نیرنگ خیال اقبال نمبر نقوش اقبال نمبر اقبال اکادمی پاکستان اقبال نمبر طبع اول کا دیباچہ نیرنگ خیال، اقبال نمبر ۱۹۳۲ء ۱۹۳۲ء میں ہم نے نیرنگ خیال کا اقبال نمبر ستمبر و اکتوبر کے نیرنگ خیال کے مشترکہ نمبر کی صورت میں شائع کیا تھا۔ اس زمانہ میں ایک دیباچہ بصورت شذرات شائع ہوا تھا۔ جو اس زمانہ کی خصوصی باتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر بھی اس کا خلاصہ یہاں پیش کرتا ہوں۔ ’’ ہمارے صفحہ اول کا یہ اعلان کہ ایجاد ہمارا حصہ ہے اور تقلید دوسروں کا۔ اس کی اشاعت محض اس لئے رد کر دی گئی کہ اس اعلان سے بعض معاصرین کے قلوب پر ٹھیس لگتی تھی ہمارا مسلک صلح کل ہے اور ہم اپنے معاصرین کا احترام کرنا اور ان کی علمی ادبی سرگرمیوں کی قدر کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر آج زیر مطالعہ نیرنگ خیال میں یہ اعلان نظر آئے تو ہمیں معذور سمجھا جائے۔ نیرنگ خیال ہندوستان کا واحد مجلہ علمیہ ادبیہ ہے جس نے رسائل کے لئے ایک جدید شاہراہ عمل پیش کر کے کامیابی کی منزل پر پہنچنے کی کوشش کی ہے اس جدید شاہراہ پر عمل میں خاص نمبروں کی ایجاد بھی اسی کا حصہ ہے۔ ہمارے دوست اور دشمن دونوں کو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ نیرنگ خیال کے خاص نمبر واقعی لاجواب اور بے مثل ہوتے ہیں۔ ان خاص نمبروں کی اشاعت سے نیرنگ خیال کے ناظرین کی ذہنی تربیت کا سامان بہم پہنچایا جاتا ہے اور ملک کے لئے ایک ایسا لٹریچر فراہم کیا جاتا ہے جو آنے والی نسلوں کے درس و تدریس کے سلسلہ میں شمع ہدایت کا کام دے گا۔‘‘ اقبال نمبر کا اعلان اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ لیکن پبلک نے اس اعلان کے بعد جس دلچسپی کا اظہار کیا وہ محتاج بیان نہیں۔ دفتر میں اس قسم کے خطوط بکثرت موصول ہوتے رہے۔ جن میں اقبال نمبر کو دو ماہ یا تین ماہ کا مشترکہ نمبر بنا کر ممدوح کے شایان شان بنانے پر اصرار کیا جاتا تھا۔ اس لیے ہم اپنے ناظرین کو وعدۂ فردا پر ٹالتے رہے۔ مگر پورے تفکر اور تدبر سے اقبال نمبر کو کامیاب بنانے میں کوشاں رہے۔ حجم کے طے ہو جانے کے بعد سائز کا سوال پیش ہوتا ہے۔ ہم ہمیشہ بڑے سائز کے دلدادہ اور شائق رہے ہیں۔ نیرنگ خیال کے سالنامے اور خاص نمبر اس کے شاہد ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کا بھی علم تھا کہ اقبال نمبر ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے یہ تو ایک مستقل تصنیف ہے جو صرف ایک ہی موضوع کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتی ہے۔ اس ئے اس تصنیف کو علامہ سر محمداقبال کی دیگر تصانیف ہی کے ساتھ پیش کیا جائے تو موزوں سمجھا جائے گا۔ علامہ موصوف کی بیشتر تصنیفات ۲۷x۱۷/۸ سائز پر شائع ہوتی ہیں۔ اس لئے یہی سائز ہم نے اقبال نمبر کے لئے پسند کیا۔ اور آج ہم آپ کی خدمت میں ایک خاص نمبر نہایت خوبصورت کتاب کی شکل میں پیش کرنے کی عزت حاصل کر رہے ہیں جو آپ کی لائبریری کی زینت ہو گی اور جسے آئندہ نسلیں بھی حرز جان بنائیں گی۔ ہندوستان میں اقبال کو جاننے والوں کی تعداد کروڑوں سے متجاوز ہو گی۔ لیکن اقبال کو سمجھنے والوں کی تعداد ہزاروں سے زیادہ نہ ہو گی۔ (یہ ۱۹۳۲ء کی تحریر ہے) اور یہ حال دنیا کے ہر بڑے شاعر کا ہوتا ہے لیکن اقبال نمبر کی اشاعت کے بعد توقع ہے کہ ہندوستان کا تمام تعلیم یافتہ طبقہ جو ان مضامین کو غور و فکر سے پڑھے گا اور اقبال کے پیغام کو سمجھنے لگے گا۔ تو ان میں اس امر کی تحریک پیدا ہو گی کہ وہ اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم اور جاوید نامہ کو سبقاً سبقاً پڑھیں۔ اسلامی مدارس اور مسلم یونیورسٹی میں ان کتابوں کو کورسوں میں داخل کر لیا جائے گا۔ تاکہ ہندوستان کی آئندہ نسلیں اپنے مفکر کے فلسفہ سے بخوبی واقف اور ماہر ہو جائیں۔ جو قوم کی حیات جاوید کا واحد اور حقیقی نسخہ ہے۔ حکیم یوسف حسن ایڈیٹر نیرنگ خیال ۱۹۳۲ء ٭٭٭ اقبال نمبر طبع ثانی ۱۹۷۷ء ۱۹۳۲ء میں اقبال نمبر کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ یہ بھی عنایات و اکرامات قدرت سے ہے کہ جس شخص نے ۱۹۳۲ء میں طبع اول پر دیباچہ لکھا تھا وہی اس کی طبع ثانی پر بھی دیباچہ لکھ رہا ہے۔ بع اول میری جوانی کی تخلیق ہے اور طبع ثانی میرے بڑھاپے یا سن کہولت کی اور پھر اس اشاعت کے لئے مجھے جوان سال باہمت و با اخلاق جناب محمد طفیل صاحب مدیر نقوش کا سہارا لینا پڑا ہے جو خود بھی اس اشاعت پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے اور وہی اس کی اشاعت کا اہتمام بھی فرمائیں گے۔ پہلا ایڈیشن ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا تھا اور دنیائے اقبال بخوبی جانتی ہے کہ اس وقت اقبال کا طوطی تو بول رہا تھا۔ مگر سخندانوں اور سخن فہموں کی کمی تھی۔ آج وہ زمانہ ہے کہ اقصائے عالم میں اقبال کا پرچم علم و ذہانت پورے طمطراق سے لہلہا رہا ہے۔ اب مفکران عالم میں اقبال اپنی مسند پر شان سے جلوہ افروز ہیں اور انہیں قبول خاص و عام حاصل ہے اور دنیا کے چپہ چپہ پر فلسفہ اقبال کی روشنی پھیل رہی ہے۔ اقبال کے متعلق ۱۹۳۲ء سے درجنوں نہیں سینکڑوں تحقیقی و تنقیدی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور اقبال نمبروں کی تعداد بھی ایک سو سے کم نہ ہو گی۔ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ دنیائے ادب میں متفقہ طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ نیرنگ خیال کا اقبال نمبر اس مقصد میں یقینا لا مثال ثابت ہوا ہے اور جو کچھ اس کے ذریعہ سے نشر ہوا ہے اس سے صحیح معنوں میں اقبالیت پر بہترین اور قیمتی ادب اور علم پیش ہوا ہے جس کی اہمیت برابر تسلیم کی جاتی ہے۔ اقبال کے متعلق کچھ لکھنا اور اسے شائع کرنا ایک ملی خدمت ہے جس میں پاک و ہند اور اصائے عالم کے تمام اہل قلم برابر حصہ لے رہے ہیں۔ میں اس کے لئے تمام اہل قلم کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ حکیم یوسف حسن ٭٭٭ طلوع تین چار برس پہلے، میں نے حکیم صاحب کو اکسایا تھا۔ نیرنگ خیال کا اقبال نمبر چھاپ دیجئے۔ انہوں نے جواب میں فرمایا۔ بڑھاپے نے امنگوں کو روند ڈالا ہے۔ اس نمبر کے چھاپنے پر میرا اصرار اس لئے تھا کہ یہ پہلا اقبال نمبر تھا۔ جو علامہ ا قبال کی زندگی میں چھپا تھا ۔ یہی وہ چراغ تھا جس سے بعد میں بہت سے چراغ جلے۔ جب اقبال صدی پر اقبال کے سلسلے میں لمبے چوڑے منصوبے سامنے آئے۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے بھی اپنے اپنے پروگراموں کا اعلان کر دیا۔ ان کی موجودگی میں بھی میرے نزدیک اس نمبر کی اشاعت نہ صرف ضروری تھی بلکہ بہت ضروری! وقت نکلا جا رہا تھا۔ وعدہ کر چکا تھا کہ نمبر چھپ جائے گا۔ جب کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آئی تو بالوں میں انگلیاں ڈال کے سر کو کھجانے لگ گیا۔ بالآخر اپنے آپ سے سوال کیا۔ ادارۂ نقوش یہ کام کر سکتا ہے؟ اس کش مکش میں بڑا وقت ضائع ہوا۔ میرا گھٹیا پن مجھ سے کہتا۔ میں کیوں کسی دوسرے رسالے کو اہمیت دوں؟ میں کیوں اپنے حریفوں میں اضافہ کروں؟ سوال انا کا پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ بہت رد و قدح ہوئی۔ بہت رد و قدح! میں نے من و تو کے چکر سے اپنے آپ کو نکالا۔ سوچا! حکیم صاحب سے دوستی! نمبر کی اہمیت! پھر ہچر مچر کیسیـ؟ چنانچہ حکیم صاحب وک لکھ دیا۔ بندہ راضی! نقوش راضی! راضی نامہ ہو جانے پر بھی، ذہن نے ایک بار پھر پٹخنی کھائی۔ مسٹر آخر جواز؟ وہ کام جو حکیم صاحب نے کیا۔ اسے میں جوں کا توں کیوں پیش کروں؟۔۔۔ محمد طفیل کا کیا بنے گا؟ میرے لئے بڑا آسان تھا کہ میں اس نمبر میں اپنی طرف سے نئے مضامین شامل کر کے نمبر کو ’’پھینٹ‘‘ دیتا۔ مجھے ڈھونڈو اور حکیم صاحب کو ڈھونڈو کا مسئلہ پیدا کر دیتا (جب کہ حکیم صاحب کی طرف سے اجازت بھی تھی بلکہ اصرار بھی) مگر دل نہ مانا۔ دل تو یہ چاہتا تھا کہ حکیم صاحب کی خدمت کا علم جتنا اوپر اٹھ سکے۔ اٹھایا جائے۔ بس بیچ بیچ میں شیطان وسوسے ڈال دیتا تھا۔ بہرحال ہر قسم کی این و آلی کے بعد، میں نے نیرنگ خیال کی فائیلیں اٹھائیں۔ گرد جھاڑی، انہیں چوما، ورق ورق دیکھا۔ وہ مضامین جو مجھے فائلوں میں ادھر ادھر بکھرے نظر آئے۔ انہیں بھی، اس نمبر کی زینت بنا ڈالا۔ اس اضافے میں بڑے مضمون نگار بھی نظر آئیں گے اور بڑے مضمون بھی!۔۔۔۔۔ یوں محمد طفیل مطمئن ہو گیا۔ ٹنٹا ختم ہو گیا! ذرا سی ایک بات اور سن لیں۔ اقبال پر سینکڑوں رسالے اور ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ مگر یہ نمبر ہزاروں ہی میں ممتاز، سینکڑوں ہی پہ بھاری!۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ جب تک اقبال زندہ ہے۔ اس پر کام کرنے والے زندہ ہیں۔ یہ نمبربھی زندہ! حکیم صاحب بھی زندہ! موت سب کچھ چھین لیتی ہے۔ مگر وہ کسی سے اس کے کارنامے نہیں چھینتی! محمد طفیل ٭٭٭ سرتیج بہادر سپرو کا پیغام آپ کا خط مورخہ ۹ ستمبر ملا۔ آپ نے نیرنگ خیال کے ’’ اقبال نمبر‘‘ کے لئے مجھ سے پیغام مانگا ہے۔ افسوس! کہ میں آجکل اتنا مصروف ہوں کہ اقبال کے متعلق کماحقہ نہیں لکھ سکتا۔ اس وقت فقط یہی کہنا کافی ہو گا کہ میں کئی سالوں سے اقبال کی فارسیا ور اردو شاعری دونوں کا مخلص مداح ہوں۔ اس سے کسی کو انکار کی جرأت نہیں ہو سکتی کہ اقبال ایک عدیم النظیر شاعر ہے۔ ایسی شکستی کم شاعروں کو نصیب ہوئی ہے فن کے اعتبار سے اور تخیل کے اعتبار سے بھی وہ اپنے ہم عصروں میں تنہا آپ اپنی مثال ہے اور ہمعصروں کا کیا ذکر ہے میرے خیال میں دنیا کے تمام شاعروں کی صف میں خواہ وہ کسی وقت کے یا کسی ملک کے ہوں اقبال کا درجہ بہت بلند ہے۔ بہت ہی بلند ہے۔ سپرو ٭٭٭ اقبال اکاڈیمی از جناب راغب احسن صاحب ایم اے۔ کلکتہ مشرق اور ہندوستان میں حرکت تجدیدنے اپنا ممتاز ترین ظہور سر محمد اقبال کی شاعری میں حاصل کیا ہے جو مشرقی اور مغربی فلسفہ و زندگی کے ایک متین و عمیق محقق ہیں۔ وہ تازہ سے تازہ فلسفیانہ تفکر کے ترقیات سے آگاہ ہیں اور انہوں نے برگسن اور نیٹشے کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ لیکن سر محمد اقبال اپنے زبردست علم و فضل اور وسیع مطالعہ و تحقیق کے باوجود ہر گز دوسروں کے خیالات کی آواز بازگشت نہیں ہیں۔ بلکہ امتیازی طور پر ایک اصلی (اوریجنل) مفکر و مجتہد ہیں۔ یہاں ہمیں آپ کے فلسفیانہ تفکر سے تعلق نہیں۔ بلکہ مذہب اسلام کی طرف آپ کے عنان طبع سے بحث ہے۔ اپنی شاعری میں وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ جن کی سب باتوں سے بالاتر، وہ ایک ’’ پیغمبر عمل‘‘ کی حیثیت سے تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور آپ کا یہ ایمان ہے کہ ایک آئیڈیل پالیٹی (Ideal Polity) مثالی ہیئت اجتماع کے اساسات صرف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم میں دریافت ہو سکتے ہیں اور عالم اسلام (اور اس کے واسطہ سے عالم انسانیت) کی نشاۃ الجدید، شخصیت کے پر زور اظہار، نمود خودی اور ارتقاء نفس کے واسطہ ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جہاں تک ہر فرد اپنے آپ کو ایک کامل فرد بنانے کی سعی کرتا ہے۔ اس حد تک وہ ترقی اسلام کو دنیا میں آگے بڑھاتا ہے عمل کی اس تعظیم میں جیسا کہ حیات النبی ؐ تعلیم دیتی ہے۔ کوئی جگہ اس جمود و سکون کے لئے نہیں ہے۔ جو مسلم تصوف کا نمایاں و مثالی پہلو تھا اور جس کا یہ مفکر سخت مخالف ہے اس دماغ اعظم کا اثر مسلم نوجوان نسل پر عمیق اور وسیع ہے لیکن اس فلسفیانہ شکل کی وجہ سے جس کے واسطہ سے ان کی تعلیم پیش ہوئی ہے۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ یہ کسی منظم دینی تحریک کی اساس نہیں بن سکتی ہے۔ سر طامس آرنلڈ اسلامیک فیتھ (دین اسلام) مطبوعہ لندن ۱۹۲۸ء مسلمانوں کی ذہنی پستی کی انتہا کسی منظم دیتی یا اجتماعی یا کلچرل تحریک کا اساس تو کجا اب تک مسلمانوں نیا قبال کو سمجھنے کی بھی پوری کوشش نہیں کی ہے۔ ابھی تک ایسے حضرات موجود ہیں۔ بلکہ ہماری قومی ادب و ملی پالیسی پر محیط ہیں۔ جن کے نزدیک اقبال محض ایک شاعر اور وہ بھی ایک پنجابی شاعر ہے۔ بعض کور دماغ تو سرے سے اردو کا شاعر ہی تسلیم نہیں کرتے ہیںاور ان کے کارناموں کے خلاف جو جرمنی، اٹلی، انگلستان میں ترجمہ ہو کر مقبول خاص ہوئے ہیں۔ع رصہ تک رد و قدح کرتے رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو فہم اقبال تو کجا سیاسیات و عمرانیات کی ابجد سے بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مگر وہ اس کے فلسفہ اجتماع پر مہینوں جہاد کرتے رہے ہیں۔ یہ ہماری قومی بد مذاقی، ذہنی پستی اور ملی بد بختی کی انتہا ہے کہ ہمارے باکمالوں کو دنیا مان رہی ہے اور ان کی تعلیم کی منظم اشاعت پر زور دے رہی ہے۔ مگر ہم اب تک اس کو سمجھنے سے ہی انکار کرتے رہے ہیں۔ اقبال ایک آئیڈیل کا علمبردار ہے اقبال ایک زندہ آئیڈیل کا نام ہے اور یہ وہ آئیڈیل ہے۔ جس میں فرد و جماعت، شرق و غرب، عالم اسلام اور عالم انسانیت کی خود نمائی و خود فزائی۔ زندگی و برتر زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ اقبال کبھی گمنام نہیں رہ سکتا ہے اور نہ کبھی مردہ ہو سکتا ہے۔ مگر سوال اصلی ملت کا اقبال سے کماحقہ، استفادہ واخذ نور کرنے کا ہے۔ اقبال اپنا وظیفہ عمل انجام دے کر رہے گا۔ مگر کی املت بھی اس کی عظمت جلالت و طاقت سے آگاہ ہو گی اور اپنا فرض ادا کرے گی؟ اقبال جس آئیڈیل کی نمائندہ ہے۔ اس کا خاص تعلق ملت اسلامیہ سے ہے۔ کیونکہ دراصل وہ اس ملت وسطیٰ کو دنیا کے لئے ایک دار السلام بنانے کا آرزو مند ہے اور اس کو انسانیت کی تقدیر و منزل ارتقاء یا صحیح معنوں میں مذہب ارتقاء بنتے ہوئے دیکھنے کا طالب و داعی ہے۔ا س ترجمان حقیقت نے شعر و بیان کی رنگیں بیانی و سحر کاری کے ساتھ اس کو عامہ ملت کے لئے جاذب و دلکش بنانے کی سعی کی ہے جو اس طرح کامیاب ہوئی ہے کہ اس نے ملت کے ایک طبقہ کو اس کا جوہر شناس بنا دیا ہے۔ مگر وہ ابھی تشنہ ہے اور اسے زبان کے ذریعہ سے علمی متانت و صحت حکمی گہرائی و جامعت اور پیغمبرانہ جوش و اثر کے ساتھ تفسیر و تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالم ہند، عالم شرق، عالم اسلام، عالم غرب اور عالم انسانیت کے موجودہ مسائل و مہمات کے حل کرنے میں مشعل ہدایت ثابت ہو۔ جس کے لئے وہ موضوع و مقدر ہے! حبل الورید ملت اپنے آثار و روایات کی حفاظت کرنا کسی قوم کی زندگی کا ثبوت ہے۔ اس لئے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے آثار و روایات کی حفاظت کرے۔ کیونکہ یہی اس کے لئے اعصاب اجتماع ہے اور آثار و روایات ملیہ میں سب سے زیادہ حیات پرور اس ملت کے صاحبان فضل و کمال اور ان کے شاہکار ہیں۔ ان کی حفاظت و تربیت گویا حبل الورید ملت کی حفاظت و تربیت ہے۔ ہیروازم یا ہیرو پرستی،قدامت پسندی یا عصبیت جنسی کی پیدائش نہیں ہے۔ بلکہ اس کا بڑا تعلق اصول اجتماعیہ سے وابستہ ہے۔ یہی باعث ہے کہ ہم قدیم و جدید تمام ملل و اقوام کے نشانات و مرسومات میں اس کو نمایاں پاتے ہیں! ہندو قائدین کے منظم تحریکات اس ملک (ہندوستان) میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو اپنے قائدین کی تعظیم و تکریم اور ان کے کام و پیام کی حفاظت و اشاعت میں نہایت ممتاز درجہ رکھتے ہیں اور اس کو محض جذبہ شخصیت پرستی سے منسوب کرنا مشکل ہے۔ بلکہ واقعات و شواہد سے یہ ماننا ضروری ہے کہ اس قوم میں واقعی اب ملت پرور رہنماؤں پر نقد و تبصرہ کرنے کی قابلیت پیدا ہو گئی ہے۔ اور جواب آزادی حاصل کرنے کی اہل ثابت ہو رہی ہے۔ ۱۔ سوامی دیانندان میں ایک مبلغ ہوا ہے۔ مگر اس قوم نے اس کو آسمان شہرت پر پہونچا دیا ہے اور ا سکی تحریک کو جو زیادہ تر قومی عصبیت پر مبنی ہے۔ عام و عالمگیر کرنے کے لئے ملک کے طول و عرض میں سماجوں، سبھاؤں، اسکولوں، کالجوں اور مشنوں کا جال پھیلا دیا ہے! ۲۔ راجہ رام موہن رائے، سوامی دیو یکانند اور سوامیر ام کرشنا، بنگال جدید میں ہندو نشاۃ الجدید کے اول درجہ کے مبلغین میں سے ہیں اور ان تینوں کی تحریکات خاص ادارات کے ایک مضبوط نظام کے ساتھ چل رہی ہیں۔ بلکہ یورپ و امریکا میں بھی ان کے مناد پہنچے ہوئے ہیں اور ہندو ملت کو سربلند کر رہے ہیں! ۳۔ سرسی دی رامن۔ سر جے سی بوس اور سر پی سی رائے طبیعیات، نباتات اور کیمیا کے شہرہ آفاق آئمہ ہیں۔ ہندو قوم سے ان کے فضل و کمال کو اپنی ملت کے تاج کا طرۂ امتیاز بنا لیا ہے اور ان کے کارناموں کی عالمگیر اشاعت کے لئے علی الترتیب ۱، انڈین ایسوسی ایشن فار دی ایڈائسمنٹ آف سائنس ۔ ۲، بوس انسٹی ٹیوٹ اور ۔ ۳، بنگال کیمیکل ورکس کلکتہ کی منظم و مضبوط ادارت قائم کر لیا ہے! ۴۔ بنکم چندر چٹر جی۔ بھنڈارکر، آسونوش مکر جی اور ٹیگور، عہد جدید کے ہندوؤں میں بعض اصناف ادب، علم و تعلیمات میں ممتاز ہستیاں ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ اس بیدار بخت ملت نے ان کے کام کو نسل در نسل جاری رکھنے ا ور ان کی روائت کو ملت بنانے کے لئے ’’ بنکم پاریشاؤ‘‘ ٹیگور سوسائٹی، بھنڈارکر انسٹی ٹیوٹ، اور آسوتوش ہال، آسوتوش چیئرز، آسوتوش ڈے (یوم تعطیل) آسوتوش سانکیر تن اور نہ معلوم کتنے دستورات، تقریبات اور ادارات قائم کر رکھے ہیں۔ مقصد سب کا یہ ہے کہ کسی طرح ان کا نام، کام اور پیام، ہر ہندو نوجوان کی رگ اور خون کا جزو لاینفک بن جائے۔ حتیٰ کہ بنگال کا شاید ہی کوئی اسکول یا کالج ہو گا۔ جس میں بنکم اور ٹیگور نے خود بول پور میں اپنے کام کی عالمگیر اشاعت کے لئے بہترین ہندو دماغوں اور چند مغربی حضرات کی معیت میں ایک خاص ادارہ بنام ویشوا بھارتی سبھا، ایک تعلیمی و اقامتی یونیورسٹی، کئی کلچرل مجالس و مجلات کے ساتھ قائم کر رکھا ہے۔ ۵۔ بال گنگا دھر تلک۔ گوکھلے، داس اور گاندھی اس عہد میں ہندو و سیاسی بیداری کے امام ہیں۔ اور آج مہاراشٹر، پونہ، کلکتہ اور احمد آباد میں ان کے مخصوص سیاسی و مذہبی خیالات و مقاصد کی تبلیغ کے لئے مخصوص ادارات، مضبوط پریس کے ساتھ قائم ہیں۔ منظم ادارات اور مستقل تحریکات اور ہندو سیٹھ باوجود اپنی زر پرستی کے لاکھوں اور کروڑوں روپیہ سے ان کی مدد کر رہے ہیں۔ میں نے یہ تمام تذکرہ بیدار بخت ہندو ملت کی تحسین و آفرین اور مسلم ملت کی عبرت آموزی کے لئے کیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملت اسلامیہ نے ایک زمانہ میں دنیا کو درس تہذیب دیا تھا۔ مگر وہ آج خود ہندو قوم سے فضل پروری و کمال دوستی کا درس حاصل کرنے کے لئے مجبور ہے۔ ہندو قوم نے تمدن جدید کی اس ضرورت اور اصل کو بخوبی سمجھ لیا ہے کہ کوئی اعلیٰ و مستحکم کام ایک نسل میں پورا نہیں ہو سکتا ہے۔ صاحبان فضل و کمال محض اعلیٰ تحریکات کی بیج بوتے ہیں اور یہ قوم کا فرض ہے کہ ان کی تخم ریزی کی نسل در نسل، قرن در قرن اور صدی در صدی کاشت، تربیت، پرورش اور حفاظت و ترقی کا کام جاری رکھے۔ بڑوں کے کام کو مستقل تحریکات بنانا اور ان کو نسل در نسل ضروریات زمانہ کے مطابق دائم و قائم رکھنے کے لئے منظم ادارت کی بنا ڈالنا ضروری ہے۔ قوی ارتقا کے استحکام و استقلال کا یہی راز ہے! میں ملت اسلامیہ سے جس میں اقبال پیدا ہوا ہے۔ یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نے اپنے سرسیدؒ، قاسمؒ، شبلیؒ، اجملؒ، جوہرؒ اور اقبال کا کام اور پیام کونسل در نسل قائم رکھنے، ان کو مستقل تحریکات بنانے اور اس مطلب کے لئے منظم ادارات کی بنا ڈالنے میں کچھ کیا ہے؟ حالانکہ اس کا دعویٰ ہے وہ ایک عالمگیر ملت ہے انسنایت کا مداوا اور دنیا کی تقدیر ہے؟ ہماری ذہنی پستی اور اغیار کی قدر دانی یہ بڑے ماتم کی بات ہے کہ ہم جو ہر1؎ کے جوہر سے اس وقت کچھ آگاہ ہوتے ہیں۔ جب وہ ہمارے ظلموں اور عقلتوں سے بیزار و خستہ ہو کر غریب الوطنی میں ہم پر قربان ہو جاتا ہے۔ اور یورپ اس کو ’’ ایک عظیم الشان ہندوستانی ایک عظیم الشان مسلم اور ایک عظیم الشان پیغامبر انسانیت‘‘ کہتا ہے اور قدس کے حرم میں ایشیا، یورپ اور افریقہ کی گردنیں اس کی نعش پر فرط الم سے جھک جاتی ہیں! ہم اقبال کے نیر اقبال کی درخشندگی سے اس وقت کچھ خبردار ہوتے ہیں۔ جب جو سف ہل المانی، اس کے ایک کارنامہ کو عہد جدیدہ کا سب سے حیرت ناک ’’ حادثہ‘‘ (Phenomenon) کہتا ہے۔ اور کیمبرج یونیورسٹی اپنے اس روشن ستارہ کو نذر عقیدت پیش کرتا ہے اور اٹلی کا بے تاج بادشاہ سوپر مین مسولینی اس سے درس خودی و بے خودی حاصل کرتا ہے اور اٹالین اکاڈیمی اس کی شان میں تقریب خاص مناتی ہے! کیا یہ فرق اس لئے ہے کہ ہم بحیثیت ملت بڑائی کی قدر کے قابل نہیں ہوتے ہیں اور اس لئے اس کے اہل بھی نہیں ہیں؟ بہر کیف اب ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا کرنا چاہئے۔ یہ کتنے بڑے افسوس کی بات ہے کہ حضرت علامہ اقبال لندن، کیمبرج، روم، قاہرہ اور مدراس میں عالی شان خطبات ارشاد فرماتے ہیں۔ جس پر حکماء مغرب و علمائ، مشرق اظہار حیرت زدگی کرتے ہیں۔ مگر اس کا ایک لفظ بھی مستند شکل میں دنیا کے سامنے نہیں آتا ہے اور نہ اصل یا نقل اردو یا انگریزی میں شائع ہوتی ہے۔ حالانکہ ایک ملت بیدار کا یہ فرض تھا کہ اقبال کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کو مستند ترین ذرائع سے حاصل کر کے جمع کر دیتی اور کم سے کم اردو اور انگریزی دنیا کے لئے تو عام اور قابل حصول بنا دیتی۔ 1؎ مولانا محمد اجمل مرحوم ۱۲ اقبال اکاڈیمی کی ہیئت میرے خیال میں اس کی ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ لاہور میں جو علامہ اقبال کا دوسرا وطن ہے۔ ایک مستقبل انسٹی ٹیوشن اپنی ذاتی زمین و باغ و عمارات کے ساتھ بنا کر اور ’’ اقبال اکاڈیمی سے موسوم کر کے حضرت علامہ سر محمد اقبال کو قوم کی طرف سے پیش کی جائے۔ ‘‘ اقبال اکاڈیمی کا ایک دستور اساسی اور ایک ہیئت ترکیبی ہو۔ وظائف و مقاصد اقبال اکاڈیمی کی اساسی وجہ زیست اقبال کے کام اور پیام کی تفسیر و تبلیغ اور اس کے آثار و اخبار کی جمع و ترتیب ہو گی اور مقصود عمومی اسلامی کلچر کی حفاظت و ارتقاء ہو گا۔ گویا یہ ان کلچرل ادارات ملیہ کے نظام کی ایک مرکزی کڑی ہو گی۔ جس کی تجویز علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس لاہور ۱۹۳۲ء کے خطبہ صدارت میں ملت اسلامیہ ہند کے تہذیبی احیاء کے لئے پیش کی۔ اقبال اکاڈیمی کا وظیفہ اول اقبال کے افکار و تعلیمات اور سوشل، پولیٹیکل اور ایکانامیک مطمح نظر کی تفسیر خود ان کے زیر ہدایت ہونا چاہئے۔ ان سے خاص موضوعات پر خطبات و ارشادات حاصل کرنا اور ان کے ملفوظات گرامی کو بالالتزام اردو انگریزی رسائل کی شکل میں عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ اکاڈیمی کا دوسرا وظیفہ اقبال کی تصنیفات نظم و نثر و متفرق مقالات کو مستند طریق پر ضروری مقدمات و تعلیمات کے ساتھ مکمل و مہذب صورت میں اشاعت ہونا چاہیے۔ جس طرح شبلی اکاڈیمی اعظم گڑھ علامہ شبلی کے رشحات قلم کو شائع کر رہی ہے۔ اکاڈیمی کا تیسرا وظیفہ علامہ سر محمد اقبال کی پرائیویٹ اور پبلک لائف سے متعلق آثار و نشانات و تبرکات کی ایک میوزیم کا قیام ہونا چاہئے۔ تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے وہ تمام تبرکات محفوظ ہو جائیں۔ جو آزاد و ترقی یافتہ ملتوں نے اپنے ابطال کے فکر و عمل کی جمع کی ہیں اور ایک روز اقبال کی جمع کرنا چاہے گی۔ مگر یہ کام جو کہ آج آسان ہے کل مشکل و ناتمام ہو گا۔ اکاڈیمی کا چوتھا وظیفہ شرق و غرب کے متوازی الفکرار و اح سعیدہ (Sister Souls) کی برادری کے مشترکہ پلاٹ فارم کا کام دنیا اور اتحاد اسلام و اتحاد عالم کی تحریک کی پیش رفت ہونا چاہیے۔ اقبال اکاڈیمی لاہور کا پانچواں او رسب سے مہتمم بالشان وظیفہ اس کے نام کے دو ضروری اجزاء یعنی ۱۔ اقبالیات اور ۲۔ اکاڈیمت سے ظاہر ہے۔ ’’ اقبال‘‘ جیسا کہ مذکور ہوا۔ ایک آئیڈیل کا نام ہے اور اس ادارہ کا سب سے بڑا کام چیدہ۔ سعید و صالح نوجوانوں کو اس آئیڈیل کی روح میں تربیت و تعلیم دینا ہونا چاہیے۔ تاکہ وہ اس آئیڈیل، اس ملت وسطیٰ اور اس مذہب انسانیت کے مبلغ و مناد بن کر پھیل جائیں جس کے لئے اقبال کا ظہور ایک عالم نور کی صبح صادق کے مخبر صادق کی شکل میں ہوا ہے۔ اقبال اور افلاطون ’’ اکاڈیمی‘‘ افلاطون کے مدرسہ کا نام ہے۔ جس کی تعلیم و تربیت نے معلم اول ارسطو جیسے یگانہ روزگار کو پیدا کیا ہے۔ اکاڈیمی دراصل کوئی موجودہ اسکول، مدرسہ یا یونیورسٹی کی نوعیت کی درسگاہ نہیں تھی۔ بلکہ ایک مخصوص طریقت زندگانی یا مذہب عمرانی کی نمائندہ تھی۔ جس کا بڑا کام اس زمانہ کے سوفسطا۔ خطبات و زعامت کے خلاف جہاد کرنا اور ’’ اسٹیٹ‘‘ کو تمام اجزاء کا ’’ کل‘‘ اور فطری بلکہ ایک فوق البشر حقیقت کبریٰ ثابت کرنا اور مذہب اعیان کی تعلیم دینا تھا۔ اقبال بلاشبہ افلاطون کا سخت ترین ناقد ہے۔ مگر اقبال، سقراط، افلاطون اور ارسطو کی روح میں یہ پایہ مشترک ہے کہ یہ چاروں حکمانہ ’’ سوفیسٹ‘‘ ہیں جو پر فریب دلائل کے دلدادہ اور ہر نوع کی مصنوعیت ور سمیت کو عمرانی زندگی سے خارج کرنے کے حامی تھے۔ اور نہ ’’ خطیب‘‘ ہیں۔ جن کا مقصد و حید جذبات و تعصبات کی تسخیر ہوتی ہے۔ اور جن کا واح دآلہ عمل طلاقت لسانی، لفاظی اور سحر کاری ہے۔ اور نہ ’’ زعیم‘‘ (ڈیماگاگ) جو محض عوام کی نفسیات و رحجانات کے نمائندے نہ کہ حقیقی ’’ قائد‘‘ ہوتے ہیں۔ برعکس ازیں یہ چاروں آئمہ فکر اپنے مخصوص عقائد و خیالات کی سنگ بنیاد پر دنیا کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کے لئے مضطرب و بیتاب ہیں۔چنانچہ افلاطون اور ارسطو کے مدرسوں سے یونان و ماوراء یونان کی ریاستیں اور سلطنتیں اپنی اساس زندگی کے لئے سوشیل ادارات و دستورات کے کوڈ اور مخصوص فالیطی 1؎ نظام نامہ سے طلب کیا کرتی تھیں اور چونکہ یہ حکما محض آئیڈیلسٹ نہیں تھے۔ بلکہ عملی سیاسیات و عمرانیات سے گہرا تعلق رکھتے لہٰذا فلاطونی اکاڈیمی اور ارسطا طایسی مدرسہ نے متعدد سلطنتوں کو دستورات اساسی اور مذہب اجتماعی مہیا کیا تھا۔ یونانی دستور سلطنت کو روح سلطنت جانتے تھے۔ افلاطون اور ارسطو کے نزدیک ’’ فالیطی‘‘ (سلطنت کی ہیئت اجتماعی) ہی دراصل ’’ اسٹیٹ‘‘ تھی۔ اس طرح ان کا یہ خیال تھا کہ دستور کی تبدیلی، سلطنت کی تبدیلی اور دستور کا خاتمہ، سلطنت کا خاتمہ اور دستور کی وحدت سلطنت کی وحدت ہے۔ یہ خالصاً یونانی عقیدہ ایک دوسرے خالصاً یونانی عقیدہ کی وسیع اساس محکم پر مبنی تھا اور یہ وہ بنیادی عقیدہ تھا کہ فالیطی (پالیٹی Polity) یا دستور ملی یا شریعت ملی دراصل ایک جماعت کے تمام کائناتی۔ معادی و معاشی تصورات پر مبنی اور تمام اجتماعی، سیاسی و عمرانی دستورات زندگی پر محیط ہوتی ہے۔ انفرادی یا جماعتی زندگی کا کوئی شعبہ یا پہلو، جماعتی فالیطی کے ہمہ گیر نظام سے باہر اور محفوظ نہیں رہ سکتا ہے۔ زندگی کی جامعیت اور ایک نا قابل تقسیم وحدت کا یہ عقیدہ افلاطون اور اقبال میں مشترک ہے۔ دونوں عملی سیاسیات و عمرانیات سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کی آئیڈیل ازم مختلف ہو سکتی ہے مگر ان کے آئیڈیلسٹ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ دونوں حال سے بیزار اور ایک خوشتر و بر تر آئندہ فالیطی کے آرزو مند ہیں۔ اقبال بھی آج افلاطون کی طرح ملت اسلامیہ کو سیاسی و عمرانی، اجتماعی و انفرادی، معادی و معاشی لحاظ سے بہر نوع ایک مکمل، ہمہ گیر، جامع و محیط فالیطی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے جس کی اساس قرآ و سنت، وحی و تنزیل کے مطابق ایک خاص کائناتی تصور اور روحانی اور تہذیبی آئیڈیل ہے۔ 1؎ یونانی لفظ پالیٹی (Polity) کو میں اردو جامہ پہنا کر مروج کرنا چاہتا ہوں۔ یہ لفظ پولیس بمعنی شہر سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی عموماً’’ اسٹیٹ‘‘ کی ہیئت اجتماعی یا سوشل آڈر کے لئے جاتے ہیں۔ لیکن اس کو محض سیاسی دستور حکومت کا مرادف تصور کرنا غلط ہے۔ بلکہ یہ ایک جامع ترین یونانی تخیل کے لئے موضوع ہے۔ اور اس کو اردو بنانا ضروری ہے۔ ۱۲ بنابرین اقبال اکاڈیمی لاہور کا یہ وظیفہ اعظم ہو گا کہ وہ عالم اسلام کے لئے خصوصاً اور عالم جدید کے لئے عموماً عہد حاضر کا افلاطونی اکاڈیمی ثابت ہو! بلکہ ’’ یونانی اکاڈیمی‘‘ سے’’ ہندی اکاڈیمی‘‘ بہتر و برتر ثابت ہو۔ کیونکہ خود اقبال کہیں اس سے بہتر و برتر ہے۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو، اپنی بہترین و اعلیٰ ترین تفسیر کے ساتھ بھی محض ہیلن ازم (یونانیت) کے نمائندے ہیں اور ان کی فکر یونان کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستوں کے حصار میںاس طرح مقید و محصور ہے کہ وہ مجرد انسانیت و ارضیت اور اس سے بلند تر عالم معاد کے متوازی تصور سے عاجز ہیں۔ جو خاص اسلام کا امتیاز اور اقبال کا آئیڈیل ہے۔ یونانیت اور اسلامیت کو’’ یونانی‘‘ (ہیلن) اور ’’ باربیرین‘‘ میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ غیر یونانیوں کو اصلاً غلام اور آزادی و تہذیب کے ناقابل تصور کرتے ہیں۔ خود یونانی یعنی ہیلن نسل کو وہ بدترین نسل جانتے ہیں۔ مگر اس کی بڑی تعداد کی غلامی کو ’’ طبعی ‘‘ اور فطری بلکہ ’’ اسٹیٹ‘‘ کی ہستی کے لئے ضروری و لابدی تصور کرتے ہیں۔ فرد اور خاندان کو ’’ اسٹیٹ‘‘ پر قربان کر دیتے ہیں اور ایسے اصول کی تعلیم دیتے ہیں جو شخصیت خودی کی زندگی کو موت اور ترقی کو تباہی بنانے والے ہیں۔ ان تمام باتوں میں یہ یونانی حکماء پورے پورے یونانی اور یونانی عقائد کے ترجمان ہیں۔ اصل یہ ہے کہ وہ یونانیت کے جال سے باوجود اپنی حکمت اور عرفان کے آزاد ہونے میں ناکام ہیں۔ برعکس ازیں اقبال اپنے بہترین و اعلیٰ ترین شکل میں آریت اور ہندو ازم ایرانیت اور پارسی ازم، یونانیت اور ہیلن ازم رومانیت اور لائن ازم، المانیت اور جدید ویسٹرن ازم، سامعیت اور اسلام کے مغز، عطر، جوہر اور روح کا عارف اور ناقد ہے اور ان کے روشن عطیات کا معترف ہے۔ کیونکہ وہ دراصل ایک شہرہ آفاق مبصر کے قول کے مطابق اسلام کے لباس میں مذہب انسانیت کا مبلغ ہے۔ پس یہ لازم ہے کہ اس کی دعوت بھی ساری انسانیت کے لئے عام اور اس کی ہمہ گیر و جامع حکمت بھی عالمگیر ہو اور اس کے آئیڈیل کی تفسیر کی اشاعت اور آثار و اخبار کی جمع و ترتیب کا ادارہ ’’اقبال اکاڈیمی لاہور‘‘ ’’ افلاطون اکاڈیمی ایتھنز‘‘ سے برتر، بہتر و پائندہ تر ہو! مگر یہ ایک زندہ قوم کا کام ہے اور سوال صرف یہی ہے کہ ملت اسلامیہ ہند ایک زندہ ملت بھی ہے! ٭٭٭ ڈاکٹر شیخ سر محمد ؐ اقبال، مختصر سوانح حیات از جناب منشی محمد ؐ الدین صاحب فوق۔ ایڈیٹر اخبار کشمیری، لاہور خاندان کا مشرف بہ اسلام ہونا: شیخ صاحب کو کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے۔ جس کی ایک شاخ اب تک کشمیر میں موجود ہے۔ شیخ صاحب کے جد اعلیٰ قریباً سوا دو سو سال ہوئے کہ مسلمان ہو گئے تھے۔ گوت ان کی ’’ سپرو‘‘ ہے۔ ان کے بزرگوں کا اسلام پر ایمان لانا ایک ولی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے ہوا۔ اور وہ حسن عقیدت اس وقت تک اس خاندان میں موجود ہے۔ ولادت اور تعلیمی زندگی آپ ۱۸۷۶ء میں بمقام سیالکوٹ پیدا ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر پورے ۵۶ سال کی ہے۔ ابتدا میں اکثر مسلمان بچوں کی طرح کچھ دنوں آپ نے بھی مکتب کی ہوا کھائی۔ پھر مدرسے میں داخل ہوئے اور پانچویں جماعت کا امتحان وظیفہ لے کر پاس کیا۔ مڈل کے درجوں میں بھی نہ صرف تعریف کے ساتھ کامیاب ہوتے رہے۔ بلکہ مڈل کے آخری درجے میں بھی وظیفہ حاصل کیا۔ اس کے بعد باب العلم شروع ہوتا ہے۔ یعنی انٹرنس کلاس جو کالج کا دروازہ ہے۔ دروازے کو کھولنا ہمت و استقلال اور فتح و شکست کے بہترین 1؎ آثار کا ایک عمدہ نمونہ ہے اور خوشی کی بات ہے کہ اقبال بھی جب کالج کا دروازہ کھول کر کالج کے مدارج میں داخل ہوئے یعنی جب انہوں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا تو پرائمری اور مڈل کی طرح یہاں بھی سرکاری وظیفہ وظیفہ لے کر کامیاب ہوئے۔ آپ کی طبیعت ابتدا ہی میں ذکاوت و ذہانت کا ایک نمونہ تھی۔ جب آپ ایف اے اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے تو مولانا سید میر حسن1؎ جیسے قابل سخن شناس عالم متبحر اور استاد شفیق کی توجہ خاص اور فیضان صحبت و تربیت نے ان جوہروں کو جلا دینے میں جو قدرت نے آپ کی طبیعت میں امانت رکھتے تھے۔ کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ سیالکوٹ کالج سے فارغ ہو کر آپ لاہور گورنمنٹ کالج کی بی اے کلاس میں داخل ہوئے۔ طبیعت چونکہ فلسفیانہ پائی تھی۔ اس لئے بی اے کے امتحان میں فلسفہ کا مضمون لے کر نہ صرف پاس ہی ہوئے۔ بلکہ انگریزی اور عربی میں باتعریف کامیاب رہنے کے لئے دو طلائی تمغے اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔ انہیں دنوں مسٹر ڈبلیو آرنلڈ صاحب علی گڑھ کالج سے گورنمنٹ کالج میں چلے آئے تھے۔ فلسفہ دانی میں آرنلڈ صاحب کی شہرت عالمگیر ہے۔ اس شہرت نے بے اختیار اقبال کو اپنی طرف کھینچا۔ آرنلڈ صاحب بھی اس ہونہار طالب علم کی تیز فہمی اور اس کے فلسفیانہ دماغ کے معترف ہو گئے اور اقبال کو شاگردی کے مراتب سے گذار کر رفتہ رفتہ دوستی کے اعزاز تک پہنچا دیا۔ آرنلڈ صاحب اقبال تحقیقات علمی اور اس کی فلسفیانہ طبیعت کے متعلق ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق بنا دیتا ہے اور محقق کو محقق تر۔ غرض یونیورسٹی کی آخری تعلیم (امتحان ایم اے) کا مرحلہ بھی طے کیا اور ایک تمغہ بھی حاصل کیا۔ 1؎ شمس العمائ، مولانا میر حسن صاحب ۱۹۲۹ء میں انتقال فرما گئے۔ سلسلہ ملازمت ایم اے پاس ہونے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ، فلسفہ اور سیاست مدن کے مضامین پر آپ لیکچر دینے کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ پھر گورنمنٹ کالج میں فلسفہ اور انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ افسران کالج اور عہدہ داران تعلیم کی رائے ان کی خدمات اور ان کی لیاقت علمی کے متعلق بہت اچھی تھی۔ علمی مشاغل آپ کی زندگی کا جزو ضروری تھے۔ اکثر طالب علموں کو آپ اپنے مکان پر بھی اوقات کالج کے بعد پڑھایا کرتے تھے۔ جب تک آپ طالب علم رہے۔ نیک، سعادت مند اور ذہین و محنتی رہے او رجب استاد کی حیثیت میں آئے تو ایک شفیق اور بے تکلف اور مہربان استاد ثابت ہوئے۔ اسی زمانہ میں سیاست مدن پر ایک کتاب اردو زبان میں بنام علم الاقتصاد لکھی۔ سفر ولایت: تحقیقات علمی کا شوق جنون کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ اس کا علاج یہاں بھی کثرت مطالعہ کے ذریعہ ہوتا رہا لیکن مریض علم پر رحمت خدا کی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی آخر فلسفہ قانون اور تحقیقات علم کے لئے ولایت کا سفر اختیار کیا اور محض علم اور صرف علم کی خاطر ہی نہ صرف وطن اور دوست و احباب سے بلکہ والدین، بچوں اور دیگر اعزہ سے ہزار ہا میل کی مفارقت اختیار کی اور دنوں اور مہینوں کے لئے نہیں بلکہ کامل تین سال تک وہاں رہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے بذریعہ تحقیقات علمی، فلسفہ اخلاق کی ڈگری حاصل کی۔ پھر جرمنی کی میونک یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف فلاسفی (پی۔ ایچ۔ ڈی) کی فرسٹ کلاس ڈگری ایک کتاب بنام فلسفہ ایران لکھنے سے حاصل کی۔ یہ کتاب جو لندن میں شائع ہو چکی ہے۔ انگریزی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ ولایت کے بڑے بڑے اہل الراؤں نے انگلستان کے مشہور پرچوں میں اس پر نہایت عمدہ ریویوز لکھے۔ فضلائے یورپ نے اس کتاب کو نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے افسوس ہے کہ ایسی لاجواب تصنیف ہنوز اردو زبان میں ترجمہ نہیں ہوئی۔ جرمنی سے واپس آنے کے بعد لندن کے سکول آف پولیٹیکل سائنس میں داخل ہوئے اور وہاں کے پروفیسروں اور عالموں اور بڑے بڑے سائنسدانوں اور انگلستان کے دیگر فضلائ، حکمائ، علماء اور مدبرین سے استفادہ حاصل کیا اور بیرسٹری کا امتحان بھی کامیابی کے ساتھ پاس کیا۔ انگلینڈ میں بطور لیکچرار و پروفیسر بہت کم لوگ ایسے ہیں جو تحریر و تقریر اور نظر و نثر میں یکساں روانی اور یکساں قابلیت رکھتے ہیں۔ اور ایسے صاحب کمال لوگوں میں جو دونوں اوصاف سے متصف ہوں۔ ہمارے اقبال بھی امتیاز خاص رکھتے ہیں۔ دوران قیام انگلینڈ میں باوجود کثرت مشاغل ’’ اسلام پر چھ پبلک لیکچر دئیے جو نہایت مقبول ہوئے اور جس سے آپ کی ذہنی تحقیقات کی بھی دھوم مچ گئی۔ چھ ماہ تک لندن یونیورسٹی میں پروفیسر آرنلڈ صاحب کے قائم مقام کی حیثیت سے آپ عربی پروفیسر بھی رہے۔‘‘ ولایت سے واپسی: صرف ۳۲، ۳۳ سال کی عمر میں اتنے علمی اعزاز، اس قدر ڈگریاں اور فارسی، عربی، سنسکرت کے علاوہ یورپ کی کئی زبانوں میں ماہر ہونا اور مقبولیت اور شہرت حاصل کرنا معمولی دماغ اور تربیت کا کام نہیں ہے۔ اقبال کی عزت جو عالم متبحر ہونے کی حیثیت سے آج کل ہندوستان اور یورپ میں ہے۔ وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہے۔ آخر آپ ولایت سے واپس وطن کو روانہ ہوئے اور بمبئی، دہلی، انبالہ میں ٹھہرتے اور اپنے دوستوں سے ملتے ہوئے ۲۷ جولائی ۱۹۱۸ء کو بروز پیر شام کی گاڑی میں لاہور تشریف لائے۔ جہاں ان کے احباب اور دیگر بزرگان لاہور بلا تخصیص مذہب ان کے خیر مقدم کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے۔ شام کو ان کے اعزاز میں ایک پارٹی منعقد ہوئی۔ جہاں اکثر احباب نے نظمیں بھی پڑھیں۔ ایک دن کے قیام کے بعد آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اہل اللہ سے ارادت: انگریزی تعلیم نے نوجوان ملک و قوم کے عام (بالخصوص مذہبی) خیالات کو نقصان عظیم پہنچایا ہے۔ یہ ایک حد تک بالکل درست ہے لیکن جب غور کیا جائے گا۔ تو معلوم ہو گا۔ مے کہ بدنام کند اہل خرور اغلط است بلکہ مے میشود از صحبت ناداں بدنام در حقیقت یہ ہمارا اپنا قصور ہے۔ ہماری تعلیم و تربیت اگر اچھے پیمانہ پر ہو۔ صحبت نیک ہو۔ مذہبی تعلیم سے اچھی واقفیت ہو۔ تو کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی کسی کو صراط مستقیم سے گمراہ نہیں کر سکتا۔ آج کل مشائخ اور علمائے کرام کی طرف سے جو بدگمانی بلکہ نفرت سی تعلیم یافتہ گروہ میں پھیل رہی ہے۔ وہ محتاج بیان نہیں۔ لیکن اقبال اور اس کا خاندان اس کا زندہ نمونہ موجود ہے کہ تعلیم کے ساتھ اگر تربیت بھی اور واقفیت بھی ہو تو مشائخ و اولیاء کے حسن عقیدت کے اثر کو انگریزی اعلیٰ تعلیم، سائنس اور فلسفہ اور ممالک یورپ کی سیر و سیاحت اور نئی روشنی اور تہذیب بھی زائل نہیں کر سکتی۔ چنانچہ آپ ولایت جاتے ہوئے بھی بمقام دہلی استانہ حضرت محبوب الٰہی پر حاضر ہوئے۔ وہاں ایک خالص صوفیانہ نظم بھی پڑھی اور واپسی کے وقت بھی جبکہ علاوہ علمی قابلیتوں کے اضافہ کے آزادی یورپ کی ہوا بھی کھا چکے تھے۔ درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء (محبوب الٰہی) پر بصد عجز سر تسلیم و نیاز خم کیا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بزرگ صحیح معنوں میں صوفی ہو۔ دکاندار نہ ہو۔ زر کیا ہے سر بھی دے دیں مریدان باصفا علم و عمل کا وصف کسی پیر میں بھی ہو اعجاز بیان شاعر کب پیدا ہوتے ہیںـ: مغرب1؎ کے نقادان سخن کہتے ہیں کہ زمانہ اپنی رفتار کے مطابق شاعر پیدا کرتا رہتا ہے اور ہر شاعر اپنے زمانہ کے حالات کا ایک مجسمہ ہوتا ہے۔ شاعری کی تاریخ اس دعویٰ کا ایک بین ثبوت پیش کرتی ہے اور اقوام عالم کے مختلف زمانوں کی حالت اس کی صداقت کی ایک مکمل دلیل ہے۔ جب کسی قوم میں شجاعت اور جوانمردی کا جوہر کمال پر ہوتا ہے۔ اس کے افراد میدان کار زار کو عیش و نشاط کا ایوان خیال کرتے ہیں۔ شمشیر کی عریانی ہلال عید کی تابانی کا لطف پیدا کرتی ہے۔ تو شاعر نعرۂ جنگ بلند کرتا ہے اور قتل و غارت کا طبل بجاتا ہوا اٹھتا ہے۔ وہ گوہر افشاں نہیں۔ شرر ریز ہوتا ہے۔ اس کے منہ سے پھول نہیں جھڑتے۔ انگارے برستے ہیں۔ اس کے اشاعر خنجر براں سے تیز تر ہوتے ہیں۔ ان کی شعلہ بیانی میں ایک داستان شجاعت پنہاں ہوتی ہے۔ جو ملکوں اور قوموں کو زیر و زبر کر دیتی ہے۔ 1؎ از مضمون فلسفہ اقبال اکرام الحق صاحب اس نوع کے شاعر از منہ تاریک میں سینکڑوں کی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں۔ سپارٹا کی فتوحات کا باعث ایک نحیف الجسم شاعر تھا۔ جسے یونانیوں نے فوجی خدمت کے ناقابل سمجھ رکھا تھا۔ عرب کا نابینا شاعر قلیس اعثی قبیلوں کی قسمت کا مالک سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا ایک شعر ہنگامہ قتال کی آتش فروزی کے لئے کافی تھا۔ قوم کی ہستی میں ایک اور دور آتا ہے۔ جب قوم حکمران ہوتی ہے۔ اس وقت جدوجہد زندگانی اور مقابلہ کا فقدان قوائے جماعت میں اضمحلال اور سکون پیدا کر دیتا ہے اور ابتدائی ذوق نشوونما مسلک قناعت سے متبدل ہو جاتا ہے۔ شاعر ایک باقاعدہ ہستی ہوتی ہے۔ جو ارباب دولت اور ثروت کی چوکھٹ پر جبیں سائی کرتی رہتی ہے۔ صنف شاعری میں قصائد اور غزل کو فروغ ہوتا ہے۔ مگر اول الذکر کسی صاحب اقبال کی تعریف اور توصیف اور موخر الذکر حسن و عشق کے چرچے کی قدر ہوتی ہے۔ حقیقتاً شاعری میں ایک تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ جس کی ابتدا قوم کے آفتاب ترقی کے زوال کے ساتھ ہونے لگتی ہے۔ اس حالت سے گرنے پر ایک تیسرا دور آتا ہے۔ جب قوم کی حالت ایک عبرت انگیز انجام کو پہنچ چکتی ہے۔ اسے اپنی پستی اور تنزل کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ غیر ٹھوکریں مارتے ہیں۔ ظلم کرتے ہیں۔ ان کا حق دبا بیٹھتے ہیں۔ مگر افراد قوم کچھ ایسے قنر و مذلت میں گرے ہوتے ہیں کہ چپکے سے بے شرمی کی باتیں سہے جاتے ہیں۔ اور اپنے انحطاط کو انتہائی تذیب اور اپنی بے غیرتی کو قناعت اور صبر کے الفاظ سے ادا کرتے ہیں۔ اس وقت نظام طبعی کے توازن کو قائم رکھنے کے لئے قدرت کروٹ بدلتی ہے اور اس زمین شعر سے ایسے ایسے پیغمبران سخن اٹھاتی ہے۔ جو اپنی اعجاز بیانیوں سے نیم مردہ قوم کے یخ بستہ جذبات کو سخن کی آگ سے گرما دیتے ہیں اور ملت کی مردہ رگوں میں خون زندگی کی ایک لہر دوڑا دیتے ہیں۔ قوم کو اسلاف کے کارناموں کی خبر دے کر یقین دلاتے ہیں کہ اس قوم میں ابھی تک ترقی کے اجزا موجود ہیں۔ تو از دمید گل و لالہ نا امید مشو کہ شاخ زندگی ما ہنوز نمناک است اقبال کی ابتدائی شاعری: اقبال نے ایف اے کا امتحان مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کیا تھا اور شاعری کی ابتداء بھی وہیں سے ہوئی تھی۔ لیکن طبع خدا داد کے شاعرانہ جوہر گورنمنٹ کالج لاہور میں آ کر ظاہر ہوئے علم کی روشنی اور لاہور کی سوسائٹی سے طبیعت کو وہ جلا دی کہ ذرہ آفتاب بن کر چمکا اور ایسا چمکا کہ ایک عالم کو طرز جدید کی شاعری سے منور کیا۔ آپ کی شاعری کا چرچا ابتدا میں ہم جماعت طلبہ تک ہی محدود تھا۔ فروری ۱۸۹۶ء میں جبکہ آپ بی اے میں پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی شاعری کی دھوم طلبہ اور خاص خاص احباب کے حلقہ سے نکل کر اپنی برادری یعنی اہل خطہ کی مجلس میں پہنچی جس کے دو ایک جلسوں میں آپ نے چند نظمیں اور رباعیاں پڑھیں۔ ایک رباعی ذیل میں درج کی جاتی ہے: سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر اسی زمانہ میں لاہور کے مشاعروں میں بھی شامل ہوتے رہے۔ مرزا داغ مرحوم سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ ایک طویل غزل میں جو رسالہ شورش محشر میں چھپی تھی۔ آپ تلامذہ داغ کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیں نازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخنداں کا ابتدائی کلام میں زیادہ تر غزلیں ہی ملتی ہیں اور چونکہ آپ نے اپنے مجموعہ کلام ’’ بانگ درا‘‘ میں پرانا کلام اور خصوصاً غزلوں کو بہت کم جگہ دی ہے۔ اس لئے وہ بھی نایاب ہیں۔ سب سے پہلے مشاعرہ میں آپ نے جو غزل پڑھی۔ اس کا مقطع یہ ہے۔ اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے حق یہ ہے کہ آپ نے دلی و لکھنو کی قید سے آزاد ہو کر اپنے لئے ایک الگ دنیائے شاعری پیدا کی ہے۔ اور آج تمام ہندوستان میں ہر شاعر اپنی شاعری کو آپ ہی کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوششوں میں نظر آتا ہے۔ بیس بائیس سال کی عمر تھی جب آپ نے یہ غزل پڑھی تھی۔ اس شعر پر جب پہنچے موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے تو مرزا ارشد گورگانی مرحوم بے اختیار واہ وا اور سبحان اللہ کہہ اٹھے اور بولے ’’ میاں اقبال اس عمر میں اور یہ شعر‘‘ یہ پہلا موقع تھا کہ لاہور کے بامذاق اور سخن فہم لوگوں کو اس نوجوان اور ہونہار شاعر سے جو شناسائی ہوئی۔ جو شاعر ملکوں اور قوموں کو بیدار اور سیات نفس حیات کا اعادہ کرنے کے لئے آتے ہیں۔ وہ زیادہ دیر تک غزلوں اور محض عشقیہ غزلوں کے دلدل میں نہیں رہ سکتے۔ آخر اقبال بھی قوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ ۱۸۹۹ء میں آپ نے نالہ یتیم کے نام سے انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ میں جو نظم نہایت سوز و گداز سے پڑھی اس نے آپ کی شاعرانہ و علمی شہرت کو ہندوستان و پنجاب کی ہر علمی سوسائٹی تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد انجمن کے ہر سالانہ جلسہ میں نظم اقبال ایک ضروری جزو ہو گئی۔ اس معجز نما شاعر نے چاروں طرف نگاہ دوڑا کر ملت کی پر درد اور عبرت انگیز تباہی کو دیکھا اور قوم کے جمود و سکون کو دور کرنے کے لئے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ کا پلیٹ فارم پسند کیا۔ جہاں اس کے پر درد نغمے اور دلگداز نعرے خون کے آنسو رلاتے تھے اور ملک کی حالت پر نوحہ خوانی کرنے کے لئے مخزن کے صفحات پر کلیجہ نکال کے رکھ دیا اور ’’ ہندوستان ہمارا‘‘ اور’’ ہمالہ‘‘ اور’’ نیا شوالہ‘‘ کے نام سے وہ نظمیں لکھیں کہ ہر اہل دل ہر اہل علم اور بلا تخصیص مذہب و ملت ہر شخص کی زبان پر اقبال ہی اقبال تھا۔ اقبال کی وطن پرور شاعری: علامہ اقبال کی وطنیت کے جذبات سے لبریز نظم’’ ہمالہ‘‘ کے نام سے دنیا میں پیش کی۔ یہ پہلا ہی شعر ہے اور کس محبت اور جوش و جذبہ کا اظہار کرتا ہے۔ اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستاں زیب دیتا ہے تجھے کہئے اگر سارا جہاں یہ نظم ایک وطن پرست انسان کے مردہ حسیات کو زندہ کرنے کے لئے برقی رو کا کام دیتی ہے۔ اسی نظم میں ہمارا شاعر کس بے تکلفانہ انداز میں ہمالہ سے خطاب کرتا ہے۔ اے ہمالہ داستاں اسوقت کی کوئی سنا مسکن آبائے انساں جب بنا دامن تر کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا داغ جس پر غازہ رنگ تکلف کا نہ تھا اقبال نے وطنی اتحاد اور قومی مواخاۃ پیدا کرنے کے لئے کئی نظمیں لکھیں۔ خصوصاً قیام یورپ کے ایام میں وطن کی زبوں حالی سے بہت متاثر تھے فرماتے ہیں۔ میر عرب کی آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے پھر ’’ ہندوستان ہمارا‘‘ میں لکھتے ہیں۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا اقبال کی شاعری اسلامی رنگ میں: ۱۹۱۰ئ، ۱۹۱۱ء کی تاریخ نے مسلمانان عالم کربلائے جدید کا ایک نیا باب کھولا۔ بلقان کی جنگ اور طرابلس العرب کی لڑائیاں مسلمانوں کا خون نچوڑ رہی تھیں۔ خلافت اسلامیہ کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھنے کو اور اسلام کا سیاسی اقتدار مٹنے کو تھا۔ ہمارے قومی شاعر کے دل میں بھی جذبات موجزن تھے۔ اس عام مصیبت پر کونسا مسلمان نہ تڑپ اٹھا ہو گا۔ پھر ہمارا شاعر اس تیر کی زد سے کس طرح بچ سکتا تھا۔ نظمیں لکھیں اور پڑھیں۔ محفلوں میں شور و شین برپا کر دیا۔ مجلسیں صف ماتم بن گئیں۔ خصوصاً ۶اکتوبر ۱۹۱۱ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں ’’ خون شہداء کی نذر‘‘ کے عنوان سے جو نظم آپ نے پڑھی۔ اس نے ایک قیامت بپا کر دی۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی۔ جو آنسوؤں سے لبریز نہ تھی اور کوئی دل ایسا نہ تھا۔ جو تڑپ نہ اٹھا ہو۔ مسلمان اسلام اور اسلامی ممالک کو خطرہ میں دیکھ کر سہمے ہوئے تھے۔ اقبال بھی انہیں میں تھے اور شاعر چونکہ فطرتاً ذکی الحس ہوتا ہے۔ اس لئے انہوں نے اس عالمگیر اسلامی مصیبت کو سب سے زیادہ محسوس کیا۔ اب وہ وطن کو ایک ’’ بت‘‘ کہتے تھے اور ان کے نزدیک ’’ فرد‘‘ کا وجود ایک عالمگیر’’ ملت‘‘ میں مدغم ہونے کے لئے تھا۔ اب وہ ’’ ترانہ ہندی‘‘ کی بجائے ’’ ترانہ ملی‘‘ لکھتے ہیں اور کہتے ہیں۔ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا اور وطنیت کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں۔ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔ مسلم ہے اگر تو تو ’’وطن‘‘ سے کیا کام؟ کچھ شک نہیں کہ اقبال کی شعلہ نوائی سے یہ آگ دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ تک پہنچ گئی۔ لیکن وطن پرستوں کو ان سے شکوہ پیدا ہوا اور اس کا اظہار جس نظم 1؎ میں کیا گیا۔ اس کے چند شعر ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ 1؎ مصنف پنڈت انند نرائن صاحب ملا ایم اے ایل ایل بی ہندی ہونے پر ناز جسے کل تک تھا حجازی بن بیٹھا اپنی محفل کا رند پرانا آج نمازی بن بیٹھا محمل میں چھپا ہے قیس حزیں دیوانہ کوئی صحرا میں نہیں پیغام جنوں جو لایا تھا اقبال وہ اب دنیا میں نہیں اے مطرب تیرے ترانوں میں اگلی سی اب وہ بات نہیں وہ تازگی تخیل نہیں بے ساختگی جذبات نہیں علامہ اقبال کے کلام کی شہرت اور اس پر تضمینـ: علامہ ممدوح کا کلام اپنی سحر طرازی اور سوز و گداز کی وجہ سے شہرت کے پر لگا کر اڑ رہا تھا اور ہمالہ کی فلک پیما چوٹیوں کو عبور کر کے ہندوستان سے باہر بھی اپنی قبولیت کی فضا پیدا کر رہا تھا۔ مئی ۱۹۲۴ء میں جبکہ شاہ امان اللہ خاں اپنی حکومت کے انتہائی عروج کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ ڈاکٹر اقبال کا کلام کابل کی ایک عظیم الشان مجلس میں پڑھا گیا۔ جس میں شاہ ممدوح سفرائے و دل خارجہ۔ عمائدین شہر اور وزیر تعلیم اور دوسرے وزراء بھی شامل تھے۔ یہ جلسہ طلبا کے تقسیم انعامات کا تھا۔ اس میں ہمارے ملک الشعراء ہند کا مشہور قومی ترانہ ’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ بچوں نے اپنے پیارے اور سادے لہجہ میں سنایا۔ پھر جب فوجی باجہ نے اسے دہرایا تو حاضرین پر رقت طاری ہو گئی جس طرح ہندوستان کی ہر قومی و ملکی محفل میں ’’ ہندوستان کے ہم ہیں، ہندوستان ہمارا‘‘ کا ترانہ پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کی ہر اسلامی مجلس میں’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ ایک جزو لاینفک ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کے یہ دونوں ترانے بے حد مقبول ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کی کئی اور اردو فارسی نظموں پر بھی شاعروں نے تضمین لکھی ہیں۔ بلکہ اسلامی ترانہ کا ترجمہ عربی کی نظم میں بھی ہو گیا ہے۔ آغا شاعر قزلباش دہلی کے ایک نامور شاعر ہیں۔ وہ مہاراجہ جھالر اپٹن (آنجہانی) کے مصاحب بھی اور درباری شاعر بھی تھے۔ ۱۹۲۶ء یا ۱۹۲۷ء میں وہ کلکتہ کے گرانڈ ہوٹل میں مقیم تھے۔ جہاں امریکن سیاحوں کی ایک پارٹی بھی قیام پذیر تھی۔ ان میں اور ایک سیاح میں کچھ بات چیت ہوتی ہے۔ امریکن سیاح ان سے پوچھتا ہے۔ ’’ آپ کون ہیں اور کیا کام کرتے ہیں۔‘‘ آغا شاعر جواب دیتے ہیں’’ میں ایک مہاراجہ کا مصاحب اور اس کا ایک مشہور شاعر ہوں‘‘ امریکن سیاح کہتا ہے ’’ تو کیا آپ اقبال ہیں۔ مسٹر اقبال؟‘‘ آغا صاحب لکھتے ہیں یہ سنتے ہی میں متخیر ہو گیا اور مجھے ڈاکٹر اقبال کی اس عظیم الشان مقبولیت اور لافانی شخصیت کا دل سے اعتراف کرنا پڑا۔ کوئی دن اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا۔ جب ہمارے اس مشہور عالم مگر گوشہ نشین شاعر کے پاس اقطاع ہند کے سیاحوں کے علاوہ جرمن، ٹرکی، انگلینڈ، بخارا، افغانستان، ایران، امریکہ اور دیگر ممالک کے اہل علم ملاقات کے لئے نہ آتے ہوں۔ اقبال شعرائے ہند کی نظروں میں اقبال کی الہامیہ شاعری کی قبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کی زندگی ہی میں اس کے سوانح حیات انگریزی اور اردو میں لکھے گئے۔ اس کے کلام پر بڑے بڑے اہل علم و اہل دماغ اصحاب نے تبصرے کئے۔ اس کی حیات افروز نظموں کی وجہ سے اس کی شان میں اس کے ہم عصر شعراء نے قصائد لکھے اور واقعات و حقائق کا پہلو لئے ہوئے لکھے۔ مولانا غلام قادر گرامی نے جو عہد حاضر کے نامور فارسی شاعر گذرے ہیں۔ اقبال کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن ایک شعر میں تو کمال ہی کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ در دیدۂ معنی، نگہاں حضرت اقبال پیغمبرئیے کرد و پیغمبر نتواں گفت ان کے ایک ہموطن نگار سیالکوٹی لکھتے ہیں از خمستان کہن جام شراب آوردہ نغمہ داؤ و از تار رباب آوردہ اے حکیم روح ملت ازدوائے فلسفہ دین ابراہیم ؑ را عہد شباب آوردہ از ’’رموز بیخودی‘‘ سر خودی کر دی عیاں از سراب اے ابو الحکم دریائے آب آوردہ مولانا گرامی کی معنی رس نظروں میں اقبال کی جو وقعت ہے، وہ ان اشعار سے بھی معلوم ہو سکتی ہے۔ درس ماضی از کتاب حال گیر ساغر از خم خانہ اقبال گیر از نوایش بزم یورپ در خروش حکمت امریکہ اور راسفتہ گوش نالے ہائے آتشین آں حکیم سوخت رختہ فتنہ امید و بیم ساخت باد لہا و بودش ہیچ نیست سوخت دلہا راد دودش ہیچ نیست سید بشیر احمد صاحب اخگر جالندی ’’ اقبال‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں لکھتے ہیں۔ تیری ہستی کیا ہے پیغام بقا میرے لئے تیرے ’’اسرار خودی‘‘ ہمت فزا میرے لئے ہیں ’’رموز بیخودی‘‘ عقدہ کشا میرے لئے راہبری بن گئی ’’بانگ درا‘‘ میرے لئے روح غالب درد میر! اقبال تیرے دل میں ہے حسن لیلائے سخن پنہاں اسی محمل میں ہے فارسی کا ایک قطعہ مشہور ہے در شعر سہ تن پیمبر انند ہر چند کہ کانبی بعدی ابیات و قصیدہ و غزل را فردوسی و انوری و سعدی یہ تو اصناف شاعری کی تحسین کا انداز تھا۔ مولانا حامد حسن قادری نے خصائص و محاسن شاعری میں جن تین اردو شاعری کا انتخاب کیا ہے اس کا انداز مدح و بیان کبھی قابل تعریف ہے۔ میر و غالب کے کمالات شعر کو کس خوبی سے اقبال کی ذات میں دکھاتے ہیں۔ تین شاعر مختلف اوقات میں پیدا ہوئے جن کی فیض طبع نے اردو کو گنج زر دیا اک اثر میں بڑھ گیا اک رفعت تخیل میں تیسرے کی ذات میں دونوں کو حق نے بھر دیا کائنات شاعری میں ہیں بس یہی دونوں کمال تیسرے میں اس لئے دونوں کو یکجا کر دیا خان اصغر حسین خان صاحب نظیر لدھیانوی فارسی اور اردو، دونوں زبانوں کی شاعری پر عبور کامل رکھتے ہیں۔ بلکہ فارسی میں ان کا درجہ اردو سے بھی زیادہ بلند ہے۔ وہ اقبال کے متعلق اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں۔ جان و دل را از نوائے خود گداز آشیاں در گلشن اقبال ساز آں چمن آرائے اسرار و رموز آسماں پیرائے اسرار و رموز خیمہ زن در وادی طورش کلیم شعر او تفسیر قرآن حکیم حاصل خم خانہ ہا زیر برش مے بہ تاک اندر نہاں در ساغرش در تن ماگر رواں بیتی از واست آنچہ در ہندوستاں بینی از داست گرمی مرحوم اپنے مرض الموت میں بھی (۲۶ مئی ۱۹۲۷ء کو) علامہ اقبال کو اکثر یاد کرتے رہے۔ آخری لمحوں میں یہ شعر ان کی زبان پر تھا۔ صبا بہ حضرت اقبال ایں پیا مم دہ کہ رفت جان گرامی و تو ہنوز خموش ہمارے قومی شاعر کو سر کا خطاب: ۱۹۰۱ء میں جبکہ ملکہ وکٹوریہ کے انتقال پر ڈاکٹر اقبال نیا یک درد انگیز ترکیب بند لکھا تو سرکاری حلقوں میں اقبال کی شاعری نے ایک دھوم مچا دی۔ پھر انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسہ میں جب سر۔۔۔۔۔ اس زمانے کے لاٹ صاحب تشریف لائے تو اقبال نے ان کے علم کی تعریف میں ایک قطعہ لکھا۔ یہ غالباً ۱۹۰۳ء کا ذکر ہے۔ یورپ کی جنگ عظیم میں آپ نے ایک نظم لکھی جو سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی۔ لیکن گورنمنٹ زیادہ تر اقبال کے علم و فضل اور اس کی قدر و قیمت سے اس وقت واقف ہوئی۔ جب ان کی فارسی تصانیف (اسرار بیخودی، رموز بیخودی) نے یورپ کے اخبارات اور اہل علم طبقہ میں جگہ پیدا کر لی۔ ان دونوں مثنویوں کے ترجمے یورپ کی کئی زبانوں میں ہوئے اور جب اہل مغرب نے مشرق کے ایک شاعر کا فلسفہ حیات ایک نئی زبان اور نئے انداز میں دیکھا تو بے ساختہ ان کی زبان سے نکل گیا۔ آتشے از سینہ اہل عجم افروختی در فضائے غرب سیل اضطراب آوردہ چنانچہ ۱۹۳۴ء میں آپ کو نائٹ (سر) کا عظیم القدر خطاب ملا۔ یہ خطاب ایک ایسے شاعر کو ملا تھا جس نے کبھی خطابات اور ہوس جاہ کی خواہش نہ کی تھی۔ بلکہ جو ہمیشہ آزادی و حریت کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ اس لئے اس پر اخبارات اور شعرا نے بہت کچھ طبع آزمائیاں کیں۔ ایک نظم کے تین شعر یہاں بھی درج کئے جاتے ہیں۔ لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت افسوس کو علامہ سے سر ہو گئے اقبال پہلے تو سر ملت بیضا کے تھے وہ تاج اب اور سنو ’’تاج‘‘ کے سر ہو گئے اقبال کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پر کوئی گستاخ سرکار کی دہلیز پہ سر ہو گئے اقبال لیکن آپ کی عزت افزائی پر جو عظیم الشان پارٹی مقبرہ جہانگیر میں لاہور کے سکھوں، مسلمانوں اور ہندوؤں کی طرف سے آپ کو دی گئی اور جس میں نہ صرف لاہور کے معززین بلکہ پنجاب کے مختلف شہروں کے اکابر اور اہل علم شریک تھے اور اکثر انگریز حکام و لیڈیوں کے علاوہ خود گورنر پنجاب بھی مدعو تھے۔ وہ ظاہر کرتی ہے کہ ملک نے ایک شاعر کی عزت کو کس وقعت و فخر کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس پارٹی میں ڈاکٹر صاحب نے انگریزی زبان میں ایک دلچسپ تقریر کی اور اسی تقریر سے پہلی مرتبہ لوگوں کے کا ن آپ کی مشہور تصنیف’’ پیام مشرق‘‘ سے آشنا ہوئے۔ جو آپ جرمن شاعر گوئٹے کے جواب میں تصنیف کر رہے تھے۔ علامہ اقبال کا سفر میسور، مدراس و حیدر آباد دکن دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخری ایام میں چند لیکچر دینے کے لئے سر اقبال کو مدراس میں مدعو کیا گیا۔ تین دن آپ وہاں رہے۔ مختلف افراد اور انجمنوں نے ایڈیس اور دعوتیں دیں۔ مدرس، بنگلور میسور کے قریباً ہر انگریزی ورنیکلر اخبار نے آپ کے فوٹو شائع کئے۔ اخبارات کے نمائندوں اور مذہب و فلسفہ کے بڑے بڑے عالموں نے آپ کو سپاسنامے پیش کئے ۹ جنوری ۱۹۲۹ء کو جب ڈاکٹر صاحب بنگلور کے سٹیشن پر پہنچے تو ہزار ہا آدمی شمالی ہند کے اس نامور عالم کو دیکھنے کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے۔ یہاں آپ کو مسلم لائبریری کی طرف سے جس جلسہ میں ایڈریس دیا گیا۔ اس کے صدر امین الملک دیوان مرزا اسمعیل چیف منسٹر میسور تھے۔ طالب علموں اور تعلیم یافتہ لوگوں نے آپ کے خیالات سے مستفیض ہونے کے لئے جس جلسہ کا اہتمام کیا اس کے صدر ڈاکٹر سبرائن ڈائریکٹر محکمہ تعلیمات میسور تھے۔ مہاراجہ میسور کا دعوت نامہ آپ کو بنگلور ہی میں مل چکا تھا۔ اس لئے ۱۰ جنوری کو آپ گورنمنٹ کے مہمان خانہ میں فروکش ہونے کے لئے میسور روانہ ہوئے۔ خاص شہر میسور میں میسور یونیورسٹی نے آپ کے لیکچر کا انتظام کیا۔ دوسرے دن ٹون ہال میں مسلمانان میسور نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ جہاں ہندو بھی مدعو کئے گئے تھے۔ میسور یونیورسٹی کے فلسفہ کے پروفیسر نے جو غیر مسلم تھے۔ اپنی تقریر میں کہا’’ ڈاکٹر اقبال کو مسلمان لاکھ اپنا کہیں مگر وہ ہم سب کے ہیں۔ کسی ایک مذہب یا جماعت کی ملکیت نہیں۔ اگر مسلمانوں کو یہ ناز ہے کہ اقبال ان کا ہم مذہب ہے تو ہم ہندوستانیوں کو یہ فخر کم نہیں ہے کہ اقبال ہندوستانی ہے۔‘‘ میسور، بنگلور، سری رنگ پٹن اور دوسرے مقامات دیکھنے کے بعد آپ ۱۴ جنوری کو حیدر آباد پہنچے۔ جہاں اسٹیشن پر ہی مسلمان بچے ایک قطار میں کھڑے ہو کر ’’ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا‘‘ کی نظم خوش الحانی کے ساتھ پڑھ رہے تھے۔ سٹیشن پر عوام کے علاوہ عثمانیہ یونیورسٹی کے تمام ارکان موجود تھے۔ یہیں آپ کو اطلاع دی گئی کہ آپ نظام گورنمنٹ کے مہمان ہیں۔ اس لئے سیدھے گورنمنٹ مہمان خانہ میں جانا ہو گا۔ ۱۸ جنوری کی صبح کو ۱۱ بجے آپ اعلیٰ حضرت حضور نظام سے ملے۔ حیدر آباد دکن، میسور اور مدراس کے اخباروں نے آپ کی علمی فضیلت پر مضامین شائع کئے۔ آپ کی تصویریں چھاپیں اور میسور کے اخبار الکلام نے اقبال نمبر چھاپا۔ مذہب اور سیاست کے متعلق علامہ اقبال کے خیالات: مدراس کے سفر میں ۷ جنوری ۱۹۲۹ء کو مدراس کے مشہور روزانہ اخبار سوراجیہ کے ایک نمائندہ نے مذہب اور سیاست کی یک جائی کے متعلق علامہ اقبال سے ایک سوال کیا۔ آپ نے اس کا جواب بڑی تفصیل سے دیا۔ ہم یہاں اس کا خلاصہ درج کرتے ہیں۔ ’’ میں اس امر کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کر رہا ہوں کہ ہماری درسگاہوں میں مذہبی تعلیم بھی ہونی چاہیے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ میں بحیثیت ایک ہندوستانی کے مذہب کو سوراج پر مقدم خیال کرتا ہوں۔ ذاتی طور پر مجھے ایسے سوراج سے کوئی واسطہ نہ ہو گا۔ جو مذہب سے بے نیاز ہو۔ یورپ میں تعلیم کا خالصتہً دنیوی طریق بڑے تباہی آمیز نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا ملک بھی ان تلخ تجربات سے دوچار ہو۔ یہ امر صاف ظاہر ہے کہ باشندگان ایشیا یورپ کے خالص مادی رویہ کو بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ہمارے سامنے یہ مسئلہ در پیش ہے کہ روحانی ا ور مادی امور کو کس طرح یک جا جمع کیا جائے۔ سب سے پہلی ایشیائی قوم جسے اس مسئلہ کو حل کرنے سے واسطہ پڑا تھا۔ ترک تھی۔ میں کہتا ہوں کہ ترک روحانیت و مادیت کے مطلوبہ اجتماع کو حاصل کرنے میں ناکامیاب رہے۔ تاہم میں ترکوں کی طرف سے مایوس نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ تاتاری نسل اس تیزی فہم و ادراک اور اس عمق ضمیر سے محروم ہے۔ جو اس مسئلہ کے حل کے لئے ضروری تھی۔ میں فی الحال اس مسئلہ کے متعلق ایران، عرب اور افغانستان کی آئندہ روش پر بھی اظہار خیال نہیں کر سکتا۔ جو اقوام ایشیا کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ باشندگان ہند اس کار عظیم کو انجام دینے کے اہل ثابت ہوں گے۔ کیونکہ ان کی مذہبی روایات، ان کے ادراک کی تیزی اور ان کے جذبات کی شدت اس کام کی اہلیت کا ثبوت دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوع انسان کی عام بھلائی کے لئے میں یہاں کے مسلمانوں اور ہندوؤں کی مفاہمت کا متمنی رہتا ہوں۔ اور اسے اشد ضروری خیال کرتا ہوں۔ صرف باشندگان ہند ہی پرانی دنیا کے کھنڈروں پر نئے آدم کے لئے نئی دنیا تعمیر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کی باتیںکہ مذہب کو بالائے طاق رکھ کر تمام تر توجہ سیاسیات پر دینی چاہیے۔ یورپ کی غلامانہ تقلید کے سوا اور کچھ نہیں جس کی مادہ پرستی یورپ کی روحانیت اور دوسری اقوام کی مادیت کے لئے پیام موت ثابت ہو چکی ہے۔‘‘ علامہ اقبال کی تصنیفات: علامہ ممدوح نے سب سے پہلے اردو میں علم الاقتصاد کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ جو آج کل نایاب ہے۔ انگلستان میں ’’ فلسفہ ایران‘‘ پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی۔ جس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ انگلستان سے واپس آ کر اسرار خودی اور رموز بیخودی کے نام سے دو مثنویاں شائع کیں۔ جن پر ملک کے ہر گوشہ سے احسنت و مرحبا کی صدا بلند ہوئی۔ پھر ’’ بانگ درا‘‘ کے نام سے اپنے اردو کلام کا مجموعہ شائع کیا۔ اس کے بعد پیام مشرق اور زبور عجم نے آپ کی شہرت و عظمت کو اور بھی چار چاند لگادئیے۔ آپ نے ۱۹۲۹ء میں جو چھ لیکچر انگریزی میں مدراس میں دئیے تھے۔ وہ بھی کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ سیالکوٹ کا وہ لڑکا جس کی ابتدا نہایت معمولی تھی بڑھتے بڑھتے شہرت کے اس فلک الافلاک تک جا پہنچے گا۔ جہاں ان سے پہلے کوئی ہندوستانی نہ جا سکا تھا۔ کس کو علم تھا کہ خاموش وضع کا یہ تنہائی پسند لڑکا اپنے دماغ میں کیا کیا فیضان وہبی چھپائے ہوئے ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جس پر خطہ کشمیر کو ناز ہے۔ یہ وہ نادر وجود ہے۔ جس پر سیالکوٹ جو اس کا جنم بھوم ہے فخر کرتا ہے۔ یہ وہ لاثانی شخصیت ہے۔ جس کا نام لے کر پنجاب بلکہ تمام ہندوستان پھولا نہیں سماتا۔ علامہ اقبال اور بیرونی ممالک کے ارباب1؎ علم ۱۔ حسین دانش ترکی فاضل نے ترکی میں علامہ اقبال کی بہت سی نظموں کا ترجمہ کیا۔ اور ’’ پیام مشرق‘‘ پر تبصرہ لکھا۔ ہمیں یہ معلومات ڈاکٹر توفیق بے رکن وفد ہلال احمر سے ملیں۔ ڈاکٹر توفیق بے نے یہ بھی فرمایا کہ اقبال کے نظریات کو شاید ہی کسی نے اس وضاحت سے لکھا ہو جس وضاحت سے حسین دانش نے لکھا ہے۔ ایک روز ڈاکٹر توفیق بے نے دوران گفتگو میں کہا کہ اگر اقبال کبھی قسطنطنیہ تشریف لائیں تو ان کا شاہانہ استقبال کیا جائے۔ ۲۔ امان افغان (کابل) جناب آغا ہادی حسن صاحب وزیر تجارت نے جو پہلے انگلستان میں افغانستان کے سفیر تھے۔ ایک سلسلہ مضامین پیام مشرق پر بطور تبصرہ لکھا تھا۔ جو کئی نمبروں میں چھپا۔ ۳۔ مصر کے مشہور و معروف سیاح جناب احمد رفعت بھی ہیں۔ جنہوں نے پچھلے دنوں ممالک اسلامیہ کی سیاحت ختم کی۔ اس سیاحت کے دوران میں وہ شملہ و لاہور میں بھی رونق افروز ہوئے۔ جناب احمد رفعت نے علامہ ا قبال کی بہت سی نظموں کا عربی میں ترجمہ کیا اور یہ تراجم مصر کے مشہور جریدہ الاہرام میں شائع ہوئے۔ ۴۔ مولوی عبدالحق صاحب حقی بغدادی مرحوم سابق پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے علامہ کی مشہور نظم ترانہ کا ترجمہ عربی میں کیا تھا۔ یہ ترجمہ بھی مصر وغیرہ کے عربی اخبارات میں چھپ چکا ہے۔ یورپ و امریکا: ۱۔ ڈاکٹر نکلسن پروفیسر کیمبرج یونیورسٹی نے اسرار خودی کو انگریزی لباس پہنایا۔ پھر پیام مشرق پر رسالہ اسلامیکا (جرمنی) میں تبصرہ لکھا۔ اس تبصرہ کا اردو ترجمہ نیرنگ خیال کے عید نمبر ۱۹۲۵ء میں شائع ہو چکا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ آجکل ڈاکٹر موصوف پیام مشرق کے انگریزی ترجمہ میں مصروف ہیں۔ ۲۔ ڈاکٹر براؤن آنجہانی نے اسرار خودی کے انگریزی ترجمہ پر رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے مجلہ ۱۹۲۱ء میں تبصرہ لکھا۔ نیز اپنی تازہ ترین تالیف تاریخ ادبیات فارسی کی آخری جلد یعنی جلد چہارم میں شہاب الدین سہروردی کے سلسلہ میں ذکر فرمایا۔ ۳۔ ڈایشوروسو نے پیام مشرق کے مقدمہ کو جرمنی زبان کے لباس کا جامہ پہنا کر پیام مشرق کی غرض و غایت کو واضح کر دیا ہے۔ ۴۔ ڈاکٹر فشر پروفیسر لیپزک یونیورسٹی (ایڈیٹر) اسلامیکا نے جرمنی زبان میں پیام مشرق پر تبصرہ لکھا اور ڈاکٹر نکلسن سے بھی زیادہ بہتر طریق پر علامہ اقبال کا گوئٹے سے مقابلہ کیا۔ 1؎انقلاب ۲۴ جولائی ۱۹۲۷ء مضمون مرتبہ پروفیسر محمد ؐ عبداللہ صاحب ۵۔ جرمنی کے مستشرق ڈاکٹر ہانسی مائنکے نے جو وہاں کا ایک مشہور فلسفی شاعر ہے نہایت حسن عقیدت اور فرط محبت سے پیام مشرق کا استقبال کیا۔ یعنی اس کے ایک خاص حصہ کا ترجمہ جرمن زبان میں کیا پھر اسے چمڑے کے کاغذ پر جس پر عموماً انجیل وغیرہ مقدس کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ اپنے ہاتھ سے خوشخط لکھ کر اور مشرقی انداز میں نقش و نگار کر کے علامہ اقبال کی خدمت میں بطور تہدیہ ارسال کیا۔ احقر کو یہ ہدیہ نادرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ واقعی ایسی نایاب چیز کبھی قدیم زمانہ میں تیار کی جاتی تھی۔ ۶۔ خان بہادر عبدالعزیز ڈپٹی کمشنر بندوبست جب انگلستان تشریف لے گئے تو وہاں آپ نے لندن یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی میں اقبال کی شاعری کے نصب العین پر لیکچر دئیے جو بعض یورپی رسائل میں شائع بھی ہوئے۔ ۷۔ جرمنی میں ڈاکٹر اقبال کے نام سے ایک سوسائٹی قائم ہوئی ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ علامہ موصوف کی تعلیمات اور آپ کی کلام کی اشاعت کرے۔ ۸۔ ڈاکٹر سکاریہ اٹلی کے مشہور فاضل ہیں۔ جو پچھلے دنوں افغانستان میں بھی تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے اٹلی کے ایک ادبی مجلہ میں اقبال کے متعلق ایک نہایت محققانہ مضمون لکھا۔ ۹۔ حال ہی میں جرمنی میں ایک بیاض ہندوستانی علم و ادب کے متعلق شائع ہوئی ہے۔ جس میں مختلف شعرا کے کلام کا انتخاب بصورت تراجم جمع ہے۔ اس مجموعہ میں علامہ ا قبال کی پانچ نظمیں ہیں اور ٹیگور کی بھی ایک نظم ہے۔ ۱۰۔ ایک روسی نے جو ہندوستان کا سفر کر چکا ہے اور لاہور محض علامہ اقبال ہی سے ملنے کی غرض سے آیا تھا۔ اسرار خودی کے نظریات کو روسی زبان میں قلمبند کیا۔ ۱۱۔ ڈاکٹر کنرن نے جو مدراسی تھیوسوفیکل سوسائٹی کے روح رواں ہیں۔ اپنی تازہ کتاب ساما دارسن میں تبصرہ لکھا اور ٹیگور و اقبال کا مقابلہ بھی کیا۔ وہ فرماتے ہیں بنگالی شاعر نے دنیا پر قبضہ کر لیا ہے مگر اقبال اس کا برادر کلاں ہے۔ ۱۲۔ ڈاکٹر سپوز آنجہانی نے شکوہ کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔ جو انڈین ریویو میں شائع ہو چکا ہے۔ آپ پیام مشرق کا بھی انگریزی ترجمہ کرنا چاہتے تھے۔ ۱۳۔ اتھنیم ۱۹۲۱ء میں مسٹر فارسٹر نے اسرار خودی کے انگریزی ترجمہ پر تبصرہ لکھا اور علامہ اقبال کے کلام پر ایک مصلح قوم کی تعلیمات کی حیثیت سے نظر ڈالی اس تبصرہ کا ترجمہ بھی غالباً معارف میں شائع ہو چکا ہے۔ ۱۴۔ مسٹر اپسن سابق مدیر مسلم آؤٹ لک نے بارہا ٹیگور اور اقبال کا مقابلہ کیا اور اقبال کو ٹیگور سے بہمہ وجوہ بہتر ثابت کیا ہے۔ ۱۵۔ کتاب ہندوستان کی بیداری مصنفہ میکنزی میں ایک باب جدید علم ادب کا طلوع کے نام سے بھی ہے جس میں سردار جوگندر سنگھ کی تحریر کی رو سے اقبال کا بھی نہایت وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ (صفحہ ۱۵۹) یہ کتاب امریکہ میں ۱۹۲۷ء میں چھپی۔ اس کا مصنف تمام امریکا کا نمائندہ بن کر ہندوستان آیا تھا۔ ۱۶۔ ۱۹۲۵ء میں کے انڈین ریویو میں ایک مضمون پیام اقبال کے عنوان سے مسٹر مینن کے قلم سے شائع ہوا۔ مصنف نے دراصل اسرار خودی پر اپنے خیالات قلمبند کئے ہیں۔ وہ اسرار خودی کو اخوت اسلامی کے موضوع پر ایک الہامی کتاب قرار دیتا ہے۔ ۱۷۔ علامہا قبال جب کونسل کے انتخابات میں مصروف تھے۔ تو ایک مقرر نے علامہ ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے مارننگ پوسٹ کی ایک تحریر کا بھی حوالہ دیا تھا کہ اقبال بہت بڑی طاقت ہے۔ سر اقبال اور پنجاب کونسل: علامہ اقبال ذہنی طور پر ہمیشہ احرار کے طبقہ میں شامل رہے ہیں۔ مگر عملی طور پر ان کو میدان سیاست میں آنے کا کوئی موقع نہ ملا تھا۔ وہ خود ایک خط کے جواب میں لکھتے ہیں۔ یہ عقیدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش پھر ایک اور نظم میں اپنی خاموش زندگی کا اس طرح ثبوت دیتے ہیں۔ اقبال بڑا اپدیشک ہیے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا لیکن باوجود یہ سب کچھ جاننے کے ان کے دوستوں اور عقیدت مندوں نے بڑے اصرار کے ساتھ ان کو کونسل کی انتخابی جدوجہد کے لئے تیار کیا۔ اور اہل لاہور واقف ہیں کہ ۱۹۲۶ء میں لاہور کے ہر محلے اور کوچے میں حمایت اقبال کے لئے ان کے دوستوں نے کس قدر جلسے کئے۔ کونسلوں کے انتخابات کے موقع پر امیدواروں کی طرف سے ہزار ہا روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اور ووٹروں کی خوشامدیں اور ان کی خاطر داریاں علیحدہ ہوتی ہیں۔ لیکن اہل لاہور خوب جانتے ہیں کہ اقبال ہی پہلا ممبر کونسل ہے۔ جس کے لئے نہ صرف دو جلیل القدر امیدواروں نے اپنے نام واپس لے لئے بلکہ شہر کی تمام مسلمان برادریوں نے اقبال کی حمایت میں علیحدہ علیحدہ اشتہارات شائع کئے اور اقبال ایک پیسہ خرچ کئے بغیر ۲۳ نومبر ۱۹۲۶ء کے پولنگ میں اپنے مد مقابل پر اتنے کثیر ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہو گیا۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ جمہور اسلام طبقہ اعلیٰ اور تعلیم یافتہ نوجوان آپ کی قابلیت پر اور آپ پر پورا پورا اعتماد رکھتے ہیں۔ اخبارات نے علامہ اقبال کی کامیابی پر تعریفی مضامین لکھے۔ زمیندار نے جو آج بعض سیاسی وجوہ کے اختلاف پر آپ کی تمام خوبیوں اور قابلیتوں اور شہرتوں کو ’’ منم کردہ ام رستم داستاں‘‘ کا سبب بتا رہا ہے۔ آپ کے کامیاب ہو جانے پر ایک مقالہ افتتاحیہ میں آپ کے متعلق اپنی ۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کی اشاعت میں لکھا۔’’ ساری دنیا جانتی ہے کہ علامہ ممدوح ایسی نادر الوجود شخصیتیں صدیوں کے بعد پیدا ہوا کرتی ہیں۔ موجودہ مسلمانان ہند میں سے شاید علامہ ممدوح ہی وہ ممتاز ترین ہستی ہیں جن کے علم و فضل کے روبرو یورپ و امریکہ کی کلاہ افتخار کو بھی مضطربانہ جھکنا پڑا ہے۔ ایک ایسے وجود کا کونسل کی رکنیت کے لئے امیدوار بننا مسلمانان لاہور کے لئے علی الخصوص اور مسلمانان پنجاب کے لئے علی العموم بڑی ہی خوش قسمتی اور سعد بختی کا موجب ہے۔‘‘ سر اقبال کی ملکی و قومی خدمات کونسل میں: سر اقبال کونسل میں مسلمانوں کے نمائندہ بن کر گئے تھے۔ انہوں نے کونسل کے مختلف اجلاس میں کئی سوالات و استفسارات مسلمانوں کی ترقی و فلاح کے لئے کئے۔ لیکن ان کا دل چونکہ ملکی درد سے لبریز ہے۔ خصوصاً غریب طبقہ (مزدور اور کاشتکار) کے ساتھ ان کو فطری انس و ہمدردی ہے۔ اس لئے انہوں نے زمینداران کے سود و بہبود اور ان کے مالیہ کو کم کرانے اور انکم ٹیکس اور معاملہ اراضی میں فرق بتانے کے لئے کونسل کے قریباً ہر اجلاس میں نہ تو کوئی تحریک خود پیش کی ہے اور نہ کسی اور محرک کی کسی تحریک کی تائید کی ہے اور تحریک و تائید کے وقت اپنی مدلل اور زبردست تقریروں سے بتہ سے ممبروں کو اپنا ہم خیال بنا لیا ہے۔ ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو حکومت کو مشکلات میں ڈالنے اور قوموں میں تفرقہ اور ملک میں بد امنی پیدا کرنے کے لئے مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں پر کمینے حملے کرتا رہتا ہے۔ آپ نے اس کے متعلق تحریک پیش کی کہ گورنر جنرل با اجلاس کونسل سے سفارش کی جائے کہ بانیان مذاہب پر توہین آمیز، شکر انگیز اور کمینہ حملوں کی اشاعت کا سد باب کرنے کے لئے ایک ریگولیشن نافذ کیا جائے۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء ہی سے یہ قانون نافذ چلا آتا ہے۔ تلوار کو قانون اسلحہ ہند سے مستثنیٰ کرانے کی بھی آپ نے تحریک پیش کی۔ شراب کی لعنت کو دور کرنے کے لئے یہ قرار داد پیش کی کہ شراب نوشی کے انسداد کی حکمت عملی کا منتہائے نظر امتناع تسلیم کیا جائے اور اس کی میعاد پندرہ سال سے متجاوز نہ ہو۔ نیلی بار، منٹگمری کے ضلع میں سوا تین لاکھ ایکڑ رقبہ سرکار نے فروخت کیا ہے۔ اس کا زیادہ حصہ سرمایہ داروں نے ہی خریدار ہے۔ اس کے متعلق علامہ اقبال نے یہ تحریک پیش کی کہ اس کا نصف مزارعین یعنی کسانوں کے لئے جو اپنے ہاتھ سے کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں۔ مخصوص کیا جائے۔ شہروں میں جب کوئی وبا پھیلتی ہے۔ تو اس کے سد باب کے لئے سرکاری و غیر سرکاری انتظامات شروع ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کی طبی امداد ہر مریض کو مل سکتی ہے۔ لیکن دیہاتوں میں ایسی بات نہیں ہے اس لئے آپ نے دیہاتیوں کے مفاد کے لئے یہ تحریک پیش کی کہ سرکاری و غیر سرکاری ارکان کی ایک مجلس مقرر کی جائے۔ جو دیہات میں حفظان صحت کے طریقوں کی ترقی کی رپورٹ پر غور کرے۔ زمینیں حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ قوموں کی ملکیت ہوتی ہیں: ۲۵ فروری ۱۹۳۲ء کے اجلاس کونسل میں وزیر مالیات نے جو میزانیہ پیش کیا۔ اس پر علامہ اقبال نے ایک زبردست تبصرہ کرتے ہوئے نظام محاصل کی بے ضابطگیوں کی نقاب کشائی کی اور تخفیف محاصل پر بحث کرتے ہوئے فرمایا۔ بے اضابطگی یہ ہے کہ زمین کے معاملہ میں یہ نظریہ قائم کر لیا جاتا ہے کہ ساری زمین ملکیت حکومت ہے۔ اس ملکیت عامہ کا دعویٰ نہ عہد قدیم میں کسی نے کیا اور نہ سلاطین مغلیہ کے زمانہ میں ایسا مطالبہ پیش کیا گیا۔ یہ اس مسئلہ کا تاریخی پہلو ہے۔ جسے مجلس تحقیقات محاصل بھی تسلیم کر چکی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں حکمران طاقت نے کبھی اس قسم کے حقوق کا مطالبہ نہیں کیا (نعرہ ہائے تحسین) ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مغلوں نے ایسا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن پنجاب کے باشندے اس ملک کی زمین کے اس وقت سے مالک چلے آتے ہیں۔ جبکہ بابر کی نسل نے تاریخ کے ایوان میں قدم بھی نہ رکھا تھا۔ اس سے صرف ایک نتیجہ نکلتا ہے کہ بادشاہتیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں اور صرف قوم زندہ و سلامت رہتی ہے۔ (نعرہ ہائے تحسین) اور اگر کسی وقت کسی ملک کے اندر یہ نظریہ رائج بھی تھا۔ تو اس بیسویں صدی میں اسے جائز نہیں مانا جا سکتا۔ اس وقت زمین کے ہر چھوٹے بڑے قطعہ کے لئے معاملہ لیا جاتا ہے۔ خواہ کسی شخص کے پاس دو کنال زمین ہو، خواہ دو سو کنال، بہر صورت اسے معاملہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس انکم ٹیکس کے باب میں صلاحیت و استطاعت کے اصول یا مدارج کے اصول پر عمل کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک تاریجی پیمانہ قدیم ہے۔ بعض لوگوں سے قطعاً کوئی انکم ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ میری گذارش یہ ہے کہ کونسل کو اس اصول کی روشنی میں تخفیف محاصل کے مسئلہ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ (نعرۂ ہائے تحسین) ۱۹۲۸ء میں سرکاری ملکیت کا نظریہ پھر زیر بحث آیا۔ اس پر علامہ اقبال نے پھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ اس نظریہ پر سب سے پہلے جس یورپین مصنف نے تبصرہ کیا۔ وہ پیرن تھا۔ ۱۸۸۷ء میں اس نے پوری تحقیق و تفتیش کے بعد اس نظریہ کو بالکل مسترد کر دیا۔ ۱۸۳۰ء میں بریگر نے ہندوستان کے اندر ملکیت کے قانون و رواج کی پوری تحقیقات کی۔ یہ مصنف اپنی کتاب میں منوجی کے قوانین، اسلامی شریعت اور ہندوستان کے مختلف حصص بنگال، مالوہ، پنجاب وغیرہ کے متعلق رواجی پابندیوں کا تفصیل سے ذکر کرتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ تاریخ ہند کے کسی دور میں بھی سلطنت زمین کی ملکیت کی مدعی نہیں ہوتی۔ پنجاب کے وزیر مالیات سے علامہ اقبال کی پر لطف بحث: زمین اک لگان معاف یا کم کرانے اور انکم ٹیکس اور معاملہ اراضی کا فرق بتانے اور زمین کو سرکاری ملکیت سے مستثنیٰ قرار دینے پر علامہ اقبال کی تقریر بڑی زور دار اور بڑی طویل تھی۔ تقریر کے دوران میں فاضل رکن مالیہ آنریبل سر فضل حسین سے خطاب ہوتا تھا۔ ہم اس تقریر کے چند پر لطف ٹکڑے ناظرین میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ رکن مالیہ نے اپنے دلائل میں دو باتوں پر زور دیا۔ ۱۔ صوبہ کی ترقی کے لئے روپیہ کی اشد ضرورت ہے۔ ۲۔ حکومت کیمیا گری نہیں جانتی۔ اس کا جواب علامہ اقبال نے اپنی تقریر کے دوران میں دیا۔ اس کا کوئی جواب نہیں ہو سکا۔ آپ نے فرمایا: ’’ میری رائے میں حکومت کو اس وقت تک کیمیا گری سیکھنے کی ضرورت نہیں جب تک کہ ملک کے تمام محنت کش کسان جن کا پسینہ مٹی کو سونا بنا دیتا ہے اس کے قبضہ میں ہیں۔‘‘ وزیر مال نے علامہ اقبال کے دلائل سن کر جب کہا کہ مالگذاری کا یہی طریق جاری رکھا جائے گا یا اسے بالکل چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کے سوا تیسراراستہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا اگر آپ اس امر کو تسلیم کر لیں کہ مالگذاری عاید کرنے کا یہ طریق غیر منصفانہ ہے۔ تو اس بے انصافی کو دور کرنے کے لئے کچھ علاج شروع کیا جا سکتا ہے اور اس کا علاج آپ نے یہ بتایا کہ ایک ایسے شخص کو جس کے پا س پانچ بیگہ سے زیادہ زمین نہیں۔ بشرطیکہ زمین ایسے رقبہ میں نہ ہو جہاں آبپاشی نہیں کی جا سکتی اور اس کی پیداوار کی تعداد بھی معین ہو۔ لگان معاف کر دینا چاہیے۔ جب وزیرمال نے یہ خوف اور احتمال پیش کیا کہ یہ قرار داد مسودہ قانون مالگذاری کے شیر خوار بچہ کی موت کا باعث بن جائے گی اور ارکان کو نسل بچہ کشی کے جرم کے مرتکب ہوں گے تو آپ نے فرمایا۔ آج کل جیسا کہ منع حمل کی تدابیر پر عمل کیاجاتا ہے۔ کسی ایسے بچہ کا قتل کر دینا جس کے متعلق ہمیں علم ہو کہ یہ بڑا ہو کر شریر ہو گا۔ نہایت معمولی بات ہے۔ میری رائے میں یہ مطالبہ کہ پانچ بیگھ تک کی زمین کا مالیہ معاف کر دیا جائے۔ کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔ سوا دو ایکڑ زمین والے شخص کا لگان معاف کرنے پر وزیر مالیات نے کہا۔ کہ یہ گناہ بے لذت ہو گا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ اگر آپ گناہ بے لذت کا ارتکاب کریں گے۔ تو اتنا تو ثابت کر دیں گے کہ آپ میں انصاف کا کچھ نہ کچھ احساس ہے۔ اخیر میں آپ نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ ان بیچاروں کے لئے کچھ کرے۔ جو اپنی زمین سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے بھی پیداوار حاصل نہیں کر سکتے۔ سر اقبال او رخطہ جنت نظیر کشمیر: سر اقبال گو آج سارے جہان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سارے جہاں میں کشمیر کا چھوٹا سا مالک جو بارہ تیرہ لاکھ فاقہ کشوں کا وطن ہے۔ کیا حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم آپ نے اپنے وطن قدیم کے لحاظ سے اس غریب ملک اور اس غریب قوم کے لئے بھی اپنے قلب میں جو سمندر سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ تھوڑی بہت جگہ ضرور دی ہے۔ جو نظمیں آپ کی سب سے پہلے کسی اخبار یا رسالہ کی زینت ہوئیں۔ وہ کشمیر اور کشمیریوں کے متعلق ہی تھیں۔ انگلستان سے واپس آ کر آپ پہلے کشمیر انجمن کے اور بعد ازاں آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس کے سیکرٹری قرار پائے۔ اسی زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ ظفر وال کے ایک تحصیلدار نے ایک مقدمہ میں کشمیریوں کے متعلق مفسد اور بہادر کے لفظ لکھے۔ واقعہ یہ تھا کہ دس بارہ آدمیوں نے تین کشمیریوں پر مار پیٹ کا دعویٰ کیا۔ تحصیلدار نے فیصلہ میں لکھا کہ بظاہر یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ دس بارہ آدمی تین آدمیوں سے کس طرح مار کھا سکتے ہیں۔ لیکن عام طور پر چونکہ کشمیری مفسد اور بہادر پائے جاتے ہیں۔ اس لئے میں کوئی وجہ نہیں دیکھتاکہ ان کشمیریوں نے اپنے سے چوگنی تعداد کے حریفوں کو زخمی نہ کر دیا ہو۔ ایک منچلے کشمیری نے اس فیصلہ کی مصدقہ نقل لے کر کانفرنس کے دفتر میں بھیجی کہ اس تحصیلدار نے ہم کو مفسد قرار دیا ہے۔ اس پر ہتک اور توہین کا مقدمہ قائم ہونا چاہئے۔ سر اقبال سیکرٹری تھے۔ آپ نے فرمایا تحصیلدار نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح ہے۔ جو قوم بہادر ہے۔ وہ ضرور مفسد ہے اور جو مفسد ہے وہ بہادر اور دلیر ہے۔ اس فیصلہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداء کشمیریوں کی طرف سے نہیں تھی۔ اس لئے وہ لا تفسدوا فی الارض کی ذیل میں نہیں آ سکتے۔ بلکہ انہوں نے قومی غیرت سے کام لے کر اپنی مدافعت کی ہے۔ اس فیصلہ پر مقدمہ کی تجویز پاس نہ ہو سکی۔ نواب سر سلیم اللہ خان جی۔ سی ۔ آئی۔ ای نواب آف ڈھاکہ جب مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسہ میں امرتسر تشریف لائے تھے تو کشمیر یان پنجاب کی طرف سے سر اقبال نے ہی آپ کی خدمت میں خیر مقدم کا ایڈریس فار سی زبان میں پڑھا تھا۔ راقم الحروف نے کشمیر کے متعلق جس قدر کتابیں لکھی ہیں۔ ان کو سر اقبال نے ہمیشہ پسند کیا اور اپنی زریں راؤں سے کتابوں کی وقعت کو دو چند کر دیا ہے۔ میری اخباری خدمات اور تصنیفات متعلقہ کشمیر کی وجہ سے آپ نے مجھے بارہا مجدد الکشامرہ لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خطہ کشمیر کے بارہ تیرہ لاکھ انسانوں کی تعلیمی و اخلاقی پستی کو دور کرانے اور ان لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے والوں کی خدمات کو پسند فرماتے ہیں۔ مہاراجہ سر پرتاپ سنگھ آنجہانی سے بھی ایک دو دفعہ ملاقات کر چکے ہیں۔ مہاراجہ نے کشمیر آنے اور سرکاری مہمان بننے کی دعوت بھی دی تھی۔ ایک دفعہ کشمیر تشریف بھی لے گئے تھے۔ وہاں اپنی آنکھوں سے کشمیر کی جو حالت دیکھی۔ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نشاط باغ کی سیر میں جہاں سر اقبال ہر اہل دل کے دل کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ شرابے کتابے ربابے نگارے وہاں نشاط کی سیر کے دوران میں بدنصیب کشمیریوں کی المناک حالت کے متعلق اسی نظم میں لکھتے ہیں۔ کشیری1؎ کہ بنابندگی خو گرفتہ بتے مے تراشد زسنگ مزارے 1؎کشمیری کشمیر کو کشیر بھی کہتے ہیں۔ جسے کشیر اندر سٹھا تور۔ کشمیر میں سخت سردی ہے۔ اسی لحاظ سے آپ نے کشمیری کو کشیری کہا ہے۔ ضمیرش تہی از خیال بلندے خودی ناشنا سے زخود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے نہ در دیدۂ او فروغے نگاہے نہ در سینہ او دل بے قرار ازاں مے فشاں قطرۂ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے غنی شاہجہان کے زمانے میں کشمیر کا نامور شاعر گذرا ہے جس کا سکہ ہندوستان و ایران تک بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بادشاہ کے بلانے پر بھی اس کے دربار میں نہیں گیا۔ اس کا قاعدہ تھا کہ جب اپنے مکان پر ہوتا تھا۔ تو دروازہ بند کر دیتا تھا اور جب باہر جاتا تو دروازہ کھلا چھوڑ دیتا تھا۔ کسی نے وجہ پوچھی تو کہا۔ متاع گراں تو میں ہی ہوں۔ جب میں گھر میں نہیں تو حفاظت کس کی۔ اس واقعہ کو سر اقبال نے ذیل کی نظم میں کس خوبی سے ادا کیا ہے۔ غنی آں سخن گوئے بلبل صفیر نوا سنج کشمیر مینو نظیر چو اندر سرا بود و ربستہ داشت چو رفت از سرا تختہ را وا گذاشت یکے گفتش اے شاعرے دل رسے عجب دار و ازکار تو ہر کسے بہ پاسخ چہ خوش گفت مرد فقیر فقیر و بہ اقلیم معنے امیر زمن آنچہ دید ندریاراں ردا ست دریں خانہ جزمن متاعے کجا است غنی تا نسیند بہ کاشانہ اش متاع گرانے است درخانہ اش چوں آں محفل افروز در خانہ نیست تہی ترازیں ہیچ کاشانہ نیست سر اقبال نے سیاحت کشمیر کے دوران میں ایک اور نظم بھی لکھی وہ بھی اپنی روانی اور منظر آفرینی کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس میں فرماتے ہیں۔ رخت بہ کاشمر کشا کود و تل وومن نگر سبزہ جہاں جہاں بہ ہیں لالہ چمن چمن نگر باد بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج صلصل و سار زوج زوج بر سر نارون نگر تاز فتد بہ زینتش چشم سپہر فتنہ باز بستہ بہ چہرۂ زمیں برقع نسترن نگر لالہ زخاک بر دمید موج بہ آب چو تپید خاک شرر شرر بہ ہیں آب شکن شکن نگر زخمہ بہ تار ساز زن بادہ بہ ساتگیں بریز قافلہ بہار را انجمن انجمن نگر دختر کے برہمنے لالہ رخے سمن برے چشم برے او کشا باز بہ خویشتن نگر سر اقبال نے اہل کشمیر اور کشمیر کے متعلق اپنی طالب علمی (بی۔ اے) کے زمانہ میں جو رباعیات کہی ہیں۔ وہ ان کے مطلوبہ کلام میں نہیں ہیں۔ ہم یہاں چند درج کرتے ہیں: ٭٭٭ رباعیات کہکشاں میں آ کے اختر مل گئے اک لڑی میں آ کے گوہر مل گئے واہ وا کیا محفل احباب ہے ہموطن غربت میں آ کر مل گئے ٭٭٭ موتی عدن سے لعل ہوا ہے یمن سے دور یا نافہ غزال ہوا ہے ختن سے دور ہندوستاں میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور ٭٭٭ سامنے ایسی گلستان کے کبھی گر نکلے جیب خجلت سے سرطور نہ باہر نکلے ہے جو ہر لحظہ تجلی گہ مولائے جلیل عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے ٭٭٭ پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا بن کے مقراض ہمیں بے پر و بال کیا توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب جس نے روح آزادئیے کشمیر کو پامال کیا فلسفہ سخت کوشی، علامہ سر محمد اقبال کا ایک مضمون اردو میں پہلی مرتبہ مترجم چراغ حسن حسرت محترمی ڈاکٹر نکلسن شفیع کے نام آپ نے جو مکتوب تحریر فرمایا ہے۔ اس سے مجھے یہ معلوم کر کے بیحد مسرت ہوئی کہ اسرار خودی کا ترجمہ انگلستان میں قبول عام حاصل کر رہا ہے۔ بعض انگریز تنقید نگاروں نے اس سطحی تشابہ اور تماثل سے جو میرے اور نیٹشے کے خیالات میں پایا جاتا ہے۔ دھوکا کھایا ہے اور غلط راہ پر پڑ گئے ہیں۔ ’’ دی اینتھم‘‘ والے مضمون میں جو خیالات ظاہر کئے گئے ہیں وہ بہت حد تک حقائق کی غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ لیکن اس غلطی کی ذمہ داری صاحب مضمون پر عائد نہیں ہوتی۔ اس نے اپنے مضمون میں میری جن نظموں کا ذکر کیا ہے۔ اگر اسے ان کی صحیح تاریخ اشاعت کا بھی علم ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ میری ادبی سرگرمیوں کے نشو و ارتقا کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ بالکل مختلف نظر آتا۔ وہ انسان کامل کے متعلق میرے تخیل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خلط مبحث کر کے میرے انسان کامل اور جرمن مفکر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کر لیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسان کامل کے متصوفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے۔ جب نہ تو نیٹشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا نہ اس کی کتابیں میری نظروں سے گذری تھیں۔ یہ مضمون ’’ انڈین انٹی کیوری‘‘ میں شائع ہوا۔ اور جب ۱۹۰۸ء میں میں نے ’’ ایرانی الٰہیات‘‘ پر ایک کتاب لکھی۔ تو اس مضمون کو اس میں شامل کر لیا گیا۔ انگریزوں کو چاہیے کہ میرے خیالات کو سمجھنے کے لئے جرمن مفکر کے بجائے اپنے ایک ہموطن فلسفی کے افکار کو رہنما بنائیں۔ میری مراد الگزنڈر سے ہے۔ جس کے گلاسگو والے خطبات پچھلے سال شائع ہو چکے ہیں۔ ان خطبات میں اس نے ’’ خدا اور الوہیت‘‘ کے عنوان سے جو باب لکھا ہے۔ وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ وہ صفحہ ۳۴۷ پر لکھتا ہے: ’’ گویا ذہین انسانی کے نزدیک الوہیت دوسری اعلیٰ تخریبی قوت ہے۔ جسے کائنات عالم وجود میں لانے کی سعی کر رہی ہے۔ قیاس و اجتہاد کی رہنمونی سے ہمیں یقین ہو چکا ہے کہ بطن گیتی میں اس قسم کی ایک قوت موجود ہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ وہ قوت کیا ہے۔ ہم نہ تو اسے محسوس کر سکتے ہیں نہ ہمارا ذہن اس کے تصور پر قادر ہے۔ انسان ابھی تک ایک نامعلوم خدا کے لئے قربانگاہیں تعمیر کر رہا ہے۔ یہ معلوم کرنا کہ الوہیت کیا چیز ہے اس کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم خدا بن جائیں۔‘‘ الیگزنڈر کے خیالات میرے عقائد کی نسبت زیادہ جسارت آمیز ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ کائنات میں جذبہ الوہیت جاری و ساری ہے۔ لیکن میں الیگزنڈر کی طرح یہ نہیں مانتا کہ یہ قوت ایک ایسے خدا کے وجود میں جلوہ آرا ہو گی۔ جو وقت کا تابع ہو گا۔ اس باب میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قوت ایک اکمل و اعلیٰ انسان کے پیکر خاکی میں ظاہر ہو گی۔ خدا کے متعلق الیگزنڈر کا عقیدہ میرے عقیدے سے مختلف ہے لیکن اگر انگریز ان جزوی اختلافات سے قطع نظر کر کے انسان کامل کے تخیل پر اپنے ایک ہموطن مفکر کے افکار کی روشنی میں نظر ڈالیں تو انہیں یہ عقیدہ اس قدر اجنبی اور غیر مانوس نہیں معلوم ہو گا۔ مجھے مسٹر ڈکنسن کی تنقید بدرجہ غایت دلچسپ معلوم ہوتی ہے اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اس کے متعلق چند باتیں عرض کر دوں: ۱۔ مسٹر ڈکنسن کے نزدیک میں نے اپنی نظموں میں جسمانی قوت کو منتہائے آمال قرار دیا ہے (انہوں نے مجھے ایک مکتوب لکھا ہے۔ جس میں یہی خیال ظاہر کیا ہے) انہیں اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں روحانی قوت کا تو قائل ہوں۔ لیکن جسمانی قوت پر یقین نہیں رکھتا۔ جب ایک قوم کو حق و صداقت کی حمایت میں دعوت پیکار دی جائے تو میرے عقیدے کی رو سے اس دعوت پر لبیک کہنا اس کا فرض ہے۔ لیکن میں ان تمام جنگوں کو مردود سمجھتا ہوں۔ جن کا مقصد محض کشور کشائی اور ملک گیری ہو۔ مسٹر ڈکنسن نے صحیح فرمایا ہے کہ جنگ خواہ حق و صداقت کی حمایت میں ہو۔ خواہ ملک گیری اور فتح مندی کی خاطر تباہی اور بربادی اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس لئے اس کے استیصال کی سعی کرنا چاہئے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ معاہدے، لیگیں، پنچائتیں، اور کانفرنسیں استیصال حرب نہیں کر سکتیں۔ اگر ان مساعی میں ہمیں بیش از پیش کامیابی حاصل ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ ملل مستعمر جن ملتوں کو تمدن و تہذیب میں اپنا ہمسر نہیں سمجھتیں انہیں اپے سہام جو رو تعدی کا شکار بنانے کے لئے زیادہ پر امن وسائل اختیار کر لیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرور ہے۔ جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے۔ ہمارے تنازعات کا فیصلہ کرے اور بین الملی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کر دے۔ پروفیسر میکنزی کی کتاب ’’ انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی‘‘ کے یہ دو آخری پیراگراف کس قدر صحیح ہیں۔ میں انہیں یہاں لفظ بہ لفظ نقل کر دیتا ہوں۔ ’’ کامل انسانوں کے بغیر سوسائٹی معراج کمال پر نہیں پہنچ سکتی اور اس غرض کے لئے محض عرفان اور حقیقت آگاہی کافی نہیں بلکہ ہیجان اور تحریک کی قوت بھی ضروری ہے۔ جسے یوں کہنا چاہیے کہ یہ معما حل کرنے کے لئے ہم نور و حرارت دونوں کے محتاج ہیں۔ غالباً عہد حاضرہ کے معاشری مسائل کا فلسفیانہ فہم و ادراک بھی وقت کی اہم ترین ضرورت نہیں۔ ہمیں معلم بھی چاہیے اور پیغمبر بھی، ہمیں آج رسکن یا کار لائل یا ٹالسٹائل جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ضمیر کو زیادہ متشدد اور سخت گیر بنانے اور فرائض کے دائرے کو زیادہ وسیع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غالباً ہمیں ایک مسیح کی ضرورت ہے یہ قول صحیح ہے کہ عہد حاضرہ کے پیغمبر کو محض ’’ بیابان کی صدا‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ عہد حاضرہ کے ’’ بیابان‘‘ آباد شہروں کے گلی کوچے ہیں۔ جہاں ترقی کی مسلسل و پیہم جدوجہد کا بازار گرم ہے۔ اس عہد کے پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی ہنگامہ زار میں وعظ و تبلیغ کرے۔‘‘ غالباً ہمیں پیغمبر سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے۔ یا ایک ایسے شخص کا وجود ہمارے لئے مفید ثابت ہو گا۔ جو شاعری اور پیغمبری کی دو گونہ صفات سے متصف ہو۔ عہد ماضی کے شاعروں نے ہمیں فطرت سے محبت کرنے کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے ہمیں اس قدر ژرف نگاہ بنا دیا ہے کہ ہم مظاہر فطرت میں انوار ربانی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی ایک ایسے شاعر کے منتظر ہیں۔ جو ہمیں اسی وضاحت کے ساتھ پیکر انسانی میں صفات الٰہی کے جلوے دکھا دے۔ ہائنے نے ازراہ تفنن اپنے آپ کو روح القدس کا سپاہی کہا تھا۔ ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے جو در حقیقت روح القدس کا سپاہی ہو۔ جو اس حقیقت پر ہماری آنکھیں کھول دے کہ ہمارے بلند ترین نصب العین روز مرہ کی زندگی میں پورے ہو رہے ہیں اور اگر اس زندگی کو ترقی دینے کی سعی کی جائے تو ہمیں محض راہبانہ ریاضت اور نفس کشی ہی کا موقع نہیں ملے گا بلکہ ایسا ارفع و اعلیٰ مقصد حاصل ہو جائے گا۔ جو تمام خیالات، تمام جذبات اور تمام مسرتوں کو ترقی کے بلند مقام پر پہنچا سکتا ہے۔ انگریزوں کو چاہیے کہ اس نوع کے خیالات کی روشنی میں انسان کامل کے متعلق میرے افکار کا مطالعہ کریں۔ ہمارے عہد نامے اور پنچائتیں جنگ و پیکار کو صفحہ حیات سے محو نہیں کر سکتیں۔ کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس شعر میں میں نے اسی کو مخاطب کیا ہے۔ بازور عالم بیار ایام صلح جنگ جویاں را بدہ پیغام صلح ۲۔ مسٹر ڈکنسن نے آگے چل کر میرے ’’ فلسفہ سخت کوشی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اس باب میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا مدار علیہ وہ خیالات ہیں۔ جو میں نے حقیقت کے متعلق اپنی نظموں میں ظاہر کئے ہیں۔ میرے عقیدے میں حقیقت ایسے اجزاء کا مجموعہ ہے۔ جو تصادم کے واسطہ سے ربط و امتزاج پیدا کر کے ’’ کل‘‘ کی صورت میں تبدیلی کی سعی کر رہے ہیں۔ اور یہ تصادم لا محالہ ان کی شیرازہ بندی اور اتباط پر منتج ہو گا۔ دراصل بقائے شخصی اور زندگی کے علو و ارتقا کے لئے تصادم نہایت ضروری ہے۔ نیٹشے بقائے شخصی کا منکر ہے۔ جو شخص حصول بقا کے آرزو مند ہیں۔ وہ ان سے کہتا ہے ’’ کیا تم ہمیشہ کے لئے زمانے کی پشت کا بوجھ بنے رہنا چاہتے ہو۔‘‘ اس کے قلم سے یہ الفاظ اس لئے نکلے ہیں کہ زمانے کے متعلق اس کا تصور غلط تھا۔ اس نے کبھی مسئلہ زمان کے اخلاقی پہلو کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ بخلاف اس کے میرے نزدیک بقا انسان کی بلند ترین آرزو اور ایسی متاع گرانما یہ ہے جس کے حصول پر انسان اپنی تمام قوتیں مرکوز کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمل کی تمام صورت و اشکال مختلفہ کو جن میں تصادم و پیکار بھی شامل ہے۔ ضروری سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک ان سے انسان کو زیادہ استحکام و استقلال حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر میں نے سکون و جمود اور اس نوع کے تصوف کو جس کا دائرہ محض قیاس آرائیوں تک محدود ہو۔ مردود قرار دیا ہے۔ میں تصامد کو سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی حیثیت سے ضروری سمجھتاہوں۔ حالانکہ اس باب میں نیٹشے کے خیالات کا مدار غالباً سیاست ہے۔ جدید طبیعیات سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مادی قوت کے جزو لائیجزی نے ہزار ہا سال تک ارتقائی مدارج طے کرنے کے بعد موجودہ صورت اختیار کی ہے۔ پھر بھی وہ فانی ہے اور اسے مٹا دیا جا سکتا ہے۔ قوت ذہنی یا یوں کہہ لیجئے کہ جسم انسانی کے ذرہ یا پر مانو کی بھی یہی کیفیت ہے۔ صد ہا برس کی مسلسل جدوجہد اور تصادم و پیکار کے بعد وہ موجودہ صورت تک پہنچا ہے پھر بھی عوارض ذہنی کے مظاہر مختلفہ سے اس کی بے ثباتی اور عدم استحکام ظاہر ہے۔ اگر وہ بد ستور قائم و باقی رہنا چاہتا ہے تو یقینا وہ ماضی کے درس عبرت کو فراموش نہیں کر سکتا۔ اسے لا محالہ ان قوتوں سے اپنے قیام کی خاطر استمداد کرنی پڑے گی۔ جو آج تک اس کے استحکام کی ضامن رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ فطرت کا ارتقا ان قوتوں میں اصلاح کر دے۔ یا ان میں سے بعض کو (مثلاً تصادم او رجنگ و پیکار کو جو استحکام کے قوی عوامل میں سے ہیں) جو اس کے ارتقا کی کفیل بنی رہی ہیں۔ بالکل مٹا دے۔ اور اس کے استحکام و بقا کی خاطر بعض ایسی قوتیں عرصہ شہود میں لے آئے جس سے انسان آج تک نا آشنا رہاہے۔ لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اس باب میں کسی نصب العین کا پرستار نہیں ہوں۔ اس لئے میرے نزدیک اس نوع کے انقلاب کا زمانہ ابھی بہت دور ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ یورپ کی جنگ عظیم میں انسان کی بصیرت و موعظت کا جو سرمایہ پنہاں ہے وہ اس سے عرصہ دراز تک متمتع نہ ہو سکے گا۔ ان سطور سے واضح ہو گیا ہے کہ میں نے محض اخلاقی زاویہ نگاہ سے تصادم و پیکار کو ضروری قرار دیا ہے۔ افسوس ہے کہ مسٹر ڈکنسن نے ’’ فلسفہ سخت کوشی‘‘ کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ۳۔ مسٹر ڈکنسن نے آگے چل کر میرے فلسفے کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے عالمگیر ہے لیکن باعتبار اطلاق و انطباق مخصوص و محدود۔ ایک حیثیت سے ان کا ارشاد صحیح ہے۔ انسانیت کا نصب العین شعر اور فلسفہ میں عالمگیر حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اگر اسے موثر نصب العین بنانا اور عملی زندگی میں بروئے کار لانا چاہیں تو آپ شاعروں اور فلسفیوں کو اپنا مخاطب اولیں نہیں ٹھہرائیں گے اور ایک ایسی مخصوص سوسائٹی تک اپنا دائرہ مخاطبت محدود کر دیں گے۔ جو ایک مستقل عقیدہ اور معین راہ عمل رکھتی ہو۔ لیکن اپنے عملی نمونے اور ترغیب و تبلیغ سے ہمیشہ اپنا دائرہ وسیع کرتی چلی جائے۔ میرے نزدیک اس قسم کی سوسائٹی اسلام ہے۔ اسلام ہمیشہ رنگ و نسل کے عقیدے کا جو انسانیت کے نصب العین کی راہ میں سب سے بڑا سنگ گراں ہے۔ نہایت کامیاب حریف رہا ہے۔ رینان کا یہ خیال ہے کہ سائنس اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دراصل اسلام بلکہ کائنات کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل کا عقیدہ ہے اور جو لوگ نوع انسان سے محبت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ ابلیس کی اس اختراع کے خلاف علم جہادبلند کر دیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ قومیت کا عقیدہ جس کی بنیاد نسل یا جغرافی حدود ملک پر ہے۔ دنیائے اسلام میں استیلاء حاصل کر رہ اہے اور مسلمان عالمگیر اخوت کے نصب العین کو نظر انداز کر کے اس عقیدے کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ جو قومیت کو ملک و وطن کی حدود میں مقید رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لئے میں ایک مسلمان اور ہمدرد و نوع کی حیثیت سے انہیں یہ یاد دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کا حقیقی فرض سارے بنی آدم کی نشو و ارتقا ہے۔ نسل اور حدود ملک کی بنیاد پر قبائل اور اقوام کی تنظیم حیات اجتماعی کی ترقی اور تربیت کا ایک وقتی اور عارضی پہلو ہے۔ اگر اسے یہی حیثیت دی جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میں اس چیز کا مخالف ہوں کہ اسے انسانی قوت عمل کا مظہرا تم سمجھ لیا جائے۔ یہ درست ہے کہ مجھے اسلام سے بے حد محبت ہے۔ لیکن مسٹر ڈکنسن کا یہ خیال صحیح نہیں کہ میں نے محض اس محبت کے پیش نظر مسلمانوں کو اپنا مخاطب ٹھہرایا ہے۔ بلکہ دراصل عملی حیثیت سے میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ایک خاص جماعت یعنی مسلمانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا جائے۔ کیونکہ تنہا یہی جماعت میرے مقاصد کے لئے موزوں واقع ہوئی ہے۔ مسٹر ڈکنسن کا یہ خیال بھی تسامح سے خالی نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی روح کسی خاص گروہ سے مختص ہے۔ اسلام تو کائنات انسانیت کے اتحاد عمومی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے تمام جزوی اختلافات سے قطع نظر کر لیتا ہے اور کہتا ہے۔ تعالو الیٰ کلمتہ سواء بیننا وبینکم میرے خیال میں مسٹر ڈکنسن کا ذہن ابھی تک یورپ والوں کے اس قدیم عقیدے سے آزاد نہیں ہوا۔ کہ اسلام سفاکی اور خونریزی کا درس دیتا ہے۔ دراصل خدا کی ارضی بادشاہت صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں۔ بلکہ تمام انسان اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ نسل اور قومیت کے بتوں کی پرستش ترک کر دیں اور ایک دوسرے کی شخصیت تسلیم کر لیں۔ انجمنیں، حکمبرداریاں، اس قسم کے عہد نامے جن کا ذکر مسٹر کنبر نے کیا ہے۔ ملکیت خواہ وہ جمہوریت کی ہی قبا میں پوشیدہ کیوں نہ ہو۔ انسان کو فوز و فلاح سے آشنا نہیں کر سکتی۔ بلکہ انسانی فلاح تمام انسانوں کی مساوات اور حریت میں پنہاں ہے۔ آج ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے کہ سائنس کا محل استعمال قطعی طور پر بدل دیا جائے۔ ان خفیہ سیاسی منصوبوں سے احتراز کیا جائے۔ جن کا مقصد بھی یہ ہے کہ کمزور و زبوں حال یا ایسی اقوام جو عیاری اور حیلہ گری کے فن میں چنداں مہارت نہیں رکھتیں۔ صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائیں۔ مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمان بھی دوسری قوموں کی طرح جنگ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی فتوحات کی ہیں۔ مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ ان کے بعض قافلہ سالار ذاتی خواہشات کو دین و مذہب کے لباس میں جلوہ گر کرتے رہے ہیں۔ لیکن مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور ملک گیری ابتداء اسلام کے مقاصد میں داخل نہیں تھی۔ اسلام کو جہاں ستانی اور کشور کشائی میں جو کامیابی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک وہ اس کے مقاصد کے حق میں بے حد مضر تھی۔ اس طرح وہ اقتصادی اور جمہوری اصول نشوونما نہ پا سکے۔ جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جا بجا آیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کر لی۔ لیکن ساتھ ہی ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ اسلامی اصولوں کی گیرائی دائرہ کس قدر وسیع ہے۔ اسلام کا مقصد یقینا یہ ہے کہ دوسری قوموں کی جداگانہ حیثیت مٹا ڈالے اور انہیں اپنے اندر جذب کر لے۔ بلکہ صرف اسلام کی سیدھی سادی تعلیم جو الٰہیات کی دقیق اور پیچیدہ مسائل سے پاک اور عقل انسانی کے عین مطابق واقع ہوئی ہے۔ اس عدہ کی گرہ کشائی کر سکتی ہے۔ اسلام کی فطرت میں ایسے اوصاف پنہاں ہیں۔ جن کی بدولت وہ کامیابی کے بام بلند پر پہنچ سکتا ہے۔ ذرا چین کے حالات پر نظر ڈالئے۔ جہاں کسی سیاسی قوت کی پشت پناہی کے بغیر اسلام کے تبلیغی مشن نے غیر معمولی کامیابی حاصل کر لی اور لاکھوں انسان خیل در خیل اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے۔ میں بیس سال سے دنیا کے افکار کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اور اس طویل عرصے نے مجھ میں اس قدر صلاحیت پیدا کر دی ہے کہ حالات و واقعات پر غیر جانبدارانہ حیثیت سے غور کر سکوں۔ میری فارسی نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں۔ بلکہ میری قوت طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشری نظام تلاش کیا جائے اور عقلاً یہ نا ممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشری نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات، رتبہ و درجہ، رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے۔ اسلام دنیوی معاملات کے باب میں نہایت اژرف نگاہ بھی ہے اور پھرانسان میں بے نفسی اور دنیوی لذائذ و نعم کے ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے اور حسن معاملت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ہمسایوں کے بارے میں اسی قسم کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یورپ اس گنج گرانمایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیض صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ میں اس بارے میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں میں نے اسرار خودی پر چند تشریحی نوٹ لکھے تھے۔ جنہیں آپ نے دیباچہ اسرار میں شامل کر لیا ہے۔ ان تفسیری حواشی میں میں نے مغربی مفکرین کے افکار و عقائد کی روشنی میں اپنی حیثیت واضح کی ہے۔ یہ طریق محض اس لئے اختیار کیا گیا تھا تاکہ انگلستان کے لوگ میرے خیالات بآسانی سمجھ لیں۔ ورنہ قرآن حکیم، صوفیائے کرام اور مسلمان فلسفیوں کے افکار سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ میں نے اسرار کے پہلے ایڈیشن میں بزبان اردوجو دیباچہ لکھا ہے اس میں یہی طریق استدلال اختیار کیا گیا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ ’’ اسرار‘‘ کا فلسفہ مسلمان صوفیہ اور حکما ء کے افکار و مشاہدات سے ماخوذ ہے اور تو اور وقت کے متعلق برگسان کا عقیدہ بھی ہمارے صوفیوں کے لئے نئی چیز نہیں۔ قرآن الٰہیات کی کتاب نہیں۔ بلکہ اس میں انسان کی معاش و معاد کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے۔ پوری قطعیت سے کہا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا تعلق الٰہیات کے ہی مسائل سے ہے۔ عہد جدید کا ایک مسلمان اہل علم جب ان مسائل کو مذہبی تجربات اور افکار کی روشنی میں بیان کرتا ہے۔ جن کا مبداء اور سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جدید افکار کو قدیم لباس میں پیش کیا جا رہا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پرانے حقائق کو جدید افکار کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے اہل مغرب اسلامی فلسفے کی تعلیم سے نا آشنائے محض ہیں اے کاش مجھے قدر فرصت ہوتی کہ میں اس موضوع پر ایک مبسوط کتاب لکھ کر مغربی فلسفیوں کو اس حقیقت سے روشناس کر دیتا کہ دنیا کی مختلف قوموں کے فلسفیانہ خیالات ایک دوسرے سے کس قدر مشابہ ہیں۔ ٭٭٭ علامہ سر اقبال کے استاذ شمس العلما مولوی میر حسن مرحوم ازجناب شیخ آفتاب احمد صاحب بی اے آنرز، علیگڑھ وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجکو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجکو دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجکو (التجائے مسافر) ’’ خانقاہ عظمت اسلام‘‘ کے اس ’’ طور در آغوش‘‘ گوشہ میں جہاں اقلیم تصوف اور روحانیت کا تاجدار عظیم تاریخ ادبیات کے دو نامور ترین شخصیتوں یعنی خسرو اور غالب کے پہلو میں لئے ہوئے سرمدی نیند کے مزے لے رہا ہے۔ وہاں آج سے ٹھیک ستائیس سال پیشتر یعنی ۲ ستمبر ۱۹۰۵ء کو مشرق کے سب سے بڑے شاعر اور فلسفی اقبال نے ’’ نطق کو سوناز ہیں جس کے لب اعجاز پر‘‘ اور جس کی ’’ شوخی گفتار کے چرچے‘‘ ہندوستان کے فلک بوس پہاڑوں اور ناپیدا کنار سمندروں سے گزر کر انگلستان، جرمنی اور ایران کے ادبی حلقوں سے خراج تحسین و آفرین وصول کر رہے ہیں۔ یہ دعا اس وقت پڑھی جبکہ ’’ شراب علم کی لذت‘‘ نگار خانہ ہندوستان سے اسے کشاں کشاں انگلستان لئے جا رہی تھی اور جبکہ اس کی شاعری کے کمالات نے عروس نو کی طرح اپنے حسین و جمیل چہرے پر سے ابھی نقاب سرکانا شروع کیا ہی تھا۔ وطن کو خیر باد کہتے ہوئے انسان کے دل و دماغ پر جو رقت آمیز کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اس کا صحیح نقشہ کھینچنا شاعری کے پرواز تخیل کی سرحد سے دور مصور کی سحر آفریں رنگ آمیزیوں کے انتہائے کمال سے کہیں بعید اور نثار کی مضمون آفرینی کے تصور سے بھی باہر ہے۔ یہ تو عوام کے جذبات کا حال ہے۔ مگر اس شخص کے جذبات تو اس سے کہیں نازک تر ہیں جو خود کہتا ہے۔ خاک وطن کا مجھکو ہر ذرہ دیوتا ہے اس کے پیش نظر تو اخلاص و عقیدت کی اس بہترین ساعت میں اپنے عزیز ترین خواہشات ہی ہو سکتے ہیں او ربس۔ اقبال جب علم و عمل کی ارزانی کی دعا مانگ چکا تو سائل کی التجائے دفعتہ پلٹا کھایا اور محبوب ترین شخصیتوں کی طرف منتقل ہو گئی۔ ایک سعادت مند فرزند کی طرح اس نے اب سب سے پہلے جس تمنا کا اظہار کیا وہ ’’ پھر۔۔۔۔ قدم مادر و پدر پہ جبیں‘‘ بھی اور اس کے بعد وہ آرزو ہے جو ان اشعار میں مستقر ہے۔ جوان سطور کے زیب عنوان ہیں۔ یہ اشعار حقیقتاً بہترین شاہد اس ارادت و عقیدت کے ہیں جو شاگرد کو استاد یا اقبال کو مولوی میر حسن سے ہے۔ اقبال کا کوئی تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ جب تک اس میں ہندوستان کے اس طوطی شکر فشاں یا بلبل شیریں نوا کے اس محسن استاد کے حالات نہ ہوں جس کے فیض سے اقبال ’’ ذوق تپش سے آشنا ہوا۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ شاعر کے خمیر مایہ خاک میں وہ عناصر آفرینش عالم کے وقت سے ودیعت ہو چکے ہوتے ہیں۔ جو گہرہائے معانی کی کان اور زبان کی جان ہوتے ہیں۔ شاعر انگریزی کے ایک مشہور مقولہ کے مطابق بطن مادر سے ہی شاعر پیدا ہوتا ہے اور عربی کے ایک مسلمہ قول کی رو سے شاعر کو مبدائے فیاض کے سوا کسی سے تلمذ نہیں ہوتا۔ اس درخشاں حقیقت کی موجودگی کے باوجود بھی اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شاعر کے خیالات پر اپنے مطالعہ گرد و پیش کے حالات او رسب سے بڑھ کر استاد کے رحجانات اور خیالات کا بہت ہی نمایاں اثر ہوتا ہے۔ شیکسپیئر اگر تھیٹر میں سائیس کی ملازمت اختیار نہ کرتا تو آج دنیا اسے ڈرامہ کا مہر منیر تسلیم نہ کرتی۔ فردوسی نے محمود کے دربار میں باریابی حاصل کرنے سے پیشتر شاہنامہ کا آغاز کر رکھا تھا۔ مگر شاہنامہ اس شان سے کبھی مکمل نہ ہوتا۔ اگر محمود کی علم پروری اسے اپنے سایہ عاطفت میں نہ لے لیتی۔ غالب عبدالصمد ایرانی کی عنایات سے انکار کرتے ہوئے اپنی ظرافت طبع کا ثبوت دیتے ہیں تو دیا کریں۔ یہ علمی مذاق انہیں کا پیدا کردہ تھا۔ انہوں نے فارسی کا شوق پیدا کیا۔ اتفاق تھا کہ فارسی کی بجائے غالب اردو کے بہترین شاعر بنے۔ اقبال کو قدرت نے دل و دماغ کی تمام قوتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی تھیں۔ مولوی میر حسن صاحب کی نگرانی نے سونا پر سہاگہ کا کام کیا۔ اقبال کے کلام نے خفتہ قوم کو بیدار کیا۔ اسے احساس و خود داری کی وہ شراب پل ادی جس نے ’’قلب مسلم کو تڑپا دیا‘‘ اور ’’ روح کو گرما دیا‘‘ مگر قوم کی ساقی گری کرنے سے پیشتر وہ بھی کسی خم خانہ سے سرمشار ہو کر نکلا تھا۔ یہ میکدہ مولوی صاحب مرحوم کا مکتب تھا جن کے متعلق اقبال یہ کہہ سکتے ہیں۔ سفالم را مئے او جام جم کرد درون قطرہ ام پوشیدہ یم کرد تمہید کو چھوڑ کر اب میں مولوی صاحب مرحوم کے حالات کی طرف آتا ہوں۔ ۱۸۴۴ء کا سن تھا۔ مغلوں کی علم نوازیاں افسانہ ہوئے جا رہی تھیں۔ فدایان ادب کی اشکبار آنکھیں علم پرور سلسلہ شہنشاہیت کو جاں بلب دیکھ کر علم کی ترقی کے احتمالات پر نوحہ کناں تھیں۔ اس وقت خاکہ پنجاب ازدم او زندہ گشت صبح ما از مہر او تابندہ گشت یعنے میر حسن سیالکوٹ کے ایک سادات خاندان کے ہاں پیدا ہوئے۔ والدین کو کیا معلوم تھا کہ علم کی جو خدمت مغلیہ خاندان کے زرفشاں عہد میں پرورش پانے والے شعرا اور فلسفی نہ کر سکے۔ وہ اس نونہال کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہو گی۔ جو اس مولود مسعود کی نوازشوں سے سرفراز ہو گا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اس وقت پیدا ہونے والا بچہ ایک دن ’’ بدخشاں‘‘ شعر کے ’’کوہ نور‘‘ کو اپنے جواہر تراش ہاتھوں سے اس قابل بنائے گا کہ وہ تاج ادب کے لئے محبوب ترین سرمایہ نازش و افتخار ہو۔ آغوش مادر کو چھوڑنے کے ساتھ ہی وہ حقائق و معارف کے اس شیریں سرچشمہ سے اپنی تشنگی شوق کو بجھانے لگا۔ جسے مسلمانوں کی اصطلاح میں ’’ قرآن‘‘ کہتے ہیں۔ سات سال کی عمر میں یہ ہونہار بچہ میر حسن سے حافظ میر حسن بنا۔ اس فریضہ کی تکمیل کے بعد علوم مروجہ کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوئے۔ اول ہی اول مولانا محبوب عالم سیالکوٹی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور بعد ازاں مولوی بشیر احمد سے عربی پڑھی۔ سولہ برس کی عمر تھی کہ اس خورد سال معلم نے قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسہ شروع کیا۔ ملازمت کی تلاش ہوئی تو مشن اسکول میں استاد مقرر ہوئے اور تمام عمر مشن کی ملازمت میں گذار دی۔ پہلے پرائمری جماعتوں کو فارسی، عربی، حساب، جغرافیہ و غیرہ مضامین پڑھاتے رہے۔ مگر بقول آنریبل جسٹس سر عبدالقادر دیباچہ نگار ’’ بانگ درا‘‘ ان کی تعلیم کا ہمیشہ سے یہ خاصا رہا ہے کہ طالب علم کے دل میں تحصیل علم کا صحیح شوق پیدا ہو جاتا۔ پرائمری کی معلمی ختم ہوئی تو مڈل اور ہائی جماعتوں کے استاد بنے۔ مشن اسکول منازل ارتقا کو حیرت انگیز گریز پائی کے ساتھ طے کرتا ہوا کالج بنا۔ تو مولوی صاحب اس میں السنہ مشرقیہ کے پروفیسر بنے اور تریسٹھ سال کی ملازمت کے بعد دیدۂ یعقوب کی سی بصارت کے مالک ہو جانے کی بناء پر ۱۹۲۹ء میں اس محبوب مشغلہ سے دست کش ہوئے اور اسی سال یعنی ۲۵ستمبر ۱۹۲۹ء کو عالم عقبیٰ کو سدھارے۔ جوہر شناسی: مولوی صاحب کے درس و تدریس یا طریق تعلیم کی یہ حیرت انگیز کامیابی دراصل جوہر شناسی کی اس غیر معمولی استعداد پر مبنی تھی۔ جوان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ یہ تو معمولی بات تھی کہ ذہین سے ذہین طالب علم کا چہرہ دیکھ کر اسے کہہ دیتے کہ آج تمہیں سبق یاد نہیں۔ سفر آکرت سے چند ماہ پیشتر بصارت ضائع ہو جانے کی بناء پر ایک ملازم رکھنے کی ضرورت پیش آئی جو صرف ان کی غور و پرداخت کرتا۔ تو ملازم کی آواز پہچان کر کہنے لگے۔ یہ شریف آدمی ہے اسے ضرور رکھنا چاہئے۔ چنانچہ واقعات نے اس قیاس پر مہر تصدیق ثبت کی۔ لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ اور ایران والوں کے ہاں بھی مشہور ہے ’’ سالے کہ نکوست از بہارش پیدا۔‘‘ اقبال شروع سے ہی ہونہار تھا۔ مولوی صاحب نے دیکھ لیا تھا کہ یہ نونہال آئندہ چل کر کیا ہونے والا ہے۔ چنانچہ اس کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ عربی، فارسی اور ہر وہ علم جو السنہ مشرقیہ کے خزائن میں محفوظ ہے۔ اس کی ایسی تعلیم دی کہ شاگرد استاد کے ’’ دار العلوم‘‘ سے رخصت ہونے سے پیشتر ہی ایک فاضل روزگار شخصیت بن چکا تھا۔ اقبال نے شعر کہنا شروع کیا تو اس کی واہ داودی کہ اسے اپنے پرناز ہونے لگا۔ مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ وہ ہر اس آدمی کو بھی جو عنایات ایزدی کے بغیر ’’ زور بازو‘‘ سے شاعر بننا چاہتا حوصلہ افزائی فرماتے۔ اس کی ایک عمدہ مثال مولوی صاحب کبھی کبھی خود ہی اپنے ان شاگردوں کو سنایا کرتے جو شاعری کے خواب دیکھنا شروع کرتے۔ ایک ہندو طالب علم مولوی صاحب کے دولت کدہ نہیں بلکہ علم کدہ (اگر یہ لفظ صحیح تسلیم کر لیا جائے) پر ہر روز عربی اور فارسی پڑھنے کو حاضر ہوتا۔ طالب علم ذہین تھا اور مولوی صاحب اکثر اس کی تعریف فرمایا کرتے۔ ایک دن خدا جانے ننھے لالہ جی کے دماغ میں یہ کیا سمائی جو ایک پوری غزل کہہ کر مولوی صاحب کے پاس لے گئے۔ روز مرہ کا سبق ختم ہوا استاد نے شاگرد کو آفرین دی۔ اس کی ہمت بڑھی اور کہا ’’ قبلہ چند شعر موزوں ہو گئے ہیں۔ اگر اجازت ہو تو عرض کروں‘‘ ہاں بھائی ضرور مولوی صاحب نے کہا طالب علم نے اس استادانہ انداز سے جو کسی ملک الشعرا ہی کو زیب دیتا ۔ جیب میں سے ایک پرزہ کاغذ نکالااور مولوی صاحب سے کہا ’’ قبلہ سنئے عرض کیا ہے‘‘ یہ کہہ اور شعر پڑھنے شروع کئے۔ مولوی صاحب دم بخود بیٹھے سنتے رہے۔ جب سنا چکا تو مولوی صاحب نے کہا ذرا وہ چھڑی تو اٹھا لانا وہ غریب اٹھا اور چھڑی مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیدی۔ اسے کیا خبر تھی کہ وہ اس سے کیا کرنا چاہتے ہیں اس سلوک کا تو اس نے تجربہ بھی نہیں کیا تھا۔ مولوی صاحب نے چھڑی ہاتھ میں لے نوخیز شاعر کی وہ مرمت کی کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا ہوگا۔ اس کے بعد اس سے کہا’’ شاید میں تجھ سے پیار سے کہتا کہ اس فن سے باز آؤ تو تم نہ سنتے۔ اس لئے مجھے یہ تلخ فرض انجام دینا پڑا ہے۔ تمہیں قدرت نے شاعر پیدا نہیں کیا۔ اگر اس میں دسترس حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو زندگی ناکام رہے گی اور اس قابلیت کے باوجود کامیابی تم سے کوسوں بھاگے گی۔‘‘ استاد کا کہنا شاگرد کے لیے وید یا پران سے کم نہ تھا۔ اس نے اس دن سے توبہ کی زندگی ایسی کامیاب ہوئی کہ مقابلہ کے امتحان میں شریک ہو کر پراونشل سروس سے زندگی کا آغاز کیا۔ والدین کی اطاعت اور مستعدی: ان کے والدین مدت ہوئی انتقال کر چکے تھے۔ لیکن ان کی وفات سے اس وقت تک کہ وہ چارپائی سے اٹھنے سے بالکل معذور نہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے ۳۳ سال بلاناغہ ان کی قبروں پر جانا اپنا شعار بنا رکھا تھا۔ انتہائی گرمی کڑکڑاتا جاڑا۔ موسلا دھار بارش یا آندھی کا طوفان کوئی رکاوٹ ایسی نہ تھی جو انہیں قبرستان پہنچ کر والدین پر روزانہ فاتحہ پڑھنے سے باز رکھ سکتی۔ اس شعار میں اس وقت بھی ناغہ نہیں ہوا۔ جب ان کی کمر ضعیفی کی وجہ سے دوہری ہو چکی تھی۔ چلنا پھرنا بھی مشکل تھا اور قبرستان کی آمد و رفت پر ایک گھنٹہ صرف ہوتا تھا۔ اس حالت میں کہ قبرستان آپ کے مکان سے کوئی دو یا تین فرلانگ تھا۔ والدین کا یہ احترام شاید اولیا یا انبیا کا شعار ہو۔ مگر عام لوگوں میں سے تو ایک آدمی بھی ملنا مشکل ہے۔ ان کی مستعدی کی ایک اور مثال خان صاحب منشی صاحب مذکور کو کسی دوست سے مستعار مل گئی۔ یہ ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے۔ جبکہ مولوی صاحب کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ انہوں نے مولوی صاحب کی خدمت میں ملاحظہ کے لئے پیش کی یا یوں کہئے کہ جوہر کو جوہری کے سامنے پرکھ کے لئے پیش کیا۔ مولوی صاحب نے کتاب دیکھ کر فرمایا۔ ’’ایک سو جید علما اگر پورے سال تک مجموعی کوشش کریں تو ایسی کتاب مرتب ہو سکتی ہے تعجب ہے کہ ایک المانوی فاضل نے اپنی واحد کوشش سے مرتب کر لیا۔‘‘ کتاب کی قیمت ان کی اس وقت کی استطاعت سے بالاتر تھی یعنی قریباً تیس روپے۔ مگر مذاق علمی جیب و کیسہ کی وسعت کا متمنی نہیں۔ کتاب ایک روز کے لئے عاریتاً منشی صاحب سے لے لی۔ اب باقی ماندہ تفصیل خانصاحب موصوف کی زبان قلم سے سنئے۔ یہ موسم شدت گرما کا تھا۔ دوسرے دن دوپہر کو حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت اپنے مکان کے زیریں حصہ میں جو بالکل تنگ و تاریک ہونے کی وجہ سے قدرے خنک تھا مٹی کا چراغ جلائے ایک بورئیے پر تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے سلام عرض کیا تو فرمانے لگے بہت مشکور ہوں۔ کتاب لے جاؤ۔ میں نے عرض کیا حضور دن کو چراغ جلائے بیٹھے ہیں کیا ماجرا ہے۔ فرمانے لگے کچھ نہیں ابھی ابھی فارغ ہوا ہوں کل جس وقت تم کتاب دے گئے تھے۔ میں اسی وقت بازار سے کاغذ لے آیا تھا اور اس وقت سے متواتر یہاں بیٹھا ہوں۔ چنانچہ بحمد اللہ ساری کتاب تمام و کمال جدول بجدول نقل کر کے ابھی ابھی فارغ ہوا ہوں۔ کل سے کھانا بھی نہیں کھایا۔ یہ کتنے ہی کاغذ کا ایک وزنی مٹھا میرے سامنے رکھ دیا۔ جہانگیر یا شاہجہان کا زمانہ نہ تھا۔ خانخاناں کی علم پروریاں مدت ہوئی افسانہ ہو کر رہ گئی تھیں۔ تاہم مولوی صاحب کے ایک فارغ البال اور قدر شناس1؎ نے جب یہ واقعہ سنا تو کتاب مذکور منگوا کر مولوی صاحب کی 1؎ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب نے جرمنی سے منگوا کر ان کی خدمت میں پیش کی تھی۔ خدمت میں پیش کر دی۔ مستعدی اور ایفائے عہد کے لئے سعی بلیغ کا ایسا واقعہ آنحضرت ؐ کے بعد کسی شخص کی زندگی میں نہیں مل سکتا۔ اخلاق: حلم، اخلاق، غربا نوازی، اقربا پروری اور راست بازی کے جمیع اوصاف مبداء فیاض نے کچھ اس فراخدلی سے انہیں ارزانی فرمائے تھے کہ ان سے بہتر پیکر ایثار و اخلاق دنیا دار آدمیوں میں ملنا از قبیل محالات ہے۔ وہ جماعت میں طالب علموں کے ساتھ بہت سختی کا برتاؤ کرتے تھے۔ مگر کسی آدمی سے کبھی سخت کلامی نہیں کی۔ طالب علموں کی اپنے ہاں دعوتیں کرتے اور انہیں اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے۔ کبھی کسی کو آزردہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ احکام الٰہی کا احترام: گرمی کا موسم ہے اور گرمی بھی اس شدت کی کہ نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی۔ سیالکوٹ جیکب آباد رہنا ہوا اور اس پر طرہ یہ کہ رمضان کا مہینہ ہے۔ مولوی صاحب دوپہر کے وقت کالج سے واپس گھر تشریف لے جا رہے ہیں۔ شاہراہ حیات کی اسی منزلیں طے کر چکے ہیں۔ اس لئے اب بھوک اور پیاس کی تکالیف برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔ مگر مذہبی احکام کا احترام ہے کہ اس معذوری کو خاطر میں لانے ہی نہیں دیتا۔ پیاس کی شدت جو بڑھتی ہے تو مولوی صاحب غشی سے گر جاتے ہیں۔ اردو گرد ہندو اور سکھ حضرات کی دکانیں ہیں جو کسی وقت مولوی صاحب کے شاگرد رہ چکے ہیں اور اب انہیں دیوتا سمجھتے ہیں۔ ایک سکھ شاگرد آتا ہے اور انہیں اٹھا کر اپنی دکان میں لے جاتا ہے۔ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے دئیے جاتے ہیں۔ پنکھے کی ہوا دی جاتی ہے۔ مگر ابھی نیم بیہوشی کا عالم ہے کہ ایک اور ہندو شاگرد اضطراب کی حالت میں یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ انہیں صندل کا شربت پلایا جائے۔ سکھ عطار اس بات کو خوب جانتا ہے کہ بوڑھا استاد جان دے دے گا مگر روزہ نہ چھوڑے گا۔ وہ ہے کہ اس پر آمادہ نہیں ہوتا آخر ایک اور آدمی شربت کا ایک گلاس تیار کرتا ہے اور جونہی وہ اسے مولوی صاحب کے لبوں سے مس کرتا ہے تو وہ دانتوں کو مضبوطی سے بند کر لیتے ہیں۔ اور انگلی کے اشارہ سے اس جاں بخش جام سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ آخر تھوڑی دیر کے بعد مولوی صاحب کی حالت بحال ہوتی ہے۔ وہ ٹانگہ پر سوار ہو کر گھر پہنچتے ہیں۔ افطاری کے لئے ابھی سات گھنٹہ کا انتظار باقی ہے۔ وہ تمام دن گیلی چادر اوڑھ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ عصر کی نماز کے بعد قرآن شریف بھی پڑھتے ہیں۔ اکثر شاگرد مزاج پرسی کے لئے آ رہے ہیں۔ مگر کسی کی ہمت نہیں بندھتی کہ یہ تجویز پیش کرے کہ روزہ چھوڑ دیا جائے۔ آخر خدا خدا کر کے روزہ افطار کرنے کا وقت ہوتا ہے اور عزیز اور رشتے دار اطمینان کا سانس لیتے ہیں۔ دوسرے دن جو کالج جاتے ہیں۔ تو حسب عادت روزہ سے ہیں۔ کسی نے پرنسپل صاحب کو بھی سارا حال کہہ سنایا۔ وہ بھی سخت متردد ہیں آخر ایک مسلمان پروفیسر کی وساطت سے یہ پیغام مولوی صاحب تک پہنچاتے ہیں کہ اسلام اس ضعیفی کی حالت میں تکالیف برداشت کرنے کا سبق نہیں دیتا۔ انسان پر اپنی آسائش کو ملحوظ رکھنا بھی فرض ہے۔ اب ذرا سنئے کہ یہ جواں ہمت بوڑھے مولوی صاحب کیا جواب دیتے ہیں۔ وہ اس قابل ہے کہ عشاق اسلام کی تواریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے۔ پیامبر سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے اس خدمت کے لئے آپ کو انتخاب کیا گیا ۔ کاش آپ یہ پیغام مجھ تک نہ پہنچاتے۔ پرنسپل صاحب سے کہئے کہ میری کمر ضعیفی اور آپ کی عنایات کے بوجھ سے دوہری ہو رہی ہے۔ اس عنایت اور نگہداشت کا ہزار بار شکریہ۔ کالج سے میرا تعلق معاشی بنا پر ہے۔ ملازمت سے شکم پری مقصود ہے۔ لیکن جس تعلق کی بنا پر یہ مصائب یا تکالیف برداشت کرتا ہوں۔ وہ عشق اور محبت کا رشتہ ہے۔ اور اس راہ میں جان ایک ارمغان محقر کی حیثیت رکھتی ہے۔ معاشی ذرائع منقطع ہو جائیں تو غم نہیں۔ لیکن مذہبی احکام سے روگردانی میرے لئے ممکن نہیں۔ پرنسپل صاحب ایک فرشتہ سیرت پادری ہیں۔ وہ یہ جواب سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور پھر کبھی اس بات کا تذکرہ نہیں کرتے۔ لباس: آپ کو یقینا مولوی صاحب کے نیاز حاصل کرنے کا اشتیاق پیدا ہو چکا ہے۔ آئیے میرے ساتھ صبح صبح مرے کالج روڈ پر چلئے۔ وہ دیکھئے وہ سامنے ایک سفید ریش خمیدہ قامت مولوی صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ کمر ضعف کی وجہ سے کمان کی طرح خم ہو گئی ہے۔ وہ کس قدر آہستہ چل رہے ہیں۔ عصا ہاتھ میں ہے۔ دائیں بائیں دو آدمی کتابیں کھولے ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تو ایم او ایل کے امتحان کی تیاری کر رہے ہیں اور دوسرے منشی فاضل کے امتحان میں شریک ہوں گے۔ لباس میں دیکھئے صاف ستھرا سر سے لے کر پاؤں تک سفید لباس ہے۔ سر پر سفید پگڑی۔ بدن پر چغہ نما لٹھ کا سفید کوٹ کندھے پر گز بھر کا ایک سفید رومال بھی ہے۔ اس کے ایک کونہ میں کچھ بندھا ہوا ہے۔ یہ کیا ہے ’’ بی‘‘ ٹائم پیس۔ کس کام کے لئے؟ مولوی صاحب اسے وقت دیکھنے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اکثر طالب علم کبھی کبھی مذاق بھی کرتے ہیں۔ مگر مولوی صاحب ہنسی میں ٹال دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں مجھے کام سے غرض ہے۔ فیشن سے سروکار نہیں۔ سادگی: مولوی صاحب کی طبیعت حد درجہ سادہ تھی۔ جو کام خود کرنے کی ہمت ہوئی وہ خود کرتے شہر میں ایسے آدمی بھی موجود تھے جو مولوی صاحب کا کوئی کام کرنا سعادت سمجھتے۔ گھر پر ملازم موجود تھا۔ ہر طرح کی فارغ البالی نصیب تھی۔ اس کے باوجود گھر کا سودا سلف وہ خود خرید فرماتے تھے۔ بالخصوص سبزی تو ہمیشہ آپ خریدتے۔ اکثر لوگ اصرار کرتے کہ انہیں رومال میں بندھی ہوئی سبزی کی گٹھری گھر تک پہنچا دینے کی اجازت دی جائے۔ وہ کبھی اس پر رضا مند نہ ہوئے۔ ہاں یہ مشہور ہے کہ اقبال اگر کوئی خدمت بجا لانے کیس عادت حاصل کرنا چاہتے تو انہیں یہ اجازت مل جاتی۔ ہمیشہ رات کو مٹی کے دئیے کی مدد سے مطالعہ فرماتے۔ اور یہ اصول آخری وقت تک قائم رہا۔ گھر میں ایک چھوٹا سا کمرہ نشست گاہ کے طور پر وقت رکھا تھا۔ اس میں کھجور کی چٹائی بچھا دی تھی۔ بس اور کوئی فرنیچر نہ تھا۔ اسی چٹائی پر رائے بہادر کنور سین کبھی کبھی آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ جس زمانہ میں وہ جموں ہائی کورٹ کے چیف جج تھے۔ وہ بھی مولوی صاحب کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔ احسان شناسی: جب آزاد مرحوم کی بڑھتی ہوئی مجذوبیت نے انہیں ملازمت کی پابندیوں سے آزاد کر دیا تو ان کے جانشین کی تلاش ہوئی۔ چنانچہ نظر انتخاب مولوی صاحب پر پڑی۔ ان سے جب اس اسامی کے متعلق کہا گیا تو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت مولوی صاحب کی جو تنخواہ تھی اس سے چار گنا کی توقع گورنمنٹ کالج سے ملنے کی تھی۔ لیکن جاہ و مرتبت یا مال و زر کی خاطر اصول قربان نہیں کئے جاتے۔ مولوی صاحب کے احباب نے جب اصرار کیا تو انہوں نے کہا’’ مشن نے میری پرورش اس وقت کی جبکہ میں ابھی بالکل نو آموز تھا۔ ان لوگوں کے طفیل مجھے یہ فراغت نصیب ہوئی کہ اطمینان سے اپنے علم میں اضافہ کرتا رہا۔ یہ احسان فراموشی ہے کہ اس وقت حکومت کی قدر دانی کو دیکھ کر اپنے دیرینہ محسن کو بھول جاؤں‘‘ سچ تو یہ ہے کہ کالج نے بھی ان کی خوب قدر کی۔ جب زیادہ ضعیف ہو گئے تو ان کے ٹائم ٹیبل میں ہمیشہ خاص مراعات ملحوظ رکھی گئیں۔ جب بصارت سے محروم ہو گئے، تو ستر روپے ماہوار پنشن مقرر کر دی۔ اگرچہ کسی پرائیویٹ ادارہ میں یہ ممکن نہ تھا۔ طرز تدریس: ’’ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔‘‘ یہ تھا ان کا اصول بچے، جوان، بوڑھے ان کے مکان پر حاضر ہو کر انوار علم سے مستفیض ہوتے۔ خدمت علم ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ امیر غریب سب کے لئے تعلیم مفت تھی۔ درس و تدریس کے عوض کوئی حقیر سے حقیر خدمت یا ہدیہ بھی قبول نہ کرتے۔ اکثر کہا کرتے کہ علم کو اس طور پر فروخت کرنا اس کی تضحیک اور اپنی تذلیل ہے۔ تعلیم کا طریقہ عجیب تھا۔ طالب علم عربی کے کورس کی نثر یا اشعار پڑھتا جاتا۔ نثر کے لفظی معنی بتاتے جاتے اور پھر طالب علم سے فقرات کے معنی پوچھتے اور اگر نظم پڑھانا ہوتی تو ہر شعر کے بیان میں متعدد اردو اور فارسی کے مترادف اشعار پڑھتے چلے جاتے۔ ان کو فارسی اور اردو کے اساتذہ کے بے حساب اشعار زبانی یاد تھے۔ چنانچہ خان صاحب منشی سراج الدین جنہیں شعر سننے کا شوق اکثر ان کے آستانہ پر کھینچ لاتا۔ رقمطراز ہیں۔ ’’ انہیں بلا مبالغہ علم شعر کا زندہ کتب خانہ کہا جا سکتا تھا۔ ادنیٰ موقعہ اور محل پر عرب جاہلیت سے لے کر فارسی اور اردو کے استادوں کو لپیٹتے ہوئے وارث شاہ، فضل شاہ، بلھے شاہ اور علی حیدر کے کلام سے وہ بے نظیر اشعار پیش فرماتے کہ ذوق صحیح کی روح فی الجملہ وجد میں آ جاتی تھی۔ سعدی، حافظ، فردوسی، نظامی، خاقانی، انوری، عرفی، نظیری سے لے کر بیدل اور غالب تک تو ہاتھ باندھے موزونی طبع کے سامنے کھڑے ہی رہتے تھے۔ مگر ان کے علاوہ خالص سودیشی شعرا کا کلام بھی ایسے ہی حفظ تھا جیسے بعض یہود کو تورات اور مسلمانوں کو قرآن حفظ ہوتا ہے۔‘‘ یہی خانصاحب آئندہ سطور میں مولوی صاحب کے گھر والے سکول کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس کا ہوبہو یہاں نقل کرنا خالی از لطف نہیں۔ صبح و شام جب اپنے بیت العلوم (مسکن) پر تشریف رکھتے۔ تو گرد و پیش کے بورئیے عجیب منظر پیش کرتے تھے۔ ایک طرف ایک جید مولوی صاحب کو تفسیر قرآن کے نکات سمجھاتے جاتے تھے۔ تو دوسری طرف کسی دوسرے مولانا کو حدیث نبویؐ کا درس دیتے ہوئے چند عربی فارسی کے فضیلت خواہ طلاب کے ساتھ ساتھ چند ’’بالغ العلوم‘‘ اور ’’ مالک العلوم‘‘ درجات کے طلبہ کی مشکلات کو بھی اسی طرح حل فرماتے جاتے تھے کہ حضرت کا ایک ایک لفظ سننے والوں کے دل و دماغ پر برقی اثر پیدا کرتا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ انہیں بلند درجہ طالبان علم کے ساتھ ساتھ ایک جماعت چھوٹے بچوں کی بھی بیٹھی نظر آتی تھی۔ کسی کے ہاتھ میں قاعدہ ابجد ہے۔ کوئی اردو کی پہلی سامنے رکھے بیٹھا ہے۔ کوئی قواعد بغدادی اور پارہ عم کی الجھنوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایک درویش صورت بزرگ ہیر وارث شاہ کا کوئی ادق مقام سمجھنے کے لئے چادر میں سر لپیٹے بیٹھے ہیں۔ یہ ایک دھنالا سا نقشہ ان صاحب کے قلم سے ہے جو مدتوں ان کے پاس جاتے رہے۔ اکثر شاگردوں کا یہ دستور تھا کہ جب مولوی صاحب کالج جانے کے لئے گھر سے نکلتے تو ساتھ ہو لیتے۔ اور ان کے کالج پہنچنے تک اپنا سبق پڑھ لیتے۔ مشاہیر عہد سے تعلقات: سرسید مرحوم سے پہلی مرتبہ ملاقات ۱۸۷۷ء میں ہوئی۔ دونوں کے تعلقات دوستانہ قائم ہو گئے۔ جو اول الذکر کے سفر آخرت اختیار کرنے تک قائم رہے۔ سرسید کی زندگی میں اس کے بعد کوئی سال ایسا نہ تھا کہ مولوی صاحب مرحوم سرسید مغفور کی دعوت پر محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں شریک نہ ہوئے ہوں۔ سید کے اس دعوے ’’ ولے بریاں نہ عشق مصطفیٰ وارم‘‘ کا بہترین ثبوت وہ واقعہ ہے جس کے مولوی صاحب مرحوم عینی شاہد تھے۔ سرسید مرحوم کی زندگی کے آخری دن تھے۔ مولوی صاحب کانفرنس کے اجلاس میں شرکت کے لئے علی گڑھ میں تشریف فرما تھے۔ رات کو دیر تک کسی اہم مسئلہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی اور پھر دونوں بزرگ سو گئے۔ آدھی رات کے وقت مولوی صاحب کی آنکھ کھلی تو سرسید والے پلنگ کو خالی پایا۔ مولوی صاحب کو کچھ تردد ہوا۔ باہر نکل کر دیکھا تو سرسید برآمدہ کے ایک کونہ میں کھڑے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے دعا کر رہے تھے کہ خدا ان کی قوم کو گمراہی سے بچائے اور ترقی کی طرف لائے اس نیک مرد کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے سرسید کے اس اخلاص کا مرحوم پر اس قدر اثر ہوا کہ تا دم مرگ ان کے مداح رہے۔ سرسیدؒ کی وفات کے بعد ان کی سالگرہ کے دن حیات جاوید کا مطالعہ کیا کرتے۔ اور یہ طریقہ سال وفات تک جاری رہا۔ مولوی نذیر احمد اور علامہ شبلی سے ان کے مراسم تھے۔ مگر محمد حسین آزاد مرحوم سے تعلقات بہت گہرے تھے۔ چنانچہ جب کبھی لاہور میں جانا ہوتا۔ تو ان کے ہاں ٹھہرتے آزاد ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ آزاد مرحوم نے مولوی صاحب کے کہنے سے بعض شاعروں کے حالات وغیرہ میں معتد بہ اضافہ کیا۔ حدیث دلکش و افسانہ از افسانہ می خیزد دگر از سر گرفتم قصہ زلف پریشاں را مولوی صاحب اور اقبال: مولوی صاحب اور اقبال کے تعلقات ان سطور کے حوالہ قلم کرنے کے محرک ہوئے۔ اس لئے اب ان کا تحریر کرنا لازمی ہے۔ یوں تو اقبال کا نام تجویز کرنے والے کو ایک پیغمبر سمجھنا چاہئے کہ کیسا موزوں نام رکھا۔ مگر اس معاملہ سے ہمیں بحث مقصود نہیں۔ ہمارے شاعر نے جب تحصیل علم کا آغاز کیا تو اسی وقت بلند اختری اور اقبال مندی نے اس کا ہاتھ میر حسن صاحب کی عالمانہ غور و پرداخت کے سپرد کیا۔ مولوی صاحب کا ایک فرزند رشید ساقبال کا ہم جماعت تھا اور اس کے علاوہ اقبال کے والد ماجد کے ساتھ ساتھ مساجد میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ شیدایان ملت کی اکثر یہ خواہش ہوا کرتی کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کر کے ملازمت کرنے کے بجائے۔ علم مذہبی میں قابل ناز دسترس حاصل کرے۔ مسلمانان سلف نے ہمیشہ عقبیٰ کی بہتری کو دنیوی جاہ و جلال کے اعلیٰ و ارفع تصور کیا۔ چنانچہ یہی حال اقبال کے والدین کا تھا۔ اقبال چوتھی جماعت میں تعلیم پا رہے تھے کہ ایک دن ان کے والد ماجد مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے او رکہا کہ میں نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ بچے کو آپ سکول کی تعلیم دینے کی بجائے دینیات کا درس دیا کریں اور آئندہ یہ مدرسہ جانے کے بجائے مسجد میں ہی پڑھا کرے۔ اس وقت ایک عجب نازک گھڑی تھی۔ دراصل اردو شاعری کے لئے موت و حیات کا سوال درپیش تھا۔ مولوی صاحب مسکرائے اور فرمایا۔ ’’ بچہ مسجد میں پڑھنے کے لئے نہیں بلکہ مکتب میں پڑھنے کے لئے پیدا ہوا ہے اور یہ مدرسے میں ہی پڑھے گا۔ حقیقتاً استاد اس درخشاں مستقبل کو اپنی حقیقت شناس آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ مگر جو کچھ آنکھ دیکھ رہی تھی اسے لب پر نہیں لانا چاہتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قابلیت کے جوہر کہیں دبے نہیں رہتے۔ کیا تعجب ہے کہ وہ مسجد میں تعلیم پانے کے باوجود بھی اس طرح آسمان شہرت پر آفتاب ہو کر چمکے شاعر بنے یا امام الہند کہلائے۔ دریا کو کاٹ کر خواہ کسی راہ پر ڈال دیجئے۔ وہ اپنی گذر گاہ بنا لے گا۔ بجلی کی طاقت اگر محفل علم و ادب کے قمقموں کو روشن نہیں کرتی تو وہ مسجد و کلیساکی مجالس میں اس روشنی سے ظاہر ہو سکتی ہے۔ اقبال شاعر نہ ہوتے تو شاید ہائی کورٹ کے جج بنتے۔ کسی صوبہ کے گورنر ہوتے یا وزیر بنائے جاتے۔ مگر مولوی صاحب کے اثر کے بغیر’’ برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز‘‘ نہ ہوتے اور یہ واقعہ حقیقتاً ان کے ’’ اقبال گر‘‘ کہلانے کا واحد کفیل ہو سکتا ہے۔ استاد اور شاگرد کے تعلقات’’ بل پیش کیجئے‘‘ والے حقیر اصول پر مبنی نہ تھے۔ بلکہ یہاں کی فیس ’’ دل و دماغ‘‘ کا ہدیہ تھا۔ ماہرین تعلیم اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ طالب علم کے رحجانات اور قوت ذہنیت مختلف تعلیمی مدارج پر حیرت انگیز طور سے متغیر ہوتے ہیں۔ یہ اکثر ہوتا ہے کہ مڈل سکول کا ہونہار طالب علم ہائی سکول میں پہنچ کر اپنی مایہ ناز قابلیت کو کھو بیٹھتا ہے۔ یا ایک اوسط درجہ کا طالب علم ہونہار ہو جاتا ہے یا ایک مضمون کا خاص شوق کم ہو جاتا ہے اور اس کی بجائے کوئی دوسرا مضمون مقبول ہو جاتا ہے۔ یہ انقلابات ہر طالب علم کی زندگی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض میں یہ تغیرات بہت نمایاں ہوتے ہیں اور بعض بالکل معمولی کالج کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی طالب علم کے رحجانات خصوصی نشوونما پانا شروع کرتے ہیں۔ مگر یہ سب ’’ خطرناک مراحل‘‘ جہاں مذاق کے متغیر ہونے کے احتمالات تھے۔ اقبال نے مولوی صاحب مرحوم کی زیر نظر طے کئے اور اقبال کے علامہ بننے یا تسلیم ہونے کے لئے مرور ایام کی شرط کی تکمیل باقی رہ گئی تھی۔ فارسی عربی کا علم اور اسلامی معاملات سے والہانہ وابستگی اقبال کے کلام کی سب سے درخشاں خصوصیت ہے اور حقیقت میں یہی ’’ اقبالیات‘‘ کا مابہ الامتیاز ہے اور یہ سب مرحوم کی اقبال نوازی کے طفیل ہیں۔ شاگرد کی قابلیت نے استاد کے دل میں وہ گھر کر رکھا تھا کہ مولوی صاحب مرحوم اپنے نزدیک ترین عزیزوں سے علامہ اقبال کو زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں کہ مولوی صاحب بصارت سے محروم اپنی دنیا کو ایک چارپائی کی وسعت تک محدود پاتے تھے۔ علامہ اقبال ایک خطرناک مرض میں مبتلا ہو کر دہلی علاج کے لئے تشریف لے گئے۔ اس حالت میں کہ استاد خود مرض الموت کے پنجہ میں گرفتار ہو رہے تھے۔ شاگرد کی علالت کی اس قدر تشویش تھی کہ ایک آدمی کا یہ فرض قرار دے رکھا تھا کہ وہ اسٹیشن پر سے جا کر ’’ انقلاب‘‘ خرید کر لاتا اور مولوی صاحب کو علامہ اقبال کی علالت کے متعلق تاریں پڑھ کر سنایا کرتا۔ یہ تو استاد کی شاگرد نوازی کا تذکرہ تھا۔ اب شاگرد کی استاد پرستی بھی ملاحظہ فرمائیے: گورنمنٹ کی جوہر شناسی کہئے یا مصالح ملکی تقاضا سمجھئے کہ جبیں سائی با ناصیہ فرسائی کا کوئی خراج وصول کئے بغیر ڈاکٹر اقبال کو سر اقبال بنا دینے کی ٹھانی۔ گورنر پنجاب نے اس عنایت خسروانہ کے ایما کا اظہار فرمایا۔ اقبال نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ مگر ساتھ ہی ایک شرط بھی پیش کر دی کہ مجھے یہ خطاب بسر و چشم منظور ہے مگر اس شرط پر کہ میرے استاد کو شمس العلما بنا دیا جائے۔ استاد اور شاگرد دونوں نے صرف ایک موقع پر باہم طبع آزمائی کی جو سرسید مرحوم کی تاریخ وفات کے لئے تھی۔ شاگرد نے ایک پوری آیت قرآن شریف کی تلاش کی اور مولوی صاحب نے ’’ غفرلہ‘‘ کے لفظ سے سال وفات نکالا۔ چنانچہ مولوی صاحب والی تاریخ ہی سرسید مرحوم کے لوح مزار پر کندہ ہے۔ یہ وہ موقع تھا کہ ہندوستان کے ہر مسلمان شاعر نے تاریخ کے لئے طبع آزمائی کی تھی۔‘‘ ٭٭٭ اقبال کی شاعری از جناب ڈاکٹر ملک راج انند ایم اے صاحب مقیم انگلستان یہ مضمون رائل اکاڈیمی جرنل میں بہ زبان انگریزی شائع ہوا تھا۔ مشرق میں ایک معاشری، سیاسی اور ذہنی نشاۃ ثانیہ کی صبح طلوع ہو چکی ہے اور اقبال اس دور احیا کے سب سے بڑے علمبرداروں میں سے ہیں۔ انہوں نے ایک جلیل القدر شاعر اور بالغ نظر فلسفی کی حیثیت سے ہندوستان کی وطنی اور ادبی تحریکوں کے احیا میں ہی حصہ نہیں لیا۔ بلکہ ترکی، ایران، مصر، افغانستان، عرب، غرض تمام دنیائے اسلام کو جو حیات نو حاصل کرنے کی سعی میں مصروف ہے۔ شاعرانہ اور فلسفیانہ بلند نگاہی اور شعور و احساس کی دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔ اقبال کی ولادت ۱۸۷۶ء میں بمقام سیالکوٹ ہوئی۔ وہ متوسط طبقے کے ایک اسلامی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسے تصوف سے خاص شغف و انہماک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال پر مولانا جلال الدین رومی اور دوسرے صوفی شعراء کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ انہوں نے سیالکوٹ کے گورنمنٹ اسکول میں تعلیم پائی اور یہاں انہیں عربی اور فارسی کے صاحب ذوق فاضل شمس العلماء مولانا سید میر حسن کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنے کا موقع ملا۔ مولانائے موصوف ان ہاقیات الصالحات میں تھے۔ جن کے دم قدم سے ملکہ وکٹوریا کے عہد میں مغل تہذیب و تمدن کی شمع اکناف ہند میں فرزواں رہی۔ اس شفیق استاد کے فیض صحبت سے شاعر کے قلب میں ایرانی ادبیات سے وہ شیفتگی پیدا ہوئی۔ جو ان کی پختہ سالی کے زمانے کی تصانیف میں جا بجا نمایاں نظر آتی ہے۔ اس عہد کے نوجوانوں کی طرح اقبال کو غالب، ذوق، میر، حالی وغیرہ اردو شعرا کا کلام پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اردو نے مغلوں کے دربار میں جنم لیا اور ارباب سیف و قلم کے خلا ملا سے فروغ پایا تھا۔ ان شعرا نے زبان کو ترقی دی اور قدیم عہد کے کھنڈروں پر ایک وسیع عمارت تعمیر کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کا کلام پڑھ کر اقبال کو شعر کہنے کا خیال آیا۔ چنانچہ انہوں نے اس عہد کے سب سے بڑے اردو شاعری اور نظام دکن کے استاد نواب مرزا خاں داغ دہلوی کے پاس اپنے اشعار اصلاح کی غرض سے بھیجے۔ داغ نے یہ کہہ کر اشعار واپس کر دئیے کہ ان میں اصلاح کی گنجائش نہیں۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کے شاعرانہ کمال کا جوہر اس وقت چمکا۔ جب وہ لاہور آکر بی اے میں داخل ہوئے۔ یہاں کالج کی ہنگامہ خیز اور پر شور و شغب فضا کی بدولت ان کے تجربہ میں وسعت اور خیال میں پختگی پیدا ہوئی۔ انہیں ابتدا سے ہی فلسفیانہ موشگافیوں سے شغف تھا۔ کیونکہ انہوں نے تصوف کے آغوش میں پرورش پائی تھی۔ لاہور میں آئے۔ تو پروفیسر تھامس آرنلڈ مرحوم سے استفادہ کا موقع ملا۔ سر تھامس مشہور مستشرق تھے اور اسلامیات سے خاص شغف رکھتے تھے۔ اس سے پہلے وہ عرصے تک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رہ کر ہندوستانی طلبہ کے دل میں مشرق کے فلسفہ اور تمدن کے مطالعہ کی تشنگی پیدا کر چکے تھے اور ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم دے رہے تھے۔ اقبال نے لاہور آ کر انہیں خضر راہ بنایا۔ فاضل استاد کی شفقت نے شاعر کے دل میں احسان مندی اور شکر گزاری کے جو جذبات پیدا کئے ہیں۔ ان کا مرقع دیکھنا ہو۔ تو وہ نظم پڑھئے جس کا عنوان ’’آرنلڈ کے نام‘‘ ہے۔ اسی زمانے میں یعنی بیسویں صدی کے آغاز میں اقبال کی شاعرانہ سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ پاکیزہ شعر لاہور آکر ہی کہا تھا۔ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے اس شعر کا اتنا اثر ہوا کہ تمام اہل قلم کی نگاہیں یک بیک ان کی طرف پلٹ گئیں۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں آف مالیر کوٹلہ نے اس شعر کی شرح کرتے ہوئے شاعر کی خدمت میں یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ شاعر نے صرف ایک شعر میں جو بدرجہ غایت لطیف ہے۔ نجات کے بعد روح کی ملکوتی پاکیزگی شرح کر دی ہے۔ شعر کا مقصود یہ ہے کہ خدا کی محبت انہیں لوگوں کے لئے ہے۔ جو اپنے گناہوں پر انفعال و ندامت ظاہر کرتے ہیں۔ موتیوں سے پسینے کے قطروں کی تشبیہ نہایت لطیف ہے۔ کیونکہ خوابیدہ ضمیر جب بیدار ہوتا ہے۔ تو اس کی پاکیزگی موتیوں سے پوری پوری مشابہت رکھتی ہے۔ اس شاعرانہ حسن تحلیل نے روح انسانی کی عظمت ایسے لطیف پیرایہ میں پیش کی ہے۔ کوئی شخص اس سے لطف اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر شاعروں اور نقادوں نے جب یہ سنا کہ یہ شعر ایک نوجوان نے کہا ہے۔ جو حال ہی میں لاہور آیا ہے۔ تو انہوں نے ارادہ کر لیا کہ شعر کہنا چھوڑ دیں۔ وہ سب کے سب متفق اللفظ ہو کر پکاڑ اٹھے کہ اقبال۔ غالب کے بعد اردو کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ اب اقبال کو ان کے دوست کھینچ کر مشاعروں میں لے جانے لگے۔ سیالکوٹ میں تو وہ کبھی کبھار شعر کہہ لیا کرتے تھے لیکن اب انہوں نے اس طرف زیادہ توجہ کی۔ ایک مشاعرے میں انہوں نے اپنی نظم ’’ ہمالیہ‘‘ پڑھی۔ اس نظم میں ایرانی اور انگریز شعرا کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ اب تک تو ان کی شہرت طلبہ تک ہی محدود تھی۔ لیکن اب سارا ملک ان کے نام سے گونج اٹھا۔’’ ہمالیہ‘‘ میں حب وطن کا جذبہ نظر آتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نظم نے ہندوستانی شاعری میں ایک نئے باب کا افتتاح کر دیا۔ اقبال کو قدرت نے تغزل کی دولت عطا کرنے میں بہت فیاضی سے کام لیا ہے۔ چنانچہ ’’ہمالیہ‘‘ کو محض متغزلانہ انداز بیان کی وجہ سے یہ قبول عام حاصل ہوا اور ان کی بعض دوسری نظموں خصوصاً ’’ ہندوستان ہمارا‘‘ کی طرح (جسے ہندوستان کے قومی گیت کی حیثیت حاصل ہے) یہ نظم ہندوستان کے طول و عرض میں بگولے کی تیزی اور تندی کے ساتھ پھیل گئی۔ ہر شہر، قصبے اور گاؤں کے گلی کوچوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی زبان سے یہی نغمہ سنائی دینے لگا۔ اور سارے ملک نے اقبال کو قومی بیداری کا پیامبر تسلیم کر لیا۔ اقبال کی شاعرانہ سرگرمیوں کا پہلا دور ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۸ء تک ہے۔ ۱۹۰۱ء میں وہ لاہور آئے اور ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان روانہ ہو گئے۔ ان کی نظم ہمالیہ میں اگرچہ انگریز اور ایرانی شعرا کا اثر بہت نمایاں نظر آتا ہے لیکن انہیں اس زمانے میں تخیل اور زبان و بیان پر اس قدر قدرت حاصل ہو گئی تھی۔ جسے شاعری کی معراج کمال سمجھنا چاہیے۔ اس عہد کے نغمے جوش و اثر اور آہنگ و ترنم سے مالا مال ہیں۔ یہ ساری نظمیں تخیل اور زبان و بیان کے اعتبار سے رنگین و دلآویز ہیں۔ میرے نزدیک وہ اپنے ابتدائی کلام میں جس بام رفعت پر جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ ان کی نظیر زمانہ ما بعد کی فارسی نظموں کے سوا اور کہیں نہیں ملتی۔ یہ درست ہے کہ ان میں سے بعض نظمیں انگریزی کے تتبع میں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً ’’ ہمدردی‘‘ کوپر کی ایک نظم کے تتبع میں ہے۔’’ پیام صبح‘‘ میں لانگ فیلو کی پیروی کی گئی ہے ’’ عشق اور موت‘‘ پر ٹینی سن کا اثر ہے اور ’’ رخصت اے بزم جہاں‘‘ اور ’’ ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ میں ایمرسن کی تقلید کی گئی ہے۔ لیکن زبان و بیان کی لطافت، استعارات، رنگینی اور خیالات کی نزاکت کے اعتبار سے یہ نظمیں خالص مشرقی اور زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہیں۔ ان کا ترنم اور شیرینی پڑھنے والے کو اس طرح مسحور کر لیتی ہے کہ وہ ان کے ماخذ سے قطعاً بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اقبال کی ایک ارد ونظم (یہ ایک شاعرانہ صبح گاہی ہے۔ جس میں اپنے شعور و احساس کی بیداری کا راز بیان ہے) بیحد لطیف ہے۔ اس کے الفاظ اس قدر مترنم ہیں کہ اقبال کے اکثر مداحوں نے اس نظم کو حرز جاں بنا لیا ہے۔ وہ جب اس کے اشعار پڑھتے ہیں تو سرور و نشاط کی ایک غیر محدود کیفیت انہیں بیخود کر دیتی ہے۔ کون ہے جو اس دعا کو پڑھے اور بیخود نہ ہو جائے: لیکن اقبال کی ابتداً جو کامیابی ہوئی۔ اس کی وجہ زبان اور جذبات کی لطافت و نزاکت ہی نہیں۔ بلکہ ان کی کامیابی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ انہوں نے اردو میں موثر استعارے اور فارسی اور پنجابی اور ہندوستان کی دوسری بولیوں کے الفاظ داخل کر کے اس زبان کو وسیع کرنے کی کوشش کی ہے وہ اردو کو نئے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کی آرزو ہے کہ ہندوستان میں قومیت متحدہ کا پودا پروان چڑھے اور اس کی ایک خاص زبان ہو۔ انوہں نے اس شعر میں اردو کی حالت بیان کی ہے۔ گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے انہوں نے شعرائے متاخرین میں دو بڑے شاعروں یعنی غالب اور داغ کے متعلق جو نظمیں لکھیں۔ ان میں انہوں نے اپنے آپ کو ان کا صحیح جانشین ظاہر کیا ہے اور ان شعرا کی طرح زبان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے انہیں جو دشواریاں پیش آئیں وہ دور اول کے کلام سے ظاہر ہیں۔ لیکن وہ فطرت سے جدوجہد کا ذوق لے کر آئے ہیںاس لئے ان موانع اور مشکلات کے باوجود ان کے قدم کو ذرہ بھر لغزش نہیں ہوئی۔ جب انہیں مشکلات کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا ذہن اس امر کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ ان کے پیشروؤں کو بھی اس نوع کی مشکلات سے سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے سرسید احمد خاں کے متعلق بھی ایک نظم بھی لکھی۔ سرسید ہندوستان میں تعلیم کے بہت بڑے علمبردار تھے انہوں نے مشرق کے قدیم مدرسوں اور آشرموں کے طریقوں کو مغربی یونیورسٹیوں کے طرز تعلیم سے ترکیب دے کر علی گڑھ کا دار العلوم قائم کیا اور اردو میں جدید نثر کی داغ بیل ڈالی۔ یہ نظم اقبال کی معنون نظموں میں سب سے اچھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کا ذہن اس قسم کی نظم کے لئے بہت موزوں واقع ہوا ہے اس زمانے میں یہ خیال عام طور پر دائر و سائر تھا کہ مشرق و مغرب کا ربط و امتزاج بہتر فضا پیدا کر دے گا۔ اور ڈاکٹر اقبال اس عقیدے کے پر زور حامی ہیں۔ اقبال کو یقین ہے کہ مغربی اقوام خواہ اس مقصد کی تکمیل کے لئے کچھ کریں یا نہ کریں۔ ہندوستان بہر حال اس چیز کی حمایت کرے گا اور اس زمانہ میں اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہندوستان کے معاشری نقائص کی اصلاح اور قوم کے اجزائے مختلفہ کی شیرازہ بندی ضروری ہے اقبال کو امید ہے کہ پایان کار اس سر زمین کے مختلف عناصر ایک مسلک اتحاد میں منسلک نظر آئیں گے۔ چنانچہ وہ اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں۔ ایران و مصر و روما دنیا سے مٹ گئے ہیں اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا یہ گیت سن کر ہندوستانیوں کا قلب جذبہ مفاخرت سے معمور ہو جاتا ہے اور شاعر کا قلم انہیں مردانگی اور شجاعت کے ایسے ایسے نکتے سمجھاتا ہے جو ان میں احساس خود داری پیدا کر دیتے ہیں۔ نسلی اور جماعتی منافرت دور کرنے کے لئے وہ ’’ نئے شوالے‘‘ کا گیت گاتے ہیں جو ساری کائنات کا معبد ہو گا۔ (۲) ڈاکٹر صاحب ۱۹۰۵ء میں انگلستان روانہ ہو گئے۔ خوش قسمتی سے انگلستان میں پہنچتے ہی ان کی ملاقات میگ ٹگارٹ جیسے فلسفی سے ہوئی۔ جو ہیگل کا متبع تھا اور اس زمانے میں فلسفی کی حیثیت سے بیحد شہرت حاصل کر چکا تھا۔ پھر ادب فارسی کے مشہور مورخ ای جی برؤن اور ’’ اسرار خودی‘‘ کے مترجم ڈاکٹر نکلسن سے ملاقات ہوئی۔ عنفوان زندگی میں ڈاکٹر صاحب کو فلسفہ اور ادب فارسی سے بیحد شغف تھا لیکن جب ان کا رحجان وطنیت اور قومیت کی طرف ہوا اور وہ ان موضوعوں پر نظمیں لکھنے لگے۔ تو یہ شوق دب کر رہ گیا۔ اب یہ شوق پھر پیدا ہوا اور ان لوگوں کے اثر و تربیت نے اسے پختہ کر دیا۔ میگ ٹگارٹ کے لیکچروں سے انہوں نے فلسفیانہ خیالات کے اظہار کا سائنٹیفک انداز سیکھا اور اس متاع سے اکثر ہندوستانی طلبہ جو کسب علم کے لئے ولایت جاتے ہیں۔ تہی دامن رہتے ہیں۔ براؤن اور نکلسن کی دوستی سے انہیں یہ فائدہ ہوا کہ انہوں نے گھر پر فارسی کا جو وسیع علم حاصل کیا تھا۔ اس میں پختگی پیدا ہو گئی۔ انگلستان میں انہوں نے اپنی ساری قابلیت وقف کر دی ہے تو اس رسالے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ زمانہ قیام یورپ میں اقبال نے بہت کم نظمیں لکھیں۔ لیکن اس زمانہ کے کلام کا بہت بڑا حصہ فارسی شاعری کے اثر سے مالا مال نظر آتا ہے۔ یہ شاعر کی زندگی کا وہ زمانہ ہے جب خواب و خیال کی دنیا کا حسن و جمال جو طفلی کے زمانے کی مخلوق ہے۔ دل کی پر شوق آرزو کا آب و رنگ بنتا ہے اور پھر یہ جذبہ قلب کی گہرائیوں سے نکل کر مادی اشیاء کے ساتھ متحد ہو جانا چاہتا ہے۔ شاعر کے اس دور پر محبت کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ پہلے تو وہ نوجوان شاعروں کے عام انداز میں محبت کی گتھیاں سلجھاتا ہے۔ وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے محبت کیا ہے؟ حسن کی حقیقت کیا ہے؟ محبت اور حسن میںکیا تعلق ہے۔ وصال کسے کہتے ہیں؟ اس کی توجہ محبت کی عام واردات کی طرف جن سے ہر عاشق آشنا ہے۔ منعطف ہو جاتی ہے۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر وہ پریشان اور بے رابطہ خیالات ظاہر کرتا ہے۔ اس کی عظمت و شان کا ذکر کرتا ہے۔ محبت کے ’’ پیغام‘‘ لکھتا ہے۔ ہجر پہ آنسو بہاتا ہے۔ چاند اور ستاروں سے محبت کرتا ہے۔ صبح اٹھتا ہے اور اپنے محبوب مجازی کے جال کا مشاہدہ فطرت کے ہر ذرے میں کرتا ہے۔ محبت کے طوفانی سمندر میں بے قرار لہریں اٹھ رہی ہیں۔ جو دھڑکتے ہوئے دل کو جھکولے دے رہی ہیں۔ وہ اس کے زیر و بم کے ساتھ ہمنوا ہو کر گیت گاتا ہے۔ جب اس سمندر کی گہرائیوں کو ناپنے اور اس کی لہروں سے جدوجہد کرنے کی ناکام سعی ختم ہو جاتی ہے۔ پرواز فکر کی راہ کھل جاتی ہے۔ وہ فرش خاک سے اٹھتا ہے اور عرش پر جا پہنچتا ہے۔ مشرقی شاعر ارضی محبت کو حقیقی نہیں تصور کرتے۔ وہ اسے فریب سراب سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کے عقیدے کی رو سے مجاز میں بھی اس قدر حقیقت موجود ہے۔ جو انہیں محبوب حقیقی تک پہنچا سکتی ہے۔ اقبال کی نگاہوں نے اس راز تہفتہ کی ایک جھلک دیکھ لی ہے۔ چنانچہ اس نے انیسویں صدی کے عارف باللہ۔ سوامی رام تیرتھ کی یاد میں ایک نظم لکھی ہے۔ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے امریکہ میں مشرق کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور جنہیں اس سر زمین کے باشندے ابھی تک یاد کرتے ہیں۔ اقبال کی بعض نظموں کلی ۔ سلیمی، تنہائی اور ’’ دریائے نیکر کے کنارے ایک شام‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمان و مکان کی زنجیریں کٹ گئی ہیں۔ عشق مجازی کا طلسم ٹوٹ چکا ہے اور وہ عشق حقیقی کی دنیا میں پہنچ گیا ہے۔ لیکن جب جوانی کے عشق کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے عشق الٰہی کی چنگاری اس خاکستر سے سلگ اٹھتی ہے۔ تو یورپ کی فضا انہیں راس نہیں آتی۔ ان کی وہ نظم جس میں انہوں نے مغربی اقوام کو مادہ پرستی اور تعیش کے خطرات سے متنبہ کیا ہے۔ اسی جذبہ بے اختیار کا نتیجہ ہے۔ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا یہ اقبال کی آخری نظم ہے۔ جو انہوں نے یورپ میں بیٹھ کر لکھی ہے۔ اس لئے اسے یورپ کے نام ان کا رخصتی پیغام کہنا موزوں ہو گا۔ اگرچہ اس میں یورپ کی مدح و ستائش کا عنصر زیادہ نہیں۔ تاہم اس میں اس کے امراض کی تشخیص کی سعی ضرور کی گئی ہے۔ وہ مغربی اقوام سے کہتے ہیں۔ ’’ تم نے اپنے تمدن میں مفاسد کا دروازہ کھول دیا ہے۔ تم اسی آلے سے خود کشی کرو گے۔ جس سے تم نے اپنی قسمت کا محل تعمیر کیا ہے۔‘‘ ان کے قلم نے یورپ کا جو زائچہ کھینچا ہے۔ اس میں شک و شبہ کا عنصر قطعاً نہیں۔ اسی طرح مشرق کے نام انہوں نے جو پیغام امید دیا ہے اس میں حیرت انگیز ادغان و یقین اور قطعیت پائی جاتی ہے۔ وہ پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ مشرق جلد پھر اقبال و کامرانی حاصل کرے گا وہ مشرق کے نبض شناس ہیں اور محسوس کر رہے ہیں کہ اس کی عظمت کا سیلاب پھر بڑھ رہا ہے۔ اس لئے وہ وثوق سے اس کے متعلق حکم لگا سکتے ہیں۔ وہ ایشیا کو بشارت دیتے ہیں کہ ایک نئے دور کی صبح طلوع ہونے والی ہے۔ وہ جدید بیداری کے نقیب ہیں اور کہتے ہیں کہ تمام عالم ایک میکدہ بن جائے گا۔ لوگ آئیں گے اور خیالات کی شراب کے ساغر لنڈھائیں گے کیونکہ تمام انسان خدا کے حضور میں یکساں ہیں علم و عقل کے بارے میں کسی کو غضب حقوق کا نہیں رہے گا۔ مشرق کے تہذیب و تمدن کو وہ ’’ موربے مایہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ پایا ان کا راسی کو سروری حاصل ہو گی۔ مشرقی تمدن کی اس نشاۃ ثانیہ کا مرکز حجاز ہو گا۔ کیونکہ یہی سر زمین ہے جہاں اسلام نے نشوونما پائی اور خدا نے قرآن مجید میں اہل عرب سے جو وعدہ کیا ہے۔ اس کی برکت سے مسلمانوں کے غرم میں حرکت پیدا ہو جائے گی۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس آسمانی وعدے نے ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کو تمام تمدن دنیا کا مالک بنا دیا اور جب تک انہوں نے اس وعدے اور دوسرے احکام خداوندی کو مشعل ہدایت بنائے رکھا۔ ان کے اقبال کا ستارہ اوج پر رہا۔ لیکن ادھر انہوں نے خود فراموشی اختیار کر لی۔ ادھر ان کا مذہبی جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ خلفاء کے درباروں میں وہ مقاصد داخل ہو گئے جو تنعم اور زر و دولت کے ثمرات تلخ ہیں۔ اور وہ قرآن کریم کے اس فرمان کو بھول گئے: ’’ عادل بنو اور ایسے عمل کرو کہ لوگ تمہارے شکر گزار ہوں۔‘‘ ڈاکٹر اقبال مسلمانوں کو بشارت دیتے ہیں کہ وہ پھر اس قدیم نصب العین کی حقیقت ان پر روشن ہو جائے گی۔ اور وہ موجودہ سکوت و جمود کی زنجیروں سے آزاد ہو کر ایک صحیح اسلامی سلطنت قائم کر لیں گے۔ یہ نشاط و سرود کی دنیا ہو گی۔ جس کا مرکز مکہ معظمہ ہو گا۔ تمام مسلمان اسی سر زمین کو کعبہ آمال بنا لیں گے۔ وہ ایک دوسرے کو بھائی بھائی سمجھیں گے۔ خدا اور انبیا علیہم السلام کی محبت اور عقیدت ان میں اشتراک و وحدت پیدا کر دے گی؟ یہ نئے کیسے کے موذن کی آواز تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ارادہ کیا کہ مشرق میں پہنچ کر اسلام کی عظمت کے مینار سے فراموش کار مسلمانوں کو محبت اور زندگی کا پیغام دیں گے اور خدائے قدوس کی عبادت کی طرف بلائیں گے۔ اگرچہ ابھی تک اقبال کی دعوت پوری طرح دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی۔ لیکن ۱۹۰۸ء میں جب وہ گھر پہنچے۔ تو اس لائحہ عمل کی تکمیل کا کام شروع ہو گیا۔ اس وقت سے آج تک ان کے قلم سے جتنی کتابیں نکلی ہیں۔ ان میں اسی نصب العین کے حصول کی سعی نظر آتی ہے۔ جسے انہوں نے یورپ میں پیش نہاد خاطر بنا لیا تھا۔ (۳) ڈاکٹر اقبال نے ہندوستان اور انگلستان میں جو علم حاصل کیا۔ اس میں ان کے قلب میں فارسی ادبیات کی محبت پیدا کر دی تھی۔ یہ ضروری تھا کہ یہ محبت کسی نہ کسی صورت میں جلوہ گر ہوتی۔ چنانچہ اس زمانہ میں انہیں احساس ہوا کہ اردو میں ابھی اتنی وسعت اور پختگی پیدا نہیں ہوئی کہ اس کے ذریعہ فلسفیانہ خیالات ظاہر کئے جا سکیں علاوہ ازیں وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ ان کے لئے فلسفیانہ خیالات صرف مسلمانان ہند کے لئے مخصوص نہیں بلکہ سارا عالم ان کا مخاطب ہے۔ اس لئے انہوں نے فارسی کو دنیائے اسلام سے خطاب کا ذریعہ بنایا۔ ہاں کبھی کبھی وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنے کے لئے اردو میں بھی نظمیں لکھتے ہیں۔ اب تک ان کے فارسی اشعار کی چار جلدیں چھپ چکی ہیں۔ اسرار خودی، رموز بیخودی، پیام مشرق اور زبور عجم بقول پروفیسر نکلسن ان چاروں کتابوں میں ایک ہی آرزو انگیز گیت ایک ہی افسوں ہے۔ جسے ایک پیمبر کی صدا کہنا چاہیے۔ جب پروفیسر نکلسن نے اقبال کی پہلی فلسفیانہ نظم اسرار خودی کا ترجمہ کیا تو مسٹر ہربرٹ ریڈ نے مغربی شعراء کے کلام سے اس کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اقبال کی نظموں پر والٹ وھیٹمن کے فلسفہ اقدام و عمل کا اثر پڑا ہے۔ وہ لکھتا ہے ’’ وھیٹمن کا نصب العین اس اعتبار سے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ وہ نظری نہیں بلکہ عملی ہے۔ صرف ایک شاعر ایسا ہے جس کے ہاں یہ چیز نظر آتی ہے اور وہ بھی ہماری نسل اور قوم سے نہیں میری مراد محمدؐ اقبال سے ہے۔ جن کی نظم اسرار خودی کا ترجمہ ڈاکٹر رینالڈ نکلسن نے کیا ہے۔ اور میکلمن کے اہتمام سے شائع ہوا ہے۔ ادھر ہمارے ملک کے متشاعر تو کیٹس کے زمانہ کی پرانی ڈگر پر چلے جا رہے ہیں اور بلیوں اور پرندوں یا دوسرے چھوٹے چھوٹے موضوعوں پر نظمیں لکھ رہے ہیں اور ادھر لاہور میں ایک ایسی نظم شائع ہو رہی ہے جس نے ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں پر پوری طرح تسلط کر لیا ہے۔ ایک نوجوان مسلمان لکھتا ہے۔‘‘ اقبال اس عہد کا مسیح ہے جس کی آتش نفسی نے مردوں کو زندہ کر دیا ہے۔ تم پوچھو گے کہ آخر اس میں کونسی ایسی ظاہری کشش ہے جس نے لوگوں کے دل اپنی طرف کھینچ لئے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معجزہ اس قسم کی کسی ظاہری کشش کا مرہون منت نہیں۔ جو مبلغوں اور دنیا کو نجات کا پیغام دینے والوں کے لئے مخصوص ہے۔ یہ اعجاز ایک نظم نے دکھایا ہے جس کے حسن و جمال کے آئینے میں فلسفہ جدید کے اکثر پہلو منعکس نظر آتے ہیں۔ اس میں خیالات کی فراوانی ہے لیکن ان میں اتحاد پایا جاتا ہے اور اس کی منطق ساری کائنات کے لئے آواز غیب کا حکم رکھتی ہے۔ مسٹر ریڈ کا شمار مغرب کے بہترین شاعروں اور نقادوں میں ہوتا ہے۔ ان کا یہ خراج تحسین ایسا ہے جسے اقبال کو اپنی کلاہ فخر کا آویزہ سمجھنا چاہئے۔ آج تک فلسفے کو نظم کے پیرائے میں بیان کرنے میں جو کوششیں کی گئی ہیں ان میں اقبال کی یہ نظم بہت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیش ہوتا ہے کہ اقبا ل کا فلسفہ کیا ہے؟ وہ کیا پیغام لے کر آیا ہے۔ اسرار خودی اور رموز بیخودی میں اس سوال کا جواب شاعرانہ انداز میں دیا گیا ہے اور اس کا اعادہ پیام مشرق اور زبور عجم میں بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اقبال نے اسرار خودی کے مترجم کی درخواست پر خود اپنے فلسفے کی شرح بھی کر دی ہے۔ جسے اسرار کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ میں ذیل میں اقبال کے فلسفے کا ملخص بیان کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ حقیقت دراصل تکوین و تغیر کے عمل سے عبارت ہے۔ وہ صرف حالت وجود یا مقید و معین وجود کا نام نہیں ہیگل کا مطلق ویدائت کا برہما اور صوفیوں کا خدا سمجھنا محض خدا کی افسانہ طرازی اور خیال کی لغزش پا ہے۔ ہیگل کے ’’ مطلق‘‘ کے مقابلے میں تجربے کے لئے وہ معین مرکز جنہیں بریڈلے محض اس لئے نا قابل اعتنا سمجھتا ہے کیونکہ وہ انسانی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک کائنات کے بنیادی اور اساسی حقائق ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی انفرادی چیز ہے۔ وہ ایسی زندگی پر یقین نہیں رکھتے۔ جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے۔ ان کے نزدیک خدا ایک اعلیٰ ترین فرد ہے۔ افراد اوصاف خداوندی سے متمتع ہوتے ہیں۔ انسان جس طرح دلی دنیا پر قبضہ کر کے اسے اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ اسی طرح صفات الٰہی کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے محبت کی اعلیٰ ترین صورت بھی آرزوؤں اور خواہشوں کی مخلوق ہے اور اس کے حصول کی سعی منتہائے حیات۔ خواہشات کی نیکی اور بدی کا معیار یہ ہے کہ جو خواہشات خودی کے جذبے کو ضعیف کرتی ہیں وہ بری ہیں اور جو اسے تقویت دیتی ہیں وہ اچھی ہیں۔ افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہو جائیں۔ کیونکہ یہی ایک جماعت ہے جو معیار کمال پر پوری اترتی ہے اور اسی میں شامل ہو کر وہ کمال حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اسلام غیر فانی ہے اور جو شخص اس سے کامل عقیدت رکھے گا وہ خدا کی ارضی بادشاہت میں جس کا وعدہ اسلام نے کیا ہے اپنے آپ کو کھودے گا۔ اقبال کے فلسفے کے یہ مبادی و اصول الٰہیات کی پیداوار ہیں۔ اس نے اسرار و رموز میں ان گہر ہائے آبدار کی ایسی لڑیاں پروئی ہیں کہ ان سے دماغ کے بجائے دل متاثر ہوتا ہے۔ وہ اب منطق کے خشک مسائل نہیں رہے۔ بلکہ ان میں پھولوں کی تابش اور رنگینی پیدا ہو گئی ہے۔ شاعر کو اپنے بلند مرتبے کا احساس ہے۔ چنانچہ اپنے آپ کو پیغمبر اور پیغمبر فردا کہتا ہے۔ انتظار صبح خیزاں می کشم اے خوشا زر تشتیان آتشم نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم پھر ایرانیوں کے عام انداز میں ساقی سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے۔ خیر و در جامم شراب ناب ریز بر شب اندیشہ ام مہتاب ریز تا سوئے منزل کشم آوارہ را ذوق بیتابی و ہم نظارہ را گرم رو از جستجوئے نوشوم روشناس آرزوئے نوشوم پھر اپنے خیالات کا ماخذ بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایران کے صوفی شاعر مولانا جلال الدین رومی نے مجھے راہ ہدایت دکھائی ہے۔ شب دل من مائل فریاد بود خامشی از یاربم آباد بود شکوہ آشوب غم دوراں بدم از تہی پیمانگی نالاں بدم ایں قدر نظارہ ام بیتاب شد بال و پر شکست و آخر خواب اشد روئے خود بنمود پیر حق سرشت کو بحرف پہلوی قرآن نوشت گفت اے دیوانہ ارباب عشق جرعہ گیر از شراب ناب عشق پر جگر ہنگامہ محشر بزن شیشہ بر سر دیدہ بر نشتر بزن اور اگرچہ اقبال خود کہتا ہے۔ شاعری زیں ثمنوی مقصود نیست بت پرستی بت گری مقصود نیست تاہم اسرار میں انہوں نے رومی کا ہی تتبع کیا ہے اور اس میں ایک موقع پر انہوں نے اس طرح اپنے استاد کے حضور میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ باز بر خوانم ز فیض پیر روم دفتر سر بستہ اسرار علوم جان او از شعلہ ہا سرمایہ دار من فروغ یک نفس مثل شرار شمع سوزاں تاخت بر پروانہ ام بادہ شبخوں ریخت بر پیمانہ ام پیر رومی خاک را اکسیر کرد از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد انہوں نے اپنے فلسفہ کے اصول یوں بیان کئے ہیں۔ پیکر ہستی ز آثار خودی سست ہر چہ می بینی ز اسرار خودی سست زندگی کی تکمیل کے لئے نہایت ضروری ہے می شود از بہر اغراض عمل عامل معمول و اسباب و ملل کہتے ہیں از شراب مقصدے مستانہ خیز کیونکہ ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم ان کے نزدیک محبت تمام مقاصد کا سرچشمہ اور ان کے حصول کا ذریعہ ہے نقطہ نورے کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر از محبت اشتعال جوہرش ارتقائے ممکنات مضمرش فطرت او آتش اندوز دز عشق عالم افروزی بیا سوز و ز عشق وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ خستہ و ضعیف نہ بن، دست التجا نہ پھیلا، کیونکہ ان چیزوں سے خودی ضعیف ہوتی ہے۔ عین دریا میں حباب آسانگوں پیما نہ کر وہ محض خیال پرستی پر پر زور نکتہ چینی کرتے ہیں۔ افلاطون کو راہب دیرینہ افلاطوں حکیم از گروہ گو سفندان قدیم کہتے ہیں: شیخ و برہمن والی حکایت میں شیخ کی زبانی یہ الفاظ کہلواتے ہیں۔ گفت شیخ اے طائف چرخ بلند اند کے عہد وفا با خاک بند تاشدی آوارۂ صحرا و دشت فکر بے تاب تو از گردوں گزشت اسرار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر آزاد روح اور وسیع نظر رکھنے والے انسانوں کا سچا عاشق ہے۔ اس مجموعہ کی آخری نظم ایک نہایت پر جوش دعا اور ان سولہ سو پاکیزہ اشعار کا جن میں تقلید کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے جہاد کیا گیا ہے۔ نہایت موزوں تکملہ ہے۔ اے چوجاں اندر وجود عالمی جان ماباشی و از مامی رمی نغمہ از فیض تو در عود حیات موت در راہ تو محسود حیات باز تسکین دل ناشاد شو باز اندر سینہ ہا آباد شو باز از ماخواہ ننگ و نام را پختہ ترکن عاشقان خام را (۴) پیام مشرق گو سٹمے کے دیوان مشرقی کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اس میں چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں۔ جنہیں دیوان مشرقی کے اسلوب پر ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ زبور عجم ایک طویل نظم ہے۔ جس کے دو حصے ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں اسرار و رموز کا فلسفہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے اور دوسرے فلسفیانہ عقائد سے ان کا جو تعلق ہے۔ اس کی بھی شرح کی گئی ہے۔ اقبال کا تخیل اس قدر بلند اور ان کے خیالات اس قدر پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کی نظموں کا سمجھنا مشکل ہو گیا ہے ان کے ایک دوست نے ان کے نام خط لکھا ہے جس میں ان دشواریوں کی تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔ وہ لکھتا ہیـ: ’’ آپ لوگوں کو اپنے ساتھ تخیل کے جس بام بلند پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ وہاں تک انہیں کی رسائی ہو سکتی ہے۔ جن کا مطالعہ وسیع ہو۔ اکثر مسائل پر فکر و نظر کرتے رہے ہوں اور ان کا ذہن بعض امور کے متعلق تشکک کی جولانگاہ بنا رہا ہو۔ آپ کا کلام انہیں لوگوں کے لیے، جو اپنے ذہن کو پیچیدگیوں میں ڈالنے کے عادی ہو چکے ہیں یا جن کے نزدیک دماغ کو ایک پھندے سے رہا کر کے دوسرے پھندے میں مبتلا کر دینا محبوب مشغلہ ہے معلوم ہوتا ہے کہ دائرہ فکر سے باہر نہیں۔ آپ کے متعلق یہ کہنا بالکل صحیح ہے۔‘‘ ’’رست از یک بندتا افتاد در بندو گر‘‘ لیکن ہم لوگوں نے اپنے حواس اور مشاہدہ سے اس قدر کام نہیں لیا اور ہم میں نہ اس قدر ہمت ہے نہ قابلیت کہ اس دنیا میں جو عالم ملکوت سے بھی ماورا ہے۔ آپ کے ہم سفر بن سکیں۔ ہاں کبھی کبھی ہم جھانک کر ان اسرار کی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیں۔ ٭٭٭ اقبال اور اسلامی دنیا کے دیگر شعراء از جناب ملک عبدالقیوم بی اے (علیگ) بیرسٹر ایٹ لاء لاہور بیسویں صدی کے بیشتر اہل الرائے کا یہ خیال ہے کہ دور حاضرہ ملل مشرق کی انتہائی نکبت اور پستی کا زمانہ ہے۔ اس خیال کی تصدیق میں وہ دنیائے مغرب کی سیاسی جہانگیری، اقتصادی تنومندی اور معاشرتی ترقی کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بہ استثنیٰ جاپان و چین، ایشیا کا کوئی ملک یا اس بر اعظم کی کوئی جماعت حقیقی معنوں میں آزاد یا ترقی یافتہ کہلانے کی مستحق نہیں۔ حالانکہ ان حالات کے بالمقابل اہل یورپ کے عین اسی زمانہ میں اس حیرت انگیز محرکات جدوجہد کا ثبوت دیا ہے۔ جس کی مثال خود یورپ کے کسی گذشتہ دور میں نہیں ملتی۔ سطحی نقطہ نظر سے اس بیان کی حقیقت کچھ بھی ہو۔ اس میں ہر گز کلام نہیں کہ گذشتہ صدی کے آخری ربع بلکہ قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک جو کچھ جہد للقوۃ اور کشمکش حیات کے آثار مشرقی اقوام سے ظاہر ہوئے ہیں وہ مغرب کے مقابل میں کچھ کم قابل ستائش نہیں اور اہل مشرق نے بھی اپنے تخیل سے بہر گونہ ایک عہد جدید کی بنیاد رکھی۔ اس عہد جدید کی بنیاد قائم کرنے والوں میں ایک ممتاز حیثیت سے حضرت اقبال بھی ہیں۔ جنہوں نے کمال جرأت سے دیرینہ روایات ملی و مقامی کا بطلان کر کے ملل ایشیا بالخصوص اسلامی دنیا کو اس شاہراہ پر گامزن ہونے کی دعوت دی۔ جو مادی روحانی کامیابی کا منبع ہے۔ وسعت اثر اور مضامین کی رفعت کے باب میں ایشیائی شعراء میں سے کم افراد کو حضرت اقبال کی سی ہمہ گیری نصیب ہوئی ہو گی۔ حالانکہ عین اسی زمانہ میں نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ایشیا کی عمرانی روایات کی دیگر نمائندہ سر زمینوں میں نامور شعرا اور باکمال ادیب پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اپنے حدود اثر کے اندر بظاہر اسی نصب العین کی تبلیغ کی جو صاحب اسرار خودی و رموز بیخودی کا طغرائے امتیاز قرار پا چکا ہے مگر مقامی حقیقت یہ ہے کہ جو راہیں حضرت اقبال نے بتائی ہیں وہ کسی اور شاعر کے کلام میں اس خوبی سے نہیں ملتیں۔ مشرقی شعراء کی صف میں ہندوستان سے باہر سب سے زیادہ مقبول کلام نامور تر کی شاعر نامق کمال بے کا ہے۔ جس کے خوشہ چیں نہ صرف بلاد ترکیہ کی حدود اطراف میں پھیلے ہوئے۔ بلکہ تورانی دنیا یعنی دیوار چین سے لے کر جمہوریہ قدیم تک پائے جاتے ہیں۔ اگر نامق کمال کو ترکی قومیت و وطنیت کا بزرگ ترین علمبردار کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ مگر زبان کی روانی اور محاورات کی بندش سے قطر نظر کر کے اگر قادر الکلام ترکی شاعر کے علمی کارناموں کو معنوی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہو گا۔ گویا ترکی کے ماسوا دنیا اور اس میں رہنے والوں کا وجود ہی نہیں۔ نامق کمال کی دنیا ترکی دنیا ہے۔ اس کی وطنیت سب ترکی تک محدود ہے۔ اس کا قومی مطمح نظر ہلاکو اور چنگیز کی جنگجو یانہ روایات ہیں۔ اور دنیائے مستقبل کی فلاح و نجاح کے اسباب تورانی نسل انسانی کے قومی بازو کی رہین منت ہیں۔ نامق کمال کے نزدیک تورانستان ربع مسکوں کا خلاصہ ہے اور ترکی قلب اس کا مرکز ہے۔ جس شدت اور کامیابی سے نامق کمال نے ترکی وطنیت کی تبلیغ کی ہے اور ترکوں کو اپنے مقاصد میں فاتح و قاہر ہونے کی تلقین کی ہے۔ اس کی مثال حب وطن سے سرشار کسی اور قوم کے جنگی ترانوں میں نہیں ملتی۔ نامق کمال کی شاعری شاعری نہیں بلکہ ایک طبل جنگ ہے جس کی اصوات رعد تر کی قوم کو حصول آزادی کے لئے انتہائی قربانی کی دعوت دیتے ہیں۔ نامق کمال اپنے خیالات کا ذیل کے الفاظ میں اظہار کرتا ہے: اے تورانی نسل کے فرزند! کیا تو اپنی خودی سے بے بہرہ ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ تو ایسے دو دماں کی اولاد ہے جس نے اپنے جبروت کا ڈنکہ چار دانگ عالم میں بجا دیا کیا تیرے پرچم ظفر مندی کے سامنے دنیا کے علم سرنگوں نہیں ہوئے کیا تو بے خبر ہے کہ دنیا کی حیات و ممات تیری زندگی سے وابستہ ہے نامق کمال ایک اور آتشین گیت گاتا ہیـ: میں مادر ترکی کا فرزند ہوں میں اس محبوب سر زمین کی آغوش میں پلا ہوں میں اسی میں رہ کر جواں ہوا ہواں یہ سر زمین میرا گہوارہ ہے تورانی بہادروں کے نیزے اس کا حصار ہیں ان کی تلواروں کا سایہ میری جائے پناہ ہے میں مادر ترکی کا فرزند ہوں ناظرین نامق کمال کے چند اشعار کے اس ترجمے سے اس نتیجہ پر ضرور پہنچے ہوں گے کہ یہ تلواروں کی جھنکار، آتشیں اژدر کی شعلہ فشانی اور خارا شگاف تیروں کی سنسناہٹ کسی محب وطن کے نزدیک کیسی ہی خوش آئند ہو مگر ایک عہد ماضی کی صدائے باز گشت ہے اور انسانیت اور سلامت روی سے منزلوں دور ہیں۔ حقیقی شاعر وہ ہے جس کی زبان میں شیرینی ہو اور تفکرات میں ہوش بینی اور تلقین جہاد کرے تو تزکیہ نفس کے لئے۔ چنانچہ حضرت اقبال فرماتے ہیں۔ در اطاعت کوش اے غفلت شعار مے شود از جبر پیدا اختیار ناکس از فرماں پذیری کس شود آتش ار باشد زطغیاں خس شود بد قسمتی سے ایشیائی دنیا کے اس دور جدید میں کیا تورانی اور کیا عربی یا ایرانی ارباب فکر نے نامق کمال کی تقلید کی ہے اور اپنے اپنے طریق پر وطنیت پرستی کی داد دی ہے۔ چنانچہ مصر جدید کا مشہور قومی شاعر شیخ السلامہ حجازی نشہ حب وطن سے سرشار ہو کر یوں گویا ہوتا ہے: اے میرے مصر۔ اے میرے مصر تو میرا پوست، میرے خون، میری ہڈیاں ہے میں تجھی میں رہ کر جوان ہوا اور مر کر بھی تیری ہی آغوش میں رہوں گا۔ حالانکہ جو مودت صلح جوئی اور سلامت روی اقبال کے ملکی اور قومی ترانوں سے ہویدا ہے۔ وہ نہ صرف حقیقی حب وطن ہے بلکہ حب الامم اور بین الاقوامی رواداری کے بہترین مظہر ہیں۔ تو گویا علامہ اقبال کی شاعری نہ صرف تہذیب سخن بلکہ تزئین اخلاق کا ذریعہ ہے اور اسلامی اخلاق کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اسرار خودی خود اسلامی فلسفہ ہے اور یہی ایک چیز ہے جو اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیم کا جوہر ہے۔ مگر صدیاں گزر گئیں اور اگرچہ بعض ارباب دانش و بینش نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی مگر جس دلکش پیرائے میں حضرت اقبال نے تسلسل حیات کے حقیقی راز کو منکشف کیا ہے۔ وہ انہیں کا حصہ ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔ پیکر ہستی ز آثار خودی است ہر چہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیدا ست از اثبات او در جہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پند اشت است پھر ایسے مقاصد کی تکمیل کے متعلق جو خلائق کی ایذا رسانی اور غضب حقوق پر مبنی ہو بیان کرتے ہیں۔ طبع مسلم از محبت قاہر است مسلم ار عاشق نہ باشد کافر است تابع حق دیدنش نادیدنش خوردنش نو شیدنش خوابیدنش در رضائش مرضی حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود خیمہ در میدان الا اللہ زدست در جہاں شاہد علی الناس آمدست شاہد حالش بنی انس و جاں شاہدے صادق ترین شاہداں قال راہگذار و باب حال زن نور حق بر ظلمت اعمال زن در قبائے خسروی درویش زمی دیدہ بیدار و خدا اندیش زمی قرب حق از ہر عمل مقصود دار تاز تو گردد جلالش آشکار صلح شرگردد چو مقصود است غیر گر خدا باشد غرض جنگ است خیر گر نہ گردد حق ز تیغ ما بلند جنگ باشد قوم را نا ارجمند کیسا پاکیزہ اور اعلیٰ نصب العین ہے۔ خودی اور تحقیق خودی کی ہر گونہ تلقین کی گئی ہو۔ مگر خالص مادی اغراض انسانیت سوز دنیوی مصالحہ اور کورانہ نفس پرستی کی دلپذیر تلقین موجود ہے۔ اقبال کی شاعری محض لفظوں کا رکھ رکھاؤ ہی نہیں بلکہ اس غیر فانی حقیقت کی مددل اور مبرہن تفسیر ہے۔ جسے اسلامی اخلاق کہتے ہیں۔ تو کیا حضرت اقبال کو دنیائے اسلام کے جملہ ارباب کمال پر بہ لحاظ مقاصد و بہ لحاظ معانی فوقیت حاصل نہیں ہے؟ ٭٭٭ پیام اقبال از جناب قاضی عبدالغفار صاحب رئیس مراد آباد اے زمین کے سورما بیٹے! اسے نئی شان سے تعمیر کر! اپنے سینہ میں اپنے دل میں اس کی پھر سے بنیاد رکھ! زندگی کا ایک نیا دور روشن ضمیری سے شروع ہو اور اس کی تہنیت میں نئے گیت گائے جائیں! (گوئٹے) شعر ایک الہام ہے جو الہام نہیں وہ شعر نہیں۔ محض نظم ہے قافیہ، ردیف، لے اور ترنم کی ایک ترکیب استعداد فطرت کے مصغیٰ چشموں سے جس سمندر کی گہرائی لبریز ہوتی ہے وہ سمندر شاعر ہے! وہ مفسر فطرت ہے۔ وہ مصور فطرت ہے۔ وہ مدبر فطرت ہے۔ نبی اور پیغمبر کے بعد فطرت الٰہی کا وہی ایک ترجمان ہے! اقبال کی شاعری کے متعلق کہنے کو لوگوں نے کیا کیا نہ کہا اور کیا کیا نہ کہیں گے۔ مگر مجھے اقبال کے سرود مستانہ کے جس تار کی آواز سب سے زیادہ بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا کچھ حال مجھ سے سن لیجئے اقبال کی شاعری تغزل بھی ہے۔ ترنم بھی ہے، شوکت الفاظ بھی رکھتی ہے۔ اس کی بندشیں بھی چست ہیں۔ خیالات کی بلندی اور گہرائی بھی اس کے دامن سے وابستہ ہے۔ اس میں داغ کی ’’ زبان‘‘ بھی ہے۔ غالب کا فلسفہ بھی ہے۔ شبلی و حالی کی ’’ قومیات‘‘ بھی ہیں۔ سب کچھ ہے جو ہونا چاہیے۔ مگر اس ’’ سب کچھ‘‘ کے اندر جو ایک پیام عمل ہے۔ جو فلسفہ حرکت و حیات ہے۔ جو دعوت ہے وہی اس سب کچھ کی جان ہے۔ ملت کے وجود اجتماعی میں شاعر کا وجود سرتاپا پیام عمل نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ اس کا وجود ہی بیکار ہو جاتا ہے۔ وہ قوالی کی محفلوں کی زینت اور کتب خانوں کی آرائش ہو سکتا ہے۔ مگر اور کچھ نہیں ہو سکتا! اقبال کی شاعری کا ہر دور ایک ہی فلسفہ حیات کا حامل ہے۔ ابتدائی دور میں خیالات کی جدت و وسعت تو تھی مگر گہرائی بہت کم تھی۔ دوسرے دور میں شاعر کا شعر اپنے لئے ایک وسیع میدان مانگنے لگا۔ اس کے افکار عالیہ اردو ادب کی زنجیروںکو توڑ کر ہوا میں بلند ہونے لگے۔ اقبال کے بیتاب جلوؤں پر اردو کا لباس تنگ ہو چلا تھا۔ جو پہاڑی چشمہ وادیوں اور کہساروں میں بہہ رہا تھا۔ وسیع اور طویل میدان ڈھونڈتا ہوا نکلا۔ اسی دور میں اقبال نے ’’ کنار آب رکنا باد‘‘ کے ترک شیرازی سے کسب سعادت شروع کیا اور چند ہی روز میں شاعر کا شعر فضائے زندگی میں اس طرح پھیلنے لگا جس طرح کہ ہندوستان میں کسی اردو اور فارسی کے استاد کی شاعری کبھی نہ پھیلتی تھی۔ اقبال کے سینہ میں دو روحوں کا آشیانہ تھا۔ ایک شاعر کی حسن پرست اور عشق پرور روح اور ایک مسلمان کی ہنگامہ خیز اور شورش انگیز روح، آخری دور میں حسن پرست روح ساکن اور مسلمان کی روح اس طرح ہنگامہ آرا ہو گئی کہ شاعر اپنا پیام بن کر ہر طرف چھا گیا۔ اب سننے والے یہ نہیں دیکھتے کہ زبان اردو ہے یا فارسی۔ اقبال کی شاعری نے زبان اور طرز ادا کے امتیازات سے قطع نظر کر لی۔بس کہے جاتا ہے کہے جاتا ہے، جو اس کو کہنا ہے!!’’ ہر ڈر‘‘ کے اس نظریہ کی وسعت کو کہ ’’شاعری نوع انسان کی مادری زبان ہے‘‘ اقبال کی شاعری نے واضح کر دیا۔ اس کے لئے اردو اور فارسی کا امتیاز ایک قصہ پارینہ ہے۔ اقبال کی شاعر پاس اور شک سے پاک ہے۔ وہ نہ خود مایوس ہوتا ہے نہ دوسروں کو مایوس ہونے دیتا ہے۔ وہ مایوس ہونے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور تنبیہہ و توبیخ کے چند لفظ کہہ کر ٹھکراتا ہوا گزر جاتا ہے۔ اس کو اپنے پیام کی قبولیت اور اپنے ایمان کی استواری میں ذرہ برابر شک نہیں ہے جس راستہ پر اس کا تخیل اس کو لئے جاتا ہے اس راستہ کی صحت پر شاعر کا ایمان کامل رکھتا ہے۔ پاس و شک سے اقبال کے تخیل کی یہ کامل آزادی اقبال کے پیام کو طاقت پرواز اور اثر بخشتی ہے! پھر اگر اس کامل آزادی کا جو زلف و رخ کے استعارات سے اکثر بے نیاز ہو کر اپنے جلوے سے بے حجاب کر دیتی ہے۔ زمانہ کی سیاسی اصطلاحوں میں ترجمہ کیا جائے اور اقبال جس ’’ جرأت رندانہ‘‘ کے ساتھ’’ مشاہدہ حق‘‘ کی گفتگو کرتا ہے اس کی تفسیر ادنیٰ سیاسیات کے رنگ میں لکھی جائے تو بہت ممکن ہے کہ اقبال کی ساری شاعری بحق سرکار فرنگ ضبط ہو جائے! لیکن شاعر کے پیام کو ادنیٰ سیاسیات کی اصطلاحوں سے آلودہ کرنا ایک شرک جلی ہے! یہ بحث بھی فضول ہے کہ اقبال شاعری کے کس ’’ درس‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ میری رائے میں ہندوستان یا ایران کی شاعری کا کوئی ’’ درس‘‘ بھی اقبال کا درس نہیں ہے۔ صہبا وہ خم خانہ قدیم سے لائے۔ صہبا بھی انگوری نہیں بلکہ عرب کی کھجور کا افسردہ جام و مینا انہوں نے اپنے لئے خود ہی بنایا۔ داغ و حالی و شبلی سے الگ انہوں نے اپنی دنیا آباد کی۔ اب نہ داغ ہیں نہ حالی ہیں نہ شبلی۔ اقبال بجائے خود اقبال ہے۔ بیس برس پہلے وہ وقت تھا جب اقبال کا ’’ درس‘‘ قائم نہ ہوا تھا اور وہ ہنوز’’ امیدواری‘‘ کے دور سے گزرے تھے۔ جس طرح پیغمبروں کے لیے ایک زمانہ امیدواری کا مقرر ہے۔ کبھی پہاڑوں پر، کبھی حجروں اور غاروں میں جب وہ خاموشی کے ساتھ کسب سعادت کرتے ہیں۔ اسی طرح شاعر کو بھی کچھ عرصہ امیدواری کرنی پڑتی ہے۔ پھر جب وہ اپنا پیام تیار کر کے اس ’’ اعتکاف‘‘ سے باہر آتا ہے تو ایک مستحکم ایمان اور غیز متزلزل پیام لے کر آتا ہے۔ اقبال کے ابتدائی دور میں ایک بے چینی۔ بے اطمینانی اور جھجک تھی نور کا طالب ہوں گھبراتا ہوں اس بستی میں میں طفلک سیماب پا ہوں ظلمت ہستی میں میں ہاں آشنائے لب نہ ہو راز کہن کہیں پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں اقبال بہ منبر زد رازے کہ نہ باید گفت نا پختہ بروں آمد از خلوت میخانہ لیکن چند ہی سال بعد ’’ امیدواری‘‘ کا وہ دور ختم ہوا اور اقبال کا وجدان روحانی ان کو ’’ قصہ دار و رسن‘‘ کے جواز میں لے جانے لگا! وہی شاعر جو خلوت میخانہ سے نا پختہ آتا تھا۔ اب حیات ملی کے جلوت خانہ میں ایک حقیقت مسلمہ ہے۔ ایک زندہ پیغام عمل ہے۔ اب وہ ’’ سخن نگفتہ راچہ قلندرانہ گفتم‘‘ کی منزل پر آ گیا! دس برس پہلے کے ڈھکے ہوئے اشارے۔ دھیمی آوازیں۔ ایک کھلا پیام بن کر گرجنے لگیں اور شاعر نے اب دنیا کو اپنی طرف یوں بلانا شروع کر دیا: مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است ز شاعر نالہ مستانہ در محشر چہ میخواہی تو خود ہنگامہ ہنگامہ دیگر چہ میخواہی بہ بحر نغمہ کر دی آشنا طبع روانم را ز چاک سینہ ام دریا طلب گوہر چہ میخواہی وہی شاعری جو بقول اقبال’’ پریشاں جلوۂ جوں موہتاب اندر بیابانے‘‘ تھی اب ایک شعلہ بن کر چھا گئی۔ اپنی شاعری اور اپنے پیام کی تشریح یوں فرماتے ہیں۔ یوسف گم گشتہ را باز کشیدم نقاب تابہ تنک مائیگاں ذوق خریدن ہم بہ سواد دیدۂ تو نظر آفریدہ ام من بہ ضمیر تو جہانے دگر آفریدہ امن من ہمہ خاوراں بخوابے کہ نہاں ز چشم انجم بہ سرود زندگانی سحر آفریدہ امن من ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا اس عزم مستحکم کے ساتھ، وہ شاعر ازل جو اقبال کے اندر تھا۔ ’’ کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا‘‘ کرنے کا مدعی ہو کر اپنے خلوت خانہ سے باہر آیا۔ ترے سینہ میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہدے مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہدے عشق کی آشفتگی نے کر دیا صحرا مجھے مشت خاک ایسی نہاں زیر قبا رکھتا ہوں میں جستجو کل کی لئے پھرتی ہے اجزا میں مجھے حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں فیض ساقی شبنم آسا ظرف دل دریا طلب تشنہ دایم ہوں آتش زیر پا رکھتا ہوں میں وہ دعائیں دیتا ہوا آتا ہے اور اس کی دعائیں بھی اس کے پیام سے لبریز ہوتی ہے: نوجواں خام سوزے سخنم تمام سوزے غزلے کہ می سرایم بتو سازگار بادا چوبجان من داری دگر آرزو نہ بینی مگر ایں کہ شبنم نویم بے کنار بادا نشو و نصیب جائے کہ دلے قرار گیرد تب و تاب زندگانی تبو آشکار بادا اقبال جذبات اسلامی سے مست ہے از خود رفتہ ہے۔ اس کی شاعری میں سب کچھ یہی ہے! میرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ زخمہائے عجم رہا وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی کبھی بارگاہ رسالت میں طرابلس کے شہیدوں کا لہو لے کر حاضر ہوتا ہے کبھی بیتاب ہو ہو کر دعائیں مانگتا ہے یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے پھر وادی فاراں کے ہر ذرہ کو چمکا دے پھر شوق تماشا دے پھر ذوق تقاضا دے بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے! کبھی مسافران حجاز کے قافلہ کے ساتھ ساتھ اپنی آبلہ پائی سے ایک پیام عمل دیتا چلا جا رہا ہے! خوف کہتا ہے کہ ’’یثرب کی طرف تنہا نہ چل‘‘ شوق کہتا ہے کہ ’’تو مسلم ہے بیباکانہ چل‘‘ بے زیارت سوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا؟ عاشقوں کو روز محشر منہ دکھلاؤں گا کیا؟ خوف جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز ہجرت مدفون یثرب میں یہی مخفی ہے راز مگر اقبال کا یہ مستانہ جذبہ اسلامی محض جذبہ ہی نہیں ہے۔ اس نے تعلیمات اسلامی کے گہرے مطالعہ کے بعد اپنی زندگی کا ایک فلسفہ وضع کر لیا ہے۔ احساس خودی کا فلسفہ اقبال کا بنیادی فلسفہ ہے۔ اقبال کی نظر میں ملت اور افراد کی زندگی کچھ بھی نہیں۔ اگر وہ اس فلسفہ میں بیگانہ ہے۔ چوں کلیمے شدبروں از خویشتن دست او تاریک و چوب اورسن! شاید کہا جائے گا کہ یہ ایک عظیم الشان اور اخلاقی مسئلہ ہے اور اس لئے یہ اوراق اس بحث کا تحمل نہ کر سکیں گے! قطع نظر اس امر کے یہ فلسفہ خودی ایک اختلافی مسئلہ ہے یا نہیں۔ میں ان اوراق میں اس بحث کو کیوں چھیڑوں جبکہ ان اوراق کا یہ موضوع ہی نہیں ہے بہرحال اقبال کی شاعری کے دور ثالث کی تمام بنیاد اسی فلسفہ پر ہے۔ جس کے لئے اس نے اپنے زور قلم کو وقف کر دیا۔ اسی فلسفہ کی فضا میں اقبال کی شاعری نے نشوونما پائی، بلندی پائی، حوصلہ پایا، نظر پائی اور ایمان پایا! وہی فلسفہ اقبال کو اس دنیا میں لے گیا۔ جہاں ڈھونڈنے والوں کے لئے حیات ملی اور مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی ایک نئی جنت کا دروازہ سامنے آتا ہے۔ شراب بلا شبہ پرانی ہے۔ قدیم ہے، مگر مینائی ہے اقبال نے اس مینا کو بہت مزین اور منقش کر دیا ہے۔ وہ اپنے فلسفہ کی چٹان پر کھڑا ہو کر عصر جدید کو ایک عام چیلنج دیتا ہے۔ اس چیلنج کے ساتھ ساتھ ایک پیام زندگی بھی ہے! اقبال ’’ وطنیت ‘‘ اور ملت اسلامی کی جغرافی حد بندی کا دشمن ہے۔ آں چناں قطع اخوت کردہ اند بر وطن تعمیر ملت کردہ اند تا وطن را شمع محفل ساختند نوع انساں را مقابل ساختند وہ مغربی باطل پرستوں کے اس تخیل کی اپنے ہر صفحہ پر اور ہر سطر میں تحقیر کرتا ہے۔ جس نے ’’وطنیت‘‘ کو دنیا کا معبود بنا کر طرح تدبیر زبوں فرجام ریخت یک خسک دربادہ ایام ریخت تیرہ سو برس پرانی ’’ وطنیت‘‘ کا تخیل آج بھی اقبال کا تخیل ہے۔ نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے دور حاضرہ کی جدتوں کا اقبال قائل نہیں ہے۔ وہ ابھی تک قدیم تخیل کا دامن مضبوط پکڑے ہوئے ہے۔ اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و کرم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے مغرب کے تہذیب و تمدن کو وہ ’’ فسونگری خرد‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ عقل و دانش کی کار فرمائیوں سے بے نیاز ہو کر وہ ایک جرعہ ’’ عرفان‘‘ مانگتا ہے۔ وہ تہذیب و علوم جدیدہ سے اس قدر بیزار ہے کہ مصوری اور موسیقی کو بھی ’’ فنون لطیفہ غلاماں‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے اور شکوہ کرتا ہے کہ ان کے اندر موت ہے زندگی نہیں ہے۔ می چکد از خامہ ہا مضمون موت ہر کجا افسانہ و افسون موت بے یقیں را لذت تحقیق نیست بے یقیں را قوت تحقیق نیست مغنی اور مصور اس کی نظر میں بازاری مذاق کے غلام ہیں۔ رہبر او ذوق جمہور است و بس تقلید اقبال کے مذہب میں کفر سے کم نہیں اور ہر مجتہد کے مذہب میں ایسی ہی سمجھی جاتی ہے۔ تہذیب جدیدہ کی تقلید اس کی نظر میں مرگ ملت ہے۔ قیمت شمشاد خود نشناختی سرود دیگر را بلند انداختی مثل نے خو دراز خود کر دی تہی بر نوائے دیگراں دل مے نہی اے گدائے ریزہ از خوان غیر جنس خود می جوی از دکان غیر بزم مسلم از چراغ غیر سوخت مسجد اواز شرار غیر سوخت از سواد کعبہ چوں آہو رمید ناوک صیاد پہلویش درید اقبال ملت اسلامی کی خرابی کا بڑا سبب اسی تقلید کو سمجھتا ہے۔ اور اسی لئے بار بار ’’ فسونگری خرد‘‘ کی عمارتوں پر تیشہ چلاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس خس و خاشاک سے میدان صاف ہوئے تو اس کا پیام سنا جائے۔ جو ٹھکے ہوئے ہیں وہ راستہ پر آئیں اور جو آہو’’ سواد کعبہ‘‘ سے دور چلے گئے ہیں ان کے پہلو ناوک صیاد سے محفوظ ہو جائیں! اے کہ در مدرسہ جوی ادب و دانش و ذوق نخر دیا وہ کس از کارگہ شیشہ گراں خرد افزود مرا درس حکیمان فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں برکش آں نغمہ کہ سرمایہ آب و گل تست اے زخود رفتہ تہی شوز نوائے دگراں! زخاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست تجلی دگرے در خود تماشا نیست اگرچہ عقل فسوں پیشہ لشکرے انگیخت تو دل گرفتہ نہ باشی کہ عشق تنہا نیست اقبال کی شاعرانہ زندگی کا سب سے بڑا جہاد’’ عقل فسوں پیشہ‘‘ کے خلاف ہے۔ وہ پہلے مسلمانوں کے دلوں میں یہ احساس خود داری پیدا کرنا چاہتا ہے کہ ’’ تجلی دگرے در خور تماشا نیست‘‘ پھر وہ راستہ بتاتا ہے کہ ’’ از خاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست‘‘ اور طرح طرح سے قدم قدم پر کبھی رنج کے ساتھ کبھی طنز کے انداز میں کبھی استہزاء کے لہجہ میں کبھی تحقیر کے پیرایہ میں وہ تہذیب فرنگ کے بتوں کو سرنگوں کر دینا چاہتا ہے اور بار بار اس تہذیب کے دلدادگان کو اپنی طرف بلاتا ہے: ترسد فسوں گری خرد بہ تپیدن دل زندہ زکنشت فلسفیاں در آبحریم سوز و گداز من اقبال فلسفہ فرنگ کے بت خانہ کا بڑا عالی حوصلہ اور بلند نظر غزنوی ہے! تمدن جدیدہ کے ہر تخیل کو جو عصر حاضر کے بت خانہ کا بت ہے۔ وہ تحقیر کی انگلی سے اشارے کر کے دکھلاتا اور کہتا ہے: بتان تازہ تراشیدۂ دریغ از تو درون خویش نہ کاویدۂ دریغ از تو چناں گداختہ از حرارت ز فرنگ ز چشم خویش ترا دیدۂ دریغ از تو گرفتم ایں کہ کتاب خرد فرد خواندی حدیث شوق نہ فہمیدۂ دریغ از تو طواف کعبہ زدی گردد پر گردیدی نگہ بخویش نہ پیچیدۂ دریغ از تو ’’ کتاب خرد‘‘ اور’’ حدیث شوق‘‘ کتاب خرد کی خامیاں اور حدیث شوق کی گرمیاں۔۔۔۔ کس کس انداز سے وہ مغرب پرست مشرق کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ’’ عشق‘‘ اور’’ عقل‘‘ کے اس مجادلہ میں۔ اقبال عشق ہی عشق ہے۔ ذوق ہی ذوق ہے۔ اس کا تفکر سراپا مشرقی ہے وہ مغرب کی ترقیوں کو دیکھا ہے اور ایک ہی مصرعہ میں ختم کر دیتا ہے۔ عقل تا بال کشود است گرفتار تر است وہ’’ عشق‘‘ کی قوت کو محسوس کرتا ہے اور ایک ہی مصرعہ میں فیصلہ کر دیتا ہے۔ عشق از عقل فسوں پیشہ جگر وار تر است علوم و سائنس کی تمام ترقی اس کے خیال میں ایک مشت خاک ہے۔ جو ’’ پسر مریم‘‘ کی آنکھ میں جھونکی گئی! شاعر کی نظر میں مغربی تمدن کا سرمایہ کس قدر حقیر ہے! جلوہ او بے کلیم و شعلہ او بے خلیل! وہ ہر جلوہ میں ایک کلیم ڈھونڈتا ہے اور ہر شعلہ میں ایک خلیل مانگتا ہے۔ کہاں تک شاعر کا یہ ’’مذہب عشق‘‘ تہذیب و تمدن و علوم کے اٹھتے ہوئے طوفان کا حریف ہو سکے گا۔۔۔۔یہ بحث ایک اور فرصت چاہتی ہے۔۔۔۔ اس وقت تو صرف شاعر کی نظر اس کا حوصلہ اور اس کا بیان۔ زیر بحث ہے۔ وہ اسلام اور مشرقیت کا ترجمان بن کر۔۔۔۔ مدعی بن کر۔۔۔ دنیا کے سامنے آتا ہے اس کے ادعا کو دیکھئے اور اس کے ’’ ترجمہ‘‘ کو دیکھئے۔ وہ مغرب کی عقل سے آزاد ہو کر ’’ مشرق‘‘ کے عشق میں مبتلا ہے۔۔۔۔ اس کو مبتلا رہنے دیجئے اور اس کے سمندر کی اٹھتی ہوئی لہروں کی موسیقی سے لطف اندوز ہو جائیے۔ جہاں تک کہ آپ سے ہو سکے۔۔۔ ان چٹانوں سے قطع نظر کیجئے جن سے یہ لہریں ٹکرا رہی ہیں۔ عشق تنقید و تبصرہ سے بے پروا ہے۔ عاشق اپنے کیف تمام سے ہمیشہ عاجز اور مجبور ہے: چہ کنم چہ چارہ گیرم کہ ز خویش علم و دانش نہ دمیدہ ہیچ خارے کہ بدل نشانم اورا قدحے خرد فروزے کہ فرنگ داد مارا ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر نہ دارد شاعر اس منزل میں ہے جہاں آفتاب کتنا ہی چمکے وہ ’’ اثر سحر‘‘ مانگتا ہے ! انقلاب مانگتا ہے ! عقل کا انکار نہیں سننا چاہتا اور ’’ عشق‘‘ کا اقرار چاہتا ہے! اقبال کا یہ وجدان اسی کے قلم سے کسی بیتابی اور درد کے ساتھ بیان کرتا ہے: اے مسلمانان فغاں از فتنہ ہائے علم و فن اہرمن اندر جہاں ارزاں ویزداں دیر یاب انقلاب! انقلاب! اے انقلاب گوئٹے کا ’’ فاؤسٹ‘‘ کچھ اسی رنگ میں عاجز آ کر چلاتا تھا: ’’لعنت ہو ان بلند خیالات پر! جس سے ہمارا ذہن اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے لعنت ہو، مظاہر کی نظر بندی پر! جو ہمارے حواس پر قبضہ کر لیتی ہے۔ لعنت ہو، شہرت اور بقائے دوام کے فریب پر، جو ہمیں خواب میں خوشامد کی لوی دیتے ہیں۔ لعنت ہو، مال و حشم پر۔۔۔۔‘‘ اقبال کی شاعری کا ملخص بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لعنت ہو، عقل فسوں پیشہ پر! لعنت ہو، نیرنگ فرنگ پر! لعنت ہو، فتنہ ہائے علم و فن پر! لعنت ہو، کتاب خرد پر اور حکیمان فرنگ پر! لعنت ہو ’’وطنیت‘‘ پر لعنت ہو، دانش مغربیان پر و فلسفہ مشرقیان پر! رحمت ہو اس ادارہ ملت پر جو تیرہ سو برس پہلے عرب کے ’’ امی ‘‘ نے قائم کیا تھا۔ رحمت ہو، اس ادارہ پر اور جو کچھ اس کے اندر ہے، اس پر! رموز بیکودی، اسرار خودی، طلوع اسلام، شمع و شاعر، بانگ درا، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ ان سینکڑوں صفحات میں وہی ایک ’’ اہرمن‘‘ ہے اور وہی ایک ’’ یزدان‘‘ ہے جو ہزاروں ناموں سے، لاکھوں اشاروں سے، استعاروں سے، تلمیحات سے، بار بار، بار بار، بیان کیا گیا ہے! وہ ایک ہی ’’ حدیث عشق‘‘ ہے کہ کہنے والا کہے جاتا ہے۔ کہے جاتا ہے!! لیکن یہ سوال کہ اقبال کے ’’دریائے بیتابی‘‘ کی یہ ’’ موج خون‘‘ ’’ دانش مغربیان‘‘ کی چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا تھک جائے گی یا پھر ایک دن یہ سمندر ان چٹانوں کو پیس ڈالے گا۔۔۔ یہ سوال ایسا ہے کہ شاید اس کے حریف یہ اوراق نہیں ہو سکتے! شاعر بہرحال اپنا کام کر رہا ہے اور پیغمبری کر رہا ہے اور پیغمبروں کی طرح پیش گوئی کرتا ہے کہ اسے ’’ دیار مغرب کے رہنے والو‘‘ ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی!‘‘ جو دیکھ سکتے ہوں وہ دیکھیں۔ جو سمجھ سکھتے ہوں وہ سمجھیں، شاعر کو اس سے بحث نہیںکہ تم کیا سمجھے اور کیا نہ سمجھے۔ وہ تو اپنے میخانہ میں کسی خم کے سہارے بیٹھا اپنی فطرت حساس کے نقوش بے محا بادینا کے سامنے پھینک رہا ہے! پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے وہ اس کیف غم اور اس ’’ خانہ ساز‘‘ کی گہرائیوں میں محو ہو جاتا ہے۔۔۔ گم ہو جاتا ہے! خودی کے فلسفہ سے ’’ وطنیت‘‘ اور عقل و علم کی تمام سحر کاریوں کو ٹھکراتا ہوا شاعر اپنے مذہب کا بنیادی پیام دنیا کو پہنچا دیتا ہے۔ اس کے مذہب کا یہ رکن ’’ امید‘‘ کا ایک جلوہ مستحکم اور خوف اورمایوسی کا انکار قطعی ہے: مرگ را ساماں ز قطع آرزو است زندگانی محکم از لا تقنطو است تا امید از آرزوئے پیہم است نا امیدی زندگانی رامم است زندگی را یاس خواب آور بود ایں دلیل سستی عنصر بود اے کہ در زندان غم باشی اسیر از نبی تعلیم لا تحزن بگیر گر خدا واری زغم آزاد شو از خیال بیش و کم آزاد شو! اقبال کی نظر میں مسلم کے لئے بیم و خوف شرک قطعی ہے۔ وہ ایمان کی نفی ہے۔ زندگی میں موت کی ظلمت ہے۔ بیداری میں غفلت کا پیام ہے۔ بیم و خرف کا دروازہ بند کر کے شاعر ضمیر مسلم میں ’’ چراغ آرزو‘‘ روشن کرنا چاہتا ہے: ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے چمن کے ذرہ ذرہ کو شہید جستجو کر دے یہی شاعر کا پیام ہے جو آج بیس برس سے ایک ’’ چراغ آرزو‘‘ ظلمت خانہ حیات میں روشن کئے ہوئے ہے۔ ہر دفعہ نئے لباس میں شاعر کی روح اپنا پیام لے کر آتی ہے۔ ہر دفعہ نئے لفافہ میں وہی ایک خط زندگی یہ پیغامبر لاتا ہے۔ ہر دفعہ نئے رنگ میں نئی آواز سے، نئے منتر سے وہ سوتونکو جگانا چاہتا ہے۔ کبھی کہتا ہے: اسرار ازل جوی بر خود نظرے واکن یکتائی و بسیاری پنہائی و پیدائی بر خیز! کہ فردر دیں افروخت چراغ گل برخیز و دمے بنشیں با لالہ صحرائی کبھی کہتا ہے: بیا کہ تازہ نوامی ترا و دارزگ ساز مئے کہ شیشہ گداز دو بہ ساغر اندازیم مغان و دیر مغاں را نظارہ تازہ دہم بنائے میکدہ ہائے کہن بر اندازیم زر ہز نان چمن انتقام لالہ کشیم بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم بطوف شمع چو پروانہ زیستن تاکے؟ ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تاکے؟ سفر کرتا، آوازیں لگاتا، چلا جا رہا ہے۔ مغرب کی وادیوں میں، مشرق کے صحراؤں میں یورپ کی آبادیوں میں۔ ایشیا کے ویرانوں میں کہتا چلا جا رہا ہے جو کچھ اس کو کہنا ہے۔ لیکن اقبال ہر حال میں اور ہر منزل پر وہی تیرہ سو برس پہلے کا حدی خواں شتربان اور عرب بدوی ہے۔ وہ اپنے اونٹ کی نکیل ہاتھ میں لے کر مغرب اور مشرق کے آسمانوں کے نیچے سربلند گذرنا چاہتا ہے اور اپنی ملت کو بھی ساتھ لے جانا چاہتا ہے: مغرب ز تو بیگانہ مشرق ہمہ افسانہ وقت است کہ در عالم نقش دگر انگیزی آں کس کہ بہ سردار وسودائے جہانگیری تسکین جنونش کن ہا نشتر چنگیزی ریگ عراق منتظر، گشت حجاز تشتہ کام خون حسین تازہ دہ کوفہ و شام خویش را درون لالہ گزر چوں صبا تو اند کرد بہ یک نفس گرۂ غنچہ وا توانی کرد حیات چیست؟ جہاں را اسیر جاں کردن تو خود اسیر جہانی کجا توانی کرد مقدر است کہ مسجود مہر و مہ باشی مگر ہنوز نہ دانی چہا توانی کرد اگر ز میکدۂ من پیالہ گیری زمشت خاک جہانے بپا توانی کرد مانند صبا خیز و و زیدن دگر آموز دامان گل و لالہ کشیدن دگر آموز اندر و لک غنچہ خریدن دگر آموز تخت جم و دارا سر را ہے نہ فرد شند ایں کوہ گراں است بکاہے نفروشند باخون دل خویش خریدن دگر آموز نالیدی و تقدیر ہماں است کہ بود است آں حلقہ زنجیر ہماں است کہ بود است نومید مشو نالہ کشیدن دگر آموز خہا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا تری نسبت ابراہیمی ہے معمار جہاں تو ہے تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر شبستان محبت میں جریر و پرنیاں ہو جا گزر جائیں گے سیل تند رو کوہ و بیاباں میں گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا یہ خاموشی کہاں تک لذت فریاد پیدا کر زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں بلا شبہ اقبال کی لذت فریاد سے کہا جا سکتا ہے کہ زمیں پر تو ہے اور تیری صدا ہے آسمانوں میں لیکن اگر تمدن حاضرہ کے موجودہ دور ابتلا میں جب ایک لعنت وجود انسانی پر مسلط ہے۔ شاعر کی صدا نہ سنی گئی ہو تب بھی تم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ شاعر نے اپنا فرض انجام نہیں دیا۔ آج سے کچھ کم بیس برس پہلے اس نے ہندی مسلم کی نئی نسل کو جو پیام دیا تھا وہی آج اس کے ساز کے ہر تار سے ادا ہو رہا ہے: اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے آتی ہے کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں کہتا ہے مور ناتواں لطف خرام اور ہے موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگر نہ ہو گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز غم کدۂ نمود میں شرط دوام اور ہے نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے تمام ساماں ہے تیرے سینہ میں تو بھی آئینہ ساز ہو جا غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرض قدیم ہے تو ادا مثال نماز ہو جا اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق سنگ امروز کو آئینہ فردا کر دیں تمنا آبرو کی ہوا گر گلزار ہستی میں تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کرے نہیں یہ شان خود داری چمن سے توڑ کر تجکو کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کرے اگر منظور ہو تجکو خزاں نا آشنا رہنا جہان رنگ و بو سے پہلے قطع آرزو کرے طرب آشنائے خروش ہو تو نوائے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ سا زمیں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں شاعر اپنی زندگی کے آئینہ میں قوموں کی زندگی کو دیکھتا ہے۔ وہ مٹھی بھر مٹھی اٹھاتا ہے اور ہر مٹھی میں ایک پارۂ الماس ڈھونڈتا ہے۔ وہی جو اس کے جسد خاکی میں ہے۔ ہر مشت خاک میں ایک چنگاری، ایک انگارا تلاش کرتا ہے۔۔۔۔ وہی جس نے اس کے وجود معنوی میں حرارت زندگی قائم رکھی ہے۔ اس کے سوا وہ کچھ دیکھتا ہی نہیں کچھ جانتا ہی نہیں آہستہ کہتا ہے پھر لوگ سنتے نہیں تو چیخ اٹھتا ہے: تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نان شعر پر ہے مدار قوت حیدری ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار تایہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے نفس گرم کی تاثیر ہے اعجاز حیات تیرے سینہ میں اگر ہے تو مسیحائی کر کب تلک طور پہ در یوزہ گری مثل کلیم اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر اے ہما از یمن دامت ارجمند آشیانے ساز برکوہ بلند تاشوی در خورد پیکار حیات جنم و جانت سوز و از تار حیات تو شمشیری زکام خود بروں آ بروں آ از نیام خود بروں آ نقاب از ممکنات خویش بر گیر مہ و خورشید و انجم را بہ برگیر دگرنہ آتش از تہذیب نوگیر بروں خود بیفروز اندروں میر! کتنے مایوسوں کے وہ راستے بتاتا ہے۔ کتنے گم کردہ راہ مسافروں کو وہ منزل کا پتہ دیتا ہے۔ جو عالم خاکی میں مقید ہیں انہیں فضائے بسیط میں پروں کو پھیلانے کا نکتہ سمجھاتا ہے۔ خود آگے بڑھتا جاتا ہے اور پیچھے آنے والوں کو بلاتا جاتا ہے: بگزر سراب و بہ پہنائے ہوا ساز ایں نکتہ نہ بیند مگر آں دیدہ کہ بینا است گماں مبرکہ بہ پایاں رسید کار منعاں ہزار بادہ نا خور وہ دررک تاک است چمن خوش است ولیکن چو غنچہ نتواں زیست قبائے زندگیش از دم صبا چاک است بخود خزیدہ و محکم چو کوہسار ان زی چو خس نزی کہ ہوا تیز و شعلہ بیباک است پانہ خلوت کدہ غنچہ بروں زن چو شمیم بانسیم سحر آمیز و زیدن آمود اگر ت خار گل تازہ سے ساختہ اند پاس ناموس چمن دار و خلیدن آموز باغباں گر زخیا بان تو بر کند ترا صفت سرود گر بارہ دمیدن آموز تاکجا درتہ بال و گراں می باشی در ہوائے چمن آزادہ پریدن آموز اپنی ملت کے ہر فرد اور ہر طبقہ کے لئے شاعر ایک دستور العمل اور ایک نصب العین پیش کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ اس کی بلند آہنگی، عوام و خواص کی کمزوریوں اور مشکلات کو نظر انداز کر دیتی ہو کتنا ہی کمزور اور بے عمل کوئی فرد ہو شاعر نے اس کی اہلیت کے اندازہ سے اس کے لئے ایک راہ عمل تجویز کر دی ہے۔ ’’ خلوہ کدہ غنچہ‘‘ کے آسودہ مکیں نسیم سحر کے جھونکوں کے ساتھ اپنی خلوت سے نکل چلیں۔ اگر وہ باد تندو گرم سے گھبراتے ہیں! جو کمزور انسان شبنم کی افتادگی اپنی فطرت میں رکھتے ہوں وہ کم از کم ’’ داغ دل لالہ‘‘ سے اپنا واسطہ قائم رکھیں۔۔۔ اگر کانٹوں سے گھبراتے ہیں! جو کوئی باغ کے پھولوں میں کانٹے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ کچھ خلش ہی پیدا کرنا سیکھ لے! جو غیروں کے دامن کے سیاہ میں پرورش پا کر بے عمل ہو گئے ہیں وہ اپنے بازوؤں کی طاقت سے اڑنا سیکھ لیں! مگر دوا سب کے لئے وہی ہے، پیام سب کے لئے یکساں ہے۔ البتہ بہ اندازہ اہلیت۔ بہ ہر مرض کہ بہ نالہ کسے شراب دہند! وزن کم و بیش ہے۔ نسخہ وہی ہے! جس کو ہزار طرح سے، ہزار عنوانوں کے تحت میں اقبال نے بیان کیا ہے۔ نہ قید و صید نہنگاں حکایتے آور مگو کہ زورق ماروشناس ورثایت شریک حلقہ رندان بادہ پیما باد حذر زبیعت پیرے کہ مرد غوغا نیست درجہاں مانند جوئے کوہ سار از نسیب وہم فراز آگاہ شو یا مثال سیل نے زنہار خیز فارغ او پست و بلند راہ شو کوئی تشبیہہ، کوئی استعارہ، کوئی اشارہ، کوئی کنایہ، باقی نہیں جس کے اندر اقبال نے اپنا پیام نہ رکھ دیا ہو۔ پھول کی پنکھڑی میں کانٹے میں، دریا کی روانی میں، صحرا کے بگولوں میں، پہاڑ کی بلندی میں، میخانہ کے خم میں، ساقی کے ساغر میں، مغنی کے ساز میں، ساز کے تار میں ہوا میں، آسمان میں آنچہ من در بزم شوق آوردہ ام دانی کہ چیست؟ یک چمن گل، یک نیستاں نالہ یک خمخانہ مے! وہی ایک بزم شوق ہے، وہی ایک شاعر ہے، وہی اس کا پیام ہے!! جب کوئی قوم زندگی کی آسائشوں کو ڈھونڈنے لگے۔ جسم و جان کی راحتوں کو عزیز رکھے، سمجھ لیجئے کہ وہ اب غلام ہے یا بننے والی ہے۔ اس کا طبل جنگ تہی اور اس کا میخانہ حیات خالی ہے۔ شاعر اس داماندہ ملت سے کہتا ہے: مراز لذت پرداز آشنا کردند تو در فضائے چمن آشیانہ می خواہی جنون نہ داری و ہوئے فگندۂ در شہر سبوشکستی و بزم شبانہ می خواہی تو ہم بعشوہ گری کوش و دلبری آموز اگر زمن غزل عاشقانہ می خواہی اے کہ آسودہ نشینی لب ساحل برخیز کہ ترا کاریگر داب و نہنگ است ہنوز از سرتیشہ گزشتن زخرد مندی نیست اے بسالعل کہ اندر دل سنگ است ہنوز تاک خود در گریہ ہائے نیم شب سیراب دار کز در ون او شعاع آفتاب آید بروں ذرۂ بے مایہ ترسم کہ نا پیدا شوی پختہ ترکن خویش را تا آفتاب آید بروں در گز راز خاک و خود را پیکر خالی مگیر چاک اگر در سینہ ریزی آفتاب آید بروں گر بردے تو حریم خویش رادر بستہ اند سر بسنگ آستاں زن لعل ناب آیدبروں لاچاریوں اور مجبوریوں کا علاج بتاتا ہے۔ محرومیوں اور معذوریوں کی دوا پیش کرتا ہے۔ کمزوریوں اور پست حوصلگی کا مداوا لاتا ہے: گرفتم ایں کہ غریبی درہ شناس آ بہ کوئے دوست بہ انداز مجرمانہ گذر غبار گشتہ آسودہ نتواں زیستن ایں جا بہ باد صبح دم در پیچ و منشیں بر سر راہے آشنا اپنی حقیقت سے ہوائے دہقاں ذرا دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا ناخدا تو بحر تو کشتی تو ساحل بھی تو دائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا مے بھی تو مینا بھی تو ساقی بھی تو محفل بھی تو بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے! کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے علاج بتاتا ہے ہمیں بڑھاتا ہے اس طرح کہ گویا بس نہیں چلتا کہ سننے والے کو اپنے ساتھ لے کر ہوا میں بلند ہو جائے! اس کو اپنے علاج پر اتنا وثوق ہے کہ دین اور دنیا کی تمام نعمتوں کو ہر راہ روکے سامنے رکھ دیتا ہے: بانشہ درویشی در ساز و دمادم زن چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن! چو خورشید سحر پیدا نگاہے می تواں کردن ہمیں خاک سیہ را جلوہ گاہے می تواں کردن نگاہ خویش را از نوک سوزن تیز تر گرداں چو جوہر در دل آئینہ را ہے می تواں کردن تو در زیر درختاں ہمچو طفلاں آشیاں بینی بہ پرواز آ کہ صید مہر و ما ہے می تواں کردن غلام ہمت بیدار آں سوار انم ستارہ را بہ سنان سفتہ در گرہ بستند جہد بقا کے میدان میں شاعر اپنی قوم میں ایسے افراد مانگتا ہے جو مہر و ماہ کو شکار کر لیں اور آسمان کے ستاروں کو نیزے کی نوک پر اٹھا لائیں! اقبال زمین کی طرف دیکھتا ہی نہیں۔ اس کی نظر ہمہ وقت آسمان پر ہے! گویا آسمان ہی اس کی زمین ہے! وہ اپنی تمام سینہ کا دیوں اور تراوشوں کو پہلو میں لے کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنا وہی ایک خواب دیکھے جاتا ہے جو اس کو لاکھوں بیداریوں سے زیادہ عزیز ہے۔ اس خواب میں بھی اس کا راگ وہی ایک راگ ہے! مژدہ اے پیمانہ برادر خمستان حجاز بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شراب خانہ ساز دل کے ہنگامے مے مغرب نے کر ڈالے خموش نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش اسی کیف بیخودی میں وہ ’’ بربط عالم‘‘ کو اٹھا لیتا ہے اور اپنی زندگی کا ایک شاہکار شمع و شاعر کے نام سے دنیا کے سامنے پھینک دیتا ہے۔ پڑھ لے جس کو پڑھنا ہو۔ سمجھ لے جو سمجھ سکتا ہو! آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار نکہت خوابیدہ غنچہ کی نوا ہو جائے گی آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک یعنی گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی نالہ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ٭٭٭ مثنویات اقبال اسرار و رموز (علامہ عبدالرحمن مرحوم بجنوری۔ پی ایچ ڈی کے فاضلانہ مضمون کا ترجمہ) از جناب مالک رام صاحب ایم اے (جن لوگوں نے ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری مرحوم کا دیباچہ دیوان غالب (نسخہ حمیدیہ) جو علیحدہ کتابی صورت میں بھی بعنوان ’’ محاسن کلام غالب‘‘ چھپ چکا ہے۔ پڑھا ہے وہ اس سے موصوف کے عمق فکر اور پہنائی خیال کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مرحوم ان لوگوں میں سے تھے۔ جن سے علم و ادب اردو کی بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ بدقسمتی سے اجل نے انہیں فرصت نہ دی کہ وہ کچھ مستقل خدمت زبان کر سکتے۔ انہوں نے سوائے چند مضامین کے کوئی اپنی زیادہ پائیدار یادگار نہیں چھوڑی۔۔۔۔ مگر جو تھوڑا بہت بھی ان کے قلم سے نکلا ہے کافی ہے کہ ہم اس سے ان کے وسعت مطالعہ، وقت نظر اور اصابت رائے کی نسبت ایک صحیح رائے قائم کر سکیں۔ ایک برخود غلط ادیب کی رائے میں دیباچہ مذکور میں ’’ سوائے شرح اشعار کے اور جو کچھ ہے۔ سب واہی تباہی ہے۔‘‘ یہ رائے اردو کے ایک شاہکار مضمون کی نسبت ہے اور ہر شخص کا حق ہے کہ وہ کسی چیز کی نسبت جو رائے چاہے قائم کرے۔ مگر کیا اچھا ہو کہ تنقید اور رائے قائم کرنے سے پہلے جذبہ تنقیص و تنفیح دل سے نکال دیاجائے۔ پندار اور تفاخر کوئی اچھی چیز نہیں اور جب کسی نقاد کے دل میں یہ چیزیں راہ پکڑ لیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے اور رواروی میں ایسے خیالات کا اظہار کر جاتا ہے جو کسی دوسری حالت میں غالباً وہ زبان پر نہ لائے گا۔ اگر ادیب ممدوح نے ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کی ہوتی کہ مضمون لکھتے وقت ڈاکٹر بجنوری مرحوم کی نفسیاتی کیفیت کیا تھی۔ تو شاید وہ اس فیصلہ پر نہ پہنچتے۔ میرے نزدیک اس مضمون میں جو والہانہ جوش دکھایا گیا ہے۔ ان کی دو دو وجہیں ہیں۔ اول غالب سے پہلے اردو زبان کا جو سرمایہ تھا۔ وہ کسی سے مخفی نہیں۔ یہ ایسا پامال اور فرسودہ مضمون ہو چکا ہے کہ اس پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ غالب وہ پہلا شخص ہے جس نے ہمیں بتایا کہ اردو زبان میں ترقی کی کتنی صلاحیت ہے۔ اس میں وسعت کی کتنی گنجائش ہے اور اس میں کیسے کیسے خیالات جدید اور مضامین عالیہ کا اظہار ممکن ہے۔ بجنوری مرحوم کے پیش نظر غالب بھی تھا اور اس کے پیشرو معاصرین بھی انہیں حیرت ہوئی کہ اس آزر کدے میں یہ ابراہیم پیدا کیونکر ہوا ۔ جواب ایک ہی تھا۔ جوہر صالح اور ذہانت خدا داد۔ اس امر نے ان کے دل پر غالب کے تفوق کو منقوش کر دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی قدرتی طور پر کچھ خوش اعتقادی کا شائبہ بھی پیدا ہو گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس مضمون میں مرحوم نے آئینہ غالب میں اپنی شکل دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا اپنا تخیل اتنا بلند اور علم اتنا وسیع تھا کہ لکھ تو وہ رہے تھے دیوان غالب پر تبصرہ لیکن جا بجا اپنی روح اور دماغ کے نقوش کی تعبیر دیوان غالب سے ڈھونڈ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے مرغوبات کو غالب پر چسپاں کر دیا۔ لازماً اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مضمون زیر بحث میں ایسے مبحث بھی آئے ہیں۔ جو نفس موضوع سے بے تعلق سے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ واہی تباہی ہے۔ یقینا اس میں بھی اتنا سامان بصیرت موجود ہے کہ ہم اس سے غالب کی دھندلی تصویروں کو زیادہ اجاگر کر سکتے ہیں اور غیر ممالک کے مصنفین کے ساتھ موازنہ نہ کر کے ایک رائے (خواہ وہ کتنی ہی غیر مکمل کیوں نہ ہو) قائم کر سکتے ہیں۔ مندرجہ ذیل مضمون بھی ڈاکٹر بجنوری مرحوم کے ایک انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے۔ اسرار خودی سب سے اول بار ۱۹۱۶ء 1؎ میں اور رموز بیخودی ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئیں۔ مرحوم نے جب ہی یہ مضمون انگریزی رسالہ ایسٹ اینڈ ویسٹ میں لکھا تھا۔ جب ایک زبان کے خیالات دوسری زبان میں منتقل کئے جائیں تو وہ اپنی شگفتگی اور چستی کا اکثر حصہ کھو بیٹھتے ہیں۔ اس وجہ سے جیسا کہ ناظرین ملاحظہ فرمائیں گے۔ میں نے لفظی ترجمہ سے احتراز کیا ہے۔ مگر کہیں بھی اصل مضمون کی روح کو مسخ نہیں ہونے دیا۔ نوٹ سارے کے سارے میں نے خود بڑھائے ہیں اور کوشش کی ہے کہ متعلقہ اشعار درج کر دئیے جائیں۔ لیکن پھر بھی دعویٰ نہیں کیا جا سکتاکہ ایک مضمون پر کے تمام اشعار دے دئیے گئے ہیں۔ مثنویوں میں ایک ایک موضوع پر طرح طرح سے بحث کی گئی ہے۔ جگہ جگہ نئے انداز سے اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر تمام متعلقہ اشعار درج کرتا تو بلا مبالغہ دونوں مثنویاں ساتھ چھپ جاتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ناظرین اسرار و رموز کا خود غائر مطالعہ کریں اور ان کے مضامین کو سمجھنے کی سعی کریں۔ فقط مالک رام) جب نقد و تبصرہ کا موضوع کوئی زندہ مصنف ہو۔ تو نقاد کے لئے لازم ہے کہ قدم پھونک پھونک کر اٹھائے۔ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ مصنف اور نقاد کے درماین کوئی رنگین پردہ حائل ہو جائے یا قرب مکانی ہی مصنف کے خط و خالی کی تفاصیل کو دھندلا کر دیے۔ ہندوستانی کے اسلامی ادب میں روح کاملاً اعلیٰ کی جانب صعود میرزا غالب کے زمانہ سے بدستور جاری ہے۔ غالب حالی اور اقبال ایک مقدس اقانیم ثلاثہ کے ارکان ہیں۔ غالب نے پس سکون و جمود کا خاتمہ کر دیا۔ جو انحطاط کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے لوگوں کے دلوں میں شکوک پیدا کر دئیے مگر وہ کوئی غیر معقول مشکک نہیں تھا۔ جسے 1؎ اسرار خودی کا پہلا ایڈیشن ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا تھا۔ (ادارہ نقوش) اپنے شک کی صحت پر بھی یقین نہ ہو۔ اس کا شک ایک چنگاری تھی۔ جس نے دنیا میں آگ سی لگا دی۔ دہلی کی سلطنت اس کی شاعری کی متحمل نہ ہو سکی اور اس کی ایک نگاہ نے اسے ملیا میٹ کر دیا۔ حالی نے جس کے خون میں شعراء عرب کی سی گرمی تھی۔ دیکھا کہ دنیا اپنی ظاہری حسن و نمائش کے باوجود تباہی کی طرف جارہی ہے۔ اس نظارہ نے اسے بہت متاثر کیا۔ مگر اس نے اپنے اندر ایک نئی طاقت محسوس کی اس نے غم و یاس کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت کی مسرت کا احساس کیا اور اپنے استاد کی تاخت کر رہ عمارت کے کھنڈرات پر ایک نئی دنیا کی تعمیر ٹھانی۔ اور اسے اپنے سینہ میں نشوونما دی۔ امید کی جھلک نے اسے نئی زندگی دی اور یوں تن مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اقبال کی شاعری اب یاس و قنوط کی زنجیروں سے آزاد ہو گئی ہے۔ اس نے اس میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کر دیا ہے اور نئی عمارت کی متفاؤلی بنیادوں پر قائم کیا ہے۔ اس کا نام وعدہ اور بشارت کا مترادف ہے۔ اس نے زمانہ حاضرہ کے غیر ملکی اثر پر قابو پا لیا ہے جو فضائے ہند پر چھایا جا رہا تھا اور یہ سب کچھ اس نے اس اخلاقی قوت کی مدد سے کیا ہے۔ جس کا منبع اور مبداء خالص اسلامی ہے۔ اس کی روحانی تعلیم نے اس انانیت کو فتح کر لیا ہے۔ جو اس مادی دور کی پیداوار ہے۔ اقبال اسلامی کارواں کا سالار ہے۔ جس کی منزل مقصود حرم محترم ہے۔ اقبال کے ساتھ ادب نوجوانوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور خود ہی جوان ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت اس کی دونوں مثنویوں سے (اسرار خودی و رموز بیخودی) پوری طرح نمایاں ہے۔ ان میں وہ زندگی ہے وہ طاقت ہے جس کے لئے ہماری نئی نسل پرانے غزل گو شعرا کے دوا اوین کو بے سود کھنگالتی تھی۔ مجھے یہ کہنے میں ذرہ بھر باک نہیں کہ اقبال ہمارے درمیان مسیحا بن کر آیا ہے جس نے مردوں میں زندگی کے آثار پیدا کر دئیے ہیں۔ زمانہ پر اس کے پیغام کی اہمیت رفتہ رفتہ واضح ہو گی۔ جو زمانہ حاضرہ کی ان دونوں معرکتہ الآرا نظموں میں پنہاں ہے۔ مثنویاں ایک ایسے غیر فانی کام کا جزو ہیں جو تکمیل کے بعد اسلامی دنیا کے خواب کی صحیح تعبیر ہو گا۔ اقبال کے نظریہ کے مطابق موجودہ اسلامی ممالک کے تنزل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے عمل کی زندگی کی بجائے افلاطونی بے عملی کو اختیار کر لیا ہے افلاطونیت جدیدہ اور حافظ نے ان سے وہ احساس مسرت چھین لیا ہے جو ’’ کچھ کر لو‘‘ کا نتیجہ ہوا کرتا ہے اور اس کی جگہ اس دماغی تفتیش نے لے لی ہے۔ جو ایک تن بیمار کا خاصہ ہے۔ مسلمانوں میں سنگ خارا کی سختی کی بجائے کوئلہ کی سی نرمی آ گئی ہے۔ خوف خدا کی جگہ مخلوق خدا کا خوف ان پر حاوی ہو گیا ہے۔ 1؎ مگر زندگی کا ایک نصب العین بنانے سے سب خوف دور ہو جاتے ہیں ترقی و عروج اسلام کے لئے خدا نے ودیعت کر رکھے ہیں۔ پس توحید الٰہی پر کامل اعتقاد خوف کو زائل کرتا ہے۔ 2؎ اور دل میں وہ عزم صمیم پیدا کرتا ہے جو خلاقی کا طغریٰ ہے۔ حکایت شیر و شہنشاہ 3؎ عالمگیر۔ اندرو قلس اور شیر کی کہانی 4؎ نہیں ہے۔ اسلام کی روح مساوات کی روح نہیں ہے۔ بائیان سلطنت کا خون بائیان مکانات آب و گل سے زیادہ قیمتی نہیں۔ شریعت کے معتوب کے لئے کوئی پناہ نہیں اور جس کا محافظ قرآن کریم ہے۔ اسے خوف سے کوئی واسطہ نہیں۔ 5؎ اقبال ایک محدود زمانہ کے اندر اسلامی نظام کو از سر نو حیات تازہ اور شباب بخشنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بعینہ جس طرح ایک مہوس مادۂ خام سے سونا نکال لیتا ہے۔ وہ موجودہ زمانہ کا ہے مگر اس کی نظر مستقبل پر بھی ہے اور موجودہ زمانہ کا نکتہ چیں بھی ہے۔ ایمرسن6؎ افلاطون پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہملیٹ بالکل افلاطونی ہے۔ اقبال اپنے ہم مذہبوں کو افلاطون کے ہملٹ پن (متشائم پسندی) کے خلاف خبردار کرتا ہے۔ اس متشائم پسندی اور اخلاقی ضعف نے کئی قوموں کو بلندی سے دے ٹپکا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس زمین پر رہیں اور یہاں کے کار کی نکو کاری پر توجہ دیں۔ افلاطون اس پرندہ صبح کی مانند ہے جو ایک اشیری دنیائے خواب و خیال میں پرواز پر قانع ہے۔ برخلاف اس کے اقبال ایک بحری عقاب کی طرح ہے۔ جو بحر حیات کی طوفان خیز موجوں پر سوار ہو۔ اقبال کا فلسفہ خودی اور عمل کا فلسفہ ہے۔ اقبال کو سب سے بڑا اعتراض اس یونانی فلسفی کے مسئلہ عیان پر 7؎ ہے جسے جدید افلاطونیوں نے مرتب کر کے کچھ بنا دیا ہے۔ افلاطونیت جدیدہ پر بدترین ضعف طاری ہے اور وہ ضعف فقدان جذبہ عمل سے ہے۔ ان کا ما بعد الطبیعیات قاطع حیات ہے اور مقصد زندگی کا محو کنندہ۔ کیا یہ تباہی کا راستہ نہیں۔ اقبال کے نزدیک زندگی ایک حقیقت ہے۔ اسلامی زندگی سے بڑھ کر اور کوئی معراج نہیں۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ تحقیق میں زمین پر ایک نائب قائم کرنے والا ہوں۔ 8؎‘‘ اقبال میں جان ہے۔ چستی ہے، خلاقی ہے، قناعت ہے، تفاؤل ہے، خون تازہ ہے، حقیقت پژدہی ہے اور سب سے بڑھ کر اسلام ہے۔ وہ نہیں دیکھ سکتا کہ ملت ابراہیمی دار الفنا میں داخل ہو۔ خواہ اس کا راستہ دکھلانے والا خود افلاطون اعظم ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کی فتادگی اور گو سفندی اسے غضبناک کر دیتی ہے۔ وہ اسے روحانیات اور تصوف جدید پر محمول کرتا ہے۔ یہاں وہ ایک مبازر کی حیثیت میں کھڑا ہو جاتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کا مد مقابل کون ہے؟ وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں۔ وہ حافظ شیراز ہے۔ اقبال کا قلم تلوار سے کم کاٹ نہیں کرتا۔ میرا ذاتی عقیدہ ہے کہ یہ روحانیت یا تصوف بعد کی پیداوار ہے اور ہمارے مذہب کی روح کے منافی ہے۔ اسلام کا اساسی اصول توحید ہے اور تصوف کی بنیاد ہمہ اوست پر قائم ہے۔ توحید مثبت اور ہمہ اوست منفی ہارن کا خیال ہے کہ تصوف جدید تک زرتشتی اور بدھ مت کے خیالات سے متاثر ہے۔ فان کریمر اس میں ویدانت کے آثار دیکھتا ہے لیکن میرے خیال میں صداقت، افلاطونیت جدیدہ آزار و نشو و ارتقا کے بین بین ہے۔ تصوف کے ردیت حق اور افلاطون کے اعیان نامشہور میں مماثلت ہے۔ صوفیوں کا رقص مستانہ در حقیقت نقل ہے۔ افلاطونی روح کی جو ایک متحرک دائرہ ہے۔ اپنے مرکز قدیم کے گرد اور بس اور یہ مرکز خود خدا کے اور کوئی نہیں۔ افلاطونیت جدید اور تصوف جدیدہ دونوں کی تفاصیل اور ظواہر میں بہت حد تک تطابق موجود ہے۔ براؤن لکھتا ہے کہ فلاطینوس9؎ کی تحریرات صاحب9؎ الفہرست اور شہرستانی 11؎ سے مخفی نہیں تھیں۔ اسلام ان تمام بے اعتدالیوں سے پاک ہے۔ خدا رب العلمین ہے اور مادہ کی علت سے مبرا۔ اس کی مخلوق سراب نہیں۔ جس طرح خدا لکڑی اور پتھر سے تراشا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح اس کی رویت بھی مادی یا روحانی آنکھوں سے نا ممکن ہے۔ شیخ احمد سرہندیؒ12؎ اپنے ملفوظات میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ اگر کوئی صوفی یا مجذوب خیال کرتا ہے کہ اس نے خدا کا دیدار کیا ہے۔ چشم ظاہر سے یا چشم باطن سے تو اس نے اپنے واہمہ یا اپنے دماغ کی متصور شکل کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔‘‘ خداوند تعالیٰ بے مثال ہے۔ یکتا ہے اور نظر سے اوجھل ہے۔ خدا تک پہنچنے کا راستہ شریعت کا راستہ ہے 13؎ جدید تصوف کے خیالات باطلہ مغضوب اور ضالین کے راستہ پر چلاتے ہیں۔ اقبال کے فلسفہ کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اسلامی عقائد و شعائر کو افلاطون اور ارسطو کے تاثرات سے آزاد کر دے۔ تاثرات جن کا لازمی نتیجہ رہبانیت و تباہی ہے تصوف جدید رہبانیت ہے۔ یہ اس دنیا کو خواب در خواب مایا یقین کرتا ہے۔ یہ زندگی کے حقائق کا مقابلہ کرنے سے کتراتا ہے۔ اس نے اسلام کی تعلیم عمل کو پس پشت ڈال دیا ہے اور عمل ہی اصل اسلام 14؎ ہے۔ اقبال اپنے ہم مذہبوں کو پھر اسی عمل کی طرف واپس بلاتا ہے۔ اس کی حقیقی روحانی تعلیم، اخلاقی قوت، جوش، فکر، سرگرمی اور عمل میں مضمر ہے۔ مگر وہ حافظ سے کیوں بر سر پیکار ہے؟ اور مولانا جلال الدین رومی کے خلاف صف آرا نہیں ہوتا۔ حالانکہ موخر الذکر تمام متصوفانہ شاعری کا باوا آدم ہے۔ سبب ظاہر ہے صوفی جب اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو انہیں قدرتاً الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں جو عوام کے فہم و ادراک کے مطابق ہوں۔ خیالات خواہ آسمانی ہی کیوں نہ ہوں۔ مگر ذریعہ اظہار خیالات زمینی الفاظ ہوں گے۔ عشق جب مے اور نغمہ کے پردوں میں بیان کیا جائے گا۔ تو عجب نہیں کہ اس سے مادی اور ہیجانی لذات مراد ولی جائیں۔ ستائی، عطار اور رومی باوجود اس کے ایسی زبان میں لکھتے ہیں جو ان کی حقیقی روح کو صاف نمایاں کر دیتی ہے اور ان کی نظموں کو مادی تاویل کے جال میں نہیں پھنسنے دیتی۔ ممکن ہے وہ اپنے ناظرین کو دنیا سے پرے لے جائیں۔ مگر وہ اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاتے۔ برخلاف اس کے حافظ نے ان کے نشہ اور جرعہ میں اصلی شراب ٹپکا دی ہے۔ اس کا دیوان بصیرت سے زیادہ سکر آور ہے۔ بلا ریب سقراط15؎ کی مانند حافظ مخرب اخلاق نہیں۔ تاہم وہ ان کے خراب کرنے میں ممد و معاون ضرور ہوا ہے۔ اس سے بہتوں نے شراب حقیقت کی بجائے شراب مجازی پی ہے۔ اقبال کا حملہ دراصل اس اپیکوری 16؎ رو کے خلاف ہے نہ کہ شعرا کے مادی تصوف جدیدہ پر جیسے کہ نکلسن دیوان شمس تبریز کے دیباچہ میں لکھتا ہے ’’ تصوف جدید کے انحطاط کی انتہا ہے کہ اس نے پیر کو الوہیتی صفات سے متصف کر دیا ہے۔ پیر کے سب دشتم اور بد اخلاقیوں بلکہ اس کے جرائم کی نہ صرف یہ کہ تاویل کی جاتی ہے۔ ان کو متبرک سمجھا جاتا ہے۔۔۔ ایسے نظریوں کا جو برا اثر سادہ لوحوں پر پڑتا ہے اس کے نتائج سے کون آگاہ نہیں۔ یہ دوسری وجہ ہے اقبال اور آج کل کے صوفیوں کے درمیان جنگ کی۔ جب اسرار خودی شائع ہوئی تو بعض صوفی پیر جنہیں روایات باطلہ کی پابندی اور شریعت حقہ سے نا واقفیت کی نمائندگی کا شرف حاصل 17؎ تھا۔ اقبال کے خلاف کھڑے ہو گئے:‘‘ ’’ اسے دار پر کھینچ دو۔ یہ مسلمانوں کو مغربی مادیت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ اقبال کی آواز شور و شغب سے بلند سنائی دی: ’’ جاہل اور برخود غلط! خدا کی شان کہ آج افلاطونی اور ہمہ اوستی مجھے مغربی مادیت کا شائع کرنے والا خیال کر رہے ہیں۔‘‘ آج ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے اہم ترین سوال مسئلہ وطنیت ہے۔ اسلام قید مکانی سے آزاد ہے اور وطنیت بستہ حدود وجہات ہے۔ اقبال بھی اپنے آپ کو اسلام اور وطن کے درمیان گھرا ہوا پاتا ہے اس کی شاعری ان خیالات کی تصویر ہے۔ جو آج ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں میں گزر رہے ہیں۔ وہ میکیا18؎ ولی کو مجرم گردانتا ہے اور اسے ’’ مقامی ریاست‘‘ کے خیال کا بانی قرار دیتا ہے۔ اقبال اور فلار نساوی کو مورد طعن ٹھہراتا ہے جس نے دنیا کی آنکھوں کوخیرہ کر دیا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس کی کتاب الملوک شاہنشاہوں کا لائحہ عمل بنی۔ بلکہ اس لئے کہ اس کی تعلیم دانتے 19؎ اور مارسیس کے ’’ ریاست عالمگیر‘‘ کے خیال کو زائل کرنے اور عیسائیت روما کو حدود اطالیہ میں قیام کرنے پر منتج ہوئی۔ اقبال نہیں چاہتا کہ اسلام ملکوں کی چہار دیواری میں قید ہو کر سخت سخت ہو جائے۔ اقبال کی سیاست اخوت پر مبنی ہے نہ کہ خود غرضی پر۔ مذہب سیاسی زندگی کا حقیقی پاسبان ہے۔ وطن یا ملک ایک عارضی اور جغرافیائی چیز ہے۔ تاریخی حوادث و واقعات اس کے حدود اور نصب العین کو متواتر بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی حیات عارضی ہوتی ہے اور وہ چند صدیوں کے لئے بھی ایک نہج پر قائم نہیں رہتا۔ ریاست عالمگیر مذہبی ہے خدائی ہے، آدرش ہے اور ابدی ہے مگر بایں ہمہ اقبال یہ نہیں کہتا کہ حب وطن حب الایمان کی نقیض ہے۔ کل میں جزو ہوتا ہے۔ عالمگیر اخوت میں حب وطن پوشیدہ ہے۔ اسلامیان ہند کے رایت پر دو نشان ہیں اسلامیت محض اور وطنیت اور دونوں زندگی کی ایک ہی منزل کی جانب راہ نمائی کرتے ہیں۔ اگرچہ راہیں الگ الگ ہیں۔ 20؎ در حقیقت اقبال میں مذہب کے غائر مطالعہ اور عمیق جذبہ حب الوطنی کا امتزاج کامل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کا سیاسی مطمح نگاہ اس کے بلند مذہبی نصب العین کے ماتحت ہے۔ سیاسی نقطہ خیال اور مذہبی مقصد نظر کے اختلاط نے اس کے سیاسی فلسفہ کو ایک نئی حیثیت دے دی ہے۔ فریڈرک نیٹشے21؎کے خیال میں فن کی دو شکلیں ہیں ۱۔ اپالونی ۲۔ ڈایونیسنی اپالونی پر وقار اور سنجیدہ تفکر ہے۔ ڈایونینسی طوفان اور ہیجان کا دوسرا نام ہے۔ نیٹشے کا ’’ارشادات زرتشت‘‘ جو عہد حاضر کے جرمنی کا شاہکار ہے بلحاظ ہر دو موضوع اور طرز تحریر ڈایونینسی ہے۔ اسرار خودی اور رموز بیخودی بھی جو دونوں اسلام کی حیاۃ ثانیہ کے نشانات ہیں۔ اسی قبیل سے ہیں۔ کیا اقبال نیٹشے کے زیر اثر ہے؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ اگرچہ وہ ہمیشہ مستعار چیز کو جلا دے کر ایک نئی او رعجوبہ چیز بنا دیتا ہے۔ نیٹشے میں اس کے ماخذ حکایت ’’ الماس و زغال‘‘ (اسرار خودی) سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جو تصنف مندرجہ بالا کی حکایت 29؎ (پتھر و کوئلہ سے ماخوذ ہے) مگر چونکہ اقبال نیٹشے سے بزرگ تر شاعر ہے۔ اس نے پتھر کو اس طرح کاٹا اور صیقل کیا ہے کہ الماس اس کا اپنا بن گیا ہے۔ نیطشے کی طرح اقبال بھی حریت فکر و فعل کا حامی ہے۔ اس نے نوجوانوں کو مقابلہ کرنے کی جرأت سے سرفراز کیا ہے۔ اس کی حیات افروز مثنویوں کا جو حیرت انگیز اثر ہوا ہے وہ شاندار مستقبل کا پتہ دیتا ہے ’’ میں اس طرح مرد و عورت کو چاہتا ہوں ایک جنگ کے قابل اور دوسری امومت کے لائق‘‘ نسائیت اقبال کے نزدیک امومت کے ہم معنی 22؎ ہے۔ اے لوگو! ڈرو اپنے خدا سے جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا اور تمہارے جوڑے پیدا کئے۔ اور پھر ان دونوں سے کئی مرد اور عورتیں پیدا کیں۔ 23؎ اور نسائیت کے لئے اسوۂ کاملہ حضرت فاطمتہ الزہراؓ ہیں۔ وہ دخت رسول ؐ ہیں۔ بتول علیؓ اور ام حسینؓ شہید کربلا ہیں جب شاعر کی آنکھ عورت پر پڑتی ہے تو وہ اس سے پرے خاتون جنگ کو دیکھتا ہے حضرت فاطمہؓ کی آنکھیں دن رات اپنی اولاد کو دیکھتی ہیں اور اسلامی دنیا پر بارش ضیا نور کر رہی ہیں۔ 24؎ عفت و عصمت مستورات وہ بنیادی پتھر ہیں۔ جس پر مذہب اور سیاست کی دیواریں قائم ہیں۔ آج کل کی نام نہاد آزاد عورت جو ایک محدود خاندان میں یقین رکھتی ہے۔ سلطنت کے زوال اور مذہب کے ادبار کی نشانی ہے 25؎۔ اقبال نے ایک نہایت اہم سوال کو چھیڑا۔ مگر اس نوی بحث کو طول دینے سے احتراز کیا اور اس کے جملہ پہلوؤں کو منظر عام پر لانے کی بجائے خاموشی اختیار کر لی۔ بہت پر لطف ہو اگر وہ نسائیات کے بعض مسائل کی توضیح کر دیں۔ مثلاً مرد اور عورت کے لئے غیر مساوی شرائط نکاح یا پھر فقہائے قدیم کے اصولوں کی کوئی نئی تاویل و توجیہہ پیش کریں۔ اقبال بعض معاملات میں رسو26؎ کی مانند ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پھر سے عہد نبوی کے شاندار شب و روز آ جائیں۔ اس کے تمام خیالات اسی ایک خواب کی تعبیر ہے۔ روسو فطرت کی طرف جانا چاہتا ہے۔ اقبال دشت حجاز پر مٹا ہوا ہے۔ اس کا دل دکھتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ مسلمان تہذیب حاضرہ کے تصنع اور چمک دمک سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں۔ جس میں سطحگی اور تعیش کے سوا کچھ نہیں۔ اسلامی روایات عربی ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے شریفانہ جذبات اور قدرتی فطانت کو برقرار رکھنا چاہئے۔ یورپ کی نقل کسی طرح سود مند نہیں ہو سکتی جیسا کہ ایرانی اوضاع و اطوار نے ماضی میں کچھ فائدہ نہیں پہنچایا۔ غیر ملکی خیالات کا مبالغہ آمیز اور غلانہ تتبع ہر ایک قوم کے لئے مہلک ثابت ہوا ہے۔ 27؎ لیکن اسلامی سوسائٹی ان پرانی روایات پر پھر سے کیسے قائم کی جا سکتی ہیں’’ تاریخ قوم کے لئے وہی کام دیتی ہے جو حافظہ فرد کے لئے۔‘‘ مسلمانوں کی تمام حیات ماضی ان کے تمام محسوسات و مزعومات عزائم اور کامیابیاں۔ اس دن سے جب ان میں قومی و مذہبی زندگی کا احساس پیدا ہوا۔ اوراق تاریخ میں غیر فانی طور پر محفوظ ہیں اور تاریخ کو اپنے آپ کو دہرانا چاہیے۔ 28؎ زندگی کو سادہ بناؤ۔ اس میں جھوٹے تصنع، فرقہ وارانہ خیالات اور غیر مخلصانہ و خود غرضانہ خواہشات کا گذر نہ ہو۔ اخلاقی دماغی اور سیاسی بزدلی جو آج اسلام کی انفرادی حیثیت کی جڑیں کاٹ رہی ہے۔ اسے دور کرو۔ اس کے معنی رجعت قہقری نہیں۔ مصلح کا کام ماضی کے شاندار عہد کی جانب رہنمائی کرنا ہے۔ اس سے مراد سادہ اخلاق، زندگی پر ایک مردانہ نظر اور عرب کی شجاعانہ جانبازی کے ذریعہ مسلمانوں میں مذہبی عصبیت پیدا کر کے ان کے دلدر کاٹنا ہے۔ اقبال کا مقصد یہ ہے کہ ہر طرح کی بزدلی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکوں۔ جب مثنویوں کا علم کلام ہر جگہ سمجھ میں آ جائے گا۔ تو تمام اسلامی دنیا میں وہ لہر چلے گی۔ جس کا نتیجہ نہایت شاندار ہے۔ اقبال ایک پیغمبر ہے۔ وہ اسلام کے شاندار اور بے نظیر زریں ماضی اور مستقبل میں اس کی معاودت کا نظارہ کرتا ہے۔ مگر وہ مستقبل ایسا ہے۔ جیسے اس کے ہر طرف دھند چھائی ہے۔ اگرچہ دھند گہری نہیں ہے۔ بعض دفعہ اس ملک میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آخر مثنویوں کو اردو کی بجائے فارسی میں لکھنے سے کیا فائدہ مرتب ہو گا؟ اقبال ان لوگوں میں سے ہے جو گاہے گاہے ایک پیغام اور ایک مقصد کے ساتھ منصہ شہود پر آتے ہیں۔ اس کا پیغام تمام اسلامی دنیا کے لیے ہے۔ اس کی مثنویاں بچوں کے مدارس میں سعدی کی گلستاں اور دہلی، کابل، طہران، قاہرہ، قازان ، استنبول، مدینہ اور مکہ کی جامع مسجدوں کے منبروں پر مثنوی مولانا روم کی جگہ استعمال کرنے کے لئے ہیں۔ مثنویاں بحر رمل مسدس مقصود میں لکھی گئی ہیں۔ بحر رمل میں یہ تبدیلی غزل اور مثنوی میں متد اول ہے۔ مثنوی معنوی بھی اسی بحر میں لکھی ہوئی ہے۔ پہلی مثنوی (اسرار خودی) زیادہ حقیقی ہے۔ دوسری (رموز بیخودی) زیادہ تخیلی ہے۔ رموز میں اگر تھوڑی سی حکایتیں اور ہو جائیں تو دماغ پر اس کی بھی وہی حقیقی گرفت ہوتی جو اسرار کی ہے۔ یہ کمی رموز کے نصف آخر میں خصوصاً بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے اور یہ کوئی ایسا نقص نہیں جو مصنف دور نہیں کر سکتا۔ اقبال نے فارسی ادبیات کی جھوٹے اور مصنوعی ادب القدماء سے اصلی ادب القدما کی طرف رہنمائی کر دی ہے۔ صائب کے بعد کے شعراء عہد زریں کی ایک غیر شعوری اور مدھم سی گونج رہ گئے تھے۔ اقبال کا پھر سے اساتذہ قدیم کی روش اختیار کرنا اس وجہ سے ہے کہ وہ بیدل اور اس کے متبعین کی شاعری کے خلاف ہے جو رنگین پردوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ جس میں حسن و کشش تو ہے مگر قوت و عمل نہیں۔ اس کا طرز تحریر مولانا روم کا ہے۔ لیکن الفاظ ایسے ہیں جیسے کسی مرصع تلوار کے دستہ میں موتی جڑے ہوں۔ لیکن باوجود اپنے اس عظیم الشان پیشرو کی تقلید کے اقبال یقینا بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ نو بیدار مشرق کی روح ایک ترجمان کی ضرورت محسوس کر رہی تھی اور اقبال کی شاعری نے اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے۔ اس نے ایرانی شاعری کی داماندہ رگوں میں خون تازہ دوڑا دیا ہے اور حسن صوری کے ساتھ قوت معنوی کے مسئلہ کو حل کر دیا ہے۔ مثنویوں کی زبان بہت پر شوکت ہے۔ لیکن اس مردانگی کے باوجود اس میں لوچ اور لچک ہے۔ آج جبکہ فارسی زبان خود اپنے وطن میں اس قدر بدنما ہو گئی ہے اقبال اس کے شباب کی یاد دلاتا ہے فارسی ادب ایک خطرناک دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف جب خود ایران میں ادبی انحطاط نمایاں ہے۔ دوسری طرف ایک موسیٰ نے اپنے عصا سے چٹان کو ضرب لگائی ہے اور ایک نیا کوثر پھوٹ بہا ہے جو بنی اسرائیل کے بارہ چشموں سے کسی طرح کم نہیں۔ 29؎ ٭٭٭ حواشی 1؎ اس مضمون کو علامہ ممدوح نے ’’ حکایت طائرے کہ از تشنگی بیتاب بود‘‘ اورحکایت’’ الماس و زغال‘‘ میں بیان فرمایا ہے۔ موخر الذکر میں جب کوئی الماس سے پوچھتا ہے کہ باوجودیکہ ہماری پیدائش ایک کان سے ہوئی ہے کیا وجہ ہے کہ تو سرتاج شہنشاہاں ہوتا ہے اور میں انگیٹھی میں جلتا ہوں۔ تیری قدر ہوتی ہے اور میں ہر جگہ ذلیل ہوں۔ گفت الماس اے رفیق نکتہ بیں تیرہ خاک از پختگی گرد دنگیں تابہ پیرا مون خود در جنگ شد پختہ از پیکار مثل سنگ شد پیکرم از پختگی ذوالنورشد سینہ ام از جلوہ ہا معمور شد خوار گشتی از وجود خام خویش سوختی از نرمی اندام خویش فارغ از خوف و غم و وسواس باش پختہ مثل سنگ شو الماس باش می شود از وے دو عالم متنبر ہر کہ باشد سخت کوش و سخت گیر مشت خاکے اصل سنگ اسود است کو سر از جیب حرم بیروں ز دست رتبہ اش از طور بالا ترشد است بوسہ گاہ اسود و احمر شد است در صلابت آبروئے زندگی است ناتوانی نا کسی ناپختگی است (اسرار صفحہ ۶۴) 2؎ تا عصائے لا الٰہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست ہر کہ حق باشد چوجاں اندر تنش خم نگر و دپیش باطل گردنش خوف را در سینہ اورارہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بندزن د اولاد شد می کند از ما سویٰ قطع نظر می نہد سا طور بر حلق پسر بایکی مثل ہجوم لشکر است جاں بچشم او زباد ارزاں تر است (اسرار، صفحہ ۴۷) دوسری جگہ فرماتے ہیں: اے کہ در زندان غم باشی اسیر از نبیؐ تعلیم لا تخزن بگیر ایں سبق صدیق را صدیق کرد سر خوش از پیمانہ تحقیق کرد از رضا مسلم مثال کوکب است در رہ ہستی تبسم برلب است گر خدا داری ز غم آزاد شو از خیال بیش و کم آزاد شو قوت ایماں حیات افزا یدت ورد لاخوف علیھم بایدت چوں کلیمے سوئے فرعونے رود قلب او از لاتخف محکم شود بیم غیر اللہ عمل را دشمن است کاروان زندگی را رہزن است بیم جا سو سے است از اقلیم مرگ اندرونش تیرہ مثل میم مرگ ہر شر پنہاں کہ اندر قلب تست اصل او بیم است اگر بینی درست ہر کہ رمز مصطفی فہمیدہ است شرک را در خوف مضمر دیدہ است (رموز، صفحہ ۱۰۹ تا۱۱۱) یہی مضمون محاورہ ’’ تیر و شمشیر‘‘ اور حکایت ’’ شیر و عالمگیر‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ آخر الذکر کے دو شعر درج ذیل ہیں۔ عشق را آتش زن اندیشہ کن روبہ حق باش و شیری پیشہ کن خوف حق عنوان ایمان است و بس خوف غیر از شرک پنہان است و بس (رموز صفحہ ۱۱۴) ٭٭٭ 3؎ شاہ عالمگیر گردوں آستاں اعتبار دود مان گورگاں درمیان کار زار کفر و دیں ترکش مارا خدنگ آخریں در صف شاہنشہاں یکتا ستے فقر او از تر بتش پیداستے روزے آن زیبندہ تاج و سریر آں سپہدار و شہنشاہ و فقیر صبح گاہاں شد بہ سیر بیشہ باپرستارے وفا اندیشہ سر خوش از کیفیت باد سحر طائراں تسبیح خواں بر ہر شجر شاہ رمز آگاہ شد محو نماز خیمہ بر زد در حقیقت از مجاز شیر ببر آمد پدید از طرف دشت از خروش او فلک لرزندہ گشت بوئے انساں دادش از انساں خبر پنجہ، عالمگیر را زد برکمر دست شہ نادیدہ خنجر برکشید شرزہ شیرے را شکم از ہم درید باز سوئے حق رمیدآں ناصبور بود معراجش نماز با حضور ایں چنیں دل خود نما و خود شکن دار و اندر سینہ مومن وطن تو ہم اے ناداں دلے آور بدست شاہدے را محملے آدر بدست (رموز صفحہ ۱۱۲ تا ۱۱۴) 4؎ اندروقلش اور شیر کی کہانی مشہور ہے: اندروقلس روما کا ایک رم خوردہ غلام تھا۔اس نے ایک غار میں پناہ لی۔ اچانک اس غار میں ایک شیر بھی داخل ہوا اور بجائے غلام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے اپنا پاؤں اس کے سامنے رکھ دیا جس میں کانٹا چبھا تھا۔ غلام نے وہ کانٹا نکال دیا۔ اور شیر چلا گیا۔ بعد میں غلام گرفتار ہوا اور حسب قانون اسے شیر سے کشتی لڑنے کا حکم ہوا۔ حسن اتفاق کہ اس کے مقابل ہی شیر چھوڑا گیا۔ جس کا کانٹا اس نے نکالا تھا۔ جب شیر اس پر جھپٹ کر آیا تو اسے پہچانتے ہی فوراً اس کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے پیر چاٹنے لگا۔ جب حکام نے یہ نظارہ دیکھا تو غلام کو آزاد کر دیا ایک اسی طرح کا واقعہ برطانوی سفیر روما سر جارج ڈیوس کا بھی ہے لیکن طوالت سے خالی نہیں۔ اس لئے چھوڑتا ہوں۔ 5؎مساوات اسلامی کا مضمون نہایت تفصیل سے رموز کے باب رسالت میں درج ہے۔ میں صرف ’’ حکایت سلطان مراد و معمار‘‘ سے چند اشعار درج ذیل کرتا ہوں ۔ بود معمارے زا قلیم خجند درفن تعمیر نام او بلند ساخت آں صنعت گر فرہاد زاد مسجدے از حکم سلطان مراد خوش نیامد شاہ را تعمیر او خشمگیں گردید از تقصیراو آتش سوزندہ از چشمش چکید دست آں بیچارہ از خنجر برید جوئے خوں از ساعد معمار رفت پیش قاضی ناتوان و زار رفت آں ہنرمندے کہ وستش سنگ سفت داستان جور سلطاں باز گفت قاضی، عادل بد نداں خستہ لب کردشہ رادر حضور خود طلب رنگ شہ از ہیبت قرآن پرید پیش قاضی چوں خطاکاراں رسید گفت شہ از کردہ خجلت بردہ ام اعتراف از جرم خود آوردہ ام گفت قاضی فی القصاص آمد حیواۃ زندگی گیرد بایں قانوں ثبات بجند مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگیں تر از معمار نیست چوں مراد ایں آیہ محکم شنید دست خویش از آستیں بیروں کشید مدعی را تاب خاموشی نماند آیہ بالعدل والاحسان خواند گفت از بہر خدا بخشید مش از برائے مصطفیٰ بخشید مش یافت مورے بر سلیمانے ظفر سطوت آمین پیغمبر نگر پیش قرآن بندہ و مولایکے ست بوریا و مسند دیبایے ست (رموز صفحہ ۱۲۳ تا ۱۲۵) 6؎ رالف والڈ ایمرسن (۱۸۰۳ء ۱۸۸۲ئ) امریکا کا مشہور مصنف انیسویں صدی کے اخلاقیات پر اس کی تصنیفات اور تعلیم نے نہایت گہرا اثر ڈالا۔ اس کا فلسفہ خود اعتمادی و خود داری اور اس کا روح کے احکام کی پابندی پر زور دینا بہت موثر ثابت ہوا اور تاحال اس کے خیالات کا دائرہ اثر ترقی پذیر ہے۔ 7؎ راہب دیرینہ افلاطوں حکیم از گردہ گو سفندان قدیم گفت سر زندگی در مرون است شمع را صد جلوہ از افسرون است برتخلیہائے ما فرماں رو است جام او خواب آور و گیتی رباست گو سفندے در لباس آدم است حکم اوبر جان صوفی محکم است عقل خودرا بر سر گردوں رساند عالم اسباب را افسانہ خواند کار او تحلیل اجزائے حیات قطع شاخ سرور عنائے حیات فکر افلاطوں زیاں را سود گفت حکمت او بود رانا بود گفت بسکہ از ذوق عمل محروم بود جان او وارفتہ معدوم بود منکر ہنگامہ موجود گشت خالق اعیان نا مشہود گشت زندہ جاں را عالم امکاں خوش است مردہ دل را عالم اعیاں خوش است آہوش بے بہرہ از لطف خرام لذت رفتار بر کبکش حرام شبنمش از طاقت رم بے نصیب طائرش را سینہ از دم بے نصیب ذوق روئیدن ندارد دانہ اش از تپیدن ے خبر پروانہ اش قومہا از سکر او مسموم گشت خفت و از ذوق عمل محروم گشت (اسرار صفحہ ۳۴تا ۳۶) 8؎ واذ قال ربک للملئکتہ انی جاعل فی الارض غلیفہ (البقر۔ ۳۰) 9؎بہتر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں افلاطون اس کے فلسفہ اور فلاطینوس اور افلاطونیت جدیدہ (اشراق) کی نسبت کچھ تھوڑا سا لکھ دیا جائے کیونکہ یہ لفظ مضمون میں اکثر استعمال ہوئے ہیں۔ (۱) افلاطون (۴۲۹۔ ۳۴۷ ق، م) سقراط کا شاگرد تھا۔ اس کا اصلی نام اسطافلس تھا۔ مگر اس کے چوڑے چکلے سینہ کی وجہ سے سقراط نے اس کا نام افلاطون رکھا۔ اس نے فلسفہ کو تین شاخوں میں تقسیم کر دیا۔ اخلاقیات، منطق (مابعد الطبیعیات) اور الٰہیات ۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے تمام مخلوق کو اپنی شکل پر بنانے کا خیال کیا۔ اس نے پہلے روح کو بنایا جو محسوس اور معقول کے درمیان توصل کا کام دیتی ہے۔ا س روح کے ساتھ اس نے جسد خاکی کو ملایا۔ رو ح جسم کے تین حصوں میں رہتی ہے۔ دماغ دل اور انتڑیاں اور ان سے بالترتیب عقل، حوصلہ اور اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ وہ خدائی کی طرح مادہ کو بھی ازل مانتا ہے۔ اس کے نزدیک تمام علم اپنی انتہا میں واحد اور آزاد ہے۔ خدا تمام چیزوں کا معیار ہے اور اس میں ہی ہمت اور عقل کا اجتماع ہوتا ہے اور قدرت میں جو کچھ اصلی ہے اور جو خیالات و قوانین کا مجموعہ ہے خدا سے نکلا ہے۔ اس کا مسئلہ اعیان نا مشہور شور ہے۔ اس کی کتاب الجمہوریت اردو میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے اور اس کے نصب العین سیاسیات کو واضح کرتی ہے۔ (ب) فلاطینوس (۲۰۳ یا ۲۰۴ میں پیدا ہوا اور ۲۶۲ اور ۲۷۰ کے درمیان فوت ہوا) نے افلاطونیت جدیدہ کو مرتب کیا اپنے خیال میں وہ افلاطون کا شارح اور متبع تھا مگر اس کے خیالات اپنے پیشرو سے کچھ اس قدر مختلف ہیں کہ افلاطون سے ان کی نسبت بھی غلطی ہے۔ فلاطینوس کے فلسفہ کی قدر و قیمت اس کے خیالات کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ بوجہ اپنی تاریخی اہمیت اور بعض انسانی طبائع کے تجزیہ کی وجہ سے ہے۔ فلاطون کے نزدیک عقل میں جو کچھ بہترین اور اعلیٰ ترین ہے۔ اس کا نام خیر ہے۔ فلاطینوس خیر کو تجرید محض خیال کرتا ہے۔ فلاطوں انسانی اخلاق کی معراج عقل انسانی کے ذریعہ تتبع خداوندی قرار دیتا ہے۔ فلاطینوس متبع اور خود صفات اللہ کو بنگاہ حقارت دیکھتا ہے اور انسانی مطمح نظر ادغام بر الٰہ القیین کرتا ہے۔ فلاطینوس کے نظریہ کے مطابق روح اپنے مبدا سے ایسے ہی نکلی ہے جیسے سورج سے شعاعیں اور اب غیر ارادی طور پر اپنے منبع کو دیکھنے کے لئے تگ و دو کر رہی ہے اس حرکت میں اس سے تصور اور تصور سے خیال پیدا ہوتا ہے۔ یہ خیال انسانی روح کا آفرینندہ ۔ مادہ خیر کا زیرین ترین مقام ہے اور اسی کی ارتقائی حالت خیر ہے وہ انسان اور خدا کے درمیان بلا واسطہ تعلق کا قائل ہے۔ 10؎ابو الندیم 11؎ ابوالفتح محمد الشہر ستانی، مصنف کتاب الملل والنحل جس میں مختلف سنی فرقوں کا حال بالتفصیل درج ہے۔ کتاب کا ترجمہ انگریزی میں ہو چکا ہے۔ سال وفات ۱۹۵۳ء مطابق ۵۴۸ھ 12؎ شیخ احمد سرہندی کا لقب مجدد الف ثانی تھا۔ شیخ عبدالوحید 1؎ فاروقی سرہندی کے فرزند ارجمند تھے۔ سرہند ۱۵۶۳ء مطابق ۹۷۱ھ میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے مشہور ولی اللہ خواجہ باقی اللہ کے مرید تھے۔ ان کا یقین تھا کہ ہر ہزار سال کے بعد ایک شخص ایسا پیدا ہوتا ہے جو تمام علوم اسلامیہ میں کامل اور طاقت و شوکت اسلام کا بڑھانے والا ہوتا ہے۔ اور وہ دعویٰ کرتے تھے کہ دوسرے ہزار سال کا مجدد میں ہوں۔ ۱۶۲۴ء مطابق ۱۰۳۴ھ میں وفات پائی۔ مقبرہ سرہند میں ہے۔ 13؎ در شریعت معنی دیگر محو غیر ضرور باطن گوہر مجو ایں گہر را خود خدا گوہر گر است ظاہرش گوہر بطونش گوہر است علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست اصل سنت جو محبت ہیچ نیست فرورا شرع است مرقات یقیں پختہ ترازوے مقامات یقیں ملت از آئین حق گیرد نظام از نظام محکمے خیزد دوام باتو گویم سر اسلام است شرع شرع آغاز است و انجام است شرع شارع آئین شناس خوب و زشت بہر تو ایں نسخہ قدرت نوشت از عمل آہن عصب می ساز دت جائے خوبے در جہاں اندازدت خستہ باشی استوارات می کند پختہ مثل کوہسارت می کند 1؎ مجدد الف ثانی کے والد کا صحیح نام عبدالاحد ہے۔ (ادارہ نقوش) ہست دین مصطفی دین حیات شرع او تفسیر آئین حیات گر زمینی آسماں ساز و ترا آنچہ حق می خوانداں ساز و ترا صیقلش آئینہ ساز دسنگ را از دل آہن ربا ید زنگ را (رموز صفحہ ۱۴۶ تا ۱۴۸) 14؎ فلسفہ عمل علامہ کا بڑا دل پسند موضوع ہے انہوں نے اپنی تمام کتابوں میں اس کی تعلیم دی ہے اور ہر جگہ نئے انداز سے دی ہے اگر جگہ تنگ نہ ہوتی تو دوسری کتب سے حوالہ جات پیش کرتا مگر دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار صرف اسرار و رموز ہی پر اکتفا کرتا ہوں او روہ بھی صرف ایک جگہ سے ضرورت ہے کہ ناظرین کتاب کو خود بہ نگاہ غائر مطالعہ کریں۔ اے زجور چرخ ناہنجار تنگ جام تو فریادی بیداد سنگ نالہ و فریاد و ماتم تاکجا سینہ کوبیہائے پیہم تاکجا در عمل پوشیدہ مضمون حیات لذت تخلیق قانون حیات خیز و خلاق جہان تازہ شو شعلہ در برکن خلیل آوازہ شو یا جہان نا مساعد ساختن ہست در میداں سپر انداختن مرد خود دارے کہ باشد پختہ کار بامزاج او بساز و روزگار گر نہ ساز و بامزاج او جہاں می شود جنگ آزما با آسماں برکند بنیاد موجودات را می دہد ترکیب تو ذرات را می کند از قوت خود آشکار روزگار تو کہ باشد سازگار در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جاں سپردن زندگی ست آزما ید صاحب قلب سلیم زور خود را از مہمات عظیم عشق باد شوار و زریدن خوش است چوں خلیل از شعلہ گلچیدن خوش است حربہ دوں ہمتاں کین است وبس زندگی را ایں یک آئین السب و بس زندگانی قوت پیدا ستے اصل او از ذوق استیلا ستے عفو بیجا سردی خون حیات سکتہ ور بیت موزون حیات ہر کہ در قعر مذلت ماندہ است ناتوانی را قناعت خواندہ است ناتوانی زندگی را رہزن است بطنش از خوف و دروغ آبستن است (رموز ص ۵۴ تا ۵۶) 15؎ سقراط ( ۴۶۹۔ ۳۹۹ ق م) یونانی فلسفی۔ افلاطون کا استاد۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ اپنے نفس کو جانو یعنی اپنی نا واقفیت کا اندازہ کرو۔ روح کی تعریف وہ یوں کرتا ہے۔ ہمارے اندر وہ چیز جو علم بھی رکھتی ہے اور بے علمی بی۔ خیر بھی اور شر بھی اپنی خدا پرستی کی وجہ سے زہر سے ہلاک ہوا۔ 16؎ اپیکورس (۳۴۶۔ ۲۷۰ ق م) یونانی فلسفی اس کی تعلیم کا بنیادی اصول یہ تھا کہ چونکہ خوشی اور غم ہی دنیا کے خیر اور شر ہیں اس لئے فلسفہ کا مقصد اولیٰ حصول مسرت اور انعدام کلفت ہونا چاہیے اس کے نزدیک سکون قلب مبنی بہ مراقبہ، خیر پر منتج ہوتا ہے۔ آج کل جو مشہور ہے کہ اس کی تعلیم ’’ کھاؤ پیو اور خوش رہو‘‘ ہے غلط فہمی پر مبنی ہے۔ نہ اس کی اپنی زندگی ایسی تھی۔ نہ اس نے اس کی تبلیغ ہی کی۔ 17؎ حضرت علامہ نے ایک جگہ ایسے پیروں کی نہایت صحیح شکل کھینچی ہے۔ فرماتے ہیںـ شیخ در عشق بتاں اسلام باخت رشتہ تسبیح از رتار ساخت پیر ہا پیر از بیاض موشدند سخرہ بہر کو دکان کو شدند دل ز نقش لا الٰہ بیگانہ از صنمہائے ہوس بتخانہ می شود ہر مو دروازے خرقہ پوش آہ زیں سوداگران دیں فروش با مریداں روز و شب اندر سفر از ضرورت ہائے ملت بیخبر دیدہ ہا بے نور مثل نرگس اند سینہ ہا از دولت دل مفلس اند واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست اعتبار ملت بیضا شکست واعظ ما چشم بربت خانہ دوخت مفتی دین مبیں فتویٰ فروخت چیست یاراں بعد ازیں تدبیر ما رخ سوئے میخانہ دارد پیر ما (اسرار صفحہ ۷۹) 18؎ میکیاولی (۱۴۶۹ء ۱۵۲۷ئ) اطالوی مورخ و سیاسی وہ فلارنس میں پیدا ہوا۔ اور وہاں مدتوں ریاست میں مناصب جلیلہ پر سرفراز رہا۔ آخر معطل کیا گیا اور اپنے جاگیری بندوبست میں بقیہ عمر بسر کی۔ اس کی ’’ کتاب الملوک‘‘ سب سے پہلے ۱۵۳۲ء میں پوپ کلیمنٹ ہفتم کی اجازت سے شائع ہوئی۔ اس میں اس نے سیاسیات اور اخلاقیات کے درمیان ایک حد فاضل قائم کی اور اس میں زمانہ حال کے کئی سیاسین نے اس کی تقلید کی ہے۔ جو اپنی سیاسی اغراض و مقاصد میں اصول اخلاق کو دخل نہیں دیتے۔ حضرت علامہ اس کی نسبت فرماتے ہیں: دہریت چوں جامہ و مذہب درید مرسلے از حضرت شیطاں رسید آں فلارنساوی باطل برست سرمہ او دیدہ مردم شکست نسخہ بہر شہنشاہاں نوشت در گل مادانہ پیکار کشت فطرت او سوئے ظلمت بردہ رخت حق ز تیغ خامہ او لخت لخت بتگری مانند آزرپیشہ اش بست نقش تازۂ اندیشہ اش مملکت را دین او معبور ساخت فکر او مذموم را محمود ساخت بوسہ تا برپائے ایں معبور زد نقد حق را بر عیار سود زد باطل از تعلیم او بالیدہ است حیلہ اندازی فتے گردیدہ است طرح تدبیر زبوں فرجام ریخت ایں خسک در جادۂ ایام ریخت شب بہ چشم اہل عالم چیدہ است مصلحت تز دیر رانا میدہ است (رموز صفحہ ۱۳۴) 19؎ دانتے (۱۲۶۵ئ۔ ۱۳۲۱) اٹلی کا بزرگ ترین شاعر ہے۔ اس کی ڈیوائن کومیڈی (طربیہ الٰہی) مشور و معروف چیز ہے۔ ا سمیں مصنف نے طبقات علوی کی سیر کا حال بیان کیا ہے۔ اسے اس نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ دوزخ، دار کفارۃ اور جنت وہ خواب دیکھتا ہے کہ میں ایک گھنے جنگل میں جا نکلا ہوں۔ جہاں ورجل (اس سے پہلے کا ایک اطالوی شاعر) کا ہیولیٰ ظاہر ہوتا ہے اور دوزخ اور دارا کفارہ میں اس کی رہنمائی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے دوزخ کے جو نظارے دانتے نے بیان کئے ہیں بلحاظ وقت نظر اعتقاد نامہ اور جزئیات کردار نگاری غالباً بے نظیر ہے اور شاید کسی ایک مصنف کے کلام میں اتنی خوبیاں بیک وقت نہیں ملیں گی۔ دار کفارہ میں نظارے تقریباً وہی ہیں البتہ سزا و عقوبت عارضی ہے۔ جنت سماوی میں اس کا رہبر اس کی معشوقہ بطرس ہے سات طبقوں کی سیر کے بعد وہ آٹھویں طبقہ میں پہنچتا ہے۔ جہاں حضرت یسوع مسیح کو اپنے صاحب عظمت حواریوں کے حلقہ میں دیکھتا ہے۔ نویں طبقہ میں وہ اپنے آپ کو روح کل کی موجودگی میں محسوس کرتا ہے اور ارواح مرحومہ کو ایک لا محدود دائرہ میں تختوں پر بیٹھا ہوا دیکھتا ہے۔ خداوند تعالیٰ خود دسویں طبقہ میں جسے وہ وفور نور کے باعث نظارہ نہیں کر سکتا ان تمام رویائی تجربات کی بنیاد دراصل اعتقاد حسن خیروزشت شر اور محبت کی عالمگیری اور قدرت عظیمہ ہے اور یہ سب کچھ اس جوش و خروش اور صحت کے ساتھ معلوم ہوا ہے کہ الہام معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ مدتوں اس کے ہموطنوں کا یہ خیال رہا کہ یہ تمام حالات الہامی ہیں۔ 20؎ جوہر ما با مقامے بستہ نیست بادۂ تندش بجامے بستہ نیست ہندی و چینی سفال جام ماست رومی و شامی گل اندام ماست قلب ما از ہندو و روم و شام نیست مرز بوم او بجز اسلام نیست زانکہ ما از سینہ جاں گم کردہ ایم خویش را ور خاکداں گم کردہ ایم مسلم استی دل با قلیمے مبند گم مشو اندر جہان چون و چند می نگنجد مسلم اندر مرز و بوم در دل او بادہ گرد و شام در دم عقدۂ قومیت مسلم کشود از وطن آقائے ما ہجرت نمود حکتمش یک ملت گیتی نور و بر اساس کلمہ تعمیر کرد تاز نجششائے آں سلطان دیں مسجد ماشد ہمہ روئے زمیں آں کہ در قرآں خدا اور استود آں کہ حفظ جان او موعود بود دشمنان بے دست و پا از ہیستبش لرزہ برتن از شکوہ فطرتش پس چرا از مسکن آبا گریخت؟ گر گماں داری کہ از اعدا گریخت؟ قصرہ گویاں حق زما پوشیدہ اند معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند ہجرت آئینحیات مسلم است ایں ز اسباب ثبات مسلم است صورت ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قید مقام آزاد شو از فریب عصر نو ہشیار باش رہ فتد اے راہرو ہشیار باش (رموز صفحہ ۱۲۹تا ۱۳۲) 21؎ فریڈرک نیٹشے (۱۸۴۴۔ ۱۹۰۰)جرمن شاعر اور فلسفی لیکن چونکہ وہ اصل شاعر تھا۔ اس لئے اس کے نزدیک فلسفہ بھی زندگی اور فکر کی تنقید ہی ہے۔ اس کے خیال میں تمام مخلوق میں جس میں انسان بھی شامل ہے۔ آرزوئے حیات سب سے زیادہ ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ طاقت حاصل کی جائے اور تمام رکاوٹوں کا قلع قمع کیا جائے۔ جو زندگی کو مشکل بناتی ہے۔ موجودہ انسان مخلوق خداوندی کا منتہائے مقصود نہیں۔ بلکہ جیسے جانور کی ارتقائی صورت انسان ہے۔ ایسے ہی انسان بھی عارضی ہے اور اس کے بعد مکمل انسان (فوق البشر) ہو گا۔ جس میںحسن و طاقت، عقل و اخلاق، قوت ارادی و عمق نگاہ بدرجہ کمال ہوں گے اور ان الفاظ کے معانی بھی ان کے موجودہ مطلب سے کچھ زیادہ وسیع ہوں گے۔ محبت، رحم اور ہمدردی اس کے لئے بے معنی الفاظ ہیں۔ اس کے نزدیک فطرت ان الفاظ سے مبرا ہے اور مندرجہ بالا مقصود کی طرف بغیر دائیں بائیں دیکھے جاری ہے۔ اس طرح گویا اس نے انتہا درجہ کی انفرادیت کی تعلیم۔ دی جس میں زندگی کی محبت مقصد حیات گنا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اشتراکیت اور فوضویت، مساوات سیاسی اور حکومت عوام کالانعام کے سخت خلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جرمنوں کی موجودہ ذہنیت کے لئے بہت حد تک وہی ذمہ دار ہے اور گذشتہ جنگ عظیم کی تہ میں اسی کی تعلیم تھی۔ 22؎ یایھا اس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ و خلق منھا زوجہا وبث منھما رجالاً کثیراً ونساء (ناء ایت۱) 23؎ نغمہ خیز از زخمہ زن سا زمرد از نیاز او دوبالا ناز مرد پوشش عریانی مرداں زن است حسن دلجو عشق را پیراہن است آنکہ ناز دبرو جودش کائنات ذکر او فرمود باطیب و صلوۃ نیک اگر بینی امومت رحمت است زانکہ اور ابا نبوت نسبت است از امومت پختہ تر تعمیر ما در خط سیمائے او تقدیر ما ہست اگر فرہنگ تو معنی رسے حرف امت نکتہ ہا دار و بسے ملت از تکریم ارحام است و بس ورنہ کار زندگی خام است و بس از امومت گرم رفتار حیات از امومت کشف اسرار حیات از امومت پیچ و تاب جوئے ما موج و گرداب و حباب جوئے ما (رموز صفحہ ۱۷۳) 24؎ سیرت فرزند ہا از امہات جوہر صدق و صفا از امہات مزرع تسلیم را حاصل بتولؓ مادراں را اسوۂ کامل بتولؓ بہر محتاجے دلش آں گونہ سوخت با یہودے چادرے خودرا فروخت نوری و ہم آتشی فرما نبرش گم رضائش در رضائے شوہرش آں ادب پروردۂ صبر و رضا آسیا گرداں و لب قرآن سرا گریہ ہائے او زبالیں بے نیاز گوہر افشاندے بد امان نماز اشک اوبر چید جبریل از زمیں ہمچو شبنم ریخت بر عرش بریں رشتہ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفی ست ورنہ گرد تر بتش گردید مے سجدہ ہا بر خاک او پا شیدمے (رموز صفحہ ۱۷۷تا ۱۸۰) اسی سلسلہ میں ’’ خطاب بہ مخدرات اسلام ‘‘ بھی زیر نظر رہے۔ 25؎ آں تہی آغوش نازک پیکرے خانہ پرور نگاہش محشرے فکر او از تاب مغرب روشن است ظاہرش زن، باطن او نازن است بند ہائے ملت بیضا گیسخت تاز چشمش عشوہ ہاحل کردہ ریخت شوخ چشم وفتنہ زا آزادیش از حیانا آشنا آزادیش علم او بارا امومت برنتاخت بر سر شامش یکے اختر نتافت ایں گل از بستان مارا رستہ بہ داغش از دامان ملت شستہ بہ (رموز صفحہ ۱۷۵) 26؎ روسو (۱۷۱۲۔ ۱۷۷۸) ایک عجیب انقلابی دل و دماغ کا مالک تھا۔ فرانس میں جب حکومت نے اس کو جلا وطن کیا تو انگلستان پہنچا۔ یہاں بھی ہوا راس نہ آئی تو واپس فرانس آیا اور عمر تصنیف و تالیف میں گذار دی۔ وہ موجودہ تہذیب و تمدن کے سخت مخالفین میں سے تھا۔ اس کا خیال تھا کہ انسان کی ابتدائی فطرتی حالت بہترین تھی۔ اس میں عجیب طور پر سر گرم جذبہ محبت و رافت کے ساتھ ساتھ تمام قائم شدہ اصول و قواعد کے خلاف سخت مخالفانہ و جارحانہ خیالات کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس کے لئے وہ بھی بہت حد تک ذمہ دار گردانا گیا ہے: 27ــ؎ اے میان کیسہ ات نقد سخن برعیار زندگی ارا بزن فکر روشن بیں عمل را راہبر است چوں درخش برق پیش از تندرست فکر صالح در ادب می بایدت رجعتے سوئے عرب می بایدت دل بہ سلمائے عرب باید سپرو تا دمد صبح حجاز از شام کرد از چمن زار عجم گل چیدۂ نو بہار ہندو ایراں دیدہ اندکے از گرمی صحرا بخور بادۂ دیرینہ از خر مانجور سریکے اندر بر گرمش بدہ تن دمے باصر صر گرمش بدہ (اسرار صفحہ ۴۲) مگر رموز میں اس سے اور بھی صاف اور واضح الفاظ میں فرماتے ہیں: تا شعار مصطفیٰ از دست رفت قوم را رمز بقا از دست رفت آں نہال سر بلند و استوار مسلم صحرائی اشتر سوار آنکہ کشتے شیر راچوں گو سفند گشت از پامال مورسے درد مند آنکہ عزمش کوہ را کاہے شمرد با تو کل دست و پائے خود سپرو کوشش او با قناعت ساز کرد تابہ کشکول گدائی ناز کرد شیخ احمد1؎ احمد سید گرداں جناب کا سب نو راز ضمیرش آفتاب 1؎ حضرت شیخ احمد رفاعی گل کہ می پوشد مزار پاک او لا الٰہ گویاں و مد از خاک او با مریدے گفت اے جان پدر از خیالات عجم باید حزر زانکہ فکرش گرچا ز گردوں گذشت از حد دین نبی بیروں گذشت اے برادر ایں نصیحت گوش کن بندآں آقائے ملت گوش کن قلب رازیں حرف حق گرداں قوی با عرب در ساز تا مسلم شوی (رموز صفحہ ۱۴۸۔ ۱۴۹) 28؎ چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ داستانے قصہ پارینہ؟ ایں تلاز خویشتن آگہ کند آشنائے کار و مرد رہ کند روح را سرمایہ تاب است ایں جسم ملت را چو اعصاب است ایں ہمچو خنجر برفسانت می زند باز بر روئے جہانت می زند شمع او بخت امم را کوکب است روشن از دے امشب و ہم دیشب است چشم پرکارے کہ بیند رفتہ را پیش تو باز آفریند رفتہ را ضبط کن تاریخ را پائندہ شو از نفسہائے رمیدہ زندہ شو سر زانداز ماضی تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو موج ادراک تسلسل زندگی است مے کشاں را شور قلقل زندگی است (رموز صفحہ ۷۳۔ ۳۲۷) 29؎ واذ استسقے موسیٰ لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر فانفجرت منہ اثنتا عشرۃ علینا قد علم کل الناس مشتربھم (البقرۃ ۶۰) ٭٭٭ اقبال اور سیاسیات عالیہ از جناب سید زبیر صاحب ایم اے ہزاروی لٹریچر میں شاعری کا درجہ: ارباب علم نے لٹریچر کو مختلف انواع میں تقسیم کیا ہے۔ آرنلڈ بینٹ کے نزدیک لٹریچر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ نوع ہے جو ہم میں زندگی کے جذبات پیدا کرتا ہے اور دوسری نوع وہ ہے جو ہمیں نئی نئی معلومات بخشتا ہے۔ ایمرسن نے بھی تقریباً اسی انداز میں لٹریچر کی دو قسمیں بتلائی ہیں۔ قوت اور حرکت پیدا کرنے والا لٹریچر اور علم پیدا کرنے والا لٹریچر۔ گیبریل ویلز نے ان میں تفریحی لٹریچر کا بھی اضافہ کیا ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ’’ معلومات‘‘ کے اضافہ کرنے والے لٹریچر میں تاریخ معاشیات، سائنس وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ روح کو تازہ کرنے والے علوم میں مذہب، اخلاق اور فلسفہ شامل ہیں۔ شاعری، ڈراما، رومان وغیرہ تفریحی لٹریچر کی انواع و اقسام میں سمجھے جاتے ہیں۔ شاعری کی ضرورت: شاعری کے ساتھ یہ سلوک صرف گیبریل ویلز ہی نے نہیں روا رکھا۔ بلکہ اس سے پہلے بھی شاعری کو ایک غیر منفعت بخش اور تفریحی شعبہ انسانی سمجھتے ہوئے افلاطون انہیں اپنی رسی پبلک میں جگہ دینے سے انکار کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود شعرا نے بھی افلاطون کے اس فیصلہ کی مختلف طریقوں سے تائید کی ہے۔ میکالے لکھتا ہے۔ ’’ غالباً کوئی شخص شاعر نہیں بن سکتا۔ یا شعر کا لطف نہیں اٹھا سکتا۔ تاوقتیکہ اس میں تھوڑا سا جنون نہ ہو۔‘‘ سب سے بڑا اعتراض جو شاعری کے خلاف پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک بیکار جنون ہے جس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ خود مولانا حالی نے اسی بناء پر شاعروں کی مذمت کی ہے اس میں شک نہیں کہ مولانا حالی جس زمانے میں گذرے ہیں اس میں شاعری صرف الفاظ کی الجھنوں، قافیہ و ردیف کی بحثوں اور گل و بلبل کے قصوں سے لبریز تھی اور فطرت انسانی کی عمیق گہرائیوں اور حقائق عالیہ کی وسیع نکتہ آفرینیوں سے بالکل خالی تھی۔ دہلی اور لکھنو کی گلیوں میں بجز شعر و شاعری، نوجوانوں کا کوئی مشغلہ ہی نہ تھا حالانکہ قوم ایک انحطاط کے دور میں سے گذر رہی تھی اور ظاہر ہے کہ ایسے وقت میں شعر و شاعری کی بجائے زندہ اور عملی علوم کی ضرورت تھی۔ لیکن ان واقعات کی بناء پر نہ تو تمام شعراء کے خلاف ایک قلمی جہاد کی ضرورت ہے اور نہ یہ کہنے کی کہ شاعری کا دنیا میں کوئی فائدہ ہی نہیں۔ سر جان لیوبک نے کیا خوب لکھا ہے کہ: ’’ رفاہ عام کے نقطہ نظر سے یہ کہا جاتا ہے کہ سوسائٹی میں اکثریت کے فائدہ عام پر نظر ہونی چاہیے۔ تو اس اصول کے ماتحت شاعری کو بھی شمار کرنا چاہیے جو انسانوں کے کثیر حصے کے لئے غموں کی گھڑیوں میں تفریح کا سبب بنتی ہے اور ان میں نئی زندگی اور نئی قوت پیدا کرتی ہے۔‘‘ سر فلپ سڈنی نے ایک دفعہ افلاطون کے غیر منصفانہ فیصلہ کے خلاف احتجا ج کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’ اگر تم شاعروں کے وجود کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ تو میں تمہیں اس حالت کے متعلق تمام شاعروں کی جانب سے متنبہ کرنا چاہتا ہوں۔ جبکہ تم کسی کی الفت میں گرفتار ہو۔ لیکن ایک شعر بھی نہ لکھ سکو اور جب تم اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ تو تمہاری یاد بھی تمہارے ساتھ رخصت ہو جائے۔ کیونکہ تمہاری قبر پر کوئی کتبہ نہیں ہو گا۔‘‘ ہمارا شاعر: ہم جس زمانے میں گذر رہے ہیں اس میں بیسیوںشاعر موجود ہیں جن میں ایک شخص ’’اقبال‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس کے اشعار پر خاص و عام کی زبان پر موجود ہیں۔ اگرچہ قوم مردہ ہو چکی ہے لیکن پھر بھی اس کی ترنم ریزیاں صدائے قم بن کر بعض بے جانوں میں حرکت پیدا کر رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے اقبال شاعر ہے، کوئی کہتا ہے اقبال حکیم فلسفی ہے، کوئی کہتا ہے اقبال سیاست و مدنیات کا علمبردار ہے۔ اس کے خلاف ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ اقبال نہ شاعر ہے نہ فلسفی ہے۔ نہ سیاست کا مرد میدان ہے۔ بلکہ بعض جانباز تو یہاں تک کہہ اٹھتے ہیں کہ وہ تو مسلمان بھی نہیں ہے۔ میں ان سب کے جواب میں صرف ایک بات کہتا ہوں اور وہ یہ کہ اقبال نہ شاعر ہے نہ فلسفی ہے نہ سیاستدان نہ ماہر مابعد الطبیعیات بلکہ وہ ایک ’’ مرد خود آگاہ‘‘ ہے۔ جسے عوام کی زبان میں مسلمان کہا جاتا ہے۔ شاعر اس لئے نہیں کہ اس کے کلام میں مروجہ شاعری کے بہت کم عناصر پائے جاتے ہیں۔ فلسفی اس لئے نہیں کہ وہ شک و گمان کا دشمن ہے۔ بلکہ ایمان و ایقان پیدا کرنا چاہتا ہے۔ سیاست داں اس لئے نہیں کہ وہ سیاسیات کے اولیں میدان میں ہی ناکام رہ چکا ہے۔ یہ خلاف اس کے وہ ایک مسلمان ہے جس کی شاعری جس کا فلسفہ جس کی سیاست سب اسلام کے گرد جمع ہو جاتی ہیں اور جس کا منتہا و مقصود صرف یہ ہے کہ دنیا میں فطرت کا مسلک عام ہو جائے اور لوگ وقت ضائع کرنے سے پہلے تھوڑے ہی وقت میں اس نکتے کو پالیں کہ دنیا میں اسلام ہی ’’ فطرت کا مسلک‘‘ ہے اور اس میں جو رحجانات اور امیال پنہاں رکھے گئے ہیں ان ہی میں دنیا کی نجات ہے اور بدیر و بز ود زمانہ ان کی طرف پلٹے گا۔ جب اقبال کا مشن دنیا میں یہ ہو تو کیا ہم اقبال کو حالی کے سے شعراء میں شمار کر سکتے ہیں؟ اقبال اور سیاسیات: اقبال کے اس شذرے میں ہم اقبال کو اس کے سیاسی افکار کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ سیاسیات عالیہ کے بعض اہم مباحث کے متعلق اقبال کی کیا رائے ہے؟ اقبال کو سیاست کے میدان میں لانے سے بعض لوگوں کو ضرور رنج ہو گا اور وہ فی الفور یہ کہہ اٹھیں گے کہ اقبال کے قول و عمل میں بہت تفاوت ہے جیسا کہ بمبئی کرانیکل کے نمائندے نے بھی حضرت علامہ سے ایک انٹرویو میں کہہ دیا تھا۔ لیکن تمام معترضین کو یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے تو جناب ممتاز حسن1؎ صاحب کے قول کے مطابق قوموں کو عمل پر ابھارنے والا قول بھی تو حسن علم سے کم نہیں۔ 1؎ انہوں نے حال ہی میں ہمایوں میں ایک بے نظیر مضمون اقبال پر لکھا جس کا عنوان ہے ’’اقبال پیغمبر کی حیثیت سے‘‘ اقبال اور گوئٹے: اس کے علاوہ اگر ہم دنیا کے بعض عظیم الشان مصلحین کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں۔ تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ان میں سے اکثر ہنگامہ ہائے حیات سے دور رہنے کے باوجود اپنی اپنی جماعتوں میں زندگی پیدا کرنے کا بہت بڑا سبب بنے رہتے ہیں۔ والنٹیر روسو، گوئٹے یورپ کے مجتہدین فکر میں سے شمار ہوتے ہیں۔ ان کے خیالات نے فرانس اور جرمنی میں انقلابات عظیم پیدا کئے۔ لیکن یہ کام زیادہ تر انہوں نے اپنی تحریروں سے لیا جہاں تک وطنیت کا تعلق ہے گوئٹے وطن پرستی کا مخالف تھا اور امن و امان میں رہنے کی عادت کو پسند کرتا تھا۔ اس کا ایک سوانح نگار لکھتا ہے: ’’ وہ امن کا فرزند تھا اور اپنی زندگی کے کسی حصے میں بھی وہ ہنگاموں میں آنے کو پسند نہ کرتا تھا وہ ریفارمیشن کو بہت برا سمجھتا تھا۔ کیونکہ اس کے ذریعے ارتقا کا پر امن عمل رک گیا۔ گوئٹے ہنگامی واقعات سے بہت کم متاثر ہوتا تھا۔ اور بیرونی زندگی کے حوادث سے چنداں سروکار نہ رکھتا تھا۔ اس کا فکر کرنے والا دماغ، حیات کی اندرونی گہرائیوں تک جانے کا شیدا تھا اس کے خلاف یہ اعتراض پیش کرنا کہ وہ سیاست کے ہنگامی واقعات میں حصہ کیوں نہ لیتا تھا۔ اس بات کے مترادف ہے کہ ہم وزیراعظم کو یونانی آرٹ اور علوم میں دلچسپی نہ لینے کے لئے مطعون کریں۔ یہ کہا گیا ہے کہ گوئٹے سیاسیات سے الگ ہو کر آرٹ اور سائنس کے میدان میں پناہ گزین اس لئے ہوا کہ اس میں دوسروں کے معاملات میں حصہ لینے کی بجائے خود غرضی کا مادہ بہت تھا لیکن یہ اعتراض بیہودہ اور بے سروپا ہے کیونکہ خود سیاسیات بھی ایک خود غرضی کا ہی کھیل ہے۔۔‘‘ اقبال نے ہمیشہ اپنے آپ کو گوئٹے کا ہمنوا اور ہم مشرب قرار دیا ہے جہاں تک ہنگامی حوادث میں شامل ہونے کا تعلق ہے۔ یہ دونوں یکساں معلوم ہوتے ہیں۔ البتہ اقبال نے ایک مصلح اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا کی سیاسیات کی خامیوں کی اصلاح کرنے اور انہیں فطرت اللہ کی سیاسی حقیقتوں کی جانب مائل کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا۔ اقبال کی شاعری کو ہم سیاسیات سے بالکل الگ نہیں کر سکتے۔ جس طرح کہ ڈانٹے کو فلارینس کی سیاسیات سے جدا رکھنا محال ہے۔ اقبال کا سرچشمہ فیوض: اقبال اسلام کا فرزند ہے جس زمانے میں وہ پیدا ہوا اس میں اسلام کی سیاسی قوت کامل طور پر روبہ انحطاط ہو چکی تھی ۔ مسلمانوں کے قلب نت نئے صدموں سے پاش پاش ہو رہے تھے وطنی اور غیر وطنی دشمنوں کی یورشیں ان کے حوصلوں کو پست کر چکی تھیں اور کوئی نہ تھا۔ جو ان کی رگوں میں پھر زندگی کے خون کو حرکت دے۔ غالب مرحوم کی آنکھوں کے سامنے دلی برباد ہو گئی۔ لیکن حالات کا اقتضا تھا کہ انہوں نے صرف اے تازہ واردان بساط ہوائے دل پر اکتفا کیا۔ حالی نے مسلمانوں کے ذہنی امراض کی طرف توجہ کی۔ مولانا شبلی اگرچہ قافلہ سالار تھے اور ان کے نغموں نے پہلے پہل جمود و سکون کی خاموشی میں جنبش پیدا کی لیکن ان کا میدان ’’ تاریخ‘‘ تھا قدرت کو یہی منظور تھا کہ یہ کام سیالکوٹ کے جواں عمر اور روشن دل فلسفی کے ہاتھ سے ہو۔ چنانچہ یہی ہوا اور آج کون ہے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کے بڑے بڑے علمبردار اقبال سے متاثر نہیں ہوئے؟ اقبال بطور ایک سیاسی مفکر کے سیاسی مفکر کی حیثیت سے ’’ اقبال‘‘ کے خلاف ایک زبردست اعتراض یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا مسلک تبدیل کرتا ہے اور ہر عشرہ کے بعد اس کے خیالات میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو جاتا ہے۔ کبھی تو وہ کہتا ہے: اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا کبھی وہ چاہتا ہے کہ دیر و حرم کی قیود سے آزاد ہو کر ایک نیا شوالہ تعمیر کرے۔ خود اس میں پجاری بن کر بیٹھے اور دوسروں کو بھی اس نو ساختہ صنم کرے میں آنے کی دعوت دے لیکن کبھی یہ عالم ہے کہ وطنیت کو لعنت قرار دیتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے: اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے پھر سرمایہ و محنت کی جنگ چھڑتی ہے تو مزدور کی حمایت میں آواز بلند کرتاہے اور اسے ’’سرمایہ دار حیلہ گر‘‘ کی عیاریوں سے متنبہ کرتا ہے۔ ارتقا کی کار فرمائیاں: حقیقت یہ ہے کہ اقبال زندگی کے احساس میں ارتقا کے قانون کا تابع رہا ہے۔ پیغمبر اور شاعر میں یہی فرق ہے کہ پیغمبر فطرت کے اسرار سے قبل از وقت خبردار کیا جاتا ہے لیکن شاعر واقعات سے متاثر ہوتا ہے اس کے نتائج و استنباط کے موجود فی الخارج بستی کی ضرورت ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ شاعر کا احساس عوام الناس سے تیز تر ہوتا ہے اقبال یورپ جانے سے پہلے ہندوستانی میں وطنیت کے غلغلوں سے بہت متاثر تھا۔ لیکن مغربی زندگی اور مغربی جمہوریت کے عیوب اس پر مشاہدہ کی بنا پر نمایاں ہوتے گئے۔ تفریح کی ظاہری دلبستگیاں لاکھ باصرہ فریب ہوں۔ لیکن حقیقت میں نگاہیں پس پردہ جب نظر اٹھا کر دیکھتی ہیں تو انہیں ’’ اندرون قہر خدای عزوجل‘‘ کا مصداق معلوم ہوتا ہے نیشنلزم کی ظاہریت اپنے اندر بے شمار اعلیٰ دلائل خوبی پنہاں رکھتی ہے لیکن دول یورپ کی ہوس کاریاں اور نیشنلزم سے متاثر اقوام کی تباہ کاریاں ایک حساس قلب کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ اقبال نے جب نیشنلزم کے سرچشمہ اولین کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اسے اس کا پانی گدلا، بدبودار اور ناصاف نظر آیا۔ فی الفور اس کی نگاہیں ایک بلند ترین منتہا اور اعلیٰ ترین آئیڈیل کی جانب اٹھیں اور وہ اسلام کا پرستار حقیقی بن گیا۔ اقبال کی بت شکنی:ـ اقبال کی ایک قابل الذکر خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی افکار میں ’’ بت شکن‘‘ واقع ہوا ہے وہ مروجہ خیالات کے طلسم باطل کو توڑتا ہے اور ان اوہام و خرافات کے تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ جو انسانی اذہان کے مطلع کو مکدر کئے ہوئے ہیں خواہ اس کام میں اسے بڑے متقدمین و متاخرین کے مقابلے میں بھی کیوں نہ کھڑا ہونا پڑے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اقبال تمام افکار و اعمال کو اسلام یا فطرۃ اللہ کے معیار اور نکتہ نگاہ سے دیکھنا چاہتا ہے اور اس یقین و ایمان کے لئے کہ فطرۃ اللہ عین اسلام ہے فلسفیانہ اور حکیمانہ دلائل و براہین بھی اپنے پاس رکھتا ہے عقل و عشق کی جنگ میں عشق کی گیرائی اور قوت تسخیر میں کامل یقین جہاد کی حقیقی غرض و غایت اور اس کی ضرورت حکومت کے مختلف طریقوں میں اسلامی طریق حکومت کا انتخاب نیشنلزم کے بجائے انٹرنیشنلزم کا عقیدہ اور اس طرح کے سینکڑوں مسائل ہیں جن میں ہمیں اقبال یورپ کے بڑے بڑے فلسفیوں اور حکیموں کے سامنے صف آرا نظر آتا ہے۔ اقبال کا ذہن منفعل اور مرعوب نہیں کہ وہ میرنی، کارل مارکس، نیٹشے، روسو، برگسان اور ہیگل کے پر ہیبت ناموں سے مرعوب ہو جائے۔ وہ ان میں سے بعض کے ساتھ اتحاد کرتا ہے اور ان کو ساتھ لے کر مخالفین پر حملہ کر دیتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اس کے پاس معیار صرف ایک ہے اور وہ صرف ’’ فطرۃ اللہ‘‘ ہے۔ جمہوریت: فرد و ملت کے تعلقات ملت کے ربط و ضبط کے آئین، قوموں کے انحطاط و اضمحلال کے اسباب بہت حد تک سیاسیات معاشی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن سے اس وقت بحث نہیں۔ میں صرف بعض سیاسی مباحث کو لیتا ہوں۔ جن کے متعلق یورپ کے علما و فضلا میں زبردست نزاع موجود ہے۔ سب سے اہم مسئلہ طرز حکومت کا ہے۔ علماء یورپ کا ایک گروہ ’’ جمہوریت‘‘ کو بہترین طرز حکومت قرار دیتا ہے اور اس عقیدے کے لئے اس کے پاس دلائل موجود ہیں اس کے خلاف دوسرا گروہ ہے جو جمہوریت کو بھی استبداد کی ایک نئی شکل قرار دیتا ہے۔ اقبال اس دوسرے گروہ کے ساتھ متفق ہے: متاع معنی بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی زموراں شومئے طبع سلیمانے نمی آید گریز از طراز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خرفکر انسانے نمی آید (پیام مشرق) ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طلب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو! دنیا میں آج تک کوئی جمہوریت، حقیقی صورت میں قائم نہیں1؎ ہوئی۔ افلاطون نے جس ری پبلک کا خاکہ کھینچا ہے۔اسے 1؎ Himnan nature in Politics. p. 7. صرف خیال و تمثیل کا درجہ حاصل ہے اور جہاں عمل میں اس کے لئے کوئی مقام نہیں دنیا میں آج تک مساوات، آئین اور برادری کی جتنی آوازیں اٹھی ہیں۔ وہ کمزوروں کی آوازیں تھیں جو غلبہ حاصل کرنے کے ساتھ ہی استبداد کی جانب مائل ہو گئیں۔ فرانس کا انقلاب بڑے بڑے خوش کن و عادی اور دل پسند اصولوں کے اعلان کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ جمہوریت اور آئین پسندی، فطرت انسانی کے سامنے دب گئی۔ خود اس زمانے میں اٹلی، ترکی، روس اور دوسرے ممالک میں اس فطری حقیقت کا اعادہ ہوا۔ جمہوریت بہترین طریق حکومت نہیں بلکہ اس کے ذریعے ’’ ناقابل اداروں‘‘ کا رواج عام ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ خدا کی ساری مخلوق یکساں طور پر پبلک امور کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ پس اس کا اثر ان کے انتخاب پر پڑتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ انتخاب میں آ جات ہیں جو قابل ہونے کے بجائے، ووٹروں کو خوش رکھ سکتے ہوں او ریہ حکمرانی اور انتظام امور عامہ کے لئے کوئی خاص وصف نہیں۔ جمہوریت کے ماتحت جو تہذیب فروغ پذیر ہوتی ہے وہ اعلیٰ نہیں ہوتی اور قوم میں غیر معمولی قابلیت کے لوگ نہیں پیدا کر سکتی۔ جمہوریت میں اپنی ترقی اور ذاتی خلو و منفعت کا جذبہ بہت ترقی پذیر ہو جاتا ہے اور سب سے زیادہ موثر خود علامہ اقبال کی دلیل ہے کہ ’’از مغز دو صد خرفکر انسانے نمی آید1؎‘‘ روسواور جمہوریت: روسو2؎ کا قول ہے کہ جمہوری طرز کی کامیابی کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ تمام پبلک قابل اور تعلیم یافتہ بن جائے۔ چنانچہ اسی سلسلے میں لکھتا ہے کہ ’’ اگر دنیا میں دیوتاؤں کی قوم ہوتی تو اس کے لئے جمہوری طرز حکومت بہت مناسب ہوتی۔ لیکن ہم انسانوں کے لئے ایسا ’’ مکمل ‘‘ نظام کچھ سازگار نہیں‘‘ روسو کہتا ہے کہ ’’ دنیا میں نہ کوئی جمہوریت قائم ہوئی ہے نہ اب ہو سکے گی یہ قانون قدرت کے خلاف ہے کہ اکثریت حکمرانی کرے اور اقلیت محکوم رہے۔‘‘ دنیا میں کوئی طرز حکومت، خانہ جنگیوں، سازشوں اور فرقی بندیوں کا اتنا بڑا مرکز نہیں ہوتی جتنا کہ جمہوریت میں اس کے امکان موجود ہیں۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ انسان کو محکوم رہنے کی عادت ہے اور انسانی جماعتیں اپنے لئے خود نئے نئے بت تراش لیتی ہیں۔ موسیولینن اور قیصر ولیم کے مکالمے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے: نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست ری پبلک کی صحیح بنیاد روسو کہتا ہے ری پبلک کی صحیح بنیاد نیکی ہے۔ اقبال اس معاملے میں روسو کی تائید کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی فطرۃ اللہ کا منشا ہے، آج کل یورپ کی سیاست اور تمدن جن غیر اخلاقی قوانین پر مبنی ہیں۔ علامہ اقبال ان کے سخت مخالف ہیں۔ دنیا کو ان سے روگردانی کی تعلیم دیتے ہیں اور اسلام یا فطرۃ اللہ کی تعلیم کی طرف متوجہ کرتے 1؎ C.D. Burns, Democracy, 25-51 2؎ Rovsseol, Social Contract ہیں۔ محبت خدمت خلق ایمان محکم یقین کامل کی فتوحات و برکات کا سبق پڑھاتے ہیں: یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیاباں کی شب تاریک میں تندیل رہبانی ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے نورانی ولایت پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہ، ایماں کی تفسیریں یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں آج یورپ کو جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ یہی ہیں اور جب تک یورپ کا دماغ ان چیزوں کی ضرورت کا قائل ہو کر اپنی زندگی کو ان کے مطابع نہ ڈھالے گا۔ تباہی اور بربادی کے قریب تر ہوتا جائے گا1؎ نیشنلزم اور بین الاقوامیت اقبال اپنے خیالات میں سب سے زیادہ جس عقیدے میں محکم ہے وہ اس کا عقیدۂ بین الاقوامی رحجانات سے صدیوں پہلے اسلام نے، قوموں کے اندر پیدا کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے مذہب میں نیشنلزم سے بڑھ کر کوئی گناہ ہی نہیں۔ اس کے خیال میں قومیت اور وطنیت اسلام کی عالمگیر بین الملی اخوت کی روح کے سخت منافی ہے۔ اس دور میں اقبال نے اپنی نظموں کے علاوۂ نثر میں بھی اسی بین الملی قومیت پر بتہ زور دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ قومیت نواز حلقوں میں غیر مقبول ہو گیا ہے اور برادران وطن کے بعض گروہ تو اسے ہندوستان کے دشمنوں میں شمار کرتے ہیں۔ تعجب ہے کہ برادران وطن اور دوسرے غیر مسلم لوگ مسلمانوں کی اس بین الملی ہمدردی کو کوئی نئی سیاستی تحریک خیال کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو یورپ اور ہندو انڈیا میں اسلام کہتا ہے۔ وہ دراصل ’’ اسلام‘‘ ہی ہے۔ رنیان کے قول کے مطابق اسلام لعنت، وطنیت، جنسیت نسل اور رنگ کی قیود سے انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔ جیسا کہ پروفیسر ہر گرونجے نے بھی اسلام اور مسئلہ نسل پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے یہی لکھا ہے۔ آج یورپ نسل کے قضیوں، رنگ کے خطروں اور قوموں کے فتنوں سے مخلصی پانے کے طریقے سوچ رہا ہے لیکن آج سے چودہ سو سال پہلے، فطرۃ اللہ نے اس کا حل، ایک نبی امی کی زبانی دنیا کو بتا دیا تھا۔ یہی حال بین الاقوامی سپرٹ کی تخلیق و تولید کا ہے۔ پروفیسر ریمزے میور اور دوسرے ارباب قلم اس بین الاقوامی سپرٹ کو انیسویں صدی کی پیداوار کہتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ باوجود آزاد خیال اور روشن دماغ ہونے کے ان لوگوں کی نگاہیں یورپ کی 1؎ Conventional Liev of Our Civilization. Decline of the west Spenglar Consequences of the was raws a yanwir دیواروں سے نہیں گزر سکتیں۔ حالانکہ صدیوں پہلے اسلام نے بھی بین الاقوامی روح پیدا کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ قومیت کی بنیاد وطن، رنگ اور نسل کے بجائے مذہب پر رکھی تھی۔ جو وطن کی نسبت یقینا وسیع تر تصور ہے۔ اقبال نے جب یورپ کا سفر اختیار کیا۔ تو اسے معلوم ہوا کہ نیشنلزم نے اقوام خدا کو بے شمار اقوام میں تقسیم کر دیا ہے اور یہ چیز دنیا کے صحیح ارتقا اور سوسائٹی کی اعلیٰ تربیت کے سخت خلاف ہے۔ نیز اس نے محسوس نہیں کیا کہ اسلام نے جس طرح وطن کے تنگ اور محدود حلقوں سے نکل کر مختلف مذہبی حلقوں میں اتحاد پیدا کرنے کی سعی کی ہے وہ یقینا اس سے افضل ہے۔ یہ خیالات اس قدر ترقی پذیر ہو گئے۔ کہ وہ ’’ نیشنلزم‘‘ کا سخت مخالف بن گیا اور اس کے بعد اپنی نظموں اور تقریروں میں صرف ایک چیز کی دعوت دیتا رہا۔ یہ یاد رہے کہ اقبال کے اس پیغام میں رنگ و نسل کی تمیز اور وطنیت کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ ’’ انسان کامل‘‘ (یعنی مسلمان) کی سوسائٹی کی بلندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کے نزدیک دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہی ہو گا اور قوموں کا بین الاقوامی رحجان اسلام ہی کے اتباع میں ہے۔ جسے اب قوموں نے اندرونی ضرورتوں کی بناء پر اپنے اندر پیدا کر لیا ہے۔ لیکن اسلام عرصہ ہائے بعید سے اس کا حامل تھا۔ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں؟ اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائیگا ترک خرگا ہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی نہ افغانیم ونے ترک وتتاریم چمن زادیم و ازیک شاخساریم تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم تو ای کو دک منش خود ارادب کن مسلماں زادۂ! ترک نسب کن برنگ احمر و خون ورگ و پوست عرب نازد اگر ترک عرب کن اگرچہ زادۂ ہندم فروغ چشم من است زخاک پاک بخارا و کابل و تبریز اس وقت دنیا میں چار سیاسی مذاہب ایسے ہیں۔ جن کی جانب لوگوںکی اکثر توجہ مبذول ہوتی ہے۔ یعنی نیشنلزم، انٹرنیشنلزم، کاسموپالٹزم اور سوشلزم۔ ان میں سے ہر گروہ کے موید اور مخالف موجود ہیں۔ اقبال ان جماعتوں میں سے کسی کا پورے طور پر موید نہیں۔ اس لئے کہ ان سب کے نزدیک تمدن اور سیاست کی بنیاد مذہب نہیں البتہ وسعت تصور و ہمہ گیری کے لحاظ سے اسے انٹرنیشنلزم اور سوشلزم سے ضرور دلچسپی ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک ان دونوں چیزوں سے اسلام کو کوئی زیادہ بعد نہیں۔ البتہ نیشنلزم اور کاسموپالٹزم کا شدید ترین دشمن ہے۔ نیشنلزم کے خلاف دلائل: خود یورپ میں ایک کثیر گروہ موجود ہے۔ جو نیشنلزم کا مخالف ہے چنانچہ انہی میں سے ایک فاضل کا مقولہ ہے کہ ’’ قدرت کے قوانین عالمگیر ہیں نہ کہ نیشنل‘‘ اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ نیشنلزم مقتضائے فطرت کے خلاف ہے۔ ایک اور مصنف نے کہا ہے کہ ’’ خدا نے انسان کو پیدا کیا لیکن شیطان نے اسے قوموں میں تقسیم کر دیا۔‘‘ نیشنلزم عالمگیر یکسانی اور وحدت کے لئے ایک زبردست خطرہ ہے۔ یہ کلچرل اور سیاسی زاویہ نظر کو محدود کرتی ہے۔ قوموں اور جماعتوں میں رقابت پیدا کرتی ہے۔ جماعتی تعصب کو زیادہ کرتی ہے اور خود غرضی کے جذبات کو ترقی دیتی ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اپنے وطن کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ دوسرے ممالک کے خلاف نفرت بھی اس کے ساتھ لازم ہے۔ 1؎ یورپ کا انٹرنیشنلزم: یورپ میںجو بین الاقوامیت پیدا ہو رہی ہے۔ اقبال اس کے متعلق حسن ظن نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ اس کی بنیاد بھی ایمان و مذہب پر نہیں بلکہ خود غرضی اور مادیت پر ہے۔ جو نظام روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر نہ ہو گا۔ اقبال کے نزدیک وہ مکمل نہیں۔ لیگ اقوام کے متعلق فرماتے ہیں: برقد تا روش رزم دریں یزم کہن درد مندان جہاں طرح نو انداختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند آج کل یورپ میں تحفیف اسلحہ، انسداد جنگ اور آزادی بحر کے جو دعاوی کئے جا رہے ہیں۔ وہ بظاہر لاکھ خوش کن سہی لیکن ان کے پردے میں وہی پرانے استبداد کے آئین کار فرما ہیں: بطے می گفت بحر آزاد گردید چنیں فرماں زدیوان خضر رفت نہنگے گفت رو ہر جلو کہ خواہی ولے ازما نباید بے خبر رفت سوشلزم: سوشلزم کے متعلق عرض کیا جا چکا ہے کہ اقبال کا رویہ ہمدردانہ ہے اور اس نے اپنے بے شمار اشعار میں مزدوروں کی حالت زار اور سرمایہ داروں کے مظالم کا تذکرہ کیا ہے۔ خضر راہ میں فرماتے ہیں: بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا ہے، یہ پیام کائنات 1؎ Nationality By Ward Joseph اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار سے آباد ہو بیا کہ تازہ نوامی تر او داز رگ ساز مئی کہ شیشہ گداز د بہ ساغر اندازیم زرہز نان چمن انتقام لالہ کشیم بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم بطوف شمع چو پروانہ زیستن تاکے ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تاکے لیکن مغربی تحریکوں کے متعلق اقبال کو جو بدظنی ہے۔ ا س سے متاثر ہو کر وہ موسیولینن کے دعاوی کا یوں ابطال کرتے ہیں۔ جو قیصر ولیم کی زبان سے ادا ہوتا ہے: گناہ و عشوہ ناز بتاں چیست طواف اندر سرشت برہمن ہست دما دم نو خدا ونداں تراشد کہ بیزار از خدایان کہن ہست اگر تاج کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست ہوس اندر دل آدم نہ میرد ہماں آتش میان مزرغن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست اقبال ابھی سوشلزم کا مطالعہ کر رہا ہے اور ابھی تک اس کے متعلق کوئی ناطق رائے نہیں پیش کی۔ البتہ امید ہے اپنی نئی تصنیف’’ جاوید نامہ‘‘ میں ان تمام مسائل پر سیر حاصل بحث کرے گا جہاں تک سرمایہ اور محنت کا تعلق ہے۔ ا سکے عقائد بالکل واضح ہیں: بدوش زمیں بار سرمایہ دار ندارد گذشت از خور و خواب کار جہاں راست بہروزی از دست فرو ندانی کہ ایں ہیچ کار است دزد دار دی بیہوشی ست تاج کلیسا وطن جاں خداد اور را خواجہ بجائے خرید دور پرویزی گزشت ای کشتہ پرویز خیز! نعمت گم گشتہ خود راز خسرو بازگیر پیشگوئی: آئندہ انقلابات سیاسی کے متعلق اقبال نے جو پیش گوئیاں کی ہیں ان میں بھی محنت کی فتوحات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: افسر پادشہی رفت و بہ نعمائی رفت نی اسکندری و نغمہ دارائی رفت کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت دلالائی رفت یوسفی راز اسیری بہ عزیزی بردند ہمہ افسانہ و افسون زلیخائی رفت چشم بکشائی اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پئے تعمیر جہاں دگر است انقلابی کہ نگنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ہیچ نہ بینم کہ چساں می بینم خرم آں کس کہ دریں گرد سوارے بیند جوہر نغمہ زلر زیدن تارے بیند ٭٭٭ جاوید نامہ از مولانا حافظ محمد ؐ اسلام صاحب جیراجپوری استاذ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی ان دنوں ڈاکٹر اقبال کی جدید تصنیف جاوید نامہ کے مطالعہ کا اتفاق مجکو ہوا۔ ان کی دیگر تصانیف کی طرح یہ کتاب بھی دماغی لذت اور روحانی کیف کے لئے ایک لطیف نعمت ہے ۔ بلکہ اس میں ایک جدت یہ ہے کہ شاعر نے پیر رومی کے ساتھ افلاک کی سیر کی ہے۔ مختلف سیاروں میں ارواح اور ملائک سے ملاقات ہوئی۔ جن کے ساتھ حقائق اور عہد حاضر کے اہم مسائل پر سوالات اور جوابات ہوئے۔ پہلے فلک قمر پر رسائی ہوتی ہے۔ جہاں ایک ہندوستانی سادھو ایک غارمیں نظر آتا ہے اس کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے اور وہ نو وصیتیں کرتا ہے۔ خاتمہ پر ایک فرشتہ نمودار ہوتا ہے جو ایک دلکش ترانہ گا کر غائب ہو جاتا ہے۔ پھر وادی طورسین میں پہنچتے ہیں۔ طاسین گوتم میں ایک زن رقاصہ مہاتما موصوف کے ہاتھ پر توبہ کرتی ہے۔ طاسین زر دشت میں اہرمن زر دشت کو آزماتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ طاسین مسیحؑ میں حکیم ٹالسٹائی کا ایک حقیقت نما خواب ہے اور طاسین محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں حرم کعبہ میں ابوجہل کا نوحہ۔ فلک عطارد پر پہنچتے ہیں جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا(ترکی وزیرـ) کی روحوں سے ملاقات ہوتی ہے اور ان کے ساتھ وقت کے ضروری اسلامی مہمات پر گفتگو چھڑ جاتی ہے۔ فلک زہرہ پر اقوام قدیمہ کے دیوتاؤں کی محفل ملتی ہے۔ جس میں ان کے نغمے سنائی دیتے ہیں۔ پھر دریائے زہرہ میں فرعون اور کچنر کی روحیں دکھائی دیتی ہیں۔ وہاں سوڈانی درویش (مہدی) نکلتا ہے اور عربی روح کی بیداری کے لئے نغمہ گاتا ہے۔ فلک مریخ میں پہلے ایک رصد گاہ ملتی ہے جس سے مریخی حکم برآمد ہوتا ہے جو زمین کی بھی سیاحت کر چکا ہے۔ پھر ایک فرنگن جو پیغمبری کی مدعی ہے۔ عورتوں کے مجمع میں دکھائی دیتی ہے اور ان کو آزادی یعنی شوہروں سے بھی آزادی کا پیغام دیتی ہے۔ فلک مشتری میں ان روحوں سے ملاقات ہوتی ہے جنہوں نے سیر جاودانی اختیار کی اور جنت میں رہنا پسند نہ کیا۔ مثلاً حلاج (منصور) غالب (اسد اللہ خاں) اور قرۃ العین (بابی مبلغہ) ان کے ساتھ خوب خوب شاعرانہ گفتگو ہوتی ہے۔ آخر میں ابلیس نظر آتا ہے اور انسان کی کمزوری اور اپنی آسان فتوحات پر ماتم کرتے ہوئے کسی مرد حق کی آرزو کرتا ہے جس کے مقابلہ میں شکست ہی کھا کر کچھ تو لذت پائے۔ فلک زحل پر وہ ارواح رذیلہ ملتی ہیں۔ جن کو قبول کرنے سے دوزخ نے بھی انکار کر دیا ہے۔ ان میں ہندوستانی ملت کے دو مشہور غدار جعفر بنگالی اور صادق دکنی خونیں قلزم کے عذاب میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد ماورائے افلاک پر عروج ہوتا ہے اور جرمنی کے مشہور فلسفی نیٹشے سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہاں سے جنت الفردوس کی طرف بڑھتے ہیں جس میں شرف النساء کا قصر نظر آتا ہے جو تیغ اور قرآن کی محافظ تھی۔ پھر سید علی ہمدانی اور ملا غنی کشمیری ملتے ہیں۔ اس کے بعد ہندو شاعری برتری ہری اپنا نغمہ سناتا ہے۔ وہاں سے سلاطین مشرقی یعنی نادر شاہ، ابدالی اور سلطان شہید دکنی کی زیارت کو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ مکالے ہوتے ہیں۔ پھر قرب حضور حاصل ہوتا ہے۔ جہاں تجلیات میں غرق ہو جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں جس پر ندائے جمال آتی ہے اور یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ ان سب کے بعد کتاب کا اصلی مقصود اختصار کے ساتھ نژاد نو یعنے نئی نسل کو مخاطب کر کے سنا دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس خوبی خوش اسلوبی اور لطف و کیف کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس کا مزہ صرف اس کے پڑھنے ہی سے مل سکتا ہے۔ سارا کلام مربوط، متناسب، موجز مگر مکمل، چست اور حشو و زوائد سے پاک، صاف اور برجستہ، پختہ اور بلند ہے ایسے مضامین عالیہ کو جہاں اکثر الفاظ معانی سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ اس خوب صورتی سے باندھنا اور ایسے سنگلاخ راستہ کو اس سبک گامی کے ساتھ طے کرنا ڈاکٹر صاحب ہی کا کام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ان کی آورد میں بالکل آمد کا لطف پیدا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تعلیمات اور ان کے مضامین سے عام طور پر تعلیم یافتہ طبقہ واقف ہے۔ وہی مضامین اور وہی تعلیمات نئے اسلوب اور نئے قالب میں اس کتاب میں بھی بیان کئے گئے ہیں۔ ہر چند کہ ارواح قدیمہ و جدیدہ کی زبانوں سے مختلف عوام میں یہ باتیں کہی گئی ہیں۔ لیکن سب کا اسلوب ایک اور انداز ایک ہے۔ کیونکہ وہ ایک ہی آفتاب کی شعاعیں ہیں۔ یعنی قرآن کی۔ ملاؤں کا قرآن نہیں۔ بلکہ آسمانی قرآن۔ ملاؤں کی حقیقت سعید حلیم پاشا کی روح سے سنئے: دین حق از کافری رسوا ترست زانکہ ملا مومن کافر گرست زاں سوئے گردوں دلش بیگانہ نزد او ام الکتاب افسانہ بے نصیب از حکمت دین نبی آسمانش تیرہ از بے کوکہی از شگر فیہائے آں قرآن فروش دیدہ ام روح الامیں رادر خروش کم گناہ و کور ذوق و ہرزہ گرد ملت از قال و قوالش فرد فرد دین کافر فکرو تدبیر جہاد دین ملا فی سبیل اللہ فساد سید جمال الدین افغانی کی روح ملت روسیہ کو پیغام دیتی ہے: منزل و مقصود قرآن دیگر است رسم و آئین مسلماں دیگر است خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست خود سر تخت ملوکیت نشست تانہال سلطنت قوت گرفت دین او نقش ملوکیت گرفت تو کہ طرح دیگرے انداختی دل ز دستور کہن پرداختی ہمچو ما اسلامیاں اندر جہاں قیصریت را شکستی استخواں تا بر افروزی چراغے در ضمیر عبرتے از سرگزشت مابگیر پائے خود محکم گزار اندر نبرد گرد ایں لات ورسل دیگر مگرد کہنہ شدا فرنگ را آئین و دیں سوئے آں دیر کہن دیگر مبیں کردۂ کار خداونداں تمام بگذر از لا جانب الاخرام داستان کہنہ شستی باب باب فکر را روشن کن ازام الکتاب چیست قرآں خواجہ را پیغام مرگ دست گیر بندۂ بے ساز و برگ اشتراکیت کے قوام میں تین منفی چیزیں شامل ہیں۔ یعنے نہ تاج، نہ سرمایہ، نہ مذہب۔ اگر انسان کے تاریخی ادوار، شکار، گلہ بانی، زراعت اور سلطنت پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہی آخری دور اس کے لئے سب سے سخت ابتلا کا دور ہے جو صد شکر کہ اب ختم ہو رہا ہے۔ تاج کے ارد گرد امرائ، وزراء متعلقین اور افواج کی ایک جماعت ہو جاتی ہے جس کے تحت میں رعایا کے درجہ بدرجہ طبقات بنائے جاتے ہیں اور سارے ملک کی محنت تاج کی خدمت میں لگا دی جاتی ہے۔ اس طاغوت اعظم کے سایہ میں نہ صحیح خیالات فروغ پا سکتے ہیں۔ نہ سچے دین کی تربیت ہو سکتی ہے۔ اسلام نے قیصریت اور کسرویت کے طواغیت کبرے کو پاش پاش کر ڈالا تھا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں مسلمان خود شخصی حکومت کے تحت پر آ گئے اور جس بت کو توڑا تھا اسی کو پھر نصب کر لیا۔ جس کا نتیجہ بھی بھگتا۔ ملت روسیہ نے بھی اسلام کے دور اول کا کام کیا اور زیادہ سختی کے ساتھ کیا۔ کیونکہ تاج کے ساتھ تمام تعلقات، نوابی، جاگیر داری، زمینداری اور ہر قسم کی سرمایہ داری کو بھی ختم کر دیا۔ یہی نفسی لا ہے جو اسلام کا اولین قدم اور اس کے کلمہ کا پہلا حرف ہے۔ قرآن وحدت نفس انسانی کا مبلغ ہے۔ جو اخوت سے بھی بالاتر ہے۔ اس لئے خاص انسانیت کے حقوق میں کسی قسم کا امتیاز قرآن کی رو سے ممکن نہیں ہے۔ روسیوں نے بھی یہی امتیاز مٹایا ہے اور یہی نفی لا ہے۔ جملہ مذاہب (نہ کہ دین) اشخاص پرستی سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی تاریخ بنی آدم میں سوائے تفرقہ اندازی سفک دم اور عداوت پیدا کرانے کے اور کچھ نہیں رہی ہے۔ ان کا مٹانا اسلام کا فریضہ ہے اور یہی روسیوں نے کیا۔ یہی نفی لا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب راستہ کو کہتے ہیں۔ اقوام عالم کے بڑے بڑے لوگوں نے جو طریقہ ایک خاص وقت یا ایک خاص ماحول میں اختیار کیا ان کے متبعین نے اسی کو اپنا دائمی مذہب بنا لیا کرل مارکس کے مشہور مقولہ کے مطابق تمام مذاہب بڑے بڑے انسانوں کے خیالات ہی میں ہیں۔ لیکن دین وہ ہے جس کو خود خالق عالم نے انسانی فطرت کی اصلاح اور ترقی کے لئے روز ازل سے وضع فرمایا اور انبیاء کرام کے ذریعہ سے اس کو دنیا میں پہنچاتا رہا۔ یہ ہمیشہ سے ایک ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا اور یہی حق ہے یعنے ہر زمان اور ہ رمکان میں اٹل ہے۔ آج دنیا میں اس کا بے شائبہ مکمل اور واحد مجموعہ صرف قرآن ہے اور بس۔ اسی پیغام میں اس کی حقیقت سنئیے: نقش قرآن تا دریں عالم نشست نقشہائے کاہن و پاپا شکست فاش گوپم آنچہ در دل مضمرست ایں کتابے نیست چیزے دیگرست مثل حق پنہاں دہم پیداست ایں زندہ و پائندہ دگو یاست ایں دوسری جگہ اسی کتاب میں ہے: چوں مسلماناں اگر داری جگر در ضمیر خویش و در قرآں نگر صد جہان تازہ در آیات اوست عصر ہا پیچیدہ در آیات اوست یک جہانش عہد حاضر را بسست گیر اگر در سینہ دل معنے رس است بندۂ مومن ز آیات خداست ہر جہاں اندر بر اوچوں قباست چوں کہن گردد جہانے در برش می دہد قرآن جہانے دیگرش قرآن ہر زمانہ کے لئے ہدایت ہے اور ہر ماحول میں وہ نیا عالم پیدا کرتا ہے۔ مسلمانوں نے اصولی غلطی یہ کی کہ قرآن کی ان شرحوں اور تاویلوں کو جو مخصوص اوقات اور حالات میں ہوتی رہیں۔ دائم و قائم سمجھ لیا۔ جس کے باعث قرآن متروک و مہجور ہو گیا حالانکہ آج ان انسانی تفاسیر کا بڑا حصہ قطعاً بیکار بلکہ مردہ ہو چکا ہے اور قرآن اسی طرح زندہ اور سرچشمہ ہدایت ہے۔ وہ ہر زمانہ میں ایک نئے تغیر کا طلبگار ہے۔ ایک صاحب1؎ نے جو قرآن کا عمیق علم رکھتے ہیں اور کسی زمانہ میں اس کے اعلیٰ سیاسی طبقہ سے روشناس رہے ہیں مجھ سے مکہ معظمہ میں بیان کیا کہ انہوں نے مسٹر لینن اور ان کے رفقاء کار سے کہا کہ تم نے جو شکست و ریخت کی ہے وہ عین اسلام کے مطابق ہے۔ اس نے کہا مسلمان علما تو ایسا نہیں کہتے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے کہنے یا نہ کہنے کی کیا بات ہے۔ روسی زبان میں قرآن کا ترجمہ موجود ہے۔ تین آیات خود تم کو دکھلا دیتا ہوں۔ جب اس نے دیکھ لیا تو کہا کہ تعجب ہے کہ پھر مسلمان کیوں ہمارے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لادینی کی وجہ سے۔ جہاں تم نے باطل شکنی کی ہے اگر حق کا بھی اقرار کر لو تو پھر تم سے بڑھ کر کوئی مسلمان نہیں۔ کیونکہ اسلام کا پیغام صرف یہ ہے کہ ’’ باہم بھائی بھائی بن جاؤ اور اکیلے اللہ کے بندے‘‘ 1؎ مولیٰنا عبید اللہ سندھی مرحوم(ادارہ نقوش) مگر ابھی وہاں نفی کا بحران ہے۔ اثبات تک پہنچنے میں نہ معلوم کتنا زمانہ لگے۔ روس آج سے دو صدی قبل اسلام میں داخل ہو چکا ہوتا۔ اگر علما نے رکاوٹ نہ ڈالی ہوتی۔ صورت یہ ہوتی کہ پیٹر اعظم جو سلسلہ وار ترکوں سے لڑتا رہا اور جس کا مقابلہ عثمانی سلاطین مصطفی ثانی اور احمد ثالث کے ساتھ رہا۔ اسلام سے بہت اثر پذیر ہوا۔ بارہویں صدی ہجری کے آغاز میں اس نے روس کے بڑے بڑے علماء کو جمع کر کے کہا کہ مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ مگر دو چیزیں نہیں چھوڑ سکتا۔ خنزیر اور شراب۔ علماء نے حمیت اسلامی کے جوش میں ایسے اسلام کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ مسلم خواہ کتنا ہی گنہگار ہو غیر مسلم سے بہتر ہے۔ کیونکہ اس کی تلوار اسلام کی گردن پر نہیں چلے گی۔ ورنہ آج دنیا کی تاریخ ہی کچھ اور ہوتی۔ اس میں شک نہیں کہ اس زمانہ میں سویٹ روس میں اور اہل مذاہب اور مسلمانوں پر مظالم ہوئے ہیں۔ لیکن جو لوگ قرآنی زاویہ نگاہ رکھتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ عالم میں جو کچھ حرب و ضرب، شورش و انقلاب، تغیر و تبدل ہو رہا ہے وہ سب تکمیل دین اور اتمام نور کے لئے ہو رہا ہے اور اسلام کے واسطے زمین تیار کی جا رہی ہے کیونکہ انسانیت کو ایک نہ ایک دن ان حقائق ثانیہ پر پہنچنا لازمی ہے۔ جو لوگ آئے دن قیامت کی پیش گوئیاں کرتے ۔ اس کے قرب سے ڈراتے اور عرصہ حیات تنگ کرتے رہتے ہیں وہ بلاوجہ اپنے نفس اورامت کو دھوکے میں ڈالتے ہیں۔ ایسے قرائن اور شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم انسانی عہد طفولیت میں ہے اور جس کام کے لئے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اس کا عشر عشیر بھی ابھی تک نہیں کر چکا ہے۔ ابھی اس کو ہزار ہا انقلابات دیکھنے ہیں۔ تب جا کر کہیں ’’ واشرقت الارض بنور ربھا‘‘ کا وقت آئے گا۔ اشتراکیت اگرچہ ایک تاریخی چیز ہے اور زمانہ ہائے گزشتہ میں مختلف شکلوں میں بار بار اس نے سر نکالا ہے۔ لیکن اس زمانہ میں نہایت شدت اور قوت کے ساتھ یہ تحریک دنیا میں پھیلتی جاتی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو دینی لحاظ سے اس پر غور کرنا لازمی ہے۔ قرآن نظام عائلی کا محافظ ہے۔ صلہ رحمی اور قرابت کے حقوق کی ادائیگی اس نے انسان کے واجبات اور فرائض میں رکھا ہے۔ اس لئے اشتراکیت کی انتہائی صورت جس میں یہ نظام بگڑتا ہوا اسلام کے بالکل منافی ہے۔ بے شک جہاں تک قبضہ زمین کا تعلق ہے وہ اشتراکیت کی موافقت کرتا ہے۔ سورۂ رحمن میں تصریح ہے کہ ’’ والارض وضعہا للانام(الایہ)‘‘ (زمین کو اللہ نے مخلوق کے لئے بنایا ہے )اس لئے اس کا استعمال اسی صورت میں ہونا چاہئے۔ جس میں مخلوق کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچ سکے۔ بادشاہوں یا زمینداروں کا زمین پر قبضہ نہ صرف اس کے فائدہ ک ومحدود کر دیتا ہے بلکہ ما وضع لہ کے خلاف ہے۔ جو ظلم ہے۔ علماء ترک نے زمینداری کے جواز میں دو دلیلیں پیش کی ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن نے وراثت کا قانون رکھا ہے۔ دوسری یہ کہ زمینداری مسلمانوں میں ہمیشہ سے چلی آئی ہے لیکن دونوں دلیلیں باطل ہیں۔ پہلے اس لئے کہ قانون وراثت یہ کب لازم کرتا ہے کہ ہر شخص زمین کی ملکیت چھوڑ کر مرے۔ دوسرے ترکے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اس دلیل کی کوئی منطقی شکل ہی نہیں بن سکتی۔ دوسری دلیل کے دو جواب ہیں ایک الزامی۔ دوسرا تحقیقی۔ الزامی یہ ہے کہ مسلمانوں میں ملوکیت بھی مسلم چلی آئی ہے پھر اس کو کیوں چھوڑتے ہو۔ اور تحقیقی یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی دوسری قوموں کی طرح تاریخی ادوار سے گزرنا ناگزیر ہے۔ اس لئے ان کے قول و فعل سے کسی شے کے دینی ہونے کا ثبوت اس وقت تک نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ قرآنی سند اس کے ساتھ نہ ہو۔ جو قوم ملوکیت میں گرفتار ہو گئی وہ زمینداری میں کیوں نہ پھنسی۔ قرآن کی رو سے قابل زراعت اراضی پر انسانوں کو صرف حق انتقاع حاصل ہے نہ کہ حق ملکیت۔ البتہ مویشیوں پر قرآن شخصی ملکیت کا حق تسلیم کرتا ہے۔ سورۂ یسین میں ہے: اولم یروانا خلقنا لھم مما عملت ایدینا انعاما فھم لھا مالکون کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے مویشی بنائے جس کے وہ مالک ہیں۔ یہیں سے اسلام اور اشتراکیت کا افتراق شروع ہو جاتاہے۔ کیونکہ جب اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں اس کی ملکیت ہو سکتی ہیں تو اپنی مصنوعات اور کمائی تو یقینا اس کی شخصی ملکیت ہوں گی۔ اسلام میں سب سے پہلے اشتراکی حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہے جا سکتے ہیں۔ اغنیا کی دولت کو فقرا کا حق سمجھتے تھے۔ لیکن غالباً اس میں منقولہ اور غیر منقولہ کا امتیاز نہ تھا۔ اسی وجہ سے خلیفہ ثالث رضی اللہ عنہ نے ان کے اس خیال کو مفاد عامہ کے خلاف سمجھ کر ان کو ایک بیابانی مقام ربذہ میں بھیج دیا۔ وہیں انہوں نے ۳۲ھ میں وفات پائی۔ مسلمانوں کے بعض مہربان ناصح ان کو یہ نصیحت بھی کرتے رہتے ہیں کہ ’’ اسلامی تمدن‘‘ کی حفاظت کرو۔ حقیقت یہ ہے تہذیب یا تمدن ملکی اور قومی چیزیں ہیں۔ قرآن جس طرح ہر ملک اور ہر قوم سے بالاتر ہے۔ اسی طرح کسی تہذیب اور کسی تمدن کے ساتھ بھی اس کو کوئی خصوصیت نہیں۔ وہ قلوب اور اعمال کی اصلاح کے لئے آیا ہے اور ہر تہذیب اور ہر تمدن کو اسلامی بنا سکتا ہے۔ فلک مشتری پر ڈاکٹر صاحب کی ایک ادا قرآن کے خلاف معلوم ہوئی۔ اس لئے اس کو بھی ظاہر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں وہ جوہر مصطفیٰ کی حقیقت جس کو اللہ تعالیٰ نے معراج کے بیان میں عہدہ فرمایا ہے۔ حلاج کی زبان سے اس طرح بیان کرتے ہیں: عہدہ، از فہم تو بالاترست ز انکہ اوہم آدم وہم جوہرست عبدہ، صورت گر تقدیر ہا اندر و ویرانہ ہا تعمیر ہا عہدہ، دہرست و دہر از عبدہ ست ماہمہ رنگیم او بے رنگ و بوست کس ز سر عہدہ آگاہ نیست عبدہ جز سر الا اللہ نیست یہاں تک کہ صاف صاف کہتے ہیں لا الہ تیغ و دم او عبدہ فاش تر خواہی بگو ’’ہو عبدہ‘‘ یہ حقیقت میں غلو ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کے حدود میں رکھنے سے ان کا اسوہ حسنہ انسانوں کے لیے دلکش اور آسان رہتا ہے۔ بخلاف اس کے دائرہ الوہیت میں داخل کر دینے سے ان کی پیروی نہ صرف دشوار بلکہ غیر ضروری بھی ہو جاتی ہے۔ غالباً اسی نکتہ کی وجہ سے قرآن نے جہاں جہاں اس امر کو بیان کیا ہے حصر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے: ھل کنت الابشراً رسولاً میں نہیں ہوں مگر ایک انسان پیغام لانے والا سورۂ کہف میں ہے: قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الیٰ کہہ دے کہ میں تو بس تمہارے ہی جیسا انسان ہوں (مگر) مجھ پر وحی بھیجی جاتی ہے۔ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بجز اس کے کہ عالم غیب سے اللہ ان کے اوپر بھیجتا ہے بشریت ہی کے دائرہ میں محصور ہے اور کوئی شعبہ الوہیت کا اس میں نہیں ہے۔ مزید تصریحات قرآن کی متعدد آیات میں ہیں۔ جو لوگ دونوں کو ملا دیتے ہیں، انہوں نے یا تو اللہ کو نہیں سمجھا یا رسول اللہ ؐ کو نہیں سمجھا۔’’ خطاب نہ نژاد نو‘‘ عہد حاضر میں نوجوانوں کے لئے شمع راہ ہے دو ہنگامی اور مقامی مدعیان نبوت کی بابت جو کچھ فرمایا ہے سننے کے قابل ہے۔ آنکہ بود اللہ اور ا ساز و برگ فتنہ او حب مال و ترس مرگ صحبتش با عصر حاضر درگرفت دین حق را از دو پیغمبر گرفت آں ز ایراں بود و ایں ہندی نژاد آں ز حج بیگانہ و ایں از جہاد تا جہاد و حج نماند از واجبات رفت جاں از پیکر صوم و صلوٰۃ روح چوں رفت از صلوۃ و از صیام رد نا ہموار ملت بے نظام سینہا از گرمئی قرآن تہی از چنیں مرداں چہ امید بہی ہم سنا کرتے تھے کہ فارسی زبان سیکھنے کے بعد صرف چار کتابیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ شاہنامہ فردوسی، مثنوی مولانا روم، گلستان سعدی اور دیوان حافظ۔ مگر اب جاوید نامہ کو بھی پانچویں کتاب سمجھنی چاہیے جو کہ معنویت اور نافعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتی ہے۔ حقیقت میں یہ اس قابل ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانان عالم کے نصاب میں شامل کر لی جائے۔ جی چاہتا تھا کہ اس کتاب کی تعلیمات کو میں آیات الٰہی کی روشنی میں دکھلاتا مگر یہ ایک طویل شرح ہو جائے گی۔ اس لیے ایک مختصر سی نظم میں ’’ زندہ رود‘‘ کو خطاب کر کے جو ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں اپنا لقب رکھا ہے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ زندہ رود اے کہ ذات تست ملت را چراغ اے کہ شعر تست فردوس دماغ اے کہ در سازت نوائے زندگی خوش سرودی نغمہ ہائے زندگی آتشے از سوز خود افروختی جان ما افسردگاں را سوختی طبع در اکت جہاں را واشگاف شاعری در ذات تو معراج یافت در خیال خود گزشتی از فلک تاشدی انباز با حور و ملک دانسوئے گردوں جہانیدی سمند تابزیر پایہ عرش بلند نور حق را در تلاطم دیدۂ خویشتن را اندراں گم دیدۂ عشق را تازہ برات آوردۂ یعنے پیغام حیات آوردۂ شرح وادی عالم موجود را وا نمودی منزل مقصود را گفتہ تو مغز و جان شاعری بر تو می ناز و جہان شاعری اے کہ از آب حیاتی زندہ رود بر رو انیہائے تو از من و رود ٭٭٭ ’’ متفادل اقبال‘‘ از جناب غلام احمد پرویز ترا اچنانکہ توئی ہر کسے کجاد اند بقدر طاقت خود می کنند استدراک عام انسان ملائکہ سے اشرف ہیں یا نہیں۔ یہ امر تو علم الاخلاق میں کسی حد تک متنازعہ فیہ رہا ہے لیکن اس میں تو کسی کو کلام نہیں کہ عالم خلق میں حضرت انسان سے زیادہ شرف و اجتباء کسی اور کے حصہ میں نہیں آیا۔ ایک طرف صحف مقدسہ اس کی تصدیق میں رطب اللساں ہیں اور دوسری طرف دور جدیدہ کے انکشافات اس کے موید انجیل بتاتی ہے کہ آدم کو خدا نے اپنی شکل پر پیدا کیا۔ خود قرآن حکیم خلقت انسانی کو ’’ احسن تقویم‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ اور اس کی ممکنات زندگی کو لا محدود قرار دیتا ہوا فرماتا ہے۔ وسخر لکم ما فی السموات ولارض جمیعاً کہ پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے سب حضرت انسان کے تابع فرمان ہے۔ ادھر ماہرین نظریہ ارتقاء نے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ موجودات عالم کی زنجیر کی آخری کڑی حضرت انسان ہے اور اس سے بڑھ کر اشرف و مکمل ہستی ہنوز صفحہ ارض پر نمودار نہیں ہوئی اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس یہ نظری شہادات بھی نہ موجود ہوتیں تو بھی انسانی قدرت و امکان کی داستانیں ہمیں مجبور کر دیتیں کہ اس کی خلافت و نیابت الٰہی پر آمنا و صدقنا کہا جائے۔ لیکن طبائع و اخلاق انسانی کی بو قلمونی بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں۔ ایک طرف تو اس کی ہمت و حوصلہ کی وسعتوں کا یہ عالم اور دوسری طرف۔ جب بعض ناگزیر اسباب و علل کے ماتحت اس کے ارادوں میں تزلزل اور عزائم میں فسخ شروع ہوتا ہے۔ تو دون ہمتی، یاس و قنوط، افسردگی و پژمردگی، تعطل و تفلج کا جیسا نمونہ پیش کرتا ہے۔ باید و شاید، پتہ نہیں سب سے پہلے وہ کون سا شکستہ خاطر و اندوہگیں انسان تھا جو حوادث و آلام سے مجبور ہو کر دل چھوڑ بیٹھا اور اپنے ماحولات دنیا و ما فیہا بلکہ خود اپنی خلقت سے تنگ آ گیا اور وہ کون سے ناقابل برداشت مصائب و آلام تھے جن سے تنگ آکر اس نے یہ نظریہ قائم کر لیا کہ دنیا حزن و آلام، رنج و کرب، عقوبات و حصوبات، مشکلات و تکالیف کا گھر ہے اور خوشی و مسرت، انبساط و سرود کی کچھ حقیقت نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ متشائم نظریہ (Passimism) کچھ قرون اولیٰ ہی سے انسانی دماغوں پر کالی گھٹاؤں کی طرح چھا گیا تھا۔ حکمت یونان اپنے اوج کمال پر تھی کہ افلاطون کا فلسفہ نفس حقیقت رائج ہو گیا۔ ادھر ہندوستان میں ویدوں کے زمانہ سے ہی اس کا سراغ مل جاتا ہے۔ آپ نشدھ کی تعلیم کے مطابق آئما حقیقی اور ا سکے ماورا سب کچھ ویام یعنی نفی ہے اور موجودات عالم مایا یعنی سراب۔ اس کے بعد بدھ مت کا زمانہ آتا ہے اور اس نے تو یوں کہیے کہ امیدوں کی چمکتی دنیا کا گویا جنازہ نکال کے رکھ دیا۔ مہاتما بدھ کی تعلیم کے مطابق حزن و ملال خلقت انسانی کے اندر ودیعت کر کے رکھ دئیے گئے ہیں۔ دنیا میں انسان کا وجود بذات خود ایک بلائے عظیم ہے۔ اس تعلیم کا بنیادی پتھر یہ ہے کہ ’’ زندگی نام ہے خواہش و آرزو کا۔ آرزو سراپا درد و الم ہے۔ لہٰذا زندگی فی نفسہ درد و الم ہے اور صرف ترک علائق۔ نفی خودی اور تعطل آرزو یعنی امیدوں کی فنا اور خواہشات کی موت سے آتما کو اس سکون ابدی اور راحت سرمدی کو حاصل کر سکتا ہے جس کا نام نروان ہے۔‘‘دوسری طرف عیسائیت میں یہ مسئلہ کچھ اور بھی لچک لے کر ابھرا۔ ان کے نزدیک اس مجلس آب و گل میں حضرت انسان تشریف ہی اس لئے لاتا ہے کہ اپنے ماں باپ (آدم ؑ و حوا) کے گناہوں کی سزا بھگتے۔ لہٰذا جتنا اس جیل خانہ سے دور دور رہے اتنا ہی سکھ ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، فلاسفہ یورپ میں (Seibwiz) کے وقت تک پھر بھی ایک حد تک متفادل نظریہ حیات (Optimism) کا چرچا تھا (David Hume) نے اس روش کا کچھ کانٹا بدلا۔ ہکسلے اور سپنسر اثبات سے تشکیک پر اترے اور شوپنہار نے تو بالکل بدھ مت کا چولا پہن لیا۔ وہ ’’ زندگی اور خواب کو ایک ہی کتاب کے دو ورق‘‘ گردانتا ہے۔ اس کے نزدیک ’’ انسان ایک غیر فانی درد و کرب کا تختہ مشق بنا ہے اور مسرت و انبساط کا جو سراب اسے نظر آتا ہے وہ محض اس لئے ہے کہ یہ مصائب جھیلنے کے لئے ارتباط جسم و جان قائم رکھ سکے۔‘‘ لیکن چونکہ یورپ نے ایسے فلسفیانہ نظریات کو عملی دنی امیں زیادہ دخل نہ دینے دیا اس لئے یہ چیزیں ان کی مادی ترقی میں مانع نہ ہوئیں۔ ٭٭٭ اسلام دنیا میں آیا اور امیدوں کی اک دنیا اپنے ساتھ لایا۔ اس نے آتے ہی للکار کر کہا کہ لاتھنوا ولا تحزنو، وانتھ لا علون، ان کنتم مومنین ’’ مت گھبراؤ، بالکل خوف نہ کھاؤ، تم ہی سب سے بلند و برتر ہو، ذرا قوانین فطرت کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔‘‘ انسان کو خلافت و نیابت الٰہی کا واحد حقدار قرار دیا۔ موجودات عالم اس کی فرمانبردار ٹھہرائیں۔ متاع دنیا اور مال و منال اس کیلئے باعث زینت وافتخار قرار دئیے۔ سر خروئی عقبیٰ کے ساتھ ساتھ دنیاوی فلاح و بہبود کی زندگی کو بھی خاصہ حیات گردانا اور ایک مسلم کی زبان سے یہ دعا نکلوائی کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الاخرۃ حسنتہ اس نے ایمان و عمل اور یکسر ایمان و عمل کو راز حیات بتایا اور یاس و تنوط۔ نا امیدی اور عدم آرزو کو کفر سے تعبیر کیا اور صاف صاف فرما دیا کہ لا تقنطو امن رحمتہ اللہ مصائب و آلام کی گھٹائیں چاروں طرف چھا رہی ہیں۔ مسلمان بے یار و مددگار نظر آتے ہیں۔ بظاہر دل ہلا دینے والے اسباب جمع ہیں۔ لیکن اسلام زندہ آرزوؤں کا مذہب اسلام اس وقت پکار پکار کر کہتا ہے۔ لا تخف ان اللہ معنا۔ مت گھبراؤ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ان نصر اللہ قریب۔ وہ دیکھو نصرت خداوندی سامنے کھڑی ہے واستعینو بالصبر والصلوٰۃ ہمت و استقلال سے کام لو، ہمت بھی کرو، دعائیں بھی مانگو، حوصلہ بھی رکھو، تم دس ہو گے تو سو پر فتح پاؤ گے۔ سو ہو گے تو ہزار پر بھاری ہو گے بشرطیکہ امید کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یہ قانون فطرت دنیا میں خدا کا آخری پیغام بن کر آیا اور چند دنوں میں صدیوں میں نہیں چند دنوں میں۔ سر زمین عرب کی کایا پلٹ کے رکھ دی۔ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں بوریا نشین، بادیہ پیما، اونٹ چرانے والے بدوؤں کے ہاتھوں میں دے دیں۔ ٭٭٭ لیکن افسوس یہ تابناک و درخشندہ عہد کچھ زیادہ دیرینہ رہنے پایا تھا کہ فطرت کے یہ سیدھے سادے قوانین گرد و پیش کی فضا سے متاثر ہونے لگ گئے۔ شروع شروع میں شام و فلسطین کے کلیساؤں نے ان پر اپنا رنگ چڑھایا۔ پھر جب حکمت یونان عربی میں منقل ہوئی شروع ہوئی تو فلسفہ اشراقین نے اپنا اثر ڈالا۔ عجم میں زردتشی آتشکدے ان اثرات کو جلا دینے کے لئے تیار تھے اور اس کے بعد جب ہندوستان میں پہنچے تو ویدانت نے ایسا ’’ من توشدم تو من شدی‘‘ کا منتر پھونکا کہ ایک دوسرے میں مدغم ہو کر یکسر و ہمہ اوست ہو گئے۔ تاکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری، جہاں جہاں اور جب تک حکومت ہاتھ میں رہی اور اس کے اثرات زیادہ نہ ابھرے اور جونہی حکومت کا سلسلہ ہاتھ سے چھوٹا۔ اصلی رنگ زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ بالیقین من نیم دوہم و گمانم باقیست میرے نزدیک تصوف تہذیب نفس انسانی اور قوائے ملکیہ کی جلا کے لئے از بس ناگزیر ہے۔ لیکن وہی تصوف جو ’’ نان شعیر‘‘ سے قوت حیدری پیدا کر دے۔ جس سے اویس قرنیؓ کا سا عشق، بوذرؓ سا فقر، سلمانؓ سا صدق، صدیقؓ کا سا ایثار اور خبیبؓ کا سا استقلال پیدا ہو جائے۔ جو خوف غیر اللہ کو اس طرح قلب مومن سے محو کر دے کہ راجپوتانے کے سے کفرستان میں تنہا توحید کا نعرہ بلند کرنے میں باک نہ سمجھے جو سر زمین دہلی کو جاں سپاری و سرفروشی کی امتحان گاہ بنا دے۔ جو یہ سبق سکھلائے کہ پانی پت کے میدان میں مسلمان سپاہیوں کی قبروں کے پہلو بہ پہلو حضرت مخدوم جلالؓ اور ترک شیرازیؒ کے مقبرے بھی ہونے ضروری ہیں۔ ہاں تو عرض یہ کرنا تھا کہ ہندوستان میں پہنچ کر فلسفہ و یدانت پر اسلامی تصوف پر اتنا گہرا رنگ کیوں ہوا۔ اس کا جواب مثنوی اسرار و رموز کی ایک تمثیلی حکایت سے ملے گا۔ لکھا ہے کہ ایک جنگل میں بہت سی بھیڑیں رہتی تھیں۔ کچھ دنوں کے بعد وہاں کچھ شیر آ گئے اور ان بھیڑوں کا لگے شکار کرنے ان میں ایک بھیڑ بڑی دانا اور ہشیار تھی۔ اس نے سوچا کہ بھیڑوں کو شیر بنانا تو مشکل ہے۔ آؤ ایک ایسی چال چلیں کہ شیر بھیڑوں کی خو بو اختیار کر لیں۔ وہ ایک متبرک صورت اختیار کر کے شیروں کے پاس گئی اور ناثباتی دنیا، نفی وجود، سراب ہستی کی خوش آئندہ تعلیم دینی شروع کی۔ رفتہ رفتہ شیر اس پند خواب آور سے اس درجہ متاثر ہو گئے کہ انہوں نے دین گو سفندی اختیار کر لیا۔ حتیٰ کہ شیر بیدار از فسون میش خفت انحطاط خویش را تہذیب گفت کچھ گرد و پیش کا اثر جس کے متعلق (Bloomsield) ایک جگہ لکھتا ہے۔’’ ارض ہند اپنی آب و ہوا فطری اثرات اور معاشرتی حالات کی بناء پر متشائم فلسفہ حیات (Passimism) کے کافی وجوہ اپنے اندر رکھتی ہے۔‘‘ اس پر فلسفہ ویدانت کا رنگ نتیجہ یہ کہ اکبر کے وقت تک اچھے خاصے’’ ہمہ اوست‘‘ کے رنگ میں رنگے گئے اور اگر سچ پوچھو تو عالمگیرؒ کے بعد جو سلطنت کو زوال ہوا تو اصولی طور پر سب سے پہلے ’’ شطحیات دار اشکوہ‘‘ اس کے ذمہ دار ہیں۔ ٭٭٭ شاعری بقول میکالے چمکتی ہی دور تنزل و انحطاط میں ہے۔ جہاں تگ و دو حیات کشمکش روزگار جہد للبقا کا سوال در پیش۔ وہاں فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی یہی وجہ ہے کہ قدیم ایام سے متشائم فلسفہ حیات جذباتی شعراء کو ہمیشہ عزیز خاطر رہا ہے (Homer) کا یہ المیہ گیت کسے یاد نہیں: ’’ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں انسان سے زیادہ المناک کسی اور کی زندگی نہیں۔‘‘ اور (Sakhacles) کا یہ نوحہ کسے بھولا ہوا ہے: ’’ بہترین آرزو یہ ہے کہ دنیا میں انسان آئے ہی نہیں۔ اور اگر آ چکا ہے تو پھر سب سے بہتر یہ ہے کہ انسان جہاں سے آیا ہے جتنی جلدی ہو سکے وہیں لوٹنے کی کوشش کرے۔‘‘ عرب کے ولولہ خیز خون میں حرارت پیدا کرنے والے رجزیہ زمزمے جب عجمی دور تعیش و تنعم کی مجلسوں میں آئے۔ تو یہاں دنیا ہی نرالی دیکھی، نتیجہ یہ کہ آں قدح بشکست و آں ساقی نماند، حرارت و اضطراب، تڑپ اور سیمابیت کی جگہ کیف و خمار آسودگی و تن آسانی نے لے لی۔ اس دور کی شاعری پر نظر ڈالئے توصاف نظر آ جائے گا کہ کہاں یہ کہ اگر جز بکام من آید جواب من وگرز و میدان وافر اسیاب اور کہاں یہ کہ حدیث مے و مطرب گو و راز دہر کمتر جو کہ کس مکشو دو نکشاید بحکمت ایں معمارا ہندوستان میں اول تو سلطنت مغلیہ کے زوال کے ساتھ ساتھ ہی لیکن بالخصوص غدر کے بعد اردو شاعری پر یہ دور یاس و قنوط کا چھا گیا اور خوب اچھی طرح سے چھا گیا۔ شعر کی انتہائی خوبی یہ قرار دی گئی کہ اس میں سوز و گداز ہو۔ افسردگی ہو یاس ہو۔ موت ہو، بلکہ موت کے بعد بھی کوئی تڑپ کوئی حرکت نہ ہو۔ کامل سکوت اور بے حسی ہو غرضیکہ واہ وا کی جگہ ہائے ہائے ہو، محفل میں چاروں طرف ایک کہرام مچ رہا ہو اور بزم مشاعرہ پر ماتم کدہ کا گمان گذرے۔ اس دور کی شاعری پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے واضح ہو جائے گا کہ جن شعراء کو اساتذہ فن کے زمرہ میں اولیں صف میں جگہ دی جاتی ہے۔ ان کا طرۂ امتیاز یہی افسردگی و یاس کا فلسفہ ہے۔ کسی ایسے شاعر کا دیوان اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ یہی رنگ نظر آئے گا دو چار شعر ملاحظہ ہوں:ـ اب تو یہ چاہتا ہوں کہ اے انتہائے غم آئے مجھے ہنسی بھی تو میں رو دیا کروں عالم کی فضا پوچھو محروم تمنا سے بیٹھا ہوا دنیا میں اٹھ جائے جو دنیا سے کیا ہنسے انسان اور کیا رو سکے جی ٹھکانے ہو تو سب کچھ ہو سکے میرے دم پر جو گذرتی ہے گذر جانے دو قصہ غم نہ بڑھاؤ مجھے مر جانے دو تمہید ہے خزاں کی یہ ہنگامہ بہار اچھا ہے میرا نخل تمنا ہرا نہ ہو چال ہے مجھ ناتواں کی مرغ بسمل کی تڑپ ہر قدم پر ہے گماں یاں رہ گیا، واں رہ گیا دل مایوس میں امید نے لی اس طرح کروٹ ابھر کر کوئی سطح آب پر گویا حباب آیا کیا کروں شرح خستہ جانی کی ہم نے مرمر کے زندگانی کی صبا شکستہ پروں کی دعائیں لیتی جا جھکا دے اور ذرا شاخ آشیانے کی فنا سے پہلے غم دل کی انتہا معلوم مگر یہ دل بھی مٹے گا کبھی یہ کیا معلوم غم ایک ہی ایسا ہے جو دنیا کو بھلا دے غم کیا ہے، یہ نعمت ہے مگر جس کو خدا دے پوچھا اثر سے میں نے جو دل کا معاملہ اک آہ سرد کھینچ کے خاموش ہو گیا دل مایوس را تسکیں بہ مردن می تواں وادن چہ امید است آخر خضر داد ریس و مسیحا را مجبوری و بے بسی ملاحظہ ہو خدا عدو کو بھی یہ خواب بد نہ دکھلائے قفس کے سامنے جلتا تھا آشیاں اپنا غرضیکہ جہاں تک لکھتے جائیے۔ معلوم ہوتا ہے ایک صف ماتم بچھ رہی ہے جس پر دنیا و مافیہا کی نوحہ خوانی ہو رہی ہے۔ اور تو اور جو چیزیں کبھی حصول سرور و انبساط کی غرض سے اختراع کی گئی تھیں۔ ان سے بھی مقصود حزن و غم ہی لیا گیا۔ شراب تک کی بھی خواہش محض ا سلئے رہ گئی کہ۔۔۔ اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے۔۔۔ اور ہمارے اس ’’ موروثی ذوق ماتم کدہ‘‘ کا اندازہ آج بھی اس سے لگ سکتا ہے کہ موسیقی جیسی طرب انگیز اور گرما دینے والی چیز بھی اس وقت تک محظوظ نہیں کر سکتی جب تک ان میں نغمہ ہائے جانگداز اور ’’ سور‘‘ کی سریں نہ ہوں۔ غرضیکہ افسردگی و غنودگی کا یہ عالم مسلمانان ہند پر چھا رہا تھا اور لطف یہ کہ اس سب کا نام ’’تہذیب اخلاق‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ قاعدہ ہے کہ انحطاط و زوال کے وقت خدا کے بندے پیدا ہوتے ہیں اور امت مرحومہ میں تو ایسے ایسے صاحبان فکر و بصیرت پیدا ہوتے ہیں جو بنی اسرائیل کے انبیاء کرام کے سے کام کر کے دکھاتے ہیں (حدیث شریف) چنانچہ شعراء میں سے حالی مرحوم نے اس کا احساس کیا۔ قوم پر بڑی لے دے کی ہر چند دل میں بڑا درد تھا۔ لیکن صدیوں کے نشہ کو چند ’’طعنوں‘‘ سے اتارنا مشکل تھا۔ اکبر مرحوم بھی جب دل کی ٹیس سے مجبور ہوئے تو مریض کو ہوش میں لانے کے لئے کچو کے دئیے اور حقیقت یہ ہے کہ خوب دئیے اور ہنسا ہنسا کر، گدگدا کر ایسی پتے کی کہہ گئے کہ جس تن لاگے سو تن جانے۔ لیکن مرض کی کہنگی اور مریض کی ضد سے وہاں بھی یاس کا پہلو غالب رہا۔ ٭٭٭ لیکن قدرت کاملہ نے ’’ بانگ درا‘‘ کی خدمت کسی اور کے حصہ میں رکھی تھی۔ وقت آیا اور وہ ہستی پنجاب کے ایک غیر معروف سے مقام میں اقبال کے نام سے منصہ شہود پر جلوہ فگن ہوئی۔ اس کی چشم حقیقت بیں نے واقعات کو چھوڑ کر ان کے علل و اسباب پر غور کیا اور اس رموز شناس فطرت نے خوب محسوس کیا کہ فقدان عمل پیچسی اور مردہ دلی کا راز ہی اتنا ہے کہ سینوں میں دل اور دلوں میں آرزوئیں اور امنگیں جوش و ولولے پیدا کرنے والی حرارت موجود نہیں۔ آتشدان ہیں لیکن افسردہ اور ٹھٹھرے ہوئے اور علت مرض یہ ہے کہ قوم اپنی حقیقت سے بے خبر ہو چکی ہے۔ افراد ملت کا نظریہ حیات متشائم ہو چکا ہے لہٰذا سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ انہیں ان کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔ ان کی ممکنات زندگی کی وسعتوں سے روشناس کرایا جائے اور مثنوی مولانا رومؒ کی تمثیل شیر کی طرح جو ایک عرصہ تک بھیڑوں کے گلہ میں پرورش پا کر اپنے آپ کو بھیڑ ہی شمار کرنے لگا تھا کسی آئینہ میں اسے اس کے اصل خط و خال سے واقف کرا دیا جائے۔ا یک حقیقت ہیں نباض کی طرح اس نے علت مرض دریافت کی اور بہترین معالج کی طرح اس کے لئے نسخے تجویز کئے۔ اور ہر چند مرض مزمن اور مریض ضدی اور ضدی بھی ایسا کہ خود درد کو دوا سمجھنے لگ گیا تھا۔ لیکن اس کی پیشانی پر شکن تک نہیں آئی۔ اس نے طبائع کی کمزوریوں کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ بلکہ ان کے حال زبوں پر رحم کھایا اور مشفقانہ طور پر گرے ہوئے کو اٹھا یا اور اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ سب سے پہلے ہم یہی دیکھتے ہیں کہ اس نے زندگی کی درخشندہ و تابناک تصویر، جس پر صدیوں سے یاس و مردہ دلی کا گرد و غبار پڑ رہا تھا۔ کس طرح اپنے اصلی خط و خال میں پیش کی۔ ہر چند علامہ ممدوح کا سارا کلام انہیں رموز و حقائق سے لبریز ہے۔ لیکن مثال کے طور پر چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں: آشنا اپنی حقیقت سے ہوائے دہقاں ذرا دانہ تو کھیتی بھی تو باراں بھی تو حاصل بھی تو اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے اور وسعت ملاحظہ فرمائیے: وہ مشت خاک ہوں فیض پریشانی سے صحرا ہوں نہ پوچھو میری وسعت کو زمیں سے آسماں تک شب معراج سے یہ سبق اخذ فرماتے ہیں کہ رہ یک گام ہے ہمت کے لئے عرش بریں کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات اس کے’’ دست و بازو‘‘ کو یہ مادیات تک ہی محدود نہیں گردانتے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں ارشاد ہے: کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں دام تسخیر کی وسعت اور ملاحظہ فرمائیے: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ وہ’’ حیات جاوداں‘‘ کو زندگی کی چار دیواری تک محصور نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں لوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں جب حضرت انسان کی ممکنات زندگی کی یہ وسعتیں ہوں تو اسے کیوں نہ یہ درس حیات دیا جائے کہ اے ز آداب امانت بے خبر از دو عالم خویش را بہتر شمر تاکجا خود را شمار مار وطیں از گل خود شعلہ طور آفریں یاد رکھئے: ناتواں خود را اگر رہرو شمرو نقد جان خویش بارہزن سپرو اور یہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ: ولے ایں راز جز من کس نداند ضمیر خاک و خرنم بے چگون است انتہا یہ کہ: قدم در جستجوئے آدمے زن خدا ہم در تلاش آدمے ہست اس سے زیادہ اور کیا قیمت ہو سکتی ہے کہ خدا اور تلاش آدمے ہست، اللہ اکبر، یہ قدر و قیمت ہاں۔ اور چلتے چلتے ذرا اس معرکتہ الآرا، زندۂ جاوید نظم کے دو چار شعر بھی سنتے جائیے۔ جس کا عنوان ہی اس پیامبر حیات نے ’’ زندگی‘‘ رکھا ہے۔ دیکھئے اور غور فرمائیے کہ کیا یہ ہمارا ہی ذکر ہو رہا ہے۔ زندگی کی بقا ملاحظہ فرمائیے۔ برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہال ہے زندگی پھر اس کے اثرات ملاحظہ فرمائیے: پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے زندگی کی قوت پنہاں کو کر دے آشکار تا یہ چنگاری فروغ جاوداں پیدا کرے ممکنات زندگی کے ساتھ ساتھ متاع دنیا کے تمع اور تسخیر قوائے نظام عالم کا درس بھی ضروری تھا۔ کیونکہ متشائم فلسفہ حیات نے متاع دنیا کو حرام سمجھ رکھا تھا۔ فرماتے ہیں۔ اے کہ زتاثیر افیوں خفتہ عالم اسباب رادوں گفت خیز و واکن دیدۂ مخمور را دوں مخواں ایں عالم مجبور را حق جہاں را قسمت نیکاں شمرد جلوہ اش با دیدۂ مومن سپرد نائب حق در جہاں آدم شود بر عناصر حکم او محکم شود وسعت رنگیں کن زخون کوہسار جوئے آب گوہر از دریا برار جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن غنچہ؟ از خود چمن تعمیر کن شبنمی؟ خورشید را تسخیر کن یعنی عناصر عالم کے سامنے سر تیوڑھا کر، ہاتھ باندھ کر اطاعت کے لئے کھڑا نہ ہو جا بلکہ ان سے خدمت لے۔ انہیں تابع فرمان بنا اور متاع دنیا سے پورا پورا فائدہ اٹھا۔ ٭٭٭ حقیقت سے آگاہی کا لازمی نتیجہ تھا کہ قوم کو اپنی بے حسی اور جمود و سکوت کا احساس پیدا ہوتا۔ چنانچہ جب دیکھا کہ قلب تمت میں خوابیدہ حسیات کی بیداری کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ عروق مردہ میں خون زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں تو تخلیق آرزو (یا کم از کم تجدید آرزو) کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ جب ایک طرف متاع حیات کی قدر و قیمت اور دوسری طرف اپنی قوت بازو کا احساس پیدا ہو گیا تو جلب منفعت اور دفع مضرت کے لئے آرزوؤں کا پیدا ہونا اس کا لازمی نتیجہ تھا۔ لہٰذا آرزو کی اہمیت مختلف پیراؤں میں واضح کی گئی اور میں کہوں گا کہ یہی چیز علامہ ممدوح کا حقیقی پیغام ہے۔ پہلی منزل کو اس کا مقدمہ سمجھنا چاہیے اور قوت عمل کو اس کا نتیجہ یہی جوہر تھا جس کے فقدان سے قوم پر مردہ دلی اور بے حسی کی گھٹائیں چھا رہی تھیں اور اس کی تخلیق یا رجعت اس مرض کا علاج تھا اب ملاحظہ فرمائیے کہ کس جوش اور ولولے سے امیدوں کی بستی از سر نو تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے پہلے للکار کر یہ پیغام سنایا کہ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیش نظر و لا تخلف المیعاد، دار دیکھئے اس ایک شعر کے اندر کس قدر سر بستہ راز حیات پوشیدہ ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سارے فلسفہ حیات کا نچوڑ اس پیغام کے اندر موجود ہے۔ آرزو سے خالی دل کی کچھ قدر و قیمت ان کے نزدیک نہیں ہے۔ فرماتے ہیں۔ اگر زرمز حیات آگہی، مجوے دمگیر دلے کہ از خلش خار آرزو پاک است مثنوی اسرار و رموز میں جس میں علامہ ممدوح کا حقیقی معنوں میں مکمل پیغام حیات محفوظ ہے اور اس کے بعد کا کلام اسی پیغام کی تفسیر و تشریح اور جسے بجا طور پر ’’ ہست قرآن در زبان پہلوی‘‘ کہا جا سکتا ہے مسئلہ آرزو پر بڑی شرح و بسط سے بحث کی گئی ہے اور مختلف انداز سے اس کی اہمیت پر زور ڈالا گیا ہے چند شعر ملاحظہ ہوں: زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو را در دل خود زندہ دار تانگر دو مشت خاک تو مزار آرزو جان جہان رنگ و بوست فطرت ہر شے امین آرزوست از تمنا رقص دل در سینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا طاقت پرواز بخشد خاک را خضر باشد موسے ادراک را دل ز سوز آرزو گیرد حیات غیر حق میرد چو او گیرد حیات چوں ز تخلیق تمنا بازماند شہپرش بشکست و از پرواز ماند آرزو ہنگامہ آرائے خودی موج بے تابے زوریائے خودی آرزو صید مقاصد را کمند دفتر افعال را شیرازہ بند زندہ را نفی تمنا مردہ کرد شعلہ را نقصان سوز افسردہ کرد ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم دوسری جگہ فرماتے ہیں: گرم خوں انساں زداغ آرزو آتش ایں خاک از چراغ آرزو از تمنائے بجام آمد حیات گرم خیز و تیز گام آمد حیات زندگی مضمون تسخیر است و بس آرزو افسون تسخیر است و بس زندگی صید افگن و دام آرزو حسن را از عشق پیغام آرزو ایک جگہ یاس و حزن و خوف کو ام الخبائث و قاطع حیات قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: مرگ را ساماں ز قطع آرزوست زندگانی محکم از لا تقنطواست تا امید از آرزوئے پیہم است نا امیدی زندگانی را سم است زندگی را یاس خواب آور بود ایں دلیل سستی عنصر بود از دمش میرد قوائے زندگی خشک گرد و چشمہ ہائے زندگی یاس و نا امیدی فی الحقیقت ان کے پاس تک نہیں پھٹکتی۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی سر رشتہ امید ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتے۔ فرماتے ہیں: کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے اور یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار فتح کامل کی خبر دیتا ہے جوش کار زار ریاض ملت پر خزاں مسلط ہو چکی ہے۔ باد سموم کے جھونکوں نے ہرے بھرے درختوں کو خشک کر دیا ہے برگ و گل مرجھا مرجھا کر گر پڑے ہیں۔ ایک آدھ پتا کہیں کہیں مثل چہرۂ مدقوق زرد نظر آتا ہے۔ یاس و قنوط کے اس اندوہناک سماں میں کسے امید ہو سکتی ہے کہ یہ اجڑا چمن پھر بھی آباد ہو گا لیکن ہمارا امیدوں کا شاہزادہ ہے کہ اب بھی تلشائم نظریہ کو پاس تک نہیں آنے دیتا اور چپکے سے آ کر یہ درس حیات دیتا ہے کہ: ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ اس مضمون کو مثنوی میں اس طرح بیان فرمایا ہے: برگ سبزے کہنہ شہال خویش ریخت از بہاراں تار امیدش گیسخت در خزاں اے بے نصیب از برگ و بار از شجر مگسل بامید بہار امید۔۔ امید۔۔۔۔ اور ہر حالت میں امید۔۔ کبھی مایوسی نہیں کبھی افسردگی نہیں پھر اس گلچینی بہار میں وسعت داماں ملاحظہ فرمائیے: نہ ہو قناعت شاعر گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا اسی مضمون کو دوسری جگہ اس طرح بیان کیا ہے: تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے امید و آرزو کا ایسا متفاول فلسفہ حیات کم ہی کسے کے ہاں ملے گا۔ ٭٭٭ اب جبکہ آرزوئیں پیدا ہو گئیں۔ امیدیں وابستہ ہو گئیں۔ نا امیدی کا چھلاوا غائب ہو گیا۔ حزن و ملال کا بوجھ دل سے ہلکا ہوا۔ تو حصول مدعا کے لئے فطرتی طور پر دل میں ایک تڑپ پیدا ہوئی۔ یہاں پہنچ کر اب یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ یاد رکھو کامیابی و کامرانی، فتح و نصرت کا راز عمل اور قوت میں پوشیدہ ہے اور آرزو بغیر عمل کے بالکل مہمل چیز ہے۔ چنانچہ یہ راز سر بستہ کھول کے سامنے رکھ دیا کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے مثنوی میں فرماتے ہیں: در عمل پوشیدہ مضمون حیات لذت تخلیق قانون حیات قوت کی اہمیت کے متعلق ذیل کے دو مصرعوں میں جن حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے بڑی بڑی ضخیم کتابوں میں بھی یہ مضمون سما نہ سکتا تھا۔ ملاحظہ فرمائیے: زندگی کشت است و حاصل قوت است شرح رمز حق و باطل قوت است پھر ارشاد ہے: مدعی گرما یہ دار از قوت است دعویٰ اور بے نیاز از حجت است باطل از قوت پذیر و شان حق خویش را دانند از بطلان حق یہ وہ معارف و حقائق ہیں جو کسی دلیل کے محتاج نہیں۔ ملل و اقوام عالم کی تاریخ اور خود دور حاضرہ کے روزانہ مشاہدات اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ جب اپنی حقیقت سے آگہی، دل میں آرزو اور جوش عمل اور بازو میں قوت پیدا ہو گئی۔ تو ایک ایسا معیار حیات مقرر کر دیا جس سے زندگی کی خامیاں دور ہو کر اس میں پختگی پیدا ہو جائے اور زندگی اس درجہ محکم و استوار ہو جائے کہ بڑے سے بڑا خطرہ اور مہیب سے مہیب حادثہ اس میں تنزل نہ پیدا کر سکے۔ اس مقام پر قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ ولنبولنکم بشئی من الحوف، ۔۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون کہ دنیا میں تمہارے اوپر مختلف قسم کی آزمائشیں آئیں گی۔ منجملہ ان کے خوف و حزن، بھوک پیاس، نقص مال و جان وغیرہ ہوں گی پس فتح و کامرانی کی خوشخبری ان کے لئے ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہمت و استقلال سے کام لیتے ہیں او ربے باکانہ کہہ دیتے ہیں کہ ہماری زندگی اور موت رنج و غم سود و زیاں جو کچھ بھی ہے سب اللہ کے لئے ہے اور ہم سب کو بالآخر مرنا ہے اور اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ چنانچہ ایک ایسی ہی زندگی کا نقشہ علامہ ممدوح نے پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں: بہ کیش زندہ دلاں زندگی جفا طلبی است سفر بکعبہ نہ کردم کہ راہ بے خطر است دوسری جگہ اس کو یوں بیان فرماتے ہیں: مرا صاحب دلے ایں نکتہ آموخت زمنزل جادۂ پیچیدہ خوشتر بے باک زندگی کے متعلق فرماتے ہیں: دل بے باک راضر غام رنگ است دل ترسندہ را آہو پلنگ است اگر بیمے نداری بحر صحرا ست اگر ترسی بہر موجش نہنگ است پوچھا گیا کہ راز حیات کس چیز میں تھا۔ جواب سن لیجئے: رفیقش گفت اے یار خرد مند اگر خواہی حیات اندر خطر زی خطر تاب و تواں را امتحاں است عیار ممکنات جسم و جان است لالہ طور میں فرماتے ہیں: سکندر با خضر خوش نکتہ گفت شریک سوز و ساز بحر و بر شو تو ایں جنگ از کنار عرصہ بینی بمیر اندر نبرد و زندہ تر شو دوسری جگہ لکھتے ہیں: بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است (آپ نے غالباً یہ تعلیم بھی سنی ہو گی۔۔۔۔۔ بدریا در منافع بے شمار است وگر خواہی سلامت بر کنار است اب ذرا اوپر والے شعر کو بھی دوبارہ ملاحظہ فرمائیے خیال کن تو کجائی دما کجا واعظ دوسروں کے آسرے پر زندگی کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں: مرا از شکستن چنیں عارناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی اسی طرح نفس دارد و لیکن جاں ندارد کسے کو برد او دیگراں زیست یہ شعر تو یقینا آج ہر مسجد کے محراب پر کندہ کر ادینا چاہئے ۔۔۔۔ اور اس کے قطعات پر مکان او رہ رکدان میں آویزاں ہونا چاہئیں: بخود و خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی چوخس مزی کہ ہوا نیزو شعلہ بیباک است اللہ اکبر کس قدر ’’ زندگی‘‘ ہے اس پیغام کے اندر۔ پھر جب زندگی اس قالب میں ڈھل جائے قوم کی قوم اس رنگ میں رنگ جائے تو امیدوں کی چمکتی دنیا کا تخیل کس جنت ارضی کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ سن لیجئے: زمیں از کوکب تقدیر ما گردوں شود روزے فروغ خاکیاں از نوریاں افزوں شود روزے ......لاریب فیہ یہ ہے مختصراً پیام حیات ہمارے متفادل رموز شناس فطرت شاعر کا۔ جس نے فی الواقعہ مسیحائی کا کام کیا ہے اور اگر یہ صحیح ہے کہ قوم کی حالت بدلنے کے لئے پہلے افراد ملت کی ذہنیت بدلنی ضروری ہوتی ہے تو بلا خوف تردید کہا جائے گا کہ آج تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اگر کچھ زندگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں تو یہ علامہ ممدوح مدظلہ العالیٰ کے پیام حیات بخش کے رہین منت ہیں۔ آج اگر ان اثرات کی ابتدا ہے تو کل بعونہ تعالیٰ یہ شجر طیب اصدھا ثابت و فرعھا فی السما بن کر بڑھے پھولے گا اور اسلام کی حیات جدیدہ میں علامہ موصوف کا نام درخشندہ ستارے کی طرح تابناک رہے گا۔ اے کاش مردوں کی یادگاریں قائم کرنے والی قوم اپنے زندہ افراد کی قدر کرنا بھی سیکھے حکایت بود بے پایاں بہ خاموشی ادا کردم ٭٭٭ علامہ اقبال ایک رفارمر کی حیثیت میں سید محمد عبدالرشید فاضل ایک وقت وہ تھا۔ جبکہ مسلمانوں کے اقبال و کامرانی کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور ہر فن کے صاحب کمال اسلام کے جھنڈے تلے جمع تھے۔ شیراز کی سر زمین نے سعدیؒ اور حافظ جیسی ہستیاں پیدا کر کے اپنا سر آسمان پر پہنچایا۔ جام میں جامی اور گنجہ میں نظامیؒ نے دیدبہ خسروی بلند کر کے اپنے خداوند سخن ہونے کو منوا لیا۔ طوس کی قسمت جاگی کہ اس میں فردوسی پیدا ہوا اور ہندوستان کے بھاگ کھلے کہ اس میں خسروؒ اور فیضی جیسی ہستیوں نے جنم لیا۔ لیکن زمانہ کے ظالم ہاتھوں نے آخر وہ بساط الٹ دی اور اس پیماں شکن آسمان نے وہ پیمانہ توڑ دیا۔ عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن لیکن ہندوستان کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہئے کہ وہ ایران سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوا۔ اس لئے کہ یہاں پھر ایک آواز سنائی دیتی ہے۔ وہی آواز جو کبھی اس کے در و دیوار سے ٹکڑا کر آسمان تک پہنچ گئی تھی۔ آج ایک اور ہی لب و لہجہ اختیار کر کے افسردہ دلوں میں شگفتگی اور مردہ دلوں کو زندگی کے سامان بہم پہنچا رہی ہے۔ اقبال ہمارے اسلاف کی نشانی، ہماری عظمت پارینہ کی یادگار، نہیں نہیں ہماری گذشتہ اقبال مندی و خوش نصیبی کا آئینہ ایسا آئینہ جس میں وہ شکلیں نظر آتی ہیں جن پر کبھی اسلام کو ناز تھا۔ آج مسلمانوں کی شان و شوکت کی یادگار کا ستارہ بن کر افق مشرق پر چمک رہا ہے۔ میرا اپنا عقیدہ یہ ہے کہ وہی شاعر جس نے چھٹی صدی ہجری میں مطلق العنان اور سرکش بادشاہوں کی نمرودیت کو مٹانے ان کے سروں کو خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھکانے اور عامتہ الناس کی بے راہ روی کی اصلاح کرنے کا مشن اپنے ذمہ لیا تھا آج مسلمانوں کی حالت پر رحم کر کے خدا تعالیٰ نے اقبال کو وہ بصریت ودیعت فرمائی ہے کہ اس کے ذریعہ سے اس خفتہ قوم کو بیدار کرے۔ بانگ درا بیشک بانگ درا ہے۔ اگر قافلہ والوں میں کچھ بھی زندگی کے آثار موجود ہے تو اس آواز کے سہارے منزل پر پہنچنا ممکن ہے اقبال نے ایک جگہ شاعر کو مخاطب کر کے کیا خوب کہا ہے! ہے اگر ہاتھوں میں تیرے خامہ معجز رقم شیشہ دل ہے اگر تیرا مثال جام جم پاک رکھ اپنی زباں تلمیذ رحمانی ہے تو ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے مگر اقبال کا زیادہ تر کلام فارسی میں اور وہ بھی فلسفیانہ رنگ میں ہے۔ اس لئے اکثر و بیشتر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں اور صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ایک شاعر ہے اور نیچرل شاعری کا علمبردار ہے۔ لیکن جو کچھ اقبال ہے وہ بہت کم جانتے ہیں جیسا کہ عمر خیام کی نسبت اہل مشرق کو یہی معلوم تھا کہ وہ ایک شاعر ہے اور رباعی کا استاد مگر جب اہل یورپ کی عقابی نظر نے اس کی وہ تصانیف دریافت کر لیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چودہ علوم کا ماہر اور باکمال استاد تھا اور رباعیاں محض تفریح طبع یا اظہار جذبات کے لئے کہہ لیا کرتا تھا۔ تو مشرق والوں کی آنکھیں کھل گئیں اور چار و ناچار ماننا پڑا کہ بے شک عمر خیام بڑی شخصیت کا آدمی تھا۔ یہی معاملہ آج اقبال کے ساتھ ہے۔ دوسروں کی شکایت نہیں جبکہ خود مسلمان جن کا درد وہ ازل سے اپنے ساتھ لایا ہے۔ اس کو محض ایک شاعر سمجھتے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھئے تو اس لحاظ سے بھی جیسا کہ اس کو سمجھنا چاہیے تھا ویسا نہیں سمجھا گیا۔ شاید ٹیگور کی شہرت اقبال سے کہیں زیادہ ہے۔ حالانکہ علمی اعتبار سے دونوں میں بین فرق ہے۔ ٹیگور کی تگ و تاز اس کے ایک خاص موضوع تک محدود ہے۔ یعنی اس نے قدرت کے وہ دلفریب مناظر جن میں سکون و خاموشی کی شان پائی جاتی ہے نہایت دلکش و موثر پیرایہ میں دکھائے ہیں اور بس۔ چونکہ یورپ ایک عرصہ ہوا اس نعمت کو اپنی پر ہیجان زندگی کی نذر کر چکا تھا۔ اس لئے اس نے تسلیم کیا کہ یہ وہی چیز ہے جو کبھی ہماری زندگی کا سامان تھی اور ٹیگور ہماری اس حالت کا ترجمان ہے اور اس شہرت کے اسباب اس کی قوم نے پیدا کئے۔ مگر اقبال نے وہ اصول یاد دلائے ہیں جن پر ہمارے عروج و ارتقاء کی بنیادیں قائم کی گئی تھیں اور جواب بھی معراج کمال پر پہنچا سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم ان پر عمل پیرا ہوں۔ لیکن ہم نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس کا بجز اس کے اور کیا سبب ہو سکتا ہے کہ قوم میں سے مردم شناسی کا مادہ اٹھ گیا اور قابلیت و استعداد جاتی رہی۔ جیسا کہ خود اقبال کہتا ہے۔ عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست قلزم یاراں چو شبنم بے خردش شبنم من مثل طوفاں یم بدوش نغمہ من از جہان دیگر است ایں جرس را کاروان دیگر است کون ہے جو فیضی کی جامعیت و ہمہ گیری کا معترف نہیں۔ مگر غالباً اس کو بھی اہل مشرق کی ذہنیت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس لئے اس نے اس خوف سے کہ مبادا مجھے بھی لوگ شاعر سمجھ کر اس مرتبہ سے گرا دیں۔ جس کا میں از روئے کمالات مستحق ہوں۔ نل دمن میں ایک جگہ نہایت پر زور الفاظ میں کہا ہے۔ امروز نہ شاعرم حکیم دانندۂ حادث و قدیمم اس کے یہ معنی ہیں کہ ایک حکیم اپنی طبیعت کی لطافت و ہمہ گیری کے سبب سے مسائل حکمت کو شاعری کے رنگ میں بیان کر سکتا ہے کہ اس سے وہ مسائل آسان بھی ہو جاتے ہیں اور دلنشین بھی مگر ایک شاعر جو فلسفہ اور حکمت سے قطعاً معرا ہے حکیم نہیں ہو سکتا۔ خواہ کتنا ہی اعلیٰ پایہ کا شاعر کیوں نہ ہو۔ حکیم وہ ہے جو نفس انسانی کو کمال تک پہنچانے کے لئے احوال موجودات کو بقدر طاقت بشریٰ کی ینبغی جانے اور اس پر عمل کرے۔ اقبال بھی ایک جگہ اسرار خودی میں کہتا ہے کہ کم نظر بیتابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید آشنائے من زمن بیگانہ رفت از خمستانم تہی پیمانہ رفت او حدیث دلبری خواہد زمن رنگ و آب شاعری خواہد زمن من شکوہ خسروی اورا دہم تخت کسریٰ زیر پائے اونہم گلستاں اور بوستاں کی تعلیم۔ اولاً مکتب سے شروع ہوئی۔ لیکن رفتہ رفتہ جہاں تک لوگ سمجھتے گئے اور ان کتابوں کی حقیقت معلوم ہوتی گئی ان کی قبولیت اور ہر دلعزیزی میں اضافہ ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا کہ یہی کتابیں آئین سلطنت میں داخل ہو گئیں اور بادشاہوں نے ان کو اپنا دستور العمل بنا لیا اور اس وقت جتنی مشہور زبانیں ہیں کم و بیش ان سب میں ان کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ یہی مثنوی معنوی کا حال ہے۔ بلکہ مثنوی کے لئے تو یہاں تک کہہ دیا گیا کہ مثنوی مولوی معنوی ہست قرآن در زبان پہلوی میر منشا یہ ہے کہ آیا ان مقدس ہستیوں کے لئے شاعر کا لفظ موجب فخر ہو سکتا ہے؟ اور کیا بوستاں اور مثنوی معنوی شاعری کے چٹخارے لینے کے لئے لکھی گئی تھیں۔ ہر گز نہیں۔ ان بزرگوں کا کام شاعری نہ تھا۔ جیسا کہ خود مولانائے روم فرماتے ہیں۔ من ندانم فاعلاتن فاعلات شعر گویم لیک چوں آب حیات بلکہ ان کا کام بنی نوع انسان کی اصلاح اور خدا کا راستہ بتانا تھا۔ جس کو قوت سے فعل میں لانے کے لئے شعر کی قوت تاثیر کو بہتر و کار آمد سمجھا۔ اس لئے ان لوگوں کو ایک شاعر کی حیثیت سے یاد کرنا اور اس اصل مقصد و غایت کو نظر انداز کر دینا جو اس شاعری کے اندر پوشیدہ ہے۔ اس بات کی نمائش ہے کہ ہم حقیقت و مجاز میں تمیز کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح اقبال کو بھی نرا شاعر سمجھ لینا اپنی انتہائی کم نظری کا اظہار کرنا ہے۔ میں اقبال کے کلام میں سے چند ایک مثالیں دے کر اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہا قبال کی موجودہ زمانہ میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ تمام ایشیا کو کس قدر ضرورت ہے۔ ۱۔ اقبال کے کلام کا معتدبہ حصہ وہ ہے جس میں اس نے جہد و کوشش کی تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ مصیبت اور تکلیف محض اعتبارات ہیں۔ بلکہ اگر غور سے دیکھئے تو یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کی تکمیل و بقائے دوام کا باعث ہیں میارا بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است منشا یہ ہے کہ عیش و عشرت کی زندگی جو فی الحقیقت قوائے عمل کو بیکار و مفلوج بنا دیتی ہے دنیا بھر کی نحوست و بد نصیبی کا پیش خیمہ ہے بلکہ موت کا پیغام۔ اگر انسان کو حیات ابدی کی تلاش ہے اور نام و نمود کی تمنا، تو اپنے آپ کو محنت و ریاضت کے نذر کر دینا چاہئے اور مصائب و آلام کا جو ترقی کی راہ میں حائل ہوںسینہ سپر ہو کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتا تو اس کو کوئی حتی نہیں کہ وہ اپنی قسمت کا شکوہ زبان پر لائے۔ اور فطرت کو جو لوث گناہ سے پاک ہے خطا وار ٹھہرائے۔ ایک جگہ زندگی کی تعریف اس طرح کی ہے۔ پرسیدم از بلند نگاہے حیات چیست گفتامئے کہ تلخ ترا و نکو تر است ایک جگہ یہ بتایا ہے کہ خوف و اندیشہ سے ہر آسان کام مشکل اور ہمت و استقلال کے آگے مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے۔ دل بیباک راضر غام رنگ است دل ترسندہ را آہو پلنگ است اگر بیمے نداری بحر صحراست اگر ترسی بہر موجش نہنگ است ایک مقام پر کہا ہے کہ پروانہ اپنے تئیں ایک دفعہ شمع پر نثار کر کے زندگی کی کشاکش سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ ہیچ ہے۔ میں تو اس پروانہ کو پروانہ جانتا ہوں جس کی جان سخت کوش اور شعلہ نوش ہے۔ بہل افسانہ آں پا چراغے حدیث سوز او آواز گوش است من آں پروانہ را پروانہ دانم کہ جانش سخت کوش و شعلہ نوش است ۲۔ اقبال کے نزدیک سکوں کا نام موت ہے۔ یعنی انسان کو ایک حالت پر نہیں رہنا چاہیے۔ اس لئے کہ اس چمن زار کائنات میں امکان مستقبل موجود ہے۔ دمادم نقشہائے تازہ ریزد بیک صورت قرار زندگی نیست اگر امروز تو تصویر دوش است بخاک تو شرار زندگی نیست ایک جگہ پیام مشرق میں کہا ہے کہ جس طرح موج جب تک قائم ہے پیچ و تاب ہے اور جب پیچ و تاب نہیں تو موج بھی نہیں۔ معلوم ہوا کہ پیچ و تاب اور بیقراری ہی کا نام موج ہے۔ اسی طرح انسان کی حیات اس کی تگ و تاز اور سکون نا آشنا رہنے میں ہے نہ کہ راحت طلبی اور تن آسانی میں۔ ایک جگہ دو شعروں میں اس خیال کو کس قدر بلیغ پیرایہ میں بیان کیا ہے کہ ساحل نے جو بالکل جامد و ساکن ہوتا ہے موج سے کہا کہ اگرچہ میں نے ایک دراز عمر پائی ہے۔ لیکن اب تک معلوم نہ کر سکا کہ میں کیا ہوں۔ موج نے جو ساکن رہنا ہی نہیں جانتی۔ نہایت تیزی سے چل کر کہا کہ اے ساحل! میری حقیقت تو تجھے معلوم ہو گئی اور وہ یہ ہے کہ اگر میں حرکت میں رہوں تو زندہ ہوں ورنہ کچھ بھی نہیں۔ ۳۔ اقبال جہد و کوشش کے ساتھ علم کا ہونا لازم سمجھتا ہے۔ زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر یعنی زندگی کسی قوم کا حصہ نہیں بلکہ جو قومیں زیور علم سے آراستہ اور محنت کی خوگر ہیں انہیں کو دنیا میں زندہ رہنے کاحق حاصل ہے علم کی اہمیت واضح کرنے کے لئے ایک نہایت عمدہ دلیل پیش کی ہے کہ سید کل صاحب ام الکتاب پروگیہا بر ضمیرش بے حجاب گرچہ غین ذات رابے پردہ دید رب زدنی از زبان او چکید دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کے اندر ہی دینی و دنیوی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ جس قوم میں جہالت کے آثار پیدا ہوئے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ قوم صفحہ ہستی پر کچھ دنوں کی مہمان ہے۔ زمانہ بہت جلد نقش باطل کی طرح اس کو مٹا کر خدا کی زمین کو اس کے وجود سے پاک کر دے گا۔ امریکہ اور یورپ پر اس حقیقت کا اچھی طرح انکشاف ہو گیا ہے کہ ان ممالک میں تعلیم کی وہ گرم بازاری ہے کہ آج یہاں بے علم ایسا ہی کمیاب ہے۔ جیسا ہندوستان میں تعلیم یافتہ، اسلام نے تیرہ سو برس پہلے یہی تعلیم دی تھی اور حصول علم کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض کر دیا تھا۔ اقبال کہتا ہے کہ علم و دولت نظم کار ملت است علم و دولت اعتبار ملت است مگر موجودہ زمانہ میں جہاں تعلیم کا دور دورہ ہے وہاں اخلاقی اور سچی اخلاقی تعلیم کا سرے سے خاتمہ ہے۔ حالانکہ اخلاقی اور وہ اخلاقی تعلیم جس کی بنیادیں خلوص، سچائی اور ایثار پر قائم کی گئی ہوں۔ نظام عالم اور اصلاح کے لئے ناگزیر ہے۔ اقبال کا دل اس تعلیمی کمزوری کو کیونکر محسوس نہ کرتا۔ اس نے محسوس کیا اور بہت زیادہ محسوس کیا۔ وہ تعلیم کو برا نہیں کہتا۔ مگر اس کے نزدیک قدیم اسلامی تعلیم سے بیزاری اور موجودہ تعلیم میں شغف ایسی حالت میں کہ اس سے اخلاقی اور سوشل زندگی کی اصلاح نہ ہو اضاعت اوقات بلکہ گمراہی کا موجب ہے۔ وہ کہتا ہے: اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا ہے خون فاسد کے لئے تعلیم مثل نیشتر رہبر کے ایما سے ہوا تعلیم کا سودا مجھے واجب ہے صحرا گرد پر تعمیل فرمان خضر لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری ’’رفتم کہ خا راز پاکشم محمل نہاں شداز نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم در رشد‘‘ اقبال نے مذہب کے عنوان سے مرزا بیدل کے شعر پر تضمین کی ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ فلسفہ مغرب کی تعلیم ہے کہ جو لوگ ہستی غائب (خدا) کی تلاش میں ہیں وہ نادان ہیں اور اس فلسفہ کی رو سے شیخ اور برہمن دونوں صنم تراش ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ برہمن کا پیکر معبور ظاہر کرتا ہے اور شیخ کا فرضی اور غائب ۔ اقبال کہتا ہے کہ ان علوم جدیدہ سے جن کی بنا محسوس و مرائی اشیاء پر ہے۔ عقائد مذہبی کا شیشہ پاش پاش ہو چکا ہے۔ اس لئے کہ تعلیم کی رو سے مذہب و جنون میں کوئی فرق نہیں۔ مگر فلسفہ حیات اور ہی کچھ کہتا ہے اور مجھ پر ایک مرشد کامل (مرزا) نے اس راز کو اس طرح فاش کیا ہے۔ باہر کمال اند کے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدہ بے جنوں مباش ۴۔ اقبال کی نمایاں خصوصیت اس کی وسیع المشربی ہے۔ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرتا اور چاہتا ہے کہ اس کا پیغام عالمگیر اشاعت حاصل کر کے تمام اقوام کو ایک برادری بنا دے اور اس طرح ایک اور ہی دنیا قائم جائے۔ جس میں صرف محبت و مساوات کی حکومت ہو۔ اقبال کہ توحید کا فرزند اور اس مذہب کا حلقہ بگوش ہے جس کی تعلیم ہے الخلق عیال اللہ ناحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ پھر وہ امتیاز ملت و قوم، تعصب اور فرقہ بندی کو کیونکر گوارا کرتا جیسا کہ وہ کہتا ہے۔ اجاڑا ہے تمیز ملت و آئیں نے قوموں کو مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوع انساں قوم ہو میری وطن میرا جہاں بلکہ اقبال بنی نوع انسان سے ہمدردی کرتے کرتے بیجان چیزوں سے بھی ہمدردی کرنے لگتا ہے۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک حقیقت ایک ہے ہر شے کی نوری ہو یا ناری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرہ کا دل چیریں وہ کہتا ہے: صدمہ آ جائے ہو اسے گل کی پتی کو اگر اشک بن کر میری آنکھوں سے جائے اثر ۵۔ اقبال نے اعتماد نفس پر زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان کی کمزوری اس کی حقیقت ناشناسی کا نتیجہ ہے۔ اگر اس کو اپنے علو مرتبہ و کمال ذاتی کا علم ہو جائے تو دنیا میں کوئی کام اس کے لئے مشکل نہیں۔ اگر آگاہی از کیف و کم خویش یمے تعمیر کن از شبنم خویش دلا دریوزہ مہتاب تاکے شب خود را برا فروز از دم خویش ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست قدم بیباک تر نہ وررہ زیست یہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست ۶۔ علم نفسیات کے عالم اچھی طرح جانتا ہے کہ فرد واحد کا وجود ایک اعتباری شے ہے۔ مگر جب چند افراد مل کر ایک جماعت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ان کی قوت، ان کا وقار اور ان کا اعتبار کس قدر بڑھ جاتا ہے۔ غرضیکہ جماعت و قوم کو بڑی طاقت حاصل ہے اور فرد کی جماعت سے علیحدہ کوئی وقعت نہیں اقبال نے ربط ملت کے سلسلہ میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ کسی قوم کا اعتبار قائم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کہ اس کے افراد میں وحدت خیال، وحدت مقاصد کے ذریعہ ربط و اتحاد پیدا نہ ہو جائے اور مسلمانوں کا ایک مرکز اور ایک مقصد ہے اور وہ ان کا مذہب ہے۔ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم چمن زادیم و ازیک شاخساریم تمیز رنگ و بو برما حرام است کہ ما پروردۂ یک نوبہاریم مگر ہم نے اس دور میں مغربی تعلیم و طرز معاشرت سے متاثر ہو کر مذہب کو خیر باد کہہ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ بس کامیابی و ترقی اسی قوم کا حصہ ہے جس کے پاس جملہ مادی اسباب موجود ہوں اور جن کا کوئی مذہب نہ ہو۔ اگر ہو تو پالٹیکس، سیاسیات اور ملوکیت اقبال کس قدر دلنشین پیرایہ میں سمجھاتا ہے۔ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی ۷۔ اقبال مسلمان کو آزاد اور مسلمانی کو حریت سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کی تعلیم ہے کہ مسلمان کو خیال تول اور فعل میں غرضیکہ ہر طرح اپنے آپ کو آزاد سمجھنا چاہیے اور ماسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست پر یقین کامل رکھتے ہوئے اس معبود حقیقی کے سوا کسی کو اپنا آقا اور مختار نہیں بنانا چاہیے۔ از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن تا تراشی خواجہ از برہمن کا فرتری اقبال کا خیال ہے اور خیال کیا معنی فیکٹ ہے کہ مسلمان اگر سچا مسلمان ہے تو کسی حالت میں دوسری دنیوی طاقتوں سے مغلوب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ تاریخ عالم شاہد ہے کہ ان مٹھی بھر صحرا نشینوں نے جن کے پاس نہ کوئی ساز و سامان تھا۔ نہ کوئی سلطنت محض اپنے اتحاد اور روحانی قوت سے بڑی بڑی طاقتوں کو سرنگوں کر دیا۔ مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا؟ زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا! نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں غرضیکہ اقبال کے نزدیک مسلمان ایک ایسی ہستی ہے جس کی بلندی مرتبہ و رفعت شان کے آگے آسمانوں کی بلندی بھی پست دکھائی دیتی ہے۔ پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے اور نظام عالم اسی کے ہاتھ میں ہے۔ بلکہ انتہا ہے خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تر ہے ۸۔ اقبال کا ایک خاص موضوع حیات بعد الممات ہے۔ جس کو اس نے فلسفیانہ دلائل و براہین کے ساتھ نہایت منظم طریق پر بیان کیا ہے۔ اس کے متعلق میں خود اقبال کے الفاظ نقل کرتا ہوں۔ ’’ مجھے مسئلہ حیات بعد الممات کے ساتھ خاص دلچسپی رہی ہے میں جانتا ہوں کہ انسان ایک شاندار اور درخشاں مستقبل اپنے سامنے رکھتا ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات میں ایک مستقبل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات و افکار میں آپ کو عموماً جاری و ساری نظر آئے گا۔‘‘ ۹۔ اقبال کا ایک مستقل موضوع مسئلہ خودی ہے۔ خودی سے اس کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کی حقیقت ایک ہے۔ اور انسان جب اس سے واقف ہو جاتا ہے تو ہر چیز میں اپنی ہی صورت جلوہ گر دیکھتا ہے۔ اقبال نے بتایا ہے کہ نظام عالم کی اصل خودی سے ہے اور حیات تعینات کا تسلسل استحکام خودی پر منحصر ہے لیکن اول اپنی خودی (حقیقت) سے واقف ہونے کی ضرورت ہے اور چونکہ حیات عالم کا انحصار قوت خودی پر رکھا گیا ہے۔ اس لئے جس قدر یہ استوار ہو گی اسی قدر زندگی دیر پا مستحکم اور عزیز تر ہو گی۔ اور حیات خودی تخلیق و تولید مقاصد سے وابستہ ہے۔ یعنی انسان کے مقاصد بلند اور آرزو مستقل ہونی چاہیے اس لئے کہ اصل زندگی آرزو ہے۔ یعنی اگر انسان کے دل میں آرزو باقی ہے تو وہ قوی دل، بلند حوصلہ اور خوش و خرم ہے۔ محنت و مشقت میں اس کو مزا آتا ہے۔ لیکن جب آرزو مر جاتی ہے تو دل مردہ۔ حوصلے پست اور زندگی بے لطف ہو جاتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مقصد پاکیزہ اور آرزو ارفع و اعلیٰ ہونی چاہئے۔ اقبال کہتا ہے کہ مسلمان کے لئے عشق رسولؐ کافی ہے۔ اس کو اپنا دل اس تمنا سے آباد کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی مقصد نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ کسی کے آگے دست سوال پھیلانے سے خودی ضعیف ہو جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ محض خدا پر بھروسہ رکھے اور کسی کا زی ربار احسان نہ ہو۔ ۱۰۔ اقبال کا ایک موضوع بیخودی ہے۔ بیخودی کے معنے ہیں اپنے آپ کو جماعت میں ملا دینا۔ یعنی فرد کا اپنے احساسات کو جماعت کے مقصد وحید کے اندر فنا کر دینا۔ کیونکہ فرد کے لئے جماعت میں داخل ہونا آیہ رحمت ہے اور اپنی ہستی کو جماعت سے جدا نہ سمجھناعین کمال۔ یعنی جس طرح قطرہ دریا میں مل کر دریا ہو جاتا ہے اسی طرح فرد جماعت میں داخل ہو کر جماعت کی قوت جماعت کا وقار اور جماعت کے اوصاف سے متصف ہو جاتا ہے: فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود غرضیکہ اقبال نے جو کچھ لکھا ہے اس پر بالا ستیعاب تبصرہ کرنا مشکل نہ سہی لیکن اس مختصر مضمون میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کرنا آسان نہیں۔ میرا منشا یہ اور صرف یہ ہے کہ اقبال شعرائے ہند کی طرح حسن لب بام کا شیدائی یا کمر یار کی تحقیق کا سودائی نہیں۔ بلکہ وہ ایسی ہستی ہے کہ اس کے علو مرتبہ و کمال ذاتی ہی نے اب تک اس کی حقیقت کو پردہ میں رکھا۔ اس لئے کہ جو دل و دماغ وہ لے کر آیا ہے اور جس تمدن جس اخلاق اور جس تہذیب کی وہ ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے چاہنے والے دنیا سے اٹھ گئے۔ جیسا کہ وہ خود کہتا ہے۔ اب نوا پیرا ہے کیا گلشن ہوا برہم ترا بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کا پالیٹکس سے قطعی نا واقف ہوتے ہوئے سیاسی معاملات میں حصہ لینا اس کے لیے بھی اور قوم کے لئے بھی مضر ثابت ہو گا۔ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا نے ایسی کتاب عطا کی ہے جس میں دینی و دنیوی دونوں زندگیوں کے ہر پہلو کو بطریق احسن بیان کیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مسلمان کو کسی دوسری چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے۔ ملتے را رفت چوں آئیں زدست مثل خاک اجزائے او از ہم شکست ہستی مسلم ز آئین است و بس باطن دین نبی این است و بس تو ہمے دانی کہ آئین تو چیست؟ زیر گردوں سر تمکین تو چیست؟ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت اولا یزال است و قدیم نسخہ اسرار تمکین حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات لیکن اس کو سمجھنے کے لئے قابلیت درکار ہے۔ اقبال ایک مسلمان اور خالص مسلمان ہے اور قرآن پر اس کا کامل ایمان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کوئی پالٹیکس اس جامع و مانع کتاب سے باہر نہیں ہو سکتی اگر نگاہ حقیقت بیں ہو تو اس کے ایک ایک حرف میں دنیا کی حکمت اور دانشوری کے ہزاروں باب دیکھ سکتی ہے۔ اور یوں دیکھئے تو آج جس قدر مشاہیر اہل الرائے نظر آتے ہیں۔ ان میں کوئی بیرسٹر ہے اور ایم اے اور کوئی ڈاکٹر ہے مگر اقبال بیرسٹر بھی ہے اور ایم اے پی ایچ ڈی بھی ڈاکٹر بھی ہے اور شاعر بھی، حکیم بھی ہے اور صوفی بھی، رفارمر بھی ہے اور فلسفی بھی، نجوم بھی جانتا ہے اور سنسکرت بھی، اگر ایک طرف اقتصادیات و معاشیات کا زبردست ماہر ہے تو دوسری طرف علم نفسیات کا زبردست استاد، اگر قدیم فلسفہ میں کمال رکھتا ہے تو فلسفہ جدید میں بھی اس کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ تاریخ اسلام ہی کا حافظ نہیں۔ تاریخ عالم بھی اس کو ازبر ہے۔ جس کی فلسفہ دانی کو دیکھتے ہوئے جرمنی والوں نے ڈاکٹر کا علمی درجہ دیا اور جس کی ادبی کاوش کی قدر کرتے ہوئے سرکار انگریزی نے سر کا ممتاز خطاب عطا فرمایا۔ جس کی شاعری کایہ حال کہ داغ نے دو ایک غزلیں دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا کہ اس کا شاگرد کوئی معمولی شعر گو نہیں جس کی طبیعت داری، قابلیت اور درد اسلام کو دیکھ کر شبلی و حالی جیسے مبصر تاڑ گئے تھے کہ یہ ایک فتنہ ہے اور بہت جلد قیامت بن جائے گا اور جس کی شہرت کے اٹھتے ہوئے شباب کو دیکھ کر مسٹر آرنلڈ جیسے استاد کو فخر تھا کہ اقبال دنیا میں بڑا اقبال لے کر آیا ہے۔ اس کے نام کے ساتھ میرا نام بھی روشن ہو گا۔ غرضیکہ مشاہیر وقت میں سے ہر ایک نے جو اس جوہر قابل کی شخصیت کا جداگانہ حیثیت میں اپنی نظر، قابلیت اور رسائی فہم کے مطابق اعتراف کیا ہے۔ رہے کم استعداد اور کج فہم لوگ ان کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ سخن شناس نہ دلبر اخطا ایں جاست!! جب اقبال ایسا ہے اور فی الواقعہ ایسا ہی ہے تو انصاف فرمائیے کہ آیا سیاسیات کے اسٹیج پر اس سے بہتر کوئی دوسرا شخص پارٹ کر سکتا ہے؟ لیکن چونکہ اختلاف رائے ہمیشہ اعلیٰ و افضل شخصیتوں کا جزو لاینفک رہا ہے۔ اس لئے ہم کو اس قسم کی تضاد رائے سے افسوس نہیں بلکہ ہمارے خیال میں نہایت درجہ تقویت اور استحکام ہوتا ہے اور اقبال کے بلند مرتبہ شخصیت ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ اقبال کی شہرت کا آفتاب طلوع ہو چکا ہے اور عنقریب سمت الراس پر پہنچ کر شکوک و شبہات کی تاریکیوں کو دور کر کے دنیا کو اپنی روشنی سے جگمگا دے گا اور لوگوں کو جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا کا منظر آنکھوں سے دیکھنے میں آ جائے گا۔ ٭٭٭ جاوید نامہ از جناب چودھری محمد حسین صاحب ایم اے حضرت اقبال مدظلہ نے ۱۹۲۹ء کی ابتدا میں جاوید نامہ لکھنا شروع کیا۔ کم و بیش تین سال کے بعد یعنی اب ۱۹۳۲ء میں یہ کتاب چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ دراصل’’ معراج نامہ‘‘ ہے اسرار و حقائق معراج محمد ؐ یہ پر کتاب لکھنے کا ایک مدت سے حضرت علامہ کا خیال تھا۔ کتاب کا نام بجائے’’ معراج نامہ‘‘ کے ’’ جاوید نامہ‘‘ رکھنے کی محرک دو تین باتیں ہوئیں۔ اسلام کی بہت سی اور باتوں کی طرح مسلمانوں نے حقیقت معراج پر بھی بہت کم غور کیا ہے۔ دراصل ’’ گلشن راز جدید‘‘ کی طرح علوم حاضرہ کی روشنی میں معراج کی شرح لکھ کر ایک قسم کا ’’ معراج نامہ جدید‘‘ لکھنے کا خیال تھا۔ یہ ’’ معراج نامہ‘‘ بہت ممکن ہے عام شرحی انداز تحریر میں ہوتا اور اپنی موجودہ ’’ آسمانی‘‘ ڈرامہ کی شکل اختیار نہ کرتا۔ لیکن اس اثناء میں اٹلی کے مشہور شاعر ڈینٹے کی کتاب ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ پر بعض نئی اور اہم تنقیدات یورپ میں شائع ہو چکی تھیں۔ جن میں اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچایا گیا کہ ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ کے آسمانی ڈرامے کا تمام پلاٹ بلکہ اس کے بیشتر تفصیلی مناظر ان واقعات پر مبنی ہیں اور ان کی نقل ہیں جو اسلام میں معراج محمدؐ کے متعلق بعض احادیث و روایات میں مذکور ہوئے یا بعد میں بعض مشہور متصوفین و ادبا کی ان کتابوں میں درج ہوئے جن میں انہوں نے مختلف نکتہ ہائے خیال سے خود اپنے معراجوں کا ذکر کیا یا معراج نبوی کی شرح لکھی ایک حد تک اس واقعہ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ بجائے عام تشریحی انداز میں ’’ معراج نامہ‘‘ لکھنے کے جو وسعت مضامین کے لحاظ سے یقینا حقائق معراج کے مباحث ہی تک محدود رہتا۔ ڈینٹے کے انداز میں ادبی (عرفانی نہیں) نقطہ نگاہ سے ’’ معراج اقبال‘‘ لکھا جائے جس میں قید مباحث سے آزادی ہو اور تخیل و ادراک تاویل و تفسیر کی محدود وسعتوں سے گذر کر فکر و بصیرت اور اختراع و الہام کی جن لا محدود فضاؤں تک پرواز کرنا چاہیں با آسانی کر سکیں۔ جاوید نامہ اور ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ یہ مرکب الفاظ ایک دوسرے کے مترادف نہیں (غالباً جیسا کہ آئندہ بیان کیا جائے گا ایسا ہونا ضروری تھا) تاہم بادی النظر میں ایک معنوی سی مناسبت دونوں ناموں میں موجود ہے۔ حضرت علامہ کے فرزند ارجمند عزیزی ’’ جاوید اقبال‘‘ سلمہ کا نام بھی کسی حد تک’’ جاوید نامہ‘‘ ہونے کا ذمہ دار ہے، لیکن ان خاص معنوں میں’’جاوید نامہ‘‘ کتاب کا وہ آخری حصہ ہے جو آسمانی ڈرامہ کے خاتمہ کے بعد بطور ضمیمہ آتا ہے اور جس کا نام ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ (سخنے بہ نژاد نو) ہے۔ ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ کا نام ڈیوائن کامیڈی خود ڈینٹے کا تجویز کردہ نہیں۔ ڈینٹے نے اپنے آسمانی ڈرامے کا نام محض ’’ کامیڈیا‘‘ رکھا تھا۔ لفظ ’’ ڈیوائن‘‘ (پاک، الہیہ، آسمانی) کتاب کے نفس مضمون، اس کی خوبی، اس کی شہرت و ہر دلعزیزی کی بنا پر ڈینٹے کے قدر دانوں اور مداحوں کی طرف سے بعد میں زیادہ کیا گیا۔ ڈینٹے کی موت ۱۳۲۱ء میں واقع ہوئی۔ ’’ کامیڈیا‘‘ کے جس سے پہلے ایڈیشن کا نام ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ رکھا گیا۔ وہ ۱۵۵۵ء میں چھپی۔ اگرچہ خود ڈینٹے کو ڈیوائن کہنا اس کے مداحین نے ۱۵۲۱ء ہی میں شروع کر دیا تھا۔ مشرق کے لوگ اگرچہ اب تک اس حقیقت سے بے خبر ہوں۔ اہل مغرب پر ہسپانیہ کے بعض مستشرقین کی جدید تحقیقات نے اب یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح کر دی ہے کہ ڈینٹے کی ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ کا ماخذ اولاً وہ احادیث نبوی ہیں جن میں معراج کی کیفیات (بعض صورتوں میں باختلاف تفصیلات) مروی ہیں۔ ثانیاً وہ کتب تصوف و ادب اسلامیہ جن میں اسرار معراج نبوی پر روشنی ڈالنے کے علاوہ بعض صورتوں میں مصنفین نے خود اپنی سیاحت علوی اور مشاہدۂ تجلیات کا ذکر کیا ہے۔ موخر الذکر میں محی الدین ابن عربی کی مشہور کتاب ’’ فتوحات مکیہ‘‘ اور ابو العلا معری کی تصنیف’’ رسالۃ الغفران‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں میڈرڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر آسن جو اس نہایت اہم انکشاف کے بانی ہوئے۔ اپنی معرکتہ الآرا کتاب ’’ اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’ جب ڈینٹے الیفیری اپنی اس حیرت انگیز نظم کا تصور اپنے ذہن میں لایا اس سے کم از کم چھ سو سال قبل اسلام میں ایک مذہبی روایت موجود تھی جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مساکن حیات ما بعد کی سیاحتوں پر مشتمل تھی۔ رفتہ رفتہ آٹھویں صدی سے لے کر تیرھویں صدی عیسوی کے اندر اندر مسلم محدثین، علمائ، مفسرین، صوفیہ، حکماء اور شعرا سب نے مل کر اس روایت کو ایک مذہبی تاریخی حکایت کا لباس پہنا دیا۔ کبھی یہ روائتیں شروح معراج کی شکل میں دہرائی جاتیں۔ کبھی خود راویوں کی واردات کی صورت میں اور کبھی ادبی اتباعی تالیفات کے انداز میں۔ ان تمام روایات کو ایک جگہ رکھ کر اگر ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ سے مقابلہ کیا جائے تو مشابہت کے بیشمار مقامات خود بخود سامنے آ جائیں گے۔ بلکہ کئی جگہ بہشت و دوزخ کے عام خاکوں ان کے منازل و مدارج، تذکر ہائے سزا و جزا، مشاہدہ مناظر، انداز حرکات و سکنات افراد، واردات و واقعات سفر رموز و کنایات دلیل راہ کے فرائض اور اعلیٰ ادبی خوبیوں میں مطابقت نامہ نظر آئے گی۔‘‘ پروفیسر آسن نے احادیث معراج کو باعتبار اسناد تین زبانوں میں تقسیم کر کے ہر زمانہ کی روایت کے تفصیلی اختلاف کو قصہ معراج کے ارتقا کا موجب قرار دیا ہے لیکن اس امر کو ذکر کر کے کہ رسول عرب ؐ سے پہلے بھی بعض پیغمبروں کے متعلق معراج کی روائتیں موجود تھیں بلکہ اردو اویراف کی ایرانی بہشت کی سیر کے قدیم افسانے بھی ذکر ہوتے تھے۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ ’’ان سیاحتوں اور معراجوں میں کوئی بھی اتنا واضح، وسیع اور مکمل نہ تھا جس قدر کہ اسلامی روائت اپنے لٹریچر میں رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ اسلامی روایت ہر عالم و جاہل مسلمان کے دل میں گھر کر چکی تھی اور اس کو صحیح تسلیم کرنا ان کے ایمان کا جزو تھا۔ آج اس وقت بھی تمام اسلامی دنیا میں معراج پیغمبر کا دن مذہبی تیوہار کا دن سمجھا جاتا ہے اور ٹرکی، مصر، مراکش جیسے اسلامی ممالک میں اس روز قومی تعطیل منائی جاتی ہے۔ اسی سے واضح ہے کہ پیغمبر (علیہ السلام) کی معراج کے واقعہ میں مسلمانوں کا عقیدہ کس قدر راسخ ہے۔‘‘ پروفیسر آسن نے اگر خود اسلامی دنیا کی سیر کی ہوتی اور مسلمانوں کی ہر زبان کے لٹریچر کو بہ نظر غائر دیکھا ہوتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ معراج پیغمبرؐ کی روایت کا مسلمانوں کے عقیدہ اور تصور پر اتنا تسلط ہے کہ کوئی زبان دنیا میں ایسی نہ ہو گی جسے عام طور پر مسلمان بولتے ہوں اور اس میں ’’ معراج نامہ‘‘ موجود نہ ہو بلکہ سچ پوچھو تو مسئلہ معراج مسلمانوں کی سیاسیات پر بھی اثر انداز ہوا۔ معراج جسمانی تھی یا روحانی اس اختلاف پر لڑائیوں تک نوبت پہنچی۔ روایت معراج کے مختلف پہلو: معراج کا مذہبی اور علمی پہلو تو وہی ہے جسے مشاہدۂ تجلی ذات (یعنی Direct Vision) کہنا چاہیے۔ اور جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہوا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس تصوف کا پہلو کہنا چاہئے۔ صوفیہ کا معراج بھی دراصل ایک قسم کا علمی اور مذہبی پہلو رکھتا ہے۔ مختلف صوفیہ نے مختلف رنگوں میں تجلی ذات کے مشاہدہ کا ذکر کیا ہے۔ تصوف ان طریقوں کے نام ہے جن سے براہ راست معرفت ذات باری کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے اور جو لوگ ان طریقوں کے اختیار میں تجلی ذات کے پر تو سے بہرہ یاب ہوئے انہوں نے بعض اوقات اس حصول مقصد کو معراج سے تعبیر کیا۔ اغاطم صوفیہ میں حضرت بایزید بسطامی اور محی الدین ابن عربی کا معراج عام مشہور ہے حضرت بایزید بسطامی کے معراج کے کیفیات تو شاید قلمبند ہی نہ ہوئیں۔ لیکن محی الدین ابن عربی نے ’’ فتوحات مکیہ‘‘ میں اپنے معراج پر دفتر کے دفتر لکھے ہیں اور سیاحت علوی میں دو افراد کو اپنا راہنما اور ساتھی بنا کر جن میں سے ایک فلسفی ہے اور دوسرا عالم دین۔ ان کی زبان سے تمام دنیا جہان کے علوم و فنون اور مسائل و مباحث کے متعلق اس انداز میں اظہار خیالات فرمایا ہے کہ گویا یہ سب خیالات وہ انکشافات و الہامات ہیں جو ان کے قلب پر معراج میں وارد ہوئے۔ خالص عرفانی ہونے کی بجائے محی الدین ابن عربی کا معراج زیادہ تر مذہبی ہے۔ سیاحت آسمان اور مشاہدۂ ذات کے حقائق بے حد تفصیلات سے دئیے ہیں تاہم مذہبی اور اخلاقی مباحث میں جس قدر توجہ صرف ہوئی ہے وہ عرفانی مباحث کی صورت میں نہیں۔ منازل، مناظر، واقعات، کیفیات، مشاہدات کم و بیش ایسی ترتیب میں ہیں جس میں معراج پیغمبر۔ تاہم تفصیلات و تصریحات نے تصویر کو اس کامل صورت میں پیش کیا ہے کہ ڈینٹے کے نقاد کو ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ کا تمام نقشہ ’’ فتوحات مکیہ‘‘ کے انہیں ابواب کا چربہ نظر آتا ہے جس میں معراج کا ذکر ہے۔ معراج کا تیسرا پہلو خالص ادبی (Siterary) اور آرٹسٹک (Artistic) ہے۔ ادبی پہلو ضروری نہیں کہ اخلاق اور مذہب کی جھلک سے بالکل معرا ہو۔ مشہور عربی نابینا ابو العلا معری کا رسالہ ’’ الغفران‘‘ اسی ادبی پہلو کا حامل ہے یہ رسالہ ابو العلا معری نے اپنے ایک شاعر اور ادیب دوست ابو القارح حلبی کے ایک خط کے جواب میں رقم کیا جس میں ابو القارح نے باوجود ابو العلا کا مداح ہونے کے اس پر طنز کے پیرایہ میں ان شعرا اور ادباء کو مور و عتاب آگہی قرار دیا تھا جنہوں نے گنہگاری کی زندگی بسر کی ہو۔ ابو العلا نے رسالتہ الغفران میں ادبی رنگ میں اپنی بہشت دوزخ کی سیر دکھائی اور وسعت رحمت ذات کو واضح کرنے کے لئے کئی بدکاروں، گنہگاروں اور جاہلیت کے شعرا کو جنہوں نے بالآخر مرنے سے پہلے توبہ کر لی تھی غفران و رحمت کا سزا وار ہوتے اور جنت میں داخل ہوتے دکھایا۔ پروفیسر آسن کا خیال ہے کہ ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ کی بعض ادبی خوبیاں ’’ رسالۃ الغفران‘‘ کے خصوصیات کی شرمندہ احسان بھی ہیں۔ رسالتہ الغفران میں نہ صرف بعض قدیم و ہمعصر شعراء وغیرہ کے کلام پر تنقید ہے۔ بلکہ علمائے لعنت وغیرہ سے ملاقات کے دوران میں بعض لغوی مسائل پر بحثیں بھی ہیں۔ اسی طرح شہر زوری کا ایک قصیدہ سفر روح کے متعلق ہے جس کو ابن خلکان نے نقل کیا ہے اور وسٹن فیڈ نے ترجمہ کر کے شائع کیا ہے۔ ممکن ہے اسلامی لٹریچر میں اور بھی کئی کتابیں ایسی ہوں جنہیں معراج کے عرفانی اور ادبی پہلوؤں کے نمونے کہا جا سکے لیکن اس کے متعلق تحقیق کی ضرورت ہے۔ یوں معراج نبوی کے اسرار و حقائق کا تذکرہ اسلامی لٹریچر میں قریباً ہر بڑے مصنف کی کسی نہ کسی تصنیف میں ملے گا۔ اسلامی مصنفات پر ایک زمانہ میں یہ رنگ بھی غالب رہا ہے کہ حمد باری تعالیٰ کے بعد جب نعت پیغمبر لکھنے پر مصنف یا شاعر آیا تو اس نے معراج رسول ؐ اللہ پر علیحدہ مستقل باب لکھا۔ نظامی کا ’’ پنج گنج‘‘ اٹھا کر دیکھئے قریباً ہر کتاب میں یہ خصوصیت ملے گی۔ مغرب میں معراج کی روایت: پروفیسر آسن کی تحقیق کے مطابق معراج کی روایت مغرب میں ہسپانوی علما و صوفیائے اسلام کے ذریعہ پہنچی۔ ڈینٹے کی ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ کو معراج کے ادبی پہلو کا دوسرا بڑا نمونہ کہنا چاہیے۔ یہ امر جیسا کہ ادھر ذکر ہوا متحقق ہے کہ ڈینٹے نے محی الدین ابن عربی کی کتاب ’’ فتوحات‘‘ سے بہشت و دوزخ و اعراف اور ان کی تمام منازل و مناظر کو نقل کیا۔ اسی طرح تمام علوم مروجہ پر اپنی سیر کے دوران میں بحثیں کیں۔ البتہ سیاسی اور تاریخی واقعات وغیرہ کی بحث سے اپنی کتاب کی خوبیوں کو بڑھایا اور اپنے ماخذوں کا ذکر نہ کر کے ایک آنے والے طویل زمانہ یورپ پر اپنی شاعرانہ و حکیمانہ خوبیوں کا سکہ بٹھا لیا۔ ’’ فتوحات‘‘ اور’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ کا مقابلہ اس مضمون کو غیر متعلق اور طویل مباحث میں لے جائیگا۔ ورنہ بتایا جا سکتا تھا کہ جو لوگ مغرب میں بڑے بڑے ادبی، علمی اور سیاسی انقلابات پیدا کر گئے۔ وہ اسلامی علوم و تہذیب سے کس قدر خوشہ چینی کے بعد اس قابل ہوئے۔ جاوید نامہ۔۔۔۔ روایت معراج کا تیسرا ادبی نمونہ: اسلامی روایت معراج کے دنیا میں مشہور ہونے سے چھ سو سال بعد ڈینٹے نے اپنے تخیلی معراج کے مشاہدات کی صورت میں اس زمانہ کے علوم و فنون پر تبصرہ۔ مغربی عیسائی اقوام کی مذہبی اور اخلاقی کمزوریوں پر جرح اور سیاسیات یورپ کے صحیح کوائف کا وہ مرقع اہل مغرب کے سامنے کھینچا کہ نصف ربع مسکون کی اس وقت کی نسلوں کے دل و دماغ، اخلاق و عادات اور احساس و شعور حیات میں وہ ہیجان رونما ہوا۔ جو تھوڑا ہی عرصہ بعد یورپ کی عام علمی و سیاسی نشاۃ ثانیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ڈینٹے کی موت سے تقریباً پورے چھ سو سال کے بعد اقبال کا ’’ جاوید نامہ‘‘ اہل مشرق کے سامنے حال کی تنقیضات و ترقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے قریباً انہیں مباحث و مقاصد کو پیش کر کے اس حصہ دنیا میں ویسے ہی انقلابات کا پیش خیمہ ہونے والاہے۔’’ جاوید نامہ‘‘ کو ہم روائت اسلام معراج کا تیسرا اہم ادبی نمونہ کہیں گے ممکن ہے اسے چھ سو سال کے عرصہ میں کسی اور مسلم صوفی یا شاعر نے بھی اس موضوع پر کچھ لکھا ہو۔ لیکن جہاں تک ہم کوشش کر سکے ہیں عام ’’معراج ناموں‘‘ کے سوائے جن کی حیثیت قصے کہانیوں سے زیادہ نہیں کوئی قابل ذکر تصنیف اس مبحث پر دستیاب نہیں ہو سکی۔ معراج نبوی۔ فتوحات مکیہ اور ڈیوائن کامیڈی: ’’ فتوحات‘‘ اور ڈینٹے کے آسمانی ڈرامے میں جو عام مماثلت ہے اس پر اب کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ دونوں تصانیف میں جس خاص فرق کی طرف یہاں اشارہ کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ ’’فتوحات‘‘ کا مصنف خود صوفی اور صاحب حال تھا۔ اس کی تصنیف اس کے اپنے مکاشفات و واردات اور روحانی و عرفانی تصرفات کا آئینہ ہے۔ اس کی بناء محض تخیل یا آرٹ نہیں۔ ڈینٹے نے ’’فتوحات‘‘ کی پیش کردہ تصویر کے قریباً ہر خط و خال کو اپنے موقلم کی گنارش کی صورت میں پیش کیا۔ لیکن یہ کارنامہ ایک بہترین ادبی تصنیف کے رتبہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ باقی یہ امر کہ بلحاظ نتائج اس کی خوبیاں بعض مقاصد میں بنی نوع کے ایک کثیر گروہ کے دل و دماغ پر ’’ فتوحات‘‘ کی نسبت زیادہ دور رس اثر ڈال گئیں۔ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی جرأت نہیں ہو سکتی حیات ما بعد الموت کی حقیقتوں کے تجسس میں ابن عربی اور ڈینٹے دونوں نے سات ستاروں (بعض صورتوں میں نو) کی سیر سے گذر کر بہشت و دوزخ اور اعراف کی فضاؤں کے نقشے کھینچے ہیں اور اصلاً ان کو اسی طرح تصور کیا ہے جس طرح وہ احادیث نبوی میں بیان ہوئے۔ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ معراج نبی میں اقصیٰ سے لے کر حدود آسمان سے پار جانے تک میں کسی درمیانی فلک یا ستارہ کا ذکر نہیں۔ البتہ بعض احادیث میں واپسی کے موقعہ پر بعض ستاروں کی سیر کا ذکر ہے۔ معراج نبوی کا عام ذکر لکھنے والے مدارج عروج ہی میں سیر سیارگان کو لے آتے ہیں۔ مگر یہ قصے زیادہ تر کمزور احادیث پر مبنی ہیں۔ یا ان کا ماخذ محی الدین ابن عربی کی ’’ فتوحات‘‘ ہوتی ہے۔ فتوحات۔ ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ:ـ ’’ جاوید نامہ‘‘ کو’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ اور’’ فتوحات‘‘ سے دو باتیں ممیز کرنے والی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس میں وہ تمثیلی مظاہرات و معمات (Symbolism) ناپید ہیں۔ جو ان میں ہر مقام پر ملتے ہیں اور جن کی وجہ سے آج تک ان کے بعض مباحث عقیدۂ لاینحل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ دوسری یہ کہ اقبال نے زیادہ تر سیارگان (وہ بھی سات نہیں بلکہ چھ) کی سیاحت پر اکتفا کی ہے۔ دوزخ و اعراف کے نزدیک تک نہیں گیا۔ بجائے ساتویں ستارہ میں پہنچنے کے ’’ آنسوئے افلاک‘‘ جا نکلا ہے اور یہ غالباً اس لئے کہ ’’ جنت‘‘ اور’’ حضور‘‘ و’’ تجلی‘‘ کے نئے تصورات اور نئے مقاصد و معانی دنیا کے سامنے رکھنے مطلوب تھے۔’’ ندائے جمال‘‘ کی سماعت کا شوق بھی کچھ کم کشش کا باعث نہ تھا۔’’ کلیم اللہی‘‘ مشکل تھی لیکن ’’ سمیع اللہی‘‘ میں کیا باک ہو سکتا تھا۔ جن لوگوں کو واصل جہنم دکھانے کی ضرورت تھی ان کو ’’ فلک زحل‘‘ کے ایک قلزم خونیں میں مبتلائے عذاب دکھا دیا ہے اور وہ ایسے لوگ نہیں جو خالص مذہبی یا اخلاقی نقطہ خیال سے مجرم و گنہگار ہوں۔ بلکہ وہ ایسی ارواح رذیلہ ہیں جو ملک و ملت سے غداری کی مرتکب ہوئیں اور جن کو دوزخ نے بھی اپنے اندر لینا قبول نہ کیا۔ ’’ فتوحات‘‘ اور’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ حیات بعد الموت کے حقائق و کیفیات کی کنہ معلوم کرنے کی مساعی ہیں۔ معنوی اعتبار سے دونوں جد اہیں۔ ایک عام طور پر عرفانی مشاہدات کی حامل، دوسری علمی ادبی اور سیاسی نکات پر زیادہ حاوی۔ افراد کے اذہان و اخلاق کی شائستگی دونوں کا نصب العین ہے۔ تاہم ’’ صوفی‘‘ اور’’ ڈراما نویس‘‘ اپنی توجہ مختلف مقاصد کے پیش نظر رکھ کر حیات ما بعد پر ہی مرکوز رکھتے ہیں اقبال کہ حیات ما بعد (آخرت) کا مسئلہ بوجہ ایک مسلم عالم و حکیم ہونے کے اس کے لئے بہت پیش پا افتادہ ہو چکا ہے۔ اپنی زیادہ تر توجہ حیات حاضرہ یا حیات مطلق یا بالفاظ دیگر بقائے حیات انسانی کے مسئلہ پر صرف کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ بات اس قدر اہم نہیں کہ مرنے کے بعد بہشت و دوزخ یا اعراف میں انسانوں کی زندگی کیسی ہو گی۔ جس بات نے اس کو تمام عمر پیچ و اضطراب میں رکھا ہے وہ یہی موجودہ حیات انسانی ہے جو اقوام مشرق کے لئے بوجہ ان سیاسی و اقتصادی پستی کی موت سے بدتر ہو چکی ہے اور جس کے پاکیزہ ارتقا کی ضرورتوں سے اہل مغرب بوجہ اپنے مذہبی روحانی اور اخلاقی انحطاط و تنزل کے غافل ہو چکے ہیں اور وہ وقت قریب ہے کہ اسے ایک ایسی دنیاوی قیامت سے بہت جلد دو چار ہونا پڑے جو مشرق و مغرب دونوں کی موجودہ نسلوں کو تباہ و ہلاک کر کے تمام دنیا میں ایک ہموار نسل اور ایک اہم مقصد واحد قوم کے ظہور و فروغ کے لئے میدان صاف کر جائے۔ بقا و دوام حیات انسانی کے مباحث بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اقبال نے اس تصنیف کا نام ’’ جاوید نامہ‘‘ کیوں رکھا۔ احادیث معراج، فتوحات مکیہ،’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ اور’’ جاوید نامہ‘‘ اگر پہلو بہ پہلو بہ نظر امعان مطالعہ کئے جائیں تو شاید وہ تمام فرق مراتب سامنے آ جائے جس سے نبی، ولی، شاعر، فلسفی اور فلسفی شاعر کو متمیز کیا جا سکتا ہے۔ جاوید نامہ کے بعض اہم مباحث: پیشتر اس کے کہ مختصراً ’’ جاوید نامہ‘‘ کے بعض اہم مباحث کا ذکر کیا جائے۔ کتاب کے دیباچہ کا جو صرف دو اشعار پر مشتمل ہے یہاں نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اس سے شاید انسانی زندگی کا وہ نصب العین قارئین کے سامنے آ جائے جس کے مطابق شاعر یہ سمجھتا ہے کہ منزل آخرت میں قدم رکھنے سے پیشتر ممکن ہے حیات انسانی ابھی زمین کی طرح اور ستاروں کو بھی آباد کرے یا ان کے آباد کر چکنے کے بعد دوام ابد کی طرف انتقال سے پہلے اس زمینی ستارہ میں بطور آخری منزل کے وارد ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال موجودہ سائنس کے ان انکشافات پر مبنی ہے جس کے مطابق مریخ وغیرہ ستاروں میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ دیباچہ میں صرف یہ دو شعر ہیں: خیال من بتماشائے آسماں بود است بدوش ماہ و بآغوش کہکشاں بود است گماں مبرکہ ہمیں خاکداں نشیمن ماست کہ ہر ستارۂ جہاں است یا جہاں بود است چونکہ خود احادیث معراج میں بعض اجرام سماوی کے اندر حیات انسانی کا ممکن ہونا ان ملاقاتوں کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔ جو پیغمبر خدا نے معراج سے واپسی کے وقت مختلف انبیا کرام سے کیں۔ اس لئے شاعر کا یہ تخیل محض سائنس کے تصورات پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خود محی الدین ابن عربی نے بہشت و دوزخ سے پہلے سیارگان کی سیاحت اپنے ان مکاشفات میں کی جو انہیں مکہ معظمہ کے دوران قیام میں حاصل ہوئے اور جن کو ’’ فتوحات مکیہ‘‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا۔ پیغمبرؐ خدا ؐکی معراج کے سلسلہ میں بجائے سیارگان کے ’’ افلاک‘‘ کا ذکر ہے۔ا قبال نے غالباً اسی نکتہ کو ملحوظ رکھ کر جاوید نامہ میں قمر و عطارد و مشتری وغیرہ کو ’’ فلک‘‘ کا نام دیا ہے۔ مناجات اور ’’ اقبالی شکوے‘‘ : کتاب ’’ مناجات‘‘ سے شروع ہوتی ہے لیکن ایسی مناجات کہ اقبال ہی کی زبان سے ادا ہو سکتی تھی۔ حقائق حیات کے متعلق مستفسرانہ انداز میں ذات باری کو مخاطب کرنا جیسا اقبال کو آیا شاید اولیائے خاص کو بھی نصیب نہ ہوا ہو گا۔ ہر شعر ہر مصرع تعلق ولایت پر دال ہے نا ممکن ہے کہ شکوہ کا مصنف شکوہ کے اعادہ سے تھک جائے۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اپنے مقاصد کو حاصل نہ کر لے گا خدا کا دامن نہ چھوڑے گا۔ مشہور اقبالی شکوے اس مناجات میں آ گئے ہیں۔ ’’ جہان ہفت رنگ‘‘ میں آدمی کی ’’ ہم نفس‘‘ سے محرومی سب سے پہلی شکایت ہے۔ یہ موجودہ جہان اس کو راس نہیں آیا۔ آرزوئے ہم نفس می سوزدش نالہ ہائے دلنواز آموزدش لیکن ایں عالم کہ از آب و گل است کے تواں گفتن کہ دارائے دل است یہ ’’ لیل و نہار‘‘ کی دنیا پسند نہیں۔ اس کے متعلق پہلے طعنہ دیا تھا کہ ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی اب مناجاتی التجائیں ہیں کہ اس ’’ جہان چار سو‘‘ کی بجائے جس کا وجود ایک دوسرے سیارہ کے وجود کا محتاج ہے وہ جہاں عطا کی جس پر ’’ رفت بود‘‘ کا اطلاق نہ ہو۔ اے خوش آں روزے کہ از ایام نیست صبح اورانیم روز و شام نیست اے خدا روزی کن آں روزے مرا دار ہاں زیں روز بے سوزے مرا گویا اس مکانی ’’ وقت‘‘ سے دل بیزار ہے اور اس نئی قسم کے’’ روز‘‘ کا متمنی ہے جس کی شان یہ ہو۔ روشن از نورش اگر گرد و رواں صورت را چوں رنگ دیدان می تواں غیبہا از تاب او گرد د حضور نوبت اولا یزال و بے مرور! پھر سب سے بڑا شکوہ ہے کہ جس ہستی کی شان میں آیتہ تسخیر نازل کی۔ جس کے دید کا متوالا سپہر نیلگوں کو بنایا جسے راز دان ’’ علم الاسمائ‘‘ کیا۔ گویا تمام عالم سے جس کو برگزیدہ کر کے اپنے راز دروں کا محرک تک بنایا کہ ہر چیز مجھ سے مانگ۔ اسی سے خود اپنی ذات کو حجاب میں رکھا۔ مشاہدہ تجلی ذات کی عاشقانہ بیتابی کا اس سے بڑھ کر مظاہرہ کیا ہو گا۔ اے ترا تیرے کہ مارا سینہ سفت حرف ادعونی کہ گفت و با کہ گفت؟ روے تو ایمان من قرآن من جلوۂ داری دریغ از جان من؟ از زیان صد شعاع آفتاب کم نمی گرد و متاع آفتاب علم و عقل کی نعمتیں کافی ہیں۔ جس چیز کی طلب اور آرزو ہے اور وہ ملتی نہیں وہ وید ذات ہے۔ بے تجلی زندگی رنجوری است عقل مہجوری و دیں است عقل و دین اور معرفت یا مشاہدہ ذات کے فلسفوں او ربحثوں میں پڑنے کا یہ مقام نہیں مضمون کے طویل ہو جانے کا ڈر ہے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ حصول معرفت (Religious Experience) جس کا بار بار ذکر حضرت علامہ کے کلام میں آتا ہے۔ اس وقت فلسفہ نفسیات کا ایک اہم مبحث ہے جس پر اعلیٰ پایہ کے محققین کی توجہ مبذول ہو رہی ہے اور جو ممکن ہے کہ عام تجربہ اور مشاہدہ کی طرح ایک دن علم حقہ کے حصول کا عام ذریعہ بن جائے۔ حصول ابدیت کی آرزو کو پھر ایک دفعہ دہرایا ہے اور کہا ہے۔ آنیم من جاودانی کن مرا از زمینی آسمانی کن مرا اور اخیر میں ذاتی التجاؤں کو چھوڑ کر پھر وہی تقاضے آ گئے کہ وہ ہم نفس عطا کر جن میں زندگی کا وہی شرار پیدا ہو جو مجھ میں ہے۔ جو میرے طوفان میں اس طرح لپیٹے جائیں کہ پھر میری حدود سے باہر نہ نکل سکیں۔ بحرم و از من کم آشوبی خطا است آں کہ در قعرم فرو آید کجا است؟ پرانی نسل سے قطعی نا امیدی ہے۔ آئندہ نسلوں کو آغوش میں لینے کی تمنا کے ساتھ اس دعا پر مناجات کو ختم کیا ہے کہ الٰہی عہد حاضر کے نوجوان میری باتوں کو سمجھیں۔ من کہ نومیدم ز پیران کہن دارم از روزے کہ می آید سخن! برجواناں سہل کن حرف مرا بہرشاں پایاب کن ژرف مرا ٭٭٭ تمہید آسمانی: مناجات کے بعد ’’ تمہید آسمانی‘‘ میں آسمان کی زبان سے زمین کو طعنہ دیا ہے۔ خاک اگر دید ند شد جز خاک نیست روشن دہا ہندہ چوں افلاک نیست اس طعنہ کو سن کر زمین خجل ہوئی جاتی ہے اور اپنے ’’ درد بے نوائی‘‘ کا شکوہ خدا کے سامنے پیش کرتی تھی کہ ’’ ز آنسوئے گردوں‘‘ تسلی کی یہ ندا آئی۔ اسے امینے از امانت بے خبر غم مخور، اندر ضمیر خود نگر شستہ از لوح جاں نقش امید؟ نور جاں از خاک تو آید پدید! عقل آدم بر جہاں شبخوں زند عشق ادبر لا مکاں شبخوں زند تمہید زمینی: ’’ تمہید آسمانی‘‘ کے بعد’’ تمہید زمینی‘‘ آتی ہے۔ نظم کا یہ حصہ خاص طور پر اہم ہے۔ اس میں سیاحت سماوی کا آغاز ہوتا ہے۔ سرسری نظر سے دیکھنے والے کو خیال ہو گا کہ ’’ تمہید زمینی‘‘ پہلے اور ’’ تمہید آسمانی‘‘ بعد میں ہونی چاہیے تھی لیکن چونکہ ایک ’’ زمینی‘‘ آسمان کی تسخیر کو روانہ ہونے والا تھا۔ اس لئے آسمان کی زبان سے پہلے زمین کو طعنہ دلا دیا۔ اور پھر اس کے بعد اس کی تسخیر پر کمر باندھی۔ ’’ تمہید زمینی‘‘ کے اخیر پر مولانا روم کی زبان سے جو میرا فلاس میں شاعر کے راہنما بنے ہیں۔ اسرار معراج نبوی کی شرح کی گئی ہے۔ معراج کے جسمانی یا روحانی ہونے کا مسئلہ ابتدا ہی سے مابہ النزاع چلا آتا ہے۔ اقبال نے اس کی تشریح ایک خاص ندرت سے کی ہے۔ آسمانی سیر کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ شاعر ’’ تشنہ‘‘ اور’’ دور از کنار چشمہ سار‘‘ مولانا روم کی ایک غزل بے اختیار گانے لگتا ہے۔ جس کے مفصلہ ذیل دو اشعار’’ اسرار خودی‘‘ کے سب سے پہلے ایڈیشن کے سر ورق کے اندر کی طرف چھپے تھے اور جن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک طرح فلسفہ خودی کی ضرورت کی تائید کے لئے کتاب ’’ خودی‘‘ کی بسم اللہ سے پہلے چھاپا گیا۔ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دیو دور ملزم و انسانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست اس اثنا میں شام ہو جاتی ہے آفتاب غروب ہو جاتا ہے لیکن شام متاع آفتاب سے ایک ’’پارہ‘‘ اڑا کر اسے کوکب کی صورت میں افق پر نمایاں کرتی ہے کہ اتنے میں روح رومی پردہ ہارا بر درید از پس کہ پارہ آمد پدید! شاعر اس کی طلعت درخشندہ اور پیکر روشن سے کچھ عرصہ دنگ رہنے کے بعد اپنے فلسفیانہ سوالات اس پر کرتا ہے کہ ’’ موجود‘‘ و’’ ناموجود‘‘ کیا ہے ’’ محمود‘‘ و’’ نامحمود‘‘ کے کیا معنی ہیں۔ جب اپنے جوابات کے دوران میں مولانا روم کی روح اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ بر مقام خود رسیدن زندگی است ذات رابے پردہ دیدن زندگی است مرد مومن در نساز و با صفات مصطفیٰ راضی نہ شد الا بذات شاعر کی روح پھڑک اٹھتی ہے۔ دید ذات کا شوق مضطرب کرتا ہے۔ سوال ہوتا ہے کہ ذات تک رسائی کیسے ہو؟ باز گفتم پیش حق رفتن چاں؟ کوہ و خاک و آب را گفتن چاں جواب کیا ملا؟۔۔ جس طرح ایک ’’ پیدائش‘‘ سے آدمی دنیا میں آتا ہے۔ اسی طرح ایک اور ’’پیدائش‘‘ سے باہر بھی جا سکتا ہے: گفت اگر ’’سلطاں‘‘ ترا آید بدست می تواں افلاک را از ہم شکست نکتہ ’’الا بسلطان‘‘ یاد گیر ورنہ چوں مور و ملخ در گل بمیر از طریق زادن اے مرد نکوے آمدی اندر جہان چار سوے ہم بروں جتن بزادن می تواں بند ہا از خود کشادن می تواں سوال و جواب کا سلسلہ آگے چلتا ہے۔ مولانا روم اس نئے ’’ زاون‘‘ کی تشریح فرماتے ہیں عشق کی قوت و برہان مبین کے کرشموں کا ذکر ہوتا ہے۔ مکان و زمان پر قابو پانے کے طریق بتائے جاتے ہیں۔ ’’ نہ آسمان‘‘ اور’’ فراخاے جہان‘‘ کے خوف سے بے نیاز ہو جانے کی تلقین کی جاتی ہے زمان و مکان کی حقیقت بتائی جاتی ہے کہ ایں دو یک حال است از احوال جاں جان و تن کے صحیح تعلق کا راز بتایا جاتا ہے اور ان تمام مقدمات کے بعد اخیر کے چند اشعار میں جو سوال و جواب ہوتے ہیں ان میں معراج کا نکتہ خود بخود واضح ہو کر پیش نظر آ جاتا ہے۔ چیست جاں؟ جذب و سرود و سوز و درد ذوق تسخیر سپہر گرد گرد! چیست تن؟ بارنگ و بو خو کردن است با مقام چار سو خو کردن است از شعور است ایں کہ گومی نرد و دور چیست معراج، انقلاب اندر شعور انقلاب اندر شعور از جذب و شوق دار ہاند جذب و شوق از تحت و فوق این بدن ہاجان ما انباز نیست مشت خاکے مانع پرواز نیست اس مکالمہ کے بعد شاعر کے تن کا ہر ذرہ پرواز افلاک کے لیے سیماب کی طرح بے تاب ہو جاتا ہے زمان و مکان کی روح جس کا نام شاعر نے ’’ زردان‘‘ رکھا ہے۔ ایک بادل کے پردے سے فرشتے کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور اس کو کہتی ہے کہ میں ’’ زردان‘‘ ہوں۔ تمام جہان زمین و آسمان پر میری قاہری کا تسلط ہے۔ نظم کے اس حصہ میں شاعر نے زمان و مکان کے موجودہ تخیلات اور ان کی اس حقیقت پر جو قرآنی آیات اور احادیث سے پیدا ہے عجب شاعرانہ و فلسفیانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ محی الدین ابن عربی اور ڈینٹے دونوں کا آغاز سیاحت ایک پہاڑ کے قرب سے ہوا۔ اتفاق ہے کہ اقبال کے سامنے بھی روح رومی ایک پہاڑ کے عقب ہی سے نمودار ہوتی ہے۔ فلک قمر: اس کے بعد معراج کا فلسفہ نہیں بلکہ خود شاعر کا اپنا معراج شروع ہوتا ہے فلک قمر سب سے پہلے آتا ہے۔ رومیا س دنیا کے ہولناک کہسار شاعر کو دکھاتا ہے۔ کچھ دور دونوں جاتے ہیں تو قمر کے ایک غار میں سب سے پہلا ہندوستان کا ایک قدیم عارف ملتا ہے جسے اہل ہند’’ جہاں دوست‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ جہاں دوست’’ وشوامتر‘‘ کا ترجمہ ہے۔ ’’ وشوامتر‘‘ ’’ رام‘‘ کا استاد تھا۔ اثنائے گفتگو میں’’ جہاں دوست‘‘ مولانا روم سے سوالات کرتا ہے کہ عالم کیا ہے۔ آدم کیا ہے، حق کیا ہے، رومی دو شعروں میں نہ صرف عالم و آدم اور حق کا کنہ بتا جاتا ہے بلکہ ’’ عالم‘‘ و ’’حق‘‘ کے متعلق شرق و غرب کے رحجانات کی حقیقت بھی کھول کر رکھ دیتا ہے۔ آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگ فسن شرق حق را دید و عالم را نہ دید عرب در عالم خزید، از حق امید جہاں دوست ان حقائق کو تسلیم کرتا ہے۔ مانتا ہے کہ مشرق وجود و عدم کے مسائل میں آج تک پھنسا رہا۔ لیکن وہ اس کے مستقبل سے نا امید نہیں۔ بتاتا ہے کہ کل قشمر ود (فلک قمر کا ایک پہاڑ) کی چوٹیوں پر ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا۔ اس کی نگاہ سے ذوق دیدار ٹپکتا تھا اور وہ نگاہ صرف ہمارے خاکدان (مشرق) پر بندھی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ اس ’’ خاک خموش‘‘ میں تجھ کو اب کیا نظر آتا ہے۔ کہیں پھر کسی زہرہ کے جمال پر تو نظر نہیں ۔ لیکن اس نے جواب کیا دیا اپنی ٹکٹکی باندھنے کی وجہ کیا بتائی۔ گفت ہنگام طلوع خاور است آفتاب تازہ اورا دربر است رستخیزے درکنارش دیدہ ام لرزہ اندر کوہسارش دیدہ ام عرشیاں را صبح عید آں ساعتے چوں شود بیدار چشم ملتے! ’’ وشوامتر‘‘ کی زبان سے یہ پیغام مشرق اور بالخصوص ہندوستان اور اہل ہند کے نام لانا اقبال ہی کا حصہ تھا۔ اس کے بعد وادی یرغمید میں شاعر اور اس کا راہنما داخل ہوتے ہیں۔ اس وادی کا نام فرشتوں کی زبان میں وادی ’’ طواسین‘‘ ہے۔ منصور حلاج کی مشہور تصنیف کتاب الطواسین فرانس میں طبع ہو چکی ہے۔ طس قرآن کریم کی اس سورت کا نام ہے قر آن کے حروف مقطعات میں سے ہے۔ منصور حلاج کی جدت کوشی کا یہ کمال تھا کہ اس نے اپنی تصنیف کے مختلف حصوں کو بجائے ابواب میں تقسیم کرنے کے ان کا نام طواسین (طٰس کی جمع) رکھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی مصنف لفظ’’ لوح‘‘ یا ’’ منزل‘‘ بمعنی باب یا فصل استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ پاس ادب مانع تھا کہ پیغمبروں سے بالمشافہ ملاقات کی جاتی۔ اس لئے شاعر نے اس امر پر اکتفا کی ہے کہ بجائے ان سے مل کر گفتگو کرنے کے ان کی ’’ طواسین‘‘ یا بالفاظ دیگر الواح فلک قمر پر پڑی ہوئی دکھائی ہیں۔ جن کے کتبوں میں سے ہر ایک کی تعلیم کا اہم پہلو واضح ہو گیا ہے۔ طواسین رسل میں چار طواسین شامل ہیں۔ طاسین گوتم، جس کا عنوان ہے ’’ توبہ اوردن زن رقاصہ عشوہ فروش‘‘ طاسین زرتشت جس کا عنوان ہے ’’ آزمائش کردن اہرمن زر تشت را‘‘ طاسین مسیح (رویائے حکیم طالسطائی اس میں دکھایا گیا ہے کہ مغربیوں نے دور حاضرہ میں عیسائیت کا کیا حال کیا) طاسین محمدؐ (نوحہ روح ابو جیل در حرم کعبہ، کعبہ کے بتخانہ سے حرم بن جانے پر ابوجہل کا یہ نوحہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے) فلک عطارد: زاں بعد شاعر اور اس کا راہنما فلک عطارد میں پہنچتے ہیں۔ یہاں جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی روحوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ افغانی سے تعارف کراتے وقت رومی بتاتا ہے کہ میرے ساتھی کا نام ’’ زندہ رود‘‘ ہے (Living Stream) زندہ رود سے افغانی اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کے متعلق سوال کرتا ہے۔ زندہ رود جواب دیتا ہے پھر افغان اپنے جواب میں دین و وطن کا صحیح مفہوم بتاتا ہے۔ اشتراکیت و ملوکیت دونوں طلسموں کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہتا ہے۔ زندگی ایں را خروج آں را خراج درمیان ایں دو سنگ آدم ز جاج سعید حلیم پاشا مشرقیوں اور مغربیوں کے فطری اختلاف پر رائے زنی کے بعد کہتا ہے کہ افرنگیوں کا شعلہ اب ’’ نم خوردہ‘‘ ہو چکا ہے ان کی آنکھ اگرچہ تیز ہے لیکن دل مردہ ہے۔ مصطفی کمال پاشا نے جو یورپ کی نقالی شروع کی ہے اس سے ترک اپنے اصلی مرکز سے ہٹ جائے گا۔ ترک اس وقت جو اپنی طرف سے نئی باتیں پیدا کر رہے ہیں۔ وہ وہی ہیں جو یورپ میں پرانی ہو چکی ہیں۔ سعید حلیم کا ترک کے نام پیغام یہ ہے۔ چوں مسلماناں اگر داری جگر در ضمیر خویش و در قرآن نگر صد جہان تازہ در آیات اوست عصر ہا پیچیدہ در آنات اوست یک جہانش عصر حاضر رابس است گیر اگر در سینہ دل معنی بس است بندۂ مومن ز آیات خداست ہر جہاں اندر بہر اوچوں قباست چوں کنی گر دو جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش زندہ رود کو شکایت ہے کہ قرآن تو موجود ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ عالم قرآن کہاں ہے اس کا جواب افغان کی طرف سے آتا ہے۔ محکمات عالم قرآنی کی حقیقت بیان کی جاتی ہے: ۱۔ خلافت آدم، ۲۔ حکومت الٰہی، ۳۔ ارض ملک خداست، ۴۔ حکمت چیز کثیر است یہ چار باتیں بطور محکمات واصول قرآنی کے پیش کی گئی ہیں۔ طوالت کا خوف ہے کیونکہ یہ مضمون اپنی حد سے پہلے ہی زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ ورنہ ان میں ہر مبحث ایک مستقل دفتر تنقید و تشریح کا مقتضی ہے۔ اس کے بعد افغانی نے ملت روسیہ کے نام پیغام دیا ہے اس پیغام کی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں کہ چند اشعار نقل کر دئیے جائیں۔ تو کہ طرح دیگرے انداختی دل زد ستور کہن پرداختی ہمچو ما اسلامیاں اندر جہاں قیصریت را شکستی استخواں تابر افروزی چراغے در ضمیر عبرتے از سرگذشت مابگیر پائے خرد محکم گذار اندر نبرد گرد ایں لات و ہبل دیگر مگرد کردۂ کا بہ خداد نداں تمام بگذر از لا جانب الاخرام اے کہ میخواہی نظام عاملے جستہ اورا اساس محکمے؟ داستان کہنہ شستی باب باب فکررا روشن کن ازام الکتاب باسیہ فاماں ید بیضا کہ دادا؟ مژدہ ’’لاقیصر و کسریٰ‘‘ کہ داد؟ جز بقرآں ضیغمی رو باہی است فقر قرآن اصل شاہنشاہی است اس کے بعد اشتراکی نقطہ نگاہ سے قرآن کے چند حقائق بیان فرمائے ہیں۔ ملوک کی قریہ ویرانی، ربوا کی حرمت، الارض للہ لن تنا لو البر حتی تنفقوا کی تشریح کی ہے۔ چیست قرآں؟ خواجہ را پیغام مرگ دستگیر بندۂ بے ساز و برگ ہیچ خیر از مردک زرکش مجو لن تنا لو البر حتی تنفقوا از ربا آخرچہ می زاید؟ فتن! کس نداند لذت قرض حسن! ازربا جاں تیرہ دل چوں خشت و سنگ آدمی و رندہ بے دندان و چنگ رزق خود را از زمیں برون رو است ایں ’’متاع‘‘ بندہ و ملک خدا ست بندۂ مومن امیں، حق مالک است غیر حق ہر شے کہ ایں ہالک است رایت حق از ملوک آمد نگوں قریہ ہا از دخل شاں خوارووں آب و زمان ماست از یک مائدہ دو دہ آدم ’’کنفس واحدہ‘‘ فلک زہرہ:ـ شاعر کی ’’ جان پاک‘‘ ’’ سو‘‘ سے ’’ بے سوئی‘‘ کی طرف پرواز پر پرواز کئے جاتی ہے۔ ایک جہان میں مر کر دوسرے میں جا نکلنا دوسرے سے گذر کر تیسرے میں جا نکلنا اس کی فطری بے تابیوں کا خاصہ ہے۔ اور آخر اس کا منتہا کیا ہے۔ می کند پرواز در پہنائے نور مخلبش گیر ندہ جبریل و جور! تاز ’’ما زا البصر‘‘ گیرد نصیب بر مقام ’’عہدہ‘‘ گرد در رقیب مقام ’’ عبدہ‘‘ ہر’’ رقابت‘‘ کا مسئلہ کسی شاعر کے اس نعتیہ شعر سے زیادہ کہیں حل نہ ہوا ہو گا۔ موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات تو عین ذات می نگری در تبسمی سوا د زہرہ میں جو منظر سب سے پہلے آتا ہے۔ وہ خدایان اقوام کہن کی مجلس ہے۔ بعض نام حقیقی ہیں او ربعض شاعر کی طباعی نے خود تراش لئے ہیں۔ بعل د مرد وخ و یعوق و نسر و فسر رمخن و لات و منات و عسر، غسر ان میں سے ہر ایک اپنے از سر نو زندہ ہو جانے کے امکان پر ثبوت لا رہا ہے او راس بات سے کہ یہ عہد پھر بے ’’ خلیل‘‘ اور بے بت شکن ہو چکا ہے۔ بر قیام خویش می آورد دلیل از مزاج ایں زمان بے خلیل بعل ایک نغمہ گاتا ہے۔ یہ نغمہ نوحہ روح ابوجہل (طاسین محمد ؐ در فلک قمر ) کا جواب سمجھنا چاہئے تبخانہ کعبہ کو ’’ حرم‘‘ میں متبدل دیکھ کر ابوجہل چلا اٹھا تھا۔ سینہ ما از محمدؐ داغ داغ از دم او کعبہ را گل شد چراغ از ہلاک قیصر و کسرے سرود نوجواناں راز دست مار بود اسلام کی موجودہ پستی کی کوئی حد ہے! ابوجہل کائنات سے اپیل کرتا ہے (خدا تو اس کا کوئی ہے نہیں) کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدلہ لے۔ اس لئے کہ بقول ابوجہل مذہب او قاطع ملک و نسب از قریش و منکر از فضل عرب در نگاہ او یکے بالا و پست با غلام خویش بریک خواں نشست قدر احرار عرب نشناختہ باکلفتان حبش در ساختہ احمراں با اسوداں آمیختند آبروئے دو دمانے ریختند بعل کا نغمہ امید کا نغمہ ہے’’ بت‘‘ نے جہاں بالواسطہ’’ بت پرستی‘‘ کو تسلی دی ہے۔ وہاں اپنے ساتھی بتوں کے سامنے اعلان کیا ہے کہ ’’ اب آدم پھر مجوس پرستی کی طرف راغب ہو چکا ہے۔ وقت ہے کہ اٹھو اور پھر دنیا کو اپنا پرستار بنا جاؤ۔ اس مادہ پرستی کے زندہ کرنے کے لئے وہ قدرتاً افرنگیوں کا ممنون ہے۔ کہتا ہے‘‘ زندہ باد افرنگی مشرق شناس آنکہ مارا از لحد بیروں کشید پھر زیادہ اچھا موقعہ اس لئے پیدا ہو گیا ہے کہ ابراہیم کا قائم کردہ حلقہ توحید و وحدت ٹوٹ چکا ہے آل ابراہیم ’’ بے ذوق است‘‘ ہے۔ ملک و نسب کے نئے نصب العینوں نے دین و مذہب کو شکست دے دی ہے۔ محمد ؐ کا مذہب سب سے بڑا پہاڑ تھا جو ہمارے دستہ میں حائل تھا۔ لیکن اب اس وقت ہزاروں بولہب محمد ؐ کے چراغ کو پھونکوں سے بجھانے کے در پے ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد مسافر فرعون اور لارڈ کچنر کی روحوں کو دیکھتے ہیں۔ لیکن کہاں؟ زہرہ کے ایک دریا کی تہہ میں۔ اس لئے کہ دونوں کا انجام سمندر کی تہہ میں غرقابی تھا۔ سمندر کے اندر یہ مجلس اس طرح منعقد ہوتی ہے۔ رومی اقبال کو کہتا ہے کہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے اور ڈر نہیں پیچھے چلتا آ۔ میں موسیٰ کی طرح سینہ دریا کو چیرنا اور ا سکے ضمیر کے اندر داخل ہو جانا جانتا ہوں۔ دونوں سمندر میں قدم رکھتے ہیں تو سمندر اپنا سینہ کھول کر ان کو اندر آنے دیتا ہے۔ اس حیرت انگیز منظر کی تصویر شاعر نے اس طرح کھینچی ہے۔ بحر، سینہ خود را کشود یا ہوا بود و چو آبے دا نمود قعر اویک وادی بے رنگ و بو وادی تاریکی او تو بتو پیر رومی سورۂ طہٰ سرود زیر دریا ماہتاب آمد فرود! کوہ ہائے شستہ و عریان و سرد اندراں سرگشتہ و حیراں دو مرد اقبال کے اس تخیل کی مثال اور ڈینٹے ابن اعرابی بلکہ دنیا کے تمام شعراء کے کلا م میں مشکل سے ملے گی۔ فرعون اور کچنر حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کو تکتے رہ جاتے ہیں۔ آخر فرعون مسافروں سے پوچھتا ہے کہ یہ سحر یہ صبح، یہ ظہور یہاں سمندر کی تہہ میں کیسے پیدا ہو گئے۔ رومی دو لفظوں میں اس کی آنکھیں کھول دیتا ہے اور حقیقت منکشف کر دیتا ہے۔فرعون کے سوال کا جواب صر ف یہ ایک شعر ہے۔ ہر چہ پنہاں است ازو پیداستے اصل ایں نو راز ید بیضاستے! فرعون آخری وقت سمندر میں ہاتھ پاؤں مار کر غرق ہونے سے پہلے اپنے ایمان کا اعلان کر کے رخصت ہوا تھا۔ ’’ امنت برایت موسیٰ و ہارون‘‘ مسلمانوں کا عام عقیدہ ہے کہ یہ ’’ ایمان بالباس‘‘ تھا اور قابل قبول نہ تھا۔ تاہم یہ حقیقت شاعر کے سامنے ہے۔ فرعون کے لب پر رومی کے یہ الفاظ سن کر افسوس و تاسف کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں اور پکار اٹھتا ہے۔ آہ فقد عقل و دیں دربا ختم دیدم و ایں نور رانشناختم اپنے انجام اور ملوکیت و فرعونیت کے انجام پر آٹھ آٹھ آنسو رو کر کہتا ہے۔ چیست تقدیر ملوکیت؟ شقاق محکمی جستن ز تدبیر نفاق ملوکیت جو تدبیر نفاق کی پالیسی پر اپنی محکمی کا اساس رکھتی ہے۔ اس کا انجام سوائے تباہی و بربادی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ تہ قلزم، موت کے دن سے آج تک فرعون یہ حسرت لئے بیٹھا ہے۔ باز اگر بینم کلیم اللہ را خواہم ازوے یک دل آگاہ را اس جواب کے بعد کچنر فرعون سے مخاطب ہوتا ہے۔ مصر میں زمانہ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائی ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ اس سے اقوام پارینہ کے حالات و واقعات کا منکشف کرنا مقصود ہے۔ فرعون اس سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میری قبر تو علم و حکمت کی اغراض سے کھود ماری۔ لیکن مہدی سوڈانی کی تربعت کے اندر کیا تھا کہ تو نے اپنے زمانے میں اس کو کھدوا ڈالا؟ اس کا جواب کیا ہو سکتا تھا۔ دفعتہ گلشن جنت کی طرف درویش سوڈانی کی روح پرواز کرتی ہوئی اس بزم میں آ نکلتی ہے اور سب سے پہلے کچنر سے مخاطب ہوتی ہے۔ گفت ’’اے کشنر اگر وادی نظر انتقام خاک در ویشے نگر! آسماں خاک ترا گورے نداد مرقدے جز دریم شورے نداد‘‘ اس تمام باب میں سب سے اہم وہ پیغام ہے جو مہدی سوڈانی نے اقوام عرب و افریقہ کے نام دیا ہے۔ افسوس ہے کہ یہاں سوائے چند اشعار کے زیادہ درج نہیں کیا جا سکتا۔ گفت ’’اے روح عرب بیدار شو چوں نیاگاں خالق اعصار شو اے فواد اے فیصل اے ابن سعود تاکجا برخویش پیچیدن چودود زندہ کن در سینہ آں سوزے کہ رفت در جہاں باز آور آں سوزے کہ رفت خاک بطحا خالدے دیگر بزائے نغمہ توحید را دیگر سرائے اے نخیل دشت تو بالندہ تر برنخیز و بر تو فاروقے دگر؟ اے جہان مومنان مشک1؎ فام از تومی آید مرا بوئے دوام زندگانی تاکجا بے ذوق سیر تاکجا تقدیر تو در دست غیر بر مقام خود نیائی تابکے استخوانم دریمے نالد چونے از بلا ترسی؟ حدیث مصطفی ست مرد را روز بلا روز صفاست‘‘ فلک مریخ: فلک مریخ میں شاعر کے تخیل نے اس ستارے کو ایک فلاسفر دکھایا ہے جس کا نام حکیم مریخی ہے۔ وہ انجم شناس واقع ہوا ہے۔ مسافروں کی دنیا کے حالات سے آگاہ ہے بلکہ کسی زمانہ میں اس کی سیر کر چکا ہے۔ ایران و فرنگ دیکھ چکا ہے۔ ’’ نیل‘‘ ورود گنگ کے ملکوں سے خوب واقف ہے۔ بہر تحقیق فلزات، زمین، امریکہ، جاپان، چین سب کی سیاحت کر چکا ہے۔ مسافروں کو بتاتا ہے کہ جہاں تم پہنچے ہو یہ شہر مرغدین کا نواح ہے۔ وہ خود یہاں کیوں پیدا ہوئے یہ تمام حالات بتائے جاتے ہیں۔ شہر مرغدین کے حالات میں حکیم مریحی کہتا ہے۔ کس دریں جا سائل و محروم نیست عبد و مولا حاکم و محکوم نیست یہاں زندہ رود یعنی (اقبال) اور حکیم مریخی میں تقدیر و تدبیر کے مسئلہ پر مکالمہ ہوتا ہے۔ زندہ رود تقدیر کے متعلق اپنا نیا نقطہ خیال واضح کرتا ہے۔ جس مذہب نے ’’ تقدیر‘‘ کو قناعت و سکون اور بے علمی سمجھ کر بطور عقیدہ کے دل میں جگہ دے لی ہے۔ اس کے متعلق کہتا ہے۔ وائے آں دینے کہ خواب آرد ترا باز در خواب گراں بارد ترا سحر و افسوں است یا ایں است ایں حب افیون است یا ایں است ایں تذکیر منبیہ مریخ: فلک مریخ میں ہزاروں کاخ گذرنے کے بعد مسافر ایک جگہ دیکھتے ہیں۔ ایک شہر ہے اور اس کے باہر ایک وسیع و فراخ میدان ہے۔ وہاں مرد و زن کا ہجوم ہے۔ گویا ایک عام جلسہ ہے جہاں ایک عورت تقریر کر رہی ہے۔ اس کا چہرہ بظاہر خوب چمکتا دمکتا ہے۔ لیکن اس کے تن میں نور جان پیدا نہیں۔ اس کے الفاظ بے سوز ہیں اور اس کی آنکھ بے نم یعنی سرود آرزو و محبت سے یکسر نا محرم ہے۔ اس کا سینہ جوش جوانی سے خالی اور اس کا ’’ آئینہ‘‘ کو رد’’ صورت ناپذیر‘‘ واقع ہوئی ہے۔ یہ فیشن و آزادی کا دلدادہ محبت اور آئین محبت سے قطعاً بے خبر ہے۔ مراد یہ کہ مرد کی صحبت سے گریزاں ہے اور اس سے ازدواج کے تعلق کو برا سمجھتی ہے۔ یہ وہی رنگ ہے جو اب یورپ کی عورتوں کی تقلید میں مشرق کی عورتیں بھی اپنے اوپر وارد کرنے کی آرزو مند ہو رہی ہیں۔ حکیم نکتہ داں مسافروں کو بتاتا ہے کہ یہ نوجوان لڑکی اہل مریخ سے نہیں بلکہ فر زمرز جیسے شاعر نے مریخ کا آمر کردار شب بیان کیا ہے اسے یورپ سے اٹھا کر یہاں لے آیا ہے تاکہ مریخ کی 1؎ اہل افریقہ عورتوں کے دل میں بھی اس کی تقلید کی خواہش پیدا کر کے انہیں بگاڑوے فرزمرز نے ’’ کار نبوت‘‘ (تبلیغ) میں اسے پختہ کر دیا ہے لیکن وہ خود اب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ میں آسمان سے بطور تنبیہہ نازل ہوئی ہوں اور میری دعوت ’’ دعوت آخر زمان‘‘ ہے۔ اس کا خاص فن کیا ہے۔ از مقام مرد و زن دار و سخن فاش تر می گوید اسرار بدن! یہ فرنگی آزاد لڑکی جو اس دنیا کی لڑکیوں کو نئے آزادی کے رستہ پر لگا کر اب مریخ میں ’’ کار نبوت‘‘ کے فرائض ادا کرنے جا پہنچی ہے۔ وہاں کی عورتوں کو اپنی سحر پرور تقریر میں مردوں سے باغی ہو جانے کی تلقین کرتی ہوئی کہتی ہے۔ اے زناں! اے مادراں! اے خواہراں زیستن تاکے مثال ’’دلبراں1؎!‘‘ دلبری اندر جہاں مظلومی است دلبری محکومی و محرومی است! درد و گیسو شانہ گردانیم ما مرد را نخچیر خود وانیم ما مرد صیادی بہ نخچیری کند گرد تو گردد کہ زنیری کند! ہمبراد بودن آزار حیات وصل او زہر و فراق او نبات پھر ایک نہایت دلچسپ انداز میں شادی سے بے نیازی اور ماں بننے کی مصیبت سے جو حیلے آج کل یورپ میں اختیار کئے جا رہے ہیں۔ ان کا نقشہ کھینچا ہے اور ان خیالات کی بہبودگی کا راز رومی کی زبان سے ظاہر کیا ہے۔ فلک مشتری: فلک مشتری میں ارواح جلیلہ، منصور حلاج، غالب اور ایران کی مشہور شاعرہ قرۃ العین ملتی ہے۔ نواے حلاج، نواے غالب، نواے طاہرہ سننے کے بعد زندہ رود اپنی بعض مشکلات ان ارواح بزرگ کے سامنے پیش کرتا ہے اور ان کے جواب سنتا ہے۔ مثلاً حلاج سے سوال ہوتا ہے۔ از مقام مومناں دوری چرا؟ یعنی از فردوس مہجوری چرا؟ حلاج کے جواب میں جنت کی حقیقت پر شاعر اپنے تمام خیالات کو واضح کر جاتا ہے۔ جنت ملا مے و حور و غلام جنت آزادگاں سیر دوام یہ الفاظ منصور کی زبان ہی کو سزا وار تھے۔ عشق ما از شکوہ ہا بیگانہ ایست گرچہ اور اگریہ مستانہ ایست ایں دل مجبور ما مجبور نیست نادک ما از نگاہ حور نیست 1؎ مرد کی بیوی بن کر رہنا۔ آتش مارا بیفز اید فراق جان مارا سازگار آید فراق بے خلشہا زیستن، نازیستن باید آتش در تہہ پازیستن! بعض دوسرے سوالات کے جواب میں منصور تقدیر کی حقیقت پر بحث کرتا ہے اور’’ انا الحق‘‘ کہنے کی وجہ سے اسے کیوں دار پر لٹکایا گیا۔ اس کی تشریح کرتا ہے ایک لطیف پیرایہ میں شاعر بتا گیا ہے کہ منصور کا ’’ انا الحق‘ کہنا کفر نہ تھا۔ بلکہ ’’ خودی ‘‘ کے مظہر اتم ہونے کا مظاہرہ تھا۔ منصور ’’خودی‘‘ کے حقائق بیان کرتا ہے اور شاعر کو متنبہ کرتا ہے کہ دیکھ تو بھی ان ملاؤں کے نزدیک کم و بیش اسی گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے جس کا میں ہوا تھا۔ آنچہ من کردم تو ہم کردی بترس! کیونکہ جس طرح میں نے اپنے سینہ کی بانگ صور یعنی آوازہ ’’ انا الحق‘‘ سے ایک ایسی ملت کو جو ’’ قصد گور‘‘ کر چکی تھی از سر نو زندہ کرنے کی کوشش کی اور اس کا بدلہ انہوں نے مجھے سولی پر لٹکا دیا اور الٹا کافر کہا اسی طرح تو نے بھی وہی حرکت کی ہے۔ محشر ہے بر مردہ آوردی تبرس! غالب سے پہلے اس کے ایک شعر کی شرح پوچھی ہے۔ یہ شعر دراصل اردو میں ہے اور از بسکہ یہ اردو غالب کی کہی ہوئی ہے۔ اس لئے محض الفاظ ردیف کو فارسی میں بدل لینے سے فارسی شعر بن گیا ہے۔ قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے؟ سوختہ کیا ہے کو ’’ سوختہ چیست‘‘ بنا کر شعر فارسی میں بدل لیا گیا ہے۔ اس شعر کے مہوم پر بعض ادبی رسالوں اور کتابوں کو کچھ عرصہ ہوا بحث چھڑی تھی۔ معارف کے کسی نمبر میں بھی ایک صاحب کے مضمون میں اس شعر پر بحث تھی۔ وہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ اس شعر کی تشریح خود غالب کی زبان سے ’’ جاوید نامہ‘‘ میں لکھی جائے۔ اس تشریح پر بحث مضمون کی غیر ضروری طوالت کا باعث ہے اس لئے اس میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اصل کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے آگے مسئلہ ’’ رحمتہ للعالمین‘‘ پر بحث ہے۔ غالب نے اس مسئلہ پر لکھتے ہوئے اپنی ایک مثنوی میں یہ شعر لکھا ہے۔ ’’ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہؒ للعالمینے ہم بود‘‘ جاوید نامہ میں اس نکتہ پر جو مکالمہ غالب اقبال کے درمیان ہوا ہے۔ اس میں رحمتہً اللعالمین کے انتہائی حقائق و اسرار واضح کر دئیے گئے ہیں۔ غالب ایک طرح اس رمز کی صحیح حقیقت کو وا کرنے سے عاجز آ جاتا ہے۔ آخر منصور اس راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آنکہ از خاکش بردید آرزو یا زنور مصطفیٰ اور ابہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفیٰ است اس پر ’’ زندہ رود‘‘ مستفسر ہوتا ہے کہ پھر اس ’’ جوہر‘‘ کا’’ سر‘‘ کیا ہے جس کا نام مصطفی ہے۔ وہ حقیقت میں ’’ آدم‘‘ ہے یا کوئی ’’ جوہر‘‘ ہے جو گاہے گاہے ’’ وجود‘‘ میں آ جاتا ہے۔ حلاج کے جواب نے اس نکتہ کی سات دقیق کنہوں کو طشت از بام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’ عبد‘‘ (آدم) کے کیا معنی ہیں اور ’’ عبدہ‘‘ یعنی اللہ کا عبد کیا شے ہے یہ اپنی قسم کی پہلی بحث ہے جو جاوید نامہ میں آئی ہے۔ ’’ رحمتہ العالمین‘‘ کا نکتہ سمجھا چکنے کے بعد حلاج اس صوفی پر افسوس ظاہری ہادہو میں مشاق ہے۔ لیکن ’’ حکم حق‘‘ پہلے اپنی جان پر وارد کرنا اور پھر اسے جہان میں جاری کرنا نہیں جانتا۔ وائے درویشے کہ ہوئے آفرید بازلب بربست ودم در خود کشید خانقاہے جست و از خیبر رمید راہبی در زید و سلطانی ندید! موجودہ زمانے کے صوفی کو خطاب ہے۔ نقش حق داری؟ جہاں نخچیر تست ہم عناں تقدیر با تدبیر تست عصر حاضر باتومی جوید ستیز نقش حق بر لوح ایں کافر بریز! یہ بحث ذرا طویل ہے کہ نقش حق جہان پر کس طرح واردکیا جاتا ہے۔ ’’ زور دلبری‘‘ سے یا ’’زور قاہری‘‘ سے؟ اس بحث کے اختتام پر ابلیس نمودار ہوتا ہے جسے شاعر ’’ خواجہ اہل فراق‘‘ کا نام دیتا ہے۔ ’’نالہ ابلیس‘‘ میں ابلیسیت کو جو صدمہ ’’ آدمیت‘‘ نے پہنچایا ہے اس کا گلہ ہے۔ ابلیس روتا ہے کہ موجودہ ’’ ابن آدم‘‘ تو میرا کوئی شکار ہی نہیں۔ا گر مجھے اتنا بڑا’’ ابلیس‘‘ بنانا تھا تو پھر میرا’’ منکر‘‘ بھی کوئی ایسا بنایا ہوتا جو میری گردن توڑتا۔ یہ آدم کیا کہ جس کو میں جس طرف چاہتا ہوں پیچھے لگائے پھرتا ہوں۔ خدا سے ابلیس کی آخری التجا یہ ہے۔ اے خدا یک زندہ مرد حق پرست لذتے شاید کہ یابم در شکست! فلک زحل: فلک زحل میں ایک خاص شاعرانہ پیرایہ میں ہندوستان کی بعض گذشتہ اور موجودہ سیاسیات زیر بحث آتی ہیں۔ فلک زحل کو شاعر نے ان ارواح رذیلہ کا مقام قرار دیا ہے۔ جنہوں نے ملک و ملت سے غداری کی اور دوزخ نے بھی ان کو مرنے کے بعد قبول نہ کیا۔ اس ’’ منزل ارواح بے یوم النشور‘‘ میں دو ’’ طاغوت‘‘ دکھائے گئے ہیں۔ جنہوں نے ملک و ملت سے بیوفائی کی اور اپنے تن کی خاطر ملت کو قربان کر دیا۔ وہ دو ’’ طاغوت‘‘ کون ہیں۔ جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن! اول الذکر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کی اور موخر الذکر نے سلطان ٹیپو سے۔ دونوں کی غداری کا نتیجہ کیا ہے۔ یہ کہ اس پاک سر زمین میں غلامی کا بیج بویا گیا۔ جس عذاب میں یہ دونوں غدار مبتلا ہیں اس کا ہولناک نقشہ کھینچنے کے بعد شاعر’’ روح ہندوستان‘‘ کو بصورت ’’ حور پاک ناد‘‘ آسمان کے پردوں سے باہر آتے دکھاتا ہے اور اس کے نالہ و فریاد کی تصویر اپنے خاص انداز میں پیش کرتے ہوئے ہندوستان کی موجودہ غلامی کے اسباب اور اس کے موجودہ سیاسی حربوں کے حسن و قبح پر شاعرانہ انداز میں بحث کرتا ہے۔ آخر میں وہ انتباہ ہے جو اس زمانے کے ’’ غداران ملک و ملت سے ہوشیار رہنے کے متعلق ہندوستان کو کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی تقدیر میں اس وقت تک غلامی باقی ہے جب تک یہ ’’ جعفر‘‘ اس کے اندر پیدا ہوتے رہیں گے۔ کس طرح زمانہ ایک نئی قسم کے ’’ جعفر‘‘ پیدا کر لیتا ہے۔ نہایت لطیف انداز میں بیان کیا گیا ہے یہ نکتے سمجھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ کے شب ہندوستاں آید بروز! مرد جعفر زندہ روح او ہنوز! تاز قید یک بدن دامی رہد آشیاں اندر تن دیگر نہد گاہ اورا ہا کلیا ساز باز گاہ پیش دیریاں اندر نیاز دین او آئین او سودا گری است عنتری اندر لباس حیدری است پیش ازیں چیزے دگر مسجود او در زمان ما وطن معبود او ظاہر اہ از غم دیں درد مند باطنش چوں دیریاں زنار بند جعفر اندر ہر بدن ملت کش است ایں مسلمانے کہن ملت کش است جعفر زمانہ حال کی منافقت کا نمایاں تریں نشان یہ بتایا ہے (اور نہ معلوم وہ کون ہے!) خند خنداں است و باکس یار نیست مار اگر خنداں شو و جز مارنیست از نظافش وحدت قومے دونیم ملت او از وجود او لئیم قومی وحدت کو دونیم کرنے کے ذمہ دار آج ایک نہیں سینکڑوں ہیں۔ آنسوئے افلاک: آخری پرواز سیر حدود افلاک سے پرے جانے کے لئے ہے لیکن پیشتر اس کے کہ وہاں پہنچیں ایک اور جہان دیکھا گیا ہے جہاں ایک مرد جس کے لب پر ایک درد مند صدا جاری ہے نظر آتا ہے۔ رومی بتاتا ہے کہ یہ شخص ’’ حکیم المانوی نٹشا‘‘ ہے۔ نٹشا کے متعلق مدت ہوئی اقبال کہہ چکا ہے۔ قلب او مومن دماغش کا فراست اب بتایا کہ اس کی حقیقت یہ تھی کہ وہ بھی اپنی وضع کا منصور حلاج تھا جس کو اس کے ملک کے لوگوں نے نہ پہچانا۔ منصور کی جان اگر ملا نے لی تو نٹشا1؎ کی طبیعت نے ا گر یورپ میں کوئی اس مجذوب کی واردات کو سمجھنے والا ہوتا تو شاید وہ گم گشتہ نہ ہونے پاتا اگر عیسائیت کا پردہ چاک کرنے کے بعد وہ توحید کی طرف راہ نہ پا سکا تو اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ اس کو اس رستہ پر لگانے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے افکار نے جہاں یورپ کے مروجہ معتقدات کے طلسم توڑ ڈالے وہاں وہ خود بھی ان میں گھر کر رہ گیا۔ تا آنکہ مستی دہزز جاجے را شکست از خدا ببر یدوہم از خود گسست 1؎ نٹشا کا طبیبوں نے دیوانہ قرار دیا تھا۔ اقبال اسے مجذوب بتاتا ہے۔ برنارڈ شاگو اس حقیقت سے واقف نہیں مگر وہ بھی نٹشا کو دیوانہ کہنے سے انکاری ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا نے اسے دیوانہ کہنا شروع کر دیا۔ ایڈیٹر ادبہ لادر ماندو تا الآنرفت از مقام عبدہ۷ بیگانہ رفت اقبال کا خیال ہے کہ شاید اگر مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کے زمانہ میں پیدا ہوتا اور اس مرد کامل کی صحبت اسے کبھی نصیب ہو جاتی تو وہ منزل مقصود کو پہنچ جاتا۔ کاش بودے اور زمان احمدے تارسیدے بر سرود سرمدے جس قدر می والف رانی ’’ مجذوبیت‘‘ کی قدیم اور بے پناہ روکو’’ سیوک‘‘ میں بدلنے میں کامیاب ہوا شاید اور کوئی مجدد یا ریفارمر اس بات میں اتنا کامیاب نہ ہوا ہو گا۔ حرکت بجنت الفردوس: اب مسافر کائنات کی حد سے باہر چلے جاتے ہیں اور جہان بے حیات میں قدم رکھتے ہیں اس جہان بے حیات کے سلسلہ میں پھر زمان و مکان کے مباحث نئے نئے رنگ میں پیش کئے ہیں۔ دوزخ و بہشت کی حقیقت رومی کی زبان سے ان الفاظ میں پیش کی ہے۔ گفت رومی ’’اے گرفتار قیاس در گذر از اعتبارات حواس از تجلی کارہائے خوب دزشت می شود آں دوزخ ایں گرد بہشت‘‘ اے کہ بینی قصر ہائے رنگ رنگ اصلش از اعمال دنے از خشت و سنگ آنچہ خوانی کوثر و غلمان و حور جلوۂ ایں عالم جذب و سرور زندگی ایں جاز دیدار است و بس ذوق دیدار است و گفتار است و بس قصر شرف النسائ: سب سے پہلا قصر جو جنت میں نظر آیا وہ شرف النساء بیگم کا تھا شرف النساء نواب خان بہادر خاں کی بیٹی اور نواب عبدالصمد خاں کی پوتی تھیں۔ یہ دونوں باپ بیٹے بہادر شاہ اور شاہ عالم کے زمانہ میں یکے بعد دیگرے پنجاب کے گورنر تھے۔ اس عہد میں صوبوں کے حکمران ایک طرح خود مختار ہو چکے تھے۔ تاہم دہلی کے مغل شہنشاہ کو خراج دیا جاتا تھا اور اہم شہنشاہی فرمانوں کی تعمیل ہوتی تھی۔ یہ عبدالصمد خاں وہی ہیں۔ جنہوں نے پنجاب میں بندہ بہادر کے فتنہ کو دبایا اور اسے قید کر کے دہلی پہنچایا۔ اس زمانہ میں پنجاب کا گورنمنٹ ہاؤس وہ جگہ تھی۔ جہاں اب شہر کی شمالی جانب شالا مار کو جاتے ہوئے بیگم پورہ کا گاؤں آباد ہے۔ نواب عبدالصمد خاں کی بیگم کے نام پر ہی اس جگہ کا نام بعد میں بیگم پورہ مشہور ہوا۔ نواب عبدالصمد خاں اور اس کے بیٹے نواب خان بہادر خان کی قبریں بیگم پورہ میں چار دیواری کے اندر موجود ہیں۔اس گورنمنٹ ہاؤس کی عمارتوں کے کھنڈر اور بعض مساجد و مقابر اب تک کھڑے ہیں۔ انہیں مقبروں میں شرف النساء بیگم کا مقبرہ ہے۔ شرف النساء بیگم نے محلات شاہی کے احاطہ میں ایک چبوترہ بنوا رکھا تھا۔ جس پر سیڑھی لگا کر چڑھا جاتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ ہر روز صبح کی نماز کے بعد جوتا اتار کر اس چبوترہ پر بیٹھ جاتیں اور قرآن کی تلاوت کرتیں ایک مرصع تلوار پاس ہوتی تھی جب تلاوت ختم کر لیتیں تو قرآن بند کر کے وہیں پڑا رہنے دیتیں اور اس کے ساتھ تلوار رکھ کر نیچے آ جاتیں۔ مرتے وقت وصیت کی کہ مجھے اسی چبوترہ پر دفن کیا جائے اور وہ قرآن و تلوار قبر کے اوپر ہمیشہ کے لئے محفوظ رکھے رہیں۔ چنانچہ وفات کے بعد انہیں وہیں دفن کیا گیا۔ پھر اس چبوترہ پر گنبد بنا۔ اب اس گنبد کو دیکھیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ دو منزلہ گنبد کیوں تعمیر ہوا۔ اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ مقبرہ کی بالائی دیواروں کے باہر سرو کے درخت ہیں اور ان کی وجہ سے لوگ اب اس مقبرہ کو سرو والا مقبرہ کہتے ہیں۔ اقبال نے شرف النساء بیگم کا جو قصر جنت میں دکھایا ہے وہ لعل ناب سے تعمیر ہوا ہے جو اپنی ضوفشانی میں آفتاب سے خراج وصول کرتا نظر آتا ہے۔ جب زندہ رود رومی سے سوال کرتا ہے کہ یہ کاشانہ کس کا ہے تو موخر الذکر اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے۔ قلزم ما ایں چنیں گوہر نہ زاد ہیچ مادر ایں چنیں دختر نہ زاد خاک لاہور از مزارش آسماں کس نداند راز او را در جہاں اس کے بعد شاعرانہ انداز میں شرف النساء کے وہی حالات بیان کئے ہیں جو اوپر درج ہوئے ماں کو جو آخری وصیت شرف النساء نے کی اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔ برلب او چوں دم آخر رسید سوئے مادر دید و مشتاقانہ دید گفت اگر از راز من داری خبر سوئے ایں شمشیر و ایں قرآن نگر ایں دو قوت حافظ یک دیگر اند کائنات زندگی را محور اند اندریں عالم کہ میرد ہر نفس دخترت را ایں دو محرم بود و بس وقت رخصت باتو دارم ایں سخن تیغ و قرآن را جدا از من مکن مومناں را تیغ با قرآن بس است تربت مارا ہمیں ساماں بس است حسب و صیت تیغ و قرآن شرف النساء کی قبر پر ایک مدت تک محفوظ پڑے رہے۔ لیکن ۴۶۔ ۱۸۴۵ء کے ان ہنگاموں میں جو سکھوں میں خانہ جنگی کی وجہ سے لاہور میں رونما ہوئے تاریخ میں لکھا ہے کہ کسی سکھ سردار نے یہ سن کر کہ اس دو منزلہ مقبرہ میں کوئی خزانہ مدفون ہے۔ اس پر چڑھ کر اس کو کھولا اور تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔ وہ تیغ و قرآن ضرور وہاں سے نکال لئے۔ رومی کہتا ہے۔ عمر ہا زیر ایں زریں قباب برمزارش بود شمشیر و کتاب مرقدش اندر جہان بے ثبات اہل حق را داد پیغام حیات تا مسلماں گرد با خود آنچہ کرد گردش دوراں بساطش در نورد مرد حق از غیر حق اندیشہ کرد شیر مولا روبہی را پیشہ کرد ازدلش تاب و تب سیماب رفت خود بدانی آنچہ بر پنجاب رفت خالصہ شمشیر و قرآن را ببرد اندراں کشور مسلمانی بمرد جاوید نامہ میں یہی ایک مقام ہے جہاں پنجاب کے مسلمانوں کی تاریخ کا یہ ایک درد انگیز منظر پیدا ہے۔ قصر شرف النساء کی زیارت کے بعد حضرت سید علی ہمدانی اور ملا طاہر غنی کشمیری سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان مکالمات میں خطہ کشمیر کے ماضی و حاضر اور مستقبل پر ان خیالات و جذبات کا ایک سماں پیدا کیا ہے کہ اگر آج اہل خطہ ان سے روشناس ہو جائے تو زندگی کی تازہ لہر جو اب ان کی رگوں میں دوڑنے لگی ہے۔ ایک نئی سرعت و حرارت اختیار کر لے۔ کشمیر کے گذشتہ اور موجودہ پالٹکس، خطہ کے مہاراجگان کشمیر کے پاس بیچا جانا۔ یہ سب واقعات جن الفاظ میں ادا ہوئے ہیں وہ نشتر بن کر دل کے پار ہو جانے والے ہیں۔ شاعر سری نگر کے نواح میں نسیم باغ اور نشاط باغ کی سیر و سیاحت کے لطف اٹھا رہا ہے۔ ان کے جوش بہار کے منظروں سے مسرور ہو کر ’’ بشنوازنے‘‘ کے نغمے الاپنے لگتا ہے ایک پرندہ ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہوا اسے مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یہ بہار اور اس کے یہ موسم ہمارے لئے جو اس خطہ کے رہنے والے ہیں پرپشہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ کیوں؟ اس لئے لالہ است و نرگس شہلا دمید باد نو روزی گریبانش درید! عمر ہا بالید ازیں کوہ و کمر بستر از نور نظر پاکیزہ تر عمر ہا گل رخت بر بست و کشاد خاک مادیگر شہاب1؎ الدین نزاد اس پرندہ کا نغمہ ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ ایک مرد دیوانہ جوش و خروش میں ایک نالہ مستانہ کرتا اور شاعر کو یہ کہتا سنا گیا۔ بگذر زماد نالہ مستانہ مجوے بگذر ز شاخ گل کہ طلسمے است رنگ و بوے یہ جو بظاہر پرندہ درخت کی ٹہنی ر تم نے گیت گاتا سنا ہے وہ دراصل غنی کی روح ہے جو مرگ آرزو کی ماتمی ہو کر پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے۔ باد صبا اگر بہ جنیوا گذر کنی حرفے زما بہ مجلس اقوام باز گوے دہقال و کشت وجوے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند آگے چل کر غنی شاعر کو پھر بتاتا ہے کہ اہل خطہ کے مستقبل سے نا امید نہ ہو۔ 1؎ یکے از سلاطین مشہور کشمیر ہاش تابینی کہ بے آواز صور ملتے برخیز و از خاک قبور شہر ہا زیر سپہر لاجور و سوخت از سوز دل درویش مرد سلطنت نازک تر آمداز حباب ازدمے اوراتواں کردن خراب یہ اشعار اس وقت لکھے گئے تھے جب ابھی کشمیر کے موجودہ انقلاب کا وہم بھی اہل خطہ کو نہ آیا ہو گا۔ افسوس کہ جاوید نامہ کی طباعت میں تاخیر کی وجہ سے اب آ کر شائع ہوئے۔ شاہ ہمدانی کی زبان سے فقیری و شاہی اور ’’ تخت و تاج‘‘ کی اصلیت کے متعلق ان گراں بہا اسرار و حقائق کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان کا جاننا تمام اقوام کی سیاسی راہنمائی کا باعث ہو۔ اس کے بعد ہندوستان کے مشہور شاعر برتری ہری سے مل کر سوال کیا جاتا ہے کہ شعر کیا چیز ہے۔ پھر ہندوستان کے موجودہ سیاسی پیچ و تاب پر ا س کی رائے دریافت کی جاتی ہے اور اس سلسلہ میں برتری ہری کی ایک خاص نظم کا فارسی ترجمہ درج کیا ہے۔ کاخ سلاطین مشرق: اس منظر سے گذر کر کاخ سلاطین مشرق میں نادر شاہ، ابدالی اور سلطان شہید (ٹیپو) سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ نادر ایرانیوں کی موجودہ حالت دریافت کرتا ہے۔ زندہ رود ایرانیوں کے تمام وہ موجودہ رحجانات ان کے سامنے بیان کرتا ہے۔ جو ’’ اسلامیت‘‘ اور’’ عربیت‘‘ سے ہٹا کر ان کو ’’ایرانیت‘‘ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اور افرنگی قومیت کی تقلید پر ان کو گامزن کر رہے ہیں۔ ابدالی کا پیغام ملت افغانیہ کے نام ہے۔ ایشیا میں بحیثیت قوم افغانوں کی سیاسی اہمیت پر بحث کی ہے۔ افغانوں کو نصیحت کی ہے کہ جس طرح ترک فرنگیوں کی تقلید سے اپنے آپ کو کھو رہے ہیں۔ تم ان کی پیروی سے بچنا اور اپنی خصوصیات کو محفوظ رکھنا۔ رضا شاہ پہلوی اور نادر خاں موجودہ حکمران ا فغانستان کو سیاسیات کے بعض اہم نکات سمجھائے گئے ہیں۔ سلطان شہید ٹیپو زندہ رود سے ہندوستان کا حال دریافت فرماتے ہیں۔ زندہ رود بتاتا ہے کہ اس وقت سول نافرمانی کا دور دورہ ہے۔ ہندیاں منکرز قانون فرنگ در نگیرد سحرد افسون افرنگ سلطان اپنے دکن کے حالات دریافت کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا دکن میں بھی کوئی آثار حیات پیدا ہیں۔ اقبال کو اپنا دکن کا سفر یاد آجاتا ہے جواب میں کہتا ہے۔ تخم اشکے ریختم اندر دکن لالہ ہا رو یدز خاک آں چمن سرنگاپٹم میں میرے محلات کے نیچے بہنے والی کاویری پھر اپنے اندر نئی موجیں پیدا کر رہی ہے۔ رود کاویری مدام اندر سفر دیدہ ام در جان او شورے دگر ’’ سلطان‘‘ زندہ رود کو دریائے کاویری کے نام اپنا پیغام دیتا ہے۔ اس پیغام میں حقیقت حیات و مرگ اور شہادت پر حیرت انگیز خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ آخری مناظر فردوس بریں سے رخصت ہونے کے ہیں۔ حوران بہشتی شاعر سے شعر سنانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ فرمائش قبول کی جاتی ہے اور ایک غزل سے انہیں مسرور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عین ’’ حضور‘‘ میں حاضری ہے یعنی تجلی ذات کے مباحث ایسے ہیں کہ اقبال کو انہیں لکھنے میں کبھی صبر نہیں آتا۔ علم و عشق کے حقائق، نئے الفاظ اور نئے پیرائے میں پھر پیش کر دئیے ہیں۔ لذت دیدار سے بہرہ یاب ہو کر بارگاہ سرمدی میں کچھ التجائیں کی ہیں۔ وہ التجائیں پھر وہی ہیں کہ اس سفلی خاکدان سے نکال کر کہیں او رجگہ ہم کو پھینک ایں چنیں عالم کجا شایان تست آب و گل داغے کہ برا مان تست مگر’’ ندائے جمال‘‘ نے جمالی انداز میں انتباہ کیا۔ زندہ؟ مشتاق شو، خلاق شو ہمچو ماگیرندہ آفاق شو درشکن آنر اکہ ناید سازگار از ضمیر خود دگر عالم بیمار ہر کہ او را قوت تخلیق نیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست چند نکتے ملت کے متعلق بھی سمجھائے جاتے ہیں زاں بعد ناگہاں تجلی جلال نمودار ہوتی ہے۔ تمام زمین و آسمان نور شفق میں غرق ہو جاتے ہیں اور سرخ نظر آنے لگتے ہیں۔ شاعر کلیم اللہ کی طرح جلوہ سے مست ہو کر گر پڑتا ہے۔ تاب گفتار باقی نہیں رہتی اور عالم بے چون و چند کے ضمیر سے یہ نوائے سوز ناک سنتا ہے۔ بگذ راز خاور و افسونی فرنگ مشو کہ نیرز و بجوئے ایں ہمہ دیرینہ و نو آں نگینے کہ تو با اہر مناں باختہ ہم بجریل امینے نتواں کرد گردا! اے کہ در قافلہ، بے ہمہ شوہا ہمدرد! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ از تنک جائی تو میکدہ رسوا گردید شیشہ گرد حکیمانہ بیا شام و برو! کتاب کا آخری حصہ، خطاب بہ جاوید پر مشتمل ہے اس میں موجودہ زمانہ کے نوجوانوں کو حالات حاضرہ کی روشنی میں نصیحتیں کی گئی ہیں۔ ہر شعر عرزجان بنانے کے قابل ہے۔ اس سے لطف اندوزی کے لئے اس کا مسلسل مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ ٭٭٭ علامہ اقبال اور فلسفہ تصوف حضرت ادیب اے آبادی خدا جانے کہنے والا کون تھا لیکن کہا خوب ہے کہ ’’ تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ کہنے کو تو صرف یہی کچھ کہا لیکن سچ پوچھو تو کہہ یہ گیا کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است اما برائے ہیچ چیز دیگر خوب نیست بڑا ہی محتاط آدمی تھا۔سوچا ہو گا کہ اگر صاف صاف کہہ دیا تو کوئی صاف کاٹ کھائے گا۔ یہ چار پانچ لفظوں کا چھوٹا سا مقولہ کئی صدیوں کی فارسی (اور اردو) شاعری پر اور ایشیائی فلسفہ تصوف پر ایک نہایت ہی پر معنی، سبق آموز اور بصیرت افروز تبصرہ ہے۔ صوفیائے کرام اور شعرائے چرخ مقام کے خیالات اور طبائع میں ایک ایسی گہری یگانگت تھی کہ ہوتے ہوتے شاعری اور تصوف بہن بھائی بن گئے اور آپس میں وہ چولی دامن کا ساتھ پیدا کیا کہ ایک لمحہ کے لیے بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے۔ دن رات بہن، بھائی کی عزت اور شان بڑھانے میں مصروف رہی اور بھائی بہن کو ابھارنے اور چمکانے میں مشغول رہا، محبت بڑھتی گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے پر قربان ہو گئے اور ایسے یک جسم و یک جان بن گئے کہ دونوں ایک دم پکار اٹھے: من تو سدم نو من شدی من تن شدم تو جاں شدی ناکس نگوید بعد ازیں من دیگر نو دیگری صوفیوں نے ایک سینہ زوری یہ کی کہ جا و بیجا اور عربی فارسی کے اس لٹریچر کی جو فلسفہ تصوف سے دور کا تعلق بھی نہ رکھتا تھا۔ صوفیانہ تعبیریں کر کے اسے سرتاپا تصوف ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی یہ بے محل کوششیں بعض صورتوں میں بے سود اور بے ضرر ثابت ہوئیں۔ لیکن بعض صورتوں میں نہایت خطرناک اور ضرر رساں نتائج کی حامل بن گئیں۔ مثال کے طور پر مولانائے روم کو دیکھو ’’ بشنوازنے‘‘ سے لے کر والسلام تک ایک مسلسل اور متواتر تعلیم جدوجہاد کی ہے قسم قسم کی کہانیاں اور رنگا رنگ کی باتیں ہیں۔ لیکن اگر کتاب کو بنظر غور لفظ بہ لفظ پڑھتے جاؤ تو معلوم ہو گا کہ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک فلسفہ جہاد ہے اور کچھ نہیں۔ اس امر کی تصریح ایک مفصل بیان چاہتی ہے جو کسی فرصت پر رکھا جاتا ہے۔ لیکن صوفیاء کرام کی اپچ ملاحظہ ہو کہ مثنوی کی صوفیانہ شرحیں لکھتے ہوئے وہ افیون گھول کر رکھ دی ہے کہ حریفاں را نہ سرماند و دستار مثنوی تو خیر کس باغ کی مولی تھی۔ ان بزرگوں نے قرآن کریم کو تصوف کی کتاب (اور اس کے مصنف کو گویا ایک بہت بڑا صوفی ثبت کرنے کی کوشش بھی کی ہے) مشتے نمونہ از خردارے پر ذرا غور فرمائیے۔ مشرکین و منافقین کے لیے ایک عہد فرانی ہے۔ ولھم عذاب عظیم اور ان کے لیے ہے بہت بڑا عذاب بھلا وہ بزرگ جو وحدت وجودی کے قائل ہوں اور کفر و اسلام کی تمیز کرنے والے کو احوال کہتے ہوں وہ عذاب و ثواب کو کب ماننے لگے تھے فرماتے ہیں کہ عذاب کا ما وہ ہے عذب و عذوبت۔ اور اس کے معنے ہیں شیرینی۔ اس لیے اس عبارت کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے لیے (یعنی کافروں، مشرکوں، منافقوں اور فاسقوں کے لیے) اگلے جہان میں ہوں گی شیرینیاں بہت بہت، لیکن ان اللہ کے بندوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ اگر کفار و فجار وہاں جا کر مٹھائیاں کھائیں گے تو صوفی لوگ کیا زہر کھائیں گے؟ اسی طرح کلمہ توحید کی ایک تحویل بھی قابل داد ہے۔ لا الٰہ الا اللہ (نہیں کوئی معبود مگر اللہ تعالیٰ)یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی (سچا) معبود نہیں۔ یہ بزرگ کہتے ہیں کہ اس کلمہ کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ (نہیں کوئی معبود مگر وہ خدا ہے) یعنی ہر وہ شخص اور ہر وہ چیز جس کی پرستش ہوتی ہے خواہ وہ سونے، چاندی یا پتھر کا بت ہو خواہ آدمی، خواہ درخت ہو خواہ دریا، خواہ پہاڑ ہو، خواہ چاند، یا سورج فی الواقعہ، وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ سبحان ربی الاعلیٰ۔ بات یہ ہے کہ مسلمان جب تک فتوحات ملکی میں مصروف رہے اور اعلائے کلمہ حق میں کوشاں۔ اس وقت تک انہیں تصوف یا دیگر فلسفی مباحث میں وقت صرف کرنے کی فرصت نہ تھی۔ بقول اکبر (بادنیٰ تغیر): فلسفی بحث میں نے کی ہی نہیں فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں لیکن جب سلطنت وسیع ہوتی گئی اور دنیاوی جاہ و حشمت اور مال و دولت کی فراوانی ہوئی تو لوگ آرام کی زندگی بسر کرنے لگے اور عیش و عشرت میں پڑ گئے۔ پھر اپنے اس طرز عمل کے درست اور برحق ہونے کے ثبوت میں دلیلیں پیدا کرنے کی سوجھی اس دن سے فلسفہ تصوف نے زور پکڑا اور نتیجہ یہ ہوا کہ کفر و اسلام کے تفرقے مٹ گئے۔ حتیٰ کہ زمین شعر میں بس رہ گئی زلف بتاں کافر آخر کار جدوجہد جہاد کا نام تک باقی نہ رہا اور صرف تصوف ہی تصوف رہ گیا۔ کافروں سے جہاد کرنے کا نام جہاد اصغر رکھا اور جہاد بالنفس (یا بالفاظ دیگر خودکشی) کا نام جہاد اکبر مقرر ہوا۔ صوفیوں نے اور ان کے متبعین نے اس نئی قسم کے جہاد یعنی جہاد اکبر پر اس قدر زور دیا کہ دوسروں پر فتح حاصل کرنے کی بجائے اپنے آپ کو مفتوح مغلوب اور مقہور بنا کر رکھ دیا۔ قوائے جسمانی، نفسانی اور روحانی قطعاً مضمحل ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جہاں پہلے کفار کو غلام بنایا کرتے تھے اب خود کفار کے غلام بن گئے اور غلامی کی سیمیں اور زریں زنجیروں کو (عورتوں کی طرح) پاؤں میں ڈال کر انہیں پازیب سمجھنے لگے۔ ٭٭٭ خدا بھلا کرے علامہ (شیخ، ڈاکٹر، سر) محمد اقبال کا کہ انہوں نے بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی شاعری کے ایک نئے دور اور ایک علیحدہ رنگ کا آغاز کر دیا۔ اور خدا بھلا کرے اس کیفیت قلبی کا جس کی برکت سے علامہ موصوف کے دل میں ایک دن جبکہ وہ آرام کرسی پر لیٹے تھے اور عین صوفیانہ زندگی بسر کر رہے تھے معاً یہ خیال پیدا ہوا کہ تصوف نے اسلامی شاعری اور اسلامی زندگی پر جو ہمہ گیر اثر پیدا کر دیا ہے وہ ہماری ابتدائی قومی روایات کے قطعاً منافی ہے اور ہمارے اخلاقی، مدنی اور سیاسی اغراض و مقاصد کے حق میں سم قاتل ان کے اپنے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ممدوح کے قلزم خیالات میں یہ طوفان انقلاب مولانا جلال الدین رومیؒ کے کلام کے مطالعہ نے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ ان کی پہلی مثنوی (اسرار خودی) کی بنایا باالفاظ دیگر ان کے تمام فلسفہ اور ان کی تمام شاعری کی بنا مولانا روم کے ان اشعار پر رکھی گئی۔ زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم و دستانم آرزوست جانم ملول گشت ز فرعون و ظلم او آں نور روئے موسیٰ عمرانم آرزوست دی شیخ با چراغے ہمے گشت گرد شہر کز دیوو دو طولم و انسانم آرزوست گفتم کہ یافت مے نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت مے نشود آنم آرزوست اسرار خودی کے بعد کا تمام کلام علامہ اقبال کا اسی رنگ میں ہے۔ وہ خودی کو جسے صوفیائے کرام مٹانے کی فکر میں رہتے تھے سنوارنے اور ابھارنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ صوفی کہتے ہیں کہ اور سب کچھ ہے لیکن ہم کچھ بھی نہیں۔ علامہ اقبال صاحب کہتے ہیں کہ صرف ہم ہی ہم ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ مئے دو سالہ ہیچ ہے اور معشوق چار دہ سالہ ہیچ نار جہنم او رباغ جناں ہیچ ہے اور حور و غلمان ہیچ۔ جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ بھی ہیچ ہے اور جو کچھ تم سنتے ہو وہ بھی ہیچ۔ کوہ و صحرا ہیچ ہے اور دشت و دریا ہیچ، فلسفہ، مغرب ہیچ ہے اور فلسفہ مشرق ہیچ۔ دنیا ایک بت خانہ ہے اور جو کچھ اس کے اندر موجود ہے وہ بت، بت خانہ ہیچ ہے اور بت ہیچ، اپنے آپ کو دیکھو اور بے خوف چلے جاؤ۔ کیونکہ یہ جہان بھی ہیچ ہے اور وہ جہان بھی ہیچ۔ نوک فنزہ سے اپنا راستہ کاٹ کر ہموار کرتے جاؤ کیونکہ منزل و کارواں ہیچ ہے اور ریگ رواں ہیچ۔ا گر کچھ ہو تو صرف تم ہو اور بس کسی نے سچ کہا ہے: خدا رکھے تم ہی تم ہو نظر پڑتی ہے عالم کو صوفی کہتے ہیں کہ ہماری کائنات ہی کیا ہے۔ ہماری ہستی مستعار شبنم کے ایک قطرے کی مثال ہے کہ ابھی تھا اور ابھی نہیں۔ ہمارا مجاز آفتاب حقیقت کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہم ایک قطرہ شبنم ہی سہی لیکن یہ قطرہ ایک بحر زخار ہے۔ کہکشاں جس کا ساحل ہے۔ اس قطرہ نما قلزم کی اگر کوئی چھوٹی سی موج بھی جوش میں آ جائے تو ساحل کہکشاں کے اس پار چلی جائے اور طوفا ن و طفیان کی وہ قیامت برپا ہو کہ زمین و آسمان اور کون و مکان بلکہ لا مکان تک کو برسالے جائے۔ عرش و کرسی کے متعلق یقینا کچھ نہیں کہاجا سکتا شاید وہ بچ نکلیں۔ صوفی کہتے ہیں کہ خودی کو چھوڑ دو، کیونکہ تمہاری خودی تمہاری ہستی اور تمہارا وجود تمہارے اور تمہارے محبوب کے درمیان ایک پردہ ہے۔ جب تک تم اس پردے کو دور نہ کر وگے اپنے محبوب کے دیدار و وصال سے محروم رہو گے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ تمہارا محبوب مع اپنے دیدار اور وصال کے جائے بھاڑ میں تم اپنی خیر مناؤ۔ تم نہ ہو گے تو محبوب تمہارے کس کام آئے گا۔ اپنے آپ کو قربان کر کے اپنے محبوب کو غیروں کے لیے چھوڑ جانا کہاں کی عقلمندی ہے اور کون سی غیرت۔ صوفی کہتے ہیں کہ جب سو سال زندہ رہ کر بھی آخر کار مر جانا ہے تو پھر ابھی مر جاؤ۔ کیونکہ آج کا کام کل پر چھوڑنا بیوقوفی کی بات ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہرگز نہ مرو، اتنا جلدی مر جانا تو بالکل قرین مصلحت نہیں۔ سو سال بلکہ ہزار سال کے بعد بھی مرنے کا نام نہ لو۔ کوشش کرو کہ ابد الآباد تک جیتے رہو۔ تاریخ پیدائش کے تقرر میں تو شاید تمہارا اختیار نہ تھا تاریخ وفات جو مقرر کرو اور اگر ملک الموت تاریخ مقررہ سے پہلے آ جائے تو اسے امروز فردا پر ٹالتے رہو مگر قطعی انکار کر کے بنائے مخاصمت پیدا نہ کرو۔ صوفی کہتے ہیں کہ نگ و دو فضول ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے جنگلی جانوروں کی طرح روزی کے پیچھے دن رات دوڑتے پھرنا اس کے لیے نازیبا ہے۔ جو کچھ نصیب میں ہے مل ہی جانا ہے خواہ وہ پہاڑ کے نیچے مدفون ہی کیوں نہ ہو۔ راحت سکون میں ہے۔ دوڑنے سے چلنا زیادہ آرام دہ ہے۔ چلنے سے کھڑا رہنا زیادہ فرح بخش ہے۔ کھڑے رہنے سے بیٹھ جانا زیادہ راحت رساں ہے اسی طرح بیٹھ جانے سے لیٹ رہنا بہتر ہے اور لیٹ جانے سے سو جانا اچھا ہے اور جب سو جانے میں اتنا آرام ہے تو مر جانے میں بیحد لطف ہو گا۔ علامہ اقبال مرنے کو تو بالکل مانتے ہی نہیں۔ سوتے رہنے کو خود کشی، لیٹ رہنے کو زہریلا ہل، بیٹھنے کو سم قاتل، کھڑے رہنے کو دشمن جان اور چلنے پھرنے کو مناسبہ عالیہ ملیہ کے لیے ضرر رساں سمجھتے ہیں۔ ان کا نظریہ حیات یہ ہے کہ دن رات دوڑتے رہو۔ جستجوئے محل لیلیٰ میں سروفت سحرا نوردی کرتے رہو۔ اور اگر محمل لیلیٰ کا کوئی نشان نہ ملے یا محمل لیلیٰ ہی کیوں نہ ہو یا خود لیلیٰ ہی معدوم الوجود ہو تو پھر اپنے لیے ایک خیالی لیلیٰ پیدا کرو۔ اور اس خیال لیلیٰ کے لیے ایک نہایت شاندار، خوبصورت، خوش وضع، خوش قطع، اور مرصع خیالی محمل تیار کرو اور سپر اپنے کشور خیال میں ایک ایسا طویل، عریض بیابان بناؤ جس کی وسعتیں صحرائے عدم و وجود کی لمبائی اور چوڑائی برخندر زن ہوں۔ جس کی حدود اربعہ کے تعینات مکان سے نکل کر لامکان کی پہنائیوں سے بھی ماورا ہوں جس کے چپے چپے پر غول بیابان اور خطرہ جان و ایمان موجود ہو جس کے سراب بے پایاں میں ریک رواں کی موجوں کو دیکھ کر بحر اوقیانوس کی موجیں بھی پانی پانی ہو جائیں جس کے قدم قدم پر ان سابقون الاؤ کون کی ہڈیوں کے ڈھیر لگے ہوں جن کی جانیں یکم اپریل ۱۹۳۲ء قبل مسیح سے لے کر ۳۱ مارچ ۱۹۳۲ء بعد مسیح تک اس خونی صحرا میں تلف ہو چکی ہوں پھر اس خیالی بیابان میں اپنے خیالی محمل کو ایک دشت آشار پر ناقہ پر لاد کر روانہ کرو اور جب محمل کئی ہزار میل آگے نکل جائے تو ننگے پاؤں تم بھی اس کے پیچھے ہو لو اس میں شک نہیں کہ کچھ دور جا کر تمہارے پاؤں چھالوں سے بھر جائیں گے اور تمہاری رفتار خرلنگ کی رفتار سے کئی میل فی گھنٹہ کم ہو جائے گی۔ لیکن ہمت نہ ہارو اور آگے آگے بڑھے چلو (ہاں ہاں بڑھے چلو) عصا بکف نہ و تکبیر فتح خوان و برد کہ نشود ز تو ہمت کہ نا توانائی صوفی کہتے ہیں کہ خود بینی شرک خفی ہے جس کی سرحد میں شرک جلی کی سرحدوں سے ملتی ہیں۔ اپنے آپ کو مٹا دو تاکہ پھر اپنے آپ کو دیکھنے کا موقع ہی نہ ملے۔ ہمیشہ اپنے محبوب کو دیکھتے رہو اور اس طرح دیکھتے رہو کہ اس کے دیدار میں محو اور حیران ہو کر رہ جاؤ۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو دیکھو اور صرف اپنے آپ کو دیکھو اور اس شد و مد سے دیکھو کہ اگر محبوب اپنی تمام نیرنگیوں، اپنے تمام ناز و تبخر، اپنے تمام غمزوں، کرشموں اور عشووں کے ساتھ جلوہ فرما ہو اور اس زور سے جلوہ فرما ہو کہ اس کے جلوے تحت الثریٰ سے لے کر فلک الافلاک تک تمام کائنات کو معمور کر دیں تو بھی تم آنکھ اٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھو تاکہ اسے بھی معلوم ہو جائے کہ تم ان خوشامدی عاشقوں میں سے نہیں ہو جنہیں عرف عام میں ٹوڈی کہتے ہیں اور جو ایک ایک جلوے کے لیے کبھی وادیوں میں اور کبھی پہاڑوں پر مارے مارے پھرتے ہیں اگر تم ایسا کرو گے تو یقین جانو کہ وہ اپنی لن ترانیوں سے باز آ جائے گا۔ مریض طفل مزاجند عاشقاں ورنہ علاج درد تغافل دو روزہ پرہیز است صوفی کہتے ہیں کہ دجلہ کے کنارے پر مجلس سماع و سرود قائم کرو۔ قوالی سنو، کھاؤ پیو، گاؤ بجاؤ، ناچو اور وجد میں آؤ۔ لیکن پانی کے نزدیک ہرگز نہ جاؤ۔ کیونکہ دریا کا پانی اکثر بہا لے جاتا ہے اور اگر دریا تمہیں بہا لے گیا تو طوعاً و کرہاً تمہیں موجوں کے ساتھ لڑنا پڑے گا اور لڑنا شان ثقاہت و متانت کے خلاف ہے اور اگر لڑو گے نہیں تو پھر بھی سراسیمگی کی حالت میں بوجہ اضطراب و اضطرار تم ایسے حرکات کے مرتکب ہو گے جو ازروئے اصول تصوف لغو اور بیہودہ ہوں گی۔ فلہذا بہتر یہی ہے کہ پانی سے کم از کم پچیس فٹ دور کنارے پر بزم آرائی کیا کرو۔ علامہ اقبال اس خیال سے بالکل اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کنارے پر بیٹھ رہنا بڑی بزدلی ہے اور بزدلی غازیان اسلام کے شایان شان نہیں۔ ساحل پرمجلس آراستہ کرنے سے آدمی سست ہو جاتا ہے اور ایسی مجلس میں گانے بجانے کا لطف بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہاں ساز ہستی سے جتنی سریں بھی نکلتی ہیں مدھم، نرم اور سست ہوتی ہیں دل میں بجائے جوش کے رقت پیدا کرتی ہیں اور انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں۔ دریا کے کنارے پہنتے ہی آنکھیں بند کرو اور پانی میں کود پڑو اور اتنی لمبی چھلانگ مارو کہ پنجاب یونیورسٹی کے لانگ جمپ کا ریکارڈ بیٹ کر کے دریا کے عین درمیان جا رہو وہاں پہنچ کر موجوں کے ساتھ لڑنا شروع کرو۔ لاتوں، مکوں اور طمانچوں سے موجوں کا منہ پھیر دو۔ اسی طرح مدت العمر لڑتے رہو۔ ایسی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہزار ہزار سال کے برابر معلوم ہو گا اسی زندگی کا نام حیات جاوداں ہے کہ خواجہ خضر دریاؤں میں رہتے ہیں۔ صوفی کہتے ہیں کہ ہم طالب ہیں اور خدا مطلوب، ہم ملک عدم میں تھے کہ ہمارا مطلوب ہم سے جدا ہو گیا۔ اپنے اس گم شدہ محبوب کی تلاش میں ہم ملک عدم سے دریار وجود میں آئے اور تا حال اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ابھی کیا معلوم ہے کہ اس جستجو میں اور کون کون سے ملکوں کی صحرا نوردی ہمارے مقدر میں لکھی ہے۔ ہزار ہا میل کا سفر پہاڑوں، جنگلوں اور بیابانوں میں ہم پا پیادہ طے کر چکے ہیں۔ ہزار ہا میل ٹانگوں اور ٹمٹموں پر، ہزار ہا میل موٹر کاروں اور موٹر لاریوں پر، ہزار ہا میل ریل پر اور ہزار ہا میل کشتیوں، جہازوں اور طیاروں میں سوار ہو کر ہم طے کر چکے ہیں مگر ابھی تک اس یار گم گشتہ کا کوئی نشان نہیں ملا۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے اور قطعاً غلط۔ اصل بات یہ ہے کہ طالب خدا ہے اور ہم مطلوب ہم اس سے گم ہو چکے ہیں اور وہ ہمیں ڈھونڈ رہا ہے ہم آگے آگے جا رہے ہیں اور وہ پیچھے پیچھے آ رہا ہے اس سے چھپ چھپ کر کشور وجود و عدم کے مختلف ملکوں میں ہم پھرتے رہے ہیں اور ابھی تک پھر رہے ہیں۔ لیکن ہر ملک میں اور ہر زمانے میں (اور بقول بعض ہر جہنم میں) ہم مختلف جامے بدلتے رہے ہیں تاکہ ہمارا طالب ہمیں آتے جاتے کہیں پہچان نہ لے۔ ہمارے فراق میں اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے وفور اشتیاق ملاقات میں وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ دن بھر سورج کا دیا لے کر اور رات بھر چاند کا چراغ جلا کر وہ ہمیں ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ کبھی رعد کی زبان سے گرج گرج کر ہمیں بلاتا ہے کبھی برق کی آنکھوں سے ہمیں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی برگ لالہ و گل پر اپنا پیغام لکھ جاتا ہے، کبھی قمریوں، طوطیوں اور عندلیبوں کے سینے سے نالہ و فریاد کرتا ہے تاکہ ہمیں اپنے در و دل سے آگاہ کرے۔ شوق دیدار میں ہمہ تن آنکھ بن کر کبھی گل نرگس کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کبھی بادام کی۔ ہمارے ہجر میں ہر صبح کے وقت نفس صبح کی صورت میں اس کے درد آشنا سینے سے آہیں نکلتی ہیں۔ نہ معلوم لوگ اسے بے نیاز کیوں کہتے ہیں۔ حقیقت میں وہ ہم سے زیادہ نیاز مند ہے اور گرفتار آرزو۔ ہمارے عشق میں اس کی حالت اگر قابل رحم ہے تو ہمارا انداز معشوقانہ قابل داد کہ صبح ازل سے لے کر آج تک وہ ہماری تلاش میں ہے لیکن ہم اسے نہیں ملتے اور ارادہ ہے کہ شام ابد تک نہ ملیں گے۔ صوفی کہتے ہیں کہ چیونٹی ہو تاکہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے روند کر زندان ہست و بود سے نجات دلائیں۔ بھڑ نہ بنو کیونکہ اگر بھڑ بنو گے تو خواہ مخواہ کسی کو ڈنگ مارو گے۔ وہ بچارا درد سے چیخے چلائے گا۔ اور ممکن ہے کہ اس کی بد دعا سے تم بلکہ بھڑوں کی تمام قوم قہر الٰہی کی مستوجب بن جائے۔ بھیڑ بنو تاکہ لوگ تمہارے بالوں سے گرم کپڑے بنا کر موسم سرما کی شدت سے اپنے تن بدن کو محفوظ کر سکیں اور تمہارے گوشت سے اپنا پیٹ بھر سکیں بھیڑیا نہ بنو کیونکہ اگر بھیڑیا بنو گے تو ناچار روازنہ کئی جانوروں کو ہلاک کرو گے اور ان کی بد دعائیں لو گے مچھلی بنو تاکہ آدمی تمہیں پکڑ پکڑ کر کھائیں، اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالیں۔ نہنگ نہ بنو نہ انسانوں اور مچھلیوں کی ہلاکت کا باعث بنو گے اور یہ فصل نہایت قبیح ہے وغیرہ وغیرہ۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ چیونٹی نہ بنو ورنہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے کچل کر مار ڈالیں گے۔ بھیڑ نہ بنو ورنہ لوگ تمہیں مار کر کھا جائیں گے شبنم کا قطرہ نہ بنو ورنہ کوئی حقیر سا پرندہ آ کر تمہیں پی لے گا۔ ریزہ الماس بنو تاکہ پرندوں کی چونچ توڑ سکو۔ ہرن نہ بنو، شیر یا چیتا بنو، عقاب بنو، شہباز بنو، الغرض اگر جمادی زندگی پسند ہو تو پتھر بنو تاکہ کسی کا سر توڑ سکو۔ حیوانی جالے میں رہنا چاہو تو کسی قسم کا کوئی درندہ بن جاؤ۔ سست عناصر، صوفیوں کی باتیں نہ سنو اپنی جان کے بھی دشمن ہیں اور تمہاری جان کے بھی۔ ٭٭٭ ہم نہیں کہہ سکتے کہ صوفی سچ کہتے ہیں یا اقبال البتہ اتنا ضرور ہے کہ جہاں صوفیوں کا کلام پڑھ کر دل سرد ہو جاتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ دنیا کے شور و غوغا سے دور ہو کر کہیں گوشہ تنہائی میں جا کر بیٹھ جائیں اور سامنے حقہ اور چائے کی پیالی رکھ کر رباعیات عمر خیام پڑھتے رہیں۔ وہاں علامہ اقبال کا کلام سن کر خون میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ تیغ بدست ابھی اٹھ کر کہیں نکل جائیں اور جہاں کوئی ’’ سلطنت جم‘‘ ملے اس پر ٹوٹ پڑیں۔ ٭٭٭ لیکن علامہ اقبال کی شاعری اور فلاسفی اور زندگی کا سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ جہاں ان کی شاعری اور ان کی فلسفی سرا سر مجاہدانہ اور غیر صوفیانہ ہے وہاں ان کی زندگی سراپا صوفیانہ ہے۔ قوم کو خودی کی تعلیم دیتے ہیں اور اسرار خودی کے نکتے بیان کرتے ہیں۔ لیکن خود بیخود طرح کے انسان ہیں۔ ہمیں کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو دیکھو، اپنے آپ کو پہچانو اور اپنے آپ کو محکم و مستحکم بتانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی۔ اپنے آپ کو دیکھتے، پہچانتے اور محکم و مستحکم بنانے کی کوشش کرتے تو دن رات ایک ایسی کوٹھی میں جس کی چھتیں اور دیواریں محض ان کی فلاسونی اور شاعری کی برکت سے کھڑی ہیں ورنہ کب کی بیٹھ گئی ہوتیں۔ آرام کرسی پر لیٹے نہ رہتے بلکہ یورپ کے تمام ممالک کی سیر کرتے، مصر جاتے، ایران جاتے، افغانستان جاتے جا بجا تقریریں کرتے، لیکچر دیتے اور دنیا کو بتاتے کہ ان کا فلسفہ کیا ہے اور ان کی شاعری کیا۔ اگر ایسا کرتے تو دنیا کے تمام مالک ان کی قدر دانی کرتے۔ ان کے نام کی سوسائٹیاں بناتے۔ ان کے مجسمے تیار کر کے چوراہوں پر نصب کرتے بلکہ ان کے بت بنا کر ان کی پرستش کرتے۔ان کی کتابوں کو لاکھوں کی تعداد میں چھپواتے اور خریدتے۔ آج زمانہ فی الحقیقت بیخودی کا نہیں اپنی خودی کے پروپیگنڈا کرنے کا زمانہ ہے جو قومیں1؎ اپنی خودی کا پراپیگنڈا کرتی ہیں وہ دوسری قوموں پر حکمرانی کرتی ہیں جو افراد اپنی خودی کا پراپیگنڈا کرتے ہیں باقی افراد سے اپنی پرستش کرتے ہیں۔ جو قومیں بیخودی کے نشہ میں چور رہی ہیں وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں خواہ وہ ملت اسلامیہ کی طرح نہایت شاندار روایات کی حامل ہی کیوں نہ ہوں اور جو افراد صہبائے خودی کے نشہ سے محرم رہ کر گھروں میں بند پڑے ہیں ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ خواہ علم و فضل، شعر و سخن اور فلسفہ میں علامہ اقبال کی طرح ان کی مجددانہ حیثیت کا پایہ ساتویں آسمان سے بھی بلند ترکیوں نہ ہو نہایت افسوس کی بات ہے کہ اسرار خودی اور رموز بیخودی کے باوجود، بانگ درا اور پیام مشرق کے باوجود زبور عجم اور جاوید نامہ کے باوجود علامہ اقبال اب تک نہ اپنے آپ کو دیکھ سکے ہیں اور نہ اپنے آپ کو پہچان سکے۔ آج جبکہ جاوید نامہ شائع ہو چکا اور علامہ اقبال کا علمی معراج تکمیل پا چکا مولانا جلال الدین رومی کی روح پر فتوح ایک ’’ آشنایانہ‘‘ انداز سے علامہ موصوف سے مخاطب ہو کر بصد حسرت و یاس یہ شعر پڑھتی ہو گی: تو کار زمیں رانکو ساختی کہ بآسماں نیز پرداختی کہا جا سکت اہے کہ طلب جاہ و حشمت و مال و دولت اور نام و شہرت ایک صاحب کمال مرد کا شیوہ نہیں اور نہ ان چیزوں کی تلاش استحکام خودی کی تعریف میں آ سکتی ہے۔ ممکن ہے یہ درست ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ علامہ اقبال اس کے جواب میں 1؎ جناب اے آبادی نے جن کی خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ وہ ۱۹۳۲ء کے بعد خوب پوری ہوئیں او رمکمل بھی ہو گئیں۔ (ادارہ) فرمائیں کہ خودی را مردم آمیزی دلیل نارسائی ہا تو اے درد آشنا بیگانہ سو از آشنائی ہا بدرگاہ سلاطیں تا کجا ایں چہرہ سائی ہا بیا موز از خدائے خویش ناز کبریائی ہا محبت از جوانمردی بجاے مے رسد و روزے کہ افتداز نگاہش کاروبار دلربائی ہا چناں پیش حریم او کشیدم نغمہ ور دے کہ دادم محرماں را لذت سوز جدائی ہا ازاں بر خویش مے بالم کہ چشم مشتری کوراست متاع عشق نا فرسودہ ماند از کم روائی ہا بیا بر لا پا کو بیم و بے باکانہ مئے نوشیم کہ عاشق را بہل کردند خون پارسائی ہا بروں رو از مسلمانان گریز اندر مسلمانی مسلماناں روا دارند کافر ماجرائی ہا ٭٭٭ علامہ اقبالؒ شہزادہ احمد علی خاں درانی مترجم: حضرت مجازی لکھنوی جس قوم میں پستی اور قعر ذلالت سے ابھرنے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے تو سب سے پہلے اس میں خود اپنی تباہ حالت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور پھر اس بیدار شدہ جماعت میں سے کوئی فرد (جس میں سیادت و قیادت کی اہلیت ہوتی ہے) اس کاروان ساکت و صامت کو اپنے بانگ درا سے صحیح جادہ پر سرگرم عمل و جستجو بنا دیتا ہے۔ چنانچہ وہ سارا جمود اور خواب غفلت جو کہ ملل اسلامیہ پر طاری تھا۔ اب اس کا کافی احساس ہوتا جاتا ہے اور اکثر ممالک میں قائدین ملت عقل رسا ہے کام لے کر اپنی قوم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ چنانہ اقبال بھی انہی قائدین میں سے ایک ہیں، جن کی درد بھری آواز نے قوم و ملت کے حق میں صور اسرافیل کا کام کیا ہے۔ یہ نامور ہستی شہر سیالکوٹ (پنجاب) کی اس سر زمین میں جو کہ سعد سلمان، امیر خسرو، فیضی، غنی، واقف، غنیمت، بیدل اور غالب کا مولد و منشاء اور بدر چاچ، عرفی، نظیری، صائب، ظہوری، اشکی، کلیم اور سلیم کی پرورش گاہ ہے، ۱۸۷۶ء میں ظہور پذیر ہوئی۔ اقبال نعرہ زو عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خود گرے، خود شکنے، خود نگرے پیدا شد ان کے آباؤ اجداد کشمیر کے نو مسلمین میں سے تھے۔ چنانچہ توصیف کشمیر کے ضمن میں وہ خود رقمطراز ہیں: سرت گردم اے ساقی ماہ سیما بیا راز نیاگان ما یادگار ازاں می فشاں قطرۂ برکشیری1؎ کہ خاکسترش آفریند شرار مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است اقبال سکول ک ابتدائی تعلیم ختم کر چکنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور دیگر انگریزی علوم کی تحصیلات کے علاوہ فارسی زبان شمس العلماء مولوی سید میر حسن صاحب مرحوم (جو نظم و نثر فارسی میں حد درجہ کا کمال اور شہرت رکھتے تھے) کے زیر سایہ 1؎ کشمیری اختتام کو پہنچایا اور چونکہ بچپن ہی سے طبع موزوں رکھتے تھے اور اس پر ایسے استاد یگانہ کی تعلیم، جس کا نتیجہ لازمی یہ ہونا تھا کہ فارسی زبان ان کے خمیر میں بس گئی اور شاعری ان کے حصہ میں آ گئی۔ پروفیسر آرنلڈ نے جو علاوہ فلسفہ جدیدہ کے ادبیات عرب میں بھی ماہر تھے فلسفہ اور رموز حکمت سے انہیں آشنا کر دیا۔ اقبال نے تھوڑے ہی زمانہ میں بہت شہرت حاصل کر لی اور اپنے ہم عصروں میں تعجب کا باعث بن گئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ شروع میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے پروفیسر رہے اور پھر علوم عالیہ کی تحصیل کی غرض سے ۱۹۰۵ء میں یورپ گئے اور تین سال کے بعد جرمنی سے پی ایچ ڈی کی سند اور ڈاکٹر کا خطاب حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آئے۔ اقبال ایام طفلی سے اردو میں اچھا شعر کہتے ہیں۔ اور ان کی ابتدائی شاعری میں بھی حسن کی رعنائیاں اور عشق کی زیبائیاں کام کرتی رہی ہیں اور چونکہ انہیں تصوف کے ایک خاندان سے تعلق ہے۔ اس لیے اپنے کلام کو چاشنی تصوف سے کچھ اس طرح آراستہ کر دیتے ہیں کہ عقل حیرت میں پڑ جاتی ہے۔ چونکہ اسرار کائنات اور رموز حکمت ان پر کھل گئے ہیں اس لئے حقائق کے لاینحل عقدوں کو اپنے تخیل فلک پیما کو کام میں لا کر نہایت آسان کر دیتے ہیں اور مظاہر فطرت و مناظر قدرت مثلاً لب ساحل، روانی آب، نمود سبزہ، حکومت دشت، درخشانی انجم وغیرہ کو بھی کچھ اس طرح نظم کر دیتے ہیں کہ ناظرین حیرت زدہ ہو جائیں۔ شیریں استعارے، لطیف تشبیہیں اور دلکش محاورات کے استعمال نے ان کے کلام کو گویا موتیوں کا ہار بنا دیا ہے۔ ’’ نشاط باغ کشمیر‘‘ میں لکھتے ہیں: خوشا روزگارے خوشا نو بہارے بخوم پرن رست از مرغزارے زمیں از بہاراں چو بال تدروے زفوارہ الماس بار آبشارے نہ پیچدنگہ جز کہ در لالہ و گل نہ غلطد ہوا جز کہ بر سبزہ زارے لب جو خود آرائی غنچہ دیدی؟ چہ زیبا نگارے چہ آئینہ وارے نوابائے مرغ بلند آشیانے در آمیخت بانغمہ جونیبارے تو گوئی کہ یزداں بہشت بریں را نہاد است در دامن کوہسارے ٭٭٭ کرمک شب تاب کی تعریف کرتے ہیں: یک ذرہ بے مایہ متاع نفس اندوخت شوق اینقدرش سوخت کہ پروانگی آموخت پہنائے شب افروخت داماند شعاعے کہ گرہ خور و شرر شد از سوز حیات است کہ کارش ہمہ زرشد دارائے نظر شد پروانہ بیتاب کہ ہر سو تگ و پو کرد بر شمع چناں سوخت کہ خود را ہمہ او کرد ترک من و تو کرد یا اختر کے ماہ مبینے نہ کمینے نزدیک تر آمد بہ تماشائے زمینے از چرخ برینے ٭٭٭ انہوں نے حسن و عشق کے میدانوں میں دشتہ ہائے جگر و دوز کو زلف عنبریں میں چھپا دیا ہے اور چین جبیں میں بجلیاں چمکا دی ہیں۔ ان کا ہر شعر شجاعت سلف کی داستان ہے کہ سو ہزار داستان سام جس پر سے نثار ہیں۔ اقبال کے یہاں اگرچہ ثقالت نہیں ہوتی۔ لیکن بات یہ ہے کہ رفعت خیال اور فلسفیانہ طرز ادائے ان کے کلام کو بادی النظر میں مشکل بنا دیا ہے جس میں اختصار اور جامعیت کلام کے ساتھ ہر نکتہ میں حقائق و معارف کا سمندر موجزن ہے۔ بقول حضرت بیدل: معنیٰ بلند من فہم تند می خواہد سیر فکرم آساں نیست کو ہم و کوتل دارم اقبال فلسفہ، تاریخ، الٰہیات اور سیاسیات سب میں کمال رکھتے ہیں اور اس لیے وہ ایک ہی وقت میں بدتر بھی ہیں، شاعر بھی ہیں اور فلسفی بھی! لیکن اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے یعنی مذہبیات، چنانچہ علامہ موصوف مذہب اسلام کے بہت بڑے رہنما بھی ہیں! اقبال نے شاعری کے سکون و اضمحلال (کہ شاعری کا زوال در حقیقت اقوام کے زوال کا پیش خیمہ ہوتا ہے) کی بیخ کنی کر دی ہے اور کاروان ملت کو ’’ قیس1؎ اعثیٰ‘‘ کے جدوجہد اور علم و عمل کے میدان میں سرگرم کر دیا ہے۔ اقبال بیا کہ غلغہ در شہر دلبراں فگینم جنوں زندہ دلاں ہر زہ گرد صحرا نیست مرید ہمت آں رہروم کہ پانگزاشت بجادۂ کہ در و کوہ و دشت و دریا نیست ٭٭٭ لیکن اقبال بعض اس قسم کے شعراء میں سے نہیں ہیں جنہوں نے اپنی جادو بیانی کو کام میں لا کر اپنی قوم کو محو حیرت تو بنا دیا ہو مگر بجائے زندگی کی روح پھونکنے کے موت کی تعلیم دے دی ہو! چنانچہ وہ ان لوگوں کے خلاف ہیں جنہوں نے چند نا ممکن الحصول تخیلات کی تخم ریزی کی ہے۔ یا مثل اکثر صوفیان مشرق کے بیجا توکل و قناعت کی تلقین دی ہے۔ اس لیے کہ اس طرح قوم سعی و عمل کے میدان سے بھٹک جاتی ہے اور اوبارو پستی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اپنے ایک انگریزی مقالہ میں بھی وہ ان الفاظ میں رقم طراز ہیں: ’’ انسان کی جدوجہد کا تمام مقصد ’’ حیات‘‘ ہے اور تمام علوم و فنون بھی اسی مقصد کے تحت میں آتے ہیں۔ 1؎عرب کا ایک نابینا شاعر جس کے اشعار ’’ حماسی‘‘ میدان کار زار میں شجاعت کی روح پھونکتے تھے۔ اس لیے ہر علم و فن کی منفعت کا اندازہ بھی اسی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے۔ مثلاً بہترین فن وہ ہے جو فطری قوت ارادی کو نشوونما پہنچانے اور ہمیں کار زار حیات میں ’’ مقابلہ‘‘ کی صلاحیت بخشے۔ چنانچہ وہ تمام سلا دینے والے موثرات جو ’’ حقیقت‘‘ سے گریز کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ فی نفسہ انحطاط و ممات کا پیغام ہیں اور اس قسم کے ادبیات جو ہمیں نشہ میں ڈال دینے والے ہوں قابل اخراج ہیں اور ’’ علم کو علم‘‘ کی غرض سے حاصل کرنے کا اصول زمانہ تنزل کی ایجاد ہے جو ہمیں جذبہ عمل اور ذوق حیات سے محروم کر دیتا ہے۔‘‘ (متقبس مقالٰہ اقبال از ’’ نیو ایرا‘‘ ) لیکن غم و الم کی داستانیں جو انہوں نے قلمبند کی ہیں وہ ان کی سحر بیانی کا ثبوت دے رہی ہیں۔ ان میں ہر ہر بات اسلاف کے کارناموں کی تفسیر ہے اور ایک ایک شعر گویا محبت قومی کا داغ ہے جس میں سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں اور اس طرح وہ صفحہ تاریخ کو ایک حدیقہ رنگین بنا رہے ہیں۔ اقبال نے بھی رومی کی قیادت میں معرکہ حسن و عشق طے کرنے میں تصوف میں فلسفہ کی چاشنی دے کر آب رکنا باد و گلگشت مصلیٰ کا لطف پیدا کر دیا ہے۔ علو تفکر اور نزاکت خیال میں وہ کلیم کی یادگار ہیں اور حسن تخاطب میں بلبل شیراز (عرفی) ہیں مثالیہ میں غنی کشمیری اور صائب اصفہانی کا جواب ہیں۔ تغزل میں بھی حافظ اور نظیری کے جرعہ کش ہیں اور شاعرانہ حیثیات کے علاوہ اقوام و امم کا فلسفہ و تاریخ اور ان تمام رموز حکمت و الٰہیات سے بھی واقف ہیں جو نوع انسانی کی ترقی کے سامان بن سکتے ہوں۔ پھر علوم دینیہ اور اسلامی معلومات بھی بدرجہ کمال رکھتے ہیں باکتب یورپ کے مطالعہ نے انہیں حسیات و جذبات انسانی کا نباض بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ان کی تصانیف شرق و غرب میں ایسی مقبولیت کے ساتھ پھیلی ہوئی ہیں جن کی صفت میں ایک کلمہ لکھنا بھی میرے قلم کی طاقت سے باہر ہے! اقبال نے اپنے قلم کو ان نقائص سے جو قوم و ملت کے اوبار و پستی کا باعث ہوتے ہیں۔ مثلاً نفاق و بے مروتی وغیرہ سے باز رکھا ہے اور پند و نصائح کا باب کبھی تو طیور کی زبانی اور کبھی اجرام فلکی کی زبانی کھول دیا ہے۔ چنانچہ ایک جہان ساکت و صامت کے ادبار و فلاکت کو چاند کی زبانی چند دہشت ناک تشبیہوں کے وسیلہ سے حسب ذیل انداز میں پیش کرتے ہیں: شورہ بودم ازنیش کژدم خار خار مور او اژدرگز و عقرب شکار صرصر او آتش دوزخ نژاد زورق ابلیس را باد مراد آتشے اندر ہوا غلطیدۂ شعلہ در شعلہ چپیدہ آتشے از دو پیچاں تلخ پوش آتشے تندر غوو دریا خروش در کنارش ماربا اندر ستیز مار بابا گفچہ ہائے زیر ریز شعلہ اش گریدندہ چوں کلب عقور ہولناک و زندہ سوز و مردہ نور ٭٭٭ اے خدا چشم کبود و کور بہ اے خدا ایں خاکداں بے نور بہ ٭٭٭ اقبال نے ایک نظر میں انحطاط عالم اسلامی کا احساس کر لیا اور پستی ملت، زبونی قوم، مصائب امت، زوال مفاخر اسلامی اور قائدین کے مہر سکوت کو بھی توڑ دیا۔ ان کی خدا داد طبیعت نے سینہ سوز آہوں اور جانکاہ نالوں کو نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ پہلے اردو اور پھر فارسی کے ذریعہ تمام مشرق میں پہنچا دیا۔اقبال عشق پامال خرد گشت و جہاں دیگر شد بود آیا کہ مرا رخصت آہے بخشند اقبال نے نالہ ہائے بیتاب کو جو جگر میں رکے ہوئے تھے آزاد کر دیا۔ اور اس داستان غم آلود کو جو نظروں سے پوشیدہ تھی نمایاں کر دیا اور تمام عالم اسلامی کو امتیاز ملت و وطن کے نقائص اور ان کے نتائج سے متنبہ کر دیا۔ اقبال حدود جغرافیائی اور امتیاز رنگ و بو کو ذوق طلب توحید مطلق و نیز مذہب اسلام کے ارتقاء میں رکاوٹ پاتے ہیں اور اس بنا پر خواہش کرتے ہیں کہ تمام افراد و اقوام پریشان کو ایک ہی سلک میں منسلک ہونا اور تمام عالم اسلامی کے لیے ایک ہی قلب مشترک ہونا چاہیے۔ قلب ما از ہند و روم و شام نیست مر زبوم او بجز اسلام نیست اور پھر ان کا یہ عقیدہ ہے: گردشے باید کہ گردوں از ضمیر روزگار دوش من باز آرد اندر کسوت فردائے من ’’ محض قرآن کی پیروی چاہتے ہیں:‘‘ گر تو میخواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن ٭٭٭ دل با سلمی عرب باید سپرو تا دمد صبح حجاز از شام کرد ٭٭٭ اند کے از گرمی صحرا بخور بادۂ دیرینہ از خرما بخور اقبال ہر جگہ اپنی ملت کو گمراہی سے آگاہ کرتے ہیں: ترسم کہ تو میدانی زورق بسراب اندر زادی کجاب اندر، میری بحجاب اندر چوں سرمہ، رازی از دیدہ فروشستم تقدیر امم دیدم پنہاں بکتاب اندر برکشت و خیاباں پیچ، بر کوہ و بیاباں پیچ برقے کہ نجود پیچد میرو بسحاب اندر بے درد و جہانگیری آں قرب میسر نیست گلشن بگریباں کش اے بو بگلاب اندر اقبال خدا سے بھی یہی آرزو کرتے ہیں کہ ایسی تاثیر اور سوز مرحمت ہو کہ وہ اپنی سوئی ہوئی قوم کو بیدار کر سکیں۔ قوم طلب جستجو میں سر گرم عمل ہو جائے اور گلشن خزاں رسیدہ اسلام دوبارہ خرم و شاد ہو جائے۔ اے کہ زمن فزودۂ گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صدائے من خاک ہزار سالہ را غنچہ دل گرفتہ را از نفسم گرد کشامی تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را ٭٭٭ اشک چکیدہ ام بہ بیں ہم بنگال خود نگر ریز بہ نیتان من برق و شرار ایں چنیں اقبال دنیائے اسلام سے نا امید نہیں ہیں۔ وہ اس خاکستر گرم کی ایک چھوٹی سے چنگاری میں بھی آفتاب دیکھتے ہیں اور ان کی آنکھ رات کی تاریکی میں اقبال مندی کے ان تاروں کو دیکھ رہی ہے جو تعلیمات قدس کے فیوض سے مسلمانوں کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ بخواں از بر صداقت را عدالت را شجاعت را کہ عالم بازمی گیرد ز تو کار امامت را اقبال کے تمام تعلیمات آرزوؤں سے لبریز ہیں اور نا امیدی و یاس کے وہ سخت مخالف ہیں۔ در طلب کوش و مدہ دامن امید زدست دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے ٭٭٭ مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد دار ٭٭٭ ز قید صید نہنگاں حکایتے آور مگو کہ زورق ماروشناس دریا نیست ٭٭٭ اقبال ہر جگہ خودی کا درس دیتے ہیں تاکہ قوم بغیر کسی دوسرے کی اعانت کے اپنے مقاصد حاصل کر سکے اور میدان علم و عمل میں قدمزن ہو سکے۔ ’’بمنزلے رسد آں ملتے کہ خود نگر است‘‘ ز خاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست تجلی دگرے در خور تماشا نیست مرید پیر خراباتیان خود بیں شو! نگاہ او ز عقاب گر سنہ تیز تر است اے زاہد ظاہر بیں گیرم کہ خودی فانیست لیکن تونمی بینی دریا بحباب اندر من فقیر بے نیازم مشربم انیست و بس مومیانی خواستن نتواں، شکستن میتواں مثل آئینہ مشو محو جمال دگراں از دل و دیدہ فردشوی خیال دگراں آتش از نالہ مرغان حرم گیرد بسوز آشیانے کہ نہادی بہ نہال دگراں ٭٭٭ اقبالؒ کی شاعری پر قیام یورپ کا اثر ممتاز حسین ایم اے اسسٹنٹ اکاؤنٹ جنرل پنجاب لاہور قیام ولایت کے دوران میں اقبال کی اردو شاعری ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے اس کی نفسی کیفیات کا پتہ چلتا ہے اس اعتبار سے بانگ درا کے حصہ دوم کی نظمیں ایک غیر معمولی دلچسپی رکھتی ہیں۔ یہ نظمیں اقبال کے شاعرانہ ماضی کی یاد وہاں اور اس کے شاعرانہ مستقبل کا پیش خیمہ ہیں۔ سوامی تیرتھ کی وفات پر جو نظم لکھی گئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال پر ابھی تک تصوف کے ارزاں خیالات کا اثر باقی تھا۔ نغی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا مگر دوسری نظموں میں یہ اثر معدوم ہے اگر ان نظموں پر ایک غائر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں ذیل کی خصوصیات نظر آتی ہیں: ۱۔ زندگی کا شدید احساس جو ایک حد تک ابیقوریت تک جا پہنچا ہے حسن اور خصوصاً انسانی حسن سے وابستگی جو عشق کے مترادف ہے۔ ۲۔ جذبات کی غیر معمولی نزاکت اور محبت کا لطیف مضمون، ایک ہلکا سا قنوطی انداز جو حساس نوجوانوں سے مخصوص ہے۔ ۳۔ زندگی سب سے بڑی حقیقت کی ترجمانی یعنی اقبال کے دل و دماغ سے بتدریج اس خیال کا ظہور کہ زندگی کوشش پیہم کا نام ہے اقبال کی ’’ پیغمبری‘‘ کا آغاز یہ تمام خصوصیات یکساں طور پر اہم نہیں ہیں بلکہ اگر اقبال کی اردو شاعری کا یہ حصہ ارتعانی حیثیت سے اہم نہ ہوتا تو شاید مد ۳ کے علاوہ اور کوئی خصوصیت قابل ذکر نہ ہوتی۔ ٭٭٭ یورپ میں جہاں ہر شے سے زندگی کے آثار ابلے پڑتے ہیں جہاں تہذیب و تمدن کے لاکھوں رنگین کھلونے آنکھوں کو فریب دینے کے لیے موجود ہیں۔ ایک نوجوان کے دل میں ’’عشرت امروز‘‘ کی تمنا پیدا ہو جانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ مگر ہم اس ’’ احساس زندگانی‘‘ کو ابیقوریت کہنے میں شاید حق بجانب نہ ہوں کیونکہ اقبال کو کائنات کی ہر ایک چیز اس عشرت سے لبریز نظر آتی ہے اور وہ خود بھی اس میں شریک ہونا چاہتا ہے: ہے گرم خرام موج دریا دریا سونے بحر جادہ پیما بادل کو ہوا اڑا رہی ہے شانوں پر اٹھائے لا رہی ہے لذت گیر وجود ہر شے سر مست مئے نمود ہر شے کوئی نہیں غمگسار انساں کیا تلخ ہے روزگار انساں اقبال کے لیے یہی احساس احسن کا احساس بھی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حسن کا جتنا وسیع احساس اقبال کو اس زمانے میں ہوا ہے پھر کبھی نہیں ہوا حسن سب سے پہلے اقبال کو مناظر قدرت میں دکھائی دیتا ہے۔ ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام بہشت دیدۂ بینا ہے حسن منظر شام شکستہ گیت میں چشموں کے دلبری ہے کمال دعائے طفلک گفتار آزما کی مثال مگر اس حسن کی انتہا انسانی حسن میں چمکتی ہے: ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا آنکھوں میں ہے سلیمیٰ تیری کمال اس کا حسن ارتقائے کائنات کی آخری منزل مقصود ہے۔ اس کا احساس انسان سے خاص نہیں۔ (ملاحظہ ہو:۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر ) نظام عالم کا ہر جزو حسن کی تکمیل میں کوشاں ہے اسی کوشش کا نام عشق ہے۔ مگر اس حسن بے پایاں کا جو تمام کائنات کا منتہا ہے کائنات کی موجودہ منزل ارتقاء میں کامل جلوہ نہیں ملتا۔ حسن ناپائدار ہے۔ ’’ حقیقت حسن‘‘ میں اقبال نے انگریز شاعر ہیرکہ کی طرح اس ناپائیداری کا نوحہ کیا ہے کبھی کبھی اسے یہ بھی شک ہوتا ہے کہ وہ حسن جس کی تمنا میں انسان بیتاب ہے کہیں محض انسان کے بیقرار دل کا ایک وہم رنگین ہی نہ ہو۔ جلوۂ حسن کہ ہے جس سے تمنا بیتاب پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب آہ موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں ’’ کلی‘‘ میں بھی شاعر اسی حسن کی تلاش میں ہے۔ مگر ان سب جذبات کا عطر’’ عاشق ہرجائی‘‘ ہے۔ میرے خیال میں یہ نظم اقبال کی نفسیات شباب کی زندہ تصویر ہے۔ ایسی نظم کوئی شاعر چالیس سال کی عمر کے بعد نہیں لکھ سکتا۔ شاعر کی وسعت طلب کا اندازہ ایک شعر سے ہو سکتا ہے۔ ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں اس آتشیں تمنا کے ساتھ ساتھ ایک اور نفسی کیفیت، مایوسی کا پیدا ہو جانا بھی ناگزیر ہے۔ کیونکہ ایسی آرزوئیں پوری ہونے کے لیے پیدا نہیں کی گئیں۔ حقائق زندگی میں کبھی وہ لطافت اور کمال پیدا نہیں ہو سکتا جس سے وہ انسان کے اس تخیل کی پرواز کو جا لیں۔ فیض ساقی شبنم آسا، ظرف دل دریا طلب تشنہ دائم ہوں، آتش زیر پا رکھتا ہوں میں مجھ کو پیدا کر کے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا نقش ہوں اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں میں محفل ہستی میں جب ایسا تنک جلوہ تھا حسن پھر تخیل کس لیے لا انتہا رکھتا ہوں میں ’’ نوائے غم‘‘ میں کم و بیش یہی قنوطی انداز قائم ہے۔’’ ایک شام‘‘ میں اس اداسی کے ازالے کے لیے فطرت کے سکون سے سبق لیا ہے۔ یہ نظم ورڈز ورتھ کی شاعری کی یاد تازہ کرتی ہے ایک اور جگہ کہا ہے: کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل قدرت تری ہمنفس ہے اے دل اس صنف کی اداسی یورپ کے رومانی شعراء کا خاصہ ہے۔ اقبال کا انداز اس زمانہ میں شعرائے مغرب کی اسی جماعت سے ملتا ہے۔ ٭٭٭ اگر اقبال کے قیام ولایت کی شاعری کی دوسری خصوصیت کو دیکھنا ہو تو ’’ حسن و عشق‘‘، ’’حقیقت حسن‘‘ ،’’ کلی‘‘ کی گود میں بی دیکھ کر ’’ فراق‘‘ ہر ایک نظم میں اس کی جھلک نظر آئے گی۔ یہ خصوصیت کوئی انوکھی چیز نہیں۔ احساس حسن اور احساس محبت دو الگ چیزیں نہیں۔ حسن سے دل بستگی ہی کا نام عشق ہے اور عشق جب وارد ہوتا ہے تو اپنے اظہار کی قوت بھی ساتھ ہی لے کر آیا کرتا ہے۔ جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمیں قمر نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہمرنگ کنول جلوۂ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم موجہ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا میرے خیال میں یہ بند بجائے خود دنیا کی بہترین نظموں میں سے ہے۔ ایسے لطیف اور نازک جذبات کی نظیر امراء القیس یا چند اور عرب شاعروں ہی میں مل سکتی ہے۔ محبت کا دائرہ اقبال نے مجنون و لیلیٰ کے معاملات ہی پر محدود نہیں کیا بلکہ اسے نظام عالم کی روح سمجھا ہے جب عالم بالا میں ’’ محبت‘‘ کا نسخہ اجزاء سے تیار ہو چکا تو: مہوس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا گرہ کھولی ہنر نے اس کے گویا کار عالم سے ہوئی جنبش عیاں ذروں نے لطف خاک کو چھوڑا گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کر اپنے اپنے ہمدم سے شیلے کا فلسفہ محبت بھی یہی تھا یعنی وہ اجزائے عالم کی باہمی وابستگی کو محبت سے تعبیر کرتا تھا اور محبت کے بغیر کائنات کا وجود نا ممکن خیال کرتا تھا۔ اقبال کہتا ہے: شیشہ دہر نیں مانند مئے ناب ہے عشق روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی اس زمانے میں اقبال کی طبیعت پر ایک خاص قسم کی رقت چھائی ہوئی تھی۔ اکثر نظموں میں ایک سوز ہے جو کسی میٹھے راگ کی لے کی طرح دل میں بس جاتا ہے: نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے ٭٭٭ سکوت شام جدائی ہوا بہانہ مجھے کسی کی یاد نے سکھلا دیا ترانہ مجھے ایسی مثالیں عام ہیں۔ مگر اقبال نے جس پیارے سسلی کو مخاطب کیا ہے اس کے سامنے سب ہیچ ہیں۔ آہ اے سسلی سمندر کی ہے تجھ سے آبرو رہنما کی طرح اس پانی کے صحرا میں ہے تو زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے ہو سبک چشم مسافر پر تیرا منظر مدام موج رقصاں تیرے ساحل کی چٹانوں پر مدام تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا ٭٭٭ بلا شک و شبہ قیام ولایت کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت اقبال کی ’’ پیغمبرانہ‘‘ شان کا آغاز ہے۔ اس سے پہلے کا اقبال شاعر محض ہے۔ مگر اس کے بعد کا اقبال دنیا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً ایک حیات تازہ کا پیغام دینے کے لیے بیتاب ہے اور اس پیغام کو ہزاروں طریق سے دہراتا ہے۔ یہ بہت ممکن ہے کہ اگر اقبال ولایت نہ جاتا تو اس کی شاعری بلکہ اس کی زندگی کا رخ کچھ اور ہوتا۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کا زمانہ اقبال کے روحانی ارتقاء کی اہم ترین منزل ہے۔ اس عرصہ میں اقبال کو تہذیب مغرب کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ ہی اقبال نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے سلسلے میں اسلامی فلسفہ اور اسلامی علوم کا بھی گہرا مطالعہ کیا اور اسے تہذیب اسلام اور تہذیب مغرب کا موازنہ کرنے کا موقع ملا۔ اس موازنے کا اثر یہ تھا کہ اقبال کی زندگی کا عظیم الشان نصب العین یعنی اسلام کے اصولوں کی علمبرداری، اس کے سامنے معین ہو گیا اور اس کے تخیل اور جذبات نے اپنے لیے ایک راہ مقرر کر لی۔ اس سے قبل کہ اقبال کی زندگی کا نصب العین معین ہو۔ اس کے فلسفہ زندگی کی تشکیل ہوئی جو اس کے پیغام کے ہر پہلو میں مضمر ہے اور جس کی بنیاد ذوق تپش اور ذوق عمل پر رکھی گئی ہے۔ یہ فلسفہ ولایت جانے سے پہلے کلام میں بھی جھلکتا ہے۔ کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن ذل کو کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں مگر ولایت کی چند نظموں مثلاً طلبہ علی گڑھ کالج کے نام ’’ چاند اور تارے‘‘ وغیرہ میں اس فلسفے نے ایک باقاعدہ صورت اختیار کر لی۔ آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں کہتا تھا مور ناتواں، لطف خرام اور ہے اس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے راز حیات پوچھ لے خضر خجتہ کام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے اس فلسفے نے اقبال کو اس کی ’’ پیغامی‘‘ شاعری کی راہ دکھائی۔ سب سے پہلے اقبال مغرب کی سرد روحانیت سے بیزار ہوا۔ پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے پھر ’’ عبدالقادر کے نام‘‘ میں اس کے پیغام کا دھندلا سا آغاز ہوا۔ رخت جاں بتکدہ چیں سے اٹھا لیں اپنا سب کو محو رخ سعدیٰ و سلیمی کر دیں دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں اور مارچ ۱۹۰۷ء کی نظم میں اقبال نے مکمل طور پر اپنے شاعرانہ ماضی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا: گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہاں میخانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا اسی نظم میں اقبال نے ’’ طلوع اسلام‘‘ کی پیش گوئی کی: نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے میں نے یہ قدسیوں سے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا تہذیب مغرب کی زر پرستی اور انسانی ہمدردی کے فقدان کی تنقید مخالفانہ بھی پہلے پہل اسی نظم میں ہوئی:ـ دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی وکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا اس سلسلے میں اقبال کی ایک اور غزل کے دو شعر بھی اہم ہیں جن سے مغربی قوموں کا مطالعہ اور اسلام اور وطنیت کا باہمی تعلق واضح ہوتا ہے: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے مدیر مخزن سے جا کے اقبال کوئی میرا پیام کہہ دے جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے اقبال کے دل کی یہ کیفیت تھی جب سسلی کے نظارے نے اس کے ملی جذبات میں آگ لگا دی اور اس کی آنکھوں کے سامنے قدیم مسلمانوں کی عظمت کا نقشہ پھر گیا۔ آہ یہ مسکن تھا ان صحرا نشیوں کا کبھی بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں میں تھے بجلیوں کے آشیانے جنکی تلواروں میں تھے اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ نا صبور ٭٭٭ اگر اس مضمون میں تفصیل کی گنجائش ہوتی تو میں چند اور چھوٹی چھوٹی خصوصیات کا بھی ذکر کرتا۔ مثلاً اقبال کا انداز بیان پختہ اور اس کے کلام کا مغربی عنصر بہت نمایاں ہو گیا۔ جیسے: یہ کیفیت ہے مری جان نا شکیبا کی مری مثال ہے طفل صغیر تنہا کی یا: سوتوں کو ندیوں کا شوق، بحر کا ندیوں کو عشق موجہ بحر کو تپش ماہ تمام کے لیے مزید برآں اکثر نظمیں ایسی ہیں جن کو یورپ کے نقاد’’ الادب الادب‘‘ سے تعبیر کریں گے۔ یعنی جو محض شاعری کا نمونہ ہیں۔ جیسے ’’ اختر صبح‘‘ ،’’ ایک شام‘‘ وغیرہ۔ تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکون ہے اگر اقبال کے قیام ولایت کی شاعری کو مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس میں ایک حساس، بے قرار اور آتشیں شباب نوجوان کی تصویر نظر آتی ہے۔ اقبال کا شعر ہے: گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا یورپ کی دلفریب دنیا ایک پر بہار گلستاں کے مانند تھی جہاں سے اقبال ایک جوئے نغمہ خواں ہو کر گزرا۔ مگر جب زندگی کے کوہ و بیاباں اس کی نظروں کے سامنے آئے تو وہ ایک سیل تندرو بن گیا اور ایک دنیا کو اپنے طوفان محشر خیز میں بہا کر لے گیا۔ ٭٭٭ علامہ اقبال کی شاعری صوفی غلام مصطفی تبسم: کسی فن کار کے کمالات فن پر تبصرہ کرنے سے پہلے اس فن کے لوازمات کو سمجھنا اور اس کا ایک صحیح معیار قائم کرنا از بس ضروری ہے۔ اس کے بغیر تنقید و تبصرہ کی تمام کوششیں بے سود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جواہرات کو پرکھنے کے لیے نظر درکار ہے۔ یہاں نظر سے مراد یہی معیار ہے جس کے ذریعہ نہ صرف ہم کھوٹے کھرے میں تمیز کر سکتے ہیں بلکہ جواہرات کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ بھی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی شاعر کے کلام پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ لازمی ہے کہ شاعری کا صحیح اور معیاری مفہوم ہمارے ذہن میں ہو۔ شاعری کیا ہے؟ شعر اور اس کے لوازمات کیا ہیں؟ مشرق و مغرب کے مختلف نقادان فن نے اپنے اپنے معیار، اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے اور طرح طرح کی گل افشانیاں کی ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ شعر منظوم کلام کا نام ہے الفاظ کی برجستگی، تراکیب کی چستی انداز بیان کی سادگی کا نام ہے۔ اگر ان ظاہر پرست، ناقدان فن کے اس مادیت آگیں نظریہ کو درست تسلیم کر لیا جائے تو لکھنو کے ایک چرب زبان، شوخ گفتار پان فروش لونڈے کی موزوں گفتگو، فسانہ عجائب کی مقضی عبادت شیخ ناسخ کی منظومات اور غالب مرحوم کے شعری الہامات میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صاحب ذوق سمجھتا ہے کہ شاعری کا یہ معیار پست شعر کو بام فلک سے حضیض ثریٰ میں گرا دیتا ہے۔ یہ ایسی ذلت ہے جسے شیدایان شعر و شاعری کسی طرح بھی گوارا نہیں کر سکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کلام ایک بت ہے جس کا جسم حسین خط و خال جمیل نقش و نگار تو رکھتا ہے لیکن روح غائب ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شاعری علوے تخیل کا نام ہے۔ بلند اور لطیف جذبات و احساسات کا نام ہے۔ جو الفاظ کی قید و بند سے آزاد بذات خود مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو ایک فلسفی کے تخیلات کی آزاد بلند پردازیاں بزرگان دین کے الہامی فقرات، عاشقانہ تفتہ جگر کی دل ہلا دینے والی فریادیں شعر کہلانے کی مستحق ہیں۔ شعر اور جذبات و احساسات کے عام اظہار میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کس کو انکار ہے کہ دنیا کے تمام صنعت گر یا فن کار تخیل ہی کی بدولت دنیا میں اپنا نام روشن کرتے ہیں۔ ان کا آئینہ دماغ دوسروں کی نسبت زیادہ جاذب نقوش ہوتا ہے۔ ان کے دل عوام کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ وہ قدرت کے جلووں کو دیکھتے ہیں۔ وہ فطرت کی نیرنگیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ کائنات کا ہر ذرہ ان کے لیے حسین و جمیل ہے دنیا کا ہر واقعہ ان کے لیے آئینہ عبرت ہے وہ ہر لحظہ ہر شے میں ایک نئی حقیقت کو جلوہ گر دیکھتے ہیں اور اس احساس حسن، اس درس عبرت، اس فلسفہ حقیقت کے اظہار کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ تمام فنون لطیفہ کے ماہرین کا یہی حال ہے لیکن کیا ان میں سے ہر ایک کے اظہار کی نوعیت ایک سی ہے کیا ہر ایک کے صنعتی نتائج یکساں ہیں۔ نہیں، معمار کا عرض فن معماری، مصور کا اظہار کمال مصوری اور شاعر کا نتیجہ فکر شاعری ہے۔ پس کوئی چیز ہے جو ان تینوں اہل فن کے انداز بیان کو جن کے احساسات عالم تصور میں کم و بیش مساوی درجہ رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں کیوں ایک معمار اپنے فن کے اظہار کے لیے خشت و سنگ تلاش کرتا ہے۔ کیوں ایک مصور رنگ آمیزی اور شاعر الفاظ آفرینی سے کام لیتا ہے؟ یہی شے ان تینوں صنعت گروں کے کمالات فن کو جداگانہ حیثیت سے سرفراز کرتی ہے۔ پس نہ تو محض لفظ آرائیوں کا نام شاعری ہے اور نہ محض تخیل کی بے قید و بند بلند پردازیوں کا، دونوں کا وجود نہایت ضروری ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن ان لفظ آرائیوں کی نوعیت کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ جب تک معمار اپنے تخیلی تعمیرات کو ظاہری موزونیت سے آراستہ نہیں کرتا اس کا نتیجہ فن شاہکار کی حیثیت اختیار نہیں کر سکتا۔ اسی خاص موزونیت نے دنیا کی عظیم الشان عمارات کو صنعت گری کا بہترین نمونہ بنا دیا ہے۔ اگر مصور اپنے خاص انداز میں رنگ آمیزیوں سے کام نہ لے تو اس کے نقوش فنی اعتبار سے ناقص رہ جائیں۔ ایک عام معمار کی غیر صنعتی تعمیر اور ایک ماہر فن صنعت گر کے شاہکار میں وہی فرق ہے جو ایک خشت و سنگ کے ڈھیر اور تاج محل میں ہے۔ پس دوسرے فن کاروں کی طرح شاعر کو بھی اظہار خیال کے لیے موزوں ذرائع کی ضرورت ہے۔ جو اس کے جذبات و احساسات کی کماحقہ ترجمانی کر سکیں اور اس کے تخیلی مجسمات کو زندہ کر دینے میں ممد ہوں۔ اگر موزوں اور موثر الفاظ میسر نہ آئیں تو تخیلات انداز بیان کی نا مربوط فضا اپنی ہستی کھو بیٹھے ہیں۔ اور اگر علوئے تخیل، جذبات و احساسات کی لطافت مفقود ہو تو محض الفاظ تراشی بت گری ہو گی۔ شاعری نہ ہو گی، موثر پیرایہ بیان اور تخیل کا امتزاج ایسا ہی ہے جیسے کسی جری، دلیر بہادر سپاہی کے ہاتھ میں تلوار لیکن بلندی خیال کے بغیر الفاظ نگاری کی وہی حیثیت ہو گی جو تلوار کسی نامرد کے ہاتھ میں جو بالکل اس شعر کے مصداق ہے۔ نامرد کے ہاتھ میں پہنچ کر شمشیر، نیام ہو گئی ہے جب علوے تخیل کے ساتھ دلکش انداز بیان شامل ہو جائے۔ جب الفاظ و معانی اپنی لطافت و وسعت کو قائم رکھتے ہوئے ایک دوسرے میں جذب ہو کر ’’ اوور من ومن در وے چوں بوئے بگلاب اندر‘‘ کا درد کرتے ہوئے نظر آئیں۔ جب دونوں کی آمیزش اس شراب و شیشہ کے وصال کی طرح ہو۔ جنہیں دیکھ کر یہ بتانا مشکل ہو کہ شراب شیشے میں ہے یا شیشہ شراب میں۔ تو سمجھ لیجئے کہ شاعر اپنی مساعی میں کامیاب ہو گیا ہے اور صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے اس کا شاہکار شاہکار کہلانے کا مستحق ہے۔ خیالات کی بلند آہنگی، جذبات کی لطافت، الفاظ کی برجستگی، انداز بیان کی موزونیت اور پھر دونوں کی باہمی لطیف آمیزش جس قدر زیادہ کامیاب ہو گی۔ اسی قدر شاعر کا کمال اور شاعری کا معیار بلند ہو گا۔ آج سے چند سال پیشتر حضرت اقبال کی شاعری کے متعلق دو متضاد رائیں سننے میں آتی تھیں اور آج بھی جبکہ ان کے کمال فن کے اظہار نے متعدد تصانیف کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یہ اختلاف رائے بعض حلقوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک گروہ انہیں ہندوستان بلکہ ایشیا کا بہترین شاعر مانتا ہے اور دوسرے گروہ کو اپنی پست ذہنیت اور کور ذوقی کے باعث اس میں شک ہے۔ یہ موخر الذکر ادبی کافروں کا گروہ اگر کبھی اپنی بد مذاقی کے اخفا کی غرض سے ان کے کمالات شاعری کا اعتراف دبی زبان میں کرتا بھی ہے تو عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسے اصحاب کی تحسین ’’ تحسین نا سخن شناس‘‘ کا حکم رکھتی ہے۔ حضرت اقبال کی شاعری ثو خیر ایک بلند شے ہے۔ کسی معمولی شاعر کے کلام کو سمجھنے اور اس کی صحیح داد دینے کے لیے سلم المذاق ہونا نہایت ضروری ہے اور حق تو یہ ہے کہ شعر گوئی کی طرح شعر فہمی بھی ایک فطرتی عطیہ ہے جو اکتساب علم سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایں سعادت بزو بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ بسا اوقات ایک فاضل اجل، ایک ماہر عروض، ذوق سلیم سے عاری ہونے کے باعث شعر و سخن کی گوناگوں دلچسپیوں سے لذت اندوز نہیں ہو سکتا۔ وہ اس اندھے کی طرح ہے جو کسی باغ میں فضائے رنگ وبو کی سیر کے لیے نکل آئے اور اپنی کوشش میں ناکام رہنے پر باغ کی شکایت کرے۔ مذاق کی بلندی اور پستی کے ظاہری اختلاف کے علاوہ حضرت اقبال کے کلام میں ایک خصوصیت اور بھی ہے جو بعض اوقات اشعار کی تہہ تک پہنچنے میں خارج ہوتی ہے وہ ان کے تخیل کی فلسفیانہ دقت طرازیاں ہیں۔ وہ لوگ جو ان کے کلام کومحض تفریح کی غرض سے دیوان داغ کی طرح اکھاڑ کر پڑھنے اور اس سے لذت اندوز ہونے کے متمنی ہیں۔ اکثر مایوس ہو جاتے ہیں اور اگر وہ کچھ سمجھتے بھی ہیں تو وہ حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے وہ خود فرماتے ہیں کہ: زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں یہی انہی دقت طرازیوں کا نتیجہ ہے کہ ان کا کلام ہمیشہ معرض بحث میں رہا۔ ایک عرصہ تک رہے گا۔ انہیں خود اس بات کی شکایت ہے کہ ان کے پیغام کے سننے والے بہت کم ہیں۔ بلکہ زمانہ حال کی فضا ہی ان کے لیے موافق نہیں۔ وہ ہر ذی ہوش مخترع فن کی طرح اپنے ہمعصروں سے بہت بلند نظر واقع ہوئے ہیں۔ ان کا پیغام ’’ شاعر فردا‘‘ کا پیغام ہے ان کے اسرار کو کماحقہ سمجھنے کے لیے آئندہ نسلیں زیادہ موزوں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: بے نیاز از گوش امروز آمدم من صدائے شاعر فرداستم عصر من دانندہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست اور پھر اپنے ہمعصروں کی بے خروش زندگی، افسردہ اور جامد زندگی کا اپنی بے تاب طبیعت سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: قلزم یاراں چوں شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفاں بدوش نغمہ من از جہانے دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است دنیا اکثر ایسے ذی ہوش اصحاب کمال سے بے اعتنائی کی مرتکب ہوتی رہی ہے اور اپنی کم فہمی کے باعث ان کے حیات افزا پیغامات کو گوش غفلت سے سنتی رہی ہے اگر دنیا کی آنکھیں کھلی ہیں تو ان ارباب کمال کی موت کے بعد جہاں لوگوں نے ان کے نورانی جسموں کو نظر بھر کے دیکھنے کی پروا نہیں کی۔ وہاں پھر ان کی آرام گاہوں کی تیرہ خاک کی پرستش ہوئی۔ وہ لوگ مرنے کے بعد زندہ ہوئے بڑے بڑے بلند پایہ شاعروں کا بھی یہ حال ہوا۔ مرزا غالب کو دیکھئے ان کے ہمعصروں کی بے التفاتیوں پر نظر ڈالیے اور پھر ان کی موت کے بعد ان کے بالغ نظر پرستاروں کی عبادت آمیز عقیدت مندیوں کا مشاہدہ کیجئے۔ تو آپ پر یہ مثال روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی۔ خود حضرت اقبال اسی مسئلہ کو یوں ادا کرتے ہیں: اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد چشم بر خود بست و چشم ما کشا و رخت باز از نیستی بیروں کشید چوں گل از خاک مزار خود دمید میرا موضوع اقبال کی شاعری ہے۔ میں اس موضوع کے تین پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا: ۱۔ اقبال کا پیغام اور اس کی نوعیت ۲۔ اقبال کا کلام یا فن شاعری ۳۔ اقبال کی شاعری کی حیثیت اور اس کا اثر اقبال کے پیغام کے متلق میں کسی قدر اختصار سے کام لوں گا۔ حضرت اقبال کا پیغام کیا ہے؟ ان کے خیالات و احساسات کی نوعیت کیا ہے؟ ان کے دل و دماغ کے خلوت کدوں میں کون سے اسرار مضمر ہیں، جن کے اظہار کے لیے وہ بیتاب ہیں۔ وہ کونسی آگ ہے جو شرر افشاں آہوں، شعلہ ریز فریادوں اور برق پاش نالوں کے باوجود ابھی تک ان کے سینے میں فروزاں ہے۔ وہ بے نوازیاں، وہ نغمہ سرائیاں کیا ہیں؟ جن سے وہ خود تڑپتے اور دوسروں کو تڑپانا چاہتے ہیں؟ یہ پیغام، راز حیات ہے۔ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا راز، جسے انہوں نے برسوں کی دلسوزیوں، جگر کاویوں، اشک ریزیوں کے بعس امجھا اور اب وہ دوسروں کو سمجھانے کے لیے بے تاب ہیں۔ لیکن جہان میں ایک بھی محرم راز نہیں ملتا۔ جس کے سامنے وہ اس حقیقت کا اظہار کر سکیں۔ وہ اپنی اس بے چارگی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں: تاب گفتار اگر ہست شناسائے نیست وائے آں بندہ کہ در سینہ اورازے ہست واقعی کس قدر بے بسی کا عالم ہے! سخن تازہ زدم کس بہ سخن وا نرسید جلوہ خوں گشت و نگاہے بہ تماشا نرسید ایک اور جگہ اسی خیال کو ظاہر کیا ہے: تو مرا ذوق بیاں وادی و گفتی کہ بگوے ہست در سینہ من آنچہ بکس نتواں گفت خدا نے شاعر کو ذوق بیان تو عطا کر دیا لیکن اس کے رموز و اسرار کو سننے والا مفقود ہے۔ اور اگر کوئی جرأت کرے تو کیونکر یہ رموز و اسرار تو شعلوں کاحکم رکھتے ہیں۔ سوائے اہل دل کے کون ان کا متحمل ہو سکتا ہے۔ رمز عشق توبہ ارباب ہوش نتواں گفت سخن از تاب و تب شعلہ بہ خس نتواں گفت حضرت اقبال شاعر فردا ہیں۔ وہ ان خاکیان افسردہ خاطر سے الگ تھلگ ایک نیا جہان بناتے ہیں جس کا آدم اول وہ خود ہی ہیں۔ اور جہاں کوئی دوسرا ان کا ہمراز و دمساز نہیں۔ فرماتے ہیں: دریں مے خانہ اے ساقی ندارم محرمے دیگر کہ من شاید نخستیں آدمم از عالمے دیگر ٭٭٭ انہوں نے کائنات کا بہت گہرا مطالعہ کیا ہے۔ وہ اسرار ہستی کو سمجھنے سے پہلے تجسس حقیقت کی مختلف منازل طے کر چکے ہیں۔ اول اول جب ان کی آنکھ کھلتی ہے تو ان کی نظر ہندوستان کی تنگ وطنی فضا پر پڑتی ہے۔ وہ وطن کے شیدائی کی حیثیت سے ہندوستان کے گیت گاتے ہیں۔ کوہ ہمالہ کو وطن کا نگہبان سمجھتے ہوئے اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں۔ ابنائے وطن کی پست حالت پر نوحہ خوانی کرتے ہیں اور انہیں بیدار کرنے اور ان کی خوابیدہ روح جگانے کے لیے درد بھری فریاد کرتے ہیں۔ ’’ نیا شوالہ‘‘ ،’’ قومی گیت‘‘ اور’’ تصویر درد‘‘ اسی عہد کی واردات ہیں۔ لیکن جستجوئے حق کی یہ پہلی منزل ہے۔ جب ان کی نظر ملک ہندوستان کے تنگ دائرے سے نکل کر پر وسیع فضائے عالم پر پڑتی ہے تو وہ وطن جو کچھ عرصہ پہلے ان کا نصب العین تھا اپنی ہستی اس وسیع کائنات میں کھودیتا ہے۔ جہاں انسان کی حیثیت ہندوستانی، ایرانی، تورانی، افریقی نہیں بلکہ اس معمورۂ عالم کی کثیر التعداد آبادی میں ایک ادنیٰ فرد کی سی رہ جاتی ہے۔ وطنیت عالمگیر اخوت میں بدل جاتی ہے لیکن ان کی تجسس کوش نظریں یہاں آ کر بھی نہیں رکتیں۔ وہ معمور عالم کو کائنات کا ایک جزو خیال کرتے ہیں جہاں انسانی ہستی ایک ذرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ حقیقت کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں حیات انسانی کے راز کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ علوم فلسفہ سے استمداد کرتے ہیں اور علم و دانش سے اس عقدے کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں پتا چلتا ہے کہ موجودہ تہذیب و تمدن کی خرد فروزیاں اس حقیقت کو منکشف نہیں کر سکتیں۔ لکھتے ہیں: قدح خرد فروزے کہ فرنگ داد مارا ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر ندارو دانایان فرنگ کائنات کو دیکھتے ہیں۔ فطرت کے گوناگوں مناظر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ قدرت کی زبردست طاقتوں سے مفید کام بھی لیتے ہیں۔ لیکن اس کی نیرنگیوں کی حقیقت کو سمجھنا ان کے فہم سے بالا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک قلب تپاں، ایک چشم بینا، ایک خلیلی روح، ایک کلیمی نظر کی ضرورت ہے۔ کیا خوب کہا ہے: از کلیمے سبق آموز کہ دانائے فرنگ جگر بحر شگافید و بہ سینا نرسید بحر شگافی کے لیے تو آبدوز جہاز کام دے سکتے ہیں۔ لیکن تجلی حق کے مشاہدہ کے لیے کلیم اللہ کی آنکھ درکار ہے۔ انسانی عقل اشیاء کی سطح تک رہتی ہے۔ باطن کی خبر لانے کے لیے روحانی بیداری ضروری ہے۔ دل بیدار نداوند بہ دانائے فرنگ ایں قدر ہست کہ چشم نگرانے دارد علم و دانش کی یہ افسردہ روحانیت، یہ ٹھوس مادیت، حقیقت کائنات کے انکشاف کا جہاں تک تعلق ہے محض سطحیت کا حکم رکھتی ہے۔ ہمارا شاعر اپنے منازل جستجو کو روحانی بیداریوں کے سہارے طے کرتا ہے۔ یہ راستہ اگرچہ بہت دور دراز ہے لیکن عاشق صادق کے لیے عرصہ یک گام سے بڑھ کے نہیں اور اگر یہ شرح صدر، یہ روحانی کشف، یہ نور عشق حاصل ہو جائے تو دونوں جہان پر حاوی ہو جانا آسان ہے۔ یہ آسمان، یہ ستارے، یہ کہکشاں یہ مہر و ماہ واضح ہو کر نظر کے سامنے آ جاتے ہیں۔ جبریل تو درکنار عرش الٰہی تک رسائی ہو سکتی ہے۔ ہمارا شاعر کہتا ہے: در دشت جنون من جبریل، زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ ٭٭٭ حضرت اقبال نے انسانی دلوں کی تڑپ، سوز و گداز، جستجو و تلاش حق اور پھر وادی عشق کے تمام منازل کا صحیح نقشہ پیش کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انسان میں یہ تڑپ فطری ہے۔ انسان اگرچہ خاک کا پتلا ہے لیکن اس کی روح اپنے مرکز کی طرف کھینچی چلی جاتی ہے۔ یہ چیز ہے جو اسے جستجو پر مجبور کرتی ہے۔ یہ چیز ہے جو اسے بیتاب رکھتی ہے۔ استفہامی رنگ میں فرماتے ہیں: دروں سینہ ماسوز آرزوز کجاست سبو زماست ولے بادہ در سبوز کجاست گرفتم ایں کہ جہاں خاک و ماکف خاکیم بہ ذرہ ذرہ ما درد جستجو زکجاست نگاہ ما بگریبان کہکشاں افتد جنون ما ز کجا شور ہائے و ہوز کجاست ٭٭٭ وہ خود اسی سوز میں جلتے ہیں۔ یہی شراب انہیں مسرور رکھتی ہے اور یہی جستجو انہیں سرگرم عمل! وہ اسی نظر سے کائنات کے ہر ذرے کو دیکھتے ہیں اور اسی بصیرت افروز روحانی بیداری سے دونوں جہاں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب یہ کیفیت طاری نہ ہو تو یہ آنکھیں ایک پرکاہ کے پڑ جانے سے بند ہو جاتی ہیں لیکن اسی روحانی بصیرت سے دونوں جہان کے جلوے نظروں میں سما جاتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: می شود پردۂ چشمم پر کاہے گاہے دیدہ ام ہر دو جہاں را بہ نگاہے گاہے وادی عشق بسے دور دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بہ آہے گاہے پھر دوسروں کو ابھی اسی شاہراہ حق پر گامزن ہونے کی تلقین فرماتے ہیں اور امید دلاتے ہیں کہ یہ مساعی کبھی خالی نہیں جاتیں۔ در طلب کوش و مدہ دامن امید زدست دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے ٭٭٭ وہ اپنی اس وسیع مشربی اور کشادہ دلی، سوز قلب اور جوش حرارت کے باوجود بارگاہ ایزدی سے ہمیشہ اس تڑپ، اس سوز، اس روحانی بیداری کے متمنی ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زندگی یہی شے ہے۔ وہ اپنی اس جستجوئے حقیقت کا خاتمہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ اس نصب العین کے حصول کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہی باطنی ہنگامہ آرائی ، یہی کشمکش ’’ حیات‘‘ ہے۔ وہ نہ صرف خود زندہ رہنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی گرم نوائیوں سے دوسروں کو بھی بیدار کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے سبھی اسی بارگاہ ایزدی سے التجا کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کام نہایت دشوار ہے مردہ قوم میں روح حیات پھونکنے کے لیے دم عیسیٰ کی ضرورت ہے۔ بلند ہمتی اور استقلال کی ضرورت ہے۔ دیکھئے فرماتے ہیں: یا رب درون سینہ دل با خبر بدہ در بادہ نشہ را نگرم آں نظر بدہ ایں بندہ را کہ با نفس دیگراں نہ نزیست یک آہ خانہ زاد، مثال سحر بدہ سلیم، مرا بجوئے تنک مایہ مپیچ جولاں گہے بوا دمی کوہ و کمر بدہ شاہین من بصید پلنگاں گزاشتی ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ رفتم کہ طائران حرم را کنم شکار تیرے کہ نافگندہ فتد کارگر بدہ خاکم بہ نور نغمہ داؤ و بر فروز ہر ذرہ مرا پر و بال شرر بدہ ٭٭٭ حضرت اقبال اپنی دور رس نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب جو آج نوع انسان کے دل و دماغ پر مسلط ہو رہی ہے دنیا کے لیے مفید نہیں۔ وہ روحانیت کو افسردہ کرتی ہے۔ وہ مادیت کی طرف لے جاتی ہے اس کا انحصار محض علم و دانش پر ہے دانایان فرنگ کی آنکھیں روشن ہیں۔ لیکن دل بجھے ہوئے ہیں اور روحیں سو رہی ہیں۔ ان کے قلب سوز دل سے عاری ہیں۔ وہ دور حاضرہ کے علوم و فنون کی ترقی میں روحانیت کے زوال کو دیکھتے ہیں۔ یہ ترقی نہیں تباہی ہے۔ یورپ کی آزادی کی بلند آہنگیاں حقیقت میں غلامی کی زنجیروں کی جھنکاریں ہیں۔ سائنس کی روز افزوں ترقی نسل انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بلکہ تباہ کار آلات حرب کی ساخت کے لیے ہیں۔ نئی تہذیب کی یہ خوش منظر، عظیم الشان عمارت نہایت سست بنیاد ہے۔ اس کی تعمیر ہی میں بربادی مضمر ہے۔ حضرت اقبال ان تمام غیر محسوس اثرات کو دیکھتے ہیں اور ایشیا والوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص اس سے بچنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ کون ہے جس نے علامہ موصوف کی وہ نظم وہ لاہوتی نغمہ نہیں سنا جس میں انہوں نے جنگ عظیم سے برسوں پہلے ’’ آئینہ امروز‘‘ میں ’’ واقعات فردا‘‘ کو مشاہدہ کیا تھا۔ وہ کہتے ہیںـ: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا ٭٭٭ ’’ شمع و شاعر‘‘ میں لکھتے ہیں: دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائیگی نالہ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائیگی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی یہ اشعار انقلابات زمانہ کی کیسی شوخ تصویریں ہیں۔ اردو زبان اور اس کے کم ظرف الفاظ اس سے زیادہ معانی کے کہاں متحمل ہو سکتے ہیں! لیکن یہ تصویریں خاموش تصویریں ہیں۔ میں آپ کو زندہ دکھاتا ہوں جہاں الفاظ و معانی سرگوشیاں کرتے ہوئے، تڑپتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔جہاں شاعر کے الہامی فقرات دلوں میں خود بخود اترتے چلے جاتے ہیں جنہیں پڑھ کر آنکھیں بینائی حاصل کرتی ہیں اور روح عبرت۔ یہ بھی مغرب کی تہذیب اور اس کی فریب کاریوں کا نقشہ ہے: ابھی تک آدمی صید زبون شہریاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے وہ’’ پیام مشرق‘‘ میں ’’ نقش فرنگ‘‘ کے عنوان کے تحت میں تہذیب مغرب پر اپنے خیالات کاا ظہار اور بھی زیادہ موثر، زیادہ بلیغ اور زیادہ فصیح انداز میں کرتے ہیں: از من اے باد صبا گوے بدانائے فرنگ عقل تابال کشود است گرفتار تر است برق را ایں بجگرمی زند آں رام ند عشق از عقل فسوں پیشہ، جگر دار تر است چشم جز رنگ گل و لالہ نہ بیند ورنہ آنچہ در پردۂ رنگ است پدیدار تر است عجب آں نیست کہ اعجاز میسحا داری عجب ایں است کہ بیمار تو بیمار تر است دانش اندوختہ دل زکف انداختہ آہ ازاں نقد گرانما یہ کہ در باختہ عقل و عشق کا کتنا زبردست مقابلہ کیا ہے۔ کس بلیغ پیرائے میں دونوں کے کار ہائے نمایاں دکھائے ہیں۔ عقل جوہر صاحب علم و دانش کی محبوبہ ہے جسے ہر تشنہ کام علم و تحقیق چشمہ فیض جانتا ہے۔ مسیحائی تو کرتی ہے لیکن اس کی مسیحائی مردوں کو زندہ نہیں کرتی۔ افسردہ طبائع کو بیدار نہیں کرتی، سوئی ہوئی روحیں نہیں جگاتی بلکہ انہیں اور بھی افسردہ کر دیتی ہے وہ بیمار ہوں تو بیمار تر کر دیتی ہے۔ کیسا دلکش انداز بیان ہے۔ کیا موثر پیرایہ ہے کیا کوئی عشق عقل کی فسردہ کار فسوں گری نا مسیحائی اس سے بہتر بیان کر سکتا۔ یقینا یہی چند اشعار شاعر کی شہرت دوام کے لیے کافی ہیں۔ کائنات کے ذرے ذرے کی شناخت اور واقعات عالم کی حقیقت کو جب سمجھتے اور جس طرح سمجھتے ہیں اسے وہ اپنے لیے باعث فخر خیال کرتے ہیں۔ وہ اس پر نازاں ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: من دریں خاک کہن گوہر جاں مے بینم چشم ہر ذرہ چو انجم نگراں مے بینم دانہ را کہ بآغوش زمین است ہنوز شاخ در شاخ و برد مند و جواں مے بینم کوہ را مثل پرکاہ سبک مے یابم پرکاہے صفت کوہ گراں مے بینم انقلابے کہ نہ گنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ہیچ کہ چساں مے بینم خرم آنکس کہ دریں گرو سوارے بیند جوہر نغمہ ز لرزیدن تارے بیند دیکھئے وہ اپنی حقیقت شناس نظروں سے ہر ذرہ کے دل کو بیدار پاتے ہیں۔ وہ اس شباب کو جو عرف عام میں درخت کے نام سے مشہور ہے۔ دانہ کی صورت میں دیکھ کر ہی اندازہ کر لیتے ہیں کہ اس میں کتنی دمیدگی ہے۔ اس کی بالیدگی کی حد کیا ہے۔ اس کے ایک ایک پتے کو گنتے اور ہر پھول کو سونگھتے اور ہر پھل سے سیر کام ہوتے ہیں۔ آئندہ واقعات کے رونما ہونے اور مختلف ارتقائی منازل طے کرنے کو کیسی نادر تشبیہوں اور کنایوں میں بیان کیا ہے۔ دنیا میں ایک طرف عظیم الشان حکومت ہے اور اس کی باجبروت فوجیں، دوسری طر ف محکوم قوم کی محکومیت ہے اور اس کی بے چارگی اور مظلومیت لیکن حضرت اقبال نظیری کے اس نکتہ راز سے واقف ہیں۔ گو کہ ایں صف شکناں قصد ضعیفاں نکنند کہ دریں قافلہ گاہے قدر اندازے ہست وہ جانتے ہیں کہ انقلاب زمانہ گردش روزگار نے بارہا ایسے کرشمے دکھائے ہیں کہ ایک بے دست و پا، محکوم و مظلوم قوم نے اٹھ کر کوہ وقار سلطنتوں کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے ۔ وہ زیردستوں کی اس طاقت غیبی اور زبردستوں کی اس سراب آسا سطوت کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ جبھی تو فرماتے ہیں: کوہ را مثل پر کاہ سبک می یابم پر کاہے صفت کوہ گراں می بینم ٭٭٭ وہ اس چیز سے بھی بے خبر نہیں کہ دنیا ایسے انقلابات کو ہمیشہ استعجاب سے دیکھتی ہے۔ آسمان انہیں حیرت سے تکتا ہے۔ خود کارکنان قضا و قدر کو تعجب ہوتا ہے۔ انقلابے کہ نہ گنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ہیچ نہ بینم کہ چساں می بینم جاوید نامے میں، جو ان کی تازہ ترین تصنیف ہے، جاوید سے خطاب کرتے ہیں اور اسے مغربی تہذیب کے زیر اثر آئندہ رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیا محض عقل و دانش کی اسیر ہو کر رہ جائے گی۔ دلوں میں سوز و گدازنہ ہو گا۔ آنکھیں مجاز پرست ہو جائیں گی۔ دنیا کے لوگ اصنام آب و گل کے پرستار ہو جائیں گے: گر خدا سازد ترا صاحب نظر روزگارے را کہ مے آید نگر عقلہا بے باک و دلہا بے گداز چشمہا بے شرم و غرق اندر مجاز علم و فن، دین و سیاست، عقل و دل زوج زوج اندر طواف آب و گل اس اثر سے ایشیا بھی نہ بچ سکے گا: آسیا آں مرز و بوم آفتاب غیر بیں از خویشتن اندر حجاب قلب او بے واردات نو بنو حاصلش را کس نگیرد با دو جو روزگارش اندریں دیرینہ دیر ساکن و یخ بستہ، و بے ذوق سیر صید ملایان و نخچیر ملوک آہوئے اندیشہ او لنگ و لوک ٭٭٭ ان حقائق و معارف میں اقبال کا فلسفہ خودی بھی شامل ہے جس پر اس کی رائے میں ہر شے کی زندگی کا انحصار ہے۔ خودی سے کائنات کے ہر ذرے کا وجود ہے۔ خودی سے انسان کی ہستی قائم ہے۔ ہاں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ خودی کیا ہے؟ اور اس کے لوازمات کیا ہیں؟ وہ فرماتے ہیں کہ انسان کے لیے اپنی ہستی کا احساس ہی خودی ہے۔ اس کے اپنے اندر کمالات کے تمام اسرار پوشیدہ ہیں جس قدر یہ احساس زیادہ تیز اور استوار ہو گا اسی قدر زندگی زیادہ استوار ہو گی۔ اس حیات خودی کو قائم رکھنے کے لیے آرزوئے مسلسل کی حاجت ہے۔ جس انسان کے دل میں کسی مدعا کے حصول کیلئے آرزوئیں، تمنائیں بے تاب نہ ہوں۔ اس کا وجود مشت خاک سے زیادہ نہیں۔ اس کا جسم ایک مزار ہے۔ انسانی قلب میں آرزوؤں کی یہی تڑپ اسے سرگرم عمل رکھتی ہے وہ محو جستجو رہتا ہے یہ جستجو ہی اس کی روح رواں ہے جسم اسی سے زندہ ہے دل اسی سے ہنگامہ آراء ہے۔ روح اسی سے بیتاب و بیدار رہتی ہے۔ دیکھئے ان سب کی شرح اسرار خودی میں اس طرح سے کی ہے: زندگانی را بقا از مدعا است کار وانش را دراز مدعا است زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو را در دل خود زندہ دار تانگردد مشت خاک تو مزار اور پھر کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں: از تمنا رقص دل در سینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا طاقت پرواز بخشد خاک را خضر باشد موسیٰؑ ادراک را ٭٭٭ آرزو ہنگامہ آرائے خودی موج بیتابے ز دریائے خودی یہ خودی اسی سوز عشق سے، جس کو ہم پہلے بیان کر آئے، سوز حاصل کرتی ہے۔ وہ خود نور ہے، زندگی کا سوز و ساز ہے۔ محبت اس نور کو زیادہ روشن کرتی، اس آگ کو اوربھی بھڑکاتی ہے۔ دل اس سے توانا ہوتے ہیں، بیباک ہوتے ہیں اور روحانی ارتقاء کو حاصل کرتے ہیں۔ نقطہ نورے کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر، سوزندہ تر، تابندہ تر عشق را از تیغ و خنجر باک نیست اصل عشق از آب و باد و خاک نیست دل ز عشق او توانا می شود خاک ہمدوش ثریا می شود ٭٭٭ یہ عشق، عشق حق ہے۔ اس کے لیے کسی خارجی معشوق و محبوب کی ضرورت نہیں۔ وہ محبوب انسان ہی کے دل میں نہاں ہے۔ ہاں اسے دیکھنے کے لیے چشم بینا درکار ہے۔ فرماتے ہیں: عاشقی آموز و محبوبے طلب چشم نوحے قلب ایوبے طلب کیمیا پیدا کن از مشت گلے بوسہ زن بر آستان کاملے شمع خود را ہمچو رومی بر فروز روم را در آتش تبریز سوز ہست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری بیا بنمائمت ٭٭٭ ایک عارف کی حقیقت شناس نظر اور قلب تپاں دونوں مل کر اس شاہد حقیقی کے جلوے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ بے خودی کیا ہے؟ خودی جب تک انفرادی زندگی میں ہے، خودی ہے لیکن جب ایک فرد جماعت میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کی حیثیت کچھ اور ہو جاتی ہے۔ وہ پہلے ناز ہوتا ہے پھر نیاز۔ وہ پہلے اگر قطرہ ہوتا ہے تو پھر سمندر بن جاتا ہے۔ وہ اگر خودی کی حالت میں محض ایک برگ گل تھا تو اب وہ ایک چمن زار ہے دیکھئے کس دلکش پیرایہ میں کہتے ہیں: فرد را ربط جماعت رحمت است جوہر او را کمال از ملت است تا توانی با جماعت یار باش رونق ہنگامہ احرار بار ٭٭٭ فرد می گیرد ز ملت احترانم ملت از افراد می یابد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود ٭٭٭ در جماعت خود شکن گردد خودی تاز گلبرگے چمن گردد خودی ان اشعار میں شاعر نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے فرق کو کیسے بلیغ انداز میں بیان کیا ہے۔ فرد کی زندگی بغیر جماعت کس قدر محدود ہے۔ اس انسان کو جو ان حدود سے گزرنے کے لیے بے تاب ہو ’’ قطرۂ وسعت طلب‘‘ کہنا کیسا پیارا انداز بیان ہے بظاہر قطرے کا وسعت حاصل کرنا کتنا نا ممکن ہے۔ لیکن قلزم بننا بھی کس قدر نمایاں ہے۔ کون اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے۔ پریشان افراد بکھری ہوئی پھولوں کی پتیاں ہیں۔ لیکن ایک جماعت میں شریک ہو کروہی چمن بن جاتی ہیں۔ ٭٭٭ حضرت اقبال کا مخاطب کون ہے۔ ان کا مخاطب دنیا کا ہر فرد بشر ہے۔ ہر وہ شخص جو سینے میں ایک مضطرب دل، ایک بیقرار آرزو رکھتا ہو۔ جو جستجوے حقیقت میں سرگرم رہ کر اپنی زندگی کو حیات تازہ بخشنے کا متمنی ہو۔ ان کی مخاطب ہر وہ قوم ہے جو دنیا میں اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتی ہے جو صحیح شاہراہ ترقی پر گامزن ہونے کی خواہشمند ہے لیکن وہ مسلمان ہیں۔ ایشیائی سوز و گداز ان کے رگ و پے میں ہے ۔ وہ عالمگیر اخوت کے جس کا دوسرا نام اسلام ہے، علمبردار ہیں۔ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ دنیا اور بالخصوص مسلمان اگر پھر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے اسلاف کا ہی طرز عمل مفید ہے۔ تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر ٭٭٭ اس اعتبار سے کہ اخوت اسلامیہ کی بحث نا مکمل نہ رہ جائے۔ میں مثنوی اسرار سے چند اشعار اور رموز سے ایک حکایت نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہوں، جس سے آپ کو نہ صرف شاعر کے صحیح تصور اخوت کا پتہ چلے گا، بلکہ اس کے زور کلام اور انداز بیان کا بھی اندازہ ہو سکے گا۔ اس خیال کو کہ مسلمان ایک ہیں۔ اس طرح بیان فرماتے ہیں: ما کہ از قید وطن بیگانہ ایم چوں نگہ نور دو چشمیم و یکیم از حجاز و چین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خدانیم ما مست چشم ساقی بطحا ستیم در جہاں مثل می و مینا ستیم امتیزارات نسب را پاک سوخت آتش او ایں خس و خاشاک سوخت ٭٭٭ رموز میں عربوں کے ایران پر حملہ آور ہونے کے وقت کا ایک واقعہ درج ہے۔ یزد جرو کے ایک سپہ سالار کو لڑائی میں ایک مسلمان اسیر کر لیتا ہے۔ وہ مکار سپہ سالار اپنی بلند شخصیت کو چھپاتا ہے اور معمولی سپاہی کی حیثیت میں اس سے ’’ جاں بخشی‘‘ گرا لیتا ہے۔ جب جنگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور ایران کی سلطنت تباہ ہو جاتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہ جاپانی ہے۔ اس اسیر کو حجازی افواج کے سپہ سالار ابو عبیدہ کے حضور میں لاتے ہیں اور اس جھوٹ کے لیے قتل کی سزا دلانا چاہتے ہیں۔ لیکن ابو عبیدہ جواب دیتے ہیں: گفت اے یاراں مسلمانیم ما تار چنگیم ویک آہنگیم ما نغمہ عثماں نواے بوذر است گرچہ از حلق بلال و قنبر است ہر یکے از ما امین ملت است صلح و کینش، صلح و کین ملت است ملت از گردد اساس جان فرد عہد ملت می شود پیمان فرد گرچہ جاپاں دشمن ما بودہ است مسلمے اورا اماں بخشودہ است خون او اے معشر خیر الانام بردم تیغ مسلماناں حرام ٭٭٭ یعنی فرد کا فیصلہ ملت کا فیصلہ ہے۔ اگر ایک مسلمان کسی کی جاں بخشی کی ہامی بھرتا ہے تو قوم پر اس کا خون حرام ہو جاتا ہے۔ اقبال کا فن شاعری: میں نے حضرت اقبال کے پیام یا ان کے خیالات و احساسات پر بہت کچھ کہا ہے۔ اب یہ دکھانا مقصود ہے کہ بحیثیت فن شاعری کے ان کے کمالات کیا ہیں؟ جہاں تک زبان کا تعلق ہے انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے ہیں۔ ارد وکلام کا مجموعہ بانگ درا، اور فارسی کی متعدد تصانیف اس امر کی کافی شہادتیں ہیں۔ ان کی شاعری کا آغاز اردو زبان سے ہوتا ہے اور اس میں دوسرے شاعروں کی طرح غزل سے ابتداء کرتے ہیں۔ اردو کے مشہور غزل گو شاعر حضرت داغ کے تلمیذ بنتے ہیں اور اس سے اصلاحیں لیتے ہیں۔ مختلف بحروں میں طبع آزمائی کی جاتی ہے۔قافیوں اور ردیفوں کو چمکایا جاتا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔ شاعر کی وسعت تخیل ’’ تنگناے غزل‘‘ میں نہیں سما سکتی۔ وہ دوسری اصناف شاعری سے کام لیتا ہے لیکن علوے تخیل ان سے بھی ابھر ابھر کر نکلتا ہے۔ اردو زبان کی کم مایگی جواب دے جاتی ہے۔ وہ فارسی میں شعر کہنے لگتے ہیں جو ان کے لیے بیحد موزں ہے۔ وہ خود فرماتے ہیں: گرچہ ہندی در غدد بت شکر است طرز گفتار دری شیریں تر است فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامہ من شاخ نخل طور گشت پارسی از رفعت اندیشہ ام در خور با فطرت اندیشہ ام خوردہ بر مینا مگیر اے ہوشمند دل بذوق خوردۂ مینا بہ بند کہتے ہیں کہ زبان پر جو بمنزلہ مینا ہے اعتراض نہ کر کہ اردو کیوں نہیں، فارسی کیوں ہے۔ بلکہ تو اس مینا کی شراب کے ذوق سے سیراب ہو۔ انہوں نے جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں، تقریباً تمام مشہور اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزل، رباعی، قطعہ، مثنوی، مسدس، سبھی لکھتے ہیں اور ہر ایک میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ لیکن ان کا کمال فن شاعری کی ان ظاہری رسوم و قیود سے بالاتر ہے۔ ان کے کمال کا انحصار علو تخیل پر ہے۔ شوخی بیان اور زور کلام پر ہے۔ الفاظ و تراکیب کی رنگینی اور چستی پر ہے۔ ان کا انداز بیان فلسفیانہ ہے۔ وہ ہر شے کو اسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ طلوع صبح کا ذکر ہو یا شفق شام کا، کوہسار کا منظر ہو یا سبزہ زار کا موسم، بہار کا تذکرہ ہو یا خزاں کا، کشمکش زیست کا سوال ہو یا فسردگی مرگ کا، وہ انہیں دیکھتے ہیں اور ان میں یکسر محو ہو کر حقیقت کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اشیاء یا واقعات کی سطح تک رہنا ان کے لیے نا ممکن ہے۔ یہی باعث ہے کہ منظر کشی میں زیادہ کوشاں نہیں ہوتے۔ اردو اور فارسی کی متعدد نظمیں اس قول کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ بانگ درا میں موج دریا، ستارہ، بچہ اور شمع، اور خود ان کی والدہ کا مرثیہ جس میں سوز و الم کے مقابلے میں فلسفہ غم زیادہ ہے۔ ایسی ہی مثالیں ہیں۔ لیکن اس فلسفیانہ انداز بیان سے ان کے جوش بیان میں فرق نہیں پڑتا۔ الفاظ کی سادگی اور عبادت کی سلاست میں فرق نہیں پڑتا بلکہ کلام کی شوکت اور اس کی دلآویزی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ فلسفہ کا خشک موضوع رنگینی اختیار کر لیتا ہے۔ یہی شاعر کا کمال فن ہے۔ دیکھئے ایک نظم کا عنوان ہے: ’’ پھول کا تحفہ عطا ہونے پر‘‘ فرماتے ہیں: پھول سے خطاب وہ مست ناز جو گلشن میں آ نکلتی ہے کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے الٰہی پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے تجھے وہ شاخ سے توڑیں زہے نصیب ترے تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے اٹھا کے صدمہ فرقت وصال تک پہنچا تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا ٭٭٭ مرا کنول کہ تصدیق ہیں جس پہ اہل نظر مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر کبھی یہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا کسی کے دامن رنگیں سے آشنا نہ ہوا شگفتہ کر نہ سکے گی کبھی بہار اسے فسردہ رکھتا ہے گلچیں کا انتظار اسے ٭٭٭ یہ اردو کلام کی مثال تھی۔ فارسی میں جہاں شاعر کے علوے تخیل کام کرتا ہے۔ وہاں اشعار تیر و نشتر بن جاتے ہیں۔ میں یہاں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ محض انس میں جہاں عاشق و معشوق باہم راز و نیاز میں مصروف ہیں۔ عاشق کے لبریز شوق الفاظ کس قدر فصیح و بلیغ ہوتے ہیں۔ وہ ایک حرف میں ہزار داستانیں بیان کر سکتا ہے بلکہ اس کا ایک آنسو ایک آہ لاکھوں آرزوؤں کی لفظی صورتوں سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ لیکن عاشق اپنی داستان کو مختصر نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اس وصل کی لذت کا جس میں دنیا بھر کے سرور پنہاں ہیں، لاکھوں جنتیں جلوہ فرما ہیں، خاتمہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس ذوق حضوری کے لیے داستان کو طویل کیے جاتا ہے۔ اس مضمون کو شاعر نے کس بلیغ انداز میں بیان کیا ہے: بحر نے می تواں گفتن تمناے جہانے را من از ذوق حضوری طول دادم داستانے را ٭٭٭ انسانی ہستی کا یہیں خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ یہ موت محض عارضی انقطاع ہے۔ اس کے بعد انسان کو ابدی زندگی عطا ہونے والی ہے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ اس موت کے بعد ہمیں ہمیشہ کے لیے سو جانا ہے اور یہ مرگ، مرگ دوام ہے تو بھی انسان کو اس فانی دنیا میں اپنی زندگی اس خوش اسلوبی سے گزارنی چاہیے کہ خدا بھی اس بات پر سخت نادم ہو کہ میں نے انسان کو جو اپنی ذاتی مساعی سے اس قدر ارتقاء حاصل کر سکتا ہے کیوں نہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا اہتمام کیا۔ ایسی عظیم الشان ہستی کو اتنی ترقیوں کے بعد یک لخت ہمیشہ کے لیے تباہ کر دینا نا انصافی ہے۔ اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے: چناں بزی کہ اگر مرگ ماست مرگ دوام خدا زگردۂ خود شرمسار تر گرود دیکھئے کتنا بڑا مضمون ہے اور کس سادگی سے ادا کیا ہے۔ انسان کو سعی عمل اور اکتساب کمال کے لیے اس سے بڑھ کے اور کون سا درس ہو سکتا ہے۔ ٭٭٭ علم و دانش انسانی ہستی کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے۔ لیکن وہ علم و دانش جس کے حصول سے انسانی قویٰ باطل ہو کر رہ جائیں۔ بے سود ہے۔ جو علوم ایک جری سپاہی کو بزدلانہ تعطل کی طرف لے جائیں۔ وہ کس قدر خطرناک ہیں، کس قدر مہلک ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: من آں علم و فراست با پر کاہے نمی گیرم کہ از تیغ و سپر بیگانہ سازد مرد غازی را ٭٭٭ دیکھئے مرد غازی سپاہانہ جذبے کو، جو سرتا سر عمل ہوتا ہے۔ زندہ رکھنے کے لیے وہ کس قدر بیتاب ہیں۔ تلقین عمل ان کا خاص شیوہ ہے۔ وہ لوگ جو دنیا میں من و سلویٰ کے متلاشی ہیں۔ اپنی ذاتی سعی و کوشش سے کچھ حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ سرگرمی عمل کی لذت سے بے نصیب ہیں۔ جن کو ورثے میں سب کچھ مل جائے۔ انہیں جدوجہد کے عیش پنہاں کی کیا خبر۔ کہتے ہیں: پشیماں شوا گر لعلے ز میراث پدر خواہی کجا عیش بروں آوردن لعلے کہ در سنگ است پتھر سے خود لعل نکال لانے میں جو مسرت انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ لعل کے ورثہ لینے میں نہیں۔ عالی حوصلہ وہ انسان ہے جو ایسی دولت کے حصول پر خوش نہ ہو بلکہ پشیمان ہو۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر لحظہ کائنات کے اسرار و حقائق پر غور کرے۔ اس کی ہر نگاہ فطرت کی گہرائیوں تک پہنچنی چاہیے، ورنہ یونہی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے سے کیا فائدہ۔ دیکھئے اس مضمون کو کیسے ادا کیا ہے: اگر بہ سینہ ایں کائنات در نروی نگاہ را بہ تماشا گزاشتن ستم است فرماتے ہیں کہ جو نگاہ کائنات کے سینے کو شگاف نہ کرے اس کا آنکھوں سے باہر آنا ہی بیکار ہے۔ جن لوگوں کی آنکھیں حقیقت کو دیکھنے کے لیے ترس رہی ہوں۔ جن کے دل حقائق کو سمجھنے کے لیے بیتاب ہوں، ان کے احساسات کی کیا حالت ہو گی۔ جو شاعر ہمہ تن سوز و گداز ہو کر نغمہ آرائی کرتا ہے وہ بظاہر’’ نے نواز‘‘ ہے لیکن اس ترنم نے کے لیے اسے معمولی سانس سے نہیں بلکہ دم شمشیر سے کام لینا پڑتاہے۔ فرماتے ہیں: اگر ایں کار را کار نفس دانی چہ دانی! دم شمشیر اندر سینہ بایدنے نوازی را شاعر کی نغمہ سازیاں آسان نہیں۔ یہ تلوار سے کھیلنا ہے۔ ایک شعر نغز کہنے کے لیے سیروں خون جگر پینا پڑتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: خشک سیروں تن شاعر سے لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرعہ تر کی صورت ان چند اشعار سے آپ کو پتا چل گیا ہو گا کہ ہمارے شاعر کا تخیل کس قدر بلند ہے۔ اس کا انداز بیان کس قدر پاکیزہ ہے۔ وقت مضامین کے باوجود سادگی الفاظ کتنی حیرت انگیز ہے۔ زبان کیسی پیاری ہے۔ اس میں کتنی روانی، کتنا زور، کتنا اثر ہے۔ اسی کو معجز نگاری کہتے ہیں۔ اس کا نام نکتہ آفرینی، اسی کا نام شاعری ہے۔ اسی اعجاز کاری نے تو گرامی مرحوم ایسے بلند پایہ شاعر کو بھی بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور کیا کہ: در دیدۂ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبرد کرد و پیمبر نتواں گفت حضرت اقبال کی فلسفیانہ متانت میں کبھی کبھی شاعرانہ شوخی بھی آ جاتی ہے۔ میں یہاں ایک غزل کے دو شعر پیش کرتا ہوں: دگر ز سادہ دلی باے یار نتواں گفت نشستہ بر سر بالین من ز درماں گفت معشوق کی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ سادگی کیا ہو گی کہ اپنے مریض عشق کے بالیں پہ بیٹھا علاج کی تدبیریں کر رہا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ ان تمام دکھوں کا درمان تو وہ خود ہی ہے۔ ایسے سادہ لوح معشوق کی بے خبری کا رنج عاشق کو بیمار کر دے تو کر دے ورنہ اس کے موجود ہوتے ہوئے دکھ، درد کہاں۔ تمام شاعر واعظ، مفتی اور شیخ سے الجھتے رہے ہیں۔ حضرت اقبال کو بھی ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان لو گوں کا ذاتی تقدس تو اس قابل نہیں ہوتا کہ انہیں نجات دلا سکے۔ البتہ وہ رند مشرب لوگوں پر فتویٰ لگا کر سرمایہ زہد و اتقا فراہم کر لیتے ہیں اور یہی ان کے سفر آخرت کے لیے زاد راہ کا کام دیتا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ میں ’’ کافر شیوہ‘‘ اس لیے ہو گیا ہوں کہ شیخ شہر کو مجھے کافر کہہ کر مرد باخدا ہونے کا موقع مل سکے۔ ازاں پیش بتاں رقصیدم و زنار بربستم کہ شیخ شہر مرد باخدا گردد زتکفیرم ٭٭٭ حضرت اقبال کی پختگی کلام، زور بیان، نادر تشبیہات و استعارات کو جو اردو، فارسی شاعری کی روح رواں ہیں۔ دیکھنا ہو تو ان کی وہ نظمیں دیکھئے جو انہوں نے ایرانی شعراء کی تازہ بحروں کے انداز میں لکھی ہیں۔ آپ کو پتا چل جائے گا کہ ان کے قلم میں کتنا زور ہے۔ ’’ کرمک شب تاب‘‘ نظم لکھتے ہیں: یک ذرہ بے مایہ متاع نفس اندوخت شوق ایں قدرش سوخت کہ پروانگی آموخت پہنائے شب افروخت داماندہ شعاعے کہ گرہ خورد و شرر شد از سوز حیات است کہ کارش ہمہ زرشد دارائے نظر شد ٭٭٭ پروانہ بے تاب کہ ہر سو تگ و پو کرد بر شمع چناں سوخت کہ خود را ہمہ او کرد ترک من و تو کرد یا اختر کے ماہ مبینے بکمینے نزدیک تر آمد بتماشائے زمینے از چرخ برینے یا ماہ تنک ضو کہ بیک جلوہ تمام است ماہے کہ برومنت خورشید حرام است آزاد مقام است دیکھئے کیسی چبھتی ہوئی زندہ تشبیہیں ہیں جگنو کو کہتے ہیں کہ ایک پروانہ ہے، جو شمع پر جل کر خود چھوٹی سی شمع بن گیا۔ اس عاشق کا یہ وصال معشوق سے اس قدر ہے کہ ’’ من و تو‘‘ میں تمیز نہیں رہی۔ فصل بہار، سرود انجم، حدی، قطرۂ آب ایسے ہی شاہکار ہیں۔ بعض تنگ نظر کور ذوق لوگ ان کی اردو زبان پر معترض ہوتے ہیں ان کے مشکل الفاظ، جدید اور انوکھی تراکیب پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اردو زبان ان کے وسعت تخیل کی کہاں تک متحمل ہو سکتی ہے! وہ اگر نئے الفاظ وضع نہ کریں، اگر نئی تراکیب نہ تراشیں تو زبان میں وسعت بیان کیسے پیدا ہو۔ کیا نیا پیرایہ بیان اختیار کرنا فصاحت و بلاغت کے منافی ہے کیا ان تمام جدت طرازیوں اور مشکل بیانیوں کے باوجود ان کے کلام کو لوگ نہیں سمجھتے؟ اور ان پر سر نہیں دھنتے؟ کیا فارسی کے علاوہ ان کی اکثر اردو نظمیں مثلاً ’’ ترانہ‘‘ ، ’’ شکوہ‘‘ ،’’ شمع و شاعر‘‘ ،’’ خضر راہ‘‘ اور ’’ طلوع اسلام‘‘ بچے بچے کی زبان پر جاری نہیں؟ کیا ان کے تتبع میں ہندوستان کے اکثر نوجوان آغاز شاعری میں ان کا سا پیرایہ بیان اختیار کرنے کی کوشش نہیں کرتے؟ کیا ان کی تعلیمات کو ادبی اور سیاسی حلقوں میں بطور سند کے پیش نہیں کیا جاتا؟ اگر ان سب کا جواب ہاں میں ہے تو پھر کیا یہ اعتراضات بے معنی نہیں؟ اس وقت نوجوانوں کا ایک زبردست گروہ انہیں نہ صرف ہندوستان کا بلکہ ایشیا کا بہترین شاعر مانتا ہے۔ ایک شاعر کی خوش قسمتی اس سے بڑھ کے اور کیا ہو گی کہ اسے خلاف معمول اپنی زندگی ہی میں اپنے کلام کی شہرت و قبول کے دیکھنے کا موقع مل جائے۔ حضرت اقبال اپنی معجز نگاریوں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آئندہ نسلیں ان کے الہامی نغموں سے اقتباس سوز کرتی رہیں گی۔ مضمون بہت طویل ہو گیا، لیکن ذوق ابھی تشنہ ہے میں اس بحث کو ’’ جاوید نامہ‘‘ کے ان چند اشعار کا خلاصہ جو انہوں نے ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ کے اخیر میں قلمبند کیے ہیں، درج کیے بغیر ختم نہیں کرنا چاہتا۔ یہ اشعار مثنوی ’’ رموز‘‘ کے ’’ عرض حال‘‘ کے رقت انگیز انداز بیان کی یاد دلاتے ہیں۔ یہ خطاب حقیقت میں محض جاوید سے نہیں بلکہ ہر نوجوان سے جو زندگی کی شاہراہ میں گامزن ہونے والا ہے اور جسے صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ’’ دنیا اس وقت مادئیت میں گرفتار ہے۔ دل سو رہے ہیں اور روحیں خوابیدہ ہیں۔ مرد حق کا وجود عنقا ہے لیکن تلاش اور ذوق طلب لابدی ہے۔ اگر ایسے مرد باخبر کی صحبت میسر نہ آئے تو اسلاف سا سوز و گداز پیدا کرنا چاہیے تاکہ دل مضبوط اور ایمان قوی رہیں، جانیں بے تاب ہوں۔ اور روحیں رقص کریں۔‘‘ اگر نوجوان اس بیداری روح سے فیضیاب ہو جائیں تو ہمارا شاعر اپنی کامیابی سے تسکین قلب حاصل کرے گا اور اس کی روح مرنے کے بعد بھی انہیں دعائیں دے گی۔ ٭٭٭ کلام اقبال کی ادبی خوبیاں محمد اکبر خاں بی۔ اے (آنرز): اقبال ایک فلسفی شاعر ہے۔ اس کے فلسفہ نے مذہب اسلام اور اس کی مقدس روایات کی گود میں پرورش پائی ہے اس کے تخیل کی وادیاں سر زمین حجاز کے دریاؤں کی آبیاری کی شرمندہ احسان ہیں۔ اس کے کلام کا اثر اور بیشتر حصہ خالص اسلامی نقطہ نگاہ کو پیش کرتاہے۔ وہ ہر شے کو مذہب کی عینک سے دیکھتا ہے اور اسی پابندی میں روح کی آزادی کے خواب دیکھتا ہے۔ بایں ہمہ اقبال کے کلام میں جو ادبی خوبیاں ہیں وہ عہد حاضرہ کے دوسرے شعراء کے حصے میں کم آئی ہیں۔ ایک مصور کے لیے انتہائے کمال یہ ہے کہ وہ جس چیز کی تصویر کھینچے ہو بہو اسی کی شکل پیش کر دے۔ اگر ایک خوبرو جوان کی شبیہہ بنائے تو اس کے کشیدہ قامت، بھرے بھرے بدن، چوڑے چکلے سینے، مضبوط گردن اور قوی ہاتھ پاؤں، ان کی خاص وضع کی انگلیوں، پھر سبزہ خط اور لباس کی مناسبت تک کا پورا پورا نقش صفحہ قرطاس پر ثبت کر دے۔ تصویر کو دیکھ کر وہی رعب اور اثر دیکھنے والے کے دل پر ہو جو فی الواقع ایک خوبرو اور وجیہہ جوان کے دیکھنے سے ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔ کوہ وادی کا نقشہ ہو تو اس میں ہر وہ چیز دکھائے جس سے ایک عظیم الشان پہاڑ کی صولت اور وادی کی نظر فریبی میں سر مو فرق نہ آئے۔ ادبی مصور اور معمولی آرٹسٹ میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ اس نامور دستکار کے پاس مانی اور بہزاد کی طرح مو قلم اور رنگوں کی پیالیاں دھری نظر نہیں آتی ہیں۔ لیکن اس کے استعاروں اور تشبیہوں کے رنگ ایسے خوشنما ہیں کہ ایک بات میں مضمون کو شوخ کر کے لال چہچہا کر دیتا ہے بغیر بوند اپنی اس میں ڈالے ایک ہی بات میں اسے ایسا کر دیتا ہے کہ کبھی نارنجی، کبھی گلناری، کبھی ایسا بھینا بھینا گلابی رنگ دکھاتا ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بر قلموں اور رنگا رنگ اور پھر سرتاپا عالم نیرنگ اس کے مرقع آنکھوں کانوں کے رستے سے دنیا جہان کے دلوں کو تازہ کرتے ہیں۔ اپنے موڈل کی صحیح شبیہہ پیش کرنے کے لیے ادبی مصور کو جن ضروری امور کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ ان کا یہاں ایک مختصر سا خاکہ پیش کر دینا بے موقع نہ ہو گا۔ ۱۔ اسے اس امر میں خاص احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کہ اس کی زبان اس قدر ثقیل، اس کے محاورے اس وجہ غیر مستعمل اور اس کے استعارات و تشبیہات اس حد تک دور از کار نہ ہوں کہ سننے والے کا دماغ محض لفظی بھول بھلیوں میں کھو کر رہ جائے اور اصل مطلب تک پہنچنا اس کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو۔ نہیں تو اس کی تصویر دھندلی، اس کا نقش بے رنگ اور اس کا بیان بے لطف ہو گا۔ ۲۔ اس کے خیالات اور اس کے طرز بیان میں وہ اجنبیت نہ ہو جو دونوں کے یکجا ہونے اور ان سے ایک مفہوم کی ادائیگی میں سد راہ ثابت ہو۔ نہیں تو اس کی تمام کوششیں اس بت ساز سے مشابہ ہوں گی جو سنگ سیاہ سے ایک مرمریں مجسمہ تیار کرنے میں منہمک ہو اور ہر بار قطرات حسرت و یاس اس کی پیشانی پر نمودار ہوں۔ ۳۔ اس کی تصاویر اس قدر صاف اور اس کے نقش اس درجہ روشن ہوں کہ دیکھنے والے کو نقل پر اصل کا دھوکا ہو۔ مگر نقل اصل کی نسبت زیادہ واضح اور زیادہ جاذب نظر ہو۔ ۴۔ اس کے لیے فلسفیانہ طریق استدلال ضروری نہیں اور نہ ہی ناصحانہ طرز نگارش اس کا کام ہے اسے تو جذبات کی صحیح ترجمانی کرنا ہے اور ضروری ہے کہ وہ جذبات کو جوں کا توں بیان کرے، لگی لپٹی نہ رکھے اور یہ پروا نہ کرے کہ فلاں جماعت کیا کہے گی اور فلاں طبقے میں میری نسبت کیسے خیالات پھیلیں گے۔ بے لاگ بات بال برابر لگی نہ رکھ ۵۔ چونکہ ایک ہی طرح کی تصاویر دیکھ دیکھ کر ناظرین کی طبیعت اکتا جاتی ہے۔ اس لیے اچھے ادبی مصور کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنی تصاویر میں جدت پیدا کرے جہاں تک ہو سکے فرسودہ طرز نگارش سے اجتناب اور پیمودہ راہ عمل سے احتراز کرے۔ تراش از تیشہ خود جادۂ خویش براہ دیگراں رفتن عذاب است گر از دست تو کار نادر آید گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است ’’پیام مشرق‘‘ اقبال نے بہت کم نظمیں ایسی لکھی ہیں کہ جن کی زبان ’’ روز مرہ اردو‘‘ کے عین مطابق، بہت زیادہ فارسی تراکیب سے پاک اور عام اذہان کے لیے سریع الفہم ہو۔ لیکن جب وہ سہل نگاری پر اترتا ہے تو سلاست بیان اور روانی خیالات میں اس کا نظیر ملنا مشکل ہو جاتا ہے اور جیسا کہ مولانا حالی نے یادگار غالب میں مرزا کے کلام پر رویو کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ شاعر کا مرتبہ اس کے بہترین کلام سے پہچانا جاتا ہے ہم بھی یہاں اقبال کی ادبی مصوری کو اس کی سریع الفہم اور اس کے خاص فلسفیانہ رنگ سے مبرا نظموں میں دکھائیں گے اور اس کی فارسی تصانیف پیام مشرق، اسرار خودی، رموز بیخودی اور زبور عجم سے استفادہ کیا جائے گا اور ا س سلسلے میں ان لوازمات کا جو تمہید میں بیان کئے گئے ہیں خاص خیال رکھا جائے گا۔ اقبال کے مجموعہ کلام اردو ’’ بانگ درا‘‘ میں سے بخوف طوالت معدودے چند اشعار لے کر بحث کی جائے گی۔ ایک مشہور نظم ’’ ایک آرزو‘‘ میں شاعر خدا سے یہ دعا مانگتا ہے کہ اے خدا مجھے اس شور و غل کی دنیا سے الگ ایک مکان پر سکوت عطا ہو جائے۔ جہاں کی فضا نہایت دلکش ہو، پہاڑ ہوں، ندی ہو، سبزہ زار ہوں اور فطرت کی ہر دلفریبی وہاں موجود ہو اس کے علاوہ: صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہوں ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کے اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو پھولوں کو آئے شبنم جس دم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو نالہ میری دعا ہو ندی کے کناروں کا جو عکس پانی پر پڑتا ہے اس کو شاعر کس خوبصورتی اور کس بے تکلفی سے بیان کر گیا ہے۔ پانی کی موجوں کے بلند ہونے کا باعث پانی کی کوہسار کے نظارہ کی دلفریبی کو دیکھنے کی خواہش قرار دینا صنعت حسن تعلیل کی نہایت اچھی مثال ہے۔ شاعر نے اس ایک شعر میں کئی خوبیاں بھر دی ہیں۔ پھول کی ٹہنی کے سطح آب پر جھکنے کو ایک حسینہ کے آئینہ دیکھنے سے تعبیر کرنا کمال شاعری اور نزاکت تشبیہہ کی معراج ہے۔ واقعی اس ایک تشبیہہ سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ شاعر کا دماغ کتنا ندرت آفریں اور جدت پسند ہے۔ غروب آفتاب کے وقت شفق کی سرخی کو عروس شام کی مہندی لکھنا بھی حضرت اقبال ہی کا حصہ ہے۔ یہ تشبیہہ بھی نہایت نادر ہے اور اس وقت ہر پھول کی قبا کا سرخی لیے سنہری ہو جانا بھی شاعری کی سلامتی مشاہدہ پر وال ہے۔ وقت سحر جب ہر کوئی بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہوتا ہے شاعر کو پھول پر پڑتی ہوئی شبنم آب وضو معلوم ہوئی ہے۔ پاکیزہ خیال ہے۔ نازک اور اچھوتی تشبیہات ایک ادبی مصور کے لیے ایسی ہی ضروری ہیں جیسے ایک مصور کے لیے مختلف موقلم ان ہی سے اس کے کلام کا رنگ جمتا ہے اور کلام حقیقت سے زیادہ نزدیک آ جاتا ہے۔ جس قدر تشبیہات ایک مشبہ کی نسبت دی جائیں اس کی اصلیت اتنی ہی واضح ہو جاتی ہے۔ اقبال کے چند اشعار میں اچھوتی اور نازک تشبیہات کی کس قدر فراوانی ہے، جس سے بلا شبہ اس کی رسائی ذہن کا پتا چلتا ہے: جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں ’’بانگ درا‘‘ ص ۸۳ ایک جگنو کے لیے پھولوں کی انجمن کی شمع، آسمان کا ٹوٹا ہوا ستارہ، جاندار کرن مہتاب، سفیر روز بہ سلطنت شب، مہتاب کی قبا کا تکمہ، ذرہ بہ پیرہن آفتاب، اتنی تشبیہات! لاریب اقبال کو تخلیق تشبیہات میں کمال ہے۔ تخنیس لفظی و معنوی میں بھی ایک ادبی مصور کے کمال فن کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اقبال اس میدان میں کبھی کبھی اشہب قلم کو ایک آدھ جولانی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنے استاد و داغ کے مرثیہ میں امیر مینائی کی وفات پر ان الفاظ میں ماتم کرتا ہے: توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیر چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہبائے امیر شکست مینائے امیر کا واقعہ کس قدر آشوبناک اور ترکیب کیسی فرحناک ہے۔ مشہور عالم نظم ’’شکوہ‘‘ کو ان اشعار سے شروع کرتا ہے: کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہمنوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں ’’ میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں‘‘ اس ایک مصرع میں ضرورت فریاد کو کس خوبصورتی سے ادا کر دیا ہے! ادبی مصور کا کمال یہ ہے کہ جس چیز کا بیان کرے اس کی تصویر آنکھوں میں کھنچ جائے۔ دیکھئے اقبال نماز کی تصویر کس خوبی سے کھینچتے ہیں کہ آنکھوں میں کاروان حجاز کی فریضہ گزاری کا نقشہ کھنچ جاتا ہے اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سامنے نماز پڑھ رہے ہیں۔ آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے اللہ اللہ مسدس کے ایک بند میں ایک تصویر کھینچ کے رکھ دینا یہ کمال مصوری نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر کوئی مصور بھی نمازیوں کی تصویر ہو بہو کھینچ دے اور اس میں محمود و ایاز تک بھی دکھا دے لیکن اس حقیقت کا بیان ’’ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز‘‘ اس کے موقلم کے احاطہ نقاشی سے بعید ہو گا۔ واقعی ایسے ہی ایک دو بندوں کی وجہ سے اہل نظر کی زبان سے بے ساختہ نکل جاتا ہے کہ اے اقبال! اس میں کچھ شک نہیں۔ شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے ’’ خضر راہ‘‘ میں موج مضطر کے ساکن ہونے کو ایک طفل شیر خوار کے گہوارے میں سو جانے سے تشبیہہ دی ہے۔ جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب ’’ اسرار خودی‘‘ میں پھول پر پڑی ہوئی شبنم کو ’’ اشک چشم بلبل‘‘ سے تشبیہہ دی ہے۔ قطرۂ شبنم سر شاخ گلے تافت مثل اشک چشم بلبلے اسی کتاب میں صفحہ ۶۷ پر کوہ ہمالیہ اور رود گنگ کے مکالمہ میں رود گنگ ہمالہ سے خطاب کر کے کہتی ہے: اے ز صبح آفرینش یخ بدوش پیکرت از رود ہا زنار پوش کوہ ہمالہ کو صبح آفرینش سے یخ بدوش کر کے پکارنا اور کثیر التعداد ندیوں کو زنار سے تشبیہہ دینا کس قدر قرین حقیقت اور مقتضائے ذوق سلیم ہے۔ رموز بیخودی میں ایک واقعہ یوں نقل کیا ہے کہ سلطان مراد کے حکم سے ایک معمار نے ایک مسجد تعمیر کی۔ سلطان کو وہ تعمیر پسند نہ آئی غصے ہو کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ معمار روتا ہوا قاضی کے پاس گیا۔ قاضی نے وہیں سلطان کو بلا کر قصاص کا حکم جن الفاظ میں دیا ہے ان سے اقبال کی قادر الکلامی پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ادبی مصور ہونا تو اس کا ثابت ہو جاتا ہے۔ قاضی کہتا ہے: عید مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگیں تر از معمار نیست ’’ خون شہ رنگیں تر از معمار نیست‘‘ اس ایک مصرع میں اخوت و مساوات اسلامیہ کی تصویر کھینچ کے رکھ دی ہے۔ از غم پنہاں نہ گفتن مشکل است بادہ در مینا نہفتن مشکل است کیا سیدھی سادی مگر درست تشبیہہ ہے۔ شراب صراحی میں نہیں چھپ سکتی ضرور نظر آتی ہے۔ اسی طرح مغموم آدمی کا غم اس کے بشرے سے ٹپکا پڑتا ہے۔ نمے بینی کہ از مہر فلک تاب بسیمائے سحر داغ سجود است سورج کی اس ٹکیہ کو جو صبح کے وقت آسمان پر نظر آتی ہے داغ سجود سیمائے سحر لکھنا نرالی اور حسین تشبیہہ ہے۔ ادبی مصور کے لیے یہ امر بھی ضروری ہے کہ اس کا مشاہدہ نہایت مکمل ہو۔ پیام مشرق میں شاعر ایک پرندے سے گفتگو کرتا ہے۔ پرندہ جواب دینے سے پہلے پروں کو کھجلا لیتا ہے یہ کس قدر حقیقت پر مبنی ہے۔ بات چھوٹی سی ہے لیکن اس 1؎ سین کو مکمل کر دیا ہے: برش را بمنقار خارید و گفت اقبال کو اظہار خیالات کے لیے اکثر فارسی کی مدد لینی پڑتی ہے اور یہی زبان اس کے اپنے قول کے مطابق اس کی رفعت تخیل کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اس لیے وہ جو مطلب چاہتا ہے چند الفاظ کے ہیر پھیر سے اس زبان میں یا اردو میں فارسی اضافتوں کو خلط ملط کر کے ادا کر دیتا ہے اور کہیں ناکام نہیں ہوتا۔ اس طرح اس کے اکثر مطالب ایک آدھ لفظ میں اس خوبی سے ادا ہو جاتے ہیں کہ ’’ خالص اردو‘‘ کے کئی فقرات میں ان کو ادا کرنا نا ممکن نہیں تو اشد مشکل ضرور ہوتا اور نہ معلوم زبان میں وہ فصاحت رہتی یا فنا ہوتی۔ بہرحال اقبال اس امر میں غالب سے زیادہ خوش نصیب ہے کہ اس بچارے کو اکثر فارسی تراکیب بھی کام نہ دے سکیں اور بیشتر مطالب یوں الجھ کے رہ گئے جیسے ایک بلبل نازک اندام خار دار اور گھنی جھاڑیوں میں جا پھنسے اور پھڑپھڑا بھی نہ سکے۔ ’’ آفتاب صبح‘‘ میں مسدس کے ایک بند کا مصرع اول ہے: نور سے معمور ہو جاتا ہے دامان نظر اب اس ایک چھوٹی سی ترکیب’’ دامان نظر‘‘ کو تصور کی آنکھوں سے دیکھیں تو اس میں ایک مکمل تصویر نظر آتی ہے بانگ درا صفحہ ۹۲ نظم کا عنوان ’’ ابر‘‘ ہے۔ یہ شعر ملاحظہ ہو: گرج کا شور نہیں ہے خموش ہے یہ گھٹا عجیب میکدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا ’’ میکدہ بے خروش‘‘ یہ ترکیب اس شعر کی جان ہے گھٹا کا میکدے کی مثل ہونا اور پھر ا سکا خموش ہونا۔ آنکھوں میں ایک تصویر آ جاتی ہے جسے شاید مصور کا قلم نہیں کھینچ سکتا۔ اگلے صفحہ پر دوسری نظم ’’ ایک پرندہ اور جگنو‘‘ ہے۔ اس میں یہ شعر: لباس نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں اور اس میں’’ پتنگوں کے جہاں کا طور‘‘ ٹکڑا ملاحظہ ہو۔ شاعر نے جو کچھ محسوس کیا ہے ان الفاظ میں ادا کر دیا گیا ہے اور اس کے الفاظ اور خیالات میں کوئی تصادم ظاہر نہیں ہوتا۔ رو لے اب دل کھول کر اے دیدۂ خوننا بہ بار وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار جزیرہ سسلی میں صقلیہ کو دیکھ کر شاعر اسے تہذیب حجازی کا مزار کہتا ہے جو اس کے خیالات کا آئینہ ہے، اور ایک المناک حقیقت ہے۔ سکوت شب میں جب ہر شے محو خواب ہوتی ہے دریا بھی چلتا چلتا تھم گیا معلوم ہوتا ہے اقبال اس منظر کو ان الفاظ میں ادا کرتا ہے: شب سکوت افزا ہو آسودہ دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب مصرع ثانی میں ایک پوری تصویر آ گئی ہے اور اس کا اثر کانوں کے رستے دل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ ایک تصویر میں نا ممکن ہے۔ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوکب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری دیو استبداد کے ناچنے کے لیے اگر لفظ’’ ناچنا‘‘ مستعمل ہوتا تو مصرع میں وہ شوکت اور ہیبت پیدا نہ ہوتی جو اب موجود ہے اگلے مصرع میں جو نزاکت ہے اس نے پہلے مصرع کی قوی ہیکلی کو اور بھی بڑھا دیا ہے یہی شعر اس بات کی کافی دلیل ہے کہ فارسی تراکیب اقبال کو اپنے رخش خیالات کے ساتھ ساتھ چلنے میں کامیاب کر دیتی ہیں اور شاید اگر اقبال ’’ خالص اردو‘‘ میں لکھنا شروع کرتا تو ایسے ایسے اچھے اشعار اس کو نصیب نہ ہوتے۔ ’’ پیام مشرق‘‘ میں جمعیت الاقوام پر نہ بھولنے والے الفاظ میں تنقید کرتا ہے: برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن درد مندان جہاں طرح نو انداختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ گفتن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند یہ خیال اردو میں اس خوبی سے ادا نہیں ہو سکتا اور اگر ادا ہو بھی جائے تو ’’ درد مندان جہاں‘‘ اور’’ کفن دزدے چند‘‘ کی سی نادر تراکیب اردو کی تنگ دامانی کہاں مہیا کر سکتی ہے۔ الغرض فارسی تراکیب اور فارسی اشعار اقبال کو ایک ادبی مصور بننے میں بہت مدد دیتے ہیں کیونکہ ان کے سوا خیالات اور الفاظ میں کماحقہ، مطابقت نہیں ہو سکتی۔ ماہ نو کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے: ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل یعنی آسمان کے دریائے نیل میں سورج کی کشتی ٹوٹ گئی اور اس کا ایک ٹکڑا جو نظر آ رہا ہے وہ ماہ نو ہے۔ جواب شکوہ میں اس مطلب کو کہ جب میں نے شکوہ سرائی کی تو ملاء اعلیٰ میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ کس خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ واقعی اس بند کو پڑھ کر پیر گردوں سیاروں، چاند اور کہکشاں کی سرگوشیاں آنکھوں کے سامنے اور کانوں کے نزدیک معلوم ہونے لگتی ہیں۔ پیر گردوں نے کہا سن کے ’’کہیں ہے کوئی!‘‘ بولے سیارے ’’سر عرش بریں ہے کوئی!‘‘ چاند کہتا تھا ’’نہیں، اہل زمیں ہے کوئی!‘‘ کہکشاں کہتی تھی ’’پوشیدہ یہیں ہے کوئی!‘‘ کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا تجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا رموز بیخودی میں سلطان مراد اور معمار کے قاضی کے سامنے حاضر ہونے کا واقعہ یوں لکھا ہے: قاضی عادل بدنداں خستہ لب کرد شہ را ور حضور خود طلب رنگ شہ از ہیبت قرآن پرید پیش قاضی چوں خطا کاراں رسید از خجالت دیدہ بر پا دوختہ عارض او لالہ با اندوختہ یک طرف فریادی دعویٰ گرے یک طرف شاہنشہ گردوں فرے آٹھ مصرعوں میں کافی سے زیادہ مکمل تصویر سلطان مراد کی حاضری عدالت کی کھینچ دی ہے۔ ہیبت قرآن سے اس کا رنگ اڑنا، مجرموں کی طرح عدالت میں حاضر ہونا اور شرم کے مارے آنکھیں زمین پر گاڑ دینا۔ غرض کون سی چیز ہے جو رہ گئی ہے؟ ’’ پیام مشرق‘‘ میں فصل بہار اور پھولوں کے کھلنے، مرغان خوش آواز کے گانے اور باغ دراغ کے سبزہ و گل سے پٹ جانے کی تصویر اس خوبی سے کھینچی ہے کہ فی الواقعہ ادبی مصوری کا حق ادا کر دیا ہے۔ خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابر بہار مست ترنم ہزار طوطی و دراج و سار کشت گل و لالہ زار چشم تماشا بیار خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابر بہار حجرہ نشینی گزار گوشہ صحرا گزیں برلب جوئے نشیں آب رواں را ببیں زگس ناز آفریں بوسہ زنش بر جبیں حجرہ نشینی گزار گوشہ صحرا گزیں تمام نظم فصل بہار کے ہر پہلو کو حد درجہ نمایاں طور پر ظاہر کرتی ہے۔ لیکن اس کے اندراج سے مضمون خواہ مکواہ طویل ہو گا۔ ’’ نٹشے نمونہ از خروارے‘‘ بس است ٭٭٭ ایک خاص بات جو اقبال کے کلام اور ادبی مصوروں سے جدا کرتی ہے، یہ ہے کہ اس کے کلام میں موسیقی کو بڑا دخل ہے۔ اس کے اکثر اشعار پڑھ کر ناچنے کو جی چاہتا ہے۔ اور یہ صفت کبھی اس کے کلام سے خواہ وہ ’’ اسرار خودی‘‘ کے ضبط نفس جیسا خشک مضمون ہی کیوں نہ ہو۔ دل اچاٹ نہیں ہونے دیتی۔ مثنوی اسرار و رموز (اسرار خودی و رموز بیخودی ہر دو یکجا) میں تقریباً ہر شعر میں قافیہ اور ردیف دونوں موجود ہیں اور بعض کو تو ترنم کے بغیر پڑھا بھی نہیں جا سکتا۔ مثلاً: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا پیام مشرق کی اکثر نظمیں ایسی ہیں کہ جن کو بغیر ترنم کے پڑھا ہی نہیں جاتا۔ ٭٭٭ جیسا کہ شروع میں ذکر کیا جا چکا ہے اقبال ایک فلسفی شاعر ہے۔ اکثر اشعار میں اس کا فلسفیانہ رنگ غالب ہے۔ وہ اشعار میں تلقین کرتا ہے اور رواداری کا سبق دیتا ہے۔ تڑپ، سوز، گداز کا علم بردار ہے۔ اس کے نزدیک حیات کشمکش کا نام ہے۔ میا را بزم بر ساحل کہ آں جا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است اور ادبی مصور کے لیے واضح، ناصح وغیرہ کے فرائض تکلیف دہ ہوتے ہیں اور اس کی خالص ادبی ترقی میں مانع ہوتے ہیں۔ اقبال ایک ادبی مصور کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آئے گا تو سہی لیکن دنیا اسے اس صفت کی بجائے اس کے اصلی رنگ میں دیکھنے کی زیادہ مشتاق ہو گی۔ ٭٭٭ اقبال ایک مصلح کی حیثیت سے شیخ عبدالرحمن ہم ذیل میں علامہ موصوف کے کلام کی مصلحانہ حیثیت پر مختلف پہلوؤں سے بحث کریں گے۔ اقبال کے کلام کو بحیثیت مجموعی ایک ترشے ہوئے ہیرے سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو پہلو سے نیا رنگ، نئی روشنی اور نئی چمک دمک پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے لیے ہم اسے چار مختلف عنوانات یعنی مذہب، سیاست، نفسیات، خودی (موت و حیات) پر منقسم کریں گے۔ پھر ہر پہلو پر روشنی ڈال چکنے کے بعد ان باتوں کا ذکر کیا جائے گا جو اس مایہ ناز ہستی کے متعلق وجہ اختلاف و انشقاق چلی آتی ہیں۔ انسان کا یقین و ایمان اس کے مذہب کی جان ہے۔ کوئی کام بھی بغیر یقین کے اتمام کو نہیں پہنچ سکتا اور کوئی مہم بغیر یقین کے سر نہیں کی جا سکتی۔ جسم کے لیے یقین روح رواں کا حکم رکھتا ہے یا بالفاظ دیگر عمل کو ایک آنکھ تصور کیجئے تو اس آنکھ کا نور یقین ہی قرار پائے گا! کامیاب زندگی یقین ہی کی زندگی ہے اور تمام سعادتوں کا منبع و مخرج بھی!! بخلاف اس کے ایک زندگی شک و شبہ اور وہم و گمان کی بھی ہے اور جسے شاید زندگی کے لفظ سے تعبیر کرنا بھی ایک فحش اور نا قابل اعتذار غلطی کا مرتکب ہونا ہو گا! کیونکہ ایسے شخص کا وجود ننگ ہستی، اس کا سر و بال دوش، اس کی روح مردہ، اور اس کے جذبات افسردہ ہوں گے۔ ایسا شخص ’’خس کم جہاں پاک‘‘ کا مصداق ہو گا اور اس کا گوشہ لحد میں آرام کرنا اس سے کہیں ہزار درجہ بہتر ہو گا کہ وہ سوسائٹی کو بھی اپنے پست خیالات اور منحوس تاثرات سے ملوث کرے!! وہ حقیقت اور روح پرور تعلیم یہی ہے جسے اقبال نے اپنی تصنیفوں میں جا بجا بیان کیا ہے ملاحظہ ہو: خداے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے اس عالم کون و فساد میں شبہات کی تاریکیاں انسان کو گھیرے رہتی ہیں اور ان تاریکیوں کو زائل کرنے والی چیز نور یقین ہے: گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا بیباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی غلامی سے بد تر لعنت کا طوق انسانیت کے گلے میں اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن وہ بھی بغیر یقین کی تلوار کے نہیں کٹ سکتا: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں! یقین روح انسانی کے لیے بال و پر کا کام دیتا ہے جس سے انسان قدسیوں کا ہمراز ہو کر عالم بالا کی سیر کرنے لگتا ہے: جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا معنوی حیثیت سے غور کیا جائے تو یقین ہی کا دوسرا نام ایمان ہے اور اس کا اثر نمایاں ہو کر خاک کو بھی اکسیر بنا دیتا ہے۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں سلطنت، حکومت اور دنیوی جاہ و اعزاز تو اس کے ادنیٰ غلام ہیں: ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں، فقط اک نقطہ، ایماں کی تفسیریں عمل کی تلوار اس وقت تک زنگ آلود اور بیکار محض ہے۔ جب تک اسے یقین کا صیقل نہ دیا جائے: یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں اس سلسلے میں یقین کا سب سے پہلا ثمرہ توحید باری تعالیٰ ہے جو ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی اور بیش بہا نعمت ہے جس کے بغیر کوئی عمل قبولیت کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا اور جس کی اشاعت و تبلیغ کے لیے خدا نے بڑے بڑے جلیل الشان پیغمبروں کو دنیا والوں کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ اس پر بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنی تصنیفوں میں جگہ جگہ پر نہایت شان و احترام کے ساتھ قلم اٹھایا ہے اور اس کے صحیح مقاصد کے بیان کرنے میں کسی طرح کی کمی نہیں رکھی۔ تا عصائے لا الٰہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست ہر کہ حق باشد چو جاں اندر تنش خم نہ گردد پیش باطل گردنش خوف را در سینہ او راہ نیست خاطرش مرغوب غیر اللہ نیست ہر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد حد یہ ہے کہ اس معبود حقیقی کی رضا جوئی میں بیٹے تک کی قربانی ایک معمولی چیز نظر آتی ہے: می کند از ماسواے قطع نظر1؎ می نہد سا طور بر حلق پسر 1؎ جیسا کہ ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اسمعیل ؑسے کیا۱۲ منہ بایکے مثل ہجوم لشکر است1؎ جاں بچشم او زباد ارزاں تر است توحید کی شان یہ ہے کہ مرد مومن اپنے کعبہ دل کو خدائے واحد ہی کا مسکن بنائے اور پھر اس راہ میں جیسی بھی تکلیفیں پیش آئیں انہیں بغیر کسی شکوہ و شکایت کے بطیب خاطر قبول کر لے۔ گویا اس کی زندگی 2؎ ان الذین قالو ربنا اللہ ثم استقامو کی مکمل تفسیر ہو جائے۔ عاشقی؟ توحید را بر دل زون وانگے خود را بہ ہر مشکل زدن کیونکہ توحید جیسی نعمت کے ہوتے اگر خواہی حیات اندر خطر زمی کے مطابق مشکلات ہی تو انسان کی زندگی کو نتیجہ کار خوشگوار بناتی ہیں۔ اب ہم نماز کے متعلق کہ ایوان اسلام کے لیے بمنزلہ ستون کے ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے قیمتی خیالات نقل کر کے ایک دوسرے عنوان کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: لا الٰہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است3؎ قاتل فحشا و بغی و منکر است نماز کا مقصدنہ صرف مسلمانوں کے اعمال اور اخلاق کی اصلاح ہی تھا بلکہ ان میں اجتماع قومی اور اتحاد ملی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ہی ساتھ انہیں مساوات اور یکجہتی کا سبق دینا بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شاندار فریضے کی اہمیت کو جہاد اور قتل و قتال کے موقع پر بھی قائم رکھا گیا۔ آ گیان عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جو ایک حبشی غلام کو اتنا شرف بخشتی ہے کہ قیصر کا خون بھی اس کے وضو کے یک قطرۂ آب کی قیمت نہیں ہو سکتا۔ 2؎ اشارہ آیہ ان ابراہیم کان امتہ قانتاً للہ ترجمہ:’’ ابراہیم ؑ (توحید کی برکت سے باوجود فرد واحد ہونے کے) ایک امت اور جماعت کا مرتبہ رکھتے تھے۔‘‘ ۱۲ منہ۔ ۲؎ آیہ شریفہ: ’’ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا معبود اور پروردگار خدا ہے اور پھر کسی تکلیف کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ اس پر قائم رہے ۔ ۱۲ منہ ۔ ۳؎ اشارہ ہے آیہ :ا ن الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر وابلغی الخ کی طرف ترجمہ: بلاشبہ نماز، بے حیائی، سرکشی اور ممنوع اور ناجائز کاموں سے روکتی ہے۔ ‘‘ ۱۲ مسنہ قطرۂ آب وضوئے قنبرے1؎ ور بہا برتر ز خون قیصرے ٭٭٭ سیاست کے باب میں بھی ڈاکٹر صاحب نے مختلف مقامات پر بالکل انوکھے پیرائے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ جہاں تک ہمارا مطالعہ ہے وہ مروجہ نظام سیاسی کے سخت مخالف نظر آتے اور اسے کسی لحاظ سے بھی قومی اور ملکی ترقی کا ذریعہ نہیں سمجھتے۔ ان کے عقیدہ میں مسلمان اپنی کھوئی ہوئی شان کو حاصل نہیں کر سکتے۔ تاوقتیکہ ابوبکرؓ کا صدق، عمرؓ کا عدل اور علیؓ کی شجاعت اپنے اندر پیدا نہ کر لیں۔ سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا وہ جمہوریت کو اسی شان میں دیکھنے کے متمنی ہیں جو خلیفہ دوم کے زمانہ خلافت میں تھی۔ اور جس کے ماتحت عدل فاروقی کے نظام سیاسی کے لیے ایک بہترین اور لاثانی نمونہ چھوڑا۔ آج کل کی برائے نام مہذب اور متمدن قوموں میں جمہوریت کا لفظ جتنا کہ عام ہے اسی قدر وہ اس کی حقیقت سے بیگانہ اور معنی سے نا آشنا نظر آتی ہے! اسی حقیقت کو ڈاکٹر صاحب نے مندرجہ ذیل شعروں میں بیان فرمایا ہے۔ نادان جسے اپنی نادانی سے جمہوریت اور آزادی خیال کیے ہیں وہ فی الحقیقت شخصی استبداد کے سوا کچھ نہیں۔ ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری پارلیمنٹ یعنی ’’ مجلس شوریٰ‘‘ کی حقیقت بھی ملاحظہ فرما لیجئے: مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری پھر جو اس فریب کاری کو جانتے بوجھتے اپنے حقوق کے مطالبے پر اڑے ہوئے ہیں انہیں مخاطب کر کے تنبیہہ فرماتے ہیں ذرا شان استدلال پر تو غور فرمائیے: ترانا داں امید غمگسار یہاز افرنگ است؟ دل شاہیں نہ سوز و بہرآں مرغے کہ در چنگ است پارلیمنٹ کے ممبر: 1؎ یہ حضرت علیؓ کے غلام تھے۔ ۱۲ منہ گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری تو پھر کیا تم ان ہی ’’ داناؤں‘‘ سے اپنے لیے صحیح فیصلوں کے خواہاں ہو؟ متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی؟ زموراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید گریز از طراز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید ان رسمی چیزوں میں کوئی شے بھی معتبر نہیں۔ پھر افسوس ہے کہ: اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو بایں ہمہ وعد اللہ الذین اٰمنو و عملو الصالحات1؎ الخ کے حوصلہ افزا پیمان کے مطابق مطلق مایوسی نہیں ہو سکتی، بلکہ ان لوگوں کو جو شریعت سے مستغنیٰ رہ کر محض سیاسی دباؤ سے اپنے مقاصد میں کامیابی کے متوقع ہیں۔ تنبیہہ فرماتے ہیں: پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر کیونکہ کامیابی تو اسی شاہراہ پر ہے اور اس کے سوا تمام چارہ جوئیاں غلط، بے سود اور بے نتیجہ ہیں۔ ولا تھنو ولا تحزنو۲؎ الخ کی حقیقت کو پیش نظر رکھ کر ضرورت صرف ایمان کامل کی ہے۔ ساری مشکلیں خود بخود حل ہو جائیں گی! ولایت، پادشاہی، علم اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نقطہ ایماں کی تفسیریں روحانی قوتوں کا مقابلہ مادی طاقتیں کب کر سکتی ہیں؟ جو برکت ایمان و یقیں میں ہے وہ کسی دوسری چیز میں نہیں! ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے ٭٭٭ 1؎ آیہ فتریقہ: وعد اللہ الذین اٰمنو وعملو الصالحات یستخلقنھم فی الارض کما استخلف الدین من قبلھم ترجمہ: ’’ خدا نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے، وعدہ کیا ہے کہ انہیں اسی طرح زمین کا وارث اور مختار بنا دے گا جس طرح کہ پہلوں کو بنایا تھا۔ ‘‘ ۱۲ منہ 2؎ آیہ شریفہ: ولا تنھو ولا تحزنو وانتم الاعلون ان کنتم مومنین ۔ ترجمہ: ’’ نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ اگر ایماندار ہوائے تو (ہر حالت) میں غالب رہو گے!‘‘ ۱۲ منہ خودی: انسانی کے ذاتی حقائق و معارف، نفسیاتی عوامل و ضوابط اور روحانی عروج و کمال سے عبارت ہے قوم افراد ہی کے مجموعے کا نام ہوا کرتا ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک زندہ قوموں کی صف میں شمار نہیں کی جا سکتی۔ جب تک اس کے افراد اپنے آپ کو خودی کے لوازم اور صفات سے کامل طور پر مستحکم نہ کریں۔ ہر وہ شخص جو اس حقیقت سے بے خبر ہو۔ جسم قومی کے لیے ایک بیمار عضو کا حکم رکھتا ہے جو کسی حالت میں بھی خطرے سے خالی نہیں! پھر خودی کے یہ مخصوص صفات اس وقت تک ناقابل حصول ہیں جب تک خود اعتمادی کے ساتھ ہی ساتھ انسان اپنے کو الٰہی صفات اور فطری کمالات کا حامل نہ سمجھ لے۔ اقبال نے اسی روح پرور حقیقت کو مختلف مقامات پر مختلف پیرایوں میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: زندگی از طوف دیگر رستن است خویش را بیت الحرم دانستن است یعنی نہ صرف یہ کہ انسانوں دوسروں کے قید و بند سے آزاد ہو بلکہ خود اپنے اندر ایسی صفات، ایسا جاذبہ اور ایسی کشش پیداکرے کہ لوگوں کے دل بے اختیار اس کی طرف کھنچتے چلے آئیں۔ وہ بنی نوع کے لیے امن اور سلامتی کا مجسمہ بن جائے۔ وہ دوسروں سے بے نیاز ہو اور اس کی اپنی روح ہی اس کے لیے سامان حیات پیدا کرے۔ گویا: کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو کا مضمون اس کی عملی زندگی میں جلوہ گر نظر ہو جائے۔ وہ ’’ ما ھلک امر عرف قدرہ1؎‘‘ کی حکمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔ گرد خود گردندہ چوں پرکار باش کی حقیقت کو فراموش نہ کر دے! جب یہ مرتبہ حاصل ہو جائے گا تو قدرتی طور پر اس کے دل میں دین کی عظمت اور ملت حنیفی کا احترام پیدا ہو گا وہ محسوس کرے گا: فرد قایم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں اسے معلوم ہو گا کہ شریعت ہی میرے لیے ایک ایسا مستحکم حصار ہے جس کے اندر رہ کر میں ہر قسم کے خوف و خطر سے محفوظ اور مطمئن رہ سکتا ہوں اور اس سے باہر قدم رکھنے میں ہلاکت اور تباہی! از سواد کعبہ چوں آہو رمید ناوک صیاد پہلویش درید 1؎ حدیث شریف: جس شخص نے اپنی قدر و منزلت کو (کماحقہ) جان لیا وہ کبھی ہلاک و برباد نہ ہو گا۔ ۱۲ منہ وہ اپنی ہر سعادت کو شریعت کے ساتھ وابستہ رہنے پر موقف خیال کرے گا ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ڈاکٹرصاحب عمل کے اس پروگرام کو ذکر کر چکنے کے بعد مسلمان کو نہ صرف اس کی پستی کے اسباب سمجھاتے ہیں، بلکہ وہ نسخہ بھی بتلاتے ہیں جس سے کوئی ہوئی شان دوبارہ حاصل ہو سکے! خوار از مہجوری قرآن شدی شکوہ سنج گردش دوراں شدی اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ در بغل داری کتاب زندۂ تا کجا در خاک مے گیری وطن رخت بر دارد سر گردوں فگن ایسے ’’ نسخہ کیمیا‘‘ کے امانت دار ہوتے، مسلمان کا مقام یہ پست خاکدان نہیں، عرش بریں ہے! پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے پھر جو اس ’’ کتاب زندہ‘‘ سے کماحقہ فائدہ اٹھائے گا اور اسے اپنی زندگی کا دستور العمل بنائے گا۔ وہ ’’ افرنیت من اتخذا الہ ھواہ1؎‘‘ کے مفہوم کو پیش نظر رکھ کر نفس امارہ کے غلبے کو اپنے لیے بدترین غلامی تصور کرے گا اور سمجھے گا کہ: ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں می شود فرماں پذیر از دیگراں پھر نفس کی پابندیوں سے آزاد ہو کر وہ اپنی خواہشات کو خدا کی رضا میں فنا کر دے گا۔ یہاں پہنچ کر اس کا دل ایک آئینہ کے مثل ہو گا۔ جس میں جمال الٰہی چاروں طرف سے پر تو فگن ہو کر اس کے روئیں روئیں کو دیدہ بینا بنا دے گا۔ اور یہی جیسا کہ ذیل کے پیغام سے ظاہر ہے۔ خودی کا انتہائی کمال ہے: ز من گو صوفیان با صفا را خدا جویان منصفی آشنا را غلام ہمت آں خود پرستم کہ با نور خودی بیند خدا را من2؎ عرف نفسہ فقد عرف ربہ کی ترجمانی اس سے بہتر الفاظ میں بھی ممکن ہو سکتی ہے؟ یہاں مجمل طور پر ان چیزوں کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جن پر بقول اقبال بظاہر بہت کم توجہ کی جاتی ہے لیکن حقیقت میں خودی کو سخت صدمہ اور ضعف پہنچانے والی ہیں۔ 1؎ آئینہ شریفہ: اے پیغمبر! کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا کہ جس نے اپنے نفس ہی کو اپنا معبود بنا لیا ہوا ہے۔ ۱۲ منہ 2؎ حدیث شریف۔ ترجمہ: جس نے کہ اپنی حقیقت کو جان لیا اس نے خدا کو بھی پہچان لیا۔ ۱۲ منہ خودی کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا جانے والی چیز خوف و ہراس ہے۔ خوف اسی دل پر غالب آ گیا ہے جو خدا کو چھوڑ کر ماوراء کی طرف مائل ہو، اور اسی کا نام شرک ہے: ہر شر پنہاں کہ اندر قلب تست اصل او بیم است اگر بینی درست ہر کہ رمز مصطفی فہمیدہ است شرک را در خوف مضمر دیدہ است حسب و نسب کو وجہ فخر ٹھہرانا ور اسی کو اپنی فضیلت کا معیار قرار دے لینا بھی خودی کو سخت ضعف پہنچاتا ہے۔ بر نسب نازاں شدن نادانی است حکم او اندر تن و تن فانی است نسب کا تعلق محض جسم سے ہے اور جسم ایک عارضی اور ناپائیدار چیز! اس لئے ان اکرمکم عند اللہ اتقکم1؎ کے مطابق سچی عزت اور حقیقی شرف وہ ہے جو روحانی رشتے سے حاصل ہو۔ عشق در جان و نسب در پیکر است رشتہ عشق از نسب محکم تر است یہی وجہ ہے کہ جب سلمانؓ سے ان کے نسب کے متعلق دریافت کیا جاتا۔ تو فرماتے: ’’مسلمانؓ ابن اسلام‘‘ نسب کو شرعی معاملات میں دخل دینا اسلامی اتحاد کو برباد کرنا ہے: گر نسب را جزو ملت کردۂ رخنہ در کار اخوت کردۂ گویا: غبار آلودہ، رنگ و نسب ہیں پال و پر تیرے تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا ید العلیا خیر من ید الغلی کی جاں پرور حقیقت کے مطابق ڈاکٹر صاحب سوال کو بھی خودی کے خیال کے لیے انتہا دجرہ نقصان دہ خیال فرماتے ہیں۔ تا تو انی کیمیا شو گل مشو در جہاں منعم شو وسائل مشو یہی وجہ ہے کہ اونٹ پر سوار ہونے کی حالت میں حضرت عمرؓ کے ہاتھ سے کوڑا بھی گر جاتا تواسے خود اتر کر اٹھا لیتے کسی سے ہرگز نہ کہتے! 1؎ آیہ شریفہ:’’ خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ (مقبول اور) عزت والا وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار بھی ہو‘‘ ۱۲ منہ 2؎ حدیث شریف: ’’ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے اچھا ہے۔‘‘ ۱۲ منہ عقدہ موت و حیا ت کا حل جس خوبی اور جس تاکید و توثیق سے اقبال نے کیا ہے شاید ہی کسی دوسرے سے بن پڑا ہو۔ اس بارے میں اگر وہ فرمائیں کہ: ہیچ کس رازے کہ من گویم نہ گفت ہمچو فکر من در معنی نہ سفت تو کچھ بے جا نہ ہو گا! چند مثالیں درج ذیل ہیں۔ غور فرمائیے: زندگی غیر متناہی ہے اور موت زندگی ہی کے ایک لمحہ توقف کر لینے کا نام ہے۔ سلسہ ہستی کا ہے اک بحر نا پیدا کنار اور اس دریائے بے پایاں کی موجیں ہیں ہزار زندگی کوئی بے نتیجہ شے نہیں ہے بلکہ وہ ایک بے بہا شے ہے اور اس کے مقاصد نہایت بلند تر واقع ہوئے ہیں۔ زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا جس کا مقدر ہو، یہ وہ گوہر نہیں زندگی ہر لمحہ اپنے لیے ایک نئی شان چاہتی ہے اور موت اس آرزو کے اکمل طور پر حاصل ہونے کا ایک وسیلہ ہے! فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو خوب تر پیکر اس کو جستجو رہتی نہ ہو انسانی روح بمقتضائیفطرت اپنے لیے بلندی اور رفعت کی خواہاں ہے اور موت اس بے تکلف پرواز کے لیے اسے پوری آزادی دے دیتی ہے۔ خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں ایک سفینہ پوری تیزی سے سطح آب پر رواں ہے اور بالآخر نظروں سے غائب بھی ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اسی احساس کو لے کر فرماتے ہیں۔ جہاز زندگی آدمی رواں ہے یونہیں ابد کے بحر میں پیدا یونہیں، نہاں ہے یونہیں شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھپتا ہے، لیکن فنا نہیں ہوتا یعنیـ: جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں موت اگرچہ بظاہر ایک مہیب اور خوفناک چیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں دیکھ اجائے تو یہ انسان کے لیے ایک ابدی اور غیر فانی زندہ کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ موت کی لیکن دل دانا کو کچھ پروا نہیں شب کی خاموشی میں جز ہنگامہ فردا نہیں موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی یعنی اگر یہ دنیا کا ایک مسلمہ قانون ہے کہ ہر رات کے بعد دن آئے اور ہر تاریکی کے بعد روشنی، تو پھر قبر کی تنگ و تاریک کوٹھڑی بھی مسرت کی ہنگامہ آرائیوں اور نور فطرت کی تجلیوں سے کیوں معمور نہ ہو جائے؟ یہ اگر آئین ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح مرقد انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح؟ الغرض زندگی ایک غیر فانی شے ہے ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ مکان و زمکان کی نہ وہ مقید رہی ہے اور نہ رہ سکتی ہے۔ تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی با ایں ہمہ اسے محدود سمجھ لینا انسانی شرف کو مٹانا اور فطرت صحیحہ کو ضائع کرنا ہے۔ ٭٭٭ پیام مشرق ڈاکٹر نکلسن کیمبرج یونیورسٹی (انگلستان) مترجمہ: مولوی محمد عبداللہ عہد حاضرہ کے سندی شعراء میں اقبال ایک نہایت رفیع پایہ رکھتا ہے۔ اس کے ساز سے دو قسم کے نغموں کی صدائیں نکلتی ہیں۔ پہلی صدا ہندی الاصل (اردو) جو ہندی حرمت وطن کے جذبات کے لیے داد طلب ہے۔ اگرچہ اقبال سیاسی حیثیت سے وطن پرست نہیں۔ دوسرا سرود خاک ایران کی شیریں اور سریلی زبان میں ہے جو مسلمان جماعت کے ساتھ مخصوص ہے۔ در حقیقت یہ جدید اور فیضانی سرود جو اپنی سحر کاریوں سے آتشیں شعلے اور خاکستر دور دور پھیلا رہا ہے۔ عنقریب ایک الہامی آواز کی حیثیت پیدا کرنے والا ہے۔ اقبال نے پنجاب میں جنم لیا اور تعلیم کی تکمیل انگلستان و جرمنی میں کی۔ گویا مشرق و مغرب کا اقتران ہوا۔ لیکن یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ وہ متحد ہو گئے۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی قدرتی کمالات سے معمور ہو، امید نہیں کر سکتا کہ دونوں تہذیبوں سے جو مختلف اساسوں پر مبنی ہیں کماحقہ، حظ اٹھائے۔ حالانکہ اقبال مغربی تربیت سے خاصا متاثر ہے مگر اس کا روح خیال خالصاً مشرقی ہی رہتا ہے۔ بیشک گوئٹے، بائرن اور شیلے سے وہ باخبر ہے۔ وہ نٹشا کی کتاب ’’ قول زرتشت‘‘ (جس میں اس نے اپنی تعلیمات کو دلچسپ پیرایہ میں بیان کیا ہے) اور برگسان کی کتاب ’’ ارتقاء تخلیقی‘‘ سے اتنا ہی آشنا ہے جتنا وہ قرآن اور مثنوی مولانا روم ہے۔ مگر مغربی تہذیب کے ’’ اصول انسانیت‘‘ سے وہ نسبتاً کم باخبر معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس کی تنقید جو اگرچہ کبھی سطحی نہیں ہوتی۔ مگر بعض اوقات جامع بھی نہیں ہوتی۔ اس کے فلسفہ کے معتبر نظرئیے جو زیادہ تر اسرار خودی اور رموز بیخودی میں اشارۃً نہیں بلکہ صراحتہً مذکور ہیں، مختصراً یہاں بیان کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے علم کے بغیر اقبال کے کلام کا سمجھنا آسان نہیں۔ وہ حقیقت کو تکوین کا عمل قرار دیتا ہے کہ ایک دائمی حکومت ہستی مطلق کا قصر سکوت اس کے نظام اشیاء میں کوئی محل نہیں رکھتا۔ کل حرکت میں ہے۔ کائنات افراد کے اشتراک کا نام ہے۔ جس کا موجد بے ہمتا یعنی خدا ہے۔ وجود کی تشکیل اور تہذیب ان کا مقصد حیات ہے۔ انسان کامل نہ محض مادہ کی دنیا پر تسلط جما کر جذب کر سکتا ہے۔ اس لیے حیات کا جوہر محبت ہے جو اپنے اعلیٰ پایہ میں تخلیق خواہشات، تخیلات اور ان کے اظہار کی سعی ہے۔ چنانچہ خواہشات ہی خواہ ہوں یا بری شخصیت کو قوی یا کمزور کر دیتی ہیں اور تمام قدر و منزلت اسی معیار سے جانچی جاتی ہے۔ یہ ضرور1؎ نہیں کہ نٹشا اور برگساں کو اقبال سے مناسبت دی جائے حالانکہ یہ کم واضح ہے کہ کیوں اپنی خیالی مجلس کو 1؎ یہاں پر جتا دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر براؤن نے اپنی تالیف ’’ تاریخ ادبیات فارس کی چوتھی جلد صفحہ ۴۳۰ پر (باقی بر صفحہ آئندہ)‘‘ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تصور اسلام کے مطابق پیش کرتا ہے اور کیوں اس مجلس کی شرکت کا استحقاق مسلمانوں ہی کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی جدوجہد کرنے والے نے فلسفی کو پسپا کر دیا ہے جس کا منطقی نتیجہ غلط مگر شاعری کے لحاظ سے صحیح ہے۔ شاعر اقبال کو معقولات سے سخت نفرت ہے۔ وہ ابن سینا کا مولانا رومی سے تبائن ظاہر کرتا ہے۔ بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردۂ محمل گرفت ایں فرو تر رفت و تا گوہر رسید آں بگر دابے چو خس منزل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر میگردد چو سوز از دل گرفت پیام مشرق گوئٹے کے دیوان مغرب کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ اقبال ابتدائی اشعار میں جو امیر افغانستان کے تہدیہ میں خطاب کئے گئے ہیں۔ کہتا ہے: پیر مغرب شاعر المانوی آں قلیل شیوہ ہائے پہلوی بست نقش شاہدان شوخ و شنگ داد مشرق را سلامے از فرنگ (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) جہاں حکمت الاشراق مصنفہ شہاب الدین سہروردی کا ذکر کیا ہے وہاں ڈاکٹر اقبال کی تالیف ’’ ما بعد الطبیعیات، ایران‘‘ سے کچھ نقل کر کے اقبال کے نظریہ مذہب بابی سے کلی طور پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی اسی صفحہ پر ایک مختصر سا نوٹ بھی اقبال کا تعارف کرانے کی غرض سے (جس میں آپ کی اسرار خودی کے متعلق مذکور ہے) لکھا ہے کہ ’’ یہ کتاب لاہور یونیورسٹی پریس میں طبع ہوئی ہے (جو غلط ہے) یہ مشرقی رنگ میں نیٹشا مشہور جرمن فلسفی کے فلسفہ کا چربہ ہے۔‘‘ یہ یاد رہے کہ جب دو بڑے آدمی اگر اپنے کسی جزویات میں ایک دوسرے سے اتفاقیہ متفق ہو جائیں جس کے نتیجہ میں کلی اختلاف ہو تو ان دونوں کو ایک دوسرے کا کلی طور پر خوشہ چیں یا متشابہ نہیں کہہ سکتے۔ مزید برآں ہم ناظرین کی اطلاع کے لیے ڈاکٹر براؤن کے اپنے الفاظ جو آپ نے لندن کے شاہی مشرقی مجلس کے ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۴۷ پرچہ میں اسی کتاب اسرار خودی کے مترجمہ نکلسن انگریزی پر تبصرہ کیا ہے اور اپنے الفاظ کی نہیں بلکہ جہاں خود ڈاکٹر نکلسن کو ذرہ بھر بھی اس قسم کا شبہ ہوا ہے اس کی بھی کامل طور پر تردید کی ہے۔ وہو ہذا ’’ جیسا کہ ڈاکٹر نکلسن بیان کرتا ہے کہ زیادہ تر نٹشے اور برگسان کا اور بہت کم جدید فلسفہ افلاطون کے باہرین اور ان کے مشرقی جانشین کا مرہون منت ہے حالانکہ کسی حالت میں بھی مغربی فلسفہ نہیں بلکہ صراحتہً فلسفی حیثیت سے اخوت اسلامی کی تعلیم ہے جو استغراق، انسداد خودی و برادست کی امراض کے علاج کے لیے لکھی گئی ہے۔ مصنف کے نظریہ کے مطابق جنہوں نے پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندہ تعلیم کے تابعین کو مردہ کر دیا ہے۔ اس کاروئے سخن جیسا کہ ڈاکٹر نکلسن نے بیان کیا ہے محض مسلمانان ہند کے لیے نہیں بلکہ مسلمانان عالم کے لیے ہے۔ چنانچہ اسی وجہ سے بجائے اردو کے فارسی میں تصنیف کرتا ہے۔ جو ایک عہدہ مسلک ہے کیونکہ خواندہ مسلمان بہ نسبت اور زبان کے فارسی سے زیادہ آشنا ہیں جسے بالخصوص اپنے فلسفیانہ تخیلات کو بلا توقف بلند پرواز و دلربا پیرایہ میں بیان کرنے کی غرض سے کماحقہ ادا کیا ہے۔‘‘ (مترجم) در جوابش گفتہ ام پیغام شرق ماہ تابے ریختم برشام شرق اگرچہ پیام دیوان سے بظاہر مشابہ ہے کیونکہ دونوں میں مختصر نظمیں ابواب میں مرتب ہیں اور علیحدہ علیحدہ عنوان رکھتے ہیں ویسے اپنے عام مقصد میں نفس مضمون کے لحاظ سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ گوئٹے کی صرف ’’ حور و شاعر1؎ اور جوئے آب‘‘ نظمیں ہیں جو دیوان میں شامل نہیں ہیں اور پیام میں انہیں عنوان سے براہ راست جواب دی گئی ہیں۔ ’’ جلال اور گوئٹے‘‘ کے عنوان کے تحت میں اقبال مولانا جلال الدین رومی کو جس کا وہ نہایت مداح ہے۔ گوئٹے سے بہشت میں ملاقات کرتا ہوا تصور کرتا ہے۔ اس کو سننے کے بعد فوسٹ2؎ مصنفہ گوئٹے کا مطالعہ کیا ہے۔ رومی اس طرح کلام کرتا ہے: فکر تو در کنج دل خلوت گزید ایں جہان کہنہ را باز آفرید سوز و ساز جاں بہ پیکر دیدہ در صدف تعمیر گوہر دیدہ ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست ’’داند آں کو نیک بخت و محرم است زیر کی ز ابلیس و عشق آدم است‘‘ پیام کے کثیر حصہ کا سمجھنا مشکل ہے اور اس سے زیادہ مشکل اس کا ترجمہ کرنا ہے۔ پیچیدہ جذبات اور مشکل فلسفی تخیلات اکثر اوقات فارسی شاعری کے استعارات و تشبیہات میں پنہاں ہو جاتے ہیں۔ لیکن دراصل اظہار شدہ ہمارے ادراک پر بڑی طلب پیدا کرتے ہیں۔ مزید برآں ہماری ہمدردی کو بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ ذیل کا خلاصہ خط ہے جو شاعر کو اس کے کسی مسلمان دوست نے لکھا ہے۔ واقعی ایک اعلیٰ تربیت یافتہ اور فہمیدہ انسان مادہ کے اصل اصول کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اگر کسی نے کافی پڑھا ہو، کافی تفکر کیا ہو اور کافی ہی شبہات میں پڑا ہو تو اعلیٰ تخیل تک پہنچ سکتا ہے جس پر آپ اپنے مطالعہ کرنے والوں کو اپنے سادہ طریقہ سے لے جانے کی خواہش کرتے ہیں۔ یہ کتاب محض ان کے لیے ہے جو اپنی خودی کو ارادۂ مصروف کرنے کے شغل سے کافی واقف ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے ایک فریب سے دوسرے تک لے جانے کے لیے ذریعہ ایمان بتاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تمام انسانی دنیائے جذبات کی غایت بلندی سے لے کر تنگ و تاریک شکوک تک تلاش کر لی ہے۔ آپ کے معاملہ میں نہایت وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے۔ ’’ دست ازیک بند تا افتاد بندد گر‘‘ اور ہم ہیں کہ نہ اتنا محسوس کیا ہے اور نہ اتنا مشاہدہ کیا ہے اس لیے ہم اس اعلیٰ روحانی دنیا میں رہنے کی نہ جرأت ہی اور نہ قابلیت ہی رکھتے ہیں۔ مگر وقتاً فوقتاً اس میں تفکر کرتے ہیں۔ 1؎ جن کے جرمنی نام2؎ گوئٹے کی مشہور و معروف تصنیف ایک ڈراما ہے جس میں شاعر نے حکیم فوسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کا قدیم روایت کے پیرائے میں بیان کیا ہے اور انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کہ کمال فن خیال میں نہیں آ سکتا۔ ۱۲ میں جو کچھ کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ شاعر کے تخیل کے اشارات قلم بند کر دوں۔ اس امید میں کہ بعض لوگ جو میرا ترجمہ پڑھیں گے تو اس عجیب و غریب کتاب کو مجموعی حیثیت سے مطالعہ کرنے کی طرف راغب ہوں گے۔ یہ اس قابل ہے کہ اقبال کی بلند اور زبردست شخصیت سے تعارف کر ادے۔ یہ مسلمہ ہے کہ جس قدر سخت تکالیف ہوتی ہیں اتنا ہی عظیم ان کا اجرا ہوتا ہے جیسا کہ عرصہ ہوا لسرئیں نے کہا ہے۔۔۔ اقبال کے لیے خود شعوری و انفرادیت ہی اصل اصول ہے۔ وہ ہمیشہ علم ذات و اثبات خودی اور ارتقاء نفس کا سبق دیتا ہے۔ اس کا مقصد حیات عمل ہے، جس کا انجام روحانی اور اخلاقی قوت ہے، جو ضبط نفس و اطاعت سے نشوونما پاتی ہے ہم مادہ کو تسخیر کرنے کے بعد آزاد ہو جاتے ہیں اور پر حدت زندگی اور وقت کے فضائی تصور کے بعد غیر فانی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ زندگی ۱ پرسیدم از بلند نگاہے حیات چیست؟ گفتامے کہ تلخ تر او نکو تر است گفتم کہ کرمک است و ز گل سربروں زند گفتار کہ شعلہ زاد مثال سمندر است گفتم کہ شر بفطرت خامش نہادہ اند گفتا کہ خیر او نشناسی ہمیں شر است گفتم کہ شوق سیر نبردش بمنزلے گفتا کہ منزلش بہ ہمیں شوق مضمر است گفتم کہ خاکی است و بخاکش ہمی دہند گفتا چو دانہ خاک شگافد گل تر است ۲ گدائے جلوہ رفتی بر سر طور کہ جان تو ز خود نا محرمے ہست قدم در جستجوئے آدمے زن خدا ہم در تلاش آدمے ہست ۳ میا را بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است ۴ دل من راز دان جسم و جاں است نہ پنداری اجل برمن گراں است چہ غم گریک جہاں گم شدز چشم ہنوز اندر ضمیرم صد جہاں است ۵ جہان ما کہ پایا نے ندارد چو ماہی دریم ایام غرق است یکے بر دل نظر وا کن کہ بینی یم ایام در یک جام عرق است ۶ اے برادر من ترا از زندگی و ادم نشاں خواب را مرگ سبک داں مرگ را خواب گراں ۷ می خورد ہر ذرۂ ما پیچ و تاب محشر در ہر دم ما مضمر است با سکندر خضر در ظلمات گفت مرگ مشکل زندگی مشکل تر است ۸ حیات جاوید گماں مبرکہ بپایاں رسید کار مغاں ہزار بادہ ماخوردہ در رگ تاک است چمن خوش است و لیکن چوں غنچہ نتواں زیست قبائے زندگیش از دم صبا چاک است اگر زرند حیات آگہی مجو دمگیر دلے کہ از خلش خار آرزد پاک است بخود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بیباک است ۹ شے زار نالید ابر بہار کہ ایں زندگی گریہ پیہم است درخشید برق سبک سیر و گفت خطا کردہ خندہ یک دم است ندانم بہ گلشن کہ برد ایں خبر سخنہا میان گل و شبنم است ۱۰ زندگی و عمل (در جواب نظم ہائنا موسوم بہ سوالات) ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موج ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت ہستم اگر می روم گر نردم نیستم ۱۱ نوائے وقت خورشید بہ دامانم، انجم بہ گریبانم در من نگری ہیچم، در خود نگری جانم در شہر و بیابانم در کاخ و شبستانم من در دم و درمانم من عیش فراوانم من تیغ جہاں سوزم من چشمہ حیوانم چنگیزی و تیموری مشتے ز غبارمن ہنگامہ افرنگی یک جستہ شرار من انسان و جہان اوازہ نقش و نگار من خون جگر مرداں سامان بہار من من آتش سوزانم من روضہ رضوانم آسودہ و سیارم ایں طرفہ تماشابیں دربارہ امروزم کیفیت فردا بیں پنہاں بہ ضمیر من صد عالم رعنابیں صد کوکب غلطاں بیں صد گنبد خضرا بیں من کسوت انسانم پیراہن یزدانم تقدیر فسون من تدبیر فسون تو تو عاشق لیلائے من دشت جنون تو چوں روح رواں پاکم از چند چگون تو تو راز درون من، من راز درون تو از جان تو پیدایم در جان تو پنہانم من رہرو تو منزل من مزرع و تو حاصل تو ساز صد آہنگے تو گرمی ایں محفل آوارۂ آب و گل! در یاب مقام دل گنجیدہ بہ جامے ہیں ایں قلزم بے ساحل از موج بلند تو سر برزدہ طوفانم ۱۲ سرود انجم ہستی ما نظام ما مستی ما خرام ما گردش بے مقام ما زندگی دوام ما دور فلک بکام ما مے نگریم و مے رویم جلوہ گہہ شہود را بت کدۂ نمود را رزم نبود و بود را کشمکش و جود را عالم دیر و زود را مے نگریم و مے رویم گرمی کار زار ہا خامی پختہ کار ہا تاج و سریر دوار ہا خواری شہر یار ہا بازی روزگار ہا مے نگریم و مے رویم خواجہ ز سروری گزشت بندہ ز چاکری گزشت زاری و قیصریٰ گزشت دور سکندری گزشت شیوۂ بت گری گزشت مے نگریم و می رویم خاک خموش و در خروش مست نہاو و سخت کوش گاہ بہ بزم نا و نوش گاہ جنازہ بدوش میر جہان و سفتہ گوش! مے نگریم و مے رویم توبہ طلسم چون و چند عقل تو در کشاء و بند مثل غزالہ در کمند زار و زبون و درد مند ما بہ نشیمن بلند مے نگریم و مے رویم پردہ چرا؟ ظہور چیست؟ اصل ظلام و نور چیست چشم و دل و شعور چیست؟ فطرت ناصبور چیست ایں ہمہ نزو دور چیست؟ مے نگریم و می رویم بیش تو نزو ما کہے سال تو پیش ما دمے اے بکنار تو یمے ساختہ با شبنمے ما بتلاش عالمے مے نگریم و مے رویم اخیر حصہ کا عنوان نقش فرنگ ہے جس میں مشرقی ناظرین کے لیے اہم ترین مغربی تخیل کی توضیح شاعر کے نقطہ نظر سے کی گئی ہے (اور مغربی ناظر کے لیے) اپنے آپ کو اس طرح مشاہدہ کرنا جس طرح اس کو دوسرے کرتے ہیں بہت بہتر ہے اور اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم صحیح پیام کو دل سے لگائیں۔ جس میں اقبال خشک عقلی زنجیروں کو اتار کر پھینکنے اور ہماری حیات و محبت کی اندرونی دنیا میں ظاہر ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ ۱۳ دانش اندوختہ دل زکف انداختہ آہ زاں نقد گراں مایہ کہ در باختہ حکمت و فلسفہ کارے است کہ پایانش نیست سیل عشق و محبت بہ دبستانش نیست بیشتر راہ دل مردم بیدار زند فتنہ نیست کہ در چشم سخندانش نیست دل زنار خنک او بہ تپیدن نرسد لذتے در خلش غمزہ پنہانش نیست دشت و کوہسار نور دید و غزالے نگرفت طوف گلشن زد و یک گل بہ گریبانش نیست چارہ ایں است کہ از عشق کشادے طلبیم پیش او سجدہ گزاریم و مرادے طلبیم ٭٭٭ چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پے تعمیر جہاں دگر است ٭٭٭ زندگی جوئے روان است و رواں خواہد بود ایں مے کہنہ جواں است و جواں خواہد بود آنچہ بود و نباید ز میاں خواہد رفت آنچہ با تست و نبود است ہماں خواہد بود عشق از لذتے دیدار سراپا نظر است حسن مشتاق نمود است و عیاں خواہد بود آں زمینے کہ برو گریہ خونیں زدہ ام اشک من درجگرش لعل گراں خواہد بود مژدہ صبح دریں تیرہ شبانم دادند شمع کشتند و ز خورشید نشانم داند اقبال ادنیٰ ادنیٰ سیاسی واقعات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اس کی جمعیت الاقوام کے متعلق سطور خاص اسکا اپنا ہی رنگ رکھتی ہیں۔ ۱۴ جمعیت الاقوام برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن درد مندان جہاں طرح نواختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند ۱۵ فلسفی را با سیاست داں بیک میزان مسنج چشم آں خورشید کوری دیدۂ ایں بے نمے مگر فلسفی بذات خود اثر کن چوٹیں سہتے ہیں۔ خاص کر ہیگل جس کے بلند پرواز دماغ کو کہا جاتا ہے ’’ ماکیاں کز زور مستی خابہ گیرد بے خروس‘‘ مثلاً مصنف کا طریقہ جسے اپنے مسلمان ناظرین کو مغربی فلسفہ سے آشنا کرنے کی خاطر اختیار کیا ہے۔ شوپن ہار اور نیٹشا کے متعلق اس کے کلام کو پیش کرتا ہوں۔ ۱۶ شوپن ہار و نیٹشا مرغے ز آشیانہ بشیر چمن پرید خارے ز شاخ گل بہ تن نازکش خلید بد گفت فطرت چمن روزگار را از درد خویش و ہم ز غم دیگراں تپید داغے ز خون بیگنے لالہ را شمرد اندر طلسم غنچہ فریب بہار دید گفت اندریں سرا کہ نبایش فتادہ کج صبحے کجا کہ چرخ درو شامہا ز چید نالید تا بحوصلہ آں نوا طراز خوں گشت نغمہ دزد و چشمش فرو چکید شور فغاں او بدل ہدہدے گرفت با نوک خویش خار ز اندام او کشید گفتش کہ سود خویش ز جیب زیاں برار گل از شگاف سینہ زر ناب آفرید درماں زود و ساز اگر خستہ تن شوی خوگر بہ خار شو کہ سراپا چمن شوی حالانکہ اقبال بصیم قلب نیٹشا کے ارادہ قوت سے متفق ہے۔ اس کا نظریہ کہ اسلام ایک خیالی جماعت تصور کیا گیا ہے، جو خدائی اور جمہوری سلطنت ہے اس کا ’’ دیوانہ بکا رشیشہ گررسید‘‘ سے مقابلہ کرتا ہے۔ 1؎ جسے وہ شاید غیر واجبانہ ایک دہریہ تصور کرتا ہے۔ ۱۷ نٹشا گر نوا خواہی ز پیش او گریز در نئے کلکش غریز تندر است نیشتر اندر دل مغرب فشرو دستش از خون چلیپا احمر است آنکہ بر طرح حرم بت خانہ ساخت قلب او مومن دماغش کافر است2؎ خویش را درنار آں نمرود سوز زانکہ بستان خلیل از آزر است 1؎ ڈاکٹر اقبال نے ۱۹۱۶ء میں ایک مضمون بعنوان ’’ جمہوریت اسلام‘‘ ’’ نیو ایرا‘‘ اخبار میں لکھا، جس میں آپ نے نٹشے سے اس سلسلہ میں اختلاف ظاہر کرتے ہوئے یورپ کی جمہوریت کا بھی نقشہ پیش کیا ہے۔ وہو ہذا مغربی جمہوریت کو معاشرتی بد امنی ا ور فساد کے خطرہ میں پناہ دی گئی ہے جو محض مغربی مجالس کی اقتصادی حیات جدید سے وجود میں آئی ہے۔ نٹشے تاہم جمہوری حکومت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور عام طبقہ سے نا امید نظر آتا ہے۔ وہ تمام اعلیٰ تہذیب کو حکومت شخصی کی تربیت و ترقی پر بنا کرتا ہے۔ مگر کیا عام انسان کلی طور پر اسی طرح نا امید ہے؟ جمہوریت اسلام ایزادی اقتصادی عصر سے پیدا نہیں ہوئی۔ یہ ایک روحانی اصول اس فرضیت پر مبنی ہے کہ بنی نوع انسان مستور حکومت کا مرکز ہے جس کی ممکنات ایک خاص قسم کے عمل سے پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اسلام نے عوام میں سے بہترین حیات و عمل کی ہستیاں پیدا کی ہیں۔ پھر کیا جمہوریت ابتدائے اسلام نٹشا کے نظریات کا عملی بطلان نہیں ہے۔ 2؎ نٹشا نے مسیحی فلسفہ اخلاق پر زبردست حملہ کیا ہے۔ اس کا دماغ اس واسطے کافر ہے کہ وہ خدا کا منکر ہے گو بعض اخلاقی نتائج میں اس کے افکار مذہب اسلام کے بہت سے قریب ہے ’’ قلب او مومن دماغش کافر است‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کا جملہ امیر بن ملت و عرب شاعر کی نسبت کہا تھا امس لسانہ وکفر قلبہ معنی ’’ زبان سے مومن ہے اور دل سے کافر۔‘‘ ۱۲ میں خیال کرتا ہوں کہ یہ مناسب ہو گا کہ مصنف پیغام (اقبال) کو بحیثیت زندہ مسلمان کے بیان کروں واقعی کوئی بھی جدید فلسفی نہیں جس سے اسے اتنی ہمدردی ہے جتنی برگسان جس کی تعلیم کو ان سطور میں بیان کرتا ہے۔ ۱۸ پیغام برگسان تابر تو آشکار شود راز زندگی خود را جدا ز شعلہ مثال شرر مکن بہر نظارہ جز نگہ آشنا میار در مرزو بوم خود چوں غریباں گزر مکن نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است ظریف اور دلکش تنقید کے قدر دان خاصا سامان تفریح پائیں گے۔ مثلاً آئن سٹائن کے متعلقہ ’’ کردہ زردشتے ز نسل موسیٰ و ہاروں ظہور!‘‘ یا لینن کے متعلق جو قیصر ولیم کو غلبہ اشتراکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے جواب دیتا ہے کہ لوگوں نے محض ایک آقا کا دوسرے سے تبادلہ کر لیا ہے۔ نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست ’’ قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور اور نوئے مزدور‘‘ کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال دل و جان سے مزدور کا طرفدار ہے۔ یہاں نوائے مزدور کے اقتباس پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ۱۹ زمزد بندۂ کرپاس پوش و محنت کش نصیب خواجہ نا کردہ کار رخت حریر زخوئے فشانی من لعل خاتم والی ز اشک کودک من گوہر ستام امیر بطوف شمع چو پردانہ زیستن تاکے ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تاکے یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ اصول جو فلسفہ میں عقلیت کے خلاف چلتا ہے۔ سیاسیات میں بھی سلطنت کے خلاف چلتا ہے انتہا و اعتدال قوم پرست اقبال کو اپنے مطالب کے مطابق حوالہ پیش کر سکتے ہیں۔ جیسے فرقہ سائنڈ کلسٹ برگسان کا حوالہ دیتا ہے۔ مگر روح حیا تپھونکنے والے عمل کو لغو تحریک پر فنا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اقبال کھلم کھلا ضبط نفس کو بیان کرتا ہے جو خود شعوری کی اعلیٰ شان ہے اور خیالی آدمی میں تعقل اور فہم ایک ہی ہو جاتے ہیں۔ یقین رکھنا چاہیے کہ یہ اس کے نقاد کی تسلی نہیں کرے گا۔ جو اس کے نظریات کے استعمال کو کافی وضاحت سے جانتے ہیں ان کو اس کا ’’ خطاب بہ انگلستان‘‘ پڑھنا چاہیے۔ ۲۰ خطاب بہ انگلستان مشرقی بادہ چشید است زمینائے فرنگ عجبے نیست اگر توبہ دیرینہ شکست فکر نو زادۂ او شیوۂ تدبیر آموخت جوش زو خوں بہ رگ بندۂ تقدیر پرست ساقیا تنگ دل از شورش مستاں نشوی خود تو انصاف بدہ ایں ہمہ ہنگامہ کہ بست بوئے گل خود بہ چمن راہ نما شد نخست ورنہ بلبل چہ خبر داشت کہ گلزارے ہست ٭٭٭ ٹیگور و اقبال مرزا عسکری علی خاں مجازی لکھنوی ٹیگور ملک الشعرائ! تو جلوہ معنی کا شہید ہے اور تیرا پیام تہذیب ہند کی قدیم یادگار، زندگی کا وہ وقفہ، جب دنیا میدان کار زار بنی ہوئی تھی۔ انتقام کی آگ سینوں میں مشتعل تھی اور آنکھیں غیظ و غضب سے جل رہی تھیں! وہ زمانہ جب آستینوں سے لہو کے دھبے نہیں چھٹے تھے تو نے اپنی پر سکون داستان ایک خوش آئند لہجہ میں چھیڑ دی اور تھکے ماندوں کو لوری دے کر ایک خاموش نیند سلا دیا۔ تیری شاعری نگار فطرت کا آئینہ ہے اور کمال تہذیب و تمدن کی زیب و زینت!! اقبال سید الشعرائ! تو زمانہ کا ایک خود دار پیغمبر ہے اور تیرا پیام کاروان ملت کے لیے بانگ درا زندگی کی وہ منزل، جب عالم میدان حشر بنا ہوا ہے جہد للبقاء اپنے کمال کو پہنچ گئی ہے اور احساس خودی، خود غرضی کے تمام حدود طے کر چکا ہے! کشمکش حیات کا عالم ہے بہت سے قافلے سر منزل پہنچ گئے ہیں اور کچھ جا رہے ہیں! لیکن ا یک قافلہ راہ میں ناتوانی کی گہری نیند سو رہا ہے۔ اس وقت تو نے اپنی پر شوکت آواز کو حدی خوانی میں صرف کر دیا اور بیداری کی ایک بجلی سی دوڑا دی۔ تیری شاعری در و ملت کی آواز ہے اور تہذیب و تمدن کی روح، جس کی زمانہ کو ہمیشہ ضرورت ہے۔ ٭٭٭ اقبال پر محققانہ نظر اور اس کی نفسیاتی تشریح مسٹر راغب احسن ایم اے کلکتہ یہ کوئی تعجب انگیز حقیقت نہیں ہے کہ حکیم عصر علامہ اقبال کے مشرب کو ابھی تک چند بالغ نظروں نے کماحقہ سمجھنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور شاید شرق یا غرب میں آج کوئی مبصر نہیں ہے۔ جس نے اس نابغہ دہر کی شخصیت کا کلی طور پر مطالعہ کیا ہو۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں مگر سب سے بڑا سبب خود اقبال کی حیرت انگیز ترکیب اور اس کے پیغام کی زبردست جامعیت ہے۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ان کی نفسیاتی تشریح لازمی ہے۔ کسی ذات کا وجود دنیا میں از خود نہیں ہو جاتا، بلکہ ہر فرد بشر کی شخصیت اس کی حیاتی تعمیرات، تمدنی مہیجات اور تہذیبی پیداوار کے اساس پر محکم ہوتی ہے خواہ وہ اپنی فطرت خام میں کتنا ہی جدت و خلاقیت کی صلاحیت کا سرمایہ دار ہو۔ اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں حکیم مطلق کی مشیت نے معجز نما فیاضی سے کام لیا ہے اور اسی نکتہ سے واضح ہے کہ اس کا پیغام بر ہنوا مقدر تھا۔ اقبال مادر گیتی کا وہ فرزند رشید ہے جس کی ذات میں آریت، عجمیت، سامیت، یونانیت، رومانیت اور المانیت کی کلچر کی لہریں ہم آغوش ہیں۔ وہ ارتقاء کائنات اور عمران انسانی کے مختلف تہذیبی نمود کی معنویت سے آگاہ اور ان کا بالغ نظر نقاد ہے۔ مگر وہ ’’ عارف محض‘‘ عالم محض’’ ناقد محض‘‘ اور’’ حکیم محض‘‘ ہی نہیں ہے بلکہ وہ ان سے بہتر و برتر ایک ’’پیغام بر‘‘ ہے ہم اس کی شخصیت کی کلید اور اس کے مشرب کی روح کا ادراک نہیں کر سکتے۔ جب تک ہماری بصیرت میں اقبال اپنے تمام اساسات و عمارات کے ساتھ عریاں و نمایاں نہ ہو جائے جس کے بغیر کوئی ضروری بے روح و بے مغز مطالعہ اس کی بارگاہ باطن میں باریاب نہیں ہو سکتا ہے اور اس کی روح نمانی میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اقبال کی غلط تعبیرات اور اس کے متعلق ’’بعض بیہودہ نظریات کی علت صرف اسی بنیادی حقیقت کا جہل ہے! دماغوں کا جہل اور ذہنوں کی نارسی کا مدار آسان نہیں ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر مندرجہ ذیل خاکہ کے مطابق اس کا مطالعہ کرنا چاہیں توبہت حد تک ہماری مشکل آسان ہو سکتی ہے اور فہم اقبال کا راستہ صاف ہو سکتا ہے‘‘ ۱۔ مادی تعمیر و روحانی ترکیب اقبال کی مادی تعمیر و روحانی ترکیب یعنی اس کی وہبی و خلقی اساس حیات کی درج ذیل اصول کا فہم اس کے ایک علمی مطالعہ کی ابجد ہے اور اس تحریر کا مقصود اس کے پورا کرنے کی شعی ہے۔ ۱۔ برہمنیت: اقبال آرین نسل سے ہے۔ وہ ایک برہمن زادہ ہے اور یہ نسلیات کے مسلمات سے ہے کہ آرین علی الخصوص ہندو اور ان میں بھی برہمن جو خالص آرین خون کے مدعی ہیں۔ زبردست صلاحیت ذہنی و فکری زندگی رکھتے ہیں۔ اقبال اس حیاتی ورثہ کا ایک جائز و حقدار وارث ہے اور علم الوراثت کی یہ اساس اس کی شخصیت کی اساس ہے۔ ۲۔ کاشمیریت: اقبال آرین نسل سے ہونے کے علاوہ کاشمیری برہمن بھی ہے۔ کاشمیری نسل اپنی مخصوصی آرین ذہنی صلاحیت پر مستزاد ایک حیرت انگیز صلاحیت فنی قابلیت کی رکھتی ہے۔ آرٹ اور جمالیات کا جوہر خلقی و وہبی طور پر جتنا اس کاشمیری آرین نسل میں ہے اتنا کسی دوسری آرین قوم میں نہیں ہے۔ کاشمیر نہ صرف بذات خود حسین و جنت نظیر ہے بلکہ عملاً جمال پرور، جمال آرا، جمال خیز و جمال آفرین بھی ہے۔ اقبال کاشمیر کی اس جمال آفرینی کے اولیں درجہ کی پیداوار ہے۔ ۳۔ فطانت:ـ اقبال درجہ اول کا ذکی (Genius) ہے۔ اس کی باطنی دنیا فطرۃً غیر معمولی قوی، قوت و استعداد سے مالا مال ہے اس کی برہمنیت یا کشمیریت معمولی ذہن و فکر کی سرگرمی کی توجیہہ کر سکتی ہے۔ مگر اس کی غیر معمولی فطانت و روحانی صلاحیت کی توضیح کے لیے یہ لازم ہے کہ ہم اسے ان ذہنی جنات (Intellectual Giants) کی نسل ک اایک ممتاز فرد تسلیم کریں جن کی دماغی ساخت و روحانی ورثہ کی سطح عام سے برتری وفوقیت مسلم ہے۔ مگر جن کی پوری اصلیت و علت کا سراغ اب تک علوم وراثت وحینیات (Gentics) نہیں کر سکے ہیں اور جن کو اب تک انسانی علم و تدبیر حسب ارادہ پیدا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ۴۔ جمالیت: اقبال کی خلقت میں جمالیات کا خمیر ایک امتیازی دنیاوی عنصر ہے۔ اس کی طبیعت لطیف و لطافت پسند اور اس کا قلب حساس اور صاحب شعور ہے۔ا گرچہ وہ اسی دور مادیت میں نا محسوس کے عالم غیب پر ایمان محکم کا مبلغ اعظم ہے۔ آرٹ اور فنون لطیفہ سے اس کی روح کو زبردست تعلق ہے۔ لطافت و علویت اس کا جوہر حیات ہے۔ شعر و موسیقی، تعمیرات و نقاشی میں وہ ’’ دنیائے حسن‘‘ کا اور دنیائے حسن میں حقیقت کل کا جویا ہے۔اقبال جستجو کل کے لیے پھرتی ہے اجزاء میں مجھے حسن بے پایاں ہے ورد لا دوا رکھتا ہوں میں ٭٭٭ حسن کے اس عام جلوے میں بھی ’’یہ‘‘ بیتاب ہے زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے ٭٭٭ لیکن اقبال کی روح جمالیت، بت گری و بت پرستی یا سر خوشی کی اسیر حرص نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم الشان نصب العین کی علمبردار ہے۔ اس نکتہ مہمتہ کی فہم سے غفلت، فہم اقبال کے نکتہ آغاز سے غفلت ہے۔ ۵۔ ادبیت: اقبال بطن فطرت سے شعر و ادب میں اپنی شخصیت کی نمود و نمو کی غیر معمولی صلاحیت لے کر آیا ہے وہ ادب کے لیے ہے اور ادب اس کے لیے اس کا باطن شعر و بیان کا سرچشمہ ہے مگر جس طرح اس کی روح جمالیت ایک عظیم الشان نصب العین کی خدمت گر ہے۔ اسی طرح اور اسی سلسلہ میں اس کی طاقت ادبی بھی عین اسی مقصد وحید کی تابع ہے۔ وہ نہ صرف تلمیذ الرحمن ہے بلکہ ایک ایسا شاعر ہے جس کی شاعری کے متعلق ’’ جزویست از پیغمبری‘‘ کہنا مناسب ہے۔ اقبال میں شخصی اظہار نفس کی ادب اور دنیائے حاضر کی نومولود اجتماعی ادب کی روح ہم آمیز و ہم باز ہیں۔ اقبال کا ادب اس طرح بیک وقت شخصی ادب اجتماعی ادب ہے۔ کیونکہ اس کی ہستی فی نفسہ ایک مشن، ایک نصب العین، ایک منزل، ایک مقصود اور ایک آئیڈیل کا سراپا ہے اور ادب میں اس کی شخصیت کی نمود، اس کی خودی اور اجتماعی آئیڈیل دونوں کی بیک وقت نمود ہے۔ ۶۔ حکمت: اقبال نہ صرف ایک پیدائشی شاعر و ادیب ہے بلکہ ایک وہبی حکیم بھی ہیے۔ اگرچہ یہ قول زبان زد ہے کہ شاعر پیدا ہوتا ہے اور حکیم بنتا ہے اقبال کی وہبی حکمت سے مراد یہ ہے کہ یہ شخص غیر معمولی طاقت و صلاحیت حکمی و فکری زندگی کی لے کر آیا ہے وہ کائنات کو نہ صرف ایک آرٹسٹ کی طرح ’’ جمالیت‘‘ کی حیثیت سے اور نہ محض ایک اکانامسٹ (معاشی) کی طرح افادیت کی حیثیت سے بلکہ مزید بریں ایک حکیم کی طرح ’’ حقیقت‘‘ کی حیثیت سے دیکھنا، جاننا اور ظاہر کرنا چاہتا ہے! وہ ایک ’’ ترجمان حقیقت‘‘ ہے۔ کیونکہ حقیقت کا عشق اور حقیقت کی طلب اس کی فطرت میں پھول کا عشق اور پروانہ کی فطرت میں روشنی کی طلب پوشیدہ ہوتی ہے۔ حق یہ ہے کہ اقبال کی الہامی حکمت یا وہ حکمت جس کے لیے اقبال حکیم مطلق کی مشیت سے وجود میں آیا ہے اپنی ہمہ گیر حکمت مطلق کے ساتھ اس کی روحانی و ظاہری زندگی پر محیط ہے اور وہ ہر رنگ میں اس متین و محکم مذہب کا مبلغ ہے۔ یہ تو ایک اجمالی خاکہ اور غالباً ناقص خاکہ اقبال کی شخصیت کے وہبی استعدادات و خلقی عواطف یعنی حیاتی (بیالوجیکل) ورثہ کا تھا مگر انسانی سیرت کی تعمیر میں علی الخصوص ذہنی و روحی سیر کی تعمیر میں فرقہ وارانہ تہذیب (گروپ کلچر) کو بھی کچھ اہمیت حاصل ہے جو ہر فرد اپنے فرقہ سے لازماً حاصل کرتا ہے۔ اس اجتماعی ورثہ کو ہم اس وقت سہولت کے لیے تمدنی مہیجات اور تہذبی موثرات کے تحت میں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ۲۔ تمدنی مہیجات ہر شخص پیدائش کے وقت سے موت تک کسی نہ کسی ابتدائے فرقہ یا ملت کا ممبر ہوتا ہے اور اس کی ذہنی زندگی کی تمام عادات و رسومات اسی سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ زبان کے ذریعہ تبادلہ خیال کر کے ہر بشر اپنے فرقہ سے، اپنی جسمانی زندگی اور اس کی غذا اپنی دماغی زندگی اور اس کی غذا اپنی روحانی زندگی اور اس کی غذا کو پاتا اور انسان کہلانے کا مستحق بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ابتدائے فرقہ جس پر فرد کی جماعتی و ذہنی زندگی کا اس قدر انحصار ہے۔ قانون محافظت نفس کے مطابق اس کی اصلی شیفتگی، ابتدائی اور اولین قدر دانی کا عنصر ہو گا۔ پرائمری گروپ (معاشر اولیٰ و معاشر ثانی) ایک سے زیادہ باہم پیوستہ اور دائرہ در دائرہ کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ اس اصل اجتماعیہ کی روشنی میں اگر ہم ایک علمی تجزیہ اقبال کے سوشل علائق و قدور کا کریں۔ تو یہ روشن ہوتا ہے کہ پیدائشی طور پر اقبال کو (۱) کاشمیری قومیت(۲) پنجاب مرزبوم (۳) ہندی وطنیت (۴) مشرقی مقامیت اور (۵) زمان و مکان اسلامی ملیت کے پرائمری گروپوں (دوائیہ اجتماعیہ) سے وابستگی ہے۔ ۱۔ کاشمیری قومیت: نے اقبال کی شیرت کو دو لوچ، ملائمت اور تہذیب عطا کی ہے۔ جو کاشمیری معاشر کا عالمگیر خلاصہ ہے۔ کاشمیر اور کاشمیری قوم سے اقبال کی انسیت ایک فطری تعلق کا پروردہ ہے۔ اس کی مجالست و موانست کی زبردست خوبی بھی پرائمری گروپ کا عطیہ ہے۔ ۲۔ پنجابی مرزبومیت: یہ مشیت خداوندی کا عجیب کرشمہ ہے کہ کاشمیری الاصل اقبال، اسلامت خانہ کاشمیر سے باہر ایک آزاد و زندہ دل خطہ یعنی پنجاب میں پیدا ہوا اور پروان چڑھا۔ پنجابی سوشل گروپ نے اقبال کو وہ روح جسور، فضائے حریت اور محیط موافق بخشا ہے جس کو وہ خود کاشمیر کے قید خانہ کے اندر اور کسی خالص کاشمیری گروپ کی چہار دیواری میں محصور رہ کر حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جن کے بغیر و قعر گمنامی سے ابھرنے سے قاصر ہوتا۔ اس طرح پنجابی گروپ کا اقبال پر احسان ہے اور اقبال پنجاب اور زندہ دلان پنجاب سے تعلق خاطر رکھنے اور اس کی فلاح و خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے میں حق بجانب ہے۔ ۳۔ ہندی وطنیت: اقبال کا تعلق اس کے وطن ہندوستان سے بہت پرانا اور گہرا ہے وہ اپنے وطن کے حقوق و واجبات سے کماحقہ آگاہ ہے اور اس کی فلاح و ترقی کے لیے ابتداء سے اشک فشاں ہے۔ مگر وہ ایک جینئس (Genius) کے دماغ مدبرہ کے ساتھ اس کے مسائل کے زیر سطح حقائق کی طاقت اور شرق و غرب کے مسائل سے ان کے تعلقات سے پوری طرح خبردار ہے۔ وطن عزیز کے ملاپ اور آزادی کے لیے اس نے اپنی بہترین فکر و کاوش سے کام لیا ہے اور اپنا بہترین حکیمانہ مشورہ اس کے مشکلات کو آسان کرنے میں پیش کیا ہے اور یہ اقبال کی سب سے بیش بہا خدمت وطنی ہے جس کو ہندوستان کے کسی دوسرے فرزند نے انجام نہیں دیا ہے۔ دماغوں کا سخت قحط ہے اور ایسے بالغ دماغ جو شرق و غرب اور اسلام اور آریت کی روح کو عریاں دیکھنے کے اہل اور ان کے بہترین باہمی تعلق کی اسکیم پیش کرنے کے قابل ہوں نایاب ہیں۔ اقبال آج دنیا میں ایک ایسا دماغ ہے اور شکر ہے کہ اس نے اپنے دماغ کا یہ عطیہ وطن کو بخشا ہے۔ اقبال جیسے حکیم اعظم کو الفاظ سے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ عامیانہ رحجانات خواہ وہ مشرق و مغرب کے مذہب کیوں نہ بن جائیں۔ کسی طرح سقراط اور اقبال کو مبتلائے فریب نہیں کر سکتے۔ خطابت، زعامت اور سو فسطائیت کا جادو ارسطو اور اقبال پر نہیں چل سکتا۔ پس اس دور بت پرستی میں اقبال وقت کے ’’ صنم اکبر‘‘ وطن پرستی اور قوم پرستی کا سب سے زبردست مخالف ہے اور اس کے خلاف جنگ کو وقت کا جہاد اکبر یقین کرتا ہے کیونکہ اس ’’ بت نا ارجمند‘‘ کی بدولت انسانیت خستہ و خراب ہو کر ہلاکت کے جہنم زار کی طرف برفتار برق بڑھ رہی ہے وطن پرستی کے جنونی مذہب کی مخالفت حب وطن کی مخالفت نہیں ہے بلکہ حب وطن کا اعلیٰ ترین و نادر ترین کام ہے کیونکہ جب خود انسانیت کا وسیع ترین حلقہ باہم متصادم قومیتوں کی جنگ جہانگیر و جنگ جہاں سوز سے خاکستر ہو جائے گا تو پھر اس کے داخلی اجتماعی حلقوں، گروپوں، ملتوں اور مفادوں کا کیا حشر ہو گا اور وطنی دریاؤں، وطنی پہاڑوں، وطنی ویرانوں اور خرابوں کے سوا اور کیا باقی رہے گا؟ آج دنیا اس مسئلہ کے روبرو ہے اور اقبال اس کے جواب کے لیے آیا ہے۔ ۴۔ مشرقی مقامیت: اقبال کاشمیری قومیت کے علاوہ پنجابی مررزبومیت کا پھر ہندی وطنیت کا، اور پھر مشرقی مقامیت کا ممبر ہے اور اس کو اپنی مشرقیت کا پورا احساس ہے۔ وہ شرق و غرب کی نہاد روح اور افتاد فکر سے آگاہ اور دونوں کی خوبیوں اور کمزوریوں سے خبردار ہے اور ان کے عمدہ و صالح عناصر کے اتحاد با وفاق کا زبردست حامی ہے۔ غریباں را ’’زیر کی راز حیات شرقیاں را‘‘ عشق راز کائنات زیر کی از عشق گرد حق شناس کار عشق از زیر کی محکم اساس عشق چوں با زیر کی ہم بر شود نقشبند عالم دیگر شود خیزو نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیر کی آمیز دہ شعلہ افرنگیاں نم خوردہ است چشم شاں صاحب نظر دل مردہ است زخمہا خوردند از شمشیر خویش بسمل افتادند چوں نخچیر خویش سوز و مستی را مجو از تاک شاں عصر دیگر نیست در افلاک شاں زندگی را سوز و ساز از نار تشت عالم نو آفریدن کار تست اے خدا! بیں خویشتن را ہم نگر بحر را در قطرہ شبنم نگر شرق و غرب کے اس اتحاد رومی کا پیغام اس بلیغ مصرع میں دیا ہے: ہم زخدا ’’خودی‘‘ طلب ہم ز خودی خدا طلب اقبال مشرق اور ہندوستان کی بیداری، آزادی اور اظہار خودی کا طالب ہے اور یقین کرتا ہے کہ ان کی مردنی انسانیت پر بار عظیم ہے اور اس کے دور کرنے کے جہاد میں شرکت اس کا فرض ہے: ’’ ہندوستان کی سیاسی غلامی تمام ایشیا کے لیے لامتناہی مصائب کا سرچشمہ ہے۔ اس نے مشرق کی روح کو کچل ڈالا ہے اور اسے اظہار نفس کی اس مسرت سے محروم کر دیا ہے جس کی بدولت کبھی اس میں ایک شاندار تہذیب پیدا ہوئی تھی۔‘‘ (۱) ہم پر ایک فرض ہندوستان کی طرف سے عائد ہوتا ہے جو ہمارا وطن ہے اور جس میں ہمیں جینا اور مرنا ہے اور (۲) ایک فرض ایشیا بالخصوص اسلامی ایشیا کی جانب سے (خطبہ صدارت مسلم لیگ ۱۹۳۰ئ) ۵۔ اسلامی ملیت: اقبال کاشمیر، پنجابیت، ہندیت، مشرقیت، ارمنیت یا انسانیت سے بھی ایک اعلیٰ و ارفع مطہر و مقدس، بہتر و برتر حلقہ ملیت کا رکن رکین ہے۔ اور اس کا نام ملت اسلامیہ ہے اقبال اس حلقہ اجتماع میں پیدا ہوا ہے اس میں پروان چڑھا ہے اور اس کے رنگ میں رنگا ہوا ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ وہ اس کا ایک وفادار عضو ہے اور یہ اس کی وفاداری کا اقتضا ہے کہ وہ اپنی تمام وفاداریوں اور ساری محبت کو ملت اسلامیہ کی وفاداری کے تابع یقین کرتا ہے۔ حلقہ اسلامیت تمام دیگر دوائر و علائق کا حاکم و قوت فصیل ہے اس لیے کہ یہی اسلام کے معنی ہیں دین وسطیٰ انسانی زندگی کے مختلف علائق فطری یا دوائر اجتماعی کی نفی کے لیے نہیں بلکہ ان کی تعدیل کے لیے موضوع ہے اور قوت عادل خود کسی دوسری طاقت کی محکوم نہیں ہو سکتی ہے۔ نیز اس کے لیے یہی انسانیت کا تقاضا ہے جو اس وقت اپنی بقا کے لیے ایک محافظ کا طالب ہے اور اقبال کا یقین ہے کہ صرف ملت اسلامیہ اس کا محافظ ہو سکتی ہے اقبال اسلام کو ایک جامعہ ایک سوشل نظام ایک سیاست یقین کرتا ہے اور ’’ جامعہ انسانی‘‘ کی فلاح و نجاح صرف اس سے دیکھتا ہے کہ وہ بلا جبر و اکراہ ’’ جامعہ اسلامی‘‘ میں منتقل و مبدل ہو جائے۔ انسانیت کی نجات اس میں ہے کہ وہ دین قیم کے دار السلام میں پناہ گیر ہو کر موجودہ خود کشی کے بر اعظم سے کنارہ کش ہو جائے۔ ۳۔ کلچرل موثرات: کلچرل موثرات سے مرد وہ تعلیمی محرکات ہیں جنہوں نے اقبال کے وہبی عواطف و استعدادات یعنی اس کے نفس کے مواد خام کی صورتوں میں تشکیل کی ہے اور اسے وہ پختگی، وہ بلوغت اور وہ رشادات عطا کی ہے جو اس کا امتیا زہے بلا شبہہ مذکورہ تمدنی موثرات اس کام میں شریک ہیں اور یہ محض زور و امتیاز ہے جس کے لیے تعلیمی اثرات کو علیحدہ بیان کیا جا رہا ہے۔ ۱۔ علوم شرقیہ و غربیہ کی اعلیٰ تعلیم و عمیق مطالعہ: کسی اثرات کی بحث میں پہلی حقیقت جو قابل لحاظ ہے وہ یہ ہے کہ اقبال محض ایک درجہ اول کا جینیس (Genius) نہیں بلکہ درجہ اول کا فاضل و عالم بھی ہے اس کی وہبی فطانت و ذہانت، محض خطابت یا سو فسطاء پر منتج نہیں ہوئی ہے بلکہ اس نے علوم والسنہ شرقیہ و غربیہ کا خود مغربی کلچر کے قلب یعنی جرمنی و انگلستان اور مشرقی تہذیب کے گہوارہ ہند عرب و عجم کے مرکزوں میں مطالعہ کیا ہے اور اس لحاظ سے وہ موجودہ دنیائے علم و ادب میں ایک ایسی پوزیشن کا مالک ہے جو اب تک کم لوگوں کے حصہ میں آئی ہے اس کی شاعری اوہام، ظنیات اور اعیان کی طلسمی دنیا نہیں ہے بلکہ بزبان شعر علم و عرفان کے دریافت کردہ حقائق کی ترجمان ہے۔ ۲۔ آریت اور ہندو ازم: اقبال آریت اور ہندو ازم کا زبردست عارف اور ’’ ودیا ساگر‘‘ ہے۔ اس کی برہمنیت اور ہندیت پر اس کا ہندو فلسفہ اور آرین کلچر کا حکیمانہ مطالعہ مستزاد ہے وہ انڈین کلچر اور فلسفہ کا عالم و ناقد ہے اس کی خوبیوں کا دلدادہ اور اس کے نقائص کا شناسا ہے آریت اور ہندو ازم کے اس گہرے مطالعہ کا اثر اس کے کلام و پیام سے ظاہر ہے۔ ۳۔ ایرانیت اور پارسی ازم: اقبال ایرانی کلچر کا اس لیے زبردست عالم و ناقد ہے کہ وہ کاشمیری ہے اور کاشمیری قوم سب سے زیادہ ایرانی زبان، ادب و تہذیب سے اس مسلک میں متاثر ہوئی ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ اس کا تھیسس (مقالہ علمیہ) ایرانی فلسفہ و تصوف سے متعلق تھا جس کی بنا پر اسے المانی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ (رشد و فضیلت کا مرتبہ) عطا کیا تھا۔ رفتہ رفتہ ابتدائی عمر کا یہ ایرانی تعلق و مطالعہ عمیق سے عمیق تر ہوتا گیا اور ا سنے تحقیق کی تکمیل کے لیے قریباً تمام قدیم (جدید السنہ پارسیہ اور ساری تہذیب عجمہ کو اپنے دائرہ تفتیش میں گھر لیا ہے وہ محاسن عجمیہ کا معترف ہے مگر اس کا یقین ایک ترک مبصر کا یہ یقین ہے کہ ’’ ایران وطن اوہام و خرافات و افسانہ ہا‘‘ ہے اور عجمیت روح عربیت و اسلامیت کے لیے ایک طرف اور روح عمالیت و تکمیل خودی کے لیے دوسری طرف سم قاتل ہے) ۴۔ یونانیت اور ہیلن ازم: اقبال ایرین حکمت اور ایرانی تہذیب کے علاوہ دنیا کی اس عجیب ترین قوم کی حکمت و تہذیب کا بھی مبصر اعظم ہے جو خطہ یونان سے زمانہ قدیم میں ابھری اور پھر اپنی تہذیب کی بعض ضلالتوں اور ظلمتوں کی وجہ سے ظلمات عدم میں معدوم ہو گئی مگر فکر و خلقت کی دنیائے حسن و حقیقت کو وہ کچھ دے گئی جو آج تک انسانیت کے لیے قابل ناز ہے اقبال یونانی کلچر کی حقیقت پرستی (لاء آف نیچر) لطافت پسندی و حسن جوئی (جمالیات) سے خاص طور سے متاثر معلوم ہوتا ہے مگر وہ کسی یونانی حکیم کامقلد نہیں ہے جیسا کہ عہد وسطیٰ کے اکثر علماء یونانیات تھے۔ وہ افلاطون کے سخت ترین ناقدین میں سے ہے اور یونانیت پر اس کا محاکمہ ویسا ہی عمیق، مجتہدانہ اور انقطاعی ہے جیسا کہ آریت اور ایرانیت پر۔ ۵۔ رومانیت اور لاٹن ازم: اقبال رومانی تمدن کے مخصوص میراث کا بھی زبردست محقق و معترف ہے۔ اگر یونانیوں نے دنیا کو علوم و حکمت اور فنون و ادب کی دنیا حسن و حقیقت بخشی ہے تو رومانیوں نے قانون اور نظم دولت کے ادارت عملی کا ترکہ چھوڑا ہے اور قانون میں بین الاقوام کی داغ بیل اپنی عالمگیر سلطنت کے مختلف انسال و اقوام کے باہمی معاملات کے انصرام کے لیے (Jusgentium) کی شکل میں ڈالی ہے اور جس حکیم مطلق نے اقبال کو شعر و ادب اور علم و حکمت کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے اس نے اس کو مغربی و مشرقی، ہندی و عجمی اور عربی و لاطینی زندگی و مدنیت کے مطالعہ و موازنہ کے عملی کام کی توفیق اور ان کے سوشل نظامات، سیاسی ادارات اور قانونی مخلوقات کے متقابل مطالعہ کی سہولت بھی عطا فرمائی ہے نتیجہ یہ ہے کہ اقبال جو ریس پروڈنس (علم القانون ) اور پالیٹکس (سیاسیات) کا متبحر عالم ہے رومانی کلچر کے اس اثر اور علم القانون و عمرانیات اس تحقیق و تعلیم نے اقبال کے مشن کو ایک خاص تعین تجدید نظم اور ضبط عطا کی ہے اقبال کے نزدیک شریعت ملیہ، ایک ملت کی ’’ نفس لوامہ‘‘ یا ’’ قلب مشترک‘‘ کی مخلوق ہے جو اس ملت کو ٹھیک اسی طرح دیگر ملل سے ممیز کرتی ہے جس طرح عقلیت و اخلاقیت انسانی افراد ک وحیوانی افراد سے تکوین ملت اخلاقی معنوں میں بغیر ایک مخصوص شرعی روایت کے ممکن نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک ملی شریعت یا قانون ایک وسیع المعنی شے ہے اور وہ ملی کلچر کے دیگر مظاہر مثلاً ملی اخلاقیات، ملی دینیات، ملی فلسفہ اور ہر تمدن کسی نہ کسی فلسفہ یا تصور عالم کی مجسم مثال ہے) ملی اجتماعیات و عمرانیات سے وابستہ و پیوستہ ہے۔ اقبال کا یہ تصور کہ شریعت ملیہ کی ایک خاص معین مظہر ہے جدید اجتماعی مذہب شریعت Socialogical School of Jurisprudence اور اجتماعی مذہب سیاسیات سے قریب ترین اورینتھم اور آسٹین کی (Indnist Theory) نظریہ وحدانی کے قطعی خلاف ہے۔ ۶۔ المانیت اور مغربیت: اقبال موجودہ مغربی کلچر کا عموماً اور المانی تہذیب و حکمت کا خصوصاً محقق اعظم ہے۔ مغربی دین و اخلاق، حکمت و فلسفہ، فنون و ادب، تمدن و معاشرت، معاشیات و سیاسیات کا اقبال سے بہتر عالم و ناقد آج شاید ہی کوئی ہو۔ اقبال کا علم بالواسطہ سماعی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ عینی مشاہدات و تجربات کا نتیجہ اور ماضی، حال و مستقبل پر حکیمانہ و عالمانہ نظر کا عطیہ ہے آج دنیا اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے مگر ایک روز مغرب کا اس پیر مشرق کے زمزم سے سیراب ہونا لازم و مقدور ہے! ۷۔ سامیت اور اقبال: اقبال ایک برہمن بدوی ہے تہذیب اسلامیہ کا اس سے بہتر محقق اس وقت کوئی نہیں ہے عربیت کو وہ روح سامیت کی مثالی شکل یقین کرتا ہے: ’’ میں نے اپنی زندگی کا زاہد حصہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسلسل اور متواتر تعلق کی بدولت جو مجھے تعلیمات اسلامی کی روح سے جیسا کہ مختلف زمانوں میں اس کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ میں نے اس امر کے متعلق ایک خاص بصیرت حاصل کر لی ہے کہ ایک عالمگیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی حیثیت کیا ہے۔‘‘ اقبال اسلامیت کی روح مجسم کا نام ہے وہ اسلام کے داعیہ کی مذکور الصدر انسانی تہذیب کے مظاہر یعنی (۱) آریت اور ہندو ازم (۲) ایرانیت اور پارسی ازم (۳) یونانیت اور ہیلن ازم (۴) رومانیت اور لاٹن ازم (۵) المانیت اور ویسٹرن ازم کی واعیات و روحیات سے دوری یا نزدیکی، مطابقت یا مخالفت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ تقدیر عالم اس پر روشن ہے رفتار تہذیب اس پر عیاں ہے وہ ایک ایسے دور میں ظاہر ہوا ہے جبکہ دنیا تیزی سے ایک سیاسی و عمرانی وفاق کے قریب آ گئی ہے۔ اقبال اسلام کو اسی عمرانی و روحانی وفاق عالم کی صراط مستقیم یقین کرتا ہے۔ دنیا نے پہلی دفعہ ایک ایسی روح اعظم کو پیدا کیا ہے جس نے فرسٹ ہنڈ مطالعہ کے ذریعہ ہند و عجم، عرب ویونان، روما اور المان، شرق و غرب اور جدید و قدیم کی روح تہذیب سے آگاہی حاصل کی ہے جو صاحب بصیرت و اجتہاد ہے اور دنیا کے لیے ایک عظیم الشان پیغام کا پیغام بر ہے! شاعران عالم اور شاعر اسلام ظفر قریشی دہلوی ہندوستان وہ ملک ہے جہاں مردوں کی پرستش ہوتی ہے ہم اپنے آدمیوں کی قدر اس وقت کرتے ہیں جب وہ آنکھ سے اوجھل ہو کر لحد کے گوشے میں جا سوتے ہیں۔ مگر میں اپنی ناتواں آواز بلند کرتا ہوں کہ اقبال، مشرق کا پیام بر اقبال، اسلام کا شاعر اقبال، دنیا کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ ٹینی سن: وہ ملکی عصبیت کا علمبردار، انگریز کے دل میں انگلیسی جذبے کی لہر پیدا کرتا ہے اور وہ انگلینڈ کا شاعر ہے۔ براؤننگ: وہ آرٹ کا سچا ترجمان، شعر کی دلہن کو حسن کی ان اداؤں سے رنگین کرتا ہے جن کی پرسش زمان و مکان کی قید سے بالاتر ہے اور وہ سخن کی محفل میں آرٹ کا صحیح نمائندہ ہے۔۔۔ ورڈ سورتھ: وہ نیچر کا شیدائی، فطرت کی زبان میں اپنے القائے تصور کے بھید کھولتا ہے اور وہ ان فضاؤں کا سب سے زیادہ رنگین طائر ہے۔ کیٹس: حسن کی تعریف میں حسین نغمے گانے والا کیٹس، خیال کے پردے پر حسن کی وہ جمال آگیں تصویریں اتارتا ہے جن کی آب و تاب سے خاکی سینے میں دھک دھک کرنے والے دل کی گہرائیاں منور ہو جاتی ہیں۔ وہ سچا حسن پرست ہے۔۔۔ بائرنـ: وہ بائرن جس کے جام دل میں حوادث کی آتش سیال بڑی موجیں لیتی ہے، وہ جہان شعر کا نپولین اعظم، وہ انقلابات کائنات کے تذکروں سے شعر کی دنیا میں ہلچل ڈال دینے والا وہ سچا حریت پسند ہے۔ سکاٹ: وہ انگلستان کی شجاعت کہنہ کا مصور، شولری کی پر ہیبت تصویریں دماغ کے صفحے پر مرتسم کر دیتا ہے۔ وہ جنگ و جدل کی دنیاؤں کا سب سے بڑا نظر باز ہے۔۔۔۔ ملٹن: پارلیمان کے شیدائیوں پر طعن کرنے والا ملٹن، فردوش کی گم شدگی و باز گشتگی کا داستان گو، اس کی شوکت، اس کا وقار مسلم ہے۔ شیکسپیئر: وہ صاحب نظر، صاحب دل، مزاح میں فرد، سنجیدگی میں مثال، محفلوں کی رنگینیاں، اپنی آنکھ کی ڈبیا میں چھپا کر لے آنے والا، بیابانوں کی وحشت اپنے دل کے عمق میں گم کر لینے والا، جس کی آنکھ پر عرصہ جنگ کے صد ہا منظر عریاں ہیں جس کے دل میں انسانی کرب کی دکھن کا نازک سے نازک احساس موجود ہے۔شاہوں کی کمزوریوں سے باخبر غریبوں کی قوت سے خبردار، کائنات کا راز دان، مزاج انسان کا نبض شناس، وہ دنیا کا سب سے بڑا کردار نگار ہے۔ گیٹے: وہ المانوی فلک کا رخشندہ ستارہ، اپنے عہد کی حشر آفریں فضا میں فلسفے اور خیال کی شعاعوں سے دل کے کاشانوں کو روشن کرنے والا وہ شیکسپیئر کا ہمعصر، وہ المانیوں میں زندگی کی لہر دوڑا دینے والا وہ مغرب کا سلامی، یورپ کی ظلمتوں میں وہ ایک تابندہ ستارہ ہے جس میں ہمارا عکس ملتا ہے۔ غالبـ: وہ ہندی عظمت کی راجدھانی یعنی جہاں آباد کا نغز گو شاعر، محشرستان دل کے ہنگاموں کو نوک زباں پر رقصاں کر دینے والا، طلسم زار حیات کو جنت نظر اور زندگی کی راگ کو فردوس گوش بنا دینے والا، آہ! اس کی شیریں کہانیاں، سمجھتے بھی ہو کس دور کی ہے۔ جب ہماری ہزار سالہ عظمت کے لب پر آخری ہچکی تھی۔ وہ غالب، وہ آرزوؤں کے خون پر دل خون کر لینے والا۔ ٹیگور: وہ سکون ابدی کا رسیا، وحدانیت کے گیت گانے والا، جس کا ترنم دکھ بھری زندگی کے نندیالوں کو لوری دیتا ہے۔ وہ ویدانت کا پرستار ہے۔ شلر: وہ منتہائے خیال تک پرواز کر جانے والا، وہ جنون کو فرزانگی کہنے والا، اس کا شمار ہمیشہ وسعت دل رکھنے والوں میں ہو گا۔۔۔۔۔ ڈانٹے: حسن کی پرستش پر مر مٹنے والا ڈانٹے، وہ تصور کی جلو میں آسمانوں کی سیر کرنے والا، وہ جس کے جذبہ عشق نے ایک گمنام عورت کو زندہ جاوید بنا ڈالا۔ اس کا تصور بے شک قابل عظمت ہے۔ ہومر: جہان شعر کا باوا آدم، فردوس خیال کا پہلا مکین، وہ محاربے کی تصویر کھینچ کر دلوں میں زلزلے ڈال دیتا ہے۔ رومی: وہ تعریف سے ماوراء صوفی، حافظ و خیام، وہ مے ناب کے پرستار، نظامی و فردوسی، وہ بزم و رزم کے یکہ تاز، سعدی وہ ایران کا شیخ۔۔۔۔۔ مادر ایران کو اپنے فرزندوں پر فخر ہے۔ مگر اسلام۔۔۔۔ اے دوستو!۔۔۔۔ اسلام، بیک وقت قوم، وطن، آرٹ، فلسفہ، فطرت، حسن، شجاعت، انقلاب، حریت، تصوف سب کچھ ہے اور ان سب سے بھی فزوں تر۔۔۔۔ اقبال اسی اسلام کا شاعر ہے۔۔۔۔ اسلام ہر شاعری سے بلند ہے۔۔۔ اور اسی لیے۔۔۔۔۔ اقبال دنیا کے سب شاعروں سے بلند پائندہ باد اقبال! زندہ باد اقبال!! اے اسلام کے شاعر۔ ٭٭٭ حسن عقیدت(حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ کی ایک غیر معروف رباعی) محمد عمر نور الٰہی سال اور اس کے متعلقات کی تفریح جانے دیجئے اور انجمن حمایت اسلام کے اس سالانہ جلسہ کا تصور کیجئے، جس میں ڈاکٹر حافظ نذیر احمد، مولانا حالی، میرزا ارشد گورگانی، مولوی عبدالمجید دہلوی آخری بار اس قومی دربار میں جمع ہوئے۔ لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا مجمع حکیمان امت سے اپنے مرض کا علاج مانگ رہا تھا۔ چبوتری پر عالم اسلام کا بہترین دل و دماغ جمع تھا یہ وہ عہد تھا کہ میاں سر محمد شفیع مرحوم، شیخ عبدالقادر، میاں فضل حسین جو بعد میں افق اسلام پر آفتاب بن کر چمکے۔ ہنوز اپنے طلوع کا خواب دیکھ رہے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد جن کی سحر بیانی اور جادو نگاری کی اقصائے عالم میں دھوم ہے۔ اس وقت دو بول بولنے میں چھوئی موئی ہوئے جاتے تھے۔ وہ حسن نظامی آج جن کی شرکت ہر مجلس سیاسیات و ادب کی زینت خیال کی جاتی ہے۔ ابھی اگرئی بانا اور کانچ کے گجروں کے چکر سے نہ نکلے تھے۔ یہ سب حضرات اس جلسہ میں موجود تھے۔ عصر کے قریب انجمن کا ایک اجلاس میاں محمد شاہ دین ہمایوں مرحوم کی صدارت میں شروع ہوا اور اس کے دوران میں پنجاب کے ایک شاعر نے اپنی نظم پڑھی۔ دستور یہ تھا کہ جب کوئی شاعر کوئی بولتا ہوا شعر پڑھتا تو اس کی داد انجمن کو عطیہ کی شکل میں دی جاتی۔ چنانچہ اس شاعر کے ایک شعر پر حضرت حالی مغفور نے دس روپیہ کا ایک نوٹ مرحمت فرمایا۔ صحن نعرۂ تحسین، تالیوں سے گونج اٹھا اور شاعر کی پگڑی ’’ بآفتاب رسید‘‘ کی مصداق ہو گئی۔ اس فخر بجا کے جوش میں شاعر نے پکار کر کہا کہ: ’’ صاحبان ! اب اس سے بڑھ کر داد کی معراج کمال کیا ہو گی کہ خود خدائے سخن نے میرے کلام کی داد دی ہے۔‘‘ شاعر بیچارے کے شان گمان میں بھی نہ ہو گا۔ مگر یاروں نے اسے دیگر شعراء پر چوٹ آنا ظاہر کرنا شروع کیا اور مجلس میں اس کا اچھا خاصہ چرچا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بقولیکہ شمع مولانا حالی کے آگے آئی، مگر ضعف پیری کا آواز پر قبضہ ہو چکا تھا اور اس کا دو قدم تک پہنچنا محال تھا۔ جو کان دن بھر سے اس آواز کی سماعت کے لئے بیقرار تھے اس مایوسی سے کلبلا اٹھے۔ ہر شخص حکومت چاہتا تھا اور اس کے لیے اس کی کوشش خود شور و غل کی موجب ہو جاتی تھی۔ آخر جلسہ میں کچھ ہمہمی سی پیدا ہو گئی۔ تو شیخ عبدالقادر صاحب نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ حضرات ان کلمات قدسیہ کو تبرکاً جس قدر سن سکتے ہیں سن لیں اور بعد میں شیخ محمد اقبال صاحب اسی نظم کو پڑھ کر سنائیں گے۔ حالی کی نظم اور اقبال سنائے۔ سونا پر سہاگہ! لوگوں پر ان کلمات نے جادو کر دیا اور بت بن کر بیٹھ گئے۔جب حالی صاحب نے نظم ختم کی تو شیخ صاحب گیلری سے اتر کر سٹیج پر تشریف لائے اور نظم کو پڑھنے سے پیشتر یہ رباعی ارشاد فرمائی۔ سبحان اللہ! چار مصرعوں میں قصیدہ بند کر دیا۔ مشہور زمانہ میں ہے نام حالی معمور نے حق سے ہے جام حالی میں کشور شعر کا نبی بنوں گویا نازل ہے مرے لب پہ کلام حالی ٭٭٭ میر۔ غالب۔ اقبال حامد حسن قادری انگلستان کے ایک مشہور شاعر ڈرائڈن نے دوسرے زندہ جاوید شاعر ملٹن کی تعریف میں تین شعر لکھے ہیں۔ تحسین کا پیرایہ بالکل جدید ہے اور حسن تخیل کا نہایت حسین نمونہ۔ ان کا ترجمہ درج ذیل ہے: ترجمہ:’’ تین بعید زمانوں میں تین شاعر یونان، اٹلی اور انگلستان میں پیدا ہوئے۔ پہلا رفعت تخیل میں سبقت لے گیا، دوسرا شوکت و شان میں، اور آخری دونوں میں قدرت اس پر اضافہ نہیں کر سکتی تھی، اس لیے تیسرے کو بنانے کے لیے اس نے پہلے دونوں کو ایک ذات میں جمع کر دیا۔‘‘ میں نے ڈرائڈن کی تقلید میں یہی طرز تحسین اختیار کیا ہے۔ اس کی نظر عرب و ایران کی شاعری پر نہ تھی اس لیے تمام دنیا نے شاعری میں سے تین شاعر منتخب کرتے ہیں۔ میرے لیے اتنی جسارت مشکل ہے البتہ ہندوستان ہی کے تین اردو شاعروں کا انتخاب کیا ہے۔ مجھے محاسن شاعری کے حصر میں ڈرائڈن سے اختلاف ہے۔ میرے اشعار یہ ہیں: تین شاعر مختلف اوقات میں پیدا ہوئے جن کے فیض طبع نے اردو کو گنج زر دیا اک اثر میں بڑھ گیا اک رفعت تخلیل میں تیسرے کی ذات میں دونوں کو حق نے بھر دیا کائنات شاعری ہیں بس یہی دونوں کمال تیسرے میں اس لیے دونوں کو یک جا کر دیا تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (علامہ اقبال کے انگریزی خطبات مدراس) پروفیسر نذیر نیازی تشکیل جدید الٰہیات (Reconstruction of Religious Thought in Islam) حضرت علامہ سر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جن کو جناب ممدوح نے انجمن اسلامیہ مدراس کی دعوت پر اواخر ۱۹۲۹ء میں مرتب فرمایا تھا۔ اصل خطبات انگریزی زبان میں ہیں اور ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا کتابی شکل میں طبع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر سید نذیر نیازی صاحب نے ان کا ترجمہ حضرت علامہ کے ارشاد پر اردو میں کیا ہے جو بعض موانع کی وجہ سے اب تک شائع نہیں ہو سکا۔ ہمیں یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی ہے کہ ان کی طباعت و اشاعت کا کام اب عنقریب شروع ہو جائے گا) ابھی چند سال ہوئے مشہور انگریز مستشرق اے آر نکلسن نے جریدہ ’’ اسلامیہ‘‘ کی ایک اشاعت میں پیام مشرق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ اقبال کے سمجھنے کے لیے اسی قدر غور و تفکر وسعت مطالعہ اور عمیق احساسات کی ضرورت ہے، جس کا اظہار عالم اسلامی کی اس ممتاز ترین فاضل کے ایک ایک لفظ سے ہوتا ہے۔‘‘ جن لوگوں کو علامہ ممدوح کے کلام سے تھوڑا بہت شغف رہا ہے وہ پروفیسر نکلسن کی اس رائے سے اتفاق کریں گے۔ حقیقت میں ڈاکٹر صاحب کی شاعری کا مطالعہ کرنا دراصل ایک نہایت ہی بلند اور پر از حقیقت ذہنی تحریک کا جائزہ لینا ہے، جس کی ابتداء ان کی ذات سے ہوتی ہے اور جس میں ہماری مردہ اور بے روح قوم کی نشاۃ ثانیہ کے لامتناہی امکانات مضمر ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس ذہنی تحریک کے بنیادی افکار ایک مرتبہ شکجل میں ہمارے سامنے ہیں ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ بظاہر ایک مختصر سا مجموعہ ہے جس میں فلسفہ و کلام کے چند اہم مسائل سے بحث کی گئی ہے۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک نہایت ہی بدیع اور مجتہدانہ تصنیف ہے، جس میں علامہ ممدو ح نے عصر حاضر کی بے ربط اور منتشر زندگی میں حقائق حیات کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے اور جس کے انقلاب آفریں نتائج کا اہل نظر کو ابھی سے احساس ہے۔ الٰہیات اسلامیہ کی تاریخ میں ’’ تشکیل جدید‘‘ کی نظیر شاید ہی مل سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علمائے اسلام نے مذہب کی عقلی تعبیر اور اس کے لیے حیات انسانی میں ایک مستقل اور پائیدار جگہ حاصل کرنے میں نہایت قابل قدر کوششیں سر انجام دی ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جس پر ان کے پیشرو گامزن تھے۔ یہ ایک مسئلہ حقیقت ہے کہ دنیائے قدیم میں فلسفہ و حکمت کی باقاعدہ تشکیل سر زمین یونان میں ہوئی۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اہل یونان کی فلسفیانہ بلندی کے مقابلہ میں ان کا مذہبی تخیل نہایت پست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب سے مایوس ہو کر حکمائے یونان نے فلسفہ کے دامن میں پناہ لی اور اس وقت کی وشنی معتقدات کو بجز ان کے عقلی تعبیر کے صحیح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح یونانی اور رومی تمدن کی جو عمارت طیار ہوئی اس میں مذہب کو کوئی مرکزی جگہ حاصل نہیں تھی نہ ان نیم مذہبی اخلاقی نظامات پر جن کا تعلق گنتی کے چند افراد سے تھا اور جو زیادہ تر فلسفہ و تصوف کے امتزاج کا نتیجہ تھے۔ کسی صحیح مذہبی شخصیت کا اثر تھا لہٰذا عامتہ الناس بدستور اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم رہے۔ آگے چل کر جب مذہب عیسائیت نے ایک تیز رو کی طرح بلاد مغرب کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا جولانگہ بنایا اور سامی تخیلات میں یونانی افکار کی آمیزش ہوئی تو مسیحی علماء نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ وہ اپنے دین کا اظہار عقائد کی شکل میں کریں۔ گویا تدوین عقائد کی تحریک یونانی اثرات کا نتیجہ تھی اور سوا حل بحر روم کے قدیم مراکز تمدن میں جہاں کبھی جستجوئے علم کا چرچا رہتا تھا۔ اب مسیحی عقائد پر زبردست بحثیں ہونے لگیں۔ یہ ماحول تھا جس میں علمائے اسلام دینی غور و فکر اور فلسفہ و حکمت کی دنیا سے آشنا ہوئے اور بعض ایسے اسباب کی بنا پر جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ ان کی توجہ بھی تدوین عقائد کی طرح منعطف ہوئی۔ 1؎ رفتہ رفتہ علم کلام کی بنا پڑی اور مذہب و حکمت کے دفتر میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ ایسا کرنے میں اگرچہ آئمہ اسلام نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور جودت طبع کا ثبوت دیا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ عقل و عقیدہ کے باہمی تضاد اور واردات انسانی کے مختلف مظاہر کی صحیح حقیقت معلوم کرنے میں جس نے قوموں کے ذہن کو ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں بجا طور پر پریشان رکھا ہے۔ انہوں نے قرآن مجید کو بہت کم اپنا رہنما بنایا۔ ان کی توجہ زیادہ تر فلسفہ یونان پر رہی۔ اس سے قدرتاً یا تو فلسفہ و مذہب کی تطبیق کی کوششیں شروع ہوئیں اور دین کے اٹل اور دائمی حقائق اپنی تصدیق و تشبیت کے لیے ایک متحرک غیر قطعی اور تغیر پذیر نظام تصورات کے محتاج ہو گئے یا فکر اور عقل کی دنیا کو مذہب کے لیے بے نتیجہ مان لینے سے واردات انسانی کے ان دو نہایت اہم اور فطری مظاہر میں ایک مستقل اور ابدی اختلاف پیدا ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ مفکرین اسلام کی یہ روش تعلیمات قرآنی کے کسی طرح مطابق نہیں تھی۔ جس نے ہر شخص کو آیات الٰہیہ پر تفکر و تدبر کی دعوت دی ہے۔ الٰہیات اسلامیہ پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے علامہ ممدوح نے کس قدر صحیح فرمایا ہے: ’’ انہوں نے قرآن پاک کا مطالعہ بھی فلسفہ یونان ہی کی روشنی میں کیا۔ یہ امر کہ تعلیمات قرآنی کی روح یونانیت کے سرا سر منافی ہے ان پر کہیں دو سو سال کے بعد منکشف ہوا اور اس وقت بھی پورے طور پر نہیں۔ بہر کیف یہ اسی انکشاف کا نتیجہ تھا کہ فلسفہ یونان کے خلاف ایک ذہنی رد عمل شروع ہوا، جس کی صحیح اہمیت کا اندازہ آج تک نہیں کیا گیا۔ یہ کچھ اس بغاوت اور کچھ غزالی کے خیالات کا تقاضا تھا کہ امام موصوف نے مذہب کی بنا فلسفیانہ تشکیک پر رکھی حالانکہ ان کا یہ خیال نہ قرآن پاک کی تعلیمات کے بالکل مطابق ہے اور نہ اس کو مذہب کی کوئی مضبوط اور پائیدار اساس ٹھہرانا ممکن ہے۔۔۔۔ اشاعرہ میں جو لوگ نسبتاً زیادہ تعمیری دل و دماغ رکھتے تھے وہ صحیح راستے پر گامزن تھے۔۔۔ لیکن اشعری تحریک مقصد صرف اس قدر تھا کہ وہ منطق یونانی 1؎ یہ امر کہ مسلمانوں کے اندر مذاہب دینیات کی ترتیب و تدوین کا خیال کیونکر پیدا ہوا نہایت درجہ متنازعہ فیہ ہے مستشرقین نے اس کو مسیحی اثرات کا نتیجہ ٹھہرایا ہے اور علمائے اسلام کی رائے بالعموم یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری اہل ایران پر عائد ہوتی ہے۔ راقم الحروف کو دونوں نظریوں سے اختلاف ہے جس کا اظہار رسالہ جامعہ اشاعت اکتوبر ۱۹۲۹ء میں ہو چکا ہے۔ ہی کے حربوں سے شریعت کی حمایت کرے۔ برعکس اس کے معتزلہ کا تصور یہ تھا کہ مذہب ایک مجموعہ عقائد و مسلمات ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھے کہ مذہب کا وجود حیات کے لیے ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حقیقت مطلقہ کے ادراک میں غیر تصوری سے کوئی کام نہیں لیا۔۔‘‘ خوش قسمتی سے عین اس وقت جب دین اسلام اس ’’ بلند بانگ مگر بے روح عقلیت‘‘ کا شکار ہو رہا تھا۔ امام غزالی علیہ الرحمتہ پیدا ہوئے اور ان کی فلسفیانہ تشکیک نے اس خوفناک مرض کا ہمیشہ کے لیے ازالہ کر دیا۔ لیکن چونکہ ’’ امام موصوف نے فلسفہ و حکمت سے مایوس ہو کر تصوف کا رخ کیا تھا۔ لہٰذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ باطنی واردات کے اندر مذہب کا ایک مستقل سرمایہ موجود ہے۔ اس طرح انہوں نے یہ ثابت کیا کہ مذہب کو ما بعد الطبیعیات اور سائنس سے الگ اپنا آزادانہ وجود قائم رکھنے کا حق حاصل ہے۔ امام موصوف کو یقین ہو گیا تھا کہ فکر ایک متناہی اور ناقص شے ہے۔ اس سے مجبوراً انہیں فکر اور وجدان میں ایک حد فاضل قائم کرنا پڑی۔ انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ فکر اور وجدان آپس میں مربوط ہیں اور ان کا نشوونما ایک تہہ ہوتا ہے۔ اگر فکر سے نقص اور متناہیت کا اظہار ہوتا ہے تو محض اس لیے کہ فکر زمان قار سے وابستہ ہے۔ یہ خیال کہ فکر کے لیے متناہی ہونا لازمی ہے۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ہم اس کی وساطت سے لامتناہی تک پہنچ سکیں۔ اس غلط نظریے پر مبنی ہے جو ہم نے علم کی دنیا میں فکر کے طریق ادراک کے متعلق قائم کر رکھا ہے۔‘‘ لیکن جہاں علامہ ممدوح نے اس امر کو تسلیم نہیں کیا کہ فکر سے لامحالہ نقص اور متناہیت کا اظہار ہوتا ہے وہاں انہوں نے ’’ تشکیل جدید‘‘ کی بنا پر ان استدلالات پر بھی نہیں رکھی جو متکلمین کا سرمایہ افتخار ہیں اور جن کی ’’ بے تمکینی‘‘ ایک عالم میں مسلم ہے۔ فلسفہ کا یہ کام نہیں کہ وہ حقائق مذہب کا ثبوت بہم پہنچائے اس کی غرض و غایت آزادانہ تحقیق ہے۔ چنانچہ ابتدائے کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے جو نہایت ہی مختصر مگر دلپذیر دیباچہ رقم فرمایا ہے۔ اس میں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ: ’’ فلسفیانہ غور و فکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں۔ جوں جوں علم میں اضافہ ہوتا ہے فکر کی نئی نئی راہیں منکشف ہوتی جاتی ہیں۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ آگے چل کر ہم اس کتاب کے نظریوں کے مقابلہ میں اور بہتر نظریے قائم کر سکیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم نہایت احتیاط کے ساتھ فکر انسانی کی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اس کے متعلق آزادانہ تنقید کا رویہ قائم رکھیں۔‘‘ دراصل فلسفہ اور مذہب کی باہمیت تطبیق یا ان کی آویزش کا مسئلہ ایک قسم کا فتنہ ہے۔ جس سے کوئی مفید مطلب نتیجہ مرتب نہیں ہو سکتا۔ اس سے یا تو انسان ان اصنام خیالی کا شکار ہو جاتا ہے جن کو عقل کا آذر خود اپنے لیے طیار کر لیتا ہے یا واردات مذہبی میں اس کی نگاہیں سطح سے آگے نہیں بڑھتیں اور وہ مغز کو پوست سے تمیز نہیں کر سکتا۔ جن لوگوں نے حکمت جدیدہ کا مطالعہ کیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ عصر حاضر میں مشہور جرمن فلسفی کانٹ وہ پہلا شخص تھا جس نے عقل انسانی کی حدود کو متعین کیا اور مذہب کو اس امر کا موقعہ دیا کہ وہ فلسفہ اور سائنس سے الگ اپنا مستقل وجود قائم رکھے۔ا س وقت سے لے کر اب تک اگرچہ مغرب کا مطمح نظر برابر وسیع ہو رہا ہے اور جدید فلسفہ اور سائنس کے مزاج پر مذہبیت کا غلبہ ہے۔ لیکن ابھی تک اہل یورپ کا ذہن اس ترتیب اور ہم آہنگی سے عاری ہے۔ جس سے قوموں کے نظام افکار میں صحیح ترکیب اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ محض اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زیر نظر خطبات آج کل کے غور و فکر کی دنیا میں ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہاں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ علامہ ممدوح کانٹ کی طرح اس بات کے قائل نہیں کہ عقل محض کے لیے ذات الٰہی کا ادراک نا ممکن ہے جیسا کہ ہم پہلے ظاہر کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف فکر اور وجدان ک ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں سمجھتے کہ اس معاملہ میں برگسان کے ہمنوا ہیں کہ ’’ وجدان فکر ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔‘‘ ہمیں صرف اس عقل کا قائل ہونا چاہیے جو ’’ ادب خود وہ دل‘‘ ہو۔ اور یہ اس لیے کہ انسان ایک بے پایاں شخصیت کا مالک ہے اور گو اس کے مظاہر کی انتہا نہیں اور اس کی تفسیریں بے شمار۔ لیکن اگر کوئی شخص محض ایک ’’ نگہ آشنا‘‘ پیدا کر لے تو اس کی حقیقت کا فہم کچھ بھی مشکل نہیں۔ علامہ ممدوح کی نظر بھی ایک خاص حقیقت پر ہے۔ جس کو انہوں نے مختلف صورتوں میں ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے جس چیز کی ترجمانی اپنی شاعری میں کی ہے اسی کو تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں فلسفہ کی زبان میں ادا کی ہے ’’ جاوید نامہ‘‘ میں وہ خود فرماتے ہیں: من بطبع عصر خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف حرف پیچا پیچ و حرف نیش دار تاکنم عقل و دل مرداں شکار حرف تہ داری بانداز فرنگ نالہٰ مستانہ از تار چنگ اصل ایں از ذکر واصل آں ز فکر اے تو بادا وارث ایں فکر و ذکر آبجویم از دو بحر اصل من است فصل من فصل است وہم وصل من است تا مزاج عصر من دیگر فتاد طبع من ہنگامہ دیگر نہاد لہٰذا اگر شعر و غزل کی دلکش وادیوں کو چھوڑ کر شاعر نے فلسفہ کے خشک میدان میں قدم رکھا ہے تو محض اس لیے کہ ’’ بعض طبائع ایسی ہیں کہ جب تک وہ اس خاص قسم کے داخلی محسوسات کا جن پر مذہب کی بنا قائم ہے۔ اسی طرح اپنے اندر احساس کر لیں جس طرح ان کی حیات کے دوسرے اعمال ہیں وہ اس بات کے اہل ہی نہیں ہو سکتے کہ ایک بیگانہ عالم کو اپنا جزو ہستی بنائیں۔ مزید برآں آجکل کے انسانوں کی نظر زیادہ تر محسوسات پر ہے۔ لہٰذا وہ ان واردات کے اور بھی زیادہ ناقابل ہو گئے ہیں بالخصوص اس لیے کہ ان کا محض ایک فریب یا۔۔۔ ثابت ہونا بھی ممکن ہے۔ آجکل ہمیں ایک ایسے منہاج علم کی ضرورت ہے جس میں عضویات پر زیادہ اصرار نہ کیا جائے بلکہ نفسیاتی لحاظ سے وہ ان طبائع کے زیادہ موافق ہو جو محسوسات کی عادی ہو چکی ہیں۔ چونکہ فی زمانہ اس قسم کا کوئی منہاج موجود نہیں لہٰذا ہمارا یہ مطالبہ سرا سر جائز ہے کہ مذہب کی بدولت ہمیں جو علم حاصل ہوتا ہے اس کا عقلاً سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘ لہٰذا تشکیل جدید کی اشاعت سے علامہ ممدوح نے وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ پانچو برس کے جمود کے بعد عالم اسلامی نے دفعتہ ایک کروٹ لی ہے اور نوجوانان اسلام جدید علم و حکتم کے زیر اثر نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ’’ اس امر کی آزادنہ تحقیق از بسکہ ضروری ہے کہ مغرب کا علم و حکمت کس نتیجے پر پہنچا ہے اس کی نوعیت کیا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس کے ماتحت الٰہیات اسلامیہ پر نظر ثانی کر سکیں یا اپنے فلسفہ کی تشکیل جدید کا بیڑا اٹھائیں۔‘‘ ادھر مغرب کی دنیا بھی انقلاب سے خالی نہیں رہی جہاں انسانی فکر اور تجربات میں نہایت دور رس تبدیلیاں رونما رہی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہماری زندگیاں بہت کچھ بدل گئی ہیں۔ آج ہمیں کس قدر فرائض در پیش ہیں جن کا تعلق ہماری زندگی سے نہایت گہرا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ہم اپنی زندگی کے ماوراء پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس چیز کی طلب ہے جو نہ تو ابھی متعین ہوتی ہے نہ معلوم ہم مختلف قوتوں کے ایک گرداب میں الجھ گئے ہیں اور جیسا کہ ان ادوار کا قاعدہ ہے جن میں میں جذبات کا ہیجان ہوتا ہے۔ ہماری زندگی مذہبی عناصر سے معمور ہے۔ اس کا اظہار رہ رہ کر ادب اور فنون لطیفہ میں ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے لیے یہ زمانہ تغیر و انقلاب کا ہے’’ اہل جرمنی کی یہ تصویر جس کو ولہم و مڈل بانڈ نے اپنی مشہور کتاب ’’ مقدمہ فلسفہ‘‘ سے آج سے اٹھارہ سال پیشتر طیار کیا تھا۔ یورپ کی موجودہ حالت سے کچھ بھی مختلف نہیں اور حضرت علامہ نے ان تمام مظاہر کا جائزہ لیتے ہوئے حیات انسانی کا جو مربوط و متوازن تصور پیش کیا ہے وہ مشرق و مغرب کے لیے یکساں طور پر ایک احسان عظیم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پہلا نظام الٰہیات ہے جو خالصاً قرآن پاک کے مطالعہ پر مبنی ہے اس لیے کہ علامہ ممدوح نے محسوسات و مدرکات انسانی کی تعبیر میں ہر جگہ قرآن مجید کے اس اشارے کا تتبع کیا ہے کہ ہمارے ذہنی او رخارجی محسوسات دراصل ایک ہی حقیقت کی مختلف آیات ہیں جو اول و آخر بھی ہے اور ظاہر و باطن بھی۔‘‘ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ اس مختصر سے مضمون میں قارئین نیرنگ خیال کی توجہ ان تمام مباحث کی جانب منعطف کرائیں جن کا تذکرہ ’’ تشکیل جدید‘‘ میں موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سر دست اس کتاب کی سہ گانہ خصوصیات کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہو گا جن کا تعلق (۱) اسلام (۲) فلسفہ اور (۳) مذہب سے ہے۔ (۱) جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے۔ خطبات زیر نظر کا موضوع الٰہیات اسلامیہ ہے لیکن اس کی تشکیل نو میں علامہ ممدوح نے اس امر کو فراموش نہیں کیا کہ بلحاظ ایک مظہر تمدن اسلام کا جامع تصور کیا ہو گا۔ اس طرح عقلی اعتبار سے انہوں نے تمدن اسلامی کا جو وسیع اور ہمہ گیر تخیل قائم کیا ہے۔ اس میں اس کے مختلف اجزاء کے تاریخی نشوونما کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ پھر استقصائے مسائل میں ان کا معیار بحث اس قدر اعلیٰ اور ارفع ہے کہ اس کی مثال نہ صرف الٰہیات اسلامیہ بلکہ اس کے کسی دوسرے ذخیرے سے بھی نہیں ملتی۔ ابتدائے کتاب کے چار خطبات کو چھوڑ کر جن کا موضوع علی الترتیب (۱) علم اور مذہبی واردات یعنی وہ علم جو اس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور وہ علم جس کا ماخذ باطنی مشاہدات، وحی و الہام اور کشف ہے (۲) مذہبی واردات کا فلسفیانہ معیار (۳) ذات الٰہی کا تصور اور حقیقت عبادت (۴) انائے انسانی (ایفو) مسئلہ جبر و قدر اور حیات بعد الممات ہے۔ آخری دو خطبوں میں علامہ ممدوح نے تمدن اسلامی کی روح او راس کے زندگی بخش اور متحرک عنصر یعنی مسئلہ اجتہاد سے بحث کی ہے۔ ان کی رائے میں صوفیہ کے صحیح المشرب سلسلوں نے مذہبی واردات کو اسلامی رنگ میں بہت کچھ ترقی دی ہے۔ مثال کے طور پر مسئلہ مکان و زمان ہی کو لیجئے جس کا صحیح ادراک مذہب، فلسفہ اور تمدن ہر ایک کے لیے یکساں طور پر ضروری ہے۔ اس میں اسلام کو اس بحث سے بے حد انہماک رہا ہے۔۔۔۔ ان کی توجیہہ ہمیشہ اس مسئلے پر رہی کچھ اس لیے کہ قرآن پاک کے نزدیک لیل و نہار کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی وقیع تریں آیات میں سے ہے اور کچھ اس لیے کہ ایک مشہور حدیث میں دہر کو ذات الٰہی کا مرادف ٹھہرایا گیا ہے۔ اکابر صوفیہ میں بعض کا خیال تھا کہ لفظ دہر میں بتہ سے باطنی اسرار پوشیدہ ہیں۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے نزدیک دہر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے۔۔۔ اسلامی فلسفہ کی تاریخ میں سب سے پہلے اشاعرہ نے یہ کوشش کی کہ وہ عقلی اعتبار سے زمانے کی ماہیت پر نظر ڈالیں۔ ان کی رائے میں زمانہ باہمد گر منفرد آفات کا ایک تواتر ہے۔ گویا ہر دو آفات یا لمحات زمانہ کے درمیان ایک طرح کا خلائے زبانی موجود رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مضحکہ خیز تخیل کا باعث فقط یہ ہے کہ اشاعرہ نے زمانے پر محض خارجی حیثیت سے نظر ڈالی۔ انہوں نے یونانی فلسفہ کی تاریخ سے مطلق فائدہ نہیں اٹھایا جو خود اس غلطی کا شکار ہو گئے تھے۔۔۔ عرب ایک عملی قوم تھے اور وہ یونانیوں کی طرح زمانے کو بے حقیقت نہیں ٹھہرا سکتے تھے۔۔۔ بایں ہمہ ماہیت زمانہ کی تحقیق میں اشاعرہ نے آج کل کے علماء کی طرح اس کے نفسیاتی تجربے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لہٰذا وہ اس کے داخلی مظہر کے ادراک سے قاصر رہے۔ آگے چل کر مسلمان علما نے ان دقتوں کو بخوبی محسوس کر لیا تھا جو زمانے کے اس تصور سے پیدا ہوتی ہیں۔ ملا جلال الدین دوانی نے الزوراء میں لکھا ہے کہ اگر ہم زمانے کو ایک مخصوص مقدار فرض کر لیں جس پر ایک متحرک جلوس کی طرح جملہ حوادث رونما ہوتے ہیں اور اس مقدار کو بجائے خود ایک وحدت ٹھہرائیں تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ زمانہ فعالیت الٰہی کی ایک کیفیت ہے جو اس کی تمام بعد میں آنے والی کیفیات پر حاوی ہے۔ لیکن ایک ساتھ ہی ملانے یہ تنبیہہ کر دی ہے کہ اگر غور سے کام لیا جائے تو زمانے کا تواتر محض اضافی ہے۔۔ مشہور صوفی شاعر عراقی نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے نزدیک جس طرح مدارج حیات مختلف ہیں اسی طرح زمانے کی شکلیں بھی لا تعداد ہیں۔۔۔۔ بڑے بڑے اجسام کا زمانہ جو گردش افلاک سے پیدا ہوتا ہے ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔۔۔ غیر مادی اشیاء کا زمانہ بھی سلسلہ وار ہے۔ لیکن بڑے بڑے اجسام کا ایک سال ان کے ایک دن کے برابر ہے۔۔۔۔ اس طرح بتدریج ہم زمان باری تعالیٰ تک پہنچتے ہیں جو مرور سے قطعاً آزاد ہے۔۔۔۔ وہ ابدیت سے بھی بالاتر ہے نہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔۔۔۔ علمائے اسلام میں امام فخر الدین رازی نے سب سے زیادہ اس مسئلے کے متعلق کاوش اور جستجو سے کام لیا ہے لیکن ان کو اعتراف ہے کہ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ تمدن اسلامی پر بھی ہمیشہ اس خیال کا غلبہ رہا کہ زمانہ ایک حقیقت ہے اور زندگی نام ہے زمانے کے اندر ایک مسلسل حرکت کا: ’’ زندگی کا یہی تصور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ کا سب سے اہم پہلو ہے۔ فلنٹ نے غلط نہیں کہا کہ افلاطون ارسطو اور اگسٹائین کا یہ منصب نہیں کہ وہ اس کی ہمسری کا دعویٰ کریں۔ باقیوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ ابن خلدون کا یہ نظریہ ہمارے لیے ایک خاص اہمیت رکھت اہے۔ اس لیے کہ اس کے ماتحت تاریخ کا تصور یہ ہو گا کہ وہ ایک مسلسل حرکت ہے زمانے کے اندر گویا وہ فی الواقعی ایک تخلیقی حرکت ہے۔ ایسی حرکت نہیں جس کا راستہ پہلے ہی سے متعین ہو۔ ابن خلدون کو ما بعد الطبیعیات سے مطلق دلچسپی نہیں تھی لیکن زمانے کے متعلق اس نے جو نظریہ قائم کیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بجا طور پر اس کو برگسان کا پیشرو ٹھہرا سکتے ہیں۔ قرآن پاک کا یہ کہنا کہ اختلاف لیل و نہار حقیقت مطلقہ کی جس سے ہر وقت ایک نئی شان کا اظہار ہوتا رہتا ہے ایک آیت ہے، اسلامی ما بعد الطبیعیات کا یہ رحجان کہ زمانے کو ایک خارجی وجود تسلیم کیا جائے۔ ابن مسکویہ کا ارتقائے نظریہ حیات اور آخر الامر بیرونی کا اس نتیجے پر پہنچنا کہ فطرت ایک عمل کے تکوین کا۔ یہ سب خیالات تھے جو ابن خلدون کو ورثے میں ملے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ جس تمدن کا وہ خود ایک زبردست مظہر تھا اس نے اس کی حقیقت کو خوب سمجھ لیا تھا۔ یہ گویا قرآن مجید کی قطعی فتح تھی۔ یونانیت پر اس لیے کہ اہل یونان یا تو زمانے کی حقیقت کے قائل ہی نہیں تھے جیسا کہ زینو اور افلاطون کا عقیدہ تھا یا ان کے نزدیک زمانہ ایک دائرے کی طرح گردش کرتا تھا جیسا کہ ہر اقلیطس اور رواقئین کا خیال ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ افسوس ہے کہ یہ مختصر سا مضمون اس امر کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ ہم یہاں ان تمام بحثوں کا اعادہ کریں جو علامہ ممدوح نے زمان و مکان کے متعلق فرمائی ہیں۔ حاصل کلام یہ کہ: ’’ خدا تعالیٰ کے لیے تخلیق کوئی مخصوص حادثہ نہیں جس کا ایک ما قبل اور ایک ما بعد ہو ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کائنات ایک قائم الذات حقیقت ہے جس کا وجود اللہ تعالیٰ کی ذات سے الگ ہے زمان و مکان اور مادہ وہ ذرائع ہیں جن کے ماتحت فکر انسانی قادر مطلق کی آزادانہ تخلیقی قوت کا تصور کرتی ہے۔ وہ کوئی مستقبل حقیقتیں نہیں بلکہ حیات ایزدی کے ادراک کے عقلی طریق ایک دفعہ حضرت بایزید بسطامی کے حلقہ ارادت میں تخلیق کا مسئلہ چھڑ گیا۔ ان کا ایک مرید۔۔۔۔ کہنے لگا کہ ایک زمانہ تھا جب سوائے خدا کے کچھ نہ تھا۔ جو کچھ تھا محض اسی کی ذات تھی یہ سن کر حضرت بایزید نے فرمایا کہ اب کیا ہے اب بھی وہی ہے۔د راصل مادی عالم کوئی ایسا ہیولیٰ نہیں، جو شروع سے خدا کی ذات کے ساتھ ساتھ موجود ہو۔ اس کی ماہیت ایک عمل کی سی ہے جس کو فکر باہمدگر و منفرد اشیاء کی ایک کثرت میں تقسیم کر دیتی ہے۔‘‘ (۲) فلسفیانہ لحاظ سے یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ علامہ ممدوح کے افکار پر ’’ سولا سطی فلسفہ‘‘ کا مطلق اثر نہیں۔ الٰہیات کی راہ میں سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ اس کا فریضہ عدم وجود، ذات ماوراء نے ذات اور مادیت و روحانیت کو ایک ہی حقیقت میں شمار کرنا ہے۔ علامہ ممدوح نے اس نہایت ہی نازک مسئلے کے متعلق جو رویہ اختیار فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان اشتراکات یا ’’ ہم آہنگیوں‘‘ کی تلاش کریں جو ممکن ہے مذہب اور سائنس کے درمیان پہلے ہی سے موجود ہوں۔ چنانچہ اس امر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ قدیم طبیعیات اب خود اپنی اساس کی تنقید میں مصروف ہے اور مادیت کا وہ تصور جس کو کبھی اس کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا نہایت تیزی کے ساتھ کافور ہو رہا ہے۔ انہوں نے مادے کی ماہیت پر جو دقیق بحث کی ہے وہ خالصاً فلسفیانہ ہے۔ ہم اس کے جزوی اقتباسات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کریں گے: ’’ ارتقائی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے محسوسات و مدرکات کے تین بڑے مراتب ہیں۔ جس میں سے ہر مرتبے کو ہم ایک عالم قرار دے سکتے ہیں۔ یعنی مادیت و حیات اور شعور کی دنیا جو علی الترتیب طبیعیات و حیاتیات اور نفسیات کا موضوع بحث ہیں۔۔۔ طبیعات ایک اختیاری اور تجربی علم ہے جس کا تعلق حقائق خارجہ یعنی علم بالحواس سے ہے۔ مظاہر حواس کے علاوہ علمائے طبیعیات کے پاس نظریوں کی تصدیق و تائید کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ اس بات کے مجاز ہیں کہ غیر مدرک اشیاء مثلاً جواہر کا وجود تسلیم کر لیں۔ لیکن ان کا ایسا کرنا محض اس لیے ہے کہ بغیر اس کے وہ اپنے تجربات حسی کی تشریح و تعبیر نہیں کر سکتے۔ جب ہم طبیعیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ذہن کو حرکت میں لانا پڑتا ہے۔ یہ حرکت کیا ہے؟ اعمال ذہنی جو ہمارے قلب کی جمالی کیفیات اور واردات روحانی کی طرح اسی کل کے ایک جزو ہیں جس کو ہم اپنے مدرکات و محسوسات سے تعبیر کرتے ہیں۔ بایں ہمہ ان کو طبیعات کی حدود سے خارج سمجھا جاتا ہے اس لیے کہ طبیعات کا مطالعہ صرف مادی اشیاء تک محدود ہے۔ اب فرض کیجئے ہم کسی شخص سے سوال کریں کہ اس مادی عالم میں تم کو کن چیزوں کا ادراک ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ انہی اشیاء کا نام لے گا جو اس کے گرد و پیش میں موجود ہیں۔ لیکن اگر اس سے مکرر یہ سوال کیا جائے کہ تم اس چیز کا نام بتاؤ جس کا فی الواقعہ تم ان اشیاء ہی سے خوراک حاصل کرتے ہو، تو ا سکو کہنا پڑے گا کہ ان کے خواص کا ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب دینے میں ہم اپنے حواس کی شہادت ہی کی تعبیر کرتے ہیں اور اس تعبیر کا انحصار اس پر ہے کہ اشیاء اور ان کے خواص کے درمیان ایک امتیاز قائم کیا جائے۔ بعض لوگوں نے مادے کے متعلق یہی نظریہ اختیار کیا ہے۔ یہ انگلستان کا مشہور فلسفی برکلے تھا جس نے سب سے پہلے اس نظریے کی تردید کی کہ مادہ ہمارے حواس کی نامعلوم علت ہے۔ خود ہمارے زمانے میں پروفیسر وائٹ ہیڈ نے ثابت کر دیا ہے کہ مادیت کا قدیم نظریہ سرا سر نا قابل اعتبار ہے۔ اس نظریے کی رو سے یہ تسلیم کرنا پڑتا تھا کہا شیاء کے خواص مدرک کی ذہنی کیفیات ہیں۔ فطر ت میں شامل نہیں ہمارے ادراکات کی ہیں؟ محض فریب نظر جن کے متعلق یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ فی الواقعہ فطرت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظریہ فطرت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ایک طرف ذہنی کیفیات ہیں اور دوسری جانب نا قابل تصدیق غیر مدرک وجود جو ان کیفیات کی علت ہیں۔ اگر طبیعیات کو حقائق کا صحیح اور منظم علم حاصل ہے جن کا ادراک ہمیں حواس کے ذریعے ہوتا ہے تو ہمیں مادے کے قدیم نظریے سے فوراً دستبردار ہو جانا چاہی۔ پروفیسر وائٹ ہیڈ کے نزدیک اس نظریے کے معنی یہ ہیں کہ فطرت کا ایک حصہ خواب ہے اور دوسرا محض قیاس۔ لیکن مادے کے تصور پر سب سے زیادہ کاری ضرب آئن اسٹائن کے ہاتھوں لگی ہے۔ مسٹر رسل کہتے ہیں کہ نظریہ اضافیت نے مکان و زمان کو باہم مدغم کر کے جوہر کے قدیم تصور پر شدید حملہ کیا ہے۔ کسی مادی شے کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنی بدلتی ہوئی حالتوں کے باوجود زمانے میں استقرار رکھتی ہے، صحیح نہیں۔ حقیقت میں یہ باجد گر مربوط حوادث کا ایک نظام ہے۔ جمود کا قدیم تصور اب ترک کر دیا گیا ہے اور ا سکے ساتھ ہی وہ تمام فرائض بھی جن کی بنا پر کبھی ماوٹین کا یہ خیال تھا کہ مادہ سریع السیر افکار کی نسبت لکھے زیادہ حقیقی اور مستقل شکے ہے۔۔۔۔‘‘ یہاں قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مادے کا رائج الوقت نظریہ ناقابل اعتبار ہے تو پھر فطرت (یعنی نیچر) کی ماہیت کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’ وہ کوئی ساکن وجود نہیں جو ایک غیر متحرک خلاء میں قائم ہے بلکہ یہ حوادث کی ایک ترکیب ہے جس میں ایک مسلسل اور تخلیقی حرکت کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ جب ہم اس تخلیقی حرکت کا مشاہدہ فکر کی عینک سے کرتے ہیں تو اس کا تسلسل فنا ہو جاتا ہے اور اس کی بجائے چند منفرد اور غیر متحرک اشیاء کا ادراک ہوتا ہے۔ جن کے باہمی روابط سے مکان و زمان کے تصورات مترتب ہوتے ہیں۔ طبیعیات کا یہ نظریہ کہ فطرت محض مادہ ہے۔ نیوٹن کے اس نظرئیے سے وابستہ ہے کہ مکان ایک خلائے مطلق ہے جس میں تمام اشیاء واقع ہیں ۔ ریاضیات کی تنقید سے اب یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ خالص مادیت کا مفروضہ یعنی یہ خیال کہ مادہ ایک مستقل بالذات شے ہے جو مکان مطلق میں واقع ہے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔‘‘ سطور بالا سے زمان و مکان اور دوسرے مسائل کے متعلق جن نازک بحثوں کا آغاز ہوتا ہے ان کی تفصیل کی یہاں مطلق گنجائش نہیں۔ ہمارا مقصد’’ تشکیل جدید‘‘ کی فلسفیانہ اہمیت کو ظاہر کرنا ہے جس کے لیے یہ اجمالی اشارات کافی ہوں گے۔ البتہ ہم یہ ضرور عرض کر دیں کہ علامہ ممدوح نے جن حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے ان کو بالعموم عقل و فکر کی حدود سے ماورا سمجھا جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کا ’’ اظہار واردات‘‘ کی شکل میں تو ممکن ہے لیکن دیدہ حکمت سے ان کا مشاہدہ شاید ہی ہو سکے۔ یہ خلش اگرچہ ایک حد تک فطری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسی سے کونسا فلسفہ آزاد ہے۔ ثنویت سے بچنے کے لیے جو بھی نقطہ نظر اختیار کی اجائے گا اس میں یہ اور اس قسم کے ہزاروں تذبذب باقی رہیں گے۔ (۳) اب ہمیں مذہب کی طرح رجوع کرنا چاہیے۔ علامہ ممدوح نے اس کی تحقیق میں نفسیاتی منہاج پر زور دیا ہے۔ عامیان ثنویات کو غالباً شروع ہی سے اس پر اعتراض ہو گا۔ لیکن ہمیں حضرت علامہ کے خیالات سن لینا چاہئیں۔ انہوں نے ابتداء ہی میں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ ’’ جب فلسفہ مذہب پر تنقید کی نگاہیں ڈالتا ہے تو ا سکا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مذہب کو اس کے مقدمات میں کوئی ادنیٰ جگہ حاصل ہے۔ مذہب فلسفہ کا کوئی شعبہ نہیں۔ اس لیے کہ یہ محض فکر ہے، نہ عمل نہ احساس بلکہ انسان کی ذات کلی کا مظہر۔ پھر یہ خیال بھی سراسر غلط ہے کہ فکر اور وجدان بالطبع ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دونوں کا تعلق ایک ہی سرچشمے سے ہے اور بغیر ایک دوسرے کے ان کا وجود نا مکمل رہتا ہے۔ ایک منزل بہ منزل حقیقت مطلقہ کی طرف قدم بڑھاتا ہے دوسرا اس کے وجود کلی پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔ وجدان ایک ہی وقت میں تمام حقیقت سے لطف اندوز ہونے کا طلب گار ہے۔ فکر اس راستے کو آہستہ آہستہ اور رک رک کر طے کرتی ہے تاکہ وہ اس کے مختلف مراحل کو محض ان کے مشاہدے کے لیے مخصوص و منفرد کرتی جائے وجدان کے پیش نظر حقیقت مطلقہ کا ابدی اور فکر کے سامنے اس کا زمانی پہلو ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے تقویت و تازگی کا موجب بنتے ہیں اور دونوں کو حیات میں جو منصب حاصل ہے اس کے اعتبار سے ایک ہی حقیقت کی بقا کے آرزو مند ہیں۔ اگر سائنس اور فلسفہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ ان کی توجہ محسوسات پر ہے تو مذہب کو اس سے کوئی تعرض نہیں۔ اس لیے کہ مذہب نے تو سائنس سے بھی بہت پہلے محسوسات پر زور دیا ہے، جب ہم اس منصب کا خیال کرتے ہیں جو مذہب کو ہماری زندگی میں حاصل ہے تو ہم خود بخود اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بہ نسبت مسلمات علم کے ہمارے لیے اس امر کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ کہ ہم مذہب کے اصول و عقائد کے لیے کسی عقلی اساس کی جستجو کریں۔ علم ما بعد الطبیعیات کو نظر انداز کر سکتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اب تک اس نے ایسا ہی کیا ہے، لیکن مذہب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ محسوسات انسانی کے تضاد کو رفع نہ کرے یا جس ماحول میں انسان پیدا کیا گیا ہے اس کی تصدیق و تثبیت سے انکار کر دے۔ مذہب کا ہر عہد عقلیت کا عہد تھا۔‘‘ مذہب کو بھی محسوسات و مدرکات کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح سائنس کو کہیں اس کا مقصد ان مقدمات کی تعبیر کرنا نہیں ہے جو علم فطرت کا موضوع ہیں۔ مذہب نہ کیمیا ہے نہ طبیعات جس کا فریضہ یہ ہو کہ وہ حقائق فطرت کی ترجمانی علت و معلول کی زبان میں کرے۔ ’’ اگر ان دونوں میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے تو اس لیے نہیں کہ ایک کی بنا محسوسات پر ہے اور دوسرا محسوسات سے آزاد۔ دونوں کی ابتداء محسوسات سے ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم اپنی غلط فہمی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی قسم کی واردات کی الگ الگ ترجمانی کرتے ہیں تو ان میں تضاد و تصادم رہ نما ہو جاتا ہے۔ مذہب کے پیش نظر واردات انسانی کی ایک مخصوص دنیا ہے اور اس کا مقصود یہ ہے کہ وہ اس کی صحیح اہمیت کا پورا پورا علم حاصل کرے۔‘‘ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری واردات بھی محسوسات و مدرکات کی طرح کسی علم کا سرچشمہ بن سکتی ہیں؟ علامہ ممدوت نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے۔ ان کے نزدیک ’’ مذہب کے اندر ادراک کا ایک عنصر ہمیشہ رہتا ہے۔‘‘ اگر اس علم کی نوعیت علم بالحواس سے مختلف ہے تو ا سکی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ضروری نہیں کہ جو علم غیر عقلی ذرائع سے حاصل ہو وہ بہ نسبت اس علم کے جس میں عضویاتی حرکات کو دخل ہوتا ہے ناقص ہو۔ اس کے لیے علامہ ممدوح نے واردات مذہبی کے نفسیاتی تجزیے کے بعد جو شواہد پیش کیے ہیں۔ ان کو افسوس ہے کہ بخوف طوالت ہم یہاں نقل نہیں کر سکتے۔ لیکن اہل نفسیات کی یہ بدگمانی کہ چونکہ مذہبی واردات کی بنا ادراک حسی سے نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کو نظر انداز کر دینا چاہیے صحیح نہیں۔ ایسے ہی محض ان کیفیات کی بنا پر جو باطنی واردات کو بظاہر متعین کرتی نظر آتی ہیں ان کی روحانی قدر و قیمت سے انکار کر دینا بھی غلطی ہے۔ ’’اگر جدید نفسیات کا یہ مسلمہ صحیح تسلیم کر لیا جائے کہ جسم اور ذہن باہم متعلق ہیں تب بھی باطنی واردات کو اظہار حقیقت کا ذریعہ نہ سمجھنا منطقی اعتبار سے غلط ہے۔ اصول نفسیات کے ماتحت دیکھا جائے تو سبھی کیفیات عضوی حالتوں کی پابند ہیں خواہ ان کے مشمول کا تعلق مذہب سے ہو یا مذہب سے الگ کسی دوسری چیز سے۔ جن لوگوں کا مزاج عالمانہ رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ ان کا ذہن بھی تو اعضاء کا اسی طرح محتاج رہتا ہے۔ جیسے اہل مذہب کا مثال کے طور پر صرف ان لوگوں کے تخلیقی کارناموں کو لیجئے جن کا شمار ہم نوابغ میں کرتے ہیں اور جن پر غور کرتے ہوئے ہم اس بات کا مطلق خیال نہیں کرتے کہ ایک نفسیات ان کی عضوی کیفیات کے متعلق کیا کہیں گے۔ ممکن ہے ایک خاص قسم کی قبولیت کے لیے خاص قسم کا مزاج ناگزیر ہو۔ لیکن اس کی حقیقت و ماہیت کو محض ان کیفیات تک محدود سمجھنا غلطی ہے جو بظاہر اسے متعین کرتی نظر آتی ہیں حقیقت میں ہماری ذہنی کیفیات کی عضوی تحلیل کااس معیار سے کوئی تعلق نہیں جس کے ماتحت ہم کسی کیفیت کو ادنیٰ یا اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔‘‘ اس امر کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مذہب داخلی کیفیات کا کوئی چیتاں نہیں جیسا کہ بالعموم معترضین خیال کرتے ہیں مذہبی واردات کی مثال زیادہ تر غیر واضح احساس کی سی ہے ان میں عقل و استدلال کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ لیکن جس طرح انسان کے دوسرے احساسات میں ادراک کا ایک عنصر موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح باطنی واردات بھی ادراک سے معرا نہیں۔ ہمارے نزدیک یہ اسی عنصر ادراک کا نتیجہ ہے۔ جس کی بدولت باطنی واردات فکر کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ دراصل احساسات کا اقتضا ہی یہ ہے کہ ان کا اظہار فکر کی شکل میں ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ فکر اور احساس دونوں کا تعلق ہمارے داخلی مشاہدات میں ہے اول الذکر ان کا زمانی پہلو ہے اور دوسرا غیر زمانی۔۔۔ احساس گویا کسی بیرونی شے کی کشش کا نام ہے۔ جس طرح فکر کسی خارجی شے کی خبر کا جب ہمارے ذہن پر احساس کی کوئی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس کے ایک جزو لازم کے طور پر اس شے کا خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے جس سے اس کو سکون ہو گا یہ کہ احساس کا کوئی رخ نہ ہو ایسا ہی ہے جیسے یہ کہ فعالیت کی کوئی سمت نہ ہو اور یاد رکھنا چاہیے کہ سمت کا اشارہ ہمیشہ کسی شے کی جانب ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ گو مذہب کی ابتداء احساس سے ہوتی ہے لیکن وہ محض احساس پر جیسا کہ خود احساس ہی کا تقاضا ہے قناعت نہیں کر سکتا برعکس اس کے اس سے ہمیشہ مابعد الطبیعی جستجو کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کر دیا گیا تھا فلسفہ اور مذہب باعتبار اپنی نوعیت کے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ’’ فلسفہ کا کام یہ ہے کہ وہ عقل کی عینک سے اشیاء کا مشاہدہ کرے۔ اس کا مقصود صرف اس قدر ہے کہ اسے کوئی ایسا تصور مل جائے جس کے ماتحت ہمارے جملہ محسوسات و مدرکات کسی ایک نظام میں مرقسم ہو جائیں۔ گویا فلسفہ دور ہی سے حقیقت مطلقہ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ برعکس اس کے مذہب کی تمنا یہ ہے کہ وہ اس سے ربط و اختلاف پیدا کرے، ایک محض نظریہ ہے وہ سرا سر حقیقی واردات قرب اور اتصال اس کے لیے فکر کو اپنے آپ سے بلند ہونے کی ضرورت ہے اور اس کا یہ مدا صرف اس اسلوب ذہنی ہی کی شکل میں پورا ہو سکتا ہے جس کو مذہب نے دعا سے تعبیر کیا ہے اور جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک پر تا دم آخر موجود تھی۔ ‘‘ 1؎ ان نہایت ہی اہم اور دقیق مباحث کے علاوہ جن کا مجمل سا خاکہ ہم نے سطور بالا میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’ تشکیل جدید‘‘ میں فلسفہ اور سائنس کے سینکڑوں مسائل زیر نظر آ گئے ہیں اور یہ سب کچھ اسی غیر معمولی عمق، کاوش، تحقیق اور رفعت تخیل کے ساتھ جس کے لیے علامہ ممدوح کی ذات اب کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ جس قدر کتاب کے مباحث دقیق ہیں اسی قدر انداز بیان سلیس اور دلآویز ہے ایک جرمن فاضل کی رائے ہے کہ ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ عصر نو کا سب سے زیادہ تعجب خیز مظہر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل مبصر کی اس رائے میں ذرا سا بھی مبالغہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی حلقوں میں تشکیل جدید کے مباحث کو نہایت ذو ق و شوق سے پڑھا جائے گا ان کی علمی صلاحیتیں اہل مشرق سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ فرض مسلمانوں کا ہے کہ وہ اس کے مطالب پر غور کریں اور حضرت علامہ کے ان ارشادات سے مستفیض ہونے کی کوشش کریں جو ان کے تمدنی ارتقاء میں بجا طور پر ان کی رہبری کا حق ادا کر سکتے ہیں: ایں چنیں دیدۂ رہ بیں بہ شب تار کجاست؟ 1؎ یہ اور ماسبتی اقتباسات تشکیل جدید کے مختلف اجزاء سے لیے گئے ہیں۔ (نیازی) اقبال اور فلسفہ مغرب ممتاز حسن احسن اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب مترجم: پروفیسر یوسف سلیم چشتی یہ مضمون میرے عزیز اور قابل دوست مسٹر ممتاز حسن صاحب احسن ایم اے اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب نے ’’ یوم اقبال‘‘ کی تقریب پر ۶ مارچ کی وائی ایم سی اے ہال میں شیدائیان اقبال کے ایک ممتاز مجمع کے سامنے پڑھ کر سنایا تھا۔ (مترجم) فلسفہ و مغرب کاصحیح معنوں میں آغاز سولھویں صدی سے ہوا ہے جبکہ یورپ کا پاپائیت کی ذہنی غلامی سے نجات ملی اور اس کی وجہ سے اکتشافات حکمیہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل گیا اور یورپ نے مادی اور سیاسی رنگ میں جو تفوق حاصل کیا اس کی وجہ سے فلسفہ کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ بعض ارباب فکر کا اب تک خیال یہ ہے کہ متکلمین اور علی الخصوص ٹامس ایکوٹیناس کا فلسفہ انسانی غور و فکر کا منتہائے پرواز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بزرگوں کا فلسفہ یونانی اور اسلامی متکلمین کی صدائے باز گشت سے زیادہ نہیں ہے اور اگر کسی مسئلہ میں انہوں نے اجتہاد فکر کا نمونہ پیش کیا ہے تو اس نے نہایت مضحکہ خیز صورت اختیار کر لی ہے۔ مثلاً ایک متکلم نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کا صحیح جواب کیا دیا گیا تاہم اس قدر یقین ہے کہ جب ڈیکارٹ کے فلسفہ کا آفتاب طلوع ہوا تو ان سب بزرگوں کے چراغ ماند ہو کر رہ گئے۔ ڈیکارٹ کے بعد یورپ میں پے در پے سے نامور فلاسفر منصہ شہود پر آئے جن میں کینٹ کا مرتبہ سب سے اونچا ہے اس کے بعد نیٹشا کا دور حکمرنای شروع ہوا جس نے فلسفہ پر الہام کا رنگ چڑھا دیا۔ یہ شخص محض فلاسفر یا اشیائے کائنات کے حسن و قبح کا نقاد ہی نہ تھا بلکہ اس نے اپنی قابلیت کی بدولت حسن و قبح کا نیا معیار پیش کیا ہے۔ فلسفہ ہمیشہ سے سائنس کا مرہون احسان رہا ہے۔ فلاسفہ یونان کے بیشتر خیالات کائنات کے اس علم پر مبنی ہیں، جو استقراء اور مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے اور چونکہ فی زمانا سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے اسی لیے ان لوگوں کے فلسفہ کا بہت سا حصہ اب بیکار ہو گیا ہے۔ فلسفہ کی تاریخ سے یہ بات عیاں ہے کہ فلسفہ اور سائنس میں موافقت اور مطابقت کی رفتار روز افزوں ترقی پر ہے اور نیوٹن کی تحقیقات علمیہ نے تو فلسفہ اور سائنس کو ایک دوسرے سے بہت ہی زیادہ قریب کر دیا ہے اور اس تعلق کو نظریہ ارتقا نے اور بھی استوار کر دیا ہے۔ ڈاکٹر اقبال کو جن کا نام نامی اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا ہے یورپ کے ارباب فکر کی موشگافیوں کے مطالعہ ہی کا موقع نہیں ملا، بلکہ انہوں نے بفراغت تمام ان کے باہمی اختلافات کا تماشا بھی دیکھا ہے اور تجربہ کی بنا پر ان تمام فلسفیانہ نظریوں کی اصلی قدر و قیمت معلوم کی ہے اور میں بالیقین کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے ان افکار متضادہ کو تجربہ و مشاہدہ کی کسوٹی پر پرکھ لینا بہت اہمیت کا باعث ہے کیونکہ وہ نیٹشا کی طرح ما بعد الطبیعات سے اس قدر وابستگی نہیں رکھتے جس قدر اختلاقیات سے بلاشبہ ان کا فلسفہ مابعد الطبیعات کے مسائل سے جدا نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے زیادہ تر زور عمل پر دیا ہے۔ یعنی اگرچہ محض علم بھی اچھی چیز ہے مگر عمل کا مرتبہ ان کی نظر میں محض علم سے بہت زیادہ ہے۔ سب سے پہلے ہم ڈاکٹر اقبال کے فلسفہ کا اجمالی خاکہ جو انہوں نے ڈاکٹر نکلسن کی فرمائش پر لکھا تھا ہدیہ ناظرین کرتے ہیں: ’’ ہر موجود میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔ حیات تمام و کمال انفرادی ہے۔ حیات کلی کا خارج میں کہیں وجود نہیں ہے خدا خود بھی ایک فرد ہی ہے وہ فرد یکتا ہے۔ کائنات، افراد کے مجموعہ کا نام ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس مجموعہ میں جو نظم و نسق اور توافق و تطابق پایا جاتا ہے وہ بذاتہ کامل نہیں ہے۔ بہرکیف جو کچھ بھی ہے وہ افراد کی جبلی کوششوں کا نتیجہ ہے ہمارا قدم بالتدریج بد نظمی سے نظم و نسق کی طرف اٹھ رہا ہے۔ اس مجموعہ کے افراد کی تعداد بھی معین نہیں ہے بلکہ روز مرہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور نوزائیدہ افراد اس عظیم الشان مقصد کی تکمیل میں ہمارے معاون ہوتے رہتے ہیں۔ یعنی کائنات فعل مختتم نہیں ہے بلکہ ہنوز مراتب تکمیل طے کر رہی ہے چونکہ کائنات ابھی مرتبہ کمال کو نہیں پہنچی ہے اور تکمیل کے مراتب میں سے گزر رہی ہے اس لیے اس کے متعلق ابھی کوئی بات حتمی ا ور ادعانی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ جو کچھ کہا جا سکتا ہے یا ابھی تک کہا گیا ہے اس میں کامل صداقت نہیں پائی جا سکتی۔ فعل تخلیق ہنوز جاری ہے اور جس حد تک انسان اس کائنات کے کسی غیر مربوط حصہ میں ربط و ترتیب پیدا کر سکتا ہے اس حد تک اس کو بھی فعل تخلیق میں معاون قرار دیا جا سکتا ہے۔ خود قرآن مجید میں خدا تعالیٰ کے علاوہ دوسرے خالقوں کے امکان کی طرف اشارہ موجود ہے ‘‘ فتبارک اللہ احسن الخالقین ظاہر ہے کہ انسان اور کائنات کا یہ نظریہ، ہیگل کے انگریزی متبعین اور ارباب وحدت الوجود کے خیالات کے سرا سر خلاف ہے، جن کے خیال میں انسان کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حیات کلی میں جذب ہو جائے جس طرح قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے اور اپنی انفرادی ہستی کھو بیٹھتا ہے۔ انسان کا اخلاقی اور مذہبی نصب العین یہ نہیں کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دے یا اپنی خودی کو فنا کر دے بلکہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی ہستی کو قائم رکھے اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر پیش از بیش انفرادیت اور یکتائی پیدا کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ یعنی اپنے اندر خدا کی صفات پیدا کرو۔ پس انسان جس قدر اور جس حد تک اس فرد یکتا (خدا) سے مشابہ ہو گا۔ اسی قدر خود بھی یکتا ہو جائے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیات کیا ہے؟ حیات فرد کا دوسرا نام ہے اور فرد کی اعلیٰ ترین صورت جو اس وقت تک متحقق ہو سکی ہے۔ خودی یا ایفو ہے جس کی بنا پر فرد ایک مستقل بالذات مرکز بن جاتی ہے۔ جسمانی اور روحانی دونوں پہلوؤں سے انسان ایک مستقل بالذات مرکز ہے۔ لیکن وہ ابھی تک ’’ فرد کامل‘‘ نہیں ہے۔ فرد جس قدر خدا سے دور ہو گا اسی قدر اس کی انفرادیت ناقص اور کمتر درجہ کی ہو گی اور جس قدر وہ خدا سے قریب ہو گا اسی قدر کامل انسان ہو گا۔ قرب الٰہی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان انجام کار خدا کی ذات میں واصل یا فنا ہو جائے بلکہ اس کے برعکس یہ کہ کامل انسان وہ ہے جو خدا کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکتد آور اے ہمت مردانہ دراصل حیات ایک ترقی کرنے والی اور کائنات کو اپنے اندر جذب کرنے والی حرکت کا نام ہے۔ جو مشکلات اور رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہوتی ہیں وہ ان پر غلبہ پا کر انہیں اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ حیات کا جوہر یہ ہے کہ مسلسل اور پیہم نئی نئی آرزوئیں اور نئے نئے نصب العین پیدا کرتی رہتی ہے اور اپنی ترقی اور حفاظت کے لیے اس نے بعض آلات اور وسائل پیدا کر لیے ہیں مثلاً حواس خمسہ اور قوت ادراک وغیرہ جن کی مدد سے وہ مشکلات پر غالب آ کر انہیں اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ مادہ یا فطرت حیات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ فطرت کوئی مذموم شے نہیں ہے بلکہ حیات کے حق میں محمود ہے کیونکہ اسی کی بدولت حیات کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ قوتوں اور استعدادوں کو بروئے کار لائے اور مشکلات پر غالب آئے۔ جب خودی تمام مشکلات پر غالب آ جاتی ہے تو مرتبہ جبر سے مرتبہ ا ختیار پر فائز ہو جاتی ہے خودی ایک حد تک مجبور ہے اور ایک حد تک خود مختار، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ: الایمان بین الاجبر والاختیار اور جب خودی ذات مطلق کا تقرب حاصل کرتی ہے تو اختیار کے اعلیٰ مرتبہ کو حاصل کر لیتی ہے۔ مختصر یہ کہ حیات مرتبہ اختیار تک پہنچنے کی مسلسل کوشش کا نام ہے۔ جامہ انسانیت میں آ کر مرکز حیات کا کام ایغو یا شخص ہو جاتا ہے اور شخصیت عبادت ہے جدوجہد کی مسلسل حالت سے شخصیت کا تسلسل ایسی حالت کے قیام پر منحصر ہے۔ اگر یہ حالت قائم نہ رہے تو لا محالہ تعطل یا ضعف کی حالت طاری ہو جائے گی۔ چونکہ شخصیت انسان کا سب سے بڑا کمال ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ وہ اس جوہر بے بہا کو مسلسل سر گرم عمل رکھے اور معطل نہ ہونے دے کیونکہ جدوجہد ہی زندگی ہے اور جو شے شخصیت کو پیہم جدوجہد کی طرف راغب کرتی ہے وہ دراصل ہمیں بقائے دوام کے حصول میں مدد دیتی ہے۔ گویا شخصیت کا تصور اشیائے کائنات کے حسن و قبح کا معیار ہے۔ اس کی بناء پر خیر و شر کا مسئلہ بخوبی حل ہو سکتا ہے جو شے شخصیت کو توانائی عطا کرتی ہے اچھی ہے اور جو اسے کمزور کرے وہ بری ہے۔ آرٹ1؎ مذہب اور اخلاق سب کو اسی معیار پر 1؎ڈاکٹر صاحب نے رسالہ ’’ نیو ایرا‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ حیات تمام انسانی اعمال کا منتہائے مقصود ہے۔ انسانی اعمال کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس کی زندگی شاندار، موثر اور افزوں ہو جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جملہ انسانی آرٹ کو اس مقصد عظمیٰ کے ماتحت رکھا جائے اور جو شے زندگی کو جس قدر فراوانی عطا کرے اسی قدر اعلیٰ اور اشرف خیال کی جائے۔ بلند ترین آرٹ وہ ہے جو ہمارے اندر خفتہ قوت ارادی کو بیدار کر دے تاکہ ہم زندگی کی مشکلات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کریں۔ وہ تمام علوم و فنون جو خواب آور ہیں جو ہمیں ان حقائق گرد و پیش سے (باقی صفحہ آئندہ) پرکھنا چاہیے۔ میں نے افلاطون کے فلسفہ پر جو کچھ تنقید کی ہے اس سے میرا مطلب ان فلسفیانہ مذاہب کی تردید ہے جو بجائے زندگی کے موت (فنا) کو انسان کا نصب العین قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ مذاہب ہیں جو انسان کو بزدلی سکھاتے ہیں۔ جن کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی ’’ مادہ‘‘ کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس سے گریز کرنا چاہیے۔ حالانکہ جوہر انسانیت یہ ہے کہ انسان مخالف قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرے اور ان پر غالب آئے بلکہ انہیں اپنا خادم بنا لے۔ جس طرح خودی کو مرتبہ اختیار پر فائز کرنے کے لیے ہمیں ’’ مادہ‘‘ پر غالب آنا ضروری ہے۔ اسی طرح اسے غیر فانی بنانے کے لیے ’’ زمان‘‘ پر غالب آنا لازمی ہے۔ برگسان کہتا ہے کہ ’’زمان‘‘ خط لا متناہی نہیں ہے (باعتبار مفہوم مکانی) جس میں ہو کر ہمیں گزرنا ہے، خواہ ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ زمانہ کا یہ مفہوم صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ زمان محض میں طوالف کا مفہوم داخل نہیں ہے۔ بقائے شخص ایک امر متمنی ہے، اسے وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جو اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرے اور اس کا حصول ہماری موجودہ زندگی میں فکر اور عمل کے ان طریقوں پر منحصر ہے جو ہماری خودی کی حالت جدوجہد کو برقرار رکھ سکیں۔ بدھ مذہب اور ایرانی تصوف اور فلسفہ اخلاق کی ہمچو ازیں قبیل دوسری صورتیں اس مقصد کے لیے مفید نہیں ہیں تاہم ان میں فائدہ کا ایک پہلو ضرور موجود ہے وہ یہ کہ مسلسل جدوجہد کے بعد کچھ عرصہ کے لیے ہمیں آرام کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ گویا فکر اور عمل کی یہ صورتیں زندگی کے دنوں کے اعتبار سے راتیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ بہرکیف اگر ہماری فاعلیت کا منشاء یہ ہو کہ خودی کی حالت جدوجہد برقرار رہے تو گمان غالب یہ ہے کہ موت کا صدمہ ہماری خودی پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ موت موجودہ زندگی اور آئندہ جدوجہد کے درمیان آرام اور سکون کا ایک وقفہ ہو جسے قرآن مجید ’’ عالم برزخ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے اور یہ حالت یوم حشر تک قائم رہے گی۔ واضح ہو کہ موت کا صدمہ صرف وہی ’’ خودیاں‘‘ برداشت کر سکیں گی جنہوں نے اس زندگی میں پختگی حاصل کر لی ہو گی اگرچہ حیات اپنے ارتقائی منازل میں اعادہ اور تکرار سے نفور ہے تاہم برگسان کے فلسفہ کی رو سے جیسا کہ ولڈن کار لکھتا ہے۔ حشر اجسا و بھی عین قرین قیاس ہے۔ زمانہ کو لمحات میں تقسیم کر دینے کی وجہ سے ہم اسے مکان سے وابستہ کر دیتے ہیں اور اس لیے (بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ) غافل کر دیں جن کے حصول پر زندگی کا انحصار ہے وہ دراصل بربادی اور موت کا پیغام ہیں۔ آرٹ وہ ہے جو ہمارے اندر بیداری کی روح پھونکے نہ کہ جو ہم پر حالت سکر طاری کر دے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آرٹ کا منتہائے مقصود خود آرٹ ہے وہ نادانستہ طور پر ہمیں گمراہ کرنے اور ہماری زندگی اور توانائی کو فنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے لیے از بس ضروری ہے کہ ہم ایسے نادان دوستوں سے ہوشیار رہیں۔ انتہیٰ بلفظ‘‘ قدحے خرد، فروزے کہ فرنگ داد مارا ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر ندارد (مترجم) اس کو عبور کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ زمانہ کی اصل حقیقت اس وقت آشکار ہو سکتی ہے جبکہ ہم اپنی ذات میں غوطہ زن ہوں۔ کیونکہ حقیقی زمانہ خود ہماری ہی حیات ہے جو حالت جدوجہد کو برقرار رکھنے سے اپنے آپ کو قائم و دائم رکھ سکتی ہے۔ ہم زمانہ کے محکوم اسی وقت تک ہیں جب تک کہ زمانہ کو مکان سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ مقید بالمکان زمانہ تو ایک زنجیر ہے جسے حیات نے اس لیے اپنے گرد لپیٹ رکھا ہے تاکہ وہ موجودہ ماحول کو اپنے اندر جذب کر سکے۔ در حقیقت ہم غیر زمانی او رموجودہ زندگی میں بھی ہمیں اپنے غیر زمانی ہونے کا احساس ہو سکتا ہے اگرچہ یہ احساس محض آنی ہو گا۔ خودی میں جس چیز سے پختگی پیدا ہوتی ہے وہ عشق ہے۔ لفظ عشق میں نے وسیع ترین مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اس کے معنی ہیں جزو ذات بنانا یا اپنے اندر جذب کرنا۔ عشق کی اعلیٰ تریں صورت یہ ہے کہ کوئی نصب العین سامنے رکھا جائے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ عشق کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عاشق اور معشوق دونوں میں انفرادیت کی شان پیدا کر دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر فرد یکتا کے حصول کی کوشش طالب اور مطلوب دونوں کے اندر شان انفرادیت پیدا کر دیتی ہے۔ جس طرح عشق سے خودی میں پختگی اور توانائی آتی ہے اسی طرح سوال سے اس میں ضعف اور نقص پیدا ہوتاہے۔ جو بات تمہیں بغیر ذاتی کوشش کے حاصل ہو جائے وہ سوال کے ذیل میں آ جاتی ہے۔ ایک دولت مند کا بیٹا جو اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کا وارث ہوتا ہے۔ دراصل سائل یعنی گدا ہے اسی طرح جو شخص دوسروں کے خیالات کو مدار فکر بناتا ہے وہ بھی سائل ہے پس خودی کو پختہ کرنے کے لیے ہمیں عشق اختیار کرنا چاہیے یعنی اپنے اندر قوت انجذاب پیدا کرنی چاہیے اور ہر قسم کے سوال سے محترز رہنا چاہیے۔ خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی عشق کس طرح اختیار کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب کم از کم مسلمان کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں موجود ہے آپ نے اپنے طرز عمل سے مسلمانوں کو دکھا دیا کہ عشق ایسا ہوتا ہے اور اس طرح اس پر کاربند ہوتے ہیں۔ پس مسلمان کو لازم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اپنے سامنے رکھے۔ یعنی آپ سے محبت کرے۔ ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست بحر و بر در گوشہ دامان اوست تربیت خودی کے مراحل تین ہیں: ۱۔ دستور الٰہیہ کی اطاعت ۲۔ ضبط نفس ،جو شعور ذاتی یا انانیت کی اعلیٰ ترین شکل ہے ۳۔ نیابت الٰہی 1؎ 1؎ نیابت با خلافت الٰہیہ کی استعداد ہر شخص میں موجود ہے۔ چنانچہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے واذ قابل ربک للملئکتہ انی جاعل فی الارض خلفیتہ نیابت الٰہی دنیا میں انسانی ارتقاء کی تیسری اور آخری منزل ہے۔نائب اس زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے۔ وہ کامل خودی کا مالک اور انسانیت کا منتہائے مقصود ہوتا ہے۔ دماغ اور جسم دونوں کے لحاظ سے حیات کا بہترین اور بلند ترین مظہر ہوتا ہے اس کی زندگی میں حیات مرتبہ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ ہماری ذہنی زندگی کے اختلافات اس کی ذات میں پہنچ کر ہم آہنگی کا جامہ پہن لیتے ہیں یعنی کائنات کے پیچیدہ مسائل اس کی نظر میں سہل ہو جاتے ہیں۔ وہ اعلیٰ ترین قوت اور برتریں علم دونوں کا حامل ہوتا ہے اس کی زندگی میں فکر اور عمل، جہت اور ادراک سب ایک ہو جاتے ہیں۔ گویا وہ شجر انسانیت کا آخری ثمرہوتا ہے اور چونکہ وہ سب کے آخر میں ظاہر ہو گا اس لیے وہ تمام صعوبتیں جو انسانیت کو ارتقائی منازل طے کرنے میں لاحق ہوتی ہیں۔ دخل اعتراض نہیں ہیں۔ وہ بنی نوع آدم کا حقیقی حاکم ہوتا ہے اور اس کی بادشاہت دراصل اس دنیا میں خدا کی بادشاہت ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کو حیات کی دولت اور اپنا تقرب عنایت کرتا ہے۔ ہم منازل ارتقائی جس قدر زیادہ طے کریں گے اسی قدر اس سے قریب ہوتے جائیں گے۔ اس کے تقریب کے معنی یہ ہیں کہ ہم حیات کے مراتب عالیہ پر فائز ہو رہے ہیں۔ واضح ہو کہ اس کے ظہور کی پہلی شرط یہ ہے کہ بنی نوع آدم جسمانی اور دماغی دونوں پہلوؤں سے ترقی یافتہ ہو جائیں۔ اگرچہ فی الحال ایسے فرد کا وجود ہمارے تخیل کے علاوہ اور کسی جگہ نہیں پایا جاتا۔ لیکن انسانیت کا تدریجی نشوونما اس بات کی دلیل ہے کہ زمانہ آئندہ میں افراد یکتا کی ایسی نسل پیدا ہو جائے گی جو حقیقی معنوں میں خلافت و نیابت الٰہیہ کی اہل ہو گی۔ الغرض زمین پر خدا کی حکومت کے معنی یہ ہیں کہ یہاں یکتا اور اعلیٰ افراد کی جماعت جمہوری رنگ میں قائم ہو گی اور ان کا صدر اعلیٰ وہ شخص ہو گا جو ان سب پر فائق ہو گا جس کا مثل اس روئے زمین پر ڈھونڈے نہ مل سکے گا۔ نیٹشے نے بھی اپنے تخیل میں افراد یکتا کی اس ترقی یافتہ جماعت کی ایک جھلک دیکھی تھی لیکن اس کے اتحاد اور نسلی تعصب نے اس تصویر کو بھونڈا کر دیا۔ (ماخوذ از دیباچہ اسرار خودی) اب ہم اقبال کے فلسفہ کا مغربی حکماء کے افکار سے موازنہ کرتے ہیں: اقبال کے فلسفہ کی رو سے یہ بات مسلم ہے کہ انسان کی ترقی مندرجہ ذیل جہات میں ہو گی: ا۔ شخصی اختیار ۲۔ شخصی بقائے روح اور نیابت الٰہیہ یورپ میں کینٹ وہ شخص گزرا ہے جس نے یہ بات بخوبی واضح کر دی کہ بحر و عقل کی مدد سے ہم کائنات کے اہم مسائل کو حل نہیں کر سکتے اور اس طرح اس نے فلسفیانہ زاویہ نگاہ سے ’’ ایمان‘‘ کی ضرورت کو ثابت کر دیا۔ ’’ تنبیہہ عقل عملی‘‘ میں اسے انہی مسائل میں زندگی کی حقیقت نظر آ گئی۔ چنانچہ وہ ان تصورات سہ گانہ کو تجربہ انسانی کے اصول اولیں قرار دیتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ جب تک انسان کو فاعل مختار نہ مانا جائے۔ اس وقت تک اسی کو قرار نہیں دے سکتے اور نہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار گردانا جا سکتا ہے۔ کینٹ نے اس حقیقت کا انکشاف کر کے انسانیت کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔ کینٹ کی طرح اقبال کو ’’ ایمان‘‘ کے اثبات کی ضرورت لاحق نہیں ہوئی کیونکہ ان کا فلسفہ ’’خودی‘‘ سے شروع ہوتا ہے، اور اس کی مسلسل جدوجہد کی تاویل اس کے سوائے اور کسی نہج پر نہیں ہو سکتی کہ انسان کو اپنی خودی کی مسلسل جدوجہد کے آخری نتیجہ پر ایمان حاصل ہے۔ جبھی تو وہ سراپا جدوجہد بنا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ہمیں یہ یقین نہ ہو کہ جدوجہد کی بدولت ہمیں گوہر مقصود حاصل ہو جائے گا اس وقت تک ہم پیہم کوشش کر ہی نہیں سکتے۔ اسی طرح اقبال کو ’’ اخلاقی قانون‘‘ کے اثبات کی ضرورت در پیش نہیں ہوئی۔ اس حیثیت سے کہ حکم ما فی الخارج میں نافذ ہو۔ اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ ’’ اخلاقی قانون‘‘ حیات خودی کی باطنی ضروریات کی بنا پر ظہور میں آتا ہے۔ جو شے شخصیت کو توانائئی عطا کرے اچھی ہے اور جو شے اسے کمزور کرے اور بری ہے۔ گویا قانون مذکورہ کے وجود میں آنے کے لیے خود انسان کی شخصیت کافی ضمانت ہے اس کے اثبات کے لیے کسی دلیل وبرہان کی حاجت نہیں ہے۔ اقبال اور کینٹ کے زاویا نے نگاہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اقبال کے فلسفہ کی رو سے آزادی یا اختیار اور بقایا حیات دوائم سعی پیہم اور جہد مسلسل کا ثمرہ ہے۔ اور اس سے وہی لوگ متمتع ہو سکتے ہیں جو مسلسل جدوجہد کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص آزادی اور حیات ابدی کا طالب ہو تو اسے ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ چیزیں گھر بیٹھے ہاتھ نہیں آئیں گی۔ اس کے بالمقابل کینٹ نے آزادی اور حیات ابدی کو اس لیے اپنے فلسفہ میں داخل کیا کہ اسے یہ کہنے کا موقع مل سکے کہ کائنات میں عدل کار فرما ہے اور افعال اور ان کے ثمرات میں مطابقت کلی موجود ہے۔ اقبال کا فلسفہ انسان کے دل میں خوش آئند امیدیں پیدا کرنے کا موجب ہے۔ میرا خیال ہے کہ خواہش اور فاعلیت، یہ دو چیزیں خودی کے اولیں خصائص ہیں اور ان کی وجہ سے انسان میں امیدوں کا پیدا ہونا ایک لازمی اور فطری امر ہے۔ شوپن ہار کی قنوطیت کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ بسا اوقات کائنات کی ناخوش آئند وسعت کے خیال میں منہمک رہتا ہے اور زندگی کی ان طوفان خیزیوں پر نظر نہیں ڈالتا، جو خود اس کے اندر برپا ہیں۔ علاوہ بریں اگر وہ زندگی کو زبوں اور مذموم خیال کرتا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ بد قسمتی سے اسے زندگی میں نہایت تلخ تجارب حاصل ہوئے تھے اور اس لیے وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ ’’خواہش‘‘ ایک امر مذموم ہے او رموجب کلفت ہے۔ اقبال اور شوپن ہار میں اس لحاظ سے بعد المشرقین ہے۔ جو شے اقبال کی نظر میں اچھی ہے وہی شے شوپن ہار کے نزدیک بری ہے۔ اقبال کی رائے میں مصائب اور آلام، خودی کی تربیت اور اصلاح کا موجب ہیں۔ شوپن ہار کی نظر میں یہی شے خود کشی کے جواز کی دلیل بن گئی ہے۔ فی الجمد کینٹ اور شوپن ہار کے خیالات کا براہ راست اقبال کے فلسفہ پر کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ کینٹ اگر فلسفہ کی دنیا میں عظیم الشان مرتبہ رکھتا ہے تاہم وہ محض ایک ما بعد الطبیعاتی مفکر تھا اور اقبال کو فلسفہ کے اس شعبہ سے اس قدر علاقہ نہیں جس قدر اخلاقیات سے ہے۔ رہا شوپن ہار کا فلسفہ۔ سو اس کے متعلق میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اقبال جیسا مذہبی خیالات رکھنے والا انسان اس کے فلسفہ کو کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا۔ جس شخص کے فلسفہ کا اقبال کے خیالات پر سب سے زیادہ اثر پڑا ہے وہ نیٹشے (Nietsche) ہے۔ جس کی وفات ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ اس کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ خواہش اقتدار‘‘ اس کائنات میں ایک بنیادی حقیقت ہے۔ یہ خواہش زندگی کی فراوانی اور افزونی کی مظہر ہے اور بالذات تمام حسنات کی سرتاج ہے۔ ٹھیک جس طرح شوپن ہار کے فلسفہ میں ’’ خواہش زیست‘‘ تمام سینات کی بنیاد ہے۔ یعنی جو چیز شوپن ہار کی نظر میں بدترین ہے وہ نیٹشے کی نظر میں بہترین ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ شوپن ہار جسے شیطان سمجھتا ہے نیٹشے اسے خدا سمجھتا ہے۔ بہرکیف اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ بقول نیٹشے اس کائنات کی رگ و پے میں کار فرما ہے اور اس کے فلسفہ کا یہ سنگ بنیاد یعنی خودی کی مسلسل جدوجہد کی حالت سے عملی طور پر مطابقت رکھتا ہے۔ اقبال اور نیٹشے دونوں کی نظر میں جدوجہد اور خواہش خطرات اور مشکلات آویزش اور تنازعات اور مصائب و آلام کے مصلحانہ اثرات تعمیر انسانی کے بنیادی لوازم ہیں۔ نیٹشے نے بنی نوع آدم کو دو طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ آقا اور غلام اور ان دونوں کیلئے جداگانہ اخلاق تجویز کئے ہیں۔ غلاموں کے لیے مسیحی اخلاق یعنی برباری اور مسکینی اور آقاؤں کے لیے وہ اخلاق جو ’’خواہش اقتدار‘‘ پر مبنی ہیں اور جو شدت اور جدوجہد کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جدوجہد کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ ’’ فوق البشر‘‘ ظاہر ہو جو مستقل بعید میں ظاہر ہو گا اور زندگی کا کامل مظہر ہو گا۔ چنانچہ نیٹشے لکھتا ہے کہ ’’ یہ زمانہ آئندہ کا یہ مرد میدان جو ہمارا نجات دہندہ ہو گا ہمیں موجودہ نصب العین اور اس کے نتائج سے آزادی دلائے گا اور ان قوتوں کو فنا کرنے والا ہو گا جو زندگی کے خلاف مصروف عمل ہیں جو اپنے ساتھ انقلاب عظیم لائے گا جس کی بدولت دنیا میں حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوں گی جو ہماری قوت آزادی کو آزادی عطا کرے گا جو کائنات کو اس کے صحیح مقام پر قائم کرے گا اور بنی نوع آدم کے اندر بہترین تمنائیں پیدا کرے گا جو مسیحیت کا مخالف اور تباہ کرنے والا ہو گا جو کائنات کی حقیقت کو ثابت کرے گا۔ الغرض یہ فوق البشر جو غیر معمولی طاقتوں کا مالک ہو گا ضرور ہے ایک دن دنیا میں ظاہر ہو۔‘‘ اقبال اور نیٹشے کے خیالات میں بڑی حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ دونوں کا مسلک یہ ہے کہ یہ مادی دنیا خودی کی جدوجہد کا ایک وسیع میدان ہے جس میں وہ مرتبہ اختیار پر فائز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ دونوں کا مذہب یہ ہے کہ آرٹ کے اندر جمال اور اقتدار دونوں میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ دونوں مسیحی فلسفہ اخلاق کے مخالف ہیں کیونکہ یہ فلسفہ خودی کو کمزور کرتا ہے فرق اتنا ہے کہ نیٹشے نے فلسفہ مذکورہ پر نہایت سختی کے ساتھ نکتہ چینی کی ہے۔ اقبال نے براہ راست اس کی تردید پر کمر نہیں باندھی، صر ف اشارہ کر دیا ہے کہ یہ فلسفہ ناقص ہے اور مسیحیت بنی نوع آدم کے لیے مفید نہیں کیونکہ ترک دنیا سکھاتی ہے اور اس وجہ سے خودی کی مخفی طاقتیں بروئے کار نہیں آ سکتیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است دنیا میں رہ کر اور مشکلات کا مقابلہ کرنے سے ہی خودی میں پختگی پیدا ہو سکتی ہے۔ باینہمہ فوق البشر کے تصور کے لحاظ سے اقبال اور نیٹشے دونوں میں بڑا فرق نظر آتا ہے۔ نیٹشے کا فوق البشر ایک ایسی ہستی ہے جو رحم دلی اور محبت اور ہمچو ازیں قبیل دیگر صفات قلبی سے جو سوسائٹی کے قیام کے لیے از بس ضروری ہیں۔ یکسر عاری ہے۔ اقبال کا فوق البشر یا انسان کامل ایک ملنسار ہستی ہے جو سوسائٹی میں دوسرے آدمیوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی ذاتی قوتوں کی بدولت دوسروں کو اپنی سطح پر لا سکتا ہے۔ فرماتے ہیں:ـ تنے پیداکن از مشت غبارے تنے محکم تر از سنگیں حصارے درون او دل درو آشنائے چو جوئے در کنار کوہسارے اقبال کے انسان کامل کا مزاج سختی اور نرمی دونوں کا حامل ہے اور وہ حسب اقتضائے وقت ان دونوں صفات سے کام لیتا ہے اس طرح کہ اس کو بھی فائدہ ہو اور سوسائٹی کو بھی ۔ لیکن نیٹشے کا فوق البشر اگر کامیاب انسان ہے تو وہ یقینا ظالم اور سنگدل ہو گا۔ اور اگر ناکام رہا تو خلوت گزین اور غالباً دنیا سے متنفر ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ نیٹشے کا فوق البشر اپنی ذات میں محدود ہے۔ اس کے سامنے کوئی نصب العین یا مطمح نظر نہیں جس کے حصول کی وہ کوشش کر سکے برخلاف اس کے اقبال کے انسان کامل کے سامنے خدا کی ذات موجود ہے اور خدا چونکہ غیر محدود ہے اس لئے اس کی ترقی کا میدان بھی غیر محدود ہے۔ لیکن نیٹشے کے فوق البشر کے لیے ترقی کرنے کی صورت ممکن نہیں۔ میرے خیال میں فلسفہ حیات کے لیے یہ بات اشد ضروری ہے کہ وہ انسانی ترقی کا ضامن ہو۔ پس اس لحاظ سے اقبال کا نظریہ نیٹشے کے نظریہ پر یقینا فوقیت رکھتا ہے۔ آخر الذکر چونکہ خدا کی ہستی کا منکر ہے اس لیے اس کے فلسفہ کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اس کا فوق البشر مزید ترقی نہیں کر سکتا۔ علاوہ بریں نیٹشے کے فوق البشر میں ایک نقص یہ ہے کہ اس نے بنی نوع آدم کو دو طبقوں میں منقسم کر دیا ہے۔ آقا اور غلام اس کا خیال یہ ہے کہ غلام ہمیشہ غلام ہی رہیں گے۔ وہ کبھی آقا کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ چنانچہ فوق البشر کے مستقبل قریب میں ظاہر ہونے کے لیے اس نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ طبقہ امراء میں اعلیٰ افراد پیدا کئے جائیں۔ لیکن اقبال کے فلسفہ کی رو سے ہر شخص غیر محدود ترقیات کا محدود مرکز ہے۔ ترقی کی راہیں ہر شخص کے لیے یکساں طور پر کھلی ہوئی ہیں۔ پس اقبال کے انسان کے ظہور کے لیے مدت مدید درکار نہیں ہے وہ مستقبل قریب میں اور اسی عالم میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اقبال نے ’’ اسلامی جمہوریت‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس میں وہ ایک مقام پر یوں لکھتے ہیں ’’ یورپ کی جمہوریت‘‘ جس کے سر پر اشتراکی شورش کا بھوت سوار ہے دراصل یورپین سوسائٹی کی اقتصادی اصلاح کی بدولت پیدا ہوئی۔ نیٹشے چونکہ جمہور کی حکومت کو پسند نہیں کرتا اور عوام الناس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اس لیے وہ مجبوراً اعلیٰ تہذیب و تمدن کو طبقہ امراء کی نشوونما پر منحصر کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عامتہ الناس ترقی کی مطلق صلاحیت نہیں رکھتے؟ اسلامی جمہوریت، یورپین جمہوریت کی طرح اقتصادی مواقع کی وسعت سے پیدا نہیں ہوئی۔ وہ تو ایک روحانی اصول ہے جو اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ہر شخص میں ترقی کی استعداد موجود ہے۔ بشرطیکہ اس کو ترقی کرنے کے مواقع بہم پہنچائے جائیں اور اسلام ایسا مذہب ہے جو انسان کی مخفی قوتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے عامتہ الناس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں میں سے بہترین کیریکٹر اور لیاقت کے افراد پیدا کیے ہیں۔ پس بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی اسلام کی جمہوریت میں نیٹشے کے فلسفہ کی تکذیب کا کافی سامان موجود ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ اقبال کے اس قول کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں بہت مل سکتی ہیں کہ ادنی ترین طبقہ کے افراد غلامی سے بادشاہت کے مرتبہ پر پہنچ گئے ہیں۔ اور ان کا شمار دنیا کے سب سے بڑے آدمیوں میں ہو سکتا ہے۔ نیٹشے کو جو کچھ غلطی اس باب میں لاحق ہوئی ہے ا سکی وجہ یہ ہے کہ اس نے تمدن اور امارت کا تصور یونانی ادبیات کے مطالعہ پر مبنی کیا ہے اس نے یہ نہ سوچا کہ اس معاملہ میں یونانی طرز حکومت بیحد ناقص تھا۔ اگر اسے اس کا احساس ہو جاتا تو وہ غلامی کو تمدن کا جزو لاینفک قرار نہ دیتا۔ اس کا فوق البشر دوسروں کی محنت کے بل بوتے پر تفوق حاصل کرتا ہے اور اس لحاظ سے بقول اقبال اس کی حیثیت ایک سائل سے زیادہ نہیں ہے۔ نیٹشے کے بعد جس مغربی فلاسفر سے اقبال کا فلسفہ قدرے مشابہت رکھتا ہے وہ ہنری برگسان ہے۔ اس جگہ اس کا فلسفہ شرح و بسط کے ساتھ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مختصر طور پر یوں سمجھیے کہ اس کی نظر میں تغیر اور انقلاب کائنات کی بنیادی حقیقت ہے۔ زندگی تغیرات کی ایک لڑی ہے لیکن ہماری قوت مدرکہ ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ وہ غیر مربوط حالتوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ علاوہ بریں خارجی حواس بھی ہمیں دھوکہ دیتی ہیں کیونکہ ان ک امقصد ہمیں حقیقت کا علم عطا کرنا نہیں بلکہ روز مرہ زندگی میں ہماری رہنمائی کرنا ہے۔ ہماری قوت مدرکہ زندگی کے ان مظاہرے سے سروکار رکھتی ہے زمان مسلسل اور مکان کہتے ہیں حالانکہ حقیقت کا انکشاف ہمارے شعور کی وحدت میں ہوتا ہے جسے ہم بذریعہ ’’ وجدان‘‘ معلوم کر سکتے ہیں اور وجدان زمان مسلسل میں نہیں بلکہ زمان خالص میں پایا جاتا ہے۔ حقیقت جس کا علم اس طرح حاصل ہوتا ہے ایک تخلیقی تحریک ہے جسے بالفاظ دیگر تخلیقی انقلاب کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک زبردست پیشرو حرکت ہے اور ہر شے کو اپنے ساتھ ارتقائی رنگ عطا کر دیتی ہے لیکن اس کا راستہ بالکل غیر معین ہے اور زمانہ آئندہ میں کوئی مقصد اس سے وابستہ نہیں ہے۔ اقبال بھی برگسان کی طرح تغیر کی واقعیت کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی دنیا ہر لحظہ منقلب ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:ـ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں زمان خالص کے متعلق ابھی اقبال کا وہی عقیدہ ہے جو برگسان کا ہے۔ اقبال اس کی حقیقت کے مصرف ہیں اور اسے زمان مسلسل سے جدا تصور کرتے ہیں۔ تاہم خطبات مدراس سے یہ بات واضح ہو سکتی ہے کہ انہوں نے یہ خیالات برگسان کے فلسفہ سے اخذ نہیں کئے ہیں۔ اس جزوی مشابہت سے قطع نظر کر کے دیکھا جائے تو دونوں مفکرین کے خیالات میں بہت کچھ اختلافات نظر آتے ہیں۔ برگسان کا فلسفہ روح اور مادہ میں تصادم تسلیم کرنے کی وجہ سے کائنات میں دوئی کا علمبردار ہے۔ لیکن اقبال کے فلسفہ میں یہ دوئی محیط کل خودی یعنی خدا کی ذات میں آ کر وحدت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ برگسان نے عقل و ادراک کی خوب خوب دھجیاں اڑائی ہیں اور اسے بالکل ناکارہ قرار دیا ہے لیکن اقبال عقل کو بالکل بیکار نہیں سمجھتا۔ ان کی رائے میں ادراک، وجدان اور ’’ عشق‘‘ تینوں مل کر وہ مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں جسے ’’ گلشن راز‘‘ میں تفکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ واضح ہو کہ عشق ایک ایسے یکسانیت پیدا کرنے والے طریق عمل کا نام ہے جو برگسان کے ’’وجدان‘‘ سے زیادہ قوی اور جاندار ہے۔ عشق سے مراد یہ ہے کہ عاشق حقیقت سے صرف آشنا ہی نہ ہو بلکہ اس سے بغلگیر ہو جائے۔ عاشق کی دراصل خواہش یہی ہوتی ہے کہ معشوق اس کے دل میں سما جائے۔اقبال نے عقل اور عشق دونوں میں کامل ہم آہنگی پیدا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں خادم اور مخدوم کا رشتہ ہونا چاہیے۔ من بندۂ آزادم عشق است امام من عشق است امام من عقل است غلام من علاوہ بریں برگسان نے انفرادی اور کلی دونوں قسم کی زندگیوں سے غایت یا مقصد کا تصور خارج کر دیا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی مقاصد سے معرا ہے حافظہ اس کی رائے دماغ کی فاعلیت کی بہترین مثال ہے اس نے ارادہ اورنیت کو جو مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ برگسان نے شخصیت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ اقبال کے فلسفہ کے پیش نظر ناقص معلوم ہوتا ہے۔ برگسان نے ’’ جدید تخلیق‘‘ کو ایک غیر مطبوع اصول کی شکل میں پیش کیا ہے جو شوپن ہار کے ’’غیر ذی شعور ارادہ‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس قسم کا اصول انفرادی زندگی پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ شخصیت کے ابھرنے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ علاوہ بریں اصلی تحریک حیات کی قوت جو اپنے ساتھ ہر شے کو بہائے لیے جاتی ہے۔ ہمارے سامنے ایک ایسی کائنات کا منظر پیش کرتی ہے جہاں ہر طرف ’’ جبر‘‘ کا ڈنکا بج رہا ہو حالانکہ برگسان نے کئی جگہ انسان کے مختار ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اگرچہ وہ انسانی اختیار کو شخصی آزادی کے رنگ میں پیش کرتا ہے لیکن جب تک شخصیت کی حد و بست مناسب اور صحیح طریق پر نہ کی جائے اس وقت تک ’’ اختیار‘‘ شرمندہ معنی نہیں ہو سکتا۔ برگسان کے فلسفہ میں اس بات کی بھی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ شخصیت کو ایک ذی شعور اصول یعنی ’’ ارتقائے تخلیقی‘‘ نے کیونکر پیدا کر دیا۔ واضح ہو کہ اس کے فلسفہ میں تخلیقی ارتقاء کو وہی مرتبہ حاصل ہے جو اقبال کے فلسفہ میں ’’ خدا‘‘ کو لیکن خدا ایک خودی ہے اور اس لیے بجا طور پر خالق خودی کہلا سکتا ہے۔ اس لیے اقبال کا نظریہ برگسان کے نظریہ کے مقابلہ میں زیادہ معقول نظر آتا ہے اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ انسانی شخصیت کی تشریح اسی صورت سے ہو سکتی ہے جب ہم خدا یا ’’ حقیقت الحقائق‘‘ کو بھی ایک شخص تصور کریں۔ اقبال کی طبیعت میں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں زبردست مذہبی میلان پایا جاتا ہے اور اس لیے وہ خدا کا تصور شخصیت ہی کے رنگ میں کرتے ہیں او ریہ انداز طبع ان کے فلسفہ کے حق میں از بس مفید ہے۔ اقبال نے اپنے خطبات مدراس میں بیان کیا ہے کہ خدا نے اس لیے اپنی آزادی پر بعض قیود عائد کر لی ہیں تاکہ انسان کو زیادہ سے زیادہ آزادی نصیب ہو سکے۔ لیکن برگسان کا ’’ جذبہ تخلیق‘‘ انسان اور یوان دونوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتا ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں انسان کے لیے بہت کم اختیار کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اقبال نے جہاں تک ہو سکا ہے خدائی قدرت و اختیار سے انسان کو حصہ دلایا ہے اور انسانی شخصیت کو اوج ترقی پر پہنچایا ہے۔ لیکن برگسان غیر ذی شعور ارتقائے تخلیقی کے نظریہ کو فروغ دینے کی خاطر انسانی شخصیت کو بہت کچھ پست اور درماندہ کر دیتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ نیٹشے اور برگسان دونوں نے جماعت کی بجائے فرد کو مخاطب کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برگسان کے فلسفہ کی بدولت یورپ میں ’’ تجارتی اتحاد‘‘ کی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ براہ راست یا بلا واسطہ اس تحریک کا بانی قرار نہیں دیاجا سکتا رہا نیٹشے تو وہ بنی نوع آدم کو بنظر حقارت دیکھتا تھا اور صرف مخصوص افراد کو لایق خطاب سمجھتا تھا چونکہ وہ ہر وقت فوق البشر کے تصور میں غرق رہتا تھا اس لیے اسے سوسائٹی کا کبھی خیال آتا ہی نہ تھا۔ ان مفکرین کے برخلاف اقبال کی توجہ ہمیشہ افراد کامل کی ایک بڑی جماعت پر مرکوز رہتی ہے اس لیے ان کے فلسفہ کی عمرانی اہمیت بالکل واضح ہے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس رنگ میں وہ تمام مغربی فلاسفروں سے منفرد نظر آتے ہیں۔ ان کی شاہراہ بھی سب سے جدا ہے۔ لگے ہاتھوں اگر گوئٹے کا بھی ذکر کر دیا جائے تو خلاف محل نہ ہو گا یہ شخص میرے خیال کے مطابق یورپ میں لیونارڈو کے بعد خدا کی ’’ بہترین مخلوق‘‘ یا اس کی قوت تخلیق کا بہترین نمونہ ہو گزرا ہے۔ اگرچہ وہ پیغمبر نہ تھا لیکن اپنے اندر پیغمبرانہ صفات ضرور رکھتا تھا۔ اس کی زندگی ہم آہنگی اور توازن کا ایک بہترین نمونہ تھی۔ یعنی سراپا ’’ آرٹ‘‘ تھی جس کے مطالعہ سے ’’ فتبارک اللہ احسن الخالقین‘‘ کے معنی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ میں اس کا ذکر اس لیے بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اس کی زندگی اقبال کے فلسفہ کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ فاؤسٹ میں اس نے لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے: ’’ حوادث روزگار سے متاثر نہ ہونا چاہیے، زندگی کا آرٹ اسی نکتہ میں مضمر ہے۔‘‘ ’’ پیام مشرق‘‘ میں اقبال نے بھی گوئٹے کے کمالات کا نہایت فراخدلی کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اقبال کی طرح گوئٹے بھی اسی بات کا قائل تھا کہ ’’ بقا‘‘ ذاتی کوشش سے حاصل ہو گی یہ دولت یونہی بیٹھے بٹھائے کسی کو نہیں مل سکتی۔ ایں دولت سرمد ہمہ کس را ندہند آخر میں اس امر کی صراحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اقبال ’’ مادیت‘‘ کے خواہ وہ کسی رنگ میں ہو سخت دشمن ہیں اور اسے انسانیت کے حق میں سم قائل خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے تصنیفات میں اس مسلک کے مضر نتائج کھول کھول کربیان کیے ہیں اور انجام کار اس نظام کے فنا ہو جانے کے متعلق پیشگوئی بھی کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ اوراق کے مطالعہ سے ناظرین کو معلوم ہو جائے گا کہا قبال کا فلسفہ کیا ہے اور کن کن باتوں میں مغربی ارباب فکر کے خیالات سے مختلف ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اقبال کا فلسفہ تمام تر حکمائے مغرب کے خیالات سے ماخوذ ہے۔ صریحاً غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ان کا یہ قول اس امر کی دلیل ہے کہ انہوں نے اقبال کے فلسفہ کا مطالعہ تو کیا ہے مگر سمجھنے سے قاصر رہے۔ جس طرح دو تصویروں کے بعض امور میں باہم مشابہ ہونے سے ایک کو دوسری کی نقل نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح اگر نیٹشے اور برگسان کے بعض خیالات کا پرتو اقبال کے فلسفہ میں نظر آتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ اقبال نے اپنا فلسفہ ہی ان حضرات سے اخذ کیا ہے۔ اقبال نے اپنے خطبات مدرس میں ان تمام فلاسفہ اور حکماء کی آراء و افکار پر زبردست تنقید کی ہے جس سے ان کا فلسفہ ماخوذ سمجھا جاتا ہے۔ نیٹشے اور برگسان دو ہی فلاسفر ایسے ہیں جن کے خیالات سے اقبال کے فلسفہ میں کہیں کہیں جزوی مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اصول اور فروع دونوں کے لحاظ سے اقبال اور نیٹشے یا برگسان میں اس قدر نمایاں او ربین اختلافات پائے جاتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں وہی شخص اقبال پر تقلید کا الزام لگانے کی جرأت کر سکتا ہے جس نے صداقت پسندی اور حقیقت پژدہی دونوں سے اپنا رشتہ بالکل منقطع کر لیا ہو۔ اب میں اقبال کے اس شعر پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں: تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل چیست حیات دوام؟ سوختن نا تمام ٭٭٭ اقبال علامہ سر محمد اقبال جب یورپ سے واپس آئے تھے تو میر نیرنگ نے ایک ترانہ پڑھا تھا۔ جسے ہم آج اقبال نمبر کے سلسلہ میں بطور تبرک درج کرتے ہیں۔ فصل بہار آئی پھر گلشن سخن میں اک جشن ہو رہا ہے مرغان نغمہ زن میں وہ مژدۂ مسرت لائی صبا چمن میں پھولے نہیں سماتے پھول اپنے پیرہن میں گلشن کے سبز پوشو جھٹ پٹ سنگار کر لو عطر عروس مل دو پھولوں کے پیرہن میں ہاں ہونئی ادا سے سنبل کی کنگھی چوٹی نرگس لگائے سرمہ چشمان سحر فن میں غنچوں کو حکم دے دو دیں داد کجکلاہی تیکھی ادائیں نکلیں نسرین و نسترن میں ہر غنچہ مسکرائے ہر پھول کھلکھلائے ہر برگ لہلہائے رونق رہے چمن میں ہو اہتمام ایسا آرائش چمن کا باقی رہے دقیقہ کوئی نہ بانکپن میں سرو سہی سے کہہ دو ناچے ذرا لب جو قمری ترانہ گائے جلسہ اڑے چمن میں یوروپ کی سیر کر کے اقبال واپس آئے خوشیاں منائیں مل کر اہل وطن، وطن میں ہے آمد مسرت اقبال تیری آمد خوشیاں ہیں اہل دل میں عیدیں ہیں اہل فن میں سر آنکھوں پر بٹھایا یوروپ میں تجھ کو سب نے غربت میں بھی رہا تو گویا سدا وطن میں پھر تیرے دم سے ہوں گے تازہ سخن کے چرچے پھر رونقیں رہیں گی یاروں کی انجمن میں ٭٭٭ عالمگیر! (علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم کا ترجمہ) از جناب پروفیسر محمد ؐ دین صاحب تاثیر ایم اے نام جاری ہے زباں پر سب کی عالمگیر کا دبدبہ ہر دل پہ ہے اس صاحب شمشیر کا کون عالمگیر وہ فرماندہ دنیا و دیں وہ کہ ترکش میں ہمارے تھا خدنگ آکریں وہ کہ میدان دغا میں دن کو گراستادہ تھا شب کو رہن خرقہ و عمامہ و سجادہ تھا ایک دن وہ صاحب زیبائش تاج و سریر وہ کہ سلطانوں کا سلطاں تھا فقیروں کا فقیر آخر شب سیر کی خاطر وہ تنہا چل دیا جانے کس عالم میں تھا جنگل کا رستہ لے لیا شہر میں گو نور و ظلمت میں ابھی پیکار تھی صبح اس جنگل میں لیکن مطلع انوار تھی شاہ حق آگاہ کا سر جھک گیا بہر نماز لے گیا حسن حقیقت کی طرف حسن مجاز ناگہاں اک شیر آ نکلا شجر کی آڑ سے چرخ گردوں کانپ اٹھا اسکی اک چنگھاڑ سے بوئے انساں سوئے انساں بن گئی خود رہنما شیر نے اک جست کی اور پشت شہ پر آ پڑا شاہ عالمگیر نے مڑ کر نظر تک بھی نہ کی ہاں مگر تیغ دو دم اپنی اسی دم کھینچ لی ڈر کی گنجائش کہاں قلب شہ جرار میں شیر قالیں شیر بیشہ کو کیا اک وار میں پھر اسی صورت سے جاری ہو گیا دور صلوٰۃ پھر ہوئے قائم رکوع و سجدہ والتحیات نام تو جاری زبانوں پر ہے عالمگیر کا دل بھی ہے سینہ میں کیا اس صاحب شمشیر سا؟ دل ترا لبریز خوف حق سے ہے گر زندہ ہے مردہ ہے تو غیر کی ہیبت سے گر لرزندہ ہے جلوۂ حق ہو سکے جس میں وہی دل چاہیے ایسی لیلیٰ کے لئے ایسی ہی محمل چاہیے ٭٭٭ اقبال از جناب حامد علی خاں بی ۔ اے مدیر ’’ ہمایوں‘‘ لاہور جنہیں رفعت سے آنکھیں تک ملانے کا نہ تھا یارا انہیں پھر لے اڑی یہ کس کی تخیل سپہر آرا گرے میراث آبا کھو کے یوں ہم خاک حسرت پر کہ تھا دنیا کی آنکھوں کے لئے عبرت یہ نظارا ’’کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے‘‘ ترے دل کو بنایا قلب مسلم کس نے دوبارا گداؤں کو جہانبانی سکھانے کے لئے کس نے خزانہ حکمت گم گشتہ کا پھر پا لیا سارا ہوئے افراد پھر احیائے ملت کے لئے قرباں حق آگاہی تجھے بخشی خود آگاہی نے دوبارا در آیا پھر قشون عشق نعیمائے دل و جاں کو ہوس کے قافلے کو لے کے بھاگا نفس امارا نقیب آفتاب تازہ و تابندہ تر آیا کہ ابھرا ہے افق سے پھر ترا ڈوبا ہوا تارا فلک سے جا ملا پھر طاق قصر سطوت کبریٰ ترا اقبال ہے اور ملت بیضا کا نقارا بنایا اپنے دل کو گنج اسرار بقا جس نے اور اس کو امت مرحوم کی تقدیر پروا را سرور سینہ ملت، فروغ دیدۂ دنیا خدائے پاک کا پیارا، نبیؐ کی آنکھ کا تارا نوا ساز خودی! تیری نوا کی گونج اٹھی ہی تھی کہ ٹھکرانے لگے پھر بے نوا تاج سردارا ترے ذوق یقیں نے کار فرمائے جہاں پائے وہی دل دیدہ نکبت نے پایا جن کو ناکارا ریاض ہند کو تو نے لہو رو رو کے سینچا ہے ادا تو نے کیا ملت کی تقصیروں کا کفارا گیا ہر باغ ملت میں شمیم جاں فزا لے کر ترا جوش اخوت اور صبا کا خیل آوارا ترے سوز محبت کی فسوں سازی نے پگھلائے وہ بے حس دل کہ تھے قرنوں سے ننگ سینہ خارا ٭٭٭ تصویر خیالی (احسان بن دانش مصنف ’’ حدیث ادب‘‘ ) سر چرخ بریں اک رت جگا تھا تھی ہر سو وجد کن باد شمالی چراغوں کی جگہ روشن تھے تارے بچھی تھی چاند کی سیمیں اجالی ترنم ریز تھے حوروں کے بربط جلو میں دل نشیں غلماں و خالی فضا میں تھیں لبالب مستیوں سے برستا تھا سرور لا زوالی نشاط انگیز نغمے چھا رہے تھے تھا ہر اک شے میں حسن لا ابالی نظر شیلے کی گیٹے کا تجسس عمر خیام کی بیخود خیالی نظیری کا طلسمات تغزل طویس و قند کی شیریں مقالی بیان میز ٹنیسین کا انداز خیال مومن و تعلیم حالی رموز حافظ شیراز و حسانؓ اسد اللہ خاں کا فکر عالی نکات درس سعدی، طرز بیدل امیر و داغ کی نازک خیالی مہیا سب تھا سامان تجمل تخیل سے پرے تھی پائمالی مجسم تھے شباب انگیز جلوے مکمل تھی بہاروں کی بحالی غرض، اس بزم رقص و شاعری کا پڑا سایہ جو زیر عرش عالی ندا آئی، یہیں مسدود ہو جا! وہ پر تو بن گیا شکل ہلالی نمایاں جس کے خم سے شوق سجدہ خموشی مظہر آشفتہ حالی پھر اس میں روح پھونکی باصد انداز ودیعت کر دیا حسن خیالی جسے احسان سب کہتے ہیں اقبال یہ ہے اس کی سرشت بے مثالی ٭٭٭ تحسین خراج (از مسٹر مجید ملک بی اے، ایل ایل بی، ایڈیٹر ’’ سن رائز‘‘ ) اے نوا سنج ازل، اے شاعر ولاتبار تیری خوشگوئی ہے رشک بلبل و رواج و سار تیرے نغمے رقص کرتے ہیں فضائے دہر میں تیری موسیقی پہ لہراتے ہیں نخل و برگ و بار اس قدر گرمی، یہاں تک درد، اتنا سوز و ساز اک جہاں تیری بدولت ہے خس آتش سوار تیرا ہر اک لفظ ہے تفسیر راز زندگی معنی و مفہوم میں جوں بحر نا پیدا کنار خاز مزدور میں افلاس و نکبت کا اندھیر عیش و عشرت سے منور محفل سرمایہ دار سلطنت والوں کا استبداد وجور بیحساب اور محکوموں کی غفلت باوجود حال زار رندمے آشام کا وہ آخر شب انفعال نخوت و کبر و غرور زاہد پرہیز گار وہ سر بازار حسن و عشق کی رسوائیاں حسن کے نظارے سے جلتے ہیں دل عفت شعار الغرض جو کچھ بھی ہوتا ہے تہ سقف کہن تو نے چند الفاظ میں سب پر کیا ہے آشکار اقبال از جناب چودھری جلال الدین صاحب اکبر تلخی ایام سے جب تنگ آ جاتا ہوں اور پیکار عمل کا حوصلہ ہوتا نہیں جب ہجوم یاس ہوتا ہے سکوں آموز دل جب دل مایوس وقت مدعا ہوتا نہیں جب دل ہنگامہ آرائے جہان آرزو سوز و ساز زندگی سے آشنا ہوتا نہیں جب بھٹک جاتا ہوں راہ منزل مقصود سے رہنمائے شوق میرا رہنما ہوتا نہیں شہریاری کے طلسم حرص کا ہو کر اسیر شوق آزادی سے جب میں آشنا ہوتا نہیں ہو کے بیخود جب کلیسائی فضاؤں میں کبھی پیر و دین متین مصطفیؐ ہوتا نہیں جب سکوت مرگ ہوتا ہے مرے جذبات پر زندگی کا دل میں کوئی ولولہ ہوتا نہیں بیدلی میں جب مرے احساس مٹ جاتے ہیں سب اور ذوق و شوق مجھ کو شعر کا ہوتا نہیں جب حسینان جہاں کا بھی جمال جانفروز ذوق افزائے دل بے مدعا ہوتا نہیں نغمہ و صہبا و فرش سبزہ و سرو و سمن کوئی بھی عیش جہاں کلفت ربا ہوتا نہیں تیرے نغمے پھونکتے ہیں مجھ میں افسون حیات موجزن ہوتا ہے رگ رگ میں مری خون حیات ٭٭٭ آرزوئے اقبال ابو العلاء عطا چشتی (بغداد) جلوہ ای بخش بہ تاریکی غم خانہ ما روزی اقبال بکش زحمت کاشانہ ما کوتہ و ستیم و تو خمخانہ عرفاں بردوش لب ما تشنہ و خالی شدہ پیمانہ ما سوئے بغداد گر آی و شرف می بخشی توچہ دانی چہ شود بادل دیوانہ ما دعوت شوق جمالت بہ فلک برساند رقص مستانہ ما نعرۂ رندانہ ما بہر نظارہ تو دیدہ بصد بیتابی ست در تمنائے تو رنگ دل ما عنابی ست تاجدار سخن اے شاہ جہان معنی روشن از جلوۂ تو کون و مکان معنی نام تو فلسفیاں را سبب عز و وقار ذات تو فخر ہمہ نکتہ وران معنی مصحف راز حقیقت راز تو تفسیرے نطق تو کاشف اسرار نہان معنی جذبہ بیخودی قوم ز سحر تو گریخت دہن لفظ خودی یافت زبان معنی بہر تسکین و قرار دل ناشاد آئی ای خوشا روز کہ در بلدۂ بغداد آئی ٭٭٭ فریاد رسا! (از جناب خان محمدؐ کبیر خاں صاحب رسا، جالندھر) حیف رفت از خانہ ما شاہد طرار ما درس عبرت می دہد پیہم در و دیوار ما آنکہ اکثر کرد اسرار حقیقت بے نقاب آنکہ اکثر گشت غمخوار دل بیمار ما قطع کرد از ما تعلق با حریفاں عہد بست برد در بازار ایشاں رونق بازار ما ما خموش دوم بخود در محفل امید و یاس بیخود و بدمست در بزم رقیباں بار ما ما غریباں ششدر و سرگشتہ در صحرائے ہند رہنمائے اہل ایراں کارواں سالار ما اردوئے بیچارہ مانداز نامرادی تشنہ کام فارسی شیراب گشت درا بر گوہر بار ما کیست؟ کو اقبال را در بزم ما باز آورد ہست محتاج نگاہش زخم و امندارما ٭٭٭ رباعی (از جناب غلام قادر صاحب اثر جالندھر) خاور باشد و یا بود قا آنی یا جود و نشاط و دانش ایرانی در معنی آفرینی و خوشگوئی لاریب کہ اقبال بود لاثانی ٭٭٭ اقبال مجازی لکھنوی رنگ اقبال پہ میں کر چکا، اظہار خیال نظم بھی لکھنے پہ سب کرتے ہیں اصرار بہت یاں یہ ہے عذر، قصیدہ تو نہیں اپنا کلام! مدح آسان ہے، تنقید ہے دشوار بہت تاج غالب کا اس اک سر کے لئے زیبا ہے! ورنہ اس جاہ کے ملتے ہیں طلب گار بہت! آج اردو میں اس اک دم سے ہے بس رنگ ادب ورنہ گلزار میں آتے ہیں نظر خار بہت! وہ مے و جام میں ساقی کی نگہ دیکھتا ہے! چشم نرگس کے تو گلشن میں ہیں بیمار بہت! درد ملت بھی ہے اور دین کا پیغام بھی ہے! ڈینٹے1؎ ہند کا ہے مظہر اسلام بھی ہے ! ٭٭٭ 1؎ روم کا مشہور قومی شاعر، ڈیوائن کمیڈی جس کی بہترین یادگار ہے جس طرح علامہ موصوف اپنے دور میں اسلام کے بہترین مظہر اور مصلح ہیں بعینہ ڈینٹے اپنے زمانہ میں مسیحیت کا بہترین مظہر اور مصلح تھا۔ (مجازی) اقبال (از کاشی پریاگی) سامری کیشوں کی نظروں میں تو جادوگر ہے تو میں جو کہہ سکتا تو کہہ دیتا کہ پیغمبر ہے تو حد توصیف و ثنا و مدح سے برتر ہے تو بحر اسلام و صفا و صدق کا گوہر ہے تو نور بیضا و دم عیسیٰ نثار ہر شرر مستتر لاکھوں سمندر ہیں وہ خاکستر ہے تو سرمدی نعرے ہیں وقف لذت رقص و سرور پیکر وجدان کو اک عیسوی نشتر ہے تو میکڈوگل کا اگر ہے فخر تو گوئٹے کا ناز فلسفہ کی وادیوں میں مشعل رہبر ہے تو داغ اور حالی کی شان سرسید و اکبر کی جان ان میں جو اوصاف تھے ان سب سے کچھ بڑھکر ہے تو ملک میں ہر دل پہ سکہ ہے تری تحریر کا نطق پر در ہے زباں ساز اور قواعد گر ہے تو شکوہ تیرا ہے اگر میزان لب کی آبرو تو جواب شکوہ میں جبریل ؑ کا ہمر ہے تو صاف اسرار خودی میں ہیں رموز بے خودی خود نفیسی1؎ مشتری جس کا ہے وہ گوہر ہے تو مہر علم و نخشب دل، کا سب انوار ہیں نور کی موجوں کا مخزن ہے مہ انور ہے تو ہے پیام مشرقی تجدید اسلامی خیال قدس کا بانگ درا ہے جزو پیغمبر ہے تو ٭٭٭ 1؎ سعید نفیسی عہد حاضر کا باکمال شاعر اور سحر طراز فسانہ نگار اقبال از سید دلبر حسن مسحور انبالوی متعلم بی، اے اسلامیہ کالج لاہور اے کہ تو پیکر نگار فطرت معصوم ہے تیری پیشانی پہ سر زندگی مرقوم ہے تیرے ہی دم سے فروزاں ہے چراغ قومیت ہے پھلا پھولا تیرے فیضاں سے باغ قومیت افتخار ایشیا! صد نازش ہندوستاں تو ہے اس بیچارگی میں ’’دولت اسلامیاں‘‘ سوز ملت تیری رگ رگ میں تپش اندوز ہے تیری ہستی ساز ہے اور تو سراپا سوز ہے تیرا ہر تار نفس گرم ستیز زندگی تیری ہر آہ رسا طوفان خیز زندگی منبع علم و عمل، کان صفا بحر وفا دشت پیمائے حقیقت، مرشد راہ ہدیٰ تیرے سینہ میں شعاع معرفت مستور ہے تیرا یہ پر نور دل رشک چراغ طور ہے! تو جہاں میں سورۂ اخلاص کی تفسیر ہے سطوت رفتہ کی جیتی جاگتی تصویر ہے آہ! گلزار ادب میں نغمہ پیرائی نہیں یعنی تجھ تک آج اردو کی پذیرائی نہیں تیرے نغموں کے لئے ہندوستاں بیتاب ہے کس لئے پھر ساز اردو تشنہ مضراب ہے گلشن اردو میں پھر سے زمزمہ پرواز ہو محو سوز و ساز ہو، گرم نوائے راز ہو ٭٭٭ اقبال اور اردو از جناب این ایچ ہاشمی بی اے، لکھنو یونیورسٹی ’’گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ‘‘ تھی ’’شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ‘‘ تھی ’’تھی تو روشن ہر جگہ لیکن کہیں بینا نہ‘‘ تھی ’’نے نصیب محفلے، نے قسمت کاشانہ‘‘ تھی خوبی قسمت سے شمع بزم دنیا بن گئی یعنی جب اقبال چمکا، یہ ستارا بن گئی پارسی نغموں میں پوشیدہ ہے گیٹے1؎ کی صدا اور قاآنی بنا ہے ہائینے2؎ کا ہم نوا فکر غالب کی ہے، تو بیدل کی ہے طرز ادا رنگ عرفی در شراب حافظی آمیختہ مے فرنگی ڈھل رہی ہے ساغر شیراز میں نغمہائے مغربی پنہاں ہیں ہندی ساز میں ہستی اقبال ہے اردو کے حق میں بے بہا زمزمہ سنجی سے ان کی شور ہے ہر سو مچا عرش3؎ تک پہونچا ہے ان کی شاعری کا غلغلہ ’’ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا‘‘ ہستی اقبال سے اردو کی دنیا بن گئی یعنی جب اقبال چمکا، یہ ستارا بن گئی 1؎ Goethe 2؎ Heine 3؎ اڑ کے آواز مری تا بفلک جا پہونچی ’’کی طرف اشارہ ہے ‘‘Inverted Commn میں خود اقبال کے الفاظ ہیں۔ اقبال سے (از مظہر انصاری بی اے آنرز، دفتر نظام المشائج) (۱) زمنیت محفل ہے تو، زمنیت دہ محفل ہے تو پیکر ملت میں اے اقبال مثل دل ہے تو بن کے قندیل تپاں روشن سر منزل ہے تو اپنی کشتی کے لئے امید کا ساحل ہے تو ڈال دی تیری نوائے آرزوئے زندگی ملت مسلم رہے گی حشر تک ممنوں تری تیرے سوز و ساز نے پائی رسائی دل تلک تیری آواز در آ پہنچی ہر ایک محفل تلک ڈوبتوں کو موج بن کر لایا تو ساحل تلک راہرو کے ساتھ تھی تیری صدا منزل تلک اس سکوت آباد میں حرف نوا تو بن گیا کارواں بے حس تھا آواز درا تو بن گیا جب تلک درس عمل تازہ ترا محفل میں ہے جب تلک تیرا سرور زندگانی دل میں ہے جب تلک تیرا نشان پارۂ منزل میں ہے تیری لیلائے تمنا جب تلک محمل میں ہے کرنے پائے گا نہ مرگ آرزو برہم ہمیں مضطرب رکھے گا تیرا جذبہ پیہم ہمیں (۲) چشم دل پر تیری روشن ہیں رموز زندگی ’’دوش میں‘‘ ملتی ہے تجھ کو صورت ’’فردا‘‘ چھپی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے تجدید کی آنکھ پر عریاں ہیں تیری شاہراہیں زیست کی گامزن ہے جس طرف تو اپنی منزل ہے یہی قول ہے جو کچھ ترا جینے کا حاصل ہے یہی تیری لیلائے تصور ڈھونڈتی ہے وہ جگر جس کے گوشوں میں مکیں ہو آرزو بن کر اثر جو بہا دے خود کو خوں کر کے بہ شکل اشک تر جس کی تابش خیرہ کر دے اہل عالم کی نظر جو بنے، بن کر مٹے مٹ کر بنے تابندہ تر زندگی ہو جس کے دم سے زندہ تر پایندہ تر (۳) آرزو کو تو نے سکھلائی ہیں وہ جولانیاں فکر کو ملتا نہیں تیرے تصور کا نشاں ہے سم رہوار سے پامال نیرنگ جہاں خاک سے لے کر تری پرواز ہے تا آسماں دہر کا ہنگامہ تجھ کو روک سکتا ہی نہیں تو کسی دستور کا پابند ہوتا ہی نہیں ہاں مگر شادابی رفتہ کا دلدادہ ہے تو گلشن ماضی میں ہے گلہائے انسانی کی بو عظمت رفتہ میں ملتا ہے تجھے شوق نمو مایہ دار زندگی ہے تجھ کو پچھلوں کا سبو ہے ترے سر میں ابھی سودائے شب باقی رہی تیرا بس ہو گر تو محفل ہو وہی ساقی وہی (۴) فخر ہے ہم کو تری اس کاوش ادراک پر جس نے گل بوٹے تصور کے کھلائے خاک پر جراتیں قرباں ہیں تیری ہمت بیباک پر آنکھ تاروں کی پھڑکتی ہے کسی کی دھاک پر دست شکوہ تیرا پہنچا دامن یزداں تلک ان کو یہ ڈر ہے پہنچ جائے نہ اک دن یاں تلک سروری ہے ملت اسلام میں خدمت گری فکر میں اوروں کے گھلنا ہے ہماری زندگی بادشاہی سے گراں تر ہے ہماری چاکری ہم بناتے ہیں مٹا کر خود کو دنیائیں نئی خدمت ملت سے تو مخدوم ملت بن گیا داستاں میں اپنی ہو گا نام تابندہ ترا (۵) آج پھر ہنگامہ ہائے زندگی ہیں بے قرار اڑ رہے ہیں چار سو آفات کے رنگیں شرار آج پھر ہے جوش غم سے سینہ مسلم فگار چشم دل واہے پے لذت کشی انتظار پھر کوئی اٹھے گا دینے کو ہمیں درس امید؟ پھر کوئی اقبال آئے گا لئے حرف نوید؟ ٭٭٭ بزم خیال (از محمدؐ شرف الدین یکتا، جودھپوری) اندھیرا ہو گیا رخصت شب یلد اے ہجراں کا نظر آنے لگا مشرق میں چہرہ صبح تاباں کا ہر اک سو جاذب انظار ہے اک نور کا عالم گرا ہے ٹوٹ کر تکمہ تجلی کے گریباں کا پیام زندگی دے کر چمن کے سونے والوں کو صبا نے اور ہی کچھ کر دیا عالم گلستاں کا نہالاں چمن جھوم اٹھے، کلیاں ہر طرف چٹکیں گلوں کی خوشنما آنکھوں سے ہر سو حسن نے جھانکا اسی عام میں میں کرتا تھا سیر عرصہ ہستی کہ کچھ حوروں نے پکڑا آ کے گوشہ میرے داماں کا اٹھا کر لے گئیں مجھ کو شہ عالم کی مجلس میں ضیائیں عالم انوار کی تھیں جلوہ گر جس میں سناؤں کیا وہاں میں نے انہیں آنکھوں سے کیا دیکھا ادھر نور خدا دیکھا ادھر نور خدا دیکھا جنہیں روح الامیں کہتے ہیں وقف پاسبانی تھے سر محفل جھکائے سر صحابہ کو کھڑا دیکھا خدا کی رحمتیں کچھ بے طرح اترائی پھرتی تھیں خدا کی مغفرت کو آستاں پر جبہ سا دیکھا ہوا اتنے میں غل پھر آمد آمد کا فرشتوں کی اور ان کے جھمگٹے میں ایک رند پارسا دیکھا فرشتے لائے جب اس خوش نصیب انساں کو مجلس میں بتاؤں کیا کہ اک نظارۂ حیرت فزا دیکھا بظاہر تھا وہ بیگانہ مگر دل کا شناسا تھا جسے اقبال کہتے ہیں وہی وہ مرد یکتا تھا یکایک وہ قطر اٹھی کہ جس میں رحمت باری چھپائے بیٹھی تھی دامن میں امت کی گنہگاری ہوئے جنباں وہ لعل لب کہ جن سے بزم امکاں میں تمدن اور علم و فضل کے دریا ہوئے جاری یہ لب ہائے تبسم ریز سے سرورؐ نے فرمایا کہ اے طوطی خوشگوئے گلستان وفاداری سخندائی نے تیری کر دیا حیراں زمانے کو ہوئے خاموش سب سن سن کے تیری نغز گفتاری بیاں کچھ کر ذرا مجھ سے مری امت کی حالت کا کیا کچھ اس نے چرچا میرے پیغام رسالت کا جھکا کر سر ہوا گویا وہ دربار رسالتؐ میں شہنشاہ دو عالم قوم مسلم ہے مصیبت میں زمانے نے ہمیں ایسا بلندی سے گرایا ہے کہ ہیں مصروف شیون رات دن قعر مذلت میں اسیر پنجہ نکبت رہین رنج ماکامی گرفتار نحوست ہیں پھنسے قید غلاکت میں خدا جانے ہماری شان اگلی کیا ہوئی آقا سبب کیا ہے گھرے میں یوں جو گرداب ہلاکت میں زمانے کی یہ نیرنگی ہمیں آنکھیں دکھاتی ہے مصیبت ہی مصیبت سامنے آنکھوں کے آتی ہے ہوا کچھ ایسی بدلی ہے مرے مولا زمانے کی قسم کھائی ہے چرخ پیر نے ہم کو مٹانے کی ہوائے تند کے جھونکے لئے ہیں خانہ بربادی نہ ڈھا جائے بند تو حید کے اس کارخانے کی ہم اپنی خستہ حالی کی شکایت کر چکے اس سے کہ جس کے ہاتھ میں کنجی ہے ہر بگڑی بنانے کی مگر افسوس اس حالت پر اس کو بھی نہ رحم آیا نہ کچھ امداد اپنی حضرت رب علانے کی کہیں یہ آپ بیتی کس سے اب جا کر یہ فرماؤ کریں کس طرح جرأت داستان غم سنانے کی کوئی یہ رنج افزا ماجرا بھی اب نہیں سنتا ہماری اے شہ عالمؐ خدا بھی اب نہیں سنتا مقدر کے ستائے ہیں سیہ بختی کے مارے ہیں ہوئے ہیں جاں بلب ہم کنج مرقد کے کنارے ہیں یہ سب سچ ہے کہ ہم ڈوبے پڑے ہیں بحر عصیاں میں مگر آقاؐ! تمہاری ہی شفاعت کے سہارے ہیں غلامی کی جو نسبت ہے اسی کی لاج کچھ رکھ لو ذرا دیکھو تو بزم غیر میں کیا کیا اشارے ہیں خدا سے اب دعا کیجئے کہ یہ حالت بدل جائے یہ طوفانی گھٹا جو چھا رہی ہے سر سے ٹل جائے سنا جب قصہ غم بحر رحمت جوش میں آیا جناب رحمت عالم نے یہ ارشاد فرمایا کہ سن اے بلبل نالاں خزاں آزردہ گلشن کے تری اس داستاں نے قلب رحمت کو بھی تڑپایا خدا سے شکوہ بیجا تو اے ناداں کیا تو نے مگر سوچا کہ یہ ابر مصیبت تجھ پہ کیوں چھایا؟ یہ ابتر حال تیرا کیوں ہمیشہ ہوتا جاتا ہے نظر آتی ہے کیوں پلٹی ہوئی یکسر تری کایا یہ تیری شامت اعمال ہے ننگ مسلمانی! چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی! تغافل کیش سن غفلت نے کھویا ہے مسلماں کو حقیقت کیا ہے تیری تو نہ سمجھا راز پنہاں کو تری قوت کے آگے ہیچ ہے دنیا کی ہر قوت بنا دیتی ہے یہ روباہ ہر شیر نیستاں کو مرے قول موکد سے مگر واقف نہیں ہے تو پیام زندگی جس نے سنایا نوع انساں کو ’’مٹا سکتی نہیں مسلم کو دنیا کی کوئی طاقت فراہم یہ کرے گا خود بخود مٹنے کے ساماں کو بنے کام اپنے کر توتوں سے خود چل کر بگاڑے ہیں تجھی نے بیخبر توڑا خدا کے عہد و پیماں کو ابھی تک وقت ہے قوم مسلماں کے سنبھلنے کا ارادہ بھی کرے تو ہاں اگر حالت بدلنے کا‘‘ اٹھ اے معجز بیاں شاعر بہ انداز دل آرائی تو ہے اعجاز پرور تجھ میں ہے شان مسیحائی زبان سیف ہے تیرے لئے سیف زباں تیری دکھا دے قوت گویائی کی عالم کو گیرائی تو ساقی ہے تو پھر جام بقا دے قوم مردہ کو ابھی بیدار ہو سکتی ہے لے کر ایک انگڑائی مسلماں کو مسلماں کر پیام زندگی دے کر اٹھا دے خفتہ بختوں کو بیانگ کار فرمائی دکھا شان بلالی کو مساجد میں اذاں دے کر تو ڈھا دے اپنی تکبیروں سے بنیاد کلیسائی یہیں تک بس ابھی پہونچی تھی تقریر شہ والا کہ مرے کان میں کچھ دور سے بانگ خروس آئی بہ بینم تا چہا تعبیر دار و خواب دو شینم طوالت تا کجا دامان خاموشی فرا چینم ٭٭٭ پیشکش بحضور اقبال از عبدالرشید ملک از بنگال ڈائریکٹر آف اگریکلچر اے کہ علم ظاہر و باطن کی ہے تفسیر تو اور عقدہ ہائے ہستی کا ہے تو عقدہ کشا قاف سے لے تا کماری چین سے لے تامریک1؎ فلسفہ کا تیرے غوغا ہے نکات اس کے دقیق باد زندہ تا ابد کا نقش ہو تیرا سبق فخر کم ہے جس قدر تجھ پر کرے ہے پنج آب آہ مسلم جس کا پرچم فخر صد املاک تھا الجھنوں میں چند روزہ زندگی کی پھنس گیا لم یزل جس کی صفت، ہے ملتجی اس سے ملک معجزہ پھر اک دکھا، حق کا ہو عالم میں عمل ٭٭٭ 1؎ مریک محفف ہے امریکا کے لئے اقبال (از جناب عبدالحمید صاحب حمد) ڈاکٹر اقبال! اے ملک سخن کے شہریار نازش اسلامیاں اے فلسفی نامدار تو کبھی ہے صحن گلزار وطن میں نغمہ سنج ہے کبھی ملت کی حالت پر خدا سے شکوہ سنج ہے ترا ’’قومی ترانہ‘‘ بالیقیں بانگ درا سوئے منزل کاروان قوم کا ہے رہنما تیرے شعروں نے دلوں میں جوش ایسا بھر دیا از سر نو ملت مردہ کو زندہ کر دیا ٭٭٭ اے مسیح شعر! اے بربط نو از زندگی! ہر ترانہ ہے ترا نغمہ طراز زندگی فلسفہ اس طرح شعریت سے ہم آہنگ ہے جیسے کوئی فلسفی نغمہ سرائے چنگ ہے مردہ دل کو ہیں ترے اشعار پیغام حیات تشنہ کام آرزو کے واسطے جام حیات کیوں نہ ہوں نظمیں تری درس کتاب زندگی تیرے ساغر میں ہے رومیؒ کی شراب زندگی ہوش کا شیدا کہیں مستی کا ہے طالب کہیں تو نظیری ہے کہیں، عرفی کہیں، غالب کہیں راز دان زندگی تو، ترجمان زندگی موت ہی تیری نگاہوں میں ہے جان زندگی زندگی آموز ہے بیشک ترا اردو کلام ہجر کے مارے ہوؤں کو وصل دلبر کا پیام فارسی اشعار ہیں لیکن طلسم حال و قال پوری آب و تاب سے روشن ہے خورشید کمال ڈالتا ہے گاہ ’’اسرار خودی‘‘ پر روشنی گاہ تو کرتا ہے تفسیر ’’رموز بے خودی‘‘ گاہ دیتا ہے ’’پیام مشرق‘‘ اہل غرب کو تاکہ ان کو زندگی کا فلسفہ معلوم ہو گا کے لکھتا، لکھ کے گاتا ہے کبھی شعر ’’زبور‘‘ جس میں لہریں لے رہا ہے زندگی کا بحر نور پھر کبھی اڑ کر ستاروں میں پہنچ جاتا ہے تو نغمہ ’’جاوید نامہ‘‘ جھوم کر گاتا ہے تو ٭٭٭ کر سکے جو حسن معنی کو عیاں کوئی نہیں ہند میں افسوس تیرا قدر داں کوئی نہیں مولد و مسکن ترا ہوتی جو یوروپ کی زمین نام تیرا ہی علم افراز ہوتا ہر کہیں گونج اٹھتی تیرے نغموں سے فضائے آسماں رہ سپر ہوتا تری ’’بانگ درا‘‘ پر کارواں فخر ہے پنجاب کا تو، ہند کا اعزاز ہے عالم اسلام کا سرمایہ صد ناز ہے تو نوائے راز ساز شعر پر گاتا رہے تا قیامت پرچم اقبال لہراتا رہے ٭٭٭ علامہ سر اقبال سے (از جناب شیخ عبدالحمید صاحب شوق بی اے، آنرز ہیڈ ماسٹر احمد پور دکن) اے کہ ترے نام کا عالم میں اک آوازہ ہے اے کہ تیری اک نوا سے عہد ماضی تازہ ہے اے کہ تیرا ہر سخن اسلام کا شیرازہ ہے تیرا ہر نکتہ رخ ہندوستاں کا غازہ ہے تو بھلا اردو سے اب کیوں ہو گیا بیزار ہے؟ سرد تو نے کر دیا اردو کا کیوں بازار ہے؟ تو زمین ہند میں سعدی کا ہم آواز ہے تو غنی کا ہم سخن ہے، بلبل 1؎ شیراز ہے صائب و عرفی کو تجھ پر آج فخر و ناز ہے مثنوی2؎ تیری بھی رومی کا اک اعجاز ہے گیسوئے 3؎ اردو مگر منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے غرب کو تو نے پیام شرق4؎ سرتا سر دیا اور عجم کو بھی زبور5؎ زمزمہ پرور دیا بیخودی 6؎ کا اور خودی 7؎ کا راز بھی حل کر دیا اور مئے عرفاں سے جام ایشیا بھی بھر دیا مسلم ہندی مگر پھر آج تشنہ کام ہے وقف8؎ اوروں کے لئے تیرا بھلا کیوں جام ہے 1؎ حافظؒ، 2؎ مثنوی اسرار و رموز، 3؎ خود حضرت اقبال کا شعر غالب کے متعلق بہ تصرف خفیف، 4؎ پیام مشرق، 5؎ زبور عجم، 6؎ رموز بیخودی، 7؎ اسرار خودی ،8؎ محفل ہندوستاں سے فارسی داں اٹھ گئے اٹھ گئے سارے گرامی1؎ سے غزل خواں اٹھ گئے اٹھ گیا آزاد اور اس کے سخنداں2؎ اٹھ گئے غالب و بیدل سے خوش گفتار انساں اٹھ گئے فارسی سے سر زمین ہند اب بیگانہ ہے شمع اردو کا بنا ہر ایک اب پروانہ ہے بد مذاقی سے غزل ہے اپنی دنیا میں ذلیل اور کہلاتا ہے ہم میں ہر قصیدہ گو رذیل نیچرل گو آپ ہے اپنی خرابی کی دلیل کچھ نکلنے کی نہیں قعر مذلت سے سبیل ہاں مگر تیرے قلم میں جو ہر اکسیر ہے اک تری 3؎ بانگ درا صد نعرہ تکبیر ہے ٭٭٭ (۲) وہ مضامین جو ۱۹۳۲ء کے اقبال نمبر میں موجود نہ تھے اس شمارے میں اس عنوان کے تحت تو میں، نقوش کے ابتدائی صفحات ہی میں کچھ عرض کیا کرتا تھا۔ مگر اب کے اس عنوان کو رسالے کے بیچ میں لانا پڑا۔ اپنی بادشاہت کی بات ہی اور ہوتی ہے دوسروں کی قلمرو میں دخل دینے کا نتیجہ یہی کچھ ہو سکتا ہے کہ سوچو اور سوچتے ہی چلے جاؤ! بندہ یہ تو عرض کر چکا ہے کہ یہ وہی نمبر ہے جو ۱۹۳۲ء میں چھپا تھا اور جسے پڑھنے اور دیکھنے کو آنکھیں ترستی تھیں۔۔۔۔۔ اہل علم بیکل تھے۔ جو اقبال نمبر ۱۹۳۲ء میں چھپا تھا۔ وہ اس شمارے کے ۲۹۸ صفحات میں آراستہ ہوا ہے۔ باقی تین سو سے زائد صفحات نیرنگ خیال ہی کی مختلف فائلوں سے سنیتے گئے ہیں۔ پہلے سائز چھوٹا تھا۔ (۲۷x۱۷/۸) اور اب کے بڑا (۳۰x۲۰/۸) ۲۸ مضامین نیرنگ خیال کے ۱۹۳۲ء والے نمبر میں چھپے تھے۔ اضافہ کے طور پر موجودہ نمبر میں، جتنے نئے مضامین جمع ہوئے۔ ان کی تعداد ۳۲ ہو گئی۔ یعنی اصل زد سے سود بڑھ گیا۔ البتہ ایک مضمون تکملہ کے طور پر پہلی بار چھاپا جا رہا ہے۔ ۱۹۳۲ء میں اقبال نمبر کی جو ترتیب تھی۔ اسے ہی بحال رکھا گیا ہے۔ حالانکہ ضرورت تھی کہ مضامین کو آگے پیچھے کر دیا جاتا۔ البتہ اتنی جسارت کی ہے کہ حصہ نظم کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ یا پھر اضافہ کردہ مضامین میں اپنی مرضی کو دخل دینے کی اجازت دے دی۔ اس شمارہ میں حکیم یوسف حسن کی ایک تصویر وہ ہے کہ جب انہوں نے پہلی مرتبہ نیرنگ خیال کا اقبال نمبر چھاپا تھا اور ایک تصویر وہ کہ جب موجودہ نمبر اشاعت پذیر ہو رہا ہے۔ کبھی مدیر نیرنگ خیال خوبرو اور آتش جو الہ تھے۔ آج خاموش اور ہڈیوں کا ڈھیر، مگر دل کی خوبصورتی جیسی جب تھی۔ ویسی ہی آج! میں نے اس نمبر کے ہر صفحہ پر نیرنگ خیال کی پیشانی لکھوائی ہے تاکہ معاملہ حق بہ حق حقدار رسید والا ہو۔ حالانکہ ضابطہ کے مطابق، نیرنگ خیال کی جگہ نقوش کا لفظ ہونا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ یہ نمبر ادارہ نقوش کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر دل راضی نہ ہوا۔ جو کچھ آپ کے سامنے ہے۔ وہ کچھ سامنے لانے کے لئے بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ فائلیں مدیر نیرنگ خیال کے پاس نہ تھیں۔ ادھر ادھر جھانکنا پڑا۔ تب کہیں جا کر، یہ نمبر اس صورت میں مرتب ہوا۔ باوجود اتنی کاوش کے ہو سکتا ہے کہ ایک آدھ مضمون پھر بھی رہ گیا ہو۔ ایک بات اس نمبر کے ٹائیٹل کے سلسلے میں بھی عرض کرنی ہے۔ اقبال کے کلام میں شاخ تاک کا ذکر بہت ہے۔ مگر کسی ادیب نے اس موضوع پر قلم نہ اٹھایا۔ ایک مصور توجہ دلاتا ہے۔ اسلم کمال ان دنوں، اقبال ہی کے سلسلے میں، اپنی صلاحیتوں کو صرف کر رہا ہے۔ توقع رکھنی چاہیے کہ عقیدتوں کے اسرار وا ہوں گے۔ شمارہ نمبر کے اعتبار سے نقوش کے ۱۲۲ شمارے چھپ چکے ہیں۔ مگر میں اسے شمارہ نمبر ۱۲۳ نہیں کہوں گا۔ کیونکہ خاکسار اس نمبر کی پیش کش کی خوشی میں شریک تو ہے مگر کسی قسم کے کریڈٹ میں حصہ دار بننا نہیں چاہتا۔ میں نے جو کچھ کیا۔ حکیم صاحب کی محبت میں کیا! محمد نقوش ٭٭٭ اسلام، قومیت اور وطنیت علامہ سر محمد اقبال کا مقالہ علمیہ ایک وقت تھا۔ وطن اور ملت کے مفہوم پر مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ سر محمد اقبال کے درمیان بحث چھڑ گئی تھی یہاں تک کہ علامہ سر محمد اقبال کو ایک مقالہ کے ذریعہ اس فتنہ کا سد باب کرنا پڑا جو ان دنوں وطنیت اور ملت کے متعلق پھیل رہا تھا۔ آج کل بھی پاکستانی سیاسیات پر یہی مسئلہ ایک دوسرے روپ میں چھایا ہوا ہے۔ مخلوط انتخابات اور جداگانہ انتخاب کے مسائل کو اسی مقالہ کی روشنی میں مطالعہ کرنے سے بہت سے حقائق بے نقاب ہو جاتے ہیں اور امت مسلمہ کی پوری رہنمائی ہوتی ہے۔ اس لیے اس مقالہ کا بغور مطالعہ فرمائیے۔ ایڈیٹر فرنگی نظریہ وطنیت مجھ کو حقیقت میں مولانا کے اس ارشاد پر بھی اعتراض نہیں۔ اعتراض کی گنجائش اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ کہا جائے کہ زمانہ حال میں اقوام کی تشکیل اوطان سے ہوتی ہے اور ہندی مسلمانوں کو مشورہ دیا جائے کہ وہ اس نظریہ کو اختیار کریں ایسے مشورہ سے ’’ قومیت‘‘ کا جدید فرنگی نظریہ ہمارے سامنے آتا ہے جس کا ایک اہم دینی پہلو ہے جس کی تنقید ایک مسلمان کے لیے از بس ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ میرے اعتراض سے مولانا کو یہ شبہ ہوا کہ مجھے کسی سیاسی جماعت کا پروپیگنڈا مقصود ہے۔ حاشا و کلا میں نظریہ وطنیت کی تردید اس زمانے سے کر رہا ہوں جب کہ دنیائے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریہ کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتدا ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب بھی ہو گئی اور اس کی انتہا یہ ہے کہ ہندوستان میں اب مسلمانوں کے بعض دینی پیشوا بھی اس کے حامی نظر آتے ہیں۔ زمانے کا الٹ پھیر بھی عجیب ہے، ایک وقت تھا کہ نیم مغرب زدہ پڑھے لکھے مسلمان تفرنج میں گرفتار تھے اب علماء اس لعنت میں گرفتار ہیں۔ شاید یورپ کے جدید نظرئیے ان کے لیے جاذب نظر ہیں، مگر افسوس۔ نو نہ گردد کعبہ را رخت حیات گرز افرنگ آیدش لات و منات سیاسی لٹریچر میں وطن کا مفہوم میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ مولانا کا یہ ارشاد کہ:’’ اقوام اوطان سے بنتی ہیں‘‘ قابل اعتراض نہیں، اس لیے کہ قدیم الایام سے اقوام اوطان کی طرف اور اوطان اقوام کی طرف منسوب ہوتے چلے آئے ہیں۔ ہم سب ہندی ہیں او رہندی کہلاتے ہیں۔ ہم سب کرۂ ارضی کے اس حصہ میں بود و باش رکھتے ہیں جو ہند کے نام سے موسوم ہے علیٰ ہذا القیاس چینی، عربی، جاپانی، ایرانی وغیرہ وطن کا لفظ جو اس قول میں مستعمل ہوا ہے محض ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اور اس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا اس کے حدود آج کچھ ہیں اور کل کچھ، کل تک اہل برما ہندوستانی تھے اور آج برمی ہیں۔ ان معنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھوم سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے لیے اس کے لیے قربانی کرنے کو تیار رہتا ہے۔ بعض نادان لوگ اس کی تائید میں حب الوطن من الایمان کا مقولہ حدیث سمجھ کر پیش کیا کرتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وطن کی محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے جس کی پرورش کے لیے اثرات کی کچھ ضرورت نہیں مگر زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں’’ وطن‘‘ کا مفہوم جغرافیائی نہیں بلکہ ’’ وطن‘‘ ایک اصول ہے ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے چونکہ اسلام بھی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب لفظ’’ وطن‘‘ کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے۔ اسلام اور ہیئت اجتماعیہ انسانیہ مولانا حسین احمد صاحب سے بہتر اس بات کو کون جانتا ہے کہ اسلام ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کا تیار نہیں بلکہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ ہر دستور العمل جو غیر اسلام ہونا معقول و مردود ہے۔ اس کلیے سے بعض سیاسی مباحث پیدا ہوتے ہیں جن کا ہندوستان سے خاص تعلق ہے۔ مثلاً یہ کہ کیا مسلمان اور قوموں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے یا ہندوستان کی مختلف قومیں یا ملتیں ملکی اغراض کے لیے متحد نہیں ہو سکتیں وغیرہ وغیرہ لیکن چونکہ میرا مقصد اس وقت صرف مولانا حسین احمد صاحب کے قول کے دینی پہلو کی تنقید ہے اس لیے میں ان مباحث کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہوں۔ اسلام واحد جماعتی نظام ہے اسلام کے مذکورہ بالا دعویٰ پر عقلی دلائل کے علاوہ تجربہ بھی شاہد ہے اول یہ کہ اگر عالم بشریت کا مقصد اقوام انسانی کا امن، سلامتی اور ان کی موجودہ اجتماعی ہئیتوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام قرار دیا جائے تو سوائے نظام اسلام کے کوئی اور اجتماعی نظام ذہن میں نہیں آ سکتا۔ کیونکہ جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے تاریخ ادیان اس بات کی شاہد عادل ہے کہ قدیم زمانہ میں دین قومی تھا جیسے مصریوں، یونانیوں اور ہندیوں کا، بعد میں ’’ نسلی‘‘ قرار پایا جیسے یہودیوں کا مسیحیت نے یہ تعلیم دی کہ دین انفرادی اور پرائیویٹ ہے جس سے بدبخت یورپ میں بحث پیدا ہوئی کہ ’’ دین‘‘ چونکہ پرائیویٹ عقائد کا نام ہے اس واسطے انسانوں کی اجتماعی زندگی کی ضامن صرف سٹیٹ ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی ہے نہ انفرادی اور پرائیویٹ بلکہ خالصتہً انسانی ہے اور اس کا مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔ ایسادستور العمل قوم اور نسل پر بنا نہیں کیا جا سکتا نہ اس کو پرائیویٹ کہہ سکتے ہیں بلکہ اس کو صرف معتقدات پر ہی مبنی کیا جا سکتا ہے۔ صرف یہی ایک طریق ہے جس سے عالم انسانی کی جذباتی، زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے جو ایک امت کی تشکیل او راس کے بقاء کے لیے ضروری ہے۔ کیا خوب کہا ہے مولانا رومیؒ نے: ہم دلی از ہم زبانی بہتر است مسلمانوں کو بر وقت تنبیہہ اس سے علیحدہ رہ کر جو اور راہ اختیار کی جائے وہ راہ لا دینی کی ہو گی اور شرف انسانی کے خلاف ہو گی۔ چنانچہ یورپ کا تجربہ دنیا کے سامنے ہے جب یورپ کی دینی وحدت پارہ پارہ ہو گئی اور یورپ کی اقوام علیحدہ علیحدہ ہو گئیں تو ان کو اس بات کی فکر ہوئی کہ قومی زندگی کی اساس کیا قرار پائے۔ ظاہر ہے کہ مسیحیت ایسی اساس نہ بن سکتی تھی۔ انہوں نے یہ اساس وطن کے تصور میں تلاش کی۔ کیا انجام ہوا اور ہو رہا ہے ان کے اس انتخاب کا؟ لوتھر کی اصلاح غیر سلیم عقلیت کا دور اصول دین کا سٹیٹ کے اصولوں سے افتراق بلکہ جنگ یہ تمام قوتیں یورپ کو دھکیل کر کس طرف لے گئیں؟ لادینی، دہریت اور اقتصادی جگنوں کی طرف کیا مولانا حسین احمد یہ چاہتے ہیں کہ ایشیا میں بھی اسی تجربہ کا اعادہ ہو ؟ مولوی صاحب زمانہ حال میں قوم کے لیے وطن کی اساس ضروری سمجھتے ہیں بے شک زمانہ حال نے اس اساس کو ضروری سمجھا ہے مگر صاف ظاہر ہے کہ یہ کافی نہیں بلکہ بہت سی اور قوتیں بھی ہیں جو اس قسم کی قوم کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ مثلاً دین کی طرف سے بے پروائی، سیاسی روز مرہ مسائل میں انہماک اور علیٰ ہذا القیاس اور دیگر موثرات جن کو مدبرین اپنے ذہن سے پیدا کریں تاکہ ان ذرائع سے اس قوم میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔ مولوی صاحب اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ اگر ایسی قوم میںمختلف ادیان و ملل ہوں تو رفتہ رفتہ وہ تمام ملتیں مٹ جاتی ہیں اور صرف لا دینی اس قوم کے افراد میں وجہ اشتراک رہ جاتی ہے۔ کوئی دینی پیشوا تو کیا ایک آدمی بھی جو دین کو انسانی زندگی کے لیے ضروری جانتا ہے نہیں چاہتا کہ ہندوستان میں ایسی صورت حالات پیدا ہو باقی رہے مسلمان سو افسوس ہے کہ ان سادہ لوحوں کو اس نظریہ وطنیت کے لوازم اور عواقب کی پوری حقیقت معلوم نہیں، اگر بعض مسلمان اس فریب میں مبتلا ہیں کہ دین اور وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے یک جا رہ سکتے ہیں۔ تو میں مسلمانوں کو بر وقت انتباہ کرتا ہوں کہ اس راہ کا آخری مرحلہ اول تو لادینی ہو گی اور اگر لادینی نہیں تو اسلام کو محض ایک اخلاقی نظریہ سمجھ کر اس کے اجتماعی نظام سے بے پروائی۔ مولانا حسین احمد صاحب کا نظریہ وطن مگر جو فتنہ مولانا حسین احمد کے ارشاد میں پوشیدہ ہے۔ وہ زیادہ وقت نظر کا محتاج ہے۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ قارئین مندرجہ ذیل سطور کو غور سے پڑھنے کی تکلیف گوارا فرمائیں گے۔مولانا حسین احمد عالم دین ہیں اور جو نظریہ انہوں نے قوم کے سامنے پیش کیا ہے امت محمدیہ کے لیے اس کے خطرناک عواقب سے وہ بے خبر نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے لفظ قوم استعمال کیا یا لفظ ملت ہر اس لفظ سے اس جماعت کو تعبیر کرنا جو ان کے تصور میں امت محمدیہ ہے اور اس کی اساس وطن قرار دینا، ایک نہایت دل شکن اور افسوسناک امر ہے ان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس تو ہوا ہے لیکن یہ احساس ان کو غلطی کے اعتراف یا اس کی تلافی کی طرف نہیں لے گیا۔ انہوں نے لفظی اور لغوی تاویل سے کام لے کر عذر گناہ بد تر از گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ ملت اور قوم کے لغوی فرق و امتیاز سے کیا تسلی ہو سکتی ہے؟ ملت کو قوم سے ممتاز قرار دینا ان لوگوں کی تشفی کا باعث تو ہو سکے جو دین اسلام کے حقائق سے نا واقف ہیں واقف کار لوگوں کو یہ قول دھوکا نہیں دے سکتا۔ دو2؎ خطرناک نظرئیے آپ نے سوچا نہیں کہ آپ اس توضیح سے دو غلط اور خطرناک نظرئیے مسلمانوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں: ایک یہ کہ مسلمان بحیثیت قوم اور ہو سکتے ہیں او ربحیثیت ملت اور دوسرا یہ کہ ازروئے قوم چونکہ وہ ہندوستانی ہیں اس لیے مذہب کو علیحدہ چھوڑ کر انہیں باقی اقوام ہند کی قومیت ہا ہندوستانیت میں جذب ہو جانا چاہیے۔ یہ صرف قوم اور ملت کے الفاظ کا فرق ہے ورنہ نظریہ وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا اور جس کے اختیار کے لیے اس ملک کی اکثریت اور اس کے رہنما آئے دن یہاں کے مسلمانوں کو تلقین کرتے رہتے ہیں۔ یعنی یہ کہ مذہب اور سیاست جدا جدا چیزیں ہیں۔ اس ملک میں رہنا ہے تو مذہب کو محض انفرادی اور پرائیویٹ چیز سمجھو اور اس کو افراد تک ہی محدود رکھو۔ سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کو کوئی دوسری علیحدہ قوم نہ تصور کرو اور اکثریت میں مدغم ہو جاؤ۔ مولٰنا کی زمین اور آسمان مولانا نے بظاہر یہ کہہ کر ’’ میں نے لفظ ملت اپنی تقریر میں استعمال نہیں کیا میں ملت کو وطنی قوم سے بالاتر سمجھتا ہوں۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ گویا اگر قوم زمین ہے تو ملت بمنزلہ آسمان ہے۔ لیکن معناً اور عملاً آپ نے ملت کی اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں چھوڑی اور آٹھ کروڑ مسلمانوں کو یہ وعظ فرما دیا ہے کہ ملک و سیاست کے اعتبار سے اکثریت میں جذب ہو جاؤ۔ قوم، قومیت کو آسمان بناؤ۔ دین فطرت زمین بنتا ہے تو بننے دو۔‘‘ مولانا نے یہ فرض کر کے کہ مجھے قوم اور ملت کے معانی میں فرق معلوم نہیں اور شعر لکھنے سے پہلے جہاں میں نے مولانا کی تقریر کی اخباری رپورٹ کی تحقیق نہ کی وہاں قاموس کی ورق گردانی بھی نہ کر سکا۔ مجھے زبان عربی سے بے بہرہ ہونے کا طعنہ دیا ہے۔ یہ طعنہ سر اور آنکھوں پر۔ لیکن کیا اچھا ہوتا اگر میری خاطر نہیں تو عامتہ المسلمین کی خاطر قاموس سے گزر کر قرآن حکیم کی طرف مولانا رجوع کر لیتے اور اس خطرناک اور غیر اسلامی نظریہ کو مسلمانوں کے سامنے رکھنے سے پیشتر خدائے پاک کی نازل کردہ مقدس وحی سے بھی استہشاد فرماتے مجھے تسلیم ہے کہ میں عالم دین نہیں نہ عربی زبان کا ادیب۔ قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہ شہر قاروں ہے لعنت ہائے حجازی کا قاموس اور قرآن پاک لیکن آپ کو کونسی چیز مانع آئی کہ آپ نے صرف قاموس پر اکتفا کی؟ کیا قرآن پاک میں سینکڑوں جگہ لفظ قوم استعمال نہیں ہوا؟ کیا قرآن میں ملت کا لفظ متعدد بار نہیں آیا؟ آیات قرآن میں قوم و ملت سے کیا مراد ہے؟ اور کیا جماعت محمدیہ کے لیے ان الفاظ کے علاوہ لفظ امت بھی آیا ہے یا نہیں؟ کیا ان الفاظ کے معانی میں اس قدر اختلاف ہے کہ ایک ہی قوم اس اختلاف معانی کی بناء پر ایسی مختلف حیثیتیں رکھے کہ دینی یا شاعری اعتبار سے تو وہ نو امیس الٰہیہ کی پابند ہو اور ملکی اور وطنی اعتبار سے کسی ایسے دستور العمل کی پابند ہو جو ملی دستور العمل سے مختلف بھی ہو سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر مولانا قرآن سے استشہاد کرتے تو اس مسئلہ کا حل خود بخود ان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ آپ نے الفاظ کی جو لغت بیان فرمائی وہ بہت حد تک درست ہے۔ قوم کے معنی جماعتہ الرجال فی الاصل دون النساء ہے۔ گویا لغوی اعتبار سے عورتیں قوم میں شامل نہیں۔ لیکن قرآن حکیم میں جہاں قوم موسیٰ اور قوم عاد کے الفاظ آئے ہیں وہاں ظاہر ہے کہ عورتیں اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ ملت کے معنی بھی دین و شریعت کے ہیں۔ لیکن سوال ان دونوں لفظوں کے لغوی معانی کے فرق کا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان۔ اولاً اجتماعی اعتبار سے واحد و متحد اور مصرف جماعت ہیں جس کی اساس توحید اور ختم نبوت پر ہے یا کوئی ایسی جماعت ہیں جو نسل و ملک یا رنگ دبستان کے مقتضیات کے ماتحت اپنی ملی وحدت چھوڑ کر کسی اور نظام و قانون کے ماتحت کوئی اور ہیئت اجتماعیہ بھی اختیار کر سکتے ہیں؟ ثانیاً کیا ان معنوں میں بھی قرآن حکیم نے اپنی آیات کو کہیں لفظ قوم سے تعبیر کیا ہے؟ یا صرف لفظ ملت یا امت ہی سے پکارا گیا ہے۔ ثالثاً اس ضمن میں وحی الٰہی کی دعوت کس لفظ کے ساتھ ہے کیا یہ کسی آیت قرآنی میں آیا ہے کہ اے لوگو!یا اے مومنو! قوم مسلم میں شامل ہو جاؤ یا اس کا اتباع کرو یا یہ دعوت ملت کے اتباع اور امت میں شمولیت کی ہے؟ قرآن کریم میں ملت کا مفہوم جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں قرآن حکیم میں جہاں جہاں اتباع و شرکت کی دعوت ہے وہاں صرف لفظ ملت یا امت وارد ہوا ہے کسی خاص قوم کے اتباع یا اس میں شرکت کی دعوت نہیں۔ مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ومن احسن دینا ممن اسلم وجہہ للہ وھو محسن واتبع ملتہ ابراہیم حنیفا واتبعت ملتہ ابائی ابراہیم فاتبعوا ملتہ ابراہیم حنیفا۔ اور یہ اتباع و اطاعت کی دعوت اس لیے ہے کہ ملت نام ہے ایک دین کا، ایک شرع و منہاج کا، قوم چونکہ کوئی شرح و دین نہیں اس لیے اس کی طرف دعوت اور اس سے تمسک کی ترغیب عبث تھی، کوئی گروہ ہو، خواہ وہ قبیلہ کا ہو، نسل کا ہو، ڈاکوؤں کا ہو، تاجروں کا ہو، ایک شہر والوں کا جغرافیائی اعتبار سے ایک ملک یا وطن والوں کا ہو۔ وہ محض گروہ ہے رجال کا یا انسانوں کا، وحی الٰہی یا نبی کے نقطہ خیال سے ابھی وہ گر وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوتا، اگر وہ وحی یا نبی اس گروہ میں آئے تو وہ اس کا پہلا مخاطب ہوتا ہے، اس لیے اس کی طرف منسوب بھی ہوتا ہے۔ قوم نوحؑ، قوم موسیٰ ؑ، قوم لوط ؑ لیکن اگر اسی گروہ کا مقتدا کوئی بادشاہ یا سردار ہو تو وہ اس کی طرف بھی منسوب ہو گا۔ مثلاً قوم عاد، قوم فرعون، اگر ایک ملک میں دو گروہ اکٹھے ہو جائیں اور اگر وہ متضاد قسم کے رہنماؤں کے گروہ ہوں تو وہ دونوں سے منسوب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً جہاں قوم موسیٰ تھی وہاں قوم فرعون بھی تھی قال الملاء من قوم فرعون اتذر موسیٰ و قومہ لیکن ہر مقام پر جہاں قوم کہا گیا وہاں وہ گروہ عبارت تھا جو ابھی ہدایت یافتہ اور غیر ہدایت یافتہ سب افراد پر مشتمل تھا جو افراد پیغمبر کی متابعت میں آئے گئے توحید تسلیم کرتے گئے وہ اس پیغمبر کی ملت میں آ گئے اس کے دین میں آ گئے یا واضح تر معنوں میں مسلم ہو گئے۔ یاد رہے کہ دین اور ملت کفار کی بھی ہو سکتی ہے انی ترکت ملتہ قوم لا یومنون۔ ایک قوم کی ایک ملت یا اس کا منہاج تو ہو سکتا ہے لیکن ملت کی قوم کہیں نہیں آیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا نے قرآن میں ایسے افراد کو جو مختلف اقوام اور ملل سے نکل کر ملت ابراہیمی میں داخل ہو گئے ان کو داخل ہونے کے بعد لفظ ’’ قوم سے تعبیر نہیں کیا بلکہ ’’ امت‘‘ کے لفظ سے۔‘‘ بنی نوع آدم کی تقسیم ان گزارشات سے میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں قرآن کریم میں مسلمانوں کے لیے امت کے سوا اور کوئی لفظ نہیں آیا اگر کہیں آیا ہو تو ارشاد فرمائیے ’’ قوم‘‘ رجال کی جماعت کا نام ہے اور یہ جماعت بہ اعتبار قبیلہ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اطلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ملت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی گویا ملت یا امت جاذب ہے اقوام کی خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی۔ عہد حاضر کے ہندوستان کے علماء کو حالات زمانہ نے دو باتیں کرنے اور دین کی ایسی تاویلیں کرنے پر مجبور کر دیا ہے جو قرآن یا نبی امی کا منشا ہر گز نہ ہو سکتی تھیں کون نہیں جانتا کہ حضرت ابراہیم سب سے پہلے پیغمبر تھے جن کی وحی میں قوموں، نسلوں اور وطنوں کا بالائے طاق رکھا گیا۔ بنی نوع آدم کی صرف ایک تقسیم کی گئی، موحد و مشرک اس وقت سے لے کر دو ہی ملتیں دنیا میں ہیں، تیسری کوئی ملت نہیں۔ کتبہ اللہ کے محافظ آج دعوت ابراہیمی اور دعوت اسمعیل سے غافل ہو گئے۔ قوم اور قومیت کے روا اوڑھنے والوں کو اس ملت کے بانیوں کی وہ دعا یاد نہ آئی جو اللہ کے گھر کی بنیاد رکھتے وقت ان دونوں پیغمبروں نے کی۔ واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت و اسمعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ربنا واجعلنا مسلمین لک و من ذریتنا امۃ مسلمۃ لک۔ الکفرملتہ واحدۃ کیا خدا کی بارگاہ سے امت مسلمہ کا نام رکھوانے کے بعد بھی یہ گنجائش باقی تھی کہ آپ کی ہیئت اجتماعی کا کوئی حصہ کسی عربی، ایرانی، افغانی، انگریزی، مصری یا ہندی قومیت میں جذب ہو سکتا۔ امت مسلمہ کے مقابل میں تو صرف ایک ہی ملت ہے اور وہ الکفر ملتہ و احدہ کی ہے۔ امت مسلمہ جس دین فطرت کی حامل ہے اس کا نام دین قیم ہے۔ دین قیم کے الفاظ میں ایک عجیب و غریب لطیفہ قرآنی مخفی ہے اور وہ یہ کہ صرف دین ہی مقوم ہے۔ اس گروہ کے امور معاشی اور معادی کا جو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے نظام کے سپرد کر دے بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن کی رو سے حقیقی، تمدنی یا سیاسی معنوں میں قوم، دین اسلام سے ہی تقویم پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن صاف صاف اس حقیقت کا اعلان کرتاہے کہ کوئی دستور العمل جو غیر اسلام ہونا مقبول و مردود ہے۔ ایک اور لطیف نکتہ بھی مسلمانوں کے لیے قابل غور ہے کہ اگر وطنیت کا جذبہ ایسا ہی اہم اور قابل قدر تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقارب اور ہم نسلوں اور ہم قوموں کو آپ سے پرخاش کیوں ہوئی کیوں نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو محض ایک ہمہ گیر معمولی ملت سمجھ کر بلحاظ قوم یا قومیت ابوجہل اور ابو لہب کو اپنائے رکھا اور ان کی دلجوئی کرتے رہے بلکہ کیوں نہ عرب کے سیاسی امور میں ان کے ساتھ قومیت وطنی قائم رکھی اگر اسلام سے مطلق آزادی مراد تھی تو آزادی کا نصب العین تو قریش مکہ کا بھی تھا مگرافسوس آپ اس نکتہ پر غور نہیں فرماتے کہ پیغمبر خدا کے نزدیک اسلام، دین قیم امت مسلمہ کی آزادی مقصود تھی۔ ان کو چھوڑ یا ان کو کسی دوسری ہیئت اجتماعیہ کے تابع رکھ کر کوئی اور آزادی چاہنا بے معنی تھا۔ ابوجہل اور ابو لہب امت مسلمہ کو ہی آزادی سے پھولتا پھلتا نہیں دیکھ سکتے تھے کہ بطور مدافعت ان سے نزاع در پیش آئی محمد (فداہ ابی و امی) کی قوم آپ کی بعثت سے پہلے قوم تھی اور آزاد تھی لیکن جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بننے لگی تو اب قوم کی حیثیت ثانوی رہ گئی جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں آ گئے۔ وہ خواہ ان کی قوم میں سے تھے، یا دیگر اقوام سے وہ سب امت مسلمہ یا ملت محمدیہ بن گئے پہلے وہ ملک و نسب کے گرفتار تھے اب ملک و نسب ان کا گرفتار ہو گیا۔ کسے کہ پنجہ زد ملک و نسب را نہ داند نکتہ دین عرب را اگر قوم از وطن بودے محمد ندادے دعوت دیں بو لہب را مقام محمدی حضور رسالتمابؐ کے لیے یہ راہ بہت آسان تھی کہ آپ ابو لہب یا ابوجہل یا کفار مکہ سے یہ فرماتے کہ تم اپنی بت پرستی پر قائم رہو، ہم اپنی خدا پرستی پر قائم رہتے ہیں مگر اس نسلی اور وطنی اشتراک کی بناء پر جو ہمارے اور تمہارے درمیان موجود ہے ایک وحدت عربیہ قائم کی جا سکتی ہے اگر حضور نعوذ باللہ یہ راہ اختیار کرتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک وطن دوست کی راہ ہوتی لیکن نبی آخر الزماں کی راہ نہ ہوتی نبوت محمدیہ کی غایت الغایات یہ ہے کہ ایک ہیئت اجتماعیہ انسانیہ قائم کی جائے جس کی تشکیل اس قانون الٰہی کے تابع ہو، جو نبوت محمدیہ کو بارگاہ الٰہی سے عطا ہوا تھا۔ بالفاظ دیگر یوں کہیے کہ بنی نوع انسان کی اقوام کو باوجود شعوب و قبائل اور الوان والسنہ کے اختلافات کو تسلیم کر لینے کے ان کو ان تمام آلودگیوں سے منزہ کیا جائے جو زمان، مکان، وطن، قوم، نسل، نسب ملک وغیرہ کے ناموں سے موسوم کی جاتی ہیں۔ اور اس طرح اس پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیا جائے جو اپنے وقت کے ہر لحظہ میں ’’ ابدیت‘‘ سے ہمکنار رہتا ہے یہ ہے مقام محمدی، یہ ہے نصب العین ملت اسلامیہ، اس کی بلندیوں تک پہنچنے تک معلوم نہیں حضرت انسان کو کتنی صدیاں لگیں۔ مگر اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ اقوام عالم کی باہمی مغائرت دور کرنے اور باوجود شعوبی قبائل، نسلی، لونی اور لسانی امتیازات کے ان کو یک رنگ کرنے میں جو کام تیرہ سو سال میں کیا ہے اور دیگر ادیان سے تین ہزار سال میں بھی نہیں ہو سکا۔ یقین جانیے کہ دین اسلام ایک پوشیدہ اور غیر محسوس حیاتی اور نفسیاتی عمل ہے جو بغیر کسی تبلیغی کوششوں کے بھی عالم انسانی کے فکر و عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ایسے عمل کو حال کے سیاسی مفکرین کی جدت طرازیوں سے مسخ کرنا ظلم عظیم ہے۔ بنی نوع انسان پر اور اس نبوت کی ہمہ گیری پر جس کے قلب و ضمیر سے اس کا آغاز ہوا۔ مولانا حسین احمد کے بیان کا وہ حصہ جس میں آپ نے مدیر ’’ احسان‘‘ سے اس بات کی تائید میں نص طلب کی ہے کہ ملت اسلامیہ شرف انسانی اور اخوت بشری پر موسس ہے۔ بہت سے مسلمانوں کے لیے تعجب خیز ہو گا۔ لیکن تین گمراہیاں میرے لیے چنداں تعجب خیز نہیں۔ اس لیے کہ مصیبت کی طرح گمراہی بھی تنہا نہیں آتی۔ جب کسی مسلمان کے دل و دماغ پر وطنیت کا وہ نظریہ غالب آ جائے جس کی دعوت مولانا دے رہے ہیں تو اسلام کی اساس میں طرح طرح کے شکوک پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ وطنیت سے قدرتاً افکار حرکت کرتے ہیں۔ اس خیال کی طرف کہ بنی نوع انسان اقوام میں اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ان کا نوعی اتحاد امکان سے خارج ہے۔ اس دوسری گمراہی سے جو وطنیت سے پیدا ہوتی ہے ادیان کی اضافیت کی لعنت پیدا ہوتی ہے یعنی یہ تصور کہ ہر ملک کا دین اس ملک کے لیے خاص ہے اور دوسری اقوام کے طبائع کے موافق نہیں، اس تیسری گمراہی کا نتیجہ سوائے لادینی اور دہریت کے اور کچھ نہیں۔ انسان کا نصب العین یہ ہے نفسیاتی تجزیہ اس تیرہ بخت مسلمان کا جو اس روحانی جذام میں گرفتار ہو جائے، باقی رہا نص کا معاملہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام قرآن ہی اس کے لیے نص ہے، الفاظ شرف انسانی کے متعلق کسی کو دھوکا نہیں ہونا چاہیے۔ اسلامیات میں ان سے مراد وہ حقیقت کبریٰ ہے جو حضرت انسان کے قلب و ضمیر میں ودیعت کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ اس کی تقویم فطرت اللہ سے ہے اور اس شرف کا غیر ممنون یعنی غیر منقطع ہونا منحصر ہے۔ اس تڑپ پر جو توحید الٰہی کے لیے اس کے رگ و ریشے میں مرکوز ہے۔ انسان کی تاریخ پر نظر ڈالو ایک نامتناہی سلسلہ ہے باہم آویزیوں کا، خونریزیوں کا اور خانہ جنگیوں کا۔ کیا ان حالات میں عالم بشریٰ میں ایک ایسی امت قائم ہو سکتی ہے جس کی اجتماعی زندگی امن اور سلامتی پر موسس ہو۔ قرآن کا جواب ہے کہ ہاں ہو سکتی ہے بشرطیکہ توحید الٰہی کو انسانی فکر و عمل میں حسب منشائے الٰہی مشہود کرنا انسان کا نصب العین قرار پائے۔ ایسے نصب العین کی تلاش اور اس کا قیام سیاسی تدبر کا کرشمہ نہ سمجھیے بلکہ یہ رحمتہ للعالمین کی ایک شان ہے کہ اقوام بشریٰ کو ان کے تمام خود ساختہ تغوتوں اور فضیلتوں سے پاک کر کے ایک ایسی امت کی تخلیق کی جائے جس کو ’’ امتہ مسلمتہ لک‘‘ کہہ سکیں اور اس کے فکر و عمل پر ’’ شھد علی الناس‘‘ کا خدائی ارشاد صادق آ سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا حسین احمد یا ان کے دیگر ہم خیالوں کے افکار میں نظریہ وطنیت ایک معنی میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو قادیانی افکار میں ’’ انکار خاتمیت‘‘ کا نظریہ وطنیت کے حامی بالفاظ دیگر یہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وقت کی مجبوریوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی اس حیثیت کے علاوہ جس کو قانون الٰہی ابد الآباد تک متعین و متشکل کر چکا ہے، کوئی اور حیثیت بھی اختیار کرے۔ جس طرح قادیانی نظریہ ایک جدید نبوت کی اختراع سے قادیانی افکار کو ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ اس کی انتہا نبوت محمدیہ کے کامل و اکمل ہونے سے انکار ہے بعینہ اسی طرح وطنیت کا نظریہ بھی امت مسلمہ کی بنیادی سیاست کے کامل ہونے سے انکار کی راہ کھولتا ہے۔ بظاہر نظریہ وطنیت سیاسی نظریہ ہے اور قادیانی ’’ انکار خاتمیت‘‘ الٰہیات کا ایک مسئلہ ہے۔ لیکن ان دونوں میں ایک گہرا معنوی تعلق ہے جس کی توضیح صرف اسی وقت ہو سکے گی جب کوئی دقیق النظر مسلمان مورخ ہندی مسلمانوں اور بالخصوص ان کے بعض بظاہر مستعد فرقوں کے دینی افکار کی تاریخ مرتب کرے گا۔ ٭٭٭ (فروری ۱۹۵۸ئ) بانگ درا مولانا عبدالحق، بی اے اقبال اس وقت اردو کے سب سے مقبول اور اعلیٰ شاعر ہیں۔ ان کا کلام اب تک متفرق تھا اور یک جا جمع ہو کر شائع نہ ہوا تھا۔ ان کے کلام کے دلدادہ اس سے مطمئن نہ تھے اور ایک مدت سے منتظر و مشتاق تھے کہ سارا مجموعہ کتاب کی صورت میں شائع ہو جائے۔ کس قدر مسرت کی بات ہے کہ وہ آبدار موتی جو اب تک بکھرے ہوئے تھے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جن کی جوت سے آنکھوں میں نور پیدا ہوتا ہے۔ کتاب کھولتے ہی پہلی نظم جس پر نظر پڑتی ہے ’’ ہمالہ‘‘ ہے۔ کوہ ہمالہ ہندوستان کی شوکت و شان کا نشان اور اس کے حفظ و امن کا پاسباں ہے۔ ہندوستان کا بچہ بچہ اسے جانتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔ جس شاعر کی ابتداء ’’ کوہ ہمالہ‘‘ ہو اس کی انتہا کیا ہو گی! میں اقبال کے لیے اس میں نیک شگون پاتا ہوں۔ وہ محاسن جو بعد میں ہم نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقبال کے کلام میں نکالنے ان سب کے بیج اس نظم میں نظر آتے ہیں۔ تخیل، تشبیہات، بندش اور خیالات سب آئندہ کی غمازی کر رہے ہیں لیکن سب سے بڑی بات جو ہم اس میں دیکھتے ہیں اور جو اپنا پیغام دلوں تک پہنچاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں حب وطن کی وب آتی ہے اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے ہیں اس کی مہک بھی بڑھتی جاتی ہے۔ چند ہی صفحوں کے بعد ’’صدائے دل‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ شاعر درد دل سے چیخ اٹھتا ہے اور اپنے ملک کی بد نصیبی پر آنسو بہاتا ہے: جل رہا ہوں گل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے سر زمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں اس کے نیچے ہی ہندوؤں کے مقدس منتر گا تیری کا ترجمہ ہے جو اس قدر پاک خیال کیا جاتا ہے کہ غیر برہمن کے کان میں اس کی آواز تک پہنچانا ناجائز سمجھا جاتا ہے گویا جس اخوت کی اسے تلاش تھی اس کے لیے پھولوں کا ایک بار گوندھا ہے۔ چند نظموں کے بعد سرسید کی لوح تربت ہے جس پر یہ ہدایت درج ہے: وانہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے اس سے ذرا آگے ایک اور نظم ’’ تصویر درد‘‘ آتی ہے جو در حقیقت بے مثل اور سراپا درد ہے اور شاعر نے دل کھول کے اپنے وطن کا مرثیہ پڑھا ہے: رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا افسانہ سب فسانوں میں دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا لکھا کلک ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑا اس باغ میں گلچیں تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں ٭٭٭ وطن کی فکر کرنا واں مصیبت آنیوالی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے ہونیوالا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں یہ خاموشی کہاں تک لذت فریاد پیدا کر زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے اسی نظم کے ایک بند میں کس حسرت سے یہ شعر کہا ہے: بنائیں کیا سمجھ کر شاخ گل پر آشیاں اپنا چمن میں آہ کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا اور کیا خوب کہا ہے: جو تو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبت میں غلامی ہے اسیر امتیاز ما و تو رہنا زرہ اپنوں سے بے پروا اسی میں خیر ہے تیری اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو رہنا اس نظم میں ایک شعر ہے جو ملک کی اس وقت کی حالت کا صحیح نقشہ ہے: تعصب چھوڑ ناداں دہر کے آئینہ خانے میں یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے چند ہی ورق لوٹنے کے بعد ’’ ترانہ ہندی‘‘ آتا ہے جسے وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو شاید ہی کسی دوسری نظم کو ہوئی ہو اور قومی گیت کی حیثیت سے چھوٹے بڑے، عام و خاص، عالم و جاہل سب کی زبان پر جاری تھا۔ اس کا ایک ایک لفظ حب وطن میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کے بعد ہی ’’ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ جو وطن کی محبت کا راگ ہے اور جس کا پانچواں مصرعہ یہ ہے: میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے یہ گیت ختم ہوتے ہی ایک اور نظم آتی ہے جس کا نام ’’ نیا شوالہ‘‘ ہے۔ یہ شاعر کے انتہائے کمال کا نمونہ ہے۔ اس کے ہر شعر میں حب وطن کی آگ بھری ہوئی ہے۔ یہ وہ نظم ہے جو ہر انجمن اور ہر کانگریس کے ہال میں سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے اور ان کو اسٹیجوں پر بجائے بدنما کرسیوں اور میزوں اور مہمل اور بے معنی آرایش کے نیا شوالے کی تعمیر ہونی چاہیے۔ جہاں ہر پرستار وطن کا سر جھک جائے اور پھر یہیں سے عالمگیر محبت اور اتحاد کی بنیا دقائم ہو۔ اس نور کی جھلک ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اس کی تکمیل کسی نے نہیں کی۔ ہر زمانے میں ایسے پاک نفس اور حق پرست لوگ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اتحاد و محبت کا بیج بونا چاہا لیکن ان کی کوششیں ٹھڑ کر ایک فرقے میں محدود رہ گئیں۔ شاعر ان تمام فرقہ سازیوں اور فرقہ بازیوں کو مٹانا چاہتا ہے۔ ہر انسان جو تعصبات اور روایات کے گرد و غبار سے الگ ہو کر انصاف کے ساتھ غور کرے گا تو اسے وہ حقیقت نظر آئے گی جہاں شاعر کی نظر پہنچی ہے لیکن تعصبات پھر غالب آ جاتے ہیں اور آئندہ دل کو مکدر کر دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جہاں شاعر پہنچتا ہے وہاں تک کوئی اور نہیں پہنچا۔ بیشک بعض لوگ وہاں تک پہنچے ہوں گے لیکن انہیں اظہار حق کی توفیق نہیں ہوتی۔ اقبال نے اس حقیقت کو بلا خوف مذمت ظاہر کر دیا۔ لیکن اس پر قائم رہنا اس سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ ہم اس وقت جو جتن ملک میں محبت و اتحاد قائم کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ سب اپری اور عارضی ہیں حقیقت سے دور اور حق سے نا آشنا ہیں۔ وحدانیت اور اتحاد کا راز نئے شوالے میں ہے۔ نئے شوالے کے ساتھ ہی اقبال کی شاعری کا پہلو دور ختم ہوتا ہے۔ اس دور کا نام میں نے حب وطن رکھا ہے۔ دوسرے دور کا آغاز اس مجموعے کے دوسرے حصے سے ہوتا ہے۔ جسے میں نے حب ملت کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس کی ابتداء ۱۹۰۵ء سے ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وہ انگلستان تشریف لے گئے ہیں۔ انگلستان ہمارے نوجوانوں کی کسوٹی ہے ان کے اصل جوہر وہاں جا ہر کھلتے ہیں ان کے لیے وہ ایک نیا عالم ہوتا ہے۔ جدید تمدن کی روشنی بعض اوقات ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے کچھ دنوں کے بعد جب سنبھلتے ہیں تو اپنے امتحانات کے دھندے میں لگ جاتے ہیں اور اس سے جو وقت بچتا ہے وہ نئی لطف اندوزیوں میں بسر ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں وطن کی لو لگی ہوتی ہے وہ طرح طرح کے منصوبے گھڑتے اور وطن کی خدمت کے لیے نئے نئے خیالات سوچتے ہیں بعض تو نہر سویز تک پہنچتے پہنچتے دھیمے پڑ جاتے ہیں اور کچھ جو ثابت قدم رہتے ہیں شروع شروع میں یہاں آ کر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں لیکن وہ چنگاری جو سات سمندر طے کر کے سلگتی ہوئی آئی تھی، گردو پیش کے حالات اور صحبتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ بجھ کے خاک ہو جاتی ہے۔ البتہ اکا دکا ایسا نکل آتا ہے جو باوجود موانعات کے کام کرتا رہتا ہے اور کچھ کر گزرتا ہے۔ گو کنے کو وہ امتحانوں کے لیے انگلستان جاتے ہیں۔ لیکن اصل امتحان ان کا ہندوستان میں ہوتا ہے جس میں اکثر بیٹے نکلتے ہیں۔ اس کا دوس تنہا انہیں پر نہیں بلکہ ہمارے ملک کی حالت تعلیم طریقہ، گھروں کی صحبت، انتخاب کی غلطی اور اسی قسم کے اور اسباب بھی اس کے ذمہ دار ہیں اور ان کو الزام دینا ہی غلطی ہے۔ وہ نہ اس خیال سے جاتے ہیں اور نہ ان خیالات کو لے کر آتے ہیں۔ وہ جس غرض سے جاتے ہیں اسے کچھ نہ کچھ حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ لیکن اقبال کا جانا اس عام گلے کا جانا نہ تھا جو ہر سال یہاں سے جہاز بھر کر دیار مغرب کو جاتا ہے وہ ایسے وقت گئے تھے جبکہ ان کی طبیعت اور سیرت میں پختگی آ چکی تھی۔ ملک کی حالت سے واقف اور زمانے کے تیور پہچان چکے تھے۔ حب وطن کی لو لگی ہوئی تھی۔ ملک میں ان کا کلام مقبول ہو چکا تھا اور اقبال کا ترانہ اور وطن کے گیت دیس کے گلی کوچوں میں گائے جا رہے تھے۔ یورپ میں ان کی آنکھوں نے کیا کیا تماشے دیکھے کیا کیا خیالات دل میں موجزن ہوئے۔ کیسے کیسے منصوبے سوچے۔ کیا کیا سامان اپنے ملک کے لیے جمع کیے۔ کیسے ارادے تھے جو دل ہی دل میں رہ گئے۔ یاد وطن نے کس کس طرح بیقرار رکھا اور اپنی قوم کی پرستی کو دیکھ کر دل میں کیا کیا صدمے گزرے اور اس کے ابھارنے کے لیے کیا کیا ولولے پیدا ہوئے۔ ان کا جواب یا تو وہ خود دے سکتے ہیں یا ان کا کوئی راز دار دوست لیکن اس زمانے کے کلام کے پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نئے مشاہدات اور خیالات نے ان کے دل میں ایک جوش اور تلاطم پیدا کر رکھا ہے جن کے اظہار کے لیے وہ بیتاب اور مجبور ہیں۔ ان خیالات کو انہوں نے اس نظم میں موزوں کیا ہے جو شیخ عبدالقادر صاحب کے نام ہے جو یورپ میں ان کے ہم سفر، ہم مشرب اور ہم راز تھے۔ یہ گویا ان کی آئندہ زندگی کا پروگرام ہے جس پر وہ خود عامل ہونا چاہتے ہیں اور دوسرے کو عمل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس خط کے یہ دو شعر ان کے درد دل کو ظاہر کرتے ہیں: گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں شمع کی طرح جتیں بزم گہ عالم میں خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں انگلستان کے قیام کے زمانے میں اور اس کے بعد کے کلام سے وہ باتیں خاص طور پر معلوم ہوتی ہیں جنہوں نے ان کے خیالات میں ’’ انقلاب‘‘ پیدا کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ یورپ کے جدید تمدن کا طلسم ان کی نظروں میں مکڑی کے جالے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا جو محض خود غرضی اور خود پرستی پر مبنی ہے او ربنی نوع انسان کے حق میں ہم قاتل ہے۔ اس پر انہوں نے بڑی بڑی کاری ضربیں لگائی ہیں۔ ان کے یہ شعر مشہور اور زبان زد خاص و عام ہو گئے ہیں: دیار مغرب کے رہنے والو! خد اکی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا دوسرے وہ یورپ کی وطنیت اور قومیت سے جس کا اثر تمام یورپ پر چھایا ہوا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک پربھی پھیلتا جاتا ہے۔ وہ اس تنگ نظری اور خود غرضی کو دنیا کے لیے باعث ہلاکت اور موجب آفت خیال کرتے ہیں چنانچہ یورپ کی جنگ عظیم سے جو بربادی یورپ اور عام طور پر دنیا پر نازل ہوئی اس کا بدیہی ثبوت ہے۔ اس بیزاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلامی اخوت و مساوات کی طرف مائل ہوتے ہیں اور یوپ کی معاشرتی اور معاشی اور سیاسی زندگی جو بے روح اور صداقت سے خالی ہے انہیں اس عقیدے پر اور مستحکم کر دیتی ہے۔ اس طوفان سرمایہ داری و استبداد میں انہیں ایک ہی روشنی نظر آتی ہے۔ جو دنیا کو نجات دے سکتی ہے اور جو جغرافیائی حدود اور نسل و رنگ کے قیود سے بالا ہے۔ نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے اسی خیال کو دوسرے انداز سے بیان کرتے ہیںـ: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی اور اسی وجہ سے وہ ہندوستان کی ان کوششوں کو جو ملک کے محب وطن اتحاد پیدا کرنے کے لیے کر رہے ہیں مسلمانوں کے حق میں ایسی ہی ہیچ و پوچ سمجھتے ہیں مجلس اقوام (لیگ آف نیشنز) کی کوششیں اتحاد عام کے لیے چنانچہ فرماتے ہیں: یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’ ترانہ ہندی‘‘ کے جواب میں ’’ ترانہ ملی‘‘ لکھ کر اس کے اثر کو کم کرنا چاہا جو ان کے اختیار سے باہر تھا۔ اس کے بعد وطنیت کی نظم میں کھلم کھلا اپنے عقیدے کا اعلان کر دیا ہے اور مسلمانوں کو اس تازہ آفت سے بچنے کی ہدایت کی ہے کہ وطن پرستی بھی بت پرستی ہے۔ مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے اس کے بعد کہتے ہیں: یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے غارت گر کا شانہ دین نبویؐ ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اسے مصطفویؐ خاک میں اس بت کو مال دے ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی وہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی ہے ترک وطن سنت محبوبؐ الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے وہ ان خیالات کو بار بار اس سے زیادہ جوش اور حسن کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس سیاسی وطن کو اصول اسلام کے خلاف بتاتے ہیں۔ ان کی نظروں میں قرون اولیٰ کا سماں سمایا ہوا ہے۔ وہ وہی سادگی، حمیت، ایثار اور اخوت چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلم اپنی قدر اور اسلام کی حقیقت سمجھے۔ وہ فخر کائنات ہے اور یہ زمانہ جو صداقت سے بیگانہ ہے ان اصولوں کا منتظر ہے جو اسلام کی تعلیم میں پنہاں ہیں۔ دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے میرے مٹ جانے سے ہوائی بنی آدم کی ہے وہ نصاری وضع اور ہنود سیرت مسلمان کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ وہ مغربی تہذیب اور اس کی رعنائیوں میں منافقت اور خود فروشی اس کی جمہوریت میں استبداد کے اس آئین میں قیصریت دیکھتے ہیں۔ اشاعت تعلیم و تہذیب کے دعوے اصلاح و تنظیم کی مجلسیں، حقوق و مراعات کی قرار دادیں دھوکے کی ٹٹیاں ہیں جن کی آڑ میں مغرب کا فرمانروا اقوام عالم کا شکار کھیلتا ہے لیکن یہ سب تدبیریں اور حکومتیں ناپائیدار ہیں۔ عنقریب مٹنے والی ہیں۔ دنیا بہت جلد ان سے تنگ آ جائے گی اور بری طرح انتقام لے گی۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اس رمز کو سمجھ جائیں آنے والے دن کے لیے ابھی سے تیار ہو جائیں۔ ان میں پھر وہی پہلی سی اسلامی حرارت پیدا ہو، وہی عزم اور ولولے ہوں، وہی مساوات اور اخوت ہو۔ ان کی منتشر جمعیتیں ایک شیرازے سے بندھ جائیں۔ مختلف فرقے اور مختلف اسلامی دولتیں ایک ہو جائیں تاکہ وہ دنیا کی راہنمائی کر سکیں۔ دنیا اپنی حالت سے بیزار اور اپنے آئین سے تنگ آ گئی ہے وہ خود کشی پر آمادہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی آڑے آ سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ کیونکہ دنیا ایسے نظام کی منتظر ہے جو سرمایہ داری سے پاک ہو۔ جس میں حاکم و محکومیت کا کوئی امتیاز نہ ہو۔ جہاں امیر و غریب ایک ہیں جس کی تہذیب میں نفسانیت اور تعلیم و غایت نہ ہو۔ جس کا خدا ایک، جس کا آئین ایک، جس کا خیال ایک اور جس کا مطمح نظر ایک ہو اور جو شروع سے آخر تک توحید ہی توحید ہو اور کہیں دوئی کا نام تک نہ ہو۔ ایسا نظام سوائے اسلام کے اور کون سا ہو سکتا ہے۔ وہ وقت دور نہیں ہے جبکہ اسلام کا بول بالا ہو گا۔ دنیا کی اقوام اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوں گے۔ اس کی پاک تعلیم سے پرنا ناسور مندمل ہو گا۔ امن و امان اور اخوت و مساوات کا دور ہو گا۔ اس وقت سچا مسلم اقوام عالم کا امام اور اس جہاں کا خلیفہ ہو گا۔ یہ ہے وہ آرزو جو ہمارے شاعر کے دل میں موجزن ہے اور جس پر اس نے فلسفہ اور شاعری کی ساری قوت صرف کر دی ہے۔ ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نقطے سے ابتک بے خبر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل گر مسلم کے مذہب پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے ایک چھوٹی سی نظم تین بیتوں کی مذہب پر لکھی ہے جو یہ ہے: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی ان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی ملت نہ وطنیت پر ہے نہ قومیت و نسل پر، بلکہ مذہب پر۔ اس کی قوت اور اتحاد سیاست یا قانون پر نہیں بلکہ دین پر، مذہب ان کے شیرازۂ اتحاد کو جو اب ڈھیلا پڑ گیا ہے مضبوط کرے گا۔ اسی کی بدولت سب مختلف اور منتشر قوتیں یک جا ہو گی اور اسلامی ملت ایشیا کی نہیں سارے عالم کی رہنما او رامام ہو گی۔ ایک نئے دور کا آغاز ہو گا اور سرمایہ داری اور استبداد سیاست اور رقابت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ ہے اقبال کا خواب جس کی تعبیر پردۂ اخفاء میں ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے مذاہب یا اقوام سے نفرت کرتا ہے یا ان سے تعصب رکھتا ہے۔ نہیں بلکہ اس نے عام، ناٹک، سوامی تیرتھ رام پر بھی ایسی ہی سچائی اور جوش سے نظمیں لکھی ہیں جیسے اپنے پاک نفس بزرگوں کے لیے معلوم ہوتا ہے کہ مدت کے غور و فکر اور تجربہ کے بعد اس نکتے پر پہنچے ہیں کہ دنیا کی اقوام کی یکجہتی کی بنیاد سوائے ملت اسلام کے کسی قوم کو دنیا کی خلافت کا اہل نہیں سمجھتے۔ انہوں نے جو کچھ اس بارے میں لکھا ہے اس کا ایک ایک لفظ خلوص، صداقت اور جوش سے بھرا ہوا ہے وہ عاشق و شیدائے اسلام ہے اور عاشق کو ہر جرم معاف ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آخر میں ان کا میلان طبع فارسی کی طرف زیادہ ہوتا گیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے خیالات آسانی سے ممالک اسلام میں شائع کر سکیں اور ملت اسلام کو ایک جمعیت بنانے میں مدد دے سکیں۔ کیونکہ جب اور تدبیریں کارگر نہیں ہوتیں تو شاعر کی درد بھری آواز لوگوں کے مردہ دلوں میں کھولن پیدا کرتی ہے اور انقلاب عظیم کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ جناب شیخ عبدالقادر صاحب نے اس مجموعے کے شروع میں ایک پر لطف دیباچہ لکھا ہے جو صرف شیخ صاحب ہی لکھ سکتے تھے اس میں انہوں نے اقبال کے کلام پر تنقید نہیں کی بلکہ ان کی شاعری کا نشوونما اور تدریجی ترقی دکھائی ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔ اس میں فرماتے ہیں ’’ دوسرا تغیر ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا یعنی اقبال کی شاعری نے فارسی زبان کو اردو زبان کی جگہ اپنا ذریعہ خیال بنا لیا۔ اس کے شیخ صاحب نے کئی اسباب بتائے جنہیں میں انہیں کے الفاظ میں ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ فارسی میں شعر کہنے کی رغبت اقبال کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہو گی اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب حالات تصوف کے متعلق لکھنے کے لیے جو کتب بینی کی اس کو بھی ضرور اس تغیر مذاق میں دخل ہو گا۔ اس کے علاوہ جوں جوں ان کا مطالعہ علم فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا اور دقیق خیالات کے اظہار کو جی چاہا تو انہوں نے دیکھا کہ فارسی مقابلہ میں اردو کا سرمایہ بہت کم ہے اور فارسی میں کئی جملے اور فقرے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے ملتے ہیں جن کے مطابق اردو میں فقرے ڈھالنے آسان نہیں۔ اس لیے وہ فارسی کی طرف مائل ہو گئے۔ مگر بظاہر جس چھوٹے سے موقع سے ان کی فارسی گوئی کی ابتدا ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں۔ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ انہوں نے سوائے ایک آدھ شعر کہنے کے فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لپٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں جو انہوں نے زبانی مجھے سنائیں۔ ان غزلوں کے کہنے سے انہیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کا حال معلوم ہوا جس کا پہلے انہوں نے اس طرح امتحان نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد ولایت سے واپس آنے پر گو کبھی کبھی اردو کی نظمیں کہتے تھے مگر طبیعت کا رخ فارسی کی طرف ہو گیا۔ شیخ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں جائے دم زون نہیں بیشک یہی اسباب فارسی کی طرف ان کے میلان طبع کے ہوئے ہوں گے۔ لیکن جس چیز نے مستقل طور پر فارسی میں کہنے کی طرف مائل کیا وہ وہی خیال ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے یعنی ملت اسلام کے افتراق و نفاق کو دور کر کے اسے ایک قومی جمعیت بنانا جس کی بنا خالص اسلام پر ہو۔ اسے کاہلی و نکبت سے نکال کر عمل اور جدوجہد کی طرف مائل کرنا۔ اہل ملت میں وہ سیرت اور خلوص پیدا کرنا کہ ایک ہاتھ میں دین اور دوسرے ہاتھ میں شمع ہدایت ہو اور بالآخر انہیں اقوام عالم کی سرداری اور امانت کے لیے آمادہ کرنا۔ یہ تعلیم ان تمام مسلمانوں کے لیے ہے خواہ وہ کسی ملک اور کسی نسل کے ہوں۔ لیکن ہند کے مسلمان عجیب کش مکش میں ہیں۔ جب حکومت ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور وہ نشہ دولت سے ذرا ہوشیار ہوئے تو ہادی نے انہیں یہ ہدایت کی کہ دول اسلام سے تعلق یا محبت رکھنا خلاف مصلحت ہے۔ ادھر اہل وطن سے یک جہتی دشوار ہے۔ کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ اور ہم کم بیں اگر رہے تو ان کے تابع ہو کر رہنا پڑے گا۔ بس ایک ہی صورت ہے کہ انگریزوں سے جو فرمانروائے ملک ہیں مل کر رہو اسی میں تمہاری خیر اور تمہاری زندگی ہے۔ ایک مدت اسی پر کار بند ہے لیکن سدا ناؤ کاغذ کی چلتی نہیں۔ یہ طلسم بھی ٹوٹ کر رہا۔ اس کے بعد رموز سیاست کے شناسا اور زمانے کے نباض آئے اور ہدایت فرمائی کہ اگر ہمیں عزت کے ساتھ زندہ و سلامت رہنا ہے تو اہل وطن سے یکجہتی اور اتحاد پیدا کریں ورنہ ملک ہمیشہ پامال رہے گا اور ملک والے کبھی غلامی کی زنجیروں سے نہ نکل سکیں گے۔ سارے ملک میں اس سرے سے اس سرے تک صلح و آشتی کی لہر دوڑنے لگی۔ اتحاد و اتفاق کے ترانے گائے جانے لگے اور لوگوں کے سینے صلح کاری اور محبت کے نور سے معمور نظر آنے لگے اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک مدت کے بعد اس ملک پر خدا کی رحمت نازل ہونے والی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی تلقین ہوتی کہ اگرچہ حب وطن ایمان ہے لیکن اسلامی ریاستوں سے محبت و ہمدردی کا تعلق نہ ٹوٹنے پائے۔ ہندوؤں نے بھی اسے تسلیم کیا اور عالی ظرفی سے ساتھ دیا۔ دونوں بچھڑے بھائی پھر مل گئے اور اخلاص و محبت سے رہنے لگے۔ نامعلوم کس کی نظر لگ گئی کہ پھر پھوٹ پڑ گئی اور چار دن کی چاندنی کے بعد پھر اندھیرا گھپ ہو گیا۔ خدا ان بزرگوں کی ہمت میں برکت دے جو اب تک اس اتحاد کے پیدا کرنے میں سچے دل سے ساعی ہیں۔ اب ہندو اپنی تنظیم الگ کر رہے ہیں اور مسلمان الگ فکر میں ہیں کہ اپنی جمعیت درست کریں۔ بہرحال کچھ دنوں کے لیے یہ کھکھیڑ ان کی قسمت میں اور لکھی ہے۔ ٹھوکریں کھا کر ایک دن راستے پر آ ہی جائیں گے۔ یہ سیاست دانوں اور ملک رہنماؤں کی تدبیریں تھیں۔ شاعر اور حکیم کی صدا ان سے نرالی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے وطنیت کا خیال ہیچ و پوچ ہے۔ سیاست ایک قسم کی عیاری ہے۔ تہذیب و آئین مغربی غول راہ ہے اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ ان پھندوں میں نہ پھنسیں وہ مذہب کو رشتہ اتحاد بنائیں وہ اخلاص اور خصائل پیدا کریں جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں تھے اور ان اصولوں پر کاربند ہوں جو تیرہ صدی پہلے انہیں دیے گئے تھے اور اس پاک تعلیم کے ذریعہ ایشیا کی رہبری کریں اور پھر ایک بار عالم پر چھا جائیں کیونکہ دنیا کی نجات اسی میں ہے۔ یہ ہے اقبال کا پیام ملت اسلام کے نام اور ۱۹۰۵ء کے بعد اس آواز میں زیادہ گونج اور قوت پیدا ہوتی جاتی ہے یہ بہت اعلیٰ خیال ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش آئند ہے لیکن ڈر ہے کہ اس کی شدت کہیں ہمیں ہندوستان سے غافل نہ کر دے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے جو دلی محبت ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ ہم اسے جنگ بلقان اور خلافت کے معاملے میں خوب دیکھ چکے ہیں۔ کیا ان کو بھی ہندی مسلمانوں سے ایسی ہی محبت ہے؟ ہندی ہر خطے میں حقیر سمجھا جاتا ہے اور غلام سے زیادہ اس کی وقعت نہیں۔ جب تک ہم اس ملک میں جہاں رہتے ہیں اپنی حیثیت مضبوط نہ کر لیں اور جب تک ہم یہاں آزادی خیال اور آزادی عمل کو حاصل نہ کر لیں ملی اتحاد کا خیال خواب ہی خواب ہے۔ اگر مسلمان ملک کے دوسرے باشندوں کے دوش بدوش ملکی اتحاد و ترقی میں جدوجہد کرنے کے لیے آمادہ نہیں تو انہیں اس ملک میں رہنے کا کیا حق ہے۔ وہ لوگ کیا دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں جو بے اجازت اپنے ملک سے قدم باہر نہیں رکھ سکتے اور جو بے اذن کسی عملی ہمدردی کے قابل نہیں ہیں؟ جب ہم اپنے ہی ملک میں بیگانہ اور آپس کے تفرقوں کے شکار ہیں تو دوسروں کے سامنے کس منہ سے اتحاد کی تعلیم پیش کریں۔ تاہم اقبال کے پیام میں بلندی اور ایسا خلوص اور جوش ہے کہ وہ رائیگاں نہیں جا سکتا۔ وہ سوتوں کو جگانے، غافلوں کو ہوشیار کرنے اور دلوں کے ابھارنے میں بجلی کا سا کام کرے گا۔ اس کا مقصد سیاست یا ملک گیری نہیں بلکہ وہ اخلاقی اور روحانی پیام ہے جس کی بنیاد اسلامی تعلیم پر ہے اور جس کی غرض اسلامی اصول اور آئین کی اشاعت ہے جو اتحاد ملی کے ذریعہ سے دنیا پر کار فرمائی کر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں اپنے ’’ ترانہ ہندی‘‘ کو بالکل بھلا نہیں دینا چاہیے۔ وہ خود فرماتے ہیںـ: عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری مگر افسوس کہ ہندی نغمہ روز بروز دھیما پڑتا جاتا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں صرف عجمی خم اور حجازی بادہ ہی نہ رہ جائے ا ور اس خیال کی تصدیق مجھے اس شعر سے ہوئی جو بعد کا کہا ہوا ہے۔ مرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ زخمہ ہائے عجم رہا وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی لیکن اگر ایسا ہوا تو غضب ہو جائے گا۔ اس لیے ہم درخواست میں شیخ عبدالقادر صاحب کے ساتھ شریک ہیں کہ وہ اپنے دل و دماغ سے اردو کو وہ حصہ دیں جس کی وہ مستحق ہے خود انہوں نے غالب کی تعریف میں چند بند لکھے ہیں جن میں ایک شعر میں اردو کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچا ہے۔ گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے ہم ان 1؎ کا یہ شعر پڑھ کر ان سے یہ کہتے ہیں کہ جس احساس نے یہ شعر ان سے نکلوایا تھا اس سے کام لے کر اب وہ پھر کچھ عرصہ کے لیے گیسوئے اردو کے سنوارنے کی طرف متوجہ ہوں۔ یہی نہیں کہ ارد وان کے خیالات سے محروم رہ جائے گی بلکہ ان کا پیام جسے وہ اپنی زندگی کا مقصد خیال کرتے ہیں تشنہ اور اثر سے محروم رہ جائے گا۔ اقبال کی شاعری یا ان کے پیام پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ وہ ہمیں قدامت پرستی کی طرف مائل کرتی ہے اور بجائے آگے قدم بڑھانے کے وہ ہمیں صدیوں پیچھے لے جانا چاہتی ہے۔ لیکن ان کی انہیں مطلق پروا نہیں بلکہ اس پر خوش ہیں اور ایک گونہ فخر کے ساتھ خود ان الفاظ میں اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہاں یہ ہیچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں میں اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں لیکن ان کی قدامت پرستی مردہ نہیں ہے جو دلوں میں یاس اور اداسی پیدا کرتی ہے بلکہ وہ ان اصولوں کی پیروی ہے جن کی صداقت 1؎ علامہ مرحوم نے آخری عمر میں اردو اشعار لکھ کر اس مطالبہ کو پورا کر دیا تھا۔ (ادارہ) پر شاعر کو کامل یقین ہے۔ وہ اپنے پیام میں عہد ماضی کی روشن مثال دکھا کر بار بار انہیں عمل اور جدوجہد اور ثبات پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی آئین قدرت ہے یہی اسلوب فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گامزن محبوب فطرت ہے اسی خیال کو دوسری جگہ ادا کیا ہے: اس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے یہی خیال اس شعر میں بھی ہے: مست مے خرام کا سن تو ذرا پیام تو زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار ہے کوشش ناتمام کے متعلق کہتے ہیں: راز حیات پوچھ لے خفر خجستہ کام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے اس سے بڑھ کر کوئی کیا کہہ سکتا ہے: وائے نادانی! کہ تو محتاج ساقی ہو گیا مے بھی تو مینا بھی تو ساقی بھی تو محفل بھی تو شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف باطل کیا؟ کہ ہے غارت گر باطل بھی تو بیخبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے اقبال کی شاعری کی پوری حقیقت معلوم کرنے کے لیے ’’ شمع اور شاعر‘‘ ،’’ خضر راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ کی نظمیں غور سے پڑھنی چاہئیں۔ یہ ظاہری اور معنوی دونوں حیثیتوں سے ان کی شاعری کے بہترین نمونے ہیں۔ ا س سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کی دوسری نظمیں ا س پایہ کی نہیں ہیں۔ ان کی بعض چھوٹی نظمیں بہت پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کی ہیں۔ مثلاً ایک آرزو، سرگزشت آدم، جگنو، چاند، صبح کا ستارہ، پرندہ اور جگنو وغیرہ بہت اچھی اچھی نظمیں ہیں۔ لیکن جن تین نظموں کا میں نے نام لیا ہے وہ ایسی ہیں کہ ان میں اقبال کی شاعری کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ تخیل کی بلندی، تشبیہات و استعارات، لفظی ترکیبیں صاف بتاتی ہیں کہ کلام پر مرزا غالب کا کس قدر اثر ہے وہ گویا مرزا کے معنوی شاگرد ہیں اور پڑھنے والا جسے ذوق سخن ہے بآسانی اسے سمجھ سکتا ہے لیکن مرزا کے طرز ادا میں جو خاص نزاکت ہے وہ نہیں پائی جاتی اور نہ وہ سوز و گداز اور درد ہے جو ہم حالی کے کلام میں پاتے ہیں۔ اگرچہ کہیں کہیں تکلف کی جھلک نظر آتی ہے اور فارسی ترکیبیں اعتدال سے آگے نکل جاتی ہیں۔ مگر شان و شکوہ، زور اور شور امنڈتے ہیں۔ جذبات کی ادائی حکیمانہ نظر اور شاعرانہ انداز بیان میں اقبال کا جواب نہیں۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہو: آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے گویا ہزار ہا سال کے تاریخی تجربوں کے نچوڑ کو دو مصرعوں میں پیش کر دیا ہے۔ شاعروں نے بہار و خزاں کے سمئے اور گل و بلبل کے راز و نیاز بیان کئے ہیں۔ اقبال نے صحرا کا سماں لکھا ہے۔ چند شعر ہیں مگر کسی قدر بلند اور کیفیت پیدا کرنیوالے: اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ خضر بے برگ و ساماں وہ سفر بے سنگ و میل وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرائیل وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب جس سے روشن تر ہوئے چشم جہاں بین خلیل اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش اور آبادی میں تو زنجیری کشت نخیل یا اس شعر کو دیکھئے۔ کیا خیال ہے او رکیا قوت بیاں: حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرہ کا دل چیریں میرا مقصد اس وقت اقبال کے منتخب اشعار کا پیش کرنا نہیں ہے اور نہ یہ اس کا موقع ہے اور نہ مسلسل نظموں میں سے بعض اشعار کا انتخاب مناسب ہے جسے ان کے کلام کا لطف حاصل کرنا ہو وہ کم سے کم ان کی وہ نظمیں ملاحظہ فرمائیں جن کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں۔ آج کل بعض سخن سنج اقبال کے کلام کا مقابلہ ہندوستان کے ایک دوسرے نامور اور فخر ہندوستان شاعر ٹیگور کے کلام سے کرتے ہیں۔ ٹیگور کے کلام میں بیشک پریم کا رس گھلا ہوا ہے۔ اس کی محبت عالمگیر ہے وہ کائنات کو اپنے آغوش محبت میں لینا چاہتا ہے۔ اس کی نظمیں پڑھ کر دل کو تسکین ا ور روح میں سرور پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس میں وہ آگ نہیں جو اقبال میں ہے۔ ٹیگور کے کلام میں نسائیت کا شائبہ پایا جاتا ہے اور اقبال میں مردانہ پن، ٹیگور کا جذبہ محبت گو گدا اور بے انتہا ہے۔ لیکن وہا پنے حدود کو توڑ کر کبھی آگے نہیں نکل جاتا اور باوجود کیف و وجد کے آپے سے باہر نہیں ہونے پاتا۔ اقبال کا مطمح نظر اگرچہ مقابلتہً محدود ہے مگر زیادہ قوی۔ زیادہ پر زور اور زیادہ شور انگیز۔ ٹیگور کے ہاں نازک سے نازک موقع پر بھی عقل کی پرچھائیں آس پاس ضرور نظر آتی ہیں مگر یہاں جذبات کے تلاطم کے سامنے بعض اوقات بے چاری عقل اپنی آبرو بچانے کے لیے اچک کر الگ جا کھڑی ہوتی ہے۔ وہاں جذب و کیف کے ساتھ خود داری ہے اور یہاں وارفتگی و شیفتگی باہر کمال اند کے آشفتگی خوش است ہر چند عقل کل شدۂ بے جنوں مباش ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) رومی، نطشے اور اقبال ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم صاحب علامہ اقبال کی فلاسفی۔۔۔۔ رومی، نطشے اور اقبال کا صحیح موازنہ خلیفہ عبدالحکیم صاحب کے ایک مضمون سے ہوتا ہے۔ جو رسالہ اردو کے ۵۶ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ مضمون بیحد اہم اور دقیع ہے۔ اس مضمون کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تاکہ بعض ضروری مسائل ناظرین ’’نیرنگ خیال‘‘ کے پیش نظر رہیں جو صاحب مکمل مضمون مطالعہ فرمانا چاہتے ہوں وہ رسالہ ’’ اردو‘‘ کا’’ اقبال نمبر‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں کوئی شاعر تنوع افکار اور ثروت و تصورات میں اقبال کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ فلسفہ جدید اور فلسفہ قدیم تصوف اسلامی اور غیر اسلامی کے تمام انواع، مذہب عالم کے گوناگوں تصورات، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی مسائل فکراور عمل کی تمام قدیم اور جدید تحریکات ان تمام چیزوں کو اقبال نے اپنی شاعری کے خم میں غوطہ دے کر انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اقبال جوش، قوت، وجدان، جبلت و جذبہ اور تخلیق کا شاعر ہے۔ مولانا روم کی نسبت یہ کہا گیا کہ: نیست پیغمبر ولے وارد کتاب اور اقبال کی نسبت بھی گرامی کا یہ مصرع مشہور ہے: پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت ’’ خودی‘‘ اقبال کا خاص مضمون ہے۔ یہ لفظ اسلامیات میں ایک بدنام لفظ تھا اقبال نے اپنے اعجاز بیان سے اس کو نیک نام کر دیا۔ خودی کے مفہوم کو گہر اور وسیع اور بلند کر کے اقبال نے اس کی تعریف اور تضمین کو بالکل بدل دیا۔ صدیوں کے رائج شدہ تصورات کی قلب ماہیت معمولی انسانوں کا کام نہیں ہے۔ اس طرح اقبال نے مومن کا مفہوم، تقدیر کا مفہوم، خدا کا مفہوم، انسان کا مفہوم، اسلام کا مفہوم، قرنوں کے قائم شدہ روائتی مفہوم سے الگ کر دیا ہے۔ مناسبت طبعی اور یکسانی نظریہ حیات کی وجہ سے اپنے پیشروؤں میں سے اقبال دو مفکروں سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا۔ مشرق قدیم میں سے عارف ’’ رومی‘‘ کو اپنا مرشد بنایا اور مغرب جدید میں سے نطشے کا فلسفہ خودی اور تصوف انسان بہت پسند آیا۔ سرسری نظر میں آیا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے بہترین حصوں میں یا رومی کی ترجمانی کی ہے یا نطشے کی۔ سطحی نظر سے دیکھنے والے بعض نقادوں نے اقبال کو ان دو مفکروں کی محض آواز باز گشت قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رومی کا ایمان اور نطشے کا کفر اقبال کو ایک ہی تصویر کے دو رخ معلوم ہوتے ہیں۔ تصوف کی اکثر شکلوں میں مفصلہ ذیل عناصر ملتے ہیں: ۱۔ اصل حقیقت ایک ہے ۲۔ تمام مظاہر اسی ایک حقیقت کے شئون ہیں اور ہر مظہر اسی ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ۳۔ جس طرح تمام وجود اسی ایک حقیقت سے سرزد ہوتے ہیں اسی طرح ہرشے اسی ایک اصل کی طرف عود کرنے کی طرف مائل ہے۔ ۴۔ اس اصل حقیقت کا وجدان ایک حد تک عقل سے بھی ہو سکتا ہے بشرطیکہ یہ عقل جزئی نہ ہو بلکہ کلی ہو۔ ۵۔ اصل علم استدلال سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ عقل کے مقابلے میں تاثر اس کی طرف زیادہ رہنمائی کرتا ہے۔ ۶۔ زندگی کا مقصد یہ ہے کہ روحانی تاثر کے ذریعے اس اصل کا وجدان حاصل کیا جائے تاکہ زندگی پھر اپنی اصل سے ہم وجود ہو جائے۔ ۷۔ اس تاثر کا نام عشق ہے حقیقت کا علم بھی اس عشق کے اندر مضمر ہے۔ ۸۔ یہی عشق تمام مذاہب اور تمام خلاق عالیہ کا سرچشمہ ہے۔ اس کے بغیر مذہب اور اخلاق ایک خارجی اور اعتباری حیثیت رکھتے ہیں۔ عقل بھی اس عشق کے بغیر ایک ’’ حلقہ بیرون در‘‘ ہے۔ تصوف کے یہ اساسی حقائق بہت قدیم ہیں۔ یونانی فلسفے میں افلاطون نے ان کو وضاحت سے بیان کیا اور اس کے بعد فلاطیغرس اسکندر رومی نے ان پر تصوف کی ایک فلک بوس تعمیر کھڑی کر دی۔ اسلامی ا ور عیسوی تصوف میں افلاطون اور فلاطیغرس کے تصورات اور تخیلات خالص اسلامیا ور عیسوی تعلیمات میں ایسے گھل مل گئے ہیں کہ اب ان کو علیحدہ کرنا ناممکن ہو گیا ہے اسلامی دنیا میں یہ تصورات پہلے فلسفے کے ساتھ لپٹے ہوئے آئے۔ اس کے بعد صوفیانہ وجدان نے اپنے عقلی اظہار کے لیے ان کو استعمال کیا۔ بدھ مت کے نظریہ زوان اور ویدانت کے نظریہو حدت الوجود میں بھی ان سے مسائل عناصر ملتے ہیں۔ اس لیے بعض مستشرقین نے یہ قیاس بھی قائم کیا کہ تصوف اسلام میں اسی سمت سے داخل ہوا ۔ لیکن تاریخی حیثیت سے اس کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ملتا۔ عارف رومی اور علامہ اقبال میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں۔ دونوں اسلامی شاعر ہیں دونوں کی شاعری حکیمانہ ہے۔ دونوں معقولات کے سمندر کے تیراک ہونے کے باوجود وجدانات کو معقولات پر مرجح سمجھتے ہیں۔ دونوں خودی کی نفی کے بجائے خودی کی تقویت چاہتے ہیں دونوں کے نزدیک حقیقی خودی اور حقیقی بیخودی میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک کے بغیر دوسری مہمل اور بے نتیجہ ہے دونوں کا تخیل تقدیر کے متعلق عام مسلمہ تخیل سے الگ ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ تقدیر میں جزئی طور پر اعمال افراد پہلے ہی سے خدا کی طرف سے معین اور مقدر نہیں بلکہ تقدیر آئین حیات کا نام ہے۔ دونوں ارتقائی مفکر ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات ادنیٰ سے اعلیٰ منازل کی طرف عروج کر رہے ہیں۔ انسان کے عروج کی کوئی حد نہیں قوت آرزو اور جہد صالح سے کئی نئی کائناتیں انسان پر نہ صرف منکشف ہو سکتی ہیں بلکہ خلق ہو سکتی ہیں۔ دونوں قرآن کریم کے آدم کو نوع انسان کی معراج کا ایک نصب العینی تخیل سمجھتے ہیں۔ دونوں جدوجہد کو زندگی اور خفتگی کو موت سمجھتے ہیں۔ دونوں کے ہاں بقا مشروط ہے سعی بقا پر دونوں اپنے سے بیشتر پیدا کردہ افکار سے کماحقہ، واقف ہیں اور متضاد عناصر کو ایک بلند تر وحدت فکر کی سطح پر لانا چاہتے ہیں۔ اس ازلیٰ اور طبعی مناسبت کی وجہ سے اقبال اپنے آپ کو عارف رومی کا مرید سمجھتا ہے۔ یہ مرید معمولی تقلیدی مرید نہیں۔ کمالی عقیدت کے ساتھ پیر کے رنگ میں رنگا ہوا مرید ہے۔ لیکن آزادی حقیقت یہ ہے کہ عارف رومی کا صحیح خلیفہ چھ سو برس کے بعد پیدا ہوا جب تک دنیا میں مثنوی معنوی پڑھنے والے اور اس سے روحوں میں سوز و گداز پیدا کرنے والے باقی رہیں گے۔ تب تک اقبال کا کلام بھی اس کے ساتھ پڑھا جائے گا اور روحانی لذت اور زندگی پیدا کرتا رہے گا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے عقلیت کے دیوتاؤں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کی شاعری محض عقل سے نہیں بلکہ ایک قسم کے جنون سے پیدا ہوتی ہے۔ جس شاعر میں اس جنون کی کمی ہے وہ زبان کی خوبیوں اور صنعتوں پر قادر ہونے کے باوجود محض زبان اور علم کی بناء پر ایسے اشعار نہیں کہہ سکتا جو دل کی گہرائیوں میں اتر جائیں۔ معرفتی جنون کا یہ نظریہ رومی، نطشے اور اقبال تینوں میں پایا جاتا ہے۔ جس طرح نطشے اور رومی موسیقی کو استدلال پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح اقبال شعر کو فلسفے کے مقابلے میں زیادہ حقیقت رس خیال کرتا ہے۔ دین کا سرچشمہ بھی شعر اور موسیقی کے سرچشمے کی طرح جذبہ حیات یا جذبہ عشق ہی ہے۔ محض سائنس کی تعلیم یا خالص عقلی تعلیم کو نطشے ایک بے مغز پوست خیال کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ مدرسوں اوریونیورسٹیوں میں علوم کی تعلیم دینے والوں نے اس کو ایسا بے جان کر دیا ہے کہ کسی روح میں اس سے کوئی گرمی پیدا نہیں ہوتی۔ محض معلومات کے اضافے سے کوئی جذبہ تخلیق پیدا نہیں ہوتا ۔ حقیقی تخلیق وہیں ہو گی جہاں بجائے عقل کے جبلت اور وجدان کے تار مرتعش ہوئے ہیں۔ نطشے کے اثرات، انسان کا حل پیام مشرق میں نطشے کا اثر اس قدر نمایاں نہیں جتنا کہ اسرار خودی میں ہے تاہم جا بجا ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک اقبال نطشے کی تعلیم کے بعض پہلوؤں کو صحیح اور قابل تبلیغ سمجھتا ہے۔ مذہبی وجدان کا عام رخ ذات الٰہی کی طرف رہتا ہے۔ مشرق و مغرب کا اسلامی اور غیر اسلامی تصوف بھی خداشناسی اور خدا رسی کو اپنا مطمح نظر قرار دیتا ہے۔ لیکن خدا سے پہلے آدمی کی تلاش کرنا جو اقبال کی شاعری کا امتیازی عنصر ہے۔ نطشے اور اقبال میں ایک قدر مشترک ہے۔ مرور ایام سے مسلمانوں میں یہ انداز فکر قریباً نا پید ہو گیا تھا کہ یک بیک اقبال نے اس زور سے اعلان کیا کہ وہ اس کی زبان سے ایک نوزائیدہ اور جدید نظریہ حیات معلوم ہوتا ہے۔ زمانہ حال میں نطشے نے اس قدر علو آدم پر اپنی نگاہیں جمائیں کہ وہ خدا سے بالکل بیگانہ ہو گیا۔ نطشے نہ خدا پرست ہے اور نہ دہر پرست، وہ آدم پرست ہے لیکن اس کا آدم وہ آدم نہیں جو اس کے سامنے موجود ہے۔ اس کا آدم ابھی تک کتم عدم میں ہے وہ اسے معرض وجود میں لانا ارتقائے حیات کا اعلیٰ ترین مقصد سمجھتا ہے۔ اس امر میں اقبال کے خیالات ایک طرف اسلامی مفکرین، خصوصاً جلال الدین رومی سے ملے ہوئے ہیں اور دوسری طرف نطشے سے۔ مگر فرق یہ ہے کہ رومی اور اقبال کے ہاں خدا بھی موجود ہے اور نطشے کے نزدیک خود اسی کے الفاظ میں ’’ خدا کا انتقال ہو چکا ہے۔‘‘ اور جب تک انسان اس مردے کو پوجتا رہے گا، وہ اپنی حقیقت سے نا آشنا رہے گا۔ اور ارتقاء میں آگے کی طرف قدم نہیں اٹھا سکے گا۔ اقبال کے لیے نا ممکن تھا کہ نطشے کی طرح خدا کا منکر ہو جائے۔ لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اقبال نے جا بجا دوسری ہستیوں سے جو آدم کا مقابلہ کیا ہے اس میں مختلف لطیف اور ظریفانہ پیرایوں میں آدم کو ترجیح دی ہے۔ اقبال جہاں خدا سے بھی آدم کا مقابلہ کرتاہے تو خدا کی خدائی پر ایک چوٹ کر جاتا ہے۔ اقبال نطشے کی طرح خدا کا انکار تو نہیں کرتا ہے لیکن خدا کے ساتھ پرتکلفیاں اور بعض اوقات گستاخیاں بہت برتتا ہے۔ اقبال کی مشہور اردو نظم ’’ شکوہ‘‘ اسی قسم کی شوخیوں کا نتیجہ ہے۔ اس مضمون کو کہ انسان کی زندگی کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ انسان خدا کر تلاش کرے۔ اقبال نے الٹ دیا ہے وہ کہتا ہے کہ انسان پہلے اپنی تلاش کرے اس کے لیے یہ راستہ زیادہ صحیح ہے کیونکہ: ’’خدا ہم در تلاش آدمی ہست‘‘ اکثر مذاہب کی یہ تعلیم تھی کہ انسان تقدیر کی نوشت یا کرم کی کڑیوں سے پابہ زنجیر ہے۔ لیکن رومی اور اقبال دونوں نے تقدیر کے مفہوم کی نئی تعبیر کی ہے۔ ان دونوں کے نزدیک روح انسانی خود اپنی تقدیر کی معیار ہو سکتی ہے۔ مومن خود تقدیر الٰہی ہے جب وہ خود بدل جاتا ہے تو اس کی تقدیر بھی بدل جاتی ہے۔ تقدیر و تدبیر مولانا روم فرماتے ہیں کہ جس کو تقدیر کہتے ہیں وہ در حقیقت قوانین حیات کا نام ہے اور ظاہر ہے کہ قانون قانون نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تبدیلی اور تلون سے مبرا نہ ہو۔ مولانا فرماتے ہیں کہ تقدیر کا اٹل ہونا صحیح ہے۔ سنتہ اللہ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ لیکن سنتہ اللہ یہ ہے کہ اگر تم چوری کرو گے تو تم پر اور جماعت پر فلاں فلاں نتائج منتج ہوں گے۔ سچ بولو گے تو فلاں فلاں قسم کی صلاح و فلاح اس کا نتیجہ ہو گی۔ خدا نہ کسی کا ہاتھ پکڑ کر اس سے چوری کراتا ہے اور نہ کسی کی زبان کو ہلا کر اس سے سچ یا جھوٹ بلواتا ہے۔ عمل اختیار سے سر زد ہوتا ہے لیکن اس کے نتائج تقدیری یعنی آئینی ہیں۔ جو فطرت انفس و آفاق میں غیر متبدل ہیں۔ قرآن حکیم میں ہے کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے نفوس میں تغیر پیدا نہ کرے۔ خدا نے یہاں اپنے عمل کو اقوام کے اختیاری عمل پر مشروط قرار دیا ہے اور اس طرح ایک اٹل قانون حیات بیان کیا ہے جو ارادوں کو آزاد چھوڑنے کے باوجود تقدیر مبرم کی طرح کام کرتاہے۔اقبال کے ہاں جا بجا اس مضمون کے اشعار ملتے ہیں اور فلسفہ اقبال پر اپنے مدارض والے لیکچروں میں بھی اقبال نے اس مفہوم پر استدلال کیا ہے۔ اجتہاد اقبال کے ہاں اکثر جگہ خودی کی تقویت کا مضمون تقلید سے گریز کرنے کے ساتھ وابستہ ہے۔ تمام اکابر مصلحین نوع انسان کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ مقلد نہیں تھے۔ وہ آزادی سے نئی راہیں پیدا کرتے رہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پیروؤں نے ان کی حریت آفریدہ تعلیم کو تقلید کا حصن حصین بنا لیا۔ پیغمبروں کے رستے پر چلنے والا حقیقت میں وہ شخص ہے جو تقلید شکن ہے۔ اکثر افراد اور اقوام کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی یا موہوم ماضی سے ایسے پا بزنجیر ہوتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ ان پر بند ہو جاتا ہے اور وہ لکیر کے فقیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسی قومیں جب استبداد کے شکنجوں میں جکڑی جاتی ہیں تو ان کے نام نہاد مصلح اپنی ذلت اور پستی کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ لوگوں میں آزاد روی پیدا ہو گئی ہے اور تقلید کا جذبہ کمزور پڑ گیا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے جب تک گری ہوئی قومیں اپنے ماضی سے جکڑی رہتی ہیں۔ ان کے لیے نئی زندگی پیدا کرنا دشوار بلکہ محال ہوتا ہے۔ اس مضمون کو اقبال نے بڑی آزادی سے بیان کیا ہے۔ زندگی اب تک ارتقاء کے جو مدارج طے کر چکی ہے اس سے آگے لامتناہی مدارج اور بھی ممکن ہیں۔ اخلاق کہنا ور ادیان کہن کا پیدا کیا ہوا تو جہ پرست اور لذت پرست اور غیر پرست انسان محض ایک پل ہے جس پر سے گزر کر فوق الانسان کی طرف پڑھنا لازمی ہے زندگی پر آنسو بہانے والوں کے بجائے بہادر اور دلیر انسان پیدا ہونے چاہئیں جو موجودہ انسانوں کی طرح سست عناصر نہ ہوں نفی حیات کے تمام مذاہب اور فلسفے غلط ہیں۔ فقط وہی نظریہ حیات صحیح ہے جس میں اثبات حیات اور ذوق نمو ہے قنوط زندگی کی ایک بیماری ہے۔ اسلام اور نطشے اقبال کو نطشے کی تعلیم کا وہی پہلو پسند ہے جو اسلام کی تعلیم کا ایک امتیازی عنصر ہے ۔ اسلام کے اس پہلو سے متاثر ہونے کی وجہ سے اقبال نے نطشے کا اثر اقبول کیا اسلام نے جہان کو ایمان کا ثبوت قرار دیا اور کہا کہ جہان ہی امت کی رہبانیت ہے زندگی باوجود اس کی کلفت اور کشاکش کے اسلام کے نزدیک ایک نعمت ہے جس میں قوت اور جمال پیدا کرنا مومن کا فرض ہے اسلام نے فطرت کو صحیح سمجھا اور اپنے آپ کو عین فطرت قرار دیا اور کہا کہ انسان اس فطرت پر خلق کیا گیا ہے ارتقائے حیات علو آدم، تسخیر فطرت، احترام حیات، جسم اور مادے کو روحانیت کا معاون سمجھا۔ حصول قوت کی کوشش۔ یہ تمام چیزیں اسلام اور نطشے کی تعلیم میں بہت حد تک مشترک ہیں۔گ و انداز بیان بہت مختلف ہے اسلام ان تمام نظریوں کو توحید کے عقیدے کے ساتھ وابستہ کرتا ہے اور انہیں اس عقیدے کے مشتقات کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نطشے نہ خدا سے شروع کرتا ہے اور نہ خدا پر ختم کرتا ہے۔ اس کی نظر فقط فطرت اور انسان کے ممکنات تک محدود ہے۔ لیکن جہاں تک اس کی نظر جاتی ہے وہاں تک صحیح ہے۔ اقبال کو نطشے کا کفر بھی بہت ناگوارنہیں ہے۔ سست مومن سے جری کافر بہتر ہے۔ اقبال نے بہت سے حکماء و صوفیہ سے فیض حاصل کیا لیکن اپنے فلسفہ خودی کے مطابق وہ پوری طرح کبھی کسی کا مقلد نہیں ہوا۔ ہر بڑے مفکر کے ساتھ وہ کچھ دور تک چلتا ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اس کو چھوڑ کر اپنی راہ پر پڑ جاتا ہے۔ محاکمہ شعر میں اقبال نے حکمت کے جو موتی پروئے ہیں ان کے متعلق محض یہ کہہ دینا نا انصافی ہو گی کہ وہ موتی اس نے دوسرے جواہری سے لیے ہیں۔ ہیرا جب تک تراشا نہ جائے اور موتی جب تک مالا میں پرویا نہ جائے اور جواہرات جب تک میں جڑے نہ جائیں ان کا جمال معمولی سنگریزوں اور خزف پاروں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اقبال نے شاعری پر جو احسان کیا ہے وہ یہ ہے کہ مشرق اور مغرب اور ماضی اور حال کے وہ جواہر پارے جو نفس انسانی کے آسمان کے تارے ہیں۔ کمال شاعری سے اس طرح تراشے اور پرانے اور جڑے ہیں کہ نوع انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے بصیرت افروز ہو گئے ہیں۔ شعر کی دنیا جو انسانی قلب کی دنیا ہے اس ثروت سے مالا مال ہو گئی ہے اور اردو اور فارسی کی شاعری پر جو یہ تہمت تھی کہ اس کا دائرہ تصورات بہت محدود ہے اور شعراء بار بار ایک قسم کے خیالات کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ وہ تہمت رفع ہو گئی ہے۔ بڑے سے ؓڑے مفکر شاعر نے بھی خواہ وہ رومی ہوں یا عطار یا سنائی یا گوئٹے یا ٹینی سن یا براؤننگ اس سے زیادہ کوئی کام نہیں کیا۔ اقبال کی حکیمانہ شاعری کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو دوسرے مفکر شعراء میں بہت کمیاب بلکہ نایاب ہے۔ جہاں تک افکار کا تعلق ہے اس نے رومی کا کامل تتبع کیا ہے۔ نہ نطشے کا، نہ برگساں کا اور نہ کارل مارکس یا لینن کا، اپنے تصورات کا قالین بنتے ہوئے اس نے رنگین دھاگے او ربعض خاکے ان لوگوں سے لیے ہیں۔ لیکن اس کے مکمل قالین کا نقشہ کسی دوسرے کے نقشے کی ہو بہو نقل نہیں ہے اپنی اپنی تعمیر کے لیے اس نے ان افکار کو سنگ وخشت کی طرح استعمال کیا ہے۔ اقبال ان مفکر شاعروں میں سے ہے جن کے پاس اپنا ایک خاص زاویہ نگاہ اور نظریہ حیات بھی ہوتا ہے محض افکار کے ادھر ادھر سے اخذ کردہ عناصر سے اس کی توجیہہ نہیں ہو سکتی۔ اقبال کے اندر رومی بھی ہے اور نطشے بھی، کانت اور برگساں بھی، کارل مارکس بھی اور لینن بھی۔ اور شاعری کے لحاظ سے بیدل بھی اور غالب بھی۔ لیکن اقبال کے اندر ان سب میں سے کسی کی اپنی حیثیت جوں کی توں قائم نہیں ہے۔ رومی کا انسان کامل اور مرد عارف نطشے جسے کافر کے فوق الانسان سے ہمکنار ہو کر اقبال انسان بن گیا ہے۔ برگساں کی دہریت اسلام کی توحید سے مل کر کچھ اور چیز ہو گئی ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ متضاد رنگوں کے تار و پود کو وہ دلکش نقشوں میں بن لیتا ہے۔ منطقی حیثیت سے کسی کو تشفی ہو نہ ہو لیکن بیان کی ساحری ایسی ہے کہ اقبال کو پڑھتے ہوئے کسی تضاد کا احساس نہیں ہوتا۔ رومی کے ہاں کے بہترین تصورات اقبال کے ہاں جدید رنگ میں ملتے ہیں لیکن زمانے کے متضا سے بعض امور میں مرید مرشد سے آگے نکل گیا ہے۔ تعمیر ملت اور حقیقت اجتماعیہ کا جو فلسفہ اقبال نے بیان کیا ہے اس کی فقط کہیں کہیں جھلکیاں رومی ہی میں مل سکتی ہیں۔ جس خوبی اور شرح و بسط کے ساتھ اقبال نے اس میں نکتہ آفرینی کی ہے وہ اقبال ہی کا حصہ ہے رومی کا جذبہ عشق بہت حد تک محویت ذات الٰہی کے تاثرات میں رہ جاتا ہے۔ اقبال کے ہاں جذبہ تخلیق، جذبہ تسخیر اور جذبہ ارتقاء بن گیا ہے اور اس پہلو سے اقبال نے ایسے مضامین پیدا کئے ہیں جن کا مرشد کے ہاں مشکل سے کوئی نشان ملے گا۔ نطشے کی مریدی اقبال نے اس حد تک بھی قبول نہیں کی جس حد تک کہ اس نے مرشد رومی کا اتباع کیا ہے۔ نطشے کے افکار میں سے اقبال کو تعمیر خودی، استحکام خودی اور عروج آدم کا مضمون پسند آیا۔ لیکن نطشے کے ہاں سے تخریبی افکار بہ نسبت ترکیبی افکار کے بہت زیادہ ملتے ہیں۔ اس میں جلال کا پہلو جمال کے پہلو پر غالب ہے کہ ہستی محض ایک میدان کار زار بن جاتی ہے۔ اقبال خودی کے ساتھ ایک بیخودی کا فلسفہ بھی رکھتا ہے ایک کو دوسرے کے بغیر ناقص سمجھتا ہے۔ نطشے کے ہاں انفرادی خود اختیاری کا اس قدر زور ہے کہ فرد کا رشتہ ملت اور کائنات سے نہایت غیر معین اور مبہم سا رہ جاتا ہے۔ اس کے ہاں قاہری غالب ہے اور دلبری مغلوب۔ اقبال کے نصب العین انسان میں ناز کے ساتھ نیاز بھی ہے۔ ادعا کے ساتھ تسلیم و رضا بھی ہے۔ نطشے جمہوریت اور مساوات کا دشمن ہے اور غریبوں او رکمزوروں کے لیے اس کے پاس نفرت کے احساس کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال بھی جمہوریت اور مساوات کا دشمن ہے اور غریبوں اور کمزوروں کے لیے اس کے پاس نفرت کے احساس کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال بھی جمہوریت کی موجودہ شکلوں کو دھوکا سمجھتا ہے لیکن ایک اعلیٰ سطح پر صحیح مساوات کا متلاشی ہے اور ایسے خدا کا قائل ہے جو اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگادو نطشے کے ہاں صداقت کا معیار قوت کے سوا کچھ نہیں تناع للبقا کا انداز ظالمانہ اور بے رحم اور جابرانہ ہے۔ اقبال کے ہاں محض قوت صداقت کا معیار نہیں نطشے خدا کا منکر ہے۔ اقبال اعلیٰ درجے کا موحد ہے نطشے مجذوب ہے اور اقبال حکیم ہے۔ اقبال تمام نوع انسانی کو ابھارنا چاہتا ہے۔ نطشے کی نظر فقط چند کامل افراد پر ہے۔ ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) سر محمد اقبالؒ (وہ انسان جس نے اردو شاعری کو مردانہ پن بخشا) از قلم گوہر رقم جناب سید احمد شاہ بخاری ایم۔ اے مترجمہ: صوفی ریاض حسین اقبال کی وفات سے ہندوستان ایک جلیل القدر شاعر سے کہیں زیادہ باعظمت ہستی سے محروم ہو گیا۔ وہ بطور ایک عالم متبحر، اور تاریخ، فلسفہ اور مذہب کے سرگرم طالب علم کے بھی ان لوگوں کے لیے جو اپنی محدود قابلیت کے سبب اس کی اعلیٰ شاعری تک رسائی سے قاصر تھے۔ منبع فیض وجود تھا۔ بطور شاعر اگرچہ اس کا مقام نہایت بلند تھا۔ لیکن ادبی اور عمرانی دنیا میں اثر و نفوذ کے لحاظ سے اس کا مقام اس سے بھی بلند تر تھا۔ اس کی وفات سے جہاں مسلمانوں سے ایک فصیح اللسان پیغامبر اور ان کی تہذیب کا ایک نہایت بڑا شارح چھن گیا ہے۔ اردو شاعری سے خدا معلوم کتنی دراز مدت کے لیے اہمیت اور منزل مقصود چھن گئی ۔ کم و بیش چالیس سال گزرے جب اقبال کی شاعرانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ اس وقت اردو شاعری اگرچہ لوگوں میں مقبول تھی اور ہر کس و ناکس اس سے لطف اندوز ہوتا تھا تاہم اس کا مقصد خود زندگی نہیں بلکہ محض زندگی کے حاشیہ کی تزئین سمجھا جاتا تھا، اگرچہ یہ مقبول عام فن تھا مگر یہ فن محض فن کی خاطر اختیار کیا جاتا تھا اس وقت شاعری کیا تھی محض جذبات انگیز عیاشی، نرم و نازک، دل خوش کن، مزاحیہ یا ہجویہ، لیکن سرا سر بے ربط، اسی لیے اس کے اختیار کرنے میں سنجیدگی اور متانت سے کام لینے کی ضرورت نہ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن مسلمانوں کے دلوں میں ایک نیا احساس کروٹیں لے رہا تھا اور لوگوں کی زبان پر تعمیرات ملت اور ترقی کے الفاظ آنے شروع ہو گئے تھے۔ ان میں جو زیادہ ذکی الحس واقع ہوئے تھے انہوں نے آرٹ کو پھر ڈھونڈ نکالا کہ یہ بھی انسان کے زیادہ اہم مشاغل میں سے ایک ہے اور اس کو اعلیٰ سنجیدگی اور مقصد و مدعا سے معمور کرنے کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ حالی ایسا غزل گو عہد شباب کی ہوسکاریوں سے تائب ہو کر مشہور زمانہ مسدس کا مصنف بن گیا، جس نے خواب غفلت کے متوالے ہندوستانی مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا کہ کوئی ایک نظم نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا کر سکی ۔ انہی حالات میں اقبال جس نے اسی فرسودہ ڈگر پر اپنی شاعری شروع کی تھی محسوس کرنے لگا کہ اس کا دل مسلمانوں کے احیاء اور ان کی نئی زندگی کے خواب سے مضطرب اور بیقرار ہے۔ ہندوستان ہمارا اقبال کی ابتدائی نظموں سے ہی جو اس رحجان کے ماتحت لکھی گئیں اس کے ولولہ عمل سے بے تاب اور اپنے وطن کے لیے جذبات محبت کا پتہ لگتا ہے۔ اس کی نظم ’’سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے‘‘ اب تک فرقہ وارانہ اتحاد کی سب سے زیادہ پر اثر اپیل ہے جو کسی محب وطن کے قلم سے نکلی ہو اور اس کا شہرۂ آفاق گیت ’’ ہندوستان ہمارا‘‘ میرے خیال میں بہترین قومی گیت ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور جس سے بہتر گیت کی شاید مدت مدید تک بننے کی امید نہیں ہو سکتی۔ لیکن مذہب اسلام کے غائر مطالعہ نے جو اقبال نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک مسلسل جاری رکھا۔ اس کے افق خیال کو وسعت بخشی۔ وطن اور ملک کی نسبت سے قوموں کا تصور اس کی فطرت کے خلاف تھا۔ اپنی شاعری اور اپنی گفتگو میں وہ ہمیشہ یورپ کی مثال دے کر انسانوں کو ملکوں اور وطنوں کے تنگ دائروں میں تقسیم کرنے کی بیہودگی ثابت کیا کرتا۔ وہ ایک ایسے تمدنی نصب العین کا قائل تھا جو انسانوں کو وطنوں اور قوموں کے اختلافات کی سطح سے بلند کر دے اور جو زندگی کو ایک مقصد و دعا بخشے۔ کیونکہ اس کے نزدیک آرٹ کا با مقصد ہونا محض زندگی کے اصول علت العلل کا جزو لاینفک تھا۔ اس قسم کی ہمہ گیری اور بامقصدیت انہیں نظر آتی تو اسلام میں یا چند جرمن فلسفیوں کی تعلیمات میں جن سے وہ بے دریغ اپنی شاعری میں استفادہ کرتا رہا۔ حجازی خیالی دنیا جس دور سے ہم ہندوستان میں گزر رہے ہیں اگرچہ اس میں بڑے بڑے امکانات پوشیدہ ہیں تاہم اس میں خاص غمناک کی کیفیت موجود ہے۔ ہم میں شاید ہی کوئی فن کار ایسا ہو جس کے فن میں گھر کے لیے اداسی بطور مرض کے موجود ہو۔ ہم دور دراز خیالی دنیاؤں کے آرزو مند ہیں اور خواہ وہ دنیا میں خیالی ہوں یا حقیقی ان کی زمانی یا مکانی دوری ہی ان کے اندر ایک بے پناہ دلکشی پیدا کر دیتی ہے۔ا قبال نے اسلام کے ابتدائی زمانہ پر پر شوق نظر ڈالی۔ اس کی آرزو تھی کہ وہ اس عہد کے مسلمانوں کی سادگی، بلند ہمتی، ایمان اور عزم و استقلال کو دوبارہ پیدا کر سکے۔ ایک عالمگیر تمدن کے لیے اس کی دلی خواہش انسان کی تقدیر میں اس کا زبردست ایمان، انسان کے ارتقاء میں اس کا پختہ یقین کہ وہ مقصد کی بلندیوں کو منزل بہ منزل طے کرتا ہوا کمال کی چوٹیوں پر پہنچ سکتا ہے۔ ان شرائط کے مطابق جو مسلم گھرانے میں پیدائش کے سبب اور اسلامی تعلیمات اور تمدن کے گہرے مطالعہ سے اس کے ذہن نشین ہو چکی تھیں۔ ان سب باتوں نے اس کی شاعری کو اسلامی رنگ دے دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں اس کے بعض قدر دان اس سے چھن گئے۔ کسی شاعر کے کلام کی قدر اور اس کے اعتقاء کے باہمی تعلق کی بحث پرانی چیز ہے اور میں اس کے متعلق یہاں کچھ نہ کہوں گا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو صرف اس لئے ملٹن کی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوں کہ وہ اس کے مذہبی عقائد سے متفق نہیں۔ یا جو شیکسپیئر کا کلام محض اس لیے پڑھنا گوارا نہ کریں کہ وہ اس کے شاد پرستانہ خیالات کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لیے جو کولرج کے لفظوں میں کسی شاعر کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت انکار کو عمداً معطل کر دیتے ہیں۔ اقبال رہتی دنیا تک مشرق کا سب سے زیادہ ولولہ خیز شاعر رہے گا۔ فارسی اور اردو اس کے بعض ہموطنوں کی بدقسمتی ہے کہ اقبال کے بہترین کلام کا زیادہ حصہ فارسی میں ہے اور اس کی صرف ایک طویل نظم اسرار خودی کا ترجمہ جو پروفیسر نکلسن نے کیا ہے انگریزی زبان میں ملتا ہے، تاہم اس کا ابتدائی کلام جو اردو میں ہے وہی اس کو ہندوستانی شاعروں میں ایک بلند مقام دینے کے لیے کافی ہے لیکن خواہ اس نے اپنی نظمیں اردو میں لکھیں خواہ فارسی میں اس کا اردو شاعری پر گہرا اور مسلسل اثر پڑتا رہا۔ پیدائش کے لحاظ سے وہ پنجابی تھا (اصل میں اقبال کشمیری اور ذات کا سپرو تھا) اسی لیے اس کے یوپی کے نکتہ چین اس کو ہمیشہ یہ حقیقت ایسے لفظوں میں یاد دلاتے رہے جن میں انصاف کم اور تلخی زیادہ ہوتی تھی اور اس کی شاعری کی زبان کو ٹکسال باہر ہونے کا طعنہ دیتے رہے اور یہ باجوود اس حقیقت کے کہ وہ داغ کا معنوی فرزند تھا، جو اردو زبان کا مسلمہ بادشاہ ہوا ہے لیکن اس کی غیر معمولی قابلیت نے اس کے نکتہ چینوں کو جلدی خاموش کر دیا اور اس کی طرز شاعری کے بے شمار پیرو ملک کے طول و عرض میں پیدا ہو گئے۔ اگر افراد کے وسیع اثرات کا تذکرہ کرنا اندیشناک ہو، تو اس ضمن میں تینوں ہستیوں کا نام لیا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے رنگ میں اردو ادب کو نئی اور ممتاز صورت بخشی ہے۔ مولٰنا ظفر علی خاں نے ’’ زمیندار‘‘ کے ابتدائی ایام میں اس میں مضامین لکھ لکھ کے اردو صحافت کو ایک ایسی زور دار اور لچکیلی زبان سے مالا مال کیا۔ جس سے وہ پہلے قطعاً ناواقف تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے اردو نثر کو وہ شوکت، فراوانی اور شیرینی بخشی جس کا راز انہوں نے عربی زبان کے مطالعہ کرتے وقت پا لیا تھا۔ لیکن چٹپٹے مضامین یا پر اثر وعظوں کی نسبت شاعری لوگوں کے دلوں میں زیادہ دیر پا اثر رکھتی ہے اور شاعر زبان پر زیادہ گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جدید اردو کے بنانے والوں میں اقبال (اور اسی طرح اس کا پیشرو غالب) ابھی تک سب سے نمایاں اور زبردست اثر ڈال رہا ہے۔ ہزاروں ترکیبیں اور الفاظ جو ان دونوں استادان فن نے گھڑے یا اپنے فارسی کے پیشرو استادوں سے مستعار لیے آج بھی اردو تحریر اور تقریر میں ان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) اقبال کا پیغام دیا نرائن نگم اقبال کو ہم سے جدا ہوئے دو سال سے زیادہ گزر گئے لیکن ان کی نا وقت موقت کا رنج مدتوں تک دلوں میں رہے گا۔ ان کا کلام اور پیام ایک زندہ جاوید حقیقت ہے، جس سے رہتی دنیا تک انسانی دل کو سرور و سکون اور دماغ کو رفعت و روشنی حاصل ہوتی رہے گی۔ دور جدید کی اردو شاعری میں حالی، اکبر، سرور جہاں آبادی اور اقبال نے بہت گہرا اور دیر پا نقش چھوڑا ہے۔ ان میں بھی اقبال کو جو قبول عام نصیب ہوا ہے وہ غالب کے علاوہ شاید ہی کسی دوسرے شاعر کے حصہ میں آیا ہو۔ اقبال کے کلام کی تعریف اور ان کے پیام کی تشریح میں بیسیوں کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہے۔ بڑے بڑے نکتہ سنج نقادوں نے ان کے شاعرانہ کمال کی داد دی ہے۔ بڑے بڑے سخن فہم نکتہ چینوں نے ان کے کلام کی باریکیاں اجاگر کی ہیں۔ ان کی شاعری کا ابتدائی دور حب وطن کے جذبات سے معمور ہے، بعد میں ان کا رنگ فلسفیانہ ہو گیا، جس کے کئی پہلو بحث طلب اور قابل غور ہیں۔ تصوف میں بھی اقبال کو ایک خاص درجہ حاصل ہے کیونکہ اس سے انہیں طبعی لگاؤ اور خاص مناسبت تھی بعض اہل ذوق کے نزدیک ان کے فارسی کلام کی خاص اہمیت ہے اور شاید خود اقبال کی نظر میں بھی ان کے فارسی کلام کو اردو کلام سے کہیں زیادہ وقعت حاصل تھی۔ مگر مجھے اس خیال سے ایک طرح کا دلی صدمہ ہوتا ہے کہ زمانہ حال کے بہترین اردو شاعر نے اپنے فلسفیانہ پیغام کے لیے فارسی کو اپنی دیسی زبان پر ترجیح دی ۔ اقبال کا فلسفہ خودی سمجھنے کی چیز ہے کیونکہ اس پر وہ ملک و قوم کی ترقی کی بنیاد قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے زور پر وہ ملک کا ساری دنیا پر چھا جانے اور دوسری جانب رنگ و بو کا راز پانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اسی کو وہ دین و دنیا، زمین و آسمان پر حاوی سمجھتے ہیں اور اسی کو وہ دنیاوی عشرت پر غالب آنے اور الوہیت کی منزلیں طے کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ خودی کیا ہے؟ بقول ان کے یہ ’’ کائنات کی بیداری‘‘ کا دوسرا نام ہے اور یہ خودی ’’ من و تو‘‘ سے پیدا ہوتی ہے لیکن اس کی اصل صورت دیکھی جائے تو یہ ’’ من و تو‘‘ کے جھگڑوں سے بالکل پاک و صاف ہے۔ اقبال کے عقیدے کے بموجب جس کی تلقین میں انہوں نے اپنی شاعری کا سارا زور ختم کر دیا ہے۔ انسانی وجود جوہر خودی کی نمود ہے در حقیقت اقبال کی نظر میں دین و دنیا میں چنداں فرق نہیں ہے بلکہ دونوں ایک ہی چیزیں ہیں اور ان دونوں کو ایک کرنے والی چیز ’’ خودی‘‘ ہے۔ اقبال کی رائے میں انسان اپنی خودی کو اتنا بلند کر سکتا ہے کہ منشائے ربا فی خود رضائے انسانی کا پاس کرنے لگے، کہتے ہیں: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے مگر اس خودی کو ترقی دینے اور بلند کرنے کی صورت بھی سن لیجئے۔ محض بلند آہنگ دعوؤں، زمین دوز تحریکوں اور فلک شگاف نعروں سے کوئی دیر پا نتیجہ نہیں نکل سکتا، البتہ یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم ہو تو بگڑے ہوئے کام بن جائیں۔ بقول اقبال: غلامی میں نہ کاما ٓتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں یہ سب کچھ درست ہے لیکن مجھے سب سے زیادہ پسند اور سب سے زیادہ مرغوبا قبال کا ابتدائی کلام ہے، جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جس میں انہوں نے تلقین کی ہے کہ ’’ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘ جس میں انہوں نے اس سچائی پر زور دیا ہے کہ شکتی اور شانتی دونوں آپ کی محبت سے حاصل ہو سکتی ہیں، جیسا کہ وہ کہتے ہیں: دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے اے کاش! آجکل کے شور و شر کے زمانے میں جبکہ ہر طرف سے نفاق و تفرقہ پردازی کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ کلام اقبال کے قدر دان ان کے پیام محبت کی قدر کرنا سیکھیں۔ ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۱ئ) حیات اقبال پروفیسر سید نجیب اشرف ندوی ایم اے بمبئی یہ نجیب اشرف صاحب ندوی ہندوستان کے مقتدر ترین علمائے ادب میں سے ہیں۔ کچھ عرصہ سے آپ نے کچھ نہ لکھنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ لیکن جونہی کہ ہم بمبئی پہنچے ہم نے مجبور کر دیا کہ آپ نیرنگ خیال کے لیے علامہ اقبال پر لکھے ہوئے اپنے تینوں لیکچر بعد نظر ثانی نیرنگ خیال میں اشاعت کے لیے مرحمت فرمائیں۔ چنانچہ اس سلسلہ کی یہ پہلی کڑی ہے۔ یہ تینوں لیکچر یوم اقبال سے بہت پیشتر لکھے گئے تھے۔ ہم کوشش کریں گے کہ یہ گرانقدر مضامین اسی سال کے اندر اندر شائع ہو جائیں۔ پروفیسر صاحب کو نظر ثانی کے لیے مجبور کرنا بھی ایک کٹھن منزل ہے۔ بہرحال شائقین علم و ادب کے لیے یہ سلسلہ بیحد مفید ثابت ہو گا۔ (ایڈیٹر) حضرات! اس سال کی معروضات کا سلسلہ دنیائے اسلام کے سب سے بڑے زندہ شاعر اقبال تک محدود ہے، ڈاکٹر اقبال کی شہرت، ان کی لیاقت، ان کا تبحر، ان کی سیاستدانی، ان کا فلسفہ اور ان کی عام و اسلامی شاعری ایسی چیزیں نہیں جو کسی تعریف و تعارف کی محتاج ہوں۔ نہ صرف ہندوستان، نہ صرف ایشیا، نہ صرف دنیائے قدیم بلکہ ساری علمی و ادبی، سیاسی و مذہبی دنیا ان کے ان خصائص سے واقف ہے اور ان سے مستفید ہو رہی ہے۔ خود ہندوستان میں ان کی شاعری سے متعلق نہ صرف یہ کہ اردو انگریزی میں متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں بلکہ بعض رسالوں نے خاص اقبال نمبر شائع کئے ہیں اور ان کی مثنوی کے انگریزی ترجمہ اور نظموں کے متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں بلکہ بعض رسالوں نے خاص اقبال نمبر شائع کیے ہیں اور ان کی مثنوی کے انگریزی ترجمہ اور نظموں کے متعدد زبانوں کے تراجم نے ان کی تعلیمات کو گھر گھر پہنچا دیا ہے۔ ہندوستان کی متعدد یونیورسٹیوں نے ان کی تصانیف کو داخل نصاب کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سیاست و تمدن، روحانیت و معاشرت، فلسفہ و مذہب کے ایک طالب علم کے لیے ان کا پڑھنا بسا ضروری اور ناگزیر ہے۔ ایسی حالت میں ان کی ذات یا ان کی شاعری و تعلیمات کے متعلق کچھ عرض کرنا شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ایک دوسری چیز جس نے مجھے اس پر آمادہ کیا۔ وہ یہ تھی کہ اگرچہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے متعدد کتابیں ان سے متعلق شائع ہوئی ہیں تاہم ان میں تنوع اور مضامین کا اختلاف ہے۔ ہر کتاب ایک خاص نقطہ نظر اور زاویہ نگاہ سے لکھی گئی ہے۔ کسی میں ان کی زندگی پر زیادہ زور دیا گیا ہے، کسی میں ان کی شاعری کے ادبی و فنی خصائص پیش کئے گئے ہیں اور کسی میں ان کی تعلیم پیغام پر بحث کی گئی ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ ان تینوں کو اس طرح سے جمع کیا جائے کہ اقبال کا ذاتی و قومی وجود ان کے سوانح و تعلیمات، ان کے اعتقادات و مقاصد حیات سب ایک ساتھ معلوم ہو جائیں اور یہ سلسلہ اس خیال کی ایک نامکمل سعی ہے۔ حضرات! اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انسان کی اخلاقی و ادبی تعمیر میں مذاقی و موروثی صلاحیت و قابلیت کے علاوہ ارکان خاندان، اصحاب مجلس، اساتذہ و احباب اور ماحول کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنے معروضات کو اقبال کے سوانح حیات تک محدود رکھا ہے۔ اگر آپ کو ان کی زندگی کے حالات، اس کا مدو جزر، اس کا نشیب و فراز اور اس کا انقلاب و ارتقاء معلوم ہو گیا تو پھر آپ اقبال کی شاعری، اس کے مختلف مدارج، اس کی اثر پذیری، اس کے محاسن اور اس کے ساتھ ہی اس کے پیغام، اس کے جادۂ حیات، اس کے پیغام زندگی، اس کی تعمیر قوم کے فلسفہ کو بھی اچھی طرح سمجھ سکیں گے لیکن سب سے زیادہ مصیبت یہ ہے کہ خود اقبال اپنی بیخودی کے جوش میں اتنے کھوئے گئے ہیں کہ وہ خود بھی اپنے متعلق کچھ بتانے کے قابل نہیں رہے ہیں اور فرماتے ہیں: گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں اس لیے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنی تمام توجہ ان کے کلام کی طرف مرکوز کر کے ان کے بحر خیالات کے گہرے پانی میں غوطہ لگائیں اور کوشش کریں کہ جو بھی درہائے معلومات حاصل ہو سکیں ان کو زیب گوش سامعین کریں کہ آج سے تن سو سال پیشتر ہم کو یہی مشورہ دیا گیا تھا کہ ہر کہ دیدن میل وارد در سخن بیند مرا حضرات! یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اس وقت جب اسلام اپنی تاریخ کے انتہائی تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ ا سکی قیادت و رہنمائی کا شرف و فخر خاندان مصطفویٰ، اخلاف ائمہ، شیوخ و کہار، صوفیائے کرام اور بزرگان عظام کی جگہ ایک برہمن زادہ کو نصیب ہوتا ہے۔ حسن زبصرہ بلال از حبش صہیب از روم ز خاک مکہ ابوجہل ایں چہ بو العجبیست ڈاکٹر اقبال ہندوستان کی جنت ارضی کے ایک مشہور نو مسلم برہمن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا خاندان کشمیر کے صاحب دماغ پنڈت قوم سے متعلق تھا اور ان کی گوت سپرو تھی۔ آج سے تقریباً دو ڈھائی سو سال پیشتر یہ خاندان آذری خلیل وار چمن اسلام میں داخل ہو کر کشمیر میں بہشت اندر بہشت کا لطف اٹھاتا ہے۔ چنانچہ وہ خود اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ۱۔ مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است ۲۔ میں اصل کا سومناتی آبا میرے لاتی و مناتی قبول اسلام کے بعد اس خاندان نے سب سے پہلے جس سنت نبوی پر عمل کیا وہ ہجرت تھی اور ارکان خاندان جنت زار کشمیر کو چھوڑ کر مدینہ سیالکوٹ میں آ بسے کہ: ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی ایام طالب علمی کی ایک رباعی میں اس دوری وطن کی اس طرح شکایت کرتے ہیں: موتی عدن سے لعل ہوا ہے یمن سے دور یا نافہ غزال ہوا ہے ختن سے دور ہندوستاں میں آئے میں کشمیر چھوڑ کر بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور اگرچہ بظاہر خاندان اپنے آبائی وطن سے دور ہو گیا تھا تاہم وطنی روایات کا سلسلہ اور اس کی محبت اقبال تک وراثتہً پہنچی ہے، چنانچہ وہ کشمیر کے دلادہ اور اس کی بہتری و برتری کے خواہاں ہیں اور انہوں نے متعدد جگہ خاص محبت اور والہانہ انداز سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ منشی محد الدین صاحب فوق اڈیٹر اخبار کشمیری اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ’’ سر اقبال گو آج سارے جہان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ سارے جہان میں کشمیر کا چھوٹا سا ہے ملک جو بارہ تیرہ لاکھوں فاقہ کشوں کا وطن ہے کیا حیثیت رکھتا ہے تاہم آپ نے اپنے وطن قدیم کے لحاظ سے اس غریب ملک اور اس غریب قوم کے لیے بھی اپنے قلب میں تھوڑی بہت جگہ ضرور دی ہے۔ جو نظمیں آپ کی سب سے پہلے کسی اخبار رسالہ کی زینت ہوئیں وہ کشمیر اور کشمیریوں کے متعلق ہی تھیں اور واپسی یورپ کے بعد سے اس وقت تک ہر کشمیری تحریک میں عملی حصہ لیتے رہتے ہیں۔ سیاحت کشمیر کے تاثرات کو اس پر زور نظم میں بیان کیا ہے:‘‘ رفت بہ کاشمر کشا، کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہاں جہاں بہ ہیں لالہ چمن چمن نگر باد بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج صلصل و سار زوج زوج بر سر ناردن نگر تانہ فتد بہ زینتش چشم سپہر فتنہ باز بستہ بہ چہرۂ زمیں برقع نسترن نگر لالہ زخاک بردمید موج بہ آب جو تپید خاک شرر شرر ہیں آب شکن شکن نگر زخمہ بہ تار ساززن بادہ بہ ساتگیں بریز قافلہ بہار را انجمن انجمن نگر دختر کے برہمنے لالہ رخے سمن برے چشم بروے او کشا باز بہ خویشتن نگر اور شاید اسی ’’ دختر کے برہمنے‘‘ کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی ہو کہ: شرابے، کبابے، ربابے، نگارے عہد طالب علمی ہی کی ایک رباعی میں انہوں نے کشمیر کی عظمت کو اس شاعرانہ انداز سے ثابت کیا ہے: سامنے ایسے گلستاں کے کبھی گر نکلے جیب خجلت سے سرطور نہ باہر نکلے ہے جو ہر لحظہ تجلی گہ مولائے جلیل عرش و کشمیر کے اعداد برابر نکلے اس طرح کشمیر کے طریقہ تحریر سے یہ نقطہ پیدا کیا ہے: سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر غریب و فاقہ زدہ کشمیری صناعوں اور مزدوروں کے درد ناک حال کی تصویر اس طرح کھینچی ہے: کشیری کہ با بندگی خو گرفتہ بتے می تر اشد ز سنگ مزارے ضمیرش تہی از خیال بلندی خود ناشناسے ز خود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے نہ در دیدۂ او فروغ نگاہے نہ در سینہ او دل بیقرارے ازاں مے فشاں قطرۂ بر کشیری کہ خاکسترش آفریند شرارے میرا خیال ہے کہ کشمیریوں کی موجودہ حیات نما بے چینی اسی شرار آفریں مے کی جو خمخانہ اقبال سے ملی ہے، سرمستی کا نتیجہ ہے۔ ہر نو مسلم اپنے عقائد اور اپنے عشق مذہب میں خاندانی مسلمانوں سے زیادہ پرجوش ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ خاندان بھی شریعت و طریقت کی بہترین روایات کا حامل ہے اور اقبال کے کلام میں ابتداء ہی سے محب اسلام اور عشق رسالت کی چنگاریاں نظر آتی ہیں۔ بلال والی نظم اس کا بہترین ثبوت ہے، ابتدائی غزلوں میں بھی اس طرح کی تمناؤں کا اظہار کیا گیا ہے کہ: ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے اور دراصل یہی چنگاری تھی جو بھڑکی اور اس کی روشنی ا س قدر بڑھی کہ اقبال کا ما بعد کا کلام مطلع انوار ہو گیا۔ حضرات! بانگ درا کی اشاعت کے بعد سے اقبال یا کلام اقبال پر جس نے بھی جو کچھ لکھا ہے وہ اس کتاب کی ترتیب کے مطابق تین مختلف ارتقائی دوروں کے مطابق لکھا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اقبال کی زندگی کو چار دوروں پر تقسیم ہونا چاہیے اور اس میں اولیں دور وہ عہد ہو گا جو اقبال کی عام شاعری سے پیشتر کا تھا کہ دراصل وہی بست سالہ تربیت و تعلیم آئندہ بزرگی و شہرت کی تیاری کا زمانہ تھا اور اسی عہد کے مذہبی، ادبی، سیاسی اور معاشی اثرات تھے جو بیج سے لے کر ایک تناور درخت تک پہنچے۔ ولادت و ابتدائی تعلیم شیخ محمد اقبال، شہر سیالکوٹ میں ۱۸۷۶ء میں کتم عدم سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق ابتدائی مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے ان کو چند دنوں تک مکتب میں رکھا گیا۔ اس کے بعد اسکول میں داخل کیا گیا۔ ابتدائی تعلیم کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ اقبال چوتھی جماعت میں تعلیم پا رہے تھے کہ ایک دن ان کے والد ماجد مولوی صاحب (میر حسن) کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ میں نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بچے کو آپ اسکول کی تعلیم کے بجائے دینیات کا درس دیا کریں اور آئندہ یہ مدرسہ میں جانے کے بجائے مسجد میں پڑھا کرے۔ مولوی صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ بچہ مسجد میں پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ مکتب میں پڑھنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور یہ مدرسہ ہی میں پڑھے گا۔ یہ واقعہ اگرچہ دیکھنے میں بہت معمولی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی زبان فیض ترجمان نے شاگرد کی آئندہ عظمت کو بھانپ کر یہ بتا دیا تھا کہ دنیائے اسلام کا آئندہ شاعر مسجد کا ملا ہونے کی جگہ مقلد و غیر مقلد کے جھگڑوں اور آمی بالخفا یا بالجہر کی بحثوں سے بالاتر رہ کر عالم اسلامی کی سیاسی، ذہنی اور معاشرتی اصلاح کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ا ن کی ابتدائی تعلیم کا حال ان کے ایک مداح کی زبان سے سنیے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ابتداء میں اکثر مسلمان بچوں کی طرح کچھ دنوں آپ نے بھی مکتب کی ہوا کھائی پھر مدرسہ میں داخل ہوئے اور پانچویں جماعت کا امتحان وظیفہ لے کر پاس کیا۔ مڈل کے درجوں میں بھی نہ صرف تعریف کے ساتھ کامیاب ہوتے رہے بلکہ مڈل کے آخری درجہ میں بھی وظیفہ حاصل کیا۔ اس کے بعد باب العلم شروع ہوتا ہے۔۔ یعنی جب انہوں نے انٹرینس کا امتحان پاس کیا تو پرائمری اور مڈل کی طرح یہاں بھی سرکاری وظیفہ لے کر کامیاب ہوئے۔۔۔ اب ایف اے (اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ) میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔ سیالکوٹ کالج سے فارغ ہو کر آپ لاہور گورنمنٹ کالج کے بی اے کلاس میں داخل ہوئے طبیعت چونکہ فلسفیانہ پائی اس لیے بی اے کے امتحان میں فلسفہ کا مضمون لے کر نہ صرف پاس ہی ہوئے بلکہ انگریزی اور عربی میں باتصریف کامیاب رہنے کے لیے دو طلائی تمغے اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔۔۔۔ غرض یونیورسٹی کی آخری تعلیم (امتحان ایم اے ) کا مرحلہ بھی طے کیا اور ایک تمغہ حاصل کیا۔‘‘ حضرات! یہ مختصر الفاظ میں اقبال کی مدرسہ کی تعلیم کی روئداد ہے لیکن اس قسم کے امتیازی امتحانات پاس کرانیوالے آپ کو بہت ملیں گے اس سلسلے میں جو چیز غور کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کی موجودہ ادبی و سیاسی، مذہبی و فلسفیانہ عظمت کی تعمیر میں ان کے ارکان خاندان اور اساتذہ کا کتنا حصہ ہے اور اس سے اقبال کس قدر متمتع و مستفید ہوئے ہیں، اقبال نے ارکان خاندان میں سے ایک جگہ اپنے والدین کا تذکرہ کیا ہے اور اس سے ان کی والہانہ محبت کا پتہ چلتا ہے جو ایک سعادت مند اولاد کو ہوتی ہے۔ پھر آ رکھوں قدم مادر و پدر پہ جبیں کیا جنہوں نے محبت کا راز داں مجھ کو مگر اصول محبت کے مطابق اقبال کو اپنی والدہ مرحومہ سے بہت زیادہ محبت تھی۔ چنانچہ ان کی ایک طویل نظم موسومہ ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اس کی شاہد ہے۔ کس کو اب ہو گا وطن میں آہ! میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بیقرار خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات اس نظم سے نیز وداعی نظم سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے کوئی بھائی بھی تھے 1؎ اور وہی ان کے کفیل تھے اور انہی کی قسمت میں والدہ کی خدمت کی سعادت لکھی تھی چنانچہ اسی نظم میں لکھتے ہیں: عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی وہ جواں قامت میں ہے جو صورت سر بلند تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند کاروبار زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ صبر سے نا آشنا صبح و مسا روتا ہے وہ تخم جس کا تو ہماری کشت جاں میں بو گئی شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہو گئی دوسری نظم میں لکھتے ہیں: وہ مرا یوسف ثانی وہ شمع محفل عشق ہوئی ہے جس کی اخوت قرار جاں مجھ کو جھلا کے جس محبت نے دفتر من و تو ہوائے عیش میں پالا کیا جواں مجھ کو ریاض دہ رمیں مانند گل رہے خنداں کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جان جاں مجھ کو 1؎ شیخ عطا محمد برادر اقبال (ادارہ نقوش) شمس العلماء میر حسن مرحوم ابتدائی تعلیم سے لے کر ایف اے کی کامیابی تک اقبال کو ایک ایسے ممتاز اور جوہر شناس استاد کی نظر عنایت اور نگاہ توجہ حاصل رہی ہے جس کے بحر علم سے سینکڑوں تشنہ کاموں نے آب حیات پایا ہے اور جس کے چشمہ ادب کے ایک جرعہ نے کتنوں کو دنیائے ادب میں شہرت و ناموری کی ابدی زندگی عطا کی ہے۔ اس ذات بابرکات سے میری مراد سیالکوٹ کے مشہور پروفیسر شمس العلماء میر حسن مرحوم ہیں۔ مولانائے مرحوم کا وجود مقدس ایک سچے قرن اولیٰ کے عالم کا صحیح ترین نمونہ تھا، علم و فضل کا تو ذکر ہی جانے دیجئے کہ ممکن ہے اس میں ان سے بہتر اشخاص بھی مل سکتے ہوں۔ لیکن اخلاق، مذہبیت، ذوق علم، اطاعت والدین، وضعداری اور ہمہ گیری کے لحاظ سے وہ انیسویں صدی کے بے مثل بزرگ تھے۔ اقبال کی شاعری، ان کی ادبیت، ان کے پختہ عقائد، ان کا افراد و قوم کے تعلقات و تناسب کے متعلق نظریہ، یہ تمام چیزیں دراصل اسی کاشتکار اسلام کی بوئی ہوئی ہیں جو تجربہ و مطالعہ کی آبیاری سے برگ و بار لا رہی ہیں ۔ اقبال کو خود اس کا اعتراف ہے۔ چنانچہ روانگی یورپ کے وقت اپنے حسن عقیدت سے متاثر ہو کر طلب امداد کے لیے ۲ ستمبر ۱۹۰۵ء کو اقبال روضہ محبوب الٰہی پر حاضر ہو کر دعا کرتے ہیں تو اس میں اپنے استاد محترم کے متعلق اس طرح عقیدت و نیاز کے پھول چڑھاتے ہیں: وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کی کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو دعا یہ کر کہ خداوند آسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو سر تھامس آرنلڈ: شمس العلماء مرحوم علوم مشرقی کے آفتاب تھے تو اقبال کے دوسرے استاد سر تھامس آرنلڈ مغرب کے نیر درخشاں، اقبال کے ذہنی ارتقائ، وسعت نظر، فلسفیانہ تدبر اور ذوق مطالعہ کی ہمہ گیری میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے اور استاد و شاگرد کے یہ تعلقات جو بعد میں انتہائی دوستی کی حد تک پہنچ گئے تھے ان کے سفر یورپ اور تکمیل تعلیم فلسفہ و سیاست کے محرک ہوئے۔ آرنلڈ کی یاد میں اقبال نے جو نظم ’’ نالہ فراق‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے اس سے ان کے جذبات کا صحیح اندازہ ہوتا ہے، وہ لکھتے ہیں: (۱) جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں آہ مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں آ گیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں ظلمت شب سے ضیائے روز فرقت کم نہیں ’’تازہ آغوش و داعش داغ حیرت چیدہ است ہمچو شمع کشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است‘‘ (۲) ذرہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا آئینہ ٹوٹا ہوا عالم نما ہونے کو تھا نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا آہ کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا ابر رحمت دامن از گلزار من برچید و رفت اند کی برغنچہ ہائے آرزو بارید و رفت (۳) تو کہاں ہے اے کلیم ذروہ سینائے علم تھی تری موج نفس باد نشاط افزائے علم اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم شور لیلیٰ کو باز آرایش سودا کند خاک مجنوں راغبار خاطر صحرا کند (۴) کھول دیگا دشت وحشت عقدۂ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو ’’تاب گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا خامشی کہتے ہیں جس کو ہے سخن تصویر کا‘‘ اور آپ نے دیکھ لیاکہ کس طرح اقبال پنجاب کی زنجیر کو توڑ کر اپنے لب تشنہ تقریر کی پیاس بجھانے اور آرنلڈ کی عالمانہ زمزمہ سنجی سے فردوس گوش ہونے کے لیے چمنستان کیمبرج میں جا پہنچے۔ اقبال کی شہرت سب سے زیادہ ان کی شاعری کی ممنون احسان ہے اور اس حیثیت سے بھی اقبال کی خوش طالعی کا قائل ہونا پڑتا ہے کہ اس حیثیت سے بھی ان کو جو استاد ملا وہ اپنے فن کا کامل اور اپنے عہد کا ممتاز شاعر تھا، شاعری میں ان کو حضرت داغ سے غائبانہ شرف تلمذ حاصل تھا۔ سر عبدالقادر اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: ’’ اقبال کو اردو زبان دانی کے لیے بھی ایسے استاد سے نسبت پیدا ہوئی جو اپنے وقت میں زبان کی خوبی کے لحاظ سے فن غزل میں یکتا سمجھا جاتا تھا، گو اس ابتدائی غزل گوئی میں وہ باتیں تو موجود نہ تھیں جن سے بعد ازاں کلام اقبال نے شہرت پائی، مگر جناب داغ پہچان گئے کہ پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کا یہ طالب علم کوئی معمولی غزل گو نہیں۔ انہوں نے جلد کہہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔۔۔ داغ مرحوم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ا قبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے۔‘‘ لیکن اقبال کے دل میں بھی ان کی عزت، ان کی محبت، اپنے دوسرے دو استادوں سے کم نہ تھی، چنانچہ داغ مرحوم کی وفات پر انہوں نے جو مرثیہ لکھا ہے، اس کا زندہ ثبوت ہے۔ چل بسا داغ آہ! میت اس کی زیب دوش ہے آخری شاعر جہاں آباد کا خاموش ہے اب کہاں وہ بانکپن وہ شوخی طرز بیاں آگ تھی کافور پیری میں جوانی کی نہاں تھی زبان داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے لیلیٰ، معنی وہاں بے پردہ یاں محمل میں ہے اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت گل کا راز کون سمجھے گا چمن میں نالہ بلبل کا راز اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی اٹھیں گے آزر ہزاروں شعر کے بت خانے سے مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریں بہت ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟ اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون؟ ان کے علاوہ روحانی اور ذہنی حیثیت سے اقبال جن بزرگوں کے کلام و تعلیم سے متاثر ہوئے ہیں ان کا مفصل ذکر آئندہ ہو گا۔ لیکن یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ ابتداء ہی سے اقبال نے اپنے زمانے کے اکابر سے تعارف پیدا کر لیا تھا اور ہر شخص کی اس کے مرتبہ درجہ کے مطابق عزت کرتے تھے۔ ایم اے کی کامیابی کے بعد اقبال اورینٹل کالج لاہور میں فلسفہ اور سیاست مدن کے استاد مقرر ہوئے تاآنکہ ۱۹۰۵ء میں تکمیل تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے۔ اب میں اقبال کی شاعری کے متعلق گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح اس کی ابتداء ہوئی اور روانگی یورپ تک ان کی شاعری کس قسم کی تھی، جیسا کہ میں نے حالات کشمیر کے سلسلہ میں کہا ہے کہ ان کی شاعری کی ابتداء سیالکوٹ کے زمانہ میں ہو چکی تھی لیکن عام طور سے اس کا آغاز لاہور میں ہوا، چنانچہ ان کے ایک سوانح نگار کا بیان ہے کہ فروری ۱۸۹۶ء میں جب آپ بی اے میں پڑھا کرتے تھے آپ کی شاعری کی دھوم طلبہ اور خاص خاص احباب کے حلقہ سے نکل کر اپنی برادری یعنی اہل خطہ کی مجلس میں پہنچی جس کے ایک دو جلسوں میں آپ نے چند نظمیں اور رباعیاں پڑھیں لیکن پبلک حیثیت سے اقبال مستقبل کے ممتاز شاعر کی حیثیت سے اس وقت مشہور ہوئے۔ جب انہوں نے شہر لاہور کے بھاٹی دروازہ کے اندر بازار حکیماں میں حکیم امین الدین صاحب (بیرسٹر) مرحوم کے مکان پر جو مشاعرہ ہوا تھا اس میں اپنی غزل سنائی، میر مجلس اسی خاندان کے بزرگ حکیم شجاع الدین مرحوم تھے مرزا ارشد گورگانی دہلوی اور ناظر حسین ناظم لکھنوی مشاعرہ کی روح رواں تھے۔ اس مشاعرہ میں اس نوخیز شاعر نے جب اپنا یہ شعر پڑھا: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے تو مجلس میں سناٹا چھا گیا اور بقول فوق ’’ مرزا ارشد گورگانی مرحوم بے اختیار واہ واہ اور سبحان اللہ کہہ اٹھے اور بولے‘‘ ’’ میاں اقبال! اس عمر میں اور یہ شعر‘‘ اس غزل کا مقطع ہے: اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے اقبال نے اسی وقت محسوس کر لیا تھا کہ جغرافیائی حدود کا تعین دراصل مقصد تکمیل کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ان کی ما بعد کی تعلیم نے ثابت کر دیا کہ کس طرح اس بیج نے با ر آور ہو کر ان کو موجودہ جغرافیائی و ملکی وطنیت و قومیت کے خار زار کی جگہ بین الاقوامی اخوت و محبت کے پھل دیے۔ میں اس افسوسناک حقیقت کی طرف آپ کی توجہ منعطف کرائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اقبال نے نہ معلوم کن اسباب و وجوہ کی بنا پر اپنے ابتدائی کلام کا ایک بہت بڑا حصہ بانگ درا میں شائع نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ درجہ کمال کو پہنچنے اور آفتاب فضل کے طلوع ہونے کے بعد یہ ستارے بے حقیقت نظر آتے ہوں لیکن اگر ان کا یہ ابتدائی کلام موجود ہوتا تو ارتقائی منازل کے مطالعہ کی ابتدائی کڑیاں مکمل ہو جاتیں، بہرحال ہم کو اب جو کچھ دیکھنا ہے اور جس ذریعہ سے نتائج اخذ کرنے ہیں وہ سب کے سب بانگ درا کے موجودہ مجموعہ تک محدود ہیں۔ علمائے تنقید میں ابتداء ہی سے یہ موضوع معرض بحث میں ہے کہ آیا حالات مصلح پیدا کرتے ہیں یا مصلح خود تخلیق حالات کامیاب بنتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس صدی کی ابتداء سے اسلام جس دور ابتلا سے گزر رہا ہے وہ اقبال کی شاعری (کوہ ہمالیہ) سے لے جا کر جاوید نامہ کی آسمانی معراج تک ایک ہی روح، ایک ہی جذبہ اور ایک ہی مقصد ہر نظم میں موجود ہے۔ شاعری کا یہ دور دراصل دور تحیر ہے نو آموز و نا تجربہ کار شاعر ہر حسین و پر کشش چیز سے متاثر ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے خواہ وہ ہمالیہ کی بلند چوٹی ہو یا گل رنگین، ابر کوہسار یا شمع و پروانہ، آفتاب صبح ہو یا ماہ نو، حب وطن کی کشش ہو یا عقل و دل کا مکالمہ، زہد و رندی کی کشمکش ہو یا عشق و موت کا تاثر، غرض ہر نظم میں وہی حیرت، وہی استعجاب، وہی سعی تحقیق، وہی ذوق تلاش حق موجود ہے لیکن اس دور تحیر میں بھی وہ روح غیر متعین طور پر موجود ہے جو آخر چل کر مکمل ہو کر پیغام اقبال بنتی ہے۔ سفر یورپ: اب ہم پروفیسر اقبال کو ڈاکٹر اقبال ہوتے دیکھیں، شربت علم کی تشنگی، آرنلڈ کے پیدا کردہ ذوق مطالعہ اور اسلامی فلسفہ و تاریخ کے شوق نے اقبال کو نچلا نہ بیٹھنے دیا اور وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ انگلستان و جرمنی جا کر اس پیاس کو بجھائیں اور اس شوق کو پورا کریں۔ چنانچہ ستمبر ۱۹۰۵ء میں وہ نگار خانہ لاہور سے براہ دہلی روانہ ہوئے، ۲ ستمبر کو انہوں نے حضرت محبوب الٰہی کے آستانہ پر پہنچ کر جو دعا مانگی وہ عقیدت اور اثر پذیری کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے۔ فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری فیض عام ہے تیرا ستارے عشق کے تیری کشش سے قائم ہیں نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا نہاں ہے تری محبت میں رنگ محبوبی بڑی ہے شان بڑا احترام ہے تیرا اگر سیاہ دلم، داغ لالہ زار تو ام وگر کشادہ جبینم، گل بہار تو ام چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثل نکہت گل ہووا ہے صبر کا منظور امتحاں مجکو چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب عشق کی لذت کشاں کشاں مجکو نظر ہے ابر کرم پر درخت صحرا ہوں کیا خدا نے نہ محتاج باغباں مجکو مقام ہمسفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھیں منزل مقصود کارواں مجکو مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجکو دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجکو بنایا تھا جسے چن چن کے خار و خس میں نے چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجکو شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھول ہو جائے یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ مسافر کی یہ التجا کس قدر جلد قبول ہو گئی۔ اقبال کا یہ سفر دراصل اپنے آئندہ مشن کی تیاری کا سبب تھا، وہاں رہ کر انہوں نے اپنا وقت اسی تیاری میں صرف کر دیا اور یہی وجہ ہے کہ اس سہ سالہ عہد قیام یورپ میں جو نظمیں لکھی گئیں وہ تعداد میں بہت کم ہیں، اس کی دو وجہیں ہیں، ایک تو مشاغل علمی اور دوسرے مطالعہ حال کے ساتھ فکر مستقبل کی الجھن، تاہم اس دور میں انہوں نے جو کچھ لکھا وہ اس ارتقاء و انقلاب کا صاف پتہ دیتا ہے جو اقبال کی ذہنی و روحانی دنیا میں پیدا ہو گیا تھا۔ اقبال نے پہلے کیمبرج سے نیچرل سائنس میں بی اے پاس کیا، اور پھر یونیورسٹی سے ایران کے ما بعد الطبیعیات پر Thesisلکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انگلستان کے قیام کے زمانہ ہی میں انہوں نے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کر لیا اور اس کے ساتھ ہی چھ ماہ کے لیے لندن یونیورسٹی میں اپنے استاد آرنلڈ صاحب کی جگہ تعلیم بھی دی۔ اسی زمانہ میں انہوں نے اسلام پر چھ لیکچر دیے جو نہ صرف یہ کہ مقبول ہوئے بلکہ بقول محمد دین صاحب جس سے آپ کی مذہبی تحقیقات کی دھوم مچ گئی۔ اقبال ۲۷ جولائی ۱۹۰۸ء کو یورپ سے پھر اپنے نگار خانہ واپس آئے۔ اس عہد کی شاعری میں دو چیزیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں: اول تو یہ کہ وطن محبوب اور اعزہ قریب کی دوری نے ان کی محبت کی روح خفتہ کو بیدار کر دیا او راس زمانہ میں سب سے پہلی نظم جو انہوں نے لکھی وہ محبت کے فلسفہ پر تھی۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اشعار میں بھی اس کا اظہار کرتے ہیں: جو گھر سے اقبال دور ہوں میں تو ہوں نہ محزوں عزیز میرے مثال گوہر وطن کی فرقت، کمال ہے میری آبرو کا ٭٭٭ صدائے لن ترائی سن کے اے اقبال میں چپ ہوں تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے میں ٭٭٭ میں نے اے اقبال یورپ میں اسے ڈھونڈھا عبث بات جو ہندوستاں کے ماہ سیماؤں میں تھی جرمنی کی یادگار دریائے نیکر والی نظم ہے لیکن اس سے بڑی یادگار جو اقبال اپنے ساتھ لائے وہ فلسفہ حیات ملی ہے جس کو ایک بڑی حد تک صرف جرمنی نے سمجھا ہے اور جہاں آج بھی اسی پر عمل کر کے وہ قوم ایک مرتبہ پھر ترقی کے اعلیٰ مدارج پر پہنچنا چاہتی ہے۔ دوسری چیز جس کا اس عہد کی نظموں سے پتہ چلتا ہے۔ وہ عشق و محبت کے جذبہ کی بیداری ہے اور یہ عشق و محبت ذاتی اور شخصی حیثیت سے گزر کر قومی و ملی ہو جاتی ہے، اندلس، صقلیہ وغیرہ کا نظارہ ان کے دل میں مسلمانوں کی گزشتہ عظمت کے تخیل کو بیدار کر دیتا ہے اور وہ اپنی تعلیم و تجربہ سے کام لے کر امت مرحومہ کو اپنی مسیحائی سے دوبارہ زندہ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور موسیٰ وار شیخ عبدالقادر کو ہارون سمجھ کر دعوت دیتے ہیں کہ: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط اسی ہنگامہ سے محفل تہ و بالا کر دیں اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق سنگ امروز کو آئینہ فردا ک ردیں اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں بادۂ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں شمع کی طرح جنیں بزم گہ عالم میں خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں ہر چہ در دل گزرو وقف زباں دارو شمع سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارو شمع وہ اس جذبہ سے اس قدر سرشار ہیں کہ ان کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ آیا عبدالقادر ان کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں اس لیے وہ اس دعوت کے بعد ہی اپنے اس عزم کا بھی اعلان کر دیتے ہیں کہ: میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس میرا شعلہ بار ہو گا اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ شرر فشانی اور شعلہ باری اس وقت کیا کام کر رہی ہے۔ اس زمانہ کا ایک عجیب واقعہ ہے جو بجائے خود اقبال کے ذہنی انقلاب کا پتہ دیتا ہے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ وہ شاعری ترک کر دیں لیکن شیخ عبدالقادر کے اصرار اور آرنلڈ کے فیصلہ نے خوش قسمتی سے اس خیال کو عملی جامہ پہننے نہ دیا۔ ورنہ آج دنیائے ادب و سیاست اور عالم اخلاق و مذہب ان جواہروں سے محروم رہتا۔ اس انقلاب کا پتہ ان کے اشعار سے بھی چلتا ہے۔ نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے جو کچھ کام کر رہی ہیں قومیں انہیں مذ۱ق سخن نہیں ہے اگر دور اول دور تحیر تھا تو یہ دور دور تفکر ہے اور اسی غور و فکر کے نتائج سے دور سوم کی تعلیمات مملو ہیں، اسی زمانہ میں اقبال نے فارسی میں شعر کہنے شروع کیے، اس کے متعلق سر عبدالقادر لکھتے ہیں: ’’ فارسی میں شعر کہنے کی رغبت کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہو گی اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب تصوف کے متعلق لکھنے کے لیے جو کتب بینی کی اس کو بھی ضرور اس تغیر مذاق میں دخل ہو گا، اس کے علاوہ جوں جوں ان کا مطالعہ علم فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقیق خیالات کے اظہار کا جی چاہا تو انہوں نے دیکھا کہ فارسی کے مقابلہ میں اردو کا سرمایہ بہت کم ہے۔۔۔۔ اس لیے وہ فارسی کی طرف مائل ہو گئے مگر بظاہر جس چھوٹے سے واقعہ سے ان کی فارسی گوئی کی ابتداء ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے، جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ آپ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں، انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ انہوں نے سوا ایک آدھ شعر کے کبھی فارسی کہنے کی کوشش نہیں کی، مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں جو انہوں نے زبانی مجھے سنائیں۔‘‘ خود اقبال کابیان یہ ہے: گرچہ ہندی در غدوبت شکر است طرز گفتار دری شیریں تر است فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خانہ من شاخ نخل طور گشت پارسی از رفعت اندیشہ ام در خور با فطرت اندیشہ ام خردہ بر مینا مگیر اے ہوشمند دل بہ ذوق خوردۂ مینا بہ بند ابھی ابھی ہم دیکھ آئے ہیں کہ اقبال کس عزم و ارادہ سے یورپ سے لوٹے تھے اور واقعہ ہے کہ انہوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا تھا اس کی تکمیل و اشاعت میں اس وقت تک مشغول سعی و مصروف عمل ہیں۔ ان کی یہ بست و شش سالہ زندگی اسی سعی پیہم اور کوشش مسلسل کی داستان ہے، ان کا دائرہ عمل بھی وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور ان کی زندگی بھی دوسرے رہنمایان قوم کی طرح بچوں کی معلمی سے شروع ہو کر قوم کی معلمی تک پہنچی ہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے مختلف مجالس اور متعدد انجمنوں کے ذریعہ ملک و قوم کی خدمت کی ہے، ایک طرف انجمن حمایت اسلام اور انجمن مسلمانان کشمیر سے لے کر آل انڈیا مسلم کانفرنس تک اور دوسری طرف صوبہ کی مجلس سے لے کر لندن کی گول میز کانفرنس تک ان کی شخصیت کا احساس محسوس ہو رہا ہے او را س حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں میں اپنی حفاظت، اپنے تمدن و تہذیب، علوم و فنون، معاشرت و رسوم اور اسلامی حیثیت سے بقاء کا جذبہ تمام تر انہیں کی تعلیم و تلقین کا نتیجہ ہے، مختلف مسائل سے متعلق ان کی جو رائے ہے او ردنیا کی فلاح و بہبودی کے متعلق ان کا جو لائحہ عمل ہے پھر کبھی بیان کروں گا۔ اس عہد کی ایک لائق ذکر چیز اقبال، ڈاکٹر اقبال کی وہ عزت افزائی ہے جو حکومت نے ان کی علمی خدمات کے صلہ میں سر کا خطاب دے کر کی ہے۔ اقبال نے سب سے پہلے ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک نظم لکھی تھی۔ اس کے بعد ایک لیفٹیننٹ گورنر کی شان میں ایک قطعہ کہا تھا اور ایام جنگ میں ایک اچھی سی نظم سرکاری اخبار حق میں شائع ہوئی تھی، لیکن ان کا خطاب دراصل اسرار کے انگریزی ترجمہ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں ان کی نظموں کی مقبولیت کا نتیجہ ہے، یہاں یہ بات بتانا خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ اس موقع پر ان کی مخالف جماعت نے اس کا خوب خوب مذاق اڑایا تھا اور متعدد انگریزی اور اردو اخبارات میں اس سے متعلق نظمیں بھی شائع ہوئی تھیں ان میں سے ایک نظم کے چند اشعار یہ ہیں: لو مدرسہ علم ہوا قصر حکومت افسوس کہ علامہ سے سر ہو گئے اقبال پہلے تو سر ملت بیضا کے تھے وہ تاج اب اور سنو تاج کے سر ہو گئے اقبال کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پر کوئی گستاخ سرکار کی دہلیز پر سر ہو گئے اقبال سیاسی و اصلاحی مشغولیت کے باوجود سر اقبال نے اپنے علمی ذوق کو ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اسی سلسلہ کی ایک کڑی وہ متعدد لیکچرز تھے جو انہوں نے مدراس، پھر میسور اور حیدر آباد میں دیے، اس کے علاوہ ان کی تصانیف کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے۔ اگرچہ اقبال نے سب سے پہلے جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے اردو میں شاعری شروع کی اور ان کی اکثر مختصر نظمیں رسائل میں اور طویل نظمیں علیحدہ علیحدہ شائع ہو چکی ہیں لیکن کتابی حیثیت سے انہوں نے جس چیز کو سب سے پہلے پیش کیا وہ ان کی مشہور مثنویاں اسرار خودی اور رموز بیخودی ہیں۔یہ کتابیں ۱۹۱۵ء 1؎ میں شائع ہوئیں اور مصلح و پیغامبر قوم نے اپنی عمر کے چالیسویں سال ان صحائف مذہب و سیاست کو پیش کر کے اپنی تعلیم کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد جو کچھ انہوں نے لکھا وہ انہیں کی تفسیر کہنا چاہیے اس کے بعد بانگ درا کا درجہ ہے، پھر پیام مشرق کا، جو جرمنی شاعر کے سلام مغرب کے جواب میں ہے اور اس کے بعد زبور عجم ہے۔ اس کے بعد جاوید نامہ، اس کے بعد بال جبریل، پھر ضرب کلیم اور پھر مسافر اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ وقت کی کمی مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں ان تصانیف کے مباحث پر مفصل طور سے کچھ عرض کروں، لیکن اس کے 1؎ اسرار خودی ۱۹۱۵ء میں اور رموز بیخودی ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئیں۔ (ادارہ نقوش) ساتھ یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ اقبال نے اپنے پیغام کو عام کرنے کی خاطر اپنی محبوب زبان اردو کو ایک بڑی حد تک نظر انداز کر دیا ہے، ممکن ہے کہ اس میں ان کے اس جوش کو دخل ہو جو موجودہ جغرائی وطنیت کے خلاف ان کے سینہ میں موجزن ہے لیکن چونکہ اقبال کو خود اس کا اعتراف ہے کہ: گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے ٭٭٭ (مئی ۱۹۳۸ئ) فلسفہ اقبال محمد الدین تاثیر ایم اے (۱) ز شعر دلکش اقبال می تواں در یافت کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی و رزید اسلام کی ابتداء حضرت آدم کے ظہور سے ہوئی اور ا سکی تکمیل سرور کائنات، فخر موجودات، پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہوئی۔ اس وسیع عرصہ میں جو جو انقلابات اور تغیرات ہوتے رہے وہ تاریخ عالم میں یادگار ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں پیغمبر صاحب شریعت آئے اور انہیں مقبولیت کے مختلف مدارج حاصل ہوئے۔ کئی امم ان پر ایمان لائیں، کئی جھٹلاتی رہیں مگر انجام کار ایک ہی ہوا، یعنی ا یک مخصوص وقت گزر جانے کے بعد پہلی باتیں فراموش ہو گئیں اور لوگ حقیقت سے دور ہوتے گئے۔ ابتدائی ذوق حیات اور حرارت قلبی مسلک گو سفندی اور جمود سے بدل گئے اور تاریخ بار بار اسی طرح اپنے آپ کو دہراتی رہی۔ یہاں تک کہ پیغمبر آخر الزماں ؐ کا ظہور ہوا۔ مصلحت ایزدی یہی تھی کہ مذہب کی تکمیل کر دی جائے اور وہ بجلیاں جو مدت سے آوارہ پھر رہی تھیں ایک مرکز میں جمع کر دی جائیں تاکہ زندگی کی لہریں طوفانی سرعت کے ساتھ دوڑنے لگیں اور اعصاب عالم ہمیشہ کے لیے زندہ کر دئیے جائیں۔ مگر اس سے فطرت انسانی تبدیل کرنا مدعا نہ تھا۔ طبیعتوں کا مدو جزر اسی طرح قائم رہا۔ طوفان آتے رہے، مگر بحر حیات میں ایک پائیدار روشنی کا مینار قائم کیا گیا جو ہر خطرہ میں امت کی رہنمائی کر سکے۔ اس تکمیل کے بعد نئے نبیوں کا آنا غیر ضروری تھا البتہ ہر دور میںمجدد آتے رہے اور سفینہ امت ان روشن ضمیر ملاحوں کی نگرانی میں دیا گیا، جن کے مصفا دل ’’ نور قاہر‘‘ کا آئینہ ہوتے ہیں۔ غرض تاریکی اور روشنی کی جنگ ہمیشہ ہوتی رہتی ہے اور جب کفر کا غلبہ بڑھ جاتا ہے اس وقت ’’ انسان کامل‘‘ کا ظہور آتا ہے: خیمہ چوں در وسعت عالم زند ایں نشاط کہنہ را برہم زند اس’’ انسان کامل‘‘ کی بعثت پر تمام اہل کتاب کا اتفاق ہے اور اسی ’’ انسان کامل‘‘ کا راستہ صاف کرنے کے لیے مجدد اور عالم آتے رہتے ہیں تاکہ قوم کا معیار حیات پستی سے رفعت کی طرف لایا جائے اور اسے آنے والے ’’ نائب الٰہی‘‘ کی تعلیم کے قابل بنایا جائے۔ علامہ اقبال اسی نائب حق کا ایک پیشرو ہے جس کی آمد کا سب کو انتظار ہے۔ جس کے لیے ایک عالم ہمیشہ چشم براہ رہتا ہے۔ اے سوار اشہب دوراں بیا اے فروغ دیدۂ امکاں بیا رونق ہنگامہ ایجاد شو در سواد دیدہ ہا آباد شو خود اعتمادی کا فقدان انحطاط قومی کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ یہی نہیں کہ زوال پذیر قوم غیروں کی دست نگر ہو جاتی ہے بلکہ اسے اپنی رہی سہی رمق حیات پر بھی یقین نہیں رہتا او راس کے رہنماؤں کا یہ دستور العمل ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کی بے دست و پائی کا رونا روتے ہیں اور ان ساون کے اندھوں کو ہر جگہ انحطاط کے نشانات ہی نظر آتے ہیں۔ اس بے اعتمادی کی ایک بدیہی مثال معارف کی ایک تنقید ہے جس میں ہندوستان کی ضرب المثل مغرب پرستی پر آنسو بہائے گئے ہیں اور اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ اسرار خودی کی شہرت پہلے مغرب میں ہوئی ہے اور پھر ہماری توجہ اس طرف راغب ہوئی ہے۔ ہندوستان مغرب پرست سہی، ہر بات میں اغیار کا دست نگر سہی، یہ سب کچھ سہی مگر اقبال کی شہرت ایسے ہر ایک کلیہ سے مستثنیٰ ہے، اقبال ہمارا جگر گوشہ ہے یہی خون جو ہمارے سست اعصاب میں منجمد پڑا ہے اس کی رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے اور جس طرح وہ ہمارے قلب کو گرما سکتا ہے ہماری روح کو تڑپا سکتا ہے اس طرح وہ کسی اور قوم کو متاثر نہیں کر سکتا۔ اقبال کی شاعری خالص اسلامی شاعری ہے اور اس کی شہرت مشرقی ایوانوں سے گونجتی ہوئی مغرب کے کانوں میں پہنچی ہے۔ اسرار خودی کا انگریزی مترجم پروفیسر نکلسن دیباچہ میں لکھتا ہے: ’’ اسرار خودی رونما ہوتے ہی نوجوان ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں پر ایک سیل ہمہ گیری کی طرح قبضہ پا گئی۔‘‘ ایک نوجوان لکھتا ہے کہ: ’’ اقبال ہمارا مسیحا ہے اس کے دم جاں بخش نے مردوں کو حیات جاودانی عطا کر دی ہے۔‘‘ اور یہ محض نکلسن ہی کی رائے نہیں، اتھینم میں فارسٹر لکھتا ہے کہ: ’’ ٹیگور کو عام ہندوستانیوں نے اس وقت تک نہ پوچھا جب تک وہ یورپ سے نوبل پرائز نہ حاصل کر لایا۔ بخلاف اس کے اقبال کی ناموری یورپ کی اعانت سے بالکل مستغنی ہے۔ اس کا نام اس کے ہم وطن مسلمانوں میں بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ لاہور، دہلی، لکھنو، علی گڑھ، حیدر آباد، بھوپال سب اس کی شاعرانہ عظمت تسلیم کر چکے ہیں۔‘‘ لطف یہ ہے کہ ان تمام تنقیدوں کا معارف میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ ہونے کے بعد یورپ میں اقبال پر خاص توجہ ہونے لگی۔ مشہور ادبی رسالوں میں طرح طرح کی تنقیدیں شائع ہوتی رہیں۔ انگریز ریویو نگاروں نے یہاں بھی وہی اپنے مخصوص رویہ سے کام لیا جس سے وہ دنیا کی ہر مستحسن چیز کو یورپ کی طرف منسوب کر لیتے ہیں۔ تاج محل ایک فرانسیسی کی تعمیر ہے۔ انور پاشا فرنگی نسل سے ہے اور تو اور خود ہادی علیہ السلام کی تعلیم کو ایک عیسائی راہب کی تدریس کا نتیجہ بتایا جاتا ہے اور کئی محب وطن حضرت عیسیٰ کو بھی ایشیا سے فرنگستان میں لے گئے۔ اسی ذہنیت نے اقبال نے نقادوں کو یہ کہتے پر مجبور کیا کہ: ’’ اقبال کا فلسفہ سیاست ایک ایسا مرکب ہے جس کی ترکیب میں نیٹشے، برگسان اور میکن گارٹ شامل ہیں۔‘‘ فارسٹر بھی جس نے تنقید میں سب سے زیادہ تحقیق سے کام لیا ہے لکھتا ہے کہ: ’’ اقبال نے قرآن و نیٹشے میں تطبیق دے دی ہے اور انسان کامل کا تخیل اسی کی رہنمائی کے اثر سے ہوا ہے۔‘‘ ان تحریروں سے وہ عظمت جو کہ اقبال کی شاعری سے مغرب کے دل پر بیٹھ گئی پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہے۔ مغربی نقاد و ہمہ تن اسی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کسی طرح اقبال جیسی عظیم الشان شخصیت کو یورپ کے زیر منت ٹھہرایا جائے اور ان اندھا دھند کوششوں میں انہوں نے جا بجا ٹھوکریں کھائی ہیں۔ علامہ اقبال کے فلسفہ کا ماخوذ جیسا کہ وہ خود انگریزی رسائل میں تحریر کر چکے ہیں۔ مسلمان حکما و صوفیہ کے اقوال اور قرآن ہے۔ اسرار خودی ’’ محض قدیم سنن کی تفسیر، جدید تحربات کی روشنی میں ہے۔‘‘ اور ڈکنسن کا کہنا کہ: ’’ نائب حق‘‘ کے تخیل کو نیٹشے کے ’’ فوق الانسان‘‘ کا مرہون منت سمجھنا محض لا علمی کا نتیجہ ہے۔ البتہ اس کا صحیح ماخذ جیلی1؎ کی کتاب ’’ انسان الکامل‘‘ ہو سکتی ہے۔ ڈکنسن نے ایسی بہت سی بے تکی باتیں لکھی ہیں جن کی تردید علامہ اقبال نے خود کو یسٹ میں کر دی ہے اور پھر لکھا ہے کہ: ’’ مقام تاسف ہے کہ مغرب اسلامی فلسفہ سے اس قدرنا آشنا رہے مجھے اس بحث پر ضخیم کتابیں لکھنے کی فرصت ہوتی تو میں یورپ کے علمائے فلسفہ کو بتا سکتا کہ ہمارے اور ان کے فلسفہ میں کس بڑی حد تک اشتراک ہے۔‘‘ (معارف) مغرب نے اقبال کو اسی ایک طریقہ سے داد نہیں دی۔ یہی ڈکنسن صاحب جو دوران تنقید میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ: ’’ بلند پروازی، جامعیت، حسن تخیل ترجمہ کی قدرتی کوتاہی کے باوجود پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں۔‘‘ اقبال کی شاعری کو آئندہ واقعات کے حق میں ’’ ایک شگون نحس‘‘ تعبیر کرتے ہیں۔ انہیں اقبال کی تعلیم ایک ستارہ ٔخونیں 1؎ علامہ عبدالکریم جبلی ۷۶۷ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۸۱۱ھ میں فوت ہو گئے۔ آپ نے بہت تھوڑی کتابیں لکھی ہیں ’’ انسان الکامل‘‘ شعروں میں لکھی ہوئی ہے۔ مگر شاعری محض فلسفیانہ خیالات کا ایک ذریعہ ہے۔ معلوم ہوتی ہے جو دنیا کو جنگ و جدال کی طرف لے جانے والی ہے۔ انہیں یہ خوف محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں مشرق مسلح ہو کر مغرب کو تسخیر نہ کر ڈالے۔ ان کے سامنے اسلام کی متعصبانہ تصویر کھنچ آتی ہے۔ جس میں اسلام ایک وحشی ترکمان کے ہاتھ میں ایک برہنہ تلوار دکھائی دیتا ہے جس سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ یہ تو ایک انگریزی نقاد کا نقطہ نظر تھا ایک امریکن نقاد نے اپنے ملک کے شعراء کو نصیحت کی ہے کہ وہ اسرار خودی کو استفادہ کی نیت سے بغور پڑھیں اور اس ہندوستانی شاعر کے نقش قدم پر چلیں۔ اس متضاد بیانی ان اقبال کی مختلف اللون تصاویر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اغیار اقبال کی عظیم الشان شخصیت سے کس قدر متاثر ہوئے ہیں اور گو وہ حقیقت سے آشنا نہیں ہو سکے۔ مگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ مشرق میں ایک نیا آفتاب طلوع ہوا ہے قوم کی سست رگوں میں ایک نئی روح پھونکی جا رہی ہے اور احیائے ملت کی ایک نئی تحریک جڑ پکڑ رہی ہے۔ اگلی تحریر میں ہم بتائیں گے کہ اقبال کی اصلی تعلیم کیا ہے اور ڈکنسن صاحب اور دیگر انگریز نقاد کس غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور یہ کہ مردانگی، شجاعت، خودی اور جہاد فی سبیل اللہ کے سبق محض خونخواری کی تعلیم نہیں ہے۔ اقبال اخوت اسلامی کا علمبردار ہے اور وہ ہر قسم کی بت گری، نسل اور رنگ کے امتیازات کو مٹانے کے لیے آیا ہے۔ خودی اور بیخودی کا درس اس لیے نہیں کہ محض رضائے خداوندی حاصل کر لی جائے کیونکہ اس میں ایک طرح کی بیگانگی پائی جاتی ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اپنی خوشنودی اور رضائے خداوندی میں کوئی امتیاز نہ ہو سکے۔ عشق الٰہی کی یہی صحیح تعلیم ہے۔ زمن گو صوفیان با صفا را خدا جویان معنی آشنارا غلام ہمت آں خود پرستم کہ بانو خودی بیند خدا را ٭٭٭ (جولائی ۱۹۲۴ئ) فلسفہ اقبال محمد الدین تاثیر ایم اے (۱) تلک الایام ندا ولھا بین الناس اسلام کی ابتدائی نشر و اشاعت جس حیرت انگیز سرعت کے ساتھ ہوئی ہے وہ عدیم النظیر ہونے میں ایک معجزہ سے کم نہیں عرب کے نا آزمودہ بازوؤں نے صدیوں کی پرانی تہذیبوں کو برسوں میں الٹ دیا اور ایوان کدۂ عالم جو ایک وسیع صنم خانہ بنا ہوا تھا فرزندان خلیل اللہ کے نعرۂ تکبیر سے گونج اٹھا لیکن وہ محرک اصلی جس نے پیروان اسلام کو آتش نفس بنایا ہوا تھا جلد ہی سیاسی ٹھنڈا پڑ گیا۔ برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی یہ انقلاب دستور قدرت کے عین مطابق تھا۔ مگر اس عالم اسباب میں ہر واقعہ کسی محرک کا مظہر ہوتا ہے۔ ہر نتیجہ کی کوئی علت ما سبق ہوتی ہے اور تاریخ اسلام میں اس انقلاب کے ظہور پذیر ہونے کے بھی کوئی نہ کوئی اسباب ضرور تھے۔ وہ اسباب کیا تھے؟ اس سوال کا پیدا ہونا فلسفہ اقبال کی تاریخی ابتدا ہے۔ علامہ اقبال فرمایا کرتے ہیں کہ وہ ابھی ابھی کیمرج اور قانون کے امتحانات سے فارغ ہوئے تھے اور کسی انگریزی رسالہ کے لیے ’’ سیاست اسلام‘‘ پر مضمون لکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے یہ سوال بجلی کی طرح یکایک پیدا ہوا! خدا جانے اس کا نفسیاتی محرک کیا تھا؟ مگر یہ سوال ان کے ذہن میں اس تواتر سے پھرنے لگا کہ ’’ سیاست اسلام‘‘ والا مضمون طاق نسیاں پر دھرا رہ گیا اور آپ اس کا جواب تلاش کرنے لگے۔ آپ نے عربی تواریخ کو تحقیق کی نظر سے دیکھنا شروع کیا مگر ان مورخوں کا تاریخی مطمع نظر ہی جداگانہ تھا۔ یہی حال مغربی مورخوں کا تھا۔ا س تحقیق سے اگر کوئی سبب معلوم ہوتا تھا تو یہ کہ مسلمانوں کے پاس بحری طاقت نہ تھی اس لیے انہیں زوال آیا، وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ نفسیاتی اسباب جو اقتضائے فطرت کے محرک اصل ہوتے ہیں کسی طرح بھی معلوم نہ ہو سکے۔ تو کیا یہ اسلام کی تعلیم کا خاصہ تھا کہ اس سے ایک ایسی جماعت، ایک ایسا کریکٹر پیدا ہو جو قلیل عرصہ تک غیر معمولی تیزی سے چمکے اور پھر جلد ہی زوال پذیر 1؎ ہو جائے۔ مگر قرآن اور حدیث کا مطالعہ اس کلیہ کی تکذیب کرتا تھا۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ: تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے اکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے 1؎ روحانی زوال مقصد ہے یعنی وہ قوم جو جمہوریت کی علمبردار تھی شہنشاہیت میں غرق ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعتوں کی تنظیم و ترتیب کے فقط دو سبب ہیں۔ ایک تو کسی قائد اعظم کی شخصیت اور دوسرے افکار و خیالات کا اثر۔ جماعت افراد انسانی کے اجتماع کا نام ہے اور جیسے کہ لی بان (Le Bon) کہتا ہے: ’’ حالت اجتماع میں آ کر افراد میں وہ تمام خصائص پیدا ہو جاتے ہیں جو ان کو ہمہ تن کسی ارفع ذات کی محکومیت قبول کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جماعت اس کے ہاتھ میں ایک آلہ بے جان ہوتی ہے کہ یہ ارفع ذات اسے جدھر چاہتی ہے پھیرتی ہے۔‘‘ (روح الاجتماع ص ۱۲۴۔ ۱۲۵) لیکن اس راہنما کے لیے لازمی ہے کہ اس کے پیش نظر کوئی طریق عمل ہو اور ’’اس کے دماغ میں بجز اس خیال کے جس کی وہ اشاعت کر رہا ہے کوئی اور خیال باقی نہ رہا ہو۔ دنیا کا خوف، حکومت کا ڈر، جان و مال کی محبت، اعزا و اقربا کی ملامت، غرض دنیا کی کسی مصیبت کا خیال اس کو اپنے مقصد کی دعوت سے کسی وقت باز نہ رکھ سکے‘‘ (ایضاً، ص ۱۳۵۔ ۱۳۶) جب ایسے صاحب دل کا جو اپنے مقصد تبلیغ کا مجسمہ ہوتا ہے ظہور ہوتا ہے۔ اس وقت بکھرے ہوئے اجزاء ترتیب پاتے ہیں اور قوتوں کی ایسی شیرازہ بندی ہوتی ہے کہ اس سے پہلے عقل انسانی کو اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔ تازہ انداز نظر پیدا کند گلستاں در دشت و در پیدا کند ا س راہنما کی سطوت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ لوگ اس کی ذات کو مافوق 1؎ العادت تصور کرنے لگتے ہیں اور ہر امر میں بغیر چون و چرا کیے اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ مگر انسان کی زندگی عارضی ہے اور اس کی موت کے بعد وہ نفوذ شخصی جو بلا واسطہ کام کرتا تھا۔ مدھم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اب دنیا کے سامنے فقط ’’ وہ خیال، وہ مقصد رہ جاتا ہے جس کا وہ مجسمہ تھا جس کی وہ تبلیغ کرتا تھا۔ اب وہی خیال، وہی مقصد وحید مشعل ہدایت کا کام دیتا ہے۔‘‘ عرب کے ایام جاہلیت اپنی بہمیت کی وجہ سے دنیا میں ضرب المثل ہیں۔ ایسے ماحول پر ایک یتیم بچہ کا غلبہ حاصل کرنا ان خوارق فطرت سے جو دست خداوندی کے بدیہی مظاہر ہیں۔ حضرت رسول کریم، حکمران عرب و عجم، شہنشاہ کونین کی زندگی ان کے نفوذ شخصی کی ناقابل تردید شہادت ہے۔ ان میں وہ تمام اوصاف بوجودہ اتم پائے جاتے تھے جو ایسے قائد اعظم کے لیے ضروری تھے اور کیوں نہ ہوتے ۔ جب ان کا مقصد تبلیغ دنیا بھر کے تمام مقاصد سے ارفع و اعلیٰ تھا۔ جب ان کا مبداء فیض بلا واسطہ خود جناب باری ہوں۔ ایک یتیم جو دنیا کی نظر میں بے یار و مددگار بے جاہل روسائے قریش کی مخالفت کو کھڑا ہوتا ہے۔ تما م قوم کے مذہب کو جھٹلاتا ہے اور دعوت حق سے چشم زدن میں دنیا بھر کو اپنا دشمن بنا لیتا ہے۔ خود ابو طالب کے پائے ثبات میں لغزش آ جاتی ہے۔ مگر وہ اپنی دھن کا پکا امی اللقب بآواز بلند کہتا ہے:’’ خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے میں چاند لا کر دے دیں تب بھی اپنے فرض سے باز نہ آؤں گا۔‘‘ قریش ہر طرح کی ایذائیں پہنچاتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں تو کفار آپ کے گلے میں چادر ڈال کر اس زور سے کھینچتے ہیں کہ آپ گھٹنوں کے بل گر پڑتے ہیں مگر ان کے منہ سے یہی آواز 1۔ حضرت رسول مقبولؐ کی وفات کی خبر سن کر حضرت عمرؓ نے تلوار نکالی تھی کہ جو جھوٹی خبر کی تائید کرے گا اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ نکلتی ہے: انما الھکم الٰہ واحد فاستقیموا الیہ واستغفروہ غرض آپ اشاعت توحید کے لیے ہر طرح کی ایذائیں جھیلتے ہیں اور کفار سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ نام و نمود کی خواہش سے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ عتبہ بن ربیع قریش کی طرف سے آپ کے پاس آتا ہے اور مال و دولت، سلطنت، غرض ہر قسم کا لالچ دیتا ہے کہ کسی طرح آپ خدائے واحد کا نام لینا ترک کر دیں۔ مگر آپ اس اعتماد سے آیات قرآنی پیش کرتے ہیں کہ اسے بھی آپ کی اولو العزم شخصیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ یہ تھی وہ بے مثال ہستی جس کے زیر تربیت صحابہ نے پرورش پائی اور اس ’’ زندہ قرآن‘‘ کے ہوتے ہوئے ان کا کام محض آپ کے نقش قدم پر چلنا تھا اور ان کے حضور میں وہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہوتے تھے۔ رسول مقبولؐ کے بعد ان کا شخصی نفو ذ صحابہ میں کام کرتا رہا اور یہی وہ جذبہ تھا جسے لے کر وہ ایک سیلاب کی طرح تمام دنیا پر پھیل گئے۔ مگر جس قدر آپ کا زمانہ د ور ہوتا گیا لوگوں میں جمود و سکون بڑھتا گیا اور جیسا کہ بیالوجی کا اصول ہے چوتھی نسل میں زوال کے آثار نظر آنے لگے۔ یہ حقیقت خود رسول خدا ؐ سے مخفی نہ تھی۔ آپ کی مشہور حدیث خیر القرون قرنی۔۔۔ اسی سنت خداوندی کا اظہار کرتی ہے۔ اب لوگوں کے دلوں میں وہ سوال پیدا ہونے لگے۔ جو سرور کائنات کے عہد حیات میں معدوم تھے کیونکہ صحابہ کے سامنے بقول عائشہ صدیقہ ’’ زندہ قرآن‘‘ موجود تھا انہیں کسی قسم کے نظریہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ گو آپ کے بعد حضرت عمرؓ کئی دفعہ کہا کرتے تھے: ’’کاش! میں نے نبی کریم سے یہ سوال پوچھا ہوتا۔‘‘ غرض چوتھی نسل سے زوال کا آغاز ہوا۔ یہ وقت تھا کہ لوگ اس خیال کی طرف رجوع کرتے جس کا مجسمہ رسول خدا تھے مگر مسلمان منشائے حیات اور مقصد تخلیق انسان کی توضیح کے لیے فلسفہ یونان کی طرف متوجہ ہوئے۔ معتزلہ نے تمام مذہب کی تاویل کر ڈالی۔ غزالی اور رازی1؎ ہر چند کہ وہ اس فلسفہ کی تردید میں مشغول تھے دراصل اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ترک دنیا، اور اس قسم کے رہبانی خیالات لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑنے لگے اور اسلام کا اصلی مدعا فوت ہونے لگا۔ محدثین نے نہایت جانکاہی سے سنن نبوی کو جمع کیا، فقہائے حیرت انگیز ذہانت سے قانون اسلام کا استنباط کیا۔ مفسروں نے آیتوں کو الگ الگ کر کے نہایت تحقیق کے ساتھ جزیاتی تفسیر کی اور ان کا کام بذاتہ بہت مفید اور نہایت ضروری تھا۔ انہوں نے اسلام کی عظیم الشان خدمت کی مگر یہ سب کچھ جب تھا کہ ان کا پیش کردہ مواد صحیح طریق پر استعمال کیا جات۔ا انوہں نے حقیقت کو پیش نہیں کیا مگر ایسا سامان بہم پہنچایا جس سے حقیقت کے حصول میں مدد مل سکتی ہے اصل حقیقت وہ خیال تھا جس کے لیے رسول اللہ ؐ نے زندگی وقف کر رکھی تھی اور وہ ’’ خیال‘‘ کتاب الٰہی یعنی قرآن تھا۔ یہی وہ 1؎ مولوی رومیؒ فرماتے ہیں: گرز استدلال کارے دیں بدے فخر رازی راز دار دیں بدے قرآن ہے جو اصل معنوں میں روح اسلام ہے اور جو ’’ حیات نبی‘‘ کی صحیح تفسیر ہے۔ یہی وہ روح اسلام ہے جس کی صحیح ترجمانی علماء امت کا کام ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے علماء اپنے فرض منصبی کو بھول گئے اور انہوں نے رسوم ظاہریہ کو اصل ایمان سمجھ لیا۔ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لا یزال است و قدیم اے گرفتار رسوم ایمان تو شیوہ ہائے کافری زندان تو گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن اسی روح اسلامی سے روگردانی کرنے اور عجمی فلسفہ کو اپنا مدعائے نظر بنانے کی وجہ سے نہال اسلام خشک ہونے لگا۔ آن نہال سر بلند و استوار مسلم صحرائئی اشترا سوار آں چناں کا ہید از باد عجم ہمچو نے گردید از باد عجم آنکہ گامش نقش صد ہنگامہ بست پاتے اندر گوشہ عزلت شکست آنکہ از تکبیر او سنگ آب گشت از صفیر بلبلے بے تاب گشت شل ز برفاب عجم اعضائے او سرد تر از اشک او صہبائے او ٭٭٭ یہ ہے وہ حقیقت جس کے احساس سے فلسفہ اقبال کی بنیاد پڑی اور وہ یہ ہے وہ در و اسلامی جس نے اقبال کو بیتاب کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے اس کا ہر شعر ایک جذبہ آتشین سے معمور ہے۔ ہمارے عوام کے دل میں یہ خیال بیٹھا ہوا ہے کہ شاعری محض شغل بیکاری ہے اور اس کا موجب ہمارے قدیم پریشان گو شعراء کا طرز تغزل ہے۔ مگر تاریخ عالم دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر قوموں کی ہستیوں کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ سپارٹا کی فتوحات کا باعث ایک ضحیف البدن شاعر تھا جسے یونانیوں نے فوجی خدمت کے ناقابل سمجھ رکھا تھا۔ عرب کا نابینا شاعر قیس اعشیٰ قبیلوں کی قسمتوں کا مالک تھا کیونکہ اس کا ایک شعر آتش حرب کو بھڑکا سکتا تھا۔ خود آنحضرت صلعم کے دربار رسالت میں شعراء کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ کعبہ کو عطا کردہ یمنی چادر آج تک محفوظ ہے۔ صحیح بخاری، ابو داؤ داور ترمذی جیسی ثقہ کتب احادیث میں حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور سرور کائنات ؐ نے مسجد میں ایک منبر حسان بن ثابتؓ کے لیے مخصوص کر ررکھا تھا کہ وہ اس پر کھڑے ہو کر اشعار پڑھتے تھے اور آں حضرت صلعم فرماتے تھے کہ خدا حسان کی تائید جبریل امین سے کرتا ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جب رسول خدا مکہ پہنچے تو ابن رواحہؓ آگے آگے اشعار میں نعت رسول اور عظمت اسلام بیان کرتے جاتے تھے۔ رسول اللہ ؐ نے حضرت عمرؓ کو فرمایا کہ یہ اشعار کفار کے لیے تیروں سے زیادہ کاری ہیں۔ شعر کی اسی ساحرانہ تاثیر نے مصر اور ترکی میں انقلاب پیدا کر رکھا ہے اور اسی گلستان حریت کا نغمہ آفرین بلبل اقبال بھی ہے۔ اقبال شاعر بھی ہے، عالم بھی ہے اور فلسفی بھی۔ عوام اپنی کور ذوقی اور معاصرانہ کم ظرفی کی وجہ سے اس کی عظمت کا پورا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ مگر نقاد ان سخن اور اہل درد فوراً پکار اٹھتے ہیں: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا اس وقت شعراء میں اقبال کے علاوہ فقط ٹیگور کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ دونوں شاعر وطنیت اور استبدایت کے دشمن اور حسن وعشق کے علمبردار ہیں مگر دونوں میں زندگی اور موت کا فرق ہے۔ ٭٭٭ (اگست ۱۹۲۴ئ) فلسفہ اقبال (اقبال اور ٹیگور) محمد الدین تاثیر ایم اے (۳) اردو گیتا نجلی کے مقدمے میں نیاز قومی غفلت کا شکوہ سنج ہے کہ ہندوستان نے ٹیگور کی وقعت یورپ کی تحسین کے بعد کرنی شروع کی ہے اور متعجب ہے کہ ایک مادیت پرست ملک اس روحانی نغمہ سے کیونکر متاثر ہو سکا۔ مگر اس حیرانی کی بنا محض حسن ظن ہے یورپ نہ کبھی ’’ روحانیت کے سامنے سر جھکاتا ہے‘‘ اور نہ ٹیگور1؎ قومی شاعر ہے۔ اس ’’ بد مذاقی‘‘ کا مجرم فقط ہندوستان ہی نہیں حال ہی میں ٹیگور کو چین میں بھی اسی قسم کی بد مذاقی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہاں کے اخبارات میں اس کے صلح و آشتی کے پیغام پر طرح طرح کی پھبتیاں کہی گئی ہیں اور اس ’’ ایشیا کی تہذیب قدیم کے علمبردار‘‘ کو اس قدیم ترین تہذیب والے ملک میں لیکچر بازی کا سلسلہ مجبوراً بند کرنا پڑا۔ ٹیگور کی بیرونی شہرت اور وطنی نا مقبولیت کا سبب ٹیگو رکی شاعری نہیں بلکہ اس کی وہ تحریکات ہیں جو اسے خالص شاعری کے احاطے سے باہر لے جاتی ہیں۔ ٹیگور واقعی ’’ غزل گوئی کا درخشندہ آفتاب‘‘ ہے مگر مغرب کی منڈی میں اس جنس کے خریدار بہت تھوڑے ہیں۔وہاں اس کی شہرت اس کی یورپ گردی اور شاعرانہ صورت سے ہوئی ہے۔ لوگ اس کے لیکچروں میں فیشن کے طور پر شامل ہوتے تھے اور شاید کشاکش حیات سے تھکے ہوئے مغربی دماغ اس کی شاعری سے وہی لطف اٹھاتے ہوں جو افیونی پلینک سے حاصل کرتا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ یورپ نے اس کے پیغام پر ولی طور سے صدائے لبیک کہی اور اسے ’’ امن کا دیوتا‘‘ سمجھ کر اپنی گردنوں کو جھکا لیا، یقینا واقعات کو جھٹلانا ہے۔ نوبل پرائز کے ملنے پر تمام ہندوستان ٹیگور کی جانب اپنی مخصوص خوش اعتقادی سے جھک گیا اور وجدانیت سے معمور دل اس کے دل آویز نغموں سے مسحور ہونے لگے، مگر جونہی ملک نے میدان عمل میں قدم رکھا اور آزادی کی جدوجہد شروع کر دی۔ ٹیگور کا پردۂ طلسم چاک ہو گیا اور سب پر ظاہر ہو گیا کہ یہ محبت اور شانتی کا پیغام بر آزادی کے میدان کا مرد نہیں۔ ٹیگور جو ہندوستان کی پرانی تہذیب کے احیاء کا اولین حامی تھا ہندوستان کی قومیت کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس نے مشرق کو مغرب سے پیار کرنے کا درس دینا شروع کیا۔ بین الاقوامی اتحاد کی تعلیم پر عملدرآمد کرانا چاہا۔ اقبال نے سچ کہا ہے: وائے قومے کز اجل گیرد برات شاعرش وا بوسد از ذوق حیات بوستہ از تازگی از گل برد ذوق پرواز از دل بلبل برد 1؎ مسٹر ٹامسن پرنسپل ویزلین کالج بنگورا ’’ حیات ٹیگور‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بنگالی قوم پرست لیڈر ٹیگور کو اس درشتی سے مخاطب کرتے ہیں کہ آدمی کو اپنے کانوں سنے بغیر باور نہیں آ سکتا۔ سست اعصاب تو از افیون او زندگانی قیمت مضمون او جوئے برقے نیست ورنیان او یک سراب رنگ و بستان او ٹیگور کو اس مسلک گو سفندی کی وجہ سے زیادہ مور و لعن و طعن کرنا سخت نادانی ہے۔ کیونکہ وہ جس تہذیب کا دائیدہ ہے جس ماحول میں پلا ہے اور جن اثرات کے ماتحت اس نے تعلیم پائی ہے۔ سب 1؎ اسی فرسودہ طرز خیال کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔ اس کی غزلوں، اس کی کہانیوں، ڈراموں اور افسانوں کو پڑھو سب میں یہی رنگ نظر آئے گا۔ ’’ اے میرے آقا! میں تیرے حضور میں اپنی غزلیں گانے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ تیرے اس عظیم الشان دربار میں مجھے ایک پوشیدہ گوشہ ملنا ہی غنیمت ہے تیری اس دنیا میں میں کسی کام کا نہیں مجھ سے کچھ ہو سکتا ہے تو یہ کہ میرے جذبات بے مدعا سروں میں پھوٹ نکلیں۔۔۔۔‘‘ وہ ہر جگہ یہی غلامانہ لہجہ استعمال کرتا ہے ’’ میرا ناتواں ظرف‘‘ ،’’ میری حقیر بانسری‘‘، ’’میرے کمزور ہاتھ‘‘ اس کی معراج کمال اپنے شہزادے کی قدم بوسی کرنا ہے اور وہ ہراساں ہو کر بھاگتا ہے کہ کہیں بار بار اس کے دروازے بند ہو جائیں۔ ’’ غلام‘‘ یعنی شاعر اپنی ملکہ سے درخواست کرتا ہے کہ جب وہ دوسروں سے فارغ ہو تو اس وقت ہی اسے بارگزاری کا موقعہ مل جائے۔ عہد زوال کے ایرانی شعراء نے بھی یہی غلامانہ لہجہ اختیار کر رکھا تھا۔ ایک بزرگ تو یہاں تک کہتے ہیں: سحر آمدم بہ کویت بہ شکار رفتہ بودی تو کہ سگ نہ بردہ بودی بہ چہ کار رفتہ بودی ٭٭٭ ٹیگور کی تمام شاعری اسی مردہ خیالی کا مجموعہ ہے ’’ اے برادر! ہمیشہ کے لیے کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔ کسی چیز کو قرار نہیں ۔ اسے ہمیشہ یاد رکھ اور خوشی مٹا۔‘‘ میرے سامنے ایک طویل اور تاریک رات ہے اور میں تھکان سے چور چور ہو رہا ہوں۔ غرض ٹیگور کا مطمح نظر کامل سکون ہے اور وہ زندگی کی کشاکش سے نجات پانا چاہتا ہے۔ قدرت کے مناظر میں اسے بند پانی جھیل کی ساکن سطح آب ہموار میدان اور گھنی چھاؤں پسند آتے ہیں اور وہ موت کو اسی سکون کامل کا ذریعہ سمجھ کر ایک نعمت تصور کرتا ہے۔ اس کا ڈرامہ ’’ ڈاک گھر‘‘ تمام تر اسی روح خیال کا مظہر ہے۔ ایک کم عمر بچہ مرتے وقت کہتا ہے ’’ میں بادشا دے کہوں گا کہ مجھے قطب تارا لا دو‘‘ قطب تارے سے مراد شانتی اور سکون کا ارفع ترین مقام ہے۔ اسی کو حاصل کرنے کے لیے ٹیگور نے ’’ شانتی نیکتیاں‘‘ کی بنیاد ڈالی ہے۔ ہاں اس ’’ یوگی شاعر‘‘ کو غور و فکر کے لیے ایک بے شور و شر ماحول میسر ہے اور اسی 1؎ ٹیگور کے خیالات پر بدھ مت اور عیسائیت کا بہت گہرا اثر ہے۔ خود شانتی نیکتیاں کے روزانہ گیتوں میں انجیل کی زبان کا اثر نمایاں ہے۔ غور و فکر کی کثرت سے اسے اصلیت سے اس قدر دور کر دیا ہے کہ اسے دنیا کی حقیقتیں ایک خواب معلوم ہوتی ہیں اور وہ رنج و غم کی پکار اور مسرت و طرب کے نعروں کو یکساں طور پر بے اصل سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکالیف اور مصائب کا مردانہ وار مقابلہ نہیں کرتا بلکہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور ان کے وجود سے ہی انکار کر دیتا ہے۔ ’’ جب ماں بچے کو وائیں پستان سے ہٹا لیتی ہے تو وہ چلانے لگتا ہے اور جونہی اسے باتیں طرف لگا لیتی ہے تو وہ پھر مطمئن ہو جاتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ طرز خیال تغزل 1؎ کے لیے بہت مناسب ہے اور تھکے ہوئے دماغوں کے لیے ایک کامیاب پوری ہو سکتا ہے۔ مگر اسے کار زار حیات میں قومی نصب العین بنانا اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا گڑھا کھودنا ہے۔ مغربی اقوام کا ایسے خیالات کو تصریحاً پسند کرنا کچھ قابل تعجب نہیں اور شاید مشرق کی اس مردہ خیالی سے ان کے مجرم دلوں کو تشکین ہوتی ہو اور وہ اس راہبانہ مسلک کو اپنے لیے ایک مبارک مستقبل کی بنیاد سمجھتے ہوں۔ مگر ہندوستان والوں کے دکھ کی دوا یہ نشہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ٹیگور کا پیغام امن پیغام موت ہے۔ اس کا وطنیت اور استبدادیت کا دشمن ہونا اس کی غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور اس کا حسن و عشق سے رابطہ ذوق عمل سے محروم ہونے کی نشانی ہے۔ انہوں نے تلواریں ڈال دیں، تیر و کمان پھینک دیے، صلح ان کی پیشانی پر چمک رہی تھی۔ وہ اپنے ثمر ہائے حیات کو پیچھے چھوڑ گئے جس دن وہ اپنے سردار کے مکان پر واپس گئے۔ (ترجمہ نیاز)2؎ ٭٭٭ اقبال اس میکدہ حقیقت کا جرعہ نوش ہے جہاں درس حیات دیا جاتا ہے وہ اس روح خیال کا ترجمان ہے جس کا 1؎ ٹیگور نے ڈرامے اور افسانے بھی لکھے ہیں مگر وہ ان میں کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ وہ رزمیہ یا بزمیہ مثنویاں لکھ سکتا ہے۔ وہ ایک محدود حلقے میں ہی چمک سکتا ہے اور اس کے جوہر غزل اور مختصر کہانیوں میں ہی نمایاں ہوتے ہیں تغزل اور تسلسل دو متضاد چیزیں ہیں۔ 2؎یہ نامردی فارسی شاعروں میں بھی گھر کر گئی تھی اور صوفیہ نے اس کی بہت دل آویز پیرایہ میں تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ چنانچہ سلطان ابو سعید ابو الخیر مجذوب فرماتے ہیں کہ شہید عشق کا رتبہ ایک مجاہد سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے کیونکہ عاشق کشتہ و دست ہے اور غازی دشمن کے ہاتھ سے مارا ہوا ہے۔ غازی بہ رہ شہادت اندر تگ و پو دست غافل کہ شہید عشق فاضل تر از دست در روز قیامت او بدیں کے ماند کین کشتہ دشمن است واں کشتہ دوست ٹیگور کبیر سے بہت متاثر ہوا ہے اور اس نے حال ہی میں اس کی نظموں کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا ہے۔ کبیر خود مسلمان تھے اور ان کا طرز خیال اسلامی تصوف اور ویدانت سے مرکب ہے۔ نام سنتے ہی اعداد ہراساں ہو جاتے ہیں اور ان کے تصور میں خون سے رنگی ہوئی برہنہ تلواریں، اللہ اکبر کے فاتحانہ نعرے اور تندخو مجاہدین کی شکلیں جمع ہو جاتی ہیں۔ اس کا واحد مبدء فیض وہ کتاب ہے جس کے نزدیک ہانپتے ہوئے جنگی گھوڑے، جن کے خونیں سم چنگاریاں اڑائے چلے جاتے ہیں۔ ایسا روح پرور منظر ہے کہ اس کی خود خداوند تعالیٰ قسم کھاتا ہے، تو پھر اقبال کیونکر نہ کہے: تیر وسنان خنجر و شمشیرم آرزو است ہامن میا کہ مسلک شمشیرم آرزو است اقبال کی شاعری کا پہلا اور آخری وصف زندگی ہے اس کی نظموں کا ہر مصرع اس کے فلسفہ کا ہر صیغہ روح حیات سے لبریز ہے۔ اس کی رگوں میں خون وجدان حیات کی مسرت سے رقص کناں ہے۔ دیکھو یہ رباعی زندگی اور خالص زندگی کی روح سے کس قدر لبریز ہے۔ چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است دل ہر ذرہ در جوش نمود است شگافد شاخ را چوں غنچہ گل تبسم ریز از ذوق وجود است غنچہ گل کا شاخ کو چیرنا تخلیق حیات کا منظر اولیں ہے۔ آدم پہلے پہل بہشت کی زندگی سکون سے نکل کر دنیا کی حیات ستیزہ کا رہیں قدم رکھتا ہے۔ گویا قفس پر وردہ بلبل کو گلستاں کا وسیع منظر اول مرتبہ دکھائی دیا ہے اس کا دل نشاط وجود سے بیقرار ہو رہا ہے اور وہ کہتا ہے: چہ خوش است زندگی راہمہ سوز و ساز کردن دل کود و دشت و صحرا بہ دمے گداز کردن ز قفس درے کشادن بہ فضائے گلستانے رہ آسماں نوردن بہ ستارہ راز کردن اسی لطف حیات سے سرشار ہو کر وہ دنیا کے ہر تلون کو عاشقانہ اشتیاق سے دیکھتا ہے اور اس دم بدم کی نیرنگی کو اصول زندگی سمجھتاہے۔ دما دم نقش ہائے تازہ ریزد بہ یک صورت قرار زندگی نیست اگر امروز تو تصویر دوش است بہ خاک تو شرار زندگی نیست مگر وہ زندگی کو محض لیلا یا بازیچہ اطفال نہیں سمجھتا وہ اس کی مہیب اصلیت سے خوب واقف ہے اور اس کے نشیب و فراز سے اچھی طرح آگاہ ہے لیکن وہ ایک مسلمان ہے اور زندگی کا عاشق۔ اسے موت کے آنے کا کامل یقین ہے مگر یہ موت ایک نئے جہان کی بنیاد ہے اور وہ مردانہ وار لڑتے ہوئے مرنا چاہتا ہے گویا وہ ٹیگور کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے: میارا بزم بر ساحل کہ آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بہ دریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است وہ دور سے ساحل پر بیٹھا ہوا لہروں کا ہلکا ہلکا ترنم سننا نہیں چاہتا۔ اسے طوفان کی شدت میں اپنے بازوؤں کو آزمانے کی تمنا ہے وہ عین لڑائی کے گھمسان میں جا کر تلواروں کی چھنکار اور مرنے والوں کو چیخوں میں نعرہ جہا دبلند کرنا چاہتا ہے۔ پردہ بر گیرم و در پردہ سخن میگویم تیغ خوں ریزم و خود رابہ نیامے دارم مگر ایسی سخت کوشی کے لیے ایک نادر شخصیت درکار ہے جس کا ہر رخ دنیا کے سامنے زندگی کی ایک نئی تصویر پیش کرے اور جس کی خودی اس قدر مستحکم ہو کہ وہ ہر حال میں اپنی انفرادیت قائم رکھے۔ اقبال بدھ مت کے نروان کو موت سے بدتر سمجھتا ہے۔ وہ زندگی آرزو میں دفن کرنے کو نہیں سمجھتا، اس کے نزدیک آرزو اور اس کی طلب کرنا ہی زندگی ہے اور جس قدر حصول دشوار ہو طلب اسی قدر زیادہ لذت دہ ہوتی ہے۔ کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے لطف صد ساحل ہماری سعی بے حاصل میں ہے آرزو کے بر آنے یا نہ آنے سے وہ بے نیاز ہے: بر آید آرزو یا بر نہ آید شہید سوز و ساز آرزوئیم اس آہنگ مردانہ کے مقابلہ میں ٹیگور لرزتی ہوئی آواز میں کہتا ہے: ’’ میں اس خوف سے کانپ اٹھتا ہوں کہ کہیں میری التجائیں قبول نہ ہو جائیں۔‘‘ اقبال کے لیے حسن کی دلکشی بھی اسی میں ہے کہ اس سے قلب شاعر نئی نئی آرزوؤں سے معمور ہوتا ہے: حسن خلاق بہار آرزو است جلوہ اش پروردگارے آرزو است سینہ شاعر تجلی زار حسن خیزد از سینائے او انوار حسن غرض اسے ہر طرح سوز و ساز حیات کی جدت درکار ہے اور زندگی کے شعلے جس طرح عشق میں آ کر چمکتے ہیں اور آرزوؤں میں جو تلاطم اس کی آمد آمد سے برپا ہوتا ہے وہ ظاہر ہے۔ نوائے عشق را ساز است آدم کشاید راز و خود راز است آدم جس شاعر کی گرفت زندگی پر اس قدر مستحکم ہو وہ بدھ مت کے عقیدۂ فنا کو جس قدر حقارت سے بھی دیکھے کم ہے اور اس کے لیے گرۂ قطرہ بدریا چورسد باز شود کشود کار کی صورت نہیں۔ دیکھئے کس بلند آہنگی سے کہتا ہے: گرد راہیم ولے ذوق طلب جوہر ماست بندگی را ہمہ جبروت خدائی مفروش (گوہم گرد راہ کی طرح پامال ہیں مگر ہمارا اصلی جوہر ذوق طلب ہے لیکن ہماری خودی کو یہ گوارا نہیں کہ ہم اپنی شخصیت کو ہر چند کہ وہ ایک بندہ کی شخصیت ہے کسی اور انفرادیت میں فنا کرنے کی تمنا کریں خواہ وہ خدائے یاجبروت کی ہستی ہی کیوں نہ ہو۔ دیکھ اے چشم عدو مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ جس پہ خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں) اس کے مقابلہ میں ذرا ٹیگور کا مطمح نظر بھی ملاحظہ کیجئے: ’’ اے نادان! اپنے تئیں اپنے ہی دوش پر لے جانے کی کوشش کرنا! اے بھکاری! اپنے ہی در پر بھیک لینے آنا (یہ کہاں کی عقلمندی ہے) اپنا بار اسی کے ہاتھوں پہ ڈال دے۔‘‘ اور اقبال پروانہ کا شمع کے گرد طواف کرنا بھی نامردی تصور کرتا ہے: کرمک ناداں طواف شعلہ سے آزاد ہو اپنی ہستی کے تجلی زار میں آباد ہو یہ ستیزہ کاری کی ہوس یہ مذاق تپش اندوزی اس کی ہر آرزو میں مردانگی کا جوہر بو دیتی ہے اور اسی لیے یورپ کو وہ ایک ’’ خونیں ستارہ‘‘ نظر آتا ہے۔ وہ مناظر قدرت کو بھی دیکھتا ہے تو اسے سکون اور آسائش کی طلب نہیں ہوتی بلکہ اس کی رگوں میں خون حیات زیادہ سرعت سے دوڑنے لگتا ہے اور اس کے جذبات میں اور بھی ہیجان پیدا ہوتا ہے: ’’خیز کہ در کوہ و دشت خیمہ زد ابر بہار‘‘ ’’بلبلگاں در صفیر صلصلگاں در خروش‘‘ گویا تمام طرب گاہ عالم میں ایک نئی روح حیات پھونکی جا رہی ہے۔ یہ مختصر نوٹ دونوں شاعروں کے مطمح نظر کا تفاوت ظاہر کرنے کے لیے ایک حد تک کافی ہے۔ غرض میرا یہ کہنا کسی طرح بیجا نہ تھا کہ اقبال اور ٹیگور میں زندگی اور موت کا فرق ہے۔ (ستمبر ۱۹۲۴ئ) ٭٭٭ اسماء الرجال، اقبال ڈاکٹر تاثیر مرحوم علامہ اقبال کی درگاہ زیارت گہ خاص و عام تھی۔ وہاں ہر کسی کو آنے کی اجازت تھی اور حضرت علامہ ہر ایک سے ہر طرح کی بات کرتے تھے جیسے انہوں نے فرمایا ہے: ہست ایں مے کدہ و دعوت عام است ایں جا قسمت بادہ با اندازۂ جام است ایں جا اب جو انہیں اس قدر شہرت حاصل ہوئی ہے تو جو کوئی ان سے کبھی ملا وہ اپنے ظرف کے مطابق ان کے متعلق باتیں سنا کر اپنے لئے بقائے دوام حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بجا ہے کہ اتنے بڑے آدمی کی جو بات بھی کسی کو یاد ہو اسے نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں۔ مگر جس طرح وضعی حدیثیں موجود ہیں اور بعض خوش نیتی سے غلط نقل ہو گئی ہیں، یہی اقوال اقبال کی حالت ہے (مجھے سب سے زیادہ تعجب ان خطوں پر ہے جو ایک حیدر آبادی لمعہ صاحب کے نام سے ’’ خطوط اقبال‘‘ کے مجموعے میں شائع ہوئے ہیں۔ مولف نے اصل خطوط نہیں دیکھے، حیدر آبادی صاحب نے خود ہی نقل کر کے بھیج دیے اور اسی طرح شائع کر دیے گئے۔ میری رائے میں یہ خط بیشتر وضعی ہیں۔ عبارت پکار پکار کر کہہ رہی ہے۔ مثلاً ’’ استفادہ حاصل کرنا‘‘ یہ اقبال کا لفظ نہیں، مولف شیخ عطاء اللہ نے تفحص سے کام نہیں لیا) اقبال کے ملنے والوں کی کئی اقسام ہیں: ایک تو ان کے رشتہ دار تھے۔ ان میں ان کے بڑے بھائی بجائے والد تھے ان سے علمی تعلقات نہ تھے۔ ان کے بھتیجے اعجاز ان کے عزیز تھے اور ان کے قادیانی ہونے کے باوجود علامہ نے انہیں بچوں کا گارڈین مقرر کیا۔ سیالکوٹ میں ان کے استاد مولوی میر حسن مرحوم تھے۔ وہ اقبال کے نہیں بلکہ اقبال ان کے ملنے والے تھے اور جب بھی آپ اپنے وطن مالوف سیالکوٹ جاتے، مولوی میر حسن کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اس طرح جس طرح شاگردی کے زمانے میں جاتے تھے۔ دھسہ لپیٹ کر، سلیپر پہن کر ان کے سامنے چٹائی پر بیٹھ جاتے اور علمی مشکلات حل کراتے۔ مولوی ظفر اقبال ان ملاقاتوں کے شاہد ہیں۔ کچھ ان کے ہم عمر یا برابر کے احباب تھے ان میں نواب ذوالفقار علی خاں کا خاص مقام تھا۔ ان کا گھر ان چند گھروں میں سے تھا جہاں اقبال خود جاتے تھے۔ ایک اور بزرگ گھر قبلہ و کعبہ میاں نظام الدین مرحوم کا گھر تھا، جہاں اقبال التزام کے ساتھ سال میں ایک دو مرتبہ ضرور جاتے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں غالباً آخری مرتبہ میرا نکاح پڑھانے وہاں تشریف لے گئے۔ حضرت میاں ایم اسلم اور میاں امیر الدین سے حضرت علامہ کی دختر نیک اختر کی شادی ہوئی ہے اور اللہ نے ایک چاند سا بیٹا دیا ہے۔ نانا زندہ ہوتے تو خوش ہوتے۔ (میاں امیر الدین کو علامہ مرحوم نے بچوں کا گارڈین بھی مقرر کیا تھا) ابتدائی دوستوں میں مولوی امیر الدین وکیل فقیروں کا خاندان بھاٹی دروازے کے چند ایک اور ہم صحبت وکیل تھے۔ مولوی احمد الدین مرحوم نے حضرت علامہ کے سوانح حیات لکھے جس طرح نواب ذوالفقار علی خاں کی کتاب اقبال کی شاعری پر پہلی کتاب ہے۔ مولوی احمد الدین کی سوانح عمری سب سے پہلی سوانح عمری ہے۔ بھاٹی دروازے کے دوستوں میں سید بشیر حیدر کا خاص مقام تھا۔ ’’ ابر گوہر بار کی اصل علت‘‘ کے تذکرے میں علامہ نے ان کا نام خصوصیت سے لیا ہے۔ ابتدائی دور کے ’’ ہم ادب‘‘ ساتھی سر عبدالقادر، میر غلام بھیک نیرنگ اور میر اعجاز حسین تھے۔ بعد میں خوشی محمد ناظر اور منشی سراج الدین کشمیر والے بے تکلف ادبی دوست بنے۔ منشی سراج الدین کو حضرت علامہ ’’ بزم ادب‘‘ کہا کرتے تھے اور ان کے ادبی ذوق کے بہت قائل تھے۔ اس دور میں ایک صاحب ملک حبیب جالندھری تھے جن کے صاحبزادے حسیب صاحب ریڈیو اور فلم میں نام پیدا کر چکے ہیں۔ میر غلام بھیک نیرنگ کی مشہور غزل میں انہی کی طرف اشارہ ہے۔ وہ جس کا ایک شعر ہے: اے وائے نامرادی دشت جنون شوق اور آپ کا نکل کے وہ جانا قریب سے ایک خاص مقام میاں فیملی کا بھی ہے۔ شاہ دین ہمایوں کا ادبی ذوق اور میاں شاہ نواز مرحوم کی دوستداری اور محبت نے اقبال سے پیوستگی حاصل کی۔ سر محمد شفیع اور میاں فضل حسین سے بھی ابتداء میں گہرے تعلقات تھے لیکن دنیوی اور سیاسی حالات نے ہم چشمی کو چشمک بنا دیا۔ ۱۹۳۶ء کی بات ہے میاں فضل حسین مرحوم سے میں نے کہا کہ علامہ اقبال کے ارد گرد کے لوگ کچھ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ غلط فہمی زیادہ ہو رہی ہے، آپ علامہ سے مل کر معاملہ صاف کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مزاج پرسی کو جانے کے لیے جی بہت چاہتا ہے لیکن ایک دو سیاسی امور صاف ہو جائیں تو جاؤں گا۔ اس سلسلے میں بعض بہت دلچسپ باتیں ہوئیں۔ یہ ملاقات نہ ہو سکی۔ اس وقت یہ دونوں پرانے دوست مرض الموت میں مبتلا تھے۔ ایک دو سال میں یکے بعد دیگرے فوت ہو گئے۔ سر عبدالقادر سے بھی ’’ غلط فہمی‘‘ ہو گئی تھی۔ لیکن وضعداری قائم رہی۔ چودھری سر شہاب الدین سے بڑی بے تکلفی تھی اور ان کے عزیز دولتانہ مرحوم کی رنگین محفلوں میں بھی شریک ہو جاتے تھے۔ سید امجد علی بھی اسی دائرے کے نوجوان تھے۔سفر انگلستان کے ساتھی بھی تھے! غیر مسلموں میں امراؤ سنگھ سے، جوسندر سنگھ مجیٹھیہ کے بھائی تھے اور امرت شیر گل کے باپ تھے۔ بڑی یاری تھی۔ سردار جوگندر سنگھ سے بھی بڑی بے تکلفی تھی۔ اس حلقے کے ایک دو اور سردار صاحبان بھی تھے جن سے تعلقات تھے۔ ابتدائی دور میں سوامی تیرتھ رام سے دوستی تھی۔ اسی طرح شیو نرائن شمیم سے بھی بے تکلفی تھی اور وکیلوں کے حلقے میں سب سے زیادہ بے تکلف پیر تاج الدین تھے جو اس وقت بھی اسی طرح زندہ دل ہیں، جیسے ان دنوں تھے۔ ملک برکت علی سے لیگی تعلقات تھے۔ غلام رسول بیرسٹر سے بہت گاڑھی چھنتی تھی، اور خلیفہ شجاع الدین سے انجمن حمایت اسلام کی وجہ سے بھی تعلقات تھے۔ حاجی شمس الدین صاحب مرحوم انجمن کے بانیوں میں سے تھے ان کا حضرت علامہ بہت احترام کرتے تھے۔ مرزا جلال الدین بیرسٹر سے وکیلی تعلقات کا سلسلہ رندانہ دوستی کی حد تک پہنچ گیا۔ اقبال کی ’’رندی‘‘ کوئی راز نہیں لیکن یہ رندی بیشتر لفظی اور خیالی رندی تھی۔ جوانی کا زور تھا او ربس اقبال پر رندی کبھی غالب نہیں آئی۔ رندی پر اقبال ہی غالب رہا ہے۔ میں اس وثوق سے اس لیے کہتا ہوں کہ اقبال نے کبھی اپنی پردہ پوشی نہیں کی ہم نے جو سوال کیا اس کا صاف جواب دیا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی زندگی میں کوئی چھپانے کے قابل بات ہی نہیں تھی اور جسے رندی کہا جا سکتا ہے وہ سب ’’ اسرار خودی‘‘ سے پہلے کے لطائف ہیں۔ ان لطائف کو سر شادی لال نے اقبال کو ہائی کورٹ کی ججی سے روکنے کے لیے اور چند ان کے ہم پیشہ مسلمان مشاہیر نے اپنے مطالب کی خاطر خوب بڑھا چڑھا کر شہرت دی۔ اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا۔ میں اقبال کو ولی نہیں کہتا، لیکن ایسا تہجد خواں، عاشق رسول،ا ولیاء کا خادم اور عقیدت گزار خوش عقیدہ، گداز قلب ، مسلمان انگریزی دانوں میں کم دیکھا ہے۔ مگر مزاج میں رندی موجود تھی۔ اچھی شکل کو اچھی شکل ضرور سمجھتے تھے۔ لیکن عاشقی کے گناہ گار کبھی نہیں ہوئے۔ عمل میں توازن تھا، طبیعت میں شاعری۔ آخری دور میں راس مسعود سے بہت گہرے تعلقات ہو گئے تھے۔ برادرانہ قسم کی بے تکلفی اور محبت کے تعلقات۔ یہ تو تھے ان کے برابر کے احباب اب آتے ہیں ان کے نیاز مند! ان سب میں مقام اول چودھری محمد حسین کو ہے، چودھری صاحب نواب ذوالفقار علی خاں کے ہاں ملازم تھے۔ اس طرح علامہا قبال سے تعارف ہوا اور ان کی دیانت داری کی جو عزت نواب صاحب کے ہاں تھی اس کی وجہ سے اور اپنے خلوص اور خدمت گزاری اور اسلام دوستی کی وجہ سے علامہ اقبال کے آخری دور میں جو قرب انہیں حاصل ہوا اور کسی کو حاصل نہ ہوا۔ چودھری صاحب نے اقبال کی ذات سے جو وفاداری کی ان کی زندگی میں ان کی وہی اسلوب ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد سے قائم رکھا۔ اس قدر خدمت گزاری کی اس قدر دیانت داری سے امانتداری کی اس طرح زندگی کو وقف کر دیا کہ اس کی مثال ملنی محال ہے۔ بعض لوگ چودھری صاحب کی حفاظت داری کے غلو سے شاکی ہیں لیکن اس معاملے میں غفلت سے غلو بہتر ہے کچھ لوگ ان کی ’’ اجارہ داری‘‘ سے جلتے ہیں لیکن یہ رتبہ چودھری صاحب نے اپنے عمل سے حاصل کیا باتوں سے نہیں نیاز مند بیش تر باتوں کے نیاز مند تھے۔ چودھری محمد حسین با عمل نیاز مند تھے۔ علامہا قبال انہیں محض دوست اور مخلص مسلمان سمجھتے تھے۔ یہ درست ہے کہ چودھری صاحب ایک خاص کینڈے کے شخص ہیں ’’ محاوری‘‘ کا غلو ان میں موجود ہے۔ لیکن اس غلو سے اقبال کی اولاد کے حقوق کی اس طرح حفاظت ہوئی ہے کہ کسی اور طرح ممکن نہ ہوتی۔ چودھری محمد حسین نے اپنی زندگی اس کام میں صرف کر دی! یہ بات برملا کہنے کی ہے۔ مگر کم لوگ اسے کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اقبال کے نیاز مندوں میں ایک طرح کی رقابت سی پائی جاتی ہے کہ یہ عاشقوں کی پرانی ہے ریت! چودھری صاحب کو علامہ نے اپنے بچوں کا گارڈین مقرر کیا۔ چودھری صاحب اقبال کے جسمانی محافظ تھے۔ اقبال کا روحانی محافظ کوئی نہیں تھا۔ جو شخص اقبال سے ملتا تھا وہ اپنے ظرف کے مطابق اپنے جام کے مطابق متمتع ہوتا تھا۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کے بعد اقبال کی شاعرانہ شخصیت پوری پوری طرح پختہ ہو گئی۔ ’’ پیام مشرق‘‘ کا اقبال ایک نادر المثال اقبال تھا جو اپنے آپ میں مکمل تھا۔ اس آخری دور میں جو نئے لوگ باقاعدہ آتے تھے ان میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ چودھری محمد حسین اور ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کی خوش مزاجی حضرت علامہ کی بے تکلفی کے لیے مہمیز کا کام دیتی تھی۔ وہ فقرے ہوتے تھے کہ باید و شاید! ایک باب ’’ اطعمہ‘‘ کا تھا جس کا خلاصہ اس مضمون میں دیا جاتا ہے جو ’’ اکال الکل‘‘ کے عنوان سے ’’ مخزن‘‘ کے دور حفیظ میں شائع ہوا۔ میں نے محض رپورٹ لکھی ہے، فقرے میرے نہیں۔ جو صاحب علامہ اقبال کی پھبتیوں کی مثالیں چاہتے ہیں اس مضمون کو دیکھ لیں ڈاکٹر عبداللہ کے بڑے بھائی عبدالرحمن چغتائی اور نیرنگ خیال والے یوسف حسن بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ ایک دور سالک و مہر کا تھا اور نہایت گرم دور تھا۔ سیاسیت ور ذی نے مہر صاحب کو الگ کر دیا۔ لیکن سالک اپنے مقام پر قائم رہا۔ گرامی اور اقبال جمع ہوتے تو ان میں سالک ہی سجتا تھا۔ سالک کہاں نہیں سجتا! میں نے مولانا ظفر علی خاں اور ڈاکٹر اقبال کو بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھا ہے لیکن وہ دو بجے رات کی محفلیں کچھ اور تھیں جن میں سالک شریک ہوتا تھا۔ اشعار پڑھے جاتے تھے، مسلسل پڑھے جاتے تھے اور سالک کے حافظے پر حیرت ہوتی تھی۔ ایک حلقہ پروفیسروں کا تھا۔ ان میں ڈاکٹر معیا اللہ، پروفیسر حمید احمد خاں اور پروفیسر عبدالحمید تینوں اسلامیہ کالج کے تھے۔ ان سے پہلے ڈاکٹر ملک نذیر احمد اور ڈاکٹر مظفر قریشی کی آمد و رفت تھی یہ بھی اسلامیہ کالج کے تھے مولوی محمد شفیع اور ڈاکٹر اقبال اورینٹل کالج والے پرانے ملنے والے تھے اور شیرانی مرحوم تو مرید باصفا تھے۔ حیدر آباد جانے سے پہلے خلیفہ عبدالحکیم سے بھی اسی طرح کی پروفیسرانہ علمی، کتابی، شعری باتیں ہوتی تھیں اسلامیہ کالج کے پروفیسر حاضر باش تھے اور علامہ کو ان سے خاص انس تھا، اسلامیہ کالج سے خاص انس تھا۔ ابتدائی دور میں میرزا سعید سے تعلقات تھے۔ ڈاکٹر آرنلڈ ان کے بھی استاد تھے۔ خاص لاہور کے شہریوں میں ملک لال دین قیصر کا ایک الگ مقام تھا۔ خالص پنجابی میں کھری کھری صاف بات سخت بے تکلفی سے کہتے اور اپنے بے مثل خلوص کی وجہ سے جو کہتے اس پر توجہ ہوتی۔ مجھے وہ الیکشن کا جلوس یاد ہے جس میں قیصر کے پنجابی شعر گائے جاتے تھے اور علامہ سر لشکر تھے۔ پھولوں کے ہار پہنے ہوتے، شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل جا رہے تھے اور فقرے پر فقرہ ہو رہا تھا۔ پنجابی کے مصرعے بھی موزوں ہوتے جاتے تھے۔ الیکن کے دوران میں مجھے پبلسٹی اور دفتر کا کام دیا گیا۔ شہر کے لوگ اقبال سے والہانہ ملتے تھے، علامہ مرحوم ہر ایک سے شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ایک حلقہ راجہ حسن اختر، میاں محمد شفیع اور سید نذیر نیازی کا تھا۔ یہ حضرت علامہ کی وفات کے قریب کا وقت ہے۔ راجہ صاحب اور میاں صاحب بڑے کام کے آدمی تھے، بھاگ دوڑ کرنے والے تھے، بالخصوص میاں محمد شفیع صاحب کہ ان کی عقیدت مندی عشق کے درجے تک پہنچی ہوئی تھی۔ سید نذیر نیازی کتابی شخص، ایک سیالکوٹی، پھر مولوی میر حسن کے قرابت دار، طبیعت کے رند، اسلامیات میں شغف اور جامع ملیہ سے لگاؤ بھی اور لاگ بھی۔ ایسا مستجمع اضداد شخص اقبال کے ڈھب کا تھا۔ بات کرنے میں کچھ مزا آتا ہوتا، چنانچہ ان کا حضرت علامہ کے فلسفیانہ لیکچروں کا ترجمہ اسی دور کی یادگار ہے۔ سید نذیر نیازی اور چودھری محمد حسین اگر اکٹھے بیٹھ جائیں اور مجھے اجازت ہو کہ میں روئداد لکھوں تو ملفوظات کا ایسا دفتر مرتب ہو سکتا ہے جس سے انسانی نفسیات کے تجزیے کے لیے نہایت دلچسپ مواد مل سکتا ہے۔ بہرصورت ’’ قربت‘‘ کا پہلا مقام چودھری محمد حسین ہی کو حاصل رہتا ہے۔ ہو الاول ہو الآخر!! ملنے والوں کے اس متن کے بہت سے حواشی ہیں۔ ایک حاشیہ ۵۶ فیصدی تحریک کا اور ایک غازی علم الدین کمیٹی کا ہے علامہ اقبال دونوں کے روح رواں تھے میں ان دنوں کمیٹیوں میں تھا۔ اس کے بہت تھوڑے ممبر تھے ان میں سے ایک لال دین قیصر اور ایک مصطفی حیرت تھے۔ حیرت نے بعد میں ایک مختصر سا رسالہ نکالا جس میں اور فقط اس میں علامہ اقبال کا غیر مطبوعہ اردو کلام التزام سے شائع ہوا۔ ساقی نامے کے شعر اول اول اسی میں شائع ہوئے۔ کشمیر کمیٹی کی تحریک میں حاجی رحیم بخش سے رابطہ استوار ہوا اور آخر عمر تک قائم رہا میں اس کمیٹی کی روئداد لکھا کرتا تھا اور امام جماعت قادیان سے تعلقات بگڑنے کے مراحل بغور دیکھے۔ مسلم آؤٹ لک کے وقت سے برادرم مجید ملک کی آمد و رفت پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ان کے والد ملک محمد دین مرحوم حضرت علامہ کے محبان خاص میں سے تھے اور جب یہ دو بزرگ صوفیائے کرام کی کرامتوں کا ذکر کرتے تھے تو گھنٹوں اس کے علاوہ کوئی ذکر نہ ہوتا تھا۔ میں ذرا گستاخ تھا مجھے مسکراتا دیکھ کر دونوں بزرگ میری جوانی کو میری خامی کی وجہ قرار دیتے اور ایک بار اس خامی کو دور کرنے کے لیے حضرت علامہ مجھے ایک پیر صاحب کے پاس لے گئے۔ ان پیر صاحب کا سرہند شریف سے تعلق تھا۔ اقبال پیروں فقیروں کے ملنے والوں میں سے تھے اور پیر فقیر ان سے ملتے تھے۔ یہ ایکا ور حاشیہ تھا۔ لیگی دور میں عاشق بٹالوی آتے ہیں اسی طرح اور کئی نام ہیں۔ وہ تو ایک چشمہ شیریں تھا۔ مور و ملخ کا قافلہ آتا جاتا رہتا تھا۔ کس کس کا نام لیا جائے۔ میں نے فقط ان لوگوں کا نام لیا ہے جو میرے علم میں مداومت سے آتے تھے اور جن سے میں واقف ہوں۔ زائرین کا ذکر نہیں کر رہا، ان کی تعداد بے شمار ہے۔ یہ سلیمان ندوی جیسے بزرگ سے لے کر سیدین تک لاہور آتے اور مل کر جاتے۔ مولانا محمد علی کا ناتب ہو کر آنا ایک الگ باب ہے۔ ہمعصر شعراء میں گرامی ان کے سب سے بڑے رفیق تھے۔ اقبال انہیں ’’ فنا فی الشعر‘‘ کہا کرتے تھے اور ان سے بڑی یاری تھی۔ا کبر الٰہ آبادی سے علامہ کو بڑی عقیدت تھی۔ ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔شاد عظیم آبادی سے دیر تک خط و کتابت رہی۔ ان کی شاعری کے قائل تھے۔ ایک دن اصغر گونڈوی مجھے لے کر علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچے۔ اس سے قبل اصغر صاحب نے اپنا کلام نقل کروا کر مجھے علی گڑھ سے بھجوایا اور چاہا کہ میں علامہ اقبال سے اس کے متعلق رائے طلب کروں۔ اسی اثناء میں اصغر صاحب ملازمت کے سلسلے میں لاہور آ گئے اور علامہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے حضرت علامہ سے کہا کہ اپنی رائے لکھ دیجئے۔ علامہ نے فرمایا کہ تاثیر صاحب جو لکھ دیں میں اس پر دستخط کروں گا۔ یہ ان کا انداز خاص تھا مدعا یہ تھا کہ ڈرافٹ کوئی تیار کر دے وہ کاٹ چھانٹ کر دستخط کر دیں گے اور جب وہ یہ کہتے تھے کہ رائے دینے سے باک نہ ہو مگر اصغر گونڈوی صاحب ناواقف تھے۔ انہیں غلط فہمی ہو گئی۔ سمجھے کہ علامہ اقبال نے ان کے کلام کو ذاتی توجہ کے قابل نہ سمجھا۔ یہ ایک طرح درست بھی تھا علامہ اقبال اصغر کو اچھا مشاق خوش گو سمجھتے تھے اور بس۔۔۔۔۔۔ اور اصغر تھے بھی یہی مگر ان دنوں رشید صدیقی اور علی گڑھ گروپ اصغر کو بہت اچھال رہے تھے۔اس لیے غالباً اصغر ذرا زیادہ حساس ہو گئے تھے مگر اصغر کی خود داری کا یہ پہلو مجھے بہت پسند آیا۔ انہوں نے دوبارہ رائے طلب نہ کی۔ شعر و سخن کا ذکر آیا تو صوفی تبسم کا نام لینا ضروری ہو گیا۔ ان کی آمد و رفت بکثرت تھی اور علامہ اقبال انہیں فارسی محاورے اور زبان کا استاد بھی سمجھتے تھے اور سندات کے سلسلے میں انہیں کئی ارشادات کیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال زبان کی صحت اور الفاظ کی موزونیت اور محاورے کی درستگی کے اس حد تک سخت قائل تھے کہ اس سے بیان اور ابلاغ میں آسانی پیدا ہو۔ صوفی تبسم ان چند دست دراز لوگوں میں سے تھے جو ڈاکٹر صاحب کے حقے پر ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے۔ صوفی صاحب کے امرت سری احباب میں سے عرشی امرتسری کا نام بالخصوص قابل ذکر ہے عرشی صاحب نے ایک نظم اقبال کے نام لکھی اور اس سے ان کا دل دہل گیا۔ بہت متاثر ہوئے اور جواب لکھا۔ عرشی نے کہا تھا اقبال اس دور ابتلا میں خاموش کیوں ہے؟ اس کے بعد علوم قرآنی کے متعلق عرشی صاحب سے بہت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اسی سلسلے میں چودھری نیاز علی کا نام آتا ہے جنہوں نے مولوی مودودی صاحب کو اپنے ’’ دار الاسلام ‘‘ میں بلایا۔ میں جو متن سے ہٹ کر حاشئے کی طرف آیا ہوں تو حاشیہ متن کی صورت اختیار کرنے لگا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اقبال سے ملنے والے جب اقبال کا ذکر کرتے ہیں تو اقبال سے زیادہ اپنی شخصیت کو افشا کرتے ہیں۔ وہی انتخاب شعر کا معاملہ کہ: شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے اس سے اپنے دل کا معاملہ کھلتا ہے۔ اصل اقبال سے ملنا ہو تو اقبال کا کلام دیکھو۔ جو اقبال کا کلام پڑھتا ہے وہ اقبال کا ملنے والا ہے! ’’ پیام مشرق‘‘ اور’’ بال جبریل‘‘ بالخصوص زندہ اقبال ہے! بقدر جام یہاں اذن عام ہے سب کو (دو ضروری نام رہ گئے ہیں کئی نام رہ گئے ہوں گے لیکن یہ دو نام بہت ضروری ہیں۔ ایک منشی طاہر دین جو تمام عمر آپ کے منشی رہے اور پھر بچوں کے گارڈین مقرر ہوئے اور دوسرا ان کا ذاتی ملازم علی بخش کہ اس نے زندگی سے زیادہ وفا کی!) ٭٭٭ (جنوری ۱۹۷۰ئ) اقبال کا الٰہیاتی فلسفہ پروفیسر السنیڈرو بوشانی (اطالوی) ترجمہ: یوسف جمال انصاری ایم اے (یہ مضمون اطالوی مفکر پروفیسر السنیڈرو بوشانی کا ہے جنہوں نے جاوید نامہ کا اطالوی زبان میں ترجمہ کیا تھا) اقبال الٰہ و معبود کا لفظ استعمال کرنا پسند نہیں کرتے، اس لیے کہ یہ لفظ بہ صیغہ جمع بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ کا لفظ بہتر ہے۔ چونکہ یہ خدا کا قرآنی نام ہے، بالکل اسی طرح جیسے انجیل میں خدا کا نام ’’ یہودا‘‘ ہے۔ یونانیوں کی دنیا میں خدا کا تصور نظری تھا جسے معبودیت یا اصول بقا کہا جا سکتا ہے البتہ مختلف خداؤں کے ذاتی نام تھے، جیوپیٹر وغیرہ۔ پاکستان کے اس مفکر اعظم کے جملہ فلسفیانہ فرمودات کا مقصد ذات خداوندی کو یونانی تصور معبودیت کے خلاف واضح کرنا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال وحدت پرست تھے نہ کہ وحدت الوجود کے ماننے والے، زندگی کا عقلی و نظریاتی تصور وحدت الوجود کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ خیال ہمیں اقبال کے الٰہیاتی مضامین میں ملتا ہے۔ اقبال کے فلسفے میں دل کی بڑی اہمیت ہے یعنی یورپین طرز فکر کے برعکس اور ایرانی نظریات کے مطابق دل مصدر الہام ہے۔ فلسفہ حاضرہ کا ارتقاء یونانی روحانیت کے اصول پر ہوا۔ عہد عتیق میں خدا کا تصور صفت یا جوہر کے طور پر تھا۔ قرون وسطیٰ میں اسے معبود کہہ کر پکارا گیا۔دور موجودہ میں ’’ ہیگل‘‘ نے اس کو ایک مکمل خیال قرار دیا۔ خدا کا سامی الاصل تصور ذات فلسفہ مغرب کو ایک نیا انداز فکر بخش سکتا تھا اور جس کی جلوہ گری مسیحیت کی صورت میں ہوئی۔ بالکل ابتدا ہی سے اس کی تفسیر ان غلط نقطہ ہائے نظر سے کی گئی جو یونانی تہذیب و شائستگی کے پیش کردہ نظریات سے مستعار لئے گئے تھے۔ چنانچہ وہ مسیحی خدا، جس کا تصور ایک مشفق باپ سے وابستہ تھا الوہیت کا ایک پیکر خیال بن گیا۔ اسلام بالخصوص ابتدائی اسلام جو قرآنی طریق فکر سے نزدیک تر ہے خدا کے تصور کو ایک پر عظمت ہستی مانتا ہے جس تک انسان کی رسائی ممکن ہے۔ وہ خدا کو محض نظریہ یا صفت خیال نہیں کرتا، جس کا جاننا پہچاننا غیر ممکن ہو۔ مگر شومی قسمت سے اسلامی مفکرین بھی خالص نظری فلسفے سے مسحور ہو کر رہ گئے۔ غالباً اس سے واضح تر حملہ یونانی فلسفے کے خلاف پروٹسٹنٹ مصلحین کا حملہ تھا۔ جب انہوں نے کتابی فلسفے کے خلاف سامی انجیل رکھی اور اس کے نتائج اچھے نکلے، دوبارہ حاصل شدہ زندہ و موجود خدائے انسان میں پھر روح عمل پیدا کر دی اور ایک عصر نو کی آفرینش ہوئی۔ لیکن New Lestament میں جو یونانیت کے جراثیم تھے انہوں نے مروجہ پروٹسٹنٹ مذہب کو ذاتی کفارے کا جامد نظریہ بخش کر تنگ نظر بنا دیا۔ دوسری طرف آزاد خیال مکتبہ فکر کے پیرو عقلی و استدلالی نظریات کے قائل ہوتے چلے گئے۔ اس طرز فکر کو بنیاد ہیگل کی عقلی وجودیت پر ہے جس سے ایک تو موجودہ مکمل و مطلق مثالیت نکلی ہے جہاں تمام اصلیت خیال محض کے سوا کچھ نہیں اور دوسرے مارکسیت کے دیو نے جنم لیا ہے جس کی تعریف ہے: قلب او مومن دماغش کافر است کلاسیکی خیال پر آخری حملہ موجودہ زندگی کے پرستش کی صورت میں رونما ہوا۔ اس قسم کے اہل فکر پروہی الفاظ منطبق ہو سکتے ہیں۔ جو اقبال نے نطشے پر کیے (جو ان کا پیش رو تھا) یعنی یہ کہ انہوں نے خدا سے دور ہو کر گویا اپنے آپ کو اپنی ذات سے قطع کر لیا ہے۔ اقبال کے نطشے کی طرح یہ اہل فکر بھی ہوا میں تیرتے اور خلا میں گاتے ہیں۔ نہ جبریلے، نہ فردوسے نہ حورے اور مشت خاک میں قلب ناصبور کی طپش لیے پھرتے ہیں۔ اقبال کا الٰہیاتی فلسفہ میری نظر میں موجودہ زمانے کا سب سے انقلابی نظریہ وحدانیت ہے اور اس میں عہد افلاطون سے لے کر دور حاضرہ تک کے مغربی خیال کی تنقید موجود ہے۔ اقبال کا فلسفہ مذہب ہمیں ایک نیا مسلک پیش کرتا ہے اور اصنام پرستی کے مقابلے میں پرستش ایمان کی تلقین کرتا ہے۔ اقبال اپنے فوق البشر کو مومن کہہ کر پکارتے ہیں اور یہیں سے وہ بنیادی فرق نمایاں ہوتا ہے جو اقبال کے ایمان اور نطشے کی بغاوت کے درمیان ہے۔ آئیے اب ہم ان نکات کو مرتب کریں جو اقبال کے فلسفہ یونان کی تنقید بلکہ یوں کہیے کہ کلاسیکی و جدید فلسفے کی تنقید سے پیدا ہوتے ہیں۔ نظریاتی ثنویت کے خلاف: افلاطون ادراک بالحس کے قائل نہ تھے۔ اس کے نزدیک ادراک بالحس سے علم حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ اسلام میں مقصدیت و اصلیت دو متضاد قوتیں نہیں ہیں جن کو ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا ہو۔ اسلام اس مادی عالم کا منکر نہیں ہے بلکہ اس پر تسلط حاصل کرنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ روح اور مادہ کا تضاد ہماری دنیا میں بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ مگر اقبال کے نزدیک ساری دنیا ایک عالم پاک ہے۔ ریاست اسلامی نقطہ نظر سے ایک کوشش ہے اعلیٰ اصولوں کو زمان و مکان کی قوتوں میں بدل دینے کی اس معنی میں ریاست کا اسلامی تصور مذہبی ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ریاست خدا کے خلیفہ و نائب کے زیر نگیں ہے۔ یہ آخر الذکر تصور ما قبل مسیحی تصورات سے وابستہ ہے جنہیں بعد میں کلیسائے روم نے اپنا لیا اور بعض غیر مذہبی آمرانہ ریاستوں نے اختیار کیا۔ غالباً یہود کے تصور حکومت کے سوا (اور وہ بھی عہد اسمعیل میں) اسلام کے ابتدائی زمانے کے علاوہ انسانیت نے تاریخ عالم میں مذہبی ریاست کے قیام کا تجربہ کبھی نہیں کیا۔ یہ مذہبی جمہوریت ہی آجکل کی غیر منظم جمہوریت اور جابرانہ آمریت کا جواب قرار دی جا سکتی ہے۔ یونان کے جامد الٰہیاتی تصور کے خلاف: کائنات میں اضافہ ہونا ممکن ہے۔ خدا اپنی تخلیقات میں اپنی رضا کے مطابق اضافہ کرتا ہے۔ کائنات کوئی مکمل شے نہیں جس میں تبدیلی ممکن نہ ہو۔ ذہن کائنات کی گہرائیوں میں ایک آفرینش لو کی آرزوئے پیہم محو خواب ہے۔ یہ ایک غیر کلیسائی خیال ہے جو سامی مذاہب، مسیحیت و اسلام نے مغرب سے مستعار لے کر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یعنی حرکت کو جو صف الٰہیہ ہے کائنات کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ یہاں یہ کہنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ایک متحرک خدا کا تصور جو خود اپنے احکام کو بھی جب چاہے بدل سکتا ہے (الناسخ والنسوخ) ایک پختہ اسلامی عقیدہ ہے۔ برخلاف اس کے مسیحی کلیساؤں نے خدا کو ایک بے ذات صفت یا جوہر قرار دیا ہے اور یہ ارسطو کی تقلید میں۔ یہاں تک کہ مسیح کو بھی ایک جامد ہستی بنا کر متحرک خدا کے تصور کو تقریباً کفر خیال کیا ہے۔ وجود خداوندی کے کلاسیکی ثبوت کے خلاف: موجودہ تشکیک و الحاد کے رحجان کو اس فلسفیانہ تنقید سے بڑی تقویت پہنچی ہے جو سینٹ طامس نے منکران خدا کے خلاف استعمال کی تھی انہوں نے وجود خداوندی کے پانچ کلاسیکی ثبوت پیش کیے تھے۔ مگر اقبال یہ قبول نہیں کر سکے کہ زندہ و موجود خدا کو ثابت کرنے کے لیے ظہور کائنات وغیرہ کی دلیلیں پیش کی جائیں یہ کوشش محدود سے منکر ہو کر لا محدود کو ثابت کرنے کے مترادف ہے مگر محدود سے منکر ہو کر جس لامحدود تک ہم پہنچتے ہیں وہ محض باطل ہے۔ ظہور کونین کو مقصدیت کا نتیجہ قرار دینا ایک موجد کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جس نے یہ عالم ایجاد بنایا۔ لیکن یہ خلاق کی ہستی کا ثبوت نہیں سمجھا جا سکتا۔ اسی طرح وجودیت کی دلیل ثابت کرتی ہے کہ ایک ذات کامل کا تصور اس کے زندہ موجود ہونے کا شافی ثبوت ہے۔ قرآن کے بلکہ انجیل کے بھی ذاتی خدا کے تصور میں محض ایک صفاتی خدا کے تصور سے بنیادی اختلاف ہے۔ آخر الذکر کو ہم اسی وقت زندہ و موجود ثابت کر سکتے ہیں جب ہم یہ دلیل دے سکیں کہ خیالی اور وجود دراصل ایک ہی ہے اقبال ہمیں خدا کی ہستی کا ثبوت پیش نہیں کرتے البتہ ایک عملی ثبوت کے لیے اساس فکر مہیا کرتے ہیں جسے ہم فطرت کہتے ہیں وہ ہستی خداوندی میں مدت یک لمحہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ فطرت ملبوس خداوندی ہے لہٰذا فطرت سے اس خلاق اعظم کی ہستی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہمارا وجدان ہم پر منکشف کرتا ہے کہ زندگی کی بنیاد انا پر ہے۔ خدا کی خلاقیت: خدا جوہر نہیں ہے ذات ہے۔ اس ذات اعظم کے تصور پر زور دینے کے لیے قرآن اس کا ذاتی نام اللہ قرار دیتا ہے مگر ذات مان لینے کے معنی محدودیت کو قبول کر لینے کے علاوہ کیا ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کا غیر محدود تصور اس طور پر نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک لا محدود وسعت ہے۔ یہ ایک بڑا اہم نکتہ ہے جو کلاسکی تصور خداوندی کے خلاف اس امر پر زور دیتا ہے کہ خدا جامد نہیں ہے متحرک ہے اور فطرت محض اس کا لباس ہے یا یہ کہہ لیجئے کہ کائنات ایک تخلیقی مشق کا نتیجہ ہے۔ اس خلاق اعظم کا جو کائنات سے بھی زیادہ حیرت انگیز ایجادات میں مصروف ہے۔ فطرت بالذات نہ منفعت بخش ہے اور نہ نقصان رساں، یہ تو ایک ابتدائی مشق تخلیق ہے اور بس۔ قرآنی خدا کی صفات میں سب سے اہم صفت اس کی خلاقیت ہے۔ بہت سے یورپین فلسفی بہ اتفاق رائے یہ مانتے ہیں کہ اس روح اعظم کی خلاقیت کا نظریہ سامی فلسفہ کا ایک زبردست تحفہ ہے جو اس نے مغربی فلسفے کو پیش کیا ہے۔ ورنہ یونانی فلسفہ اس سے نابلد تھا۔ تاہم قرون وسطیٰ کے مسیحی فلسفیوں نے جو ارسطو کے خیالات سے معمور تھے۔ اس دنیائے مخلوقات کو محض اس لیے تسلیم کیا ہے کہ انجیل میں اس کا ذکر موجود ہے۔ ’’ سینٹ ٹومس‘‘ نے تو صاف طور پر کہا ہے کہ منطقی طور پر اس نظریہ کو تسلیم کرنا مشکل ہے اور صرف اسی لیے قابل تسلیم ہے کہ انجیل پر ہمارا اعتقاد ہے۔ برخلاف اس کے اسلامی فلسفے میں تخلیق کا تصور اس شدت کے ساتھ موجود ہے اور اس کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ انسانی اعمال و افعال کو بھی خدا کا تخلیق کردہ خیال کیا جاتا ہے تاکہ خدا کی مکمل خلاقیت کے خیال کو منوایا جا سکے۔ اسلامی مفکرین کا ایک اسکول اسی بنا پر قائم کیا گیا کہ ارسطو کے ان نظریات کا جواب دیا جا سکے جو خدا کی مکمل خلاقیت کے خلاف پیش کئے گئے ہیں۔ ان اسلامی مفکرین نے جوہر کا ایک نیا تخیل پیش کیا۔ جوہری نظریہ ارسطو کے تکمیل کائنات کے تخیل کے خلاف پہلی ذہنی بغاوت کہا جا سکتا ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک کائنات جوہری اجزاء سے بنی ہے۔ یہ جوہری اجزاء ناقابل تقسیم ہیں۔ خدا چونکہ خلاق مطلق ہے اور عمل تخلیق جاری رکھتا ہے اس لیے ہر لمحہ نئے جوہری اجزاء ظہور میں آتے رہتے ہیں اور کائنات بڑھتی چلی جاتی ہے۔ زندگی ایک صفت ہے جو خدا نے جوہری اجزاء کو بخشی ہے۔ ہر شے اپنی ابتدائی صورت میں جوہری اجزاء کا مجموعہ ہوتی ہے کوئی شے بھی پائیدار نہیں۔ یہ تخیل جو کائنات کو منتشر جوہری اجزاء سے مرتب مانتا ہے۔ خدا کو ایک لا محدود خلاق ثابت کرنے کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ یہ تخیل کائنات کے عقلی ارتقاء کو تسلیم نہیں کرتا۔ اہل سائنس بھی ا س جوہری نظریہ کائنات کو مانتے ہیں اور ایک مرتبہ کائنات کو تسلیم کر لینے کے بعد ایک سچے اور ذاتی خدا کے وجود کا ثبوت تصور کرتے ہیں۔ ایک فن کارانہ شخصیت ہی غیر منظم جوہری اجزاء کو یکجا کر کے انہیں حسن بخش سکتی ہے۔ یہ کام انا کا ہے کہ اس میں تخیل اور زندگی یک جا ہوتے ہیں اور امر اور خلق دونوں اسی کو سزا وار ہیں۔ خلق کے معنی ہیں اس مادی کائنات میں خدا کا تخلیقی کام اور امر وہ رشتہ تخلیق ہے جو خدا کا دنیائے ارواح کے ساتھ ہے یہی نظریہ اقبال کا انسان کی نسبت بہ طور خلاق ہے۔ اس طرح ہم حقیقی اشیاء کو ناقابل تبدیلی نہیں خیال کرتے اور یہ امکان تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ سچا مومن بہتر سے بہتر چیزیں ایجاد و خلق کرے گا۔ اس طرح وہ یاس آمیز انسانی مجہولیت ختم ہو جاتی ہے جس کے نزدیک کائنات ایک مکمل اور محدود چیز ہے۔ کیونکہ نظر آنے والی حقیقتیں محدود حقیقتیں ہیں اور اسی طرح انسان کے دل میں ایک روحانی جہاد کرنے کا عزم پیدا ہوتاہے۔ یعنی انسان قائم باللہ ہے اور نئی اور ان دیکھی حقیقتوں کا خلاق ہے۔ انسان اور تقدیر: زندگی کا پر خطر ہونا وہ فلسفی تسلیم کرتے ہیں جن کے نزدیک زندگی سے مراد ہی عارضی زندگی ہے۔ قرآن میں بھی زندگی کے پر خطر ہونے کا خیال پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اقبال کہتے ہیں کہ انسان ایک آزاد شخصیت کا امین ہے جو اس نے اپنے کو خطرے میں ڈال کر قبول کی ہے۔ ’’ لاریب‘‘ کہ ہم نے آسمان، زمین اور پہاڑوں کو تجویز کیا کہ اس امانت کو قبول کریں مگر یہ بار انہیں قبول نہ ہوا۔ اسے انسان ہی نے قبول کیا تھا۔ انا کی بنیاد زمانی ہے یعنی زمان و مکان سے پہلے اس کا ظہور نہ ہوا تھا۔ قرآنی نظریے کے مطابق انسان کے لیے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن نہیں۔ محدودیت کوئی افسوسناک حادثہ نہیں ہے۔ محدود انا اپنی شخصیت کی بنا پر لا محدود انا تک پہنچ سکے گا۔ قرآن کے نزدیک محدودیت سے مکمل نجات انسان کے لئے بہترین راحت کا سامان نہیں ہے۔ یہ نکتہ انجیل، قرآن کے اس خیال سے وابستہ ہے کہ زماں اور زندگی دونوں وقت میں موجود ہیں اس کے برعکس بعض یونانی فلسفی مثلاً افلاطون اور زینون وقت کو غیر حقیقی تصور کرتے ہیں اور بعض دوسرے مثلاً رواقی فلسفی خیال کرتے تھے کہ وقت ایک دائرے میں محو گردش ہے۔ لیکن گردش وقت کو مدور خیال کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ خلاق نہیں ہے۔ ایک پروٹسٹنٹ دینی پیشوا اور کلیمیں اپنی دلکش تصنیف مسیح اور زمانہ میں اقبال سے قطع نظر اپنے طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں ۔ مذاہب مراسلہ میں گردش وقت مدور نہیں تصور کی جاتی، البتہ انہوں نے اس مسئلے کو مخصوص مسیحی رنگ دے دیا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مسئلہ بقا ایک نئی روشنی میں نظر آتا ہے اور تب صور پھونکا جائے گا اور زمین و آسمان کے سارے مکین بے ہوش ہو جائیں گے۔ علاوہ ان کے جن پر خدا مہربان ہو۔ اقبال کہتے ہیں کہ مستثنیات میں سوائے ان کے کون ہو سکتا ہے جن کی خودی منتہائے کمال کو پہنچ چکی ہے۔ اقبال کا مخصوصی نظریہ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں مادہ نام ہے ایک اجتماعی کا، جس میں مختلف چیزوں کا جوہر یعنی انا شامل ہے۔ اقبال اپنے کو واضح طور پر کثرت وجود کا پیرو ثابت کرتے ہیں۔ یورپین فلسفیوں میں ہیگل اور لیبنز بھی انفرادی خودی کے قائل تھے۔ محض یہ حقیقت کہ شخصی انا بدی و مطلق انا کی ہی ایک صورت ہے۔ الروح من امر ربی روح خدا کی طرف سے ہے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ انسانی انا ان خصوصیت کا حامل ہے جو اس کی اصل میں پائی جاتی ہیں بقول اقبال شخصی دوام ہمارا حق نہیں۔ یہ ذاتی کوشش سے حاصل ہو سکتا ہے۔ انسان ہی اس کا واحد و تنہا امیدوار ہے۔ جاودانیت کوئی قابل ثبوت چیز نہیں بلکہ ایک عالم ہے جو لائق تسخیر ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری دنیا میں جہاں خدا کو ترک کر دیا گیا ہے اور لوگ روحانیت وغیرہ کے ذریعہ یقینی طور پر بقائے شخصی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ اقبال زبردست الفاظ میں متنبہ کرتے ہیں اور اظہار خیال کرتے ہیں کہ ہر شخص حصول بقا نہیں کر سکتا۔ اقبال کا یہ خیال انجیل کے نظریات سے بھی آہنگ ہے اور روح کی جاودانیت کے یونانی نظریے کو نظر انداز کرتا ہے۔ قدیم مسیحی و اسلامی خیال کہ مردے زندہ ہو جائیں گے دراصل ہمارے اجسام کے لیے اظہار حرمت کا طریقہ ہے اور زندگی کی مختلف حالتوں میں سے ایک حالت ہے۔ یہ ایک اشارہ ہے مکمل وجود انسانی کے جاوداں ہونے کا۔ جدید مغربی ذہن کے لیے اقبال اپنے الٰہیاتی فلسفہ میں نہ صرف زندگی اور کائنات کے متعلق ایک عقلی نظریہ پیش کرتے ہیں وہ دنیا کے مستقبل کو نئے انداز سے تعمیر کرنے کی عملی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔ قرآن و انجیل کے پیش کردہ خدا کو از سر نو دریافت کرنا ایک نئے اور مختلف زاویہ نگاہ کو پیش کرنے کے مترادف ہے جس سے ایک نئی تاریخ اور نئے الٰہیاتی فلسفہ حقیقت اشیاء کی بنیاد پڑتی ہے۔ اقبال کے نظریات اور مغرب:ـ انسان خود ایک خلاق ہے۔ اقبال کا یہ خیال جدید مغربی ذہنوں کے لیے بڑا کشش انگیز ہے اور اقبال کے الٰہیاتی فلسفے کا جوہر کہا جا سکتا ہے اقبال اپنے اس نظریے کی تائید میں قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں۔ تبارک اللہ احسن الخالقین قابل ثنا ہے خدا جو خالقوں میں سب سے بہتر ہے۔ یہ درست ہے کہ مغربی مفکرین مثلاً لیبنر، نطشے، برگساں وغیرہ نے بعض ان خیالات کی اشاعت کی تھی جو ہمیں اقبال کے ہاں ملتے ہیں۔ مگر ان مفکرین کا نقطہ نظر دراصل غیر مذہبی تھا۔ انجیل کی وحدانیت اور یورپ کے یونانی فلسفے میں جو رشتہ قائم ہے اس کے پیش نظر ایک مکمل اور غیر مبدل کائنات کے خلاف کچھ کہنا مغربی ممالک میں انجیل کے خدا کے خلاف بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس لیے یورپ میں کسی نے بھی ان ترقی پسندانہا ور جدید قدروں کو نہیں پہچانا جو خالص وحدانیت سے پیدا ہوتی ہیں، حتیٰ کہ میرا خیال ہے کہ اقبال نے بھی اس نظریے کو منوانے میں پوری کامیابی حاصل نہیں کی۔ ایک سچی اور خالص وحدانیت کے معنی ہیں فطرت کی قوتوں کو ان صفات الٰہی سے معرا خیال کرنا جن کو نہ صرف قدیم تہذیبیں بلکہ تمام جدید تہذیبیں بھی مانتی چلی آئی ہیں لہٰذا اس کے یہ معنی ہوئے کہ تمام دنیاوی قوتیں بے کار اور بعید از امکان ہیں۔ حاکمیت صرف اللہ ہی کو سزا وار ہے۔ جمہوریت کو اس نقطہ نظر سے منظم کرنے والی اگر کوئی طاقت ہے تو صرف طاقت ایمان ہے جو بدقسمتی سے غیر مذہبی جمہوریتوں کو حاصل نہیں ہے۔ خالص مذہبی نظام حکومت میں اللہ کا بندہ ہر خدمت بجا لا سکتا ہے وہ غلام نہیں رکھتا نہ وہ خود کسی کا غلام ہے۔ اللہ کا بندہ بذات خود آزاد ہے۔ حکومت اور قانون اسے خدا کی طرف سے عطا ہوئے ہیں نہ کسی انسان کی طرف سے۔ اس طرح الٰہیاتی نقطہ نظر سے قرآنی الفاظ میں اللہ کا خلیفہ ہو کر انسان ایک زبردست انقلابی قوت بن سکتا ہے اور ساتھ ساتھ ہی خلاف دین تحریکوں سے دامن بچا سکتا ہے اور اس طور پر سائنسی تہذیب کے بجائے چیزوں کی نئی قدریں دریافت کر سکتا ہے۔ اطاعت جس کا تعلق خدا اور اس کے احکام سے ہے اقبال کے نزدیک بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اسرار خودی میں انہوں نے پورا ایک باب نذر کیا ہے۔ انسان اطاعت، نفس کشی، بے غرضی ہی سے صفائے باطن حاصل کر کے نیابت الٰہی کے بلند رتبے تک پہنچ سکتا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپین طریق کے برعکس انقلاب اقبال کا اصلی مقصد ہے نہ کہ محض کسی دوسرے مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ اقبال کے نزدیک انسان ک اایک سخت کوشانہ روحانی تنظیم حاصل کرنا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس مادی دنیا سے بے تعلق ہو تاکہ تم سچے انقلابی بن سکو۔ روحانی تنظیم کے معنی قرون وسطیٰ کی رہبانیت اور دنیا سے نفرت کے پیش نظر اہل یورپ قطعاً بھول چکے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اس کے معنی ہیں ان سادہ قوانین کی اطاعت جو اللہ نے قرآن پاک میں واجب کر دئیے ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد ہی انسان اس تعمیری و تخلیقی قوت کو بروئے کار لا سکتا ہے جو خدا کے ساتھ ساتھ خود اسے بھی حاصل ہے اور پھ رایسے واقعات پیش آ سکتے ہیں جن سے تاریخ عالم آشنا نہیں ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ ہیں کہ انسان کی حد صرف ستاروں تک نہیں ہے اور بیشک تیری حد اللہ تک ہے۔ ٭٭٭ بال جبریل سرسری نظر سے سید نذیر نیازی اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں بالآخر علامہ اقبال مدظلہ کا تازہ ترین اردو کلام شائع ہو گیا اور ملت کی یہ دیرینہ آرزو جسے علامہ ممدوح ہی کے الفاظ میں گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے بار بار دہرایا گیا تھا، پوری ہوئی۔ بال جبریل کی اشاعت سے اردو ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اقبال کی شاعری نے پچھلے بیس برس میں جو مدارج کمال طے کیے ہیں ان سے ہماری قوم واقف نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ اردو شاعری کا دامن ان جواہر ریزوں سے خالی تھا۔۔۔ سوائے بانگ درا کے۔۔۔۔ جو اب تک صرف فارسی ہی کے حصے میں آئے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب ہم شاعر کے جذبات اور اس کے حکیمانہ خیالات کو اپنی زبان میں سن سکیں گے اور لطف یہ ہے کہ بال جبریل میں اقبال نے جو کچھ کہا یہ صرف ان کی فارسی شاعری کا پرتو نہیں بلکہ اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو بلاد اسلامیہ اور مغرب کی سیاحت یا جدید اجتماعی انقلابات ان کے احساس اور درد آشنا دل میں پیدا کر سکتے تھے۔ شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب مقام شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترک عثمانی سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب بال جبریل کا نصف حصہ ان غزلیات پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر ہندوستان سے باہر یورپ یا افغانستان میں تصنیف ہوئیں۔ اردو زبان میں اب تک اس قسم کی غزلیں کبھی نہیں لکھی گئی تھیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اقبال کے فارسی دیوان پیام مشرق یا زبور عجم میں بھی ان کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ غزلیں کیا ہیں؟ حقائق و اسرار کا ایک بیش بہا مجموعہ جس کے ایک ایک لفظ سے شاعر کے ان لطیف اور گہرے احساسات کا پتہ چلتا ہے جن کی تشریح و توضیح کے لیے اب کسی بحث کی ضرورت نہیں۔ اقبال کے تخیل اور اقبال کی فکر سے اب کم و بیش ہر شخص واقف ہو چکا ہے لیکن ان غزلیات کاایک زبردست پہلو یہ ہے کہ ان میں بعض دقیق سے دقیق مضامین نہایت آسان الفاظ میں ادا ہو گئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا سارا فلسفہ سمٹ کر چند الفاظ میں آ گیا ہے۔ اب اردو شاعری کو اپنی کم مائگی کا شکوہ نہیں رہے گا۔ دیوان غالب کے بعد یہ پہلا مجموعہ غزلیات ہے جسے پڑھ کر روح انسانی وجد کرتی ہے اور دل و دماغ غور و فکر کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ بال جبریل کی کسی غزل کا مطالعہ کیجئے آپ محسوس کریں گے کہ اس میں آپ کے جذبات قلب کی تسلی کے علاوہ وہ سامان بھی موجود ہے جس سے انسان کی بصیرت تیز تر ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں: عالم آب و خاک و باد، سر عیاں ہے تو کہ میں؟ وہ جو نظر سے ہے نہاں اس کا جہاں ہے تو کہ میں؟ وہ شب و روز سوز و غم کہتے ہیں جس کو زندگی! اس کی سحر ہے تو کہ میں؟ اس کی اذاں ہے تو کہ میں؟ کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم سیر شانہ روزگار پر بارگراں ہے تو کہ میں؟ تو کف خاک و بے بصر میں کف خاک و خود نگر کشت وجود کے لیے آب رواں ہے تو کہ میں؟ ایک دوسری جگہ علم و فقر کا موازنہ اس طرح ہوتا ہے: فقر مقام نظر، علم مقام خبر فقر میں مستی ثواب علم میں مستی گناہ علم فقیہہ و حکیم، فقر مسیح و کلیم علم ہے جویائے راہ فقر ہے دانائے راہ علم کا موجود اور، فقر کا موجود اور اشھدان لا الٰہ، اشہدان لا الٰہ تسخیر، تقدیر، حرکت اقبال کے خاص مضامین ہیں جن کی تشریح کے لیے شاعر کو نئی نئی تشبیہات اور استعاروں کی ضرورت رہا کرتی تھی لیکن بال جبریل میں یہ لطیف اور نازک افکار بے ساختہ ادا کر دیے گئے ہیں: ہر شے مسافر ہر چیز راہی، کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی تو مرد میداں تو میر لشکر، نوری حضوری تیرے سپاہی ٭٭٭ خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آب جو اسے سمجھا، اگر تو چارہ نہیں ٭٭٭ فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیر مقام رنگ و بو کر ٭٭٭ انسان اقبال کی شاعری کا محور ہے اور اس کے نزدیک مرد مومن کی زندگی تمام مدارج انسانیت کی آئینہ دار یہی وجہ ہے کہ اس نے ملت اسلامیہ کو افراد کی کشاکش کا مقصود منتہا ٹھہرایا ہے۔ وہ نیٹشے کی طرح انسان کامل کے ظہور کا منتظر نہیں جس کی تخلیق ارتقائے حیاتی کی محتاج ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ یہ نائبین حق کا مقام ہے جو تخلقو باخلاق اللہ کی بدولت ہر وقت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف یہ حقائق ہیں جن کو مسلمان سیاست و معیشت کے طوفان سمیں فراموش کرتے جا رہے ہیں دوسری طرف الحاد و بے دینی کی وہ رو ہے جس کی تیزی میں تقلید فرنگ کا جذبہ دن بدن اضافہ کر رہا ہے۔ اقوام مشرق اور بالخصوص امم اسلامیہ کے اس عجز و بے یقینی کے خلاف اقبال نے ایک دفعہ پھر اسلامیت اور آزادی کا صور پھونکا ہے۔ اس دلی تڑپ اور جوش و خروش کے ساتھ جس سے ایمان و یقین کی تجدید ہوتی ہے۔ شاعر کہتا ہے: یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک تو بے بصر ہو تو یہ مانع نگاہ بھی ہے وگرنہ آگ ہے مومن جہاں خس و خاشاک جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک ٭٭٭ آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ٭٭٭ تھا جہاں مدرسہ، شیر و شاہنشاہی آج ان خانقاہوں میں ہے فقط روباہی ٭٭٭ ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد یہ مدرسہ یہ جواں یہ سرور و رعنائی انہیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد ٭٭٭ یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پا بہ رکاب ٭٭٭ برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری غزلیات کے بعد کچھ رباعیات ہیں جن ک ودیکھ کر لالہ طور کی یاد تازہ ہوتی ہے کتاب کا باقی حصہ تقریباً نصف نظموں کے لیے وقف ہے جو غزلیات کی طرح اکثر یورپ اور بلاد اسلامیہ میں لکھی گئیں اور جن سے وحدت ملت اور جہان اسلامی کا وہ تصور جو اس وقت معاشی اور وطنی جذبات کے طوفان میں دب گیا ہے رہ رہ کر ابھرتا ہے ایک طرف ممالک اسلامی اپنے سیاسی اور جماعتی مسائل میں غرق، ان تصورات سے دور ہٹ رہے ہیں۔ جو کبھی مشرق میں ایک یک رنگ تہذیب کا موجب ہوئے تھے۔ دوسری طرف اقبال اسی کھوئے ہوئے عالم کی تعمیر کا خواب دیکھ رہا ہے ذوق و شوق ایک مختصر سی نظم ہے جس کا زائد حصہ فلسطین میں لکھا گیا۔ اس کے بعض اشعار ملاحظہ ہوں: کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منظر اہل حرم کے سومنات ذکر عرب کے سوز میں فکر عجم کے ساز میں نے عربی مشاہدات نے عجمی تخیلات قافلہ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات ٭٭٭ آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو جلوتیان مدرسہ کورنگاہ و مردہ ذوق خلوتیان میکدہ کم طلب و تہی کدو میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوئے ہووں کی جستجو ٭٭٭ لوح بھی تو قلم بھی تو ترا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ ترے محیط میں حباب عالم آب و خاک میں ترے ظہور سے فروغ ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب شوق تیرا اگر نہ ہو مری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب مرا سجود بھی حجاب تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے یا پھر مسجد قرطبہ کا آخری بند: آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں مری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ مری نواؤں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات کشمکش انقلاب صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شاعر کا ذہن ان ضروریات سے بیخبر ہے جو مشرق کو اپنی تعمیر نو میں ایک مدت سے پیش آ رہے ہیں۔ اس کے نزدیک عالم اسلامی کا سیاسی و معاشی انقلاب بھی اتنا ہی اہم ہے جس قدر اس کی ذہنی اور مذہبی ترقی۔ اس سلسلے میں اگر اس نے ایک طرف مسلمانوں کو مرید ہندی اور پیر رومی کی گفتگو میں ایک غلط تصوف سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی (اقبال کی ساری شاعری ایک اعتبار سے ملا و پیر کی زنار آئینہ کے خلاف احتجاج ہے) وہاں اس نے پنجاب کے دہقانوں اور پیرزادوں کو بھی فراموش نہیں کیا۔ پنجاب کے دہقان سے اس کا خطاب یہ ہے: بخاک بدن دانہ دلفشاں کہ ایں دانہ دارو ز حاصل فشاں اور پیر زادوں سے اس نے کہا ہے: عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار باقی کلہ فقر سے تھا ولولہ حق طروں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار علیٰ ہذا نوع انسانی کے جہاد حریت میں جہاں اقبال کے نزدیک فلاح و کامرانی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم شعائر اسلامی کو اپنے لیے چراغ ہدایت بنائیں وہاں ان تحریکات کا اس نے دل سے خیر مقدم کیا ہے جو انسان کی نجات اور اس کی آزادی کے لیے ناگزیر ہیں۔ بال جبریل میں لینن پر ایک طویل نظم موجود ہے۔ لینن خدا کے حضور میں پہنچ کر اقرار کرتا ہے کہ ہستی باری تعالیٰ سے انکار کرنا اس کی غلطی تھی۔ وہ کہتا ہے: میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات لیکن اس ساری تمہید کا ماحصل یہ ہے کہ : تو قادر و عادل مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات اور یہ اس لیے کہ اقبال خود سرمایہ پرستی کا دشمن ہے اور وہ الملک للہ کی طرف الارض للہ کا قائل ہے۔ چنانچہ شاعر ان لوگوں سے جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ پوچھتا ہے: پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟ کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟ وہ خدا یا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں فرمان خدا بھی ہے: جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو لیکن پیام مشرق کی طرح بال جبریل بھی ان نکات و معارف سے خالی نہیں جو افراد و قوم کی ذہنی تربیت کا موجب ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے میں چند نظموں کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہو گا۔ مثلاً فرشتوں کا گیت، ملا اور بہشت، جبریل و ابلیس، فلسفہ و مذہب اور ماہر نفسیات سے موجودہ زمانہ لادینی کا زمانہ ہے۔ ان معنوں میں کہ جو لوگ بظاہر دین کے پابند ہیں وہ بھی دین و دنیا کے لیے الگ الگ حلقے قائم کر دینا چاہتے ہیں۔ مغرب میں اگرچہ اس غلطی کا بہت پہلے سے ارتکاب ہو چکا ہے اور آج اس کے مضر نتائج ہر شخص کے سامنے ہیں۔ لیکن عالم اسلامی میں یہ بدعت سب سے پہلے ترکوں سے سرزد ہوئی یا جدید تعلیم کا سیلاب اب اس کی حمایت پر ہے۔ دین و سیاست ایک چھوٹی سی نظم ہے جس میں شاعر نے کس خوبی کے ساتھ اس فتنے سے الگ رہنے کی دعوت دی ہے۔ شاعر کہتا ہے: کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری ٭٭٭ ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشم تہذیب کی نا بصیری یہ اعجاز تھا ایک صحرا نشیں کا بشیری ہے آئینہ دار نذیری ٭٭٭ اقبال کی شاعری کسی تبصرے کی محتاج نہیں۔ یہ کہنا بے سود ہو گا کہ مشرق میں شاعری نے ایک طویل وقفے کے بعد اقبال کی بدولت اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور کھویا ہوا مقام حاصل کیا ہے۔ یہ قدرت کا زبردست فیضان ہے کہ اس نے اقبال کو ایک درد مند دل اور نکتہ بیں طبیعت کے ساتھ ایک کامل صناع اور بلند پایہ مصور کی نظر بھی عطا کی ہے۔ وہ جب اپنے مطلب کو ادا کرتے ہیں تو اس طرح کہ اس میں فن اور شعریت ایک دوسرے میں ضم ہو کر حسن صنعت کا ایک ایسا منظر پیش کر دیتی ہیں جہاں انسان کا دل جمال رعنائی کے ایک غیر محدود عالم میں گم ہو جاتا ہے۔ بال جبریل میں اس کی مثالیں عام ہیں۔ عین وصال میں مجھے حوصلہ نظر نہ تھا گرچہ بہانہ جور ہی مری نگاہ بے ادب راہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ میرے رہ گئی ایک میری آرزو پاس نہیں تو اگر شہر ہے ویران تمام تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو ٭٭٭ مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو پلا کے مجھ کو مے لا الٰہ الا ھو گدائے میکدہ کی شان بے نیازی دیکھ پہنچ کے چشمہ حیواں پہ توڑتا ہے سبو میں نو نیاز ہوں مجھ سے حجاب ہی اولی کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو ٭٭٭ نہ چھین لذت آہ سحر گاہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز ٭٭٭ بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اک رداے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں ٭٭٭ خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر ٭٭٭ جمال عشق و مستی نے نوازی جلال عشق و مستی بے نیازی کمال عشق و مستی ظرف حیدر زوال عشق و مستی حرف رازی ٭٭٭ لیکن یہ اقبال کے کلام کی وہ خصوصیت ہے جس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ اقبال کی عظمت اور ان کی شاعری کے قدر دان ہیں وہ بال جبریل کا مطالعہ ضرور کریں گے۔ لیکن جن لوگوں کو ابھی اس امر کا احساس نہیں کہ اقبال کی شاعری ملت کے لیے ایک عطیہ خداوندی کا حکم رکھتی ہے۔ ان کا فرض ہے کہ بال جبریل کی مدد سے اپنے افکار و جذبات کی تربیت کریں۔ تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) ارمغان حجاز جناب سہا مجددی بھوپال ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے کلام پر تبصرہ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کو مجموعہ شاعری صنف ادب کی حیثیت سے دیکھا جائے اور معانی وبیان کی روشنی میں صنائع بدائع کی ندرت، استعارات و تشبیہات کی تازگی اور فصاحت و بلاغت وغیرہ تلاش کی جائے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی شہرت کا عنوان شاعری ہے اور شعرائے اردو اپنے زعم باطل میں ان کو بھی اپنے ہی جیسا ایک شاعر اور من قبیل فی کل داد یھیمون سمجھتے ہیں اور ابتداء میں ’’ زبان‘‘ کی خامیوں، محاورے کی غلطیوں اور پنجابی لغزشوں سے تنقیص کا فرض بھی ادا کیا جاتا تھا اور اب تک غلط شہرت کے بعض مدعی شعرا شاعری کو غزل گوئی میں محدود قرار دیتے ہوئے، سرے سے ان کے مرتبہ عالی ہی کو پست کرنے کی سعی نا مشکور کر گزرتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ اب ان مزخرفات کی طرف التفات نہیں کرتا اور جانتا ہے کہ جس طرح خلیل نے ایک معترض کے عروضی اعتراض کے جواب میں انا اکبر من عروض کہہ دیا تھا، اسی طرح علامہ اقبال کا کلام انا اکبر من شعر کا داعی حق ہے۔ جن خصوصیات کو فن شعر کہا جاتا ہے وہ یہاں مغز و جان کی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ پوست و لباس کا کام انجام دیتی ہیں او ریہاں شاعری اظہار نہیں بلکہ ذریعہ اظہار ہے اور وہ مطالب عرش پیما، جن کے حامل علامہ اقبال کے اشعار ہیں۔ دنیا کی بہترین شاعری سے بلند تر اور اہم ہیں۔ علامہ اقبال، ان رجال قدسی میں سے ہیں۔ جو خدا کی طرف سے وقتاً فوقتاً معرض وجود میں آتے ہیں تاکہ نوامیس دین فطرت کے تحفظ اور ضروریات عصری کی رعایت کے ساتھ ملت اسلامیہ کے لیے ساعی ہوں۔ اقوام عالم میں اتنی بلند ہستیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کوئی قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہے یا اس کا عہدہ عروج ہوتا ہے۔ مگر یہ منفرد و خصوصیت صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس کے دائرہ میں ایسے نفوس، خطرات و ابتلاء کے دور میں ضرور ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ مسلمانان ہند کا موجودہ عہد انحطاط جو نا مساعد ماحول بنائے ہوئے ہے۔ اس میں علامہ جیسی شخصیت پیدا ہونی کسی طرح شایان و مناسب معلوم نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا موجودہ انحطاط جتنا مذہبی ہے اتنا ہی سیاسی بھی ہے اور اسلام کی غیر فانی فطرت مقتضی تھی کہ ایک ایسی اصلاح و تجدید بروئے کار آئے جو روح مذہب اور سیاست حاضرہ کی جامع ہو، چنانچہ علامہ اقبالؒ کا ظہور ہوا۔ جنہوں نے اپنی وضع مخصوص سے قومیت اسلامیہ کا نظام اور فطری اصول ارتقاء پیش کئے اور ایک ایسا نصاب یا درس عمل مرتب کیا جس کی روح دین خالص ہے اور جو اپنی فعلیت و عمل کے اعتبار سے تمام سیاسی مشکلات کا حل ہے اور انفرادی اصلاح و تعمیر سے لے کر ہیئت اجتماعیہ کی صحیح تشکیل اور خلافت ارضی کے اصول تک کے تمام مقامات کی کامل رہنمائی کر دی ہے۔ فسادات روزگار نے جبکہ عام افراد ملت کو مذہبی بے عملی میں مبتلا کر دیا ہے خواص قوم کو دینی بے التفائی اور بیوفائی کا مرتکب بنا دیا ہے اور نام نہاد علمائے مذہب کو جغرافیائی قومیت کے بت کا پرستار کر رکھا ہے۔ صرف علامہ اقبال کا کلام ہے جو نواہائے حق کا ترجمان اور ’’ روح الامین‘‘ یا ’’روح القدس‘‘ کا ہم آہنگ ہے۔ مادہ پرستی اور فلسفہ جدید کے مخترعہ نظریات ارتقاء کو باطل ثابت کرتے ہوئے قرآن اور اسوۂ نبیؐ کی تعلیمات کو براہین علمیہ اور جج تجربیہ کے ساتھ پیش کرنا ایک معجزۂ صریح ہے جس سے انکار خسران اور جس کی تصدیق فلاح دارین کے مترادف ہے۔ قرآن حکیم اور اسوۂ رسول کریم سے اکثر اہل علم واقف ہیں۔ لیکن ضروریات عہد اور عقائد عصریہ کے بالمقابل ایک ترتیب خاص کے ساتھ ان کے اضافات کو صحیح ترین نصاب عمل کی حیثیت سے پیش کرنا یقینا ایک مجددانہ فعل ہے جو علامہ اقبال کے مجدد ملت ہونے پر شاہد عادل ہے اور علامہ کے کلام یا نصاب و درس کا خالص دینی ہونا ہی سب سے بڑی دلیل صداقت اور سب سے محکم عنوان عظمت و احترام ہے۔ یوں تو علامہ کا عام کلام جدت فکر و نظر کا آئینہ دار ہے لیکن بطور خاص ہیئت اجتماعیہ ملیہ کو نقطہ توحید پر مرتکز کرنا، خلافت ارضی دنیا بت الٰہی کے مقام کا صحیح تعین اور فلسفہ خودی کی تدوین ایسے امور ہیں جو ان کی مجددیت میں کسی قسم کے شک کا موقع باقی نہیں رہنے دیتے۔ بزرگان نقشبندیہ کے علم میں جسم انسانی منجملہ لطائف خمسہ عالم خلق کے ایک لطیفہ نفس کا بھی حاصل ہے، جس کی اصلاح و تربیت ذکر الٰہی سے کی جاتی ہے اور یہ لطیفہ ’’ فنا و بقا‘‘ کے مراحل سے گزرتا اور خاص احوال و فیوض و تجلیات کا مورد بن جاتا ہے۔ یہی وہ لطیفہ ہے جو علامہ کے یہاں ’’خودی‘‘ سے موسوم ہے اور اسی کو بالفاظ دیگر’’ انانیت‘‘ ،’’ شعور ذات‘‘ ،’’ احساس انفرادیت‘‘ یا’’زعم نفس‘‘ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی مخصوص تربیت سے علامہ موصوف جس کار فرمائی کا یقین دلاتے ہیں اس سے کسی واقف اسرار کو قطعاً اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح سلوک نقشبندیہ کی رو سے سالک، ولایات، کمالات اولو العزم، معارف مقطعات قرآنی اور حقیقت کعبہ وغیرہ مقامات سے ترقی کر کے جس آخری مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ اس مرتبہ کا نام ’’ عبدیت‘‘ ہے اور یہی وہ مرتبہ ہے جہاں مرتبہ خلافت ارضی کا تحقق ہوتا ہے اور اسی مقام پر جو پہنچ چکے ہیں ان کو قرآن حکیم میں واذکر عبدنا۔۔۔۔ کے لفظ خاص سے یاد کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ بھی خلافت ارضی کا پیغام ایسے ہی عباد صالح کو دیتے ہیں۔ غرضیکہ گو علامہ نے بعض امور کو اپنے رنگ و الفاظ جدید میں مجددانہ بیان کیا ہے تاہم شریعت و طریقت دونوں ان کی صداقت کی گواہ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ کی بعض تعلیمات کا ماخذ علم تصوف ہے۔ لیکن ان تعلیمات کو ایک نئی غرض اور نئے محل افادہ پر متعین کر کے ان کو قطعاً اپنا لیا ہے اور قلب ماہیت کر دی ہے اور ان تعلیمات کا تعلق زیادہ تر سیرت و اخلاق سے ہے ورنہ عام خانقاہی تصوف سے تو علامہ موصوف بہت کچھ بیزار نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ان کا سالک طریقت گوشہ خانقاہ میں بیٹھ کر آفاق و انفس کی خیالی سیر نہیں کرتا بلکہ تیغ بکف میدان میں نکل کر آفاق و انفس پر تسلط حاصل کرتا ہے۔ تصوف کا موضوع ذات و صفات باری تعالیٰ یا توحید ہے۔ علامہ اقبال اگر تصوف نگار ہوتے تو یا تو اس کے اختیاری و ارادی عشق کی پیروی میں دیوان شمس جیسے کسی دیوان یا کلیات بیدل جیسے ایک کلیات کا اضافہ فرما دیتے یا مسائل توحید نظم کر کے کسی لوائح جامی ایک آدھ مثنوی منطق الطیر یا نثر میں فتوحات مکیہ جیسی طلسم ہو شربا مرتب فرما دیتے، لیکن علامہ اقبال تصوف کی ان دونوں قسموں سے دستکش ہی رہے۔ علم تصوف ایک قسم کا فلسفہ ما بعد الطبیعات ہے، جس میں توحید اور ذات و صفات کے مراتب سے متکلمانہ بحث کی جاتی ہے اور گو اس کا اکثر حصہ کشفیات سے مستند ہوتا رہا ہے لیکن کشف، دلیل کی حیثیت سے ساقط الاعتبار چیز ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حقیقت نفس الامر وہی ہے جو علم تصوف میں بیان کی گئی ہے۔ البتہ تفلسف پسند طبائع کے لیے اس کے مسائل ذہنی استلذاذ کے باعث ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے تصوف کی تشبیہہ ’’ افیون‘‘ سے دی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میدان جدوجہد اور دنیائے عمل میں اس ’’ افیون‘‘ نے قوائے عمل کو بہت کچھ مفلوج کیا ہے اور اسلامی تحریک معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ قرآن حکیم، اسورۂ رسول ؐ اور قانون شریعت اس ذہنی سکر کے قطعاً خلاف ہیں۔ اسلام کا مقصد یہی وصول الی اللہ ہے اور شرعی اعتبار سے یہ رتبہ عبادات و معاملات یا اعمال متعلقہ معاش و معاد کی صلاحیت پر موقوف ہے۔ لیکن جبر و اختیار جیسے مسائل کی متصوفانہ توجیہات نے نہ صرف اعمال پر اثر کیا ہے۔ بلکہ وصول الی اللہ سے بھی محروم کر دیا ہے۔ سلوک یقینا موصل الی اللہ ہے۔ لیکن اول تو ’’ وصول کامل‘‘ شاذ و نادر حاصل ہوتا ہے اور اگر اس سے کچھ بہرہ میسر بھی ہو تو خانقاہی محدود ذہنیت اس مقام کے خواص کاملہ سے متصف نہیں ہونے دیتی۔ وہ خواص کاملہ جو مرتبہ خلافت ارضی کے شایان شان ہیں۔ سیرت انسانی کی سب سے بڑی معراج تخلق با خلاق اللہ ہے اور یہ معراج مرتبہ ’’ وصول‘‘ میں حاصل ہونی لازمی ہے۔ مگر غور کیا جائے تو صدیوں سے ہمارا سلوک اس قسم کے وصول سے محروم ہے۔ اس کائنات کا سارا نظام چھ اصل الاصول صفات باری تعالیٰ پر منحصر ہے۔ یعنی حیات، علم، ارادہ، قدرت، خلق اور ربوبیت اگر ان صفات کی معیت، رفاقت اور ہم آہنگی میسر آ جائے تو نظام عالم کے ذرہ ذرہ پر تسلط حاصل ہونا یقینی امر ہے اور خلافت ارضی اسی سے تعبیر بھی ہے لیکن مدت مدید سے رہروان سلوک، صفات متذکرہ سے با وصف وصول متصف نظر نہیں آتے۔ وصول الی اللہ یا انصاف باخلاق اللہ کے دو ہی طریقے ہیں، ایک ایمان کامل جو ’’ مومن‘‘ کو حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا جذبہ قلب (یعنی عشق) جو سالک کی رہبری کرتا ہے اور مومن حقیقت میں وہی وجود ہے جو منتہائے سلوک میں ’’ عبد‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ ایسا ہی مومن بننے کی ترغیب و تعلیم دیتے ہیں اور ایسے ہی افراد سے ہیئت اجتماعیہ اسلامیہ ترتیب دیتے ہیں۔ اور ایسی ہیئت اجتماعی کو خلافت ارضی کی بشارت دیتے ہیں۔ اور یہ تمام باتیں قرآن حکیم اور تعلیمات نبویہؐ کے عین مطابق ہیں اور ان کے تحقیق میں کوئی شائبہ شک نہیں۔ موجودہ دور میں بین الاقوامی مسائل و مفاد نے بہت اہمیت حاصل کر لی۔ علامہ موصوفؒ نے جگہ جگہ مختلف نظریات کی تلبیسات کا خاکہ بھی اڑایا ہے اور یہی ثابت کیا ہے کہ صرف امت مسلمہ اور اسلام اقوام عالم کے لیے رحمت ہو سکتا ہے کیونکہ عالم انسانی کی بہترین کفالت وہی قوم کر سکتی ہے جو رب العالمین کے اخلاق کریمہ سے متصف ہو۔ یہ ہیں وہ چند بنیادی موضوعات جن پر علامہ اقبال کا کلام مشتمل ہے اور گو اس وقت ہمارے پیش نظر ان کا ’’ ارمغان حجاز‘‘ ہے لیکن تاوقتیکہ یہ تمام امور و صول مستحضر نہ ہوں موصوف کے کلام کا صحیح فہم حاصل نہیں ہو سکتا۔ (۲) بہ آں رازے کہ گفتم، پے نہ بردند زشاخ نخل من خرما، نخوردند من اے میر امم داد از تو خواہم مرا یاران غزلخوانے شمردند پس اس کلام کا مطالعہ محض ادبی نقطہ نظر سے نہ صرف فعل عبث ہو گا بلکہ کلام کے مطالب دقیق اور افکار عرش پیما سے بے اعتنائی اور محرومی کے مترادف بھی۔ چنانچہ ’’ ارمغان حجاز‘‘ گو انداز بیان کے لحاظ سے بظاہر بہت کچھ ’’ شاعری‘‘ سے مشابہ منظومات کی حامل ہے لیکن معناً یہ بھی ان تمام تعلیمات کو پیش کرتی ہے جو دوسرے مجموعوں میں تفصیل، ترتیب اور تسلسل کے ساتھ معرض ایجاز و اختصار اور اشارات و کنایات نے اسلوب کو اور زیادہ ’’ شاعری‘‘ سے ملتبس کر دیا ہے۔ تاہم یہ صرف شاعری نہیں ہے بلکہ ایک ایسا معجزہ بیان جس میں وہ تمام دلکشیاں اور موثرات موجود ہیں جو شاعری کو حاصل ہو سکتے ہیں اور یہی لذت موثرہ وہ امتیاز خاص ہے جس سے کسی شاعر کی ’’انفرادیت‘‘ متجلی ہوتی ہے اور اسی انفرادیت کی بنا پر اہل نظر علامہ اقبالؒ کو بیک وقت مفکر، صالح، مجدد، صادق اور شاعر اعظم تسلیم کرتے ہیں۔ مثنوی مولینا روم اور بوستان سعدی وغیرہ کی نظمیات سے شعری و ادبی تشنگی کی تسکین محال ہے لیکن علامہ اقبال کا ہر شعر پند و وعظ، درس و تعلیم یا راز ارتقائے قوم ہونے کے باوجود شعری اثر بھی پیدا کرتا ہے اور درس و موعظت میں یہ لذت نوائے تاریخ ادبیات عالم میں پہلی اور غیر فانی مثال ہے۔ ارمغان حجاز کا پہلا حصہ ’’ حضور حق، حضور رسالت، حضور ملت، حضور عالم انسانی اور بہ یاران طریقت کے پانچ عنوانوں پر منقسم ہے‘‘ ۔ ان میں سے حضور ملت اور حضور عالم انسانی چند در چند ضمنی عنوانوں پر مشتمل ہیں اور اس پورے حصے میں دو دو شعروں کے صرف فارسی قطعات ہیں۔ دوسرے حصے میں بارہ مختلف نظمیں اور چند رباعئیں اردو زبان میں ہیں۔ مگر یہ رباعیاں مصطلحہ رباعی یا مقررہ اوزان رباعی پر نہیں ہیں۔ اس لیے ان کو بھی قطعات اردو سمجھنا چاہیے۔ یہ تو عرض کیا جا چکا ہے کہ بالعموم کلام شاعرانہ اسلوب کا حامل ہے۔ مسئلہ زبان فارسی کی نوعیت کا ہے۔ پس اس بارے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ علامہ کے کلام کا موازنہ امیر خسرو، غنی کاشمیری، مرزا عبدالقادر بیدل، مرزا قتیل یا مرزا غالب کے کلام سے کیا جائے، کیونکہ خود علامہ کی قدرت سخن طرازی، بے تکلف بیانیا ور روانی عرض مطالب سے اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ علامہ اپنے خیالات و افکار کو فارسی میں بھی اسی طرح ظاہر کر سکتے ہیں جس قوت و اثر سے وہ اردو میں ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ علامہ نے بعض مقامات پر سعدیؒ، امیر خسروؒ، منوچہری اور لطف اللہ آذر وغیرہ کے مصرعے اور شعر تضمین کیے ہیں اور ان تضمینی اشعار اور علامہ کے اشعار کی ’’ فارسیت‘‘ میں چنداں فرق معلوم نہیں ہوتا۔ گویا ان کی زبان اساتذہ فارسی کے قطعاً ’’ ہم آہنگ‘‘ اور ہم رنگ ہے۔ افکار و خیالات کے طالبین کے لیے فارسیت کی یہی سند کافی ہے ورنہ علام کے کلام میں تو بیشتر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جو خالص فارسی ذوق شعری کا منفرد سرمایہ اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ حضور حق یہ قطعات فاتحتہ الکتاب کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے مقام حمد میں واقع ہیں۔ لیکن ان میں ذوق و شوق، حرف و حکایت، شکوہ و شکایت اور طلب و استدعا سب کچھ ہے اور مسلمانوں کی پستی و انحطاط کا اظہار اور تجدید و احیاء کی آرزو سارے حصے کی روح رواں ہے۔ عبرت آموزی کے ذیل میں علامہ موصوف جو طنزیہ اشعار استعمال فرماتے ہیں وہ اپنے پہلو میں اثر خیزی کا ایک طوفان سرکش رکھتے ہیں۔ مثلاً اولاد ابراہیم اور نمک پروردہ نمرود، یا کفار کے تراشیدہ بتوں کی پرستش اور مومن، یا غیر اللہ کی آستاں بوسی کرنے والا مسلمان حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت سلمان الفارسی کے سے سجود کس طرح ادا کر سکتا ہے درانحالیکہ ان کے اخلاص کی لطافت نماز بے حضور کے کسی رسمی ثواب کو یہی بار دوش محسوس کرتی ہے اور ایسے سجدوں کی توفیق طلب کرتے ہیں جن کے سوز و سرور سے زمین و آسماں وجد میں لائے جا سکیں۔ موجودہ مغربی شہنشاہیت کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ: جہان تست در دستے خسے چند کسان اوبہ بند ناکسے چند ہنرور درمیان کارگا ہاں کشد خود را بہ عیش کر گسے چند یعنی تیری دنیا چند کمینوں کے دست تصرف میں ہے او دنیا کے اہل لوگ چند نا اہلوں کی غلامی میں بسر کر رہے ہیں اور ارباب ہنر عمل گاہوں میں خود کو اس لیے ہلاک کر رہے ہیں کہ ان گدھوں کے لیے دعوت مردار خوری مہیا کر دیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!! آخر میں وہ خدا سے تجدید ملت کی التجا کرتے ہیں۔ ایسی قوی بازو اور بلند حوصلہ ملت کی جو بار دو جہاں اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہو اور جس کی منزلت شان یہ ہو کہ: دگر ملت کہ ذکر لا الٰہش بر آرد از دل شب، صبح گاہش شناسد، منزلش را آفتابے کہ ریگ کہکشاں رو بد زراہش ٭٭٭ حضور رسالتؐ ان تمام عنوانوں میں سب سے اہم یہ حصہ کلام ہے جو حضور رسالت میں معروض ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ نہ صرف اس لیے کہ ذات گرامی سے علامہ اقبال کو مضطربانہ عشق تھا بلکہ اس لیے کہ اسلام و امت کے فلاح دارین کی بہشت ارضی و سماوی انہیں قدوم پاک کے نقوش سے وابستہ ہے۔ علامہ اس حصہ کو سفر الیٰ دیار الحبیبؐ سے شروع کرتے ہیں اور مناظر راہ، صبح و شام، ریگ و صحرا او رناقہ و ساربان وغیرہ سے پیدا ہونے والے جذبات کا استقصاء کر کے سرا پردہ حضور تک پہنچتے ہیں۔ جہاں ’’ حکیمان روش بہ دوش‘‘ بغیر’’ لن ترافی‘‘ کی دور باش کے سعادت رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور یہاں پہنچ کر ’’ نگاہے یا رسول اللہ نگاہے‘‘ کے نعرۂ شوق و التجا سے عرض مطالب کی ابتداء کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں یوں تو کوئی شخصی اور قومی، مگر اسلامی مقصد ایسا نہیں ہے جو اشارۃً یا کنایتہً پیش نہ کر دیا ہو۔ لیکن خاص طور پر افراد ملت کی اصلاح، تعمیر و استقلال ملت کے لیے موثر ترین انداز میں استدعا ہے۔ مسلمانوں کی بے عملی، دین فراموشی اور بے امام رہ جانے کے شکوہ شکایات ہیں۔مسلمانوں کے جمود اور بے حسی اور اپنی کوتاہی کا عالم، بطاق خانہ ویران کتابش کی عبرت ناک نوبت تک پہنچ گیا ہے خصوصاً جبکہ یہ خانہ ویران مسجد سے تعبیر ہے گزشتہ دو صدیوں کے تاریخی حوادث اور تنزل و انحطاط کا ماتم ہے اور جستہ جستہ وہ تمام نقائص جن کو عقل و تدبر نے دریافت و متعین کیا ہے بیان کئے گئے ہیں عرصہ ہوا شیخ سعدی نے کہا تھا کہ: خلاف پیمبرؐ کسے رہ گزید بہر در کہ شد ہیچ عزت ندید1؎ اسی محرومی کا ظہور مسلمان کے ہر شعبہ زندگی سے ہو رہا ہے اور اب علامہ اقبال اسی صورت احوال کا واحد اور آخری چارۂ کار یہ تجویز فرماتے ہیں: بحق دل بندو رہ مصطفی گیر اور حقیقتاً مسلمان جب تک یہ راہ اختیار نہ کریں گے وہ کسی دینی یا دنیوی منزل مراد تک نہیں پہنچ سکتے۔ حضور رسالت ؐمیں علامہؒ نے قوم کو یہ شکایت بھی بلند آہنگی سے پیش کی ہے کہ علامہ کی شخصیت اور کلام کو لوگ حقیقی اہمیت اور مفہوم سے سمجھتے نہیں حالانکہ: ز شعر است ایں کہ بروے دل نہادم گرہ از رشتہ معنی کشادم بہ امیدے کہ اکسیرے زند عشق مس ایں مفلساں را تاب دادم ان کی تمنا ہے کہ ان کا قلب جس عشق رسول ؐ سے زندہ اور جس درد و ملت سے مضطرب ہے اس کا کوئی حصہ قوم کو عطا ہو جائے۔ ز سوز ایں فقیر رہ نشینے بدہ او را ضمیر آتشینے 1؎ صحیح مصرع یوں ہے کہ ہر گرد بمنزل نخواہد رسید (ادارہ) دلش را روشن و پائندہ گرداں نہ امیدے کہ زاید از یقینے انہوں نے بار بار اور دلدوز پیرایوں میں یہ بھی اقرار کیا ہے کہ اپنا ملجا و مادیٰ اور منتہائے مقصود صرف ذات رحمت رسول اللہ ؐ ہے اور بس: مرا درس حکیماں درد سر داد کہ من پرورقہ فیض نگاہم اور یہ اعتراف ندامت، دریائے رحمت میں جوش نہیں بلکہ طوفان اٹھا دینے کا باعث ہو سکتا ہے۔ جبیں را پیش غیر اللہ سودیم چو گبراں در حضور او سرودیم نہ نالم از کسے، می نالم از خویش کہ ما شایان شان تو بنودیم غلامی و ملوکیت یا ملت و بے دینی کی جنگ میں وہ نہایت عجز و اثر سے نصرت رسالت طلب کرتے ہیں: مسلمانم، غریب ہر دیارم کہ با ایں خاکداں کارے ندارم بہ ایں بے طاقتی در پیچ و تابم کہ من دیگر بغیر اللہ دچارم آخر میں تمام التجاؤں کا خلاصہ کس جذبہ اخلاص سے کیا جاتا ہے: بکوئے تو گداز یک نوا بس مرا ایں ابتدا ایں انتہا بس خراب جرات آں رند پا کم خدارا گفت ما را مصطفی بس حضور ملت ان قطعات میں تخاطب قوم سے ہے اور تمام ہدایات عمل اور اصلاح احوال کی تلقینات کا ماحصل وہی مصرعہ ہے کہ: بحق دل بند و راہ مصطفی رو! مبادی کلام میں پہلے مقام ’’ لاتخف‘‘ سے حوصلہ مندی اور نگہداشت ہمت کی تلقین کی جاتی ہے: بہ آں لحئے کہ نے شرقی نہ غربیست نوائے از مقام لا تخف زن پھر اعتماد علی النفس اور تہذیب خودی ہے کیونکہ بنیاد عمل کا استحکام اسی پر منحصر ہے۔ بروں از سینہ کش تکبیر خود را بخاک خویش زن اکسیر خود را خودی را گیر و محکم گیر و خوش زی مدہ در دست کس تقدیر خود را ترکوں اور مصریوں کے استقلال و کامیابی کو بھی اسی اعتماد علی النفس کا نتیجہ ظاہر کیا ہے اور حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ: خدا آں ملتے را سروری داد کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت بہ آں ملت سروکارے نہ دارد کہ دہقانش برائے دیگراں کشت اسی خودی اور انا الحق کے بعض معارف کے سلسلہ میں اس امت کی قدرت و تسلط کے متعلق ایک اشارہ ہے جو صفات سیادت امم سے متصف ہو: وجودش شعلہ از سوز درون است چوخس او را جہان چند و چون است کند شرح انا الحق ہمت او پے ہر کن کہ میگوید میکون است اور پر دور وسعت گردوں یگانہ نگاہ او بہ شاخ آشیانہ مہ و انجم گرفتار کمندش بدست اوست، تقدیر زمانہ صوفیوں کی پست فطرتی اور جمود، ملاوں کی تن آسا، تعلیم اور قرآن سے بے اعتنائی پر تنبیہہ کرتے ہوئے ترغیب دیتے ہیں کہ: ز قرآں پیش خود آئینہ آویز دگرگوں گشتہ از خویش بگریز ترازوئے بنہ، کردار خود را قیامت ہائے پیشیں را بر انگیز مولانا روم کی تعلیمات کی جانب موثر اسلوب سے توجہ دہانی کے بعد شاہ فاروق کو پیغام ہے جس میں خلافت اسلامیہ کا نظریہ بیان کیا گیا ہے اور ملوکیت و فقر کی باہمی ترکیب کی تحریص ہے۔ وہ فقر اسلامی جو محسود امارت ہوتا ہے اور جو شہنشاہیت سے زیادہ غنی و مستغنی اور پر رعب و جلال ہے اور منصب خلافت ظاہر ہے کہ ملوکیت محض سے بعید تر اور بلند تر ہے۔ لیکن اسلام ان دونوں مراتب کو جمع کرتا ہے: بیا میرند چوں نور، دو قندیل میندیش افتراق ملک و دیں را اور اس باہمی آمیزش سے ملوکیت زیادہ استوار اور دیر پا ہو جاتی ہے: خلافت فقر با تاج و سریر است زہے دولت کہ پایان نا پذیر است جوان بختا! مدہ از دست ایں فقر کہ بے او بادشاہی زود میر است چند ضمنی عنوانوں سے گزر کر دختران ملت کو بھی نصائح سے یاد کیا ہے کیونکہ عصر جدید کے تمدنی مسائل میں عورتوں کا مسئلہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ پردہ کے متعلق کیا خوب فرمایا ہے: ضمیر عصر حاضر بے نقابا ست کشادش در نمود رنگ و آب است جمانتابی ز نور حق بیاموز کہ او باصد تجلی در حجاب است پھر تعلیم، ترک عثمانی پر اظہار افکار کر کے خاص خاص معارف ملی بیان فرمائے ہیں۔ لیکن خاتمہ میں بچہ نہنگ کی تمثیل میں ایک موثر تازیانہ جہد و عمل ہے: تو در دریا نہ او در بر تست بطوفان ور فتاون جوہر تست چو یکدم از تلاطم با بیا سود ہمیں دریائے تو غارتگر تست حضور عالم انسانیت زمانہ فتنہ ہا آورد و بگزشت خساں را در بغل پرورد و بگزشت دو صد بغداد را چنگیزی او چو گور تیرہ بختاں کرد و بگزشت سیرت و فطرت انسانی جب محاسن اخلاق سے مزین ہو جاتی ہے تو انسانیت کامل ہوتی ہے اور جب یہ مرتبہ کامل اسلامی ایمان و یقین حاصل ہے تب وہ ’’ انسانیت برتر‘‘ متحقق ہوتی ہے، جس کے خواب نیٹشے وغیرہ دیکھتے رہے ہیں۔ اس اصول سے مومن پہلے تکمیل انسانیت کر لیتا ہے۔ اس کے بعد ’’ مومنیت‘‘ کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ اس لیے علامہ نے اسی بنیاد و اساس کو ملحوظ رکھ کر حضور عالم انسانیت کا ایک عنوان مستقل قائم کیا ورنہ حضور ملت ہی کے ضمن میں یہ مطالب ہی ادا کیے جا سکتے تھے۔ تمام اخلاق میں سے اصولی طور پر اپنے قویٰ و مختارات کا شعور اور ان کا صحیح استعمال احترام نفس، احساس خودی، سختی ایام سے بے پروائی، آسودگی و راحت طلبی سے احتیاط ایسے محاسن سیرت ہیں، جس پر بہت تکمیل مقام اور مصرف زندگی کا دار و مدار ہے۔ اس کے ساتھ ہی آدمی میں جدوجہد کی پوری سرگرمی ہونی چاہیے اور تمیل و قال بے حاصل سے گریز ضروری ہے: بہ ضرب تیشہ بشکن بیستواں را کہ فرست اندک و گردوں دورنگ است حکیماں را دریں اندیشہ بگزار شر راز تیشہ خیزد، یاز سنگ است اسی طرح زندگی کا ایک سے بہتر نصب العین اور بلند سے بلند مقصود ہونا چاہیے۔ منہ از کف چراغ آرزو را بدست آور مقام ہاوہو را مشو در چار سوئے ایں جہان گم بخود باز آو بشکن چار سو را اور سب سے اہم خصوصیت صاحب دل ہونا ہے کہ اس کی اصلاح عقل کی صلاح سے بہ ہزاراں عالم فائق ہے: مقام مہر و مہ زناری اوست کشاد ہر گرہ از زاری اوست پیامے دہ زمن ہندوستان را غلام آزاد، از بیداری اوست اس جزو کے آخری حصے میں ابلیس خاکی و ناری میں متنبہ کیا ہے کہ آجکل کے لوگ کس قدر کمزور فطرت ہیں کہ انسانی شیاطین کے فریبوں میں آ رہے ہیں۔ اگر قوی الفطرت ہوتے تو ابلیس ناری سے دھوکے کھاتے، کیونکہ آدمی کا شیطان ابلیس آدم ہونا چاہیے۔ بہ یاران طریق ان قطعات کے مخاطب قوم کے اہل دل، صاحبان نظر یاا رباب حل و عقد میں اور مصالح ملی کے تحت ان کے لیے اپنے مسلک کی توضیح کی گئی ہے۔ اگر دانا دل و صافی ضمیر است فقیرے با تہیدستی امیر است بدوش منعمے بیدین و دانش قبائے نیست پالان حریر است مگر اس امر سے تنبہ ضرور ہے کہ یہ فقر نہیں ہے جو توکل کے ارادی ابتلا کا نتیجہ اور رہبانیت پروردہ ہوا کرتا ہے بلکہ محض وہ تہیدستی ہے جو ہوا و ہوش کی منت کش نہیں ہوتی۔ مغربی شہنشاہیت سے مرعوب ہو کر بعض خام خیال لوگ سمجھتے کہ دنیاوی برکات پر ان کا متصرف ہونا خداوند تعالیٰ کی خوشنودی و پسندیدگی کے نتیجہ میں ہے۔ حالانکہ: فرنگی را دلے زیر نگیں نیست متاع او ہمہ ملک است دیں نیست خداوندے کہ در طوف حریش صد ابلیس است دیک روح الامیں نیست اور مسلمان تو اس وقت و عظمت کا حامل ہونا چاہیے۔ مسلمانے کہ داند ز رمز دیں را نساید پیش غیر اللہ جبیں را اگر گردوں بکام او نگردد بکام خود بگرداند زمیں را ہندوستان کا ساکت و جامد مسلمان چاہتا ہے کہ بغیر عمل صالح اس کے دینی و دنیوی امور انجام پذیر ہو جائیں گے۔ کیا یہ طنزیہ بشارت اس میں غیرت جدوجہد پیدا کر سکے گی۔ بہشتے بہر پاکان حرم ہست بہشتے بہر ارباب ہمم ہست بگو ہندی مسلماں را کہ خوش باش بہشتے فی سبیل اللہ ہم ہست ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) فلسفہ اقبال میں راہ حیات جناب ڈاکٹر یوسف حسین ڈی لٹ برلن در جامعہ انیسویں صدی کے آخر میں مسلمانان ہند کے ارباب فکر کے سامنے سوائے اس کے کوئی نصب العین نہ تھا کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کے لیے سرکاری خدمات حاصل کرنے کی کوشش کریں اور انگریزی حکومت کو راضی رکھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانان ہند نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے ہر بات میں ان کی نقالی شروع کر دی۔ نہ صرف وضع قطع میں بلکہ طرز خیال میں بھی وہ اپنے تمدن اور اپنی شائستگی سے بیگانہ ہو گئے اور اس بات کو موجب فخر سمجھنے لگے۔ نقالی، قوموں کے خد و خال کو مسخ کر ڈالتی ہے چنانچہ اس پر تعجب نہ ہونا چاہیے کہ اس زمانہ کے مسلمانوں کے مقاصد بالکل پست اور ان کی فکر کا معیار بہت ادنیٰ ہو گیا۔ لیکن کچھ دنوں بعد ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے مسلمانان ہند کی آنکھیں ذرا کھلیں جنگ بلقان اور جنگ طرابلس میں حکومت نے جو روش اختیار، اس سے انہیں معلوم ہوا کہ کوئی قوم کسی قوم کی دوست نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو خاص اغراض کے ماتحت، آستانہ حکومت سے مایوس ہونے پر انہوں نے اپنی ملت سے ربط و ضبط بڑھانا شروع کیا۔ اس کے بعد جو سیاسی حالات ہندوستان میں پیدا ہوئے ان کے متعلق یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ان کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ مسلمانان ہند سوتے سے چونک پڑے اور انہوں نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا عزم کر لیا۔ خود شناسی میں کمال انسانی اقبال کے فلسفہ حیات کا سنگ بنیاد اثبات خودی میں مضمر ہے۔ اس کے نزدیک کائنات مدرکہ کی اعلیٰ ترین قدر و قیمت، فرد کے شعور ذات میں پوشیدہ ہے۔ اگر اقبال کے فلسفہ خودی کے سر چشمہ کا سراغ لگانا چاہیے تو ہمیں خالص اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں انسان کی انفرادی شخصیت کی فضیلت اور عظمت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ذات باری کا فرشتوں کو یہ حکم کہ آدم کو سجدہ کرو۔ محض استعارۃً نہیں ہے بلکہ اس کے اندر ایک زبردست حقیقت کی طرف اشارہ (یعنی یہ کہ انسان کا شخصی وجود کس قدر احترام کا مستحق ہے) اسلام سے قبل مذہب عیسوی میں انسانی زندگی سرتاپا گناہ تصور کی جاتی تھی۔ خواہشات نفسانی اور احساس خودی اس لغزش کا نتیجہ قرار پائے جو آدم سے شیطانی وسوسہ کی بناء پر سر زد ہوئی تھی (اور یہ بھی قرار پایا کہ) انسان کے اس گناہ کا کفارہ اس کے اعمال سے ممکن نہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح کے مصائب و قربانی نے اس کے گناہ کا کفارہ کیا اور انسانی نجات کی راہ نکالی۔ مسیحی تعلیم نے انسان کو ذلیل اور حقیر قرار دیا جو کسی قسم کی اخلاقی ذمہ داری کا اہل نہیں۔ اسی طرح بدھ مت اور ہندو دھرم میں تناسخ کے لامحدود سلسلے اور شخصی وجود کو فنا کرنے کے خیال نے زندگی کی ذمہ داریوں کو معدوم کر دیا اور انسانی عظمت کو خاک میں ملا دیا اور ا سکے برخلاف اسلام انسانی زندگی کو خوب اجاگر کر کے پیش کرتا ہے۔ قرآن میں ہے: لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددناہ اسفل سافلین الا الذین امنو و عملو الصالحات۔ یعنی انسان فی الحقیقت نیک نہاد ہے اور اس کی شرافت و فضیلت مسلم ہے۔ لیکن برے اعمال کی وجہ سے اس کا ازلی کمال زائل ہو سکتا ہے۔ شر انسانی وجود کے ساتھ لازمی نہیں بلکہ انسان اپنے اعمال کا مختار ہے۔ قرآن میں لیس للانسان الا ما سعی اور لہا ماکسبت و علیھا ما اکتسبت کہہ کہ ہر فرد کی اخلاقی ذمہ داری مکمل طور پر متعین کر دی گئیا ور اس کے اعمال کو تشکیل حیات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اقبال نے ایسے ایک لیکچر میں قرآن کی آیہ کریمہ انا عرضنا الامانتہ علی السموات والارض فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان انہ کان ظلوماً جہولاً کی یہ تفسیر کی ہے کہ جس امانت کا بوجھ آسمان اور زمین نے اٹھانے سے انکار کیا وہ شخصیت اور احساس ذات کی ذمہ داری تھی جسے انسان نے جوش وجدان میں قبول کر لیا اور اسی سے اس کی ساری فضیلت پیدا ہوئی اور اسی کی بدولت اس نے نظام عالم کو تسخیر کیا، آتش آب و باد کو اپنا غلام بنایا، پہاڑوں کے سینے چاک کیے۔ ویرانوں کو آباد کیا اور اپنے وجود کا سکہ کائنات فطرت کے ہر گوشہ پر بٹھا دیا۔ خودی، آرزو، حرکت اور عشق اقبال کے پیغام کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کا اخلاقی نصب العین اثبات خودی میں مضمر ہے انسان کی شخصیت اور فرد کا وجود حیات کا واحد اور کافی بالذات مرکز ہے، زندگی کا اصل محرک احساس ذات ہے۔ زندگی ایک مسلسل حرکت کا نام ہے جو نت نئی خواہشات کی تخلیق کرتی رہتی ہے اور اسی طرح اپنی توسیعی اور بقا کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ خودی کی تکمیل میں سب سے بری رکاوٹ فطرت ہے جس پر غلبہ پانا ضروری ہے جو چیز خودی کو مستحکم کرتی ہے وہ خیر ہے اور جو اس کو ضعیف کرے وہ شر ہے خودی کو مستحکم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ عشق ہے۔ اقبال عشق کو نہایت وسیع معنوں میں استعمال کرتا ہے اور اکثر اوقات اس کو عقل کا مد مقابل بنا دیتا ہے۔ عشق سے اس کی مراد وجدانی جوش ہے جو تکمیل ذات کے لیے جذب و تسخیر پر عمل پیرا ہوتا ہے اور موانع پر قابو پاتا ہے اس کی بدولت ایمان کی قوت پیدا ہوتی ہے، جس کے آگے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی، عشق کی خصوصیت کا خاصہ پیہم آرزہ ہے اور اسی کے باعث انسانوں کو فرشتوں پر فضیلت ملی ہے۔ مختصر یہ کہ اقبال کے نزدیک فرد کا وجود زندگی کا مستقبل اور کافی بالذات مرکز ہے۔ وہ اثبات خودی کے ذریعہ جذب و تسخیر کی تخلیقی قوتیں بروئے کار لا سکتا ہے اور اپنی ذات کے آئین مضمیر کے مطابق منازل وجود طے کر سکتا ہے۔ اس کی زندگی اک سفر مثل ایک تخلیقی بہاؤ کے ہے جس کی صورت یہ ہے: ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے قوم کی زندگی کا راز جس طرح ایک فرد احساس ذات ارادہ اور حافظہ کے ذریعہ سے اپنی ذات کی گہرائیوں کی تہ تک پہنچتا ہے۔ اسی طرح قومیں اور جماعتیں اپنی تاریخ کے ذریعہ سے اپنی اجتماعی خودی کو مستحکم کرتی ہیں۔ تاریخ کی بدولت ماضی و حال کا رشتہ استوار ہوتا ہے اور قوم کا وجود تجرید کی تاریکی سے نکل کر حقیقت کی روشنی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے: زندہ فرد از ارتباط جان و تن زندہ قوم از حفظ ناموس کہن اقبال کے نزدیک کسی قوم کی تاریخ ہی اس کے مسائل اجتماعی کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ تاریخ واقعات و حوادث کا بے معنی انبار نہیں۔ نہ اس کو قصہ کہانی سمجھ کر پڑھنا چاہیے بلکہ حقیقت میں وہ ذریعہ ہے جماعت کی سیرت کو قوی بنانے اور اس کو آمادہ عمل کرنے کا تاریخ عالم ایک مسلسل تخلیقی حرکت ہے جو گروہ اپنے تئیں اس تخلیقی رو کے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں وہ سرفراز ہوتے ہیں اور جو اس کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں پستی میں پڑ جاتے ہیں۔ اسلام کا مقام ہم نے اقبال کے تصور حیات کا جو تجزیہ اوپر پیش کیا ہے، اس سے وہ بنیادی حقائق آپ کے سامنے آ گئے ہونگے ایک یہ کہ فرد کے لیے اثبات ذات زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرد کی ذات یا خودی کی پرورش وسیع قومی نظام کی پابندی کے بغیر ممکن نہیں۔ ملت بیضا کے ربط و تنظیم کے بنیادی اصول، عقیدۂ توحید اور رسالت ہیں ان اصولوں کے مطابق جو اسلامی تہذیب وجود میں آئی وہ اقبال کے نزدیک اجتماعی زندگی کے لیے بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایک طرف تو فرد اور جماعت کے حقوق و فرائض کا پورا پور اخیال رکھا گیا ہے اور دوسری جانب اس میں روحانیت اور مادیت دونوں کا اس خوبی سے امتزاج کیا گیا ہے جو فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تہذیب میں لازوال قوت حیات پیدا ہو گئی ہے اور اس میں فطرت نے ایسی صلاحیت ودیعت کر دی ہے کہ وہ گر کر اٹھ سکتی اور پست ہو کر پھر سر بلند ہو سکتی ہے اس کی مثالیں تاریخ اسلام کے ہر ورق پر مل سکتی ہیں۔ اقبال کی رائے میں جب کسی جماعت سے قومی عصبیت اور احساس ذات فنا ہو جاتا ہے تو وہ کسی دوسری جماعت میں جو ان سے زیادہ جاندار اور قومی سیرت کی مالک ہوتی ہے، مدغم ہو جاتی ہے یا غلام بن جاتی ہے، تاکہ دوسرے محنت کر کے اس کی حفاظت کریں اور وہ خود ان کے زیر سایہ آسائش کی زندگی گزاریں۔ اس چیز کو اقبال نے مسلک گو سفندی سے تعبیر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر شیر یہ چاہے کہ وہ بکری بن جائے اور زندہ رہے تو یہ ناممکن ہے۔ یہ چیز خود قصاب کی فطرت کے خلاف ہے کہ وہ بکری کی موجودگی میں خود بھوکا رہے اور بکری کو ذبح کر کے نہ کھائے۔ پس اقبال کے نزدیک زندگی کی راہ یہ ہے: میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر ٭٭٭ (نومبر ۱۹۳۸ئ) اقتباسات از افکار مفکرین حاضرہ افادات ڈاکٹر سید عابد حسین جامعہ ملیہ دہلی (۱) اقبال کی شاعری تو آب حیات کا خزانہ ہے جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے ابلتے ہیں، جن سے سیراب ہو کر مایوس دلوں کی خشک اور بنجر زمین میں جان پڑ جاتی ہیا ور امید کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے۔ (۲) اقبال کا کلام فلسفیانہ اس معنی میں ہے کہ وہ ایک کلی تصور حیات پیش کرت اہے۔ اس کا موضوع فرقہ اور ملت کی زندگی کا ایک جامع نصب العین ہے جسے ہم فلسفہ تمدن کہہ سکتے ہیں۔ (۳) حالی اور اکبر نے بیمار قوم کا مرض تو تشخیص کر لیا لیکن اس مرض کا سبب نہیں پہچان سکے۔ اکبر نے مسلمانوں کے تنزل کا باعث یہ قرار دیا کہ وہ اپنے مرکز یعنی مذہب سے منحرف ہو گئے۔ اور حالی نے یہ کہا وہ اجتہاد فکر اور وسعت نظر چھوڑ کر تقلید پرست اور تنگ خیال بن گئے۔ مگر دونوں میں سے کسی نے یہ نہ بتایا کہ آخر ان کے مرکز سے منحرف ہونے یا تقلید و تعصب اختیار کر لینے کی وجہ کیا تھی؟ اس وجہ کے معلوم کرنے کے لیے اقبال کی فلسفیانہ نگاہ کی ضرورت تھی۔ اقبال جس کی نظر تاریخ کے ساتھ ساتھ فلسفہ تمدن اور فلسفہ نفس پر بھی عبور رکھتی تھی۔ اس توجیہہ کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک اولو العزم قوم میں جس نے اپنی عظمت و سطوت کا سکہ دنیا پر بٹھا دیا ہو۔ جسمانی تعیش اور کاہلی کی لہر جب تک اس کے اندر روحانی تعیش اور کاہلی کا زہر نہ بھرا ہو ہرگز اس حد تک نہیں پہینچ سکتی کہ اس کے قوائے ذہنی اور عملی کو ماؤف کر دے۔ یہ روحانی تعیش اور کاہلی اقبال کے نزدیک وحدت وجود کے عقیدے پر مبنی ہے جو مسلمانوں میں غیر اسلامی اثرات سے پیدا ہوا جس نے انفرادی نفس کے وجود کو باطل قرار دے کر ان کے دلوں سے فرد کی اخلاقی ذمہ داری کے احساس کو مٹا دیا۔ اور اس طرح مذہب و اخلاق کی جڑ کو کھوکھلا کر دیا۔ اورسعی و عمل کا ذوق فنا کر دیا۔ تصوف کے اثرات کائنات کا موہوم ہونا، نفس انسانی کا بے حقیقت اور زندگی کا بے ثبات ہونا، سعی و عمل کا لاحاصل ہونا وہ خیالات ہیں جو شعر کے میٹھے سروں میں تھکی ہوئی قوم کو لوریاں دے کر سلا دیتے ہیں پھر جب اپنی غفلت کی بدولت وہ دولت و حکومت، قوت و اقتدار کھو بیٹھتی ہے تو یہی دلفریب نغمے جو پہلے صبر و سکون اور کیف و سرور کا سبب ہوتے تھے اپنی قنوت و یاس اور حزن و ملال کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہی ماجرا تھا جو مسلمانوں پر گزرا اور جس نے ان میں بے مرکزی، بے اصولی اور بے عملی پیدا کر دی۔ مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی امراض کا یہی سب سے بڑا سبب تھا جسے حکیم ملت علامہ اقبال نے پہچانا اور جس کے ازالے کی کوشش میں انہوں نے اپنی مسیحائی کی خدا داد قوت صرف کی۔ اس عقیدے کو جو اقبال کے نزدیک ملت اسلامی کے زوال کی حقیقی وجہ ہے وہ نفی خودی کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اثبات خودی کے نظرئیے سے رد کرنا چاہتے ہیں۔ (خودی کے معنی احساس نفس یا تعین ذات ہے غرور نہیں) جس طرح انسانی زندگی کا نقطہ آغاز اپنی خودی کا شعور ہے۔ اسی طرح اس کی منزل مقصود یہ ہے کہ خودی کو روز بروز مضبوط و مستحکم کرتا جائے۔ خودی کے استحکام کی یہی صورت ہے کہ انسان غیر خود سے یعنی اپنے طبعی ماحول سے مسلسل جنگ کرتا رہے۔ یہ اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے لیے نئے نئے مقاصد متعین کرتا ہے اور انہیں حاصل کرنے کی سعی میں سرگرم رہتا ہے۔ اس میں اسے اپنے ماحول میں تصرف کرنا، اپنی راہ سے رکاوٹوں کو دور کرنا اور مشکلات کا مقابلہ کر کے ان پر غالب آنا پڑتا ہے۔ اس طرح اس کی ذہنی اور عملی قوتیں برابر تیز ہوتی رہتی ہیں اور اس کے سینے میں خودی کی آگ روز بروز زیادہ مشتعل ہوتی جاتی ہے اسی سعی پیہم اور جدوجہد مسلسل کا نام زندگی ہے۔ سکون خواہ بہشت کا سکون کیوں نہ ہو۔ روح انسانی کے وحدت کا پیام ہے۔ خودی کیا ہے راز درون حیات خودی کیا ہے بیداری کائنات ازل اس کے پیچھے ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں سے سہتی ہوئی ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے ٭٭٭ خودی کی یہ ہے منزل اولیں مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں تیری خاک اس خاک داں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں بڑھے جا یہ کوہ گراں توڑ کے طلسم زمان و مکاں توڑ کر جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخی فکر و کردار کا ٭٭٭ قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں ٭٭٭ یہ فلسفی شاعر دنیا میں ایک ایسا دل لے کر آیا جو سوز حیات اور درد کائنات سے لبریز تھا اور ایک ایسا دماغ جو زندگی کے اسرار و معارف کا محرم تھا۔ اس نے دنیا کو ایسی حالت میں پایا کہ مشرق خصوصاً اسلامی مشرق جو اب تک خواب غفلت میں مدہوش تھا۔ کسمسا کر کروٹ بدلنا چاہتا ہے۔ مگر غلامی کا قابوس جو اس کے دل و دماغ پر مسلط ہے اسے ملنے نہیں دیتا۔ اقبال جس نے اپنی بیدار مغزی سے ربع مسکون پر اپنا سکہ بٹھا لیا ہے۔ انقلاب کی ان قوتوں سے جوخود اس کے اندر سے ابھر رہی ہیں، ٹکرایا چاہتا ہے اس کا دل کڑھا۔ ایشیا کی بے حسی اور بے بسی پر جو قعر ہلاکت میں گرنے والا ہے اور کچھ نہیں دیکھتا۔ اس نے ایک کی بے عملی اور دوسرے کی بے بصری کے اسباب پر غور کیا اور اس کی حقیقت بین نظر سطحی چیزوں سے گزرتی ہوئی ان تصورات حیات پر جا کر پڑی جن پر ان دونوں تہذیبوں کی بنیادیں قائم ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ایشیا کے قوائے ذہنی کو ماؤف اور اس کے دست عمل کو شل کرنے والا نفی خودی اور نفی کائنات کا فلسفہ ہے۔ اب رہا یورپ تو اس میں شک نہیں کہ اس نے اثبات خودی کی اہمیت کو سمجھ کر میدان عمل میں قدم بڑھایا اور فرد و جماعت کے ربط سے اپنی زندگی کو استوار بنایا۔ لیکن چونکہ اس ربط کی بنیاد کسی عالمگیر روحانی عقیدے پر نہیں بلکہ نسل و وطن کے تنگ مادی نظرئیے پر تھی۔ اس لیے بہت جلد ا سکے اندر انتشار کی قوتیں نمودار ہو گئیں۔ صحیح نصب العین اقبال کے نزدیک اسلام ہے۔ جس نے ایشیا کی روحانیت اور یورپ کی عملیت کو سمو کر دینا کو دین فطرت کی راہ دکھائی۔ مگر گردش زمانہ سے اسلام کے پیرو بھی وحدت وجود کے عقیدے کی بدولت جو نفی خودی اور نفی کائنات کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی غفلت و جمود کا شکار ہو گئے جو ایشیا کی اور قوموں پر طاری تھا۔ اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ یورپ کی ذہنی اور سیاسی غلامی کی زنجیروں میں گرفتار ہو کر ذلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان حقائق کو سمجھنے اور سمجھانے کے بعد اقبال اپنے جاں بخش اور جانفزا نغمہ امید سے ملت اسلامی کو غفلت سے جگاتا ہے تاکہ وہ اس خدمت کو جو خدا نے اس کے سپرد کی ہے پورا کرے اور دنیا کو اس روحانی اور مادی ہلاکت سے جو آج چاروں طرف منڈلا رہی ہے نجات دے۔ اقبال کی نظر مشرق و مغرب میں ایک زبردست سیاسی اور اقتصادی انقلاب کے آثاردیکھتی ہے اور اسے صحیح راہ پر لگانے کے لیے وہ پہلے مسلمانوں کے اور پھر کل اقوام عالم کے قلوب میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنا چاہتاہے۔ وہ دنیا سے اٹھ گیا۔ مگر اس کا پیغام فضائے عالم میں گونج رہا ہے او رگونجتا رہے گا۔ ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) اقبال و شعر فارسی مترجمہ: تمکین کاظمی ایم، آر، اے، ایس آقائے محترم سید محمد علی (داعی الاسلام) پروفیسر نظام کالج حیدر آباد دکن نے شعرائے ہند سے سخندان ایران کو واقف کرانے اور ہندوستان میں فارسی کا اعلیٰ ذوق پیدا کرنے کے لیے ایران کی ایک ادبی اور علمی انجمن جامعہ معارف کی ایک شاخ حیدر آباد میں بھی قائم کی ہے جس کا نام شعبہ جامعہ معارف ہے۔ حیدر آباد کے اعلیٰ فارسی داں حضرات اس کے رکن ہیں اور ہر مہینہ ایک لیکچر ہوا کرتا ہے۔ اپریل ۱۹۲۸ء میں آقائے محترم نے علامہ سر اقبال کی فارسی شاعری پر ایک لیکچر دیا ہے جس کا ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔ ایک اہل زبان فاضل اور ادیب کی رائے محترم علامہ کے متعلق کیا ہے؟ آپ خود دیکھ لیجئے، خوش قسمت ہے ہندوستان کہ اقبال جیسی ہستی نے اس سر زمین پر جنم لیا۔ مادر ہند کو اس پر فخر کرنا چاہیے۔ (تمکین کاظمی) ہماری علمی انجمن (شعبہ جامعہ معارف) فارسی ایران اور ہندوستان کے درمیان واسطہ ادبی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے قدیم اور جدید ادیبوں کو ایک دوسرے سے واقف کرائے۔ گو تمام دنیا کی فارسی کا مرکز ایران ہے مگر ایشیا میں بہت سے ادیب فارسی نظم و نثر میں در افشانی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مرکز (ایمان) ان سے باخبر رہے۔ اس وقت بھی ہندوستان میں ادیبوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے جو فارسی میں شاعری کرتی ہے۔ جامعہ کا فرض ہے کہ ان کا تعارف کرائے۔ چنانچہ مشہور فلاسفر ڈاکٹر سر محمد اقبال اقبال نہ صرف اردو سے اپنے ہموطنوں کے کانوں کو متلذ ذکر رہے ہیں بلکہ تمام ایشیا میں اپنے فارسی نظموں کی دھوم بھی مچا رکھی ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے مدت تک اردو میں شاعری کر کے میں مضامین جدیدہ، فلسفہ حب وطن و حب ملت کا احساس پیدا کرانا چاہا مگر یہ چادر اتنی وسیع نہ تھی کہ اس میں بے تکلفی سے پاؤں پھیلائے جاتے۔ فقط زبان فارسی ہی ایسی زبان تھی جس میں وہ آزادی کے ساتھ اظہار خیال کر سکتے تھے۔ اسی لیے چند سال سے اپنے افکار عالیہ کو فارسی قالب میں ڈھالنا شروع کیا اور اب ’’ طوطی شکر شکن یا بلبل شیراز‘‘ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اقبال کوئی ایسے شاعر نہیں، جو فرضی عشق کا بنا پر گل و بلبل، شمع و پروانہ، قمر و سرو کے مضامین باندھتے پھریں جس سے سامع کو صرف ایک لذت استماعی ہو۔ بلکہ وہ ایک ’’ قائد نطاق دارائے نصب ا لعین ہیں۔‘‘ بلبل اقبال شاہیں کہ مریخ کو شکار کرتا ہے ان کی بوئے گلشن ناہید تک پہنچتی۔ ان کی شمع بزم تمدن عالم کو روشن کرتی اور ان کی قمری سردبستاں کے عوض فراز طوبی پر تجسس معرفت میں کو کو کہتی ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ انسانی حالت سدھرتی جائے وہ بڑھتا جائے۔ ترقیات مادہ کے علاوعہ تجلیات روحانیہ کی طلب بھی ہے اقبال یہ چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان جو روئے زمین پر منتشر ہیں ایک دل ایک جہت ہو جائیں اور علمی، عقلی، روحی ترقی کے میدان میں اغیار کا ساتھ دیں! اقبال کا مقصد تو تمام مسلمانوں سے ہے۔ مگر وہ خصوصیت سے علماء و حکماء کے طبقے کو مخاطب کرتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں ملت کی قیادت ہے اسی لیے وہ فارسی میں شعر کہتے ہیں تاکہ نا محرم کے کانوں تک نہ پہنچ جائیں او رنا اہل دماغ کج فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ چنانچہ ’’ اسرار خودی‘‘ میں فرماتے ہیں: نکتہ ہا چوں تیغ فولاد است تیز گر نمی فہمی ز پیش ما گریز اقبال دور حاضرہ کے بہترین علماء اور تربیت یافتوں میں سے ہیں۔ علوم قدیمہ و جدیدہ سے تفحص حاصل کر کے گنج و انش سے گوہر شاہوار چن کر بازار شاعری میں لا رکھا ہے وہ جو قیمت چاہتے ہیں یہ ہے کہ ’’ مغز بیدار اور‘‘ دل درد مند ملے۔ ’’ زبور عجم‘‘ میں فرماتے ہیں: یا رب درون سینہ دل باخبر بدہ1؎ در بادہ نشہ را نگرم آں نظر بدہ ایں بندہ را کہ با نفس دیگراں نزیست یک آہ خانہ زاد مثال سحر بدہ سلیم مرا بجوئے تنک مایہ مپیچ جولاں گہ بہ وادی و کوہ و کمر بدہ سازی اگر حریف یم بیکراں مرا با اضطراب موج سکون گہر بدہ شاہین من بہ صید نہنگاں گزاشتی ہست بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ رفتم کہ طائران حرم راکنم شکار تیرے کہ نافگندہ فتد کارگر بدہ خاکم بہ نور نغمہ داؤد برفروز ہر ذرہ مرا پرو بال شرر بدہ ہندوستان کے تمام اساتذہ میں ایک ایک خاص رنگ موجود تھا جو ان کے کلام کی خصوصیت رہا ہے۔ اسی طرح اقبال کا رنگ غالب مرحوم کے رنگ سے بہت ملتا ہے۔ غالب نصف صدی قبل اردو اور فارسی کا استاد مانا جاتا تھا۔ اس لئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ غالب کے بعد چشم ہندوستان اقبال کی وجہ سے پر نور ہے۔ کسی قدیم استاد نے اساتذہ کی جانشینی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کو اس طرح ختم کیا ہے کہ: 1؎ محترم آقا نے عموماً ایرانی رسم الخط کا استعمال کیا ہے جو اردو داں طبقہ کے لیے غالباً نئی چیز ہو گا چونکہ یہ طریق کتابت ہمیں بھی مرغوب ہے اس لیے ہم نے بھی نقل کر لی ہے۔ (تمکین) زخسرو چو نوبت بہ جامی رسید بہ جامی سخن را تمامی رسید غالب مرحوم نے اس پر شعر کا اضافہ کیا تھا: ز جامی و عرفی و طالب رسید ز عرفی و طالب بہ غالب رسید اب میں اس پر ان دو شعروں کا اضافہ کرتا ہوں: چو غالب ز ہندوستاں رخت بست بجائے وے اقبال دانا نشست یقیں داں سخن دانی باستاں بماند بہ ہندوستاں جاوداں سوانح اقبال: اقبال نے صرف ترپن مراحل زندگی طے کیے ہیں مگر اب تک کسی نے ان کی سوانح حیات نہیں لکھی۔ وہ ۱۸۷۵ء میں شہر سیالکوٹ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کشمیری الاصل اور درویش مشرب تھے۔ اقبال نے بھی اسی مشرب کا دودھ پیا ہے اور آغوش تصوف و عرفان میں پرورش پائی ہے جس کی وجہ سے وہ باوجود علوم معاشیہ و مادیہ جدیدہ کی تحصیل کے درویشی اور تصوف پر فخر کرتے ہیں۔ چنانچہ بیشتر اشعار نور معرفت و عرفان سے چمک رہے ہیں۔ اقبال نے ابتدائی تعلیم کے بعد مشن کالج سیالکوٹ سے ایف اے کامیاب کیا اور لاہور پہنچ کر گورنمنٹ کالج سے بی اے اور ایم اے کی سند لی۔ جہاں آپ کا سبجیکٹ فلسفہ تھا۔ اسی سبجیکٹ کی تکمیل یورپ میں ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کی اور پھر آکمان (جرمنی) پہنچ کر امتحان فلسفہ الٰہی ایران دیا اور ڈاکٹریٹ ہو کر وطن واپس آئے چنانچہ اب تک پنجاب ہی میں بیٹھ کر اہل وطن کی خدمت کر رہے ہیں۔ شعر اردو: اقبال یورپ جانے سے پہلے اور واپسی کے بعد بھی اردو شعر کہا کرتے تھے اور حالی اور اکبر کی طرح برادران وطن کی خدمت اسی زبان کے ذریعے سے کرتے۔ جب انہیں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ مسمان ہیں اور مسلمانوں کا وطن صرف ہندوستان نہیں بلکہ تمام دنیا ہے تو انہوں نے فارسی میں شاعری شروع کی تاکہ ہندوستان کے علاوہ دوسرے مقامات کے مسلمانوں کے کان تک ان کی آواز پہنچ سکے۔ چنانچہ اسرار خودی کے دیباچہ میں وہ خود لکھتے ہیں: گرچہ ہندی در غدوبت شکر است طرز گفتار دری شیریں تر است فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامہ من شاخ نخل طور گشت پارسی از رفعت اندیشہ ام در خور و با فطرت اندیشہ ام اقبال کے وطنی اشعار کا مقابلہ اگر ایران کے مشہور شعرائے وطنی عارف و بہار سے کی اجائے تو چنداں نازیبا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اقبال اگر ایران میں ہوتے اور فارسی زبان میں وطنی شعر کہتے تو وہ وہاں کے مشہور اساتذہ کی صف میں جگہ پاتے۔ میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اقبال کے اردو وطنی اشعار نے مجھے جس قدر متاثر کیا اس قدر ایران کے جدید شعرا کے اشعار نے نہیں کیا۔ اسرار خودی: اقبال کی پہلی کتاب جو فارسی میں لکھی گئی ’’ اسرار خودی‘‘ ہے جو مولانائے روم کی تقلید میں لکھی گئی ہے اس کی بحر بھی وہی رمل مزاحف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) ہے اور مضامین بھی مثنوی معنوی کی طرح فلسفہ اور تصوف کے ہیں۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ مولنائے روم اپنے زمانے کے صوفی اور فلاسفر تھے اور اقبال عصر موجودہ کے عارف اور فلاسفر ہیں۔ مولنا وسط قرن ہفتم ہجری میں تھے انہوں نے مسلمانوں کو خود پرستی اور عشرت پسندی میں مبتلا اور چنگیزیوں کو ان کے قتل اور غارت کرنے پر آمادہ دیکھا اور لوگوں کی اصلاح ترک خود پرستی تصور کر کے اپنی پوری مثنوی میں بیخودی اور فنا کی تعلیم دی۔ اقبال اس زمانہ میں ہیں جبکہ مسلمان سست، کاہل اور سعی عمل سے روگردان ہیں اور قافلہ تمدن کے بہت پیچھے جوہر انسانیت سے بے خبر ترقیات تمدنیہ سے مایوس اور پچیس سلطنتوں کو کھو کر صرف تین سلطنتوں پر قابض ہیں اور یہ بھی متزلزل اور دل عاشق کی طرح لرزاں چار سو ملین مسلمانوں میں سے صرف پچاس ملین آزاد ہیں اور باقی غیر مسلم ہاتھوں میں پھنسے ہوئے۔ اس صورت میں ایک مسلمان اعلیٰ تعلیم اور تربیت پا کر کس قسم کا صوفی بنتا؟ سوائے اس کے کہ اسرار خودی بیان کرے اور ثابت کر دکھائے کہ تمام ترقیات جسمانی و روحانی کا دار و مدار خودی کی نشوونما پر ہے۔ مولانا روم فرماتے ہیں: عقل جزوی عشق را منکر بود گرچہ بنماید کہ صاحب سر بود زیرک و دانا است امانیست نیست نا فرشتہ لا تشد اہریمنی است اور اقبال فرماتے ہیں: چوں حیات عالم از زور خودی است پس بقدر استواری زندگی است قطرہ چوں حرف خودی از برکند ہستی بے مایہ را گوہر کہند بادہ از ضعف خودی بے پیکر است پیکرس منت پذیر ساغر است اب بحث صرف یہ ہے کہ تصوف کو اسلام میں مرتب و مدون ہوئے بارہ سو سال ہوئے۔ شعرائے فارسی نے بیخودی اور فنا کو اصول تصوف قرار دیا ہے۔ کیا علامہ اقبال کا فلسفہ خودی تصوف کے علاقہ مندوں کو دل تنگ نہیں بنا رہا ہے؟ اولیائے ملت مثلاً سنائی، عطار، رومی، حافظ وغیرہ کی توہین نہیں ہو رہی ہے؟ اس میں شک نہیں کہ ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد ایک صوفیانہ شورش ضرور پیدا ہو گئی اور اقبال کو بعض ایسے اشعار جو حافظ کی تردید میں تھے دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دینے پڑے۔ مگر انصاف یہ ہے کہ اقبال حق پر تھے۔ اس لیے کہ مسلمان بیخودی کی تعلیم سے گمراہ ہو چکے تھے اور میدان عمل سے ہٹ کر ترک دنیا کر کے ذلیل ہو گئے تھے۔ مسئلہ تعلیم بیخودی بھی مسئلہ تقدیر کی طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ ڈاکٹر اقبال نے اس طرح اصلاح کی کہ بیخودی موہوم ہے اور خودی حقیقت۔ مگر اس میں صرف نزاع لفظی ہے۔ کیونکہ خودی کی ترقی خود عین بے خودی ہے۔ کیونکہ اگر دانہ خودی کا خیال رکھے تو پودا نہ ہو اور اگر پودا خودی میں غرق رہے تو درخت نہ بن سکے۔ خودی پر عامل ہونا عین بیخودی ہے اور اہل فلسفہ و تصوف نے انسانوں کو جوہر قابل ترقی سمجھ کر ترقی خودی کی تعلیم بھی دی ہے۔ حافظ کہتے ہیں: سالہا دل طلب جام جم از ما میکرد انچہ خود داشت ز بیگانہ تمنا میکرد مضمون اسرار خودی: اس کتاب میں ۸۲۰ شعر ہیں۔ شاعر کا مقصد اہمیت خودی اور ترقی شخصیت و احساسات قلبیہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ ترقی کی راہ میں تمام مظاہر مادی کو اپنے آپ میں جذب کر کے اپنی شخصیت کو اعلیٰ بنائے اور خلیفتہ اللہ بنے۔ اس صورت میں چاہیے کہ عشق و محبت بھی پیدا کر لے تاکہ مادی موانع سے مغلوب نہ ہو سکے اور فعالیت و شوق کوشش و عمل پیدا ہو جائے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ منازل سلوک میں زحمت سوال نہ کرے کیونکہ گدائی سستی ہے اور خودی کی ضد خودی عین سعی و عمل ہے۔ تربیت خود کے لیے چار مراحل ہیں: ۱۔ اطاعت ۲۔ فرائض ۳۔ ضبط نفس ۴۔ نیابت الٰہیہ ’’ اصل نظام عالم از خودی است‘‘ میں اقبال فرماتے ہیں: پیکر ہستی نہ آثار خودی است ہر چہ می بینی ز اسرار خودی است صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیدا ست از اثبات او میکشد از قوت بازوئے خویش تا شود آگاہ از نیروئے خویش عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی خلق و تکمیل جمال معنوی حسن شیریں عذر درد کوہکن ناقہ اے عذر صد آہوئے ختن چوں خودی آروبہم نیروئی زیست می کشاید قلزمی از جوئی زیست ’’ حیات خودی از تولید مقاصد‘‘ میں فرماتے ہیں: زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو ہنگامہ آرا مے خودی موج بے تابی ز دریائے خودی آرزو صید مقاصد را کمند دفتر افعال را شیرازہ بند ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم ’’ خودی از عشق و محبت استحکام پذیرو‘‘ میں فرماتے ہیں: نقطہ نوری کہ نامم او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر فطرت او آتش اندوزد ز عشق عالم افروزی بیا موز و ز عشق عشق را از تیغ و خنجر باک نیست اصل عشق از آب و باد و خاک نیست لشکری پیدا کن از سلطان عشق جلوہ گر شو بر سر فاران عشق تا خدائے کعبہ بنو ازو ترا شرح1؎ انی جاعل سازد ترا ’’ خودی از سوال ضعیف می گردد‘‘ کے تحت فرماتے ہیں: فطرت۶ی کو بر فلک بندد نظر پست می گردد ز احسان دگر ماہ را روزے رسد از خوان مہر داغ بر دل دارد از احسان مہر وائے بر منت پذیر خوان غیر گردنش خم گشتہ از احسان غیر خویش را از برق لطف غیر سوخت با پشیزی مایہ غیرت فروخت ’’ چوں خودی از عشق محکم گردد توائے ظاہرہ و مخفیتہ عالم را مسخر می سازد‘‘ سنیے: از محبت چوں خودی محکم شود توتش فرماندہ عالم شود در خصومات جہاں گردد حکم تابع فرمان او دارا وجم پنجتہ او پنجہ حق می شود ماہ از انگشت او شق می شود حقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ و مذمت شاعرانی کہ مردم رابہ بیخودی و موہامات میخوانند ملاحظہ کیجئے: 1؎ انی جاعل فی الارض خلیفہ وائے قومی کز اجل گیرد برات ساغرش و ابوسد1؎ از ذوق حیات نغمہ ہائش از دلت دز دو ثبات مرگ را از سحر او دانی حیات دیرم اندیشہ انداز و ترا از عمل بیگانہ می سازد ترا خواب را خوشتر ز بیداری شمرد آتش ما از نفسہایش فسرد از خم و مینا و جامش الحذر از می آئینہ فامش الحذر ’’ تربیت خودی راسہ مرحلہ است۔ اطاعت و ضبط نفس و نیابت الٰہیہ‘‘ مرحلہ اول دیکھئے: خدمت و محنت شعار اشتر است صبر و استقلال کار اشتر است مست زیر بار محمل میرود پائے کوباں سوئے منزل میردد توہم از بار فرائض سر متاب بر خوری از عندۂ حسن المآب ’’ ضبط نفس‘‘ نفس تو مثل شتر خود پرور است خ ود پرست و خود سوار و خود سر است مرد شو آور زمام او بکف تا شوی گوہر اگر باشی خزف ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں میشود فرماں پذیر از دیگراں اہل قوت شو ز ورد یا قوی تا سوار اشتر خاکی شوی ’’ نیابت الٰہیہ‘‘ در شتر بانی جہاں بانی کنی زیب سر تاج سلیمانی کنی تا جہاں باشد جہاں آرا شوی تاجدار ملک لا یبلی شوی نایب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است نایب حق ہم چوجان عالم است ہستی او مثل اسم اعظم است 1۔ وابو سیدن روبرو گردانیدن۱۲ اے سوار اشہب دوراں بیا اے فروغ دیدۂ امکاں بیا شورش اقوام را خاموش کن نغمہ خود ر ابہشت گوش کن خیز و قانون اخوت سازدہ جام صہبائے محبت بازدہ ترتیب کتاب: طرز کتاب اور ادائے مطلب مثنوی معنوی کا سا ہے۔ مطالب حکایات و قصص سے مربوط ہیں اور کتاب کے ابواب مقرر نہیں کئے گئے ہیں۔ اس قسم کی مثنوی کا موجد حکیم سنائی ہے۔ حدیقہ اور دوسری مثنویات میں عطار اور رومی، جامی وغیرہ نے اسی کی تقلید کی ہے۔ اب تک ایران میں شعرا واردات قلبیہ کو اسی مثنوی میں ادا کرتے ہیں۔ مثنوی گویان متاخرین میں ملا احمد زاقی صاحب ’’ طاقدیس‘‘ (۱۲۰۰ھـ) عمان اصفہانی صاحب ’’ گنجینہ اسرار‘‘ (اوائل قرن چہار دہم) صفی علی شاہ صاحب ’’ زبدہ اسرار‘‘ و’’ بحر الحقائق‘‘ (اوائل قرن چہار دہم) مشہور ہیں۔ اسلوب شعر: اسرار خودی کا طرز ادا اور اسلوب بیان وہی ہے جس کو ایرانی اسلوب ہندی کہتے ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ اسلوب ہندوستان سے مخصوص نہیں بلکہ شعرائے متوسطین کا اسلوب بھی یہی ہے جو سلطنت تیموریہ و صفویہ کے زمانہ میں ہندو اور ایران دونوں جگہ رائج تھا۔ متاخرین کے ابتدائی دور سے ایران میں متروک ہو گیا مگر ہندوستان میں اب تک باقی ہے۔ مثنوی اقبال کا اسلوب ان کے معاصر صفی علی شاہ وغیرہ میں نہیں بلکہ عرفی و بیدل، نظیری و ظہوری کی مثنویوں میں پایاجاتا ہے۔ اس زمانہ کے ایرانی مثنوی گو شعراء شیخ عطار و جلال الدین رومی وغیرہ کی تقلید میں واضح شعر کہنے لگے ہیں۔ ان کی نظر سادگی اور فصاحت پر پڑتی ہے۔ متوسطین بلاغت پر مٹے ہوئے تھے اور علماء کے لیے شعر کہتے تھے تاکہ وہ (علمائ) ان کے شعر سمجھ سکیں۔ اقبال نے اپنی مثنوی خاص لوگوں کے لیے کہی ہے اور یہ مثنوی اس طبقہ میں پسند بھی کی گئی ہے۔ اگر وہ صفی علی شاہ کی طرح اپنی قلبی واردات کو واضح اور عام فہم زبان میں ادا کرتے تو وہ اقبال جو آج صرف تعلیم یافتہ طبقہ کی نظروں میں مجدد ہیں عوام اور زاہدان خشک کی نظروں میں کافر و ملحد بن جاتے! ابتدائے قرن یا زدہم میں (زمانہ شہنشاہ اکبر) ایران میں دو فلاسفر تھے جن کی تصانیف پر ہم آج فخر کرتے ہیں۔ ایک کا نام میر باقر داماد اور دوسرے کا صدر الدین شیرازی تھا۔ صدر الدین میر باقر کے شاگرد تھے مگر اپنے زمانہ کے استاد میر داماد کی تصانفی مغلق اور بعید الفہم ہیں جو فقط علماء کی سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ لیکن ملا صدر کی تمام کتابیں واضح اور صاف ہیں اسی وجہ سے تمام فقہاء وغیرہ نے ان کی تکفیر کی۔ مگر میر داماد کو سب لوگ مرد مقدس سمجھتے رہے۔ ایک دفعہ ملا صدر نے اپنے استاد (میر داماد) سے کہا ’’ میں نہیں سمجھتا کہ فقہاء نے کیوں میری تکفیر کی درآنحالیکہ میں نے جو کچھ سیکھا آپ سے سیکھا میرا اور آپ کا اصول اور فلسفہ ایک ہی ہے۔‘‘ میر داماد کہنے لگے: ’’ وجہ یہ ہے کہ میرے مطالب صرف علماء متبحر سمجھتے ہیں اور بس اور تمہاری وضاحت نے نامحرموں کو بھی واقف اسرار بنا دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اچھل پڑے۔‘‘ متقدمین اور متوسطین کے اسلوب کو ظاہر کرنے کے لیے ایک حکایت مثنوی مولٰنائے روم سے اور ایک اسرار خودی سے نقل کی جاتی ہے تاکہ فرق معلوم ہو سکے۔ اقبال کے اکثر اشعار میں تشبیہات اور استعارات موجود ہیں اور اس کے برعکس مولٰنائے ادائے مطلب اور وضاحت کی کوشش کی ہے۔ اگر کبھی تشبیہہ یا استعارہ آ بھی جاتا ہے تو ضمناً وہ بھی اس درجہ تک تعقید نہ ٹھہرے۔ ’’حکایت رفتن عاشق نزد معشوق‘‘ (از مثنوی معنوی) آں یکے عاشق بہ پیش یار خود می شمرد از خدمت و اذکار خود کز برائے تو چنیں کردم چناں تیرہا خوردم دریں رزم و سناں مال رفت و زور رفت و نام رفت برمن از عشقت بسے ناکام رفت ہیچ صبحم خفتہ یا خنداں نیافت ہیچ شامم با سرد ساماں نیافت ہرچہ او نوشیدہ بود از تلخ و درد در حضور او یکایک می شمرد نز برائے نیتی بل می نمود بر درستی محبت صد شہود عاقلاں را یک اشارت بس بود عاشقاں را تشنگی زاں کے رود صد سخن میگفت زاں درد کہن در شکایت کہ نگفتم یک سخن آتشی بودش نمی دانست چیست لیک چوں شمع زتف او میگریست بعد گریہ گفت اینہا رفت لیک ایں زماں ارشاد کن تو یار نیک ہرچہ فرمائی بجاں استادہ ام برخط تو پا و سر بنہادہ ام گر در آتش رفت باید چوں خلیل وچوں یحییٰ می کنی خونم سبیل وزچو یوسف چاہ و زنداں نم کنی وزز فقرم عیسی مریم کنی رخ نہ گردانم نہ گردم از تو من بہر فرمان تو دارم جان و تن گفت معشوق ایں ہمہ کر دی ولیک گوش بکشا پہن اندر یاب نیک کانچہ اصل اصل عشق است و ولا است آں نہ کر دی آنچہ کر دی فرعہا است گفت آں عاشق بگو آں اصل چیست گفت اصلش مردن است نیستی است ایں ہمہ کر دی نہ مردی زندہ ای ہاں بمیر اریار جاں با زندہ ای کزبمیری زندگی یابی تمام نام نیکوئے تو ماند تا قیام ’’ حکایت نوجوانے از مروکہ پیش علی ہجویری آمد‘‘ (از اسرار خودی) سید ہجویر مخدوم امم مرقد او پیر سنجر1؎ را حرم بند ہائے کوہسار آں گسیخت در زمین ہند تخم سجدہ ریخت عہد فاروق از جمالش تازہ شد حق ز حرف او بلند آوازہ شد خاک پنجاب از دم او زندہ گشت صبح ما از مہر او تابندہ گشت داستانی از کمالش سر کنم گلشنی در غنچہ مضمر کنم نوجوانی قامتش بالا چو سرو وارد لاہور شد از شہر مرو رفت پیش سید والا جناب تار باید ظلمتش را آفتاب گفت محصور صف اعدا ستم درمیان سنگہا مینا ستم بامن آموز اے شہ گردوں مکاں زندگی کردن میان دشمناں پیر دانائی کہ در ذاتش جمال بستہ پیمان محبت با جلال گفت اے نا محرم از راز حیات غال از انجام و آغاز حیات فارغ از اندیشہ اغیار شو قوت خوابیدہ ای بیدار شو سنگ چوں بر خود گمان شیشہ کرد شیشہ گردید و شکستن پیشہ کرد تاکجا خود را شماری ما وطیں از گل خود شعلہ طور آفریں ہر کہ دانائے مقامات خودی است فضل حق داند اگر دشمن قوی است سنگ رہ آب است اگر ہمت قوی است سیل را پست و بلند جادہ چیست سنگ رہ گردو فساں تیغ عزم قطع منزل امتحان تیغ عزم مثل حیواں خور دن آسودہ چہ سود گر بخود محکم نہ ای بودن چہ سود خویش را چون از خودی محکم کنی تو اگر خواہی جہاں برہم کنی زبان: اسرار خودی کی زبان ایسی ہے جیسی کہ ہندوستان کے اور لوگ لکھتے ہیں۔ ایرانی فارسی سے (جو فی الحال رائج ہے) چنداں متغائر نہیں۔ البتہ بعض مخصوص ہندی الفاظ ضرور استعمال ہوئے ہیں جو آج کل ایران میں ان معنی میں استعمال 1؎ پیر سنجر سے مراد خواجہ معین الدین چشتیؒ ہے۔ آپ مرقد ہجویری کی زیارت کو تشریف لے گئے تھے۔ ۱۲ نہیں ہوتے۔ ایک قرن پہلے ادبائے ہند نے اپنی فارسی کو ایرانی فارسی بنانے کی کوشش کی تھی۔ سراج اللغات اور چراغ ہدایت میں خان آرزو نے مصطلحات ایران کو جمع کیا۔ ٹیک چند بہار نے بہار عجم میں بھی یہی کوشش کی مگر اب ادبائے ہند نے ایران نے تعلق ادبی قطع کر لیا ہے اور قدیم کتابوں سے الفاظ لے رہے ہیں۔ چونکہ بعض فارسی الفاظ نے اردو میں پہنچ کر معنی بدل دیے ہیں اس لیے وہ ان الفاظ کو فارسی میں بھی استعمال کرتے ہیں تو انہیں معنی کے لحاظ سے جو اردو میں ان الفاظ کے تھے۔ 1؎ مگر ڈاکٹر اقبال کی فارسی اس قدر اجنبی نہیں جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔ اب ہم اسرار خودی کو ختم کر کے دوسری کتاب یعنی ’’ رموز بیخودی‘‘ پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں: رموز بے خودی: اسرار خودی کی تصنیف کے بعد یہ خیال ہوا کہ شاید بعض کم استعداد یہ نہ سمجھ لیں کہ لوگوں کو خود پسندی اور نفس پرستی کی دعوت دی گئی ہے اور ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے نفع کی فکر کرے اور دوسرے کے وجود کو بھی اپنی شخصیت میں جذب کر لے۔ اس احتمال نے رموز بیخودی کے لکھنے کا خیال پیدا کیا اور پھر (رموز بیخودی کے ذریعہ) یہ تعلیم دی گئی کہ خودی کی ترقی کے لیے تمام سعی و عمل جو کیا جاتا ہے وہ بیخود ہونے اور ملت میں محو ہو جانے کے لیے ہے۔ جس ملت کے افراد و اجزاء کامل ہوں وہ ملت کامل ہے۔ رموز بیخودی میں ایک ہزار چھہتر شعر ہیں اور اس کی ترتیب بھی اسرار خودی کی سی ہے اور اسلوب بیان طرز ادا وغیرہ بھی بالکل وہی۔ مضامین: ڈاکٹر اقبال نے اس کتاب میں فرد کا تعلق ملت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ ملت اختلاط افراد سے بنتی ہے اور اس کی تکمیل و تربیت نبوت سے ہوتی ہے اور ارکان اساسی ملیہ توحید و نبوت ہے۔ ڈاکٹر موصوف نے ثابت کیا ہے کہ یاس و حزن اور خوف و خبائث۔ حیات فردی اور اجتماعی وک قطع کرتے ہیں فقط عقیدہ توحید ان خبائث کا دافع ہے۔ ان کے ارکان و اثبات حکایات کے ذریعہ سمجھائے گئے ہیں ’’ ربط فردبہ ملت‘‘ کے متعلق فرماتے ہیںـ: فرد را ربط جماعت رحمت است جوہر او را کمال از ملت است تا توانی با جماعت یار باش رونق ہنگامہ احرار باش فرد میگیرد ز ملت احترام ملت از افراد می یابد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود 1؎ آقائے محترم نے اپنی کتاب ’’ فارسی جدید‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور ایک فارسی لغت بھی مرتب و مدون فرمایا ہے جس میں قدیم و جدید الفاظ اور ان کے ماخذ اور معنی موجود ہیں۔ اس لغت کی طباعت سرکار آصفیہ کے پیش نظر ہے۔ امید ہے کہ ہز اکسلنسی مہاراجہ بہادر سریمین السلطنت صدر اعظم باب حکومت کے اجلاس سے اس لغات کی طباعت کے متعلق عنقریب حکم صادر ہو گا۔ (تمکین) فرد تنہا از مقاصد غافل است قوتش آشفتگی را مائل است قوم با ضبط آشنا گرد اندش نرم رو مثل صبا گرد اندشیں ’’ملت از اختلاط افراد پیدامی شود‘‘ مرد ماں خوگر بہ یک دیگر شوند سفتہ در یک رشتہ چوں گوہر شوند در نبرد زندگی یارہم اند مثل ہمکاراں گرفتار ہم اند محفل انجم ز جذب باہم است ہستی کوکب ز کوکب محکم است ’’ارکان ملت اسلامیہ‘‘ (رکن اول توحید) درجہان کیف و کم گردید عقل پے بمنزل برد از توحید عقل ملت بیضا تن و جان لا الٰہ ساز ما را پردہ گرداں لا الٰہ چوں مقام عبدۂ محکم شود کاسہ در یوزہ جام جم شود باوطن وابستہ تقدیر امم بر نسب بنیاد تعمیر امم ملت ما را اساس دیگر است ایں اساس اندر دل ما مضمر است تیر خوش پیکان یک کیشیم ما یک نما یک بیں یک اندیشیم ما یہ چند شعر رموز بیخودی سے نمونتاً لیے گئے ہیں۔ ان سے شاعر کا مقصد یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع ایک قرن پہلے سے تمام بلاد اسلامیہ میں محل بحث تھا۔ مشہور مسلمان فلاسفر سید جمال الدین و شیخ محمد عبدہ رئیس جامعہ ازہر مصری و میرزا آقا خان کرمانی اس میں در افشانی بلکہ جانفشانی کرتے رہے۔ اس اکھاڑے کا سب سے زبردست پہلوان عبدالحمید خاں عثمانی تھا۔مگر اقبال نے اس موضوع کو اپنے مخصوص فلسفہ سے نہایت اہم اور مدلل بنا دیا۔ اتحاد اسلام: ابتدائے اسلام سے جو قوم بھی مسلمان ہوتی وہ مسلمان اقوام سے اس طرح مل جاتی کہ تمام دنیا کے مسلمان اس سے برادرانہ راہ و رسم پیدا کر لیتے ۔ اگرچہ خلافت امویہ کے زمانہ میں عربوں نے یہ کوشش کی کہ مناط ملیت عربستان کو قراردادیںلیکن خلافت عباسیہ کے زمانے میں پھر اخوت اسلامیہ کی تجدید ہوئی۔ اگرچہ چند علماء شعوبی وغیرہ نے زمزمہ فضیلت نسلی و ملی گنگنانا شروع کیا اور غیر اعراب یعنی ایرانیوں کو افضل سمجھنے لگے اور آیہ شریفہ ’’ وجعلنا کم شعوبا و قبائل‘‘ کی تاویل اس طرح کرنا شروع کیا کہ شعوب سے مقصد ملل اعجام ہے۔ چونکہ قبائل اعراب سے شعوب مقدم آیا ہے۔ اس لیے وہع ربوں سے افضل ہیں۔ یہ لوگ تھوڑے ہی عرصہ میں تعلیم اسلام سے برگشتہ ہو گئے جو مساوات ملل تھی اور تقویٰ فضیلت کا، اور (ان اکرمکم عند اللہ اتقکم) یورپ میں بھی مدار ملت کلیسا تھا نہ کہ حدود وطن اور زبان۔ جنگ نپولین کے بعد دشمنوں نے اس کی فتوحات کو ادھورا قرار دینا اور مدار طیت وطن اور زبان مقرر کرنا چاہا اور ہر وطنی کے لیے حق حکومت مہیا کرنے لگے۔ لیکن اسی زمانہ میں مسلمانوں کا جو زیادہ تر مشرق میں تھے کوئی اثر باقی نہ تھا اور سلطنت اسلامیہ بھی روبہ زوال نظر آ رہی تھی چند مسلمان فلاسفروں نے مسلمانوں کی ضعف اور سستی کے ان د فاع کے لیے جو نسخہ تجویز کیا اس کے اجزائے اعظم ہیجان اور اتحاد باہمی تھے۔ سلطان عبدالحمید خاں علمدار بنائے گئے کیونکہ سلطنت ترکیہ بہت ضعیف ہو گئی تھی اور یورپ کے پنجہ میں پھنس رہی تھی۔ سلطان نے بھی اسی میں اپنی بہتری دیکھ کر کوشش شروع کی۔ اسی زمانہ میں ناصر الدین شاہ کے مظالم قویٰ ایران کو تحلیل کر رہے تھے اور ایرانی بھی اس آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہو گئے۔ خصوصاً سید جمال الدین و میرزا آقا خان کرمانی وغیرہ نے سعی بلیغ شروع کی میں نے بھی ایران کے بازاروں میں عوام کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ ہمارا بادشاہ اور نگہبان سلطان عبدالحمید ہے۔‘‘ مگر چند ہی روز کے بعد کایا پلٹ گئی۔ سید جمال الدین نہایت ہی ذلت کے ساتھ ایران سے نکالے گئے۔ میرزا آقا خان نے بھی اپنی جان دی اسی زمانہ میں سلطنت ایران مشروط ہو گئی اور عبدالحمید خاں بھی علیحدہ کئے گئے اور ترکی میں بھی مشروط دور شروع ہوا۔ ایرانیوں اور ترکیوں نے آہستہ آہستہ یورپین اصول تمدن و سیاست کو قبول کرنا شروع کیا اور مدار ملیت وطن قرار دیا گیا۔ ترکوں نے وطن پرستی کو اس قدر اہمیت دی کہ عزت خلافت سے بھی دست بردار ہو گئے۔ آج کل ہر ایرانی کہتا ہے کہ ’’ میں ایرانی ہوں‘‘ اور اس طرح ہر ترکی کہ میں ترکی ہوں۔ چند سال پہلے ’’مجلس شوریٰ ملی‘‘ میں ایک مدرس نے جو اس مجلس کارکن ہونے کے علاوہ مجتہد بھی ہے کہا ’’ ہم ایرانی ہیں، جو شخص ہماری اجازت کے بغیر ہمارے وطن میں قدم رکھے ہم اسے مار ڈالیں گے اور مارنے کے بعد دیکھیں گے کہ کون ہے اگر مختون (مسلمان) ہو تو دفن کر دیں گے۔‘‘ ایرانیوں نے اپنی نسل اور اپنے وطن کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ ایک فاضل ایرانی (آقا سید احمد کبیر) نے تو چند ماہ قبل مجلہ ’’ آئندہ‘‘ طہران میں ایک تاریخی مقالہ بھی لکھ مارا کہ ’’ سلاطین صفویہ سید نہیں تھے بلکہ ان کی رگوں میں سیروس و دار یوش کا خون تھا۔ ان کی سلطنت (مسلمان نہیں بلکہ) خالص ایرانی شمار ہونی چاہیے۔‘‘ تعجب یہ ہے کہ مقالہ نگار (احمد کبیر) خود سید ہے! اتحاد اسلام بالکل مٹ گیا ہے۔ تمام مسلمان لیڈر فقط وطن پرستی کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں البتہ اتحاد اسلام کا خیال چند لیڈروں کو ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے اتحاد اسلام کا خیال اس وقت کیا ہے جبکہ تمام مسلمان اس سے ہاتھ اٹھا چکے تھے۔ وہ خود یورپ جانے سے پہلے اور لوٹنے کے بعد1؎ بھی وطن پرست تھے اردو اشعار اسی وطن پرستی کے گواہ ہیں۔ اس وقت وہ ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا کہتے تھے مگر اب مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا کہتے ہیں مگر افسوس ہے کہ دونوں آرزوئیں پوری ہونے والی نہیں۔ نہ تو ہندوستان ہی ہمارا ہے اور نہ سارا جہان ہی! 1؎ لوٹنے کے بعد نہیں (ایڈیٹر) اقبال کے قیام لندن (۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ئ) کے زمانہ میں ایک انجمن اتحاد اسلام قائم تھی۔ ممکن ہے کہ اس انجمن نے اقبال پر اثر کیا ہو اور انہوں نے اپنے فلسفہ اور زبان سے پھر قائدان اسلام کو نسل و وطن پرستی سے ہٹا کر اتحاد اسلام کی طرف لانے کا ارادہ کر لیا ہو۔ دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ اقبال ہندی مسلمان ہیں اور مسلمانان ہند کی بقا بیرونی مسلمانوں سے ربط و ضبط اور تعلق پر منحصر 1؎ ہے۔ بدنصیبی سے ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں نے مآل اندیشی نہیں کی اور یہ خیال کر لیا کہ ان کی سلطنت ہمیشہ ہندوستان میں رہے گی۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کی اکثریت کی طرف توجہ نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب سلطنت اسلامیہ کا خاتمہ ہو گیا تو مسلمان خود کو اقلیت محسوس کرنے لگے اور ان کو یہ خوف پیدا ہوا کہ مبادا ہم مسلمان اندلس کی طرح پس جائیں۔ ان لوگوں کے خوف کو جو چیز زائل کر سکتی تھی وہ باہر کے مسلمانوں سے مستقل تعلق تھا۔ اسی لیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان تمام مسلمانان عالم کے غمخوار ہیں اور ہر مصیبت اور آفت میں جلسے کر کر کے چندے فراہم کرتے رہتے ہیں! ایسی حالت میں ایک فلاسفر (اقبال) پیدا ہوتا ہے اور اپنے فلسفہ سے تمام مسلمانان عالم میں اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کا اثر ہندوستان ہی تک محدود رہتا ہے یا دوسرے اسلامی ممالک کو بھی اتحاد کے لیے بلاتا ہے اگرچہ سیاست نے مسلمانوں کے دلوں کو ماؤف کر دیا ہے اور وہ فتراک وطن پرستی میں بندھے نظر آتے ہیں۔ لیکن اقبال چاہتے ہیں کہ انہیں فتراک سے چھڑائیں اور اپنے فلسفہ سے ان کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیں! یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ان کی کتاب سے متاثر ہوتا۔ ان کے افکار اور اسرار کو ’’ الہامی‘‘ تصور کرتا ہے کوئی نہیں جانتا کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا! ممکن ہے کہ قائدان اسلام اس کی یہی تفسیر کرنے لگیں اور اتحاد اسلام پیدا ہو۔ اس وقت ہم اقبال کو ایک ’’ ولی ملہم‘‘ یا’’ پیغمبر سیاسی‘‘ سمجھیں گے۔ اتحاد اسلام کی امید ابھی باقی ہے کیونکہ اب تک تو تمام مسلمان دعا کرتے ہیں کہ ’’ اللھم اغفر للمسلمین والمسلمات‘‘ ہندوستانی نہیں کہتے کہ ’’ اللھم اغفر لمسلمی الہند‘‘ اور ایرانی ’’ اللھم اغفر للایرانین‘‘ یا ترکی ’’اللھم اغفر للاتراک‘‘ نہیں کہتے۔ میری دانست میں ترکوں اور ایرانیوں کی نسل پرستی عملی نہیں کیونکہ ان کے مسلمان ہونے کے بعد ’’ مزاوجہ بین الملی‘‘ مہاجرت اور نسلوں کے غالب و مغلوب ہونے کی وجہ کوئی بھی محفوظ نہیں۔ کوئی ایرانی اپنے آپ کو صحیح النسب زردشتی کہہ سکتا ہے اور نہ ترک یا عرب۔ اور نہ دوسری قوم ہی ایسا دعویٰ کر سکتی ہے جو شخص بھی ایران میں پیدا ہوا ایرانی ہے چاہے اس کا باپ کہیں سے کیوں نہ آیا ہو۔ مگر چند پشت کے بعد اس کی نسل یاد ہی نہ رہے گی۔ اس سے سادات مستثنیٰ ہیں کیونکہ وہ اپنے نسب کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ایک ایرانی آج فخر کرتا ہے کہ میری رگوں میں ایرانی اجداد کا خون ہے اور اسی طرح ایک ترکی کو بھی فخر ہے کہ میری رگوں میں ترکی لہو ساری ہے ۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ وہی ایرانی ترک کی نسل سے ہو اور ترکی ایرانی النسل ہو۔ اسلام سے قبل تمام ملل گرفتار تعصب نسلی تھے اور ہر ایک دوسرے کو اپنے سے گھٹا ہوا سمجھتا تھا۔ مگر اسلام نے نسلوں کو مساوی اور بنی آدم کو باہم بھائی قرار دیا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی اسلام کے پیرو آج پھر جاہلیت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ فریضہ افراد ترقی ملکی ہے اور اس کے لیے 1؎ افسوس ہے کہ ہمیں آقائے محترم کے اس خیال سے مطلق اتفاق نہیں انشاء اللہ کسی آئندہ فرصت میں اس پر روشنی ڈالیں گے۔ (تمکین) تعصب نسلی اور ترجیح طبیعی کی ضرورت نہیں۔ بنی آدم اعضائے یک دیگراند کہ در آفرینش ز یک گوہر اند پیام مشرق: ڈاکٹر اقبال کی تیسری تصنیف’’ پیام مشرق‘‘ ہے جو امیر امان اللہ خاں شاہ افغانستان کے نام سے مخصوص و مزین ہو کر ہندوستان کے فارسی داں ادیبوں کے حلقے میں کافی شہرت حاصل کر چکی ہے۔ اس میں قطعات، رباعیات اور غزلیات ہیں جو مشہور آلمانی (جرمنی) شاعر گویتھے کی تتبع میں کہے گئے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب گویتھے خود مقلد اور مشرقی شاعری کا متبع تھا تو اقبال جیسے مشرقی شاعر کے لیے اس کا تتبع 1؎ کیا معنی رکھتا ہے؟ اس کا جواب پیام مشرق کے پڑھنے والے کو خود مل جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ گویتھے کے افکار مشرقی ہیں۔ مگر ایک مغربی رنگ بھی صاف جھکتا ہے۔ اس کا ’’ دیوان مغربی‘‘ غربی شاعری میں ایک اندازہ احساسات شرقیہ بھی جذب کیا ہوا ہے۔ گویتھے شروع میں ایک مغربی فیلسوف اور جرمنی شاعر تھا۔ زبان فارسی اس کو نہ آتی تھی۔ ۱۸۱۲ء میں ایک جرمنی ہرفان ہیمر نے دیوان حافظ کا ترجمہ جرمنی میں کیا۔ گویتھے جو اس وقت ۶۵ سالہ تھا، اس ترجمہ سے اس قدر متاثر ہوا کہ عنان شاعری کو حافظ کی طرف موڑ کر اسی رنگ میں ایک مستقل تصنیف لکھ ڈالی، جس کانام فارسی ’’ دیوان‘‘ رکھا۔ اب ایک سو سال کے بعد ڈاکٹر اقبال نے (جو جرمنی کے بھی فاضل ہیں)گویتھے کی روح کو پیام مشرق لکھ کر شاد کیا۔ ایک ایرانی (رضا زادہ شفق) نے ایک مستقل مقالہ 2؎ حافظ و گویتھے پر لکھا ہے وہ لوگ جو گویتھے سے واقف ہونا چاہتے ہیں اس مضمون کو دیکھ سکتے ہیں۔ پیام مشرق کے متعلق اجمالاً میں کچھ عرض کرتا ہوں۔ زبان کتاب: پیام مشرق کی زبان پہلی دو تصانیف سے واضح تر اور شیریں ترین ہے اور انداز و اسلوب متاخرین کے مشابہ گزشتہ دونوں کتابوں کے نمونے تو دئیے گئے۔ اب اس کتاب کے نمونے بھی دیے جاتے ہیں۔ خطاب بہ امیر افغانستان اے امیر کامگار اے شہریار نوجوان و مثل پیراں پختہ کار چشم تو از پردگیہا محرم است دل میان سینہ ات جام جم است عزم تو پائندہ چوں کہسار تو حزم تو آساں کند دشوار تو ہمت تو چوں خیال من بلند ملت صد پارہ را شیرازہ بند بدیہ از شاہنشہاں داری بسے لعل و یاقوت گراں داری بسے 1؎ تتبع نہیں بلکہ جواب میں جیسا کہ کتاب کے ضمنی عنوان سے ظاہر ہے۔ (ایڈیٹر) 2؎ اس مقالہ کا ترجمہ کسی آئندہ اشاعت میں ملاحظہ کیجئے۔ (تمکین) اے امیر ابن الامیر ابن الامیر ہدیہ از بے توانی ہم پذیر تا مرا رمز حیات آموختند آتشے در پیکرم افروختند یک نوائے سینہ تاب آوردہ ام عشق را عہد شباب آوردہ ام پیر مغرب شاعر المانوی آں قتیل شیوہ ہائے پہلوی بست نقش شاہدان شوخ و شنگ داد مشرق را سلامی از فرنگ در جوابش گفتہ ام پیغام شرق ماہتابے ریختم بر شام شرق تا شناسائی خودم خود بیں نیم با تو گویم او کہ بود و من کیم اوز افرنگی جواناں مثل برق شعلہ من از دم پیران شرق او چمن زادے چمن پروردۂ من دمیدم از زمین مردہ او چو بلبل در چمن فردوس گوش من بصحرا چوں جرس گرم خروش حصص کتاب: یہ کتاب چند حصوں پر مشتمل ہے ۱۔ رباعیات و قطعات، مسمی بہ ’’ لالہ طور‘‘ ۲۔ متفرقات، غزل و قطعہ، رباعی، مسمط وغیرہ بہ عنوانات ’’ گل نخستین‘‘ ،’’ ہلال عید‘‘ ،’’ تسخیر فطرت‘‘ ،’’ نوائے وقت‘‘ ،’’ فصل بہار‘‘ ،’’ افکار انجم‘‘ ،’’ مکالمہ حسن و عشق‘‘ ،’’ محاورۂ خداد انسان‘‘ وغیرہ ۳۔ غزلیات ’’ مے باقی‘‘ ۴۔ متفرقات، غزل، قطعہ، مثنوی، ادبیات، نقش فرنگ، پوری کتاب ایک ہزار سترہ اشاعر سے مزین ہے لالہ طور: اس حصہ میں فقط رباعیات اور قطعات ہیں جو بحر ہزج مسدس مزاحف (مفاعلین مفاعلین فعولن) میں کہے گئے ہیں عروضیوں نے اوزان رباعی کو مثمن (آٹھ رکن ہر مصرع چار رکن) قرار دیا ہے۔ مگر بعض قدما نے شش رکن (مسدس) بھی بنا لیا ہے۔ مثلاً بابا طاہر ہمدانی، اقبال کی رباعیات بھی بابا طاہر کی طرح اسی وزن کی ہیں۔ لالہ طور کی تمام رباعیات سے اقبال کا فلسفہ خودی و تکامل ظاہر ہوتا ہے۔ چند رباعی و قطعے نقل کیے جاتے ہیںـ: رباعی دریں گلشن پریشاں مثل بلویم نمیدانم چہ میخواہم چہ جویم بر آید آرزو یا بر نیاید شہید سوز و ساز آرزویم ایضاً جہاں مشت گل دول حاصل ادست ہمیں یک قطرۂ خوں مشکل اوست نگاہ ما دو بیں افتاد ورنہ جہان ہر کسی اندر دل اوست ایضاً ز آب و گل خدا خوش پیکرے ساخت جہانے ازارم زیبا ترے ساخت ولے ساقی بہ آں آتش کہ دارو زخاک من جہانے دیگرے ساخت ایضاً چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است دل ہر ذرہ در جوش نمود است شگافد شاخ را چوں غنچہ گل تبسم ریز از ذوق وجود است ایضاً رہے در سینہ انجم کشائی ولی از خویشتن نا آشنائی یکے بر خود گشا چوں دانہ چشمے کہ از زیر زمیں نخلی بر آئی ایضاً سحر در شاخسار بوستانی چہ خوش می گفت مرغ نغمہ خوانی بر آور ہر چہ اندر سینہ داری سرودے نالہ آ ہے فغانی ایضاً بہ مرغان چمن نا آشنایم بشاخ آشیاں تنہا سرایم اگر نازک ولے از من گراں گیر کہ خونم می تر از دو از نوایم قطعہ سحر می گفت بلبل باغباں را دریں گل جز نہال غم نگیرد بہ پیری میر سد خار بیاباں ولے گل چوں جواں گیرد بمیرد ایضاً گزشتی تیز گام اے اختر صبح مگر از خواب ما بیزار رفتی من از ما آگہی گم کردہ را ہم تو بیدار آمدی بیدار رفتی ایضاً شنیدم کرمک شب تاب میگفت نہ آں مورم کہ کس نالد زنیشم تواں بے منت بیگانگاں سوخت نہ پنداری کہ من پروانہ کیشم اگر شب تیرہ تر از چشم آہوست خود افروزم چراغ راہ خویشم ایضاً شنیدم در عدم پروانہ میگفت دمی از زندگی تاب و تبم بخش پریشاں کن سحر خاکسترم را و لیکن سوز و سازیک شبم بخش ایضاً زیاں بینی ز سیر بوستانم اگر جانت شہید جستجو نیست نمایم آنچہ ہست اندر رگ گل بہار من طلسم رنگ و بو نیست ایضاً اگر در مشت خاک تو نہادند دل صد پارہ اے خوں نابہ باری ز ابر نو بہاراں گریہ آصموز کہ از اشک تو روید لالہ زاری افکار: ’’ پیام مشرق‘‘ کا حصہ دوم افکار ہے جس میں اسی وزن و قافیہ کے تحت اقبال نے اپنے فلسفہ کو نمایاں کیاہے۔ نمونہ کے طور پر چند شعر نقل کیے جاتے ہیں: ۱۔ تسخیر فطرت (میلاد آدم) نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد خبرے رفت ز گردوں بہ شبستان ازل حذر اے پردگیاں پردہ درے پیدا شد آرزو بے خبر از خویش بہ آغوش حیات چشم وا کرد و جہان دگرے پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خود گرے خود شکنے خود نگرے پیدا شد زندگی گفت کہ در خاک تپیفم ہمہ عمر تا ازیں گنبد دیرینہ درے پیدا شد ۲۔ حیات جاوید گماں مبر کہ بپایاں رسید کار مغاں ہزار بادۂ نا خوردہ در رگ تاک است چمن خوش است ولیکن چو غنچہ نتواں زیست قبائے زندگیش از دم صبا چاک است اگر نر رمز حیات آگہی مجوئے دیگر دلی کہ از خلش خار آرزو پاک است بخود خزیدہ و محکم چو کوہساراں زی چو خس مزی کہ ہوا تیز و شعلہ بیباک است ۳۔ محاورہ مابین خدا و انسان (خدا) جہاں ر ازیک آب و گل آفریدم تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی من از خاک پولا و ناب آفریدم تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی تبر آفری نہال چمن را قفس ساختی طائر نغمہ زن را (انسان) تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم می باقی یہ تیسرا حصہ ہے۔ اس میں غزلیات میں جو نظیری اور بیدل کے رنگ میں مگر مخصوص فلسفہ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ غزل دانہ سجہ بہ زنار کشیدن آموز گر نگاہ تو دو بین است ندیدن آموز پاز خلوت کدۂ غنچہ بروں زن چوشمیم بانسیم سحر آمیزد و زیدن آموز آفریدند اگر شبنم بے مایہ ترا خیزد بر داغ دل لالہ چکیدن آموز اگرت خار گل تازہ رسی ساختہ اند پاس ناموس چمن وارد خلیدن آموز باغباں گر ز خیابان تو برکند ترا صفت سبزہ دگر بارہ دمیدن آموز تا تو سو زندہ تر و تلخ تر آئی بیروں عزلت خم کدہ ای گیر و رسیدن آموز تا کجا در تہ بال و گراں می باشی در ہوائے چمن آزادہ پریدن آموز در بتخانہ زدم مغ بچگانم گفتند آتشی در حرم افروز و تپیدن آموز غزل ز خاک خویش طلب آتشی کہ پیدانیست تجلی دگرے در خور تقاضا نیست اگرچہ عقل فسوں پیشہ لشکرے انگیخت تو دل گرفتہ بناشی کہ عشق تنہا نیست تو رہ شناس نئی وز مقما بے خبری چہ نغمہ ایست کہ در بربط سلیمی نیست نظر بہ خویش چناں بستہ ام کہ جلوۂ دوست جہاں گرفت و مرا فرصت تماشا نیست بیا کہ غلغلہ در شہر دلبراں فگنیم جنون زندہ دلاں ہر زہ گرد صحرا نیست ز قید و صید نہنگاں حکایتی آور مگو کہ زورق ماروشناس دریا نیست مرید ہمت آں رہروم کہ پانگذاشت بہ جادۂ کہ در وکوہ و دشت و دریا نیست شریک حلقہ رندان بادہ پیما باش حذر ز بیعت پیرے کہ مرد غوغا نیست برہنہ حرف نگفتن کمال گویائی است حدیث خلوتیاں جز بہ رمز و ایما نیست نقش فرنگ: پیام مشرق کا حصہ چہارم ’’ نقش فرنگ‘‘ ہے اس میں ڈاکٹر اقبال نے تمدن فرنگ کے چند نقائص کا ذکر کیا ہے اور حکماء یورپ مثلاً طالسطائی، بائرن، ہیگل، نطشے وغیرہ کے نظریات بھی بیان کئے ہیں۔ یہ حصہ عوام کے لیے فائدہ مند نہیں۔ مخصوص لوگ اس سے متمتع ہو سکتے ہیں۔ نمونتاً کچھ اشعار نقل کیے جاتے ہیں: ۱۔ پیام از من اے باد صبا گوئے بہ دانائے فرنگ عقل تابال کشود است گرفتار تر است برق را ایں بہ جگر می زند آں رام کند عشق از عقل فسوں پیشہ جگر دار تر است عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب این است کہ بیمار تو بیمار تر است علم و حکمت اگرش خوی سگے باز دہد آدمی زادۂ دانا زدواں خوار تر است خواجہ را قیمت عیش است اگر مرد غلام بدہ آزاد تر و خواجہ گرفتار است ۲۔ زندگی و عمل ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیتم موج ز خو و رفتہ تیز خرامیدہ و گفت ہستم اگر میردم گر نردم نیستم ۳۔ جمعیت اقوام (جامعہ ملل) برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن درد مندان جہاں طرح نو انداختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدی چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند زبور عجم: اقبال کی چوتھی تصنیف زبور عجم ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں (۷۶) غزلیں ہیں اور حصہ دوم غزلیات مثنوی وغیرہ ہیں، کل ۲۲۳۴ شعر ہیں۔ اس کی غزلیات مولٰنا روم کی غزلوں سے ٹکر کھاتی ہیں۔ لیکن جا بجا اقبال کا خاص فلسفہ و تصوف بھی نظر آتا ہے۔ اس کتاب کی غزلیں زبان و بیان کے لحاظ سے پیام مشرق کی غزلوں سے بہتر ہیں۔ مثنوی میں فلسفیانہ نکات اور استعارات و تشبیہات علمی زبان میں بیان کئے گئے ہیں جس کو عوام سمجھ نہیں سکتے۔ اس میں بھی اسرار خودی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کا نصب العین حیات یہی ہے اور وہ اس کو مرکز ٹھہرا کر اطراف چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ نمونتاً چند غزلیں نقل کی جاتی ہیں: غزل نمبر۱ غزل سرا و نوا ہائے رفتہ باز آور بہ ایں فسردہ دلاں حرف دل نواز آور کنشت و کعبہ و بتخانہ و کلیسا را ہزار فتنہ ازاں چشم نیم باز آور زبادہ ای کہ بخاک من آتشے آمیخت پیالہ اے بجوانان نو نیاز آور نے ای کہ دل ز نوایش بسینہ می رقصد می ای کہ شیشہ جاں را دہد گداز آور بہ نیستان عجم باد صبحدم تیز است شرارہ ای کہ فرد می چکدز ساز آور غزل نمبر۲ اے کہ زمن فزودہ ای گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صدائے من خاک ہزار سالہ را بادل ما چہاکنی تو کہ بیادۂ حیات مستی شوق مید ہی آب و گل پیالہ را غنچہ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کشائے تازہ کن از نسیم من داغ و رون لالہ را میگذر د خیال من از مہ و مہر و مشتری توبہ کمیں چہ خفتہ ای صید کن ایں غزالہ را خواجہ من نگاہ دار آبروئے گدائے خویش آنکہ ز جوئے دیگراں پر نکند پیالہ را غزل نمبر۳ تکیہ بر حجت و اعجاز بیاں نیز کنند کار حق گاہ بہ شمشیر و سناں نیز کنند گاہ باشد کہ تہ خرقہ زدہ می پوشند عاشقاں بندۂ حال اندوچناں نیز کنند چوں جہاں کہنہ شود پاک بسوزند او را و ز ہماں آب و گل ایجاد جہاں نیز کنند ہمہ سرمایہ خود را بہ نگاہے بد ہند ایں چہ قومی است کہ سودا بہ زیاں نیز کنند آنچہ از موج ہوا با پر کاہے کردند عجبی نیست کہ باکوہ گراں نیز کنند تا تو بیدار شوی نالہ کشیدم ورنہ عشق کارے است کہ بے آہ و فغاں نیز کنند غزل نمبر ۴ چوں چراغ لالہ سوزم در خیابان شما اے جوانان عجم جان من و جان شما غوطہ ہازد ور تعمیر زندگی اندیشہ ام تا بدست آوردہ ام افکار پنہان شما مہر و مہ دیدم نگاہم بر تر از پرویں گزشت ریختم طرح حرم در کافرستان شما فکر رنگینم کند نذر تہی دستی شرق پارہ لعلے کہ دارم از بدخشان شما میر سد مردی کہ زنجیر غلاماں بشکند دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما حلقہ برگردم زنید اے پیکران آب و گل آتشی در سینہ دارم از نیاگان شما ٭٭٭ (جولائی ۱۹۲۸ئ) اقبال کا پیام اسلامیت در حقیقت پیام انسانیت ہے پروفیسر محمد سرور اقبال نے اس پیام فطرت کو جو خالص جوہر انسانیت کا مظہر ہے۔ کیوں قرآن، اسلام اور ملت اسلامیہ کے جامہ میں پیش کیا اور اس طرح اس عالمگیر اور ہمہ گیر تعلیم کو ایک خاص جماعت میں محدود کر دیا؟ دوسرے الفاظ میں اقبال نے انسانیت کے اس ’’ مقام کبریا‘‘ کے بلند مرتبہ پر فائز ہو کر بھی اسلام کی چار دیواری کو جو مانا کہ بہت وسیع ہے کیوں پیچھے نہ چھوڑا اور انسانیت کی غیر محدود پہنائیوں میں داخل نہ ہوا؟ اقبال کا اسلام ان کے پیام کی طرح عالمگیر اور ہمہ گیر ہے ان کے نزدیک ملت اسلامی کا صحیح تصور اس پیام کا اصلی جامہ ہے اسلام کی روایات، اس کی تعلیم اور تصور زندگی ان کے نصب العین سے ہم آہنگ ہے۔ جب وہ ملت اسلامیہ کو ذوق عمل کی تلقین کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر ملت کا موجودہ سیاسی تصور یا اہل مذہب کا فقہی تخیل نہیں ہوتا۔ وہ ملت اسلامیہ کی فطرت اصلی کو اپنے انسانی نصب العین سے قریب تر دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہی ملت ان کی دعوت کو سن سکتی ہے اور یہی قیادت عالم کی اہل ہے۔ ملت اسلام وحدت انسانیت، وحدت مذاہب اور ایک بلند و برتر خدائی تصور کی قائل ہے۔ رنگ و نسب کا تعصب ان کے ہاں بالکل نہیں۔ وہاں نہ رہبانیت ہے اور نہ محض دنیا پرستی۔ جس دعوت کا احساس قرآن ہو وہ اقوام و ملل کی قیود سے بالاتر رب العالمین کی طرح ’’عالمینی ‘‘ ہوتی ہے۔ اس کا مقصود و مخاطب انسان ہے۔ پیام مشرق کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: ’’ مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے۔ مگر اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنی خودی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی۔ جب تک کہ اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی۔ جب تک اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیر واما بانفسھم کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ زندگی کے جزوی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے۔‘‘ اقبال کی زندگی کا نصب العین زندگی کی ان ہی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے۔ پہلے وہ انسانوں کے ضمیر میں اپنا ’’ عالم نو‘‘ متشکل کرنا چاہتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ اس کے بعد یہ عالم نو پر وجود پر آ کر رہے گا ان کے آتشیں نغموں اور سوز درون میں ڈوبے ہوئے سروں نے دلوں میں ایک قیامت بپا کر دی ہے۔ ان کے آتش کدہ دل سے نکلی ہوئی چنگاریوں نے سب خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر ڈالا اور آخر اہل نظر کی آنکھوں کے سامنے حقیقت اپنے اصلی رنگ میں جلوہ گر ہو گئی۔ ہویدا آج اپنے زخم پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے تری ظلمت میں میں روشن چراغاں کر کے چھوڑوں گا ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) اقبال کی شاعری کے تین دور مبشر علی صدیقی بدایونی ایم اے علیگ اقبال کے کلام کا اگر بغیر کسی خاص ترتیب کے مطالعہ کیا جائے تو مسرت ضرور حاصل ہو گی۔ لیکن یہ مطالعہ ناقدانہ نظر ڈالنے کے لئے کافی نہ ہو گا۔ ایسی صورت میں ہم بحیثیت مجموعی اقبال کی شاعری کے متعلق کوئی نظریہ قائم نہیں کر سکتے۔ اقبال کے ذہنی ارتقاء کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہمیں ان کے کلام کا مطالعہ چند اصولوں کے ماتحت کرنا ہو گا۔ اگر کوئی شخص پہلے ضرب کلیم کو پڑھے اس کے بعد بال جبریل اور بانگ درا کا مطالعہ کرے تو بہت ممکن ہے کہ وہ بعض نظموں کو پڑھ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ اقبال کی شاعری میں تضاد پایا جاتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم پہلے اقبال کی شاعری کے دور قائم کر لیں اور پھر اسی ترتیب سے اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں۔ اس کے بعد ہم بتا سکیں گے کہ اقبال شروع میں کیوں وطنیت کے موافق تھے اور بعد میں کیوں مخالف ہو گئے۔ انہوں نے جو مسولینی کے متعلق نظمیں لکھی ہیں ان میں کیوں ایک میں مسولینی کے جوش و ہمت، قوت عمل اور شخصیت کی تعریف کی ہے اور دوسری میں کیوں مسولینی کی فتوحات کو بری نگاہ سے دیکھا ہے۔ ہم یہ بھی بتا سکیں گے کہ ان کے شاعرانہ اسلوب میں کس وقت سے تغیر نمایاں ہوتا ہے اور آخر میں فلسفہ کس طرح اسلوب پر غالب آ جاتا ہے۔ فارسی میں انہوں نے اشعار کیوں اور کب سے کہنا شروع کیے اور دوبارہ اردو کی جانب ان کی کس طرح توجہ ہوئی۔انہوں نے ان خیالات کو جو فارسی میں نظم کیے کس طرح اردو میں سمو دیا اور اس کم مایہ زبان کو اس قابل بنا دیا کہ مہدی افادی کے الفاظ میں یہ دنیا کی دیگر عملی زبانوں سے آنکھ ملا سکے۔ اقبال پر جن حکماء اور شعراء کا اثر ہوا ہے اس کی تشریح ان کے کلام کے ادوار قائم کرنے کے بعد اچھی طرح ہو سکے گی۔ ان کے مخصوص نظریوں پر بھی ادوار کی تقسیم کے بعد اچھی طرح روشنی پڑے گی لیکن ادوار کی تاریخوں میں ضرور اختلاف ہے۔ مختلف اہل قلم مختلف ادوار قائم کرتے ہیں۔ ادوار کی تعداد میں بھی فرق ہو سکتا ہے۔ ’’سیرت اقبال‘‘ کے فاضل مولف نے چار دور قائم کئے ہیں۔ ابو ظفر عبدالواحد نے اپنے ایک مقالہ ’’ اقبال کا ذہنی ارتقائ‘‘ میں علیحدہ دور قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح عبداللہ انور بیگ ’’ طارق‘‘ اور دیگر مصنفین نے اس مسئلہ میں ایک حد تک اختلاف کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اقبال کی شاعری کو تین دوروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جائے کیوں کہ ممکن ہے جو خصوصیات راقم الحروف نے ہر دور میں بتلائی ہیں بعض حضرات اس سے اختلاف کریں۔ پہلا دور۔۔ ابتداء سے ۱۹۱۲ء تک ہمارے خیال میں اقبال کی شاعری کا پہلا دور ان کی شاعری کے آغاز سے احمد الدین نے اپنی کتاب ’’ اقبال‘‘ میں ’’ نالہ یتیم‘‘ کو اقبال کی پہلی اردو نظم بتلایا ہے۔ ۱۹۱۲ء تک ہے ’’ بانگ درا‘‘ میں تین دور قائم کئے گئے ہیں۔ لیکن یہ دور صرف ’’ بانگ درا‘‘ کے لیے موزوں ہیں ہمیں یہاں اقبال کی شاعری پر مجموعی طور پر بحث کرنا ہے۔ ۱۹۱۲ء سے انہوں نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے اشعار لکھنے شروع کر دیے تھے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ لہٰذا ہم پہلا دور ان کی ابتدائی شاعری کا ۱۹۱۲ء تک قائم کر سکتے ہیں۔ اس دور کی ممتاز خصوصیات (۱) حب الوطنی (۲) منظر نگاری اور (۳) لفظ تراشی ہیں۔ ’’ بانگ درا‘‘ میں ہمیں متعدد نظمیں ان تینوں کے متعلق ملتی ہیں۔ حب الوطنی: اقبال کی شاعری پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ابتداء میں انہوں نے حب الوطنی پر متعدد نظمیں لکھیں جو ملک میں بہت مقبول ہوئیں۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ اس کے خلاف ہو گئے اور ایک عالمگیر اسلامی نظام کا خواب دیکھنے لگے۔ یہ محض سطحی مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ ہر شاعر کے یہاں ابتداء میں ایک دور تیاری ’’ تذبذب‘‘ سراسیمگی کا ہوتا ہے۔ اس کے یہاں کوئی مکمل تصور شروع سے نہیں پایا جاتا۔ وہ جس منظر اور جذبہ سے متاثر ہوتا ہے نظم کر دیتا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنا شاعرانہ نصب العین قائم کرتاہے۔ اقبال نے ابتداء میں ’’ ہمالہ‘‘ ، ’’ صدائے درد‘‘ ،’’ تصویر درد‘‘ ، ’’ترانہ ہندی‘‘ ،’’ ہندوستانی بچوں‘‘ کا گھبرا گئے۔ او رانہوں نے اچھی طرح سمجھ لیا کہ حب الوطنی کا یہ جدید تصور مغربی تہذیب کی خطرناک پیداوار ہے اور اس بت کو جتنا جلد ممکن ہو سکے توڑ دیا جائے۔ حب الوطنی کا یہ مغربی تصور ہے جس نے ایک قوم کو دوسری قوم کے خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔ آج اس حب الوطنی کے جذبے کے تحت یورپ میں ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ ٹیگور بھی اس قسم کی حب الوطنی کے خلاف ہے اور اس نے اپنے چند لیکچروں (نیشنلزم) میں ان خیالات کا اظہار صاف طور پر کر دیا ہے۔ اردو میں حب الوطنی کے متعلق نظیر اکبر آبادی، اسمعیل میرٹھی، حالی، چکبست، سرور جہاں آبادی وغیرہ نے نظمیں لکھی ہیں۔ حالی کے یہاں صرف ایک نظم قابل ذکر ہے۔ یعنی ’’ حب وطن‘‘ اس کے علاوہ غالباً انہوں نے اس موضوع پر کچھ زیادہ توجہ نہیں کی۔ حالی، اکبر، اقبال اور اسمعیل، چک بست، سرور جہاں آبادی کی شاعری میں فرق ہے۔ اول الذکر پیغام گو شاعر ہیں۔ آخر الذکر کے پیش نظر کوئی مخصوص پیغام نہیں۔ اقبال کی شاعری کے پہلے دور میں ہمیں حب الوطنی کے اس تصور کے خلاف کوئی نظم نہیں ملتی۔ لیکن دوسرے دور میں (جب وہ یورپ سے واپس آ چکے تھے) ہمیں اس تصور کے خلاف متعدد نظمیں ملتی ہیں ان کے عنوان یہ ہیں: ۱۔ ترانہ ملی ۲۔ وطنیت یورپ سے واپسی کے بعد وہ اس محدود و تنگ وطنیت کے قائل نہر ہے تھے بلکہ ایک عالمگیر وطنیت کا تصور ان کے پیش نظر تھا۔ چنانچہ دوسرے دور کی متعدد نظموں میں اس کے متعلق اشارے ملتے ہیں: ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائیگا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر منظر نگاری: اقبال کی شاعری کے پہلے دور کی ایک ممتاز خصوصیت منظر نگاری بھی ہے۔ منظر نگاری کی دو قسمیں ہیں۔ یعنی خارجی اور داخلی، خارجی منظر نگاری کے چند اچھے نمونے اقبال کے ابتدائی کلام میں مل جاتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے خارجی منظر نگاری داخلی منظر نگاری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ’’ بانگ درا‘‘ کے بعد خارجی منظر نگاری کے نمونے شاذ ہی ملتے ہیں اور وہ بھی ایک یا دو شعر میں۔ شاعر خود اپنے تخیلات میں اتنا محو ہو چکا ہے کہ اسے اب فرصت نہیں کہ وہ ’’وریا‘‘ کو ’’ فراز کوہ‘‘ سے آتا ہوا دیکھے۔ ’’ ہمالہ‘‘ کی پیشانی کو اب بھی آسمان چومتا ہے لیکن شاعر اس سے بے پروا ہے۔ خارجی مناظر مثلاً کسی پہاڑ، دریا یا آبشار کا منظر یا برسات، موسم بہار کا سماں نظم کر لیان نسبتاً ان چیزوں کو دیکھ کر اور پھر ان کو اپنے جذبات کے آئینے کے سامنے لا کر نظم کرنے سے آسان ہے۔ پہلے میں شاعر صرف ایک تصویر کا ہو بہو چربہ اتار دینا اپنا کمال سمجھتا ہے۔ لیکن دوسرے میں وہ اس تصویر کو اپنے جذبات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ خارجی منظر نگاری کے بہترین نمونے اسمعیل میرٹھی کی نظموں میں ملتے ہیں اور داخلی منظر نگاری کے اقبال کے یہاں پہلے دور میں ان کے یہاں ان نظموں میں منظر نگاری کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔ ہمالہ، ایک آرزو، ماہ نو، کنار راوی اور حسن وغیرہ خالص منظر نگاری کے نمونے اقبال کے یہاں بہت کم ہیں۔ لیکن پھر بھی پہلے دور میں اس قسم کے اشعار کی تعداد دوسرے اور تیسرے دور کے اشعار سے زیادہ ہے۔ اقبال کے یہاں غالباً کوئی ایسی نظم نہیں جسے مکمل طور پر خارجی منظر نگاری کے ذیل میں پیش کیا جا سکے۔ ان کی نظم ’’ ایک آرزو‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جسدم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کٹیا میری دکھائے جب آسماں پر ہر سو بادل گھرا ہوا ہو پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن میں اس کا ہمنوا ہوں، وہ میری ہمنوا ہو یہاں تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعر خارجی منظر نگاری کر رہا ہے لیکن اب وہ اپنے جذبات پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔ دل کی بات زبان پر آ ہی جاتی ہے اور وہ چلا اٹھتا ہے: کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں روزن ہی جھونپڑی اک مجھ کو سحر نما ہو پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو، نالہ میری دعا ہو اس خاموشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے ’’ بانگ درا‘‘ میں ہمیں خارجی و داخلی منظر نگاری کے بیشتر نمونے مل جاتے ہیں۔ لیکن یہی چیز آگے چل کر مفقود ہوتی جاتی ہے۔ فارسی کلام سے قطع نظر اردو کے دوسرے مجموعہ کلام یعنی بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز میں کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی منظر نگاری کے نمونے کم ملتے ہیں۔ ’’ بال جبریل‘‘ کی ایک مشہور غزل کے ابتدائی ا شعار ملاحظہ ہوں: پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگ گل پہ رکھ گنی شبنم کا موتی یاد صبح اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن لیکن اس کے بعد شاعر خود اپنے آپ کو مخاطب کرتا ہے: اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن ’’ ساقی نامہ‘‘ کے ابتدائی شعر بھی منظر نگاری کے ذیل میں پیش کیے جا سکتے ہیں: ہوا خیمہ زن کاروان بہار ارم بن گیا دامن کوہسار گل و نرگس و سوسن و نسترن شہید ازل لالہ خونیں کفن جہاں چھپ گیا پردۂ رنگ میں لہو کی ہے گردش رگ سنگ میں فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور ٹھہرے نہیں آشیاں میں طیور وہ جوئے کوہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی اچھلتی، پھسلتی، سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی اور آگے چل کر منظر نگاری صرف ایک یا دو شعر میں کی جاتی ہے۔ شاعر کو اتنی فرصت نہیں کہ اس میں زیادہ وقت صرف کرے لیکن اس ایک یا دو شعر میں بھی پوری نظم کا سا لطف آ جاتا ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ کی ایک نظم ہے:’’ ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ اس کا پہلا شعر اس قسم کی منظر نگاری کی بہترین مثال ہے: پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب اے وادی لولاب لفظ تراشی: لفظ تراشی کے نمونے اقبال کے یہاں جا بجا ملتے ہیں۔ انہوں نے حسب ضرورت نئے نئے الفاظ تراشے جو بہت ممکن ہے اردو ادب میں ان کے ٹھپہ سے رائج بھی ہو جائیں۔ وہ کسی اسکول کے پابند نہ تھے بلکہ خود ایک اسکول تھے۔ اپنی شاعری کی ابتدا میں انہوں نے ایک جگہ لکھا تھا: اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے لفظ تراشی صرف پہلے ہی دور کی خصوصیت نہیں بلکہ ان کی شاعری کے تینوں دوروں میں ہمیں اس کے نمونے ملتے ہیں۔ ذیل کے اشعار میں خط کشیدہ الفاظ غور طلب ہیں: چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے خم و پیچ روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللہی تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا خمیر کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی تہ دام بھی غزل آشنا رہے طائران چمن تو کیا جو فغاں دلوں میں تڑپ رہی تھی نوائے زیر لبی رہی دوسرا دور۔۔۔ ۱۹۱۲ء سے ۱۹۳۵ء تک اس دور کی خاص پیداوار ان کا فارسی کلام اور ان کا تصور خودی، اسرار خودی، رموز بیخودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ اور مسافر سب اسی دور کی پیداوار ہیں۔ اردو میں اقبال نے اس دور میں کچھ نہ کہا۔ تصور خودی: اقبال کی شاعری فلسفیانہ اس معنی میں ہے کہ وہ زندگی کا ایک مکمل تصور اور نصب العین پیش کرتی ہے۔ وہ ایک پیغام گو شاعر ہیں اور ان کا مخصوص پیغام یہ ہے کہ فرد، قوم، ملت اپنی خودی کو پہچانے، لفظ خودی اردو میں نخوت و غرور کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ا قبال کے یہاں یہ لفظ اپنے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے۔ وہ اس سے خود داری اور اپنی پوشیدہ قوتوں کو بیدار کرنے کے معنی مراد لیتے ہیں۔ وحدت الوجود کے عقیدہ نے محض تعیش و کاہلی کے پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہ کیا۔ افراد اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو بھول گئے اور شیخ و برہمن دونوں اپنی تقدیر کو رونے لگے۔ ’’ مسلمانوں میں سب سے پہلے شیخ محی الدین ابن عربی نے اس نظریہ کی اشاعت کی اور اسے اسلامی تخیل کا ایک لازمی جزو قرار دیا۔ ان کی تعلیم سے کرمانی، عراقی اور دوسرے صوفی اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے تمام عجمی شعراء کو اسی رنگ میں رنگ دیا۔ وحدت الوجود سے مراد یہ ہے کہ وجود حقیقی صرف خالق کائنات کی ذات کا ہے۔ مخلوق صرف اعتباری اور موہوم وجود رکھتی ہے۔ نفس انسانی بے حقیقت ہے اور زندگی بے ثبات، سعی و عمل بیکار ہے۔ ان خیالات کی وجہ سے ساری قوم میں قنوطیت، بے مرکزی، بے اصلی اور بے عملی پیدا ہو گئی۔‘‘ اقبال نے اس فلسفہ کی خامیوں کو اچھی طرح سمجھ لیا۔ ان کے نزدیک زندگی حرکت کا نام ہے۔ جدوجہد، حرکت و عمل، ذوق و شوق نہایت ضروری ہیں۔ وہ تمام نظریے جو بے عملی یا بے مرکزی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اقبال کے نزدیک نفی خودی کے مترادف ہیں۔ اس کا رد ان کے نزدیک ’’ اثبات خودی‘‘ کے نظریہ سے کیا جا سکتا ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کے دیباچہ میں ’’ اثبات خودی‘‘ کے نظریہ کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔ خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لیے غیر خود سے ٹکراتی ہے اور ا س تصادم کے ذریعہ سے اس کی نشوونما اور ارتقاء ہوتی ہے۔ خود صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہر شے میں ہماری و ساری ہے۔ خودی کی تکمیل کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں۔ یعنی (۱) اطاعت، اس سے قوانین الٰہی کی اطاعت مراد ہے۔ (۲) ضبط نفس۔۔ خوف، خود غرضی، نفسانیت کے موجود ہونے سے انسان بلند مقام کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔ ان دونوں راستوں سے گزرنے کے بعد (۳) ’’ نیابت الٰہی‘‘ کا درجہ آتا ہے۔ یہاں آ کر انسان خدا کا نائب یا خلیفہ ہو جاتا ہے۔ اور یہی خودی کی معراج ہے۔ اقبال کا انسان کامل بھی یہی ہے۔ دنیا اب تک اس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ نطشے کے ’’ فوق البشر‘‘ نے اقبال کے انسان کامل میں ’’ خیر البشر‘‘ کی جگہ لے لی ہے۔ خودی کے نظریہ کے متعلق ہمیں ’’ بانگ درا‘‘ کی آخری نظموں میں جا بجا اشارے ملتے ہیں۔ چنانچہ ’’ شمع و شاعر‘‘ ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی تھی۔ ’’ شمع و شاعر‘‘ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں: اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو! قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے سینہ ہے تیرا امین اس کے پیام ناز کا جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے پنہاں بھی ہے ہفت کشور جس سے ہوں تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے سب سے پہلے خودی کے متعلق واضح طور پر اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار ’’ اسرار خودی‘‘ میں کیا ہے۔ ان کے لیکچروں سے بھی اس پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ ۱۹۱۲ء سے لکھنا شروع کر دی گئی تھی۔ لیکن پہلا ایڈیشن ۱۹۱۵ء میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ اس کی ابتداء میں اقبال کے قلم سے ایک دیباچہ بھی تھا۔ اس ایڈیشن میں انہوں نے حافظ کی شاعری پر بھی چند اشعار لکھے تھے اور ارباب ذوق اچھی طرح جانتے ہیں کہ پبلک کی طرف سے ان پر کافی لے دے ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے ایڈیشن سے نہ صرف وہ اشعار خارج کر دئیے گئے بلکہ دیباچہ بھی نکال دیا گیا۔ پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، مسافر ان سب میں ہمیں خودی کے نظریہ کے متعلق جا بجا اشارے ملتے ہیں۔ غرض دوسرے دور کی سب سے اہم خصوصیات ان کا تصور خودی ہے۔ رموز بیخودی: فرد کے لیے جماعت سے ربط رکھنا ضروری ہے۔ تنہا فرد کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کی قوت منتشر ہو جاتی ہے اس کے مقاصد تنگ و مبہم ہو جاتے ہیں۔ فرد قایم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں اقبال محدود وطنیت اور رنگ و نسل کے مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ملت کی سب سے بڑی تعریف وحدت خیال ہے اگر وحدت افکار اور وحدت کردار داخل ہو جائے تو ساری دنیا زیر نگیں ہو سکتی ہے۔ ملت کو قوت اس کی روایات کے استحکام کے ذریعے سے پہنچتی ہے۔ یہ استحکام تاریخ کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ’’ فرد کو حقیقی آزادی صرف ملت اسلامی کے اندر حاصل ہوئی۔ کیونکہ اسی ملت نے نوع انسان کو حقیقی معنی میں حریت، مساوات اور اخوت کا نمونہ دکھلایا۔ توحید کے عقیدہ نے نسل و نسب کے امتیازات کو مٹا دیا۔ غریبوں کو امیروں کے اور زیردستوں کو زبردستوں کے تسلط سے آزاد کر کے عدل و انصاف کی حکومت قائم کی اور اسلام کے رشتہ سے سب کو بھائی بھائی بنا دیا۔ غرضیکہ فرد کی خودی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جماعت کی خودی میں اپنے آپ کو گم کر دے۔ ایسا کرنے سے اس میں زیادہ استحکام پیدا ہو جائے گا۔‘‘ تیسرا دور۔ ۔۔ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۳۸ء تک ۱۹۳۵ء میں اقبال کا دوسرا اردو مجموعہ کلام ’’ بال جبریل‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ اس کی غزلیات میں اردو دان طبقہ کو ’’ زبور عجم‘‘ کی غزلیات کا لطف آ گیا۔ اقبال کے خودی کے نظریہ کی بھی اس میں کافی وضاحت ہو گئی ہے۔ مختلف عنوانات پر نظمیں اور متعدد رباعیاں بھی ہیں۔ اس کے ٹھیک ایک سال بعد ’’ ضرب کلیم‘‘ شائع ہوئی جیسا کہ سر ورق پر لکھا ہوا ہے یہ مغرب کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے۔ اسی سال فارسی مثنوی ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ بھی عوام کے ہاتھ میں آئی۔ ایک نقاد کے الفاظ میں یہ اقبال کے تھکے ہوئے دماغ کی پیداوار ہیں اور ان میں اقبال ایک ایسے بپھرے ہوئے شیر کی مانند نظر آتا ہے۔ جو ایک مرتبہ گولی کھا کر دوبارہ اپنے دشمن پر حملہ کر رہا ہو۔ اقبال کا یہ دشمن مغربی تہذیب و معاشرتی ہے۔ ایک ممتاز خصوصیت اس دور کی ان کے اسلوب کی جدت ہے۔ اسلوب صاف، سیدھا سادا اور روان ہو گیا ہے۔ تشبیہات و استعارات سے زیادہ کام نہیں لیا گیا۔ لیکن خیالات میں عمق ہے اور فلسفہ شاعری پر غالب آتا ہوا نظر آتا ہے۔ منظر نگاری کے نمونے بہت کم ملتے ہیں۔ لفظ تراشی بدستور جاری ہے۔ ’’ ارمغان حجاز‘‘ اقبال نے اپنی زندگی میں مرتب کر لی تھی۔ لیکن یہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ فارسی کے حصہ میں رباعی کا پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ اقبال کا خیال تھا کہ وہ اس کتاب کو لے کر حج بیت اللہ کے لیے جائیں اور حضور سرور کائنات کی سرکار میں اس کو بطور ایک تحفہ کے پیش کریں۔ اردو کے حصہ میں متفرق نظمیں یکجا کر دی گئی ہیں۔ ایک اور ممتاز خصوصیت اس دور کی ان کا ’’ شیطان کا تصور‘‘ ہے۔ وہ اسے محض بدی کی قوت نہیں سمجھتے بلکہ اس کی ذات میں ’’ جدوجہد‘‘ حرکت و عمل، ذوق و شوق کی فراوانی پاتے ہیں۔ شیطان کے متعلق ان کا یہ تصور دوسرے دور کی پیداوار ہے۔ حالانکہ ’’ بانگ درا‘‘ کی بعض نظموں میں شیطان کے متعلق جابجا اشارے مل جاتے ہیں۔ ہمیں شیطان کے متعلق سب سے پہلے ان کاخیال ’’ پیام مشرق‘‘ میں معلوم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ’’جاوید نامہ‘‘ میں فلک مشتری کے آخر میں ’’ نالہ ابلیس‘‘ کے نام سے ایک نظم ملتی ہے۔ لیکن شیطان پر ان کی معرکہ کی نظمیں بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز میں ہیں۔ ان سب میں’’ جبریل و ابلیس‘‘ اور’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ آخر الذکر نظم میں ہمیں اشتراکیت، جمہوریت، شہنشاہیت وغیرہ پر ان کے خیالات معلوم ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ اردو شاعری کے لحاظ سے تیسرا دور ان کی شاعری کا زریں دور ہے۔ ہم ایک نقشہ کی شکل میں ان کی تمام کلیات نظم کی سن وار فہرست درج کرتے ہیں۔ اس سے اقبال کے ذہنی ارتقاء کے سمجھنے میں مدد ملے گی: نمبر شمار نام مجموعہ کلام پہلا ایڈیشن تاریخ اشاعت خاص عنوانات و موضوعات کیفیت ۱ بانگ درا ۱۹۲۴ء بانگ درا کے تین علیحدہ دور قائم کئے گئے ہیں۔ یعنی ۱۔ ابتداء سے ۱۹۰۵ء تک ۲۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک ۳۔ ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۳ء تک اس مجموعہ کی مشہور طویل نظمیں تصویر درد (۱۹۰۴ئ) شمع و شاعر (۱۹۱۲ئ) جواب شکوہ (۱۹۱۲ئ) خضر راہ (۱۹۲۲ئ) اور طلوع اسلام (۱۹۲۳ئ) ہیں۔ مختصر نظمیں: مختلف عنوانات پر ہیں۔ مثلاً گل رنگین و نیا شوالہ، کنارہ راوی، التجائے مسافر، عبدالقادر کے نام، گورستان شاہی وغیرہ، مختلف اشخاص پر بھی نظمیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً غالب، داغ، آرنلڈ، حالی و شیکسپیئر، سرسید وغیرہ۔ بچوں کے لیے بھی نظمیں موجود ہیں۔ مثلاً گائے اور بکری، جگنو وغیرہ ہر دور کی نظموں کے آخر میں غزلیات کی کافی تعداد ہے۔ آخر میں اکبر کے رنگ میں کچھ مزاحیہ اشعار بھی ہیں۔ صرف یہی مجموعہ ہے جو تین مرتبہ شائع ہوا۔ (ہر اشاعت دس ہزار) ۲ اسرار خودی ۱۹۱۵ء خاص موضوعات ۱۔ اطاعت نفس، ۲۔ ضبط نفس، ۳۔ نیابت الٰہیہ ہیں اقبال کا مشہور نظریہ ’’ خودی‘‘ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کل اشعار کی تعداد ۸۲۰ ہے۔ دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے ۳ رموز بیخودی ۱۹۱۸ء مختلف چھوٹے چھوٹے عنوانات ہیں فرد اور جماعت کی خودی کا رشتہ دکھلایا گیا ہے۔ کل اشعار کی تعداد ۱۰۷۶ ہے۔ ۴ پیام مشرق ۱۹۲۴ء ۱۔ لالہ طور، ۲۔ افکار ۳۔ مے باقی، ۴۔ نقش فرنگ پہلے حصے میں صرف قطعات اور رباعیات ہیں۔ رباعیات بابا طاہر ہمدانی کے رنگ میں ہیں۔ یہ حصہ ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصہ یعنی افکار میں مختلف عنوانات پر نظمیں ہیں۔ مثلاً انجم، شبنم، لالہ، بوئے گل، فصل بہار، کشمیر، ساقی نامہ وغیرہ۔ تیسرا حصہ ’’ مے باقی‘‘ صرف غزلیات پر مشتمل ہے۔ نظری اور بیدل کا رنگ صاف جھلکتا ہے۔ چوتھے حصے ’’ نقش فرنگ‘‘ میں نطشے، برگسان، ہیگل، ٹالسٹائی، ہائنے، بائرن وغیرہ پر مختصر نظمیں ہیں۔ کل کتاب کے اشعار کی تعداد ۱۰۱۷ ہے۔ ۵ زبور عجم ۱۹۲۶ء یا ۱۹۲۷ء ۱۔ غزلیات (۲) شاخ نہال سدرۂ خار و خش چمن مشو، منگر او اگر شدی منکر خویش مشو (۳) گلشن راز جدید (۴) بندگی نامہ کل اشعار کی تعداد ۲۲۳۴ ہے۔ غزلیات کا رنگ اور زیادہ نکھر گیا ہے۔ گلشن راز جدید، محمود شاہ شبستری کی نظم ’’ گلشن راز‘‘ کی طرح ان ۹ سوالوں کے جواب میں لکھی گئی ہے جوایک صوفی نے پوچھے تھے ’’ بندگی نامہ‘‘ میں اقبال نے غلامی کی برائیاں اجاگر کی ہیں۔ ۶ جاوید نامہ ۱۹۳۲ء ۱۔ مناجات (۲) تمہید آسمانی (۳) تمہید زمینی (۴) خطاب بہ جاوید اقبال کے تخیل نے اس کتاب میں ہفت افلاک کی سیر ہے۔ اور حقائق و معارف کا دریا بہا دیا ہے۔ تمہید آسمانی میں آسمان زمین سے کہتا ہے کہ خاک گو وہ الومذہبی ہی کیوں نہ ہو خاک ہی رہے گی۔ خاک پشیمان ہو کر خدا سے شکوہ کرتی ہے آسمان کی دوسری سمت سے جواب ملتا ہے کہ: اے امینے از امانت بے خبر غم مخور اندر ضمیر خود نگر تمہید زمینی میں رومی اقبال کو بتلاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول کریم سرور دو عالم کی مزاج میں کیا کیا راز پوشیدہ تھے۔’’ خطاب بہ جاوید‘‘ میں نئی پود کے نوجوانوں کو نصیحت کی گئی ہے۔ ۷ مسافر ۱۹۳۳ء مختلف چھوٹے چھوٹے عنوانات ہیں بابر، حکیم سنائی، سلطان محمود، احمد شاہ بابا کی قبروں پر حاضری دیتے وقت اقبال کے تاثرات ’’ مسافر‘‘ میں ملاحظہ ہوں۔ آخر میں ظاہر شاہ سے خطاب کیا ہے۔ اقبال نے یہ نظم اپنے سیاحت افغانستان کے زمانہ میں لکھی تھی۔ ۸ بال جبریل ۱۹۳۵ء ۱۔ غزلیات اور رباعیات ۲۔ مختلف عنوانات پر طویل و مختصر نظمیں غزلیات، رباعیات و قطعات ۱۲۰ صفحات پر مشتمل ہیں۔ بعض نظموں کے آخر میں اکثر جگہ ایک رباعی درج ہے۔ مشہور نظمیں ’’ پیر و مرید‘‘ ، ’’ جبریل و ابلیس‘‘، ’’فرمان خدا‘‘ ، ’’ مسولینی‘‘ ، ’’ساقی نامہ‘‘ وغیرہ میں 1؎ زبور عجم کا پہلا ایڈیشن جون ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا۔ (ادارہ نقوش) ۹ ضرب کلیم ۱۹۳۶ء (۱) اسلام اور مسلمان (۲) تعلیم و تربیت (۳) عورت (۴) ادبیات فنون لطیفہ (۵) سیاسیات مشرق و مغرب (۶) محراب گل افغان کے افکار غزلیات صرف پانچ ہیں۔ بقیہ نظمیں ہیں، مشہور نظمیں یہ ہیں: (۱) ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام (۲) علم و عشق (۳) تقدیر (۴) ہنر وران ہند (۵) شعاع امید (۶) طالبعلم (۷) جاوید سے خطاب (۸) پردہ (۹) عورت (۱۰) آزادی نسواں (۱۱) ابی سینا(۱۲) ابلیس کا فرمان (۱۳) مسولینی وغیرہ ۱۰ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ۱۹۳۶ء مختلف چھوٹے چھوٹے عنوانات ہیں بعض اہم موضوعات یہ ہیں: (۱) حکمت کلیمی (۲) فقر (۳) رموز شریعت وغیرہ ۱۱ ارمغان حجاز ۱۹۳۸ء کتاب دو حصوں میں منقسم ہے یعنی فارسی اور اردو۔ فارسی حصہ کے عنوانات یہ ہیں: ۱۔ حضور حق ۲۔ حضور رسالت ۳۔ حضور ملت ۴۔ حضور عالم انسان ۵۔ بہ یاران طریق۔ اردو حصہ میں مختلف عنوانات پر طویل و مختصر نظمیں ہیں فارسی حصہ تین چوتھائی کے قریب ہے رباعی کا پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ اردو حصہ کی مشہور نظمیں یہ ہیں: ۱۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ ۲۔ مسعود مرحوم ۳۔ مصور و تصویر ۴۔ قبر ۵۔ ضیغم لولابی کشمیری کی بیاض ۶۔ حسین احمد ۷۔ سر اکبر حیدری کے نام (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) علامہ اقبال کی اردو شاعری محمد جمیل احمد ایم اے (بریلی) دنیا کے مدبر، مبصر و ناقد اس بات پر متفق ہیں کہ اقوام کے قصر حیات کی تشکیل و تعمیر میں شاعری کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بڑے بڑے مفکر و ادیب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شاعر کی ہستی چند در چند عظمتوں کی حامل ہے۔ خواجہ فرید الدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے کہ ’’ شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ انگلستان کا مشہور انشاء پرداز طامس کار لائل رقمطراز ہے: ’’ شاعر ایک نمایاں شخصیت ہے جس کا تعلق تمام زمانوں سے ہے۔ ایک مرتبہ عالم وجود میں آنے کے بعد وہ ہر زمانہ کی ملکیت ہے جس کو عہد عتیق کی طرح دور جدید بھی پیدا کر سکتا ہے اور کرتا رہے گا۔ جب کبھی بھی فطرت اس کی مقتضی ہو فطرت کو ایک نمایاں شخصیت پیدا کرنے دو اور کسی زمانہ میں یہ نا ممکن نہیں کہ وہ شخصیت شاعر کی شکل میں ظہور کرے۔‘‘ میرے نزدیک وہ ا یک سیاست دان بھی ہے اور حکیم بھی، مقنن بھی ہے اور فلسفی بھی، اور کسی نہ کسی حد تک اس کی ذات ان سب کی حامل تھی اور اب بھی ہو سکتی ہے۔ شاعر کی یہ تعریف تمام و کمال علامہ اقبال پر صادق آتی ہے۔ اردو شاعری پر یاس و قنوط کا دور مغلبہ سلطنت کے زوال اور خاص کر غدر کے بعد سے شروع ہو گیا اور اس نے اس قدر زور پکڑا کہ شعر کا طرۂ امتیاز یہی یاس کا پہلو تھا ہر قوم اور ہر زمانہ میں مصلح پیدا ہوتے ہیں اور امت مرحومہ میں تو ایسی ایسی ہستیاں وجود میں آتی ہیں جو بنی اسرائیل کے انبیاء کرام کے سے کام کر جاتی ہیں۔ لہٰذا ایک زمانہ کے بعد حالی اوراکبر پیدا ہوئے مگر نقار خنہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے خاطر ہستی کو ’’ خدمت قم‘‘ کسی اور سے لینا مقصود تھی جو پنجاب کے ایک غیر معروف مقام سیالکوٹ میں ۱۸۷۶ء میں منصہ شہود پر جلوہ فگن ہوا اور عرف عام میں اقبال نام پایا۔ اقبال کے کلام میں شعرائے لکھنو اور دہلی کی طرح گل و بلبل کے افسانے اور ہجر و وصال کی داستانیں نہیں ہیں مگر وہ سب کچھ ہے جس کی افراد کو عموماً اور ملت اسلامیہ کو خصوصاً ضرورت ہے۔ اس کے کلام میں قومی درد ہے۔ ہمت و جوش ہے ولولہ ہے، امید ہے، ارتقا ہے، نثر میں تہذیب و اخلاق ہے، تعلیم مذہب ہے۔ وہ خود فلسفی بھی ہے اور حکیم الامت بھی، مجتہد بھی ہے اور مفکر بھی قومی لیڈر بھی ہے اور شاعر بھی، مصلح ملت بھی ہے اور رہبر بھی۔ اسے اسلام سے عشق ہے جسے وہ کائنات کی روح رواں سمجھتا ہے۔ من کہ امشب را چومہ آراستم گرد پائے ملت بیضا ستم غرضیکہ وہ سب کچھ ہے جو ہندوستان بلکہ ایشیا اب تک پیدا کر سکا ہے۔ مولوی نصر اللہ خاں عزیز بی اے مدیر ’’ مدینہ‘‘ نے اپنے اخبار میں ’’ بال جبریل‘‘ پر جو تبصرہ شائع کیا تھا اس میں علامہ اقبال کی بابت تحریر فرماتے ہیں: ۔۔۔ اقبال نہ صرف موجودہ زمانے بلکہ بہت سے گزشتہ ادوار شاعری میں بھی ممتاز ترین حیثیت رکھتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ دنیا نے اس سے بڑا شاعر اس وقت تک نہیں پیدا کیا تو یہ مبالغہ پر مبنی نہ ہو گا۔ ۔۔۔ اس کی نگاہوں کے سامنے سے سب پردے ہٹ چکے ہیں زبان عقل کی مصلحتوں کی زنجیروں سے آزاد ہو چکی ہے۔ دماغ فریب آرزو سے رہا ہو چکا ہے۔ لہٰذا اس نے دنیا کے سامنے وہ کچھ کہہ دیا ہے جو صدیوں نہیں ہزاروں برس تک پھر نہیں کہا جائے گا۔ اس میں حافظ کا سوز، عمر خیام کی رندی اور بیباکی اور غالب کی خود داری پیدا ہو گئی ہے اور حق یہ ہے کہ مشرق تو درکنار مغرب نے بھی اس پایہ کی شاعری کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ ہم آج اس کی عظمت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے۔ آئندہ نسلیں اس کی قدر و منزلت کو آہستہ آہستہ پہچانیں گی۔ در حقیقت وہ مستقبل کا شاعر ہے جیسا کہ خود پیام مشرق میں کہا ہے: نغمہ ام از زخمہ بے پرداستم من نوائے شاعر فرداستم اقبال کے کلام میں بہت سے مختلف شعراء کی خصوصیات جمع ہو گئی ہیں۔ اس میں حالی و اکبر کا احیاء قوم ہے۔ شبلی کی محبت ملت ہے۔ غالب کی خود داری اور مشکل پسندی ہے اور میر کا اثر ہے بلند پروازی، نزاکت خیال، انداز بیان اور لطف ادا میں اقبالؒ نے سب سے زیادہ غالب سے استفادہ کیا ہے۔ اس بارے میں نقادان فن کی یہ رائے ہے کہ: ’’ اگر حالی کو اقبال میں سے تفریق کر دیا جائے تو حاصل تفریق غالب کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ 1؎‘‘ لیکن اس رائے کا محاکمہ صحیح نہیںمعلوم ہوتا۔ حاصل تفریق بچے گا اور بہت کچھ بچے گا۔ اقبال کی ہستی حالی اور غالب کی مجموعی ہستیوں سے فوق ہے۔ اقبال کی زبان و قلم نے ایسے ایسے مسائل کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ جن کو حالی و غالب کی فکری شعری نے چھوا تک نہ تھا۔ البتہ سر شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لاء کا یہ خیال انتقادی حیثیت سے قابل قدر ہے کہ: ’’ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتاکہ مرزا اسد اللہ خاں غالب کو اردو شاعری سے جو عشق تھا اس نے اس کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشہ میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں۔ دوبارہ جنم لیا، 1؎ ن۔ م۔ راشد اور محمد اقبالؒ نام پایا‘‘ 1؎ اقبال کی شاعری کو در حقیقت زبانوں میں مختلف رنگ دیا ہے۔ لہٰذا اس کو مختلف ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں: دور اول یہ دور ابتداء سے ۱۹۰۵ء تک کا زمانہ ہے۔ اقبال کی شاعری کی ابتداء مشن کالج سیالکوٹ سے ہوتی ہے۔ لیکن طبیعت کے شاعرانہ جواہر گورنمنٹ کالج لاہور میں آ کر ظاہر ہوئے۔ ابتدائی کلام زیادہ تر غزلوں پر مشتمل ہے جو بانگ درا میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے اب کمیاب ہیں۔ پہلے مشاعرہ میں اقبال نے جو غزل پڑھی تھی اس کے اس شعر پر مرزا ارشد گورگانی مرحوم نے بے حد تعریف کی تھی۔ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے اس زمانہ کی نظموں میں ’’ نالہ یتیم‘‘ بہت مشہور ہے جو ۱۸۹۹ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں پڑھی گئی تھی۔ انیسویں صدی کے آخری مراحل اور بیسویں صدی کا آغاز وہ زمانہ ہے جب ملک میں تلک اور گوکھلے پیدا ہو چکے تھے اور قومی تحریک شروع ہو گئی تھی۔ شاعر کا تخیل عوام کی بہ نسبت زیادہ سریع الحسن اور سریع الانفعال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اس کی تمام شاعری ملکی و وطنی محبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ چنانچہ بانگ درا کی پہلی نظم ’’ ہمالیہ‘‘ اس طرح شروع ہوتی ہے: اے ہمالیہ اے فصیل کشور ہندوستاں چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تو جوان ہے گردش شام و سحر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے آگے بڑھ کر وہ ہندی ترانے گانے لگتا ہے: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا 1؎ دیباچہ بانگ درا صفحہ ۱ برہمن سے کہتا ہے: پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے لیکن دراصل اس دور میں خود شاعر کی روح ایک نیم آگہی بلکہ غنودگی کے دور سے گزر رہی ہے۔ وہ ہر چیز کو شوق کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کو سمجھنا چاہتا ہے اس کی کنہ و حقیقت سے واقف ہونے کا متمنی ہے۔ کبھی موت کا راز ساکنان شہر خموشاں سے جا کر پوچھتاہے۔ تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے کبھی جنت دوزخ کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہے: کیا جہنم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصد تادیب ہے کبھی تصویر درد میں اپنے وطن و قوم کی پستی و تنزل کا رونا روتا ہے اور پھر لوگوں کی انتہائی بے حسی دیکھ کر بارگاہ ایزدی میں فریاد کناں ہے: الٰہی پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا حیات جاوداں میری نہ مرگ ناگہاں میری مگر شاعری کی تمام ادبی خوبیاں اسی دور سے نظر آنے لگتی ہیں۔ تشبیہات میں لطافت اور استعارات میں ندرت موجود ہے۔ زبان صاف، شستہ، رواں، سلیس اور پاکیزہ ہے۔ جناب شیخ عبدالقادر صاحب بیرسٹر ایٹ لاء سابق مدیر مخزن اس دور کی بابت فرماتے ہیں: ’’ میں نے اس زمانہ میں انہیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ ابلتا معلوم ہوتا تھا۔ ۔۔ یہ عجیب خصوصیت ہے کہ حافظہ ایسا پایا ہے کہ جتنے شعر اس طرح زبان سے نکلیں، اگر وہ ایک مسلسل نظم کے ہوں تو سب کے سب وقت اور دوسرے دن حافظہ میں محفوظ ہوتے ہیں۔۔۔ مجھے بہت سے شعراء کی ہمنشینی کا موقعہ ملا ہے اور بعض کو میں نے شعر کہتے دیکھا اور سنا ہے مگر یہ رنگ کسی اورمیں نہیں دیکھا ہے۔‘‘ دور دوم یہ دور ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ ء تک کا وہ زمانہ ہے جب شاعر نے مغربی فضاؤں میں اپنی زندگی گزاری۔ا گر اس دور کی نظموں کا بہ نظر امعان مطالعہ کیا جائے تو حسب ذیل خصوصیات نظر آئیں گی: ۱۔ یورپ کی حسن پرور فضاؤں میں جہاں پر جلوہ بیباک دعوت قلب و نظر دیتا نظر آتا ہے۔ نوجوان اقبال کے دل میں ’’ عشرت امروز‘‘ کا ایک عارضی خیال پیدا ہو جاتا ہے۔ مقام امن ہے جنت مجھے کلام نہیں شباب کے لیے موزوں تیرا پیام نہیں شباب آہ! کہاں تک امیدوار رہے وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے عجیب چیز ہے احساس زندگانی کا عقیدہ عشرت امروز ہے جوانی کا ۲۔ حسن اور خصوصاً حسن انسانی سے وابستگی ہر شے میں ہے نمایاں یوں تو جمال اس کا آنکھوں میں ہے سلیمی تیری کمال اس کا چنانچہ یہ خصوصیت حسن و عشق، کلی، عاشق ہرجائی، فراق، ۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کروغیرہ ہر ایک نظم میں موجود ہے۔ مگر جیسا کہ شعر بالا سے ظاہر ہے۔ اقبال کا حسن و عشق سطحی نہیں بلکہ عشق حقیقی کا پرتو ہے۔ ۳۔ اس دور میں وہ تمام خوبیاں پرورش پا کر پختہ اور جوان ہو رہی ہیں جن کا تیسرے دور میں اظہار ہوتا ہے۔ شاعر کا نظریہ نہایت وسیع ہو جاتا ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جب وہ مغربی فضاؤں کی سمیت کا تجربہ کرتا ہے اور اس کی سرور روحانیت سے بیزار ہو جاتا ہے۔ پیر مغان فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے اور دنیا کو تہذیب مغرب کی بے بساطی، ناپائداری اور بے ثباتی سے آگاہ کرتا ہے: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا ۴۔ اب اس کی ’’ پیغامی شاعری‘‘ یا پیغمبرانہ حیثیت (دنیائے شعر و ادب میں) کا آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ عبدالقادر کے نام لکھتا ہے: اٹھو کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ ترا ز خون زلیخا کر دیں رخت جان بتکدہ چیں سے اٹھا لیں اپنا سب کو محو رخ سعدیٰ و سلیمی کر دیں دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں جناب ممتاز حسین صاحب ایم اے لکھتے ہیں: بلا شک و شبہ قیام ولایت کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت اقبال کی ’’ پیغمبرانہ‘‘ شان کا آغاز ہے۔ اس سے پہلے کا اقبال شاعر محض ہے۔ مگر اس کے بعد کا اقبال دنیا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً ایک حیات تازہ کا پیغام دینے کے لیے بیتاب ہے اور اس پیغام کو ہزاروں طریق سے دہراتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اگر اقبال ولایت نہ جاتا تو اس کی شاعری بلکہ اس کی زندگی کا رخ کچھ اور ہوتا۔ ۵۔ ۔۔۔ اس دور کے کلام کے انداز بیان میں او راکثر خیالات پر بھی انگریزی شعراء کا اثر پڑا ہے۔ مثلاً: تنہائی شب میں ہے مزین کیسا انجم نہیں تیرے ہم نشین کیسا کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل قدرت تیری ہم نفس ہے اے دل چنانچہ ’’ چاند اور تارے‘‘ انسان، ایک شام وغیرہ سب اسی سلسلے کی نظمیں ہیں۔ دور سوم ۱۹۰۸ء کے بعد سے اقبال کی شاعرانہ سرگرمیوں کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے جو دراصل اس کے پیغام، اس کے فلسفہ اور ا سکی شاعری کا نچوڑ ہے۔ اسی دور سے اقبال کی اسلامی شاعری کا آغاز ہوتا ہے۔ تاریخ عالم میں ۱۹۱۰ء اور ۱۹۱۱ء وہ خونی تاریخیں ہیں کہ جب دنیا مسلمانوں کے لیے عرصہ حشر بن چکی تھی۔ بلقان اور طرابلس الغرب کی لڑائیاں مسلمانوں کا خون نچوڑ رہی تھیں۔ خلافت عثمانیہ دم توڑ رہی تھی۔ ہر مسلمان ان آلام و مصائب پر تڑپ اٹھا تھا۔ تمام اسلامی حلقوں میں ایک ہیجان برپا تھا۔ اقبال ایک مسلم ہی نہیں مسلم شاعر تھا اور چونکہ شاعر عوام سے زیادہ ذکی الحس ہوتے ہیں اس لیے وہ فطرتاً اس مصیبت عظمیٰ سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ چونکہ ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں ’’ حضور رسالت مآب میں‘‘ کے عنوان سے جو نظم پڑھی تھی اس نے ہر ہر قلب کو تڑپا دیا۔ ہر ہر چشم کو پرنم کر دیا۔ شاعر کو فرشتے بزم رسالت میں لے جاتے ہیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد پر: نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا وہ عرض کرتا ہے: حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں وفا کی جس میں و بو وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آئینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تیری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں اقبال کو ملت اسلامیہ سے محبت ہی نہیں والہانہ عشق ہے۔ا س زمانہ کے فارسی کلام میں ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’ رموز بیخودی‘‘ بالکل اسلامی تعلیمات کی توضیح و تشریح ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ خود کہا ہے: ’’ میرا دعویٰ ہے کہ ’’ اسرار‘‘ کا فلسفہ مسلمان صوفیہ اور حکماء کے افکار و مشاہدات سے ماخوذ ہے۔‘‘ ’’ بانگ درا‘‘ میں بلاد اسلامیہ، گورستان شاہی، شکوہ، جواب شکوہ، شمع و شاعر، خضر راہ، طلوع اسلام سب اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ مومن: مومن کی بات اسے یقین واثق ہے کہ وہ دنیا کی کسی طاقت سے مغلوب نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ تاریخ عالم شاہد ہے کہ مٹھی بھر صحرا نشینوں نے جن کے پاس سوائے ایمان کے اور کوئی دنیاوی سامان و قوت نہ تھی۔ مشرق اقصیٰ سے لے کر مغرب اقصیٰ تک یعنی چین سے لے کر ہسپانیہ تک تمام ممالک کو کس طرح تھوڑے عرصہ میں زیر نگیں کر لیا تھا۔ مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو کس نے وہ کیا تھا؟ زور حیدرؓ، فقر بوذرؓ، صدق سلمانی ٭٭٭ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں غرضیکہ اقبال کے نزدیک مومن ایک ایسی ہستی ہے جس کے آگے افلاک کی بلندیاں بھی پست نظر آتی ہیںـ: پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے ٭٭٭ راہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات اور نظام عالم بھی اس کے ہاتھ میں ہے بلکہ انتہا یہ ہے کہ: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے یقین: انسان کا یقینا صل ایمان ہے کوئی کام بھی بغیر یقین و ایمان کے انجام تک نہیں پہنچ سکتا۔ اقبال کے نزدیک زندگی میں کامیابی کی تین شرطیں ہیں: ۱۔ یقین واثق بالفاظ دیگر ایمان ۲۔ سعی مسلسل ۳۔ اخوت ملی چنانچہ کہا ہے: یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں سیاسیات: سیاسیات سے اگرچہ وہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچانا چاہتا ہے۔ یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیض عشق سے دامن مرا ہے سینہ خراش مگر حقیقت یہ ہے کہ امیر کارواں، سالار قافلہ اور حکیم امت ہونے کے ساتھ وہ ایک زبردست سیاسی مفکر بھی ہے اور اس کو سیاسیات عالیہ کے بعض اہم مباحث سے ایک گہرا لگاؤ ہے۔ جمہوریت: مغربی جمہوریت اقبال کے نزدیک بہترین طرز حکومت نہیں بلکہ وہ اسے استبداد کی ایک نئی صورت تصور کرتا ہے: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو نیشنلزم: نیشنلزم یا قومیت کے وہ سخت مخالف ہے۔ اقبال سب سے زیادہ جس سیاسی عقیدے میں محکم ہے وہ انٹرنیشنلزم: اس کا عقیدہ بین الملیت یا انٹرنیشنلزم ہے۔ اور چونکہ قوم و وطن کی قید اس کے منافی ہے اس لیے اب وہ وطن کو بھی ایک بت قرار دیتا ہے۔ وطنیت: یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے رنگ و نسل کا عقیدہ: وہ رنگ و نسل کی تفریق کو جس کے اثر سے آج یورپ پناہ پانے کی تدابیر سوچ رہا ہے، ’’اختراج ابلیس‘‘ سمجھتا ہے۔ اسلام نے آج سے ساڑھے تیرہ صدی قبل اس کا حل اس طرح پیش کیا تھا کہ قومیت کی بنیاد وطن، رنگ و نسل کی بجائے مذہب پر رکھی تھی جو وطن کی نسبت یقینا وسیع ہے۔ یہی وجہ تھی چنانچہ رینان کا قول ہے: اسلام لعنت وطنیت، جنسیت، نسل اور رنگ کی قیود سے انسان کو آزاد کر دیتا ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ یہ جغرافیائی تقسیم قوم کے صحیح ارتقاء کے لیے زہریلا ہل ہے۔ چنانچہ یورپ کو ایک خط میں لکھتا ہے: اسلام ہمیشہ نسل و رنگ کے عقیدہ کا، جو انسانیت کے نصب العین کی راہ میں سب سے بڑا سنگ گراں ہے۔ نہایت کامیاب حریف رہا ہے۔ رینان کا خیال غلط ہے کہ سائنس اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دراصل اسلام بلکہ تمام کائنات انسانیت کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل کا عقیدہ ہے۔ جو لوگ نوع انسان سے محبت رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ ابلیس کو اس اختراع کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔ چنانچہ اس کے خطرات سے اس طرح لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ جو کریگا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی مٹ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر سوشلزم: سوشلزم کے متعلق اس کا رویہ بہت ہمدردانہ ہے۔ بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے ژرف نگاہی: اقبال کی شاعری کا دور اول اس کی امیدواری کا زمانہ تھا اب وہ دور ختم ہو چکا ہے۔ اب اس کی بھٹکتی ہوئی نظریں حقیقت تک پہنچ چکی ہیں۔ چنانچہ فلسفہ غم میں غم کی اہمیت اور ضرورت سمجھائی جاتی ہے۔ فلسفہ غم: حادثات غم سے ہے انساں کی فطرت کو کمال غازہ ہے آئینہ دل کے لیے گرد بلال غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے غم نہیں غم، روح کا اک نغمہ خاموش ہے جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے فلسفہ ممات: والدۂ مرحومہ کی یاد میں جو کچھ کہا ہے وہ دراصل فلسفہ ممات ہے، موت زندگی کا اختتام نہیں، ایک ابدی زندگی کا آغاز ہے۔ موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے اصل حیات: زندگی میں دراصل حیات سمجھاتا ہے۔ زندگی مادی ترددات اور اندیشوں سے بالاتر ہے۔ کبھی مفاد عالم کے لیے زندہ رہنا ہی زندگی ہے اور کبھی صداقت پر قربان ہو جانا زندگی ہے۔ زندگی ایک حقیقت ابدی کا نام ہے جس کی پیمائش’’ امروز فردا‘‘ کے پیمانوں سے ممکن نہیں۔ زندگی تخلیق کا راز اور انسانیت کا جوہر ہے۔ تقلید و بندگی اس کے لیے موت ہے اور آرزو عمل اور ارتقا اس کے مقاصد عالیہ ہیں۔ برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے ہے کبھی جان اور کبھی تسلیم جان ہے زندگی تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی خودی: خودی اقبال کی تعلیمات کی روح ہے۔ ہستی کا احساس اور اپنے نفس کی حقیقت سے آگاہی کا نام خودی ہے۔ انسان میں حقائق و معارف اور عروج و صعود کے بہت سے کمالات مضمر ہیں۔ وہ اپنی ہستی سے جس قدر زیادہ واقف ہو گا اور اسے اپنی مخفی قوتوں کا جس قدر زیادہ احساس ہو گا۔ اسی قدر وہ ان کو بروئے کار لا سکے گا اور اپنی زندگی کو پختہ و استوار بنا سکے گا۔ چنانچہ خودی کی تعلیم اس نے ہزاروں طریق سے ہر ہر جگہ اور ہر ہر مقام پر دی ہے۔ مثلاً: تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا ٭٭٭ کرمک ناداں ملواف شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو ٭٭٭ تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے یہ دراصل: جس شخص نے اپنی قدر و منزلت کو کماحقہ جان لیا وہ کبھی ہلاک و برباد نہ ہو گا۔ کی ترجمانی ہے یوں تو بانگ درا میں بھی خودی کی تعلیم موجود ہے۔ لیکن اس کے انتہائی مدارج و کمالات ’’ بال جبریل‘‘ اور ’’ ضرب کلیم‘‘ میں نظر آتے ہیں۔ امید و رجاء کا پہلو: جب زندگی کی حقیقت سے واقف ہو گئے، اثرات نوم مٹنے لگے اور دلوں میں جلب منفعت کی قوت پیدا ہو گئی تو ضرورت اس بات کی ہوئی کہ دلوں کو آرزو اور امید سے جگمگا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے کلام میں یاس و شک، قنوط اور نا امیدی کو دخل نہیں۔ وہ نہ خود مایوس ہوتا ہے نہ دوسروں کو مایوس ہونے دیتا ہے۔ ’’ جواب شکوہ‘‘ کے آخری بند، شمع و شاعر، طلوع اسلام اگر صحائف بشارت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے ٭٭٭ مژدہ اے پیمانہ بردراز خمستان حجاز بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش نقد خود داری بہائے بادۂ اغیار تھی پھر دکان تیری ہے لبریز صدائے ناؤ نوش ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش (شمع و شاعر) عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونیوالا ہے شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا خلیل اللہ کے دربار میں پھر ہوں گے گہر پیدا اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا لہٰذا: ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے فلسفہ اقبال: اس ’’ تخلیق‘‘ تمنا یا کم از کم ’’ تجدید تمنا‘‘ سے دلوں میں جوش و ولولے پیدا ہو گئے تو عمل کی تعلیم دی اور دراصل اقبال کا تمام تر فلسفہ یہی عمل ہے۔ افلاطون اور اقبال کے فلسفہ کا امتیازی فرق بھی یہی ہے۔ افلاطون اور بعض قدیم اقوام بھی مثلاً ہنود، بودھ، جین بجائے زندگی کے موت کو انسان کا نصب العین قرار دیتا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو انسان کو بزدلی اور عمل سے گریز کرنا سکھاتا ہے۔ افلاطون کی تعلیم ہے کہ مادہ جو زندگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس سے گریز چاہیے۔ اقبال کے نزدیک جوہر انسانیت یہ ہے کہ انسان مخالف قوموں کا ہمت و بہادری سے مقابلہ کرے اور ان کو مغلوب کر کے اپنا خادم بنا لے۔ حضرت ادیب اے آبادی لکھتے ہیں: ’’ علامہ اقبال مرنے کو تو بالکل مانتے ہی نہیں۔ سوتے رہنے کو خود کشی، لیٹ رہنے کو زہر ہلال، بیٹھنے کو سم قاتل، کھڑے رہنے کو دشمن جان اور چلنے پھرنے کو مقاصد عالیہ ملیہ کے لیے ضرر رساں سمجھتے ہیں۔ ان کا نظریہ حیات یہ ہے کہ دن رات دوڑتے رہو۔‘‘ سر طامس آرنلڈ رقمطراز ہیں: ’’ ہندوستان میں حرکت تجدید نے اپنا ممتاز ترین ظہور محمد اقبال کی شاعری میں حاصل کیا ہے جو مغربی فلسفہ زندگی کے ایک متین عمیق محقق ہیں۔‘‘ خود اقبال ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک مکتوب میں ’’ اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمہ پر مسٹر ڈکنس کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے اپنے فلسفہ کی بابت لکھتا ہے: ’’ میرے نزدیک بقا انسان کی بلند ترین آرزو اور ایسی متاع گراں مایہ ہے جس کے اصول پر انسان اپنی تمام قوتیں مرکوز کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمل کے صور و اشکال مختلفہ کو جن میں جہد اور پیکار بھی شامل ہے ضروری سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک ان سے انسان کو زیادہ استحکام و استقلال حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر میں نے سکون و جمود اور اس نوع کے تصوف کو ملک و ملت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔‘‘ راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے زندہ ہر ایک چیز ہے کوشش ناتمام سے اس راہ میں مقام ہے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے پختہ تیرے گردش پیہم سے جام زندگی ہے یہی اے بیخبر راز دوام زندگی فارسی تصنیفات: اقبال کی فارسی تصنیفات کا کوئی خاص دور قائم نہیں کیا جاتا۔ فارسی کی حسب ذیل کتابیں اقبال کے قلم سے نکلی ہیں۔ ۱۔ اسرار خودی ۲۔ رموز بیخودی ۳۔ پیام مشر ۴۔ زبور عجم ۵۔ جاوید نامہ ۶۔ مسافر ۷۔ مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ۸۔ ارمغان حجاز ان میں ’’ اسرار خودی‘‘ رموز بیخودی اور ’’ پیام مشرق‘‘ کا زمانہ تصنیف وہی ہے جو ’’ بانگ درا‘‘ کے دور سوم کا۔ اس لیے یہ تینوں تصنیفات وہ رسوم میں شامل ہیں۔ ’’ زبور عجم‘‘ اور’’ جاوید نامہ‘‘ اس دور کا نمونہ ہے جس میں ’’ بال جبریل‘‘ اور’’ ضرب کلیم‘‘ شائع ہوئیں۔ اسی ذیل میں ان کے بعد کی تصنیف ’’ مسافر‘‘ اورمثنوی’’ پس چہ باید کرد‘‘ آتی ہے اور ’’ ارمغان حجاز‘‘ میں اسی دور کا تتمہ ہے۔ مثنویات اسرار و رموز کے خیالات، فلسفہ، تعلیمات سب کچھ اسلام سے ماخوذ ہے۔ یہ دونوں مثنویاں تعلیمات اسلامی کی دلکش و صحیح توضیح و تشریح ہیں۔’’ پیام مشرق‘‘ گوئٹے کے ’’ دیوان مغرب‘‘ کے جواب میں لکھا گیا۔ زبور عجم نہایت لطیف اور پر کیف نظموں کا مجموعہ ہے۔ بعض اہم اور دقیق نکات اور مسائل کو سمجھایا گیا ہے۔ ’’ جاوید نامہ‘‘ اٹلی کے مشہور شاعر و مفکر دانتے (Dante) کی کتاب ڈیوائن کامیڈی کا جواب ہے جس میں شاعر نے مولانا جلال الدین رومی کی قیادت میں طبقات علویہ کی سیر کا حاصل لکھا ہے۔ مسافر سیاحت چند روزہ افغانستان کے تاثرات کا نتیجہ مثنوی پس چہ باید کرد میں ملت اسلامیہ کو راہ مستقیم بنائی گئی ہے اور اس کو بیداری کا ایک تازہ پیغام دیا گیا ہے۔ ارمغان حجاز، علامہ کی آخری شعری تخلیق ہے جس کا بیشتر حصہ فارسی کلام خصوصاً رباعیات پر مشتمل ہے جو پانچ عنوانات پر منقسم ہے: ۱۔ حضور حق، ۲۔ حضور رسالت، ۳۔ حضور ملت، ۴۔ حضور ملت انسانی اور ۵۔ بہ یاران طریق کتاب کے آخر میں کچھ اردو نظمیں بھی شامل ہیں۔ سوال کیا جاتاہے کہ ’’ بانگ درا‘‘ کے بعد اقبال نے اردو سے اس قدر اغماض کیوں برتا اور صرف فارسی ہی کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ کیوں بنایا۔ اس کا جواب صاف ہے اقبال کو احساس تھا کہ دنیا کو اس کے پیغام کی ضرورت ہے۔ اصحاب نظر کی رائے ہے کہ اقبال اسلام کے لباس میں مذہب انسانیت کا مبلغ ہے۔ یہ کام اردو کے ذریعہ سے ممکن نہ تھا۔ علاوہ ازیں تنگنائے اردو میں اس کے بلند اور وسیع تخیل کے تحمل کی قابلیت نہ تھی۔ اس لیے فارسی کو اس نے تمام عالم خصوصاً تمام عالم اسلامی کو مخاطب کرنے کا ذریعہ بنایا۔ کیونکہ تمام ممالک اسلامی میں فارسی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اقبال اپنے تمام شان و تحمل کے ساتھ فارسی میں جلوہ گر ہے۔ اردو کی ’’ تنگ ظرفی‘‘ اس کے جلوؤں کی گوناگونی اور بو قلمونی کی متحمل نہیں۔ مگر اس کی شاعری کا یہ دور ہمارے موضوع سے متعلق نہیں۔ دور چہارم جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے۔ وجوہات بالا کی بنا پر فارسی تصنیفات کا کوئی علیحدہ دور قائم نہیں کیا جا سکتا۔ چوتھے دور میں اقبال کی جو تصنیفات آتی ہیں۔ وہ یہ ہیں: زبور عجم، جاوید نامہ، بال جبریل، ضرب کلیم، مسافر، مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق اور ارمغان حجاز کی اردو منظومات سے ہے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد اقبال نے پھر اردو کی طرف توجہ کی جس سچے جذبے نے شیدایان اردو کو علامہ سے درخواست کرنے پر مجبو رکیا تھا۔ چنانچہ یہ جذبہ بار آور ثابت ہوا اور جنوری ۱۹۳۵ء میں اقبال کا نیا اردو دیوان بال جبریل شائع ہوا۔ اس وقت سے اقبال کی اردو شاعری کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے۔ اس کے دو برس کے بعد ضرب کلیم ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئی علامہ کی وفات کے بعد ارمغان حجاز شائع ہوئی۔ ان کتابوں نے اردو ادب میں ایک تہلکہ مچا دیا اور اللہ اکبر پکار اٹھے اردو میں اب تک اس قدر ٹھوس اور دقیق کلام نظر سے نہیں گزرا۔ اس چالیس پینتالیس برس کے زمانہ میں جب سے مشرق کے اس شاعر اعظم نے شعر گوئی میں سرگرمی دکھائی۔ آخر تک برابر اس کا علمی اور ذہنی ارتقاء جاری رہا اور حیات اقبال کا آخری زمانہ وہ تھا جب ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال اس ارتقاء کی انتہائی بلندیوں پر سرگرم خرام تھا لیکن اس کا سوز جستجو وہاں پہنچ کر ختم نہیں ہوا تھا اس کی نظریں ’’ آنسوئے افلاک‘‘ تھیں اور آج وہ عرش کی بلندیوں پر سر گرم خرام ہے۔ ’’ بانگ درا‘‘ دراصل اس کی شاعری کے بچپن کا کلام ہے اس لیے اس میں ارتقائی معارج صاف نظر آتے ہیں اور خود اس کی روح پر ایک غنودگی کی سی کیفیت طاری معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اب وہ اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ کائنات پر چھا چکا تھا۔ اب اس کے لیے کوئی پردہ نہیں ہے۔ اب اس کی نظریں سر اوقات جمال کو چیرتی ہوئی حریم ذات تک پہنچ چکی ہیں۔ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشبند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں گاہ میری نگاہ تیز چیز گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں بال جبریل اور ضرب کلیم اس کے اس ہی زمانہ کا کلام پیش کرتی ہیں۔ وہ گل و بلبل کے سکر آور اور قنوطیت زا نغموں سے بے نیاز ہو کر دنیا کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے صور اسرافیل پھونکتا ہے جس میں کوئی ز یر و بم، کوئی بلندی و پستی کوئی ناہمواری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کا کلام یکساں نظر آتا ہے۔ اس میں بلندی ہی بلندی ہے۔ وہ کبھی بال جبریل مستعار لے کر عرش کی بلندیوں تک پرواز کرتا ہے اور کبھی عصائے کلیم کی ایک ضرب کاری سے دریائے عصر حاضر کے سینہ کو شق کر دیتا ہے کہ اپنی قوم کو لے کر پار اتر جائے اور فراعنہ زمانہ کو غرقاب نیل کر دے۔ وہ اپنی قوم کی بے حسی کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے۔ ارمغان حجاز میں ’’ آواز غیب‘‘ بلند ہوتی ہے: آتی ہے دم صبح صدا عرش بریں سے کھویا گیا کس طرح ترا جوہر ادراک؟ تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزا وار کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلام خس و خاشاک کس طرح ہوا کند تیرا نشتر تحقیق ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک؟ مہر و مہ انجم نہیں محکوم ترے کیوں؟ کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک؟ ابتک ہے رواں گرچہ لہو تیری رگوں میں نے گرمی افکار، نہ اندیشہ بیباک؟ روشن تو وہ ہوتی ہے جہاں بیں نہیں ہوتی جس آنکھ کے پردوں میں نہیں ہے نگہ پاک؟ باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری اے کشتہ سلطانی و ملاتی و پیری مومن کی شان اور رتبہ اب اس کی آنکھوں میں یہ ہے، بال جبریل میں کہتا ہے: ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں، نہیں دانہ اسپند ٭٭٭ عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے کافر و مومن کا مقابلہ کرتا ہے: کافر ہے مسلماں تو نہ میری نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی امیری کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو ہے آپ ہی تقدیر الٰہی (بال جبریل) اور ضرب کلیم میں کہا ہے: کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق مومن کی رفعت شان کی کچھ انتہا بھی ہے! یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا ٭٭٭ افرنگ ز خود بیخبرت کرد وگرنہ اے بندۂ مومن تو کجائی تو کجائی وہ مسلمانوں کو پھر ایک دفعہ میدان عمل میں آنے اور اپنی دیرینہ عظمت حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے: نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری چہ بے پروا گز شتند از نوائے صبحگاہ من کہ بردآں شور و مستی از سیہ چشمان کشمیری خودی کی تعلیم بانگ درا میں دے چکا ہے۔ اب وہی نغمہ بہت زیادہ بلند آہنگ ہو کر اس طرح گونجتا ہے۔ بال جبریل میں کہتا ہے: خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش خودی کی زد میں ہے ساری خدائی خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل یہی ہے تیرے لیے اب صلاح کار کی راہ ٭٭٭ بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی بہترین الفاظ میں ’’ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ ‘‘ (جس نے اپنی حقیقت کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو بھی پہچان لیا) کی ترجمانی کی ہے۔ ضرب کلیم میں کہتا ہے: تری خودی سے ہے روشن تیرا حریم وجود حیات کیا ہے اسی کا سرور و سوز و ثبات بلند تر مہ و پرویں سے ہے مقام اس کا اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات صفات ارمغان حجاز میں کہتا ہے: فرد کی تنگ دامانی سے فریاد تجلی کی فراوانی سے فریاد گوارا ہے اسے نظارۂ غیر نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد ٭٭٭ تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے ’’ بانگ درا‘‘ اور پھر’’ بال جبریل‘‘ و’’ ضرب کلیم‘‘ میں برابر یقین کی تلقین کی گئی ہے۔ معنوی حیثیت سے اسی کا نام ایمان ہے۔ چنانچہ اب وہ توحید کی تعلیم اس طرح دیتا ہے: صنمکدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل ؑ یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا الٰہ میں ہے ٭٭٭ بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لا الٰہ میں ہے طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے اس کی عالی حوصلگی، خود داری اور استغنا، ہمت جوش اور اولو العزمی کی کچھ انتہا بھی ہے۔ بال جبریل میں کہتا ہے: متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی ٭٭٭ قصور وار غریب الدیار ہوں لیکن ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد ٭٭٭ نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی تن آسان عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ اور ضرب کلیم میں کہتا ہیـ: تو رہ نور و شوق ہے منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول کھویا نہ جا صنمکدۂ کائنات میں محفل گداز گرمی محفل نہ کر قبول صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل ؑ نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول ٭٭٭ مجھے سزا کے لیے بھی نہیں وہ آگ قبول کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و چالاک ٭٭٭ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے ٭٭٭ تو مری نظر میں کافر میں تیری نظر میں کافر ترا دیں نفس شماری مرا دیں نفس گزاری ’’ ارمغان حجاز‘‘ میں سر اکبر حیدری صدر اعظم حیدر آباد دکن کے نام ’’ یوم اقبال‘‘ کے موقعہ پر توشہ خانہ حضور نظام کی طرف سے جو صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے۔ ایک ہزار روپے کا چیک بطور ’’ تواضع‘‘ موصول ہونے پر لکھتا ہے: تھا یہ اللہ کا فرمان کہ شکوہ پرویز دو قلندر کو کہ میں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر حسن تدبیرے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات عقل کی بابت کہتا ہے: گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے لیکن عشق کی بابت اس کا خیال ہے کہ: اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق کیونکہ: عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرام عشق فقیہ حرم، عشق امیر جنود عشق ہے ابن السبیل اسکے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات اس نے عقل و عشق کا بھی موازنہ کیا ہے اور اس طرح کیا ہے کہ شاید اس سے بہتر ممکن نہ ہو سکے۔ تازہ میرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفی، عقل تمام بو لہب ٭٭٭ تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل غیاب و جستجو! عشق حضور و اضطراب ’’ ضرب کلیم‘‘ میں اپنے شعر سے خطاب کرتا ہے، جو دراصل شعر کی حقیقت و عظمت و اثر پر بہترین اظہار خیال ہے: میں شعر کے اسرار سے واقف نہیں لیکن یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمہ جبریل ہے یا صور سرافیل مجلس جمعیت اقوام پر شاید اس سے زیادہ صحیح تنقید کبھی نہیں کی گئی: بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نکل آتی ولیکن پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ اور سنبھل جائے جمعیت اقوام کی تشکیل کے کچھ ہی عرصہ بعد فارسی میں کہا تھا: من ازیں بیش ندانم کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند سیاسیات افرنگ کے متعلق کہتا ہے: تیری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس عورت کی بابت رقمطراز ہے: وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاکی اس کی کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں مکالمات فلاطون نہ لکھ سکی لیکن اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرار افلاطوں غرضیکہ اقبال کا کلام حقیقت میں مشرق و مغرب اور خاص زندگی کی بہترین تنقید ہے۔ فنون لطیفہ، شاعری، تعلیم، دور حاضرہ، مذہب، سوسائٹی، اخلاق، سیاست، معاشرت کوئی چیز ایسی نہیں جس پر بہترین تنقید ’’ بال جبریل‘‘ اور’’ ضرب کلیم‘‘ میں موجود نہ ہو۔ یہ وہ چیز ہے جس کی مثال اردو میں تو کیا فارسی و عربی بلکہ انگریزی شاعری میں بھی نایاب ہے۔ بہت سی دوسری نظموں سے قطع نظر ’’ بال جبریل‘‘ کا’’ ساقی نامہ‘‘ اور’’ ارمغان حجاز‘‘ میں سر راس مسعود کو مرثیہ ہی وہ نظمیں ہیں جو آج ہی نہیں صدیوں تک اردو شاعری میں اپنا حریف تلاش کرتی رہیں گی۔ ’’ ضرب کلیم‘‘ میں چھ ابواب ہیں۔ جو مستقل موضوعات عظیمہ پر مشتمل ہیں۔ ان ابواب کے نام یہ ہیں: ۱۔ اسلام اور مسلمان، ۲۔ تعلیم و تربیت، ۳۔ عورت، ۴۔ ادبیات فنون لطیفہ، ۵۔ سیاسیات مشرق و مغرب اور، ۶۔ محراب گل افغان کے افکار’’ بال جبریل میں اکثر نظموں کے عنوانات درج نہیں ہیں۔ اس وجہ سے کتاب اور بھی زیادہ ادق ہو گئی۔‘‘ ضرب کلیم میں اس امر کا التزام کیا گیا ہے کہ ہر نظم ایک عنوان کے تحت میں درج ہے۔ ضرب کلیم، بال جبریل سے نسبتاً آسان ہے۔ ’’بال جبریل‘‘ اقبال کا حد درجہ وقیع، ٹھوس اور مشکل کام ہے۔ موجودہ اردو غزل پر رفتہ رفتہ اقبال کا اثر طاری ہو رہا ہے۔ بال جبریل اور ضرب کلیم کی بعض غزلیں ایسی ہیں کہ اگر زمانہ ماضی میں یہ شعر پڑھے جاتے تو شاید ان کو غزل تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا جاتا۔ مثلاً: صحبت پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سربجیب، ایک کلیم سر بکف نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی تیری متاع حیات علم و ہنر کا سرور میری متاع حیات ایک دل ناصبور ایک زمانے سے ہے چاک گریباں مرا تو ہے ابھی ہوش میں میرے جنوں کا قصور غرضیکہ اقبال جس میں زبردست طرز کا موجد ہے اس کا مجتہد اور مختتم بھی ہے۔ ٭٭٭ (مئی ۱۹۴۲ئ) اقبال اور بھرتری ہری میرزا محمد بشیر ایم اے یہ حقیقت ہے کہ اردو دان طبقے کی ایک کثیر جماعت ’’ بھرتری ہری‘‘ کے کلام ہی سے نہیں بلکہ نام سے بھی قریب قریب نا آشنا ہے فارسی اور اردو میں اس عارف کے بلند اور حکیمانہ خیالات کی ترجمانی کا سہرا علامہ اقبالؒ کے سر ہے انہوں نے سنسکرت کے اس حکیم شاعر کو رومی، نطشہ، گوئٹے و غیرہم کی صف میں جگہ دی ہے۔ بھرتری آج سے تقریباً دو ہزار برس پیشتر پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام ’’ ہری‘‘ تھا اور یہ اجین کے راجہ بکرما جیت کے بھانی تھے کچھ عرصے تک اجین کا راج تھا۔ ان کے نام ’’ ہری‘‘ کے ساتھ جو ’’بھرتری‘‘ لگایا جاتا ہے اس کا سبب ان کی رعایا پروری اور غربا نوازی ہے۔ کہتے ہیں کہ اپنی بیوی کے چال چلن سے ناخوش ہو کر راج پاٹ ترک کر دیا اور سنیاسی بن گئے۔ اقبال نے ’’ جاوید نامہ‘‘ میں ان کی فقیری اور شہنشاہی دونوں کا ذکر کیا ہے اور اس شہنشاہ سخن کے کلام کی حقیقی مدح کی ہے: ایں نوا پرواز ہندی را نگر شبنم از فیض نگاہ او گہر نکتہ آرائے کہ ناش برتری است فطرت او چوں سحاب آذری است پادشا ہے با نوائے ارجمند ہم بہ فقر اندر مقام او بلند کارگاہ زندگی را محرم است او جم است و شعر او جام جم است یوں تو زبان سنسکرت کی قواعد دانی کے اعتبار سے ان کا شمار ماہرین میں ہے لیکن ان کی عظمت و غیر فانی شہرت کا سبب ان کا عارفانہ کلام ہے۔ بھرتری کی تصانیف ’’ واکبا پردیپ‘‘ اور تین شتک ہیں: ۱۔شرنکار شتک ۲۔ نیتی شتک ۳۔ ویراک شتک اس قدیم فلسفی شاعر کا یہ مقولہ کتنا دلچسپ ہے کہ ’’ ادب موسیقی اور فنون لطیفہ سے جو شخص بیگانہ ہو وہ بغیر دم اور سینگ کا جانور ہے۔‘‘ بھرتری کا قول تھا کہ ایک ’’ مورکھ‘‘ کے دل کو کلام نرم و نازک متاثر نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس خیال کو گوناگوں پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں کہ انسان چاہے اور کوشش کرے تو ریت سے تیل نکال سکتا ہے۔ تشنگی سے بے چین ہو کر شاید سراب سے سیراب ہو سکے۔ ممکن ہے کہ جنگل میں جستجو سے خرگوش کے سینگ بھی مل جائیں۔ لیکن مرد نادان کے دل پر قابو پا لینا ناممکن ہے۔ ’’ بال جبریل‘‘ میں اقبال کا ایک شعر ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر اس شعر کے نیچے ’’ بھرتری‘‘ کا نام درج ہے کیونکہ یہ مضمون بھرتری کے حسب ذیل اشلوک سے ماخوذ ہے: ’’ مست ہاتھی کو کنول کے زیرے سے باندھ سکتے ہیں۔ پھول کی پتی سے ہیرے کو کاٹ سکتے ہیں اور شہد کے ایک قطرے سے کھاری سمندر کو میٹھا بنا سکتے ہیں۔ جو یہ سب کر سکتے ہیں وہ مرد ناداں کو اپنے کلام سے متاثر نہیں کر سکتے ہیں۔‘‘ اقبال کی شاعری دنیا کے مختلف شعراء و حکماء کے جذبات و افکار کی آئینہ بردار ہے۔ چنانچہ ان کا فلسفہ عمل بھرتری کے خیالات عالیہ کی سچی ترجمانی ہے۔ نیتی شتک میں کہتے ہیں کہ ’’ بھاگ سے سب کچھ ہوتا ہے اور بھاگ ہی بنتا ہے عمل سے۔‘‘ چھٹے اشلوک میں عمل کی اہمیت ایک دلکش طرز سے ظاہر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے میں نے چاہا کہ سب دیوتاؤں کے روبرو سجدہ کروں لیکن بیکار ہے۔ پھر کیا برہما کی پرستش کریں؟ نہیں نہیں وہ تو ہماری تقدیر کے موافق دیتا ہے۔ تو کیا تقدیر کے آگے سر خم کریں؟ نہیں نہیں! تقدیر تو عمل کے تابع ہے۔ پھر برہما اور دیوتاؤں سے کیا؟ ’’افلاک‘‘ کی سیر میں اقبال کی ملاقات بھرتری سے ہوئی۔ بھرتری اقبال سے کہتے ہیں: سجدہ بے ذوق عمل خشک و بجائے نرسد زندگانی ہمہ کردار چہ زیبا و چہ زشت فاش گویم بتو حرفے کہ نداند ہمہ کس اے خوش آں بندہ کہ بر لوح دل اور ابنوشت پیش آئین مکافات عمل سجدہ گزار زانکہ خیزد ز عمل دوزخ و اعراف و بہشت ان اشعار میں بھرتری کے خیالات کی ترجمانی کی گئی ہے (جاوید نامہ ص ۲۰۰۰) اسی افلاکی ملاقات کے دوران میں بھرتری سے سوال ہوتا ہے کہ شعر میں سوز خودی سے پیدا ہوتا ہے یا خدا کی دین ہے۔ شعر را سوز از کجا آید بگوئے از خودی یا از خدا آید بگوئے بھرتری سے جواب ملتا ہے: جان ما را لذت اندر جستجوست شعر را سوز از مقام آرزوست اسی مکالمے میں اقبال سے ارشاد ہوتا ہے: اے تو از تاک سخن مست مدام گر ترا آید میر ایں مقام باود بیتے در جہان سنگ و خشت می تواں برون دل از حور بہشت یہی وہ ’’ جستجو و آرزو‘‘ ہے جس نے اقبال کے کلام میں سوز و ساز پیدا کیا۔ اور اقبال کے آتشیں نغموں سے ’’ نوائے برتری‘‘ بلند ہوئی بقول اقبال: رفت در جانم صدائے برتری مست بودم از نوائے برتری ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) اقبال کے بدلتے ہوئے نظریات راز ہاشمی اقبال اور مناظر فطرت ’’ اقبال کے بدلتے ہوئے نظریات‘‘ کی باب کشائی بہ عنوان ’’اقبال اور مناظر قدرت‘‘ پیش کی جا رہی ہے۔ اقبال اور مناظر قدرت کے تحت لکھے مضمون میں آپ کو اس دور کی ترقی یافتہ صورت سے روشناس کرانا منظور ہے، جبکہ آپ اس شاعر ملت کی زبان سے ہمالہ، گل رنگین اور ابر کوہسار کے ترانے سنا کرتے تھے۔ اپنے آخری دور میں اقبال نے منظر کشی یا منظر آفرینی کو جن تخیلات کے ساتھ دکھایا اور فطرت کو جس نظریہ سے دیکھا ہے وہ کس قدر مختلف ہے ملاحظہ فرمائیے: اقبال کی نگاہ میں ’’ لالہ و گل کا جمال اور تاروں کا عکس قدرت کا ایسا راز ہیں جن کے لیے وہ دوسروں کو دعوت نگاہ دیتا محور سمجھتا ہے اور دوسروں کو ان کی نگاہ سے سمجھاتا ہے: فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیر مقام رنگ و بو کر آگے چل کر جب فلک پر اس کی نظر پہنچتی ہے تو تاروں کی آبادی اسے ایک لامتناہی سلسلہ میں نظر آتی ہے۔ پھر وہ ان لوگوں سے مخاطب ہوتا ہے جنہیں اعلیٰ مقام و ارفع زندگی کی تلاش ہے۔‘‘ تاروں کی فضا ہے بیکر از تو بھی یہ مقام آرزو کر اقبال کے ہاں جھوٹی تسلیاں نہیں وہ انسان کو فطرت کے مناظر میں شگفتہ اور بلند دیکھنا چاہتا ہے۔ ٹوٹی ہوئی امیدوں کو نئے ارمانوں سے سنوارتا ہے۔ اگر کملائے ہوئے پھول اور مرجھائی ہوئی کلیاں اس کو دکھ پہنچاتی ہیں تو وہ انسان کو یہاں بھی مایوس نہیں ہونے دیتا۔ مایوسی تو اس کے لیے گناہ ہے۔ دیکھئے کس اندازہ سے کہتا ہے: عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں چاک گل لا لہ کو رفو کر راز یہ رفوگری اقبال کے پاس بہت قدیم خیال ہے مگر اس کی قدامت کو اس نے موجودہ دور کے لیے نئے رحجانات کے تحت بنایا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گلوں کی چاکدامنی فطرت کا تقاضا ہے مگر اس اصول میں انسان کے لیے ایک ’’ حیلہ کار‘‘ بھی ہے وہ چاہتا ہے کہ دنیا کم از کم ایسی تو ہو جہاں فطرت کی صناعی میں انسان بھی حصہ لے۔ آنکھ جن گوشوں کو غیر حسن انداز میں دیکھتی ہے کیوں نہ ’’تمام حسن‘‘ صورت میں دیکھئے۔ وہ اس کو قدرت کی خامی بھی نہیں بتاتا، بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ ان تمام مناظر فطرت کے لیے انسان کی جدوجہد کی بھی ضرورت ہے۔ بے ذوق نہیں اگرچہ قدرت جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر اس تمام دعوت فکر و عمل کے ساتھ ہی ساتھ بعض اوقات اقبال کا دل سبزہ و گل کی رعنائی اور تازگی کے باوجود نہیں کھلتا۔ اس کی نگاہ کھلتے ہوئے کھیتوں، شبنم سے تر رخت گل اور باد سحر کی نغمہ پروری سے دھوکا نہیں کھاتی۔ وہ اس سے بھی زیادہ کچھ اور چاہتا ہے۔ اس کی تمنائیں فطرت کے ان کھلونوں سے نہیں بہلتی۔ آخر کار مجبوراً کہہ اٹھتا ہے: چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے سمن ہے، سبزہ ہے، باد سحر ہے مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں۔ گرم؟ یہاں کا لالہ بے سوز جگر ہے یہی وہ خامی یا کمی ہے جو اقبال کی نگاہ کو ہر جگہ نظر آئی۔ تڑپ، ٹیس اور احساس درد زندگی کے لیے لازمی جز ہیں جو دل بیگانہ غم ہو اس کے لیے ہنگامہ و خاموشی دونوں بے معنی ہیں: نقش ہیں سب ناتمام خون جگہ کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر یہ خون جگر کیا ہے؟ انسان کا احساس اور سلیقہ، درد، بہت کم ایسے دل ہیں جو احساس کا صحیح معیار رکھتے ہیں۔ آنکھ سے نظارہ کرنا آسان ہے مگر نگاہ دل سے دیکھنا مشکل ہے۔ یہی وہ تمام مفہوم ہے جو ہمیں اقبال کے ’’ بہاریں کلام‘‘ میں ملتا ہے۔ شام و سحر کی رنگینیوں میں غرق ہو جانا کمال نہیں بلکہ انہی رنگینیوں سے ایک اور ہی جہاں کی تصویر دیکھنا کمال ہے۔ کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش اقبال کا طرز ادا جہاں کہیں ناصحانہ ہو گیا ہے وہاں ایک لطیف و پنہاں ’’ آرزوئے فرار‘‘ بھی ملتی ہے۔ اقبال کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ مناظر کی رنگینیاں اور ان کا وجود چشمہ ظاہر کے لیے دھوکا ہوں تو ہوں۔ مگر دراصل قدرت کچھ اور چاہتی ہے۔ یہ لالہ و گل یہ سبزہ و بہار اقبال کے لیے محض تفریحی نہیں۔ اسے ان ہی سے فکر اور تخیل ملتا ہے۔ ایسا تخیل جس میں اندیشے نہیں بلکہ یقین ہے وہ جب بھی فطرت کا مغنی بن کر آتا ہے تو سننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کی نگاہ بہار و خزاں کی راز دار ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ایک آتش نوا شاعر بہاروں کے گیت گا رہا ہے۔ مگر اقبال ایسے ہی وقت کہتا ہے: مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ گوشہ گوشہ اس کی نگاہ میں بے سکون ہے بے آرام ہے ذرہ ذرہ کو اس کا دل شر انگیز دیکھتا ہے۔ وہ زمین کی گہرائیوں سے جب افلاک کی بلندیوں پر نظر ڈالتا ہے تو تمام فضا اسے ایک کشادہ اور غیر موزوں مرکز معلوم ہوتی ہے جہاں ’’ پناہ‘‘ اور’’ گوشہ فراغت‘‘ ناپید ہیں۔ نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ اس شعر میں اقبال کی زبان ’’ لطیف و پنہاں آرزوئے فرار‘‘ کا پیغام دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ مگر نہیں؟۔۔ ایک اور جگہ اسی پیغام کو اس نے جرأت اور زندگی میں ڈھال کر پیش کیا ہے! کشادہ روز خوش و ناخوش زمانہ گزر ز گلشن و قفس و دام و آشیانہ گزر اور پھر کس پر لطف انداز میں کہا ہے: اگر عنان تو جبریل و حور می گیرند کرشمہ بردل شاں ریزو دلبرانہ گزر یہ اس لئے کہ ’’ مناظر کے الجھاؤ‘‘ میں پڑنے سے زیادہ کہیں بہتر یہ ہے کہ نگاہ و دل حقیقت بیں ہو کر اس جہان رنگ کو دیکھیں یہ آبشار و دریا، جن کی زبانوں پر فطرت کے گیت ہیں۔ یہ غنچہ و گل جن کے سینہ میں قدرت کا دل ہے اور یہ وادی و صحرا جن کے دامنتوں میں بظاہر ہزاروں راز ہیں۔ سب کے سب ایک اہل نظر کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس حقیقت کو اقبال یوں بے نقاب کرتا ہے: ایں کوہ و صحرا ایں دشت و دریا نے راز داراں نے غم گساراں بیگانہ شوق بے گانہ شوق ایں جوئے باراں ایں جوئے باراں فریاد بے سوز، فریاد بے سوز بانگ ہزاراں اور شاخساراں پھر فطرت میں ذوق و درد اور غم پسندی وجور طلبی کا اپنے دل سے موازنہ کرتے ہوئے کہتا ہے: داغے کہ سوزد در سینہ من آں داغ کم سوخت در لالہ زا راں یہ تھا اقبال جب وہ مناظر قدرت کے سامنے آیا۔ حقیقتہً ایک مفکر کی نظر سے اقبال نے قدرت کو دیکھا اور ایک نئے ’’ درماں‘‘ کی تلاش کی۔ شاعر کی نظر سے جب اقبال نے مناظر کو نوازا تھا تو کلام میں سوائے نغمہ سرائی اور سرور انگیزی کے کیا تھا۔ مگر وہ زمانہ گزر چکا تھا اقبال کی نگاہ اب ’’راز درون پردہ‘‘ کو دیکھ کچھ اور سوچنے لگی تھی۔ آخر میں وہ یہ کہتا ہوا خاموش ہو جاتا ہے: عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں ٭٭٭ (اکتوبر ۱۹۴۴ئ) اقبال اور اسلام قاضی حامد علی مجازی بی اے اس کاروان ہستی میں یہ دنیائے فانی کوئی نقش مستقل نہیں رکھتی۔ مگر تغیر زمانہ کے سطح آب پر کبھی کوئی ایسی لہر بھی اٹھتی ہے جس کے تاثرات کو امتداد زمانہ فنا نہیں کر سکتا۔ دنیا کی ان زبردست شخصیتوں میں جنہوں نے اس کاروان حیات کی رہنمائی کی اور بالآخر موت کی آغوش میں پہنچ کر اپنی سعی بے پایاں کی حد کو معلوم کر لیا۔۔۔ ان ہستیوں میں سے جنہوں نے ہمیشہ انسانیت کو حیات جاوید دے کر حق کی طرف گامزن کیا۔۔۔ وہاں صنم کدہ ہندوستان کا ’’ مومن شاعر‘‘ اقبال بھی ہے۔ ہر قوم کا بہترین سرمایہ اس کی کائنات شاعری ہے مگر وہ شاعری نہیں جو گل و بلبل سے بہار حسن و عشق کے خمار آگیں افسانے سنا کر قوم کو سراب ہستی کی موجوں میں سلا دیتی ہے بلکہ وہ شاعری جو قوم میں حقیقی حیات کی روح پھونک دے۔ ادبی دنیا میں عرب اپنے حسان و فرزدق کی وجہ سے ایران خیام سعدی، عراقی اور حافظ کی وجہ سے روم اپنے رومی کی وجہ سے برطانیہ اپنے شیکسپیئر، ملٹن اور ورڈسورتھ کی وجہ سے ایطالیہ اپنے ڈینٹے کی وجہ سے، جرمنی نطشہ اور گوئٹے کی وجہ سے، ترکی دامق کمال بے کی وجہ سے، روس چیخوف کی وجہ سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ مگر ہندوستان کے نام کو ابدی حیات دینے کے لیے، والیک، برتری ہری، خسرو اور غالب کافی نہیں۔ چونکہ اول الذکر کی زبان اب امتداد زمانہ کے معدوم ہو چکی ہے اور موخر الذکر کی زمانہ کو اب چنداں ضرورت نہیں ہے۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان کا نام ایک نقش کالعدم رہے گا۔۔۔ نہیں وہ تابندہ رہے گا۔ بالکل اسی صورت سے جیسے کہ ستارے اور چاند سورج سے کسب نور کر کے فروزاں رہتے ہیں۔۔۔ اقبال ہی وہ مہر عالمتاب ہے جس کے ضو کی کرنیں ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام عالم کو منور کر ہی ہیں۔ اقبال ایک ’’ بدوی برہمن‘‘ ہے جس نے کشمیر کے دیرینہ صنم خانہ میں ’’ اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کی۔ وہ خود اس کا معترف ہے: مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است اقبال کو ملت اسلامیہ سے ایک گہرا تعلق ہے۔ وہ اسلامی حلقہ میں پیدا ہوا ہے اور اسی میں نشوونما پائی۔ اس کی روح میں سوز عشق اسلامی ہے۔ وہ غیرت، آزادی، حمیت اور انسانیت کے جوہر کا محافظ ہے۔ وہ تہذیب اسلامی کا محقق اور مبلغ ہے۔ اقبال کی شاعری صرف تہذیب، سخن اور تزئین اخلاق کا ہی ذریعہ نہیں وہ اسلامی اخلاق کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ وہ خدمات اسلامی میں خود رفتہ ہے۔ (بانگ درا) وہ شہید ذوق ہوں میں کہ نوا میری عربی رہی ماسواء چند شعراء کے سب کا برتاؤ مذہب کے ساتھ انتہائی دلسوز رہا ہے۔ دنیا کے ساتھ دین کی بیگار الامان انسان آدمی نہ ہوا جانور ہوا (مرزا یاس یگانہ لکھنوی) اقبال اعلان کرتا ہے اور ’’ صدائے رحیل‘‘ سے سوتوں کو جگاتا ہے: نگہ الجھی ہے رنگ و بو میں فرد کھوئی گئی ہے چار سو میں نہ چھوڑ اے دل فغان صبحگاہی اماں شاید ملے ’’اللہ ہو‘‘ میں وہ غفلت شعار مسلمانوں کو اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا کرانا چاہتا ہے۔وہ ان میں عقل و ہوش کی بیداری پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کی بہار لٹ چکی ہے، سہاگ اجڑ گیا ہے۔ مگر: اس کے سینہ میں ہے نغموں کا تلاطم ابتک (بانگ درا) وہ پھر سینوں میں حرارت، حرارت میں سوز، دلوں میں ولولہ اور ولولوں میں جوش، جمود میں ارتعاش اور ارتعاش میں حقیقی عمل کی روح پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مسلمانوں کو ان کے ماضی کا افسانہ سناتا ہے۔ ان کے حال پر آنسو بہاتا ہے اور آواز بلند ہے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے۔ مسلم استی؟ ہر زماں پیش نظر آیتہ لا یخلف المیعاد دار وہ ان مذہب فروش مولویوں سے جو افراد ملت کو اپنے دام فریب میں لا کر اسلام کے صحیح ماحول سے دور پھینک دیتے ہیں۔ یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا شریف حسین کی غداری سے کون آشنا نہیں۔ وہ مسلمانوں کو جو ’’ کافر جرائی‘‘ کو روا رکھتے ہیں تنبیہہ کرتا ہے: بروں رواز مسلماناں گریز اندر مسلمانی مسلماناں روا دارند کافر ماجرائی ما (زبور عجم) اسے یقین واثق ہے کہ مومن کی ذات کسی دنیاوی طاقت سے مغلوب ہونے والی نہیں ہے۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ شاہد ہے کہ ان چند صحرا نشینوں نے جن کے پاس ماسوا ایمان حقیقی کے کوئی دنیاوی طاقت اور سامان شوکت نہ تھا۔ مشرق اقصیٰ سے لے کر مغرب اقصیٰ تک چھا گئے۔ مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا زور حیدرؓ فقر بوذرؓ صدق سلمانی ٭٭٭ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں مرد مومن کی ذات انتہائی رفیع اور دقیع ہے۔ افلاک کی بلندیاں بھی اس کے سامنے پست ہیں۔ وہ اس دنیا کی ہر شے سے بالا ہے۔ پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے ٭٭٭ وہ اک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں! کہہ رہی ہے یہ مسلماں سے معراج کی رات (بانگ درا) نظام عالم اس کے عملی قوت کا مظاہرہ ہے: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے ٭٭٭ سینہ ہے ترا امیں اس کے پیام ناد کا جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے پنہاں بھی ہے (بانگ درا) اقبال کے نظریہ میں مومن کا معیار شان یہ ہے: گر نہ سازد بامزاج او جہاں می شود جنگ آزما بہ آسماں برکند بنیاد موجودات را مے دہد ترکیب نو ذرات را مے کند از قوت تو آشکارا روزگار تو کہ باشد سازگار (رموز بیخودی) جاوید نامہ میں مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ضرب قلندی بیا رسد سکندری شکن رسم کلیم تازہ کن، رونق سامری شکن وہ مومن کی حقیقت سے آشنا ہے۔ وہ اس رمز کا نکتہ دان ہے۔ بال جبریل میں کہتا ہے: ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میں بندۂ مومن ہوں نہیں دانہ اسپند ٭٭٭ عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے ٭٭٭ نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے ت ونہیں جہاں کے لیے ٭٭٭ کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو ہے آپ ہی تقدیر الٰہی وہ مومن کے عناصر ضمیری کو آب و گل باد و آتش قرار نہیں دیتا: قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں ہمسایہ جبریل! میں بندۂ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآں ٭٭٭ افرنگ ز خود بیخبرت کرد و گرنہ اے بندۂ مومن تو بشیری و نذیری کون سا ایسا دل ہے جو ان اشعار کو پڑھ کر وفور جوش سے تڑپ نہیں اٹھے گا۔ کتنے قلب ہیں جو شان مومن پیدا کرنے کی تمنا نہ کریں گے۔ اقبال کو بانی اسلام احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو خلوص اور عشق ہے اس کے اظہار سے الفاظ قاصر ہیں اس کی صحبت میں سوز ہے۔ سوز میں گداز اور گداز میں آتش عشق۔ وہ اپنے عشق میں مست ہے، اور ایسا مست جو روز الست سے عشق نبی میں والہانہ بڑھا جا رہا ہے۔ اس کی وسعت عشق ہمارے احاطہ خیال سے باہر ہے۔ وہ اس عشق کے کیفیات میں ایسا ڈوبا ہے کہ ادراک اس کے جائزہ سے قاصر اور نظر متحیر ہے۔ وہ دانائے سبل، ختم الرسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں وہی طہٰ ٭٭٭ موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات تو عین ذات می نگری در تبمی (جاوید نامہ) ٭٭٭ شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت تا چراغ یک محمد بر فروخت ٭٭٭ جلوہ ہا خیزد ز نقش پائے او ضد کلیم آورہ سینائے او طور موجے از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش بوریا ممنون خواب راحتش تاج کسریٰ زیر پائے امتش در شبستان حرا خلوت گزید قوم و آئین و حکومت آفرید ماند شبہا چشم او محروم نوم تا بہ تخت خسروی خوابید قوم وقت ہیجا تیغ او آہن گداز دیدۂ او اشکبار اندر نماز لطف و قہر او سراپا رحمتے آں بیاراں، ایں باعدا رحمتے آنکہ بر اعدا در رحمت کشاد مکہ را پیغام لا تثریب داد شور عشقش در نے خاموش من می تپد صد جلوہ در آغوش من خاک یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی مست شان رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز (رموز بیخودی) اقبال نے منصور حلاج کی زبان سے جوہر حقیقت مصطفی کو جس کو باری تعالیٰ نے معراج کے بیان میں ’’ عبدہ‘‘ فرمایا ہے ادا کرواتا ہے: عبدہ از فہم تو بالا تر است زانکہ اوہم آدم و ہم جوہر است عبدہ صورت گر تقدیر ہا اندر و ویرانہ ہا تعمیر ہا عبدہ دہر است و دہر از عبدۂ است ما ہمہ رنگیم او بے رنگ و بوست کس ز سر عبدہ آگاہ نیست عبدہ جز سر الا اللہ نیست (جاوید نامہ) غرضیکہ وہ اپنے عشق میں ایسا سرشار ہے کہ والہانہ ’’ کہتا‘‘ اور’’ گاتا‘‘ چلا جا رہا ہے۔ جس دل میں کچھ عشق کی ’’ چسک‘‘ ہو گی وہ ان اشعار کا لطف اٹھا سکتا ہے۔ ’’ اخوت‘‘ اور مساوات اسلامی کو اقبال نے باب رسالت (رموز بیخودی) میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اقبال کو اس امر کا اعتقاد واثق اور حق الیقین تھا کہ ’’ قرآن‘‘ بغیر قیود’’ زمان‘‘ و’’ مکان‘‘ ہدایت اور رہبری کا منبع ہے قرآن ہر فضا ہر طول میں ایک نیا عالم پیدا کر دیتا ہے۔ وہ ہر زمانہ کے مطابق ’’ حق‘‘ اور ہدایت کے اصول بتلاتا ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اقبال کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی حقیقی بہبود قرآن کی تعلیم سے وابستہ ہے اگر وہ احکام قرآنی پر پابند رہیں گے تو زمانہ پر فتح پا سکتے ہیں: نقش قرآن تا دریں عالم است نقش ہائے کاہن و پا پا شکجست فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است ٭٭٭ چیست قرآں؟ خواجہ را پیغام مرگ دستگیر بندۂ بے ساز و برگ ہیچ خیر از مردک زر کش مجو لن تنالو البر حتیٰ تنفقوا ٭٭٭ بندۂ مومن ز آیات خدا ست ہر جہاں اندر بر اوچوں قبا ست چوں کہن گرد دو جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش ٭٭٭ گر تو مے خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن ٭٭٭ قرآن حمید کے احکام بہت ہی صاف، سلجھے اور سہل العمل ہیں جن پر ہر مسلمان بغیر کسی وقت کے عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ مگر ’’ مولویوں‘‘ نے اپنی تفاسیر اور تشریحوں سے قرآن کو ایک معمہ بنا دیا، جو عام فہم نہیں ہیں۔ اوسط فہم والے مسلماں ان ’’ چیستانوں‘‘ میں الجھ کر رہ گئے۔۔۔ جن پر پیروی کرنا تو درکنار وہ اصل اصول کو بھی سمجھنے سے قاصر رہے۔ اقبال کو یہ امر ناگوار ہے۔ احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآں کو بنا دیتے ہیں پاژند ٭٭٭ اسلام کا پہلا رکن ادائیگی ’’ نماز‘‘ ہے جس سے آج قریب قریب ہر فرد مسلمان بیگانہ ہے۔ ’’نماز‘‘ صرف ’’ اخلاق‘‘ اور مذہب کی درستی ہی کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ملت کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ ایسی نماز سے اتحاد اور اخوت عالمگیر ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امتیاز برتری و کمتری کو دور کرتی ہے۔ لا الٰہ باشد صدف گوہر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشاء نہی منکر است قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر‘‘ یعنی بلا شبہ نماز بے حیائی، سرکشی اور ناجائز فعلوں سے روکتی ہے۔ نماز ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے: ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز اقبال نوحہ خواں ہے کہ وہ نمازیں جو خلوص قلب اور خشوع دل سے ادا ہوتی تھیں آج مسلمانوں میں ناپید ہیں۔ ان کے نماز ’’ مکر‘‘ اور فریب ہیں، خلوص نیت کا کہیں شائبہ بھی نہیں ہے۔ قطرۂ آب وضوئے قنبرے در بہا برتر ز خون قیصرے وہ مسلمانوں کو نماز کی اصلیت، اس کی ضرورت اور اہمیت سے آگاہ کرتا ہے: یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام (ضرب کلیم) مذہب کا قیام بغیر یقین کے نہیں۔ مگر یہ یقین ’’ حق الیقین ہونا چاہیے، کیونکہ بغیر اس قوت کے انسان روح بے جسد ہے جب تک یہ قوت نہیں ہوتی انسان ’’ عمل‘‘ سے مجبور ہے اور نہ صرف ننگ مذہب ہوتا ہے بلکہ ننگ انسانیت ’’ یقین محکم‘‘ ہی ایسی قوت ہے جو ’’ عمل‘‘ کی محرک ہے۔ اقبال مسلمان کو پھر تلقین کرتا ہے کہ وہ اس قوت کو حاصل کریں کیونکہ: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا (بانگ درا) سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے ابتر ہے بے یقینی (بال جبریل) آگ اس کی پھونک دیتی ہے برناؤ پیر کو لاکھوں میں ایک بھی ہے اگر صاحب یقین (ضرب کلیم) اور یہی یقین ’’ ایمان‘‘ کی تفسیر ہے۔‘‘ ولایت پادشاہی علم اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں (بانگ درا) جب ایسے یقین کی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ مسلمان کو ماسوائے خدا کے کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔ دنیا کی زبردست سے زبردست طاقت اس کے پیروں کے نیچے ہوتی ہے اور سرکشان عالم اس کے سامنے سرنگوں ’’ یقین محکم‘‘ شروع اسلامی کی تفسیر ہے۔ اس سے قوت عمل پیدا ہوتی ہے، اور یہی مذہب کی تکمیل کرتی ہے۔ باتو گویم سر اسلام است شرع شرع آغاز است و انجام است شرع ہست دین مصطفی دین حیات شرع او تفسیر آئین حیات (رموز بیخودی) اسلامی شاعری میں بہت ایسے تابندہ نام ہیں جنہوں نے اپنی حیات کو خدا کی ’’ رضا جوئی‘‘ میں صرف کر دیا اور مسلمانوں کو ’’ توحید‘‘ کی تعلیم دی۔ مگر میرا خیال ہے کہ مولوی معنوی کے بعد بجز اقبال کسی نے ایسے دلکش پیرایہ میں توحید کی تعلیم نہیں دی۔ تا عصائے لا الٰہ داری بدست ہر طلسم خوف را خواہی شکست خوف را در سینہ او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست ٭٭٭ میں نے اے میر سپہ تیری سپہ دیکھ لی قل ہو اللہ کی شمشیر سے خالی ہے نیام آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہ وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام (ضرب کلیم) مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو پلا کے مجھ کو مئے لا الٰہ الا ہو غرضیکہ اقبال خود مسلمان ہے اور اس تمام ’’ عالم ہست‘‘ کو اسلام ہی کے پر تو میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا نظریہ ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کے ذریعہ دنیا کی نجات ہو سکتی ہے اور وہ تہذیب حاضرہ کی کشمکش سے اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ مادی تہذیب جلد فنا ہو جائے گی اور دنیا ’’مذہب اسلام‘‘ کو ’’ آمنا‘‘ اور’’ صدقنا‘‘ کہتے ہوئے اپنے بیقرار دل میں جگہ دے گی۔ اس کا ایمان ہے کہ انسانیت، صداقت اور حقیقت کا سہل ترین راستہ اسلام ہی ہے۔ آج اگر مغربی فلسفہ کے مبلغ اس راز سے آشنا ہو جائیں تو وہ اس گمراہی کے راستہ سے نجات پا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نکلسن مشہور مستشرق کو اس نے ایک خط میں لکھا: ’’ بدقسمتی سے اہل مغرب اسلامی فلسفہ سے نا آشنا ہیں۔ اے کاش! مجھے اتنی فرصت ہوتی کہ میں اس موضوع پر ایک مبسوط کتاب لکھ کر مغربی فلسفیوں کو اس حقیقت سے روشناس کر دیتا کہ دنیا کی مختلف قوموں کے فلسفیانہ خیالات ایک دوسرے سے کس قدر مشابہ ہیں۔‘‘ اقبال اسلام کے زریں اصولوں کو دنیا میں ’’ ہمہ گیر‘‘ کرنا چاہتا ہے۔ وہ نسل و رنگ کے تفریق کو جس کے بے پناہ فتنوں سے یورپ نجات پانے کے مختلف تدابیر سوچ رہا ہے مٹانا چاہتا ہے اور وہی اسلام کی اخوت اور مساوات کے اصولوں کی نشر و اشاعت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ’’امتیاز رنگ و خوں‘‘ اختراع ابلیس ہے اور وہ اس کی بیخ کنی پر آمادہ۔ اس تفریق کا حل آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے اسلام نے پیش کیا۔ اسلام نے قومیت کی بنیاد بجائے وطن، رنگ اور نسل کے مذہب پر مقدم رکھی تھی جو ’’ وطنیت‘‘ سے مقابلتاً وسیع تر بلکہ غیر محدود ہے۔ سلمانؓ فارسی سے جب آپ کا شجرہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:’’ سلمان اسلام‘‘ اقبال کا نظریہ ہے کہ یہ جغرافئی تقسیم قوم کی صحیح ترقی کے لیے مانع اور مضر ہے جیسا کہ ان کے ایک خط سے ظاہر ہے: ’’ اسلام ہمیشہ رنگ و نسل کے عقیدہ کا جو انسانیت کے نصب العین کی راہ میں سب سے بڑا سنگ گراں ہے نہایت کامیاب حریف ہے دنیا کا یہ خیال غلط ہے کہ سائنس اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دراصل اسلام بلکہ تمام کائنات انسانیت کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل کا عقیدہ ہے اور جو لوگ نوع انسان سے محبت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ابلیس کی اس اختراع کے خلاف علم جہاد بلند کریں۔‘‘ جو کرے گا امتیاز رنگ و بو مٹ جائیگا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر ٭٭٭ بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی ٭٭٭ زمیں اعجمی نہ ہندی نہ عراقی و نہ حجازی کہ خودی سے میں نے سیکھ لی دو جہاں سے بے نیازی اسلام کے متعلق اس نے ان الفاظ میں اپنی رائے اظہار کرتے ہوئے مغربی فلسفیوں کو ان کی غلطی پر متنبہ کیا ہے اور اقبال کے ان ہی الفاظ پر میں اس طویل داستان کو مختصر کرتا ہوں: ’’ یہ درست ہے کہ مجھے اسلام سے بیحد محبت ہے۔ لیکن مسٹر ڈکنس کا یہ خیال صحیح نہیں کہ میں نے محض محبت کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کو اپنا مخاطب ٹھہرایا ہے۔ بلکہ دراصل عملی حیثیت سے میرے لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ ایک خاص جماعت یعنی مسلمانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا جاوے۔ کیونکہ تنہا بھی جماعت میرے مقاصد کے لیے موزوں واقع ہوئی ہے۔۔ اسلام کی فطرت میں ایسے اوصاف پنہاں ہیں جن کی بدولت وہ کامیابی کے بلند بام پر پہنچ سکتا ہے۔ ذرا چین کے حالات پر نظر ڈالئے جہاں کسی سیاسی قوت کے پشت پناہی کے بغیر اسلام کے تبلیغی مشن نے غیر معمولی کامیابی حاصل کر لی اور لاکھوں انسان خیل در خیل اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے۔۔۔ یورپ اس گنج گرانمایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیضان صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ ‘‘ (اگست ۱۹۴۱ئ) ٭٭٭ اقبال کا نظریہ ’’ خودی‘‘ سید ذوالفقار علی صاحب بی۔ اے کائنات کا کون سا حصہ ایسا ہے جہاں زندگی موجود نہیں، سطح زمین کے نیچے سر بفلک پہاڑوں کے سینے پر، سمندر کی گہرائیوں میں، تپتے ہوئے صحراؤں میں، برف کے تودوں میں، غرض ہر جگہ زندگی کی کار فرمائی ہے، یہ کہیں خاموش ہے اور کہیں اپنی حرکت کے باعث پکار پکار کر اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہی ہے۔ یہ بلند و پست عالم تپش حیات پیدا چہ و من چہ تل چہ صحرا رم ایں غزالہ دیدم ٭٭٭ نہ بہ ماست زندگانی نہ زماست زندگانی ہمہ جاست زندگانی! ز کجاست زندگانی لیکن باوجود اس حقیقت کے کہ یہ اس قدر عام ہے، فکر انسانی اس کی حقیقت اور ماہیت کو آج تک قطعی طور پر حل نہیں کر سکی۔ انسانی دماغ میں جب سے غور و فکر کی اہلیت پیدا ہوئی ہے، مفکرین فطرت کی اس نعمت غیر مترقبہ کو جاننے کے لیے جسے حکمائے یونان ’’ شعلہ حیات‘‘ کے نام سے تعبیر کرتے آتے ہیں، سرگرداں رہے ہیں۔ اپنی اپنی فکر کے مطابق ہر ایک نے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس عقدہ کو وا کرنے سے عاجز آ گئے اور انہوں نے ہر بات سے انکار ہی کر دیا، لیکن منکرین کی بیشتر اس امر پر متفق ہے کہ زندگی موجود ہے اور اس کو ’’ پیہم دواں‘‘ رکھنے والی قوت بھی موجود ہے، جو اگرچہ سائنس کی لیبارٹری میں نہیں آ سکی۔ لیکن اس کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس کا ثبوت عقل نہیں دے سکتی، البتہ اس کا عرفان ہو سکتا ہے۔ اس عرفان کا ذریعہ برگسان القا (Intution) بتایا ہے، اسی القاء کی اعلیٰ ترین صورت وحی صحیحہ ہے اور اسی القاء کو اقبال نے مختلف احوال میں عشق، سوز، نظر، دل کے ناموں سے تعبیر کیا ہے۔ اقبال کا شمار موجودہ دنیا کے بلند ترین مفکرین میں ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ زندگی کی گتھی کو کس طرح سلجھاتا ہے یعنی اس کا نظریہ حیات کیا ہے؟ اس کے نزدیک حیات انسانی کا منتہائے مقصود کیا ہے؟ اور کیا یہ نظریہ مفید اور قابل عمل ہے؟ یا محض ایک شاعر کی دماغی عیاشی کی حیثیت رکھتا ہے؟ اقبال کے فلسفہ حیات کی جان یا روح اس کا نظریہ خودی ہے اور اس نے اس نظریہ کو اپنی تصانیف میں اس شد و مد کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اس پر اس نظریہ کے موجد ہونے کا دھوکا ہونے لگتا ہے، ہمیں یہاں اس سے بحث نہیں کہ اس نظریہ کا موجد کون تھا، مغربی فلسفہ میں غالباً سقراط پہلا شخص تھا، جس نے تمام علوم و فنون کی بنیاد اس نظریے پر رکھی کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے۔ سترہویں صدی عیسوی میں فرنساوی حکیم دی کا رت (Descartes) نے اس نظریہ کو Cagits Engosuw(میں سوچتا ہوں۔ اس لیے میں ہوں) کہہ کر اور اجاگر کیا، مشرق میں ہندو فلسفہ بھی اس سے نا آشنا نہ تھا، ہندو حکیموں کے ہاں یہ نظریہ عام ملتا ہے اور اسلامی صوفیائے کرام کے ہاں بھی اس فلسفہ کی کافی فراوانی ہے، تو کہنا یہ ہے کہ اقبال کی عظمت کا راز اس فلسفہ کی ایجاد میں نہیں ہے بلکہ اس کی بڑائی اس میں ہے کہ اس نے اس فلسفہ کو عملی صورت دے دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کو عملی فلسفی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ خودی کیا ہے؟ اقبال اسے غرور و تکبر کے معنی میں استعمال نہیں کرتا، بلکہ وہ اس سے من، انفرادیت، انا یا شخصیت مراد لیتا ہے۔ وہ خودی یا بہ الفاظ دیگر خود شناسی اور عرفان نفس کو انسانی پیدائش کا مقصد تصور کرتا ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ اقبال کی پہلی اور مستقل تصنیف ہے جس میں اس نے خودی کی حقیقت، اہمیت اور اس کے ارتقاء کی تشریح شاعرانہ انداز میں بیان کی ہے۔ علامہ مرحوم اس کتاب کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات جذبات، تمنیات مستیز ہوتے ہیں۔ یہ پر اسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے، یہ خودی یا انا یا میں جو اپنے عمل کی رو سے ظاہر اور اپنی حقیقت کی رو سے مضمر ہے جو تمام خواہشات کی خالق ہے مگر جس کی لطافت مشاہدہ کی گرم نگاہوں کی تاب نہیں لا سکتی کیا چیز ہے؟ کیا یہ ایک لازوال حقیقت ہے یا زندگی نے محض عارضی طور پر اپنی فوری عملی اغراض کے حصول کی خاطر اپنے آپ کو اس فریب تخیل یا دروغ مصلحت آمیز کی صورت میں نمایاں کیا ہے۔ اخلاقی اعتبار سے افراد و اقوام کا طرز عمل اس نہایت ضروری سوال کے جواب پر منحصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہو گی جس کے علماء حکماء نے کسی نہ کسی صورت میں اس سوال کا جواب پیدا کرنے کے لیے دماغ سوزی نہ کی ہو، مگر اس سوال کا جواب افراد و اقوام کی دماغی قابلیت پر اس قدر انحصار نہیں رکھتا، جس قدر کہ ان کی افتاد طبیعت پر، مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اس نتیجہ کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی انا محض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اتار دینے کا نام نجات ہے، مغربی اقوام کا علمی مذاق ان کو ایسے نتائج کی طرف لے گیا جس کے لیے ان کی فطرت متقاضی تھی، ہندو قوم کے دل و دماغ میں عملیات و نظریات کی ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے۔ اس قوم کے موشگاف حکما نے قوت عمل کی حقیقت پر نہایت دقیق بحث کی ہے اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ انا کی حیات کا یہ مشہور تسلسل جو تمام آلام و مصائب کی جڑ ہے، عمل سے متعین ہوتا ہے یا یوں کہیے کہ انسانی انا کی موجودہ کیفیات اور لوازمات اس کے گزشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہیں اور جب تک یہ قانون عمل اپنا کام کرتا رہے گا وہ نتائج پیدا ہوتے رہیں گے، جب انا کی تعیین عمل سے ہے تو انا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ترک عمل ہے، یہ نتیجہ انفرادی اور ملی پہلو سے نہایت خطرناک تھا، اور اس بات کا متقضی تھا کہ کوئی مجدد پیدا ہو جو ترک عمل کے اصلی مفہوم کو واضح کر دے۔ بنی نوع انسان کی ذہنی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا۔ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دلفریب پیرایہ میں اپنے ملک و قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترک عمل سے مراد ترک کلی نہیں، کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگانی کا استحکام ہے، بلکہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے مطلق دلبستگی نہ ہو، سری کرشن کے بعد سری رامانج بھی اسی راستہ پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو سری کرشن اور سری راما نج بے نقاب کرنا چاہتے تھے، سری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کر دیا اور سری کرشن کی قوم ان کی تجدید سے محروم ہو گئی۔‘‘ ظاہر ہے کہ اقبال کے نزدیک خودی واہمہ نہیں حقیقت ہے اپنی انفرادیت یا اپنے آپ کو فنا کر دینے سے نہ صرف ایک شخص مٹ جاتا ہے بلکہ جب یہ خیال قوموں کے دماغ میں گھر کر لیتا ہے تو قومیں فنا ہو جاتی ہیں، خودی نام ہے اپنے آپ کو پہچاننے کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے اپنے خدا کو پہچان لیا۔ خودی نام ہے ان طاقتوں کو پہچاننے اور بروئے کار لانے کا جو خدا نے انسان کو ودیعت کر رکھی ہیں، آج دنیا تہذیب و ایجادات کی جس منزل پر پہنچی ہوئی ہے یہ خودی ہی کا تو مظاہرہ ہے، انسان نے اپنے آپ کو پہچانا، اپنی طاقتوں کا اندازہ کیا اور ان طاقتوں کو عملی صورت دے کر موجودہ دنیا اس کی تہذیب اور اس کے تمدن کی تخلیق کی، اگر خودی کو مٹا دیا جاتا یعنی ان قوتوں کا جو خالق کائنات نے انسان کو عطا کی ہیں، اندازہ نہ کیا جاتا، اور ان سے کام نہ لیا جاتا تو خیال فرمائیے کہ دنیا کی آج کیا حالت ہوتی اس حالت کا تصور بھی انسان کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے، یہی وہ خودی ہے جس کو قائم رکھنے اور جس کو ترقی کا پیغام دینے کے لیے اقبال نے اپنی ساری عمر وقف کر دی۔ اقبال کا نظریہ حیات مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ خودی سے تو زندگی ہے خودی نہیں تو موت ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے ہمراہ ایک دماغی ساخت لاتا ہے جو پہلے ہی بنی ہوتی ہے، ماہرین علم النفس کے نزدیک یہ دماغی ساخت ان تمام رحجانات کا خلاصہ ہوتی ہے جو اسے پشتینی یا موروثی طور پر حاصل ہوتے ہیں، ہندو فلسفیوں کے نزدیک یہ دماغی ساخت ان سابقہ زندگیوں کے رحجانات کا خلاصہ ہے جن میں سے انسان گزر کر آتا ہے، جونہی بچہ دنیا میں داخل ہوتا ہے وہ حواس کے ذریعے سے مختلف قسم کے تاثرات قبول کرتا ہے، جوں جوں اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے اس کے مشاہدات بھی زیادہ ہوتے جاتے ہیں، یہ مشاہدات اس کی پہلی دماغی ساخت کے اوپر اپنے تاثرات کی ایک نئی سطح بنا دیتے ہیں اور دماغ کی ان دو تہوں سے شخصیت بنتی ہے۔ انہی دو سطحوں کے اتحاد پر کسی جاندار چیز کی زندگی کا انحصار ہے۔ ہر شخص کی اپنی علیحدہ شخصیت ہوتی ہے دماغی ساخت کی ان دو سطحوں کا اتحاد جسے شخصیت یا خودی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس قدر مضبوط ہو گا اسی قدر وہ شخص کار گاہ حیات میں توانا ہو گا۔ اسی کو اقبال نے شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے: رائی زور خودی سے پربت پربت ضعف خودی سے رائی کائنات کی جس چیز میں زندگی موجود ہے، اقبال کو اس کی فرزندگی کا استحکام خودی میں نظر آتا ہے، وہ سورج میں خودی دیکھتا ہے اور اسی لیے زمین کو سورج کے گرد گھومتا ہوا پاتا ہے۔ چوں زمیں بر ہستی خود محکم است ماہ پابند طواف پیہم است ہستی مہر از زمیں محکم ترست پس زمیں مسحور چشم خاور است علامہ مرحوم نے زندگی اور اس کے منتہائے مقصود کے متعلق اپنے نظریہ کی وضاحت فرماتے ہوئے ڈاکٹر نکلسن کو تحریر فرمایا: ’’ زندگی انفرادی ہے، یہ ایک کل یا عالمگیر (Universal) نہیں ہے، اور خدا بھی ایک فرد ہے، اگرچہ وہ ایک نہایت ہی نادر فرد ہے، ڈاکٹرمک ٹیگرٹ کے نزدیک دنیا افراد کا مجموعہ ہے لیکن اس میں اس قدر اضافہ ضرور کرنا چاہیے کہ اس مجموعہ میں ترتیب و نظام پایا جاتا ہے، یہ بذاتہ مکمل نہیں ہے بلکہ ارادی یا بلا ارادی کوشش کا نتیجہ ہے، ہم آہستہ آہستہ بے نظمی سے نظام کی طرف جا رہے ہیں، اور اس نظام و ترتیب میں ممد و معاون ہیں۔ اس مجموعہ کے اراکین بھی مستقل نہیں میں بلکہ ہر روز پیدا ہوتے رہتے ہیں اور نظام و ترتیب کے اس عظیم الشان کام میں امداد دیتے ہیں، پس دنیا ایسی چیز نہیں جس کی تکمیل ختم ہو گئی ہے، بلکہ یہ ابھی معرض تکمیل میں ہے، تخلیق کا سلسلہ جاری ہے اور انسان بھی اس تخلیق میں اپنا حصہ ادا کر رہا ہے، کیونکہ وہ بے نظمی کے کچھ حصے کو مرتب کرنے میں امداد دیتا ہے، قرآن میں بھی خدا کے سوا دوسرے خالقین کے موجودہ ہونے کا امکان ہے، ظاہر ہے کہ انسان اور کائنات کے متعلق یہ نظریہ ہیگل کے موجودہ انگریزی متبعین کے نظریہ اور صوفیوں کے عقائد کے خلاف ہے جو ایک محیط کل زندگی یا روح میں فنا ہو جانے کو انسان کا منتہائے مقصود اور ذریعہ نجات قرار دیتے ہیں، انسان کا اخلاقی آئیڈیل سلب خودی یا شخصیت نہیں بلکہ اثبات خودی ہے اور وہ اس آئیڈیل کو زیادہ سے زیادہ تشخص پیدا کرنے اور نادر ہونے سے حاصل کرتا ہے۔ رسول خدا ؐ نے فرمایا: تخلقوا باخلاق اللہ یعنی اپنے آپ میں خدائی صفات پیدا کرو۔‘‘ پس جوں جوں انسان اس نادر ترین فرد (خدا) کی مانند ہوتا جاتا ہے، خود بھی نادر ہوتا جاتا ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر زندگی کیا ہے؟ یہ انفرادی ہے اور اس کی اعلیٰ ترین صورت جو اس وقت تک پیدا ہو سکی ہے خودی ہے، جس میں فرد ایک فی نفسہ مکمل مخصوص مرکز کی حیثیت حاصل کرتا ہے، جسمانی اور روحانی طور پر انسان فی نفسہ مکمل ہے (یعنی اس کے جسم میں مزید کسی عضو کی ضرورت نہیں اور نہ روح میں کسی اور جزو کے داخل کرنے کی ضرورت ہے ) لیکن یہ ابھی مکمل فرد نہیں، یہ خدا سے جس قدر دور ہو گا اسی قدر اس کی انفرادیت یا شخصیت بھی کم ہو گی، جو سب سے زیادہ خدا کے نزدیک آئے گا وہی مکمل ترین انسان ہو گا، یہ نہیں کہ وہ پایان کار خدا میں جذب ہو جائے گا، بلکہ اس کے خلاف وہ خدا کو اپنے اندر جذب کر لے گا۔ حقیقی انسان نہ صرف مادی دنیا کو مسخر کرتا ہے بلکہ اس پر قابو پا کر اپنی خودی میں خدا کو جذب کر لیتا ہے۔ زندگی ایک تحریک جاذبہ ہے اور یہ تمام موانع کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، خواہشات اور مثالی مطامح نظر کی مسلسل تخلیق اس کی روح و رواں ہے، تحفظ و توسیع کی خاطر اس نے اپنے آپ میں سے بعض آلات مثلاً حواس، عقل وغیرہ پیدا کر لیے ہیں جو اس کی راہ میں آنے والے موانع کو مغلوب کر لیتے ہیں، زندگی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مادہ یا نیچر ہے لیکن نیچر شر نہیں، کیونکہ یہ زندگی کی اندرونی طاقتوں کو بروئے کار لانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ خودی تمام رکاوٹوں کو اپنے راستے سے ہٹا کر آزادی حاصل کرتی ہے، یہ کسی حد تک آزاد ہے اور کسی حد تک مقدر، جوں جوں یہ اس فرد (خدا) کی جانب پہنچتی ہے، جو سب سے زیادہ آزاد ہے، خود بھی آزاد ہوتی جاتی ہے، مختصراً یوں سمجھیے کہ زندگی سعی و آزادی کا نام ہے۔ شخصیت یا خودی ایک نفسیاتی حقیقت ہے، اس کی موت انسان کی موت ہے شخصیت کھچاوٹ کی ایک حالت کا نام ہے اگر اس کھچاوٹ کی ایک حالت کو قائم نہ رکھا جائے، تو اس میں ڈھیلا پن پیدا ہو جائے گا، چونکہ شخصیت یا کھچاوٹ کی یہ حالت انسان کا اعلیٰ ترین کارنامہ ہے اس لیے خیال رکھنا چاہیے کہ یہ ڈھیلا پن یا سستی کی حالت کی جانب عود نہ کر جائے، اس کھچاوٹ کی حالت کو برقرار رکھنے کا ذریعہ جو چیز ہے وہی ہماری بقائے دوام کا ذریعہ ہے، شخصیت یا خودی کے اس نظریہ سے مسئلہ خیر و شر کا بھی فیصلہ ہو جاتا ہے، جو چیز شخصیت کی مضبوطی کا باعث ہے وہ خیر ہے اور جو اس کو کمزور کرتی ہے اس کا نام شر ہے، آرٹ، مذہب، اخلاقیات کو شخصیت ہی کے زاویہ نگاہ سے جانچنا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک انسانی زندگی کا آئیڈیل یا معراج مقصود اپنے اندر خدائی صفات پیدا کر کے مکمل ترین انسان بننے کی کوشش کرنا ہے اور اپنی خودی کو خودی محکم بالذات (خدا) میں فنا کرنا نہیں بلکہ اس نادر ترین خودی کو اپنے اندر جذب کرنا ہے، خودی کو یہ بلند ترین منصب دنیا اور اس کی مشکلات سے بھاگنے سے نہیں ملتا بلکہ اس پر قابو پا لینے اور ان پر غالب آ جانے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ محرکات اقبال کی پیغمبرانہ شاعری کا آغاز ایسے وقت میں ہوا جبکہ مشرق کی تمام قوموں پر سکرات موت کی سی حالت طاری تھی، گزشتہ چار پانچ صدیوں سے اقوام مشرق ذوق عمل سے محروم ہو گئی تھیں اور مغرب کا سیلاب امڈا چلا آ رہا تھا، خود اقبال کے اپنے وطن کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، ہندو سری کرشن کا حیات آفریں پیغام فراموش کر چکے تھے، اور مسلمان صحیح اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور جا پڑے تھے، سیاسی طور پر مرہٹوں کی آخری کوشش جو انہوں نے ہندو راج قائم کرنے کے متعلق کی ناکامی کی پستیوں میں دفن ہو چکی تھی اور ٹیپو نے احیائے سلطنت اسلامیہ کا جو ارادہ کیا تھا اس کا انجام بھی حسرتناک ہوا، تمام مشرق پر بے بسی اور بیچارگی چھائی ہوئی تھی، مذہبی اور سیاسی زوال کے علاوہ ادب و فن بھی اخلاق عالیہ پیدا کرنے کی بجائے اہل مشرق کی روحانیت کو مجروح کر رہے تھے۔ اقبال نے جس کو قدرت نے ایک درد مند اور حساس دل دیا تھا دیکھا کہ اگر چندے یہی صورت رہی تو مشرقی اقوام کی ہستی چند روز کی مہمان ہے وہ اس تصور سے کانپ اٹھا اور جس زور سے بربادی کا یہ سیلاب بڑھتا چلا آ رہا تھا، اسی زور کے ساتھ اس کے خلاف جہاد کرنے میں مصروف ہو گیا، بڑے غور و فکر کے بعد اس نے مشرق کے سامنے اس کے مرض کا ایک نسخہ پیش کیا اور یہ وہی ہے نسخہ جس کے خواص پر ہم آج کی صحبت میں بحث کر رہے ہیں، یہ نسخہ کیا ہے؟ یہ ایسا نسخہ ہے جس سے بے بسی، بیچارگی، عجز، کسر نفسی، خود شکنی اور قنوطیت کے امراض جڑ سے اکھڑ جاتے ہیں جس سے غم و حرماں دور ہوتے ہیں، جو شاخ حیات کو سر سبز کرتا ہے، جو بے عملی کو عمل کی صور ت دیتا ہے اور جس سے ’’ عروق مردہ‘‘ میں ’’ خون زندگی‘‘ دوڑتا ہے، یہ وہ نسخہ ہے جس کے استعمال سے انسان اپنی عظمت کی گواہی خود دینے لگتا ہے، یہ وہ نسخہ ہے جو توکل و تقدیر زدہ لوگوں کو تقدیریں بدل دینے اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا طریقہ بتاتا ہے جو انسان کے دل سے خوف اور بزدلی دور کرتا ہے اور ہمت، شجاعت، حوصلہ، استقلال اور صداقت کے جذبات پیدا کرتا ہے، جو نسخہ ان خواص کا حامل ہے، اقبال نے اس کا نام خودی رکھا ہے۔ خودی کی اہمیت خودی حقیقتاً ذوق نمود کا وہ فطرتی قانون ہے جو کائنات میں ہر چیز میں جاری و ساری ہے: ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہید کبریائی بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی اقبال خودی کی زندگی میں اپنی زندگی اور خودی کی موت میں اپنی موت دیکھتا ہے، اس کے نزدیک ایسی چیز کا وجود ہی مسلم نہیں جو یہ نہ کہہ سکے کہ ’’ میں ہوں‘‘ اسی’’ میں ہوں‘‘ کے پر زور اظہار کا نام خودی ہے۔ سخن از بود و نابود جہاں بامن چہ می گوئی من ایں دانم کہ من ہستم ندانم ایں چہ نیرنگ است نفسیات کے جاننے والوں کو معلوم ہے کہ خودی یا شخصیت کا بغیر کسی ذہنی کیفیت یا واردات کے ہونا محال ہے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے غرض جس حالت میں بھی ہوں خودی کسی نہ کسی عمل میں مصروف رہتی ہے، ظاہر ہے کہ جب خودی بے عملی کی حالت میں ہو گی تو انسان پر موت طاری ہو جائے گی، اس لیے اقبال اگر خودی کی موت کو انسان کی موت سمجھتا ہے تو غلط نہیں، وجود جوہر خودی کی نمود ہے۔ تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچاننے یعنی خودی کو مضبوط کرنے کی پر زور تلقین کرتا ہے، خودی کے ارتقاء ہی میں بقائے دوام کا راز مضمر ہے۔ زندگی ہے صدف قطرۂ نیساں ہے خودی وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے ہوا گر خود نگر و خود گرد خود گیر خودی یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے جس کی خودی بلند ہو، اس قدر بلند کہ وہ خودی محکم بالذات کو اپنے اندر جذب کر لے اسے موت کا کوئی ڈر نہیں، موت سلسلہ حیات کی ایک کڑی ہے۔ لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے مدد ستارہ مثال شرارہ یک دو نفس مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے اقبال خودی کو بلند دیکھنے کا متمنی ہے اس قدر بلند کہ: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے او ریہ کوئی نا ممکن بات نہیں ہے، جب انسانی خودی اور نادر ترین خودی کے تار آپس میں جڑتے ہیں تو یہی منظر پیدا ہو جاتا ہے۔ اقبال اپنی خودی کو کسی قیمت پر فروخت کرنا نہیں چاہتا وہ اپنے آپ کو مٹا کر نجات حاصل کرنے کا قائل نہیں ہے، بلکہ خدا کو اپنے اندر جذب کر کے حیات ابدی پا لینے کا قائل ہے۔ بہ بحرش گم شدن انجام ما نیست اگر اورا تو در گیری فنا نیست خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عین خود بودن کمال است نجات کا یہی نظریہ علامہ مرحوم کی زندگی کے ایک واقعہ سے واضح تر ہوتا ہے: ایک بار ایک درویش علامہ اقبال کے پاس آیا، آپ نے اس سے دعا کی درخواست کی، پوچھا ’’ دولت چاہتے ہو‘‘ جواب دیا ’’ میں درویش ہوں، دولت کی ہوس نہیں‘‘ پوچھا’’ عزت و جاہ مانگتے ہو‘‘ جواب دیا ’’ وہ بھی خدا نے کافی دی ہے‘‘ پوچھا ’’ تو کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو‘‘ جواب دیا ’’ سائیں جی کیا کہہ رہے ہو، میں بندہ وہ خدا۔ بندہ خدا سے کیونکر مل سکتا ہے، قطرہ دریا میں مل جائے تو قطرہ نہیں رہتا، میں قطرے کی حیثیت میں قائم رہ کر دریا بننا چاہتا ہوں‘‘ یہ سن کر اس درویش پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی اور کہا ’’ بابا جیسا سنا تھا ویسا پایا، تو تو خود آگاہ راز ہے، تجھے کسی کی دعا کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ (سیرت اقبال) ارتقائے خودی کے ذرائع اقبال کا نظریہ خودی سمجھ لینے کے بعد اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کی ترقی و ترفع کے کیا ذرائع و اسباب ہیں اور ہم کیا طریق اختیار کریں کہ قطرے کی حیثیت میں رہ کر دریا بن جائیں ’’اسرار خودی‘‘ میں اقبال نے ان ذرائع کو شاعرانہ انداز میں بالتفصیل بیان کیا ہے اور جس خوب صورتی اور نفاست کے ساتھ فلسفہ اور شاعری کی آمیزش کی ہے وہ اس کا حصہ ہے۔ آرزو ارتقائے خودی کا پہلا زینہ خواہش یا آرزو کا پیدا کرنا ہے۔ آرزو عین حیات ہے، زندگی کی اصل آرزو میں پوشیدہ ہے۔ آرزو ہی دل میں قوت عمل پیدا کرتی ہے، آرزو ہی سے انسانی زندگی میں حرکت آتی ہے، جب خودی حرکت و عمل سے محروم ہو جاتی ہے تو خودی یا بالفاظ دیگر انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے، صرف آرزو ایک ایسی چیز ہے جو حرکت عمل کا باعث ہے، اسی لیے اقبال خواہش کرنے اور آرزو پیدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ میں اقبال سوال کرتا ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ دماغ نت نئی ایجادات کے لیے کیوں کوشش کرتا ہے اور انسان آسمان کو ناپنے کے پیچھے کیوں سرگرداں رہتا ہے؟ جانتے ہو یہ کس کی معجزہ فرمائی ہے؟ اور خود ہی جواب دیتا ہے کہ یہ ’’آرزو ہی ہے جو زندگی کو مالا مال کرتی ہے۔‘‘ سائنس کی عجوبہ کاریاں اخلاقی نظام، رسم و رواج اور قوانین ان سب کی تخلیق کا راز آرزو میں مضمر ہے، ہوائی جہاز، موٹر، آبدوز کشتیاں، ریل، تار، ریڈیو، ٹیلی فون غرض کس کس چیز کا نام لیا جائے، یہ سب آرزو کی پیداوار ہیں، آرزو نہ ہوتی تو موجودہ تہذیب و تمدن جس کا اظہار و ذکر آپ بڑے فخر کے ساتھ کرتے ہیں، پردہ عدم میں ہوتے، لیکن آرزو کسی بلند مدعا و مقصد کے لیے ہونی چاہیے، انسان کو اپنے سامنے کوئی آئیڈیل مثالی مطمح نظر رکھنا ضروری ہے، اقبال جس آئیڈیل کو پیش نظر رکھنے کی دعوت دیتا ہے وہ انسان کا خدائی صفات سے متصف ہونا ہے، غور کیجئے اس سے بہتر اور اس سے بلند اور کون سا آئیڈیل ہے جو انسانی دماغ آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ اقبال آرزو کا اس قدر دلدادہ ہے کہ خدا کو بھی نہیں چھوڑتا اور کہتا ہے کہ خدا نے دنیا اس لیے پیدا کی ہے کہ خود اس کا تماشا کرے وہ کبھی برگ لالہ پر اپنا پیغام لکھتا ہے، کبھی پرندوں کے سینوں سے چہچہوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور کبھی نرگس میں آ کر بیٹھ جاتا ہے کہ انسان کے خیال کا نظارہ کرے، اس نے انسان کا نظارہ کرنے کے لیے دنیا کا یہ سارا کھڑاگ تیار کیا ہے۔ ما از خدائے گم شدہ ایم او بہ جستجوست چوں ما نیاز مندو گرفتار آرزو ست گاہے بہ برگ لالہ نویسد پیام خویش گاہے درون سینہ مرغاں بہ ہاد ہوست در نرگس آزمید کہ بیند جمال ما چنداں کہ شمدداں کہ نگاہش بگفتگوست آہے سحر گہے کہ زند در فراق ما بیرون و اندرون زبر و زیر و چار سو ست ہنگامہ بست از پے دیدار خاکئے نظارہ را بہانہ تماشائے رنگ و بوست اقبال پر دکھ کی دوا شہید آرزو ہونے میں خیال کرتا ہے: دوا ہر دکھ کی ہے مجروح تیغ آرزو رہنا علاج زخم ہے آزاد احسان رفو رہنا وہ ایسے دل کو قبول کرنا نہیں چاہتا جس میں آرزو نہ ہو۔ اگر رمز حیات آگہے مجو دیگر دلے کہ از خلش خار آرزو پاک است ٭٭٭ آرزو اور ترک دنیا لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرزو کس طرح پیدا ہوا، دنیا کو ترک کر دینے سے یا اپنے ماحول سے وابستہ رہ کر، اقبال ترک دنیا کا شدید ترین مخالف ہے، اور کائنات کو چھوڑنا گناہ خیال کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر آرزو کی پیدائش محال ہے، زندگی قوت متحرکہ ہے، اس قوت کو خود زندہ رہنے اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کی آرزو ہے، سائنس کا کہنا ہے کہ انسان اور دیگر جاندار اشیاء میں زندہ رہنے کا طبعی اور فطری جذبہ موجود ہے، اس کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہر جاندار شے میں حفظ زندگی کا جذبہ پایا جاتا ہے، اسی کو اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے: زندگی محبوب ایسی دیدۂ قدرت میں ہے ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات لیکن انسان کو جو چیز دیگر جانداروں سے متمیز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کا یہ جذبہ حفظ زندگی ہر دم نئے نئے طریقوں سے نئی نئی صورتوں میں ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔ نہ کہ ذکر فراق و آشنائی کہ اصل زندگی ہے خود نمائی نہ دریا کا زیاں ہے نے گہر کا دل دریا سے گوہر کی جدائی خود نمائی کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا، اور ابھی تو: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں بھی ہیں انسانی کلچر کی تاریخ پر نظر ڈالیے اور دیکھئے کہ انسان کس وحشی حالت سے کس متمدن حالت کو پہنچا ہے اور ابھی بلندی و ترقی کی کتنی منزلیں باقی ہیں، اس عظیم الشان تغیر کا باعث کیا ہے، بیرونی تحرکات کا اثر یعنی جس طرح اس کا ماحول اس پر اثر انداز ہوتا گیا،ا سی طرح انسان میں بھی تغیر پیدا ہوتا گیا۔ یہ موقع ڈارون کے نظریہ ارتقاء اور دی کارت کے نظریہ عمل معکوس کو بالتفصیل بیان کرنے کا نہیں، صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ سائنس بھی اس بات کو تسلیم کر چکی ہے کہ جسم بیرونی تحرکات کا غیر ارادی طور پر جواب دیتا ہے، قدرت کے اس قانون سے کوئی راہ فرار نہیں، اس کے خلاف جو بات بھی کی جائے گی وہ غیر فطری ہو گی، پس انسان کا اپنے ماحول سے علیحدہ ہونا غیر فطری ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ترک دنیا یا رہبانیت کو ناجائز قرار دیا اور یہی وجہ ہے کہ اقبال اس اصول کا مخالف ہے کہ انسان اپنے ماحول یا دنیا کو چھوڑ دے، ارتقائے انسانی کے لیے یہ قدرتی بات ہے کہ انسان اپنے ماحول سے متعلق رہے، کبھی بیرونی تحرکات کو قبول کرے اور کبھی ان کو اپنے حسب منشا سانچے میں ڈھالے۔ ہمارا موجودہ تمدن ترک دنیا کے اصول پر عامل ہونے سے نہیں بلکہ اس کو ترک کر دینے سے پیدا ہوا ہے، ترک دنیا کا اصول انسانی فطرت کے خلاف ہے، اور جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خود کشی اور رہبانیت کو ممنوع قرار دیا، یونان کے سٹواک فلسفی خود کشی کو گناہ تصور نہیں کرتے تھے، عیسائیوں میں رہبانیت عام تھی اور اس رہبانیت کے پردے میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں، ہندوؤں میں رہبانیت منو جی مہاراج کے قائم کردہ قوانین کے مطابق جزہ مذہب تھی۔ رہبانیت نام ہے ترک عمل کا اور ہندوؤں میں جس شخص نے اس کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی وہ سری کرشن مہاراج تھے، مہاتما تلک نے بھگوت 1؎ گیتا کی تفسیر لکھ کر ترک عمل کے خلاف جو آواز اٹھائی ہے اس کا اثر آپ آج ہندوستان میں کشمیر سے لے کر راس کماری تک دیکھ رہے ہیں، یونانی فلسفہ کی پیروی اور ایرانی کلچر نے اسلام کو جو ضعف پہنچایا، اس کی درد انگیز داستان تاریخ کے صفحات میں موجود ہے، قنوطیت، ترک دنیا، بے عملی اور سلب خودی کے سبق نے مسلمانوں کی رگوں کو خون زندگی سے محروم کر دیا، اقبال کی ساری زندگی اصول ترک عمل کے خلاف جہاد کرنے میں گزر گئی، عمل اقتضائے فطرت ہے اور ترک عمل کے اصول کی جس قوم نے متابعت کی وہ زوال کی انتہائی پستیوں میں گر گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال افلاطون کے فلسفہ بے عملی اور اسی نوع کے دیگر ادبی، مذہبی اور فلسفیانہ سلسلوں کے خلاف نہایت شدت کے ساتھ آواز بلند کرتا ہے: راہب دیرینہ افلاطوں حکیم از گروہ گو سفندان قدیم گفت ستر زندگی در مردن است شمع را صد جلوہ از افسردن است بر تخیل ہائے ما حرماں رواست جام او خواب آور و گیتی رہا ست گو سفند در لباس آدم است حکم او بر جان صوفی محکم است عقل خود را بر سر گردوں رساند عالم اسباب را افسانہ خواند کار او تحلیل اجزائے حیات قطع شاخ سرو رعنائے حیات فکر افلاطوں زیاں را سود گفت حکمت او بود را نابود گفت لبکہ از ذوق عمل محروم بود جان او وارفتہ معدوم بود منکر ہنگامہ موجود گشت خالق اعیان نا مشہود گشت زندہ جاں را عالم امکاں خوش است مردہ دل را عالم اعیاں خوش است آ ہواش بے بہرہ از لطف خرام لذت رفتار بر کبکش حرام ذوق روئیدن ندارد دانہ اش از طپیدن بے خبر پروانہ اش قوم ہا از شکر او مسموم گشت خفت از ذوق عمل محروم گشت ترک دنیا اور تصوف افلاطون کے ’’ ذوق عمل‘‘ سے ’’ محروم‘‘ فلسفہ نے مشرق کا حلیہ بگاڑ دیا، یہ فلسفہ صحیح تصوف پر اثر انداز ہوا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس تصوف نے مشرقی اقوام کو روحانی بلندیوں پر لے جانے کی بجائے روحانی پستیوں پر گرا دیا، علامہ اقبال نے اپنے انگریزی رسالہ ’’ اسلام اور احمدیت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ اس نے (تصوف) عامتہ الناس کی رگوں کو مردہ کر دیا اور وہ مختلف قسم کے توہمات کا شکار ہو گئے، روحانی تعلیم دینے والا تصوف اپنی بلندیوں سے گر چکا تھا اور لوگوں کی جہالت اور کمزوری سے فائدہ حاصل کر رہا تھا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اقبال اس تصوف کے سخت خلاف ہے جو بے عملی کی تعلیم دے کر انسان کو جدوجہد سے محروم کر دیتا ہے، ایسا تصوف جو دنیا کے مصائب کے سامنے سرنگوں ہو جانا یا ان سے پہلو تہی کرنا سکھائے، گناہ عظیم ہے۔ اسی نوع کے تصوف نے مسلمانوں کے دلوں میں جبن، بزدلی، بے بسی اور بیچارگی کے خیالات پیدا کیے، جو بالآخر ان کے الم انگیز زوال کا باعث ہوئے، ترک دنیا والا تصوف ایک مدت سے مشرق کی تذلیل کا باعث ہو رہا ہے، چونکہ ترک دنیا کا اصول فطرت انسانی کے خلاف ہے، اس لیے ایسا تصوف بھی جو ترک دنیا کے اصول پر قائم ہو گا، فطرت انسانی کے خلاف ہو گا، ایسا تصوف خودی کے ارتقاء میں حائل ہوتا ہے اسی لیے اقبال ایسے تصوف کو قبول کرنے کا پیغام دیتا ہے جو ہماری خودی کو مضبوط کرے۔ یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں تسلیم و رضا اور تقدیر کا غلط مفہوم اسی تصوف کے سلسلے میں تقدیر اور تسلیم و رضا کے مسائل کا مختصر سا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں مسائل کے غلط مفہوم نے بھی ہماری آرزوؤں کو قطع اور ہمارے ذوق عمل کو مجروح ک ردیا ہے اگر ہم ان ہر دو مسائل پر فلسفیانہ بحث شروع کر دیں تو ہم اپنے اصل موضوع سے دور جا پڑیں گے، اس لیے یہاں صرف اقبال کا نظریہ ہی اختصاراً بیان کر دینا کافی ہو گا، اقبال کا نظریہ تقدیر خالص قرآنی ہے وہ تقدیر کے عام نظریہ کو ممکنات انسانی کے خلاف اور انسانی عزم و ہمت کی توہین خیال کرتا ہے اگر تقدیر کے عام مفہوم کو درست تصور کر لیا جائے تو نہ یہ دنیا عالم اسباب و علل رہتی ہے، نہ خیر و شر کی تمیز باقی رہتی ہے اور نہ خدا ہی قادر مطلق رہتا ہے۔ اقبال نے اپنے نظریہ تقدیر کو مکالمہ ’’ ابلیس و یزداں‘‘ میں ہی بالکل واضح کر دیا ہے، ابلیس خدا سے کہتا ہے کہ میں نے جو آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میں متکبر ہو گیا تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا سجود تیری مشیت میں نہ تھا، خدا کہتا ہے کہ یہ راز تجھ پر کب کھلا؟ ابلیس جواب دیتا ہے کہ انکار سے بعد، اس پر خدا فرشتوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے: پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام ظالم اپنے شعلہ سوزاں کو خود کہتا ہے دود اسی طرح تسلیم و رضا کے غلط مفہوم نے بھی ہماری فطرت کو پست کر دیا ہے، تصوف کا ذبہ (تصوف صادقہ کا ذکر آگے آئے گا) نے تسلیم و رضا کو آلام و مصائب کو مقدر تصور کر کے اس کے سامنے جھک جانا قرار دیا ہے، اقبال کے نزدیک تسلیم و رضا قوانین قدرت کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے اسی نظریہ کو اس نے ذیل کے اشعار میں نہایت خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا ظلمت کدہ خاک پہ شاکر نہیں کرتا ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشوونما کا فطرت کے تقاضوں پر نہ کر راہ عمل بند مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا تسلیم و رضا اور تقدیر کے مسائل کو اگر ہم اقبال کے پیش کردہ زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ ایسی صورت میں نہ ہماری آرزو فنا ہوتی ہے اور نہ ہمارے ذوق عمل میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے اور یہی نقطہ نگاہ ہماری خودی کے ارتقاء کا باعث ہو سکتا ہے۔ تصوف صادقہ اورفقر اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اقبال ایسے تصوف کا قائل نہیں ہے جو انسان کے دل میں بے بسی اور بے چارگی کے جذبات پیدا کرے۔ وہ ایسے تصوف کا قائل ہے جو انسان میں شجاعت، مردانگی، ہمت اور حوصلہ پیدا کرے، جو تصوف خودی کو کمزور کرے وہ مغضوب اور جو اسے مضبوط کرے وہ قابل قبول، جو تصوف ہمارے دلوں سے خوف غیر اللہ کو دور کرے وہ عین حیات ہے، جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے سامنے جھک جانے کی تعلیم دے وہ قاتل حیات ہے کیونکہ بقول اقبال: من نہ دیدم کہ سگے پیش سگے سر خم کرد تصوف کے بیان میں فقر کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اقبال نے اپنی تصانیف میں جا بجا ذکر کیا ہے اور ارتفاع خودی کے لیے اس کو ضروری قرار دیا ہے، فقر اور تصوف لغوی حیثیت سے ہم معنی نہیں ہیں، لیکن بد قسمتی سے عرف عام میں ہم معنی ہو گئے ہیں، فقر سے مراد عام طور پر اس طریق سے لے جاتی ہے جو ہمیں ترک دنیا و ترک آرزو کے ذریعہ اس عظیم ترین خودی تک پہنچانے کا اہل ہے جس کا نام خدا ہے، لیکن یہ فقر اقبال کے نزدیک مردود و مغضوب ہے اس فقر کے مقتدی دنیا، دولت دنیا اور مشاغل و فرائض دنیوی کو ترک کرنا اپنے سفر کی پہلی منزل تصور کرتے ہیں۔ دولت بیشک خودی کی منزل میں سنگ گراں ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، دولت اور اقبال یا دولت اور اسلام ایک علیحدہ موضوع ہے جس کی تشریح و توضیح ایک علیحدہ صحبت کی محتاج ہے اور یہاں اس مسئلے کو بالتفصیل بیان کرنے کا موقعہ نہیں، صرف اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ اسلام دولت کا مخالف نہیں، وہ دولت کو مدفون کرنے کا مخالف ہے، جب دولت حرص و طمع کی ہم شکل ہو جائے تو بیشک خودی کے ارتقاء میں حائل ہو جاتی ہے، اقبال کے نزدیک دولت کی قیمت اضافی ہے۔ اگر کردی نگہ بر پارۂ سنگ ز فیض آرزوئے تو گہر شد بہ زر خود را مسنج اے بندۂ زر کہ زر از گوشہ چشم تو زر شد اسلام مادہ سے متعلق رہنے میں خائف نہیں ہے بلکہ روح اور مادہ کے مفید تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے مادی دنیا کو خوش آمدید کہتا ہے اور اعلیٰ ترین روحانی مقاصد کے حصول کی خاطر مادی دنیا کے وسیع مخازن سے بہرہ یاب ہونے کی تعلیم دیتا ہے، دنیا کی مادی رکاوٹوں پر قابو پانا ان کو اپنی خودی کے ارتقاء کے لیے استعمال کرنا اور دنیا کی ہر چیز کو اپنے مقابلہ میں ہیچ تصور کرنا اقبال کے نزدیک حقیقی فقر ہے۔ یہ فقر انسان کے دل سے طمع اور فریب کو دور کر کے اس کے کردار کو مضبوط کرتا ہے، بادشاہوں کا جاہ و جلال، عظمت و شوکت اس کو مرعوب نہیں کر سکتے، اس کی نظروں میں ہر چیز ہیچ معلوم ہوتی ہے، وہ صرف اپنے آپ کو موجودہ اور باقی دنیا کو غیر موجودہ تصور کرتا ہے، اقبال کے نزدیک فقر و رہبانیت دو متضاد باتیں ہیں، فقر صادقہ، عزم و ہمت، جوش و ولولہ، ہمت و عمل کا نام ہے اور رہبانیت بے بسی و بے حوصلگی کم ہمتی وبے عملی کی دلیل ہے۔ سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی اقبال نے فقر کی دو قسمیں بیان کی ہیں، فقر صادقہ اور فقر کاذبہ ان دونوں کا ذکر خود اقبال ہی کی زبان سے سن لیجئے۔ اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری اک فقر سے شبیری اس فقر میں ہے میری میراث مسلمانی سرمایہ شبیری فقر صادقہ نے قوموں کی زندگی میں جو انقلابات پیدا کئے ہیں، ان کے اذکار سے سیاست و مذہب کی تاریخیں زریں ورق ہیں، کیا کسی پیغمبر یا مصلح مذہب کے پاس دولت و جاہ دنیوی کی کمی تھی؟ نہیں بلکہ ایک دنیا ان کے قدموں پر یہ چیزیں نثار کرنے کو ہر وقت تیار رہتی تھی، اس دولت کی موجودگی میں انہوں نے وہ کارنامے کر دکھائے، جن کی مثال قیامت تک تلاش کرنے سے نہیں مل سکتی۔ اقبال نے جا بجا فقر کے احوال و ممکنات کا ذکر کیا ہے، خود ہی سوال کیا ہے اور خود ہی جواب بھی دیا ہے۔ چیست فقر اے بندگان آب و گل یک نگاہ راہ بیں یک زندہ دل با سلاطیں ورفتد مرد فقیر از شکوہ بوریا لرزو سریر از جنوں می افگند ہوئے بشہر وار ہاند خلق را از جبر و قہر می نگیرد جذ بہ آں صحرا مقام کاند رو شاہیں گریز و از حمام قلب او را قوت از جذب و سلوک پیش سلطاں نعرۂ اولا ملوک فقر مومن چیست؟ تسخیر حیات بندہ از تاثیر او مولا صفات فقر کافر خلوت دشت و در است فقر مومن لرزہ بحر و بر است زندگی آں را سکون غار و کوہ زندگی ایں را ز مرگ با شکوہ! آں خودی را کشتن و وا سوختن ایں خودی را چوں چراغ افروختن فقر چوں عریاں شود زیر سپہر از نہیب او بلرزو ماہ و مہر فقر عریاں گرمی بدر و حنین فقر عریاں بانگ تکبیر حسینؓ یہ ہے فقر صادقہ اور یہ ہے مرد فقیر کی شان، یہی وہ فقر ہے جو انسان کو مصائب کے سامنے جھکنے نہیں دیتا، یہی وہ فقر ہے جو مشکلات کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتا ہے، یہی وہ فقر ہے جو اپنی کامیابی و کامرانی کا راز طوفان اور حادثوں میں دیکھتا ہے اور یہی وہ مرد فقیر ہے جو دو عالموں میں بھی سما نہیں سکتا۔ چہ عجب اگر دو سلطاں بہ ولایتے نہ گنجند عجب ایں کہ می نگنجد بہ دو عالمے فقیرے سوال آپ نے دیکھ لیا کہ آرزو کس طرح خودی کی ترقی کا باعث ہے، یہ بھی دیکھ لیا کہ رہبانیت سے خودی کس طرح کمزور ہوتی ہے، یہ بھی دیکھ لیا کہ تصوف کا ذبہ ہمیں ذلت کی کیسی پستیوں میں گراتا ہے، اب یہ بھی دیکھ لیجئے کہ سوال کس طرح خودی کی پستی کا باعث ہوتا ہے، اقبال نے اپنے کلام حیات آفریں میں خود اعتمادی پر بہت زور دیا ہے، فی الحقیقت خود اعتمادی کے بغیر کوئی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا، خود اعتمادی کمزوری کی جڑ پر کلہاڑے کا کام دیتی ہے، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا قوت عمل کو فنا کر دیتا ہے اور جب قوت عمل فنا ہو گئی تو اس کا لازمی نتیجہ موت ہے۔ حاجت اور ناداری انسان میں روباہ مزاجی پیدا کرتی ہیں، ان سے افکار کی بلندی و آزادی معدوم ہو جاتی ہیں اور حیات انسانی ہر پہلو سے ذلیل و خوار ہو جاتی ہے، ہمت و حوصلہ جواب دے دیتے ہیں اور تملق، خوشامد، دروغ، فریب، غیبت و نایت ایسے امراض قبیحہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ ’’اسرار خودی‘‘ میں علامہ مرحوم فرماتے ہیں: فطرتے کو بر فلک ہند و نظر پست می گردد ز احسان دگر از سوال افلاس گردد خوار تر از گدائی گریہ گر نادار تر رزق خویش از نعمت دیگر مجو موج آب از چشمہ خاور مجو سوال قاطع غیرت ہے، اس کی تفصیل خود علامہ مرحوم کی زندگی کے ایک واقعہ سے ہوتی ہے، گزشتہ سال ’’ یوم اقبال‘‘ کے موقعہ پر توشہ خانہ حضور نظام کی طرف سے ایک ہزار روپیہ کا چیک بطور تواضع علامہ اقبال کی خدمت میں بھیجا گیا۔ مرحوم نے یہ رقم سر اکبر حیدری صدر اعظم کو واپس کر دی اور لکھا : تھا یہ اللہ کا فرمان کہ شکوہ پرویز دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کہ حسن تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات غیرت فکر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات اقبال ہر اس چیز کو جو اپنی ہمت و طاقت سے حاصل نہ کی جائے، سوال کی فہرست میں شامل کرتا ہے، حتیٰ کہ باپ دادا سے ملنے والی میراث بھی اس کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ پشیمان شوا گر لعلے ز میراث پدر خواہی کجا عیش بروں آوردن لعلے کہ در سنگ است وہ دوسروںکے نور سے اپنے پیمانہ کو روشن کرنا نہیں چاہتا، اپنے ہی دل کے نور کو مشعل راہ بنا کر منزل پر جا پہنچتا ہے۔ کشیدگی بادہ ہا در صحبت بیگانہ پے در پے بنور دیگراں افروختی پیمانہ پے در پے وہ تو خدا کے اس دیے ہوئے زمین و آسمان کو بھی مستعار سمجھ کر پھونک ڈالنا اور اپنا جہان آپ پیدا کرنا چاہتا ہے، مانگے تانگے کے زمین و آسمان کے درمیان رہنا اس کی خودی کے منافی ہے۔ ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے تحریک خلافت کے دوران میں جو ہیجان پیدا ہوا تھا، اور مسلمانوں نے اس کی بحالی کے لیے جو تگ و دو کی تھی اقبال نے اس کو خلافت کی گدائی سے موسوم کیا اور لکھا: اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی ’’مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی‘‘ مغرب کی اندھا دھند تقلید کو بھی اقبال مشرق کی غیرت اور خودی کے نقیض خیال کرتا ہے، یہ تو روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ لباس، معاشرت گفتگو، اخلاق، برتاؤ اور علم و فن میں ہم لو گ بغیر سوچے سمجھے مغرب کی تقلید کر رہے ہیں، یہ نقالی بھی ایک قسم کا سوال ہے، کیونکہ اس نقالی سے جہاں ہماری صدیوں کی شاندار مشرقی روایات فنا ہو رہی ہیں، وہاں ہم میں ندرت فکر و عمل میں مفقود ہو رہی ہے، اقبال مغرب کا دشمن نہیں، وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ مغرب نے اس کی فکر کو روشن کیا، لیکن جس بات کا وہ مخالف ہے وہ یہ ہے کہ ہم مغرب کے عروج کے صحیح اسباب دیکھ کر ان کو اپنے ہاں پیدا کرنے کی تو کوشش نہیں کرتے اور اس کی ظاہری شوکت اور ٹیپ ٹاپ سے متاثر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ علم غیر آموختی اندوختی روئے خویش از غازہ اش افروختی ارجمندی از شعارش می بری می ندانم تو توئی یا دیگری عقل تو زنجیری افکار غیر در گلوئے تو نفس از تار غیر بر وہانت گفتگو با مستعار در دل تو آرزو ہا مستعار تا کجا طوف چراغ محفلے ز آتش خود سوز اگر داری دلے یہ موقعہ مغرب کی اخلاقی، سماجی، دینی اور سیاسی تنبیہہ کا نہیں ہے اگر خدا کی توفیق شامل حال رہی اور زندگی نے مہلت دی تو انشاء اللہ اس موضوع پر سیر حاصل بحث کروں گا، یہاں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اخلاقی اور سماجی لحاظ سے ہم مغرب کی نسبت کہیں افضل ہیں اور مغرب کی مشکلات کا حل صرف ہمارے اخلاقی اور سماجی نظام کو قبول کرنے میں ہے، ترکی کے مشہور صدر اعظم پرنس سعید حلیم پاشا نے لکھا تھا: ’’ یوروپ کا اخلاقی نظام ناپائدار اور غیر مستقل ہے اور یہ اس امر کا شاہد ہے کہ اس سے سوسائٹی کا صرف ایک حصہ یا طبقہ مطمئن ہو سکتا ہے دوسرے حصے کا مطمئن ہونا نا ممکن ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایسا نظام ایک کو نقصان پہنچا کر دوسرے کو فائدہ دیتا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ اخلاقی نظام جس قدر غیر مستقل ہو گا اسی قدر تکلیف دہ بھی ہو گا اور اسی قدر اس کی مخالفت بھی ہو گی، یہ صرف تشدد اور سختی کے بل پر زندہ رہ سکتا ہے اور یہی تشدد اور سختی جو اس کو اپنے قیام کے لیے استعمال کرنی پڑتی ہے، اس کی فنا کا باعث ہوتی ہے، اس لیے ایسی سوسائٹی کی قوت و شوکت اور مادی مرفہ الحالی کسی و قت خواہ کیسی ہی شاندار ہو مستقل اور پائدار نہیں ہو سکتی اور نہ ہمارے لیے قابل رشک تقلید قرار دی جا سکتی ہے۔‘‘ روس نے مغربی سوسائٹی کی ایسی ہی خرابیوں سے تنگ آ کر علم بغاوت بلند کیا اور سوشلزم کی بنیاد رکھ دی، لیکن موجودہ سوشلزم نے بھی انسان کو محض مشین بنا کر رکھ دیا ہے، اس لیے اس کی کامیابی بھی ممکن نہیں۔ عشق خودی کی ترقی کا پہلا ذریعہ آرزو ہے، اس وقت تک ہم نے صرف آرزو کی تفصیل بیان کی ہے، خودی کی ترقی کا دوسرا ذریعہ اقبال نے عشق کو قرار دیا ہے، اب اس کی تفصیل بھی سن لیجئے۔ اقبال نے اپنے کلام میں جذبہ محبت کی پرورش پر بہت زور دیا ہے اور اکثر اوقات تو یہ دھوکا ہونے لگتا ہے کہ وہ عشق کے مقابلے میں عقل کی کوئی قیمت ہی تصور نہیں کرتا، اس میں کچھ شک نہیں کہ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں عقل کا بہت سا حصہ ہے، لیکن غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ عشق کے بغیر انسانی کردار میں حسن و عظمت نہیں آ سکتے۔ اگر عقل عشق کے تابع فرماں نہ ہو تو خطرہ ہے کہ عقل انسان کو گمراہی کی جانب لے جائے گی، اگر گمراہ نہیں کرے گی تو کم از کم یہ خطرہ ضرور رہے گا کہ قلب انسانی میں جرأت و بیباکی، عزم و حوصلہ کے جذبات مردہ نہ ہو جائیں، محبت انسانی قلب کو غرور و تکبر، نخوت و رعونت سے پاک کر دیتی ہے، اس سے کردار انسانی مضبوط ہوتا ہے، اخلاق عالیہ کی نشوونما اسی سے ہوتی ہے، قدرت نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا ہے، لیکن سچی محبت کی نعمت ان سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے، ہماری برائیوں، ہماری مصیبتوں، ہمارے دکھوں اور ہماری تکلیفوں کا واحد علاج محبت ہے۔ ہٹلر کہتا ہے: ’’ سب سے عظیم الشان چیز جو ہم کو خدا دے سکتا ہے وہ محبت ہے، کیونکہ وہ خود محبت ہے اور سب سے عظیم الشان چیز جو ہم خدا کو دے سکتے ہیں وہ بھی محبت ہے کیونکہ یہ ہمیں خدا کے حوالے کر دے گی۔‘‘ زندگی پھول ہے اور محبت اس کا شہد ہے۔ خودی سے ہمارا شرار زندگی روشن ہے، لیکن اس شرار زندگی کو روشن تر اور پائندہ تر رکھنے کے لیے محبت ضروری ہے، اقبال کہتا ہے: نقطہ تورے کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر از محبت اشتعال جوہرش ارتقائے ممکنات مضمرش فطرت او آتش اندوز ز عشق عالم افروزی بیا موز و ز عشق یہی نہیں اقبال کے نزدیک دنیا میں سب سے بڑا کافر اور سب سے بڑا زندیق وہ ہے جو عشق کا منکر ہو۔ زر سم و راہ شریعت نہ کردہ ام تحقیق جز ایں کہ منکر عشق است کافر و زندیق لاویٹر کہتا ہے: ’’ جسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی اسے محبت دیکھ سکتی ہے، جسے کان نہیں سن سکتا اسے محبت سن سکتی ہے۔‘‘ اقبال کہتا ہے: بروں زیں گنبد در بستہ پیدا کردہ ام را ہے کہ از اندیشہ بر ترمی پرد آہے سحر گاہے اقبال نے پروفیسر نکلسن کو اسرار خودی کے موضوع کی تشریح کرتے ہوئے لکھا: ’’ محبت سے خودی مضبوط ہوتی ہے، یہ لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی ہیں جذب کر لینے کی خواہش۔ اس کی اعلیٰ ترین صورت قیمتوں اور مقاصد مثال کی تخلیق اور ان کا عرفان ہے، محبت عاشق اور معشوق دونوں میں انفرادیت پیدا کرتی ہے۔‘‘ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ اقبال خدا کو ایک نادر ترین فرد تصور کرتا ہے، جب عشق عاشق و معشوق دونوں میں انفرادیت پیدا کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ نادر ترین فرد کے ساتھ انسانی فرد کا عشق کس درجہ انفرادیت پیدا کرنے کا موجب ہو گا، یہی وجہ ہے کہ اقبال خودی یا انفرادیت کے لیے عشق کو باعث مضبوطی قرار دیتا ہے۔ خودی کو ترقی دینے، ترقی دے کر اپنے اندر خدائی صفات پیدا کرنے اور اس طرح اس اعلیٰ ترین نادر خودی کو جاننے کے لیے جس کا نام خدا ہے عشق کا ہونا نہایت ضروری ہے، اس طریقہ سے مشرق کے لوگ ہزاروں سال سے نا آشنا ہیں اور وہ اس حربے کے کارگر ہونے کے بھی قائل ہیں، لیکن مغرب ہر چیز کی حقیقت کو عقل کے پیمانے سے ناپنے کا عادی ہے۔ وہ خدا کو بھی عقل سے پانے کی تلاش کرتا ہے، لیکن آج تک کامیاب نہیں ہو سکا، مغرب میں عشق کے حق میں کبھی کبھی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے لیکن لا مذہبیت کے باعث اس کی کامیابی ناممکن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نیٹشے کی روحانی مشکلات کا اندازہ نہ کر سکا اور اسے دیوانہ قرار دیا۔ نیٹشے کو اس کی لامذہبیت نے مجذوب کی حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا، اگر اسے کوئی باخدا مل جاتا تو اس کی روحانی کوفت دور ہو جاتی، برگسان کسی حد تک مادہ پرست یورپ سے اپنی بات منوا سکا ہے، برگسان دیگر حکمائے یورپ کے خلاف ایک اور بے پناہ انسانی قوت کا قائل ہے جس کو وہ انیٹیوشن یا القاء کا نام دیتا ہے اس طاقت کا مرکز دماغ کی بجائے دل ہے، یہ دل کی طاقت وہی طاقت ہے جس سے مشرقی حکماء اور صوفی مدت سے واقف ہیں۔ اقبال بھی عقل سے زیادہ دل کی طاقت کو تسلیم کرتا ہے، جس چیز کی حقیقت کو عقل مہینوں اور سالوں میں جاننے کے قابل ہوتی ہے، دل اس کو سکنڈوں اور منٹوں میں پا لیتا ہے، اقبال لکھتا ہے: ’’ حقیقت کبریٰ کو پا لینے کے دو طریق ہیں، اور دونوں ہماری عملی قوتوں میں اضافہ کا موجب ہوتے ہیں، ایک غور و فکر کے ذریعے اور ایک عشق کے ذریعہ، دل ایک قسم کی چشم باطنی ہے جو ہمیں حقیقت کے وہ پہلو دکھاتی ہے جو حواس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ دل کے راستے عرفان حقیقت کا حصول ایک ایسا طریقہ ہے جس میں حواس کو دخل نہیں، لیکن اس کے ذریعے ہم جو کچھ مشاہدہ کرتے ہیں وہ ایسا ہی حقیقی اور ٹھوس ہوتا ہے، جیسا کہ کسی اور طریق کے مشاہدہ سے معلوم کیا جا سکے۔‘‘ اقبال اس بات کا بھی قائل ہے کہ عقل کے ذریعے بھی معرفت حاصل ہو سکتی ہے، لیکن عقل وحدت حقیقت کے اجزاء کو پہچان کر وحدت کی طرف آتی ہے، اور عشق ان اجزا سے بے نیاز ہو کر بلا واسطہ طور پر ان کو پا لیتا ہے، عقل اور دل میں اقبال کے نزدیک وہی فرق ہے جو ہومیو پیتھی اور ایلوپیتھی میں ہے، ہومیو پیتھی علامات کے ذریعہ مرضی کا علاج کرتی ہے اور ایلوپیتھی مرض کی علت پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ حقائق اشیاء کا تجزیہ کرنے میں سائنس نے جو ترقی کی ہے اس کی اہمیت اور عظمت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، لیکن مشکل یہ ہے کہ سائنس یا بالفاظ دیگر انسانی عقل ابھی عالم ارتقاء میں ہے اور اس منزل پر نہیں پہنچی، جہاں ہم اس کو حقائق کا قطعی معیار تسلیم کر لیں، طواہر کائنات کے متعلق ہمارا علم صرف ان کے اوصاف و خواص تک محدود ہے ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ فلاں چیز میں فلاں فلاں اوصاف یا خواص اتنے اتنے تناسب کے ساتھ موجود ہیں لیکن ان سے پرے کیا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں یہ تو آپ جانتے ہیں کہ مادہ جگہ گھیرتا ہے، اس میں رنگ ذائقہ وغیرہ خواص موجود ہیں، لیکن یہ خواص ہی خواص ہیں آپ کی عقل خواص سے آگے نہیں جاتی اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ہے کیا؟ اس کا جواب ہماری عقل نہیں دے سکتی، اس کے لیے ہمیں کوئی اور طریقہ تلاش کرنا ہو گا، یہ وہی طریقہ ہے جسے برگسان القاء اور اقبال عشق سوز یا دل سے تعبیر کرتا ہے، عقل دلائل کی پر پیچ اور دشوار گزار کھائیوں سے گزر کر بلندی پر پہنچنا چاہتی ہے۔ لیکن دل ایک ہی جست میں تمام بلندیوں کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اسی لیے تو اقبال کہتا ہے: مے شود پردہ چشم پر کاہے گاہے دیدہ ام ہر دہ جہاں را بہ نگاہے گاہے وادی عشق بسے دور و دراز است ولے طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا سارا فلسفہ قرآنی ہے، برگسان نے عرفان و ہدایت کے لیے آج القاء کو قابل اعتماد و راہنما قرار دیا ہے، لیکن قرآن اس نکتہ کو ساڑھے تیرہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے اور اس نے دعوت الی الحق کی بنیاد ہی اس پر رکھی ہے، مولینا ابو الکلام آزاد نے اس نکتہ کو ’’ترجمان القرآن‘‘ میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، یہاں میں اس کا اقتباس پیش کرتا ہوں: ’’ جس طرح وجدان کے بعد حواس کی ہدایت نمودار ہوئی کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور جس طرح حواس کے بعد عقل کی ہدایت نمودار ہوئی، کیونکہ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی ٹھیک اسی طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ عقل کی ہدایت کے بعد بھی ہدایت کا کوئی مزید مرتبہ ہونا چاہیے، کیونکہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی، اور اس کے دائرہ عمل کے بعد بھی ایک دائرہ رہ جاتا ہے، عقل کی کار فرمائی جیسی کچھ اور جتنی کچھ بھی ہے، محسوسات کے دائرہ میں محدود ہے یعنی وہ صرف اسی حد تک کام دے سکتی ہے جس حد تک ہمارے حواس خمسہ معلومات بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ لیکن محسوسات کی سرحد سے آگے کیا ہے؟ اس پردے کے پیچھے کیا ہے جس سے آگے ہماری چشم حواس نہیں بڑھ سکتی؟ یہاں پہنچ کر عقل بالکل درماندہ و معطل ہو جاتی ہے، اس کی ہدایت ہمیں کوئی روشنی نہیں دے سکتی۔ علاوہ بریں جہاں تک انسان کی عملی زندگی کا تعلق ہے، عقل کی ہدایت نہ تو ہر حال میں کافی ہے اور نہ ہر حال میں موثر، نفس انسان طرح طرح کی خواہشوں اور جذبوں سے کچھ اس طرح مقہور واقع ہوا ہے کہ جب کبھی عقل اور جذبات میں کشمکش ہو جاتی ہے تو اکثر حالتوں میں فتح جذبات ہی کے لیے ہوتی ہے، بسا اوقات عقل ہمیں یقین دلاتی ہے کہ فلاں فعل مضر اور مہلک ہے، لیکن جذبات ہمیں ترغیب دیتے ہیں اور ہم اس کے ارتکاب سے اپنے آپ کو روک نہیں سکتے، عقل کی بڑی سے بڑی دلیل بھی ہمیں ایسا نہیں بنا سکتی کہ غصہ کی حالت میں بے قابو نہ ہو جائیں اور بھوک کی حالت میں مضر غذا کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں۔ اچھا اگر خدا کی ربوبیت کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہمیں وجدان کے ساتھ حواس بھی دے، کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی اور اگر ضروری تھا کہ حواس کے ساتھ عقل بھی دے، کیونکہ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تو کیا ضروری نہ تھا کہ عقل کے ساتھ کچھ اور بھی دے کیونکہ عقل کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور اعمال کی درستی اور انضباط کے لیے کافی نہیں! قرآن کہتا ہے کہ ضروری تھا اور اسی لیے اللہ کی ربوبیت نے انسان کے لیے ایک چوتھے مرتبہ ہدایت کا بھی سامان کر دیا، یہی مرتبہ ہدایت ہے جسے وہ وحی و نبوت کی ہدایت سے تعبیر کرتا ہے ’’ الہٰدی‘‘ یعنی ہدایت کی حقیقی راہ کون سی راہ ہے؟ قرآن ہے وحی الٰہی کی وہ عالمگیر ہدایت ہے جو اول دن سے دنیا میں موجود ہے اور بلا تفرق و امتیاز تمام بنی نوع انسانی کے لیے ہے وہ سب کے لیے ہے اور سب کو دی گئی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اقبال عقل کی طاقت کے مقابلے میں دل کی طاقت کو زیادہ قابل قدر تصور کرتا ہے مگر وہ از خود رفتہ و بیگانہ اندیش دل کو نہیں نہیں کرتا۔ ایسے دل کا طلبگار ہے جو دنیا کو اپنے اندر سمیٹ لے۔ خدا سے مخاطب ہو کر دیکھیے کیسا دل مانگتا ہے: بدہ آں دل کہ مستی ہائے او از بادۂ خویش است بگیر ایں دل کہ از خود رفتہ و بیگانہ خویش است بدہ آں دل بدہ آں دل کہ گیتی را فرا گیرد بگیر ایں دل بگیر ایں دل کہ در بند کم و بیش است ایسا ہی دل پہاڑوں کی جڑیں ہلا دیتا ہے: تیشہ اگر بسنگ زو ایں چہ مقام گفتگوست عشق بدوش می کشد ایں ہمہ کوہسار را عشق ہماری خوابیدہ طاقتوں کو بیدار کر کے عمل کو تحریک دیتا ہے۔ سکون و راحت جو خودی کے قاتل ہیں عشق کی دنیا میں ناپید ہو جاتے ہیں انسان اپنے اندر ایک نیا ولولہ ایک نیا جوش اور ایک نئی جہت محسوس کرتا ہے، خوف و خطر اس کے دل سے دور ہو جاتے ہیں، موت اسے ڈرا نہیں سکتی، دنیا کے مصائب اس کو پریشان نہیں کر سکتے، اس کے لیے آتش نمرود گلزار بن جاتی ہے اور تلواروں کی جھنکار سے نغمے پیدا ہوتے ہیں، وہ دریاؤں میں کود پڑتا ہے، لہروں سے لڑ جاتا ہے اور چٹانوں سے ٹکرا جاتا ہے اس کے ارادوں میں پختگی اور اس کی ہمت میں بلندی پیدا ہو جاتی ہے، وہ یقین کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے اور جب یہ دولت ہاتھ آ جاتی ہے تو عرفان حقیقت کی منزلیں خود بخود طے ہونے لگتی ہیں، پہاڑ تنکا نظر آتا ہے، سمندر قطرہ معلوم ہوتا ہے، اس کی ایک نگاہ سے تقدیروں کا رخ پلٹ جاتا ہے، وہ خدائے لم یزل کا دست قدرت اور صانع عالم کی زبان بن جاتا ہے، سورج اس کے شرر سے کسب خیال کرتا ہے، آسمان اس کے نور سحر سے روشن ہوتے ہیں، وہ اس مقام پر پہنچ جاتاہے جہاں ما و تو کا امتیاز نہیں رہتا، جہاں بت خانہ معشوق کی جلوت او رکعبہ اس کی خلوت نظر آتا ہے، شیخ برہمن اور برہمن شیخ معلوم ہوتا ہے۔ محبت چوں تمام افتد رقابت از میاں خیزد بہ طوف شعلہ پروانہ با پروانہ می سازد دل یا عشق کی یہی کار فرمائیاں تو اقبال کو یہ کہنے پر مجبور کرتی ہیں کہ: من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن یہی وہ من کی دنیا ہے جس سے یورپ آج محروم ہے اقبال یورپ کے عقل و علم کا مخالف نہیں، لیکن وہ عشق کے بغیر علم کو محض شیطنت سمجھتا ہے وہ خود لکھتا ہے: ’’ علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دار و مدار حواص پر ہے، عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے، اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے، جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطنت ہے۔ یہ علم علم حق کی ابتداء ہے، جیسا کہ میں نے جاوید نامہ میں لکھا ہے: علم حق اول حواس آخر حضور آخر او می نگنجد در شعور وہ علم جو شعور میں نہیں سما سکتا اور جو علم حق کی آخری منزل ہے اس کا دوسرا نام عشق ہے، مسلمان کے لیے لازم ہے کہ علم کو (یعنی اس علم کو جس کا مدار حواس پر ہے اور جس سے بے پناہ قوت حاصل ہوتی ہے) مسلمان کرے ’’ بولہب را حیدر کرار کن‘‘ اگر یہ بولہب حیدر کرار بن جائے یا یوں کہیے کہ اگر اس کی قوت دین کے تابع ہو جائے تو انسان کے لیے سرا سر رحمت ہے۔‘‘ اقبال محسوس کرتا ہے کہ یورپ نے علم کو دین کے تابع نہیں (یورپ کی ہلاکت آفریں گییں اور آلات حرب اس حالت کا ایک پہلو ہیں) اسی لیے وہ تسلیم کرتا ہے کہ اگرچہ مغرب نے اس کی خرد میں اضافہ کیا، لیکن اس کے دل کو کسی اور چیز نے روشن کیا۔ خرد آموخت مرا صحبت دانائے فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں پھر کہتا ہیـ: قدح خرد فروزے کہ فرنگ داد مرا ہمہ آفتاب لیکن اثر سحر نہ دارد یورپ نے سمندر کے جگر کو چیر ڈالا لیکن سینا کی بلندیوں پر نہ پہنچ سکا۔ از کلیمے سبق آموز کہ دانائے فرنگ جگر بحر شگافید و بہ سینا نہ رسید اقبال علم کو ہیچ تصور نہیں کرتا وہ صرف اس کو مسلمان کرنا چاہتا ہے یعنی اسے عشق کے تحت رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی ہلاکت آفرینیوں کی روک تھام ہو سکے اور بنی نوع انسان اس کی حقیقی لذتوں سے بہرہ اندوز ہو سکے ورنہ تھام دنیا پر وہی اضطراب و سراسیمگی کا عالم طاری ہو جائے گی جو اس وقت یورپ میں آپ کو دکھائی دے رہا ہے وہ عقل و عشق کا امتزاج چاہتا ہے اور اسی امتزاج کی تلقین اس نے جاوید نامہ میں پرنس سعید حلیم پاشا کی زبان سے اس طرح کی ہے: غربیاں را زیر کی ساز حیات شرقیاں را عشق راز کائنات زیر کی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیر کی محکم اساس خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیر کی آمیز دہ منازل ارتقاء اب تک ہم نے ارتقائی خودی کے اسباب و محرکات کا ذکر کیا ہے اب ذرا تھوڑی دیر کے لیے ان منازل کا ذکر بھی اختصاراً سن لیجئے، جن میں سے خودی کو اپنے انتہائی مقام پر پہنچنے کے لیے گزرنا پڑتا ہے، اقبال خودی کو تین منزلوں میں سے گزارتا ہے: ۱۔ اطاعت قانون، ۲۔ ضبط نفس، ۳۔ نیابت الٰہیہ ۱۔ اطاعت قانون: اقبال کی اطاعت قانون سے مراد قانون فطرت کی اطاعت ہے، قدرت کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے، یہ تمام کائنات ایک قانون کے تحت جاری ہے، سورج زمین کے گرد گھومتا ہے تو شب و روز پیدا ہوتے ہیں، چاند سورج کے گرد چکر لگاتا ہے تو روشنی حاصل کرتا ہے، تارے چاند کے ساتھ اپنے دامن کو وابستہ رکھتے ہیں، تو چمکتے ہیں، گھاس قانون نمو کی متابعت کرتی ہے تو اگتی ہے، جب اس قانون کو ترک کرتی ہے تو خشک ہو جاتی ہے اور پاؤں تلے روندی جاتی ہے، قطرے جب قانون اتحاد پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو دریا بن جاتے ہیں، ذروں سے صحرا اور کنکریوں سے پہاڑ بنتے ہیں، یہ توانائی یہ زندگی جو آپ سورج، چاند،ستارے، سمندر ، پہاڑ اور صحرا میں دیکھ رہے ہیں کہاں سے آتی ہے، صرف قانون فطرت کی متابعت سے، پس ارتقائے خودی کی پہلی منزل یہ ہے کہ انسان خدا کے بنائے ہوئے قانون کی پابندی کرتا ہے، خدا کی مقررہ حدود سے باہر قدم نہیں رکھتا، ورنہ ہلاکت ہی ہلاکت ہے، پرندوں کا کام ہوا میں اڑنا ہے وہ مچھلیوں کی مانند پانی کے اندر تیرنے کی کوشش کریں گے تو ہلاک ہو جائیں گے، مچھلیوں کا کام دریا کے اندر تیرنا ہے وہ ہوا میں پرندوں کی مانند اڑنے کی کوشش کریں گی تو فنا ہو جائیں گی۔ ۲۔ ضبط نفس: دوسری منزل ضبط نفس ہے ، یہ خودی کی بڑی بلند منزل ہے، اس میں انسان اپنے آپ کو تمام آلائشوں سے پاک و صاف کرتا ہے، حرص و آز جیسے رذیل جذبات دور ہو جاتے ہیں، اس منزل میں انسان سوائے خدا کے اور کسی سے نہیں ڈرتا، سوائے خدا کے اور کسی کے سامنے سر نہیں جھکاتا۔ حکمراں باید شدن از خاک خویش تائے روشن خوری از تاک خویش خاک گشتن مذہب پروانگی است خاک را اب شو کہ ایں مردانگی است حق گوئی اور بے باکی اس کی فطرت کا خاصہ بن جاتی ہیں، جادۂ حق سے وہ سر مو انحراف نہیں کرتا اور نہ اس پر عمل پیرا ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت اس کو روک سکتی ہے۔ آئین جواں مردی حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی مصیبتیں آتی ہیں تو ان کو صبر اور جوانمردی سے برداشت کرتا ہے، بلاؤں کا نزول ہوتا ہے تو خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کرتا ہے، وہ اس راز سے واقف ہو جاتا ہے کہ خودی کی پختگی بلاؤں کا مقابلہ کرنے سے ہے، دور بھاگنے سے نہیں، وہ جانتا ہے کہ مصائب اس کی اصلی قدر و قیمت کا امتحان اور ان کا مقابلہ کرنے سے ہی اس کا جوہر آشکار ہو گا۔ کہا پہاڑ کی ندی نے سنگریزے سے فتادگی و سر افگندگی تری معراج ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارایا کہ زجاج ۳۔ نیابت الٰہیہ: جب ضبط نفس پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو انسان مومن کی دنیا میں داخل ہوتا ہے، اقبال کے کافرو مومن وہ نہیں ہیں، جنہیں ہم اور آپ روز مرہ کافر و مومن کے نام سے پکارتے ہیں، اقبال کے نزدیک وہ شخص مومن ہے جو اپنی تمام قوتوں کو بروئے کار لاتا ہے، ان کو تسخیر عالم کے لیے استعمال کر کے اپنے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کرتا ہے، جو یہ نہیں کرتا، وہ کافر ہے۔ کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے تو ڈھونڈ رہا ہے سم افرنگ کا تریاق؟ اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند برندہ و صیقل زدہ و روشن و براق کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق مومن ہونا خودی کی آخری منزل ہے، ضبط نفس کی منزل طے کرنے کے بعد اس میں خدائی صفات پیدا ہو جاتی ہیں اس میں فقر بھی ہوتا ہے اور عشق بھی فقر سے وہ دنیا پر قابو پا لیتا ہے اور عشق سے خدا کا دست راست بن جاتا ہے، جب ان دو حالتوں کا امتزاج ہوتا ہے تو انسان صحیح معنوں میں خداکا نائب یا خلیفہ بن جاتا ہے۔ یہی وہ خلافت ہے جس کے متعلق خدا نے قرآن میں کہا ہے: انی جاعل فی الارض خلیفۃ یہ خلیفہ کیا ہے۔ ’’ مکمل ترین خودی، روحانی اور جسمانی طور پر زندگی کا جوہر، ایسے انسان کی زندگی میں عمل اور فکر، وجدان و عقل ایک ہو جاتے ہیں، وہ شجر انسانیت کا آخری پھل ہے، نوع انسانی کا حقیقی رہنما و حکمراں ہے اور اس کی سلطنت زمین پر خدا کی سلطنت ہے۔‘‘ وہ جز و کل کے اسرار سے واقف ہوتا ہے اور اللہ کے فرمان کو دنیا میں جاری کرتا ہے، یہی نائب الٰہی ہے جس کو اقبال نے مردمومن، مرد حر، مرد حق یا مرد کمال کے مختلف ناموں سے تعبیر کیا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے مرد مومن کا تخیل نیٹشے کے ’’ سوپر مین‘‘ سے لیا ہے لیکن یہ غلط ہے، یورپ جانے سے پیشتر اقبال نے ایک مضمون میں مرد کمال کی خصوصیات بیان کی تھیں، اس کے علاوہ اقبال اور نیٹشے کے ’’ مرد کمال‘‘ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ذرا اقبال کی زبان سے ہی اس مرد مومن کی شان سن لیجئے: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز خاکی و نوری نہاد بندۂ مولیٰ صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز پھر کہتا ہے: ہر حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن ٭٭٭ (اپریل ۱۹۴۰ئ) طبقہ نسواں اور علامہ اقبال جناب محمد جمیل احمد بریلوی آغاز طبقہ نسواں اور علامہ اقبال کے کلام سے بحث کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم موضوع کے بعض دلچسپ پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے چونکہ موضوع بذات خود اس قدر دلچسپ ہے کہ اس کے خاص خاص پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ابتداء میں موضوع زیر بحث کے لیے جتنا ضروری تھا اس سے کچھ زیادہ تفصیل سے کام لیا گیا ہے، تاکہ حیات نسواں کے بعض رخ بے نقاب ہو جائیں۔ اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ علامہ اقبال کے نظریوں کو سمجھنے کے لیے اسلامی تعلیمات کا سمجھنا ضروری تھا اور اسلامی تعلیمات کی عظمت و اہمیت کو جاننے کے لیے دوسری قوموں اور طبقوں کی تعلیم اور رسوم کو پیش نظر رکھنا ضروری تھا، اسی لیے یہاں پر پہلے دنیا کے مختلف حصص و ملل میں عورت کا درجہ بتایا گیا ہے۔ پھر اسلامی نظریہ پیش کیا گیا ہے اور اس کے بعد علامہ اقبال کے کلام سے بحث ہے۔ آغاز میں ’’ فنون لطیفہ کا عورت سے تعلق‘‘ اور ’’ عورت کے جمالی پہلو‘‘ پر بھی نظر ڈال لی گئی ہے چونکہ یہ عنوانات موجودہ مقالہ کے لیے ضروری تھے، ابتدائی ابواب کے بعد ہر عنوان پر پہلے قرآن کریم اور احادیث نبویؐ سے روشنی ڈالی گئی ہے، پھر علامہ اقبال کا افکار و اشعار کی توضیح کی گئی ہے۔ و ما توفیقی الا باللہ۔ ٭٭٭ عورت اور فنون لطیفہ ہر زمان اور ہر زبان کا ایک دلکش و دلچسپ موضوع عورت رہی ہے۔ دنیا نے جب بات کرنا بھی نہ سیکھا تھا عورت کی کہربائیاں کام کر رہی تھیں، دنیا کی کسی زبان کو لے لیجئے آپ کو اس کے لٹریچر کا موضوع غالب عورت ہی ملے گا اور لٹریچر پر ہی کیا منحصر ہے تمام فنون لطیفہ کا دراصل مرکز ثقل ہی عورت ہے۔ یونانیوں نے فن سنگراشی اور شاعری میں بہت ترقی کی تھی، لیکن آج بھی یونانیوں کے جو تراشیدہ مجسمے موجود ہیں، ان کا بہترین نمونہ کیوپڈ اور سائیکی کا مجسمہ ہے جو عشق و محبت کا پہلا مرحلہ ہے۔ یہ مجسمہ آج بھی زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ اس زمانہ میں بھی عورت اس قدر ثقل و کشش ، اس قدر قوت و کہربائی کی مالک تھی کہ خود آسمانی دیوتا بھی جو اس کو اپنے تیروں کا ہدف بنانے آتے تھے خود شکار بن کر رہ جاتے تھے۔ یونان کا سب سے بڑا پہلا شاعر ہو مر گزرا ہے لیکن اس کی تمام شعری تخلیق ایک عورت کے گرد طواف کرتی نظر آتی ہے، بابل کی تہذیب یونان سے بھی پرانی ہے، لیکن اس عہد عتیق کی وہ تنہا داستان جس سے آج بھی بچہ بچہ واقف ہے ایک عورت (زہرہ) ہی کا فسانہ ہے۔ مصر قدیم سے کبھی قلو پطرہ کے نام کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ میں ایطالیہ شاعری و مصوری کے اعتبار سے سب سے آگے ہے۔ ورجل اور وانطے یہاں کے سب سے مشہور شاعر کیے جاتے ہیں۔ لیکن ورجل کی تخلیق شعری میں عورت کس قدر غالب ہے؟ دانطے اپنے تخیل کی پرواز میں آسمان کی بلندیوں تک اڑتا ہے، لیکن وہاں بھی اپنی محبوبہ بطریس کے تصور کو فراموش نہیں کر سکا۔1؎ دور احیاء کے مغربی مصوروں میں لینا رڈو اور رفائیل کے ناموں کو کبھی فراموش نہ کیا جا سکے گا۔ لیکن ان کی شہرت کا راز کیا ہے؟ لینا رڈو کی ایک متبسم لڑکی کی تصویر جو اسنے مونالزا کو سامنے بٹھا کر کھینچی تھی اور لاولٹا، رفائیل کی مصوری کے لیے دلیل راہ ثابت ہوئی۔ رہی موسیقی تو اس میں یہ امر اس قدر بین اور ظاہر ہے کہ کسی مزید توضیح و تشریح کی محتاج نہیں۔ جذبات کی دنیا میں مغرب نے ہمیشہ مشرق کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق کی طویل و عریض وسعتوں میں ایک بچہ بھی ایسا نہ ملے گا جس کو لیلیٰ، شیریں، سلمیٰ کے نام از بر نہ ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے قریب قریب تمام شاعروں، مصوروں، سنگتراشوں اور مغنیوں کا تنہا موضوع عورت ہی رہی۔ خود ہندوستان اپنی سیتا، رادھا، دروپدی، ہیر، سوہنی کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ ہندو آسمان تخیل سے نازل ہونے والی مذہبی کتابیں کس قدر ہی عظمت کی حامل کیوں نہ ہوں، میں کہتا ہوں کہ رامائن سے سیتا اور مہا بھارت سے در وپدی کا کریکٹر نکال دیجئے اور پھر دیکھئے کہ کیا باقی رہ جاتا ہے؟ عورت جمالی نقطہ نظر سے عورت نام ہے ایک حسین شعریت کا، ایک سکینتہ روح کا جس کا مسلک وفاداری، جس کا مذہب محبت، جس کا شیوہ نوازی اور جس کا فرض انسان سازی ہے، وہ مہر و وفا کا مرکز ہے، وہ الفت کی دنیا ہے، وہ عشرت ذہنی و جسمانی کی ایک مشکل ہیکل ہے۔ وہ ہمدردی کا گنجینہ اور درد زیست کا مداوا ہے، وہ امتزاج رنگ و نغمہ کا ایک مجسمہ ہے جو باصرہ نواز بھی ہے اور سامعہ پرور بھی۔ اس کا خمیر مشام جاں اور حریر و پرنیاں سے ترکیب پاتا ہے جس کا شامہ حیات زا اور جس کا لمس لطافت آفریں ہے۔ 1؎ دانطے (۱۳۶۵۔ ۱۳۲۱) اٹلی کا مشہور و معروف شاعر گزرا ہے اس نے اپنی مشہور کتاب طربیہ الٰہیہ میں طبقات علوی کی سیر کا حال بیان کیا ہے وہ خواب دیکھتا ہے کہ وہ ایک جنگل میں ہے جہاں اس کو ورجل (اس سے پہلے کا ایک باکمال اطالوی شاعر) نظر آتا ہے۔ وہ طبقات علویہ میں اس کی رہنمائی کرتا ہے، جنت اس کی معشوقیہ بطریس اس کی رہبر بن جاتی ہے۔ اس کے بعد کتاب میں تین اور طبقات سماوی کا ذکر ہے، ان میں سے پہلے میں حضرت عیسیٰ ؑ، دوسرے میں ارواح پاک اور تیسرے میں خداوند تعالیٰ جلوہ فرما ہے یہاں پہنچ کر شاعر کی نظریں وفور نور سے خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اور وہ کچھ نہیں دیکھ سکتا ۔ا س کتاب کو مغربی عرصے تک الہامی سمجھتے رہے۔ اگر عورت ایک طرف حسن و لطافت کا گہوارہ ہے تو دوسری طرف جذبات کا مرقع، حسیات کی دنیا، وہ ایک کنول سے پاک، منزہ و خوب صورت، جو تالاب کی نیلمیں سطح پر تموج امواج کے ہچکولوں میں جھولا جھولتے ہوئے حکمرانی کرتا ہے، جو نظافت و لطافت کی ایک تصویر ہے، محسوس اور مشکل اور انتہاسے زیادہ ذکی الحس اور سریع التاثیر عورت کا دل جذبات کا کاشانہ ہے جس طرح آفتاب نورانی شعاعوں کا وہ سرچشمہ ہے جذبات الفت کا جہاں سے جذبات لطیف ابلتے ہیں اور ایک عالم کو رنگین کر جاتے ہیں، وہ مرد سے زیادہ محبت کی خواہشمند اور محبت کی طالب ہے۔ مرد کی محبت ایک دعویٰ ہے جس کی دلیل عورت ہے مرد کی ہستی ایک کتاب ہے جس کی تفسیر عورت ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک ومذاہب میں عورت کا درجہ یہاں خود بخود ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوع انسانی کے اس نصف لطیف جز کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ ہونا چاہیے؟ عقل اور فہم سلیم کا کیا تقاضا ہے؟ اس کا جواب صاف ہے۔۔۔ وہ ہستی کہ جس سے مرد کی زندگی اپنا مفہوم پاتی ہے، وہ ہستی کہ جس پر کارخانہ عالم کی اساس ہے یقینا اس کی مستحق ہے کہ اس سے بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ اسے معاشرتی حیثیت سے مرد کے برابر سمجھا جائے۔ اس کو مرد پر اسی قسم کے حقوق حاصل ہوں جیسے کہ مرد کو اس پر حاصل ہیں۔ وہ مرد کی طمانیت و سکنیت قلبی کا ذریعہ ہو۔ اسے مرد اپنے دل کی ملکہ بنا کر رکھے اور اس سے بھلائی کا سبق سیکھے۔ لیکن آپ دنیا کے مختلف ممالک و مذاہب پر نظر ڈالیے تو آپ کو حیرت ہو جائے گی۔ عورت کی یہ خصوصیت جو اس کی نسوانیت کا جوہر ہے اور تمام جاذبیت و مقناطیسیت کی وجہ ہے یعنی یہ کہ وہ مرد سے فطرۃً زیادہ لطیف و نازک ہے۔ اس کے حق میں بلا بن کر ٹوٹا اور مرد نے اس کو اپنا محکوم و غلام بنا کر رکھا ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام و علل نے عورت کے لیے صدہا قانون بنائے مگر یہ قدرت کا ایک عجیب واقعہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی۔ عورتوں کے حقوق مختلف وجوہ کی بنا پر ان خیالات سے وابستہ رہے ہیں جو عام طور پر صنف نازک کے متعلق قائم ہیں، عورت عموماً کمزور اور مقابلتہً ضعیف سمجھی جاتی ہے جس میں تمام نیک خصائص کا فقدان ہو، وہ دماغی و اخلاقی حیثیت سے مرد سے بدرجہا پست خیال کی جاتی ہے۔ یونان: یونان جو فلسفے کے لیے آج بھی دنیا میں مشہور ہے اس کے تاریخی عصر میں مرد نے عورت کو صرف اپنی نفسانی تسکین و مسرت کا ذریعہ اور تولید اولاد کا آلہ سمجھا۔ ایک عام خیال یہ بھی تھا کہ وہ فطرۃً مرد سے زیادہ پر عیب، زیادہ حاسد، زیادہ بد گفتار اور زیادہ آوارہ ہوتی ہے۔ 1؎ افلاطون نے عورت کا شمار بچوں اور غلاموں کے ساتھ کیا ہے۔ 2؎ او ربیان کیا ہے کہ زندگی کے تمام میدانوں میں وہ 1؎ لیوری پوڈس 2؎ سائیکلو پیڈیا ڈمانیکا مرد سے بہت پیچھے ہے۔ 1؎ یورپیڈیز نے جو یونان قدیم اک مشہور حزنیہ نگار ہے میڈیا کی زبان سے یہ الفاظ ادا کیے ہیں: ’’ عورتیں نیکی کی قابلیت نہیں رکھتیں مگر تمام برائیوں کی تدبیریں نہایت شاطرانہ طور سے کرتی ہیں۔‘‘ 2؎ روم: رومن قوم یورپ میں ایک عظیم الشان روایات کی حامل قوم گزری ہے جس کو قانون سازی میں وہی امتیاز حاصل ہے جو یونان کو فلسفہ میں حتیٰ کہ رومن قانون آج بھی دنیا میں تمام قوانین کا سنگ بنیاد ہے۔ اس اعلیٰ ترین قانون میں عورتوں کے لیے جو حقوق تھے وہ یہ تھے: ’’ عورت شادی کے بعد شوہر کی زر خرید غلام ہو جاتی تھی، اس کا تمام مال و متاع خود بخود شوہر کی ملکیت ہو جاتا تھا، وہ کچھ زر و مال پیدا کرتی تھی سب شوہر کا مملوکہ ہو جاتا تھا۔ وہ کوئی عہدہ نہیں پا سکتی تھی۔ وہ کسی کی ضامن نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ ادائے شہادت کے قابل نہ تھی۔ وہ کسی سے کوئی معاہدہ نہیں کر سکتی تھی، یہاں تک کہ مرنے کے وقت کوئی وصیت نہیں کر سکتی تھی۔‘‘ 3؎ فارس: فارس کی تہذیب بہت پرانی ہے، یہاں بھی عورت کی وہی زبوں حالت تھی۔ باپ کا بیٹی اور بھائی کا بہن کو اپنی زوجیت میں لینا وہاں کوئی غیر موزوں بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی رقمطراز ہیں: ’’ یہ سن کر کس قدر حیرت ہو گی کہ یزد گرد ثانی جو پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں وہاں کا بادشاہ تھا، اس نے اپنی بیٹی سے اپنا عقد کیا اور پھر اس کو قتل کر ڈالا۔ 4؎ عورتوں کو اس قوم اور اس مذہب میں جو حیثیت حاصل تھی وہ ان افسانوں اور قصوں سے ظاہر ہے جو ایرانی ادبیات کا اب بھی جز ہیں اور جو شاہنامہ کے اوراق میں اب بھی ہر شخص کو نظر آ سکتی ہیں۔ عورتوں کی بیوفائی، بد اخلاقی اور ان پر عدم اعتماد پرانے ایرانی تمدن کا سب سے بڑا جز تھا۔ ‘‘ 5؎ بعثت سے پہلے قباد کے عہد میں مزدک نامی ایک شخص پیدا ہوا جو اس امر کی تعلیم دیتا تھا کہ دولت اور عورت کسی خاص شخص کی ملکیت نہیں بلکہ ان کو تمام جماعت میں مشترک ہونا چاہیے، چنانچہ ایک شخص کی بیوی مزدک کے عقائد کی رو سے ہر شخص کے ساتھ ہم بستر ہو سکتی تھی۔ عیش پرست اور ہوس راں امراء اور عوام نے اس کو خوشی خوشی قبول کیا۔ 6؎ ہندوستان: دنیا کے قدیم ترین متمدن ممالک میں ہندوستان بھی شامل ہے ہندوؤں نے اس صنف نازک پر جس طرح ظلم روا رکھے ہیں اور اس کو جس طرح ذلیل و خوار بنا دیا، اس کی مثال دوسری جگہ مشکل سے ملتی ہے۔ 1؎ بحوالہ تاریخ عالم، ۲؎ سیرۃ النبی، ۳؎ سیرۃ النبی، ۴؎ بحوالہ مورخوں کی تاریخ عالم، ج۸، ص ۸۴، ۵؎ سیرۃ النبی ج ۴، ص ۲۱۴، ۶؎ سیرۃ النبی جلد چہارم صفحہ ۲۱۵ بحوالہ غرر اخبار الفرس ثعالبی ص ۵۹۸ پیرس وید کے مطابق ’’ عورت کے ذہن کو صحیح راستہ پر لگانا بہت مشکل ہے اور اس میں فیصلہ و انصاف کی قوت بہت کم ہے۔‘‘ 1؎ ویدوں کے احکام کے مطابق عورتیں مذہب کتب نہیں چھو سکتیں۔ 2؎ اور ویدوں سے الگ رہنے کی وجہ سے ’’ وہ جھوٹ کی طرح ناپاک ہیں، یہ طے شدہ امر ہے۔‘‘ 3؎ اور اگر وید سن بھی لیں تو بھی اپنی زبان سے نہیں دہرا سکتیں اور نہ وہ سندھیا پوجا میں شریک ہو سکتی ہیں۔ ویسٹر مارک رقمطراز ہے: ’’ اگر کوئی عورت، کتا، یا شودر کسی متبرک بت کو چھو لے تو اس بت کی الوہیت تباہ ہو جاتی ہے، اس کو دوبارہ الوہیت بخشنے کی رسوم از سر نو ادا کرنا ہوتی ہیں۔ اور اگر کوئی مٹی کا بت اس طرح اپوتر (نجس) ہو گیا ہو تو اس کو پھینک دینا چاہیے۔‘‘ 4؎ عورتوں کو محکومیت اور غلامی کا درجہ دیا گیا تھا۔ 5؎ کسی اونچی ذات کے مرد کو نیچی ذات کی عورت سے زنا کرنا جرم نہ تھا۔ 6؎ بودھ راہبہ کی عصمت دری کے جرم میں کچھ جرمانہ کافی تھا۔ 7؎ عورتیں جوؤں میں ہاری جاتی تھیں۔ 8؎ ایک عورت کے کئی شوہر ہو سکتے تھے۔ 9؎ ماں باپ یا شوہر کی جائیداد میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد وہ قانوناً نہ اچھے لباس پہن سکتی تھیں، نہ ہنس بول سکتی تھیں، وہ دوسری شادی نہیں کر سکتی تھیں، ان کو شوہروں کی لاش کے ساتھ زندہ نذر آتش کر دیا جاتا تھا۔ سوامی دیا نند جی نے ہندوؤں کے ایک فرقے چولی مارگی کا ذکر کیا ہے جو شرمگاہوں کی پوجا کرتے اور بلا کسی تفریق کے ہر عورت سے گناہ کے مرتکب ہوتے تھے۔ 10؎ بعض فرقوں نے عورتوں کی یہاں تک بے عزتی کی تھی کہ نہ صرف یہ کہ بیوی اور ماں بہن بیٹی میں کوئی فرق باقی نہ رہ گیا تھا۔ 1؎ رگ وید، ۸، ۳۳،2؎ بودھا یا نہ، جس کا حوالہ ویسٹر مارک نے اپنی کتاب ’’ اخلاقی خیالات کا آغاز و ارتقائ‘‘ جلد اول میں دیا ہے۔ 3؎ قوانین منو، منو ہنود میں ایک زبردست قانون ساز گزرا ہے، 4؎ آدمی کا خود اپنے خدا کو (بت کو) الوہیت بخشنا اور چھین لینا اور عورت و شودر کا شمار کتے کے ساتھ کرنا کس قدر ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو ہمیں فی الحال اس سے بحث نہیں۔ یہ الفاظ ہمارے نہیں ویسٹر مارک کے ہیں جو اس نے وارڈ (Ward) کی ’’ کتاب ویوز آف دی ہسٹری آف ہنڈوز‘‘ کے حوالے سے لکھے ہیں۔ ہم نے صرف ان کا ترجمہ کر دیا ہے۔ 5؎، 6؎، 7؎ آر، سی، دت، ہندوستان قدیم، جلد سوم، صفحات ۳۳۱۔ ۳۴۲۔ ۳۴۳ 8؎، 9؎ قصہ مہا بھارت کا آغاز، در وپدی کو جوئے میں ہارا گیا تھا۔ دروپدی پانچوں بھائیوں کی مشترکہ بیوی تھی۔ 10؎ سوامی دیانند، ستیارتھ پرکاش، سمولاس گیارہ صفحہ ۳۷۸، ۳۷۹ بلکہ وہ اس حرکت مذمومہ کو ذریعہ نجات تصور کرتے تھے۔ 1؎ بودھ: بودھوں کے نزدیک عورت ان تمام مکر و فریب کے جالوں میں سے جو شیطان نے انسان کے لیے پھیلا دئی ہیں، سب سے زیادہ خطرناک جال ہے، عورت میں بہکانے پھسلانے کی تمام قوتیں موجود ہیں جو تمام دنیا کے دماغ کو ماؤف و مختل کر دیتی ہیں۔ یہودی: یہودی عورت کو دنیا میں برائی اور موت کی اصل وجہ قرار دیتے تھے ’’ عورت کی ذات سے گناہ کا آغاز ہوا اور اسی کی وجہ سے ہم سب مرتے ہیں۔‘‘ عیسائی: عیسوی مذہب کی تعلیم رہبانیت کا ایک زبردست اثر یہ ہوا کہ عیسائی عورت کو قابل نفرت سمجھنے لگے اور اس پر طرح طرح کے مظالم جائز سمجھنے لگے۔ طرطولیان، جو ایک عیسائی پادری گزرا ہے، اسے تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتا ہے ’’ تم شیطان کا دروازہ ہو۔۔۔ تم نے خدا کی شبیہہ کو مٹا دیا، تمہاری موت کی وجہ سے خدا کے بیٹے کو بھی مرنا پڑا۔‘‘ ۵۸۶ء میں میکن کی کونسل میں جو اس مسئلہ کے حل کرنے کے لیے منعقد ہوئی تھی کہ عورت میں روح ہے یا نہیں۔ ایک پادری نے یہاں تک سوال کیا کہ عورت کا شمار بنی نوع انسان میں بھی ہے یا نہیں؟ خود اس نے عورتوں کو انسانوں میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر اکثریت نے بہت سوچ سمجھ کر کہا کہ انجیل سے پتہ چلتا ہے کہ عورت اپنے معائب و قبائح کے ہوتے ہوئے بھی صنف انسانی ہی سے تعلق رکھتی ہے، تاہم اکثر پادریوں نے خصوصیت کے ساتھ اس بات پر زور دیا کہ صرف اس دنیاوی زندگی تک عورت کا وجود ہے اور قیامت کے روز تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی شکل میں ظاہر ہوں گی۔ مسیحی یورپ میں جب راہبانہ خیالات کی ترقی ہوئی تو عورتیں کلیسا میں ایک علیحدہ دروازہ سے داخل ہونے لگیں اور مردوں سے الگ کلیسا کے اندر بیٹھتیں اور کھڑی ہو جاتیں۔ پاک اور متبرک رسومات میں شامل ہونے سے انہیں علیحدہ کر دیا گیا تھا، ایک ناواقف شخص بوقت ضرورت بپتسمہ کی رسم ادا کر سکتا تھا مگر عورت کو اتنی اجازت نہ تھی۔ طرطولیان غیر عیسائی عورتوں کو دیکھ کر چیخ اٹھتا ہے: ’’ ملحد عورتیں! وہ کس طرح آوارہ اور فاحشہ ہیں۔ وہ جو مذہبی تعلیم دینے، بحث و مباحثہ کرنے، صحت کا وعدہ کرنے اور کبھی کبھی بپتسمہ تک کی رسم ادا کرنے کی جرأت کرتی ہیں۔‘‘ چھٹی صدی کے اواخر میں اکسیری میں ایک کونسل ہوئی، جس نے طے کیا کہ عورت اپنے برہنہ ہاتھوں میں مسیحی غذا نہیں لے سکتی اور بہت سے قوانین ایسے تھے کہ جب عبادت ہوتی ہو تو وہ صلیب کے قریب نہ آئیں۔ ویسٹر مارک سوسائٹی آئیلینڈز کا بھی ذکر کرتا ہے جہاں عورتیں دیوتاؤں کو پیش کیے جانے والے نذر و تحائف کو 1؎ سوامی دیانند، ستیارتھ پرکاش ہندی ص ۳۰۲ نہیں چھو سکتیں کہ وہ ناپاک نہ ہو جائیں۔ میلینشیا میں عورتیں مذہبی رسم ادا نہیں کر سکتیں۔ سائبیریا کے شمائسٹس میں عورتوں کے لیے دیوتاؤں کی پوجا ممنوع ہے، وہ اپنی آبادیوں کے ایسے مقامات کے قریب سے گزرنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتیں جہاں عام لوگ آگ سلگا کر بیٹھتے ہوں چونکہ آگ دیوتاؤں کے نزدیک پاک ہے۔ ارتقائے تہذیب ارتقائے تہذیب بھی غریب عورت کے کچھ کام نہ آ سکی اور اس کی زبوں حالی و خواری کی وہی حالت رہی۔ ویسٹر مارک کہتا ہے: ’’ ارتقائے تہذیب نے عورت و مرد کے درمیان خطے کو بڑھا کر عورت کی حیثیت کو اور زیادہ پست کر دیا۔ چونکہ ذہنی ارتقاء کے اعلیٰ مدارج مردوں ہی کے ساتھ مخصوص رہے، علاوہ ازیں مذہب اور خصوصاً بڑے بڑے مذہبوں نے صنف نازک کو ناپاک بتا کر اس کا رتبہ اور بھی کم کر دیا۔‘‘ اگر ہم ان مذکورہ بالا مظالم اور جابرانہ برتاؤ کا تجزیہ کریں جو دنیا کی مختلف قوموں نے عورت پر روا رکھے، تو نتیجہ اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے: ۱۔ عورت اور مرد کا درجہ مساوی نہیں۔ ۲۔ عورت دینی امور میں مرد کے برابر نہیں۔ ۳۔ عورت کی روح فانی ہے۔ ۴۔ عورت قومی و ملکی معاملات میں مرد کے برابر نہیں۔ ۵۔ عورت مال وراثت کی حقدار نہیں۔ ۶۔ عورت کی دولت و جائیداد کا مالک شوہر ہے۔ ۷۔ بیوی شوہر کی غلام ہے وہ کسی طرح شادی کے بعد مرد سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتی۔ ۸۔ عورت بیوہ ہونے کے بعد شادی نہیں کر سکتی۔ ۹۔ زنا کوئی خاص جرم نہیں بلکہ (بعض قوموں و فرقوں کے نزدیک) نجات کا ذریعہ ہے۔ 1؎ 1؎ آئندہ باب میں نہایت اختصار کے ساتھ اسلامی نقطہ نگاہ سے ان مسائل پر بھی ایک نظر ڈالی گئی ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ دوسری باتوں کی طرح ا س باب میں بھی اسلام اور دنیا کے دیگر مذاہب میں کس قدر فرق ہے۔ اسلام اور عورت سطور بالا سے کم از کم یہ امر صاف ہو گیا کہ عورت ہمیشہ سے مرد کی محکوم و اسیر رہی۔ مرد نے اس کے تمام حقوق غصب کر لیے اور شروع ہی سے اس کو لاچاری، بے کسی، بے بسی کا مجسمہ بنا دیا۔ دنیا مدت دراز تک ظلم و جہالت کے اندھیرے میں پڑی رہی۔ مرد نے اس کے تمام حقوق غصب کر لیے اور شروع ہی سے اس کو لاچاری، بیکسی و بے بسی کا مجسمہ بنا دیا، دنیا مدت دراز تک ظلم و جہالت کے اندھیرے میں پڑی رہی، ا س تاریکی میں عورت مرد کے ظلموں سے سسکتی، بلکتی، تڑپتی رہی۔ لیکن کسی کو اس کی بے کسی کی پروا نہ ہوئی، کبھی کبھی چاند و ستارے چمکے مگر ان کی روشنیاں وقتی تھیں، آخر آسمان حرا سے ایک آفتاب طلوع ہوا اور عرب کے نبی امی ؐ نے اس بدبخت ازلی کو ہمیشہ کے لیے اسے قید و بند سے آزاد کر کے مرد کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا اور یہ میں نہیں کہتا جو تاریخ کہتی ہے اور علامہ اقبال کے کلام سے بحث کرنے سے پہلے اس کا جان لینا ضروری ہے چونکہ اسلام و قرآن سے الگ ہو کر اقبال کا سمجھنا غیر ممکن ہے اقبال جب ہی تک اقبال ہے جب تک اسلام اور قرآن کی روشنی میں اسے دیکھنا جائے، اقبال کا کوئی صحیح تخیل اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک قرآن اور حدیث سامنے کھول کر نہ رکھ لیے جائیں۔ اسلام کے سوا دنیا کی ایسی کوئی قوم، کوئی ملت، کوئی ملک، کوئی مذہب مثال کے لیے بھی پیش نہیں کیا جا سکتا، جس نے عورتوں کا پاس و لحاظ کیا ہو، انہیں مردوں کے پہلو بہ پہلو حقوق دیے ہوں، ان کی ایسی تعظیم کی ہو کہ ان کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی ہو۔ ان کی اطاعت کو نجات کا ذریعہ قرار دیا ہو۔ کس نے عورت کو اس کے کاموں میں آزاد و مختار بنا دیا؟ کس نے اس مظلوم صنف انسانی کو ام المومنین کا محترم لقب دیا؟ کس نے عورتوں کو مردوں کا سرتاج بنایا؟ یہ سوال جب آپ دنیا کے سامنے کریں گے تو وہ شرم سے اپنا منہ چھپا لے گی، رومن لاء پیچھے ہٹ جائے گا۔ ہند، فارس، یونان و مصر کی تہذیبیں و قوانین گنگ و خاموش ہو جائیں گے اور اس عالمگیر خاموشی و سکوت میں صرف ایک ہی پر شوکت آواز گرجتی ہوئی سنائی دے گی۔ ’’ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا۔‘‘ (قرآن) ’’ عورتوں پر مردوں کے جو حقوق ہیں اسی قسم کے ان کے حقوق مردوں پر ہیں۔‘‘ (قرآن حکیم) کیونکہ قرآن کریم آیا ہی اس دعوے کے ساتھ ہے کہ: ’’ اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آئی ہے اور اس (بیماری) کی شنا (آئی ہے) جو سینوں میں ہوتی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت (آئی ہے)۔‘‘ (یونس۔ پارہ ۱۲) آج یورپ اس پر نازاں ہے کہ اس نے عورتوںکو آزادی دی ہے، مجھے فی الحال اس مسئلہ سے بحث نہیں کہ موجودہ یورپ کی آزادی نسواں کس درجہ معاشرت اور مفاد عالم کے حق میں ضرر رساں ہے، اس کی طرح انشاء اللہ آئندہ سطور میں اشارہ کیا جائے گا، یہاں صرف یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اس آزادی کی بنیاد بھی مذہبی ستونوں پر نہیں سوشل (سماجی) اصولوں پر ہے اور سوشل اصول ہر وقت قانون تغیر کے ماتحت ہو گئے ہیں۔ چنانچہ تاریخ کے صفحات لوٹ کر ذرا پیچھے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ روم کی ایک مذہبی جماعت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ عورت ایک ناپاک حیوان ہے جس میں انسانی روح موجود نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو عبادت میں شامل نہیں کرنا چاہیے تاکہ وہ ہنس نہ سکے کیونکہ وہ شیطان کا جال ہے۔ 1؎ لیکن قرآن نے کہا: ’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کی مددگار ہیں‘‘ اور ان کے ساتھ پسندیدہ طور پر رہو سہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان دار مردوں اور ایمان دار عورتوں کے لیے بہشت کا وعدہ فرمایا ہے جس کے نیچے نہریں جا رہی ہیں، ایمان دار اس میں ہمیشہ رہیں گے اور باغات بہشت میں ستھرے مکانات کا وعدہ فرمایا ہے اور ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ان کے لیے خدا کی رضا مندی اور خوشنودی ہو گی، عظیم الشان کامیابی یہی ہے۔ (قرآن حکیم) مرد و عورت کا مساوی درجہ:ـ اس طرح قرآن کریم نے مردوں کو عورتوں کا اور عورتوں کو مردوں کا لباس قرار دے کر ایک دوسرے کی مودت و محبت،ا یک دوسرے کا لابدی تعلق، ایک زندگی میں دوسرے کی اہمیت و ضرورت سب بیان فرما دی۔ عورتوں کے حقوق مردوں پر اتنے ہی قرار دیے جتنے کہ مردوں کے عورتوں پر، ان کے ساتھ حسن معاشرت کی تعلیم فرمائی۔ عورت کو مرد کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ دنیا و آخرت کی نعمتوں میں دونوں کو ہمدوش قرار دیا۔ یہ ان تعلیمات کا خلاصہ ہے جن کے متعلق آیتوں کے ترجمے اوپر گزر چکے ہیں۔ دینی امور میں مساوات: اسلام نے یہی نہیں بلکہ دوسرے خیالات باطلہ کا بھی ازالہ کیا۔ اس نے دینی امور میں عورت کو مرد کے برابر حصہ دیا۔ اس نے بتایا کہ دینی احکام کے پابند اور ثواب و عذاب ے مستحق مسلمین و مسلمات دونوں ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیمات دونوں جنسوں کے لیے ہیں۔ عورت کی روح فانی ہے: اسلام نے اس خیال باطل کا بطلان کیا کہ عورت کی روح فانی ہے۔ اس نے بتایا کہ مردوں کی روحوں کی طرح عورتوں کی روحوں کو بھی دائمی ثواب و عذاب ملے گا۔ ’’ اور جو انسان اچھے کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان دار بھی ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا اور ذرا بھی اس کی حق تلفی نہ ہو گی۔‘‘ (قرآن حکیم) قومی و ملکی معاملات میں مرد کی برابری: اسلام نے قومی، ملکی، سیاسی، ادبی، تعمیری، اصلاحی معاملات میں عورت کو مرد کے برابر لا کھڑا کیا۔ ’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کی 1؎ علامہ سید رشید رضا مصری مرحوم۔ الوحی المحمدی، (مترجمہ اردو) مددگار ہیں1؎‘‘ کہہ کر اس نے مظلوم و ذلیل عورت پر سے تمام قیود و بند اٹھا دیے۔ عورت وراثت کی حقدار ہے اور اپنے مال کی خود مختار ہے: دنیا کے اکثر حصوں میں (جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے) عورت مال وراثت سے محروم تھی اس کومیت کے مال سے کچھ نہ ملتا تھا اور خود اس کی دولت پر شوہر قانوناً قابض ہو جاتا تھا۔ اسلام نے عورت کو بھی وراثت کا حقدار قرار دیا اس کو اپنے مال کا خود مختار اور مالک بنایا اور شریعت کی حدود میں اس کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کی اجازت دی۔ ’’ والدین اور رشتہ دار جو کچھ چھوڑ کر مریں اس میں مردوں کا حصہ ہے اور اسی طرح عورتوں کا بھی حصہ ہے، خواہ وہ کم مال چھوڑیں یا زیادہ یہ مقرر کردہ حق ہے۔‘‘ (قرآن کریم) ’’ جو کچھ مرد کمائیں وہ ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتیں کمائیں وہ انہیں کا حق ہے۔‘‘ (قرآن حکیم) عورت مرد سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے: اسلام نے طلاق و خلع کے قانون مقرر فرمائے۔ اگر کسی طرح طبائع کے اختلاف یا دوسری ناگزیر وجوہات کی بنا پر مرد و عورت کی کسی طرح بنتی ہی نہ ہو تو ان میں سے ہ رایک کو حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جہنم نہ بنائے اور دوسرے سے علیحدگی اختیار کرے۔ بیوہ کو دوسری شادی کا اختیار ہے: اس علیحدگی کے بعد یا شوہر کی وفات کے بعد شریعت کے اصول کے مطابق عورت کو قطعی آزادی ہے کہ وہ جس سے چاہے شادی کر لے۔ زنا حرام ہے: ایک شرمناک حرکت مذمومہ یہ پھیلی ہوئی تھی کہ زنا کوئی بڑا جرم خیال نہ کیا جاتا تھا۔ اسلام نے اس رسم قبیحہ کو مٹا دیا اور اس نے پاکباز رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس نے کہا: ’’ اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔‘‘ ’’ اور زنا کاری کے قریب مت جاؤ۔‘‘ (قرآن حکیم) بات طویل ہوتی جا رہی ہے۔ بہر حال مقصود صرف یہ تھا کہ اسلام نے عورت کو اس کی کس مپرسی اور بیکسی کے عالم سے نجات دی، اس کو جائز حقوق دیے اور دنیا میں پہلی دفعہ صحیح معنوں میں اس کی عظمت قائم کی۔ اقبال اسی اسلام کا شاعر ہے۔ ٭٭٭ (مارچ ۱۹۳۹ئ) 1؎ یہ آیت پہلے گزر چکی ہے۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق؟ محمد حبیب الرحمن نگینوی بی۔ اے زندگی کش مکش انقلاب پرمجبور ہے۔ ایک کوشش پیہم، ایک جہاد مسلسل متقضائے حیات ہے۔ لیکن یہ تصادم ایک مقصد اور ایک نصب العین کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر یہ تڑپ اور یہ خلش ہی نہیں تو کسی قوم کا محور ہی کب بن سکتا ہے اور اور جب محور نہیں تو انتشار لازمی اور جب انتشار ہو تو تباہی ناگزیر۔ علامہ اقبال نے اسی تباہی کے آثار اقوام ہندو اور اقوام مغرب ہی میں نہیں بلکہ خود ملت اسلامیہ میں بھی دیکھے۔ اس نباض نے فوراً ہی تاڑ لیا کہ اس تباہی کے آثار اقوام ہند اور اقوام مغرب ہی میں نہیں بلکہ خود ملت اسلامیہ میں بھی دیکھے۔ اس نباض نے فوراً ہی تاڑ لیا کہ اس تباہی کا اصل سبب ان کی مغرب اور مادیت پرستی ہے اور اس کا علاج صرف خدا پرستی ہے۔ اگر انسانیت اپنا نصب العین ’’ نوع انسان کے شکار‘‘ سے بدل کر ذات کے کمال کا مظہر مجسمہ ہونا بنا لے تو وہ ایک مرتبہ پھر اپنی انتہائی عظمتوں پر پہنچ سکتی ہے۔ یہ تھا وہ پیغام جسے علامہ اقبال نے دنیا کے سامنے از سر نو پیش کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرق و مغرب دونوں پر چھا گئے۔ مثنوی ’’ پس چہ باید کرد‘‘ میں بھی یہی پیغام ہے۔ ضرب کلیم کی طرح اس مثنوی میں بھی دور حاضر کی فرعونیت کے خلاف کھلا اعلان جنگ ہے۔ چنانچہ اول ہی شعر میں خوانندہ کتاب سے فرماتے ہیں: سپاہ تازہ بر انگیزم از ولایت عشق کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است اور جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اقوام شرق اس مثنوی کی مخاطب ہیں۔ لیکن چونکہ بلاد مشرق میں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے اس لیے یہ کہنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ اس کی صحیح مخاطب ملت اسلامیہ ہی ہے اور کلام کی زیادہ مذہبیت سے بھی اس خیال کی مزید تائید ہوتی ہے۔ لیکن علامہ اقبال ان ہستیوں میں سے جوبرگساں جیسے فلسفی کی طرح تہذیب حاضر کی مخالفت محض اس لیے کرتے ہوں کہ وہ صرف دور حاضر کی اختراع ہے۔ برعکس اس کے ان کے زیر نظریات اٹل دلائل پر مبنی ہیں لیکن ان دلائل کو سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان کو واقعات کی روشنی میں دیکھیں۔ بہ ظاہر تو یہ مثنوی ۱۹۳۶ء میں جنگ حبش سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے جیسا کہ اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ: زندگانی ہر زماں در کش مکش عبرت آموز است احوال حبش لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مثنوی تہذیب حاضر کے نہایت ہی گہرے مطالعہ اور اس کے اساسی اصولوں کو بغور تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے اگر میں اس مثنوی کے متعلق یہ کہوں کہ یہ علامہ اقبال کے تمام پیغامات اور فلسفے کی اجمالی تصویر ہے۔ تو غالباً یہ کہنا غلط نہ ہو گا، کیونکہ کوئی نظریہ ایسا نہیں ہے جس کی طرف انہوں نے اس میں لطیف اور حکیمانہ اشارہ نہ کر دیا ہو۔ یہی سبب ہے کہ یہ مثنوی اس قدر سلیس ہونے کے باوجود اتنی جامع اور مکمل ہے۔ ۱۹۳۶ء کے قریبی زمانہ تک تہذیب حاضر کی عجیب عجیب شعبدہ بازیاں دیکھنے میں آئیں۔ ملک حبش پر مسولینی نے صرف اس بہانے سے حملہ کیا تھا کہ اہل حبش غیر مہذب ہیں ان کوتہذیب سکھائی جائے گی۔ مجلس اقوام نے اس سلسلہ میں اپنا فرض کس طرح انجام دیا؟ اس طرح کہ تمام بڑی بڑی سلطنتوں نے آہستہ آہستہ حبش پر اٹلی کا قبضہ تسلیم کر لیا۔ ’’از کفن دزداں چہ امید کشاد‘‘ ادھر ہسپانیہ کا یہ حال تھا کہ مزدور اور سرمایہ دار میں کھینچ تان ہو رہی تھی اور سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں غریب انسان خود غرض رہنماؤں کی خاطر جیلوں میں پڑے سڑ رہے تھے۔ جب ۴۶ء کے انتخابات کے نتیجہ پر حکومت کی باگ ڈور مزدور طبقہ کے ہاتھ میں آ گئی تو سرمایہ داروں کو یہ ایک نگاہ نہ بھائی اور خود اپنے ہی قائم کردہ آئین انتخابات کے خلاف بغاوت کی ٹھان لی جس نے آگے چل کر جنرل فرانکو کی سرکردگی میں کامیاب خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ امریکہ میں جسے آج کل تمام مغربی اقوام میں مہذب ترین ملک ہونے کا دعویٰ ہے۔ اس وقت چوری، ڈاکہ اور رہزنی کی اس قدر کثیر وارداتیں ہوئیں کہ وہ اب ایک طرح کی ضرب المثل بن گئی ہیں۔ ادھر مشرق میں جاپان میں منچوکوپر قبضہ کے بعد چین پر ڈاکہ مارنے کی سرگوشیاں ہو رہی تھیں۔ روس نے لامذہبیت کا اعلان کر کے تمام مذاہب کے خلاف محاذ قائم کر رکھا تھا۔ ممالک اسلامیہ کا کیا حال تھا۔ فلسطین کی سر زمین سے آہ و بکا کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مصر و شام اپنی غلامی کے بوجھ سے چیخ رہے تھے۔ خود آزاد ممالک اسلامیہ کا کیا حال تھا۔ وہ بھی مغرب کی ذہنی غلامی میں گرفتار تھے۔ ایران نے بھی مغربی تہذیب کا جوا اپنے کاندھوں پر رکھ لیا تھا۔ عرب کا کوئی خطہ ایسا نہ تھا جہاں یورپ کے اثر نے زہر نہ پھیلا دیا ہو۔ الغرض یہ اور اسی قسم کے دوسرے واقعات تھے جو اس مثنوی کی تصنیف کے وقت لوگوں کے دماغوں میں بالکل تازہ تھے اور جن سے مغربی تہذیب کے کرشمے صاف جھلکے پڑ رہے تھے۔ علامہ اقبال اس مثنوی کی تصنیف کے وقت ایقان و عرفان کی اس منزل رفیع پر پہنچ چکے تھے جہاں سے ان کو منشائے ایزدی کے بھلائے ہوئے دستور العمل سے انحراف میں تباہی کی راہیں صاف نظر آ رہی تھیں۔ اسی لیے وہ اس مثنوی میں ’’ نوا را تلخ ترمی زن‘‘ کے اصول پر خود ہی عمل کرتے ہوئے کوہ طور کی سی بلندیوں سے کلیم اللہ کی طرح اقوام مشرق کو جلالی شان کے ساتھ وعظ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور یہ وعظ پیر رومی جیسے ’’ مرشد روشن ضمیر‘‘ اور’’ دانائے اسرار فرنگ‘‘ کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ جس نے ان کو یہ راز کی بات بتائی کہ اول اقوام مشرق کو ذہنی غلامی سے آزاد کرایا جائے۔ اس کے بعد منازل ترقی طے کرنا کچھ دشوار نہیں۔ پس نخستیں بایدش تطہیر فکر بعد ازاں آساں شود تعمیر فکر اس لیے مرید ہندی ’’ تطہیر فکر‘‘ کے لیے اہل حق کو’’ مفتی دین و سیاست‘‘ سے از سر نو آگاہ کرنے کا تہیہ کر لیتا ہے کیونکہ: زندگی از گرمی ذکر است و بس حریت از عفت فکر است و بس چنانچہ اس مثنوی کا یہی مقصد ہے۔ یہ قانون فطرت ہے کہ کوئی قوم حتیٰ کہ کوئی فرد بھی اس وقت تک کسی مقصد کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جب تک اسے اس کی صداقت اور ضرورت کا احساس نہ ہو اور وہ اس وقت تک اس کی خاطر کوئی قربانی کرنے کے لیے تیار نہ ہو گا۔ جب تک اسے اس نصب العین کی صداقت پر یقین بلکہ ایمان نہ ہو۔ اور وہ اس وقت تک اپنی جان کی بازی نہیں لگائے گا جب تک یہ ایمان اس قدر پختہ اور کامل نہ ہو کہ دنیا اس پر ’’ جنون‘‘ کا دھوکہ کرنے لگے۔ علامہ اقبال اسی ’’ ایمان کامل‘‘ اور جذب دروں کو اپنی اصطلاح میں ’’ عشق‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر اس ’’ عشق‘‘ کے اس کشتی کا پار لگنا سخت مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ اس کے بغیر ’’ عزم و توکل‘‘ کے جوہر پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ وہ جوہر کہ جس کی غیر موجودگی کسی فرد یا قوم کی موت کے مترادف ہے۔ اور اگر یہ عشق ہو تو پھراس کی ایک نگاہ سے تمام عالم زیر و زبر اور اس کی ایک ضرب سے کوہسار تک ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عصر حاضر اس ’’ رمز جان‘‘ سے آگاہ نہ ہو سکا اس لیے کہ: دیدہ از قندیل دل روشن نہ کرد پس نہ دید الا کبو دو سرخ و زرد بلکہ عصر حاضر تعمیر تن میں اس قدر مشغول ہوا کہ اسے یہ یاد بھی نہ رہا کہ تعمیر جاں بھی کرنا ہے۔ اس نے اپنے آپ کو اور اپنے افکار کو مذہب کی بندشوں سے آزاد کر لیا۔ جس کی سزا یہ ملی کہ ’’ ولایت عشق‘‘ اس کی قلمرو سے چھین لی گئی اور وہ یوسف بے کارواں ہو کر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لیکن نہیں فرعون وقت کے دربار میں اس کی کس قدر عزت ہے؟ اس احسان کا بدلہ شیخ ملت نے ’’تجدید دین‘‘ سے دیا۔ جس کے اثر سے وحدت قومی پارہ پارہ ہو گئی اور فرعون وقت نے اس تخریب سے فائدہ اٹھا کر اپنی تعمیر کے اسباب مہیا کر لیے اس کے نوجوانوں کا یہ حال ہوا کہ وہ شرم و حیا سے بے نیاز ہو کر آرائش بدن سے ہمہ تن مشغول ہیں۔ دختران ملت میں انقلاب ہوا کہ وہ اپنی زلف میں خود آپ ہی اسیر ہو گئیں اور اپنی خود داری کو خیر باد کہا۔ اہل ثروت بخیلی کا شکار ہو گئے اور ان کے مذہب میں عیش و عشرت داخل ہو گئی۔ سکون و آرام کو انہوں نے سمجھ لیا او ریہی ہر زوال پذیر قوم کا عمل رہا ہے قوت فرعون وقت ان کا معبود قرار پائی۔ ا سکی ترقی میں ان کو اپنی کامیابی بھی دکھائی دیتی ہے۔ غرضیکہ جس قدر بھی آرزوئیں ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ان سے بے عملی او ربے ثباتی ٹپکتی ہے اور حسرت کا مقام یہ ہے کہ وہ اس تہذیب میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہیں اس کا احساس بھی نہیں کہ انہوں نے اپنی کوئی چیز کوئی بھی ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ حرم کی تخریب کا سبب ہی یہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سیلاب مغرب سے بچنے کے لیے علامہ اقبال نے کون سا راستہ تجویز کیا ہے۔ وہ راستہ حکمت کلیمی کا ہے اور وہ صرف لا الٰہ الا اللہ کے چند حروف میں مضمر ہے۔ اگر قومیں اس رمز لا الٰہ کو سمجھ لیں اور اس مالک دو جہاں کو عملی طور پر اپنا رب تسلیم کر لیں تو پھر سب کچھ ممکن ہے۔ تاریخ اسلامی کا سنہرا ورق ایک مرتبہ پھر لوٹ سکتا ہے۔ عملی طور پر اس کو رب تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ روئے زمین کی تمام طاقتوں سے انسان بیخوف ہو جائے۔ کسی کا خوف اس کو اپنے نصب العین کے حصول میں روک نہ سکے۔ المانی اور فرنگی حکم حق کے سامنے بے حقیقت ہو کر رہ جائیں بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر انسان کی خود اپنی رضا رضائے حق میں ضم بلکہ فنا ہو جائے اور یہ وہ مقام ہے جہاں بندۂ مومن ’’ قضائے حق‘‘ کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے یہاں اس کا جوہر خودی انتہائی عظمتوں پر ہوتا ہے۔ کلاہ اور سپاہ سے بے نیاز ہو کر حکم سلطان پر لات مار دیتا ہے۔ وہ کبھی نا امید نہیں ہو ہوتا اور اپنے بل بوتے پر اپنا جہاں خود تعمیر کرتا ہے۔ اسی تسخیر حیات کا نام قرآن کی اصطلاح میں ’’ فقر‘‘ ہے۔ وہ فقر کہ جس کی تاثیر سے اس میں رضائے باری تعالیٰ پیدا ہوتی ہے اور جس کے بدلے میں تمام دنیا کی امیری بھی بے حقیقت ہے۔ از شکوہ بوریا لرزد سریا آخر کیوں؟ اس لیے کہ ’’ پیش سلطان نعرۂ اولا ملوک‘‘ یہی وہ جلال الا تھا جس کے خوف سے ایام عرب میں لات و منات اوندھے منہ گر پڑے تھے اور دور فرنگ میں بھی یہی ’’ لا سلاطین‘‘ اور ’’لا الٰہ‘‘ کا نعرہ تھا جس نے سر زمین روس میں انقلاب برپا کر دیا تھا ۔ لیکن ظاہر ہے کہ نفی بغیر اثبات کے بے معنی ہے لا الٰہ تو محض زندگی کی ابتدا ہے۔ اس کے بغیر ’’ بند غیر اللہ‘‘ کٹ نہیں سکتے اور اس کا کٹنا ہی دلیل الا ہے اور یہی قوموں کا جمال ہے۔ روس نے ’’ لا کلیسا‘‘ کہہ کر اس جمال کا راستہ روک دیا۔ قاہری کے بعد دلبری کی منزل مسدود ہو گئی لیکن موجودہ جنگ نے روس کو اپنے ’’ لا کلیسا‘‘ کے نعرہ پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیا اور آخر کار اس کو اپنی مذہبی ناطرفداری کا اعلان کرنا پڑا۔ بالفاظ دیگر الا کی طرف روس کا پہلا قدم اٹھ چکا ہے۔ لیکن مسلمانوں میں بھی یہ انقلاب ہو رہا ہے۔ کیا دور حاضر کا مسلمان ’’ لا الٰہ‘‘ کی منزل سے گزر چکا ہے۔ وائے مارے وائے ایں دید کہن تیغ لا در کف نہ تو داری نہ من تا کجا بے غیرت دیں زیستن اے مسلمان مردن است ایں زیستن کیا یہ زندگی موت کے مترادف نہیں کہ مسجد مومن پر دوسروں کا قبضہ ہو اور وہ خاموش بیٹھے تماشا دیکھیں بلکہ اگر ہم حضور رسالت مآب ؐ کی اس حدیث کو پیش نظر رکھیں جس میں کہا گیا ہے کہ تمام روئے زمین میری مسجد ہے۔ تب تو پھر اس مسلمان سے پوچھو کہ اللہ کی اس وسیع سر زمین میں کون سا خطہ ایسا ہے جو غیروں کی دستبرد اور اثرات سے محفوظ اور کلیتہً مسلم کے قبضے میں ہو اگر نہیں تو پھر تم نے کوشش کیوں نہیں کی؟ اگر کی تو پھر تم کامیاب نہیں ہوئے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے رہبانیت کا سبق تو سیکھا لیکن اس دیر کہن کو ترک کرنا نہ سیکھا۔ مگر یہ غلطی اس قافلہ کی نہیں بلکہ امیر قافلہ کی ہے جو بد ذوق ہو کر مار آستیں کی طرح اپنے ہی قافلہ پر ڈاکہ ڈال رہا ہے۔ پچھلے تین سو سال سے اسی قافلہ نے یہی پیشہ رہزنی اختیار کر رکھا ہے۔ وہ اپنی خودی کھو چکا ہے اور اپنا مقام بھول چکا ہے۔ اس کے افکار پراگندہ ہو گئے ہیں اور اس کی کور ذوقی نے مکتب و ملا دونوں کو ذوق انقلاب سے محروم کر دیا ہے۔ وہ شخص جو اپنے عزم اور قوت ایمانی کے سامنے پہاڑوں اور سمندروں کو کچھ نہ سمجھتا تھا۔ جو عشق الٰہی اور رضائے حق کی جستجو کی خاطر ملت اسلامیہ کو جہاد فی سبیل اللہ کا جوش دلایا کرتا تھا۔ آج اس نے محض چند ٹکوں کی خاطر ’’ ربی الا علیٰ‘‘ کو چھوڑ کر ’’ لرو فرنگی‘‘ کو اپنا رب بنا لیا۔ گو اپنی دھینگا مشتی سے اب بھی امام دین بنا ہوا ہے۔ افسوس کہ جو مذہب تمام عالم کے لیے شمع ہدایت بن کر آیا تھا آج اس کے حامیوں کا یہ حال ہے کہ وہ کسی بندہ کے غلام بن جانے میںکوئی عار شرم محسوس نہیں کرتے بلکہ حد تو یہ ہے کہ اپنی محکومی پر قانع ہے اور یہ بھول گئے کہ وہ کیا تھے۔ غیروں کے چمکتے ہوئے سکے اس کے نزدیک رحمت اس لیے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے بغیر سخت جدوجہد کے عیش و عشرت کے تمام سامان مہیا ہو جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ وہ حکمت فرعونی کو پہچان نہ سکا۔ عصر حاضر کے مسلم کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ اس نے اپنی حقیقت سے غافل کر دیا۔ اور اس غفلت کا ہونا تھا کہ اسلام کی ڈور اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ عصر ماما راز مابیگانہ کرد از جمال مصطفی بیگانہ کرد سوز اوتا از میان سینہ رفت جوہر آئینہ از آئینہ رفت لیکن یہ حالت آخر کب تک قائم رہے گی۔ اس وقت تک جب تک کہ تم اپنی خود داری کو پھر حاصل نہ کر لو۔ اپنی حقیقت کو پھر نہ پہچان لو۔ مایوسیوں کو دور کر کے قضائے الٰہی پر اعتبار کرو، اور پیہم جدوجہد میں لگ جاؤ۔ تاریخ خود بخود اپنے آپ کو دہرانے لگے گی۔ بس پیہم عمل شرط حیات ہے اور سکون موت۔ سیل را تمکین زنا آسودن است یک نفس آسودنش نابودن است اصطلاح اسلام میں ایسے ہی شخص کو ’’ مرد حر‘‘ کہتے ہیں۔ اسے سوائے ذات الٰہی کے کسی کا خوف نہیں۔ وہ ہر وقت شمشیر لا الٰہ سے مسلح رہتا ہے۔ اسی لیے ہر دنیا پرست انسان حتیٰ کہ میر و سلطان بھی اس سے خوف کھاتے ہیں۔ زر و رو از سہم آں عریاں فقیر وہ مجسم کردار ہے۔ تخمین و ظن اور بسیار گوئی اس کا شیوہ نہیں۔ ایسے ہی مردان حر کے متعلق علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ: دامن او گیر و بے تابانہ گیر تاکہ ان زندہ انسانوں کی صحبت سے تم بھی زندہ ہو جاؤ۔ ان مردان حر کی صحبت تمہیں بتائے گی کہ فقہ اسلامی کی اہمیت کیا ہے۔ پہلی چیز یہ ہے کہ مال دولت اگر دینی امور اور تبلیغ پیام الٰہی کے لیے جمع کیا جائے تو وہ نعمت صالح ہے۔ لیکن اگر یہ مصلحت پیش نظر نہیں بلکہ دولت صرف دولت کی خاطر جمع کی جائے تو یہ نعمت بھی ان کے حق میں لعنت بن جائے گی۔ سیم و زر ان کے معبود کی شکل اختیار کرے گا۔ آج کی یہ ہولناک جنگیں سرمایہ داری کی معبودیت کا عملی مظاہرہ ہیں۔ دوسری چیز جو ان کی صحبت سے حاصل ہو گی وہ یہ نکتہ ہے کہ تم اس شے کو استعمال نہ کرو جو تم نے اپنی محنت سے حاصل نہ کی ہو جس کے حصول میں تم نے اپنا خون و پسینہ ایک نہ کر دیا ہو، جو قابل اعتراض ذرائع سے حاصل نہ کی گئی ہو۔ اسی کو دینی اصطلاح میں ’’اکل حلال‘‘ کہتے ہیں لیکن اہل زر و حکومت حرام اور حلال کے اس فرق سے آگاہ نہیں۔ انہیں کمزور قوموں کی خفیہ پونجی کی لوٹ کھسوٹ میں کوئی عار نہیں۔ دوسری قوموں کی تجارتیں تباہ کرنا اور خود ان قوموں اور ملکوں کو دغا اور فریب سے غلام بنانا ان کے یہاں جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اس لیے تہذیب و دین کی اصلاح منظور ہے اور حرام کو حرام اور حلال کو حلال منوا کو چھوڑنا ہے تو تمہیں اس موجودہ نظام کو سب سے پہلے خاکستر کرنا پڑے گا۔ تاتہ و بالا نہ گردد ایں نظام دانش و تہذیب و دیں سودائے خام تیسری چیز راضی بہ رضائے الٰہی کا سبق ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان عشق الٰہی میں اپنے پروردگار سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے لیکن ہمکنار ہونے کے دراصل معنی یہ ہیں کہ وہ رضائے حق کا طالب بن جائے اور اس کے حکم سے سر موڑ کر سرتابی کی جرأت نہ کرے بلکہ اس کو اس کے پورے معنوں کے ساتھ بجا لائے۔ رضائے حق کے جویا ہونے والوں ہی کے لیے فقر و شاہی کے مرتبے ہیں۔ قوت شریعت اسلام پر عمل کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ اگر اسرار دیں سے واقف ہونا چاہتے ہو تو اس کو صرف اپنے ضمیر کی گہرائیوں میں تلاش کرو، اور شریعت کی حقیقت کی زندگی کے نشیب و فراز میں ڈھونڈو، اگر تم نے ایسا کیا تو تم اس نتیجہ پو پہنچو گے کہ دینا سلام پر عمل کرنے کے لیے تم مجبور ہو۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہر وہ شخص جو قرآن عظیم جیسی نعمت پر ناز کرتا ہے۔ اسرار دیں کو فاش کرے اور حجرہ میں بیٹھ کر رہبانیت کا پیشہ عملاً اختیار کرنا ترک کر دے۔ علامہ اقبال کے نزدیک شرع مبیں کا تمام راز صرف اس میں پوشیدہ ہے کہ ایک انسان دنیا میں کسی دوسرے انسان کا محتاج نہ بنے۔ لیکن افسوس کہ مکتب و ملا مسلمانوں کو اس نکتہ سے آگاہ نہیں کر سکے۔ قوم تنزل کی طرف مائل ہو گئی اور اس نے اپنے معتقدات میں بیجا تاویلیں کر کے اپنی ذلت و پستی کے اسباب کو تقدیر الٰہی کے سر تھوپنے کی کوشش کی۔ جدوجہد سے دور ہو کر یہاں تک بات پہنچائی کہ اگر قدرت خداوندی کو ہماری تباہی منظور ہے تو ہماری کوئی کوشش اس بری گھڑی سے ہم کو نہیں بچا سکتی۔ لیکن اقبال نے ایسے ہی موقع پر للکارا کہ نہیں تمہارا یہ فلسفہ سرتاپا غلط ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس کی حفاظت کا وعدہ خود باری تعالیٰ فرماتے وہ خود ان کی تباہی پر تل جائے۔ اللہ کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ مسلمان اور مغلوب ہونا اجتماع ضدین ہے اس کی غلامی او رپستی اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے مومن ہونے میں ضرور کہیں کسر ہے۔ عصر حاضر کو بہ نظر غائر دیکھو گے تو یہ کسر صاف معلوم ہو جائے گی۔ لا نبی بعدہ کی آواز سن کر بھی عصر حاضر نے ایسے ایسے دعویدار کھڑے کر دیے جو قرآن عظیم کی ناروا تاویلیں محض اپنے نفس کی خاطر کرتے ہیں۔ انہوں نے ہوا و ہوس میں گرفتار ہو کر ’’ بند کاک1؎‘‘ ہی کو اپنا منبر بنا لیا ہے۔ وہ منبر رسول پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو کفر اور شرک کا سبق سکھاتے ہیں۔ ایسی کلیمی کس بات کی جس میں ضرب کلیمی اور ید بیضا کی صفات ہی ناپید ہوں۔ اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ از سر نو تمہاری حالت درست ہو جائے تو تصادم کی راہیں تلاش کرو اور جہاد مسلسل میں لگ جاؤ۔ مقتضائے حیات یہی ہے۔ سیاست حاضرہ پر جب نظر پڑتی ہے تو مغربی جمہوریت کی شعبدہ بازیاں سامنے آتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا ترقی پذیر ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملوکیت پرستی بھی کرتے کرتے اس بلند درجہ پر پہنچ گئی تھی۔ جہاں اس مہذب نام سے پکارنا ضروری ہو گیا تھا۔ لہٰذا مغرب نے اس کو جمہوریت کے دلآویز نام سے سرفراز کیا۔ اقوام عالم کی آزادی سلب کرنے کو سلطنت (Empire) کی مہذب اصطلاح سے یاد کیا جانے لگا۔ غلام قوموں نے جب ذرا روشنی دیکھی اور آزادی کے لیے تڑپنے کی کوشش کی تو ان کو ان فرنگیوں نے یہ کہہ کر مجلس قانون ساز میں لا بٹھایا کہ: آشیاں در خانہ صیاد بند اس سحر کا اثر یہ ہوا کہ یہ غلام اپنی غلامی میں اور مستحکم ہو گئے اس کے تمام جذبات دب کر رہ گئے ۔ اس لیے اگر آزادی چاہتے ہو تو کسی دوسرے کا احسان مت طلب کرو۔ کسی کی منت کشی نہ کرو۔ پیاسے مر جاؤ لیکن خود داری کو ٹھیس نہ پہنچے۔۔۔ خود اعتمادی، استقلال اور یقینی آزادی کی ضروری شرائط ہیں۔ ان سیاست دانوں کی گرمی گفتار کا یہ حال ہے کہ ہر شخص ان سے کچھ لمحوں کے لیے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ لیکن دل میں دغا، دھوکا اور فریب اس قدر ہے کہ کوئی بات صاف نہیں کہتے بلکہ بعض ایسے چنے ہوئے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ وقت ضرورت ان الفاظ کو حسب منشاء اپنی پالیسی کے مطابق یعنی پہنانے جا سکیں۔ اس دھوکے اور فریب کو دور حاضر کی اصطلاح میں ’’ڈپلومیسی‘‘ کہتے ہیں۔ علامہ اقبال ایسی ڈپلومیسی سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان کا خیال بلکہ پختہ یقین ہے۔ ہم میں یہ تمام کمزوریاں صرف خودی سے غفلت کا نتیجہ ہیں۔ اگر انسان اپنی خودی سے غافل نہ ہو اور اپنی حقیقت سے آشنا ہو جائے اور ان فرنگیوں کے خواب آور کلمات سے پناہ مانگ کر اپنی خود داری کی حفاظت کرے۔ تو وہ کبھی مغلوب نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر وہ اس کے خلاف عمل کریگا تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے۔ تا خودی در سینہ ملت بمرد کوہ کاہی کرد دباد او را ببرد لہٰذا ان کو چاہیے کہ ایک مرد حر کی طرح ہر فرعون کے سامنے ’’ حرف کلیمی‘‘ بے دھڑک کہیں تاکہ ان کی فرعونیت کا تمام جاہ و جلال ایک ضرب لا الٰہ ہی سے غرق ہو جائے۔ 1؎ ’’ بند کاک‘‘ اس چوبی میز کو کہتے ہیں جس پر نان بائی روٹی رکھ کر بیچتا ہے۔ مشرق کی داستان غلامی کا ایک افسوسناک باب اس کی اقتصادی غلامی ہے۔ آج بڑی شد و مد سے ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ ہندوستان کی صنعت و حرفت میں موجودہ ترقی حکمرانوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے حالانکہ ان کا مقصد اپنے ملک کی صنعت و حرفت کو کچا سامان مہیا کرنا اور اپنی تجارت کو فروغ دے کر نو آبادیوں کو منڈیوں کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ علامہ ا قبال نے جب اس پر غور کیا تو انہوں نے اس سے حکیمانہ نتائج مرتب کیے جو یہ ہیں: خود بدانی بادشاہی قاہری است قاہری در عصر ما سوداگری است تختہ دکاں شریک تخت و تاج از تجارت نفع و از شاہی خراج آں جہانبانے کہ ہم سوداگر است سر زبانش خیرو اندر دل شر است کشتن بے حرب و ضرب آئین اوست مرگہا در گردش ما شین اوست حاکمیت کا مفہوم ایک زمانہ میں اپنی رعایا کی بہبودی اور خوشحالی تھا، امن و امان تھا اور معرفت الٰہی حاصل کرنے میں امداد دینا تھا لیکن آج مغربی تہذیب سے حاکمیت کو سوداگری کے ہم مرتبہ اور ہم معنی کر دیا ہے۔ آج کل حاکمی اور سوداگری دونوں کا مقصد مال و دولت کمانا ہے۔ ایک قسم کی آمدنی نفع اور دوسری قسم کی آمدنی خراج کہلاتی ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو یہ محض الفاظ کا الٹ پھیر ہے ورنہ حقیقتہً دونوں میں ایک ہی روح کام کر رہی ہے۔ بغیر شمشیر کے اقوام مشرق کو غلام بنانے کے لیے یہی طریقے اختیار کئے گئے اس لیے علامہ ا قبال انہیں متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اس کارگاہ فرنگ سے بے نیاز ہو کر گزر جائیں کیونکہ: گوہرش تف وار و لعلش رگ است مشک ایں سوداگر از ناف سگ است وہ ہمیں ان سوداگروں کی عیاریوں سے آگاہ کرتے ہیں: وقت سوداخند خندو و کم خروش ما چو طفلانیم واد شکر فروش جس کسی ہوشمند نے بھی اس مے مغرب کو چکھا اس پر موت کا سا سکوت طاری ہو گیا۔ اس سحر نے اس کی قوت بصارت سلب کر لی وہ مغربی طریق سوداگری کو سمجھنے سے قاصر ہو گیا۔ لیکن علامہ اقبال ان کو ر چشموں کو جو رنگ و بو کے چکر میں پڑ کر خود اپنی ہی ملکیت کو دوسروں سے خریدتے ہیں۔ اس طرح بصیرت بخشتے ہیں۔ اے زکار عصر حاضر بے خبر چرب دستیہائے یورپ را نگر قالی از ابریشم او ساختند باز اورا پیش تو انداختند چشم تو از ظاہرش افسوں خورو رنگ و آب او ترا از جا برد وائے آں دریا کہ موجش کم تپید گوہر خود را ز غواصاں خرید غرضیکہ علامہ اقبال مغربی تہذیب کو اقوام مشرق کے لیے سود مند خیال نہیں کرتے۔ وہ امت عربیہ اور اقوام ہند کو خاص طور پر مخاطب فرماتے ہیں۔ امت عربیہ کو قرآن حکیم جیسے دستور فطرت کی طرف پھر متوجہ ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا یقین بلکہ ایمان تھا کہ اس دستور العمل سے باہر کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر مسلمان دیانت داری سے حامل قرآن ہو جائے تو وہ کسی زمانہ اور حالت میں دنیوی طاقت سے مغلوب نہیں ہو سکتا اور باقی بنی نوع آدم کی فلاح و نجات اور اس کی مصیبتوں، مشکلوں اور موجودہ سیاسی اور تمدنی انتشار کا علاج بھی صرف اس میں ہے کہ وہ بلا جبروا کراہ اس قانون فطرت پر عقلاً بھی ایمان لے آئے اور حدود اللہ میں رہ کر اس دستور العمل کی پیروی شروع کر دے۔ امت عربیہ کو افسون فرنگی سے بچ نکلنا چاہیے۔ حکمت فرنگ کا شکار ہونے کی بجائے اپنی خودی کی حفاظت کرے۔ وہ خود اپنے وجود اوراپنے دست قدرت پر بھروسہ کرے اور اپنے اندر حضرت عمر فاروقؓ جیسے مسلمان کی روح پھر پیدا کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام ’’ الا اللہ‘‘ کو لے کر ایک مرتبہ پھر اٹھیں اور عصر حاضر کے ہر نمرود و فرعون کو اس کی بے ثبانی کا عالم دکھا دیں۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب یہ پاسبان فطرت ایک جمعیت بن کر قوت پیدا کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ بغیر قوت کے زندگی بے معنی ہے۔ اہل حق را زندگی از قوت است قوت ہر ملت از جمعیت است رائے بے قوت ہمہ مکر و فسوں قوت بے رائے جہل است و جنوں وہ اخوت ملی کی نعمت کو یاد کریں او ردین کا ولولہ پیدا کریں۔ یہ دین کا ولولہ ان میں عزم، اخلاص اور یقین پیدا کر دے گا۔ اس کے بعد یہ ناممکن ہے کہ یہ ساربان عرب ایک مرتبہ پھر راکب تقدیر نہ بن جائیں۔ اہل ہند کی دارو بھی یہی نسخہ ہے آخر کیا سبب ہے کہ شرق و غرب کے ملک آزاد1؎ ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن ہندوستان اب تک ان بندشوں کو کاٹ نہ سکا۔ اس کی خاک سے دوسروں کی عمارت تعمیر ہوتی رہی لیکن وہ بیٹھا دیکھا ہی کیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس نے اپنی خودی کھو رکھی ہے اور اس نقصان کا نتیجہ ظاہر ہے کیا ہے۔ زندگانی بر مراد دیگراں جاوداں مرگ است نے خواب گراں نیست ایں مرگے کہ آیدز آسماں تخم او می بالد از اعماق جاں 1؎ یہ مثنوی ۱۹۳۶ء میں لکھی گئی تھی۔ جس قوم میں تپش آرزو موجود نہ ہو جس میں کسی نصب العین کے حاصل کرنے کی تمنا اور تڑپ نہ ہو کارکنان قضا و قدر اس کو سطح گیتی سے مٹا دیتے ہیں۔ یہ تخت و تاج کے وعدوں پر بھروسہ سحر سامری ہے جس سے جس قدر جلد ہو سکے وہ چھٹکارا حاصل کریں اور کسی مرد حر کا دامن پکڑیں تاکہ وہ ان کا یہ خواب پورا کر دکھائے کہـ: در غلامی زادۂ آزاد میر اس سلسلہ میں علامہ اقبال نے جو اشعار قلمبند کیے ہیں۔ ان سے ضمنی طور پر علامہ کی وطن دوستی کا ناقابل انکار ثبوت ملتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ اشعار علامہ کے آخری دور کی پیداوار ہیں۔ اس عنوان کا پہلا شعر ہی ایسا ہے جو تمام بدن میں ایک بجلی سی دوڑا دینے اور تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔ فرماتے ہیں: اے ہمالہ اے فلک اے رود گنگ زیستن تاکے چناں بے آب و رنگ آگے چل کر انقلابی شان میں فرماتے ہیں: ہندیاں بایک دگر آویختند فتنہ ہائے کہنہ باز انگیختند تا فرنگی قومے از مغرب زمیں ثالث آمد در نزاع کفر و دیں کس نداند جلوۂ آب از سراب انقلاب اے انقلاب اے انقلاب الغرض یہ ہے ایک اجمالی تفصیل ان پیغامات کی جو علامہ اقبال نے اس مثنوی کے ذریعے پہنچائی اسے ایک بنیادی حیثیت دی جائے۔ اس کو بار بار پڑھا جائے اور سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ مجھے حیرت ہے کہ اس مثنوی پر اب تک زیادہ کیوں نہیں لکھا گیا۔ بہرحال اس مثنوی کا اختتام حضور رسالت مآب میں ہوتا ہے جس میں علامہ اقبال فریاد کرتے ہیں کہ اے خدا کے افضل ترین بندے اور رسول آپ دربار ایزدی میں دعا فرمائیے:’’ ایں غلام ابن غلام ابن غلام‘‘ جو تہذیب مغرب کا شکار اور ’’ بے حرب و ضرب ‘‘ کشتہ مغرب ہے اس کی روح میں پھر وہی جذبہ خود داری پیدا ہو جائے جو ملت اسلامیہ میں قرن اول میں موجود تھی تاکہ یہ مومن ہو کر منت کش فرنگ نہ ہو۔ شیخ مکتب کی کم نظری دور ہو جائے اور مومن میں ’’ لا غالب الا اللہ‘‘ کے ماتحت قربانی کرنے کا ولولہ پھر پیدا ہو جائے اور وہ سوائے باری تعالیٰ کی ذات کے غیر اللہ کی قوت سے خوف نہ کھائے اور ان میں ایک ایسا دانائے اسرار فطرت پیدا کر دے جو اس قافلہ کو منزل مقصود پر پہنچا کر دم لے۔ تا مسلماں باد بیند خویش را از جہانے بر گزیند خویش را ٭٭٭ (مارچ ۱۹۴۲ئ) ارمغان حجاز عبدالرشید طارق ایم اے ارمغان حجاز دو حصوں پر مشتمل ہے۔ فارسی کا حصہ زیادہ ہے۔ اور حقیقت میں حجاز کا تحفہ یہی حصہ ہے اردو کا حصہ تھوڑا ہے اور تبرکاً بطور ضمیمہ کے شامل ہے۔ یہ یاد رہے کہ اگرچہ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کی وفات کے کچھ اوپر سات ماہ کے بعد شائع ہوئی ہے اس کی تدوین اور ترتیب خود انہی کے ہاتھوں انجام پا چکی تھی۔ چونکہ اردو کا حصہ صرف ستر صفحات پر مشتمل ہے میں سب سے پہلے اسی کے متعلق کچھ کہوں گا۔ اگرچہ ڈاکٹر صاحب زبان اردو کو کم مایہ سمجھتے تھے لیکن خضر راہ طلوع اسلام وغیرہ سے لطف اندوز ہونے والے اس زبان کی ادبی صلاحیتوں اور شاعرانہ دلآویزی سے یکسر بدظن نہیں تھے اور انہیں یقین تھا کہ گیسوئے اردو کی پریشانی اور الجھنوں کا احساس خود بخود ڈاکٹر صاحب کو اس کے سنوارنے اور سلجھانے کے در پے کر دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بانگ درا کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بال جبریل میں زبان اردو کی طرف رجوع کیا۔ یہ رحجان ضرب کلیم میں بھی قائم رہا اور اب ان کی آخری تصنیف میں بھی خاصہ نمایاں ہے۔ بانگ درا اور بال جبریل میں باوجود بعد زمانی کے اتنا فرق دکھائی نہیں دیتا جتنا کہ بال جبریل اور ضرب کلیم میں جو اول الذکر سے صرف ایک ہی سال بعد شائع ہوئی۔ بال جبریل کی زبان عموماً بانگ درا سے زیادہ زور دار، زیادہ بلیغ اور رواں ہے اور اس میں تخیل کے ساتھ جذبات کا جو امتزاج ہے وہ بانگ درا میں کم ملتا ہے۔ اس میں زبان کی عظمت، الفاظ کی دل نشینی اور موزونی فطرت اور محسوسات کی اعلیٰ شاعری اور جذبات کی آتش نفسی اپنے انتہائی عروج پہ ہے اور تقریباً ہر مصرع شاعر کے خون کا قطرہ ہے۔ ضرب کلیم میں یہ خصوصیات نسبتاً کم ہو گئی ہیں بلکہ اس کے اثرات خود بال جبریل میں کہیں کہیں پائے جاتے ہیں۔ ان کی مینائے 1؎ غزل میں جو ذرا سی مے آتشیں باقی تھی معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کے حرام کہنے سے انہوں نے اس سے بھی پرہیز اختیار کرنے کی ٹھان لی ضرب کلیم میں سوز اور درد صرف دو تین نظموں سے جھلکتا ہے اور میرے خیال میں ایک چھوٹا سا قطعہ جس میں ’’ نگاہ‘‘ پر زور دیا گیا ہے: بہار و قافلہ لالہ ہائے صحرائی شباب و مستی و ذوق و سرور رعنائی اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاروں کی یہ بحر! یہ فلک نیلگوں کی پہنائی 1؎ میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ وہ بھی ہے حرام اے ساقی سفر عروس قمر کا عماری شب میں طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت سرور زیبائی اعلیٰ درجے کی شاعری کا بے نظیر نمونہ ہے۔ اس کے برعکس ارمغان کے حصہ اردو کا دامن ان خوبیوں سے خالی ہے۔ ایک آدھ شعر اس قسم کا مل جائے گا جیسے کہ: ضمیر جہاں اس قدر آتشیں ہے کہ دریا کے موجوں سے ٹوٹے ستارے لیکن آپ کو ایسے اشعار کہیں نظر نہ آئیں گے جن پر بانگ درا کا کچھ حصہ اور بال جبریل کا بیشتر حصہ مشتمل پڑا ہے: شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں کتنے مصور اشعار ہیں۔ اسی طرح ساقی نامے کا آغاز، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، طارق کی دعا اور صفحہ ۴۳۔ ۴۵۔ ۴۸ پر جو نظمیں ہیں، یہی نہیں بلکہ جونسے صفحہ پہ آپ کی نظریں پڑ جائیں صورت، احساس اور خیال کا مرقع پیش کریں گی۔ آخر اس فرق عظیم کا سبب؟ کیا واقعی ڈاکٹر صاحب کی شاعرانہ قوت پر پیرانہ سالی کے خزاں آفریں اثرات گھر کر رہے تھے (جیسا کہ پچھلے دنوں ایک نکتہ چیں نے ضرب کلیم پر تخریبی تنقید کرتے ہوئے لکھا) یا کیا نفس مضمون خود طرز تحریر اور زبان کا انتخاب کر لیتا ہے؟ پیرانہ سالی تو میرے خیال میں محض ایک بہانہ تھا جس کی اوٹ میں مخالفین ڈاکٹر صاحب کی ذات اور ان کے کمال (پر کیچڑ اچھالنے کا وطیرہ اختیار) سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ ضرب کلیم اور اس کے ساتھ ہی ارمغان کے حصہ اردو میں وہ پہلا سا جوش و خروش، آگ، جذبہ، درد و کرب بظاہر بھڑکتا نظر نہیں آتا مگر اس سے کتاب کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی۔ بلکہ ہمیں شاعر کے ایک دوسرے پہلو سے روشناس کراتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس آگ پر ایک ہلکا سا پردہ ڈال دیا گیا ہے، اور خیالات کو سرد اور غیر جذباتی الفاظ کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔ اس کے مضامین کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ وہ جذباتی اور آتشیں الفاظ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے چست اور متین فقرے ہی موزوں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کتاب میں شعاع امید کے علاوہ 1؎ ان نظموں کا حوالہ خصوصاً اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کے قوامی اور زمین کرخت شمار کیے جاتے ہیں۔ لمبی لمبی نظمیں نہیں۔ زندگی کے جمالیاتی نظریے اور فنون لطیفہ کی تشریح آپ گرما گرم اشعار میں نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ان دو آخری اردو تصانیف کی سب سے نمایاں خصوصیت طعن اور طنز کا عنصر ہے اور اس کے لیے لازمی ہے کہ دل ٹھنڈا اور ادراک تیز ہو کہ وہ اسی صورت میں موثر ہو سکتا ہے۔ ارمغان حجاز میں سب سے لمبی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ ہے جو تمثیل کے رنگ میں لکھی گئی ہے۔ اس انداز کی ابتدا پیام مشرق میں ہوئی اور وہاں بھی ابلیس کا پارٹ نمایاں تھا۔ جاوید نامہ بہت زیادہ وسیع پیمانے پر ایک ایسی تمثیل ہے جس کے لیے سب پہنائیاں تنگ ہیں سوائے دل اور دماغ کے۔ اور وہ سوائے وحدت اثر (Unity of effect) کے زمان و مکاں کی وحدتوں سے بیگانہ ہے۔ بال جبریل اور ضرب کلیم بھی تمثیل نگاری سے خالی نہیں اور اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو مجلس شوریٰ کے ماخذ1؎ اس نظم میں نظر آئیں گے جس میں ابلیس اپنے سیاسی فرزندوں کے نام فرمان جاری کرتا ہے۔ طاغوتی طاقتوں کا سردار اپنے ابلیسی نظام کی پختگی اور مضبوطی پہ نازاں ہے اور خدا کو جو اس کی بربادی پہ آمادہ ہے چیلنج کر کے کہتا ہے: کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزوں کو سرو جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں؟ جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں؟ اس کے مشیروں کو اس کی پختہ سامانی اور زبردست قوتوں کا اعتراف ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے شکوک بھی رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ملوکیت کے ابلیسی صنم کو پاش پاش کرنے والی جمہوریت اور اشتراکیت اور ابلیسی نظام کی بد ترین دشمن ہے۔ لیکن ابلیس ان کے شبہات پر ہنس دیتا ہے اس لیے کہ جمہوریت روح سلطانی کا لباس ہے اور ’’ اشتراکی کوچہ گرد‘‘ کسی صورت بھی اس کے نظام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ہاں البتہ ایک خطرہ ہے جس کا خیال بھی اسے تلملائے رکھتا ہے۔ یہ خطرہ اسلام کی تحدید اور مسلمان کی بیداری خودی میں پنہاں ہے اور اس خطرے کے ازالے کی تدابیر اس کے ذہن میں موجود ہیں، جن پر عمل پیرا ہونے کے احکام وہ اپنے کارندوں کو دیتا ہے۔ اس تمثیل کے دو مقصد ہیں۔ ملوکیت اور سلطانی جمہور کی پردہ داری جو عصر حاضر میں شاہی کا بروز ہے اشتراکیت کی بے بسی اور ان کے مقابلے میں اسلام کی عظمت اور قہرمانی۔ دیو استبداد کی جمہوری قبا کا راز اور اس پہ آزادی کی نیلم پری کا دھوکا، سرمایہ و محنت کی آویزش اور اسلام کی بے پناہ قوت اور اس کے عالمگیر اصول بالکل پرانی باتیں ہیں۔ پھر ان کے اعادہ کی ضرورت؟ شاعری میں اول تو اعادہ کا اعتراض ہی بیجا ہے کیا عشقیہ شاعری میں صدیوں کے پامال اور چیتھڑے ہوئے مضامین کو از سر نو نہیں باندھا جاتا؟ او رکیا بقول گوئیٹے دنیا میں کوئی 1؎ ضرب کلیم ص ۴۸ ایسا نیا خیال ہے جو ہزار ہا برس پرانا نہ ہو۔ اور پھر ہر شاعر ایک ہی مضمون کو مختلف طریقوں میں ادا کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ ان کو کیوں گوارا کر لیا جاتاہے؟ اقبال کی شاعری عاشقانہ شاعری نہیں بلکہ اخلاقی اور حکیمانہ شاعری ہے۔ ان کا مقصد اولیٰ محض اظہار احساسات اور جذبات نہیں، بلکہ زمزمہ محبت میں درس محبت دینا ہے او رآپ جانتے ہیں کہ شفیق مدرس ضروری نکات کو بار بار اور دہرا دہرا کر دلنشیں کرتے ہیں مگر یہاں اس مقصد کے علاوہ اعادہ میں ایک دوسرا مقصد کار فرما ہے۔ وہی مقصد جس نے ٹامس ہارڈی کو چاند سے سوالات کرنے پر مجبور کیا: What have you looked at moon, in your time now Long Past your Prime? Oh, I have looked at, often looked at sweet, sublime, sore things, shudderful, night and noon in my time. what have you mused on moon, in your day, so aloof, so far away? O, I have mused on, Often mused on groth, Ocay, Nations alive, dead mod ashoon, in my day. Have you much wondered moon, oh your rounds, self-Wrapt, beyound Carth's bounds? yes I have wondered, Often wondered at the sounds, Reaching me of the heeman time on my rounds. What do you think of it, moon, As you go? Is life much orno? O I think of it, Often I think of it aso, Show Yod ought surely to shut up soon, As I go? آپ دیکھیں گے کہ یہاں زمین سے چاند کی بے تعلقی اور دوری اور ا س وجہ سے اس کی غیر جانب داری پہ زیادہ زور ہے۔ اس لیے اس کی شہادت دقیع اور قابل اعتماد ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے زبور عجم میں اس سے بھی زیادہ جسارت آمیز قدم اٹھایا ہے وہاں چاند خود بخود خدائے مطلق کے حضور میں دنیائے دوں کی کم ہمتی اور زبوں حالی کا نقشہ پیش کر کے التجا کرتا ہے کہ: در قفائے نیلگوں اور ابہل رشتہ ما نوریاں از وے گسل چشم بیدارم کبود و کور بہ اے خدا ایں خاکداں بے نور بہ اس سفارش میں بھی جانبداری یا بے جا مروت و رعایت کا شائبہ نہیں ہو سکتا۔ چاند کو کیا پڑی ہے کہ غلط بیانی کرے۔ یہی بات اس تمثیل میں موجود ہے۔ چاند کی طرح ابلیس بھی دنیا اور اس کے مکینوں سے دور ہے۔ غیر ارضی اور غیر جانب دار ہے۔ بایں ہمہ اس کا تعلق دنیا اور دنیا والوں سے ابتدائے آفرینش ہی سے بہت گہرا ہے بلکہ ایک لحاظ سے اگر دنیا کا باعث ہی اسے کہا جائے تواصلیت سے دور نہیںاس نے زمانے کے نشیب و فراز دیکھے ہی نہیں بلکہ ان میں حصہ بھی لیا ہے۔ جیسا کہ وہ خود کہتا ہے: ہے میرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو کیا زمیں کیا مہر و ماہ کیا آسمان نو بنو میں نے دکھایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں لہٰذا جس حقیقت کا اظہار اس کی زبان سے ہو گا وہ یقینا قابل قبول ہے جن نتائج پہ وہ عمیق غور و فکر کے بعد پہنچے وہ سچے ہیں اور اس کی شہادت وزن دار اور قطعی ہے۔ اس تمثیل میں ایک اور خیال کی وضاحت بھی ہو گئی ہے۔ پچھلے دنوں یہ خیال بہت تقویت پکڑ گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رحجان کلی طور پر اشتراکیت کے حق میں ہو گیا ہے۔ اس خیال کی ابتداء اگر زمانہ خضر راہ سے ہوتی تو شاید درخور اعتنا نہ ہوتی۔ آخر اس میں بھی تو انہوں نے سرمایہ داری کی مخالفت اور محنت کی اعانت کی تھی۔ ملوکیت کو ڈانٹا اور جمہوریت کو سراہا تھا۔ لیکن اس خیال نے بال جبریل کی اس نظم سے نشو پائی، جو فرمان خداوندی سے مشہور ہے۔ اس نظم کو ہر اشتراکی اور نیم اشتراکی اخبار اور رسالے نے شائع کیا اور سب نے یہی سمجھا کہ بس اقبال لوائے احمر کا علمبردار بن گیا ہے۔ چنانچہ اس تمثیل میں اس چیز کا یوں اعلان کر دیا: دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو اگر کوئی ’’ شرارت‘‘ صحیح معنوں میں اس کی سطوت اور اس کے نظام کو تہ و بالا کر سکتی ہے تو وہ اشتراکیت نہیں، بلکہ تجدید اسلام ہے، جس سے ابلیس کی خبیث روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے: الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر حافظ ناموس زن، مرد آزما مرد آفریں موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقاں نے فقیر رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں اس نظم سے دوسرے درجے پر لمبی نظم سر راس مسعود مرحوم کا مرثیہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے متعدد مرثیے کہے، اس سے مختصر بھی طویل تر بھی۔ لیکن میرے خیال میں فن کے اعتبار سے اور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ حیات و ممات کے لحاظ سے یہ سب پر مقدم ہے۔ اس کی مثال اردو یا فارسی ادبیات میں نہیں انگریزی میں ہی مل سکتی ہے۔ اگر مرثیے کا کمال اشک آفرینی ہے، تو پھر انیس کے مراثی کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مگر جیسے کہ آپ جانتے ہیں یہ کوئی بڑا کمال نہیں۔ رو لینے سے سوا اس کے کہ ہمارے جذبات یاس و اندوہ کی غیر ضروری زیادتی بہہ نکلتی ہے۔ اور کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ اس سے نہ تو ہمیں کوئی سبق ملتا ہے اور نہ (Aesthetic) جمالیاتی سرور حاصل ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب کے مرثیوں کو پڑھ جائیے، کیا کوئی ان کے پڑھ لینے سے غمگین ہو جاتا ہے؟ کیا ہمیں احساس غم ہوتا ہے؟ کیا خود شاعر کے دل میں ذاتی نقصان کا احساس شدید موجزن تھا؟ زیادہ سے زیادہ احساس الم و حزن ہو سکتا ہے۔ البتہ ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ یہ احساس ضرور ذاتی نقصان عظیم کا تھا (خیال رہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیگم کی وفات کا اظہار نہیں کیا حالانکہ وہاں اس احساس کی نوعیت بہت شدید تھی) لیکن ان سب میں موت کی تلخی کم ہو گئی ہے اور احساس کی شدت یاد کی نرمی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ شاعر اب فرزند اور دوست یا عاشق نہیں رہا بلکہ محض فن کار رہ گیا ہے۔ یہ نہ سمجھیے کہ اس کاغم اب ذاتی نہیں رہا یہ تو اس کے خلوص پر حملہ ہو گا۔ البتہ اب غم کی یورش اسے بے حال نہیں بنا سکتی۔ وہ اب بے غم ہے جیسے کہ ہم، چونکہ وہ فن کار ہے جو ہم نہیں۔ یہ غم اس کے ہاتھ میں ایک قسم کا مصالحہ ہے جس سے وہ کوئی مجسمہ ڈھال دیتا ہے۔ یہ غم جس کا احساس اسے بعد میں سکون کی حالت میں ہوتا ہے، یوں صورت پذیر ہو، ہمیں احساس غم کی بجائے ایک اعلیٰ قسم کے سکون کا احساس دلاتا ہے ہم اس میں حسن و زیبائی دیکھتے ہیں جو پیدا تو غم سے ہوئی مگر بذات خود غم و اندوہ نہیں اور شاعری کا مآل یہی ہے۔ کیٹس کا کہنا ہے کہ شاعری جو ہمارے دل اور دماغ پر بزور قبضہ کرنا چاہے کوئی شاعری نہیں۔ اصل شاعری وہ ہے جو خود ہمارے ہی جذبات و احساسات کی باز گشت ہو، جسے پڑھ کر یا سن کر ہم چلا اٹھیں: دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے اگر شاعر ہم میں اس نوع کا لطیف استعجاب اور نشاط آمیز حیرت پیدا کر سکتا ہے تو وہ بڑا شاعر ہے۔ مسعود مرحوم کے مرثیے میں یہ خاصیت سب سے بڑھ کر ہے۔ سات سات اشعار کے صرف تین بند ہیں۔ مگر دیکھئے ان اکیس اشعار میں شاعر نے کتنی منزلیں طے کر لی ہیں۔ میں یہاں صرف پہلا اور آخری شعر پڑھتا ہوں، اسی سے آپ اندازہ لگا سکیں گے۔ یہ مہر و ماہ، یہ ستارے، یہ آسمان کبود! کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود؟ ٭٭٭ خود آگہاں کہ ازیں خاکداں بروں جستند طلسم مہر و سپہر و ستارہ بشکستند ٭٭٭ عالم برزخ میں بھی مسئلہ حیات و ممات اور حشر و نشر کی وضاحت کی ہے۔ بال جبریل میں عالم آب و خاک و باد سے ایک سوال پوچھا گیا تھا جس کا ایک شعر یہ ہے: کس کی نمود کے لیے شام و سحر ہیں گرم سیر شانہ روزگار پر بار گراں ہے تو کہ میں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالم برزخ کی آخر نظم میں ’’ زمین‘‘ اسی کا جواب دیتی ہے جبکہ ایک مردہ صد سالہ لذت حشر سے محروم قبر کی تاریکیوں کو تاریک تر بنا رہا ہے اور مر جانے کے بعد بھی ظلمت کدۂ خاک سے بیزار نہیں۔ آہ یہ مرگ دوام! آہ یہ رزم حیات ختم بھی ہو گی کبھی کش مکش کائنات عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات عارف و عامی تمام بندۂ لات و منات خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات قلب و نظر پر گراں ایسے جہان کا ثبات کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات؟ ٭٭٭ اس کی لے دھیمی اور نرم ہے۔ مگر جوش اور درد سے مملو ہے۔ محراب گل افغان کے افکار، اور بڈھے بلوچ کی نصیحت ایک ہی بیاض کے ٹکڑے ہیں۔ آزاد کو آزاد کی نصیحت، مگر ملازادہ ضیغم کی بیاض مختلف ہے۔ یہ غلام شاعر کی غلام لوگوں کو تلقین ہے۔ وہاں آزادی کی حفاظت کا تذکرہ ہے، یہاں آزادی کی حسرت اور آزاد بندوں کی خوش نصیبی اور آفاق گیری کی داستان ہے۔ ’’ افکار‘‘ میں کوہستانی وقار، شکوہ اور جبروت کا عکس زبان میں پیدا ہے۔ ’’ بیاض‘‘ کی زبان میں درد و داغ ہویدا ہے اور اس کے استعاروں اور تشبیہات میں عجیب معنویت پنہاں ہے مثلاً: شرح ملوکانہ میں جدت احکام دیکھ صور کا غوغا حلال، حشر کی لذت حرام یا: ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک خضر سوچتا ہے دلر کے کنارے ٭٭٭ ضمیر مغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ وہاں دگر گوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ ٭٭٭ غرض حصہ اردو اختلاف کے ساتھ انہی باتوں کا درس دیتا ہے جن کو ایک غلام قوم اور خصوصاً غلام مسلمانوں کو ضرورت ہے اور اس کا انجام بھی اسی تڑپ میں ہوتا ہے جو ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی نمایاں خصوصیت رہی۔ یعنی حقیقت اشیاء کے گنہ تک پہنچنے کی تڑپ اور انسانی شرف و نجابت کا یقین جو اس آخری شعر سے عیاں ہے: اگر مقصود کل میں ہوں تو مجھ سے ماورا کیا ہے؟ میرے ہنگامہ ہائے نو بنو کی انتہا کیا ہے؟ ارمغان کا حصہ فارسی عشق و مستی کی دنیا میں ایک بالکل نایاب چیز ہے اور اصل میں اسی حصے کا نام ارمغان حجاز ہے جیسا کہ میں ابتداء میں کہہ چکا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ حرمین کی زیارت نصیب ہو، بطحا، یثرب، حجاز کے الفاظ ہر وقت ان کی زبان پر رہتے تھے۔ مدینہ و نجف کی خاک فروغ سینا سے منور اور ان کی آنکھ کا سرمہ تھی۔ زمین حجاز میں موت زندگی کی سرخروئی کا عنوان تھی۔ یہ تڑپ اواخر ایام میں ناقابل برداشت ہو گئی۔ جب میں انہیں گزشتہ نومبر ۱۹۳۷ء میں ملا تو فرمانے لگے اب کے حج کا پختہ ارادہ ہے، کئی دوست جا رہے ہیں، آرام میسر ہو جائے گا۔ چنانچہ سفر کی تیاری شروع تھی اور جیسے کہ چودھری محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ جہاز ران کمپنیوں سے اس بارے میں خط و کتابت بھی ہو رہی تھی۔ جس طرح بچہ تخیل ہی تخیل میں آنے والے سفر کی تیاریاں کرتا ہے۔ راستے کے مناظر، سفر کی نیرنگیاں اور دلچسپیاں اور منزل مقصود کی پر سرور رومانوی وادیوں میں سیر و تفریح، کھیل کود کے دلکش تصورات سے خیال کی دنیا بسا لیتا ہے۔ اسی طرح ایک حساس اور Imaginative عاشق فردائے وصال طلوع سے قبل شاہد آرزو کی ہمکناری سے لطف اندوز ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات یہ صوری اور خیالی ہمکناری حسیات اور جذبات میں اس قدر زبردست اور مکمل ہوتی ہے کہ حقیقت عکس اور عکس حقیقت کی جگہ لے لیتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دو عاشق شاہد آرزو سے اک گونہ متنفر ہو کر اس خیالی ہمکناری کی تلاطم انگیزی اور یاد ہی میں گھرا رہتا ہے۔ 1؎ اور اس کی آرزوئے وصال مر جاتی ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ڈاکٹر صاحب کا عشق کوئی مخفی چیز نہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں: اے مقام و منزل ہر راہرو جذب تو اندر دل ہر راہرو گرد تو گردد حریم کائنات از تو خواہم یک نگاہے التفات ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی ’’پس چہ باید کرد‘‘ اس لیے ان کی خواہش وصال کی بے تابانی کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ فرداً اگرچہ دور نہیں تھا اور سفر کی تیاری بھی شروع تھی۔ مگر ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است۔ اس ناصبوری کی حالت میں انہوں نے والہانہ طور پر خیال و شعر کے قوی پردوں پر اپنا سفر حجاز شروع کیا اور دیار حبیب ؐ میں پہنچ گئے۔ اگرچہ جسمانی طور پر وہ اس سعادت عظمیٰ سے محروم رہے۔ ادھر روح نے اپنا سفر ختم کیا اور ادھر جسد نے تمام دنیاوی منزلیں طے کیں اور بالآخر منزل جاوید کی طرف کوچ کیا۔ جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ لیکن ا گر میں غلطی نہیں کرتا تو یہ ’’ محرومی‘‘ بھی ڈاکٹر صاحب کی عین خواہشات اور اعتقاد کے مطابق ہے۔ جیسے کہ وہ خود فرماتے ہیں: آتش مارا بیفزاید فراق جان ما را سازگار آید فراق 1؎ پیرے لوئی کی کتاب موسومہ ایفر ورائتی میں اس حقیقت کو افسانوی رنگ میں دکھایا گیا ہے۔ بے خلشہا زیستن نا زیستن باید آتش در تہ پا زیستن ’’جاوید نامہ‘‘ گرمی آرزو فراق شورش ہائے و ہو فراق موج کی جستجو فراق قطرہ کی آبرو فرق ’’بال جبریل‘‘ اس لیے ضروری تھا کہ عشق کی پائندگی اور آرزوئی پیہم خلش اور تڑپ کے لیے وہ اس موت سے بچ جائیں، جس کا دوسرا نام وصال ہے: عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب ’’بال جبریل‘‘ یہ مسئلہ کوئی افلاطونی نہیں، نہ ہی مایوس، کم ہمت اور فرو مایہ عاشق کا نظریہ ہے جس کی کوتاہ و ستی عبارت ہوا بدی محرومی سے اور جس کی نگاہ کی رسائی تخیل بلند تک نہ ہو سکے۔ بلکہ ڈاکٹر صاحب کی خود نگہداری اور انفرادیت کی دلیل ہے۔ عین وصال میں بھی انہوں نے آنکھ اٹھا کر جلوۂ دوست نہ دیکھا اور قیامت میں لوگوں کے لیے خود تماشہ بن گئے۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ ان کی لذت طلب کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ لہٰذا اس روحانی اور خیالی سفر کی بدولت ان کی دونوں خواہشیں پوری ہو گئی ہیں۔ قرب حبیب اور طلب و فراق کی مسلسل خلش۔ اب اس سفر نامے کی ترتیب پہ غور کیجئے: حضور حق، حضور رسالت، حضور ملت، حضور عالم انسانی او ربہ یاران طریق ذائرین حرمین کعبتہ اللہ میں حج کی ادائیگی کے بعد مدینتہ النبی کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں وہاں سے سعادت اندوز ہو کر اپنے اپنے گھروں کو سدھارتے ہیں۔ شاعر کی راہ سفر بھی یہی ہے۔ حضور حق اور حضور رسالت میں شکایتوں، مناجاتوں اور التجاؤں کے بعد وہاں سے تحائف لے کر امت کے حضور جاتے ہیں۔۔۔ چونکہ یہ امت امتہ وسطہ کی مصداق ہے۔ اس لیے تمام عالم انسانی پر ارمغان حجاز کی بارش کرتے ہیں اور وہ پیامات دیتے ہیں جو بارگاہ ایزدی اور نبوت سے انہیں ملتے ہیں اور پھر یاران طریق کہتے ہیں کہ آؤ میرے درد دل سے ایک ذرہ لو اور دنیا کو درخشندگی بخشو: بیاتا کار ایں امت بسازیم قمار زندگی مردانہ بازیم چناں نالیم اندر مسجد شہر کہ دل در سینہ ملا گدازیم ٭٭٭ ز جانم نغمہ اللہ ہو ریخت چو کرد از رخت ہستی چار سو ریخت بگیر از دست من سازے کہ تارش ز سوز زخمہ چوں اشکم فرو ریخت حضور حق میں شاعر کا انداز تخاطب زیادہ تر مودب ہے، صاف بیانی (Directness) اور الزام تراشی (Recrimination) جو زبور1؎ عجم اور بال جبریل میں عام ہے اور دوسری تصانیف میں بھی دکھائی دیتی ہیں یہاں کم ہے البتہ زبان میں تمکنت، متانت اور حضور حق کا شعور پیدا ہو گیا ہے۔ رمز و کنایہ ایک دو مقام پہ زیادہ تیز اور نوکدار ہے۔ مثلاً: مرا گوئی کہ از شیطاں حذر کن بگو بیا من کہ او پروردۂ کیست مریدے فاقہ مستے گفت با شیخ کہ یزداں راز حال ما خبر نیست اور: بہ ما نزدیک تر از شہ رگ ماست و لیکن از شکم نزدیک تر نیست بانیہمہ اگر غور سے دیکھا جائے تو سرگرانی اور صلح جوئی کی آمیزش عام طور پر نظر آئے گی اور جہاں کہیں خدا کے خلاف براہ راست تلخ نوائی کا موقعہ یا امکان پیدا ہوتا ہے۔ وہ فوراً ہتھیار پھینک کر الگ ہو جاتے ہیں اور یہ کام دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: 1؎ زبور: بہ جہان درد منداں تو بگو چہ کامداری آشنا ہر خار را از قصہ ما ساختی بال: خداوند خدائی درد سر ہے میرے شیشے میں مے باقی نہیں ہے باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا پیام: محاورہ ما بین خدا و انساں بانگ درا، شکورہ: سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر شب ایں انجمن آراستم من چو مہ از گردش خود کاستم من حکایت از تغافل ہائے تو رفت و لیکن از میاں برخاستم من اور ساتھ ہی اس کی رضا جوئی غلامی اور بندگی کا اقرار کرتے ہیں۔ البتہ اس اطاعت کوشی اور بندگی کے عوض اپنی شخصیت کو مسخ کرنے سے انکاری ہیں۔ اپنی انفرادیت کو خدا کی رضا کے لیے بھی ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے اور صاف کہہ دیتے ہیں: و لیکن گر بہ ایں ناداں بگوئی خرے را اسپ تازی گو، نگویم خدا سے اپنے لیے بہت سی دعائیں مانگی ہیں۔ ایک تو یہ کہ میری شراب پختہ کو تنک جام اور خام کار لوگوں سے بچائے رکھ تاکہ یہ آگ خس و خاشاک کو کہیں جلا کر نہ رکھ دے۔ دوسرے یہ کہ مجھے جاوداں بنا دے اور میری شام کے چہرے کو جاوید کی صبح سے آراستہ کر دے۔ تیسری دعا میں بیحد خشوع اور منت و زاری پائی جاتی ہے۔ میں انہی کے الفاظ پڑھتا ہوں: بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہؐ ما را حساب من ز چشم او نہاں گیر ان دعاؤں کے علاوہ امت اور اس کے فقیہوں کی کم سوادی اور بے یقینی کا رونا رویا ہے۔ مسلمان خصوصاً ہندی مسلمانوں کی محکومی اور خود فروشی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے اور التجا کی ہے کہ ان کے شب و روز کو بدل دے۔ اور ان میں ایک ایسی ملت پیدا کر دے جس کی تسکین صرف ایک ہی جہان سے نہ ہو جائے بلکہ دونوں جہانوں کو اپنے کندھوں پہ اٹھا لے۔ جس امت کی شان یہ ہو: دگر قومے کہ ذکر لا الٰہش بر آرد از دل شب صبح گاہش شناسد منزلش را آفتابے کہ ریگ کہکشاں رو بد ز راہش خدا کی بارگاہ سے وہ جلدی ہی بلکہ زبردستی بھاگ نکلتے ہیں۔ یہاں تو وہ محض رسمی طور پر آئے تھے وہ بھی اس لیے کہ رسول ؐ کا حکم تھا 1؎ 1؎ درماں دریا کہ او را ساحلے نیست دلیل عاشقاں غیر از دلے نیست تو فرمودی رہ بطحا گرفتیم وگرنہ جز تو ما را منزلے نیست (ارمغان ۲۶ص) وگرنہ اس سفر کا مقصود مقصود حقیقی تو وہ بارگاہ اور ادب گاہ ہے جو عرش سے بھی نازک تر ہے اور جہاں جنید اوربایزید بھی ہوش گم کر کے آتے ہیں۔ چنانچہ اقبال بھی خدا کو یہ کہہ کر نکل جاتے ہیں: تو باش اینجا و با خاصاں بیامیز کہ من دارم ہوائے منزل دوست حضور رسالت میں گفتگو کے انداز میں بڑی نمایاں اور محسوس تبدیلی آ گئی ہے۔ حضور حق میں اگر رمز، طنز اور کنایہ ہے توان میں سے ہر چیز یہاں ناپید ہے۔ا دب ضرور ہے مگر رسمی ادب نہیں، بلکہ وہ ادب جو محبت کے قرینوں میں پہلا قرینہ ہے۔ ادب جو انتہائی عشق اور فریفتگی سے پیدا ہوتا ہے، جس سے عاشق حریم دوست میں دم بخود کھڑا رہتا ہے اور جب منہ کھولتا ہے تو اپنی بے بسی کے اظہار کے لیے اور نگاہ التفات کی تمنا لے کر،و ہ ذوق و شوق، وہ جذب و مستی، وہ سوز اور درد جو حضور رسالتؐ کے ہر لفظ سے پیدا ہے حضور حق میں مفقود ہے۔ اس آتش و گرمی کا اس خطے میں گزر نہیں۔ اقبال نے خدا کو کہیں 1؎ بھی ان الفاظ یا اس انداز میں خطاب نہیں کیا جن میں انہوں نے حضور رسالت مآب ؐ کو کیا ہے۔ مثلاً: وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا (بال جبریل) ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی آہوئے زار و زبون و ناتواں کس بہ فتراکم نہ بست اندر جہاں اے پناہ من حریم کوئے تو من بامیدے رمیدم سوئے تو اے وجود تو جہاں را نوبہار پر تو خود را دریغ از من مدار (پس چہ باید کرد ۶۵) 1 سوائے ایک مقام پہ جاوید نامہ میں شاید مناجات کے دوران میں فرمایا ہے: جلوہ داری دریغ از من مدار از زیان یک شعاع آفتاب کم نمی گردد متاع آفتاب مگر یہاں بھی سوز نہیں، صرف التجا ہے: جہان شوق را پروردگار است ان کے دل کی کیفیت آغاز سفر سے ہی ظاہر ہے اور ذہنی حالت پہلے ہی قطعے سے واضح ہو جاتی ہے، جبکہ پیش آہنگ منزل سے آگے نکل جاتا ہے اور وہ چلا کے کارواں وہیں رکوا کر خیمے گاڑ دیتے ہیں اور ساتھ خرد کی بجائے زمام کار دل کے ہاتھ میں دیتے ہیں۔ اس دل کی بابت کہتے ہیں کہ میں اسے شہر اور گلشن میں لے گیا۔ لیکن خیابان کی آب و ہوا اسے راس نہ آئی اور یہ لالہ صحرا مست افسردہ وہ گیا۔ مگر جب اسے صحرا میں لے کے پہنچا تو وہاں اور بھی افسردہ ہو گیا۔ ندی کا کنارہ بھی اسے پسند نہ آیا۔ دنیا کا کوئی کونہ اسے نہ بھایا۔ مگر ایک مقام تھا جہاں اس کی بیتابی کا علاج تھا جہاں اسے صبر و قرار اور سکون میسر ہو سکتا تھا۔ اور یہ مقام خود اسی کا نشیمن تھا، جہاں آخر کار میں اس بڑھاپے میں اسے لے گیا: بایں پیری رہ یثرب گرفتم نواخواں از سرور عاشقانہ چوں آں مرغے کہ در صحرا سر شام کشاید پر بہ فکر آشیانہ اس کے بعد کے بند اس سرور اور خوشی اور سرمستی کو بڑی کامیابی سے واضح کرتے ہیں، جو اس سفر سے ان کو حاصل ہوئی۔ اس ’’ کافرہندی1؎‘‘ کا ذوق و شوق زیارت دیکھنے کے قابل ہے۔ اس کے منہ پر ہی نہیں بلکہ اس کے دل میں بھی صلوۃ و درود کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس سرمستی اور سر خوشی کے عالم میں انہیں ہر کوئی سرکار دوسرا کے عشق میں چور چور نظر آتا ہے، یہاں تک کہ ناقہ بھی انہی کی طرح طلسم دل میں اسیر ہے اور اس کی موج نگاہ سے وہی مے چھلک رہی ہے۔ جس سے خود ان کا ضمیر روشن و تابناک ہے۔ ان کی پر کیف نغمہ سرائی خود اہل عرب کے لیے جاذب اور حیران کن ہے اور وہ بے اختیار پوچھتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں: امیر کارواں! آن اعجمی کیست؟ سرود او بآہنگ عرب نیست زندآں نغمہ کز سیرابی او خنک دل در بیابانے تواں زیست مقام عشق و مستی منزل اوست چہ آتش ہا کہ در آب و گل اوست نوائے او بہ ہر دل سازگار است کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست اصلیت کی تکمیل اور مقامی رنگ، سفر کی صعوبت، ناقہ اور صحرا کی تعریف میں نہاں ہیں۔ راہی کو اپنی خستگی اور بیماری، ناتوانی 1؎ کافر ہندی ہوں میں دیکھ مرا ذوق و شوق لب پہ صلوٰۃ و درد، دل میں صلوٰۃ و درود (بال جبریل) اور پیری کا احساس ستاتا ہے۔ اونٹنی کی بے ڈھنگی اور ہچکولے کھاتی ہوئی چال تو تندرست سے تندرست انسان کی جان اور تندرستی اعضاء کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ لہٰذا انہیں اس سے درخواست کرتے بنی کہ خرام میں نرمی پیدا کرے۔ سحر با ناقہ گفتم نرم تر رو کہ راقب خستہ و بیمار و پیر است اور پھر: قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی بپایش ریگ ایں صحرا حریر است زندگی مستعار کا اعتبار نہیں۔ کیا معلوم اس کا سلسلہ کس لحظہ ٹوٹ جائے اور حریم دوست تک رسائی نہ ہو سکے۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتے ہیں کہ کسی طرح منزل پہ سلامت پہنچ جائیں۔ رہے پر پیچ و راہی خستہ و زار چراغش مردہ و شب درمیان است لیکن اس غم پنہاں کی موجودگی میں ایک اور تڑپ بھی اندر ہی اندر کام کر رہی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ وصال جلد از جلد ہو، اور ان کی خلش فراق یکسر ختم ہو جائے۔ اس لیے وہ اپنے غم کو نشاط آمیز بنانا چاہتے ہیں اور سارباں سے فرماتے ہیں: غم راہی نشاط آمیز تر کن فغانش را جنوں انگیز تر کن بگیر اے سارباں را ہے درازے مرا سوز جدائی تیز تر کن یہاں تک کہ جدائی بالکل نہیں رہتی۔ وہ حضور رسالت میں پہنچ جاتے ہیں اور حضور آیہ رحمت میں اپنا دل نکال کر رکھ دیتے ہیں اور جراحت ہائے پنہانی کے لیے مداوا طلب کرتے ہیں۔ ہندی مسلمان کی بیچارگی بیان کرتے ہیں۔ اس ملت کی بے امامی، بے نظامی اور چرخ نیلی کی کج خرامی کا نقشہ بڑے درد سے پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ قوم دولت اور جہاد کے ولولے سے بالکل تہی دامن ہے اسے موت کا خوف ہر دم بے چین کیے دیتا ہے۔ اس کی آرزوئیں بے نیش ہیں۔ وہ باہم دست و گریباں رہتی ہے۔ اللہ سے دور ہے۔ دل ہے مگر سوز و درد سے خالی ، سبو ہے مگر مے لالہ فام سے تہی، مکتب ہے مگر نگلے ہوئے نوالوں کو چبانے کے لیے ۔ جہاں شاہیں بچوں کو خاکبازی کا درس دیا جاتا ہے۔ اس قوم کے شاعروں کی نوا نے ہی سے مردہ نکلتی ہے۔ میں نے ان کی اصلاح و درستی کی کوشش کی۔ انہیں سمجھایا بجھایا، سیدھی راہ دکھائی مگر بے سود، میں چاہتا ہوں کہ یہاں آپ انہیں کے الفاظ سنیں: بآں رازے کہ گفتم پے نبردبذ ز شاخ نخل من خر ما نخوردند من اے میرامم داد از تو خواہم مرا یاراں غزلخوانے شمردند ٭٭٭ نہ شعر است ایں کہ بر دے دل نہادم گرہ از رشتہ معنی کشادم بامیدے کہ اکسیرے زندعشق مس ایں مفلساں را تاب دادم ٭٭٭ تو گفتی از حیات جاوداں گوے بگوش مردۂ پیغام جاں گوے ولے گویند ایں ناحق شناساں کہ تاریخ وفات این و آں گوے ٭٭٭ یہ ظالم میری خونفشانی اور گریہ خونی کو خوش الحانی سے تعبیر کر کے اس سے حظ اٹھاتے رہے اور یہ نہ سوچا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اب تم ہی کہو میں کدھر جاؤں۔ تیرے سوا میرا کوئی ناصر و غمگسار نہیں۔ سو اپنا افسانہ غم اور کس سے کہوں۔ کیونکہ میرے سینے میںبغیر تیرے اور کوئی نہیں اگرچہ میں نے اپنی قوم کو رمز حیات سے آگاہ کیا اور اس پر فردا دوی کا راز فاش کیا۔ وہ نہ سمجھی، اس لیے: تواں اسرار جاں را فاش تر گفت بدہ نطق عرب ایں اعجمی را دور حاضر کا مسلمان بے سر و سامان تو ہے لیکن: ضمیر او ضمیر بادشاہے است اور اس میں باریابی کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر حضور اسے اس کا مقام دوبارہ بخش دیں۔ اس کے بعد اپنی تنہائی اور خلوت گزینی کا حال بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں فرنگی بتکدے میں کھو گیا اور وہاں سے اگر کچھ حاصل کیا تو درد کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ صوفی اور ملا کی محفل بھی مجھے سخت نا پسند تھی اور میں ہمیشہ ان سے دور رہتا تھا۔ گویا مشرق اور مغرب، ہر جگہ میں اجنبی ہی رہا اور مجھے کوئی یار محرم نصیب نہ ہوا۔ البتہ اس احساس غربت کو فریب دینے کے لیے اپنا غم اپنے دل ہی سے بیان کیا کرتا۔ میں اگرچہ بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن میرے سینہ میں آہ سحر کی آگ ابھی تک باقی ہے اور میرے سر میں باوجود پیری کے ابھی تک وہ جنون ہے۔ للہ بتاؤ کہ مجھے اس بے اخلاص اور بے سوز عصر میں پیدا کرنے کا کیا راز ہے؟ اس میں شک نہیں کہ میں نے علم حاضر کا سر توڑا ہے اور اس کی فریب کاری کو نمایاں کیا ہے لیکن یہ سب تیرے ہی فیضان کرم سے تھا تو نے ہی میری آنکھ میں نگاہ پیدا کی اور میری ادراک کو فروغ لا الٰہ سے منور کیا۔ میرا کام اس دنیا میں ختم ہو گیا ہے۔ میں اپنی قوم کے شجر کی اپنے اشکوں سے سیرابی کر چکا ہوں۔ ہنوز اس میں زندگی کی حرارت پید انہیں۔ اس لیے: کہ او در انتظارے آدمے ہست لہٰذا: بدہ او را جوان پاکبازے سر درش از شراب خانہ سازے قوی بازوئے او مانند حیدر دل او از دو گیتی بے نیازے (ص۷۲) اس کے بعد پھر گریز کر کے چند بندوں میں اپنی کیفیات بیان کر کے یہ التجا کرتے ہیں: ہمیں یک آرزو دارم کہ جاوید ز عشق تو بگیرد رنگ و بوئے اپنے بچے کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان بچوں کے لیے دست بدعا ہیں: بدہ دستے ز پا افتادگاں را بہ غیر اللہ دل نا دادگاں را ازاں آتش کہ جان من بر افروخت نصیبے دہ مسلماں زادگاں را حضور رسالت کے اخیر میں سلطان عبدالعزیز کو جو حجاز کے فرمانروا ہونے کی حیثیت سے حرمین کا محافظ ہے، خطاب کر کے فرنگی صنم کی آئینہ روئی اور مکاری سے بچنے کی تلقین کی۔ فرمایا ہے: ترا اندر بیابانے مقام است کہ شامش چوں سحر آئینہ فام است بہر جائے کہ خواہی خیمہ گستر طناب از دیگراں جستن حرام است اس تمام تفصیل سے آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ اگرچہ ظاہری ہیئت میں ’’ ارمغان حجاز‘‘ چو مصرعی قطعات پر مشتمل ہے جو جدا جدا دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سب ایک ہی رشتے میں منسلک ہیں، تسبیح کے دانوں کی طرحِ یہی تسلسل حضور ملت اور حضور عالم انسانی میں بھی موجود ہے۔ امت کو پہلا پیام جو دیا ہے وہ یہ ہے: بحق دل بندو راہ مصطفی رو کیونکہ اسی طریق سے اس میں خود اعتمادی، بے خوفی اور خودی کی بیداری پیدا ہو سکتی ہے، جو فتح و نصرت کے لیے ضروری ہیں۔ خودی کی انتہائی منزل کبریائی ہے، جہاں پہنچ کر انسان یا بقول ڈاکٹر سعید اللہ جہاں پہنچ کر اقبال بے شعوری طور پر خدا کو نیچے اتار کر اس کی جگہ لینا چاہتا ہے اور ’’ انا الحق‘‘ کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس نعرے میں کوئی بری بات نہیں۔ البتہ اس کے اندر فرد کے لیے موت ہے، لیکن قوم کے لیے حیات: انا الحق جز مقام کبریا نیست سزائے او چلیپا ہست یا نیست اگر فردے بگوید سر زنش دہ اگر قومے بگوید ناروا نیست ’’ انا الحق‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ہی پڑھنے والے کی توجہ کئی صدیاں پیچھے ہٹ کر دور اسلامی کے اس زمانے پر جا پہنچتی ہے جب کہ منصور ابن حلاج کو اس نعرہ کی بنا پر سردار لٹکایا گیا تھا۔ دل میں ایک شبہ سا پیدا ہوتا ہے کہ جس جرم کی پاداش میں ایک فرد کو اتنی شدید سزا ملی۔ ڈاکٹر صاحب اسے ایک قوم کے لیے برا نہیں بلکہ اچھا سمجھتے ہیں۔ مگر یہ شبہ عموماً اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ منصور کے ہم عصر ملاؤں اور فقیہوں کی طرح ہماری نظریں بھی تنگ ہیں اور ہم ’’ حق‘‘ کے صحیح مفہوم اور اس کی معنوی وسعت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور ’’ حق‘‘ کو عین ذات خداوندی تسلیم کر لیتے ہیں، جو کہ صریحاً زیادتی ہے۔ اس حلاج کو اس تنگ نظری اور مذہبی کنونشن (Convention) کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ قرآن پاک میں ’’ حق‘‘ کا لفظ کئی جگہ مستعمل 1؎ ہے۔ اور ’’ حق‘‘ سے مراد ایسی حقیقت ہے جو ثابت اور غیر فانی ہو، جو خدا کی صفت حی لا یموت سے متصف ہو۔ اور جو لا تاخذہ سنتہ ولا نوم کی مصداق ہو۔ اسلام یا قرآن کو ’’ حق‘‘ اسی لیے کہا ہے کہ اس میں یہ صفات موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی فرد میں خواہ اس کی خودی اپنے انتہائی مدارج طے کر چکی ہو، حتیٰ کہ انبیائے کرام اور رسول اکرم ؐ میں بھی، جن کی بابت ڈاکٹر صاحبؒ نے فرمایا: ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی، وہی آخر زمانی (بال جبریل) 1؎ جاء الحق وزھق الباطل یہ الوہی صفات موجود نہ تھیں۔ اس لیے کوئی فرد ’’ انا الحق‘‘ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اور اگر وہ ایسا دعویٰ کرے تو اسے سزا اس لیے دی جائے گی کہ ایسے دعوے سے عوام میں غلط فہمی پھیلنے کا احتمال ہے، ایسی غلط فہمی جس کا نتیجہ فتنہ و فساد اور تفرقہ ہو گا، جن سے قوم کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس کے برعکس ایک قوم خواہ وہ کیسی ہی بد عقیدہ کیوں نہ ہو اپنے اندر ان صفات کا روشن یا دھندلا عکس رکھتی ہے۔ لیکن خدا کے نزدیک ’’ حق‘‘ قوم وہی ہے جسے وہ بوجودہ پسند کرے۔ لہٰذا ہر قوم نہیں بلکہ صرف وہی قوم اپنے لیے ’’ حق‘‘ کا لقب اختیار کر سکتی ہے جو خدا کے نزدیک محبوب ہو۔ یہ قوم اسلام ہی ہو سکتی ہے جو اگرچہ زمین و آسمان کی وسعتوں میں پھیل کر مہ و انجم کو بھی گرفتار کر لیتی ہے لیکن مرکز پہ ہمیشہ نگاہ رکھتی ہے اس کی تعریف انہوں نے یوں کی ہے کہ ایک تو اس پر خواب و خستگی حرام ہے اور دوسرے وہ خلاق ہے۔ اور یہی دونوں صفتیں اس کی پائیداری اور ابدی بقا کا راز ہے: میان امتاں والا مقام است کہ ایں امت دو گیتی را امام است نیا ساید زکار آفرینش کہ خواب و خستگی بر دے حرام است ٭٭٭ وجودش شعلہ از سوز درون است چو حسن او را جہان چندو چون است کند شرح ’’انا الحق‘‘ ہمت او پے ہر کن کہ میگوید یکون است ٭٭٭ ’’ حق‘‘ کی اس معنوی وسعت کو مزید واضح کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ ’’ انا الحق‘‘ کہنے سے مراد ذات خداوندی کی ہمسری یا خود خدا بن جانے کی خواہش نہیں۔ ان کو اخیر میں اس بات پر زور دینا پڑا کہ اگر ’’ نعرۂ انا الحق‘‘ سے بہرہ اندوز ہونا چاہتے ہو تو دل کو خدا کی یاد سے غافل نہ ہونے دو۔ کیونکہ وہی ہر شے پر حاوی ہے: اگر خواہی ثمر از شاخ منصورؒ بہ دل لا غالب الا اللہ فرو ریز اقبال امت کو اس بلندی پر لانا چاہتے ہیں۔ اسے ایک تندرست اور با جبروت قوم دیکھنے کے متمنی ہیں۔ چنانچہ ایک قابل حکیم کی طرح اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی امراض گناتے ہیں اور علاج بتاتے جاتے ہیں۔ ان کی نظر ہر طرف ہے۔ ایک مقام پہ اسے صوفی و ملا کے دام میں اسیر پا کر اسے تلقین کرتے ہیں کہ مولانا روم سے مخلصی کا طالب ہو۔ کیونکہ انہی کے فیض سے اقبال کی اپنی چشم بصیرت وا ہوئی اور انہی کے پاس وہ آتش ہے جو قلب مسلم کو گرما سکتی ہے۔ دوسری جگہ وہ دیکھتے ہیں کہ وہ نئی نئی آزادی حاصل کر کے وہ اپنے نوجوان شاہ کو خلافت کی خار دار گدی پہ متمکن کرنا چاہتے ہیں، تو ان الفاظ میں درس دیتے ہیں: خلافت، فقر با تاج و سریر است زہے دولت کہ پایاں نا پذیر است جواں بختا! مدہ از دست ایں فقر کہ بے او بادشاہی زود میر است ایک دوسرے مقام پہ خلافت و ملوکیت میں فرق بیان کرتے ہیں: خلافت بر مقام ما گواہی است حرام است آنچہ برما پادشاہی است ملوکیت ہمہ مکر است و نیرنگ خلافت حفظ ناموس الٰہی است تیسری جگہ ادبی اور دماغی تعیش کی ہلاکت سوزی سے قوم کے شعراء اور ادباء اور اس طرح تمام فن کاروں کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ اس چیز سے بچو اور میری طرح قرآن سے نور حاصل کر کے قوم کی طویل اور تاریک رات کو صبح میں تبدیل کر دو۔ شاعر عرب کو خصوصیت سے مخاطب کرنے کی وجہ یہ ہے: نگہدار آنچہ در آب و گل تست سرور و سوز و مستی حاصل تست تہی دیدم سبوئے این و آں را مئے باقی بہ مینائے دل تست ساتھ ہی فرزند صحرا کو تسلیم و رضا خو کرنے کی نصیحت کی ہے اور ترک عثمانی کو افرنگی سیاست کی دلفریبی سے آگاہ کیا ہے اور تہذیب مغرب کی کورا نہ تقلید کے زہریلے نتائج آشکار کیے ہیں۔ اس سلسلے میں دختران ملت کو سختی سے خطاب کیا ہے اور زیادہ زور اس بات پر دیا ہے کہ بعتان فرنگ کی طرح نمائش حسن و جمال کے در پے نہ ہوں بلکہ اس بد آموز، بے نور اور بے سوز عصر سے بالکل الگ رہ کر تعمیر ملت کے لیے کوشاں ہوں۔ اگر پندے زدرویشے پذیری ہزار امت بمیرد تو نہ میری بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری یہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیرو خصوصاً ہندوستان میں برہمن لوگ کس طرح مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کرتے ہیں۔ سادہ لوح مسلمان ان کے فریب میں آ کر مذہب سے بیگانہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے مذہب پر سختی سے کار بند ہو جاتے ہیں ۔ مسلمان جس نوع کی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ بھی انہیں خواہ نگہدار نہیں بنا سکتی، اور ادب تو ان کو چھو تک نہیں جاتا۔ ایسی تعلیم ساری قوی کی روح کو مصلوب کر دیتی ہے۔ اقبال جس تعلیم کے حامی ہیں وہ یہ ہے: بہ پور خویش دین و دانش آموز کہ تا بد چوں مہ و انجم نگینش بدست او اگر داری ہنر را ید بیضا است اندر آستینش ہنر اس کے لیے کہ اس میں رزق پنہاں ہے اور تلاش رزق جدوجہد، طلب اور طپش کا اک بہانہ ہے اور یہی زندگی کا مقصد ہے۔ حضور عالم انسانی میں کم و بیش یہی چیزیں ہیں جن کی تلقین کی گئی۔ خود یقینی اور تخمین وظن سے پرہیز، آرزو اور جدوجہد، آدمیت کا احترام اور دل سے کینہ و نفرت کا اخراج اور گلہ تقدیر سے اجتناب، دل کی دنیا کو سمجھنے کی سعی اور خودی کی پرورش، جبر و اختیار کے تضاد کو بڑی خوش اسلوبی سے واضح کیا ہے: بہ روما گفت با من راہب پیر کہ دارم نکتہ از من فراگیر کند ہر قوم پیدا مرگ خود را ترا تقدیر و ما را کشت تدبیر اور موت کی ارزانی اور خواری کا یہ عالم ہے کہ خود موت کو خدا سے شکایت کرنا پڑی کہ میرشش جہات ہو کر انسان ناموس حیات سے نا محرم ہے اور بڑی جلدی سے اپنی موت قبول کر لیتا ہے۔ اس کی کم ہمتی اور قابل رحم کمزوری کو دیکھ کر ابلیس نے سپر پھینک دی، لڑنے سے انکار کر دیا اور خدا سے کہا: بندۂ صاحب نظر باید مرا یک حریف پختہ تر باید مرا (جاوید نامہ ص ۱۶۰) کہ جس کے ساتھ لڑنے میں کچھ مزا تو آئے۔ مگر وہ ایسے حریف کی انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے اور ابلیس خاکی جو خو داپنے حریفوں کی طرح زبوں حال اور گھٹیا درجے کا ہے۔ اس کے کام کو سر انجام دے رہا ہے۔ اقبال اور ہر مرد تمام اس بات میں اپنی تحقیر سمجھے ہیں کہ ایسے دوں نہاد ابلیس کے ساتھ جنگ آزمائی کی جائے، اس لیے وہ ابلیس تاری کو جو والا مقام ہے اور جو صید لاغر اپنے لیے حرام سمجھتا ہے، لڑائی کی دعوت دیتے ہیں۔ 1؎ 1؎اصیلاں را ہماں ابلیس خوشتر کہ یزداں دیدہ و کامل عیار است بیاتا زد را شاہانہ بازیم جہان چار سو را در گزاریم با افسون ہنر از برگ کاہش بہشتے ایں سوئے گردوں بسازیم ٭٭٭ اقبال کے فلسفہ کی ایک جھلک جناب سید اسمعیل حسن ویلور نوٹ:یہ مقالہ یوم اقبال کی تقریب کے موقعہ پر جناح کلب ویلور میں پڑھا گیا تھا اور برائے اشاعت نیرنگ خیال کو وصول ہوا۔ حضرات! فرنگی تہذیب جہاں کئی حیثیتوں سے ہماری آنکھیں کھول دینے کا باعث ہوئی ہے وہاں بعض حیثیتوں سے ہماری آنکھیں بند کر دینے کا بھی باعث ہوئی ہے۔۔۔۔ Loose Thinking اس تہذیب کی ایک برکت ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو مذہب کی ابجد سے تک واقف ہیں۔ لیکن خطیبانہ انداز میں مذہب پر محاکمے ارشاد فرمانے میں تاویل نہیں کرتے۔ سائنس کی مبادیات تک سے واقف نہیں ہوتے۔ اینسٹائن، مارکونی اور نیوٹن کی بحثیں لے بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ یہ عادت بعض حضرات میںاس قدر نفوذ کر گئی ہے کہ ہر نا اہل جس چیز کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا، محض پروپیگنڈے اور ذاتی شہرت کی خاطر اسے غلط قرار دیتا ہے۔ اعتراض کر دینا آسان ہے لیکن سمجھنے کے لیے طبیعت کو مائل کرنا بہت دشوار ہے۔ Loose Thinking سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کی طرف ہمیں اقبال بلاتا ہے۔ اب شاعری کے متعلق مجھے عرض کر دینے دیجئے کہ وہ محض جذبات کو نت نئے پیرایوں میں پیش کرنے کا نام نہیں۔ یہ شاعری کی صرف ایک شاخ ہے جو قوموں کے لیے چنداں مفید نہیں ہوتی بلکہ ایک درماندہ قوم کے لیے ایک بیکار سی چیز ہے اور توضیع اوقات کا باعث۔ شاعری محض ردیف قافیے کا کھیل بھی نہیں جیسا کہ بد قسمتی سے آج کل سمجھا جا رہا ہے۔ حقیقی شاعری وہی ہے جو نوع انسانی کی زندگی کے ہنگاموں سے قریب تر لائے۔ یہ نہیں کہ انسانوں کو زندگی سے ہٹا کر سکون و جمود کی طرف لے جائے۔ ایک شاعری ہی نہیں بلکہ ہمارے سارے علوم و فنون کا بھی یہی مقصد ہونا چاہیے۔ در حقیقت شعر وہ نغمہ ہے جو سوتوں کو جگا کر انہیں زندگی کے میدان کار زار کی طرف لے جائے اور وہ نغمہ نہیں جو بیدار انسانوں کے حواس پر نیند کا خمار طاری کر دے۔ جن لوگوں نے اقبال کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ حضرت اقبال کو جو کسی زمانے میں عجمی ذوق کے دلدادہ تھے اور قنوطی انداز میں کہہ اٹھتے تھے: کیا تلخ ہے روزگار انساں کوئی نہیں غمگسار انساں اپنی راہ بدلنی پڑی۔ وہ قلم جس سے کبھی ایسے شیریں اور یاس آمیز اشعار نکلتے تھے کہ: گھر بنایا ہے سکوت دامن کہسار میں آہ یہ لذت کہاں موسیقی گفتار میں ہم نشین نرگس شہلا رفیق گل ہوں میں ہے چمن میرا وطن ہمسایہ بلبل ہوں میں شام کی آواز چشموں کی سلاتی ہے مجھے صبح فرش سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے بزم ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند ہے دل شاعر کو لیکن کنج تنہائی پسند آج ایسے باجبروت اور پر سکوہ اشعار پیدا کرتا ہے: تورہ نور و شوق ہے منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول کھویا نہ جا خم کدۂ کائنات میں محفل گداز! گرمی محفل نہ کر قبول لیکن اس زبردست تغیر کا سبب کیا ہے؟ اقبال نے جب یورپ کی حالت کا بہ چشم خود مطالعہ کیا تو تہذیب یورپ کی تاریکی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس کی روشنی بھی محسوس کی، جہاں انہوں نے یورپین اقوام کو مخاطب کر کے کہا: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا وہاں ہندوستان میں شعر گوئی کے خبط کے متعلق سر شیخ عبدالقادر سے کہا: مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے اس کے بعد انہوں نے شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ کر لیا اور سر شیخ کو اس کی اطلاع بھی دے دی۔ لیکن شیخ نے اقبال کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا اور یہ فیصلہ کیا کہ پروفیسر آرنلڈ سے جو اقبال کے استاد تھے اس کے متعلق رائے لی جائے۔ پروفیسر موصوف کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے اقبال کی شاعری کو قوم کے لیے مفید قرار دیا اور مشورہ دیا کہ وہ شاعری کو ہر گز ترک نہ کریں۔ یہاں سے اقبال کی شاعری ایک نیا جنم لیتی ہے۔ لیکن اس سے ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ اقبال محض ایک خشک قومی شاعر ہیں یا فلسفی شاعر ہیں جو سیاست و فلسفہ کے بعض مسائل کو منظوم کر دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ انہوں نے شاعری میں فلسفہ سیاست، تصوف اور دیگر ان تمام چیزوں کو داخل کیا ہے جو نوع انسانی سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن جس امر نے ان کی شاعری کو بین الاقوامی شاعری میں بلند تریں مقام کا مستحق بنا دیا ہے۔ وہ ان کا جوش و خلوص، سوز و درد اور حق گوئی و حق پسندی ہیں۔ اقبال فلسفی سے زیادہ شاعر ہیں اور شاعر سے زیادہ فلسفی۔ میں اس موقعہ پر طول طویل فلسفیانہ مباحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ صرف اس قدر عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ اقبال کے فلسفہ کو سمجھنے کے لیے کافی غور و خوض اور مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہمیں کانٹ، برگساں، وائٹ ہیڈ، الیگزینڈر، ڈارون، ہالڈین، ولیم کار، نیٹشے، گوئٹے وغیرہ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہو گی تو دوسری طرف رازی، غزالی، ابن سینا، ابن حزم، ابن عربی، سہروردی، اشعری، ماتریدی وغیرہ کو جاننا ضروری ہو گا۔ پروفیسر براؤن مصنف ’’ ہسٹری آف پرشین لٹریچر‘‘ جیسے محقق نے اقبال کے فلسفہ کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ انہوں نے اقبال کی تصنیف (The Development of Metaphysics in Persia) کا ذکر کرتے ہوئے یہ رائے پیش کی تھی کہ اقبال کا فلسفہ سخت کوشی نیٹشے کا چربہ ہے۔ لیکن جب براؤن نے مثنوی اسرار خودی کے انگریزی ترجمہ اور ڈاکٹر نکلسن کے مقدمے پر نظر ڈالی تو انہیں اپنی رائے بدلنا پڑی۔ چنانچہ اس کتاب پر ریویوکرتے ہوئے براؤن رقمطراز ہیں کہ وہ لوگ جو اقبال کے فلسفہ کو نیٹشے سے ملاتے ہیں، سخت غلطی کرتے ہیں۔ اقبال کا فلسفہ کیا ہے؟ میں یہاں اس کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ شوپنہار کی قنوطیت اور ہیگل کی مادیت کے وہ سخت دشمن ہیں۔ ان کے نزدیک کامیاب زندگی کا دار و مدار یقین و عمل پر ہے اور زندگی کی حقیقت سخت کوشی میں مضمر ہے۔ رازی کی طرح وہ صرف خشک فلسفیانہ استدلالات کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ عشق کو عقل پر مقدم قرار دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کانٹ کی طرح عقل کو ایک بیکار سی شے نہیں ٹھہراتے، کیونکہ عقل سے ہم کائنات کا خارجی علم حاصل کرتے ہیں۔ یہ خارجی علم علم اشیاء یعنی سائنس ہے جسے بد قسمتی سے آج مسلمان بھلا بیٹھے ہیں۔ اس موقعہ پر اس تبصرے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو اقبال نے یونانی فلسفہ اور تصوف پر کیا ہے۔ یہ یونانی خیالات ہی تھے جن کی وجہ سے مسلمانوں کی ذہنی ترقی پر کاری ضرب پڑی۔ افلاطون کے لیے موت زندگی کا مقصد تھی اور سقراط نے صرف انسان پر اپنی توجہ مرکوز کی اور کائنات سے آنکھ بند کر لی تھی۔ یونانی خیالات نے بتدریج اسلامی تصوف پر ایسا قبضہ جمایا کہ بیجا صبر و قناعت اور دنیا سے کنارہ کشی تصوف کا ایک اہم درس بن گئی۔ مسلمان زندگی سے بھاگنے لگے اور سکون و جمود میں راحت تلاش کرنے لگے۔ جب کسی قوم سے زندگی کی ہائے و ہو رخصت ہو جاتی ہے اور اس پر سکون و جمود طاری ہو جاتا ہے تو اس کا زوال لازمی ہے اور یہی ہوا۔ اقبال کے نزدیک جیسا کہ میں نے آگے بھی عرض کیا ہے۔ سکون کا دوسرا نام موت ہے۔ باطل کے مقابلہ میں صف آرائی اور یقین و عمل ہی وہ چیزیں ہیں جن کی بدولت اقوام ترقی کے مدارج طے کرتی ہیں۔ اس کے برعکس ہندوستان کے ایک بڑے شاعر کو لیجئے۔ میری مراد ٹیگور سے ہے جو سکون میں زندگی کا متلاشی ہے وہ اقبال کی طرح سمندر کے سینے کو چیر کر موتی نکالنے کا خواہشمند نہیں۔ مگر ساحل پر آرام سے بیٹھے رنگین سیپیوں سے کھیلنا چاہتا ہے۔ تعجب ہے کہ ٹیگور کو آجکل فلسفیوں کی صف میں پیش کیا جاتا ہے۔ کیا درماندہ اقوام کو سکون کا سبق دینا وہ شاعری ہی سے کیوں نہ ہو۔ انہیں موت کی نیند سلا دینے کے مترادف نہیں؟ اس کا فیصلہ ہر شخص خود کر سکتا ہے۔ حضرات! یہاں اقبال کے متعلق بعض اعتراضات کو رفع کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے بعض علماء کہتے ہیں کہ اقبال انگریزی تعلیم یافتہ ہے اور اسے مذہب سے کیا غرض۔ اور اسی طرح ہمارے بعض پیر کہتے ہیں کہ اسے تصوف سے کیا واسطہ! حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے زمانہ میں حضرت اقبال سے زیادہ اسلامی معاملات سے باخبر ہستی دنیائے اسلام میں موجود نہیں تھی۔ اس امر کی شہادت ان تمام علماء نے دی ہے جن کے ہاتھوں میں زندہ قوموں کی امامت ہے۔ اب رہا پیروں اور صوفیوں کا اعتراض۔ حضرات! یہ تصوف جدید کے غلط عقائد اور باطل اصول ہی تھے جن کی وجہ سے اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہوئیں۔ ہمارے صوفیوں نے اسلامی اصولوں میں دیدہ دلیری سے انحراف کیا۔ عوام کو دنیا سے کنارہ کشی سکھائی۔ اپنے عیوب اور کمزوریوں کی تاویلیں کیں اور اپنے مریدوں کو گمراہ کیا۔ ان لوگوں کے نزدیک انسان کی خودی کا وجود ہی ثابت نہیں۔ معاملہ یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ یہ حضرات پتھر اور خدا میں تمیز نہیں کر سکتے اور ہمہ اوست کی رٹ لگا رہے ہیں۔ بقول مولانا محمد علی مجھے پھر عرض کرنے دیجئے کہ یہ ہمارے جدید تصوف ہی کی برکت ہے کہ اسلام کو ہندوستان میں روز بد کا سامنا ہوا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے تنزل پر غور کیجئے۔ اکبر اعظم وہ پہلا شخص تھا جس نے سیاسی مصلحت کی بنا پر ویدانت اور تصوف کی آمیزش گوارا کی۔ یہ بیج جو اکبر کے زمانے میں بویا گیا تھا، دارا کے زمانے میں پھل لایا۔ دارا کو اسلامی معاملات سے دور کا لگاؤ بھی نہ تھا۔ وہ ایک عشرت پسند شہزادہ تھا جس نے اپنی Loose Thinking کو مذہب پر مقدم سمجھا۔ ویدانتی عقائد اس کی عیش پسند اور آرام طلب زندگی کے عین موافق تھے اور اس نے پھر وہی اکبر کے عقائد کا پروپیگنڈا کیا جو ایک بار نہیں ہزار بار رد ہو چکے تھے۔ دارا کے بعد اورنگ زیب نے حالات کو بڑی حد تک سلجھایا۔ لیکن وہ شراب جو اکبر کے زمانہ میں پلائی گئی تھی اس کا نشہ اورنگ زیب کا دور ختم ہونے تک کافور ہو جانا نا ممکن تھا اور پھر اورنگ زیب کے بعد کا دور افتراق و انتشار کا دور تھا۔ اب عقیدوں میں تزلزل آنے لگا اور لوگ جاہل پیروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں کی طرح ناچنے لگے۔ لیکن حضرات! ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ اس کے بعد بھی اسلام نے ایسے رتن پیدا کیے جنہوں نے غلط عقائد کا ازالہ کیا اور اپنی عمریں باطل کے مقابلہ میں صرف کر دیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ، حضرت قاسمؒ1؎ شہید دیو بندی اور حضرت سید احمدؒ کے نام اس ضمن میں لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن بحث موضوع سے دور ہو رہی ہے۔ غرض دور حاضرہ کے صوفی اور پیر ٹیگور کے خیالات سے تو پورے طور پر متفق ہو سکتے ہیں لیکن اقبال سے ان کی نبھ نہیں سکتی اور نبھے گی کیسے، جبکہ ہمارے پیروں کے پاس خدا کو پانے کے لیے خودی کو مٹانا ضروری ہے اور اقبال کے پاس اس کے لیے خودی کو سنوارنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ایک حدیث شریف ہے: ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ یعنی خدا کے اخلاق سے اخلاق سیکھو۔ پروفیسر الیگزینڈر نے اسی خیال کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ خدا کو پانے کے لیے ہمیں خود خدا بن جانا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک خدا خود ایک خودی ہے اور یہی وہ اصول ہے جس کی بناء پر اقبال نے تصوف کی عمارت قائم کی ہے۔ اقبال فرد کی اہمیت کا قائل ہے لیکن اس کے ساتھ وہ افراد کی اجتماعی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرتا۔ اپنی خودی کو سخت کوشی کے ذریعہ سے اور سکون جوئی و راحت طلبی سے احتراز کے ذریعہ سے سنوارنا ہر شخص کا فرض ہے اور ایسے اشخاص جن میں سے ہر ایک بجائے خود ایک زبردست خودی کا مالک ہو۔ کسی اسلامی مقصد کی تکمیل کے لیے مل بیٹھیں تو انہیں رموز بیخودی سے واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ قانون خداوندی کے آگے ان کو متفقہ طور پر سر جھکا دینا چاہیے۔ اقبال کے فلسفہ کا ایک ہلکا سا عکس پیش کرنے کے بعد آپ پر واضح ہو گیا ہو گا کہ وہ اقوام کے لیے کیا حکم رکھتا ہے۔ اب رہ گیا اقبال کے متعلق یہ اعتراض کہ وہ وطن پرستی کا دشمن تھا۔ حضرات! اس معاملہ میں بہت سے لوگوں نے اقبال کے متعلق 1؎ مصنف کا سہو قلم ہے مولانا محمد قاسم کا انتقال ۱۵ اپریل ۱۸۸۸ء کا طبعی موت سے ہوا تھا۔ واقعہ کی مناسبت سے یہاں مولوی اسمعیل شہید لکھنا مناسب ہو گا۔ (ادارہ نقوش) دھوکہ کھایا ہے، یہاں کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی ایک دفعہ اوٹ پٹانگ ہانکی تھی حالانکہ پنڈت موصوف نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ انہیں فلسفہ و ما بعد الطبیعیات سے لگاؤ نہیں اور لہٰذا اقبال کو سمجھ نہیں سکتے۔ افسوس تو یہ ہے کہ پنڈت موصوف نے اس عذر کے باوجود اقبال پر رجعت پسندی کا الزام لگایا۔ خود ہی گمراہ نہیں بلکہ اپنی قوم کو بھی گمراہ کیا۔ اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ وطن سے محبت ایک فطری خوبی ہے۔ اس قسم کی وطنیت کے متعلق ان کی نظمیں ہمالیہ، سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا وغیرہ مشہور ہیں لیکن جب انہوں نے یورپ کی وطنیت کا مطالعہ کیا اور ہندوستان ہی میں دیکھا کہ وطنیت کے پردے میں کونسے پروپیگنڈے ہو رہے ہیں، تو کہنا پڑا: اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و کرم اور حضرات! یہ دور حاضرہ کی وطنیت دہریت ہے۔ وطنیت کی عمارت فلارنس کے مشہور سیاستدان مکاولی کے احوال پر قائم کی گئی ہے، جس کی رو سے ایک قوم اپنے وطن کے لیے دوسری قوم کو ہڑپ کر سکتی ہے۔ وطن کے مفاد پر مذہب کو قربان کر سکتی ہے ایمان کو خیر باد کہہ سکتی ہے۔ ضمیر فروشی کر سکتی ہے اور بدترین گناہوں کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ اس وطنیت کے نتائج آج ہم یورپ کی کش مکش میں دیکھ رہے ہیں۔ خدا جانے اس کا آخری نتیجہ کیا ہو۔ وطن کی محبت فطری ہے اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کے پروپیگنڈے کے لیے بالا خانوں پر بیٹھ کر چیخنے کی ضرورت ہو۔ ہندوستان پر ایک نظر ڈالیے، یہاں وطنیت کے نام پر آج کیا ہو رہا ہے؟ ہندی کو رواج دینا وطنیت ہے، کمیونل ایوارڈ کی مخالفت وطنیت ہے، اقلیتوں کے کلچر کو مٹانا وطنیت ہے، اقلیتوں کو ملازمتوں سے دھکیلنا وطنیت ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس سے کوئی اقلیت پستی سے ابھرے، اس کی پر زور مخالفت کرنا وطنیت ہے۔ وطنیت کی مخالفت کوئی نئی چیز نہیں، دنیا کے ہر وسیع المشرب انسان نے اس کی مخالفت کی ہے۔ دانتے اور مارسلین وطن پرستی کو اچھی نظر سے دیکھتے نہ تھے۔ جرمنی کے فوق الفطرت شاعر گوئٹے نے اس کی مخالفت کی ہے۔ نیٹشے کو بھی ہم وطنیت کا حامی نہیں کہہ سکتے۔ گولڈ اسمتھ اسے ذلیل ذہنیت کا کرشمہ قرار دیتا تھا۔ برنارڈ شا اس کا مضحکہ اڑانے میں پیش پیش ہے۔ اسلامی ممالک میں ایک عظیم ترین دل و دماغ والا انسان جمال الدین افغانی تھا، جس نے یورپ کے سیاست دانوں کو اس لیے لردہ بر اندام کر رکھا تھا کہ وہ وطنیت کا جانی دشمن تھا۔ ترکی کے سعید حلیم پاشا کو وطنیت ایک آنکھ بھاتی نہ تھی اور سعد زاغلول پاشا اور مفتی محمد عبدہ وطنیت کے متعلق بری رائے رکھتے تھے۔ پھر ہمارے ہی گھر میں ایک پکا مسلمان تھا۔ میری مراد مولانا محمد علی رحمتہ اللہ علیہ سے ہے، جن کا یہ قول ہمیشہ یاد رہے گا: ’’ خدا نے انسان کو بنایا اور شیطان نے قوموں کو‘‘ حضرات! مسلمانوں کا کوئی وطن نہیں ہے۔ روئے زمین ہمارا وطن ہے۔ وطنیت کے مفاد پر ہم اپنا مذہب، ایمان اور کلچر قربان نہیں کر سکتے۔ پنڈت نہرو کی طرح جو لوگ کہتے ہیں کہ آج کل اسلامی ممالک کا رحجان وطنیت کی طرف ہے وہ سرا سر غلطی پر ہیں۔ایسے ممالک میں جہاں اقلیتیں آٹے میں نمک کے برابر ہوں اور اکثریت مسلمانوں کی ہو۔ ان کی وطنیت اور مذہبیت میں کوئی فرق ہو نہیں سکتا۔ ترکی کو لیجئے، کیا کبھی کمال پاشا نے دوسر ے ممالک کے مسلمانوں کو غیر سمجھا؟ اس نے تو کئی دفعہ اعلان کیا تھا کہ ترکی اپنی پوزیشن مضبوط کر لینے کے بعد اپنے دوسرے اسلامی بھائیوں کی طرف متوجہ ہو گا، کیا اسلامی ممالک کے مابین اتحاد جو کمال پاشا کی سرکردگی میں ہوا تھا، وہ وطنیت ہے؟ ہر گز نہیں۔ حضرات! اگرچہ مجھے اعتراف ہے کہ اقبال کے کلام و فلسفہ کی حقیقت بیان کرنے میں میں نے اپنا پورا حق ادا نہیں کیا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ اقبال کی ایک ہلکی سی جھلک جو میں نے پیش کی ہے، اس بزرگ ترین شاعر و فلسفی کو سمجھنے میں ایک حد تک آپ کی معاون ہو گی۔ خدا حافظ (خاص) ٭٭٭ (مئی ۱۹۴۰ئ) اقبال وٹیگور محمد جمیل احمد بی اے بریلی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ٹیگو رکا شمار ہندوستان کے عظیم ترین شعراء میں ہے اور ان ہند نژاد حضرات میں جو انگریزی میں طبع آزمائی کر رہے ہیں ٹیگور سب سے بلند درجہ کا حامل ہے۔ اگر علامہ اقبال نے اپنی تخلیق شعری و فکر فلک پیما سے فارسی و اردو کی تنگ دامانی میں وسعت پیدا کر دی ہے تو ٹیگو رکے انگریزی شعر و ادب میں کارنامے بھی محو نہیں کیے جا سکتے۔ البتہ اس مختصر فرصت میں علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعرانہ عظمتوں کا مکمل مقابلہ و موازنہ منظور نہیں۔ البتہ گیتا نجلی کے بعض نغمات کا بال جبریل، ضرب کلیم اور زبور عجم کے متحد المعنی یا متفق الجذبہ نغمات کی روشنی میں مطالعہ کر کے ان حضرات کے فرق مراتب کا پتہ لگانا ہے۔ گیتا نجلی ٹیگور کا بہترین ادبی کارنامہ ہے جس پر ۱۹۱۳ء میں ٹیگور کو دنیائے ادب کا بہترین اعزاز نوبل پرائز مل چکا ہے اور گیتا نجلی کا علامہ اقبال سے مقابلہ کرنا، ٹیگور کا اپنی انتہائی عظمتوں کے ساتھ اقبال سے مقابلہ کرنا ہے، برخلاف ٹیگور کے اقبال کا ادبی کارنامہ کسی ایک کتاب سے مخصوص نہیں۔ بانگ درا میں تو ارتقائی مدارج بھی نظر آتے ہیں مگر اس کے بعد کا اقبال ایک مستقل عظمت ایک مستقل بلندی ہے اور اب اس کے مختلف کارناموں میں ایک دوسرے کو ترجیح دینا ایک مشکل امر ہے۔ بال جبریل، ضرب کلیم، زبور عجم میں کونسی کتاب دوسروں پر فوق ہے، اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ ان دونوں فرزندان ادب کی (کتب مذکورہ بالا کی روشنی میں) ما بہ الامتیاز خصوصیات کا ایک بہت مختصر تجزیہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے: (۱) گیتا نجلی میں متشایم نظریہ حیات کار فرما ہے۔ اس کے تمام نغمات میں یاس و نا امیدی کا پہلو غالب ہے، اس کے برعکس اقبال مایوس شاعر نہیں، اس کے یہاں امید و آرزو ہے اور اسی وجہ سے عمل اور ارتقاء ہے، جب انسان یا قوم کی زندگی پر یاس و نا امیدی کا پہلو غالب آ جاتا ہے تو اس کے قواء پر ایک اضمحلال پر ور سکوت چھا جاتاہے جو آگے بڑھ کر فنا آموز ہستی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی قوم دنیا میں زیادہ ترقی نہیں کرتی اور اس کی زندگی زیادہ نہیں ہوتی ہے، البتہ جب دل پر امید و رجاء کا پہلو غالب ہوتا ہے تو قلب کا شانہ آرزو بن جاتا ہے، اور یہی آرزو یہی امید ہے راستہ ہے ترقی و کامیابی کے بام بلند کا، جب دل میں آرزو پیدا ہوتی ہے تو اس کا اظہار ’’ عمل‘‘ کی صورت میں ہوتا ہے اور اسی عمل کا نتیجہ کامیابی و ترقی ہے لہٰذا ٹیگور و اقبال کا یہ فرق جو ظاہراً ایک نہایت معمولی اور چھوٹا سا فرق نظر آتا، نہایت اہم نتائج پر منتج ہوتا ہے محض حیات انسانی کے نظریہ کا یہ اختلاف جہاں قاریان گیتا نجلی کے دلوں میں سکوت موت کی خواہش پیدا کرتا ہے وہاں گدائے کوئے اقبال ترقی کی شاہراہوں پر گامزن ہو کر کائنات کو اپنا غلام بناتے نظر آئیں گے۔ ٹیگور کی با سیات ملاحظہ ہوں: ’’ آہ میری راتیں اس طرح کیوں برباد ہو رہی ہیں؟ آہ کیوں میں ہمیشہ اس کے مشاہدہ سے محروم رہتا ہوں، جس کے تنفس کا اثر میں اپنے خوابوں پر محسوس کرتا ہوں؟‘‘ (نغمہ ۲۶) یا ’’ چراغ ہے لیکن بے نیاز تابش شعلہ اے دل! کیا یہی تیری قسمت ہے، آہ تیرے لیے موت اس سے بدرجہا بہتر تھی۔ ‘‘ (نغمہ ۲۷) یا’’ تو نے موت کو میرا رفیق بنایا ہے او رمیں اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کر کے اس کی عزت افزائی کروں گا۔‘‘ (نغمہ ۵۲) لیکن اقبال کی رجائیت اس کی مستی و عشق میں بھی چھائی ہوئی ہے ملاحظہ ہو: لا پھرا کبار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بیکنار کر (بال جبریل) ٭٭٭ من از فیض تو پائندہ و نشان تو کجاست ایں دو گیتی اثر ماست جہان تو کجاست دل بہ کسے ز باختہ با دو جہاں نہ ساختہ من بحضور تو روم روز شمار ایں چنیں (زبور عجم) (۲) ٹیگور و اقبال دونوں کو اپنے معبود سے عشق ہے لیکن ٹیگور بوقت مناجات و التجا اپنی کوتاہیوں اور اپنی حدود کو نہیں بھولتا، وہ اس کے حضور میں خاکساری برتنے پر مجبور ہے، اس کو اپنے معبود سے راز و نیاز کے وقت بھی اس امر کا شدید احساس رہتا ہے کہ وہ ایک انسان ہے او رانسان کی تمام خامیاں، کمزوریاں اور نا پختہ کاریاں اس میں موجود ہیں۔ اقبال اپنے نغمہ کی مستی و جوش میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ وہ تمام حدود، تمام اصول و قوانین کو بے نیازی سے ٹھکرا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ذہن سے یہ تکلیف دہ احساس محو ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے معبود سے علیحدہ ایک ناکارہ و ناقص انسان ہے،خصوصاً بال جبریل کی پہلی پندرہ بیس غزلیات میں وہ اپنے خدا سے اس طرح گویا ہے جیسے ایک دوست ایک دوست سے ہوتا ہے یا ایک فرزند اپنے والد سے یا ایک عاشق اپنے محبوب سے۔ اور یہاں یہ بالکل ظاہر ہے کہ اقبال عشق کے بلند تر درجہ میں ہے، عشق کے مختلف درجوں میں پہلا درجہ وہ ہے کہ جہاں محب کو اپنی اور محبوب کی انفرادی ہستیوں کے وجود کا شعور اور احساس ہوتا ہے، ٹیگور اسی درجہ میں ہے۔ اس سے بلند تر درجہ وہ ہے کہ جہاں محب اپنی ہستی کو محبوب کی ہستی میں فنا کر دیتا اور پھر اس کے لیے کوئی دنیاوی تکلفات و اصول و قوانین باقی نہیں رہتے، یہ مقام اقبال ہے، ٹیگور کا عشق بستہ حدود و جہات ہے۔ اقبال کا عشق ایک وجدان محض ہے جو انسانی خامیوں کے شعور سے بے نیاز و بالاتر ہے۔ ٹیگور کہتا ہے: ’’ اے بیوقوف! تو اپنے ہی کاندھوں پر لے جانے کی کوشش کر رہا ہے!‘‘ ’’ اے بھکاری! تو اپنے ہی در پر بھیک مانگنا چاہتا ہے اپنے سب کام اور تمام ذمہ داریاں اس کے ہاتھ میں سونپ دے جو سب کچھ کر سکتا ہے اور جو کبھی حسرت سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔‘‘ (نغمہ ۹) اقبال اس تکلیف دہ احساس کے شعور سے آگے بڑھ جاتا ہے: میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یا رب لامکاں تیرا ہے یا میرا؟ تیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانے دونوں کے صنم خاکی، دونوں کے صنم فانی فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا لپا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک (بال جبریل) (۳) ٹیگور کو ابھی تک اپنے خد اکی تلاش ہے اور دنیاوی ترغیبات و مادی کششیں اس کو فریب میں لا کر بادۂ حقیقت سے منحرف کر دینا چاہتی ہیں۔ اقبال اپنے خدا کو پا چکا ہے اور یقین محکم اور ایمان کامل کے ساتھ اس سے عشق کرتا ہے اور اس کے حضور میں اپنے آپ کو تحلیل کر دینا چاہتا ہے، ملاحظہ ہو ٹیگور کی نظم ’’ مسافر‘‘ جو اس کی کتاب ’’ باغباں‘‘ میں شامل ہے۔ ’’ مسافر‘‘ ایک جویائے حق ہے جو اپنے معبود کی تلاش میں جا رہا ہے وہ ایک سرائے میں مقیم ہے،ر ات کا وقت ہے اندر روشنی ہے، آرام و آسائش کے اسباب مہیا ہیں او ربہت سی جوان و خوبصورت عورتیں ہیں، باہر اندھیرا ہے، سنسان و پر خار جنگل ہے، اور ہیبت و خاموشی ہے، مسافر بالکل خاموش ہے اور باہر جانے پر تلا ہوا ہے عورتیں اس کے قدموں کو تھامے رو رہی ہیں اور روک لینا چاہتی ہیں۔ یہ سرائے دنیا اور یہ عورتیں دنیا کی مادی کشش ہیں، اقبال کے لیے یہ کششیں اب باقی نہیں رہی ہیں، اس کے لیے اب غیب و حضور کی تمام قیدیں بھی مٹ چکی ہیں۔ وہ اب محض ایک اضطراب مسلسل ہے اور یہ عشق کا انتہائی مقام ہے: اک اضطراب مسلسل عتاب ہے نہ حضور میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو پلا کے مجھ کو مے لا الٰہ الا ہو (بال جبریل) ٭٭٭ از چشم ساقی مست شرابم بے مے خرابم بے مے خرابم نگاہ جلوہ بدمست از صفائے جلوہ می لغزد تو میگوئی نقاب است ایں، حجاب است ایں، مجاز است ایں پیدا بہ ضمیرم او پنہاں بضمیرم او ایں است مقام او، دریاب مقام دل (زبور عجم) (۴) گیتان جلی میں باوجود لطافت خیال، ندرت ادا، گہرائی وژرف نگاہی کے تنوع نہیں ہے۔ تمام کتاب میں صرف ایک جذبہ، ایک خواہش ساری و طاری ہے۔ اپنے معبود سے ملنے کی تمنا۔۔۔ جو ہزاروں طریق سے ہزاروں جگہ مختلف نغمات میں ظاہر کی گئی ہے، اقبال کے یہاں تنوع بہت کافی حد تک موجود ہے۔ زبان سے قطع نظر اقبال کے یہاں جذبات کا خلوص، تخیل کی نزاکت و بلند پروازی، مضامین کی وسعت و ہمہ گیری، کیفیات کی گہرائی و سچائی اور معافی کی بہتات ٹیگور سے کہیں زیادہ ہے۔ (۵) ٹیگور کی فلسفیت سے کسی کو انکار نہیں، لیکن ٹیگور کا خود اپنا کوئی وضع کردہ فلسفہ نہیں ہے، اس سے بھی کسی کو مجال انکار نہیں ہو سکتی، اس کا دماغ کسی ایک خاص فلسفہ یا مسئلہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔ پروفیسر پیرسن (Pearson) کے الفاظ میں ’’ ٹیگور کا کوئی عقلی و با وثوق فلسفہ نہیں ہے۔‘‘ اقبال کا شمار دنیا کے بزرگ ترین فلسفیوں میں ہے۔ سر طامس آرنلڈ کے الفاظ میں ’’ اقبال مشرقی و مغربی فلسفہ زندگی کا ایک متین و عمیق محقق ہے۔‘‘ اقبال کے کلام میں فلسفہ کو ایک مستقل حیثیت حاصل ہے، اس کا فلسفہ اس کی شاعری سے پہلے آتا ہے، سوانح عمری میں نہیں بلکہ ترکیب ذہنی میں۔ ٹیگور کی شاعری اس کے فلسفہ پر مقدم ہے، اقبال کا فلسفہ اس کی شاعری پر مقدم ہے، ٹیگور سے انگریزی داں طبقہ کی زیادہ واقفیت کی خاص وجہ یہ ہے کہ اس کی زیادہ تر کتابیں یا تو انگریزی میں لکھی گئی ہیں یا بنگالی کا انگریزی میں ترجمہ ہیں۔ اس کے برخلاف اقبال نے اپنے پیغام کی نوعیت کے اعتبار سے اردو فارسی کو بجائے انگریزی کے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے جس سے مغربی اقوام زیادہ واقف نہیں اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوء یہ امر کس قدر تعجب انگیز معلوم ہو گا کہ خود مغرب میں آج اقبال کی شہرت ٹیگور سے بدرجہا زیادہ ہے۔ چنانچہ جرمنی میں ایک بیاض ہندوستانی علم و ادب کے متعلق شائع ہوئی ہے، جس میں مختلف شعراء کے کلام کا انتخاب بصورت ترجمہ موجود ہے، اس میں اقبال کی پانچ نظمیں شامل ہیں اور ٹیگور کی صرف ایک یہاں پر وہ پیغام شاید دلچسپی سے پڑھا جائے گا، جو ٹیگور نے اقبال کی وفات پر دیا ہے۔ ’’ اقبال کی وفات نے ادب میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے، جو ایک مہلک زخم کی طرح مشکل سے پر ہو سکے گا۔ ہندوستان جس کا مرتبہ آج دنیا میں اس قدر پست ہے اس شاعر کی کمی کو مشکل سے برداشت کر سکے گا، جس کی شاعری میں اس قدر ہمہ گیری اور گراں مایگی تھی۔‘‘ ٭٭٭ (ستمبر ۱۹۳۹ئ) اقبال پر بعض فضلا کی حرف گیری کی حقیقت جناب ابو طاہر رشید احمد صابر، ویلور یہ مقالہ یوم اقبال کی تقریب بتاریخ 9 اپریل ۱۹۳۹ء کے موقع پر جناح کلب ویلور میں پڑھا گیا۔ حضرات! اقبال پر لکھنے والوں کو دو حیثیتوں سے تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک وہ جو اقبال کو سمجھتے ہیں او رجن میں سے اکثر اقبال سے نیاز مندانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ اور دوم وہ جنہیں اس شاعر جلیل سے محض خدا واسطے کا بیر ہے۔ موخر الذکر گروہ محض حصول شہرت کی غرض سے اقبال کے خلاف ایک زمانہ سے ہنگامہ آرائی کرتا چلا آیا ہے اور صوبوی تعصب کو ابھار کر ہر قسم کی گندگی اچھالنے میں اس نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن اب جبکہ اس گروہ کو محسوس ہو چکا ہے کہ ہر کہیں اقبال کا بول بالا ہے تو اس نے ایک نئی چال چلی ہے، یہی حضرات جو کہ کل تک اقبال کے خلاف زہر اگلنا فرض سمجھتے تھے آج بزرگانہ انداز میں اقبال کے قصیدے پڑھتے پھرتے ہیں، لیکن اس انداز سے اقبال کی بزرگی کے ساتھ اپنی بھی عظمت کا سکہ عوام کے دلوں پر بیٹھ جائے۔ ان حضرات کی علامگی کا تو یہ حال ہے کہ وہ یونانی، لاطینی، رومی، ایرانی، عربی، جرمنی کے مشاہیر کے ناموں اور انگریزی ترکیبوں اور اصطلاحوں کے من گھڑت اور غلط اردو ترجموں کے بغیر بات تک بھی نہیں کر سکتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بے محل کسی بڑے نام کو لینے سے اور بے موقعہ اس کی زندگی کے کچھ حالات بیان کر دینے سے عوام پر رعب گانٹھا جا سکتا ہے، مضمون نگار صاحب تو کسی عربی رسالے، انسائیکلو پیڈیا یا کسی لال بجھکڑ انگریز کی کتاب سے بغیر حوالے کے مضامین چرا لیتے ہیں، بلکہ جوں کے توں حاشیہ کے ساتھ نقل کر لیتے ہیں، مگر ناواقف لوگ سمجھتے ہیں کہ پرانے مشاہیر میں سے کوئی قبر پھاڑ کر دوبارہ روئے زمین پر آ گیا ہے اور موٹے موٹے ناموں اور جغادری ترکیبوں کی مدد سے بالکل سمجھ میں نہ آنے والی حقیقتوں کو بیان کر رہا ہے اور علوم و فنون کے جواہر اور موتی رول رہا ہے۔ سبحان اللہ کیا وسیع مطالعہ ہے اور کتنا گرانڈیل علم و فضل۔ عبدالمالک صاحب آروی کے مقابلے ہی کو لیجئے جو حال میں ہم تک پہنچا ہے اور جس میں صاحب موصوف نے اقبال کی شاعری پر روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے، عنوان ہے اقبال کی شاعری، لیکن آپ بحث کرتے ہیں اپنے علم و فضل سے سوانح عمری لکھتے ہیں۔ شوپنہار کی، الجھ رہے ہیں انجمن ترقی اردو کے مولوی عبدالحق صاحب سے۔۔۔ گویا یہ مقالہ کیا ہے اچھا خاصہ بھان متی کا پٹارہ ہے۔ اول تو اس مقالے کو مقالہ کہنا ہی مقالے کی توہین کرنا ہے لیکن اس سے قطع نظر ہم مالک صاحب کی چند فاش فاش غلطیوں کی طرف صرف اشارہ کر دینا کافی سمجھتے ہیں تاکہ ارباب علم اندازہ کر سکیں کہ کن مقاصد کے پیش نظر یہ مقالہ لکھا گیا ہے اور کس حد تک صاحب مقالہ نے اقبال کے نام پر اپنی علمیت کا پروپیگنڈا کرنے اور علم و ادب کے مشاہیر کی تذلیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بے محل موشگافیاں ابتدائی صفحات میں مالک صاحب نے مسرت محسوس کی ہے کہ ہندوستان بھر میں اقبال ڈے منایا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں انہیں بھی کچھ کہنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اردو شاعری کے ادوار کے متعلق آزاد، قائم اور صغیر کی رائے پیش کی ہے، ان سب بزرگوں سے انہیں اختلاف ہے، بہت خوب، لیکن اس ضمن میں انہیں کیا سوجھی کہ خواہ مخواہ انجمن ترقی اردو کے مولوی عبدالحق صاحب سے الجھ پڑے اور بے وجہ ان پر اپنے دلی غم و غصہ کا اظہار کر ڈالا؟ جس انداز میں انہوں نے آزاد، صغیر اور قائم کی رائیں پیش کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی کوئی رائے لے کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ لیکن اخیر میں فرماتے ہیں: اس وقت اس کا موقع نہیں کہ اردو شاعری کی صحیح تقسیم کر کے بتایا جائے کہ اس پر کتنے ادوار گزرے۔ اور یہ کہ دور اول کے متعلق آزاد کی رائے ساقط الاعتبار ہے۔ غالباً صغیر اور آزاد کی رائے نقل کر کے بے محل اردو کے تمام شاعروں کے ناموں سے صفحات کو بھر دینے کے بعد انہیں محسوس ہو گیا کہ اپنی رائے پیش کرنا اس سے بھی 1؎ محل ہو گا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بے محل اور بے جوڑ سی باتیں ٹھونسنے میں مالک صاحب کو کمال حاصل ہے۔ مثال کے طور پر صفحہ ۱۲ بر طالب آملی کے متعلق معتمد خاں کی روایت اور قائم چاند پوری کے متعلق اپنی رائے اور صفحہ ۱۳ پر خاقانی کے متعلق ایک قصہ ہا لکل بے محل ہیں، شاید اس سے اپنی فارسی دانی کا پروپیگنڈا ملحوظ خاطر ہو۔ صفحہ ۱۴ پر فرماتے ہیں:’’ خود یورپ نے عربی اور فارسی شعراء سے سیکھا، جرمنی کو اس سلسلے میں امتیاز حاصل ہے‘‘ لیکن یورپ پر عربی اور فارسی شعراء کے اثرات دکھانے کی بجائے فرماتے ہیں:’’ فریڈرک روکرٹ نے نلدمن کا سنسکرت سے ترجمہ کیا۔ ویلہم وان شیگل نے گیتا کا اصل نسخہ سنسکرت میں مرتب کیا وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی بے ترتیبیوں اور بے محل باتوں سے مقالہ بھرا پڑا ہے۔‘‘ تحقیقی غلطیاں غالباً مالک صاحب سمجھتے ہیں کہ موضوع سے ہٹ کر بے محل تذکروں اور ناموں سے صفحات کو پر کر لینا۔۔۔ شان تحقیق کو دوبالا کرنا ہے، لیکن پورے مقالے میں جہاں کہیں انہوں نے نقل نویسی سے ہٹ کر اپنی رائے تحقیقی انداز میں پیش کرنے کی جرأت کی ہے، وہاں بری طرح ٹھوکر کھائی ہے۔ انہوں نے پروفیسر میک ڈوگل کی نفسیات کا بار تذکرہ کیا ہے اور اقتباسات بھی درج کیے ہیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ نفسیاتی منہاج سے آنکھیں بند کر کے محض مجرد و اقعات سے توڑ مروڑ کر منطقی نتائج نکال لینا، ریسرچ یا تحقیق کی توہین کرنا ہے۔ صفحہ۱۱ پر فرماتے ہیں، اقبال ہمارے دور کے شاعر ہیں اور شعور و ذوق کے لحاظ سے اسی عہد کی پیداوار ہیں۔ بنا بریں ہمیں ان کے کلام میں تنقیدی نظر ڈالنے میں کچھ زیادہ وقت بھی نہیں، کیونکہ ظن و خیال کے مقابلہ میں ہمارے سامنے مشاہدات کی دنیا ہے۔ ’’ اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مالک صاحب اپنے ’’ ناقدانہ اور محققانہ‘‘ دعوؤں کے باوجود محض ظن و خیال ہی سے کام لیتے ہیں اور انہیں نفسیاتی منہاج کی ہوا تک نہیں لگی۔‘‘ اس ضمن میں بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ’’ خطاب بہ نواب حمید اللہ خاں‘‘ میں اقبال نے طالب آملی کا مصرعہ: ’’کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند‘‘ لیا ہے تو فوراًمالک صاحب یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اقبال کی فارسی شاعری پر طالب آملی کا اثر پڑا ہے۔ لیکن اس کے متعلق انہیں کچھ تذبذب بھی ہے فرماتے ہیں: ان کی شاعری پر زبان فارسی کے اور ہندی اور ایرانی شعراء کا بھی اثر پڑا ہے، مثلاً حافظ و صائب، طالب آملی اور بیدل کا کلام بھی ان کے زیر مطالعہ رہا ہے۔ ’’ اس دو رخی رائے سے آپ چاہیں یہ نتیجہ نکال لیجئے کہ اقبال پر طالب آملی کا اثر پڑا ہے یا یہ کہ طالب کا کلام اقبال کے زیر مطالعہ رہا ہے، اسی طرح صائب و بیدل کے مصرعے اگر اقبال نے کہیں لیے ہیں تو مالک صاحب فرماتے ہیں کہ اقبال پر ان لوگوں کا بھی اثر پڑا ہے، آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے ’’ لانگ فیلو کی اخلاقیات، ورڈ سورتھ کی صوفیانہ نگارش، کیٹس کی عشقیہ اور دلفروش آہنگ۔۔۔ نے اقبال کو اثر پذیر کیا۔‘‘ لیکن ان سب ہوائی باتوں کی بنا صرف یہ ہے کہ اقبال ادبیات یورپ کا عالم ہے، اس امر سے کسی کو انکار ہو نہیں سکتا کہ فارسی شعراء میں رومی و سنانی کا اثر اقبال پر پڑا ہے ۔ لیکن مالک صاحب اس خیال کو یوں اخذ کرتے ہیں کہ اس نظم کے سلسلہ میں اقبال ایک جگہ لکھتے ہیںـ: حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در بطحا آخری مصرعہ سنائی کا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیقہ ان کے زیر مطالعہ رہا ہے۔‘‘ یہ تحریر مالک صاحب کی نفسیات کی مظہر ہے۔ اگر سنائی کا ایک مصرعہ درج کر دینا اس امر کی دلیل ہے کہ حدیقہ اقبال کے زیر مطالعہ رہا ہے تو بے محل ہی کیوں نہ ہو، کئی شاعروں اور فلسفیوں کے نام گنا دینا کیا اس امر کی دلیل نہیں کہ مصنف کے زیر نظر ان تمام شعراء اور فلسفیوں کے کارنامے رہے ہیں اور مصنف ایک بڑا ہمہ داں علامہ ہے؟ ذرا آگے بڑھیے تو صفحہ ۲۱ پر ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ محض اس لیے کہ یورپ میں اقبال کی نکلسن کی ملاقات رہی ہے، نکلسن ہی کی تحریک سے اقبال نے رومی کا مطالعہ شروع کیا۔ اسی صفحہ ۲۴ پر اشاد ہوتا ہے:’’ اقبال نے بیدل کا مطالعہ کیا ہے اور ممکن ہے کہ انہوں نے اس کی تقلید و تتبع کی سعی کی ہو، لیکن اس کے آثار ان کے کلام میں نظر نہیں آتے۔‘‘ یہ سب محض اس لیے کہ اقبال نے بیدل کا ایک شعر ایک جگہ نقل کیا ہے کہ:‘‘ دل اگر می داشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود صفحہ ۲۱ پر گہر فشانی کی گئی ہے کہ ’’ ڈاکٹر نکلسن نے اسرار خودی کے مقدمے میں اس کا تذکرہ کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف سے کیمبرج میں ملاقات رہی ہے اور اس لیے قرینہ غالب ہے کہ نکلسن ہی کی تحریک سے اقبال نے رومی کا مطالعہ شروع کیا، کیونکہ نکلسن اس سے پہلے رومی کے متعلق بڑی کاوش کر چکے تھے، کیا اس قسم کے وہم و گمان کو تحقیق اور تنقید کے نام سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟‘‘ مالک صاحب نے ایک اور شوشہ بھی چھوڑا ہے کہ گو اقبال نے ابن عربی اور ابو العلائے معری کے حوالے اپنے کلام میں دیے ہیں، لیکن انہوں نے عربی کی طرف توجہ نہیں کی اور عربی ادب کا ان پر اثر نہیں پڑا اور ابن عربی کا علم انہیں ڈاکٹر نکلسن ہی سے ہوا ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے علمی و تحقیقی بے مایگی کے ساتھ انہیںاپنے زمانے کے واقعات کا بھی علم نہیں اور نہ اقبال کی زندگی کے حالات کا وہ یہ نہیں جانتے کہ اقبال کیمبرج میں عربی کے پروفیسر رہ چکے ہیں اور انہیں اس بات کا علم نہیں کہ حماسہ اور اقبال کی شاعری میں کس حد تک مناسبت موجود ہے۔ تحقیقی موشگافیوں میں فاضل مصنف ’’ اقبال کی شاعری‘‘ کی ایک اور نادانی بڑی دلچسپ ہے۔ یہ امر ادبی دنیا سے پوشیدہ نہیں کہ سرقہ یعنی ادبی چوری مالک صاحب 1؎، نیاز صاحب فتح پوری، مجنوں گور کھپوری صاحب وغیرہ مشاق واقف ہوئے ہیں، معلوم نہیں کن وجوہات کی بنا پر مالک صاحب اپنی کمپنی کے ایک رکن کو پکڑوا دینے پر تل بیٹھے کہ تئیسویں صفحہ میں انہوں نے علی الاعلان کہہ دیا کہ مجنوں صاحب کی کتاب متعلقہ ’’ شوپنہار اور اس کا فلسفہ چوری کا مال ہے‘‘ فرماتے ہیں: ’’ یہ کتاب تمام تر مس و ٹیکر کی تلخیص و ترجمہ ہے، ابواب و عنوانات بھی انہوں نے اسی سے اخذ کیے ہیں۔‘‘ لطف یہ ہے کہ پوری کتاب میں مجنوں صاحب نے ٹامس و ٹیکر کا حوالہ نہیں دیا، خیر اب ذرا آگے چلیے تو مالک صاحب فرماتے ہیں کہ:’’ ٹامس وٹیکر کہتا ہے کہ شوپنہار مزاج کے اعتبار سے قنوطی واقع ہوا تھا اور اس خیال کو ’’ مجنوں صاحب نے دہرا دیا۔‘‘ مجنوں صاحب نے سرقہ کیا بھی تو عقلمندی کے ساتھ لیکن مالک صاحب گویا عقل کے پیچھے لٹھ لیے بھاگ رہے ہیں، ارشاد ہوتا ہے ’’شوپنہار نہ یکسر قنوطی تھا اور نہ مرفہ الحالی اس کی قنوطیت کے منافی تھی۔‘‘ لیکن اس دعوے کی تائید میں مالک صاحب کے پاس شوپنہار کا کوئی نوشتہ اعلان موجود نہیں اور نہ ہی وہ شوپنہار کے کارناموں کو نفسیاتی حیثیت سے پرکھ کر یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں، ان کی ایک دلیل اور از حد پھسپھسی دلیل یہ ہے کہ جب شوپنہار ۱۷ سال کا تھا تو اس کے باپ نے خود کشی کر لی۔ ۱۳ سال بعد اس نے ’’عالم بہ حیثیت تصور‘‘ کی تصنیف کی جو اس کے باپ ہی کے نام سے معنون ہوئی اس کتاب میں قنوطیت نمایاں ہے اور ’’ اس کتاب کے پہلے حصے ’’ عالم بہ حیثیت تصور‘‘ کو پڑھنے کے بعد وٹیکر کو غلط فہمی ہو گئی کہ وہ قنوطی تھا اور یہ مجنوں صاحب نے اس کی رائے دہرا دی۔‘‘ یہ سب سہی لیکن مالک صاحب کے پاس امر کے لیے کون سی دلیل موجود ہے کہ شوپنہار ذاتی حیثیت سے قنوطی نہیں تھا یا یہ کہ وہ نہ یکسر قنوطی تھا اور مرفہ الحال؟ وہ تو محض ہوا سے لڑ رہے ہیں اور منطق سے جھگڑ رہے ہیں۔ غلط بیانیاں اس کے قبل آپ نے دیکھا ہے کہ فاضل مصنف مقالہ نے کس طرح اقبال پر لانگ فیلو اور ورڈ سورتھ کے اثر کا حکم 1؎ اس علمی بحث میں دوسرے ادباء پر حملہ کرنا بے موقع اور نا مناسب ہے۔ (ایڈیٹر) لگایا تھا معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی شاعری سے مصنف کو کوئی واسطہ نہیں، کیونکہ اقبال میں شیلے اور بائرن کی ایک جھلک تو ضرور پائی جاتی ہے، جس کی طرف انہوں نے اشارہ بھی نہیں کیا۔ اسی طرح صفحہ ۱۶ پر ارشاد ہوتا ہے: ’’ اقبال یورپ کے قدیم و جدید فلسفہ سے متاثر ہیں۔ انہوں نے اسپینوزا، افلاطون، نطشہ اور ہیگل کا مطالعہ کیا ہے۔‘‘ مالک صاحب نے مطالعہ کا لفظ ان معنوں میں استعمال کیا ہے کہ اقبال کے فلسفہ پر ان تمام مشاہیر کا ثر ہے۔ فاضل مصنف سے ہم فلسفہ دانی کی توقع نہیں رکھ سکتے، لیکن کیا انہوں نے کبھی اقبال کی فارسی تصانیف کا مطالعہ کرنے کی زحمت بھی گوارا فرمائی؟ سنیے علامہ اقبال فلاطون کے متعلق فرماتے ہیں: راہب دیرینہ افلاطوں حکیم از گروہ گو سفندان حکیم اور ہیگل کے متعلق ارشاد ہوتا ہے: حکمتش معقول و با محسوس در خلوت نہ رفت گرچہ بکر فکر او پیرایہ پوشد چوں عروس طائر عقل فلک پرواز او دانی کہ چیست؟ ماکیاں کز زور مستی خایہ گیرد بے خروس آخر ہیگل اور افلاطون کے فلسفہ کو اقبال سے نسبت کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، صفحہ ۲۶ پر گل فشانی فرماتے ہیں: ’’ یونان کے مشہور فلسفی اسپینوزا کا بھی یہی خیال ہے کہ زندگی کی حقیقت ایسی ہی ہے جیسے تاریکی میں ایک چنگاری کا جلوہ گریز پا، اقبال نے یہ خیال یہیں سے لیا ہے۔‘‘ اول تو یہ خیال اسپینوزا کی طرف منسوب کرنا جو زندگی کو سب کچھ سمجھتا تھا، نا واقفیت کی معراج ہے، پھر ایمسٹر ڈیم، واقعہ ہالینڈ کے یہودی فلسفی اسپینوزا کو یونان کا مشہور فلسفی قرار دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ عبدالمالک آروی صاحب کو کوئی عبدالمالک ٹمبکٹوئی کہہ دے۔ صفحہ ۱۶ پر رقم طراز ہیں: ’’ آج بھی ہندوستان کو یہ فخر ہے کہ اس کے موجودہ قومی شاعر کی نظم کا یورپ کی زبان میں ترجمہ ہوتا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ اقبال سے ناواقفیت کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟ اقبال کی ایک نظم ہی نہیں بلکہ کتابوں کی کتابوں کا ایک انگریزی زبان ہی کیا قریب قریب تمام یورپی اور ایشیائی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں اقبال کی تعلیمات کی اشاعت کے لیے سوسائٹیاں قائم ہو چکی ہیں، کیا مالک صاحب نے سنا بھی نہیں کہ جرمنی زبان میں پیام مشرق کا ترجمہ ہو چکا ہے اور مسولینی نے اسرار خودی کا اطالوی زبان میں ترجمہ کرا کے مدارس کے نصاب میں داخل کر دیا ہے؟ جرمنی کے ہانسی ماٹنکے، ڈاکٹر فشر، ڈایشو روسو، اٹلی کے اسکاریہ، امریکہ کے میکنزی، انگلستان کے ڈاکٹر اسپوز اور دیگر روسی اور فرانسیسی فاضلوں وغیرہ نے اقبال کی مختلف نظموں کا ترجمہ کیا ہے اور اس کی شاعری، فلسفہ وغیرہ پر مقدمے اور مضامین شائع کیے ہیں۔ یہ تو آٹھ نو سال قبل کے واقعات ہیں، خدا جانے اب تک یورپ کی کن کن زبانوں میں اور کتنے تراجم اقبال کے شائع ہو چکے ہیں۔ پھر کیا مالک صاحب دیدہ و دانستہ واقعات کو جھٹلا رہے ہیں یا انہوں نے صرف اتنا سنا ہے کہ ڈاکٹر نکلسن نے اسرار خودی کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے (جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے) صفحہ ۲۸ پر مالک صاحب فرماتے ہیں: ’’ اقبال جب اسلامی شاعری پر اتر آتے ہیں تو بعض اوقات ان کے اندر ایک سخت قسم کا فرقہ وارانہ رحجان پایا جاتا ہے جس کو جہاد فی سبیل اللہ تو کہہ سکتے ہیں، لیکن شعر نہیں کہہ سکتے۔‘‘ معلوم نہیں مالک صاحب کے تخیل میں شعر کیا بلا ہے اور فرقہ وارانہ رحجان کون سا بھوت۔ یہ اعتراض خدایان کانگرس اور ان کے بندوں کی زبان پر جاری ہے اور مالک صاحب نے بلا دلیل ان کی تائید کر کے ان پر واقعی بہت بڑا احسان کیا ہے، اب تو بہار میں ایک اچھی خاصی کانگرسی گورنمنٹ قائم ہے جس کی نیشنلزم (یعنی ہندو کمیونزم) پر اخباروں کے صفحوں کے صفحے سیاہ نظر آتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ وہاں جو کچھ سلوک ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں خدا کرے مالک صاحب کو احسان کا معقول معاوضہ مل جائے۔ آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے۔ وہی شاعر جو حکیم سنائی کے الفاظ میں گرفتہ چینیاں احرام و ملکی خفتہ در بطحا کو قیامت سے تعبیر کرے عملی دنیا میں اس قدر تن آسان اور عافیت کوش بن جائے کہ اس کو حق و باطل میں کوئی تمیز نہ ہو، اقبال کے اس تضاد فکر و عمل پر حامیان آزادی نے خوب خوب پھبتیاں اڑانی ہیں؟ جس طرح کہ فاضل مولف کو ادب و فلسفہ سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود محض موٹے موٹے ناموں سے اپنے اپنے حاضرین کو مرعوب کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اسی نظریہ سیاست، حامیان آزادی جیسے الفاظ کی آڑ میں انہوں نے اقبال کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے، اور ممکن ہے کہ اپنی سیاسی عریانی کو ڈھانپنے کی کوشش کی ہو، حاضری سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج کل آزادی کا مفہوم کیا ہے اور خدایان کانگرس کسی معنی میں اس لفظ کو اچھال رہے ہیں، یہی حال خدایان کانگرس کے بندوں کا ہے، جو نادانستہ اپنے آقاؤں کی تال پر ناچتے چلے جا رہے ہیں۔ مالک صاحب کی غلط بیانیوں کے لامتناہی سلسلہ میں سے اب ہم صرف ایک غلط بیانی کو پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، یہ غلط بیانی ان کا شاہکار ہے اور ان کی متعصب ذہنیت پر دال ہے آگے ہم دیکھ چکے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اردو کے ایک بہت بڑے محسن مولوی عبدالحق صاحب قبلہ سیکرٹری انجمن ترقی اردو پر ایک بے بنیاد سوقیانہ حملہ کیا تھا۔ اب انہوں نے اردو کے ایک اور محسن اعظم حضرت سر شیخ عبدالقادر صاحب مدیر مخزن کو بھی بلا وجہ گالیاں دی ہیں اور انہیں تنقید سے ناواقف وغیرہ بھی قرار دیا ہے، فرماتے ہیں عبدالمالک صاحب: ’’ عبدالقادر صاحب فرماتے ہیں کہ اقبال داغ کے شاگرد ہیں اور داغ کے تلمڈ نے اقبال کی زندگی پر اثر ڈالا ہے۔ خود داغ نے اقبال جیسے شاگرد پر فخر کیا ہے جس کا تذکرہ عبدالقادر صاحب سے خود حیدر آباد میں داغ نے کیا تھا۔ عبدالقادر نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ داغ کے تلمیذ نے اقبال کی ادبی زندگی پر اثر ڈالا ہے۔ اقبال اور داغ کے تعلقات پر انہوں نے صرف بانگ درا کے دیباچہ میں خامہ فرسائی کی ہے اور یہاں انہوں نے صرف اتنا عرض کیا ہے کہ اقبال داغ کو کبھی کبھی اپنا کلام بغرض اصلاح روانہ کرتے تھے اور داغ اقبال پر فخر کرتے تھے۔ لیکن ہمارے مالک صاحب نے محض سر شیخ عبدالقادر پر زبان طعن دراز کرنے کے لیے خود ہی مفروضے گھڑ لیے ہیں اور اس پر شیخ صاحب کو گالیاں دینے کے بعد فرماتے ہیں:‘‘ ’’ ذوق تنقید بالکل دوسری شے ہے، یہ قدرت کا عطیہ ہے جس کو مل جائے۔‘‘ سچ ہے یہ عطیہ مالک صاحب اور ان کی منڈلی کو حاصل ہے۔ تنقید کی آڑ میں رکیک اور ناشائستہ حملے کرنے والے نام نہاد نقادوں کو کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے؟ غلط اصطلاحات آج کل بعض حضرات کا دستور ہے کہ وہ عام سے عام لفظ اور اصطلاح کے بازو انگریزی کا مرادف بھی درج فرما دیتے ہیں تاکہ انگریزی سے نا واقف لوگوں پر اپنی انگریزی دانی کا رعب قائم ہو سکے، نیم خواندہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ حضرات اصطلاحات گھڑ گھڑ کر اردو کو مالا مال کر رہے ہیں، حالانکہ یہ اصطلاحات ان حضرات کے عہد طفولیت سے مستعمل چلی آتی ہیں، لیکن ایک آدھ دفعہ جب یہ بزرگ اصطلاح وضع فرمانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ نہایت مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ اصطلاح کے مفہوم سے وضع کردہ اصطلاح کو بہت دور کا تعلق ہوتا ہے اور بس Psychological Hedonisom مالک صاحب نے اس Psychological Hedonism کا ترجمہ ’’ نفسیاتی اجتہاجیت‘‘ کیا ہے حالانکہ ’’ نفسیاتی لذتیت‘‘ ایک زمانے سے مستعمل ہے Transcental Ideiolism کو انہوں نے ’’ لطیف تھوریت‘‘ لکھا ہے جو بالکل غلط ہے، یہاں ’’ فوق العقلی عینیت‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح تخلیقیقت کے بازو Originally اور تخلیق کے بازو Productive لکھا ہے حالانکہ لفظ ’’ تخلیقیت‘‘ سے ان اصطلاحات کو بہت دور کا رشتہ ہے۔ Productive کا صحیح ترجمہ ہے پیدا آور اور ’’ تخلیقی‘‘ کا ترجمہ ہے Creative اور تخلیقیقت کا Creativity آگے چل کر Suggesfibility کو مالک صاحب نے ’’ تبعیت‘‘ لکھا ہے جو مضحکہ خیز ہے، یہاں اثر پذیری ہونا چاہیے تھا دنیا جانتی ہے کہ Imagination سے مراد متخیلہ ہے، لیکن مالک صاحب ضد کرتے ہیں کہ ’’ مصورہ‘‘ ہے، کوئی کہاں تک انہیں سمجھائے۔ فلسفیانہ شاعری اقبال کی فلسفیانہ شاعری پر بھی مالک صاحب نے لکھا ہے۔ لیکن جو کچھ لکھا ہے اس سے اقبال کے فلسفہ اور شاعری کا بہت کم تعلق ہے، جتنے فلسفیوں کے نام انہیں مل سکے۔ وہ سب انہوں نے نہایت دیانت داری کے ساتھ اناپ شناپ ٹھونس ڈالے غالباً انہوں نے فلسفیانہ شاعری سے بحث کرنے سے قبل حاضرین کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ فلسفہ ہے کیا چیز؟ اور فلسفہ سمجھانے سے قبل انہوں نے یہ سمجھانا ضروری خیال کیا کہ فلسفہ کی ایک تاریخ بھی ہوتی ہے، پھر اس تاریخ سے بحث کرنے کے لئے انہوں نے محسوس کیا کہ اس تاریخ کے ہیروؤں کے نام گنائے جائیں، چنانچہ فلسفیوں کے نام اور ان کی تواریخ پیدائش و وفات لکھنے میں نہ پائے تھے کہ مرغ سحر نے بانگ دے دی اور سارا قصہ ختم شد، جب انسان میں سمجھ بوجھ کا مادہ نہیں ہوتا اور ساتھ ہی اسے علامہ کہلانے کا شوق چراتا ہے تو اس سے کچھ ایسی ہی بے ترتیبیاں سر زد ہوتی ہیں۔ موضوع ہے اقبال کی فلسفیانہ شاعری لیکن مالک صاحب جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں قدرت کے خاص ہاتھوں سے تنقید کا عطیہ حاصل ہوا ہے، بحث کرتے ہیں شوپنہار کے حالات زندگی سے ابیقورس، افلاطون وہیگل کی تعلیمات سے نقل کر رہے ہیں۔ یونانی اور عربی فلسفیوں کی تواریخ پیدائش و وفات کا نام لیتے ہیں، انغرا غورس، دیا غنوس اور امفید اسلس کے محض نیم خواندہ حضرات کو مرعوب کرنے کے لیے کوئی مالک صاحب سے پوچھے کہ آخر اقبال کے فلسفہ کو ان مجہول ناموں سے نسبت ہی کیا؟ جب وہ کہتے ہیں کہ اسرار خودی اور پیام مشرق دونوں میں یورپ کی تقلید موجود ہے تو اس پر کون بے اختیار ہنس نہ پڑے گا، قابل رحم ہے ان حضرات کی حالت، جو محض یہ سن لینے پر کہ علامہ رحمتہ اللہ علیہ نے پیام مشرق گوئٹے کے دیوان کے جواب میں لکھی ہے اور اسرار خودی کا ترجمہ نکلسن نے کیا ہے اندھا دھند دونوں کے متعلق یہ حکیم لگا دے کہ یہ یورپ کی تقلید ہے اور اس خیال سے کہ ’’ بال جبریل ایک عرصہ کی طویل زاویہ نشینی کا نتیجہ ہے۔‘‘ آنکھ بند کر کے کہہ اٹھے کہ یہ ادبی حیثیت سے خوب ہے، معلوم ہوتا ہے کہ مالک صاحب اقبال کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں، البتہ یہ سچ ہے کہ اقبال کے فلسفہ کا نام انہوں نے کہیں سے سنا ہے اور اسی طرح اسرار خودی، پیام مشرق اور بال جبریل کے متعلق وہم و گمان سے کام لیا ہے اور ضرب کلیم کا وقت نظر سے مطالعہ کر ڈالنے کے باوجود محض عنوانات وہ سمجھ سکے ہیں، پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ تنقید قدرت کا عطیہ ہے جو انہیں کسی گلی کوچہ میں پڑا مل گیا، اور جس سے مولوی عبدالحق صاحب اور سر شیخ عبدالقادر صاحب جیسے بزرگ محروم ہی رہے۔ سبحان اللہ! اقبال کے فلسفہ میں زندگی اور موت کا موضوع ایک ادق موضوع ہے، جس پر کچھ لکھنا آسان نہیں، بد قسمتی سے مالک صاحب نے فلسفیانہ شاعری کے عنوان میں صرف اسی کو انتخاب کیا ہے، کچھ اس لیے کہ ضرب کلیم میں ’’ مقصود‘‘ کے عنوان سے انہیں چند اشعار مل گئے کہ ان دو اشعار کے خیالات کو علامہ اقبال نے اسپینوزا اور افلاطون سے منسوب کیا ہے۔ فلسفیوں میں اسپینوزا اور افلاطون دو ہی ایسے فلسفی ہیں جن کے حالات کے متعلق مالک صاحب کو نقل نویسی میں آسانی معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ فوراً سے پیشتر انہوں نے تبرک کے طور پر دونوں ’’ فلاسفہ‘‘ کے کچھ حالات بیان کر دیے ہیں، اور اس ضمن میں خواہ مخواہ بیچارے ہیگل کو بھی گھسیٹ ڈالا ہے، اشعار ہیں: اسپینوزا: نظر حیات پہ رکھتا ہے مرد دانشمند حیات کیا ہے؟ حضور و نور و سرود افلاطون: نگاہ موت پہ رکھتا ہے مرد دانشمند حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود اقبال:ـ حیات و موت نہیں التفات کے قابل فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود چونکہ موضوع تھا فلسفیانہ شاعری، اور پھر اقبال کی۔ اس لیے فاضل مصنف کو چاہیے تھا کہ وہ حیات و موت کے متعلق اقبال کے فلسفیانہ نکتے کو سمجھاتے کہـ: فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود لیکن انہوں نے اسپینوزا اور افلاطون کے حالات زندگی تو نقل کر ڈالے ہیں اور اقبال سے یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا ہے: ’’ اقبال نے یہ خیال کہاں سے لیا ہے، اس پر یہاں بحث کرنے کا موقعہ نہیں، ان کی شاعری کا مرکزی پیام احساس خودی ہے، انسان کو چاہیے کہ اپنی ہستی کو پہچانے۔‘‘ فلسفہ کے علاوہ مالک صاحب نے تصوف پر بھی دو چار وار چلائے ہیں۔ صفحہ ۵۵ پر اقبال کا یہ شعر کہ: انجام خرد ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری درج فرمانے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: یہاں ہمیں اقبال سے اختلاف ہے، انہوں نے صوفیہ کے والہانہ انداز میں عقل کو حضور کے منافی سمجھا اور فلسفہ چونکہ عقل کی ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے، اس لیے حقیقتہً فلسفہ نام ہے زندگی سے دوری کا، درآنحالیکہ فلسفہ طرازیوں ہی نے اقبال کو ایک غیر فانی زندگی بخشی۔ اگر فاضل مصنف اقبال کے فلسفہ کو سمجھ سکتے اور اس کے ساتھ ہی انہیں تصوف میں تھوڑا کچھ دخل ہوتا تو اس طرح بہ بانگ دہل اپنی نا واقفیت کا اعلان نہ کر بیٹھتے، اقبال کا اشارہ اس فلسفہ کی طرف ہے جو قلب کا منکر ہے اور جس کے پائے چوبیں میں کوئی لچک موجود نہیں۔ اقبال کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اس کا فلسفہ محض نظری نہیں بلکہ از سر تا پا عمل ہے، اور یہی وہ انوکھا پن ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے بڑے بڑے فلسفی اقبال کے آگے پانی بھرتے ہیں، اقبال کے فلسفہ کو اس خشک فلسفہ سے کیا نسبت، جس کا انجام بے حضوری ہے لیکن فاضل مصنف چونکہ اقبال کے فلسفہ سے واقف نہیں اور ساتھ ہی یورپ کے مختلف نظام ہائے فلسفہ کورے ہیں، جن کی اساس محض خشک خرد پر ہے، اس لیے دونوں میں تفریق نہیں کر سکتے۔ اقبال ایک زبردستی فلسفی ہی نہیں بلکہ ایک عمیق نظر رکھنے والے صوفی بھی ہے، جس کی نظیر شاید ہی مل سکے۔ اس کی شاعری اور خصوصاً فلسفیانہ شاعری میں بے حضوری فلسفہ یعنی خشک دماغ ہر گز موجود نہیں، لیکن حضوری فلسفہ یعنی صحیح دماغ یا دوسرے الفاظ میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو قلب سے تعلق رکھتی ہیں، اگر دماغ اور قلب یعنی محسوسات اور مدکات اور صوفیانہ واردات کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے فاضل مصنف نفسیات کی مدد لے سکتے تو وہ یہ معلوم کر کے حیران رہ جاتے کہ ’’ حضور‘‘ میں کس طرح ’’ خرد‘‘ معدوم ہو جاتی ہے۔ اکابرین صوفیہ نے ’’ عقل‘‘ کو’’ حضور‘‘ کے منافی ایسی حیثیت سے سمجھا تھا، اقبال نے کبھی اس خرد کی مخالفت نہیں کی جس کی مدد سے ہم دنیا کی طاقتوں کی تسخیر کر سکتے ہیں بلکہ اس نے استقرائی علم یعنی علم اشیاء کے حصول پر ہمیشہ زور دیا ہے عقل کے نیک پہلوؤں کا وہ حامی ہے اور برے پہلوؤں کا جو ہمیں زندگی سے دور ہٹاتے ہیں وہ دشمن ہے۔ عقل اندر حکم دل یزدانی است چوں زدل آزاد شد شیطانی است غرض ارباب علم پر اب یہ روشن ہو گیا ہو گا کہ مالک صاحب کا مقالہ کتنی حیثیتوں سے کمزور ہے اور کن اغراض و مقاصد کے ماتحت لکھا گیا ہے، افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے خواہ مخواہ اردو کے سرپرستوں اور محسنوں (شیخ عبدالقادر اور مولوی عبدالحق) کو بدنام کرنے کی کوشش ہے اور اسی طرح اقبال کے خلاف دبی زبان سے معاندانہ پروپیگنڈا کیا ہے اور کہیں کہیں اس سلسلے میں رکیک او رناشائستہ حملے بھی کیے ہیں، اس کے ساتھ ہی صوبوی تعصب کو ابھارنے کی ناپاک کوشش بھی اس مقالے میں موجود ہے۔ صفحہ ۶۵ پر اقبال کو گوئٹے کی طرح Representative Poet قرار دے کر لکھا ہے کہ دوسرے چھوٹے چھوٹے شعراء کو اس کے گرد جمع کیا جا سکتا ہے اور جوش اور ساغر کو اقبال کا خوشہ چیں ٹھہرایا ہے، لیکن حافظہ کی کمزوری سے دوسرے ہی پیراگراف میں فرماتے ہیں: ’’ پنجاب نے اقبال اور یوپی نے جوش و ساغر پیدا کیے، بہار بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہا، وہ بجا طور پر ڈاکٹر عظیم و جمیل، شمس و ارمان پر فخر کر سکتا ہے۔‘‘ اول تو اقبال کے مقابلہ میں ان چھوٹے چھوٹے شاعروں کو کھینچ لانا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا، پھر اقبال کو پنجاب سے منسوب کر کے بہار کے چھوٹے چھوٹے شعراء پر فخر کرنا صوبوی تعصب کی بدترین مثال ہے۔ مالک صاحب کے مطابق: ’’ جوش پر وطنی ماحول اور مرکزیت زبان نے بہت اثر کیا ہے اور اس لحاظ سے اپنے استاد اقبال سے بھی آگے ہیں۔‘‘ اے کاش! فاضل مصنف جانتے کہ زبان ہے کیا چیز تو مرکزیت کا یہ ڈھونگ رچا کر جوش کی رسوائی کا سامان پیدا نہ کرتے،ا ور وہ سمجھتے کہ شگفتگی ہے کس چڑیا کا نام! تو وہ یہ لکھنے کی جرأت نہ کرتے کہ: ’’ جوش کے کلام میں شگفتگی و نشاط اب بھی اقبال سے زیادہ ہے۔‘‘ مالک صاحب امید کرتے ہیں کہ: ’’ ایک زمانہ ایسا آئے گا جبکہ جوش کا کلام اقبال سے بھی زیادہ سنگین حقیقت او رگہری معنویت کا حامل ہو گا، کیونکہ جوش کے کلام میں شگفتگی و نشاط اب بھی اقبال سے زیادہ ہے۔‘‘ نہیں معلوم کہ شیفتگی و نشاط کو سنگین حقیقت سے کیا تعلق ہے، کہاں سنگین حقیقت اور جوش کا ہنگامی کلام۔ اگر مالک صاحب امید یا پیش گوئی کرنے کی بہ جائے دعا فرماتے تو یہ زیادہ موزوں ہوتا، اور ان کی ’’ ناقدانہ قابلیت‘‘ یوں آشکارا نہ ہوتی۔ خدا حافظ ٭٭٭ (اپریل ۱۹۴۰ئ) اقبال پر ایک اعتراض کا جواب سید ذوالفقار علی نسیم بی اے رسالہ وشوا بھارتی اگست تا اکتوبر ۱۹۴۰ء میں ڈاکٹر پی ٹی راجو صاحب شاستری ایم اے، پی ایچ ڈی نے اقبالیات کی تصوریت (Idealism of Iqbal) کے عنوان سے انگریزی میں ایک طویل مضمون سپرد قلم فرمایا ہے جس میں علامہ اقبال پر متعدد اعتراضات وارد کیے ہیں۔ سالنامہ میں ان اعتراضات کے جواب شائع کرنے کی گنجائش نہیں ہے اگر ہو سکا تو ان کو علیحدہ کتابی شکل میں شائع کر دیا جائے گا فی الحال راجو صاحب کے ایک ہم اعتراض کا جواب شائع کرنے پر ہی اکتفا کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر راجو صاحب لکھتے ہیںـ: ’’ اگرچہ اقبال کے نزدیک کائنات جواہر محض (سالمات) سے مرتب ہے اور آخری یا اساسی جوہر سے نکلی ہے وہ وحدت وجود کا منکر ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ جب حقیقت کو کاشف ذات یا خود افشا (Self Revealing) کہا جائے اور خدا کے لئے نور کا استعارہ استعمال کیا جائے تو اس سے خدا کی مطلقیت مراد لینی چاہیے نہ کہ اس کا ہر شے میں نفوذ (Omnipersence) کیونکہ ایسی توجیہ وحدت وجود کی طرف ہم کو آسانی سے لے جاتی ہے۔ خدا مکانی لا محدودیت کے معنی میں لا محدود نہیں ہے۔ اس کی لا محدودیت اس کی تخلیقی فعلیت کے لا محدود باطنی پر مشتمل ہے اور کائنات خدا کے متقابل نہیں ہے، یا بالفاظ دیگر کائنات خدا سے علیحدہ بھی نہیں اور خدا اور کائنات حیات خداوندی کے ادراک کے ذہنی ڈھنگ ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ کائنات ذات باری تعالیٰ کا اہم جزو ہے۔‘‘ ڈاکٹر راجو صاحب کا اس اعتراض سے مطلب یہ ہے کہ اقبال کائنات اور اس کے خدا کے ساتھ تعلق کی نسبت متضاد باتیں کہہ گئے ہیں۔ یعنی ایک جگہ تو وہ کائنات کو خدا کی تخلیقی فعلیت کا جزوی مظہر قرار دیتے ہیں اور دوسری جگہ یہ کہتے ہیں کہ کائنات خدا سے علیحدہ نہیں ہے بلکہ اس کا ایک اہم جزو ہے۔ جب کائنات کو خدا کا ایک اہم جزو مان لیا جائے تو پھر وحدت وجود لازم آتی ہے مگر اقبال وحدت وجود کے قائل نہیں۔ راجو صاحب کا اعتراض ہے کہ: ’’ جب خدا اور کائنات میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں ایک ہی شے کے ادراک کے دو مختلف طریقے ہیں تو کیا پھر خدا کا نفوذ ہر شے میں نہیں ہے اور اس لیے خدا علیم کل (Omniscent) نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اگر خدا ہر ایک شے کو ایک ’’ مسلسل اب‘‘ (Eternal Now) میں گرفت کر سکتا ہے تو کیا کوئی شے اس کے علم سے ماورا ہو سکتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ان خیالات میں ہم آہنگی پیدا نہیں کر سکے اور وحدت وجود سے بچنے کے اضطراب میں اس ناہم آہنگی کو نظر انداز کر گئے ہیں۔ وحدت وجود سے بچنے کے لئے خدا کو اس کے علم کل سے محروم کرنا ضروری نہیں۔ جس دلیل کی بنا پر خدا کے علیم کل ہونے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اس دلیل کی بنا پر ’’ مسلسل اب‘‘ یا ابدی آن کے نظریہ سے انکار کرنا پڑے گا۔‘‘ اس اعتراض کو صحیح طور پر سمجھنے او اس کا صحیح جواب دینے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ معترض اور اقبال کی اصل انگریزی عبارتیں نقل کر دی جائیں۔ راجو صاحب لکھتے ہیں: When Reality is decribed as self revealing and the metaphor of light is applied to god, Iqbal tells us that it should be taken to suggest the abseluteness of god and not his omnipressence which easily lends itself to pantheistic interpretation god is not inflinite is the sense of special infinity. his infinity consists of the infinite inne possibilities of his creative activity of which the universe as human to us, is only a partial expression But at Known to us, is only a Partial expression But as the same time Iqbal Maintains that the universe is no other to god and that god and the universe as known to us is only a partial expression. But at the same time Iqbal maintains that the universe is no other to god and that god and the universe are only Intellectual modes of apprehending the life of god. but this means that the universe is part and parcal of God... However if there is really no difference between god and the world and the two adr only two diffrent modes of Apprehending the same thing, is not god all presersive and so amni scient. افسوس ہے کہ راجو صاحب اس غلطی میں گرفتار ہو گئے، جس سے بچنے کے لئے اقبال نے زیر نظر موضوع پر بحث کرتے ہوئے چند سطر میں اوپر (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ) متنبہ کر دیا تھا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقبال اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات خدا سے علیحدہ قائم بالذات شے نہیں ہے اور نہ ان دونوں میں کوئی بعد مکانی موجود ہے لیکن راجو صاحب نے اس سے جو یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ خدا اور کائنات حیات خداوندی کے ادراک کے دو مختلف طریقے ہیں، غلط ہے۔ اقبال نے یہ کہیں بھی نہیں کہا بلکہ وہ تو کہتا ہے کہ کائنات کو ایسی حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا جو قائم بالذات ہے اور خدا کے متقابل ہے۔ اقبال کے اصل الفاظ یہ ہیں:ـ We have seen before that space time and matter are interpretations which thought part on the free creative engery of God. they are not independent realities existing perse but only intellectual modes of apprehending the life of God. ترجمہ:’’ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ مکان یا زمان اور مادہ خدا کی تخلیقی توانائی کی توجیہہ ہیں جو ذہن نے خدا کی آزاد تخلیقی توانائی پر عائد کی ہیں۔ یہ آزاد حقائق نہیں ہیں جو از خود موجود ہیں بلکہ حیات خداوندی کے ادراک کے مختلف طریقے ہیں۔‘‘ اقبال کی عبارت میں لفظ They کا اشارہ زمان و مکان اور مادہ کی طرف ہے نہ کہ خدا کی طرف پس جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ چونکہ اقبال کے نزدیک خدا اور کائنات میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے خدا کا نفوذ ہر شے میں ہے، پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ اقبال نے یہ نہیں کہا کہ خدا اور کائنات میں کوئی فرق نہیں۔ راجو صاحب کو اقبال کے ان الفاظ سے کہ کائنات خدا سے علیحدہ قائم بالذات شے نہیں ہے۔ دھوکا ہوا ہے اور انہوں نے نہایت تعجیل کے ساتھ یہ کہہ دیا ہے کہ اقبال کے نزدیک کائنات اور خدا میں کوئی فرق نہیں۔ اگر راجو صاحب اقبال پر یہ اعتراض وارد کرتے ہیں تو وہ فرمائیں کہ شریمد بھگوت گیتا کے ان دو شلوکوں کے متعلق ان کی کیا رائے ہے۔ ان کا باہمی تضاد کیونکر دور ہو گا۔ ’’ اے دھنجیا مجھ سے ماورا۔ میرے اوپر یا مجھ سے بڑھ کر قطعاً کچھ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ مجھ پر اس طرح بنا ہوا ہے جس طرح دھاگے پر موتی‘‘ (ادھیائے، شلوک) ’’ اور جان لو کہ تمام اشیاء جن میں ستوار جس اور تمس کی صفات ہیں۔ وہ یقینا مجھ سے ہیں۔ میں ان میں نہیں ہوں وہ مجھ میں ہیں۔ ‘‘ (ادھیائے ۷ شلوک ۱۲) دراصل یہ تضاد بیانی نہیں ہے ذرا سمجھ کا پھیر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک خدا اور کائنات میں کیا تعلق ہے۔ اقبال کے نزدیک کائنات کی تخلیق سے متعلق تمام دینیاتی بحثیں اصل میں ہمارے محدود ذہن کی تنگ نظری کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔ ہمار امحدود ذہن فطرت کو ایک ایسی متقابل چیز سمجھتا ہے، جو از خود موجود ہے اور جس کا علم تو وہ حاصل کر سکتا ہے۔ مگر ا س میں تصرف نہیں کر سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تخلیق کو ایک مخصوص گزشتہ حادثہ یا واقعہ تصور کرتے ہیں اور دنیا کو ایک ایسی بنی بنائی چیز سمجھتے ہیں جس کا اپنے بنانے والے کے ساتھ اب کوئی تعلق نہیں رہا اور بنانے والے کی حیثیت محض تماشائی کی سی رہ گئی ہے۔ اس طرح تو کائنات حیات الٰہی میں محض ایک حادثہ بن کر رہ جاتی ہے۔ دراصل کائنات کا وجود ذات خداوندی کے اس حیثیت سے متقابل نہیں ہے کہ کائنات کا کوئی علیحدہ خارجی وجود ہے اور ان دونوں میں کوئی مکانی بعد موجود ہے کیونکہ خدائی زاویہ نگاہ سے کسی چیز کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں چیز کی تخلیق پہلے ہوئی اور فلاں چیز کی بعد میں خدائی وقت اور ہمارے وقت میں کوئی مناسبت نہیں۔ یہاں یہ موقعہ نہیں ہے کہ اقبال نے وقت یا زمان کے متعلق جو نظریہ قائم کیا ہے اس پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے۔ یہ نظریہ برگسان کے نظریہ زمان سے ایک قدم آگے ہے۔ اقبال برگسان کی مانند حقیقت کو زمان خالص تسلیم کرتا ہے جس کا ادراک داخلی واردات میں ڈوبنے کے بغیر نہیں ہو سکتا اور جس میں ماضی، حال، مستقبل کی کوئی تمیز نہیں۔ وہ ایک مسلسل اب ہے جو زمان و مکان سے بے نیاز ہے: کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحب ہوش اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش خدا کی زمان وہی ہے جس کے متعلق شری کرشن مہاراج فرماتے ہیں: ’’ جو برہما کے ایک دن کو ایک ہزار یگ کے برابر اور برہما کی ایک رات کو ایک ہزار یگ کے برابر جانتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو دن رات (کی حقیقت) کو جانتے ہیں ‘‘ (ادھیائے شلوک ۸ شلوک ۱۷) ہمارا زمان چونکہ مکان سے وابستہ ہے اس لیے ہمارا محدود ذہن اس زمان میں ماضی، حال، مستقبل کی تمیز پیدا کر دیتا ہے چونکہ خدائی زمان خالص میں ماضی، حال اور مستقبل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس لیے خدائی زاویہ نگاہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں چیز پہلے پیدا ہوئی اور فلاں چیز بعد میں۔ ورنہ کائنات کو ایک قائم بالذات حقیقت قرار دینا پڑے گا جو خدا کے متقابل موجود ہے دراصل کائنات میں ایک آزاد تخلیقی حرکت ہے۔ موجودی طبیعات نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام اشیاء کی اصل حرکت ہے۔ دنیا کا پرانا مادی نظریہ اس سے ختم ہو چکا ہے۔ پس کائنات ایک تخلیقی حرکت ہے اور حقیقتاً خدا کا ایک فعل مسلسل، جس کو ہمارا ذہن تعداد اور کثرت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ گویا کائنات کی مثال اس لکیر کی سی ہے جس کی کشش ابھی جاری ہے۔ سہ پہلو ایں جہان چون و چند است خرد کیف و کم اورا کند است جہان طوسی و اقلیدس است ایں پے عقل زمین فرسا بس است ایں زمانش ہم مکانش اعتباری است زمین و آسمانش اعتباری است مجو مطلق دریں دیر مکافات کہ مطلق نیست جز نور السموات حقیقت لازوال و لا مکاں است مگو دمگیر کہ عالم بے کراں است کران او درون است و بروں نیست درونش پست و بالا کم فزوں است ابدرا عقل ما ناسازگار است یکے از گیرد دار او ہزار است حقیقت را چو ماصد پارہ کردیم تمیز ثابت و سیارہ کردیم خرد در لا مکاں طرح مکاں بست چو زنارے زماں را بر میاں بست زماں را در ضمیر خود ندیدم مہ و روز و شب و سال آفریدم یکے را آں چناں صد پارہ دیدیم عدد بہر شمارش آفریدم کہن دیرے کہ بینی مشت خاک است دمے از سرگذشت ذات پاک است دوران خالص کا اظہار لفظوں کے ذریعے سے بڑا مشکل ہے کیونکہ الفاظ و زبان کی ساخت بھی تو اتری زمان (Serial time) کے تحت ہے۔ اقبال نے اس دوران کو ایک مثال کے ذریعے سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ طبیعات کے جاننے والوں کو معلوم ہے کہ سرخ رنگ کا احساس ہم کو حرکت موجی کی تیزی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس حرکت موجی کا تعدد چار سو کھرب فی سیکنڈ ہوتا ہے۔ اگر اس تعداد کا شمار ہم خارجی طور پر بحساب دو ہزار فی سیکنڈ کریں تو ہم کو اس کے پورے شمار میں چھ ہزار سال سے بھی زیادہ مدت لگ جائے گی لیکن یہ ایک واقعہ ہے کہ سرخ رنگ کو محسوس کرنے میں ہمیں آن واحد سے بھی کم عرصہ لگتا ہے اور ارتعاشات کی اس بے شمار و لا تعداد کثرت کو ہم ایک لحظہ کے اندر اپنی گرفت میں لے آتے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اگر ہم تخلیق کے عمل کا ذہبی تجزیہ کرنا چاہیں تو شاہد ہزاروں سال میں بھی ختم نہ ہو اگر دوسرے زاویہ نگاہ سے اس کو دیکھیں تو یہ ایک غیر منقسم عمل ہے جو پبلک جھپکنے کے اندر اہتمام پا جاتا ہے۔ اسی دوسرے زاویہ نگاہ سے خدائی وقت یا دوران خالص کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس خدائی وقت کا انکشاف صرف انسان کے شعوری تجربہ کی گہرائی میں ہو سکتا ہے ۔ اس کی حیثیت ایک عضوی کل کی ہے جس میں ماضی حال کے ساتھ وابستہ رہتا ہے اور مستقبل پہلے سے ایک باندھے ہوئے منصبوے کی حیثیت میں موجود نہیں ہوتا، بلکہ کھلے امکان کے طور پر موجود رہتا ہے۔ اس کو قرآن نے تقدیر بھی کہا ہے اگر آپ اس نظر سے کائنات کو دیکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ خدا کا نفوذ ہر شے میں نہیں ہے یعنی وہ بقول راجو صاحب منفوذ کل (All pervesive) نہیں ہے بلکہ محیط کل (All Inclusive) ہے۔ اقبال کے اس نظریہ سے کائنات خدا کا فعل مسلسل ہے۔ یہ اعتراض خود بخود اٹھ جاتا ہے کہ اقبال کے نزدیک خدا اور کائنات میں کوئی فرق نہیں اور یہ اعتراض بھی دور ہو جاتا ہے کہ اقبال کے نظریہ میں خدا اور کائنات ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں۔ اقبال کے نزدیک ذات باری کائنات سے متعمل بھی ہے اور متصل بھی چونکہ کائنات خدا کا ایک فعل مسلسل ہے اس لحاظ سے وہ خدا کے متقابل نہیں ہے۔ ان معنوں میں خدا کائنات سے متصل ہے اور چونکہ یہ فعل خدا کی مخلوق ہے اس لیے خدا نہیں ہو سکتا ان معنوں میں خدا کائنات سے منفعل ہے اقبال کے نزدیک خدا اور کائنات میں وہی تعلق ہے جو بیج اور اس سے پیدا شدہ درخت میں ہے۔ بیج کو آپ درخت نہیں کہہ سکتے اور نہ درخت کو بیج قرار دے سکتے ہیں۔ بیج اپنی ذات کے لحاظ سے درخت سے بالکل علیحدہ چیز ہے۔ لیکن اپنی شان نمود و ظہور کی حیثیت سے درخت سے علیحدہ بھی نہیں ہے بعینہ خدا اس کائنات سے ماورا ہے۔ مگر بایں ہمہ وہ اس کائنات کا صورت گر ہے۔ خدا کائنات نہیں نہ کائنات خدا ہے۔ جس طرح بیج ایک حقیقت ہے خدا بھی ایک حقیقت ہے، اور جس طرح درخت بیج کا حقیقی مظہر ہے اسی طرح کائنات خدا کا ایک حقیقی مظہر ہے جس طرح درخت بیج کا ایک فعل ہے اسی طرح کائنات خدا کا ایک فعل ہے پس درخت اور کائنات اپنی اپنی جگہ بیج اور خدا کے مظاہر حقیقی ہوتے ہوئے بیج اور خدا سے علیحدہ نہیں ہیں۔ خدا اگر انا یا ایغو ہے تو کائنات بھی انا یا ایغو ضرور ہے لیکن خدائی انا اور کائناتی انا میں وہی تعلق و فرق ہے جو بیج اور درخت کے باہمی تعلق و فرق میں پایا جاتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ اگر خدا ہر ایک شے کو ایک ’’ مسلسل اب‘‘ کے اندر گرفت کر سکتا ہے تو کوئی چیز اس کے علم سے بعید نہیں ہو سکتی۔ اس اعتراض کے سلسلے میں راجوصاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اقبال نے اس طرح علیم کل ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن یہ درست نہیں اور فی الواقع کوئی چیز خدا کے علم سے بعید نہیں۔ دراصل راجو صاحب کا مطلب اس اعتراض سے یہ ہے کہ اگر کوئی چیز جو عالم مستقبل میں ہے اور جس کا ظہور ابھی نہیں ہوا وہ بھی خدا کے علم میں ہے۔ تو پھر انسان پر اس کے اعمال کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ ہو گا اس کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے راجوصاحب کا اعتراض درست ہے لیکن یہ ایسا اعتراض ہے جو الٹا راجو صاحب پر وارد ہوتا ہے آپ وحدت وجود کے قائل معلوم ہوتے ہیں اور وحدت وجود کے ماننے والوں پر بھی یہی بڑا اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ اگر انسان اور خدا یا خالق و مخلوق میں کوئی فرق نہیں تو پھر انسانی افعال کی ذمہ داری انسان پر عائد نہیں کی جا سکتی اور نہ خیر و شر کی تمیز کسی طرح برقرار رہ سکتی ہے۔ اس لیے خدا کو اقبال اس طرح علیم و خبیر تسلیم نہیں کرتے جس طرح وحدت وجود کے ماننے والے تسلیم کرتے ہیں۔ اقبال کے نظریہ دوران خالص کو بخوبی سمجھ لینے کے بعد یہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوتا اوپر بیان ہو چکا ہے کہ خدا کے علم میں مستقبل ایک کھلے امکان کی حیثیت سے موجود رہتاہے یہ نہیں کہ آنے والے واقعات و حوادث پہلے سے ہی متعین کر دئیے گئے ہیں کہ وہ ایک ایک کر کے عدم کے تھیلے سے باہر نکلتے آتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال برگسان کے نظریہ دوران خالص سے اپنی الگ راہ پیدا کرتے ہیں۔ وقت کی اس حقیقت کو جسے اقبال نے پیش کیا ہے سامنے رکھا جائے تو یہ اعتراض خود بخود اٹھ جاتا ہے البتہ یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اگر مستقبل کو خدا کے علم میں کھلے امکان کے طور پر تسلیم کیا جائے تو خدا پر ایک قسم کا تعین اور پابندی ہو جاتی ہے اور اس کی آزادی اور مطلقیت پر قید لگ جاتی ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بے شک درست ہے مگر یہ پابندی یا قید خدا پر خارجی طور سے کسی نے نہیں لگائی بلکہ یہ اس کی اپنی تخلیقی آزادی سے پیدا ہوئی ہے۔ پس خدا کی تخلیقی حیات کے عضوی کل یعنی Organi Whole میں مستقبل یقینا موجود رہتا ہے لیکن اس کی موجودگی ایک کھلے امکان کے طور پر ہوتی ہے نہ کہ حوادث کی ایک مقررہ ترتیب کے ساتھ جس کا متعین خاکہ پہلے سے ہی تیار کر دیا گیا ہو۔ مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ آپ کے دماغ میں ایک نہایت نتیجہ خیز خیال پیدا ہوتا ہے آپ اس خیال کے مختلف الاجزا کل سے تو فوراً واقف ہو جاتے ہیں لیکن اس کی تفصیلات کو ذہنی طور پر حل کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ وجدانی طور پر اس خیال کے تمام امکانات آپ کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں اگر کوئی مخصوص امکان ایک مخصوص وقت میں آپ کو معلوم نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے علم میں نقص ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی اس کے جاننے کا امکان نہیں ہے بڑھتے ہوئے تجربہ کے ساتھ اس خیال کے حل کے امکانات آپ پر منکشف ہوتے جاتے ہیں اور بعض اوقات تو ان امکانات کے پورا ہونے میں مفکرین کی پوری ایک نسل کام آ جاتی ہے۔ (سالنامہ فروری ۱۹۴۴ئ) ٭٭٭ اقبال اور عصر حاضر کی سیاسی تحریکات جمیل احمد ایم اے بریلوی شاعر مشرق کی شاعری پر اس وقت تک کئی کتابیں اور مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک عصر حاضر کی سیاسی تحریکات کے متعلق اقبال کی رائے پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اقبال کی شاعری کے سیاسی پہلو پر ہم کچھ لکھتے میں نے کوشش کی ہے کہ اس ضرورت کو پورا کر سکوں۔ اس میں میں نے اقبال کے کلام سے وطنیت، بین الاقوامیت، اشتراکیت، فسطائیت، جمہوریت اور ملوکیت پر اشعار کو علیحدہ علیحدہ کر کے ان پر ہلکی سی تنقید بھی کی ہے اور آخر میں ہندوستان اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی موجودہ سیاسی کش مکش کے متعلق اقبال کی رائے اور سکیم بیان کی ہے۔ وطنیت اور بین الاقوامیت علامہ اقبال شروع شروع میں وطنیت کے بہت دلدادہ تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے پہلے دور میں قومی ترانہ لکھا۔ اس کے علاوہ کئی ایک نظمیں لکھیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اس وقت موجودہ زمانہ کی اصطلاح کے مطابق ’’ وطن پرست‘‘ تھا۔ وہ آزادی وطن کا حقیقی طور پر خواہشمند تھا۔ لیکن ۱۹۰۵ء سے پیشتر ہندوستان سیاسی طور پر بہت کم سن تھا۔ آزادی وطن کا نام لینا انتہائی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ خود بڑے بڑے سیاسی رہنما جو آج کل برطانوی ملوکیت کے سب سے بڑی دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ اس وقت برطانوی حکومت کی تعریف و توصیف کرتے تھے۔ اقبال اس وقت جب ایسی فضا کو دیکھتا تھا کہ اس کے دل میں تو آزادی وطن کی آتشیں خواہش موجود ہے لیکن قائدین ملت اس کی آواز کو برداشت نہیں کر سکتے تو کہا: اس چمن میں مرغ گائے نہ آزادی کے گیت آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے وہ میدان عمل میں کود پڑا اور اپنے آتشیں افکار سے ہندوستان کو زندہ کر دیا۔ اسی دور میں اس نے ترانہ ہندی لکھ کر وطن سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا۔ مثلاً: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا اس کے علاوہ اسی ترانہ میں ہندوستان کی ندیوں دریاؤں اور پہاڑوں کی تعریف کی اور اس دور میں صدائے درد کے عنوان سے ایک نظم کہی جس میں ہندوستان کے مختلف فرقوں کے باہمی تنازعات پر افسوس کا اظہار کیا۔ ملاحظہ ہو: سر زمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں اس کے بعد تصویر درد کے نام سے ایک نظم کہی۔ اس میں اقبال نے تمام سیاسی کیفیت بیان کر دی آزادی کے خواہشمندوں کی کمی اور پھر آزادی کا لفظ منہ پر لانا اپنے آپ کو پابند سلاسل کرنا تھا۔ اس وقت اقبال نے کہا کہـ: یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری پھر علامہ اقبال نے حکومت پر جو تفریق پیدا کر کے حکومت کرنے کا الزام ہے۔ اس پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ مثلاً: نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گلچیں تری قسمت میں رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں پھر قوم کو ان الفاظ میں بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے: وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنیوالی ہے تری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر زمیں پر تو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں پھر عزم کرتا ہے کہ وہ ہندوستانیوں کو متحد کر دے گا۔ پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا پھر نیا شوالہ وغیرہ نظمیں کہیں اس دور میں اقبال صحیح الفاظ میں وطن کا پجاری تھا۔ گو بعد میں اسے اکثر افسوس ہوتا تھا کہ اس نے کیوں تنگ دلانہ وطنیت کی تبلیغ کی اس مسئلہ کو ہم بعد میں واضح کریں گے۔ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک اقبال کی شاعری میں کچھ کشمکش پائی جاتی ہے وہ کسی صحیح نصب العین پر پہنچنے کی جدوجہد کرتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتا۔ یہ یورپ میں قیام کا زمانہ تھا۔ وہ وطنیت کے جذبہ سے سرشار یورپ گیا۔ لیکن وہاں وطنیت کی اور ہی کار فرمائیاں نظر آئیں۔ وہاں جا کر انہوں نے مادہ پرستی، دہریت، سرمایہ داری، سائنس اور قومی عناد کی زبردست لعنتوں میں گرفتار پایا۔ اب انہیں معلوم ہوا کہ وطنیت کا مطلب صرف اپنے وطن کی آزادی ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک کی تباہی بھی ہے وطنیت کا مطلب بین الاقوامی تنازعات ہے یورپ میں جس قسم کی تنگ دلانہ وطنیت کی پرستش ہو رہی تھی وہ ہر قوم کے لیے مہلک اور مضر ہے۔ اسی دور میں اس نے ایک زبردست پیشگوئی کی کہ: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کریگی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا یہاں سے اقبال کے خیالات میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے یورپ سے واپس آ کر اس نے اسلام اور وطنیت پر غور کیا اور اس کے علاوہ وطنیت کے مہلک اثرات کا بھی مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ: اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اور پھر اسلام اور وطنیت کے درمیان جو اختلاف کی ایک بڑی خلیج ہے۔ اسے اس طرح واضح کرتا ہے: یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفویٰ خاک میں اس بت کو ملا دے اب اقبال کے دل میں سر زمین حجاز سے ایک ابدی عشق پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے اس مصرع کو غلط قرار دیتا ہے کہ: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اب وہ اس بات میں ایمان رکھتا ہے کہ ہمارے لیے سارے جہاں سے اچھی حجاز کی زمین ہے جہاں سے ایک ایسا آفتاب اٹھا تھا جس کی ضیار بار تجلیوں سے دنیا کا گوشہ گوشہ روشن اور منور ہو گیا۔ یہ زمین دنیا کی مقدس ترین زمین ہے۔ یہاں سے غلاموں کو آزادی کا روح پرور پیغام ملا۔ یہاں سے مساوات کا زریں اصول پیدا ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سر زمین کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ معبود حقیقی نے اپنے پیغام کے لیے اس سر زمین سے ایک شخصیت منتخب کی اور اس شخصیت نے اسلام کے عظیم الشان مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اقبال سر زمین حجاز کے متعلق کہتا ہے: دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا اے عرض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا وہ تمام دنیا کو اپنا وطن خیال کرتا ہے: چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا پھر وہ مذہب اسلام اور وطنیت پر ان اشعار میں اپنے خیالات ظاہر کرتا ہے: اپنی ملت کا قیام اقوام مغرب پہ نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی اقبال کے کلام کے اس حصہ پر ان لوگوں کو خاص توجہ دینی چاہیے جو وطنیت کی آڑ لے کر اسلام کے سواد اعظم سے کٹ کر کفار سے جا ملتے ہیں۔ مذہب اسلام کی جڑوں کو کاٹ کر بھی اپنے آپ کو مذہب کے پیشوا تصور کرتے ہیں۔ بہر کیف اقبال اب بین الاقوامیت کا حامی بن جاتا ہے اور یہی ایک ایسا سیاسی اصول ہے جس پر اقبال ۱۹۰۷ء سے ۱۹۳۸ء تک قائم رہا۔ بین الاقوامیت کے متعلق اس کے چند اور اشعار ملاحظہ ہوں: بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی ٭٭٭ نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم و ازیک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم اور: اگرچہ زادۂ ہندم فروغ چشم من است اور: زخاک پاک بخارا و کابل و تبریز بعض کم فہم لو گ سمجھتے ہیں کہ اقبال اپنے وطن کی آزادی کا خواہاں تھا کیونکہ وہ وطنیت کا حامی نہ تھا حالانکہ اگر ہم جاوید نامہ پڑھیں تو یہ اشعار اس میں آتے ہیں جس میں اقبال اپنے وطن کو ایک حور سے تشبیہہ دیتا ہے۔ اقبال ہندوستان کی آزادی کا خواہشمند تھا لیکن اس کی خواہش تھی کہ ہمارا وطن بھی بعد میں استعماریت کی حکمت عملی اختیار نہ کرے کیونکہ تنگ دلانہ وطنیت آخر ایک ملک کی تباہی پر منتج ہوا کرتی ہے۔ واقعات شاہد ہیں کہ وطنیت کی وجہ سے انسانیت کو سخت نقصان پہنچا۔ جنگ عظیم میں جب قومیں آپس میں نبرد آزما ہوئیں تو صرف اس لیے ان کی قوم کو سرفرازی نصیب ہو، اور ان کی قوم کے افراد کو دنیا کے بہادر ترین افراد قرار دیا جائے۔عصر حاضر کے اقتصادی انحطاط کو لیجئے تو اس میں بھی وطنیت ہی کار فرما نظر آئے گی۔ ہر ملک نے غیر ملکی مصنوعات پر محصولات کی ایک بلند دیوار کھڑی کر دی اور اس طرح قوموں میں تعصب پیدا ہوا۔ اگر ہم اقتصادی انحطاط کی وجوہ پر ذرا غور سے فکر کریں تو ہمیں نوے فیصدی وجوہ وطنیت کی بر آوردہ نظر آئیں گی۔ اشتراکیت اور اقبال اب ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال کے نظریات اشتراکیت کے متعلق کیا تھے۔ اقبال سرمایہ داری کا انتہائی دشمن تھا۔ اسے سرمایہ داروں سے دلی نفرت تھی۔ مجھے وہ وقت یاد ہے کہ جب پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سلسلے میں میں حضرت علامہ مرحوم سے ملا کرتا تھا۔ ہر ملاقات میں وہ سرمایہ داری سے اپنی نفرت کا اظہار ضرور کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں غریبوں سے کھل کر باتیں کرتا ہوں۔ لیکن جب کوئی سرمایہ دار میرے ہاں آتا ہے تو مجھے ذہنی کوفت محسوس ہوتی ہے۔ میں ان سے مطلقاً بات نہیں کرنا چاہتا۔ وہ جب مجھ سے کوئی سوال کرتا ہے تو میں اس کا جواب دے کر خاموش ہو جاتا ہوں۔ کیونکہ ان لوگوں کی طرف میرا دل مائل نہیں ہوتا۔ اقبال اشتراکیت کے اس حصے کے خلاف تھا جس میں کہ خدا اور مذہب کے خلاف تعلیم دی گئی ہے۔ مذہب اقبال کے نزدیک دنیا کی عزیز ترین متاع ہے۔ وہ مذہب اسلام کو چھوڑنا گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ اقبال ایک خالص اسلامی اشتراکیت کا حامی تھا۔ سرمایہ و محنت کی آویزش کا مسئلہ در حقیقت ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔ عصر حاضر میں دنیا کے گوشے گوشے میں سرمایہ و محنت کے درمیان ایک دائمی نزاع نظر آ رہا ہے۔ اقبال نے اس مسئلہ کے متعلق ’’ بانگ درا‘‘ کے تیسرے حصے میں ’’ خضر راہ‘‘ میں اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ سنیے: بندۂ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش اور تو اے بیخبر سمجھا اسے شاخ نبات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ ’’خواجگی‘‘ نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اور پھر انہیں عمل کے جذبے سے سرشار کرتا ہے اور کہتا ہے: اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے اب جاوید نامہ کی طرف آئیے۔ اس میں اقبال نے جمال الدین افغانی کی زبان سے ملت روسیہ کے نام ایک پیغام دیا ہے جس میں اشتراکیت اور اسلام کے تعلق کو واضح کیا ہے۔ سود کی خرابیوں کو بیان کیا ہے کیونکہ سود سرمایہ داروں اور ساہو کاروں کے ہاتھ میں ایک ایسا حربہ ہے جس سے وہ مزدور اور غریب کا قلع قمع کر سکتے ہیں۔ سرمایہ داری کے متعلق مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں: چیست قرآں؟ خواجہ را پیغام مرگ دست گیر بندۂ بے ساز و مرگ ہیچ خیر از مردک زر کش مجو لن تنالو البر حتی تنفقوا اور سود کے متعلق بھی ملاحظہ ہو: از ربا آخر چہ می زاید فتن کس نہ داند لذت قرض حسن از ربا جان تیرہ دل چوں خشک و سنگ آدمی درندہ بے دندان و چنگ پھر مزدور کا حق زمین پر اس طرح بتلایا گیا ہے کہ: رزق خود را از زمین بیرون روا است ایں متاع بندہ و ملک خدا است اقبال سرمایہ دار اور غریب میں کوئی تمیز نہیں روا رکھنا چاہتا۔ اس کے نزدیک امیر اور غریب سب ایک ہیں: عبد مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگین تر از معمار نیست پیش قرآں بندہ و مولا یکیست بوریا و مسند دیبا یکیست مزدوروں کی موجودہ مشکلات کا اسے بہت بڑا احساس ہے اور اسی لیے بال جبریل میں کہتا ہے: یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن کیوں خوار ہیں مردان جفاکیش و ہنر مند تو برگ گیا ہے نہ وہی اہل خرد را او کشت گل لالہ بہ بخشد بخرے چند اب ہم اقبال کی ایک مشہور نظم کی طرف آتے ہیں۔ انقلاب روس کا قائد لینن خدا کے حضور میں جاتا ہے اور وہاں سرمایہ داروں کے مظالم کی داستان چھیڑ دیتا ہے۔ وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ آج میری روح کے اندر خیالات متلاطم ہیں اس لیے مجھے گفتار کے اسلوب پر قابو نہیں رہ سکتا اور پھر نہایت جرأت سے مزدوروں کی وکالت کرتا ہے۔ وہ کونسا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟ مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ قلزات رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاحات یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات (دیکھیے فرنگی مدنیت کو کتنے بھیانک رنگ میں پیش کیا ہے) ہے دل کے لیے موت مشینوضں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات پھر خداوند تعالیٰ سے استفسار کرتا ہے: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات فرشتے اس پیغام کو خدا کے حضور میں پہنچاتے ہیں اور پھر اقبال نے خدا تعالیٰ کی زبان سے جو اشعار کہے ہیں ان میں فرشتوں کے نام ایک آتشیں اور حیات افروز پیغام دیا ہے۔ اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو انسان تمام مخلوقات سے اشرف ہے۔ اس کا نصب العین روٹی نہیں بلکہ انسانیت کے معیار کو بلند کرنا ہے۔ انسان روٹی کے بغیر بھی گزارا کر سکتا ہے۔ روٹی تو بازاری کتوں کا نصب ہے جنہیں سوئے ہڈی چوسنے کے اور کوئی کام نہیں۔ اور پھر اگر وہ لوگ روٹی روٹی کہیں جن کا اسلام سے تعلق نہ ہو، تو انہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک اعمال کے جائزے سے ہی ہم انسانوں میں امتیاز پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمارے نزدیک مساوات شکم کا مسئلہ قطعی طور پر در خور اعتنا نہیں۔ ’’ ضرب کلیم‘‘ میں ’’ اشتراکیت‘‘ کے عنوان سے چند شعر کہے ہیں، پہلا شعر سنیے: قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار یہاں تک تو ہم دیکھتے تھے کہ اقبال اشتراکیت کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال کارل مارکس کے نظریہ اشتراکیت کا کاملاً نہیں۔ اشتراکیت کے تعمیری لائحہ عمل کو لیجئے۔ اس میں کئی مشکلات ہیں۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ لینن پہلے تو نہایت زور شور سے اپنے تعمیری لائحہ عمل کی تبلیغ کرتا ہے۔ ہزاروں افراد کو صرف اس قصور پر موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے کہ وہ اس کے تعمیری پروگرام سے متفق نہیں ہیں۔ لیکن جب لینن بستر مرگ پر لپٹا ہوتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ سوسائٹی کا جو نظام اس نے تجویز کیا تھا وہ ناقابل عمل ہے۔ اسی لیے وہ اپنے قصور کا اعتراف کر لیتا ہے۔ اشتراکیت کے اصول کو یورپ میں سب سیت پہلے ایک یہودی ماہر اقتصادیات کارل مارکس نے واضح کیا۔ کارل مارکس کے نظریہ سے اقبال کو کئی اختلافات ہیں۔ گو اقبال اس کا انتہائی احترام کرتا ہے۔ اقبال اشتراکیت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ سماج کے نظام کی اساس ’’ مساوات شکم‘‘ پر رکھی جائے۔ یعنی وہی روٹی کار سوائے عالم مسئلہ جس کا ڈھول بہت دیر سے گندم نما جو فروش اشتراکی رہنما پیٹ رہے ہیں۔ سنیے: صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبرائیل زانکہ حق در باطل او مضمر است قلب او مومن دماغش کافر است غربیاں گم کردہ اند افلاک را در شکم جویند جان پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جز بتن کارے ندارد اشتراک دین آں پیغمبر حق نا شناس برمساوات شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ در آب و گل است پھر اشتراکیت میں ایک اور چیز ملتی ہے جسے ڈکٹیٹر شپ (Dictater Ship ) کہا جاتا ہے۔ یعنی مزدوروں کی آمریت اقبال اس آمریت کے بھی خلاف ہے، وہ سمجھتا ہے کہ خواہ سرمایہ دار ہو یا مزدور، جس کے ہاتھ میں زمام حکومت آ جائے اس میں بتدریج استبدادیت آ جاتی ہے۔ زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی اشتراکیت میں مذہب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اقبال اس کا بھی مخالف ہے چنانچہ کہتا ہے کہ: جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اقبال کے نزدیک دین اور سیاست میںکوئی تمیز روا نہیں رکھنی چاہیے۔ خود اسلام میں مذہب اور سیاست دو علیحدہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال سرمایہ دار ملوکیت اور وطنیت کے خلاف ہے۔ وہ اشتراکیوں کی طرح سود کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے لیکن وہ اشتراکیت کی بعض باتوں سے متفق نہیں۔ اول مزدوروں کی آمریت، دوم سیاست اور مذہب کی علیحدگی، سوم مذہب کا خاتمہ، چہارم مساوات شکم، وہ ایک ایسی اشتراکیت کا علمبردار ہے جس میں اسلامی رنگ بھی ہو یعنی اسے ہم مسلم سوشلسٹ کہہ سکتے ہیں اب فسطائیت کے متعلق کچھ کہنا ہے اقبال نے اپنے تمام کلام میں فسطائیت کے متعلق کچھ نہیں کہا ہاں اشارۃً بعض جگہ ذکر آیا ہے۔ بال جبریل میں مسولینی پر ایک نظم ہے۔ یہاں اطالیہ کی موجودہ بیداری اور ترقی کو مسولینی کی مساعی جمیلہ سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ضرب کلیم میں مسولینی کی زبان سے چند اشعار لکھے ہیں۔ ان اشعار میں مسولینی یورپ کے ان مدبرین کو جواب دیتا ہے جو مسولینی کو استعماریات کا طعنہ دیتے ہیں۔ مسولینی ان سے کہتا ہے: میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار! تو چھلنی میں چھاج میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟ یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں راجدھانی ہے مگر باقی نہ راجہ ہے نہ راج آل سیرز چوب نے کی آبیاری میں رہے اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاج پردۂ تہذیب میں غارت گری آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج ان اشعار سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال فسطائیت کے خلاف ہے۔ اول اس لیے کہ فسطائیت وطنیت کا ایک نہایت تنگدلانہ مظاہرہ ہے۔ دوم فسطائیت آمریت کی علمبردار ہے اور اقبال ہر قسم کی آمریت کا مخالف ہے۔ سوم فسطائیت کا نصب العین کمزور قوموں کو تباہ کرتا ہے۔ اس مسئلہ کی وضاحت جمہوریت اور ملوکیت کی بحث میں ہو گی۔ جمہوریت اور ملوکیت عصرحاضر کے سیاسی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ طرز حکومت کا ہے۔ جمہوریت کی حمایت اور مخالفت میں دو گروہ ہیں۔ اول تو وہ جو اندھا دھند جمہوریت کا قائل اور حامل ہے دوسرا گروہ جمہوریت کو استبداد کا ایک دوسرا نمونہ تصور کرتا ہے۔ کیونکہ چند سرمایہ دار افراد اپنے سرمایہ کے زور سے اپنے آپ کو مجالس قانون ساز کے لیے منتخب کرا لیتے ہیں۔ اور پھر اکثریت کے ہاتھ میں حکومت آ جاتی ہے اور وہ اکثریت جمہوریت کے پردے میں استبداد کا کام دیتی ہے۔ چند آدمیوں کی ایک ٹولی تمام ملک کے انتظامیہ امور میں من مانی کارروائیاں کرتی ہے۔ اقبال مغربی جمہوریت کو بھی قیصریت ہی سمجھتا ہے۔ مثلاً: ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین، اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری اس سراب رنگ و بو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مغربی جمہوریت بجائے اس کے عوام کو آزادی رائے کا حق دے انہیں اپنے ملوکی شکنجوں میں کس لیتی ہے پھر اقبال ایک نہایت دلچسپ بات کہتا ہے۔ گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید (اگر جمہوریت کی اصطلاح کا صحیح طور پر جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اصلی جمہوریت نہ تو دنیا میں آج سے پہلے کبھی عمل میں لائی گئی ہے اور نہ آئندہ کبھی ایسا ہو گا۔ یہ نظام فطرت کے خلاف ہے کہ اکثریت حکومت کرے اور اقلیت رعایا رہے) دوسری جگہ روسو نے کہا ہے: ’’ اگر دنیا میں کوئی دیوتاؤں کی قوم ہوتی تو ان کی حکومت واقعی جمہوری ہوتی لیکن ایسی مکمل حکومت انسانوں کے لیے نہیں جمہوریت کی ہر شخص تعریف کرے گا بشرطیکہ اسے ایسی جگہ عمل میں لایا جائے جہاں عوام الناس کا سیاسی شعور انتہائی درجہ پر پہنچا ہوا ہو لیکن سیاسی طور پر ان پڑھ لوگوں میں جمہوریت ناکام رہے گی۔‘‘ چرب زبان اور گندم نما جو فروش لوگ منتخب ہو سکیں گے۔ لیکن صحیح الدماغ لوگ نہیں چنے جا سکتے۔ اقبال نے جبھی تو کہا ہے : کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید اسی نکتہ کو اقبال نے ضرب کلیم میں بھی واضح فرمایا ہے۔ سنیے: اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر اقبال نے بال جبریل میں کیوں کہا ہے کہ: سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو یہاں اقبال نے اس جمہوریت کے متعلق کہا ہے جو ایک (مساواتی) جمہوریت ہے۔ اس کا مطلب اس جمہوریت سے نہیں جو ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔ اب ملوکیت کو لیجئے۔ اقبال ملوکیت کا سب سے بڑا مخالف ہے۔ مثلاً یہ اشعار پڑھیے: ہم ملوکیت بدن را فربہی است سینہ بے نور او از دل تہی است مثل زنبورے کہ بر گل می چرد برگ وا بگذارو و شہدش برد از طلسم و رنگ و بوئے او گذر ترک صورت گو و در معنی نگر مرگ باطن گرچہ دیدن مشکل است گل مخواں او را کہ معنی گل است پھر ایک اور شعر بھی سنیے: فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے وہ بہ بانگ دہل مسلمان نوجوانوں سے کہتا ہے کہ اس امام کے خلاف بغاوت کرو جو تمہیں ملوکیت کا درس دے یا جو تمہیں کسی بادشاہ کا طاعت گزار بننے کی تعلیم دے۔ ایسے امام کو ملت اسلامیہ کے لیے ایک فتنہ عظیم سمجھنا چاہیے اور اس کی پیروی کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ ملوکیت کا مقصد غریبوں اور مزدوروں کا خون چوسنا ہے۔ ملوکیت اور شہنشاہیت کے ماتحت رعایا کے چند طبقے بنا دیے جاتے ہیں اور تمام کی محنت اور مشقت تاج کے لیے وقف کر دی جاتی ہے۔ اس طاغوت اعظم کے نیچے آزادانہ خیالات کی تخلیق نا ممکن ہے۔ ملوکیت جمہور کے احساسات اور جذبات کا قلع قمع کر دیتی ہے۔ اس لیے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کر کے ہمیں معلوم ہو گا کہ اسلام ہمیشہ سے جمہوریت کا علمبردار ہے۔ اسلام نے ملوکیت اور شہنشاہیت کے قصر کو پاش پاش کر دیا تھا۔ جمعیت اقوام اور اقبال پہلے پہل جب جمعیت اقوام کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس وقت اس کے مقاصد یہ تھے: ۱۔ بین الاقوامی اتحاد کو ترقی دینا۔ ۲ ۔ لڑائی سے اجتناب کرنا اور لڑائی کو روکنے کے لیے تدابیر کرنا ۳۔ اقوام مختلفہ کے ظاہری حقیقی اور قابل تحریم تعلقات کو قلمبند کرنا۔ ۴۔ بین الاقوامی قانون مرتب کر کے اس کے اصلی مقصد کو ضبط تحریر میں لانا اور شائع کرنا۔ ۵۔ قیام عدل و انصاف کی حمایت کرنا۔ ۶۔ مہذب اقوام کے باہمی داد و ستد کے جو عہد نامے ہوں ان کی عزت اور احترام کرتے ہوئے بین الاقوامی امن اور حفاظت حاصل کرنا۔ ۷۔ تنازعات کا بذریعہ ثالثی عدالت یا پنچایت فیصلہ کرنا او رسب سلطنتوں کو فیصلے پر عمل کرا کے انصاف و رواداری کو ترویج دینا۔ ان مقاصد عالیہ کو لے کر اقوام مغرب نے جمعیت اقوام کی تشکیل کی تھی جس میں مشرقی اقوام کو بھی شامل کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا لیگ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئی۔ جب سے لیگ کا قیام ہوا اس نے ہمیشہ ہر مسئلہ میں کمزور دکھلائی۔ اطالیہ نے حبش پر بلا وجہ حملہ کر دیا۔ لیگ آف نیشنز کمیٹیوں کے دھندوں میں پڑی رہی اور ادھر اطالیہ نے حبش فتح کر کے اس پر قبضہ بھی کر لیا اور ہیل سلاسی کو انگلستان روانہ ہونا پڑا۔ جمعیت نے فیصلہ کیا کہ اطالیہ کے خلاف Sanctions یعنی تعزیرات عائد کر دی جائیں لیکن لوگ جانتے ہیں کہ ان تعزیرات کا کیا حشر ہوا۔ سپین کے مسئلہ پر غور کیجئے۔ اطالیہ اور جرمنی نے لاکھوں رضا کار اور کروڑوں روپے سپین کے باغیوں کو بھیجے۔ کئی سالوں سے سپین میں بنی نوع انسان کا خون بہتا رہا۔ مگر لیگ اس وقت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ یہی حال چین اور جاپان کے موجودہ نزاع کا تھا۔ جمعیت ایک عضو معطل کی طرح کمیٹیاں بناتی رہی۔ اقبال کے نزدیک جو نظام روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر نہ ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جمعیت کی بنیاد ایمان اور مذہب پر قائم نہیں کی گئی تھی بلکہ خود غرضی اور مادیت پر رکھی گئی۔ چنانچہ اقبال پہلے ہی اس لیگ کے مقاصد کو بھانپ گیا کہ یہ صرف چند بڑی قوتوں کا اتحاد ہے، جس کا مقصد کمزور قوتوں کو تباہ کر کے آپس میں بانٹ لینا ہے۔ چنانچہ اقبال نے کہا: برفتد تا روش از بام دریں بزم کہن درد مندان جہاں طرح نو انداختند من ازیں پیش نہ دانم کہ کفن دز دے چند بہر تقیسم قبور انجمنے ساختہ اند جمعیت کے گزشتہ طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’ کفن دزد‘‘ کا لفظ اس پر بہت اچھی طرح صادق آتا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ جمعیت فیصلہ کرتی ہے کہ اسلحہ میں تخفیف کی جائے لیکن ساتھ ہی وہی ممالک (جو لیگ میں ایسا فیصلہ کرتے ہیں) اسلحہ کے کارخانوں کو زیادہ کر دیتے ہیں۔ ’’ ضرب کلیم‘‘ میں اقبال جمعیت اقوام کے متعلق کہتا ہے: بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے ان اشعار سے اقبال کے خیالات ظاہر ہوتے ہیں کہ جمعیت کس قدر فتنہ انگیز گردہ ہے۔ اقبال مغرب کا دشمن ہے۔ وہ جانتا ہے کہ مغربی اقوام ہمیشہ سے مشرقی اقوام کی دشمن رہی ہیں اس لیے جب اس نے یہ تجویز سنی کہ ایک ’’ لیگ آف ایسٹرن نیشنز‘‘ یا جمعیت اقوام مشرق بنائی جائے تو اس پر پسندیدگی کا اظہار کیا کیونکہ مشرق روحانیت کا علمبردار ہے اور جس نظام کی بنیاد روحانیت پر ہو گی وہ ضرور کامیاب ہو گا۔ سنیے: پانی بھی مسخر ہے ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے طہراں ہوا گر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے اقبال اور سیاسیات ہند اب ہمارے اس مقالے کا زیادہ اہم مسئلہ زیر غور ہے کیونکہ یہاں ہم اقبال کے اس حل پر غور کریں گے، جو اس نے ہندوستان کی دو بڑی قوموں یعنی ہندو اور مسلمان کی موجودہ کشمکش کے لیے تجویز کیا ہے۔ یہاں میں ان کے کلام کو زیر بحث نہ لاؤں گا۔ میرے سامنے اس وقت اقبال کا وہ خطبہ صدارت ہے جو اس نے ۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد میں پڑھا۔ اس میں انہوں نے اس امر کی شدید مذمت کی کہ مذہب ایک نجی چیز ہے۔ اس کے خیال میں اسلام کی اساس وحی پر ہے اور اسلام کا مذہبی نصب العین اس مجلسی نظام کا جزو لاینفک ہے۔ اس وقت ہمارے کانگریسی سیاحین یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں متحدہ قومیت کی تخلیق صرف اسی طرح ہو سکتی ہے کہ جملہ اقوام کی انفرادیت کو مٹا دیا جائے۔ ہم اپنے آپ کو اول و آخر ہندوستانی سمجھیں۔ اقبال ان سے متفق نہیں محولہ فوق خطبہ کا اقتباس ملاحظہ ہو: ’’ پس ہندوستانی قومیت متحدہ کا خواب اسی صورت میں شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے کہ ہم تمام قوموں کو جداگانہ حق زیست دیں اور ان میں باہمی تعاون اور ہم آہنگی پیدا کریں۔ جملہ اقوام کی انفرادیت مٹا دینے سے یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لیے بہترین راہ عمل یہ ہے کہ حقائق کو ان کی اصل شکل میں قبول کریں اور کوئی ایسی صورت فرض نہ کریں جس کا سرے سے وجود ہی نہیں۔‘‘ اقبال کے نزدیک ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ برا عظم ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’ ہندوستان مختصر سا ایشیا ہے۔ اس میں بعض قومیں ایسی آباد ہیں جنہیں مشرقی اقوام سے ثقافتی وابستگی ہے بعض قومیں ایسی ہیں جو وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے وابستگی رکھتی ہیں۔ اگر باہمی اشتراک کا کوئی موثر اصول وضع کیا جا سکے تو یہ اس قدیمی بد قسمت ملک کے لیے امن اور آشتی کا پیغام ہو گا۔‘‘ ہندوستان ایک چھوٹا سا بر اعظم ہے جس میں مختلف گروہ آباد ہیں، جو علیحدہ قوموں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ علیحدہ زبانیں بولتے ہیں اور جداگانہ مذاہب کے پیرو ہیں۔ ان کا طرز معاشرت ایک متحدہ قومیت کے احساس کا مرہون منت نہیں یہاں تک کہ ہندو بھی متجالس اجزاء کا مجموعہ نہیں ہیں۔ یورپی جمہوریت کا اصول ہندوستانی حالات میں آزمانے کے لیے ہمیں مختلف فرقوں کی جداگانہ ہستی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ مسلمانوں کے سیاسی رحجانات کا مطالعہ کر سکوں۔ مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر ہندوستانی مسلمان کو اس کی روایات اور ثقافت کی فضا میں آزادانہ طور پر ترقی کا حق دے دیا جائے اور یہی حق فرقہ وارانہ مناقشات کے مستقل حل کی بنیاد قرار دیا جائے، تو وہ اپنا سب کچھ وطن کی آزادی کی خاطر قربان کر دینے کو تیار ہو جائے گا۔ اسی خطبہ میں اقبال نے فرقہ پرستی کو ایک ضروری چیز قرار دیا ہے اس کے نزدیک فرقہ پرستی کی دو قسمیں ہیں: اول:وہ دوسرے فرقوں اور قوموں کی مخالفت پر مبنی ہو۔ دوم: وہ جس میں اپنے فرقہ یا قوم سے محبت ہو اور اپنے فرقہ سے محبت کا نام فرقہ پرستی ہے۔ پہلی فرقہ پرستی کی اقبال مذمت کرتا ہے اور دوسری فرقہ پرستی کو وہ ایک رحمت سمجھتا ہے اپنی ملت سے وفاداری دنیا کسی سیاسی یا معاشرتی آئین میں قابل اعتراض نہیں سمجھی جاتی بلکہ یہ ایک مقدس جذبہ ہے جو قوم کے ہر فرد میں ہونا چاہیے۔ آخر میں اقبال ہندو مسلم کش مکش کا علاج ان سطور میں بیان کرتا ہے: ’’ میں چاہتا ہوں کہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو آپس میں ملا کر ایک جداگانہ حکومت قائم کر دی جائے ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا مستقبل مجھے اسی سے وابستہ نظر آتا ہے کہ ان کی ایک مستحکم سلطنت برطانیہ کے زیر اثر یا اس سے آزار ہو کر قائم ہو جائے۔‘‘ اس سے اقبال کا یہ مقصد نہیں کہ ہندوستان کے ہندوؤں پر کوئی سیاسی دباؤ پڑ جائے یا یہ خطہ ہندوؤں کے صوبجات کو کوئی گزند پہنچائے گا۔ شمال مغربی ہندوستان کے باشندے تمام ہندوستان کی فوج کا ستر فیصدی حصہ مہیا کرتے ہیں۔ وہ کسی غیر ملکی طاقت کو ہندوستان پر حملہ آور نہ ہونے دینگے۔ جب تک کہ وہ خود نہ کٹ مریں گے۔ اس تجویز کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ یہ اس لیے کہ مسلمان اس خطہ میں رہ کر آزادی سے ترقی کر سکیں گے اور یہ ترقی ہمیں اس طرز حکومت میں میسر نہیں آ سکتی جس کا تصور ہندو وطن پرست سیاست دانوں کے نہاں خانہ دماغ سے معرض وجود میں آیا ہے اور جس کا مقصد محض ہندوؤں کا ہندوستان پر مستقل تغلب ہے اور بس۔ موجودہ فیڈرل سکیم ہمارے لیے ہر گز قابل قبول نہیں کیونکہ اس میں مسلمان ہمیشہ کے لیے اکثریت سے دب کر رہیں گے شمال مغربی ہندوستان میں علیحدہ سلطنت کے قیام کا مسئلہ سب سے پہلے علامہ اقبال نے پیش کیا۔ بعد میں آکسفورڈ کے ایک مسلمان طالب علم چودھری رحمت علی نے تحریک پاکستان کے نام سے اس تحریک کا آغاز کیا۔ یہ پاکستان کی تحریک کے بانی ہیں۔ اس مجوزہ حکومت میں کشمیر کو بھی شامل کرتے ہیں۔ آپ کی طرف سے وقتاً فوقتاً ٹریکٹ شائع ہو کر تعلیم یافتہ اسلامی حلقوں میں پہنچتے رہے۔ نوجوانان ملت میں آپ کی تحریک روز بروز مقبول ہوتی گئی اور آخر ستمبر ۱۹۳۷ء میں مسلم طلبا پنجاب کی واحد نمائندہ جماعت پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے اپنا نصب العین پاکستان قرار دیا۔ پہلے پہل اس تحریک کو عام لوگ ایک مذاق سمجھتے تھے۔ لیکن بعد میں نوجوانوں میں یہ جرأت پیدا ہوئی کہ وہ کھلے بندوں اس تجویز کی حمایت کریں۔ کچھ عرصہ سے جہاں گرو کے نام سے پنجاب اور سندھ کے اسلامی جرائد میں پاکستان پر کئی مقالے شائع ہوئے۔ جن کا اثر یہ ہوا کہ پنجاب کے مقامات پر مجلس پاکستان کے نام سے انجمنیں قائم ہو گئی ہیں۔ خود لاہور میں بھی مجلس مرکزیہ پاکستان ہو گئی ہے۔ یہ تحریک روز بروز مقبول ہو رہی ہے اور اس کی مقبولیت عامہ مرحوم کی روح کو خوشی پہنچاتی ہو گی۔ موجودہ سیاسی دور میں اس تحریک کی کامیابی بہت دور رس نتائج پیدا کرے گی۔ملک کے مسلمان نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس تحریک کو مقبول کریں، کیونکہ تحریک پاکستان کی کامیابی علامہ اقبال کی بہترین یادگار ہے۔ ٭٭٭ (سالنامہ ۱۹۴۲ئ) اقبال اور ہمارے فرائض عبدالغنی فوق عباسی حیدری اقبال نمبر کے مطالعہ کے بعد مجھ پہ جو اولیں فرض عائد ہوتا ہے، وہ آپ کا تہہ دل سے شکریہ ہے۔ ہاں! میں بجا طور پر محسوس کرتا ہوں کہ آپ نے میرے ایمان کو اس کاری ضرب سے بچا لیا جو آزادی افکار کے ہاتھوں اکثر نوجوان انہماک پسند طبیعتوں پہ پڑتی ہے۔ اللہ میاں آپ کا بھلا کرے اور ایسی بھلائی کی توفیق ہماری غریب اردو کے ہر مسلمان ادارے کو عطا فرمائے! لوگ اقبال کو نہیں سمجھتے اور جہاں بقول پروفیسر اے آر نکلسن اقبال کے سمجھنے کے لیے اسی قدر غور و تفکر، وسعت مطالعہ اور عمیق احساسات کی ضرورت ہے۔ جس کا اظہار عالم اسلامی کے اس ممتاز ترین فاضل کے ایک ایک لفظ سے ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کہیں ضرورت علامہ مرحوم کے پیام کو سٹیج اور پریس کے ذریعے نہایت عام فہم اور سلیس صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں کوئی راز فقط اتنے تک راز ہے جب تک اسے فاش کر کے عام نہیں کر دیا جاتا اور کسی فاش کا سمجھنا نہ سمجھنا سماج کے ذہنی تغیر پر مبنی ہے ہماری سوسائٹی کا بلند خیال طبقہ جب تک اس راز کو فاش ہونے کے بعد بھی راز، راز کی رٹ لگا کر اپنی نکتہ فہمی کا ثبوت دینے کی کوشش کرتا رہے گا۔ لوگ اسے فاش کو بھی سمجھنے سے قاصر رہیں گے اور جس قوم کو زندگی کی ضرورت ہے اسے اپنا پہلے سے پہلا قدم اٹھانے سے پیشتر پیام زندگی کو اچھی طرح سمجھ لینے کی نہایت سخت ضرورت ہے، پھر جو قوم شیرازی تصوف کی صدا علمی مراکز کے لاؤڈ سپیکروں سے پا کر اپنے آپ کو خودی سے محروم رکھ سکتی ہے لکھنوی مادیت کا شکار بن سکتی ہے، وہ ان ابطال کے مقابلے میں اقبال ایسی حقیقت کو جو محض فطرت ہے، جلد از جلد سمجھ رک زندہ بھی ہو سکتی ہے اور یاد رہے کہ سمجھا سمجھی کے قطع نظر دیکھا دیکھی سبھی اپنا اثر وسیع تر پیمانے پہ پھیلا سکتی ہے۔ اس لطیف حقیقت کا ملاحظہ دیہات کی فضا میں بخوبی کیا جا سکتا ہے، وہاں مساجد کے جو امام میں مارنے کا مفہوم خود آپ نہیں سمجھ سکتے، وہ اس کا سبق عام اور بڑے مخلصانہ انداز میں جہلا کو دیتے رہتے ہیں قرآن کریم کی محض عربی عبارت پڑھ پڑھا لینے کا ثواب ان کی امت کے چھٹکارے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے، خیر! یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ جہاں ہماری مسجد میں دیوان حافظ ایسی کتابوں نے دخل پا کر اپنا فلسفہ عام فہم کر لیا ہے وہاں اقبال کوئی اتنی دور از فہم شے نہیں کہ خیالات میں تبدیلی نہ پیدا کر سکے۔ دنیا امن کی متمنی ہے تو اقبال کو سمجھے اور اس کے سمجھنے کے ذرائع صرف انہی زبانوں کے سٹیج اور پریس قرار دیے جائیں جو صوبوں میں نہیں، ملکوں میں نہیں بلکہ بر اعظموں میں ہمہ گیر اثر کی مالک ہیں یا ہو سکتی ہیں، دنیا کو ایک کرنے کے لیے حتی الواسع انہی زبانوں کے ذریعے تبلیغ کی جائے، جن میں زیادہ سے زیادہ عمومیت اور ہر دلعزیزی پائی جاتی ہے۔ عرب ممالک میں عربی، فارسی ملکوں میں فارسی، یورپ میں انگریزی اور باقی ایشیا میں اردو ہم آہنگ ہو کر ایک امن کی اشاعت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا میں دائمی امن قائم نہ ہو سکے مگر اس حقیقت کو عام کرنے کی پہلی کوشش دنیا کی مسلمان جماعت کی طرف سے ہونی چاہیے اور ہو گی، کیونکہ یہی واحد جماعت ہے جس کا فلسفہ اور مذہب دونوں اسے اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں مساوات، اخوت اور امن قائم رکھے، ورنہ دنیا میں اولین صاحب اطلاع کی حیثیت سے وہ ان تمام فسادات کی ذمہ دا رہے، جو اس کے دیکھتے دیکھتے انسان اور انسان، بھائی اور بھائی کے مابین بپا ہو چکے ہیں، ہو رہے ہیں یا ہوا چاہتے ہیں، ہاں! اس کا فرض انہیں مٹا دینے میں اتنا ضروری ہے جتنا خدا کی پرستش کرنا! یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو کی خدمت کے علاوہ اب جو موقت اقدام اشاعت اقبال کے لیے نیرنگ خیال نے کیا ہے کسی اور ملکی جریدہ نے نہیں کیا، اس کوشش کے لیے وہ لاکھ لاکھ مبارک کا مستحق ہے۔ اقبلیات کا یہی سلسلہ اگر اردو کا ہر ایک زندہ رسالہ ذرا وسیع پیمانے پر جاری کر دے، تو جہاں وہ زبان اردو کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہو گا، وہ قوم کو زندہ لٹریچر رکھنے والی زندہ قوم کہلوانے کا مستحق بنا دے گا۔ اقبالیات کا دائرہ محض شخصیت اور سوانح تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس موضوع کے ماتحت زندگی کا کوئی پیام جو فلسفہ اقبال کے مطابق درس حیات دے، لے لینا چاہیے۔ جہاں تک اقبال کی اشاعت کا تعلق ہے، چاہتا ہوں کہ سکول یا کالج کا ترنم آشنا نوجوان پیام اقبال کے ماسوا غزلیات کا کوئی دوسرا مجموعہ ہندوستان کے کسی کتب خانے سے نہ پا سکے۔ ٭٭٭ (دسمبر ۱۹۳۸ئ) اقبال ایڈیٹر علامہ سر اقبال کے متعلق ہندوستان کے اردو رسائل اور اخبارات میں متعدد اہل قلم حضرات نے اس قدر مضامین لکھے ہیں کہ اگر محض انہیں کے متعلق لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے۔ ’’ بانگ درا‘‘ کے دیباچہ میں اگر شیخ عبدالقادر صاحب سے کچھ کمی رہ گئی تھی تو اسے ’’ کلیات 1؎ اقبال‘‘ کے دیباچہ میں پورا کر دیا گیا ہے اور حال ہی میں مولوی احمد دین صاحب بی اے پلیڈر کی کتاب ’’ اقبال2؎‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں علامہ موصوف کے کلام کے ارتقائی مدارج نہایت حسن و خوبی سے نمایاں کئے گئے ہیں۔ لیکن اللہ رے اہل ادب کی تشنہ کامی کہ ان کی طرف سے ہر وقت ہل من مزید کی ندا بلند ہوتی رہتی ہے۔ یہ اس جذبہ احترام و عقیدت کا نتیجہ ہے جو علامہ ممدوح کے لیے ہر خاص و عام کے دل میں شعلہ زن ہے۔ اس مختصر مضمون میں علامہ موصوف کی شاعری کے متعلق کوئی مبسوط مضمون لکھنا نہیں چاہتا بلکہ اختصار کے ساتھ بعض اہل الرائے حضرات کے خیالات اور چند واقعات پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ پر یہ حقیقت منکشف ہو جائے کہ علامہ سر اقبال کی ذات گرامی پر لاہور جس قدر فخر بھی کرے کم ہے۔ علامہ ممدوح کی مستقل اقامت نے لاہور کو زمانہ قدیم کی طرح زمانہ حال میں بھی بین الاقوامی شہرت بخشی ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: چہ طیارہ آں مرغ گردوں سپر پر او ز بال ملک تیز تر بہ پرواز شاہیں بہ نیرو عقاب بچشمش ز لاہور تا فاریاب علامہ موصوف کی شاعری کو تمام اکابرین قوم نے ایک ’’ پیغام‘‘ سے تعبیر کیا ہے جس کی بنیاد اسلامی تعلیم پر رکھی گئی ہے۔ اس میں مردانگی، آزادی، جرأت، صداقت، عدل، عالمگیر اتحاد اسلامی، قوم پرستی، وحدانیت اور بخشش رسولؐ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اشعار کیا ہیں ! درس حقیقت کے کھلے ہوئے باب ہیں ایک ایک شعر میں وہ رموز و نکات بیان کیے ہیں جن کی تفسیر کے لیے ایک ایک کتاب کی ضرورت تھی۔ ہندوستان کے تمام رہنما اور قومی کارکن اسی آتشکدے کے دہکائے ہوئے ہیں۔ علو تخیل کو دیکھ کر بعض پست خیال لوگوں نے اسے آپ کے کلام کو مشکل وادق تعبیر کیا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ’’ پیغام‘‘ عام مروجہ زبان سے بلند تر مقام سے سنایا جاتا تھا لیکن باوجود اس بلندی کے سمجھنے والوں کے لیے وہ کوئی معمہ نہیں رہتا اور اس کے لیے کسی شرح کی ضرورت نہیں۔ خود علامہ اقبال نے ایک شعر میں فرمایا ہے: 1؎ کلیات اقبال مرتبہ مولوی عبدالرزاق، مطبوعہ حیدر آباد دکن ۱۳۴۳ھ کتاب علامہ کی بلا اجازت مرتب کی گئی تھی جسے بعد ازاں ضائع کر دیا گیا۔ (ادارہ نقوش) 2؎ اقبال مصنفہ مولوی احمد دین صاحب، مطبوعہ لاہور ۱۹۲۶ء طبع اول میں کلام اقبال کا انتخاب معیاری نہ تھا لہٰذا اسے تلف کرا دیا گیا۔ (ادارہ نقوش) ہوں وہ مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا کوئی مائل ہو سمجھے پہ تو آساں ہوں میں کلام اقبال اپنے ابتدائی مراحل میں حسن و عشق کی شوخیوں سے بھرپور ہے لیکن اس دور میں بھی حکمت و فلسفہ سے خالی نہیں بلکہ سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت شاعر کے کلام سے بے چینی اور بیقراری ٹپکتی ہے۔ کبھی وہ فطرت کی دلآویزیوں میں حکمت و موعظت کا سبق تلاش کرتا ہے، کبھی راز زندگی سمجھنے میں منہمک نظر آتا ہے، کبھی وطن پرستی اور قوم پرستی میں حقیقی زندگی کا راز دیکھتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک جدید فلسفہ اور جدید پیغام کی مستحکم بنیاد رکھتا ہے جو فارسی کلام میں نمایاں ہے لیکن اردو کلام میں بھی جا بجا اس قسم کے اشعار ملتے ہیں، جن میں اسی فلسفہ کو پیش کیا گیا ہے۔ وطن پرستی پر ملت پرستی کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دین ہے تو مصطفویٰ ہے نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفویٰ خاک میں اس بت کو ملا دے خودی کی تعلیم اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے علامہ موصوف کے اکثر خیالات جو پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں ان سے جس قدر سیاسی یا معاشرتی ڈھنگ کی پیشگوئیاں تھیں وہ حرف بحرف پوری اتریں۔ یہ صرف بالغ نظری، وسیع مطالعہ اور حب اسلام کا نتیجہ تھا۔ کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں آنیوالے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ (اقبال) یہی وجہ ہے کہ نوجوان آپ کو ’’ پتلون پوش ولی‘‘ جیسے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ علامہ موصوف کی شاعری سے ہندوستان کو سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچا کہ ملک میں اب پرانی عشقیہ شاعری کی عزت نہیں رہی اور اسے اب ایک دقیانوسی چیز خیال کیا جانے لگا ہے۔ اکثر شعراء حقائق و معارف بیان کرنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ مولانا عبداللہ العمادی نے علامہ موصوف کے متعلق کلیات اقبال کے دیباچہ میں لکھا ہے: ’’ آج جبکہ ہماری شاعری گرفت و گیر کی نزاکت میں عیارانہ مشتاقی پیدا کرنے کے لیے ‘‘ اس طرح کہ کوئی چھاگل کا نہ بولے پر زور دے رہی ہے۔ اور’’ جب چھم سے چلیں گود میں چپکے سے اٹھا لو‘‘ کے فلسفہ کی عملی تعلیم دینے پر آمادہ ہے۔ سخن سنجی کو دعویٰ ہے کہ ’’ واعظ کے منہ پر مہر لگا دوں کباب کی‘‘ اور سخن سنج یہ مستزاد الاپ رہا ہے۔ ’’ ڈاڑھی کو دیا اس نے لگا بزرقطونا اور بچنے لگی گت‘‘ اس وقت یہ عرض کرنا شاید بے محل نہ ہو کہ ہماری شاعری کبھی ملکی و قومی اغراض کے تابع تھی اور اسلام کی علم برداری کا کام اس نے اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔ انتقام اہل بیت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کمیت سے ایک قصیدہ لکھواتا ہے، جس کے اثر سے دمشق سے لے کر اندلس تک تلواریں چل جاتی ہیں۔ دولت بنی امیہ کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور عباسیوں کے لیے پیش قدمی کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ ابراہیم بن المہدی ایک قصیدہ سناتا ہے اور نصرانیت سے اسلام کا انتقام لینے کے لیے تمام بغداد قسطنطنیہ پر چڑھ دوڑتا ہے۔ علامہ عبداللہ العمادی نے مندرجہ ذیل دو شعر بھی اسی جذبہ سے متاثر ہو کر لکھے ہیں: تجھ پر اے پنجاب نازل ہوں خدا کی رحمتیں اے کہ تو اقبال کی دولت سے مالا مال ہے ہم نے مانا تو نہیں مسحور تہذیب فرنگ تجھ میں سب کچھ ہے اگر اسلام اور اقبال ہے علامہ عبداللہ العمادی کے مندرجہ بالا شعر سے مسلمانوں کے اس جذبہ کی ترجمانی ہوتی ہے جو مسلمانوں کو اقبال سے ہے یہ علامہ اقبال کی اقبال مندی ہے کہ اپنی زندگی ہی میں انہوں نے اس قدر تحسین و آفرین کے پھول چنے جس سے دنیا کے بڑے بڑے شاعر محروم رہے ہیں۔ افسوس آج وہ ماہرین علم و فضل ہم میں موجود نہیں جنہوں نے علامہ اقبال کی پیشانی پر شاندار مستقبل کی جھلک دیکھی تھی۔ اگر مرزا ارشد گورگانی مرحوم زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ لاہور کے ایک مشاعرہ میں اس نوجوان شاعر نے جس نے آپ کے روبرو یہ شعر پڑھ کر آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے اب ترقی و شہرت کی انتہائی منزل پر جا پہنچا ہے اگر علامہ شبلی نعمانی ہم میں ہوتے تو دیکھتے کہ جس شخص کی خدمت میں انہوں نے ۱۹۱۱ء میں ملک الشعراء کا خطابد ہلی میں پیش کیا تھا وہ پندرہ سال بعد فلسفہ و اجتہاد کی کتنی بلند ترین منزل پر گامزن ہے۔ علامہ شبلی نعمانی کے علاوہ میر آزاد بلگرامی نے آپ کو ’’ حسان الہند‘‘ کا خطاب دیا تھا حضرت مولانا سلیمان شاہ پھلواروی نے ’’ فرزوق ہند‘‘ لکھا۔ لسان العصر حضرت اکبر الٰہ آبادی نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا: حضرت اقبال میں جو خوبیاں پیدا ہوئیں قوم کی نظریں جو ان کے طرز کی شیدا ہوئیں یہ حق آگاہی یہ خوش گوئی یہ ذوق معرفت یہ طریق دوستی یہ خود داری با تمکنت اس کے شاہد ہیں کہ ان کے والدین ابرار تھے با خدا تھے اہل دل تھے صاحب اسرار تھے اور حضرت گرامی مدظلہ العالی فرماتے ہیں: در دیدۂ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبری کرد و پیمبر نتواں گفت اردو اخبارات نے ’’ ترجمان حقیقت‘‘ اور’’ ترجمان اسلام‘‘ کے القاب لکھے۔ حکومت ہند نے آپ کے علم و فضل کے اعتراف میں ’’ سر‘‘ کا خطاب مرحمت فرمایا۔ ہندوستان کے علاوہ یورپ میں بھی علامہ موصوف کے متعلق اسی قسم کی ندرت میں منزلت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ فلسفہ عجم کی تنقیح و تحقیق پر ایک مضمون لکھنے پر جرمنی نے ڈاکٹر آف فلاسفی پی ایچ ڈی کی ڈگری دی یہ مضمون میں طبع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نکلسن پروفیسر کیمرج یونیورسٹی لکھتے ہیں: ’’ اقبال کا قول ایک مسلمان کا خیال اور مسلمان کا قول ہوتا ہے وہ ایک وسیع جمہوری دنیا دیکھتا ہے جس میں تمام اسلامی ریاستیں متحد و مشترک ہیں۔ جس میں ملک و ملت کی کوئی تمیز نہیں۔ اسے قومیت اور شہنشاہیت کی ضرورت نہیں۔ اس کے خیال میں یہ چیزیں انسان کو جنت سے محروم کر دیتی ہیں اور جنگ کا تلخ بیج بویا جاتا ہے وہ سیاست کی جگہ مذہبی حکومت کا خواب دیکھتا ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ کی طرح اقبال بھی اپنے مطالب کو زود فہم اور آسان بنانے کے لیے جا بجا حکایات و امتثال سے کام لیتا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسری بہتر صورت نہیں۔‘‘ سائیکلو پیڈیا برٹینکا میں علامہ ممدوح کو شاعر پین اسلامزم کا خطاب دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر آرنلڈ کا قول ہے کہ : ’’ اقبال کی شاعری انکشاف حقیقت ہے۔‘‘ امریکا کے مقتدر رسائل و اخبارات نے علامہ موصوف کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں شیکسپیئر، گوئٹے اور نیٹشے سے تشبیہہ دی ہے۔ بعض نے انہیں ’’ ایشیا کا سب سے بڑا شاعر‘‘ لکھا ہے۔ ایک امریکن نقاد لکھتا ہے کہ: ’’ گزشتہ آٹھ سو سال میں اس پایہ کا شاعر دنیا میں پیدا نہیں ہوا‘‘ اٹلی میں فلسفہ کی انتہائی ڈگری کے لیے جو کورس پڑھایا جاتا ہے اس میں علامہ اقبال کے کلام کا انگریزی ترجمہ Secret of the self اسرار خودی بھی شامل ہے۔ قفقاز کی مسلمان جمہوری ریاستوں میں ان کا کلام درسی کتب میں شامل ہے اور ترکی میں بھی علامہ اقبال کا کلام ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ عربی اور ترکی زبان میں کئی نظمیں ترجمہ ہو چکی ہیں اور حال ہی میں خبر آئی ہے کہ پیام مشرق کا ترجمہ جرمنی زبان میں شروع ہو گیا ہے۔ الغرض ہندوستان کے اندر او رباہر ہر جگہ علامہ موصوف کا کلام بلاغت نظام تحسین و آفرین کے پھول چن رہا ہے۔ کلیات اقبال کے دیباچہ میں لکھا ہے: ’’ میر کا سوز و گداز، غالب کی جدت و اجتہاد، مومن کی نازک خیالی، ذوق کی روانی و صفائی، درد کی تاثیر و دلآویزی، شکسپئیر کی فطرت نگاری، ملٹن کی پرواز فکر، شبلی کی شیریں کلامی، ورڈس ورتھ کی نیچر پرستی، ٹینی سن کی فصاحت، کولرج کی موسیقی، گیٹے کی حکمت شعاری، یہ سب ان کے کلام میں جمع ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال کا یہ نیا طریق شاعری کسی اور راہرو کے لیے کس قدر پر خطر ہو گا۔ مولانا سالک کا قول ہے: ’’ علامہ اقبال نے اپنی حیات افروز شاعری سے شعر کی دنیا میں جو انقلاب عظیم پیدا کر دیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ لیکن ان کی غلط تقلید نے بہت سے نوجوان شاعروں کی کاوشیں برباد اور عمریں تباہ کی ہیں۔ ان کے نزدیک اقبال کی تقلید صرف اسی میں ہے کہ چند فارسی کی ترکیبیں جمع کر کے ایک نظم تیار کر دی جائے۔ اس میں معنی نہ ہوں، اس میں شاعرانہ بلند خیالی اور فطرت کی صحیح مصوری نہ ہو۔ اس کی پرواہ نہیں لیکن شعر گفتن ضرور است۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ بعض شاعر محض اسی لیے ناکام ہیں کہ وہ علامہ موصوف کی تقلید کرنا چاہتے تھے مگر یہی شاعری ہوشمندانہ شعراء کے لیے مشعل راہ کا کام دے سکتی ہے۔ ۱۹۲۲ء میں نوبل پرائز پر تنقید کرتے ہوئے بمبئی کرانیکل نے لکھا تھا: ’’ شاعری کے خداداد وصف کی بدولت جو اثر مسٹر ییٹس Yeats نے اپنے ساتھیوں میں پیدا کیا ہے اس کی ہمسری اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ ہندوستان کا اعلیٰ ترین شاعر اقبال ہے۔ فی الحقیقت ان دونوں کی شاعری بہ لحاظ تصوف و روحانیت کئی باتوں میں ملتی ہے دونوں فطرت نگار ہیں۔ حسن کی شیفتگی اور قدرت کی گلکاری کا جذبہ دونوں میں موجود ہے۔ دونوں سرگرم حامیان وطن و بنی نوع انسان ہیں۔ ملک میں ایک وقت یہ امیدیں بندھ گئی تھیں کہ اس سال انعام اقبال کے حصہ میں آئے گا۔ ان توقعات کے پورا ہونے کا امکان بھی دیوٹرکی ایک اطلاع سے فی الواقع پایا گیا تھا۔ لیکن اب یہ انعام دوسرے کو مل چکا ہے۔‘‘ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا تھا: ’’ یہ اعلان کہ اس سال علم ادب کا نوبل پرائز مسٹر ایٹس کو دیا گیا ہے ہندوستان میں کسی قدر مایوسی کا باعث ہو گا تین چار مجوزہ ناموں میں سب سے زیادہ قابل وقعت نام ہندوستان اور یورپ کے علمی حلقوں میں سر محمد اقبال کا ہے۔ اگر ہندوستان کی ایک دفعہ اور قدر و منزلت کی جاتی تو اقبال سے بہتر کوئی اور اس کا مستحق نہ ہوتا۔‘‘ مگر ایٹس اور برناڈو وغیرہ سے علامہ اقبال عمر میں چھوٹے ہیں اس لیے اہل ہند کو بالکل مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہم لاہور میں رہتے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم اس زمانہ میں پیدا ہوئے جبکہ علامہ سر اقبال بفضل خدا زندہ و سلامت ہیں۔ اللہ پاک انہیں ہمارے سروں پر تاسی و صد سال زندہ و سلامت رکھے۔ آمین ہمیں فخر حاصل ہے کہ علامہ اقبال کی زبان سے آپ کا بلند پایہ کلام سنا ہے اور آپ کے پاکیزہ خیالات گھنٹوں بیٹھ کر سنے ہیں اور علامہ اقبال کی درویشی صفتی کی بدولت لاہور کا ہر گدا یہ فخر روزانہ حاصل کر سکتا ہے۔ آپ کے آستانے پر معتقدین کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے اور آپ شاہ و گدا سب کو ایک ہی طرح ملتے ہیں اور سب کو اپنے فیض سے متمتع ہونے کا موقعہ دیتے ہیں۔ آنے والی نسلیں جب علامہ اقبال کا کلام پڑھا کریں گی تو ہماری خوش قسمتی پر رشک کیا کریں گی۔ ہم نے علامہ اقبال کی زبان سے نالہ یتیم، فریاد امت، تصویر درد، شکوہ، جواب شکوہ، شمع و شاعر، خضر راہ، طلوع اسلام جیسی نظمیں سنی ہیں ان کی بلیغ تقریریں سنی ہیں۔ اسرار خودی، رموز بیخودی اور پیام مشرق کے اشعار سنے ہیں اور بشرط زندگی اب وہ وقت جلد آنے والا ہے جب ہم آپ کی تازہ تصنیفات کی دید سے مستفید ہوں گے۔ اس کے علاوہ انگریزی اور اردو نثر میں خطبات اسلامیہ کو پڑھنے کا بھی ہمیں انتظار ہے جن کے متعلق ہم تیقن سے کہہ سکتے ہیں کہ معقولیت کے انداز میں اسلام کی اس سے بہتر ترجمانی متقدمین نے بھی نہیں کی اور اس دور معقولیت میں اسلام کی تاریخ میں ایک یاد رہنے والا واقعہ ہو گا۔ علامہ اقبال کے متعلق مندرجہ بالا سطور میں چند ٹوٹے پھوٹے خیالات جمع کر دیے ہیں۔ لیکن اس جذبہ محبت کا یہ عشر عشیر بھی نہیں جس کے مستحق علامہ موصوف ہیں۔ بقول علامہ موصوف: جس پہ خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں ہوں میں ٭٭٭ (جنوری ۱۹۲۷ئ) علامہ اقبال اور ’’ نیرنگ خیال‘‘ اقبال شناسی کا ایک دور پروفیسر سلیم اختر اس صدی کے آغاز میں لاہور سے شیخ عبدالقادر نے ’’ مخزن‘‘ کا اجزاء کیا تو اب اسے جریدی صحافت میں ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل اگرچہ لاہور بعض دیگر شہروں سے ادبی جریدوں کی اشاعت کے سلسلہ کا آغاز ہو چکا تھا۔ مگر سنجیدہ قارئین کے لئے ’’ مخزن‘‘ ایسے سنجیدہ فکر جریدہ کے روپ میں شیخ عبدالقادر نے جس روایت کی داغ بیل ڈالی وہ لاہور میں یوں پھلی پھولی کہ لاہور ہمیشہ کے لئے ادبی جرائد اور ان کے حوالے سے ادبی تحریکوں کا مرکز بن گیا۔ چنانچہ آج پون صدی کے بعد بھی ادب اور ادبی جرائد کے سلسلے میں برصغیر اب بھی لاہور ہی کی طرف دیکھتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ لاہور کے اہم ادبی پرچوں کے حوالے اردو ادب کی گزشتہ پون صدی کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔ مخزن، نیرنگ خیال، ہمایوں، ادبی دنیا، ادب لطیف، سویرا، نقوش اور فنون۔۔۔ یہ محض چند جریدوں کے نام نہیں بلکہ مختلف ادبی میلانات کے دھاروں کے تال میل کی داستان کے درخشندہ ابواب ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس صدی کے آغاز سے اہل پنجاب میں نئے اور ابھرتے اہل قلم کی تخلیقی کاوشوں کی تشہیر میں بھی ان جریدوں نے اہم ترین کردار ادا کیا اور اگر ’’ دبستان للہور‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنی ہو یا ’’ پنجاب میں اردو‘‘ کا نعرہ لگانا ہو تو پھر تخلیقی مصنفین کے ساتھ ساتھ ادبی جرائد کے فعال کردار کو کسی طرح سے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ امر بھی معنی خیز ہے کہ اس صدی کے آغاز سے علامہ اقبال کی شاعرانہ صلاحیتوں کی نشوونما اور شہرت کے ساتھ ساتھ پنجاب کی جریدی صحافت بھی مراحل ارتقا طے کرتی گئی واضح رہے کہ بانگ درا کی پہلی نظم ’’ ہمالہ‘‘ مخزن کے شمارہ اول (اپریل ۱۹۰۱ئ) میں طبع ہوئی تھی۔ جس طرح یہ نظم اردو کی شعری روایات سے الگ اور منفرد نظر آتی ہے۔ بالکل اسی طرح لاہور کے سنجیدہ ادب کے داعی یہ جرائد بھی برصغیر کے دیگر جرائد سے جداگانہ اور ممتاز نظر آتے ہیں اور منفرد اور ممتاز نظر آنے والے جرائد میں نیرنگ خیال کی ایک اپنی جداگانہ تاریخ ہے۔ حکیم یوسف حسن نے ۱۹۲۴ء میں لاہور سے اس کا اجراء کیا تو پہلے شمارہ سے ہی اس نے اہل ذوق کا دامن دل کھینچ لیا۔ اب تک ادبی جریدوں کے گٹ اپ کی طرف بہ طور خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ لیکن نیرنگ خیال نے کتابت و طباعت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرتے ہوئے بلند پایہ نگارشات کی حسن و خوبی کے ساتھ پیش کش کی طرح نو ڈالی۔ آج اپنی زندگی کے تقریباً پچاس برسوں میں نیرنگ خیال اجڑا اجڑا نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کھنڈر سے گزشتہ حسن اور رعنائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخ ادب میں نیرنگ خیال کا کردار محفوظ ہو چکا ہے۔ نیرنگ خیال کے مدیر نے اور اگر کچھ بھی نہ کیا ہوتا تو صرف ۱۹۳۲ء میں اقبال نمبر کی اشاعت ہی ایک ایسا کارنامہ ہے کہ اس کی بناء پر نیرنگ خیال اقبالیات میں سر فہرست آجاتا ہے اور یہ اعزاز بذات خود بہت اہم ہے۔ اس خصوصی اشاعت کے اداریہ میں حکیم صاحب نے یوں لکھا: ہندوستان میں اقبال کو جاننے والوں کی تعداد کروڑوں سے متجاوز ہو گی لیکن اقبال کو سمجھنے والوں کی تعداد ہزاروں سے زیادہ نہ ہو گی اور یہ حال دنیا کے ہر بڑے شاعر کا ہوتا ہے لیکن اقبال نمبر کی اشاعت کے بعد توقع ہے کہ ہندوستان کا تمام تعلیم یافتہ طبقہ جوان مضامین کو غور و فکر سے پڑھے گا اقبال کے پیغام کو سمجھنے لگے گا تو ان میں اس امر کی تحریک پیدا ہو گی کہ وہ اسرار خودی اور رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم اور جاوید نامہ کو سبقاً سبقاً پڑھیں۔ اور اس سے انکار ممکن نہیں نیرنگ خیال نے علامہ کی زندگی میں جس فنکارانہ انداز سے انہیں خراج عقیدت پیش کیا وہ اقبالیات میں ایک گرانقدر مقام کا حامل ہے۔ محمد طفیل نے محمد نقوش بننے تک جن پر پیچ مراحل کو طے کیا۔ا ن کے تذکرہ کا یہ محل نہیں لیکن اتنا ہے کہ گزشتہ ربع صدی میں نقوش نے اردو ادب کو جو کچھ عطا کیا۔ اس کا تذکرہ آج سے زیادہ کل کلاں کو ہو گا۔ یہ بھی محمد طفیل کی جدت پسندی ہے یا خراج تحسین کہ نیرنگ خیال کے اقبال نمبر (۱۹۳۲ئ) کو نقوش کے لفافے میں لپیٹ کر یوں پیش کیا کہ اسے قرآن السعدین کہنا بے جا نہ ہو گا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ اقبال پر سینکڑوں رسالے اور ہزاروں کتابیں موجود ہیں مگر یہ نمبر ہزاروں ہی میں ممتاز سینکڑوں ہی پہ بھاری!۔۔۔۔ اور یہ بھی کہ جب تک اقبال زندہ ہے اس پر کام کرنے والے زندہ ہیں یہ نمبر بھی زندہ ہے حکیم صاحب بھی زندہ!‘‘ نیرنگ خیال کا چرچا تو سب نے سنا تھا لیکن دیکھا بہت کم نے تھا۔ چند محققین یا اقبال شناسوں کے کتاب خانوں میں محفوظ چند پرچے، جنہیں شے مسرقہ کی مانند سب سے چھپا چھپا کر رکھا جاتا تھا محمد طفیل کا اقبال شناسوں پر یہ واقعی احسان ہے کہ انہوں نے اقبال نمبر کی خوشبو کو عام کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ موت سب کچھ چھین لیتی ہے مگر وہ کسی سے اس کے کارنامے نہیں چھینتی!‘‘ یہ بالکل درست ہے اور نیرنگ خیال، اقبال، نقوش اور محمد طفیل کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے۔ (۲) اس صدی کے آغاز سے علامہ کی شاعری اور شہرت کا جو آغاز ہوا تو دونوں کے پر لگائے اڑتی گئیں۔ ۱۹۱۵ء میں اسرار خودی شائع ہوئی جس نے حافظ اور تصوف پر اعتراضات کی بناء رپ اگر ایک طرف علامہ کو تنگ نظر مسلمانوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنایا تو دوسری طرف ۱۹۲۰ء میں نکلسن کے انگریزی ترجمے نے مغربی دانشوروں کو علامہ کے فکر و فن سے متعارف کرا دیا۔ چنانچہ اقبال کے اولین مبصروں میں ای ایم فارسٹر، پروفیسر ڈکنسن اور ہربرٹ ریڈ کے نام بے حد معروف ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا اسرار خودی کے بعد سے علامہ کے سامنے اپنا ادبی نصب العین اور شاعرانہ مسلک آئینہ ہو گیا۔ کیونکہ اس کے بعد تخلیق کی جانے والی منظومات ان کے مخصوص پیغام کی ترسیل ہی نہیں کرتیں بلکہ قدم قدم اسے آگے بھی بڑھاتی ہیں۔ چنانچہ آئندہ بیس برسوں میں علامہ کے فکر و فن کی متنوع جہات اور ان سے وابستہ جزئیات میں نکھار آتا گیا اور قصر افکار مستحکم اور پائندہ تر ہوتا گیا۔ اگرچہ علامہ کی مخالفت تکفیر کی صورت میں نقطہ عروج کو پہنچ گئی لیکن کہنہ تعصبات کے اندھیرے میں بھٹکنے والے چند مذہبی شدت پسندوں سے قطع نظر عوام کی اکثریت میں ان کی شاعرانہ عظمت، مقبولیت اور محبت کا اثر گہرا سے گہرا اثر ہوتا گیا چنانچہ زندگی ہی میں ان کی فکری عظمت کا اعتراف کر لیا گیا۔ عوام کی سطح پر بھی اور خواص کی حد تک بھی، اس لئے ان کی زندگی ہی میں ان پر لکھنے کا آغاز ہو گیا۔ یہ امر بذات خود بہت اہم ہے اس لئے کہ اردو تنقید کی عمر کوئی ایسی خاص زیادہ نہیں ہے۔ اگر مقدمہ شعر و شاعری (۱۸۹۳ء ) سے اردو تنقید کی عمر گنی جائے تو اس صدی کے آغاز تک وہ صرف سات برس کی تھی۔ یوں سمجھئے کہ تنقید اور اقبال دونوں نے تقریباً ساتھ ساتھ اپنا تخلیقی سفر شروع کیا مگر ہوا یہ کہ اسرار خودی تک اقبال کا فکر جوانی کی پختگی اختیار کر چکا تھا۔ مگر تنقید بائیس برس کی عمر کے باوجود ابھی تک ناپخت تھی، اور نابالغانہ انداز کی حامل اس لئے اس وقت تک اردو تنقید، لفظی اور عروضی بحثوں کے چنگل میں پھنسی نظر آتی تھی اور اس کا سب سے بڑا سرمایہ محض تشریحی اور توضیحی مضامین تھے۔ اردو تنقید کی فلسفہ، نفسیات اور دیگر اہم اور جدید علوم سے برائے نام آشنائی تھی۔ اس لئے چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر عام اردو تنقید حالی کے ’’ مقدمہ‘‘ آزاد کی ’’ آب حیات‘‘ اور شبلی کی ’’ شعر العجم‘‘ سے آگے نہ دیکھ سکتی تھی۔ با الفاظ دیگر اردو تنقید ابھی تک ایک ہی دائرہ میں گردش کناں تھی۔ جب کہ فکر اقبال مسلسل ارتقاء پذیر تھا اور مستقلاً عمودی سفر میں! تجزیہ و تحلیل سے عاری محض تحسین اردو تنقید میں در حقیقت اقبال شناسی کی سکت نہ تھی لیکن اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ ناقدین نے مقالات قلم بند کئے بلکہ علمی اور تحقیقی نقطہ نظر سے بعض مقالات تو آج کے سخت تنقیدی معیار پر پورا اترنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ میں ابتدائی دور کے ناقدین کی تنقیدی کاوشوں کی اہمیت کو گھٹانا نہیں چاہتا۔ صرف اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانی مقصود ہے کہ ایک تو اقبال پر لکھنا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں اور دوسرے اقبال پر لکھی جانے والی بیشتر تحریروں میں بسا اوقات سوچ کی جس یک رنگی خیالات کی تکرار اور اقدار نظر میں تنوع کے فقدان کا احساس ہوتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ بہت دور تک جاتی ہے۔ یہ ہے وہ تنقیدی تناظر جس میں اقبالیات کی داغ بیل ڈالی گئی اور ۱۹۳۲ء میں نیرنگ خیال کا اقبال نمبر مرتب کیا گیا۔ فہرست پر ایک نگاہ ڈالتے ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس عہد کے نہ صرف معروف ناقدین کی یہ ’’ گلیکسی‘‘ ہے بلکہ ان میں ایسے اسماء کی کمی نہیں جو آج بھی اتنے ہی معروف ہیں یہی نہیں بلکہ اقبال شناسی میں ان حضرات کی پیش رو سعی آج بھی اہم ہے۔ تاریخی اہمیت کے لحاظ سے بھی اور تنقیدی قدر و قیمت کے معیار سے بھی! ملک راج آنند، قاضی عبدالغفار، عبدالرحمن بجنوری، محمد اسلم جیرا جپوری، غلام احمد پرویز، ممتاز حسن، صوفی تبسم، ڈاکٹر نکلسن، حامد حسن قادری اور سید نذیر نیازی!۔۔۔ یہ ایسے نام ہیں جنہوں نے اقبالیات میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اقبال پر اتنا کام ہونے کے باوجود یہ نمبر جو اب تک زندہ رہا اور اقبال شناسوں کے لئے حوالہ کی چیز بنا رہا تو اس کے مندرجات پر ایک نگاہ ڈالنے سے اس کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ (۳) اس نمبر میں شائع ۲۷ مقالات کی بلحاظ موضوع درجہ بندی سے نہ صرف ان کی اہمیت اجاگر ہو گی بلکہ ان کے تنوع کے حوالے سے فکر اقبال کی مختلف جہات بھی نمایاں ہونگی۔ سوانح: ۱۔ ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال از منشی محمد دین فوق ۲۔ علامہ اقبال کے استاذ از شیخ آفتاب احمد تصورات کی تشریح: ۳۔ اقبال اور سیاسیات عالیہ از سید زبیر ایم اے ۴۔ متفادل اقبال از غلام احمد پرویز ۵۔ علامہ اقبال ایک ریفارمر کی حیثیت میں از عبدالرشید فاضل ۶۔ علامہ اقبال از احمد علی خان درانی ۷۔ اقبال ایک مصلح کی حیثیت سے از شیخ عبدالرحمن شاعری کا مطالعہ: ۸۔ اقبال کی شاعری از ملک راج انند ۹۔ پیام اقبال از قاضی عبدالغفار ۱۰۔ اقبال کی شاعری پر قیام یورپ کا اثر از ممتاز حسن ایم اے ۱۱۔ علامہ اقبال کی شاعری از صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ۱۲۔ کلام اقبال کی ادبی خوبیاں از محمد اکبر خان تجزیہ کتب: ۱۳۔ مثنویات اقبال از عبدالرحمن بجنوری ۱۴۔ جاوید نامہ از محمد اسلم جیرا جپوری ۱۵۔ جاوید نامہ از چودھری محمد حسین ۱۶۔ پیام مشرق از ڈاکٹر نکلسن ۱۷۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ از سید نذیر نیازی فلسفہ اقبال: ۱۸۔ فلسفہ سخت کوشی از چراغ حسن حسرت ۱۹۔ علامہ اقبال اور فلسفہ تصوف از ادیب اے آبادی ۲۰۔ اقبال اور فلسفہ مغرب از ممتاز حسن احسن تقابلی مطالعات: ۲۱۔ اقبال اور اسلامی دنیا کے دیگر شعرائ از ملک عبدالقیوم ۲۲۔ ٹیگور اور اقبال از مرزا عسکری علی خان ۲۳۔ میر، غالب، اقبال از حامد حسن قادری ۲۴۔ شاعران عالم اور شاعر اسلام از ظفر قریشی دہلوی متفرقاتـ: ۲۵۔ اقبال اکاڈمی از راغب احسن ایم اے ۲۶۔ اقبال پر ایک محققانہ نظر اور اس کی نفسیاتی تشریح از راغب احسن ایم اے ۲۷۔ حسن عقیدت از محمد عمر نور الٰہی نیرنگ خیال کے اقبال نمبر کے اولین مقالہ (اقبال اکاڈیمی) کا سر طامس آرنلڈ کی ’’Islamic Faith‘‘ (لندن ۱۹۲۸ئ) میں مطبوعہ ایک تحریر کے اقتباس سے آغاز کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریر اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ استاد محترم نے اپنے نامور شاگرد کے فکر و فن اور تخلیقی شخصیت پر جو تبصرہ کیا۔ وہ اختصار کے باوجود بے حد جامع ہے کہ ان کے بقول: ’’ مشرق اور ہندوستان میں حرکت تجدید نے اپنا ممتاز ترین ظہور سر محمد اقبال کی شاعری میں حاصل کیا ہے۔ جو مشرقی اور مغربی فلسفہ و زندگی کے ایک متین و عمیق محقق ہیں۔ وہ تازہ سے تازہ فلسفیانہ تفکر کے ترقیات سے آگاہ ہیں اور انہوں نے برگسن اور نیٹشے کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔ لیکن سر محمد اقبال اپنے زبردست علم و فضل اور وسیع مطالعہ و تحقیق کے باوجود ہرگز دوسروں کے خیالات کی آواز باز گشت نہیں ہیں بلکہ امتیازی طور پر ایک اصلی (اوریہ یخیل) مفکر و مجتہد ہیں۔۔۔۔‘‘ ا س رائے کی روشنی میں ’’ نیرنگ خیال‘‘ کے مقالات کا مطالعہ کرنے پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس رائے پر ایک علمی دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ دلیل جس کی توثیق میں آنے والے عہد کے ناقدین ادب نے بالعموم اور اقبال شناسوں نے بالخصوص اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ ’’ اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت پر بعض انگریز دانشوروں نے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ان میں سے ہربرٹ ریڈ اور ای ایم فاسٹر کے مقالات تو توضیحی تھے۔ بالخصوص امریکی جریدہ (’’ New Age‘‘ ۲۵ اگست ۱۹۲۱ئ) میں مطبوعہ ہربرٹ ریڈ کا مقالہ کو کون کہہ سکتا ہے اس سہرے سے بڑھ کر سہرا۔۔۔ کے انداز پر تھا۔ 1؎ لیکن پروفیسر نکلسن نے ’’ دی اینتھم‘‘ میں معانہ رویہ کا اظہار کرتے ہوئے فلسفہ اقبال پر شدید اعتراضات کرتے ہوئے انہیں ’’ خونیں ستارہ‘‘ قرار دیا تھا۔ اقبال نے ا سکے جواب میں مترجم ڈاکٹر نکلسن کو جو طویل خط لکھا۔ اسے ’’ فلسفہ سخت کوشی‘‘ کا عنوان دے کر بطور مضمون شامل کیا گیا ہے۔(مترجم چراغ حسن حسرت) بعد میں ’’ اقبالنامہ‘‘ (حصہ اول، ص ۷۲۔ ۴۵۷) مرتبہ شیخ عطا اللہ میں بھی اسے بطور ایک مکتوب شامل کیا گیا ۔ فلسفہ اقبال میں سخت کوشی اور سعی و عمل کی جو تلقین ملتی ہے۔ اس پر کئے گئے اعتراضات کے جواب کے لئے 1؎ ہربرٹ ریڈ نے بہترین شاعری کے لئے مابعد الطبیعات کا معیار مقرر کرتے ہوئے لکھا: ’’ اس تصور کے معیار پر اگر آج کے اپنے شعراء کی پرکھ کی جائے تو مجھے صرف ایک ایسا زندہ شاعر نظر آتا ہے۔ جو کم معیار نہ ثابت ہو گا اور یہ بھی طے ہے کہ وہ ہمارے عقیدہ اور نسل کا شاعر بھی نہیں ہے۔ میری مراد محمد اقبال سے ہے۔۔۔ آج جب کہ ہمارے مقامی متشاعر اپنے بے تکلف احباب کے حلقے میں بیٹھے کیٹس کے تتبع میں کہتے اور ایسے ہی گھریلو موضوعات پر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ تو ایسے میں لاہور میں ایک ایسی نظم تخلیق کی گئی ہے۔ جس کے بارے میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ اس نے مسلمانوں کی جوان نسل میں طوفان برپا کر دیا ہے۔‘‘ یہ مضمون گو اب ایک بنیادی حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہمیت اس امر میں مضمر ہے کہ انسان کامل کے تصور کی تشکیل میں اقبال نے نہ صرف اپنے تصور کی اساس پر روشنی ڈالی بلکہ نیٹشے کے اثرات کی نفی کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں یہ لکھا: ’’ اس نے خلط مبحث کر کے میرے انسان کامل او رجرمن مفکر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کر لیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسان کامل کے متصوفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو نیٹشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا نہ اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ 1؎‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ناقدین کی اکثریت کی نظر سے علامہ کا یہ مکتوب نما مقالہ نہیں گزرا۔ کیونکہ بیشتر مقالہ نگاروں کے لئے نیٹشے کا نام لینا فرض بن چکا ہے دعا گو ہوںکہ نقوش کے اس نمبر کی بدولت اب نیٹشے نیٹشے کی گردان بند ہو جائے (آمین) غلام احمد پرویز نے اپنے لبرل مذہبی عقائد اور تجدد پسندی کی بناء پر بیشتر مسلمانوں کے نزدیک خاصے مشکوک سے ہیں۔ چنانچہ ان کی متنازعہ فیہ حیثیت کو مدنظر رکھ کر مقالے کا مطالعہ کیا تو ایک لحاظ سے اسے پروفیسر ڈکنسن کے اعتراضات کا جواب اور علامہ کے مکتوب کی تعبیر پایا۔ پرویز نے برصغیر میں تصوف کے نام پر پھیلی مردہ دلی کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے اردو شاعری میں یاس و قنوطیت کی قومی روایت کے پس منظر میں علامہ کے پیغام حرکت و عمل اور جہد و سعی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس سب کا نام تہذیب الاخلاق رکھ چھوڑا تھا۔‘‘ اس تناظر میں علامہ کے اردو اور فارسی کلام میں سے سعی و عمل کی ترغیب کے فلسفیانہ مقاصد اجاگر کرتے ہوئے لکھا: ’’ حقیقت سے آگاہی لازمی نتیجہ تھا کہ قوم کو اپنی بے حسی اور جمود و سکوت کا احساس پیدا ہوتا۔ چنانچہ جب دیکھا کہ قلب ملت میں خوابیدہ حسیات کی بیداری کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ع روق مردہ میں خون زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں تو تخلیق آرزو (یا کم از کم تجدید آرزو) کی ضرورت پڑی۔ کیونکہ ایک طرف متاع حیات کی قدر و قیمت اور دوسری طرف اپنی قوت بازو کا احساس پیدا ہو گیا تو جلب منفعت اور رفع مضرت کے لئے آرزوؤں کا پیدا ہونا اس کا لازمی نتیجہ تھا۔ لہٰذا آرزو کی اہمیت مختلف پیراؤں میں واضح کی گئی۔ اور میں کہوں گا کہ یہی چیز علامہ ممدوح کا حقیقی پیغام ہے۔ پہلی منزل کو اس کا مقصد سمجھنا چاہئے اور قوت عمل کو اس کا نتیجہ یہی جوہر تھا۔ جس کے فقدان سے قوم پر مردہ دلی اور بے حسی کی گھٹائیں چھا رہی تھیں اور اس کی تخلیقی یا رجعت اس مرض کا علاج تھا۔‘‘ علامہ اقبال ایک ریفارمر کی حیثیت میں (از محمد عبدالرشید فاضل) اور ’’ اقبال ایک مصلح کی حیثیت سے‘‘ (از شیخ عبدالرحمن) ایک 1؎ علامہ کے اس مقالہ کا ایک عنوان یہ ہے: The Doctrine of Absolute unity as expressed by abdul karim al Jilani.(مطبوعہ انڈین اینٹی کیوری، بمبئی ستمبر ۱۹۰۰ئ) ہی موضوع پر دو الگ الگ مقالات ہیں۔ لیکن جیسے ان کے عنوانات میں یکسانیت ملتی ہے۔ اس طرح دونوں کے انداز نظر اور استدلال میں یکسانیت نہیں۔ ان دونوں حضرات نے اقبال کو روایتی معنوں میں مصلح نہیں دیکھا بلکہ ان کے فکر کی گہرائیوں میں ڈوب کر اس اصلاح پسندی کو فلسفیانہ افکار اور پیغام حیات کے ساتھ مشروط کر کے قوم کے لئے لائحہ عمل دیکھا گیا ہے۔ بعض امور (جیسے خودی) کے بارے میں ان دونوں کے ہاں اشتراک فکر بھی ملتا ہے۔ سو ان کا تقابلی مطالعہ خاصا دلچسپ ثابت ہو سکتا ہے۔ سید زبیر ہزاروی نے اپنے مقالہ ’’ اقبال اور سیاسیات عالیہ‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے۔ ’’ اقبال کی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی افکار میں بت شکن واقع ہوا ہے۔‘‘ اور دیکھا جائے تو یہ مفصل مقالہ اقبال کی اسی بت شکنی کی تشریح بن جاتا ہے۔ صاحب مقالہ نے ایک ایک کر کے مغربی سیاست کے اہم ترین نظریات کا جائزہ لیا ہے اور پھر اقبال کے سیاسی افکار کی روشنی میں ان کے حسن و قبح کو اجاگر کیا گیا ہے۔ چنانچہ جمہوریت، قومیت، بین الاقوامیت اور اشتراکیت سب کا اقبال کے حوالہ سے تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے ان کے نقائص اجاگر کئے گئے ہیں۔ مضمون کا اختتام علامہ کے جن اشعار پر کیا گیا ہے۔ وہ بھی بہت معنی خیز ہیں۔ انقلابی کہ نگنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ہیچ نہ بنیم کہ چساں می بینم خرم آں کس کہ دریں گرد سوارے بیند جوہر نغمہ ز لرزیدن تارے بیند علامہ اقبال کی شاعری اور شاعرانہ منصب کی تشریح و توضیح میں جو پانچ مقالات قلم بند کئے گئے ہیں وہ اس لحاظ سے تو اہم ہیں کہ ان کے لکھنے والوں میں ملک راج آنند، قاضی عبدالغفار ممتاز حسن اور صوفی تبسم ایسے اسماء نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اس بناء پر بھی آج بھی کار آمد ہیں کہ اقبال کی شاعری کے ضمن میں بعض اساسی اہمیت کے نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اگرچہ ۱۹۰۵ء میں یورپ جانے سے پیشتر ہی اقبال کی شاعرانہ عظمت مستحکم بنیادوں پر استوار ہو چکی تھی۔ لیکن تین سالہ قیام یورپ ان کے لئے ایک نیا اور انوکھا تجربہ ثابت ہوا۔ ایسا تجربہ جو کئی امور میں ان کے لئے تخلیقی اپج بھی ثابت ہوتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاعرانہ جسارت کے باوجود اقبال ’’ بننے‘‘ کے عمل سے گزر رہے تھے کہ ابھی تک ان کے فکری مقاصد طے نہ ہوئے تھے۔ لہٰذا قیام یورپ کا عرصہ اقبال کی تخلیقی شخصیت کی نشوونما میں ایک اہم دور کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ممتاز حسن نے ’’ اقبال کی شاعری پر قیام یورپ کا اثر‘‘ میں اقبال کی شاعرانہ شخصیت پر اس عہد کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے جو نتائج مرتب کئے ہیں ان کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا: ’’ قیام ولایت کے دوران میں اقبال کی اردو شاعری میں ایک ایسی چیز ہے جس سے اس کی نفسی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔ اس اعتبار سے بانگ درا کے حصہ دوم کی نظمیں ایک غیر معمولی دلچسپی رکھتی ہیں یہ نظمیں اقبال کے شاعرانہ ماضی کی یاد وہاں اور اس کے شاعرانہ مستقبل کا پیش خیمہ ہیں۔۔۔ اگر ان نظموں پر ایک غائر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں ذیل کی خصوصیات نظر آتی ہیں۔‘‘ ۱۔ زندگی کا شدید احساس جو ایک حد تک ابیوریت تک جا پہنچتا ہے۔ حسن اور خصوصاً نسوانی حسن سے وابستگی جو عشق کے مترادف ہے۔ ۲۔ جذبات کی غیر معمولی نزاکت اور محبت کا لطیف مضمون ایک ہلکا سا قنوطی انداز جو حساس نوجوانوں سے مخصوص ہے۔ ۳۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کی ترجمانی یعنی اقبال کے دل و دماغ سے بتدریج اس خیال کا ظہور کہ زندگی کوشش پیہم کا نام ہے۔ اقبال کی ’’ پیغمبری‘‘ کا آغاز! ملک راج آنند نے رائل اکیڈیمی جنرل میں انگریزی میں جو مقالہ قلم بند کیا۔ ’’ اقبال کی شاعری‘‘ کے عنوان سے وہی اس نمبر میں شامل ہے، ملک راج آنند نے اس مقالہ میں اقبال کی شاعری کے تمام ارتقائی مدارج کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ اس مقالہ میں انہوں نے بھی اقبال کے دوران قیام کے اثرات سے بحث کی ہے اور اس ضمن میں نہایت معنی خیز بات کی ہے: ’’ اقبال کی بعض نظموں مثلاً کلی، سلمیٰ، تنہائی اور ’’ دریائے نیکر کے کنارے ایک شام سے معلوم ہوتا ہے کہ زمان و مکان کی زنجیریں کٹ گئی ہیں۔ عشق مجازی کا طلسم ٹوٹ چکا ہے اور وہ عشق حقیقی کی دنیا میں پہنچ گیا ہے۔ لیکن جب جوانی کے عشق کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ عشق الٰہی کی چنگاری اس خاکستر سے سلگ اٹھتی ہے تو یورپ کی فضا انہیں راس نہیں آتی۔ ان کی وہ نظم جس میں انہوں نے مغربی اقوام کو مادہ پرستی اور تعیش کے خطرات سے متنبہ کیا ہے۔‘‘ اسی جذبہ بے اختیار کا نتیجہ ہے۔ زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا‘‘ یورپ میں قیام کے اثرات کی وضاحت کے سلسلہ میں یہ دونوں مقالات ایک ہی سلسلہ کی کڑی بن جاتے ہیں۔ ہر چند کہ ملک راج آنند کے مقالے میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ’’ لیلیٰ کے خطوط‘‘ کے شہرت یافتہ قاضی عبدالغفار کا مقالہ ’’ پیام اقبال‘‘ ان کے مخصوص جذباتی اسلوب کی ایک بڑی خوبصورت مثال ہے۔ گو دیگر مقالات کی مانند انداز اس کا بھی توضیحی ہی ہے۔ لیکن قاضی صاحب کی دلکش نثر نے اسے خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔ چنانچہ شاعرانہ پیرایہ میں انہوں نے نقد کی خشکی کو سمو دیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: ’’ اقبال کے سینے میں دو روحوں کا آشیانہ تھا۔ ایک شاعر کی حسن پرست اور عشق پرور روح اور ایک مسلمان کی ہنگامہ خیز اور شورش انگیز روح، آخری دور میں حسن پرست روح ساکن اور مسلمان روح اس طرح ہنگامہ آرا ہو گئی کہ شاعر اپنا پیام بن کر ہر طرف چھا گیا۔‘‘ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے علامہ اقبال پر جو کچھ لکھا ان میں ’’ علامہ اقبال کی شاعری‘‘ بلا شبہ سر فہرست آتا ہے۔ شاید اسی لئے یہ مقالہ متعدد مرتبہ شائع کیا گیا۔ صوفی تبسم نے اس مقالے میں علامہ کی شاعری کے تین پہلوؤں کا تجزیاتی مطالعہ کیا ہے وہ یہ ہیں: الف: اقبال کا پیغام اور اس کی نوعیت! ب: اقبال کا کلام یا فن شاعری! ج: اقبال کی شاعری کی حیثیت اور اس کا اثر! صوفی تبسم نے علامہ کی شاعری اور اس کے فنی پہلوؤں کے تجزیہ میں دقت نظر کا ثبوت دیتے ہوئے اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے اور اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے اشعار کے حوالے ان کی شاعری کے مجموعے تاثر اور پیغام کی جہتوں کو نمایاں کرتے ہوئے جس رائے کا اظہار کیا وہ آج تقریباً نصف صدی بعد بھی درست تسلیم کی جائے گی۔ ’’ حضرت اقبال اپنی معجز نگاریوں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے اور آئندہ نسلیں ان کے الہامی نغموں سے اقتباس سوز کرتی رہیں گی۔‘‘ محمد اکبر خان نے ’’ کلام اقبال کی ادبی خوبیاں‘‘ میں علامہ کے کلام میں حسن معانی کو حسن الفاظ کی جوت سے روشن ہوتے دکھایا ہے۔ علامہ کی زندگی میں ان کی زبان و بیان پر اعتراضات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اپنی سطحیت کی بناء پر جلد ہی قابل وقعت اور درخوراعتنا نہ رہا کہ اہل نظر نے ان کے کلام کے جمالیاتی محاسن کی شناخت کر لی۔ یہ مقالہ اسی انداز نظر کی ابتدائی مثالوں میں سے ایک ہے۔ گو ناقدین کی اکثریت نے بطور خاص علامہ کی زبان کے جمالیاتی اوصاف اجاگر کرنے میں تندہی کا ثبوت نہ دیا کہ اصل اہمیت ان کے فلسفہ، تصورات اور ان سے وابستہ معجزات کی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ اور دیگر نوعیت کے مقالات قابل توجہ ہیں کہ ان سے اقبال کے فن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ صاحب مقالہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے: ’’ اقبال نے بہت کم نظمیں ایسی لکھی ہیں کہ جن کی زبان ’’ روز مرہ اردو‘‘ کے عین مطابق، بہت زیادہ فارسی تراکیب سے پاک اور عام اذہان کے لئے سریع الفہم ہو۔ لیکن جب وہ سہل انگاری پر اترتا ہے۔ تو سلاست بیان اور روانی خیالات میں اس کا نظیر ملنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ 1؎‘‘ اقبال کی شاعری پر ان پانچ مقالات سے وہ مجموعی تاثر مرتب ہو جاتا ہے۔ جس کی روشنی سے علامہ اقبال کی شاعری اور اس سے وابستہ اہم مباحث کی تعلیم آسان ہو جاتی ہے۔ ان مقالات کے تناظر میں جب اقبال کی بعض معروف تصانیف کے انفرادی مطالعہ پر مشتمل مقالات کا مطالعہ کیا جائے تو فکر اقبال کی بیشتر جہتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر بجنوری اس صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کے قد آور ناقد تھے۔ مشرقی زبانوں کے کلاسیکی سرمائے سے گہری واقفیت کے ساتھ ساتھ وہ مغربی زبانوں اور ان کے فلسفہ و ادب سے بھی آگاہ تھے۔ گو ان کے تمام علم و فضل کا نچوڑ ان کے مشہور مقالہ ’’ محاسن کلام غالب‘‘ میں آ گیا ہے۔ جس کا پہلا فقرہ تو اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ڈاکٹر بجنوری نے اسرار و رموز پر یہ مقالہ انگریزی میں قلم بند کیا (جسے مالک رام نے اردو2؎ کا جامہ پہنایا ہے) اور بلا شبہ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس موضوع پر یہ چند بہترین مقالات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس مقالے میں بھی بجنوری کی علمیت اور مشرق و مغرب کے مطالعے کا خوب صورت امتزاج جھلکتا ہے۔ چنانچہ جب وہ فکر اقبال کے بعض امور کی توضیح میں نیٹشے وغیرہ کا نام لیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اسے پڑھ کر اور سمجھ کر لکھ رہے ہیں۔ بجنوری نے ’’ محاسن عابد علی عابد نے اپنی تالیف ’’ شعر اقبال‘‘ میں اقبال کی زبان اور اسلوب سے خصوصی بحث کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا: ’’ جن صنائع لفظی و معنوی کا ذکر بلاغت کی کتابوں میں کیا گیا ہے وہ تمام کی تمام اقبال کے کلام میں موجود ہیں۔‘‘ 2؎ اسی مقالہ کا شیخ محمد اکرام نے ’’ اقبال کی مثنویاں‘‘ کے عنوان سے ایک اور ترجمہ کیا جو ہمایوں نمبر ۱۹۳۰ء میں شائع ہوا۔ کلام غالب‘‘ میں مغربی دانشوروں کے حوالے سے عظمت غالب کو ثابت کرنے کا جو انداز اپنایا تھا۔ اس مقالہ میں بھی اسی کی جھلک ملتی ہے۔ چنانچہ اقبال کے فکر و فن کے اہم گوشے اجاگر کرنے کے لئے ان مغربی دانشوروں سے تقابل کیا گیا ہے رالف والڈ و ایمرسن، افلاطون، فلاطینوس، سقراط، باپیکورس، میکیاولی، دانتے، نیٹشے اور روسو! ڈاکٹر بجنوری نے مثنویوں کے حوالہ سے اقبال کے بارے میں جو کہا۔ اس کی معنویت سے انکار ممکن نہیں۔ ’’ اقبال کے ساتھ ادب نوجوانوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور خود ہی جوان ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت اس کی دونوں مثنویوں سے (اسرار خودی و رموز بے خودی) پوری طرح نمایاں ہے۔ ان میں وہ زندگی ہے۔ وہ طاقت ہے جس کے لئے ہماری نئی نسل پرانے غزل گو شعراء کے دواوین کو بے سود کھنگالتی تھی۔ مجھے یہ کہنے میں ذرہ بھر باک نہیں کہ اقبال ہمارے درمیان مسیحا بن کر آیا ہے۔ جس نے مردوں میں زندگی کے آثار پیدا کر دئیے ہیں۔۔۔ مثنویاں ایک ایسے غیر فانی کلام کا جزو ہیں جو تکمیل کے بعد اسلامی دنیا کے خواب کی صحیح تعبیر ہو گا‘‘ اس مقالہ کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہربرٹ ریڈ نے بجنوری سے استفادہ کرتے ہوئے خط کشیدہ الفاظ کو اپنے مقالے میں بہ طور حوالہ شامل کیا ہے (مطبوعہ ’’ New Age‘‘ ۲۵ اگست ۱۹۲۱ئ) ڈاکٹر نکلسن نے ’’ اسرار خودی‘‘ کے انگریزی ترجمہ کے ذریعہ اقبال کو مغرب سے متعارف کرانے کے بعد اقبال کے فکر و فن پر مزید کام بھی جاری رکھا۔ا س ضمن میں ان کا مقالہ Iqbals Message of the East بہت مشہور ہے یہ Islamica (لیپزک ۱۹۲۵ئ) میں طبع ہوا تھا۔ نیرنگ خیال میں ’’ پیام مشرق‘‘ کے عنوان سے مولوی محمد عبداللہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ مقالہ اقبال کی پیام مشرق کا ایک تجزیاتی مطالعہ ہے مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ پیام کے کثیر حصہ کا سمجھنا مشکل ہے۔ نکلسن نے پیام مشرق کے اہم پہلوؤں کا بہ طریق احسن محاکمہ کیا ہے اور گوئٹے اور اقبال کے تصورات کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر نکلسن نے اس مقالہ کی ابتداء میں اقبال کو جن الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ وہ ایک پر جوش پاکستانی کی یاد دلاتے ہیں: ’’ عہد حاضر کے ہندی شعراء میں اقبال ایک نہایت رفیع پایہ مقام رکھتا ہے۔ اس کے ساز سے دو قسم کے نغموں کی صدائیں نکلتی ہیں۔ پہلی صدا ہندی الاصل (اردو) جو ہندی حرمت وطن کے جذبات کے لئے داد طلب ہے۔ اگرچہ اقبال سیاسی حیثیت سے وطن پرست نہیں۔ دوسرا سرود خاک ایران کی شیریں اور سریلی زبان میں ہے جو مسلمان جماعت کے ساتھ مخصوص ہے۔ در حقیقت یہ جدید اور فیضانی سرود جو اپنی سحر کاریوں سے آتشیں شعلے اور خاکستر دور دور پھیلا ہوا ہے۔ عنقریب ایک الہامی آواز کی حیثیت پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ نصف صدی کے بعد بھی یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ الفاظ آج بھی لکھے گئے ہیں۔ جاوید نامہ پر جو محمد اسلم جیرا جپوری اور چودھری محمد حسین کے مقالات شامل ہیں ان میں سے اول الذکر کا مقالہ موخر الذکر کے مقابلہ میں خاصا مختصر ہے مگر دونوں مقالہ نگاروں نے علامہ کی اس اہم کتاب کا تفصیلی مطالعہ پیش کرنے کی سعی کی ہے چودھری محمد حسین کے علامہ سے جو گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ اس کا اندازہ اس امر سے سے لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ کی تمام کتابیں ان ہی کے زیر اہتمام طبع ہوئیں۔ اس لئے یہ قیاس غلط نہ ہو گا کہ علامہ کی صحبت میں مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے انہوں نے ان کی شاعری اور فکر و فن کے بارے میں بہت کچھ سنا ہو گا۔ جاوید نامہ میں انہوں نے اپنے تجزیہ میں جس گہرائی کا ثبوت دیا ہے اور اس ضمن میں مشرق و مغرب کے اہل قلم کے جو نادر حوالے دئیے ہیں تو ان میں یقینا کسی اور کا بھی فیضان نظر شامل ہو گا۔ میری اس بات سے اختلاف ممکن ہے لیکن میں نے تو اس مقالے کو اسی انداز نظر کے تحت پڑھا اور لطف اٹھایا۔ انجمن اسلامیہ مدراس کی دعوت پر ۱۹۲۹ء میں علامہ اقبال نے Reconstruction of Religious Thought in Islam کے عنوان سے خطبات دئیے تھے۔ جو بعد میں کتابی صورت میں طبع ہوئے اور سید نذیر نیازی نے ان خطبات کا ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے نام سے ترجمہ شائع کر چکے ہیں۔ اس عنوان کا یہ مقالہ خطبات کے تعارف کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں تو فکر کی بنا پر علامہ کی شاعری کا مطالعہ بھی آسان نہیں لیکن خطبات میں خالص فلسفہ نثر میں آیا تو اس کی تفہیم او ربھی دشوار ہو گئی اس لئے علامہ کے اشعار پر واہ وا کرنے والوں کی اکثریت نے خطبات کے بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیا ہے۔ خطبات علامہ کی مفکرانہ شخصیت کے دور پختگی کی یادگار ہیں اور عمر بھر کی سوچ کا ثمر اور بقول سید نذیر نیازی:ـ ’’ خطبات زیر نظر کا موضوع الٰہیات اسلامیہ ہے۔ لیکن اس کی تشکیل نو میں علامہ ممدوح نے اس امر کو فراموش نہیں کیا کہ بلحاظ ایک مظہر تمدن اسلام کا جامع تصور کیا ہو گا۔ اس طرح عقلی اعتبار سے انہوں نے تمدن اسلامی کا جو وسیع اور ہمہ گیر تخیل قائم کیا ہے اس میں اس کے مختلف اجزاء کے تاریخی نشوونما کو بھی نظر اندا زنہیں کیا۔‘‘ شاعری کی لذت سے عاری اور فلسفہ کی خشکی سے بھاری ان خطبات پر ناقدین نے اتنا نہیں لکھا جتنا کہ ان پر لکھنے کی ضرورت ہے۔ سید نذیر نیازی کا یہ مضمون ابتدائی اور تعارفی ہونے کے باوجود اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ نیرنگ خیال کے تقریباً تمام قابل ذکر مقالات کا اجمالی ذکر کر دیا گیا ہے۔ اب صرف راغب احسن کا مقالہ رہتا ہے۔ ’’ اقبال پر ایک محققانہ نظر اور اس کی نفسیاتی تشریح‘‘ اس مقالے کا عنوان چونکا دینے والا ہے اور عنوان کی مانند مقالہ بھی اقبال پر لکھے گئے دیگر مقالات سے الگ ہے۔ گو عنوان کے بموجب اس میں اقبال کا کسی طرح سے بھی نفسیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا لیکن راغب احسن کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے ان تمام نسلی، وراثتی، تہذیب اور تہذیبی عوامل کا جائزہ لیا ہے جو کسی نہ کسی طرح سے اقبال کی تخلیقی شخصیت کی تشکیل میں ممد و ثابت ہو سکتے تھے۔ چنانچہ بقول مصنف: ’’ اقبال مادر گیتی کا وہ فرزند رشید ہے جس کی ذات میں آریت، عجمیت، سامیت، یونانیت، رومانیت اور المانیت کی کلچر کی لہریں ہم آغوش ہیں۔ وہ ارتقائے کائنات اور عمران انسانی کے مختلف تہذیبی نمود کی معنویت سے آگاہ اور ان کا بالغ نظر نقاد ہے۔ مگر وہ ’’ عارف محض‘‘ عالم محض، ناقد محض اور ’’ حکیم محض‘‘ ہی نہیں ہے بلکہ وہ ان سے بہتر و بر تر ایک ’’ پیغام بر‘‘ ہے۔‘‘ پورے نمبر میں یہ واحد مقالہ ہے۔ جس میں ان مختلف النوع تمدنی اور عمرانی محرکات اور عوامل کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ جو کسی نہ کسی طرح سے اقبال کی تخلیقی شخصیت کی نمو اور بقا کا ضامن ہے۔ جنہوں نے فکر اقبال کو ایک سانچے میں ڈھالا اور جنہوں نے اقبال کو اپنے عصر کا آئینہ بناتے ہوئے مستقبل نما بھی بنا دیا۔ اب تک جن مقالا ت کا تعارف پیش کیا گیا وہ سب فکر اقبال اور ان کی شاعرانہ عظمت کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں اور مجمل تعارف سے بات بھی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ کیوں یہ نمبر حوالے کی چیز بن گیا تھا اور اقبالیات میں کیوں اسے کاسیک کا مرتبہ مل گیا تھا۔ اب اشاعت نو کے بعد یہ توقع بے جا نہ ہو گی کہ ناقدین اقبال ان مقالات سے اکتساب ضہیا کریں گے! (۴) ’’ میں نے نیرنگ خیال کی فائیلیں اٹھائیں۔ گرد جھاڑی، انہیں چوما،و رق ورق دیکھا۔ وہ مضامین جو مجھے فائیلوں میں ادھر ادھر بکھرے نظر آئے۔ انہیں بھی اس نمبر کی زینت بنا ڈالا۔ اس اضافے میں بڑے مضمون نگار بھی نظر آئیں گے اور بڑے مضمون بھی!‘‘ ۔۔۔ ’’ یوں محمد طفیل مطمئن ہو گیا۔ ٹنٹا ختم ہو گیا۔‘‘ یہ الفاظ ہیں محمد طفیل کے، دراصل نہ طفیل مطمئن ہوتا ہے اور نہ ٹنٹا ختم ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی روپ میں جاری رہتا ہے یہ ٹنٹے ہی کی بات ہے کہ جب طفیل نے مجھ سے نیرنگ خیال پر مضمون لکھنے کے لئے کہا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان مضامین پر تفصیلی بات چیت کرنا جو کہ ۱۹۳۲ء والے اقبال نمبر میں موجود ہیں۔ مطلب یہ کہ جو مضامین انہوں نے خود اس نمبر میں شامل کئے ہیں ان پر بات چیت منع ہے۔ کیونکہ ان کا مدعا یہ ہے کہ حکیم صاحب ہی کے کارنامے کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے۔ تعلق خاطر کی ایسی مثالیں شاذ ملیں گی! ویسے اس حصے میں بھی کئی اہم مضمون شامل ہیں۔ مثال کے طور پر خود علامہ اقبال کا ایک مضمون ہے جو مولانا حسین احمد مدنی کی کانگریسی سوچ کے تضادات اجاگر کرنے کے لئے لکھا گیا تھا۔ اسی طرح مولوی عبدالحق، خلیفہ عبدالحکیم، پطرس بخاری، دیا نرائن نگم، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، ڈاکٹر سید عابد حسین ، الیگزنڈر بوسانی اور ڈاکٹر تاثیر کے مضامین ہیں جو مجھے تفصیلی گفتگو پر آمادہ کر رہے ہیں۔ مگر میں وعدے کے مطابق نہیں بول سکتا۔ پھر بھی ایک بات کہہ دوں کہ ڈاکٹر تاثیر کی ’’ نثر تاثیر‘‘ (مرتبہ فیض احمد فیض مطبوعہ اردو اکادمی بہاولپور) میں بھی وہ مضامین شامل نہیں۔ جو کہ اس حصے میں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے یہ اور ایسے کئی مقالات دریافت کی بھی حیثیت رکھتے ہیں۔ (۵) یہ اقبال کی تاریخی شخصیت کا اعجاز ہے کہ پون صدی سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر فکر اقبال کی تشریحات ی جا رہی ہیں۔ لیکن نیرنگ خیال (۱۹۳۲ئ) سے نقوش (۱۹۷۷ئ) تک فکر اقبال کی تشریح و توضیح کی ہو روایت ملتی ہے۔ وہ اقبالیات میں جداگانہ تذکرہ کی طالب ہے۔ حکیم یوسف حسن نے جس روایت کی بنا رکھی۔ بظاہر اس کا خاتمہ محمد طفیل پر ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن ایسا ہونا نہ چاہیے کہ طفیل کو بھی تو آخر کسی طفیل کی ضرورت ہو گی! ٭٭٭ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End