے ۔ بلند ترین آرٹ وہ ہے جو ہماری سوئی ہوئی قوت ارادہ کو بیدار کرے اور جو زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہم میں قوت پیدا کرے۔ ہر وہ چیز جو نیند لاتی ہے جو ہماری آنکھیں بند کر دیتی ہے اور ہمیں ااس پاس کی چیزیں دیکھنے نہیں دیتی جس کو قابو میں لان یہی پر زندگی کا انحصار ہے ۔ زوال اور موت کا پیغا م ہے۔ آرٹ کی خاطر آرٹ کا واہمہ تنزل اور ادبار کی ایک عیارانہ ایجاد ہے جو زندگی اور قوت کی طرف سے بہکا کر ہمیں دوسری جانب لے جاتی ہے‘‘۔ (ادبی دنیا لاہور ‘ ۱۹۳۴ئ) ٭٭٭ پروفیسر حمید احمد خاں اقبال کاشاعرانہ ارتقاء ہمارے ملک کے ادبی اور سیاسی حلقوں میںاقبال کی شاعری کے متعلق ایک قول عام طور پر دہرایا جاتاہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اقبال شروع میں ایک وطن پرست شاعر تھا لیکن اپنے دور آخر میں قریب اس کے خیالات میںایک شدید انقلاب پیدا ہوا جس کا نتیجہ یہ نکال کہ اس نے ایک خاص فرقے اور ایک خاص مذہب کی ترجمانی کو فرض قرار دے لیا اکثر غلط نظریوں کی طرح اس قول ی تہ میں بھی صداقت کا ایک نمایاں شائبہ موجودہے۔ اس لیے کہ دور اول اور دور آخر کے اقبال میں ایک خاص امتیاز ضرو ر نظر آتا ہے۔ مگر اس امتیاز کی جو تاویل کی جاتی ہے وہ ادبی تنقید کو سیاسی مصلحتوں کے بھینٹ چڑھا دینے کی ایک زندہ مثال ہے اول تو یہی غلط ہے کہ دور اول کے اقبال میں صرف عشق وطن نظر آتا ہے۔ اور عشق مذہب دکھاء نہیں دیتا پھر پہلے اور آخری دور میں فرق کو ایک ذہنی انقلاب کا نام دینا اور بھی غلط ہے۔ اس مختصڑ سے مقالے میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جس کیفیت کا اقبال کے قلب ماہیت سے منسوب کیاجات اہے وہ دراصل اس کی اولین شاعرانہ فطرت کے ارتقاء کیایک ناگزیر منزل تھی۔ اقبال کی شخصیت کا دور حاضرہ کے سیاسی و عمرانی ماحول سے ٹکرانا لازماًیہی منطقی نتیجہ پیدا کر سکتا تھا کہ وہ اس خاص منزل کی طرف جادہ پیما ہوتا۔ اقبال کی فطرت کا وہ عنصر جسے ایک ذہنی انقلاب کانام دیا گیاہے اس کی عمر کے چالیسویں اور پینتالیسویں سال کے درمیان نمایاں ہوا۔ مگر اس کو یوں بیانکرنا کہ اس نے وطن کے دیوتا سے منہ موڑ کر قوم کے سنگھاسن کے سامنے سر جھکا دیا واقعات کو غلط طور پر دیکھنا ہے۔ اس کیفیت کی مثال مذہب تبدیل سے نہیں دی جا سکتی یہ ایک صاحب جوہر ہستی کا اپنی تقدیر کی اس انتہائی منزل کی طرف اٹل کوچ ہے۔ جس سے اس کا رخ دراصل ایک لمحے کے لے بھی نہیں پھرا تھا۔ برنارڈ شاہ نے کسی جگہ کہا ہے کہ صاحب جوہر وہ شخصہے جو اہم اور غیر اہم کے درمیان امتیاز کر سکے۔ جوہر قابل کی اس تعریف میںایک خاس بنیادی حقیقت چھپی ہوئی ہ۔ کہ اس کی عقابی نگاہ مرکزی حقائق اور اہم امور کو سب سے پہلے تاکتی ہے۔ اقبال جوں جوں اقبال بنتا گیا اور تقدیر کے پردے اس کی نگاہ کے سامنے پھٹتے چلے گئے اسی قدر وہ اپنے آپ کو واقعات کی دنیا کے قریب تر پاتا گیا ۔ ۳۔ حالی اور کبر کے بعد سے آج تک ہمارے بڑے ادیبوں میںسے شاید ہی کسی کانام لیا جا سکے۔ جس نے تخیلات کی دنیا میں بے غل و غش پڑے رہنے پر قناعت کی ہو اور دور حاضر کے ہنگامہ سیاست و مذہب میںشامل ہو کر آشوب واقعت سے کسی قسم کا ربط پیدا نہ کیا ہو۔ پھر اقبال جیسی لبریز حیات شخصیت کا اپنے گردوپیش کے حالات سے بے نیاز رہنا کس طرح ممکن تھا۔ مخزن کے پہلے پرچے میں جس اقبال نے کوہساتن ہمالہ پر اپنی نظم شائع کی اس کے سینے میں ابھی وہ نور پوری طرح نہیں چمکا تھا۔ جس نے اسے پیغمبر کرد و پیمبر نتواں گفت کا مصداق ٹھہرایا ۴ لیکن اس کے بعد جلد ہی نیا شوالہ لکھ کر اس نے ظاہر کر دیا کہ اس نے اپنے مقصد زندگی کو پا لیا ہے جس وقت ا س کی روح امنڈ کر اس نظم میں آئی زمانے نے دیکھ لیا کہ اس کے دست و باو میں ضرب کلیم کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے: یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ اس کے بعد پیغمبری کی یہ راہ اس کی نظروں سے کبھی اوجھل نہیں ہوئی ہندوساتان کے بعدایشیا جس کی زبان بن کر اس نے یور پ کو اپنی وہ مشہور دھمکی دی تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ اور ایشیا کے بعد مذہب کی راہ سے ایک عالم گیر انسانی اخوت کے عالم تک پہنچنا بالکل قرتی تدریجات تھیں۔ اقبال ملٹن کی طرح اپنی قوم بلکہ تمام عالم انسانی کو ایک بلند نصب العین کی طرف لے جانے کے لیے آیا تھا۔ شیکسپئر اور غالب کی طرح انسانی فطرت کے اسرار و رموز اور واردات قلبی کی تصویر کشی کا کام نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسنے اپنے ظہور کے ساتھ عشق و محبت کے بیان میںجو غزلیں لکھی ان میں کہیں بھی اس عظمت کی جھلک نظر نہیں آئی جو اس کی بعد کی نواہائے تیز کے لیے مقدر ہو چکی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عملی طور پر وہ اس کوچے سے ناآشنا نہ تھا اور ارضٰ محبت کے لحاظ سے اسکے تجربہ حیات سے کسی دوسری شاعرسے کم وسعت نہ تھی۔ باایں ہمہ جس حقیقت کی ترجمانی ک لے وہ مامور ہوا تھا اس کے بیان کے ساتھ قلب انسانی کے واردات و کیفیات کی مصوری کی گنجائش نہ تھی شاعری سے کہیں زیادہ پیغمبری اس کی شخصیت کا جوہر تھی وہ ایک ایسے چمکتے ہوئے سیارے کے مانندتھا جو ہر لحظہ نئے بروج و افلاک کی طرف مصروف خرام رہتاتھ۔ا اس کا ہم ترین وظیفہ حیات انسانی زندگی کو بہتر اور بلند تر بنانا تھا۔ ہندوساتن اور مشرق اور اسلام اس کے پیغمبرانہ اضطراب کے مختلف زینے تھے۔ لیکن خواہ وہ نیچے کے زینے پر کھڑا نظر آئے یا اوپر کے زینے پر ہر رگ میں زندگی کا ایک معمار ہے۔ اس کی گزشتہ چالیس سال کی سرگرمیاں دراصل ایک ہی سرگرمی کے مختلف پہول ہیں شروع میں ہندوستا ن پھر ایشیا اور پھر تمام کائنات اسلام کی تعمیر کو وہ اپنے حلقہ عمل میں شامل سمجھتا ہے ۔اس کی حرکت کا دائرہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ مگر اس ارتقاء میں کوئی تناقض نہیں کوئی نام نہاد انقلاب کہیں نظر نہیںآتا۔ اس کے طلوع و ظہور کے تین افق ایک ہی آسمان کے تین افق ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کے یہ تین دور کون سی خصوصیات کے حا مل تھے جن کی روشنی میں اس تقسیم کوئی کوئی مفہوم پہنانا ممکن اور جائز معلوم ہو۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ سہ گانہ ارتقاء دراصل ایک ہی حرکت حیات کا تدریجی انکشاف تھا۔ سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کس بنا پر اس انکشاف نے یہ تین منازل اختیار کیے اقبال کی شاعری کا دور اول جو شاعر کے قیام یورپ کے ساتھ اختتام کو پہنچتا ہے صرف ایک خاص ذہنی استعداد یا شائد یہ کہنا بہتر ہو کہ ربط حیات کے ایک خاص ملکے کا سراغ دیتا ہے۔ یہاں ہم اس ذوق ہنگامہ سے دوچار ہوتے ہیںَ جو حوادث و مصائب کو ٹھوکر مار کر دعوت پیکار دیتا ہے۔ اور جسے آگے چل کر اقبال کی عمارت کے کونے کا پتھر بننا ہے۔ غزل اور نظم میں جگہ جگہ یہ خاص ذہنی بلکہ اپنے نشان دیتا چلا جاتا ہے: لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے با ایں ہمہ زندگی کے ساتھ ابھی وہ گہرا ربط پیدا نہیں ہوا کہ کوئی خاص نظام عمل اقبال کے سامنے ہو۔ وہ مقامی اثرات میں محصور ہے اور زیادہ تر اپنے ملک کے کوہ و دریا کا ذکر کرتا ہے۔ اسلام کی گزشتہ عظمت کی داستان سناتا ہے ۔ یتیموں کے دکھڑے کہ کر روتا اور رلاتا ہے۔ یا ہندوستان کی پھوٹ کاماتم کرتا ہے۔ یورپ پہنچ کر اسے ایک نئی اوروسیع دنیا نظر آئی۔ اب اسے پہلی مرتبہ احساس ہوتاہے کہ زندگی اور اس کے مسائل کیا ہیں۔ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مقامی امور ہی حیات انسانی کے مہمات مسائل نہیںہیں۔ جس جھگڑے میں فیصلہ زیادہ ضروری ہے وہ اشیا کی پسماندہ اقوام اور یورپ کی شہنشاہیت پسند نسلوں کا جھگڑا ہے۔ اب پہلی اہم اور غیر اہم کے درمیان اسے وہ امتیاز کرنا پڑتا ہے۔ جو ایک صاحب جوہر ہستی کی پہلی پہچان ہے۔ زندگی کے حقائق سے پہلی مرتبہ اس کی ٹکر ہویت ہے اور کچھ کام کرنے کی خواہش اسے اس قدر بے تاب کر دیتی ہے کہ وہ شعر گوئی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دینا چاہتا ہے۔ خوش قسمتی سے چند ذی فراست احباب اسے اس ارادے سے باز رکھتے ہیں۔ لیکن ربط حیات کا وہ ملکہ جو اب تک عالم تخٰل سے باہر نہیں آیا تھا۔ قوت سے فعل میں آنے کے لیے مضطرب ہے۔ عملی زندگی کی پیچیدگیاں اب اسے گہری سوچ بچار کی مستحق معلوم ہوتی ہیں۔ مشرق و مغرب کا باہمی تعلق قوموں کا عروج و زوال ملکوں کی معاشرتی سیاسی اور اقتصادی ارادت سب شدت کے ساتھ اس کے غور و فکر کو دامن گیر ہوتے ہیں یہاںپہلی مرتبہ اسکے ذہن پر یہ نکتہ روشن ہوتا ہے کہ زندگی ایک رزم گاہ ہے جس کے سپاہی کا سب سے تیز ہتھیار استحکام نفس ہے حقیقت یہ ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد دس سال جن میں اقبال نے اپنا عظیم الشان عمرانی فلسفہ تعمیر کیا دیار فرنگ میں ربط واقعات کی اسی کیفیت کا لازمی نتیجہ تھے۔ اب اقبال کے سانے زندگی کے کارخانے کی تمام جزئیات اور تفصیلات تھیں اور وہ ان کے متعلق ایک خاص طرز خیال اور نقطہ نگاہ کی نشوونما کر رہاتھا شمع اور شاعر اردو میں اس دور ثانی کی بہترین یادگار ہیں۔ لیکن اس زمانہ تعمیر و تشکیل کا بلند ترین مظہر فارسی کی دو مثنویاں ہیں۔ ’’اسرار خودی‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ اقبال کی آنے والی عظمت کی نشانیاں ہی نہیں بلکہ اسکی عظمت و جلالت کا قطعی ثبوت ہیں اپنے شاعرانہ ارتقا کے اس دوسرے دور میں اقبال نے زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق ایک پختہ اور مستحکم نقطہ نظر بڑی وضاحت کے ساتھ پیدا کر لیا ہے۔ اب صرف حالات و واقعات کی دنیا پر اس نقطہ نظر کا اطلاق کرنا باقی ہے۔ اس کام کو اقبا ل نے اپنے تیسرے دو ر میں سرانجام دیا ۔ یہ تیسرا دور شاعر کے آخری سولہ یا سترہ سال کے عرصہ پر حاوی ہے۔ ایک خاص طبقے کی رائے میں یہی اقبال کی زندگی کا قابل اعتراض زمانہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تیسر ادور دوسرے دورکا لازمی تتمہ ہے جس سے کسی صورت مفر نہ تھا۔ اگر ہم تیسرے دور پر اعتراض کریں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں یہ تو گوارا ہے کہ اقبال ایک خا ص نوعیت کے نظریات عمل بڑی وضاحت اور شدت کے ساتھ وضع کرے لیکن جونہی وہ ان کا بیان و واقعات و حقائق کی روشنی میں کرے تو وہ ہمیں ناقابل قبول معلوم ہونے لگتے ہیں۔ اردو میں طلو ع اسلام اور فارسی میں پیام مشرق اس دور کے اولین نقیب ہیں۔ اس دور میں اقبال عام اصول و نظریات کے بیان پر اکتفا نہیںکرتا۔ وہ خاص خاص واقعا ت یا خاص خاص شخصیتوں کا نام بہ نام ذکر کر کے حالات حاضرہ پر اپنے خاص نقطہ نگاہ کے ماتحت تنقید کرتا ہے۔ اب اس نے واقعات کی دنیا سے براہ راست تعلق پید ا کر لیا ہے۔ اور وہ اس پر دنیا پر اپنے خیالات کا عملی اطلاق کرنا چاہتا ہے۔ عرصہ ہواا جب طلوع اسلام شائع ہوئی تو بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اس نظم کی شاعر کی تخیل کو کچھ ضعف آتا ہوا معلوم ہوتا ہے یہی شکایت انہوںنے اقبال سے بھی کی جس کا جواب انہیں یہ ملا کہ جو پیغام میں دینا چاہتا ہوں وہ اب میرے لیے بالکل واضح ہو گیا ہے۔ میں عربی شاعری کی تقلید میںاب بالکل صاف صاف اور سیدھی باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ طو ع اسلام کے بعد اقبال کے لیے اظہار مطلب آرائش گفتارسے زیادہ اہم رہا۔ اس تیسرے دور کے آغاز میں فارسی زبان کی طرف جو توجہ شروع ہوئی اس کی غیر شعوری وجہ یہ شاید یہی تھی کہ روز مرہ کے واقعات کا بیان اردو میں بے رنگ اور پھیکا معلوم ہوا اور فارسی میں بہ آسانی ایک زیادہ موثر پیرا یہ بیان میسر آ سکا۔ اگریہ تاویل درست تسلیم کر لی جائے تو غالب اور اقبال کی شخصیتوں کے فرق کے باوجود یہ عجیب اتفاق ہے کہ دونو ں نے ایک ہی قسم کے اسباب کی تحریک پر علی الترتیب تیس اور پینتالیس کی عمر میں اردو سے علیحدہ ہو کر فارسی گوئی کو اپنا شاعرانہ دستور بنا لیا۔ طلوع اسلام اور خضر راہ سے قطع نظر اقبال نے اپنے اپنے مضامین پہلے صرف فارسی میں ادا کیے۔ پھر جب پیام مشرق زبور عجم اور جاوید نامہ کی مشن سخن نے اس خاص طریق بیان میں پختگی پیدا کر دی‘ تو خود بخود اردو کی رجوع ہوا چنانچہ با ل جبریل میں عربی شاعری کی سادگی اور حسن بیان دونوں بیک وقت موجود ہیں۔ لیکن اسدور کی شاعر ی کا انداز بیان ہی صاف صاف نہیں بلکہ مضمون بھی کھرے کھرے اور ذرا سخت ہیں۔ گزشتہ سال ایک ہندو فاضل نے ایک محفل میں جہاں میں بھی موجو د تھا‘ شکایت کی کہ مغربی تہذیب کے اقبال کانقطہ نظر سخت گیرانہ اور ضرورت سے زیادہ منتقمانہ ہے۔ میںنے اس جواب میںان سے صرف یہی کہاتھا کہ اقبال کے لیے یورپ کا تسلط کوئی علمی مسئلہ نہیں۔ اس لیے اس منزل میں ہر چیز عملی زندگی کا ایک ہنگامہ ہے۔ اس لیے اس قسم کی ہر چیز کے متعلق اس کانقطہ نظر ایک ایسے شخص کا نقطہ نظر ہے جو واقعات سے عملاً دوچارہے۔ اقبال کا نرم سے نرم قول یورپ کے متعلق یہ ہے: تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے انداز جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو ایک اور بات جو اکثر معرض بحث میں لائی جاتی ہے۔ اقبال کے دور آخر کی سیاسیات ہیں۔ دراصل ہندوستان میں ابھی تک ہندو اور مسلم سیاسیات کا علیحدہ وجد بڑی شدت سے قائم ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتوں میںقوت و اقتدار کا وہ توازن قائم نہیںہوا۔ جس کانتیجہ باہمی اعتماد ہو۔ آزادی وطن کے متعلق کانگرس کا نصب العین بلا شبہ بلند ہے لیکن موجود ہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اکثر مسلمان اس پر آمادہ نہٰں ہیں کہ ہندوستان کے اسلامی مفاد کوقطعاً کانگرس کی صوابدید کے حوالہ کر دیں۔ اقبال کا ذوق حرکت و عمل اس تیسرے دور میں اسے کھینچ کر خود بخود سیاسیات تک لے آیا تھا۔ اگراسے ہندوستانی سیاسیات سے محض علمی بحث ہوتی تو وہ ہر قسم کے جماعتی نزاع سے بالا تر رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ تو عملی طور پر زندگی سے ربط پیدا کرنے کے لیے مضطرب تھا۔ اس لیے جماعتی سیاسیات کے اس دور میں اس کا کسی نہ کسی جماعت میں شامل ہونا ناگزیر تھا۔ وہ ملت از وطن کے جغرافیائی اور نسی تصور سے بہت بلند ہو چکا تھا ۔ اس لیے سچ پوچھیے تو کانگرس کی صفوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کے اسلامی اشتراکی نظریات نے اس کے اس میلان کواور تقویت پہنچائی تھی۔ اب اس کی ہمہ گیر بین الاقوامیت نسلی یا وطنی حدود میں محصور نہیں رہ سکتی تھی۔ اقوام شرق سے اس کا خطاب تھا۔ کہ عالم انسانی کا یہ حصہ اپنی خودی کھو بیٹھا تھا۔ اور اسی طرح مغربی شہنشاہیت کے پنجہ میں اسیر تھا۔ جس طرح سرمایہ کی گرفت میں اقبال کا فلسفہ حیات اسے محض ایک مسلمان گھرانے میںپیدا ہونے کی رعایت سے نہیں بلکہ قدرتی ارتقا کی تین منزلوں میں سے گزرتے ہوئے روحانی طور پر اس کو اسلام کے قریب لے آتا تھا۔ میرا اپنا عقیدہ یہ ہے کہ کانگرس کا سیاسی نصب العین کچھ اس سے بھی زیادہ بلندمعلوم ہوتا ہے۔ تب بھی اقبال پسماندہ جماعت سے کبھی اپنا نہ نہ پھیرتا جس کے مذہبی نظام نے اس کے فطری نصب العین کی طرف اس کی رہنمائی کی تھی: دریوزہ گر آتش بیگانہ نہیں میں یہی وجہ تھی کہ ایشیا اور ہندوستان کی سیاسی تقدیر کے حل کے لیے اقبال مسلم سیاسیات سے وابستہ ہوا۔ لیکن پہلے اورتیسرے دور میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ربط واقعات کی جس منزل کی طرف وہ دور اول میں روانہ ہوا تھاوہ لازماً اسے یہیں پہنچانے والی تھی۔ اب بھی وہ یہ کہتا ہے: ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی مگر اب و ہ وطن کے نام پر لوگوں کو خودی اور آزادی کی منزل کی طرف نہیں پکارتا۔ اس تصور کو وہ بہت پیچھجے چھوڑ چکا ہے۔ اب وہ اپنے نصب العین کی انتہائی بلندی کو واقعات کی دنیا سے دوچار دیکھنا چاہتا ہے اس دور کا اقبال خیال اقبال نہیں ‘ عملی اقبال ہے۔ اور اگر سیاسیات میں قدم رکھنا اس کے لیے لازم تھا تو اس کے مخصوص نصب العین کے لیے سیاسیات کا کوئی رنگ مسلم سیاسیات سے زیادہ موزوں نہیں تھا۔ ٭٭٭ عزیز احمد اقبال کی شاعری میں حسن و عشق کا عنصر جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں فیض ساقی شبنم آسا ظرف دل دریا طلب تشنہ دائم ہوں آتش زیرپا رکھتا ہوں میں محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوںمیں (اقبال) ۱۔ نفسیاتی رجحانات حسن سے متاثر ہونے کی صلاحیت ہر انسان میں کم و بیش موجود ہے اور اسی طرح حسن میں محو ہو جانے اور حسن کی طرف کھنچ جانے یا حسن کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت بھی انسانی فطرت کا ایک عنصر ہے۔ شاعر میںیہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ جذبات اس قدر عمیق اور اس قدر وسیع ہوتے ہیں کہ جب ان کو جوش آتا ہے تو وہ اس کی ذات میں سما نہیں سکتے اور الفاظ اور نغمے بن کر ابل پڑتے ہیں۔ حسن شاعر کے جذبوں پر چھا جاتا ہے۔ اور جذبوں میںایک تپش ‘ ایک جوش ایک بیتابی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بیتابی عشق ہے اور جب یہ بیتابی اس کے قلب کی لطافتوں اور اس کے دماغ اور ادراک کی مدد سے الفاظ و معانی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ تو شعر بن جاتی ہے۔ اسی لیے اگر عشقیہ شاعری کی صحیح تعریف کی کوشش کی جائے تو صرف انہی الفاظ میں اس کی تعریف کی جا سکے گی کہ وہ ایک انسان کے لطیف احساسات اور بے چین جذبات کا عکس ہے اور اگر یہ عکس بے ساختہ پڑے تو شاعری حقیقی اور سچی ہے۔ اور اگر اس میں رنگ بھرنے کی کوشش کی جائے یا کوئی اور مصنوعی دلکشی پیدا کی جائے تو عکس اگر خوبصورت ہو اس میں وہ فطری حقیقت باقی نہیں رہ گے‘ جس طرح عشق ایک اضطراری جذبہ ہے اسی طر ح عشقیہ شاعری میں بھی اضطرار کی جھلک ہونا ضروری ہے اور یہی اضطرار شعر میں وہ کیفیت پیدا کر دیتا ہے کہ شعر ’’متحرک‘‘ ہو جاتا ہے۔ عشقیہ شاعری دل کی شاعری ہے ۔ اور اقبال دل سے زیادہ دماغ کے شاعر ہیں۔ عشق ان کے نزدیک ایک اضطراری چھا جانے والا محو کر دینے والا جذبہ نہیں‘ جس کا جادو انہیں۔ اور ان کی پوری ہستی کو مسحور کر دے۔ عشق ان کے نزدیک ایک حقیقت ہے اور وہ اس حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کے پورے کلام میں ایک نظم بھی ایسی نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ جذبات کے افسوں سے اس قدر مسحور ہیں کہ فطرت ان سے خود بخود لکھو ا رہی ہے۔ عشق ان کی شاعری کا ’’باعث ‘‘ نہیں ’’مقصد‘ ‘ ہے۔ ’’عشق‘‘ کا جوتصور اقبال کے ذہن میں ہے وہ ایک مستقبل اور عظیم الشان حقیقت کا تصور ہے۔ اور اس حقیقت کی جستجو‘ اور اس کو دیکھنے اور اس تک پہنچنے کی کوشش اس امر کو ظاہر کرتی ہے کہ شاعر کی ہستی اس حقیقت سے بالکل الگ ہے۔ کلیم دور سے طور کے شعلوں کو دیکھ رہا ہے اور ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس تصور نے اقبال کے عشقیہ کلام میں دو خصوصیتیں پیدا کر دی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عشق ہمیشہ ایک فلسفیانہ مبحث بنتاگیا۔ دوسرے شاعری لطافت ’’سادگی اور پرکاری‘‘ نازک اور لطیف شعریت جو دل پر اثر کرنے والی شاعری کی جان ان کے عشقیہ کلام میں تقریباً مفقود ہے۔ اقبال شاعری کے لیے ہمیشہ ایک ’’مقصد‘‘ کو اپنا منتہائے نظر بنائے رہے۔ خود ’’شعر‘‘ کی اہمیت ان کے مقصد میں زیادہ نہیں تھی۔ ان کا پیغام الفا ظ کی طرح جذبات سے بھی ’’ماورا‘‘ رہا۔ اور ہر وہ شاعر جو پیغا م لے کر آتا ہے محض جذبات کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک قوم ایک جماعت کے جذبات کا رہبر ہوتا ہے۔ محض اس پیغام کے اثر سے اقبال کی عشقیہ شاعری میں ذاتی اور شخصی رنگ ہمیشہ پھیکا رہا ۔ جہاں انہوںنے عشق کے جذبے سے اپنے ذاتی تاثر کا اظہار کیاہے اور ان کی شاعری پھیکی اور بے مزہ ہو گئی ہے۔ لیکن جہاںانہوں نے عشق کا بلند اور پاکیزہ تر تصور ایک قوم کے لیے لائحہ عمل بنا کر پیش کیا ہے وہاں اس میں رفعت اور بلندی پیدا ہو گئی ہے۔ اسی شان رہبری نے عشق کو ان کے نزدیک ایک تصور بنا کر پیش کیا ہے۔ ایسا تصور جو ایک شخص نہیں بلکہ ایک قوم کی جذباتی اور روحانی زندگی کو گرماسکے۔ عشق اقبال پر چھا نہیں جاتا۔ وہ حسن کو دیکھنے اور عشق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ان کا زاویہ نظر اس قدر ہمہ گیر ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اسے ایک پوری قوم کا زاویہ نظر بنا سکیں۔ ۲۔ اقبال کے کلام میں حسن و عشق کے عنصر کی نشوونما اقبال کے مشن سخن کے زمانہ میں داغ و امیر کا طوطی ہندوستا ن میں بول رہا تھا ۔ ’’زبان‘‘ کی خوبیوں کی طرف شعر فہموں اور شاعروں کی توجہ تھی‘ اور گویا شاعری برائے نا م عشقیہ شاعری تھی مگر اسی کی وجہ سے عشقیہ شاعری کا صحیح مفہوم مٹ چکا تھا۔ ’’غزل‘‘ جب اردو میں آئی تو تصنع بھی اس کے ساتھ آیا۔ اور جہاں تصنع کا زور ہوا جذبات کی صحت ختم ہو جاتی ہے۔ لفظی خوبیاں‘ جب شاعری کا اصول بن جاتی ہیں تو جذبات کے فطری اظہار کی شاعری میں صلاحیت نہیں رہتی۔ اردو شاعری سے شعر کی روح پرواز کر چکی تھی۔ مردہ جسم کی آرائش جاری تھی۔ اور مصری ممی کی طرح طرح طرح کے مسالے لگا کر اس جسم کو باقی رکھنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ اس ماحول میں اقبال نے شاعری شروع کی۔ لیکن اسی ماحول کے ساتھ ساتھ ایک نیا ماحول بھی پیدا ہو گیا تھا۔ اور وہ سرسید اور حالی کا پیدا کیا ہوا ماحول تھا۔ مغربی شاعری کے اثرات بھی پڑنے لگے تھے۔ اقبال کی ابتدائی غزل گوئی میں داغ کا رنگ بہت نمایاں ہے۔ داغ سے انہوںنے اصلاح بھی لی تھی اور داغ کے وہ بہت معترف تھے۔ داغ کے مرنے پر انہوںنے ایک نوحہ بھی لکھا تھا۔ امیر کی شاعری کا بھی ان پر کافی اثر تھا۔ خود لکھتے ہیں: عجیب شے ہے صنم خانہ امیر اقبال میں بت پرست ہوں رکھ دی کہیں جبیں میں نے اقبال کا تغزل بے روح اور بے رنگ تھا۔ ابتدا سے لے کر آخر تک کبھی ان کی غزلیں حقیقت کا خفیف سا اثر بھی پیدا نہ کر سکیں کہیں ان میں لطف اور سوزوگداز نہیں۔ بعد کی غزلوں میں فلسفیانہ خیالات نے اور علو تخیل نے جا بجا جذبات کے فقدان کی تلافی کی ہے مگر عشقیہ رنگ کہیں نہ نبھ سکا۔ لیکن وہ دوسرا ماحول جو اقبال کی شاعری پر اپنا اثر ڈال رہا ہے۔ یعنی حالی اور سرسید کا ماحول بہت کامیابی کے ساتھ اقبال کو اپنے آپ میں جذب کر سکا۔ وہ مغربی شاعروں کے کلام کا مطالعہ کر تے رہے۔ اور ان کا اثر بھی ان پر پڑتا رہا۔ اور رفتہ رفتہ اس بے روح تغزل اور اس حقیقت سے عاری شاعری کا ایک شدید ردعمل اقبال کی قومی‘ اخلاقی اور ان کی نظموں میں ظاہر ہونے لگا جو انہوںنے مناظر قدرت یا قدرت کے اہم اجرام کو دیکھ کر یا ان سے مخاطب ہو کر لکھیں۔ اس زمانے میں اقبال کے ذہنی ارتقا کے مطالعہ کے سلسلے میں ایک بہت اہم چیز معلوم ہوتی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عشق کے جذبے کو ان کی فطرت سے جذباتی مناسبت سے زیادہ ذہنی مناسبت تھی۔ سب سے زیادہ جن مغربی شاعروں کا ان پر اثر ہوا وہ گوئٹے ورڈزورتھ شیکسپئیر اور گرے تھے۔ ان میں کوئی خالص جذباتی شاعرنہ تھا۔ ہر ایک دل سے زیادہ دماغ کا شاعر تھا۔ اس اثر سے اقبال کیا س نفسیاتی کیفیت کا پتہ چلتا ہے ان پر عشق جذبہ بن کر نہیں چھا سکتاتھا۔ فلسفے کے مطالعہ نے جہاں اقبال کے تمام تر زاویہ ہائے نگاہ کو ایک مستقل اور مکمل حیثیت دے دی وہاں حسن و عشق کے متعلق بھی ایک خاص نقطہ نظر کی تعمیر کی ۔ فطرت ہی نے انہیں جذبات پرست طبیعت عطا نہیں کی تھی‘ فلسفے کے مطالعہ سے جو ذہنی ارتقاء ہوا۔ اس نے عشق اور حسن کے مطالعے کو ان کی شاعری میں بجائے جذبے کے ایک ’’فکر‘‘ بنا دیا اور جس طرح نیم فلسفیانہ اور نیم شاعرانہ فکر سے وہ زندگی کی اہم خصوصیتوں کو دیکھنے اور پرکھنے لگے‘ انہوںنے عشق کو بھی اور پرکھنا شروع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال کی شاعری کا اہم ترین مقصد قومی شاعری تھی۔ عشق کے متعلق ان کا تصور تشکیل پا رہا تھا لیکن ابھی یہ تصور ’’پیغام‘‘ نہیں بنا تھا۔ وطنیت اور قومیت ان کے اہم ترین پیغام تھے۔ یورپ جانے کے بعد ان کے نقطہ نظر میں بہت اہم تبدیلی ہونے لگی۔ وطنیت جو ان کی شاعری کے پہلے دو رکا پیغام تھا ان کو باطل نظر آنے لگا تھا۔ اسلامیات کے مطالعے اور گوناگوں مختلف اور متضاد اثڑات سے ایک نئے پیغام نے ان کی ہستی کو گھیرنا شروع کر دیا تھا۔ پان اسلامی تحریک ان کو اس حد تک متاثر کر گئی کہ وہ وطنیت کے جوش کو بھول گئے اور یہ پان اسلامی تحریک جو مادی اور روحانی دونوںپہلوئوںپر مشتمل تھی ان کی ہستی میں ایک اہم انقلاب پیدا کرنے لگی۔ یہ ان کے قیام یورپ کا زمانہ تھا۔ وطنیت کے تخیل کو وہ باطل قرار دے چکے تھے اور پان اسلامزم کا اثر مستقل اور مکمل طور پر چھانے نہیں پایا تھا اور اس زمانے میں جب کہ ان کی ذات میں ان کی ہستی میں نئی تعمیر ہو رہی تھی ایک نئے تخیل اور نئے تفکر کی دنیا بن رہی تھی۔ ان کی شاعری نسبتاً کم اہم اور ذاتی اور شخصی احساسات کے اظہار کا ذریعہ بن سکی۔ ان کی شاعری کا اصل مقصد یعنی ان کا ’’پیغام‘‘ ابھی مکمل نہیں ہو ا تھا اسی لیے ان کی شاعری اس زمانے میں بڑی حد تک اہم تھی شخصی اور ذاتی آزادی کے متعلق اشعار کہے ۔ ان میں سے کسی نظم میں درد و اثر یا حسن و لطافت کی گرمی پیدا نہ ہوسکی۔ عشق کا مغربی اثر ان کی شاعری پر پڑا۔ یہ اثر جو شخصی اور مجازی تھا۔ کبھی تو مجازی جذبے کے شخصی اظہار کی صورت میں (مثلاً… کی گود میں بلی کو دیکھ کر)ٰ کبھی مغربی نظموںسے متاثر خیالات کی شکل میں (مثلاً حسن اور زوال) نمودار ہوا۔ یہ اثر محض ایک شاعر کی دقتی مشقوں سے بڑھ کر نہیں۔ لیکن عشق کے متعلق جو نظمیں انہوںںے اس زمانہ میں لکھیں یعنی جن میں ذاتی تاثر زیادہ نمایاں نہیں اور جن کی تحریر مقصد رکھتی ہے۔ ان میں سے اکثر نظمیں باعتبار تخیل بہت بلند ہیں۔ پان اسلامزم کے اثرات جو اقبال کے ذہن پر چھا رہے تھے اور ان کی شاعری کا مذہب بن رہے تھے اسی زمانے میں دومختلف طریقوںسے ان کا کلام کے عشقیہ عنصر پر اثر اندا ز ہوئے۔ ایک تو یہ کہ ان کے کلام میں مولانا روم کے اثر اور تصوف کے رنگ کی ابتدائی چاشنیاں جا بجا پیدا ہونے لگیں۔ دوسرے یہ کہ عشق مجازی کی بھی مشرقی اور اسلامی حسن کا تخیل اور تصور ایک روحانی معیار بننے لگا۔ یہ تصوف سب سے پہلے ایک مکمل اور دلکش اثر کی شکل میں سلیمی کی تحریر کا باعث ہوا: جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ ہیں نے خورشید میں قمر میں تاروں کی انجمن میں صوفی نے جس کو دل کے خلوت کدے میں پایا شاعر نے اس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں صحرا کو ہے بسایا جس نے سکوت بن کر ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا آنکھوں میں ہے سلیمی تیری کمال اس کا سلیمی عرب کی پرانی محبوبہ ہے۔ اور شاعر حقیقت کے کیف و مجاز میں تخیل کر کے مشرقی شاعری کی روایت کو جس میںمجاز و حقیقت ہمیشہ ایک دوسرے میںعیاں اور نہاں ہوتے ہیں ایک نئے اور جدید رنگ سے زندہ کرتا ہے۔ عشق حقیقی کے عناصر کی نشوونما پر ہم آگے چل کر روشنی ڈالیں گے۔ اس زمانہ کی عشقیہ شاعری کی چند اور خصوصیات کا ذکر ضروری ہے۔ ہر عشقیہ نظم میں اس کا احساس ہوتا ہے۔ کہ جذبہ دل سے نہیں نکلا۔ تخیل ہمیشہ نظم کی تشکیل کا باعث نظر آتا ہے۔ جذبے میں جوش نہیں اثر نہیں حقیقت نہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک غیر معمولی دماغ رنگین کھلونے بنا رہا ہے اور ان سے تفریحاً کھیل رہا ہے۔ ممکن ہے کہ اکثر نظموں کی تہ میں کوئی واقعہ یا مشاہدہ یا حقیقی قلبی کیفیت کام کر رہی ہو‘ لیکن کسی طرح ٰہ واقعہ یامشاہدہ یا قلبی کیفیت ایسی نہیںہوتی کہ جو اقبال کو بالکل مست کر گئی ہو یا گرما گئی ہو۔ اگر ان پر کوئی اثر پڑا ہے تو وہ اس سے ضرورت سے زیادہ شعری کام لینا چاہتے ہیں۔ جذبے کے فقدان کے باعث باوجود تخیل کی رفعت کے زبان اور تناست کا جامہ جا بجا چاک ہو جاتا ہے۔ زبان کی فطری سادگی فطری جوش اور فطری اصلیت کی سب سے زیادہ ضرورت عشقیہ شاعری میں ہوتی ہے۔ اور اقبال کو زبان پر بالکل اختیار نہیں۔ ایک مصرع میں اگر جوش اور اثر ہے تو دوسرا بالکل پھس پھسا ہے۔ ضرورت شعری کے لیے ٹکڑے ٹکڑے زبردستی بھرے ہوئے ہیں۔ الفاظ کا انتخاب بالکل غلط ہے اور وہ تناسب جو شاعری کے جسم کے لیے کسی حسینہ یا کسی حسین مجسمہ کے جسم سے زیادہ ضروری ہے اور تقریباً مفقود ہو جاتا ہے۔ اقبا ل نے بانگ درا کی شاعت کے سلسلہ میں اکثر نظموں پر نظر ثانی کی۔ اور یو پی کے نقادوں کے بے پناہ اعتراضات سے کم سے کم اس حد تک متاثرہوئے کہ زبان کی چنداہم لغزشیں دور کر دیں۔ پھر بھی عشقیہ نظموںکی حد تک یہ تبدیلیاں کافی نہیں ہوئیں۔ جوش اور اصیلت کے لیے زبان کی اس قدر صفائی کا فی نہیں تھی۔ مثال کے طور پر ان کی مشہور اور ایک حد تک دلفریب نظم ’’حسن و عشق‘‘ کا پہلا بند یہ ہے: جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر جیسے ہو جاتاہے گم نور کا لے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہمرنگ کنول جلوہ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم موجہ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم ہے ترے سیل محبت میں یوں ہی دل میرا پہلے مصرعے میں وہ سلاست اور وہ روانی اور بے ساختگی نہیں جو ایک لطیف جذباتی نظم میں ہونا چاہیے دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ آنچل اس وجہ سے بہت بے محل ہو گیا ہے۔ کہ پوری نظم کے لہجہ میں رفعت اور شوکت پائی جاتی ہے۔ اوریہ لفظ جو کسی زیادہ مادی نظم میں بہار دے جاتا اس نظم میں باوجود اس کے کہ خالی آنچل نہیں نورکا آنچل ہے نظم کی فضا میں ایک اجنبی سا معلوم ہوتا ہے۔ اور اس ٹکڑے کی وجہ سے تخیل کے رنگ میںایک ناہموار شوخی سی پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن بعض جگہ یہی نظم ان بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے کہ داد نہ دینا ظلم ہے: تو جو محفل ہے تو ہنگامہ محفل ہوں میں حسن کابرق ہے تو عشق کا حاصل ہوں میں میرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے تیری تصویر سے پیدا میری حیرانی ہے حس کامل ہے ترا عشق ہے کامل میرا مطالعہ فطرت اور حسن و عشق کے عناصر فطرت کا مطالعہ اقبال کی شاعری کے اولین اور بنیادی عناصر میں سے ہے۔ ان کا مطالعہ فطرت بھی جذباتی نہیں۔ ذہنی ہے۔ فطرت سے ان کی قوت ادراک مستفید ہوتی ہے۔ اقبال کی شاعری کے حسن پرست اور عشقیہ عنصر پر ان کے مطالعہ فطرت کا اثر ہونا ضروری تھا۔ سب سے زیادہ جس حسن نے اقبال کے قلب و ادراک پر اثر ڈالا ہے وہ فطرت کا حسن ہے۔ فطرت کے مختلف عناصر سے مخاطب ہو کر یا ان کے متعلق اقبال کی نظمیں لکھی ہیںَ مطالعہ فطرت کی حد تک ورڈز ورتھ کا اثر اقبا ل پر بہت گہرا پڑا۔ فطرت میںوہ دو چیزیں دیکھتے ہیں۔ ایک تو فطرت کے ایک مظہر کا تعلق اور ربط دوسرے مظہر ہے۔ یہ فطرت کی ایک عاشقانہ کیفیت ہے دوسرے انسان اور فطرت کا موازنہ یہاں وہ ورڈز ورتھ کو چھوڑ کر مولانا روم اور متصوفین کے زیر اثر آ جاتے ہیں‘ جن کے نزریک انسان فطرت کا مظہر ہے۔ چانچہ ان کی دو نظمیں جن میں حسن و عشق کے احساسات مطالعہ فطرت کا نتیجہ ہیں دو قسم کی ہیں۔ ایک تو وہ کہ جن میں وہ فطری عناصر کی باہم محبت یا کسی مظہر فطرت کے حسن یا کسی کے عشق سے نتائج کا استخراج کرتے ہیں اوران سے حسن اور عشق کے معیار انسانوں کے لیے تعمیر کرتے ہیں۔ ان نظموں میں فطرت انسان کے معیار حسن و عشق اور ترغیب عشق کے لیے نمونے اور مثال کا کام دیتی ہے مثلاً ’’جگنو‘‘ کی چمک سے وہ حسن کے اس تصور تک پہنچتے ہیں: حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل جو پھول کی جھلک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہو یا مثلاً ’’غنچہ ناشگفتہ اور آفتاب‘‘ میں سحر کے ’’عازمین رنگین‘‘ کی جلوہ فرمائی پر کلی کا ’’سینہ زرین‘‘ کھول دینا انسانی عشق کی اس دعوت کا بہانہ بن سکتا ہے کہ : مرے خورشید‘ کبھی تو اٹھا اپنی نقاب بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بے تاب تیرے جلوہ کا نشیمن ہو مرے سینے میں عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں اور اس کے بعد انشراح کی یہ کیفیت منقلب ہو جاتی ہے: اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں جان مضطر کی حقیقت کو نمایاں کر دوں دل کے پوشیدہ خیالوں کو بھی عریاں کر دوں دوسری قوم کی وہ نظمیں جن میں مطالعہ فطرت حسن و عشق کے عناصر کی تحریک کا باعث ہوا ہے وہ ہیں جن میں اقبال یہ محسوس کرتے ہیں کہ فطرت کا حس سوز ہے فطرت میں محبت کا شرر نہیں۔ فطرت میں اور انسان میں بھی یہ چیز مابہ الامتیاز ہے ۔انسان کو عشق نے ’’حرارت سوز دروں‘‘ عطا کیے۔ انسان میں جلنے اور جلانے کی صلاحیت موجود ہے اور یہی وہ چیز ہے کہ جو انسا ن کو تمام مظاہر فطرت کے بالا تر قرار دیتی ہے ۔ مظاہر فطرت کی زندگی فانی ہے انسان عشق کی وجہ سے باقی ہے۔ انسان کو محبت کے باعث زندگی دوام حاصل ہے۔ ’’ستارہ صبح‘‘ جب اپنی بے ثباتی کا شکایت کرتا ہے تو اقبال اپنے ریاض سخن کی جان پرور فضا میں بلاتے ہیں کہ: میں باغباں ہوں محبت بہار ہے اس کی بنا مثال ابد پائے دار ہے اس کی یا مثلاً انسان اور بزم قدرت میں بزم قدرت انسان سے کہتی ہے : ہے ترے نور سے وابستہ مری بود نبود باغباں ہے تری ہستی پئے گلزار وجود انجمن حسن کی ہے تو‘ تری تصویر ہوں میں عشق کا تو ہے صحیفہ تری تفسیر ہوں میں ۴۔ حسن و عشق کے متعلق فلسفیانہ نظمیں اقبال کی دو نظمیں ایسی ہیں جن میں سے ایک میں محبت کی تعمیر کا نیم شاعرانہ اورنیم مفکرانہ مطالعہ کیا گیا ہے‘ اور دوسری میں( جس کا خیال جرمن نثر سے لیا گیا ہے) زوال حسن اور کائنات پر اس زوال کے حزینہ اثر اک ہلکا سا مطالعہ ہے۔ ان دونوں نظموں یعنی محبتت ارو حسن اور زوال میں گہرا خیال ہے۔ تہ میں ایک مقصد کام کر رہاہے ‘ ان نظموں کی بنیاد واقعات کے تجربے پر رکھی گئی ہے‘ اسی لیے بہت وسیع معنوں میں انہیںفلسفیانہ نظمیں کہا جا سکتا ہے: ان میں سے ’’محبت‘‘ میں عشق کی آفرینش کا ایک مخصوص تصور پیش کیا گیا ہے عشق ایک سرمدی راز تھا جو انسان کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ مگر اس مخلوق نے جس میں عبودیت کے ساتھ بغاوت کی صلاحیت ہمیشہ سے موجود تھی اس راز کو معلوم کر لیا۔ فطرت کی کیفیتوں اور روح خالص کی مختلف خاصیتوں سے یہ نسخہ تیار ہوا۔ ستارے سے چمک چاند سے داغ جگر رات سے سیاہی‘ بجلی سے تڑپ ‘ شبنم سے افتادگی لی گئی ۔ اور اس کے ساتھ ہی نفسہائے پیہم اور شان ربوبیت سے ادائے بے نیازی کے اثرات لیے گئے۔ اس طرح محبت کی تعمیر ہوئی اور صرف انسان ہی نہیں پوری فطرت اس نور سے جگمگا اٹھی: خرام ناز پایا آفتابوں نے ستاروں نے چمک غنچوں نے پائی باغ پائے لالہ زاروں نے دوسری نظم یعنی’’حسن اور زوال‘‘ کا بنیادی تخیل باہر سے لیا گیا ہے‘ مگر پوری نظم یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اقبال نے اس حقیقت کو خود محسوس کر کے لکھا ہے۔ اس نظم سے دو جداگانہ حقیقتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حسن اور زوال لازم و ملزوم ہیں: ہوئی ہے رنگ سے تغیر سے جب نمود اس کی وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی دوسری حقیقت یہ یہ کہ فطرت کے ہر حسین مظہر کا زوال زوال حسن کا ماتم بھی ہے: بھر آئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے کلی کاننھا سا دل خون ہو گیا غم سے چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا اقبال کی اردو شاعری میں تصوف کی جھلک حسن اور عشق کے تصور او ر تخیل میںاقبال کے پختہ تر زوایہ نظر کا پتا ان نظموں میں چلتا ہے جن میں ایک عالمگیر حسن یا ایک عالمگیر حقیقی عشق کا تصور ان کا محرک ہوتا ہے۔ حسن و عشق کی نظموںمیں یہ نظمیں سب سے زیادہ بلند ہیں۔ اور ان نظموں سے اس اقبال کا اندازہ ہوتاہے جو آگے چل کر اسرار خودی اور رموز بے خودی زبور عجم اور جاوید نا مہ لکھنے والا تھا۔ مولانا روم کا اثر اقبال پر اسی قدر ہے‘ جس قدر اثر پلو تارک کا شیکسپئر پر تھا دنیا کا ہر شاعر ان کے لیے صرف دیکھ لینے کی چیز ہے مگر مولانا روم کا اثر ان پر اس قدر چھایا ہوا تھا کہ بڑٰ حد تک وہ مولانا کی روشنی میں دنیا کے زیادہ اہم تر مسائل کو دیکھتے ہیں۔ ’’شمع‘‘ میں یہ اثر پہلی مرتبہ کھلم کھلا ظاہر ہوتاہے۔ اقبال نے زندگی کو سمجھنے کے لیے مشرق اور مغرب دونوں کے فلسفے کا مطالعہ کیا۔ بہت مدت تک ان کو حقیقت اور سکون کی جستجو رہی بہت دنوں تک ذوق استفہام ان کو پریشان کر تا رہا۔ پھر جب ان کو سکون ملا تو تصوف میںملا‘ غزالی میں نہیں‘ مولانا روم میں۔ اس جستجو اور کاوش کا مکمل ترین اظہار ’’بچہ اور شمع‘‘ کے آخر حصے میں ہوا ہے صرف ظاہری حسن کی نمود شاعر کو تسکین نہیں دے سکی۔ روح کسی اور سکون کے لیے بے تاب ہے۔ محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن حسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہر کی ضو گستری شب کی سیہ پوشی میں ہے چشمہ کوہسار میں دریا کی آزادی میں حسن شہر میں صحرا میں ویرانے میں آبادی میں حسن روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثل جرس حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے اس جستجو کے بعد تسکین نصیب ہوتی ہے۔ تو اس تخیل میں جو مولانا رو م نے پیش کیا ہے شمع میں وہ کیفیتیں جو مثنوی معنوی میں معراج کمال کو پہنچ گئی ہیں جابجا منعکس نظر آتی ہیں: صبح ازل جو حسن ہوا دلستان عشق آواز کن ہوئی تپش آموش جان عشق مجھ سے خبر نہ پوچھ حجاب وجود کی شام فراق صبح تھی میرے نمود کی وہ دن گئے کہ قید سے میں آشنا نہ تھا زیب درخت طور مرا آشیانہ تھا قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوںمیں غرب کے غمکدے کو وطن جانتا ہوں میں یاد وطن فسردگی بے سبب بنی شوق نظر کبھی کبھی ذوق طلب بنی اے شمع حال قیدی دام خیال دیکھ مسجود ساکنان فلک کا مال دیکھ باندھا مجھے جو اس نے تو چاہی مری نمود تحریر کر دیا سر دیوان ہست و بود گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے بندش اگرشہ ست ہے مضموں بلند ہے چشم غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے عالم ظہور جلوہ ذوق شعور ہے یہ سلسلہ زبان و مکاں کا کمند ہے طوق گلوئے حسن تماشا پسند ہے منزل کا اشتیاق ہے گم کردہ راہ ہوں اے شمع میں اسیر فریب نگاہ ہوں صیاد آپ حلقہ دام ستم بھی آپ بام حرم بھی طائر بام حرم بھی آپ میں حسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یانیاز ہوں ہاں آشنائے لب ہو نہ راز کہن کہیں پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں اس نظم میں فطرت کا کوئی منظر اقبال کی نظر کے سامنے نہیں شمع جو مشرقی شاعری کے لوازمات سے ہے ایک نئے نور کے ساتھ ان کے تخیل میں جل رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ اس سے خیرہ کن نور حاصل کر رہے ہیں دوسری طرف اسے ایک نئی روشنی عطا کر رہے ہیں۔ اور یہ منزل اقبال کے کلام میں حسن و عشق کے عنصر کی آخری منزل ہے۔ یہ منزل ان کی شاعری کے پختہ تر مذہب پان اسلامزم میں جا کر ضم ہو جاتی ہے اور مشرق کے لیے روحانی پیغام بن کر ان کی فارسی شاعری میں ایک نئی روشنی اختیار کر تی ہے اور اس روحانی پیغٓم میں عشق کا تصور وہی ہے جو متصوفین اور سالکین کا ھا۔ مگر بالکل نئے رنگ میں مغر ب سے کامل اکتساب نور کر کے مغرب کی مادیت کے خلاف اس پیغام کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اقبال کی شاعرانہ نفسیاتی نشوونما کی جو منزل آتی ہے اس میں عشق اور عمل باہم مل جاتے ہیں۔ ’’پیام مشرق‘‘ ’’زبو ر عجم‘‘ کے بعض حصوں اور ’’جاوید نامہ‘‘ میں عشق اور عمل کے مشترک اور کامل مشرقی تصور سے مشرق کو دوبارہ زندہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ (مجلہ عثمانیہ ‘ 1938ئ) ٭٭٭ محی الدین قادری زور اقبال کا اثر اردو شاعری پر اقبال ایک عہد آفریں شاعر ہیں ۔ ان کے کلام سے اردو شاعری کا متاثر ہونا لازمی ہے۔ لیکن ہم سے زیادہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں اس اثر کو ٹھیک طور پر متعین کر سکیں گی۔ کسی شاعری یا ادیب کی زندگی میں اس کی خدمات کا کامل اندازہ مشکل سے کیا جا سکتا ہے‘ خاص کر اقبال جیسے شاعر کی خدمات کا جس کی ذہنی دنیا میں اب تک کئی انقلاب آئے اور جس کا ہر نیا کارنامہ ایک نئے رنگ میں رنگا ہوا منظر عام پر آتارہا۔ اقبال کی شاعری ان کے قلب و دماغ کی کشمکشوں کی آئینہ دار ہے۔ انہوںنے اپنے جدید مجموعہ کلام میں اپنی نسبت بالکل ٹھیک لکھا ہے : اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی مگریہ اردو شاعری کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے شاعر اعظم کا سوز و گداز اور پیچ و تاب بیکار نہین ثابت ہوا۔ اقبال کی شاعری کا ہر دور ایک نئی بہار لے کر آرہا ہے ۔ ان کی فطرت پرستی ‘ وطن دوستی‘ ان کا فلسفہ‘ مولانائے روم سے ان کی والہانہ عقیدت ان کا ذوق آگہی ‘ ان کی تہذیب مغر ب سے بیزاری‘ ان کی جرات رندانہ‘ ان کی فقیری و قلندری‘ غرض ان کے ذہی ارتقا کا ہر پہلو ایک نئی شان سے ان کے کلام میں جلوہ گر ہے۔ وہ جو چاہیںموضوع اختیار کریں ان کا کمال شاعری ہر جگہ نمایاںہیں۔ ان کے قلب و دماغ کی غیر معمولی وسعتیں اور بے پناہ گہرائیاں ان کے ہر طرز کے کلام پر اثر اندا زہیں۔ وہ جس رنگ کا چاہیں جامہ پہن لیں ان کا انداز قدر چھپ نہیںسکتا۔ اقبال کی شاعری کے مختلف دور ان کے کلام کی اہم خصوصیتیں اردو شاعروں میں ان کا رجہ یہ سب ایسے موضوع ہیں جن پر اور اطمینان کے ساتھ کچھ نہ کچھ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کے کارنامے اردو شاعری کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں‘ اور اردو کے جو شاعر ان سے متاثر ہو رہے ہیں وہ ہندوستان کی جدید فارسی فضا میں اس اثر کو کس حد تک باقی رکھیں گے ‘ اور مستقبل کی ضرورتوں کے لحاظ سے اس رنگ میں کس طرح کی تبدیلیاں کریں گے ‘ اس کا صحیح اور کامل اندازہ مستقبل ہی میں ہو سکے گا۔ اس وقت تو یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ خود اقبال اپن اس مسلسل سو ز و ساز اور پیہم پیچ و تاب کی وجہ سے کس منزل پر جا کر ٹھہریں گے؟ اور ان کی شاعری ابھی کس کس طرح کی فن کاریوں سے مزین اور کیسے کیسے کمالات سے بہرہ ور ہونے والی ہے؟ تاہم زراہ امتشال امر اس موضوع پر کچھ نہ کچھ کہنا ضروری ہے۔ اس لیے اردو شاعری کی تاریخ پر آئندہ کے متعلق جو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں‘ انہی کے بل بوتے پر اظہار خیال کرنے کی جرات کی جاتی ہے۔ اردو زبان وا دب کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح واقف ہیں کہ ہماری شاعری اب تک جو مدارج طے کرتی آئی ہے اور جس جس طرح مختلف زمانوںمیں مختلف رجحانات کی حامل رہی ہے وہ زیادہ تر اقبال جیسے عظیم الشان شاعروں ہی کی عہد آفرینیوں کا نتیجہ ہے۔ ابتدا میں اردو شاعر ی مذہبی خیالات کی تبلیغ اور عقائد کی اشاعت کے لیے استعمال کی گئی ۔ چنانچہ بزرگان دین نے عوام کی خاطر اردو میں شعر لکھے جو عام مجالس سماع میں گائے جانے کے علاوہ شرفا کی محفلوں میںبھی مثنوی مولانا روم کی طرح پڑھ کر سنائے جاتے تھے۔ یہ اردو کا ابتدائی دور تھا۔ اس کے بعد ایک زمانہ آیا کہ ہندوستان میں اسلامی حکومت استوار ہو گئی اور استحکام سلطنت کے ساتھ ہی رزم آرائیاں بزم آرائیوں میں منتقل ہونے لگیں۔ ایسے وقت میں گولنڈہ کے اہل ذوق تاجدار سلطان محمد قلی قطب شاہ نے اردو شاعری کے ابتدائی مذہبی رجحان کو ادبی رنگ سے بدل دیا۔ وہ پہلا عظیم الشان اردو شاعر ہے۔ جس نے ہماری شاعری کو جملہ فن کارانہ خصوصیتوں سے مالا مال کر دیا۔ اس کا نام نہ صرف شہر حیدر آباد کا بانی ہونے کی حیثیت سے تاریخ میں زندہ رہے گا بلکہ اردو شاعری کو فارسی کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کرنے کے سبب اور جملہ اصناف سخن میںپہلا اردو دیوان مرتب کرنے کی وجہ سے بھی ہر اردودان سے خراج عقیدت حاصل کرتا رہے گا۔ یہ پہلا استاد سخن تھا جس کے اثر سے ہماری شاعری مذہبی رنگ اور محدود اصناف سخن کی قید سے آزاد ہو گئی اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ محمد علی قطب شاہ کے بعد دوسرا عظیم الشان اردو شاعر جس نے ہماری شاعری کومتاثر کیا ‘ ولی اورنگ آبادی ہے‘ جس کو بابائے ریختہ کہا جاتا ہے اور جس کی عہد آفرینی کی یاد میں گزشتہ سال اسی فرخندہ بنیاد میں دو صد سالہ جشن منایا گیا تھا۔ ولی ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوا جب سلطان محمد قلی کی سلطنت کے ساتھ ساتھ اس کا پیدا کیا ہوا دور شاعر ی بھی ختم ہو رہاتھا۔ ایسے نازک وقت میں اردو کو سنبھالنا اور اردو شاعری کا بول بالا کرنا ولی ہی کی کرامت تھی۔ چنانچہ ولی نے فاتحین کی روزمرے اور دہلی کے لشکر یا اردوئے معلیٰ کی زبان سے مفتوحین کی زبان یعنی دکنی اردو کا امتزاج کیا اور اس طرح اردو دکن کے علاوہ شمال مں بھی شعر و شاعری کے لیے رواج پا گئی ۔ ورنہ اس سے قبل وہاں کی علمی و ادبی زبان فارسی تھی اور اگر اس وقت تک وہاں اردو میں کچھ لکھا بھی گیا تو اس کی حیثیت ویسی ہی تھی جیسی دکن میں محمد قلی کی عہد آفرینی سے قبل کے اردو کارناموں کی تھی ولی کا اثر اتنا ہمہ گیر تھا کہ دہلی کے تمام فارسی گو شاعروں نے ولی کی تقلید میں اردو میں شعر کہنا شروع کر دیا اور یہ زبان جو اس وقت تک بازاروں میں بولی جاتی تھی اورعوام کے اظہار خیال کا ذریعہ تھی خواص کی محفلوں اور ادبی مجلسوں میں باریاب ہو گئی۔ ولی کے بعد مرزا مظہر جان جاناں کی ایسی ہستی تھی جس نے پھر اردو شاعری کو متاثر کیا اور اس کارخ بدل گیا۔ مرزا مظہر نے یہ تحریک شروع کی کہ ولی کی زبان میں شعر کہنے کی بجائے دہلی کے خاص شعراء کو خاص اردوئے معلیٰ کی زبا ن میں شاعری کرنی چاہیے کیونکہ ایک دوسرے ملک کی زبان اورم حاورہ کی تقلید میں کامیابی حاصل کرن غیر فطری امر ہے حضرت جان جاناں کی یہ تحریک آسانی سے کامیاب نہ ہو جاتی اگر میرو سودا جیسے رفیع المرتبت شعرا ان کے خیال پر عمل پیر انہ ہوتے۔ ان دو اساتذہ سخن کا اردو شاعری پر اتنا اثر پڑا کہ اردو زبان سے دکنی عنصر کم ہونے لگا اور چونکہ دکنی الفاظ کو کم کر کے مغلیہ لشکر یا اردوئے معلی کے الفاظ اور محاورے رائج کیے گئے تھے اس لیے ان کی زبان کا نام ہندوستانی باقی نہ رہا بلکہ زبان اردو قرار پایا۔ اس دور سے پہلے ہماری زبان کا نام اردونہیں تھا بلکہ ہر جگہ کے لو گ اس کو اپنے مقام کی ہندوستانی یا ہندی کہتے تھے۔ مثلاً دکن کے عہد قطب شاہیہ کے شعرا یا مصنفین نے اپن زبان کو یا توہندوستانی کہا یا ہندی۔ غرض میرو سودا کی وجہ سے مغلیہ لشکر یا اردوکے الفاظ کا ہماری زبان پر قبضہ ہو گیا۔ میرو سودا کے بعد لکھنو میں فاتح و آتش نے اس زبان میں شاعری کو متاثر کیا جس کی وجہ سے اردو میں ہمی گیری پیدا ہو گئی۔ اور یک ایسی باضابطہ اور منضبط زبان بن گئی کہ اب تک ہمارے شاعر لکھنو ہی کی متعین کی ہوئی زبان میں شاعری کرتے ہیں۔ ناسخ و آتش کے بعد آزاد و حالی نے پھر اردو شاعری پر اثر ڈالا۔ اس دفعہ زبان سے زیادہ خیالات متاثر ہوئے کیونکہ لکھنوی شعرا نے زبان پر اتنا زور دیا تھا کہ اس کا رد عمل ہونا ضروری تھا۔ مطالب و معانی کی خوبیوں کا اتنا خون ہوا تھا کہ اس کا رنگ لانا لازمی تھا۔ اس کے علاوہ چونکہ اس دور کی اردو شاعری اپنے عہد کی لازوال پذیر معاشرت کی ترجما ن تھا اس لیے اس میں وہ تمام عناصر راہ پا گئے جو وقموں کو ترقی سے زیادہ تنزل کی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حالی اور آزاد نے اصلاح کا بیڑا اٹھایا او ر اپنی اپنی حد تک اپنے مقصد میں کامگار رہے۔ لیکن جس طرح مرزا مظہر جان جاناں کی تحریک میروسودا کی وجہ سے کامیاب ہوئی اور اردو شاعری کی شکل بدل گئی بالکل اسی طرح حالی اور آزاد کی اصلاحی کوششیں آج کلام اقبال کی وجہ سے تکمیل کو پہنچ رہی ہیں۔ اقبال نے تخیل کی جولانیوں کے لیے ایک ایسے ایسے میدان کھول دیے ہیں جن کی طرف سے اس سے قبل اردو شاعروںکی توجہ کبھی منعطف نہیں ہوئی تھی انہوںنے خیالی اورمصنوعی شاعری کو نظروں سے گرا دیا۔ اردو شاعروں کا فرضی معشوق اپنی کمر کی طرح اب خود ہی عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ مصنوعی عشق بازی اور جھوٹی معاملہ بندی اب ہماری شاعری کی جان نہیں رہی۔ قصیدوں کی مبالغہ آرائیاں اور مثنویوںکے فوق الفطری قصے جنوں اور پریوں کی طرح آہستہ آہستہ غائب ہو تے جا رہے ہیں۔ اقبال نے لفظی چٹکلوں اور دور از کار محاورہ بندیوں کی جگہ حقائق کی تلمیح اور سایسیات حاضرہ کے ناگفتہ بہ مسائل کو اس خوبی سے شاعر ی میں داخل کر دیا ہے کہ اب اردو شاعری کے موضوع ہی بدل گئے اور شاعری واقعی ساحری بن گئی۔ اقبال نے صاف صاف اعلان کر دیا: کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو بھی کہہ نہ سکا قند بیگانے تو ناخوش رہتے ہی ہیں لیکن اقبال سے اپنوں کا خفا ہونا بھی ضروری تھا۔ کیونکہ انہوںنے غالب کی طرح قدیم ڈگر کو چھوڑ کر نئی روش اختیار کی اور خیالی معاشقے یا فرضی بادہ و ساغر کے بیانات سے اپنے کلام کو آلودہ نہیںکیا۔ وہ کہتے ہیں: حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خارا شگافوںسے یہ تقاضا شیشہ سازی کا ایک اور جگہ لکھا ہے: عزیز تر ہے متاع امیر و سلطاں سے وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی مے باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے وہ بھی حرام اے ساقی اقبال پر ایک بڑا اعترراض یہ کیا جاتا ہے کہ انہوںنے لوازم غزل کی پابندی نہیں کی اور ایسے نامانوس اور خشک مضامین باندھے جن کی ہماری شاعر متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ زبان و محاورہ کا بھی خیال نہیں رکھا۔ اس کا جواب خود اقبال نے اپنی مختلف نظموں میں اس طرح دیا ہے: نہ زبان کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں کوئی دلکشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی مرا نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی کہ باند صور سرافیل دلنواز نہیں مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے غرض اقبال نے شاعری کا اسلوب ہی بدل دیا۔ آزادہ روی‘ حقیقت نگاری‘ شاعری کے لوازم ہوتے جا رہے ہیں۔ معاملہ بندی‘ آسمان یا معشوق کے ظلم و ستم کا ماتم‘ رقیب روسیاہ کے رشک و حسد کا گلہ‘ غزل کی زبان کا لحاظ‘ دلی یا لکھنو کے محاوروں یا روز مروں کی پابندی۔ غرض طرح طرح کی قید و بند سے ہماری شاعری آزاد ہو تی جا رہی ہے۔ مولوی حالی نے پھر بھی قدیم مشرقی مروت سے کام لیا تھا۔ اور شعرائے نازک خیال کے تکلفات لا یعنی اور خیالی لوازم شعری کی مدافعت اس مہذب پیرایہ میں کی تھی کہ: اہل معنی کو ہے لازم سخن آرائی بھی بزم میں اہل نظر بھی ہیں تماشائی بھی لیکن اقبال ضروریات زمانہ کے پیش نظر سخن آرائی کے قائل ہی نہیں ہیں۔وہ جانتے ہیں خہ اسی سخن آرائی کے لحاظ نے حد سے زیادہ ہمارے شاعروں کو گمراہ کر کے معانی و مطالب کی گہرائیوںسے بے پروا کر دیا ہے ۔ اور اردو شاعری یا تو قافیہ پیمائی یا محاورہ بندی کے لیے وقف ہو گئی یا چند موضوعوں کے لیے محدود کر دی گئی۔ اقبال اسلوب سے زیادہ مطالب و معانی کے قائل ہیں۔ وہ اس نظریہ کی تبلیغ کرتے ہیں کہ اگر خیال اچھا ہے تو اس کو پیرایہ بیان بھی خود بخود اچھا ہی مل جائے گا۔ اور بغیر مشا ملکی یا پروپیگنڈے کے اس کے سننے اور سمجھنے والے بھی پیدا ہو جائیں گے۔ ایک جگہ وہ کہتے ہیں : مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر مرے ثمر سے مے لالہ فام پیدا دوسرے شعرا کی طرح اقبال اپنے کلام کو جام مے بنا کر گردش میں نہیں لانا چاہتے ۔ بلکہ وہ اہل محفل کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ کہ اس ثمر سے خود مے لالہ فام نکال لیں۔ اور جو اس دعوت پر لبیک کہنا نہیں چاہتے اور ذوق خودی نہیں رکھتے‘ ان سے تو وہ مخاطب نہیں ہیں۔ ان کا شعر ہے: نظر نہیں تو مرے حلقہ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہندوستان کی محفل ان کے کلام کو سمجھنے اور اس سے کماحقہ محفوظ ہونے کے قابل نہیں ہوئی۔ ان کا تخیل دور نکل گیا ہے اور ان کے ساتھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس کا خود کو بھی احساس ہے وہ کہتے ہیں: کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں شعرا تو کجا اہل مدرسہ و اہل خانقاہ بھی اس ذوق سے بے بہرہ نظر نظر آتے ہیں اور اسی محرومی کی وجہ سے اب تک ملک و قسم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اقبال کا شعر ہے: کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی اس خیال کو ایک جگہ اس طرح ظاہر کیا ہے: جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیان میکدہ کم طلب و تہی کدو میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام جستجو کھوئے ہوئوں کی آرزو ان کے خیال میں اضطراب و اثر اور خون جگرکے بغیر سخن بے فیض ہے اور شاعر ساحر نہیں بن سکتا: سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات ہو نہ روشن تو سخن مرگ دوام اے ساقی نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر اقبال نے ہمارے شاعروں کے سب سے بڑے نقص یعنی اظہار بو الہوسی اور زلف کاکل خدوخال اور جوبن و کمر کے مضامین باندھنے کی کیا اچھا توضیح کی ہے کہ: عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کر بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار یہ مصرع کہ ’’آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار جتنا اردو کے شاعروں اور خاص کر غزل گو شعرا پر صادق آتا دنیا کے کسی اور فن کار پر منطبق نہیں ہوتا۔ عشق عاشقی اور معاملہ بندی کی جگہ اقبال چاہتے ہیں کہ ہمارے شاعر حقیقت نگاری سے آشنا ہوں اور اپنی خودی کی حفاظت کریں۔ جب تک ادیبوں اور شاعروں میں وہ احساس پیدا نہ ہو گا کوئی شاعری ملک و قوم کے لیے وجہ حیات اور باعث وقار باعث نہیں ہو سکتی: سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے بیگانہ جو کلام حقیقت پر مبنی نہ ہو اور زندگی کے سبق نہ سکھلائے وہ بیکار ہے وہ باد سحر ہی کیا ہے جس کے جھونکے چمن کی افسردگی کو شگفتگی میں نہ بدل سکیں۔ اقبال کہتے ہیں : اے اہل نظر ذوق خوب ہے لیکن جو شے کہ حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا جس سے دل دریا ستلاطم نہیں ہوتا اے قطرہ نسیاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا اسی خیال کو ایک اور نظم میں اس طرح واضح کیا ہے: ہے شعر عجم گرچہ طربناک و دل آویز اس شعر سے ہوتی نہیںشمشیر خودی تیز افسردہ اگر اس کو نوا سے ہے گلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ از ہر چہ بہ آئینہ نمائند بہ پرہیز آخر میں ہم اقبال کی اس اس نظم کے چند شعر بھی سنائے دیتے جو ہمارے نوجوان شاعروں کے لیے لائحہ عمل کا کام دے رہے ہیں اور جن میں اقبال شاعری ہی سے مخاطب ہیں: مشرق کے نیستاں میں محتاج نفس نے شاعر تیرے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے تاثیر غلامی سے خود جس کی ہوئی نرم اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو شمشیر کے مانند ہو تیزی میں تری مے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے یہ ہے وہ وسعت نظر اور مرحلہ شوق کی گوناگونی جو اردو شاعری متاثر کر رہی ہے۔ اقبال کی تلخ نوائی نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ سلیم و سیماب‘ اور جوش و ساغر جیسے پختہ مشرق شاعرو ں کو بھی متاثر کر دیا۔ اقبال کے اثر سے رفتہ قدیم طرز کی شاعری متروک ہوتی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ میں ناسخ و آتش کے اثر سے الفاظ و محاورات اور اسالیت بیان متروک ہو گئے تھے۔ اور آج اقبال کے اثر سے بہت سے فرسودہ خیالات لا یعنی تکلفات اور غیر ضروری لوازمات شعر متروک ہوتے جا رہے ہیں۔ اور جہاں تک مطالب و معانی کا تعلق ہے اردو شاعری اقبال کے کلام سے متاثر رہے گی اور اہل اردو میں زندگی اور زندگی دلی قائم رکھنے کا باعث ہوگی ۔ (مجلہ عثمانیہ 1938ئ) ٭٭٭ عبدالقادر سروری اقبال کی شاعری کا آخری دور دنیاکے اس شاعر اعظم کی زندگی میں ہی اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اسکی فکر اور صناعی کے کئی پہلو ایک سے زیادہ مرتبہ معرض بحث میں آ چکے ہیں۔ ان سب کے باوجود‘ اس وقت کے انتقال کے بعد جب ہم غور کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی عظیم الشان شاعری کے متعلق اب بھی سب کچھ نہیںکہا جا سکتا اور مجھے یقین ہے کہ کبھی نہیں کہا جا سکے گا۔ اس شاعری کی طرح اس کی شاعری کی تنقید کی تشنگی بھی ہمیشہ باقی رہے گی اور یہ اقبال کی عظمت کی دلیل ہے ۔ دنیا کے غیر فانی شاعروں اور خاص کر مفکر شاعروں کے متعلق جس قدر بھی لکھااورکہا جا سکتا ہے اس سب کے باوجود ان کے خیال‘ صناعی اور حسن کلام کے متعلق بہت کچھ ناگفتہ رہ جاتا ہے۔ اس طرح یہ کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ عین مطابق فطرت ہے کہ اقبال کے کلام کی دلچسپی کی مناسبت سے ان کے کلام کی تنقید کی دلچسپی بھی لازوال ہو۔ اس شاعر نے غور و فکر کے لیے اتنا سرمایہ چھوڑا ہے کہ نئے نئے نقاط نظر سے اس کی شاعری کا مطالعہ کیا جاتا رہے گا۔ بہت سے گوشے ابھی ٹٹولنے ہین اور بہت کچھ سعی اس کے قلب کی گہرائیوں تک نہیں تو ان کے قریب پہنچنے کے لیے کی جاتی ہے‘ اور سچ پوچھو تو ان تمام مساعی کا حقیقی مقصد اس برگزیدہ ہستی کی یاد اپنے دلوں میں تازہ رکھنے کی آرزو ہے ۔ فہم و بساط کے مختلف مدارج اسی طرح اسی ہمدرد بنی نوع انسان کی جناب میں اپنا اپاہدیہ عقیدت پیش کر سکتے ہیں ۔ یہ بات اب ہر وقت سے زیادہ واضح ہو گئی ہے کہ فارسی زبان کی حد تک جو انتہائی تعریف مثنوی کی کی گئی ہے وہ اردو میں پیر رومی کے اس پرستار کے کلام پر پوری پوری صادق آتی ہے۔ ہست قرآں اور زبان ہندوی اس فکر شعری کے آخر مدارج ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم اس کے ابتدائی مراحل پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ اس عروج کے دور کے زینے دکھائی دیتے ہیں اور اس روشنی میں ہماری اگلی کوششیں جو ان ادوار کے کلام کی چھان بین سے متعلق کی گئی ہیں ادھوری نامکمل اورقطعی ناقص معلوم ہو رہی ہیں۔ اقبال کے آخری عمر کا کلام ایک عظیم الشان چیز ‘ ایک سرمایہ حیات اور ایک سرچشمہ زندگی ہے اس میں ایک حقیقی مفکر کی پختگی فکر اور ایک حساس صناع کے موقلم کی سحر کاری موجود ہے قوت گویائی کے رعب داب میں ملہمانہ اور پیغمبرانہ شان پیدا ہو گئی ہے۔ رفعت فکر اور بلندی خیال میں صوفی صافی کی روحانی سیر کے اندا زنظر آتے ہیں۔ یہی درحقیقت شاعر کی معراج ہے یہاں پہنچ کر کائنات اپنے تمام رموز کے ساتھ شاعر کی ہتھیلی ایک رائی کا دانہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بلندی پرواز قوت فکر اسے نصیب ہو گئی ہے۔ اقبال نے اردو اساتذہ کی اصلاحی شاعری میں پہلا قدم رکھا تھا۔ اسی میدان میں جب ان کی فکر انفرادنیت کی طرف رجوع ہوئی تو وہ اصطلاحی شاعری سے ہٹ کر اپنے اطراف کی اشیا ء اور مسائل پر عمومی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی کسیکی ترجمانی کی کبھی کسی کے خیالات کو اردو کا جامہ پہنایااور کسی وقت وطن اور قوم کے مسائل میں ان کی توجہ الجھی۔ گو انداز بیان ان کا اپنا تھا‘ لیکن خیالات عموماً وہی تھے جو ان کے اطراف عام طورپر رائج تھے۔ یورپ کی سرزمین کے قیا م نے دراصل شاعر کی آنکھیں کھول دیں ۔ بہت سے مسائل میں اس کی فریب خوردگیاں بے نقاب ہو گئیں۔ اسے نظر آ گیا کہ جن چیزوں کو ان کی قوم پائیدار سمجھ کر ان کے پیچھے عمر گنوا رہی تھی وہ دراصل دھوکا اور حاکم قوموں کی شعبدہ بازی تھی۔ جن بے معنی مسائل نے شاعر کو متاثر کیا اس کا خاکہ اس زمانے کے کلام میں پورا موجود ہے اسی دورمیں اقبال کی پہلی عظیم الشان نظم ’’شکوہ‘‘ لکھی گئی۔ یہ اقبال کی شاعری کا دوسرا دورتھا۔ جب شاعر کی فریب خوردگی اس پر عیاں ہو گئی تو فطرتاً اسے ایک پائیدا ر چیز کی تلاش ہوئی جس کے لیے حیات انسانی وقف کی جا سکتی تھی۔ اس تلاش میں اس کی طبیعت اسلامی فلسفہ حیات اور معاشرت کی طرف رجوع ہوئی اور یہاں اس کو وہ چیز مل گئی جو اس کے لیے حیات کائنا ت کا ماحصل تھا۔ خیالات اس کے طوفان کو لے کر وہ زور و شور سے اٹھا اور ایک پیغمبر کی دنیاکو اپنا پیغام سنانے لگا۔ اب اقبال ایک انقلاب پسند شاعر او رایک حقیقی صوفی ہو گئے تھے ۔ ان کا مذہب عشق اوران کا فلسفہ خودی معین ہو گیا تھا۔ او ر ہر عقدہ کا حل ان کو انہیں چیزوں میں مل گیا جیسا کہ وہ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں: خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ کیاہے تو نے متاع غرور کا سودا فریب سود و زیاں لا الہ الا اللہ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زمان نہ مکاں لا الہ الااللہ عشق ان کے لیے مذہب اور عشق ہی ایمان تھا ’’علم و عشق‘‘ کے عنوان کی نظم میں وہ کہتے ہیں: عشق نے مجھ سے کہا‘ علم ہے تخمین و ظن علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن بندہ تخمین و ظن کرم کتابی نہ بن عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات علم کی مقام صفات‘ عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات‘ عشق حیات و ممات علم ہے پیدا سوال‘ عشق ہے پنہاں جواب عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقرو و دیں عشق کے ادنیٰ غلام صاحب تاج و نگیں عشق زمان و مکیں‘ عشق زمان و زمیں عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح یاب شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام شورش طوفاں حلال‘ لذت ساحل حرام عشق پہ بجلی حلال عشق پہ حاصل حرام علم ہے ابن الکتاب ‘ عشق ہے ام الکتاب خودی اقبال کی نظر میں راز حیات ہے اور اس کی تفہیم اور تشریحات میں اقبا ل نے جس نکتہ رسی سے کام لیا ہے شاید ہی کسی اور نے کبھی اس کا عشر عشیر بھی سمجھا یا سمجھایا ہو۔ ’’خودی کی زندگی‘‘ میں وہ فرماتے ہیں: خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شاہنشاہی نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر خودی ہو زندہ تو دریائے بے کراں پایاب خودی ہو زندہ تو کہسار پرنیان و حریر نہنگ زندہ ہے اپنے محیط میں آزاد نہنگ مردہ کو موج سراب بھی زنجیر افراد کو منظم کرنے والا ہر زمانے میں کوئی جذبہ رہا ہے۔ کسی زمانے میں یہ جذبہ مذہب تھا اور موجودہ زمانے میں وطنیت اور قومیت نے لے لی ہے۔ لیکن امن عالم کے لیے یہ جذبہ مذہب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو چکا ہے۔ قومیت کے شدید جذبے کی برائیاں اب پوشیدہ نہیں رہی ہیں۔ ہر قومی جذبہ میں دوسری قوموں سے منافرت بعض اور صاحبان فکر نے بھی محسو س کیا اور اس کو کسی قدر قابو رکھنے کے لیے حربے کی طور پر ایک بین قومی احسا س پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مجلس بین الاقوام کا نتیجہ تھا لیکن یہ ترکیب بھی جس قدر کارگر ہوئی پچھلے چند سال کے واقعات سے ظاہر ہے اقبال نے مجلس بین الاقوام کی ناکامیوں کا جو خاکہ اڑایا ہے وہ زبان زد ہو گیا ہے۔ ’’ضرب کلیم‘‘ میں اس عنوان کی نظم میں یوں اظہار کیا گیا ہے: بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے ممکن ہے کہ یہ داشہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے اقبا ل کے وسیع تر انسانی جذبات نے انہیں بین قومیت کے مقابلے میں اک بین انسانیت کا احساس پیدا کرنے پر ابھارا ۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ احسا س انہوںنے کہاںسے اخذ کیا۔ مکہ اور جنیوا کے عنوان کی نظم میں اس احساس کو انہوں نے صاف صاف ظاہر کر دیا : اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملت آدم مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام جمعیت اقوام کی جمعیت آدم! اقبال کے خیال میں دنیا کی موجودہ ابتری اور پریشانی کا علاج اگر کوئی ہو سکتا ہے تو یہی ہے کہ بجائے قومیت کی تفرقہ پردازی کے ’’انسانیت‘‘ کے اتحاد کا احساس دنیا کی ساری قوموں کے افراد میںپیدا کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ اقبال کی فکر کا ایک نہایت قابل قدر پہلو ہے۔ اور دنیا کی موجودہ حالت کو نظر میںرکھتے ہوئے اس اتحاد اور ملت انسانی کا دنیامیں قائم ہونا آسان نہیںمعلوم ہوتا۔ اقبال اس کو حاصل کرنے کے لیے اس کی تمام مزاحم قوتوں سے جنگ کی تلقین کرتے ہیں‘ اور جیسا کہ کہا جاتاہے کہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے بھی جنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقبال اس امن خیز فضا کے پیدا کرنے کے لیے افراد کو ایک آخری جنگ کرنے پر بھی ابھارتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے اقبال کا پیغام دنیا کے لیے ایک عالم گیر امن کا پیغام ہے‘ لیکن یہ احساس امن نہ بزدلی کا پیدا کردہ ہے اورنہ اس کا نتیجہ بزدلی ہے۔ اس دور کے کلام میں جو جوش اور صدق طلب ہے اس کی مثال شاعری میں بھی مشکل سے ملے گی۔ یہ طلب اور بہتری کی خواہش ذات کی حد تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس میں وہ تمام عظیم الشان انسانی گروہ شامل ہیں۔ جن کی زندگیاں کبھی دنیا کے لیے مشعل ہدایت ثابت ہو چکی تھیں مثلاً ’’بال جبریل‘‘ میں ایک جگہ وہ فرماتے ہیں: حرم کے دل میں سوز آرزو پیدا نہیں ہوتا کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی نہ اٹھا پھر کوئی رومی‘ عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گل ایراں وہی تبریز سے ساقی اسی مجموعے میں ایک نظم کا آخری شعر ہے: تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھا تیرے پیمانہ میں ہے ماہ تمام اے ساقی یہاں شاعر کائنات کے اصل منشائے تخلیق اور اس کے رموز پر پوری طرح حاوی ہو گیا ہے اور جو چیز وہ دیکھتا ہے اس میںپورا ایقان موجود ہے اور اسی وجہ سے اس کی شاعری کے اثر میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے۔ اس دور کی شاعری میںایک شدید احساس انتقام اور ایک احساس تلافی بھی پیدا نظر آتاہے انتقام ہر اس چیز کے ساتھ جو اس کے اصلی منشائے حیات کے حصول میں سد راہ ہو اور تلافی کی خواہش ان تمام امور کے متعلق جو اس کی دسترس سے باہر ہوں‘ لیکن اس میں مواخذہ میں وہ گرفتار ہو وہ چیز خواہ اس عالم آب و گل سے تعلق رکھتی ہو یا عالم روحانی سے ذیل کے اشعار میں شاعر کا انداز کس قدر غیر معمولی ہو گیا ہے: اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد یہ مشت خاک یہ صرصر یہ وسعت افلاک کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد قصور وار غریب الدیار ہوں‘ لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد ایک اور نظم میں فرماتے ہیں: تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے دونوں کے صنم خاکی‘ دونوں کے صنم فانی یہ احساس اقبال کی آخری نظموں میں جگہ جگہ نمایاں ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ انداز گویائی کسی معمولی شاعر کے بس کی بات نہیں تھی قوموں کے عروج و زوال کے پوشیدہ رازوں کو بھی اقبال نے صاف یا استعارے کے پیرایہ میں جگہ جگہ بیان کیا ہے ذیل میں چند ایسے شعر نقل کیے جاتے ہیں۔ خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد گزر اوقات کر لیتا ہے وہ کوہ و بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بہ ساز زمانہ با تو نہ سازد تو بلا زمانہ ستیز وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہ بازی خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہو تو استغنا ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستی شوق نہ مال و دولت قاروں نہ فکر افلاطوں سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے؟ شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر ناصبوری ہے زندگی دل کی آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں غرض موجودہ زندگی کے بہت کم مسائل ہوں گے جن پر اقبال نے اس زمانے میں روشنی نہ ڈالی ہو یا تنقید نہ کی ہو۔ اگر کوئی قوم جو حالت پستی میں ہو اقبال کے صر ف آخری زمانے کے کلام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لے تو یقین ہے کہ اس میں حیات کی ایک تازہ لہر پیدا ہو جائے گی۔ (سب رس‘ اقبال نمبر 1938ئ) ٭٭٭ جگن ناتھ آزاد اقبال کی منظر نگاری ہمارے ملک کی تاریخ ادب میں یہ پہلی مثال ہے کہ کسی شاعر کی یادگار اس کی زندگی میں اس قدر اہتمام سے ملک کے طول و عرض میں منائی گئی ہو۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال کو ان کی سالگرہ پر آج ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے ادباء شعرا اور اصحاب ذو ق ہدیہ مبارک پیش کر رہے ہیں۔ اور یہ اس شکر گزاری کا اظہار ہے جو ہم سب ان کی گراں قدر خدمت گزاری کے لیے لازم آتی ہے۔ دور حاضر میں ان کے سحڑ انگیز کلام نے اہل وطن کے جذبہ عمل کو بیدار کرنے میں جو حصہ لیا ہے۔ اس کے لیے علامہ اقبال نے جس قدر شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ اقبال کا کلام صوری اور معنوی خصوصیات کے لحاظ سے ایک بحر بے پایاں ہے جس کی وسعت اور عمق کا اندازہ کرنا آسان نہیںہے میں اس شاعر عالم کے کلام بلاغت نظام کی صرف ایک خصوصیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا یعنی مجھے اقبال کی منظر نگاری کے متعلق کچھ کہنا ہے۔ اگرچہ اس میں ایک خصوصیت کا نامکمل بیان بھی میرے لیے چھوٹا منہ بڑی بات ہے لیکن کارفرمایان بزم کے ارشاد کی تعمیل میں وہ تاثرات جو مطالعہ اقبال کے دوران میں میرے دل نے قبول کیے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اردو کی موجودہ اصلاح یافتہ شاعری جس کی داغ بیل حالی اور آزاد نے ڈالی تھی اقبال کے میدان عمل میں آنے سے پہلے مروج اور مقبول ہو چکی تھی‘ اس شاعری کا جزو اعظم منظر نگاری تھا‘ ان کے ہمعصروں او رمقلدوں نے منظر نگاری میں خوب رنگ آمیزیاں کیں۔ بعض شعرانے اسی صنعت شاعری کو اپنا خاص مضمون بنا لیا۔ بعض نے ملکی اورم لی مضامین میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے منظرنگاری کو ذریعہ امدا د کے طور پر استعمال کیا۔ اقبال کا تعلق صریحی طورپر دوسرے طبقے سے ہے ۔ چنانچہ کلام اقبال میں جا بجا منظر نگاری کو واردات قلب جذبات ملت اور نکات فلسفہ وغیرہ کو دلکش اور موثر بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ان کی اولین نظموں میں’’کوہ ہمالیہ‘‘ کے دوسرے ہی بند سے اس حقیقت کا ثبوت مل جاتا ہے۔ کہ وہ ہمالیہ پر ایک بیانیہ نظم نہیں لکھ رہے ہیں بکہ ان کا اصل موضوع اس عنوان کے پردہ میں حب وطن ہے۔ باوجودیکہ منظر نگاری اقبا ل کے کلام کا خاص موضوع نہیں ہے لیکن جہاں جہاں کلام اقبال میںمنظر نگاری موجود ہے وہاں یہ ایک سحڑ انگیز منظرپیش کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اسی نظم میں ایک جگہ کہتے ہیں: لیلی شب کھولتی ہے آکے جب زلف رسا دامن دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا وہ خموشی شام کی جس پر تکلم ہو فدا وہ درختوں پر تفکر کا سماں چھایا ہوا کانپتا پھرتا ہے کیا رنگ شفق کہسار پر خوشنما لگتا ہے یہ غازہ ترے رخسار پر ماہ نو پر چند اشعار لکھے ہیںَ میں شروع کے تین اشعارپیش کرتا ہوں۔ انہی سے کلام کی اس خصوصیت کے کمال کا اندازہ لگا لیجیے۔ منظر نگاری کے تمام لوازم مثلاً قدرت زبان‘ ندرت تشبیہہ علو تخیل ان چھ مصرعوں میں انتہائی دلکشی کے ساتھ موجود ہیں: ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل طشت گردوں میں ٹپکتا ہے شفق کا خون ناب نشتر قدرت نے کیا کھولی ہے فصد آفتاب چرخ نے بالی چرا لی ہے عروس شام کی نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی ایبٹ آباد کے پہاڑو ں پر گھٹائوں کے منظر کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے : اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا نہاں ہوا جو رخ پر زیر دامن ابر ہوائے سرد بھی آئی سوار توسن ابر گرج کا شور نہیں ہے خموش ہے یہ گھٹا عجیب میکدہ بے خروش ہے یہ گھٹا ہوا کے زور سے ابھرا بڑھا اڑا بادل اٹھی وہ کالی گھٹا‘ اور برس پڑا بادل برسات کے موسم کی کتنی سچی تصویر ہے ایک ایک مصرع پر فصاحت اور بلاغت نثار ہو رہی ہے۔ لفظ لفظ نظارے کی تصویر کھینچ رہا ہے‘ خاص کرساکنان رولپنڈی جس قدر ان اشعار کی صداقت کا احساس کر سکتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور مقام والوں کی قسمت نہیں۔ ایک شام جن جذبات کی مظہر ہے اس کا احسا س فقط حساس دل ہی کر سکتے ہیں ۔ دریا کے کنارے شام ہو رہی ہے ۔ سکوت ہر طرف اپنا تسلط جما رہا ہے۔ غیر ممکن ہے کہ اقبال اس خاموش کن اور غم انگیز منظر سے متاثر نہ ہو کہتا ہے: خاموش ہے چاندنی سحر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر ۱ کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا ۱۔ دریائے نیکر (ہائڈل برگ) گورستا ن شاہی میں تو اقبال نے منظر نامے کے جادو کو اعجاز کی حد تک پہنچا دیا ہے ۔ شاندار اسلامی حکومتوں کے ویران کھنڈر شاعر کے سامنے ہیں۔ آنکھیں تباہ شدہ منظر کو دیکھ رہی ہیں۔ حساس دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ قطب شاہی اور عماد شاہی حکومتوں کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ لیکن آج ان کے عظیم الشان شہنشاہ: سوتے ہیں خاموش آبادی کے ہنگاموں سے دور مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور عالی جناب شیخ صٓحب نے جو ہماری خوش قسمتی سے آج کرسی صدارت پر جلو ہ افروز ہیں اس بلند پایہ نظم کی تمہید میں جون ۱۹۱۰ء میں چند سطور زیب اوراق مخزن کی تھیں وہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک قصیدہ کا ذکر کرنے کے بعد شیخ صاحب لکھتے ہیں: ’’دوسری نظم جو گورستان شاہی کے عنوان سے شائع کی جاتی ہے۔ ایسی لاجواب نغم سے جو فی الحقیقت اقبال کی دیرینہ سکوت کی تلافی کرتی ہے‘ اس کا ایک ایک مصرعہ ایسا درد بھرا اور معنی خیز ہے کہ دل سے داد نکلتی ہے… سلاطین قطب شاہیہ کے مزار‘ ان کے قریب گو لکڈہ کا تاریخی حصار ۔ شب ماہ مگر ایسی شب ماہ جس میں بادلوں کے چاند کے سامنے آنے جانے سے نور و ظلمت میں لڑائی ٹھن رہی تھی۔ سچے شاعرانہ جذبات کے نشوونما کے لیے ا سے بہتر زمین اور اس سے بہتر آسمان کیا ہو گا۔ ان جذبات کا عکس جس خوبی اور صفائی سے جناب اقبال نے اتارا ہے انہی کا حصہ ہے‘‘۔ خود علامہ اقبال نے اسی نظم کی تمہید میں لکھا : ’’ حید ر آباد دکن میں مختصر قیام کے دنوں میں میرے عنایت فرما جناب مسٹر نذر علی حیدری صاحب بی اے معتمد محکمہ فینانس مجھے ایک شب ان شاندار مگر حسرتناک گنبدوں کی زیارت کے لے لیے گئے۔ جن میں سلاطین قطب شاہیہ سو رہے ہیں۔ رات کی خاموشی ابر آلود آسمان اور بادلوں میں سے چھن کے آتی ہوئی چاندنی نے بھی اس پر حسرت منظر کے ساتھ مل کرمیرے دل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہو گا۔ ذیل کی نظم انہی بے شمار تاثرات کاایک اظہار ہے: شاہنشاہوںکے قبرستان کا المناک منظر‘ شب ماہتاب کا ابر آلود نظارہ ارو اقبال کا دل حساس اس اتفاق کو ارد وشاعری کی خوش قسمتی سمجھنا چاہیے۔ نظم کا آغاز دیکھیے کس درجہ بلند پایہ منظر نگاری ہے: آسمان بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے چاندنی مکدر سا جبین ماہ کاآئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارہ خاموش میں صبح صادق رو رہی ہے رات کے آغوش میں کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی بربط قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے یکایک شاعر کی توجہ اس یاس انگیز منظر سے ہٹ کر سامنے گولکندہ کے قلعہ کی جانب مبذول ہوتی ہے اور کہتاہے: آہ! جولانگاہ عالمگیر یعنی وہ حصار دوش پر اپنے اٹھائے سینکڑوں صدیوں کا بار زندگی سے تھا کبھی معمور اب سنسان ہے یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے اپنے مکان کہن کی خاک کا دلدادہ ہے کوہ کے سر پرمثال پاسباں استادہ ہے پہلے بیان کیا جا چکاہے کہ منظر نگاری اقبال کے کلام میں واردات قلب جذبات ملت نکات فلسفہ اورحب وطن وغیرہ مضامین کو دلکش اور موثر بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے اس نظم میں یہ خصوصیت مکمل طورپر واضھ ہوجاتی ہے۔ ان اشعار کو لیجیے: ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں خاکبازی وسعت دنیا کا ہے منظر اسے داستاں ناکامی انسان کی ہے ازبر اسے ہے ازل سے یہ مسافر سوئے منزل جا رہا آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا گوسکوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے فاتحہ خوانی کو یہ ٹھیرا ہے دم بھر کے لیے یا کیا یہی ہے ان شہنشاہوں کی عظمت کا مال جن کی تدبیر جہانبانی سے ڈرتا تھا زوال رعب فغفوری ہو دنیا میں کہ شان قیصری ٹل نہیں سکتی غنیم موت کی یورش کبھی بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور جادہ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور شورش بزم طرب کیا عود کی تقریر کیا درد مندان جہاں کا نالہ شبگیر کیا اور: موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے یا اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے صاف ظاہر ہے کہ مذکورہ آغاز سے شاعر کا مطلب فقط منظر نگاری نہ تھا بلکہ کچھ اور بھی۔ اگر حب ملی اور منظر نگاری کا کمال دیکھنا ہو تو گورستان شاہی اقبال کے اردو کلام میں بے نظیر چیز ہے۔ ’’نمود صبح‘‘ کے زیر عنوان ایک نظم ہے ۔ یہ دراصل ایک قصیدہ مدحیہ کے ابتدائی اشعار ہیں۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ منظر نگاری کا حق ادا کر دیا گیا ہے۔ وقت کی تنگ دامانی کی وجہ سے بعض لاجواب نظموں مثلاًرات اور شاعر اور بزم انجم کو مجبوراً نظر انداز کیا جاتاہے۔ چونکہ شاعر نے اردو سے زیادہ فارسی میں طبع آزمائی کی ہے یہ مضمون تشنہ رہ جائے گا اگرفارسی منظومات میں سے اقتباسات آپ کے سامنے پیش نہ کیے جائیں۔ سر اقبال کی فارسی تصانیف میں پیام مشرق ایک ایسا چمن بے خزاں ہے جس میں اقبال کی منظر نگاری کے اچھوتے اور مکمل نمونے بکثرت دستیاب ہوتے ہیں۔ بہار کا موسم اپنی پورے شکوہ سے جلوہ گر ہے۔ شاعر دعوت نظارہ دیتے ہوئے کہتا ہے : خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زن ابر بہار مست ترنم ہزار طوطی و دراج و سار برطرف جوئبار کشت گل و لالہ زار چشم تماشا بیار خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابر بہار شاعر کی عمیق نظر فقط بہار تک ہی محدود نہیں رہ جاتی بلکہ بہار کے تاثرات کا بھی مشاہدہ کرتی ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: خیز کہ درباغ و راغ قافلہ گل رسید باد بہاراں وزید مرغ نوا آفرید لالہ گریبان درید حسن گل تازہ چید عشق غم نو خرید خیز کہ در باغ و راغ قافلہ گل رسید نسیم صبح کی زبان سے کتنے لطیف اشعار کہلائے ہیں ز روئے بحر و سر کوہسار می آیم ولیک می نہ شناسم کہ از کجا خیزم بہ سبزہ غلطم و برشاخ لالہ می پیچم کہ رنگ و بو زمسامات او بر انگیزم خمیدہ تا نہ شود شاخ او ز گردش من بہ برگ لالہ و گل نرم نرمک آویزم ساربان حجاز اپنے ناقہ پر سوار جا رہا تھا۔ صبح ہو رہی ہے۔ اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے: مہ ز سفر یا کشید در پس تل آرمید صبح زمشرق دمید جامہ شب بر درید باد بیاباں و زید تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست شاعر نشاط باغ کشمیر میں بیٹھا ہے۔ بہار پورے جوبن پر ہے۔ دل پر جو کیفیت طاری ہو رہی ہے‘ اس کااندازہ ان اشعار سے کیجیے: زمیں اس بہاراں چو بال تدروے ز فوارہ الماس بار آبشارے چہ شیریں نوائے چہ دلکش صدائے کہ می آید از خلوت شاخسارے صدائے ز مرغ بلند آشیانے در آمیخت با نغمہ جوئبارے (ہمایوں‘ مئی 1938ئ) ٭٭٭ سلطان احمد حضرت اقبال کا طرز جدید شاعری بھی ایک فن ہے۔ جس طرح کوئی فن محض علم کی صورت میں فن ہونے کے اعتبارات سے اپنی خوبیوں اور کمالات کے اظہار میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اسی طرح فن شاعری بھی محض علمی دائرہ میں رہ کر شاعرانہ کمالات کے اظہار میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ شاعری کی کتابیں پڑ ھ لینا ایک علمہے اور شاعر بننا ایک ایسی مشق ہے جس سے انسان باعتبار ایک شریف فن کے فن شاعری میں عملی زندگی میں مہارت پیدا کرتا ہے اور ان کمالات تک پہنچتا ہے۔ جو اس فن میںمستر ہوتے ہیں‘ علم محض جاننا یا معلوم کرنا ہے۔ لیکن فن وہ ہے جس میں جاننے او ر معلوم کرنے کے بعد مختلف اشیاء کو جدید تراکیب و جدید کے تابع کیا جاتاہے۔ جو شخص عملی مراحل سے گزر کرفن مراتب تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ گویامختلف قسم کے معلومات پر ایک ایسی دسترس حاصل کر لیتا یہ جس کی وجہ سے وہ گویا اس کا ایک حکم بن جاتاہے۔ اور مشق کرتے کرتے اس فن کی مختلف صورتیں عملی رنگ میں اس کے قابومیں آ جاتی ہیں۔ اور رفتہ رفتہ وہ اس فن اور اس تجربہ کے ماتحت ایک صحیح الذہن حکم ہونے کی وجہ سے مختلف عملی شوارع اور طرزوں کا وارث ہو جاتا ہے۔ مثلاً جو شخص فن معماری میں کامل ہے وہ اس کمال کی وجہ سے معماری کی مختلف خوش آئند اور خوش نما صورتوں سے واقف ہو گا اور ان کے اظہار میں اسے کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔ اپنے اپنے وقت پر بلا تکلف ان سے کام لے سکے گا۔ ایک تجربہ کار انجینئر مختلف شعبوں میں کام کر سکتا ہے۔ باوجود اس کے بھی مختلف طرزوں میں سے ایک ہی دو طرز ہی ایسے ہوں گے جو ا س کے مذاق کے زیادہ تر تابع یا موزوں ہوں گے اور ان ہی طریقوں سے اس کی طبیعت کو ایک اخص نسبت ہو گی۔ جیسے ایک طبیب یا ایک ڈاکٹر باوجود ان تمام امراض کا علاج کرنے سے بھی خاص کر چند ہی امراض کے متعلق خاص تجربہ رکھتا ہے۔ لیکن ا س سے یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ سوائے ان چند امراض مختصہ کے ایسا طبیب یا ایسا ڈاکٹر دوسرے امراض کا علاج یا تشخیص کر ہی نہیں سکتا۔ ۔ یہی صورت اور نقشہ شاعروں کا بھی ہے۔ پھر شاعر بشرطیکہ وہ صحیح معنوں میں شاعر ہی ہوں باوجود ایک خاص طرز کے رکھنے کے بھی دوسری طرز پر بھی طبع آزمائی کر سکتاہے۔ اور ایسی مشق سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اپنا طرز خاص چھوڑ چکا ہے یا کسی جدید طرز کے اختیار کرنے سے وہ شاعری کے دائرہ سے نکل گیا ہے یا خدانخواستہ اس کی شاعری میں کوئی نقص آ گیا ہے جو لوگ فن شاعری میں کچھ بھی دسترس اور مہارت رکھتے ہیں وہ ایسی بحث کا بہت اچھی طرح سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ مختلف نامور شاعوں کی شاعری یہ ثابت کر دے گی کہ ایک طرف شاعری ایک حد تک پابندی میں ۃوتاہے اور دوسری طرف اپنے خاص طرف کا بھی مالک یا خود مختار ہوتا ہے۔ شاعرایک ایسادریا ہے جو اپنے طبعی زور اور فطری جذبات سے ہر طرف جا سکتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اس کی ایک خاص رو ہوتی ہے جو دوسرے بھنور اور دریائوں میںنہیں پائی جاتی ہے۔ ہم ایک حد تک جداگانہ مذاق کے بھی تابع ہیں۔ لیکن باوجود ا س کے دوسرے مذاق سے بھی ہم ایک حد تک آشنا ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ جلسہ سالانہ انجمن حمایت اسلام لاہور پر ہمارے کامیاب اور نامور شاعری ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بیرسٹر ایٹ لا ء نے ایک نظم پڑھی تھی جس کا کچھ حصہ ۲۹ اپریل ۱۹۱۴ء کے زمیندار میں شائع ہوا ہے۔ اس نظم کی نسبت پنجاب کے بعض اخبارات میں یہ بحث اٹھائی گئی ہے کہ : (الف) یہ نظم حضرت اکبر الہ آبادی بالقابہ کے رنگ میں کہی گئی ہے۔ (ب) اس نظم کے بعض اشعار فقط اقبالی رنگ سے نکل گئے ہیں۔ ہم نے نظم زیر بحث کو پڑحا ہے ہمارے رائے میں اگر حضرت اقبال نے ان بیانات میں حضرت اکبر کا رنگ اختیار کیا ہے تو اس سے اقبال کی شاعری پر کوئی نکتہ چینی نہیں ہو سکتی۔ اول تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان اشعار میں اکبری رنگ کیا کچھ آ گیا اور اگر آ بھی گیا تو ا س سے کیا قباحت پیش آ گئی۔ خود حضرت اکبر کے اشعار میں ایک ہم نہیں بہت سے اشعار ایسے پیش کیے جا سکتے ہیں جو حضرت غالب اور اقبال کے رنگ میں کہے گئے ہیں یہاں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب شاعر فن شاعری کے کمالات کی حد تک رفتہ رفتہ پہنچ جاتاہے تو چونکہ کمالات کا مرکز نقطہ انتہائی یا ایک ہی ہوتا ہے اس واسطے حدود کمالات اور اظہار کمالات میں ایک حد تک توافق اور تناسب پایا جاتاہے۔ اور بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اہل کمال یا دونوں شاعروں کے کلام میں ایک توارد دیا ایک تناسب ہے۔ وجہ اس کی ہی ہوتی ہے کہ دونوں اہل کمال یا دوونں شاعر ایک ہی نقطہ خیال یا ایک ہی نقطہ بحث سے مناظر اور واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں۔ انتہائی نقطہ خیال یا نقطہ بخت ان حالاات میں حضرت اکبر اور حضرت اقبا کوایک ہی مذاق اورایک ہی دھن کا مشتاق ظاہر کرنے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔ دیکھو مختلف زمانو ں اور مختلف مذاقوں کے صوفیائے کرام کے کلام میں کس قدر یگانگت اورمناسبت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ ان میں بظاہر کوئی آشنائی اور تواصل نہیں ہوتا۔ انسا ن کو دو حواس دیے گئے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے ظاہری اور باطنی حواس ہیں اور ایک وہ حواس جو ان دونوں سے جداگانہ ہیں اور ایک جو ان حواس سے بہت افضل اور اعلیٰ ہیں۔ جب کوئی انسان کسی فن میں کامل ہو جاتا ہے تو اس تیسری قسم کے حواسوں سے کام لینے کے قابل ہو جاتاہے۔ اور اس وقت ایسے مختلف قسم کے حواسوں کے ادراکات ار جذبات کی ایک قسم نسبت اخص پائی جاتی ہے۔ حضرت اقبال اور حضرت اکبر کے شاعرانہ حواس اپنی اپنی کمالات کی وجہ سے تیسری قسم کے حواس ہیں۔ ان میں مناسبت اور توارد کا پایا جانا ایک لازمی امر ہے۔ بلا تکلف ایک حواس دوسرے حواس کے تصرفات اور جذبات سے کام لے سکتا ہے۔ اور ان حالات میں شاعر کا ہر جگہ پر رنگ فقط اپنا ہی رنگ ہوتا ہے۔ اگر لوگ آئینہ خیال میں اس بحث کاخوبی اور عمدگی سے عکس لے کر دیکھیں گے تو انہیں اپنے سطحی خیالات سے ہٹنا پڑ گا۔ میں اد ب سے یہ پوچھوں گا کہ جو کاریگر جو ماہر ایک حد تک دوسرے کا رنگ نہیں اڑا سکتا اس کی کاریگری اور مہارت ہی کیا ہے۔ رہی ابھی یہ باتکہ ایسا کرنے میں اسے کامیابی کہاں تک ہوئی یہ ایک دوسری بحث ہے۔ اگر لوگوں کو اقبال اور حضرت اکبر کے طبائع کے نکات کے وزن کرنے کا موقع ملتا ہو تو انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کے ان کمالات میں کہاں تک نسبت ہے اور خود حضرت اکبر حضرت اقبال کی شان میں کیا کہتے ہیں اور حضرت اقبال کو حضرت اکبر کے کمالات کا کہا ں تک اعتراف ہے ۔ باوجودیکہ دونوں کا طرز جداگانہ رنگ رکھتا ہے۔ لیکن بعض خیالات میں دونوں ایک ہی نقطہ خیال کے پرستار ہیں۔ حضرت اکبر کا رنگ ایسا نہیں ہے کہ اسے حضرت اقبال بعض وقت اختیار نہ کر سکیں۔ اکبری رنگ وہ ہے جس سے حضرت اقبال مدتوں سے مانوس ہیں اور ان الفاظ میں ان کے مداح ہیں جن سے اکثر لوگ ناآشناہیں اور حضرت اقبال کی وقعت حضرت اکبر کے دل میں جو کچھ ہے وہ حضرت اقبال کے واسطے ایک بزرگانہ سرٹیفکیٹ ہے۔ یہ کہنا کہ ابیات زیر بحث حضرت اقبال کے اپنے رنگ سے نکل گئے ہیں یا ان کا وہ رنگ نہیں جو حضرت اقبال کی شاعری کا خاصہ تھا درست نہیں۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر فن کی خصوصیات میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب اس کے اصناف مختلفہ سے کام لیا جائے تو ان کا رنگ جداگانہ ہو۔ شاعر جب قصیدہ کہتا ہے تو اس کا رنگ غزل اور رباعی سے جدا ہوتا ہے۔ جب شاعررزمی مباحث میں پڑتاہے تو اس کا رنگ عاشقانہ مثنوی سے الگ ہو گا۔ ابیات زیر بحث میں حضرت اقبال نے مختلف مضامین پر بحث کی ہے اور ایک خاص رنگ میں ضروری تھا کہ ان سب کا جداگانہ رنگ ہوتا کیا شاعر مختلف مضامین کاایک ہی طرز بیان کر کے کمالات شاعری کا اظہار کر سکتا ہے۔ ان ہی بعض اشعار کے بعض بندوں کی نسبت یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا بعض مضمون یا مبحث نفاست یا ضرورت کے مدارج سے گرا ہوا ہے یہ ان لوگوں کا خیال ہے جو ہمیشہ مقولہ کی نسبت زیادہ تر قائل پر نظر کرنے کے عادی ہیں۔ ہماری رائے میں ان تمام اشعار کے مضامین اپنی اپنی مبحث کے اعتبار سے قابل غور اور قابل بحث ہیں اور ان پر بہت کچھ بحث ہو سکتی ہے۔ اس واسطے نکتہ چینی مفید نہیں ہو سکتی۔ کہ اس کا قائل فلاں ہے‘ بلکہ اس جہت سے کہ یہ مقولہ یہ قول کیسا ہے؟ مدعی ہو سکتا ہے۔ حضرت حافظ علیہ الرحمتہ اور شیخ سعدی علیہ الرحمتہ کے مختلف اصناف شاعری کو جداگانہ دیکھو کہ ان میں کہاں تک مناسبت پائی جاتی ہے بعض وقت یہ کہنا پڑتا ہے کہ خدا جانے یہ کسی دوسرے شاعر کا کلام ہے بے شک غور و تعمق سے ایسے اصناف شاعری بھی شاعر کے مذاق اور اصلی رنگ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ لیکن پھر بھی دوسرا یا اجنبی نمونہ ضرور پایا جاتا ہے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ اشعار زیر بحث میں غور کرنے والوں کے واسطے اقبالی جھلک موجود اور درخشاں نہیں ہے۔ غور کرنا شرط ہے ۔ حضرت اقبال ارشاد فرماتے ہیں: لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ روش مغربی ہے مد نظر وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ حضرت اقبال نے ان تین شعروں میں تعلیم نسواں کا جو فلسفہ اختیار کیا ہے باعتبار ضروریات اور حوائج تمدنی اور مشرقی رسم و رواج کے بیان کیا ہے اس پر ایک مبسوط کتا ب لکھی جا سکتی ہے اور ثابت کیا جا سکتا ہے کہ حضرت اقبال کا استدلال اور پیش گوئی اپنی تہہ میں بہت کچھ صداقت رکھتی ہے۔ لڑکوں کی تعلم سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نری انگریزی پڑھنے سے قوم کی اصلی فلاح متصور نہیں ہے۔ اس سے یہ نہ قیاس کر لیجیے کہ انگریزی کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے ۔ لیکن محض انگریزی دانی دے قوم کی اصلاح متصور نہیں ہے۔ کتنے انگریزی دان ملک و قوم میں ایسے ہیں جو باوجود انگریزی دانی کے لوگوں بھی انواع و اقسام کی تکلیففات میں مبتلا نہیں ہیں یہ کسی محکمہ میں جا کر دیکھ سکتے ہو کہ محض انگریزی دانی کن کن کونوں سے گزارتی ہے۔ حضرت اقبال بہ درددل فرماتے ہیں کہ صرف انگریزی دانی سے ہی قوم کی فلاح متصو ر نہیں۔ اس کے واسطے کوئی ایسی راہ نکالو جو تمدنی رنگ میں بھی مفید ہو۔ نہ صرف یہ کہ انگریزی بول کر خوش کر چھوڑا۔ کیااس میں کوئی شک ہے اور کیا اس سے کوئی انکار ہے کہ محض انگریزی دانی فلاح کی راہ نہیں ہے۔ کیا جن ممالک میں انگریزی نہیں ہے ان کی عورتوں میں فلاح نہیں ہے۔ فرانس کی عورتوں میں سے شاید ہی چند عورتیں انگریزی جانتیہوںکیا ان میں فلاح جذبات نہیں ہیں۔ عورتوں کے واسطے باعتبار اپنے ملک اور اپنی قوم کی ضروریات ک اصلی فلاحی جذبات نہیں ہیں۔ عورتوں کے واسطے باتعبار اپنے ملک اور اپنی قوم کی ضروریات کے اصلی فلاح کی ضرورت ہے۔ یہ جدا بات ہے کہ جو لوگ عورتوں کو محض انگریزی پڑھانے میں ساعی ہیں ان کی کچھ بھی رائے ہو۔ اگلے شعر میں حضرت اقبال نے اس خصوصیت بلا دلیل کی یہ تفصیل کی ہے کہ یہ طریقہ محض اس واسطے اختیار کیا گیا ہے کہ روش مغربی یارو ش یورپین مدنظر ہے اور ا س کے مقابلہ میں وضع مشرقی کو گناہ سمجھا گیا ہے۔ ورنہ مشرق کو طے کرنے کے بعد لڑکیوں کا مغرب کی طرف جانا ضروری تھا۔ اس میں کوئی بھی مبالغہ اور تحکم نہیں ہے۔ جب ایک طرف قوم قوم کا راگ گایا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ بنیاد رکھی جاتی ہے کہ بجائے مشرقی راہ و رسم کے از سر نو پا مغرب ہی مغرب ہو تو ا س کے کیا معنی ہیں۔ کوئی قوم اس وقت تک زمانہ میں باقی نہیں رہ سکتی جب تک اپنی قومیت باقی نہ رہے اور کوئی قومیت باقی نہیں رہ سکتی جب تک ایک بڑی حد تک اپنے رسوم واجبیہ سے محبت اور رسوم اغیار سے امن و امان اور آزادی کے ساتھ نفرت نہ ہو اور یہ صورت اسی صورت میں متصور ہے جب اپنا اثاثہ باقی ہو۔ جب اپنا اثاثہ ہی باقی نہیں رکھا جاتا تو غیرت کس طرح ہو سکتی ہے۔ نمونہ کے طور پر لے لو‘ مغرب اور رسوم مغرب کو۔ کیا مغرب میں آنے والوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مغرب میں جو کچھ سیاسہ و سفید پایا جاتا ہے وہقابل تقلید اور قابل اخذ ہی ہے۔ یا اس میں کوئی برائی نہیں۔ میری رائے میں ہر ملک اور ہر قوم کی تہذیب میں ضرور ایک حد تک امتیاز ہوتا ہے ۔ اور ہونا بھی چاہیے بیسیوں اس قسم کی مغربی روشیں ہیں جو بادی النظر میںبھی قابل اخذ نہیں یا قابل تعریف نہیں ہیں۔ ایسی رسمیں اور ایسی پابندیاںکہ خود بعض اہل مغرب بھی ان سے بیزار ہیں مگر اس واسطے چھوڑتے نہیںیا چھوڑ سکتے نہیں کہ قومیت کے دائرہ سے نکلنا پڑتا ہے۔ حضرت اقبال درد بھرے دل سے فرماتے ہیں کہ ان معنوں میں انگریزی خوانی موجب فلاح ثابت نہ ہو گی۔ کیا اس میں کوئی شک و شبہ کر سکتا ہے۔ جو ایسا شبہ کرتا ہے وہ سوچنے کے بعد معلوم کر سکتا ہے کہ اس کی رائے ایک بڑی حد تک فریب دہ ہے۔ تیسرے بند میں حضرت اقبال فرماتے ہیں: یہ روش جو اختیار کی جا رہی ہے اور جس پر جلد باز اور ظاہر بین لوگ زور دے رہے ہیں کیا نتیجہ پیدا کرے گی اور اس کا ماحصل کیا ہو گا۔ جب ا س کا پردہ اٹھے گا تو اس وقت دیکھنے والے دیکھ لیں گے کہ حضرت اقبال کے کہنے میں کہاں تک صداقت تھی حضرت اقبال نے بعض واقعات پر مدبرانہ استدلال کے بعد ایک رائے قائم کی ہے۔ لوگ انتظار کریں اور دیکھیں کہ وہ کہاں تک درست اور صحیح نکلتی ہے۔ قاہرہ اور مصر میں یہ چالیں ثمر آور ہو رہی ہیں ان سے لوگ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس کا اثر ہندوستان میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ لوگ ان ہر سہ بندوں کو تجربہ کی خاطر شیشوں میں لگوا کر کمروں میں رکھ چھوڑیں اور رفتہ رفتہ دیکھیں کہ حضرت اقبال کے خیالات کا ظہور کس کس رنگ میں ہوتا ہے۔ حضرت اکبر نے بھی اس بارہ میں بہت کچھ کہا ہے۔ وہ اشعار بھی ساتھ ہی رکھے جاویں۔ پھر حضرت اقبال فرماتے ہیں: یہ کوئی دن کی بات ہے‘ اے مرد ہوش مند غیرت نہ تجھ میں ہو گی نہ زن اوٹ چاہے گی آتاہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی ان اشعار میں بھی زمانہ کا نقشہ کھینچ کر دکھایا گیا ہے اور کس خوب صورتی سے جب عورتیں کونسل کی ممبری کے واسطے کوشاں ہوں گی تو یہ کہا جائے گا کہ انہیںخانہ داری اور اولاد کی خواہش باقی رہے گی۔ فرانس کا نقشہ پیش نظر ہو جائے گا اور ہر عورت ممبری کی خاطر بار خانہ داری سے سبک دوش ہو نے کی کوشش میں رہنا اعیٰ فرض سمجھے گی۔ لیکن یورپ میں اس وقت سفر یجیٹ عورت نے حضرت اقبال کی پیش گوئی کو سچ کر کے نہیں دکھایا اور کیا صدہا عورتیں لنڈن میں اس وقت مردوں کی خرابی کا باعث نہیں ہیں اور کیا ان کے اس مشغلہ یااس استدعا سے خانہ داری کا کارخانہ تباہ نہیں ہو رہا۔ کیا مغرب کا بہت سا حصہ ان مشکلات کا احساس نہیں کر رہا۔ اگر حضرت اقبال نے غیرت کا واسطہ ڈال کر یہ خبر دے دی ہے تو گناہ کیا کیا۔ حضرت اقبال نے اخیر پر ایک معنی خیز بند میں کہا ہے ہم اور اشعار کی تشریح کو ملتوی رکھ کر اس بند پر ختم کرتے ہیں: اس دور میں سب مٹ جایئں گے پھر زندہ رہے گا باقی وہ جو قائم اپنی راہ پہ ہے‘ جو پورا اپنی ہٹ کا ہے اے شیخ و برہمن سنتے ہو‘ کیا اہل بصیرت کہتے ہیں گردوںنے کیسی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے اک وقت وہ تھا جب رہتے تھے سب باہم مل کر ایک سے ایک اب بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی کا جھٹکا ہے ناظرین! یہ بند دوسری نظم اور بندوں سے ملا کر پڑھیں‘ پھر انہیں معلوم ہو جائے گا کہ حضرت اقبال کا ان اشعار سے مطلب کیا ہے اوروہ کیا کہہ رہے ہیں۔ حضرت اکبر مد ظلھم کی تمام شاعری جس طرح واقعات کی بنیاد پر ہے اس طرح حضرت اقبال کا کلا م بھی ہے۔ حضرت اکبر کی شاعری ایک بسیط تشریح کی محتاج ہے اور خوش قسمت ہو گی وہ نسل جو عملی رنگ میں اسکی شرح سے مستفید ہو گی۔ اس اخیر بند اقبالی کی شرح میں بھی بہت کچھ کہا گیا ہے اور ایک مرتبہ نہیںبیسیوں مرتبہ جلسوں میں اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ اوروہ نکات میں لائے جا سکتے ہیں جو قومی اور ملکی بہبود کے واسطے تمدنی پہلو سے اصول اور گر شمارہو سکتے ہیں۔ (مخزن اگست 1914ئ) ٭٭٭ ارشاد حسین چغتائی اقبال … اردوکا بہترین شاعر آج سے چند ماہ پہلے جب ’’بال جبریل‘‘ شائع نہیں ہوئی تھی تو اگر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا کہ اردو کا بہترین شاعر کون ہے؟ یا زیادہ درست الفاظ میں میںاپنے ذوق کے لحاظ سے کس کو اردو زبان کا بہترین شاعر سمجھتا ہوں تو بلا کسی پس و پیش کے غالب کا نام لے دیتا۔ اس لیے کہ یہ جواب سب سے زیاد ہ آسان اور ساتھ ہی ساتھ حقیقت سے قریب تر بھی ہوتا ہے لیکن جس طرح بال جبریل کی اشاعت نے اردو ادب میںایک انقلاب برپا کر دیا ہے اسی طرح میرے لیے بھی یہ ایک مشکل امر ہو گیا ہے کہ آسانی کے ساتھ کسی ایک بڑے شاعر کا نام لے دوں۔ اب اس سوال کا جواب دینے کے لیے اردو شاعری اور اس تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے‘ اس لیے کہ جب مقابلہ میں ایک سے زیادہ اشخاص نظر آئیں اور ہر ایک اپنی خوبیوں کے لحاظ سے فضیلت کا دعویٰ کرے تو بیچارے ممتحن کا کام یہی ہے کہ ایک معیار یا کسوٹی مقرر کر کے ہر ایک کو اس کی تمام خوبیوں کے ساتھ اس پر رکھے اور اس طرح کھوٹوں کی کھروں سے تمیز کر کے جو سب سے زیادہ اس معیار پر پورا اترے اسی کے سر اولیت کا سہرا باندھے…! اردو شاعری کو بہت سے حضرات دو حصو ں میں تقسیم کرتے ہیں ایک حصہ کو ’’قدیم‘‘ اور دوسرے کو ’’جدید‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر یہ اس قدر مشکل ہے کہ آج تک کوئی زمانہ ایسا مقرر نہیں ہو سکاجہاں یہ کہا جا سکے کہ یہاں سے جدید شاعری شروع ہوتی ہے اور قدیم کا خاتمہ ہوتا ہے۔ آج کل بھی خدا کے فضل سے بہت سے شاعر آپ کو ایسے ملیں گے جن کی شاعری مضامین اور خیالات کے لحاظ سے میر یا سودا کے زمانے سے وابستہ معلوم ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ فرق جو آپ کو نظر آئے گا وہ بعض غیر مانوس الفاظ کا ترک استعمال اور بعض نئے الفاظ کا رواج۔ یہ وہی غزل گوئی ہے جو سودا اور میر کے لیے باعث افتخار تھی۔ لیکن غدر 75ء کا واقعہ ایسا گزرا ہے جس نے ہماری شاعری میں واقعی ایک نئے دور کا آغاز کر دیا اور اگرچہ سب تو نہیں مگر اکثر کا رجحان وہ شاعری ہے جس میں صرف ’’موزوں طبع‘‘ کا ہونا ہی درکار ہے‘ بدل گیا۔ غدر میں سلطنت مغلیہ تباہ ہو گئی بلکہ مسلمانوں کی اخلاقی‘ ذہنی پستی انتہائی حد کو پہنچ گئی۔ تہذیب و تمدن‘ علوم و فنون‘ معاشرت و روایات اور دولت و ثروت سب کا خاتمہ ہو گیا… تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا وقت آیا ہو جب مسلمانوں کی حالت اس قدر پست ہو گئی ہے ۔ سعدی نے جو مرثیہ زوال بغدا د پر لکھا ہے اس کا اطلاق اس سانحہ عظیم پر بھی ہو سکتا ہے… غالب اس زمانے کے شاعر تھے ان کے دل و دماغ پر اس کا اثر تھا۔ وہ غدر سے پہلے اور غدر کے بعد کی دونوں محفلیں دیکھے ہوئے تھے۔ ان کے اس مشہور قطعے میں اس اجڑی ہوئی محفل کا حال یوں سنتے ہیں: یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہ بساط دامان باغبان و کف گل فروش ہے یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں نے وے سرود و سوز نہ جوش و خروش ہے داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے غالب کی شاعری نے جدید اردو شاعری پر جس قدر اثر کیا ہے اس کی مثال ملنی بہت مشکل ہے۔ ا ن کے صحیح ذوق نے جدید اردو شاعری کی بنیاد رکھی اور ان کا کلام اس نئے دور کا سرچشمہ ہے۔ سرسید احمد اور ان کے دوسرے رفقاء نے جن میں خاص طور پر مولانا حالی کا نام ممتاز ہے ایک نئے مشن کا آغاز کیا ہے اور زندگی کی ان مختلف النوع تبدیلیوں کے ساتھ ادب کے موضوعات اور رجحانات بھی بدلے‘ قدیم غزل کا زوال شروع ہوا اور جدید نظم کا عروج۔ حالی کا کلام اس زمانہ کا آئینہ ہے۔ وہ گزشتہ عظمت کی یاد دلاتے ہیں خود روتے ہیں اور دوسرو ں کو رلاتے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ ماضی کو بھولو تو ایک سر د آہ بھر کے کہتے ہیں: ہیں یہ باتیں بھول جانے کی مگر کیوں کر کوئی بھول جائے صبح ہوتے رات کا سارا سماں بزم کو برہم ہوئے مدت نہیں گزری بہت اٹھ رہا ہے گل سے شمع بزم کی اب تک دھواں لیکن سرسید احمد اور ان کے رفقا کی کوششوں سے جو طریقہ تعلیم رائج ہوا اس سے مسلمانوں کو جو بغیر مذہب کے کبھی قومی اعتبار سے زندہ نہیں رہ سکتے‘ بہت زیادہ نقصان پہنچا اور اس طریقہ تعلیم کے خلا ف سب سے پہلے ہم اکبر کی آواز سنتے ہیں جب وہ کہتے ہیں: نظر ان کی رہی بس قوم کے علمی فوائد پر گرا کیں چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر اور ا ن کے بعد ڈاکٹر اقبال کی اس تمام فضا کی مخالفت کرتے ہیں جو مغربی اثر سے یہاں پیدا ہو گئی ہے۔ اس طرح شاعروں کا یہ عظیم سلسلہ اقبال پر آ کر ختم ہوتا ہے۔ یہ اردو کی نشاۃ الثانیہ کی صبح تھی جس کی علم بردار غالب‘ حالی‘ آزاد‘ سلیم اور اکبر تھے لیکن یہ مبالغہ نہ ہو گا کہ اگر ہم یہی کہہ دیں کہ اس صبح کا سورج مہر نیم روز ہو کر جب بھی چمکا جب اقبال جیسے جلیل القدر شاعر اور بالغ النظر فلسفی نے اس میں روح پھونکی… اس شاعر کی عظمت تو جب ہی بیٹھ گئی تھی جب انہوںنے بائیس سال کی عمر میں ایسا پاکیزہ شعر کہہ دیا تھا: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے ایک صاحب اس شعر کی بابت لکھتے ہیں کہ… اکثر شاعروں اور نقادوں نے جب یہ شعر سنا کہ یہ ایک نوجوان نے کہا ہے تو انہوں نے ارادہ کر لیا کہ شعر کہنا چھوڑ دیں۔ وہ سب سے سب متفق الرائے ہو کر پکاراٹھے کہ اقبال غالب کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ یہ رائے اس وقت کی ہے جب اقبال بائیس سال کے تھے اور اس میں کس قدر تبدیلی کی ضرورت ہے یہ آگے چل کر خود بخود معلوم ہو جائے گا۔ بائیس سال کی عمر تو اقبال کی شاعری واقعی ایسی نہ تھی کہ انہیں اردو کا سب سے بڑا شاعر اس وقت مان لیا جائے اور یہ کہنا بھی مبالغہ سے خالی نہ تھا کہ ’’اقبال غالب کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے ‘‘۔ ہاں یہ بات ضرور ہ کہ وہ برابر ترقی کر رہے تھے‘ ورنہ وہ بڑی حد تک مشکل ترکیبوں کے ساتھ انہی مضامین کو ادا کر رہے تھے جو اس نے پیش رو کہہ چکے تھے۔ وہ اس وقت تک وطن پرست بھی تھے اور ان کی شاعر ی میں وہ فلسفہ بھی نہیں آیا تھا جس کی وجہ سے وہ اب چہار دانگ عالم میں مشہور ہیں نہ ابھی ان کا مطالعہ وسیع تھا جو ان پر بیک وقت رومی و رازی عطار و غزالی یا دوسری طرف برگسان و نٹشے کے افکار روشن کر دیتا۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک اقبال اس زنجیر کی ایک مضبوط کڑی تھے جس میں حالی ‘ آزاد‘ اکبر اور دیگر شعرا شامل تھے۔ ان کے دل میں بھی قوم و ملت کا درد تھا اور وہ بھی حالی کی طرح چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے: نہ سمجھو گے تو مٹ جائوگے اے ہندوسان والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ان کی غزلیں باوجود اس کے کہ ان کا شمار اردو کی بہترین غزلوں میں ہوتا ہے ابھ تک اس سلاست اور روانی سے محروم تھیں جو غالب کا طرہ امتیاز ہے نہ ان کے کلام میں شوخی تھی جس کی وجہ سے داغ مشہور بھی ہے اور بدنام بھی نہ ان میں وہ درد تھا جو صرف استاد میر کا حسہ ہے۔ میر کا سا سوز و درد تو کس کو ملا ہے اور جب تک اردو زبان زندہ ہے ان کے یہ شعر یادگار رہیں گے: دل تڑپے ہے جان پگلے ہے حال جگر کا کیا ہو گا مجنوں مجنوں لوگ ہیں ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا جذبات نگاری کی کتنی اچھی مثال ہے: گھر سے اٹھ کر کوچے میں بیٹھا بیت پڑھے دو باتیں کیں کس کس طور سے اپنے دل کو اس بن میں بہلاتا ہوں ان خصوصیات کا بہت کچھ حصہ ان کے کلام میں بھی موجود تھا یہ صرف استاد کسی ایک خصوصیت کے مالک تھے۔ کسی کے پاس سوز ہے کسی کے پاس روز بیان ہے اور کسی کے پا س رفعت تخیل اور دوسری طرف اقبال ہر ایک فردا فرداً سبق لے رہا تھا اور اس لیے جب ہم اقبال کی غزلیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کو یہ سب خوبیاںاپنی اپنی جگہ نظر آتی ہیں ان کی نظمیںبھی جو ’’ہمالہ‘‘ جیسی شاندار نظم سے شروع ہوتی ہیں اور جن میں جگنو‘ ایک آرزو‘ شمع تصویر درد جیسی بلند پایہ نظمیں شامل ہیں ان کی غزلوں سے زیادہ ہے۔ ان میں خیالات کی بلندی‘ جذبات کی لطافت ‘ شوکت الفاظ اور برجستگی سب کچھ موجود ہے ار پھر ان سب پر اقبال کی مخصوص لے سونے پر سہاگہ ہے۔ یہ ایک ایسا کمال ہے جو ہم کو حیرت میں ڈال دیتا ہے اور جو ان کی آئندہ عظمت کا پتا دیتا ہے۔ اس کمال کو دیکھ کر ہم ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں…! 1905ء میں اقبال انگلستان تشریف لے گئے ۔ وہاں انہیں بعض بڑے بڑے عالموں سے ملنے کا اتفاق ہوا جن میں اس زمانے کے مشہور مفکر اور فلاسفر میگ ٹگارٹ کا ان پر خاص اثر ہوا اور انہوںنے برگسان ہیگل نتشے کے فلسفہ کا خاص طور پر مطالعہ کیامگر جیسا کہ پروفسیر آرنلڈ نے کہا ہے اقبال اپنے زبردست علم و فن اور وسیع مطالعہ و تحقیق کے باوجود دوسروں کے خیالات کی باآواز باز گشت نہیں ہے بلکہ امتیازی طور پر ایک اصلی (اوریجنل) مفکر اور مجتہد ہے۔ وہ کسی مغربی فلاسفر کے خیالات کو اردو یا فارسی کا جامہ نہیں پہنا رہے انہوںنے فلسفہ ایران کی تاریخ لکھتے ہوئے فارسی ادب کا بھی خاص طور پر مطالعہ کیا اور غالباً اقبال پر ہمارے ان مشرقی اساتذہ یعنی مولانا رومی‘ غزالی‘ فارابی ‘ سنائی‘ رازی وغیرہ کا زیادہ اثر ہوا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں: مرا بنگر کہ در ہندوستان دیگرنمی بینی برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است یا پھر ایک جگہ فرماتے ہیں: اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی اب وہ آہستہ آہستہ اس روش پر ا ٓ گئے ہیں جس کے لیے قدرت نے ان کو اس دنیا میں بھیجا تھا اور خود ان کو اپنی اہمیت اور اپنے مشن کا احساس ہونے لگا۔ شاعر کی جو تعریف انہوں نے کی ہے اس معیار پر صرف وہی پورے اترتے ہیں: محفل نظم حکومت‘ چہرہ زیبائے قوم شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ ہم کو یہ معلوم ہے کہ اسیا فرد جو ایک خاص مقصد کو لے کر پیدا ہوا ہو اور جو نہ صرف ایک خاص ملک یا قوم بلکہ تمام دنیا کے لیے ایک پیغام لایا ہو اور جس کی شاعری حقیقت میں ’’جزو پیغمبری‘‘ ہو بار با رپیدا نہیں ہوتا: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا لیکن اردو کی یہ انتہائی بدقسمتی تھی کہ اقبال نے اسے اپنے خیالات کے لیے تنگ سمجھ کر اوریہ جان کر کہ فارسی زبان زیادہ بہتر رہے گی ایک عرصے کے لیے اس زبنا کو اختیار کر لیا۔ فارسی میں زبان اقبال کے قلم سے اب تک جو کتابیں مثلاً اسرار خودی‘ رموز بے خودی‘ پیام مشرق‘ زبور عجم اور جاوید نامہ نکلی ہیں‘ ان کی وجہ سے اقبال کا کلام تمام دنیا میں پہنچ گیا ار انکے فلسفہ نے ایک عالمگیر حیثیت اختیار کر لی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اقبال کے اس کلام نے اردو ادب پر بھی خاص اثر ڈالا ہے آج اردو کے بعض اچھے شاعری ان کے کلام سے متاثر معلوم ہوتے ہیں اور اس طرح ہمارا ادب اس قصائد و غزل کے ناپاک دفتر سے جس کے مولانا حالی اس قدر مخالف تھے محفوظ رہے۔ گزشتہ سال بال جبریل شائع ہوئی اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ اس نے اردو ادب میں ایک بالکل نئے باب کا اضافہ کر دیا ۔ سر عبدالقادر بانگ درا کی بابت لکھتے ہیں یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے ک اردو میں آج تک کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس میں خیالات کی یہ فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یک جا ہوں…‘‘ جب بانگ درا کی بابت یہ کہا جا سکتا ہے تو ’’بال جبریل کی بابل اس کے سوا اور کیا کہا جائے گا کہ یہ ہندوستان کی تیسری ’’الہامی‘‘ کتاب ہے۔ اس کی اشاعت سے ایک فاعدہ یہ بھی ہوا کہ اردو داں طبقہ کو معلوم ہو گیا کہ شاعری دنیا کی عملی قوتوں کو بیدار کرنے اور ان کو راہ عمل پر گامزن کرنے کے کام بھی آ سکتی ہے…! اقبال کی شاعری باقی لوگوں سے اس قدر مختلف تھی کہ جب اس کا کلام شائع ہو ا تو قدرتی طور پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوئی۔ قدیم سکول کے پابند شاعروں نے کہا کہ یہ تو عجیب شاعر ہے نہ اس میں وہ مبالغہ ہے جو اب تک ہماری شاعری کا جزو لاینفک رہا نہ اس میں حسن و عشق کے وہ چرچے ہیں جن سے یہ محفل آباد تھی۔ ان کا عشق ہی نرالا ہے ۔ وہ دنیا کی عملی قوتوں کو ہی صرف عشق سمجھتے اور کہتے ہیں۔ وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک اس میں مز انہیں تپش و انتظار کا شاعروں کا عزیز پرندہ بلبل ہوتا ہے جو اپنی عزیز جان ایک گ پر رو رو کر قربان کر دیتا ہے مگر یہ شاہین کو پسند کرتا ہے اور شاہین کی سی زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیتا ہے حالانکہ اس کے نزدیک پروانہ کی موت قابل رشک ہے مگر یہ پروانہ بننا ہی نہیں چاہتا: اللہ کے سو شکرکہ پروانہ نہیں میں دریوزہ گر آتش بیگانہ نہیں میں اقبال کی زبان بھی آسان نہیں اور یہاں اک کو وہ روز مرہ کی بول چال اور محاورے نظر آتے ہیں جن کو وہ داغ اور دیگر شعرا کے کلام میں مزے لے لے کر پڑھتے آئے ہیں اور یہ وہ کبھی سمجھتے ہی نہیں کہ اقبال جیسے لوگ ہی زبان کے صلحا ہوتے ہیں اور ان کی دی ہوئی ترکیبوں سے زبان کو فروغ حاصل ہوتاہ۔ اور ہم پسند کریں یا نہ کریں آج جو اقبال کہتے ہیں کل وہی زبان میں مستند ہونے والا ہے… زبان کی مشکلات نے ان کو ایک حیرانی میں مبتلا کر دیا اور آخر کار انہوںنے یہ فیصلہ کر لیا کہ اقبال شاعر نہیں ہے۔ اور اگر ہے تو کم سے کم اردو کا نہیں‘ شاید کسی اور زبان کا ہو یا صرف فلسفی ہو۔ اس لیے کہ اردو کے شاعر کا نام لینے سے جو نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے وہ اقبال کی حالت سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں تو عالم ہی دوسرا ہے۔ خیر ان لوگوں سے تو کچھ زیادہ شکایت نہیں اس لیے کہ وہ خیر سے اقبال کو پہچانے ہی نہیں۔ مگر نقادوں کا ایک دوسرا گروہ اور ہے۔ یہ مغربی تعلیم سے بھی آراستہ ہے اور اردو ادب پر بھی کافی عبور رکھتا ہے مگر اقبال سے یہ بھی اسی حد تک نالاں ہے ڈاکٹر عبداللطیف کو اقبال کی شاعری میں صرف تصنع نظر آتا ہے۔ وہ شکوہ اور جواب شکوہ کی مشکل ترکیبوں سے گھبرا گئے ہیں اور چونکہ ان کے خیال میں یہ اقببال کی شاعری کی معراج تھی اس لیے وہ لکھتے ہیں کہ … کچھ بھی ہو اقبال کا آرٹ اس حد تک نہیںپہنچتا جس حد تک حالی پہنچ چکا ہے نہ ان کے کلام میں وہ سادگی ہے اور نہ وہ خوبیاں جو انگریزی ادب نے اردو کو بخشی ہیں‘‘… اور جب انہوںنے اقبال کا کچھ فارسی کلام یا ردو کی بعد کی نظمیں پڑھیں تو کہنے لگے کہ اس کا کلام تو ایک ایسے مجذوب کی بڑ ہے جو تیرہ سو سال پہلے کی تہذیب رائج کرنا چاہتا ہو۔ اور اس ترقی یافتہ زمانہ میں جب کہ عیش کے اس قدر سامان موجود ہیں اور ریل موٹر اور ہوائی جہاز نے سلسلہ آمد و رفت آسان کر دیا ہو‘ وہ پھر اونٹ کی سواری کو رائج کرنا چاہتا ہے اور شاید اسی لیے ساربان کے گیت گاتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اب ان کی کیا رائے ہے (اس لیے کہ میں نے ان کی کوئی اور کتاب نہیں دیکھی) اس لیے اب انہیں کون بتائے کہ اقبال تیرہ سو سال پہلے کی تہذیب رائج نہیں کر رہا بلکہ وہ ہم کو انہی اصولوں پر جوہر ملک اور ہر زمانہ کے لیے مفید ہیں چلنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اقبال تو اب ہماری تعریف و توصیف سے بالا ہے ۔ اس میں کچھ ہماری بھی بہتری ہے کہ ان کے کلام کو کان دھر کے سنیں۔ وہ خود بھی ہم سے صرف یہی چاہتے ہیں : اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد خود ان کی بھی خدا سے یہی دعا ہے کہ کسی طرح ملک کے نوجوان جن سے ان کی امیدیں وابستہ ہیں ان کی نصیحت پر عمل شروع کر دیں: جوانوں کومری آہ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر دے اگر اردو شاعری میں کسی کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ وہ جزویست از پیغمبری تو وہ اقبا ل کی شاعری ہے۔ جو ہمارے لیے مشعل ہدایت ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے کیا خو ب کہا ہے…اقبال کے کلام میں وہ زندگی ہے وہ طاقت ہے جس کے لیے ہماری نئی نسل پرانے غزل گو شعرا کے واوین بے سود کھنگالتی تھی۔ مجھے یہ کہن میں ذرہ بھر باک نہیں کہ اقبال ہمارے درمیان مسیحا بن کر آیا ہے جس نے مردوں میں زندگی کے آثار پیدا کر دیے ہیں زمانہ پر اس کے پیغام کی اہمیت رفتہ رفتہ واضح ہو گی‘‘۔ اقبال کے زمانے میں اگرچہ قوم نے کافی تعلیم حاصل کر لی ہے اور اس کی حالت مایوسی کے درجہ سے نکل کر امید کی فضا میں داخل ہو گئی ہے لیکن ان کی دور رس نگاہ نے پہچان لیا ہے کہ یہ قوم مسلمانوں کی قوم نہیں بن رہی ہے بلکہ مغربی تہذیب اس کو برباد کر رہی ہے۔ ان کا منشا تو یہ تھا کہ مسلمان اپنے مذہب پر صداقت کے ساتھ عامل ہوں اور ہو دنیا کے سامنے نمونہ بن کر رہیں مگر یہاں تو قوم پرستی اور وطنیت کی جھوٹی حد بندیاں انہیں آپس میں تقسیم کر رہی ہیں حالانکہ اسلام کی سیاست اخوت پر مبنی ہے (جسے خواہ مخواہ پان اسلام ازم جیسا خوفناک نام دے دیا گیا ہے اور دیگر اقوام کے لیے ہوا بنا دیا ہے) ان کے نزدیک وطن یا ملک ایک عارضی اور جغرافیائی سہولت کا نام ہے ورنہ : ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے مغربی تعلیم اور تہذیب ان کے خٰال میں ہمارے لیے ایک سم قاتل ہوتی ہے جو ہم میں سے ہر قسم کی قوت روز بروز کم کر رہی ہے۔ اور ہم محض تقلید ہی کو اپنا مقصد سمجھ کر بیٹھ رہے ہیں۔ وہ اسی لیے تعلیم کی شاکی ہیں: شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا اورنوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان سے اس بے حسی اور آرام طلبی کی شکایت کرتے ہیں: ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں اردو تو کیا دنیا کی کوئی اور زبان بھی نوجوانوں کے نام ایسا پرہمت پیغام پیش نہیں کر سکتی۔ عمل صرف زندگی کا نام ہے قوت عمل کا فقدان موت کے برابر ہے ۔ اور اس قوم کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جس کی عملی قوتیں مردہ ہو چکی ہیں… مایوس سے مایوس انسان بھی اگر اشعارکو پڑھے تو اس کا خون جوش مارنے لگے اور وہ امید کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جائے اور ایک دفعہ پھر وہ اپنی ہمتوں کو جمع کر کے استقلال کے ساتھ راہ عمل پر گامزن ہو جائے! اگر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس اگر لہو ہے بدن میں تو دل ہے بے وسواس جسے ملی یہ متاع گراں بہا اس کو نہ سیم و زر سے محبت ہے نے غم افلاس بلند ہمتی کی کتنی اچھی مثال دی ہے۔ عقاب چیونٹی سے کہتا ہے: تو رزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاک راہ پر میں نہ سپہر کو نہیںلاتا نگاہ میں پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں: اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی جاوید کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں مغال ہند سے مینا و جام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر اب ایک طرف تو یہ کلام ہے جو حقیقت مسیحائی کاکام کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ شاعری ہے جس میں سوز و گداز ہے‘ افسردگی ہے یاس ہے غرضیکہ تمام فضا پر کامل سکوت اور بے حسی چھا رہی ہے غالب کا کتنا اچھا شعر ہے مگر کس قدر مایوسی ظاہر کرتا ہے جیسے ارمانوں اور آرزوئوں کا خون ہو گیا ہو: زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے ان کے اس شعر میں جو تلقین ہوتی ہے وہ اقبال کے سبق سے کس قدر مختلف ہے: نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے وہ انسان کی زندگی کو ایک شمع کی مانند سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک دیگر شعرائے کرام کے ہاں بھی یہی طرز جاری ہے۔ سب پر مردنی چھائی ہوئی ہے زندہ دلی کے آثار ناپید ہیں۔ اس یاس و ناامیدی کی حالت میں شاعر چلا اٹھتا ہے: غم ایک ہی ایسا ہے جو دنیا کو بھلا دے غم کیا ہے یہ نعمت ہے مگر جس کو خدا دے اب اس قسم کی شاعری میں آپ کو کیا پیغام مل سکتا ہے۔ لے دے کے ایک ہی پیغام ہے اور وہ خودکشی کا اس دنیا کو چھوڑنے اور گوشہ نشینی اختیار کرنے کا۔ کسی جدوجہد یا بلند ہمتی کی گنجائش نہیں اپنی قسمت پر شاکر ہو کر بیٹھ رہو اس لیے کہ انسان بے بس ہے مجبور ہے اوردنیا کی تمام قوتیں اسے کچلنے کے لیے تلی ہوئی ہیں۔ بہترین مشورہ جو آپ کو مل سکتا ہے وہ شاعر ان الفاظ میں ادا کرتا ہے: رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو اس طلسم کو توڑنے کی جس کے فسوں نے ایک ساری قوم کو مردہ بنا رکھا تھا سب سے پہلی کوشش مولانا حالی اوران کے دیگر رفقا نے کی مگر یہ رنگ کچھ ایسا بیٹھا تھا کہ اس کے اثرات پھر بھی باقی رہ گئے اور دوسری طرف قوم نے سیدھی راہ بھی اختیار نہیں کی۔ اس وقت جو نسخہ قوم کے لیے تجویز کیا گیا وہ ایک وقتی چیز تھی جس کی غلطی آئندہ زمانے کے ثابت کر دی۔ اس ہنگامہ میں کسی کو سوچنے کا موقع نہیں ملا دوسری اقوام کی تقلید کو ذریعہ نجات سمجھا گیا یہ ایک دو ڑ تھی جس میں ہر ایک شریک ہونے اور اسے جیتنے کا آرزو مند تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد تھک گئے۔ اب پھر وہی مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ وہی انتشار ہے اور وہی گھبراہٹ پھیلی ہوئی ہے او ر اب: بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے اور اقبال نے اس مرض کا درست علاج تجویز کیا ۔ ان کی تشخیص تھی… کہ اب ہماری: رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے انہوں نے ہماری عملی قوتوں کو جو نیم مردہ ہو چکی ہیں بیدار کرنا چاہا اور ہمیں یاد دلایا کہ: ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں وہ خدا اسے ہمارے لیے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں: تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضیٰؓ سوز صدیقؓ دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر ان کا دل خلوص سے پر ہے اور جو کہتے ہیں وہی محسوس بھی کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے کلام میں اثر ہے ۔ ایسا اثر جو کسی اور شاعر کے کلام میں نہیں‘ جو پڑھنے والے کے دل کو گرما دیتا ہے۔ اس کا خون جوش مارنے لگتاہے اور اس قدر متاثر ہیکہ بیان سے باہر ہے… اور یہی ان کی شاری کا کمال ہے! اس قدر تبصرہ کے بعد اگر پھر وہی سوال پوچھا جائے کہ ’’اردو کا بہترین شاعر کو ن ہے؟‘‘ تو جی چاہتا ہے کہ اقبال کا نام نہ لیا جائے اور اس لیے کہ اسے صرف اردو کا بہترین شاعر کہنا آفتاب کو چراغ دکھلانا ہے! حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارا عظیم ترین شاعر ہے! (ہمایوں ‘ جولائی 1936ئ) ٭٭٭ ملک عبدالقیوم اقبال اور اسلامی دنیا کے دیگر شعراء بیسویں صدی کے بیشتر اہل الرائے کا یہ خیال ہے کہ دور حاضرہ ملل مشرق کی انتہائی نکہبت اور پستی کا زمانہ ہے۔ اس خیال کی تصدیق میں وہ دنیائے مغرب کی سیاسی جہانگیری‘ اقتصادی تنومندی اورمعاشرتی ترقی کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بہ استثنی جاپان و چین‘ ایشیا کا کوئی ملک یا اس براعظم کی کوئی جماعت حقیقی معنوں میں آزاد یا ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق نہیں۔ حالانہک ان حالات کے بالمقابل اہل یورپ نے عین اسی زمانہ میں اس حیرت انگیز محرکات جدوجہد کا ثبوت دیا ہے جس کی مثال یورپ کے کسی گزشتہ دور میں نہیں ملتی۔ سطحی نقطہ نظر سے اس بیان کی حقیقت کچھ بھی ہو اس میں ہرگز کلام نہٰں کہ گزشتہ صدی کے آخری ربع بلکہ قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک جو کچھ جہد للقوۃ اور کشمکش حیات کے آثار مشرقی اقوام میں ظاہر ہوئے ہیں وہ مغرب کے مقابل میں کچھ کم قابل ستائش نہیں اور اہل مشرق نے بھی اپنے تخیل سے بحر گونہ ایک عہد جدید کی بنیاد رکھی۔ اس وہد جدید کی بنیاد قائم کرنے والوں میں ایک ممتاز حیثیت سے حضرت اقبال بھی ہیں جنہوںنے کمال جرات سے دیرینہ روایات ملی و مقامی کا بطلان کر کے ملل ایشیا بالخصوص اسلامی دنیا کو اس شاہراہ پر گامزن ہونے کی دعوت دی جو مادی روحانی کامیابی کا منبع ہے۔ وسعت اثر اور مضامین کی رفعت کے باب میں ایشیائی شعرا میں سے کم افراد کو حضرت اقبال کی سی ہمہ گیری نصیب ہوئی ہو گی حالانکہ عین اسی زمانہ میں نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ایشیا کی عمرانی روایات کی دیگر نمائندہ سرزمینوں میں ایک نامور شعرا اور باکمال ادیب پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اثر کے اندر بظاہر اسی نصب العین کی تبلیغ کی جو صاحب اسرار خودی و رموز بے خودی کا طغرائے امتیاز قرارپا چکا ہے۔ مگر مقامی حیثیت یہ ہے کہ جو راہیں حضرت اقبال نے بتائی ہیں وہ کسی اور شاعر کے کلام میں اس خوبی سے نہیںملتیں۔ مشرقی شعراء کی صف میں ہندوستان سے باہر سب سے زیادہ مقبول کلام نامور ترکی شاعر نامع کمال بے کا ہے جس کے گوشہ نشیںنہ صرف بلاد ترکیہ کی حدود و اطراف میں پھیلے ہوئے بلکہ تورانی دنیا یعنی دیوار چین سے لے کر جمہوریہ قاریم تک پائے جاتے ہیں۔ اگر نامق کمال کو ترکی قومیت و وطنیت کا بزرگ ترین علم بردار کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ مگر زبان کی روانی اور محاورات کی بندش سے قطع نظر کر کے اگر قادر الکلام ترکی شاعر کے علمی کارناموں کو معنوی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہو گا کہ گویا ترکی کے ماسوا دنیا اور اس کے رہنے والوں کا وجود ہی نہیں۔ نامق کمال کی دنیا ترکی دنیاہے۔ اس کی وطنیت جب ترکی تک محڈود ہے اس کا قومی مطمح نظر ہلوکو اورچنگیز کی جنگجویانہ روایات اور دنیائے مستقبل کی فلاح و نجاح کے اسباب تورانی نسل انسانی کے قوی بازو کی رہین منت ہیں نامق کمال کے نزدیک تورانستان ربع مسکوں کا خلاصہ ہے اور ترکی قلب اس کامرکز ہے۔ جس شدت اور کامیابی سے نامق کمال نے ترکی وطنیت کی تبلیغ ی ہے اور ترکوں کو اپنے مقاصد میں فاتح و قاہر ہونے کی تلقین کی ہے اس کی مثال حب وطن سے سرشار کسی اور قوم کے جنگی ترانوں میں نہیںملتی۔ نامق کمال کی شاعری شاعری نہیں بلکہ ایک طبل جنگ ہے ۔ جس کی اصوات رعد ترکی قوم کو حصول آزادی کے لیے انتہائی قربانی کی دعوت دیتے ہیں نامق کمال اپنے خیالات کا ذیل کے الفاظ میں اظہار کرتا ہے: اے تورانی نسل کے فرزند! کیا تو اپنی خودی سے بے بہرہ ہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ تو ایسے دودمان کی اولاد ہے جس نے اپنی جبرو ت کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجا دیا کیا تیرے پرچم ظفرمندی کے سامنے دنیا کے علم سرنگوں نہیں ہوئے؟ کیا تو بے خبر ہے کیا دنیا کی حیات و ممات تیری زندگی سے وابستہ ہے؟ نامق کمال ایک اور آتشین گیت گاتاہے: میں مادر ترکی کافرزند ہوں میں اس محبوب سرزمین کی آغوش میں پلا ہوں میں اسی میں رہ کر جوان ہوا ہوں یہ سرزمیں میرا گہوارہ ہے تورانی بہادروں کے نیزے اس کا حصار ہیں ان کی تلواروں کا سایہ میری جائے پناہ ہے میں مادر ترکی کا فرزند ہوں ناظرین نامق کمال کے چند اشعار کے اس ترجمے سے اس نتیجہ پر ضرور پہنچے ہوں گے کہ یہ تلواروں کی جھنکار‘ آتشیں اژدر کی شعلہ فشانی اور خارا شگاف تیروں کی سنسناہٹ کسی محب وطن کے نزدیک کیسی ہی خوش آئند ہو مگر ایک عہد ماضی کی صدائے بازگشت اور انسانیت اور سلامت روی س منزلوں دور ہے حقیقی شاعر وہ ہے جس کی زبان میں شیرینی ہو اور تفکرات میں ہوش بینی اور تلقین جہا د کرے تو تزکیہ نفس کے لیے چنانچہ حضرت اقبال فرماتے ہیں: در اطاعت کوش اے غفلت شعار مے شود از جبر پیدا اختیار ناکس از فرماں پذیری کس شود آتش ار باشد ز طغیاں خس شود بد قسمتی سے ایشیائی دنیا کے اس دور جدید میں کا تورانی اور کیا عربی یا ایرانی ارباب فکر نے نامق کمال کی تقلید کی ہے اور اپنے اپنے طریق پر وطنیت پرستی کی داد دی ہے۔ چنانچہ مصر جدید کا مشہور قومی شاعر شیخ السلامہ حجازی نشہ حب وطن سے سرشار ہو کر یوں گویا ہوتا ہے: اے مرے مصر اے مرے مصر تو میرا پوست میرا خون میری ہڈیاں ہے میں تجھی میں رہ کر جوان ہوا اور مر کر بھی تیری ہی آغوش میں رہوں گا حالانکہ جو مودت صلح جوئی اور سلامت روی اقبال کے ملکی وار قومی ترانوں میں ہویدا ہے وہ نہ صرف حقیقی حب وطن ہے بلکہ حب الامم اور بین الاقوامی رواداری کے بہترین مظہر ہیں۔ تو گویا علامہ اقبال کی شاعری نہ صرف تہذیب سخن بلکہ تزئین اخلاق کا ذریعہ ہے اور اسلامی اخلاق کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اسرار خودی خود اسلامی فلسفہ ہے اور یہی ایک چیز ہے جو اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیم کا جوہر ہے۔ مگر صدیاں گزر گئیں اور اگرچہ بعض ارباب دانش و بینش نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی مگر جس دلکش پیرائے میں حضرت اقبال نے تسلسل حیات کے حقیقی راز کو منکشف کیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: پیکر ہستی ز آثار خودی است ہرچہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او در جہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پنداشت است پھر ایسے مقاصد کی تکمیل کے متعلق جو خلا ئق کی ایذا رسانی اور غضب حقوق پر مبنی ہو بیان کرتے ہیں۔ طبع مسلم از محبت قاہر است مسلم ار عاشق نہ باشد کافر است تابع حق دیدنش نا دیدنش خوردنش نوشیدنش خوابیدنش در رضایش مرضی حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود خیمہ در میدان ان اللہ زد ست درجہاں شاہد علی الناس آمدست شاہد حالش نبی انس و جاں شاہدے صادق ترین شاہداں قال را بگذار و باب حال زن نور حق بر ظلمت اعمال زن در قبائے خسروی درویش زی دیدہ بیدار و خدا اندیش زی قرب حق از ہر عمل مقصود را تا ز تو گردد جلالش آشکار صلح شر گردد چو مقصوداست غیر گر خدا باشد غرض جنگ است خیر گر نہ گردد حق ز تیغ ما بلند جنگ باشد قوم را نا ارجمند کیساپاکیزہ اور اعلیٰ نصب العین ہے۔ خودی اور تحقیق کہ ہر گونہ تلقین کی گئی ہو۔ مگر خالص مادی اغراض انسانیت سوز دنیوی مصالحہ اور کورانہ نفس پرستی کی دلپذیر تلقین موجود ہے ۔ اقبا ل کی شاعری محض لفظوں کا رکھ رکھائو ہی نہیں بلکہ ایک غیر فانی حقیقت کی مدلل اور مبرہن تفسیر جسے اسلامی اخلاق کہتے ہیں۔ تو کیا حضرت اقبال کو دنیائے اسلام کے جملہ ارباب کمال پر بہ لحاظ مقاصد و بہ لحاظ معانی فوقیت حاصل نہیں ہے؟ (نیرنگ خیال ‘ اقبال نمبر 1932ئ) ٭٭٭ شمشیر قلم تنقید نقاد یہ عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نقاد سخن سمجھتے ہیں اور اپنے زعم میں فن شعر کے والی وارث ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ وہ کسی اچھے لکھنے والے کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوش نہیں ہوتے۔ جہاں کسی کا اچھا کلام‘ کوئی کتاب یا پارہ نظم مقبول ہوا اانہوں اور انہوںنے اپنی تنقید یا یہ کہیے اصلاح کی تیز چھری لے کر اس کی صورت بگاڑنی شروع کر دی۔ تعریض و تنسیخ گویا ان کے ہم مذہب کا اسم اعظم ہے۔ میں یہ سمجھنے میں قاصر ہوں کہ نمونہ ان کے سامنے کیا ہے اور ان کا معیار کونسا۔ خیز اس پر تو پھر کبھی خامہ فرسائی کی جائے گی۔ بالفعل میں اردو کے اہل زبان فرقہ کے دو مقتدر رسالے اٹھا کر ان کی تنقید کا نمونہ ناظرین کی خدمت میںپیش کرنا ہوں تاکہ ان کی معقولیت کی قلعی کھل جائے۔ جولائی 1913ء کے ’’زمانہ‘‘ (کانپور) میں حضرت نقاد لکھنوی نے اردو رسالوں کے حصہ نظم میں تنقید فرمائی ہے۔ اس ذیل میں رسالہ ’’انسان‘‘ امرتسر بابت جون گزشتہ میں سے ڈاکٹر محمد اقبال کی ایک نظم موج دریا پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اس کے ایک بند کی ٹیپ ہے: آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا نقاد لکھنوی فرماتے ہیں بیت کے دونوں مصرعوں میں زمانے کا تخالف (جاتا ہے نہ اٹکا) ذوق سلیم کو کھٹکتا ہے میں حیران ہوں کہ ذوق سلیم چہ معنی دارد ۔ ناظرین غور فرمائیں کہ اول مصرعے میں تو موج اپنی کیفیت بیان کرتی ہے اور دوسرے مصرعے میں ایک مستقل بات کا ذکر ہے‘ یعنی عبادت یا دستور سے مراد یہ ہے کہ جس کوکبھی نے بالکل واضح کر دیا ہے۔ بیان کی رو سے اس میں کوئی نقص نہیں بلکہ اس صیغہ ماضی کے آجانے سے زور بیان دو چند ہو گیاہے‘ نہ اس سے فصاحت زبان میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے۔ اساتذہ متقدمین و متاخرین کے ہاں یہ تخالف زمانہ موجودہے سب سے پہلے میں لکھنو ہی کے ایک بہت بڑے اور مستند شاعر کے کلام سے چند شعر اس جگہ نقل کرتا ہے مرزا دبیر فرماتے ہیں: فرمایا یادگار سپاہ قتیل ہوں پیش خدا بزرگ ہوں تم میں ذلیل ہوں صندوق اسم اعظم رب جلیل ہوں شہزادہ ملائکہ و جبریل ہوں حسن بلاد ہے وطن اپنا جہاں میں آیا صحیفہ حق کا ہماری ہی شان میں ایک اور ٹیپ کے شعر میں فرماتے ہیں: بنیاد ہم نے شہروں میں ڈالی ہے دین کی نقش قدم ہمارا سپر ہے زمین کی میر انیس مرحوم فرماتے ہیں: روشن پدر کا زور ہے دنیا پہ دین پر ششدر تھے جبرئیل کٹے جبکہ تین پر اگر کسی کو لکھنو کی فصاحب زبان ارو روز مرہ میں کلام ہو تو دہلی کے استاد ذوق مرحوم کا کلام حاضر ہے دیوان ذوق میں ایک قصیدہ ا س مطلع سے شروع ہوتا ہے: دل کہ اس دیر میں ہے گرسنہ ناز بتاں دم تیغ اس کو غنیمت ہے کہ دیکھا لب ناں اس قصیدے کے نشیب میں اول کے سترہ شعروں میں مسلس ہے یا ہوں عل حال آیا ہے مگر اٹھارواں شعر یہ ہے: دل نے لیمو سے لیا رنگ طلا کا روشن ترش روئی سے رخ زرد ہے میرا تاباں پھر انیسواں شعر یہ ہے: میں وہ گرد زدہ دہر ہوں جس کا پس مرگ سنگ تعویز بھی چکر میں ہو مانند فساں دہلی اور لکھنو نے اب تک ذوق اور انیس و دبیر کے ہم پلہ تو کیا ان کے لگ بھگ بھی شاعر پیدا نہیں کیے اور ان کے کلام کی یہ کیفیت ہے۔ مذاق سلیم رکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تخالف زمانہ شعر میں لطف پیدا کرتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کے شعر زیر بحث میں زمانہ کے بدل جانے سے ایک خاص کیفیت اور زور پیدا ہو گیا ہے۔ اسی نظم کی تنقید کرتے ہوئے آپ نے ڈاکٹر صاحب کے اس مصرعہ کو بھی اصلاح دی ہے: غنچہ آب میں گلشن کی تماشائی ہوں فرماتے ہیں غنچہ و گلشن کو اس موقع سے کوئی مناسبت نہیں معلوم ہوتی۔ بہرحال غنچہ آب کی ترکیب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ پڑھ کر مجھے غصہ آیا اور ہنسی بھی اس جہل پر یہ مبادرت۔ ایسے ہی لوگوں شان میں کہا گیا ہے: درجہل مرکب ابد الدہر ہربماند حضرت غنچہ آب شیخ صاحب نے نہیں گھڑا ہے بلکہ یہ فارسی کی ایک ترکیب ہے۔ اردو کی تنقید کرتے کرتے فارسی بھی بھول گئے۔ غنچہ آب کے معنی ہیں حباب۔ اس مناسب موقع پر اس ترکیب کا استعمال ڈاکٹر صاحب کی پختہ کلامی کا کرشمہ ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ فن شعر سے مس نہیں رکھتے آداب کلام و بیان سے نا آشنا ہیں جنہیں نہ محاورے کی واقفیت نہ علم لغت میں مہارت وہ شتر بے مہار کی طرح اٹھ کر اس طرح بے تکے اعتراض جڑ دیتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ تعجب ہے کہ یہ رسالے جو خود اپنے آپ کو اردو کے ادب کی روح رواں کہتے ہیں کس طرح ان لایعنی تحریروں کو چھاپ دیتے ہیں۔ اب ذرا جون 1913ء کے العصر (لکھنو) کی طر ف توجہ فرمائیے۔ کوئی صاحب جو اپنے آپ کو سید القلم کہتے ہیں بعض کتب نو مطبوع پر تنقید فرماتے ہیں۔ اس میں سے ہم صر ف آپ کو ایک نمبر لیتے ہیں ۔ توزک قیصری دہلی کے پنڈت برجموہن دتاتریہ صاحب کیفی کی تازہ تصنیف ہے حضرت سید القلم نے اس قنید میں اس ڈھٹائی اور سینہ زوری سے کام لیا ہے جیسا کہ حضرت نقاد لکھنوی کے زمانہ میں پنڈت صاحب کا ایک مصرعہ ہے: فہم عالمگیر میں لیکن نہیں آیا یہ راز آپ فرماتے ہیں کہ نہیں کہ جگہ نہ چاہیے یہ کیوں؟ وجہ علت موجب سند قاعدہ اس سے ہمیں غرض نہیں کہ دہلی کا محاورہ کیا ہے۔ یہ پنڈت صاحب آپ سے سلجھھ لیں گے۔ نہ ہمیں اس سے غرض ہے کہ لکھنو میں فعل ماضی مطلق کے ساتھ نفی کا نہیں آتا ہے یا نہ دیکھنا یہ ہے کہ اساتذہ ماضی و حال ماضی مطلق اور نیز فعل حال کے ساتھ ’’نہیں‘‘ استعمال کرتے ہیںیا نہیں سنیے: بات تو ہم نے بنائی تھی وہاں خوب مگر تھی جو بگڑی ہوئی قسمت تو بنی خوب نہیں (ذوق) دم شماری دل کی مہجور بری ہوتی ہے جان کی خیر اسی میں ہے کہ تو گن ہی نہیں (داغ) سن کے حال دل مرا رکھتے ہیں وہ کانوں پہ ہاتھ ہائے اس انداز سے گویا سنا کچھ بھی نہیں (داغ) کھولے ہوئے جوڑا تمہیں اے جاں نہیں دیکھا اس باغ میں سنبل کو پریشاں نہیں دیکھا (امیر) آنکھ اس کی نہ کیونکر کہوں مخمور نہیں ہے ہاں کیف جوانی سے ابھی دور نہیں ہے (امیر) ملے تھے خاک میں اس واسطے کہ یار ملے مگر ملا ہمیں ملک عدم میں خاک نہیں (داغ) ان اشعار کے ملاحظہ سے واضھ ہو گا کہ ماضی مطلق حال اور امرو وغیرہ فعلوں کے ساتھ نہیں آیا ہے اور کن کے ہاں؟ استاد ذوق کو رہنے دیجیے کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کا زمانہ قدیم تھا۔ اچھا یہ تو کوئی بتائے کہ داغ اور امیر کے بعد اردو میں کیا کیا اصلاحات ہوئی ہیں۔ کون سے نئے آداب انشاء قائم ہوئے ہیں۔ جن کی رو سے حضرت کیفی کا ’’نہیں آیا‘‘ غلط ’’نہ آیا ‘‘ ہونا چاہیے۔ حضرت کیفی کا ایک مصرعہ ہے : جن مٰں تازہ جوش تھا اسلام نے پھونکا ہوا اس پر آپ یہ لکھتے ہیں پنجابی محاورہ ۔ میں نہیں سمجھا کہ اس مصرعہ میں پنجابیت کہاں سے آ گئی۔ دعویٰ بے دلیل مدعی کی غلط فہمی پر دال ہے۔ ایسے ہی لوگوں نے تو یہ فتویٰ دیا تھا کہ آزاد مرحوم کی زبان میں پنجابیت آ گئی ۔ ہم کو تو اس مصرعے میں کہیں پنجابیت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ حضرت سید القلم! ذرایہ تو فرمائیے کہ آتش کا بیڑا اور امیرک بررتے ہیں‘ کس دیس کی بولی ہیں جن شعروں میں یہ ثقیل اور دیہاتی لفظ ہیں‘ وہ تو ٹھیٹھ ٹکسالی زبان اردوئے معلیٰ کی جان۔ اور یہ مصرعہ پنجابی محاورہ کا ہو گیا۔ آخر معلوم تو ہو کہ زبان اورم حاورے کی صحت کا معیار آپ کے ہاں ہے کیا؟ جو ہر کس و ناکس نے جس کا نال دہلی یا لکھنو کی گلیو ں میںگڑٓ ہوا کہہ دیا بس وہی آیت اور حدیث کا حکم رکھتا ہے‘ چہ خوش اور جو کوئی آپ کے دہلی اور لکھنو کے انے ہوئے استادوں کے کلام پر زبان اور محاورے کی صحت چھان بین کرنے بیٹھے پھر فرمائیے کیسی قلعی کھلے۔ حضرت سید القلم فرماتے ہیں تقدیم و تاخیر کا عیب اکثر اشعار میں موجود ہے۔ یہ پہلے سے بھی تیز رہی۔ ذوق مرحوم کے ہاں دیکھیے کتنی تعقیدات آتی ہیں۔ علاوہ ازیں توزک قیصری کو تاریخی کتاب بتاتے ہیں۔ ضرور اس میں کوئی اور گویل کلام سے پرہیز کیا گیا ہوگ ا۔ اور ایک واقعہ کے بیان کے سلسلے کو قائم رکھنے کے لیے اگر الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی ہو گی تو یہ عیب ہی کون سا ہے۔ وہ اساتذہ جن کے نام آپ ہزار بار قند و گلاب سے منہ دھو کر لیتے ہیں‘ ان کے اشعار میں تقدیم و تاخیر کا عیب موجود ہے حالانکہ بیچاروں کی تمام غزلیں ہی کے تنگ دائرہ میں ایڑیاں رگڑتے صرف ہو گئی۔ جس میں مضمون کی کوئی قید نہیں۔ ایک شعر میں مرجائو ایک میں رستم کو کشتی دلائو۔ قبر میں سے بولو۔ بھلے چنگے اشرف المخلوقات ہو کر ایک درخت کی ٹہنی پر گھونسلہ بنا کے بیٹھے غٹر غوں کیا کرو۔ تقدیم و تاخیر حسن بے پردہ سر طور پکارا آ کر چھپتے جب ہم کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا (امیر) ذبح کرنے کا مرے قاتل کو ارماں رہ گیا کیا میں اے پردہ نشیں قتل کا خواہاں ہوتا (امیر) دراز عمر ہو مشاطہ تصور کی مزہ وصال کا دیتا ہے غم جدائی کا (امیر) فنا فی اللہ ہو کر پائوں عمر جاوداں ایسی مسیح و خضر کی ہستی سے بڑھ کر ہو عدم میرا (داغ) جو نکلا پیچ سے کاکل کے دل زلف دوتا لپٹی چھٹا جب اک بلا سے دوسری پیچھے بلا لپٹی (داغ) ٭٭٭ اس طرح ہونا چاہیے تھا حسن بے پردہ سر طور آ کر پکارا ہم جب چھپتے کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا قاتل کو میرے ذبح کرنے کا ارمان … اے پردہ نشیں میں کیا قتل کا … (یا الٰہی) مشاطہ تصور کی عمر دراز ہو جدائی کا غم وصال کا مزہ دیتا ہے …ایسی عمر جاوداں پائوں (کہ) میرا عدم مسیح و خضر کی ہستی سے بڑھ کر ہو دل جو کاکل کے پیچھے سے نکلا (تو) زلف… ایک بلا سے جب چھٹا (چھوٹا) دوسری بلا پیچھے لپٹی یہ اشعار جو اوپر نقل کیے گئے ہیں۔ مضمون آفرینی اوربلند پروازی تخیل کے نمونے نہیں ہیں بلکہ محض معمولی ہیں۔ پھر بھی ان میں تقدیم و تاخیر کی ٹینڈم سرپٹ جاتی ہے۔ غزل کی زبان کیا ہے؟ جو بولتے ہیں پھر غزل میں دوسری بلا پیچھے لپٹی یعنی چہ یہ تو حال ہے اساتذہ کرام کا پھر حضرت کیفی کے کلام پر جو بہ اعتبار مضمون کے نہایت اہم ہے تقدیم و تاخیر کے اعتراض کا کیا موقع تھا۔ اب ذرا ان نقادا ن سخن کے کلام کو جا نچیے کہ وہ قدم قدم پر کیسی ٹھوکریں کھاتے ہیں نمونے کے لیے انہی دونوں رسالوں کے مذکورہ بالا نمبروں میں سے چند موٹی موٹی غلطیاں زبان اور انشا کی پیش کی جاتی ہیں۔ زمانہ ۔ اردو رسالوں کا حصہ نظم (صفحہ اول) ’’طفیل میں‘‘ غلط محاورہ نہیں ہے۔ ’’بہت بڑی گوناگونی پیدا ہو چلی ہے‘‘ کیا بیہودہ فقرہ ہے۔ گویا ڈارون کے مسئلہ ارتقا کا ذکر کرتے ہیں۔ ’’متمدن زبانوں‘ ‘ آپ کو انصاف کی قسم ۔ ذرا بلی ماروں اور چوک میں کھڑ ے ہو کر اہل زبان سے اس فقرے کے معنی پوچھیے اور ہمارا ذمہاگر ان میں سے کوئی ایک بھی بتا سکے یہ اردو کی ترقی کر رہے ہیںَ آزاد خیال بالکل غلط ترکیب ہے۔ آزادانہ خیال چاہیے اردو رسالوں میں حصہ نظم کی تنقید کو اپنے رسالے کے کیا بھونڈی زبان ہے۔ اس تحریر کا بڑ ا حصہ ایسی زبان میں ہے کہ عین مین انگریزی کا لفظی ترجمہ معلوم ہوتا ہے ۔ اور ایسا کہ جیسے کسی مڈل کے لڑکے نے کیا ہو۔ صفحہ 48پر بار بار صیغہ فعل مجہول استعمال میںلائے ہیں کیا گیا کی گئی وغیرہ۔ حضڑت یہ انگریزیت ہے۔ اور آپ کو خیر سے اہل بان ہونے کا دعویٰ ہے۔ آپ تو لکھنوی ہیں کسی جاہل کی زبان سے بھی کبھی اتنے فعل مجہول سنے ہیں۔ فرماتے ہیں عورت کے ہاتھ میں کوئی آلہ موسیقی عورت کے ہاتھ میں آلہ کی ایک ہی ہوئی۔ حضرت ذرا سوچ سمجھ کے قلم اٹھانا چاہیے ۔ میر انیس مغفور کے ایام کو بھول گئے۔ یہ خبر نہیں کہ کس میں دم کا پہلو ہے اور چلے ہیں حصہ نظم تنقید کرنے۔ پہلے اپنی نثر کی توخبر لیجیے۔ متعلق اور تعلق کی وہ بھرمار ہے کہ الٰہی توبہ۔ ۲۔ زمانہ۔ رفتارزمانہ (ہندو کالج) متمدن قومیں نقاد لکھنوی کے متمدن زبانوں کو جواب نگم صاحب نے کیسا فی البدیہہ کہہ دیا ہے۔ علمی مرکز بالکل غیر مانوس ہے۔ ’’روشنی محسوس ہوئی‘‘ علم الحس و القواء میں روشنی محسوس ہوتی ہو گی مگر اردو زبان میں نہیں ہوتی ہندو فلاسفی حضرت آپ اردو لکھتے ہیں یا انگریزی۔ اردو میں ہندو اسم معرفہ ہے اور فلاسفی جمع ہے فلسفی کی۔ جب ان دونوں لفظوں کو ملائو تو مطلب کچھ نہیں نکلتا دونوں لفظ مل کر مہمل ہو جاتے ہیں۔ اب سنئے انگریزی میں فلاسفی کے معنی ہیں فلسفہ اور انگیزی میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو اسم ساتھ آئیں توپہلا صفت یا مضاف الیہ اور دوسرا موصوف یامضاف وغیرہ ہو جاتا ہے۔ جیسے لکھنو چکن یعنی لکھنو کی چکن۔ سلور چین یعنی نقرئی زنجیر غرضیکہ اس میں اڈیٹر صاحب زمانہ نے دو موٹی غلطیاں کی ہیں ایک تو یہ کہ انگریزی کا لفظ بلا ضرورت استعمال کیا ہے‘ جس کے مترادف دو لفظ اردو میں مستعمل ہیں یعنی فلسفہ و حکمت۔ اور دوسرے یہ کہ انگریزی ترکیب کو اردو میں لکھ گئے جس کے کچھ معنی ہی نہیں نکلتے۔ اور فرماتے ہیں۔ ہندو کالج قائم کرنے میں اپنی بہترین کوشش صرف کر دی۔ حضرت آ پ زمانہ کے لیے ایڈیٹوریل نوٹ لھتے ہیں یا ایڈووکیٹ اور لیڈر کا غلط ترجمہ کرتے ہیں یا الٰہی اگر زمانہ اسی طرح اردو کا پامال کرتی جائے گی ت واس مظلوم کا تو حامی و مددگار ہے۔ اور سنیے ایک جملہ میں لکھ رہے ہیں۔ اور وہ ہندو فلاسفی کی … آپ نے پرسوں… کیسا ڈبل شترگربہ ہے۔ مسلسل کوشش غلطہے مسلسل کوشش چاہے ۔ قدرۃ غلط ہے فطرۃ چاہیے۔ اختراع کی غلط ہے اس لیے کہ اختراع اسم مذکر ہے۔ اس پر دہلی اور لکھنو دونوں کا اتفاق ہے ۔ دیکھو فرہنگ آصفی مولفہ مولوی سید احمد دہلوی اور رسالہ تذکیر و تانیث مولفہ جلال لکھنوی۔ اور کیا لکھتے ہیں اور اس وقت اپنی امت کو جو اس وقت پس بارگار ہ الٰہی میں یہی مدعا ہے کہ ایسے اہل زبان حضرات کی زبان سے غریب اردو کو بچا۔ باقاعدہ کوشش کیوں منشی صاحب بے قاعدہ کوشش کیسی ہوتی ہے۔ بالکل انگریزی کا ترجمہ ہے پھر دیکھیے کیسا بھدا اور بھونڈا ذم کا پہلو نکالا ہے۔ ایک خاتون کے تذکرہ میں سرفرازی کا لفظ بھی واللہ آ پ ہی کا حصہ ہے۔ صٖحہ 69پر لکھتے ہیں اخلاقی کوشش مہربانی سے ذرا اس کی تفسیر تو فرمائیے پھر فرماتے ہیں سنسنی پیدا کرنے والا خط۔ کیوں صاحب یہ پنجابیت ہے کہ نہیں۔ پنجاب کے اخبار نویسوںنے یہ لفظ گھڑا۔ زمانہ کے ایڈیٹر نے اسے استعمال کیا۔ اب کہاں تک آپ کی سمع خراشی کروں۔ اسی طرح ہر فقرہ ہر جملہ میں اور ہر سطر میں انشاء زبان اورکلام کے نقص بھرے پڑے ہیں۔ اکثر مطلب خبط ہے۔ جو جس جن جنہیں وغیرہ حروف صلہ کی وہ بھرمار ہے کہ الٰہی امان۔ گویا آپ انگریزی لکھ رہے ہیں اور وہ بھی مغلق ۔ چلتے چلتے اور سنتے جائیے صفحہ ۷۲ پر تصاویر کے ساتھ خاکہ میں لکھتے ہیں روحانی جاہ و جلال خدا جانے یا لکھنے والا کہ یہ کیسا ہوتا ہے۔ مسز موصوف دنیاوی سرگ (دنیا کا سرگ لکھیے) اپنی اولاد دلا ملنے ا ف فقرے کے ستھ یہ نمبر زمانہ کا ختم ہوتا ہے۔ ناظرین کیا اس پر بھی کچھ عرض کروں۔ اولاد کی دو قسمیں ہیں نرینہ اور مادینہ۔ مگر یہاں لڑکوں کا مقدمہ ہے۔ اس لیے محض اولاد سے سننے والے کو دھوکا ہوتا ہے اور دلا ملنے کی ایک ہی ہوئی گنوار تک تو دلا پانا بولتے ہیں جو بمنزلہ قانونی اصلاح کے ہے۔ اپنے لڑکے واپس مل جاتے کیوں نہ لکھ دیا۔ اب ذرا العصر (جون) کی زباندانی ملاحظہ ہو۔ سید القلم تنقید کتب کرتے ہوئے لکھتے ہیں… کے ہاتھوں تربیت پائی۔ یہ غلط محاورہ ہے۔ ایسے موقع میں اردو میں بہ تتبع پنجابی کے محذوف ہوتا ہے مگر محاورہ ہاتھوں میں پرورش یا تربیت اپتاہے۔ ایک صاحب کی نسبت لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب ہندوستان کے بہترین ادیب و انشاء پرداز تھے۔ اس جملہ میں کم از کم اپنے وقت کے یا ازاں قبیل ضرور اضافہ ہونا چاہیے۔ ادبی حلقے یہ انگریزی ترجمہ ہے لٹریری سرکلر کا ہمارے ہا ں حلقہ صرف درویشوں یا صوفیوں کا ہوتا ہے۔ اس جگہ اور لفظ لکھیے الخ۔ صفحہ ۲۲۲سے ایڈیٹوریل شروع ہوتا ہے۔ پہلا فقرہ فعل مجہول سے شروع ہوتاہے خیر لکھا ہے ’’العصر کا خیر مقدم جس جوش و خروش اور فراخدلی کے ساتھ کیا گیا‘‘ ا س فقرے میں تین فاش غلطیاں فاضل ایڈیٹر نے کی ہیں معلوم ہوتاہے آپ جوش و خرو ش کے معنی سے ناواقف ہیں۔ سنیے ان کو مستحسن معنی میں استعمال نہ کیا جاتا۔ لغت میں معنی یہ درج ہیں غل غپاڑا‘ غل شور‘ گونج‘ گرج‘ گڑگڑاہٹ‘ کڑک ‘ غصہ‘ طیش الخ ازیں قبل۔اب فرمائیے ان میں سے کون سے معنی کوآپ ان کو پہنانا چاہتے ہیں۔ اپنے ادبی ارباب کو ہنومان گڈھی کا دھونسہ بنانے کو جی چاہتا ہے یا بھنگیوں کی توپ۔ یا اندر کے دوت‘ حضرت جوش محبت‘ جوش اشتیاق وغیرہ لکھیے۔ اور یہ آپ کی فراخدلی بالکل مہمل ہے۔ دل کو فراخ کے ساتھ کسی نے نہیں ملایا۔ یہ بھی ایجاد بندہ ہے۔ فراخ حوصلہ‘ پیشانی آستین ابرو ‘ بین‘ دامن دست وغیرہ الفاظ کے ساتھ مل کر اردو فارسی میں آیا ہے‘ دل کے ساتھ کہیںپیوست نہیں ہوا۔ اس کی جگہ تپاک لکھ دیتے تو اچھا فقرہ بن جاتا۔ آپ کے دل میں یہی ہے کہ العصر کا استقبال ایسا ہوا کہ جیسا ایک نہایت پیارے دوست کا ہوتا ہے۔ تو اس کے لیے جو ش و خروش کو رہنے دیجیے جوش اشتیاق اور تپاک کو کام میں لائیے۔ حضرات ناظرین بخوف طوالت میں یہ کرتا ہوں کہ اس مضمون سے بغلی الفاظ اور فقرے نکال کر یہاں لکھے دیتا ہوں۔ ان کو آپ تنقیدی زبان کہیں یا ادبی یا اردو کی ترقی کہیں یا تنزل اگر کوئی لفظ اٹکے اور لغت میں بھی اس کا سراغنہ چلے تو بندے کے نام وارنٹ نہ نکالیے گا۔ ۱۔ ان آرا کے مقابلہ میں جو کثرت کے ساتھ العصر کے اظہار پسندیدگی میں آئی ہیں۔ ۲۔ نصب العین مابہ الامتیاز نقطہ خیال ‘ خوف کھایا جاتا ہے امداد کی تلاش کرتی ہے۔ مختلف مذاہب پر نظر کرتے ہیں‘ تاریخی اور فلسفی اور سائنٹفک پالیٹکس (اسے مابہ الامتیاز اور نصب العین کے ساتھ دیکھیے) اوریجنل‘ بھاری وعدے‘ روز مسعود‘ غضب کا استقلال (جیسے قیامت کا سماں…زمانہ جون 1913ء صفحہ ۴۹) ہاتھی پر چاندنی چوک سے گزر رہے تھے (چاندنی چوک سے ہاتھ پر) ۳۔ آپ (وائسرائے) کی ہمدردی‘ محبت‘سچی خیر خواہی‘ (یوں چاہیے آپ کی ہمدردی شفت خیر اندیشی)۔ ۴ ۔ آپ بے حد ہر دلعزیزی حاصل کر سکے ہیں (یہ فارسی حروف کی انگریزی ہے اردو نہیں)۔ ۵۔ بالترتیب وائسرائیلٹی اپ کی اولاد میں دو لڑکے ہیں اور ایک لڑکی۔ باقی بشرط فرصت راقم شمشیر قلم (محزن ‘ فروری 1911ئ) ۱۔ یہ اعتراض واقع میں صحیح ہے۔ (ایڈیٹر) ٭٭٭ خواجہ عبدالواحد ندوی اعتراضات و جوابات نصیب ماز جہان ست بقدر ہمت ما ہیچ می دانی کہ صورت بند ہستی با فرانس فکر رنگین و دل گرم و شراب ناب داد ملک و تدبیر و تجارت را باانگلستان سپرد جرمنی را چشم حیران و دل بیتاب داد روس را سرمایہ جمعیت ملت ربود قہر او کوہ گران را لرزہ سیماب داد تابر انگزد نوائے حریت از ساز دہر صد جمہوریہ امریکہ را مضراب داد ہر کسے در خورد فطرت از جناب او ببرد بہر ما چیزے نبود و خویش را با ما سپرد (اقبال) مراسلت جنا ب ایڈیٹر صاحب! جنوری کے زمانہ میں کلام اقبال کے عنوان سے چند فارسی اشعار درج تھے جو میری نظر سے گزرے ۔ ڈاکٹر اقبال کی اردو شاعری میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا بلکہ باوجود اہل زبان نہ ہونے کے آپ کی شستہ زبان اور جدت خیالات پر ہم اہل پنجاب جتنا بھی ناز کریں بجا ہے۔ بہت ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے دوست اپنے سمند خوش خرام کا جولان اردو کے میدان میں ہی محدود رکھتے۔ فارس کی زمین سنگلاخ پر آپ کا اسپ تازی ناخون لیتا ہو دکھائی دیتا ہے۔ ان پانچ شعروں میں عروض اور محاورہ کئی جگہ پر سقیم ہے مثلاً ۱۔ صورت بند محاورہ نہیں صورت گر یا صورت آرا کہتے ہیں۔ بند کے ساتھ نقشبند ہوا کرتا ہے۔ ۲۔ با فرانس سے مراد آپ کی فرانس را کی ہے۔ بہ فرانس کے معنی فرانس را کے ہو سکتے ہیں۔ با کے معنی ہمراہ یا بمعہ کے ہوا کرتے ہیں۔ ۳۔ ایرانی فرانس کو فرنسہ کہتے ہیں‘ فرانس نہیں کہتے اور تقطیع میں ف متحرک پڑتی ہے جو صحیح نہیں۔ ۴۔ فکر رنگین نہیںہوتا طبع رنگین محاورہ ہے۔ ۵۔ دل گرم نہیں ہوتا دل نرم دل شاد و خورم اور سرد دل البتہ مستعمل ہے۔ ۶۔ چشم حیراں کی جگہ پر سرگران بہ معنی نخوت و تکبر زیادہ موزوں ہے۔ ۷۔ نوا کی بجا صدا ہونا چاہیے ساز سے صدا نکلتی ہے نہ نوا۔ ۸۔ امریکہ کی تقطیع میں امریک آتاہے۔ ۹۔ میں شاعر نہیں ابلتہ شعر پڑھنے کا شوق رکھتا ہوں اس لیے جو ذہن میں آیا بے تکلف عرض کیا۔ بھولا ناتھ لیفٹیننٹ کرنل ٭٭٭ خواجہ عبدالواحد ندوی سابق سب ایڈیٹر الہلال مباحثہ ڈاکٹر اقبال و کرنیل بھولا ناتھ مکرمی جناب ایڈیٹر صاحب! آپ کے رسالہ کے فروری نمبر میں لیفٹیننٹ کرنل بھولا ناتھ صاحب کی مراسلت میری نظر سے گزری غلطی ہر فرد بشر سے ممکن ہے۔ اس بات میں متقدمین متارخیرن۔ اہ زبان غیر اہل زبان فارسی گو اور ریختہ گو سب ایک سطح پر ہیں۔ اس انسانی کمزوری کا علاج صحیح اور بے لاگ تنقید ہے۔ صحیح تنقید ہی وہ آئینہ ہے جس میں شاہد سخن کا ایک ایک خط و خال صاف صاف نظر آتا ہے۔ عام ناظرین پڑھتے ہیں نازک اور دلفریب ادائوں سے واقف ہوتے ہیں اور کمال فن کی داد دیتے ہیں۔ خود شاعر دیکھتا ہے کہ تو اسے اپنے جوہر کمال کے پہلو بہ پہلو اپنے نقائص بھی بے نقاب نظر آٹے ہیں ۔ (اگر طلب کمال کا شوق ہے تو) اپنے جوہر کو اور چمکاتا ہے اور نقائص کی اصلاح کرتا ہے عہد مغلیہ میں ایران کے شعرا نے ہندوستان میں آ کے جو ترقی کی وہ ان کو خود ایران سے حاصل نہ ہوئی۔ اس کا اصلی راز یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہندوستان کے سلاطین و امرا فیاض و فن پرور ہونے کے ساتھ خود اہل نظر اور جوہر شناس بھی ہوتے ہیں اپنی صحیح نکتہ چینیوں سے ذی استعد اد شعراء کے جوہر چمکاتے اور ان کی خامیاں دور کرتے تھے عرفی ‘ نظیری‘ صائب ‘ کلیم فارسی شاعری خصوصاً غزل گوئی کے مہر و ماہ ہیں لیکن ان کے اس کمال سخن نے مغلیہ سلاطین و امراء کے دامن تنقید میں پرورش پائی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے آج حالت برعکس ہے۔ سلاطین امرا جمہور سب سے مذاق سلیم رخصت ہو چکا ہے۔ اگر کوئی شاعر شہرت کے منظرعام پر آ چکاہے تو اس کا ادنیٰ و اعلیٰ رطب و یابس ہر قسم کا کلام یکساں شوق و ذوق کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی خوش گو شاعر بدقسمتی سے گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا ہے تو اس کے عمدہ سے عمدہ اشعار کی داد دینے والا نہیں ملتا۔ ڈاکٹر اقبال شہرت کی حد سے گزر کے ترجمان قوم کے درجہ تک پہنچ چکے ہیں اس لیے بہت ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو ان کے کلام کی حرف گیری ناگوار معلمو ہو لیک اگر پہلے ان کے کلام پر تنقید آزاد ضروری تھی تو اب بھی از بس ضروری ہے کیونکہ کامل سے کامل استاد بھی لغزش و خطا سے معصوم ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ در حقیقت کسی شے کا انسانی ہونا ہی بے عیب نہ ہونے کی دلیل ہے کرنیل بھولا ناتھ صحب اقبال کی ایک فارسی نظم میں بعض فروگزاشتیں دکھانا چاہتے ہیں۔ مگرمجھے ان کی ارو شاعری میں اس ہی قسم کی ۵ کمزوریاں آشکار نظر آتی ہیں۔ تارنہ اور شکوہ ان کی شاعری کا واسطہ العقد ہیں لیکن کیا ان کا دامن شہرت اغلاط کے دامن سے پاک ہے؟ مگر یہ لغزشیں ان کے ماہتاب کمال کے داغ ہیں۔ چاند میں بھی داغ ہیں مگر ان داغوں کی وجہ سے اس کے جمال جہان آرا سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کی شعر مجسم طبیعت سے غلطیاں ہوتی ہیں اور اردو فارسی دونوں میں ہوتی ہیں۔ مگر ان غلطیوں کی وجہ سے میں کرنیل بھولا ناتھ صاحب کے ہم آہنگ ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ بہت ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے دوست اقبال اپنے سمندر خوش خرام کا جولان اردو ہی کے میدان میں رکھتے فارسی کی زمین سنگلاخ میں آپ کا اسپ تازی خون لیتا ہواد کھائی دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ طبع اقبال کے ’’سمندر خوش خرام‘‘ نے اپنی خوش خرامی سے دونوں میدانوں کو محشرستان بنا دیا ہے ’’رموز بے خودی‘ اور ’’اسرار خودی‘‘ اس کے شاہد عد ہیں۔ غالباً اسرار خودی کے متعلق یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ پروفیسر نکلسن لیکچرر کیمبرج یونیورسٹی اس کا ترجمہ انگریزی میں کر رہے ہیں اور یہ تو میرے سامنے کا واقعہ ہے کہ ایک صحبت میں اسرار خودی پڑھی جا رہی تھی۔ پروفیسر محمد کاظم شیرازی جو خاص ایرانی ہیں اور مغربی زبانوں میں سے انگریزی اور فرانسیسی سے واقف ہیں موجود تھے اشعار سن کر جھومتے تھے اور کہتے تھے کہ کاش یہ شاعر ایران میں پیدا ہوا ہوتا۔ ان سب باتوں سے قطع نظر مشہور مستشرق پروفیسر برائون نے اپنی کتاب پریس اینڈ پویٹری آف ماڈرن پرشیا میں جدید شاعری کے عمدہ عمدہ نمونے درج کیے ہیں ان کا مقابلہ اقبال کی مذکورہ دونوں مثنویوں سے کیجیے اور انصاف کیجیے کہ فارسی کی زمین سنگلا خ میں ہندوستان کا یہ اسپ تازی ایران کے سمندخوش خرام میں پہلو مارتا ہوا جا ہرا ہے یا نہیں۔ تاہم کرنیل بھولا ناتھ صاحب کایہ مراسلہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ کم از کم کرنیل صاحب کی اخلاقی جرات اور صا ف گوئی کی ضرور داد دینا چاہیے۔ کرنیل صاحب فرماتے ہیں کہ میں شاعر نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ایشیائی انکسار ہولیکن اگر یہ واقعہ ہے تو آپ کے ذو ق سخن سلیم کی داد نہ دینا ظلم ہے۔ آپ نے اقبال کی نظم میں اصلاح دی ہے اور ازراہ قناعت وجوہ اصلاح اپنے مراسلہ میں بیانفرماتے ہیں اجازت دینجیے کہ دونوں کے متعلق کچھ عرض کروں: ۱۔ اقبال کے پہلے شعر کے مصرعہ اول پر کرنیل بھولا سنگھ صاحب نے آئندہ سے بغرض اختصار ہم صرف کرنیل صاحب لکھیں گے) چند اعتراض فرمائے ہیں پہلا اعتراض صورت بند محاورہ نہیں ۔ بند کے ساتھ نقشبند ہوا کرتاہے‘مگر یہ ہے کہ نقشبند کی صورت بند بھی محاورہ ہے۔ لغت کی متد اول اور مستند کتابوں میں تصریح موجود ہے امیر خسرو فرماتے ہیں: منظرے بود بس کشیدہ بلند چشم بند ہزار صورت بند دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بافرانس بہ معنی فرانس را کے صحیح نہیں۔ یہ اعتراض پڑھ ک میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ باکارا کے معنی میں آنا اس قدر مشور و معروف بات ہے کہ لغت و قواعد کے مشہو ربلکہ مستند معمولی ادنی کتابوں میں بھی مذکور ہے۔ یہ مصرع سنداً عرض ہے: سنجاب دہ زمیغ باکوہ تیسرا اعتراض لفظ فرانس پر ہے اس اعتراض کے دو جزو ہیں۔ اول جزو کا تعلق لفظ سے ہے اور جزو دوم کا تعلق وزن سے۔ اعتراض کے جزو اول سے تفریس اسما کی ایک اصولی بحث پیدا ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ انیسویں صدی میں فارسی بولنے والے ممالک پر مغربی تہذیب اک اثر پڑنا شروع ہوا۔ ہندوستان سیاسی اور علمی دونوں حیثیتوں سے انگلستان کے زیر اثر رہا ۔ ایران سیاسی حیثیت سے تو انگلستان اور روس کے زیر اثر رہا مگر علمی حیثیت سے فرانس کا اثر قبول کیا۔ وسط ایشیا علمی اور سیاسی دونوں حیثیتوں سے روس کے زیر اثر رہا اور فرانس کا اثر اگرپڑا بھی تو اس کی وساطت سے اس لیے مغربی ناموں کا تلفظ ہر ملک نے الگ الگ کیا۔ ہندوستان میں چونکہ یہ نام انگریزوں کی وساطت سے آئے تھے اس لیے تلفظ انگریزی قاعدے سے کیا گیا۔ ایران میں یہ نام فرانسیسی زبان سے گئے تھے اس لیے ان کا تلفظ فرانسییس تلفظ کے مطابق کیا گیا۔ لہٰذا وسط ایشیا میں ان مادوں کا تلفظ اسی قاعدے سے کیا گیا یہ تو ایک اصولی تمہید تھی اب لفظ فرانس کو لیجیے۔ انگریزی میں تو اس کا تلفظ فرانسے اور فران کے بین بین ہوتا ہے جو غیر فرانسیسی کلام و زبان سے بغیر مشق کے بمشکل ادا ہوتا ہے اس لیے اگر ایرانی فرانس کو فرانسہ کہتے ہیں تو یہ نہ تفریس ہے اور نہ کوئی مستقل نام بلکہ درحقیقت اختلاف تلفظ ہے جو درحقیقت انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کے اختلاف تلفظ کا نتیجہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب مغربی نام فارسی زبان میں استعمال کیے جائیں تو ان کو مفرس بنا لینا چاہیے یا اپنی اصلی حالت پر قائم رکھنا چاہیے۔ اور اگر مفرس بنایا جائے تو کس قاعدہ سے؟ مگر واقعہ ی ہے کہ اس کے متعلق کوئی اصول اب تک طے نہیں ہوا ہے ایرانی ارباب قلم عام قدرتی طریقہ کے پابند ہیں۔ جس نے جو لفظ جس طرح سنا ہے اسی طرح استعمال کرتا ہے بمبئی کلکتہ حیدر آبد سے جو فارسی اخبارات خود ایران یا ایرانیوں نے نکالے تھے ان میں مغربی ناموں کا تلفظ انگریزی قاعدہ سے ہوتا ہے۔ ترکستان مثلا باغچہ سراے وغیرہ سے جو فارسی اخبارات نکلتے ہیں ان میں مغربی ناموں کا تلفظ اسی قاعدہ سے ہوتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال بھی اس عام قدرتی قاعدہ کے پابند ہیں۔ کرنیل صاحب اس روش کو قابل اعتراض فرماتے ہیں۔ یہ درحقیقت محاورہ زبان کی غلطی نہیں بلکہ اختلا ف رائے ہے ۔ لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ کرنیل صاحب جس طریقہ کو پسند نہیں فرماتے خود اسی پر عمل کرتے ہیں ایرانی اگر فرانس کو فرانسہ کہتے ہیں تو جرمنی کو المانیا اٹلی کو اطالیا جاپان کو ژابون کہتے ہیں مگر کرنل صاحب نے اپنی اصلاح میں ان تمام ناموں کو وہی تلفظ کیا جو ہندوستان میں رائج ہے۔ پہلے شعر کے مصرعہ ثانی کے متعلق کرنیل صاحب کا یہ ارشاد ہے کہ فکر رنگین اور دل گرم محاورہ نہیں۔ کیا عرض کروں اس وقت کوئی شعر یاد نہیں آتا۔ تاہم کرنیل صاحب اتنا تو ضرور تسلیم فرمائیں گے کہ خیال رنگین اور رنگین خیال و نیز گرم دل بہ معنی عاشق سوختہ عشق غلط ہو گا مگر بہتر ہے کہ یہ اعتراض سند کے ملنے تک ملتوی رکھا جائے۔ اس لیے اس وقت صرف اس سرسری اشارہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ ۲۔ اقبال کے دوسرے شعر کے مصرعہ ثانی میں کرنیل صاحب چشم حیران کے بدلہ سرگردان زیادہ موزوں خیال فرماتے ہیں معلوم نہیں کہ یہ موزونیت شاعری کے لحاظ سے ہے یا واقعہ کے خیال سے۔ شاعری کے لحاظ سے تو دل بیتاب کے لیے چشم حیران ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے رہا واقعہ تو اس کے متعلق وہ حضرات فیصلہ کر سکتے ہیں جو جرمن قوم کے اصلی کریکٹر سے واقف ہیں لیکن اگر واقعہ کے لحاظ سے سرگران زیادہ موزوں ہے جب بھی سرگران چنداں مناسب نہ ہو گا کیونکہ سرگران کے معنی بقول کرنیل صاحب متکبر اور مغرور ہوں گے اور آگے واو ہے۔ اس لیے سرگرانی ہونا چاہیے۔ ۳۔ چوتھے شعر کے پہلے مصرع پر یہ اعتراض ہے کہ ساز سے صدا نکلتی ہے نہ کہ نوا۔ اس لیے نو کی بجائے صدا ہونا چاہیے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ نوا مطلق آواز کو بھی کہتے ہیںاور نغمہ کو بھی۔ موسیقی کے بارہ مقاموں میں سے ایک مقام کا نام بھی ہے۔ امیر خسرو فرماتے ہیں: شد زن مطرب بنوا گستری حضرت نظامی گنجوی فرماتے ہیں: بر زخمہ چون نے نوا ساز نم کیا اب بھی ساز دہر سے نوائے حریت کا لکھنا خلاف محاورہ ہے؟ کرنیل صاحب کی اصلاح واقعی قابل داد ہے ۔ گویہ اصلاح خود اصلاح طلب ہے: ۱۔ پہلے شعر کا مصرعہ اول صاف‘ بے عیب اور چست ہے۔ البتہ ابتداء باستفہام کی وجہ سے جو بلاغت کہ مصرعہ میں پیدا ہو گئی تھی وہ ہاتھ سے جاتی رہی۔ دوسرے مصرعہ میں دل دل شاد سے مفہوم بدل دیا۔ اقبال نے فرانس کی عشق پرستی بیان کی تھی۔ کرنیل صاحب اس کی زندہ دلی اور خوش باشی بیان فرماتے ہیں۔ ۲۔ دوسرے شعر میں مصرعہ ثانی غور طلب ہے۔ سرگران کے متعلق اعتراضات کے سلسلہ میں عرض کر چکا ہوں۔ لفظ داد دو جگہ آیا ہے۔ ایک بالکل فضول اور حشو ہے۔ ۳۔ تیسرے شعر کے مصرعہ اول میں ’’ش‘‘ را دونوں میں سے ایک زائد ہے ۔ از ہم بالکل بھرتی کے لیے لایا گیا ہے اگر شیرازہ کا لفظ استعمال کرنا تھا تو یوں کہنا چاہیے تھا: روس را شیرازہ جمعیت ملت گیسخت ۴۔ چوتھے شعر کے دونوں مصرعہ یونان اور چین کے ن کے اعلان کے بغیر موزوں نہیںہوتے۔ کیا فارسی ترکیب کی حالت میں یہ جائز ہے؟ ۵۔ پانچویں شعر میں دوسرے مصرعہ کو موزوں کرنے کے واسطے ہالند کی دال کو مشدد پڑھنا پڑتا ہے۔ حالانکہ دال مشد د نہیں بلکہ ساکن ہے۔ ۶۔ چھٹے شعر کے پہلے مصرعہ میں در دل ماہی کے بدلہ در ودل دریا ہونا چاہیے۔ ناروے کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ماہی گیری ہے اور مچھلی دریا سے نکلتی ہے۔ ۷۔ آٹھواں شعر نظم کے سلسلہ بیان سے الگ معلوم ہوتا ہے کیونکہ نظم میں تقسیم ازل کا ذکر ہے نہ کہ انقلاب زمانہ کا۔ اور اس شعر میں گردش روزگار کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ آخر میں چند لفظ ان دونوں نظموں کی عام روح (اسپرٹ) کے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اقبال کی نظم پڑھنے کے بعدیہ معلوم ہوتاہے کہ شاعر نے اپنی انفرادی شخصیت وطن کی اجتماعی شخصیت میں جذب کر دی ہے۔ اقبال اس وقت اقبال ہیں۔ اس کا دل ہندوستان کا دل ہے اس کی زبان ہندوستان کی زبان ہے۔ اس کا کلام اقبال کے خیالات کی تعبیر نہیں بلکہ ہندوستان کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ غرض و ہ اس وقت ہندوستان کے دل سے محسوس کر رہا ہے‘ اسی کے دماغ سے سوچ رہا ہے اور اسی کی زبان سے بول رہا ہے۔ اس لیے وہ جانتا ہے کہ اس موقعہ پر وہ واعظ ناصح یا خطیب نہیں بن سکتا۔ اسے شاعر اور صرف شاعر بننا چاہیے۔ یعنی الفاظ کے آب و رنگ سے وطن کے جذبات کی تصویر کھینچنا چاہیے۔ تھوڑی دیر کے لیے چشم ظاہر بین کو بند کیجیے اور ہندوستان کا دل بن کر تخیل کی نظر سے دیکھنا شروع کیجیے۔ عالم اور کاروبار عالم پیش نظرہے۔ فرانس عیش و طرب کی داد دے رہا ہے۔ انگلستان تجارت و حکومت کا نقارہ بجا رہا ہے۔ اس حالت کو دیکھ کر جرمنی کی نگاہ رشک حیران اور دل حوصلہ بے تاب ہے۔ اس کا کوہ استبداد زیر و زبر ہو چکا ہے۔ امریکہ سے انسانیت پرستی اور حریت پروری کا غلغلہ بلند ہو رہا ہے۔ خیا کا مسافر بحیر ہ اٹلانٹک کے دونو ں جانب سیر کر کے اپنی طرف لوٹتاہے۔ ہم یعنی ہندوستا ن کون ہندوستان ؟ جو کبھی روحانیت کا چشمہ فیض تھا جو کبھی آفتاب علم کا مطلع انوار تھا جو کبھی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا جو کبھی عیش و عشرت کا جنت آباد تھا آج اس کی کیا حالت ہے۔ دل پر ایک چوٹ لگتی ہے۔ حسرت کی آنکھ سے یاس کے اشک خونین ٹپکنا چاہتے تھے۔ ایک نہایت نازک موقع ایک علم النفسی لحظہ کمال شاعری کی امتحان گاہ ابال معمولی شاعر نہیں ورنہ ایک حسرت آمیز شعر کہہ کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتا ہوں۔ اس کی طبیعت نکتہ رس اور دقیقہ سنج ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک س ماندہ قوم کیسامنے حسرت و یاس کی تصویر پیش کرنا اس کو موت کا پیغام دینا ہے۔ اس لیے وہ ایک ایسا مضمون تلاش کرتا ہے جو عبرت انگیزی اور خودداری دونوں کی روح سے معمور ہو۔ اسے معلوم ہے کہ ناامیدی کی حالت میں نفس انسانی تسلی آمیز خیال کے لیے تشنہ لب ہوتا ہے ۔ اسے یہ بھی خبر ہے کہ یورپ و امریکہ اگر چہ مادیات میں اوج ترقی پر ہیں لیکن روحانیات میں ان کے یہاں صفر ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہندوستان گو دنیاوی حیثیت سے درماندہ و بے نوا ہے لیکن روحانیت و مذہب اس کی زندگی کا عنصر غالب ہے۔ ان حالات کو پیش نظر رکھ کے وہ ایک ایسا مرقع پیش کرنا چاہتے ہیںجس میں مغرب کی مادی ترقی اور روحانی تنزل اور ہندوستان کا مادہ افلاس اور روحانی دولت مندی پہلو بہ پہلو نظر آئیں گے وہ یہ خوب جانتاہے کہ خدا کا نام اس کے ہم وطنوں کے لیے کیا کشش رکھتا ہے۔ اس لیے وہ ساز شاعری کے اسی تار کو چھیڑتاہے ہے اور ایک عبرت و تسلی آمیز نغمہ اس شعر کی صورت بن کے نکلتا ہے: ہر کسے در خورد فطرت از جناب او بیرد بہرما چیزے نہ بود و خویش را با ما سپرد کرنیل صاحب اقبال کی نظم پڑھنے کے بعدیہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ناظم قوم کا ایک دردمند غمگسار ناصح ہے۔ وہ دنیا کی چہل پہل‘ ہل چل‘ جدوجہد اور رونق و گریہ بازاری اور ا کے مقابلہ میں اپنے عزیز وطن کی بے چینی و بے بسی کو دیکھتا ہے اس کا دل خون ہوتا ہے او ریہ خون دل شعر بن کے ٹپکنے لگتا ہے ۔ وہ درد غم سے بے چین ہے اس بے چینی کے عالم میں اقبال کی سبق آموزی اور خودداری کا سر رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ وہ اپنے وطن کی پس ماندگی کا ذمہ دار صورت آر اے ازل کو سمجھتا ہے اورایک شکوہ سنج لہجہ میں چیخ اٹھتا ہے : پیش ہر یک بہرہ از خوان الوانش نہاد ہند را بہر تماشہ چشم دو پر آب داد اصل یہ ہے کہ کرنیل صاحب نے اقبال کے نقطہ خیال کو نظر انداز فرما دیا۔ چونکہ نقطہ خیال بدل گیا اس لیے اصلاح شدہ نظم میں نہ وہ روح رہی جو اصل نظم میں تھی اور نہ وہ اثر و کیف۔ محاکمہ اقبال و بھولا ناتھ کے متعلق یہ چند سرسری اشارات ہیں۔ اقبال کی نظم میں بلاغت کے جو لطیف و نازک نکتہ ہیں وہ تفصیل کے طالب ہیں جو اس مختصر مراسلت کے لیے موزوں نہیں۔ اس لیے قلم انداز کرتا ہوں۔ (زمانہ ‘ کانپور ‘مارچ 1919ئ) ٭٭٭ احضاد حسین علامہ اقبال اعتراف کمال پر طعنہائے دلخراش غریب شہر سخنہائے (نا) گفتنی دارد علامہ اقبال کے آفتاب کی کرنیں ہندوستانی مسلمانوں کے جھونپڑوں پر اگر ضیا پاشی کرتی تھیں تو چنداں مقام تعجب نہ تھا اگر دکھے ہوئے دل زخمی جگر پریشان دماغ ان کے کلام میں سامان آلودگی مرہم مندمل اور سرمایہ سکون مہیا پاتے تھے تو کسی کو حیرت نہ تھی۔ ایشیا کے عرفاں پاش نغمے اگر صاف ستھری زبان اور بلند و نادر استعاروں کے حجاب میں ہمارے کانوں کی سمع نوازی کرتے تھے تو حق بحق دار رسید کا مصداق تھا مگر اللہ اللہ قصر استبداد کی سنگینی اور عدم رقاق پر ہندوستان کی ننھی سی دنیا آتش زیر پا ہے اور جس کے متعلق اب کلمہ خیر بہت ہی کم سننے میں آتا ہے۔ علامہ اقبال کی سحر آفرینی اور روحانی جذب سے متزلزل ہے۔ امسال کی فہرست خطابات کے اس حصہ سے ہمیں سروکار نہیں جو ان حضرات کے متعلق ہے جن کی گرامی صفات ہسیتاں حکام کے گنگلوں پر نور کے تڑکے سے پیشتر پہنچ جاتی ہیں یا جن کے مبارک ہاتھوں نے سینکڑوں گنہگاروں کو کیفر کردار کو پہنچا کر تمغہ صلاحیت حاصل کر لای ہے۔ ہمیں نہ کسی کی جبہ سائی سے مطلب ہے نہ کسی کی نصف شعاری سے شکوہ۔ عیسیٰ بدین خود رہے موسیٰ بدین خود ۔ ہمارے پیش نظر تو ہندوستان کا وہ سرمایہ ناز شاعر وہ روشن دماغ فلسفی‘ وہ بلند رتبہ صوفی اور وہ متوکل علی اللہ اور فقیر منش درویش ہے جو اگرچہ کلاہ تتری رکھتا ہے مگر درویش صفتی میں ان کوتاہ آستین (دراز دست) دلق پوشوں سے کم نہیں۔ نہیں نہیں جس کا تمام سرمایہ عبادت اس کا خلوص اور حسن نیت ہے اور بس۔ ہم اس شخص کے سلسلہ میں کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کے اخبارات اور بعض انجمنوں میںایک شور برپا ہے۔ علامہ سے سر ہو گئے اقبال پنجاب کے وہ فتنہ زا خوردہ گیر اخبارات جو ہندو مسلم اتحاد کی بنیادیں کھوکھلی کرنے پر کمر بستہ ہیں غوغا مچا رہے ہیں۔ کہ مالوی تو سر نہ ہوئے مگر اقبال (گھر بیٹھے) نائیٹ بن بیٹھے۔ انہیں حیرت ہو گی اور بالکل بجا کہ انسان شملہ و دہلی کی زمین کا گز بنے بغیر وائسرائے اور عامتہ الناس کے درمیانی آدمی کی حیثیت اختیار کرنے سے محترز رہ کر گاہ بایں شاخ اور گاہ بایاں اس کاکامیاب طرز عمل کے سوا کوئی اور بھی راہ ہے جو انسان کو محبوب اور مطبوع خلائق بنا دیتی ہے۔ اس کا جواب صرف حافظ شیرازی دے سکتا ہے۔ قبول خاطر و لطف سخن خداداد است یا یہ کہ کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حصول خطاب کوئی مستحسن امر ہے یا یہ سعی بے حاصل کسی صورت میں بھی مشکور متصور ہو سکتی ہے۔ حاشا و کلا مقصود تو صر ف یہ ہے کہ اگر ایک صاحب کمال شخص جس کے کمالات کا اعتراف پبلک مقبولیت اور ہر دلعزیزی سے کر سکتی ہے تو کیا حکومت کو (خواہ اس میں کسی گروہ کے نقطہ نظر کے موافق ابلیسیت کے عناصر بدرجہ اتم ہی کیوں نہ موجو د ہوں) یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے اعتراف کا اظہار کر سکے۔ ایک سخن سنج اگر کسی شعر پر اپنی جنبش ابرو سے داد دے سکتا ہے تو ایک ناشناس کو بھی حق حاصل ہے کہ واہ واہ کے آسمان رسا نعروں سے مجلس کو گرما دے۔ تحسین ناشناس او ر سکوت سخن شناس کا مرتبہ ایک ہی ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایک تخریبی ثابت ہو اور دوسرا تعمیری۔ پس جب پبلک کو (جس میں ایسے لو گ بھی شامل ہوتے ہیں جو ایک ایک مصرع کی قیمت دونوں عالم معلوم کرنے کے بعد بھی ارزانی ہنوز کا نعرہ مستانہ لگاتے ہیں اور ایسے باکرامت بزرگ بھی جو کسی گائوں کی مغنیہ کے خروس بے ہنگام کو اقبال کے ترانوں پر ترجیح دیتے ہیں) یہ حق حاصل ہے کہ شمع و شاعر کی جنگ آزمائیوں کا بہر کیف مشاہدہ کرے تصویر درد کو مادی و محسوس شکل میں دیکھے اور اس دلاوز آواز کو جسے نالہ یتیم کہتے ہیں سنے اور اجتماعی حیثیت سے ایک شخص کو ’’قومی شاعر‘‘ بنا دے تو کیا ریڈنگ اور پیل شفیع اور ونٹرٹن کو یہ حق نہیں کہ وہ بھی اس قبولیت کو اس چیز کی نذر سے جسے وہ محبوب و معزز خیال کرتے ہیں نہ کردیں۔ اگر حسن کی کشش ایسی ہو سکتی ہے کہ گورنر جھک جائیں تو کیا شعر (سحر) میںاتنا جادو نہیں کہ گورنر جنرل کو ہدیہ بدست دکھلا دے۔ بڑے بڑے جابر و سفاک بادشاہ گزرے ہیں مگر اقلیم سخن کے فرمانروائوں کو انہوںنے ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مانا کہ موجودہ سلطنت میں خطابات بیشتر انہیں حضرات کو ملتے ہیں جن کے دامن عمل ملوث ہوتے ہیں مگر کیا خرق عادت (خواہ وہ کتنی ہی مستحسن شکل میں ہو) عداوت کی مرادف گردانی جائے گی۔ ہمیشہ سے اور ہمیشہ سے نہیں تو اکثر اہل قلم اور خادمان ملت تعزز اور اعتراف خدمات سے بے نیا ز رہتے ہیں۔ نکتہ چیں گاہ گاہ نہیں بارہا اور اکثر اکثر حکومت کی بد مذاقی پر قلم دوات اور کاغذ کو خراب کرتے رہتے ہیں۔ یہ شکوہ سنا جاتا ہے کہ حکومت صحیح اورموزوں آدمی کو خلعت سے عاری رکھتی ہے مگر اب جب کہ پہلی مرتبہ یہ بدعت (حسنہ) کی جاتی ہیتو آپ اس شخص کی ڈاڑھی نوچنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس کا نہ قصور ہے ار نہ اس ارتکاب جرم میں کوئی ہات۔ مشرقی درباروں کو لیجیے ذوق تو خاقانی ہند بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ شہ کے مصاحب تھے اور غالب کہ ترجمان جذبات تھا وہ بوریہ نشیں مرزا نوشہ رہتا ہے۔ یا انشاء اللہ خاں تو لطیفہ گوئی کے ؤطیل میں سعادت علی خاں کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں اس یے کہ وہ تقرب شاہ کے جویا تھے اور غریب مصحفی کا گڈا بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ رعایا سے زیادہ وابستہ تھے۔ شیخ امام بخش ناسخ تو بسنت خان کی مداحی کے صلہ میں اتنے پر خور ہو سکتے ہیں کہ آموں سے ناندیں بھر لیتے ہیں اور غریب آتش اپنی کملی میں مست ہے اس وجہ سے کہ اس کی خودداری شاگردوں کے سامنے بھی سوال دراز نہیں کرنے دیتی۔ مگر دو سو برس کے راج کے بعد دربار فرنگ سے اس کلیہ میں استثنا ہوتا ہے اور عزلت نشیں اقبال کا بوریا ئے بے ریا ایک طلو ع و غروب میں ایک نائٹ (سردار) کا قالین بن جاتا ہے اس کی شکستہ قلم اس کی تیغ اور بیاض کے صفحات اس کے خریطہ کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ اقبال سے تقاضا ہے کہ تو خطاب واپس کر دے۔ یہ وہی اقبال ہے جو نہ مسلم لیگ کی صدارت قبول کرتا ہے نہ کسی یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ نہ کسی گورنمنٹ ہائوس کی زیارت کرتا ہے نہ کسی سرکاری ڈنر میں خوشی خوشی شریک ہوتا ہے نہ وہ قوم سے ’’قومی شاعر ‘‘ کے لقب کا طلب گار نظر آیا نہ وہ ’’سر‘‘ کی بھیک مانگنے ایرانی حکومت کے قریب دیکھا گیا۔ ہاں تو وہی اقبال اگر سر ہو جات اہے تو یہ شو ر و شیون کیوں یہ نالہ و فغاں کس لیے۔ یہ حسن طلب یا تقاضائے جفا کس وجہ سے۔ اس کے پاس تو جب بھی ایک ہی خواب تھا اور اب بھی ایک ہی جواب ہے۔ صالحان! خوردہ مگیرید کہ مارند انیم ہندو قوم کو دیکھو وہی ڈاکٹر پی سی رائے جو کشکول گدائی صرف اس لیے لیے پھرتے ہیں کہ بنگال کے بھوکوں کو مرنے سے بچائیں چرخہ کا پرچا ر کریں۔ مادیت کے خلاف پندونصائح کریں حکومت سے بھی جب سر کاخطاب پاتے ہیں تب بھی اسی طرح ممدوح و محمود رہتے ہیں۔ جگ دیش چندر بوس جن کی ایجادات و اختراعات نے چار دانگ عالم کو ہندوستانی کی ذہانت کا معتقد کر ا دیا اپنی قوم کے بھی سرتاج ہیں اور حومت سے بھی سر کا خطاب پاتے ہیں۔ سرچشمہ علوم و تحقیق بھنڈارک جن کی بدولت مشرقی علوم کی بجھتی ہوئی شمع ہندوستان کی بد مذاقی کی صر صر سے بھی نہ بجھی اپنے کتب خانہ میں بیٹھے ہوئے پبلک یں بھی مقبول ہوئے اور حکومت نے بھی اعتراف کیا یعنی انہیںنائیٹ بنا دیا ۔ آہ آج وہی رسم بدنصیب مسلمانوں کی قوم کے ایک رکن کے ساتھ بھی ادا کی گئی مگر اتنی وسعت نظر علو تخیل کہاںسے لائیں کہ سر محمد اقبال کو اس مسلک میں منسلک نہ کریں جس کے موتیوں نے بحر قوم میں ایسے افراد کہاں جو یہ سمجھ سکیں کہ اگر نان کو آپریشن کی مخالفت یا عدم تائید کے صلہ میں ملتا تو یہ خطاب میاں فضل حسین یا لالہ لر کشن لعل کو ملتا۔ معلوم نہیںفہرست خطابات شائع ہونے کے بعد کتنے ؤملت فروش جنہوں نے اپنی قوم کے نوجوانوں افراد کے گلے کاٹے ہوں گے کف افسوس مل رہے ہوں گے۔ سخن شناس نئی دلبرا خطا ایں جا است ورنہ اقبال ترجمان حقیقت اقبال بطل حریت اقبال وہ اقبال جس نے ہمیں تڑپنے اور تلملانے کا طریقہ بتلایا‘ نو گرفتار ان قفس کو رہائی کی راہیں بتلائیں وہ اقبال جو لندن کی سیر کو گیا ؤمگر کس طرح؟ جانے سے پہلے نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر متاع نیاز کی نذر چڑھا کر ار آنے کے بعد تہذیب حجازی کے مزار پر آنسو بہا کر۔ وہ اقبال جو آپ کی مجلسوں میں شریک تو ہو ا مگر کس لیے تاکہ آپ کے لیے دعا کرے کہ: یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو روح کو تڑپا دے جو قلب کو گرما دے ہاں ہاںوہ تمہاری صحبتوں میں شریک ہوا تاکہ روئے اور رلوائے۔ اپنے سینہ کو صاف کرے اور تمہارے سینوں کو صاف کرائے وہ کہتا رہا کہ: میں سارے چمن کو شبنم ستان کر کے چھوڑوں گا اقبال! اگر آج تجھ پر لو گ تہمت و افترا کی یورش کرتے ہیں تیری دل شکنی پر آمادہ ہیں تو مت گھبرا: تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں سر محمد اقبال! اگر نائیٹ ہڈ کا تمغہ تیرے سینہ پر آویزاں (ظاہر بینون کو) نظر آ رہا ہے تو مت سمجھ کہ ایسے لوگ اب باقی نہیں جو یہ نہیں جانتے ہوں: ابھی اے ہم نفس رہنے دے شغل سیہن کاوی میں کہ میں داغ جگر کو… نمایاں کر کے چھوڑوں گا عرفان پاش اقبال! اگر سالک بٹالوی تیرے اوپر طعنہ زن ہے تو تو پروا نہ کر دیدہ سعدی و دل ہمراہ تست قوم کی نظر میں تو خواہ صرف ڈاکٹر رہے یا سر ہو جائے یکساں ہی رہے گا۔ یہ عارضی پہچان یہ ہنگامی جوش و خروش چند روزہ ہے۔ ان تیر اندازوں سے میں تو صرف اس قدر کہوں گا: ہے صداقت کے لیے دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرے اور تو یہ کہہ کر انہیں خاموش کر: رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو (ہمایوں‘ مئی 1923ئ) اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End